2020

جنوری ۲۰۲۰ء

بھارتی شہریت کا متنازعہ قانون اور دو قومی نظریے کی بحثمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۱)ڈاکٹر محی الدین غازی
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ: ایک تقابلی مطالعہ (۸)مولانا سمیع اللہ سعدی
امت مسلمہ کے مسائل اور عالمی قوتوں کی اصول پرستیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
کوالالمپور سمٹ میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کا افتتاحی خطابطاہر شاہین
قرآن جلانے کا حق؟ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۳)محمد عمار خان ناصر
ہدایہ کی بے اصل احادیث اور مناظرانہ افراط وتفریطمولانا محمد عبد اللہ شارق
الشریعہ اکادمی میں ختم خواجگان کا آغازمولانا حافظ عبد الغنی محمدی

بھارتی شہریت کا متنازعہ قانون اور دو قومی نظریے کی بحث

محمد عمار خان ناصر

بھارت میں شہریت کے متنازعہ قانون کے تناظر میں  ہمارے ہاں  یہ سوال ان دنوں دوبارہ اٹھا یا جا رہا ہے کہ آیا  دو قومی نظریے کی بنیاد پر  تقسیم ہند کا عمل درست تھا یا نہیں اور  یہ کہ کیا متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی پوزیشن آج کے مقابلے میں زیادہ مضبوط نہ ہوتی؟   یہ سوال وقتا فوقتا  موضوع بحث بنتا رہتا ہے  اور امر واقعہ یہ ہے کہ ایک بڑا حلقہ اس بحث کے دائرے سے ابھی تک باہر نہیں آ سکا کہ تقسیم ہند درست تھی یا غلط اور یہ کانگریس کا منفی رویہ تھا یا انگریز کی سازش۔ چنانچہ کچھ حضرات اب تاریخ کے اس دور کا تجزیہ اس نظر سے کر رہے ہیں کہ سب کچھ کا ذمہ دار بس جناح صاحب کی شخصیت اور ان کی غلطیوں یا ضد بازیوں کو قرار دیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ تقسیم نہ ہوتی تو یہ سارے مسائل بھی نہ ہوتے۔ گویا ان حضرات کے نزدیک تحریک پاکستان اصلا محمد علی جناح کی شخصیت کے بعض غیر معتدل پہلووں اور برطانوی حکومت کی ’’ڈیوائڈ اینڈ رول“ کی پالیسی کا نتیجہ تھی، ورنہ حقیقتا اس کا کوئی سیاسی جواز نہیں تھا۔

تقسیم کے مسئلے پر حتی الامکان معروضیت سے غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ  متحدہ ہندوستان کے حامیوں  کے موقف میں اس اعتبار سے وزن تھا کہ تقسیم کے سنگین مضمرات ونتائج کا یہ خطہ متحمل نہیں اور اکٹھے رہنا نہ صرف ممکن بلکہ بہتر ہے،  چنانچہ قوم پرست علماء نے معاصر تبدیلیوں کے اپنے فہم کی بنیاد پر علی ٰ وجہ البصیرت تقسیم ہند کے مطالبے سے اختلاف کیا اور باقاعدہ یہ مذہبی پوزیشن لی کہ اسلامی ریاست کا قیام ہر طرح کے حالات میں شریعت کا مطالبہ نہیں۔ اس کے بجائے مسلمانوں کے عمومی سیاسی وقومی مفادات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور ان کی روشنی میں، ان کے نقطہ نظر سے، یہی بہتر تھا کہ مسلمان متحدہ قومیت کا راستہ اختیار کریں۔

تاہم مسلم لیگ کے اس موقف کے وزن کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ کانگریسی لیڈروں کا رویہ مدبرانہ اور accommodative نہیں، بلکہ مسلم لیگی قیادت کو نیچا دکھانے کا تھا۔ خود کانگریس میں شریک علماء اس پالیسی کو بحیثیت مجموعی خطے کے مفاد میں سمجھتے ہوئے بھی کانگریسی قیادت کے رویے سے شاکی تھے، جیسا کہ گاندھی وغیرہ کے نام رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے (غیر مطبوعہ) خطوط سے واضح ہے۔ (یہ غیر معمولی تاریخی اہمیت کا حامل ذخیرہ فیصل آباد کے مولانا انیس الرحمن لدھیانوی نے مرتب کیا ہے، لیکن  غالبا ابھی تک زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہو سکا)۔ مولانا ابو الکلام آزاد ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ میں خود لکھتے ہیں کہ میں نے گاندھی کو بہت اصرار سے کہا تھاکہ فلاں فلاں سیاسی مواقع پر آپ نے جناح کو خواہ مخواہ اہمیت دے کر غلطی کی۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو مسلم لیگ اپنی موت آپ مر جاتی۔ اب اس سطح کے اکابر کے ہاں اس طرح کے رویے کے بعد یک طرفہ طور پر مسلم لیگ سے شکایت کرنا منصفانہ نہیں لگتا۔

سیاست میں یقیناًغلطیاں بھی ہوتی ہیں اور سیاسی ضرورتوں کے تحت مبالغہ اور بے اعتدالی بھی در آتی ہے جس کی بہت سی مثالیں مسلم لیگی سیاست میں یقیناًملیں گی، لیکن ہندو اکثریت کے غلبے سے مسلم اقلیت کو محسوس ہونے والے خطرات بالکل ہی بے بنیاد اور تخیل کی پیداوار نہیں تھے۔ ان کا وزن تسلیم کیا جانا چاہیے تھا، جیسا کہ کانگریس نے ’’میثاق لکھنو‘‘ کی صورت میں کیا بھی۔ اس کے باوجود مولانا مدنی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جیسے حضرات اپنے مضامین میں صاف صاف یہ فرماتے رہے کہ اقبال اور جناح اور ’’مسلم سیاست‘‘ کے دوسرے راہ نماؤں کے فکر والہام کا ماخذ حکومت برطانیہ ہے جو انھیں ڈیوائیڈ اینڈ رول کی پالیسی کے تحت استعمال کر رہی ہے۔

قائد اعظم کے ہاں اگر کئی حوالوں سے مبینہ طور پر ’’ضد‘‘ اور ’’انا‘‘ کا رویہ دکھائی دیتا ہے تو سیاسی موقف میں لچک کے بہت نمایاں شواہد بھی شروع سے آخر تک ملتے ہیں۔ ۱۹۲۷ء میں کانگریس کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں انھوں نے ’’تجاویز دہلی‘‘ پیش کیں جس میں اب تک کے اپنے بنیادی مطالبے یعنی جداگانہ انتخابات سے دست برداری اختیار کر لی۔ پھر نہرو رپورٹ سامنے آنے کے بعد ابتداء اً تین ترامیم پیش کر کے مفاہمت چاہی تو اس میں بھی جداگانہ انتخابات کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔ الگ وطن کا تصور اور مطالبہ سامنے آنے کے بعد سالہا سال تک جناح نے خود کو اس موقف سے بالکل الگ رکھا، حتی کہ ۱۹۴۰ء سے غالباً ایک آدھ سال قبل اقبال کے اس خیال کو ’’غیر عملی‘‘ تک قرار دیا، اور سب سے آخر میں کابینہ مشن پلان سے اتفاق کر کے تو لچک اور مفاہمت کی آخری انتہا تک چلے گئے۔ اس لیے ہماری رائے میں  تحریک پاکستان  جیسی قبولیت عامہ حاصل کرنے والی  سیاسی جدوجہد  کی تاریخی تفہیم کلیتا قائد اعظم کے شخصی مزاج  کے حوالے سے کرنا   ایک غیر حقیقی انداز فکر ہے۔ سیاسی تحریکوں کے تشکیلی عناصر میں تاریخی وسماجی سیاق، سیاسی گروہوں کی تنظیم سے پیدا ہونے والی کشمکش اور سیاسی قائدین کی شخصیت ومزاج، یہ تینوں پہلو شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے کون سا پہلو غلبہ حاصل کر لیتا ہے، یہ چیز البتہ مختلف تحریکوں میں مختلف ہو سکتی ہے، لیکن کسی بھی مقبول عام سیاسی جدوجہد کی توجیہ صرف لیڈر شپ کے شخصی اوصاف کے حوالے سے کرنے اور سیاسی عصبیتوں کی کشمکش نیز تاریخی صورت حال سے پیدا ہونے والے تقاضوں کو نظر انداز کر دینے کو کسی بھی طرح معروضی انداز نظر نہیں کہا جا سکتا۔

بھارتی شہریت کے متنازعہ قانون کے سیاق میں ہمارے ہاں بعض حضرات کی طرف سے یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا  کہ جب اکثریت کی رائے کی بنیاد پر پاکستان میں صدر کے عہدے کو مسلمانوں کے لیے مخصوص قرار دینے یا مثال کے طور پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور مختلف قانونی پابندیاں عائد کرنے کا جواز ہے تو بھارت میں شہریت کے حق کو مذہبی بنیاد پر طے کرنے پر کیسے اعتراض کیا جا سکتا ہے؟ اس سے ان دوستوں کا مقصد بھارت کی حالیہ قانون سازی کی تائید کرنا نہیں، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ جیسے وہ فیصلہ غلط ہے، اسی طرح ہمارے ہاں کیے گئے اس نوعیت کے فیصلے بھی درست نہیں۔

ہماری گزارش یہ ہے کہ یہ استدلال واقعاتی اور تاریخی سیاق سے ہٹا ہوا ہے۔ بنیادی نکتہ جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے، یہ ہے کہ آزادی کے بعد ان دونوں ریاستوں نے اپنی نظریاتی نوعیت متعین کرنی تھی، اور اپنی اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق وہ دونوں نے کی۔ انڈیا نے سیکولر جمہوریت کا انتخاب کیا اور پاکستان نے اسلامی جمہوریہ بننے کا فیصلہ کیا۔ جمہوری اصولوں کے مطابق دونوں ریاستیں اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہیں، لیکن جب تک اس اساسی فیصلے کو تبدیل نہیں کرتیں، دونوں اسی کے تحت قانون سازی کرنے کی پابند ہیں۔ اس لیے کسی بھی فیصلے پر سوال اس بنیادی تناظر سے ماورا ہو کر نہیں اٹھایا جا سکتا۔

ہمارے ہاں صدر کے مسلمان ہونے کی شرط اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ ’’اسلامی جمہوریہ“ کی اساس کے تحت کیا گیا ہے اور اس سے بنیادی طور پر ہم آہنگ ہے (گو بعض قانونی تفصیلات پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں)، جبکہ بھارت میں شہریت کے حق کو مذہب کی بنیاد پر محدود کرنے کا فیصلہ سیکولرزم کی اساس سے متصادم ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بے شمار مذاہب اور قومیتوں کے ملک کو ایک ’’قومی وطن“ بنانے کا سیاسی جواز ہی سیکولرزم کی بنیاد پر پیش کیا گیا تھا۔ اگر ہندوستان کی کچھ طاقتیں اس بنیاد کو ختم کرنا چاہتی ہیں تو وہ ساتھ ہی اس کے ایک وطن ہونے کا جواز بھی ختم کر دیں گی۔ اس کے بعد صرف طاقت اور زبردستی ہی ہوگی جس کا کوئی سیاسی یا اخلاقی جواز نہیں۔  اس لیے پاکستان میں کیے گئے قانونی فیصلوں اور بھارت کے حالیہ متنازعہ قانون کی نوعیت ایک جیسی نہیں، بلکہ بالکل مختلف ہے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ آئین کی جو اساسات طے کی گئی ہیں، ان کے خلاف قانون نہیں بنانا چاہیے اور اساسات کے مطابق جو قانون بنایا جائے، اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس اصول پر کسی بھی ملک میں جو قانون آئینی اساسات سے متصادم بنایا جائے، اس پر اعتراض کا حق معقول اور آئینی حق ہے۔

جہاں تک ہندوستانی سیاست میں   ہندو جارحیت کی  تازہ لہر کا تعلق ہے تو تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ’’ہندتوا “ فیکٹر ہندوستانی سیاست کا رخ پیچھے کی جانب موڑنے کے بجائے تنگ نظر ہندو ذہنیت کی گرفت کو مزید کمزور کرنے کا موجب بنے گا۔ ممکن ہے، اس اندازے میں خواہش اور جذبات  بھی کارفرما ہوں، لیکن تاریخ کا اب تک کا سفر عمومی طور پر اسی جانب دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ پچھلے دو ہزار سال سے برہمنیت کے چنگل سے نکلنے کی جدوجہد کر رہا ہے اور ہر قدم آگے کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بدھ مت، جین مت، سکھ مت کا ظہور اور خود ہندو مذہب کے اندر اصلاحی تحریکوں کی پیدائش اسی عمل کے مظاہر ہیں۔ داخلی حرکیات کے علاوہ مسلمانوں کی اور پھر استعمار کی آمد نے بھی اس کی رفتار کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

معاشرتی سطح پر انڈیا کی ماڈرنائزیشن اور معاشی سطح پر عالمی سرمایہ داری نظام میں integration بھی اسی سمت میں دباو بڑھانے والے عوامل ہیں۔ سیاسی سطح پر جمہوریت اور سیکولرزم، نظریے اور تصور کی سطح پر عوامی شعور کا ناگزیر حصہ بن چکے ہیں۔ حالیہ متنازعہ قانون سازی پر بھارتی معاشرے کا عمومی ردعمل اس کا واضح اظہار ہے۔ عالمی رائے عامہ بھی دوٹوک انداز میں اپنا موقف دے رہی ہے۔ اس سارے تناظر میں، مجھے یہ امکان بہت کمزور دکھائی دیتا ہے کہ کوئی طبقہ، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور ہو، محض دھونس اور غنڈہ گردی کے زور پر تاریخ کے سفر کو معکوس کر کے دوبارہ ’’برہمنیت “ کے دور کی طرف لے جانے میں کامیاب ہو سکے گا۔ دوبارہ عرض ہے کہ ہو سکتا ہے، اس تجزیے میں خواہشات بھی اثرانداز ہو رہی ہوں، لیکن تاریخی شواہد بظاہر اسی کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’ہندتوا “ قوتوں کے جارحانہ ظہور میں شاید کوئی نیا جنم رونما نہیں ہوا، بلکہ یہ تاریخی برہمنیت کی ’’حرکت مذبوحی“ کا نظارہ ہے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

 (185)    استجاب کا ترجمہ

قرآن مجید میں استجاب کا لفظ مختلف صیغوں کے ساتھ آیا ہے، جہاں یہ بندوں کے لیے آیا ہے، وہاں اس لفظ سے مراد ہوتی ہے پکار پر لبیک کہنا، اور جہاں یہ اللہ کے لیے آیا ہے، وہاں مراد ہوتی ہے دعا قبول کرنا، مراد بر لانا اور داد رسی کرنا۔ جھوٹے معبودوں کے سلسلے یہ لفظ یہ بتانے کے لیے آتا ہے کہ یہ معبودان باطل پکارنے والوں کی کچھ بھی داد رسی نہیں کرسکتے۔

پہلے مفہوم کی وضاحت علامہ ابن عاشور اس طرح کرتے ہیں:

والاستجابۃ: مبالغۃ فی الاجابۃ، وخصت الاستجابۃ فی الاستعمال بامتثال الدعوۃ او الامر۔ (التحریر والتنویر: 25/ 90)

دوسرے معنی کی وضاحت علامہ ابن عاشور اس طرح کرتے ہیں:

والاستجابۃ: الاجابۃ، والسین والتاءفیہ للتاکید وھی مستعملۃ فی المعاونۃ والمظاھرۃ علی الامر المستعان فیہ۔ (التحریر والتنویر: 12/21)

والاستجابۃ تطلق علی اعطاءالمسؤول لمن سالہ وھو اشہر اطلاقہا۔ (التحریر والتنویر:24/182)

استجاب کا استعمال جواب دینے کے لیے نہیں آتا ہے، بطور خاص قرآن مجید میں تو یہ کہیں بھی استفسار کے سیاق میں نہیں آیا ہے، جہاں بھی آیا ہے طلب کے سیاق میں آیا ہے، طلب اگر اوپر سے آئے تو منشا یہ ہوتی ہے کہ اس کی تعمیل کی جائے اور اس پر لبیک کہا جائے۔ اور اگر طلب کسی حاجت مند کی طرف سے ہو، تو وہ طلب داد رسی اور قبولیت کا انتظار کرتی ہے، نہ کہ محض جواب کا۔

ہم نیچے قرآن مجید کے کچھ ایسے مقامات ذکر کریں گے، جہاں مختلف صیغوں سے استجاب آیا ہے، اکثر مترجمین نے تو قبول کرنے کا ترجمہ کیا ہے، لیکن بعض مترجمین نے بعض مقامات پر جواب دینا ترجمہ کردیا ہے، جو مناسب نہیں ہے۔

(1) اِنَّ الَّذِینَ تَدعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ عِبَاد امثَالُکُم فَادعُوہُم فَلیَستَجِیبُوا لَکُم ان کُنتُم صَادِقِینَ۔ (الاعراف: 194)

”تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو ان سے دعائیں مانگ دیکھو، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں “۔(سید مودودی)

”وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو “۔(احمد رضا خان)

”اگر سچے ہو تو چاہیے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پھر ان کو چاہیے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو “۔(محمد جوناگڑھی)

(2) فَاستَجَابَ لَہُم رَبُّہُم انِّی لَا اضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنکُم من ذکر او انثی (آل عمران: 195)

”جواب میں ان کے رب نے فرمایا، ”میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت“۔(سید مودودی)

”تو ان کے پرردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا“۔ (فتح محمد جالندھری)

(3)  اذ تَستَغِیثُونَ رَبَّکُم فَاستَجَابَ لَکُم انِّی مُمِدُّکُم بِالفٍ مِنَ المَلَائِکَۃِ مُردِفِینَ (الانفال: 9)

”اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں“۔ (سید مودودی)

”اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(4) فَاستَجَابَ لَہُ رَبُّہُ فَصَرَفَ عَنہُ کَیدَہُنَ (یوسف: 34)

”اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں“۔ (سید مودودی)

(5) اِن تَدعُوہُم لَا یَسمَعُوا دُعَائَکُم وَلَو سَمِعُوا مَا استَجَابُوا لَکُم (فاطر: 14)

”انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے“۔ (سید مودودی)

”تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں، اور بالفرض سن بھی لیں تو تمہاری حاجت روانہ کرسکیں “۔(احمد رضا خان)

”تم انہیں پکارو گے تو تمہاری آواز کو نہ سوُ سکیں گے اور صَن لیں گے تو تمہیں جواب نہ دے سکیں گے“۔(جوادی)

(6) وَنُوحًا اِذ نَادَی مِن قَبلُ فَاستَجَبنَا لَہُ (الانبیاء: 76)

”اور یہی نعمت ہم نے نوحؑ کو دی یاد کرو جبکہ اِن سب سے پہلے اُس نے ہمیں پکارا تھا ہم نے اس کی دعا قبول کی“۔(سید مودودی)

(7) فَاستَجَبنَا لَہُ فَکَشَفنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ (الانبیاء: 84)

”ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور جو تکلیف اُسے تھی اس کو دُور کر دیا“۔ (سید مودودی)

(8) فَاستَجَبنَا لَہُ وَوَہَبنَا لَہُ یَحیی (الانبیاء: 90)

”پس ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا“۔ (سید مودودی)

(9) وَیَومَ یَقُولُ نَادُوا شُرَکَائِیَ الَّذِینَ زَعَمتُم فَدَعَوہُم فَلَم یَستَجِیبُوا لَہُم (الکہف: 52)

”اس روز جب کہ ان کا رب ان سے کہے گا کہ پکارو اب ان ہستیوں کو جنہیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے، یہ ان کو پکاریں گے، مگر وہ ان کی مدد کو نہیں آئیں گے“۔ (سید مودودی)

”تو وہ ان کو بلائیں گے لیکن وہ ان کو کوئی جواب نہیں دیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(10) وَالَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِہِ لَا یَستَجِیبُونَ لَہُم بِشَیئٍ (الرعد: 14)

” رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں“۔ (سید مودودی)

”جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”رہے وہ جن کو یہ اس کے سوا پکارتے ہیں تو وہ ان کی کوئی بھی داد رسی نہیں کرسکتے“۔ (امین احسن اصلاحی)

” اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(11) وَقِیلَ ادعُوا شُرَکَائَکُم فَدَعَوہُم فَلَم یَستَجِیبُوا لَہُم (القصص: 64)

”تو وہ ان کو پکاریں گے لیکن وہ ان کو جواب نہ دیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ۔ تو وہ اُن کو پکاریں گے اور وہ اُن کو جواب نہ دے سکیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پھر اِن سے کہا جائے گا کہ پکارو اب اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ اِن کو کوئی جواب نہ دیں گے“۔ (سید مودودی)

”کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ، وہ بلائیں گے لیکن انہیں وہ جواب تک نہ دیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو کہا جائے گا کہ اچھا اپنے شرکاءکو پکارو تو وہ پکاریں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے“۔ (ذیشان جوادی)

”اور ان سے کہا جائے گا کہ اب اپنے شریکوں کو بلاؤ۔ تو وہ ان کو پکاریں گے لیکن وہ ان کو جواب نہ دیں گے“۔(امین احسن اصلاحی)

”اور ان سے فرمایا جائے گا اپنے شریکوں کو پکارو تو وہ پکاریں گے تو وہ ان کی نہ سنیں گے “۔(احمد رضا خان)

مذکورہ بالا اس آیت میں اکثر لوگوں نے جواب دینے کا ترجمہ کیا ہے، حالانکہ سیاق کلام میں جواب دینے کا کوئی محل ہی نہیں ہے، شریکوں سے جواب مانگنے کی بات نہیں ہے بلکہ بات یہ کہی جارہی ہے کہ انہیں مدد کے لیے پکارو گے تو وہ تمہاری مدد نہیں کرسکیں گے۔

(186) یفقھون کا ترجمہ

فقہ یفقہ کا مطلب سمجھنا ہوتا ہے، عام طور سے یہی ترجمہ کیا گیا ہے، لیکن بعض مقامات پر بعضے مترجمین نے سوچنا یا جاننا کردیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

(1) لَہُم قُلُوب لَا یَفقَہُونَ بِہَا (االاعراف: 179)

”ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں“۔ (سید مودودی)

”ان کے دل و دماغ ہیں مگر سوچتے نہیں ہیں“۔ (محمد حسین نجفی)

”ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(2) وَلَکِنَّ المُنَافِقِینَ لَا یَفقَہُونَ (المنافقون: 7)

”لیکن یہ منافقین نہیں جانتے “۔(امین احسن اصلاحی)

”مگر یہ منافق سمجھتے نہیں ہیں “۔(سید مودودی)

(3) قَد فَصَّلنَا الآیَاتِ لِقَومٍ یَفقَہُونَ (الانعام: 98)

”یہ نشانیاں ہم نے واضح کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں “۔(سید مودودی)

(4) وَطُبِعَ عَلَی قُلُوبِہِم فَہُم لَا یَفقَہُونَ (التوبۃ: 87)

”اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا گیا، اس لیے ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا“۔ (سید مودودی)

(5) بِانَّہُم قَوم لَا یَفقَہُونَ (الانفال: 65)

”کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے“۔ (سید مودودی)

(6) بِانَّہُم قَوم لَا یَفقَہُونَ (التوبۃ: 127)

”کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں“۔ (سید مودودی)

(7) بِانَّہُم قَوم لَا یَفقَہُونَ (الحشر: 13)

”اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے“۔ (سید مودودی)

(187) جیب کا ترجمہ جیب نہیں

درج ذیل آیتوں کے ترجمے دیکھیں:

(1) وَنَزَعَ یَدَہُ فَاِذَا ھِیَ بَیضَاءُ لِلنَّاظِرِین (الاعراف: 108)

”اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا “۔(سید مودودی)

(2)  وَنَزَعَ یَدَہُ فَاذَا ھِیَ بَیضَاءُ لِلنَّاظِرِینَ (الشعراء: 33)

”پھر اُس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا“۔ (سید مودودی)

(3) وَادخِل یَدَکَ فِی جَیبِکَ (النمل: 12)

”اور ذرا اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں تو ڈالو“۔ (سید مودودی)

(4) اسلُک یَدَکَ فِی جَیبِک (القصص: 32)

”اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال “۔(سید مودودی)

 پہلی آیت میں جیب کا ذکر ہے، حالانکہ وہاں کوئی لفظ نہیں ہے جس کا ترجمہ جیب کیا جائے۔ بالکل اسی طرح کی دوسرے نمبر والی آیت میں قوسین میں جیب کی بجائے بغل ہے۔ تیسرے اور چوتھے جملوں میں جیب کا لفظ آیا ہے، تاہم اس کا ترجمہ گریبان کیا ہے۔ جیب کا ترجمہ گریبان اور بغل تو درست ہے، تاہم جیب کا ترجمہ جیب درست نہیں ہے۔ اور لفظی لحاظ سے تو وہاں صرف ہاتھ نکالنے کا ذکر ہے، کسی چیز کا ذکر ہی نہیں ہے کہ ترجمے میں اسے ذکر کیا جائے۔

اس طرح پہلی آیت کا درست ترجمہ حسب ذیل ہے:

”اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو اسی دم دیکھنے والوں کی نگاہوں میں سفید براق (تھا)“ ۔(فتح محمد جالندھری)

(جاری)

اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ: ایک تقابلی مطالعہ (۸)

مولانا سمیع اللہ سعدی

اہل تشیع کا علم الدرایہ اور اہلسنت کا فن مصطلح الحدیث

 ان تمام سوالات و ملاحظات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اہل تشیع کے متاخرین نے اہلسنت کے  طرز پر مصطلح الحدیث کا جو فن ایجاد کیا ،جو شیعی حلقوں میں علم الدرایۃ کے نام سے موسوم ہے ،وہ  متعدد وجوہ سے  اہلسنت کے علم مصطلح الحدیث سے فروتر اور تساہل پر مبنی  ہے ،اللہ تعالی  اس سلسلے کو مکمل کرنے کی توفیق دے ،اس سلسلے کی ایک بحث میں ہم اہلسنت کے علوم مصطلح الحدیث اور شیعہ متاخرین کے علم درایۃ کا تقابلی جائزہ پیش کریں گے ، جب تساہل پر مبنی علم الدرایہ کی رو سے الکافی کے دو ثلث ضعیف ہیں ،اگر اہلسنت کے کڑے معیارات پر الکافی کو پرکھا جائے ،تو الکافی میں صحیح احادیث کی تعداد  چند سو رہ جائے گی ۔

بطور ِنمونہ صرف ایک معیار کا فرق بتانا چاہوں گا تاکہ اندازہ ہوجائے کہ اہلسنت  کے علوم مصطلح الحدیث کا معیار کتنا سخت اور اہل تشیع متاخرین کے علم الدرایۃ کا معیار کتنا تساہل پر مبنی ہے ۔(دیگر امور میں تقابل ایک مستقل بحث میں ان شا اللہ ذکرکریں گے)

اہل سنت کے نزدیک  صحیح حدیث کونسی کہلائے گی ؟اس سلسلے میں حافظ ابن حجر شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں:

"وخبر الاحاد بنقل عدل ،تام الضبط ،متصل السند ،غیر معلل و لاشاذ ھو الصحیح لذاتہ"1

یعنی روایت کے صحیح بننے کے لئے پانچ شرائط ہیں:

1۔تمام راوی عادل ہوں ۔

2۔ضبط میں تام ہوں ۔

3۔سند اول تا  آخر متصل ہو ۔

4۔معلل نہ ہو ۔

5۔شاذ نہ ہو ۔

جبکہ اس کے برخلاف اگر ہم شیعہ علم الدرایہ میں صحیح کا معیار دیکھیں ،تو ہمیں اہلسنت کے معیار سے  تساہل پر مبنی نظر آئے گا ،چنانچہ معروف شیعہ محدث زین الدین عاملی المعروف بالشہید الثانی اپنی کتاب "البدایہ فی علم الدرایۃ " میں صحیح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"الصحیح وھو ما اتصل سندہ الی المعصوم  بنقل العدل الامامی عن مثلہ ،فی جمیع الطبقات  وان اعتراہ شذوذ ،"2

یعنی صحیح حدیث وہ ہے ،جس کی سند متصل ہو اور تمام رواۃ عادل اور امامی شیعہ ہو،خواہ اس حدیث میں شذوذ ہوں ، یوں اہل تشیع کے معیار کے مطابق  صحیح حدیث وہ ہوگی ،جس میں یہ تین  شرائط ہوں: ( اہلسنت کے ہاں صحت حدیث کے  لئے پانچ شرائط ضروری  ہیں کما مر)

1۔ تمام رواۃ عادل ہوں ۔

2۔تمام رواۃ امامی شیعہ ہوں ۔

3۔اس حدیث کی سند متصل ہو ۔

 حدیث کے صحیح ہونے کے لئے  اس کا شذوز اور علت سے سالم ہونا اہل  تشیع کے نزدیک ضروری نہیں ،چنانچہ  شہید ثانی اپنی اسی کتاب کی شرح میں لکھتے ہیں:

ونبہ بقولہ "و ان اعتراہ شذوذ" علی خلاف ما  اصطلح علیہ العامہ  من تعریفہ  ،حیث اعتبرو سلامتہ من الشذوذ۔۔۔و ارادو بالعلۃ  ما فیہ من اسباب خفیۃ قادحۃ یستخرجھا   الماہر فی الفن ،و اصحابنا لم یعتبروا فی حد  الصحیح ذلک"3

اور ماتن  نے و ان اعتراہ شذوذ کے قول سے عامہ (اہلسنت ) سے اختلاف کیا ،جن کے نزدیک  صحیح کی تعریف میں سلامت  عن الشذوذ ضروری ہے ،نیز اہل سنت کے نزدیک علت  فی الحدیث سے مراد   وہ خفی خرابی ہے ،جس پر ماہر فن ہی مطلع ہوسکتا ہے ،ہمارے اصحاب(شیعی محدثین ) نے صحیح کی تعریف میں علت سے حفاظت کی شرط نہیں لگائی ہے۔

اس کے علاوہ الشہید الثانی کی عبارت میں ضبط کا بھی ذکر نہیں ہے ،جبکہ ضبط یعنی حدیث کو یاد رکھنے کے لئے حافظہ یا اس کی کامل کتابت  ایک ضروری شرط ہے ،اس لئے بعض شیعہ علماء کو یہ بات کھٹکی اور انہوں نے لکھا کہ  عدالت کی شرط میں ضبط کا ذکر بھی ضمنا آگیا ،چنانچہ علامہ مامقانی لکھتے ہیں:

"وانت خبیر بان قید العدل یغنی عن ذلک لان المغفل المستحق للترک لا یعدلہ احد"4

آپ کو پتا ہے کہ عدل کی قید ضبط سے مستغنی کر دیتی ہے ،کیونکہ ایسا غافل آدمی ،جو ترک کا مستحق ہو ،اس کی تعدیل کوئی بھی نہیں کرتا ۔

ہم اس پر مزید تبصرہ نہیں کرتے ،کیونکہ اس سلسلہ مضامین میں ہم نے کوشش کی ہے کہ وہی بات ذکر کریں ،جو خود اہل تشیع علماء نے لکھی اور کہی ہے ،ورنہ یہ بات  بدیہی ہے کہ عدالت  ایک اختیاری وصف ہے ،جو انسان کی دینداری کو ظاہر کرتی ہے ،جبکہ ضبط  دینداری سے الگ ایک وصف ہے ،جو پڑھی ہوئی چیز کو یاد رکھنے اور اس کو محفوظ رکھنے  کے اہتمام کو ظاہر کرتا ہے ،اسی وجہ سے  شیخ جعفر سبحانی نے ضبط کو  عدالت  کے مفہوم میں داخل  کرنے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے:

"المقصود من السلامۃ من غلبۃ السہو و الغفلۃ الموجبۃ لوقوع الخلل علی سبیل الخطا کما حقق فی الاصول  ،وحینئذ فلا بد  من ذکرہ"5

ضبط سے مقصود غلبہ سہو اور ایسی غفلت سے سلامتی ہے ،جو روایت میں خطا کیو جہ سے خلل کے وقوع کا سبب ہو ،جیسا کہ اصول میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے ،اس لئے ضبط کا ذکر تعریف میں ضروری ہے ۔

ضبط سے متعلق ہم اہل تشیع کی تاویل قبول بھی کر لیں کہ وہ عدالت کے مفہوم میں داخل ہے ،تب  بھی  اہل سنت و اہل تشیع کے ہاں  صحیح کے معیار میں فرق یہ ہے کہ اہل سنت  نے معیار سخت کرتے ہوئے پانچ شرائط کا ذکر کیا ہے ،جبکہ اہل تشیع نے تساہل سے کام لیتے ہوئے  صحیح کے لئے صرف تین شرائط کو کافی قرار دیا ہے ۔اس  لئے اگر ہم اہل سنت کے معیار  پر الکافی کو پرکھیں گے ،تو   الکافی میں  صحیح احادیث کی تعداد  اس سے کہیں کم رہ جائے گی ،جو صحیح روایات  اب اہل تشیع نے الگ کی ہیں ۔

8۔موضوع  احادیث  کی  چھان بین و تنقیح

 اہلسنت اور اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کے بنیادی فروق میں سے ایک اہم ترین فرق فریقین کے حدیثی تراث میں موضوع  روایات کی چھان بین  و تنقیح کا فرق ہے ،علمائے اہل سنت نے حدیث کی تدوین کے ساتھ ہی حدیثی ذخیرے   میں مختلف طرق و اسباب  سے وارد شدہ موضوع احادیث  کی چھان بین کا کام شروع کیا ، علمائے اہل سنت نے   دو طرح سے  اس موضوع پر کام کیا:

1۔ پہلا کام حدیث ِموضوع پر اصولی مباحث  کی صورت میں کام کیا ،وضع حدیث کا معنی و مفہوم ،وضع ِحدیث کی اقسام ،وضع ِحدیث کے اسباب ،متھم بالکذب اور وضع حدیث کے عادی رواۃ کا تعین وغیرہ جیسے امور پر تفصیلی مباحث کتب رجال اور کتب مصطلح الحدیث میں ملتے ہیں ۔

2۔وضع ِحدیث پر علمی کام کے ساتھ  عملی طور پر موضوع احادیث کو حدیثی ذخیرے سے الگ کرنے کاکام بھی کیا اور الموضوعات کے نام سے بکثرت کتب لکھی گئیں ،جن میں حدیثی تراث میں موجود موضوع اور جھوٹی روایات کو الگ جمع کیا گیا ہے ،تاکہ ان کی طرف مراجعت کر کے  موضوع حدیث کی پہچان  ہوسکے ۔چنانچہ اس سلسلے کی اہم کتب یہ ہیں:

1۔کتاب الموضوعات محمد بن عمرو العقلی ، م ۳۲۲ھ

2۔تذکرۃ الموضوعات محمد بن طاہر مقدسی م ۵۰۷ھ

3۔ الاباطیل والمناکیر حسین بن ابرہیم الجوزقانی ، م ۵۴۳ھ

4۔ کتاب الموضوعات عبدالرحمن بن الجوزی ، م ۵۹۷ھ

5۔ المغنی عن الحفظ والکتاب عمر بن بد موصلی ، م ۶۲۳ھ

6۔الدر الملتقط فی تبیین الغلط حسن بن محمد صاعانی ، م ۶۵۰ھ

7۔اللألی المنشورۃ فی الاحادیث المشہورۃ حافظ ابن حجر عسقلانی ، م ۸۵۲ھ

8۔الکشف الخبیث عمن رمی بوضع الحدیث حافظ ابراہیم الحلبی ، م ۸۴۱ھ

9۔المقاصد الحسنۃ عبدالرحمن سخاوی ، م ۹۰۲ھ

10۔اللألی المضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ جلال الدین السیوطی ، م ۹۱۱ھ

11۔الذیل علی الموضوعات جلال الدین السیوطی

12۔ تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص جلال الدین السیوطی

13۔الغماز علی اللماز نور الدین ابو الحسن سمہودی ، م ۹۱۱ھ

14۔الدرۃ اللامعۃ فی بیان کثیر من الاحادیث الشائۃ  شہاب الدین احمد، م ۹۳۱ھ

15۔تنزیہ الشریعۃ عن الاحادیث الموضوعۃ ابوا لحسن علی بن محمد عراق ، م ۹۶۳ھ

16۔تذکرۃ الموضوعات محمد طاہر بن علی پٹنی ، م ۹۸۶ھ

17۔قانون الموضوعات محد طاہر بن علی پٹنی

18۔موضوعات کبیر علی بن سلطان القاری ، م ۱۰۱۴ھ

19۔ المصنوع فی احادیث الموضوع علی بن سلطان ……………

20۔الفوائد الموضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ مرعی بن یوسف الکرمی ، م ۱۰۳۳ھ

21۔کشف الالتباس فیما خفی علی کثیر من الناس غرس الدین خلیلی ، م ۱۰۵۷ھ

22۔ الاتقان ما یحسن من الاحادیث الدائۃ علی اللسن نجم الدین محمد بن الغزی ، م ۱۰۶۱ھ

23۔ کشف الخفا و مزیل الالباس اسماعیل بن محمد عجلونی ، م ۱۱۶۲ھ

24۔کشف الالہی عن شدید الضعف والموضوع الواہی محمد حسینی سندروسی ، م ۱۱۷۷ھ

25۔ الفوائد المجموعۃ فی ا لاحادیث الموضوعۃ محمد بن علی شوکانی ، م ۱۲۵۰ھ

26۔ الاثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ عبدالحئ لکھنوی ، م ۱۳۰۴ھ

اس فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ چوتھی صدی سے لیکر عصر حاضر تک بلا تعطل اہل سنت میں موضوع احادیث و روایات کی تنقیح کا کام جاری رہا  ،ان  کتب کی بدولت اہل سنت کا حدیثی تراث موضوع احادیث سے بلا شبہ  کافی حد تک پاک ہے ،نیز عہد بہ عہد گھڑی جانے والی روایات اور ان کے رواۃ کا بھی ایک واضح تعارف ان کتب سے ملتا ہے ،یوں اہل سنت کے حدیثی تراث میں موضوع روایت کا تعین  با آسانی ہوسکتا ہے ۔

اس کے برخلاف جب شیعی تراث ِحدیث کو دیکھا جاتا ہے تو وہاں اس قسم کی کوئی سر گرمی نظر نہیں آتی ، اس کا اقرار اہل تشیع محققین نے بھی کیا ہے ،چنانچہ معروف شیعہ محقق ہاشم  معروف بحرانی  اپنی کتاب "الموضوعات  فی الاثار و الاخبار" میں لکھتے ہیں:

"والذی لا یجوز لہ التنکیر لہ ان محدثی السنۃ من اوساط القرن الخامس کانو اکثر وعیا و ادراکا للاخطار التی احاطت بالحدیث الشریف من محدثی الشیعۃ فالفوا با لاضافۃ لی کتب الروایہ و احوال الرجال عشرات الکتب خلال القرنین  من الزمن حول الموضوعات و بعضہا یجعل ھذا الاسم بالذات"6

ترجمہ:اس بات کا انکار ممکن نہیں کہ پانچویں صدی ہجری  کے وسط سے ہی  محدثین اہل سنت بنسبت اہل تشیع محدثین کے ،حدیث شریف کو لاحق خطرات سے زیادہ آگاہ  اور باخبر تھے ،چنانچہ اہل سنت محدثین نے رجال و حدیث کی کتب کے ساتھ ساتھ دو صدیوں تک  بیسیوں کتب موضوعات سے متعلق لکھیں،اور بعض کتب موضوعات ہی  کے  نام سے  موسوم کر دی گئیں ۔

  آگے شیخ ہاشم بحرانی موضوعات سے متعلق اہل تشیع  محدثین  پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اما الشیعہ فقد تجاہلوا ھذا الموضوع و کانہ لا یعنیہم من امرہ شیئ فی حین ان الموضوعات بین مرویاتہم لا تقل عددھا و اخطارھا عن الموضوعات السنیہ۔۔۔۔لکنھم  لم یحاولوا  خلال ھذا لقرون الطوال  ان یضعوا ولو کتابا واحدا یشتمل ولو علی نماذج من الموضوعات فی مختلف المواضیع"7

ترجمہ:بہرحال شیعہ اس موضوع سے بے خبر رہے ،ایسا لگتا ہے کہ ان کے نزدیک اس موضوع کی کوئی اہمیت نہیں تھی ،حالانکہ شیعہ مرویات میں موضوع احادیث اور ان مرویات  کے متنوع نقصانات سنی موضوع روایات سے ہر گز کم درجہ کی نہیں ہیں ۔۔۔لیکن شیعہ محدثین نے ان  صدیوں میں  بطورِ نمونہ بھی ایک ایسی کتاب نہیں لکھی ،جو مختلف موضوعات سے متعلق موضوع روایات پر مشتمل ہو ۔

چونکہ موضوع روایات کی تنقیح اور ذخیرہ حدیث سے اس کی علیحدگی تراث ِحدیث کو تشکیک و وضع سے بچانے کے لئے اہم ترین عامل ہے ،اس لئے   بعض معاصر شیعہ محققین   نے  شیعی تراث میں موضوعات سے متعلق کتب نہ ہونے کی کچھ توجیہات کی ہیں ،ہم بغرض افادہ ان توجیہات پر بھی ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں ۔

معاصر شیعہ محقق شیخ حیدر حب اللہ  نے شیعی تراث کی اس خامی پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:

لكن الملاحظ ھنا أنّ الإماميۃ لم يتركوا كتاباً في الأحاديث الموضوعۃ، ولعلّ أول كتاب ـ كما يری بعض الباحثين المعاصرينـ ھو كتاب الأخبار الدخيلۃ الذي أنھی مؤلّفہ الشيخ محمد تقي التستري المجلّد الأول منہ عام 1369ھ، فيما أنھی المجلّد الرابع والأخير منہ عام 1401ھ ،يطرح ھذا الأمر تساؤلاً: لماذا لم تشتغل الإماميۃ علی التصنيف في الموضوعات كما اشتغل سائر المسلمين؟8

ترجمہ: ملاحظہ کرنے کی بات یہ ہے کہ امامیہ نے احادیث موضوعہ پر کوئی کتاب نہیں لکھی ،شاید اولین کتاب بعض محققین کے بقول محمد تقی تستری کی الاخبار الدخیلہ (یاد رہے یہ کتاب اصلا موضوعات پر نہیں لکھی گئی ،بلکہ یہ کتاب  شیعی  تراثِ حدیث میں  موجود اغلاط و اخطاء  کے تعین پر مشتمل ہے ، کتاب کی چار جلدوں میں موضوع روایات پر صرف ایک باب باندھا  گیا ہے )ہے،جس کی پہلی جلد 1369ھ اور آخری چوتھی جلد 1401ھ میں لکھی گئی ،یہاں ایک سوال  اٹھتا ہے کہ  امامیہ نے  دیگر مسلمانوں  طرح موضوع روایات  پر مستقل کتب کیوں نہیں لکھیں؟ 

شیخ حیدر حب اللہ نے اس سوال کے جواب پر  لمبی بحث کی ہے ،نکات کی  شکل میں  موصوف کی توجیہات  کاخلاصہ پیش  کیا جاتا ہے:

1۔پہلی توجیہ موصوف نے یہ  کی ہے کہ دور اموی میں خلافت پر قبضہ جمانے کے لئے سنی  تراث میں   وضع ِحدیث کی وبا چل پڑی ، جبکہ شیعی تراث کو اس قسم کی صورتحال سے واسطہ نہیں پڑا ،اس لئے شیعہ محدثین کو موضوعات الگ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی ۔ اس توجیہ پر خود موصوف نے رد کیا ہے کہ کسی ایک کا سبب کا نہ ہونا دلیل نہیں ہے کہ وضع ِحدیث کے دیگر اسباب بھی منتفی ہوئے۔

2۔دوسری توجیہ موصوف نے شیعہ معاصر شیخ رضا سے نقل کی ہے کہ شیعہ تراث چونکہ چھانٹی کے دو مراحل سے گزرا ،پہلا مرحلہ  کتبِ اربعہ سے پہلے اصول اربعمائہ کی صورت میں ،دوسرا مرحلہ کتب اربعہ کی صورت میں ،اس لئے شیعہ محدثین کو   موضوع روایات الگ کرنے ضرورت پیش نہ آئی ( اصول اربعمائہ پر ہم اس سلسلے میں مفصلا بحث کر چکے ہیں کہ کیسے دو تہائی اصول محض فرضی ہیں ،نیز کتب اربعہ نے صحت حدیث کا جو معیار مقرر کیا تھا ،اس پر بھی ہم اس سلسلے میں نقدِ حدیث کے اصولی معیار کے تحت مفصلا بحث کر چکے ہیں ،اس لئے ہر دو مراحل  ہی  تراث ِ  حدیث میں موضوع روایات  کا سبب بنی ہیں ،کما مر)

3۔ تیسری توجیہ موصوف نے   یہ پیش کی ہے کہ  پانچویں صدی میں بعض شیعہ محدثین  وضع حدیث کو روکنے کی اہم ترین کوششیں کیں ،جیسے  قم کے  ایک محدث احمد بن محمد اشعری نے بعض کبار رواۃِ حدیث کو قم سے اس لئے نکالا کہ وہ وضاعین سے روایت کرتے تھے ،اس لئے بھی شیعہ محدثین  کو الگ سے موضوع روایات  مرتب کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی ۔(یہ توجیہ علمی  اعتبار سے لطیفہ ہی کہلائی جاسکتی ہے ،اس لئے کہ کسی  ایک یا زیادہ محدثین کا وضاعین و ضعاف رواۃ سے روایت نہ لینا  یا اس بارے میں تشدد سے کام لینا اس بات کی دلیل کیسے بن سکتی ہے کہ اب ان وضاعین  یا دوسرے  وضاعین کی موضوع روایات کو الگ سے مرتب کرنے کی ضرورت نہیں ہے  فافہم)

 4۔ ایک توجیہ موصوف نے یہ بھی پیش کی کہ چونکہ شیعہ حلقوں میں روایت من باب التقیہ بھی ایک جہت ہے ،اس لئے  بہت  سی روایات  کو  موضوع سمجھنے کی بجائے اسے تقیہ پر مبنی روایات  کہا جاسکتا ہے ۔(یہ توجیہ بھی موضوعات کے باب میں غیر متعلق ہے ،اس  لئے کہ  تقیہ کا تعلق روایت کے معنی و مفہوم  اور مدلول سے ہے ،جبکہ وضع ِروایت کا تعلق روایت کے سندی و رجالی اعتبار سے ثبوت و تیقن  سے ہے ، مدلولی اعتبار سے روایت کا تقیہ پر مبنی ہونا  اس کے سندی اعتبار سے ثبوت یا عدم ِ ثبوت میں کیونکر موثر ہوگا؟یا للعجب)9

ان توجیہات کی    کمزوری بلکہ غیر متعلق ہونا چونکہ کافی واضح ہے ،اس لئے شیخ حیدر موصوف بھی بحث کے آخر میں یہ لکھنے پر مجبور ہوئے:

المھم أننا نميل إلی رأي السيد ھاشم معروف الحسني، ونری أنّہ آن الأوان لعلماء الحديث الشيعۃ أن يفتحوا ھذا البحث، ويضبطوا قواعدہ. ولا يكتفوا بجھود السلف، مھما كانت الموضوعات قليلۃ، شرط أن لا يفرطوا في ذلك خارج إطار الدليل والحجّۃ10

ترجمہ: ہم اس بارے میں ہاشم معروف بحرانی کی رائے کی طرف میلان رکھتے ہیں  اور ہماری رائے  یہ ہے کہ  اب وہ وقت  آگیا کہ شیعہ محدثین  موضوع مرویات کی چھانٹی کا بند دروازہ کھولیں ،اس کے قواعد منضبط کریں ،اور اس سلسلے میں سلف کی کوششوں پر اکتفاء نہ کریں (سلف کی کونسی کوششیں اس با ب میں ہوئی ہیں ،جن کی طرف موصوف اشار ہ کر رہے ہیں ،ایک طرف خود شیعہ حلقوں میں اس دروازے کے بند ہونے  کی بات کر رہے ہیں ،دوسری طرف سلف کی  کوششیں بھی مان رہے ہیں ،یا للعجب)خواہ موضوع مرویات کتنی بھی قلیل ہوں ،بشرطیکہ اس باب میں دلیل و حجت  کے دائرے سے خارج  کوئی کام نہ کیا جائے ۔

ان موضوع روایات کی چھانٹی نہ ہونے کی وجہ سے  شیعی حلقے   اپنے عقائد و مذہب کے بارے میں مختلف مشاکل کا شکار رہے ہیں،اہل تشیع اہل علم کو بھی اس کا ادراک ہے ،چنانچہ شیخ ہاشم بحرانی لکھتے ہیں:

"انھم  لا یزالون یعانون مما ترکتہ  تلک الموضوعات من اثار سیئۃ علی المذہب الشیعی"11

اہل تشیع مسلسل ان   برے نتائج و آثار  کو جھیل رہے ہیں ،جو ان موضوع روایات کی وجہ سے مذہب شیعہ  پر پڑ رہے ہیں ۔

حواشی

    1.  نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر ، حافظ ابن حجر ،ص 67

    2.  البدایہ فی  علم الدرایہ ،شہید ثانی ،انتشارات ِمحلاتی ،قم ،ص23

    3.  شرح البدایہ فی علم الدرایہ ،منشورات ضیاء الفیروز آبادی ،قم ،ص22

    4.  مقباس الھدایہ ،عبد اللہ مامقانی ،منشورات دلیل ما ،قم،ص124

    5.  اصول الحدیث و احکامہ  فی  علم الدرایہ ،جعفر سبحانی ،ص51

    6.  الموضوعات فی الاثار و الاخبار ،ہاشم بحرانی ، دار التعارف للمطبوعات ،بیروت ،ص88

    7.  ایضا:ص89

    8.  ظاہرۃ الوضع فی الحدیث الشریف ،حیدر حب اللہ ،ص62

    9.  ایضا:ص63 تا 69

    10.  ایضا:ص 68

    11.  الموضوعات فی الاثار و الاخبار ،ہاشم بحرانی ،ص89

(جاری)

امت مسلمہ کے مسائل اور عالمی قوتوں کی اصول پرستی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک قومی اخبار کی خبر کے مطابق امریکی کانگریس کے ایک سو پینتیس (۱۳۵) ارکان نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں جس میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومیو کے فلسطین میں یہودی بستیوں کی حمایت پر مبنی بیان کی شدید مذمت کی گئی ہے، اور کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کا موقف فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن مساعی کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق امریکی ارکان کانگریس کی طرف سے تیار کردہ پٹیشن میں وزیرخارجہ مائیک پومیو سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غرب اردن میں یہودی آباد کاری کی حمایت سے متعلق اپنا بیان واپس لیں۔ یاد رہے کہ یہ پٹیشن ایک ایسے وقت میں تیار کی گئی ہے جب پومیو نے سال ہا سال سے چلی آنے والی امریکی پالیسی کے برعکس بیان میں کہا تھا کہ ان کا ملک اب فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو خلاف قانون نہیں سمجھتا۔ اس بیان پر عرب ممالک، عالم اسلام اور عالمی برادری کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ امریکی کانگریس کے ارکان کا کہنا ہے کہ ۱۹۷۸ء میں امریکہ نے فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف اصولی موقف اختیار کیا تھا جس میں ان بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا گیا تھا۔

فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے بارے میں امریکی موقف میں یہ یوٹرن ہمارے لیے غیر متوقع نہیں ہے اس لیے کہ فلسطین میں برطانوی نوآبادیاتی دور سے اب تک اسرائیل کے قیام، یہودی آبادکاری میں مسلسل توسیع، فلسطینیوں کو ان کے وطن اور شہری و انسانی حقوق سے بتدریج محروم کرتے چلے جانے، اور عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کو مختلف قسم کے تزویری حربوں کے ذریعے فلسطینیوں کی حمایت سے دست کش یا کم از کم خاموش کر دینے کا جو عمل گزشتہ ایک سو سال کی تاریخ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے، وہ اسی قسم کی پالیسیوں سے عبارت ہے، اور کوئی ایک مرحلہ بھی اس دوران ایسا دکھائی نہیں دیتا جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہو کہ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ نے خود اپنے طے کردہ اصولوں کا کوئی دائرہ بھی قائم رہنے دیا ہو۔

اصول اور اصولی موقف کی گزشتہ تاریخ سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ دنیا کے کسی خطہ میں اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے مرحلہ وار پالیسیوں کو ’’اصول‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے، ایک مرحلہ مکمل ہونے پر وہ اصول تکمیل تک پہنچ جاتا ہے، اور دوسرا مرحلہ شروع ہونے کے بعد اس کے اختتام پذیر ہونے تک نئی پالیسی اور حکمت عملی کو ’’اصول‘‘ کا عنوان دے دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کھیل کا دائرہ صرف مشرق وسطٰی تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی اصولوں کے نام سے یہی ’’ناٹک‘‘ جاری ہے۔ مثال کے طور پر مسئلہ کشمیر کا حال بھی اس سے مختلف نہیں:

عالم اسلام کے یہ دونوں مسئلے یعنی فلسطین اور کشمیر مغربی ممالک کی اس مرحلہ وار ’’اصول پرستی‘‘ کا شاہکار ہیں، اور نہ صرف امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اس میں پیش پیش ہیں بلکہ عالم اسلام میں ان کے حواری بھی اسی نام نہاد اصول پرستی کے پیچھے تالیاں پیٹتے نظر آرہے ہیں۔ چنانچہ امریکی کانگریس کے ۱۳۵ ارکان نے اس پر جو احتجاج ریکارڈ کروایا ہے اس کی حیثیت اور افادیت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ان قراردادوں سے زیادہ دکھائی نہیں دیتی جو گزشتہ پون صدی سے امت مسلمہ کے مسائل پر منظور کی جا رہی ہیں۔ جبکہ ہمارے خیال میں یہ مسئلہ ان کا نہیں ہے بلکہ مسلم حکمرانوں اور حکومتوں کا ہے کہ جب تک ان کی غیرت نہیں جاگتی، یہ ڈرامے اسی طرح جاری رہیں گے۔

کوالالمپور سمٹ میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کا افتتاحی خطاب

طاہر شاہین

  1. سب سے پہلے ، میں مسلم قائدین اور اسکالرز اور ان کے پیروکاروں کی اس سمٹ میٹنگ میں آپ کی موجودگی کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
  2. میں اس سربراہی اجلاس کے مقاصد کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ہم یہاں مذہب کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس کی بجائے مسلم دنیا میں امور کی صورتحال پر بات چیت کر رہے ہیں۔
  3. ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمان ، ان کے مذہب اور ان کے ممالک بحران کی حالت میں ہیں۔ ہم جہاں بھی مسلمان ممالک کو تباہ ہوتے دیکھتے ہیں ، ان کے شہری اپنے ممالک سے بھاگنے پر مجبور ، غیر مسلم ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ بہت سے ہزاروں ، اپنی لڑائی کے دوران ہی مر جاتے ہیں اور بہت سے افراد کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا جاتا ہے۔
  4. دوسری طرف ، ہم مسلمان متشدد کارروائیوں کا ارتکاب کرتے ہوئے ، بے گناہ متاثرین ، مرد ، خواتین ، بچوں ، بیماروں اور معذور افراد کو ہلاک کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ کام اس لیے کیا ہے کہ ان کے اپنے ممالک ان کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہیں یا دوسروں کے قبضے والی اراضی پر قبضہ کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ مایوس اور ناراض ، وہ اپنے مقاصد کے حصول کے بغیر کسی بھی طرح سے پُرتشدد رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔
  5. وہ بدلہ لیتے ہیں لیکن وہ جو بھی کام کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی مذہب اسلام کو بدنام کریں۔ انہوں نے اپنے عمل سے خوف پیدا کیا ہے اور اب اس اسلامو فوبیا ، اسلام کے اس بلا جواز خوف نے ہمارے مذہب کو دنیا کی نظر میں بدنام کردیا ہے۔
  6. لیکن ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ خوف کس طرح پیدا ہوتا ہے ، چاہے یہ سچ ہے یا محض ہمارے مخالفین کا پروپیگنڈا ہے یا دونوں کا مجموعہ۔
  7. پھر ہمیں جنگی جنگوں ، خانہ جنگیوں ، ناکام حکومتوں اور بہت ساری تباہیوں سے نمٹنا ہے جنہوں نے امت مسلمہ اور اسلام کو دوچار کیا ہے اور ان کو ختم کرنے یا کم کرنے یا مذہب کی بحالی کے لئے بغیر کسی سنجیدہ کوشش کی جارہی ہے۔
  8. ہاں ، اسلام ، مسلمان اور ان کے ممالک بحران کی حالت میں ہیں ، بے بس اور اس عظیم مذہب سے ناواقف ہیں جس کا مقصد بنی نوع انسان کے لئے بھلائی ہے۔
  9. ان وجوہات کی بناء پر سمٹ میٹنگ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بہت کم سے کم ، اپنی گفتگو کے ذریعے ہمیں معلوم ہوسکتا ہے کہ کیا غلط ہوا ہے۔ اگرچہ کم از کم عالم اسلام کو بیدار کرنے کے لئے ان تباہیوں کا خاتمہ نہ کیا گیا تو ہم اس کے حل بھی ڈھونڈ سکتے ہیں ، امت کو مسائل اور ان کے اسباب کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ مسائل اور ان کے اسباب کو سمجھنا امت کو درپیش آفات سے نمٹنے یا اس کے خاتمے کے راستے پر روشنی ڈال سکتا ہے۔
  10. ہم نے دیکھا ہے کہ دوسری عالمی جنگ سے تباہ حال دیگر ممالک نہ صرف تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں بلکہ ترقی پذیر ہونے کے لئے مضبوطی سے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن کچھ مسلمان ممالک اچھی طرح سے حکمرانی کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ، ترقی یافتہ اور خوشحالی کے امکانات کم ہیں۔
  11. کیا یہ ہمارا مذہب ہے جو چل رہا ہے؟ کیا اسلام دنیاوی کامیابی اور ترقی یافتہ ملک بننے کے خلاف ہے؟ یا یہ خود مسلمان ہے جو اپنے ممالک کو ترقی یافتہ ہونے سے اچھی طرح سے چلنے سے روکتا ہے۔
  12. ان امور پر ریاست کے اعلی سطح پر تبادلہ خیال کیا جائے گا لیکن اس کے لیے صرف چند ممالک ہی شامل ہوں گے۔ پوری دنیا کے مسلم ممالک کو سنبھالنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ ناجائز ہوگا اور فیصلے کیے جاتے ہیں اور تجویز کردہ حل قابل عمل نہیں ہوسکتے ہیں۔
  13. ہم کسی کو امتیازی سلوک یا الگ تھلگ نہیں کر رہے ہیں۔ ہم شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر یہ نظریات ، تجاویز اور حل، قابل قبول ہیں اور قابل عمل ثابت ہوتے ہیں ، تو ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر غور و فکر کے لئے بڑے پلیٹ فارم تک لے جائیں۔
  14. اس کے باوجود ، ہم نے تقریبا تمام مسلم اقوام کو بھی مختلف سطح پر اس سمٹ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
  15. ہم ممتاز شرکاء کے خیالات اور دانشمندی کو سننے کے منتظر ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اس سربراہی اجلاس کے ذریعے ہم اپنے مسائل حل کرنے کی طرف تھوڑا آگے بڑھیں۔
  16. اللہ تعالیٰ اس شان کو بحال کرنے کی اس چھوٹی سی کوشش میں ہمیں کامیابی سے نوازے جو ایک بار ہمارے دین اسلام کی حیثیت سے پیش کی جاتی تھی۔ آمین

ترجمہ۔ طاہر شاہین

قرآن جلانے کا حق؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ناروے میں ہونے والے واقعے پر مختلف اطراف سے بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ دیارِ مغرب میں، بالخصوص ناروے میں رہنے والوں کا زاویۂ نظر کچھ اور ہے، دیارِ مشرق، بالخصوص پاکستان میں رہنے والے کچھ اور انداز میں سوچتے ہیں۔ کسی کی توجہ ناجائز پر صبر و تحمل اور لغو سے اعراض والی آیات و احادیث پر ہے تو کوئی جہاد و قتال یا کم سے کم بائیکاٹ کی ضرورت پر زور دیتا ہے؛ جبکہ کسی نے اپنے ہاں کے بعض جذباتی لوگوں کو شرمندہ کرنا زیادہ ضروری سمجھا جو بعض اوقات غیرمسلموں کی مذہبی شخصیات یا شعائر کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ کل سے جاری اس ساری بحث میں وہ سوال کہیں دب گیا ہے جس پر اس طرح کے واقعات کے تناظر میں بحث سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے۔

وہ سوال یہ ہے کہ کیا اظہار راے کی آزادی کے حق پر یہ قید لگائی جاسکتی ہے کہ اس حق کے ذریعے آپ کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین نہیں کریں گے اور اگر آپ ایسا کریں گے تو یہ جرم ہوگا؟

واضح رہے کہ ناروے میں پولیس کی جس کارروائی کا ذکر کیا جارہا ہے ، اس کا تعلق "توہینِ مذہب" سے نہیں بلکہ "نفرت انگیز" تحریر و تقریر یا حرکات سے ہے اور دونوں باتوں میں اصولی طور پر بہت بڑا فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کےلیے صرف اس بات پر توجہ کریں کہ اگر ایسی تحریر و تقریر یا حرکات کو آپ ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیں ، یعنی ان پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے اعراض کا رویہ اختیار کرلیں، تو یہ معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث نہیں رہیں گی اور اس وجہ سے ان کو "نفرت انگیز" نہیں مانا جائے گا اور قانون ان کو تحفظ فراہم کرے گا۔

اس لحاظ سے دیکھیں تو شامی نوجوان عمر نے جو کچھ کیا اس کا کم سے کم فائدہ یہ ہے کہ ایسی تحری و تقریر و حرکات کو  بدستور نفرت انگیز اور معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث سمجھا جاتا رہے گا اور اس وجہ سے پولیس ان کو روکنے پر خود کو مجبور پائے گی۔

"توہینِ مذہب کے حق "کے متعلق استدلال کو سمجھنے کےلیے زیادہ نہیں تو دو صفحات کا ایک مضمون پڑھنے کی تجویز دوں گا جو مشہور امریکی فلسفیِ قانون رونالڈ ڈوورکن نے The Right to Ridicule کے عنوان سے نیو یارک ٹائمز کےلیے لکھا تھا اور 23 جون 2006ء کو شائع ہوا تھا۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ رونالڈ ڈوورکن میرے پسندیدہ ترین فلسفیِ قانون ہیں۔ قانونی اصولوں کی وضاحت جس طریقے سے وہ کرتے ہیں ، وہ انھی کا خاصہ ہے۔ ان کے فلسفیانہ نظام کا ایک اہم جزو حقوق کے متعلق ان کے تصورات ہیں جن کی وضاحت کےلیے انھوں نے کئی مقالات لکھے جو بعد میں Taking Rights Seriously کے عنوان سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ ان کی ایک قابلِ قدر کاوش ، جوقانون کے متعلق نظریات میں اساسی تبدیلی کا باعث بنی، یہ تھی کہ انھوں نے دکھایا کہ  قانونی احکام (rules) جو جزئیات پر لاگو ہوتی ہیں، جج کےلیےان سے بھی زیادہ اہمیت قانون کے قواعدِ عامہ (general principles of law) کی ہوتی ہے اور یہ کہ وہ امور جہاں عام طورپر فرض کیا جاتا ہے کہ قانون خاموش ہے کیونکہ اس کے متعلق قانون میں کوئی جزئیہ نہیں پایا جاتا، وہاں بھی قانون خاموش نہیں ہوتا بلکہ اپنے قواعدِ عامہ کے ذریعے ان امور کے جواز  و عدم جواز کا فیصلہ کرتا ہے اور جج کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی پر فیصلہ کرنے کے بجاے قانون کے متعلقہ عام قواعد مستخرج کرکے ان کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ کرے۔ جنھیں اصولی مباحث سے دلچسپی ہے وہ جانتے ہیں کہ ڈوورکن کا یہ منہج فقہاے احناف کے منہج سے بے حد قریب ہے ۔

تو آئیے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ ممتاز امریکی فلسفیِ قانون اس مسئلے کا تجزیہ اصولی بنیادوں پر کیسے کرتا ہے؟

ڈوورکن کے مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ 2006ء میں ڈنمارک کے بعض اخبارات نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق توہین آمیز خاکے شائع کیے تھے جس پر مسلم دنیا میں شدید ردعمل ہوا تھا۔ بعد میں بعض برطانوی اور امریکی اخبارات نے بھی یہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم مسلمانوں کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے انھوں نے یہ فیصلہ منسوخ کردیا اور یہ خاکے شائع نہیں کیے۔ اس تناظر میں ڈوورکن نے نیو یارک ٹائمز کےلیے یہ مضمون لکھا جسے اس نے عنوان دیا : The Right to Ridicule، یعنی تضحیک کا حق۔

ڈوورکن آغاز یوں کرتے ہیں کہ  برطانوی اور امریکی اخبارات کا یہ فیصلہ کہ وہ یہ کارٹون شائع نہیں کریں گے، عملی نتائج کے اعتبار سے اچھا فیصلہ ہے کیونکہ ان کے شائع ہونے کے نتیجے میں قوی اندیشہ تھا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی جانب سے اسی طرح شدید ردعمل سامنے آتا اور مختلف ممالک میں مزید لوگوں کی جانیں ضائع ہوتیں اور مزید املاک کو نقصان پہنچتا۔ مزید یہ کہ ان کارٹونوں کی اشاعت سے برطانوی اور امریکی مسلمانوں کو بھی مزید اذیت ہوتی کیونکہ انھیں دیگر مسلمانوں کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ ان کارٹونوں کی وجہ سے ان کے مذہب کی توہین ہوئی ہے۔

کیا برطانوی اور امریکی مسلمان خود یہ توہین محسوس نہ کرتے جب تک غیربرطانوی اور غیر امریکی مسلمان انھیں نہ بتاتے؟ ڈوورکن اس سوال سے تعرض نہیں کرتا لیکن بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک برطانوی اور امریکی مسلمان اتنے عقل مند ہیں کہ وہ توہینِ مذہب پر جذباتی ردعمل ظاہر نہ کرتے ، یا اسے اتنی اہمیت نہ دیتے لیکن برطانیہ اور امریکا سے باہر کے مسلمانوں کی وجہ سے انھیں بھی اذیت محسوس ہوتی۔ اس بحث میں یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے اور دیارِ مغرب میں مقیم صبر و تحمل کے داعی مسلمانوں کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

ڈوورکن دوسرا اہم پہلو یہ سامنے لاتا ہے کہ عام قارئین کا یہ حق تھا کہ وہ خود دیکھ لیتے کہ کیا یہ کارٹون واقعی توہین آمیز تھےیا نہیں ؟مزاح کی سطح کیا تھی؟ان کا اثر کیا تھا؟ وغیرہ۔ وہ کہتا ہے کہ اس لحاظ سے شاید پریس کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ یہ کارٹون شائع کرتا۔ تاہم ساتھ ہی ڈوورکن کہتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ جو مرضی دیکھیں یا پڑھیں ، خواہ اس کا نقصان کتنا ہی زیادہ ہو۔ بہ الفاظِ دیگر نقصان کے پہلو سے قدغن کے جواز کو وہ مجبوراً مانتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قدغن کب اور کس حد تک لگائی جاسکتی ہے؟

پریس اگر اس طرح خود پر قدغن لگاتا رہے تو اس کے نتیجے میں کیا نقصانات ہوسکتے ہیں؟ ڈوورکن اس سلسلے میں معلومات، دلیل ، ادب ، آرٹ کے ضیاع کے خدشات ذکر کرتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پر تشدد ردعمل دکھانے والوں کو شہ ملتی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اس ردعمل کی وجہ سے وہ ان چیزوں کی شاعت روک پائے ہیں۔ وہ اس سے یہ استدلال کرتا ہے کہ گویا پریس ان لوگوں کا دباو مان کر انھیں آئندہ کےلیے مزید دباو ڈالنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم ڈوورکن متوقع نقصان کا ایک اور پہلو واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کارٹونوں کے خلاف مشرق وسطی اور دیگر ممالک میں ہونے والے مظاہرے سیاسی مقاصد کےلیے تھے اور اب اگر یہ کارٹون دوبارہ شائع کیے جاتے تو سیاسی مقاصد کے حصول کےلیے لوگ مزید مظاہرے کرتے جس کے نتیجے میں زیادہ توڑ پھوڑ ہوتی۔ یوں ڈوورکن کی راے میں کارٹونوں کی اشاعت کا فیصلہ واپس لے کر پریس نے عملاً بہتر راستہ اختیار کیا۔

اس مقام پر ڈوورکن یہ اہم سوال اٹھاتا ہے کہ خواہ عملی نتائج کے اعتبار سے کارٹونوں کی اشاعت کا فیصلہ حکیمانہ نظر آتا ہو ، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اظہار راے کی آزادی کے حق پر بالخصوص "کثیر الثقافتی معاشرے" کے تناظر میں قدغن لگائی جاسکتی ہے؟  کیا کسی مذہب کےلیے جو بات توہین آمیز یا مضحکہ خیز ہو ، اسے جرم قرار دیا جانا چاہیے؟ یہاں پہنچ کر ڈوورکن اصل قانونی اور اصولی مباحث کی طرف آتا ہے۔

وہ پوری صراحت کے ساتھ یہ دعوی کرتا ہے کہ اظہار راے کی آزادی مغربی ثقافت کی کوئی امتیازی خصوصیت نہیں ہے جسے دوسری ثقافتوں کی خاطر، جو اسے نہیں مانتیں، محدود کیا جاسکے، بالکل اسی طرح جیسے مسیحی علامات کے ساتھ ہلال یا منارے کےلیے گنجائش پیدا کی جائے۔ اس کے برعکس اس کا کہنا ہے کہ اظہار راے کی آزادی حکومت کے جواز کی شرط ہے! (Free speech is a condition of legitimate government.)کوئی قانون اور کوئی پالیسی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسے جمہوری طریقے سے نہ بنایا جائے اور جب کسی کو کسی قانون یا پالیسی کے متعلق اپنی راے کے اظہار سے روکا جائےتو جمہوریت بے معنی ہوجاتی ہے۔

وہ مزید کہتا ہے کہ تضحیک اظہار کا ایک خاص پیرایہ ہے اور اگر اس کی نوک پلک درست کرنے یا اصلاح کی کوشش کی جائے تو وہ پیرایہ غیرمؤثر ہوجاتا ہےاور اسی وجہ سے صدیوں سے اچھے یا برے ہر طرح کے مقاصد کےلیے کارٹون اور تضحیک کے ہتھیار استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس بنیاد پر ڈوورکن یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ جمہوریت میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور یا کتنا ہی کمزور ہو، کہ اس کی توہین یا تضحیک نہیں کی جائے گی۔

یہاں ڈوورکن اس بات کی وضاحت کےلیے ، کہ کیوں جمہوریت میں اظہار راے کے حق پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی، کہتا ہے کہ اگر کمزور اور غیرمقبول اقلیتیں یہ چاہتی ہیں کہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو اور اکثریت محض اپنی اکثریت کی وجہ سے ان کے حقوق سلب نہ کرسکے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اظہار راے کے حق پر کوئی قدغن نہ مانیں خواہ اس کے نتیجے میں خود انھیں بھی تضحیک کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ اقلیت میں ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود اظہار راے کے حق کے ذریعے وہ کسی بھی قانون یا پالیسی کے خلاف کھل کر بات کرسکیں گے۔

اسی استدلال پر وہ مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اظہار راے پر قدغن سے ان کو نقصان ہوگا ۔ اس ضمن میں وہ اس بات پر بھی بحث کرتا ہے جس کی طرف مسلمان عام طور پر توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ کئی یورپی ممالک میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام سے انکار کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے اور اظہار راے پر اس قدغن کو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلمان بالعموم اسے دوغلی پالیسی اور منافقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ڈوورکن کہتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اعتراض بالکل درست ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اظہار راے پر ایک اور قدغن بھی مان لیں۔ اس کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ مذکور قدغن بھی دور کردی جائے۔

ڈوورکن مزید یہ کہتا ہے کہ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ایسے قوانین اور پالیسیاں ختم کی جائیں جو مسلمانوں کی پروفائلنگ کو جواز دیں یا جن کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے سے دکھائی دینے والے لوگوں کی نگرانی کی جائے کیونکہ ان پر دہشت گردی کا شبہ ہوتا ہے ، تو پھر مسلمانوں کو اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی راے کو بھی برداشت کرنا پڑے گا جو انھیں دہشت گردی سے منسلک کرتے ہیں اور کارٹونوں کے ذریعے ان کی تضحیک کرتے ہیں، خواہ ان لوگوں کی یہ بات کتنی ہی بے بنیاد اور بذات خود مضحکہ خیز ہو !

آخر میں وہ ساری بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتا ہے :

Religion must observe the principles of democracy, not the other way around. No religion can be permitted to legislate for everyone about what can or cannot be drawn any more than it can legislate about what may or may not be eaten. No one’s religious convictions can be thought to trump the freedom that makes democracy possible.

(مذہب پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں کی پابندی کرے ، نہ کہ الٹا جمہوریت کو مذہب کا پابند بنایا جائے۔ کسی مذہب کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سب کےلیےیہ قانون بناسکے کہ وہ کیسا خاکہ بناسکتے ہیں اور کیسا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ ہر کسی کےلیے یہ قانون نہیں بناسکتی کہ وہ کیا کھاسکتے ہیں اور کیا نہیں ۔ کسی کے مذہبی اعتقادات کے متعلق یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ وہ اس آزادی کو فتح کرلیں گے جو جمہوریت نے ممکن بنادی ہے ۔ )

ڈوررکن کے اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مذہب کو جمہوریت کے اصولوں کی پابندی اختیار کرنی چاہیے یا جمہوریت کو مذہبی قیود کی پابندی تسلیم کرنی چاہیے؟ جب تک اس بنیادی مسئلے پر بحث نہیں کی جائے گی، ضمنی سوالات پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی سوال پر بحث سے ناروے یا دیگر مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی مجبوریاں بھی سمجھ میں آجاتی ہیں اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کیوں وہ صبر و تحمل اور اعراض کا رویہ اپنانے کی تلقین کرتے ہیں؟ یادرکھیے کہ ناروے ، یاکہیں اور ، پولیس یا دیگر ادارے اگر اس طرح کی حرکتیں روکنے کی کوشش کریں تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے قانون کی رو سے "توہینِ مذہب" جرم یا ان کے اخلاقی پیمانے پر یہ برا کام ہے۔ ان کےلیے اصل معیار "جمہوریت" اور "حقوقِ انسانی" کا معیار ہے اور اس معیار پر اس کام کو وہ برا نہیں سمجھتے۔ یہ کام صرف تب برا بنتا ہے جب اس کی وجہ سے "خوفِ فسادِ خلق" پیدا ہو۔ چنانچہ مکرر عرض ہے کہ اگر عمر کی طرح کے "جنونی " اور "جذباتی" مسلمان مفقود ہوجائیں تو پھر ناروے کی پولیس یا دیگر ادارے کبھی اس کام میں مداخلت نہیں کریں گے بلکہ اس کام میں مداخلت کرنے والوں کو مجرم اور برا سمجھیں گے۔

یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ٹیکنولوجی کی ترقی کی وجہ سے کوئی ملک الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ اس وجہ سے ناروے یا دیگر ممالک یہ موقف نہیں اختیار کرسکتے کہ ہمارے معاملات پر دیگر ممالک کے مسلمانوں کو رد عمل دکھانے کا حق نہیں ہے، اور ہمارے مسلمانوں کو تو صبر و تحمل کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ دنیا اگر واقعی گلوبل ویلج بن چکی ہے تو پھر معاملہ صرف ناروے کی مسلم اقلیت کا نہیں بلکہ دنیا میں سوا ارب سے زائد مسلمانوں کا ہے۔

آخر میں پاکستان کے قانونی نظام کے متعلق بھی اہم بات نوٹ کرلیں کیونکہ اگر ناروے یا امریکا میں مذہب پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں کی پابندی کرے تو پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔

چنانچہ ہم نے اپنے اساسی قانون، یعنی دستورِ پاکستان ، کے دیباچے میں پہلے جملے میں ہی اقرار کیا ہے کہ پوری کائنات پر حکم صرف اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے اور یہ کہ ہم قانون سازی اور حکومت کے تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر ہی استعمال کریں گے۔ اسی دیباچے میں ہم نے مزید یہ اقرار کیا ہے کہ  ہمارا قانونی نظام ان اصولوں پر قائم ہے جو جمہوریت، آزادی، مساوات، برداشت اور معاشی انصاف کے متعلق اسلام نے دیے ہیں (The principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed)۔

جی ہاں، ہمارے ہاں جمہوریت اور حقوق کو مذہب کی پابندی کرنی ہوگی، خواہ ڈوورکن کو کتنا ہی برا لگے ۔


قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۳)

محمد عمار خان ناصر

شاہ ولی اللہ کا زاویۂ  نظر

سابقہ فصل میں ہم نے امام شاطبی کے نظریے کا تفصیلی مطالعہ کیا جس کے مطابق تشریع میں مخصوص مقاصد اور مصالح کی رعایت کی گئی ہے جن کا بنیادی ڈھانچا قرآن مجید نے وضع کیا ہے، جب کہ سنت انھی کے حوالے سے کتاب اللہ کے احکام کی توضیح وتفصیل اور ان پر تفریع کرتی ہے۔ شاطبی نے تشریع کے عمل کو ایک منضبط اور مربوط پراسس کے طور پر دیکھتے ہوئے، جس کے واضح مقاصد اور متعین اصول کلیہ اپنی جگہ ثابت ہیں ، قرآن اور سنت، دونوں کا کردار اس طرح واضح کیا ہے کہ یہ دونوں مآخذ ایک ہی طرح کے مقاصد کے لیے اور ایک جیسے اصولوں کے تحت تشریع کے عمل کو مکمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

شاطبی نے مقاصد شرعیہ اور اصول تشریع کی بحث کو جو شکل دی تھی، بارھویں صدی ہجری میں برصغیر کے مایہ ناز عالم شاہ ولی اللہ دہلوی (وفات:  ۱۱۷۶ھ) نے کئی اہم ترمیمات اور اضافوں کے ساتھ اسے ایک نیا فریم ورک دیا، جس کے اثرات قرآن اور سنت کے باہمی تعلق کے سوال پر بھی پڑتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ نے حنفی اصولیین کے ہاں معروف فریم ورک میں بھی قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث کے بعض گوشوں سے تعرض کیا ہے جس کی کچھ مثالیں آیندہ سطور میں پیش کی جائیں گی، لیکن انھوں نے اس پوری بحث کو بنیادی طور پر ایک مختلف زاویے سے دیکھا ہے جس کا بنیادی نکتہ عمل تشریع کے بنیادی اصولوں کی وضاحت اور اس عمل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت، یعنی آپ کے تشریعی اختیار کی نوعیت کی تفہیم ہے۔ مقاصد شرعیہ اور مصالح کلیہ کی روشنی میں تشر یعی عمل کی تکمیل کا تصور، جیسا کہ واضح کیا گیا، امام شاطبی کے ہاں بھی موجود ہے اور اس حد تک شاہ صاحب کے فریم ورک کی اساسات کو امام شاطبی کے ساتھ مشترک قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن ان اساسات کے تحت قرآن وسنت کے باہمی تعلق کو متعین کرنے کا منہج اپنی تفصیلات میں شاہ صاحب کے ہاں شاطبی سے کافی مختلف ہے۔

ذیل میں شاہ صاحب کے زاویۂ نظر کے بنیادی پہلوؤں کی توضیح پیش کی جائے گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی اختیار کی نوعیت

شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ تشریع بنیادی طور پر مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہوتی ہے اور احکام وقوانین کو وضع کرنے سے مقصود ان مصالح کی حفاظت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بنیادی سطح پر تشریع کے عمل میں شریک فرمایا تھا اور آپ کو شریعت کے مقاصد اور قانون سازی کے اصول اور ضابطے سکھا دیے تھے جن کی روشنی میں آپ احکام وشرائع وضع کرنے کا پورا اختیار رکھتے تھے۔

شاہ صاحب لکھتے ہیں :

ولیس یجب أن یکون اجتھادہ استنباطاً من المنصوص کما یظن، بل أکثرہ أن یکون علمہ اللہ تعالیٰ مقاصد الشرع وقانون التشریع والتیسیر والأحکام، فبین المقاصد المتلقاۃ بالوحي بذلک القانون.(حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۳۷۱-  ۳۷۲)

’’یہ ضروری نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد،  منصوص احکام سے استنباط تک محدود ہو، جیسا کہ گمان کیا جاتا ہے، بلکہ عموماً اس کی صورت یہ تھی کہ اللہ نے آپ کو شریعت کے مقاصد اور قانون سازی، تیسیر اور وضع احکام کے اصول سکھا دیے تھے اور آپ نے وحی کے ذریعے سے بتائے جانے والے ان مقاصد کو احکام کی صورت میں متشکل فرما دیا۔‘‘

اسی نکتے کی روشنی میں شاہ صاحب، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد اور امت کے مجتہدین کے اجتہاد کی نوعیت کا فرق واضح کرتے ہیں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ امت کے قیاس کی نوعیت یہ ہے کہ وہ منصوص حکم کی علت کو پہچانیں اور حکم کو علت کے ساتھ وابستہ کر دیں ، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب وحی کے ذریعے سے شریعت کا کوئی حکم بتا دیا جاتا اور آپ اس کی حکمت اور سبب سے واقف ہو جاتے تو آپ کو یہ اختیار تھا کہ اس مصلحت کو سامنے رکھ کر اس کی کوئی ظاہری علت مقرر فرمائیں اور اس علت پر حکم کا مدار رکھ دیں ۔ اس کی ایک مثال وہ اذکار ہیں جو آپ نے صبح اورشام کے اوقات اور سونے کے وقت کے لیے مقرر فرمائے۔ جب آپ نے نمازوں کی مشروعیت کی حکمت کو سمجھ لیا تو اس کی روشنی میں اللہ کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے مزید محنت اور سعی فرمائی (ایضاً ۱/ ۳۱۱)۔

اس اختیار کے تحت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر کلام الہٰی کے بعض اشارات سے آپ کا فہم کسی پہلو کی طرف منتقل ہو تو اس کو بھی ایک باقاعدہ تشریعی ضابطے کی شکل دے کر امت پر اس کی پابندی لازم کر دیں ۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  ’اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ‘ (البقرہ  ۲: ۱۵۸) میں صفا کا ذکر مقدم ہونے سے یہ استنباط کیا کہ سعی کا آغاز صفا سے ہونا چاہیے اور اسی کو امت کے لیے مشروع فرما دیا۔ آپ نے سورج اور چاند تاروں کو سجدہ کی ممانعت سے یہ اخذ کیا کہ اگر سورج یا چاند کو گرہن لگے تو ان کو معبود سمجھنے والوں پر اتمام حجت کے لیے ایسے وقت میں اللہ کی عبادت کا اہتمام کیا جائے۔ اسی طرح ’لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ‘  (البقرہ ۲: ۱۱۵) سے یہ استنباط فرمایا کہ عذر کی حالت میں استقبال قبلہ کی شرط ساقط ہو سکتی ہے، اس لیے اندھیری رات میں اگر کوئی غلط سمت میں منہ کر کے نماز ادا کر لے تو نماز ادا ہو جائے گی اور حالت سفر میں بھی قبلہ رخ ہوئے بغیر سواری پر نماز ادا کرنا جائز ہے (ایضاً ۱/ ۳۱۲) ۔

اسی طرح کسی مطلوب حکم کی ترغیب پیدا کرنے کے لیے اس کے دواعی ومقدمات کو مطلوب اور کسی غیرمطلوب چیز سے روکنے کے لیے اس تک پہنچانے والے اسباب وذرائع کو ممنوع قرار دینا بھی پیغمبر کے دائرۂ اختیار میں شامل تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، مثال کے طو رپر بت پرستی کے سد ذریعہ کے طور پر تصویر سازی سے، شراب نوشی سے روکنے کے لیے انگور کا شیرہ تیار کرنے اور ایسے دستر خوان پر جانے سے منع فرمایا جہاں شراب موجود ہو اور اسی طرح فتنے کی کیفیت میں قتال کے سدباب کے لیے ایسے حالات میں ہتھیار بیچنے کو ممنوع قرار دیا (ایضاً ۱/ ۳۱۳) ۔

شاہ صاحب اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے کہ تشریع میں پیغمبر کے اجتہاد کو پورا دخل ہوتا ہے، ان احادیث کا حوالہ دیتے ہیں، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے امت کے لیے کوئی شرعی حکم مقرر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، لیکن پھر رفع حرج کے اصول کے تحت اس کو عملی جامہ پہنانے سے گریز فرمایا۔ مثلاً  آپ کی خواہش تھی کہ ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کو فرض قرار دیا جائے اور عشاء کی نماز کا وقت رات کا کم سے کم ایک تہائی وقت گزرنے پر مقرر کیا جائے۔ اس نوعیت کی احادیث سے شاہ صاحب یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ:

وقد ورد بھذا الأسلوب أحادیث کثیرۃ جدًا وھي دلائل واضحۃ علی أن لاجتھاد النبي صلی اللہ علیہ وسلم مدخلًا في الحدود الشرعیۃ، وأنھا منوطۃ بالمقاصد، وأن رفع الحرج من الأصول التي بنی علیھا الشرائع. (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۵۱۹)

’’اس اسلوب میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ شرعی احکام وحدود کو وضع کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کا بھی دخل ہے اور یہ کہ احکام، مقاصد سے وابستہ ہیں اور یہ کہ رفع حرج ان اصولوں میں سے ایک ہے جن پر شرائع کی بنیاد رکھی گئی ہے۔‘‘

شاہ صاحب اس نکتے کی تفہیم کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ایسے اجتہادات کا حوالہ بھی دیتے ہیں جن میں آپ نے نئی صورت حال میں شرعی مصالح اور اصول تشریع کی روشنی میں سابقہ حکم کی جگہ نیا طریقہ اختیار کرنے کو مناسب سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اجتہاد کی تصویب فرمائی۔ مثال کے طور پر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا فیصلہ شاہ صاحب کی راے میں ایک اجتہادی فیصلہ تھا جونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نئی صورت حال کے تناظر میں کیا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ مدینہ منورہ میں دین کی نصرت کی ذمہ داری اوس وخزرج نے قبول کی تھی جو اس وقت علمی ودینی طور پر یہود سے بہت متاثر تھے، چنانچہ ان کی اور ان کے حلیف یہودیوں کی تالیف قلب کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اجتہاد فرمایا کہ مسجد حرام کی جگہ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا جائے (ایضاً ۱/ ۳۵۷) ۔

شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں کہ شریعت کے مبنی بر مصالح ہونے کی وجہ سے اس میں اس قوم کے اجتہاد کا بھی پورا دخل ہوتا ہے جن کے لیے شریعت وضع کی جا رہی ہو اور پیغمبر، تشریع میں اپنی قوم کے اہل الراے کے مشورے اور راے کو بھی پورا وزن دیتا ہے۔ چنانچہ صحابہ نے نماز باجماعت کے مطلوب اور موکد ہونے کے تناظر میں ازخود اس بات پر غور کرنا شروع کر دیا کہ چونکہ ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر جمع ہونا اطلاع واعلان کے بغیر ممکن نہیں ، اس لیے نماز کی اطلاع دینے کا کوئی طریقہ وضع کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مختلف مذاہب کے ہاں مروج طریقے زیر بحث آئے اور آخر میں عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے خواب کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کہنے کے طریقے کی تصویب فرما دی۔ اس واقعے سے استنباط کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں :

وھذہ القصۃ دلیل واضح علی أن الأحکام إنما شرعت لأجل المصالح، وأن للاجتھاد فیھا مدخلًا، وأن التیسیر أصل أصیل. (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۵۳۸)

’’یہ قصہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ احکام صرف مصالح کی حفاظت کے لیے وضع کیے گئے ہیں اور یہ کہ ان کے وضع کرنے میں اجتہاد کا دخل ہے اور یہ کہ (تشریع میں ) آسانی پیدا کرنا ایک نہایت بنیادی اصول ہے۔‘‘

تشریعی مصالح کی روشنی میں عمومات کی تخصیص

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی اختیار سے متعلق اس اصولی زاو یۂ نظر سے شاہ صاحب نے قرآن اور سنت کے باہمی تعلق کی توضیح بھی کی ہے اور ان کا فریم ورک اپنی مجموعی شکل میں شافعی اور حنفی اصولیین کے وضع کردہ فریم ورک سے مختلف اور شاطبی کے فریم ورک کے قریب تر ہے۔ شافعی اور حنفی فقہا باہمی اختلافات کے باوجود اس بحث کو بنیادی طور پر، جزوی اور انفرادی نصوص کے باہمی تعلق کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور ایک نص کو اصل اور محور قرار دے کر اس کے ساتھ متعلق ہونے والے اضافی نصوص کے ربط وتعلق کی نوعیت کو متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چنانچہ اگر قرآن کے کسی حکم میں سنت نے تخصیص یا اس پر زیادت کی ہو تو حنفی نقطۂ نظر سے یہ سوال بنیادی ہوگا کہ اصل حکم اپنی دلالت کے لحاظ سے اس تخصیص کا محتمل تھا یا نہیں ۔ اگر محتمل تھا یا اس تخصیص کی بنیاد اسی متعین حکم میں موجود تھی تو پھر یہ قرآن کے حکم ہی کی تفصیل وتبیین ہوگی، لیکن اگر اصل حکم محتمل نہیں تھا اور اس میں جواز تخصیص کے لیے کوئی قرینہ بھی موجود نہیں تو یہ سابقہ حکم میں تبدیلی سمجھی جائے گی اور اسے نسخ کا عنوان دیا جائے گا۔ امام شافعی نے اس کے برعکس یہ موقف اختیار کیا کہ عموم کا اسلوب کلام عرب میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے ہی تخصیص کا محتمل ہوتا ہے جس کی وضاحت متکلم اسی کلام میں یا کسی دوسرے موقع پر کر سکتا ہے۔ امام شافعی نے بہت سی مثالوں میں تخصیص کے ان قرائن کو بھی واضح کیا جو کلام کے سیاق وسباق سے اخذ کیے جا سکتے ہیں ، تاہم انھوں نے اصل حکم میں تخصیص کے لفظی یا عقلی قرائن کے موجود ہونے کو ایک لازمی شرط کا درجہ نہیں دیا اور یہ کہا کہ قرآن کے حکم سے اللہ تعالیٰ کی جو مراد تھی، وہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر واضح فرمائی اور آپ نے اسے حدیث کی صورت میں بیان کر دیا۔ چنانچہ جب سنت کا ماخذ بھی وحی ہے تو وحی کا ایک حصہ بدیہی طور پر دوسرے حصے کی توضیح وتبیین کر سکتا ہے اور اسے نسخ یا تبدیلی قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ۔

شاطبی نے اس بحث میں اصولی طور پر امام شافعی کے نقطۂ  نظر سے اتفاق کیا اور قرائن تخصیص کی بحث کو وسعت دیتے ہوئے یہ قرار دیا کہ سنت کے جن احکام میں قرآن کی تخصیص یا اس پر زیادت وارد ہوئی ہے، ان کی تفہیم مختلف علمی اصولوں، مثلاً مشتبہ فروع کا کسی اصل کے ساتھ الحاق، علت کی بنیاد پر حکم کی توسیع اور قرآن کے لفظی و معنوی اشارات سے استنباط کے تحت کی جا سکتی ہے۔ اسی ضمن میں شاطبی نے عمومات کی تخصیص ایک بہت اہم پہلو یہ واضح کیا کہ شریعت میں جو احکام کلیہ بیان کیے گئے ہیں ، بعض دفعہ کسی دوسرے کلی شرعی اصول کی رعایت سے ان میں تخصیص اور استثنا قائم کرنا پڑتا ہے اور یہ اصل حکم کے عموم اورکلیت کے منافی نہیں ہوتا۔ گویا خاص صورتوں کو مخصوص اسباب کے تحت حکم کلی سے مستثنیٰ یا مخصوص قرار دینا بذات خود ایک تشریعی اصول ہے اور اس کے تحت مختلف شرعی احکام میں تخصیص اور استثنا کی مثالیں نصوص میں موجود ہیں  (الموافقات ۱/ ۱۴۷، ۲۴۱)۔

شاطبی کے فریم ورک میں مسئلے کی نوعیت، جمہور اصولیین کے موقف سے بہت مختلف ہو جاتی ہے۔ اگر جزوی نصوص میں بیان ہونے والے احکام کو تشریع کے ایک کلی فریم ورک کا حصہ سمجھا جائے جس میں واضح اصول وقواعد اور مصالح ومقاصد کے تحت وضع احکام کا عمل کیا جا رہا ہے تو پھر کسی جزوی حکم کی قیود وشرائط یا اس میں تخصیص واستثنا کی وضاحت میں بھی اصل اور بنیادی اہمیت دلالت الفاظ کو نہیں ، بلکہ انھی تشریعی اصولوں اور مقاصد کو حاصل ہو جاتی ہے جن کی روشنی میں کسی حکم کاتعین ہوا ہے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود تشریع کے عمل میں شریک تھے اور آپ کا تشریعی اختیار جزوی نصوص اور ان میں موجود لفظی دلائل وقرائن سے استنباط تک محدود نہیں تھا، اس لیے تشریعی اصول ومقاصد کے تحت آپ کا کسی بھی حکم میں قیود وشرائط کا اضافہ یا تخصیص واستثنا کی گنجایش واضح کرنا کسی تردد کے بغیر قابل فہم بن جاتا ہے اور تخصیص کے لفظی قرائن کی بحث غیرمتعلق ہو جاتی ہے۔

شاہ صاحب نے اس بحث میں یہی نقطۂ نظر اختیار کیا اور سنت میں وارد تمام زیادات اور تخصیصات کی توجیہ اسی پہلو سے کی ہے جس کی چند نمایاں مثالیں حسب ذیل ہیں :

ماں اور بچے کے مابین حرمت رضاعت کے ثابت ہونے کے لیے احادیث میں پانچ دفعہ دودھ پینے کی قید مذکور ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک یا دو دفعہ دودھ پینے یا ایک یا دو دفعہ پستان چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، جب کہ قرآن میں بظاہر دودھ پلانے کا ذکر کسی تحدید کے بغیر کیا گیا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ شریعت میں عورت کا دودھ پینے کو اس پہلو سے حرمت کا موجب قرار دیا گیا ہے کہ اس عمل سے دودھ پلانے والی گویا بچے کی جسمانی نشوونما کا حصہ بن جاتی اور یوں اس کی حقیقی ماں کے مشابہ ہو جاتی ہے۔ اس پہلو سے رضاعت کی مقدار کی تحدید ضروری ہے، کیونکہ بالکل معمولی مقدار میں دودھ پینے میں مذکورہ پہلو نہیں پایا جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اسی پہلو کی وضاحت کی گئی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۵۱) ۔

ترکے میں وصیت سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قیود وشرائط بیان فرمائیں ، شاہ صاحب نے ان کی توضیح بھی اسی اصول کی روشنی میں کی ہے۔ قرآن مجید میں وصیت کے حق کا ذکر کسی قید اور شرط کے بغیر کیا گیا ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وارث کے حق میں وصیت کرنے کو ممنوع اور وصیت کے حق کو ترکے کے ایک تہائی تک محدود قرار دیا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ چونکہ اہل جاہلیت عموماً وصیت میں عدل وانصاف کو ملحوظ نہیں رکھتے تھے اور ان کی ناانصافی اہل قرابت کے مابین نفرت وکدورت اور تنازع کا موجب بنتی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ترکے میں میت کے قریبی رشتہ داروں کے حصے خود متعین فرما دیے اور چونکہ اس اقدام کا مقصد ہی باہمی تنازعات کو ختم کرنا تھا، اس لیے ازروے شرع وارث بننے والے کے حق میں وصیت کو ممنوع قرار دینا اس بندوبست کا لازمی تقاضا تھا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۰۹) ۔

اسی طرح مرنے والے کے مال میں اولو الارحام کے حق اور ان کے علاوہ اس کے دیگر متعلقین کے حق میں ، جنھیں وہ اپنے مال میں سے کوئی حصہ دینا چاہے، توازن قائم کرنا ضروری تھا تاکہ نہ تو صاحب ترکہ کی جانب داری یا میلان اس کے اولو الارحام کے حق پر اثر انداز ہو سکے اور اولو الارحام کے حق کی وجہ سے خود صاحب ترکہ کا اپنے مال میں اختیار بالکل ختم ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کے حق کو ایک تہائی تک محدود فرما دیا تاکہ ترکے کا زیادہ حصہ اولو الارحام کو اور کم تر حصہ دیگر متعلقین کو دیا جا سکے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۰۸- ۳۰۹) ۔

یہی اصول ہمیں حق وراثت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائد کردہ بعض تحدیدات میں کارفرما دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً  آپ نے مسلمان کے، کافر کا اور کافر کے، مسلمان کا وارث بننے کی نفی فرمائی۔ اسی طرح فرمایا کہ قاتل کو اس کے مورث کے ترکے میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ان میں سے پہلی ممانعت ایک دینی مصلحت پر مبنی ہے اور شارع کی منشا یہ ہے کہ معاشرتی معاملا ت میں مسلمان اور کافر کے مابین اختلاط چونکہ دین میں بعض خرابیوں کا موجب ہو سکتا ہے، اس لیے اسے ممنوع یا محدود کر دیا جائے۔ اسی وجہ سے شریعت میں مشرکین کے ساتھ نکاح کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ جہاں تک قاتل کو وراثت سے محروم کرنے کا تعلق ہے تو اس کا باعث ایک تو سد ذریعہ ہے تاکہ متوقع وارث، مال حاصل کرنے کے لیے اپنے مورثوں کو قتل نہ کرنے لگیں اور دوسرے یہ اس کے لیے سبق بھی ہے کہ حرام طریقے سے مال کے حصول کی کوشش کا نتیجہ اس سے محرومی ہی ہو سکتا ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۲۳) ۔

والد کو بیٹے کے قصاص میں قتل نہ کرنے کی توجیہ شاہ صاحب کے نزدیک یہ ہے کہ اولاد کے ساتھ باپ کی محبت اور شفقت کی وجہ سے عام حالات میں غالب گمان یہی ہے کہ اس نے جان بوجھ کر، یعنی بیٹے کی جان لینے کی نیت سے یہ اقدام نہیں کیا ہوگا، بلکہ بے احتیاطی میں اس سے قتل سرزد ہو گیا ہوگا۔ گویا باپ، بیٹے کے قصاص سے اصولاً مستثنیٰ نہیں ہے، بلکہ اسے شبہے کا فائدہ دیتے ہوئے اس سے قصاص کو ٹالا گیا ہے، لیکن اگر قرائن ودلائل سے واضح ہو جائے کہ اس نے عمداً بیٹے کو قتل کیا ہے تو مذکورہ حدیث اس سے متعلق نہیں اور ایسی صور ت میں باپ سے قصاص لیا جائے گا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۰۶) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض معذور اور اپاہج مجرموں پر زنا کی سزا نافذ کرنے کے بجاے علامتی طور پر انھیں ایک ہی دفعہ ٹہنیوں کا ایک گٹھا مارنے کا حکم دیا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ معذور اصول تشریع کی رو سے سزا کے نفاذ کا محل نہیں ہے، کیونکہ وہ اس کا تحمل نہیں کر سکتا۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بالکل چھوڑ دینے کے بجاے علامتی طور پر سزا دینا ضروری سمجھا تاکہ حدود کے نفاذ کے لازم ہونے کا تصور برقرار رہے اور جس حد تک بھی تکلیف، مجرم کے لیے قابل برداشت ہے، وہ اسے دی جائے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۳۰)۔

حکم کے مقصد اور اس کے ساتھ وابستہ مصالح ہی کے تناظر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے ساتھ جنگ کے دوران میں چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹنے سے منع فرمایا۔ شاہ صاحب سیدنا عمر کے قول کی روشنی میں اس کی حکمت یہ بیان کرتے ہیں کہ ایسی کیفیت میں شیطان اس آدمی کی حمیت کو انگیخت کر کے اسے اس پر آمادہ کرسکتا ہے کہ وہ دشمن کی صف میں جا شامل ہو او ر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۲۵ -  ۴۶۸)۔

قرآن مجید میں مال غنیمت کے پانچویں حصے کو بعض اجتماعی ضروریات کے لیے خاص کرتے ہوئے باقی مال کو جنگ لڑنے والوں کا حق قرار دیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خمس نکالنے کے بعد باقی مال میں ، مجاہدین کی رضامندی کے بغیر کوئی اور تصرف نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں اس پابندی کا لحاظ دکھائی نہیں دیتا اور مختلف مواقع پر آپ سے، سارا مال غنیمت عام مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجاے اس کا کچھ حصہ اپنی صواب دید کے مطابق بعض خاص افراد یا گروہوں کو دینا ثابت ہے۔ فقہا کے ہاں ان اقدامات کی توجیہ عموم کی تخصیص وغیرہ فقہی اصولوں کے تحت کی جاتی ہے، لیکن شاہ ولی اللہ کا زاو یۂ  نظر یہ ہے کہ خمس نکالنے کے بعد باقی مال کی مجاہدین میں تقسیم کی ہدایت مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت کی رعایت سے مشروط ہے، جس کا فیصلہ مسلمانوں کا امام حسب صواب دید کر سکتا ہے۔ چنانچہ اگر دار الحرب میں داخل ہونے کے بعد امام ایک مخصوص جماعت کو کسی خاص بستی پر حملے کے لیے بھیجے تو حاصل شدہ مال غنیمت کا کچھ حصہ، عام مجاہدین میں تقسیم سے پہلے خاص طور پر اس جماعت کو دیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اصول پر دشمن سے انفرادی طور پر چھینے جانے والے ساز وسامان کو اس کے قاتل کا حق قرار دیا اور بعض غزوات میں کچھ مجاہدین کو، جنھوں نے غیر معمولی داد شجاعت دی تھی، عام مجاہدین سے زیادہ حصہ عطا کیا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۷۲-  ۴۷۳)۔


شریعت کے کسی حکم میں دی گئی کسی بھی نوعیت کی تخفیف کو ، چاہے وہ قرآن میں بیان کی گئی ہو یا سنت میں ، شاہ صاحب تیسیر وتخفیف کے اسی اصول کی مثال کے طور پر بیان کرتے ہیں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ عذر کی حالت میں حکم کی رخصتوں کی وضاحت، تشریع کی تکمیل اور اتمام کا حصہ ہے اور اس پہلو سے شریعت میں رخصتوں کے بیان کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ مثلاً سفر ایک عذر کی حالت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے مختلف رخصتیں مشروع فرمائی ہیں ۔ ان میں سے ایک رخصت، نماز کو قصر کرنے کی ہے جو قرآن مجید میں حالت خوف کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ خوف کا ذکر صرف اس رخصت کی حکمت کو بیان کرنے کے لیے ہوا ہے، رخصت کو اس تک محدود قرار دینے کے لیے نہیں ہوا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۵۷-  ۵۸)۔ اسی اصول کے تحت آپ نے سفر میں نمازوں کو تقدیم وتاخیر کے ساتھ بیک وقت ادا کرنے کی اجازت دی، لیکن اسے لازم نہیں کیا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۶۰)۔

مسح علی الخفین سے متعلق شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ وضو دراصل ایسے اعضا کو دھونے کا نام ہے جو ظاہر ہوں اور ان پر میل کچیل جمع ہو سکتی ہو۔ چونکہ موزے پہنے ہونے کی صورت میں پاؤں ایک لحاظ سے ظاہری اعضا کا حصہ نہیں رہتے اور اہل عرب کے ہاں موزے پہننے کا عام رواج ہونے کے باعث ہر نماز کے لیے موزے اتارنا مشقت کا موجب ہو سکتا تھا، اس لیے اس کیفیت میں فی الجملہ پاؤں کو دھونے کا حکم ساقط ہو گیا اور اس کی جگہ علامت کے طور پر پاؤں پر مسح کرنے کا حکم دے دیا گیا (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۵۰۴-  ۵۰۵)۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید سے زائد جو احکام بیان فرمائے، شاہ صاحب ان کا ماخذ بھی اصل احکام کی علت اور حکمت ومصلحت کو قرار دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کے ترکے میں سے اصحاب الفروض کو دینے کے بعد اگر کچھ مال بچ جائے تو وہ اس کے قریب ترین مرد رشتہ دار کو دے دیا جائے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ہدایت انھی اصولوں کی ایک فرع ہے جس پر وراثت کا پورا قانون مبنی ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک یہ دو اصول ہیں : ایک، باہمی مودت اور محبت جو قریبی رشتہ داروں کے مابین ہوتا ہے ، اور دوسرا باہمی تعاون وتناصر جو کسی آدمی اور اس کی قوم اور برادری کے مابین ہوتا ہے۔ اس اصول کی رو سے اگر ترکہ اہل قرابت کے حصوں سے زائد ہو تو بدیہی طور پر اس کا حق دار، الاقرب فالاقرب کے اصول پر، میت کے اہل تناصر کو ہونا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ ہدایت میں اسی اصول کا اطلاق فرمایا ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۲۳)۔

قرآن مجید میں دو بہنوں کو بیک وقت ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اس حکم کی مصلحت قریبی رشتہ داروں کے مابین قطع رحمی کا سد باب کرنا ہے، کیونکہ سوکنوں کے مابین فطری طور پر حسد اور بغض کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی علت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دو بہنوں کے ساتھ ساتھ پھوپھی اور بھتیجی نیز خالہ اور بھانجی کو بھی ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے سے منع فرما دیا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۵۱-  ۳۵۲)۔

قرآن مجید میں نکاح میں مہر کے تقرر کی ہدایت ’اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ‘ کے الفاظ سے کی گئی ہے۔ احادیث میں بیان ہو ا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر شوہر کی طرف سے بیوی کو قرآن مجید کی ایک سورت سکھانے کو اس کا مہر قرار دیا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ آپ کا یہ فیصلہ قرآن کی ہدایت کی اصل روح اور حکمت کے مطابق ہے، کیونکہ شارع کی نظر میں قرآن کی سورت کی تعلیم بھی ایک بہت اہم اور قدر وقیمت رکھنے والی چیز ہے جو اسی طرح مرغوب اور مطلوب ہے، جیسے مال مرغوب اور مطلوب ہوتا ہے، اس لیے (خاص حالات میں ) اپنی اس اہمیت کے اعتبار سے قرآن کی تعلیم بھی مال کے قائم مقام ہو سکتی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۴۵)۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مالی لین دین کے معاملات میں دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت فرمائی ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ فرما دیا۔ شاہ صاحب کے نزدیک یہ طریقہ بھی حکم کے اصل مقصد کے لحاظ سے درست اور تشریعی اصول کے مطابق ہے ۔ فرماتے ہیں کہ ایک عادل گواہ کے ساتھ اگر قسم شامل ہو جائے تو بھی مدعی کا دعویٰ موکد ہو جاتا ہے اور شہادات کے باب میں اس طرح کی توسیع ناگزیر ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۴۸)۔ شاہ صاحب کی مراد یہ ہے کہ ایک کے بجاے دو گواہ طلب کرنے کا مقصد بھی مدعی کے دعوے کو موکد بنانا ہے، پس اگر کسی مقدمے میں دو گواہ موجود نہ ہوں ، لیکن ایک عادل گواہ کے ساتھ قرائن سے قاضی کو مدعی کا سچا ہونا معلوم ہو رہا ہو تو دوسرے گواہ کی جگہ اس سے قسم لے کر اس کے دعوے کو موکد کر سکتا ہے اور اس قسم کے توسع سے کام لینا شریعت کے اصول تیسیر کا تقاضا بھی ہے۔

اسی کی ایک مثال تین طلاقوں کے بعدبیوی کو شوہر کے لیے حرام قرار دینے کا حکم ہے، تا آنکہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کے بعد اسے وہاں سے طلاق مل جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ دوسرے شوہر کے ساتھ محض عقد نکاح کافی نہیں ، بلکہ دونوں کے مابین زن وشو کا تعلق قائم ہونا بھی ضروری ہے۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں کہ یہ شر ط ا س پابندی کو موثر اور حقیقی بنانے کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی ہے، کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو لوگوں کے لیے یہ حیلہ اختیار کرنے کا راستہ کھل سکتا ہے کہ دوسرے شوہر سے نکاح کو ایک رسمی کارروائی بنا لیا اور عقد کے بعد اسی مجلس میں دوسرے شوہر سے طلاق لے لی جائے، جب کہ یہ طریقہ شریعت کی عائد کردہ تحدید کے مقصد کے خلاف ہے، کیونکہ شارع کی منشا یہ ہے کہ وہ عورت اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ حقیقتا میاں بیوی کے طور پر زندگی بسر کرنا شروع کر دے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۷۰)۔

بیوہ پر دوران عدت میں زیب وزینت سے اجتناب کی پابندی کا ماخذ بھی یہی تشریعی اصول ہے۔ چونکہ بیوہ کے لیے عدت مکمل ہونے تک انتظار کرنا لازم اور نکاح کی خواہش رکھنے والوں کو اس دوران میں اسے نکاح کا پیغام بھیجنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل مقصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیوہ کو زیب وزینت اختیار کرنے سے منع فرما دیا، کیونکہ زیب وزینت فریقین میں شہوت کو تحریک دینے کا موجب بنتی ہے، جب کہ عدت کے دوران میں اس کیفیت سے بچنا شریعت کا مقصودہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۷۸)۔

جزوی نصوص کی دلالت سے تعرض

شاہ صاحب کا منہج اس بحث میں ، جیسا کہ واضح کیا گیا، احکام شرعیہ کے مختلف اجزا کی تفہیم مصالح اورمقاصد کے کلی اور عمومی فریم ورک میں کرنے کا ہے اور وہ اسے قرآن اور سنت کے باہمی تعلق کے سوال کے بجاے تشریعی اصولوں اور مقاصد اور فروعی احکام اور نصوص کی باہمی مطابقت کے عمومی سوال کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ تاہم بعض مثالوں میں شاہ صاحب نے جزوی نصوص کی دلالت اور ان کے باہمی تعلق سے بھی کسی حد تک تعرض کیا ہے جس سے واقفیت اس بحث کے تناظر میں دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی۔

مثال کے طور پر شاہ صاحب کے نزدیک سرقہ پر قطع ید سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی بھی قیود و شرائط بیان فرمائی ہیں ، ان کی نوعیت عمل سرقہ کی توضیح وتنقیح کی اور اسے دوسرے کا مال ناحق لینے کی ان صورتوں سے ممتاز کرنے کی ہے جو اپنے اوصاف وخصائص کی بنیاد پر چوری سے مختلف ہیں ۔ لکھتے ہیں :

ومعلوم أن أخذ مال الغیر أقسام: منھا السرقۃ، ومنھا قطع الطریق، ومنھا الاختلاس، ومنھا الخیانۃ، ومنھا الالتقاط، ومنھا الغصب، ومنھا قلۃ المبالاۃ، وفي مثل ذلک ربما یسال النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن صورتہ ھل ھي من السرقۃ سوال مقال أو سوال حال، فیجب علیہ أن یبین حقیقۃ السرقۃ متمیزۃ عما یشارکھا بحیث یتضح حال کل فرد فرد … والسرقۃ تنبئ عن الأخذ خفیۃ، فضبط النبي صلی اللہ علیہ وسلم السرقۃ بربع دینار وثلاثۃ دراھم لیتمیز عن التافہ، وقال: ’’لیس علی خائن ولا منتھب ولا مختلس قطع‘‘، وقال: ’’لا قطع في ثمر معلق ولا في حریسۃ الجبل‘‘ لیشیر إلی اشتراط الحرز. (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۳۱۶- ۳۱۷)

’’یہ معلوم ہے کہ دوسرے کا مال لینے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ، مثلاً چوری، راہ زنی، سامان اچک لینا، خیانت کرنا، کسی کی گری ہوئی چیز اٹھا لینا، غصب کرنا اور (دوسرے کی چیز استعمال کرنے میں)  بے پروائی سے کام لینا۔ اس قسم کے معاملات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زبان قال یا زبان حال سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ کیا فلاں صورت چوری کے زمرے میں آتی ہے؟ چنانچہ آپ پر لازم تھا کہ آپ چوری کی حقیقت کو دوسرے کا مال لینے کی ملتی جلتی صورتوں سے اس طرح ممیز کر کے بیان فرمائیں کہ ہر ہر صورت کا حکم بالکل واضح ہو جائے۔ چوری دراصل کسی کا مال خفیہ طور پر اڑانے کو کہتے ہیں ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی چیز سے ممیز کرنے کے لیے یہ ضابطہ متعین فرمایا کہ چوری وہ شمار ہوگی جو چوتھائی دینار یا تین درہم کے برابر ہو۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ خیانت کرنے والے یا مال لوٹنے والے یا اچک لینے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ مزید فرمایا کہ درخت کے ساتھ لگے ہوئے پھل یا رسی کے ساتھ بندھا ہوا جانور لے جانے پر بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اس سے مقصود اس شرط کو واضح کرنا تھا کہ (قطع ید کے لیے) مال کو کسی محفوظ جگہ سے چرایا جانا ضروری ہے۔ ‘‘

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي‘ کے ظاہری عموم سے فقہاے احناف یہ استدلال کرتے ہیں کہ مسلمان سے غیر مسلم کا قصاص بھی لیا جائے گا، جب کہ جمہور فقہا آیت کے سیاق وسباق یا احادیث کی روشنی میں اس حکم کو غیر مسلم کے قتل سے غیر متعلق قرار دیتے ہیں ۔ شاہ صاحب اس آیت کی تعبیر عام راے سے مختلف انداز میں کرتے ہیں جس کے نتیجے میں احادیث میں وارد تخصیص قرآن کے ظاہر سے متعارض نہیں رہتی، بلکہ اس کا تقاضا بن جاتی ہے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ آیت میں ’كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ‘ کا مطلب یہ نہیں کہ مقتولوں کے بدلے میں قاتلوں کو قتل کرنا فرض ہے، بلکہ قصاص کا لفظ یہاں مقتولوں اور قاتلوں کے مابین برابری کو ملحوظ رکھنے کے معنی میں آیا ہے اور اس کے تحت آزاد آدمی کو صرف آزاد آدمی کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سنت میں اسی اصول کی رعایت سے قرار دیا گیا ہے کہ مسلمان کو کافر کے قصاص میں اور آزاد آدمی کو غلام کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ شاہ صاحب کی راے میں مسلمان سے غیر مسلم کا قصاص نہ لینا شریعت کے ایک دوسرے اصول اور مقصد کا تقاضا ہے اور وہ یہ ہے کہ دین حق کی شان کو بلند رکھا جائے جو اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا کہ مسلمان کو کافر پر فضیلت حاصل ہو اور دونوں کے ساتھ مساوی برتاؤ نہ کیا جائے۔ چونکہ کافر اصل میں مباح الدم ہے، اس لیے اس کو قتل کرنے کا گناہ بھی کم تر درجے کا ہے، اس لیے شریعت میں مسلمان پر اس کا قصاص بھی مشروع نہیں کیا گیا اور اس کی دیت بھی مسلمان سے نصف مقرر کی گئی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۰۵، ۴۱۱-  ۴۱۲)۔

حلال وحرام کے دائرے میں شاہ صاحب کے نزدیک شریعت نے پاکیزہ اور انسانی فطرت سے موافقت رکھنے والی چیزوں کو حلال اور فطرت انسانی کے منافی اوصاف رکھنے والی چیزوں کو حرام قرار دینے کا اصول اختیار کیا ہے اور طیبات وخبائث کی تعیین کے لیے دنیا کی متمدن اقوام کی عادات اور انبیا کی شریعتوں میں متفقہ طور پر چلے آنے والے قوانین کو بنیاد بنایا ہے۔ چنانچہ بندر، خنزیر، چوہے، درندے، چیل کوے، سانپ بچھو، حشرات الارض اور گدھے جیسے جانوروں کا گوشت شریعت میں حرام ٹھیرایا گیا ہے اور حلال جانوروں میں سے مردار کا گوشت کھانا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۸۳ -  ۴۹۴)۔ اس بحث میں قرآن مجید کی آیت ’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ‘ سے اشکال پیدا ہوتا ہے اور شاہ صاحب نے اس کی توجیہ یہ ذکر کی ہے کہ یہ اباحت علی الاطلاق ہر طرح کے جانوروں کے حوالے سے نہیں ، بلکہ ان خاص جانوروں کے تعلق سے بیان کی گئی ہے جنھیں اہل عرب حرام سمجھتے تھے، جب کہ شارع کی حکمت کے مطابق ان میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں پائی جاتی تھی (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۵۲۳)۔ گویا اس آیت کا موضوع حلت وحرمت کے باب میں کسی اصولی ضابطے کا یا حرام اشیا کی کسی حتمی فہرست کا بیان نہیں ، بلکہ بعض جانوروں کے حوالے سے اہل عرب میں رائج توہمات کا ازالہ ہے۔

أحلت لنا میتتان ودمان‘  کی حدیث بظاہر قرآن مجید میں خون اور مردار کی حرمت کے عام حکم کے معارض دکھائی دیتی ہے۔ تاہم شاہ صاحب واضح کرتے ہیں کہ مچھلی اور ٹڈی پر مردار کا اور جگر اور تلی پر خون کا اطلاق محض ظاہر کے لحاظ سے، یعنی مجازاً کیا گیا ہے، ورنہ حقیقت میں ان کو وہ خون اور وہ مردار نہیں کہا جا سکتا جس کی حرمت قرآن نے بیان کی ہے۔ جگر اور تلی دراصل حیوان کے جسم کے دو اعضا ہیں جو دیکھنے میں خون کے مشابہ لگتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلو سے ان کو خون کہہ دیا ہے، ورنہ حقیقت میں یہ گوشت کی قسم ہیں ۔ اسی طرح مردار اس جانور کو کہا جاتا ہے جس کو ذبح کر کے اس کا دم مسفوح نکالا جا سکتا ہو، جب کہ مچھلی اور ٹڈی میں دم مسفوح نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ذبح کرنا ممکن نہیں ۔ اس لیے جب مچھلی کو پانی سے نکال کر اور ٹڈی کو ضرب وغیرہ لگا کر مار دیا جائے تو ظاہری لحاظ سے ان پر مردار کا اطلاق کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ اطلاق محض مجازی ہے، کیونکہ ان کو ذبح کر کے ان کا خون نکالنا ممکن ہی نہیں  (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۹۲)۔

احادیث میں ذبح کیے جانے والے مادہ جانور کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچے کو حلال اور ماں کے ذبح کرنے کو بچے کی حلت کے لیے بھی کافی قرار دیا گیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اس کے ’میتہ‘ ہونے کی وجہ سے اس کی حلت تسلیم نہیں کرتے۔ تاہم شاہ ولی اللہ کی راے جمہور فقہا سے ہم آہنگ ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۹۸)۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب ایسے جنین پر ’میتہ‘ کے اطلاق کو قطعی نہیں سمجھتے، کیونکہ ماں کے پیٹ میں ہونے کی وجہ سے اس کی اپنی الگ کوئی حیثیت نہیں تھی۔ گویا اسے ماں ہی کے جسم کا ایک حصہ تصور کرنے میں عقلی وقیاسی طور پر کوئی مانع نہیں اور یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ ہدایت کو قرآن کے معارض کہنا بھی ممکن نہیں ۔

زنا کی سزا سے متعلق شاہ صاحب کی راے کا حاصل یہ ہے کہ کوڑے لگانے اور رجم کرنے، دونوں کا ماخذ قرآن مجید ہے۔ ہر قسم کے زانی کو سو کوڑے لگانے کی سزا سورۂ نور میں مذکور ہے، جب کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا حکم بھی سیدنا عمر کی روایت کے مطابق قرآن مجید میں نازل کیا گیا تھا۔ عبادہ بن صامت کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے لگانے کے ساتھ ساتھ ایک سال کے لیے جلاوطن بھی کیا جائے گا، جب کہ شادی شدہ زانی کو (آیت نو رکے مطابق) کوڑے لگانے کے ساتھ ساتھ (آیت رجم کے مطابق) رجم بھی کیا جائے گا۔ شاہ صاحب کی راے میں شادی شدہ زانی اصولاً ان دونوں سزاؤں کا حق دار ہے، تاہم چونکہ رجم کی سزا سنگین تر ہے اور اس کے نفاذ کی صورت میں کوڑے لگانے کی ضرورت نہیں رہتی، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملا ًایسے مقدمات میں صرف رجم کرنے پر اکتفا فرمائی۔ لیکن اصولی طورپر دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں او ر سیدنا علی نے بعض مقدمات میں اس پر عمل بھی کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہر مجرم کے ساتھ یہ معاملہ کیا جا سکتا ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا لازم اور کوڑوں کی سزا اختیاری ہے، البتہ غیر شادی شدہ کو کوڑے لگانا تو ضروری ہے، لیکن جلا وطن کرنے کی سزا معاف کی جا سکتی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۲۵ -  ۴۲۸)۔

زنا میں چار گواہوں کی شرط کے لیے شاہ صاحب بنیادی ماخذ قرآن مجید کی آیت کو قرار دیتے ہیں ، تاہم زہری کی روایت کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ عہد نبوی سے تعامل یہ چلا آ رہا ہے کہ حدود میں خواتین کی گواہی قبول نہ کی جائے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۴۷)۔ شاہ صاحب نے قرآن مجید کے مطلق حکم میں اس تقیید کی کوئی حکمت یا توجیہ بیان نہیں کی، لیکن قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ آیت کو صرف گواہوں کی تعداد کے حوالے سے ناطق سمجھتے ہیں ، جب کہ گواہوں کے دیگر اوصاف وشرائط سے ان کے خیال میں آیت میں تعرض نہیں کیا گیا۔

مختلف انفرادی احکام کی توجیہ کے علاوہ اسلوب عموم کی نوعیت اور تخصیص کے جواز کے حوالے سے شاہ صاحب کا اصولی موقف امام شافعی سے ہم آہنگ ہے اور وہ عموم کے اسلوب کو محتمل اور قابل تخصیص قرار دیتے ہوئے حنفی اصولیین کے موقف پر تنقید کرتے ہیں جو عام کی دلالت کو قطعیت کے اعتبار سے خاص کے مساوی قرار دیتے ہیں۔  شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ کوئی عام حکم ایسا نہیں جس میں کسی نہ کسی پہلو سے تخصیص نہ ہوئی ہو اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عام کے اسلوب سے حقیقتا عموم مراد نہیں ہوتا۔ چنانچہ شاہ صاحب کے نزدیک اصول یہ ہے کہ ہر عام حکم کی تعبیر مناسب تخصیصات ہی کی روشنی میں  کرنی چاہیے (الأصل في العمومات التخصیص بما یناسب)   اور شافعی اصولیین سے اتفاق کرتے ہوئے وہ دلیل تخصیص کے، اصل حکم کے ساتھ مقارن ہونے کو بھی ضروری تصور نہیں کرتے۔ اسی طرح وہ خاص کو قطعی اور غیر محتمل البیان قرار دے کر بعض احادیث کو قبول نہ کرنے نیز خبر واحد سے کتاب اللہ پر زیادت کو قبول نہ کرنے کے حوالے سے بھی احناف کے موقف کو درست نہیں سمجھتے۔1

حاصل بحث

اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ شاہ صاحب کے فریم ورک میں احکام وضع کرنے، ان کی قیود وشرائط متعین کرنے اور ان میں تخصیص واستثنا میں جزوی نصوص کا کردار اصل اور بنیادی نہیں ہوتا، بلکہ یہ عمل شریعت کے مقاصدو مصالح اور ان پر مبنی قواعد کے ایک کلی اور مجموعی تناظر میں ہوتا ہے اور جزوی نصوص، چاہے وہ قرآن میں وارد ہوں یا حدیث میں ، کسی مخصوص معاملے سے متعلق ان کلی مصالح کے مقتضا ہی کو اطلاق وانطباق کی سطح پر واضح کر رہی ہوتی ہیں ۔ اس زاویۂنظر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نصوص کے مابین تخصیص وتقیید کے تعلق کو سمجھنے کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے۔ شافعی اور حنفی نقطۂ نظر کے مطابق جزوی نصوص کو تعیین حکم میں اصل اور محور سمجھا جائے تو دلالت عموم کی نوعیت اور ا س میں کسی دوسری لفظی دلیل سے تخصیص کے جواز یا عدم جواز کا مسئلہ بہت اہم بن جاتا ہے، اس لیے کہ حکم کی تعیین اگر اصلاً کسی نص کے الفاظ سے ہوئی ہے اور اس میں عموم کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے تو پھر تخصیص یا تقیید میں دلالت الفاظ سے متعلق بنیادی سوالات سے تعرض کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ کے فریم ورک میں سوال کی نوعیت بالکل بدل جاتی ہے۔ اس کے مطابق بنیادی اہمیت اس کی نہیں کہ اصل حکم میں تخصیص کا قرینہ موجود ہے یا نہیں ، بلکہ اس کی ہے کہ شریعت کے مجموعی نظام میں کسی بھی حکم میں قیود عائد کرنے اور تخصیص یا استثنا پیدا کرنے کا جو ایک عمومی منہج ہے، آیا اس کی رو سے اس خاص حکم میں وہ تخصیص وتقیید بامعنی ہے یا نہیں جو حدیث میں بیان کی گئی ہے؟ اگر بامعنی ہے تو وہ پوری طرح قابل قبول ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو واضح کرنے کے لیے اصولاً سابقہ حکم میں موجود کسی قرینے یا کسی مستقل وحی کے محتاج نہیں تھے، بلکہ شریعت کے کلی مقاصد اور مصالح کا فہم حاصل ہونے کی وجہ سے خود اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ فرما سکتے تھے کہ فلاں حکم میں فلاں نوعیت کی تقییدات یا تخصیصات کو شامل کرنا شارع عزوجل کی منشا ہے۔

حواشی

۱۔ (اس حوالے سے شاہ صاحب کے موقف کی تفصیلی توضیح کے لیے دیکھیے: حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۴۲۱، ۴۵۹-  ۴۶۰۔ اصول فقہ اور شاہ ولی اللہ، ڈاکٹر مظہر بقا،  ۳۴۸- ۳۵۹، بقا پبلی کیشنز کراچی، اشاعت دوم ۱۹۸۶ء)

ہدایہ کی بے اصل احادیث اور مناظرانہ افراط وتفریط

مولانا محمد عبد اللہ شارق

( زیرِ ترتیب مقالہ ”احادیثِ ہدایہ ۔ فنی حیثیت اور غیر علمی رویے“ سے انتخاب)

تسامحات کی اقسام

  حدیث وروایت کے معاملہ میں الہدایہ کے مصنف مرغینانی سے جو تسامحات ہوئے ہیں، وہ کئی طرح کے ہیں اور ہمارے علم کے مطابق یہ تسامحات زیادہ نہیں، محض اکا دکا مقامات پر ہوئے:

(۱) بعض احادیث کے مضمون میں اضافہ ہوگیا۔ جیسے”ایما صبی حج عشر حج ثم بلغ فعلیہ حجۃ الاسلام“ یہ حدیث کتبِ حدیث میں موجود ہے، مگر اس میں ”عشر“ کا لفظ نہیں ہے، جس کے ہونے نہ ہونے سے بہرحال معنی اور مفہوم میں کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا۔(الدرایۃ۔ رقم۳۹۱)

(۲)حدیثِ مو قوف کو مرفوع لکھ دیا۔ چنانچہ انہوں نے ایک حدیث ”من ام قوما ....“ کو مرفوع لکھا جوکہ محدثین کے علم کے مطابق موقوف ہے اور ان کے ہاں یہ مرفوعا ثابت نہیں۔ (الدرایۃ۔ رقم ۲۱۴)

(۳) راوی کا نام درج کرنے میں چوک ہوگئی۔ (الدرایۃ۔ رقم ۱۶۶)

(۴) کہیں کہیں روایت بالمعنی کا ”ارتکاب“ کردیا۔

(۵) محدثین کے حوالہ سے کوئی بات نقل کرنے میں مغالطہ ہوگیا۔ مثلا انہوں نے ایک حدیث کے بارہ میں ابوداود کے حوالہ سے نقل کیا کہ انہوں نے اس کو ضیعف قرار دیا ہے، جبکہ بعد والوں کو سنن ابوداود میں ایسی کوئی بات کہیں نہیں مل پائی۔(الدرایۃ۔ رقم ۴۵)

(۶) بعض جگہ ضعیف حدیث سے استدلال کیا، ورنہ صحیح احادیث موجود تھیں۔

(۷) بعض ایسی احادیث سے انکار کردیا جو ان کے علم میں نہ تھیں یا پھر مستحضر نہ تھیں۔ (الدرایۃ۔ رقم۱٠۲۷)

(۸) بعض ایسی بے اصل احادیث بیان ہوگئیں جن کی کوئی سند محدثین کو نہ مل سکی اور نہ ہی کتبِ حدیث میں ان کا کوئی اتا پتہ ہے۔

بے اصل احادیث کی امثال

  یہاں چونکہ ہم بے اصل احادیث پر بطورِ خاص بات کررہے ہیں اور افراط وتفریط سے دوچار ہونے والے فریقین کے درمیان زیادہ موضوعِ بحث بھی الہدایہ کی ایسی ہی احادیث بنتی ہیں، اس لئے آخری نکتہ پر ہی ہم تفصیل سے بات کریں گے، جبکہ باقی نکات کے بارہ میں اتنا بتاتے چلیں کہ ایسے تسامحات کی مثالیں محدثین کے ہاں بھی اتنی مل جائیں گی کہ شاید ان کا احصاءمشکل ہوگا۔ سو اگر ان تسامحات کی بنیاد پر صاحبِ ہدایہ کی تحقیر وتذلیل درست ہے تو پھر محدثین کو کس ضابطہ کی رو سے ریلیف دیا جاسکے گا؟ افراط وتفریط کے رویوں پر بات کرنے سے قبل مناسب ہوگا کہ ہم یہاں پر ہدایہ میں مذکور بے اصل احادیث کی چند مثالیں بھی آپ کے سامنے رکھتے چلیں۔ الہدایہ کی کئی بے اصل احادیث ایسی ہیں جن کی کسی مکمل یا ادھوری سند کا کوئی اتہ پتہ اور کوئی سرا محدثین کو نہیں ملا، نہ تو روایت باللفظ کے درجہ میں اور نہ ہی روایت بالمعنی کے درجہ میں اور انہی کو ”بے اصل احادیث“ کہتے ہیں۔ ایسی دس ”احادیث“ بطورِ مثال ہم یہاں ذکر کرتے ہیں:

(۱)من صلی خلف عالم تقی فکانما صلی خلف نبی (الدرایۃ۔ رقم۲٠۱)

(۲) من ترک الاربع قبل الظہرلم تنلہ شفاعتی (الدرایۃ۔ رقم۲۶٠)

(۳) اخروہن (ای: النساء) من حیث اخرہن اللہ (الدرایۃ۔ رقم۲٠۹)

(۴) الرفع محمول علی الابتداء۔ کذا نقل عن ابن الزبیر (الدرایۃ۔ رقم۱۸٠)

(۵) لاترفع الایدی الا فی سبعۃ مواطن۔۔۔۔۔۔ (الدرایۃ۔ رقم۱۸٠)

(۶) فاوضوا فانہ اعظم للبرکۃ (الدرایۃ۔ رقم۷۵۵)

(۷) ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلس علی مرفقۃ حریر (الدرایۃ۔رقم۹۴۲)

(۸) صلوۃ النہار عجماء (الدرایۃ۔ رقم ۱۹۳)

(۹) ثلاث جدہن جد، النکاح والطلاق والیمین (الدرایۃ۔ رقم۶۲۷)

(۱۰) قال فی خبیب: سید الشہداءورفیقی فی الجنۃ (الدرایۃ۔ رقم ۸۸٠)

اینٹی احناف مصنفین کا رویہ

  بر صغیر کے جوشیلے انیٹی احناف مصفنین صاحبِ ہدایہ کے ان تسامحات کو کیا رنگ دیتے ہیں، کیسے ان تسامحات کی بنیاد پر صاحبِ ہدایہ کی شخصیت کا مثلہ تک کردیتے ہیں اور کس طرح مناظرانہ حاشیہ آرائی کے جوش میں علمی آداب وقرائن کو یکسر نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں، اس کا اندازہ کرنے کے لیے اپنے حلقہ کے ایک ذمہ دار مصنف مولانا محمد جوناگڑھی کے جملوں کا ایک انتخاب ملاحظہ کیجئے جو ان کی کتاب ”درایتِ محمدی“ سے اخذ کیا گیا ہے، واضح رہے کہ یہ سب جملے من وعن انہی کے الفاظ پر مشتمل ہیں:

 ”صاحبِ ہدایہ نے بڑی دلیری کی ہے کہ اپنا مذہب ثابت کرنے کے لئے حدیثِ رسول میں اضافہ کردیا۔(درایتِ محمدی۔ صفحہ۳۵) یہ اضافہ ان کا گھریلو جملہ ہے جو کسی حدیث کی کتاب میں نہیں۔ (صفحہ۳۴)حنفی مذہب ثابت کرنے کے لئے ٹھیکیدار مذہبِ حنفی صاحبِ ہدایہ بڑا زور لگاتے ہیں، ضعیف احادیث پیش کرتے ہیں اور پھر ان میں بھی اضافے کرتے ہیں(۳۵، ۳۶)محبانِ رسول اس تہمت کو قطعا برداشت نہیں کرسکتے۔ (صفحہ۳۶)علامہ موصوف نے ایک حدیث میں ایک ایسا لفظ بڑھا دیاکہ دونوں مطلب نکل آئے۔ شافعی مذہب اڑ گیا، حنفی مذہب جم گیا۔ اور فتح مندی کا سہرا سر پر بندھ گیا۔ گو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا بڑا جرم ہے، لیکن مذہب کی پاسداری بھی عجیب چیز ہے جو انسان کے دل میں سوائے اس کی وقعت کے جس کا مذہب مانتا ہے، کسی اور کو باوقعت رہنے ہی نہیں دیتی۔ (۳۶)یہ مصنف صاحب کا کارخانہ ساز لفظ ہے۔ (۳۸) انہوں نے اپنے قول کو قولِ پیغمبر کہا ہے۔ (۳۸)ضرورت تھی کہ شافعی مذہب کی جڑیں کھودی جائیں، اس لیے ایک حدیث میں یہ جملہ بڑھا دیا۔ (۴٠) سوائے ہدایہ شریف کے حدیث کی کسی اور کتاب میں تو یہ الفاظ نہیں ہیں، ہاں اگر مصنف ہدایہ ہی کو نبی مان لیا جائے پھر تو سارا ہدایہ ہی حدیث ہے۔ (۳۹) پوری کی پوری حدیث گھڑ لی (۴۲) یہ خاص مصنف کے گھریلو اور من گھڑت الفاظ ہیں (۵۲) کسی کے بیٹے کو دوسرے کا بیٹا کہنا بڑا پاپ ہے، اسی طرح ایک کی بات کو دوسرے کی طرف منسوب کرنا بھی ایک شرمناک علمی غلطی ہے۔ پھر غیر نبی کی باتو ں کو نبی کی باتیں کہنا صریح ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن علامہ مصنف نے بے کھٹکے موقوف روایت کو مرفوع حدیث کہہ دیا (۵۹) ابراہیم نخعی کے قول کو رسول اللہ کا قول کہنا یا تو یہ معنی رکھتا ہے کہ ابراہیم نخعی بھی رسول اللہ تھے یا یہ کہ امام ابو حنیفہ کی رائے کے ثبوت کے لئے یہ جائز ہے کہ رسول اللہ کی نہ کہی بات کو ہم رسول اللہ کی بات کہہ دیں(۶٠) مصنف صاحب جانتے ہیں کہ میری یہ کتاب مقلد پڑھیں گے جنہیں قرآن وحدیث ٹٹولنا کہاں نصیب ہوگا۔ جو ہم کہیں گے وہ پتھی کی لکیر ہوگی، بس اس ہمت پر جو چاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں اور جس کا چاہتے ہیں نام لے دیتے ہیں۔ (۴۱)“

مقلدین کو قرآن وحدیث ٹٹولنا نصیب ہوا؟

  مصنف کہتے ہیں کہ مقلدین کو قرآن وحدیث ٹٹولنا کہاں نصیب ہوگا، سو اطلاعا عرض ہے کہ مقلدین کو قرآن وحدیث ٹٹولنا نصیب ہوا ہے۔ چنانچہ کئی حنفی مقلدین نے ہی ”الہدایہ“ کی احادیث کی تخریج لکھی ، علم الاسناد کے اصولوں پر ان کو پرکھا، تسامحات کی توضیح کی، نیز تنقیح وتخریج کا یہ سارا کام خود مرغینانی ہی کے منہج فکر کے مطابق اور گویا ایک معنی میں انہی کی رضامندی سے ہوا کیونکہ ہم جان چکے ہیں کہ وہ خود بھی اپنے پیش روﺅں کی احادیث کو اسی اصول پر پرکھتے رہے ہیں اور وہ اس معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار نہ تھے۔ پچھلے ہمیشہ پہلوں کے علمی تسامحات کو نشان زد کرتے رہے ہیں، یہ کوئی حیرت کی بات نہیں اور نہ ہی اس معاملہ میں غیر ضروری عقیدت یا مخالفانہ عصبیت کو ہوا دینے کی ضرورت ہے۔ احناف کے محدثین نے جس طرح الہدایہ کی احادیث کی تخریجات لکھی ہیں اور جس طرح بے اصل احادیث کو نشان زد کیا، جوشیلے اینٹی احناف مصنفین کو بھی اس کی اچھی طرح خبر ہے۔ چنانچہ مرغینانی کے مختلف تسامحات پر نکتہ چینی کرتے ہوئے یہ خود ہی حنفی علماءکے حوالے بھی دیتے رہتے ہیں کہ دیکھئے ، کیسے ایک حنفی عالم ہی احادیثِ ہدایہ پر (علمی انداز میں)ناقدانہ کلام کررہا ہے، لیکن افسوس کہ خود اسی پہلو پر غور کرتے ہوئے اپنے افراط کو اعتدال میں بدلنے کے لئے کوئی محنت نہیں کرتے۔

کیا تساہل اور افتراءہم معنی ہیں؟

  ”درایتِ محمدی“ سے لیے گئے گذشتہ اقتباس کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ مصنف مذکور کے نزدیک مرغینانی مفتری، کذاب اور واضع الحدیث ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹی احادیث اپنے دل میں بیٹھ کر جوڑتے تھے، جبکہ ثبوت اس کا صرف یہی ہے کہ ان کی کتاب میں چند بے اصل احادیث آگئی ہیں۔ چنانچہ یہ خیالات صرف ایک محمد جوناگڑھی صاحب کے نہیں، اسی طبقہ  فکر کے مولانا وحید الزمان خان نے ”تنقید الہدایہ“ میں اور محمد یوسف جے پوری نے ”حقیقۃ الفقہ“ میں بھی چند بے اصل احادیث کی بناءپر صاحبِ ہدایہ کے لئے ”افتراء“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے معاصر حافظ ارشاد الحق اثری تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ (دیکھئے ان کی کتاب: احادیثِ ہدایہ کی فنی وتحقیقی حیثیت۔ صفحہ۱۸)

  یہاں میں ایک سادہ سا سوال ان حضرات کے سامنے رکھتا ہوں کہ کیا محض اس بنیاد پر کسی کومکمل وثوق کے ساتھ ”واضع الحدیث“  کہا جاسکتا ہے کہ اس کی کتاب میں چند غیر معتبر اور بے اصل احادیث بغیر تصریح کے آگئی ہیں؟ (واضح رہے کہ کسی کو مکمل وثوق کے ساتھ ”واضع الحدیث“  کہنا تقریبا اس کو دائرہ ایمان سے خارج کرنے کے مترادف ہے) اگر ان کا جواب اثبات میں ہے تو پھر کیا وہ ابنِ قیم، ابنِ جوزی، شوکانی، ذہبی، امام شافعی، ابن عبدالبر اور سیوطی کو بھی کذاب اور ”واضع الحدیث“ کہیں گے جن کی کتابوں میں موضوع، بے اصل اور غیر معتبر احادیث بغیر کسی سند اور صراحت کے موجود ہیں،جیساکہ ہم مقالہ کی ابتداءمیں اس کی تفصیل عرض کرچکے ہیں۔

اینٹی احناف مصنف اور مولانا عبد الحی لکھنوی

  اہلِ علم کے تسامح کو تسامح اور تساہل پر محمول کرنے کی بجائے اسے ان کی ”دین دشمنی“ پر محمول کرنا اور یہ سمجھنا کہ وہ دین کے حلیہ کو جان بوجھ کر بگاڑنا چاہتے تھے، شاید اِس حلقہ کے جوشیلے مصنفین کا یہی وہ رویہ ہے جسے دیکھتے ہوئے مولانا عبد الحی لکھنوی فرنگی محلی جیسے نہایت معتدل حنفی نے بھی ان کے لیے بہت سخت الفاظ استعمال کیے ہیں، واضح رہے کہ مولانا عبد الحی لکھنوی ایک جید حنفی عالم ہیں، وہ تقلیدِ جامد کے سخت خلاف ہیں اور حنفی ہونے وکہلانے کے باوجود انہوں نے بے شمار مسائل میں اپنے ہی امام سے برملا اختلاف کیا ہے اور ان کے انہی اختلافات کو لے کر اینٹی احناف مصنفین عمومی حنفیوں کو چھیڑتے بھی رہتے ہیں، نیز مولانا ارشاد الحق اثری نے ایک کتابچہ ”مسلکِ احناف اور مولانا عبد الحی لکھنوی“ میں ان تمام اختلافات کو بڑی عرق ریزی سے جمع کردیا ہے جس پہ وہ بجا طور پر مستحقِ تبریک ہیں، مگر کیا وہ جانتے ہیں کہ مولانا فرنگی محلی نے خود ان کے طبقہ کے غیر عالمانہ رویوں کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے کتنے شدید الفاظ استعمال کیے ہیں، اگر نہیں تو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں، مگر اس وضاحت کے ساتھ کہ ہماری حیثیت یہاں پر صرف ناقل کی ہے اور ذاتی طور پر ہم خود اتنے شدید تبصرہ کے حق میں نہیں۔ مولانا لکھنوی لکھتے ہیں کہ یہ نیچریوں کے چھوٹے بھائی اور نیچریت کے بعد مسلمانانِ ہند کے لیے دوسرا بڑا فتنہ ہیں، ان کے الفاظ ہیں:

”واخوانہم (ای: النیاشرہ) الاصاغر المشہورین بغیر المقلدین الذین سموا انفسہم باہل الحدیث وشتان مابینہم وبین اہل الحدیث شاع فی جمیع بلاد الہند وبعض بلاد غیر الہند فخربت بہ البلاد ووقع النزاع والعناد“ (الآثار المرفوعۃ۔ صفحہ۶)

نیز اس سے ملتی جلتی ایک عبارت ان کی کتاب ”امام الکلام فی القراءۃ خلف الامام“ کے آغاز میں بھی موجود ہے۔

  واللہ ہم خود حیران ہیں کہ مولانا لکھنوی نے یہ اتنی غیر معمولی اور مبالغہ آمیز بات کیسے لکھ دی، جبکہ ان کا اعتدال ضرب المثل ہے؟ کیا یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ اینٹی احناف حضرات کچھ فروعی مسائل میں احناف سے اختلاف کرتے ہیں؟ نہیں، حنفیوں سے اختلاف تو خود فرنگی محلی نے بھی بہت سے مسائل میں کیا ہے، پھر دوسروں سے کیا شکوہ؟ ہمارا خیال ہے کہ مولانا کی حسیات میں یہ تیزی فقط ان رویوں کو دیکھ کر پیدا ہوئی کہ اینٹی احناف حضرات کے یہاں محض دوسروں سے اختلاف ہی نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ فروعی مسائل میں مختلف رائے رکھنے والوں کے بارہ میں یوں تاثر دیا جاتا ہے کہ شاید وہ دین کے دشمن ہیں اور قصدا وعمدا غیر صحیح آراءاختیار کرکے دین کا حلیہ بگاڑنا چاہتے ہیں، ظاہر ہے کہ فروعی مسائل میں ہونے والے اختلاف کو اگر یہ رنگ دیا جائے تو پھر احناف کو چھوڑیے، کیا سلف وخلف میں سے کوئی بھی آدمی ہماری بدگمانی کی تلوار سے بچ سکے گا اور کیا یہ بدگمانی امت کی دینی صحت کے لیے درست ہے؟ تقلیدِ جامد کے رویوں پر تنقید ہونی چاہئے اور اس حوالہ سے لوگوں کی ذہن سازی کے لیے اینٹی احناف طبقہ کے بھی کسی قدر مثبت کردار کا اعتراف کرنا چاہئے، مگر دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ فروعی اختلافات اور اہلِ علم کے تسامحات کو لے کر طعن وتشنیع کا توپ خانہ کھول لینا قطعا درست نہیں اور یہ اسلاف ومحدثین کے نہج کے خلاف ہے۔

خوش گمانی کے غلو پر مبنی رویہ

  پہلا رویہ اگر مخالفانہ عصبیت پرمبنی تھا تو یہ دوسرا رویہ غیر ضروری حد تک بڑھے ہوئے جوشِ عقیدت کا نتیجہ ہے اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیساکہ بعض لوگ جوشِ عقیدت میں اور اپنی کم علمی کی بناءپر غزالی کی احیاءالعلوم وغیرہ میں مذکور احادیث کو صرف اس وجہ سے سندِ قبولیت دینا چاہتے ہیں کہ غزالی بہت بڑے عالم تھے اور یقینا چھانٹ پھٹک کرکے ہی انہوں نے یہ احادیث نقل کی ہوں گی۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ احادیثِ ہدایہ کے معاملہ میں ہمارے ہاں کے بہت سے احناف خاصی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، انہیں محض حسنِ ظن کی بناءپر بغیر سند کے سندِ قبولیت عطا کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے عجیب وغریب تاویلات بیان کی جاتی ہیں۔ حالانکہ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ احادیثِ ہدایہ علمی نقد ونظر سے بالا تر نہیں اور یہ کہ جن علماءنے ہدایہ میں مذکور روایات کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ علم الاسناد کی کسوٹی پر تولا ہے، ان میں اکثریت خود حنفی علماءاور شارحین کی ہے، مثلا علامہ زیلعی، عینی، ابن الہمام، عبدالقادر القرشی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، قاسم بن قطلوبغا اور مولانا عبدالحی لکھنوی وغیرہ کے ناموں پر آپ غور کرسکتے ہیں، جن کی عبارات وتخریجات کا ایک مفصل تعارفی اشاریہ ہم سابقہ سطور میں عرض کرچکے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ خصوصا ہندوستانی احناف حدیث کے باب میں عمومی طور پر دوسروں کی تو کیا، خود اپنے محدثین کی بھی ٹھیک طرح قدر نہیں کرپائے۔

  مولانا عبدالحی نے اپنی کتابوں میں جہاں احادیثِ ہدایہ پر کلام کیا ہے، وہاں بعض حنفیوں کی اس حساسیت کا بھی ذکر کیا ہے اور ان کی اس طرح کی عبارات کا ایک اشاریہ گذشتہ سطور میں گذر چکا ہے۔ اسی طرح شیخ عبد الفتاح ابوغدۃ نے جو اپنی تصانیف میں مذکورہ رویہ پر بار بار تنقید کی ہے، وہ بھی غالبا اسی تناظر میں ہے۔ پہلے مذکور غیر علمی رویہ کی طرح یہ رویہ بھی اپنے حلقہ کے بعض ذمہ دار مصنفین کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے اور اسی وجہ سے اِس رویہ کو بھی زیرِ بحث لانے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ تاہم یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ استدلال کی کم زوری کے باوجود اس حلقہ کے لب ولہجہ میں ہمیں فریقِ اول کی طرح کی کوئی ناشائستگی بہرحال نظر نہیں آئی۔ لہجہ کی شائستگی کا اندازہ کرنے کے لیے ایک معروف حنفی مصنف مولانا عبد القیوم حقانی کا اقتباس ملاحظہ کیجئے، وہ لکھتے ہیں:

”صاحبِ ہدایہ نے متقدمین ائمہ پر اعتماد کرتے ہوئے ا ن کی روایات کو اپنی تصنیف میں جگہ دی ہے۔ بعد میں فتنہ  تاتار میں متقدمین کا علمی سرمایہ بہت کچھ ضائع ہوگیا اور بہت سی کتابیں جو پہلے متداول تھیں، اب فتنہ میں بالکل معدوم ہوگئیں۔ اب اربابِ تخریج نے ان روایات کو متقدمین ائمہ کی تصانیف میں تلاش کرنے کی بجائے ان کتابوں میں تلاش کیا ہے جو ان کے عہد میں تھیں،  اسی لیے ان کو متعدد روایات کے متعلق یہ کہنا پڑا کہ یہ روایت حافظ زیلعی اور حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ مخرجینِ احادیث ہدایہ بصراحت لکھتے ہیں کہ ہم کو نہ مل سکیں، حالانکہ وہ روایات کتاب الآثار اور مبسوط امام محمد وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ کچھ ہدایہ ہی کی خصوصیت نہیں، خود صحیح البخاری کی تعلیقات میں بھی بہت سی ایسی روایتیں موجود ہیں جن کے بارہ میں حافظ ابنِ حجر نے یہی تصریح کی ہے جس کی اصل وجہ وہی متقدمین کی کتابوں کا فقدان ہے، ورنہ امام بخاری یا صاحبِ ہدایہ کی شان اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ ان کے متعلق کسی نے بے اصل روایت بیان کرنے کا شبہ بھی ظاہرکیا ہو۔“ (ہدایہ اور صاحبِ ہدایہ۔ صفحہ۵۷، ۵۸)

عبارت میں ابہام

  واضح رہے کہ ہم نے مولانا حقانی کا یہ اقتباس صرف لہجہ کی شائستگی کو واضح کرنے کے لیے دیا ہے، ورنہ مولانا حقانی کی عبارت مبہم ہے کہ آیا وہ امکانات اور حسنِ ظن کی بنیاد پر صاحبِ ہدایہ کا حقِ احترام محفوظ رکھوانا چاہتے ہیں یا پھر ان امکانات کے زور پر ہدایہ کی بے اصل احادیث کو نقد ونظر سے ماوراءبھی ٹھہرانا چاہتے ہیں، تاہم انہوں نے جس طرح ہدایہ کی بے اصل احادیث کو تعلیقاتِ بخاری پر قیاس کیا ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف صاحبِ ہدایہ کے ساتھ حسنِ ظن کا تقاضا ہی نہیں کر رہے، بلکہ ان کی نقل کردہ بے اصل روایات کو بے اصل کہنا بھی درست نہیں سمجھتے ہیں اور ہم مولانا حقانی کا تمام تر احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس معاملہ میں ان سے اختلاف کی جسارت کرتے ہیں۔ ہم اپنے مقالہ میں اہلِ علم کے حوالہ سے بہت تفصیل کے ساتھ عرض کرچکے ہیں کہ بعض بے اصل احادیث کا کسی کی کتاب میں مذکور ہوجانا جیسے اسے تہمت زدہ نہیں بنا دیتا کہ اس نے خود یہ احادیث وضع کی ہیں، اسی طرح یہ تساہل اس کی علمی ثقاہت کے خلاف بھی نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا صرف مرغینانی کے ساتھ نہیں ہوا، بلکہ ابن قیم، ابن ِ جوزی اور شافعی جیسی قد آور شخصیات کے ہاں بھی اس طرح کے تساہل کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ لہذا تساہل کی ایسی کوئی مثال سامنے آنے پر مصنف کے معتقدین کو پریشان نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کی علمی ثقاہت کو تحفظ دینے کے لیے کوئی غیر علمی رویہ اپنانا چاہئے کیونکہ اس نوعیت کے تساہل سے اگر کسی کی ثقاہت متاثر ہونے لگے تو پھر ہمیں سب سے پہلے ان محدثین سے ہاتھ دھونے پڑیں گے جن سے یہ تساہل ہوا اور جن کی تفصیل گذشتہ سطور میں گذر چکی ہے۔ خصوصا مرغینانی کی احادیث کو محض حسنِ ظن کی بناءپر قبول کرنا تو خود ان کے اپنے منہج سے انحراف ہے جسے قبل ازیں بیان کیا جاچکا ہے۔

  مختصرا دوبارہ کہہ دیتے ہیں کہ بے اصل روایات میں دو امکانات ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ مصنف سے تساہل ہوا ہو اور وہ ان روایات کی اسنادی پوزیشن پر کماحقہ نظر نہ ڈال سکا ہو یا پھر یہ کہ وہ روایات کسی ایسی کتاب اور سند کے ذریعہ اس تک پہنچی ہوں جو حوادثِ زمانہ کی نذر ہوگئی ہو، سو اصحاب الحدیث اور سنجیدہ علماءکا مزاج یہ رہا ہے کہ وہ ایسی روایات پر کلام کرتے ہوئے ان دونوں امکانات کو مدِ نظر رکھتے ہیں، وہ ایک طرف ناقل مصنف کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ان روایات کو علم الاسناد کی کسوٹی پر تولنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ اگر روایات کو محض حسنِ ظن کے زور پر قبول کرنا شروع کردیا جائے اور حسنِ ظن ہی کو اساس ٹھہرایاجائے تو پھر علم الاسناد کی کوئی وجہِ جواز باقی نہیں رہتی۔ جس طرح سلف حسنِ ظن کی بجائے علم الاسناد کی کسوٹی پر روایات کو تولتے رہے، اسی طرح خلف نے سلف کی روایات کو بھی تولا ہے اور کسی روایت کی صحت وضعف کا واحد دائمی معیار علم الاسناد ہی رہا ہے۔ اسلاف کی علمی روایت کے مداح اور ترجمان معاصرین میں اب یہ اعتدال کی شان نظر نہیں آتی، وہ یا تو حسنِ ظن کی بناءپر بے اصل احادیث کو مقبول ٹھہرادیتے ہیں اور بشری تساہل کے امکان کو نظر انداز کردیتے ہیں، یا پھر بدگمانی کے زور پر بات کو اس حد تک لے جاتے ہیں کہ جس مصنف کی کتاب میں یہ بشری تساہل ہوا، وہ خود ہی مفتری اور کذاب ہے، جبکہ حسنِ ظن کے پہلو کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں۔

تعلیقاتِ بخاری اور بلاغاتِ مالک وغیرہ پر قیاس

  رہی بات احادیثِ ہدایہ کو ”تعلیقاتِ بخاری“ پر قیاس کرنے کی تو تعلیقاتِ بخاری کے ساتھ ہم یہاں ”بلاغاتِ مالک“ اور ترمذی کے ”وفی الباب“ کوبھی شامل کرلیتے ہیں کیونکہ بعض لوگوں کے لئے یہ بھی مغالطہ کا باعث بنتے ہیں اور احادیثِ ہدایہ کو وہ ان پر بھی قیاس کرتے ہیں۔صحیح البخاری میں بعض روایات بغیر سند کے یا نامکمل سند کے ساتھ موجود ہیں جنہیں ”تعلیقاتِ بخاری“ کہا جاتاہے، اسی طرح موطا امام مالک میں بھی کچھ روایات بغیر سند کے موجود ہیں جنہیں ”بلاغاتِ مالک“ کہا جاتا ہے، نیز جامع الترمذی میں بھی اکثر وبیشتر ”وفی الباب“ کے تحت کسی ایسی روایت کی دیگر سندوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جس کی ایک مکمل سند خود امام ترمذی چند سطور قبل درج کرچکے ہوتے ہیں، تاہم ”وفی الباب“کے تحت وہ اس روایت کی باقی سندوں میں سے صرف صحابہ کے نام ذکر کرتے ہیں اور طوالت سے بچنے کے لیے پوری اسناد ذکر نہیں کرتے۔ان میں سے کسی کے بارہ میں بھی یہ سمجھنا کہ یہ سب بغیر سند کے ایسے ہی مقبول ہیں جیساکہ مکمل سند والی احادیث ہوتی ہیں اور پھر ہدایہ کی بے اصل احادیث کو بھی ان پر قیاس کرنا، ناواقفیت ہے۔ ذیل میں ترتیب وار ان کی تفصیل دی گئی ہے:

  امام بخاری نے التزام کیا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف صحیح احادیث درج کریں گے۔ نیز سند کے ساتھ انہوں نے جو احادیث بیان کی ہیں، وہ گواہی دیتی ہیں کہ انہوں نے اپنا یہ التزام اور وعدہ مکمل طور پر نبھایا بھی ہے۔ نیز ان کی بہت ساری تعلیقات ایسی ہیں جنہیں وہ خود دوسرے مقام پر مکمل سند کے ساتھ بیان کردیتے ہیں یا پھر کسی اور کتاب میں اس کی مکمل سند مل جاتی ہے اور وہ بھی صحیح ہوتی ہے۔ امام بخاری کی احتیاط، ایفائے عہد اور ان مذکور قرائن کو دیکھتے ہوئے بعض علماءنے ان کی ”تعلیقات“ کو بھی مجموعی طور پر”صحیح“ فرض کیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان حضرات کے نزدیک بھی ان کا وہ درجہ نہیں جو صحیح البخاری کی سند والی یعنی ”مسند“ احادیث کا ہے۔ جبکہ بعض علماءتو ان سب تعلیقات کو مجموعی طور پر ”صحیح“ ہی نہیں سمجھتے، بلکہ کچھ اضافی قرائن کی روشنی میں ان کی تعلیقات کی صحت کو جانچتے ہیں۔ (کوثر النبی، مولانا عبدالعزیز پرہاروی۔ صفحہ۲۲) لہذا یہ بات واضح ہوگئی کہ ”صحیح البخاری“ اپنی تمام تر قدرومنزلت کے باوجود بھی علم الاسناد کی نقد وپرکھ سے مستثنی نہیں۔ اس کی تعلیقات کو مطلقا قبول کرنے کے اضافی شواہد وقرائن موجود ہیں، مگر اس کے باوجود بعض محدثین ان کو مطلقا قبول نہیں کرتے اور ان کا یہ اختلاف ریکارڈ پر ہے، جبکہ جو کرتے ہیں تو وہ بھی ان کو خود بخاری ہی کی ”مسند احادیث“ کے برابر نہیں سمجھتے۔ اب ”الہدایہ“ کی بے سند احادیث کے لئے بھی اگر کچھ قرائنِ قبولیت کسی بھی درجہ میں موجود ہوتے تو کم ازکم حنفی ناقدین ومحدثین میں سے ہی کوئی نہ کوئی ان کا ضرور ذکر کرتا اور وہ متفقہ طور پر انہیں نقد وجرح کا موضوع نہ بنا رہے ہوتے۔

  بلاغاتِ مالک کے لیے بھی قرائنِ قبولیت موجود ہیں، مثلا سفیان ثوری کا قول ہے کہ امام مالک جب کسی حدیث کے ساتھ ”بلغنی“ (بلاغت) کا اسلوب اختیار کریں تو فی الواقع اس کی صحیح سند موجود ہوتی ہے۔ (اوجزالمسالک۔ جلد۱، صفحہ۳۱۷)لیکن اس کے باوجودامام مالک کے ہی پیروکار ابن عبدالبر نے ضرورت محسوس کرتے ہوئے”بلاغاتِ مالک“ کی تخریج کی ہے جن کی تعداد اکسٹھ (۶۱) تک پہنچتی ہے۔ ستاون (۵۷) بلاغات کی تخریج میں وہ کامیاب ہوگئے، جبکہ چار احادیث کے بارہ میں انہوں نے برملا لاعلمی کا اظہار کیاجن کے نمبر ہیں: ۳۳۱، ۴۵۶، ۱۱۴۵، ۳۳۵٠۔پھر ان میں سے بھی تیسری روایت کے ساتھ امام مالک کے صریح الفاظ موجود ہیں کہ مجھے یہ روایت ثقہ اور معتبر راویوں کے ذریعہ پہنچی ہے، خواہ انہوں نے ان کے نام ذکر نہیں کئے، جبکہ دوسری حدیث کی تخریج بھی ابنِ عبدالبر کے علاوہ بعض دیگر حضرات نے کسی درجہ میں کردی ہے۔(اوجزالمسالک۔ جلد۲، صفحہ ۳۲۳) باقی رہ گئی چوتھی اور پہلی حدیث تو اگرچہ بلفظہ ان کی تخریج نہیں ہوسکی، مگر روایت بالمعنی کے درجہ میں ان کی سند بھی موجود ہے۔ (اوجزالمسالک۔ جلد۶، صفحہ ۱۷٠، ۱۷۱۔ جلد۱، صفحہ ۳۱۷) اب الہدایہ کی احادیث کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اگر کسی حدیث کی تخریج میں محدثین کسی بھی درجہ میں کامیاب ہوگئے تو اسے قبول کیا گیا ہے لیکن جو سراسر بے اصل ہیں تو انہیں آخر ”موطا“ کی کون سی احادیث پر قیاس کرتے ہوئے سندِ قبولیت بخشی جاسکتی ہے؟

  باقی رہا ”جامع الترمذی“ کے ”وفی الباب“ کامعاملہ تو اس کی نوعیت یہ ہے کہ امام ترمذی ہر باب میں کم از کم ایک روایت مقدور بھر مکمل سند کے ساتھ لکھتے ہیں، بعد ازاں اسی باب میں ”وفی الباب“ کے عنوان کے تحت ان تمام صحابہ کے نام جمع کرتے ہیں جن سے وہ حدیث مروی ہوتی ہے ، لیکن طوالت سے بچنے کے لئے ہر صحابی تک اپنی مکمل سند ذکر نہیں کرتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ”نفسِ حدیث“ پر کوئی ضعیف اثر نہیں پڑتا، بلکہ کسی درجہ میں اس کی مزید تائید ہی ہوجاتی ہے۔ ترمذی نہ تو کسی روایت کو بغیر سند کے نقل کرتے ہیں اور نہ ہی کسی نے ان کی روایات کو بغیر سند کے قبول کرنے کی بات کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہدایہ کی بے اصل احادیث کو ان کے ساتھ جوڑتے ہوئے سندِ قبولیت عطا کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

حسنِ ظن کا دائرہ کار اور محدثین کا اعتدال

  باقی اس میں شک نہیں کہ ہم ہدایہ کی جن احادیث کو تساہل پر محمول کررہے ہیں، ضروری نہیں کہ ان میں واقعی مصنف سے ہی تساہل ہوا ہو، بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ ان کے پاس اس کی صحیح سند کا کوئی حوالہ موجود رہا ہو اور تخریج کرنے والے اصحابِ علم سے ہی تحقیق وتفتیش میں کوئی کمی رہ گئی ہو، چنانچہ ہدایہ کی ایسی کئی احادیث ہیں جن کو بعض اصحابِ تخریج نے بے اصل قرار دیا، مگر قاسم بن قطلوبغا نے اپنی تصنیف ”منیۃ الالمعی“ میں ان کی تخریج کردی۔ ہم اس امکان اور حسنِ ظن کے قائل ہیں اور یہ خود محدثین ہی کے منہج کے عین مطابق ہے۔ علامہ ابراہیم بن حسن الکورانی الشافعی نے المسلک الوسط الدانی الی الدرر الملتقط للصنعانی کے ابتدائی دو صفحوں میں اس پہلو پر بڑی نفیس گفتگو کی ہے۔ وہ امام سیوطی کے توسط سے نقل کرتے ہیں کہ سے ان احادیث کے بارہ میں سوال کیا گیا جن کو شوافع کے ائمہ اور احناف کے ائمہ اپنی فقہ کی کتابوں میں نقل کرتے ہیں اور کتبِ حدیث میں ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ملتاتو انہوں نے جواب دیا کہ عین ممکن ہے کہ ان ائمہ کے پاس ان احادیث کی کچھ اسناد موجود رہی ہوں جو ہم تک نہ پہنچ سکی ہوں۔“ (صفحہ۲)

  تاہم یہ محض ایک امکان ہے اور محض اس امکان کے زور پر کسی حدیث کی توثیق نہیں کی جاسکتی چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خود ابنِ حجر، سیوطی اور کورانی نے ہی حسنِ ظن اختیار رکھنے کے ساتھ ساتھ، دوسری طرف کئی ایسی احادیث کو اپنی کتابوں میں نشان زد بھی کیا ہے جن کی تخریج وہ نہیں کرپائے تاکہ لوگوں کو ان پر متنبہ کیا جاسکے، لیکن ان کو صاف صاف جھوٹ ومن گھڑت قرار دینے کی بجائے وہ ذومعنی الفاظ اختیار کرتے ہیں جو اعتدال کا مرقع ہوتے ہیں اور جو حدیث کی اسنادی پوزیشن کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ناقل مصنف کے بارہ میں حسنِ ظن کی گنجائش بھی باقی چھوڑتے ہیں۔اس کی تفصیل مقالہ میں ذکر کردی گئی ہے۔


الشریعہ اکادمی میں ختم خواجگان کا آغاز

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

الشریعہ اکادمی میں ہر ماہ فکری نشست ہوتی ہے جس میں استاد محترم  مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم   سال کے آغاز میں  طے کر دہ عنوانات پر ترتیب وار گفتگو کرتے ہیں جو کہ بہت  جامع ، پر مغز اور مفید ہوتی ہے  ۔ اس ماہ 19 دسمبر کو نشست ہوئی جس کا عنوان " 1953 کی تحریک ختم نبوت " تھا ۔ اس نشست میں خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کے سجادہ نشین  حضرت  مولانا خواجہ خان محمد ؒ کے جانشین حضرت  خواجہ خلیل احمد  دامت برکاتہم تشریف لائے  جس کا مقصد یہ تھا کہ نشست کے ساتھ ختم خواجگان شروع کیا جائے ۔ الشریعہ اکادمی کے زیر انتظام جامع مسجد خورشید کوروٹانہ میں ہر ہفتے مجلس ذکر ہوتی ہے اورکچھ عرصہ قبل  "سالانہ روحانی اجتماع " کے عنوان سے جامع مسجد  خورشید کوروٹانہ میں ایک پروگرام ہوا ، جس میں خواجہ صاحب تشریف لائے تھے ۔ استاد محترم مولانا زاہد الراشدی نے بتایا کہ وہ امام اہلسنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ  کے متوسلین کے لیے اس نشست کا اہتمام کرتے ہیں اورمیں اپنے فکری اور طبعی میلان کی وجہ سے چاہتا ہوں کہ  یہ مجلس ذکر آپ کی سرپرستی میں نقشبندی سلسلہ کے مطابق  کی جائے  ۔ خواجہ صاحب نے اس درخواست کو قبول فرمایا  چنانچہ مجلس ذکر کے ساتھ ختم خواجگان کو شروع کرنے کے لیے اب  دوبارہ تشریف لائے ۔

نشست کے آغاز میں استاد محترم مولانا زاہد الراشدی نے نقشبندی سلسلہ ، خانقاہ سراجیہ  اور حضرت خواجہ خان محمد ؒ سے اپنی قلبی   و فکری مناسبت  اور  میلان کا ذکر کیا ۔خانقاہ سراجیہ شریف ہمارے قومی سطح کے روحانی، دینی اور تحریکی مراکز میں سے ہے۔ حضرت خواجہ خان محمد ؒ  ہمارے بڑے بزرگوں  میں سے تھے ، خانقاہ سراجیہ کے مسند نشین تھے ،  والد محترم امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر کے دورہ حدیث  ساتھیوں میں سے تھے  ، دونوں دار العلوم دیوبند کے فضلاء اور  شیخ العرب و العجم حضرت  مولانا حسین احمد مدنیؒ    کے شاگر دتھے ۔ 1953 ء  کی تحریک ختم نبوت میں والد محترم 10 ماہ جیل میں رہے اور خواجہ صاحب سات ماہ جیل میں رہے  جبکہ حضرت خواجہ صاحب نے 84ء  کی تحریک ختم نبوت کی قیادت کی ۔ اور اس کے بعد بھی تا عمر وہ ختم نبوت کی تمام تحریکوں اور پروگراموں کی قیادت وسرپرستی فرماتے رہے ۔ ان کا ذوق و مزاج تقریر نہ کرنے کا تھا لیکن ان کی خاموشی میں ہی سب کچھ ہوتا تھا۔  وہ گھنٹوں ختم نبوت کے پروگراموں میں بیٹھے رہتے اور آخر میں دعا فرمادیا کرتے تھے ۔ وہ تمام مسالک کی مسلمہ و محترم  شخصیات میں سے تھے ۔ ان کے کہنے پر سبھی آجاتے تھے  ، کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔ سبھی کے ہاں ان کا یکساں احترام تھا ۔ مسلمانوں  کی باہمی فرقہ واریت میں اتحاد امت  کے حوالے سے ان کا مؤثر کردار رہا ۔ بہت بڑ ے اللہ والے تھے،   نقشبندی سلسلہ کے بڑے بزرگوں میں سے تھے ۔  ان کے ساتھ جماعتی اور تحریکی زندگی کا طویل عرصہ ایک کارکن کے طور پر گزارنے کی سعادت مجھے حاصل رہی ہے۔

استاد محترم کے  بعد  نشست کے مہمان خصوصی حضرت خواجہ خلیل احمدصاحب نے خانقاہ سراجیہ کی تاریخ پر کچھ روشنی ڈالی ۔بزرگوں کی خواہش تھی کہ اردو  ، پنجابی اور پشتو بولنے والوں کے سنگم پر ہو ،  اسی سوچ کے مطابق اس کو بنایا گیا ۔ ختم خواجگان کی تاریخ و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری خانقاہ میں 1920 ء سے اس ختم کا اہتمام ہورہا ہے اور اس میں کسی صورت بھی ناغہ نہیں ہوتا۔کبھی کوئی ایسا مسئلہ ہوجائے جس کی وجہ سے یہ نہ ہوسکے تو الگ بات ہے، ورنہ اس میں ایک تسلسل ہے اور ایک صدی سے جاری ہے ۔ خانقاہ سراجیہ میں ختم خواجگان صبح و شام ہوتاہے ۔ اس کوا جتماع یا مجمع میں لوگوں کے ساتھ مل کر بھی پڑھ سکتے ہیں اور  اکیلے بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ اس ختم کے ذریعہ  مصیبتیں و مشکلات حل ہوتی ہیں ، ہر قسم کی حاجات و ضرورتیں پوری ہوتی ہیں ، امراض سے شفاء ملتی ہے  ،  دعائیں قبول ہوتی ہیں اور برکت کے حصول کا ذریعہ ہے ۔

ختم خواجگان کا طریقہ یہ ہے کہ اول ہاتھ اٹھا کر سورۃ فاتحہ شریف ایک مرتبہ پڑھ کر دعا مانگے کہ یا اﷲ اس ختم خواجگان کو قبول فرما لے اور جن بزرگوں کی طرف یہ ختم منسوب ہے، ان کو اس کا ثواب پہنچا دے۔ اس کے بعدسات بار الحمد شریف، اس کے بعد  ۷۹ بار سورہٴ الم نشرح، پھر  ۱۰۰بار درود شریف، اس کے بعد ایک ہزار بار سورہٴ اخلاص، پھر ۷ بار الحمد شریف، پھر ۱۰۰ بار درود شریف، پھر  ۱۰۰ بار یا قاضيَ الحاجات ویَا کافيَ المہمات، یا دافعَ البلیّاتِ، یا حلّ المشکلات، یا رافعَ الدرجات، یَا شافيَ الأمراض، یا مجیب الدعوات، یا أرحم الراحمین پڑھا جاتا ہے ۔ حضرت خواجہ صاحب نے لوگوں کو دائرے کی شکل میں بیٹھا کر گٹھلیوں پر اس ختم کا ورد کروایا اور پھر دعا کے ساتھ اس روحانی و فکری مجلس کا اختتام ہوا ۔


فروری ۲۰۲۰ء

مدرسہ ڈسکورسز: اہداف ومقاصد اور توقعاتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۲)ڈاکٹر محی الدین غازی
دینی مدارس اور مشترکہ تعلیمی نصابمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی ؒ کا انتقالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مدرسہ ڈسکورسز : علماء وفضلاء کے تاثراتادارہ

مدرسہ ڈسکورسز: اہداف ومقاصد اور توقعات

محمد عمار خان ناصر

مسلم علمی روایت سے گہری واقفیت کے فقدان کے اثرات ہمارے ہاں دو طرح سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ ایک اس طبقے کے ہاں جو جدیدیت کے بعض نتائج کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے اور ان سے متصادم ہونے کی وجہ سے روایت کی بحیثیت مجموعی تحقیر کا رویہ رکھتا ہے۔ دوسرا وہ طبقہ جو جدیدیت کے بعض نتائج سے نالاں اور نفور ہے اور اس کی بحیثیت مجموعی مذمت اور تردید کے رجحان کا حامل ہے، چنانچہ روایت سے براہ راست اور گہری واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی چیزوں کو محض جدیدیت کا نتیجہ فرض کر لیتا ہے۔  ان دونوں رجحانات کا اس کے علاوہ کوئی مداوا نہیں کہ مسلم علمی روایت سے گہری اور original واقفیت کا علمی ماحول پیدا کیا جائے۔ اگر آج ایک تازہ فکری روایت کی تشکیل کی ضرورت ہے تو اس کا پہلا قدم اسلامی علمی تراث کے ساتھ ایک زندہ اور گہرا ربط قائم کرنا ہے۔

مدرسہ ڈسکورسز کے پلیٹ فارم سے اسی نوعیت کی ایک سعی کی جا رہی ہے جس میں مدارس کے ذہین اور باصلاحیت فضلاء غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔   مدرسہ ڈسکورسز کے مباحث، مختلف پہلوؤں سے اسلامی علمی روایت کی ایسی تفہیم پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ’’منقول دینی روایت” کے لیے مختلف تاریخی تناظرات میں پیدا ہونے والے فکری وعقلی مباحث سے تعامل ناگزیر ہے۔ اس کے لیے کلاسیکی اسلامی روایت میں اس نوعیت کے مباحث کی روشنی میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ مذہبی فکر نے جدیدیت کے روبرو ’’فکری تعامل” کی اس روایت کو کس انداز میں آگے بڑھایا ہے، اس کی مشکلات کیا ہیں اور کس قسم کی متنوع پیچیدگیاں تنقیدی تجزیے کا تقاضا کرتی ہیں۔

زیر نظر شمارے میں ، مدرسہ ڈسکورسز کے نئے گروپ میں  شامل ہونے والے ممتاز علماء وفضلاء  کے تاثرات کا ایک انتخاب پیش کیا جا رہا ہے  جن سے اس نوعیت کی علمی وفکری مساعی کی اہمیت اور  فضلاء میں  علمی تشنگی  کا احساس   نمایاں طور پر  سامنے آتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ شرکاء کی  گہری دلچسپی، علمی وتحقیقی ذوق، اور فکری سنجیدگی کی بدولت  مطلوبہ علمی وفکری ماحول کے احیاء میں   یہ پلیٹ فارم  ان شاء اللہ  مفید اور موثر کردار ادا کر سکے گا۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۸۸)    شقاق کاترجمہ

قرآن مجید میں شقاق کا لفظ اور اس سے مشتق فعل متعدد مقامات پر ذکر ہوئے ہیں۔ اہل لغت کی صراحت کے مطابق شقاق کا مطلب ہے، مخالف ہوجانا، دشمنی اختیار کرلینا۔

خلیل فراہیدی کے الفاظ میں: والشِّقَاقُ: الخلاف۔ (العین)

فیروزابادی لکھتے ہیں: والمُشَاقَّۃ والشِّقاقُ: الخِلافُ، والعَدَاوَۃ۔ (القاموس المحیط)

راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والشِّقَاقُ: المخالفۃ، وکونک فی شِقٍّ غیر شِقِ صاحبک۔ (المفردات فی غریب القرآن)

تراجم قرآن کا جائزہ بتاتا ہے کہ اکثر جگہ اکثر مترجمین نے یہی مذکورہ مفہوم اختیار کیا، لیکن کچھ مترجمین نے کچھ مقامات پر اس سے کچھ مختلف مفہوم بھی ذکر کیا، جیسے جھگڑا کرنا، ضد کرنا، مقابلہ کرنا وغیرہ۔ گو کہ جھگڑا، ضد، جنگ، مقابلہ یہ سب مخالفت اور دشمنی سے نکلے ہوئے رویے ہیں، لیکن ان میں بہرحال فرق ہے، جسے ملحوظ رکھنا مناسب ہے۔

ذلِكَ بِأنَّھُم شاقُّوا اللَّـہ وَرَسولَہ وَمَن يُشاقِقِ اللَّـہ وَرَسولَہ فَإنَّ اللَّـہ شَديدُ العِقابِ (الانفال: 13)

“یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے ” ۔(سید مودودی)

“یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔ اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے سو بےشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے”۔ (محمد جوناگڑھی)

“یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخا لفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کرے تو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے”۔ (احمد رضا خان)

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـہِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمُ الْھُدَى لَن يَضُرُّوا اللَّـہَ شَيْئًا وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَھُمْ۔ (محمد: 32)

“جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول سے جھگڑا کیا جبکہ ان پر راہ راست واضح ہو چکی تھی، در حقیقت وہ اللہ کا کوئی نقصان بھی نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ ہی ان کا سب کیا کرایا غارت کر دے گا “۔(سید مودودی)

“بیشک جن لوگوں نے کفر اختیار کرلیا اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکا اور ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی پیغمبر سے جھگڑا کیا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں اور اللہ عنقریب ان کے اعمال کو بالکل برباد کردے گا”۔ (ذیشان جوادی)

“جن لوگوں کو سیدھا رستہ معلوم ہوگیا (اور) پھر بھی انہوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) خدا کی راہ سے روکا اور پیغمبر کی مخالفت کی وہ خدا کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے۔ اور خدا ان کا سب کیا کرایا اکارت کردے گا”۔ (فتح محمد جالندھری)

ذَلِكَ بِأَنَّھُمْ شَاقُّوا اللَّـہَ وَرَسُولَہ وَمَن يُشَاقِّ اللَّـہَ فَإِنَّ اللَّـہَ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔ (الحشر: 4)

“یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کو سزا دینے میں بہت سخت ہے”۔ (سید مودودی)

“یہ اس لیے کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔ اور جو شخص خدا کی مخالفت کرے تو خدا سخت عذاب دینے والا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

ثُمَّ يَومَ القِيامَۃِ يُخزيھِم وَيَقولُ أَينَ شُرَكائِيَ الَّذينَ كُنتُم تُشاقّونَ فيھِم قالَ الَّذينَ أوتُوا العِلمَ إِنَّ الخِزيَ اليَومَ وَالسّوءَ عَلَی الكافِرينَ ۔ (النحل: 27)

“پھر قیامت والے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں رسوا کرے گا اور فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کے بارے میں تم لڑتے جھگڑتے تھے”۔ (محمد جوناگڑھی)

“پھر قیامت کے روز اللہ اُنہیں ذلیل و خوار کرے گا اور اُن سے کہے گا ''بتاؤ¶ اب کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے لیے تم (اہل حق سے) جھگڑے کیا کرتے تھے؟”۔(سید مودودی)

“پھر وہ ان کو قیامت کے دن بھی ذلیل کرے گا اور کہے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کے بارے میں تم جھگڑا کرتے تھے”۔ (فتح محمد جالندھری)

“پھر قیامت کے دن انہیں رسوا کرے گا اور کہے گا میرے شریک کہاں ہیں جن پر تمہیں بڑی ضد تھی”۔ (احمد علی)

یہاں عام طور سے لوگوں نے جھگڑا کرنا ترجمہ کیا ہے۔ مناسب ترجمہ یہ ہے کہ: جن کی بنا پر تم نے مخالفت اور دشمنی اختیار کی تھی۔

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْھُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا۔ (النساء: 115)

“مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو”۔ (سید مودودی) یہاں عام طور سے لوگوں نے مخالفت کرنے کا ترجمہ کیا ہے۔

فَإنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوا وَّإن تَوَلَّوْا فَإنَّمَا ھُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَھُمُ اللَّـہُ وَھُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔ (البقرة: 137)

“پھر اگر وہ اُسی طرح ایمان لائیں، جس طرح تم لائے ہو، تو ہدایت پر ہیں، اور اگراس سے منھ پھیریں، تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں”۔ (سید مودودی)

“پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر منھ پھیریں تو وہ نری ضد میں ہیں”۔(احمد رضا خان)

“اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منھ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

ذَٰلِكَ بِأنَّ اللَّـہَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ۔ (البقرة: 176)

“ اور اس کتاب میں اختلاف کرنے والے یقینا دور کے خلاف میں ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

“مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے “۔(سید مودودی)

“اور بے شک جو لوگ کتاب میں اختلاف ڈالنے لگے وہ ضرور پرلے سرے کے جھگڑالو ہیں”۔ (احمد رضا خان)

“اور جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا وہ ضد میں (آکر نیکی سے) دور (ہوگئے) ہیں”۔(فتح محمد جالندھری)

 وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِھِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أھْلِہٖ وَحَكَمًا مِّنْ أھلِھَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـہُ بَيْنَھُمَا إنَّ اللَّـہَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ۔ (النساء: 35)

“اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں اَن بن ہے” ۔(فتح محمد جالندھری)

“اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو”۔ (سید مودودی)

“اور اگر تم کو میاں بی بی کے جھگڑے کا خوف ہو ”۔(احمد رضا خان)

“اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی اَن بن کا خوف ہو”۔ (محمد جوناگڑھی)

بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّۃٍ وَشِقَاقٍ۔ (ص: 2)

“مگر جو لوگ کافر ہیں وہ غرور اور مخالفت میں ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)

“بلکہ یہی لوگ، جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے، سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں” ۔(سید مودودی)

“بلکہ کافر تکبر اور خلاف میں ہیں”۔ (احمد رضا خان)

“بلکہ کفار غرور ومخالفت میں پڑے ہوئے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

وَيا قَومِ لا يَجرِمَنَّكُم شِقاقي أَن يُصيبَكُم مِثلُ ما أَصابَ قَومَ نوحٍ أَو قَومَ ھُوْدٍ أَو قَومَ صالِحٍ وَما قَومُ لوطٍ مِنْكُم بِبَعيدٍ۔ (ہود: 89)

“اور اے برادران قوم، میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچا دے کہ آخر کار تم پر بھی وہی عذاب آ کر رہے جو نوحؑ یا ہودؑ یا صالحؑ کی قوم پر آیا تھا اور لوطؑ کی قوم تو تم سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے” ۔(سید مودودی)

“اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموادے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صا لح کی قوم پر، اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں”۔ (احمد رضا خان)

“اور اے قوم! میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے کہ جیسی مصیبت نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر واقع ہوئی تھی ویسی ہی مصیبت تم پر واقع ہو۔ اور لوط کی قوم (کا زمانہ تو) تم سے کچھ دور نہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)

“اور اے میری قوم (کے لوگو!) کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو میری مخالفت ان عذابوں کا مستحق بنا دے جو قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح کو پہنچے ہیں۔ اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور نہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ۔ (الحج: 53)

“بیشک ظالم لوگ گہری مخالفت میں ہیں”۔(محمد جوناگڑھی)

“حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دور نکل گئے ہیں”۔(سید مودودی)

“اور بیشک ستمگار دُھرکے (پرلے درجے کے) جھگڑالو ہیں”۔(احمد رضا خان)

“بے شک ظالم پرلے درجے کی مخالفت میں ہیں”۔(فتح محمد جالندھری)

مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ ھُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ۔ (فصلت: 52)

“بس اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہوگا جو مخالفت میں (حق سے) دور چلا جائے”۔ (محمد جوناگڑھی)

“اُس شخص سے بڑھ کر بھٹکا ہوا اور کون ہوگا جو اِس کی مخالفت میں دور تک نکل گیا ہو؟” (سید مودودی)

“تو اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو دور کی ضد میں ہے”۔ (احمد رضا خان)

“تو اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو (حق کی) پرلے درجے کی مخالفت میں ہو”۔ (فتح محمد جالندھری)

مذکورہ بالا آخری دونوں آیتوں میں شقاق بعید کی تعبیر ہے، جس کا صحیح مطلب مخالفت میں دور نکل جانا ہے، نہ کہ دور کی مخالفت میں ہونا۔ جس طرح ضلال بعید کا مطلب گمراہی میں دور نکل جانا ہے، نہ کہ دور کی گمراہی میں پڑنا۔

(۱۸۹) اصحاب المیمنۃ اور اصحاب المشئمۃ کا ترجمہ

قرآن مجید میں کہیں اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال آیا ہے، جس کا ترجمہ دائیں بازو والے اور بائیں بازو والے کیا جاتا ہے۔ البتہ دو مقامات پر اصحاب المیمنۃ اور اصحاب المشئمۃ آیا ہے، شمال کا اصل معنی بائیں طرف اور بایاں بازو ہے، وہ بدنصیبی اور نحوست کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ مشئمۃ، شؤم سے ہے، جس کے اصل معنی بدنصیبی اور نحوست کے ہیں، اور کبھی بائیں کے معنی میں بھی استعمال ہوجاتا ہے۔

خلیل فراھیدی کے الفاظ ہیں: والمشئمۃ من الشُّؤم، ویقال: رجل مشؤوم۔

یمین اور میمنة میں دونوں مفہوم ہیں دائیں بازو اور دائیں طرف کا مفہوم بھی ہے، اور برکت وخوش نصیبی کا مفہوم بھی ہے۔ مقابل کے لحاظ سے اس کا معنی متعین ہوسکتا ہے۔ درج ذیل دونوں مقامات میں سے اول الذکر مقام پر عام طور سے میمنة اور مشئمة کا ترجمہ یمین اور شمال یعنی دائیں اور بائیں کا کیا گیا ہے، جب کہ ثانی الذکر مقام پر بہت سے مترجمین نے میمنة اور مشئمة کا ترجمہ خوش نصیبی اور بدنصیبی کیا ہے، اور یہی دونوں مقامات پر زیادہ مناسب ہے۔

فَأصْحَابُ الْمَيْمَنَۃِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَۃِ۔ وَأصْحَابُ الْمَشْأمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأمَةِ۔ (الواقعة:8۔9)

“دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا، اور بائیں بازو والے، تو بائیں بازو والوں (کی بد نصیبی کا) کا کیا ٹھکانا”۔ (سید مودودی)

“تو دہنی طرف والے کیسے دہنی طرف والے، اور بائیں طرف والے کیسے بائیں طرف والے”۔ (احمد رضا خان)

“پس داہنے ہاتھ والے کیسے اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے، اور بائیں ہاتھ والے کیا حال ہے بائیں ہاتھ والوں کا”۔ (محمد جوناگڑھی)

“تو داہنے ہاتھ والے (سبحان اللہ) داہنے ہاتھ والے کیا (ہی چین میں) ہیں، اور بائیں ہاتھ والے (افسوس) بائیں ہاتھ والے کیا (گرفتار عذاب) ہیں” ۔(فتح محمد جالندھری)

أُولَـئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَۃِ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا ھُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأمَةِ۔ (البلد: 18۔19)

“یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے، اور جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا وہ بائیں بازو والے ہیں”۔ (سید مودودی)

“یہ دہنی طرف والے ہیں، اور جنہوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا وہ بائیں طرف والے” ۔(احمد رضا خان)

“یہی لوگ صاحب سعادت ہیں، اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو نہ مانا وہ بدبخت ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)

“یہی لوگ خو ش نصیبی والے ہیں، اور جن لوگوں نے ہماری آیات سے انکار کیا ہے وہ بد بختی والے ہیں”۔ (ذیشان جوادی)

“یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے (خوش بختی والے) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا یہ کم بختی والے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)


دینی مدارس اور مشترکہ تعلیمی نصاب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلٰی مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے گزشتہ روز درویش مسجد پشاور میں علماء کرام اور کارکنوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جن خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے وہ پورے ملک کے دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کے دل کی آواز ہیں، بالخصوص ان کا یہ کہنا کہ حکومت کے ساتھ جو معاہدات ہوئے ہیں ان پر اگر ان کی روح کے مطابق عمل نہ ہوا تو ہم ان کی پابندی ضروری نہیں سمجھیں گے۔

دینی مدارس کے وفاقوں کی مشترکہ تنظیم ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ کے قائدین کے ساتھ وفاقی وزیر تعلیم کے چند ماہ قبل ہونے والے مبینہ معاہدہ کے بارے میں جن تحفظات کا مختلف سطحوں پر کچھ دنوں سے اظہار ہو رہا ہے اس کے پیش نظر وفاقوں کی قیادت کی طرف سے اپنے موقف کا واضح اظہار اور دینی مدارس کے منتظمین، اساتذہ، طلبہ اور معاونین کو اعتماد میں لینا ضروری ہوگیا تھا، جس کا آغاز پشاور سے ہوا ہے اور امید ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کا اہتمام کیا جائے گا۔

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان نے دو روز قبل دینی مدارس کے وفاقوں کی ذمہ دار قیادت کے ساتھ اس سلسلہ میں تفصیلی بات کی ہے ،جبکہ مختلف مکاتب فکر کے مشترکہ فورم ملی مجلس شرعی پاکستان کا ایک اجلاس لاہور میں راقم الحروف کی صدارت میں منعقد ہوا ہے جس میں مختلف دینی جماعتوں کے سرکردہ راہنماؤں نے شرکت کی اور ان کی طرف سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

ان سرگرمیوں کی خبریں تفصیل کے ساتھ اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں اس لیے ان کا اعادہ کرنے کی بجائے ہم ان خدشات و تحفظات کا ایک بار پھر تذکرہ کرنا چاہیں گے جن کا اگرچہ بار بار ذکر ہوتا آ رہا ہے، مگر موجودہ حالات کے پیش نظر انہیں پھر سے ایک ترتیب کے ساتھ پیش کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

اس لیے میں دینی مدارس کے تمام وفاقوں کی قیادت سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح ہمارے اکابر نے دستوری حوالہ سے ۲۲ متفقہ نکات پیش کر کے ایک جامع دستاویز قوم کے حوالے کی تھی اسی طرح عصری و دینی تعلیم کے جملہ شعبوں اور مراحل کے حوالہ سے ایک جامع خاکہ بھی سامنے آجانا چاہیے، تاکہ وہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات کی طرح تعلیمی شعبوں میں قوم کی راہنمائی کی مستقل اساس بن جائے، اس کے سوا میرے خیال میں اس مسئلہ کا شاید کوئی مناسب حل نہیں نکل سکے گا۔

حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی ؒ کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی بھی کم و بیش پچاسی برس اس جہانِ رنگ و بو میں گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

۳۱ دسمبر کو اسلام آباد میں حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی سے ملاقات کا پروگرام طے تھا۔ حضرت سے رات سونے سے قبل رابطہ ہوا تو فرمایا کہ کل ظہر آپ میرے ساتھ پڑھیں گے اور پھر کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ پروگرام طے کر کے ہم سو گئے مگر صبح اذان فجر سے قبل آنکھ کھلی تو موبائل نے صدمہ و رنج سے بھرپور اس خبر کے ساتھ ہمارے دن کا آغاز کیا کہ حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کا رات اسلام آباد میں انتقال ہوگیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

مولانا فداء الرحمان کے ساتھ میری جماعتی رفاقت نصف صدی سے زیادہ عرصہ کو محیط ہے اور ہم نے مختلف دینی تحریکات و مہمات میں اکٹھے کام کیا ہے۔ ان کے مزاج میں دوستوں کے ساتھ مشاورت کے ساتھ چلنا بطور خاص شامل تھا اور ان کی ساری زندگی اسی ذوق کے تسلسل سے عبارت ہے۔ دوستوں کی بات سننا، انہیں احترام دینا، ان کے مشورہ کو قبول کرنا اور اعتماد میں رکھنا ان کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔ دینی مدارس کے قیام اور ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی انہیں اپنے والد گرامی حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی قدس اللہ سرہ العزیز سے ورثہ میں ملی تھی، اور ان کی نگرانی میں جامعہ انوار القرآن کراچی، مرکز حافظ الحدیث حسن ابدال اور مدرسہ تعلیم القرآن پتھورو سندھ کے مرکزی مدارس سمیت بیسیوں مدارس خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔

دینی جماعتوں کی سرپرستی کرنا اور حسب موقع ان کی تائید و حمایت کرنا بھی حضرت درخواستی ہی کی روایت تھی جو ان کے جانشین کے طور پر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے قائم رکھی اور دینی تحریکات کی سرپرستی کرتے رہے۔ وہ سب سے زیادہ زور اس بات پر دیتے تھے کہ ہمیں کسی بھی دینی جدوجہد کے لیے اپنے اکابر اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہیے، وہ کہتے تھے کہ اس میں برکت اور کامیابی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تلاوت کلام پاک، احادیث نبویہ کا مسلسل تذکرہ اور اللہ اللہ کی تلقین بھی ان کے معمولات کا حصہ تھی۔ اور وہ اسی طرز زندگی کے ساتھ اب اللہ رب العزت کے بلاوے پر لبیک کہہ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالٰی ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہم سب کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مدرسہ ڈسکورسز : علماء وفضلاء کے تاثرات

ادارہ

پروفیسر ادریس آزاد 

(استاذ زائر، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)

مجھے جب پہلی بار مدرسہ ڈسکورسز کا پتہ چلا تو میں نے کچھ دھیان نہ دیا۔ایک سال یونہی گزرگیا۔ پھر جب میں نے مدرسہ ڈسکورسز کے نصاب اورمباحث پر نظرڈالی تو مجھے حیرت کا نہایت خوشگوارجھٹکالگا۔ یہ  میرے لیے بالکل ہی نئی بات تھی۔میں تو مدرسہ ڈسکورسز  کو فقط کوئی  جدیدیت زدہ پروگرام سمجھ رہاتھا لیکن یہ تو ایک ایسی تحریک تھی جس میں مدرسہ کی پرانی ساکھ اورقوت واپس بحال کرنے کی پوری پوری صلاحیت موجود تھی۔ چنانچہ  میرے دل میں  مدرسہ  ڈسکورسزکے ساتھ متعلق ہوجانے کی خواہش پیدا ہوئی۔میری یہ خواہش ابھی میرے دل میں ہی تھی کہ مدرسہ ڈسکورسز کے پاکستان میں لیڈفیکلٹی (Lead Faculty)  برادرم ڈاکٹر عمارخان ناصرنے مجھےکال کرکے مدرسہ ڈسکورسز کی کلاسوں کو سائنس پڑھانے کی پیشکش کردی جسے  میں نے فوراً قبول کرلیا۔

مدرسہ ڈسکورسز، دراصل ایک تعلیمی و تدریسی سرگرمی کا نام ہے۔ یہ ایک پروگرام ہے جو پروفیسر ڈاکٹرابراہیم موسیٰ نے شروع کیا ہے۔ڈاکٹرابراہیم مُوسیٰ اسلامی دنیا کا ایک معروف نام ہیں۔اُن کاتعلق جنوبی افریقہ سےہے جبکہ اُن کے ننھیال ہندوستان میں ہیں۔ڈاکٹرابراہیم موسیٰ کی ابتدائی  تعلیم ہندوستان کے مدراس میں ہوئی۔ ان مدارس میں دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ ندوۃ العلمأ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ  کا تعلیمی پس منظر مدارس کا ہے اس لیے وہ مدارس کے نظام کی اصل خوبیوں سے واقف ہیں۔فی زمانہ ڈاکٹرابراہیم موسیٰ دینی مدارس کی روایت زندہ کو کرنے کے بہت بڑے حامی ہیں۔چنانچہ وہ اپنی کتاب ’’مدرسہ کیا ہے؟‘‘ میں اسکول اور مدرسہ میں سے،  مدرسہ کوبہترسمجھتےاوراس کی بھرپوروکالت کرتے ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز کے پاکستان میں لِیڈ فیکلٹی ڈاکٹرعمارخان ناصر ہیں۔ڈاکٹرعمارخان ناصراپنے علم و حلم، دونوں کے حوالے سے معروف ہیں۔عام طورپر عمارخان کو غامدی صاحب کے ہم مؤقف سمجھ لیا جاتا ہے جو کسی حدتک شاید درست بھی ہے، لیکن فی الحقیقت وہ اپنی فکری زندگی میں بالکل آزادی کے ساتھ غوروفکر کرنے والے ایک نہایت باریک بین اسکالر ہیں۔اُن کا مزاج اورطبیعت محققانہ ہےجبکہ اُن کی شخصیت میں بلا کی متانت ہے۔میں نے ذاتی طورپر اُنہیں ایک صالح اوردیانتدارشخص پایا۔

گزشتہ ہفتے  سمسٹرکے اختتام پر مدرسہ ڈسکورسز کی ورکشاپ تھی۔مجھے پہلی بار اپنی کلاس کے علمائے کرام سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ کہنے کو تو میں ان نابغوں کا استاد تھا کیونکہ میں ان علمائے کرام کو سائنس پڑھاتاہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ورکشاپ کا پورا ہفتہ میں نے حالتِ مرعوبیت میں گزارا۔ میرے چاروں طرف ہندوستان اور پاکستان کے ایسے ایسے فاضل  ، نوجوان علمأ  موجودتھے کہ میں ان کے درمیان اپنے آپ کو اَن پڑھ محسوس کرتاتھا۔ عربی، فارسی، اورفقہ پربے پناہ عبوررکھنےوالے یہ نوجوان ہرمسلک سے تھے۔ بریلوی، دیوبندی اورشیعہ علمأ کی نمائندگی میں تعداد کا فرق تھا تو میں اُس فرق کو ایک عارضی فرق سمجھتاہوں جو وقت کے ساتھ دُورہوسکتاہے۔صرف یہی نہیں کہ مختلف مسالک کے فقط مرد علمأ ہی  اس کورس میں  شریک ہیں بلکہ  خواتین کی نمائندگی بھی مناسب حدتک معقول ہے۔ ورکشاپ میں پاکستانی اور ہندوستانی خواتین اور طالبات نے دقیق  علمی موضوعات پر نہایت سہولت کےساتھ رواں انگریزی میں ایسی  بہادری  سے حصہ لیا کہ میں اپنی سگی بیٹی کو مدرسہ ڈسکورس کی طالبہ بنانے کی خواہش کرنے لگا۔ان میں سے زیادہ تر  طالبات کا تعلیمی  پس منظر بھی مدراس   سے تھا۔

مولانا سمیع اللہ سعدی

مدرسہ ڈسکورسز کی ابتدا ہوتے ہی اسے جوائن کرنے کا ارادہ کیا تھا ، لیکن بعض وجوہ سے اس میں تاخیر ہوگئی ،آخر کار تیسرے بیچ کے لئے اپلائی کیا ،تحریری و تقریری امتحان کے مراحل سے گزرنے کے بعد بحیثیت طالب علم مدرسہ ڈسکورسز کا حصہ بن گیا ۔ ٹھیٹھ روایتی طبقے کی مخالفت اور اپنی افتاد طبع کے سبب ذہن میں اندیشوں و وسواس کا جال بھی بن چکا تھا ،لیکن کچھ وجوہ سے اس چوٹی کو سر کرنے کا اٹل فیصلہ کر لیا تھا ،مدرسہ ڈسکورسز کے تین مہینے کے اسباق ہوچکے ہیں اور قطر میں ایک ہفتہ کی ورکشاپ ،اس لیے ایک سہ ماہی کے اسباق پڑھنے ،ایک ہفتہ قطر میں کورس کے شرکاء اور اساتذہ و منتظمین کو خوب تنقیدی طور پر پرکھنے کے بعد جو تاثرات بنے ہیں ،اس میں اپنے قارئین و احباب کو شریک کرنا چاہوں گا :

1۔ کورس کے شرکاء مضبوط استعداد کے ذہین فضلاء ہیں ،ہر شریک کورس علمی میدان میں (نوجوان فضلاء کے اعتبار سے ) کسی نہ کسی حوالے سے ممتاز ہے ،(سوائے میرے )اس سے کورس کے منتظمین کی نظر انتخاب کی داد دینی پڑے گی ۔ان میں سے بعض شرکا مدارس کے جید اساتذہ کرام اور مفتیانِ کرام ہیں ،خصوصا ازہر الہند دار العلوم دیوبند کے بعض جید مفتیان کرام بھی قافلہ ڈسکورسز کے شرکاء میں سےہیں ۔

2۔مدرسہ ڈسکورسزکے بانی و روح رواں ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کے بارے میں یہ محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب علم و فکر کے آدمی ہیں ،گپ شپ ،فضول گفتگو اور ادھر ادھر کی باتوں سے کوسوں دور ہر وقت ،ہر موقع پر وہ سیکھنے سکھانے کی باتوں میں مصروف ہوتے ہیں ۔ان کی فکری باتوں کا مرکزی محور مدارس ،مدارس کو درپیش چلینجز اور مدارس کے فضلا کو اپنی چودہ سو سالہ روایت سے جوڑنے کی فکر تھی ۔مدرسہ کا ذکر کرتے ہوئے آخری مجلس میں ان کے زار و قطار آنسووں نے ساری مجلس کو عجیب کیفیت سے سرشار کیا ۔ ان کے طریقہ کار سے اختلاف کا حق ہر ایک کو ہے ، اور شاید مجھے بھی بعض باتوں میں اختلاف ہو ،لیکن مدرسہ سے ان کی محبت اور مدرسہ کو مدرسہ رہنے کی ان کی خواہش و لگن اور اپنے کاز سے بے پناہ دلچسپی و اخلاص ہر شک وہ شبہ سے بالاتر نظر آتی ہے ۔یہ تاثر صرف میرا نہیں ، پاک وہند کے پچاس کے قریب فضلا کی بالکل نجی مجالس و گفتگووں کے تاثرات بھی تقریبا یہی تھے ۔

3۔مدرسہ ڈسکورسز کے پاکستان میں لیڈ فیکلٹی مولانا عمار خان ناصر صاحب ہیں ۔استاد عمار صاحب پر موافق و مخالف اتنا کچھ لکھا گیا کہ مزید لکھنا ضیاع ِ وقت محسوس ہوتا ہے ۔ آپ کے افکار سے اختلاف اور بعض سے باوجود اب استاد ہونے کے شدید اختلاف کے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ مولانا عمار صاحب کو اسلاف کی علمی روایت سے حد درجہ اعتنا اور محبت ہے ۔آپ شاید اس کا یقین نہیں کریں گے لیکن اس بات کے گواہ کورس کے پچاس کے قریب شرکاء ہیں کہ آخری مجلس میں جب مولانا عمار صاحب نے مدارس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ مدارس ہماری تہذیب کی واحد آخری نشانی ہیں تو ان پر کچھ ایسی رقت طاری ہوئی اور آنسووں کی لڑی ایسی جاری ہوئی کہ ان سے پھر مزید نہیں بولا گیا اور قطع کلامی کر کے اپنے الوداعی کلمات درمیان میں چھوڑنے پڑے ۔اس کورس کا علمی وقار بلا شبہ استاد عمار صاحب کے دم سے قائم ہے ۔

4۔ مدرسہ ڈسکورسز کے ہندوستان کے لیڈ فیکلٹی جناب ڈاکٹر وارث مظہری صاحب ہیں ۔ڈاکٹر وارث صاحب انگریزی و عربی  کی اعلی استعداد،جدید و قدیم تراث اور تحریری و تقریری میدان میں یکساں مہارت کے باوجود ایک درویش صفت انسان ہیں ۔انہیں بلا شبہ مدرسہ ڈسکورسز کا صوفی کہا جاسکتا ہے ،ایک متدین و صاحب تقوی عالم دین ہیں۔

5۔مدرسہ ڈسکورسز کے امریکہ سے لیے گئے استاد بلوچستان، چمن کے ایک ہونہار نوجوان ڈاکٹر شیر علی ترین ہیں۔عربی ،اردو اور انگریزی (پشتو بھی ) کے ماہر اور خاص طور پر پاک وہند کے مکاتب اور پاک وہند کی علمی و فکری روایت کا تقابلی مطالعہ ان کا اختصاصی میدان ہے ۔ ڈاکٹر ترین صاحب مدرسہ ڈسکورسز کے مستقل استاد ہیں ،ان سے تین مہینے پڑھنے کے بعد شرکائے کورس کی ان سے والہانہ تعلق ان کے اپنے فن میں مہارت اور طلبہ کے دلوں میں گھر کرنے والی معلمانہ صفات کا اظہار ہوتا ہے ۔

6۔مدرسہ ڈسکورسز کو شرورع کرتے وقت ہمارے میں ذہن میں سب سے بڑا سوال کورس کے نصاب کا تھا اور شاید مدرسہ ڈسکورسز کے بارے میں تجسس رکھنے والوں کے اذہان میں بھی یہی سوال کھلبلا رہا ہے ۔کورس کے نصاب کی ترتیب کچھ یوں رکھی گئی ہے کہ کورس کو بنیادی طور پر دو حصوں میں بانٹا گیا ہے ،جس کو حصہ محاضرات اور حصہ مطالعاتی مواد  کہا جاسکتا ہے ۔

7۔حصہ محاضرات میں ہر ہفتے سائنس اور  فلسفے کی ایک کلاس ہوتی ہے ۔سائنس کی کلاس انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ادریس آزاد صاحب لیتے ہیں ۔سر ادریس آزاد اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں ۔جتنا انچا ان کا علمی قد ہے ،اتنی ہی اونچی صفات کے حامل ہیں۔سائنس کا ٹیچر ہوکر اتنا تدین اور مضبوط عقیدے کا حامل ہونا باعث تعجب ہے ۔مبتدیوں کو نیوٹن و آئن سٹائن کے دقیق سائنسی نظریات کو ادبی چاشنی کے ساتھ آسان اسلوب اور پاور پوائنٹ پر بہترین پریزنٹیشن کی صورت میں سمجھانا سر ادریس آزاد صاحب کا امتیاز ہے ۔کورس میں ایک دن جب انہوں نے نظریہ ارتقاء پر اپنی پریزٹیشن پیش کی تو سماں بندھ گیا ،جبکہ فلسفے کی کلاس فلسفے میں ایم فل  کرنے والے نوجوان استاد عثمان رمزی صاحب پڑھاتے ہیں ۔ رمزی صاحب بھی فلسفے جیسے خشک موضوع کو ہم جیسے مبتدیوں کے لیے آسان سے آسان کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں ،فجزاہم اللہ ۔

8۔ حصہ مطالعاتی مواد  میں ترتیب یوں ہے کہ کچھ بڑے موضوعات طے کئے گئے ہیں ،جیسے اسلام اور سائنس،اسلامی تہذیب اور اس کا ارتقاوغیرہ ۔ان موضوعات سے متعلق ہر ہفتہ کا مطالعاتی مواد دیا جاتا ہے۔ مواد کا ایک حصہ عربی میں  ہوتا ہے ،جس میں متعلقہ موضوع پر ایک ٹھیٹھ روایتی کتاب ہوتی ہے ،جیسے امام غزالی ،امام ابن تیمیہ ، امام شاہ ولی اللہ ،مولانا قاسم نانوتوی وغیرہ کی کتب اور ایک حصہ انگریزی مواد کا ہوتا ہے،جس میں کسی مغربی مفکر کی تحریر ہوتی ہے ۔اس مواد کو خود پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ایک دن تیاری کلاس کے عنوان سے اس مواد کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔دوسرے دن مرکزی کلاس میں کورس کے اساتذہ مواد سے متعلق مناقشہ کرواتے ہیں۔ مناقشہ کا انداز یہ ہوتا ہے کہ اساتذہ پہلے ریڈنگ کے بنیادی نکات سمجھانے کے بعد شرکائے کورس کے اس بارے میں سوالات رکھتے ہیں اور شرکاء کو اپنی آرا ء پیش کرنے کا کہتے ہیں ۔یوں ہر شریک کورس اس مواد سے متعلق اپنے ملاحظات و سوالات پیش کرتا ہے ،پھر دوسرے شرکاء ان سے اتفاق یا اختلاف کرتے ہیں ۔یہ حصہ اتنا دلچسپ ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔اس کورس کا مغز یہی مناقشہ و مباحثہ ہے ،یوں ایک ٹیکسٹ اور ایک موضوع کے متنوع ابعاد سے واقفیت ہوتی ہے ۔

9۔کورس کو تین مہینے پڑھنے کے بعد ایک واضح تاثر یہ ابھرا کہ اس کورس میں کسی بھی موضوع سے متعلق پہلے سے کچھ نتائج فکس نہیں کیے گئے ،بلکہ مواد دے کر اس پر مناقشہ کروایا جاتا ہے ۔آپ اس مناقشہ میں جو موقف پیش کریں ،جو سوالات کریں ، اتفاق کریں ،اختلاف کریں ،آپ کا حق ہے ۔پھر مناقشہ کرنے کے بعد بھی نتائج کو حتمی شکل نہیں دی جاتی ۔یوں یہ کورس ایک ڈسکشن فورم ہے ،جس سے کسی بھی موضوع سے متعلق مکالمہ و مباحثہ ہوتا ہے۔تین مہینے اور قطر میں پوراا  یک ہفتہ صبح شام مسلسل پڑھنے کے بعد کم از کم یہ تاثر ہر ایک کا بن گیا  کہ یہاں کوئی متعین موقف پیش کر کے اس کے حق میں دلائل نہیں دیے جاتے ،جیسا کہ عمومی طور پر اس طرح کے کورسز میں ہوتا ہے ،بلکہ مناقشہ کروایا جاتا ہے اور خود شرکائے کور س کی آرا و ملاحظات سننے کا اہتمام ہوتا ہے ۔کم از کم میں جس گمراہی کی تلاش میں نکلا تھا ،یہاں سے مایوسی ہوئی ،اور استاد عمار صاحب سے از راہ تفنن عرض کیا کہ آپ لوگوں کے گمراہی والے در کب کھلیں گے؟ہمیں تو گمراہی کی تلاش ہے (اس سوال سے کورس کے شرکاء و اساتذہ کی بے تکلفی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے )۔ استاد عمار صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ گمراہی نظر نہ آنے کا مطلب ہے کہ آپ گمراہ ہوچکے ہیں، کیونکہ گمراہ کو گمراہی نظر نہیں آتی ۔اس سے محفل کشت زعفران بن گئی ۔

10۔مدرسہ ڈسکورسز کے بارے میں دو بڑے سوال ہر ذہن میں اٹھتے ہیں اور حق ہے کہ یہ سوال پیدا ہوں۔

 پہلا سوال یہ کہ کورس کی اس ساری ایکٹویٹی کا ہدف و مقصد کیا ہے؟اس کے بانی ارکان و اساتذہ کے ذہن میں وہ کون سا  ہدف ہے جس کی وجہ سے نصاب ،موضوعات اور طریقہ کار طے ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب جہاں تک میں سمجھا ہوں ، اور مدرسہ ڈسکورسز کے بانی ارکان و اساتذہ کی اس موضوع پر مختلف تحاریر پڑھی ہیں ،تو ان سے اس کورس کے دو بڑے ہدف نکلتے ہیں :

  1. اسلامی روایت کے تنوع کو جاننے کی کوشش اور موجودہ حالات میں اس سے استفادہ
  2. ماڈرن و پوسٹ ماڈرن ایج میں مذہب خصوصا اسلام اور اسلامی مواقف کی پوزیشن کے تعین  کی طرف پیش رفت

جہاں تک پہلا نکتہ ہے تو اس کے لیے ٹھیٹھ روایتی علماء کی نصوص کا مطالعہ کروایا جاتا ہے ،پھر ان نصوص کی مدد سے کسی بھی موضوع میں متعلقہ تنوع کو تلاشنے کی کوشش ڈسکشن کی صورت میں کی جاتی ہے ۔ اسلامی روایت میں تنوع ایک امر واقعہ ہے ۔فقہی اعتبار سے مذاہب اربعہ ،کلامی اعتبار سے اشعری ،ماتریدی ،حنابلہ ،محدثین ، میدانِ تصوف میں چشتی ،قادری وغیرہ ،دورِ جدید کے روایتی حلقوں میں دیوبندی ،بریلوی ،اہل حدیث ،عرب دنیا میں وہابی، سلفی الغرض مکاتب کے اعتبار سے تنوع کا ایک جہاں آباد ہے ۔پھر ہر مکتب میں مختلف مسائل میں تنوع ہے ،مثلا حسن و قبح کے مسئلے میں اہل سنت کے اندر اشعری موقف ،پھر اس موقف پر امام غزالی و رازی کے اضافہ جات ،پھر اس پر قرافی وغیرہ کی تعلیقات ۔الغرض ہماری اسلامی روایت ایک گلدستہ ہے ،جہاں ہر گل ِ را  رنگ و بوئے دیگر کا نظارہ ہوتا ہے ۔ اس تنوع کو جاننا ہر روایت پرست عالم کے لیے ضروری ہے ۔مدرسہ ڈسکورسز ہو یا نہ ہو ،اس کی ضرورت مسلم ہے اور خود درسِ نظامی کے نصاب میں اس تنوع کی کچھ نہ کچھ جھلک رکھی گئی ہے ۔اس نکتے کے تحت کورس کے نصاب میں یہ بھی شامل ہے کہ جب اسلامی روایت و تہذیب کا بیرونی افکار اور ثقافتوں  سے سامنا ہوا تو کس قسم کی صورتحال بنی؟ قبول کیا گیا ہے؟رد کا رویہ اپنایا گیا ؟یا بعض افکار مستعار لیے گئے؟ وغیرہ۔

دوسرے نکتے یعنی ماڈرن و پوسٹ ماڈرن ایج میں مذہب کی پوزیشن کے تعین کے ضمن میں جدید علوم وافکار کی تفہیم کے لیے  مغربی مفکرین کے متون کا مطالعہ کروایا جاتا ہے ،اگرچہ مغربی متون کا مطالعہ بسا اوقات اسلامی روایتی متون کے ساتھ مثبت یا منفی تقابل کے طور پر بھی کروایا جاتا ہے ۔

یہ نکتہ عالم ِاسلام کے دورِ زوال سے لے کر آج تک مسلسل علمی حلقوں میں زیر ِبحث آرہا ہے ،اسی سے دورِ جدید کے کلامی گروہ بنے ہیں ۔مدرسہ ڈسکورسز نے یہ نکتہ اٹھا کر دراصل اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ،جو روایت و جدیدیت دونوں حلقوں میں زیرِ بحث آیا ہے اور ابھی بھی زیرِ بحث ہے ،اس لیے ہر دو نکات کے لحاظ سے مدرسہ ڈسکورسز کوئی نئی بحث نہیں اٹھا رہا ،بلکہ انہی پامال موضوعات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دے رہے ہیں جس میں دورِ زوال کے مایہ ناز مسلم مفکرین کی زندگیاں صرف ہوئی ہیں ۔ اسلامی بینکاری ماڈرن ایج کی اقتصادیات کے میدان میں اسلامی موقف کا اظہار ہے ،جس سے خود مسلم مفکرین کا ایک بڑا گروہ اختلاف کر رہا ہے۔اسلامی جمہوریت ماڈرن ایج کے تصورِ ریاست و سیاست میں اسلامی موقف کا بیانیہ ہے جو آج تک مختلف فیہ ہے ۔اسی طرح ماڈرن کلچر،علمیات ،سائنس و فلسفہ ،ٹیکنالوجی اور اب پوسٹ ماڈرن ایج میں مذہب خصوصا اسلام کا کیا موقف ہونا چاہئے؟یہ عصر حاضر کا سب سے بڑا سوال ہے ۔مدرسہ ڈسکورسز اسے اٹھائے یا نہ  اٹھائے،مسلم امت کے مفکرین اس پر بحث کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

 دوسرا بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پروجیکٹ کو امریکہ کی جو یونیورسٹی اور امریکی ادارہ فنڈنگ دے رہا ہے، انہیں اس ہدف میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟اور شاید اس پروگرام سے مذہبی طبقے کی دوری ،اس کی مخالفت یا احتیاط کی وجہ بھی یہی فنڈنگ ہے کہ مغرب کی اسلام و مشرق دشمنی اظہر من الشمس ہے ،تو ایک خالص مسلم امت کو درپیش کسی مسئلے میں مغربی اداروں کی کیا دلچسپی ہوسکتی ہے ؟اس سوال کا جواب جاننے کے لیے یہاں دو باتوں کو الگ الگ کرنا ہوگا۔پہلی بات ہے کہ اس پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ کیسے اور کس عنوان کی بنیاد پر کی گئی ہے؟ دوسر ی بات کہ فنڈنگ کرنے والے ادارے کا اس کورس کے نصاب، پروگرامز،موضوعات میں کس قسم کا عمل دخل ہے؟جہاں تک دوسری بات ہے تو اس کورس کے نصاب،پروگرامز ،ورکشاپس ،داخلے ،ٹیچرز اول تا آخر بانی رکن ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر طے کرتے ہیں ،نیز آج تک اس کورس کے کسی بھی پروگرام میں فنڈنگ کرنے والے ادارے کے نمائندے نہیں آئے ہیں ، نہ ہی انہوں نے نے کسی قسم کا حصہ لیا ہے ۔

جہاں تک مسیحی یونیورسٹی کی دلچسپی  والی بات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے استاد عمار صاحب کی زبانی ڈاکٹر موسی صاحب کا موقف نقل کیا جاتا ہے۔ مولانا عمار صاحب لکھتے ہیں:

"ڈاکٹر ابراہیم موسی کا version یہ ہے کہ یہ مسیحی یونیورسٹی کا نہیں، بلکہ ابراہیم موسی کا پراجیکٹ ہے جو ایک مسیحی یونیورسٹی میں کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے مغربی جامعات میں کام کے انداز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو بھی اسکالر پروفیسر کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے، مغربی تعلیمی اداروں میں اس کو اپنے ذاتی تجربات اور ذوق کے حوالے سے مختلف منصوبے بنانے کی پوری آزادی حاصل ہوتی ہے اور ادارے پروفیسر حضرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ پراجیکٹس بنا کر فنڈ فراہم کرنے والے مختلف اداروں سے فنڈز لے کر آئیں۔ اس فنڈ میں سے یونیورسٹی، انتظامی اخراجات کے لیے ایک خاص تناسب سے کچھ رقم منہا کر لیتی ہے اور علمی طور پر ایسے پراجیکٹس یونیورسٹی کا امیج اور ریپوٹیشن بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پروفیسر حضرات پراجیکٹ کے طور پر کوئی انفرادی منصوبہ بھی بنا سکتے ہیں، ایک گروپ بنا کر بھی کام کر سکتے ہیں اور مختلف دوسرے طریقے بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ سسٹم کی سطح پر انڈرسٹینڈنگ یہ ہے کہ اس سارے عمل سے بحیثیت مجموعی علم کی روایت کو فائدہ پہنچے گا اور اس میں نئی جہات سامنے آئیں گی۔

اس تناظر میں پروفیسر ابراہیم موسی نے (جنھیں کئی سال سے انڈیا کے بعض ذمہ دار حضرات کی طرف سے یہ دعوت موصول ہو رہی تھی کہ انھیں مدارس کے فضلاء کے لیے کچھ کرنا چاہیے) یہ منصوبہ جان ٹمپلٹن فاونڈیشن کو پیش کیا کہ انھوں نے مدرسے سے فراغت کے بعد اب تک کے علمی سفر میں جو کچھ سیکھا ہے، اس میں وہ مدرسہ کمیونٹی کو شریک کرنا چاہتے ہیں اور اسلامی الہیات کے تعلق سے جدید فلسفہ اور جدید سائنس کے پیدا کردہ سوالات کی تفہیم پر مبنی ایک تربیتی کورس ان کے لیے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ جان ٹمپلٹن فاونڈیشن نے اور اسی طرح نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں کراک انسٹی ٹیوٹ نے (جس میں ابراہیم موسی کام کر رہے ہیں) اس منصوبے میں دلچسپی محسوس کی اور یوں مدرسہ ڈسکورسز کی بنیاد پڑ گئی۔ ابراہیم موسی کا کہنا ہے کہ مغربی تعلیمی نظام کے norms کے لحاظ سے یہ ایک بالکل معمول کا تعلیمی منصوبہ ہے جس میں کوئی چیز نہ مخفی ہے اور نہ معروف طریقے سے ہٹی ہوئی ہے۔"

لہذا یہ پراجیکٹ مدرسہ سے پڑھے ہوئے ایک پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کا ہے ،ایسے علمی پراجیکٹ کے لیے وہاں کے اداروں کی فنڈنگ ایک عام سی بات ہے ۔خود پاکستانی یونیورسٹیز میں ایسے کئی پراجیکٹ چلتے رہتے ہیں جنہیں فنڈ بیرونی جامعات و ادارے مہیا کرتے ہیں ،بلکہ آج سے کچھ سال پہلے جرمنی کی ایک این جی او نے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ایک ہفتہ کی ورکشاپ رکھی تو پانچوں وفاقوں سے وابستہ اہل علم کے صاحبزادگان اور کچھ دوسرے طلبہ ایک ہفتہ کے لیے جرمنی گئے  تھے اور وہاں مختلف ایکٹویٹیز میں حصہ لیا ۔اس میں بعض مواقع کی تصاویر سے معلوم ہوا کہ لیکچر بھی وہاں کے جرمن مسیحی حضرات نے دیے،جبکہ یہاں تو اول تا آخر سارا نصابی مواد ،لیکچرز وغیرہ ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب اور مدرسہ ڈسکورسز سے وابستہ اساتذہ و منتظمین کے ہاتھ میں ہے ۔

11۔ آخر میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ مدرسہ ڈسکورسز کے اساتذہ و بانین یقینا کسی نہ کسی فکر سے جڑے ہیں ،ان کی فکری آراء قابل تنقید اور قابل ِ اختلاف ہوں گے یا شاید ہوں،لیکن کم از کم مدرسہ ڈسکورسز میں ان حضرات نے شرکا ء پر اپنے نظریات یا اپنے فکری نتائج تھوپنے یا اس کے حق میں دلائل دینے کی کوشش بالکل نہیں کی،  بلکہ آج تک کسی بھی استاد نے درسگاہ میں اپنی خاص فکری آرا کا اظہار تک نہیں کیا ۔اساتذہ کا بس اتنا کام ہے کہ مواد دے کر اس پر مناقشہ کرواتے ہیں ،اس لیے مدرسہ ڈسکورسز کو اساتذہ و بانیین کے فکری فریم ورک سے ہٹ کر دیکھا جائے تو شاید اس کے بارے میں پھیلے شکوک و شبہات مزید کم ہوں ۔نیز یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس کورس میں شریک طلبہ چھوٹے اور ناپختہ ذہن کے بچے نہیں ،بلکہ درس ِنظامی کی تکمیل کر کے عملی زندگیوں میں سالہا سال سے کام کر رہے ہیں ،اس لیے یہ سمجھنا کہ مدرسہ ڈسکورسز کے اساتذہ انہیں دو سالہ کورس میں گمراہ کر دیں گے ، خود مدارس کے نظام ِ تربیت پر سوالات اٹھانے کے مترادف ہے۔ (یعنی  اگر اس کورس کا مطمح نظر فضلاء کی گمراہی ہو،لیکن یہ محض مفروضہ ہے ،اس کورس کو جوائن کرنے والوں میں سے اب تک کسی نے گمراہی کی کسی قسم کی کوئی کوشش یا ترغیب نہیں دیکھی ،کورس کا نظام و نصاب آپ اس مضمون میں بالتفصیل پڑھ چکے ہیں، جس سے اس بات کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے )۔ انڈیا کے ایک شریک کورس کے الفاظ میں ،جو انہوں نے الوداعی تاثرات میں برملا سب اساتذہ و منتظمین کے سامنے کہا کہ اگر کورس کے اساتذہ ہمیں کسی بھی فکری کجی یا واضح گمراہی کی بات کریں گے تو ہم علی الاعلان مخالفت کریں گے ،کیونکہ ہم عاقل بالغ ہیں ،کوئی بچے نہیں کہ جو جس طرف لے جائے ،چل پڑیں گے ۔نیز شرکائے کورس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم آٹھ سال مدارس میں پڑھ کر کئی سال تدریس سے وابستہ ہو کر دو سالہ کورس ( جس میں ہفتہ میں صرف دو روز اسباق ہوتے ہیں) سے گمراہ ہوسکتے ہیں تو یہ کمزوری ہماری نہیں،مدارس کے سسٹم کی ہوگی کہ آٹھ سال ایک بچے پر محنت کر کے اسے عالم ِ دین کی سند تھما کر اسے مسند تدریس کی اجازت دے کر بھی وہ فکری میدان میں اتنا کچا ہے کہ کوئی بھی چند ہفتوں کے اسباق سے اس کے پورے فکری فریم ورک کو تبدیل کر سکتا ہے ۔ شرکاء کی اس حوالے سے حساسیت حد درجہ باعثِ اطمینان ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ کورس اب تک ایک اچھا تجربہ ثابت ہوا ۔فکری تبدیلی (یعنی مدارس ،روایت سے بدگمانی ، مولوی، داڑھی پگڑی کی تحقیر ،جو عمومی طور پر مدرسہ ڈسکورسز کے اثرات و نتائج کے کھاتے میں ڈالے جاتے ہیں ) کی تو مجھے(اور یقین کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی شریک کورس کو ) ہوا بھی نہیں لگی ،البتہ مناقشہ کے نتیجے میں اپنی بعض فکری آراء پر مضبوطی ہوگئی ،اس لیے میری ہر صاحب استعداد فاضل سے گزارش ہے کہ اسے جوائن کریں ، تاکہ جدید دنیا میں مذہب کی پوزیشن کو سمجھنے میں مدد ملے ،جدید سوالات کا فہم حاصل کریں ،اور جدید تعبیر و اسلوب کے ساتھ جدید ذہن کے مطابق اسلاف کی علمی روایت کے تنوع سے مستفید ہوتے ہوئے اسلام کو دورِ جدید کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ دکھائیں تاکہ موجودہ مسلم نسلوں میں الحاد اور مذہب سے بے اطمینانی کے سیلاب کے سامنے اپنی حد تک بند باندھ سکیں ۔

مذہبی طبقے سے درخواست ہے کہ یہ آپ کے اپنے لوگ ہیں ،انہیں اچھوت بنانے کی بجائے اسے لیڈ کریں ،اپنی سرپرستی دیں ،جو فضلاء اس میں شریک ہورہے ہیں ،ان کی حوصلہ افزائی کریں ،اپنے تیا رکردہ فاضلین پر بدگمانی مت کریں ،اپنے باغ کے پھل سے انکار مت کریں ۔دین بھی قائم رہے گا ،دینی فکر بھی چلتی رہے گی،اتنی زیادہ احتیاط کہیں ہماری فکری کمزوری اور دین کی حقانیت کے بارے میں احساس کمتری کی علامت نہ ہو۔دینی مدارس کی چار دیواری سے جو نکلا ،اسے گمراہی کے مترادف سمجھنے کا رویہ چھوڑ دیں ،وما علینا الا البلاغ۔

ڈاکٹر محمد سعید شفیق

مدرسہ ڈسکورسز کا تیسرا بیچ اپنے پہلے ونٹر انٹینسو کے لیے پاک وہند کے فضلا ءکولے کر دسمبر کے آخری ہفتے میں قطر وارد ہوا۔اس کورس کا آغاز 2017 میں ہوا جس کے روح رواں ڈاکٹر ابرہیم موسیٰ صاحب (پروفیسر یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم۔امریکہ) ہیں۔آپ نے دارالعلوم دیوبند اور نددوۃ العلماء سے دینی تعلیم حاصل کی ،اور پھر امریکہ سے امام غزالی کے فلسفہ لسانیات پر پی ایچ ڈ ی کی۔ آپ کے ساتھ اس کورس میں پاکستان سے مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر اور انڈیا سے مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب بطور لیڈ فیکلٹی ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ماہان مرزا کی جگہ اس سال کوئٹہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان ڈاکٹر شیر علی ترین صاحب کا مدرسہ ڈسکورسز کی ٹیم میں ایک بہترین اور عمدہ اضافہ ہوا۔ آپ برصغیر پاک وہند میں استعماری ومابعد استعماری دور کی مذہبی فکر پر عمدگی سے بحث کرتے ہیں اور روانگی کے ساتھ چھ زبانیں بول لیتے ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز ایک خالص تعلیمی اور تحقیقی پراجیکٹ ہے جس میں پاک و ہند سے شرکاء کو باقاعدہ ٹیسٹ اور انٹریو کے بعد ایک مکمل پراسیس کے ساتھ منتخب کیا جاتا ہے۔ حسبِ سابق اس بیچ  میں بھی تقریباً تمام فضلاء پاک وہند کے بڑے بڑے دینی جامعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور پاکستان میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی، دارالعلوم کراچی، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، دارالعلوم حقانیہ، دارالعلوم غوثیہ محمدیہ اور جامعۃ الکوثر وغیرہ کے فضلاء شامل تھے۔ تمام شرکاء مضبوط استعداد کے ذہین فضلاء اور عصری علوم سے بھی آراستہ ہیں۔ میرے اعداد وشمار کے مطابق اس تیسرے بیچ میں 10 پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، گیارہ پی ایچ ڈی سکالرز اور بہت سے  ایم فل اسکالر تھے۔ بہرحال یہ نیا گروپ اپنے ونٹر انٹینسو کے لیے پچیس سے تیس دسمبر تک کالج آف اسلامک اسٹڈیز، حمد بن خلیفہ یونیورسٹی ، ایجوکیشن سٹی قطر میں جمع ہوا  جس میں پاکستان سے چوبیس اور ہندوستان سے انیس جید علماء اور بااستعداد نوجوان فضلاء کے علاوہ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کی بعض انڈر گریڈیجویٹ طالبات نے بھی شرکت کی۔

ونٹر انٹینسیو میں شرکت کے لیے پاکستان سے ہماری فلائٹ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ لاہور سے روانہ ہوئی، رات تین دن بجے ہم سب بخیر وعافیت ایجوکیشن سٹی میں واقع ہوٹل پریمئیر ان میں پہنچ گئے۔ہماری آمد سے پہلے انڈین شرکاء پہنچ چکے تھے۔کوشش یہ کی گئی کہ ہر کمرہ ایک پاکستانی اور انڈین شریک ِ کورس کا مشترکہ ہوجس کا یہ فائدہ ہواکہ مختلف پس منظر رکھنے والوں کا آپس میں گہرا ربط و تعلق قائم ہوا اور ثقافتی و مذہبی افکار کا تبادلہ ہوتا رہا۔مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے شرکاء کی طرح ہمارےورکشاپ کی میزبانی بھی دوحہ کے ایجوکیشن سٹی میں واقع حمد بن خلیفہ کے کالج آف اسلامک اسٹڈیز نے کی۔یہ ہوائی جہاز کے ماڈل کے طرز پر انتہائی دلکش ، دیدہ زیب اور جدید انداز سے بنائی گئی انتہائی وسیع وعریض عمارت ہے  جس کا ہر کونہ فن ِ تعمیر کا شاہکار ہے۔

25 دسمبر 2019 بروز بدھ ورکشاپ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ابتدائی سیشن میں پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر شیر علی ترین نے ورکشاپ کا طریقۂ کار،اہداف اور سرگرمیوں کو واضح کیا اور بعض شرکاء کا تعارف ہوا۔چائے کے وقفے کے بعد نوٹرے ڈیم یونیورسٹی سے ڈاکٹر جوش لوپو نے پیٹر ہیریسن کی کتاب  Territories of Science and Religion  کے حوالے سے مذہب اور سائنس کے آپس میں ربط و تعلق پر بڑی عمدہ گفتگو کی  اور سوالات پیش کیے جس پر شرکاء نےتبادلہ خیال کیا۔ حسب ضرورت اردو ترجمہ کے فرائض ڈاکٹر شیر علی ترین نے ادا کیے۔ نماز اور کھانے کے وقفے کے بعد اگلی نشست میں اسی موضوع پر گروپ ڈسکشنز ہوئے اور ہر گروپ میں ایک ممبر نے ان کا خلاصہ پیش کیا۔مغرب کے بعد نشست میں ڈاکٹر وار ث مظہری اور ڈاکٹر شیرعلی ترین نے امام ابوالحسن العامری(المتوفیٰ 381ھ) کی کتاب "الاعلام بمناقب الاسلام" اور مرزا مظہر جانِ جاناں کے مکاتیب کی روشنی میں اسلامی سیاسی حاکمیت اور برتری پر لیکچرز دیے اور اس بارے میں مغربی مفکرین کی آراء پیش کر کے اس پر مناقشہ کیا گیا  کہ جانبین کے درمیان اسلام کی جو فوقیت بیان کی گئی، وہ کس حد تک آپس میں مختلف ہے۔

26 دسمبر ورکشاپ کا دوسرا دن تھا۔ کل کے محاضرات سے متعلق اایک اور دلچسپ مضمون شامل کرکے مناقشہ کو جاری رکھا گیا۔ ڈاکٹر عمار خان ناصر نے بانئ دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی کے مشہور مناظرہ "مباحثہ شاہجہان پور" کا خلاصہ پیش کیا  اور ایک دلچسپ انداز میں اس مناظرے کی گفتگو سے دس سوالات غیر مرتب انداز میں شرکاء کے سامنے رکھ دیے ۔ پھر ان سوالات کو ترتیب دینے کے لیے شرکاء کو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا ۔ یہ ایک دلچسپ تجربہ تھا جس کاخاطرخواہ فائدہ ہوا اور تمام شرکاء نے اس کو سراہا۔ چائے کے وقفے کے بعد اس پر مزید بحث و مباحثہ ہوا اور بیشترشرکاء نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ ظہر اور لنچ کے بعد شام تک وقفہ رکھا گیا۔ مغرب کے بعد مشہور مغربی باحث یوحانن فرائیڈمین کی کتاب “Tolerance and Coercion in Islam” پر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر وارث مظہری نے اپنے ملاحظات پیش کیے کہ کس طرح Tolerance کے جدید تصور کو معیار بنا کر پیش کی جانے والی مذہبی تعبیرات کا مصنف نے تفسیر ،حدیث اور فقہ کی روشنی میں ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ اس پر نہایت عمدہ مناقشہ ہوا اور شرکاء کے سوالات کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

27 دسمبر کو تیسرا دن جمعہ کا تھا، اس لیے صرف ایک سیشن رکھا گیا  جس میں ڈاکٹر عمار ناصر اور ڈاکٹر وارث مظہری نے ابوحیان توحیدی کی کتاب "الامتاع والمؤانسۃ" سے متی بن یونس اور ابوسعید السیرافی کے درمیان عربی نحو اور یونانی منطق کی باہمی افضیلت کے سوال  پر ہونے والے مناظرے  پر سیر حاصل گفتگو کی  اور شرکاء نے بھی اس پر اپناتبصرہ پیش کیا۔ اس کے بعد نمازِ جمعہ کے لیے وقفہ دیا گیا۔ جمعہ کے بعد لنچ کیا گیا اور پھر شرکاء کو قطر میوزیم آف اسلامک آرٹ کا وزٹ کرایا گیا۔ ساحلِ سمندر پر کئی ایکڑ پر پھیلی ہوئی یہ  پانچ منزلہ عمارت فنِ تعمیر کا شاہکار ہے جس میں مختلف ادوار اور مشرق ومغرب میں پھیلی مسلم ثقافتوں کی تاریخ کو نہایت عمدگی اور سلیقے سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہمیں قطر کے مشہور بازار سوق واقف کے پاس واقع بیت جلمود میوزیم لے جایا گیا۔ اس میوزیم میں مختلف ممالک بشمول قطر میں غلامی کی تاریخ ، مظاہر اور اشکال محفوظ کی گئی ہیں۔ کچھ کمروں میں بڑی بڑی سکرینوں پر غلامی کے نظام پر مبنی ویڈیوز دکھائی جا رہی تھیں۔ یہاں ایک چھوٹی سی لائبریری بھی ہے  جہاں غلامی سے متعلق بنیادی مصادر ومراجع پر مشتمل کتابیں موجود ہیں ۔ یہاں سے ہم سوق واقف گئے۔یہ دوحہ کا سوسالہ قدیم ترین بازار ہےجو آج بھی پرانی طرز پر قائم ہے۔ یہاں ہر وقت سیاحوں اور مقامی لوگوں کا رش ہوتا ہے اور مختلف علاقوں کے لوگ اپنی روایات اور ثقافتوں کو مختلف انداز سے پیش کررہے ہوتے ہیں۔ شرکاء کے لیے اسی بازار میں واقع ایک ترکش ریسٹورنٹ "دی ویلج " میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ ڈنر کے بعد کچھ دیر کے لیے کورنیش یعنی ساحل سمندر پر گئے اور پھر ہوٹل واپسی ہوئی۔

28 دسمبر کو پہلے سیشن کا آغاز ڈاکٹر سہیرا صدیقی (ایسوسی ایٹ پروفیسر، جارج ٹاؤن یونیورسٹی ، دوحہ کیمپس) کے لیکچر سے ہوا ۔انہوں نے علم  کی تعریف اور مصادر پر بحث کی اور قانون وشریعت کا علم معرفت سے کیا رشتہ ہے، نیز جدید مسلم معاشرے میں علم معرفت کا کیا کردار ہے،اس کو عمدگی سے واضح کیا۔ اس پر بھرپور مناقشہ ہوا اور اساتذہ سمیت تقریباً تمام شرکاء نے پینل ڈسکشن کے ذریعے اپنے ملاحظات پیش کیے۔ شام کے وقت مہمان اسکالر ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی کا لیکچر تھا جو اسلامی اقتصادیات کے عالمی سطح کے ممتاز اسکالر اور اس موضوع پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ۔ آپ نے تفصیل کے ساتھ "الفقہ الاسلامی بین النصوص والتراث والمعاصرۃ وقفاً لفقہ المیزان" کے موضوع پر بڑی عمدگی سے بحث کی ، اور پھر بڑی فراخ دلی کے ساتھ شرکاء کی جانب سے تقریباً بیس سے زیادہ سوالات کے جوابات دیے ۔ ڈنر کے بعد شرکاء کو ساحل سمندر کورنیش کا وزٹ کرایا گیا اور  بیشتر شرکاء نے  کشتیوں میں سمندر کی سیر کی۔

29 دسمبر بروز اتوار ڈاکٹر رنا دجانی (ایسوسی ایٹ پروفیسر، الجامعہ الہاشمیہ اردن) نے اسلام اور ارتقاء کے حوالے سے ویڈیو لنک کے ذریعے تفصیلی لیکچر دیا، اور آخر میں چائے کے وقفے کے بعد بھی مسلسل ایک گھنٹہ شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے۔شام کے وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے استاذ ادریس آزاد صاحب نے سائنس اور ارتقاء کے کائناتی قوانین کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر حیات کی ابتدا اور نشو ونما پر اپنی پرمغز پریزینٹیشن پیش کی جس سے حاضرین کی سائنس کے حوالے سے معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوا،اور پھرسوالات کے سیشن کے بعد اپنی شاعری سے بھی شرکاء کو محظوظ کیا۔

30 دسمبر ورکشاپ کا آخری دن تھا۔پہلے سیشن میں ڈاکٹر عمار ناصر صاحب نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم کی روشنی میں مسلم ثقافت اور تشبہ بالکفار پر بحث کی۔ ان کے بعد پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ صاحب نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ایک آرٹیکل کے حوالے سے مذہب اور ثقافت کے باہمی روابط پر گفتگو کی۔ چائے کے وقفے کے بعد شرکاء نے اپنے مشاہدات اور آئندہ کے لیے تجاویز پیش کی جن کو اساتذہ کرام نوٹ کرتے اور سراہتے رہے۔ظہر اور لنچ کے بعد ایجوکیشن سٹی ہی میں واقع قطر نیشنل لائبریری کا آفیشل وزٹ کرایا گیا۔ یہ عظیم الشان لائبریری بیس لاکھ کتابوں پر مشتمل ہے۔ یہاں دینی علوم وفنون پر مشتمل کتب/مصادر ومراجع کے کئی کئی ایڈیشن دیکھنے کو ملے۔ایک خاتون نے لائبریری کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بریفنگ دی اور یہاں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے بارے میں بتایا۔ تہہ خانے میں قدیم مخطوطات، نایاب کتابیں اور مکاتیب محفوظ کیے گئے ہیں۔

شام کے وقت الوداعی سیشن اور ڈنر تھا جس میں بقیہ شرکاء نے اپنے تاثرات اور تجاویزپیش کیں اور آخر میں اساتذہ کرام نے الوداعی کلمات کہے جس میں انہوں نے اسلامی فکری روایت کے اس پہلو پر گفتگو کی کہ دینی مدارس کے فضلاء کو اپنے مذہبی متون ، قدیم وجدید تراث ، الہیات اور اخلاقیات سے متعلق روایتی منہج کو فلسفہ، سائنس سے متعلق نئے علمی نظریات وافکار کی روشنی میں بروئے کار لانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ یہ کورس علماء کرام کے اندازِ فکر میں مثبت تبدیلیوں کا ذریعہ اور محرک ثابت ہوگا۔ دینی مدارس کے ساتھ ربط وتعلق کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے رقت آمیز لہجے میں ڈاکٹر عمار ناصر نے کہا کہ مدرسہ ہماری تاریخ اور تہذیب کا کسی نہ کسی رنگ میں بچا ہوا واحد ادارہ ہے۔ہماری تاریخ وتہذیب نے جتنے ادارے قائم کیے تھے، وہ سارے مختلف حوادث کی نذر ہوچکے ہیں۔یہ ایک واحد ادارہ ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے اوراسے لوگوں کا اعتمادآج بھی حاصل ہے۔ تہذیب و تاریخ میں ادارے آسانی سے نہیں بنتے،ایک ادارے کو اپنا نام بنانے اور اپنی خاص شناخت  حاصل کرنے میں صدیاں لگتی ہیں۔اس لیے اس ادارے کی قدروقیمت کو سمجھنا چاہیے اور جس علمی روایت کا یہ ادارہ امین ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔

الوداعی ڈنر کے بعد اسی رات چار بجے پی آئی اے کی پرواز سے روانہ ہوئے اور صبح 9 بجے اسلام آباد ائیرپورٹ بخیر وعافیت پہنچ گئے۔

خلاصہ یہ کہ یہ کورس اب تک ایک اچھا تجربہ ثابت ہوا  ہے،اوراس پہلی ورکشاپ میں کئی چیزوں سے ہم نے بہت استفادہ کیا۔میرااحساس ہے کہ اب ہم پہلے سے بہتر طور پر تحریر اور تبادلہ افکارکے ذریعے دوسروں تک پیغام پہنچا سکتے ہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ، مدرسہ ڈسکورسز ایک خالص تعلیمی وتحقیقی پروگرام ہے جس کا مقصد مدارس کے روایتی طرز فکر کو برقرار رکھتے ہوئے معاصر افکار ورجحانات کے تناظر میں دینی حقائق کو سمجھنا اور عصر حاضر کے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے جدید اسلامی فکر کی تشکیل ہے۔ ہمارے لیے اس کورس کے نصاب میں تاریخ، فلسفہ،سائنس اور علم الکلام سے متعلق مراجع ومصادر کا درجہ رکھنے والی کتابوں کا انتخاب کیا گیا جو طلبہ کے فکری دائرے کو وسیع کرنے میں ممد اور معاون ثابت ہوتی ہیں۔یہ پروگرام اپنی پوری ترتیب کے اعتبار سے ایک خالص علمی اور نظری سرگرمی ہے  جس میں ہم اپنی شاندار علمی روایت سے کسی درجہ میں واقف ہوئے۔ ہم نے اس کورس میں آنے کے بعد مسلم فلاسفہ کے جو مختلف رجحانات فکر ہیں، ان تک رسائی حاصل کی اور یہ جانا کہ عقل اور نقل کے تعارض میں اشاعرہ، ماتریدیہ، امام رازی، غزالی اور امام ابن تیمیہ کا مؤقف کیا رہا ہے؟ان فوائد کے ضمن میں ہمیں یہ بھی فائدہ ہوا کہ کس طرح علمی انداز میں ہم گفتگو کریں، نیزاپنی بات کو مدلل انداز میں کیسے پیش کیا جائے؟ بحث و مباحثہ میں کھلے ذہن کے ساتھ بغیر کسی تحقیر وتنقیص کے ساتھ شمولیت  اور اپنی بات پر ڈٹے رہنے کی بجائے دوسروں کو ان کا مدعا پیش کرنے کا موقع دینے کا سلیقہ حاصل ہوا۔

مولانا امیر حمزہ

مدرسہ ڈسکورسز کا یہ تیسرا بیچ ہے اور اس تیسرے قافلے میں راقم بھی شریک ہے۔ آغاز سے تاحال یہ پروگرام تنقید کی زد میں ہے۔ جوں جوں یہ متعارف ہورہا ہے، تنقید کی لہر میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پر تنقید میں سواد اعظم کا اجماع دکھائی دیتا ہے۔ دیوبندیت، سلفیت، بریلویت، غامدیت، جامعیت، جوہریت غرض نگاہ کے سبھی زاویے اس پر ترچھے پڑ رہے ہیں۔ ظاہر ہے، ناقدین کے اعتبار سے اس پر ہونے والی تنقید کے محتویات اور محرکات مختلف ہیں۔ اس پر ڈسکورسز کے شرکا اور فضلا کی طرف سے بھی لکھا جارہا ہے۔ عمومی تاثرات پر مولانا سمیع اللہ سعدی کی تحریر بہت جامع ہے۔ اس موضوع بالخصوص تنقید کے جواب میں مزید کچھ لکھنا کارِ عبث ہے۔ تاہم ایک دو ملاحظات پیشِ خدمت ہیں۔

ویسے تو دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، مگر مدرسہ ڈسکورسز کے ڈھول کا تجربہ مختلف رہا۔ یہ ہمیں دور سے بہت کرخت محسوس ہوا تھا، تاہم جوں جوں قریب آئے تو اس کے سُروں نے دل موہ لیے۔ میں نے اس سے متعلق احباب سے جب معلومات لیں اور اس کی بنا پر داخلہ لینے کا سوچا تو شرکت کے بعد حاصل شدہ معلومات سے بھی مفید تر پایا۔ موضوعات کے حوالے سے اس کی افادیت پر ان شاء اللہ وقتا فوقتا لکھوں گا۔ تاہم سر دست جو انقلاب محسوس ہوا، وہ علم کی نہ بجھنے والی پیاس ہے جس میں گذشتہ کچھ عرصے سے سیری کی کیفیت محسوس ہوتی تھی اور ہم اسے قدرت کے طرف سے "شرح صدر" کا مقام سمجھ رہے تھے۔ یہ وہ واحد "گمراہی" ہے جو میں نے اس پروگرام میں آنے کے بعد محسوس کی۔ ذاتی طور پر میری اس پروگرام میں دلچسپی کے کئی محرکات ہیں۔ ان میں بالخصوص یہ موضوع کہ استشراق کے بعد مغربی فکر (western scholarship) کے مطالعہ اسلام کے حوالے سے کیا رجحانات ہیں؟ اس کے نتیجے میں فہم دین کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟ کیا یہ رجحانات ہماری علمی تاریخ میں پیدا شدہ رجحانات کی ارتقائی شکل ہیں یا ان کا منشا جدید ہے؟ اگر سابقہ رجحانات کے مماثل ہیں تو ہماری قدیم روایت انہیں کیسے دیکھتی ہے؟ اس عنوان پر مطالعہ اور مناقشہ میرے لیے بہت دلچسپ رہا۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ مدرسہ کی روایت پر اعتماد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ مدرسہ پر ہم جتنی بھی تنقید کریں، مگر یہ بات بالکل درست ہے کہ مادیت کے اس ماحول میں اگر علمی و فکری خدمات کے لیے کسی طبقے نے خود کو حقیقی معنی میں وقف کیا ہے تو وہ اہل مدرسہ ہی ہیں۔ کل جو فکری ازمات ابھرے تو اسی طبقے سے غزالی، رازی، ابن رشد اور ابنِ تیمیہ پیدا ہوئے۔ آج کے ازمات میں بھی امت اسی طبقے کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہی امید کی کرن ہے۔ ان تمام ایجابی تاثرات کا سہرا مدرسہ ڈسکورسز کے اساتذہ اور فائق رفقا کو جاتا ہے۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔

فی الجملہ تنقید کے حوالے سے بھی مجھے بہت اطمینان ہوا۔ الحمد للہ ہمارے بڑوں کی سرپرستی قائم ودائم ہے۔ وہ ہمیں اون (Own)کرتے ہیں۔ ہمیں پرخطر راستوں پر چلتا دیکھ کر احتیاط کی تلقین کرتے ہیں۔ ہمارے اندر بغاوت کے جذبات ابھرتے دیکھتے ہیں تو ہماری مناسب گوشمالی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تاثر اس قدر خوبصورت ہے کہ تصور سے ہی دل ودماغ روشن ہوجاتے ہیں اور دہن میں چاشنی محسوس ہوتی ہے۔ الحمد للہ یہ بھی مدرسے کی دین ہے۔ اسے وہی محسوس کرسکتا ہے جو مدرسے کی روایت سے جڑا ہوا ہے۔ ہم بڑوں کے اس ناقدانہ مزاج کی قدر کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ایسے مخلص احباب اور اکابر کے ہوتے ہوئے کوئی اندھیرے میں گمراہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں گمراہی اپنا انتخاب ہو تو اور بات ہے۔

اٗئیر پورٹ پر فارن کرنسی کا آڈٹ ہورہا تھا تو میں نے ایک دوست سے از راہ تفنن کہا کہ اگر مدرسہ ڈسکورسز میں داخلے سے پہلے ہدایت اور ضلال کے ہمارے اثاثوں کا اس طرح کا آڈٹ ہوجاتا تو بہت اچھا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ جس قدر "گمراہی کے اثاثوں" کے ہم پہلے ہی مالک ہیں، وہ مدرسہ ڈسکورسز کے کھاتے میں پڑجائیں۔ اس لیے ناقدین سے میری ایک گزارش ہے کہ تنقید میں اسے ضرور ملحوظ رکھیں۔

مولانا محمد یونس قاسمی

جیسے ہی مدرسہ ڈسکورس کی کسی نئی علمی سرگرمی کا آغاز ہوتا ہے تو پاکستان میں مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ کسی بھی اقدام پر سوال اٹھانے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے اور اس پہ کوئی قدغن ہونی بھی نہیں چاہیے، تاہم اس کے ساتھ اگر ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کا عنصر کارفرما ہو تو بات چیت اور اختلاف کی مشق سودمند ثابت ہوسکتی ہے، اور اگر یک طرفہ تنقید ہی مقصود ہوتو غبار مزید غالب آتا ہے اور بدگمانیوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ چونکہ راقم خود اس عمل کا حصہ ہے، لہذا بہتر محسوس ہوا کہ جو دیکھا اور سمجھ میں آیا، اس کے تناظر میں مدرسہ ڈسکورسز کی تھوڑی بہت وضاحت کردی جائے۔

مدارس کے فضلاء کو ایک پختہ علمی سرگرمی کے ماحول میں بحث ومباحثہ کرنے کی عادت ڈالنے، ماضی کے علمی مواقف پر غوروفکر کرتے ہوئے سوالات اٹھانے اور مسلمانوں کواپنے  گزرے سنہری دور میں پیش آنے والے مسائل ومشکلات کو سمجھنے کی اس کوشش کا نام مدرسہ ڈسکورسز ہے جس میں نہ صرف علمی نصوص کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا جاتا ہے بلکہ اسلاف کےان مناظروں، مباحثوں اور علمی افکار وخیال کو بھی پڑھا جاتا ہے تاکہ یہ سمجھ آسکے کہ انہیں کیسے مسائل کا سامنا رہا اور وہ اس کا حل کیسے تلاش کرتے تھے۔

ناقدین کی اکثریت نے مدرسہ ڈسکورسز کے نصاب کو دیکھے بغیر، اس سے سے وابستہ اہل علم سے سوال کیے بنا ایسے الزامات لگانے شروع کردیے ہیں کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی افسوس ہوتا ہے کہ یہ الزام کن لوگوں پر لگایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز میں مسائل تو زیر بحث آرہے ہیں مگر ان کا کوئی مخصوص حل نہیں پیش کیا جاتا، بلکہ یہ تربیت دی جاتی ہے کہ غوروفکر کرنے کی عادت ڈالیں اور ان فکری، تہذیبی مسائل و مشکلات کا حل خود تلاش کریں۔ مجھے اس میں شامل ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے، مگر مولانا عمار خان ناصر اور ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ وغیرہم کو ایک عرصہ سے جانتا ہوں، ان کی کتب و افکار سے مستفید ہوتا رہا ہوں۔ یہ حضرات اپنی تمام علمی سرگرمیوں میں کامیابی کا سبب مدرسہ کے ساتھ قائم اپنے تعلق کو بتاتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں مدرسہ ڈسکورسز کے زیر اہتمام موسم سرما کی ایک پانچ روزہ علمی سرگرمی میں شریک ہونے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ کورس ہمیں اپنی دینی روایت سے جوڑنے اور اسے سمجھنے کی ایک کوشش کا نام ہے۔ ڈاکٹر موسیٰ کو ڈاکٹر فضل الرحمن کا شاگرد قرار دے کر تجدد پسند اور ڈاکٹر فضل الرحمن کا متبادل کہا جارہا ہے مگر میں نے جب ڈاکٹر موسیٰ سے اس بارے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فضل الرحمن سے میری صرف ایک ملاقات ہے۔ بلاسوچے سمجھے ان اہل علم کو متجددکے ساتھ ساتھ مشرک تک قرار دیتے جانا درست رویہ نہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز کی پانچ روزہ علمی ورکشاپ کے آخری روز جب طلبہ و اساتذہ اپنے اپنے خیالات و تجاویز کا اظہار کررہے تھے تو مولانا محمد عمار خان ناصر نے مدرسہ سے متعلق چند الفاظ کہے۔ وہ الفاظ میں یہاں من وعن پیش کرتے ہوئے یہ اپیل کرتا ہوں کہ توہمات کی دنیا سے باہر نکلیں اور حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اگر اس علمی سرگرمی کی حمایت نہیں کی جاسکتی تو لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنا اچھا طرز نہیں۔ مولانا عمار خان ناصر کا کہنا تھا:

’’ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کے بارے میں چند ایک باتیں کہنا چاہتا تھا، جن میں سے کچھ ڈاکٹر وارث مظہری نے کردی ہیں، کچھ اور تفصیلات بھی ہیں لیکن پھر کبھی بیان کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب کی ذات سے بہت ساری باتیں سیکھنے کی ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر جو چیزیں ڈاکٹر موسیٰ سے سیکھی ہیں، ان میں سے اہم چیز  ہر وقت علم سے کسی نہ کسی رنگ میں اشتغال رکھنا ہے۔ مطالعہ، تلاش، تحقیق  اس سے ہر وقت اشتغال ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ  کسی زمانے میں مدرسہ کمیونٹی کا حصہ ہوتے تھے، یہاں سے باہر جانے کے بعد اور ایک دوسری دنیا میں اپنا علمی مقام بنانے کے بعد اب ڈاکٹر موسیٰ امریکہ میں مقیم ہیں۔ امریکہ میں  اسلامک اسٹڈیز کے جو چند بڑے شیو خ ہیں ،ان میں اب ڈاکٹر صاحب کا شمار ہوتا ہے مگر مدارس سے وہ رشتہ جو کئی سال پہلے قائم ہوا تھا، انہیں اب بھی یاد ہے کہ میں نے اپنی دینی تعلیم کی بنیادیں اس مدرسہ کی صفوں پر بنائی تھیں۔

میرے خیال میں ہمارے سیکھنے کے لیے یہ بڑی اہم چیز ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ، بالخصوص پاکستان کے احباب کسی نہ کسی طور پر مدارس سے اپنا تعلق قائم رکھے ہوئے ہیں، مگر ہمارے کیریئر دوسرے اداروں  سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ تعلق یاد رکھنا بہت اہم ہے کہ بطور ادارہ اس کا ہم پر ذاتی حوالے سے حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مدرسہ  ہماری تاریخ اور تہذیب کا کسی نہ کسی رنگ میں بچا ہوا واحد ادارہ ہے۔ ہماری تاریخ و تہذیب نے جتنے ادارے قائم کیے تھے، وہ سارے مختلف حوادث کی نذر ہوچکے ہیں۔ یہ ایک واحد ادارہ ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے اوراسے لوگوں کا اعتماد آج بھی  حاصل ہے۔ ہم داخلی طور پر جتنی بھی تنقید کریں مگر اس کی تہذیبی اہمیت کا انکار ممکن نہیں۔

ایک زمانہ مجھ پر بھی ایسا گزرا ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ ادارہ اب کسی کام کا نہیں رہا اور اس کی جگہ کسی دوسرے ادارے کو سامنے آنا چاہیے مگر اب میں شرح صدر سے اس کی اہمیت کا قائل ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تہذیب و تاریخ میں ادارے آسانی سے نہیں بنتے، ایک ادارے کو اپنا نام بنانے اور معاشرے میں اپنے کام سے متعلق تعارف پیدا  کرنے میں صدیاں لگتی ہیں۔ بہت سے مسائل آئے، بہت ساری چیزوں کا سامنا کرنا پڑا، تاریخ نے بڑے عجیب کھیل ہمارے ساتھ کھیلے مگر اس ادارے کی قدروقیمت کو سمجھنا چاہیے اور جس علمی روایت کا یہ ادارہ امین ہے، ہمارا ایک تاریخی  ورثہ ہے جس کا مدرسہ ایک بڑا حصہ ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس کے ہماری ذات پر جتنے حق ہیں، انہیں ادا کرنے کی بھرپور کوشش   کرنی چاہیے۔‘‘

اختلاف رکھنے والے احباب سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان کی دینی روایت میں شروع ہونے والے اس نئے عمل پر اعتراض کی بجائے اس سے وابستہ اہل علم سے رابطہ کریں، ان سے سوال کریں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بدگمانیوں نے پہلے ہی بہت تفریق پیدا کی ہے، نفرتیں اٹھائی ہیں۔ بجائے اس کے کہ ایک نئی سعی کو بھی اس کی نذر کردیا جائے، بہتر ہے کہ اس پر بات چیت کا رُخ مثبت و تعمیری ہو۔

مولانا وقاص احمد

مدرسہ ڈسکورسز ایک مرتبہ پھر زیر بحث ہے، ہونا بھی چاہیے کیونکہ مدارس کے کئی فضلاء ان دنوں مدرسہ ڈسکورسز کی ایکٹوٹیز فیس بک پر شیئر کر رہے ہیں۔ بعض دوستوں نے مدرسہ ڈسکورسز  کے پہلے بیچ کو بھی موضوع بحث بنایا ہے جس میں راقم بھی شریک تھا۔ کچھ دیگر احباب کی تحاریر بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ سو چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

1۔ مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے بیچ میں مجھ سمیت چند دوست وہ ہیں جنہوں نے مباحث کو جیسے تیسے اور جتنا سمجھا، ان کے متعلق اپنا مطالعہ یا سوالات فیس بک پر لکھنے کا وتیرہ اپنایا تھا۔ دیگر دوستوں کا تو پتہ نہیں مگر میں نے اس تناظر میں لکھنا ترک کر دیا ہے، کیونکہ ہمارے سماج میں ہر وہ شخص اپنے پس منظر کے ساتھ اچھوت بنا دیا جاتا ہے جو سوچنے کی زحمت کرتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ مدرسہ ڈسکورسز  میرے جیسے عام نوجوان کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنے۔ اس لیے اگر کسی دوست کو مجھ یا مجھ ایسے دیگر کچھ لوگوں سے مسئلہ ہے تو انہیں چاہیے کہ اپنی تنقید کا رخ براہ راست ہماری طرف ہی رکھیں نہ کہ مدرسہ ڈسکورسز کی طرف۔

2۔ میرے تجربے کے مطابق مدرسہ ڈسکورسز  ایسا کوئی سبق نہیں پڑھاتا جس کی ترویج شرکاء پر لازم ہو۔ میری دانست میں مدرسہ ڈسکورسز  کا مقصود وہی جملہ ہے جو استاد مہان مرزا نے اپنے پہلے لیکچر میں کہا تھا کہ "علمائے کرام اگر مغربی فکر و فلسفہ کا رد کریں تو اس میں ہرگز کوئی برائی نہیں ہے، اس معاملے میں شناعت کا عنصر تب پیدا ہوتا ہے جب علمائے کرام مغربی فکر و فلسفے کو سمجھے اور جانے بغیر اس کا رد کریں اور یہ شناعت بھی فکری نہیں بلکہ عملی ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے کے ہاں خود علمائے کرام کے بارے میں یہ تاثر بننے لگتا ہے کہ یہ جاہل ہیں"۔ میں نے اس تناظر میں کئی علمائے کرام سے بالمشافہہ ملاقات کی، کئی کو سنا اور پڑھا، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکا دکا استثناءات کے علاوہ سب کے ہاں یہی خرابی پائی جاتی ہے۔ آپ ہی بتا دیجیے کہ کیا اہل علم کو اپنی یہ کمی دور نہیں کرنی چاہیے؟

3۔ مدرسہ ڈسکورسز  کے حوالے سے ایک پشتو ٹی وی پروگرام میں مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ ابراہیم موسی مدارس کے نظام کو کیوں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ استاد ابراہیم موسی مدارس کا نظام تبدیل نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس نظام کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کوشش بھی خود مذہبی روایت ہی کے ذریعے کر رہے ہیں۔ کیا آج کا کوئی بھی مفکر امام غزالی کی کاوش "مقاصد الفلاسفۃ" کو غلط کہہ سکتا ہے؟ اگر کوئی بھی شخص مغربی فکر و فلسفہ کو سمجھنے کی دعوت کو غلط سمجھتا ہے تو اسے لازما امام غزالی کو بھی غلط کہنا چاہیے، بلکہ ساری Greco-Arabic Translation Movement کو بھی سرے سے ناجائز ماننا چاہیے۔ مسلم مفکرین نے بلاشبہ یونانی فکر و فلسفہ کے ساتھ رد و قدح کا معاملہ کیا ہے مگر کیا کوئی ایک بھی ایسی روایت موجود ہے جس کے مطابق ترجمے کے اس پورے عمل ہی کو کسی نے غلط کہا ہو؟ نہیں۔ پھر مدرسہ ڈسکورسز جو کہ بعینہ یہی کام کر رہا ہے، موضوع تنقید کیوں ہے؟

4۔ میری دانست میں ہمارا سماج ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس میں ریڈ لائنز عوام نے نہیں بلکہ دانشور حضرات نے کھینچ رکھی ہیں اور یہ حادثہ شاید انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا کہ جن لوگوں کا کام ہی فکر و تدبر ہو، وہی غور و فکر پر قدغن لگا رہے ہوں۔ ایسی صورتحال میں ہر وہ کاوش بیک جنبش قلم ممنوع قرار پاتی ہے جو دانشوران ملت کی منظور نظر نہ ہو۔ دور نہ جائیے، طاہر القادری صاحب کو لے لیجیے، مسلکا بریلوی ہیں مگر خود بریلوی مکتب فکر کے کئی بزرگ انہیں شیطان کہے دیتے ہیں۔ جاوید احمد غامدی، ابراہیم موسی اور عمار خان ناصر تو پھر وہ لوگ ہیں جن کے پیچھے مسلکی طاقت بھی نہیں کھڑی۔ سو فقیہان حرم کی نظر میں ایسے لوگوں کی کاوشیں مردود نہ ہوں گی تو اور کیا ہوگا؟

5۔ آخری بات یہ ہے کہ سب چھوڑیے، مذکورہ بالا عمومی مسائل کو ایک جانب رہنے دیجیے، بس یہ بتائیے کہ جس دور میں ہم زندہ ہیں، اس دور میں بحیثیت مسلمان (اسکالر یا طالب علم) ہمارا کام کیا ہے؟ ائمہ تفسیر و حدیث و فقہ و کلام کی روش پر چلنا جنہوں نے خدا کی منشا اور اپنے دور کے حالات کی تفہیم میں عمریں کھپا دی تھیں یا ان لوگوں کی روش پر جنہوں نے ہر علمی کام کو تب تک کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا جب تک وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے؟ شاہ ولی اللہ کو بطور مثال لے لیجیے۔ آج شاید ہی کوئی مذہبی روایت ایسی ہو جو انہیں امام کے درجہ پر فائز نہ کرتی ہو، لیکن شاہ صاحب کے بعد سو ڈیڑھ سو سال تک سوائے ان کی آل و اولاد کے کسی نے انہیں "اون" کرنے کی ہمت نہیں کی، الٹا ان کے خلاف فتوے ہی جاری ہوتے رہے۔

میرا معاملہ تو یہ ہے کہ درس نظامی سے فراغت کے بعد جب پڑھنا اور پڑھانا شروع کیا تو سوال یہ پیدا ہو گیا تھا کہ آج کے حالات کو سمجھ کر مذہبی روایت کی ان کے ساتھ Relevance کیسے قائم کرنی ہے؟ مدرسہ ڈسکورسز نے مجھے اس سوال کا جواب نہیں دیا، بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ برصغیر کے متنوع مسالک، شاہ ولی اللہ، عبید اللہ سندھی، سید مودودی، جاوید احمد غامدی، مدرسہ ڈسکورسز  اور اب ماڈرن ویسٹرن فلاسفی اس ایک سوال کا جواب تلاش کرنے میں بطور معاون کردار ادا کرتے ہیں اور بس۔

مولانا عبد الغنی محمدی

مدرسہ ڈسکورسز کے حوالے سے تنقیدات میں یہ پہلو کافی غالب نظر آرہا ہے کہ ان فضلاء نے اسلام کے سیاسی نظام اور افکار کے حوالے سے کچھ نہیں پڑھا ہوتا، اس لیے ان کو گمراہ کرنا بہت آسان ہے یا سیکولرازم اور ایسے فلسفوں سے یہ بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں فضلاء مدارس کو کم از کم درجے میں جاہل شمار کیا جاتا ہے جن کو دور جدید اور اس کے فلسفوں کی بالکل کوئی سمجھ نہیں۔ اس تنقید میں خود پسندی و خود نمائی کے جذبات کے ساتھ ساتھ بات نہ بن سکنے کی صورت میں غصہ ، حقارت اور جذباتیت کھلے لفظوں دکھائی دیتی ہے۔

میں مدرسہ ڈسکورس کے اوسط لوگوں میں سے ہوں ، مجھ سے زیادہ مطالعہ والے بیسیوں احباب ہیں ۔ مختلف موضوعات پر روایتی و غیر روایتی علماء و مفکرین کی کتابیں مستقل زیر مطالعہ رہتی ہیں۔  پچھلے ایک سال میں جن کتابوں کا مطالعہ کیا، ان میں   جہاد کے حوالے سے ڈاکٹر مشتاق احمد، مولانا عمار خان ناصر ، مولانا فضل محمد اور وہبہ الزحیلی کی کتابیں شامل ہیں۔  تفسیر میں سارے قرآن کریم کو ایک مرتبہ دوبارہ غورو فکر کا موضوع بنایا اور اول تا آخر تفسیر عثمانی اور بعض مختصر تفاسیر کی روشنی میں دیکھا ۔ علوم القرآن پر صرف ایک سال میں تین سے چار کتابیں پڑھیں جن میں ہمارے استاد ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب کی تدوین قرآن کے حوالے سے کتاب اور بعض دیگر کتابیں شامل ہیں ۔علامہ شبلی کی الغزالی اور علم الکلام پڑھی، اس موضوع پر کچھ دیگر لوگوں کو بھی پڑھا ۔ مولانا مودودی کی تین سے چار کتابیں صرف اس ایک سال میں پڑھیں۔ مولانا تقی عثمانی کی ایک دو کتابوں کو پڑھا ۔ابھی محمد اسد کی شاہراہ مکہ دوبارہ پڑھ رہا ہوں، اسلام دو راہے پر اس سے قبل پڑھ چکا ہوں ۔ اس کے علاوہ اصول الفقہ پر نئی سامنے آنے والی کچھ کتابوں کو پڑھا۔ اس کے علاوہ بہت کچھ وہ جو ابھی مستحضر نہیں۔  ماضی میں سید ابو الحسن ندوی کی کافی کتابیں پڑھیں ۔ مضامین اور فیس بک کی تحریرات اس کے علاوہ ہیں ۔

اگر تنقید یہ مفروضہ طے کرکے ہے کہ ان لوگوں نے نہ کچھ پڑھ رکھا ہے اور نہ ان کو کچھ پتہ ہے تو اس سے باہر آجائیے ۔ مدرسہ ڈسکورسز خالصتا پڑھنے والے لوگوں کا گروپ ہے۔  سبھی ایک سے بڑھ کر ایک مطالعہ کرنے والی اور پڑھنے لکھنے والی شخصیات ہیں اور ایسے لوگوں کو ہی اس میں لیا جاتا ہے۔  پھر بھی اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دور میں اسلامی فکر کی جو کڑیاں آپ کو معلوم ہیں، وہ کسی کو معلوم نہیں ہیں تو پھر یہ وحی ہی ہوسکتی ہے جو صرف آپ پر اترتی ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی وسعت ظرفی تو یہ ہے کہ اس میں تمام قسم کی فکریں سامنے لائی جاتی ہیں اور ہم بھی جدیدیت کی طرف مائل یا مخالف، ہر ایک کو کھلے دل سے پڑھتے ہیں ۔ بات علمی موضوعات  کی بجائے بس طعن وتشنیع میں ہی کرنی ہے کہ ان لوگوں کو کچھ پتہ نہیں ، یا مالی مفادات کے چکر میں اس طرف  راغب ہیں تو حمایت یا مخالفت کا مورچہ کھولنے والے لوگ ہم نہیں ۔ ہاں، ہم آپ کو بھی پڑھیں گے، پڑھنے کے بعد اگر آپ کی بات ہمیں کمزور لگے تو ہمیں جاہل کہنے کی بجائے اتنا حق ضرور دیں کہ ہم اس کو نہ مانیں اور جس چیز پر شرح صدر ہو، اس کو مانیں۔ باقی اہل مدارس کو آپ جاہل کہیں گے تو وہ آپ کو جاہل سمجھتے رہیں گے۔ بات مکالمے اور دلیل سے نتیجہ خیز ہوگی، جہالت کے لیبل لگانے سے نہیں۔

مولانا عاطف ہاشمی

مدرسہ ڈسکورسز سے متعلق مختلف حلقوں کی جانب سے ملی جلی آرا سامنے آتی رہتی ہیں۔ دسمبر کے آخری  ہفتے میں جب اس کورس کا تیسرا بیچ ونٹر انٹنسو کے لیے قطر آیا تو یہ سلسلہ ازسرنو شروع ہو گیا۔ قطر میں موجود ہونے کی وجہ سے مجھے بھی کورس کے شرکاء سے ملنے اور خود ان کے تاثرات جاننے کا موقع ملا، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں بھی اس بابت اپنی رائے کا اظہار کروں۔

میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ یہ کورس انتہائی اہمیت کا حامل اور وقت کی ضرورت ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بہت پہلے ہی ہمارے اکابرین جدید چیلنجز کو سمجھنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنے فضلا کو تیار کرتے اور اگر وہ خود اس انداز میں آگے نہیں بڑھ سکتے تھے تو کسی ایسے فاضل سے اس بابت مدد لیتے جو اپنی مدد آپ کے تحت یہ صلاحیت حاصل کر چکے ہیں تاکہ وسیع پیمانے پر نوجوانوں کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تیار کیا جا سکے، لیکن افسوس کہ ایک طرف خود اہل مدرسہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس طرف توجہ نہیں دے سکے تو دوسری طرف اپنی سرپرستی میں جدید و قدیم سے آراستہ کسی شاگرد سے بھی استفادے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ (اس سب پر مستزاد یہ کہ نہایت اخلاص کے ساتھ اس جانب قدم رکھنے والوں کو گمراہ اور شر کا پروردہ قرار دیا گیا۔ فإلى الله المشتكى.)

ایسے میں اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کو اس کام کے لیے چنا اور انہیں پاکستان سے مولانا عمار خان ناصر اور ہندوستان سے ڈاکٹر وارث مظہری صاحب جیسے مخلص اور درد دل رکھنے والے رفقاء کار عطا کیے جنہوں نے علماء کی جدید خطوط پر تربیت کا بیڑہ اٹھایا اور اس میں کافی حد تک کامیاب جارہے ہیں۔ لیکن تاحال اس کورس کے شرکا اور اس کے منتظمین کو اجنبیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جس کی راقم کی نظر میں تین وجوہات ہیں۔ جب تک ان تین خامیوں کو دور نہیں کر لیا جاتا یا یہ کہ دیکھنے والے انہیں خامیاں سمجھنا چھوڑ دیں، تب تک یہ منفی تاثر باقی رہے گا۔

سب سے پہلی اور بڑی خامی اس کورس کی یہ ہے کہ اس کے منتظم اعلی ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب ہیں جوکہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی (نوٹرے ڈیم) میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ اگر یہی ڈاکٹر صاحب انھی افکار و نظریات کے ساتھ کسی عرب ملک کی یونیورسٹی کے پروفیسر ہوتے تو مجدد دوران کہلاتے، اور علما ان کی پیشانی کو چومتے لیکن ان کی سب سے بڑی خامی امریکہ میں مقیم ہونا ہے، چاہے پس منظر میں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء ہی کیوں نہ ہوں۔

پاکستان کی حد تک دوسری خامی کی وجہ مولانا عمار خان ناصر صاحب ہیں جو اگرچہ سکہ بند دیوبندی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن بعض دیوبندی حلقوں کی طرف  سے " گمراہی" کا سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے ہیں۔ وقت نے ایسی بہت سی پیش گوئیوں کو غلط ثابت کر دیا ہے اور دوسری طرف عمار خان صاحب سے متعلق غلط فہمیاں بھی وقت کے ساتھ ساتھ دور ہو رہی ہیں اور بڑی تیزی سے فضلاء ان کے قریب ہو رہے ہیں۔

 تیسری خامی مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے بیچ (batch) کا انتخاب تھا۔ میں تینوں بیچوں کے بہت سے شرکا سے واقف ہوں اور ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ انتہائی ذی استعداد و باصلاحیت ہیں، لیکن پہلے بیج کے بعض شرکا جدیدیت کے اسباق کو اچھی طرح ہضم نہیں کر سکے اور قدیم و جدید کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کر دیا، اس طرح وہ روایت سے باغی بن کر سامنے آئے اور شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کے شکوک وشبہات کو تقویت دیتے رہے، اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔

میں مدرسہ ڈسکورسز سے متعلق منفی تاثر قائم کرنے والے مذکورہ تینوں امور کے بارے میں پوری دیانت داری کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ یہ تینوں ہی محض اتفاقات ہیں نہ کہ کوئی سوچی سمجھی سکیم۔ ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب اگر امریکہ کی بجائے کسی مشرقی ملک میں ہوتے تو شاید انہیں ان چیلنجز کا ادراک ہی نہ ہوتا جو وہ اس دنیا میں رہ کر دیکھ رہے ہیں۔ اچھا اور مخلص مسلمان ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ پاکستانی بھی ہو، انڈیا، امریکہ یا کسی بھی غیر اسلامی ملک میں پاکستانیوں جیسے یا ان سے بھی زیادہ مخلص مسلمان ہو سکتے ہیں۔ مولانا عمار خان ناصر صاحب کی طرح ان سے پہلے بھی بہت سے اہل علم لگی بندھی سوچ سے ہٹ کر سوچتے رہے ہیں، لیکن اپنی متفردانہ رائے کا کھل کر اظہار نہیں کر سکے، لیکن عمار صاحب یہ "غلطی" کر گئے جو بہت ہی خیر کا سبب بن رہی ہے اور مزید بنے گی ان شاءاللہ۔

رہی بات پہلے بیچ کے چند فضلاء کی تو اس کا ادراک مدرسہ ڈسکورسز کی انتظامیہ کو بھی ہے اور حالیہ ورکشاپ کی آخری نشست میں برادرم منصور احمد صاحب نے بھی سب کے سامنے اس کا اظہار کیا اور امیج بلڈنگ سے متعلق ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کو متوجہ کیا۔ انہوں نے مسند احمد کی ایک حدیث کا حوالہ بھی دیا جس کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنیاد پر ایک شخص کے جہنمی ہونے کا فیصلہ کر دیتے ہیں، لیکن چونکہ اس کے حق میں لوگوں کی گواہی مثبت ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ لوگوں کی گواہی کو دیکھتے ہوئے اسے جنتی قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے بھی مدرسہ ڈسکورسز کی انتظامیہ کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ ان حضرات کی کوششوں کو بار آور بنائے اور امت کی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں اسے ذریعے کے طور پر قبول فرمائے۔  آمین

مولانا  ابو اعتصام الحق بختیار

(حیدر آباد، انڈیا)

یہ دنیا تغیر پذیر ہے۔ نظریہ ارتقاء کو کوئی مانے یا نہ مانے؛ لیکن دنیا اپنے وجود کے ساتھ ہر آن ہر سو متغیر ہورہی ہے۔ یہاں ہر چیز میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے، حتی کہ انسان کے سوچنے سمجھنے کے انداز اور طریقوں میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہےاور ہم جانتے ہیں کہ اسلام دائمی اور ہمیشہ رہنے والا مذہب ہے۔ دنیا میں چاہے کیسی ہی تبدیلی واقع ہوجائے، لیکن اسلام ہر تبدیلی میں اپنے  پورے وجود اور نظام کے ساتھ قائم رہنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے؛ البتہ ضرورت ہوتی ہے ایسے دماغوں کی، ایسے افراد کی جو جدید دنیا کے مطابق اسلام کو سمجھنے ، سمجھانے اورقابل عمل بتانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔بدلے ہوئے ذہنوں کو، سوچنے کے نئے انداز کے حامل افراد کو اسلام کی خوبصورت تصویر پیش کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ موجودہ چیلنجز اور اسلام پر ہو رہی جدید یلغار کو سمجھنے اور موجودہ زبان اور انداز میں اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ الاسلام يعلو ولا يعلی عليہ کی ہر زمانہ میں نمائندگی کر سکتے ہوں۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں، کچھ اسی طرح کی جدوجہد اور اسی خواب کو عملی تعبیر دینے کی ایک کوشش کا نام مدرسہ ڈسکورسزہے۔

انہی مقاصد کے حصول کے لیے ہم بھی مدرسہ ڈسکورسز سے مربوط ہوئے اور ستمبر2019 سے دسمبر 2019 تک مختلف موضوعات پر آن لائن کلاسز ميں شریک ہوکر مستفید ہوئے۔ ان کلاسز کے لیے اہم اور مفید مواد اور نصاب کا انتخاب کیا گیا تھا۔ عربی ، انگریزی اور اردو تینوں زبانوں میں علمی متون کا مطالعہ کرایا گیا، نیز یہ متون بڑے علماء، مفکرین ، دانشوران، سائنسدان اور علم کلام کے اساطین کی تھیں۔ علم کلام کے بیشتر متون بنیادی مآخذ  کی حیثیت سے تھے اور مجموعی طورپر پورے سمسٹر میں علم کلام کا رنگ غالب رہا؛ اگر چہ دیگر موضوعات پر بھی کافی مطالعہ اورمناقشہ ہوا ۔

اس کورس کی بہت سی خصوصیتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں مطالعہ کرنے کا انداز اور طریقہ بھی بتایا جاتا ہے جو کافی مفید ثابت ہوا۔ اس سے انکار نہیں کہ کسی کے پاس مطالعہ کا  اس سے بھی بہتر طریقہ ہو، اسی طرح اس کورس کی یہ بھی خوبصورتی ہے کہ یہاں استاذ خود کم گفتگو کرتے ہیں اورمشارکین کو تبادلہ خیال اور مطالعہ کی روشنی میں اپنی رائے رکھنے کا زیادہ موقع دیتے ہیں، نیز چند استثناءات کے سوا کبھی کسی کی رائے کی سختی کے ساتھ تردیدنہیں کی جاتی اور نہ ہی کسی کی بے جا تائید۔

سمسٹر مکمل ہونے کے بعد طے شدہ پروگرام کے تحت ونٹر انٹیسو (Winter Intensive)کا قطر میں ایک ہفتہ کا پروگرام تھا ۔ ۲۴  دسمبر کی صبح کو وہاں کے وقت کے حساب سے سوا نو بجے ہم قطر کے حمد انٹر نیشنل ائیر پورٹ پہنچے۔انتظامیہ کی جانب سے قطر میں شرکاءکے لیے تمام انتظامات شاندار رہے۔ ہوٹل ، ناشتہ ،کھانا ، ٹرانسپورٹ اور جائے محاضرات سب سکون بخش اور فرحت آمیز تھے۔  تمام نشستیں جامعہ حمد بن خلیفہ کے کلیۃ الدراسات الاسلامیۃ میں منعقد کی گئیں۔ جامعہ کا یہ حصہ اسلامی اور ماڈرن طرز تعمیرکا شاہکار ہے، بہت دیدہ زیب، پرکشش اور خوبصورت عمارت ہے۔ سمندر کی سطح پر، آدھی پانی میں اور آدھی اس کے اوپر،آسمان کی طرف اپنی دم کو تانے، تیرتی ہوئی شارک مچھلی کے نقشہ پر کلیہ کی عمارت تعمیر کی گئی ہے  جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں ایک وسیع وعریض مسجد بھی ہے ۔ ہماری نماز ظہر زیادہ تر وہیں ہوتی تھی۔

اس سات روزہ پروگرام میں مختلف موضوعات پر محاضرے پیش کیے گئے۔ ڈاکٹر شیر علی ترین ، ڈاکٹر عمار ناصر ، ڈاکٹر وارث مظہری ، ڈاکٹر ابراہیم موسی ،ڈاکٹر ادریس آزاد اور ڈاکٹر محی الدین علی قرہ داغی وغیرہ نے قیمتی محاضرات پیش فرمائے۔ اول الذکر تینوں حضرات کورس کے باضابطہ لیکچرارہیں اور تینوں ہی غضب کی صلاحیتوں کے مالک ہیں ، ڈاکٹر وارث مظہری کا مطالعہ وسیع ، فکر بلند اور نظر عمیق ہے ۔ جب وہ کسی نص پر کلام کرتے ہیں تو اس کے تمام گوشے چوپٹ کھل جاتے ہیں، اس نص کا فہم مشارکین کے لیے بالکل آسان ہوجاتا ہےاور ڈاکٹر عمار ناصر جب علم و تحقیق کی گرہیں کھولتے ہیں تو ان کے اندر سمندر جیسا ٹھہراؤ دکھائی دیتا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دور کسی سناٹے میں کوئی موسیقی کے تاروں کو چھیڑ رہا ہو ، نیز وہ کسی بھی نص کی تنقیح اس طرح کرتے ہیں کہ مشارکین کو لگتا ہے کہ اس متن کے تمام سرکش گھوڑوں کی لگام ہمارے ہاتھوں میں آچکی ہے۔

  ڈاکٹر شیر علی کو اگر نابغہ روزگار اور عبقری کہا جائے تو شایدمبالغہ نہ ہو۔ موصوف بلا کی ذہانت اور حیرت انگیز صلاحیت کے مالک ہیں، نصوص کے مطالعہ کا ان کا انداز انوکھا ہوتا ہے، جب یہ نصوص میں غوطہ زن ہوکر نتائج کا استخراج کرتے ہیں تواہل فضل وکمال مشارکین وسامعین کا مجمع انگشت بدنداں رہ جاتاہے۔ ان کوکئی زبانوں پر عبور حاصل ہے؛ البتہ ان کی اردو میں تقریباً 60 فی صد عربی الفاظ وترکیبات کی آمیزش ہوتی ہےاوریہ بھی ان کی شخصیت کی ایک خوبصورتی ہے ۔

ڈاکٹر ابراہیم موسی اس علمی قافلہ کے روح رواں ہیں۔  سادگی، خورد نوازی، حوصلہ افزائی ان کی شخصیت کے نمایاں عناصر ہیں، ان کی باتوں کے دریچوں سے ان کے قلبی احساسات، تڑپ اور بے قراری کو بخوبی دیکھا جا سکتاہے۔ عربی، انگریزی اور اردو تینوں زبانوں میں بولنے اور لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

قطر کے پروگرام میں جتنے محاضرات پیش کیے گئے سب اپنی افادیت میں ممتاز تھے۔ سائنس ، علم کلام، تہذیب، فقہ اور علمیاتی معاییر جیسے اہم موضوعات پر محاضرات مشتمل تھے۔ ڈاکٹر شیر علی تارین نے بھی کئی محاضرے دیے، ان کے محاضرات بڑے دل چسپ اور انوکھے انداز کے ہوتے تھے ۔ جو نصوص ہم نے پڑھ رکھی ہیں، انہی نصوص کو جب وہ پیش کرتے ہیں، تو ان میں ایسے ایسے نکتے پیش کرتے ہیں ، جو سامعین کے لیے بالکل نئے ہوتے ہیں اور ان کا انداز بھی اچھوتا ہوتاہے۔ حضرت نانوتوی کے مباحثہ شاہ جہان پور کی نص پیش کی گئی اور اس میں اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی کہ وقت اور ماحول کا کتنا اثر حضرت نانوتوی کے کلام اور ان کی تعبیرات پر تھا، کیوں کہ امام نانوتوی نے اپنے اس مناظرہ میں بعض ایسی تعبیرات کا استعمال کیا ہے، جس سے ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارگی کو فروغ ہوتا ہے اور اس طرح کی تعبیرات دوسرے مناظروں میں ہمیں نہیں ملتیں۔ نیز حضرت نانوتوی کے مناظرے میں اور دیگر علماء کے مناظروں میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے ۔ نیزاس محاضرہ میں مشارکین کو چند سوالات دیے گئے تاکہ وہ اپنے مطالعہ کی روشنی میں اس کے جوابات دیں۔ مشارکین نے اس میں خوب حصہ لیا اور امام نانوتوی اور دیگر علماء کے مناظروں کے درمیان فرق کو واضح کیا۔

مفتی امانت علی قاسمی نے مناقشہ میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حضرت نانوتوی کا یہ مناظرہ اگر چہ ہندو اور عیسائی دونوں سے تھا؛ لیکن اس مناظرہ میں ہندو اور مسلم دونوں ہی مناظرکرنے والوں کے پیش نظر عیسائی مناظر کو ہزیمت دینی تھی؛ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت نانوتوی کو اس مناظرہ میں بڑی کامیابی ملی اور عیسائیت اور ہندوازم دونوں کے مناظر بے بس نظر آئے، تو اس کامیابی پر صرف مسلمان ہی نہیں؛ بلکہ ہندوؤں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی؛ کیوں کہ عیسائی پادری ہندوستان کے طول وعرض میں اسلام کے ساتھ ساتھ ہندوازم کوبھی چیلنچ کر رہے تھے، وہ پورے ملک کوعیسائیت کے رنگ میں رنگنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔

ڈاکٹر سہیرا صدیقی  نے ایک محاضرہ علمیات (Epistemology)کے عنوان پر دیا ، جس میں بنیادی طور پر تین اہم عناصر پر بحث کی گئی : (1) معرفت کیا ہے؟ (2) ذرائع کیا ہیں؟ (3) معاییر کیا ہیں ؟نیز اس محاضرہ میں اس پر بھی اہم گفتگو کی گئی کہ مغرب میں علمیاتی معاییر میں کس قسم کی تبدیلی واقع ہوئی ہے؟

اسی طرح ایک بہت ہی پرمغز، مفید اور اطمینان بخش محاضرہ ڈاکٹر ادریس آزاد نےنظریہ ارتقاء کے شواہد (Evidences of Evolutionary Theory)کے عنوان سے پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا انداز تفہیم سادہ اور آسان تھا ، ان کی اس بحث سے سائنس کی بہت سی باتیں معلوم ہوئیں، نیز سائنس کے تئیں اشتیاق میں اضافہ ہوا ۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑے اچھے اندازمیں دنیا کی مخلوق میں ارتقائی مراحل کو سمجھانے  کی کوشش کی ، بڑی اچھی مثالیں اور مضبوط شواہد پیش کیے۔ اسی سے ملتا جلتا ایک آن لائن محاضرہ ڈاکٹر رانا دجانی صاحبہ نے پیش کیا ، ان  کے محاضرہ کا عنوان تھا : سائنس، ارتقاء اور اسلام (Science, Evolution and Islam)انہوں نے بھی اس عنوان پر انگریزی میں اچھا محاضرہ پیش کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نظریہ ارتقاء اسلام سے متصادم نہیں ہےاور بڑے پرجوش انداز میں قرآن کریم کی آیتوں کے حوالوں سے انہوں نے اپنا علمی محاضرہ پیش کیا۔  سوالات کے وقفہ میں مشارکین نے اپنے بہت سے خدشات، شبہات اور اعتراضات وسوالات کیے، میں نے بھی درج ذیل سوال کیا:

(1) ارتقاء کی وجہ سے بندر انسان بن گیا، تو سوال یہ ہے کہ بندروں کا ارتقائی مرحلہ انسان پر آکر کیوں رک گیا؟ اب ارتقاء کی وجہ سے بندرسے بننے والا انسان کوئی دوسری مخلوق کیوں نہیں بن رہاہے؟

(2)  ہمارے زمانہ کے بندروں میں یا ہم سے قریب تر ماضی کے بندروں میں اب یہ ارتقاء کیوں نہیں ہورہا ہے، یعنی   اب کے زمانہ کے بندر، انسان کیوں نہیں بن رہے ؟ کیا سابق میں جو بندر انسان بنے تھے، وہ مخصوص اوصاف کے حامل تھے، جو اوصاف ہمارے زمانہ کے بندروں میں نہیں پائے جاتے؟

ڈاکٹر صاحبہ نے اس کا کیا جواب دیا تھا، اب ذہن میں نہیں؛ لیکن ڈاکٹر ادریس صاحب نے ان دونوں سوالوں کا مختصر سا اور مشترک یہ جواب دیا تھا کہ ارتقائی مرحلہ کوئی ایک دن یا ایک سال میں طے نہیں ہوتا کہ ایک نسل اس کا ادراک کرسکے؛ بلکہ یہ ہزارہا ہزار سال کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔

اس محاضرہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ انسانی زندگی کی پیش قدمی کے لیے ارتقائی نظریہ بہت ضروری ہے، محاضرہ کے بعد ہم نے ڈاکٹر ادریس صاحب سے شخصی ملاقات میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم بندر اور انسان کے قصہ کے علاوہ دیگر تمام چیزوں میں نظریہ ارتقاء کو مانیں، کیا اس نظریہ کو ماننےکے لیے ضروری ہے کہ ہم بندر اور انسان کی بنائی ہوئی کہانی کو بھی مانیں، جبکہ یہ اسلامی تصور سے صاف متصادم ہے؟ ڈاکٹر موصوف نے صراحت کے ساتھ کہا کہ بندر اور انسان کی کہانی کو مانے بغیر بھی نظریہ ارتقاء کو مانا جاسکتا ہے۔

اسی طرح ان نشستوں میں ایک بیش قیمت محاضرہ تنظم الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر علی محی الدین القرہ داغی کا تھا ۔ محاضرہ کا عنوان تھا "الفقہ الاسلامی بين النصوص والتراث والمعاصرۃ وفقا لفقہ الميزان"۔ ڈاکٹر صاحب کا محاضرہ بہت شاندار تھا، قرآن کریم کی آیات کی تفسیر ، لطائف، دقائق اور نکات کا استخراج حیرت انگیز تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے محاضرہ میں ایک نئی بات یہ ملی کہ انہوں نے تراث اور نص کے درمیان فرق قائم کیا، ان کے نزدیک تراث میں نصوص شرعیہ اور دینیہ داخل نہیں ہے، تراث ان سے الگ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نصوص شرعیہ یعنی تفسیر اور حدیث وغیرہ سے متعلق اہل علم کے جتنے اجتہادات اور آراء ہیں، ان پر تراث کا اطلاق ہوتا ہے، بلکہ تراث کا امتداد حضرت آدم سے لے کر اب تک کے علماء اور فقہاء تک ہے، تراث صرف امت محمدیہ کے اجتہادات میں منحصر نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا موضوع پر نہایت ہی وقیع محاضرہ پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اچھے محاضرے پیش کیے گئے، جن کی فہرست اور ان پر تبصرہ طویل الذیل ہے۔

مدرسہ ڈسکورسز کی انتظامیہ نے جہاں ہماری علمی سیرابی کا خوبصورت نظم کیا تھا، وہیں ذہنی تفریح ، تاریخی مقامات کی سیر اور قطر کے دل کش اور حسین وجمیل مناظر سے ہمیں محروم نہیں رکھا گیا۔ ہمارا پورا قافلہ قطر کے متعدد عجائب گھروں  اور ساحل سمندر کے حسین نظاروں سے خوب محظوظ ہوا۔ سوق واقف کا تاریخی بازار بھی نظر نواز ہوا، جو صرف قطر کا بازار نہیں تھا، بلکہ وہاں قطر کی تقریباً تہذیب کا جامع تھا۔ سوق واقف میں ہی واقع ہوٹل دی ویلیج (The Village) میں عشائیہ تھا، جہاں ہمارے سامنے ایرانی اور انڈین کھانے پروسے گئے، گویا کہ یہ کھانا بزبان حال پکار رہا تھا "بضاعتكم ردت إليكم" تاہم کھانا بڑا مزیدار تھا، ایرانی کبابوں کا ذائقہ تو ہنوز زبان فراموش نہیں کرسکی۔

پیر کے دن دوپہر سے رات ساڑھے نو بجے تک اختتامی تاثراتی نشست تھی۔ درمیان میں لمبا وقفہ بھی تھا۔ یہ نشست پورے پروگرام کا خلاصہ تھی، اس میں مشارکین نے اپنے قیمتی تاثرات کا برملا اظہار کیا۔ بیشتر مشارکین کے تاثرات تین مرکزی عناصر میں محدود تھے: (1) مدرسہ ڈسکورسز پر ہونے والے اعتراضات کا جواب (2) اس کی افادیت۔ (3) اپنے تاثرات مشورے اور تجاویز۔ مجھے بھی تاثرات پیش کرنے کا موقع دیا گیا، میں نے اس کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے عرض کیا کہ فی زمانہ دنیوی تعلیم اور دینی تعلیم کے درمیان ایک خلیج قائم کردی گئی ہے، عام طور پر اِدھر کے حضرات اُدھر سے بے بہرہ رہتے ہیں اور اُدھر کے لوگ اِدھر سے۔ مدرسہ ڈسکورسز نے اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی ہے۔ یہ آخری نشست تھی، اس کے بعد سب کوجدا ہونا تھا؛ اس لیے بڑی جذباتی رہی؛ بالخصوص ڈاکٹر عمار ناصر اور ڈاکٹر ابراہیم موسی وغیرہ کی آنکھیں چھلک آئیں اور اس کے بعد چند منٹوں تک پوری مجلس میں سناٹا چھایا رہا۔

ان نشستوں اور کورس کے تعلق سے درج ذیل چند تاثرات اور مشورے پیش خدمت ہیں:

  1. مدرسہ ڈسکورسز کے روح رواں ڈاکٹر موسی ابراہیم کا نوجوان فضلاء اور حالات حاضرہ کے تئیں جذبہ قابل تقلید ہے۔
  2. مدرسہ ڈسکورسز کے تمام اساتذہ مسلکی، مذہبی غیر جانب داری اور اچھی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
  3. مدرسہ ڈسکورسزکا منتخب کردہ نصاب بہت مفید ہے۔
  4. ہمیں چار مہینے کے سمسٹر سے جتنا فائدہ ہوا، اس سے کہیں زیادہ آٹھ دن کے قطر کے پروگرام سے محسوس ہوا۔
  5. ڈاکٹر جوشوا لوپو  کی خدمات اور ان کے اخلاق متاثر کن ہیں۔
  6. مطالعے کے لیے عربی یا انگریزی میں جونص دی جاتی ہے، اگر ان نصوص کے اصطلاحی اورمشکل الفاظ کا حل بھی ساتھ ہی میں فراہم کردیا جائے تو ہماری توانائی نص کے اصل مغز کوسمجھنے پر زیادہ خرچ ہوسکتی ہے؛ ورنہ ہم الفاظ کے پیچوں میں ہی الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
  7.  کسی بھی مسلک کے بڑے عالم اور رہنما کا اگر ذکر آئے تو تمام مشارکین کو حتمی طور پر یہ التزام کرنا چاہیے کہ ان کے حوالے سے گفتگو کرتے وقت ادب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں، بصورت دیگر مشارکین کے درمیان ہی بدمزگی پیدا ہوجانے کا قوی اندیشہ رہتا ہے۔
  8. محاضرہ پیش کرنے والی مسلم خواتین میں اگر ان کی اسلامی وضع قطع اور ہیئت کذائیہ کو ترجیحات میں رکھا جائے تو مناسب ہوگا۔
  9. ونٹر اینڈ سمر انٹینسو میں صرف اساتذہ کے محاضرات کے بجائے مشارکین کو پچھلی نصوص کی روشنی میں کسی موضوع پر مقالہ لکھنے اور انٹینسو میں پیش کرنے کا مکلف کیا جائے۔
  10. پختہ عمر کے ماہرین فن اور صلاحیتوں کے حامل افراد کی کثرت کے بجائے شرکاء  کے انتخاب میں یونیورسٹی اور مدارس کے جدید فضلاء کو ترجیح دے کر ان کو تیار کرنا چاہیے۔

مولانا جاوید اقبال 

(نئی دہلی، انڈیا)

بحمد اللہ مدرسہ ڈسکورسز کا پہلا سمسٹر بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا۔ چند ماہ بیشتر جب  ایک باصلاحیت ، تحقیقی مزاج اور مثبت فکر کے حامل کرم فرما نے کورس کا تعارف کراتے ہوئے شرکت کی دعوت دی تو ناچیز نے انٹرویو میں شریک ہونے کا ارادہ کرلیا۔ جو اجمالی تعارف انھوں نے کرایا وہ اس مفید علمی حلقہ سے منسلک ہونے پر ابھارنے کے لیے کافی تھا۔ پھر انھی دنوں فیس بک اور واٹس ایپ پر کورس کے تعلق سے کئی تحریریں گردش کرنے لگیں جن میں حمایت سے زیادہ مخالفت کے سر نمایاں تھے۔ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں میں زیادہ تر لوگ ایسے تھے جن کی "دور اندیشی" اور "احتیاط پسندی" کو بآسانی 'قانونِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پر اڑنا" کے زمرے میں ڈالا جا سکتا تھا۔ تاہم ان میں کئی معتبر اشخاص بھی تھے جن کے خلوص پر شک نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان کے دلائل غیر منطقی بزرگانہ شفقت و خیر خواہی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے تھے۔ حد درجہ خلوص بھی بسا اوقات بے جا اندیشوں کو جنم دیتا ہے۔ لہذا ایسے تمام مخلصین معذور تھے۔ کسی بھی ڈسکورس میں جبر و اکراہ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور کورس کے بعض ذمہ داران کی کسی رائے سے علمی اختلاف کی بنا پر اپنے فضلاء کو کورس میں شرکت سے بچنے کی تلقین کرنا یا ان کے گمراہ ہوجانے کا رونا رونا "اپنے ہونہار" علمی فرزندوں کے تئیں صریح بدگمانی اور مدرسوں کے نظامِ تعلیم و تربیت کی افادیت پر ہی سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے۔ ویسے بھی جن فضلاء کو جدید مسائل اور مختلف افکار و نظریات کے مطالعہ کا شوق ہوتا ہے، ان کے لیے دنیا بہت وسیع ہوچکی ہے۔

مختصر یہ کہ کورس یا اس کے ذمہ داران کی نیک نیتی کے تعلق سے ناچیز کو کبھی کبھی کوئی بدگمانی نہیں رہی۔ جو چیز میرے لیے زیادہ باعثِ مسرت و انبساط ہے، وہ ہے کورس کی افادیت جس کا صحیح اندازہ باقاعدہ اس کا حصہ بننے اور دروس میں شریک  ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔ ساحل کے تماشائی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ قیاس ہر مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ کسی بھی موضوع پر مختلف قدیم و جدید تحریروں کا تقابلی مطالعہ اور پھر خالص دوستانہ ماحول میں ہر پہلو ہر سیر حاصل بحث، مشارکین کی آراء، اعتراضات، جوابات اور جواب الجوابات پر مشتمل ایک ایسا پر لطف علمی ماحول جس سے بلاشبہ فکر کے کئی زاویے وا اور کئی دریچے روشن ہوتے ہیں۔  تحریروں کے انتخاب میں جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا گیا ہے، وہ بذاتِ خود حیرت انگیز ہے۔

 یہاں کورس میں شامل مضامین کا جائزہ لینا میرا مقصد نہیں ہے اور نہ ہی ونٹر انٹیسو کے محاضرات پر تبصرہ۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے اب تک کی سرگرمیوں پر اپنے دلی تاثرات پیش کرنا ہے۔ کورس کے آغاز سے قطر کے سفر تک چونکہ صرف آنلائن کلاسز ہی ہوئیں، اس لیے باجود دوستانہ ماحول کے ایک گونہ اجنبیت تھی۔ لیکن اس سفر کے دوران جہاں ذمہ داران اور دیگر مہمان علمی شخصیتوں سے براہِ راست استفادہ کا زریں موقع نصیب ہوا، وہیں اس حقیقت کا بھی مشاہدہ سب نے  کیا کہ زاہدِ تنگ نظر جنھیں کافر سمجھتا ہے، وہ ولی ہے۔ فضلاء مدارس کے لیے  یہ خلوص، یہ کڑھن، اور ایسی فکر مندی صاحبانِ جبہ و دستار میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ مطالعہ میں تنوع آپ کو مختلف فکری جہات سے آشنا کراتا ہے۔ شوقیہ مطالعہ کی بھی اپنی افادیت ہے لیکن کسی خاص موضوع پر مختلف الفکر مصنفین کی تحریروں کا بنظرغائر مطالعہ اور اہل علم اور متجسس اذہان کی صحبت میں ان پر مناقشہ اس کی افادیت کو دو چند کردیتا ہے اور یہی اس کورس کا سب سے نمایاں اور مفید پہلو ہے۔ موضوعات بذاتِ خود اس قدر حساس اور اہم ہوتے ہیں کہ ان پر غور و خوض اور عصری اسلوب میں ان کی پیش کش وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ جدید علم الکلام یا فقہ کی تشکیلِ نو کا مطلب روایتی علم الکلام یا روایتی فقہ سے دستبرداری ہرگز نہیں ہے بلکہ تمام شرعی و اصولی نزاکتوں کا خیال رکھتے ہوئے اسے عصری اسلوب میں پیش کرنا ہے۔

فقہ جدید پر کافی کام ہوچکا ہے اور ہورہا ہے، لیکن علم الکلام کی تشکیلِ نو ہنوز توجہ طلب ہے۔ دونوں ہی کام عصری مزاج و اسلوب اور علم جدید کی بعض  شاخوں سے بقدرِ ضرورت آگہی و استفادہ کے بغیر ناممکن ہیں۔ وارثینِ انبیاء سے ہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے۔ کسی بھی ایسی کوشش میں فکری و علمی اختلاف فطری ہے اور دلیل کا جواب صرف دلیل ہی ہوسکتی ہے، فرار یا محض مخالفت نہیں۔

  الحمد للہ، اب تک کا سفر بہت ہی بصیرت افزوز، معلومات افزا اور لطف انگیز رہا ہے۔ امید ہے آگے کے مراحل مزید دلچسپ اور علمی و فکری لحاظ سے مفید تر ہوں گے۔

مولانا سید عبد الرشید

(کلکتہ، انڈیا)

مدرسہ ڈسکورسز پروگرام میری دانست میں ایک اہم پروگرام ہے، فارغین مدارس اور اسلامیات سے وابستہ افراد کے لئے یہ پروگرام کئی اعتبار سے مفید ہے، مثلا:

مولانا نوشاد نوری قاسمی

(دیوبند، سہارنپور، انڈیا)

اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ علم ایک نہ بجھنے والی پیاس کا نام ہے، یہ وہ تشنگی ہے جو علم وفضل کے دریائے ناپیدا کنار کو پی جانے کے بعد بھی ، اسی شدت کے ساتھ باقی رہتی ہے، اپنی علمی حالت کی اصلاح اور مجہول کی تلاش ہی انسانی زندگی کا وہ جوہر ہے ، جو اسے دنیا کی تمام تر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے ۔ علم وفن کی چند کلیوں پر قناعت کرنا کسی بھی دور میں اہل کمال کا شیوہ نہیں رہا ہے، بلکہ  “علاج تنگی· داماں” کی نئی نئی شکلوں کی دریافت ہی اس بزم کے دیوانوں کا دائمی شعار رہا ہے۔

مدرسہ ڈسکورسز پر گفتگو کرتے وقت میرا ذہن اس طرف اس لیے جارہا ہے کہ “ مدرسہ ڈسکورسز” کے ساتھ، چند ایسے خیالات کچھ لوگوں نے وابستہ کردیے ہیں جنہیں “اندیشہ ہائے دور دراز” کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، اور ان خیالات کے لیے جو دلائل فراہم کیے گئے ہیں، وہ غیر ضروری طور پر بدگمانیوں پر قائم ہیں۔ کبھی مدارس کے نصاب کی جامعیت کا حوالہ دیاگیا ، کبھی ان کی تاریخ اور ان کے افکارونظریات کے حوالہ سے گفتگو کی گئی ؛ لیکن ان سب کے پےچھے ایک قسم کی بدگمانی اور تعلیم واصلاح کے ہرنئے نظام کی مخالفت کا مزاج کارفرماتھا۔

مدرسہ ڈسکورسز کا میں نے پہلی بار نام اپنے رفیق محترم جناب مفتی محمد امانت علی قاسمی صاحب استاذ ومفتی دار العلوم وقف دیوبند سے سنا۔ اس کے کچھ ہی مہینوں بعد جناب ڈاکٹر مولانا وارث مظہری صاحب، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامیات جامعہ ہمدرد دہلی کی دیوبند آمد ہوئی۔ ان کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد کے متعدد اساتذہ بھی تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب سے تفصیلی ملاقات ہوئی، اور مدرسہ ڈسکورسز کے اغراض ومقاصد اور اس کا حصہ بننے کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں کے معیار کا علم ہوا۔ اس بات سے بھی کافی اطمینان ہوا کہ جناب ڈاکٹر صاحب ہی ہندوستان میں اس کے نگراں ہیں ؛ کیوں کہ ڈاکٹر صاحب اپنی تحقیقی ، تخلیقی اور علمی شناخت کی وجہ سے ہندوبیرون ہند کے علمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔

میرے لیے خوشی کی بات تھی کہ مجھے اس کاروان علم کا حصہ بننے کا موقع ملااور اس تعلیمی نظام کے آغاز کے موقع پر  جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی میں ایک پروگرام کا انعقاد کا عمل میں آیا، جس میں بذات خود جناب ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب نے بڑی وضاحت سے علم وتحقیق کی ضرورت اور فکری مسائل میں ہماری کم مائیگی کا احساس دلایا اور بڑے ہی درد مند لہجے میں یہ یقین دہانی کرائی کہ یہ تعلیمی نظام کوئی نئی چیز نہیں ہے ؛ بلکہ ہمارے اپنے اکابرین اور سلف کے تحقیقی مزاج کی تلاش اور ان کے منہج کے احیاءکی کوشش ہے۔ اس میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بعض ہندوستان کے فکر مند علماءانہےں ایسا کچھ کرنے کی ترغیب دیتے رہتے تھے، اور ان کی کوشش سے یہ “علمی مشروع” نوٹریڈیم یونیورسٹی، امریکہ میں منظورہوسکا۔

اس موقع پر فقیہ العصر حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کا پرمغز خطاب ہوا جس میں علم وفن کے ہر مثبت اقدام کی تعریف کی گئی اور حالات کے تناظر میں بدلتے رجحانات اور ان کے لیے مناسب اور ضروری تیاری کی اہمیت پر زور دیا گیا۔اسی زمانے میں ایک تحریر سامنے آئی اور مدارس کے حلقے میں ایک سنسنی پھیل گئی۔ پھرکیاتھا، ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا گیااور اس میدان میں وہ لوگ بھی کود پڑے جن کو نہ اس نظام کا پتہ تھااور نہ ہی اس کے طریقہ تعلیم کا، نہ اس کے نصاب کا اور نہ ہی مثبت اندازمیں بحث ومباحثے کا۔ ہرچند کہ اس ہنگامے سے طائر شوق کی بلندپروازی میں اضافہ ہی ہوا اور جلد سے جلد اس علمی سفر کے آغاز کی آرزو مچلنے لگی،لیکن ادارہ کی مصلحت کی وجہ سے گومگوکی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس موقع پر مدرسہ ڈسکورسز اور اس سے وابستہ تمام افراد کو جناب ڈاکٹر مولانامحمد شکیب قاسمی صاحب ڈائریکٹر حجة الاسلام اکیڈمی واستاذ دار العلوم وقف دیوبندکا مشکور ہونا چاہیے کہ انہوں نے مدرسہ ڈسکورسزکی مخالفت کے دھارے کو اپنی معروضی اورمنطقی تحریر سے موڑدیااور مخالفین کوہنگامہ اور سنسنی پھیلانے کی روش سے باز آنے کی نصیحت کی ۔

رفتہ رفتہ وہ دن بھی آیا جس کا انتظار رہتا تھا۔ ۴ ستمبر بروز بدھ ۲٠۱۹ء کی شام کو، آن لائن زوم ایپ کے ذریعہ اس درس کاآغاز ہوا جس میں ابن کثیر کی کتاب البدایة والنہایة کی آٹھویں جلد سے دلائل النبوةسے متعلق تقریبا بیس صفحات ریڈنگ کے لیے طے کیے گئے تھے۔ اسی طرح انگریزی میں بھی ایک ریڈنگ تھی جس کا موضوع مذہبی تعلیمات اور مغرب میں اسلامک اسٹڈیز کا منہج تھا۔ پہلے دونوں تحریر کا خلاصہ کیا گیا۔ انگریزی تحریر کا خلاصہ جناب ڈاکٹر شیر علی تارین صاحب نے اور اردو جناب مولانا عمار خان ناصر اورجناب ڈاکٹر وارث مظہری صاحبان نے کیا اور پھر اس موضوع کے تعلق سے بحث ومناقشہ کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس کورس میں سارے لوگ نہ صرف فضلاءمدارس ہیں، بلکہ فضلاءمدارس میں سے بھی ایسے ہیں جو کسی مدرسہ میں تدریس وغیرہ کی ذمہ داریوں سے وابستہ ہیں ؛ اس لیے تخصصات کے تنوع نے بحث ومناقشہ کا جو دروازہ کھولا تو ایک علمی تفریح اورصحت مند افادہ واستفادہ کا بالکل ایک نیا سرا ہاتھ آیا۔ افکار ونظریات کے باب میں اتفاق اور اختلاف کی پوری گنجائش رکھی گئی اور کوئی بھی ایسا نظریہ شامل نصاب نہیں کیا گیا جو امت مسلمہ کے یہاں قطعی طور پر مسترد ہو۔ یہ علمی قافلہ ۴ ستمبر سے لے کر ۱۲نومبر تک مسلسل پا بہ رکاب رہا۔ پھر کچھ وقت کے لیے وقفہ استراحت آیا ، اورایک نصاب دیا گیا تاکہ  ۲۵ دسمبر سے ۳٠  دسمبر تک دوحہ قطر میں ہونے والی ورکشاپ میں تیاری کے ساتھ حاضری دی جائے۔اس نصاب میں بھی مسلم مفکرین کی اہم تحریریں شامل کی گئیں  جن میں علامہ ابن تیمیہ کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم کا ایک حصہ اور امام نانوتوی ؒ کی کتاب مباحثہ شاہجہاں پور شامل تھی ۔

۲۳ دسمبر ۲٠۱۹ءکو یہ قافلہ قطر کی طرف روانہ ہوا۔ اس قافلہ میں تمام ہندوستانی احباب شامل تھے جن کی قیادت مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب فرمارہے تھے۔ ۲۴ تاریخ کومولانا عمار خان ناصرصاحب کی سربراہی میں پاکستانی احباب بھی شامل ہوئے اور اسی دن جناب پروفیسر ابراہیم موسی اورڈاکٹر شیر علی ترین سمیت دیگر امریکی احباب بھی شامل ہوگئے۔۲۵ دسمبر سے ورکشاپ شروع ہوا جو جامعہ حمد بن خلیفہ کے خوبصورت آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا اور جس خوب صورت انداز میں فکری موضوعات پر بحث و مباحثے کے مواقع فراہم کیے گئے ، ان کو قید تحریر میں لانا بھی مشکل ہے ۔مناسب ہوگاکہ موضوعات پر تھوڑی روشنی ڈالی جائے۔

واضح رہے کہ ان مضامین کا تعلق فکر وفن کے ان گوشوں سے ہے   جو کسی بھی حیثیت سے عصر حاضر میں بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ مطالعاتی مواد  کا ایک اجمالی خاکہ پیش ہے: (۱) الاعلام بمناقب الاسلام لابی الحسن العامری (۲) مباحثہ شاہ جہاں پور از حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ  (۳) المنتخب من الامتاع والموانسة لابی حیان التوحیدی (۴) المنتخب من مشکاة الانوار للامام محمد الغزالی (۵) المنتخب من اقتضاء الصراط المستقیم للعلامۃ ابن تیمیۃ۔

اس کے ساتھ اہم موضوعات پر چار محاضرات بھی ہوئے ۔ علامہ محی الدین قرہ داغی(قطر) نے ”الفقہ الاسلامی بین النصوص والتراث والمعاصرۃ وفقا لفقہ المیزان“ کے عنوان پر، ڈاکٹر ادریس آزاد (پاکستان) ڈاکٹر رنا دجانی(اردن)نے نے نظریہ ارتقاء پر اور   ڈاکٹر سہیرہ صدیقی (قطر)  نے اسلامی علمیات پر اپنے محاضرات پیش کیے۔

بلاشبہ یہ موضوعات جویائے علم و فن کے لیے  عقل ونظر کی تسکین کااہم ترین ذریعہ ثابت ہوئے۔ ہرموضوع پر ایک مختصر بیانیہ کے بعد بحث ومناقشہ کا دروازہ کھلتا۔ہر شخص کی چونکہ ان موضوعات پر مکمل تیاری ہوتی تھی، اس لیے مناقشہ کے لیے وقت کم ہورہا تھا۔ شرکاءکے اختصاصات کے تنوع اور نقطہ ہائے نظر کے اختلاف نے  ہرموضوع میں اتنے علمی ومعنوی اضافے کیے کہ محسوس ہوتا، معلومات کا کوئی چشمہ ہے جو پھوٹ پڑا ہے۔ متعلقہ موضوعات کے نئے نئے زاویے کھل کرسامنے آئے ۔ شرکاءکی مداخلات کے بعد ، جناب مولانا عمار خان ناصر، جناب ڈاکٹر وارث مظہری اور جناب ڈاکٹر شیر علی ترین صاحبان کے تحلیل وتجزیہ کا علمی وانوکھا اندازاور بات سے بات نکالنے کا انتہائی خوب صورت جوہر، تمام شرکاءکے دلوں پر ان حضرات کے علم وفضل کا ایک نقش قائم کرگیا۔

جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب کے بعض تنقیدی مضامین سے بہت سے لوگ نالاں ہیں۔ ہمیں کسی کے نظریات سے اتفاق اور اختلاف کا پورا حق ہے ، لیکن ضروری ہے کہ یہ اختلاف علمی دائرے اور صحیح علمی دلائل پر قائم ہوں ۔ اختلاف کے منہج اور اصول کی رعایت طرفین کے حق میں یکساں مفید ہوتی ہے ۔ اختلاف کرنے والے کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کی بات سنی جاتی ہے اور اس کا علمی اور سنجیدہ چہرہ سامنے آتاہے ، جبکہ دوسرے فریق کویہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی پر سکون ماحول میں اپنی آراءپر غور وخوض اور نظرثانی کرتا ہے اور غلطی سامنے آجانے پر رجوع بھی کرلیتا ہے۔  اس پوری مدت میں ، جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب نے ایک بھی ایسی بات نہیں کہی جو جمہور کی رائے کے خلاف ہو، بلکہ مدارس اور اہل مدارس کے بارے میں یہ کہتے ہوئے الوداعی مجلس میں آب دیدہ ہوگئے کہ ہماری قوم نے علم وفن کے جو مراکز قائم کیے ، وہ سب ختم ہوگئے ۔ یہی ایک علمی مرکز باقی ہے جس کی خدمات کا پورا عالم قائل ہے  اور اس کی بقا وتحفظ کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

بات شاید طویل ہورہی ہے ، لیکن یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اس پوری مدت میں علمی وروحانی غذا کے ساتھ، جسمانی غذا کا بھی پورا خیال رکھا گیا۔ رہائش کے لیے آ رام دہ ہوٹل کا انتخاب کیا گیا، قطر کے تاریخی مقامات کی سیرکی گئی  جن میں اسلامک میوزیم، قطر کی نیشنل لائبریری اورسوق واقف اور متعدد تفریحی اور سیاحتی مقامات شامل ہیں۔ بیشتر احباب سے کوئی خاص تعارف نہیں تھا، اس سفر میں بیشتر احباب سے تعارف اور علمی افادہ واستفادہ کی راہ ہموار ہوئی ۔

پروگرام کے روح ورواں جناب پروفیسر ابراہیم موسی صاحب نے  اس پروگرام کو نفع بخش اور دلچسپ بنانے کے لیے بے حد کوششیں کیں  جس کے لیے وہ تمام شرکاءکی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں۔ اس پروگرام میں جناب ابراہیم موسی صاحب کے علمی کمالات کا بھی خوب اظہار ہوا۔ امام الحرمین جوینی، امام غزالی ، امام رازی اور علامہ ابن تیمیہ کے فکر وفلسفہ اور ان کے باہمی اختلافات اور ان کے اسباب ، نیز علم کلام اور اس کے جدید موضوعات جیسے انتہائی اہم فکری موضوعات پر  ان کی گفتگو انتہائی چشم کشا ثابت ہوئی جس کا مجھے ذاتی طور پر کچھ بھی اندازہ نہیں تھا۔ مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب اور جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب کی علمی قابلیت اور فکری موضوعات میں ان کے تعمق کا علم پہلے سے تھا، جو اس پروگرام میں بہت ہی نکھرکر واضح شکل میں سامنے آیا۔اس پروگرام سے بہت سے علمی فوائد حاصل ہوئے۔ سب کا تفصیلی تذکرہ تو کسی اور موقع پر کیا جائے گا، لیکن بعض کا انتہائی اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے :

۱۔ مغربی مفکرین کی تحریروں کو پڑھنے اور ان کے نظریات کو براہ راست جاننے کا پہلی بار موقع ملا۔

۲۔ صحت مند علمی مناقشہ کا ایک بہترین نمونہ سامنے آیا۔

۳۔ عبارات کی تحلیل اور تجزیہ کا انتہائی خوب صورت اور دلچسب منہج سامنے آیا۔

۴۔ علمی مناقشوں سے بہت سے نئے علمی زاویے کھل کر سامنے آئے۔

۵۔ بہت سے جدید موضوعات پر   اکابرین کی تحریریں پیش کی گئیں  جو منتظمین کی وسعت فکر ونظر کی غماز ہیں۔نیز ان سے سلف کے علمی تراث سے شرکاءکی عقیدت ومحبت میں اضافہ ہوا۔بلاشبہ یہ خوب صورت علمی تجربہ رہا۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلائے اور ہمارے علم وفضل میں اضافہ فرمائے ، آمین۔

مولانا مفتی امانت علی قاسمی 

(دیوبند، سہارنپور، انڈیا)

۲۴ دسمبر ۲٠۱۹ء کو طے شدہ پروگرام کے تحت قطر کے لیے روانگی ہوئی ۔ یہ سفر علمی و فکری ارتقاءاورتحقیق کے بند دریچوں کو کھولنے کے لیے تھا ۔ علم کی کوئی انتہاءنہیں ہے ، علم کی معراج ”لا ادری“ ہے، یعنی جب انسان علم کی معراج کو پہنچتاہے تو معلوم ہوتا ہے مجھے کچھ نہیں معلوم ہے۔ علم کی نہ کوئی حد ہے اور نہ ہی کوئی منزل۔حدیث میں ہے : الحکمۃ ضالۃ المومن حیث وجدھا فہو احق بہا (سنن الترمذی حدیث نمبر ۷۸۶۲) : “حکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے وہ جہاں مل جائے وہی اس کا حقدار ہے” ۔ اس لیے ایک مسلمان کو خاص کر علم کے متلاشی اور میدان علم کے آبلہ پا کو اس کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ علم و حکمت کے جو بھی دروازے ہیں، ان کی تلاش کی جائے اور اپنے لیے اس دروازے کو وا کرنے کی سعی کی جائے ۔ علم و فکر کے جنگلات میں صحرا نوردی کی جائے اور وہاں موجود عودو عنبر کی خوشبو سے فائدہ اٹھایا جائے ۔علم کے جویا کے لیے لازم ہے کہ سفینہ علم میں بیٹھ کر سمندر کے سیر کرے اور وہاں موجود صدف سے اپنے آپ کو مالا مال کرے ۔علم کا یہ حق ہے کہ ہر گلستاں کی سیر کی جائے اور وہاں موجود نسرین و نسترن کی خوشبووں سے اپنے قلب و جگر کو معطر کیا جائے۔یہی وہ جذبہ تھا جس نے مجھے مدرسہ ڈسکورسز کی دہلیز تک پہنچادیا۔

ڈاکٹر وارث مظہری صاحب میرے استاذ ہیں ،ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور آج بھی علمی موضوعات پر میں ان سے مشورہ لیتا ہوں ۔ڈاکٹر صاحب نے مدرسہ ڈسکورسز کا تذکرہ کیا اور دہلی میں ہونے والے ایک پروگرام کا تذکرہ کیا چنانچہ ۲۳  جولائی۲٠۱۹ء کو ہوئے اس پروگرام میں میں نے شرکت کی ۔ہندوستان بھر سے حضرات اہل علم نے اس میں شرکت کی تھی۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اس میں کلیدی خطبہ دیااور فکراسلامی کو اس وقت کیا چیلنجز درپیش ہیں اور کس نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس پر مولانا نے مفصل روشنی ڈالی ۔مولانا نے جن باتوں کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی تھی ،ان میں چند اہم باتیں یہ تھیں :

پروگرام کایہ ابتدائیہ بڑا دلچسپ تھا ،اس لیے میں نے اس پروگرام میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا ،اور تین ماہ آن لائن کلاسوں میں بھی شریک ہوا جس میں کل بارہ کلاسیں ہوئیں جس میں بڑے دلچسپ فکری اور کلامی مباحث پر گفتگو ہوئی ۔علم کی ایک دنیا سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ آن لائن کلاسوں کی ترتیب بھی وہی تھی جو ونٹر انٹینسو کے پروگراموں کی تھی۔ بس دونوں میں فرق یہ تھا کہ آن لائن کلاسوں میں ہم“زوم ایپلیکیشن” کی کھڑکی سے سب کو دیکھتے اور سنتے تھے اور یہاں اس کھڑکی سے باہربالمشافہہ محاضرات اور ان پر ہونے والی بحثوں کو سننے اور ان پر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔

 مکمل ایک سمسٹر آن لائن کلاس کرنے کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق ونٹر انٹینسومیں شرکت کے لیے ہم لوگوں نے قطر کا سفر کیا ۔ یہ ایک ہفتہ کا سفر تھا۔ پروگرام قطر کے بہت ہی خوبصورت اور پرشکوہ یونیورسٹی حمد بن خلیفہ میں تھا ۔یہ یونیورسٹی ایجوکیشن سٹی میں واقع ہے اوربالکل منفرد طرز تعمیر سے آراستہ ہے۔ اس کا ہر حصہ فن تعمیر کا حیرت انگیز شاہ کا رمعلوم ہوتا ہے۔اس کا بیرونی منظر جس قدر دلکش ہے، اسی قدر اس کا اندورنی منظر بھی جاذب نظر اور زائرین کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والا ہے۔یونیورسٹی کا آڈی ٹوریم بھی جدید سہولیات سے مزین تھا جس میں سامعین کے سامنے مائک کا نظم تھا ۔ کتاب یا لیپ ٹاپ رکھنے کے لیے ڈیسک ، موبائل اور لیپ ٹاپ چارج کرنے کی سہولت بھی بہم تھی۔ ۲۵ دسمبر سے ۳٠ دسمبر تک یہ پروگرام چلا ، اس دوران وہاں کے تاریخی اور تہذیبی مقامات کو دیکھنے کا بھی موقع ملا، وہاں کی لائبریری ،اور ساحل سمندر پر واقع وسیع اور پرشوکت میوزیم کا نظارہ کیا۔ “غلامی میوزیم ”بھی دیکھا جس میں غلامی کی قدیم وجدید تاریخ، انسانی زندگی اور معاشرے پر اس کے اثرات پرموثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں ایک لائبریری بھی تھی جس میں صرف غلامی سے متعلق کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ان سب پرمستزاد ساحل سمندر کشتی کی سیر کی اس دوران ساحل پر واقع وہاں کی خوشنما عمارتوں کے دل فریب منظر نے لطف کو دوبالا کردیا ۔وہاں کے مشہور بازار ”سوق واقف“ میں قدیم طرز کے بنے ہوئے ترکی ہوٹل میں انڈین او رایرانی پرتکلف ڈشوں کا ذائقہ بھی چکھنے کو ملا ۔ یہت سے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں، لیکن یہ سب چیزیں ضمنی تھیں ،اصل تو وہ علمی ورک شاپ تھی جس کی کشش ہمیں یہاں کھینچ لائی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس پروگرام سے بڑا فائدہ محسوس کیا ۔ علم کے بہت سے گوشے کھلے ، فکر کے نئے زاویے معلوم ہوئے ۔ ہم مدارس کے فضلاءیہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں مدارس نے بہت کچھ دے دیا ہے، اب مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس مقدمہ کا آدھا جز صحیح ہے اور آدھا غلط ہے ۔ مدارس نے بہت کچھ دیا ہے، یہ صحیح ہے ۔ مدارس نے ہماری تربیت کی ہے ، اسلامی مزاج بنایا ، مصادر کی طرف رجوع کرنا ،قرآن و حدیث کو زندگی میں بنیاد بنانا ،علم کے ساتھ عمل سے وابستگی کا ذوق۔ ان کے علاوہ بہت کچھ مدارس نے ہمیں سکھایا، لیکن یہ احساس کہ اب مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ،اور اپنے یمین و شمال کی طرف دیکھنا فضول ہے ،میرا احساس ہے کہ یہ غلط ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عمومی تصور نہ ہو، لیکن کسی نہ کسی حد تک خود ہمارے اندر ابتداءمیں یہ تصور ضرور تھاجو بعد میں تجربہ سے غلط ثابت ہوا ،اس لیے کہ علم کی کوئی انتہاءنہیں ہے۔ مدارس کے فضلاءچیزوں کو جس انداز سے پڑھتے اور سمجھتے ہیں، دوسرے لوگ ضروری نہیں ہے کہ اسی انداز میں سوچیں اور سمجھیں ۔ جب ہم دوسرے لوگوں سے ملتے ہیں، ہمیں اپنی ہی معلومات کے نئے گوشے معلوم ہوتے ہیں ۔ امام اعمش کا مشہورواقعہ ہے کہ امام ابوحنیفہ سے ایک مسئلہ معلوم کیا گیا جس کا انہوں نے جواب دیا ۔اس پر امام اعمش نے پوچھا کہ تم نے یہ جواب کہاں سے دیا؟ تو امام ابوحنیفہ نے کہا کہ آپ نے جو روایت ابراہیم نخعی سے اور انہوں نے امام شعبی سے بیان کی ہے، اسی کی روشنی میں میں نے یہ جواب دیا۔اس پر امام اعمش نے کہا: یا معشر الفقہاء انتم الاطباء و نحن الصیادلۃ (الفقیہ و المتفقہ ۱/۴۳۴) معلوم ہوا کہ صرف فکر کے زاویے بدلنے سے بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں ۔ امام اعمش کے پاس وہ حدیث تھی، لیکن ان کے پاس فکر کا وہ پیمانہ نہیں تھا ، جو امام ابوحنیفہ کے پاس تھا ۔ اس لیے جب ہم مختلف فکراور مختلف خیال لوگوں کے درمیان بیٹھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات تو ہمیں بھی معلوم تھی، لیکن اس یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں تھا۔

 مدرسہ ڈسکورسز کے پروگرام میں ہم نے یہی سیکھا کہ جب ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وسعت اور فکر میں بلندی پیدا ہوتی ہے ۔گویا کہ مدرسہ ڈسکورسز پروگرام ہماری نگاہ کو عقابی بناتا ہے،ہمارے فکر اورحوصلے کو شاہین کا جگر دیتا ہے ۔ مدرسہ ڈسکورسز کے ایک اہم استاذ ڈاکٹر شیر علی تارین ہیں جو چھ سات زبان میں مہارت رکھتے ہیں۔ پاکستانی ہیں  اور امریکہ میں اسلامک اسٹڈیز کے استاذ کی حیثیت سے ایک فرینکلن اینڈ مارشل کالج، پنسلوانیا میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔آپ اردو ، عربی اور انگلش تینوں زبان میں روانی سے بولتے ہیں ۔برصغیر میں اسلامیات کی صورت حال پر انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہے ۔ حضرت نانوتویؒ اور حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کی کتابوں کا اچھا مطالعہ کیا ہے ۔ ہمارے پروگرام میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کی کتاب “مباحثہ شاہ جہاں پور” بھی شامل تھی۔ اس کتاب کا میں نے مطالعہ کرلیا تھا ، لیکن ڈاکٹر شیر علی تارین نے اس کتاب کا جس انداز سے تجزیہ کیا، وہ ہمارے لیے بالکل نیا تھا ۔اس سے محسوس ہوا کہ اس کتاب کے مطالعہ کے دوران ان پہلو وں کو بھی سامنے رکھنا چاہیے تھا جو ہم نے نہیں رکھا ۔ ان کے اس تجزیاتی مکالمے سے مطالعہ کا زاویہ اور نقطہ نظر معلوم ہوا  اور استدلالی منہج کے ایک نئے تجربے سے آشنائی ہوئی ۔یہ حقیقت ہے جس میں کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ۔

مدرسہ ڈسکورسز کے روح ورواں جن کی فکر سے یہ نئی بزم آباد ہوئی ہے، وہ پروفیسر ابراہیم موسی صاحب ہیں جو دیوبند و ندوہ کے فیض یافتہ ہیں۔ اس وقت امریکہ کی نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ امام غزالی سے خاص مناسبت ہے۔ اس پروجیکٹ کے یہی ذمہ دار وسرپرست ہیں ۔ان کی فکر یہ ہے کہ مدراس کے فضلاءکا فکر ارتقاءہو اور جدید چیلنجزکو جدید اسلوب میں حل کرنے کی ان کے اندر صلاحیت پیداہو ۔ وہ دنیا میں ہورہے انقلابات سے واقف ہوں ۔ اسلامو فوبیا کا جو سیلاب بڑی تیز ی سے اسلام کو مجروح کررہا ہے، ہمارے فضلاءان کا مسکت جواب دے سکیں ۔ مغربی مفکرین اسلام کو کس انداز میں پڑھتے ہیں اور اسلام کو کس طرح سمجھتے ہیں، ہمارے فضلاءبھی ان سے واقف ہوں۔ ا س سے ان کی فکر کی پروازبلند ہوگی ، ذہن میں عمق ، گہرائی اور وسعت پیداہوگی ۔

ڈاکٹر وارث مظہری صاحب بھی اس پروگرام کا حصہ ہیں ، اور ہندوستانی طلبہ کو لیڈ کرتے ہیں ۔ ان کی فکر میں کافی توسع اور اعتدال ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی مفکرین ،شاہ ولی اللہ ، علامہ شاطبی ، ابن تیمیہ ، رازی وغزالی کے افکار کو کثرت سے پڑھا ہے اور جب آدمی اتنے بڑے بڑے مفکرین کو جن کی فکروں میں کافی تنوع ہو پڑھتا ہے توان کی فکر میں بھی توسع پیدا ہوجاتی ہے، اس لیے ڈاکٹر وارث صاحب کی فکر میں گہرائی کے ساتھ بلندی ہے، لیکن یہ بلندی ان کو اعتدال کی راہ سے دور لے کر نہیں گئی ہے اور نہ ہی ان کے اندر کسی قسم کی تعلی کی صفت پیدا کی ہے بلکہ ایک اجنبی اور ناشناس شخص ابتدائی ملاقات میں ان کی علمی و فکری صلاحیتوں کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتا ہے۔

پاکستان کے مولانا عمارخان ناصر صاحب بھی اس پروگرام کی ایک اہم کڑی ہیں۔ مولانا عمار ناصر صاحب ہندو پاک میں محتاج تعارف نہیں ہیں ، ان کا رسالہ الشریعہ ہندوستان میں آن لائن پڑھے جانے والے رسالوں میں کافی مقبول ہے ۔ پاکستان میں ان کی فکر سے کافی اختلاف کیا گیاہے اورفکری اختلاف کا ہونا غلط نہیں ہے، لیکن جب یہ اختلاف فکر ی دائرے سے تجاوز کرکے شخصیت اور ذات پر آجائے تو یہ برا ہے ۔ کوئی شخص برا نہیں ہوتا ہے، اس کے نظریات اچھے اور برے ہوتے ہیں اور دلائل کی روشنی میں نظریات کی تردید کرنے کا ہر ایک کو حق ہوتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے شخصیت کو مجروح کرنا اور ان کی اچھی کاوشوں اور سنجیدہ علمی کاموں سے بھی انحراف کرنا علمی روش نہیں ہے ۔

 اس پروگرام کے حوالے سے چند اور باتیں بھی قابل ذکر ہیں:

(۱) اس پروگرام میں علمی انفتاح پایا جاتا ہے ، اسلامی مفکرین کیا کہتے ہیں اور کس انداز سے سوچتے ہیں اور مغربی مفکرین کس انداز سے سوچتے اور لکھتے ہیں، دونوں کا تقابل اس پروگرام کا بڑا دلچسپ حصہ ہے ۔ جو لوگ عربی اور انگریزی دونوں زبان پر مکمل عبور رکھتے ہیں، وہ اس کا زیادہ لطف لے سکتے ہیں ۔

(۲) جو کتابیں اس میں مطالعہ کے لیے دی جاتی ہیں، وہ زیادہ تر اسلامی مفکرین کی ہیں ، امام ابن تیمیہؒ ،امام رازیؒ، حجة الاسلام مولانامحمد قاسم نانوتویؒ ،شاہ ولی اللہؒ اور ان جیسے مفکرین کی ہیں۔ اس کے علاوہ چند مغربی مفکرین کی تحریریں بھی ہوتی ہیں، وہ بھی زیادہ تر انہی موضوعات پر جن پر اسلامی مفکرین کی تحریریں ہوتی ہیں۔ ہمارا وہ علمی وفکری سرمایہ جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے یا ہم ان کتابوں سے واقف ہونے کے باوجود مصروفیات کی وجہ سے انہیں نہیں پڑھ پاتے ہیں، اس پروگرام کی وجہ سے ہمیں ان کتابوں کو بھی پڑھنے کا موقع ملااور ساتھ میں مغربی مفکرین کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز بھی معلوم ہوا ۔

(۳) پورے پروگرام میں ہم نے دیکھا کہ سوالات قائم کیے جاتے ہیں، پھر ہر کسی کو اپنی رائے پیش کرنے اوراپنے مطالعہ کی روشنی میں آزادی کے ساتھ اپنی بات رکھنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے ،کسی کو کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی جبر ہوتا ہے ۔سوالات کے درمیان بعض مرتبہ ایسا ہوتاہے کہ آپ کی رائے کے مخالف کسی کی رائے آتی ہے، آپ ان کے دلائل کو بھی سنتے ہیں اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے ۔ ہم صرف اپنی رائے اور اس کے دلائل جانتے ہیں، مخالف کی رائے نہیں پڑھتے اور نہ ہی سنتے ہیں ،لیکن یہاںمخالف آراکو بھی سننے کا موقع ملتاہے ، اس سے تحمل اور قوت برداشت کی صفت پیدا ہوتی ہے اور ہم مخالف کی باتوں کو سننے کے متحمل ہوتے ہیں ۔ آداب اختلاف میں یہ چیز بہت ضروری ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کی باتوں کو بھی سنجیدگی سے سنیں، ہمیں اس پروگرام میں اس کا اچھا تجربہ ہوا ۔

(۴) ذہن وفکر میں وسعت جو اس پروگرام کا اہم مقصد ہے، اس جانب بھی ہماری پیش رفت ہوئی ۔پروگرام کے دوران ایک دن ایک مغربی مفکر کی تحریر کی روشنی میں قتل مرتد کی بحث آئی ۔ہمیں احساس ہوا کہ اس موضوع کو یہاں نہیں لانا چاہیے ۔یہ ائمہ اربعہ کا متفقہ موقف ہے اور اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں ، چنانچہ مناقشہ کے دوران میں نے اپنی بات بھی رکھی ۔ بہت سی آراءموافقت میں اور بہت سی مخالفت میں آئیں ۔ بات ختم ہوگئی، لیکن ہمیں تردد باقی رہا ۔اسی شام کو قطر کے مشہور عالم دین اور شیخ یوسف القرضاوی کے تربیت یافتہ شیخ محمد علی قرہ داغی کا محاضرہ ہوا جس کا عنوان تھا”الفقہ الاسلامی بین النصوص و التراث والمعاصرۃ وفقا لفقہ المیزان“۔ انہوں نے اپنے محاضرہ میں بڑی عمدہ گفتگو کی ۔ جب سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو سوالوں میں بہت سے احباب نے قتل مرتد کے متعلق ہی سوال کیا۔ اس کا انہوں نے جو متوازن اور معتدل جواب دیا، اس سے بڑا اطمینان ہوا اور محسوس ہوا کہ یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہاں کوئی پہلی مرتبہ ا س کو گفتگو کے لیے لایا گیا بلکہ اس پر بہت کچھ لکھا چکا ہے اور اس پر گفتگو ہوسکتی ہے اور سوچا جاسکتا ہے ۔

(۵)مذہب اور سائنس کے موضوع پر بھی محاضرہ ہوا اور اس سے بھی بڑا فائدہ محسوس ہوا۔ اس میں ایک محاضرہ پاکستان کے ڈاکٹر ادریس ازاد صاحب کا ہوا جس میں انہوں نے سائنس اور ارتقاءکے موضوع پر بڑا دلچسپ محاضرہ دیا۔ اس سے ہمیں سائنس کے نظریہ ارتقاءکو سمجھنے میں مدد ملی ۔پروگرام میں ہوئے محاضروں کے دوران ٹیسٹ ٹیوب بے بی ، کلونگ ، تبدیلی جنس ،ڈی این اے جیسے مسائل سے واقفیت ہوئی ۔یہ وہ مسائل ہیں جن کے حوالے سے سائنسی دنیا نے حیرت انگیز پیش رفت کی ہے اور آج ہمیں سماجی اور عملی میدان میں ان موضوعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں اس پروگرام کے ذریعہ ان موضوعات کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملی ۔

(۶)فکری موضوعات کو پڑھنا تو بہت آسان ہوتا ہے، لیکن فکری موضوعات پر گفتگو کرنا بہت دشوار گزار وادی ہے جس میں ہر کوئی آسانی سے سفر نہیں کرسکتاہے ،اس لیے کہ فکر کی تہوں میں بھی بہت سے افکار ہوتے ہیں۔ ان سے پردہ اٹھانا اور گفتگو کے دوران اس پر لب کشائی کرنا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے، لیکن مدرسہ ڈسکورسز کا مقصد ہی فکری موضوعات کو گفتگو کا موضوع بنانا ہوتا ہے، اس لیے اس کے ذریعہ ہمیں ایسے موضوعات پر گفتگو کرنے کاسلیقہ حاصل ہوتا ہے۔

مولانا ابوالاعلی سید سبحانی

(نئی دہلی، انڈیا)

ایک معروضی اور غیرجانبدارانہ علمی وتحقیقی سفر کے لیے ذہنی وسعت اور کشادہ ظرفی کی یک گونہ اہمیت ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی جانب سے حمد بن خلیفہ یونیورسٹی قطر میں منعقد ورکشاپ (Science, Hermeneutics, Tolerance: An Encounter of Western and Muslim Humanities) اس ضمن میں ایک اہم کوشش کہی جاسکتی ہے۔

مختلف مکاتب فکر کے حاملین کا یہ اجتماع میرے علمی سفر کا ایک اہم اور یادگار تجربہ ہے۔ مختلف مکاتب فکر، مختلف مسالک فقہ اور مختلف افکارونظریات کے حاملین کے ساتھ انٹرایکشن اور تبادلہ خیال کا یہ ایک شاندار موقع تھا۔ میرے لیے یہ خاص اس طور پر بھی رہاکہ ہندوپاک کے اہل علم ودانش کے درمیان مائنڈ سیٹ اور غوروفکر کے اندازمیں موجود فرق سے راست تعامل کا تجربہ حاصل ہوا۔ یہ فرق پہلے معلومات کی نوعیت کا تھا، اب اس کی حیثیت مشاہدہ اور تجربہ کی ہوگئی ہے۔

اسلامیات اور دینیات سے متعلق مباحثوں میں خواتین کا کردار عالمی سطح پر گزشتہ صدیوں میں بہت کمزور رہا ہے، برصغیر کی موجودہ صورتحال اس تناظر میں کافی حد تک تشویشناک کہی جاسکتی ہے، تاہم مدرسہ ڈسکورس کے اس پورے پروگرام میں طالبات کی نمائندگی امید افزا رہی، ورکشاپ کے دوران مختلف سیشنوں میں چھڑنے والے مباحث میں بھی ان کی شرکت اچھی رہی۔ یہ تجربہ اگر اسی طرح کامیابی کے ساتھ جاری رہا تو برصغیر کی علمی دنیا میں اس حوالے سے ان شاءاللہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔

اس دوران مختلف اہل علم اور اہل نظر، بالخصوص ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی، ڈاکٹر موسی ابراہیم، ڈاکٹر عمار خان ناصر، ڈاکٹر شیر علی اور یونیورسٹی کے دیگر پروفیسرس سے مستفید ہونے، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور مختلف ایشوز اور موضوعات پر کھل کر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ علامہ یوسف القرضاوی سے ملاقات کرنے اور ان سے دعائیں حاصل کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ معروف اسلامی دانشور ڈاکٹر مختار شنقیطی سے بھی اچھی ملاقات رہی۔ اس کے علاوہ مدرسہ ڈسکورسز سے وابستہ ہم ساتھیوں کا بھی آپس میں اخذواستفادہ کا اچھا سلسلہ رہا۔

اس ورکشاپ کے دوران ناچیز کا یہ خیال اور مضبوطی اختیار کرگیا کہ دلائل اور شواہد کی اپنی عظمت ہوتی ہے، ان پر شرح صدر آپ کو نہ کبھی کمزور پڑنے دیتا ہے اور نہ کبھی پندارعلم کا شکار بناتا ہے، نہ کچھ اہل علم اوربڑی شخصیات کا مخالف رائے رکھنا آپ کو کمزور کرتا ہے اور نہ کسی کا ہم خیال ہونا آپ کو تعلّی کی طرف لے جاتا ہے۔

بہرحال اس دوران بہت کچھ سیکھا، بہت اچھے علمی وفکری ماحول میں ایک اچھا وقت گزارا۔ سچ بات یہ ہے کہ ہفتہ گزرنے کے بعد بھی تشنگی جوں کی توں برقرار رہی۔

ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے

اصولی مباحث اور عملی مسائل پر بحث کے درمیان ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ اصولی مباحث سے آپ بہت آسانی کے ساتھ گزرجاتے ہیں اور زیادہ الجھنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن جب عملی مسائل پرآتے ہیں تو انہی اصولی مباحث کو اپلائی کرتے وقت ذہن کھلتا ہے، علمی سفر کو ایک رُخ ملتا ہے اور طرح طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔ اصولوں پر بحث سے گہرائی آتی ہے اور عملی مثالوں اور عملی مسائل پر بحث سے وضوح فکر حاصل ہوتی ہے۔ میرے خیال سے مدرسہ ڈسکورسز کے ساتھیوں کے درمیان ہونے والے مباحث میں اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ورکشاپ کے دوران مرتد کی سزا اور نظریہ ارتقاءسے متعلق ہونے والے ڈسکشن کو اس تناظر میں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ کے تحت شائع ہونے والا لٹریچر اس سلسلہ میں جدید مسائل کے تناظر میں اچھی رہنمائی کرتا ہے۔

ناچیز کے خیال میں مدرسہ ڈسکورسز کی کلاسیز میں کچھ وقت موجودہ دنیا کے عملی مسائل پر بحث ومباحثہ کے لیے مختص کردینا چاہیے، تاکہ مختلف نئے اور عملی مسائل پربھرپور ڈسکشن ہوسکے، اور ذہنوں کوان حقیقی سوالات کی طرف متوجہ کیا جاسکے جو ہمیں سوسائٹی کے حقیقی مسائل اور حقیقی چیلنجز سے جوڑ سکیں۔ اگر ایسا ہوسکے تو یہ مدرسہ ڈسکورسز کے پروگرام کا ایک بڑاحاصل ہوگا، واللہ ولی التوفیق۔

مارچ ۲۰۲۰ء

مسئلہ جنس اور ہمارا روایتی معاشرتی نظاممحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۳)ڈاکٹر محی الدین غازی
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۹)مولانا سمیع اللہ سعدی
زکاۃ بمقابلہ احساسپروفیسر عمران احسن خان نیازی
عالمی عدالت انصاف کا ایک مستحسن فیصلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قومی اور مذہبی اظہاریوں کا خلط مبحث اور سماج کی تقسیم کاریڈاکٹر عرفان شہزاد
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۴)محمد عمار خان ناصر
آنجہانی جسٹس رانا بھگوان داس کی یاد میں تقریبمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ جنس اور ہمارا روایتی معاشرتی نظام

محمد عمار خان ناصر

جنسی جبلت کے مسئلے کو کسی معاشرتی نظام میں کیسے حل کیا جائے، اس کے متعلق موجودہ دنیا میں دو بنیادی تہذیب  موقف پائے جاتے ہیں۔

ایک موقف کی نمائندگی جدید لبرل اخلاقیات میں ہوتی ہے جس کی رو سے جنس کی تسکین فرد کا ایک ذاتی مسئلہ ہے اور اسے اس کی تکمیل کی آخری حد تک آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ دو افراد، صنف اور مذہب وغیرہ کے امتیاز سے بالکل آزاد ہو کر، باہمی رضامندی سے جیسے بھی اس کی تکمیل کرنا چاہیں، یہ ان کا حق ہے۔ جنسی جبلت کی تسکین کے علاوہ، خاندان بنانے اور بچے پیدا کرنے کی کسی بھی اضافی ذمہ داری کو اس کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہیے اور اس حوالے سے کسی قسم کا معاشرتی یا قانونی دباؤ بروئے کار نہیں لانا چاہیے۔ گویا جنسی جبلت کی تسکین اور نسل انسانی کی بقا کے مسئلے کو الگ الگ دیکھنا چاہیے اور فرد کی آزادی پر مجموعی انسانی مصالح کی پابندی کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ جہاں تک بقائے نسل کا تعلق ہے تو اسے انفرادی ذمہ داری کے دائرے سے نکال کر اجتماعی نظام کی ذمہ داریوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ برٹرینڈ رسل نے اسی تناظر میں یہ تجویز کیا کہ بچے پالنے کی ذمہ داری بھی، دوسری بہت سی اجتماعی ذمہ داریوں کی طرح، اب ریاست کو سنبھال لینی چاہیے۔

دوسرا رجحان قدیم معاشرتی روایات پر مبنی ہے جسے دنیا کی اب تک کی تمام تہذیبوں کی تائید حاصل رہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ جنس کا مسئلہ چونکہ صرف ایک جبلت کی وقتی تسکین کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کے ساتھ نسل انسانی کی بقا کا سوال بھی وابستہ ہے، اس لیے اس کا حل معاشرت کی عمومی تشکیل اور اجتماعی معاشرتی ضروریات کے تناظر میں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے خاندان کا ادارہ وجود میں آیا جس میں بچے کی تربیت اور پرورش کے حوالے سے ذمہ داریوں کی ایک تقسیم اختیار کی گئی۔ خاندان نے وسعت پذیر ہو کر قبیلوں اور برادریوں کی صورت اختیار کی اور ایک  پیچیدہ معاشرتی نظام وجود پذیر ہوا جو ہم روایتی اور خاص طور پر مشرقی معاشروں میں دیکھتے ہیں۔  برصغیر میں یہ  نظام ، زرعی معاشرے  کی مخصوص ضروریات کے سیاق میں، جن خطوط پر استوار ہوا، اس میں دو افراد کے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے لیے ان کی ذاتی پسند وناپسند اور فیصلے سے زیادہ خاندان اور برادری کی ترجیحات زیادہ اہمیت اختیار کرتی چلی گئیں اور خاص طور پر خواتین کے حق نکاح کو ان کے انفرادی حق سے زیادہ خاندان، قبیلے یا برادری کی ایک ’’اجتماعی ذمہ داری“ تصور کیا جانے لگا۔ اجتماعی ذمہ داری کی انجام دہی عملا ایک ’’اجتماعی حق“سمجھی جاتی ہے جس کے مقابلے میں انفرادی حق کا استعمال، حدود سے تجاوز شمار کیا جاتا ہے۔ یوں  اس نظام میں فرد کی اور خاص طور پر خواتین کی ذاتی ترجیحات بنیادی طور پر خاندان اور برادری کی ترجیحات کے تابع ہو جاتی ہیں، اور دو افراد کے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے لیے ان کی ذاتی پسند وناپسند اور فیصلے سے زیادہ خاندان اور برادری کی ترجیحات زیادہ اہمیت رکھتی ہیں جن میں کفاءت یعنی خاندانی برابری اور معاشی اسٹیٹس وغیرہ باقی تمام پہلووں پر حاوی رہتی ہیں۔

معاشرت کے اس روایتی ڈھانچے میں بے اعتدالی کے یہ پہلو تو، جیسا کہ واضح کیا گیا، موجود تھے اور خاندان اور فرد کے اختیارات کے مابین توازن کا فقدان نمایاں تھا جس سے خواتین، شریعت کے دیے ہوئے ایک اختیار سے عملا محروم رہ جاتی تھیں، لیکن عفت وعصمت کی حفاظت کا مسئلہ عمومی سطح پر پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جدیدیت کے زیراثر متعارف ہونے والی نئی حرکیات کی وجہ سے خواتین کے لیے تعلیم اور گھر سے باہر معاشرتی سرگرمیوں میں شرکت کے مواقع پیدا ہوئے اور خاص طور پر شہری ماحول کی طرف انتقال آبادی کا عمل بڑھا تو کسی قدر کشمکش کی کیفیت کے ساتھ، خاندان اور فرد کے مابین اختیارات کا توازن بھی تبدیل ہونے لگا۔ یوں تعلیم، روزگار، معاشرتی میل جول اور شہری ماحول کے ساتھ تعامل کے تناسب سے خواتین کی پسند وناپسند کو بھی نسبتا زیادہ وزن دیا جانے لگا۔

تاہم عمومی تعلیم کی شرح میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے، جو زیادہ پرانی بات نہیں ہے اور پچھلی دو تین دہائیوں میں ہی یہ ظاہرہ زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے، صورت حال کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ حصول تعلیم کے ساتھ معاشی وسائل میں شرکت اور ان دونوں کے ساتھ معاشرتی اختلاط کے مواقع جڑے ہوئے ہیں جن کے اثرات لازما خود اختیاری کے احساس میں اضافے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ پیچیدگی کو بڑھانے والے دو مزید عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔ ایک، شہروں میں عمومی تعلیم کی طرف رغبت کے حوالے سے نوجوانوں اور خواتین کی تعداد میں عدم تناسب، اور دوسرا صنفی رغبت اور حق خود اختیاری وغیرہ کو ہنگامی انداز میں فروغ دینے میں ہر طرح کے ابلاغی ذرائع کا کردار۔ شخصی رابطے کو آسان بنانے والی جدید ٹیکنالوجی کے اثرات اس پر مستزاد ہیں۔ ان تمام عوامل کے اجتماع کا نتیجہ ایک سنگین صورت حال کی شکل میں سامنے آ رہا ہے جس میں نوجوانی کی عمر کے داعیات، صنفی اختلاط کے مواقع، اور جنسی ترغیب کے وسائل کی فراوانی سب کا دباؤ ایک طرف ہے، جبکہ مذہب واخلاق کے تقاضے اور خاندانی ومعاشرتی روایات اس کے بالکل مخالف قدغنیں عائد کرنا چاہتی ہیں۔ کشمکش کے اس عبوری مرحلے میں نوجوان نسل نہ تو خاندانی معاشرت کے سانچے میں فٹ ہو پا رہی ہے اور نہ مکمل طور پر اس سے آزاد ہو جانے کو ہی ممکن پاتی ہے، اور اس کا نتیجہ ناگزیر طور پر نفسیاتی فرسٹریشن اور غیر اخلاقی وغیر صحت مندانہ رجحانات کے پنپنے کی صورت میں نکل رہا ہے۔

گویا صورت حال یوں ہے کہ عمر کے طبعی تقاضوں اور ماحول کی ترغیبات کا مطالبہ یہ ہے کہ بلوغت کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو، اخلاقی ومذہبی حدود میں جنسی تسکین کی سہولت نوجوانوں کو دستیاب ہو اور مذہب کی تعلیمات مکمل طور پر اس بندوبست کی تائید میں کھڑی ہیں، لیکن معاشرتی روایات اس مطالبے کا ساتھ دینے سے قطعی طور پر قاصر ہیں۔ چونکہ خاندانی نظام مضبوط ہے اور خاندان کے اندر وہی اقدار ابھی تک حاکم ہیں جو صدیوں میں مستحکم ہوئی ہیں، اس لیے نوجوان نسل خاندان اور معاشرے کے دو پاٹوں کے درمیان پسنے پر مجبور ہے۔ جبلت، مذہب اور اخلاق، تینوں کا تقاضا یہ ہے کہ مذہبی اور اخلاقی جواز کی کم سے کم لازم شرائط پر جنسی تسکین کے مسئلے کا حل نکالا جائے، لیکن معاشرتی روایات کا اصرار برقرار ہے کہ

۱۔ شریک حیات کے انتخاب کا حتمی حق نوجوانوں کو نہیں، والدین کو ہے،

۲۔ انتخاب خاندان، برادری، معاشی اسٹیٹس وغیرہ کی تمام روایتی چھلنیوں سے گزار کر ہی کیا جائے گا،

۳۔ بچیوں کو بیاہے جانے کے بعد لازما جوائنٹ فیملی سسٹم میں ہی نئی زندگی کا آغاز کرنا ہوگا،

۴۔ بہن بھائیوں میں بڑی بہنوں کی شادی لازما پہلے اور چھوٹی بہنوں کی بعد میں ہوگی، نیز اگر بھائی بڑا اور بہنیں چھوٹی ہیں تو بہنوں کے بیاہے جانے تک بھائی نابالغ ہی شمار کیا جائے گا۔

خلاصہ یہ کہ  مذہب اور اخلاق نے فطری جبلت کی جائز تسکین اور عفت کی حفاظت کی جو بنیادی ترین ترجیح متعین کی تھی، ہماری معاشرتی روایات اس سے بالکل الٹ ترجیحات پر استوار ہیں اور ہمارا مائنڈ سیٹ فطری ضروریات اور مذہب واخلاق کی قیمت پر ان ترجیحات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

خاندانی اسٹرکچر اور معاشرتی روایات کی مجموعی صورت حال میں فرد کی پسند وناپسند اور اس کی ایک بنیادی جبلی وسماجی ضرورت کس طرح نظرانداز بلکہ مجروح ہو رہی ہے، یہ دیکھنے کے بعد اب کچھ معروضات اس حوالے سے پیش کی جانی چاہییں کہ سماجی اصلاحات کا رخ اور حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اور اس میں کن طبقات کا کیا کردار بنتا ہے۔

ہمارے نزدیک اس حوالے سے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ معاشرت کے کسی مخصوص سانچے کو فی نفسہ یا کلی طور پر مطلوب یا، اس کے برعکس، کلی طور پر مسائل ومشکلات کی جڑ قرار دینا دانش مندی نہیں، بلکہ ردعمل کی نفسیات کا مظہر ہوتا ہے۔ سوشل اسٹرکچرز بنیادی طور پر معاشرے کی مجموعی بقا اور استحکام کی غرض سے بنائے جاتے ہیں اور مخصوص تاریخی اور تمدنی حالات میں انسانوں کے عمومی تجربات اور اجتماعی بصیرت سے ایک خاص شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ اسٹرکچرز جن مصالح کی رعایت سے بنائے جاتے ہیں، ان میں اور بدلتے ہوئے حالات میں، عموما، ایک متناسب توازن پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں جزوی سطح پر ضروری تبدیلیوں اور ارتقا کا عمل بھی غیر محسوس سے انداز میں جاری رہتا ہے۔ تاہم یہ عمل ہمیشہ اتنا ہموار نہیں ہوتا، اور بعض تاریخی انقلابات بنے ہوئے اسٹرکچرز کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں یا ان میں بہت جوہری قسم کی تبدیلیوں کے مطالبے کو جنم دے سکتے ہیں۔ ایسے ہی مواقع پر روایتی طور پر چلے آنے والے سانچے اور نئی تبدیلیوں کی باہمی نسبت طے کرنے میں سب سے زیادہ بصیرت اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری موجودہ معاشرت کو بھی اسی نوعیت کی ایک غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام ، معاشرت کے جس سانچے کے لیے اصلا وضع کیا گیا تھا ، وہ دیہی اور   زمیندارانہ معاشرت تھی جو جدید شہری ماحول میں  اپنی تمدنی اساسات رفتہ رفتہ کھو رہی ہے۔   مشترکہ خاندانی نظام کئی طرح کی قدغنوں  اور پابندیوں سے عبارت ہے جو افراد کو ان فوائد  کے بدلے میں قبول کرنی پڑتی ہیں جو  اس نظام سے انھیں حاصل ہوتی ہیں۔   یہ ایک پورا ماحول ہوتا ہے جس میں  ایک خاص نہج پر افراد کی  نفسیات اور ذہنی رجحانات کی تشکیل کا بھی ابتدا ہی سے بندوبست موجود ہوتا ہے۔ جدید شہری ماحول میں  یہ دونوں عوامل، یعنی  اجتماعی فوائد اور ذہنی تربیت،  اپنی  اصل شکل اور اصل قوت  برقرار نہیں رکھ سکتے، چنانچہ ایک بدلے ہوئے ماحول میں  نئی نسل پر وہ قدغنیں اور پابندیاں عائد کرنا   بھی عملا ممکن نہیں رہا جو  روایتی طور پر   کی جا سکتی تھیں، اور اگر اس کی کوشش کی جائے تو اس کا نتیجہ  بغاوت اور گھریلو انتشار کی صورت میں  نکلنا ناگزیر ہے۔ ساس اور بہو  کے تنازعات، نندوں اور بھاوجوں کے جھگڑے،  بھائیوں کے باہمی اختلافات،  بیشتر صورتوں میں اسی کشمکش کا نتیجہ ہیں۔ چنانچہ لازم ہے کہ حکمت اور مناسب تدریج کے ساتھ مشترکہ خاندانی نظام سے  نیو کلیئر فیملی کی طرف انتقال کی راہ ہموار کی جائے۔  مولانا اشرف علی تھانویؒ جیسے معاشرتی مصلحین نے تقریبا ایک صدی قبل  اسی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے  بہت زور دے کر یہ بات کہنا شروع کر دی تھی کہ  شادی کے بعد نوجوان جوڑے کو  الگ گھر میں بسنے  اور نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دینا چاہیے۔

اس بنیادی نکتے کے ساتھ کہ معاشرتی سانچے فی نفسہ مطلوب ومقصود نہیں ہوتے، بلکہ فرد اور معاشرہ کے مصالح کو، معروضی حالات میں، خاص اصول وقواعد کے تحت یقینی بنانے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں، ایک دوسرا اہم نکتہ یہ بھی شامل کر لینا چاہیے کہ ایک خاص طرح کی لچک، رنگا رنگی اور تنوع بھی معاشرتی سانچوں کا حصہ ہوتا ہے جو مصالح کی تکمیل میں معاون ہوتا ہے۔ ان دو نکتوں کی روشنی میں، سب سے بنیادی غلطی جس سے اجتناب ہمارے لیے ضروری ہے، یہ ہوگی کہ ہم روایتی سانچوں کو یک قلم اور بالکلیہ منبع فساد قرار دے دیں اور مختلف قسم کے فلسفوں کے زیراثر، جو بنیادی طور پر نہ تو ہمارے معاشرتی سوالات کا کوئی داخلی رسپانس ہیں اور نہ ہمارے حالات سے فطری مناسبت رکھتے ہیں، کسی یک رنگ اور یکسانی کے عکاس نئے معاشرتی سانچے کو نسخہ کیمیا سمجھنا شروع کر دیں۔

اگر سماجی اصلاح کے یہ مفروضات درست ہیں تو روایتی معاشرت اور نئی تبدیلیوں کی باہمی نسبت طے کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کہاں روایتی خاندان کا ڈھانچہ مجموعی طور پر اب بھی ان مصالح کو پورا کر رہا ہے جن کی اس سے توقع کی جاتی ہے، کہاں اس ڈھانچے میں معاشرتی رویوں یا قانونی اصلاحات کی سطح پر جزوی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، کہاں اس ڈھانچے میں اور نئی تبدیلیوں میں فاصلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ جزوی ترمیم واصلاح کارگر نہیں ہو سکتی، اور کہاں صورت حال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ سرے سے کوئی ڈھانچہ باقی ہی نہیں رہا اور کوئی مناسب ڈھانچہ وجود میں لانے کی ضرورت ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ گفتگو اساسی طور پر معاشرے کی سطح پر، فرد اور معاشرے کی فطری ضروریات کے تناظر میں ہونی چاہیے  جس کی ترجیحات ریاستی طاقت اور قانونی بندوبست کی ترجیحات سے بالکل مختلف ہوں گی۔

اس کام کے لیے اگر عمومی سماجی شعور کو  بہتر بنانے اور افادیت کھو دینے والی معاشرتی رسوم وعادات  میں تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے  لوگوں میں  ذہنی آمادگی پیدا کرنے کو  بنیادی ترجیح بنایا جائے اور وہ تمام طبقات جو رائے عامہ کی تشکیل میں کسی بھی  پہلو سے اور کسی بھی نوعیت کا کردار ادا کر سکتے ہیں، (مثلا علماء، اساتذہ،  سیاسی قائدین، اہل ثروت، ذرائع ابلاغ سے وابستہ حضرات) اس میں  حصہ ڈالنے کو  اپنی ذمہ داری تصور کریں تو   مطلوبہ معاشرتی اصلاحات  پیدا کرنا، ہمارے نزدیک  پوری طرح ممکن ہے۔   ہماری رائے میں   اس حوالے سے اصلاحی مساعی کو درج ذیل پہلووں پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے:

یہاں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دینی نصوص میں طلاق کے مبغوض ہونے کی بات انفرادی اخلاقیات سے متعلق ہے نہ کہ معاشرتی رویوں کی تشکیل سے۔ یعنی رشتہ نکاح میں بندھے ہوئے مرد اور عورت کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اسے حتی الامکان نبھانے کی کوشش کریں اور بلا وجہ یا معمولی وجوہ سے اس سے جان چھڑانے کی کوشش نہ کریں۔ لیکن اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ عمومی رویے اس طرح تشکیل پا جائیں کہ طلاق کو ایک معاشرتی عیب تصور کیا جانے لگے اور اس کے اثرات فریقین اور ان کے خاندانوں کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیں جس طرح ہمارے ہاں عموما لے لیتے ہیں۔ اس پرسپشن کے ازالے کے لیے عہد نبوی وعہد صحابہ کی معاشرت کا مطالعہ بہت مفید ہوگا جہاں  تبدل نکاح ایک عام معمول دکھائی دیتا ہے اور کم وبیش ہر صحابی یا صحابیہ کے حالات میں ایک کے بعد دوسرے یا دوسرے کے بعد تیسرے نکاح کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس معاشرت کی جھلک آج کے عرب معاشرے میں بھی کافی حد تک دکھائی دیتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں بھی معاشرت کے، ایک سانچے سے دوسرے سانچے میں منتقل ہونے کے اس مرحلے میں ذہنی ونفسیاتی تربیت کے لیے ان نمونوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور ایسی social imaginaries تشکیل دی جائیں جو جدید معاشرت کے اوضاع کے لحاظ سے رشتہ نکاح کے مصالح ومقاصد کی بہتر انداز میں تکمیل کر سکیں۔

ہذا ما عندی واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۹٠)    سورة الحشر کے بعض مقامات

(۱) لِلفُقَرَاء المُہَاجِرِینَ الَّذِینَ اخرِجُوا مِن دِیَارِہِم وَاَموَالِہِم۔ (الحشر: 8)

اس آیت میں فقراءموصوف ہے اور مہاجرین صفت ہے، اس لحاظ سے ترجمہ ہوگا: مہاجر فقراء، نہ کہ فقیر مہاجرین۔ ایک تو یہ زبان کے قواعد کا تقاضا ہے، دوسرے معنوی لحاظ سے بھی مہاجرین کی تقسیم مقصود نہیں ہے کہ فقیر مہاجرین کو حصہ دیا جائے اور غیر فقیر مہاجرین کا حصہ نہیں لگایا جائے۔ بلکہ یہ فقر سے دوچار لوگوں کی ایک خاص قسم یعنی مہاجرین اور گویا تمام مہاجرین پر مشتمل ہے، کیوں کہ تمام ہی مہاجرین گھر اور دولت چھوڑ کر آئے تھے۔ اس کا صحیح ترجمہ ہوگا: مہاجر فقیروں کے لیے، یا دوسرے لفظوں میں ان فقیروں کے لیے جو ہجرت کرکے آئے ہیں۔ درج ذیل ترجموں میں آخری ترجمہ قواعد کے مطابق ہے:

” ان محتاج مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنی املاک سے نکالے گئے ہیں “۔(امین احسن اصلاحی)

”(نیز وہ مال) اُن غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں “۔(سید مودودی)

”ان فقیر ہجرت کرنے والوں کے لیے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے“۔(احمد رضا خان)

”(فیءکا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیے گئے ہیں “۔(محمد جوناگڑھی)

(۲) وَالَّذِینَ تَبَوَّءوا الدَّارَ وَالاِیمَانَ مِن قَبلِہِم یُحِبُّونَ مَن ھَاجَرَ اِلَیہِم۔ (الحشر: 9)

اس جملے کے ترجمے دیکھتے ہوئے دو مقامات پر غور کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

 ایک ہے ”والایمان“ کا ترجمہ، کیوں کہ گھر کو ٹھکانا بنانا تو واضح ہے، مگر ایمان کو ٹھکانا بنانا واضح نہیں ہوپاتا ہے، بعض لوگوں نے تو یہی ترجمہ کردیا ہے، کہ ایمان میں گھر بنالیا، اور بعض لوگوں نے کوئی فعل محذوف مان کر ترجمہ کیا ہے، جیسے ایمان کو استوار کرنا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی یہاں واو کو معیت بتانے والا مان کر ترجمہ کرتے ہیں: ”اور ایمان کے ساتھ جو لوگ پہلے سے بسے ہوئے ہیں“۔ یعنی مدینہ منورہ میں ہجرت سے پہلے سے مقیم اہل ایمان یعنی انصار مدینہ۔ علامہ طاہر بن عاشور نے اس توجیہ کا ذکر کیا ہے، اور کہا ہے کہ اگرچہ اس کے قائلین کم ہیں، مگر یہ سب سے اچھی توجیہ ہے۔

وقیل الواو للمعیۃ. والایمان مفعول معہ. وعندی ان ہذا احسن الوجوہ، وان قل قائلوہ۔ (التحریر والتنویر)

دوسرا غور طلب مقام والذین کا ترجمہ ہے۔ یہاں مفسرین اور مترجمین والذین کو للفقراء المھاجرین پر معطوف قرار دے کر یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ مہاجرین کی طرح یہ انصار بھی مال فیءمیں حصہ دار ہیں۔ اس کے لحاظ سے ترجمہ کرتے ہیں: ”اور یہ ان کے لیے بھی ہے جو۔۔۔”مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ اس پر معطوف نہیں ہے، ورنہ وللذین ہونا چاہیے تھا۔ کیوں کہ درمیان میں طویل فصل ہوگیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یحبون من ھاجر الیھم بظاہر والذین کی خبر ہے، گو کہ لوگوں نے اسے حال مانا ہے، اور کچھ مترجمین نے تو اس سے پہلے (اور) مان کر ترجمہ کیا ہے۔ لیکن اس سب میں تکلف معلوم ہوتا ہے۔ آیت میں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ والذین مبتدا  ہے اور یحبون اس کی خبر ہے۔ دراصل مال فیءکا مسئلہ تو فقیر مہاجرین تک مکمل ہوگیا، اور چونکہ مہاجرین کے اوصاف بتائے گئے تو مناسبت تھی کہ انصار کے اوصاف کا ذکر بھی ہو، اور بعد والوں کے اوصاف بھی بیان کیے جائیں۔ یہ بات خود اس آیت میں مذکور ہے کہ مہاجرین کو جو دیا جاتا ہے اس کے سلسلے میں یہ انصار کوئی خلش محسوس نہیں کرتے، اس سے خود معلوم ہوا کہ مال فیءمیں شروع میں مذکور مدات کے علاوہ عمومی طور سے صرف مہاجرین کے لیے حصہ رکھا گیا تھا۔ غرض ترجمہ ہوگا: ”اور جو لوگ ایمان کے ساتھ پہلے سے بسے ہوئے ہیں، وہ محبت کرتے ہیں ان سے جو ان کی طرف ہجرت کرکے آئے“۔

اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

”اور جو لوگ پہلے سے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں، اور (ایمان استوار کیے ہوئے ہیں) وہ دوست رکھتے ہیں ان لوگوں کو جو ان کی طرف ہجرت کرکے آرہے ہیں“ ۔(امین احسن اصلاحی)

”(اور وہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے) جو اِن مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم تھے یہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اِن کے پاس آئے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور جنہوں نے پہلے سے اس شہر اور ایمان میں گھر بنالیا دوست رکھتے ہیں انہیں جو ان کی طرف ہجرت کرکے گئے “۔(احمد رضا خان)

”اور (ان لوگوں کے لیے بھی) جو مہاجرین سے پہلے (ہجرت کے) گھر (یعنی مدینے) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے (اور) جو لوگ ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں “۔(فتح محمد جالندھری)

”اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

وَالَّذِینَ جَاءُوا مِن بَعدِہِم یَقُولُونَ رَبَّنَا اغفِر لَنَا وَلِاِخوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالاِیمَانِ۔ (الحشر: 10)

گزشتہ مقام کی طرح اس مقام پر بھی اہل تفسیر وترجمہ نے یہ مان لیا ہے کہ یہاں بھی والذین، للفقراء المھاجرین پر معطوف ہے، اور گویا یہ بھی مال فیءکے حصے دار ہیں، حالانکہ یہاں بھی صاف نظر آتا ہے کہ والذین مبتدا ہے اور یقولون اس کی خبر ہے، جیسا کہ درج ذیل ترجموں میں آخری ترجمہ میں ہے:

”(اور وہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے) جو اِن اگلوں کے بعد آئے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ”اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور (ان کے لیے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جو ان کے بعد آئے (ان کا بھی اس مال میں حصہ ہے) جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جنہوں نے ایمان لانے میں ہم پر سبقت کی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے“۔ (احمد رضا خان)

(۱۹۱)    بریء کا ترجمہ

قرآن مجید میں بریء کا لفظ بار بار آیا ہے، اس کا مطلب ہوتا مکمل طور سے دوری، لاتعلقی اور بیزاری اختیار کرنا۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:

اصل البُرئِ والبَرَاء والتَبَرِّی: التقصّی مما یکرہ مجاورتہ۔ (المفردات فی غریب القرآن)

عام طور سے مترجمین نے یہی ترجمہ کیا ہے، لیکن کہیں کہیں بری الذمہ ہونے اور ذمہ داری سے بری ہونے کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ ایک تو صرف لفظ بریء بری الذمہ ہونے کے لیے نہیں آتا ہے، دوسرے ذمہ داری سے بری ہونے کی کوئی بات ہی نہیں ہے جس کا اعلان کیا جائے، اور تیسرے یہ کہ ذمہ داری سے بری ہونے سے وہ لاتعلقی اور بیزاری ظاہر نہیں ہوتی ہے جس کا اظہار یہاں مقصود ہے۔ اس روشنی میں درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

(۱) قُل اِنَّمَا ہُوَ الَہ وَاحِد وَاِنَّنِی بَرِیء مِمَّا تُشرِکُونَ۔ (الانعام: 19)

”کہو، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو“۔ (سید مودودی)

”اور جن کو تم لوگ شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں “۔(فتح محمد جالندھری)

(۲) قَالَ یَا قَومِ اِنِّی بَرِیء مِمَّا تُشرِکُونَ۔ (الانعام: 78)

”تو کہنے لگے لوگو! جن چیزوں کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں “۔(فتح محمد جالندھری)

”تو ابراہیم ؑ پکار اٹھا: ”اے برادران قوم! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھیراتے ہو “۔(سید مودودی)

(۳) وَقَالَ اِنِّی بَرِیء  مِنکُم ۔ (الانفال: 48)

”اور کہنے لگا کہ میرا تمہارا ساتھ نہیں ہے“۔ (سید مودودی)

”اور کہنے لگا کہ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں “۔(فتح محمد جالندھری)

(۴) اَنَّ اللَّہَ بَرِیئ  مِنَ المُشرِکِینَ وَرَسُولُہُ۔ (التوبة: 3)

”کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذمہ ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی“۔ (سید مودودی)

”کہ خدا مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی (ان سے دستبردار ہے)“۔(فتح محمد جالندھری)

(۵) انتُم بَرِیئُونَ مِمَّا اعمَلُ وَاَنَا بَرِئ مِمَّا تَعمَلُونَ۔ (یونس: 41)

”تم بری ہو میرے عمل کی ذمہ داری سے اور میں بری ہوں تمہارے عمل کی ذمہ داری سے “۔(امین احسن اصلاحی)

”جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بَری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں“۔ (سید مودودی)

”تم میرے عملوں کا جواب دہ نہیں ہو اور میں تمہارے عملوں کا جوابدہ نہیں ہوں “۔(فتح محمد جالندھری)

”تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۶) وَاَنَا بَرِیئ  مِمَّا تُجرِمُونَ۔ (ہود: 35)

”اور جو جرم تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں“۔ (سید مودودی)

”اور جو گناہ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں “۔(فتح محمد جالندھری)

”اور جو جرم تم کر رہے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں“۔(محمد حسین نجفی)

And I am free of the sins of which ye are guilty! (Yousuf Ali)

(۷) قَالَ اِنِّی اُشہِدُ اللَّہَ وَاشہَدُوا اَنِّی بَرِیء مِمَّا تُشرِکُونَ۔ (ہود: 54)

”ہودؑ نے کہا ”میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں اور تم گواہ رہو کہ یہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھیرا رکھا ہے اس سے میں بیزار ہوں “۔(سید مودودی)

 He said: "I call Allah to witness, and do ye bear witness, that I am free from the sin of ascribing, to Him. (Yousuf Ali)

(۸) فَاِن عَصَوکَ فَقُلِ انِّی بَرِیء مِمَّا تَعمَلُونَ۔ (الشعراء: 216)

”لیکن اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو ان سے کہو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذ مہ ہوں“۔ (سید مودودی)

Then if they disobey you, say: "I am innocent of what you do." (Mubarakpuri)
But if they disobey thee, say, "I am free of responsibility for aught that you may do!" (Asad)
If they disobey you, say, "I bear no responsibility for what you do." (Wahduddin Khan)

(۹) کَمَثَلِ الشَّیطَانِ اِذ قَالَ لِلاِنسَانِ اکفُر فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّی بَرِیء مِنکَ۔ (الحشر: 16)

”اِن کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر، اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں “۔(سید مودودی)

”شیطان کی کہاوت جب اس نے آدمی سے کہا کفر کر پھر جب اس نے کفر کرلیا بولا میں تجھ سے الگ ہوں“۔ (احمد رضا خان)

”(منافقوں کی) مثال شیطان کی سی ہے کہ انسان سے کہتا رہا کہ کافر ہوجا۔ جب وہ کافر ہوگیا تو کہنے لگا کہ مجھے تجھ سے کچھ سروکار نہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۱٠) وَاِذ قَالَ اِبرَاہِیمُ لِاَبِیہِ وَقَومِہِ اِنَّنِی بَرَاء مِمَّا تَعبُدُونَ۔ (الزخرف: 26)

”یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں“۔(سید مودودی)

(۱۱)   اِذ قَالُوا لِقَومِہِم اِنَّا بُرَآء مِنکُم وَمِمَّا تَعبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ۔ (الممتحنۃ: 4)

”کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ہم تم سے اور تمہارے اِن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں“ ۔(سید مودودی)


(جاری)

اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۹)

مولانا سمیع اللہ سعدی

بحث دوم : فریقین کے علم اصولِ حدیث کا تقابلی مطالعہ

بحثِ اول میں  آٹھ اساسی اور بڑے موضوعات کے تحت ان بنیادی مفاہیم و اصطلاحات کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا  ، جن کی وجہ سے اہل تشیع  اور اہل سنت کا  حدیثی ذخیرہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہوجاتا ہے ،ان اساسی مفاہیم میں فریقین کے حدیثی ذخیرے کے  امتیازات   و خصوصیات کا جائزہ لیا گیا ،تاکہ فریقین کے تراث ِ حدیث کے محاسن و مساوی کا تقابل کیا جاسکے ۔ ان موضوعات کی فہرست یہاں دی جارہی ہے ،تاکہ اقساط کی طوالت کی وجہ سے بحث کی تنقیح اور تسلسل میں جو اخفا رہ گیا ہے ،وہ  دور کیا جاسکے ،بحث اول میں ان آٹھ موضوعات میں فریقین کے علم حدیث کے مفاہیم و مصطلحات کا تقابل پیش کیا گیا :

1۔ فریقین کے حدیثی ذخیرے میں حدیث و سنت کا مفہوم و مصداق 

2۔عدالتِ صحابہ کا مسئلہ اور تراثِ حدیث پر اس کے اثرات

3۔ فریقین کا حدیثی ذخیرہ  قبل از تدوین،تحریری و تقریری سرمایہ

4۔فریقین کی کتبِ حدیث میں تعداد روایات   کا  فرق اور اس کے نتائج

5۔ فریقین کا زمانہ روایت و اسناد

6۔ فریقین کی کتبِ حدیث کے مخطوطات و نسخ

7۔ فریقین کے معیاراتِ نقد حدیث

8۔فریقین کی تراثِ حدیث میں موضوع روایات اور اس کی تنقیح

اب بحث دوم  میں فریقین کے اصول ِحدیث کا تعارف تقابلی انداز میں کرایا جائے گا ،تاکہ  ہر دو فریقوں نے حدیثی تراث کو پرکھنے کے لیے جو اصول و قواعد ترتیب دیے ہیں ، ان کی افادیت اور حدیثی ذخیرے کو پرکھنے میں اس کے اثرات و نتائج سامنے آسکے ۔ما قبل کی اقساط میں اس کا ذکر ہوچکا ہے  کہ اہل تشیع کے ہاں حدیث کو پرکھنے  کے حوالے سے اخباری و  اصولی دو مکتب پائے جاتے ہیں ،ان میں  سے اصولی مکتب نے اہلسنت کے طرز پر حدیث کو پرکھنے کا ایک فن ترتیب دیا ہے ،جو  شیعی حلقوں میں علم الدرایہ کے نام سے موسوم ہے ،جبکہ اہلسنت  کے ہاں حدیث کو پرکھنے کا فن عمومی طور پر علم مصطلح الحدیث  کے نام سے پکارا جاتاہے ، اس بحث میں شیعی علم الدرایہ اور سنی مصطلح الحدیث کا تقابلی مطالعہ پیش کیا جائے گا ۔

1۔زمانہ تدوین

شیعی علم الدرایہ  اور سنی علم مصطلح الحدیث میں بنیادی ترین فرق  زمانہ تدوین کا فرق ہے ،سنی اصول ِ حدیث اسی زمانے میں مدون ہوئے ،جس زمانے میں اہل سنت کے بنیادی مراجع صحاح ستہ لکھی گئیں ،بلکہ خود  اصحاب صحاح ستہ نے مصطلح الحدیث کے اہم مباحث کو اپنی کتب میں جگہ دی،ہم نکات کی شکل میں سنی مصطلح الحدیث کے اولین  تحریری ورثے پر ایک نظر ڈالتے ہیں :

1۔اصول ِ حدیث کے اہم مباحث کو سب سے پہلے امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الرسالہ میں تحریر فرمایا ،چنانچہ  محقق عبد الماجد غوری لکھتے ہیں :

"و یمکن  ان یقال ایضا :ان الامام الشافعی رضی اللہ عنہ (المتوفی سنہ204ھ) ھو اول من دون  بعض المباحث الحدیثیۃ فی کتابہ الرسالہ "1

ترجمہ: یہ کہنا بھی درست ہے کہ امام  شافعی رحمہ اللہ وہ ا ولین شخصیت ہیں ،جنہوں نے اصول حدیث کے بعض مباحث کو الرسالہ میں مدون کیا ۔

امام شافعی رحمہ اللہ سے پہلے بھی مصطلح الحدیث کو محدثین نے لکھا ،  مثلا علی ابن مدینی و غیرہ ، ان کی کتب چونکہ محفوظ نہیں رہ سکیں ،اس لیے  باقی رہنے ولے تحریری سرمایے میں امام شافعی رحمہ اللہ کی الرسالہ  اس موضوع پر اولین تحریر کہلا ئے گی ۔امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الرسالہ میں مصطلح الحدیث کے ان مباحث پر روشنی ڈالی:

    • روایت بالمعنی کی بحث

    • مدلس کا عنعنہ

    • مرسل روایت کی  بحث

    • شرائط حفظ الراوی

    • عدالتِ راوی کی پہچان کے طرق

    • مقبول راوی کے اوصاف

    • خبر واحد اور خبر مراۃ کی بحث2

2۔ معروف محدث امام دارمی(255ھ) نے اپنی کتاب سنن دارمی کے مقدمے  میں مصطلح الحدیث  کے اہم مباحث کو موضوع ِ بحث بنایا ،یہ مقدمہ کافی طویل ہے ، جس میں تقریبا 57 کے قریب  ابواب میں  امام دارمی نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی ،ان میں مصطلح الحدیث کے مباحث بھی شامل ہیں ۔

3۔  صحاح ستہ میں سب سے اولین کتاب لکھنے والے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں مصطلح الحدیث  کے اہم مباحث کو بیان کیا ہے ،طرق تحمل حدیث ،اخبرنا و حدثنا میں فرق ،سماع الصغیر جیسے موضوعات  پر صحیح بخاری میں   باقاعدہ ابواب باندھے ،زیادت ثقہ ،متابعات  وغیرہ جیسے مباحث  پر متعدد مقامات پر روشنی ڈالی ،اس کے علاوہ اپنی  دیگر کتب خصوصا کتب رجال میں رجال پر تبصرہ کرتے ہوئے  متنوع موضوعات پر اپنی رائے دی۔

4۔امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم کا مقدمہ خاص مصطلح الحدیث کے اہم مباحث کے لیے  تحریر کیا ،مقدمہ مسلم  میں امام مسلم نے سات بڑے اصولی مباحث پر گفتگو کی ۔

5۔امام ترمذی نے  العلل الصغیر کے نام سے ایک  مصطلح الحدیث میں ایک مستقل رسالہ لکھا ،جس میں مصطلح الحدیث کے دس بڑے موضوعات کو موضوع بحث بنایا،محقق عبد الماجد غوری ان موضوعات ِ عشرہ کے بارے میں لکھتے ہیں :

"فھذہ  جملۃ البحوث  التی اوجز الترمذی الحدیث عنھا فی ھذہ  المقدمہ القیمہ، والتی کما رایت تتناول اھم ارکان علوم الحدیث"3

ترجمہ:یہ وہ مباحث ہیں ،جن سے امام ترمذی نے اختصار کے ساتھ اپنے وقیع مقدمے میں  تعرض کیا ہے ،یہ مباحث ،جیسا کہ آپ دیکھ چکے ہیں ،مصطلح الحدیث کے اہم ترین ارکان میں سے ہیں ۔

6۔ امام ابو داود نے اہل مکہ کو اپنی سنن کے تعارف پر مشتمل ایک خط لکھا ،اس میں مصطلح الحدیث کے اہم مباحث پر گفتگو کی ۔

7۔امام طحاوی نے حدثنا و اخبرنا کے تسویہ پر ایک مستقل رسالہ لکھا ۔

8۔انہی منتشر مباحث اور  متقدمین سے منقول دیگر مصطلح الحدیث  کے  اصول و ضوابط کو باقاعدہ بطورِ  فن کے چوتھی صدی ہجری کے مایہ ناز محدث قاضی عبد الرحمان الرامھرمزی  نے  اپنی کتاب " المحدث الفاصل  بین الراوی و الواعی "  میں جمع کیا ،جو مصطلح الحدیث کی پہلی باقاعدہ تصنیف شمار ہوتی ہے ۔

9۔ اس کے بعد پانچویں صدی ہجری میں امام حاکم  نے معرفۃ علوم الحدیث لکھ کر اس فن کو کمال تک پہنچایا ۔

 سنی مصطلح الحدیث  کے اولین سرمایے کا ایک خاکہ ذکر کیا جاچکا ہے ،اس خاکے سے یہ بات بخوبی ثابت ہوتی ہے کہ سنی مصطلح الحدیث اسی زمانے  اور انہی محدثین  یا ان کے اساتذہ و تلامذہ کے ہاتھوں مدون ہوا ،جنہوں نے بنیادی کتب ِ حدیث صحاح ستہ لکھیں  ،اس کے برخلاف جب ہم شیعی علم الدرایہ کو دیکھتے ہیں ،تو  اس لحاظ سے شیعی علم الدرایہ ہمیں سنی اصول ِ حدیث سے کافی فروتر نظر آتا ہے کہ شیعی علم الدرایہ   اہل تشیع کے بنیادی مراجع حدیث (کتب اربعہ ) کے تقریبا  تین صدیوں بعد مدون ہوا ، چنانچہ معروف شیعہ محقق جعفر سبحانی لکھتے ہیں :

"ان اول من الف من  اصحابنا فی علم الدرایہ کما ھو المشہور ھو جمال الدین احمد بن موسی بن جعفر بن طاووس المتوفی عام 673ھ"4

ترجمہ:ہمارے شیعہ حضرات میں سے علم الدرایہ میں سب سے اولین کتاب لکھنے والے جمال الدین احمد بن طاوس ہیں ،جیسا کہ  مشہور ہے۔

اس کے بعد اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :

"فالقدر المتیقن  ان اول من الف ھو احمد بن طاووس الحلی"5

یعنی اتنی بات یقینی ہے کہ اس موضوع پر سب سے اولین کتاب احمد بن طاووس حلی نے لکھی ہے ۔

 شیعی علم الدرایہ اور سنی مصطلح الحدیث کے زمانہ تدوین  کے اس فرق سے( فرق سے مراد  یہ کہ سنی علم اصول حدیث خود حدیث کی تدوین  کرنے والے محدثین  کے زمانہ میں مدون ہوا جبکہ شیعی علم الدرایہ شیعی حدیث کے زمانہ تدوین کے کافی عرصہ بعد مدون ہوا) ہر دو فنون افادیت ،تطبیق اور اثرات میں ایک دوسرے سے کلی طور پر مختلف ہوجاتے ہیں ،ہم چند اہم فروق نکات کی شکل میں بیان کرتے ہیں :

1۔سنی مصطلح الحدیث چونکہ  صحاح ستہ کے زمانے میں ہی  اور کچھ صحاح ستہ کے زمانے سے پہلے مدون ہونا شروع ہوا ،بلکہ اس کے بعض اہم قواعد خود اصحاب صحاح ستہ نے ترتیب دیے ،اس لیے صحاح ستہ انہی قواعد و اصول کی بنیاد پر مدون  ہوئیں ،جس کی وجہ سے  مصطلح الحدیث کا فن بھر پور تطبیق سے گزرا ،جبکہ شیعی علم الدرایہ شیعہ علم ِ حدیث کے مدون ہونے کے کئی صدیوں بعد منظر عام پر آیا ،جس کی وجہ سے  شیعی علم الدرایہ کے قواعد و اصول کا  شیعہ علم حدیث پر  انطباق نہ ہونے کے برابر ہے ،کیونکہ ایک لاکھ سے زائد احادیث پر  قواعد کا انطباق ناممکن نہ سہی ،مشکل ترین ضرور ہے ،اسی لیے آج بھی شیعی علم الدرایہ میں  قواعد و اصول بیان کرتے ہوئے شیعہ اہل علم امثلہ شیعی ذخیرہ حدیث کی بجائے سنی  ذخیرہ حدیث سے لینے پر مجبور ہیں ،اس کی  متعدد امثلہ پچھلی  اقساط میں ہم بیان کر چکے ہیں ۔

2۔زمانہ تدوین میں فرق کا دوسرا بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ شیعی تراث میں صحیح  اور ضعیف حدیث کے معیارات کے سلسلے میں متعدد نقطہ نظر سامنے آئے ،کتب اربعہ کے محدثین کے ہاں صحیح و ضعیف روایت کا معیار الگ تھا ،اخباری گروہ کے نزدیک الگ معیار ہے،(کتب اربعہ و اخباری مکتب کا نقطہ نظر قریب قریب ہے ،لیکن کچھ وجوہ سے یہ الگ نقطہ نظر شمار ہوتے ہیں )جبکہ اصولی مکتب کے نزدیک   صحیح و ضعیف کا معیار الگ ہے ، ان   مکاتب کی تفصیل ہم  اس سلسلے  میں معیارات ِ نقد حدیث کے عنوان کے تحت دے چکے ہیں ،ان متعدد نقطہ ہائے نظر کی وجہ سے شیعہ  ذخیرہ حدیث میں سے صحیح و ضعیف  روایات کا تعین ایک ایسی گتھی بن چکا ہے ،جس کو آ ج تک نہیں سلجھایا جاسکا ،کتب اربعہ کے مصنفین نے اپنے معیارات کے مطابق  احادیث کی تدوین کیں ،اخباری مکتب    نے اپنے معیارات کے مطابق ذخیرہ حدیث پر حکم لگایا ،جبکہ  اصولی منہج کے حاملین نے احادیث کو پرکھنے کا اپنا الگ نظام بنایا ،یوں  شیعہ ذخیرہ حدیث  میں صحیح، ضعیف،  موضوع  روایات کا متفقہ معیار نہ ہونے  کی وجہ سے محققین کو متعدد الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جبکہ اس کے برخلاف اہل سنت میں حدیث کو پرکھنے کے معیارات کم و بیش ایک جیسے ہیں ،البتہ ان کی تطبیق میں اہل سنت  محدثین کے ہاں اختلافات پائے جاتے ہیں ، جو  ظاہر ہے ،ہر  تطبیقی علم و فن کا خاصہ ہے ،نیز فقہائے اہل سنت بھی حدیث کے ثبوت و عدم ثبوت میں محدثین کے معیارات کو ہی بنیاد بناتے ہیں ،البتہ فقہاء حدیث کےثبوت و عدم ثبوت کے ساتھ ایک زائد چیز یعنی  حدیث کے قابلِ عمل ہونے یا نہ ہونے کو بھی دیکھتے ہیں ،جو اصول ِ فقہ کی مبحث السنہ میں بیان ہوتا ہے ۔

3۔زمانہ تدوین میں فرق کا تیسرا  نتیجہ یہ نکلا کہ اہل سنت کا علم مصطلح الحدیث ایک فطری ارتقاء کے ساتھ تدوینِ حدیث کے مجموعوں کے ساتھ چلتا رہا ،ہر محدث جہاں حدیث مدون کرتا ،وہاں مصطلح الحدیث کے تصورات میں اضافہ  اور پچھلوں کے تصورات میں تنقیح و تہذیب  کا عمل  جاری رکھتا،یوں کسی بھی علم و فن کی طرح اہل سنت کا مصطلح الحدیث فطری  ارتقا کے عمل ِمسلسل سے گزرا ہے ،جبکہ اہل تشیع کا علم الدرایہ ساتویں صدی ہجری میں ایک ہی شخص کے ہاتھوں بیک وقت منظر عام پر آیا ،خصوصا    تدوین کرنے والا شخص  تدوینِ حدیث کے زمانے کے کئی صدیوں بعد آیا ،یوں وہ  تدوینِ حدیث کے زمانے کا بچشمِ خود مشاہدہ  اور رواۃ  ومجالسِ حدیث کے از خود تجربے  کے عمل سے نہیں گزرا تھا  اور  عملی میدان سےہٹ کر خالص نظری دنیا میں اس  فن کے اصول و قواعد لکھنے کا کام سر انجام دیا ،یہی وجہ ہے کہ اہل تشیع کے ایک بڑے حلقے (اخباری مکتب ) نے  سرے سے اس  پورے علم کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اسے اہل سنت کی نقل قرار دیا ،اگر اہل تشیع کا علم الدرایہ  اہلسنت کے علم مصطلح الحدیث کی طرح تدوین ِ حدیث کے ساتھ ہی ایک فطری ترتیب کے ساتھ صدی بہ صدی ارتقائی عمل کے  نتیجے میں وجود میں آتا اور ہر محدث کے اضافہ جات و تنقیحات سےہو کر گزرتا ،تو   اس علم کو  اس طرح کے مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔

4۔زمانہ تدوین میں فرق کا ایک بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ   اہل  تشیع کا علم الدرایہ متقدمین کے استناد اور علومِ متقدمین سے اخذ و التقاط  سے  خالی ہے ،کیونکہ  یہ علم ساتویں صدی ہجری کے ایک عالم نے متقدمین  کے منہج  سے بالکل ایک الگ  منہج اختیار کرتے ہوئے   ایجاد کیا ،جبکہ اہلسنت کا علم مصطلح الحدیث  متقدمین ہی کے زمانے اور علمائے متقدمین  کے ہاتھوں  مدون ہوا ،اہل علم جانتے ہیں کہ کسی بھی علمی  روایت میں  اس روایت کے اولین علماء سے استناد روایت کے اعتبار و اعتماد کے لیے بنیادی  عامل ہے ،علمی روایت کو اعتماد بخشنے کے لیے  اس کا تسلسل  اساسی عنصر ہے،اس تسلسل اور استناد سے بلا شبہ اہل تشیع کا علم الدرایہ خالی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اخباریوں نے اس علم  پر جو متعدد اعتراضات کئے ،ان میں یہ اعتراض سر فہرست تھا کہ یہ علم کتبِ اربعہ کے مصنفین و دیگر متقدمین علماء سے ماخوذ نہیں ہے ،چنانچہ معروف اخباری عالم  محمد بن حسن حر عاملی لکھتے ہیں :

"أن طريقۃ القدماء موجبۃ للعلم، مأخوذۃ عن أھل العصمۃ لأنھم قد أمروا باتباعھا وقرروا العمل بھا، فلم ينكروہ، وعمل بھا الإماميۃ في مدۃ تقارب سبعمائۃ سنۃ منھا في زمان ظھور الأئمۃ عليھم السلام - قريب من ثلاثمائۃ سنۃ واصطلاح الجديد ليس كذلك قطعا، فتعين العمل بطريقۃ القدماء"6

ترجمہ:متقدمین کا منہج علم کا موجب ہے ،اور ائمہ معصومین سے ماخوذ ہے ،کیونکہ ائمہ معصومین  نے ان متقدمین اہل علم کی اتباع کا حکم دیا ہے اور ان کے منہج پر عمل کی تائید کی ہے ،ان پر نکیر نہیں کی ہے ،نیز امامیہ نے انہی کے منہج پر سات سو سال تک عمل کیا ہے ،جن میں سے تین سو سال کا عرصہ ائمہ کا زمانہ ہے ،جبکہ اصطلاح جدید (یعنی علم الدرایہ )اس طرح نہیں ہے ،اس لیے قدماء کے طریقہ پر عمل واجب ہے۔

5۔کسی بھی علم کے اساسی قواعد و ضوابط  (جنہیں ہم اصول ِعلم کہتے ہیں ،جیسے کہ اصول فقہ ،اصول ِحدیث  وغیرہ)مرتب کرنے کا مقصد اس علم کی تدوین ،ترتیب اور اس کی نشو ونما میں ہونے والی بنیادی اغلاط و اخطا سے اس علم کو بچانا ہوتا ہے ،نیز  وہ علم کن بنیادوں پر مرتب ہو نا چاہئے ،اس کے خدوخال واضح کرنے کے لیے بھی پہلے اس کے قواعد و ضوابط مرتب کئے جاتے ہیں ،مثلا، شوافع و احناف کے فقہی مسالک  میں فرق دراصل ان دونوں کے  اصولِ فقہ میں فرق کی وجہ سے ہے ،اگر ہر دو مسالک کے اصولِ فقہ سامنے نہ ہوں تو محض فقہی مسائل میں فرق کی وجہ سے دونوں مسالک میں موجود اساسی فروق کا کامل علم نہیں ہوسکے گا ،اسی طرح اہلسنت میں جب علم ِحدیث کی تدوین کا عمل شروع ہوا ،تو ساتھ ہی اصولِ حدیث  کی تدوین اور اس کے خدوخال واضح کرنے کا عمل بھی شروع ہوا ،اس کی تفصیل ہم اس کے مضمون کے شروع میں نکات کی شکل میں دے چکے ہیں ،کہ کیسے حدیث کی تدوین کے ساتھ ساتھ اصول ِحدیث بھی منقح  ہوتے گئے ،یوں حدیث و اصولِ حدیث مقارن صورت میں مدون ہوئے ،یہی وجہ ہے کہ آج اہلسنت کے بنیادی مراجع حدیث خصوصا صحاح ستہ کی روایات اور اصحاب صحاح ستہ کے مناہج و شروط بآسانی معلوم کئے  جاسکتے ہیں ،جب ہم اس اصل پر اہل تشیع کا علم الدرایہ پرکھتے ہیں تو صورتحال بالکل مختلف بلکہ الٹ نظر آتی ہے کہ اہل تشیع کے اساسی کتب حدیث کے مصنفین (اصحاب کتب اربعہ ) نے ایک خاص منہج  اور اپنے تئیں کچھ اصول و قواعد کی بنیاد پر کتب اربعہ لکھیں ،اس کے  تین صدیوں بعد ایک عالم آکر پہلے سے مدون شدہ کتب  اور ان  کتب کے مصنفین کے طے کئے ہوئے  اصولی منہج سے بالکل الگ ،جداگانہ اور مختلف   اصولی منہج وضع کرتا ہے ،اور تقاضا کرتا ہے کہ تین صدیوں بعد وضع کئے ہوئے اصولوں کی روشنی میں  ماضی کی ان کتب کا جائزہ لیا جائے اور ان میں موجود روایات کی تصحیح و تضعیف کا تعین کیا جائے ،تو یہاں عقلی طور پر ترتیب بالکل الٹ جاتی ہے کہ علم پہلے مدون ہوا ،کتب پہلے لکھی گئیں اور  لکھنے والوں نے   اپنے تئیں ایک خاص کے تحت تدوین و تریب کا یہ عمل سر انجام دیا ،پھر کئی صدیوں بعد ان کتب کی تدوین ،ترتیب ،نشوونما اور ان میں موجود اغلاط و اخطا کی نشاندہی کے لیے  ان کتب کے مصنفین کے منہج سے بالکل ایک الگ منہج پر مبنی جداگانہ علم وضع کیا جاتا ہے ،یوں عمارت کی تکمیل کے بعد بنیادیں بنانے کا کام کیا گیا ،فصل مکمل ہونے کے بعد بیج ڈالنے کا  عمل سر انجام پایا ،کام کرلینے کے بعد اس کے اصول و ضوابط طے کیے گئے ، وضع کی اس الٹی ترتیب کی وجہ سے علم الدرایہ انطباق  اور  کتب اربعہ کی احادیث اور ان احادیث میں کار فرما اصولی منہج کے معلوم کرنے سے بالکل عاری علم ہے ، یہاں تک کہ ان قواعد کی امثلہ کے لیے بھی احادیث ِ اہلسنت سے مستعار روایات لی  جاتی ہیں ،یوں علم الدرایہ  مدون ہونے کے باوجود اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کے تدوینی عمل، نشوونما ،تدوین کے منہج  اور ترتیب و تدوین میں کار فرما اصول و قواعد معلوم کرنے کے  لیے ممد و معاون نہیں ہے، اوریہ  علم   اپنامنطقی نتیجہ نہ دینے کی بنیاد پر  اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے  بے فائدہ علم بن جاتا ہے۔


حواشی

  1. المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ۔عبد الماجد غوری ،دار ابن کثیر ،بیروت ،ص617
  2. ایضا:ص617
  3. المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ،عبد الماجد غوری ،ص 621
  4. اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ،جعفر سبحانی ،دار جواد الائمہ ،بیروت ،ص
  5. ایضا:ص11
  6. وسائل الشیعہ ،،حر عاملی ،موسسہ اہل البیت لاحیاء التراث م،ج30،ص258

زکاۃ بمقابلہ احساس

پروفیسر عمران احسن خان نیازی

(ترجمہ: مراد علوی)

تحریک انصاف حکومت کا احساس پروگرام یقینا قابل ستائش ہےاور اس پر یہ تنقید درست نہیں کہ پاکستانی قوم بھکاری بن رہی ہے۔ یہ پناہ گاہیں سردی کے اس موسم میں غریبوں کو راحت پہنچا رہی ہیں۔ نیز یہ پروگرام غریبوں  کے لیے تقریباً ماہانہ بنیادوں پر سہولت فراہم کررہا ہے۔ اس میں ہم صحت کارڈکو بھی شامل کرسکتے ہیں جو طِبّی امداد  سے محروم لوگوں کو  دیے گئے ہیں۔ یہ سب اچھے اعمال ہیں لیکن جب ہم اس پروگرام کو اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں تو اس سے  یہ قانونی الجھن سامنے آتی ہے کہ یہ پروگرام ٹیکس کے ان پیسوں سے چل رہے ہیں  جو لوگوں سے زبردستی وصول کیے گئے ہیں اور  قربِ الٰہی کے حصول کا جذبہ اس انتظام میں  نظر انداز ہوجاتا  ہے۔ اگر حکومت یہ پروگرام عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے کر رہی ہے ، تو   یہ عوام کی طرف سے حکومت کے ذریعے ایک رضاکارانہ عمل ہےجو حکومت بہ طور وکیل سر انجام دیتی ہے۔ یہ استدلال ہمیں اس نتیجے تک  پہنچاتا  ہے کہ ایک رضاکارانہ عمل، جس کی حیثیت صدقات کی ہے، اسے  زکاۃ کے مقابلے میں  لوگوں پر نافذ کردیا گیا ہے جس کے نفاذ میں ہر حکومت نے محض  آنکھ مچولی سے کام لیا ہے۔  المیہ یہ ہے کہ زکاۃ کو  اس  ملک میں ایک رضاکارانہ  ادائیگی میں ، جبکہ رضاکارانہ خیرات کو  فلاحی پروگراموں کے لیے لازمی ٹیکس میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

 زکاۃ اسلام کے ارکان میں سے ہے۔ خلیفۂ اوّل ]سیدنا ابو  بکر صدیق[نے اس کے نفاذ کے لیے جہاد کیا۔ سورۃ البقرہ کے آغاز ہی میں ایمان بالغیب اور قیام صلاۃ کے بعد اس فرض کی ادائیگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت احکام القرآن کی تفسیر کرنے والے اہلِ علم نے کی ہے ۔ چنانچہ جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ اللہ کو جواب دہ ہوگا لیکن جو زکاۃ ادا نہیں کرتا ،  اسےحکومت  ادا کرنے پر  مجبور کرسکتی ہے۔

فقہا   نے قرار دیا  ہے کہ   چراگاہوں سے چرنے والے جانوروں کی زکاۃ حکومت کو ادا کرنا لازم ہے۔ اس کے علاوہ زکاۃ کے متعلق دیگر ادائیگیاں ہر فرد  اپنی ذمہ داری کے مطابق خود کرسکتا ہے ۔ تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ زکاۃ کی ادائیگی اختیاری ہے۔ نماز کے برعکس، جو حق اللہ ہے، زکاۃ نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ اس کا تعلق غریب کے حق سے   بھی ہے۔ یہ ایسا حق ہے جس کا پورا کرنا فرض ہے اور غریب کے اس حق کی حفاظت  کی کلی ذمہ داری حکومت کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے ۔ ہر فرد،   خواہ وہ زکاۃ سے فائدہ اٹھانے کا دعویٰ کرے یا نہ کرے،بہ طور  ِاصول اس کا پابند ہے کہ وہ  زکاۃ   ادا کرے گااور نہ دینے کی صورت میں زکاۃ اس سے زبردستی  وصول کی جاسکتی ہے۔ زکاۃکا  نظام گوشواروں  (Zakat Returns)کے ذریعے نافذ کیا جانا چاہیے ۔ چنانچہ ہر شخص  کو ، جو نصاب (دولت کی کم سے کم مقدار جس پر زکاۃ فرض ہوتی ہے ) کا مالک ہو، زکاۃ ادا کرنی  ہوگی اور   اگر اس نے گوشوارے میں کسی ادارے یا فرد کو زکاۃ دینے کا  دعویٰ کیا،تو   اسے گوشوارے کے ساتھ اس ادارے یا فرد سے لی گئی رسید لگانی ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ تعمیل نہ کرنے والوں کو سزا دینے کا قانون بنائے۔

نظامِ زکاۃ کے نفاذ سے تین چیزوں کا حصول متوقع   ہے۔  ان میں سے سب سے پہلی یہ ہے کہ زکاۃ کے گوشواروں  (Zakat Returns) سے  پوری معیشت اور نجی  اثاثوں کی  تفصیل دستاویزی صورت میں آجائے گی۔ حکومت ان معلومات کی روشنی میں پھر اپنے ٹیکس کے نظام  کو بہتر بناسکے گی۔  اس قانون کی خلاف ورزی محض ریاستی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوگی بلکہ غریبوں کے حق  کے متعلق اللہ کے حکم کی نافرمانی ہوگی ۔ ثانیاً،  جمع شدہ فنڈز کے موثر تقسیم سے کافی حد تک غربت کا خاتمہ ہوگا۔ یہ محض بڑا بول نہیں ہے۔ جو لوگ  زکاۃ  کی وصولی کو ٹیکس وصولی کے مقابلے میں حقیر کاوش سمجھتے ہیں، وہ زکاۃ کے نظام سے واقفیت نہیں رکھتے۔ ہم یقین سے کَہ سکتے ہیں کہ  احساس اور صحت کارڈ کے پروگرام سے غریبوں پر سالانہ خرچ ہونے والی رقم  میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ ثالثاً، جب  ایک بار غریبوں کو مناسب فنڈز  اپنے قانونی حق کے طور پر مل جائیں، تو وہ روٹی کپڑا اور مکان جیسے جھوٹے وعدوں پر مبنی سیاسی نعروں  کی طرف توجہ نہیں دیں گے۔

یہاں زکاۃ، عشر اور خمس کے ماخذ کو سمجھنا ضروری ہے۔زکاۃ ادا کرنے والا قاری جانتا ہے کہ سونے  کے لیے نصاب  ساڑھے سات تولے، جب کہ چاندی کے لیے ساڑھے باون تولے ہے۔ زکاۃ کے نصاب میں زیادہ لوگوں کو شامل کرنے کےلیے کاغذی کرنسی کو  ساڑھے باون تولے چاندی   کے نصاب کے حساب میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ ہماری تجویز یہ ہے  کہ اشیا اور نقدی کےلیے سونے کے نصاب کو معیار بنایا جائے تاکہ مستحقین کو ، جونصاب کی حد تک ہی وصول کرسکتےہیں ، بڑی مقدار کی ادائیگی کے ذریعے زیادہ فائدہ پہنچایا جاسکے۔

بہت  ساری چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں لوگ فکرمند نہیں ہیں۔ ان میں پہلی چیز کاروبار میں استعمال ہونے والے اثاثے ہیں۔  ان سے مراد کاروبار کی فہرست میں شامل اموال اور قابلِ عمل سرمایہ ہیں ۔ ہر کاروبار، خواہ کمپنی ہو، شراکت یا کسی کا  ذاتی  کاروبار ہو، اس کو لگائے ہوئے سرمایے کاڈھائی فیصد بہ طورِ زکاۃ ادا کرنا ہوگا۔ اس  سے کچھ ہی ساز و سامان اور مشینری مستثنا  ہوسکتے ہیں۔ اس مد سے حاصل ہونے والی رقم ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہے۔

جائیداد سے ملنے الے کرایہ کی آمدنی کے بارے میں کچھ الجھن پائی جاتی ہے۔ ہمارے علما کا خیال یہ ہے کہ یہ بھی عام آمدنی جیسی ہے بایں طور کہ اس پر بھی سال گزر جانے کے بعد ہی زکاۃ کا اطلاق ہوگا۔ تاہم عظیم حنفی فقیہ امام سرخسی اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔  ان کا موقف یہ ہے  کہ کرایہ والی جائیداد پر  پہلے ہی سال گزر چکا ہوتا ہے؛ لہذا کرایہ جب واجب الادا ہوجائے ، یا وصول کی جائے ، تو اسی لمحے ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے ۔ یہ زیادہ معتبر موقف ہے۔ اگر اسےنافذ کیا جائے تو اندازہ لگائیں کہ اس کے دائرے میں کرایے کے  کتنے پلازے اور مکانات آجائیں گے۔ یہ بہت بڑی رقم ہوگی۔

زمین کی تمام پیداوار پر عشر ، یعنی دس فیصد کی ادائیگی لازمی ہے (پانچ  فیصد ، اگر زمین نہری ہو) ۔ اس میں ڈیری فارم بھی  شامل ہے،  جو کاروباری آمدنی میں شمارکیا  جائے گا۔  ملک میں باہر سے لائے جانے والے اموال پر کسٹم ڈیوٹی کی مقدار برابر کے بدلے کے اصول پر عائد کی جاتی تھی اور اسے بھی عشر کہا جاتا تھا کیونکہ اس کی شرح عموماً دس فیصد ہوا کرتی تھی ۔ اس کے علاوہ دیگر چیزیں بھی ہیں، لیکن اب ہم معدنیات اور دفینوں پر بات کریں گے ۔

ہدایہ میں ، جو  کہ ہر مدرسے میں پڑھائی جاتی ہے،  تصریح  ہے کہ:" جب خراجی اور عشری  زمین  سے سونا، چاندی ، لوہا، سیسہ اور تانبہ جیسی معدنیات  نکالی جائیں تو ان پر پانچواں حصہ (خمس) ہے۔  "اس سے تمام زمینیں مراد ہیں۔  یہاں ان معدنیات کا ذکر ہوا جو اس زمانے میں معروف تھیں ۔  آج تمام معدنیات پر 20 فیصد خمس عائد ہوگا، اور اس میں تھر کا  کوئلہ یا  ریکو ڈک کی معدنیات بھی شامل ہوں گی۔  اس میں پیٹرول بھی شامل ہے، اگر چہ عرب ممالک سے اس  کے عدمِ جواز کے بارے میں فتویٰ آیا ہے۔   زکاۃ کے مصارف کی  پابندیاں خمس پر لاگو نہیں ہوتیں ۔

  مذکورہ بالا زرائع سے جمع کی جانی والی رقم چند ہی سالوں میں ملک سے  غربت کا خاتمہ کرے گی۔ اگر سونے کو آج زکاۃ کے حساب کے لیے معیار کے طور پر استعمال کیا جائے ، تو  ایک غریب مستحق کو زیادہ سے زیادہ جو رقم  ملے گی  وہ  چھے لاکھ چھیا سٹھ ہزار روپیہ ہوں گے۔  اگر چاندی کو استعمال کیا جائے تو  موجود قیمت کے مطابق زیادہ سے زیادہ  پچپن ہزار  روپے ہوں گے۔  ہمیں یقین ہے کہ ہر غریب آدمی کے لیے کافی رقم دستیاب ہوگی ۔  سینٹ آگسٹین نے ایک بار کہا تھا کہ  انصاف کے بغیر   ریاست ڈاکوؤں کے ٹولے سے بہتر نہیں ہوتی۔ اسلامی  عدل کے بغیراسلامی ریاست اس سے بھی  بدتر ہوگی۔  ہم یہ  فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔


عالمی عدالت انصاف کا ایک مستحسن فیصلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۲۴ جنوری ۲۰۲۰ء کو شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیں:

’’عالمی عدالت انصاف نے میانمار حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کا حکم دے دیا، نسل کشی کے خلاف ۱۹۴۸ء کے کنونشن کے تحت افریقی ریاست گیمبیا کی درخواست پر اقدامات کی منظوری دیتے ہوئے عالمی کورٹ کے جج عبد القوی احمد یوسف نے درخواست گزار ملک کو مقدمے کی کاروائی مزید آگے بڑھانے کی اجازت دے دی ہے، عدالت نے میانمار کی حکومت کو پابند بنایا کہ وہ مسلمان کمیونٹی کے خلاف اپنی فوج کے ظالمانہ اقدامات روکے، نیگون حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے لیے چار ماہ کے اندر تمام اقدامات کر کے رپورٹ جمع کرانے، اور ہر چھ ماہ بعد اس حوالہ سے رپورٹ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران میانمار کی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ عالمی عدالت انصاف اس کیس کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتی جس پر گیمبیا کے دلائل سن کر عدالت نے قرار دیا کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے مقدمہ سننے کی یہ عدالت مجاز ہے، واضح رہے کہ میانمار میں ۲۰۱۷ء کے فوجی کریک ڈاﺅن کے نتیجے میں سات لاکھ چالیس ہزار مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی تھی۔‘‘

میانمار (برما) کا یہ خطہ جو اراکان کہلاتا ہے، مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور یہاں صدیوں مسلمانوں کی آزاد حکومت رہی ہے۔ جسے برطانوی استعمار نے اس علاقے میں کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تقسیم کر کے اس کے دارالحکومت چٹاگانگ کو بنگال میں شامل کیا تھا اور دوسرے حصے کو برما کے سپرد کر دیا تھا۔ یہاں روہنگیا نسل کے مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے جو طویل عرصہ سے نسلی تعصب اور اس کی آڑ میں مذہبی منافرت کا نشانہ بنتے آرہے ہیں اور مختلف ادوار میں ہزاروں افراد شہادت سے ہمکنار ہونے کے علاوہ لاکھوں مسلمان بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔ انہیں نسل در نسل اس خطہ میں آباد چلے آنے کے باوجود وہاں کا شہری تسلیم نہیں کیا جا رہا اور میانمار کی حکومت وہاں کے بدھ کاشٹوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے متعدد بار فوجی آپریشنوں کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام اور جلاوطنی کے جرائم کا ارتکاب کر چکی ہے۔

اس کے بارے میں اقوام متحدہ کے علاوہ متعدد دیگر عالمی ادارے اور مسلم ممالک کی باہمی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) مختلف مواقع پر رپورٹیں پیش کرتے ہوئے آواز اٹھاتے رہے ہیں مگر توجہ دلانے اور آواز اٹھانے سے آگے کوئی عملی جدوجہد کسی طرف سے اب تک سامنے نہیں آئی۔ اس لیے اب اگر گیمبیا کی حکومت نے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا کر مظلوم اراکانی مسلمانوں کی دادسی کی کوئی صورت نکالی ہے تو وہ پورے عالم اسلام کی طرف سے شکریہ کی مستحق ہے اور اس سے کسی حد تک دلوں میں اطمینان کا احساس اجاگر ہوا ہے کہ کسی طرف سے کوئی آواز تو اٹھی ہے اور کسی مسلمان حکومت نے دینی حمیت کا مظاہرہ تو کیا ہے۔ یہ کام دراصل بنگلہ دیش کے کرنے کا تھا کہ وہ پڑوسی مسلمان ملک ہونے کے ساتھ ساتھ اراکان کے سابق دارالحکومت چٹاگانگ کو اپنے دامن میں سنبھالے ہوئے ہے اور اس نے لاکھوں اراکانی مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے، اور حکومت پاکستان کا حق بنتا تھا کہ متحدہ پاکستان کے دور میں اراکان اس کی پڑوسی ریاست تھی۔ جبکہ تاریخ کے ریکارڈ کے مطابق قیام پاکستان کے وقت اس ریاست کے مسلمانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور ہمارے خیال میں ان کی یہ معصوم خواہش ہی ان پر ظلم کی رسی دراز ہونے کا باعث بنی ہے۔ پھر اس کیس کی اصل مدعی او آئی سی تھی کہ اس کے قیام کا مقصد ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کی دیکھ بھال اور مسلم علاقوں کے درمیان ربط و تعاون کا فروغ بیان کیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا اور گیمبیا نے بالآخر یہ قدم اٹھایا جس پر ہم گیمبیا کو خراج تحسین پیش کرنا اپنی دینی و ملی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

اگرچہ عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے سے عملی طور پر کسی بڑی تبدیلی کی توقع بظاہر مشکل ہے اس لیے کہ عالمی عدالت اور عالمی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے اس نوعیت کے بہت سے اہم فیصلے صرف اس لیے گومگو کی سولی پر لٹکے چلے آرہے ہیں کہ ان کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ اور فلسطین اور کشمیر سمیت بہت سے علاقوں کے بارے میں اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے متعدد فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال سے واضح ہے۔ جبکہ مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام و جلاوطنی کا یہ سلسلہ صرف اراکان تک محدود نہیں بلکہ کشمیر، سنکیانگ اور دنیا کے بہت سے دیگر علاقوں میں بھی جاری ہے۔ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے والے بھارت میں مسلمانوں کی شہریت کے بارے میں مودی حکومت کے حالیہ اقدامات بھی اس سے مختلف دکھائی نہیں دیتے۔

تاہم عالمی عدالت انصاف اور گیمبیا کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم دنیا بھر کی مسلمان حکومتوں، اداروں اور لابیوں سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ اراکان، سنکیانگ اور اراکان کے مسلمانوں کی یہ مسلسل مظلومیت بہرحال دنیا بھر کے مسلمانوں کی ملی حمیت کے لیے سوالیہ نشان کی حقیقت رکھتی ہے اور ہمیں اس کے لیے ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کے مسلط کردہ دائروں سے ہٹ کر ملی تقاضوں اور دینی ذمہ داریوں کے حوالہ سے ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا کہ اس کے سوا اس کا مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔

آنجہانی جسٹس رانا بھگوان داس کی یاد میں تقریب

آئی پی ایس (انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد) کی طرف سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان آنجہانی رانا بھگوان داس کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تو موجودہ حالات کے تناظر میں یہ بات مجھے اچھی لگی کہ ہم ان شخصیات کو یاد رکھیں جنہوں نے اصول، قانون اور انسانی روایات کو زندہ رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ یہ تقریب ۱۱ فروری کو منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری تھے۔ جبکہ دیگر مہمانان خصوصی میں محترم راجہ محمد ظفر الحق، جناب محمد اکرم شیخ ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر رامیش کمار (ایم این اے) کے ساتھ راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔

موجودہ عالمی تہذیبی کشمکش میں مجھے ایسی مجالس کی تلاش رہتی ہے جن میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ ارباب فکر مل بیٹھ کر انسانی اقدار و روایات کے فروغ اور مذہب کے معاشرتی کردار کے حوالہ سے گفتگو کریں۔ کیونکہ میری طالب علمانہ رائے میں اس وقت نسل انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ اور بحران انسانی اخلاقیات اور اقدار کا ہے جن سے انسانی سوسائٹی مسلسل محروم ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ انسانی اخلاق و روایات کے سب سے بڑے علمبردار مذاہب ہیں جو تمام تر باہمی اختلافات اور تنازعات کے باوجود انسان کو اس کی بنیادی اقدار سے وابستہ رکھنے میں سب سے مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی اخلاقیات و روایات اور سوسائٹی کے معاملات میں مذہب کے کردار کو کمزور کرتے چلے جانا اس وقت تمام مذاہب کے سنجیدہ راہنماؤں کے لیے مشترکہ چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں اس سلسلہ میں امریکہ، برطانیہ اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مختلف مذاہب کے متعدد راہنماؤں سے بات چیت کر چکا ہوں اور اس مکالمہ کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی خواہش رکھتا ہوں بلکہ کوشش بھی کرتا رہتا ہوں۔

اس سیمینار کے بارے میں آئی پی سی کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کو اس کالم کا حصہ بناتے ہوئے میں اپنی گفتگو کے بعض حصے بھی ریکارڈ میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ اپنے محسنین کو یاد رکھنا ان کا حق ہونے کے ساتھ ساتھ جناب سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے آنحضرتؐ کو اپنے ایک پرانے محسن مطعم بن عدی یاد آگئے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر طائف میں پتھراؤ کرنے والے اوباش لڑکوں سے آپؐ کو پناہ دی تھی۔ اللہ تعالٰی کے آخری رسول ان لڑکوں کے پتھراؤ اور تعاقب کے باعث زخمی اور لہولہان حالت میں اپنے خادم حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف واپس آرہے تھے کہ راستہ میں مطعم بن عدی نے اپنے ڈیرے کا دروازہ کھول دیا اور آپؐ وہاں کچھ دیر ٹھہرے، خون وغیرہ دھویا اور آرام کیا۔ نبی اکرمؐ نے غزوہ بدر کے موقع پر اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان قیدیوں کی سفارش کرتے تو میں انہیں فدیہ لیے بغیر ہی آزاد کر دیتا۔ اس میں جناب رسول اکرمؐ کی طرف سے یہ تعلیم ہے کہ محسن خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اس کی احسان مندی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

دوسری بات یہ کہ میں جب اس سیمینار میں شرکت کے لیے حاضر ہوا تو مہمانوں میں جناب سبھاش چندر کو دیکھا جو آنجہانی رانا بھگوان داس کے برادر نسبتی ہیں اور مجھ سے پہلے انہوں نے شرکاء سے گفتگو کی، انہیں دیکھ کر مجھے تحریک آزادی کے نامور راہنما سبھاش چندر بوس یاد آگئے اور میں اسٹیج پر بیٹھا کچھ دیر تک ماضی کے مناظر میں کھویا رہا۔

ان گزارشات کے ساتھ اس سیمینار کے بارے میں آئی پی سی کی رپورٹ پیش خدمت ہے:

’’اسلام آباد، 12 فروری: پاکستان کی تعمیر و ترقی اور اس کے قومی اداروں کو استحکام دینے اور مضبوط بنانے میں جسٹس رانا بھگوان داس جیسے ملک کے کئی غیر مسلم فرزندوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف ان غیر مسلم ماہرین کی خدمات کو سراہا جائے بلکہ ملک کے نوجوانوں کی نظریاتی سوچ کی تعمیر کے لیے ان میں یہ آگہی بھی پیدا کی جائے کہ کس طرح ان ماہرین نے اقلیت میں سے ہونے کے باوجود ملک کی قانونی، عدالتی، آئینی اور سماجی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ اسلام آباد میں جسٹس رانا بھگوان داس کے یاد میں ہونے والی ایک تقریب کا خلاصہ تھا جس کا اہتمام اسلامی نظریاتی کونسل اور انسٹیٹوٹ آف پالیس اسٹڈیز کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا تھا۔ اس تقریب سے خظاب کرنے والوں میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، ایڈووکیٹ اکرم شیخ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایگزیگٹیو پریزیڈنٹ خالد رحمٰن، قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی، مولانا ابو عمار زاہدالراشدی، اسلام آباد ہندو پنچایت کے صدر مہیش کمار، اور جسٹس رانا بھگوان داس کے برادرِ نسبتی سبھاش چندرشامل تھے ، جبکہ سینیٹر راجہ ظفر الحق کا خصوصی پیغام بھی انسٹیٹیوٹ کے سینئیر تحقیق کار سید ندیم فرحت نے اس موقع پر پڑھ کر سنایا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ جسٹس بھگوان داس ایک محبِ وطن شہری تھے جو قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے اور اپنے تمام فیصلے بھی قوانین کی روشنی میں ہی کرتے تھے۔ انہوں نے اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی اور اسی بنا پر انہیں اسلامی فکر اور قانون پر عبور حاصل تھا۔ وہ ایک انتہائی اصول پسند انسان تھے اور انہوں نے اپنے کردار، رویے، غیر جانبداری، متوازن سوچ کی بنا پر اتنی عزّت اور اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جسٹس بھگوان داس اور ان کی طرح اقلیت سے تعلق رکھنے والے ملک کے دیگر فرزندوں مثلا جسٹس اے آر کانیلیس اور جسٹس دراب پٹیل وغیرہ کی خدمات کو یاد رکھیں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں کہ کیسے انہوں نے اپنی محنت او مستقل مزاجی سے یہ مرتبہ حاصل کیا۔ مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں اقلیتوں کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ملکی سطح پر غیر امتیازی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ اگرچہ کسی بھی ملک کی طرح یہاں بھی کچھ انتہا پسند طبقات موجود ہیں، لیکن حال میں ہی ہونے والے مختلف واقعات اور قانونی فیصلوں کی روشنی میں عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کے نظام اور معاشرے میں بھی اقلیتوں کو ان کا حق دینے کی گنجائش نظر آتی ہے۔ مقررین نے اس موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور اسلامی نظریاتی کونسل کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قومی ہیرو اور فرزندوں ، اور ان کی قومی خدمات کو یاد کرنے والی ایسی کوششوں کو جاری رہنا چاہیے۔‘‘


قومی اور مذہبی اظہاریوں کا خلط مبحث اور سماج کی تقسیم کاری

ڈاکٹر عرفان شہزاد

قومی ریاستوں کی تشکیل کے دور میں پاکستان ایک قومی مذہبی ریاست کی صورت میں منصہ شہود پر نمودار ہوا۔ قومی ریاستوں کی تشکیل میں جغرافیہ کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ جغرافیہ میں شامل مختلف رنگ و نسل کے لوگ نظریے اور عقیدے کے فرق کے علی الرغم قومی ریاستوں کا حصہ بنے۔ پاکستانی ریاست کی تشکیل بھی اسی اصول پر عمل میں آئی لیکن سیاسی عمل کے دوران میں مذہبیت یا اسلامیت کا عنصر بھی اس میں شامل ہو گیا جو قومی شناخت کی اظہاریوں میں غلبہ پاتا چلا گیا۔ مذہبیت کے اس عنصر نے اس نومولود ریاست کی اکثریتی مسلم کمیونٹی کے احساس میں اس کی ملکیت کا تصور پیدا کر دیا۔ یہ حقیقت لیکن نظر انداز کر دی گئی کہ یہ ریاست بادشاہتوں کے گزشتہ دور کی طرح کسی مسلم حکم ران نے فتح نہیں کی تھی کہ فاتح کا مذہب اس کا مذہب اور اس کا دیا ہوا نظام اس کا سرکاری نظام قرار پاتا۔ یہ ایک ایسی جمہوری سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا جس نے جغرافیہ کی بنیاد پر ایک قومی ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تشکیل میں یہاں کی تمام قومیتوں اور مذاھب کے پیروکاروں نے ووٹ ڈالا تھا جس میں اکثریتی ووٹ مسلم آبادی کا تھا۔ ریاست کے اس کثیر القومی تشخص کو بانی پاکستان نے 11 اگست 1947 کی اپنی سرکاری تقریر میں بالکل دو ٹوک انداز میں پیش بھی کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا:

’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘

لیکن اس ریاست کے قیام کے بعد قرون وسطی کے نمونے پر اسے مسلم قومی ریاست بنانے کا خیال یہاں کی مسلم اکثریت میں سرایت کر گیا۔ تحریک پاکستان کے دوران میں مسلم کارڈ کا استعمال اس دو شناختی قومیت کے لیے وجہِ جواز بنا۔ لیکن جغرافائی وحدت کے اساس پر حصولِ ریاست کا اصول اس ساری ہمہ ہمی میں نظر انداز ہو گیا۔ یوں دو شناختی قومیت کی حامل ریاستِ پاکستان وجود میں آئی۔ اس کی یہی آئینی حیثیت برقرار کرنے کے لیے پہلے قرار داد مقاصد اور بعد ازاں '73 کے آئین میں مسلمان کی تعریف اور دیگر اسلامی شقیں عمل میں لائی گئیں۔ چناں چہ مسلم اکثریت کو اس ملک کا حقیقی وارث باور کرا دیا گیا جس میں غیر مسلم اقلیت کو وہی حقوق ملے جنھیں مسلم اکثریت نے دینا منظورکیا۔ بلکہ مسلم بھی اسے ہی قرار دیا گیا جسے یہاں کی اکثریت نے مسلم تسلیم کیا۔ ریاست ایک مسجد کی طرح مسلم اکثریت کے زور پر ان کے مذہب کے نام پر رجسٹرڈ کرا لی گئی۔

قومی ریاستوں کے دور میں اسلام کے نام پر مذہبیت کی یہ پیوند کاری گھمبیر نتائج کی وجہ بنی۔ دین اسلام زندہ فرد سے مخاطب ہوتا ہے۔ یہ فرد اگر حاکم ہو تو اس سے بھی مخاطب کرتا ، اسے ہدایات اور ذمہ داریاں دیتا ہے، لیکن ریاست ایک غیر شخصی وجود تھا، دین کا مخاطب بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی مگر یہاں اسے بھی کلمہ پڑھوا کر مسلمان بنایا لیا گیا۔ اس کے لیے عقیدہ (نظریہ پاکستان) وضع کیا گیا جس کی تعریف پر پورا نہ اترنے والوں کو غیر مسلم اور اسے تسلیم نہ کرنے والوں کو غدار قرار دے دیا گیا۔ بلکہ اختلاف عقیدہ کی بنا پر ملک میں رہنے بسنے کے استحقاق پر ہی سوال اٹھا دیا گیا۔ صدیوں سے اس زمین پر آبائی حق سے رہنے والوں کے لیے نئے سرے سے استحقاق رہایش کی بحث پیدا ہو گئی۔ دین و ریاست کی ملکیت کا یہ تصور اس حد کو پہنچا کہ دینی شعائر پر مسلم ملکیت کا دعوی قائم ہوگیا ۔ مطالبہ کیا گیا کہ ان کی سند کے بغیر خارج از ملت فرقے انھیں اختیار نہیں کر سکتے۔

یہی معاملہ مقامی شناخت پر اصرار کرنے والوں سے بھی برتا گیا۔ ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی مقامی شناخت کو قومی شناخت کے تابع کر دیں اور ریاست کے وسیع تر مفاد میں اپنے انفرادی اور مقامی اور علاقائی قومی مفادات سے دست بردار ہو جائیں۔ ایسا نہ کرنے پر ریاست نے ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا۔ ریاست کا یہ قومی مذہبی نظریہ یا عقیدہ اس قدر اہم گردانا گیا کہ ریاست نے اس کے تحفظ کو سرکاری کار منصب قرار دے دیا۔ عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس ریاستی بیانیے کو تسلیم کرلیا ۔ جنھوں نے اس سے اختلا ف کیا ان کی وطنیت کو بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے انھیں غدار اور منافق مشتہر کیا گیا۔ ان سے جلا وطن ہو جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ یوں زمین کے ساتھ فرد کے رشتے کی فطری اور دیرینہ وابستگی نظر انداز ہو گئی اور ریاست کے نظریے سے وابستگی اس ملک میں رہنے کے لیے واحد معیار قرار پائی۔

مقامی شناختوں کو دبانے اور غیر نمایاں کرنے کے لیے مقتدرہ نے مقامی بولیوں اور ثقافتی مظاہر اپنانے سے گریز کیا۔ مقامی شناختوں کو تحقیر اور اجنبیت کی نظر سے دیکھا گیا۔ تعلیم اور سرکاری دفتری زبان اردو اور انگریزی قرار دی گئی۔ کسی دوسری زبان کا استعمال ممنوع اور حقیر بنا دیا گیا۔ اس خطے کی تاریخ کے غیر مسلم مشاہیر کے تذکروں کو نصاب اور تاریخ سے محو کر دیا گیا۔ بلکہ مشترکہ تاریخ سے رشتہ ہی توڑ دیا گیا۔ تاریخ کی تشکیل نو کی گئی۔ تاریخ کےٹکڑے منتخب کر کے ماضی میں بھی موجودہ قومی مذہبی ریاستی بیانیے کو ثابت کر کے دکھایا گیا۔ اس سارے عمل نے نوجوان مسلم اذہان کو مصنوعی شناخت کے حوالے سے ریڈکلائز کر دیا۔

اس مصنوعی بنانیے نے ملک کے باسیوں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ریاست کے قومی مذہبی ملی شناخت پر اصرار سے قومی سطح پر فرقہ واریت پیدا ہو رہی ہے۔ افراد کو ریاستی بیانیے پر مکمل ایمان لانے اور مکمل ایمان نہ لانے کی بنیاد پر محب وطن، منافق اور غدار کے زمرہ جات میں تقسیم کیا جا رہا ہے اور یہ تقسیم روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سماج میں ایک طرف مذہبی انتہا پسندی ہے جو اپنے فتوی کی قوت سےفرد کو باوجود اس کے اپنے دین اور ایمان پر اصرار کے اس سے اس کی مذہبی شناخت چھین لینا چاہتی ہے تو دوسری طرف ریاستی انتہا پسندی ہے جو ریاستی قوت کے زور پر ایسے تمام عناصر کو ریاست کا باغی قرار دے کر انھیں عاق کر رہی ہے جو فرد کے مفاد پر ریاست کے غیر محدود مفادات پر نقطہ اعتراض پیش کرتے، ریاست کی فرد کے خلاف زیادتیوں پر توجہ دلاتے، اپنی قومی شناختوں پر اصرار کرتے اور تاریخ کی مصنوعی تشکیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ فرد اور اس کے حقوق کی بحث پس منظر میں چلی گئی ہے۔ فرد کی ریاست سے شکایت کی داد رسی سے پہلے یہ بحث جاری کر دی جاتی ہے کہ فریاد کناں غدار اور منافق ہے۔ اس صورت حال میں ریاست اور اس سے معاشی مفاد پانے والے ایک گروہ اور اس سے محروم دوسرا گروہ بن گئے ہیں۔ یوں ملک کے اندر ایک خلیج پیدا ہوتی جا رہی ہے جو اگر یوں ہی جاری رہی تو باہمی نفرت اور خانہ جنگی کی آگ کو ہوا دے گی۔ یہ صورت حال سقوطِ ڈھاکہ جیسے مزید کسی سانحہ پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔

شناخت کے بحران کی جڑیں ماضی میں پیوست ہیں

قومی مذہبی شناخت سے پیدا ہونے والے اس بحران کی جڑیں متحدہ ہندوستان کے ماضی میں پیوست ہیں۔ ان کا درست تجزیہ ضروری ہے۔ مسلمان جب ہندوستان میں وارد ہوئے تو یہاں کی مقامی آبادی نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ علما و فقاا نے ہندو دھرم کے مذہبی رسوم و رواج سے مسلم کمیونٹی کو بچنے کی تلقین کی۔ لیکن اس تلقین میں وہ مذہب و ثقافت کے فرق کو مسلسل دھندلاتےچلے گئے۔ ثقافتی ہم آہنگی سے مذہبی ہم آہنگی کے راستے کو بند کرنے کے لیے وہ مذہب کے ثقافتی امتیازات وضع کرتے چلے گئے۔ یوں دو قومی نظریہ کے خدوخال نمایاں ہونے لگے۔ دین دعوت کی بجائے ایک پارٹی بنانے کا تاثر دینے لگا۔ اس کے لیے نو مسلموں کے "اسلامی نام' رکھنے کی اختراع وضع کی گئی۔ ہندوستانی ثقافتی مظاہر میں سے ہی کچھ کو چن کر اور کچھ ردوبدل کر کے انھیں مسلمانوں کے حلیے اور امتیازی اسلامی ثقافتی علامتوں کے طور پر جاری کر دیا گیا۔

عہد سلاطین میں محمد تغلق اور التمش جیسے متشرع سلاطین کے پاس اس وقت کے فقہا تشریف لائے تھے اور انھیں ہندوؤں کو مشرک قرار دے ان کو گردن اڑانے کے قرآنی حکم پر عمل کی تلقین کی۔ ان سلاطین نے عملی مجبوریوں کے بہانےان مطالبات کو نظر انداز کیا۔ اس پر فقہا کی طرف سے نصیحت کی گئی کہ ہندوؤں کو ذلیل کر کے رکھا جائے اور امور سلطنت میں ان کو شامل نہ کیا جائے۔ ادھر ہندوستان کے مسلم مورخین نے وسط ایشیا سے آنے والے مسلم حملہ آوروں کو محض اشتراک مذہب کی بنیاد غازی اور مجاہد بنا کر پیش کیا۔ یہ مسلم سلاطین اپنی سلطنت کی توسیع اور ترقی کا ذاتی ایجنڈا رکھتے تھے۔ اپنے مقابل مسلم بادشاہوں سے بھی وہ ایسے ہی برسر پیکار ہو جاتے جیسے غیر مسلم راجاؤں کے خلاف۔ لیکن مسلم مورخین ان کی اپنے معاصر مسلم حکم رانوں سے جنگ کو تو جنگ لکھتے لیکن یہی جب ہندو راجاؤں سے جنگ کرتے تو اسے جہاد قرار دیتے اور جنگ جوؤں کا لشکر، اسلامی لشکر قرار پاتا تھا۔ تاہم سماجی سطح پر مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان سماجی تعامل جاری رہا اور تعلیم یافتگان اور اہل مذہب کی پیدا کردہ تفریقات کو انھوں نے عملی ضرورتوں اور ایک جیسے حالات و وسائل میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے اہمیت نہیں دی۔

مقامی قومیت کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر علیحدہ سیاسی شناخت کا یہ احساس عوام سے زیادہ اہل علم میں موجود رہا۔ عوام میں ایسے بیانیوں کو عموما عملی سطح پر پذیرائی نہ ملی۔ جب قومیت کا تصور مغرب سے درآمد ہوا تو یہاں کے تعلیم یافتہ متوسط طبقے نے ہی اسے سب سے پہلے اپنایا۔ راشٹریہ سیوک سنگ کے تعلیم یافتہ متوسط ہندؤوں نے ہندو قومیت اور آل انڈیا مسلم لیگ کے تعلیم یافتہ مسلم متوسط طبقے نے مسلم قومیت کو فروغ دیا۔ برطانوی راج کی طرف سے ہندوستان میں جداگانہ انتخابات کا انعقاد ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے معاون ثابت ہوا۔ جمہوریت نے چوں کہ حصول اقتدار کے لیے طاقت کا منبع عوام کو منتقل کر دیا تھا اس لیے عوام کو اس فرقہ وارانہ ایجنڈے پر قائل کرنے کی سیاست کا آغاز ہوا۔ وہ عوام جو اپنے معاشی مسائل، سماجی تعامل اور معاشرتی روابط کی بنا مذہبیت کے نام پر تقسیم جیسے بیانیوں کو قومی سطح پر کبھی پذیرائی نہ دے سکے اس سیاست بازی کی راہ سے اس کا شکار ہوگئے۔ راشڑیہ سیوک سنگھ کو تو کانگریس کے متحدہ قومیت کے نعرے کے سامنے خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی، تاہم آل انڈیا مسلم لیگ اپنی الگ مسلم شناخت کو بہرحال کامیابی سے برتنے میں کامیاب ہو گئی۔ اور یوں ایک ثقافت اور ایک تاریخ کی حامل دو مختلف مذہبی شناختیں رکھنے والی دو قوموں، ہندو اور مسلم کو مشترکہ جغرافیہ کے باوجود ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ جو مسلم بھارت سے الگ نہ ہوئے، وہ بھی بہرحال مسلم شناخت کی سیاسی تقسیم کا شکار ہوئے۔

مسلم لیگ کی کامیابی نے وطن کی بنیاد پر متحدہ قومیت کو شکست دی جس سے ہندو قومیت کے احساس کو انگیخت ملی۔ یہ تاثر ہندوستان میں آنے والی دہائیوں میں بڑھتا چلا گیا۔ اس احساس نے بھارتی سماج میں بھی ہندو مسلم تقسیم کو مزید گہرا کیا۔ بھارتی مسلمانوں کا اپنے مذہبی ثقافتی اظہاریوں پر مستقل اصرار اجنبیت کو گہرا کرتا چلا گیا۔ بھارت کے مسلمانوں کا انیس کو چھیالسی کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو ووٹ دینا بھی انھیں ہندوستان میں اجنبی بنا گیا۔ پاکستان کے درمیان جنگوں نے اس احساس کو مزید ابھارا ۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو قومیت اور ہندوتوا پر اصرار کرنے والی جماعت، آر ایس ایس، جسے تقسیم ہند کے دوران بھی موثر پذیرائی نہ مل پائی تھی آج اسی کے ایجنڈے کی حامی جماعت بی جے پی دوسری بار انتخابات جیت کر ہندوستان پر حاکم ہے۔

مسئلے کا حل

سیاسی جھگڑوں کے جھمیلے میں اسلام کا بیانیہ بے صدا رہ گیا۔ ہم اس کو یہاں نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

مذہب و ثقافت کے جھگڑے میں دین اسلام کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ فرد کی ثقافتی مظاہر کو موضوع نہیں بناتا، سوائے یہ کہ ان مظاہر میں شرک، فحاشی، ظلم یا عدوان جیسی کسی بد اخلاقی کا پہلو پایا جائے۔ ایک آفاقی پیغام رکھنے والے دین کو کسی مقامی ثقافت سے منسلک کرنا محض غلط ہے۔ اسلام فرد کے عقیدے اور اخلاق کو موضوع بناتا اور ان کی اصلاح کرتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ اسلام قبول کرنے والوں کے نام تبدیل نہیں فرمایا کرتے تھے سوائے یہ کہ نام میں کوئی شرک یا کسی اور برائی کا کوئی پہلو پایا جاتا تو تبدیل فرماتے۔ اسی طرح آپ نے پہلی مسلم کمیونٹی کے ظاہری حلیے میں کبھی کوئی ایسی امتیازی علامات قائم نہیں کیں جس سے عرب کے مشرک، یہودی اور مسلمان کے درمیان کوئی شناخت ممکن ہو سکتی۔ در حالاں کہ ایک لحاظ سے یہ ضروری بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسی علامات قائم کی جاتیں تاکہ دوست دشمن میں پہچان ہو سکے۔ یہی وجہ تھی کہ بعض صحابہ کے ہاتھوں سے دوران جنگ ایسے افراد بھی مارے گئے جن کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کو کہنا پڑا جو تمھیں سلام کر دے اسے مت کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ سلام کے علاوہ کسی بستی سےآذان کی آواز آنا، کلمہ شہادت، نماز اور زکوۃ ادا کرنا کسی فرد یا قبیلے کے مسلمان ہونے کی علامت قرار پایا تھا۔ لیکن کہیں یہ نہیں ملتا کہ مسلمانوں کی ظاہری شناخت کے لیے ان کے حلیے اور لباس میں کوئی امتیاز برتا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی نامعلوم لاش ملتی تو یہ معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ مسلم تھا مشرک۔ مشرکین عرب اور یہودمختون بھی ہوتے تھے۔ چناں چہ حلیہ اور لباس میں کوئی علامت موجود نہ تھی جس سے مذہب کی شناخت ممکن ہو سکے۔

اسی فہم دین کے ساتھ صحابہ نے جب بیرون عرب فتوحات کیں تو لوگوں کے نام تبدیل کروائے نہ ثقافتی مظاہر میں کوئی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ اس بارے میں مسلم ہیت مقتدرہ کی بے تعصبی کا یہ عالم تھا کہ خالص مذہبی رسوم و رواج مثلا صلوۃ اور صوم کے مقامی زبان کے متبادلات یعنی نماز اور روزہ کو اختیار کرنے دیا گیا۔ دور جدید میں ان کے انگریزی متبادلات Prayer اور Fast کے اپنا لینے پر بھی کوئی قابل ذکر اعتراض نہیں کیا گیا۔ عہد صحابہ میں مساجد کے لیے مینار بنانے کا خیال شام کے گرجا گھروں سے لیا گیا تھا، بلکہ مسجد کا منبر جسے منبر رسول کہا جاتا ہے، اس کی تعمیر کا خیال ایک صحابی نے پیش کیا تھا جنھوں نے شام کے گرجا گھروں میں پادریوں کو اس کا استعمال کرتے دیکھا تھا۔عربی ناموں کے ساتھ فارسی اور ترک نام جیسے شہریار، پرویز، چنگیز خان وغیرہ مسلمانوں میں عام رہے۔ برصغیر میں آکر یہ رواداری البتہ برقرار نہ رہی۔ شروع میں ہندی ناموں کو بھی گوارا کیا گیا لیکن جلد ہی یہاں عربی اور فارسی اور ترک ناموں کو اسلامی نام سمجھ کر رکھا جانے لگا۔

مذہب سے ثقافت کو تبدیل نہ کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا تھا کہ لوگ تبدیلی مذہب کے باوجود اپنے سماج سے نہیں کٹتے تھے۔ وہ مندر کی بجائے مسجد جانے لگتے تھے مگر بولی وہی بولتے تھے جو ان کے لوگ بولتے تھے، لباس وہی پہنتے تھے جو ان کے لوگ پہنتے تھے، نام ان کے وہی رہتے تھے جو ان کا پیدایشی ہوتا تھا جس کے ساتھ ان کی ثقافتی اور نفسیاتی وابستگی ہوتی تھی۔ یوں تبدیلی مذہب کے باجود دو مختلف مذہبی گروہوں میں اجنبیت پیدا نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کرنے کے باوجود وطن کی حفاظت میں ہندو راجپوتوں کے ساتھ مل کر وسط ایشائی مسلم حملہ آوروں کے خلاف لڑا کرتے تھے۔ لیکن جب ثقافتی امتیازات برتے جانے لگے، نماز کو پوجا کہنے نہ دیا گیا، روزہ کو بھرت کہنے پر آمادہ نہ ہو پائے، جب آکاش اور پرکاش کو محمد یوسف اور عبد اللہ نام اختیار کرنا پڑے، بلکہ اس کے آگے بڑھ کر ان کے لیے مخصوص لباس اور حلیہ اختیار کرنے کی شرائط بھی عائد کر دی گئیں، تو لوگوں میں باہمی طور پر اجنبیت اور پھر نفرت پھیلی۔ انیسیوں صدی عیسوی میں قومیت کا تصور برصغیر میں نو آبادیاتی دور میں متعارف ہوا۔ جس سے پہلے وطنی قومیت اور بعد ازاں وطنی مذہبی قومیت نے وجود پایا۔ سماجی اور ثقافتی سطح پر شناختی امتیازات کو نمایاں کیا جانے لگا۔

"اسلامی ثقافت"کے نام پر ہونے والی امتیازی کارروائیوں نے درحقیقت ایک سماج کے لوگوں کو علیحدہ کیا، جس نے آگے بڑھ کر سیاست کی سطح پر گروہ بندی اختیار کر لی گئی۔ برصغیر میں ثقافتی تفریق کا عمل اس وقت زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیا جب 1905 میں بنگال کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ وہ ہندو مسلم تقسیم دکھائی دی۔ 1909 میں اس کی اساس پر جداگانہ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ اقتدار کی رقابت، سیاسی گروہ بندی کا لازمہ ہے۔ سیاسی رقابت کی منافرت نے مذہبی منافرت کا عنوان اختیار کر لیا۔ الزام پھر مذہب پر آیا کہ مذاہب انسانوں کو لڑاتے ہیں۔ سیاسی رقابت بنام مذہب سے پھر وہ نفرت پیدا ہوئی جس کا المناک نتیجہ تقسیمِ ہند اور اس دوران ہونے والے خون خرابے میں سامنے آیا، اور جس کے اثرات پون صدی ہونے کو آئے ،اب بھی جاری ہیں۔

ہندو اور مسلمانوں کی مذہبی ثقافتی حساسیت کے رد عمل میں یہاں کے مسیحیوں بھی یہی راہ اپنائی۔ وہ بھی الگ مذہبی قومیت کے تصور سے متاثر ہو کر اپنے مقامی ثقافتی ناموں، جیسے اقبال، اختر، مبارک، شہریار کو چھوڑ کر ڈیوڈ، مائیکل،  سائمن رکھنے لگے۔ یہ رجحان پر شہری علاقوں کے تعلیم یافتہ مسیحیوں میں زیادہ نمایاں ہے۔ دیہی علاقے کے مسیحی اب بھی زیادہ تر مقامی زبانوں کے نام ہی رکھتے ہیں، یہی نام مسلم بھی رکھتے ہیں۔ مسیحی افراد شناختی امتیاز قائم کرنے کے لیے گلے میں اور گھروں پر صلیب لٹکانے لگے۔ شناختی امتیازات قائم رکھنے کی یہ لَے اس قدر بڑھی کہ مسلم اور مسیحیوں کے درمیان "مریم" جیسے مشترکہ نام کو اردو میں ممکن نہ ہو سکا تو انگریزی کے ہجوں میں مختلف کر دیا گیا۔ مسلم اسے Maryam لکھتے ہیں اور مسیحی Marriam اور تلفظ بھی عام تلفظ سے مختلف کرتے ہیں۔

اہل تشیع اس سب سے بہت پہلے سے اپنی امتیازی شناختی علامتوں کے بارے میں حساس رہے ہیں جس سے وہ نہ صرف الگ پہچانے جاتے ہیں بلکہ اسی بنا پر ان سے الگ سے امتیازی سلوک بھی روا رکھنا بھی دوسروں کے لیے ممکن ہو جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے ریاست یہ باور کرے کہ قومی ریاستوں کے دور میں مذہبی ریاست کا تصور ایک بے جوڑ اضافہ ہے۔ یہ ملک یہاں بسنے والی تمام قوموں نے مل کر بنایا تھا۔ اکثریت کو محض عددی برتری کے زعم میں اس کو اپنے نام کے ساتھ رجسٹر کرانے کا حق نہیں ہے۔ سیاسی نمائندگان کا چناؤ سماج کا آزادانہ فیصلہ ہوتا ہے۔ مسلم اکثریت کے ملک میں کسی غیر مسلم کا ملک کی سربراہی کے لیے چنے جانا ویسے بھی حد امکان میں نہیں تو اس معاملے میں بلاوجہ قانون سازی کرکے غیر مسلموں کو دوسرے درجے کے شہری ہونے کا تاثر دینا عبث ہے۔ مسلمان حکومت میں ہوں گے تو دین کے مسلم اجتماعیت سے متعلق احکام پر عمل کرنا ان کا فرض منصبی سمجھا جائے گا۔

سماجی سطح پر یہ بات مسلم کمیونیٹی کو سمجھانے کی ہے کہ مذہب، ثقافت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ پرویز، ڈیوڈ اور آکاش جیسے نام ایسے ہی قابل قبول ہے جیسے محمد یوسف، عبد اللہ ور عبد الرحمان؛ صلوۃ کے لیے ورشپ اور پوجا کا لفظ بھی ایسے ہی درست ہے جیسے نماز؛ کرتا پائے جامہ اور پینٹ شرٹ بھی ایسے ہی درست لباس ہیں جیسے عربی چغہ؛ ثقافتی اور موسمی تہوار بھی اسلامی اور غیر اسلامی نہیں ہوتے۔ دین میں ان چیزوں کو موضوع نہیں بنایا گیا۔ دین کا موضوع فرد کے عقائد اور اخلاق کی اصلاح ہے۔ کسی مذہب کو اختیار کرنا کسی سیاسی پارٹی کو اختیار کرنے کی طرح نہیں ہے جس میں الگ بیج اور جھنڈے لگا کر اپنا امتیاز ظاہرکرنا ضروری ہو۔ مسلمان کی پہچان، سلام، نماز اور زکوۃ کی ادائیگی بتائی گئی ہے نہ کہ کوئی مخصوص حلیہ۔ ثقافتی امتیازات اختیار کرنےکا تصور تب پیدا ہوا جب اہل مذہب نے خود کو سیاسی اور سماجی گروہوں میں سے ایک گروہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ضروری ہے کہ مذہب و ثقافت کے درمیان حد فاصل کا شعور اجاگر کیا جائے اور لوگوں میں منافرت کی خود ساختہ بنیادوں کو ختم کیا جائے۔

ریاست کے تصورمیں اصلاح کی ضرورت

ریاست کا یہ تصور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مقدس ہے جس پر تنقید سے اس کی توہین ہو جاتی ہے۔ اور یہ کہ وہ فرد اور اس کے حقوق سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ریاست بادشاہت کی جگہ آئی اور اسی وجہ سے اسے بادشاہت والی اختیار اور تقدس دے دیا گیا۔ اسی بنا پر اس سے غیر مشروط وفاداری کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بنیادی حقیقت جانے کیسے نظر انداز ہو گئی کہ بادشاہتوں کی یہ مطلق العنانی اور غیر مشروط وفاداری جیسی برائیاں تھیں جن کو ختم کرنے کے لیے انسانیت نے جمہوریت کی طرف قدم اٹھایا۔ جمہوریت سے پیدا ہونے والی حریت فکر کو لیکن حکومت اور حکومتی نمائندوں تک محدود کر دیا گیا اور ریاست کے ساتھ وہی قدیم وابستگیاں برقرار رکھی گئیں جو بادشاہت کے دور کی خصوصیت تھی۔ انسانیت کو اب ایک قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ وہ تسلیم کرے کہ مقدس اگر ہے تو وہ فرد کا جان، مال اور آبرو ہے۔ ریاست کا وجود فرد کا مرہون منت ہے۔ ریاست اس کے ٹیکس کی محتاج ہے۔ ریاست ایک مینجر ہے، ایک انتظامی بندوبست ہے جس کو فرد کی فلاح و بہبود کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ وہ اپنا وجود اسی افادیت کے ثبوت پر برقرار رکھنے کا جواز رکھتی ہے۔ اس انتظامی بندوبست میں فرد کی فلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے بشمول جغرافیہ دیگر تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ خود قومی ریاستوں کو ان سے قبل کی ریاستوں کی سرحدوں میں ردو بدل کر کے وجود دیا گیا ہے، اس بارے میں جمہور افراد کی رائے فیصلہ کن ہونی چاہیے۔ ریاست ایک ڈھانچہ ہے۔ حکومت اس میں قانون کا نفاذ کرتی ہے جس کی اطاعت کی جائے گی۔ فرد ریاست کا خیر خواہ ہونا چاہیے، لیکن اس کے لیے وفاداری کا تصور پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔ وفاداری کا تصور ہی ریاست کو فرد کے استحصال کا لائسنس دیتا۔ ریاست کے ساتھ وفاداری کا تصور بادشاہت کے دور کی یادگار ہے۔ اسے اب جلد ختم ہو جانا چاہیے۔ فرد کی سلامتی، ریاست کی سالمیت پر مقدم ہے۔انسانی جان کو تقدس خدا نے دیا ہے، ایک شخص کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل خدا نے قرار دیا ہے۔ ریاست کا تقدس بیسویں صدی کے آذروں کا تراشا ہوا بت ہے جس پر انسان کو قربان کرنے کا خود ساختہ عقیدہ انسان نے ایجاد کیا ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

ریاست کی سرحدوں کے ابدی نہ ہونا اور ریاست کے ساتھ غیر مشروط وفاداری کی نفی ریاست کو قانون کے دائرے میں لانے اور اپنی ہیئت اور جغرافیہ کو برقرار رکھنے کی خاطر سماجی انصاف کے قیام کو یقینی بنانے کی راہ اختیار کرائے گی۔ جبر وہ قوت نہیں جو ایک ریاست میں بسنے والے مختلف قومی شناختوں اور مفادات رکھنے والے گروہوں کو جوڑ کر رکھ سکے۔ ایسے کسی بھی جبر کا نتیجہ ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ محض سماجی انصاف کا حقیقی قیام ہے جو انھیں مل کر رہنے کا محرک بنتا ہے۔ اپنے حقوق اور مفادات کی منصفانہ یقین دہانی ہی وہ اصل قوت ہے کہ عوام کی عقل عام اور عملیت پسندی کسی قوم پرستی کی آواز پر بھی کان نہیں دھر سکتی۔

وفاقی اکائیوں کو آئین میں یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اگر اپنی اکثریت کی مرضی سے ایک وفاق میں شامل ہوئیں تھیں تو اکثریت کی راے کی بنا پر اس سے علیحدہ ہونا چاہیں تو ہو سکیں۔ اس کے لیے ریفرنڈم جیسا پر امن طریقے اختیار کیا جا سکتاہے۔ کسی اکائی کے وفاق سے علیحدہ ہونے کا اندیشہ وہ قوی محرک ثابت ہو سکتا ہے جو ریاست کو یاوفاق کو جبریہ ہتھکنڈوں سے اس اکائی کو خود سے جوڑے رکھنے کی بجائے اس کی خوش نودی سے اسے وفاق ملحق رکھنے کی راہ ہم وار کر سکتی ہے۔

ہمیں اپنے ریاستی اور قومی بیانیوں کی کی تشکیل نو کی ضرورت ہے جس کے لیے سماجی علوم کے ماہرین کی خدمات کو بروئے کار لانا چاہیے۔

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۴)

محمد عمار خان ناصر

جاوید احمد غامدی کا نقطۂ  نظر

شاہ ولی اللہ پر قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے اصول فقہ کی کلاسیکی بحث ایک طرح سے اپنے منتہا کو پہنچ جاتی ہے اور ان کے بعد کلاسیکی تناظر میں اس بحث میں کوئی خاص اضافہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری میں سنت کی تشریعی حیثیت اور قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث ایک نئے فکری تناظر میں ازسرنو اہل علم کے غور وخوض اور مباحثہ ومناقشہ کا موضوع بنی ہے۔ اس نئے فکری تناظر کی تشکیل میں جدید سائنس اور جدید تاریخی  وسماجی علوم کے پیدا کردہ سوالات نیز ذخیرۂ حدیث کے تاریخی استناد کے حوالے سے مستشرقین کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کا کردار بنیادی ہے۔ جیسا کہ ہم نے تفصیلاً دیکھا، کلاسیکی تناظر میں بنیادی نکتۂ نزاع سنت کی تشریعی حیثیت کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا نہیں تھا، بلکہ احادیث کے ثبوت کے، قرآن کے مقابلے میں، ظنی ہونے کے پہلو سے بعض ایسی احادیث زیر بحث تھیں جو قرآن کے ظاہری عموم سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اس کے برخلاف، دور جدید میں بعض فکری حلقوں کی طرف سے جو بنیادی سوال اٹھایا گیا، وہ فی نفسہٖ سنت کی تشریعی حیثیت سے متعلق ہے، جب کہ احادیث کے ظنی الثبوت ہونے اور ذخیرۂ حدیث کے تاریخی استناد کے علاوہ احادیث میں، ظاہر قرآن میں تخصیص وزیادت کی مثالوں کو سنت کی تشریعی حیثیت کی نفی کے معاون اور موید دلائل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران میں عالم اسلام کے طول وعرض میں یہ بحث اہم ترین اعتقادی واصولی سوال کے طور پر اہل علم کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے اور بلا مبالغہ سیکڑوں اہل علم نے ان سوالات کو اپنے اپنے انداز میں موضوع بحث بنایا ہے۔ تاہم اس بحث میں ہمارے پیش نظر اس خاص علمی رجحان کا ایک جائزہ پیش کرنا ہے جس کی اصولی ابتدا برصغیر کے جلیل القدر عالم اور مفسر مولانا حمید الدین فراہی کے ہاں ہوئی اور جو کئی اہم اضافوں کے ساتھ اپنی تفصیلی شکل میں جاوید احمد غامدی صاحب کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے۔

مولانا حمید الدین فراہی کے ہاں ان مباحث پر غور وفکر کا آغاز قرآن مجید کی تفسیر کے اصول وقواعد کی تعیین کے حوالے سے ہوا تھا جس نے جدید سائنس کے پیدا کردہ سوالات کے تناظر میں ایک خاص اہمیت اختیار کر لی تھی۔ سرسید احمد خان نے قرآن مجید کی ان آیات کی تفسیر کے ضمن میں جن میں مختلف انبیا کے معجزات کا ذکر ہوا ہے، یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ جدید سائنس نے قوانین فطرت کے مطالعے کی روشنی میں قطعی طور پر یہ دریافت کر لیا ہے کہ ان قوانین میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور خود قرآن مجید بھی ’سنت اللہ‘ کے تبدیل نہ ہونے کی بات بیان کرتا ہے، اس لیے خرق عادت کا رونما ہونا ناممکن ہے۔ اس بحث میں سرسید نے ایک مستقل تفسیری اصول کے طور پر یہ نکتہ پیش کیا کہ چونکہ اللہ کا کلام، (یعنی قرآن) اور اللہ کا فعل، (یعنی قوانین فطرت) باہم متعارض نہیں ہو سکتے، اس لیے معجزات سے متعلق آیات کی جو تفسیرعلماے سلف نے عموماً کی ہے، وہ درست نہیں ہو سکتی اور ان  کا ایسا مفہوم مراد لینا ضروری ہے جو سائنس کی فراہم کردہ نئی معلومات اور قوانین فطرت کے مشاہدے سے ہم آہنگ ہو۔

آیات کے ظاہری مفہوم میں تاویل کی بحث کلاسیکی اسلامی روایت میں بھی مختلف حوالوں سے موجود تھی اور خاص طور پر معتزلی واشعری متکلمین یہ اصولی موقف رکھتے تھے کہ آیت کا ظاہری مفہوم یقینی عقلی دلائل کے معارض ہو تو آیت کی تاویل ضروری ہے۔ فقہی مضمون رکھنے والی آیات کے حوالے سے اسی نوعیت کا موقف، نسبتاً مختلف تناظر میں، امام شافعی نے پیش کیا اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اگر حدیث میں کسی حکم کی تشریح اس طرح کی گئی ہو جو آیت کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہو تو آیت کو اسی مفہوم پر محمول کرنا ضروری ہے جو حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ قرآنی آیات کی ظاہری دلالت کے حوالے سے مفسرین کا عمومی رجحان بھی یہی ہے کہ ان میں ایسی قطعیت نہیں پائی جاتی جس سے کسی ایک ہی مفہوم کا حتمی طور پر مراد ہونا طے کیا جا سکے، چنانچہ تفسیری ذخیرے میں بیش تر آیات کی ایک سے زیادہ قریب یا بعید تاویلیں ذکر کرنے کا اسلوب عام ہے اور اس کے لیے الفاظ کے مختلف ممکنہ مفاہیم کے علاوہ تفسیری روایات وآثار سے بھی استشہاد کیا جاتا ہے۔

اس پس منظر میں مولانا فراہی نے قرآن مجید کے الفاظ واسالیب کی دلالت اور مختلف احتمالات میں سے کسی احتمال کی تعیین کے سوال سے بطور خاص اعتنا کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ قرآن کے الفاظ اور تعبیرات قطعی الدلالۃ ہیں جو ایک ہی متعین مراد کی نشان دہی کرتے ہیں اور یہ کہ فہم مدعا کے اس عمل میں قرآن کے اپنے الفاظ، اسالیب،  سیاق وسباق، عرف اور نظم کلام فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ اس بنیادی موقف کی روشنی میں مولانا فراہی نے تاویل وتفسیر کے تمام معاون ذرائع، مثلاً احادیث وآثار اور تاریخی روایات پر قرآن کے اپنے الفاظ کی حاکمیت کو ہر حال میں قائم رکھنے کے اصول پر اصرار کیا اور یہ قرار دیا کہ تفسیر وحدیث کے ذخیرے میں موجود ایسی روایات جو قرآن مجید کی آیات کے مطالب یا ان کے پس منظر پر مختلف حوالوں سے روشنی ڈالتی ہیں، وہ تفسیر کے ماخذ کے طور پر بنیادی نہیں، بلکہ ثانوی درجہ رکھتی ہیں اور انھیں قبول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خود قرآن کے داخلی نظام اور متن کی اندرونی دلالتوں کی حاکمیت ان پر قائم رکھی جائے۔ مولانا نے اپنے فہم کے مطابق اس معیار پر پورا نہ اترنے والی متعدد تفسیری روایات کو جو اس سے پہلے عام طور پر مستند سمجھی جاتی تھیں، قبول کرنے سے انکار کیا اور ان پر تنقید کی۔

مولانا فراہی کے غور وفکر اور تحقیقات کا موضوع زیادہ تر تفسیر کے عمومی مباحث رہے اور اپنے نتائج فکر کو اصول فقہ کے مباحث سے مربوط کرنے کا انھیں زیادہ موقع میسر نہیں آیا، تاہم اپنی ناتمام تصنیف ’’احکام الاصول باحکام الرسول‘‘ میں انھوں نے حدیث اور قرآن کے باہمی تعلق کے مختلف پہلوؤں پر اپنے اصولی نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے اور احادیث کے ذریعے سے قرآن میں نسخ یا تخصیص کے نظریے کی تردید کرتے ہوئے ایسے تمام احکام کو قرآن مجید پر مبنی اور ان سے ماخوذ قرار دیا ہے جو بظاہر قرآن کے حکم میں تبدیلی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی ضمن میں مولانا نے ان احادیث کی بھی توجیہ کی ہے جن میں شادی شدہ زانی کو سنگ سار کرنے کی بات بیان کی گئی ہے۔ مولانا اس سزا کا ماخذ قرآن مجید میں سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ کو قرار دیتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ مولانا کی راے میں’رجم‘ بھی تقتیل، یعنی عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے ہی کی ایک صورت ہے۔ مولانا فراہی کی مذکورہ راے کو ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’ تدبر قرآن‘‘ میں زیا دہ وضاحت کے ساتھ موضوع بحث بنایا اور یہ موقف پیش کیا کہ زانی کو سنگ سار کرنے کی بنیاد اس کا شادی شدہ ہونا نہیں، بلکہ ’مفسد فی الارض‘ ہونا ہے اور کسی بھی مجرم کو، چاہے وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ، اس کی آوارہ منشی اور اوباشی یا جرم میں کسی بھی نوعیت کی سنگینی شامل ہونے کی وجہ سے سنگ سار کیا جا سکتا ہے اور احادیث میں رجم کے جن واقعات کا ذکر ہوا ہے، ان کی نوعیت یہی تھی۔

مولانا کے اس موقف پرفطری طور پر علمی حلقوں میں ایک بحث پیدا ہو گئی اور طرفین سے مباحثہ واستدلال کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں درجنوں کتابوں اور علمی مقالات میں فریقین کی طرف سے اپنے اپنے موقف اور استدلال کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں جناب جاوید احمد غامدی نے، رجم کی سزا کے تناظر میں، مکتب فراہی کے اہل علم کے موقف کی توضیح کرتے ہوئے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث کو ایک بنیادی اور اصولی سوال کے طور پر موضوع بنایا اور تبیین، تخصیص اور نسخ کے باہمی فرق کی وضاحت کے علاوہ سنت کے ذریعے سے قرآن کے حکم میں نسخ یا تغییر کے موقف پر  اپنی تفصیلی تنقید پیش کی۔ ’’رجم کی سزا‘‘ کے زیر عنوان ان کا یہ مقالہ جو ۱۹۹۳ء میں لکھا گیا، اب ان کی کتاب ’’برہان‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں غامدی صاحب نے قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے جو موقف پیش کیا ہے، اس کے بنیادی نکات دو ہیں:

پہلا یہ کہ جن معاملات میں قرآن خاموش ہو، ان میں تو سنت شریعت کے ایک مستقل بالذات ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن کوئی مسئلہ قرآن میں زیر بحث آنے کی صورت میں سنت کا دائرہ صرف اس کی تبیین تک محدود ہے۔  وہ قرآن کے کسی حکم کو نہ منسوخ کر سکتی ہے اور نہ اس میں کسی نوعیت کا کوئی تغیر وتبدل کر سکتی ہے (برہان ۳۹)۔

دوسرا یہ کہ تبیین سے مراد متکلم کے اس فحویٰ کو واضح کرنا ہے جو ابتدا ہی سے اس کے کلام میں موجود ہو۔ کلام کے وجود میں آنے کے بعد اس میں کسی بھی قسم کا تغیر پیدا کیا جائے تو اسے تبیین نہیں کہا جا سکتا (برہان ۴۶)۔

ان دو نکتوں کی روشنی میں غامدی صاحب یہ استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ زنا کی سزا کو خود قرآن مجید نے موضوع بنایا ہے اور زانی مرد وعورت کو سو سو کوڑوں کا مستوجب قرار دیا ہے، جب کہ جمہور فقہا کی تعبیر کے مطابق رجم کی سزا کو اس حکم کے ساتھ تبیین کے طریقے پر متعلق نہیں کیا جا سکتا، اس لیے یہ لازماً نسخ ہے جو سنت کے دائرۂ اختیار میں شامل نہیں (برہان  ۵۴-  ۵۵)۔ اس بنیادی موقف کی وضاحت کے علاوہ غامدی صاحب نے رجم سے متعلق روایات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’...اِس سے زیادہ سے زیادہ کوئی بات اگر معلوم ہوتی ہے تو بس یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین نے زنا کے بعض مجرموں کو رجم اور جلاوطنی کی سزا بھی دی ہے۔ لیکن کس قسم کے مجرموں کے لیے یہ سزا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفا نے کس طرح کے زانیوں کو یہ سزا دی؟ اِس سوال کے جواب میں کوئی حتمی بات اِن مقدمات کی رودادوں اور اِن روایات کی بنیاد پر نہیں کہی جا سکتی‘‘ (برہان  ۸۸) ۔

رجم کی سزا کے تناظر میں قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے سوال سے تعرض غامدی صاحب کے ہاں اس بحث سے اعتنا کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کی تصنیف کے مرحلے میں انھوں نے ازسرنو اس بحث کا تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ کیا اور گفتگو کا دائرہ اصول فقہ میں زیربحث تمام اہم سوالات تک وسیع کرتے ہوئے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی تفہیم کا ایک ایسا فریم ورک پیش کیا ہے جو کئی حوالوں سے بڑی اہمیت کا حامل اور مستقل تجزیے کا متقاضی ہے۔

غامدی صاحب کی کتاب ’’میزان‘‘ میں اس حوالے سے جو اصولی نقطۂ نظر پیش کیا گیا اور کتاب کے جملہ مباحث میں اس کے تحت کتاب وسنت کے باہمی تعلق کو تفصیلاً واضح کیا گیا ہے، اس کے بنیادی اور اصولی نکات حسب ذیل ہیں:

۱۔ دین کا تاریخی ثبوت کے لحاظ سے قطعیت سے متصف ہونا ضروری ہے، اس لیے دین وہی ہے جو مسلمانوں کے اجماع وتواتر سے ثابت ہو۔ اس کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر دین کے مآخذ کو بھی قطعی ہونا چاہیے۔ چنانچہ ماخذدین کی حیثیت صرف قرآن اور متواتر سنت کو حاصل ہے، جب کہ اخبار آحاد کا کردار قرآن وسنت میں محصور دین کی تفہیم وتبیین تک محدود ہے۔

۲۔ سنت اپنے تاریخی وزمانی تحقق کے لحاظ سے قرآن پر متفرع نہیں ہے، بلکہ اس سے مقدم ہے۔

۳۔ سنت اپنے تشریعی کردار کے لحاظ سے قرآن کی فرع نہیں ہے، بلکہ قرآن کے متوازی ایک مستقل بالذات ماخذ ہے۔

۴۔ اخبار آحاد دین کے کسی مستقل بالذات حکم کو بیان نہیں کرتے، اس لیے انھیں  قرآن، سنت یا عقل عام میں ان کی اصل اور اساس سے متعلق کرنا اور اسی کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔ اس سے مختلف نوعیت رکھنے والا کوئی حکم اخبار آحاد میں نہ اصولاً پایا جا سکتا ہے اور نہ واقعتاً موجود ہے۔

۵۔ اخبار آحاد میں قرآن کے بظاہر محتمل احکام کی توضیح یا ان پر زیادت یا ان کی تخصیص کی جتنی بھی مثالیں ملتی ہیں، ان سب کی بنیاد لفظی یا عقلی قرائن کی صورت میں خود قرآن مجید میں موجود ہے اور پوری طرح واضح کی جا سکتی ہے۔

۶۔ جو اخبار آحاد قرآن مجید یا سنت ثابتہ یا عقل عام کے ساتھ متصادم ہوں ، وہ قابل قبول نہیں ہو سکتیں۔

زیر نظر سطور میں ہم مذکورہ نکات کی تفصیل متعلقہ مثالوں کی روشنی میں پیش کریں گے۔

مآخذ دین کی قطعیت

شاطبی کی طرح غامدی صاحب کے زاویۂ نظر میں بھی دین کی قطعیت کا سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ شاطبی نے اس سوال کو یوں حل کیا ہے کہ شریعت، کلیات واصول اور جزئیات وفروع پر مشتمل ہے اور ان میں سے کلیات، جو اصل اور اساس کی حیثیت رکھتے ہیں، قطعی، جب کہ جزئیات وفروع ظنی ہیں۔ شاطبی کے نزدیک ظن، شریعت کی جزئیات کو تو لاحق ہو سکتا ہے، لیکن اگر کلیات کا بھی ظن کے دائرے میں آنا ممکن مانا جائے تو اس سے خود شریعت معرض شک میں آ جاتی ہے جو اس کے محفوظ ہونے کے منافی ہے۔ کلیات کی قطعیت کے اثبات کا طریقہ شاطبی کے نزدیک شرعی دلائل کا استقرا ہے اور شریعت میں جتنے بھی احکام قطعی اور یقینی مانے جاتے ہیں، ان کا مدار کسی جزوی نص کی قطعی دلالت پر نہیں، بلکہ ان کی قطعیت شریعت میں وارد متعدد نصوص کی مجموعی دلالت سے ثابت ہوئی ہے۔ شاطبی کسی بھی انفرادی دلیل شرعی سے قطعیت کے مستفاد ہونے کو ناممکن تصور کرتے ہیں، کیونکہ انفرادی دلیل یا تو اخبار آحاد کی طرح ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوتی ہے اور یا باعتبار ثبوت قطعی ہونے کے باوجود متعدد اسباب سے اس کی دلالت کبھی قطعیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتی۔

غامدی صاحب شاطبی کے اس اصولی موقف سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ دین کا قطعی ہونا ضروری ہے، تاہم قطعیت کے اثبات میں ان کا منہج شاطبی سے مختلف ہے اور وہ اس ضمن میں تاریخی ثبوت کے لحاظ سے تواتر یا عدم تواتر کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن مجید کا نزول ’فرقان‘ اور ’میزان‘ کی حیثیت سے حق وباطل کے امتیاز کو قطعی طور پر واضح کر دینے اور اللہ کی ہدایت کو، جو پچھلی قوموں کے انحرافات وضلالا ت کے نتیجے میں مشتبہ ہو چکی تھی، قیامت تک کے لیے تاریخ کی سطح پر محکم اور محفوظ بنا دینے کے لیے ہوا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے موقوف کر دیے جانے کے نتیجے میں اس بات کا اہتمام ناگزیر تھا کہ دین کے تاریخی ثبوت کی قطعیت کو یقینی بنایا جائے۔ غامدی صاحب کے نزدیک اس مقصد کے لیے قرآن مجید کے متن اور دین کے مستقل بالذات اور اساسی احکام کے حفظ وضبط، عمومی تعلیم اور تبلیغ واشاعت کا اس طرح اہتمام کیا گیا کہ آیندہ نسلوں تک ان کے انتقال کا بنیادی ذریعہ مسلمانوں کا اجماع اور تواتر قرار پایا، جب کہ ضمنی اور فروعی نوعیت کے امور میں ان کی تفہیم وتبیین کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا، اس کی نقل وروایت کو اخبار آحاد پر منحصر چھوڑ دیا گیا۔ یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ہدایت جن صورتوں میں امت کو منتقل ہوئی ہے، غامدی صاحب اسے تاریخی ثبوت کے لحاظ سے تین صورتوں میں تقسیم کرتے ہیں، یعنی قرآن، سنت اور اخبار آحاد۔ ان میں سے قرآن اور سنت امت کے اجماع اور تواتر سے ثابت ہیں، جب کہ اخبار آحاد ظنی طریقے سے نقل ہوئی ہیں۔ غامدی صاحب کے نزدیک دینی احکام وہدایات کا اس طرح متواتر اور آحاد میں تقسیم ہونا اتفاقی امر نہیں، بلکہ شارع کا ایک ارادی اور مقصود طریقہ ہے جس کا تعلق دین کے مجموعی نظام میں متواتر احکام و شرائع اور ظنی الثبوت اخبار آحاد کے درجہ واہمیت اور ان کے کردار کی نوعیت سے ہے۔

غامدی صاحب کے نقطۂ نظر میں ’’دین‘‘ دراصل شارع کی طرف سے مقرر کیے گئے ان مستقل بالذات احکام سے عبارت ہے جو کسی دوسرے حکم کی فرع یا تفصیل پر مبنی نہیں ہیں۔ ایسے تمام احکام ان کے نزدیک تاریخی طور پر تواتر سے ثابت اور قرآن اور سنت جیسے قطعی الثبوت مآخذ میں موجود ہیں۔ اس تناظر میں غامدی صاحب ’’دین کے ماخذ‘‘ ہونے کی تعبیر کو قرآن اور سنت کے لیے خاص قرار دیتے ہیں، جس سے ان کی مراد یہ ہے کہ دین کی بنیادی، اصولی اور مستقل بالذات تعلیمات قرآن اور سنت میں محصور ہیں اور ان کا کوئی بھی جزو قرآن اور سنت سے باہر نہیں پایا جاتا۔ جہاں تک اخبار آحاد کا تعلق ہے تو وہ صرف قرآن اور سنت میں بیان کیے گئے دین کی تفہیم وتبیین کرتی یا عقل عام کے کسی تقاضے کی وضاحت کرتی ہیں اور دین کے کسی مستقل بالذات حکم کا ثبوت ان پر منحصر نہیں۔ یوں سنت اور حدیث میں فرق اور احکام شریعت کی تاصیل وتبیین میں ان دونوں کے دائرۂ کار اور کردار کی مختلف نوعیت غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کا بنیادی نکتہ قرار پاتا ہے۔

غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی وعملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:

۱۔ قرآن مجید

۲۔ سنت …

دین لاریب، اِنھی دو صورتوں میں ہے۔ اِن کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اُسے دین قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (میزان  ۱۳، ۱۵)

’’...سنت کی حیثیت دین میں مستقل بالذات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسے پورے اہتمام، پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ انسانوں تک پہنچانے کے مکلف تھے۔ اخبار آحاد کی طرح اِسے لوگوں کے فیصلے پر نہیں چھوڑا جا سکتا تھا کہ وہ چاہیں تو اِسے آگے منتقل کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔‘‘ (میزان  ۶۲)

سنت کے مقابلے میں اخبار آحاد کی نوعیت یہ ہے کہ :

’’...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، اِن کے بارے میں یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ اِن کی تبلیغ وحفاظت کے لیے آپ نے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا، بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ چاہیں تو اِنھیں آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں، اِس لیے دین میں اِن سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں اِن میں آتی ہیں، وہ درحقیقت قرآن وسنت میں محصور اِسی دین کی تفہیم وتبیین اور اِس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ اِس معاملے میں یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اِس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اُسے قبول کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (میزان  ۱۵)

جہاں تک سنت اور حدیث میں امتیاز کا تعلق ہے تو اس نکتے کی حد تک یہ کہنا درست ہوگا کہ غامدی صاحب اس امتیاز سے قطعی الثبوت اور ظنی الثبوت یا سنت متواترہ اور اخبار آحاد کی جس تقسیم کو واضح کرنا چاہتے ہیں، وہ فی نفسہٖ کوئی نئی تقسیم نہیں، بلکہ اصولی طور پر جمہور فقہا واصولیین کے ہاں مسلم ہے۔ جمہور محدثین اور فقہا کی اصطلاح کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تمام اقوال وافعال اور تقریرات کے لیے ’سنت‘ کی تعبیر اختیار کی جاتی ہے۔ اس پورے مجموعے کا ثبوت کے اعتبار سے قطعی اور ظنی میں تقسیم ہونا مسلم ہے جس کے لیے ’متواتر‘ اور ’خبر واحد‘ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ جمہور اصولیین کے ہاں اس فرق کا عملی اثر عموماً دو پہلوؤں سے مانا جاتا ہے: پہلا یہ کہ اخبار آحاد کے انکار پر کسی کی تکفیر نہیں کی جا سکتی، اور دوسرا یہ کہ خبر واحد اگر متواتر روایت کے معارض ہو تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اصولیین کی ایک جماعت اور خاص طور پر احناف ایک تیسرا فرق بھی بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ عموم بلویٰ کی نوعیت رکھنے والے امور میں خبر واحد سے شریعت کا کوئی واجب اور لازم حکم اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ گویا احناف کے نزدیک اخبار آحاد کی قبولیت اور حجیت احکام دین کے ایک خاص دائرہ میں محصور ہے اور ان سے وہی احکام اخذ کیے جا سکتے ہیں جن کا تعلق دین کے فروع اور جزئیات سے ہو اور جن کا جاننا یا ان پر عمل کرنا ساری امت پر لازم نہ ہو۔ احناف کا استدلال یہ ہے کہ اگر دین کا کوئی حکم ایسا ہو جس کا جاننا اور جس کی پابندی کرنا لوگوں پر عمومی طور پر واجب ہو تو پھر یہ ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کا ابلاغ بھی اسی درجے میں، پورے اہتمام کے ساتھ کیا اور آپ کے بعد آپ کی امت اسے اسی طرح شہرت واستفاضہ کے ساتھ نسلاً بعد نسلٍ نقل کرتی رہے۔

ان تینوں فروق سے ایک بدیہی نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی احکام و ہدایات کی اشاعت اور ان کی تبلیغ وتعلیم کا اہتمام کرتے ہوئے دین میں ان کی اہمیت اور حیثیت کو ملحوظ رکھا ہے اور کسی ایسے بنیادی اور اصولی حکم کے ابلاغ کو اخبار آحاد پر منحصر نہیں چھوڑا جس کا جاننا یا اس پر عمل کرنا عمومی طور پر امت پر لازم ہو۔ غامدی صاحب کی تقسیم میں اس نکتے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دینی احکام وہدایات کی زمرہ بندی میں بنیادی اہمیت اس سوال کو دیتے ہیں کہ آیا کسی حکم کو امت کے عمومی تعامل کا حصہ بنایا جانا شارع کا مقصود تھا یا نہیں۔ پہلی صورت کو وہ کسی عمل کے ’’بطور سنت جاری کرنے‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں جس کے لیے لازم تھا کہ آپ اس حکم کا ابلاغ پوری قطعیت کے ساتھ کریں اور وہ تواتر کے ساتھ امت میں نسل در نسل منتقل ہو، جب کہ دوسری صورت میں ابلاغ میں اس نوعیت کا اہتمام مطلوب نہیں تھا۔ پہلی قسم کے احکام کے لیے غامدی صاحب ’سنت‘ کی تعبیر اختیار کرتے ہیں جو امت کے اجماع وتواتر سے ثابت ہے، اور دوسری قسم کے اعمال کو ’اسوۂ حسنہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں جن کا تاریخی ماخذ احادیث وآثار ہیں۔ یوں سنت اور حدیث کی الگ الگ اصطلاحات جس تقسیم کی وضاحت کے لیے اختیار کی گئی ہیں، وہ فی نفسہٖ فقہا ومحدثین کے ہاں تسلیم شدہ ہے، البتہ اس بنیادی نکتے میں اشتراک کے بعد ’سنت‘ اور ’حدیث‘ کے دائرۂ کار اور ان کے باہمی تعلق کی تحدید و تعیین میں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر جمہور سے مختلف ہے اور اپنے متعین کردہ حدود وقیود کے لحاظ سے وہ ’سنت‘ اور ’حدیث‘ کو ایک نئے اصطلاحی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں جس کی وضاحت ’’میزان‘‘ میں ’’مبادی تدبر سنت‘‘ اور ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کے عنوانات کے تحت ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

’سنت‘ بطور مستقل بالذات ماخذ

غامدی صاحب کی تقسیم میں دوسرا اہم امتیازی نکتہ، سنت کی تعریف اور تعیین سے متعلق ہے۔ جمہور اصولیین اور خاص طور پر شاطبی کے نزدیک احکام شریعت کے بیان اور تشریعی نظام کی تاصیل میں بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کے ایک ذیلی اور توضیحی ماخذ کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق دین اصلاً قرآن میں بیان ہوا ہے اور وہی اس کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل کرتا ہے، جب کہ سنت کا کام یا تو ان امور کی تشریح وتفصیل کرنا ہے جو قرآن نے بیان کیے ہیں اور یا ان ذیلی وضمنی امور سے متعلق شارع کی مراد کو واضح کرنا جنھیں قرآن نے تصریحاً بیان نہیں کیا۔ گویا جمہور اصولیین کے مطابق سنت واجب الاتباع ہونے کے اعتبار سے تو قرآن کے مساوی ہے، لیکن نظام تشریع کی توضیح وتکمیل میں اس کا کردار مستقل اور متوازی نہیں، بلکہ قرآن کریم کے تابع ہے اور اس کی فرع کی حیثیت رکھتا ہے۔

غامدی صاحب کا نقطۂ نظر اس دوسرے پہلو سے  جمہور اصولیین سے مختلف ہے۔ ان کی راے میں سنت، زمانی لحاظ سے قرآن سے موخر اور قرآن کے احکام پر متفرع نہیں، بلکہ قرآن سے مقدم ہے۔ اس کی تفصیل وہ یوں کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاً ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور کیا گیا تھا جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے ذریعے سے اہل عرب کے لیے مقرر کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ان کے ہاں بحیثیت مجموعی ایک معروف ومسلم دینی روایت کے طور پر موجود تھی۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالکل نیا دین لے کر نہیں آئے تھے اور نہ اس کے جملہ اصول ومبادی اور جزئیات وتفصیلات آپ نے پہلی مرتبہ دنیا کے سامنے پیش کیے تھے۔ آپ درحقیقت دین ابراہیمی کے مجدد تھے اور دین کے تمام بنیادی عقائد اور اس کے عملی ڈھانچے میں آپ کو ملت ابراہیمی ہی کی پیروی اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ یہ روایت عبادات، دینی شعائر اور معاشرتی زندگی کے معاملات کو محیط تھی، البتہ ان تمام دائروں میں اس میں کچھ بدعات اورانحرافات شامل ہو گئے تھے جن کی اصلاح کو اللہ اور اس کے رسول نے موضوع بنایا اور قرآن اور سنت، دونوں نے اس دینی روایت کو تجدید وتصویب، اصلاح وترمیم اور اضافہ وتکمیل کے ذریعے سے ایک نئی اور مستقل شریعت کے قالب میں ڈھالنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ غامدی صاحب دین ابراہیمی کی اسی روایت کو اپنی اصطلاح میں ’’سنت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ سنت کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ قرآن میں آپ کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ روایت بھی اُسی کا حصہ ہے۔‘‘ (میزان  ۱۴)

سنت کی نسبت تاریخی اعتبار سے ملت ابراہیمی کی طرف کرنے سے ایک عمومی اشکال جس کا غامدی صاحب کو سامنا کرنا پڑا ہے، یہ ہے کہ شاید وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل تشریعی حیثیت کو نہیں مانتے اور آپ کے کردار کو صرف ملت ابراہیمی کی اتباع تک محدود تصور کرتے ہیں۔ اس اشکال کے جواب میں غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...سنت کے ذریعے سے جو دین ملا ہے، اُس کا ایک بڑا حصہ دین ابراہیمی کی تجدید واصلاح پر مشتمل ہے۔ تمام محققین یہی مانتے ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس میں محض جزوی اضافے کیے ہیں۔ ہرگز نہیں، آپ نے اِس میں مستقل بالذات احکام کا اضافہ بھی کیا ہے۔ ... اِس لیے یہ الزام بالکل لغو ہے کہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم دینا یا دین میں کسی نئی بات کا اضافہ کرنا میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن مجید کے دائرۂ کار میں شامل ہی نہیں ہے۔‘‘ (مقامات  ۱۶۲، ۱۶۳)

سنت کے زمانی تقدم کے اصولی مضمرات

یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنیادی طورپر ملت ابراہیمی کی پیروی پر مامور تھے، جمہور علماے اصول کے ہاں بھی مسلم ہے، تاہم وہ عموماً اس کا ذکر تاریخی پس منظر کے طور پر کرتے ہیں اور اصول فقہ کے اہم مباحث پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان سے زیادہ تعرض نہیں کرتے۔ غامدی صاحب اس نکتے کو اصول فقہ کے متعدد بنیادی سوالات کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے اس سے بعض اہم نتائج اخذ کرتے ہیں ۔ ان میں سے دو نتائج یہاں بطور خاص قابل ذکر ہیں:

پہلا اہم اور بنیادی نتیجہ یہ ہے کہ سنت کو قرآن سے الگ ایک مستقل ماخذ تصور کرتے ہوئے امور دین کی تشریح میں اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ کون سی بات کا ماخذ اصلاً قرآن ہے اور کون سی بات ابتداء ً سنت سے ثابت ہوئی ہے۔ چنانچہ کسی بات کے محض قرآن مجید میں مذکور ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن اسے ابتداء ً بیان کررہا ہے اور سنت میں اس سے متعلق جو بھی تفصیلات وارد ہوئی ہیں، وہ قرآن پر متفرع ہیں۔ مستقل بالذات احکام کو ابتداء ً بیان کرنا قرآن کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ اس میں قرآن کے ساتھ سنت بھی شریک ہے۔ جس طرح قرآن دین کے بہت سے مستقل بالذات احکام بیان کرتا اور سنت، قرآن سے ثابت احکام کے طور پر ان کا ذکر کرتی ہے، اسی طرح سنت بھی ایسے مستقل بالذات احکام بیان کرتی ہے جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی، اور پھر قرآن ان کا ذکر ایک ثابت شدہ حکم کے طور پر کرتے ہوئے ان کے بعض مزید پہلوؤں سے تعرض کرتا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں مذکور احکام میں اس نکتے کی تنقیح قرآن کے صحیح فہم کے لیے بھی ضروری ہے اور سنت کے دائرے میں آنے والے امور کی تعیین میں بھی اس کی اہمیت بنیادی ہے۔

غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’تیسرا اصول یہ ہے کہ عملی نوعیت کی وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہو سکتیں جن کی ابتدا پیغمبر کے بجاے قرآن سے ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلوم ہے کہ آپ نے چوروں کے ہاتھ کاٹے ہیں، زانیوں کو کوڑے مارے ہیں، اوباشوں کو سنگ سار کیا ہے، منکرین حق کے خلاف تلوار اٹھائی ہے، لیکن اِن میں سے کسی چیز کو بھی سنت نہیں کہا جاتا۔ یہ قرآن کے احکام ہیں جو ابتداء ً  اُسی میں وارد ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی تعمیل کی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور قربانی کا حکم بھی اگرچہ جگہ جگہ قرآن میں آیا ہے اور اُس نے اِن میں بعض اصلاحات بھی کی ہیں، لیکن یہ بات خود قرآن ہی سے واضح ہو جاتی ہے کہ اِن کی ابتدا پیغمبر کی طرف سے دین ابراہیمی کی تجدید کے بعد اُس کی تصویب سے ہوئی ہے۔ اِس لیے یہ لازماً سنن ہیں جنھیں قرآن نے موکد کردیا ہے۔ کسی چیز کا حکم اگر اصلاً قرآن پر مبنی ہے اور پیغمبر نے اُس کی وضاحت فرمائی ہے یا اُس پر طابق النعل بالنعل عمل کیا ہے تو پیغمبر کے اِس قول وفعل کو ہم سنت نہیں، بلکہ قرآن کی تفہیم وتبیین اور اسوۂ حسنہ سے تعبیر کریں گے۔ سنت صرف اُنھی چیزوں کو کہا جائے گا جو اصلاً پیغمبر کے قول وفعل اور تقریر وتصویب پر مبنی ہیں اور اُنھیں قرآن کے کسی حکم پر عمل یا اُس کی تفہیم وتبیین قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ (میزان  ۶۰)

اس نکتے کا حاصل یہ ہے کہ بیان احکام میں اصل اور فرع کا رشتہ صرف یک طرفہ نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں کہ قرآن مجید ہی مطلقاً اصل ہے اور سنت ہمیشہ اس کی فرع ہوتی ہے، بلکہ یہ تعلق دو طرفہ ہے، اس لیے ایک ہی حکم سے متعلق قرآن اور سنت، دونوں میں احکام وارد ہوں تو یہ تحقیق ضروری ہے کہ کسی مسئلے کو ابتداء ً  قرآن یا سنت میں سے کس نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ جیسے یہ امکان ہے کہ کسی حکم کو اصلاً وابتداء ً قرآن نے بیان کیا ہو اور سنت نے اس کی مختلف فروع کی وضاحت کی ہو، اسی طرح یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس مسئلے میں تشریع کی ابتدا سنت سے ہوئی ہو اور اسی نے اس باب میں بنیادی و تاصیلی ماخذ کا کردار اد اکیا ہو، جب کہ قرآن نے اس کو ایک ثابت شدہ حکم مان کر اس پر بعض مزید احکام کا اضافہ کیا ہو۔ یوں تشریع کی ابتدا کرنے میں قرآن اور سنت، دونوں مساوی درجے کے ماخذ ہیں اور دونوں اپنی مستقل حیثیت میں دین کے تاصیلی احکام بھی بیان کر سکتے ہیں اور پہلے سے ثابت شدہ احکام میں اضافات بھی شامل کر سکتے ہیں۔

غامدی صاحب نے اس نکتے سے ایک اور بہت بنیادی اور اہم نتیجہ اخذ کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’...سنت قرآن کے بعد نہیں، بلکہ قرآن سے مقدم ہے، اِس لیے وہ لازماً ا ُس کے حاملین کے اجماع وتواتر ہی سے اخذ کی جائے گی۔ قرآن میں اُس کے جن احکام کا ذکر ہوا ہے، اُن کی تفصیلات بھی اِسی اجماع وتواتر پر مبنی روایت سے متعین ہوں گی۔ اُنھیں قرآن سے براہ راست اخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، جس طرح کہ قرآن کے بزعم خود بعض مفکرین نے اِس زمانے میں کی ہے اور اِس طرح قرآن کا مدعا بالکل الٹ کر رکھ دیا ہے۔‘‘ (میزان ۴۸)

سنت کے زمانی تقدم کے نکتے سے غامدی صاحب نے دوسرا اہم نتیجہ قرآن مجید کے ان بیانات کے حوالے سے اخذ کیا ہے جنھیں علماے اصول ’’مجمل مفتقر الی البیان‘‘ کی اصطلاح سے بیان کرتے ہیں۔ اصولیین ذکر کرتے ہیں کہ قرآن مجید نے بہت سے الفاظ کو ان کے عام لغوی مفہوم سے بالکل مختلف معنوں میں ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس اصطلاحی مفہوم کی خود وضاحت نہیں کی۔ مثلاً ’صلاۃ‘ کا لفظ عربی زبان میں ’دعا‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، لیکن قرآن مجید میں ’اقيموا الصلوٰۃ‘ کے حکم میں اس کا معروف لغوی معنی مراد نہیں۔ اسی طرح ’زكاۃ‘ کا لفظ عربی میں بڑھوتری کے لیے، ’صوم‘ کا لفظ کسی چیز سے رکنے کے لیے اور ’حج ‘ کا لفظ لغت میں کسی جگہ کا قصد کرنے کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن قرآن میں زکوٰۃ کی ادائیگی، صوم کے اہتمام اور حج کے اتمام سے مراد یہ لغوی معانی نہیں ہیں۔ ان تمام الفاظ کو شرعی اصطلاح میں نئے مفاہیم کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے جو ان کے عام لغوی مفہوم سے مختلف ہیں۔ یوں یہ تمام الفاظ مجمل ہیں جو متکلم کی طرف سے اپنی مراد کی وضاحت کا تقاضا کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جو مفہوم واضح کیا، وہ ان کے بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔

سنت سے متعلق غامدی صاحب کے زیر بحث نقطۂ نظر کی روشنی میں الفاظ کی ایسی کوئی قسم قرآن میں موجود نہیں۔غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کے مطابق مذکورہ تمام امور دین ابراہیمی کے معروف مسلمات تھے جن میں اگرچہ بہت سی بدعات در آئی تھیں، لیکن اپنے بنیادی مفہوم اور شکل وصورت کے لحاظ سے یہ عبادات قرآن کے مخاطبین کے لیے ہرگز اجنبی نہیں تھیں، چنانچہ نہ تو قرآن کو ان عبادات کی کوئی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت تھی اور نہ مخاطبین ان کے مفہوم کو جاننے کے لیے کسی خارجی توضیح کے  محتاج تھے۔

غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، یہ سب اِسی ملت کے احکام ہیں جن سے قرآن کے مخاطب پوری طرح واقف، بلکہ بڑی حد تک اُن پر عامل تھے۔ سیدنا ابوذر کے ایمان لانے کی جو روایت مسلم میں بیان ہوئی ہے، اُس میں وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی وہ نماز کے پابند ہو چکے تھے۔ جمعہ کی اقامت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ قرآن کے مخاطبین کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ نماز جنازہ وہ پڑھتے تھے۔ روزہ اُسی طرح رکھتے تھے، جس طرح اب ہم رکھتے ہیں۔ زکوٰۃ اُن کے ہاں بالکل اُسی طرح ایک متعین حق تھی، جس طرح اب متعین ہے۔ حج وعمرہ سے متعلق ہر صاحب علم اِس حقیقت کو جانتا ہے کہ قریش نے چند بدعتیں اُس میں بے شک، داخل کر دی تھیں، لیکن اُن کے مناسک فی الجملہ وہی تھے جن کے مطابق یہ عبادات اِس وقت ادا کی جاتی ہیں، بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اِن بدعتوں پر متنبہ بھی تھے۔ چنانچہ بخاری و مسلم، دونوں میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے جو حج کیا، وہ قریش کی اِن بدعتوں سے الگ رہ کر بالکل اُسی طریقے پر کیا، جس طریقے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج ہمیشہ جاری رہا ہے۔

یہی معاملہ قربانی، اعتکاف، ختنہ اور بعض دوسرے رسوم وآداب کا ہے۔ یہ سب چیزیں پہلے سے رائج، معلوم و متعین اور نسلاً بعد نسلٍ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھیں۔ چنانچہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن اِن کی تفصیل کرتا۔ لغت عرب میں جو الفاظ اِن کے لیے مستعمل تھے، اُن کا مصداق لوگوں کے سامنے موجود تھا۔ قرآن نے اُنھیں نماز قائم کرنے یا زکوٰۃ ادا کرنے یا روزہ رکھنے یا حج وعمرہ کے لیے آنے کا حکم دیا تو وہ جانتے تھے کہ نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج وعمرہ کن چیزوں کے نام ہیں۔ قرآن نے اِن میں سے کسی چیز کی ابتدا نہیں کی، اِن کی تجدید واصلاح کی ہے اور وہ اِن سے متعلق کسی بات کی وضاحت بھی اُسی حد تک کرتا ہے، جس حد تک تجدید واصلاح کی اِس ضرورت کے پیش نظر اُس کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔‘‘ (میزان  ۴۶-  ۴۷)

یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ جمہور اصولیین بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور ہونے اور صلوٰۃ اور حج جیسی اصطلاحات کے، اہل عرب کے ہاں معلوم ومعروف ہونے کے ان دونوں نکتوں کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان اصطلاحات کے مفہوم کی تعیین اہل عرب کے مذہبی عرف کے بجاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کے حوالے سے کرتے ہیں۔ یعنی وہ نماز اور حج وغیرہ کے، جاہلی معاشرے میں ملت ابراہیمی کی روایت کا حصہ ہونے کا ذکر تو کرتے ہیں، جس سے اہل عرب واقف تھے، لیکن اس کے باوجود وہ انھیں ایسی اصطلاحات قرار دیتے ہیں جن کا شریعت نے اپنا ایک خاص مفہوم وضع کیا ہے جس کی وضاحت ہمیں سنت سے ہی ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ’الصلوٰۃ‘ کا ایک اصطلاحی معنی اگرچہ اہل عرب کے ہاں معروف تھا اور قرآن مجید میں ابتداء ً جب ’اقامت صلوٰۃ‘ کا حکم نازل ہوا تو وہ عبادت کے اسی معروف طریقے کی طرف اشارہ تھا، لیکن ظاہر ہے کہ شریعت میں نماز کے طریقے کو بعینہ اسی طرح قائم نہیں رکھا گیا، بلکہ اس میں تدریجاً بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور ان تبدیلیوں کے نتیجے میں نماز کی جو آخری اور حتمی شکل مقرر ہوئی، وہ بدیہی طور پر وہ نہیں تھی جس سے زمانۂ جاہلیت میں اہل عرب واقف تھے۔ یوں ابتداء ً نہ سہی، لیکن مآل کے لحاظ سے یہ کہنا بجا ہے کہ شریعت نے ’الصلوٰۃ‘ کے معروف مفہوم کو برقرار نہیں رکھا، بلکہ اسے ایک نئے مفہوم کی طر ف منتقل کر دیا ہے جس کو جاننے کے لیے بہرحال سنت ہی کی طرف رجوع ناگزیر ہے۔

جس نقطۂ نظر کی ترجمانی مذکورہ اقتباس میں غامدی صاحب نے کی ہے، اس کا ذکر ایک امکانی راے کے طور پر علماے اصول کے ہاں بھی ملتا ہے۔ مثلاً ابوبکر الجصاص اور الکیا الہراسی لکھتے ہیں کہ ’الصلوٰۃ‘ کو مجمل اور محتاج بیان بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ بھی تصور کیا جا سکتا ہے کہ ان الفاظ سے ایک ایسی معہود حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس سے قرآن کے مخاطبین پہلے سے واقف تھے (جصاص، احکام القرآن ۱/۳۲۔  الکیا الہراسی، احکام القرآن ۱/۹)۔ امام ابن تیمیہ کا موقف یہ ہے کہ ’الصلوٰۃ‘ کے لغوی مفہوم میں شریعت نے کوئی تبدیلی نہیں کی، بلکہ ایک خاص طریقے سے عبادت کرنے کے معنی میں یہ لفظ پہلے سے اہل عرب کے عرف میں رائج اور مستعمل تھا، البتہ شارع نے اس عرفی مفہوم میں جزوی تخصیص کرتے ہوئے اسے اس مخصوص طریقے کے لیے استعمال کیا ہے جو شریعت میں اس کے لیے مقررکیا گیا ہے اور جو اہل جاہلیت کے طریقۂ نماز سے بہت سی تفصیلات میں مختلف ہے (الفتاویٰ الکبریٰ ۵/۳۱۷)۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے اس ضمن میں اس سوال سے بھی تعرض کیا ہے کہ شریعت نے نماز کی ہیئت میں جو مختلف تبدیلیاں کی ہیں، کیا ان کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شریعت میں لفظ ’الصلوٰۃ‘ کو اس کے حقیقی معنی، (یعنی اہل عرب کے عرفی مفہوم) کے بجاے مجازی معنی میں استعمال کیا گیا ہے؟ شاہ صاحب کا جواب یہ ہے کہ ظاہری ہیئت میں تبدیلیوں کی وجہ سے ان الفاظ کو مجازی نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ حقیقی استعمال ہی ہے، کیونکہ اگر ہیئت کے ظاہری اختلاف کی وجہ سے یہ کہا جائے کہ لفظ اپنی حقیقت پر برقرار نہیں رہا تو پھر یہ کہنا بھی ممکن ہوگا کہ احناف کے طریقۂ نماز پر ’الصلوٰۃ‘  کا اطلاق شوافع کے نزدیک، اور شوافع کے طریقۂ نماز پر اس کا اطلاق احناف کے نزدیک مجازی ہے (فیض الباری ۱/۱۱۵)۔

یوں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر اس بحث میں بالکل طبع زاد نہیں ہے، البتہ انھوں نے اصولیین کے ہاں پائے جانے والے ایک نسبتاً غیر معروف رجحان کو اپنے نظام فکر میں اس طرح ایک بنیادی او رمحوری نکتے کی حیثیت دے دی ہے جس سے اصولیین کی ذکر کردہ ایک خاص نوع، یعنی ’مجمل مفتقر الی البیان‘ کی ضرورت عملاً باقی نہیں رہتی۔

اخبار آحاد کی حیثیت

قرآن اور سنت کے ساتھ اخبار آحاد کے تعلق کے ضمن میں غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کی تفہیم کے لیے مناسب ہوگا کہ اصول فقہ کی روایت میں اس نوعیت کی دو سابقہ بحثوں کو پیش نظر رکھ لیا جائے۔

ایک بحث امام شافعی نے اٹھائی تھی کہ کیا اخبار آحاد کی اسنادی صحت کا اطمینان حاصل ہونے کے بعد انھیں کتاب اللہ پر پیش کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ امام شافعی کی بحث کا تناظر، حنفی فقہا کا یہ موقف تھا کہ اخبار آحاد کو کتاب اللہ کے معارض ہونے کی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ امام شافعی نے اس کے جواب میں، جیسا کہ وضاحت کی جاچکی ہے، یہ موقف اختیار کیا کہ اخبار آحاد کے، کتاب اللہ کے معارض ہونے کا مفروضہ ہی درست نہیں اور یہ کہ صحت سند کے ساتھ کوئی خبر واحد مروی ہو تو اسے نظر انداز کر کے کتاب اللہ کی مراد متعین کرنا ہی اصولی طور پر غلط ہے۔ تاہم اس ساری بحث میں خبر واحد کو کتاب اللہ پر پیش کرنے کا مطلب صرف عدم تعارض کا اطمینان حاصل کرنا تھا۔ امام شاطبی نے، شریعت کے مقاصد اور کلیات کے حوالے سے اپنے مخصوص نقطۂ نظر کے سیاق میں، اس بحث میں ایک اور اہم نکتہ بھی شامل کیا، اور وہ یہ تھا کہ کیا خبر واحد کی قبولیت کے لیے، کسی قطعی دلیل کے معارض نہ ہونے سے آگے بڑھ کر، کیا یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی کلی قاعدے اور اصول کے تحت آتی ہو، یعنی کسی کلی کی جزئی اور کسی اصول شرعی کے اطلاق کی نظیر بن سکتی ہو؟ دوسرے لفظوں میں، خبر واحد میں جو حکم بیان کیا گیا ہے، شریعت کے اصولوں اور قواعد میں سے کوئی قاعدہ اس کی بنیاد بن سکتا ہو؟ اس ضمن میں ان کے نقطۂ نظر کی تفصیل متعلقہ فصل میں بیان کی جا چکی ہے۔

غامدی صاحب کے نزدیک اخبار آحاد میں بیان کی جانے والی ہدایات کا قرآن، سنت یا عقل وفطرت میں سے کسی ایک پر مبنی ہونا اور اپنی اصل کے ساتھ اس کے تعلق کا واضح ہونا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے ان کا نقطۂ نظر جمہور اصولیین کے مقابلے میں امام شاطبی کے موقف کے قریب تر ہے جو دلیل ظنی کے کسی اصل قطعی کی طرف راجع ہونے کو ضروری قرار دیتے ہیں اوراصل قطعی کے ساتھ دلیل ظنی کا تعلق واضح ہوئے بغیر علی الاطلاق اخبار آحاد کو واجب الاتباع نہیں سمجھتے۔ اس نکتے کو غامدی صاحب یوں تعبیر کرتے ہیں کہ احادیث سے ’’...دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا‘‘ (میزان  ۶۲) اور ’’...یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے‘‘ (ایضاً  ۶۲)۔ ان کے نزدیک حدیث دراصل ’’...نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح، آپ کے اسوۂ حسنہ اور دین سے متعلق آپ کی تفہیم وتبیین کے جاننے کا سب سے بڑا اور اہم ترین ذریعہ‘‘ (ایضاً  ۶۲)  ہے۔ مذکورہ قیود کے ساتھ، غامدی صاحب جمہور اصولیین کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ اخبار آحاد کو باعتبار ثبوت ظنی ہونے کی بنیاد پر رد کر دینا درست نہیں، بلکہ انھیں قبول کرنا واجب ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’اِس دائرے کے اندر، البتہ اِس کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل یا تقریر وتصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘ (میزان  ۱۵)

بعض معترضین نے اخبار آحاد سے دین کا کوئی نیا حکم ثابت نہ ہونے کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ خبر واحد، قرآن سے ’’زائد‘‘ کسی حکم کا ماخذ نہیں بن سکتی، تاہم غامدی صاحب کا مدعا ہرگز یہ نہیں ہے۔ ’’دین کے نئے حکم‘‘ سے غامدی صاحب کی مراد ’’قر آن سے زائد حکم‘‘ نہیں، بلکہ دین کا ایسا مستقل بالذات حکم ہے جو کسی بھی اعتبار سے قرآن کے حکم پر مبنی اور اس سے متعلق نہ ہو سکتا ہو۔ اس ضمن میں بعض اعتراضات واشکالات کے جواب میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔ اِس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں، وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:

۱۔ مستقل بالذات احکام وہدایات جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی۔

۲۔ مستقل بالذات احکام وہدایات کی شرح ووضاحت، خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر۔

۳۔ اِن احکام وہدایات پر عمل کا نمونہ۔

یہ تینوں چیزیں دین ہیں۔ دین کی حیثیت سے ہر مسلمان اِنھیں ماننے اور اِن پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِن کی نسبت کے بارے میں مطمئن ہو جانے کے بعد کوئی صاحب ایمان اِن سے انحراف کی جسارت نہیں کر سکتا۔‘‘ (مقامات  ۱۶۱ - ۱۶۲)

غامدی صاحب کے نزدیک اخبار آحاد میں بیان ہونے والے تمام احکام قرآن مجید یا سنت متواترہ کے احکام کی تفصیل وتفریع سے عبارت ہیں اور قرآن سے بظاہر زائد دکھائی دینے والے احکام بھی اپنی لِم کے اعتبار سے قرآن ہی کے حکم کی توسیع ہیں۔ اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں ہر جگہ انھوں نے شریعت کی تفصیل وتشریح کرتے ہوئے قرآن اور سنت متواترہ سے ثابت احکام کے ساتھ ساتھ ان کے تحت اخبار آحاد سے ثابت شدہ احکام کا بھی اہتمام اور التزام کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اصل اور فرع کے باہمی تعلق کو بھی واضح کیا ہے جس کی کچھ مثالیں آیندہ مباحث میں پیش کی جائیں گی۔

نسخ، تخصیص اور تبیین

حدیث سے قرآن کے نسخ یا تخصیص کی بحث میں فراہی مکتب فکر نے علی العموم اور غامدی صاحب نے بالخصوص جمہور فقہا واصولیین سے مختلف موقف اختیار کیا ہے۔ جیسا کہ سابقہ مباحث میں تفصیلاً واضح کیا جا چکا ہے، امام شافعی اصولی طور پر حدیث کے ذریعے سے قرآن کے حکم کے نسخ، یعنی جزوی یا کلی تبدیلی کے جواز کے قائل نہیں، تاہم اس موقف کا احادیث کے رد وقبول کے حوالے سے کوئی خاص عملی اثر اس لیے مرتب نہیں ہوتا کہ امام شافعی قرآن کی ظاہری دلالت اور احادیث کے مابین کسی تعارض کی صورت میں قرآن کی مراد کی تعیین میں حدیث کو فیصلہ کن قرار دیتے ہیں۔ چونکہ قرآن کی اصل مراد وہ نہیں جس پر اس کے الفاظ ظاہراً دلالت کرتے ہیں، اس لیے ان کے نقطۂ نظر سے کسی حدیث کو اس لیے ترک کرنے کی کوئی گنجایش یا ضرورت بھی نہیں پڑتی کہ وہ قرآن کے معارض ہے۔ یوں حدیث، قرآن کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی، لیکن حدیث میں جو کچھ وارد ہو، وہ قرآن ہی کی تبیین ہے، کیونکہ قرآن کی مراد کو حدیث سے الگ مستقلاً طے کرنا درست نہیں۔  اس کے برخلاف اصولیین کا ایک دوسرا گروہ اور خاص طور پر حنفی فقہا قرآن کی اپنی مستقل دلالت کو اہمیت دیتے ہیں اور قرآن میں زیربحث احکام کے دائرے میں وارد احادیث کا ان سے تعلق واضح کرنے کے لیے تبیین کے ساتھ ساتھ نسخ کے اصول کو بھی استعمال کرتے ہیں، البتہ حنفی فقہا چونکہ نسخ کی صورت میں احادیث کی قبولیت کے لیے شہرت واستفاضہ اور تلقی بالقبول کی شرائط بھی عائد کرتے ہیں، اس لیے ان کے اصول کے مطابق نسخ کے شرائط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے بعض احادیث کو رد کرنے کی گنجایش بھی پیدا ہو جاتی ہے۔

غامدی صاحب کا نقطۂ نظر ان دونوں اصولی مواقف سے مختلف ہے۔ وہ حدیث کے ذریعے سے قرآن کے نسخ کے مطلقاً عدم جواز سے متعلق تو امام شافعی کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں، لیکن قرآن کی ظاہری دلالت کو ہر حال میں احادیث کے تابع کرنے کے سوال پر امام شافعی کے بجاے حنفی اصولیین کی راے کو درست سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک حدیث، چاہے وہ خبر مشہور ہو یا خبر واحد، نہ تو کسی حال میں قرآن کے حکم میں کوئی تبدیلی کر سکتی ہے اور نہ حدیث کی بنیاد پر قرآن کے الفاظ کی ظاہری دلالت کو ظنی قرار دے کر ترک کیا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً، حدیث کے قرآن کے ساتھ متعلق ہونے کی ایک ہی صورت ممکن ہے اور وہ تبیین ہے جس کی نوعیت کلام کے اندر ابتدا سے موجود مضمرات کو واضح کرنے یا کلام کے اشارات اور مخفی دلالتوں کو منصۂشہود پر لانے کی ہوتی ہے، جب کہ کلام کے واضح اور طے شدہ مفہوم میں کسی قسم کی جزوی یا کلی تغییر ’تبیین‘ کے دائرے میں نہیں آتی۔

جہاں تک سنت سے قرآن کے نسخ کے عدم جواز کا تعلق ہے تو اس حوالے سے غامدی صاحب نے امام شافعی کے استدلال کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اضافہ بھی کیا ہے۔ ’’برہان‘‘ میں رجم کی سزا پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ سنت کے لیے یہ اختیار کسی قیاس یا عقلی استدلال سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے خود قرآن کی تصریح درکار ہے جو موجود نہیں، بلکہ اس کے برعکس قرآن نے پیغمبر کے لیے اس اختیار کی نفی کی ہے۔ یہاں غامدی صاحب نے سورۂ یونس کی آیت ’مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اُبَدِّلَہ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْ‘ (۱۰: ۱۵) سے استدلال کیا اور اس پر اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ جواز نسخ کے قائلین اس آیت سے استدلال کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہاں جس چیز کی نفی کی گئی ہے، وہ پیغمبر کا خود اپنی طرف سے کلام الہٰی میں تبدیلی کرنا ہے، جب کہ سنت کے ذریعے سے قرآن میں نسخ پیغمبر کی اپنی راے پر نہیں، بلکہ وحی الہٰی پر مبنی ہوتا ہے اور چونکہ قرآن اور سنت، دونوں وحی ہی کی دو صورتیں ہیں، اس لیے وحی خفی کے ذریعے سے وحی جلی کے نسخ پریہ اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اس معارضے کے جواب میں غامدی صاحب کے استدلال کا حاصل یہ ہے کہ وحی متلو اور وحی غیر متلو اگرچہ وحی ہونے میں مشترک ہیں، لیکن ان دونوں کے ابلاغ وانتقال اور حفاظت میں جو بنیادی فرق ملحوظ رکھے گئے ہیں، انھیں اس بحث میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے ایک متعین الفاظ میں نازل کی گئی، خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے مربوط کلام کی صورت میں مرتب کی گئی اور روایت باللفظ کے ذریعے سے تواتر کے ساتھ امت کو منتقل کی گئی ہے، جب کہ دوسری کا مفہوم پیغمبر کو القا کیا گیا، اس کی بالمعنیٰ روایت کی گئی اور وہ منتشر اقوال کی صورت میں امت کو منتقل ہوئی ہے۔ ان سب بنیادی امتیازات کے ہوتے ہوئے دونوں کو یکساں درجے میں نہیں رکھا جا سکتا(برہان  ۴۹- ۵۱)۔

اس موقف کی تائید میں ایک اہم استدلال کا اضافہ غامدی صاحب نے قرآن کے میزان، فرقان اور مہیمن ہونے کے نکتے کی روشنی میں کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’...اس کی حقیقت محض یہی نہیں کہ وہ وحی متلو ہے۔ وہ تو سلسلۂوحی کا مہیمن، دین کی برہان قاطع، حق وباطل کا معیار، خدا اور خدا کے رسولوں کی طرف منسوب ہر چیز کے لیے فرقان اور زمین پر خدا کی میزان ہے۔ ’اَللّٰہ الَّذِيْ٘ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَ‘ (اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری، یعنی میزان نازل کی)۔ ہر چیز اب اِسی میزان پر تولی جائے گی۔ اُس کے لیے کوئی چیز میزان نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جو قرآن کے اِس مقام سے واقف ہے، بغیر کسی تردد کے مانے گا کہ وحی خفی تو ایک طرف، اگر کوئی وحی جلی بھی ہوتی تو وہ خدا کی اِس میزان میں کوئی کمی بیشی کرنے کی مجاز نہ تھی۔ وہ بہرحال تسلیم کرے گا کہ قرآن کو صرف قرآن منسوخ کر سکتا ہے۔ قرآن پر قرآن سے باہر کی کوئی چیز، جب تک وہ خود اِس کی اجازت نہ دے، کسی طرح اثرانداز نہیں ہو سکتی۔‘‘ (برہان  ۵۱-  ۵۲)

’’میزان‘‘ میں غامدی صاحب نے استدلال کو اس دوسرے نکتے تک محدود رکھا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:

’’...قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے، اِس کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اِس میں کوئی ترمیم وتغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے رد وقبول کا فیصلہ اِس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہوگا۔ ایمان وعقیدہ کی ہر بحث اِس سے شروع ہوگی اور اِسی پر ختم کر دی جائے گی۔ ہر وحی، ہر الہام، ہر القا، ہر تحقیق اور ہر راے کو اِس کے تابع قرار دیا جائے گا۔‘‘ (میزان  ۲۵)

(جاری)

آنجہانی جسٹس رانا بھگوان داس کی یاد میں تقریب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آئی پی ایس (انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد) کی طرف سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان آنجہانی رانا بھگوان داس کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تو موجودہ حالات کے تناظر میں یہ بات مجھے اچھی لگی کہ ہم ان شخصیات کو یاد رکھیں جنہوں نے اصول، قانون اور انسانی روایات کو زندہ رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ یہ تقریب ۱۱ فروری کو منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری تھے۔ جبکہ دیگر مہمانان خصوصی میں محترم راجہ محمد ظفر الحق، جناب محمد اکرم شیخ ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر رامیش کمار (ایم این اے) کے ساتھ راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔

موجودہ عالمی تہذیبی کشمکش میں مجھے ایسی مجالس کی تلاش رہتی ہے جن میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ ارباب فکر مل بیٹھ کر انسانی اقدار و روایات کے فروغ اور مذہب کے معاشرتی کردار کے حوالہ سے گفتگو کریں۔ کیونکہ میری طالب علمانہ رائے میں اس وقت نسل انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ اور بحران انسانی اخلاقیات اور اقدار کا ہے جن سے انسانی سوسائٹی مسلسل محروم ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ انسانی اخلاق و روایات کے سب سے بڑے علمبردار مذاہب ہیں جو تمام تر باہمی اختلافات اور تنازعات کے باوجود انسان کو اس کی بنیادی اقدار سے وابستہ رکھنے میں سب سے مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی اخلاقیات و روایات اور سوسائٹی کے معاملات میں مذہب کے کردار کو کمزور کرتے چلے جانا اس وقت تمام مذاہب کے سنجیدہ راہنماؤں کے لیے مشترکہ چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں اس سلسلہ میں امریکہ، برطانیہ اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مختلف مذاہب کے متعدد راہنماؤں سے بات چیت کر چکا ہوں اور اس مکالمہ کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی خواہش رکھتا ہوں بلکہ کوشش بھی کرتا رہتا ہوں۔

اس سیمینار کے بارے میں آئی پی سی کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کو اس کالم کا حصہ بناتے ہوئے میں اپنی گفتگو کے بعض حصے بھی ریکارڈ میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ اپنے محسنین کو یاد رکھنا ان کا حق ہونے کے ساتھ ساتھ جناب سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے آنحضرتؐ کو اپنے ایک پرانے محسن مطعم بن عدی یاد آگئے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر طائف میں پتھراؤ کرنے والے اوباش لڑکوں سے آپؐ کو پناہ دی تھی۔ اللہ تعالٰی کے آخری رسول ان لڑکوں کے پتھراؤ اور تعاقب کے باعث زخمی اور لہولہان حالت میں اپنے خادم حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف واپس آرہے تھے کہ راستہ میں مطعم بن عدی نے اپنے ڈیرے کا دروازہ کھول دیا اور آپؐ وہاں کچھ دیر ٹھہرے، خون وغیرہ دھویا اور آرام کیا۔ نبی اکرمؐ نے غزوہ بدر کے موقع پر اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان قیدیوں کی سفارش کرتے تو میں انہیں فدیہ لیے بغیر ہی آزاد کر دیتا۔ اس میں جناب رسول اکرمؐ کی طرف سے یہ تعلیم ہے کہ محسن خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اس کی احسان مندی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

دوسری بات یہ کہ میں جب اس سیمینار میں شرکت کے لیے حاضر ہوا تو مہمانوں میں جناب سبھاش چندر کو دیکھا جو آنجہانی رانا بھگوان داس کے برادر نسبتی ہیں اور مجھ سے پہلے انہوں نے شرکاء سے گفتگو کی، انہیں دیکھ کر مجھے تحریک آزادی کے نامور راہنما سبھاش چندر بوس یاد آگئے اور میں اسٹیج پر بیٹھا کچھ دیر تک ماضی کے مناظر میں کھویا رہا۔

ان گزارشات کے ساتھ اس سیمینار کے بارے میں آئی پی سی کی رپورٹ پیش خدمت ہے:

’’اسلام آباد، 12 فروری: پاکستان کی تعمیر و ترقی اور اس کے قومی اداروں کو استحکام دینے اور مضبوط بنانے میں جسٹس رانا بھگوان داس جیسے ملک کے کئی غیر مسلم فرزندوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف ان غیر مسلم ماہرین کی خدمات کو سراہا جائے بلکہ ملک کے نوجوانوں کی نظریاتی سوچ کی تعمیر کے لیے ان میں یہ آگہی بھی پیدا کی جائے کہ کس طرح ان ماہرین نے اقلیت میں سے ہونے کے باوجود ملک کی قانونی، عدالتی، آئینی اور سماجی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ اسلام آباد میں جسٹس رانا بھگوان داس کے یاد میں ہونے والی ایک تقریب کا خلاصہ تھا جس کا اہتمام اسلامی نظریاتی کونسل اور انسٹیٹوٹ آف پالیس اسٹڈیز کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا تھا۔ اس تقریب سے خظاب کرنے والوں میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، ایڈووکیٹ اکرم شیخ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایگزیگٹیو پریزیڈنٹ خالد رحمٰن، قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی، مولانا ابو عمار زاہدالراشدی، اسلام آباد ہندو پنچایت کے صدر مہیش کمار، اور جسٹس رانا بھگوان داس کے برادرِ نسبتی سبھاش چندرشامل تھے ، جبکہ سینیٹر راجہ ظفر الحق کا خصوصی پیغام بھی انسٹیٹیوٹ کے سینئیر تحقیق کار سید ندیم فرحت نے اس موقع پر پڑھ کر سنایا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ جسٹس بھگوان داس ایک محبِ وطن شہری تھے جو قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے اور اپنے تمام فیصلے بھی قوانین کی روشنی میں ہی کرتے تھے۔ انہوں نے اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی اور اسی بنا پر انہیں اسلامی فکر اور قانون پر عبور حاصل تھا۔ وہ ایک انتہائی اصول پسند انسان تھے اور انہوں نے اپنے کردار، رویے، غیر جانبداری، متوازن سوچ کی بنا پر اتنی عزّت اور اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جسٹس بھگوان داس اور ان کی طرح اقلیت سے تعلق رکھنے والے ملک کے دیگر فرزندوں مثلا جسٹس اے آر کانیلیس اور جسٹس دراب پٹیل وغیرہ کی خدمات کو یاد رکھیں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں کہ کیسے انہوں نے اپنی محنت او مستقل مزاجی سے یہ مرتبہ حاصل کیا۔ مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں اقلیتوں کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ملکی سطح پر غیر امتیازی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ اگرچہ کسی بھی ملک کی طرح یہاں بھی کچھ انتہا پسند طبقات موجود ہیں، لیکن حال میں ہی ہونے والے مختلف واقعات اور قانونی فیصلوں کی روشنی میں عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کے نظام اور معاشرے میں بھی اقلیتوں کو ان کا حق دینے کی گنجائش نظر آتی ہے۔ مقررین نے اس موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور اسلامی نظریاتی کونسل کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قومی ہیرو اور فرزندوں ، اور ان کی قومی خدمات کو یاد کرنے والی ایسی کوششوں کو جاری رہنا چاہیے۔‘‘


اپریل ۲۰۲۰ء

کورونا وائرس کی آفت اور انسانی تدابیرمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۴)ڈاکٹر محی الدین غازی
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۱٠)مولانا سمیع اللہ سعدی
الحاد، مذہب اور اہلِ مذہب: چند اہم سوالات کا جائزہڈاکٹر محمد شہباز منج
مسلم معاشروں میں جدیدیت کی تنفیذمولانا حافظ عبد الغنی محمدی
کرونا وائرس اور ہماری ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بے اصل فقہی احادیث کی فنی حیثیت اور اصحاب الحدیث کا معتدل اسلوبِ نقدمولانا محمد عبد اللہ شارق
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۵)محمد عمار خان ناصر

کورونا وائرس کی آفت اور انسانی تدابیر

محمد عمار خان ناصر

گزشتہ چند ہفتوں میں کورونا وائرس نے  ایک بڑی اجتماعی انسانی ابتلا کی صورت اختیار کر لی اور   ماہرین کے اندازوں کے مطابق دنیا کو آئندہ کئی ماہ تک اس صورت حال کا سامنا رہے گا۔ یہ ایک ناگہانی آفت ہے جس میں عبرت وموعظت کے پہلو پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ عملی تدابیر اختیار کرنے اور خدانخواستہ قابو سے باہر ہو جانے کے امکان کو سامنے رکھتے ہوئے انسانی رویوں اور جذبات کی ضروری تربیت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

تہذیبی زوال اور شناخت کے بحران کی صورت حال میں ہمارے ہاں ہر مسئلہ مختلف شناختیں رکھنے والے گروہوں  کے ہاتھوں میں ایک دوسرے کو لتاڑنے کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔  موجودہ صورت حال میں بھی اس رویے کے مظاہر سامنے آ رہے ہیں۔  مثلا  ملحدین اس کو مذہب کی ضرورت وحقیقت کی نفی کرنے کا ایک سنہری موقع جانتے ہوئے اس آفت کو  تنبیہ یا عذاب کے زاویے سے دیکھنے کا مذاق اڑا رہے ہیں، حالانکہ یہ موقع دلوں کو نرم کرنے اور ہمدردی وخیر خواہی کے جذبات کی آبیاری کا ہے۔ قدرت کی طاقتوں کے آگے انسان کی کم مائیگی تو عبرت کا ایسا پہلو ہے جس سے کوئی ٹھیٹھ ملحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ مذہبی لوگوں کا ایسی صورت حال میں رجوع الی اللہ اور استغفار کی طرف متوجہ کرنا خیر خواہی کے جذبے سے ہی ہوتا ہے۔ اسے گناہوں کی پاداش یا آزمائش یا محض مادی سطح کا ایک واقعہ، جو بھی سمجھا جائے، انسانی ہمدردی کا پہلو کسی حال میں نظری بحث وجدال میں دب نہیں جانا چاہیے۔

بعض احادیث کے حوالے سے بھی یہ  اعتراض اٹھایا گیا کہ مذہب، بیماری کے متعدی ہونے کے تصور کو تسلیم نہیں  کرتا ، حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ مرض کے متعدی ہونے یا نہ ہونے کی بحث اسلامی روایت میں ایک مفروغ عنہ بحث ہے۔ محدثین، فقہاء اور متکلمین کا مجموعی موقف اس حوالے سے واضح ہے۔ صرف علم حدیث میں یہ سوال بعض روایات کی توجیہ کے تناظر میں زیربحث آتا ہے جن میں بظاہر متعدی ہونے کی نفی کی گئی ہے، اور شارحین نے واضح کیا ہے کہ ان کا سیاق اور مقصد بالکل مختلف ہے۔اشاعرہ کے ہاں تعلیل بالأسباب کی نفی بھی بعض مابعد الطبیعیاتی سوالات کے تناظر میں کی گئی ہے، نہ کہ عمل اور تدبیر کے دائرے میں۔

ایسی صورت حال کو اجتماعی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے اور قربانی اور تعاون کی اسپرٹ سے ہی ڈیل کیا جا سکتا ہے۔ تدابیر میں اجتہادی اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور غلطیاں بھی، جنھیں خیر خواہی سے ہی موضوع بنانا چاہیے۔  کرونا کی پیدا کردہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہییں اور کیا نہیں، اس پر مختلف آرا موجود ہیں اور یقینا سب فریق اپنی دانست میں بہتری ہی چاہتے ہیں۔ ذمہ داری کا بہت بڑا حصہ ریاستی نظام سے اور اتنا ہی بڑا حصہ، احتیاطی تدابیر کے پہلو سے خود عوام سے متعلق ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ دونوں اس ناگہانی آفت سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں ہر سطح پر غلطیاں، بلکہ سنگین غلطیاں ہونے کا امکان موجود ہے جسے تبصروں اور تنقیدوں میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بہتری کے لیے مشورہ، تجویز اور تنقید تو ایک اخلاقی ذمہ داری ہے، لیکن یہ ذمہ داری حکومت اور عوام، دونوں کو غلطی کی گنجائش دیتے ہوئے ادا کرنی چاہیے۔ ہم ایک ترقی پذیر ملک کے عوام اور ریاست ہیں، اس لیے انتظامی ڈسپلن، طبی انتظامات اور ذمہ دارانہ رویے کی توقعات بھی اسی کے لحاظ سے قائم کرنی چاہییں۔ خلق خدا کو کسی نقصان سے بچانا اگر انسانی ہمدردی کے جذبے سے ہے تو خلق خدا کی استطاعت اور بساط کو مدنظر رکھنا بھی اسی ہمدردی کا تقاضا ہے۔ اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہماری گفتگو اور عوامی ذہن سازی کا رخ اس طرف ہونا چاہیے کہ صورت حال کے سنگین ہونے کی صورت میں ہم سب کو کس طرح کے عملی کردار کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

وبا کیا صورت اختیار کرے گی اور نتائج کیا نکلیں گے، یہ فی الحال اللہ ہی کے علم میں ہے۔ اللہ سے عاجزانہ دعا یہی ہے کہ شدید بحران کی صورت پیدا نہ ہو اور ہمارے نیم دلانہ اور ٹوٹے پھوٹے استغفار کو ہی پروردگار قبول فرما کر اس آزمائش سے چھٹکارا عطا فرما دے۔ آمین


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۹۲) اسبغ کا ترجمہ

لفظ اسبغ قرآن مجید میں ایک جگہ آیا ہے، جب کہ اسی مادے سے ایک جگہ سابغات کا لفظ آیا ہے، اسبغ کا مطلب ہوتا ہے اتنی فراوانی جس سے ساری ضرورتیں پوری ہوجائیں۔ جس طرح درع سابغۃ کا مطلب ہوتا ہے اتنی کشادہ زرہ کہ پورے جسم پر آجائے۔ یعنی اس میں کشادگی اور فراوانی کا مفہوم ہوتا ہے، نہ کہ تمام کرنے اور پوری کرنے کا، جیسا کہ ذیل میں بعض ترجموں میں ملتا ہے۔ علامہ طاہر بن عاشور کے الفاظ میں: اسباغ النعم: اکثارہا. (تفسیر التحریر والتنویر)، یہ درست ہے کہ اہل لغت اسباغ کے معنی اتمام کے بھی ذکر کرتے ہیں، لیکن یہاں منکرین سے خطاب ہے، اور اس پہلو سے اتمام کا معنی مناسب نہیں معلوم ہوتا ہے۔

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَہٗ ظَاهِرَۃً وَبَاطِنَۃ (لقمان: 20)

“کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟ ” (سید مودودی)

“اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں” (فتح محمد جالندھری)

“اور تمہیں بھرپور دیں اپنی نعمتیں ظاہر اور چھپی” (احمد رضا خان)

“اور تمہیں اپنی ظاہری وباطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں” (محمد جوناگڑھی)

“اور تمھیں ہر قسم کی ظاہری وباطنی نعمتیں فراوانی سے دی ہیں ” (امانت اللہ اصلاحی)

آخر کے تینوں ترجمے موزوں تر ہیں۔

(۱۹۳)    زمانہ فعل کی رعایت

درج ذیل آیت میں خبردار کیا گیا ہے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مقابلے میں اپنے آباءکی پیروی کرنے والوں کو، کہ آباءکی پیروی محفوظ عمل نہیں ہے، کیوں کہ شیطان تو ان کے پیچھے بھی لگا رہتا تھا اور انھیں بہکانے کی کوشش کیا کرتا تھا، وہ شیطان سے محفوظ تو تھے نہیں کہ ان کی پیروی کو گمراہی سے محفوظ سمجھا جائے۔ علامہ طاہر بن عاشور کے الفاظ میں: والضمیر المنصوب فی قولہ یدعوہم عائد الی الآباء، ای ایتبعون آبائہم ولو کان الشیطان یدعو الآباءالی العذاب فہم یتبعونہم الی العذاب ولا یہتدون. (تفسیر التحریر والتنویر)

اس تفسیر کی رو سے شیطان کی اس دعوت کی بات ہورہی ہے، جو وہ حاضرین کے آباءواجداد کو دیتا تھا، وہ جو کہ اب نہیں ہیں، اس لحاظ سے یدعوھم کا ترجمہ’ بلاتا رہا ہو‘، درست ہے، ’بلاتا ہو‘، اور’ بلا رہا ہو‘، حاضرین کے تعلق سے تو درست ہوسکتا ہے، ان کے گزرے ہوئے آباءکے تعلق سے درست نہیں ہوسکتا ہے۔ اس روشنی میں درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَإِذَا قِيلَ لَھُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّہُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوھُمْ إلٰی عَذَابِ السَّعِيرِ۔ (لقمان: 21)

“اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اُس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اُس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کیا یہ انہی کی پیروی کریں گے خواہ شیطان اُن کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا رہا ہو؟” (سید مودودی)

“اگرچہ شیطان ان کو عذاب دوزخ کی طرف بلاتا ہو” (احمد رضا خان)

“بھلا اگرچہ شیطان ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو (تب بھی؟)” (فتح محمد جالندھری)

“اگرچہ شیطان ان کے بڑوں کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو ” (محمد جوناگڑھی)

“اگرچہ شیطان ان (بڑوں) کو بھڑکتی آگ کے عذاب کی طرف بلا رہا ہو؟” (محمد حسین نجفی)

پہلا ترجمہ زمانہ فعل کی رعایت کے پہلو سے موزوں تر ہے۔

(۱۹۴)    سابغات کا ترجمہ

درع سابغة کا مطلب ہوتا ہے کشادہ زرہ، یعنی جوپورے جسم کو اپنے اندر لے لے۔

السابغۃ: الدرع الواسعۃ (لسان العرب)، اس حوالے سے بعض ترجمے غور طلب ہیں:

 اَنِ اعمَل سَابِغَاتٍ ۔ (سبا: 11)

“اس ہدایت کے ساتھ کہ زرہیں بنا” (سید مودودی، اس ترجمہ پر اعتراض یہ ہے کہ سابغات کا ترجمہ صرف زرہیں نہیں بلکہ کشادہ زرہیں ہونا چاہیے)

“کہ ڈھیلی ڈھالی زرہیں بناؤ” (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ پر اعتراض یہ ہے کہ یہاں مراد ہے بڑی زرہیں جو پورے بدن کو ڈھانپ لیں، جب کہ ڈھیلی ڈھالی کا مطلب یہ ہوگا کہ بدن پر ڈھیلی ہو، چاہے سائز کے لحاظ سے چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ زرہ کا ڈھیلی ڈھالی ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے)

“کہ وسیع زِر ہیں بنا” (احمد رضا خان)

“کہ کشادہ زرہیں بناؤ” (فتح محمد جالندھری)

آخر الذکر دونوں ترجمے درست ہیں۔

(۵۹۱) مخلصین لہ الدین کا ترجمہ:

الدین کا مطلب اطاعت، عبادت اور دین ہے۔ بعض لوگوں نے کہیں کہیں اس کا ترجمہ عقیدہ یا اعتقاد کیا ہے جو لفظ کی مکمل ترجمانی نہیں کرتا ہے، خود وہی مترجمین اسی اسلوب والے جملے کا دوسرے مقامات پر ترجمہ کرتے ہوئے دین کا ترجمہ عبادت اور بندگی کرتے ہیں۔

اسی طرح مخلصین کا ترجمہ خالص کرنا اور خاص کرنا سب کرتے ہیں، اور درست کرتے ہیں۔ تاہم صاحب تدبر بعض جگہ ترجمہ میں عہد کرنے کا مفہوم بڑھادیتے ہیں، جس کی لفظ میں گنجائش نہیں نکلتی ہے۔ درج ذیل مختلف ترجمے ملاحظہ کریں:

(۱) وَادعُوہُ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (الاعراف: 29)

“اور اسی کو پکارو، اسی کے لیے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے” (امین احسن اصلاحی) اس کو پکارو ہونا چاہیے، کیوں کہ عبارت میں حصر کا اسلوب نہیں ہے۔

“اور اس کی عبادت کرو نرے (خالص) اس کے بندے ہوکر ” (احمد رضا خان)

“اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خالص اللہ ہی کے واسطے رکھو” (محمد جوناگڑھی)

(۲) دَعَوُا اللَّہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (یونس: 22)

“تو وہ اللہ کو پکارتے ہیں، خالص اسی کی اطاعت کا عہد کرتے ہوئے” (امین احسن اصلاحی)

“ (اس وقت) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں ” (محمد جوناگڑھی)

“اس وقت اللہ کو پکارتے ہیں نرے اس کے بندے ہوکر” (احمد رضا خان)

(۳) فاِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللَّہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (العنکبوت: 65)

“پس جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں اسی کے لیے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے ” (امین احسن اصلاحی)

“پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لیے عبادت کو خالص کر کے” (محمد جوناگڑھی)

“پھر جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں اللہ کو پکارتے ہیں ایک اسی عقیدہ لاکر ” (احمد رضا خان)

(۴) وَاِذَا غَشِیَہُم مَوج کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (لقمان: 32)

“اور جب موجیں سائبانوں کی طرح ان کو ڈھانک لیتی ہیں وہ اللہ کو پکارتے ہیں، خالص اس کی اطاعت کا عہد کرتے ہوئے” (امین احسن اصلاحی)

“اور جب ان پر آپڑتی ہے کوئی موج پہاڑوں کی طرح تو اللہ کو پکارتے ہیں نرے اسی پر عقیدہ رکھتے ہوئے” (احمد رضا خان)

“اور جب (سمندر میں) اِن لوگوں پر ایک موج سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کر کے” (سید مودودی)

“اور جب ان پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ (نہایت) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں” (محمد جوناگڑھی)

(۵) فَادعُوا اللَّہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (غافر: 14)

“تو اللہ ہی کو پکارو اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ” (امین احسن اصلاحی)

(۶) فَادعُوہُ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (غافر: 65)

“تو اسی کو پکارو، اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ” (امین احسن اصلاحی)

(۷) وَمَا اُمِرُوا اِلَّا لِیَعبُدُوا اللَّہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (البینة: 5)

“اور ان کو حکم یہی ہوا تھا کہ وہ اللہ ہی کی بندگی کریں، اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ” (امین احسن اصلاحی)

(۱۹۶) ویعلم مافی الارحام کا ترجمہ

رحم کے اندر پلنے والے جنین کے سلسلے میں باخبرہونے کے حوالے سے قرآن مجید پر اعتراض کیا جاتا ہے، جو دن بدن زور پکڑتا جارہا ہے، اور اس کے جو جواب عام طور سے دیئے گئے ہیں، وہ کم زور ہیں، اور دن بدن ان کی کم زوری اور زیادہ واضح ہورہی ہے۔ اس اعتراض کی بنا اس پر ہے کہ قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ ہی جانتا ہے رحم کے اندر کی صورت حال کو، کوئی اور نہیں جان سکتا ہے۔ جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ترجموں میں تو یہ بات ہے، لیکن کچھ ترجموں میں یہ بات نہیں ہے، بلکہ بغیر حصر کے ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی ’وہی جانتا ہے‘ کی بجائے ’وہ جانتا ہے‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۱)  إِنَّ اللَّہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّہَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (لقمان: 34)

“اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے” (سید مودودی)

“خدا ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے۔ اور وہی (حاملہ کے) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (کہ نر ہے یا مادہ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا۔ اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کس سرزمین میں اُسے موت آئے گی بیشک خدا ہی جاننے والا (اور) خبردار ہے” (فتح محمد جالندھری)

“بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے۔ کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا۔ (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے” (محمد جوگڑھی)

“بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ بڑا جاننے والا (اور) بڑا باخبر ہے” (محمد حسین نجفی)

“بیشک اللہ کے پاس ہے قیامت کا علم اور اتارتا ہے مینھ اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے، اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی، بیشک اللہ جاننے والا بتانے والا ہے” (احمد رضا خان)

اسی مضمون سے ملتی جلتی ایک آیت درج ذیل ہے، اس میں بھی اہل ترجمہ کے یہاں دو طرح کے ترجمے ملتے ہیں۔ یہاں بھی حصر کا معنی دینے والی کوئی علامت عبارت کے اندر نہیں ہے۔

(۲) اللَّہُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثٰی وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ۔ (الرعد: 8)

“خدا ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے)۔ اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے ” (فتح محمد جالندھری)

“اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر عورت (اپنے پیٹ میں) کیا اٹھائے پھرتی ہے؟ اور اس کو بھی (جانتا ہے) جو کچھ رحموں میں کمی یا بیشی ہوتی رہتی ہے اور اس کے نزدیک ہر چیز کی ایک مقدار مقرر ہے” (محمد حسین نجفی)

“اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے” (سید مودودی)

“اللہ جانتا ہے جو کچھ کسی مادہ کے پیٹ میں ہے اور پیٹ جو کچھ گھٹتے بڑھتے ہیں اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے” (احمد رضا خان)

“مادہ اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی، ہر چیز اس کے پاس اندازے سے ہے” (محمد جوناگڑھی)


اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۱٠)

مولانا سمیع اللہ سعدی

2۔مباحث و موضوعات

اہلسنت اور اہل تشیع کے علم مصطلح الحدیث کے مباحث،موضوعات کی ترتیب اور اسماء و اصطلاحات  کا جائزہ اگر لیا جائے  تو حیرت انگیز حد تک مماثلت (بعض جزوی اختلافات کے باوجود ،جن کی تفصیل ہم ان شا اللہ  آگے بیان کریں  گے )نظر آتی ہے ،یہاں بجا  طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شیعہ علم حدیث اور سنی علم حدیث اپنے اساسی مفاہیم و مصطلحات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے ،جیسا کہ بحث اول میں ہم اس کو مفصل بیان کر چکے ہیں ،تو پھر علمِ اصولِ حدیث میں  موضوعاتی یکسانیت کیونکر پیدا ہوئی؟اس سوال کا جواب خود شیعہ محققین کے ہاں یہ ملتا ہے کہ یہ فن بنیادی طور پر اہلسنت  کی علم مصطلح الحدیث سے ماخوذ ہے ،ماقبل کی  کی اقساط میں  ہم اخباری علماء کے بعض حوالہ جات اس حوالے سے نقل کر چکے ہیں ،اب  اصولی علماء کی شہادت ذکر کی جاتی ہے :

گیارہویں صدی ہجری کے معروف   شیعہ عالم  حسین بن شہاب کرکی لکھتے ہیں :

"و اول من الف فی الدرایہ من اصحابنا الشہید الثانی اختصر  درایۃ ابن الصلاح الشافعی  فی رسالتہ ثم شرحہا"1

 ترجمہ :ہمارے  اصحاب میں سے علم الدرایہ میں سب سے پہلی تصنیف شہید ثانی کی کتاب ہے ،جس میں انہوں نے ابن صلاح کی کتاب کا اختصار کیا ،پھر خود اپنے تیار کردہ متن کی شرح لکھی ۔

معروف اصولی محقق و محدث علامہ خوئی لکھتے ہیں:

"وھو اول من صنف من الامامیہ فی درایۃ الحدیث لکنہ نقل الاصطلاحات من کتب العامۃ  کما ذکرہ ولدہ و غیرہ"2

ترجمہ: شہید ثانی درایہ میں لکھنے والے پہلے امامی مصنف ہیں ،لیکن انہوں نے یہ اصطلاحات عامہ (اہلسنت)  سے نقل کی ہیں ،جیسا کہ یہ اعتراف ان کے بیٹے اور دیگر شیعہ علماء کرچکے ہیں ۔

شہید ثانی کی مذکورہ کتاب  البدایہ فی علم الدرایہ کے محقق غلام حسین قیصریہ  اس کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

"وجدنا  ان الشہید تاثر بمقدمہ ابن الصلاح"3

یعنی اثنائے تحقیق ہمیں یہ محسوس ہوا کہ شہید ثانی مقدمہ ابن الصلاح سے متاثر ہیں۔

اس پر اخباری علماء کثرت سے لکھ چکے ہیں کہ یہ فن اہلسنت سے ماخوذ ہے ،(پچھلی اقساط میں بعض  حوالے آچکے ہیں )اخباری و اصولی علماء کی ان تصریحات  جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اہل تشیع کا علم الدرایہ اہلسنت کے علم مصطلح الحدیث کا چربہ اور اسی کی نقل ہے ،یہاں تک کہ امثلہ و شواہد بھی تقریبا وہی لیے گئے ہیں ،جو اہلسنت کی کتب میں مذکور ہیں کما مر ،تو بجا طور پر سوال  پیدا ہوتا ہے کہ وہ فن جو اہلسنت کے حدیثی ذخیرے کو پرکھنے کے لیے وضع کیا گیا ہے ،تو اس فن سے اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ کیسے اور کیونکر پرکھا جاسکے گا،جب ہر دو علوم اپنی اساسیات و مبادیات میں کلی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،دونوں کا زمانہ تدوین الگ الگ ،معیارات  نقد الگ الگ ،حدیث و سنت کا مفہوم الگ الگ ،وغیرہ۔

3۔ انواعِ حدیث

اہل تشیع کا علم الدرایہ اگرچہ بنیادی طور پر اہل سنت کے علم مصطلح الحدیث سے ماخوذ ہے ،لیکن علمائے شیعہ نے اس اخذ و التقاط کے عمل میں  اپنے ذخیرہ حدیث کے اعتبار سے کچھ تبدیلیاں کیں ،اس بحث میں انہی تبدیلیوں کا موازنہ اہل سنت کے علم مصطلح الحدیث سے کریں گے تاکہ ہر دو علوم کے محاسن و مساوی کا تقابل سامنے آسکے ۔ اس عنوان میں  ہر دو علوم میں  احادیث کی مقبول و مردود کے اعتبار سے جو  تقسیم کی گئی ہے ، نکات کی شکل میں  دونوں علوم میں کی گئی تقسیم کا  موازنہ پیش کیا جائے گا :

1۔حدیث کی صحت کے لیے اہل سنت محدثین نے عدمِ شذوذ اور عدمِ علت کی شرط لگائی ہے ،جبکہ اہل تشیع محدثین کے  ہاں حدیث کے صحیح ہونے کے لیے اس کا شذوذ و علت سے خالی ہونا شرط نہیں ،یوں اہل سنت کا معیار بنسبت اہل تشیع کے ،زیادہ کڑا اور سخت ہے ،اس بات پر ہم پچھلی اقساط میں بحث کر چکے ہیں ۔

2۔ اہل سنت محدثین نے مقبول حدیث کی اقسام میں سے دو اقسام (صحیح لغیرہ اور حسن لغیرہ ) کی بنیاد کثرت طرق پر رکھی ہے ،کیونکہ اہل سنت  کے حدیثی ذخیرے میں تکرار کثرت سے واقع ہوا ہے ،جیسا کہ ہم اس کی تفصیل اس سلسلے کی تعداد روایات والے عنوان کے تحت بیان کرچکے ہیں ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں مقبول حدیث کی چاروں  اقسام (صحیح ،حسن ،موثق ،قوی ) میں سے کوئی بھی قسم کثرت طرق و اسناد پر مبنی نہیں ہے ،کیونکہ اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے میں تکرار نہ ہونے کے برابر ہے کما مر ،اس لیے کثرت طرق و اسناد پر مقبول خبر کی کسی قسم کی بنیاد  رکھنا امر ِواقعہ کے اعتبار سے لغو اور ناممکن تھی ۔

3۔اہل سنت کے ہاں مقبول حدیث کی دو  پہلی اعلی اقسام (صحیح و حسن ) میں اتصال ِسند ،عدالت ِراوی ،عدم شذو،عدم ِعلت ضروری ہے ،صحیح و حسن میں فرق صرف یہ ہے کہ صحیح کے رواۃ ضبط میں اعلی مقام پر فائز ہوتے ہیں جبکہ حسن میں رواۃ نفس  ضبط  کے حامل ہوتے ہوئے درجہ میں صحیح رواۃ سے   ناقص ہوتے ہیں ،جبکہ اس برخلاف اگر ہم اہل تشیع کے ہاں مقبول خبر کی پہلی دو اعلی اقسام (صحیح و حسن ) کو دیکھیں ،تو  ان دونوں میں فرق عدالت کے ثبوت و عدمِ ثبوت پر ہے کہ صحیح حدیث کے رواۃ سارے امامی عادل ہوتے ہیں ،جبکہ حسن حدیث کے رواۃ کی عدالت ثابت نہیں ہوتی ،بلکہ وہ مستور الحال ہوتے ہیں ،صرف ان کے حق میں مدح مطلق ثابت ہوتی ہے ،چنانچہ زین الدین عاملی حسن  حدیث کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ھو ما اتصل سندہ بامامی مدوح من غیر نص علی عدالتہ فی جمیع مراتبہ او فی بعضھا ،مع کون الباقی من رجال الصحیح"4

یعنی حسن حدیث وہ ہے ،جس کی سند متصل ہو اور اس کے رواۃ سارے امامی ممدوحین ہوں ،لیکن ان کی عدالت پر کسی کی کوئی تصریح نہ ہو ،تمام طبقات میں یا بعض طبقات میں ،اور باقی رواۃ صحیح حدیث کے رواۃ ہوں ۔

اہل علم جانتے ہیں کہ حدیث کے معتبر ہونے یا نہ ہونے میں عدالت بنیادی ترین وصف ہے ،اہلسنت کے ہاں مردود حدیث کی اقسام  انقطاعِ سند یا عدمِ عدالت سے بنتی ہیں ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں صحیح حدیث کی دوسری بڑی قسم کے لیے عدالت کی صراحت یا اس کے ثبوت کی ضرورت نہیں ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ  جو قسم اہل سنت کے ہاں عدم ِ ثبوتِ عدالت کی وجہ سے خبر مردود میں شامل ہوتی ہے ،وہی قسم اہل تشیع کے ہاں مقبول حدیث کی دوسری بڑی قسم  شمار ہوتی ہے ،اس سے اہل سنت اور اہل تشیع کے معیارات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

4۔ اہل تشیع  محدثین نے مقبول حدیث کی پہلی دو اعلی اقسام (صحیح و حسن ) کے لیے ایک بنیادی شرط "امامی "ہونا بیان کیا ہے ،لہذا شیعہ اصول ِحدیث کی رو سے   راوی خواہ کتنا ہی ضابط ،کتنا ہی عادل اور کتنا ہی ثقہ کیوں نہ ہو ،اگر وہ امامی نہیں ہے ،تو اس کی حدیث صحیح و حسن کی درجہ بندی میں نہیں آسکتی ، جبکہ اس کے برخلاف اہل سنت کے ہاں اس قسم کی کوئی شرط نہیں ہے ،چنانچہ اہل سنت کے ہاں صحیح و حسن حدیث کی شرائط  میں راوی کا اہل سنت میں سے ہونا شرط نہیں ہے ،خود امام بخاری  نے صحیح بخاری میں  متعدد ایسے رواۃ کی روایت کو صحیح سمجھتے ہوئے  اپنی کتاب میں درج کیا ،جو اہل سنت میں سے نہیں ہیں ،ان رواۃ کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری کے مقدمے ہدی الساری میں دی ہے ،اس شرط سے  ایک  خالص علمی سرگرمی میں "مذہبی تعصب " کی واضح جھلک نظر آتی ہے ۔

5۔ اہل تشیع کے ہاں مقبول حدیث کی اقسام میں سے ایک قسم "قوی حدیث" کی ہے ، شیعہ محدثین کے ہاں  اس قسم کی تعریف یوں کی گئی ہے :

"الحدیث الذی یکون جمیع رواتہ من الامامیہ و لم یرد فیھم  او فی بعضھم مدحا کما ھو الحال فی الحدیث الحسن  او ذما فرتبتہ بعد الحسن و قبل الموثق"5

یعنی وہ حدیث جس کے جملہ رواۃ امامی شیعہ ہوں اور ان میں سے سب کے یا بعض کے بارے میں مدح و ذم منقول نہ ہو ،تو اس کو قوی کہا جاتا ہے ،درجہ بندی میں یہ حسن کے بعد اور موثق سے پہلے ہے ۔

اس حدیث کے حوالے سے پہلی بات تو قابل بحث یہ ہے کہ اہل سنت محدثین ایسے  رواۃ کی حدیث کو مجہول العین (جب اس سے ایک راوی روایت کرے ) یا مجہول الحال (جب اس سے دو یا اس سے زیادہ راوی روایت کرے) کی درجہ بندی میں لاتے ہیں اور مجہول راوی کی روایت جمہور اہل سنت کے ہاں  رد ہے ،البتہ بعض محدثین اس کے قبول و عدم قبول میں توقف کرتے ہیں ۔6 یعنی وہ بھی قبول نہیں کرتے ،اسی وجہ سے اہلسنت کی کتب مصطلح الحدیث میں مجہول حدیث  حدیث کی مردود اقسام میں شمار کی گئی ہے،جبکہ اہل تشیع محدثین ایسے راوی کی روایت کو مقبول حدیث کی تیسری قسم میں شمار کرتے ہیں ،اس سے اہل سنت اور اہل تشیع کے معیاراتِ نقد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

دوسری بات یہ قابل ذکر ہے کہ اہل تشیع محدثین نے قوی حدیث کو درجہ بندی میں  موثق حدیث (وہ حدیث جس کے  کل یا بعض رواۃ غیر امامی ہوں اور ان کی توثیق شیعہ محدثین و اہل علم کی زبانی ثابت ہوچکی ہو )سے پہلے  رکھتے ہیں ،جو مذہبی تعصب(اور ساتھ غیر معقولیت ) کی ایک واضح مثال ہے ،کہ جس  حدیث کے رواۃ کی ثقاہت  خود  شیعہ  اہل علم کی زبانی ثابت ہوچکی ہو ،ان کی حدیث باوجود ثقہ ہونے کے ایسے رواۃ سے کم درجہ کی ہے ،جو امامی ہوں ،لیکن ان کی ثقاہت و عدالت کے بارے میں شیعہ تراث خاموش ہو،گویا اہل تشیع کے ہاں ایک  مجہول الحال امامی ایک ثابت شدہ ثقہ(جس کی توثیق خود شیعہ اہل علم کر چکے ہوں  ) غیرامامی سے روایت ِحدیث میں اعلی شمار ہوگا ۔یا للاسف

6۔مقبول حدیث کی اقسام  کا تقابل کرتے ہوئے ایک اہم چیز یہ نظر آتی ہے کہ اہل سنت محدثین کے ہاں حدیث کی صحت میں ضبط یعنی حدیث کو زبانی یا تحریری یاد رکھنا خصوصی اہمیت کا حامل ہے ،چنانچہ اسی ضبط کی بنیاد پر  اہل سنت کے ہاں مقبول حدیث صحیح و حسن میں بٹ جاتی ہے کہ حسن کے رواۃ ضبط میں صحیح سے ناقص  ہوتے  ہیں ، چونکہ ضبط کی بنیاد پر حدیث صحیح یا حسن قرار پاتی ہے ،اس لیے محدثین ِ اہل سنت نے ضبط تام اور ضبط ناقص کے معیارات  مقرر کئے ہیں ،اسی طرح اہل سنت محدثین نے سییء الحفظ یعنی حافظے کے اعتبار سے کمزور رواۃ یا وہ رواۃ جن کا حافظہ کسی وجہ سے بگڑ چکا ہو، اس پر اختلاط کے عنوان سے مفصل بحث کی ہے ،الرواۃ المختلطون  پر مستقل کتب لکھی گئیں ہیں   اور  ایسے رواۃ کے بارے میں اس بات کی تعیین کی کوشش کی گئی ہے کہ کس راوی کا حافظہ کب ،کہاں اور کس بنیاد پر کمزور پڑ گیا ؟اور اس کی کون کون سی احادیث اس زمانے کی ہیں ،7 جبکہ اس کے برخلاف جب ہم اس حوالے سے اہل تشیع  کا علم الدرایہ دیکھتے ہیں ،تو ضبط کے بارے میں اہل تشیع محدثین کے ہاں وہ حساسیت اور وہ تفصیل نظر نہیں آتی ،جو اہل سنت کے ہاں موجود ہیں ،چنانچہ علم الدرایہ کی اولین کتب جیسے زین الدین عاملی کی البدایہ اور اس کی شروحات میں مقبول حدیث کی شرائط میں ضبط کا ذکر ہی مفقود ہے ،چنانچہ زین الدین عاملی البدایہ میں صحیح حدیث کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"الصحیح وھو  ما اتصل سندہ الی المعصوم بنقل العدل الامامی عن مثلہ فی جمیع الطبقات و ان اعتراہ شذوذ"8

یعنی صحیح حدیث وہ ہے ،جس کی سند معصوم تک متصل ہو اور اس کے جملہ طبقات کے راوی عادل امامی ہوں خواہ اس حدیث میں شذوذ ہو ۔

بعد کے علمائے شیعہ میں ضبط کے حوالے سے بحث پیدا ہوگئی ،کہ زین الدین عاملی نے ضبط کو بیان کیوں نہیں کیا؟چنانچہ بعض محدثین کے ہاں ضبط  کی شرط عدالت میں داخل ہے ،جبکہ بعض کے نزدیک ضبط کو  عدالت میں داخل کرنا درست نہیں ،اسے الگ بیان کرنا چاہیئے،اس کی تفصیل علامہ مامقانی نے  اپنی مفصل کتاب "مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ"9 میں دی ہے ۔

7۔ حدیث کی صحت و حسن میں چونکہ ضبط بنیادی ترین عامل ہے ،اس لیے علمائے اہل سنت کے ہاں راوی کے ضبط کے بارے میں باقاعدہ کلمات مقرر کئے گئے ہیں ،ہم ذیل میں وہ الفاظ دیتے ہیں ،جو نفیا یا اثباتا راوی  کے ضبط کے کامل ،ناقص یا فقدان پر دلالت کرتے ہیں :

متقن،اضبط الناس،ضابط،کانہ مصحف ،سیء الحفظ ،یھم،لہ اوہام ،تغیر باخرہ ،لین الحدیث ،فیہ لین ،ردیء الحفظ ،لم یکن ممن یحفظ الحدیث ،مضطرب الحدیث ،یخالف فی حدیثہ ،کثیر الخطا،ربما یخالف،لیس من اہل الحفظ

یہ سب الفاظ ضبط کےمختلف مراتب کو ظاہر کرتے ہیں ،ان الفاظ کا مرتبہ معلوم کرنے کے لیے معروف محقق عبد الماجد غوری کی کتاب "معجم الفاظ الجرح و التعدیل" اور دیگر کتب ِجرح و تعدیل  کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ۔

اس کے برعکس جب شیعہ علم الدرایہ کو دیکھتے ہیں ،تو وہاں ضبط بتانے کے لیے یا اس کا کوئی درجہ بتانے کے لیے کوئی لفظ ہی موجود نہیں ہے ،چنانچہ علامہ مامقانی اس حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے  لکھتے ہیں:

"لایقال لو کان  الضبط شرطا للزم اہل الرجال الاعتناء بہ و تحقیقہ  والتصریح بہ کما فی العدالۃ"10

یعنی یہ سوال نہ اٹھایا جائے کہ اگر راوی کا ضبط بھی صحت حدیث کے لیے ایک لازمی شرط ہوتا ،تو علمائے رجال اس کے ساتھ ضرور اعتنا کرتے ،اور اس کی تحقیق و التصریح کرتے جیسا کہ عدالت کی صراحت کرتے ہیں ۔

علامہ مامقانی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہی سوال علامہ بہائی کو بھی پیدا ہوا کہ  علمائے رجال نے راوی کے ضبط کے بارے میں کوئی صراحت نہیں کی ،تو ہم راوی کا ضبط کیسے معلوم کریں گے ؟پھر علامہ بہائی کا جواب نقل کیا ہے کہ علمائے رجال جب کسی کے بارے میں ثقۃ کے الفاظ کہتے ہیں ،تو دراصل وہ "عدل ضابط" کے الفاظ کہہ رہے ہوتے ہیں،اس لیے ثقۃ کے لفظ میں ضبط کاذکر بھی آگیا۔11

علامہ مامقانی کی یہ تاویل قبول بھی کر لی جائے ،تب بھی  لفظ ثقہ  صرف  نفسِ ضبط بتائے گا ،ضبط میں اعلی و ادنی درجات ،ضبط میں کمی ،آخر عمر میں اختلاط   ،روایت ِحدیث میں اوہام کی قلت یا کثرت جیسے امور پھر بھی تشنہ طلب رہیں گے ۔ اہل سنت کے ہاں چونکہ ضبط کے بارے میں مستقل کلمات ہیں ،اس لیے اہل سنت کو ثقہ کے مفہوم میں ضبط کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں رہی ،اس لیے   جمہور  محدثین ثقہ کے لفظ کو صرف عدالت کے اثبات کے لیے استعمال کرتے ہیں ،اس میں ضبط کو شامل نہیں کرتے ،چنانچہ محقق عبد الماجد غوری علامہ سخاوی  کا قول نقل کرتے ہوئے  لکھتے ہیں :

"ان تفسیر الثقۃ بمن فیہ وصف زائد علی العدالۃ وھو الضبط انما ھو اصطلاح لبعضھم"12

یعنی ثقہ کے لفظ میں عدالت کے ساتھ ضبط کو بھی شامل کرنا بعض محدثین کی اصطلاح ہے ۔

8۔اہل تشیع  محدثین نے  صحیح حدیث کو تین اقسام  اعلی ،اوسط اور ادنی میں تقسیم کیا ہے ،ان میں صحیح ِادنی  کی تعریف یوں کی گئی ہے:

"الصحیح الادنی بان تثبت عدالۃ السند بظنون اجتہادیۃ لا عن شہادۃ حسیۃ ،والمراد من الظنون الاحتمال الراجح الذی یحصل من امثال استصحاب العدالۃ او اصالۃ عدم الفسق فی کل امامی او ایۃ جھۃ اخری اوجبت الظن بعدالۃ الرجل و وثاقتہ ،و یطلق علیھا الظنون الرجالیہ"13

یعنی  صحیح ادنی سے مراد یہ ہے کہ رواۃِ سند کی عدالت حسی شہادت کی بجائے  اجتہادی گمان سے ثابت ہو ،اور ان ظنون سے مراد یہ ہے کہ ہر امامی میں عدالت  و عدم فسق  کو اصل مانا جائے ،یا کوئی اور ایسی وجہ ،جس کی وجہ سے راوی کی عدالت و وثاقت ثابت ہوجائے ،اور اس ظنی عدالت کی وجہ سے صحت کے احتمال کو ترجیح دی جائے ،ان جیسے ظنون کو ظنون رجالیہ کہتے ہیں۔

 اسی سے ملتی جلتی تعریف  شیخ جعفر سبحانی نے اپنی کتاب "اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ " میں کی ہے،14  اس تعریف سے جہاں حدیث کی صحت میں اہل تشیع کا  انتہا درجے کا تساہل ثابت ہوتا ہے کہ محض کسی شخص کے بارےمیں ظاہری فسق نہ ہونے کی وجہ سے اسے روایت کے باب میں   باقاعدہ عادل و ثقہ فرض کر کے اس کی روایت صحیح  یعنی روایت ِ مقبول کی پہلی قسم قرار دی گئی ہے ، وہیں  مسلکی تعصب بھی عیاں ہوتا ہے کہ ہر امامی کو غیر فاسق اور عادل مانا گیا ہے ،جب تک اس کے بارے میں ظاہری فسق کی کوئی شہادت نہ ہو ،اہل تشیع محققین عموما   صحابہ کے بارے میں اہل سنت کے اصول "الصحابۃ کلھم عدول"  کو غیر معقول قرار دیتے آئے ہیں کہ یوں بلا تحقیق سب صحابہ کو محض صحابہ ہونے کی بنیاد پر عادل قرار دینا ایک غیر عقلی اور عقیدت پر مبنی اصول ہے ،لیکن خود یہی اصول تمام  امامی شیعوں کے بارے میں ا پنا رہے ہیں کہ  کسی شخص کی عدالت و وثاقت محض اس کے امامی ہونے کی وجہ سے  ثابت ہوگی ،جب تک اس کا فسق ظاہر نہ ہوا ہو ،حالانکہ صحابہ کرام کے بارے میں قرآن پاک کی نص صریح "رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ" ثابت ہے ،تو نص صریح اور  بنص قرآن صحابہ کا ایمان ثابت ہونے کے باوجود انہیں عادل سمجھنا اہل تشیع کے ہاں غیر عقلی ہے ،لیکن محض کسی کے امامی ہونے کی وجہ سے  اسے عادل سمجھنا  اہل تشیع کے اصول ِحدیث کا ایک اصولی قاعدہ ہے ،یا للعجب و یا للاسف

حواشی

1.  ہدایۃ الابرار ،حسین بن شہاب الکرکی ،ص104

2.  معجم رجال الحدیث ،خوئی ،ج8،ص385

3.   مقدمہ تحقیق البدایہ فی علم الدرایہ ،ص19 ،بحوالہ الجرح و التعدیل عند الشیعۃ ،عرض و نقد،سعد راشد عوض ،ص68

4.   البدایہ فی علم الدرایہ ،زین الدین عاملی ،قم المقدسہ ،ص24

5.  دروس فی علم الدرایہ ،سید رضا مودب،مرکز دراسات المصطفی الدولی ،قم،ص57

6.  دیکھیے :نزھۃ النظر،بحث الجہالۃ و اسبابہا

7.  دیکھیے:المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ،عبد الماجد غوری ،ص

8.  البدایہ فی علم الدرایہ ،زین الدین عاملی ،قم المقدسہ ،ص23

9.  دیکھیے:مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ ،عبد اللہ مامقانی ،منشورات دلیل ما ،قم ،ج1،ص 334

10.  ایضا:مقباس الہدایہ ،ج1،ص337

11.  ایضا:ج1،ص334

12.  معجم الفاظ الجرح و التعدیل،سید عبد الماجد ٖغوری،دار ابن کثیر ،ص117

13.  اضواء علی علم الدرایہ و الرجال ،سید ہاشم ہاشمی ،دار التفسیر ،قم،ص138

14.  اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ،جعفر سبحانی ،ص59

(جاری)

الحاد، مذہب اور اہلِ مذہب: چند اہم سوالات کا جائزہ

ڈاکٹر محمد شہباز منج

مذہب اور الحاد کی فکری  پیکار یوں تو  جاری ہی رہتی ہے، لیکن کرونا وائرس کے تناظر میں آج کل اس  پر بحث کچھ زیادہ ہی  ہو رہی ہے ،اور ہونی بھی چاہیے کہ اس نوعیت کے حالات میں مذہب کے حامی اور مخالف کیمپوں کے عمومی نقطہ ہائے نظر کے ساتھ ساتھ ان کے رویوں سے جڑے  چند اہم مباحث پر گفت گو خصوصی اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اہم نکات و سوالات  کو لے کر ملحدین کے ساتھ ساتھ اہلِ مذہب کے عمومی رویوں کا بھی تجزیہ کیا جائےتا کہ معروضی انداز سے درست نتائج تک پہنچنے میں سہولت ہو۔

ایک سوال  ملحدین  کی طرف یہ کیا جا رہا ہے کہ  دیکھیں کرونا نے کعبے اور عبادت خانوں کو ویران کر دیا ہے۔ اگر مذہب کی کوئی حقیقت ہوتی ، خدا کہیں موجود ہوتا تو   عام مسجدوں کو چھوڑیں کعبے کو تو ویران ہونے سے بچا ہی لیتا؟یہ مذہبی لوگ کہتے ہیں  ہر چیز  خدا کے  اختیار میں ہے تو کرونا کو کعبے سے دور کہیں روکے نا ، ہم بھی تو دیکھیں خدا کی طاقت!

ملحدین کا یہ اعتراض   محض ایک  جذباتیت اور سطحیت  ہے، جس سے ایک تو یہ واضح ہوتا ہے کہ  وہ  انکار ِ خدا کے معاملے میں اس سے زیادہ  تعصب کا شکار ہیں  جس کا الزام وہ اقرارِ خدا کے معاملے میں اہلِ مذہب پر لگاتے رہتے  ہیں۔ دوسرے یہ کہ  عقل و خرد کو معیارِ استدلال ماننے والے یہ حضرات اس نوع کے سوالات کرتے ہوئے عقل و  خرد کوبالکل ایک طرف رکھ کر محض شاعری سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور تیسرے یہ کہ اپنے اس دعوے میں وہ  مذہب کی پوزیشن سے یا تو یکسر ناواقفیت کا مظاہرہ کر رہے  ہوتے ہیں یا پھر اس کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیا مذہب نے کہیں یا دعویٰ کیا ہے کہ عبادت خانوں، مسجدوں یا کعبے کو کوئی ویران نہیں کر سکتا! یاکسی میں یہ طاقت نہیں کہ اس کے گھر کو نقصان پہنچا سکے، یااس میں کوئی غلط کام کر سکے،یا  اس میں کوئی وائرس داخل ہو سکے،یا  اس میں داخل ہونے والا کوئی بندہ بیمار ہو سکے۔ اس طرح کا کوئی دعویٰ مذہب میں سرے سے موجود ہی  نہیں ہے۔مذہب تو اس کے برعکس  واضح طور پر تسلیم کرتا ہے کہ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے، اس کے گھر کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے ، کعبے کو گندا کیا جا سکتا ہے۔ بھلا اس کے گھر کو نقصان  نہ پہنچایا جا سکتا ہو تو وہ یہ کیوں کہے کہ کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو لوگوں کو اس کی مسجدوں میں جانے سے روکے ، اور ان کو خراب کرنے کی کوشش کرے۔(البقرہ:114)ظاہر ہے مذمت اسی فعل کی کی جا سکتی ہے، جو یا تو لوگ کرتے ہوں یا کر سکتے ہوں ۔  اور اگر اس کے گھر کو گندا نہ کیا جاسکتا ہو تو وہ یہ کیوں کہے کہ ہم نے ابراہیم و اسماعیل سے وعدہ لیا کہ وہ  ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور او رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک و صاف رکھیں(البقرہ:125)اگر کعبے کو گندہ نہ کیا جا سکتا تو اس میں تین سو ساٹھ بت خدا کیوں رکھنے دیتا۔حضورﷺ پر کعبے کے اندر کفار کی طرف سے ظلم و زیادتی کیوں ہونے دیتا۔سو  بات یہ ہے کہ  یہ سوال اٹھانے والے مذہب کی اس پوزیشن کو بالکل نظر انداز کر جاتے ہیں کہ اس نے یہ کہا ہی نہیں کہ اللہ کے گھر کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا یا خراب نہیں کیا جا سکتا۔

جہاں تک اس سوال  کا تعلق ہے کہ اللہ ہر چیز ہر قادر ہے تو اپنے گھر کو نقصان پہنچانے ہی کیوں دیتا ہے؟ تو یہ پھر ایک انتہائی سطحی سوال ہے ،جو مذہب ، انسان ، خدا اور اس دنیا میں انسان کے کردار اور تصورِ آزمائش و امتحان کو نظر انداز کر دینے کا نتیجہ ہے۔بات یہ ہے کہ مذہب کے مطابق اللہ نے اس دنیا میں انسان کو آزمایش کے لیے بھیجا ہے اور اسے  نیک و بد ہر کام  کی  اجازت دی ہے۔ وہ کسی بندے کو کسی برے کام سے زبردستی نہیں روکتا، اگر ایسا کرے تو آزمایش کا سارا فلسفہ ہی فضول قرار پائے گا، حالانکہ مذہب کا بنیادی مقدمہ اور مقصد و منشور ہی یہی ہے۔ ہاں یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کسی برے کی برائی سے خوش نہیں ہوتا۔مثلاً اس کے گھر کو نقصان پہنچایا تو جا سکتا ہے ، لیکن اس عمل سے وہ خوش نہیں ہوتا ،بلکہ ناراض ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو اس کے گھر کی آبادی کی کوشش کرتا ہے ،اس سے وہ خوش ہوتا ہے۔لیکن ان دونوں قسم کے لوگوں کے عمل کا نتیجہ اس کی مشیت کے مطابق وقوع پذیر ہوتا ہے، اور ایسا ہونا آزمایش کے مذکورہ بنیادی مذہبی تصور کے عین مطابق ہے۔

ملحدین  اپنے زعم میں اہلِ مذہب کے خدا کو ایسا سمجھتے ہیں کہ گویا وہ   اپنے نافرمانوں  کے خلاف برسرِ جنگ ہے۔ اس کو ہر وقت ان لوگوں پر کچیچیاں چڑھ  رہی ہیں، جو اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔جب  کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے ،اور وہ یہ  کہ خدا اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے،وہ نافرمانوں کو بھی موقع دیتا ہے کہ واپس آجائیں۔ کسی سے کتنی غلطیاں ہو گئی ہوں، وہ اس کے حضور حاضر ہو کر معافی کو خواستگار ہو تو وہ  نہ صرف معاف فرما دیتا ہے بلکہ انعام و اکرام سے بھی نوازتا ہے۔ زیادہ سرکش لوگ تو بعض اوقات اس  کی مان لینے کے بعد زیادہ مطیع ہو جاتے ہیں، حتی کہ ان لوگوں سے بھی زیادہ جو پہلے سے نیکی کر رہے ہوں ۔ لہذا  وہ فورا کسی برائی کرنے والے کا ہاتھ نہیں  روکتا۔وہ برائی کو مٹانے سے  خوش ہوتا، برے کو مٹانے سے نہیں۔برے کے حوالے سے تو وہ ہمدردی رکھتا ہے اور پیغمبروں تک کو آخری حد تک جا کر ان کے راہ  راست پر آجانے کے لیے کام کرنے  کی ہدایت کرتا ہے، اور پیغمبر بھی ان کے لیے اتنی ہمدردی رکھتے ہیں کہ خود خدا کو  کہنا پڑتا ہے  کہ آپ تو ان کے راہ راست پر نہ آنے کا تنا غم کر رہے کہ اپنی  جان ہی کو ہلاک کر ڈالنے پر اتر آئے ہیں۔

تو پھر یہ کرونا وائرس یا اس طرح کی بیماریوں اور قدرتی آفات کو اللہ کی ناراضی سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے؟ اس سوال کے حوالے سے  واضح رہے کہ  اس نوع کی بیماریوں کے بارے میں مذہبی موقف یہ نہیں ہے کہ وہ ہر صورت میں  کسی پر عذاب یا اس سے اللہ کی ناراضی ہی کی مظہر ہوتی ہیں۔ ان میں سارے عنصر ہو سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کسی کی آزمایش کے لیے بھی ہو سکتی ہیں، حالانکہ اللہ اس سے ناراض نہ ہو، مثلاً اللہ کے نبیوں اور بعض بڑے نیک لوگوں کو اس ذریعے سے آزمایا گیا، حالانکہ اللہ  ان سے پہلے ہی راضی تھا۔ یا  پھر کسی بیمار کے حوالے سے دوسروں کے رویے کے امتحان کا پہلو بھی ان میں شامل ہو سکتا ہے، کہ کسی پر کوئی مصیبت اور بیماری آئے تو دوسرے اس سے متعلق کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں! کبھی یہ بطور عذاب بھی آ سکتی ہیں، جیسا کہ تاریخ میں مختلف قوموں پر عذاب آیا، اس صورت میں یہ اللہ کی ناراضی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ لیکن عذاب کے لیے ہونے کے حوالے بھی ان  کا ایک خاص پس منظر ہوتا ہے ، اللہ نے اپنی بسیط حکمت کے تحت ان پر عذاب لانا ہوتا ہے۔ کبھی وہ ناراض ہو تو بھی عذاب نہیں دیتا ، مہلت دیتا ہے۔ گویا مختلف حالات میں ایسی وباؤں کی نوعیت  سے متعلق  مذہبی نوعیت کے سوال کا جواب مختلف ہو سکتا ہے۔ اصل چیز اس میں بندے کا رویہ ہوتا ہے۔ مذہب کی رو سے بندے کاکام یہ ہے کہ اللہ سے معافی اور مدد کا طلب گار رہے اور اپنی دنیوی تدبیر ، اسباب  اور کوشش میں بھی کوئی کوتاہی نہ کرے(تدبیر و دعا کے حوالے سے ذرا تفصیلی بحث آگے آتی ہے)

اب اس  حوالے سے ذرا  عوامی اور سطحی مذہبی رویے کو دیکھیے۔ وہ بھی ملحدین کے مذکورہ رویے کی طرح فضول اور مذہب کی درست تعبیر سے کوسوں دور ہے۔ مثلاً ان کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اللہ اپنے گھر اور اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے، لہذا مسجدوں ،خانے کعبے اور مذہبی اجتماعات پر روک لگانایا  کسی بھی ضرورت کے تحت لوگوں کو اس میں عبادت سے روکنا  اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔اس مزاج اور رویے کے حامل لوگوں کے مذہبی رہنما بھی اسی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں ، یہ جذباتی باتیں کر کے مذہب کے مقدمے کو اتنا خراب کرتے ہیں کہ ملحدین کو اعتراضات کا موقع مل جاتا ہے ( اس لیے کہ ملحدین اکثرو بیشتر اپنی ترنگ میں مذہب کی صحیح پوزیشن جانے بغیر اس کے ایسے خوش عقیدہ پیروکاروں کی بے بصیرتی کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں )مثلاً ان مذہبی خوش عقیدہ لوگوں اور مذہبی رہنماؤں  میں سے   کوئی کہتا ہے کہ  خانہ کعبہ کو کھولو، وہاں کوئی نقصان کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی کہتا ہے  میرے فلاں مذہبی اجتماع میں کسی کو کرونا نہیں ہو سکتا، ہو جائے تو مجھے  پھانسی دے دینا (ابھی مولانا جلالی صاحب کا بیان آیا تھا کہ ان کی سنی کانفرنس میں کسی کو کرونا ہو جائے ،تو مجھے پھانسی دیے دیں)۔ یہ لوگ لوگوں کے مذہبی جذبات  سے کھیلتے ہیں۔یہ بظاہر مذہب کے سچے داعی اور اس پر کامل یقین رکھنے والے ہونے کے مدعی ہوتے ہیں، لیکن فی الواقع وہی کام کر رہے ہوتے ہیں، جو  ملحدین کرتے ہیں، اور وہ یہ کہ مذہب کے نام پر ایسے دعوے کر رہے ہوتے ہیں ، جو مذہب کے دعوے ہیں ہی  نہیں،بلکہ مذہبی نظام ایسے دعوؤں کی  دو ٹوک تردید کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ دعوی کرنا کہ فلاں اجتماع میں کسی کو  کچھ نہیں ہو سکتا، مذہب  کی حمایت نہیں اس کی مخالفت ہے۔اس لیے کہ مذہب کے نزدیک یہ دعوی اس کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، بلکہ یہ خود کو خدا بنانے والی بات ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جس کی مذمت یہود و نصاریٰ کے حوالے سے قرآن میں کی گئی ہے۔مثلاً کہا گیا کہ ہے  وہ کہتے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں، ہمیں آگ بھی  چھوئے گی تو چند دن۔ ان کو نبیوں کی اولاد اور بنی اسرائیل میں سے ہونے کا گھمنڈ تھا۔ ان کے اس نوع کے دعووں پر قرآن نے کہا تم فضول باتیں کیے جارہے ہو ،بتاؤ تو سہی  اللہ نے کب اور کن لفاظ میں تم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ جنت تمھارے ہی لیے اور تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، اللہ تمھاری خواہشات کے  مطابق ہی کرے گا؟ اللہ نے تو ایسا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں ،تم اپنے زعم ِ پارسائی میں یہ دعوے کیے جا رہے ہو۔ یہی حال ان  نام نہاد  مسلم علما اور ان کے پیروکاروں کا ہے کہ  اللہ نے جس چیز کا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں اس کو خواہ مخواہ اس کے ذمے لگا رہے ہیں۔

کہا جا سکتا ہے کہ دیکھیں  کیوں وعدہ نہیں کیا؟ اللہ نے ابرہہ سے خانے کعبے کو نہیں بچایا تھا! ابابیل نہیں بھیجے تھے! فلاں موقعے پر اپنے بندوں کی معجزانہ مدد نہیں کی تھی! اس حوالے سے  درج ذیل نکات ذہن نشین  کر لینے چاہییں:

1۔ ان خارق عادت اور معجزانہ تاریخی واقعات کا  مخصوص سیاق و سباق ہے، ان کو اللہ کی عمومی سنت سمجھنا بالکل غلط ہے، اور یہی نافہمی دراصل ان لوگوں کے گمراہانہ نظریات کی اساس ہے۔ اس چیز  میں مبالغے نے ان کو  محنت و کوشش  سے دور کر دیا اور معجزوں کا تمنائی بنا دیاہے۔

2۔ کسی  خاص وقت  میں کسی معجزے کے ظہور کو اس تناظر میں دیکھنا ضروری ہے کہ  وہ کن خاص حالات میں ظہور پذیر ہوا، اور عام مادی اسباب سے ماورا کیوں جانا پڑا؟  اس بارے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے۔ مثلاً ابرہہ اگر کا میاب ہوجاتا تو کعبے کو ملیا میٹ کر دیتا اور یمن میں اپنے بنائے قبلے کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔ یہ چیز اللہ کے اس گریٹر پلان اور بسیط حکمت و مصلحت کے خلاف تھی، جس کے تحت حق و باطل کی آویزش کا سارا نظام واضح  دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اب قیامت تک کوئی کعبے کو ہٹ نہیں کر سکتا، بالکل نان سینس بات ہے ،خود مسلم حکمرانوں کے دور میں حرمین کی حرمتیں پامال ہوئیں، یزید کے دور میں مسجد نبوی کے اصطبل بننے اور کعبے میں آگ لگنے کی روایات عام بیان کی جاتی ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ  یہاں اللہ نے ایسا کیوں ہونے دیا؟ واضح ہے کہ یہاں آزمایش اور طرح کی ہے اور کعبے کے  مکمل انہدام اور مسجد نبوی کے  خاتمے کا کوئی خدشہ نہیں۔ لہذا معجزانہ واقعات کو ان کے صحیح تناظر  میں سمجھنے کی ضوررت ہوتی ہے۔ مثلاً  جنگ بدر میں جس  طرح مسلمانوں کی معجزانہ مدد ہوئی ، احد میں کیوں نہ ہوئی ؟ جو خدا بدر میں فتح دلوا سکتا تھا اس نے احد میں شکست سے کیوں دوچار ہونے دیا ؟  گویا حقیقت یہ ہے کہ خوارق عادت خاص حالات میں اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے، نہ  کہ ایسے  لوگوں کے متکبرانہ دعووں کے نتیجے میں۔معجزات کے باب میں خود حضور ﷺ نے واضح فرمایا کہ تم جو فلاں  فلاں معجزات کے مطالبے کر رہے ہو، یہ میرا کام نہیں، اللہ کاکام ہے۔ گویا آپ نے باور کرایا کہ  میرا کام اللہ کی ہدایت کے مطابق تمھیں راہ ہدایت پر لانے کی کوشش ہے ، اس میں کوئی معجزہ اس کی حکمت کے مطابق وقوع پذیر ہو سکتا ہے، میں نہ ایسے دعوے کرتا ہوں اور نہ یہ معجزات دکھانا میرا کام ہے۔اور نہ اللہ کے مطیع ہونے والوں کے شایانِ شان ہے کہ معجزات اور خوارق عادت دیکھ کر ہی ایمان لائیں۔ مختصر یہ کہ اہل ِاسلام کو عام حالات میں دنیوی اسباب کے  مطابق ہی کام کرنے کا حکم ہے ، اس میں اللہ کی کہیں غیر معمولی مدد  اور معجزے کا ہو جانا اس کی عنایت سمجھا جانا چاہیے نہ کہ اپنا کوئی استحقاق۔لیکن بد قسمتی سے مذکورہ نوعیت کے اہلِ مذہب اپنا حق سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کی مرضی کے مطابق نتیجے نکالے۔

 تو کیا پھر دعا اور عبادت نہ ہو؟  یہ سوال دو نوعیتیں رکھتا ہے: پہلی ملحدین کے اعتراض کی  اور دوسری مذکورہ نوعیت کے خوش عقیدہ اہلِ مذہب کی۔ ملحدین اس پر موقف اختیار کرتے ہیں کہ جب ہر چیز تدبیر اور کوشش ہی سے ہونی ہے، تو پھر دعا اور عبادت چہ معنی دارد۔ اور خوش عقیدہ اہلِ مذہب کہتے ہیں کہ دعا اور عبادت ہی سے سب کچھ ہوگا، حتی کہ وہ اس سلسلے میں ضروری مادی اسباب کو بھی نظر انداز کر دیتے اور ترنگ  میں آ کر دعوے کرتے ہیں کہ ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ  فلاں بیماری فلاں موقعے پر نہیں لگ سکتی ،یا یہ کہ مثلاًفلاں دعا پڑھ لو  سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس ضمن میں  یہاں میں وہ  سوال بھی شامل کرنا چاہتا ہوں جو کسی بیمار کے لیے دعا  اور دم وغیرہ کے مذہبی تصور کے بارے میں مجھ سے کئی لوگ کرتے ہیں ،اور وہ یہ کہ بعض لوگوں کے اس نظریے کی کیا حقیقت ہے کہ  کچھ پڑھ کر پھونکنے اور قرآن سے شفا حاصل کرنے کا تصور جہالت کے سوا کچھ نہیں ، آدمی کو میڈیکل ٹریٹمنٹ کروانا چاہیے اور بس۔

میرے نزدیک یہ دونوں سوالات مذکورہ تناظر میں پائی جانے والی حقیقی مذہبی پوزیشن سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں ، جو مذہب کی بعض باتوں کی غلط تعبیر اور ان کو کلیت کی صورت  میں نہ دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ  مذہب علاج ، مادی اسباب اور دعا و عبادت  دونوں کو برابر اہمیت دیتا ہے۔ ایک کی وجہ سے دوسرے کو ترک کرنے کا نہ صرف یہ کہ حامی نہیں بلکہ مخالف ہے۔ سادہ الفاظ میں وہ کہتا ہے کہ  دعا اور عبادت بھی بھرپور کرو اوردوا اور مادی اسباب اختیار کرنے  میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑو۔یہ تصور فی الواقع یہ تناظر رکھتا ہے کہ   مذہب کے نقطۂ نظر سے انسان کو اپنے کاموں اور کردار کے لیے اس دینا میں تدبیر بہر حال کرنی ہے ، اور تدبیر کی صورتیں مذہب کے نقطۂ نظر سے دو ہیں : ایک دعا اور ایک دوا۔ یوں سمجھیں کہ کسی مصیبت یا بیماری میں پھنسا انسان ایسے  ہی ہے جیسے دریا میں ڈوبتا کوئی شخص ، وہ ہاتھ پیر مارتا ہے کہ کہیں کوئی سہارا مل جائے اور وہ ڈوبنے سے بچ جائے، حتی کہ وہ ایک تنکے کو بھی سہارا بنا لیتا ہے (ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ایسے تو نہیں کہتے)حالانکہ تنکا اس کو بچا نہیں سکتا ، لیکن اپنے حالات کے تناظر میں وہ اس کو بھی اختیار کرتا ہے اور کرنا بھی چاہیے کہ اس کی  پوزیشن ہی ایسی ہے کہ کوئی امکان ہاتھ سے نہ جانے ، جس سے اس کے بچ جانے کی موہوم سی امید بھی  ہو سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح ایک بیمار یا مصیبت زدہ شخص  ہر وہ تدبیر کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور اسے کرنی بھی چاہیے جس سے اس کے اس مصیبت اور بیماری سے نکلنے کی کوئی موہوم امید بھی لگائی جا سکتی ہے۔اور یہ امید جہاں سے لگائی جا سکتی ہے دعا سے بھی لگائی جا سکتی ہے۔ اور مذہب یہی کہتا ہے کہ دونوں سے امید لگاؤ اور دونوں تدبیریں اختیار کرو۔ حضورﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم  اور دیگر اہل تقویٰ  مسلم اسلاف کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ دوا بھی کرتے اور دعا بھی اور اسی کی اپنے ماننے والوں کو ہدایت کرتے۔

ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ  دعا سے بندہ ٹھیک ہوتا ہے تو فلاں  کیوں نہیں ہوا؟ مجھ سے ایک  جاننے والے ڈاکٹر نے  یہی سوال کیا تو میں نے عرض کیا: آپ یہ بتائیں جب آپ کا کوئی مریض قریب المرگ ہوتا ہے اور اس کے  لواحقین امید بھری نظروں سے آپ کی طرف دیکھتے ہیں تو آپ ان کو کیا جواب دیتے ہو ؟ اس نے کہا : کہتے ہیں دعا کرو! میں نے عرض کیا دعا کیوں کرو، اس سے تو آپ کے بقول فائدہ کوئی نہیں ہوتا ، صرف دوائی سے  ہوتا ہے، تو اب اس مریض کو ٹھیک کرو۔  اگر خود ٹھیک نہیں کر سکتے تو کسی اور ماہر ڈاکر سے ٹھیک کرادو ، اس سے بھی نہیں ہوتا تو امریکہ یورپ بھیج دو۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں  کہ بندہ نہ آپ سے بچ سکتا ہے اور نہ یورپ اور امریکہ جا کر۔ تو  آپ کے نظریے سے دیکھیں تو دوا کی حیثیت بھی دعا والی  ہی ہوگی ، یعنی دوا سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا اور بندہ مر گیا۔ کیا یہ بات سمجھانے کو کافی نہیں کہ   شفا دوا میں نہیں ، اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو بندہ مرتا کیوں؟  اب رہا آپ کا یہ سوال کہ دعا سے کون سا مرنے سے بچ جاتا ہے؟ تو بھائی ہم نے کب دعوی کیا اور مذہب نے کہاں کہا کہ دعا کے نتیجے میں بندے کی ہر وقت ہر بیماری ٹھیک ہوگی اور اس کے ذریعے اس کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے! مذہب تو دور کی بات ہے ایک عام سا ان پڑھ مسلمان بھی یہ سمجھتا ہے کہ دعا ہر چیز کا ہر وقت توڑ فراہم کرنے کا نام نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں مذہب کی پوزیشن یہ ہے کہ شفا نہ دوا میں ہے اور نہ دعا میں، بلکہ شفا اللہ کی مشیت میں ہے۔ اللہ چاہے تو دوا سے شفا مل جائے گی اور اگر اللہ چاہیے تو دعا سے مل جائے گی، اللہ چاہے تو دونوں سے مل جائے گی، اللہ چاہے تو کسی ایک سے مل جائے ، اللہ چاہے تو دونوں ہی سے نہ ملے گی۔ بندے کاکام یہ ہے کہ دونوں تدابیر اختیار کرے ۔ یہی اللہ کی بندگی کا فلسفہ ہے۔ ظاہری اسباب بھی اسی کے بنائے ہوئے ہیں اور روحانی و مابعدالطبیعی اسباب بھی اسی  کے فراہم کردہ ہیں، وہ اپنی حکمت کے مطابق ان کو جہاں چاہتا ہے  بروئے کار لاتا ہے۔ایک کی بنا پر دوسرے کو ترک کرنا مذہب کی مخالفت ہے۔ سو دعا کی ضرورت و اثرات کا کلی انکار کرنے والے ملحد یا مذہبی لبرل ہوں  یا  دنیوی اسباب کو نظر انداز کرنے والا خوش عقیدہ مولوی یا اس کے پیروکار دونوں کے رویے کا نتیجہ ایک ہی ہے  ،اور وہ ہے  اس معاملے میں مذہب کی پوزیشن کو غلط سمجھنا اور اس کے ذمے وہ چیز لگانا جس کا وہ روادار نہیں  یا اس سے وہ امید رکھنا جو امید اس نے  دلائی ہی نہیں۔

خلاصہ یہ کہ مذہب کے نقطۂ نظر سے انسان اس دنیا میں آزمایش میں ہے۔ اسے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے گردو پیش کی دنیا سے بھی اچھا اور مثبت تعلق رکھے اور اس کائنات کے ان دیکھے خالق سے بھی ۔تدبیر اور مادی اسباب کو بھی اس حد تک  اختیار کرے جتنی اس کی بساط ہے ،اور  اللہ کی عبادت اور اس سے تعلق بھی مقدور بھر رکھے۔ دونوں کوبھر پور کام میں لانے کے بعد آخری نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے ۔ اس لیے کہ دنیا کا ہرکام اور ہر چیز آدمی کے اختیار میں نہیں، یہ ایسی حقیقت ہے، جس  کاکوئی ملحد انسان بھی انکار نہیں کر سکتا۔ انسان  کا کہیں نہ کہیں بے بس ہونا واضح کرتا  ہے کہ اس دنیا میں  اصل اختیار  آدمی کا اپنا نہیں کسی اور کا ہے۔ سب اختیار آدمی کا ہوتا تو وہ کبھی کسی ارادے میں ناکام نہ ہوتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی طرف منسوب یہ قول بہت معنی خیز ہے کہ میں نے خدا کو اپنے ارداوں کی شکست سے پہچانا ہے۔ اور جو لوگ  مذہب کے معجزاتی عناصر اور اپنے خاص بندوں پر اللہ کی نوازشات کی تاریخ کی روشنی میں یہ مفروضہ قائم کرتے  ہیں کہ کسی نیک شخص اور مقدس جگہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ہر وقت معجز نمائی کے خواہاں رہتے ہیں، وہ خوش عقیدگی میں گویا اللہ کو اپنی خواہشات کا پابند کرنا چاہتے ہیں۔ مذہب دنیا اور دین  دونوں کو اکٹھا لے کر چلتا ہے۔ مذکورہ دونوں نوعیت کے حضرات دو انتہاؤں پر ہیں اور مذہب کی پوزیشن دونوں  کے بین بین ہے۔ اللہ  سے دعا ہے کہ ہمیں  دین کے صحیح فہم و شعور اور اپنی بندگی کی توفیق سے نوازے ۔ آمین۔


مسلم معاشروں میں جدیدیت کی تنفیذ

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

مسلمان ممالک میں سے مصر ، ترکی اور ایران میں جدیدیت کا عمل کیسا رہا   ؟ فائد ہ مند ثابت ہوا یا نقصان دہ ، اس سے کوئی ترقی یا خوشحالی آئی یایہ   تنزل کی طرف گئے   ؟ جدیدیت کو اپنا نا وقت کی ضرورت بن چکا تھا یا اس کو زبردستی ان معاشروں پر تھوپا گیا ؟ ان معاشروں میں آنے والی جدیدیت میں کوئی خامی تھی یا لانے والوں کا طرز عمل اور طریق کار درست نہیں تھا ؟ ان سوالوں کو کیرم آرم سٹرانگ کی کتاب  “The Battle for God “  کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش  کی گئی ہے   ۔یہ کتاب ویسے تو مجموعی طور پر جدیدیت اور قدامت پسندی کی کشمکش کی تصویر کشی کرتی ہے  اور ان سوالوں  کو موضوع بناتی ہے کہ  مختلف معاشروں اور مذاہب میں جدیدیت کے حوالے سے کیا رسپانس رہا  ، اور جدیدیت نے انسانیت کے لیے کیا اچھا اور برا کیا۔ اگر چہ مصنفہ بنیاد پرستی اور مذہب اورخدا کے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کی تاریخ یا ایسی کاوشوں کا ذکرکرنا چاہتی ہیں جو ان ناموں پر کی گئیں تاہم میرے خیال میں انہوں نے اس کتاب میں زیادہ ترجدیدیت اور قدامت کی کشمکش کو ہی موضوع بنایا ہے ۔

یورپ میں جدیدیت کا انقلاب یکدم نہیں آگیا تھا بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کا ارتقاء تھا جبکہ مشرقی معاشروں  میں  جدیدیت کی اقدار کو نافذ کرنے کی کوششوں نے منفیت کو جنم دیا ۔ ان علاقوں کے حکمرانوں نے بزور بازو جدیدیت کو نافذ کرنے کی کوششیں کیں ۔ مغرب میں جدیدیت کا سفر عوام سےحکمرانوں کی طرف ہوا جبکہ ان علاقوں میں جدیدیت کا سفر حکمرانوں سے عوام کی طرف ہورہا تھا اور صرف ہنگامی نوعیت کے چند حالات کی وجہ سے  یہ سب ہورہا تھا۔

مغرب میں جدیدیت کا سفر اقداری سطح پر تھا  ، علوم و فنون، ٹیکنالوجی اور  سائنس میں تھا ، جبکہ ان علاقوں کو  صرف فوجی اور دفاعی  طور پر پرانے طور طریقوں کو بدلنے اور اپنی افواج اور اسلحہ کو مغرب کی طرح نئے طرز  پر ڈھالنے کی ضرورت تھی ۔ جدید ٹیکنالوجی جس کی بدولت مغرب نے دنیا پر قبضہ پایا، ان کو تین صدیاں لگ گئیں تھیں،  لیکن  مسلمان علاقوں کے حکمران  یکدم وہی سب تبدیلی چاہتے تھے ۔

ان علاقوں میں چونکہ لوگ جدیدیت کو قبول کرنا نہیں چاہ رہے تھے بلکہ حکمران اس کے نفاذ کی کوششوں میں تھے، اس لیے لوگوں کے لیے ان کی اصلاحات سے اجنبیت رہی ۔ جدیدیت زدہ معاشروں میں لوگوں نے خود کو اجنبی محسوس کرنا شروع کردیا تھا ۔ ابتدا اگر چہ ایسی ہی تھی تاہم بعد میں حکمرانوں نے جدیدیت کے نفاذ کے لیے ایک طبقے کی باقاعدہ تربیت کی تو معاشرہ جدیدیت اور قدامت پسندی کے حامیوں کی رزم گاہ بن گیا ۔ اس  میں کچھ لوگ جدیدیت کو تمام غموں کی دوا کہتے نظر آئے اور کچھ نے جدیدیت کو اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے زہر قاتل قرار دیا ۔

جدیدیت زدہ معاشرو ں میں لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ دوہری زندگی گزاریں، ایک جدید اور مغربی زندگی اور دوسری اپنی روایتی زندگی ۔ اس دوہرے پن اور دوہری ثقافت نے شناخت کے بحران کو جنم دیا  جس سے تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی مسائل ان معاشروں  میں  پیدا ہوگئے ۔

مغرب میں   بھی جدیدیت کا عمل اتنی آسانی سے  نہیں رونما ہوگیا تھا ،  بلکہ یہ انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوا جس کے لیے خون خرابہ کے علاوہ روحانی خواری بھی اٹھانی پڑی تھی ۔ ایسا نہیں کہ وہاں کشمکش ختم ہوگئی تھی یا ہوگئی ہے بلکہ مختلف ناموں سے کشمکش موجود رہی ہے ۔

مختلف اسلامی ممالک میں جدیدیت کن تجربات سے گزری ، اور اس نے کیا نتائج و اثرات مرتب کیے، ذیل میں تین ملکوں کا اس حوالے سے مطالعہ کرتے ہیں ۔

محمد علی پاشا کو جدید مصر کا بانی کہا جاتاہے ۔ پاشا مصر میں جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا ، بطور عثمانی حکومت کے نمائندے کے آیا اور بعد میں اس کا آزاد والی بن گیا ۔ محمد علی پاشا نے مصر کو جدید طرز پر ڈھالنے  کے حوالے سے جو تبدیلیاں کیں، ان کو دیکھنے سے جدیدیت کا سفر سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ محمد علی پاشا ایک فوجی جرنیل تھا ، مصر میں اس کو برطانیہ اور فرانس کی فوجوں کا مقابلہ تھا اور ساتھ میں مملوکوں سے خطرہ تھا  جن کی یہاں ماضی میں حکومت تھی۔   محمدعلی پاشا نے برطانیہ اور فرانس کی فوجوں ، اسلحہ اور ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہوئے ملک کو جدید خطو ط پر ڈھالنا ضروری سمجھا کیونکہ مصر اور سلطنت عثمانیہ کئی مواقع پر فرانس اور برطانیہ سے بری طرح شکست کھا چکے تھے  ۔ محمد علی کا ارتکاز  چونکہ فوج پر تھا اس لیے جدیدیت براستہ فوج والا معاملہ اپنایاگیا جو کہ مغرب سے بالکل مختلف تھا ۔

محمد علی ٹیکنا لوجی ، تعلیم ، دفاع   اور انتطامی امور کے ان کاموں میں یورپ کی تقلید کررہا تھا جو کہ جذبہ جدید کے سکے کا سیدھا رخ تھے  ۔ لیکن ان تمام معاملات میں اس کو جن افراد کی ضرورت تھی، وہ اس کے پاس نہیں تھے، جن اقدارا ور آزادیوں کی ضرورت تھی، وہ اس کے ملک میں نہیں تھیں۔ اس  کے ملک کے لوگ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، اس نے ایک طرف جبری بھرتیاں کیں تو دوسری طرف اس نے ایسے لوگ تیار کرنے کےلیے سکول و کالجز قائم کیے ۔ محمد علی نے تین صدیوں کا سفر چند سالوں میں کیا اور ایک زبردست اور مضبوط فوج بنائی ۔ اس فوج سے اس نے اردگر د کے علاقوں میں کافی تباہی مچائی اور فتوحات بھی کیں ۔ اس کی فوج ایک مضبوط فوج شمار ہوتی تھی ۔ محمدعلی نے اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا  اور خون کی ہولی کھیلی ۔اس نے جدیدیت کو لانا چاہا، لیکن اس کی جمہوری اقدار ، آزادی اور مساوات کو  یکسر نظر  انداز کردیا ۔

محمد علی کی انتظامیہ و اداروں میں یورپین ، ترکی اور جدیدیت  کے حامل اہلکار بھرتی کیے  جاتے تھے ۔ اس کے تیار شدہ لوگ  مخصوص ذہنیت کے تھے جو قدامت پسندوں سے  مختلف تھے  ۔ یوں قدیم اور جدید کی آویزش نے جنم لیا ۔ محمدعلی کاروبار میں صنعتیں چلانا چاہتا تھا ،ا ن صنعتوں کے لیے جن تربیت یافتہ لوگوں کی ضرورت تھی، وہ بھی یورپ کے یا محمدعلی کے قائم کردہ مخصوص اداروں کے تربیت یافتہ تھے ۔ جدید صنعت نے مقامی  صنعت اور کاریگری کے نظام  کو بہت متاثر کیا ۔ مصر میں دو عد د معاشرے بن چکے تھے، ایک قدامت پسندانہ سوچ جبکہ دوسرا جدیدیت کا حامل تھا ۔ اہل مغرب نے بتدریج چرچ اور ریاست کو جدا کیا تھا جبکہ مصر میں ایک ہی مرتبہ یہ کام کردیا گیا۔ان تمام اقدامات سے یہ عوام اپنے ہی ملک میں اجنبی بن گئے تھے ۔

محمد علی نے مصر میں کپاس کی صنعت کو فروغ دیا اور ملک بھر میں کسانوں کو کپاس کی کاشت پر آمادہ کیا۔ اس کے علاوہ اس نے جدید تعلیمی اداروں، سڑکوں، نہروں اور صنعتوں کا جال بچھا دیا اور اسکندریہ میں بحری جہاز ساز کارخانہ قائم کیا۔اس نے قاہرہ کو جدید بنیادوں پر استوار کیا اور اسے ایک جدید شہر بنایا۔ محمد علی پاشا کی جدیدیت پسندی سے جہاں مصر کو زراعت اور صنعت کے اعتبار سے ترقی ملی، وہیں ترقیاتی کاموں پر اندھا دھند رقم خرچ کرنے سے مصر قرضوں میں جکڑ گیا۔ دیوان مالیہ کے مطابق مصر پر 80 ملین فرانک (2،400،000 پاؤنڈ) قرضہ تھا۔

محمد علی پاشا اور اس کے بعد کے حکمرانوں نے جدیدیت کے تمام تر عمل سے نتیجہ یہی اخذ کیا کہ جدیدیت کا مطلب ہے مغرب کی غلامی ۔ یورپین جس دھوکہ دہی سے دنیا پر قابو پانے کی تگ و دو میں رہتے  تھے اور وسائل کو لوٹتے رہتے تھے، اس  سے یہ سخت دلبرداشتہ ہوئے ۔محمد علی کے   پوتے عباس نے جب یورپ کا رویہ دیکھا تووہ یورپ کی ہر چیز سے نفرت کرتا تھا ، وہ اس نظریے کا حامل تھا کہ مغرب کا مطلب ذلت  ہے۔ محمد علی چونکہ برطانیہ اور فرانس سے معاہدہ کرکے سلطنت عثمانیہ سے آزاد  مصر کا حکمران بنا تھا، اس لیے مصر میں ان ملکوں کی  مداخلت  رہی ۔ بعد میں یہ مداخلت اس قدر بڑھی کہ یہ ملک برطانیہ کی کالونی بن کر رہ گیا ۔برطانیہ کے قبضے کے بعد اس معاشرے میں جدیدیت کا عمل اور بھی بڑھ گیا ۔ افکار و نظریات میں مصر میں جمال الدین افغانی ، شیخ عبدہ ، رشید رضا ، ڈاکٹر طہ حسین ، رفاعہ رافع الطہطاوی جیسے اساطین علم  مذہب اور جدیدیت کے حوالے سے جدید سوالات کو مختلف انداز سے دیکھ رہے تھے ۔ایسا نہیں کہ یہ معاشرے کو جدیدیت کی طرف دھکیل رہے تھے بلکہ یہ جدیدیت سے پیدا شدہ سوالات اور حالات کا رسپانس دے  رہے تھے ۔ سیاسی طور پر  مصر میں اس کے بعد اسلامی سوشلزم اورایسی ہی جدیداصللاحات  کے نام سے  مختلف حکمرانوں نے نظام حکومت چلانا چاہا ۔

سلطنت ترکیہ میں بھی اسی قسم کا عمل دیکھنے میں آیا ۔ترکی میں احمد ویفک پاشا  اور  مصطفی رشید پاشا  جویورپی افکار اور شخصیات سے آشنا تھے ، ان کا یقین تھا کہ سلطنت ترکی اس وقت تک جدید دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور جدید اقوا م میں اعلیٰ مقام حاصل نہیں کرسکتی جب تک یہ جدیدیت کی راہ پر گامزن ہوکر اپنی افواج اور نظام حکومت کو جدید خطوط پر استوار نہیں کرلیتی ۔ سلطنت میں تمام شہریوں کو برابر حیثیت حاصل ہونی چاہیے ، عیسائیوں اور یہودیوں کو اب ذمی نہیں رہنا چاہیے ۔عدالت کے طریق کار میں اصلاح کی گئی اور اس کو فرانسیسی طرز پر ڈھالا گیاا ور شریعہ پس منظر میں چلی گئی ۔  سلطان محمود دوم نے 1826ء میں نئے قوانین متعارف کروادیے ۔ علماء نے ان تمام اصلاحات کی  مخالفت کی کہ اس میں تو ا ن کو اپنے اسلامی ورثے سے محروم ہونا پڑے گا ۔ سلطان سلیم ثالث اور اس کے بعد محمود دوم کا  تمام تر ارتکاز  جدید فوج ، اسلحہ اور ٹیکنالوجی پر تھا جس کے جلو میں دیگر چیزیں بھی آتی چلی گئیں ۔  بعد میں مصطفی کمال پا شا نے بزور بازو اسلامی نظام اور اس کے نشانا ت پر پابندی عائد کی ، خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا  اور سیکولر ترکی کی بنیاد رکھی ۔

ایران بھی جدیدیت کے اسی عمل سے گزرا۔ شہزادہ عباس نے ایک جدید فوج کی ضرورت محسوس کی ۔شاہ عباس نے  ایرانی فوج کو جدید طرز پر مسلح کرنے میں برطانیہ  سے مدد لی۔ ان انگریزوں نے ایران میں توپ سازی کی صنعت شروع کی اور ایرانی افواج کو توپ خانے سے مسلح کر دیا۔ایرانی بعد کے ادوار میں عثمانیوں کے خلاف صف آرا رہے ۔  صفوی دور علمی لحاظ سے بنجر دور نظر آتاہے، لیکن شاہ عباس کے دور میں علم و فن میں قابل قدر ترقی ہوئی ۔ صفوی سلطنت کے بعد قاچار خاندا ن کے مختلف بادشاہوں میں بھی جدیدیت اور قدامت کی کشمکش جاری رہی ۔ جنگ عظیم میں ایران کو جرمنی کا ساتھ دینے پر شکست ہوئی ۔ اس کے بعد پہلوی خاندانی کی حکومت آئی جو کہ مکمل طور پر مغرب کی منظور نظر اور امریکہ کے اشارہ ابرو  پر چلنے والی تھی ۔  اس کے بعد خمینی حکومت بھی اسلامی جدیدیت کا ایک نیا ماڈل تھی جس کی شیعہ روایت میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔  ولایت فقیہ اور ایسے نظریات بالکل نئے تھے جن کا ماضی میں کبھی کہیں وجود نہیں رہا تھا۔

مسلم معاشروں میں کبھی مغربیت اور جدیدیت کے اثر و نفوذ  اور اس کی اقدار کے لیے تشدد کی راہ اپنائی گئی اورکبھی اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اس راہ کو اپنایا گیا ۔ اسی طرح  یہ دونوں طبقات بھی باہمی آویز ش میں رہے ۔ لیکن ان ممالک میں  وہ طبقات جو جدیدیت  کو لانا چاہتےتھے ، انہوں نے بھی اپنا مذہب اسلام ہی ظاہر کیا اور سلطنت میں بھی اسلام کو لانے کی بات اگر کی گئی تو اس سے انکار نہیں کیا ۔ ایران میں تو بعد ازاں اسلامی اسٹیٹ قائم ہوئی ، اسی طرح ترکی میں بھی اسلامسٹوں کی حکومت ہے اور مصر میں بھی ایک سروے کے ذریعے یہی بات سامنے آئی کہ وہ لوگ جو جدیدیت کی بات کرتے ہیں، وہ بھی اسلام یا اسلامی نظام کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور اسلامسٹ بہت سی جدید چیزوں کو بالکل ایسے ہی اپنائے ہوئے ہیں جیسے  وہ اسلام میں منع نہیں ہیں ۔

مصر میں 1982ء میں ایک سروے میں یہ بات آئی کہ پردہ دار خواتین جو کہ قدامت پسند تھیں، ان میں سے اسی فیصد اس نقطہ نظر کی حامل تھیں کہ تعلیم عورتوں کے لیے لازمی ہے ۔ اٹھاسی فیصد پردہ دار خواتین یہ نقطہ نظر رکھتی تھیں کہ عورتوں کو گھروں سے نکل کر ملازمت اختیار کرنی چاہیے اور پردہ دار خواتین میں 77 فیصد کا ذہن تھا کہ عورتوں کو گریجویشن کرنے کے بعد ملازمت اختیار کرلینی چاہیے ۔ یہ مردو زن کے لیے ایک جیسے حقوق کی خواہاں تھیں ، عورتوں کو ریاستی عہدوں پر تعینات ہونا چاہیے ۔ ایک دلچسپ امر یہ تھا کہ پردہ دار خواتین اور مغرب زدہ خواتین دونوں اس امر پر متفق تھیں کہ ملک میں شرعی نظام نافذ ہونا چاہیے ۔

ترکی ، ایران  اور مصر کے حالا ت کے مطالعہ سے یہ بات بآسانی سمجھ آجاتی ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں نے جدیدیت کو جس حدتک قبول کرنے کی ضرورت تھی اس کو قبول کیا ، لیکن اسلام یا اپنی ثقافت سے بے تعلق نہیں  ہوئے تھے ۔ قدامت پسندوں نے جدیدیت کی وہ اقدار جو زمانی تبدیلی کے  تحت لازمی ہوچکی تھیں، ان کو قبول  کیا اور ان سے فائدہ اٹھا کر اپنے حق  میں استعمال کرنا چاہا ۔ اسی طرح جدیدیت کے حامی لوگ بھی اپنی روایت ، مذہب ، ثقافت  سے بے تعلق نہیں ہونا چاہتے، ان سے اگر ملک میں شریعت اور اسلام کے نفاذ کی بات کی جائے تو وہ بھی یہ چاہتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلم ریاستوں کو فلاحی ریاستیں بنانے پر تمام تر زور صرف کیاجاتا جس میں اسلامسٹ اور جدت پسند دونوں  ابھی تک فیل نظر آتے ہیں ۔

یورپ اور مشرق وسطیٰ کی جدیدیت میں فرق کرتے ہوئے مصنفہ  لکھتی ہیں کہ جدیدیت کا تمام تر عمل مشرق وسطیٰ میں یکسر مختلف واقع ہوا تھا ۔ یہ حصول طاقت ، خود مختاری ، اور نئی اختراع کا عمل نہ تھا جیسا کہ یہ یورپ میں ظہور پذیر واقع ہوا تھا بلکہ یہ محرومیت ، خود انحصاری سے دست برداری اور غیر کامل اور غیر معیاری نقالی کا ایک عمل تھا ۔


کرونا وائرس اور ہماری ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کرونا فلو طرز کی ایک وبائی بیماری کو کہا جاتا ہے جس کے وائرس کچھ دنوں قبل چائنہ میں پھیلنا شروع ہوئے اور ان کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک مہلک بیماری ہے جس نے پوری دنیا کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ وبائی بیماریاں دنیا میں مختلف مواقع پر رونما ہوتی آئی ہیں جن کا دائرہ اس سے قبل عام طور پر علاقائی ہوتا تھا، لیکن جوں جوں انسانی سوسائٹی گلوبل ہوتی جا رہی ہے یہ وبائیں بھی گلوبل رخ اختیار کرنے لگی ہیں۔ چنانچہ چائنہ سے شروع ہونے والے کرونا وائرس نے امریکہ، یورپ، مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک کو لپیٹ میں لے لیا ہے اور پاکستان میں بھی تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود اس کے کیسز میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

جہاں تک اس کے اسباب کا تعلق ہے مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں۔ مثلاً یہ امکان بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ جراثیمی جنگ (وائرس وار) کی صورت بھی ہو سکتی ہے اور اب تک ہونے والی جنگوں کے پس منظر میں اس امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ کے کیمیاوی ہتھیاروں کے بعض جنگوں میں استعمال اور بین الاقوامی سطح پر ان ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی کے بعد دفاعی سائنس کے ماحول میں جراثیم کے ذریعے حیاتیاتی جنگ اور وائرس وار کے امکانات کا ذکر سننے میں آرہا ہے اور اس کی تیاری کی خبریں بھی چل رہی ہیں۔ اس لیے کوئی بعید بات نہیں ہے کہ کرونا وائرس بھی اسی کے تجربہ کی کوئی صورت ہو، مگر یہ صرف امکان کے درجہ کی بات ہے جس کی نہ تو تصدیق کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔

اسباب میں ایک بات موسمیاتی تبدیلی بھی ذکر کی جاتی ہے کہ موسموں کا دائرہ اور دورانیہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے، اس کی وجہ کچھ بھی ہو مگر یہ ایک معروضی حقیقت ہے کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں آگے بڑھ رہی ہیں اور ان کے مختلف النوع اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح خوراک میں بے احتیاطی کو بھی ایک سبب بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے جانور اور چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب انسان کے کھانے کی نہیں ہیں، اسی لیے اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں حلال و حرام اور طیب و خبیث کا فرق واضح کیا ہے۔ مگر جہاں سے اس وائرس کا آغاز ہوا ہے وہاں حلال و حرام اور طیب و خبیث کا کوئی فرق موجود نہیں ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ خوراک میں بے احتیاطی اور بے پروائی بھی کرونا وائرس کا سبب ہو سکتی ہے۔

بہرحال اسباب کچھ بھی ہوں کرونا وائرس ایک زندہ حقیقت کے طور پر انسانی معاشرہ میں اپنا وجود اور اثرات منوا رہا ہے اور کرہ ارضی کے ہر خطہ کے لوگ اس سے احتیاط کی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ ایک محفل میں موسمیاتی تبدیلیوں اور کرونا وائرس کے بارے میں مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے ازراہ تفنن عرض کیا کہ اللہ تعالٰی فرما رہے ہیں کہ ’’میری زمین میری مرضی‘‘ جس سے دوست بہت محظوظ ہوئے۔ مگر سنجیدگی کے ماحول میں قرآن و سنت کی روشنی میں دو تین باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔

ایک یہ کہ اللہ تعالٰی وقتاً فوقتاً اس قسم کی صورتحال پیدا کر کے انسانوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ بے شک آپ لوگ اسباب کی دنیا میں رہتے ہیں اور ان اسباب کو اختیار بھی کرتے ہیں مگر اصل قوت یہ اسباب نہیں ہیں، ان کے پیچھے ’’مسبب الاسباب‘‘ اصل قوت ہے جو اسباب کو غیر موثر بھی کر سکتا ہے اور ان کے اثرات کو غیر محدود بھی کر سکتا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس قسم کی صورتحال کو تنبیہ کے انداز میں بیان کیا گیا ہے مثلاً ایک مقام پر بنی اسرائیل کے حوالہ سے ذکر کیا کہ ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک اور خون کو عذاب کے طور پر مسلط کر دیا جس پر وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی خدمت میں آ کر درخواست گزار ہوئے کہ دعا کریں اگر یہ عذاب ٹل جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ قرآن کریم میں ہے کہ حضرت موسٰیؑ کی دعا سے عذاب کی کیفیت تو ختم ہو گئی مگر وہ لوگ ایمان لانے کے وعدہ سے منحرف ہو گئے۔ چنانچہ ایسی صورتحال میں پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کی قدرت اور طاقت پر اپنے ایمان کو پختہ کریں اور اس کی طرف رجوع اور توبہ کریں۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں وبائی صورتحال تھی حتٰی کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت بلالؓ بھی بیمار پڑ گئے اور بے چینی میں وطن کو یاد کرنے لگے۔ اس پر آنحضرتؐ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! مدینہ منورہ سے وبا کی کیفیت کو ختم فرما دے جس پر مدینہ منورہ اس وبائی صورتحال سے محفوظ ہوگیا۔ اس لیے دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ دعاؤں کا اہتمام کریں اور انفرادی و اجتماعی سطح پر دعا، استغفار اور توبہ کو اپنے معمولات کا حصہ بنائیں۔

جبکہ تیسری گزارش یہ ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب بیت المقدس کی فتح کے موقع پر فلسطین تشریف لے گئے تو سرحد پر انہیں بتایا گیا کہ آگے علاقہ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے، آپ بہت سی اہم شخصیات کے ہمراہ وہاں جا رہے ہیں جو خطرہ اور رسک کی بات ہے۔ حضرت عمرؓ نے صحابہ کرامؓ کے مختلف طبقات کے ساتھ مشورہ کے بعد وہاں نہ جانے اور واپسی کا فیصلہ کر لیا جسے سن کر حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے فرمایا کہ میں نے جناب نبی اکرمؐ سے سنا ہے کہ جس علاقے میں کوئی وبائی مرض پھیلا ہوا ہو، باہر سے اس علاقہ میں نہ جائیں، اور نہ ہی وہاں سے باہر آئیں، اس لیے حضرت عمرؓ کا وبائی علاقہ میں نہ جانے کا فیصلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وبائی امراض سے خود بچنے اور لوگوں کو بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ اور سنت نبویؐ ہے جسے پوری طرح اختیار کرنا چاہیے۔



بے اصل فقہی احادیث کی فنی حیثیت اور اصحاب الحدیث کا معتدل اسلوبِ نقد

مولانا محمد عبد اللہ شارق

(زیرِ ترتیب مقالہ ”احادیثِ ہدایہ ۔۔۔ فنی حیثیت اور غیر علمی رویہ“ سے ایک انتخاب)

محدثین کی تخریجات کیا ہیں؟

  کسی حدیث کی سند او رحوالہ تلاش کرنے کے عمل کو ”تخریج“ کہتے ہیں۔ اس عمل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آیا اس حدیث کی کوئی سند ہے بھی یا نہیں، اگر ہے تو وہ کس درجہ کی ہے؟ اس سے حدیث کی فنی پوزیشن واضح ہوجاتی ہے۔ محدثین نے مختلف ادوار میں کئی کتابوں پر مایہ ناز تخریجات لکھیں۔ یہ تخاریج دراصل وہ حواشی ہوتے تھے جو متعلقہ کتاب میں مذکور احادیث کی فنی حیثیت کو واضح کرتے اور مصنف سے کسی بے اصل حدیث کو نقل کرنے میں اگر تساہل ہوگیا تھا تو وہ بھی اس سے واضح ہوجاتا۔ یہ تخریجات محدثین نے خود محدثین کی کتابوں پر بھی لکھیں اور فقہ، تصوف وتفسیر کی کتابوں پر بھی لکھی گئیں۔ مثلا

(۱) ابن عبدالبر نے موطا امام مالک میں بغیر سند کے مذکور ایک سو کے قریب احادیث کی تخریج لکھی ۔

(۲) امام بغوی کی کتاب ”مصابیح السنۃ“ میں مذکور احادیث کی تخریج، جو ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی نے لکھی اور ”مشکوة المصابیح“ کے نام سے معروف ہے۔ ”مصابیح السنۃ“ احادیث کا گراں قدر مجموعہ تھا، لیکن اس میں تمام احادیث بغیر سند اور حوالہ کے مذکور تھیں۔ یہی مجموعہ حوالہ جات کے ساتھ اب ”مشکوة المصابیح“ کے نام سے مشہور ہے۔

(۳)علامہ زمخشری کی تفسیر ”الکشاف“ میں مذکور احادیث کی تخریج، جو امام جمال الدین ابو محمد یوسف بن محمد الزیلعی الحنفی نے لکھی۔

(۴) تصوف کے موضوع پر امام غزالی کی گراں مایہ کتاب ”احیاءالعلوم“ میں مذکور احادیث کی تخریج، جو حافظ ابو الفضل العراقی نے لکھی۔ اس کا نام ہے: ”المغنی عن حمل الاسفار“۔

(۵) فقہِ حنفی کی کتاب ”الہدایہ“ میں مذکور احادیث کی تخریج جو مذکور الصدر امام زیلعی نے ”نصب الرایۃ“ کے نام سے لکھی اور حافظ ابن حجر نے ”الدرایۃ“ کے نام سے اس کی تلخیص کی۔

(۶) فقہِ شافعی کی کتاب ”شرح الوجیز“ میں مذکور احادیث کی تخریج، جو سراج الدین ابن الملقن الشافعی نے ”البدر المنیر“ کے نام سے اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے ”التلخیص الحبیر“ کے نام سے لکھی۔

(۷)قاسم ابن قطلوبغا کی تخریج ”منیۃ الالمعی“ جو دراصل ہدایہ کی ان احادیث کی تخریج ہے جن کا ماخذ امام زیلعی کو نہ مل سکا اور ”نصب الرایۃ“ میں انہوں نے ان کے حوالہ سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ تاہم کچھ احادیث کے بارہ میں ابن قطلوبغا نے غالبا صرف اتنا بتایا ہے کہ ”الہدایہ“ سے پہلے یہ روایت کون کون سی کتبِ فقہ میں نظر آتی ہے۔ اگرچہ یہ علمِ حدیث کے اصولوں کی رو سے کوئی ”معیاری تخریج“ نہیں ہے، تاہم آئندہ ہونے والی گفتگو سے معلوم ہوگا کہ اس قدر تخریج بھی فائدہ سے خالی نہیں۔

  الکشاف، احیاءالعلوم اور الہدایہ جیسی کتابوں میں چونکہ تمام احادیث بغیر سند کے مذکور تھیں، اس لیے ان کی تخریج کرنے کی ضرورت پیش آئی۔  ان تخریجات کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ کسی ایک علمی موضوع کی بہت سے احادیث یکجا ہوگئیں اور ان کی فنی حیثیت بھی واضح ہوگئی۔ یوں تو فقہ وتصوف کی اور بھی بہت سی کتابوں پر تخریجات لکھی گئی ہوں گی،لیکن فقہ پر ”نصب الرایۃ“ اور تصوف پر ”المغنی“ اس لیے زیادہ مشہور ہوئیں کہ ان میں فقہ وتصوف کی بہت سی متعلقہ احادیث پر جامع گفتگو ہوگئی تھی۔ چنانچہ ”نصب الرایۃ“ کو فقہی احادیث اور ”المغنی“ کو احادیثِ تصوف کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاتا ہے کیونکہ ان میں فقہ وتصوف کی ان بہت سی احادیث پر جامع کلام ہوگئی ہے جو عموما فقہاءاور صوفیاءکے ہاں متداول ہیں اور مذاکرہ کا موضوع بنتی ہیں۔

  لطف کی بات یہ ہے کہ ”نصب الرایۃ“کے مصنف امام زیلعی اور ”المغنی“ کے مصنف حافظ عراقی دونوں ہم عصر ہیں، دونوں نے بیک وقت یہ کام کیا اور دونوں کو اس میں ایک دوسرے کی معاونت بھی حاصل رہی۔ (الدررالکامنۃ جلد۳، صفحہ۹۶) فقہ وتصوف کے موضوعات پر لکھی جانے والی بعد کی اکثر تخریجات میں انہی دو حضرات کی تخاریج سے مدد لی جاتی رہی اور یہ ان موضوعات پر ”نقشِ پائے دار“ اور ”نقشِ یادگار“ ثابت ہوئیں۔چنانچہ مثلا ابن الملقن اور ابن حجر باوجود خود ماہرِ فن ہونے کے اپنی مذکورہ تخریجات میں اپنے پیش رو زیلعی کی تحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بے اصل احادیث اور محدثین کا معتدل اسلوبِ نقد

  تخریج کا عمل کرنے والے محدثین کا طریقہ یہ ہے کہ جب انہیں کسی حدیث کا حوالہ نہیں ملتا تو وہ اس پر نقد کے لیے عموما اس طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں: (۱) لم اجدہ (مجھے اس کا کوئی حوالہ نہیں ملا)، (۲) لم یوجد (اس کا کوئی حوالہ نہیں مل سکا)، (۳) لا اعرفہ (میں اس کے ماخذ سے واقف نہیں ہوسکا)، (۴) لم اظفر لہ باسناد (اس کی کوئی سند مجھے نہیں مل سکی)، (۵) لا اصل لہ، (یہ حدیث بے اصل ہے)، وغیرہ وغیرہ یہ سب الفاظ متواضعانہ ہیں اور ان کا معنی کم وبیش یہ ہے کہ مجھے اس حدیث کا کوئی ثبوت نہیں ملا یا اس حدیث کی کوئی سند میرے علم میں نہیں۔ مفہوم اور حاصلِ معنی ان جملوں کا بھی یہی ہوتا ہے کہ سند سامنے آنے تک یہ حدیث غیر مستند سمجھی جائے، مگر صاف الفاظ کی بجائے ذومعنی انداز اختیار کرنا ان کی احتیاط کا غماز ہے، ورنہ کہنے کو تو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث جھوٹ اور من گھڑت ہے۔

  صرف ”لا اصل لہ“ (یہ حدیث بے اصل ہے) کا ایک اسلوب ایسا ہے جس سے قطعیت کا رنگ سا جھلکتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ شاید محدث اس پہ دوٹوک فتوی عائد کررہا ہے،یہی وجہ ہے کہ بعض محدثین نے اس اسلوب پہ اعتراض بھی کیا ہے۔ علامہ کورانی امام سیوطی کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں:

”ومثل ہذا یقول فیہ الحفاظ المتاخرون: لا اصل لہ، والمتورعون یقتصرون علی قولہم: لم نقف علیہ“ (المسلک الوسط الدانی۔ صفحہ۲)

”یعنی” جن حدیثوں کی تخریج نہ ہوسکے، متاخرین ان کے بارہ میں ”بے اصل“ کا لفظ استعمال کردیتے ہیں، ورنہ محتاط محدثین ان کے بارہ میں صرف یہ کہنے پر اکتفاءکرتے ہیں کہ ہم ان کی سند سے آگاہ نہیں ہوسکے۔ (یعنی وہی ”لم اجدہ“ والا اسلوب ہی اختیار کرتے ہیں۔) “

  ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو متاخرین کہیں کہیں ایسی حدیثوں کے لیے ”لااصل لہ“ کا لفظ استعمال کرتے ہیںتو وہ بھی در اصل اسی معنی میں ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کوئی سند اور ”اصل“ میرے علم میں نہیں آسکی، نہ یہ کہ اس کی کوئی سند سرے سے ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جو محدثین ایسی حدیثوں کے لیے کہیں کہیں ”لا اصل لہ“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، وہی محدثین ایسی حدیثوں کے لیے موقع بموقع ”لم اجدہ“ کے الفاظ بھی بکثرت استعمال کرتے نظر آتے ہیں، مثلا ابنِ حجر ہی کی تخریجات کو دیکھ لیجئے۔ ہاں، سیوطی کی عبارت سے البتہ اتنا سمجھا جاسکتا ہے کہ متاخرین کے عمومی طرزِ عمل کے برعکس، محتاط محدثین ”لا اصل لہ“ جیسے ان موہوم الفاظ سے کلی اجتناب کرتے ہیں جن سے غلط تاثر کا کوئی شائبہ بھی پیدا ہوتا ہواور ”لم اجدہ“ جیسے متواضعانہ الفاظ کی ہی وہ مکمل پابندی کرتے ہیں۔

مناظرانہ افراط وتفریط نے اس اعتدال کو کیا رنگ دیا؟

  ا ٓپ نے جانا کہ مذکورہ الفاظ کے ذریعہ کس طرح محدثین بے اصل حدیث کی پوزیشن بھی واضح کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تواضع اور اعتدال کا دامن بھی نہیں چھوڑتے۔ اب جن حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح فقہ وتصوف کی کتابوں میں مذکور بے سند احادیث من وعن قبول کرلی جائیں، وہ کہتے ہیں کہ صاحبِ تخریج محدث نے مذکورہ الفاظ کے ذریعہ صرف اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے، حدیث کو غلط نہیں کہا۔ ان کے مطابق یہ عین ممکن ہے کہ اصل مصنف کے پاس اس کی سند موجود ہو اور حسنِ ظن کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہی گمان رکھا جائے۔ ہمارے نزدیک یہ بات ٹھیک ہے اور ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ بھی اسی حسنِ ظن کے متقاضی ہیں۔مگر اس کا یہ نتیجہ نکالنا ٹھیک نہیں کہ محض اس امکان اور گمان کے زور پر اب وہ حدیث قبول بھی کرلی جائے، کیونکہ اگر انہی امکانات اور حسن ظن کی بناءپر حدیث کو قبول کرنا ہے تو پھر علم الاسناد کی کیا معنویت باقی رہ جاتی ہے؟ محدث کی طرف سے کسی حدیث کے بارہ میں لاعلمی کا اظہار‘ ایک ذومعنی اظہار ہے اس بات کا کہ یہ حدیث باوجود تلاش کے نہیں مل سکی، تلاش جاری رکھی جائے، مگر سند نہ ملنے تک اس کو غیر ثابت ہی سمجھا جائے۔

  آپ اپنے گرد وپیش کے عرف کو دیکھ لیجئے کہ اس اسلوب میں کہی جانے والی بات کا کیا مفہوم لیاجاتا ہے؟ مثلا آپ اپنے معالج سے پوچھتے ہیں کہ کیا چاول کھانے سے قبل پانی پینا نقصان دہ ہے، جس پر وہ کہتا ہے کہ میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں، ذرا سوچئے کہ اس بات کا کیا مطلب لیا جائے گا کہ اگرچہ میرے علم میں نہیں مگر تم اس کو نقصان دہ ہی سمجھو، ظاہر ہے کہ نہیں۔ مذکورہ حضرات نے ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ کے اسلوب کو تو دیکھا ہے، اس کے مقصد، ما فی الضمیراور حاصلِ معنی کو نظر انداز کردیا ہے۔ امام سیوطی نے تصریح کی ہے کہ جب کوئی حافظ الحدیث کسی حدیث کی سند اور اس کے ماخذ کے بارہ میں لاعلمی کا اظہار کردے تو اس سے مقصود اس حدیث کی نفی کرنا ہوتا ہے کہ یہ لائقِ استناد نہیں ۔ (تدریب الراوی۔ صفحہ۲۶۳)اگر اس لاعلمی کے اظہار کا مطلب یہ ہے کہ تم اس حدیث کو اصل میں ثابت ہی سمجھو، خواہ اس کی سند مجھے نہیں ملی تو پھر تخریج کے لیے اس کی ساری محنت ہی لغو ہوجاتی ہے کہ جب حدیث بغیر سند کے علم میں آئے ہی مستند تھی تو اس کی سند تلاش کرنا اور تخریجات لکھنا ایک بے سود کام ہوجاتا ہے۔

  دوسری طرف وہ اینٹی احناف مصنف ہیں جنہوں نے ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ کے حاصلِ معنی پر سارا زور صرف کیا اور ان کے اسلوب کو نظر انداز کردیا۔ چنانچہ انہوں نے پہلے تو ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ کو ”موضوع“ کے ہم معنی وہم پلہ قرار دیا اور پھر ”موضوع“ کا معنی یہ متعین کیا کہ یہ سو فی صد جھوٹ ہے۔ اس لیے جس حدیث کے بارہ میں کوئی محدث ”لم اجدہ“ جیسا لفظ کہہ دے، وہ حدیث ان مصنفین کی نظر میں سو فی صد جھوٹ اور من گھڑت ہے، بلکہ ان کے نزدیک اس کے بارہ میں اس سے زیادہ یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ اس حدیث کو خود نقل کرنے والے مصنف نے خود ایجاد کیا ہے، والعیاذ باللہ۔ محدثین ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ کس تواضع سے استعمال کرتے ہیں، اس کے لیے ”مشکاۃ المصابیح“ کا ایک اقتباس سنئے۔ مشکاة المصابیح کے مصنف نے ”مصابیح السنۃ“ کی تمام احادیث کی مقدور بھر تخریج کی، مگر بعض حدیثوں کی تخریج وہ نہ کرپائے، ایسی حدیثوں کے بارہ میں وہ کہتے ہیں:

”وقلیلا ما تجد اقول: ما وجدت ہذہ الروایة فی کتب الاصول او وجدت خلافہا فیہا فاذا وقفت علیہ فانسب القصور الی لقلة الدرایة ، لا الی جناب الشیخ“ (مشکاة المصابیح۔ صفحہ۱۱)

یعنی ”جب تم دیکھو کہ میں کسی حدیث کے بارہ میں لاعلمی کا اظہار کردوں کہ یہ حدیث بنیادی کتابوں میں مجھے نہیں ملی تو اس کو میرا قصور سمجھو، جنابِ شیخ کا نہیں۔“

  ”لم اجدہ“ اور اس جیسے دوسرے الفاظ کے مفہوم اور اسلوب کو بیک وقت ملحوظ رکھنے سے ہی اس کا صحیح اطلاق سمجھ میں آسکتا ہے۔ اصل میں یہ اطلاق اور اس میں کارفرما اسلوب ومفہوم معمولی شعور سے بھی سمجھ میں آسکتا ہے، مگر طرفین کے افراط وتفریط نے اس کے اصل اطلاق کو دھندلادیا ہے۔

کیا موضوع کا قطعی طور پر جھوٹ ہونا ضروری ہے؟

  ”لم اجدہ“ جیسے اطلاقات کواگر” موضوع“ کے اطلاق کے ہم پلہ بھی فرض کرلیا جائے تو ابنِ حجرنے تصریح فرمائی ہے کہ خود جو حدیث اصطلاحِ حدیث کی رو سے ”موضوع“ ہوتی ہے، اس کا سو فی صد جھوٹ ہونا بھی ضروری نہیں۔ ہم اس بات کو تھوڑا وضاحت سے عرض کرتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ جس حدیث کی سند میں کوئی ایسا راوی ہو جس کے بارہ میں احادیث کے اندر جھوٹ بولنا ثابت ہے تو ایسی حدیث اصطلاحا”موضوع“ کہلاتی ہے اور جس حدیث میں کوئی ایسا راوی ہو جس کے بارہ میں حدیثِ رسول کے اندر تو نہیں، البتہ عمومی معاملات میں جھوٹ بولنا ثابت ہے، تو ایسی حدیث ”متروک“ کہلاتی ہے۔ غور کیجئے ! ”موضوع“ اور ”متروک“ دونوں میں جو نقص آرہا ہے‘ وہ محض اس وجہ سے ہے کہ ان کا راوی جھوٹا اور غیر مستند ہے، اب چونکہ غیر مستند آدمی کی بات بھی غیر مستند ہوتی ہے‘ اس لیے حدیث موضوع اور متروک بھی غیر مستند ہیں‘ مگر یقین سے یہ دعوی کرنا کہ ہر ہر موضوع حدیث قطعی طور پر جھوٹ ہے، یہ ممکن نہیں کیونکہ غیر مستند آدمی کی بات غیر مستند ضرور ہوتی ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس کی ہر بات سو فی صد جھوٹ پہ مبنی بھی ہے اور وہ کبھی سچ بولتا ہی نہیں۔ ہم اسے ناقابلِ اعتماد تو کہہ سکتے ہیں ‘ سو فی صد جھوٹ نہیں کیونکہ جھوٹا آدمی بھی کبھی کبھی سچ اور صحیح بات کہہ دیتا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ اس نے زیرِ غور حدیث میں سچ ہی بیان کیاہو۔اگر محدثین اسے من گھڑت او رجھوٹ کہتے ہیں تو وہ بھی محض غالبِ ظن کی حدتک ہوتا ہے۔چنانچہ ابنِ حجر اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”والحکم علیہ بالوضع انما ہو بطریق الظن الغالب لا بالقطع ‘ اذ قد یصدق الکذوب“ (نزہۃ النظر۔ صفحہ۸۴)

یعنی ”موضوع حدیث کوموضوع اورمن گھڑت کہنے کا معاملہ صرف ظن غالب کی حد تک ہے‘ قطعی اور یقینی طور پر نہیں‘ کیونکہ کبھی کبھی جھوٹا آدمی بھی سچ کہہ دیتا ہے۔“

تاہم چندمستثنیات کا معاملہ اور ہے کہ ان میں بعض اضافی قرائن ان کے سوفیصد جھوٹ ہونے پر دلالت کر رہے ہوتے ہیں۔

  شاید یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر اور ان کے استاد حافظ عراقی اس وقت تک کسی حدیث کو ”موضوع“ نہیں کہتے جب تک کہ (اضافی قرائن کی رشنی میں) اس کا واقعتا موضوع ومن گھڑت ہونا نصف النہار کی طرح واضح نہ ہوجائے اور ایسی احادیث کو اکثر اوقات صرف ضعیف کہنے پر اکتفاءکرتے ہیں جن کی سند میں کوئی کذاب ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ حدیث اصطلاحا ”موضوع“ کہلائی جاسکتی ہے۔ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ سمیت بعض حضرات کی نگاہ چونکہ ابنِ حجر اور عراقی کی احتیاط کے اس پسِ منظر کی طرف نہیں جاسکی، اس لیے انہیں ابنِ حجر اور حافظ عراقی کی یہ عادت قابلِ اشکال محسوس ہوئی ہے (الاجوبۃ الفاضلۃ، مولانا عبد الحی لکھنوی فرنگی محلی، تعلیق: شیخ عبد الفتاح ابو غدہ، صفحہ ۱۲۵، ۱۲۶)، مگر راقم کی رائے میں ابن حجر اور حافظ عراقی کی یہ عادت قابلِ اشکال نہیں، قابلِ تقلید ہے۔

  وجہ یہ کہ جس طرح کسی بات کو آنحضور کی طرف منسوب کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہے، یوں ہی کسی حدیث کی نسبت آنحضور سے بایقین قطع کرنے میں بھی احتیاط درکار ہے اور سند نہ ہونے کی وجہ سے کسی حدیث کا مشتبہ، ناقابلِ قبول اور غیر مستند ہوناایک بات ہے، جبکہ قطعی طور پر آنحضور کا قول نہ ہونا چیزے دیگر۔ بہت سے لوگ جو ”موضوع“ کی اصطلاحی تعریف سے ناواقف ہوتے ہیں اور وہ ”موضوع“ کے لغوی معنی کو دیکھتے ہوئے اس کا مطلب یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ حدیث قطعی طور پر جھوٹ اور من گھڑت ہے۔

زیلعی وابن الملقن کی خاص اصطلاح

  امام زیلعی اور ابن الملقن دو محدث ایسے ہیں جو اپنی تخریجات میں بے اصل احادیث کے لیے ”لم اجدہ“ وغیرہ کی بجائے ”غریب“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور یہ ان کا خاص اسلوب ہے۔ اصل میں یہ اسلوب زیلعی کا ہے اور لگتا ہے کہ ابن الملقن نے انہی کی پیروی کرتے ہوئے یہ اسلوب اختیار کیا۔ ”غریب“ کا لغوی معنی ہے: ”انجان“، ”اجنبی“۔ ایسی حدیث جو محدثین کی کتابوں میں اور ان کی روایات میں نہ ملے، یہ دو حضرات اس کو غریب اس لیے کہتے ہیں کہ وہ جانی پہچانی، معلوم اورمستند احادیث میں سے نہیں۔ دیگر محدثین کے ہاں بھی غریب کا لفظ استعمال ہوتا ہے مگر وہ اس معنی میں نہیں ہوتا۔ اصولِ حدیث میں ”غریب حدیث“ کی اصطلاح اس حدیث کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کو ہر دور میں نقل کرنے والے ایک آدھ لوگ ضرور موجود رہے ہوں، محدثین کے ہاں عام طور پر ”غریب“ کی اصطلاح انہی معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔اس معنی کی رو سے لازم ہے کہ غریب حدیث بے اصل نہ ہو، بلکہ اس کی ایک مکمل سند موجود ہو اور وہ کبھی ضعیف، کبھی حسن اور کبھی صحیح بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کی سند ضرور موجود ہوگی، خواہ اس کے راوی ہر دور میں ایک ایک رہے ہوں اور ایک سے زیادہ نہ ہوں۔ جبکہ زیلعی اور ابن الملقن غریب کی اصطلاح اس حدیث کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کی سرے سے کوئی سند موجود نہ ہو اور نہ ہی کتبِ حدیث میں وہ روایت ملے، بلکہ وہ بے اصل ہو۔

  چونکہ معروف تعریف کی رو سے ”غریب“ وہ حدیث کہلاتی ہے جس کی ایک مکمل سند بہرحال موجود ہو، اس لیے بعض حنفی علماءکو یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ زیلعی جہاں احادیثِ ہدایہ کے لیے غریب کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان کی مراد بھی یہی ہوتی ہے کہ اس کی ایک مکمل سند موجود ہے اور یہ بے اصل نہیں، تاہم یہ بات درست نہیں۔ قاسم بن قطلوبغا نے ”منیۃ الالمعی“ (صفحہ۹، ۰۱) میں اور دیگر دسیوں علماءنے تصریح کی ہے کہ زیلعی اور ابن الملقن ”غریب“ کی اصطلاح کو ”بے اصل“ کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور اس سے ان کی مراد معروف معنی بالکل نہیں ہوتا، زیلعی اور ابن الملقن جہاں یہ لفظ استعمال کرتے ہیں، وہاں پر سیاق وسباق کو دیکھ کر بھی بآسانی یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی مراد اس لفظ سے بے اصل ہی ہے، نہ کہ کچھ اور، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ زیلعی ”نصب الرایۃ“ کے اندر جہاں ”غریب“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، نصب الرایۃ کے تلخیص نگار حافظ ابنِ حجر عسقلانی اس حدیث کے لیے کئی جگہ ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

  مقصود اس گفتگو سے یہ واضح کرنا ہے کہ بے اصل حدیث کے لیے”لم اجدہ“ جیسے الفاظ کی بجائے، بعض محدثین کا ”غریب“ کا لفظ استعمال کرنا بھی باقی الفاظ کی طرح ان کی تواضع او راحتیاط کا مظہر ہے کہ وہ اس کو نامعلوم اور انجانی کہتے ہیں، جھوٹ، بہتان اور من گھڑت نہیں، تاہم دوسری طرف ڈھیلے ڈھالے انداز میں یہ لفظ اس حدیث کی استنادی حیثیت کو بھی واضح کردیتا ہے کہ بے سند، بے ثبوت اور انجان ہونے کی وجہ سے یہ قابلِ استدلال نہیں، جب تک کہ اس کی تخریج نہ ہوجائے۔

بے اصل فقہی احادیث کی فنی حیثیت

  ہدایہ کی بے اصل احادیث کے حوالہ سے برصغیر کے بعض مصنفین نے مناظرانہ اسلوب میں جو لے دے کی ہے، خدا جانے انہیں اس کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی کیونکہ استاذانِ فن ”اصول الحدیث“ آج سے صدیوں قبل اپنی کتابوں میں تصریحا واضح کرچکے ہیں کہ کتبِ فقہ میں مذکور بے اصل احادیث کی فنی حیثیت کیا ہے اور ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہئے، مثلا ابن الصلاح کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:

”قلت: وقول المصنفین من الفقہاءوغیرہم: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کذا وکذا ونحو ذلک کلہ من قبیل المعضل“ (صفحہ۲۸)

یعنی ”فقہاءکا اپنی تصانیف میں کسی حدیث کو بغیر سند کے نقل کرنا اور اسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا بھی معضل ہی کے قبیل سے ہے۔“

  ”معضل“ ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے، اس کو نہ تو موضوع کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ ”موضوع“ کے ہم پلہ ہے، بلکہ غیر مستند اور ضعیف ہونے کے باوجود یہ بہر حال ”موضوع“ سے بہتر درجہ کی حدیث ہے۔ ”معضل“ کی اصل تعریف یہ ہے: ”وہ حدیث جس کی سند میں دو یا دو سے زیادہ راوی لگاتار غائب ہوں۔“ (نزہۃ النظر۔ صفحہ۷۸) چونکہ اب ایسی احادیث جن میں مصنفینِ فقہ اپنے اوپر کسی بھی راوی کا ذکر نہیں کرتے یا بالفاظِ دیگر کسی حدیث کو بلا سند نقل کرتے ہیں، ان پر بھی یہ تعریف صادق آتی ہے، اس لیے انہیں بھی محدثین ”معضل“ کہتے ہیں۔ امام مالک کی موطا میں ایسی احادیث موجود ہیں جو بلا سند ہیں یا نامکمل سند کے ساتھ نقل کی گئی ہیں جنہیں معضلات، مراسیل یا بلاغاتِ مالک کہا جاتا ہے، ان کا حکم بھی معضل والا ہے۔ اسی طرح امام بخاری کی ”الجامع الصحیح“ میں بھی کئی بلا سند احادیث موجود ہیں جنہیں ”تعلیقاتِ بخاری“ کہا جاتا ہے۔ ابن الصلاح نے ان کو بھی معضل کی بحث میں شامل کیا ہے، البتہ ان کے نزدیک ان کا حکم معضل والا نہیں، یعنی یہ ضعیف نہیں بلکہ بوجوہ صحیح ہیں۔ (مقدمہ ابن الصلاح۔ صفحہ ۳۱)

  واضح رہے کہ ابن کثیر نے ”الباعث الحثیث“ (صفحہ۴۳) میں اور امام سیوطی نے ”تدریب الراوی“ (صفحہ۱۸۷) میں بھی فقہاءکی نقل کردہ بے اصل احادیث کے بارہ میں ابن الصلاح کا یہی قول بعینہ نقل کرکے اس کی توثیق کی ہے کہ یہ حکما معضل و ضعیف ہی ہیں اور بس۔ خدا جانے، استادانِ فن کی ان تصریحات کے بعد ہم جیسے طفلانِ مکتب کو ان احادیث کی فنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے ذہنی مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی؟

بے اصل کا معنی ہمیشہ موضوع نہیں ہوتا

  اب ”بے اصل“ کا معنی خود محدثین کی تصریح کے مطابق چونکہ ”بلا سند“ ہے (تدریب الراوی۔ صفحہ۲۶۳) اور بے سند حدیث چونکہ کبھی کبھی معضل ہوتی ہے جیساکہ ابھی بیان ہوا ہے، اس لیے محدثین بعض اوقات معضل کو بھی ”بے اصل“ لکھ دیتے ہیں کیونکہ اس کی بھی ابتدائی راوی کے علاوہ بعض اوقات پوری سند غائب ہوتی ہے۔ عام طور پر چونکہ ”بے اصل“ کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوتا ہے کہ یہ موضوع کی طرح غیر مستند ہے، اس لیے جب کبھی محدثین کسی معضل کو بے اصل لکھ دیں تو بعض لوگ اس کو موضوع ہی ثابت کرنے پر مصر ہوجاتے ہیں حالانکہ وہ حدیث فی الواقع صرف معضل ہوتی ہے اور محدث محض بے سند ہونے کی وجہ سے اسے بے اصل لکھ رہا ہوتا ہے، جبکہ بعض حضرات کو خود اس محدث کا قول ہی قابلِ اعتراض محسوس ہوتا ہے جو ایک ضعیف اور معضل حدیث کو ”بے اصل“ لکھ کر گویا اسے موضوع کہہ رہا ہے، حالانکہ بے اصل کا مطلب صرف ”بے سند“ اور غیر مستند ہے، ضروری نہیں کہ وہ موضوع یا موضوع کے ہم وزن بھی ہو۔

  چنانچہ اس کی ایک مثال موطا امام مالک کی وہ معضل حدیث (رقم۳۳۱) ہے جس کے بارہ میں ابنِ حجر نے ”لا اصل لہ“ (بے اصل) کا لفظ لکھا (فتح الباری۔ جلد۳، صفحہ۱۳۱) اور مولانا زکریا کاندھلوی نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ ابنِ حجر ایک ضعیف حدیث کو ”موضوع“ کیوں لکھ رہے ہیں؟ (اوجز المسالک، جلد۱، صفحہ۳۱۷) مذکورہ وضاحت کی روشنی میں واضح ہے کہ مولانا کاندھلوی کا یہ اعتراض درست نہیں اور ابنِ حجر کا اسے ”بے اصل“ کہنا معضل وضعیف ہی کے معنی میں تھا، نہ کہ موضوع کے معنی میں۔

حدیث صرف تدوینِ حدیث کے زمانہ کی معتبر ہے

  مذکورہ گفتگو پر یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر آج کے دور میں کوئی آدمی بغیر سند کے کوئی ایسی حدیث بیان کرے جو کتبِ حدیث میں مذکور نہیں ہے تو کیا اس کا حکم بھی وہی معضل والا ہوگا؟ جواب ہے کہ نہیں کیونکہ ضعیف، معضل، موضوع اور صحیح کے درجے تدوینِ حدیث کے دور میں بیان ہونے والی احادیث سے متعلق ہیں ، اُس دور کا کوئی آدمی اگر حدیث نقل کرے تو دیکھا جائے گا کہ اصولِ حدیث کی رو سے اِس کا کیا درجہ ہے؟تدوینِ حدیث کا یہ دور ابن المرابط کے بقول چوتھی صدی ہجری تک جاری رہا۔ (فتح المغیث۔ جلد۳، صفحہ۳۵۷) البتہ شیخ عبدالفتاح اپنے جلیل القدر استاد عبداللہ بن الصدیق الغماری سے نقل کرتے ہیں (جس کا خلاصہ ہے) کہ ”تدوینِ حدیث کا یہ سلسلہ پانچویں صدی ہجری کے درمیان تک جاری رہا، جوابو نعیم، ابنِ مندہ اور بیہقی کا زمانہ ہے۔ البتہ پانچویں صدی ہجری کے بعد صرف دو کتابیں ان کی نظر میں ایسی ہیں جن کو تدوینِ حدیث کے مجموعوں میں شمار کرنا چاہئے۔ ان میں ایک ابنِ عساکر کی ”تاریخِ دمشق“ ہے اور دوسری ضیاءمقدسی کی کتاب ”المختارة“ ہے۔ ان دو کتابوں میں سند کے ساتھ چند ایسی نئی روایات بھی نقل کی گئی ہیں جو حدیث کے سابقہ مجموعوں میں نظر نہیں آتیں۔اس کے بعد تدوینِ حدیث کا کام اپنے حتمی انجام کو پہنچا۔“ (حاشیة: الاجوبة الفاضلة، صفحہ۱۴۹، ۱۵٠) تو گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تدوینِ حدیث کا کام تکمیل پذیر ہونے تک کا دور تدوینِ حدیث کا دور ہے۔

  تدوینِ حدیث کا یہ دور مکمل ہوجانے کے بعد اب ضعیف، معضل اور صحیح کے درجے نہیں ہیں، بلکہ بے سند تو کجا، اگر اب سند کے ساتھ بھی کوئی آدمی کوئی ایسی حدیث بیان کرے جو تدوینِ حدیث کے دور کی کتابوں میں نہیں ہے تو اس کا بس ایک ہی حکم ہے کہ وہ غیر مستند، ناقابلِ استدلال اور ناقابلِ التفات ہے۔ ابن الصلاح کی عبارت کا مفہوم ہے:

”تدوینِ حدیث مکمل ہونے کے بعد چونکہ متاخرین میں راویوں کے احوال کو ضبط کرنے اور ان پر نقد وجرح کرنے کا کام پہلے جیسی شان اور ذمہ داری کے ساتھ باقی نہیں رہا، اس لیے اب تمام تر اعتماد تدوینِ شدہ کتابوں پر ہے، اگر کوئی آدمی سند کے ساتھ کوئی ایسی حدیث نقل کرے جو تدوین شدہ کتابوں میں نہیں ملتی تو باوجود سند کے اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔“ (مقدمہ ابن الصلاح۔ صفحہ۵۸)

ہدایہ کی بے اصل احادیث معضل ہیں یا موضوع؟

  الہدایہ کے مصنف علی بن ابی بکر المرغینانی چھٹی صدی ہجری کے آدمی ہیں اور یہ زمانہ تدوینِ حدیث ہی کا آخری زمانہ ہے۔ ۵۱۱ھ میں پیدا ہوکر انہوں نے ۵۹۳ھ میں وفات پائی۔ لہذا ابن الصلاح، ابنِ کثیر اور امام سیوطی کی مذکورہ تصریحات کے مطابق، اب ہدایہ (ودیگر کتبِ فقہ) میں مذکور بے اصل احادیث کی فنی حیثیت کا صحیح تناظر یہی بنتا ہے کہ وہ ”موضوع“ کے ہم پلہ نہیں، بلکہ معضل اور ضعیف ہیں اور محدثین جو ان کے بارہ میں بے اصل کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہ بھی اسی معنی میں ہے، خصوصا جبکہ ان احادیث کا ذکر تیسری اور چوتھی صدی میں لکھی گئی کتبِ فقہ کے اندر بھی (خواہ بغیر سندکے) پایا جاتا ہو۔

  چنانچہ الہدایہ کی ایسی بہت سی احادیث کہ جن کی تخریج عام طور محدثین نہیں کر پائے، وہ امام محمد وغیرہ کی کتب میں (خواہ بغیر سند کے) موجود ہیں جو کہ الہدایہ سے بھی پہلے لکھی گئی ہیں اور امام محمد توخود راویءحدیث بھی ہیں۔ لہذا ایسی احادیث لامحالہ صرف ضعیف ہی ہوں گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے احادیثِ ہدایہ کے بارہ میں لکھے گئے اپنے تنقیدی نوٹ میں یہ تو کہا ہے کہ صاحبِ ہدایہ ضعیف احادیث سے استدلال کرتے ہیں، مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ موضوع احادیث سے بھی استدلال کرتے ہیں۔

ہدایہ کے جوشیلے معتقد اور شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ

  شیخِ محدث کی عبارت یہ ہے:

”در اذہانِ بعض مردم چناں آمدہ کہ مذہبِ امام شافعی موافقِ احادیث است وسلوک طریقہء اقتداء واتباع در مذہبِ ایشان بیشتر است.... وکتابِ ہدایہ کہ در دیار مشہور ومعتبر ترین کتابہا است نیز دریں وہم انداختہ ، چہ مصنفِ وی رحمہ اللہ در اکثر بنائِ کار بر دلیلِ معقول نہادہ و اگر حدیثی آوردہ نزدِ محدثین خالی از ضعفے نہ، غالبا اشتغالِ وقتِ آں استاد در علمِ حدیث کم تر بودہ است،لیکن شرح شیخ ابن الہمام جزاہ اللہ تعالی خیر الجزاءتلافئی آن نمودہ وتحقیقِ کار فرمودہ است“ (شرح سفر السعادة، شیخ عبد الحق محدث دہلوی۔صفحہ ۲۳)

”بعض ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ امام ابوحنیفہ کی نسبت امام شافعی کا مذہب حدیث وسنت سے زیادہ قریب ہے.... کتابِ ہدایہ جو فقہِ حنفی کی شہرہ آفاق اور معتبر ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے، اس نے بھی اس وہم میں ڈال دیا ہے (کہ شاید فقہِ حنفی کی نسبت، فقہِ شافعی حدیث سے زیادہ قریب ہے) کیونکہ اس کے مصنف رحمہ اللہ مسئلہ کو زیادہ تر عقلی دلیل کی بنیاد پر ثابت کرتے ہیں اور اگر کوئی حدیث لے بھی آتے ہیں تو وہ محدثین کے ہاں ضعف سے خالی نہیں ہوتی، غالباعلمِ حدیث سے ان کا تعلق کم رہا تھا، لیکن شیخ ابن الہمام کو اللہ جزائے خیر دے کہ ان کی شرح نے ہدایہ کی اس کمی کی تلافی کردی ہے اور تحقیقِ کار فرمادی ہے۔“

  شیخ محقق نے ہدایہ کے بارہ میں جو تاثر لکھا ہے کہ اس کے اسلوبِ دلیل کی وجہ سے بعض لوگ حنفیت کی نسبت شافعیت کو اتباعِ حدیث کے قریب سمجھنے لگ جاتے ہیں، وہ غلط نہیں اور راقم خود ایک عرصہ تک عملا اس تاثر سے مغلوب رہا۔ شیخِ محقق کے اس اقتباس میں برصغیر کے جوشیلے حنفیوں کے لیے بھی سیکھنے کو کافی کچھ ہے جو ہدایہ کے بارہ میں اعتدال پر مبنی کوئی تبصرہ سن کر بر افروختہ ہوجاتے ہیں اور ان کے نزدیک ہدایہ کی تعظیم کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہدایہ کو ہر قسم کی انسانی کوتاہی سے معری قرار دے کر اس کی شان میں زمین وآسمان کے قلابے نہ ملائے جائیں اور قرآن کی طرح (خواہ مجازی مفہوم ہی میں سہی) اسے ایک معجزہ نہ قرار دے دیا جائے۔ والی اللہ المشتکی!

آخری بات

  ہمارے اس مقالہ کا مقصودِ اصلی ہدایہ کی بے اصل احادیث کو باوقعت ثابت کرنا نہیں، بلکہ صرف یہ واضح کرنا ہے کہ کس طرح ہمارے اسلاف اعتدال کے دائرہ میں رہتے ہوئے علمی معاملات کا ضعف وسقم واضح کرلیتے تھے، جبکہ ہم لوگوں کے لیے یہ کام اعتدال کے دائرہ میں رہتے ہوئے کرنا مشکل وقریب از محال ہوچکا ہے۔ اگر کوئی حدیث ضعیف ہے تو اس کو ضعیف کہئے، اگر کوئی موضوع ہے تو اسے موضوع کہئے اور اگر کسی مصنف سے تساہل ہوا ہے تو اس کو تساہل کہئے، اگر حسنِ ظن کے نمبر اسے دیے جاسکتے ہیں تو اسے وہ دیجئے اور خدا را جو بات جس درجہ کی ہے، اسے اسی درجہ میں رکھتے ہوئے اسلاف کے علمی رویوں کی ترجمانی کیجئے۔ ہمارے اس مقالہ کی صدا یہ نہیں کہ بے اصل احادیث قابلِ استدلال ہیں، نہیں ہرگز نہیں! بلکہ یہ کہ ان احادیث کی پوزیشن کو علمی اسلوب میں واضح کیجئے اور مناظرانہ افراط وتفریط سے احتراز کرتے ہوئے خواہ مخواہ رائی کا پہاڑ نہ بنائیے۔

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۵)

محمد عمار خان ناصر

اسلوب عموم اور تخصیص و زیادت

غامدی صاحب، جیسا کہ واضح کیا گیا، امام شافعی کے اس موقف سے متفق ہیں کہ حدیث، قرآن کی صرف تبیین کر سکتی ہے، اس کے حکم میں تبدیلی نہیں کر سکتی۔ البتہ اس اصول کے انطباق اور تفصیل میں ان کا منہج امام شافعی سے مختلف ہے اور یہ اختلاف بظاہر جزوی ہونے کے باوجود نتائج کے اعتبار سے بہت اہم اور بنیادی ہے۔

امام شافعی کے منہج میں قرآن مجید میں اسلوب عموم کو تخصیص پر محمول کرنے کی درج ذیل تین صورتیں جائز مانی جاتی ہیں:

پہلی یہ کہ کلام کے سیاق وسباق سے تخصیص واضح ہو رہی ہو۔

دوسری یہ کہ حکم کی علت اور معنوی اشارات سے تخصیص اخذ کی جا سکتی ہو یا حکم میں اس کا احتمال نمایاں ہو۔

تیسری یہ کہ ایسی کوئی تخصیص حدیث میں بیان ہوئی ہو، چاہے اس کا کوئی ظاہری قرینہ یا اساس خود قرآن کے حکم میں نہ بتائی جا سکے۔

گویا امام شافعی اس اصول کا انطباق ان صورتوں میں بھی کرتے ہیں جہاں کلام کی تخصیص کے قرائن خود کلام کے سیاق وسباق یا اشارات میں موجود ہوں اور ان صورتوں میں بھی جہاں کلام کی تخصیص احادیث میں بیان ہوئی ہو، اگرچہ خود قرآن کے سیاق وسباق میں اس کا کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو۔ غامدی صاحب ان میں سے پہلی دو صورتوں میں حدیث کے ذریعے سے قرآن کی تخصیص کو درست تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ یہ ان کے نزدیک کلام کی تبیین ہی کی صورتیں ہیں، جب کہ تیسری صورت کو درست نہیں سمجھتے، کیونکہ یہ تبیین کے دائرے سے متجاوز اور نسخ وتغییر کے زمرے میں آتی ہے۔

پہلی صورت سے متعلق غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...امام شافعی نے اپنی کتاب ’’الرسالہ‘‘ میں قرآن کے خاص وعام سے متعلق فرمایا ہے کہ زبان محتمل المعانی ہوتی ہے۔ اُس کے خاص وعام بھی جب کسی کلام کا جزو بن کر آتے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ ہر حال میں اُسی معنی کے لیے آئیں جس کے لیے وہ اصلاً وضع کیے گئے ہیں۔ اللہ کی کتاب اس طرح نازل ہوئی ہے کہ اُس میں لفظ عام ہوتا ہے، مگر اُس سے خاص مراد لیا جاتا ہے اور خاص ہوتا ہے، مگر اُس سے عام مرادلیا جاتا ہے۔ لہٰذا نہ خاص کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مدلول کے لیے قطعی ہے اور نہ عام کے بارے میں کہ وہ اپنے تحت تمام افراد پر لازماً دلالت کرے گا۔ ائمۂ اصول کے ایک گروہ کو اِس سے اختلاف ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ اِس معاملے میں امام شافعی کا نقطۂ نظر ہی صحیح ہے، اِس لیے کہ یہ مجرد لفظ نہیں، بلکہ اُس کا موقع استعمال ہے جو سامع یا قاری کو اُس کے مفہوم سے متعلق کسی حتمی نتیجے تک پہنچاتا ہے۔‘‘ (مقامات ۱۴۱-  ۱۴۲)

بعض انطباقی مثالوں کی روشنی میں اس اصول کو واضح کرتے ہوئے غامدی صاحب نے لکھا ہے:

’’...قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر الفاظ عام ہیں، لیکن سیاق وسباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ اُن سے مراد عام نہیں ہے۔ قرآن ’النَّاس‘ کہتا ہے، لیکن ساری دنیا کا تو کیا ذکر، بارہا اِس سے عرب کے سب لوگ بھی اُس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ وہ  ’عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہ‘ کی تعبیر اختیار کرتا ہے، لیکن اِس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا۔ وہ ’الْمُشْرِكُوْن‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے، لیکن اِسے سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا۔ وہ ’اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ‘ کے الفاظ لاتا ہے، لیکن اِس سے پورے عالم کے اہل کتاب مراد نہیں ہوتے۔ وہ ’الْاِنْسَان‘ کے لفظ سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے، لیکن اِس سے ساری اولاد آدم کا ذکر مقصود نہیں ہوتا۔ یہ قرآن کا عام اسلوب ہے جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح ووضاحت میں متکلم کا منشا بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے، لہٰذا ناگزیر ہے کہ اِس معاملے میں قرآن کے عرف اور اُس کے سیاق وسباق کی حکومت اُس کے الفاظ پر ہر حال میں قائم رکھی جائے۔‘‘ (میزان ۲۳-  ۲۴)

دوسری اور تیسری صورت کے تعلق سے امام شافعی کے ساتھ اپنے اتفاق اور اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’زبان کی یہی نوعیت ہے جس کے پیش نظر قرآن کے علما ومحققین تقاضا کرتے ہیں کہ متکلم کے منشا تک پہنچنا ہو تو محض ظاہر الفاظ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اُن کے باطن کو سمجھ کر حکم لگانا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب الہٰی کی یہی خدمت انجام دی ہے اور اپنے ارشادات سے اُن مضمرات وتضمنات کو واضح کر دیا ہے جن تک رسائی اُن لوگوں کے لیے مشکل ہو سکتی تھی جو لفظ ومعنی کی اِن نزاکتوں کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ امام شافعی بجا طور پر اصرار کرتے ہیں کہ ظاہر الفاظ کی بنیاد پر آپ کی اِس تفہیم وتبیین سے صرف نظر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ قرآن کا بیان ہے، اِس میں کوئی چیز قرآن کے خلاف نہیں ہوتی۔ خدا کا پیغمبر کتاب الہٰی کا تابع ہے۔ وہ اُس کے مدعا کی تبیین کرتا ہے، اُس میں کبھی تغیر وتبدل نہیں کرتا۔ امام اپنی کتاب میں اِس کی مثالیں دیتے اور بار بار متنبہ کرتے ہیں کہ قرآن کے احکام سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے، وہ بیان اور صرف بیان ہے۔ اُسے نہیں مانا جائے گا تو یہ قرآن کی پیروی نہیں، اُس کے حکم سے انحراف ہوگا، اِس لیے کہ اُس کا متکلم وہی چاہتا ہے جو پیغمبر کی تفہیم وتبیین سے واضح ہو رہا ہے، اُس کا منشا اُس سے مختلف نہیں ہے۔

امام شافعی کی اِس بات سے زیادہ سچی بات کیا ہو سکتی ہے! لیکن امام کے استدلال کی کم زوری یہ ہے کہ بیش تر موقعوں پر وہ مبرہن نہیں کر سکے کہ لفظ اور معنی کے جس تعلق کو وہ ’بیان‘سے تعبیر کرتے ہیں، وہ اُن میں پیدا کس طرح ہوتا ہے؟ چنانچہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کی چند ایسی روایتوں پر بھی مطمئن ہو گئے ہیں جنھیں کسی طرح بیان قرار نہیں دیا جا سکتا، دراں حالیکہ اُن کے بارے میں یہ بحث ہو سکتی تھی کہ اُن کے راویوں نے آپ کا مدعا ٹھیک طریقے سے سمجھا اور بیان بھی کیا ہے یا نہیں؟...

ہم نے ’’میزان‘‘ میں کوشش کی ہے کہ امام کے موقف کو پوری طرح مبرہن کر دیں، اِس لیے کہ اصولاً وہ بالکل صحیح ہے۔ … اِس سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ قرآن مجید کے احکام سے متعلق روایتوں میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ اُس کے الفاظ کا مضمر ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تشریحات سے ظاہر کر دیا ہے۔ قرآن کے طالب علموں کو اِس سے لفظ کے باطن میں اتر کر اُس کو سمجھنے کی تربیت حاصل کرنی چاہیے، اِسے رد کر دینے یا اِس سے قرآن کے نسخ پر استدلال کی جسارت نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ (مقامات ۱۴۳- ۱۴۵)

ان توضیحات سے، امام شافعی کے نقطۂ نظر سے غامدی صاحب کا اتفاق اور اختلاف بالکل متعین ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ امام شافعی ایسی صورتوں کا امکان، بلکہ وقوع تسلیم کرتے ہیں جن میں خود قرآن میں کسی حکم کی تخصیص کے قرائن واضح نہ ہوں اور تخصیص کو صرف حدیث میں وارد ہونے کی بنا پر قرآن کی مراد قرار دیا جائے۔ غامدی صاحب کے نزدیک اگر ایسی کوئی صورت بالفرض پائی جاتی ہو تو اصولاً اسے تبیین نہیں کہا جا سکتا اور نتیجتاً قبول بھی نہیں کیا جا سکتا، تاہم ایسی کوئی صورت عملاً پائی نہیں جاتی اور تمام مستند احادیث کا تعلق قرآن سے تبیین کے اصول پر واضح کیا جا سکتا ہے۔ اس بحث میں غامدی صاحب کا اہم ترین اضافہ یہی ہے اور اس نقطۂ نظر کے تحت انھوں نے سنت میں بیان ہونے والے تمام ایسے احکام کا ماخذ، جنھیں فقہا واصولیین قرآن کی تخصیص یا اس پر زیادت کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، خود قرآن مجید میں متعین کیا ہے۔ یہ ’’میزان‘‘ میں اختیار کردہ علمی منہج کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے اور تمام اعتقادی وفقہی نوعیت کے مباحث میں قرآن کے بیانات کے ساتھ احادیث کے تعلق کو واضح کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔

تاہم غامدی صاحب کے منہج میں تفہیم وتوجیہ کا یہ طریقہ یک طرفہ نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہر مثال میں جہاں حدیث، ظاہر کے لحاظ سے قرآن کے بیان سے متجاوز یا اس کے معارض ہو، وہاں قرآن میں اس کے موید قرائن ودلائل تلاش کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس یہ دو طرفہ تعلق ہے اور جہاں بہت سی مثالوں میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ حدیث میں وارد تبیین یا تخصیص وزیادت کی بنیاد خود قرآن میں موجود ہے، وہاں بہت سی مثالوں میں احادیث کی تفہیم قرآن کے مدعا کی روشنی میں اس طرح کی گئی ہے کہ ان کا تجاوز یا تخالف باقی نہ رہے۔

ذیل میں ہم ’’میزان‘‘ سے ان دونوں نوعیت کی اہم مثالوں کی روشنی میں غامدی صاحب کے منہج کی وضاحت کریں گے۔

قرآن مجید میں تبیین یا تخصیص وزیادت کی اساسات

اس نوعیت کی اہم مثالیں حسب ذیل ہیں:

۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے وضو کرتے ہوئے پاؤں کو دھونا ثابت ہے۔ اس پر بظاہر قرآن مجید کی آیت سے اشکال ہوتا ہے جس میں ’فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَي الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَي الْكَعْبَيْنِ ‘ (المائدہ ۵: ۶) کے الفاظ آئے ہیں اور ’اَرْجُلَكُمْ‘ کا عطف اس سے بالکل متصل ’ رُءُوْسَكُمْ ‘ پر ہونے سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ پاؤں کا وظیفہ بھی مسح کرنا ہے۔ غامدی صاحب اس ظاہری احتمال کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’...پاؤں کا حکم، اگرچہ بظاہر خیال ہوتا ہے کہ ’وَامْسَحُوْا‘ کے تحت ہے، لیکن ’اَرْجُلَكُمْ‘ منصوب ہے اور اِس کے بعد ’اِلَي الْكَعْبَيْنِ‘ کے الفاظ ہیں جو پوری قطعیت کے ساتھ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ اِس کا عطف ’اَيْدِيَكُمْ‘ پر ہے، اِس لیے کہ یہ اگر ’بِرُءُ وْسِكُمْ‘ پر ہوتا تو اِس کے ساتھ ’اِلَي الْكَعْبَيْنِ‘  کی قید غیرضروری تھی۔ تیمم میں دیکھ لیجیے کہ جہاں مسح کا حکم دیا گیا ہے، وہاں ’اِلَي الْمَرَافِقِ‘ کی قید اِسی بنا پر ختم کر دی ہے۔ چنانچہ پاؤں لازماً دھوئے جائیں گے۔ آیت میں اِن کا ذکر محض اِس وجہ سے موخر کر دیا گیا ہے کہ وضو میں اعضا کی ترتیب سے متعلق کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو جائے۔‘‘ (البیان  ۱/۵۹۹)

یہی نکتہ امام الحرمین الجوینی اور الکیا الہراسی نے بھی پیش کیا ہے (البرہان فی اصول الفقہ ۱/۵۴۹ ۔  الکیا الہراسی، احکام القرآن ۲/۴۱) اور علمی لحاظ سے اس کی اہمیت یہ ہے کہ عمومی استدلال کی رو سے قرآن مجید کا زیر بحث حکم فی نفسہ ٖصریح نہ ہونے کی وجہ سے محتمل اور قابل تاویل ہے جس کی تفسیر وتفصیل سنت میں کی گئی ہے، جب کہ الجوینی اور غامدی صاحب کے استدلال کے مطابق خود قرآن مجید میں ایک واضح قرینہ موجود ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ’اَرْجُلَكُمْ ‘ کا تعلق کسی بھی طرح ’وَامْسَحُوْا‘ کے ساتھ نہیں ہو سکتا اور اسے ’فَاغْسِلُوْا‘ سے متعلق ماننا ہی بلاغت کلام کا مقتضی ہے۔

۲۔ وضو کرتے ہوئے موزوں پر مسح کرنے کی رخصت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی روایا ت میں ثابت ہے، تاہم قرآن مجید میں پاؤں کو دھونے کے حکم کے تناظر میں یہ روایات صدر اول میں خاصی بحث و نزاع کا موضوع رہی ہیں۔ خوارج نے ان روایات کو قرآن کے خلاف قرار دیتے ہوئے رد کر دیا، جب کہ فقہاے صحابہ میں سے بعض نے یہ راے اختیار کی کہ یہ طریقہ سورۂ مائدہ کی آیت نازل ہونے کے بعد منسوخ ہو چکا ہے۔ جمہور فقہا نے، البتہ اس رخصت کو قرآن کے حکم کی تبیین کے طور پر، جب کہ فقہاے احناف نے سنت مشہورہ سے قرآن کی تخصیص کی مثال کی حیثیت سے قبول کیا۔

غامدی صاحب قرآن مجید میں اس رخصت کا مبناے استنباط، تیمم کے حکم کو قرار دیتے ہیں اور ان کی راے یہ ہے کہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کے اِسی حکم پر قیاس کرتے ہوئے موزوں اور عمامے پر مسح کیا اور لوگوں کو اجازت دی ہے کہ اگر موزے وضو کر کے پہنے ہوں تو اُن کے مقیم ایک شب وروز اور مسافر تین شب وروز کے لیے موزے اتار کر پاؤں دھونے کے بجاے اُن پر مسح کر سکتے ہیں۔‘‘ (میزان ۲۹۰)

۳۔ سورۂ نساء (۴: ۱۰۱) میں سفر کی حالت میں دشمن کے خوف کی صورت میں نماز کو قصرکرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہاں حالت خوف کی قید کی معنویت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہی اہل علم کی توجہ کا موضوع رہی ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رخصت کو حالت خوف تک محدود نہیں رکھا، بلکہ عام اسفار میں بھی اس رخصت پر عمل فرمایا۔ جمہور فقہا نے عموماً اس قید کی توجیہ یہ کی ہے کہ یہ بطور احتراز نہیں، بلکہ اس واقعاتی تناظر میں آئی ہے جس کا اس آیت کے نزول کے وقت مسلمانوں کو سامنا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اسی بات کو واضح فرمایا ہے کہ حالت خوف کی قید، اس رخصت کو صرف اس حالت تک محدود رکھنے کے لیے نہیں ہے۔

غامدی صاحب نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ ابتداء ً تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رخصت حالت خوف ہی کے تناظر میں دی گئی تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیاس واستنباط سے کام لیتے ہوئے اس کی توسیع سفر کے عمومی حالات میں بھی کر دی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس استنباط کی توثیق فرما دی۔ لکھتے ہیں:

’’نماز میں کمی کرنے اور اُسے چلتے ہوئے یا سواری پر پڑھ لینے کی یہ رخصتیں یہاں ’اِنْ خِفْتُمْ‘ کی شرط کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے عام سفروں کی پریشانی، افراتفری اور آپادھاپی کو بھی اِس پر قیاس فرمایا اور اُن میں بالعموم قصر نماز ہی پڑھی ہے۔ اِسی طرح قافلے کو رکنے کی زحمت سے بچانے کے لیے نفل نمازیں بھی سواری پر بیٹھے ہوئے پڑھ لی ہیں۔ سیدنا عمر کا بیان ہے کہ اِس طرح بغیر کسی اندیشے کے نماز قصر کر لینے پر مجھے تعجب ہوا۔ چنانچہ میں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ کی عنایت ہے جو اُس نے تم پر کی ہے، سو اللہ کی اِس عنایت کو قبول کرو۔ … اِس جواب سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس استنباط کی تصویب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہو گئی تھی۔‘‘ (میزان ۳۱۵)

یہی راے اس بحث میں امام طحاوی کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے یہ رخصت اسی قید کے ساتھ دی تھی، لیکن پھر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرتے ہوئے مطلقاً سفر میں نماز قصر کرنے کی اجازت دے دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا عمر سے فرمایا کہ حالت امن میں قصر کرنا اللہ کی طرف سے ایک صدقہ ہے، اسے قبول کرو(تحفۃ الاخیار ۶/۳۰۴)۔

۴۔ احادیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر سفر کی حالت میں دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر کے ادا فرمایا۔ غامدی صاحب کی راے میں یہ تخفیف اس رخصت ہی کی ایک توسیع ہے جو قرآن میں حالت سفر میں نماز کی رکعات کو قصر کرنے کے حوالے سے بیان کی گئی ہے، اس رخصت کا قرینہ قرآن مجید میں واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’نماز میں تخفیف کی اِس اجازت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے اوقات میں تخفیف کا استنباط بھی کیا ہے اور اِس طرح کے سفروں میں ظہر وعصر، اور مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کر کے پڑھائی ہیں۔ … اِس استنباط کا اشارہ خود قرآن میں موجود ہے۔ سورۂ نساء میں یہ حکم جس آیت پر ختم ہوا ہے، اُس میں ’اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا‘ کے الفاظ عربیت کی رو سے تقاضا کرتے ہیں کہ اِن سے پہلے ’اور وقت کی پابندی کرو‘ یا اِس طرح کا کوئی جملہ مقدر سمجھا جائے۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوتی ہے کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کرلیں۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ جب اطمینان میں ہو جاؤ تو پوری نماز پڑھو اور اِس کے لیے مقرر کردہ وقت کی پابندی کرو، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔‘‘ (میزان ۳۱۵-  ۳۱۶)

یہ استنباط اس پہلو سے دل چسپ ہے کہ حنفی فقہا نے، جو حج میں یوم عرفہ کے علاوہ عام سفر میں جمع بین الصلاتین کے قائل نہیں ہیں، قرآن مجید کے مذکورہ جملے کو ہی اس ممانعت کی دلیل بنایا اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ اوقات کی پابندی قرآن مجید کی صریح نص سے ثابت ہے، اس لیے اخبار آحاد کی بنیاد پر اس میں تخصیص نہیں کی جا سکتی (جصاص، شرح مختصر الطحاوی ۲/ ۱٠۱- ۱٠۲)۔ غامدی صاحب نے ’اِنَّ الصَّلٰوۃ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا‘ کے جملے کو سیاق کلام کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے اس کا ایسا محل متعین کیا ہے جس سے یہ جملہ فی نفسہٖ اوقات نماز کی پابندی کا حکم ہونے کے ساتھ ساتھ سیاق کلام میں مضمر اس رخصت پر بھی دال بن جاتا ہے کہ حالت سفر میں نماز کی رکعتوں کے ساتھ ساتھ اس کے اوقات میں بھی قصر کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی نادر اور لطیف استنباط ہے جو ہمارے علم کی حد تک تفسیری وفقہی ذخیرے میں اس سے پہلے نہیں ملتا۔

۵۔ قرآن مجید میں نسبی رشتوں کے ساتھ ساتھ رضاعت کے تعلق سے بھی دو رشتوں، یعنی رضاعی ماں اور رضاعی بہن کو نکاح کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے (النساء ۴: ۲۳)۔ قرآن مجید میں انھی دو رشتوں کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ساتھ رضاعی پھوپھی، رضاعی خالہ، رضاعی بھانجی اور رضاعی بھتیجی وغیرہ کو بھی حرام قرار دیا۔

غامدی صاحب کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد قرآن کے حکم میں کوئی زیادت یا تبدیلی نہیں کرتا، بلکہ اسی علت کی بنیاد پر حکم کی توسیع کرتا ہے جو قرآن کے بیان کردہ دو رشتوں میں پائی جاتی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’...الفاظ وقرائن کی دلالت اور حکم کے عقلی تقاضے جس مفہوم کو آپ سے آپ واضح کر رہے ہوں، اُسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاتا۔ … رضاعی ماں کے ساتھ رضاعی بہن کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ بات اگر رضاعی ماں ہی پر ختم ہو جاتی تو اِس میں بے شک، کسی اضافے کی گنجایش نہ تھی، لیکن رضاعت کا تعلق اگر ساتھ دودھ پینے والی کو بہن بنا دیتا ہے تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ رضاعی ماں کے دوسرے رشتوں کو بھی یہ حرمت لازماً حاصل ہو۔ دودھ پینے میں شراکت کسی عورت کو بہن بنا سکتی ہے تو رضاعی ماں کی بہن کو خالہ، اُس کے شوہر کوباپ، شوہر کی بہن کو پھوپھی اور اُس کی پوتی اور نواسی کو بھتیجی اور بھانجی کیوں نہیں بنا سکتی؟ لہٰذا یہ سب رشتے بھی یقیناً حرام ہیں۔ یہ قرآن کا منشا ہے اور ’اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃ‘ کے الفاظ اِس پر اِس طرح دلالت کرتے ہیں کہ قرآن پر تدبر کرنے والے کسی صاحب علم سے اُس کا یہ منشا کسی طرح مخفی نہیں رہ سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر فرمایا ہے: ...ہر وہ رشتہ جو ولادت کے تعلق سے حرام ہے، رضاعت سے بھی حرام ہو جاتا ہے۔‘‘  (میزان ۴۱۶)

۶۔ قرآن مجید میں حرمت رضاعت کا ذکر کرتے ہوئے مقدار رضاعت کا ذکر نہیں کیا گیا جس سے فقہا کا ایک گروہ یہ اخذ کرتا ہے کہ کم یا زیادہ، کسی بھی مقدار میں بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو دونوں کے مابین حرمت رضاعت متحقق ہو جائے گی اور اسی بنیاد پر وہ مقدار رضاعت کی تحدید بیان کرنے والی روایات کو قرآن کے معارض ہونے کی بنا پر قبول نہیں کرتا۔ غامدی صاحب اس استدلال کو درست نہیں سمجھتے اور اس ضمن میں انھوں نے مولانا امین احسن اصلاحی کا یہ استدلال نقل کیا ہے کہ ’’قرآن نے یہاں جن لفظوں میں اسے بیان کیا ہے، اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ اتفاقی طور پر نہیں، بلکہ اہتمام کے ساتھ ایک مقصد کی حیثیت سے عمل میں آیا ہو، تب اس کا اعتبار ہے۔ اول تو فرمایا ہے: ’’تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہے۔‘‘ پھر اس کے لیے ’رضاعت‘ کالفظ استعمال کیا ہے: ’وَاَخَوٰ تُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃ‘۔ عربی زبان کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ’ارضاع‘ باب افعال سے ہے جس میں فی الجملہ مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی طرح رضاعت کا لفظ بھی اس بات سے ابا کرتا ہے کہ اگر کوئی عورت کسی روتے بچے کو بہلانے کے لیے اپنی چھاتی اس کے منہ میں لگا دے تو یہ رضاعت کہلائے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/۲۷۵)

اس استدلال کی روشنی میں غامدی صاحب ان احادیث کو قرآن ہی کے منشا کا بیان قرار دیتے ہیں جن میں حرمت رضاعت کو بچے کے دودھ پینے کی عمر تک محدود قرار دیا گیا ہے اور اتفاقاً ایک دو گھونٹ پی لینے کو حرمت کا موجب تسلیم نہیں کیا گیا، جب کہ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے منہ بولے بیٹے سالم کے واقعے کو، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سالم کی بلوغت کے بعد ابو حذیفہ کی اہلیہ سے ان کا رشتہ رضاعت قائم کرنے کی اجازت دی، ایک استثنائی واقعے پر محمول کرتے ہیں جس میں ابو حذیفہ کے گھرانے میں پیدا ہو جانے والی ایک مخصوص صورت حال کا حل تجویز کرنا مقصود تھا (میزان ۴۱۵)۔

۷۔ قرآن مجید میں دو عورتوں کو بہ یک وقت ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت کے ضمن میں صرف دو بہنوں کا ذکر کیا گیا ہے، جب کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ممانعت کے دائرے میں پھوپھی اور بھتیجی اور خالہ اور بھانجی کو بھی شامل فرمایا ہے جو بظاہر قرآن کے حکم سے متجاوز ہے۔ غامدی صاحب اس توسیع کو بھی حکم کی علت کا تقاضا اور قرآن ہی کے منشا کا بیان قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں :

’’...قرآن نے ’بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ‘ ہی کہا ہے، لیکن صاف واضح ہے کہ زن وشو کے تعلق میں بہن کے ساتھ بہن کو جمع کرنا اُسے فحش بنا دیتا ہے تو پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو جمع کرنا بھی گویا ماں کے ساتھ بیٹی ہی کو جمع کرنا ہے۔ لہٰذا قرآن کا مدعا، لاریب یہی ہے کہ ’أن تجمعوا بين الأختين وبين المرأۃ وعمتھا وبين المرأۃ وخالتھا‘۔ وہ یہی کہنا چاہتا ہے، لیکن ’بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ‘  کے بعد یہ الفاظ اُس نے اِس لیے حذف کر دیے ہیں کہ مذکور کی دلالت اپنے عقلی اقتضا کے ساتھ اِس محذوف پر ایسی واضح ہے کہ قرآن کے اسلوب سے واقف اُس کا کوئی طالب علم اِس کے سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔‘‘ (میزان ۴۱۸)

۸۔  بنو اسلم کی خاتون سبیعہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا کہ اگر حاملہ عورت بیوہ ہو جائے تو بچے کی پیدایش کے بعد اس کی عدت مکمل ہو جائے گی، یعنی اسے نئے نکاح کے لیے چار ماہ دس دن پورے ہونے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا (بخاری، رقم ۵۳۱۸)۔ تاہم صحابہ وتابعین کا ایک گروہ، مذکورہ روایت کے برخلاف، ظاہر قرآن کی روشنی میں ایسی صورت میں بیوہ کے لیے دونوں عدتیں گزارنے کا پابند سمجھتا تھا۔

غامدی صاحب واضح کرتے ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ فرمایا، وہی حکم کی علت کا تقاضا تھا ۔ ان کی راے کے مطابق عدت کی اصل علت استبراء رحم ہے۔ چونکہ بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دینے کی ہدایت کی گئی جس میں شوہر نے اس سے ہم بستری نہ کی ہو، جب کہ بیوہ کے لیے اس طرح کا کوئی ضابطہ بنانا ممکن نہیں، اس لیے قرآن مجید نے احتیاطاً اس کی عدت کی مدت میں، مطلقہ کے مقابلے میں ایک ماہ دس دن کا اضافہ کر دیا ہے۔ جب دونوں صورتوں میں عدت کی علت ایک ہی ہے تو وضع حمل کی صورت میں حکم کا مقصد بھی دونوں صورتوں میں پورا ہو جاتا ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...مطلقہ اور بیوہ کے لیے عدت کا حکم چونکہ ایک ہی مقصد سے دیا گیا ہے، اِس لیے جو مستثنیات اوپر طلاق کی بحث میں بیان ہوئے ہیں، وہ بیوہ کی عدت میں بھی اِسی طرح ملحوظ ہوں گے۔ چنانچہ بیوہ غیر مدخولہ کے لیے کوئی عدت نہیں ہوگی اور حاملہ کی عدت وضع حمل کے بعد ختم ہو جائے گی۔ بخاری اور مسلم، دونوں کی روایت (رقم ۵۳۱۸، ۳۷۲۳) ہے کہ ایک حاملہ خاتون، سبیعہ رضی اللہ عنہا نے جب اپنا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے یہی فیصلہ فرمایا۔‘‘ (میزان ۴۶۳)

۹۔ قرآن مجید میں بیوہ کی عدت کے احکام بیان کرتے ہوئے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اس سے نکاح کی خواہش رکھنے والے حضرات دوران عدت میں اشارے کنایے میں اپنی خواہش کے ابلاغ سے ہٹ کر تصریحاً اسے نکاح کا پیغام نہ بھیجیں اور اس کے لیے عدت کے مکمل ہونے کا انتظار کریں۔ غامدی صاحب احادیث میں بیوہ کے لیے زیب وزینت اور بناؤ سنگھار کی ممانعت کو قرآن کی اسی ہدایت کی تفریع قرار دیتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی ہدایت سے ’’یہ بات نکلتی ہے کہ زمانۂ عدت میں عورت کا رویہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر عورتوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اگر اپنے مرحوم شوہر کے گھر میں اس کے لیے عدت گزار رہی ہیں تو سوگ کی کیفیت میں گزاریں اور زیب وزینت کی کوئی چیز استعمال نہ کریں‘‘ (میزان ۴۶۴)۔

۱۰۔قرآن کے عام احکام کی تخصیص کے ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم اصول فقہ کے مباحث میں ایک نمایاں مثال کے طور پر زیر بحث رہا ہے کہ مسلمان، کافر کا اور کافر، مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔ غامدی صاحب اس تخصیص کی بنیاد بھی خود قرآن کے حکم میں واضح کرتے ہیں، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ مرنے والے کی میراث میں رشتہ داروں کو حصہ دار قرار دینا منفعت کے اصول پر مبنی ہے اور مختلف حصہ داروں کے حصوں میں باہمی فرق کا اصول بھی منفعت کا کم یا زیادہ ہونا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں اگر کسی خاص صورت میں رشتہ داروں کے مابین منفعت ختم ہو جائے تو اس پر مبنی وراثت کے حکم کو بھی منتفی ہو جانا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر بحث صورت میں اسی اصول کا اطلاق کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’والدین، اولاد، بھائی بہن، میاں بیوی اور دوسرے اقربا کے تعلق میں یہ منفعت بالطبع موجود ہے اور عام حالات میں یہ اِسی بنا پر بغیر کسی تردد کے وارث ٹھیراے جاتے ہیں۔  لیکن اِن میں سے کوئی اگر اپنے مورث کے لیے منفعت کے بجاے سراسر اذیت بن جائے تو حکم کی یہ علت تقاضا کرتی ہے کہ اُسے وراثت سے محروم قرار دیا جائے۔ یہ استثنا، اگر غور کیجیے تو کہیں باہر سے آ کر اِس حکم میں داخل نہیں ہوا، اِس کی ابتدا ہی سے اِس کے ساتھ لگا ہوا ہے، لہٰذا قرآن کا کوئی عالم اگر اِسے بیان کرتا ہے تو یہ ہرگز کوئی تغیر وتبدل نہیں ہے، بلکہ ٹھیک اُس مدعا کی تعبیر ہے جو قرآن کے الفاظ میں مضمر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی کے پیش نظر جزیرہ نماے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ کے بارے میں فرمایا: … ’’نہ مسلمان اِن میں سے کسی کافر کے وارث ہوں گے اور نہ یہ کافر کسی مسلمان کے۔‘‘‘‘ (میزان ۴۰)

قرب منفعت کے اسی اصول کو غامدی صاحب اس حدیث کا بھی ماخذ قرار دیتے ہیں جس میں ترکے سے بچا ہوا مال مرنے والے کے قریب ترین مرد کو دینے کی ہدایت کی گئی ہے، کیونکہ ’’یہ رہنمائی بھی ضمناً اس آیت سے حاصل ہوتی ہے کہ ترکے کا کچھ حصہ اگر بچا ہوا رہ جائے اور مرنے والے نے کسی کو اس کا وارث نہ بنایا ہو تو اسے بھی ’أقرب نفعًا‘ کو ملنا چاہیے‘‘ (میزان ۵۲۵)۔

۱۱۔ اس ضمن کا ایک اہم مسئلہ حلال او رحرام جانوروں کی تعیین سے متعلق قرآن اور حدیث کے بیانات ہیں۔ فقہا کے سامنے یہ سوال ہے کہ قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مقامات پر حرام چیزوں کو صرف چار میں محصور قرار دیا گیا ہے، یعنی مردار، دم مسفوح، خنزیر کا گوشت اور جس جانور کو اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، تاہم احادیث میں ان کے علاوہ بھی بہت سے جانوروں، مثلاً درندوں اور گدھے وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف توجیہات کا ذکر سابقہ مباحث میں کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے ایک معروف توجیہ یہ ہے کہ شریعت میں حرمت کا دائرہ اصولاً وسیع تر ہے اور اس میں مذکورہ چار چیزوں کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ جہاں تک آیت میں حصر کے اسلوب کا تعلق ہے تو وہ حلت وحرمت کے عمومی تناظر میں وارد نہیں ہوا، بلکہ ایک خاص سیاق میں اختیار کیا گیا ہے اور چار کے علاوہ باقی چیزوں کی اباحت بھی اسی خاص دائرے میں مراد ہے۔ چونکہ یہاں حلت وحرمت کا عمومی دائرہ زیر بحث ہی نہیں، جب کہ احادیث میں جن جانوروں کی حرمت کا ذکر ہے، وہ اس عمومی دائرے سے متعلق ہے، اس لیے یہاں قرآن اور حدیث کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔

غامدی صاحب بھی اصولاً اسی نکتے کی روشنی میں زیر بحث تعارض کی توجیہ کرتے ہیں، البتہ آیت میں جس خاص سیاق میں حصر وارد ہوا ہے، اس کی تعیین میں ان کی راے عام فقہی توجیہ سے کسی قدر مختلف ہے۔ امام شافعی اور دیگر اصولیین آیت کا سیاق اس سوال کو قرار دیتے ہیں جو سورۂ انعام میں مشرکین عرب کی خودساختہ حرمتوں کے حوالے سے زیربحث ہے۔ اس توجیہ کے مطابق مشرکین نے اللہ کے حلال کردہ جانوروں میں سے کچھ کو اپنے مشرکانہ تصورات کے تحت اپنی طرف سے حرام قرار دے رکھا تھا اور قرآن مجید نے اسی تناظر میں مذکورہ آیت میں یہ فرمایا ہے کہ جن جانوروں کو تم حرام سمجھتے ہو، اللہ نے ان کو حرام قرار نہیں دیا اور یہ کہ اللہ کی طرف سے خور ونوش کی حرمت صرف ان چار چیزوں تک محدود ہے۔ گویا یہاں عمومی اور کلی تناظر میں حلت و حرمت زیر بحث نہیں، بلکہ چند خاص جانوروں کے حوالے سے مشرکین کی بدعات کی اصلاح اور اصل شرعی حکم کی وضاحت مقصود ہے۔

غامدی صاحب بھی آیت کے حصر کے ایک مخصوص دائرے سے متعلق قرار دیتے اور قرآن کے دائرۂ خطاب اور احادیث کے دائرۂ خطاب کے فرق کو فطرت اور شریعت کے باہمی فرق کی روشنی میں واضح کرتے ہیں۔ ان کی راے میں خور ونوش میں حلت وحرمت سے متعلق انسانوں کو جو اصول اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے، وہ طیبات اور خبائث میں امتیاز ہے۔ پاکیزہ اور طیب چیزیں انسانوں کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں حرام ٹھیرائی گئی ہیں اور اس کی تعیین کے لیے دو ذریعوں سے انسان کی رہنمائی کی گئی ہے؛ ایک فطرت اور دوسرا شریعت۔ فطرت کی رہنمائی کی حیثیت اصل اور اساس کی ہے، جب کہ انبیا کے ذریعے سے دی جانے والی شریعت میں اصلاً ان چیزوں کو موضوع بنایا گیا ہے جن کی حلت یا حرمت کے متعلق صحیح فیصلہ کرنا انسان کے لیے محض اپنی فطرت کی بنیاد پر ممکن نہیں تھا۔ فطری ہدایت اور شرعی ہدایت کے دائرے میں اس فرق کی روشنی میں غامدی صاحب قرآن مجید کی زیر بحث آیا ت کو بیان شریعت قرار دیتے ہیں جہاں صرف مشتبہ چیزوں کی وضاحت مقصود ہے اور گویا جس معاملے میں انسانی عقل اور فطرت حتمی فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی، اس سے متعلق حکم الہٰی کے طور پر ایک پابندی ان پر لازم کی گئی ہے، جب کہ احادیث میں ان کے علاوہ جن بہت سی چیزوں کی حرمت کا ذکر ہوا ہے، غامدی صاحب اسے بیان فطرت کا عنوان دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ابتداء ً ایک حکم شرعی کے طور پر کوئی نئی حرمت بیان نہیں کی گئی، بلکہ بنی نوع انسان اپنی فطرت کی رو سے جن چیزوں کی نجاست اور خباثت سے عموماً واقف رہے ہیں، انھی کی تاکید وتصویب مقصود ہے۔ یوں دائرۂ خطاب کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے آیت اور احادیث میں باہم کوئی تعارض باقی نہیں رہتا۔

غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...انسان کی یہ فطرت بالعموم اُس کی صحیح رہنمائی کرتی اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ اُسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔ اُسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب، سانپ، بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گھوڑے، گدھے، دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اِن جانوروں کے بول وبراز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اُس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اُن کی ایک بڑی تعداد اِس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔ چنانچہ خدا کی شریعت نے بھی اِن جانوروں کی حلت وحرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا، بلکہ صرف یہ بتا کر کہ تمام طیبات حلال اور تمام خبائث حرام ہیں، انسان کو اُس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ شریعت کا موضوع اِس باب میں صرف وہ جانور اور اُن کے متعلقات ہیں جن کے طیب یا خبیث ہونے کا فیصلہ تنہا عقل وفطرت کی رہنمائی میں کر لینا انسان کے لیے ممکن نہ تھا۔‘‘ (میزان ۳۶-  ۳۷)

مزید لکھتے ہیں:

’’بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں اور چنگال والے پرندوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اُسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ اُنھوں نے اِسے بیان فطرت کے بجاے بیان شریعت سمجھا، دراں حالیکہ شریعت کی اُن حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اِس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اِس کی بنیاد پر حدیث سے قرآن کے نسخ یا اُس کے مدعا میں تبدیلی کا کوئی مسئلہ پیدا کیا جائے۔‘‘ (میزان  ۳۸)

۱۲۔ حدیث میں مچھلی اور ٹڈی کی حلت کو بیان کرتے ہوئے ’أحلت لنا ميتتان‘ اور جگر اور تلی کی حلت کو واضح کرنے کے لیے ’دمان‘ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جو بظاہر قرآن مجید کے عام حکم کی تخصیص دکھائی دیتا ہے جس میں مطلقاً خون اور مردار کو حرام کہا گیا ہے۔ تاہم غامدی صاحب واضح کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیث کا قرآن کے ساتھ کوئی تعارض نہیں، کیونکہ قرآن نے ’مَيْتَۃ‘ اور ’دَم‘ کے الفاظ عرفی مفہوم میں استعمال کیے ہیں، جب کہ مچھلی اور ٹڈی کو اس عرفی مفہوم کے لحاظ سے ’مَيْتَۃ‘ نہیں کہا جاتا۔ اسی طرح جگر اور تلی بھی عرفی مفہوم کے لحاظ سے لفظ ’دَم‘ کا مصداق نہیں سمجھے جاتے۔ چنانچہ قرآن نے جس مفہوم میں ’مَيْتَۃ‘ اور ’دَم‘ کو حرام قرار دیا ہے، حدیث میں مذکور چیزیں چونکہ اس کے دائرۂ اطلاق میں ابتداء ً ہی شامل نہیں، اس لیے حدیث میں ان کی حلت کے بیان کو قرآن کے حکم کی تخصیص نہیں کہا جا سکتا (میزان ۴۱)۔ غامدی صاحب نے یہ نکتہ زمخشری کے حوالے سے واضح کیا ہے، جب کہ شاہ ولی اللہ نے بھی اس حدیث کی تشریح اسی نکتے کی روشنی میں کی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/۴۹۲)۔

۱۳۔ قرآن مجید میں چوری کرنے والے کے لیے قطع ید کی سزا مطلق اسلوب میں بیان کی گئی ہے، تاہم احادیث میں اس کے نفاذ کے لیے کئی قسم کے شرائط اور قیود کا ذکر ملتا ہے۔ جمہور فقہا کے موقف کے مطابق، غامدی صاحب بھی ان تخصیصات کو قبول کرتے ہیں اور انھیں قرآن مجید ہی سے مستنبط قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب  کا استدلال یہ ہے کہ ’’عربی زبان کے اسالیب بلاغت سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ یہ صفت کے صیغے ہیں جو وقوع فعل میں اہتمام پر دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کا اطلاق فعل سرقہ کی کسی ایسی ہی نوعیت پر کیا جا سکتا ہے جس کے ارتکاب کو چوری اور جس کے مرتکب کو چور قرار دیا جا سکے‘‘ (میزان ۶۳۰)۔ یوں وہ تمام احادیث قرآن مجید کے اسی مدعا کی توضیح وتبیین کرتی ہیں جن میں معمولی قیمت کی چیز چرانے یا درخت سے بلا اجازت پھل اتار لینے یا بغیر حفاظت کے کسی جگہ پڑا ہوا مال اٹھا لینے یا کسی مجبوری اور اضطرار کی بنا پر چوری کرنے کی صورت میں ہاتھ کاٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ غامدی صاحب کے الفاظ میں ’’یہ سب ناشایستہ افعال ہیں اور ان پر اسے تادیب وتنبیہ ہونی چاہیے، لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کا حکم ان آیات میں بیان ہوا ہے‘‘ (میزان  ۶۳۰)۔

۱۴۔ غامدی صاحب، جمہور فقہا کے مسلک کے مطابق، اس کے قائل ہیں کہ مرنے والے کو ان وارثوں میں سے کسی کے حق میں وصیت کرنے کا حق نہیں جن کے حصے خود قرآن نے متعین کر دیے ہیں۔ اس ضمن میں وہ فقہا کے اس استدلال سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ والدین واقربین کے لیے وصیت کرنے کی جو ہدایت سورۂ بقرہ میں دی گئی تھی، سورۂ نساء میں میراث کا قانون نازل ہو جانے کے بعد وہ منسوخ ہو چکی ہے اور ’’اب کسی مرنے والے کو رشتہ داری کی بنیاد پر اللہ کے ٹھیراے ہوئے وارثوں کے حق میں وصیت کا اختیار باقی نہیں رہا ‘‘ (میزان ۵۲۴)۔ گویا وہ اصولیین کے اس گروہ کی تائید کرتے ہیں جس کے نزدیک ورثا کے لیے حق وصیت کا اصل ناسخ قانون میراث ہے، جب کہ’لا وصيۃ لوارث‘ کی حدیث محض اس کا بیان ہے۔ البتہ غامدی صاحب  کا موقف اس پہلو سے جمہور سے مختلف ہے کہ وہ وصیت کی اس ممانعت کو اس صورت میں قابل اطلاق نہیں سمجھتے جب، رشتہ داری کے عمومی تعلق سے ہٹ کر، وارثوں کی کسی خاص ضرورت کے پیش نظر یا ان کی کسی خدمت کے صلے میں مرنے والا ان کو اپنے ترکے میں سے کچھ دینا چاہے (میزان  ۵۲۴-  ۵۲۵)۔

۱۵۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۸۲ میں قرض کے معاملات میں گواہ مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دو مردوں کو یا اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لیا جائے۔ حنفی فقہا اس نصاب شہادت کی پابندی کو عدالت کے لیے بھی ضروری قرار دیتے ہیں اور اس کی روشنی میں ان روایات کو قبول نہیں کرتے جن کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مقدمات میں ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ غامدی صاحب نے اس ضمن میں مذکورہ حدیث کا تو حوالہ نہیں دیا، تاہم آیت میں مذکورہ ہدایت کی نوعیت کے حوالے سے وہ جمہور فقہا کی اس راے سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں عدالت کے لیے کسی ضابطے کا بیان مقصود نہیں ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...اِس میں عدالت کو مخاطب کرکے یہ بات نہیں کہی گئی کہ اِس طرح کا کوئی مقدمہ اگر پیش کیا جائے تو مدعی سے اِس نصاب کے مطابق گواہ طلب کرو۔ اِس کے مخاطب ادھار کا لین دین کرنے والے ہیں اور اِس میں اُنھیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگر ایک خاص مدت کے لیے اِس طرح کا کوئی معاملہ کریں تو اُس کی دستاویز لکھ لیں اور نزاع اور نقصان سے بچنے کے لیے اُن گواہوں کا انتخاب کریں جو پسندیدہ اخلاق کے حامل، ثقہ، معتبر اور ایمان دار بھی ہوں اور اپنے حالات ومشاغل کے لحاظ سے اِس ذمہ داری کو بہتر طریقے پر پورا بھی کرسکتے ہوں۔  … اِس کے یہ معنی، ظاہر ہے کہ نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتے کہ عدالت میں مقدمہ اُسی وقت ثابت ہوگا، جب کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اُس کے بارے میں گواہی دینے کے لیے آئیں۔‘‘ (میزان ۵۱۶)

ہدایت کی اس نوعیت کے حوالے سے جمہور اہل علم کے موقف اور استدلال کو امام ابن قیم نے ’’اعلام الموقعین‘‘ اور ’’الطرق الحکمیۃ‘‘ میں تفصیل سے واضح کیا ہے۔


مئی ۲۰۲۰ء

کورونا وائرس کی وبا اور مذہبی سوالات / قومی اقلیتی کمیشن میں احمدیوں کی شمولیتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۵)ڈاکٹر محی الدین غازی
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۱۱)مولانا سمیع اللہ سعدی
دعوت ِ دین میں درپیش چیلنجز اور علماءکی ذمہ داریاںڈاکٹر محمد اکرم ورک
قوموں کی سرکشی پر عذاب الٰہیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
عقل و نقل کا تعارض اور تاویل کے لیے امام غزالی کا قانون کلیمحمد زاہد صدیق مغل
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۶)محمد عمار خان ناصر
قادیانیوں کوقومی اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کا فیصلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کورونا وائرس کی وبا اور مذہبی سوالات / قومی اقلیتی کمیشن میں احمدیوں کی شمولیت

محمد عمار خان ناصر

کورونا وائرس  کی حالیہ عالمی وبا کے تناظر میں  مذہبی نوعیت کے بعض اہم سوالات   بھی قومی سطح پر زیر بحث آئے اور مختلف حلقے ان پر اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔ مثلا کیا اس وبا کی نوعیت اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ یا سرزنش  کی ہے یا یہ محض  طبیعی وحیاتیاتی قوانین  کے تحت رونما ہونے والا ایک واقعہ ہے؟ کیا وبائے عام کی صورت حال میں  مساجد میں باجماعت نماز کا نظام  عارضی طور پر معطل یا محدود کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟  اس نوعیت کے فیصلوں میں بنیادی اہمیت  ارباب حل وعقد یا طبی ماہرین  یا علما وفقہا میں  کس کی رائے کو دی جانی  چاہیے؟  پاکستان میں   بطور ایک طبقے کے علماء اور اہل مذہب  کا موقف   عالم اسلام کے دیگر ممالک اور ہندوستان کے  علماء سے بالکل مختلف ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ وغیرہ

آئندہ  سطور میں ہم  مذکورہ سوالات کے حوالے سے  اپنے نقطہ نظر  کی وضاحت کریں گے۔

آفات، بیماریاں اور مشکلات انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی  زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں اور ان کے حوالے سے بساط بھر تدابیر اختیار کرنے  کے علاوہ  ان کی تفہیم کے حوالے سے کوئی زاویہ نظر متعین کرنا بھی انسانی شعور کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔  آفات اور  تکالیف کی تفہیم  کا سوال حیات وکائنات کی مجموعی معنویت کے بڑے سوال سے جڑا ہوا ہے،  اس لیے انسان کا ذہنی رویہ اس کے مذہبی عقیدے     کے زیر اثر    ہی طے ہوتا ہے۔  انسانی فکر اگر حیات وکائنات کے ظہور کو   ناقابل توجیہ اتفاقات  کا  نتیجہ تسلیم کر لے تو  انسانی زندگی اور اس کے تمام مظاہر میں بھی  معنویت  یا مقصدیت کا سوال   بے معنی ہو جاتا ہے، لیکن مذہبی عقیدے کے زیر اثر  اگر  انسانی زندگی کو ایک شعوری اور بامقصد تخلیقی عمل کا حصہ مانا جائے تو  پھر زندگی کے مختلف احوال  کی تفہیم وتوجیہ  کے سوال کو بھی  مذہبی  تصورات اور عقائد سے   الگ کرنا ممکن نہیں رہتا۔   اس وجہ سے آفات ومصائب کی مابعد الطبیعی تفہیم  کا زاویہ نظر مذہب بیزار یا مذہب گریز ذہن کو کتنا ہی غیر منطقی   محسوس ہوتا ہو، مذہبی ذہن کے لیے  وہ اس کے شعوری مسلمات کا ناگزیر  تقاضا ہے  اور  مذہب کا مطالبہ بھی انسان سے یہی ہے کہ وہ زندگی کے روز مرہ اور معمول کے  احوال میں عموما اور غیر معمولی اور ہنگامی نوعیت کے حالات میں خصوصا عبرت اور سبق آموزی کے ان پہلووں کی طرف  اپنی توجہ مرکوز رکھے جو اسے زندگی  اور مقصد زندگی سے متعلق بڑے  حقائق کی یاددہانی کرانے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ مذہب کی اسی تعلیم کی روشنی میں اہل مذہب  اجتماعی آفات کے موقع پر ، ضروری تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ، توبہ واستغفار اور دعا ومناجات کی طرف بھی لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں اور یہ مذہبی  تصور حیات سے ہم آہنگ ایک عین عقلی اور منطقی  رویہ ہے۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ  کیا وبائے عام کی صورت حال میں  ارباب حل وعقد  مسجد میں باجماعت نماز کے سلسلے کو وقتی طور پر معطل یا محدود  کرنے کا  حکم دے سکتے ہیں یا نہیں  تو  ہمارے نزدیک اس ضمن میں  سوال کی تصحیح ضروری ہے۔ یہ سوال  بنیادی طور پر باجماعت نماز سے  لوگوں کو روکنے    کے اختیار کا نہیں،  وبا کے پھیلاو کو روکنے کے لیے لوگوں کی نقل وحرکت اور  اجتماع کو  روکنے کے اختیار کا ہے جس کا ایک نتیجہ، بہت سے دیگر معاشرتی نتائج کے ساتھ، یہ بھی مرتب ہوتا ہے کہ لوگ باجماعت نماز کے لیے مسجد میں جمع نہیں ہو سکتے۔  اس کو مسجد یا باجماعت نماز سے روکنے کے حق سے تعبیر کرنا صورت حال کی  درست ترجمانی نہیں ہے۔   مثلا   وبا ہی کی صورت حال میں  حکومت نے لوگوں کو عام علاج معالجے کے لیے  اسپتال جانے سے روک دیا گیا تاکہ بغیر شدید ضرورت کے، لوگوں کا ہجوم نہ ہو  اور طبی سہولیات زیادہ سنگین نوعیت کے مریضوں کے لیے دستیاب رہیں۔ اب اس کو  اگر یوں تعبیر کیا جائے کہ کیا حکومت کو   یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ لوگوں کو اسپتال جانے یا علاج معالجہ سے روک دے تو  ظاہر ہے، سوال کا یہ زاویہ درست نہیں ہوگا، کیونکہ یہاں سوال دراصل کسی کو علاج سے روکنے  یا باجماعت نماز پڑھنے سے روکنے کا نہیں،   وبا کے شیوع کو روکنے کے لیے  لوگوں کی معمول کی نقل وحرکت کو محدود کرنے کا ہے۔

اس ضروری تصحیح کے بعد  اگلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ ارباب حل وعقد کو  اجتماعی مصلحت کے لیے  لوگوں کی نقل وحرکت اور اجتماع کو محدود کرنے کا جو اختیار حاصل ہے، کیا اس کے استعمال میں  مساجد کا معاملہ  دیگر مقامات  سے مختلف ہے،  یعنی کیا اس دائرے میں حکومتی اختیار    کو بروئے کار لانے پر کچھ  زیادہ سخت شرطیں عائد ہوتی ہیں؟  بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ  مساجد کا معاملہ روز مرہ  سرگرمیوں کے دیگر مراکز سے  مختلف ہے،   اور مساجد  میں آنے جانے کے لیے  ضروری احتیاطی تدابیر  کا پابند بنانے سے آگے بڑھ کر  حکومت باجماعت نماز کے سلسلے کو علی الاطلاق  محدود    نہیں کر سکتی،  البتہ وہ مخصوص افراد کو  مسجد میں جانے سے روک سکتی ہے اور اسی طرح کسی خاص جگہ پر  وبا  کے اثرات کا پایا جانا متحقق ہو جائے تو بھی  احتیاطا اس مخصوص علاقے میں مساجد   میں باجماعت نماز کے سلسلے کو وقتی طور پر معطل یا محدود کر سکتی ہے۔  ہماری رائے میں یہ تفریق  زیادہ مضبوط استدلال پر مبنی نہیں۔    حکومت کے لیے  لوگوں کی نقل وحرکت یا اجتماع پر پابندی  کے اختیار کی بنیاد ، ایک اجتماعی مصلحت کے تحت، وبا کے  پھیلاو کو روکنے کی ذمہ داری پر  ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے  اگر حکومت   وبا  کے پھیلنے کے امکان کے پیش نظر  ، لوگوں کو  باقی  جگہوں پر جمع ہونے سے روک سکتی ہے، چاہے ان مقامات پر اثرات کا پایا جانا یقینی نہ ہو، تو  مسجد میں جمع ہونے سے بھی روک سکتی ہے۔  دوسرے لفظوں میں،  وبا کے یقینی یا امکانی ہونے کی  بنیاد پر مسجد اور  عام مقامات میں فرق   نہیں کیا جا سکتا، یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ باقی جگہوں پر تو امکان کے پیش نظر بھی  جمع ہونے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے، لیکن مسجد میں  پابندی لگانا صرف تب  جائز ہوگا جب یقینی طور پر مسجد کے ارد گرد  کے علاقے  میں وبا کا پایا جانا  متحقق ہو چکا ہو۔ 

یہی نوعیت اس نکتے کی بھی ہے کہ  آیا  حکومت مخصوص افراد یا مخصوص علاقوں  کے علاوہ عمومی طور پر  پورے ملک کی مساجد کے حوالے سے کوئی حکم جاری کر سکتی ہے یا نہیں۔   ظاہر بات ہے کہ یہاں  اصل مسئلہ لوگوں کو اجتماعی عبادت سے روکنے یا نہ روکنے کا نہیں،  وبا کے شیوع کو   محدود رکھنے کا ہے، چنانچہ احتیاطی تدبیر کے جس اصول پر  مخصوص افراد کو یا  مخصوص  علاقوں کی  مساجد کو باجماعت نماز کے  عام معمول سے روکا جا سکتا ہے، اسی اصول پر پورے ملک کی مساجد کو بھی  اس کا پابند کیا جا سکتا ہے۔  بنیادی اہمیت اس کی ہے کہ حکومت کے پاس  وبا سے متعلق کیا معلومات ہیں اور  اس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے وہ کس سطح کے اقدامات کو ضروری یا مناسب خیال کرتی ہے۔  معلومات اور صورت حال کے تجزیے میں یقینا اختلاف  کیا جا سکتا ہے، لیکن اصولی طور پر  اس تفریق کی کوئی مضبوط بنیاد موجود نہیں  کہ  حکومت عام مقامات پر تو  اجتماع پر عمومی پابندی لگا سکتی ہے، لیکن مساجد میں   اس کا اطلاق صرف ضرورت یا استثناء کے دائرے میں کر سکتی ہے۔  باجماعت نماز اور جمعہ کی ادائیگی کی شرعی اہمیت مسلم ہے، لیکن ان فرائض کی ادائیگی میں  دیگر شرعی مصالح کی رعایت بھی ضروری ہے اور خاص طورپر   جمعہ وجماعت کی ادائیگی کو اگر مسجد کے مستقل عملے تک محدود   کر لیا جائے تو  اس میں دینی شعائر کے تسلسل اور احتیاطی تدبیر، دونوں کی پوری رعایت پائی جاتی ہے۔

اس وضاحت سے  اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ ایسے معاملات میں فیصلے کی اتھارٹی کون ہے اور  وبائی امراض کے ماہرین یا علماء میں سے کس کی رائے کو زیادہ اہمیت  حاصل ہونی چاہیے۔  فقہ اسلامی کے اصول اس حوالے سے بالکل واضح ہیں۔  ایسے معاملات جن میں شرعی وفقہی اصول نظری طور پر واضح ہو    اور اصل سوال  صورت واقعہ کی صحیح تعیین کرنا ہو،    ان میں بدیہی طور پر متعلقہ شعبے کے ماہرین کی رائے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جبکہ فیصلے کا حتمی اختیار ارباب حل وعقد کو حاصل ہوتا ہے۔  اسی طرح اگر فقہی  وشرعی حکم کی تعیین  میں علماء کی یا صورت حال کے تجزیے میں متعلقہ شعبے کے ماہرین کی آرا مختلف ہوں تو بھی فیصلے کا  حتمی اختیار  حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ زیر بحث مسئلے میں  طبی ماہرین کی رائے تو  کم وبیش اجماع کے درجے میں  یہ رہی ہے کہ ہر طرح کے اختلاط کو سختی سے روکا جائے،  جبکہ  مسئلے کی شرعی نوعیت کے حوالے سے  واضح شرعی اصولوں کے علاوہ عالم اسلام کے علماء کی اکثریت اور خود پاکستان کے بہت سے معتمد اہل علم  کی رائے یہ ہے کہ  ان حالات میں مساجد کے عام معمولات کو  موقوف کیا جا سکتا ہے ۔   طبی ماہرین کے اندازوں یا حکومتی ذمہ داران کے تجزیوں پر  عملی شواہد کی بنیاد پر  یقینا سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں اور  اس پر ایک مسلسل  بحث چل رہی ہے، لیکن  بطور شرعی اصول کے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ  یہ ایک اجتہادی بحث  ہے جس میں  حتمی فیصلے کا اختیار حکومت کو حاصل ہے اور اس سے  نظری اختلاف  رکھتے ہوئے بھی عملا حکومتی  فیصلے کی پابندی ضروری ہے۔  یہی وجہ ہے کہ جن علماء نے حکومت کی طرف سے لاک ڈاون سے پہلے  واضح طور پر اپنی رائے دی تھی،  حکومتی فیصلے کے بعد انھوں نے بھی عملا اس کی پابندی کی   اور لوگوں سے بھی یہی کہا کہ وہ فیصلے کی پابندی کریں۔

اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی طبقے اور علماء کا موقف  عمومی طور پر   عالم اسلام کے دیگر ممالک کے اہل علم سے مختلف کیوں ہے۔   اس سوال کے جواب میں یہ سمجھنا اہم ہے کہ مذہبی مواقف کی تعیین  میں صرف فقہی وشرعی اصول کارفرما نہیں ہوتے، بلکہ معاشرتی وسیاسی عوامل بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں شناخت پر مبنی سیاست اور حکومت اور مذہبی علماء کے مابین مذہبی معاملات میں اتھارٹی کا سوال، دو ایسے سیاسی عوامل ہیں جو بدیہی طور پر زیربحث اجتہاد پر اثر انداز ہوئے ہیں۔  ایک خاص تاریخی پس منظر میں ریاست اور مذہبی طبقات کے   تعلقات میں باہمی اعتماد  کا عنصر مفقود ہے اور  خاص طور پر  مساجد اور مدارس کے نظام میں حکومتی مداخلت کو مذہبی طبقے اپنے دینی کردار کے لیے ایک  خطرہ تصور کرتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں   یہ حساسیت  اس وجہ سے مزید بڑھ گئی کہ    علماء کو اس مسئلے سے اچانک اور کسی تیاری کے بغیر دوچار ہونا پڑا  اور معمول کے حالات میں ایک سوچا سمجھا موقف طے کرنے کا جو موقع ہوتا ہے، وہ انھیں نہیں مل سکا۔ ہوا یوں کہ ابھی ملکی سطح پر صورت حال پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی کہ پوری دنیا میں مسلم حکومتوں کی طرف سے وہاں کے علماء کی تائید سے لاک ڈاون کا اقدام  کر دیا گیا۔ وبا کی خوف ناکی اور عالم اسلام کے عمومی رجحان کے زیر اثر ہمارے ہاں بھی سوشل میڈیا پر فوری طور پر اس موقف نے عمومی شیوع حاصل کر لیا کہ مساجد کے معمولات معطل کر دینے چاہییں۔

سوئے اتفاق سے اس موقف کی ترجمانی عموما ایسے حلقوں کی طرف سے اور ایسے اسلوب میں کی گئی کہ علماء صورت حال کے تجزیے  کا پورا موقع ملنے سے پہلے ہی ایک طرح سے کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے اور یہ تاثر بن گیا کہ کچھ حلقے جو ویسے ہی مذہب اور مذہبی طبقے سے متنفر یا مذہبی طبقے کے کردار کے ناقد ہیں، اس موقع کو مساجد اور علماء پر دباو ڈالنے اور انھیں کارنر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔  حکومت ویسے ہی سیاسی وانتظامی معاملات میں الجھی ہوئی تھی، اس لیے بروقت علماء سے رابطہ کر کے انھیں اعتماد میں نہیں لے سکی۔ جب کوشش کی بھی تو اس وقت جب کشاکش کا ماحول بن چکا تھا اور اس میں بھی اپنے تئیں بات کا وزن بڑھانے کے لیے ازہر سے فتوی منگوا کر علماء کو قائل کرنا چاہا جو ایک طرح سے ان پر عدم اعتماد کا اظہار تھا۔ یوں چند در چند پہلووں سے علماء کی نظر میں مسئلے کی شرعی وفقہی حیثیت سے زیادہ اس کا سیاسی پہلو اہمیت اختیار کر گیا اور نتیجتا ایک سیاسی انداز ہی کی پوزیشن لینے کی سوچ غالب آ گئی۔ اسی نکتے نے دراصل معاملے کو وہ رخ دے دیا جو ابھی تک قائم ہے۔

اللہ تعالی ٰ سے دعا ہے کہ وہ ان مشکل حالات سے عافیت کے ساتھ نکلنے میں ہماری مدد فرمائے اور  ہمارے ارباب حل وعقد اور تمام طبقات حکمت اور تدبر، باہمی ہمدردی اور قومی  جذبے کے ساتھ دین، ملک وقوم اور انسانیت کے حق میں درست فیصلے کر سکیں۔ آمین

قومی اقلیتی کمیشن میں احمدیوں کی شمولیت

قومی اقلیتی کمیشن میں  بطور غیر مسلم اقلیت، احمدیوں کی شمولیت کے حالیہ حکومتی فیصلے کے تناظر میں  احمدیوں کی آئینی حیثیت کا سوال ایک دفعہ پھر  سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن گیا ہے۔  معروف  مذہبی اسکالر علامہ خلیل الرحمن قادری صاحب نے اس حوالے سے مذہبی حلقوں کے خدشات وتحفظات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’اقلیتوں کے کمیشن میں قادیانی کی شمولیت کے فیصلہ میں بظاہر کوئی حرج نہیں کیونکہ ریاست کی طرف سے آئین کے تتبع میں ایک بار پھر انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے، لیکن عملاً اس سے کئی قباحتیں جنم لیں گی، کیونکہ قادیانیوں نے کبھی بھی خود کو غیر مسلم اقلیت تسلیم نہیں کیا ۔ ان کے اور اہل اسلام کے مابین بہت سی باتیں مشترک ہیں، مثلاً وہ عبادت کی جگہ کو مسجد ہی کہتے ہیں ، نماز ، اذان اور قرآن حکیم کی تلاوت وغیرہ سبھی کچھ اہل اسلام سے مشابہ ہے ۔ اگر چہ ان پر شعائر اسلام کو اپنانے کے حوالے سے قانونی قدغن موجود ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ڈھکے چھپے انداز میں یہ سب کچھ کرتے رہتے ہیں ۔ اگر کوئی قانون کی گرفت میں آ جائے تو وہ مغربی ممالک کا چہیتا بن جاتا ہے اور جلد ( ضمانت پر ) یا مقررہ سزا کاٹنے کے بعد اسے قادیانی کمیونٹی ہیرو سمجھتی ہے۔

ہماری روایتی مذہبی سوچ انہیں زندیق سمجھتی ہے کیونکہ وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود خود کو مسلمان سمجھتے ، کہتے اور کہلواتے ہیں بلکہ اہل اسلام اور غیر مسلموں کو اپنے مسلمان ہونے کا فریب دیتے ہیں ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر از روئے شرع ان کا یہ عمل زندیقیت ہے تو اس کی سزا صرف تین سال قید اور جرمانہ کیوں ہے ؟

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ وہ اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے جب تعزیرات پاکستان کی دفعات 298 اے اور بی کی خلاف ورزی کریں گے تو کیا ان کے خلاف موثر قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی اور کیا اس قانونی کارروائی پر وہ اقلیتوں پر مظالم کی دہائیاں نہیں دیں گے ؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ اقلیتوں کا کمیشن دوسرے اقلیتی مذاہب کی طرح انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ سے کیسے روک سکے گا ؟ اگر ان کے سالانہ جلسے ہوں گے اور وہ اپنے مذہب کے بانی کی یاد منائیں گے تو اہل اسلام اسے کیسے قبول کر پائیں گے ؟

الحاصل قادیانیوں کا معاملہ دیگر اقلیتوں سے یکسر مختلف ہے اور عملی نتائج کے اعتبار سے ان کی اقلیتوں کے کمیشن میں شرکت سے کبھی بھی بہتر نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اول میں جھوٹے مدعیان نبوت کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا تھا ۔ اس فیصلے سے یہ بات تو مکرر ثابت ہو گئی کہ ریاست انہیں غیر مسلم اقلیت ہی سمجھتی ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ریاست ان کے اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے مابین خط امتیاز کیسے کھینچ پائے گی اور ان کے مذہبی حقوق کی پاسداری کیسے کر سکے گی جس سے اسلامیان پاکستان بھی مطمئن ہوں اور قادیانی بھی اپنی حدود سے تجاوز نہ کر پائیں ۔“

ہماری رائے میں علامہ صاحب نے مسئلے کی اصل الجھن کو درست طور پر واضح کیا ہے۔ البتہ ہماری گزارش یہ ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ ریاست نے ازخود نہیں، بلکہ علماء کے مطالبے پر اور ان کی تحریک کے نتیجے میں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ فیصلے کے ان مضمرات پر کیا علماء نے خود بھی غور کیا تھا یا نہیں؟ اور ان کے پاس اس الجھن کا کیا حل ہے؟ بظاہر صورت حال یہ معلوم ہوتی ہے کہ آئینی فیصلے کو نہ احمدیوں نے تسلیم کیا ہے اور نہ آئینی مفہوم میں خود علماء نے، کیونکہ اس فیصلے کے بعد آئینی طور پر احمدیوں کو جو حقوق ملنے چاہییں، علماء وہ انھیں نہیں دینا چاہتے۔ اس کے لیے آئین کو تسلیم نہ کرنے اور غداری کے جس نکتے کو علماء بنیاد بناتے ہیں، وہ آئینی وقانونی طور پر بنیاد نہیں بنتا، کیونکہ قانون کی عملا پابندی ضروری ہوتی ہے، اس کو درست تسلیم کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ آئین کی بعض شقوں اور بہت سے قوانین کو علماء بھی درست تسلیم نہیں کرتے، لیکن اس عدم تسلیم کو آئین شکنی یا غداری نہیں کہا جاتا۔ پس گیند دراصل ریاست کی کورٹ میں نہیں، بلکہ علماء کی کورٹ میں ہے۔ ریاست کی تو آئینی ذمہ داری بھی ہے اور بین الاقوامی قوانین کا بھی اس سے تقاضا ہے کہ وہ آئین کے مطابق احمدیوں کو اقلیتوں کے حقوق دلوائے۔ ہاں، تکفیر کے فیصلے کو کالعدم کرنے کا مطالبہ، ظاہر ہے، نہیں مانا جا سکتا اور نہ ریاست کم سے کم اس وقت اسے مان رہی ہے۔

علماء کو اس مشکل سوال پر سنجیدہ غور کرنا ہوگا کہ   آیا احمدیوں کی  شرعی حیثیت کی تعیین کے  سوال پر ازسرنو غور ہونا چاہیے یا آئینی فیصلے کو اس کی روح کے مطابق مان کر آگے بڑھنا چاہیے؟ ریاست کو اب زیادہ دیر تک چکی کے دو پاٹوں کے درمیان نہیں رکھا جا سکتا۔ اسے اپنا کام کرنا ہے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

سورة الاحزاب کے کچھ مقامات

(۱۹۷) صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا کا ترجمہ عام طور لوگوں نے ”عہد کو سچا کردکھایا ہے“ کیا ہے، اور اس کے بعد قَضَی نَحبَہُ کا ترجمہ بھی ”عہد یا نذر کو پورا کردیا“ کیا ہے۔ اس سے عبارت میں اشکال پیدا ہوجاتا ہے، کہ ایک ہی بات کو دو بار کیوں کہا گیا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا کا ترجمہ کرتے ہیں ”جنھوں نے سچا عہد کیا“ اس طرح مفہوم یہ بنتا ہے کہ اہل ایمان نے جب عہد کیا تو سچے دل سے عہد کیا، اور پھر کچھ نے موقع آنے پر عہد پورا کردکھایا اور کچھ موقع کے منتظر ہیں، اور ان کے عہد کی سچی کیفیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل ترجموں پر غور کریں:

مِنَ المُمِنِینَ رِجَال صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللَّہَ عَلَیہِ فَمِنہُم مَن قَضَی نَحبَہُ وَمِنہُم مَن یَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبدِیلاً۔ (الاحزاب: 23)

”ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی“۔ (سید مودودی)

”مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اہل ایمان میں وہ جانباز بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کردکھایا۔ سو ان میں سے بعض تو اپنا عہد پورا کرچکے ہیں اور بعض منتظر ہیں۔ اور انھوں نے ذرا بھی تبدیلی نہیں کی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اہل ایمان میں وہ جانباز بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے سچا عہد کیا۔ سو ان میں سے بعض تو اپنا عہد پورا کرچکے ہیں اور بعض منتظر ہیں۔ اور انھوں نے ذرا بھی تبدیلی نہیں کی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(۱۹۸)  وَارضًا لَم تَطَئُوہَا کا ترجمہ

وَاورَثَکُم ارضَہُم وَدِیَارَہُم وَاموَالَہُم وَارضًا لَم تَطَئُوہَا۔ (الاحزاب: 27)

درج ذیل ترجمے ملاحظہ کریں:

”اس نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور وہ علاقہ تمہیں دیا جسے تم نے کبھی پامال نہ کیا تھا“۔ (سید مودودی)

”اور اُن کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا اور اس زمین کا جس میں تم نے پاؤں بھی نہیں رکھا تھا تم کو وارث بنا دیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ہم نے تمہارے ہاتھ لگائے ان کی زمین اور ان کے مکان اور ان کے مال اور وہ زمین جس پر تم نے ابھی قدم نہیں رکھا ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور اس نے تمہیں ان کی زمینوں کا اور ان کے گھر بار کا اور ان کے مال کا وارث کر دیا اور اس زمین کا بھی جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

پہلے دونوں ترجموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت جو علاقے مل گئے تھے ان کا ذکر ہورہا ہے، لیکن پھر لَم تَطَئُوہَا کی معنویت سامنے نہیں آپاتی ہے۔ کیوں کہ اس وقت تک تو اسلامی ریاست کے حدود مدینہ اور اس کے نواح تک ہی تھے۔

جب کہ بعد کے دونوں ترجموں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دور دراز علاقوں کو دینے کی بشارت ہے جن تک ابھی اہل اسلام کے قدم بھی نہیں پہنچے ہیں۔ اس مفہوم میں بڑی وسعت ہے اور اس سے لَم تَطَئُوہَا کی معنویت بڑی خوبی کے ساتھ کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

(۱۹۹)    المُحسِنَات کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں المُحسِنَات کا ترجمہ عام طور سے ”نیکو کار“ کیا گیا ہے، لیکن صاحب تدبر نے ”خوبی سے نباہ کرنے والیوں“ کیا ہے، یہ ترجمہ المُحسِنَات کے مفہوم کو بہت محدود کردیتا ہے، اور سیاق کلام سے مطابقت بھی نہیں رکھتا ہے۔ سیاق تو اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو دنیا کی زندگی اور اس کی آرائشوں پر ترجیح دینے کا ہے، اس میں خوبی سے نباہ کی بات ہی نہیں بلکہ پوری زندگی کی بات ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی المُحسِنَات کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں: ”بہترین عمل کرنے والیوں“۔

درج ذیل ترجمے ملاحظہ کریں:

وَاِن کُنتُنَّ تُرِدنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَاِنَّ اللَّہَ اَعَدَّ لِلمُحسِنَاتِ مِنکُنَّ اَجرًا عَظِیمًا۔ (الاحزاب: 29)

”اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کی طالب ہو، تو اطمینان رکھو کہ اللہ نے تم میں سے خوبی سے نباہ کرنے والیوں کے لیے ایک اجر عظیم تیار کر رکھا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کی طالب ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکو کار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے“۔ (سید مودودی)

”اور اگر تم خدا اور اس کے پیغمبر اور عاقبت کے گھر (یعنی بہشت) کی طلبگار ہو تو تم میں جو نیکوکاری کرنے والی ہیں اُن کے لیے خدا نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۲٠٠) فَمَا لَکُم عَلَیہِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدُّونَہَا کا ترجمہ

درج ذیل آیت کے مذکور حصے کے ترجمے ملاحظہ کریں:

فَمَا لَکُم عَلَیہِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدُّونَہَا۔ (الاحزاب: 49)

”تو ان کے بارے میں تم پر کوئی عدت واجب نہیں ہے، جس کا تمھیں لحاظ کرنا ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو“۔ (سید مودودی)

”تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ ان سے عدت پوری کراؤ“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو“۔ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”تمہارے لیے ان پر کوئی عدت واجب نہیں ہے جسے تم شمار کرو“۔

بعض ترجموں سے لگتا ہے کہ عدت مرد پر واجب ہوتی ہے، بعض سے لگتا ہے کہ عدت مرد کا کوئی حق یا اختیار ہے، بعض سے لگتا ہے کہ عورت پر عدت مرد کی طرف سے واجب ہوتی ہے۔

حقیقت میں عدت گزارنا عورت پر واجب ہوتا ہے، اور اس کا مقصد مرد سے وابستہ ہوتا ہے، کہ طلاق دینے والا عدت کے دوران رجوع کرسکتا ہے، اور نکاح کرنے والا عدت کے بعد ہی کسی مطلقہ خاتون سے نکاح کرسکتا ہے۔ یہ آیت اسی سلسلے میں رہنمائی دیتی ہے۔

(۲٠۱) مَا مَلَکَت اَیمَانُہُنَّ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں مَا مَلَکَت اَیمَانُہُنَّ کا ترجمہ متعدد مترجمین نے لونڈیوں یا کنیزوں کیا ہے، یہاں آیت کے الفاظ عام ہیں، اور سیاق پردے کا ہے۔ یوں تو اہل تفسیر اور اہل فقہ میں اس پر اختلاف ہے کہ یہاں صرف عورت مملوک یعنی کنیزیں اور لونڈیاں مراد ہیں یا عام مملوک مراد ہیں جن میں مرد عورتیں دونوں شامل ہیں۔ لیکن اگر ہم اسی مضمون کی آیت جو سورة نور میں آئی ہے اس کے ترجموں کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ تفسیری اختلاف کا نہیں بلکہ ترجمے میں تساہل ہوجانے کا بھی ہے، کیوں کہ بعض مترجمین نے اس مقام پر تو ترجمہ کنیزوں اور لونڈیوں کا کیا، مگر سورہ نور والی آیت کے ترجمہ میں کنیزوں اور غلاموں دونوں کو شامل کرلیا۔ دونوں مقامات کے درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

لَا جُنَاحَ عَلَیہِنَّ فِی آبَائِہِنَّ وَلَا اَبنَائِہِنَّ وَلَا اِخوَانِہِنَّ وَلَا اَبنَاء اِخوَانِہِنَّ وَلَا اَبنَاء اَخَوَاتِہِنَّ وَلَا نِسَائِہِنَّ وَلَا مَا مَلَکَت اَیمَانُہُنَّ۔ (الاحزاب: 55)

”ان پر مضائقہ نہیں ان کے باپ اور بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنے دین کی عورتوں اور اپنی کنیزوں میں اور اللہ سے ڈرتی ہو، بیشک اللہ ہر چیز اللہ کے سامنے ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور نہ لونڈیوں سے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ان کی مملوکہ کنیزیں“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور اپنی کنیزوں کے سامنے آئیں“۔ (جوادی)

”اور ملکیت کے ماتحتوں (لونڈی، غلام) کے سامنے ہوں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ان کے مملوک گھروں میں آئیں“۔ (سید مودودی)

وَقُل لِلمُومِنَاتِ یَغضُضنَ مِن اَبصَارِہِنَّ وَیَحفَظنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبدِینَ زِینَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنہَا وَلیَضرِبنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبدِینَ زِینَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ اَو آبَائِہِنَّ اَو آبَاء بُعُولَتِہِنَّ اَو اَبنَائِہِنَّ اَو ابنَاء بُعُولَتِہِنَّ او اِخوَانِہِنَّ اَو بَنِی اِخوَانِہِنَّ اَو بَنِی اَخَوَاتِہِنَّ اَو نِسَائِہِنَّ اَو مَا مَلَکَت اَیمَانُہُنَّ۔ (النور: 31)

”اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی ملک ہوں“۔ (احمد رضا خان)

” یا غلاموں کے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”یا اپنے غلاموں یا لونڈیوں کے“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور اپنے غلام اور کنیزوں“۔ (جوادی)

”یا اپنے مملوکوں کے سامنے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”ا پنے مملوک“۔ (سید مودودی)

(۲۰۲)   لَقَد  کَانَ لَکُم کا ترجمہ

قد کان عام طور سے تو ماضی کے لیے آتا ہے، اور اس کی قرآن مجید میں مثالیں بھی موجود ہیں جیسے:

قَد کَانَت آیَاتِی تُتلَی عَلَیکُم فَکُنتُم عَلَی اَعقَابِکُم تَنکِصُونَ۔ (المومنون: 66)

”میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں اور تم الٹے پاؤں پھر پھر جاتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

البتہ کبھی یہ ماضی کے لیے خاص نہ ہوکر عام ہوکر آتا ہے، ایسے ہی بعض مقامات کے سلسلے میں مترجمین کا موقف متعین نہیں ہوسکا، ایک ہی اسلوب کا وہ ایک جگہ ماضی سے ترجمہ کرتے ہیں اور دوسری جگہ حال کا ترجمہ کرتے ہیں۔ ذیل کی مثالوں سے اس کی وضاحت ہوتی ہے:

لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللَّہِ اُسوَۃ حَسَنَۃ لِمَن کَانَ یَرجُو اللَّہَ وَالیَومَ الآخِرَ۔ (الاحزاب: 21)

”در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو“۔ (سید مودودی)

”یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو“۔ (احمد رضا خان)

قَد کَانَت لَکُم اسوَۃ حَسَنَۃ فِی اِبرَاہِیمَ وَالَّذِینَ مَعَہُ۔ (الممتحنۃ: 4)

”تم لوگوں کے لیے ابراہیم ؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے“۔ (سید مودودی)

”بیشک تمہارے لیے اچھی پیروی تھی ابراہیم اور اس کے ساتھ والوں میں“۔ (احمد رضا خان)

لَقَد کَانَ لَکُم فِیہِم اُسوَۃ حَسَنَۃ لِمَن کَانَ یَرجُو اللَّہَ وَالیَومَ الآخِرَ۔ (الممتحنۃ: 6)

”اِنہی لوگوں کے طرز عمل میں تمہارے لیے اور ہر اُس شخص کے لیے اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخر کا امیدوار ہو“۔(سید مودودی)

”بیشک تمہارے لیے ان میں اچھی پیروی تھی اسے جو اللہ اور پچھلے دن کا امیدوار ہو“۔ (احمد رضا خان)

مذکورہ بالا تینوں آیتوں کا اسلوب ایک سا ہے، لیکن ترجموں کا معاملہ مختلف ہوگیا ہے، زیادہ مناسب یہی ہے کہ ان تینوں مقامات پر ماضی کے بجائے حال کا ترجمہ کیا جائے تاکہ اسوے کا عموم سب کے لیے باقی رہے۔ اور وہ ماضی کی کوئی خبر بن کر نہ رہ جائے۔ اسی طرح درج ذیل مقام پر بھی عام طور سے لوگوں نے ماضی کا ترجمہ کیا ہے، اس کا بھی حال والا ترجمہ زیادہ مناسب ہے، نشانی صرف ان کے لیے نہیں تھی جو اس وقت موجود تھے، بلکہ ان سب کے لیے نشانی ہے جن تک اس واقعہ کی خبر پہنچے۔

قَد کَانَ لَکُم آیَۃ فِی فِئَتَینِ التَقَتَا فِئَۃ تُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَاخرَی کَافِرَۃ یَرَونَہُم مِثلَیہِم رَایَ العَینِ وَاللَّہُ یُویِّدُ بِنَصرِہِ مَن یَشَاءُ انَّ فِی ذَلِکَ لَعِبرَۃً لِاولِی الابصَارِ۔ (آل عمران: 13)

”تمہارے لیے اُن دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا، جو (بدر میں) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کو چاہتا ہے، مدد دیتا ہے۔ دیدہ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے“۔ (سید مودودی)

”بیشک تمہارے لیے نشانی تھی دو گروہوں میں جو آپس میں بھڑ پڑے“۔ (احمد رضا خان)

”تمہارے لیے دو گروہوں میں جو (جنگ بدر کے دن) آپس میں بھڑ گئے (قدرت خدا کی عظیم الشان) نشانی تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”یقینا تمہارے لیے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”جن دو گروہوں میں مڈ بھیڑ ہوئی، ان کی سرگزشت میں تمہارے لیے نشانی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(جاری)


اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۱۱)

مولانا سمیع اللہ سعدی

پچھلی قسط میں انواعِ حدیث کے عنوان کے تحت مقبول حدیث   اور اس کی اقسام سے متعلق سنی و شیعہ مواقف کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا تھا ،اس قسط میں اسی موضوع کے دوسرے جزو یعنی مردود  حدیث کی اقسام  کے بارے میں سنی مصطلح الحدیث و شیعہ علم الدرایہ کا تقابلی جائزہ  نکات کی شکل میں لیا جائے گا :

(1) اہل سنت کے ہاں ضعیف حدیث کی جملہ اقسام میں ایک منطقی ترتیب ہے ،جس کی تفصیل یہ ہے کہ علمائے اہل سنت ضعیف حدیث کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کرتے ہیں :

پہلی قسم وہ ضعیف حدیث ،جس کا سبب سقط فی السندیعنی سند میں کسی راوی کا سقوط ہو ،پھر  سقوط کو بھی دو قسموں میں منقسم کیا جاتا ہے:

اگر سقط ظاہر ہو تو اس سے ضعیف حدیث کی درجہ  ذیل اقسام بنتی ہیں:

معلق ،معضل ،مرسل ،منقطع

اور اگر سقط خفی ہو تو اس سے درجہ ذیل اقسام بنتی ہیں :

مدلس اور مرسل خفی

دوسری قسم وہ ضعیف حدیث ،جس کا سبب طعن فی الراوی ہو ،یعنی راوی کی عدالت و ضبط میں کوئی مسئلہ ہو :

اگر عدالت میں مسئلہ ہو تو اس سے درجہ ذیل اقسام بنتی ہیں :

موضوع،متروک ،منکر ،مجہول(حدیث مستور ،حدیث مبھم)

اگر ضبط میں مسئلہ ہو تو  اس سے درجہ ذیل اقسام بنتی ہیں:

مقلوب،مدرج،مضطرب،مصحف ،محرف ،شاذ،معلل(یہ وہم راوی سے پیدا ہوتا ہے ،جو ضبط سے متعلق ہے)منکر(یہ کبھی عدالت اور کبھی ضبط سے پیدا ہوتا ہے ،اس لئے دونوں جگہ اس کا ذکر ہے )1

علمائے اہل تشیع نے (اہل سنت کی متابعت میں )بھی کم و بیش یہی اقسام ذکر کئے ہیں ،لیکن  علمائے شیعہ نے ان اقسام کو ذکر کرنے وقت چند باتیں نظر انداز کی ہیں ،جن کا ذکر کیا جاتا ہے:

(2) اہل سنت کی علم مصطلح الحدیث کی کتب میں ضعیف حدیث  کی  بحث میں اوھی الاسانید کا ذکر ہوتا ہے ، یعنی سلاسل ِرواۃ  میں سے کون سے کون سے رواۃ کا سلسلہ ضعیف ہے ،اس  بحث سے معروف ائمہ حدیث ،بلدان اور حفاظ ِحدیث کے ضعیف طرق و اسناد سے واقفیت ہوجاتی ہے ، چنانچہ  محقق عبد الماجد غوری نے المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث  میں جو اوھی الاسانید ذکر کیے ہیں ،بطورِ نمونہ چند ملاحظہ فرمائیں :

اس فہرست سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل سنت محدثین نے ضعیف رواۃ و روایات کی  تعیین میں کس قدر باریکی سے کام کیا ہے ،کیونکہ اوھی الاسانید فی فلاں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ویسے تو ممکن ہے کہ یہ رواۃ اپنی جگہ ثقہ و معتمد ہوں ،لیکن خاص اس سلسلے میں فلاں فلاں وجہ سے  ان رواۃ کی روایات قابلِ اعتماد نہیں ہونگی ،یوں حدیث کے ضعف میں محض رواۃ کی انفرادی ثقاہت  و ضعف  کی بجائے اجتماعی سلسلہ سند کو بھی  اہل سنت محدثین نے پیش ِ نظر رکھا ہے ،لیکن اس قسم کی  تفصیل اور یوں مفصل اوھی الاسانید کی فہارس اور ان کی رواۃ کا ذکر شیعہ علم الدرایہ میں مفقود ہے ۔

(3) اہلسنت محدثین نے ضعیف حدیث کی صحیح حدیث سے تمییز کے سلسلے میں مزید کام یہ  بھی کئے ہیں :

جبکہ شیعہ محدثین کے ہاں اس قسم کی سرگرمیاں نایاب یا نہایت کمیاب ہیں ۔

حواشی

  1.  دیکھیے:الحدیث الضعیف و حکم الاحتجاج بہ ،عبد الکریم بن عبد اللہ الخضیر،دار المسلم للنشر و التوزیع ،ریاض
  2.  دیکھیے:البدایہ فی علم الدرایہ ،زین الدین عاملی ،قم مقدسہ ،ص30،36
  3.   المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ،عبد الماجد غوری ،ص765
  4.   ایضا:ص 395
  5.  المدخل الی موسوعۃ الحدیث ،حیدر حب اللہ ،ص515
  6.  المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ،عبد الماجد غوری ، 692-693

(جاری)

دعوت ِ دین میں درپیش چیلنجز اور علماءکی ذمہ داریاں

ڈاکٹر محمد اکرم ورک

 اصلاح ِ احوال کے ذمہ دار طبقات میں جن دو طبقات کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے ان میں علماءکرام اور حکمران طبقہ خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں ۔مجموعی انسانی رویوں کی تشکیل میں ان دو طبقات کا کردارسب سے اہم ہے۔ اگر کسی معاشرے کا دانشور طبقہ(Intellectuals) بد دیانت ہوجائے تو پھر اس معاشرے کی اصلاح کی امیدیں دم توڑ نے لگتی ہیں ۔اس پس منظر میں دانشور طبقے کی اہمیت اور ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ۔ سماجی اور معاشرتی سطح پر اصلاح ِ احوال کے لئے اپنے دور کی تفہیم اور در پیش تحدّیات کا ادراک اہل ِ علم کے لئے ضروری ہے ۔ اس وقت ہمارے پیش ِ نظر ان تحدّیات کا جائزہ پیش کرنا ہے جو داعیان ِ اسلام کو دعوت ِ دین میں در پیش ہیں۔اس سلسلے میں ہماری معروضات حسب ِ ذیل ہے:


دعوت ِ دین میں درپیش خارجی چیلنجز

۱۔ اسلام کی عالمگیر یت :

اسلام نے اپنی دعوت کا آغاز ایک عالم گیر دین کی حیثیت سے کیا ہے، اس دین کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں خود اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف”رب العالمین“ اپنے رسول کا ”رحمۃ للعالمین“ جیسے اوصاف سے کروایا ہے ،اور پھراپنی آخری کتاب قرآن مجید کو ”ھدی للناس“کہہ کر اس کی عالمگیر یت اور آفاقیت کو نمایاں کیا ہے۔جس طرح اللہ تعالیٰ سب کا رب ہے ،قرآن مجید پوری انسانیت کے لئے صحیفہ ہدایت ہے، اسی طرح رسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت بھی عالمگیر (Global) ہے ۔پیغمبر نے صلح حدیبیہ (۶ھ) کے بعد شاہان ِ عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ فرما کر اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ اسلام کا پیغام پوری انسانیت کے لئے ہے ،لیکن بدقسمتی سے مسلمان دور ِ حاضر میں اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے رسالتِ محمدی ﷺ کی آفاقیت اور ہمہ گیریت کو اس طرح نمایاں نہیں کرسکے جس طرح کہ آپپر ایمان لانے کا حق تھا۔ شاید یہ کہنا کسی حد تک درست ہو کہ اس وقت دیگر اقوام بالخصوص مغر ب میں اسلام اور رسول اللہﷺ کی سیرت کے حوالے سے جو غلط فہمیاں پائی جارہی ہیں اس کا ایک سبب خود مسلمان اور ان کا کردار بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو محسن ِ انسانیت اور رحمةللعالمین بنا کر مبعوث کیا ، آپ کی بعثت کے نتیجے میں سسکتی ہوئی انسانیت کووہ زریں اصول عطاہوئے ،جن کو اپنا کر عرب قعر مذلت سے نکل کر اوجِ ثریا پر جا پہنچے۔اس وقت عالم ِ انسانیت جس روحانی کرب اور معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں میں مبتلاءہے اس کا واحد حل صرف اسلام کے پاس ہے۔  سیاسی اور معاشرتی سطح پر جاگیر داری نظام(Feudalism) اور سوشلزم(socialism) کے ناکام تجربات کے بعد کیپیٹلزم (Capitalism) نے انسانیت کو تباہی کے جس دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اس کے بعد اسلام ہی بنی نو ع انسان کے لئے واحد آپشن کے طور پر باقی بچتا ہے ، اب توخود مغرب کا دانشور طبقہ بھی اس حقیقت کااعتراف کر رہا ہے۔ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے اپنے ایک مضمون "Islam and the west" میں مغربی دانشوروں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ ایک متبادل نظام کے طور پر اسلام کا مطالعہ کریں ، لیکن ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ اسلام کو عالمگیر دین سمجھنے والے مسلمان دانشور عصری احوال و ظروف میں دین ِ اسلام کو متبادل بیانےے کے طورپر پیش کرنے کی صلاحیت سے ہی عاری ہےں۔مسلمان اہل ِ علم کی علمی تگ و تاز کے میدان دیکھتے ہوئے تو یہی واضح ہو تا ہے کہ وہ اسلام کے عالمگیر اور پوری انسانیت کا دین ہونے کے تصور سے عملاً دستبردار ہو چکے ہیں،یہ اپروچ کسی المےے سے کم نہیں ہے ۔ دورِ حاضر میں داعیان ِ اسلام کے لئے ایک بڑا چیلنج تویہی ہے کہ وہ اسلام کی آفاقیت کے تصور کو دوبارہ سے دریافت کریں۔

۲۔ سیکو لرازم :

کہنے کی حد تک تو سیکولرازم (Secularism) سے مراد لادینیت ہے ،لیکن عملاً مغربی فکرو فلسفے کی بنیاد پر پروان چڑھنے والاسیکولرازم بذات ِ خود ایک دین اور عقیدے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔مغربی تہذیب نے گذشتہ کئی صدیوں میں فکری ارتقاءکا کٹھن سفر طے کیا ہے،مسلسل فکری ارتقاءاور تہذیبی تجربات کے نتیجے میں ان کے ہاں کئی تصوّرات اور نظریات اب مسلمہ عقائد کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔اہل ِ مغرب اب ان نظریات پرکوئی سمجھوتا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔مغرب نے سماجی ،معاشرتی اور اخلاقی حوالے سے جو تجربات کئے ہیں اس کے نتیجے میں ان کے ہاں یہ سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ انسانیت اپنے سماجی ارتقاءکی آخری سیڑھی پر قدم رکھ چکی ہے ۔مغرب میں "The End of History"کے عنوان سے لکھی جانے والی کتب اسی سوچ کی مظہر ہیں کہ مغربی فکر وفلسفہ کے نفاذ میں ہی انسانیت کی بقا ہے ۔مغرب کو اسلام کی ان تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں ہے جن کا تعلق انسان کی نجی اور انفرادی زندگی سے ہے ،لیکن وہ مسلمانوں کو یہ حق دینے کے لئے تیار نہیں کہ وہ نظام ِ خلافت کی بات کریں اور اجتماعی زندگی میں مذہب کے کردار کی دعوت دیں ۔

 مغربی فکروفلسفہ کی بنیاد عقل پر ہے، دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے مغرب کا خدا عقل ہے ،اور صرف وہی چیز ان کے ہاں قابل ِ قبول ہے جو عقلی اصولوں پر ثابت ہو ۔ مسلمان اہل ِ علم کو اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت مغرب سیکولرازم انسانوں کا مقبول ِ عام مذہب بن چکا ہے ، جبکہ اس کے بالمقابل مذاہب ِ عالم اپنی غیر عقلی اور غیر فطری تعلیمات کی وجہ سے محض تاریخ بنتے جا رہے ہیں ۔ اس پس منظر میںعلماءکرام پر لازم ہے سیکولرازم کے بنیادی سوالات کا سامنا کریں ۔ سیکولرازم کے بنیادی سوالات (۱) انسانی حقوق(۲)دین اور سیاست کا باہمی تعلق (۳)مرتد کی سزا (۴)آزادی نسواں (۵)آزادی اظہارِ رائے (۶) جمہوریت (۷) جہاد (۸)مذہبی رواداری اور اسی نوعیت کے دیگر موضوعات سے متعلق ہیں۔مغرب کے فکری چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے علماءکرام کے لئے ضروری کہ وہ دینی احکام کے اسرارو حکم کو نئے سرے سے دریافت کریں۔دور ِ حاضر میں دینی احکام کی عقلی تعبیر دعوت ِ دین میں ”اصول ِ حکمت“ کا بنیادی تقاضا ہے ۔اس حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی شہرہ آفاق کتاب” حجة اللہ البالغہ“اور اس جیسی دیگر کتب سے استفادہ کی ضرورت ہے۔

داعیا نِ اسلام کے لئے ان اسباب اور وجوہات کا ادراک بھی لازم ہے جن کی وجہ سے مغرب میں دین سے نفرت پیدا ہوئی، مذہب کے حوالے سے اہل ِ مغرب کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے یورپ کے دور ِ تاریک (Dark Ages) میں کلیسیا اور علم جدید میں تصادم کی تاریخ پر گہری نظر ضروری ہے ، اس دور کی درست تفہیم سے ہی ہمیں مغرب میں عیسائیت سے لوگوں کی نفرت کی وجوہات کا اندازہ ہو سکے گا اورہم جان پائیں گے کہ کس طرح عیسائیت کی غیر عقلی اور غیر فطری تعلیمات، پوپ کے خدائی اختیارات، مذہب اور سائنس کا تصادم ،پوپ کی حکمران طبقے کی ناجائز حمایت وغیرہ نے عام لوگوں کو عیسائی مذہب سے متنفر کیا۔ لازم ہے کہ علماءکرام دلائل سے واضح کریں کہ عیسائیت اور اسلام میں کیا فرق ہے ؟اور بتائیں کہ جن وجوہات کی بنا پر مغرب میں لوگ مسیحیت سے متنفر ہوئے ان کے بارے اسلام کا موقف کیا ہے ؟نیز مسیحیت میں پوپ اور علمائے اسلام کی دینی حیثیت میں فرق واضح کرنا بھی ضروری ہے۔ داعیان ِ اسلام پرلازم ہے کہ مذاہب کے تقابلی مطالعے کے ساتھ مغربی فکرو فلسفہ کا تجزیاتی مطالعہ بھی کریں اور مغربی فکرکی اصولی غلطیوں کو واضح کریں۔

۳۔ بین المذاہب ہم آہنگی :

مذہبی تکثیریت پر مبنی معاشروں میں مسلمانوں کاطرز ِ عمل کیا ہو نا چاہےے؟اس حوالے سے اسلام اپنی شاندار تاریخ رکھتا ہے ۔ اسلام اس دعوے کے ساتھ کھڑا ہے کہ دین میں کو ئی جبر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرت ِ سلیمہ پر پیدا کیا ہے اور ہدایت اور راہنمائی کے لئے اسے عقل جیسی نعمت سے سرفراز کیا ہے اور پھر مزید مہربانی یہ فرمائی کہ اسے حق کی یاد دہانی کے لئے تسلسل کے ساتھ انبیاءکرام کو مبعوث فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے خیرو شراورحق وباطل کے انتخاب میں انسان کو اختیار دیا اوریہی بنی نوع ِ انسان کی آزمائش ہے ۔اس امکان کو تسلیم کرلینے کے بعد کہ مختلف اسباب کی بنا پر تمام لوگ خدا پر ایمان لانے والے نہیں ہونگے ، اسلا م لوگوںکے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔یہ وہ تناظر ہے جس میں اسلام مذہبی رواداری اور آزادی اظہارِ رائے کا داعی ہے۔ اسلام بین المذاہب ہم آہنگی (Inter-Faith Dialogue) اور اقوام کے ساتھ تعمیری تعلقات کے حوالے سے واضح راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔قرآن مجید نے دیگر قوموں کے ساتھ مکالمے کے جو بنیادی اصول بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں : (اُدعُ  اِلِی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالحِکمَۃِ وَالمَوعِظَۃِ الحَسَنَۃِ وَجَادِلہُم بِالَّتِی ھِیَ اَحسَنُ) (1) (آپ لوگوں کو اپنے پروردگارکی طرف حکمت اوراچھی نصیحت سے بلائیے اوران کے ساتھ پسندیدہ طریقہ سے بحث کیجئے۔)میثاق ِ مدینہ ،معاہدہ نجران اورعہد ِ خلافت ِ راشدہ میں غیر مسلموں سے کئے گئے سیاسی معاہدات ہمارے دعویٰ کی سب سے بڑی دلیل ہیں ۔شاہان ِ عالم کے نام رسول اللہ ﷺ کے دعوتی خطوط اس حوالے سے ہمارے لئے راہنمائی کا بڑا ذریعہ ہیں ۔اسلام کے اصول ِ دعوت میں موعظہ حسنہ اور مجادلہ کے ساتھ مکالمہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ویسے بھی سماجی مقاطعہ (Social Boycott) کی نفسیات ان گروہوں میں پائی جاتی ہے جن کو اپنی دلیل کی طاقت پر اعتمادنہیں ہوتا ۔تاریخ گواہ ہے کہ قریش ِ مکہ نے رسول اللہ ﷺ کا مقاطعہ کیا تھا ،اس لئے کہ ان کے پاس رسول اللہ ﷺ کے دلائل کا کوئی جواب نہیں تھا،آپ تو ان سے گفتگو کے مواقع تلاشنے میں لگے رہتے تھے۔

دیگر قوموں کے برعکس بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے مسلمانوں کا رویہ ہمیشہ قابل ِ ستائش رہا ہے ،تاریخ گواہ ہے کہ مختلف ادوار میں یہود و نصاریٰ میں سے جس گروہ کو بھی سیاسی غلبہ حاصل ہوا اس نے دوسرے فریق پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑدےے، لیکن مسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی غلبے کے دور میں دونوں گروہوں نے اسلام کے زیر سایہ ہی امن و سلامتی کے ساتھ رہنا سیکھا ۔ برّصغیر کے مسلمان تو اس حوالے سے اوربھی منفرد تاریخ رکھتے ہیں ،یہ حقیقت کچھ کم تعجب انگیز نہیں ہے کہ تقریباً بیس(۲٠) فیصد لوگ محض اپنی رواداری اور برداشت کے رویے کی وجہ سے اسی (۸٠)فیصد لوگوں پر صدیوں تک حکومت کرتے رہے ۔رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے : ﴿قُل یَا اَہلَ الکِتَابِ تَعَالَوا الَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَینَنَا وَبَینَکُم اَلاَّ نَعبُدَ الاَّ اللّہَ وَلاَ نُشرِکَ بِہِ شَیئاً﴾ (2) (آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل ِ کتاب ! ایسے قول کی طرف آ جاو جو ہم میں اور تم میں مشترک ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اورکسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں)،دور ِ حاضر میں مسلمانوں کی بد قسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ بین المذاہب ہم آہنگی تو بڑی دور کی بات ہے، بین المسالک ہم آہنگی کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکے ہےں ۔مذاہب ِ عالم سے ہم آہنگی کے حوالے سے داعیان ِ اسلام کے لئے حضور ﷺ کی مکی اور مدنی زندگی کا مطالعہ اس نقطہ  نظر سے از بس ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ آپ کا غیر مسلموں کے رویہ کیا تھا ؟ اورمدنی ریاست میں تمام گروہوں کو جو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی اس کی حدود اور اصول وضوابط کیا تھے؟

داعیان ِ اسلا م پر لازم ہے کہ وہ منکر اور گستاخ میں فرق کو ملحوظ رکھےں ، اہم سوال یہ ہے کہ کیا غیر مسلم ہماری دعوت کا مخاطَب ہے یا نہیں؟ اگر تمام غیر مسلم ہماری دعوت کے مخاطَبین ہیں تو پھر سماجی مقاطعہ چہ معنیٰ دارد؟ مملکت خداد پاکستان میں آئینی طور پر تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے تو پھر جوزف کالونی ،مریم آباد اور فرانسیس آباد جیسی مذہبی بنیادوں بننے والی آبادیوں کا وجود میں آنا کیاہمارے غیر متوازن رویے کا آئینہ دار نہیں ہے؟ رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ تو یہ ہے کہ آپ غیر مسلموں کو کھانے دعوت پر بلاتے تھے اور ان کی دعوت قبول بھی کرلیتے تھے۔ آپ ایک یہودی کے جنازے کے احترام میں کھڑے ہو گئے اور ایک یہودی کا بچہ آپ کے خدمت گاروں میں بھی شامل تھا ۔ آپ نے مسجد ِ نبوی میں ِنجران کے عیسائی وفد کو اجازت دی کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کر سکتے ہیں ۔ ان چند مثالوں کو ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ داعیان ِ اسلام اپنے اسلوب ِ دعوت پر غور کریں ، اور اس حقیقت کا ادراک کریں کہ چند ہزار صحابہ کرام ؓ نے تو ایک صدی بھی مکمل نہ ہونے پائی تھی کہ اسلام کے پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچادیا ،اور آج کروڑں مسلمان اور بلامبالغہ لاکھوں داعیان ِ اسلام اس مشن میں ناکام کیوں ہیں ؟

۴۔ روز مرہ کی زبان :

دعوت ِ دین میں ہم زبانی کی اہمیت شک و شبہ سے بالا تر ہے ۔رسول اللہﷺ کے نزدیک دعوت ِ دین اور مکالمہ بین المذاہب کے لئے مخاطَب کی زبان سے واقفیت کی اہمیت کیا ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے مختلف صحابہ کرام ؓ کودوسری قوموں کی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا ، کیونکہ دعوت وتبلیغ اور باہمی مکالمہ میں تاثیر اور قوت اسی وقت پیداہوسکتی ہے جب داعی اور مدعو کی زبان ایک ہو۔ ہم زبانی سے اُنسیت میں اضافہ ہوتاہے،اجنبیت دور ہوجاتی ہے اور گفتگو کا مقصد آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتاہے ۔اسی ضرورت کے پیش ِ نظر رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن ثابتؓ (م ۴۴ھ) کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ،تاکہ یہود سے انہی کی زبان میں گفتگو کی جاسکے اور ان کے خطوط کا جواب دیاجاسکے۔حضرت زید بن ثابت ؓ کا بیان ہے:”فتعلّمت کتابھم مامرّت بی خمس عشرة لیلۃ حتی حذقتہ وکنت اقراءلہ کتبھم اذا کتبوا الیہ واجیب عنہ اذا کتب“ (3) ”پس میں نے ان کی زبان میں لکھنا سیکھ لیا، ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کہ میں اس میں ماہر ہو گیا۔ جب یہودی کوئی خط آپ کی طرف لکھتے تو میں آپ کو پڑھ کر سنا دیتا اور اگر آپ کو جواب لکھنا ہوتا تو میں وہ لکھ دیتا۔“ ایک روایت میں ہے کہ ایک ایرانی عورت حضرت ابو ہریرہؓ (م ۵۸ ھ) کی خدمت میں استغاثہ لے کر آئی کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب مجھ سے میرا بیٹا بھی چھیننا چاہتاہے اس عور ت نے یہ ساری گفتگو فارسی زبان میں کی اور ابو ہریرہؓ نے بھی اس سے اسی زبان میں گفتگو کی اور پھر آپؓ نے بچہ عورت کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔(4) ان واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ نے دوسری قوموں کی زبانیں صرف اس غرض سے سیکھ رکھی تھیں، تاکہ ان سے براہ راست تبادلہ  خیال کرکے ان کے مسائل کو حل کیاجاسکے۔ بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کے بعض اجزا کادوسری زبانوں میں ترجمہ بھی کیا تھا، تاکہ عربی زبان سے ناواقف لوگ اسلام کی حقیقی روح اور تعلیمات سے محروم نہ رہ جائیں ۔چنانچہ علامہ سرخسیؒ (م ۴۹٠ھ) لکھتے ہیں: ”ان الفرس کتبوا الی سلمانؓ ان یکتب لھم الفاتحۃ بالفارسیۃ فکانوا یقرءون ذالک فی الصلوۃ حتیٰ لانت السنتھم للعربیۃ“ (5) ”بعض نو مسلم ایرانیوں نے حضرت سلمان ؓکی خدمت میں لکھا کہ ان کے لیے سورہ فاتحہ کو فارسی میں نقل کر دیا جائے، چنانچہ وہ لوگ (اسی ترجمہ کو)نماز میں پڑھتے تھے یہاں تک کہ وہ عربی سیکھ گئے ۔“اسی واقعے کو ڈاکٹر حمیداللہ ؒنے ”النہایة حاشیة الھدایة “ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؓ (م ۳۳ھ) نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے یہ کام انجا م دیا اور ان کے ترجمے کا ایک جز بھی نقل کیاہے ،”بنام خداوند بخشا یندہ مہربان “ یہ بسم اللہ کا ترجمہ ہے۔ (6) شاہان ِ عالم کی طرف بھیجے جانے والے نبوی سفراءکا معجزانہ طور پر انہیں قوموں کی زبان میں گفتگو کرنے لگ جانا بھی دعوت وتبلیغ اور مکالمے میں ہم زبانی کی اہمیت کو واضح کرتاہے۔ (7) اس کے علاوہ جن صحابہ کرام ؓ کو رسول اللہﷺ نے مختلف قوموں کی طرف داعی اور مبلغ بنا کر روانہ فرمایا اس میں بھی یہ چیز آپ کی حکمت ِعملی کا حصہ نظر آتی ہے کہ وہ مبلغ اسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں ،اور اگر مبلغین کا تعلق کسی دوسری قوم سے ہو تو کم ازکم وہ اس قوم کی زبان، رسم ورواج اور کلچر سے لازمی طور پر آگاہ ہوں۔

مذکورہ بالا چند حوالہ جات سے واضح ہوتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کے لئے مدعو قوموں کی زبان ،کلچراور نفسیات سے آگاہی کس قدر اہم ہے ،اس حوالے سے ویسے تو پورے عالم ِ اسلام کی حالت ہی ناگفتہ بہ ہے ،تاہم اگر اسلامیا نِ ہند سے تعلق رکھنے والے علماءکرام کے طرز ِ عمل کا تجزیہ کیا جائے توصورتِ حال کی سنگینی کا زیادہ احساس ہوتا ہے ۔ اس حد تک تو یہ بات قابل ِ فہم ہے کہ ۱۸۵۷ءکی جنگ آزادی میں شکست کے بعد بچی کچی مسلمان قیادت نے دینی مدارس میں جو نصاب رائج کیا اور اس کا بنیادی مقصد لوگوں کے ایمان کی حفاظت تھا ،تاکہ ہندوستان کو اندلس بننے سے بچایا سکے ۔ یہ اعتراف بھی لازم ہے کہ ہندوستان کے علماءکرام کی قربانیوں اور دینی مدارس کے شاندار کردار کی وجہ سے یہ مقصد پورا ہو گیا،لیکن آزادی کے بعد نصاب ِتعلیم میں جس تبدیلی کی ضرورت تھی اس کی طرف توجہ نہ دی جاسکی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ایسے علماءکرام کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے جو آج کی زبان اور محاورے میں گفتگو کر سکےں ،لیکن عملی صورت ِ حال مایوس کن ہے ،آج کے داعیان ِ اسلام پر اصحاب کہف کی مثال صادق آتی ہے،کہ تقریباً تین صدیوں کی نیند سے بیدار ہونے کے بعد جب وہ غار سے نکلے تو ان کا سکہ اور زبان دونوں ان کی اپنی بستی کے لوگوں کے لئے اجنبی ہو چکے تھے ،گویا وہ اس زمانے کے لئے غیر متعلق (Irrelevant) ہو چکے تھے، اور بالآخر ان کو وآپس غار میں ہی پناہ لینا پڑی ۔غلامی کے طویل دور سے نکلنے کے بعد ہماری صورت ِ حال بھی اصحاب ِ کہف ہی کے مماثل ہے ، عصری تقاضوں کے مطابق علماءکرام کی تربیت کے بغیر اسلام کی عالمی سطح پر دعوت کا خواب شرمندہ  تعبیر نہیں ہو سکتا۔دور ِ حاضر میں داعیان ِ اسلام اگر بین الاقوا می قوانین،جدید نظامہائے معیشت و سیاسیات اور مغرب کے فلسفہ  اخلاق سے واقف نہیں ہوں گے تو ان کے مخاطبین کا دائرہ صرف مسلم معاشروں تک ہی محدود رہ جائے گا اور اگر وہ ”کتاب البیوع“ اور ”کتاب الامارہ “ کی عصری تعبیرات پر عالمانہ دسترس نہیں رکھتے تو اس کا مطلب یہ ہواکہ دین کا ایک بڑا حصہ ان کے دعوتی مضامین ہی سے خارج ہوجائے گا ،اور اسلام کے مکمل ضابطہ  حیات ہونے کے تصور کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہے۔


دعوت ِ دین میں درپیش داخلی چیلنجز

۱۔ عرف کی تفہیم :

انسانی معاشرہ ہر لمحہ تغیر پذیر ہے ،معاشرتی اور تہذیبی ارتقاءکا لازمی نتیجہ عرف کی تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ بہت سارے فقہی احکام ومسائل کا تعلق عرف کے ساتھ ہوتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عرف کی تبدیلی کے براہِ راست اثرات فقہی احکام و مسائل کے استنباط پر مرتب ہوتے ہیں ۔عرف اور زمان ومکان کی تبدیلی فقہی مسائل کے استنباط پر کس حد اثر انداز ہوتی ہے، اس کا اندازہ صرف اس ایک مثال سے ہی کیاجا سکتا ہے کہ امام مالک ؒ (م ۱۷۹ھ) کے نزدیک پانی کے طاہر ہونے کے لئے اس کی کم ازکم مقدار ”قُلَّتَان “ یعنی دو بڑے مٹکوں کے برابر ہونا لازم ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵٠ھ) کے نزدیک پانی کے طاہر ہونے کے لئے اس کی کم ازکم مقدار”دہ در دہ“ ہونا ضروری ہے ۔ ایک امام مدینہ میں بیٹھ کر یہ رائے قائم کر رہا ہے جہاں پانی کی شدید قلت ہے، جبکہ دوسرا امام دجلہ و فرات کے کنارے بیٹھ کرفتویٰ جاری کررہا ہے جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہے ، گویا عرف اور زمان ومکان کی تبدیلی کے اثرات مسائل کے استنباط پر براہ ِ راست مرتب ہوتے ہیں۔

قابل ِ توجہ بات یہ ہے کہ جب غیر مشروط اطاعت صرف خدا و رسول کے لئے ہی ہے تو پھر فقہ کی تقدیس چہ معنیٰ دارد؟ جبکہ فقہ سے مراد دین نہیں بلکہ دینی تعبیرات ہیں یعنی وہ تمام فروعی مسائل جو واضح طور پر قرآن و سنّت میں موجود نہ ہوںاور ان کو مقاصد شریعت کی روشنی میں قرآن و سنّت سے مستنبط کیا گیا ہو۔ اس نوعیت کے مسائل میں ایک تووہ احکام ہیں جن کے بارے اسلاف نے کوئی رائے قائم کی ہو اور دوسرے وہ احکام ہیں جن کا تعلق زمان و مکان اور عرف کی تبدیلی سے ہے ۔اس میں متوازن رائے یہ کہ اگرکسی مسئلے میں صحابہ کرام ؓ کی رائے منقول ہو تو فبھا ،اور اگر دیگر اہل ِ علم کی مختلف آراءمنقول ہوں تو یہ ہر دور کے علماءکا حق ہے کہ وہ کسی بھی رائے کو دلیل کے ساتھ قبول کریں اور دلیل کے ساتھ رد کردیں ۔ صحابہ کرام کے علاوہ دیگر ارباب ِ فکرو دانش کے حوالے سے بہترین بات وہی ہے جو امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمائی :”ھُم رِجَال وَ نَحنُ رِجَال “ یعنی جس طرح انہیں اجتہاد کا حق حاصل ہے اسی طرح ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے ۔ وہ تمام فقہی مسائل جن میں صحابہ کرام ؓ کے درمیان اختلاف منقول ہے ،اس کو تنوع اور توسع پر محمول کر کے کسی ایک پہلو کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔

علماءکرام جب مختلف احکام و مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو عمومی طور پر وہ ان مسائل کو فقہی تناظر میں ہی دیکھتے ہیں اوران کے سماجی تناظر کو نظر انداز کردیتے ہیں اس کی مثال عائلی زندگی سے متعلق نکاح،طلاق اور خلع جیسے مسائل میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ کیا آج کے معاشرتی ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے ولی کے بغیر نکاح کو درست قرار دیا جانا چاہیے ؟ جبکہ نکاح کے انعقاد کے لئے اگر ایک طرف عاقل و بالغ کی رائے ضروری ہے، تو دوسری ”لا نکاح الا بولی “، کی شرط بھی موجود ہے ،اسی طرح طلاقِ ثلاثہ سے متعلق مسائل کو محض فقہی تناظر میں ہی دیکھا جاتا اس کے عملی نتائج خاندانوں کو کس طرح برباد کر رہے ہیں یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی جاتی ۔غور کیا جائے تو بہت سارے مسائل میں صحابہ کرام اور فقہاءکے درمیان جو اختلافات نظر آتے ہیں اس کا بڑا سبب وہ سماجی تناظر ہے جس میں انہوں نے مختلف اورمتنوع نصوص پر غور کیا اور پھر اس نص کو ترجیح دے دی یا اس تعبیر کو اختیار کر لیا جس میں حالات اور زمان و مکان کی رعایت نظر آئی یا پھر خلق ِ خدا کے لئے آسانی اور سہولت کا پہلو نظر آیا ۔ہمارے ہاں عملی صورت ِ حال یہ ہے کہ علمائے اسلام اپنے مسلک اور فقہی مذاہب سے ہٹ آج کے ماحول اور عرف کی روشنی میں قرآن و سنّت کا مطالعہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

اس وقت مذہب کو علم ِ جدید کا سنجیدہ چیلنج درپیش ہے۔ جدید سائنسی علوم نے انسانی زندگی پر جو اثرات مرتب کئے ہیں اس کے نتیجے میں کئی نئے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ مثلاًDNAٹیسٹ کے سو فیصد درست نتائج نے گواہی اور حسب ونسب جیسے مسائل کے حوالے سے نئے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔غالباً 2002ءمیں جب سائنسدا نوں نے محض جینز کی مدد سے”ڈولی “ نامی بھیڑ تخلیق کی تو علماءکے لئے اس پر کوئی واضح موقف اختیار کر نا مشکل تھا ۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی (Test tube baby)اور کلوننگ(Cloning) جیسے کامیاب تجربات نے ماں کے قدموں تلے جنت کے تصور کو چیلنج کر دیا ۔اس نوعیت کی محیر العقول ایجادات اور تخلیقات نے انسان کے لئے جہاں کئی آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں بہت سے سوالات بھی کھڑے کر دیئے ہیں ۔اب بہت سارے مسائل کو صرف سابقہ فتاویٰ کی بنیاد پربیان کرنا ممکن نہیں رہا،اس لئے علماءکرام کے لئے اپنے دور کی حقیقی تفہیم بڑا چیلنج بن کر ابھر رہا ہے۔

دور ِ حاضر میں علماءکرام کے لئے صرف علاقائی عرف کا جاننا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسلام کی عالمگیریت کے تناظر میں عالمی عرف سے گہری واقفیت بھی ضروری ہے۔مثال کے طور پرفقہائے اسلام نے ”دالاسلام“ اور” دار الحرب“ کی تقسیم کے ساتھ قرآن و سنّت سے جو احکام مستنبط کئے ہیں ،ان تعبیرات کا تعلق مسلمانوں کے دور ِ عروج سے ہے ،جبکہ اس وقت صورت ِ حال بالکل تبدیل ہو چکی ہے ۔ جزیہ ، ذمی اور اہل ِ کتاب سے متعلق احکام ومسائل کو ان عالمی قوانین کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جن کو خود مسلمان ملک تسلیم کر چکے ہیں۔ تسلیم کرنا ہوگا کہ ”انسانی حقوق کا عالمی منشور“ (Universal Declaration of Human Rights) آج کا عالمی قانون ہے۔ اس قانون کی تمام شقوں کو قبول کرنا تو مسلم معاشروں کے لیے ممکن نہیں ہے، تاہم اس بحث میں زیادہ مثبت اور تعمیری انداز میں حصہ لینے کی ضرورت ہے اور اگر کسی جگہ لچک کی گنجائش موجود ہو تو اس کا لحاظ کیا جانا چاہیے۔ سیرتِ طیبہ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ کئی مواقع پر رسول اللہﷺ نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے بھی بین الاقوامی قانون ،عرف اور قبائلی رسم ورواج کا احترام کیا ۔مثلاً :جب حضور ﷺ کا مسیلمہ کذّاب کے سفیروں سے مکالمہ ہوا تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم مسیلمہ کو نبی مانتے ہو؟ تو انھوں نے کہا :ہاں ، حضرت عبداللہ ابن ِ مسعود سے روایت ہے کہ مسیلمہ کذّاب کے سفیروں کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”لوکنت قاتلاً رسولاً لقتلتکما، فمضت السنّۃ انّ الرّسلَ لا تَقتُل“ (8) یعنی اگر سفیروں کا قتل جائز ہوتا تو  میں تمہیں قتل کروادیتا۔ دیکھئے اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے لیکن آپ نے ان پر یہ حد جاری نہیں کی بلکہ فرمایا کہ چونکہ عالمی قانون یہ ہے کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا اس لئے میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں ورنہ میں تمہیں قتل کروا دیتا۔

سن ۹ہجری میں اقرع بن حابسؓ کی زیر ِقیادت بنوتمیم کا وفد اسلام قبول کرنے کے لیے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا، ان لوگوں نے قبولِ اسلام کے لیے بڑی عجیب شرط رکھی کہ آپ پہلے ہمارے ساتھ مفاخرت کریں،آپ کا خطیب ہمارے خطیب کا اور آپ کا شاعر ہمارے شاعر کا مقابلہ کرے ، تب ہم اسلام قبول کریں گے ۔آپ نے ان کے اس مطالبہ کو قبول کیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺکے حکم پر حضرت حسان بن ثابت ؓ نے ان کے شاعر زبر قان بن بدر کا مقابلہ کیا اور ثابت بن قیسؓ نے ان کے خطیب عطارد ابن حاجب کا مقابلہ کیا۔بنو تمیم نے با لآ خر حضورﷺ کے شاعر اور خطیب کی برتری کو تسلیم کر تے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔ (9) دیکھا جائے تو وفد ِبنی تمیم کا مطالبہ بالکل لایعنی تھا ،بالفرض اگر مسلمانوں کا شاعر اور خطیب مقابلے میں شکست بھی کھا جاتے تو پھر بھی اسلام کی حقانیت میں کوئی شک نہ تھا،لیکن اس کے باوجود آپ نے ان کے رسم ورواج کا احترام کیا۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے دوسری قوموں کے ساتھ مکالمے کی اتنی زبردست تیاری کر رکھی تھی کہ بنو تمیم نے جب قبول ِاسلام کی یہ عجیب وغریب شرط رکھی تو آپ نے بلا جھجک اپنے ان ساتھیوں کو طلب کیا جن کی خاص اسی مقصد کے لئے تربیت کی گئی تھی۔ اسی طرح جب آپ نے شاہان ِعالم کے نام دعوتی خطوط روانہ کرنے کا پروگرام بنایا تو واقفان ِحال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! حکمرانوں میں یہ اصول ہے کہ وہ ان خطوط پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے جن پر کوئی مہر(Seal) وغیرہ نہ ہو،چنانچہ اسی وقت آپ نے خطوط کو ُمہر بند کرنے کے لیے مُہر بنانے کا حکم دیا۔(10)

اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ داعیان ِ اسلام کے لئے لازم ہے کہ وہ عالمی عرف کو سمجھیں اور ان قوانین اور معاہدات کے مندرجات کا بھی تنقیدی مطالعہ کریں جن کی حیثیت اب مسلمہ بین الاقوامی قانون کی ہے ،اور جن کی پاسداری کا حلف خود مسلمان ممالک نے بھی اٹھا رکھا ہے ۔عالمی عرف اور بین الاقوامی معاہدات کے مثبت مطالعہ و تجزیہ سے مسلم معاشروں کے علاوہ عالمی سطح پر دعوت ِ دین کی سرگرمیوں کو مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔

۲۔ فرقہ واریت :

عصر حاضر کا ایک بڑا فتنہ مختلف عنوانات کے ساتھ اسلام کی تقسیم ہے ۔صوفی اسلام ،تبلیغی اسلام،سلفی اسلام، وہابی اسلام، جہادی اسلام،سیاسی اسلام،یہ تقسیم شیعہ اور سنّی اسلام کے علاوہ ہے ۔اس کے علاوہ دین کی فقہی اور کلامی تعبیرات کو مکمل دین کے طور پر پیش کرنے کا رجحان بھی پوری شدّومد کے ساتھ موجود ہے ۔حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مساجد اور مدارس کے ناموں سے مسالک کی نشاندہی کی جاسکتی ہے ،اس پر مستزاد یہ کہ آپ مذہب سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے ناموں ،کاموںاور حلیے سے باآسانی ان کا مسلک معلوم کرسکتے ہیں۔ علماءکرام دین ، مذہب ، مسلک، ذوق اور تاریخ میں فرق کرنے کے لئے تیار نہیں ہےں جس سے فرقہ واریت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ علماءکرام کی اکثریت اپنے مسالک،فقہی مذاہب اور روحانی سلاسل کو ہی کل دین کے طور پیش کر رہی ہے۔اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ بعض کوتاہ نظر اور نام نہاد علماءبعض تاریخی واقعات اور علاقائی رسم و رواج کو ہی کل دین کا درجہ دے رکھا ہے۔

 ضرورت اس امر کی ہے کہ کلامی، فقہی اوراسلامی فرقوں کا مثبت انداز میں مطالعہ کیا جائے ۔ بین المسالک ہم آہنگی کا فروغ اس دور کی ضرورت ہے ۔ مسلک اور دین میں فرق کئے بغیرہم آہنگی کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ موجودہ صورت ِ حال یہ ہے کہ نصوص ، اجتہادات اور رواجات میں فرق کی ضرورت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ فروعی مسائل اور بنیادی عقائد میں فرق نہیں کیا جا رہا ۔سماجی رسوم و آداب میں بھی ہمارا رویہ بڑا عجیب و غریب ہے ، کسی رواج کا اسلام کے مطابق ہونا اور چیز ہے اور اسلام ہونا بالکل دوسری چیزہے ،دین اور کلچر کا باہمی تعلق اور اس کی حدود کیا ہےں ؟یہ بات بھی سمجھنا بہت ضروری ہے ،ورنہ اس ملت کونئے سے نئے فتنوں سے بچانا ممکن نہیں ہوگا۔

آج کے ماحول میں ایک سچے داعی کے لئے صحیح رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اسلام کو مکمل ضابطہ  حیات کے طور پر تسلیم کرے، اب بے شک وہ عملی جدوجہد کے لئے کسی ایک میدان کا انتخاب کرلے، لیکن دین کے دوسرے شعبوں کے ساتھ اس کو مربوط کرے ،اور مناسب یہ ہے کہ وہ دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے لوگوں کی قدر کرے ۔ فروعی مسائل میں دین میں تنوع اور توسع کے حوالے سے اعتدال پسندعلماءکی فکرکا مطالعہ راہنمائی کے لئے مناسب ہوگا۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے کہ فرقہ بنیادی عقائد میں انحراف سے بنتا ہے تو اس لحاظ سے دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث ایک ہی گروہ شمار ہوں گے اور ان کے مقابل شیعہ دوسرا گروہ شمار ہوگا، ملی یکجہتی کا تقاضا یہ ہے کہ شیعہ کی عمومی تکفیر اجتناب کرنا چاہیے ،تاہم شیعہ کے وہ ذیلی فرقے جن کی تکفیر خود اہل ِ تشیع نے کی ہے ان کا معاملہ البتہ دوسرا ہے ،کیونکہ شیعہ کے بعض اقلیتی گروہوں کی گمراہی کے دلائل موجود ہیں ۔مرزا غلام احمد قادیانی(م ۱۹٠۸ء) کی جانب منسوب ”جماعت ِ احمدیہ “ کو ایک باطل فرقہ کہنا حق بجانب ہے کیونکہ وہ ختم ِ نبوت کے بنیادی عقیدے کے منکر ہیں۔

۳۔ مروّجہ تصو ّف :

جس طرح تصوف کوعین ِ دین کہنا غلط ہے اسی طرح تصوف کو متوازی دین کہنا بھی غلط ہے، بلکہ د رست یہی ہے کہ یہ دین کی روحانی تعبیر کا ایک ایسا پہلو ہے جو ”وَیُزَکِّیہِم“ کے عنوان کے ساتھ منصب ِ رسالت کا لازمی تقاضا ہے اور رسول اللہ ﷺ کا مقصد ِ بعثت ہے ۔ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے تکوینی نظام کے مطابق مختلف افراد اور گروہوں سے دین کی حفاظت اور ترویج و اشاعت کا کام لیا ۔محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل نے متون (Texts) کی حفاظت کا کارنامہ اس انداز میں انجام دیا کہ تاریخ ِ علوم میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے ۔ فقہاءکرام نے اس متن کو بنیاد بنا کر دین اسلام کو معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ کر نے کا عظیم کارنامہ انجام دیا اور ثابت کیا کہ دین اسلام صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیوی کامیابی کا بھی ضامن ہے، صوفیہ کرام نے تزکیہ نفس کے عنوان کے ساتھ دین کے روحانی پہلو کو اجاگر کیا ، خدمت ِ خلق اور ذاتی کردار سے مخلوق ِ خدا کو ایمان کی دولت سے آشنا کرکے ان کی روحانی تسکین کا سامان کیا ۔دین ِ اسلام کے تحفظ اور ترویج و اشاعت میں محدثین ،فقہاءاور صوفیہ ،تینوں طبقات کا کردار آب ِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔یہ وہ تناظر ہے جس میں تمام روحانی سلاسل کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ برصغیر کے معروف روحانی سلاسل کے مزاج کا ادراک کئے بغیر ان کی خدمات کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔

حضرت باقی باللہ(۱۵۶۴۔۱۶٠۳ء) کی آمد سے پہلے ہندوستان میں جو روحانی سلاسل قادریہ، سہرودیہ اور چشتیہ مقبول و مشہور تھے وہ تمام کے تمام ایران اور ایرن کی علمی سرحد عراق کی پیداوار تھے ۔ان تینوں سلسلوں میں جزوی اور فروعی اختلافات تو تھے لیکن ان کا روحانی پس منظر اور مزاج ایک ہی جیسا تھا،ان تینوں سلسلوں میں وحدة الوجود کا طریقہ رائج تھا ۔ان روحانی سلاسل میں دیگر سلاسل کی بنسبت بین المذاہب ہم آہنگی کی صلاحیت زیادہ ہے ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بر صغیر میں آغاز ِاسلام کے وقت ان سلاسل کے مزاج نے فروغ ِ اسلام میں اہم کردار ادا کیا۔ان روحانی سلاسل نے دعوت وتبلیغ کے میدان میںکئی نئے تجربات کئے۔ان سلاسل کے بزرگوں نے وقت اور حالات کے زیر اثر اس طرح کے” تبلیغی اجتہادات“ فرمائے جس کے نتیجے میں دیگر قوموں سے مسلمانوں کی سماجی اور معاشرتی سطح پر ہم آہنگی میں زبردست اضافہ ہوا ۔ذات پات کے نظام میں جھکڑے ہوئے برصغیر میں صوفیہ نے انسانی مساوات کے اسلامی تصور کو اپنے عمل سے اس طرح نمایاں کیا کہ پسے ہوئے طبقوں کے لئے اسلام امید کی آخری کرن بن کر ظاہر ہوا۔

 ہندوستانی معاشرے میں جہاں لوگ مذہبی رسومات وعبادات ،بھجن اور اشلوک وغیرہ صرف ساز و ترنم کے ساتھ ہی سننے کے عادی تھے، وہاں صوفیہ نے ہندو قوم کو دعوت وتبلیغ کے لئے سماجی سطح پر اپنے قریب رکھنے کے لئے ”قوالی “ کی صورت میں ایک منفرد تجربہ کیا ۔ خانقاہی نظام میں ”لنگر خانے“ کے ادارے کو بھی دعوتی نقطہ  نظر سے دیکھنے کی ضرروت ہے۔ جس میں بلا رنگ و نسل اور مذہبی شناخت ،لوگوں کی حاجت براری کی جاتی ہے ۔ اسی دور میں ہم حضرت میاں میر ؒ جیسی بزرگ ہستی کو سکھوں کے مقدس مذہبی مرکز ” دربار صاحب امرتسر “(گولڈن ٹیمپل ) کا سنگ ِ بنیاد رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔برصغیر میں ہندو اکثریت کے کئی علاقوں میں صوفیہ نے اپنے مریدین کو تلقین کی کہ وہ ہندووں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے گائے کے ذبیحہ سے اجتناب کریں۔ دیگر مذاہب کے بارے احترام کا یہ رویہ صوفیہ کا آزمودہ دعوتی منہج ہے ،مذہبی تکثیریت پر مبنی ہندوستانی معاشرے میں اس طریقِ دعوت کے گہرے اثرات کا ہم بآسانی مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ہماری رائے میں سر زمین ہند میں صوفیہ نے وحدة الوجود کی تعبیر خاص مصلحت کے تحت اختیار کی تھی اوریہ بھی ایک طرح کا” تبلیغی اجتہاد “ہی تھا جس کے نتیجے ہیں تبلیغ اسلام میں بہت سہولتیں پیدا ہوئیں ۔ ہندو جوگی اور بہت سے ریاضت کرنے والے قدیم ہندو ”ویدانت فلاسفی “ کو ماننے والے جو وحدة الوجود کے قائل تھے وہ اس تعبیر کے نتیجہ میں ہی مسلمان ہوئے۔

مذاہب عالم کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مختلف مذاہب کی شریعتیں اگرچہ مختلف ہوتی ہیں، لیکن حکمت کے کئی اعلیٰ اصول بالعموم تمام مذاہب میں مشترک ہوا کرتے ہیں اور یہ اصول اقوام و ملل کے درمیان فکری اتحاد اور یگانگت کا باعث بنتے ہیں ۔ ایک بالغ نظر داعی ،مدعو قوم کے ان اصولوں کو بھلا کیسے نظر انداز کر سکتا ہے جو باہمی قربت کا باعث بن سکتے ہیں ۔ سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کے ان تمام مظاہر کے باوجودصوفیہ نے اس چیز کا ہمیشہ خیال رکھا کہ مسلمانوں کی مذہبی شناخت پوری طرح برقرار رہے۔لیکن جس طرح کہ اس طرح کے معاملات میں ہمیشہ سے ہوتا آیاہے بعض غیر محتاط صوفیہ، جن کے لئے حضرت مجددؒ نے ”صوفیائے خام “ کی اصطلاح کثرت سے استعمال کی ہے ، نے مذہبی رواداری کی آڑ میں اسلامی اورہندوتصوف میں قائم حد فاصل کو مٹانے کی کوشش کی ۔ ہندوستانی معاشرے میں غیر محتاط صوفیہ نے اس طرح کے حالات پیدا کر دیے جس سے مسلمانوں کا تشخص خطرے سے دو چار ہونے لگا اور یہ خدشہ حقیقت کا روپ دھارتا ہوا نظر آ رہا تھا کہ جس طرح دیگر کئی مذاہب ہندوستانی معاشرے میں ضم ہو کر اپنی شناخت کھو چکے ہیں کہیں مسلمان بھی اپنی مذہبی شناخت سے محروم نہ ہو جائیں ۔ یہی وہ دور ہے جب ہندوستان کے افق پر نقشبندی سلسلے کا ظہور ہوا۔بر صغیر میں مختلف روحانی سلاسل کی آمد کے ادوار کو محض اتفاق کہنا شاید درست نہ ہو بلکہ اس میں قضاءو قدر کی دخل اندازی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے ، اگر آغاز میں ہی برصغیرمیں نقشبندی سلسلے کا ورود ہو جاتا تو شایدہندوستانی معاشرے میں اشاعت ِاسلام کی رفتار کم رہتی۔ نقشبندیہ کا عمومی مزاج تاریخ علوم میں محدثین کے مماثل ہے جبکہ قادریہ ،سہروردیہ اور چشتیہ کا عمومی مزاج فقہاءکے مزاج کے مماثل ہے ۔لیکن جو چیز محسوس کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تکوینی نظام کے مطابق اشاعت ِ اسلام کاکام دیگر سلاسل سے لیا اوراسلامیان ِ ہند کے اسلامی تشخص کے تحفظ کا کام اس روحانی سلسلے سے لیا جو تاریخ میں مجددی نقشبندی سلسلے کے نام سے معروف ہے۔

ان سطور میں ہمارے پیش ِ نظر صرف یہ بتانا ہے کہ اگرچہ بر صغیر میں فروغ ِ اسلام میں عرب تاجروں،مجاہدین اسلام اور مسلم حکمرانوں کی خدمات بھی قابل ِ قدر ہیں ،لیکن ہندوستان میں اسلام کی جڑیں پاتال تک پہنچانے کا بنیادی کردار صوفیہ کرام نے ہی انجام دیا ۔ لیکن اس وقت صوفیہ کرام اور خانقاہی نظام کے نام پر جو جعل سازی ہو رہی ہے وہ انتہائی قابل ِ افسوس ہے ۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ اہل ِ تصو ّف کی کتب میں تصو ّف اور ہے ،جبکہ مروجہ تصوف کی شکلیں اس سے بالکل ہٹ کر اور الگ ہیں ۔کوئی صوفی اور پیر جاہل نہیں ہو سکتا ،اور ناہی کسی ایسی خانقاہ کا تصور بھی کیا سکتا ہے جس کے ساتھ مسجد ،مدرسہ اور تزکیہ نفس کا مستقل حلقہ موجود نہ ہو ۔علماءکرام پر لازم ہے کہ وہ مروجہ تصوف پر قرآن و سنّت کی روشنی میں کھل کر تنقید کریں ۔ یہ جان لینا ضروری ہے کہ جاہل صوفیہ اور ان کے پھلائے گئے غلط تصو ّرات پر علمی تنقید کے بغیر اسلامی تصو ّف کا دِفاع ممکن نہیں ہے ۔ آج سے ایک ڈیڑھ صدی قبل یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتاتھا کہ کوئی شخص کسی صوفی سلسلے سے وابستگی کے بغیر دین کی حقیقت سے آشنا بھی ہو سکتا ہے ، لیکن پھر جعل سازی نے خانقاہی نظام کے مقدس ادارے کو بری طرح متاثر کیا، جس کی ذمہ داری جعلی صوفیہ اور سجادہ نشین حضرات پر عائد ہوتی ہے ۔علماءکرام پر لازم ہے کہ وہ صوفیہ کرام کی خدمات،اسلوب ِ دعوت اور میدان ِ دعوت میں ان کے اجتہادات پر پوری بصیرت سے غوروفکر کریں ،تمام سلاسل تصوف کے مزاج کو سمجھیں اور ان کی اصل تعلیمات کو اجاگر کریں۔

۴۔ اسلامی جدیدیت اور مابعد جدیدیت :

جدیدیت (Modrenism)اور مابعد جدیدیت(Post Modrenism) اگر چہ مغربی اصطلاحات ہیں لیکن محض تفہیم ِ مطلب کے لئے ہم ان اصلاحات کو مسلمانوں کے عہد ِ زوال میں جنم لینے والی مختلف علمی اور فکری تحریکوں کے تعارف اور تجزیہ کے لئے استعما ل کریں گے۔گذشتہ دو اڑھائی صدیوں میں مسلمانان ِ عالم ،سیاسی ، معاشرتی،معاشی اور علمی واخلاقی سطح پر زوال کا شکار ہیں، فکری انحطاط کے اس دور میں ایسے افراد اور گروہوں نے جنم لیا، جنہوں نے اسلامی نصوص کی تعبیر و تشریح میں بالکل آزادانہ نقطہ نظر اختیار کیا ۔ مغربی فکر و فلسفہ سے ذہنی مرعوبیت کے شکار جن اہل ِ علم نے مغربی اصولوں کی روشنی میں اسلام کی ” تشکیل ِ جدید “کا بیڑا اٹھایا، ان میں سر سید احمد خان ( م ۱۸۹۸ء) اور ان کے رفیق ِ کار مولوی چراغ علی (م ۱۸۹۵ء)، فرقہ اہل ِ قرآن کے بانی مولوی عبداللہ چکڑالوی (م ۱۹۱۴ء)،خواجہ احمد الدین امرتسری(م ۱۹۳۶ء)، حافظ محمد اسلم جیراج پوری (م ۱۹۵۵ء)، علامہ عنایت اللہ المشرقی(م ۱۹۶۴ء)، نیاز فتح پوری (م ۱۹۶۶ء) ، علامہ غلام احمد پرویز (م ۱۹۸۵ء) ،ڈاکٹر فضل الرحمن (م ۱۹۸۸ء)، مولانا جعفر شاہ پھلواری (م ۱۹۸۸ء)،علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی (م ۱۹۹۱ء) اور عمر احمد عثمانی(م ۱۹۹۶ ء) وغیرہ اسلام میں جدیدیت کے حوالے سے خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں ۔عالم ِ عرب میں ڈاکٹر احمد امین مصری (م ۱۹۵۴ء) محمود ابوریّہ اور جامعہ ازہر کے استاذ شیخ محمد شلتوت بھی اسی گروہ میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔

ما بعدجدیدیت کی اصطلاح کے ذیل میں علامہ شبلی نعمانی (م ۱۹۱۴ء) ،علامہ حمید الدین فراہیؒ(م ۱۹۳٠ء) اور مولانا امین احسن اصلاحی (م ۱۹۹۷ء) قابل ِ ذکر ہیں۔ دور ِ حاضر میں محترم جاوید احمد غامدی اس مکتب ِ فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں ، جبکہ بعض اہل ِ علم نامور محقق اور دانشور جناب ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر کو بھی فراہی مکتب ِ فکر کا نمائندہ خیال کرتے ہیں ۔ بہرحال یہ وہ لوگ ہیں جو روایت پسند اور جدیدیت پسندطبقے میں پل کا کردار ادا کررہے ہیں اوربے چارے پل کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی طرف بھی شمار نہیں ہو پاتا،اور اس کا تعارف بھی بالآخر ایک مستقل گروہ کے طور پر ہی کیا جانے لگتا ہے ۔اس کے علاوہ مسلم معاشروں کے اندر کئی ایسے اہل ِ علم اور تحریکوں نے بھی جنم لیا ، جنہوں نے روایت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے تئیں عصری تناظر میں اسلام کی تعبیر و تشریح کا بیڑا اٹھایا ۔ عالم ِ عرب میں اخوان المسلمون کے بانی حسن البناءشہید ؒ اور پاکستان میں جماعت ِاسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰؒ (م ۱۹۷۹ء) نے اسلام کے ہمہ گیر غلبے کے لئے اسلام کی جدید سیاسی تعبیر پیش کی۔ پہلی جنگ ِ عظیم میں ترکوں کی شکست اور خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مغربی استعمارکے رد ِ عمل میں سیاسی تحریکوں کے ساتھ جہادی تحریکوں نے بھی جنم لیا ، رد ِ عمل کی نفسیات لے کر پروان چڑھنے والی جہادی تحریکوں کے پلیٹ فارم سے اسلام کے تصور ِ جہاد کی بعض ایسی تعبیرات بھی سامنے آئیں جن پر راسخ العقیدہ علماءبھی شدید تحفظات رکھتے ہیں، اس حوالے سے القاعدہ اور داعش وغیرہ کے تصور ِ جہاد کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

علماءکرام کے لئے لازم ہے کہ وہ اس نوعیت کی فکری بحثوں سے گہری واقفیت حاصل کریں ، اور فکری کشمکش کے اس ماحول میں اسلام اور اہل ِ اسلام کے حوالے سے جو سوالات اٹھ رہے ہیں ان کو ایڈریس کریں ۔ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ نئی نسل جس ماحول میں پروان چڑھ رہی وہ بے لگام عقل پرستی کا دور ہے ۔ اب وہ دور نہیں ہے کہ جب علماءکرام پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ صرف مسئلہ بتادینا کافی سمجھا جاتا تھا ،بلکہ اب لوگ مسائل کو دلائل کے ساتھ جاننا چاہتے ہیں۔ مزید یہ کہ مغربی تہذیب نے مسیحیت کو چاروں شانے چت کرکے اپنی برتری منوائی ہے اور مذہب کو انسان کی اجتماعی زندگی سے خارج کرکے اس کو انسان کا نجی معاملہ قرار دے دیا ہے ۔آج کا نوجوان مغرب کی ان کامیابیوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ،اور ان اسباب سے بھی آگاہ ہے جن کی بدولت ان کو یہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔اس ماحول میں نئی نسل کے سوالات سے صر فِ نظر نہیں کیا جا سکتا ،فتوے سے زبان تو بند کی جاسکتی ہے، لیکن ذہن کو سوچنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ جدید ذہن میں مذہب کے بارے جو شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں، ان کاجواب اس پس منظر کو جانے بغیر ممکن نہیں ہے جس میں ان سوالات نے جنم لیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ مغربی فکر و فلسفہ کے عالم گیر غلبے کے بعد خود مذہب کے حوالے جن نئے سوالات نے جنم لیا ہے ان کا کوئی جواب مدارس کے روایتی نصاب کی بنیاد پر دینامشکل ہورہا ہے ۔اہل ِ مذہب نے مذہب سے متعلق اٹھنے والے سوالات سے چشم پوشی کا جو رویہ اختیار کر رکھا ہے اس سے یہ تاثر پیدا ہورہاہے کہ مذہب کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب سرے سے موجود ہی نہیں ۔ اس رویے کے بعض نتائج و اثرات ہم اپنی انکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ نئی نسل تیزی کے ساتھ تہذیبی ارتداد کا شکار ہو رہی ہے ۔ حال یہ ہے کہ مسلم معاشروں کے اندر ایک طبقہ تو وہ ہے جو غیرعلانیہ طور پر مذہب سے دستبرداری اختیار کرچکا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ مذہب کا اب انسانی زندگی میں کوئی کردار باقی نہیں رہا ،جبکہ دوسرا طبقہ اپنے آپ کو ان اہل ِ تجدد سے وابستہ کر رہا ہے جو ان کے سوالات کو ایڈریس کرتا ہے اور وہ ان کو مطمئن کرنے میں کوشاں ہے۔ علماءکرام پر لازم ہے کہ وہ مذہب کو درپیش ان چیلنجز کا ادراک کریں اور فتوے کی زبان میں بات کرنے کی بجائے عقلی اور فطری دلائل کے ساتھ مذہب کی ضرورت و اہمیت کو ثابت کریں۔ اہل ِ تجدد میں سے جن افراد یا جماعتوں سے جو علمی اور فکری غلطیاں ہوئی ہیں، فتویٰ بازی کے بجائے ان کا علمی اور فکری محاذ پر تعاقب ضروری ہے، بصورت ِ دیگر نئی نسل کو فکری پراگندگی اور تہذیبی ارتداد سے بچانا ممکن نہیں ہو گا۔


دعوت ِ دین میں درپیش شخصی چیلنجز

۱۔ عزت و احترام کی بحالی :

علماءکرام ہر دور میں معاشرے کا ایک معزز طبقہ شمار ہوتے رہے ہےں ،لیکن اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ علماءکرام اپنا مقام تیزی سے کھورہے ہیں۔ایک وقت وہ تھا جب مولوی ،مولانا اور علامہ جیسے الفاظ باعث ِ عزت سمجھے جاتے تھے ،اور کسی شخص کے نام کے ساتھ ان القابات کا لکھا جانا اس کے علمی اور سماجی قد کاٹھ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مولانا ظفر علی خان، مو لانا الطاف حسین حالی،بابائے اردومولوی عبد الحق اور تحریک ِ خلافت کے روح ِ رواں علی برادران سمیت بیسیوں اہل ِ علم کے ناموں کے ساتھ ان القابات کا بولا جانا ان الفاظ کی حرمت و تقدس کی دلیل ہے، لیکن اب یہ الفاظ اپنی قدر و قیمت کھو چکے ہیں۔ مدارس ِ دینیہ کے فضلاءبھی اب مولوی کہلوانا پسند نہیں کرتے ۔یہ بات بھی کم تشویشناک نہیں کہ سوسائٹی کے مقتدر طبقات مسجد ، مدرسے اور دین سے اپنی محبت اور وابستگی کا اظہار تو ضرور کرتے ہیں اور دینی مقاصد کے لئے رقم بھی خرچ کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کودین کی راہ میں دینے سے ہچکچاتے ہیں ۔ اس وقت دینی مدارس میں پڑھنے والے زیادہ تر طلبہ کا تعلق ایسے غریب گھرانوں سے ہے جو ان کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں یا پھر ایسے خاندانوں سے ہے جو پہلے سے اپنی الگ اور مستقل مذہبی شناخت رکھتے ہیں ۔اس صورت ِ حال میں سیاسی گھرانوں کی طرح مذہبی گھرانوں اور ایسے سجادہ نشینوں کا طبقہ وجود میں آچکا ہے جن کا مقصد مذہب کے نام پر عوام الناس کا استیصال ہے ، کسی ذاتی صلاحیت کی بجائے محراب ومنبر کا وراثت میں منتقل ہونا اور ایک ہی خانقاہ پر سجادہ نشینوں کی فوج ظفر موج کا معرضِ وجودمیں آناایک ایسی خوف ناک حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔یہ ایک بڑی وجہ ہے جس نے دینی قیادت کو بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔ بقو ل اقبال

میراث میں آئی ہے انھیں مسند ِ ارشاد
زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن

دعوت ِ دین کو خاندانی پیشے اور کاروبار کے طور پر اختیار کرنے کا نتیجہ اور ردِ عمل بھی عوامی سطح پر دیکھا جا سکتا ہے کہ معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ حق پرست علماءکرام کو بھی”کاروباری“ سمجھنے لگا ہے۔

علما ءکرام اور داعیان ِ اسلام کا وہ طبقہ جنہوں نے اس میدان کو ایک مشن کے طور پر اختیار کیا ہے ان کے مسائل البتہ دوسرے ہیں۔ اپنی نیک نیتی اور اخلاص کے باوجود ایسے علماءکا دائرہ اثر بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے ۔ اس صورت ِ حال کے اسباب بالکل ظاہر ہیں ، ہماری رائے میں اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اس وقت عمومی طور پر اسلام کی جو تبلیغ ہو رہی ہے اس کے غالب حصے کا تعلق شمائل و فضائل اور ہمارے مرنے کے بعد کے معاملات سے ہے ، جس سے یہ تاثر بن رہا ہے کہ دین محض جینے مرنے کے چند رسوم و آداب پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے اور بس،ہماری دنیوی زندگی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علما ءکرام کو عام طور پر صرف مرحومین کو بخشوانے کے لئے ہی زحمت دی جاتی ہے ۔ہمارے خیال میں اس کا دوسرا سبب قرآن و سنّت کا تقلیدی مطالعہ ہے ، سنجیدہ فکر علماءکرام بھی اکابر کی فقہی آراءاور کلامی تعبیرات کو عملاً منزل من اللہ کے درجے میں ہی شمار کرتے ہیں اوربراہ ِ راست قرآن و سنّت کا مطالعہ کرنے کی بجائے اکابرین کی اجتہادی آراءکی روشنی میں قرآن و سنّت کا مطالعہ کرتے ہیں۔علماءکرام کا یہ انداز ِ فکر اس وجہ سے قابل ِ اصلاح ہے کیونکہ قرآن و سنّت پر براہ ِ راست اور تواتر کے ساتھ غوروفکر کے نتیجے میں جو بصیرت پیدا ہوتی ہے انسان اس سے محروم ہو جاتا ہے۔

ہماری رائے میں علماءکرام کی اثرپذیری میں کمی کا سبب یہ بھی ہے کہ اسلام کا بہت گہرا اور برا ہ ِ راست تعلق ہماری معاشی ،سیاسی،معاشرتی اور اخلاقی زندگی سے ہے ،لیکن علماءکرام کی ایک بڑی تعداد جیتے جاگتے اور معاشرے کے زندہ موضوعات(Current issues) پر عصری تناظر پر گفتگو کرنے سے قاصر ہے ۔ ہماری رائے میں اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس وقت جدید تعلیمی اداروں سے جو نسل تیار ہوکر نکل رہی ہے ان کی سوشل سائنسز پر تو نظر ہے لیکن ان کا دینی علم انتہائی کمزور ہے اور دوسری طرف جو نسل روایتی دینی اداروں سے فارغ التحصیل ہو رہی ہیں ان کا حالات حاضرہ ،جدید معاشی ،سیاسی اور عمرانی علوم سے تعارف نہ ہونے کے برابر ہے،عالمی قانون ،عرف،رسم ورواج اور مغربی فکر وفلسفہ توان کے لئے قطعاً اجنبی چیزیں ہیں ۔ ملک میں پڑھے لکھے طبقے کی دو مستقل جماعتیں قائم ہوگئیں ہیں،ایک طبقہ دوسرے پر فسق والحاد اور بے دینی کا الزام عائد کرتاہے، تو دوسرا اس پرتاریک خیالی اور زمانے سے ناواقفیت کی پھبتیاں کستا ہے۔مسڑاور ملا  کے طنزیہ ناموں سے قائم ان طبقوں میں کشمکش مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس ِ دینیہ کے نظام و نصاب میں کسی خارجی دباوکے بغیر از خود ایسی تبدیلیوں کو بروئے کا ر لایا جائے جس کے نتیجے میں علماءکرام کی ایک ایسی کھیپ تیار ہو جو عصری موضوعات پر علمی انداز میں گفتگو کرسکے ۔ انسانیت نوازی، وسعت علمی اور ذاتی کردار ہی علماءکرام کی عزت و وقار اور معاشرتی کردار کی بحالی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

۲۔ علمی تراث سے واقفیت :

قوموں کے عروج و زوال میں علم اور اخلاق کا کردار بنیادی نوعیت کا رہا ہے ۔اسلام میں پہلی وحی کا آغاز ہی ”اِقرَا“ سے ہوا ۔مسلمانوں کے عروج میں ان کے اخلاق و کردار کے ساتھ علم و تحقیق سے ان کی والہانہ محبت نے اہم کردار ادا کیا ،اور پھر تحقیق و جستجو کے میدان میں تنزلی نے ہی ان کے عروج کو زوال آشنا کیا ۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور کی متمدن تہذیبوں سے بھر پور استفادہ کیا اور ان علوم کا اس انداز میں ”تزکیہ“ کیا کہ مسلمانوں کے ایجاد کردہ علوم و فنون پوری انسانیت کی اجتماعی ترقی کی بنیاد بن گئے ۔ مسلمانوں کی تحقیقات کے نتیجے میں مشرق و مغرب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا،اقوامِ ِ عالم بالخصوص مغرب نے علمی میدان میں مسلمانوں سے خوب اخذ و استفادہ کیا ۔ ہلاکو خان کے حملہ بغداد ۱۲۵۸ء  تک مسلم فکر میں زبردست ارتقاءنظر آتاہے ۔بغداد کی تباہی سے نہ صرف مسلمانوں کی صدیوں کی علمی ترقی اور ذہنی ریاضت دریا برد ہوگئی بلکہ کئی نامور علماءبھی تاتاری تلوار کی نذرہوگئے ،اور ۱۴۹۲ء  میں سقوط غرناطہ کے بعد مسلم فکر کے تقریباً تمام علمی سر چشمے خشک ہوگئے۔ مسلمان علمی میدان میں اجتہاد کے بجائے تقلید کا شکار ہو گئے اور علمی روایت آہستہ آہستہ مکمل طورپر مغر ب کی طرف منتقل ہوگئی۔ اگر چہ ان دو بڑے حادثات کے بعد بھی مسلمانوں کو سیاسی عروج حاصل رہا،لیکن فکری اور علمی اعتبار سے یہی مسلمانوں کادورِ انحطاط ہے۔

درس نظامی کے روایتی نصاب پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مدارس ِ دینیہ کے نصاب میں شامل اکثر کتب اور علوم وفنون اسی دور زوال کی یاد گار ہیںجب مسلمانوں کا علمی انحطاط شروع ہوچکاتھا اور مسلم فکر پر جمود کے سائے پڑنا شروع ہوگئے تھے ۔جب کہنے کو کچھ باقی نہ رہا تو غیر منقوط کتب نویسی ہی کمال ِ فن قرار پایا، نئے علوم وفنون اور زندہ موضوعات پر غور وفکر کی بجائے ایسی کتابیں منصہ شہود پر آنے لگیں ،جن میں اختصار نویسی ، لفظی بحثوں اور لفظی موشگافیوں کو ہی کمال فن سمجھا جانے لگا۔بڑا کمال یہی سمجھا گیا کہ عبارت ایسی دقیق اور غامض ہو جس کے لئے شرح وحاشیہ کی ضرورت ہو ، لطیفہ یہ ہے کہ بعض اصحاب ِ علم نے ذہنی عیاشی کی خاطر انتہائی مختصر کتب تصنیف کیں ۔اور پھر خود ہی ان پر طویل حواشی لکھنے بیٹھ گئے، اور اب ہمارے مدرسین اپنی عمر عزیز کا زیادہ حصہ انہی دقیق عبارتوں کے سمجھنے اور سمجھانے میں گزار دیتے ہیں۔مصنف کی مراد ،ضمائر کے امکانی مراجع اور عبارت کی اعرابی حالتوں کے ایسے خیالی پلاﺅ پکائے جاتے ہیں کہ بسااوقات ایسی بحثوں میں کئی کئی ہفتے گزر جاتے ہیں اور نتیجہ پھر بھی غیر حتمی ہی رہتاہے۔گویا فن میں مہارت کے بجائے کتاب کی تفہیم حقیقی مقصد بن کر رہ گئی ہے ۔ علم و تحقیق میں زوال کے ساتھ ہی ہماری علمی روایت اور علمی میراث بھی مغرب کی طرف منتقل ہو گئی ۔بقول علامہ اقبال   وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباءکی  دیکھا ان کو جو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سہ پارہ     

عام طور پر درس نظامی کی تکمیل پر فرض کرلیا جاتا ہے کہ علم کی تکمیل ہو گئی ہے ،حالانکہ حقیقت صرف اس قدر ہے کہ درسیات کی تکمیل سے انسان صرف ایک سچا طالب علم بننے کی صلاحیت حاصل کرپاتا ہے۔

علماءکرام کو اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ علم کے جدید وسائل اور ذرائع نے نئی نسل کو بہت باخبر بنا دیا ہے ،جدید عمرانی علوم میں گہری بصیرت کے بغیر اسلا م کی عصری احوال و ظروف میں تبلیغ ممکن نہیں ہے۔طبقہ  علماءمیں موجود”العوام کالا نعام “ کے دقیانوسی تصور کو اب تبدیل کر لینا چاہیے۔ علماءکرام کے لئے ضروری ہے کہ وہ علمی اختلاف ِ رائے کے باوجود متقدمین کے ساتھ ساتھ دور ِ جدید کے نامور علماءاور شخصیات کی فکر کا مطالعہ کریں اور ان کی اہم کتب پڑھ ڈالیں ،نیز مختلف موضوعات مثلاً سوشل سائنسز پر منتخب کتب کا مطالعہ بھی ضروری ہے ۔اس چیلنج سے نبرد آزما ءہونے کے لئےمطالعہ کی کمی،مخصوص ذہنیت کے ساتھ مطالعہ کا ذوق،متشددانہ رویے ، جذباتیت ،سطحیت جیسی منفی اپروچ کی اصلاح ضروری ہے۔

۳۔ معاشی مسائل :

 دنیا میں ایساکوئی مذہب اور نظریہ کامیاب نہیں ہو سکتا جو روح اور بدن میں سے ایک کو ابھارے اور دوسرے کو کچل دے۔ عیسائیت ، ہندو مت ، بدھ مت، اور دیگر مذاہب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ انہوں نے ترک دنیا اور رہبانیت کے تیشے سے انسانی جسم کو صرف اس لیے گھائل کر دیا ہے تاکہ انسانی روح کو بیدار کیا جا سکے۔ لیکن اس غیر طبعی تعلیم اور جان سوزی کے نتیجے میں روح کی شمع بھی گل ہو کر رہ گئی۔ اہل کلیسا نے خانقاہوں میں بسیرا کر لیا، ہندووں او ر بدھوں نے جنگلوں کا رخ کر لیا۔مذاہب عالم میں ا سلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے روح اور جسم ددنوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھا، اور انسان کے پیٹ کے مسائل کو ایک معاشی مسئلے کے طور پر موضوع بنایا ۔مذاہب ِ عالم میں اسلام یہ منفرد سوچ رکھتا ہے کہ اس نے خالصتاً روحانی غلطیوں پر بھی مالی جرمانے کی سزا عائد کی ہے، تاکہ ضرورت مندوں کی داد رسی کے ذریعے خدا کی مرضی حاصل کی جا سکے ۔حکم ہے کہ اگر رمضان کا روزہ ٹوٹ جائے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔قسم ٹوٹنے کی صورت میں تین مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے ۔اپنی بیوی سے ظِہار کی صورت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے ۔حتی کہ قتل جیسے سنگین معاملے میں مقتول کے ورثاءضرورت مند ہوں تو وہ دیت پر صلح کر سکتے ہیں ۔ دیت پر صلح کے امکان کو تسلیم کیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام نے انسان کے معاشی مسائل کے حل کو اتنی اہمیت دی ہے کہ ایک پہلو سے اس کو دین اور ایمان کی مضبوطی کے لےے اساس قرار دیا ہے۔  رسول اللہ ﷺکا یہ فرمان معاشی مسئلے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے:

      کَادَ الفَقرُ اَن یَّکُونَ کُفراً۔ (11)  قریب ہے کہ تنگدستی انسان کو کفر تک پہنچا دے۔

 اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ داعیان ِ اسلام کو ایک طرف تو یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ دین کی دعوت کا کام ایک مشن کے طور پر کریں اور دوسری طرف ضروریاتِ زندگی سے بھی صرف ِ نظر ممکن نہیں ہے ۔تاریخ کے مختلف ادوار میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلم معاشروں میں دین کی دعوت و تبلیغ کو عوامی سر پرستی کے ساتھ ریاست کی معاونت بھی حاصل رہی ہے ،لیکن اب کم ازکم برصغیر کی حد تک ریاست علماءکرام کی معاشی ضروریات کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ ان حالات میں مدارس کے مہتمم حضرات سے ہی یہ گزارش کی جاسکتی ہے کہ وہ حالات ِ حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے نصاب ِ تعلیم میں شعوری طور پر ایسی تبدیلیاں بروئے کار لائیں جو باعزت روز گار کی ضمانت بن سکیں ۔آج مارکیٹنگ کا دور ہے اس دور میں علماءکرام کے لئے ایسی ورکشاپس کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے، جو ان کے لئے درست میدانِ عمل (ملازمت ،تدریس، خطابت ، کاروبار ، وغیرہ )کے لئے معاون ہوں۔


مصادرو مراجع

    1.   النحل ،۱۶/۱۲۵

    2. اٰل عمران ،۳/۶۴

    3. احمد بن حنبل ؒ،ابو عبداللہ الشیبانی، الامام (م ۲۴۱ھ)

    4.    ”المسند“ ،حدیث زید بن ثابتؓ،ح:۱۱٠۸،۲۳۸۶ (دار احیاءالتراث العربی،بیروت،۱۹۹۱)

    5. ابو داودؒ ،سلیمان بن الاشعث بن اسحاق السجستانی (م ۲۷۵ھ)،   ” سنن ِابی داود“،کتاب الطلاق،باب من احق بالولد،ح:۲۲۷۷،ص:۲۳٠ (دارالسلام للنشر والتوزیع ،الریاض،۱۹۹۱ء)

    6.  سرخسی ،ابو بکر محمد بن احمد بن ابی سہل ،(م ۴۹٠ھ) ،   ”المبسوط “ کتاب الصلوٰة ،۱/۳۷،(دار المعرفة ،بیروت ،۱۹۷۸ء)

    7.  حمید اللہ ،ڈاکٹر ،(م ۲۰۰۲ء) ،    ”صحیفہ ہمام بن منبہ“ ، ص ۱۹۳،(ناشر رشید اللہ یعقوب ،کلفٹن ،کراچی ،۱۹۹۸ء)

    8. ابن سعد ،ابو عبد اللہ محمد،(م ۴۵۶ھ)،  ”الطبقات الکبری “ذکر بعثة رسول اللّٰہ ﷺ الرسل بکتبہ الی الملوک ، ۱/۲۵۸،(دار صادر ،بیروت،۱۹۸۵ء)

    9. ”المسند“ ،حدیث عبداللہ ابن ِ مسعودؓ،ح:۳۷۵۲،۶۵۴۱)

    10. ”الطبقات الکبری “،وفد تمیم،۱۴۲۱

    11. ”الطبقات الکبری “،ذکر نقش خاتم ِ رسول اللہ ﷺ،۲۳۲۱

    12. خطیب التبریزی، مشکوة المصابیح ،رقم الحدیث ۴۹۷۹


قوموں کی سرکشی پر عذاب الٰہی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سورۃ یوسف کے آخر میں اللہ تعالی ٰ نے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور مختلف اقوام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن کریم میں ماضی کی قوموں کے واقعات کا ذکر اس لیے کیا ہے تاکہ وہ ارباب فہم و دانش کے لیے سبق اور عبرت کا ذریعہ بنیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ گھڑی ہوئی باتیں نہیں بلکہ پہلی آسمانی کتابوں میں بیان کردہ باتوں کی تصدیق اور وضاحت کرتی ہیں۔ اس پس منظر میں ماضی کی دو قوموں کا تذکرہ موجودہ حالات کے تناظر میں مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ ہمیں ان سے سبق حاصل کرنے اور عبرت پکڑنے کا موقع ملے، آمین یا رب العالمین۔

سورۃ الاعراف کی آیت ۱۳۰ تا ۱۳۷ میں آل فرعون کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرمان الٰہی ہے کہ ہم نے پہلے انہیں قحط سالی اور اموال و پیداوار میں کمی کر کے تنبیہ کی تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ مگر ان کا مزاج و نفسیات یہ تھیں کہ اگر انہیں کوئی حسنۃ یعنی اچھی چیز یا بات ملتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارا حق ہے، لیکن اگر سیئۃ یعنی تکلیف اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اسے حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں سے منسوب کر دیتے کہ یہ ان کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ان کی اس کیفیت کا ذکر کر کے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ان کی برکت و نحوست سب اللہ تعالٰی کے کنٹرول میں ہے مگر اکثر لوگ اس کو سمجھتے اور جانتے نہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ انہوں نے حضرت موسٰیؑ سے یہ کہا کہ تم ہمارے سامنے جتنی مرضی نشانیاں پیش کر دو اور ان کے ذریعے ہم پر جادو کر دو (نعوذ باللہ) ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ان کے اس دوٹوک انکار کے بعد ہم نے (۱) طوفان (۲) ٹڈیاں (۳) جوئیں (۴) مینڈک اور (۵) خون اپنی قدرت کی کھلی نشانیوں کے طور پر مسلط کر دیں۔ مگر پھر بھی وہ اپنے تکبر پر قائم رہے اور وہ مجرم قوم ہی بنے رہے۔ لیکن جب ان پر عذاب واقع ہو گیا تو حضرت موسٰی علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنے رب سے وہ دعا کریں جس کا آپ کے رب نے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے۔ اگر آپ یہ عذاب ہم سے ہٹوا دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور آپ کی قوم بنی اسرائیل کو آزادی بھی دے دیں گے۔ لیکن جب ہم نے ان سے ایک مقررہ وقت تک کے لیے عذاب ہٹا دیا تو وہ اپنے وعدہ سے پھر گئے اور عہد توڑ دیا۔ پھر ہم نے ان سے اس کا انتقام لیا اور انہیں سمندر کی موجوں میں غرق کر کے ان لوگوں کو زمین کا وارث بنا دیا جو اس سے پہلے کمزور سمجھے جاتے تھے اور غلام بنا لیے گئے تھے۔ اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان کے صبر کا بہتر صلہ دیا اور فرعون اور اس کی قوم نے جو کچھ بھی تیاریاں کر رکھی تھیں سب کو غارت کر دیا۔

یہ سورۃ الاعراف کی چند آیات کا مفہوم ہم نے عام فہم انداز میں عرض کیا ہے، اس سے قوموں کے طرزعمل، نفسیات اور ان کی سرکشی و بغاوت کی صورت میں اللہ تعالٰی کے قانون اور سنت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے اور ان سے سبق اور عبرت پکڑی جا سکتی ہے۔

سورۃ بنی اسرائیل آیت ۷۷ میں قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے یہ بھی وضاحت کے ساتھ فرما دیا ہے کہ تم اللہ تعالٰی کی سنت و قانون میں تبدیلی دیکھو گے اور (تحویل) لچک بھی کبھی نہیں پاؤ گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک اللہ تعالٰی کا ضابطہ یہی ہے کہ قوموں کی سرکشی، بغاوت، ظلم اور نا انصافیوں پر پہلے تنبیہ کرتے ہیں مگر جب اس تنبیہ اور سرزنش سے ان کا رویہ تبدیل نہیں ہوتا تو پھر اس سے زیادہ سخت عذاب سے دوچار کر دیتے ہیں جو دائمی ہوتا ہے اور پھر توبہ اور واپسی کے سب دروازے بند ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح اللہ رب العزت نے سورۃ یونس آیت ۹۸ میں ماضی کی متعدد اقوام کی سرکشی اور ان پر نازل ہونے والی تنبیہات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایک قوم کے سوا ساری سرکش قومیں اپنی سرکشی پر قائم رہیں اور عذاب کا شکار ہوئیں۔ البتہ ایک قوم جو بچ گئی جو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم تھی جو موصل کے علاوہ نینوا میں مبعوث ہوئے تھے۔ اس قوم پر جب عذاب کے آثار نمودار ہوئے تو وہ سب کے سب اللہ تعالٰی کے حضور جھک گئے اور توبہ و استغفار کر کے حضرت یونسؑ پر ایمان لے آئے جس پر ان سے وہ وقتی عذاب ٹل گیا، جیسا کہ سورۃ یونس میں فرمان خداوندی ہے کہ ’’ومتعناھم الٰی حین‘‘ ہم نے انہیں ایک وقت تک مہلت دے دی۔

قرآن کریم کے بیان کردہ اس تاریخی پس منظر میں آج پوری دنیا کی عمومی صورتحال کو دیکھا جا سکتا ہے، البتہ امت مسلمہ کی صورتحال کسی حد تک مختلف ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے اللہ تعالٰی کا وعدہ ہے کہ وہ آپؐ کی امت کو مجموعی طور پر پہلی امتوں کی طرح عذاب سے دوچار نہیں کریں گے، لیکن کیا جناب نبی کریمؐ کی دعا اور اس پر اللہ تعالٰی کے وعدے کا مطلب یہ ہے کہ یہ امت ہر قسم کی سزا، عذاب، تنبیہ اور سرزنش سے محفوظ ہو گئی ہے؟ یہ بات توجہ طلب ہے اور اس عمومی مغالطہ سے ہمارا نکلنا ضروری ہے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور اس کی برکت سے امت کو مجموعی طور پر عذاب سے محفوظ رکھنے کا اللہ تعالٰی کی طرف سے وعدہ حدیث مبارکہ میں مذکور ہے، جبکہ مختلف احادیث مبارکہ میں اس امت پر آنے والی مصیبتوں، آزمائشوں اور تنبیہات کا ذکر بھی موجود ہے جن میں سے صرف ایک کا تذکرہ موجودہ صورتحال کا اندازہ کرنے کے لیے شاید کافی ہو۔

مشکٰوۃ المصابیح میں ترمذی شریف کے حوالہ سے حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت منقول ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ جب: (۱) غنیمت کے مال کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جائے گا (۲) امانت کے مال کو غنیمت سمجھ لیا جائے گا (۳) زکٰوۃ کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے گا (۴) دین کے مقصد سے ہٹ کر تعلیم حاصل کی جائے گی (۵) ایک شخص بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرے گا (۶) دوست کو قریب اور باپ کو دور کر دے گا (۷) مسجدوں میں شوروغل بلند ہونے لگے گا (۸) قبیلہ کا سردار اس کا فاسق شخص ہو گا (۹) قوم کا لیڈر سب سے رذیل آدمی ہو گا (۱۰) کسی شخص کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے گی (۱۱) ناچنے والی عورتیں اور گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں گے (۱۲) شرابیں پی جائیں گی (۱۳) امت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں گے۔ تو پھر (۱) سرخ آندھی (۲) زلزلوں (۳) زمین میں دھنسائے جانے (۴) شکلیں بدل جانے (۵) اور پتھروں کے برسنے کے انتظار میں رہنا۔ اور پھر ایسی لگاتار نشانیاں سامنے آئیں گی جیسے کسی ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور اس کے موتی مسلسل گرنے لگ جائیں۔

اللہ تعالٰی ہمیں ان تنبیہات اور ماضی کے واقعات سے سبق حاصل کرنے اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی طرح اجتماعی توبہ و استغفار کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔



عقل و نقل کا تعارض اور تاویل کے لیے امام غزالی کا قانون کلی

محمد زاہد صدیق مغل

امام ابن تیمیہ (رحمہ اللہ  علیہ) اپنی کتاب "درء تعارض" میں امام غزالی (رحمہ اللہ  علیہ) اور  امام رازی (رحمہ اللہ  علیہ) پر اپنے روایتی جارحانہ انداز میں تنقید کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں کہ یہ حضرات آیات قرآنی کی تاویل کے باب میں ایک ایسا عمومی قانون بیان کرگئے ہیں جو زندقہ کا پیش خیمہ اور اہل کتاب کے گمراہ لوگوں جیسا کام ہے۔ اس تحریر کا مقصد امام غزالی کی متعلقہ تحریر اور امام غزالی کے تصور عقل کی روشنی میں یہ دکھانے کی کوشش کرنا ہے کہ یوں لگتا ہے اس معاملے میں علامہ ابن تیمیہ سے دو امور میں سہو نظر ہوگیا ہے: پہلا امام صاحب کی بات کو اس کے خصوصی محل سے ہٹا کر عمومی معنی دے دینا، اور دوسرا امام صاحب کے تصور عقل کو مد نظرنہ  رکھنا۔

نفس مسئلہ کا پس منظر

پہلے یہ جاننا لازم ہے کہ جس قانون کلی کی نسبت علامہ ابن تیمیہ امام غزالی کی طرف کرتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے۔ امام غزالی کے ایک شاگرد ابوبکر ابن عربی امام صاحب سے بذریعہ خط چند مسائل سے متعلق استفسار کرتے ہیں، اس کے جواب میں امام صاحب نے جو خط  ( قریب 12 صفحات پر مشتمل ) لکھا اس تحریر کو "القانون الکلی فی التاویل" کہا جاتا ہے (اس مسودے کو امام صاحب کی زندگی کے بعد "قانون التاویل" کے نام سے چھاپا گیا۔ بعض محققین کے نزدیک اس خط کی نسبت امام صاحب کی طرف مشکوک ہے لیکن کئی محققین کے نزدیک اس کی نسبت درست ہے، فی الوقت اس بحث سے سہو نظر کریں اور دوسری تحقیق کو درست سمجھئے ) ۔ اس خط میں امام غزالی سے چند امور متشابہات سے متعلق سوال کیا جاتا ہے جس کے جواب میں وہ سائل کو کہتے ہیں کہ اس معاملے میں تمہیں ایک قانون کلی بتاؤں گا۔ خط میں امام صاحب سائل کو تین وصیتیں بھی فرماتے ہیں۔ سوالات کی نوعیت کچھ ایسی تھی:

شیطان انسان کی رگوں میں دوڑتا ہے، شیطان آذان کی آواز سن کر بھاگ جاتا ہے، اس قسم کی احادیث کا کیا مفہوم ہے ؟ یہاں شیطان سے مراد پانی (خون) کے اندر پانی کی مانند کوئی شے ہے یا وہ تمام رگوں کے اندر ہوتا ہے؟ کیا شیطان کوئی جسم کی مانند شے ہے؟ انسانی قلب پر شیطان کے وساوس پیدا کرنے کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟  کیا حدیث میں مذکور اس قسم کی باتیں ان باتوں کی طرح ہیں جہاں جن یا فرشتے کا کسی زندہ شے کی صورت میں ظاہر ہوجانا مراد ہوتا ہے؟ کیا وحی میں مذکور جن اور شیطان سے متعلق ایسی باتوں کو فلاسفہ کے خیالات کے ساتھ (بطریق تاویل) مطابقت دی جاسکتی ہے ؟  برزخ سے کیا مراد ہے؟ جنت کے زمین و آسمان سے بڑا ہونے سے کیا مراد ہے؟ وغیرہ غیرہ (سوال تقریبا دو صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں اس نوع کے بہت سے سوالات ہیں)۔

خط کا جواب دینے سے قبل امام غزالی پہلے تو سائل کو اس قسم کے معاملات میں نہ الجھنے کی نصیحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے ایسے سوالات کا جواب دینا نا پسند ہے لیکن چونکہ اس قسم کے سوالات پھر پوچھے جاسکتے ہیں لہذا میں اس معاملے کے لئے ایک قانون کلی بیان کئے دیتا ہوں جو مفید ہوگا۔ پھر نص اور عقل سے متعلق اصولی گفتگو   کرنے کے بعد سائل کے چند سوالات کا جواب دیتے ہیں۔

عقل و نقل سے متعلق پانچ رویے، تین وصیتیں  اور قانون کلی کی نوعیت

اس پس منظر سے صاف واضح ہے کہ امام صاحب کے پیش نظر امور متشابہات سے متعلق ایک عمومی نوعیت کا کلیہ بیان کرنا تھا جو سائل کے لئے اس نوع کے مسائل میں مفید ثابت ہوسکے۔ امام صاحب بتاتے ہیں کہ سطحی غور و فکر کے بعد بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نقل و عقل میں تصادم ہے اور عقل و نقل کے اس تنازع میں لوگ پانچ رویوں میں منقسم ہوگئے:

  1. وہ لوگ جو وحی میں منقول ہر بات جوں کے توں مراد ہونے میں مبالغے کا شکار ہیں (مراد شاید حنابلہ تھے، اگرچہ امام صاحب ان کا نام نہیں لیتے )
  2. وہ لوگ جو عقلی دلائل سے معلوم شدہ امور درست ہونے میں مبالغے کا شکار ہیں  (مراد شاید فلاسفہ تھے)
  3. ان کے مابین وہ لوگ ہیں جو عقل و نقل میں مطابقت کے قائل ہیں۔ یہ تیسری قسم کے لوگ پھر تین انواع میں تقسیم ہیں:

الف) وہ جو عقل کو اصل اور وحی کو ثانوی قرار دیتے ہیں اور وحی پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے ، یہ ہر اس منقول بات کو رد کردیتے ہیں جس کی عقلی توجیہ ان کے نزدیک مشکل ہو

ب) وہ جو وحی کو اصل اور عقل کو ثانوی قرار دیتے ہیں اور عقلی مقدمات پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے،  البتہ یہ لوگ بھی بعض مقامات پر عقلی مقدمات اور نص کے ظاہری معنی میں تصادم کے قائل ہیں

ج) تیسرے وہ جو عقل و نقل دونوں کو علم کی بنیاد سمجھتے ہیں اور دونوں کے مابین تالیف و تلفیق کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں عقل و نقل میں تعارض ممکن نہیں ۔

اس خط میں امام غزالی سائل کو بتانا چاہتے ہیں کہ دراصل یہی ان کا منہج ہے۔ یاد رہے کہ یہ ایک خط ہے جو شاگرد کے جواب میں اس کی اصولی ہدایت کے لئے لکھا گیا اور اس طرح کی تحاریر میں بہت سے امور سائل اور جواب دینے والے کے مابین مفروضے کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ بات کہ امام صاحب اسی آخری رویے کو اپنا منہج کہتے ہیں اس کی تصدیق امام صاحب  کی کتاب "الاقتصاد فی الاعتقاد" کے ابتدائی جملوں ہی سے ہوجاتی ہے جہاں وہ نفس معاملہ کی پردہ کشائی کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ جن صاحب نظر کو اللہ تعالی نے نور ایمانی اور استعداد قرآنی عطا فرمائی ہے وہ جانتے ہیں کہ شرع اور عقل کے مابین تضاد ممکن نہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عقل بغیر شرع کسی کام کی نہیں اور شرع عقل کے بغیر اپنا مدعا پورا کرنے سے قاصر ہے (اس کتاب کا یہ مقدمہ اس حوالے سے پڑھنے لائق ہے، اہل ذوق کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے)۔ چنانچہ یہ واضح ہوگیا کہ امام غزالی اس پانچویں رویے ہی کو اپنا مسلک بتاتے ہیں۔

امام غزالی سائل کو ان پانچ رویوں  کے مابین اختلاف کی بنیاد بیان کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ نص میں مذکور کن الفاظ کے ظاہری معنی مراد لینے کے بجائے ان کی تاویل کرنا ہے، اس اختلاف کی وجہ  ہر گروہ کا تصور " ناممکن  ہے " ،  یعنی  اس کے نزدیک کیا ممکن ہے، کیا ناممکن  ہے اور کیا ممکن اور ناممکن دونوں ہیں (اس خط میں امام غزالی اس بات کی تفصیل بیان نہیں کرتے، اس موضوع کو امام صاحب اپنی کتاب "التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ"  (اسلام اور زندقہ کے مابین حد فاصل کا اصول) میں موضوع بنا کر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں   کہ کسی پر کفر کا فتوی لگانا کب جائز ہے اور کب نہیں)۔

اس کے بعد امام صاحب سائل کو تین وصیتیں کرتے ہیں:

  1. ان امور کو مان کر ان کے معنی میں صبر سے کام لینا چاہئے کیونکہ ان کے حقیقی معنی جان سکنا انسانی عقل کے لئے ممکن نہیں (یہ اصحاب تعطیل کے مدمقابل اشاعرہ کا موقف ہے جس کے مطابق ان امور کو اصولا ، یعنی ان کی کیفیت میں الجھے، مان لینا چاہئے) 
  2. عقلی "برہان" (یہ بھی ایک خاص اصطلاح ہے) کو رد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ غلط نہیں ہوتی۔ عقل نقل کی گواہ ہے (یعنی اس کی تصدیق کرنے والی ہے)، نبی جن امور کی خبر دیتا ہے انسان اس کی "تصدیق" عقل کے ذریعے ہی کرتا۔ اگر عقل کو رد کردیا گیا تو نقل بھی رد ہوجائے گی جس کی تصدیق عقل سے کی جاتی ہے۔ یہ اس خط کی وہ بات ہے جسے علامہ ابن تیمیہ نے "قانون کلی" قرار دے کر اپنی تنقید  کی بنیاد بنایا ہے 
  3. ایسی آیات کی تاویل میں جب ایک سے زیادہ توجیہات کا امکان ہو تو کسی ایک پر اصرار کرنے سے بچنا چاہئے 

امام غزالی کے نظام فکر میں عقل و برہان سے مراد کیا ہے اسے دیکھنے سے قبل ذرا ان تین وصیتوں کی معنویت پر غور کیجئے۔ پہلی وصیت میں امام صاحب سائل کو ان لوگوں کا سا رویہ اختیار کرنے سے روکتے ہیں جنہوں نے ایسے امور کا انکار کردیا ، لہذا صائب رویہ یہ ہے کہ مذکورہ امور کو اصولا مان لینا چاہئے، تیسری وصیت میں ان لوگوں کا سا طرز عمل اختیار کرنے سے منع کیا جو ان امور میں مبالغے سے کام لیتے ہوئے کسی ایک ہی بات کے حق ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور دوسری وصیت میں اس اصولی بات کی نشاندہی کردی کہ نقل  کے ظاہری مفہوم اور عقل (برہان) کے مابین "بظاہر " (یہ لفظ اس لئے کہنا ضروری ہے کیونکہ امام غزالی کے نزدیک عقل و نقل میں حقیقی تضاد ممکن نہیں ہے جیسا  کہ "الاقتصاد" اور خط کے پانچویں رویے میں درج بیانات سے واضح ہے) تصادم کے وقت یہ لازمی نہیں ہوتا کہ نص کی تاویل کرنا باطل ہے بلکہ ایسا کرنا حق  ہے ۔ یوں انہوں نے اشاعرہ کے منہج کو بیان کردیا جو "قانون کلی " بن جاتا ہے۔ درج بالا پانچ رویوں اور وصیتوں کے مابین ترتیب پر غور کرنے سے یہ قانون کلی ابھر کر واضح ہوجاتا ہے:

یہ دراصل سائل کے بیان کردہ امور متشابہ کے بارے میں اشاعرہ کی پوزیشن کا خلاصہ ہے جو امام غزالی کے نزدیک قانون کلی کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ سائل کے سوالات اور جواب کے تناظر میں امام صاحب کی یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کا دائرہ کار کیا ہے اور کیا نہیں۔

عقل و برہان کا معنی اور قانون کلی

اب تک کی گفتگو سے یہ واضح ہوگیا کہ "قانون کلی" کا تعلق  ان امور سے ہے جنہیں "متشابہات" کہا جاتا ہے نیز اس کا اطلاق تب ہوگا جب  نص کے ظاہری مفہوم کے خلاف "قطعی عقلی دلیل" موجود ہو۔  اب اس بات کی طرف آتے ہیں کہ امام غزالی جب یہ کہتے ہیں کہ "اگر عقل کو رد کردیا جائے تو نقل کی بھی تردید ہوگی" تو اس بات میں عقل سے ان کی مراد کیاہے۔ اس خط میں امام غزالی اس کی تفصیل بیان نہیں کرتے البتہ امام صاحب کی دیگر کتب میں عقل پر جو گفتگو موجود ہے اس سے یہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ اس قانون کلی کا دائرہ کار ان کے نزدیک کیا ہے اور کیانہیں ۔ امام غزالی کے تصور عقل پر دو جہات سے گفتگو ممکن ہے ، ایک خالصتا ریشنلسٹ نظام فکر کے اندر رہتے ہوئے اور دوسری اسلامی نظام فکر کی رو سے۔ اس تحریر میں اس تفصیل سے سہو نظر کرتے ہوئے صرف اس پہلو کا خلاصہ پیش کیاجاتا ہے جو زیر بحث مسئلےسے متعلق ہے۔ چنانچہ اس بحث میں امام غزالی کے تصور عقل سے متعلق چار امور قابل غور ہیں : 

  1. عقل نقل کی تصدیق کرتی ہے: "المستصفی" (اصول فقہ پر امام صاحب کی کتاب) کے مقدمے میں امام غزالی عقل کے ذریعے نقل کی تصدیق پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کی ابتداء ہی امام غزالی یہاں سے کرتے ہیں کہ عقل ایسا قاضی اور حاکم ہے جسے اس عہدے سے معزول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قاضی کیا کرتاہے؟ اس کا پہلا کام خدا اور نبی کی تصدیق کرنے کے دلائل فراہم کرنا ہے۔ چنانچہ امام صاحب اس کتاب کے مقدمے میں ان دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن سے ان کے خیال میں عقل خدا کے وجود اور نبی کی صداقت پر مطمئن ہوسکتی ہے۔
  2. عقل نبی کی تعلیمات کی پیروی کرتی ہے: جب ایک مرتبہ عقل نبی کی تصدیق کرلیتی ہے تو اپنے اس عہدے سے معزول ہوجاتی ہے اور خدا، آخرت، حشر و نشر، خیر و شر  وغیرہ سے متعلق نبی جو کچھ کہتا ہے عقل اس کی پیروی کرتی ہے کیونکہ عقل کے پاس انہیں جان سکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں  (جب عقل نبی کی تصدیق کرچکتی ہے تو اس کے بعد امام غزالی کے الفاظ کچھ یوں ہیں: عند ھذا ینقطع کلام المتکلم وینتھی تصرف العقل بل العقل یدل علی صدق النبی ثم یعزل نفسہ ویعترف بانہ یتلقی من النبی بالقبول ما یقول فی اللہ والیوم الآخر ولایقضی باستحالتہ)۔  یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہئے کہ حسن و قبح کے معاملے میں امام غزالی اشعری ہیں اور اہل علم جانتے ہیں کہ معاملات شرع میں صرف یہی ایک بات حاکمیت عقل کے دائرے کو کس قدر محدود کردینے والی ہے۔
  3. علم قطعی کا انکار لازم نہ آنے پر نص کی تاویل نہیں کی جائے گی: اسی مقدمے میں امام صاحب "علم ضروری" پر بھی گفتگو کرتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ عقل چند تصورات اور معلومات کے بدیہی ہونے کا حکم لگاتی ہے اور ان کی نفی نہیں کرسکتی۔ اس مسئلے پر کچھ گفتگو اپنی تحریر "امام غزالی، سلسلہ اسباب اور امکان معجزہ" کی بحث میں کرنے کا ارادہ ہے(یہ ان شاء اللہ عنقریب چھپ کر آجائے گی)۔ خلاصہ یہ کہ علم ضروری سے مراد وہ لازمی عقلی مقدمات ہیں جنہیں رد کرنا عقل کے لئے ممکن نہیں ، اگر عقل کے ان مقدمات (جنہیں امام صاحب "برہان" کہتے ہیں) کی نفی کردی جائے تو وحی کی تصدیق بھی ناممکن ہوجائے گی۔ امام غزالی ریشنلسٹ پیراڈئیم کے اندر رہتے ہوئے عقل کے دائرہ کار پر گفتگو کرتے ہیں، یعنی وہ کم از کم مقدمات (necessary knowledge) جن پر شک ممکن نہ ہو مثلا جمع بین الضدین ، دو کا ایک سے بڑا ہونا وغیرہ(اس necessary knowledge کی قطیعت کاانکار علامہ ابن تیمیہ بھی نہیں کرتے)۔ المستصفی کے مقدمے میں امام صاحب ان میں سے دو کا ذکر کرتے ہیں: ایک law of identity اور دوسرا laws of implications  ۔ یہ بات کہ امام غزالی عقل و نقل میں تعارض کی بحث میں عقل سے یہی بات مراد لیتے ہیں، یہ بات تہافت الفلاسفہ کے سترہویں باب میں سلسلہ اسباب کی روشنی میں فلاسفہ پر ان کی طرف سے کی جانے والی تنقید سے واضح ہوجاتی ہے جہاں وہ نصوص میں بیان شدہ معجزات کو جوں کےتوں ماننے پر اسی بنا پر اصرار کرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی "برہان" (قطعی دلیل) موجود نہیں۔ اسی طرح امام غزالی نے فلاسفہ پر جن تین  وجوہ کی بنا پر زندقہ و تکفیر کا فتوی جاری کیا ان میں سے ایک یہ تھی کہ یہ لوگ قیامت والے روز اجسام کے دوبارہ اٹھا لئے جانے کا انکار کرتے ہیں جبکہ یہ سب کچھ نصوں میں صراحتا مذکور ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اسی ضمن میں وہ یہ اہم بات بھی بتاتے ہیں کہ کس بات کا اثبات انسانی عقل کے لئے معجزتا بھی ناممکن ہے (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ معجزہ محال عقلی کے اثبات کا  نہیں بلکہ خلاف عادت واقع اور خبر  کی تصدیق کا نام ہے)۔ ان دو باتوں کا معنی کیا ہے؟ یہ کہ نص میں مذکور ایسی بات کی تصدیق کی جائے گی جس کے خلاف "برہان" (indubitable evidence) موجود نہ ہو، یعنی جو "علم ضروری" سے نہ ٹکراتی ہو۔
  4. علم قطعی سے ٹکراؤ کی صورت میں نص کی تاویل کی جائے گی: اگر نص کا ظاہری مفہوم قطعیات عقلیہ سے ٹکراتا ہوا محسوس ہو تو اس  صورت میں نص کی تاویل کی جائے گی، بصورت دیگر "عقل" (قطعیات و بدیہیات) کا انکارلازم آئے گا اور اگر قطعیات عقل ہی کا انکار کردیا گیا تو پھر نص کی کسی بھی بات کی تصدیق نہ ہوسکے گی کیونکہ عقل انہی قطعیات  کی روشنی میں سفر طے کرکے نقل کی تصدیق کرنے لائق ہوتی ہے۔ عقل و نقل میں ایسے تعارض کے امکان نیز اس صورت میں یقینی عقلی استدلال کو نص کے ظنی معنی پر ترجیح دینے کے علامہ ابن تیمیہ بھی قائل ہیں جو اسی قانون کلی کو دوسرے طریقے سے بیان کرنے کا انداز ہے۔ علامہ ابن تیمیہ "درء تعارض" میں کہتے ہیں کہ نفس مسئلہ کو عقل و نقل کے مابین تعارض کے زاویہ نگاہ سے دیکھنا درست نہیں ، اس کے بجائے معاملے کو یوں دیکھنا چاہئے کہ عقل و نقل میں سے ہر دو کی دلیل یقینی یا ظنی ہونے کا امکان ہے۔ تو اس اعتبار سے چار صورتیں بنتی ہیں: (1) منقول دلیل یقینی ہو اور عقلی بات بھی یقینی ، علامہ صاحب کے نزدیک ایسا ہوسکنا محال ہے  کیونکہ قطعیات نقلیہ اور عقلیہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں اور ان میں تعارض ناممکن ہے، (2)  منقول دلیل یقینی ہو اور عقلی ظنی، اس صورت میں یقینی بات یعنی منقول کو ترجیح دی جائے گی، (3) منقول دلیل ظنی ہو اور عقلی دلیل یقینی، اس صورت میں بھی یقینی یعنی عقلی دلیل کو ترجیح دی جائے گی (4) دونوں ظنی ہوں تو پھر توقف کیا جائے گا یہاں تک کہ غور فکر کے نتیجے میں کسی ایک کو اختیار کرنے کی وجہ ترجیح سامنے آجائے۔ چنانچہ علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک معاملے کو نص بمقابلہ عقل کے بجائے یقین بمقابلہ ظن  کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور فوقیت یقین کی کیفیت کو ظن پر حاصل ہوتی ہے۔

تو یہ قانون کلی سے متعلق امام غزالی کے کلام کا مفہوم ہے، اگر اس میں کوئی سقم رہ گیا تو میری کوتاہ نظری کا نتیجہ ہے اور اگر یہ ان کی مراد کے مطابق ہے تو اللہ کا فضل ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالی روز قیامت اس کے صدقے امام غزالی سے محبت کرنے والوں میں شمار کردے۔ رہ گئی یہ بات کہ اس سب پر علامہ ابن تیمیہ کو اعتراض کیا تھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہ ایک الگ قسم کا مابعد الطبعیاتی، علمیاتی اور لسانیاتی تناظر قائم کرکے اشاعرہ اور اصول فقہ پر تنقید کرتے ہیں جس کا مقصد حنبلی نظام فکر کو عقلی بنیادیں فراہم کرنا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے اپنے مخصوص نظام فکر کے اندر رہتے ہوئے ان کی بہت سی تنقیدات بامعنی معلوم ہوتی ہیں۔ اگر زندگی نے یارانہ کیا تو اس حوالے سے علامہ صاحب کے اعتراض کی اصل بنیادوں اور ان سے جنم لینے والے مسائل کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

وما توفیقی الا باللہ۔

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۶)

محمد عمار خان ناصر

قرآن کی روشنی میں احادیث کی توجیہ وتعبیر

قرآن کے ساتھ احادیث کے تعلق کو متعین کرنے کا دوسرا طریقہ جو غامدی صاحب کے علمی منہج میں اختیار کیا گیا ہے، یہ ہے کہ روایات کو ان کے ظاہری مفہوم یا عموم پر محمول کرنے کے بجائے ان کی مراد ان تخصیصات کے ساتھ متعین کی جائے جو انھیں قرآن میں ان کی اصل کے ساتھ متعلق کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔اس اصول کی وضاحت میں وہ لکھتے ہیں:

”دوسری چیز یہ ہے کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے۔ دین میں قرآن کا جو مقام ہے، وہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیثیت نبوت ورسالت میں جو کچھ کیا، اس کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ بھی قرآن ہی ہے۔ لہٰذا حدیث کے بیش تر مضامین کا تعلق اس سے وہی ہے جو کسی چیزکی فرع کا اس کی اصل سے اور شرح کا متن سے ہوتا ہے۔ اصل اور متن کو دیکھے بغیر اس کی شرح اور فرع کو سمجھنا، ظاہر ہے کہ کسی طرح ممکن نہیں ہوتا۔ حدیث کو سمجھنے میں جو غلطیاں اب تک ہوئی ہیں، ان کا اگر دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت صاف واضح ہو جاتی ہے۔ عہد رسالت میں رجم کے واقعات، کعب بن اشرف کا قتل، عذاب قبر اور شفاعت کی روایتیں، ’امرت ان اقاتل الناس‘ اور ’من بدل دینہ فاقتلوہ‘ جیسے احکام اسی لیے الجھنوں کا باعث بن گئے کہ انھیں قرآن میں ان کی اصل سے متعلق کر کے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ حدیث کے فہم میں اس اصول کو ملحوظ رکھا جائے تو اس کی بیش تر الجھنیں بالکل صاف ہو جاتی ہیں۔“ (میزان، ص 64)

اس اصول کی روشنی میں غامدی صاحب نے بہت سی احادیث کی توجیہ وتعبیر مستقل بالذات احکام کے طور پر کرنے کے بجائے قرآن مجید کی روشنی میں کی ہے اور نتیجتاً انھیں ظاہری اطلاق اور عموم پر محمول کرنے کے بجائے ان کا ایک مخصوص اور محدود دائرہ اطلاق متعین کیا ہے جو قرآن میں ان کی اصل سے ہم آہنگ ہے۔ مذکورہ اقتباس میں انھوں نے اس کی چند مثالوں کی طرف اشارہ کیا ہے، جبکہ بہت سی دوسری احادیث کی تعبیر بھی غامدی صاحب نے اسی اصول کے تحت کی ہے جن کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنا ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے مناسب ہوگا۔

۱۔ احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، قیامت کے دن اپنے امتیوں کے حق میں شفاعت کرنے کا ذکر کثرت سے ہوا ہے۔ غامدی صاحب اس کو قرآن مجید کی متعدد آیا ت کی روشنی میں، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو، گناہ کے بعد توبہ کرنے والوں کے حق میں استغفار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے (النساء۶۴:۴، المنافقون ۵:۶۳) اس شرط کے ساتھ مشروط کرتے ہیں کہ ”بندے کی طرف سے توبہ واستغفار کے بغیر اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔“ (میزان، ص ۱۵٠) نیز یہ کہ سورة النساءکی آیت ۱۸-۱۷ کی رو سے اللہ تعالیٰ پر صرف انھی لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا حق قائم ہوتا ہے جو گناہ کے بعد فوراً نادم ہو کر توبہ کی طرف لپکتے ہیں، جبکہ جو لوگ زندگی بھر گناہوں میں ڈوبے رہتے ہیں اور صرف موت کے وقت انھیں توبہ یاد آتی ہے، ان کی توبہ کا اللہ کے نزدیک کوئی اعتبار نہیں۔ غامدی صاحب اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ جو لوگ گناہ کے بعد فوراً توبہ تو نہیں کرتے، لیکن اتنی دیر بھی نہیں کرتے کہ موت کا وقت آپہنچے، ”یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں شفاعت کی توقع ہو سکتی ہے۔“ (میزان، ص ۱۵۱) غامدی صاحب کے نزدیک، قرآن مجید سے شفاعت کی تحدیدات اور شرائط واضح ہو جانے کے بعد ”اس سلسلہ کی روایتوں کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے اور اس سے کوئی چیز متجاوز نظر آئے تو اسے راویوں کے تصرفات سمجھ کر نظرانداز کر دینا چاہیے۔“ (میزان، ص ۱۵۳)

۲۔ متعدد احادیث میں یہ بات نقل ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روزہ، صدقہ اور حج جیسے اعمال کے متعلق یہ سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنے والد یا والدہ کی معذوری کی حالت میں یا ان کی وفات کے بعد ان کی طرف سے انھیں ادا کرنا چاہے تو کیا وہ ان کی طرف سے ادا متصور کیے جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب اثبات میں دیا اور فرمایا کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی پر واجب الادا قرض اس کی طرف سے ادا کر دیا جائے۔  فقہاء، بعض جزوی اختلافات کے ساتھ، ان روایات سے ایصال ثواب کا ایک عمومی حکم اخذ کرتے ہیں جس کی رو سے کوئی بھی آدمی اپنے نیک اعمال کا اجر کسی مرنے والے کو ہدیہ بھیج سکتا ہے۔

غامدی صاحب ان احادیث سے ایصال ثواب کا عمومی تصور مستنبط کرنے کو درست نہیں سمجھتے، بلکہ ان کی تعبیر قرآن مجید کے بیان کردہ اس اصولی ضابطے کی روشنی میں کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنے عمل کا خود ہی ذمہ دار ہے اور اسے اجر بھی اسی عمل کا مل سکتا ہے جس میں اس کی اپنی سعی شامل ہو۔ (النجم ۵۳: ۴۱-۳۸) مزید یہ کہ انسان کے عمل میں جو چیز اسے دراصل اجر کا مستحق بناتی ہے، وہ عمل کی ظاہری صورت نہیں، بلکہ دل کا تقویٰ ہے (الحج ۳۷:۲۲) جو قابل انتقال نہیں ہے۔ اس لیے ”دوسروں کی نیکی یا بدی سے آدمی کو خدا کے ہاں کسی فائدے یا نقصان کے پہنچنے کی ایک ہی شکل باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس کی نیت، ارادے، اور سعی وجہد کو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس نیکی یا بدی میں دخل ہو۔“ (مقامات، ص ۲۶۶) غامدی صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض افراد کو اپنے والدین کی طرف سے حج کرنے یا روزہ رکھنے کی جو اجازت دی، وہ بھی اسی اصول پر تھی، کیونکہ اولاد درحقیقت والدین ہی کی سعی ہوتی ہے جو اپنی اولاد کو اعمال خیر کی تعلیم دیتے ہیں، ”چنانچہ وہ اگر نیکی کے کسی کام سے معذور ہو جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ ان کے کسی ارادہ خیر کو اولاد پایہ تکمیل تک پہنچا دے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے پہنچانا چاہیے، اس لیے کہ یہی سعادت مندی کا تقاضا ہے۔“ (ایضاً، ص ۲۶۷) اس خاص تناظر سے ہٹ کر، غامدی صاحب ایصال ثواب کے نام پر مروجہ تصورات کو درست نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک ”اس طرح کی تقریبات یقینا بدعت ہیں۔ قرآن وحدیث میں ان کے لیے کوئی بنیاد تلاش نہیں کی جا سکتی۔“ (ایضا، ص ۲۶۸، ۲۶۹)

۳۔ مولانا حمید الدین فراہی کی تحقیق کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سورة القیامۃ کی آیات: اِنَّ عَلَینَا جَمعَہ وَقُراٰنَہ، فَاِذَا قَرَأنٰہُ فَا تَّبِع قُراٰنَہ (۷۶: ۱۷، ۱۸) اور سورة الاعلیٰ کی آیت :سَنُقرِئُکَ فَلاَ تَنسٰٓی (۸۷:۶) میں قرآن مجید کے نزول اور جمع وترتیب سے متعلق ایک پوری اسکیم واضح کی ہے جس میں قرآن کے متن کا نزول، ابتدائی قراءت کے بعد ایک دوسری قراءت اور اس کی روشنی میں متن کی جمع وترتیب نیز تفہیم وتبیین کے مختلف مراحل کا ذکر ہے۔ مستند روایات کے مطابق جبریل علیہ السلام ہر سال رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک نازل شدہ قرآن پڑھ کر سناتے تھے، جبکہ آخری سال انھوں نے دو مرتبہ قرآن پڑھ کر سنایا جسے ”عرضہ اخیرہ کی قراءت“ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد قرآن کی پہلی قراءت منسوخ قرار پائی اور اس دوسری قراءت ہی کو قرآن کے حتمی اور واجب الاتباع متن کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءصحابہ کے سپرد کر دیا۔ (میزان، ص ۲۸، ۳۱)

ان آیات کی روشنی میں غامدی صاحب قراءت کے اختلافات کے حوالے سے اپنا موقف متعین کرتے اور قرآن کے متن کو، ایک سے زیادہ طریقوں پر پڑھنے کا جواز بیان کرنے والی روایات کو قرآن مجید کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآن مجید کی ایک ہی قراءت تواتر سے ثابت ہے جسے علمائے قراءت اپنی اصطلاح میں ”روایت حفص“ سے تعبیر کرتے ہیں، کیونکہ مغرب کے بعض علاقوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں امت کے سواد اعظم میں قرآن مجید تاریخی اعتبار سے اسی قراءت کے مطابق پڑھا جاتا رہا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک عرضہ اخیرہ کے بعد ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کی قراءت یہی تھی۔ آپ کے بعد خلفائے راشدین اور تمام صحابہ مہاجرین وانصار اسی کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔“ (میزان، ص ۲۸) جہاں تک علم قراءات اور کتب تفسیر میں مذکورہ دیگر قراءتوں کا ذکر ہے تو غامدی صاحب کی رائے یہ ہے کہ سورة القیامۃ میں اِنَّ عَلَینَا جَمعَہ وَقُراٰنَہ، فَاِذَا قَرَأنٰہُ فَا تَّبِع قُراٰنَہ کے تحت عرضہ اخیرہ کی قراءت کے بعد سابقہ تمام قراءات منسوخ کر دی گئی تھیں، لیکن اس نص کی طرف توجہ نہ ہو سکنے کے باعث دور اول میں اہل علم قابل اعتماد اخبار آحاد کے ذریعے سے نقل ہونے والی مختلف قراءتوں کو اہمیت دینے پر مجبور ہوئے جو درحقیقت عرضہ اخیرہ سے پہلے کی منسوخ قراءات تھیں۔ اسی سے رفتہ رفتہ قراءات کا ایک مستقل علم وجود میں آ گیا جس سے فقہاءومفسرین کو بھی اعتنا کرنا پڑا۔ غامدی صاحب کی رائے میں اگر یہ حضرات قرآن کی مذکورہ نص کی طرف متوجہ ہوتے تو بآسانی قراءت کے اختلافات کی درست نوعیت متعین کر سکتے تھے، لیکن ایسا نہ ہو سکنے کی وجہ سے ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ جس طرح انھوں نے باقی دینی وشرعی امور سے متعلق اخبار آحاد کو قبول کیا ہے، قراءت کے اختلافات بیان کرنے والی روایات کو بھی قبول کریں۔ (اشراق، جنوری ۲٠۱۵ء، ص ۳۱-۲۷)

غامدی صاحب اس بحث میں ضمنی طور پر قرآن مجید کے نظم سے بھی استدلا ل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ داخلی شواہد کے لحاظ سے بھی ”قرآن کا متن اس کے علاوہ کسی دوسری قراءت کو قبول ہی نہیں کرتا۔“ (میزان، ص ۲۹) چنانچہ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنا نتیجہ تحقیق ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ”معروف اور متواتر قراءت وہی ہے جس پر یہ مصحف ضبط ہوا ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اس قراءت میں قرآن کی ہر آیت اور ہر لفظ کی تاویل لغت عرب، نظم کلام اور شواہد قرآن کی روشنی میں اس طرح ہو جاتی ہے کہ اس میں کسی شک کا احتمال باقی نہیں رہ جاتا۔“ (تدبر قرآن، ۸/۸) مولانا مزید فرماتے ہیں کہ ”میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ اس کے سوا کسی دوسری قراءت پر قرآن کی تفسیر کرنا اس کی بلاغت، معنویت اور حکمت کو مجروح کیے بغیر ممکن نہیں۔“ (ایضا، ۸/۸)

۴۔ متعدد احادیث میں حکمرانی کے حق کو خاندان قریش کے ساتھ خاص قرار دیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں ایک طویل عرصے تک جمہور فقہاءکا موقف یہی رہا ہے کہ اسلام میں خلافت کا منصب قریش سے نسبی تعلق رکھنے والوں کے ساتھ خاص ہے۔ غامدی صاحب اس ہدایت کو قرآن مجید کے ایک عمومی اصول اَمرُھُم  شُورٰی بَینَھُم (الجاثیۃ  ۵۸ :۴۲)کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد جزیرہ عرب میں حق اقتدار سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں مسلمانوں کے نظم حکومت کی اساس ان کے باہمی مشورے کو قرار دیا ہے جس کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاست میں آپ کے بعد اقتدار کا حق اسی گروہ کو حاصل ہو سکتا تھا جسے اہل عرب کا عمومی اعتماد حاصل ہو۔ گویا یہ ایک خاص صورت حال میں قرآن کے بیان کردہ ایک اصول کا انطباق ہے، اس سے مقصود کسی طرح بھی خاندان قریش کے کسی نسبی تفوق یا نسلی ترجیح کا اثبات نہیں ہے۔ (میزان، ص ۴۹۷، ۴۹۸؛ ص ۶۶)

۵۔ بعض احادیث میں نقل کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر خواتین سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے لیے ’ناقصات عقل ودین‘ کی تعبیر استعمال فرمائی۔ اس پر خواتین نے اس کی وضاحت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ تمھاری گواہی کا آدھا ہونا تمھاری عقل کا، جبکہ ماہواری کے ایام میں نماز نہ پڑھنے کی رخصت تمھارے دین کا نقصان ہے۔ فقہاءنے عموماً اس حدیث کی روشنی میں خواتین کی گواہی کو مردوں کے مقابلے میں ناقص قرار دیا اور بہت سے معاملات میں اسی بنیاد پر اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

غامدی صاحب اس حدیث کو سورہ بقرہ کی آیت ۲۸۲ کی روشنی میں دیکھتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے قرض کے معاملات میں گواہ مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دو مردوں کا یا اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لیا جائے۔ جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا، غامدی صاحب کے نزدیک اس ہدایت کا مخاطب عدالت نہیں ہے، اس لیے اسے شہادت سے متعلق کوئی قانونی ضابطہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تک دو عورتوں کو گواہ مقرر کرنے کا تعلق ہے تو غامدی صاحب اس کی تفہیم معاشرتی وتمدنی حالات کی رعایت سے عورتوں پر مردوں کے مقابلے میں کم تر ذمہ داری عائد کرنے کے تناظر میں کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں ”ہدایت کی گئی ہے کہ یہ بھاری ذمہ داری اسی پر ڈالی جائے جو اس کا تحمل کر سکتا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں دو فریقوں میں سے ایک فریق کی ناراضی، بلکہ بعض اوقات دشمنی کا خطرہ مول لے کر وہ بات کہنی پڑتی ہے جو فی الواقع طے ہوئی تھی۔ یہ اس زمانے میں بھی اتنا آسان نہیں ہے، کجا یہ کہ قبائلی اور جاگیردارانہ سماج میں کوئی شخص اس کی ہمت کرے۔ قرآن نے اسی بنا پر فرمایا ہے کہ عورتوں کو گواہ بنانا پڑے تو ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو گواہ بنا لیا جائے تاکہ عورت اگر اس دباؤ کا مقابلہ نہ کر سکے جو اس طرح کے موقعوں پر لازماً پڑتا ہے اور گواہی دیتے وقت گھبرا جائے تو دوسری عورت اس کا سہارا بن سکے۔“ (ماہنامہ اشراق، جولائی ۲٠۱۷ء، ص ۲۲) اس تفہیم کی روشنی میں غامدی صاحب کے نزدیک مذکورہ حدیث میں ’ناقصات عقل‘ کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کی خلقی کمزوری کے باعث دنیاوی معاملات میں ان پر کم ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور اسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھی گواہی سے تعبیر فرمایا ہے۔

۶۔ احادیث میں بنو ہاشم کے لیے زکوٰة لینے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ غامدی صاحب اس ممانعت کو قرآن مجید کے ایک حکم سے متعلق کرتے ہوئے اس کو ابدی شرعی حکم کے بجائے ایک وقتی نوعیت کی ہدایت قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں چونکہ بنوہاشم کے لیے بیت المال کے محاصل کا ایک متعین حصہ مخصوص کر دیا گیا تھا جس سے ان کی ضروریات پوری ہو جاتی تھیں، اس لیے اس مخصوص حصے کے علاوہ زکوٰة اور صدقات کو عمومی طور پر ان کے لیے ممنوع قرار دیا گیا۔ تاہم چونکہ بعد کے دور میں یہ اہتمام برقرار نہیں رہا، اس لیے عام فقرا اور مساکین کی طرح بنو ہاشم کے ضرورت مند افراد کی کفالت بھی زکوٰة وصدقات سے کی جا سکتی ہے۔ لکھتے ہیں:

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے اور اپنے خاندان کے لوگوں کے لیے زکوٰة کے مال میں سے کچھ لینے کی ممانعت فرمائی تو اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ تھی کہ اموال فے میں سے ایک حصہ آپ کی اور آپ کے اعزہ واقربا کی ضرورتوں کے لیے مقرر کر دیا گیا تھا۔ یہ حصہ بعد میں بھی ایک عرصے تک باقی رہا۔ لیکن اس طرح کا کوئی اہتمام، ظاہر ہے کہ ہمیشہ کے لیے نہ ہو سکتا ہے اور نہ اسے کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا بنی ہاشم کے فقرا ومساکین کی ضرورتیں بھی زکوٰة کے اموال سے اب بغیر کسی تردد کے پوری کی جا سکتی ہیں۔“ (میزان ص ۳۵۴، ۳۵۵)

اس ممانعت کی یہی توجیہ فقہاءکی ایک جماعت سے بھی منقول ہے۔ (طحاوی، شرح معانی الآثار، ۲/۱۱؛ نووی، الجموع شرح المہذب، ۶/۲٠؛ ابن القیم، بدائع الفوائد، ص: ۱٠۶۴، ۱٠۶۵؛ المرداوی، الانصاف فی معرفۃ الخلاف، ۳/۵۴)

۷۔ غامدی صاحب کی رائے یہ ہے کہ سورہ محمد کی آیت ۴ میں اللہ تعالیٰ نے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے پر عائد کر دی ہے اور فَاِمَّا مَنًّا بَعدُ وَاِمَّا فِدَآءا کے الفاظ میں یہ حکم دیا ہے کہ ایسے قیدیوں کو فدیہ لے کریا بلا معاوضہ رہا کر دینے کے علاوہ اور کوئی صورت اختیار کرنا درست نہیں ہے۔ (میزان ص ۶٠۲)

تاہم حدیث وسیرت میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں جنگی قیدیوں کو رہا کرنے کے بجائے قتل کر دیا گیا یا انھیں غلام باندیاں بنا کر مسلمانوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ غامدی صاحب ایسے تمام واقعات کی توجیہ قرآن مجید کے مذکورہ حکم کی روشنی میں اور، اپنے فہم کے مطابق، اس کی عائد کردہ پابندی کو برقرار کھتے ہوئے کرتے ہیں۔ ان کی رائے یہ ہے کہ ان میں سے کچھ واقعات تو ایسے ہیں جن میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کی حیثیت خصوصی اور استثنائی تھی اور ان پر عمومی حکم کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً جنگ بدر اور احد میں جن قیدیوں کو قتل کیا گیا، وہ معاندین تھے اور اتمام حجت کے خصوصی قانون کے تحت ان کے متعلق اللہ کا فیصلہ یہی تھا کہ انھیں قتل کر دیا جائے۔ یہی معاملہ ان لوگوں کا ہے جنھیں فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کے اعلان سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ اسی طرح بنو قریظہ کے لوگوں نے اپنے متعلق فیصلے کے لیے جس حکم کو خود مقرر کیا تھا، اسی کے فیصلے کے مطابق ان کے مردوں کو قتل اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا گیا۔ بعض واقعات میں جن لونڈی غلاموں کو تقسیم کیا گیا، وہ اس جنگ کے نتیجے میں غلام نہیں بنائے گئے تھے، بلکہ پہلے سے لونڈی غلام تھے اور ان کی اسی سابقہ حیثیت کی بنا پر انھیں مال غنیمت کے طور پر تقسیم کیا گیا تھا۔ (میزان، ص ۶٠۲، ۶٠۳)

مذکورہ واقعات کے علاوہ بعض غزوات میں یقینا قیدیوں کو غلام لونڈی کے طور پر تقسیم کیا گیا، لیکن غامدی صاحب کی رائے میں اس تقسیم کی نوعیت انھیں مستقلاً ان کی ملکیت میں دے دینے کی نہیں تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ازخود ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے، قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق، ان سے معاوضہ لے کر یا بلا معاوضہ رہا کر دیں۔ چنانچہ غزوہ بنی المصطلق میں مسلمانوں نے ازخود جبکہ غزوئہ حنین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب اور معاوضے کے وعدے پر اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ (میزان، ص ۴۰۶)

۸۔ سورة الاحزاب میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے تناظر میں قرآن مجید میں جو ہدایات دی گئی ہیں، مولانا اصلاحی نے ان کی تفسیر میں اس نکتے کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں تعدد ازواج کے باب میں چار بیویوں کی تحدید کے عام ضابطے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا، وہاں آپ کچھ ایسی پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں جو عام امت پر لاگو نہیں ہوتیں۔ چنانچہ آپ کو پابند ٹھہرایا گیا کہ اگر آپ مزید نکاح کرنا چاہیں تو اس کی اباحت مطلق نہیں، بلکہ آپ تین میں سے کسی ایک مقصد کے تحت ہی نکاح کر سکتے ہیں: پہلا یہ کہ جنگی قیدی بن کر مسلمانوں کے قبضے میں آنے والی کسی خاتون کے خاندانی شرف ونسب کی بنیاد پر اس کی عزت افزائی مقصود ہو؛ دوسرا یہ کہ کوئی خاتون محض آپ کے ساتھ نسبت اور تعلق پیدا کرنے کے ایمانی جذبے کے تحت خود کو آپ کے نکاح کے لیے پیش کرے؛ اور تیسرا یہ کہ آپ کی چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد یا خالہ زاد بہنوں میں سے کوئی ہجرت کر کے آ گئی ہو اور آپ اس کی تالیف قلب کے لیے اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں۔ ان خواتین کے علاوہ دوسری تمام عورتوں سے نکاح کو آپ کے لیے ممنوع قرار دیا گیا اور یہ پابندی بھی عائد کی گئی کہ ان میں سے کسی سے نکاح کے بعد آپ اسے الگ کر کے اس کی جگہ کوئی دوسری بیوی نہیں لا سکتے، چاہے وہ آپ کو کتنی ہی پسند ہو۔ (تدبر قرآن، ) غامدی صاحب نے بھی بعینہ اسی رائے کو اختیار کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب کے بعد جن خواتین سے نکاح کیا، وہ انھی تحدیدات کے تحت تھا۔ چنانچہ سیدہ جویریہ اور سیدہ صفیہ سے آپ نے پہلے مقصد کے تحت، سیدہ میمونہ سے دوسرے مقصد سے جبکہ سیدہ ام حبیبہ کے ساتھ تیسرے مقصد سے نکاح فرمایا تھا، جبکہ سیدہ ماریہ چونکہ ان میں سے کسی صنف کے تحت نہیں آتی تھیں، اس لیے ان سے نکاح نہیں کیا، بلکہ وہ ملک یمین کے طور پر ہی آپ کے پاس رہیں۔ (میزان، ص ۴۳۳، ۴۳۴)

۹۔ روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کی مقدار سو اونٹ مقرر فرمائی۔ کلاسیکی فقہی موقف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تقریر وتصویب کو شرعی حکم کی حیثیت دی گئی اور دیت کے باب میں سو اونٹوں ہی کو ایک ابدی معیار تسلیم کیا گیا ہے، تاہم غامد صاحب نے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ قرآن مجید نے دیت کی کوئی خاص مقدار مقرر نہیں کی، بلکہ فَاتِّبَاع بِالمَعرُوفِ (البقرة ۱۷۸:۲) کے الفاظ سے اس معاملے کو ’معروف‘ پر مبنی قرار دیا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ہدایت کی پیروی میں اپنے دور میں دیت کی وہی مقدار یعنی سو اونٹ مقرر فرمائی جو اسلام سے پہلے اہل عرب میں رائج تھی۔ چونکہ معروف سے متعلق دیگر تمام معاملات میں یہ بالکل واضح ہے کہ ہر معاشرہ اپنے ہی معروف کی پیروی کرنے کا پابند ہے، اس لیے دیت کی مقدار کی تعیین کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی حیثیت بھی ابدی تشریع کی نہیں، بلکہ ایک اصولی شرعی حکم کے، وقتی اور زمان ومکان میں محدود اطلاق کی ہے۔ اس ضمن میں وہ فَاتِّبَاع بِالمَعرُوف کے علاوہ دوسرے مقام پر دِیَۃ  مُّسَلَّمَۃ میں اختیار کردہ اسلوب کو بھی اس کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

دِیَۃ مُّسَلَّمَۃ اِلٰٓی اَھلِہٓ کے الفاظ حکم کے جس منشا پر دلالت کرتے ہیں، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ مخاطب کے عرف میں جس چیز کا نام دیت ہے، وہ مقتول کے ورثہ کے سپرد کر دی جائے۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۷۸ میں قرآن مجید نے جہاں قتل عمد کی دیت کا حکم بیان کیا ہے، وہاں یہی بات لفظ ’معروف‘ کی صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔ .... نساءاور بقرہ کی ان آیات سے واضح ہے کہ قتل خطا اور قتل عمد، دونوں میں قرآن کا حکم یہی ہے کہ دیت معاشرے کے دستور اور رواج کے مطابق ادا کی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں اسے ہی نافذ کیا۔ روایات میں اس کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ عرب کے دستور کی وضاحت ہے، اس میں کوئی چیز بھی خود پیغمبر کا فرمان واجب الاذعان نہیں ہے۔“ (برہان، ص ۱۱، فروری ۲٠٠۸ء)

مولانا امین احسن اصلاحی کا اصولی موقف بھی اس مسئلے میں یہی ہے ۔ (تدبر قرآن، ۲/۳۶۱)

۱٠۔ صلاة الخوف سے متعلق غامدی صاحب کی رائے یہ ہے کہ میدان جنگ میں نماز کی ادائیگی کا یہ طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کے ساتھ خاص تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی مسلمان آپ کے علاوہ کسی کی اقتدا میں نماز ادا کرنے پر راضی نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے جذبات کی رعایت سے عام معمول سے ہٹ کر ایک ایسے طریقہ اختیار کرنے کی رخصت دے دی جس میں دشمن سے غافل ہوئے بغیر مسلمان دو جماعتوں میں تقسیم ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کر سکیں۔ یہ رائے سلف میں سے امام ابویوسف سے منقول ہے اور مولانا اصلاحی نے بھی قرآن مجید کے الفاظ وَاِذَا کُنتَ فِیھِم (النساء۱٠۲:۴) سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ (تدبر قرآن، ۲/۳۷۲) غامدی صاحب نے اس مسئلے میں اسی استدلال کی بنیاد پر اس رائے سے اتفاق کیا ہے۔ (میزان، ص ۳۱۷)

۱۱۔ متعدد احادیث میں جاندار کی تصویر بنانے کی ممانعت اور اس پر وعید کا ذکر ہوا ہے اور بعض روایات میں یہ کہا گیا ہے کہ ایسی تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے دن سخت عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ تم نے جو تصویریں بنائی ہیں، ان میں جان ڈال کر دکھاؤ۔ اسی طرح بہت سی احادیث میں غنا اور موسیقی کی حرمت اور ناپسندیدگی بھی بیان ہوئی ہے۔

غامدی صاحب ان احادیث سے جاندار کی تصویر اور موسیقی کی مطلق ممانعت اخذ کرنے کو درست نہیں سمجھتے، کیونکہ یہ قرآن مجید کے خلاف ہے۔ اس ضمن میں ان کا اصولی ماخذ سورة الاعراف کی آیت ۳۲ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر سخت الفاظ میں تبصرہ فرمایا ہے جو زینت کی چیزوں اور پاکیزہ رزق کو حرام قرار دیتے ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں۔ (قُل مَن حَرَّمَ زِینَۃ اللّٰہِ الَّتِی  اَخرَجَ لِعِبَادِہ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزقِ)۔ اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے وہ پانچ بنیادیں بیان فرمائی ہیں جن کی وجہ سے شریعت میں کسی بھی چیز کو حرام قرار دیا گیا ہے، یعنی فواحش، حق تلفی، ناحق زیادتی، شرک اور بدعت۔ اس آیت سے غامدی صاحب یہ اخذ کرتے ہیں کہ ’زینت‘ کی نوعیت کی ہر چیز مباح ہے، الا یہ کہ ان پانچ میں سے کسی ایک اصول کے تحت کسی چیز کو حرام قرار دیا جا سکے۔ چنانچہ ”لباس، زیورات وغیرہ بدن کی زینت ہیں؛ پردے، صوفے، قالین، غالیچے، تماثیل، تصویریں اور دوسرا فرنیچر گھروں کی زینت ہے؛ باغات، عمارتیں اور اس نوعیت کی دوسری چیزیں شہروں کی زینت ہیں؛ موسیقی آواز کی زینت ہے؛ شاعری کلام کی زینت ہے۔“ (مقامات، ص ۲٠۹) چنانچہ ”اب اگر کوئی چیز حرام ہوگی تو اسی وقت ہوگی جب ان میں سے کوئی چیز اس میں پائی جائے گی۔ روایتیں، آثار، حدیثیں اور پچھلے صحیفوں کے بیانات، سب قرآن کے اسی ارشاد کی روشنی میں سمجھے جائیں گے۔“

اپنے اس نقطہ نظر کے تحت غامدی صاحب ان احادیث کو جن میں تصویر بنانے کی ممانعت بیان ہوئی ہے، مشرکین سے متعلق قرار دیتے ہیں جو پوجا کی غرض سے تصویریں اور مجسمے بناتے تھے، چنانچہ انھی سے یہ تقاضا کیا جائے گا کہ ”اپنے زعم کے مطابق جن زندہ اور نافع وضار ہستیوں کی تصویریں تم بناتے رہے ہو، ان میں اب جان ڈال کر دکھاﺅ۔“ (میزان ،ص ۲۱۲؛ ص ۶۶) یہی معاملہ موسیقی سے متعلق روایات کا ہے اور انھیں موسیقی کی انھی صورتوں سے متعلق مانا جا سکتا ہے جن میں بے حیائی یا شرک وغیرہ کی آمیزش ہو۔ (میزان، ص ۲۳۱) اس سے ہٹ کر علی الاطلاق تصویر یا موسیقی کو حرام قرار دینا قرآن کے بیان کردہ مذکورہ صریح اصول کے منافی ہے۔

۱۲۔ اس ضمن کی ایک اور اہم مثال ربا الفضل کی حرمت بیان کرنے والی روایات ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ خرید وفروخت کرتے ہوئے ہم جنس اشیاءکا باہمی مبادلہ کیا جائے تو اس میں ادھار بھی نہیں ہونا چاہیے اور مقدار میں بھی کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے۔ غامدی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ قرآن مجید نے جس ’الربا‘ کو حرام کہا ہے، وہ صرف ادھار کے معاملات میں ہوتا ہے اور بعض احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تصریح فرمائی ہے۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سد ذریعہ کے طور پر (سود کے ساتھ گویا ظاہری مشابہت سے بچنے یا اس کے جواز کے ایک ممکنہ حیلے کو روکنے کے لیے) یہ ہدایت دی تھی کہ اگر مثلاً سونا یا چاندی کا ادھار تبادلہ کیا جائے تو ایسی صورت میں مقدار میں کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے، اور اگر مبادلہ مقدار کی کمی بیشی کے ساتھ کیا جا رہا ہو تو پھر اس میں ادھار نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں، آپ کی مراد یہ تھی کہ ایک ہی معاملے میں کمی بیشی اور ادھار کو جمع نہ کیا جائے، بلکہ ادھار کی صورت ہو تو کمی بیشی سے گریز کیا جائے اور اگر کمی بیشی مقصود ہو تو ادھار کی صورت اختیار نہ کی جائے۔ تاہم راویوں نے ان دو الگ الگ باتوں کو خلط ملط کر کے حکم کو ایسی شکل دے دی جس کے لیے فقہاءکو ”ربا الفضل“ کے عنوان سے ایک مستقل اصطلاح وضع کرنی پڑی۔ غامدی صاحب کے الفاظ میں ”ہماری فقہ میں ربوٰا الفضل کا مسئلہ اسی غتربود کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، ورنہ حقیقت وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں واضح کر دی ہے کہ ’انما الربا فی النسیئۃ‘۔“ (میزان، ص ۵٠۸، ۵٠۹)

۱۳۔ رجم کی روایات بھی اس ضمن کی اہم ترین مثالوں میں سے ہیں۔ جمہور اہل علم اس سزا کا ماخذ سنت کو قرار دیتے ہیں اور قرآن مجید کے ساتھ اس کا تعلق تبیین یا تخصیص اور نسخ کے اصول پر متعین کرتے ہیں۔ تاہم مولانا فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ احادیث میں جلا وطنی یا رجم کی سزا آیت محاربہ پر مبنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ’محاربہ‘ اور ’فساد فی الارض‘ کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی چڑھانے، ہاتھ  پاؤں  الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے، جبکہ جلاوطنی یا رجم دراصل اوباشی اور آوارہ منشی کی سزا ہے جو ’فساد فی الارض‘ کے تحت آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نوعیت کے بعض مجرموں پر زنا کی سزا کے ساتھ ساتھ، سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت کے تحت ’فساد فی الارض‘ کی پاداش میں جلا وطن کرنے یا سنگ سار کرنے کی سزا بھی نافذ کی تھی۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’الثیب بالثیب جلد مائۃ والرجم‘ کے بارے میں مولانا اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ یہاں حرف ’و‘جمع کے لیے نہیں، بلکہ تقسیم کے مفہوم میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ زانی کی اصل سزا تو تازیانہ ہی ہے، البتہ آیت محاربہ کے تحت مصلحت کے پہلو سے اسے جلاوطن یا سنگ سار بھی کیا جا سکتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح آیت مائدہ کے تحت ازروئے مصلحت بعض مجرموں کو جلاوطنی کی سزا دی، اسی طرح بعض سنگین نوعیت کے مجرموں کے شر وفساد سے بچنے کے لیے آیت مائدہ ہی کے تحت انھیں رجم کی سزا بھی دی۔ (تدبر قرآن، ۵/۳۶۷-۳۶۹)

اس توجیہ کے نتیجے میں مولانا کی رائے اس لحاظ سے جمہور سے مختلف ہو جاتی ہے کہ ان کے نزدیک سنگسار کرنے کی علت مجرم کا شادی شدہ ہونا نہیں، بلکہ اوباش، آوارہ منش اور عادی زانی ہونا قرار پاتا ہے، چنانچہ جیسے محض زانی کے شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اسے رجم کرنا ضروری نہیں ٹھہرتا، اسی طرح کسی کنوارے زانی کو بھی اس کے جرم کی سنگینی کے پیش نظر رجم کیا جا سکتا ہے اور، مثال کے طور پر، ”مجرم اگر زنا بالجبر کا ارتکاب کرے یا بدکاری کو پیشہ بنا لے یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئے یا اپنی آوارہ منشی،بد معاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت وناموس کے لیے خطرہ بن جائے یا مردہ عورتوں کی نعشیں قبروں سے نکال کر ان سے بدکاری کا مرتکب ہو یا اپنی دولت واقتدار کے نشے میں غربا کی بہو بیٹیوں کو سربازار برہنہ کرے یا کم سن بچیاں بھی اس کی درندگی سے محفوظ نہ رہیں تو مائدہ کی اس آیت محاربہ کی رو سے اسے رجم کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔“ (برہان، ص ۹۱؛ نیز میزان، ص ۴٠، ۴۱)

۱۴۔ تیسری طلاق کے بعد قرآن نے یہ پابندی عائد کی ہے کہ عورت اپنے پہلے شوہر کے نکاح میں نہیں رہ سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرے (حَتّٰی تَنکِحَ زَوجًا غَیرَہ) اور اگر وہ بھی اسے طلاق دے دے تو پھر باہمی رضامندی سے وہ اور اس کا سابقہ شوہر دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ (البقرة ۲:۲۳٠) یہاں ”تنکح“ کا لفظ بظاہر عقد نکاح کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ دوسرے شوہر سے صرف عقد نکاح ہو جانا کافی ہے۔ اگر ایجاب وقبول کے بعد وہ عورت کو طلاق دے دے تو وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی۔ تاہم ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک دوسرا شوہر بیوی سے ہم بستری نہ کر لے، وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔

جمہور فقہاءنے اس شرط کو قبول کیا ہے، اگرچہ اصول فقہ کے لحاظ سے اس کی تکییف میں اختلاف ہے۔ بعض اہل اصول اسے قرآن پر زیادت کے طور پر قبول کرتے ہیں، جبکہ بعض نے قرآن کے لفظ ”تنکح“ کو ہی عقد کے بجائے ہم بستری کے معنی میں لیا ہے۔ غامدی صاحب کو اس موقف سے اتفاق نہیں ہے، کیونکہ ان کے اصول کے مطابق حدیث، قرآن کے حکم میں تبدیلی نہیں کر سکتی، جبکہ ”تنکح“ کے لفظ کو ہم بستری پر محمول کرنا لفظ کے متبادر مفہوم کے بھی خلاف ہے اور اس کی نسبت عورت کی طرف کرنا بھی اس کو وطی کے معنی میں لینے سے مانع ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک زیر بحث حدیث کا مدعا دراصل ہم بستری کو ایک شرط کے طور پر بیان کرنا ہے ہی نہیں جیسا کہ فقہاءنے عموماً سمجھا ہے۔ غامدی صاحب اس واقعے سے متعلق مروی تفصیلات سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ ”عورت نے نکاح کیا ہی اس مقصد سے تھا کہ وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے۔ چنانچہ طلاق لینے کے بعد اس نے جب غلط بیانی کر کے دوسرے شوہر کو زن وشو کا تعلق قائم کرنے سے قاصر قرار دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سرزنش کے لیے اسے یہ کہہ کر پہلے شوہر کے پاس جانے سے روک دیا کہ اب تم اس دوسرے شوہر سے لذت اندوز ہونے کے بعد ہی اُس کے پاس جا سکتی ہو۔ یہ بیان شرط نہیں، بلکہ تعلیق بالمحال کا اسلوب ہے۔ لہٰذا یہ روایت اگر کسی چیز کا ثبوت ہے تو حلالہ کی ممانعت کا ثبوت ہے، اس میں فقہا کے موقف کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے۔“ (میزان، ص ۴۵۳)

(جاری)

قادیانیوں کوقومی اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کا فیصلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک خبر کے مطابق حکومت پاکستان نے قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے اور کسی کو ان کا نمائندہ نامزد کیا جارہا ہے۔یہ بات اصولی طور پر تو ٹھیک ہے، لیکن ذرا ماضی پر نظر ڈال لیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟

1974ء میں جب پارلیمنٹ نے دستوری ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا تھا تو اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس بات کا اہتمام بھی کیا تھا کہ ایک قادیانی کو قومی اسمبلی میں اور ایک کو پنجاب اسمبلی میں رکن منتخب کروایا تھا۔ان کی نمائندگی کے لیے قادیانیوں نے انکار کر دیا تھاکہ وہ اپنی دستور کی طے کردہ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے،اس لیے وہ ان کے نمائندے نہیں ہیں۔اس لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کی نمائندگی نہ ہونے کی ذمہ داری خود ان کے انکار پر ہےجو اس وقت سے اب تک چلی آرہی ہے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ جس دستور کے کسی فورم پر قادیانیوں کو نمائندگی دی جا رہی ہے،اس دستور کو تو وہ تسلیم نہیں کر رہے تو ان کو کس اصول کے تحت نمائندگی دی جا رہی ہے؟پہلے قادیانیوں سے تقاضا کیا جائے، ان کو آمادہ کیا جائے کہ وہ دستوری فیصلے کو، پارلیمنٹ کے فیصلے کو، عدالت عظمی کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں کہ ان کی جو معاشرتی حیثیت ملک کا دستور طے کر چکا ہے، وہ اس کو تسلیم کرتے ہیں۔اس کے بعد کسی بھی فورم پر ان کی نمائندگی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔لیکن دستور سے ان کا انکار قائم رہے، اور دستوری اداروں میں ان کی نمائندگی حکومت کی طرف سے کی جائے،یہ کنفیوژن بڑھانے والی بات ہو گی، معاملات کو بگاڑنے والی بات ہو گیاور مسئلے کو مزید پیچیدگی  کی طرف لے جائے گی۔ حکومت پاکستان کو اس اقدام سے گریز کرنا چاہیے اور ان کو کسی بھی فورم میں نمائندگی سے پہلے ان کی حیثیت کا ان سے اعلان کروانا چاہیے۔

اگر قادیانی دستور کے مطابق اور  عدالت عظمی کے فیصلے کے مطابق اپنی اقلیتی حیثیت تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں کسی بھی فورم پراس حیثیت سے ان کی نمائندگی سے انکار نہیں ہو گا،لیکن کنفیوژن کی فضا میں، انکار کی فضا میں، اور گومگو کی فضا میں یہ بات تسلیم نہیں کی جائے گی اور حکومت کو اس سلسلے میں دینی حلقوں اور عوامی حلقوں کی مخالفت کا بلکہ ہو سکتا ہے کہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔اس لیے معاملے کو خراب نہ کریں، معاملے کو صحیح طریقے سے سلجھائیں جو یہ ہے کہ قادیانیوں سے کہا جائے کہ وہ دستوری اسٹیٹس کو تسلیم کریں اور  اس کے بعد ان کو کسی بھی فورم پرنمائندگی دے دی جائے۔اس کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو گا، مزید بگڑے گا۔

جون ۲۰۲۰ء

مدارس کا موجودہ نظام اور علماء کا روزگارمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۶)ڈاکٹر محی الدین غازی
ڈاکٹر علامہ خالد محمودؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوریؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
الشریعہ اکادمی کا تین سالہ آن لائن کورسمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
کشمکشِ عقل و نقل: امام رازیؒ اور علامہ ابن تیمیہ ؒمولانا محمد بھٹی
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۷)محمد عمار خان ناصر
جسمانی ساخت میں تبدیلی ۔ قرآن وحدیث اور اقوالِ فقہاء کی روشنی میں (۱)مولانا محمد اشفاق
ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیممحمد عرفان ندیم

مدارس کا موجودہ نظام اور علماء کا روزگار

محمد عمار خان ناصر

والد گرامی کی روایت ہے، گوجرانوالہ میں یوسف کمال نام کے ایک ڈپٹی کمشنر صاحب مقرر ہوئے جو کافی رعونت پسند اور طبقہ علماء  کے بہت خلاف تھے۔ ایک میٹنگ میں، جس میں صاحبزادہ فیض الحسن صاحب سمیت شہر کی بڑی مذہبی شخصیات شریک تھیں، ڈی سی صاحب نے گفتگو شروع فرمائی کہ مجھے علماء کرام پر بہت ترس آتا ہے، میرا دل دکھتا ہے کہ ان کا اپنا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہوتا، ان کا روزگار لوگوں کی جیب سے وابستہ ہوتا ہے، وغیرہ۔ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب مضطرب ہوئے اور زیر لب کہنے لگے کہ یہ بہت زیادتی ہے۔ والد گرامی نے کہا کہ اگر آپ فرمائیں تو میں ڈی سی صاحب کو جواب دوں؟ صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ ہونا تو چاہیے۔ اپنی باری آنے پر والد گرامی نے کہا کہ میں ڈی سی صاحب کا بہت ممنون ہوں کہ انھوں نے علماء کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے، بس اتنی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ روزگار آپ کا بھی لوگوں کی جیب سے ہی وابستہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ کی تنخواہ ٹیکس کلکٹر ڈنڈے کے زور پر لوگوں کی جیب سے وصول کرتا ہے، اور علماء کے پاس لوگ خود آ کر کہتے ہیں کہ حضرت، ہدیہ قبول فرمائیں اور ساتھ دعا کی درخواست بھی کرتے ہیں۔

تبصرے کا حاصل یہ ہے کہ  پوری ریاستی مشینری اور اس کے کروفر والے سارے عہدے دار (آرمی چیف، صدر اور چیف جسٹس سمیت) اسی جیب سے روزگار پاتے ہیں جہاں سے مولوی کو ملتا ہے اور یہ اس اصول پر  مبنی ہے کہ معاشرے کی اجتماعی ضروریات کا بندوبست معاشرے ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جیسے پوری ریاستی مشینری کے اخراجات ٹیکس کی صورت میں لوگوں کی جیب سے وصول کیے جاتے ہیں اور کوئی اسے ’’طفیلی پن” نہیں سمجھتا، اسی طرح دینی تعلیم اور دینی خدمات کا انتظام وانصرام بھی معاشرے کی مجموعی ضروریات میں سے ہے اور مذہبی علماء نے اگر عوامی تبرعات کی بنیاد پر اس کا ایک نظم بنایا ہوا ہے تو وہ بھی اسی اصول پر قائم ہے۔ البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ ریاست اپنے اخراجات، ریاستی طاقت کے بل پر وصول کرتی ہے اور ٹیکس دینے سے انکار کو بغاوت کے درجے کا قانونی جرم قرار دیتی ہے، جبکہ مساجد ومدارس کا نظام (اور اسی طرح رفاہ عامہ کے دیگر تمام شعبے) لوگوں کے مذہبی واخلاقی احساسات کو اپیل کر کے اور اللہ کے ہاں اجر اور ثواب کے تصورات کی بنیاد پر انھیں آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ان مختلف شعبوں میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔

یہ تو ہوئی اصول کی بات۔ تاہم یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ اصول چاہے ایک ہی کام کر رہا ہو، معاشرے میں بن جانے والے تاثرات کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ ریاست جو وسائل طاقت سے وصول کرتی ہے، اس کا تاثر اور بنتا ہے، اور لوگ اپنی مرضی سے، اجر وثواب کی نیت سے اور ’’صدقہ وخیرات” کے عنوان سے جو رقم دیتے ہیں، اس کا تاثر کچھ اور بنتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں مدارس بنیادی طور پر اوقاف کے نظام کے تحت کام کرتے رہے ہیں جو ایک باوقار طریقہ تھا۔ استعماری دور میں اوقاف کے پورے نظام کو برباد کر دیے جانے کے بعد علماء نے بامر مجبوری عوامی چندے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ ضروری دینی تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھا جا سکے۔ ہمارے ہاں پایا جانے والا عوامی تاثر بنیادی طور پر اس تبدیلی سے پیدا ہوا ہے اور اس کی منفیت کو خود صاحب فہم علماء بھی محسوس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ایک ارشاد ملاحظہ ہو جو مساجد ومدارس کے ذمہ داران کے لیے بہت ہی قابل توجہ ہے۔

مولانا فرماتے ہیں:

’’مدارس کے متعلق میری ایک رائے یہ ہے کہ دینی مدارس میں صنعت وحرفت کا بھی انتظام ہو، خواہ طلبہ بعد میں یہ کام نہ کریں، لیکن سکھایا ضرور جائے۔ اس لیے کہ آج کل عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان مولویوں کو اس کے سوا اور کچھ نہیں آتا، اس لیے وہ انھیں اپنا محتاج سمجھتے ہیں جس سے ان کی تحقیر ہوتی ہے۔ اگر کوئی دستکاری وغیرہ سیکھ لیں اور کسی وقت کسب معاش کی ضرورت ہو تو اپنے کام میں تو لگ جائیں گے اور اس طرح چندہ مانگنے سے بچ جائیں گے، اس لیے کہ چندہ مانگنے میں حد درجہ تحقیر ہے۔” (الافاضات الیومیہ، حصہ ششم، ص ۲۶۶)

اس تناظر میں الشریعہ کے نومبر ۲٠۱۸ء کے شمارے میں ’’دینی مدارس کا نظام :بنیادی مخمصہ” کے عنوان سے  جو تفصیلی معروضات پیش کی گئی تھیں، ان کے ایک حصے کا اعادہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے:

’’دینی تعلیم میں مہارت اور اختصاص کے لیے صلاحیت اور استعداد نیز رجحان طبع کا ایک معیار مقرر کیا جائے اور انھی طلبہ کو اس میں آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے جو ایک “عالم دین” کے طور پر معاشرے میں کردار ادا کر سکیں۔ ان کے علاوہ مدارس سے رجوع کرنے والے عام طلبہ کے لیے مختلف سطحوں پر ان کی ضرورت اور صلاحیت کے لحاظ سے مختلف دورانیے کے متبادل نصابات تشکیل دیے جائیں جنھیں مکمل کرنے کے بعد دو سال، تین سال یا چار سال میں وہ سسٹم سے باہر جا سکیں۔ ایسے حضرات کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ہنر لازماً‌ سکھائے جائیں جو کل کو روزگار کے سلسلے میں ان کی مدد کریں، مثلاً‌ انگریزی زبان، ریاضی، کمپیوٹر آپریٹنگ، اداراتی انتظام وغیرہ۔ پنجاب حکومت کا ادارہ TEVTA اس حوالے سے یہ سہولت دے رہا ہے کہ مختلف تکنیکی ہنر سکھانے کے لیے دینی اداروں کے اندر سرکاری اخراجات سے سیٹ اپ قائم کیے جا سکتے ہیں اور مختلف اداروں میں یہ تجربہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ اگر مدارس سے رجوع کرنے والے تمام طلبہ کو “علماء” بنا کر فارغ التحصیل کرنے کے ہدف میں ترمیم کر لی جائے اور عام طلبہ کے لیے بھی اپنے سسٹم میں گنجائش پیدا کر لی جائے تو طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے ایک سال، دو سال یا تین سال کے دورانیے پر مبنی دینی تعلیم کے نصاب کے ساتھ مختلف تکنیکی ہنر شامل کر کے وسیع معاشرتی افادیت رکھنے والا ایک تعلیمی نظام آسانی سے قائم کیا جا سکتا ہے۔

یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ داعی کا معاشرے کی نظر میں محترم اور باوقار ہونا دعوت دین کے موثر ہونے کے لیے بہت اہم ہے اور ذریعہ معاش کا سوال اس مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جس معاشرے میں دین کو فکری غلبہ اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہو، وہاں معاشرہ اہل دین کی ضروریات کے بندوبست کو اپنا فریضہ اور ذریعہ سعادت تصور کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں حکمران اور ارباب ثروت ہمیشہ دراہم ودنانیر نیاز مندانہ اہل علم کی خدمت میں پیش کرتے رہے ہیں۔ تاہم جدید معاشرے میں دین اور اہل دین کی یہ حیثیت برقرار نہیں رہی اور لازم ہے کہ معاشرتی وقار کی بحالی کے لیے حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ وقت کے مروجہ معیارات کے مطابق ایسی صلاحیتیں اور اہلیتیں پیدا اور ایسے ہنر حاصل کیے جائیں جو باوقار روزگار کا ذریعہ تصور کیے جاتے ہوں۔ اہل دین معاشرے کو دینے والے ہوں اور جو کچھ وہ دیں، اس میں دوسری خدمات کے ساتھ ساتھ دعوت دین کی خدمت بھی شامل ہو۔

دینی تعلیم کا مروجہ نظام ایسی مہارتیں سکھاتا ہے جن کی، عموماً‌، معاشرے کی نگاہ میں کوئی خاص قدر نہیں۔ معاشرہ حصول ثواب کی غرض سے یا مذہب کے ساتھ ایک روایتی وابستگی کے زیر اثر اس کام کے لیے صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات وغیرہ تو دے دیتا ہے، لیکن اس عمومی تاثر اور احساس کے ساتھ کہ مذہبی طبقہ لوگوں کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے۔ کسی عالم کو قوت لا یموت سے زیادہ کچھ مل جائے تو معاشرے کو ہضم نہیں ہوتا، کیونکہ اس طبقے کا درجہ معاشرے نے یہی متعین کیا ہے۔ اس رویے پر معاشرے کو قصور وار ٹھہرانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ جواز۔ یہ فطری انسانی رویہ ہے۔ اہل دین اگر بحیثیت طبقہ اپنے لیے وقار اور احترام چاہتے ہیں، جو دعوت دین کے لیے بے حد ضروری ہے، تو انھیں خود اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لانا ہوگی۔”

غیر مسلموں کے لیے استغفار یا دعائے رحمت

غیر مسلموں کے لیے پس از مرگ کس نوعیت کی دعائے خیر کی جا سکتی ہے اور کس نوعیت کی نہیں،  یہ سوال  موجودہ عالمی ماحول میں خاص طور پر  مخلوط معاشروں کے تناظر میں عموما زیر بحث آتا رہتا ہے۔  معروف عرب اسکالر الدکتور احمد الغامدی نے اس حوالے سے ایک  رائے پیش کی تھی جو بہت  معتدل اور متوازن معلوم ہوتی ہے۔

الدکتور الغامدی کہتے ہیں کہ قرآن وسنت کے نصوص کی روشنی میں کفار کے بارے میں یہ عمومی حکم بیان کرنا تو درست ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے، لیکن متعین افراد کے بارے میں یہ بات کہنا اس بات کے یقینی علم کے بغیر درست نہیں کہ وہ جانتے بوجھتے کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔ غیر مسلموں کے لیے استغفار کا جواز یا عدم جواز بھی اس پر مبنی ہے، اور جن غیر مسلموں کی حالت یقینی طور پر معلوم نہ ہو، ان کے متعلق جہنم میں جانے کا متعین حکم لگانا اللہ کے حق میں جسارت اور حدود سے تجاوز ہے۔ یوں اگر ان کا دانستہ انکار کی حالت میں مرنا یقینی نہ ہو تو اصولا ان کے لیے استغفار کیا جا سکتا ہے، تاہم چونکہ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ دانستہ کفر کی حالت میں مرے ہیں یا لاعلمی اور ناواقفیت کی وجہ سے، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے متعلق سکوت اختیار کیا جائے۔

الدکتور الغامدی دوسری اہم بات یہ کہتے ہیں کہ جن غیر مسلموں کا، دانستہ کفر پر مرنا یقینی ہو، ان کے لیے بھی استغفار کی ممانعت ہے، لیکن ترحم اور عمومی دعائے خیر کی ممانعت نہیں ہے۔ استغفار کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے کفر کی معافی، نجات اور جنت میں داخلے کی دعا کی جائے۔ یہ درست نہیں، لیکن ان کے لیے رحمت کی دعا کرنا جائز ہے، کیونکہ کامل مغفرت سے ہٹ کر کفار کے بعض اچھے اعمال کی وجہ سے ان کے عذاب میں تخفیف کیا جانا نصوص سے ثابت ہے اور ان معنوں  میں ان کے لیے رحمت کی دعا کی جا سکتی ہے کہ ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا جائے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب کے لیے دعا فرمائی تھی۔

ہماری رائے میں غیر مسلموں کے لیے مغفرت یا رحمت کی دعا کی بحث میں درج ذیل چند پہلووں کو بڑی احتیاط اور توازن کے ساتھ ملحوظ رکھنے  کی ضرورت ہے:

سب سے پہلی اور بنیادی بات تو حق اور باطل کا فرق ہے جس کی اہمیت کو گھٹانا راسخ العقیدہ اسلامی فکر میں کسی حال میں قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ یہ سمجھنا کہ عقیدے میں حق اور باطل کا فرق کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور بس انسان کا ’’اچھے کردار” کا حامل ہونا اصل چیز ہے، اس لیے سب بھلے لوگ بلا تفریق مغفرت ورحمت کے حق دار ہیں، صحیح اسلامی عقیدہ نہیں ہے، بلکہ اس کو ڈھا دینے والا ہے۔ اسلام کی نظر میں ’’اچھے کردار” کا بنیادی معیار حق اور باطل کے فرق کو ماننا اور حق کو قبول کرنا ہے جس کا ایک تقاضا حق پر عمل کرنا بھی ہے۔ جو شخص حق اور قبولیت حق کی اہمیت کو نہیں مانتا، وہ اسلام کی نظر میں ’’اچھے کردار” کا حامل نہیں، چاہے بظاہر کئی اعمال خیر کر رہا ہو۔ اس لیے اس تصور کے تحت غیر مسلموں کے لیے دعائے مغفرت کرنا اتنا ہی باطل عمل ہے جتنا توحید اور شرک اور ایمان اور کفر کو ایک سمجھنے کا تصور باطل ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اور بخشش کا اپنے لیے اور دوسرے انسانوں کے لیے امیدوار ہونا ایک فطری انسانی جذبہ ہے۔ یہ اپنے بنی نوع کی ہمدردی کا مظہر ہے اور اسی ہمدردی کے تحت اہل ایمان، خلق خدا کی خیر خواہی میں دعوت حق کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اسی جذبے سے خدا کے گنہگار اور نافرمان بندوں کے لیے بخشش کی خواہش کا دل میں پیدا ہونا کوئی مذموم چیز نہیں، بلکہ محمود ہے۔ البتہ، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے انسانوں کو یہ بتایا ہے کہ حق کے منکرین جب حق بالکل واضح ہو جانے کے بعد کھلم کھلا عناد پر بضد رہیں تو پھر اہل حق کی ایمانی غیرت کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ بدستور ان کے ساتھ ہمدردی اور تعلق خاطر رکھتے رہیں۔ ایسی صورت میں اللہ تعالی یہ چاہتے ہیں کہ وہ ان سے براءت کا اظہار کر کے قطع تعلق کر لیں، جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی اللہ کے حضور میں پیش نہ کریں۔

قرآن وحدیث کے نصوص میں غیر مسلموں کے لیے  بد دعا   اور ان کے لیے آفات ومصائب کی خواہش  کرنے کی مثالیں بھی  بنیادی   طور پر انھی کفار سے متعلق ہیں جو مسلمانوں کے خلاف برسرجنگ تھے یا اپنے علاقوں میں اہل ایمان کو تکلیفیں پہنچا رہے تھے، وگرنہ دنیوی آفات ومصائب میں  انسانی ہمدردی میں مسلمان اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنی بہترین انتظامی صلاحیتیں جس قوم کو قحط کے اثرات سے بچانے کے لیے پیش کیں، وہ مصر کے مشرک اور دیوتا پرست تھے۔

تیسری اہم بات عام کافروں سے متعلق ہے جن پر نہ تو پیغمبر کے ذریعے سے اتمام حجت ہوا ہے اور نہ ان کے طرز عمل سے اس طرح کا عناد سامنے آتا ہے جو مذکورہ صورت میں بیان ہوا۔ ایسے کفار کے لیے انسانی ہمدردی کی بنا پر یا مختلف قسم کے دنیوی علائق کی وجہ سے یا مسلمانوں کے ساتھ ان کے اچھے برتاو کی وجہ سے دعا کی خواہش کا پیدا ہونا فطری ہے۔ اللہ کے دو پیغمبروں سیدنا ابراہیم اور سیدنا عیسی ٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن میں بھی بیان ہوا ہے اور حدیث میں بھی اس کا حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی اولاد اور اپنی امت کے کفر کے باوجود ان کی بخشش کی خواہش رکھتے تھے، البتہ ان دونوں پیغمبروں کے اسوے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خاص طور پر شرک کرنے والوں کے بارے میں انھوں نے براہ راست اور صریح دعائے مغفرت نہیں کی، بلکہ ایک طرح کی امید اور توقع ہی بارگاہ الہی میں پیش کرنے پر اکتفا کی۔ پس مبنی براعتدال اور متوازن بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ غیر معاند اہل کفر کے بارے میں یا تو سکوت اختیار کیا جائے اور یا امید اور توقع کا بالواسطہ اسلوب استعمال کیا جائے اور صریح دعائے مغفرت سے اجتناب کیا جائے۔ البتہ ان کے ساتھ آخرت میں نرمی برتے جانے اور سزا میں تخفیف کی دعا بالکل درست ہوگی۔ یہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے اور اس میں کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا۔

ہذا ما عندی واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

سورة سبا کے بعض مقامات کا ترجمہ

(۲٠۳)    یُخلِفُہُ کا ترجمہ

اخلف کا ایک مطلب ہوتا ہے کوئی چیز ختم ہوگئی ہو تو اس کی جگہ دوسری چیز لے آنا، امام لغت جوہری کے الفاظ میں: واَخلَفَ فلان  لنفسہ، اذا کان قد ذھب لہ شیءفجعل مکانَہ آخر (الصحاح) اس معنی میں یہ لفظ قرآن مجید میں ایک آیت میں آیا ہے، لیکن بہت سے مترجمین سے یہاں غلطی ہوئی اور انھوں نے بدل کے بجائے بدلے کا ترجمہ کردیا۔ اس غلطی کی وجہ غالبا یہ ہوئی کہ اسی جملے میں انفاق کا ذکر آیا ہے جس سے انھوں نے راہ خدا میں خرچ کرنا سمجھ لیا۔ دراصل جیسا کہ سیاق سے صاف معلوم ہوتا ہے یہ آیت راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب کے لیے نہیں آئی ہے، بلکہ اس دنیا میں اللہ کی رازقیت بتانے کے لیے آئی ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے رزق کا سلسلہ انسانوں کے لیے تاحیات جاری رہتا ہے۔ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے وہ خرچ کرتے ہیں اوراللہ تعالی اس کی جگہ اس کا بدل عطا کرتا ہے، اور یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ اسی طریقے سے دنیا میں انسانوں کی زندگی گزر رہی ہے۔ فھو یخلفہ مستقبل کا کوئی وعدہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی جاری سنت کا بیان ہے۔اس وضاحت کے بعد حسب ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

 قُل اِنَّ رَبِّی یَبسُطُ الرِّزقَ لِمَن یَشَاء مِن عِبَادِہِ وَیَقدِرُ لَہُ وَمَا اَنفَقتُم مِن شَیئٍ فَھُوَ یُخلِفُہُ وَھُوَ خَیرُ الرَّازِقِینَ۔ (سبا: 39)

“اے نبی، ان سے کہو،میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے، جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اُس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے” ۔(سید مودودی، یہ زیر بحث جملے کا درست ترجمہ ہے، البتہ خیر الرازقین کا صحیح ترجمہ ہے: وہ بہترین رازق ہے، کیوں رازق اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے، وہی تنہا رازق ہے اور بہترین رازق ہے۔ )

وَمَا اَنفَقتُم مِن شَیئٍ فَھُوَ یُخلِفُہُ کے درج ذیل ترجمے درست نہیں ہیں:

“اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کروگے تو وہ اس کا بدلہ دے گا”۔ (امین احسن اصلاحی)

“اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا ”۔(احمد رضا خان)

“اور تم جو چیز خرچ کرو گے وہ اس کا (تمہیں) عوض دے گا”۔ (فتح محمد جالندھری)

“تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا”۔ (محمد جوناگڑھی)

“اور جو کچھ تم (راہِ خدا میں) خرچ کرتے ہو تو وہ اس کی جگہ عطا کرتا ہے”۔ (محمد حسین نجفی)

(۲٠۴)    مَا بَینَ اَیدِیہِم وَمَا خَلفَہُم  کا ترجمہ:

 اَفَلَم یَرَوا اِلَی مَا بَینَ ایدِیہِم وَمَا خَلفَہُم مِنَ السَّمَاء وَالاَرضِ۔ (سبا: 9)

“کیا اِنہوں نے کبھی اُس آسمان و زمین کو نہیں دیکھا جو اِنہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے؟” (سید مودودی)

اس ترجمے میں ”گھیرے ہوئے” لفظ پر غیر ضروری اضافہ ہے اور درست نہیں ہے، اگر آسمان وزمین کے گھیرنے کی بات ہوتی تو اوپر اور نیچے آتا، یہاں تو صرف دیکھنے کی بات ہے، درج ذیل ترجمہ درست ہے:

“کیا انھوں نے اپنے آگے اور پیچھے آسمان وزمین پر نظر نہیں ڈالی؟”۔ (امین احسن اصلاحی)

(۲٠۵)    لَیَالِیَ وَاَیَّامًا کا ترجمہ

قرآن مجید میں کسی کام کو رات میں کرنے کے لیے لیل آتا ہے، جمع کے صیغے میں لَیَالِی بس وہیں آتا ہے جہاں تعداد بھی ذکر ہو، البتہ درج ذیل آیت میں جمع کے صیغے میں لَیَالِیَ وَاَیَّامًا آیا ہے، عام طور سے ترجموں میں اس خاص اسلوب کی رعایت نہیں نظر آتی ہے۔ اور رات دن کا ترجمہ کردیا جاتا ہے، درج ذیل ترجمے ملاحظہ کریں:

 وَجَعَلنَا بَینَہُم وَبَینَ القُرَی الَّتِی بَارَکنَا فِیہَا قُرًی ظَاھِرَةً وَقَدَّرنَا فِیہَا السَّیرَ سِیرُوا فِیہَا لَیَالِیَ وَایَّامًا آمِنِینَ۔ (سبا: 18)

“اور ہم نے اُن کے اور اُن بستیوں کے درمیان، جن کو ہم نے برکت عطا کی تھی، نمایاں بستیاں بسا دی تھیں اور اُن میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے پر رکھ دی تھیں چلو پھرو اِن راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ”۔ (سید مودودی)

“اور ہم نے ان کے اور (شام کی) ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دی تھی (ایک دوسرے کے متصل) دیہات بنائے تھے جو سامنے نظر آتے تھے اور ان میں آمد ورفت کا اندازہ مقرر کردیا تھا کہ رات دن بے خوف وخطر چلتے رہو”۔ (فتح محمد جالندھری)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ لَیَالِیَ وَاَیَّامًا کا “کئی کئی رات اور دن” ترجمہ ہونا چاہیے۔ یعنی اللہ تعالی نے پرامن راستوں کا بہت لمبی مسافت کے لیے انتظام کیا تھا۔

(۲٠۶)    لفظ کے عمومی وسیع معنی کو محدود نہیں کیا جائے

درج ذیل آیت کے ترجمے ملاحظہ کریں:

وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَہُ اِلَّا لِمَن اَذِنَ لَہُ حَتَّی اِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِہِم قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّکُم قَالُوا الحَقَّ وَہُوَ العَلِیُّ الکَبِیرُ ۔ (سبا: 23)

“شفاعت (سفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لیے اجازت ہوجائے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمہارے پرودگار نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وہ بلند وبالا اور بہت بڑا ہے”۔ (محمد جوناگڑھی، اس ترجمہ میں الفاظ کے عموم کی پوری رعایت کی گئی ہے، اور ترجمے میں کسی اضافے سے مفہوم کو محدود نہیں کیا گیا)

“اور اس کے پاس شفاعت کام نہیں دیتی مگر جس کے لیے وہ اذن فرمائے، یہاں تک کہ جب اذن دے کر ان کے دلوں کی گھبراہٹ دور فرمادی جاتی ہے، ایک دوسرے سے کہتے ہیں تمہارے رب نے کیا ہی بات فرمائی، وہ کہتے ہیں جو فرمایا حق فرمایا اور وہی ہے بلند بڑائی والا”۔ (احمد رضا خان، اس ترجمے میں جب “اذن دے کر” کے اضافے سے اس جملے کے مفہوم کو محدود کردیا جو مناسب نہیں ہے، ویسے بھی آیت میں اذن دے دیے جانے کا تو تذکرہ نہیں ہے، اور اس اذن سے سب کی گھبراہٹ کیوں دور ہوگی؟)

“اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہو سکتی بجز اُس شخص کے جس کے لیے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو حتیٰ کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو گی تو وہ (سفارش کرنے والوں سے) پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا جواب دیا، وہ کہیں گے کہ ٹھیک جواب ملا ہے اور وہ بزرگ و برتر ہے”۔ (سید مودودی)

اس آخری ترجمے میں ایک توجہ طلب بات تویہ ہے کہ اذا والے جملے کا مستقبل سے ترجمہ کیا گیا ہے جب کہ جس جملے پر اذا داخل ہو اس کا ترجمہ مستقبل سے کرنا مناسب نہیں ہے، دوسری توجہ طلب بات یہ ہے کہ “سفارش کرنے والوں سے” ترجمہ کا اضافہ ہے جو مفہوم کو محدود کرتا ہے اور درست نہیں ہے، عمومی بات ہے کہ وہ کہیں گے، تیسری توجہ طلب بات یہ ہے کہ “کیاجواب دیا اور جواب ملا” لفظ قال کے عموم کو محدود کردیتا ہے، “کیا کہا اور ٹھیک کہا” ترجمہ کرنا مناسب ہے۔ یہ درست ہے کہ آیت کے شروع میں شفاعت کی نفی اور استثناءکا ذکر ہے، لیکن پوری آیت کو شفاعت ہی کے پس منظر میں رکھ کر سمجھنا اور ترجمہ کرنا درست نہیں ہے۔ عمومی بات ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ رب کا کیا فیصلہ آیا ہے اور گواہی بھی دیں گے کہ رب کا فیصلہ تو حق ہے۔

(۲٠۷)    راسیات کا ترجمہ

رسا یرسو کا مطلب ہوتا ہے جم جانا، امام لغت جوہری کے الفاظ میں: رسا الشیء یرسو: ثبت. وجبال راسِیات. ورَسَت اقدامہم فی الحرب، ای ثبتت. ورَسَتِ السفینة ترسوا رسوا، ای وقفت علی اللنجر۔ (الصحاح)

قرآن مجید میں پہاڑوں کی صفت رواسی کئی جگہ آئی ہے، اور پہاڑوں کو زمین میں جمانے کے لیے ارساھا کا لفظ بھی آیا ہے، اس لفظ کا اصل مطلب جم جانا ہے، البتہ کشتیوں کے لنگرانداز ہونے کے لیے بھی یہ استعمال ہوتا ہے، قرآن مجید میں ایک مقام پر دیگوں کی صفت کے طور پر یہ لفظ آیا ہے، بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ بھی لنگر انداز کردیا ہے:

وَقُدُورٍ رَاسِیَاتٍ۔ (سبا: 13)

“اور لنگر انداز دیگیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“اور لنگردار دیگیں”۔ (احمد رضا خان)

“اور چولہوں پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

“اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں”۔ (سید مودودی)

“اپنی جگہ جمی رہنے والی دیگیں”۔ (امانت اللہ اصلاحی)

“اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی رہیں”۔(فتح محمد جالندھری، ایک جگہ رکھی رہنا ایک دوسری بات ہے جو اس لفظ سے ظاہر نہیں ہوتی ہے)

(۲٠۸)    فزعوا کا ترجمہ

وَلَو تَرَی اِذ فَزِعُوا۔ (سبا: 51)

اس جملے کے ترجموں میں ایک غلطی یہ ہوئی ہے کہ لو کا ترجمہ کاش کیا ہے، ایک تو یہ لفظ اللہ تعالی کی شان کے مطابق نہیں ہے، دوسرے یہ کہ یہ تو مستقبل کی بات ہے اس لیے کاش کا یہ محل بھی نہیں ہے۔ دوسری توجہ طلب بات یہ ہے کہ بعض لوگوں نے گھبرائے پھریں ترجمہ کیا ہے،’ پھریں ‘کا اضافہ غیر ضروری اور نادرست ہے۔ درج ذیل ترجمے دیکھیں:

“اور اگر تم دیکھ پاتے جب ان پر گھبراہٹ طاری ہوگی”۔ (امین احسن اصلاحی)

“اور کسی طرح تو دیکھے جب وہ گھبراہٹ میں ڈالے جائیں گے”۔ (احمد رضا خان)

“اور کاش تم دیکھو جب یہ گھبرا جائیں گے”۔ (فتح محمد جالندھری)

“اور اگر آپ (وہ وقت) ملاحظہ کریں جب کہ یہ کفار گھبرائے پھریں گے”۔ (محمد جوناگڑھی)

“کاش تم دیکھو اِنہیں اُس وقت جب یہ لوگ گھبرائے پھر رہے ہوں گے”۔ (سید مودودی)

ان میں پہلا ترجمہ مذکورہ بالا دونوں پہلووں سے درست ہے۔

(۲٠۹)    یَقذِفُونَ بِالغَیبِ مِن مَکَانٍ بَعِیدٍ کا ترجمہ:

وَقَد کَفَرُوا بِہِ مِن قَبلُ وَیَقذِفُونَ بِالغَیبِ مِن مَکَانٍ بَعِیدٍ۔ (سبا: 53)

“اِس سے پہلے یہ کفر کر چکے تھے اور بلا تحقیق دور دور کی کوڑیاں لایا کرتے تھے”۔ (سید مودودی)

“اور پہلے تو اس سے انکار کرتے رہے اور بن دیکھے دور ہی سے (ظن کے) تیر چلاتے رہے”۔ (فتح محمد جالندھری)

“اس سے پہلے تو انہوں نے اس سے کفر کیا تھا، اور دور دراز سے بن دیکھے ہی پھینکتے رہے”۔ (محمد جوناگڑھی)

“حالانکہ اس سے پہلے تو وہ اس (ایمان) کا انکار کرتے رہے اور (بلاتحقیق) بہت دور سے اَٹکَل کے تُکے چلاتے رہے”۔(محمد حسین نجفی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ تجویز کرتے ہیں: “اور غیب کے بارے میں دور سے باتیں چھانٹتے تھے”۔

قدیم مفسرین نے اس آیت کا ایک مصداق یہ ذکر کیا کہ وہ لوگ جو اللہ کے رسول پر شاعر کاہن اور ساحر ہونے کا الزام لگاتے تھے وہ یہاں مراد ہے، لیکن لفظ بالغیب سے اس قول کی تائید نہیں ہوتی بلکہ آخرت کے سلسلے میں جو وہ اٹکل بازی کرتے تھے وہ مراد ہے،اور یہ قول بھی قدیم مفسرین کے یہاں ملتا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر الطبری)

(۲۱٠)    فھو لکم کا ترجمہ

قُل مَا سَالتُکُم مِن اَجرٍ فَہُوَ لَکُم اِن اَجرِیَ اِلَّا عَلَی اللَّہِ۔ (سبا: 47)

درج ذیل ترجمے ملاحظہ کریں:

“کہو میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو تمہارے ہی لیے مانگا ہے، میرا اجر تو بس اللہ پر ہے”۔ (امین احسن اصلاحی)

“کہہ دیجیے! کہ جو بدلہ میں تم سے مانگوں وہ تمہارے لیے ہے میرا بدلہ تو اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے”۔(محمد جوناگڑھی)

“کہہ دیجئے! میں نے (تبلیغِ رسالت(ص) کے سلسلہ میں) تم سے جو اجر مانگا ہے وہ تمہارے ہی (فائدہ کے) لیے ہے میری اجرت تو بس اللہ کے ذمہ ہے”۔ (محمد حسین نجفی)

ان ترجموں سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے واقعی ان لوگوں سے اجر کے نام پر کچھ مانگا تھا، حالانکہ اس آیت میں رسول سے جنھیں خطاب کرنے کو کہا ہے وہ تو مکہ کے منکرین اور مکذبین ہیں، ان سے کچھ مانگنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، چاہے وہ انہی کے فائدے کے لیے ہو، اس لیے مذکورہ بالا ترجمے درست نہیں ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ ان منکرین ومکذبین کے جھوٹے الزام کی سخت تردید ہے، کہ میں نے تو تم سے کچھ مانگا ہی نہیں، اور اگر تم الزام لگاتے ہو کہ میں نے تم سے کچھ مانگا ہے تو اب علی الاعلان سن لو کہ جو تمہارے پاس ہے وہ اپنے پاس ہی رکھو، مجھے تم سے کچھ نہیں لینا ہے۔ یہ اعلان ان کے الزام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کافی ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل ترجمے درست ہیں:

“اِن سے کہو، اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک رہے میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے”۔ (سید مودودی)

“کہو میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہو تو تم اسے اپنے ہی پاس رکھو ،میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے ”۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(۲۱۱)    نکیر کا ترجمہ:

نکیر کا لفظ قرآن مجید میں بار بار آیا ہے، عربی میں نکیر اور انکار ہم معنی الفاظ ہیں، لیکن یہاں یاد رہنا چاہیے کہ عربی کے اس انکار اور اردو میں رائج انکار میں فرق ہے۔ عربی میں نکیر جس انکار کا ہم معنی ہے اس کا مطلب ہے کسی چیز کو ناپسندیدہ قرار دینا، علامہ طاہر بن عاشور ایک جگہ لکھتے ہیں: والنکیر: اسم للانکار وھو عد الشیء منکرا، ای مکروھا۔ (التحریر والتنویر)

دوسری جگہ مزید وضاحت کرتے ہیں: والنکیر: اسم لشدة الانکار، وھو ھنا کنایة عن شدة العقاب لان الانکار یستلزم الجزاء علی الفعل المنکر بالعقاب. (التحریر والتنویر)

گویا کسی چیز پر شدید اظہار ناپسندیدگی کو نکیر کہتے ہیں، جس کے نتیجے میں سخت گرفت بھی ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی مختلف آیتوں کا ترجمہ کرتے ہوئے نکیر کا ترجمہ لوگوں نے سزا اور عذاب کیا ہے، یہ نکیر کا نتیجہ تو ہوسکتا ہے، لیکن لفظ کی حقیقی ترجمانی نہیں ہے، پھٹکار بھی اس کا ترجمہ کیا گیا ہے، لیکن یہ بھی اس لفظ کا صحیح مفہوم پیش نہیں کرتا، اس کا ترجمہ انکار بھی کیا گیا ہے، لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا اردو کا انکار عربی کے انکار کا ہم معنی نہیں ہے، خاص طور سے نکیر کا مفہوم بتانے کے لیے، مولانا امانت اللہ اصلاحی نکیر کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں “اظہار ناگواری”۔ اس وضاحت کے بعد درج ذیل آیتوں کے ترجمے ملاحظہ کریں:

وَکَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبلِہِم وَمَا بَلَغُوا مِعشَارَ مَا آتَینَاھُم فَکَذَّبُوا رُسُلِی فَکَیفَ کَانَ نَکِیرِ۔ (سبا: 45)

“اور ان سے پہلے والوں نے بھی جھٹلایا۔ اور یہ تو اس کے عشر عشیر کو بھی نہ پہنچے جو ہم نے ان کو دیا تو انھوں نے میرے رسولوں کی تکذیب کی تو دیکھو کیسی ہوئی ان پر میری پھٹکار”۔ (امین احسن اصلاحی)

“تو دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی”۔ (سید مودودی)

“تو کیسا ہوا میرا انکار کرنا”۔ (احمد رضا خان)

“سو میرا عذاب کیسا ہوا”۔ (فتح محمد جالندھری)

“ (پھر دیکھ کہ) میرا عذاب کیسا (سخت) تھا”۔ (محمد جوناگڑھی)

“تو کیسا ہوا میرا اظہار ناگواری”۔ (امانت اللہ اصلاحی)

فَاَملَیتُ لِلکَافِرِینَ ثُمَّ اَخَذتُہُم فَکَیفَ کَانَ نَکِیرِ۔ (الحج: 44)

“تو میں نے کافرو ں کو ڈھیل دی پھر انہیں پکڑا تو کیسا ہوا میرا عذاب”۔ (احمد رضا خان)

“ ان سب منکرینِ حق کو میں نے پہلے مُہلت دی، پھر پکڑ لیا اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی”۔ (سید مودودی)

“تو میں نے ان کافروں کو ڈھیل دی، پھر ان کو دھرلیا تو دیکھو کیسی ہوئی میری پھٹکار”۔ (امین احسن اصلاحی)

“تو کیسا ہوا میرا اظہار ناگواری”۔ (امانت اللہ اصلاحی)

 ثُمَّ اَخَذتُ الَّذِینَ کَفَرُوا فَکَیفَ کَانَ نَکِیرِ۔ (فاطر: 26)

“پھر میں نے کافروں کو پکڑا تو کیسا ہوا میرا انکار”۔ (احمد رضا خان)

“پھر میں نے کافروں کو پکڑ لیا سو (دیکھ لو کہ) میرا عذاب کیسا ہوا”۔ (فتح محمد جالندھری)

“پھر میں نے ان لوگوں کو پکڑا تو دیکھو کیسی ہوئی ان کے اوپر میری پھٹکار”۔ (امین احسن اصلاحی)

“تو کیسا ہوا میرا اظہار ناگواری”۔ (امانت اللہ اصلاحی)

وَلَقَد کَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبلِہِم فَکَیفَ کَانَ نَکِیرِ۔ (الملک: 18)

“اِن سے پہلے گزرے ہوئے لوگ جھٹلا چکے ہیں پھر دیکھ لو کہ میری گرفت کیسی سخت تھی”۔ (سید مودودی)

“اور بیشک ان سے اگلوں نے جھٹلایا تو کیسا ہوا میرا انکار”۔ (احمد رضا خان)

“اور جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی جھٹلایا تھا سو (دیکھ لو کہ) میرا کیسا عذاب ہوا”۔ (فتح محمد جالندھری)

“اور ان لوگوں نے بھی جھٹلایا جو ان سے پہلے گزرے تو دیکھو کیسی ہوئی ان پر میری پھٹکار”۔ (امین احسن اصلاحی)

“تو کیسا ہوا میرا اظہار ناگواری”۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(۲۱۲)    وما لکم من نکیر کا ترجمہ:

اوپر کی آیتوں میں تو نکیر کی اضافت اللہ کی طرف ہے، اور ان سب آیتوں میں نکیر کا ایک ہی مفہوم ہے، البتہ درج ذیل آیت میں قیامت کے دن انسانوں سے نکیر کی نفی کی گئی ہے، یہاں نکیر کا مفہوم طے کرنے میں لوگوں میں اختلاف ہوا، اوپر کی آیتوں میں جن لوگوں نے نکیر کا ترجمہ سزا یا عذاب کیا تھا وہ بھی یہاں کچھ اور ترجمہ تلاش کرنے پر مجبور ہوئے، لیکن عام طور سے یہ ترجمے اس لفظ کا اطمینان بخش مفہوم نہیں پیش کرتے، مولانا امانت اللہ اصلاحی یہاں بھی “اظہار ناگواری” ترجمہ کرتے ہیں، ترجمے ملاحظہ کریں:

 استَجِیبُوا لِرَبِّکُم مِن قَبلِ ان یَاتِیَ یَوم لَا مَرَدَّ لَہُ مِنَ اللَّہِ مَا لَکُم مِن مَلجَاٍ یَومَئِذٍ وَمَا لَکُم مِن نَکِیرٍ۔ (الشوری: 47)

“اپنے رب کا حکم مان لو اس سے پہلے کہ اللہ کی جانب سے وہ دن آجائے جس کا ہٹ جانا ناممکن ہے، تمہیں اس روز نہ تو کوئی پناہ کی جگہ ملے گی نہ چھپ کر انجان بن جانے کی”۔ (محمد جوناگڑھی)

“اور نہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے کی کوشش کرنے والا ہو گا”۔ (سید مودودی)

“اور نہ تمہیں انکار کرتے بنے”۔ (احمد رضا خان)

“اور نہ تم سے گناہوں کا انکار ہی بن پڑے گا”۔ (فتح محمد جالندھری)

“اور نہ تم کسی چیز کو رد کرسکو گے”۔ (امین احسن اصلاحی)

“اور نہ تمہارے لیے اظہار ناگواری کا موقع ہوگا”۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(جاری)

ڈاکٹر علامہ خالد محمودؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ کی وفات کی خبر نے نہ صرف ان کے تلامذہ اور معتقدین بلکہ ان کی علمی جدوجہد اور اثاثہ سے با خبر عامۃ المسلمین کو بھی غم و اندوہ کے ایسے اندھیرے سے دوچار کر دیا ہے جس میں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ علامہ صاحبؒ کی علالت کی خبریں چند دنوں سے آ رہی تھیں اور بستر سے اٹھتے ہوئے گر کر زخمی ہونے کی خبر نے پریشانی میں اضافہ کر رکھا تھا۔ مگر موت نے اپنے وقت پر آنا تھا، وہ آئی اور علامہ صاحبؒ ہزاروں بلکہ لاکھوں عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالٰی ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلٰی مقام سے نوازیں اور تمام متعلقین، پسماندگان اور سوگواروں کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

میرا ان کے ساتھ تعلق طالب علمی کے دور سے چلا آ رہا تھا جب وہ مختلف تعلیمی و دینی نشستوں کے لیے گوجرانوالہ بالخصوص جامعہ نصرۃ العلوم میں وقتاً فوقتاً تشریف لایا کرتے تھے اور ہمیں ان کے علمی نکات اور حاضر جوابی سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا اور ابھی رمضان المبارک سے قبل امامیہ کالونی لاہور میں حضرت علامہ صاحبؒ کے قائم کردہ جامعہ ملیّہ کی سالانہ تقریب میں شرکت کے موقع پر ان کی مجلس اور گفتگو سے شادکام ہونے کا موقع ملا۔

علامہ صاحبؒ نے نفاذ شریعت اور تحفظ ختم نبوت کے ساتھ ساتھ حضرات صحابہ کرامؓ کے ناموس اور عقائد اہل سنت کے تحفظ و دفاع میں بھرپور اور متحرک زندگی گزاری ہے اور عمر بھر ان دائروں میں مسلسل سرگرم عمل رہے ہیں۔ ۱۹۵۶ء کے دستور کے نفاذ کے موقع پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے دستور کے حوالے سے کچھ تحفظات تھے جن کے اظہار کے لیے مولانا مفتی محمودؒ، علامہ شمس الحق افغانیؒ، شیخ حسام الدینؒ اور علامہ خالد محمودؒ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس نے ’’تنقیدات و ترامیم‘‘ کے عنوان سے رپورٹ مرتب کر کے شائع کی، وہ میری معلومات کے مطابق جماعتی زندگی کے حوالہ سے حضرت علامہ صاحبؒ کا پہلا تعارف تھا جو تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔

عقائد اہل سنت اور ناموس صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کے تحفظ و دفاع میں سردار احمد خان پتافیؒ، علامہ عبد الستار تونسویؒ، علامہ قائم الدین عباسیؒ، مولانا عبد الحئ جام پوریؒ، علامہ دوست محمد قریشیؒ، مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ اور دیگر سرکردہ علماء کرام پر مشتمل جس گروہ نے ’’تنظیم اہل سنت‘‘ کے عنوان سے ملک کے طول و عرض بالخصوص جنوبی پنجاب میں صبر آزما جدوجہد کی وہ ہماری دینی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ حضرت علامہ خالد محمودؒ نہ صرف اس گروہ کے رکن رکین تھے بلکہ علمی ترجمان بھی تھے جن کی نکتہ رسی اور حاضر جوابی نے علمی مباحث کا میدان ایک عرصہ تک گرم رکھا اور بے شمار لوگوں کی علمی و فکری تسکین اور اعتقادی پختگی کا ذریعہ ثابت ہوئے۔ وہ تنظیم اہل سنت کے جریدہ ’’دعوت‘‘ کے مدیر تھے اور ان کے سوالات و جوابات کا سلسلہ اس علمی و فکری جدوجہد کا قیمتی اثاثہ ہے جن کا بہت سا حصہ ’’عبقات‘‘ کے نام سے مرتب ہو کر علماء و طلبہ کے استفادہ کا باعث ہے۔

قادیانیت کے محاذ پر وہ حضرت مولانا محمد حیاتؒ اور حضرت مولانا لال حسین اخترؒ کے ساتھ صف اول کے کامیاب مناظر شمار ہوتے تھے جنہوں نے مسلمانوں کے مسلمہ اجماعی عقائد کے بارے میں قادیانی دجل و فریب کے تاروپود کو ہر دائرے میں اور ہر سطح پر بکھیر کر رکھ دیا۔ انہوں نے حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کے ساتھ مل کر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر جو محاذ قائم کیا وہ ان کا صدقہ جاریہ ہے اور مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کا ایک مضبوط مورچہ ہے۔ حجیت حدیث اور دفاع سنت نبویؐ کے محاذ پر بھی ان کی خدمات کا دائرہ اپنے اندر بے شمار وسعت و تنوع رکھتا ہے جو علماء و طلبہ کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔

علامہ صاحبؒ کو دیوبندی مسلک کا علمی ترجمان سمجھا جاتا تھا اور بہت سے مواقع پر اس بات کا میں عینی شاہد ہوں کہ کسی اہم مسئلہ پر دیوبندی موقف کی وضاحت کے لیے اہل علم کے حلقوں میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور ترجمان اہل سنت حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کے ساتھ حضرت علامہ خالد محمودؒ کا نام سامنے آتا تھا اور ان سے رجوع کیا جاتا تھا۔ جبکہ سکولوں، کالجوں اور دینی مدارس کے طلبہ پر مشتمل مشترکہ طالب علم تنظیم ’’جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان‘‘ کی تشکیل اور طلبہ کی ذہن سازی میں بھی ان کا اساسی کردار رہا ہے۔

علامہ صاحبؒ نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں لاہور کی ایک سیٹ پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر اس کے بعد برطانیہ منتقل ہو گئے، البتہ سال کا کچھ حصہ پاکستان میں گزارنے کا معمول آخر تک رہا۔ مجھے ان کے ہاں جامعہ ملیہ لاہور اور مانچسٹر (برطانیہ) میں ان کی قائم کردہ اسلامک اکیڈمی میں بیسیوں مرتبہ حاضری کا موقع ملا اور ان کے ساتھ دینی محافل میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ علامہ صاحبؒ اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی رفاقت میں مجھے ۱۹۸۵ء میں پہلے حج بیت اللہ کا شرف بھی حاصل ہوا، جبکہ افغانستان سے روسی فوج کے انخلا کے بعد آزاد افغان حکومت کے سربراہ حضرت پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ کی دعوت پر سرکردہ علماء کرام کے جس وفد نے کابل کا دورہ کیا ہم اس میں بھی اکٹھے شریک تھے۔

حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ آج ہم میں نہیں رہے مگر ان کے قائم کردہ جامعہ ملیہ لاہور اور اسلامک اکیڈمی مانچسٹر، ان کی درجنوں تصانیف اور سینکڑوں بیانات و خطابات، جو محفوظ حالت میں موجود ہیں، ان کا ایسا صدقہ جاریہ ہیں جن سے اہل علم ایک عرصہ تک مستفید ہوتے رہیں گے۔ اللہ تعالٰی انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور ان کے پسماندگان و متعلقین کو ان کی حسنات کا سلسلہ تا دیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوریؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحبؒ کی وفات کا صدمہ ابھی تازہ تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالنپوری بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مفتی صاحبؒ کی علالت کی خبریں کئی روز سے آرہی تھی، اور آخر عالم اسلام کی یہ عظیم علمی شخصیت، محدث، فقیہ، متکلم اور ہزاروں علماء کرام کے شفیق استاذ اپنا سفر زندگی مکمل کر کے دار باقی کی طرف روانہ ہوگئے۔

مولانا پالنپوریؒ کے تعارف کے لیے اس کے بعد مزید کسی بات کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ وہ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی علمی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے اور انہوں نے سالہاسال تک اس مرکز علم میں ہزاروں تشنگان علوم کو مسلسل فیضیاب کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کا یہ منصب ہمیشہ اپنے دور کی ممتاز ترین علمی شخصیات کے ساتھ مخصوص رہا ہے جن میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسنؒ، خاتم المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ جیسے اساطین علم و فضل کے نام آتے ہیں، اور ان کے ساتھ کسی فہرست میں نام کا شمار ہونا بجائے خود کسی بڑے سے بڑے علمی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ مگر حضرت مولانا سعید احمد پالنپوریؒ ہر صاحب علم و فضل کی طرح اپنے کچھ امتیازات اور خصوصیات بھی رکھتے تھے جن کے باعث وہ اپنے معاصرین میں ایک الگ شان کے ساتھ جلوہ گر دکھائی دیتے تھے اور ان کی آرا و افکار کو اہل علم کے حلقوں میں رہنمائی اور استفادہ کے لیے مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔

مجھے متعدد بار ان کی زیارت و ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ان کے ارشادات سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے قیام کے بعد اپنے عہد کی جن ممتاز علمی و فکری شخصیات نے اس کے علمی پروگراموں کو رونق بخشی، ان میں حضرت پالنپوریؒ بھی شامل ہیں۔ لندن کے مرکز ختم نبوت اسٹاک ویل گرین میں ورلڈ اسلامک فورم کی ایک فکری نشست میں وہ تشریف لائے اور عصر حاضر میں علماء کرام کی ذمہ داریوں کے عنوان سے انہوں نے بلیغ خطاب فرمایا۔ دور حاضر کے فکری و نظریاتی فتنوں پر ان کی نظر بہت گہری تھی اور وہ علمائے کرام اور دینی حلقوں کو اپنے مخصوص انداز میں ان سے باخبر کرتے رہتے تھے۔ یہ خطاب بھی ان کے اسی ذوق کا آئینہ دار تھا، پھر ایک بار نیویارک میں ’’شریعۃ بورڈ‘‘ کے مولانا مفتی نعمان احمد کے ہاں ان کی زیارت ہوئی اور کچھ دیر ان کی مجلس و گفتگو سے شادکام ہونے کا موقع ملا۔ ان دنوں والد گرامی حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوا تھا اس لیے زیادہ دیر انہیں کی باتیں ہوتی رہیں بلکہ گوجرانوالہ کے ایک لوکل اخبار نے حضرت والد محترم کے حوالے سے خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا تھا جس کی ایک کاپی حضرت پالنپوریؒ کی خدمت میں پیش کی اور اس کے مختلف پہلوؤں پر انہوں نے تبصرہ فرمایا۔ اس کے علاوہ بعض ممتاز اہل علم کے کچھ علمی و فقہی تفردات بھی زیر بحث آئے جن کے بارے میں انہوں نے فرمایا کہ تفردات اور انفرادی آرا کو اگر باقاعدہ موقف بنا کر سامنے نہ لایا جائے تو بہت سی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے۔ خود میرا ذوق بھی ان معاملات میں یہی ہے اس لیے یہ گفتگو کافی دلچسپ رہی۔

میں نے ایک موقع پر کسی مجلس میں عرض کیا کہ ہم درس نظامی کے نصاب میں علم کلام کے موضوع پر بنیادی کتاب "شرح العقائد" پڑھاتے ہیں جو یونانی فلسفہ کے پیدا کردہ اعتقادی و کلامی مباحث کے حوالے سے ہے اور اہل سنت کے عقائد کے بنیادی ڈھانچے سے آگاہی کے لیے وہ ازحد ضروری ہے، مگر آج کے دور میں ہمیں جن عقائد و افکار کا سامنا ہے ان کا بیشتر حصہ مغربی فلسفہ و ثقافت کا پیدا کردہ ہے، اس لیے جدید مغربی فکر و فلسفہ نے جو مسائل کھڑے کیے ہیں ان کے بارے میں شرح العقائد کی دوسری جلد لکھنے کی ضرورت ہے جسے اس کے ساتھ ہی درسی طور پر پڑھایا جانا چاہیے۔ بعض دوستوں نے اسی مجلس میں سوال کیا کہ یہ لکھے گا کون؟ میں نے عرض کیا کہ میری نظر میں اس وقت تین بزرگ ہیں جو اس کام کو صحیح اور بہتر طور پر کر سکتے ہیں (۱) حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم (۲) حضرت مولانا سعید احمد پالنپوریؒ اور (۳) حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ۔ ان میں سے دو تو ہم سے رخصت ہوگئے ہیں جبکہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے لیے بلامبالغہ جسم کا رواں رواں دعاگو رہتا ہے کہ اللہ تعالی انہیں امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے صحت و عافیت کے ساتھ تا دیر سلامت رکھیں آمین یا رب العالمین۔

حضرت مولانا سعید احمد پالنپوریؒ کا امت کے اصحاب علم پر ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کی اردو و عربی دونوں زبانوں میں شرح لکھ کر علماء اور طلباء کی رسائی اس عظیم علمی ذخیرہ تک آسان کر دی ہے جو یقیناً ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔

اللہ تعالی ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور ان کے خاندان، تلامذہ اور مستفیدین کو ان کی حسنات سلسلہ تا دیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں آمین یا رب العالمین۔


الشریعہ اکادمی کا تین سالہ آن لائن کورس

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۹۹۰ء میں ہم نے گوجرانوالہ میں ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے نام سے دینی و عصری تعلیم کے نصابوں کی مشترکہ تعلیم کا پروگرام تشکیل دیا تو ہمارے دونوں بزرگوں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے، جو اس پروگرام کے عملی سرپرست اور شاہ ولی اللہ ٹرسٹ کے رکن تھے، کہا کہ اسے درس نظامی کے روایتی نظام اور دینی مدارس کے سسٹم میں کسی قسم کا دخل دیے بغیر الگ تجربے کے طور پر چلائیں، چنانچہ یہ سلسلہ مختلف نشیب و فراز سے گزر کر اب جامعۃ الرشید کراچی کے زیر اہتمام بہت بہتر طریقے سے ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے آگے بڑھ رہا ہے اور ہم خوش ہیں کہ ہم سے بہتر ہاتھوں میں ہماری توقعات سے بڑھ کر کام جاری ہے، فالحمد للہ علی ذالک۔

اب ہم الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام دینی مضامین کی تعلیم کے آن لائن سسٹم کا آغاز کر رہے ہیں تو وہی حکمت عملی ہمارے پیش نظر ہے کہ دینی مدارس کے مروجہ نصاب و نظام میں کوئی دخل دیے بغیر بلکہ اسے حسب سابق مکمل سپورٹ کرتے ہوئے الگ تجربے کے طور پر اس کا نظم تشکیل دیں تاکہ وہ حضرات جو عصری تعلیم سے بہرہ ور ہیں اور دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، مگر اپنی مصروفیات اور دیگر اعذار کے باعث مدارس میں رہ کر وقت دینے کے متحمل نہیں ہیں، ان کے لیے ضروری دینی تعلیم کی کوئی قابل عمل صورت پیدا ہو جائے۔ اس لیے سب احباب سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں تعاون فرماتے ہوئے دعاؤں میں یاد رکھیں اور کوئی مفید مشورہ یا تجویز ذہن میں ہو تو اس سے آگاہ فرما کر مشکور ہوں۔

کورس کی ترتیب حسب ذیل ہے۔

یہ تین سالہ کورس عربی زبان اور دینی علوم میں بنیادی استعداد حاصل کرنے کے خواہشمند خواتین و حضرات کے لیے مرتب کیا گیا ہے جو اپنی مصروفیات کی وجہ سے باقاعدہ کسی دینی ادارے میں داخلہ نہیں لے سکتے۔ کورس کی کامیاب تکمیل کے بعد ذی استعداد شرکاء اس سے اگلے مرحلے کے طور پر دینی علوم کے دو سالہ اعلی سطحی کورس میں شرکت کے اہل ہوں گے۔


مضامین اور نصابی کتب

دورانیہ اور ترتیب اوقات

ضروری ضوابط

کشمکشِ عقل و نقل: امام رازیؒ اور علامہ ابن تیمیہ ؒ

مولانا محمد بھٹی

متکلمینِ اہل سنت کی علمی یورش کے سامنے معتزلہ و فلاسفہ کے ہیبت ناک عقلی قلعے فرشِ راہ بن چکے تھے۔اعتزال و فلسفہ کی فلک بوس عمارت زمیں بوس کر دی گئی تھی۔اہل سنت کے دونوں ذی احتشام امام حجۃ الاسلام غزالیؒ اور فخرالدین رازیؒ وصالِ حق سے شرف یاب ہو چکے تھے۔ایسے میں اہلِ اسلام کے علمی افق پر ایک اور بڑا نام علامہ ابنِ تیمیہ الحرانیؒ نمودار ہوتا ہے۔علامہ صاحب کی رفعتِ علمی اور وسعتِ معلومات میں شاید ہی کسی کو کلام ہو۔آپ کی بسیار نویسی اور مانندِ آب رواں قلم ضرب المثل ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ علامہ صاحب اپنے مخصوص معتقدات اور تفردات کے باعث تاریخ اسلام کی چند بڑی متنازعہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔آپ نے اہل سنت کے کئی ایک اعتقادی مسلمات اور فقہی متفقات سے ہٹ کر جداگانہ روش اپنائی۔آپ ائمہ اہلسنت پر نہایت بے باکانہ انداز میں تنقید کرتے ہیں اور وفورِ نقد میں اکثر اوقات حدِ اعتدال پھاند جاتے ہیں۔آپ نے فلاسفہ و معتزلہ کو بھی ہدفِ تنقید بنایا ہے لیکن جیسا کہ پیش ازیں عرض کیا کہ اُس سمے فلسفہ و اعتزال کی حیثیت تنِ نیم مردہ سے زیادہ نہ تھی لہذا ان پر کی جانے والی تنقید کی حیثیت بھی بیکار کی بیگار بھرنے جیسی ہی تھی۔

علامہ صاحب کی انتقادی سرگرمی کے موردِ اصلی متکلمینِ اہل سنت ہیں اور اس انتقادی پیکار کا منتہائی ہدف صفاتِ متشابہات بابت اپنے مخصوص مذہب کا دفاع ہے،باقی سب زیبِ داستان ہے۔عقل و نقل کی کشمکش ہو یا لغت و بلاغت کے مسائل ہوں،سب اسی غرض کی براری کے لیے خام مال کے طور پر کام میں لائے گئے ہیں۔آپ کی کتاب 'درء تعارضِ العقل و النقل' کا ہدفِ اصلی بھی صفات کے باب میں اپنے 'مائل بہ تجسیم' موقف کا دفاع اور متکلمینِ اہلسنت کی تردید تھا جس کی حیثیت محض ایک خام آرزو کی ہی رہی۔علامہ صاحب کے احترامات فراواں کے باوجود یہ کہنا ناگزیر ہے کہ مذکورہ بالا کتاب میں بھی آپ نے جذبات کی رَو میں بہہ کر دامنِ انصاف کو ہاتھ سے جانے دیا ہے۔فرطِ جذبات و جوشِ انتقاد کی اثر آفرینی ملاحظہ ہو کہ متکلمین اہل سنت جوینی،رازی اور باقلانی رحمہم اللہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"فالنصاری اقرب الی تعظیم الانبیاء والرسل من ھؤلاء" (درء تعارض العقل و النقل 1/7)

"سو انبیاء و رسل کی تعظیم میں تو نصاری ان(متکلمین) سے کہیں بڑھ کر ہیں"

کوئی علامہ ابن تیمیہ کا کتنا ہی عاشقِ زار کیوں نہ ہو،اگر وہ متکلمینِ اسلام کی گراں مایہ کاوشاتِ علمی اور بیش بہا خدماتِ دینی سے ہلکا سا بھی مس رکھتا ہے تو یہ کہنے پر خود کو مجبور پائے گا کہ علامہ صاحب کے کلمات نہایت جسارت آمیز ہیں۔

آمدم برسر مطلب!علامہ صاحب آغازِ کتاب میں قرآنی آیات و نبوی احادیث کے 'قابلِ استدلال و ناقابلِ استدلال ہونے بابت' ایک 'قانونِ کلی' بیان فرماتے ہیں اور اسے متکلمین بالخصوص امام رازی  کی طرف منسوب کر کے بھرپور انداز میں 'زورِ تردید' صرف کرتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کیا واقعی امام رازی  نے 'ایسا' کوئی 'قانونِ کلی' بنایا ہے جس کی رو سے وہ آیات و احادیث کو 'ناقابلِ استدلال قرار دیتے ہوں' یا پھر یہ اتہام بھی علامہ صاحب  کے جوشِ تردید و تنقید ہی کا شاخسانہ ہے؟اس سوال کی جواب براری موقفِ رازی  اور انتقادِ ابن تیمیہ  کی تفصیلی تحلیل کی مقتضی ہے۔

امام رازی رحمہ اللہ کا موقف

علامہ ابن تیمیہ کے جارحانہ نقد کی درست نوعیت جاننے اور موقفِ رازیؒ کے راست ادراک کے لیے ضروری ہے کہ امام صاحب کی کتاب "اساس التقدیس" کا مختصر تعارف نذرِ قارئین کر دیا جائے۔یہی وہ کتاب ہے جس کی ایک فصل کو لے کر علامہ صاحب نے امام رازی اور متکلمین پر الزامات کی بوچھاڑ کی ہے۔امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ نے یہ کتاب فرقہ مجسمہ و مشبہہ کے رد میں تصنیف فرمائی ہے۔اس کتاب میں امام صاحب نے نہ صرف مجسمہ و مشبہہ کے فاسد دلائل کا بسط و تفصیل سے تنقیدی جائزہ لیا ہے، بلکہ گراں مایہ تفسیری و کلامی اصول بھی ارزاں فرمائے ہیں۔کتاب چار حصوں/ابواب میں منقسم ہے اور ہر حصہ متعدد فصول پر مشتمل ہے۔علامہ ابن تیمیہ کے 'مائل بہ تجسیم' ہونے کے باعث یوں تو پوری کتاب ہی آپ کے زیرِ عتاب رہی ہے اور ذوقِ تردید کی تسکین کے لیے آپ نے الگ سے بھی اس کتاب کا ایک 'رد' لکھ رکھا ہے تاہم 'درء تعارض العقل و النقل' میں آپ نے 'اساس التقدیس' کے حصہ/باب دوم کی بتیسویں فصل پر خصوصی مشقِ تنقید فرمائی ہے۔

گزارش ہے کہ کلام کی راست معنویت تک رسائی کے لیے سیاقِ کلام،روئے کلام،تناظرِ کلام اور اس علمی چوکھٹے سے آشنائی ناگزیر ہے جس سے صاحبِ کلام نسبتِ فکری رکھتا ہو۔لہذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ امام رازی کی مذکورہ بالا کتاب کے بابِ دوم کا اجمالی تعارف قارئین کے روبرو پیش کر دیا جائے۔

بابِ اول میں امام صاحب نے قرآنِ پاک کی محکم آیات سے اہلِ سنت کے موقف کا اثبات کیا ہے،جبکہ دوسرے باب میں آپ متشابہات کو زیرِ بحث لائے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس باب کا عنوان "فی تاویل المتشابہات من الاخبار و الآیات" یعنی 'متشابہ اخبار و آیات کی تاویل کے بیان میں' رکھا گیا۔جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے،اس باب میں امام رازیؒ نے محکمات یا بالفاظِ دگر قطعی الدلالۃ آیات سے صرف نظر کرتے ہوئے محض متشابہات یا ظنی منقولات سے تعرض فرمایا ہے(خواہ وہ ظن ثبوت میں ہو یا دلالت میں)اور انہی کے احکام بیان فرمائے ہیں۔اس باب میں آپ نے متشابہات کی تاویل کے اصول و قواعد اور امثلہ تحریر فرمائی ہیں۔امام صاحب نے بتیسویں فصل کا عنوان پیرایہ سوال میں "البراھین العقلیۃ اذا صارت معارضۃ بالظواھر النقلیۃ فکیف یکون الحال فیھا" رکھا ہے۔(یعنی جب قطعی عقلی دلائل اور منقول کے ظاہری معنی میں تعارض واقع ہو جائے تو رفعِ تعارض کی صورت کیا ہوگی)۔ذیل میں آپ ارقام فرماتے ہیں:

"اعلم ان الدلائل العقليۃ القطعيۃ اذا قامت علی ثبوت شيء, ثم وجدنا ادلۃ نقليۃ يشعر ظاہرہا بخلاف ذلك،فہناك لا يخلو الحال من احد امور اربعۃ : اما ان يصدق مقتضي العقل والنقل، فيلزم تصديق النقيضين وہو محال،واما ان يبطل فيلزم تكذيب النقيضين وہو محال, واما ان يصدق الظاہر النقليۃ ويكذب الظواہر العقليۃ، وہو باطل،لأنہ لا يمكننا ان نعرف صحۃ الظواہر النقليۃ الا اذا عرفنا بالدلائل العقليۃ اثبات الصانع وصفاتہ، وكيفيۃ دلالۃ المعجزۃ علی صدق الرسول صلی اللہ عليہ وسلم،ولو جوزنا القدح فی الدلائل العقليۃ القطعيۃ صار العقل متہما غير مقبول القول،ولو كان كذلك لخرج ان يكون مقبول القول فی ہذہ الاصول ،واذا لم تثبت ہذہ الاصول خرجت الدلائل النقليۃ عن كونہا مفيدۃ، فثبت ان القدح فی العقل لتصحيح النقل يفضی الی القدح فی العقل والنقل معا،وأنہ باطل، ولما بطلت الاقسام الاربعۃ، لم يبق الا ان يقطع بمقتضی الدلائل العقليۃ القاطعۃ بان ہذہ الدلائل النقليۃ، اما ان يقال اہا غير صحيحۃ، او يقال انہا صحيحۃ الا ان المراد منہا غير ظواہرہا ثم ان جوزنا التاویل اشتغلنا علی سبیل التبرع بذکر تلك التاويلات علی التفصيل وان لم تجوز التاويل فوضنا العلم بہا الی اللہ فہذا ہو القانون الكلی المرجوع اليہ فی جميع المتشابہات"

 ترجمہ:"جان لیجئے کہ جب دلائل عقلیہ قطعیہ کے ذریعے کوئی بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے اور ادلہ نقلیہ کا 'ظاہری معنی' اس کے برعکس معلوم ہوتا ہو تو اس وقت عملا کل چار صورتیں بنتی ہیں:

اول: یہ کہ عقل اور (ظاہرِ) نقل ہر دو کے اقتضاء کو درست قرار دیا جائے۔تو (یہ درست نہیں کیونکہ دریں صورت) اجتماع نقیضین لازم آئے گا جو کہ محال ہے۔

دوم: یہ کہ عقل اور (ظاہرِ) نقل ہر دو کے اقتضاء کو غلط ٹھہرا دیا جائے تو(یہ بھی درست نہیں کیونکہ دریں صورت) ارتفاعِ نقیضین لازم آئے گا اور یہ بھی محال ہے۔

سوم:یہ کہ نقل کے ظاہری معنی کی تصدیق کی جائے اور دلائل عقلیہ قطعیہ کی تکذیب کر دی جائے تو یہ سراسر غلط ہے کیونکہ ظواہرِ نقلیہ کی درستی کی پہچان ہمیں جبھی تو ہوتی ہے جب ہم وجود و صفاتِ صانع اور صداقتِ رسول پر معجزہ کی دلالت کو دلائل عقلیہ کے ذریعے پہچان لیتے ہیں۔

چہارم: (یہ کہ ہم دلائل عقلیہ قطعیہ کو مطعون کریں) تو اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو عقل مشکوک اور ناقابلِ اعتبار ہو جائے گی اور یوں ان اصولِ (دین) کے اثبات میں بھی یہ ناقابلِ اعتبار ٹھہرے گی۔تو جب اصولِ دین ہی پایہ ثبوت کو نہ پہنچیں گے تو دلائل نقلیہ بھی فائدہ رساں نہ رہیں گے۔بنا بریں ثابت ہوا کہ (ظاہرِ) نقل کی درستی کے لیے عقل(قطعی) کو مطعون کرنا نقل و عقل دونوں کو مشکوک ٹھہرا دیتا ہے اور یہ سراسر غلط ہے۔

جب یہ چاروں صورتیں باطل ٹھہریں تو ایک ہی صورت باقی بچتی ہے اور وہ یہ کہ دلائل عقلیہ قطعیہ کے مقتضا کو حتمی قرار دیا جائے۔(دریں صورت دو ہی احوال ممکن ہیں) یا تو(ظاہر معنی پر بے جا اصرار کیا جائے اور) یہ کہہ دیا جائے کہ منقول صحیح نہیں ہے۔یا پھر یہ کہا جائے کہ یہ منقولات تو صحیح ہیں لیکن ان سے یہ (بادی النظر میں دکھائی دینے والا) ظاہری معنی مراد نہیں ہے۔پھر اگر ہم تاویل کو روا رکھیں کو ازراہ تبرع اس تاویل کو تفصیلا ذکر کریں گے اور اگر تاویل کو سندِ جواز نہیں بخشی جاتی تو پھر ہم ان آیات کے حققیقی معنی کو اللہ کی طرف تفویض کریں گے۔تمام تر 'متشابہات' کے باب میں یہی قانونِ کلی ہے جس کی طرف رجوع کیا جائے گا"۔ (اساس التقدیس 220،221)

مذکورہ بالا اقتباس،اقتباس کے سیاق،سیاق سے پیدا شدہ تناظر اور عنوانِ باب سے امام صاحب کا موقف نکھر کر سامنے آ جاتا ہے اور یہ بات واشگاف ہو جاتی ہے کہ امام صاحب کا کلام منقولات قطعیہ بابت نہیں ہے بلکہ آپ کی مراد ذومعنی متشابہات ہیں۔امام صاحب نے صراحت کے ساتھ ازخود بیان کیا ہے کہ یہ 'قانونِ کلی' قطعیات یا محکمات بابت نہیں ہے بلکہ متشابہات کے بارے ہے۔اس قانون کی رو سے اگر متشابہ یا منقولِ ظنی کی بادی النظر میں دکھائی دینے والی مراد اور دلیل عقلی قطعی میں کشا کشی کی نوبت آ جائے تو منقول ظنی میں تاویل کی جائے گی یعنی اس منقول کے دیگر احتمالی معانی(مجازی یا محاوراتی) میں سے کسی معنی پر اسے محمول کر دیا جائے گا یا پھر اس آیت یا خبر کے درست معنی کا علم اللہ تعالی کی طرف تفویض کر دیا جائے گا۔یہاں یہ عرض کر دینا مناسب ہو گا کہ متکلمینِ اہل سنت تاویل صرف بوقتِ ضرورت اور بقدرِ ضرورت کرتے ہیں کہ جب فلاسفہ سے پالا پڑے اور ان کے اعتراضات کے جواب کی نوبت آئے وگرنہ متشابہات بارے اہل سنت کا اصل موقف تفویض ہے۔

گزارش ہے کہ متشابہات کا ظنی ہونا اہلِ علم کے ہاں قطعی ہے اور مبحثِ اصول میں پیش پا افتادہ ہے نیز متشابہ سے مراد ایسا کلام ہے کہ جس کا قطعیت کے ساتھ کوئی معنی متعین کرنا دشوار ہو۔گویا امام صاحب رفعِ تعارض کے لیے اسی متشابہ آیت یا حدیث کے کئی ایک احتمالی معانی میں سے ایک معنی کو درجہ احتمال میں ہی تجویز فرما رہے ہیں۔مزید براں یہ بات قابلِ غور ہے کہ امام صاحب نے عقل و نقل کو موردِ تعارض نہیں بنایا بلکہ تعارض کو عقل اور نقل کے ظاہری معنی کے مابین موڑ دیا ہے۔گویا امام صاحب نے کمالِ فراست کے ساتھ تعارضِ عقل و نقل کا سوال ہی فنا کے گھاٹ اتار دیا ہے۔آپ نے فلاسفہ کی تمام تر چاندماریوں کی(کہ جو قرآن حکیم کو خلافِ عقل باور کرواتی تھیں) گویا یہ کہہ کر بیخ کنی کر دی ہے کہ جسے تم عقل و نقل میں تعارض قرار دے رہے ہو وہ تو عقل اور نقل کے محض ایک احتمالی اور ظاہری معنی کے درمیان تعارض ہے۔بلاشبہ ایسی ژرف نگاہی فخر الدین رازی کے ہی شایان شان ہے اور یقینا اس پر آپ بے پناہ داد کے مستحق ہیں۔گزارش ہے کہ یہ مقام ان لوگوں کے لیے خصوصا لائقِ اعتناء ہے جو کلامِ امام کے سوءِ فہم کے باعث امام صاحب پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ آپ نے تعارضِ عقل و نقل کا قول اختیار کر کے نقل پر عقل کو ترجیح دی ہے۔

امام رازی رحمہ اللہ کے کلام کو بنظرِ غائر دیکھا جائے تو عقل قطعی و ظاہرِ نقل کی باہمی آویزش کی صورت میں عملا ہمارے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں۔اول یہ کہ ہم نقلِ متشابہ کے ظاہری اور احتمالی معنی کو اس کا لازمی معنی قرار دے کر اس تعارض کو عقل و نقل کا تعارض بنا لیں اور معاندین کو یہ کہنے کا موقع فراہم کر دیں کہ 'شرع خلافِ عقل ہے'۔دوم یہ کہ ہم اس تعارض کو عقل قطعی اور نقل کے احتمالی معنی کے مابین کشاکشی کا ہی عنوان دیں اور نقل متشابہ بابت تاویل یا تفویض کا طور اپناتے ہوئے تعارض کے بیشہ خارزار سے نقل کو صحیح و سلامت نکال لے جائیں۔امام فخرالدین رازی نے یہی ڈگر اپنائی اور معاندین کی تمام پھبتیوں کا گلا گھونٹ دیا۔

آویزشِ عقل و نقل اور کلامی نظامِ فکر

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ کلامِ مصنف کی راست معنویت کے تعین میں اس علمی چوکٹھے اور فکری نظام کا کردار طاقِ نسیاں کی زینت نہیں بنایا جا سکتا جس سے مصنف نسبتِ فکری رکھتا ہو۔بنا بریں کلامِ رازی کی صائب تفہیم کے لیے بھی اشعری اور کلامی اقلیمِ فکر کا سفر ناگزیر ہے۔گزارش ہے کہ متکلمین کے ہاں یہ اصول مسلم ہے کہ منقول قطعی اور معقول قطعی کے مابین آویزش محال ہے۔چنانچہ کلام کی امہات کتب کے مطالعہ سے یہ مسئلہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے۔امام غزالیؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب 'الاقتصاد فی الاعتقاد' میں رقم طراز ہیں:

"لایتصور ان یشتمل السمع علی قاطع مخالف للمعقول"

"یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ شرع کسی ایسی  قطعی دلیل پر مشتمل ہو جو عقل (قطعی) کے مخالف ہو۔"  (ص 367)

منقولِ قطعی بابت متذکرہ بالا کلام نہایت بے لاگ ہے۔رہی بات متشابہ یا ظنی کی تو اس کے اور عقل قطعی کے مابین واقع ہونے والے اختلاف کی نوعیت کیا ہوگی؟اس کا جواب ہمیں امام غزالی ؒ کے رسالہ 'قانون التاویل' کی اس جامع عبارت سے مہیا ہوتا ہے:

"بین المعقول و المنقول تصادم فی اول النظر او ظاھر الفکر" (قانون التاویل 15)

یعنی امام صاحب کے نزدیک معقول و منقول کے مابین کشاکشی سرسری نگاہ اور بادی النظر کا شاخسانہ ہے۔ان عبارات سے متکلمین کا یہ موقف واشگاف ہو جاتا ہے کہ نقل صحیح و عقل قطعی کے مابین حقیقی تعارض ممکن نہیں اور جو نقل ظنی کا عقل قطعی سے تعارض کا شبہ واقع ہوتا ہے اس کا منشاء سرسری و سطحی نگاہ ہے اور وہ محض ظاہری تصادم ہے۔چنانچہ امام غزالی 'الاقتصاد' کے خطبہ میں مذہبِ متکلمین بیان فرماتے ہوئے نہایت دو ٹوک پیرائے میں ارقام فرماتے ہیں:

"لا معاندۃ بین الشرع المنقول والحق المعقول"

"شرع منقول اور قطعی معقول میں کوئی تصادم نہیں ہے"

پھر اس موقف کو مزید نکھارتے ہوئے فلاسفہ و معتزلہ کی کج روی کی مذمت کچھ یوں فرماتے ہیں:

"ان من تغلغل من الفلاسفۃ و غلاۃ المعتزلۃ فی تصرف العقل  حتی صادمو بہ قواطع الشرع،ما اتوا الا من خبث الضمائر"

فلاسفہ و غالی معتزلہ نے تصرفاتِ عقل میں غوطہ زنی کی اور محض اپنے  خبث باطن کی وجہ سے قواطعِ شرع سے جا بھِڑے"

عرض ہے کہ گزشتہ سطور میں محولہ رسالہ 'قانون التاویل' اپنے موضوع پر ایک شاندار رسالہ ہے جس میں امام غزالیؒ نے تصادمِ عقل و نقل بابت کلامی موقف کے رخ و رخسار کی دلکشی اہل علم کے رو بہ رو کی ہے اور تاویلِ نقل سے متعلق کئی گہر ہائے یک دانہ بساطِ بحث پر بکھیر دیے ہیں۔اسی رسالہ میں آپ جادہ اعتدال پر گامزن گروہ(متکلمین) کا موقف بیان کرتے ہوئے ان کی ایک صفت یہ بیان فرماتے ہیں:

"المنکرۃ لتعارض العقل والشرع" (ص 19)

"جو عقل و شرع میں تعارض کے منکر ہیں"

طرفہ یہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہؒ نے اسی 'گروہ' پر تنقید کی بنا اس مقدمہ پر کی ہے کہ یہ عقل و نقل کے مابین تعارض کا اثبات کرتے ہیں(نقدِ ابن تیمیہ پر مفصل کلام آئندہ سطور میں آئے گا۔ان شاءاللہ)۔

امام رازی کا تصورِ محکم و متشابہ

پیش ازیں محکم و متشابہ کی قرآنی تقسیم بابت اہل سنت کا تصور اجمالا ذکر کیا جا چکا ہے مگر احباب ہنوز اسے تشنہ وضاحت قرار دے رہے ہیں۔بعض کرم فرما ناقدین نے امام صاحب کے کلام کو اس کے درست سیاق و تناظر سے کاٹ کر امام صاحب کے تصورِ محکم و متشابہ کو محلِ شبہات بنانے کی کوشش کی ہے۔لہذا ناقدین کے التباس کو زائل کرنے اور احباب کے رَم کو کم کرنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ امام رازی کے ہی کلام سے تصور محکم و متشابہ کی وضاحت نذرِ احباب کر دی جائے۔امام رازی کے نظام فکر میں محکم و متشابہ کوئی الل ٹپ اصطلاحات نہیں ہیں نہ ہی یہ کوئی خالی ظروف ہیں کہ جن میں جس کا جو جی چاہے بھرتا چلا جائے۔آپ نے 'اساس التقدیس' ہی میں محکم و متشابہ  کی وجہِ حصر بیان کی ہے۔امام صاحب فرماتے ہیں کہ لفظ کے اولا دو احوال ہیں۔جس معنی کے لیے اسے وضع کیا گیا ہے، اس کے علاوہ اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال پایا جائے گا یا نہیں پایا جائے گا۔اگر وہ لفظ معنی دگر کا محتمل نہیں ہے تو وہ نص ہے اور اگر معنی دگر کا محتمل ہے تو یا تو تمام معانی دوش بہ دوش محتمل ہوں گے یا پھر کوئی ایک معنی راجح ہو گا۔اگر کوئی ایک معنی راجح ہے تو راجح کی طرف نسبت کرتے ہوئے اسے ظاہر کہا جائے گا اور مرجوح کی طرف نسبت کرتے ہوئے اسے موول کہا جائے گا۔اگر تمام معانی برابر محتمل ہیں تو دریں صورت ان سب کی نسبت سے اسے مشترک قرار دیا جائے گا اور ہر ایک کی طرف جداگانہ نسبت کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے مجمل کہا جائے گا۔وجہ حصر بیان کرنے کے بعد امام صاحب نے وضاحت فرمائی ہے کہ نص(جس میں دوسرے معنی کا چنداں احتمال نہیں) اور ظاہر(جس میں ایک معنی راجح ہے) کو محکم کہا جاتا ہے اور مجمل اور موول کو متشابہ کہا جاتا ہے۔ (اساس التقدیس 231،232)

امام صاحب کی بیان کردہ محکم و متشابہ کی یہ تعریف ظنی الدلالہ و قطعی الدلالہ کی اس تعریف کے مماثل ہے جو فقہاء اور اصولیین کے ہاں مسلم ہے کہ جس کلام میں کسی دلیل سے معنی دگر کا احتمال پھوٹے اسے ظنی کہتے ہیں اور اس کے برعکس کو قطعی کہتے ہیں۔لہذا یہ محض دروغ بے فروغ ہے کہ امام صاحب قطعیات کو بھی متشابہ میں شامل سمجھتے ہیں۔

ایک اشکال کا دفعیہ

بعض ناقدین امام صاحب کے اس موقف کو بغرض اشکال پیش فرما رہے ہیں کہ امام صاحب نقل کی قطعیت کے لیے اس کے مدمقابل کسی قطعی عقلی معارض کا نہ ہونا ضروری قرار دیتے ہیں۔گزارش ہے کہ امام صاحب کے اس موقف کو بھی ان کے قائم کردہ مجموعی تناظر اور کلامی  کینوس سے جدا کر کے حیطہ فہم میں نہیں لایا جا سکتا۔نیز اس کلام کی صائب تفہیم کے لیے امام صاحب کے 'روئے سخن' سے چشم پوشی بھی نہیں کی جا سکتی کیونکہ کلام کی راست تفہیم 'روئے کلام' کی تشخیص کا تقاضہ کرتی ہے جیسا کہ پیش ازیں معروض ہوا۔اصولی و تمہیدی نکات کے بعد عرض ہے کہ امام صاحب کا یہ موقف دراصل معتزلہ و مجسمہ کے رو بہ رو 'پیرایہِ جدال' میں اسی مسلمہ اصول کا اظہار ہے کہ عقل قطعی اور نقل قطعی میں تعارض ممکن نہیں۔امام صاحب نے زیر بحث باب کا عنوان کچھ یوں باندھا ہے:"الطریق الذی یعرف بہ کون الآیۃ محکمۃ اور متشابہۃ" یعنی "وہ طریقہ جس سے آیت کا محکم و متشابہ ہونا پہچانا جائے"۔پھر امام صاحب ازخود وضاحت فرماتے ہیں کہ اس باب اور اس طریقہ کے بیان کی نوبت کیوں آئی؟آپ فرماتے ہیں:

"لان کل واحد من اصحاب المذاہب یدعی ان الآیات الموافقۃ لمذھبہ محکم والآیات الموافقۃ لمذھب الخصم متشابہ فالمعتزلی یقول ۔۔۔ الخ" (اساس التقدیس 234)

"کیونکہ مختلف فرق و مسالک میں سے ہر ایک یہ دعوی کرتا ہے کہ جو آیات اس کے  مذہب کے موافق ہیں وہ محکم ہیں اور جو خصم کے مذہب کے موافق ہیں وہ متشابہ ہیں سو  معتزلی یہ کہتے ہیں کہ فمن شاء فلیومن و من شاء فلیکفر محکم ہے جب کہ اہل سنت  کہتے ہیں کہ وما تشاءون الا ان یشاء اللہ محکم ہے۔"

اس باب کے قائم کرنے یا اس طور کے بیان کرنے کی یہ وہ توجیہ ہے جو امام صاحب نے بہ قلم خود بیان فرمائی ہے۔اس توجیہ و توضیح سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امام صاحب کا مقصود معتزلہ سے مجادلہ ہے۔آپ کے کلام کا مرام مجالِ جدال ہی میں اہل سنت اور فرق باطلہ کے مستدلات کے مابین ایک 'فارق' قائم کرنا ہے۔بنا بریں آپ نے 'بغرض جدال' اسی مسلمہ اصول( قطعیات میں تعارض ممکن نہیں) کو محکم و متشابہ کے مابین وجہِ امتیاز اور ان کی پہچان کا طریقہ بنا دیا۔آپ نے معتزلہ و مجسمہ وغیرہ پر گویا یہ کہہ کر تاخت کی ہے کہ تمہارے مستدلات اگر محکم ہیں تو پھر عقل قطعی کے مخالف کیوں ہیں؟غور کیا جائے تو یہ اسی مسلمہ اصول کے اظہار کی ایک مختلف تعبیر ہے۔بہ الفاظ دگر آپ کے سامنے سوال یہ تھا کہ معتزلہ،مجسمہ اور دیگر فرق باطلہ بھی تو اپنے اپنے مواقف پر ظواہرِ آیات سے استدلال کر کے انہیں محکم قرار دیتے ہیں لہذا ان کی تردید کیونکر کی جائے گی؟محکم و متشابہ کے مابین مابہ الامتیاز کیا ہو گا؟امام صاحب نے اسی سوال سے تعرض کرتے ہوئے یہ 'جدالی اصول' بیان کر دیا کہ فرقِ باطلہ کے مستدلات کی ظنیت طشت از بام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس مستدل کے معارض کوئی قاطع عقلی ہے یا نہیں۔اگر کوئی قاطع عقلی اس کے مقابل موجود ہے تو لازم ہے کہ ان کا وہ مستدل قطعی و محکم نہیں بلکہ ظنی و متشابہ ہے کیونکہ "عقل قطعی اور نقل قطعی کے مابین آویزش محال ہے"۔گزارش ہے کہ یہ وہی موقف ہے جس کا اظہار کتب فقہاء میں جا بہ جا موجود ہے کہ ظنی الدلالہ وہ ہوتا ہے جس میں 'ناشی عن الدلیل' معنی دگر کا احتمال ہو اور قطعی الدلالہ وہ ہوتا ہے جس میں ایسا کوئی 'ناشی عن الدلیل' احتمال نہ ہو۔یہ وہی موقف ہے جسے شاطبیؒ نے موافقات میں یوں بیان فرمایا:

"الأدلۃ الشرعيۃ لا تنافي قضايا العقول، لو نافتھا لم تكن  أدلۃ للعباد علی حكم شرعي" (الموافقات 3/208)

"ادلہ شرعیہ عقلی قضایا کے منافی نہیں ہو سکتے،اگر وہ عقلی قضایا کی نفی کریں  گے تو لوگوں کے لیے حکم شرعی پر دلیل نہ رہیں گے"

بلکہ یہ وہی موقف ہے جس کا اظہار علامہ ابن تیمیہ نے 'رسالہ تدمریہ' میں اثباتِ عقیدہ کے دوران فرمایا،آپ رقمطراز ہیں:

"سمع قد دل عليہ، ولم يعارض ذلك معارض عقلي  ولا سمعي،فيجب إثبات ما أثبتہ الدليل السالم  عن المعارض المقاوم” (الرسالۃ التدمريۃ  34)

"اس پر سمع دلالت کناں ہے دراں حالیکہ کوئی عقلی و سمعی دلیل اس کے  معارض نہیں ہے۔بنا بریں ایسے(عقیدہ) کا اثبات ضروری ہے جو معارض و مزاحم (عقلی و سمعی) سے پاک دلیل کے ذریعے پایہ ثبوت کو پہنچا ہے"

معلوم ہوا کہ علامہ ابن تیمیہ خود بھی دلیل سمعی کے واجب القبول ہونے کے لیے اس کے مقابل 'معارض عقلی' نہ ہونے کو بہ طور دلیل پیش فرما رہے ہیں۔یعنی علامہ صاحب کے نزدیک بھی دلیل سمعی کا قبول کرنا اس وقت ضروری ٹھہرتا ہے جب اس کے مقابل کوئی معارض عقلی موجود نہ ہو۔اگر 'معارض عقلی' کے ہونے یا نہ ہونے سے نقل کی صحت و قطعیت پر کوئی فرق مرتب نہیں ہوتا تو پھر 'معارض سے سلامتی' کو بہ طور دلیل پیش کرنے کی کوئی معنویت باقی نہیں رہ جاتی۔اگر یہ کہا جائے کہ علامہ صاحب نے محض معاندین پر اتمام حجت کے لیے اس کو بہ طور دلیل پیش فرمایا ہے تو یہی بات تو ہم کلامِ رازی بابت کہتے ہیں کہ آپ نے بھی مجسمہ و معتزلہ کی سٹی گم کرنے واسطے تعارض عقل و نقل بابت مسلمہ قانون کو آہنگِ جدال میں دہرایا ہے۔

گزارش ہے کہ موقفِ رازیؒ کی درست تفہیم کے لیے دریں باب متکلمین کے تصور عقل سے شناسائی بھی ضروری ہے۔متکلمین جس عقل کو 'فیصلِ تعارض' اور 'مجاز تاویل' ٹھہرا رہے ہیں وہ کانٹ کی عقلِ محض یا لاک کی عقل تجربی نہیں ہے،نہ ہی وہ کسی ملحد کی عقل انکاری ہے۔متکلمین کے ہاں 'عقل سلیم' کا باقاعدہ تصور پایا جاتا ہے۔یہ وہ عقل ہے جو درِ ایمان پر سرِ نیاز خم کر چکی ہے،جس کے پیش قیاسی قضیہ جات ہدایت ربانی سے ماخوذ ہیں،جس نے ایمان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر کے 'لیس کمثلہ شیئ' کا درس لیا ہے،جو تنزیہہ و تشبیہ کے جملہ امتیازات ازبر کر چکی ہے۔

انتقادِ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ

موقفِ رازی کی سیاحی کے بعد اب وقت آن پہنچا ہے کہ انتقادِ ابن تیمیہ کی طرف زمام کشی کی جائے۔علامہ صاحب کا 'موردِ تنقید' اور 'ہدفِ تنقید' آغازِ تحریر میں خاصی حد تک بیان کیا جا چکا ہے۔آپ کی انتقادی سرگرمی دو مراحل میں منقسم ہے۔پہلے مرحلہ میں آپ نے امام رازی اور متکلمین کے نظامِ فکر پر تردیدی تاخت فرمائی ہے اور دوسرے مرحلہ میں آویزشِ عقل و نقل بابت اپنے حاصلاتِ فکر منصہ شہود پر لائے ہیں۔دونوں مراحل التباس،اختلال اور چند در چند داخلی تناقضات کا شاہکار ہیں۔

تردیدِ امام رازی و متکلمین:

 علامہ صاحب  آغازِ کتاب میں امام رازی کے بیان کردہ 'قانونِ کلی' کو خاصی تحریف شدہ حالت میں ذکر فرماتے ہیں اور پھر اس تحریف کو 'دوآتشہ' کرتے ہوئے کارِ تردید کا در کچھ یوں وا کرتے ہیں:

"وھذا الكلام قد جعلہ الرازی واتباعہ قانونا كليا فيما يستدل بہ  من كتب اللہ تعالی , وكلام انبيائہ عليھم السلام , وما لا يستدل بہ" (درء تعارض العقل والنقل 1/4,5)

"یہ وہ کلام ہے جسے رازی اور ان کے پیروکاروں نے کتب الہی اور کلام انبیاء بابت 'قانونِ کلی' قرار دیا ہے کہ کتب الہی اور کلام انبیاء کے کس  حصے سے استدلال کیا جائے گا اور کس حصے سے استدلال نہیں کیا جائے"

بلاشبہ علامہ صاحب نے مذکورہ عبارت میں متکلمین پر نہایت سنگین الزامات چسپاں کیے ہیں۔آپ نے نہایت رواروی سے 'متشابہات' بابت بیان کردہ قانون کلی کو پہلے تو محکم و متشابہ دونوں سے نتھی کر دیا اور بعد ازاں اس قانون کی ماہیت و نوعیت کو یوں بدل کر رکھ دیا کہ جو قانون سراسر 'متشابہات' کے احتمالی معانی میں سے ایک کے 'امکانی اختیار' یا کلی تفیوض بابت تھا اسے متکلمین کی طرف سے قرآن و سنت کے قابلِ استدلال ہونے یا نہ ہونے کا پیمانہ قرار دے دیا۔گویا آپ نے امام رازیؒ اور متکلمین پر یہ اتہام جڑا ہے کہ ان کے نزدیک قرآن و سنت دو حصوں میں تقسیم پذیر ہے،ایک وہ حصہ جو قابلِ احتجاج ہے اور دوسرا وہ جو ناقابلِ احتجاج ہے۔پھر آپ صریح الفاظ میں اس اتہام کا اعادہ یوں فرماتے ہیں:

"ولھذا ردوا الاستدلال بما جاء بہ الانبياء والمرسلون فی صفات اللہ تعالي" (ایضا 1/5)

"اور اسی بنا پر انہوں نے صفات الہی بابت انبیاء کرام کی لائی  گئی ہدایت سے استدلال کو مردود ٹھہرا دیا ہے"

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

"فی ھذا الکتاب بینا فساد القانون الفاسد  الذی صدوا بہ الناس عن سبیل اللہ" (ایضا 1/20)

"اس کتاب میں ہم نے اس قانونِ فاسد کا فساد عیاں کر دیا ہے  جس کے ذریعے یہ(متکلمین) لوگوں کو راہِ خدا سے روکتے ہیں"

یعنی تجسیم و تشبیہ کے مردود خیالات و اوہام کی راہ کو بذریعہ تاویل و تفویض(جو کہ شیوہ سلف رہا ہے) مسدود کر دینا راہ خدا سے روکنا ہے؟اور متشابہات یا ظنیات کے احتمالی معانی میں سے ایک کو اختیار کرنا قرآن و سنت کو رد کرنا ہے؟اگر ایسا ہے،پھر تو سلف کی ایک کثیر تعداد بھی معاذاللہ اس جرم عظیم کی مرتکب رہی ہے۔امام شافعیؒ نے تو 'الرسالہ' میں باقاعدہ ایک باب اس عنوان سے قائم کیا ہے کہ "الصنف الذی یدل لفظہ علی باطنہ دون ظاہرہ" یعنی "قرآن و سنت کی وہ صنف کہ جس کا لفظ اس کے ظاہری معنی کی بجائے پوشیدہ معنی پر دلالت کناں ہے"۔تو کیا امام شافعیؒ بھی دربارِ ابن تیمیہ رح سے 'خلعتِ جرم' پائیں گے یا پھر متکلمین کا قصور فقط یہ ہے کہ انہوں نے اس کارِ تاویل کو منضبط قاعدہ و قانون کی صورت میں ایک مضبوط اساس مہیا کر دی؟گزارش ہے کہ علامہ صاحب کی یہ عبارت بلکہ آپ کی پوری تصنیف ہی اس شدت آمیز 'حرفیت پرستی' (Literalism  ) کا شاخسانہ ہے جس کے بنیاد گزاروں میں علامہ صاحب کا نام نہایت نمایاں ہے۔

تاویل کا نزاع:

ممکن ہے بعض شیفتگانِ ابن تیمیہؒ 'تاویل' سے متعلق علامہ صاحب کے قائم کردہ مبحث کی طرف اشارہ فرمائیں کہ علامہ صاحب نے تو سلف اور متکلمین کی 'تاویل' میں 'فرق' بیان کیا ہے۔بنا بریں بہتر ہو گا کہ علامہ صاحب کے بیان کردہ 'فرق' کو اختصارا طشت از بام کر دیا جائے۔علامہ صاحب اپنے جملہ مواقف کو کچھ اس شِکَوہ سے سلف کا موقف باور کرواتے ہیں اور فریقِ مخالف کے ہر موقف کو کچھ اس جلالت سے مخالفتِ سلف کی سند عطا کرتے ہیں گویا موقفِ ابن تیمیہ کا موقفِ سلف ہونا پیش تنقیدی (pre-critical ) قضیہ یا بدیہی الثبوت مسلمہ ہے۔مبحثِ تاویل میں بھی آپ اسی شکوہِ کاذب کو بروئے کار لائے ہیں۔آپ نے قرآن و سنت میں اپنی کی گئی تاویلات کو 'منہجِ سلف' سے جواز یافتہ قرار دیتے ہوئے متکلمین کی تاویلات کو یہ کہہ کر بہ یک جنبشِ قلم مسترد کر دیا ہے کہ یہ تاویلات سلف کے متعین کردہ نہج پر استوار نہیں ہیں۔علامہ صاحب لفظ تاویل کے کئی ایک معانی بیان کرتے ہوئے سلف سے نقل شدہ تاویل کا وہ معنی بیان کرتے ہیں کہ جس کے متکلمین قائل ہیں یعنی 'لفظ کو ظاہری معنی سے کسی دوسرے پوشیدہ معنی کی طرف پھیر دینا'۔لیکن پھر عجیب و غریب 'تاویل' کے ذریعے متکلمین اور سلف کی مراد و مقصود میں یہ فرق بیان کرتے ہیں کہ تاویل سے سلف کا مقصود 'دفع معارض' نہیں بلکہ 'منشائے متکلم' کی تلاش تھا اور متکلمین کا مقصود 'منشائے متکلم' نہیں 'دفعِ معارض' ہے۔یعنی یہاں علامہ صاحب نے یہاں یہ خود ساختہ مفروضہ قائم کر لیا ہے کہ سلف کو 'دفعِ معارض' سے کوئی کام نہیں اور متکلمینِ کو 'منشائے متکلم' سے کوئی غرض نہیں۔یہ فرق علامہ صاحب کی مکمل انتقادی سرگرمی ہی کی مانند انتہائی رکیک اور اپنے دامن میں انتہائی اختلال و التباس لیے ہوئے ہے۔

گزارش ہے کہ تاویل کی جولان گاہ میں اولین قلانچ بھرنے کا اولین مقصد 'منشائے متکلم' کی جویائی ہی ہوا کرتا ہے لہذا یہ کہنا نری مغالطہ آمیزی  اور آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے کہ موول کو 'منشائے متکلم' سے چنداں غرض نہیں ہے۔متکلمین تو کجا معتزلہ یا فلاسفہ بھی جب دشتِ تاویل میں قدم زن ہوتے ہیں تو یقینا 'منشائے متکلم' ہی کی تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔رہے 'معارض' اور 'دفعِ معارض' تو یہ سب 'منشائے متکلم' کی تلاش کے لیے مہمیز اور اس کے تعین میں ممد و معاون اوزار کی طرح ہوتے ہیں۔سلف نے بھی یقینا بعض خارجی عوامل ہی کی بدولت تاویل کے اکھاڑے میں قدم رنجہ فرمایا ہے۔سوال یہ ہے کہ ظاہری معنی کے عیاں ہونے کے باوجود 'منشائے متکلم' کی 'تلاش' کی نوبت ہی کیوں آتی ہے۔کچھ 'معارض' کا پیش آ جانا اور پھر ان کے دفعیہ کے لیے کمر بستہ ہو جانا ہی تو اس 'تلاش' کا باعث بنتا ہے۔ظاہری معنی میں کوئی اختلال،کوئی احتمال،کوئی اضمحلال نظر آتا ہے تبھی تو موول و مفسر کا ماتھا ٹھنکتا ہے کہ یہاں 'منشائے متکلم' وہ نہیں جو سامنے دکھائی دے رہی ہے بلکہ وہ ہے جو درونِ لفظ نہاں اور ورائے ظاہر عیاں ہے۔

علامہ صاحب کے حاصلاتِ فکر:

ایک سنجیدہ قاری کے لیے انتقادِ ابن تیمیہؒ کی خشت اول ہی آنے والی تردید اور علامہ صاحب کے حاصلات فکر کی پیش بینی کر دیتی ہے۔سنگین الزامات کے بعد علامہ صاحب سلسلہ تردید کو مزید بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ موقفِ متکلمین کی اساس تین مقدمات ہیں۔پہلا مقدمہ عقل و نقل کے مابین تعارض کا اثبات ہے۔دوسرا مقدمہ تعارض کو (قانون کلی میں بیان شدہ)چار صورتوں میں ہی منحصر گرداننا ہے۔اور تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ ان چار صورتوں میں سے تین صورتیں باطل ہیں۔بعد ازاں علامہ صاحب فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ یہ تینوں مقدمات باطل ہیں۔پھر آپ کشمکشِ عقل و نقل بابت اپنے حاصلات فکر افشا کرتے ہیں،جس کا ماحصل یہ ہے کہ عقل و نقل دونوں اپنے دامن میں قطعیت لیے ہوئے ہوں گے یا دونوں لبادہ ظنیت میں ملبوس ہوں گے یا پھر عقل،ظنی ہوگی اور نقل قطعی ہوگی یا پھر معاملہ اس سے برعکس ہوگا۔آپ فرماتے ہیں کہ پہلی دو صورتوں میں تو تعارض ممکن ہی نہیں اور دوسری صورت میں راجح کو اختیار جائے گا۔تیسری صورت میں نقل قطعی مختار ہو گی اور چوتھی صورت میں عقل قطعی کو نقل ظنی پر ترجیح دی جائے گی۔علامہ صاحب کی عبارت حسبِ ذیل ہے:

"قولہ "اذا تعارض العقل والنقل" اما ان يريد بہ القطعيين , فلا نسلم امكان التعارض حينئذ , واما ان يريد بہ الظنيين , فالمقدم ھو الراجح مطلقا,واما ان يريد بہ ما احدھما قطعی ,فالقطعی ھو المقدم مطلقا ,واذا قدر ان العقلی ھو القطعی,كان تقديمہ لكونہ قطعيا , لا لكونہ عقليا۔" (ایضا 1/78،86،87)

انتقاد کی اساس ایک بے اساس مفروضہ!

علامہ صاحب نے صراحتا یہ تاثر دیا ہے کہ امام رازی اور متکلمین علی الاطلاق عقل و نقل کی آویزش کے قائل ہیں اور علی الاطلاق عقل کو نقل پر مقدم مانتے ہیں چنانچہ آپ انتقاد کا حتمی نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"فعلم ان تقديم العقلی مطلقا خطأ" (ایضا)

"معلوم ہوا کہ عقل کو علی الاطلاق مقدم ٹھہرانا غلطی ہے"

آپ نے اسی مفروضہ کو اپنے بلند و بالا کاخِ انتقاد کی نیو  بناتے ہوئے متکلمین کو "راہ خدا سے روکنے والے" اور "قرآن و سنت سے استدلال کو رد کرنے والے" ایسے القاب سے نوازا ہے۔پیش ازیں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ امام رازیؒ اور متکلمین کا بیان کردہ 'قانون کلی' محض متشابہات/ظنیات سے متعلق ہے نیز قطعیات میں تعارض کو متکلمین محال قرار دیتے ہیں جبکہ ظنیاتِ شرع اور عقل قطعی کے مابین تعارض کو بھی وہ سرسری نگاہ اور بادی النظر کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔علامہ صاحبؒ نے امام رازیؒ کے کلام کو نہ صرف اس کے مجموعی تناظر سے محروم کیا ہے بلکہ کلامِ رازی ہی میں صراحت سے مذکور 'عقل قطعی' اور 'متشابہات' ایسے الفاظ کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔عرض ہے کہ اس تمام تر وضاحت کے بعد امام صاحب کے اس الزام کی کیا اخلاقی و علمی حیثیت باقی رہ جاتی ہے کہ متکلمین نہ صرف عقل و نقل میں تعارض کو ثابت کرتے ہیں بلکہ علی الاطلاق عقل کو نقل پر ترجیح بھی دیتے ہیں؟یقینا یہ ایک بے اساس مفروضہ ہے۔یعنی امام صاحب جس مقدمہ کو متکلمین کا مقدمہ فرض کر کے اس پر تابڑ توڑ حملے فرما رہے ہیں وہ متکلمین کا مقدمہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ایسے بے سر و پا نقد سے 'مورد نقد' پر کوئی سوال اٹھے یا نہ اٹھے،صاحبِ نقد کی علمی پاسداری ضرور محلِ سوال بن جایا کرتی ہے۔

تقسیم ابنِ تیمیہ بمقابلہ تقسیم رازی؟

امام رازی کی بیان کردہ حصری تقسیم کے 'مقابلہ' میں علامہ صاحب کا اپنی تقسیم سامنے لانا بھی دنیائے علم کا نرالا واقعہ ہے۔ان دونوں کا تقابل کیونکر ہو سکتا ہے کہ امام رازی تو محض نقل ظنی اور عقل قطعی کے مابین آویزش کی صورتیں بیان فرما رہے ہیں جبکہ علامہ صاحب علی الاطلاق تعارضِ عقل و نقل کو حیطہ تحریر میں لا رہے ہیں۔گزارش ہے کہ علامہ صاحب کی بیان کردہ تقسیم کو امام رازی کی تقسیم کے مد مقابل لے آنا تو یقینا انوکھا کارنامہ ہے تاہم علامہ صاحب کی تقسیم فی نفسہ جہانِ علم کا کوئی نیا ظاہرہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ علامہ صاحب کی ذاتی اپج ہے۔قعطیات میں تعارض ممکن نہیں اور ظنیات میں راجح مقدم ہے،یہی امام رازی اور متکلمین کا مذہب ہے۔عقل ظنی اور نقل قطعی میں نقل راجح ہو گی،یہی امام صاحب اور متکلمین کا مذہب ہے۔رہی آخری صورت کہ نقل ظنی پر عقل قطعی مقدم ہو گی تو اس باب میں امام رازی رح اور متکلمین کا شیوہِ بیان احوط ہے کہ وہ اس تعارض کو عقل قطعی اور نقل ظنی کے ایک احتمالی معنی کی کشا کشی بنا چھوڑتے ہیں جبکہ علامہ صاحب تو یہ کشٹ اٹھانے سے بھی گریز پا رہے۔شاید اس کی وجہ علامہ صاحب کی وہی شدت آمیز 'حرفیت پرستی' (Literalism )ہے جو نقل کے احتمالی مگر ظاہری معنی کو نقل کا اٹوٹ انگ قرار دیتی ہے۔اس حرفیت پسندی کو یہ تو گوارا ہے کہ رفعِ تعارض کے لیے ناچار عقل کو نقل پر ترجیح دے دی جائے لیکن یہ قبول نہیں کہ ظاہری معنی کو نقل سے الگ بیان کر دیا جائے۔یہاں یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ علامہ صاحب نے جہاں عقل قطعی کو  نقل ظنی پر تقدیم سے نوازا ہے وہیں پہلو بہ پہلو یہ پرلطف نکتہ بھی ارزاں کیا ہے:

"كان تقديمہ لكونہ قطعيا , لا لكونہ عقليا" (ایضا 1/87)

"عقلی دلیل کو قطعی ہونے کی وجہ سے مقدم کیا جائے گا نہ کہ  عقلی ہونے کی بنا پر"

لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے نفس الامر میں کیا فرق پڑتا ہے۔دلیل عقلی کی ترجیح و تقدیم تو بہرصورت برقرار رہتی ہے۔علاوہ ازیں،پیرایہ اطلاق میں بیان کردہ اس ابطال کا کیا ہوا کہ نقل و عقل میں تو تعارض ممکن ہی نہیں؟علامہ صاحب کے اس بیان کی پشت پر بھی آپ کا وضع کردہ وہی بے بنیاد مفروضہ کارفرما ہے کہ امام رازی اور متکلمین علی الاطلاق عقل کو نقل پر راجح قرار دیتے ہیں۔گزشتہ سطور میں اس مفروضہ کا بے اساس ہونا بیان کیا جا چکا ہے۔اپنی فکر ارزاں کرنے کے بعد علامہ صاحب نے امام رازی رح کے اس موقف پر تاز فرمائی ہے کہ 'سمع کا اثباتِ علمی چونکہ عقل قطعی پر موقوف پر لہذا عقل قطعی کو ظاہرِ نقل پر فوقیت دی جائے گی'۔علامہ صاحب اس موقف کی تردید میں خاصا زور صرف فرماتے ہیں اور پھر آپ کی تردید کی تان یہاں آن کر ٹوٹتی ہے کہ تمام معقولات پر نہیں بلکہ صرف چند ایک معقولات پر سمع موقوف ہے۔سوال پھر یہی ہے کہ اس سے نفس الامر میں کیا فرق مرتب ہوا؟چند کہیں یا تمام،موقوف تو آپ بھی عقل پر ہی قرار دے رہے ہیں۔نیز متکلمین یا امام رازی نے یہ دعوی کیا ہی کب ہے کہ تمام معقولات پر شرع کا علم موقوف ہے؟گزارش ہے کہ اس تمام تر بحث کے پیچھے بھی علامہ صاحب کا وہی بیان کردہ بے بنیاد مفروضہ کام کر رہا ہے۔

حاصلِ بحث

آخرش عرض ہے کہ انتقادِ ابن تیمیہ کے مطالعہ کے بعد یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ آیا یہ علامہ صاحب کا اپنا نظام فکر ہے یا پھر متکلمین کے نظام فکر پر مہر تصدیق ہے کیونکہ آویزش عقل و نقل بابت علامہ صاحب نے جو "نیا نظامِ فکر" پیش فرمایا ہے، وہ تو پہلے سے ہی متکلمین کی کتب میں جا بہ جا بکھرا پڑا ہے۔علامہ صاحب نے پورے شکوہ کے ساتھ متکلمین پر مشقِ تردید تو فرمائی ہے لیکن اس تردید کا نتیجہ تصویب کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔'تصویب بہ رنگ تردید' کی یہ سرگرمی یقینا بہت دلچسپ ہے جس میں انتقاد تو پورے کروفر کے ساتھ موجود ہے لیکن حاصلِ انتقاد رفوچکر ہو چکا ہے۔خیر وقت آن پہچا ہے کہ رہوارِ قلم کو روک لیا جائے اور بساطِ بحث کو لپیٹ دیا جائے۔خاکسار نے مقدور بھر سعی کی ہے کہ متکلمین اور امام رازی رحمہم اللہ کے موقف کے پیش منظر،پس منظر اور تہِ منظر کو قارئین کے رو بہ رو پیش کر دیا جائے اور پہلو بہ پہلو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے انتقاد کی راست حیثیت بھی واضح کر دی جائے تاکہ غبار چھٹ جائے اور منظر واضح ہو جائے۔اگر مقصود بر آیا ہے تو فضلِ یزدانی ہے اور اگر کہیں جھول رہ گیا ہے تو اپنی ہیچ مدانی ہے۔خداوند متعال سمجھنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔آمین


قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۷)

محمد عمار خان ناصر

قانون اتمام حجت پر مبنی احکام

غامدی صاحب کے نقطۂ  نظر کے مطابق قرآن مجید سے رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی ایک مخصوص سنت واضح ہوتی ہے جس کی رو سے منصب رسالت پر فائز کسی ہستی کو جب کسی قوم میں مبعوث کیا جاتا ہے تو اس فیصلے کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق اور باطل کے فرق کو بالکل قطعی درجے میں اور علیٰ رؤوس الاشہاد واضح کر دیے جانے کے بعد بھی جو لوگ حق کے انکار پر مصر رہیں، وہ اسی دنیا میں خدا کے عذاب کے مستحق ہو جائیں گے۔ غامدی صاحب کے الفاظ میں ’’اللہ تعالیٰ کی حجت جب کسی قوم پر پوری ہو جاتی ہے تو منکرین حق پر اسی دنیا میں اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ عذاب کا یہ فیصلہ رسولوں کی طرف سے انذار، انذار عام، اتمام حجت اور اس کے بعد ہجرت وبراء ت کے مراحل سے گزر کر صادر ہوتا اور اس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہوتی، خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا اور رسول کے مخاطبین کے لیے ایک قیامت صغریٰ برپا ہو جاتی ہے ‘‘ (میزان  ۵۹۸) ۔

قانون رسالت کے تحت اتمام حجت کا یہ عمل چونکہ پوری دنیا کی قوموں پر نہیں، بلکہ رسول کے براہ راست مخاطبین پر کیا جاتا ہے، اس لیے غامدی صاحب اس قانون کے تحت کیے جانے والے مخصوص اقدامات کو شریعت کے عمومی اور ابدی احکام قرار نہیں دیتے، بلکہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مخاطبین تک محدود قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں عہد رسالت کے منکرین حق کے خلاف جہاد وقتال اور ان پر جزیہ عائد کرنے کے علاوہ احادیث میں مذکور بعض احکام کی تفہیم بھی وہ قانون اتمام حجت کے تحت کرتے ہیں، چنانچہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے سے متعلق مذکورہ اقتباس میں انھوں نے عذاب قبر، کعب بن اشرف کے قتل، ’أمرت أن أقاتل الناس‘ اور ’من بدل دینه فاقتلوه‘ کی روایات کا ذکر اسی پہلو سے کیا ہے۔  یہ اور ان کے علاوہ جن دیگر احادیث کی تعبیر میں غامدی صاحب نے نمایاں طور پر اس اصول کا اطلاق کیا ہے، ان کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:

۱۔ ’امرت ان اقاتل الناس‘  کا محل اور دائرۂ اطلاق واضح کرتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’یہی قانون ہے جس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی: ... ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اِن لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔‘‘ … یہ قانون، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، صرف اُن مشرکین کے ساتھ خاص تھا جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست اتمام حجت کیا۔ اُن کے علاوہ اب قیامت تک کسی دوسری قوم یا فرد کے ساتھ اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہاں تک کہ وہ اہل کتاب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے، قرآن مجید نے اُنھیں بھی اِس سے بالصراحت مستثنیٰ قرار دیا ہے۔‘‘ (برہان ۱۴۱-  ۱۴۲)

 اس توجیہ کے حوالے سے غامدی صاحب منفرد نہیں ہیں۔ کلاسیکی فقہی روایت میں احناف کا نقطۂ نظر بھی یہی رہا ہے کہ اسلام قبول نہ کرنے پر قتل کیے جانے کا حکم خاص طور پر مشرکین عرب کے لیے دیا گیا تھا جن کے بارے میں قرآن مجید میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کے دین کا خاتمہ کر کے پورے جزیرۂ عرب پر اسلام کو غالب کر دیا جائے اور مہلت ختم ہونے کے بعد بھی وہ اگر کفر وشرک سے توبہ کر کے دائرۂ اسلام میں داخل نہ ہوں تو انھیں بے دریغ قتل کر دیا جائے (التوبہ ۹: ۵)۔ فقہاے احناف مشرکین عرب سے متعلق اس خصوصی حکم کی وجہ اتمام حجت کے اصول کو قرار دیتے ہیں اور ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ چونکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس قوم میں مبعوث کیے گئے تھے اور اللہ کی کتاب انھی کی زبان میں انھی کے سامنے نازل کی گئی تھی، اس لیے حجت تمام کر دیے جانے کے بعد ان کے پاس قبول حق سے گریز کے لیے کوئی عذر موجود نہیں تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے جرم کی سنگینی کی وجہ سے ان کے لیے سزا بھی سنگین ترین مقرر فرمائی اور اسلام قبول نہ کرنے پر انھیں گردن زدنی قرار دے دیا۔ اس نقطۂ نظر کے تحت حنفی فقہا اور بعض دیگر شارحین حدیث زیربحث حدیث کی یہی توجیہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا تعلق صرف مشرکین عرب سے ہے (جصاص، احکام القرآن ۱/۶۰، ۲/۲۴۸۔  ابن حجر، فتح الباری ۱/۷۷)۔

۲۔ ارتداد اختیار کرنے پر قتل کی سزا کا تناظر بھی غامدی صاحب کی راے میں اتمام حجت کا یہی قانون ہے اور اس کا تعلق بھی انھی مشرکین عرب سے ہے جنھیں اصلاً اپنے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’...اس کا یہ لازمی تقاضا بھی صاف واضح ہے کہ اِن مشرکوں میں سے کوئی شخص اگر ایمان لانے کے بعد پھر کفر اختیار کرتا تو اُسے بھی لامحالہ اِسی سزا کا مستحق ہونا چاہیے تھا۔ وہ لوگ جن کے لیے کفر کی سزا موت مقرر کی گئی، وہ اگر ایمان لا کر پھر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹتے تو لازم تھا کہ موت کی یہ سزا اُن پر بھی بغیر کسی تردد کے نافذ کر دی جائے۔ چنانچہ یہی وہ ارتداد ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’من بدل دینہ فاقتلوہ‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس حکم میں ’من‘ اُسی طرح زمانۂ رسالت کے مشرکین کے لیے خاص ہے، جس طرح اوپر ’امرت ان اقاتل الناس‘ میں ’الناس‘ اُن کے لیے خاص ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی اصل جب قرآن مجید میں اِس خصوص کے ساتھ موجود ہے تو اِس کی اِس فرع میں بھی یہ خصوص لازماً برقرار رہنا چاہیے۔ ہمارے فقہا کی غلطی یہ ہے کہ اُنھوں نے ’الناس‘ کی طرح اِسے قرآن میں اِس کی اصل سے متعلق کرنے اور قرآن وسنت کے باہمی ربط سے اِس حدیث کا مدعا سمجھنے کے بجاے، اِسے عام ٹھیرا کر ہر مرتد کی سزا موت قرار دی اور اِس طرح اسلام کے حدود وتعزیرات میں ایک ایسی سزا کا اضافہ کر دیا جس کا وجود ہی اسلامی شریعت میں ثابت نہیں ہے۔‘‘ (برہان ۱۴۲-  ۱۴۳)

۳۔ مسلمان اور کافر کے مابین وراثت کی ممانعت کے حوالے سے غامدی صاحب کی یہ توجیہ اوپر بیان کی جاچکی ہے کہ یہ حکم منفعت کی اس علت پر مبنی ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کو  ایک دوسرے کے ترکے میں حصہ دار قرار دیا ہے، اور منفعت ختم ہو جانے کی صورت میں وراثت کے حکم کا معطل کر دیا جانا اسی اصول کا تقاضا ہے۔ البتہ غامدی صاحب اس تعطیل کو اتمام حجت کے قانون کی روشنی میں جزیرہ نماے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ سے متعلق قرار دیتے ہیں، یعنی اسے شریعت کا کوئی ابدی اور دائمی حکم تصور نہیں کرتے۔ لکھتے ہیں:

’’...اتمام حجت کے بعد جب یہ منکرین حق خدا اور مسلمانوں کے کھلے دشمن بن کر سامنے آ گئے ہیں تو اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر قرابت کی منفعت بھی اِن کے اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے ختم ہو جانی چاہیے۔ چنانچہ یہ اب آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔‘‘ (میزان ۴۰)

اس ممانعت کی تخصیص وتحدید کے ضمن میں یہ راے تو فقہاے صحابہ وتابعین کے دور سے موجود رہی ہے کہ اس کا اطلاق صرف مشرکین عرب پر ہوگا، جب کہ اہل کتاب اس کے دائرے میں شامل نہیں۔ چنانچہ سیدنا معاویہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کا نقطۂ نظر یہی تھا اور وہ اہل کتاب اور مسلمانوں کے مابین وراثت کا حکم مذکورہ ممانعت کے بجاے ایک قیاسی اصول کی روشنی میں متعین کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان تو اپنے اہل کتاب اقربا کا وارث بنے گا، لیکن اہل کتاب کو ’الإسلام یعلو ولا یعلی‘ کے اصول کے تحت اپنے مسلمان رشتہ دار کی وراثت میں شریک نہیں کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ اس صورت میں بھی وہی اصول لاگو ہوگا جو اہل کتاب کے ساتھ نکاح کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے، یعنی مسلمان مرد تو اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کر سکتے ہیں، لیکن مسلمان خواتین، اہل کتاب مردوں سے نکاح نہیں کر سکتیں (جصاص، احکام القرآن ۲/۱۰۲)۔

یوں غامدی صاحب کی راے اس پہلو سے جمہور فقہا کے موقف سے ہم آہنگ ہے کہ یہ ممانعت مشرکین اور اہل کتاب، دونوں سے متعلق ہے، لیکن اس پہلو سے منفرد ہے کہ وہ اس ممانعت کوصرف جزیرۂ عرب کے مشرکین اور اہل کتاب تک محدود سمجھتے ہیں جن پر اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ اہل ایمان کے ساتھ ان کی قرابت اللہ کی نظر میں گویا کالعدم ہے اور اس تعلق کی بنا پر رشتہ داروں کا ایک دوسرے کے مال پر جو حق عائد ہوتا ہے، وہ بھی اس صورت میں اپنی بنیاد سے محروم ہو جاتا ہے۔

۴۔ کتب حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کے قصاص میں مسلمان کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ جمہور فقہا اس حکم کو ظاہر پر محمول کرتے ہوئے قرار دیتے ہیں کہ کسی مسلمان کو غیر مسلم کے قصاص میں قتل نہیں کیا جا سکتا، جب کہ حنفی فقہا اس ممانعت کو حربی کافر سے متعلق قرار دیتے ہوئے اہل ذمہ اور مسلمانوں کے مابین قصاص کا قانون جاری کرنے کے قائل ہیں۔ اس ضمن میں جصاص کی راے یہ ہے کہ مذکورہ ارشاد میں کافر سے مراد وہ کافر ہے جسے کسی مسلمان نے زمانۂ جاہلیت میں قتل کیا ہو، یعنی یہاں قصاص کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کے مابین عدم مساوات کا حکم بیان کرنا نہیں، بلکہ حالت کفر میں کیے گئے قتل کا بدلہ حالت اسلام میں لینے کی ممانعت بیان کرنا مقصود ہے۔

غامدی صاحب بھی اس ہدایت کو عمومی قانون قرار نہ دینے کے حنفی نقطۂ نظر سے اتفاق رکھتے ہیں، تاہم اس ہدایت کا مخصوص تناظر اتمام حجت کے اصول کی روشنی میں واضح کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’...منکرین ... کی معاندت پوری طرح ظاہر ہو جانے کے بعد رسولوں کی تکذیب کا وہ قانون اُن پر نافذ کردیا گیا جو قرآن میں ایک سنت الہٰی کی حیثیت سے مذکور ہے۔ بعض مقتولین کے خون کو ہدر قرار دینے کی وجہ بھی یہی تھی۔ ’لا یقتل مسلم بکافر‘ اِسی کا بیان ہے۔‘‘ (مقامات ۳۳۴)

۵۔ موت کے وقت مردے کو بشارت یا زجر وتوبیخ اور اسی طرح قبر میں سوال وجواب اور ثواب یا عذاب کی روایات کا ماخذ غامدی صاحب قرآن مجید میں متعین کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ قرآن مجید کی مختلف آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں اہل ایمان اور اہل کفر کے ساتھ روح قبض کرنے والے فرشتوں کے رویے کا، شہادت پاکر اللہ کے پاس پہنچ جانے والے اہل ایمان پر اللہ کی طرف سے فضل وانعام کا، اور فرعون اور اس کے متبعین کے، آگ کے عذاب میں ڈال دیے جانے کی بات بیان کی گئی ہے۔ البتہ غامدی صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بعد از وفات فوری ثواب یا عذاب کا یہ معاملہ اللہ کے پیغمبروں کے براہ راست مخاطبین کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ ایسے لوگوں پر پیغمبر اتمام حجت کر چکے ہوتے ہیں، اس لیے ان کے ثواب وعذاب کو قیامت تک موخر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ان کے مرتے ہی ان کے انعام واکرام یا عذاب کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ عذاب قبر کے علاوہ قبر میں مردے سے سوالات پوچھے جانے کی روایات کو بھی غامدی صاحب انھی گروہوں سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب کے الفاظ میں ’’آپ کی بعثت جن لوگوں میں ہوئی، ان کے لیے ابتدا اس سوال سے ہوگی کہ وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ اپنی بعثت کے بعد رسول ہی اپنی قوم کے لیے حق وباطل میں امتیاز کا واحد ذریعہ ہوتا ہے، اس لیے اس پر ایمان کے بعد پھر کسی سے اور کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی‘‘(میزان  ۱۸۹)۔

غامدی صاحب نے اس تخصیص کے قرائن بیان نہیں کیے، تاہم اس نوعیت کی راے بعض دیگر اہل علم  کے ہاں بھی ملتی ہے جن کے پیش نظر یہ سوال ہے کہ بعض نصوص سے عالم برزخ میں ثواب وعذاب ثابت ہوتا ہے، جب کہ بعض دیگر نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ موت اور قیامت کے دن کے درمیان ایک برزخ کا عالم ہوتا ہے جس میں مردے ایک طرح کی نیند کی کیفیت میں ہوتے ہیں، اسی لیے جب انھیں قیامت کے دن اٹھایا جائے گا تو وہ حیران ہو کر پوچھیں گے کہ ہمیں کس نے ہماری نیند سے اٹھا دیا۔ چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری ان مختلف نصوص کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ برزخ میں سب مردوں کے احوال ایک جیسے نہیں ہوتے، بلکہ ان کے مراتب کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں (فیض الباری ۱/۲۶۷)۔ غامدی صاحب نے غالباً اسی اختلاف کی تطبیق کی یہ صورت اختیار کی ہے کہ جن نصوص سے عالم برزخ میں جزا وسزا ثابت ہے، انھیں پیغمبر کے براہ راست مخاطبین کے ساتھ خاص قرار دیا جائے۔

۶۔ متعدد احادیث میں مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی انتہائی تاکید وارد ہوئی ہے، حتیٰ کہ بعض روایات میں آپ نے باجماعت نماز کے لیے حاضر نہ ہونے والوں کے گھر تک جلا دینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اسی طرح ایک نابینا صحابی کو بھی، جنھیں مسجد تک لانے والا کوئی ساتھی میسر نہیں تھا، پابند کیا کہ وہ مسجد میں ہی نماز ادا کریں۔

بعض محدثین ان روایات کی بنیاد پر باجماعت نماز میں شرکت کو فرض قرار دیتے ہیں، جب کہ جمہور اہل علم اس کو سنت موکدہ قرار دیتے ہوئے مذکورہ روایات کی مختلف توجیہات بیان کرتے ہیں، مثلاً یہ کہ ممکن ہے یہ تشدید پہلے دور کی ہو جو بعد میں منسوخ ہو گئی ہو یا یہ کہ یہ اسلوب محض تاکید وترغیب کے لیے استعمال کیا گیا ہو، اور اس کا مقصد فقہی وجوب کا بیان کرنا نہ ہو۔ غامدی صاحب ان احادیث کی تشریح بھی قانون اتمام حجت کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ان کی راے میں اس کا پس منظر یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد جب منافقین کو، جو بظاہر مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے، ان سے الگ کر دینے کا فیصلہ کیا گیا تو اس امتیاز کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ مسلمان ہر حال میں مسجد کی باجماعت نماز میں شریک ہوں تاکہ اس حکم کی پابندی نہ کر سکنے والے منافقین کو ان کے عمل کی شہادت پر مخلص اہل ایمان سے ممتاز کیا جاسکے۔ غامدی صاحب کے نزدیک باجماعت نماز میں شرکت کے حوالے سے تشدید کا تعلق اسی مخصوص صورت حال سے تھا، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکم کی یہ صورت باقی نہیں رہی، البتہ یہ بہرحال ایک بڑی فضیلت کی چیز ہے جس سے کسی مسلمان کو بغیر عذر کے محروم نہیں رہنا چاہیے (میزان ۳۱۸)۔

قرآن سے متعارض روایات

جب اخبار آحاد مستقل بالذات دین کو بیان نہیں کرتیں اور ان میں وارد ہونے والے احکام کا قرآن، سنت یا عقل عام میں کسی اصل سے متعلق ہونا ضروری ہے تو ایک بدیہی نتیجے کے طور پر ان میں سے کسی بھی اصول سے ٹکرانے والی اخبار آحاد قبول نہیں کی جا سکتیں۔ غامدی صاحب کا یہ اصول بھی کوئی نئی دریافت نہیں ہے، بلکہ علمی وفقہی روایت میں پہلے سے تسلیم شدہ ایک اصول کا اظہار ہے، البتہ اس کے انطباق میں جہاں انھوں نے بعض روایتی آرا سے اتفاق اور بعض سے اختلاف کیا ہے، وہاں کچھ نئے انطباقات بھی کیے ہیں اور متعدد ایسی روایات کو رد کر دیا ہے جنھیں جمہور اہل علم قبول کرتے ہیں۔

جن اہم روایات کی تنقید میں غامدی صاحب نے اس اصول کو برتا  ہے، وہ درج ذیل ہیں:

۱۔ قرآن کے معارض ہونے کی بنا پر روایت کو رد کرنے کے حوالے سے سلف کی بعض آرا سے اتفاق کی ایک مثال فاطمہ بنت قیس کی روایت ہے۔ غامدی صاحب قرآن مجید سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ مطلقہ کو دوران عدت میں رہایش اور نان ونفقہ مہیا کرنے کی ذمہ داری شوہر پر تیسری طلاق کے بعد بھی عائد ہوتی ہے، کیونکہ عدت کی پابندی عورت اسی کے حمل کی تعیین اور حفاظت کے لیے قبول کرتی ہے۔ غامدی صاحب ا س کے لیے بطور خاص قرآن مجید کی اس تعبیر کا حوالہ دیتے ہیں کہ ’فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا‘ (الاحزاب  ۳۳: ۴۹) جس سے واضح ہوتا ہے کہ حمل کا امکان ہونے کی صورت میں عدت گزارنا دراصل شوہر کا حق ہے جو بیوی پر واجب ہوتا ہے۔ جب بیوی اس عرصے میں شوہر کے حق کے لیے محبوس ہے تو پھر شوہر سے ’’بیوی کو رہنے کی جگہ اور نان ونفقہ فراہم کرنے کی ذمہ داری کسی حال میں بھی ختم نہیں کی جا سکتی ‘‘ (میزان ۴۵۸)۔ اس نکتے کی روشنی میں غامدی صاحب نے فاطمہ بنت قیس کی روایت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے جس میں وہ بتاتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بتایا کہ تیسری طلاق کے بعد وہ دوران عدت میں شوہر کی طرف سے رہایش یا نان و نفقہ کی حق دار نہیں ہیں۔ غامدی صاحب نے اس روایت پر نقد کے ضمن میں سیدنا عمر اور سیدہ عائشہ کے آثار کا حوالہ دیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’یہ اس روایت کی حقیقت ہے، لہٰذا کسی شخص کو اب بھی اسے قابل اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے‘‘ (میزان ۴۵۹)۔

۲۔ متعدد احادیث میں قیامت کے قریبی زمانے میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے دنیا میں دوبارہ تشریف لانے اور دجال کو قتل کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ محدثین کے معیار کے مطابق یہ روایات مستند اور قابل اعتماد ہیں، اور اسے عموماً اعتقادی امور میں شمار کیا جاتا ہے جن پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔

غامدی صاحب کی راے میں یہ روایات قرآن مجید کے خلاف ہیں اور وہ اس ضمن میں تین پہلوؤں کا حوالہ دیتے ہیں: پہلا یہ کہ سیدنا مسیح کی شخصیت اور سیرت کو قرآن مجید نے متعدد پہلوؤں سے موضوع بحث بنایا ہے، لیکن ان کے دنیا میں دوبارہ آنے کا کہیں ذکر نہیں کیا، جب کہ ’’ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہو جانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے‘‘ (میزان ۱۸۲) جس سے قرآن کا خاموشی اختیار کرنا کسی بھی طرح قابل فہم ہو۔ دوسرا یہ کہ سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن مسیح علیہ السلام کے ساتھ اپنے ایک مکالمے کا ذکر کیا ہے جس میں ان سے یہ سوال پوچھا جائے گا کہ کیا انھوں نے اپنے پیروکاروں کو یہ تلقین کی کہ وہ انھیں خدا مانیں۔ اس کے جواب میں مسیح علیہ السلام عرض کریں گے کہ یا اللہ، جب تک میں ان کے اندر رہا، میں نے انھیں توحید ہی کی دعوت دی، لیکن جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو پھر توہی ان پر نگران رہا، یعنی میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ غامدی صاحب کا استدلال یہ ہے کہ ’’مسیح علیہ السلام اگر ایک مرتبہ پھر دنیا میں آ چکے ہیں تو یہ آخری جملہ کسی طرح موزوں نہیں ہے۔ اس کے بعد تو انھیں کہنا چاہیے کہ میں ان کی گم راہی کو اچھی طرح جانتا ہوں اور ابھی کچھ دیر پہلے انھیں اس پر متنبہ کر کے آیا ہوں‘‘ (میزان ۱۸۲)۔ تیسرا یہ کہ سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں قیامت تک کا لائحۂ عمل بیان فرمایا ہے، لیکن یہاں بھی ان کی آمد ثانی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ ’’سیدنا مسیح کو آنا ہے تو یہ خاموشی کیوں ہے؟ اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی‘‘ (میزان ۱۸۳)۔

نزول مسیح کی روایات پر ابتدائی صدیوں میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا ختم ہو جانا اور اس کے بعد کسی نبی کا دوبارہ دنیا میں آنا، یہ دو متضاد باتیں ہیں، چنانچہ امام ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ’’تاویل مختلف الحدیث‘‘ میں اس اعتراض کا ذکر کر کے اس کا جواب دیا ہے (تاویل مختلف الحدیث  ۳۵۷- ۳۶۰، دار ابن القیم، الریاض، الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۳۰ھ)۔ دور جدید میں بھی کئی اہل علم کے ہاں ان روایات کے استناد پر سوال اٹھانے کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ محمود شلتوت، علامہ موسیٰ جار اللہ، علامہ محمد اقبال، تمنا عمادی اور ایک روایت کے مطابق مولانا عبید اللہ سندھی وغیرہ مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کو ایک غیر اسلامی تصور قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب اسی دوسرے نقطۂ نظر سے اتفاق رکھتے ہیں، البتہ اس حوالے سے ان کا استدلال مذکورہ حضرات کے مقابلے میں زیادہ متعین اور واضح ہے۔

۳۔ روایات میں سیدنا ابوبکر اور پھر سیدنا عثمان کے زمانے میں قرآن مجید کی جمع وتدوین کے جو واقعات نقل ہوئے ہیں، ان سے بظاہر یہ مترشح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی قرآن مجید کے حتمی متن کی تعیین کا مسئلہ حل طلب تھا جسے ان دونوں خلفا کے زمانے میں طے کرنے کی کوشش کی گئی اور صحابہ کے پاس موجود تحریری ریکارڈ اور گواہیوں کی روشنی میں قرآن کا ایک مستند متن تیار کیا گیا۔ غامدی صاحب ان روایات کو قرآن مجید اور عقل عام کے خلاف قرار دیتے ہیں (میزان ۳۱)۔ اس ضمن میں ان کا استدلال سورۂ اعلیٰ اور سورۂ قیامہ کی انھی آیات سے ہے جن کا ذکر اوپر اختلافات قراء ت کی بحث میں کیا گیا۔ ان آیات میں قرآن مجید کے نزول اور جمع وترتیب سے متعلق ایک پوری اسکیم خود واضح کی ہے جس کی رو سے قرآن کے متن کی جمع و ترتیب نیز تفہیم و تبیین کے تمام مراحل کا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مکمل ہونا ضروری تھا۔ روایات کے مطابق جبریل علیہ السلام نے آپ کی زندگی کے آخری رمضان میں دو مرتبہ آپ کو قرآن پڑھ کر سنایا جسے ’’عرضۂ اخیرہ کی قراء ت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی قرآن کا آخری اور حتمی متن تھا جس کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قراء صحابہ کو دی اور آپ کی وفات کے بعد ازسرنو قرآن کے متن کی تحقیق اور جمع وترتیب کی کوئی ضرورت نہیں تھی (میزان ۲۸، ۳۱)۔

غامدی صاحب سے پہلے قریبی دور میں مذکورہ روایات پر اسی نوعیت کی تنقید علامہ تمنا عمادی، عبد اللطیف رحمانی اور مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی نے بھی کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ عہد نبوی میں قرآن کا ایک باقاعدہ مرتب نسخہ بھی تیار کیا گیا تھا جس کے ہوتے ہوئے قرآن کی جمع وتدوین کی کسی نئی کوشش کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ غامدی صاحب کے نقطۂ نظر میں کسی باقاعدہ مرتب نسخے پر تو اصرار نہیں کیا گیا، تاہم ان روایات میں متن کی تعیین اور تحقیق کے حوالے سے جو تفصیلات مذکورہیں، غامدی صاحب انھیں قرآن مجید کی اپنی تصریحات کے منافی تصور کرتے ہیں۔

حاصل بحث

غامد ی صاحب نے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث کو ایک نئے انداز سے موضوع بنایا اور اصولی فکر میں ایک اہم زاویۂ نگاہ کا اضافہ کیا ہے۔ اصول فقہ کی روایت میں اس حوالے سے اپنی امتیازی خصوصیات رکھنے والے جو مختلف فریم ورک پائے جاتے ہیں، ان کی نمایندگی ہمیں امام شافعی، حنفی اصولیین، ابن حزم اور شاطبی کے ہاں ملتی ہے۔ غامدی صاحب کا فریم ورک کسی نہ کسی پہلو سے ان سب مواقف کو  چھوتا ہے اور انھوں نے ان سب سے مختلف اجزا لے کر اور بعض اہم اور بنیادی نوعیت کے اضافے شامل کر کے بحث کو کافی حد تک نئی اساسات پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔

مثال کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابن حزم کے فریم ورک کے ساتھ غامدی صاحب کے فریم ورک کی نسبت کلی تضاد اور ایک طرح کے جوابی موقف (counter-narrative) کی ہے، کیونکہ ابن حزم نصوص میں کسی بھی نوعیت کی درجہ بندی اور اصل وفرع کا تعلق متعین کرنے کے قائل نہیں ہیں، جب کہ غامدی صاحب کے فریم ورک میں یہ تقسیم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

مآخذ دین کی درجہ بندی میں قطعیت اور ظنیت کے سوال کو بنیادی اہمیت دینے میں غامدی صاحب کا اصولی موقف شاطبی سے بہت قریب ہے، اگرچہ اس کی عملی شکل اور تفصیلات کافی مختلف ہیں۔ شاطبی قطعیت کے سوال کو بنیادی طور پر نصوص کی مجموعی اور استقرائی دلالت کے حوالے سے دیکھتے ہیں، جب کہ غامدی صاحب کے ہاں اس تقسیم کی بنیاد مآخذ کے تاریخی استناد کی نوعیت، یعنی تواتر یا عدم تواتر پر ہے۔ سنت کے حوالے سے دونوں کے مابین ایک اور اہم اختلاف یہ ہے کہ شاطبی ، سنت کو ثبوت کے اعتبار سے بہ حیثیت مجموعی ظنی قرار دیتے ہیں، جب کہ غامدی صاحب سنت کو ظنی الثبوت اخبار آحاد سے ممتاز کرتے ہوئے اسے قرآن ہی کی طرح ایک قطعی الثبوت اور متواتر ماخذ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح شاطبی قرآن کو پورے دین کا اصل الاصول، جب کہ سنت کو علی الاطلاق قرآن کی فرع تصور کرتے ہیں، جب کہ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کی فرع کے طور پر اس کے ساتھ دراصل اخبار آحاد متعلق ہوتی ہیں، جب کہ سنت، قرآن کی فرع نہیں، بلکہ ایک مستقل بالذا ت ماخذ ہے جو قرآن سے زمانی طور پر مقدم ہے۔ اس نکتے کی روشنی میں وہ قرآن کے ان احکام میں جن کی ابتدا اصلاً قرآن سے ہوئی ہے اور ان احکام میں جن کی ابتدا سنت نے کی ہے، جب کہ قرآن نے ان کا ذکر ایک معہود اور معلوم چیز کے طور پر کیا ہے، امتیاز ملحوظ رکھنے کا اہم نکتہ بحث میں شامل کرتے ہیں۔

احادیث کو قرآن میں ان کی اصل سے متعلق کرنے کے حوالے سے بھی غامدی صاحب کے منہج میں ایک انفرادیت پائی جاتی ہے۔ وہ ظنی الثبوت اخبار آحاد کو کسی اصل قطعی کے ساتھ متعلق کرنے میں تو شاطبی سے اتفاق رکھتے ہیں اور خبر واحد کو مستقل بالذات حکم کا ماخذ تسلیم نہیں کرتے، تاہم اس تعلق کی تعیین میں ان کا منہج شاطبی سے مختلف ہے۔ شاطبی یہ تعلق شریعت کے اصول کلیہ اور مقاصد کی روشنی میں متعین کرتے ہیں، جب کہ غامدی صاحب کے نقطۂ نظر میں اسے انفرادی نصوص کی دلالت اور ان کے لفظی ومعنوی اشارات کے تناظر میں دیکھنے کا رجحان غالب ہے۔ یوں ان کا فریم ورک حنفی وشافعی اصولیین کے فریم ورک سے کافی حد تک ہم آہنگ ہے اور انھوں نے دلالت عموم کے حوالے سے بنیادی طور پر امام شافعی کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی ہے جو امام شافعی کے ہاں پایا جاتا ہے۔

اس بحث میں حنفی اصولیین کے ساتھ غامدی صاحب کا اتفاق بس اس حد تک ہے کہ احادیث کو، قرآن کی دلالت کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے، کسی بھی طریقے سے قرآن سے متعلق کر دینے کو ’تبیین‘ نہیں کہا جا سکتا اور یہ کہ تخصیص کی بنیاد اگر قرآن میں موجود نہ ہو تو اسے نسخ ہی تصور کیا جائے گا۔ غامدی صاحب اصول کی حد تک اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، تاہم ان کی راے میں عملاً ایسی کوئی صحیح حدیث موجود نہیں جو قرآن کے حکم میں تخصیص یا زیادت کرتی ہو اور اس کی بنیاد قرآن میں نہ بتائی جا سکے۔ یوں نتیجے کے اعتبار سے امام شافعی ہی کا موقف درست قرار پاتا ہے کہ حدیث، صرف قرآن کی مراد کو واضح کرتی ہے، اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کرتی۔

بحث میں ایک بہت بنیادی اور اہم گوشے کا اضافہ غامدی صاحب نے قرآن کی روشنی میں احادیث کی تفہیم و توجیہ اور تحدید وتخصیص کے اصول کی صورت میں کیا ہے اور اس کے تحت کئی اہم موضوعات سے متعلق احادیث کی تعبیر وتشریح ان کے ظاہری عموم کے تحت کرنے کے بجاے ان کا ایک مخصوص دائرۂ اطلاق متعین کیا ہے جو ان کی راے میں قرآن مجید میں اس اصل حکم سے واضح ہوتا ہے جس پر یہ احادیث متفرع ہوئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں  جنگی قیدیوں کو غلام بنانے، رجم، ربا الفضل، ارتداد پر سزاے موت اور بعض دیگر اہم مسائل سے متعلق احادیث کی تاویل وتوجیہ میں ان کا نقطۂ نظر جمہور فقہا سے بہت مختلف ہو جاتا ہے۔

قرآن سے متعارض اخبار آحاد کو قبول نہ کرنے کے ضمن میں غامدی صاحب نے اصولاً کوئی نیا موقف پیش نہیں کیا، البتہ بعض اہم روایات پر اس کے انطباق میں ان کی راے جمہور اہل علم سے مختلف ہے اور انھوں نے، مثال کے طور پر نزول مسیح، جمع قرآن اور اختلاف قراء ت وغیرہ سے متعلق روایات کو قرآن مجید کے بیانات سے متصادم ہونے کی بنا پر قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔

غامدی صاحب کے اس پورے فریم ورک کے کئی پہلوؤں پر علمی نقد کیا گیا ہے اور مزید کئی پہلو بھی اس حوالے سے زیر بحث لائے جا سکتے ہیں۔ تاہم یہاں یہ ہمارا موضوع نہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان کے نقطۂ نظر اور استدلال کو روایتی اصولی فکر میں چلے آنے والے سوالات اور مباحث کے تناظر میں سمجھا جائے اور اتفاقات و اختلافات کے اہم جوانب کی طرف اہل علم کو متوجہ کر دیا جائے تاکہ غامدی صاحب کے نتائج تحقیق پر غور وفکر یا نقد وانتقاد کا سلسلہ درست تناظر میں اور مستند علمی بنیادوں پر آگے بڑھ سکے۔


جسمانی ساخت میں تبدیلی ۔ قرآن وحدیث اور اقوالِ فقہاء کی روشنی میں (۱)

مولانا محمد اشفاق

انسانی جسم میں بعض تصرفات خصوصاً عورتوں سے متعلقہ چند افعال   سے احادیث ِ مبارکہ میں سختی  سے منع کیا گیا ہے ،اور ان پر لعنت بھی کی گئی ہے ؛جیسے بالوں میں دوسرے بال ( وصل  کرنا یا کروانا)لگوانا،جسم کو گودنا یا گدوانا( وشم)، ابرؤوں کو باریک کروانا( نمص) دانتوں کے درمیان فاصلہ کروانا( تفلیج) ۔  انھی میں جدید دور کے بعض جمالیاتی تصرفات کو بھی شامل کیا جاتاہے ،جیسے  چہرے کی جھریوں کو ختم کرنے کےلیے یا اس طرح کے دوسرے مقاصد کےلیے سرجری کروانا وغیرہ ۔اس طرح کے افعال سے ممانعت کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس میں اللہ کی بنائی ہوئی جسمانی ساخت میں تبدیلی ہے جسے " تغییر خلق اللہ " کہا جاتاہے ۔ حدیث کے بعض الفاظ سے  بھی اس علت کاپتا چلتاہے ،اس لیے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ قرآن و سنت میں تغییر خلق اللہ کو کس نظر سے دیکھا گیا ہے ۔ اگر تغییر خلق اللہ سے ممانعت ہے تو کیا وہ عمومی اور مطلق ہے ۔ اور کیا بذاتِ خود تغییر خلق اللہ سے منع کرنا مقصود ہے یا یہ حکم معلول بالعلۃ ہے ، یعنی اصل مقصود کسی اور برائی سے منع کرنا ہے جو تغییر خلق اللہ میں بھی پائی جا سکتی ہے  ؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم  بن جاتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی ایسا معاملہ ہے  جس کی بعض صورتیں تو بالکلیہ ناجائز ہیں، لیکن کچھ صورتیں ایسی بھی ہیں کہ جہاں تبدیلی کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ وہاں شریعت کا مطالبہ ہے کہ تبدیلی کی جائے ،اور شریعت اس تبدیلی کرنے پر بھی اجرو ثواب کامستحق بناتی ہے جیسا کہ ہم آگے چل کر ذکر کریں گے ۔ بہرحال سوال یہ پیدا  ہوتاہے کہ مذکورہ بالا جسمانی تصرفات  سے ممانعت کی علت اور وجہ کیا ہے  اور جہاں علت اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی کو قرار دیا گیا ہے، تو خود اس علت کے پیچھے کیا اصول کار فرما ہے اور اگر ان میں اجازت ہے تو کیا مطلقاً اجازت ہے یا اس میں کوئی قیود و شروط ہیں ؟ آنے والے صفحات میں اسی سوال کو قرآن و سنت اور اقوالِ فقہاء کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔

اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی کی مختلف صورتیں

اس سے پہلے کہ ہم سوال سے متعلق بحث کی طرف آئیں ، مناسب معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی کی جائز و ناجائز ہونے کے اعتبار سے  جو ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں ان کو ذکر کر دیاجا  ئے۔ 

کسی چیز میں ایسے طور پر  تبدیلی کی جائے کہ  تخلیق کے مقاصد میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہ ہو بلکہ وہ عضو یا جسم کا وہ خاص حصہ اسی طرح باقی رہے   جیسے پہلے تھا محض اس میں اتنی تبدیلی کرنا کہ جس سے اس میں مزید خوب صورتی آجائے جیسے سرجری کے ذریعے سے جسم کے کسی حصہ کو سخت کروانا وغیرہ وغیرہ ، اس قسم کا شریعت میں کیا حکم ہے۔اس کا جواب آئندہ صفحات میں آئے گا ۔

دوسری صورت کہ  جہاں شریعت  کا مطالبہ یہ ہے کہ اللہ کی خلقت میں تبدیلی  واقع کی جائے اور شریعت  نے  اس تبدیلی کو مستحسن و مستحب قرار دیا ہے گویا یہ تبدیلی شریعت  میں مطلوب ہے ، جیسے ختنہ کرنا،  ناخن  تراشنا، مونچھیں کاٹنا ، وغیرہ 1۔ اب یہاں شریعت ہم سے خود مطالبہ کرتی ہے کہ  یہاں تغییر کی جائے ۔

ایک اور صورت بھی ہے کہ جہاں شریعت نے اس کام کے لیے کوئی حدود وقیود مقرر نہیں  کی ہیں  بلکہ اس کو انسان پر چھوڑ دیا ہے  کہ  اس چیز کے استعمال کو اپنے لیے جیسے مناسب سمجھے ویسا ہی کرے ۔ یعنی یہاں تغییر کو انسانی منفعت کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے کہ اگر اس  تبدیلی سےکسی نفع کا حصول ممکن ہے تو تبدیلی کرنے کی گنجائش ہے   جیسے:درختوں کی پیوندکاری اور گدھے اور گھوڑی کے ملاپ سے خچر پیدا کرنا  وغیرہ ۔ یہاں بھی بظاہر جنس کی تبدیلی ہو رہی ہے جو کہ ’’خلق اللہ‘‘ یعنی قدرتی ساخت میں تبدیلی ہے، لیکن شریعت نے اس پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں لگائی ،بلکہ  رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ کہا گیاکہ یہ تمہارے دنیا کے معاملات ہیں اس میں تم جو مناسب سمجھو ویسا کرو۔اسی طرح علاج بالکی  ّ(داغ دینا) جو کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں علاج کا ایک ذریعہ تھا کہ لوہا  یا کوئی دھات وغیرہ گرم کر کے جسم پر داغا  کر تے تھے اس سے رسول اللہ ﷺ سے منع نہیں کیا ، چہرہ کے علاوہ کے لیے اسے بھی جائز قرار دیا 2۔

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جسمانی ساخت میں ہر تبدیلی ممنوع نہیں ہے ، اس لیے یہ اور زیادہ ضروری ہو جاتاہے کہ تغییر خلق اللہ سے ممانعت کے تصور کو گہرائی میں جا کر سمجھا جائے ۔ اس سے نہ صرف حدیث میں ذکر کردہ افعال کی تفصیلات کو جاننا آسان ہوجائے گا بلکہ دورِ جدید میں  تجمیلی جراحات ( cosmetic surgeries) کا حکم ِ شرعی جاننا بھی آسان ہوجائے گا ۔

آنے والے صفحات میں ترتیب یہ ہوگی ، سب سے پہلے قرآن میں تغییر خلق اللہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ پھر احادیث ِ مبارکہ میں ، اس کے بعد اقوالِ فقہاء کی روشنی  میں جائزہ لیا جائے گا ۔

تبدیلیٔ تخلیق سے متعلق آیتِ کریمہ کی وضاحت

بادی النظر میں اس بحث سے جس آیت کا تعلق بنتاہے وہ ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے :   

وَلَأُضِلَّنَّھُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَآمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّہِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا 3

(اور میں انہیں راہ راست سے بھٹکا کر رہوں گا اور انہیں خوب آرزوئیں دلاؤں گااور انہیں حکم دوں گا تو وہ چوپایوں کے کان چیر ڈالیں گے اور انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کریں گے )  4

اس آیت کریمہ کو مذکورہ افعال   کے عدم ِ جواز پر بطورِ دلیل کے پیش کیا جاتاہے ،اس لیے ضروری معلوم ہوتاہے کہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد "فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّہ"سے متعلق سلف سے جو اقوال مروی ہیں ان کا ذکر کیا جائے، چنانچہ سلف سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق چار اقوال ملتے ہیں ۔

پہلا قول

 اس آیت میں تغییر سے’’ اللہ کے دین میں تبدیلی ‘‘مرادہے ۔ یہ قول ابن عباس  ، ابراہیم نخعی، مجاہد،حکم ، سدی، ضحاک، عطاء الخراسانی  اورقتادہ  (سے  دوسری روایت کے مطابق   )سے مروی ہے 5۔  اس قول کی وضاحت یہ ہے کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے دین میں دو طرح سے تبدیلی کرتے تھے ، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حلال کردہ امور و اشیاء کو حرام قرار دیتے تھے ، اور اللہ تعالیٰ کے حرام کیے ہوئے امور و اشیاء کو حلا ل گردانتے تھے ، دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ  نے ہر ایک کو فطرتِ اسلام پر پیدا کیا ہے  ، بعد میں اس کے والدین اس کو ادیانِ باطلہ کی طرف مائل کردیتے ہیں  ۔یعنی اللہ نے فطرتاً انسان کو جس دین پر پیدا کیاہے اس سے ہٹانا اللہ کی تخلیق میں تبدیلی اور فطرت کو مسخ کرناہے ۔ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے  امام رازی  کہتے ہیں  کہ اس قول کی دو طرح سے تشریح کی جاسکتی ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو فطرتِ اسلام پر پیدا کیا  کیوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے عہدِالست لینے کا ارادہ فرمایا تو اس  وقت حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی تمام اولاد کو ذروں کی شکل میں نکالا اور ان  سےاس بات کی  گواہی لی کہ وہ ان کا رب ہے ، سب  نے اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کی گواہی دی  ،  اس کے بعد جس نے کفر کیا اُ س نے  اُس فطرت کو تبدیل کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا تھا ۔اور رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ مبارک سے بھی اس بات کی تائید ہوتی  ہے ۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ہر پیداہونے والا بچہ فطرت(اسلام) پر پیدا کیا جاتاہے پس اس کے والدین اس کو یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی بنا دیتے ہیں 6 ۔

اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور و اشیاء کو حلال سمجھے اور اللہ تعالیٰ کے حلال کردہ امور و اشیاء کو حرام خیال کرے  ، جس نے ایسا کیا گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کی7۔

دوسرا قول

تغییر سے مراد’’ جانوروں کا خصی کرناہے‘‘ یہ قول ابن عباس،انس بن مالک 8، سعید  بن المسیب ، عکرمہ9 ( ایک قول کے مطابق)اور سفیان ثوری سے مروی ہے ( یہ الگ بحث ہے کہ   آیا جانوروں کا خصی کرناجائز ہے یا نہیں )

تیسرا قول

تغییر سے  ’’وشم ‘‘( جسم کا گدوانا) مراد ہے ۔ حسن بصریؒ سے اور بقول امام بغویؒ عکرمہ سمیت متعدد مفسرین کا یہی قول ہے10۔علامہ  قرطبی  لکھتے ہیں کہ ابن مسعود ؓ اور حسن بصری کے نزدیک اس آیت  میں تغییر سے مراد ہر وہ عمل ہے جو خوب صورتی کے لیے کیا جائے چنانچہ لکھتے ہیں :

 وقالت طائفۃ: الإشارۃ بالتغيير إلي الوشم وما جری مجراہ من التصنع للحسن، قال ابن مسعود والحسن. ومن ذلك الحديث الصحيح عن عبد اللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: لعن اللہ الواشمات والمستوشمات والنامصات والمتنمصات والمتفلجات للحسن، المغيرات خلق اللہ الحديث. أخرجہ مسلم،۔11

اور ایک گروہ کہتاہے : تغییر سے وشم( جسم گودنے،گدوانے) کی طرف اشارہ ہے اور جو   بھی کام اس سے ملتا جلتاہو ( وہ بھی اس ممانعت میں داخل ہوگا ) ،خوبصورتی کےلیے کیا جائے ۔ ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور حسن کہتے ہیں یہ حدیث بھی اسی سے متعلق ہے چنانچہ عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے :  اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے جسم گودنے والی اور گدوانے والی عورتوں پر ، اورپیشانی کے بال اکھاڑنے والی اور اکھڑوانے والی عورتوں پر ،اور دانتوں کے درمیان خوبصورتی کےلیے فاصلہ کروانے والی عورتوں پر جو اللہ تعالیٰ کی خلقت کو تبدیل کرنے والی ہیں ۔

چوتھا قول

 زجاج کہتے ہیں : یہ آیت اپنے عموم پر نہیں بلکہ ایک خاص تناظر میں نازل ہوئی ہے۔  وہ یہ کہ مشرکین کی عادت تھی کہ اپنے پالتو جانوروں میں سے خاص قسم کے جانوروں کو بتوں کے نام وقف کر دیتے اور ان سے حاصل شدہ گوشت اور دودھ کو اپنے اوپر حرام خیال کرتے تھے۔ حالانکہ جانوروں کے پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے دودھ اور گوشت سے منفعت حاصل کی جائے، لیکن مشرکین چونکہ اس مقصدِ تخلیق  کو نظرانداز کر رہے تھے اور مقصدِ تخلیق کو نظرانداز کرنا اللہ تعالیٰ کی  تخلیق  میں تبدیلی ہے ۔اسی پر اللہ تعالیٰ ان کو تنبیہ کر رہے ہیں ۔زجاج مزید کہتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورج،چانداور ستاروں کو تخلیق کیا تاکہ ان کے ذریعے سے وقت کی تعیین اور ان کی روشنی سے فائدہ اٹھا کر معاش وغیرہ کا بندوبست کیا جائے ۔لیکن لوگوں نے یہ کیا کہ ان کو اپنا معبود بنالیا اور ان کی عبادت شروع کر دی اور ان کو اپنےمحل کے علاوہ میں استعمال کیاجانے لگا ۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس چیز سے منع فرما رہے ہیں کہ یہ  اللہ کی خلقت میں تبدیلی ہے۔ 12

مندرجہ بالا اقوال کا عمومی جائزہ

مندرجہ بالا اقوال میں سب سے معقول اور قرآن کریم کے اس سلسلۂ آیات کے سیاق سے جو قول زیادہ مطابقت رکھتاہ ہوا نظر آتا ہے وہ پہلا قول ہے چنانچہ پورا سلسہ ٔ آیات یہ ہے :

إِنَّ اللَّہ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِہ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّہ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا۔  إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِہ إِلَّا إِنَاثًا وَإِنْ يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَرِيدًا ۔ لَعَنَہُ اللَّہ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا ۔ وَلَأُضِلَّنَّھُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَآمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّہ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّہ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا۔ 13

بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشتا کہ  اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے ، اور اس سے کمتر ہر گناہ  کی  جس کےلیے چاہتاہے بخشش کردیتاہے۔اور  جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتاہے وہ راہ راست سے بھٹک کر بہت دور جا گرتاہے ۔ اللہ کو چھوڑ کر جن سے یہ دعائیں مانگ رہے ہیں وہ صرف چند زنانیاں ہیں ،اور جس کو یہ پکار رہے ہیں وہ اس سرکش شیطان کے سوا کوئی نہیں ، جس پراللہ نے پھٹکار ڈال رکھی ہے ۔ اور اس نے (اللہ سے) یہ کہہ رکھاہے کہ" میں  تیرے بندوں سے ایک طے شدہ حصہ لے کر رہوں گا ، اور میں انہیں راہِ راست سے بھٹکا کر رہوں گا ،اور انہیں خوب آرزوئیں دلاؤں گا،اور انہیں حکم  دوں گا تو وہ چوپایوں کے کان چیر ڈالیں گے ،اور انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کریں گے " اور جو شخص اللہ کے بجائے شیطان کو دوست بنائے ، اس نے کھلے خسارے کا سودا کیا۔ 14

ان آیات کے  پورے سیاق کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہاں اصل موضوعِ بحث مشرکین کی فروعی اور عملی کوتاہی بیان کرنا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان آیات میں شرک  اور شرک سے جڑے افعال کی مذمت فرمارہے ہیں چنانچہ ا س سلسلۂ آیات میں یہ بات بہت بعید ہے  کہ مشرکین کی  ایک جزوی اور فروعی کوتاہی ( جسم کو گدوانا، بالوں میں دوسرے بال لگواناوغیرہ ) کو ذکر کریں ۔  لہذا سیاق سے یہ بات مطابقت رکھتی ہے کہ تبدیلیٔ خلقت سے مراد انسانی فطرت مسخ کرکے دین کو بدلنا ہے15 ۔ (اگر یہ مان لیا جائے کہ یہاں چند جزوی افعال کی مذمت مقصود ہے تو  اًس دور کے اعتبار سے شرکیہ تصورات کے ساتھ ان افعال کا ربط وتعلق بھی ڈھونڈنا پڑے گا) اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کا ذکر سورہ روم میں بھی ہے ، وہاں سیاق میں توحید و شرک کا بیان ہے ۔ سورہ ٔ روم کا انداز ِ تعبیر واضح ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی سے مراد فطرت  کو مسخ کرنا اور قبول ِ حق کی فطری استعداد کو ضائع کرنا ہے ۔ سورۂ روم کی متعلقہ آیات یہ ہیں :

ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ ھَلْ لَكُمْ مِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنْتُمْ فِيہ سَوَاءٌ تَخَافُونَھُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ، بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَھْوَاءَھِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَمَنْ يَھْدِي مَنْ أَضَلَّ اللَّہ وَمَا لَھُمْ مِنْ نَاصِرِينَ ،فَأَقِمْ وَجْھَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّہ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْھَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّہ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ، مُنِيبِينَ إِلَيْہ وَاتَّقُوہُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاۃَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ16

اللہ تعالیٰ (شرک کو مذموم و باطل ثابت کرنے کےلیے17 )   تمہارے اندر سے ایک مثال دیتاہے ۔ ہم نے جو رزق تمہیں دیاہے ، کیا تمہارے غلاموں میں سے کوئی اس میں تمہارا شریک ہے کہ اس رزق میں تمہارا درجہ ان کے برابر ہو ( اور ) تم ان غلاموں سے ویسے ہی ڈرتے ہو جیسے آپس میں ایک دوسرے ڈرتے ہو ؟ہم اسی طرح ان لوگوں کےلیے دلائل کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ، جو عقل سے کام لیں ۔ لیکن ظالم لوگ کسی علم کے بغیر اپنی خواہشات کے پیچھے چل پڑے ہیں ۔ اب اس شخص کو کون ہدایت دے سکتاہے جسے اللہ نے گمراہ کر دیاہو ، اور ایسے لوگوں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ لہذا تم یک سو ہو کر اپنا رخ دین کی طرف قائم رکھو ۔ اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت پر چلو جس پر اس نے تمام  لوگوں کو پیدا کیا ہے ۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی ، یہی بالکل سیدھا راستہ ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔(فطرت کی پیروی) اس طرح (کرو)کہ تم نے اسی (اللہ ) سے لو لگا رکھی ہو ، اور اس ڈرتے رہو ، اور نماز قائم کرو ، اور ان لوگوں  کے ساتھ شامل نہ ہو جو شرک کا ارتکاب کرتے ہیں،18

مفتی محمد شفیع آیت کریمہ "لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّہِ" یعنی اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی سے متعلق  ایک قول نقل کرتے ہیں :

دوسرا قول یہ ہے کہ فطرت سے مراد استعداد ہے ، یعنی تخلیق ِانسانی میں اللہ تعالیٰ نے خاصیت رکھی ہے کہ ہر انسان میں اپنے خالق کو پہچاننے اور اس کو ماننے کی صلاحیت و استعداد موجود ہے ، جس کا اثر اسلام قبول کرنا ہوتاہے ، بشرطیکہ اس استعداد سے کام لے ۔ 19

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی اس فطری استعداد کو ضائع کرنے کے مترادف ہےجو اللہ تعالیٰ نے پیدائش سے قبل ودیعت کی تھی ۔گویا قرآن کریم کے ان دونوں مقامات پر فطرت کے مسخ  کرنے اور اسلام کے مقابلے میں کفرو شرک اختیار کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔مندرجہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ سورۂ نساء کی اس زیرِ بحث آیت کی تفسیر میں پہلا قول سیاق کے سب سے زیادہ قریب ہے۔

 اس کے بعد جو قول بظاہر  اس آیت کے سیاق سے قریب  تر معلوم ہوتاہے وہ زجاج کا ہے ۔ کیوں کہ اِ ن آیات میں اللہ تعالیٰ شرک کی مذمت فرمارہے ہیں اور جہاں شرک کی مذمت ہو ،وہاں باطل معبودوں کا تذکرہ نہ ہو۔ یہ بات بہت بعید ہے ، اور زجاج کے قول کا بھی یہی  مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج ،چاند وغیرہ کو منفعت کے حصول کے لیے تخلیق فرمایا، لیکن مشرکین ان کے مقصدِ تخلیق  کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی عبادت کر رہے ہیں ۔

اوپر ذکر کیے گئے ان دو اقوال کے علاوہ باقی اقوال کا بادی النظر  میں اس آیت کے سیاق سے تعلق نہیں   ہے  ۔  اس لیے  انسانی جسم میں تبدیلی کرنے والے مسئلے سے آیت کا تعلق جوڑنا محل نظر ہے، إلا یہ کہ یہ ثابت ہوجائے کہ اُس دور میں ان افعال کا شعائرِ شرک سے کوئی تعلق تھا۔

تبدیلیٔ تخلیق سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے ارشادات

البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند ارشادات ایسے ہیں جو براہ ِ راست اس مسئلہ سے بحث کرتے ہیں ، ذیل میں ان کواحادیث کو  نقل کیا جارہاہے  ۔اس موضوع پر کل سات صحابہ کرام ؓ سے حدیث مروی ہے :

حدیث ابن مسعودؓ

    1. حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاھِيمَ، عَنْ عَلْقَمَۃَ، قَالَ عَبْدُ اللَّہِ: «لَعَنَ اللَّہُ الوَاشِمَاتِ وَالمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالمُتَنَمِّصَاتِ، وَالمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، المُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّہِ تَعَالَی» مَالِي لاَ أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ، وَھُوَ فِي كِتَابِ اللَّہِ: {وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ} [الحشر: 7]20

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے جسم گودنے والی اور گدوانے والی عورتوں پر ، اورپیشانی کے بال اکھاڑنے والی اور اکھڑوانے والی عورتوں پر ،اور دانتوں کے درمیان خوبصورتی کےلیے فاصلہ کروانے والی عورتوں پر جو اللہ تعالیٰ کی خلقت کو تبدیل کرنے والی ہیں ۔اور کہتے ہیں : کیوں نہ میں لعنت کروں اس شخص پر جس پر اللہ کے نبی نے لعنت کی ہے ،اور وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے " اور جو تمہیں رسول عطا کریں پس اس کو لے لو "۔

حدیث أبو ہریرۃؓ

    2. وَقَالَ ابْنُ أَبِي شَيْبَۃَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي ھُرَيْرَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَعَنَ اللَّہ الوَاصِلَۃَ وَالمُسْتَوْصِلَۃَ، وَالوَاشِمَۃَ وَالمُسْتَوْشِمَۃَ»21

حضرت ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ سے  روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ لعنت کرتے ہیں بالوں میں دوسرے بال ملانے والی پر اور ملانے کا مطالبہ کرنے والی پر ، اور جسم کو گودنے والی پر اور گدوانے والی پر

حدیثِ عائشہ ؓ

    3. حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ الحَسَنَ بْنَ مُسْلِمِ بْنِ يَنَّاقٍ، يُحَدِّثُ، عَنْ صَفِيَّۃَ بِنْتِ شَيْبَۃَ، عَنْ عَائِشَۃَ، رَضِيَ اللَّہُ عَنْھَا: أَنَّ جَارِيَۃً مِنَ الأَنْصَارِ تَزَوَّجَتْ، وَأَنَّھَا مَرِضَتْ فَتَمَعَّطَ شَعَرُھَا، فَأَرَادُوا أَنْ يَصِلُوھَا، فَسَأَلُوا النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَعَنَ اللَّہُ الوَاصِلَۃَ وَالمُسْتَوْصِلَۃَ» 22

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انصار کی ایک لڑکی نے شادی کی ، اس حال میں کہ وہ مریضہ تھی  پس اس کے  گر گئے تھے تو انصار نے چاہا کہ اس کے سر میں میں دوسرے بال لگوادیں ، پس انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے بال ملانے والی پر اور ملانے کا مطالبہ کرنے والی پر ۔

حدیثِ أسماء بنت أبی بکرؓ

    4. حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ امْرَأَتِہِ فَاطِمَۃَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: «لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ الوَاصِلَۃَ وَالمُسْتَوْصِلَۃَ»23

حضرت اسماء بنت ابی بکر   نے کہا: رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی ہے بالوں میں دوسرے بال ملانے والی پر اور ملانے کا مطالبہ کرنے والی پر ۔

حدیث ابن عمرؓ

    5. حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّہِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّہُ عَنْھُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَعَنَ اللَّہُ الوَاصِلَۃَ وَالمُسْتَوْصِلَۃَ، وَالوَاشِمَۃَ وَالمُسْتَوْشِمَۃَ24

حضرت ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ لعنت  کرتے ہیں  بالوں میں دوسرے بال ملانے والی پر اور ملانے کا مطالبہ کرنے والی پر ، اور جسم کو گودنے والی پر اور گدوانے والی پر ۔

حدیث معاویۃؓ

    6. حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ، سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ المُسَيِّبِ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَۃُ المَدِينَۃَ، آخِرَ قَدْمَۃٍ قَدِمَھَا، فَخَطَبَنَا فَأَخْرَجَ كُبَّۃً مِنْ شَعَرٍ، قَالَ: مَا كُنْتُ أَرَی أَحَدًا يَفْعَلُ ھَذَا غَيْرَ اليَھُودِ «إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ سَمَّاہُ الزُّورَ.25 يَعْنِي الوَاصِلَۃَ فِي الشَّعَرِ

سعید بن المسیب  کہتے ہیں ، حضرت معاویہ ؓ جب آخری بار مدینہ آئے ، پس انہوں نے ہمیں خطبہ دیا، پس انھوں نے بالوں کا ایک گچھا نکالا،کہا: میں نے یہود کے علاوہ کسی کو یہ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا ،بے شک رسول اللہ ﷺ نے اس کو دھوکا قرار دیاہے ، یعنی جو عورت بالوں میں دوسرے بال لگواتی ہے ۔

حدیث ابن عباسؓ

    7. - حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَھْبٍ، عَنْ أُسَامَۃَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاھِدِ بْنِ جَبْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «لُعِنَتِ الْوَاصِلَۃُ، وَالْمُسْتَوْصِلَۃُ، وَالنَّامِصَۃُ، وَالْمُتَنَمِّصَۃُ، وَالْوَاشِمَۃُ، وَالْمُسْتَوْشِمَۃُ، مِنْ غَيْرِ دَاءٍ26

ابن عباس ؓ سے مروی ہے، فرمایا: بالوں میں دوسرے بال ملانے والی  اور ملانے کا مطالبہ کرنے والی عورت پت ،اور ابروؤں کو باریک کر نے والی اور کروانے والی  عورت ، اور جسم کو گودنے والی اور گدوانے والی عورت پر لعنت کی گئی ہے ( جب یہ افعال) بیماری کے علاوہ کیے جائیں ۔

اوپر ذکر کردہ تمام روایات میں کم و بیش تقریباً ایک جیسے الفاظ ہی استعمال ہوئے ہیں۔ اور تمام روایات میں ان عورتوں پر لعنت کی گئی ہے جو مذکورہ افعال میں سے کوئی ایک بھی  کرتی ہیں۔ البتہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  کی روایت میں  ایک جملہ "المُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّہِ تَعَالٰی" زائد ہے جس کا باقی روایات میں ذکر نہیں ملتا ۔ اس روایت کے طرق دیکھنے  سے اندازہ ہوا کہ  یہ کسی روای کا ادراج نہیں ہے بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ہی   مروی ہے ۔ تفصیل یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کرنے والوں میں صرف ان کے ایک شاگرد  علقمہ ہیں ، اور ان سے روایت کرنے والوں میں ابراہیم ،اورابراہیم سے روایت کرنے والے بھی سوائے منصور کے کوئی  نہیں ۔آگے  منصور سے روایت کرنے والوں کی تعداد تقریباً چودہ ہے، ان چودہ طرق میں  سے ہر طریق میں یہ الفاظ  "المُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّہِ تَعَالَی" مروی ہیں ۔ تمام طرق میں یہ لفظ موجود ہونے سے زیادہ رجحان یہی ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے ہی روایت کیے گئے ہیں،بعد کے کسی راوی کا ادراج نہیں ہے ۔  اگرچہ اس سے حتمی نفی منصور سے نیچے کسی کے ادراج کی ہوتی ہے، منصور یا اس سے اوپر کسی کا ادراج ہونے سے تمام طرق میں ہونے والے  اس امکان کی حتمی نفی نہیں ہوتی۔  تاہم آگے کی بحث اسی مفروضے کو لے کر کریں گے کہ یہ لفظ حضرت ابن مسعودؓ ہی سے مروی ہیں، نیچے کے کسی راوی کا ادراج نہیں ہیں۔

مذکورہ  تمام روایات میں ان عورتوں کے لیے لعنت جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ان الفاظ سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ ان افعال  سے ممانعت کی علت وہ چیز بن سکتی ہے  جو براہِ راست کسی شرعی اصول سے ٹکرا رہی ہو اور شریعت کی نظر میں وہ بہت شنیع اور سنگین ہو۔ کیوں کہ اگر کسی روایت میں کسی ایسے عمل کی فضیلت  یا مذمت بیان کی گئی ہو جو دیکھنے میں کم اہمیت و حیثیت والا ہو اور اس روایت میں ذکر  ہونے والا ثواب یا عقاب اس عمل سے کسی طرح میل نہ کھاتاہو تو محدثین ایسی احادیث کو موضوعات میں شمار کرتے ہیں ، اور اس کو وضع کی علامت  قرار دیتے ہیں؛ چنانچہ  سیوطی ؒ اپنی معروف تصنیف "تدریب الراوی" میں راقم طراز ہیں :

 ومنھا الإفراط بالوعيد الشديد علی الأمر الصغير، أو الوعد العظيم علی الفعل الحقير، وھذا كثير في حديث القصاص، والأخير راجع إلی الركۃ.27

( اور وضع کی علامات میں سے) ایک یہ ہے کہ چھوٹے سے عمل پر سخت وعید بیان کی گئی ہو ، یا کسی چھوٹے سے نیک فعل پر بہت بڑا وعدہ کیا گیا ہو ۔ اور یہ چیز واقعات میں بہت زیادہ ہے ۔ میں کہتاہوں !اس کے قرائن میں سے یہ ہے کہ رافضی راوی اہلِ بیت کے فضائل میں حدیث بیان کرے ۔

اس سے معلوم ہوا کہ نصوص کے مطالعہ میں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ فعل اور اس پر وارد شدہ وعید میں کوئی مناسبت ہو۔ اس موقع پر ایسی احادیث کی طرف اشارہ بھی مناسب ہے جن میں  حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے بعض صحابہ کی مرویات پر  استدراکات کیے، ان میں ایسی روایتیں بھی ہیں کہ جب کسی صحابی نے ایسی حدیث بیان کی ، جس میں بیان کی گئی شدید وعید اس عمل کی شناعت سے مطابقت نہیں رکھتی تھی ،تو حضرت عائشہ  ایسے موقع پر یہ فرماتیں کہ رسول اللہ ﷺ کے کہنے کا یہ مقصد نہیں ہوگا یا حضور ﷺ ایسا نہیں کہہ سکتے ۔ مثلا ً  حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت کو جہنم کی آگ میں جھونکا گیا ، اور جہنم میں ڈالنے کی وجہ یہ بنی کہ اس عورت نے ایک بلی کو باندھ دیا ، جب اس کو بھوک ،پیاس لگی تو اس خود کھلایا نہ ہی اسے کھلا چھوڑا تاکہ وہ اپنی خوراک کا خود بندو بست کرلے ۔ تو اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے جہنم میں ڈال دیا 28۔ اس حدیث کے بیان کرنے پر حضرت عائشہ ؓ نے حضرت ابوہریرہ سے فرمایا : ابوہر یرہ  ؓ کیا آپ یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت کو اس وجہ سے جہنم کی آگ میں ڈالا گیا کہ اس نے ایک بلی کو باندھے رکھا ، اسے کچھ کھلایا نہ پلایا ؟ تو حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ : جی ! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ۔ تو اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ عورت کون تھی ؟ وہ ایک کافرہ عورت  تھی ، اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کی ذات سے بہت بعید ہے کہ ایک بلی کی وجہ سے کسی مؤمن کوعذا ب میں مبتلا کریں۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہوئے یہ دیکھ لیا کرو کہ کیسی حدیث بیان کررہے ہو29۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بادی النظر محض یہ افعال تنہا اس قابل نہیں لگتے کہ ان پر اتنی شدید وعید بیان کی گئی ہو، جب تک کہ ان افعال کے پیچھے کوئی اور سنگین برائی موجود نہ ہو  ۔ اس لیے ابن مسعود   سے مروی حدیث کی طرف آنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ  اس حدیث سے قطع نظر فقہا سے اِ ن مذکورہ بالا افعال  سے ممانعت کی جو علتیں  منقول ہیں ان کا ذکر کر دیا جائے ۔

(جاری)

حواشی

  1. صحیح مسلم کی روایت ہے : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ "مسلم بن الحجاج ، الصحیح لمسلم ، دارحیاء التراث العربی،بیروت ، ج۱،ص ۲۲۳،رقم الحدیث : ۲۶۱۔
  2. جامع ترمذی کی روایت ہے : حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَوَى أَسْعَدَ بْنَ زُرَارَةَ مِنَ الشَّوْكَةِ»: وَفِي البَابِ عَنْ أُبَيٍّ، وَجَابِرٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ  الترمذی، محمد بن عیسی، جامع الترمذی،ج ۴، ص ۳۹۰ ،رقم الحدیث:۲۰۵۰،مکتبۃ و مطبعۃمصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،۱۳۹۵ھ،۱۹۷۵ء
  3. النساء :۱۱۹
  4. تقی عثمانی ، محمد ، مفتی ، آسان ترجمہ قرآن ،ص ۲۲۰،مکتبہ معارف القرآن ،کراچی، ۲۰۱۴ء
  5. ابوالحجاج ،مجاہد بن جبر ، تفسیر مجاہد ، ص ۲۹۳، دارالفکر الاسلامی  الحدیثۃ ، مصر ، الطبعۃ الاولیٰ  ۱۹۸۹ء،  ابو حاتم  الرازی، عبدالرحمان بن محمد ، تفسیر القرآن العظیم لابن ابی حاتم ،رقم: ۵۹۸۲،مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، المملکۃ السعودیۃ، ط: الثالثۃ، ۱۴۱۹
  6. امام ابوداود نے اپنی سنن میں یہ حدیث درج کی ہے : حدَّثنا القَعْنبيُّ، عن مالكٍ، عن أبي الزِّناد، عن الأعرج عن أبي هريرة، قال: قال رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم-: "كل مَولودٍ يولدُ على الفِطرة، فأبواهُ يُهودانِهِ وينصّرانه، كما تَناتَجُ الإبِلُ من بهيمةٍ جمعاءَ، هل تُحِشُ من جَدْعَاءَ؟ " قالوا: يا رسول الله، أفرأيتَ مَن يموتُ وهو صغير؟ قال: "الله أعلمُ بما كانوا عامِلِين"(ابوداود، سلیمان بن اشعث، سنن لابی داود، رقم الحدیث : ۴۷۱۴ ، المکتبۃ العصریۃ ،بیروت،)
  7. رازی، أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين  الملقب بفخرالدین الرازی، مفاتیح الغیب ، ج 11،ص 223،داراحیاء التراث العربی،بیروت، ط:الثالثۃ ، ۱۴۲۰ھ
  8. طبری، محمد بن جریربن یزید، ابوجعفر الطبری، جامع البیان  فی تاویل القرآن،رقم : ۱۰۴۴۸۔۱۰۴۴۹
  9. محولہ بالا۔ رقم: ۱۰۴۵۴
  10. بغوی، أبو محمد الحسين بن مسعود البغوي،تفسیر البغوی، ج۲، ص ۲۸۹، دارالطیبہ للنشر والتوزیع، ط: الرابعۃ ، ۱۹۹۷ء
  11. قرطبی،  محمد بن أحمد بن أبي بكر بن فرح الأنصاري الخزرجي شمس الدين ،الجامع لاحکام القرآن ، ج۵،ص ۳۹۲، دارلکتب المصریہ،القاہرہ، ط: الثانیۃ،۱۳۸۴
  12. قرطبی،محمد بن أحمد بن أبي بكر  ،الجامع لاحکا م القرآن ، ، ج۵، ص ۳۹۴
  13. النساء ، آیات: ۱۱۶،۱۱۷،۱۱۸
  14. عثمانی ،محمد تقی، مفتی، آسان ترجمہ قرآن ، ص  ۲۱۹
  15. یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ قرآن کریم میں راجح قول کے مطابق تغییر سے اللہ کے دین میں تبدیلی مراد ہے ، حالانکہ یہی الفاظ حدیثِ مبارکہ میں کسی اور سیاق میں استعمال ہوئے تو یہ کیسے ہوسکتاہے کہ قرآن کریم میں انہی الفاظ کا الگ معنیٰ ہو اور حدیث میں الگ ۔؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا محمد زاہد کہتے ہیں : یہ کوئی نئی  بات نہیں  ہے ۔ متعدد مقامات پر ایسا ہوتاہے کہ ایک لفظ قرآن کریم میں کسی اور معنیٰ میں مستعمل ہوتاہے جبکہ بعینہ وہی لفظ جب حدیث میں آتاہے تو اس کامعنیٰ بالکل مختلف ہوتاہے مثلاً :قرطبی لکھتے ہیں : تبتّل کا لفظ ہے ، اس قرآن کریم میں معنیٰ یہ ہے کہ اللہ کی یاد کےلیے اپنے آپ کو لوگوں سے الگ تھلگ کرلو ۔ جبکہ اسی لفظ کا حدیث میں معنیٰ یہ ہوتاہے کہ تارک الدنیا ہونے کی بنا پر شادی نہ کرنا ۔ (قرطبی،محمد بن احمد بن ابی بکر ، الجامع لاحکام القرآن ، ج۱۹،ص۴۵)
  16. الروم ، آیات :۲۷،۲۸،۲۹،۳۰
  17. شفیع، محمد ، مفتی ، معارف القرآن ، ج ۶،ص ۷۴۱، ادارۃ المعارف، کراچی ،۲۰۰۳ء
  18. عثمانی ، تقی، محمد ، آسان ترجمہ قرآن ، ص ۸۵۷،۸۵۸
  19. شفیع ،محمد ، معارف القرآن ، ج ۶،ص ۷۴۶
  20. البخاری ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، صحیح البخاری  ۱۶۴:۷ رقم ۵۹۳۱( درطوق النجاۃ ،الطبعۃ الثانیہ )
  21. ایضا ، رقم الحدیث:  ۵۹۳۳
  22. ایضا ،رقم الحدیث: ۵۹۳۴
  23. ایضا ، رقم الحدیث: ۵۹۳۶
  24. ایضا ،رقم الحدیث : ۵۹۳۷
  25. ایضا ،رقم الحدیث: ۵۹۳۸
  26. ابوداود، سلیمان بن اشعث الازدی، السجستانی، رقم الحدیث: ۴۱۷۰،المکتبۃ العصریۃ،بیروت ،س ن
  27. سیوطی، عبدالرحمان بن ابی بکر ، جلال الدین ، تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی،ج ۱،ص ۳۲۶، دارطیبہ ، س ن
  28. امام مسلم اپنی صحیح میں یہ روایت بیان کرتے ہیں: قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَحَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا، وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ، حَتَّى مَاتَتْ هَزْلًا» قَالَ الزُّهْرِيُّ: ذَلِكَ، لِئَلَّا يَتَّكِلَ رَجُلٌ، وَلَا يَيْأَسَ رَجُلٌ (صحیح مسلم، ج۴،ص۲۱۱۰،رقم الحدیث:۲۶۱۹۔)
  29. امام ابوداود طیالسی اپنی مسند میں یہ روایت بیان کرتے ہیں : حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ رُسْتُمَ أَبُو عَامِرٍ الْخَزَّازُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَيَّارٌ أَبُو الْحَكَمِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَائِشَةَ فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْتَ الَّذِي تُحَدِّثُ أَنَّ «امْرَأَةً عُذِّبَتْ فِي هِرَّةٍ لَهَا رَبَطَتْهَا لَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَسْقِهَا» فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: سَمِعْتُهُ مِنْهُ، يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَتَدْرِي مَا كَانَتِ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ: لَا، قَالَتْ: إِنَّ الْمَرْأَةَ مَعَ مَا فَعَلَتْ كَانَتْ كَافِرَةً، إِنَّ الْمُؤْمِنَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يُعَذِّبَهُ فِي هِرَّةٍ، فَإِذَا حَدَّثْتَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْظُرْ كَيْفَ تُحَدِّثُ ( مسند ابی داود الطیالسی ، ج۳،ص ۲۸، رقم الحدیث: ۱۵۰۳)

ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم

محمد عرفان ندیم

مصنف: ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی

ناشر: براون بک پبلیکشنز ، نیو دہلی

ضخامت: 160

عرب و ہند کے تعلقات کی تاریخ بہت قدیم ہے، بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل ہندوستان کے مختلف قبائل جاٹ، مید، سیابچہ ، احامرہ، اساورہ اور بیاسرہ وغیرہ تجارت کی غرض سے بحرین، بصرہ، مکہ اور مدینہ آیا جایا کرتے تھے۔یہ قبائل براستہ ایران عراق گئے اور وہاں سے جحاز کے مختلف خطوںمیں آ باد ہوگئے۔انہی تجارتی تعلقات اور میل جول کی وجہ سے ہندوستان میں اسلام کے ابتدائی نقوش پہلی صدی ہجری میں ہی نظرآنے لگے تھے۔سن دس ہجری میں نجران سے بنوحارث بن کعب کے مسلمانوں کا وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا توآپ نے ان کو دیکھ کر فرمایاتھا کہ: ”یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں۔“ ان میں سے بعض قبائل حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے دور میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر چکے تھے۔

بعد میں تاریخ کے مختلف ادوار میں عرب و ہند کے درمیان یہ مراسم بڑھتے گئے اور ان میں باہمی شادی و بیاہ کا سلسلہ بھی چل نکلا۔اس ہم آہنگی اور رشتہ داری کی وجہ سے زمانہ قدیم میں ہی ہندوستان کی تمام مصنوعات بشمول اشیائے خوردونوش جن میں ناریل، لونگ، صندل، چاول ، گیہوں اور دیگر اشیاءشامل تھیں عرب کی منڈیوں تک پہنچ چکی تھیں۔عرب وہند کے ان قدیم تجارتی تعلقات کی بابت ایک مصری مورخ لکھتاہے:” جنوبی عرب سے آنے والے تجارتی قافلوں کی ایک منزل مکہ مکرمہ ہوا کرتی تھی، یہ قافلے ہندوستان اور یمن کا تجارتی سامان شام اور مصر لے جاتے تھے، اثنائے سفر میں یہ لوگ مکہ مکرمہ میں قیام کرتے اور وہاں کے مشہور کنوئیں”زمزم“ سے سیراب ہوتے اوراگلے دن کے لیے بقدر ضرورت زمزم کا پانی ساتھ لے جاتے تھے۔“ ( الجمل فی تاریخ الادب العربی)

 بنو امیہ کے دور میں راجا داہر کی سرکشی کی وجہ سے حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو ہندوستان کی طرف روانہ کیا ، یہ خطہ ہندوستان کی طرف اسلامی خلافت کی طرف سے پہلی باقاعدہ مہم جوئی تھی،محمد بن قاسم کو ناگاہ واپس جانا پڑا، بعد میںحضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے دور اقتدار میں اہل سندھ و ہند کے نام دعوتی خطوط روانہ کیے جن میں توحید و رسالت کی دعوت اور بت پرستی و بداخلاقی سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی تھی، ان خطوط کا فوری نتیجہ یہ نکلاکہ بہت سے ہندو راجہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔یہ ہندوستان میں اسلام کے اولین نقوش تھے، بعد میں تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلم حکمرانوں اور سپہ سالار وں نے ہندوستان پر حکومت کی ، ہندوستان کی آخری اسلامی حکومت مغلیہ سلطنت تھی ۔

 ہندوستان کی تاریخ میں اسلامی عہد حکومت ایک زرین عہد تھا جس میں تمام باشندگان کو یکساں حقوق اور سہولیات میسر تھیں ۔ مسلمانوں نے اسلامی تہذیب کے دور عروج سے استفادہ کر کے اس خطہ ہندوستان کو بھی مختلف علوم وفنون کا مرکز بنا دیا تھا ۔ اسلامی عہد کا ہندوستان خوشحال او ر ترقی یافتہ تھا ، قرب و جوار کے خطوں سے لوگ حصول علم کے لیے ہندوستان کا رخ کرتے تھے اور ہندوستان کی تہذیبی ترقی کی بدولت تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں نے اسے فتح کرنے کی کوشش کی ۔ مسلمانوں کی یہ تمام تر ترقی اسلام کے نظریہ تعلیم کی بنیاد پر تھی۔افسوس کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی تاریخیں تو بہت لکھی گئیں مگر علمی تاریخ کی طرف ذیادہ توجہ نہیں دی گئی ، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی کارناموں سے تو ایک جہاں واقف ہے مگر ان کے علمی کارناموں سے خال خال لوگ ہی واقف ہیں۔

تاریخ کی اکثر کتب میں مسلم ہندوستان کی تعلیمی درسگاہوں اور ان کے نظام تعلیم کے بارے میں بہت کم مواد ملتا ہے ۔محمد تغلق کے عہد میں ہندوستان اور مصر کے درمیان تعلقات عروج پر تھے ، اسی دور کا ایک مصری سیاح اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ صرف دلی میں ایک ہزار مدرسے تھے جن میں ایک شافعی اور باقی سب حنفی تھے۔ ایک یورپی سیاح کپتان الگزنڈر ہملٹن اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ٹھٹھہ میں مختلف علوم و فنون کے چار سو سے زائد مدارس تھے۔مسلمان اپنے مذہبی ذوق کی بنا پر تعلیم و تعلم کو لازم اور درسگاہوں کے قیام اورعلماءو طلبہ کی خدمت کو سعادت سمجھتے تھے ۔ اکبر بادشاہ نے اپنے تمام صوبوں کے گورنروں کے نام ایک فرمان جا ری کیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو علم وہنر کی اشاعت کرتے رہیں تاکہ اہل کمال دنیا سے معدوم نہ ہو جائیں اور ان کی یاد گار صفحہ ہستی پر باقی رہے ۔

 قدیم ہندوستان میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کا اندازیہ تھا کہ تعلیم کے لیے الگ عمارتیں قائم نہیں کی جاتی تھیں بلکہ یہ کام مساجد سے لیا جاتا تھاا ور اس دور کی ہر مسجد بذات خود ایک درسگاہ ہوا کرتی تھی ۔ مسجدوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے حجرے طلبہ اور علماءکی رہائش کے کام آتے تھے ۔ ایک اہم ذریعہ تعلیم خانقاہیں ہوا کرتی تھیں ، صوفیاءکرام تزکیہ نفس کے ساتھ مختلف علوم کی محفلیں سجاتے تھے ۔ حکومتوں کی طرف سے خانقاہوں کو جو وظائف جاری کیے جاتے تھے وہ طلباءکی رہائش اور طعام پر خرچ ہوتے تھے ۔

زیر تبصرہ کتاب میں ڈاکٹر محمد شمیم قاسمی نے ہندوستان کے تاریخی تناظر میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کا جائزہ لیا ہے ۔ ڈاکٹرمحمد شمیم قاسمی مغربی بنگال کے تاریخی شہر کولکتہ کی عالیہ یونیورسٹی سے منسلک ہیں ،وہ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک تھیالوجی میں بطورا سسٹنٹ پروفیسر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر صاحب جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کر رہے تھے تو دوران ریسرچ انہیں کچھ ایسے موضوعات بھی مل گئے جن کا براہ راست ان کے مقالے سے تعلق نہیں تھا ، وہ انہیں یکجا کرتے رہے اور بعد میں فرصت کے اوقات میں ان کی نوک پلک سنوار کر انہیں مختلف رسائل و جرائد میں بغرض اشاعت بھیجتے رہے۔ یہ مقالات ہند و پاک کے مو¿قر جرائد میں چھپے اور قارئین نے انہیں پذیرائی بخشی ۔ بعد میں ایک حادثاتی ملاقات میں ناشر نے اس کی اشاعت کی حامی بھر لی اور یوں یہ کتاب منصہ شہود پر آئی ۔

ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے پیش لفظ میں ہندوستان کے تناظر میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کا جائزہ پیش کیا ہے ، مسلمانوں نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھے تو انہوں نے اس کی تعمیر و ترقی میں کوئی دقیقہ فرگزاشت نہیں کیا ، انہوں نے ما قبل حملہ آوروں کی طرح اس کو کنگال اور برباد نہیں کیا بلکہ اسے اپنا وطن سمجھ کر اس کی تعمیر و ترقی میںجت گئے ۔ ہندوستان شروع سے ہی ایک تکثیریت زدہ معاشرہ رہا ہے ، گوتم بدھ کے زمانے میں ہندوو¿ں میں ذات پات کا سسٹم عروج پر تھا ، نچلی ذاتوں کو زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دیا جاتا تھا ، گوتم بدھ کا ظہور ہندومذہب میں حد سے بڑھی ہوئی طبقاتی تقسیم کا ہی رد عمل تھا ، اگرچہ گوتم کی تعلیمات سے اس میں بہتری آئی مگر کچھ ہی عرصے بعد وہی برائیاں ہندوستانی سماج میں د وبارہ لوٹ آئیں ۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ایسا ہر گز نہیں ہوا ، چھوٹی بڑی تمام ذاتوں اور برادریوں کو یکساں حقوق دیے گئے ، ریاست کے تمام شہریوں کو ہر طرح کی مذہبی و سیاسی آذادی حاصل تھی ۔کسی طبقہ و ذات پر بے جا پابندیاں نہیں لگائی گئیں ،اسلامی عہد کے ہندوستان کا سب سے خوبصورت کارنامہ یہ تھا کہ تمام شہریوں کو حصول علم کی یکساں آزادی حاصل تھی ، کسی مذہب یا فرقے پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کیے گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی عہد کے ہندوستان میں شرح خوانداگی تاریخ کے مختلف ادوار میں سب سے زیادہ رہی اور اس کی سند ہمیںتاریخ کے مختلف ادورا میں لکھے گئے ہندوستان کے سفر ناموں سے ملتی ہے ۔

جو نو مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوتے تھے ا ن کی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ انتظام و انصرام کیا جاتا تھا ، صاحب حیثیت مسلمان اپنے طور پر لائبریریاں اور درسگاہیں قائم کرتے تھے اور لوگ دور دراز سے تحصیل علم کے لیے ان درسگاہوں کا رخ کرتے تھے ۔

مسلمانوں کے دور عروج میں پورا ہندوستان تعلیم و تعلم کا مرکز ہوا کرتا تھا ، کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا جہاںمختلف علوم و فنون کے ماہرین موجود نہ ہوں۔ یہ اہل علم اپنے فن میں کمال رکھتے تھے اور ان کی شہرت نزدیکی بلادو امصار تک پھیلی ہوتی تھی ۔بسا اوقات قریبی ممالک سے ان اہل علم کو دعوت دی جاتی تھی کہ وہ ان علاقوں میں آ کر علوم وفنون کے چراغ روشن کریں ۔

ڈاکٹر شمیم قاسمی صاحب نے کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے ، انہوں نے پہلے باب کا عنوان اسلام کا نظریہ تعلیم رکھاہے، اس باب میں ااسلام کے نظریہ علم پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اس کے ضمنی عنوانات میں اہل علم کی فضیلت، علم کا دائرہ کار ، تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں کے علمی کارنامے ، مختلف علوم و فنون کی ترقی میں مسلمانوں کا حصہ اور جدید سائنس کے فروغ میں مسلمانوں کے کردار جیسے عنوان پر بات کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ اسلامی تہذیب میں عورتوں کی ناقابل فراموش تعلیمی خدمات پربھی روشنی ڈالی گی ہے ۔

دوسرے باب کا عنوان مصنف نے عہد اموی و عباسی میں مسلمانوں کا نظام تعلیم رکھا ہے ۔ اس باب میں انہوں نے ہندوستان میں اسلام کے ابتدائی نقوش ، مختلف خلفاءعرب کے ذریعے فتوحات ہند کا آغاز ، ہندوستان میں تعلیم و تعلم کے ابتدائی مراکز ، ہندوستا ن کے بعض شہروں کی علمی مرکزیت، نامور علما ءومحدثین کا ہندوستان میں قیام، ہندوستانی علماءو محدثین کی خدمات ، ہندوستانی شہروں سے منسوب علماءو محدثین ، ہندوستانی علوم وفنون سے اہل عرب کی دلچسپی ، فقہ حنفی کی نشر و اشاعت اور ابتدئی عہد کے بعض صوفیاءکا تذکرہ کیا ہے ۔ ان تمام مباحث کا تذکرہ مصنف نے حوالہ جات اور بڑی عرق ریزی سے کیا ہے ۔

تیسرے باب کا عنوان علوم اسلامیہ کی اشاعت میں ہندوستانی مدارس کا کردار رکھا گیاہے ۔ اس باب کے ضمن میں مصنف نے جن مباحث کا احاطہ کیا ہے اس میں ہندوستان میں مدارس کے قیام کا آغاز ، عہد غوری وعہد غلاماں میں تعلیمی اداروں کا قیام ، خلجی اور تغلق عہد میں علمی سرگرمیاں اور مغلیہ سلطنت کے تعلیمی کارناموں پر روشنی ڈالی ہے ۔اس میں خصوصی طور پر عہد اکبری اور عہد اورنگزیب کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ باب کے آخر میں دار العلوم دیوبند کے قیام کے اسباب و محرکات پر روشنی ڈلی گئی ہے اور اس عہد کے مشہور مدارس جن میں مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور، دار العلوم ندوة العلماءلکھنو، دار الحدیث رحمانیہ دہلی اور ایم اے او کالج کی خدمات و نتائج کا احاطہ کیا گیا ہے ۔

کتاب کے چوتھے باب کا عنوان مصنف نے ہندوستان کے قدیم مدارس کا نصاب تعلیم رکھا ہے ۔اس باب میں مصنف نے ہندوستان کے مختلف مدارس میں رائج نصابات پر بات کی ہے ۔ مصنف نے ہندوستان میں، تاریخ کے مختلف ادوار میں رائج نصاب کوچار حصوں میں تقسیم کیا ہے،مصنف کے مطابق پہلے دور کا نصاب غیر مرتب تھا جس میں ہندوستان میں فقہ اور علم فقہ کا رجحان پروان چڑھ رہاتھا۔ دوسرے دور کے نصاب میں معقولات کا حصہ غالب تھا، اس دورکے نصاب میں معقولات پر توجہ دی گئی اور ان کی شروحات کا رواج ہوا ۔تیسرے دور کا نصاب عہد ِ اکبری میں رائج ہوا، مصنف کے مطابق یہ عہد سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ اس میں مختلف علوم و فنون کی اشاعت ہوئی۔اس دور میں ہمیں معقولات و منقولات دونوں ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں ۔

چوتھے دور کا نصاب ملا نظام الدین سہالوی کا مرتب کردہ تھا جو آج بھی رائج ہے اوراس کی شہرت درس نظامی کے عنوان سے ہے ۔ہر باشعور صاحب علم کی طرح مصنف نے بھی اس نصاب پر سوالات اٹھائے ہیں کہ یہ نصاب عصر حاضر کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے یا نہیں ،یہ اپنی ذات میں مکمل ہے یا اس میں مناسب ترمیم و اضافے کی ضرورت ہے ۔ مصنف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ موجود ہ درس نظامی کے نصاب پر نظر ثانی اور اس میں بڑی حد تک جدید علوم وفنون کو شامل کرنے کی ضرروت ہے ۔مصنف کے نزدیک یہ شمولیت دیگر علوم کی تقصیر و توہین پر نہیں بلکہ ان سے مضبوط رشتہ جوڑے رکھنے کی شرط پر ہونی چاہئے ۔ اس نئے نصاب سے گزرنے والے طلباءہی اس قابل ہو سکیں گے کہ معاشرے کی مناسب راہنمائی کر سکیں ا ور مذہب او ر اہل مذہب کے موہوم ہوتے کردار کا از سر نو احیاءکریں ۔

پانچویں اور آخری باب کا عنوان مدارس اسلامیہ اور دینی تعلیم کی افادیت رکھا گیا ہے ۔ اس باب کے ضمن میں مصنف نے مسجد و مدرسہ کی اہمیت کو وا ضح کیا ہے ، اسلام میں مرد و عورت کے لیے تعلیم کی اہمیت او ر اس تعلیم کی اشاعت میں مدرسہ کے کردار کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس کے ساتھ مدارس کے ناقدین اورمستہزئین کے رویے پر بھی نقد کیا ہے ۔ مصنف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ تمام علوم و فنون جو آج ہم تک پہنچے ہیں یہ مدارس ہی کی مرہون منت ہیں ، تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلامی تہذیب پر جب بھی مشکل وقت آیا تو مدارس نے بطور ادارہ ہمیشہ مثبت اور شاندار کردار ادا کیا۔

کتاب کے آخر میں مراجع و ماخذ کی فہرست دی گئی ہے ، حوالہ جات کا اہتمام ہر باب کے آخر میں کیا گیا ہے ۔ یہ اپنے موضوع پر بہترین کتاب ہے ، اس کے مطالعے سے خطہ ہند میں اسلام کی نشر و اشاعت اوربرصغیر کے تناظر میں مسلمانوں کے نظام تعلیم سے آگاہی ملتی ہے ۔

جولائی ۲۰۲۰ء

آزمائش کا اصول اور دعوت ایمان کی اہمیتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۷)ڈاکٹر محی الدین غازی
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۱۲)مولانا سمیع اللہ سعدی
صنعاء پالمپسسٹ پر جدید تحقیقات کا جائزہسید ظفر احمد
یونیورسٹیوں میں ترجمہ قرآن کی لازمی تعلیممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جسمانی ساخت میں تبدیلی ۔ قرآن وحدیث اور اقوالِ فقہاء کی روشنی میں (۲)مولانا محمد اشفاق

آزمائش کا اصول اور دعوت ایمان کی اہمیت

محمد عمار خان ناصر

جب یہ کہا جاتا ہے  کہ اللہ تعالی انسانوں سے جواب طلبی اور محاسبہ اس اصول پر کریں گے کہ کس پر حجت کتنی تمام ہوئی ہے تو بعض لوگوں کے ذہن میں  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں غیر مسلموں کو دعوت کے حوالے سے مسلمانوں کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ جب یہ معلوم ہے کہ عموما انسانوں کے لیے اپنے ماحول کے اثرات اور معاشرتی روایت سے اوپر اٹھ کر کسی نئی بات کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے تو کیا مسلمان، لوگوں تک دعوت پہنچا کر انھیں مشکل میں ڈالنے کا موجب نہیں بنیں گے؟ کیونکہ دعوت پہنچے بغیر تو ہو سکتا ہے، لوگ اللہ کے ہاں معذور شمار کیے جائیں، لیکن دعوت پہنچ جانے کی صورت میں عذر پیش کرنے کی گنجائش محدود ہو جائے گی۔

یہ اشکال اس بنیادی غلطی سے پیدا ہوتا ہے جس کو’’قلب موضوع“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس استدلال میں یہ غلطی استثنائی اصول کو بنیادی نکتے کی اور بنیادی نکتے کو ضمنی حیثیت دینے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ شریعت کی نظر میں انسان کی تخلیق کا اصل مقصد اس کی آزمائش ہے اور اس مقصد کے لحاظ سے اس کا، فکر اور عمل، دونوں میں آزمائش کا سامنا کرنا اور اختیار وانتخاب کی ذمہ داری اٹھانا وہ اصل حالت ہے جو پائی جانی چاہیے۔ اسی اصول کے تحت جن گروہوں کے پاس علم وعمل میں ’’حق “ کی امانت موجود ہے، وہ اس کے مکلف ہیں کہ دوسروں تک بھی اس کو پہنچائیں اور اللہ نے جس تکلیفی آزمائش میں بنی نوع انسان کو ڈالا ہے، اس میں خدا کی اسکیم کا حصہ بن جائیں۔ لوگوں تک صحیح بات کا نہ پہنچ سکنا یا پہنچنے کی صورت میں ان کے لیے کسی عذر کی وجہ سے اس کی قبولیت کا ممکن نہ ہونا، یہ استثنائی احوال ہیں جو بنیادی اصول اور اس کے تحت دعوت کی ذمہ داری کو معطل نہیں کر سکتے۔

اگر یہ مانا جائے کہ انسان کو اصل میں تو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اوہام وظنون کی کیفیت میں جیسے تیسے زندگی گزار لے، البتہ کسی تک حق بات پہنچ گئی تو وہ قابل مواخذہ ہوگا، تب تو یہ تشویش پیدا ہونا بالکل بجا ہے کہ جب انسان دعوت حق کے بغیر ایک محفوظ صورت حال میں ہیں تو ان تک دعوت پہنچا کر کیوں انھیں خطرے سے دوچار کیا جائے۔ لیکن اگر بنیادی اصول انسانوں کا آزمائش کا سامنا کرنا اور انتخاب کی آزادی کو عمل میں لانا ہے تو پھر دعوت کا عمل اس اسکیم کے منافی نہیں، بلکہ اس کا عین منطقی تقاضا ہے۔ جب انسان کی تخلیق آزمائش کے لیے کی گئی ہے تو اس پہلو سے خلق خدا تک دعوت دین کا پہنچانا اللہ کی اسکیم کا لازمی حصہ ہے جس سے یہ سوچ کر گریز نہیں کیا جا سکتا کہ اس طرح تو جن انسانوں تک دعوت پہنچے گی، وہ اسے قبول نہ کر کے قابل مواخذہ ہو جائیں گے۔ جب انسان کو پیدا ہی ایک ذمہ داری اٹھانے والی مخلوق کے طور پر کیا گیا ہے اور یہی اس کا شرف اور امتیاز ہے تو پھر اس کے سارے لوازم قبول کرنے پڑیں گے۔

یہ اشکال بنیادی طور پر انسان پر ’’ذمہ داری“ ڈالے جانے کے تصور کو فکری طور پر قبول نہ کرنے یا درست طور پر نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے، کیونکہ اس کی اصل زد مسلمانوں کی دعوت پر نہیں، بلکہ انسان کو ’’مکلف “ ٹھہرائے جانے کے تصور پر پڑتی ہے۔ مثلا جو اشکال مسلمانوں کی دعوت پر وارد کیا گیا ہے، وہ انبیاء اور رسولوں کی بعثت پر بھی وارد ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی دعوت سے کسی پر حجت تمام ہوتی ہے یا نہیں، یہ تو ایک محتمل معاملہ ہے، لیکن انبیاء کو تو بھیجا ہی حجت تمام کرنے کے لیے جاتا ہے اور یہ معلوم ہے کہ انبیاء کے ذریعے سے براہ راست اتمام حجت چند منتخب گروہوں پر ہی ہوا ہے۔ باقی تمام انسانوں پر اس اتمام حجت کے اثرات بالواسطہ اور درجہ بدرجہ مرتب ہوتے ہیں۔ پس یہ اشکال اٹھایا جا سکتا ہے کہ آخر اللہ نے کچھ گروہوں میں براہ راست نبی کو مبعوث کر کے ان کے لیے آزمائش کو باقی انسانوں کی بہ نسبت کیوں زیادہ مشکل بنا دیا؟ اگر ان کی طرف نبی کو نہ بھیجا جاتا تو، خود اللہ کے بیان کردہ اصول کے مطابق، ان کے پاس بھی یہ عذر پیش کرنے کی گنجائش باقی رہتی کہ ہم تک تو بات ہی واضح طور پر نہیں پہنچی تھی۔

اس سے آگے بڑھیں تو یہ اشکال خود اللہ کے اس فیصلے پر وارد کیا جا سکتا ہے کہ اس نے انسان کو ایک ’’مکلف “ مخلوق بنایا ہے۔ یہاں یہ سوال معتزلہ اور اشاعرہ کی اس معروف بحث سے متعلق ہو جاتا ہے کہ کیا اللہ پر واجب ہے کہ وہ انسانوں کے متعلق وہی فیصلہ کرے جو ’’الاصلح للعباد“ ہے، یعنی انسانوں کے نقطہ نظر سے ان کے لیے بہتر ہے؟ معروف عام روایت کے مطابق ابو الحسن اشعری نے اسی بحث میں اپنے استاذ جبائی کے سامنے یہ اشکال پیش کیا تھا کہ اگر اللہ پر ’’الاصلح للعباد“ واجب ہے تو پھر اس نے دو ایسے انسانوں کو کیوں پیدا کیا جن میں سے ایک کے متعلق اس کا علم اسے بتا رہا تھا کہ جب اسے اختیار دیا جائے گا تو وہ اس کے سوء استعمال سے کفر کا انتخاب کرے گا اور یوں مواخذہ کا حقدار ٹھہرے گا؟ جبائی اس کا جواب نہیں دے سکے اور یوں ابو الحسن اشعری نے اپنی راہیں مسلک اعتزال سے الگ کر لی تھیں۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(213)    لو کے بعد فعل مضارع کا ترجمہ

لو کبھی مصدریہ بن کر آتا ہے جیسے ودوا لو تدہن فیدہنون، یہ عام طور سے فعل ود کے بعد آتا ہے، یہ ابھی ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ لو کی مشہور قسم وہ ہے جسے حرف امتناع کہتے ہیں۔ لو برائے امتناع اور ان شرطیہ میں فرق یہ ہے کہ  ان مستقبل کے لیے ہوتا ہے، خواہ اس کے بعد فعل ماضی آئے یا فعل مضارع، اور لو ماضی کے لیے ہوتا ہے خواہ اس کے بعد فعل ماضی آئے یا فعل مضارع۔ ابن ہشام نے لکھا ہے:

ویتلخص علی ہذا ان یقال ان لو تدل علی ثلاثۃ امور عقد السببیۃ والمسببیۃ وکونہما فی الماضی وامتناع السبب۔ (مغنی اللبیب عن کتب الاعاریب، ص: 340)

یہ درست ہے کہ بعض نحویوں نے ذکر کیا ہے کہ لو مستقبل کے لیے بھی آتا ہے، مگر ان کے نزدیک بھی ایسا بہت کم ہوتا ہے، اور انھوں نے جو شواہد ذکر کیے ہیں وہ مختلف فیہ اور قابل تاویل ہیں۔

لو کے بعد فعل ماضی بھی آتا ہے اور مضارع بھی آتا ہے، ماہرین لغت نے واضح کیا ہے کہ لو کے بعد ماضی آئے تب تو ماضی کے زمانے کا مفہوم دیتا ہی ہے، لیکن اگر لو کے بعد مضارع آئے تب بھی وہ زیادہ تر ماضی کے زمانے کا مفہوم دیتا ہے۔

قرآن مجید کے تراجم کا جائزہ بتاتا ہے کہ عام طور سے مترجمین نے لو کے بعد فعل مضارع والے جملے کے ترجمے میں کوئی ایک موقف نہیں اختیار کیا ہے، وہ کبھی ماضی کے زمانے کا ترجمہ کردیتے ہیں اور کبھی مستقبل کے زمانے کا ترجمہ کردیتے ہیں۔ جیسے لو یاخذ کا ترجمہ ’اگر وہ گرفت کرتا‘ اور ’اگر وہ گرفت کرے‘ دونوں ترجمے کیے گئے ہیں۔

اس سلسلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی کی ایک منفرد رائے یہ ہے، جو کہیں اور راقم کو نہیں ملی، کہ وہ لو والے جملے کا ترجمہ ماضی سے کرنے پر زور تو دیتے ہی ہیں، ساتھ ہی وہ اس میں بھی فرق کرتے ہیں کہ لو کے بعد فعل ماضی آیا ہے یا فعل مضارع آیا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں لو شاء بھی آیا ہے اور لو یشاء بھی آیا ہے، لو شاء کا ترجمہ ’تو اگر وہ چاہتا‘ کیا جاتا ہے، لیکن لو یشاء کا ترجمہ بعض لوگ ’اگر وہ چاہے‘ کرتے ہیں، حالاں کہ یہ ان شاء اور ان یشا کا ترجمہ ہے، بعض لوگ لو شاء کی طرح لو یشاء کا ترجمہ بھی ’اگر وہ چاہتا‘ کرتے ہیں، مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ ’اگر وہ چاہتا ہوتا‘ کرتے ہیں۔

ابن عاشور کی ایک وضاحت سے اس کی تائید ہوتی ہے، وہ سورۃ النحل آیت نمبر61 کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

وشرط لو ملازم للزمن الماضی فاذا وقع بعد لو مضارع انصرف الی الماضی غالبا۔ فالمعنی: لو کان اللہ مواخذا الخلق علی شرکہم لافناہم من الارض وافنی الدواب معہم، ای ولکنہ لم یواخذہم۔ (التحریر والتنویر :14 188) یہاں لَو یُواخِذُ اللَّہُ کا مفہوم لو کان اللہ مواخذا سے ادا کیا ہے۔

اس وضاحتی تمہید کی روشنی میں درج ذیل آیتوں کا ترجمہ دیکھتے ہیں:

(۱) وَلَو یُواخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِظُلمِہِم مَا تَرَکَ عَلَیہَا مِن دَابَّۃ۔ (النحل: 61)

”اگر لوگوں کے گناہ پر اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار باقی نہ رہتا“۔(محمد جوناگڑھی)

”اور اگر خدا لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب پکڑنے لگے تو ایک جاندار کو زمین پر نہ چھوڑے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اگر اللہ لوگوں سے ان کی حق تلفی پر فورا مواخذہ کرتا ہوتا تو زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتا“۔ (امین احسن اصلاحی، یہ ترجمہ درست ہے، لیکن بس اسی جگہ یہ ترجمہ کیا ہے)

(۲) وَلَو یُوَاخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوا مَا تَرَکَ عَلَی ظَہرِہَا مِن دَابَّۃٍ۔ (فاطر: 45)

”اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب داروگیر فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک جاندار کو نہ چھوڑتا“۔(محمد جوناگڑھی)

”اور اگر خدا لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب پکڑنے لگتا۔ تو روئے زمین پر ایک چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا“۔ (فتح محمد جالندھری، مذکورہ بالا آیت کا ترجمہ مستقبل سے کیا ہے حالانکہ دونوں آیتوں کا اسلوب ومعنی تقریباً یکساں ہے۔)

”اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے اعمال کی پاداش میں فوراً پکڑتا تو زمین کی پشت پر ایک جاندار کو بھی نہ چھوڑتا“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں ترجمہ ’پکڑتا‘ کیا، جبکہ اوپر والی آیت میں ’مواخذہ کرتا ہوتا‘ کیا ہے، حالانکہ دونوں آیتوں کا اسلوب ومعنی تقریباً یکساں ہے)

(۳) وَلَو نَشَاءُ لَطَمَسنَا عَلَی اَعیُنِہِم فَاستَبَقُوا الصِّرَاطَ۔ (یس: 66)

”ہم چاہیں تو اِن کی آنکھیں موند دیں، پھر یہ راستے کی طرف لپک کر دیکھیں“۔ (سید مودودی)

”اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا کر (اندھا کر) دیں۔ پھر یہ رستے کو دوڑیں“۔(فتح محمد جالندھری)

”اور اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں مٹادیتے پھر لپک کر رستہ کی طرف جاتے“۔(احمد رضا خان)

”اگر ہم چاہتے ہوتے تو اِن کی آنکھیں موند دیتے، پھر یہ راستے کی طرف لپکتے ہوتے“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)

(۴) وَلَو نَشَاءُ لَمَسَخنَاہُم عَلَی مَکَانَتِہِم فَمَا استَطَاعُوا مُضِیًّا وَلَا یَرجِعُونَ۔ (یس: 67)

”اور اگر ہم چاہیں تو ان کی جگہ پر ان کی صورتیں بدل دیں پھر وہاں سے نہ آگے جاسکیں اور نہ (پیچھے) لوٹ سکیں“۔(فتح محمد جالندھری)

”ہم چاہیں تو اِنہیں اِن کی جگہ ہی پر اس طرح مسخ کر کے رکھ دیں کہ یہ نہ آگے چل سکیں نہ پیچھے پلٹ سکیں“۔(سید مودودی)

”اور اگر ہم چاہتے تو ان کے گھر بیٹھے ان کی صورتیں بدل دیتے نہ آگے بڑھ سکتے نہ پیچھے لوٹتے“۔(احمد رضا خان)

”اگر ہم چاہتے ہوتے تو اِنہیں اِن کی جگہ ہی پر اس طرح مسخ کر کے رکھ دیتے کہ یہ نہ آگے چل سکیں نہ پیچھے پلٹ سکیں“۔(محمد امانت اللہ اصلاحی)

(۵) وَلَو نَشَاءُ لَجَعَلنَا مِنکُم مَلَائِکَۃً فِی الاَرضِ یَخلُفُونَ۔ (الزخرف: 60)

”اگر ہم چاہتے تو تمہارے عوض فرشتے کردیتے جو زمین میں جانشینی کرتے“۔(محمد جوناگڑھی)

”ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کر دیں جو زمین میں تمہارے جانشین ہوں“۔(سید مودودی)

”ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کردیں جو زمین میں تمہارے جانشین ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اگر ہم چاہتے ہوتے تو تمھیں فرشتے بنادیتے جو زمین میں جانشین ہوں“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)

اس مقام پر لَجَعَلنَا مِنکُم مَلَائِکَۃً  کا ترجمہ بھی زیر غور رہے۔

(۶) وَلَو یَشَاءُ اللَّہُ لَانتَصَرَ مِنہُم۔ (محمد: 4)

”اللہ چاہتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا“۔(سید مودودی)

”اللہ چاہتا ہوتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا“۔(محمد امانت اللہ اصلاحی)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں سب نے ماضی کا ترجمہ کیا ہے۔

(۷) وَلَو نَشَاءُ لَاَرَینَاکَہُم فَلَعَرَفتَہُم بِسِیمَاہُم۔ (محمد: 30)

”اور اگر ہم چاہتے تو وہ لوگ تم کو دکھا بھی دیتے اور تم ان کو ان کے چہروں ہی سے پہچان لیتے“۔(فتح محمد جالندھری)

”اور اگر ہم چاہیں تو تمہیں ان کو دکھادیں کہ تم ان کی صورت سے پہچان لو“۔(احمد رضا خان)

”ہم چاہیں تو انہیں تم کو آنکھوں سے دکھا دیں اور اُن کے چہروں سے تم ان کو پہچان لیتے“۔ (سید مودودی)

”اگر ہم چاہتے ہوتے تو انہیں تم کو آنکھوں سے دکھا دیتے اور اُن کے چہروں سے تم ان کو پہچان لیتے“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)

(۸) قَالُوا لَو نَعلَمُ قِتَالًا لَاتَّبَعنَاکُم۔ (آل عمران: 167)

”تو کہنے لگے اگر ہمیں علم ہوتا کہ آج جنگ ہوگی تو ہم ضرور ساتھ چلتے“۔(سید مودودی)

”تو وہ کہنے لگے کہ اگر ہم لڑائی جانتے ہوتے تو ضرور ساتھ دیتے“۔ (محمد جوناگڑھی، صرف اسی ایک مقام پر ’ہوتے‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے)

(۹) وَاِذَا تُتلَی عَلَیہِم آیَاتُنَا قَالُوا قَد سَمِعنَا لَو نَشَاءُ لَقُلنَا مِثلَ ہَذَاَ۔ (الانفال: 31)

”جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ہاں سن لیا ہم نے، ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں (یہ کلام) ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا (کلام) ہم بھی کہہ دیں“۔(فتح محمد جالندھری)

”اور جب ان پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں تو کہتے ہیں ہاں ہم نے سنا ہم چاہتے تو ایسی ہم بھی کہہ دیتے“۔(احمد رضا خان)

”اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر ہم بھی کہہ دیں“۔(محمد جوناگڑھی)

”جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ہاں سُن لیا ہم نے، اگر ہم چاہتے ہوتے تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنادیتے“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)

(۱٠) لَو یَجِدُونَ مَلجَا او مَغَارَاتٍ او مُدَّخَلًا لَوَلَّوا اِلَیہِ۔ (التوبۃ: 57)

”ان کو کوئی پناہ گاہ یا غار یا گھس بیٹھنے کی جگہ مل جائے تو اس کی طرف بے تحاشہ بھاگ جائیں گے“۔(جوادی)

”اگر وہ کوئی جائے پناہ پالیں یا کوئی کھوہ یا گھس بیٹھنے کی جگہ، تو بھاگ کر اُس میں جا چھپیں“۔ (سید مودودی)

”اگر پائیں کوئی پناہ یا غار یا سما جانے کی جگہ تو رسیاں تڑاتے ادھر پھر جائیں گے“۔(احمد رضا خان)

”اگر یہ کوئی بچاؤ کی جگہ یا کوئی غار یا کوئی بھی سر گھسانے کی جگہ پالیں تو ابھی اس طرح لگام توڑ کر الٹے بھاگ چھوٹیں“۔(محمد جوناگڑھی)

(۱۱) وَرَبُّکَ الغَفُورُ ذُو الرَّحمَۃِ لَو یُوَاخِذُہُم بِمَا کَسَبُوا لَعَجَّلَ لَہُمُ العَذَابَ۔ (الکہف: 58)

”تیرا رب بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑنا چاہتا تو جلدی ہی عذاب بھیج دیتا“۔ (سید مودودی)

”اور تمہارا پروردگار بخشنے والا صاحب رحمت ہے۔ اگر وہ ان کے کرتوتوں پر ان کو پکڑنے لگے تو ان پر جھٹ عذاب بھیج دے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تیرا پروردگار بہت ہی بخشش والا اور مہربانی والا ہے وہ اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بےشک انہیں جلد ہی عذاب کردے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تیرا رب بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے اگر وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑتا ہوتا تو جلدی ہی عذاب بھیج دیتا“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)

(۲۱) وَاعلَمُوا اَنَّ فِیکُم رَسُولَ اللَّہِ لَو یُطِیعُکُم فِی کَثِیرٍ مِنَ الاَمرِ لَعَنِتُّم۔ (الحجرات: 7)

”خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہو جاؤ “۔(سید مودودی)

”اور جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول ہیں بہت معاملوں میں اگر یہ تمہاری خوشی کریں تو تم ضرور مشقت میں پڑو“۔ (احمد رضا خان)

”اور جان رکھو کہ تم میں خدا کے پیغمبرﷺ ہیں۔ اگر بہت سی باتوں میں وہ تمہارا کہا مان لیا کریں تو تم مشکل میں پڑ جاؤ “۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور یاد رکھو کہ تمہارے درمیان خدا کا رسول موجود ہے یہ اگر بہت سی باتوں میں تمہاری بات مان لیتا تو تم زحمت میں پڑ جاتے“۔ (ذیشان جوادی)

”خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرتا تو تم مشکلات میں مبتلا ہوجاتے“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)

مذکورہ بالا منتخب مقامات کے ترجموں سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ عام طور پرمترجمین کا موقف واضح معلوم نہیں ہوتا اس بارے میں کہ لو کے بعد فعل مضارع آنے کی صورت میں ترجمہ زمانہ ماضی کا کرنا ہے یا زمانہ مستقبل کا کرنا ہے۔ ایک ہی مترجم ایک مقام پر ماضی تو دوسرے مقام پر مستقبل والا ترجمہ بھی کرتا ہے۔ یعنی ’اگر وہ چاہے‘ مستقبل ہے اور ’اگر وہ چاہتا‘ ماضی ہے۔

دوسری بات یہ کہ لو کے بعد فعل مضارع کا جب ماضی میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو عام طور سے سادہ سا ترجمہ کیا جاتا جیسے ’اگر وہ چاہتا‘، جب کہ بعض مترجمین نے کہیں کہیں فعل مضارع کی رعایت کرتے ہوئے ’اگر وہ چاہتا ہوتا‘ کی طرح ترجمہ کیا ہے۔ مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی ہر مقام پر اسی ترجمہ کو تجویز کرتے ہیں۔

(جاری)

اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۱۲)

مولانا سمیع اللہ سعدی

حدیث کی مقبول و مردود اقسام  کے اعتبار سے اہل سنت کے مصطلح الحدیث اور اہل تشیع کے علم الدرایہ کا تقابلی مطالعہ  پچھلی دو اقساط میں بالتفصیل بیان ہوا ،اس سے  یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اہلسنت کے ہاں مقبول حدیث کے معیارات  میں کڑی شرائط بیان کی گئی ہیں ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں  اس حوالے سے کافی تساہل سے کام لیا گیا ہے ، اسی طرح  مردود  حدیث  کے سلسلے میں اہل سنت نے جن اقسام کو بیان کیا ہے ،ان کی تطبیق حدیثی ذخیرہ پر بھر پور انداز میں  عمل میں لائی گئی ،یہاں تک کہ مردود حدیث کی مختلف اقسام کے مصادر تک  کی تعیین کی گئی ہے ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں اہل سنت کی اتباع میں وہی اقسام تو بیان کی گئی ہیں  ،لیکن ان اقسام کی شرائط ،مصادر ،رواۃ اور خصوصا حدیثی ذخیرے پر  تطبیق کے حوالے سے کسی قسم کی ابحاث نہیں کی گئی ہیں ،،جس سے متنوع الجھنیں   پیدا ہوئی ہیں  ،جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا گیا ،اب ہم سنی مصطلح الحدیث اور شیعہ علم الدرایہ کا دیگر مباحث میں ایک تقابلی مطالعہ نکات کی شکل میں  پیش کریں گے :

1۔اہل سنت  محدثین نے حدیثی ذخیرے میں موجود ظاہری تعارض و اختلاف کو حل کرنے پر خصوصی توجہ دی ہے ،چنانچہ اس کے لئے مصطلح الحدیث میں ایک مستقل علم و فن علم  مختلف الحدیث و مشکل  الحدیث  وضع ہوا ہے ،اس فن کی اہمیت بیان کرتے ہوئے امام نووی لکھتے ہیں :

"ھذا فن من اہم الانواع ،و یضطر الی معرفتہ جمیع العلماء من الطوائف"1

یعنی یہ فن انواع مصطلح الحدیث میں سے اہم ترین فن ہے ،اہل علم کے جملہ گروہوں کو اس فن  کے جاننے کی اشد ضرورت ہے ۔

اس موضوع پر مصطلح الحدیث کی کتب میں  موجود مواد کے علاوہ اہل سنت محدثین نے درجہ ذیل مستقل کتب لکھی ہیں :

1۔اختلاف الحدیث ،امام محمد بن ادریس الشافعی

2۔تاویل مختلف الحدیث ،ابو محمد عبد اللہ بن مسلم قتیبہ دینوری

3۔ مشکل الاثار ،امام ابو جعفر الطحاوی

4۔مشکل الحدیث و بیانہ ،ابو بکر ابن فورک

5۔التحقیق فی اختلاف الحدیث ،ابو الفرج ابن الجوزی

6۔تاویل الاحادیث الموہمہ للتشبیہ ،جلا ل الدین السیوطی

7۔مشکلات الاحادیث النبویہ و بیانہا ،شیخ عبد اللہ النجدی

8۔دفع التعارض عن مختلف الحدیث ،حسن مظفر الزور

9۔مختلف الحدیث بین الفقہاء و المحدثین ،نافذ حسین حماد

10۔مختلف الحدیث  و موقف النقاد المحدثین منہ ،شیخ اسامہ عبد اللہ خیاط 2

ان کتب میں متعارض احادیث کے حل و تطبیق کے قواعد پر تفصیلی کلام کے ساتھ حدیثی ذخیرے میں موجود متعارض احادیث میں تطبیق ،ترجیح  پر مفصل کام ہوا ہے ،یوں نظری و عملی ہر دو اعتبار سے اہل سنت کے حدیثی ذخیرے میں موجود ظاہری تعارض کے حل  پر مکمل کام  ہوا ہے ،جبکہ اس کے برخلاف اہل تشیع محدثین کے ہاں اس موضوع پر مواد نہ ہونے کے برابر ہے ،چنانچہ  شیخ  جعفر سبحانی نے اپنی کتاب "اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ " میں حدیث کی اقسام میں مختلف  الحدیث کی تعریف  امام نووی سے نقل کی ،اور اس موضوع پر موجود  کتب میں ابن قتیبہ کی تاویل  مختلف الحدیث کا ذکر کیا 3،اگر شیعہ اہل علم کا کوئی قابل ِ ذکر کام اس موضوع پر ہوتا ،تو ضرور کچھ ذکر کرتے ،شاید اسی وجہ سے شیعہ محقق علی خضیر حجی نے اپنی مفصل کتاب "المبادی العامہ  لعلم  مصطلح الحدیث المقارن " میں مختلف الحدیث کا ذکر ہی نہیں کیا ،کیونکہ اس کتاب میں مصنف نے حدیث کی مختلف اقسام میں سے ہر دو فریقوں کی کتب سے امثلہ و مواد لانے کا التزام کیا ہے ،چونکہ اس موضوع پر اہل تشیع محدثین کا قابلِ ذکر کام نہیں ہے ،اس لئے مصنف نے اپنی کتاب میں اس اہم ترین قسم کے ذکر سے پہلو تہی اختیار کی ۔

2۔اہل سنت کے حدیثی ذخیرے میں چونکہ بکثرت تکرار موجود ہے ،جیسا کہ اس سلسلے کی تعداد ِ روایات والے عنوان میں ہم وضاحت کر چکے ہیں ،اس لئے مصطلح الحدیث میں مکرر احادیث و تعدد طرق  کو ایک لڑی میں پرونے کے لئے اعتبار ،متابعت اور  شاہد  کی اقسام وضع ہوئی ہیں ،جن میں دو یا زیادہ روایات کے لفظی  یا معنوی اشتراک  یا ایک ہی حدیث کے مختلف شیوخ و صحابہ سے روایت پر بحث ہوتی ہے ، صحاح ستہ میں امام بخاری نے متعدد مقامات پر متابعت کو بیان کیا ہے ،جبکہ  امام ترمذی  نے   وفی الباب کے تحت شواہد کی طرف اشارہ کیا ہے  اور امام مسلم نے شواہد کو بیان کرنے پر خصوصی توجہ دی ہے ،مصطلح الحدیث کا یہ فن انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،اس سے ایک حدیث کے لفظی و معنوی مکررات  اور سند و شیوخ کے تکرار و طرق  کا علم ہوتا ہے ،اس کے برخلاف یہ فن شیعہ علم الدرایہ سے سرے سے  مفقود ہے ،چنانچہ متقدمین شیعہ اہل علم میں سے شہید ثانی کی البدایہ فی علم الدرایہ ہو  یا متاخرین و معاصرین شیعہ اہل علم میں سے جعفر سبحانی  کی اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ہو ،یا محقق خضیر کی المبادی العامہ  لعلم مصطلح الحدیث المقارن ہو ،ان میں سے کسی بھی کتاب میں اعتبار،متابعت اور شاہد کی تعریفات و ابحاث مذکور نہیں ہیں ،یہاں  تک کہ شیعہ علم الدرایہ کی سب سے مفصل کتاب  علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ  بھی اس کے ذکرسے خالی ہے ،جب  اصول حدیث میں  متابعات و شواہد  اور اس کے اصول و قواعد  کا ذکر ہی  مفقود ہے ،تو عملا  شواہد و اعتبارات کو جمع کرنے پر کام  کیونکر ہوگا؟یوں  شیعہ ذخیرہ حدیث میں ایک روایت کے مختلف طرق ،مکررات ،شیوخ واسناد میں مشترکات پر نظری و عملی ہر دو پہلووں سے کام نہیں ہوا ہے ،چنانچہ آج اگر اہل سنت کے حدیثی ذخیرے میں سے کسی بھی حدیث کے مختلف طرق و مکررات تلاش کرنے ہوں ،تو آسانی سے مل جاتے ہیں ،کس حدیث کے کتنے شواہد ہیں ؟سند میں کتنے مقامات پر متابعات ہیں ؟اور کتنے اعتبارات ہیں ؟سہولت کے ساتھ دستیاب ہیں ،جبکہ شیعہ ذخیرہ حدیث میں اولا تو تکرار انتہائی کمیاب ہے ،جیسا کہ ہم اس پر بحث کر چکے ہیں ،ثانیا جن روایات میں تکرار ہیں ،ان  میں شواہد  ومتابعات کی کیا تفصیل ہیں ؟ نظری و عملی ہر دو اعتبار سے یہ پہلو  مفقود ہے۔

3۔اہل سنت محدثین نے مصطلح الحدیث میں ایک دلچسپ فن علم اسباب ورود الحدیث  وضع کیا ہے ،یہ فن قرآنی آیات کے شانِ نزول کی طرح احادیثِ نبویہ کے شان ورود ،موقع محل اور پس منظر کو بیان کرتا ہے ،اس سے حدیث  میں بیان کردہ حکم کے اسرار و حکم ،اس کے دائمی و وقتی ،عمومیت و خصوصیت ،تقیید و اطلاق ،تفصیل و اجمال اور تشریعی و ارشادی سمیت دیگر اہم امور   کا علم ہوتا ہے ،مصطلح الحدیث  کے ضمن میں بیان کرنے کے ساتھ  اہل سنت محدثین نے اس پر مستقل کتب تحریر کیں ہیں ،چند اہم کتب یہ ہیں :

1۔محاسن  الاصطلاح و تضمین کتاب ابن الصلاح ،سراج الدین بلقینی

2۔اللمع  فی سبب الحدیث ،جلا ل الدین السیوطی

3۔البیان و التعریف فی اسباب ورود الحدیث الشریف ،ابراہیم بن محمد المعروف ابن حمزہ الدمشقی

4۔علم اسباب ورود الحدیث ،طارق اسعد حلمی

5۔اسباب ورود الحدیث ،ضوابط و معالم ،محمد عصری زین العابدین

اس کے برخلاف جب شیعہ علم الدرایہ کو دیکھتے ہیں ،تو علم الاعتبار و الشاہد کی طرح یہ فن بھی سرے سے موجود ہی نہیں ہے ،ہم نے شہید ثانی کی البدایہ سے لیکر علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ تک اور معاصرین میں سے جعفر سبحانی کی اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ کی ورق گردانی کی ،تو ہمیں  ان کتب میں علم  اسباب ورود الحدیث پر کسی قسم کا مواد نہیں ملا ،نہ ہی ہمارے علم کی حد تک  اہل تشیع محدثین نے اس فن پر کوئی قابل ِ ذکر مستقل کتاب تحریر کی ہے ،یہ فن کتنا اہم ہے ،اور اس فن کی مدد سے اہل سنت  اہل علم نے احادیثِ مبارکہ  میں بیان کردہ احکامات کی کیسے درجہ بندی کی ہے ،اس کا نمونہ دیکھنا ہو تو محقق عبد الماجد غوری کی کتاب المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث   (ص979 تا 997)  کا مطالعہ کافی ہوگا ،طوالت کے پیشِ نظر ہم اس بحث کو نقل نہیں کر سکتے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل تشیع کے علم الدرایہ  اور حدیثی ذخیرے میں  ان مباحث کی عدم موجودگی کی وجہ سے کتنا بڑا خلا موجود ہے۔

4۔اہل سنت محدثین نے  حدیثی ذخیرے میں موجود منسوخ روایات کی چھان بین پر مفصل کام  کیا ہے ،تاکہ قرآنی آیات کی طرح منسوخ احادیث کا بھی علم ہوسکے اور احکام کے  اخذ و استنباط میں ان کو پیشِ نظر رکھا جا سکے ،چنانچہ اس سلسلے میں علم مصطلح الحدیث میں نسخ فی الحدیث کے قواعد کے ساتھ  منسوخ روایات کی تنقیح و تہذیب پر مستقل  کام ہوا ہے ، اس موضوع کی چند اہم کتب یہ ہیں :

1۔ناسخ الحدیث و منسوخہ ،ابو حفص ابن شاہین

2۔اعلام العالم بعد رسوخہ بحقائق ناسخ الحدیث و منسوخہ ،ابو الفرج ابن الجوزی

3۔الاعتبار فی بیان الناسخ والمنسوخ من الاثار (دو جلد)،ابوبکر الحازمی

4۔الناسخ و المنسوخ فی الاحادیث ،احمد بن محمد المختار الرازی

اس حوالے سے جب اہل تشیع محدثین کا کام دیکھا جاتا ہے ،تو یہاں بھی  ہمیں خلا نظر آتا ہے ،علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ ہو ،شہید ثانی کی البدایہ ہو یا جعفر سبحانی کی  اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ،اہل سنت کی کتب جیسے مقدمہ ابن الصلاح ،امام نووی کی التقریب وغیرہ سے بالصراحت (یعنی خود ان مصنفین نے نسخ کی بحث میں اہل سنت اہل علم کا حوالہ دیا ہے ،خصوصا علامہ مامقانی و جعفر سبحانی نے )تعریفات و اقسام نقل کی گئی ہیں ،اس کے علاوہ  شیعی حدیثی ذخیرے میں منسوخ روایات کی چھان بین پر کوئی قابلِ ذکر مستقل کام نہیں ہوا ہے ۔

5۔اہل تشیع محدثین نے چونکہ علم الدرایہ بنیادی طور پر اہل سنت کی کتب خصوصا مقدمہ ابن الصلاح سے نقل کیا ہے ،جیسا کہ ماقبل میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے ،تو اس نقل میں شیعہ اہل علم نے وہ مباحث بھی نقل کئے ہیں ،جو شیعہ حدیثی ذخیرے  پر منطبق نہیں ہوسکتے ،مثلا ،اہل سنت کے ہاں ایک اہم بحث  طرقِ تحمل حدیث کی کی جاتی ہے کہ حدیث کو شیخ سے لینے کے کتنے طرق ہیں ،اس بارے میں آٹھ مشہور طرق کا ذکر کیا جاتا ہے ،پھر ان  کی ذیلی اقسام اور ان میں درجہ بندی کی جاتی ہے ،مقدمہ ابن الصلاح میں  یہ بحث النوع الرابع و العشرون کے تحت مفصلا بیان کی گئی ہے ،مقدمہ ابن الصلاح کی یہ بحث الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ شہید ثانی نے  البدایہ میں اور علامہ مامقانی نے مقباس الہدایہ میں ہو بہو کاپی کی ہے ،اس  سے قطع نظر کہ ہر دو حضرات نے امثلہ تک مقدمہ سے لی ہیں ،یہ بات  قابل ذکر ہے کہ  تحملِ حدیث والی یہ تقسیمات شیعہ حدیثی ذخیرے میں  نہیں چل سکتیں ،کیونکہ  اس تقسیم کا تعلق دورِ رسالت کے بعداور کتبِ حدیث کی تدوین سے پہلے   مجالس ِ حدیث  کے حلقہ جات کے ساتھ ہے کہ  اہل سنت میں وسیع پیمانوں پر تعلیمِ حدیث کے حلقہ جات قائم ہوچکے تھے ،ان حلقہ جات میں سینکڑوں شاگرد ہوتے تھے ،کبھی استاد حدیث  پڑھتا تھا ،شاگرد سنتے تھے ،کبھی شاگردوں میں سے کوئی ایک شاگرد حدیث پڑھتا ،جبکہ استاد و باقی شاگرد سماع کرتے ،کبھی استاد اپنی مرویات لکھی ہوئی بغیر پڑھے ہوئے شاگردوں میں بانٹ دیتا تھا ،کبھی استاد  کسی خاص شاگرد کو خط یا پیغام کے ذریعے اپنی مرویات کی اجازت دیتا ،الغرض متنوع قسم  کے طرز رائج تھے ، جس سے تحملِ حدیث کے طر    قِ ثمانیہ وجود میں آئے ،جبکہ شیعہ علم حدیث  میں یہ طرق متصور نہیں ہوسکتے ،کیونکہ  شیعہ علم حدیث کے دو مراحل ہیں :

 پہلا مرحلہ زمانہ ائمہ  کرام (معصومین ) کا تھا ،جس میں براہ ِ راست ائمہ سے  ان کے مخصوص تلامذہ نے علمِ حدیث   حاصل کیا  ،اس تعلیم و تعلم میں ائمہ کی حیثیت شارع کی جبکہ تلامذہ کی حیثیت امتی کی تھی  اور ائمہ کے یہ ارشادات وحی  پر مبنی ہو  تے تھے  ، تو جس طرح  نبی پاک ﷺ سے صحابہ کرام  وقتا فوقتا وحی  متلو و غیر متلو سن کر محفوظ کرتے تھے ،(بقول اہل تشیع) اسی طرح ائمہ کرام سے ان کے تلامذہ نے  ائمہ کے ارشاداتِ وحی محفوظ کئے ہیں ،تو اس میں  تو صرف ایک ہی صورت تھی کہ ائمہ تلامذہ کو وحی  کی تعلیم دیتے تھے ،تلامذہ اسے نقل کر کے محفوظ کر کے یاد  رکھتے تھے ،جیسا کہ زمانہ نبوت میں آپ ﷺ ارشادات فرماتے ،صحابہ کرام زبانی یا تحریر ی یاد کرتے ،لھذا اس میں  تحمل کے دیگر طرق  کیسے چل سکتے ہیں ؟  کیونکہ  ائمہ کے پاس   باقی شیوخ ِ حدیث کی طرح روایات کا ایک متعین و محدود ذخیرہ  نہیں تھا ،جو وہ انہی الفاظ کے ساتھ اسی سند کے ساتھ  اپنے تلامذہ کوسناتے ،بلکہ   روایات خود ان کے اقوال و ارشادات تھے ،جو وہ کسی نبی کی طرح موقع بموقع اور ضرورت کے وقت ارشاد فرماتے تھے ۔

دوسرا مرحلہ مابعد ائمہ کا  تھا ،اس میں محدثین ِ اہل تشیع نے ائمہ کے براہ راست تلامذہ سے منقول تحریری سرمایے ،جنہیں وہ اصول اربعمائہ کہتے ہیں ،ان سے اپنی کتبِ حدیث مرتب کیں ،ائمہ کے براہ راست تلامذہ نے ائمہ سے سنی مرویات کی کھلم کھلا درس و تدریس  اور تعلیم  نہیں کی ،کیونکہ بقول ِ محققین اہل تشیع ،کہ وہ زمانہ تقیہ کا زمانہ تھا ،اس میں مجالس حدیث نہیں لگ سکتے تھے ،اس کی تفصیل ہم اس سلسلے کی پہلی قسط میں "حدیثی سرمایہ قبل از تدوین " کے عنوان کے تحت بیان  کر چکے ہیں ، جب کتب ِ حدیث مدون ہوگئیں ،تو بعد از تدوین ِ کتب ِ حدیث  ان طرقِ ثمانیہ کی ضرورت  سنی حلقوں میں بھی ختم ہوگئی ، لھذا جب اہل تشیع کے حدیثی سرمایے پر ایسا زمانہ ہی نہیں آیا ،جن میں ائمہ کرام کی مرویات کو قبل از تدوین ِ کتب ِ حدیث تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کے مرحلے سے گزارا گیا ہو تو تحملِ حدیث کے ان طرقِ ثمانیہ کا موقع بھی نہیں آیا ،اس لئے اہل تشیع محدثین کا ان  طرق کو اہل سنت کی اتباع میں علم الدرایہ میں ذکر شیعہ حدیثی ذخیرے کے اعتبار سے درست نہیں ہے ۔

خلاصہ یہ کہ ان طرق کا تعلق بعد از زمانہ تشریع  و قبل از تدوینِ کتب کے ساتھ ہے ، جس میں حدیثی ذخیرے کی شیوخ حدیث تعلیم و تدریس  دیتے تھے ،اور شیعہ علم ِ حدیث  پر یہ زمانہ بوجوہ نہیں آسکا ،تو ان طرق  کا ذکر بے محل ہے ۔یہی وجہ ہے  متقدمین اہل تشیع کے ہاں ان طرق کے جواز و عدم جواز پر کسی قسم کی بحث نہیں ملتی ،علامہ مامقانی نے بھی زیادہ تر حوالے علمائے اہل سنت کے دئیے ہیں ،جبکہ علمائے اہل تشیع میں حوالہ شہید ثانی کا دیتے ہیں ،شہید ثانی سے پہلے  قدمائے شیعہ کے حوالے نہیں دیتے ،کیونکہ  اس وقت ان طرقِ ثمانیہ کا وجود نہیں تھا ،تو ان کے احکام پر بحث بھی نہیں تھی ،چنانچہ اجازت لغیر المعین کا حکم بیان کرتے  ہوئے علامہ مامقانی رقم طراز ہیں :

"وفیہ ایضا خلاف مرتب  فی القوۃ بحسب المرتبتین ،فجوزہ علی التقدیرین جمع من الفقہاء و المحدثین کالقاضی ابی الطیب الطبری ،وا لخطیب البغدادی  و ابی عبد اللہ  بن مندہ و ابن عتاب و ابی العلاء الحسن بن احمد العطار الھمدانی  من العامہ و الشہید من اصحابنا ۔۔۔و منعہ اخرون 4

اس عبارت میں  علمائے اہل سنت کے قدماء کی ایک لمبی فہرست ذکر کر دی ،لیکن  علمائے شیعہ میں سے صرف شہید ثانی مصنف البدایہ کا ذکر کیا ۔

6۔اہل تشیع کے علم الدرایہ  کے تراث میں سب سے اہم ترین اور مفصل کتاب علامہ مامقانی کی دو جلدوں پر مشتمل  کتاب "مقباس الہدایہ  فی علم الدرایہ " ہے ،اس کتاب کی قدر و قیمت اہل تشیع محققین کے ہاں کتنی ہے ؟اس کا اندازہ کتاب کےمحقق محمد رضا مامقانی کے درجہ ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے ،محقق  محمد رضا مامقانی کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :

"و لعل من اجل ما کتب فی ھذ الفن و انفع فیما نعلم کتابنا الحاضر مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ لشیخنا المعظم الایۃ العظمی الشیخ عبد اللہ  المامقانی طاب رمسہ ،و اقولہا لا حرصا و لا تعنتا بل شہادۃ للتاریخ انی مع کل مراجعاتی للمخطوط من ھذا الفن و المطبوع من الفریقین ندر ان وجدت من اوفی الموضوع حقہ و اعطاہ جدہ او استوفی البحث استیعابا کمصنفنا فی مصنفہ ھذا "5

یعنی اس فن کی سب سے اجل وانفع کتاب ہمارے علم کی حد تک مقباس الہدایہ ہے ،اور میں بلا تعصب کے تاریخی شہادت کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ اہل سنت و اہل تشیع کے جملہ مخطوطات و مطبوعات  میں  ہمیں اس کتاب کے سوا کوئی ایسی کتاب نہ ملی ،،جس نے اس کتاب کی طرح  موضوع کا حق ادا کیا ہو ،اور تفصیلی بحث کی ہو ۔

ہمارے اس سلسلے کا مقصد چونکہ  فریقین کے حدیثی  علوم و کتب کا تقابلی جائزہ ہے ،اس لئے  محقق مذکور کے اقتباس کے بعد ہم نے  اہل سنت میں سے مقدمہ ابن صلاح اور علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ کے مباحث کا تقابل کیا  اور اہم مباحث کا بالاستیعاب مقارن مطالعہ کیا ،تو ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ مذکورہ کتاب کے   بہت سے اہم مباحث الفاظ و عبارات کے معمولی اختلاف کے ساتھ مقدمہ ابن صلاح سے ماخوذ ہے ،قارئین اس کی تصدیق    کے لئے مذکورہ کتاب کے  درجہ ذیل دو مباحث مقدمہ  ابن صلاح کے ساتھ مقارن مطالعہ فرمائیں :

1۔ مقباس الہدایہ سے  فی طرق  تحمل الحدیث (ج2،ص 182 تا 251 ) کا تقابلی مطالعہ مقدمہ ابن صلاح کے النوع الرابع و العشرون  کے ساتھ  کریں ۔

2۔ مقباس الہدایہ سے  فی کتابۃ الحدیث و ضبطہ (ج2،ص 255 تا 273 ) کا تقابلی مطالعہ مقدمہ ابن صلاح کے النوع الخامس  والعشرون کے ساتھ کریں ۔

مذکورہ دو مباحث چونکہ تفصیلی ہیں ،بوجہ طوالت نقل نہیں کرسکتے ،البتہ قارئین کے لیے بطورِ نمونہ ایک بحث نقل کرنا مناسب ہوگا ،تاکہ اندازہ ہوسکے کہ علامہ مامقانی نے کس حد تک  مقدمہ ابن صلاح سے اپنی کتاب اخذ کی   ہے ،رواۃ کی ایک قسم معرفۃ الوحدان یعنی جس سے صرف ایک راوی نے روایت کی ہو ،اس کی تفصیل  بیان کرتے ہوئے مصنف مقدمہ   ابن صلاح لکھتے ہیں :

"معرفۃ من لم یرو عنہ الا راو واحد من الصحابۃ و التابعین فمن بعدھم رضی اللہ عنھم ،ولمسلم فیہ کتاب لم ارہ و مثالہ من الصحابۃ وہب بن خنبش وھو فی کتابی الحاکم و ابی نعیم الاصبھانی فی معرفۃ علوم الحدیث ہرم بن خنبش وھو روایۃ داود الاودی عن الشعبی و ذالک خطا،صحابی لم یرو عنہ  غیر الشعبی ،وکذلک  عامر بن شہر ،وعروۃ بن مضرس ،ومحمد بن صفوان الانصاری ،ومحمد بن صیفی الانصاری ،ولیسا بواحد و ان قالہ بعضہم ،صحابیون لم یرو عنہم غیر الشعبی  و انفرد قیس بن ابی حازم بالروایۃ عن ابیہ و عن دکین بن سعید المزنی و الصنابح بن الاعسر و مرداس بن مالک الاسلمی و کلہم صحابۃ6

اب یہی بحث مقباس الہدایہ سے ملاحظہ فرمائیں ،علامہ مامقانی لکھتے ہیں :

"معرفۃ الوحدان و ھو من لم یرو عنہ الاواحد ،و فائدۃ معرفتہ عدم قبول روایۃ غیر ذالک الواحد عنہ ،ومثال ذلک  فی الصحابۃ وھب بن خنبش بفتح الخاء المعجمہ و الموحدۃ بینہما نون ساکنۃ الطائی والکوفی، وعروۃ بن مضرس، محمد بن صفوان الانصاری و محمد بن صیفی الانصاری ،صحابیون لم یرو عنھم غیر الشعبی ،وفی التابعین ابو العشراء الدارمی لم یرو عنہ غیر حماد بن سلمۃ ،وتفرد الزہری علی ما قیل عن نیف وعشرین من التابعین لم یرو عنہم غیرہ منہم" 7

اب قارئین ہر دو عبارات کا تقابل کریں کہ کیا علامہ مامقانی نے مقدمہ ابن صلاح کی تحقیق پر کچھ اضافہ کیا ہے یا مقدمہ کی بحث الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ نقل کر دی ؟آخر میں ابو العشراء الدارمی ،حماد بن سلمہ اور امام زہری کا جو ذکر ہے ،ان کا ذکر بھی مقدمہ میں کچھ سطروں کے بعد مصنف نے کیا ہے ،نیز  مقدمہ سے اس بحث کو بعینہ اٹھانے میں ایک فنی غلطی یہ ہے کہ صاحبِ مقدمہ ابن صلاح تو اہل سنت رواۃ میں سے وحدان کو بیان کر رہے ہیں، علامہ مامقانی کو اہل تشیع رواۃ میں سے وحدان کی مثالیں لانی چاہئے تھیں ، لیکن علامہ مامقانی نے اہل تشیع کے وحدان کی بحث میں اہل سنت کے وحدان رواۃ ذکر کردئیے ،یا  للعجب

اس کے ساتھ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ علامہ مامقانی نے وحدان رواۃ کے بارے میں اتنا ہی لکھا ہے ،جتنی اوپر عبارت نقل ہوئی ہے ،لیکن مقدمہ ابن صلاح میں وحدان رواۃ کے بارے میں آٹھ صفحات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ، اس سے قارئین مقدمہ  ابن صلاح اور علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ کے استیعابِ  مباحث کا موازنہ کر سکتے ہیں ،اس تفصیل کے بعد  محقق رضا مامقانی کے دعوے پر ایک نظر دوبارہ  ڈالئے اور فیصلہ کیجیے کہ ان کا دعوی حقائق کے اعتبار سے کتنا وزنی ہے؟بے جا طوالت کی فکر دامن گیر نہ ہوتی تو اس موقع پر مقدمہ ابن صلاح کے  ستر انواع  کی فہرست اور علامہ مامقانی کی مقباس الہدایہ کی فہرست ذکر کرتا ،تاکہ قارئین اندازہ لگا سکیں کہ استیعاب،جامعیت اور ترتیب میں کونسی کتاب فائق ہے،قارئین ہر دو کتب کی فہرست دیکھ کر خود بھی یہ  موازنہ کر سکتے ہیں ۔

7۔ اہل تشیع کے علم الدرایہ کی سب سے تفصیلی اور شیعہ محققین کے بقول سب سے اعلی کتاب کا مقدمہ ابن صلاح کے ساتھ تقابل کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ  اہل تشیع  کے  علم الدرایہ کے بقیہ کتب    کے مباحث کی کیا کیفیت ہوگی؟ہر  دو مکاتب کے اصولِ حدیث کا یہ تقابلی مطالعہ  بحمدہ  تعالی اپنے اختتام کو پہنچا ،اس تقابلی مطالعے میں  علم جرح و تعدیل اور علم الرجال کا تقابل شامل نہیں ہے ،ان کی اہمیت کی وجہ سے اسے ان شا اللہ اگلی قسط میں مستقل بیان کیا جائے گا ۔


حواشی

 1.  التقریب و التیسیر ،ص90

2.  دیکھیے :المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ،عبد الماجد غوری ،1030تا 1034

3.  دیکھیے :اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ،جعفر سبحانی ،ص85

4.  مقباس الہدایہ ،ج2،ص212

5.  مقباس الہدایہ ،ج1،ص10

6.  مقدمہ ابن صلاح ،النوع السابع و الاربعون ،ص552

7. مقباس الہدایہ ،ج2،ص346

(جاری)


صنعاء پالمپسسٹ پر جدید تحقیقات کا جائزہ

سید ظفر احمد

خلاصہ: یہ ایک ریویو پیپر ہے جس میں صنعاء پالمپسسٹ رقم DAM 01-27.1  پر حالیہ یعنی گزشتہ دس سالوں میں ہونے والی تحقیقات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پرنٹنگ پریس کے زمانے سے قبل جو اشیاء تحریر کیلیے استعمال کی جاتی تھیں، ان میں پارچہ (parchment)ا یک اہم میڈیم تھا جو  ہرن ،  بکری، دنبہ وغیرہ کے چمڑے  کو ایک عمل سے گزار کر  بنایا جاتا تھا۔ پارچے کافی مہنگے ہوتے تھے، اس لیےان  کی ری سائکلنگ ایک معمول تھا۔ پہلی تحریر کی جب ضرورت باقی نہیں رہتی تھی تو اس کو مِٹا کر یا دھوکر  پارچہ  آئندہ استعمال کیلیے رکھ دیا جاتا  تھا۔   پالمپسسٹ  (Palimpsest)ایسے پارچہ کو کہتے ہیں  جس میں تحریر کی دو  یا زیادہ سطحیں   ہو تی  ہیں۔ صنعاء سے1972ء میں  دریافت ہونے والے مذکورہ پالمپسسٹ میں  تحریرکی دو  تہیں ہیں اور دونوں قرآنی  مخطوطات ہیں۔ کچھ محققین کے نزدیک یہ مکمل قرآنی مصاحف کی باقیات ہیں جن میں سے زیریں نسخہ قبل ِعثمان روایتِ متن کا حامل ہے جب کہ بالائی نسخہ عثمانی روایتِ متن پر مشتمل ہے۔ زیریں نسخہ واحد قدیم ترین قرآنی  دستاویز ہے جو  غیر عثمانی روایت کی نمائندگی کرتی ہے۔قریب ترین عرصہ میں جو تحقیقات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق یہ اوراق مکمل مصاحف کا کبھی حصہ نہ تھے بلکہ غیر پیشہ ورانہ انداز میں لکھے ہوئے طلبہ کے نوٹس تھے جو کسی درسی حلقہ میں استعمال ہوتے رہے تھے، اور ان کی حیثیت عارضی تھی جن کو بالآخر  ضائع کرنا مقصود تھا۔ اس جائزہ سے  معلوم ہوا کہ قرآن سے منسوب غیر معیاری مخطوطات   ناقص حافظہ  اورغیر پیشہ ور  انہ  ہاتھوں   کتابت کا  نتیجہ ہیں ۔   اور یہ بھی کہ قرآن  کی نشرواشاعت کا  اصل مدار زبانی روایات پر ہے۔ اس  مضمون کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارے علماء  ان تحقیقات سے آگاہ ہوں جو نُسَخِ قدیمہ پر مغربی دنیا میں  ہو رہی ہیں۔ بعید نہیں کہ  اس طرح بعض   مشکل موضوعات کی  عقدہ کشائی کی طرف کچھ اشارے مل سکیں۔  اس ضمن میں کچھ اشارات زیرِ نظر مضمون میں بھی دیے  گئے ہیں۔

 تعارف

پرنٹنگ پریس کے زمانے سے قبل جو اشیاء تحریر کیلیے استعمال کی جاتی تھیں، ان میں پارچہ (parchment)ا یک اہم میڈیم تھا جو  ہرن،  بکری، دنبہ وغیرہ کے چمڑے  کو ایک عمل سے گزار کر  بنایا جاتا تھا۔  اس کو عربی میں 'رَق' کہتے ہیں،  جیسا کہ قرآنِ مجید  میں سورۂ   طور میں پھیلی ہوئی جھلی پر لکھی ہوئی کتاب کی قسم کھائی گئی ہے (وَالطُّورِ◌ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ◌ فِي رَقٍّ مَنْشُورٍ◌)۔   پارچے کافی مہنگے ہوتے تھے،  اس کا اندازہ یوں لگا یا جاسکتا ہے کہ ایک  عام  سائز  کے مصحف  کو لکھنے کیلیے کم سے کم 200 جانوروں  کی ضرورت رہتی ہوگی [1]۔   اس لیے پارچوں  کی ری سائکلنگ ایک معمول تھا، پہلی تحریر کی جب ضرورت باقی نہیں رہتی تھی تو اس کو مِٹا کر یا دھوکر  پارچہ  آئندہ استعمال کیلیے رکھ دیا جاتا  تھا۔   پالمپسسٹ  (Palimpsest)ایسے پارچہ کو کہتے ہیں  جس میں تحریر کی دو  یا زیادہ سطحیں   ہو تی  ہیں۔ایسے پالمپسسٹ بھی پائے جاتے ہیں جن میں تین، چار اور پانچ  بار تحریر ثبت کی گئی۔  وقت گزرنے کے ساتھ پرانی تحریر  عموماً ہلکے بھورے رنگ میں نمایاں ہو جاتی ہے  جو   زنگ کی علامت ہے کیونکہ روشنائی میں دھاتی مرکبات شامل ہوتے تھے۔

صنعاء پالمپسسٹ  کی تاریخ

1965 ء میں  یمن کے  شہر صنعاء میں شدید بارش نے   تاریخی مسجد جامع الکبیر کے مغربی مکتبہ کی چھت  کو بہت نقصان پہنچا یا-  اس نقصان  کا جائزہ لینے کے دوران اندرونی چھت (false ceiling) اور بیرونی چھت (roof) کے درمیان، یعنی سندرہ یا دو چھتی (attic) میں، ایک سٹو ر روم دریافت ہوا جس  کا کوئی دروازہ نہ تھا، بس ایک کھڑکی تھی۔ معلوم ہوا کہ اس  مخزن  میں قدیم قرآنی مخطوطات کی بہت بڑی تعداد  موجود ہے۔   اس وقت ان قرآنی نسخوں پر مشتمل تقریباً پانچ  بوریاں  اوقاف کی لائبریری میں جمع کرادی گئیں۔ کچھ عرصہ بعد لائبریری کے کیوریٹر نے بوریوں کے  کچھ مشمولات کو غیر قانونی طور پر فروخت کردیا۔  1972 ء میں مسجد کی بیرونی دیوار کے شمال مغربی کونے کو مستحکم کرنے کے لئے  چھت کا کچھ حصہ ہٹایا گیا تاکہ بحالی اور تزئین و آرائش کے کاموں میں پیشرفت ہوسکے۔  چونکہ اُسی کونے میں  سٹور روم بھی واقع تھا ،   اس لیے باقی ماندہ  نسخے بھی وہاں سے نکال کر بیس بوریوں کی صورت   یمن کے قومی عجائب گھر منتقل کر دیے گئے ۔  کچھ عرصے بعد یمنی حکام کو معلوم ہوا کہ ان قیمتی قرآنی نسخوں کے چند اجزاء  کو پھر  سے سمگل کر دیا  گیا ہے۔  چنانچہ مزید بدعنوانی کی روک تھام کے لئے ، بقیہ  نسخوں کو آخر کار  جامع الکبیر میں دوبارہ منتقل کردیا گیا۔ اس اثناء میں بین الاقوامی سطح پر ان  نوادرات کو محفوظ کرنے کے لئے فوری مطالبہ شروع ہوچکا تھا۔ جولائی 1976 ء میں ، یونیسکو کے خرچ پر اور ورلڈ آف اسلام فیسٹیول ٹرسٹ کے زیر اہتمام  ایک  اجتماع  مرکزِ شرق ِ اوسط ،  فیکلٹی آف اورینٹل اسٹڈیز ، یونیورسٹی آف کیمبرج میں منعقد ہوا جس  میں مسلم اور غیر مسلم  ماہرین ِ فن نے شرکت کی۔ اس  ندوہ نے متعدد مخصوص تحقیقی سرگرمیوں کی سفارش کی تاکہ جامع الکبیرمیں دریافت ہونے والی قرآنی  نُسَخ کے  اس عظیم ذخیرہ  کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔

چونکہ بری طرح سے خراب  مخطوطات کے تحفظ کے لئے مقامی طور پر کوئی تکنیکی  مہارت موجود  نہ تھی ،  اس لیے  بیرونی ماہرین کی ضرورت تھی۔  ڈنمارک نے یمنی حکومت سے اس پیش کش کے ساتھ رابطہ کیا کہ ان مخطوطات کو  ڈنمارک بھیجا  جائے  جہاں بحالی کا کام  ہوسکے گا۔ یمنی حکام  نے مخطوطات کو ملک ہی میں رہنے کو ترجیح دی  اور اس پیش کش کو  مسترد  کردیا  ۔ آخر کار ، بہت غور و فکر کے بعد ،  حکام نے مغربی جرمنی کی وزارت خارجہ کے ثقافتی  شعبے کے تعاون سے ایک خصوصی منصوبے کی اجازت دی۔  وفاقی جمہوریہ  جرمنی  اور یمن عرب جمہوریہ کی عربی نسخوں کی بحالی اور زمرہ بندی سے متعلق 'دوطرفہ' معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد 1980ء کے موسم خزاں میں   یمنی  محکمۂ آثارِ قدیمہ  کے زیرِ اہتمام  ان پارچہ جات کی بحالی کا منصوبہ شروع ہوا۔  جرمنی کی  وزارتِ  خارجہ کا ثقافتی شعبہ اس پروجیکٹ کی فنڈنگ کر رہا تھا۔  یونیورسٹی آف ہیمبرگ  کے پروفیسر  البرخت نوث (Albrecht Noth) اس  کے پروجیکٹ ڈائریکٹر تھے۔ یہ پروجیکٹ  1989ء میں اختتام پذیر ہوا  جب 2.2 ملین جرمن مارک کی گرانٹ ختم ہوگئی۔ یونیورسٹی آف سارلینڈ کے پروفیسرگیرڈ-روڈیگر  پیوئین  (Gerd-Rüdiger Puin)اس پروجیکٹ کے 1981 سے مقامی ڈائریکٹر تھے ۔  1985ء میں سارلینڈ ہی کے آرٹ   ہسٹورین پروفیسر ہانس کاسپر گراف   فان   بوثمر (Hans-Caspar Graf von Bothmer) نے اس ذمہ داری کو سنبھالا۔ 1982ء سے1989ء تک معروف کنزرویشن سپیشلسٹ   اُرسُلا  ڈریبہولز (Ursula Dreibholz)اس پروجیکٹ کی  چیف کنزرویٹر رہیں اور صنعاء میں ہی مقیم رہیں۔ انہوں نے مخطوطات کی بحالی کا کام مکمل کیا ،  ان کیلیے مستقل  سٹوریج ڈیزائن کیا ،  مخطوطات  کے  منتشراجزاء کو قرآنی مصاحف میں ترتیب دیا اور یمنی عمال کو اس کام کی تربیت بھی دی۔  1985ء میں دارالاثار الاسلامیہ، کویت نیشنل میوزیم،   میں  چند مخطوطاتِ صنعاء  کی نمائش ہوئی  ۔ اس موقع پر 'مصاحف صنعاء' کے عنوان سے  ایک باتصویر  کیٹلاگ بھی شائع کیا گیا جس سے عام لوگوں کو اس منفرد تاریخی ذخیرہ  اور بحالی کے پروجیکٹ کا علم ہوا  [2] ۔   صنعاء کی دریافت کے بارے میں اندازہ لگایا گیا کہ یہ  قریب قریب  1000 قرآنی نُسَخ ہیں جو 15000 پارچوں پر مشتمل ہیں۔ غالباً پروفیسر پیوئین ہی وہ فرد ہیں جنہوں نے نے ان پارچوں کو مختلف مصاحف کی صورت تقسیم کیا تھا۔ 1996-97ء میں بوثمر نے ان  مصاحف کی مائیکروفلم بنالیں۔ یہ مصاحف اور مائیکروفلمز جامع الکبیر کے مقابل واقع  دارالمخطوطات  کے المکتبۃ الغربیۃ میں محفوظ ہیں۔   اس ذخیرہ میں   36 اوراق پر مشتمل ایک  پالمپسسٹ، کیٹلاگ نمبر DAM 01-27.11، شامل  تھا جس کی تاریخ کا اندازہ پہلی صدی ہجری (ساتویں/آٹھویں صدی شمسی)  لگایا گیا تھا  [3] ۔ اس کے علاوہ  جو قدیم حجازی اور کوفی  مصاحف  دارالمخطوطات  میں ہیں ان میں صرف  DAM 01-27.1 ہی  پالمپسسٹ ہے ۔

بحالی کے کام سے پہلے جو پارچے غیر قانونی طریقے سے سمگل کردیے گئے تھے وہ  بالآخر لندن کے  معروف نیلام گھروں میں فروخت  ہوئے۔ ان میں سے  ایک ورق یا فولیو کو سٹینفرڈ 2007 کا نام دیا جاتا ہے جو1993 میں لندن کے سوتھبی (Sotheby’s)  نیلام گھر میں فروخت ہوا تھا۔ اسی سے ملحق ایک دوسرا فولیو  1992 میں سوتھبی ہی میں فروخت ہوا تھا،   وہی دوبارہ  مئی 2001 ء میں کرسٹی (Christie’s)  نیلام گھر میں فروخت کیلیے پیش کیا گیا جہاں سے یہ لندن کے مشہور آرٹ ڈیلر— سام فوگ گیلری— سے ہوتا ہوا  بالآخر  کوپن ہیگن کے  عالمی شہرت یافتہ عجائب گھر ڈیوڈ کلیکشن  پہنچا جہاں وہ اب بھی  موجود ہے۔ ایک اور ورق 2001 ء میں بونہامس  (Bonhams) نیلام گھر میں فروخت ہوا۔ اور ایک چوتھا فولیو کرسٹی نیلام گھر میں 8 اپریل 2008 کوفروخت ہوا۔ اس کی قیمت4, 924, 279 یعنی تقریباً پانچ ملین  برطانوی پاؤنڈ  لگی تھی  جو کسی اسلامی مخطوطے کی اس وقت تک  سب سے زیادہ لگائی جانے والی قیمت تھی۔ان اوراق  کو  علی الترتیب سٹینفرڈ 2007، ڈیوڈ 86/2003 ، بونہامس 2000 اور کرسٹیز 2008   کا نام دیا جاتا ہے[3]۔

صادقی اور ساتھیوں کی تحقیق

صنعاء-1  کے مذکورہ چار اوراق پرمشتمل چرمی پالمپسسٹ  کا تحقیقی مطالعہ سٹینفرڈ یونیورسٹی   (Stanford University)کے پروفیسربہنام  صادقی (Behnam Sadeghi)2  او ر اُوے  برگمان  (Uwe Bergmann)نے 2010ء میں اپنے مونوگراف میں رپورٹ کیا [4]۔ انہوں نے مذکورہ  چار فولیوز کو  اسی مصحف کا حصہ  قرار دیا  جس  کا   کیٹلاگ نمبر DAM 01-27.1  تھا۔ چنانچہ انہوں نے پورے مجموعے کو صنعاء-1 کانام دیا۔ 2012ء میں صادقی  نے پچھلے کام کو بڑھاتے ہوئے،  ہارورڈ  یونیورسٹی  کے محسن گودارزی  (Mohsen Goudarzi) کے ساتھ129 صفحات پر مشتمل   ضخیم مونوگراف  میں   پہلی مرتبہ صنعاء  -1 کے زیریں اور بالائی مخطوطات کی تحریر  کشائی (decipher) کی اور تعدیل و تہذیب شدہ ایڈیشن  شایع کیے [5]۔ اس میں انہوں نے اسی نظریہ کا اعادہ کیا کہ 'صنعاء-1 'کی دونوں سطحیں قرآن ہیں اور دو  مختلف مصاحف کی نشاندہی کرتے ہیں ۔یہ کل 40   فولیو تھے  جن میں وہ چار فولیو شامل تھے  جو لندن کے  نیلام گھروں میں فروخت ہوئےتھے3، صادقی اور گودارزی کو  ان کی تصاویر  نیلام گھروں سے مل گئی تھیں۔  باقی   36 فولیوزکی تصاویر ایک فرانسیسی-اطالوی ٹیم نے 2007میں بنائی تھیں جوصادقی نے استعمال کیں۔ ان میں سے کچھ تصاویر عام روشنی(visible light) کے طَیف  (spectrum) میں بنائی گئی تھیں، جن میں بالائی تحریر نظر آجاتی ہے اور زیریں تحریر بھی تھوڑا بہت دِکھائی دیتی ہے خاص کر وہ متن جو دو سطور کے درمیان لکھا گیا ہو۔ دوسرےؔ، وہ تصاویر جو بالا بنفشی شعاعوں (ultra violet light) کے اندر لی گئیں تھیں، ان میں زیریں تحریر زیادہ  نمایاں ہوجاتی ہے۔ تیسرےؔ، وہ تصاویر جن کو  بعد میں پروسس کیا جاتا ہے یعنی post-processed ۔ اس طریقے میں بالائی متن کو فوٹو شاپ یا اسی طرح کے پروگرام کے ذریعے حذف کرکے  زیریں متن کو نمایاں کیا جاتا ہے۔  صادقی یا ان کے کسی ساتھی کو یمن جا کر پارچے براہِ راست دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔

صادقی اور برگمان  کے مطابق   فولیو Stanford’07 جس کی پیمائش   63.3 28.5xسم  تھی اگست 2007 میں  سٹینفورڈ سنکروٹرون ریڈی ایشن لیبارٹری  (Stanford Synchrotron Radiation Laboratory)سے ایکس رے فلورےسنس امیجنگ  (X-Ray Fluorescence Imaging)  کے لیے بھیجا گیا   [4]۔  اس تکنیک   کے ذریعے ورق پر موجود روشنائی میں پائے جانے والے کیمیائی مواد کی نشاندہی ہوسکتی ہے اور نہ صرف زیریں تحریر تک رسائی ممکن ہوجاتی ہے بلکہ  کچھ حروف، تشکیل، علاماتِ آیات اور سورتوں کو ممیز کرنے والے سجاوٹی خطوط بھی دکھائی دے جاتے ہیں جو  بصورتِ دیگر  شناخت نہیں  ہوسکتے ۔  چونکہ زیریں اور بالائی تحاریر کی روشنائی  کیمیاوی طور پر مختلف تھیں،   اس لیے دونوں کا الگ الگ جائزہ لینا ممکن ہوسکا۔ مثال کے طور پر صادقی اور برگمان  نےیہ   نتیجہ اخذ کیاکہ  ہر تہہ میں   تشکیل اور علاماتِ آیات اُسی  روشنائی سے بنائے گئے تھے جس سے متن  لکھا گیا تھا ۔

ریڈیو کاربن ڈیٹنگ (Radiocarbon Dating)کے لیے  Stanford’07 کا ایک نمونہ یونیورسٹی آف ایریزونا  کے ایکسیلیریٹر ماس  سپیکٹرومیٹری لیبارٹری (Accelerator Mass Spectrometry (AMS) Laboratory) بھیجا گیا۔ نتائج کے مطابق 68 فیصد امکانیت  (probability)کے ساتھ پارچہ کا تعلق  614 ءسے 656 ء کے درمیانی عرصے سے ہوسکتا ہے دوسرے الفاظ میں جس جانور کی  چرم سے پارچہ بنایا گیا  اس کی موت   614 سے 656 ء کے  دوران ہوئی ہوگی۔ 95 فیصدامکانیت کے ساتھ پارچہ 578ء سے 669ء کے درمیانی عرصے کا رہا ہوگا۔ 75.1 فیصد امکانیت کے ساتھ پارچہ 646ء سے قبل  کامعلوم ہوا ۔ گویا اس بات کا دو تہائی سے زیادہ امکان ہے کہ  یہ مخطوطہ نبی ﷺ کی وفات  کے  14سال کے بعد کا نہ  رہا ہوگا۔ بلکہ یہ فرض کرنا بھی ممکن ہے کہ پارچہ نبی ﷺ کی وفات کے چار سال کے اندر لکھا گیا ہو  کیونکہ اس کی امکانیت 56.2 فیصد بنتی ہے۔

یاد رہے کہ اصولاً تو پارچہ کی عمر اور تحریر کی عمر یکساں ہونا ضروری نہیں تاہم  صادقی اور برگمان کے نزدیک پارچہ  تحریر سے  بہت پرانا نہیں ہوسکتا ۔ دوسرے الفاظ میں پارچہ کی عمر تحریر کی عمر ہی کی نشاندہی کرتی ہے۔  پارچے مہنگے ہوتے تھے اور  یہ بات قرینِ قیاس نہیں لگتی کہ قرآن کے علاوہ کسی اور تحریر کیلیے پارچے محفوظ رکھے جاتے ہوں  گے۔ صادقی  کہتے ہیں کہ عربوں کے ہاں قرآن کے علاوہ کچھ لکھنے کا داعیہ بھی نہ ہوتا ہوگا۔ اس کا ثبوت ان کے نزدیک یہ ہے کہ   خطِ  حجازی  میں قدیم ترین عربی   مخطوطات  قرآن ہی کے نُسَخ ہیں 4۔صادقی نے نتیجہ نکالا کہ صنعاء پالمپسسٹ کی  زیریں تحریر صحابہ ?کے دور سے متعلق ہے جبکہ بالائی تحریر روایتِ عثمان پرمشتمل ہے جو زیریں تحریر کے50 سال  بعد لکھی گئی  ہوگی۔

صنعاء سے قرآنِ عظیم  کے قبل از عثمان  مخطوطہ کی دریافت بہت بڑی خبر تھی کیونکہ 650 ءکے لگ بھگ جب سرکاری طور پر تیار کردہ مصاحفِ عثمان  اسلامی بلاد و امصار بھیجے گئے تو اس واقعہ کے فوری  بعدسے رسم ِعثمانی کی بڑے پیمانے پر نشر و اشاعت  شروع ہوگئی تھی اور  غیر عثمانی  مصاحف کی  ضرورت کم سے کم ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ ایسے مصاحف معدوم ہوگئے اور ان کا ذکر صرف اسلامی  لٹریچر ہی میں رہ گیا تھا۔   اس لحاظ سے پوری اسلامی تاریخ کا یہ منفرد واقعہ ہے جب صنعاء میں  قبلِ عثمان روایتِ متن  پر مشتمل  قران پاک کا نسخہ پایا گیا۔

نسخۂ صنعاء کی زیریں اور بالائی تحاریر میں کچھ فروق صادقی نے بیان کیے ہیں۔ مثلاً بالائی تحریر میں ہم شکل حروف صحیحہ (consonants) جیسے 'ب'، 'ت'، 'ث' وغیرہ کو ممیز کرنے کیلیے مختصر ڈیش کا استعمال زیریں تحریر کے مقابلے میں زیادہ فراوانی سے کیا گیا ہے۔  اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، ڈاکٹر محمد مصطفیٰ  الاعظمی ؒ نے  کتبا  ت اور دیگر شواہد کی   بناء   پر ثابت کیا ہے کہ اہلِ عرب ہم شکل حروفِ صحیحہ کو ممیز کرنے کیلیے نقاط کا استعمال کیا کرتے تھے  [7]  ۔ زیریں تحریر میں  سورتوں کی تقسیم ظاہر کرنے والےسجاوٹی خطوط نظر آتے ہیں جبکہ بالائی تحریر میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی  اسی طرح  سورہ کے اختتام پر مثلاً 'ھذہ ختمۃ سورۃ المنفقین'  جیسا نوٹ زیریں تحریر ہی میں دیکھا گیا۔ بالائی تحریر میں سورتوں کے نام کا کوئی ذکر نہیں جبکہ زیریں تحریر میں ہے۔ حیران کن طور پر  زیریں مخطوطہ میں کہیں  کہیں اعراب یا تشکیل دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ ایک مکمل نقطہ ہوتا ہے جو حرف کی حرکت کو ظاہر کرتا ہے اور بعض اوقات ہمزۃ الوصل کو بھی ظاہر کرنے کیلیے استعمال ہوا ہے۔دونوں تحریروں میں آیت کی علامت پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی سطحوں پر 'اولی الالبب' کی جگہ 'اولاالالبب'   حالتِ  نصبی میں دیکھا گیا۔ بالائی  تحریر دو کاتبوں  کا کام ہے، ایک 'علَیَ' اور دوسرا 'عَلا'  لکھتا ہے۔  

بالائی متن

بالائی متن کی عمر کا اندازہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے نہیں معلوم ہوسکتا کیونکہ اس طریقہ سے تو صرف پارچہ کی عمر کا اندازہ ہوسکتا ہے نہ کہ تحریر کا۔  پارچہ کی عمر کا اطلاق البتہ زیریں نسخہ پر کیا جاسکتا  ہے، جیسا کہ صادقی اور برگمان نے کیا۔ بالائی متن کی تاریخ جاننے  کیلیے  تاریخِ فن (Art history)، علمِ تحاریرِ قدیمہ (paleography) اورتاریخی لسانیات (philology) کے  طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔

پہلی اور دوسری صدی ہجری میں لکھے جانے والے  قرآنی نُسَخ بڑی تعداد میں دنیا بھر میں عجائب گھروں، لائبریریوں، مساجد اور نجی ہاتھوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان سب کا تعلق معیاری روایتِ متن ہے جس کو رسمِ عثمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب تیسرے خلیفۂ راشد  حضرت عثمان ? نے ایک معیاری نسخۂ قرآن تیا ر کرایا تھا اور اس کی نقول  اسلامی حکومت کے مرکزی شہروں میں بھجوادی تھیں کہ اب موجود مصاحف کو تلف کرکے صرف معیاری اور سرکاری مصاحف کی نقول   ہی سے  قرآنِ مجید کی  مزید نشر و اشاعت کی  جائے  گی۔اس واقعے کی قطعی تاریخ تو نہیں معلوم لیکن اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کام 24 تا 30 ھ (644  تا 650 ء) کے دوران ہوا ہوگا۔ صادقی کہتے ہیں،  روایات میں جو کچھ بھی تناقضات اور خلا پائے جائیں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ  مسلمانوں کا اجتماعی حافظہ اس واقعہ  کی تصدیق  کرتا ہے۔ نیز یہ  بھی کسی شک کے بغیر معلوم ہے کہ  مختلف شہروں میں بھیجے جانے والے معیاری یا سرکاری مصاحف  کے متون میں جواختلافات5 تھےوہ  'مورفیمی ساختیاتی' (skeletal morphemic) نوعیت  کے تھے6 یا متن کی آیات میں تقسیم کے لحاظ سے۔ جہاں تک متن کی سورتوں میں تقسیم کا تعلق ہے، صادقی نے ثابت کیا ہے کہ یہ کام رسولِ کریم ﷺ خود کر گئے تھے۔  ان دو اقسام کے اختلافات  کا تجزیہ  کرکے   صادقی  نے  معلوم کیا  کہ  بالائی متن معیاری روایت متن   پر مشتمل ہے، جس کا آغاز حضرت عثمان کے جمع و  نشرِ قرآن سے ہوا تھا۔ یہ تحریر  ساتویں صدی  شمسی کے  نصف آخر یا آٹھویں کے اوائل میں لکھی گئی ہوگی۔ اور اس کو دمشق، حمص، کوفہ یا بصرہ  میں نہیں بلکہ مکہ، مدینہ، یمن یا مصر میں لکھا گیا   ہوگا۔

زیریں متن

پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے پہلے قلمی نسخوں  کا شجرہ ہوا کرتا تھا جس طرح نباتات اور حیوانات میں ہوتا ہے یعنی موروثیت اور تغیر یا  طَفرہ  (mutation)۔ چنانچہ ایک قلمی کتاب اس سے قبل کی تحریر کی نقل ہوا کرتی تھی اور وہ اس سے بھی  پچھلی کتا ب کی نقل ہوتی تھی وغیر ذالک۔ اس طرح نقل در نقل کے باعث متن میں تغیر در آتا ہے۔ چنانچہ  انتقادِ متن (textual criticism)   میں ماہرینِ حیاتیات کے طریقے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔  انواع کا ماضی جاننے کے لیے ماہرینِ حیاتیات دو طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ایکؔ یہ کہ کسی فاسل کی تاریخ جاننے کیلیے بیرونی ذرائع استعمال کیے جائیں، جیسے ریڈیو کاربن ڈیٹنگ  یا علم الحفریات (paleontology or fossilogy)  ۔  دوسرےؔ یہ کہ وہ  ایک جیسی خصوصیات  رکھنے والی حیاتی انواع کو گروپس  میں تقسیم کرتے ہیں ، جنہیں فینو ٹائپ کہتے ہیں،پھر ان  کی درجہ بندی کرتے ہیں۔  اس طرح حَیَوی شجرۂ  نسب وجود میں آتا ہے۔ پھر ذیلی شاخوں کا مقابلہ کر کےمعلوم کیا جاتا ہے کہ کس شاخ سے وہ متفرع ہوئیں۔  اس عمل کو بار بار  ماضی کی طرف دہراتے جائیں تو  بالآخر انواعِ قدیم اور ان کے خواص  کی نشاندہی  ہوجاتی ہے یا موجود ہ انواع کے قدیم اوصاف کا علم ہوجاتا ہے۔ یہی طریقہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ مخطوطات کے مطالعے اورانتقادِ متن (textual criticism)  کیلیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ قرآنی مصاحف  بھی  مشترکہ ٹیکسٹ ٹائپ یا طرزِکتابت   یا   رسمِ کتابت  کے مجموعوں میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔ کسی مخطوطہ کے متن پر انتقاد کا مرکزی نقطہ ٹیکسٹ ٹائپ یا  رسمِ متن ہے کیونکہ اس کے پیچھے متن کی روایت  (textual tradition)ہے۔  جو متون ایک ہی رسم  سے تعلق رکھتے ہوں، باہمی طور پر قریب ہوں گے  اور اپنے مبداء  کی طرف اشارہ کریں گے اور ان کا تعلق ایک ہی روایتِ متن  (textual tradition)سے  قرار دیا  جائے  گا۔ چنانچہ  متون کے فروق کی بنیاد پر نسخوں کی گروہ بندی  کی جاتی ہے، گویا   نسخوں کا ہر گروہ یا  مجموعہ شجرۂ نُسَخ کی ایک  شاخ کی مانند ہے ۔ پھر ذیلی شاخوں یعنی اخلاف  کا موازنہ کرکے  اسلاف  کی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔  صادقی کہتے ہیں 'صنعاء-1 'کے سلسلے میں یہ طریقہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے مقابلے میں زیادہ مؤثر پایا گیا۔   وہ یہ امر واضح کرتے ہیں  کہ  رسمِ عثمانی کا مطلب املاء ِ عثمانی نہیں ہے بلکہ یہ ایساٹیکسٹ ٹائپ  ہے جس کے پیچھے معیاری قرآن کی روایت ہے  جو اُن  معیاری نُسَخ سے شروع ہوئی جو عثمان  ?نے اہم شہروں میں بھجوائے تھے۔ صادقی  کی تحقیق کے مطابق صنعاء پالمپسسٹ کا زیریں   مخطوطہ  ایک مکمل مصحف کا حصہ ہے جو متنِ عثمانی کی روایت سے مختلف روایت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کو انہوں نے  غیر عثمانی روایت کہا اور'صحابی-1' یا  'ص-1 ' کا نام دیا7 ، جس کا مطلب یہ ہے  کہ اس روایت کا آغاز کسی صحابیؓ سے ہوا تھا۔  اس طریقِ تحقیق سے صادقی نے ثابت کیا  کہ  عثمان کا صحیفہ '  ص-1 ' کے مقابلے میں نہ صرف  قدیم تر  ہے بلکہ  اصل  (متنِ نبوی ﷺ)سے بھی قریب ترہے۔

زیریں نسخہ  بہت اہمیت کا حامل ہےکیونکہ اس کے متن کی روایت معیاری روایت سے مختلف ہے۔مثال کے طور پر البقرۃ- 196 میں وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ کے بجائے  اس میں صرف ' ولا ٮحلڡوا'  (ولا تحلقوا) ہے یا البقرۃ-201 میں رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃ وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَۃ   زیریں متن میں  یوں ہے: 'رٮںا اٮںا ڡى الدںىا حسںه و الاحره'  (ربنا  آتنا  فی الدنیا  حسنۃ و الآخرۃ)۔ اسی طرح اور بھی کئی فروق ہیں جو  زیریں متن  اور معیاری متن کے درمیان  پائے جاتے ہیں۔ یہ فروق ان فروق   کے مقابلے میں بہت کم ہیں جو  ابن مسعود/ ابن کعب   اور  معیاری متن کے درمیان پائے جاتے ہیں۔  اسی طرح   ا بن مسعود/ ابن کعب   اور  معیاری متن کے درمیان فروق زیریں متن  میں زیادہ نہیں  پائے جاتے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ زیریں متن کا اپنا الگ ٹیکسٹ ٹائپ  ہے جو معیاری متن اورا بن مسعود/ابن کعب سے منسوب متن، دونوں سے مختلف ہے۔ بقول صادقی اور گودارزی  یہ  نسخہ  ایک  غیر عثمانی یا غیر معیاری  (Non canonical) مصحف کی  باقیات میں سے ہے   ۔

'ص-1 ' نہ صرف  عثمانی ٹیکسٹ ٹائپ سے ممیز ہے  بلکہ اس ٹیکسٹ ٹائپ سے بھی مختلف ہے جو مصاحفِ عبداللہ ا بن مسعود و ابی ابن کعب ?کے بارے میں احادیث و آثار سے معلوم ہوتا ہے۔   ان روایاتِ متن  کا  نقطہٴ آغاز زبانی ہے جب رسولِ پاک ﷺ کی زبانِ مبارک  سے الفاظ ادا  ہوئے،  کاتبوں نے سنا اور اپنے  اپنے  طریقوں سے لکھا۔ شجرۂ نُسَخ کے طریقے سے صادقی  نے معلوم کیا کہ نبی ﷺ کے مبداءِ فیض سے تینوں روایات (عثمانؓ، 'ص-1 ' اور ابنِ مسعودؓ)  جاری ہوئیں اور ثابت کیا کہ  عثمانی متن دوسرے متون سے قدیم تر ہے۔ وہ کہتے ہیں،عثمانی اور دوسری روایاتِ متن  کی شاخیں جب  ایک دوسرے سے جدا  ہوئیں تو یہ زمانہ  نشرِ رسمِ عثمان کے بعد کا نہیں ہوسکتا۔ تاریخ و آثار میں محفوظ بیشمار عثمانی مصاحف  اور مختلف عثمانی  قراآت سے جن اختلافات  کا پتہ چلتا ہے وہ اُسی زمانے میں سامنے آئے جب عثمانی روایتِ متن پھل پھول رہی تھی۔ یہ اختلافات تعداد  اور وسعت کے اعتبار سے اتنے قلیل ہیں کہ تحریر سےنقل  کرتے وقت  یا املاء لکھتے وقت  ان کا پیدا ہوجانا بعید نہیں ۔  صادقی ، برگمان اور گودارزی کی رائے میں متن کے زیادہ تر اختلافات  کی وجہ مندرجہ ذیل  اسباب سے ہوسکتی ہے: 

  1. مماثلت  بالتوازی  (Assimilation of Parallels): قرآن میں بعض جملے اور تراکیب  الفاظ کے فرق کے ساتھ یا بعینہِ اکثر بار بار آتے ہیں ، چنانچہ بسا اوقات حفاظ بھی ان کو ایک دوسرے کی جگہ پڑھ دیتے ہیں  ۔  اسی طرح  کتابت  کے دوران  بھی ہوجاتا ہے جب  کاتب آیت لکھتے وقت  کسی ملتی جلتی  آیت کا جو قرآنِ مجید میں کسی دوسرے مقام پرآئی ہو  (یعنی متوازی  ) کا   اثر قبول کرلیتا ہے۔ نتیجتاً متن میں الفاظ کا حذف(omission)،اضافہ(addition)، تقلیب (transposition) یا  تبادلہ(substitution)  واقع ہو جاتا ہے۔ 
  2. مماثلت بالسیاق (Assimilation of Nearby Terms): املاء لکھتے وقت کوئی لفظ لمحہ قبل کاتب  نےسنا  ہوتا ہے اور غلطی سے   اصل کی جگہ   اسے لکھ دیتا ہے ۔  تحاریرِ قدیمہ (paleographers) اور تاریخی لسانیات (philologists) کے  ماہرینِ نے   تمثل بالتوازی اور تمثل بالسیاق سے وارد ہوجانے والی  اغلاط کو عہد نامۂ جدید کے قدیم نسخوں میں اکثر نوٹ کیا ہے۔ 
  3. معمولی اغلاط: ان میں حروف (عطف، جر وغیرہ)، ضمائر، سوابق و لواحق میں  غلطی ہوسکتی ہے جیسے "و" یا "فاء" کو ادل بدل کردینا۔ 
  4. حذف اکبر (Omission of Major Elements): کاتب کوئی لفظ بھول گیا یا کوئی اور لفظ اس کے حافظے سے چپکا ہوا ہے جو اس نے سُنا ہی نہیں پھر بھی لکھ دیا۔ یا اثنائے  بیان میں ایک فہرستِ الفاظ  بھی ہے اور کاتب  سے ایک لفظ چُوک گیا۔
  5. صوتی تسلسل (Phonetic Conservation):   املاء لکھتے وقت اکثر کوئی  لفظ صوتی  طور پر ہم آہنگ کسی دوسرے لفظ سے بدل جاتا ہے۔ جیسے لفظ کی ترتیب بدل گئی یا فعل کسی دوسرے فعل سے بدل گیا  جبکہ دونوں کا مادہ ایک ہی تھا۔ مثال کے طور پر 'وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ' (المائدۃ 41) بدل کر 'ص-1 'میں 'وڡى اللاحره لھم'   ہوگیا،'  اسْتَيْسَرَ' (البقرۃ 196)  'ٮىسر' (تیسر) بن گیا ۔
  6. متکررات: بعض اوقات متن میں کسی ایسے لفظ یا ترکیب  کا اضافہ ہوجاتا ہے جو بار بار استعمال ہوتے ہیں۔

ان وجوہ کو 'ص-1 'اور مصحفِ ابنِ مسعود دونوں میں پا یا گیا۔  اس طرح انتقادِ متن کے ذریعہ  معلوم ہوگیا کہ 'ص-1' کا آغاز  معیاری  متن کے پھیلنے سے پہلے ہوچکا تھا۔  معیاری عثمانی روایت پوری صحت کے ساتھ ساتویں صدی  شمسی کے وسط تک مستحکم ہوچکی تھی۔   اس سے باہر کی روایاتِ متن جیسے  زیریں مخطوطہ کی روایت' ص-1' ایک دوسرے سے اس وقت جدا  ہوگئی تھیں   جب ابھی روایتِ عثمانی پوری طرح  پھیلی نہ تھی،  یعنی 650ء سے پہلے۔ اس بناء پر  صادقی اور گودارزی کے بقول اسلامی لٹریچر میں جن مصاحفِ صحابہ کا ذکر آتا ہے وہ یقینی طور پر وجود رکھتے تھے8۔ صادقی کی تحقیق کے مطابق جہاں عثمان، 'ص-1 ' اور ابنِ مسعود  کے درمیان  اختلافات ہیں وہاں عثمانی متن  دو میں سے ایک سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے ۔ اس سے  پتہ چلتا ہے کہ عثمانی متن  دوسرے متون کے مقابلے میں اصل یعنی نبوی متن سے قریب تر ہے۔

چونکہ عثمان، ص-1 اورمصاحفِ صحابہ میں سُورتوں کے اندر ایک ہی جیسا متن ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سُورتیں   روایاتِ متن کے پھیلاؤ سے پہلے ہی قائم کردی گئی تھیں اور وہ روایات مسترد ہوجاتی ہیں جن میں سورتوں کے قیام کو حضرت عثمان کی جمع و  تدوین سے منسوب کیا جاتا ہے۔صادقی کہتے ہیں،  قرآنی سورتوں کی آخری شکل رسول اللہ ﷺ خود قائم فرما گئے تھے  یعنی سورتوں کے اندر متن کی آیات میں تقسیم  ۔ علاماتِ آیات جو'ص-1 ' میں پائی گئیں وہی نسخۂ عثمان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان کی یہ رائے بھی ہے کہ زیریں نسخۂ  صنعاء  رسول اللہ ﷺ کی وفات سے بہت پہلے کا لکھا ہوا  نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں سورۂ  توبہ شامل ہے جس میں آخری ہدایات نازل ہوئی تھیں ۔  ایک اور نکتہ جو صادقی  نے اٹھایا ہے کہ اُن روایات سے تعرض کرنے کی کوئی وجہ نہیں جن میں آتا ہے کہ  جمعِ قرآن کے موقع پر حضرت زید بن ثابت ? کو سورۂ   توبہ کی آخری دو آیات  تحریری طور پر کہیں مل نہیں رہی تھیں اور بالآخر خزیمہ یا ابو خزیمہ کے پاس سے ملی  تھیں اور چونکہ نبی کریم ﷺ نے ان کو  ذوالشہادتین قرار دیا تھا، اس لیےقبول  کرلی  گئی تھیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ  آیات قرآنِ کے قدیم ترین نسخۂ 'ص-1'  میں موجود ہیں، نسخۂ عثمان میں موجود ہیں اور  مصاحفِ صحابہ کے بارے میں بھی روایات سےکم از کم  ان کی عدم موجودگی کا  پتہ نہیں چلتا9 ، اس لیے ان روایات پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔  

البتہ سورتوں کی ترتیب کے بارے  میں صادقی کی تحقیق مختلف  ہے ۔ وہ کہتے ہیں، چونکہ  ان مصاحف میں سُورتوں  کی ترتیب کہیں کہیں یکساں  ہے مگر   زیادہ تر مختلف ہے اس لیے   کچھ سورتوں کی ترتیب تو رسول اللہ ﷺ  نے خود  مقرر کردی تھی لیکن  یہ کام  آخری شکل   میں  آپ ﷺ کے بعد ہی تکمیل کو پہنچا10۔  اگرچہ وہ علامہ اعظمیؒ  کے اس نکتے کو بہت سراہتے ہیں کہ کتابچوں کی صورت میں سورتیں اکثر مصحف کی ترتیب پر نہیں ہوتیں  کیونکہ  کتابچے مختلف مقاصد کیلیے تیار کیے جاتے ہیں تاہم  زیریں نسخۂ صنعاء کے بارے میں ان کے نزدیک یہ اصول لاگو نہیں ہوتا۔ صادقی کی پختہ رائے ہے کہ  اس کا متن غیر عثمانی ہےاور اس کی ترتیبِ سُوَر  مصاحفِ صحابہ (ابنِ مسعود و ابنِ کعب?) سے مشابہ ہے ۔

عثمانی متن اور 'ص-1 'کے درمیان فروق کی تعداد اور نوعیت  سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زبانی اور تحریری دونوں طریقوں سے کلامِ پاک  کی ترسیل ہورہی تھی۔ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ املاء تیزی سے کرایا جارہا تھا جبکہ کاتب اس کی رفتار کا ساتھ نہ دے پارہا تھا چنانچہ متن میں فروق در آئے۔

صادقی اس پر دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ پچھلی تحریر کو مٹا کر پارچہ دوبارہ استعمال کرنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔  ہوسکتا ہے کہ پچھلا مصحف کئی دہائیوں پر مشتمل عرصے کے دوران زیادہ استعمال کے باعث فرسودہ ہوگیا ہویا کسی حادثے کی وجہ سےزیریں مصحف کو نقصان پہنچا ہو۔ یا عثمانی روایت کے پھیلاؤ کے باعث غیر عثمانی روایت متروک ہوتی چلی گئی چنانچہ بالائی مصحف رسمِ عثمان کے مطابق لکھا گیا۔ بالائی تحریر  زیادہ مدمج  (compact) ہے، اس میں حرفِ مد  (long vowel)' الف'  کا استعمال نسبتاً  زیادہ ہے اور حروفِ صحیحہ (consonants) کو ممیز کرنے کیلیے نقاط کا استعمال بھی  زیادہ کیا گیا ہے۔

احمد شاکر کی شرکت  (Contribution)

دکتور احمد وسام شاکر مصری نوجوان ہیں جو قرآنی نُسَخ پر اپنے زمانہ طالبعلمی ہی  سے بڑے پرجوش طریقے سے دادِ تحقیق دیتے چلے  آئے ہیں۔ نومبر 2018 ء میں  انہوں  نے اطلاع دی کہ  لُووَر میوزیم ابو ظہبی   (Louvre Abu Dhabi) میں موجود قرآن کے ایک ورق کی تصویر انہوں نے  ٹوئیٹر  پر دیکھی جس کا خط،  دسویں آیت کا نشان (تعشیر) اور دوسرے اوصاف  DAM 01-27.1کے اوراق سے مشابہ نظر آئے۔ مزید غور سے معلوم ہوا کہ کرسٹی 2008 فولیو میں  بالائی تحریرجو سورۃ   المائدہ  کی آیت 9 تک ہے 'وعدالله الدىں……واحرعطىم'   ( یعنی  وَعَدَ اللَّہ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَھمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ تک) اور اس کے بعد   DAM 01-27.1 آیت 32 کے  ٹکڑے  'اﻟﯩﺎﺱ ﺤﻤﯩﻌﺎ'  (النَّاسَ جَمِيعًا)سے شروع ہوتا ہے۔   دوسری طرف  لُوور ابو ظہبی کا ورق آیت 10  یعنی  'ىااىھاالدىں امںوا…' (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ۔۔۔) سے شروع ہوکر  آیت 32   کے ٹکڑے 'مں ٯٮل ںڡسا……ڡڪاںما ٯٮل' (مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ) تک ہے۔ گویا  لُوور ابو ظہبی کا ورق DAM 01-27.1 کے خلاء کو ٹھیک ٹھیک  پُر کردیتا ہے ۔   اس  دریافت کو محسن گودارزی اور فرانسیسی محققہ الینور سیلارڈ (Eléonore Cellard)نے بھی سراہا   [9]  اور  ویب  سائٹ www.islamicawareness.org  نے بھی ا بوظہبی کے  اس ورق کو شامل کرتے ہوئے   DAM 01-27.1 کے اوراق کی کل تعداد 81  تسلیم کی ہے یعنی   40 اوراق المکتبۃ الشرقیۃ میں، 36   المکتبۃ الغربیۃ میں، ایک لُوور ابو ظہبی میں   اور چار وہ جو سمگل ہو کر لندن کے  نیلام گھروں میں فروخت ہوئے  [3]  ۔  یہ اور بات ہے کہ انہوں نے احمد شاکر کا حوالہ نہیں دیا۔ بہرحال یہ امر مختلف فیہ ہے کہ مخطوطاتِ صنعاء مکمل مصاحف کے بقایا جات ہیں  جیسا کہ اکثر محققین کا خیال ہےیا زیریں تحریر  کی صورت میں محض منتشر اوراق جو  کسی درسی حلقے میں  کسی غیر تربیت یافتہ کاتب  نےاملاء لکھتے ہوئے رقم کیے تھے اور  بالائی تحریر کی صورت میں مختلف مدارج سے گزرتا ہوا مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا ایک  نا مکمل  کام جیسا کہ آئندہ سطور میں  آرہا   ہے۔

اسماء ہلالی کی تحقیق

لندن میں واقع  انسٹیٹیوٹ آف اسمٰعیلی سٹڈیز کی ریسرچ فیلو  ڈاکٹر اسماء ہلالی  1نے صنعاء پالمپسسٹ   کے اوپر ایک منفرد تحقیق کی ہے جو 2017ء میں کتابی صورت میں طبع ہوئی  [9]۔اس تحقیق میں ہلالی نے صنعاء پالمپسسٹ کے زیریں اور بالائی مخطوطوں کے  نئےایڈیشن  شامل کیے ہیں اور بہت سے چونکانے دینے والے نتائج  بھی پیش کیے ہیں  ۔  اس سے پہلے ان مخطوطات  پر گرڈ پیوئین، اس کی بیوی الزبتھ پیوئین اور بہنام صادقی کی تحقیقات  سے  بظاہر یہ معلوم ہوا تھا کہ  ان اوراق کا زیریں مخطوطہ ایک ایسے  مکمل مصحف   کا  جزء  ہے جو عثمان ? کے سرکاری مصحف سے پہلے لکھا گیا تھا جبکہ بالائی مخطوطہ   ایک مکمل عثمانی مصحف کا  حصہ  ہے۔دونوں مطالعات  نے قرآنی نُسَخ  کی تحقیق کا وہ منہج اختیار کیا جو انیسویں صدی  سے شروع ہوا تھا جس کا فوکس مخطوطات کی تاریخ  اورمبینہ قرآنی اختلافاتِ قراآت  تھے۔ صادقی کے برعکس ہلالی   کی تحقیق میں اصل زور متن کی نقل و ترسیل پر ہے نہ کہ اس کی ابتدا ء پر۔   زیریں تحریر اور 1924ء کے قاہرہ ایڈیشن2 میں جو فروق  پائے گئے، ان سے  اسماء ہلالی نے  یہ نتیجہ اخذ کیا کہ  قراآت کے لٹریچر میں یہ فروق مفقود ہیں بلکہ یہ فروق اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ منتشر اوراق تھے جو ایک تعلیمی حلقے میں گردش کررہے تھے جس میں متن املاء کرایا جارہا تھا۔

ہلالی نے بھی فرانسیسی-اطالوی مشن کی ان ہی  تصاویر کو استعمال کیا جو صادقی اور گودارزی نے استعمال کی تھیں ۔البتہ دسمبر 2012ء میں  یمن جا کر انہوں نے دارالمخطوطات کے المکتبۃ الغربیۃ میں اس پالمپسسٹ کو خود دیکھا تھا، جس کا موقع صادقی کو نہیں مل سکا تھا۔3

یمنیہ یونیورسٹی کی طالبہ رزان حمدون  ، جس کا ذکر اوپر گزرا ، کے ماسٹر تھیسس کی اطلاع  صادقی اور گودارزی کے مونوگراف  کی اشاعت (2012ء)  تک کسی کو نہ تھی  تاہم اسماء   ہلالی  کی کتاب کے شائع ہونے تک  اہل علم اس کام سے واقف ہوچکے تھے۔ ہلالی کہتی ہیں کہ  رزان حمدون کا مطمح ِنظر  دو انتہاؤں کے درمیان گو مگو کا سا ہے یعنی  ایک طرف تو خالص علمی تحقیق ہے تو دوسری طرف  یہ خواہش کہ  قرآن اول روز سے تا حال بغیر کسی تبدیلی کے محفوظ ہے۔ المکتبۃ الشرقیۃکے اوراق کی  بلیک اینڈ وائٹ تصاویر جو رزان  نے اپنے مطالعہ میں استعمال  کی تھیں  ان کا معیار   بقول ہلالی اس لائق نہ تھا کہ کسی محتاط تحقیق کا موضوع بن سکے ۔ چنانچہ انہوں نے طالبہ کے کام  کو علمی تنقید کے لیے موزوں  نہ سمجھا۔

زیریں متن

ہلالی نےاپنی تحقیق میں زیریں متن کی تنقیح میں بہت احتیاط سے کام لیا ہے۔ صادقی اور گودارزی  نے جہاں تحریر پڑھنے میں دشواری محسوس کی  وہاں انہوں نے اندازے سے امکانی تحریر اخذ کی تھی۔اس کے برعکس   ہلالی  نے اپنے  ایڈیشن میں ایسے  مقامات   پر ہلکے سرمئی رنگ کی خالی جگہ چھوڑی  ہے۔ہلالی کے نزدیک یہ نامکمل اوراق   قرآن  مجید کے کچھ منتخبات کا مجموعہ ہیں  جس کی حیثیت  مذکرہ یا  معاونِ  یادداشت  (aide-mémoire) کی ہے جو کسی درسی حلقے میں لکھا گیا ہوگا اور لکھنے والا جانتا تھا کہ یہ عارضی تحریر ہے جو بالآخر مٹادی جائیگی۔ البتہ جب تقریباً پچاس سال بعد، یعنی دوسری صدی ہجری یا آٹھویں  صدی شمسی میں،   دوسرے کاتب اس ری سائیکلڈ  پارچے  پر قرآن لکھ رہے تھے تو ان کو مٹائی  گئی  زیریں تحریر کا غالباً علم نہ رہا ہوگا۔  اس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتی ہیں کہ بالائی تحریر کے بارے میں یہ گمان نا قابلِ دفاع ہے کہ زیریں تحریر چونکہ غیر عثمانی روایتِ متن پر مشتمل  تھی  اس لیے خلیفۂ ثالث کے حکم کے مطابق اس کو مِٹا کر عثمانی روایتِ متن  رقم کی گئی تھی  ۔

ہلالی نے صنعاء  پالمپسسٹ کی  زیریں تحریر کے 12 اوراق پڑھے جن میں سے 3  اوراق پر متن ایک ہی طرف کا پڑھا جاسکا۔ پڑھے جانے والے اوراق میں ہلالی نے 61 مقامات پر قاہرہ ایڈیشن (دیکھیے حاشیہ 10 ) سے مختلف  پایا۔ ان فروق کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہے:

  1. اسماء، ضمائر، تراکیب اور زمانۂ   فعل  میں جزوی یا مکمل  فرق۔ ہلالی نے اس قسم کے نو (9) اوراق کا ذکر کیا ہے جن میں سے ہر ایک میں  دو سے پانچ مثالیں  پائی گئی ہیں۔ ایک مثال سورۂ توبہ کی آیت 8 کے الفاظ 'يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ' ہیں   جو 'ٮرصو ٮڪم ٮاﻟﺳﯩهم' (یرضونکم  بالسنتہم) کی صورت ظاہر  ہوئے  ہیں۔
  2. ایک ہی جملے میں الفاظ و عبارات کا  آگے پیچھے ہوجانا  (یعنی تقلیبِ مکانی) یا بدل جانا۔ اس  قسم کی امثلہ تین اوراق میں نظر آئیں، ہر ورق میں ایک مثال۔ جیسے  سورۃ النور کی آیت 26 کا ٹکڑا  'وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ' زیریں تحریر میں اس طرح آیا ہے: 'والطﯩﯩوں للطﯩﯩاٮ والطﯩﯩاٮ للطﯩﯩﯩں'   (والطیبون للطیبات والطیبات للطیبین)۔
  3. الفاظ وعبارات جو قاہرہ ایڈیشن میں ہیں لیکن زیریں مخطوطہ میں نہیں۔ اس ضمن میں ہلالی نے دو اوراق دریافت کیے، ہر ایک میں ایک مثال۔  جیسے سورۃ النور کی آیت  18  کے جزء 'يبين اللہ لكم الآيات' میں 'الآیات'  موجود نہیں یعنی صرف ' ﯩﯩﯩں اللہ لكم' (یبین اللہ لکم) پایا گیا ۔
  4. الفاظ،حروف (particles) اور  جزوی عبارتیں  جو زیریں مخطوطہ میں ہیں مگر قاہرہ ایڈیشن میں نہیں۔ اس قسم کی مثالیں کثیر ہیں۔ دس اوراق میں سے ہر ایک میں دو سے چار امثلہ دیکھی  گئیں۔ جیسے فولیو 2 سطر 11 میں البقرہ- 90  کا  جزء ۔۔۔ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّہ۔۔۔ زیریں مخطوطہ میں یوں آیا ہے: 'ٮعىا وعدوا اں ىںىرل الله' (بغيا و عدوا ان ينزل اللہ)۔
  5. ہلالی کے  مقدمہ کا ایک قوی ا ستدلال تصحیحِ قراءت کی ہدایت سے فراہم ہوتا ہے جو فولیو  5a سطر 9  میں موجود ہے۔  اس میں  سورۂ انفال کے بعد سورۂ توبہ کا آغاز بسملہ سے ہوتا ہے۔ معاً بعد لکھا  ہوا  ملتاہے: [4] مں اللہ و رسولہ 5۔  پھراگلی سطر کا آغاز اس ہدایت سے ہوتا ہے: لا ٮٯل ٮسم اللہ (لا تقل بسم اللہ)، اور پھر آگے سورہ شروع ہوتی ہے:   بَرَاءَةٌ مِنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ۔۔۔ الخ—گویا صورتحال کچھ یوں  ہوگی کہ ایک تعلیمی حلقے میں استاد کے سامنے شاگرد اپنے اوراق سامنے رکھے  تلاوت کررہا ہے اور سورۂ  انفال ختم کرکے قبل اس کے کہ سورۂ  توبہ شروع کرے،  بسملہ پڑھتا  ہے  جو پارچہ پر  لکھا ہوا بھی ہے۔ استاد فوری  تصحیح کرتا ہے: "لا تقل بسم اللہ" (بسم اللہ نہ کہو) اور شاگرد اسی وقت اس ہدایت کو اپنےصفحہ  پر لکھ لیتا ہے اور پھر آگے تلاوت کرتا ہے۔ راقم کے نزدیک یوں بھی ہوسکتا ہے کہ شاگرد حافظہ سے تلاوت کررہا ہو اور دوسرا شاگرد املاء لکھتا جاتا ہو(یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سے زائد طُلاب لکھ رہے ہوں)۔ سورۂ انفال ختم  کرکے وہ  سورۂ توبہ شروع کرنے سے پہلے روانی میں بسملہ بھی بول جاتا ہے اور املاء لکھنے والا  اسے بھی لکھتاچلا جاتا ہے اتنے میں استاد تصحیح کرتا ہے: "لا تقل بسم اللہ" (بسم اللہ نہ کہو) اور املاء کرنے والا  مشینی انداز میں اس ہدایت کو بھی لکھ دیتا ہے اور پھر آگے سورہ توبہ شروع ہوتی ہے۔

زیریں متن کے زیادہ تر تغیرات  قاہرہ ایڈیشن کے مقابلے میں طویل عبارات کی شکل میں ہیں۔ ان کی تقسیم  یکساں نہیں البتہ  زیادہ تر تغیرات اس نوعیت کے ہیں جیسےمتن کے کچھ اجزاء  میں حروفِ عطف یا عام طور پر پائی جانے والی قرآنی تراکیب کے ذریعے اضافہ یا تشریح کی گئی ہو، جیسے:

ہلالی کے نزدیک یہ تغیرات کاتب کا سہو نہیں ہیں،  بلکہ یہ منتشر اوراق تھے جو درسی حلقہ میں تطویر ، تشریح اور تصحیح کے مراحل سے گزر رہے تھے یعنی یہ ایک نامکمل اور عارضی کام تھا جو  کتابت، تصحیح، املاء اور ہدایات وغیرہ کے عمل سے گزرتے ہوئے بالآخر اپنے انجام کو پہنچا اور مٹادیا گیا  ۔  وہ صادقی  کے تھیسس سے اتفاق نہیں کرتیں کہ ان اوراق میں موجود زیریں اور بالائی متون ایسے مکمل مصاحف کے ا جزاء ہیں جن کو  بالآخرتلاوت و عبادت میں استعمال کیا جا نا  تھا۔ ان کے نزدیک:

ڈاکٹر ہلالی اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں کہ زیریں متن  قراآتِ متعدد ہ  (multiple readings)6کے فریم ورک میں فِٹ ہوسکتا ہے، جیسا کہ صادقی کا خیال ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ  یہ متن قراآت کے سنی یا شیعہ مصادر سے مماثلت نہیں رکھتا۔  مزید برآں،  بقول انکے، قراآت کا تصور بہت بعد میں تشکیل پایا اگرچہ وہ تسلیم کرتی ہیں  کہ سبعۃ احرف کی روایت اسلام کی پہلی دو صدیوں میں معروف تھی اور مختلف لہجات میں قرآن کی  قراءت کو خود رسول اللہ ﷺ کی تائید حاصل تھی پھر بھی  اس کا  مواد، یعنی  کارپَس (corpus) ،کئی صدیوں بعد مدون ہوا7۔   زیریں متن میں کئی ایسے  تغیرات  ہیں جو اس کارپَس   میں فٹ نہیں بیٹھتے۔

 ڈاکٹر ہلالی کے نزدیک کاتب اور قاری دونوں نے زیریں متن کو ایک بے ربط تحریر  کی طرح برتا  جس کو   لکھنے کے بعد اغلاط  درست کی گئیں پھر تعلیق و تشریح کا اضافہ بھی ہوا، جیسا کہ فولیو   5a سطر 9   (سورہ التوبہ کے آغاز میں بسملہ نہ پڑھنےکی ہدایت)سے ظاہر ہوا ۔ اگرچہ تحریر مسلسل  بھی ہے  تاہم قراءت کی اصلاح  کی خاطر  انقطاع بھی  واقع ہوا  ۔ جیسے کسی لفظ کے درمیان میں  حرفِ  قاف  تھا ،  غلطی سے اسے   پہلے تو اپنی آخری شکل  میں لکھدیا، یعنی  'ࢼ'   ،پھر  تصحیح کرکے اس کو درمیانی شکل "" دی گئی ۔ متن کے فروق میں ایسی حرکیات  بھی ہیں جن کو  الفاظ و تراکیب  کو اپنی  جگہ سے ہٹا  دینے (displacement) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے،   جیسا کہ اوپر قِسم نمبر 2 میں بیان ہوا۔ اسی طرح مخصوص قرآنی  تراکیب کا اضافہ بھی ہے، جیسے اللہ کے بعد رسولہُ— یہ ساری شہادتیں بتاتی ہیں کہ یہ منتشر اجزائے  قرآن متعدد درسی  مجالس  میں گردش کرتے رہے ہوں گے۔ 

ہلالی کہتی ہیں کہ  اسلام کی پہلی صدی میں تعلیم کا طریقہ مساجد میں حلقہ  کی صورت ہوتا تھا۔  فولیو   5a سطر 9   (سورہ التوبہ کے آغاز میں بسملہ نہ پڑھنےکی ہدایت)سے معلوم ہوتا ہے کہ زبانی تلاوت ان حلقوں کا ایک مقصد ہوتا تھا۔ وہ اس خیال کی تائید کرتی نظر آتی ہیں کہ قرآن کی ترسیل زبان کے عمل سے ہوئی ہے جس میں تحریر کا دخل   مذکرہ یا  معاونِ  یادداشت  (aide-mémoire)  جیسا ہے۔   ان کے نزدیک  عرضہ  کی مجلس میں دراصل تقابل ہی کیا جاتا تھا تاکہ متن کی تصحیح ہو۔ اس سلسلے میں وہ  خطیب بغدادی کی کتاب   الکفایۃ فی العلم الروایۃ سے  یہ مکالمہ نقل کرتی ہیں کہ  ایک مرتبہ امام  مالک بن انس (م 179ھ) نے ابن ابی اویس (م6 22ھ) سے پوچھا کہ تم نے کس کی موجودگی  میں قرآن پڑھا؟  انہوں نے جواب دیا،  نافع بن ابی نعیم ۔ مالک ؒنے پھر پوچھا، انہوں نے تم کو سنایا یا تم نے ان کو سنایا؟ ابن ابی اویس نے کہا، میں نے ان کو سنایا اور جب میں نے کوئی غلطی کی تو انہوں نے میری تصحیح کی۔ اس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتی  ہیں کہ  صنعاء پالمپسسٹ کا زیریں متن بھی اسی طرح  زبانی تلاوت،  تصحیح ، مراجعت اور تصدیق کے مراحل سے گزرا۔ اور اس کا قرینہ  جیسا کہ اوپر گزرا متن میں غلطیوں کی درستگی اور  تصحیحِ قراءت کی ہدایت ہے   ۔ یہی وجہ ہے کہ تصحیح   برسرِ  موقع کی گئی ہے  نہ کہ حاشیہ پر۔ یعنی  اصل اور تصحیح میں فرق کرنا ممکن نہیں رہتا۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صنعاء  پالمپسسٹ  کا  زیریں مخطوطہ ایک نامکمل متن ہے تو پارچہ  جیسی قیمتی شے   اس مقصد کیلیے کیوں  استعمال کی گئی؟  ہلالی کہتی ہیں کہ  یہ پارچہ  معمولی نوعیت کا تھا اور  اس میں شکست و ریخت پہلے سے ہوچکی تھی، چنانچہ اس کو درسی حلقہ میں ایک ورکنگ کاپی کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ محسوس نہ کیا گیا  ہوگا۔ کاتب کو یہ بھی معلوم تھا کہ  تحریر کو مٹا کر دوبارہ لکھا جائےگا۔ دراصل زیریں تحریر ہو یا بالائی دونوں کا مقصد ورکشاپ کی طرز کے حلقوں  میں تجرباتی استعمال تھا اور  کاتب کے  پیشِ نظر مکمل مصحف  تیار کرنا تھا ہی نہیں۔ پھر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پارچہ مسجد کی دو چھتی یا سندرہ  (attic) میں رکھا ہی اس لیے گیا ہوگا کہ  بالآخر اسے تلف کیا جانا مقصود تھا۔  ایک ایسے مخزن میں جس کا کوئی دروازہ بھی نہ تھا، نسخہ  دراصل اپنی آخری منزل یعنی  dead-end پر پہنچ چکا تھا۔ 

بالائی متن

بالائی متن کا ایڈیشن  27 اوراق کی تحریر کُشائی   پر مشتمل ہے۔ علم  تحاریرِ قدیمہ یعنی  پیلیوگرافی کے شواہد کی بناء پر ان کی رائے میں بالائی مخطوطہ کی کتابت میں کم از کم  چار افرادشریکِ کار رہے ہوں گے۔تصحیح اور تزئین کرنے والے  ان کے علاوہ تھے۔ تصحیح کرنے والے غیر واضح  یا  مخفی عبارت  کو "رِی ٹَچ (retouch) "  کیاکرتے تھے یا دوبارہ لکھتے تھے8۔ تزئین کرنے والے افراد  سورتوں کو ممیز کرنے والے رنگین سجاوٹی خطوط بنایا کرتے تھے، پانچ، دس، پچاس اور سو آیات کی نشاندہی کرنے والے ڈیزائن  کا اضافہ کرتے تھے اور ختمِ سورہ کی علامت کا بھی اضافہ کرتے تھے۔ لیکن یہ ایک منظم اور ہم آہنگ کام نہ تھا۔ اس میں بے قاعدگی تھی اور  متن کی آیات میں  تقسیم بھی قاہرہ ایڈیشن سے کہیں کہیں مختلف تھی۔ ان شواہد کی بناء پر ہلالی  بالائی متن کے بارے میں بھی یہی رائے رکھتی ہیں کہ یہ منتشر اوراق ہیں جو  کسی مصحف کا حصہ نہیں ہوسکتے تھے اور یہ کہ کتابت، تصحیح اور تزئین کا کام  مختلف مراحل میں  مختلف ہاتھوں   اور مختلف اوقات میں  انجام پایا۔  جہاں تک بالائی متن اور قاہرہ ایڈیشن کے فروق کا تعلق ہے تو پانچ مقامات پر یہ قراآت کے لٹریچر سے مطابقت رکھتے  ہیں اور 13 مقامات قراآت کے لٹریچر میں نہیں  ملتے ۔ان کا نظریہ   یہی ہے کہ مخطوطہ کئی مراحل سے گزرا جن کے درمیان زمانی خلا تھے۔ سجاوٹ کے تنوعات سے  انداز ہ ہوتا ہے کہ یہ عمل متن کی تحریر کے بعد کیا گیا تھا۔ اور یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ  پالمپسسٹ ایک  عمل جاریہ (work in progress)  تھا جو ضروری نہیں کہ عبادتی مقصد کیلیے لکھا جارہا ہو۔

اختتامیہ

صنعاء پالمپسسٹ پر حالیہ یعنی  گزشتہ دس سالوں کے دوران  کی جانے والی تحقیقات  جو اس مضمون میں پیش کی گئیں  ان سےمعلوم ہوتا ہے کہ  مغرب ہی سے ایسے علماء سامنے آئے ہیں جنہوں نے  قرآن کے استناد کے بارے میں بعض   مستشرقین کی ایک  بڑی  غلط فہمی کو دور کردیا ہے ۔ان حضرات کے مطابق قرآن کی بھی ویسی ہی تاریخ ہے جیسی بائیبل کی رہی ہے یعنی قرآن  کا متن بہت عرصے تک سیال (fluid)  رہا، اس میں کمی بیشی ہوتی رہی اور بالآخر  ایک ارتقائی عمل کے بعد اسے استحکام نصیب ہوا۔اس جائزہ سے  معلوم ہوا کہ کہ قرآن سے منسوب غیر معیاری مخطوطات   ناقص حافظہ  اورغیر پیشہ ور  انہ  ہاتھوں   کتابت کا  نتیجہ ہیں۔ نیز یہ کہ قرآن  کی نشرواشاعت کا  اصل مدار زبانی روایات پر ہے۔ ان زبانی روایات کی غیر منقطع کڑیاں آج بھی ہزاروں کیا لاکھوں  قراء کی اسناد میں  دیکھی جاسکتی  ہیں۔ اس  مضمون کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارے علماء  ان تحقیقات سے آگاہ ہوں جو نُسَخِ قدیمہ پر مغربی دنیا میں  ہو رہی ہیں۔ اس طرح ممکن  ہےکہ  بعض   مشکل موضوعات کی  عقدہ کشائی کی طرف کچھ اشارے مل سکیں۔اس طرح کے چند اشارات اس مضمون میں بھی ہیں۔اسماء ہلالی کی تحقیق کے بعد سے ابتک   اس   پر کوئی علمی تنقید سامنے نہیں آئی ہے۔  فرانسیسی محققہ الینور سیلارڈ (Eléonore Cellard) نے اس کتاب پر اپنے تبصرہ میں ہلالی کے نظریہ پر اپنے کچھ  تحفظات کا اظہار  توکیا ہے [11] ، لیکن کسی تفصیلی نقد کا   تاحال انتظار ہے۔


حوالہ جات

    1. Hadiya Gurtmann, “A Quran written over the Quran—why making the effort?”, January 2012,  https://www.manuscript-cultures.uni-hamburg.de/mom/2012_01_mom.html.
    2. Masahif San’ā, Dar al-athar al-islamiyyah, Kuwait National Museum, 19 Mar-19 May 1985.
    3. https://www.islamic-awareness.org/quran/text/mss/soth.html, 10 Apr 2008.
    4. Behnam Sadeghi and Uwe Bergmann, “The Codex of a Companion of the Prophet and the Qurʾān of the Prophet”, Arabica 57 (2010), pp. 343-436, Brill NV, Leiden 2010.
    5. Behnam Sadeghi and Mohsen Goudarzi, “Ṣan‘ā’ 1 and the Origins of the Qur’ān”, Der Islam Bd. 87, S. 1–129, Walter de Gruyter 2012.
    6. Michael Cook, “The Stemma of the Regional Codices of the Koran”, Graeco-Arabica, 9-10 (2004), p. 89-104.
    7. Muhammad Mustafa Al-Azami, The History of the Quranic Text from Revelation to Compilation, UK Islamic Academy, Leicester 2003.

    8. علوم القرآن از دکتور صبحی صالح، اردو   ترجمہ ازپروفیسر غلام احمد حریری ، ملک سنز   پبلشرز فیصل آباد 1993-1994ء، ص 106

    9. Asma Hilali, The Sanaa Palimpsest, the Transmission of the Quran in the First Centuries AH, Oxford University Press in association with Institute of Ismaili Studies, London, 2017.
    10. https://quranmss.com/2018/10/19/louvre_palimpsest/, posted on 19 Oct 2018.
    11. Eléonore Cellard, “Asma Hilali: The Sanaa Palimpsest, the Transmission of the Quran in the First Centuries AH”, Review of Quranic Research, vol. 5, no. 9 (2019).

حواشی

    8. DAMسے مراد ہے Dar Al Makhtutat۔ ان   اوراق کو ایک کیٹلاگ نمبر دینے کی وجہ   یہی تھی کہ ان کو ایک  واحد مصحف کی باقیات سمجھا گیا تھا۔  جیسا کہ آگے آئے گا یہ امر مختلف فیہ ہے۔

    9. حال یونیورسٹی آف آکسفرڈ، برطانیہ

    10. صنعاء مخطوطات کے یہ اولین ایڈیشن نہ تھے۔ کئی سال قبل2004 ءمیں یمنیہ یونیورسٹی کی طالبہ رزان غسّان  حمدون نے اپنے ایم اے کے مقالہ  بعنوان  "المخطوطات القرآنية في صنعاء منذ القرن الأول الهجري وحفظ القرآن الكريم بالسطور" میں صنعاء مخطوطات کے  40  اوراق  کی بالائی تحریر کا ایڈیشن پیش کیا تھا ۔ یہ  اوراق  دار المخطوطات کے  المکتبۃ الشرقیہ  میں رکھے  ہوئے تھے ۔  ان کی تصاویر رز   ان کے والد  پروفیسر ڈاکٹر غسان حمدون   نے  فراہم کی تھیں،جو خود بھی مخطوطاتِ صنعاء پر کام کرچکے تھے ۔ یہ تصاویر بلیک اینڈ وائٹ تھیں اور  اچھی کوالٹی  کی نہ تھیں۔     اس غیر مطبوعہ   کام  کی اطلاع   ویب سائٹ www.islamicawareness.org کو   2012ء میں ملی  اور  وہیں سے بیرونی دنیا کو  اس تحقیق کا علم ہوا۔  مذکورہ ویب  سائٹ     نے  مزید تحقیق کے بعد اعلان کیا  کہ یہ  40   اوراق بھی دراصل DAM 01-27.1 ہی  کا حصہ ہیں  اگرچہ جسامت  میں   مقابلتاً  چھوٹے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان اوراق  کے بارے  میں مزید تحقیق کے بغیر قطعیت  کے ساتھ  ایسا  دعویٰ کرنا مشکل ہے ۔   اسی ویب سائٹ نے یہ معلومات بھی دیں کہ  وہ چار اوراق جو لندن کے نیلام گھروں میں  1992 سے 2008 کے دوران فروخت ہوئے تھے، جن کا ذکراوپر  گزر چکا ہے،  وہ بھی اسی المکتبۃ الشرقیہ سے  سمگل  ہوئے تھے [3]۔     

    11.  کتبِ روایات سے معلوم ہے کہ اشعار، دواوین، خطوط،  اقوالِ رسول، معاہدات اور لین دین کے معاملات لکھے جاتے تھے۔ سورۂ بقرہ میں قرض کی دستاویز لکھنے اور گواہیاں ثبت کرنے کا حکم صاف ظاہر کرتا ہے کہ قرآنِ عظیم کے علاوہ اور دستاویزات بھی ہوتی ہوں گی ۔ غزوہ بدر کے قیدیوں میں سے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان  میں سے ہر ایک کا فدیہ دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانا مقرر کیا گیا تھا۔  مسلمانوں کو وصیت لکھنے کا حکم  نبی ﷺ نے دیا۔ غرض جنابِ رسول اللہﷺ کی بعثتِ  مبارکہ کے بعد سے ہی تعلیم و تعلم کا سلسلہ وسیع پیمانے پر شروع ہوچکا تھا جس میں قرآن   تو  مرکزی  حیثیت رکھتا  ہی تھا  لیکن دوسری دستاویزات بھی لکھی جاتی رہی تھیں۔ صادقی نے ایسا  غالباً اس لیے لکھا کہ روایات کے علاوہ ان دستاویز کا علم کسی  حسی مخطوطہ سے نہیں ہوتاہے۔ جن دستاویزات کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا ہے ان کی اصلیت و  صداقت کے بارے   علمِ  تحاریرِ  قدیمہ (Paleography)  کے ماہرین متفق نہیں۔ دلچسپی رکھنے والے  اصحاب  ڈاکٹر سارہ زبیر مرزا  کے پی ایچ ڈی مقالہ کی طرف رجوع کرسکتے ہیں [5] ۔ بہرحال صحیح اور مستند روایات کو تسلیم نہ کرنے کی روش کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ دنیا کی بیشتر تاریخ دریا برد کرنی پڑے گی۔

    12.  مختلف شہروں میں جو مصاحف بھیجے گئے تھے،  ان کے  درمیان   پائے جانے والے فروق کی تعداد 36 بتائی جاتی ہے، دیکھیے، مائیکل کوک [6] ۔ بقول صادقی،   کوک کا تعلق علمائے مغرب کے اس گروہ سے ہوتا تھا جنہیں تعدیلی یا تحریفی (revisionist) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ علماء ہیں جو روایات  سے حاصل ہونے والے علم  کو ناقابلِ اعتبار قرار دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں روایت پسند (traditionalist)  اہلِ علم ہیں جو  قدرتی طور پر مسلم دنیا میں اکثریت میں ہیں۔  بعد میں کوک نے پہلا طریقہ چھوڑ کر روایات سے اعتناء شروع کردیا  بشرطیکہ روایات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ صادقی نے ان جیسے علمائے مغرب کو "نئےر وایت پسند" (neo-traditionalist) کا  خطاب دیا ہے   [5]۔

    13.       یعنی ا لفاظ  کی ساخت میں ایسی تبدیلی جس سے  ادائیگی بدلتی ہواور دوسرا لفظ بن جاتا ہو۔ روایات سے معلوم ہے کہ عثمانی مصاحف 'مورفیمی ساختیاتی'  سطح پر محفوظ ہیں ۔ پہلی اور دوسری صدی ہجری کے  دوران  اختلافاتِ  قراآت  کی باریک تفصیلات  تک بہت صحت کے ساتھ  قراآت کے  لٹریچر میں رپورٹ ہوئی ہیں۔بعض الفاظ کی ساخت میں  فرق، جیسے ہجا کا فرق، مورفیمی نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں لفظ بدل جاتا ہےلیکن معنیٰ  نہیں بدلتے۔  اسی طرح حروفِ صحیحہ (consonants) کو ممیز کرنے والے نقاط میں اختلاف آجائے تو لفظ بدل سکتا ہے مگر ساخت نہیں تو یہ فرق بھی 'مورفیمی ساختیاتی 'نہیں ۔ ہاں اگر کوئی قراءت ایسی ہے کہ لفظ کی   ساخت میں بھی فرق ہے اور لفظ یا ذیلی لفظ (یعنی مورفیم)  میں بھی،  تو یہ اختلاف '  مورفیمی ساختیاتی' کہلائے گی۔ صادقی کہتے ہیں کہ  مسلم    ماہرینِ    قراءت    یہ بات صدیوں سے جانتے  رہے ہیں   [5] ۔

    14.  Companion-1 or C-1

    15.  علامہ اعظمی ؒ نے صحابہ کے مصاحف کے متعلق روایات کو ان کے باہمی تعارض کی بناء پر بالکلیہ مسترد کیا ہے  [7] اگرچہ اہلِ علم کی اکثریت ان کے وجود  کی قائل  ہے۔

    16.  چونکہ روایات میں یہ واقعہ جمعِ صدیق  ?اور جمعِ عثمان  ? دونوں کے حوالے سے بیان ہوا ہے، صادقی کی تحقیق سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ واقعہ جمعِ صدیق کے موقع پر ہوا  ہوگا۔ کیا عجب کہ زیریں مخطوطۂ صنعاء  اسی دور کی یادگار ہو، واللہ اعلم ۔

    17.  اس نتیجہ کی صحت کا مدار اس مفروضہ پر ہے کہ مخطوطاتِ صنعاء مکمل مصاحف کا حصہ ہیں۔ اسماء ہلالی کی تحقیق اس کے برعکس ہے، جیسا کہ آگے آتا ہے۔ ڈاکٹر صبحی صالح کہتے ہیں:  "  اس ضمن میں راجح اور مختار مذہب یہی ہے کہ  قرآنی سورتوں کی موجودہ ترتیب اسی طرح توقیفی اور غیر اجتہادی ہے جس طرح آیات کی موجودہ ترتیب"  [8] ۔

    18.   آج کل وہ فرانس کی    Université de Lille میں ایسوسی ایٹ پروفیسر آف اسلامولوجی  ہیں۔

    19.  مستشرقین مصاحفِ قدیمہ کا جب مصاحفِ زمانۂ حال سے موازنہ کرنا چاہتے ہیں تو   قاہرہ میں  1924   میں طبع ہونے والے  ملک فؤاد ایڈیشن  کو زمانہ حال کیلیے  حوالہ کے طور پر لیتے ہیں  جو   روایتِ حفص عن  عاصم پر مشتمل  ہے۔   حالانکہ مدینہ منورہ میں مطبع  ملک فہدقائم ہونے کے بعد وہاں کا شائع شدہ مصحف ہی زیادہ موزوں حوالہ ثابت ہوسکتا ہے۔ 

    20.    شاید ان کو اس وقت تک المکتبۃ الشرقیۃ میں موجود اُن اوراق کا علم نہ  رہا ہوگا جن کا  مطالعہ رزان حمدون  نے اپنے  ماجستیر کے مقالہ میں  پیش کیا تھا۔  ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یمن جاکر وہ   دارالمخطوطات  کا   بس  المکتبۃ الغربیۃ دیکھ کر آجاتیں۔

    21.   چوکور بریکٹ سے مراد خالی جگہ یا لاکونا  (lacuna)ہے۔

    22. اس عبارت پر ہلالی نے کوئی روشنی نہیں ڈالی ہے۔ عین ممکن ہے کہ قاری بسملہ پڑھنے کے بعد    بَرَاءَةٌ مِنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ  کہہ چکا ہو اور املاء لکھنے والا اسے لکھ چکا ہو،  اتنے میں  استاد کی ہدایت آئی ہو کہ "لا تقل بسم اللہ"۔ البتہ ان چند الفاظ کو صادقی اور گودارزی نے   اگلی سطر پر موجود"   لا ٮڡل" کے ساتھ  ملا کر یوں پڑھا ہے: 'ھدہ حٮمہ سورہ الاںڡل'( ھذہ ختمۃ سورۃ الانفال(۔ واضح رہے کہ مخطوطاتِ قدیمہ میں اکثر حروف  مدہ   (long vowels) کو  کم ہی لکھا  جاتاتھا، اس طرح سے مشابہت کی بناء پر لا تقل کو الانفال پڑھا گیا)۔پھر صادقی اور گودارزی کے خیال میں تصحیحِ قراءت کی ہدایت  لا تقل بسم اللہ لکھتے وقت کاتب لا       تقل لکھنا بھول گیا شاید اس وجہ سے کہ یہ لفظ وہ پہلے لکھ چکا تھا۔ مزید تفصیل کیلیے دیکھیے صادقی اور گودارزی  [5] ص 53۔

    23.  یہ اصطلاح راقم نے ڈاکٹر اعظمیؒ کی پیروی میں اختیار کی ہے۔ مستشرقین variant readings کی ترکیب استعمال کرتے ہیں اور ہمارے ہاں کے روایتی علماء اختلافاتِ قراآت کہتے ہیں ۔

    24.  مستشرقین کا یہ عام  طرزِ فکر ہے کہ و  ہ   روایات کو  اس وجہ سے   نظر انداز کر تے  ہیں کہ ان  میں  بیان کردہ  واقعات کئی صدی  قبل پیش آئے تھے۔ حالانکہ مسلمانوں نے روایات کی چھان بین کا جو علم مدون کیا ہے، اس کے بعد یہ   نقطۂ نظر رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔

    25. اس تکنیک کو جَندرہ کہا جا تا  تھا۔ واضح رہے کہ ابتدائے اسلام  ہی سے مسلمانوں نے   متون  کی پوری صحت کے ساتھ نشر و اشاعت کی خاطر قواعد بنا رکھے تھے جن کا ذکراحادیث و  تواریخ میں ملتا ہے۔  پانچویں صدی ہجری  کے مشہور عالم الخطیب البغدادی امیرالمؤمنین    حضرت عمر کے ایک حکم  کا حوالہ دیتے ہیں  کہ اگر  تمہیں   ایک کتاب ملے  جس میں ایسا علم ہو جو تم نے کسی عالم سے نہ سنا ہو تو اس کتاب کو پانی کے برتن میں رکھدو یہاں تک  کہ روشنائی پانی میں مکمل حل ہوجائے، یعنی تحریر کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے ہاں ایسا متن جو زبانی روایت سے  تصدیق شدہ  نہ ہو مکمل طور پرپھاڑ دینے (تَمزیق)  یا پارچہ کو مکمل دھودینے  (غَسل)پر  منتج ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ  عبارات کو خارج (delete)  کرنے کیلیے دوسرے طریقے بھی  رائج ہونے لگے جن میں کیمیکل یا قدرتی اشیا ء استعمال کی جاتی تھیں۔  حَک، قَل، تَقشِیر، مَسح، دَلک، اور اِزالہ  اسی طرح کی تکانیک تھیں۔ (دیکھیے ہلالی کی کتاب [9] ص 8-12)۔


یونیورسٹیوں میں ترجمہ قرآن کی لازمی تعلیم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پنجاب کے گورنر محترم چودھری محمد سرور کی طرف سے یونیورسٹیوں میں ترجمہ قرآن کریم کو لازمی قرار دینے کی خبر یقیناً سب کے لیے خوشی کا باعث بنی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں کسی طالب علم کو ترجمہ قرآن کریم پڑھے بغیر ڈگری نہیں ملے گی۔ پنجاب حکومت اور اسمبلی کی طرف سے اس قسم کے اعلانات اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر سامنے آتے رہے ہیں۔ بلکہ ہماری یادداشت کے مطابق صوبائی اسمبلی نے ایک مرحلہ میں بل بھی منظور کیا تھا کہ قرآن کریم کا ترجمہ کالجوں میں لازمی پڑھایا جائے گا مگر وہ بل شاید قانون سازی کی منزل حاصل نہیں کر سکا تھا۔ البتہ چودھری محمد سرور چونکہ اپنے منصب کے لحاظ سے ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں اس لیے ان کا یہ اعلان پہلے اعلانات سے مختلف نظر آتا ہے اور اس سے یہ توقع پیدا ہو گئی ہے کہ اب عملاً ایسا ہونے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے گی۔

گورنر پنجاب کا یہ اعلان لائق تحسین و تبریک ہے بلکہ مجھے تو چودھری محمد سرور کے گورنر بننے کے بعد سے انتظار تھا کہ وہ اس قسم کا خیر کا کوئی کام ضرور کریں گے جس کا شاید انہیں موقع اب ملا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک محفل میں بات چل رہی تھی کہ پنجاب میں سرکاری سطح پر فلاں کام ہونے والا ہے اور وہ کام بظاہر خیر کا نہیں لگ رہا تھا، میں نے دوستوں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ بزدار صاحب سے میں ذاتی طور پر واقف نہیں ہوں، مگر جب تک صوبائی سیٹ اپ میں چودھری محمد سرور اور چودھری پرویز الٰہی موجود ہیں مجھے اطمینان ہے کہ ان کے علم میں ہوتے ہوئے یہ کام نہیں ہو سکے گا۔

قرآن کریم کی تعلیم ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے، اس کی تلاوت، اس کا فہم اور اس کے احکام پر عمل ہر مسلمان مرد اور عورت کی ذمہ دری ہے، جبکہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا اور پڑھ کر سمجھنا ہمارے ان فرائض میں شامل ہے جن کی طرف قرآن کریم نے خود توجہ دلائی ہے۔ ایک جگہ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ’’حتٰی تعلموا ما تقولون‘‘ قرآن کریم پڑھتے ہوئے تمہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس آیت اور جملہ کا مفہوم کیا ہے۔ ویسے بھی کامن سینس کی بات ہے کہ جب ہم قرآن کریم کو اللہ تعالٰی کا کلام و پیام مانتے ہیں اور خود کو اس کا مخاطب سمجھتے ہیں تو اللہ رب العزت کے پیغام کو سمجھنا اور اس کے مفہوم سے واقف ہونا لازمی طور پر اس کا حق اور ہماری ذمہ داری بنتا ہے۔

چنانچہ قرآن کریم نے اس کے دائرے الگ الگ بیان کیے ہیں۔ ’’یتلوا علیہم آیاتہ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم پڑھ کر سناتے ہیں، اسی لیے قرآن کریم کی تلاوت و قراءت مستقل عبادت ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ’’یعلمہم الکتاب‘‘ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تعلیم دیتے ہیں، یعنی اس کا مطلب و مفہوم بھی سمجھاتے ہیں۔ بلکہ اس سے آگے ’’یبین للناس‘‘ بھی ہے کہ اس مطلب و مفہوم کی ضرورت کے مطابق وضاحت بھی فرماتے ہیں۔

اس حوالہ سے ہم پاکستانی مسلمانوں کی ذمہ داری دہری ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور اسلامی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا جس کے لیے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اس میں قرآن کریم کے احکام و ہدایات کی عملداری کا نظام ہو گا۔ اس کے علاوہ ہمارے دستور میں بھی یہ صراحت ہے کہ قرآن و سنت کی ہدایات کو تمام معاملات میں بالادستی حاصل ہو گی۔ اس کا منطقی تقاضہ یہ ہے کہ ملک کا نظام چلانے والے افراد اور مختلف محکموں میں فرائض سرانجام دینے والے افسران اور اہلکار قرآن کریم اور سنت رسولؐ کی ہدایات و تعلیمات سے آگاہ ہوں۔ جبکہ عملی صورتحال یہ ہے کہ دستور کے مطابق تو قومی زندگی کے ہر شعبہ میں قرآن کریم کی ہدایات کی پابندی ضروری ہے مگر قومی زندگی کے مختلف شعبوں کا نظم چلانے کے لیے جو افراد کار ریاستی تعلیمی اداروں میں تیار کیے جاتے ہیں ان کے لیے قرآن و سنت کی تعلیم لازمی نہیں ہے۔ اس معاملہ میں اصل ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ملک کے ریاستی تعلیمی نظام میں (۱) قرآن کریم (۲) حدیث و سنت (۳) فقہ و شریعت اور (۴) عربی زبان کو لازمی مضامین کا درجہ دیا جائے تاکہ کسی بھی عہدہ پر بیٹھے افسر و ملازم کو معلوم ہو کہ اس نے اپنی ڈیوٹی کس دائرے میں سرانجام دینی ہے۔ قرآن کریم کا ترجمہ تو اس کا صرف ایک ناگزیر حصہ ہے جو بطور مسلمان ہر ایک کو پڑھنا چاہیے۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم گورنر پنجاب کے اس مستحسن اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اس سلسلہ کے پہلے اعلانات سے ہٹ کر اس اعلان پر عملدرآمد بھی ہو گا، ان شاء اللہ تعالی۔


جسمانی ساخت میں تبدیلی ۔ قرآن وحدیث اور اقوالِ فقہاء کی روشنی میں (۲)

مولانا محمد اشفاق

مذکورہ بالا افعال  سے ممانعت کی علتیں  فقہاء کی نظر میں :

معروف مالکی فقیہ ''القرافی'' ابن رشد کی المقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

وسبب المنع في وصل الشعر وما معہ التدليس والغرور قال صاحب المقدمات: تنبيہ لم أر للفقھاء المالكيۃ والشافعيۃ وغيرھم في تعليل ھذا الحديث إلا أنہ تدليس علی الأزواج ليكثر الصداق، ويشكل ذلك إذا كانوا عالمين بہ ، وبالوشم فإنہ ليس فيہ تدليس ، وما في الحديث من تغيير خلق اللہ لم أفھم معناہ فإن التغيير للجمال غير منكر في الشرع كالختان وقص الظفر والشعر وصبغ الحناء وصبغ الشعر وغير ذلك۔1

 اور بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے اور اس سے ملتے جلتے دوسرے افعال سے منع کرنے کا سبب اپنی اصلی حالت کا چھپانا اور دھوکا دینا ہے ۔صاحب المقدمات کہتےہیں :  میری نظرمیں جن مالکی اور شافعی فقہا  نےاس حدیث کی علت بیان کی ہے انھوں نے صرف یہ علت یہ بیان کی ہے کہ ان افعال میں ہونے والے شوہروں کو دھوکا ہے کہ ان سے شوہر پر بیوی کی اصلی حالت چھپ جاتی ہے  ، اور عورت یہ کام اس لیے کرتی ہے تاکہ اس کے ذریعے سے مہر میں زیادتی کی جا سکے ، لیکن شوہر کو پہلے سے معلوم ہونے کی صورت میں اور جسم گدوانے میں تو ایسی کوئی وجہ نہیں پائی جاتی ، اس سے منع کرنے کی وجہ میں نہیں سمجھا ہوں ۔کیوں کہ خوب صورتی کے حصول کےلیے تبدیلی کرنے پرشریعت میں تو  انکار نہیں پایا جاتاجیسے ختنہ کرنا، ناخن تراشنا،بال کاٹنا،مہندی سے ہاتھوں اور بالوں کا رنگنا اور اس کے علاوہ ۔

اس عبارت میں علامہ قرافی ؒ  عورتوں کے خوب صورتی کے لیے کیے جانے والے امور کے بارے ممانعت کی احادیث کی علت بتا رہے ہیں ، چنانچہ فرماتےہیں کہ عورتوں کو اِ ن امور ( بال اکھڑوانا، دانتوں کے درمیان فاصلہ کروانا ، جدید دور کی اصطلاح میں سرجری کروانے وغیرہ ) سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں اس کے ذریعے سے اپنی اصلی حالت کو چھپاتی ہیں ، اور بناوٹی خوب صورتی اختیار کرکے شوہر سے زیادہ مہر وصول کرتی ہیں ، یعنی یہاں اصل ممانعت کی وجہ دھوکا دہی ہے ، کہ اس خوب صورتی کی وجہ سے وہ شوہروں کو دھوکا میں مبتلا کر کے زیادہ مہر بٹورتی ہیں  ، اس لیے رسول اللہﷺ نے ان افعال سے منع فرمایا ہے ۔البتہ انہوں نے ایک اور بات فرمائی کہ وشم یعنی جسم گدوانے میں اور اس پر کوئی نقش وغیرہ کروانے میں تو دھوکانہیں ہے ، اس سے شریعت میں منع کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی ۔تاہم آنے والی سطور میں وشم کی علت پر بھی بات کی جائے گی ۔

فقہ شافعی کی معروف کتاب" الحاوی الکبیر" میں ہے :

فأما الواصلۃ والمستوصلۃ ففيہ تأويلان:أحدھما: أنھا التي تصل بين الرجال والنساء بالفاحشۃ والثاني: أنھا التي تصل شعرھا بشعر نجس فأما التي تصل شعرھا بشعر طاھر فعلی ضربين:
أحدھما: أن تكون أمۃ مبيعۃ تقصد بہ غرور المشتري أو حرۃ تخطب الأزواج تقصد بہ تدليس نفسھا عليھم، فھذا حرام لعموم النھي، ولقولہ - صلی اللہ عليہ وسلم  -: " ليس منا من غش والضرب الثاني: أن تكون ذات زوج تفعل ذلك للزينۃ عند زوجھا أو أمۃ تفعل ذلك لسيدھا، فھذا غير حرام لأن المرأۃ مأمورۃ بأخذ الزينۃ لزوجھا من الكحل والخضاب..... وأما الواشرۃ، والمستوشرۃ: ھي التي تبرد الأسنان بحديدۃ لتجديدھا وزينتھاوأما الواشمۃ: وھي التي تنقش بدنھا وتشمہ بما كانت العرب تفعلہ من الخضرۃ في غرز الإبر فيبقی لونہ علی الإبروأما الوشم بالحناء والخضاب فمباح، وليس مما تناولہ النھي فأما النامصۃ، والمتنمصۃ: فھي التي تأخذ الشعر من حول الحاجبين وأعالي الجبھۃ، والنھي في ھذا كلہ علی معنی النھي في الواصلۃ، والمستوصلۃ2

بالوں میں وصل کرنے والی اور کروانے والی عورت کے بارے میں دو تاویلیں کی گئی ہیں : پہلی یہ ہے کہ وصل کرنا بدکاری کےلیے ہو ، اور دوسرا یہ ہے کہ نجس بال ملائے جائیں ، اور اگر پاک بالوں کے ساتھ وصل کیا جائے تو اس کی دو قسمیں ہیں : ایسی باندی جو فروخت کرنے کے لیے ہے اس کے بالوں میں وصل کیا جائے تاکہ خریدنے والے کو دھوکا میں ڈالا جا سکے ، یا ایسی آزاد عورت کےبالوں میں وصل کیا جائے جس کے پاس نکاح کا پیغام آنا ہے تاکہ اس کی اصلی حالت کو چھپایا جا سکے ، ان دونوں صورتوں میں وصل کرنا حرام ہوگا ، اس لیے آپ ﷺ کا ارشاد ہے : جس نے دھوکا کیا وہ ہم میں سے نہیں،دوسری صورت یہ ہے کہ شادی شدہ عورت شوہر کے لیے یہ زینت اختیار کرتی ہے تو اس صورت میں حرام نہیں ہوگا ،اس لیے کہ اپنے شوہر کےلیے  مہندی اور کحل وغیرہ سے زینت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے(گویا وصل بھی مہندی وغیرہ کے حکم میں داخل ہے ) ۔

اور دانتوں کو ترشوانے والی اور تراشنے والی تاکہ اس کے ذریعے دانت نئے اور خوب صورت ہو جائیں ، اور جسم گدوانے والی عورت کہ جس میں سوئی کے ذریعے جسم گودا جاتاہے اور اس میں رنگ بھرا جاتاہے ( یہ حرام ہے ) البتہ خضاب اور مہندی کے ساتھ جسم گدوانا یہ مباح ہے ۔ نہی کے تحت داخل نہیں ہے ۔اور ابروؤں کو باریک کرنے والی اور کروانے والی ، ان سب سے  نہی اسی معنیٰ میں ہے جو وصل کرنے کے بارے میں ذکر ہوا ہے ۔

ماوردی نے اپنی اس عبارت میں نہایت تفصیل کے ساتھ ان تمام افعال کے حکم کے بارے میں بحث کی ہے جو مختلف احادیث میں آئے ہیں ، ان کی بات کا خلاصہ  یہ ہے کہ مردو عورت میں سے کوئی بھی اس لیے وصل کرواتا ہے تاکہ اس کے ذریعے کسی بدکاری کے کام مبتلا ہو یا وصل اس لیے کروایا جا رہاہے کہ  کسی کو دھوکا میں ڈالا جا سکے تو ان دونوں صورتوں میں وصل کرنا حرام ہوگا ۔

اور اگر محض زینت کے حصول کےلیے ایسا کیا جا رہاہے تو نہ صرف یہ کہ یہ فعل جائز ہے بلکہ عورت کو اس چیز کا حکم ہے کہ وہ اپنے شوہر کےلیے زینت اختیار کرے ۔  آگے پھر باقی افعال کی تعریف کے بعد لکھتے ہیں کہ ان تمام افعال میں بھی یہ دیکھا جائے گا کہ ان کے کرنے سے مقصود کیا ہے اگر محض زینت کےلیے ہے تو جائز ہوگا ، اور اگر زینت کے ساتھ کسی کو دھوکا دینا ہے یا بدکاری کے کاموں میں پڑنے کےلیے ایسا کیا جارہاہے تو حرام ہوگا ۔

فقہ حنفی کی معروف کتاب رد المحتار میں علامہ شامی ؒ لکھتے ہیں :

(قولہ سواء كان شعرھا أو شعر غيرھا) لما فيہ من التزوير كما يظھر مما يأتي وفي شعر غيرھا انتفاع بجزء الآدمي أيضا: لكن في التتارخانيۃ، وإذا وصلت المرأۃ شعر غيرھا بشعرھا فھو مكروہ،3

اس کاقول ( وصل کرنا حرام ہے) چاہے اپنے بالوں سے ہو یا  کسی اورکے بالوں سے۔ اس لیے کہ اس میں دھوکا دہی ہے ، جیسا کہ آگے واضح ہوگا  ۔ نیز اس میں  دوسرے کے بال لگانے سے کسی انسان کے جزء سے نفع اٹھانا بھی لازم آ رہاہے ۔لیکن تاتارخانیہ میں ہے : اور جب کوئی عورت اپنے بالوں سے کسی اور کے بال ملائے تو وہ مکروہ ہے ۔

علامہ شامی ؒ کی اس عبار ت سے بھی واضح ہے کہ وصل وغیرہ سے ممانعت دھوکا دہی کی وجہ سے ہے ۔ عورتیں اس کے ذریعے سے اپنے آپ کو جوان اور خوبرو دکھا کر مہر زیادہ کرواتی ہیں  وغیرہ وغیرہ ۔ مندرجہ بالا عبارت میں وصل کے بارے میں ان کا موقف سامنے آیاہے ، عورت کے اپنے چہرے سے بال اکھڑوانا جس کا ذکر حدیث میں " وَالمُتَنَمِّصَاتِ"کے الفاظ سے آیاہے اس کے بارے میں علامہ شامی ؒ لکھتے ہیں:

النمص: نتف الشعر ومنہ المنماص المنقاش ولعلہ محمول علی ما إذا فعلتہ لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجھھا شعر ينفر زوجھا عنھا بسببہ، ففي تحريم إزالتہ بعد، لأن الزينۃ للنساء مطلوبۃ للتحسين4

نمص: بالوں کا اکھاڑنا ہے ،اور اسی سے ہے المنماص المنقاش اور شاید کہ (اس سے منع کرنا) محمول ہے کہ جب اجنبیوں کے لیے  خوب صورتی اختیار کی جائے وگرنہ عورت کے چہرے پر بال آجائیں جن  کی وجہ سے شوہر اپنی بیوی سے کراہت محسوس کرے تو اس کے حرام ہونا بعیدہے ،اس لیے کہ زینت عورتوں کے لیے  مطلوب ہے ۔

مجموعی طور پر علامہ شامی ؒ کی عبارات سے معلوم ہورہاہے کہ عورت جب یہ اوپر ذکر کردہ افعال کرے تو اس میں دو  چیزیں ملحوظ خاطر ہوں  ، ایک یہ کہ اس میں دھوکا دہی مقصود نہ ہو ، اگر کسی کو دھوکا دینا مقصود ہے تو یہ امور حرام ہوں گے ، اور دوسرے یہ  کہ زینت اجنبی مردوں کو مائل کرنے  کے لیے اختیار نہ کی جائے ، اگر یہ دونوں شرطیں پائی جائیں گی تو شرعاً ان  افعال کے کرنے  میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔

اسی طرح حافظ ابن حجر نے امام نووی سے نمص سے متعلق جو رائے ذکر کی ہے وہ بھی علامہ شامی کی رائے سے ملتی جلتی ہے ، چنانچہ لکھتے ہیں :

قال النووي: یستثنی من النماص ما  اذا نبت للمرأۃ لحيۃ أو شارب أو  عنفقۃ فلایحرم عليھا ازالتھا،بل یستحب ۔ قلت: واطلاقہ مقید باذن الزوج و علمہ ، والافمتی خلا عن ذلک منع للتدلیس 5

نووی نے کہا: بالوں کے اکھاڑنے ( کے حرام ہونے والے حکم) سے استثنا حاصل ہوگا جب  عورت کی ڈاڑھی،مونچھیں یا ڈاڑھی کا بچہ اگ آئے ، پس ان کا ختم کرنا اس عورت  کےلیے حرام نہیں ہوگا ۔ میں کہتا ہوں : اور اس ( بالوں کے اکھاڑنے کے جواز ) کا اطلاق مقید ہوگا شوہر کی اجازت اور اس کے علم کے ساتھ ۔ وگرنہ پس کب خالی ہوگا  یہ حکم اس( حرام )سے ۔ اس سے منع کیا گیا اصلی حالت کے چھپ جانے کی وجہ سے ۔

اوپر ذکر کردہ عبارت سے نووی کی رائے یہ سمجھ  آر ہی ہے کہ ان کے ہاں بہت محدود دائرے میں بالوں کے اکھاڑنے کی اجازت ہے ، یعنی انتہائی ناگزیر صورتِ حال میں کہ جب عورت کی ڈاڑھی یا مونچھیں وغیرہ نکل آئیں تو اس صورت میں اس کےلیے ان کو ختم کرنے کی اجازت حاصل ہوگی ۔ جبکہ حافظ کی رائے یہ ہے کہ  جب شوہر اجازت دے دے ، یا شوہر کے علم میں ہو تو مطلقاً بالوں کا اکھاڑنا جائز ہوگا ، گویا ان کے ہاں اصل مدار تدلیس والی علت پر ہے ۔

معروف مالکی فقیہ شہاب الدین نفراوی اپنی تصنیف " الفواکہ الدوانی " میں رقم طراز ہیں :

(وينھی النساء عن وصل الشعر) والنھي للحرمۃ عند مالك لخبر: «لعن اللہ الواصلۃ والمستوصلۃ» وحرمۃ الوصل لا تتقيد بالنساء لما فيہ من تغيير خلق اللہ، وإنما خص النساء لأنھن اللاتي يغلب منھن ذلك عند قصر أو عدم شعرھن يصلن شعر غيرھن بشعرھن، أو عند شيب شعرھن يصلن الشعر الأسود بالأبيض ليظھر الأسود لتغريہ الزوج....
والوشر نشر الأسنان أي بردھا حتی يحصل الفلج وتحسن الأسنان بذلك، ومثلہ لو كانت طويلۃ فتنشر حتی يحصل لھا القصر، والتنميص ھو نتف شعر الحاجب حتی يصير دقيقا حسنا، ولكن روي عن عائشۃ - رضي اللہ عنھا - جواز إزالۃ الشعر من الحاجب والوجہ وھو الموافق لما مر من أن المعتمد جواز حلق جميع شعر المرأۃ ما عدا شعر رأسھا، وعليہ فيحمل ما في الحديث علی المرأۃ المنھيۃ عن استعمال ما ھو زينۃ لھا كالمتوفی عنھا والمفقود زوجھا.6

اور منع کیا گیا عورتوں کو بالوں میں دوسرے بال ملانے سے ، اور اس سے نہی امام مالک کے ہاں اس خبر کی وجہ سے ہے:  لعن اللہ الواصلۃ والمستوصلۃ اور بالوں میں وصل کی حرمت صرف عورتوں کے ساتھ خاص نہیں ہے ، اس لیے کہ  اس میں اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی ہے ، اس کو عورتوں کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر بالوں کے چھوٹا ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں عورتیں ہی دوسرے بال اپنے بالوں میں ملاتی ہیں ، یا بڑھاپے میں اپنے بالوں کے سفید ہونے کی صورت میں ان کے ساتھ دوسرے بال ملاتی ہیں  تاکہ اس کے ذریعے سے اپنے شوہر کو دھوکا میں مبتلا کریں ۔ اور وشر دانتوں کے ترشوانے کو کہتے ہیں ، اس کے ذریعے دانتوں کے درمیان خلا پیدا ہوتاہے اور اس سے دانت خوب صورت لگتے ہیں اور اسی طرح اگر دانت لمبے ہوں اور ان کو ترشوایا جائے تو وہ چھوٹے ہو جاتے ہیں ، اور نمص ابرو کے بالوں کا اکھاڑنا ہے تاکہ خوب صورت باریک ہو جائیں ،  لیکن حضرت عائشہ سے ابروؤں اور چہرے سے بالوں کے ختم کرنے پر جواز وارد ہے ۔

اور یہ موافق ہے اس  بات کے جو پیچھے گزر چکی ہے کہ  معتمد قول یہ ہے کہ عورت کے سر کے علاوہ تمام بالوں کا حلق جائز ہے ، اور اسی پر محمول کیا جائے گا اس ممانعت کو جو حدیث میں مذکور ہے  کہ عورت کےلیے زینت اختیار کرنا ممنوع ہے ، اس سے مراد وہ عورت ہے  جس کا شوہر فوت ہوچکا ہو،اور وہ عورت جس کا شوہر گم ہو چکا ہو ۔ 

اسی طرح ایک اور شافعی فقیہ سلیمان بن عمر الجمل اپنی معروف کتاب "حاشیۃ الجمل علی شرح المنهج" میں تحریر فرماتے ہیں :

ويحرم أيضا تجعيد شعرھا ونشر أسنانھا وھو تحديدھا وترقيقھا والخضاب بالسواد وتحمير الوجنۃ بالحناء ونحوہ وتطريف الأصابع مع السواد والتنميص وھو الأخذ من شعر الوجہ والحاجب المحسن فإن أذن لھا زوجھا أو سيدھا في ذلك جاز لھا؛ لأن لہ غرضا في تزينھا لہ كما في الروضۃ وأصلھا وھو الأوجہ7

اسی طرح حرام ہے بالوں کا گھنگھریالا بنانا، اور دانتوں کا نشر کروانا اور وہ ان کا باندھنا ہے ، اور باریک کرنا ہے ۔ اور کالی مہندی اور رخساروں کی ابھری ہوئی جگہ کو مہندی سے رنگنااور اس جیسے دوسرے افعال۔اور انگلیوں کے پوروں کا کالا کرنا، اور نمص کرنا ،وہ چہرے اور ابرؤوں کے بالوں کا اکھاڑنا ہے  خوب صورتی  کےلیے ، پس اگر اس کےلیے شوہر  یا آقا اجازت دے تو یہ جائز ہے ، اس لیے کہ اس( شوہر یا آقا) کے لیے زینت اختیار کرنا مقصد ہے ،جیسا کہ روضہ میں ہے ، اور یہی بہتر توجیہ ہے ۔

یہ عبارت بھی یہ اصول بیان کررہی ہے کہ اگر ان کاموں کے پیچھے کوئی جائز مقصد ہوتو ممانعت باقی نہیں رہے گی۔

اسی طرح علامہ طاہر ابن عاشورؒ اپنی تفسیر " التحریر والتنویر " میں لکھتے ہیں :

وأما ما ورد في السنۃ من لعن الواصلات والمتنمصات والمتفلجات للحسن فمما أشكل تأويلہ. وأحسب تأويلہ أن الغرض منہ النھي عن سمات كانت تعد من سمات العواھر في ذلك العھد، أو من سمات المشركات، وإلا فلو فرضنا ھذہ منھيا عنھا لما بلغ النھي إلی حد لعن فاعلات ذلك. وملاك الأمر أن تغييرخلق اللہ إنما يكون إنما إذا كان فيہ حظ من طاعۃ الشيطان، بأن يجعل علامۃ لنحلۃ شيطانيۃ، كما ھو سياق الآيۃ واتصال الحديث بھا.8

اور حدیث میں  بال جوڑنے  والی عورتوں ، بال اکھڑوانے والی عورتوں اور دانتوں کے درمیان  خوبصورتی کے لیے فاصلہ کروانے والی عورتوں کے لیے جو حکم آیاہے ، اس سے   منع کرنے کی جو علت میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل میں ان علامات سے روکنا  مقصود ہے جو اُس زمانے کی بدکار عورتوں کی علامات تھیں یا مشرکات عورتوں کی علامات تھیں ، اور اگر اصلاً  منع کرنا فرض کر لیا جائے تو  یہ افعال اتنے شنیع نہیں ہیں کہ ان افعال کا ارتکاب کرنے والی عورتوں پر لعنت کی جائے ، بہرحال  خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی خلقت میں تبدیلی اس وقت گناہ ہوگی  جب اس میں شیطان کی اطاعت کا پہلو پایا جا ئے گا بایں طور کہ  ان کاموں کو شیطان کو شیطان کو خوش کرنے کےلیے کیا جائے جیسا کہ آیت کا سیاق ہے اور اس کے ساتھ حدیث کو ملایا جائے

علامہ  ابن عاشور ؒ کی اس عبارت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ وہ ان افعال سے روکنے کو کس علت پر محمو ل کر رہے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ عورتوں کو ان افعال سے اس لیے منع کیا گیا کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زانیہ اور فاحشہ عورتوں کا یہ شعار اور علامت ہوتی تھی کہ وہ اپنے جسم پر نشانات لگوایا کرتی تھیں ،ابرووں کو ترشواتی تھیں ،  اور اس طرح کے دوسرے افعال کرتی تھیں ۔ جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے مسلمان عورتوں کو ان افعال سے سختی سے منع کردیا تاکہ  ان پاک دامن عورتوں کی معاشرے کی بری اور غلیظ عورتوں سے کسی قسم کی مشابہت نہ ہو۔اسی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ابن عاشور فرماتے ہیں کہ اگر یہ افعال اُ ن بری عورتوں کے نہ ہوتے تو بظاہر  اِن میں اتنی برائی نہیں ہے کہ ایسی عورتوں پر لعنت کی جائے ،کیوں کہ لعنت تو کسی ایسے فعل پر کی جاتی ہے جو انتہائی براہو۔ ابن عاشور کی اس علت اور وجہ کو امام رازی ؒ کی اس عبارت سے بھی تائید حاصل ہو رہی ہے ،امام رازی  سورۃ النساء کی آیت  وَلَأُضِلَّنَّھُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَآمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ الخ کے ذیل  میں حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : قَالَ وَذَلِكَ لِأَنَّ الْمَرْأَۃَ تَتَوَصَّلُ بِھَذِہِ الْأَفْعَالِ إِلَی الزِّنَا9. کہ رسول اللہ ﷺ کے ان افعال سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اِن افعال کے کرنے سے عورت زنا کی طرف راغبضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کا قول نقل  ہوتی ہے اس لیے ان سے منع کردیاگیا ۔

اس کے ساتھ اگر اوپر  ذکر گئی عبارتوں کو ملایا جائے تو بات ذرا اور واضح ہو جاتی ہے کہ دو وجہ سے رسول اللہ ﷺنے اِ ن افعال  سے  سختی کے ساتھ  منع فرمایا : ایک تو اس وجہ سے  کہ  اس طرح کے افعال کرنے سے عورت کی اصلی ہیئت اور حالت چھپ جاتی ہے اور جعلی حسن سامنے آ جاتاہے ، جس کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ دھوکا ہو تاہے ، اور دھوکا دینے والا اللہ کو سخت ناپسند ہے ۔ دوسرا اس وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں یہ افعال معاشرے کی گندی عورتوں کا شعار بن چکے تھے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرما دیا ۔

علامہ قرافی کی عبارت کی وضاحت

علامہ ابن  عاشور کی مذکورہ عبارت سے علامہ قرافی کی بات کا جواب بھی سامنے آگیا کہ وشم یعنی جسم کو گدوانے سے تو کسی قسم کا دھوکا اور تلبیس نہیں ہو رہی اس سے رسول اللہ ﷺ نے منع کیوں فرمایا تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ چونکہ دورِ رسالت مآب ﷺ میں یہ کام سماج کی بے راہ رو عورتوں کا شعار بن چکا تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ۔

اسی طرح ابن عاشور  اپنی ایک اور تالیف " مقاصد الشریعۃ " میں لکھتے ہیں :

"ووجھہ عندي الذي لم أر من أفصح عنہ أن تلك الأحوال كانت في العرب أمارات علی ضعف حصانۃ المرأۃ. فالنھي عنھا نھي عن الباعث عليھا أو عن التعرض لھتك العرض بسببھا 10"

"اور میرے نزدیک ان افعال سے روکنے کی وجہ جو میری نظر کے مطابق کسی اور  نے صراحتاً بیان نہیں کی یہ ہے   کہ اس طرح کے احوال  کی وجہ سے عورت کی پاک دامنی کو (قدیم زمانے میں )کمزور (مشکوک)سمجھا جاتاتھا، پس ان سے منع کرنا ان ( افعال) کے خلاف ابھارنا ہے یا ان سے اعراض کروانا ہے تاکہ یہ بے آبروئی کا سبب نہ بنیں"

علامہ ابن عاشور کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ عرب کے معاشرے میں یہ افعال بدکار اور مشرکہ عورتو ں کی علامت سمجھے جاتے تھے ، اور ایسی عورتیں ہی  یہ افعال کیاکرتی تھیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے ان افعال سے منع کردیا تاکہ پاک دامن اور اللہ کی مقرب بندیوں کی اُن بدکار عورتوں سےکسی قسم کی مشابہت لازم نہ آئے ۔تو ان افعال  سے سختی کے ساتھ منع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان عورتیں ان افعال قبیحہ سے حد درجہ احتراز برتیں ۔ جیسا کہ ابھی اوپر گزرا امام رازی نے بھی اسی وجہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کاموں کو زنا کا ذریعہ بنایا جاتا تھا۔

فقہاء  کی ان مذکورہ بالا تصریحات سے  سے میں  یہ واضح ہوتاہے کہ  جن وجوہات  کی بنا پر  رسول اللہ ﷺ  نے عورتوں  کو ان افعال سے منع فرمایا اور  کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی، وہ وجوہات کل تین ہیں :

ان مذکورہ علتوں کی بنیاد پر  یہ کہا جاسکتاہے کہ ان افعال  میں اگر دو چیزوں کی رعایت  رکھ لی جائے تو بظاہر ان افعال میں کوئی قباحت نہیں :

"المُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّہِ تَعَالَی" کو علت نہ بنانے کی وجہ

بعض حضرات نے  تغییر خلق اللہ کو بطور ِ علت کے بیان کیا ہے،  ان کا کہنا یہ ہے کہ   رسول اللہ ﷺ کے ان افعال سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ  یہ افعال اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں ، چونکہ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی درست نہیں لہذا یہ افعال بھی درست نہیں ہیں ۔ مولانا محمد زاہد  کا یہاں کہنا یہ ہے کہ  "المُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّہِ تَعَالَی" کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے، ان کے خیال میں اہلِ علم کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا  ہے تغییر خلق اللہ کو قابلِ لعنت کاموں کی علت تب بنایا جا سکتا ہے جبکہ وہ عمومی نوعیت کی برائی ہو اور اپنی ذات میں برائی ہو۔جبکہ ہم دیکھتے ہیں  اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی ایسا معاملہ ہے جس میں ہر جگہ کے لحاظ سے حکم مختلف ہے ،بعض جگہوں پر تبدیلی جائز ، بعض جگہوں پر ناجائز اور کچھ ایسے مقامات ہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی کرنا مستحب اور افضل عمل ہے ، اور علت ایسی چیز کو بنایا جا سکتاہے جس میں ہر جگہ حکم یکساں ہو ۔ چونکہ تغییر خلق اللہ ایسا عمل نہیں ہے کہ ہر جگہ حکم ایک ہی ہو، اس لیے اسے لعنت کی علت کی بنانے پر غور ضرور ہوسکتا  ہے ۔11

پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ حدیث ِ ابن مسعود میں تغییر کو علت کے طور پر نہ لیا جائے تو اس کے لانے کا مقصد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا محمد زاہد کہتے ہیں :

یہاں تغییر خلقِ اللہ کا ذکر بطورِ علت کے نہیں بلکہ حدیث میں بیان کیے گئے حکم کا دائرہ وسیع کرنے کےلیے ہے۔ وہ یوں کہ اس حدیثِ  شریف میں رسول اللہ ﷺ نے بعض جسمانی تبدیلیوں کا ذکر فرمایا ، ظاہر ہے کہ سب تبدیلیوں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتاتھا ، تو اس لیے اس طرح کی تمام تبدیلیوں کو شامل کرنے کےلیے تغییر خلق اللہ کا عنوان قائم فرمایا کہ جن تبدیلیوں میں بھی معنی پایا جائے وہ اسی حکم میں داخل ہیں ۔12

بہر حال حدیث کی تشریح کا یہ پہلو بھی قابلِ غور ہوسکتا ہےلیکن بعض افعال کے لیے تغییر خلق اللہ ہی کو علت قرار دیا جائے تو بھی خاص قسم کی تغییر کو علت قرار دیا جائے گا، یعنی جس میں مذکورہ بالا مفاسد پائے جائیں۔

حدیث ِ ابن مسعودؓ  کی وضاحت

عورتوں کو ان افعال سے روکنے اور منع کرنے کی اصل علتیں تو وہی ہیں جن کا اوپر کی چند عبارتوں میں ذکر موجودہے کہ چونکہ ان افعال میں تدلیس و تزویر ہے نیز بدکار اور فاحشہ عورتوں کا شعار ہے اس لیے منع کر دیاگیا ۔ ان عبارتوں کی روشنی میں یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی  تھی کہ کہ اگر ان افعال سے تدلیس و تزویر یعنی کسی کو دھوکا دینا مقصود نہیں ہے اور چونکہ آج کے زمانہ میں یہ افعال بدکار عورتوں کا شعار بھی نہیں کہ ان سے  مشابہت کی بنا پر منع کیا جائے ،لہذا ان افعال کے کرنے میں اباحت ہے ۔

لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث کی بنا پر  اس اباحت میں وہ تعمیم نہیں رہے گی جو اوپر ذکر کی گئی علتوں سے مترشح ہو رہی تھی ۔ اس روایت نے  ان افعال کی اباحت  کو تو اگرچہ برقرار رکھا ہے لیکن اس کا دائرہ محدود کر دیاہے ۔ وہ یوں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ  کی روایت کے الفاظ ہیں " وَالمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ" کہ  جن عورتوں پر لعنت کی گئی ہے ان میں  وہ عورتیں بھی ہیں جو دانتوں کے درمیان خوبصورتی کےلیے فاصلہ کرواتی ہیں ، لِلْحُسْنِ  کی قید سے دیکھنے میں لگتاہے کہ  ممانعت ان تمام صورتوں میں ہے جب خوبصورتی کے لیے یہ افعال کیے جائیں 13۔

لیکن ذرا گہرائی کے ساتھ دیکھیں تو ایسا نہیں ہے ، اس لیے کہ حُسن و جمال کوئی ایسی برائی کی  چیز نہیں ہے کہ محض اس کے حصول پر لعنت کی جائے۔ اس لیے کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور فطرت حسن و خوب صورتی کو پسند کرتی ہے۔ اسلام نے خوب صورت نظر آنے کی تعلیم دی ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :  إِنَّ اللَّہَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ  14 کہ اللہ تعالیٰ خود بھی جمال والے ہیں اور جمال کو پسند کرتے ہیں ۔ نیز عورتو ں کے بارے میں تاکید کے ساتھ آیا ہے کہ وہ زینت اختیار کیا کریں ،چنانچہ امام نسائی اپنی سنن میں ایک  کتاب الزینۃ کے تحت ایک روایت  نقل کرتے ہیں :

عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ امْرَأَۃً، مَدَّتْ يَدَھَا إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ فَقَبَضَ يَدَہُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّہِ، مَدَدْتُ يَدِي إِلَيْكَ بِكِتَابٍ فَلَمْ تَأْخُذْہُ، فَقَالَ: «إِنِّي لَمْ أَدْرِ أَيَدُ امْرَأَۃٍ ھِيَ أَوْ رَجُلٍ» قَالَتْ: بَلْ يَدُ امْرَأَۃٍ، قَالَ: «لَوْ كُنْتِ امْرَأَۃً لَغَيَّرْتِ أَظْفَارَكِ بِالْحِنَّاءِ»15

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے ایک کاغذ نبی ﷺ کی طرف بڑھایا  ، آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ روک لیا، تو اس نے کہا : یارسول اللہ ﷺ ! میں نے آپ کی طرف کا غذ بڑھایا ہے ،آپ نے وہ نہیں لیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے پتا نہیں کہ یہ ہاتھ عورت کا ہے یا مرد کا ، تو اس نے کہا :  یہ عورت کا ہاتھ ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم عورت ہوتی تو اپنے ناخنوں کو مہندی کا رنگ لگاتی۔

چونکہ حسن بذاتِ خود کوئی قابلِ لعنت کام نہیں ہے اس لیے حضرت ابن مسعود کی روایت میں حُسن سے مراد وہ حُسن ہے جس کے ذریعے دھوکا دہی مقصود ہو یا اجنبی مردوں کو مائل کرکے آوارہ عورتوں کی صف میں شامل ہونا مقصود ہو۔


خلاصۂ کلام

اب تک کی ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ :


حواشی

  1. القرافی ،ابوالعباس، شہاب الدین ،احمد بن ادریس بن عبدالرحمان المالکی ، الذخیرۃ للقرافی،ج ۱۳،ص ۳۱۵مکتبہ دارالغرب الاسلامی  ،بیروت،ط:اول ۱۹۹۴
  2. الماوردی ، ابوالحسن علی بن محمد البصری ، البغدادی ،الحاوی الکبیر  ج۲،ص۲۵۷،دارالکتب العلمیہ ،بیروت،لبنان، ۱۴۱۹ھ
  3. ابن عابدین ، محمد امین بن عمر بن عبدالعزیزالدمشقی الحنفی، ردالمحتارعلی الدرالمختار،ج ۳،ص ۳۷۳،دارالفکر،بیروت ،ط:  الثانیۃ، ۱۴۱۲ھ
  4. محولہ بالا
  5. العسقلانی، ابن حجر، حافظ، احمد بن علی ، ج۱۰، ص۳۷۸،دارنشرالکتب الاسلامیۃ ، ۱۴۰۱ھ
  6. نفراوی، احمد بن غانم ، شہاب الدین ، الازہری، المالکی، الفواکہ الدوانی علی رسالۃ ابن ابی زید القیراوانی، ج ۲، ص ۳۱۴،دارالفکر، ۱۹۹۵ء
  7. الجمل ، سلیمان بن عمر، الشافعی، حاشیۃ الجمل   علی شرح المنہج  ج ۱ ، ص۴۱۸،دارالفکر،س ن
  8. ابن عاشور ، محمد طاہر بن محمد بن محمد طاہر ،التحریر والتنویر ، ج۵،ص ۲۰۶، دارالتونسیۃ ، تونس،۱۹۸۴ء
  9. رازی ، فخرالدین ، مفاتیح الغیب ، ج ۱۱،ص۲۲۳
  10. ابن عاشور ، محمد طاہر بن محمد ، المقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ ، المحقق: محمد حبیب ابن الخوجۃ ،ج۱،ص ۴۹۱،وزارت الاوقاف والشئون الاسلامیۃ،قطر،۲۰۰۴ء
  11. زاہد، محمد، مولانا ، شیخ الحدیث، جامعہ اسلامیہ امدادیہ ، فیصل آباد، بالمشافہ گفتگو میں انہوں نے اپنی مندرجہ بالا رائے کا اظہار کیا
  12. محولہ بالا
  13. لِلْحُسْنِ: اس قید کا تعلق کون سے الفاظ کے ساتھ ہے ، اس بارے  علا مہ عینی نے دو احتمال نقل کیے ہیں  ایک یہ کہ اس کا تعلق پچھلے تمام افعال سے ہے ، دوسرا یہ کہ اس کا تعلق صرف آخری لفظ سے ہے (  عمدۃ القاری، ج۲۲،ص ۶۳)
  14. ابن حبان ،محمد بن حبان بن احمد بن حبان ،ابوحاتم الدارمی ، البستی ، صحیح ابن حبان ،ج ۱۲، ص ۲۸۰، رقم الحدیث: ۵۴۶۶،موسسۃ الرسالۃ ،بیروت ، الطبعۃ الثانیۃ ، ۱۹۹۳ء
  15. النسائی، ابو عبدالرحمان ، احمد بن شعیب ، سنن ، ج۸،ص ۱۴۲، رقم الحدیث: ۵۰۸۹،مکتبۃ المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، الطبعۃ الثانیۃ ، ۱۹۸۶ء


اگست ۲۰۲۰ء

غیر مسلموں کی عبادت گاہیں اور مسلم تاریخمحمد عمار خان ناصر
امت میں غوروفکر کی بازیافتڈاکٹر محی الدین غازی
افتاء کے ساتھ مشورہ اور تحکیم کے نظام کی ضرورتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جناب احمد جاوید سے ایک ملاقاتسید مطیع الرحمٰن مشہدی
غیر مسلموں کی نئی عبادت گاہوں کی تعمیرڈاکٹر عرفان شہزاد
صحابہ کرام کے بارے مولانا مودودی کا اصولی موقفمولانا حافظ عبد الغنی محمدی

غیر مسلموں کی عبادت گاہیں اور مسلم تاریخ

محمد عمار خان ناصر

آیا صوفیہ سے متعلق ترکی کی عدالت کے حالیہ فیصلے   کے تناظر میں مذہبی رواداری کے حوالے سے مسلمانوں کے تاریخی طرز عمل کے بارے میں بہت بنیادی نوعیت کے سوال گزشتہ دنوں زیر بحث رہے۔ آیا صوفیہ کا گرجا چونکہ قسطنطنیہ کی فتح کے موقع پر   نے مسلمانوں نے بطور مسجد اپنے تصرف میں لے لیا تھا، اس لیے  اہم ترین سوال جو  اس بحث میں توجہ کا مرکز رہا، وہ یہی ہے کہ ایسا کرنا اسلام کی اصولی تعلیمات کی رو سے کیسا تھا؟

ہمارے نقطہ نظر سے اس پوری بحث کی درست تفہیم کے لیے جو چند بنیادی پہلو پیش نظر رکھے جانے چاہییں، وہ حسب ذیل ہیں:

۱۔ کسی معاملے سے متعلق مذہبی حکم کی تعیین کا بنیادی اصول یہ ہے کہ شرعی نصوص میں اس حوالے سے مسلمانوں کو کس چیز کا پابند کیا گیا ہے۔ بین المذاہب پرامن تعلقات، مذہبی رواداری یا دیگر دینی وسیاسی مصالح اس حوالے سے اصل بنیاد نہیں ہیں، بلکہ درحقیقت ان سب پہلووں کی رعایت اس لیے شرعی جواز کی حامل ہے کہ شرعی احکام وہدایات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طرز عمل سے ان کی رعایت کرنا ثابت ہے۔ یہ بنیادی نکتہ ذہن میں رہے تو سیرت نبوی اور سیرت صحابہ میں مختلف معاملات میں اختیار کیے گئے مختلف طرز عمل سے پیدا ہونے والی ظاہری الجھن دور ہو سکتی ہے اور ہر معاملے کے اپنے مخصوص سیاق میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہاں شریعت کی ترجیح کیا رہی ہے۔

۲۔ اسلامی شریعت میں دوسرے مذاہب کے ساتھ معاملہ کرنے کے تعلق سے بیک وقت دو طرح کے اصولوں اور مصلحتوں کی رعایت کی گئی ہے جن کے تقاضے کئی صورتوں میں متصادم ہوتے ہیں اور ان میں ترجیح قائم کرنا پڑتی ہے۔ یہ ترجیح شرعی نصوص اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں بھی دکھائی دیتی ہے اور عہد صحابہ اور بعد کے خلفاء کے فیصلوں میں بھی، اور بہت سی صورتوں میں کسی ایک یا دوسری مصلحت کی ترجیح کے حوالے سے اجتہادی اختلاف بھی پیدا ہو سکتا ہے اور پیدا ہوتا رہا ہے۔

شرعی احکام اور اسوہ نبوی واسوہ صحابہ میں جن اصولوں کی روشنی میں غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک اصول تو اتمام حجت کا ہے، یعنی یہ کہ پیغمبر کے ذریعے سے کسی قوم پر حق واضح کر دیے جانے کے بعد اس کے دنیوی انجام کے متعلق خدا کی طرف سے کوئی فیصلہ صادر کر دیا جائے۔

دوسرا اصول مذہبی واعتقادی تناظر میں اسلام کو بالادست اور غالب رکھنے کا ہے، یعنی جہاں مسلمانوں کی سیاسی حاکمیت مذہبی بنیاد پر قائم کی گئی ہو، وہاں حق اور باطل مذاہب سماجی وسیاسی recognition کے لحاظ سے یکساں نہ ہوں، بلکہ اسلام اور اسلامی شعائر غالب اور بالادست نظر آئیں۔

تیسرا اصول یہ ہے کہ اتمام حجت کے اصول کے تحت آنے والی قوم کے علاوہ، ایک عمومی اصول کے طور پر عقیدہ ومذہب کے معاملے میں جبر اور زبردستی درست نہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو بھی پورا حق حاصل ہے کہ وہ مستقل مذہبی گروہوں کی حیثیت سے دنیا میں موجود رہیں، اپنی مذہبی عبادت گاہوں کو آباد اور محفوظ رکھیں اور آزادی کے ساتھ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنی معاشرتی زندگی کو منظم کریں۔

اس تیسرے اصول سے مذہبی رواداری کا طرز عمل جواز حاصل کرتا ہے جس کی بنیادی روح یہ ہے کہ مذہبی اختلاف کی جو گنجائش خود اللہ نے انسانوں کو دی ہے، مسلمان اس کو پامال کر کے شریعت کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ کریں۔ جو نکتہ خاص طور پر واضح رہنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ اسلامی تصور میں مذہبی رواداری نہ تو حق کے ساتھ باطل کو یکساں سطح پر recognize کرنے پر مبنی ہے اور نہ اس کا بنیادی منبع بین المذاہب تعلقات کو خوشگوار اور پرامن بنیادوں پر قائم کرنے کا اصول ہے۔ یہ چیز اثرات اور نتائج کے طور پر تو حاصل ہوتی ہے، لیکن رواداری کا بنیادی ماخذ ’’حدود اللہ کی پابندی“کا تصور اور یہ احساس ہے کہ مسلمان، خدا کی مقرر کردہ حدود سے الگ، اپنے طور پر دینی حمیت وحمایت کے معیارات وضع کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔

مذکورہ اصولوں کے تناظر میں اسلامی تاریخ کے بڑے اور نمایاں واقعات کا ایک عمومی جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے یہ تصویر بنتی ہے:

۱۔ جزیرہ عرب کے مشرکین، ان کی عبادت گاہوں اور بیت اللہ پر ان کے تصرف وتولیت کے متعلق پہلے دو اصولوں یعنی اتمام حجت اور اظہار دین کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ بیت اللہ سے ان کا ہر قسم کا تعلق ختم کر کے اسے مسلمانوں کی تولیت میں دے دیا جائے، مشرکین کی تمام دیگر عبادت گاہوں اور استھانوں کو منہدم کر دیا جائے، اور مشرکین کو وارننگ دے دی جائے کہ وہ یا تو کفر وشرک سے تائب ہو کر اسلام قبول کر لیں اور یا تہہ تیغ ہونے کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ فیصلہ اتمام حجت کے اصول کا بھی تقاضا تھا اور توحید کے تصور پر کھڑی کی جانے والی نئی امت کے سیاسی ودینی مصالح کا مطالبہ بھی یہی تھا کہ بیت اللہ اور اس کے اردگرد کی پوری سرزمین کو صرف مسلمانوں کے لیے خاص کر دیا جائے۔ یہاں مذہبی رواداری یا پرامن بین المذاہب تعلقات کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور نہ ایسے کسی بھی اصول پر ان تمام اقدامات کی کوئی توجیہ ممکن ہے۔ ان کی واحد نظری واعتقادی بنیاد خدا کا یہ حکم تھا کہ اس سرزمین سے شرک کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس حکم کو رو بہ عمل کرنے کا واحد ذریعہ جہاد وقتال تھا جسے اسی مقصد کے لیے مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا تھا۔

۲۔ جزیرہ عرب سے باہر مسلمانوں کی فتوحات کے نتیجے میں جو اسلامی سلطنت قائم ہوئی، اس میں مسلمان خلفاء اور فقہاء نے مذہبی رواداری کے اصول، اسلامی سلطنت کے سیاسی ودینی مصالح اور صلح وجنگ کے عرفی واخلاقی ضابطوں کی روشنی میں درج ذیل ضابطے متعین کیے اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے معاملے میں انھی کی پابندی کو لازم قرار دیا گیا:

پہلا یہ کہ جو علاقے صلح کے معاہدے کے تحت اسلامی سلطنت کا حصہ بنیں گے، ان کے ساتھ معاہدے میں جو بھی شرائط کی گئی ہوں، ان کی پابندی لازم ہوگی۔ اس نوعیت کے معاہدات میں معاہدین کے جان ومال، مذہبی آزادی اور عبادت گاہوں کا تحفظ بنیادی شرائط کے طور پر شامل ہوتا تھا اور اس کی مثالیں عہد نبوی اور عہد صحابہ، دونوں کے معاہدات میں موجود ہیں۔

دوسرا یہ کہ جن علاقوں میں غیر مسلم پہلے سے آباد ہیں، وہاں انھیں معاہدے کے مطابق پہلے کی طرح مذہبی ومعاشرتی آزادیاں حاصل رہیں گی، لیکن مسلمان اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت جو نئے علاقے آباد کریں گے، وہ بنیادی طور پر انھی کے لیے خاص ہوں گے اور وہاں غیر مسلم معاہدین کو عبادت گاہیں بنانے یا مذہبی شعائر وغیرہ کے اظہار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

تیسرا یہ کہ جن علاقوں کے باشندے صلح کا معاہدہ کرنے کے بجائے مزاحمت اور جنگ کا طریقہ اختیار کریں گے اور میدان جنگ میں شکست کھا کر اپنا علاقہ مفتوحہ سرزمین کے طور پر مسلمانوں کے سپرد کریں گے، جنگ کے عرفی اصول کے تحت ان کا اپنے علاقے پر کوئی حق باقی نہیں رہے گا اور مسلم فاتحین کو انھیں وہاں رہنے کی اجازت دینے یا جلا وطن کر دینے اور اس پورے علاقے کی عمارتوں کے متعلق حسب مصلحت کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار ہوگا۔


اخلاقی وقانونی اصولوں کے مذکورہ فریم ورک سے واضح ہے کہ خلفاء اور فقہاء کے سامنے کوئی ایک ہی بے لچک بنیاد، یعنی مذہبی رواداری نہیں تھی جس پر وہ فقہی موقف اور سیاسی پالیسی کا مبنی ہونا لازم سمجھتے ہوں۔ ان کے پیش نظر اظہار دین اور مسلمان امت کے سیاسی ودینی مصالح کا سوال بھی تھا اور صحیح تر دینی واخلاقی موقف متعین کرتے ہوئے وہ ان سبھی پہلووں کو توازن کے ساتھ ملحوظ رکھنا، اور جہاں تعارض ہو، وہاں صورت حال کے لحاظ سے ایک یا دوسرے پہلو کو ترجیح دینا ضروری سمجھتے تھے۔

اس کے لیے مثال کے طور پر دمشق اور بیت المقدس کی فتح  کے واقعات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔  یہ دونوں شہر سیدنا عمر کے عہد میں فتح ہوئے۔ دمشق زیادہ معتبر روایات کے مطابق چودہ ہجری میں، جبکہ بیت المقدس سولہ ہجری میں فتح ہوا۔ بیت المقدس صلحا فتح ہوا تھا اور سیدنا عمر کے ساتھ معاہدے معاہدے میں عبادت گاہوں کی حفاظت کی شرط تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ تسلیم کی گئی تھی۔ یہاں مذہبی رواداری کی نوعیت یہ تھی کہ مقامی مسیحی راہنما کی معیت میں شہر کا دورہ کرتے ہوئے کنیسہ قمامہ میں اتفاقا ظہر کی نماز کا وقت آ گیا تو سیدنا عمر نے گرجے کے اندر نماز ادا نہیں کی، بلکہ باہر نکل کر سیڑِھیوں پر ادا کی اور مسیحی راہنما کے استفسار پر فرمایا کہ گرجے کے اندر نماز ادا کرنے سے یہ خدشہ تھا کہ بعد میں کبھی مسلمان اس بنیاد پر گرجے پر دعوی نہ کر دیں کہ ہمارے خلیفہ نے یہاں نماز ادا کی تھی۔ پھر تاریخی روایت کے مطابق انھیں یہ تحریر بھی لکھ کر دی کہ مسلمان اس گرجے کی سیڑھیوں پر بھی نماز ادا نہیں کریں گے اور نہ یہاں اذان دیں گے۔

نہ صرف مسیحی عبادت گاہوں کے متعلق، بلکہ یہودیوں کی عبادت گاہ ہیکل سلیمانی کے متعلق بھی سیدنا عمر نے جو طرز عمل اختیار کیا، اس کی حکمت یہی معلوم ہوتی ہے۔ سیدنا عمر نے ہیکل کے مرکزی مقام پر (جہاں بعد میں اموی خلیفہ نے قبۃ الصخرۃ تعمیر کروایا تھا) نماز ادا نہیں کی، بلکہ احاطے کے جنوبی حصے میں ایک کونے میں نماز ادا کرنے کو ترجیح دی جہاں موجودہ مسجد اقصی ٰ موجود ہے۔ (اس بحث کی مزید تفصیل مسجد اقصی ٰ کی تولیت سے متعلق ہمارے تفصیلی مقالے میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے جو ’’براہین “ میں شامل ہے)۔

صلحا فتح ہونے والے شہر کی عبادت گاہوں کے معاملے میں رواداری کے اس اظہار کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ عنوۃ یعنی جنگ کے ذریعے سے مفتوح ہونے والے علاقوں میں کئی مواقع پر مسلمان فاتحین نے جنگی عرف کی روشنی میں دوسرے اصول یعنی اظہار دین کو ترجیح دینا زیادہ مناسب سمجھا۔ اس کی ایک نمایاں مثال دمشق کا کنیسہ یوحنا ہے جہاں اس وقت جامع اموی قائم ہے۔ فتح دمشق کا معاملہ اس لحاظ سے ایک پیچیدہ معاملہ بن گیا تھا کہ اس پر مسلمان دو اطراف سے حملہ آور ہوئے تھے۔ ایک لشکر کے سامنے اہل شہر نے ہتھیار ڈال کر صلح کر لی تھی، جبکہ دوسرے لشکر نے جنگجووں کو شکست دے کر شہر پر قبضہ کیا تھا۔ یوں جب دونوں لشکر شہر کے وسط میں اکٹھے ہوئے تو یہ بحث پیدا ہو گئی کہ شہر پر کون سے احکام لاگو کیے جائیں۔ یہاں روایات میں اور مورخین کے تجزیے میں اختلاف ہے۔ بہت سی تاریخی  روایات کہتی ہیں کہ صحابہ نے مجموعی حیثیت سے شہر کو صلحا مفتوح قرار دیا اور جو حصہ جنگ سے فتح ہوا تھا، اس کو بھی صلح کے حکم میں شمار کر لیا، جبکہ بعض مورخین کی رائے میں آدھے شہر پر صلح کے اور آدھے پر عنوۃ کے احکام جاری کیے گئے۔

اس اختلاف سے قطع نظر، روایات سے یہ بہرحال ثابت ہے کہ شہر کے وسط میں واقع ایک مرکزی اور  تاریخی عبادت گاہ کنیسہ یوحنا کا ایک حصہ مسلمانوں نے بطور مسجد استعمال کرنا شروع کر دیا تھا اور علامہ ابن کثیر کا یہ تجزیہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آدھا شہر صلحا اور آدھا جنگ سے فتح ہوا تھا، اس لیے کنیسہ کا نصف حصہ بطور عبادت گاہ مسلمانوں کے تصرف میں لے لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ابن عساکر نے بھی اپنی تحقیق کا خلاصہ یہی بتایا ہے کہ کنیسہ یوحنا کا نصف حصہ فتح دمشق کے بعد مسلمانوں نے بطور مسجد اپنے تصرف میں لے لیا تھا۔ اس بندوبست کے مطابق کافی عرصہ تک دونوں گروہ اپنے اپنے زیر تصرف حصے میں عبادت کرتے رہے۔ پھر ولید بن عبد الملک نے مسجد میں توسیع کی ضرورت کے پیش نظر اپنے دور میں مسیحیوں کو پیش کش کی کہ وہ گرجے کا باقی حصہ بھی مسلمانوں کو دے دیں اور اس کی جگہ ایک دوسرے مقام پر زمین لے کر گرجا تعمیر کر لیں۔ جب مسیحی نہیں مانے تو ولید نے فتح دمشق کے موقع پر کیے گئے تحریری معاہدے کی روشنی میں مسیحیوں سے کہا کہ اس معاہدے کے مطابق فلاں اور فلاں گرجے جو اس وقت تمھارے پاس ہیں، وہ مسلمانوں کی ملکیت تسلیم کیے گئے تھے، اس لیے اگر تم کنیسہ یوحنا سے دستبردار نہیں ہوتے تو یہ گرجے تم سے واپس لے لیے جائیں گے۔ اس پر مسیحی رضامند ہو گئے اور پورے کنیسہ یوحنا کو مسجد میں شامل کر لیا گیا۔ تاہم ولید کا یہ اقدام چونکہ سیاسی دباو پر مبنی تھا، اس لیے عمر بن عبد العزیز کے دور میں مسیحیوں نے ان کے سامنے شکایت کی اور انھوں نے ولید کے اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مسجد کا وہ حصہ مسیحیوں کو واپس کرنے کا حکم دے دیا۔ بلاذری کی روایت کے مطابق، اس موقع پر عام مسلمانوں نے دوبارہ مسیحیوں کے ساتھ مذاکرات کر کے انھیں راضی کیا کہ وہ اس کے متبادل ایک دوسری جگہ لے لیں اور وہاں اپنا گرجا بنا لیں۔

ان دونوں مواقع پر مسیحیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں کے متعلق جو طرز عمل اختیار کیا گیا، اس کی قانونی بنیاد تو یہی فرق تھا کہ دمشق  صلح اور جنگ کے ملاپ سے فتح ہوا، جبکہ بیت المقدس مکمل طور پر صلح کے معاہدے کے تحت مسلمانوں کے قبضے میں آیا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دونوں موقعوں پر سیاسی مصالح بھی بہت مختلف تھے۔

دمشق، شام کا ایک مرکزی شہر تھا اور اس وقت تک مختلف چھوٹے شہر فتح کر چکنے کے باوجود مسلمانوں کے پاس علاقے میں مستقل قیام کے لیے کوئی مرکزی جگہ نہیں تھی، جبکہ بدیہی طور پر یہ سلطنت کی ایک بنیادی ضرورت تھی۔ مسلمانوں کی نظر ابتدا ہی سے اس مقصد کے لیے دمشق پر تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود مسلمانوں کی طرف سے اہل شہر کو یہ پیش کش کی گئی تھی کہ وہ ’’مشاطرہ “ کر لیں، یعنی اس شرط پر صلح کر لیں کہ آدھا شہر مسلمانوں کی ملکیت ہوگا۔ گویا اس فتح میں بنیادی ترجیح ہی سلطنت کی ایک بنیادی سیاسی ضرورت کو پورا کرنا تھا جو صلح وجنگ کے مروج عرفی قوانین کی رو سے اخلاقی طور پر بالکل جائز تھی، لہذا یہاں مذہبی رواداری کی اہمیت ثانوی اور سیاسی مصلحت کے تابع تھی۔

بیت المقدس کی نوعیت اس سے بالکل مختلف تھی۔ اس کو فتح کرنے کی اہمیت عسکری وانتظامی پہلو سے کم اور علامتی لحاظ سے زیادہ تھی۔ یہ ایک ایسا شہر تھا جو یہودیوں اور مسیحیوں کے مذہبی جذبات کا مرکز تو تھا ہی، مسلمانوں کی نظر میں بھی اس کی دینی اہمیت غیر معمولی تھی۔ چنانچہ یہاں صلح کا ایسا معاہدہ کرنا ہی بہترین سیاسی حکمت عملی تھی جس میں مذہبی رواداری اور ابراہیمی مذاہب کے باہمی احترام کا پیغام نمایاں ہو اور بازنطینی سلطنت کے اس حصے میں بسنے والے اہل کتاب کے تمام گروہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت سے متعلق ایک مثبت فضا میں اپنا رویہ متعین کر سکیں۔

جیسا کہ واضح ہے، سیاسی طاقت کا استحکام اور مذہبی رواداری، دونوں اصول اہم تھے، لیکن کون سے اقدام کے ذریعے سے کون سا مقصد حاصل کیا جائے، اس کا تعلق سیاسی بصیرت اور سیاسی حکمت عملی سے تھا۔ جو موقع جنگ کے عرفی قوانین کے تحت سیاسی مصالح کی حفاظت کا تھا، وہاں مذہبی رواداری کو ترجیح دینا غیر دانش مندی ہوتی، اور جو موقع مذہبی رواداری کے پیغام کی اشاعت کا تھا، وہاں سخت گیر رویہ اختیار کرنا اسلام اور اسلامی سلطنت کی غلط ترجمانی کا ذریعہ بن جاتا۔

ان دو مثالوں سے  بہت اچھی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلامی تاریخ کے اس دور میں مسلمان فقہاء اور خلفاء مذہبی رواداری اور مسلمانوں کے دینی وسیاسی مصالح کو کس طرح ایک پیچیدہ معاملے کے طور پر دیکھتے تھے اور ہر طرح کی صورت حال کو ایک ہی نظر سے دیکھنے اور ایک ہی اصول کا سادگی کے ساتھ ہر جگہ اطلاق کرنے کے بجائے تمام متعلقہ اصولوں اور مصالح کو توازن کے ساتھ ملحوظ رکھنے اور حسب موقع ان کے مابین ترجیح قائم کرنے کا انداز اختیار کرتے تھے۔

یہاں صحابہ کے اس طرز عمل پر ایک اہم اشکال سامنے آتا ہے جس سے تعرض ضروری ہے۔  وہ یہ کہ خلفائے راشدین، خصوصا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے  جنگی اخلاقیات سے متعلق جو ہدایات منقول ہیں، ان  میں اہل کتاب کے معبدوں اور خانقاہوں کو گرانے  اور ان کے راہبوں اور پادریوں کو ان کی مذہبی  خدمات  سے معزول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ خود قرآن مجید میں سورۃ الحج کی آیت ۴٠  میں  اہل کتاب کی عبادت گاہوں کا ذکر  ان مقامات کے ضمن میں کیا گیا ہے جہاں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے اور  جہاد کے مشروع ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے  کہ یاد الہی کے ان مقامات کو منہدم اور مسمار نہ کر دیا جائے۔  اسی طرح سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۱۴میں  یہود ونصاری ٰ کی مذمت کی گئی ہے  جو ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو  ویران  اور بے آباد کر دیتے تھے۔  اگر عبادت گاہوں سے متعلق اسلام کی  اخلاقی تعلیم یہ ہے تو اس کے ہوتے ہوئے  صحابہ  نے مفتوحہ علاقوں  کی بعض عبادت گاہوں کو   اہل  کتاب سے لے کر   مسجد میں کیوں تبدیل کر دیا جو  گویا انھیں وہاں عبادت سے روکنے یا   ان کی عبادت گاہ کو منہدم کر دینے کے مترادف ہے؟

ذرا غور کرنے سے واضح  ہوگا کہ یہ اشکال  درست نہیں۔  قرآن مجید میں  جس چیز کی مذمت کی گئی ہے،   وہ یہ ہے کہ ایک گروہ  مذہبی مخاصمت کی وجہ سے  دوسرے گروہ کی عبادت گاہوں کو ڈھا دے یا انھیں بے آباد اور ویران کر دینے کی سعی کرے جس کا نتیجہ  یہ نکلے کہ   وہاں اللہ کو یاد کرنے کا جو سلسلہ جاری تھا، وہ مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھ کر  ختم ہو جائے۔  جنگی اخلاقیات کے ضمن میں جو ہدایات دی گئیں، ان کا مدعا بھی یہی تھا کہ دوران جنگ  میں   ایسے مذہبی مقامات اور وہاں  خدمات انجام دینے والوں سے تعرض نہ کیا جائے جن کا جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ   ان معاملات سے الگ رہ کر    اپنے معبدوں میں  یاد الہی میں مشغول ہیں۔  یہ دونوں ہدایات اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس صورت حال سے متعلق نہیں ہیں جب  جنگ کے نتیجے میں پورا علاقہ  مسلمانوں کے قبضے اور ملکیت میں آ جائے  اور انھیں یہ  اختیار حاصل ہو جائے کہ  وہ شہر کے باشندوں، ان کے اموال اور  اس پورے علاقے کی  زمین اور عمارتوں کے متعلق   اپنے سیاسی مصالح کے لحاظ سے  جو فیصلہ مناسب سمجھیں، کر لیں۔ 

دوسرے لفظوں میں، یہاں خاص طور پر عبادت گاہیں موضوع ہی نہیں ہیں اور نہ کسی مذہبی مخاصمت کی  بنیاد پر  کی انھیں ویران یا منہدم کر دینے  کی کوئی صورت حال پائی جاتی ہے۔  اس دور کے جنگی عرف کے مطابق فاتحین کو  پورے علاقے کی ملکیت حاصل ہو جاتی تھی جس میں ضمنا عبادت گاہیں بھی شامل ہوتی تھیں اور  ان کے متعلق  کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار، اسی عمومی اختیار کا ایک  حصہ ہوتا تھا جس کی رو سے  فاتحین   باقی تمام عمارتوں کے متعلق   حسب صوابدید کوئی فیصلہ کر سکتے تھے۔   جنگ میں شکست کھانے کے بعد قانونی لحاظ سے مفتوحین کی یہ حیثیت باقی ہی نہیں رہتی تھی  کہ وہ اس شہر  اور اس کی املاک کے مالک ہیں۔  پورے علاقے کی ملکیت  فاتحین کو منتقل ہو جاتی تھی، اس لیے  ان کی طرف سے کسی بھی عمارت کو  اپنے تصرف   میں لینے کے فیصلے کی یہ تعبیر ہی درست نہیں   کہ اس کے اصل مالکوں سے اس کی ملکیت چھین لی گئی۔ یہ ملکیت جنگ میں مفتوح ہونے کے نتیجے میں  خود بخود ختم  ہو جاتی تھی  اور فاتحین  جو بھی تصرف  کرنے کا فیصلہ کرتے، وہ جنگی قانون کی رو سے اپنی ملکیت میں کرتے تھے نہ کہ  مفتوحین کی ملکیت میں۔  اس لیے  اصل اعتراض اگر بنتا ہے تو  اس پر بنتا ہے کہ مفتوحہ علاقے کی ملکیت فاتحین  کو منتقل ہو جانے کا   اصول درست نہیں تھا،  بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اصل اعتراض  یہ بنتا ہےکہ جنگ کے ذریعے سے کسی قوم کو مفتوح کرنے  کا عمل ہی درست نہیں تھا۔  اگر جنگ کا جواز مان لیا جائے اور  اس کے لازمی نتیجے کے طور پر مفتوحہ علاقے کی ملکیت کا اصول  فاتحین کو منتقل ہو جانے کا اصول بھی  تسلیم کر لیا جائے تو پھر صرف عبادت گاہوں کے متعلق   اس اعتراض کی  کوئی قانونی یا  اخلاقی بنیاد  نہیں بنتی اور نہ اس بحث کو اس سوال کے ساتھ خلط ملط کرنا درست ہے کہ  اسلام نے تو اہل کتاب کی عبادت گاہوں کے احترام اور حفاظت کی تعلیم دی ہے۔

سابقہ سطور میں عبادت گاہوں سے متعلق مسلم فاتحین کے طرز عمل پر گفتگو قصدا عہد صحابہ کی بعض مثالوں تک محدود رکھی گئی ہے، کیونکہ مقصد صلح وجنگ کے مخصوص عرف اور اس پر مبنی ضابطوں کی وضاحت ہے جو اسلامی تاریخ کی درست تفہیم کے لیے ضروری ہے۔ اس کی اصولی وضاحت کے لیے عہد صحابہ کے فیصلے ہی زیادہ موزوں ہیں۔  اس مجموعی تناظر سے سیاسی حکمت عملی کے جو معیارات سامنے آتے ہیں، ان کی روشنی میں مورخین دیکھ سکتے ہیں کہ بعد کے ادوار میں مختلف مواقع پر مسلمان فاتحین نے جو طرز عمل اختیار کیا، وہ کتنا متوازن اور سلطنت کے دینی وسیاسی مصالح کے لیے ناگزیر تھا اور کتنا بے اعتدالی یا غیر دانش مندی کا مظہر یا مابعد تاریخ میں منفی نتائج پیدا کرنے کا موجب تھا۔ دوسرے لفظوں میں عہد صحابہ میں  وضع کیے گئے  معیارات کی روشنی میں تو بعد کی تاریخ میں مسلم فاتحین کے طرز عمل کے مناسب یا نامناسب ہونے پر گفتگو ہو سکتی ہے، لیکن اس کے برعکس بعد کے واقعات کی تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی عمومی حکم متعین کرنا اور پھر ساری اسلامی تاریخ پر اس کا اطلاق کرنا ہمارے نزدیک غیر تاریخی اور غیر منطقی طرز فکر ہے۔


کلاسیکی اسلامی قانون اور اسلامی تاریخ کی تفہیم کی آج ہمارے لیے کیا اہمیت ہے؟ بعض حضرات کا خیال ہے کہ ان بحثوں میں الجھنا وقت کا ضیاع ہے اور ان کو چھوڑ کر ساری توجہ ان مسائل پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو آج مسلمانوں کو درپیش ہے۔ ہمیں اس رائے سے اتفاق نہیں، اس لیے کہ کوئی بھی قوم خود اپنی تاریخ کے بارے میں کوئی تصور رکھے بغیر نہ تو اپنا تہذیبی وجود برقرار رکھ سکتی ہے اور نہ اپنے تہذیبی کردار کا تعین کر سکتی ہے۔ اپنی تاریخ کی تفہیم کو غیر ضروری اور غیر اہم سمجھنا اگر شعوری طور پر ہو تو یہ دراصل اپنے تشخص سے دستبردار ہونے کی دعوت ہے، اور اگر غیر شعوری طور پر ہو تو تاریخ کی پیچیدگیوں کے سامنے ذہن اور فکر کے ہتھیار ڈالنے کے ہم معنی ہے۔ اپنی تاریخ کی تفہیم، اس کا تجزیہ اور اس کے اچھے اور برے پہلووں پر ایک موقف رکھنا ہرزندہ قوم کی ضرورت ہے، اور مسلمان اس دور میں تاریخی شعور کے حوالے سے جس بحران کا شکار ہیں، اس میں اس نوعیت کی بحثوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

تاریخ، تہذیب اور فکر کے باہمی تعلق کی تفہیم کو اہم نہ سمجھنے کے بے شمار اثرات کا اندازہ کرنا ہو تو صرف اس ایک الجھاو کو دیکھ لینا چاہیے جس نے زیر بحث سوال کے حوالے سے ہمیں بحیثیت مجموعی گرفت میں لے رکھا ہے۔

ایک طبقے کے نزدیک اسلامی تاریخ اور اسلامی سلطنتوں کے کردار کے بارے میں کوئی موقف رکھنے کا معیار جدید دور کے مختلف قانونی اور اخلاقی تصورات ہیں۔ اس رویے کا شعوری یا غیر شعوری محرک یہ ہے کہ تاریخ کی تفہیم اس کی اپنی شرائط پر نہیں، بلکہ اس زاویے سے کی جانی چاہیے جس سے آج ہم فکری سوالات کا سامنا کرنے سے بچ سکیں یا ان میں حتی الامکان تخفیف کی جا سکے۔ دوسرے طبقے کے نزدیک اسلامی سلطنت کے سیاق میں ہمارے اسلاف نے جو تاریخی وقانونی مواقف اختیار کیے اور اپنے تاریخی حالات کے تناظر میں جو تہذیبی حل وضع کیے، ان کا بعینہ اطلاق کرنا جدید دور کے مسلمان معاشروں میں بھی ضروری ہے اور وہ جدید قومی ریاستوں کے معاملات کو بھی دار الاسلام اور دار الحرب وغیرہ کے فکری سانچے میں دیکھتے ہیں۔

پہلے گروہ کی نظر میں اگر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں سے متعلق کلاسیکی فقہی وریاستی پالیسیوں پر جدید قانونی وسیاسی تصورات کی روشنی میں حکم لگانا ضروری ہے تو اس دوسرے گروہ کے نزدیک قومی ریاستوں میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا حکم بھی فقہاء کے بیان کردہ ضابطوں کی روشنی میں طے ہوگا کہ اہل ذمہ کو کب اور کہاں عبادت گاہیں بنانے یا ان کی مرمت اور تعمیر نو وغیرہ کی اجازت دی جا سکتی ہے اور کہاں نہیں دی جا سکتی۔ یعنی دونوں طبقے ماضی اور حال کے فرق کو ذہنی طور پر قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ ایک کا اصرار ہے کہ ہم ماضی کو حال کی عینک سے دیکھیں، اور دوسرے کی ضد ہے کہ حال کی لگام بھی ماضی کے ہاتھ میں دے دیں۔

تاریخی شعور کی افزائش اور مشکل فکری سوالات کا سامنا کیے بغیر اس نوعیت کی الجھنوں سے نکلنا ممکن نہیں ہے اور اسی وجہ سے تفہیم تاریخ کی بحثوں کو زیادہ سنجیدگی سے موضوع بنانا ہماری ایک ناگزیر تہذیبی ضرورت ہے۔ فکری سوالات کا چیلنج، اس میں شبہ نہیں کہ واقعی بہت بڑا ہے اور اقبال جیسے تہذیبی خود اعتمادی رکھنے والے مفکر کو بھی مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اسلامی تاریخ کی کسی مثبت تفہیم کی ذمہ داری سے ہاتھ کھڑے کر دے۔ لیکن یہ طرز فکر نہ تو معروضی ہے اور نہ فکری واخلاقی جرات کا غماز ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ کو اس کے محاسن وقبائح کے ساتھ قبول کرنا، اس کی تفہیم اس کی اپنی شرائط پر کرنے کی ذمہ داری اٹھانا اور اس کے متعلق ایک مجموعی موقف طے کرنا لازم ہے۔ تاریخی فیصلوں اور واقعات پر، تاریخ کی شرائط کے لحاظ سے، کوئی حکم لگانا اور اس پر بحث ومباحثہ بھی اسی عمل کا حصہ ہے۔ اس سے گھبرانا نہیں چاہیے اور نہ عجلت میں حتمی اور قطعی مواقف طے کر لینے چاہییں۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم


امت میں غوروفکر کی بازیافت

ڈاکٹر محی الدین غازی

وحی پر ایمان لانا اور عقل سے کام لینا

قرآن مجید میں   یعقلون اور    یومنون (عقل سے کام لینے اور ایمان لانے)کو ایک جیسے سیاق میں بار بار استعمال کیا گیا ہے،اس سے محسوس ہوتا ہے کہ گویا دونوں ایک ہی قبیل کے امر ہیں۔ مثال کے طور پر درج ذیل دونوں قرآنی جملوں پر غور کریں:

انَّ فِی ذَلِکَ لَآیاتٍ لِقَومٍ یومِنُونَ۔ (الروم:37)

(بے شک اس میں نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے)

انَّ فِی ذَلِکَ لَآیاتٍ لِقَومٍ یعقِلُونَ۔ (الروم:24)

(بے شک اس میں نشانیاں ہیں عقل سے کام لینے والوں کے لیے)

یہی نہیں، عقل کے جن اعمال کا قرآن مجیدمیں ذکر ہے، جیسے یفقہون، یتدبرون، یتفکرون، یتذکرون، یعلمون، وغیرہ اور ایمان کے جن اعمال کا ذکر ہے جیسے یتقون، یخشون، یوقنون، وغیرہ یہ سبھی اعما ل قرآن مجید میں اس طرح ایک ہی انداز سے اور ایک جیسے سیاق میں ذکر کیے جاتے ہیں، کہ دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ جن لوگوں کی صفت ایمان لانا ہے، انھیں لوگوں کی صفت عقل سے کام لینا ہے۔

غرض قرآن مجید میں جس انسانی گروہ کی تعریف کی گئی ہے، وہ گروہ وحی پر ایمان لانے اور عقل سے کام لینے میں ساری انسانیت کے بیچ منفرد وممتاز نظر آتا ہے۔ایمان اور عقل اس گروہ کی سب سے نمایاں صفات قرار پاتی ہیں۔

قرآن مجید میں اہل ایمان کے علاوہ کسی گروہ کو قوم یعقلون نہیں کہا، یہ امتیاز صرف قوم یومنون کے لیے خاص بتایا۔افسوس آج ایمان کا دعوی کرنے والوں کے یہاں عقل ایک قابل افتخار امتیازی صفت نہیں رہی۔ شاید ا س لیے کہ ایمان بھی شعوری نہیں رہا، موروثی اور تقلیدی ایمان رہ گیا۔موروثی ایمان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے، لیکن موروثی ایمان حاصل ہونے کے بعد غور وفکر سے بے تعلق رہنا بڑے عیب کی بات ہے۔ ایمان یا تو غور وفکر کے بطن سے جنم لے، اور اگر بغیر غور وفکر کے مل گیا ہو تو ضروری ہے کہ غور وفکرکا ساتھ رہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امت میں ایمان کا احیاءاور عقل کی بازیافت ایک ہی مشن کے دو پہلو ہیں۔

عقل، بڑی نعمت اور بڑا امتحان

عقل اللہ کی عظیم نعمت ہے، اور دنیا کی ہر نعمت کی طرح یہ بھی انسان کے امتحانی پرچے کا حصہ، بلکہ سب سے بنیادی حصہ ہے۔جس کے پاس عقل نہیں ہے، اس کا امتحان بھی نہیں ہے، اور وہ ہر ذمہ داری سے بری ہے، جسم اور مال سے زیادہ اہم امتحان عقل کا ہے، جسم اور مال کا تعلق اعمال سے ہے، اور عقل کا تعلق ایمان سے ہے، اور ظاہر ہے کہ ایمان عمل پر مقدم ہے، جب کہ دونوں ہی نجات وفلاح کے لیے ناگزیر ہیں۔امتحانی پرچے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اسے حل کرنے کے صحیح اور غلط دو راستے ہوتے ہیں، اور اسی کی بنا پر ناکامی اور کامیابی دونوں کے راستے اسی ایک امتحان سے نکلتے ہیں۔ اس امتحان سے مفر نہیں اور اسے صحیح طور پر انجام دینے کے سوا نجات کا کوئی راستہ نہیں۔اس لیے عقل کے استعمال کو زندگی کے بنیادی اور ناگزیر کاموں میں شامل کرنا چاہیے۔ اس کا استعمال محض دنیا کی کچھ معمولی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نہیں، بلکہ نجات اور فلاح جیسے عظیم مقاصد کے لیے ہونا چاہیے۔

عقل، دراصل ذریعہ ہدایت ہے

وحی اللہ کی عظیم نعمت ہے، اور عقل بھی اللہ کی عظیم نعمت ہے، دونوں نعمتوں میں ایک بات مشترک ہے کہ جان بوجھ کر گمرہی کی جستجو کرنے والوں کو ان دونوں سے گمرہی ہاتھ آتی ہے، اور ہدایت تلاش کرنے والوں کو اگر وہ عقل کا استعمال کریں تو وحی سے ہدایت مل جاتی ہے۔عقل اور وحی دونوں کا اصل مقصد تو ہدایت دینا ہی ہے، البتہ اس دار الامتحان میں اللہ کی یہ سنت بھی کارفرما رہتی ہے کہ جو لوگ خود ہدایت سے بیزار یا بے نیاز ہوں، اور ضلالت وگمرہی کو اپنا شیوہ بنالیں، انھیں نہ وحی سے کوئی فیض پہنچتا ہے، اور نہ عقل کا ہونا ان کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔

وحی اور عقل میں گہرا رشتہ ہے، وحی صحیح راستے اور صحیح منزل کا پتہ دیتی ہے، عقل صحیح راستے اور صحیح منزل کی جستجو میں رہتی ہے، اور اسی وقت مطمئن ہوتی ہے، جب وہاں تک رسائی ہوجاتی ہے۔ عقل اور وحی کا ملن ہوتا ہے تو عقل کو لگتا ہے کہ گویا آنکھوں کے سامنے سے اندھیرا چھٹ گیا اور روشنی پھیل گئی۔امام فراہیؒ کہتے ہیں:”جان لو کہ ہماری راہ عقل کی راہ ہے، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جسے عقل خالص قبول کرلے اور فطرت کی رہنمائی کو اس پر اطمینان ہو۔ وحی اور رسولوں کی آمد تو عقل کے بالکل موافق ہوئی، جیسے کہ نگاہ کے لیے روشنی۔ اس کی صراحت کتب مقدسہ میں بہت ہے، اور قرآن تو اس بارے میں سب سے زیادہ صریح ہے“۔ (حجج القرآن 185)

یہ درست ہے کہ عقل کے پاس غیب کا علم نہیں ہوتا ہے، غیب کی باتوں پر ایمان لانے کے لیے وحی کی ضرورت ہوتی ہے، اور اسی لیے خالق حکیم نے عقل سے نوازنے کے بعد وحی کے ذریعہ ہدایت کا انتظام کیا۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ عقل کے پاس غیب کا علم تو نہیں ہوتا ہے، لیکن غیب کی طرف منسوب دعووں کو جانچنے کی صلاحیت اللہ تعالی نے ضرور دی ہے۔ توحید کا تعلق غیبیات سے ہے اور شرک کا تعلق بھی غیبیات سے جوڑا جاتا ہے، آخرت کے حساب کتاب کا تعلق بھی غیبیات سے ہے، اور آواگمن کا رشتہ بھی غیبیات سے جوڑا جاتا ہے۔ سچے نبی کے پاس غیب سے وحی آتی ہے، اور جھوٹا نبی بھی غیب سے وحی آنے کا دعوی کرتا ہے، غرض غیب کی طرف بہت سی مختلف اور متضاد باتیں منسوب کی جاتی ہیں، ایسے میں انسان کے پاس عقل ہی وہ واحدچیزہے جو غیب سے منسوب مختلف باتوں میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتی ہے۔

غرض وحی کو وحی ماننے کے لیے بھی انسانوں کے پاس واحد ذریعہ عقل ہے۔ یہی جھوٹے نبی اور سچے نبی میں فرق کرتی ہے، یہی انسانی کلام اور خدائی کلام میں امتیاز کرتی ہے، اور یہی اس فرق وامتیاز کے سلسلے میں اصول بتاتی ہے۔وحی کی ظاہری دلالتوں کو سمجھنے اور وحی کے باطنی اسراراور حکمتوں تک پہنچنے کا کام بھی عقل کرتی ہے۔

وحی اور عقل ہم آہنگ ہوتے ہیں

وحی اور عقل میں ٹکراو نہیں ہوسکتا ہے، اگر ٹکراو محسوس ہو تو سمجھا جائے کہ یا تو وحی کے فہم میں غلطی ہوئی ہے، یا عقل کے برتنے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ عقل کو برتنا اور وحی کو سمجھنا یہ دونوں انسانی عمل ہیں، اور انسانی عمل میں غلطی کا امکان بہرحال رہتا ہے، اور اس امکان کو کم سے کم کرنے لیے، ہر انسانی عمل کی طرح اس انسانی عمل کا بھی مسلسل جائزہ لیتے رہنا اوراسے بہتر سے بہترکرنے کی کوشش کرنا ناگزیر ہے۔امام ابن تیمیہ کی یہ بات قابل توجہ ہے: ”عقل صریح سے جو بات معلوم ہو وہ شریعت سے متعارض ہوجائے اس کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔حق یہ ہے کہ عقل صریح سے ثابت بات نقل صحیح سے ثابت بات سے ہرگز ہرگز نہیں ٹکراسکتی ہے۔میں نے اس پر غور کیا ان بحثوں میں جو لوگوں کے درمیان ہو ا کرتی ہیں، میں نے پایا کہ صحیح اور صریح نصوص کی خلاف وہ فاسد شکوک ہوا کرتے ہیں جن کا باطل ہونا عقل سے ہی معلوم ہوجاتاہے، بلکہ عقل سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ بات جو ان شکوک کے خلاف ہے اور شریعت کے مطابق ہے وہی درست ہے۔اس پر میں نے بڑے اصولی مسائل میں غور کیا ہے جیسے توحید، صفات، تقدیر، نبوت اور آخرت کے مسائل۔ اسی طرح میں نے پایا کہ عقل صریح سے جو معلوم ہوتا ہے اس سے کوئی منقول دلیل کبھی نہیں ٹکراتی ہے، بلکہ وہ منقول دلیل جسے اس کا مخالف سمجھا جاتا ہے، وہ کوئی موضوع حدیث ہوتی ہے یا کوئی ضعیف دلالت ہوتی ہے، وہ اتنی کمزور ہوتی ہے کہ اگر عقل صریح سے نہیں ٹکرائے تو بھی دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے، چہ جائے کہ عقل صریح سے اس کا تعارض ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ رسول ایسی چیزوں کی خبر دیتے ہیں جو عقل کے نزدیک محال تو نہیں ہوتی ہیں پر حیران کن ضرور ہوتی ہیں۔یعنی وہ ایسی چیزوں کی خبر نہیں دیتے ہیں جن کا نہیں ہونا عقل سے معلوم ہوتا ہو، بلکہ ایسی چیزوں کی خبر دیتے ہیں جن کا معلوم کرنا عقل کے بس سے باہر ہوتا ہے“۔(درءتعارض العقل والنقل،1147)

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عقل اور وحی میں ٹکراو کی صورت میں ہم وحی کو ترجیح دیں گے، تو ہم غیر محتاط بیان دیتے ہیں، کیوں کہ عقل اور وحی کا حقیقی ٹکراو وحی کی پوزیشن کم زور کرتا ہے، خواہ ہم ذاتی طور پر وحی کی صف میں کھڑے ہوجائیں اور اس کو ترجیح دے دیں۔ محتاط بیان یہ ہے کہ عقل اور وحی کے بظاہر ٹکراوکی صورت میں ہم جستجو جاری رکھیں گے، تا آں کہ ٹکراو دور ہوجائے۔کیوں کہ وہ ٹکراو ہماری کسی غلطی یا کوتاہی کی وجہ سے ہی نظر آتا ہے۔

عقل کی منزل مقصود

واقعہ یہ ہے کہ وحی جس منزل پر پہنچاتی ہے عقل کی منزل مقصود بھی وہی ہوتی ہے، اوروہاں پہنچ کر عقل اطمینان سے بہرہ مند اور یقین سے سرشار ہوجاتی ہے۔

کوئی پوچھ سکتا ہے کہ پیدائشی مسلمان غور وفکر کے بغیر بھی اپنے ایمان پر مطمئن رہتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ وراثت میں انھیں جو اعتقادات ملتے ہیں،وہ حقیقت میں وحی کے بتائے ہوئے اور عقل کو مطمئن رکھنے والے ہوتے ہیں، اور اس کی وجہ سے وہ موروثی طور پر اس منزل پر ہوتے ہیں جہاں عقل مطمئن رہتی ہے۔اس خوش نصیبی کے باوجود عقل کے استعمال کے بہت بڑے فائدوں سے پھر بھی وہ لوگ محروم رہتے ہیں جو عقل کے استعمال کے بغیر ایمان رکھتے ہیں۔ مختلف دروازوں سے آسانی سے در آنے والی دینی گمراہیاں اور دوسری اقوام کے مقابلے میں دنیوی پسماندگی عقل استعمال نہ کرنے کے بڑے نقصانات ہیں، جو عقل سے بے گانہ اہل ایمان کو درپیش ہوتے ہیں۔

اور پھرایک مومن کے لیے اس سے بڑی بدنصیبی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ وہ عقل رکھتے ہوئے بھی تفکر وتدبر کی عبادت سے محروم رہے۔

عقل کی بازیافت کے لیے ضروری اقدامات

امت میں عقل کی بازیافت کے لیے کچھ اقدامات ناگزیر ہیں، جیسے:

وحی اور عقل میں ٹکراوکی بحث ختم کی جائے

عقل سے انسیت اور غور وفکر کے عمل کی ہمت افزائی کے لیے ضروری ہے کہ وحی اور عقل میں ٹکراوکی بحث سے باہر نکلا جائے۔ اس بحث نے امت کے اندر عقل کے سلسلے میں بیزاری کا رویہ پیدا کیا ہے۔

وحی اور عقل میں ٹکراوکا کوئی ذکر ہمیں قرآن مجید میں نہیں ملتا ہے۔اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، جسے دینیات کا بہت بڑا مسئلہ بنالیا گیا ہے۔ٹکراوہوبھی کیسے سکتا ہے، جس رب نے وحی نازل فرمائی ہے، اسی رب نے عقل کی نعمت بھی ودیعت کی ہے، اور اسی نے دونوں کا مقصد ایک قرار دیا ہے، اور وہ ہے ہدایت۔

عقل کی مذمت کرنا بند کی جائے

امت میں عقل کو ایک مذموم اصطلاح کے طور پر مشہور کردیا گیا ہے۔ خاص طور سے تصوف کی کتابوں اور مقولوں میں۔

اس کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ اہل تصوف جب عقل کی مذمت کرتے ہیں تو وہ عقل مراد نہیں ہوتی ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، بلکہ وہ عقل مراد ہوتی ہے جس کا حوالہ گمراہ کن فلسفوں میں ملتا ہے۔ امام غزالی لکھتے ہیں: ”اگر تم پوچھتے ہو کہ اہل تصوف کے ان گروہوں کا کیا معاملہ ہے، جو عقل اور معقول کی مذمت کرتے ہیں، تو سمجھ لو کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے عقل اور معقول کا نام مناقضات والزامات پر مشتمل بحث ومناظرے کے لیے استعمال کرلیا، جو کلام کی ایک صنعت ہے۔ اہل تصوف اس پر توقادر نہ تھے کہ انہیں باور کرائیں کہ نام رکھنے میں تم سے غلطی ہوگئی ہے۔ کیوں کہ دل میں بیٹھ جانے اور زبان پر چل پڑنے کے بعد وہ ان کے دلوں سے مٹنے والا نہیں تھا، تو انہوں نے عقل اور معقول کی مذمت کی اس طور سے کی کہ اس چیز کا ان کے یہاں اب یہی نام تھا“۔  (احیاءعلوم الدین ،1 89)

تاہم یہ توجیہ قابل قبول نہیں ہے۔

قابل مذمت چیز کو قابل تعریف چیز کا نام دینا، اور پھر اس نام پر مذمت کے تیروں کی بوچھار کرنا ہرگز مناسب نہیں تھا۔ خاص طور سے اگر وہ قابل تعریف چیز ایسی ہو جس کا ذکر اور تعریف پورے قرآن مجید میں نظر آتی ہو۔

جس طرح دور قدیم میں یونانی فلسفے وغیرہ میں مستعمل عقل کی اصطلاح کو کوئی اور نام دیے بغیر اس طرح نشانہ بنایا گیا کہ خود عقل بدنام ہوگئی، اور عقل کے سلسلے میں اسلام کا حقیقی موقف دھندلا سا ہوگیا، اسی طرح جدید فلسفے نے بھی عقل کے نام سے عقل کا ایک محدود اور ناقص تصور پیش کیا،جو عقل کو جدید تجریبی طریقوں کے استعمال تک محدود سمجھتا ہے، اس تصور پر تنقید کرنے کا طریقہ بھی یہ ہے کہ اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے، اور اس کے نقائص کو بیان کیا جائے، یہ درست نہیں ہوگا کہ چونکہ جدید فلسفیوں نے عقل کو محدود اور ناقص مفہوم میں استعمال کرکے اسے رواج دے دیا ہے، اس لیے ہم ان کی اصطلاح کو تسلیم کرلیں اور ان کے حق میں عقل سے اپنی دست برداری کا اعلان کردیں۔ یعنی جو غلطی قدیم فلسفے کے مقابلے میں تصوف کے مصلحین نے کی وہی غلطی جدید فلسفے کے مقابلے میں فکر اسلامی کے علم بردار نہیں کریں۔

عقل بہت بنیادی انسانی اصطلاح ہے، اور اس کے سب سے زیادہ حق دار وحی کے ماننے والے ہیں، اس لیے اس اصطلاح کی اصلیت کی حفاظت کرنا، اور اس کے صحیح استعمال کی نگرانی کرنا اہل وحی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

تفسیر بالماثور او تفسیر بالرائے ایک ہے

عقل کی مذمت کی ایک ناقابل ستائش صورت یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر میں ماثور کو معقول کے بالمقابل کھڑا کردیا گیا۔ اور تفسیر بالرائے کے عین مقابل تفسیر بالماثور کو ذکر کیا جانے لگا۔حالانکہ تفسیر بالماثور بھی دور اول کی تفسیر بالرائے ہی تھی۔تفسیر بالرائے کو تفسیر بالماثور کے مقابلے میں کھڑا کرنا غلط تھا۔ اس حوالے سے تفسیر بالرائے کو جس طرح مذمت کا نشانہ بنایا گیا اس نے راست عقل کی پوزیشن کو نقصان پہنچایا۔ معیوب تفسیر تو تفسیر بالھوی ہے، جو خواہشات کے سائے میں کی جائے۔ جس تفسیر میں غور وفکر کی راہ کو اپنایا جائے، اور صحیح مفہوم تک رسائی کے لیے غور وفکر کے سارے طریقے پوری دیانت داری کے ساتھ اختیار کیے جائیں، اور جب تک اطمینان نہ ہوجائے، غور وفکر جاری رکھا جائے، وہ مذموم عمل کیسے ہوسکتا ہے۔ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ قرآن مجید کی تفسیر میں غور وفکر سے کام لیتے تھے، اور اپنے نتائج فکر کو بیان کرتے تھے۔ان کے یہاں غور وفکر کی بنیاد پر رائے بنانے کا عمل عام تھا۔اور اس میں وہ کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔

روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے زید بن ثابتؓ کے پاس وراثت کے ایک مسئلے کے سلسلے میں پیغام بھیجا: کہ کیا اللہ کی کتاب میں آپ کواس کی کوئی صراحت ملتی ہے، اس پر زید بن ثابت نے جواب دیا: تم بھی ایک شخص ہو جواپنے غور وفکر سے ایک بات کہتے ہو اور میں بھی ایک شخص ہوں جو اپنے غور وفکر سے ایک بات کہتا ہوں

انما انت رجل تقول برایک، وانا رجل اقول برایی۔ (سنن دارمی، البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)

ایک دوسری روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس ایک مسئلہ پیش ہوا تو آپ نے مسئلہ کا حل بتانے سے پہلے یہ وضاحت کی: میں اپنے غور وفکر سے کہہ رہا ہوں، اگر درست ہے تو اللہ کی توفیق ہے، اور اگر غلط ہے تو میری کوتاہی سے ہے۔”اَقُولُ بِرَایی فَاِن کَانَ صَوَابًا فَمِنَ اللَّہِ وَاِن کَانَ خَطَاً فَمِن قِبَلِی“۔ (صحیح ابن حبان، البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)

ایک اور روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ سے کلالہ کے بارے میں سوال کیا گیا، انھوں نے کہا: میں اس میں اپنے غور وفکر سے کہوں گا، اگر درست ہوا تو اللہ کی توفیق ہے، اور اگر غلط ہوا تو میری وجہ سے ہے، اور شیطان کی وجہ سے۔(سنن کبری، بیہقی۔ البانی نے صحیح کہا ہے)

البتہ تفسیر بالماثور میں نقل کی صحت اور تفسیر بالرائے میں عقل کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

عقل کے تعلق سے امت کی صورتحال

دینی حوالے سے:

نظریہ کی سطح پر بھی اور عملی رویہ کی سطح پر بھی دینی حوالے سے امت میں بہت سی بے عقلی کی باتوں کو رواج صرف اس لیے مل جاتا ہے کہ یہ ہمارے مذہبی ورثے میں شامل ہیں، اور مذہبی بزرگوں کے واسطے سے چلی آرہی ہیں۔

درگاہوں اورمزاروں پر ہونے والی تمام تر خرافات جو سراسر بے عقلی سے عبارت ہوتی ہیں۔

پیدائش سے لے کر مرنے تک کی بے شمار تقریبات جنھیں رد کرنے کے لیے عقل کی کسوٹی سے گزارنا کافی ہوتا۔

فروعی اور مسلکی اختلافات میں تشددجس کی عقل کے پہلو سے کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔

غیبی امور میں بہت زیادہ انہماک اور عملی ذمہ داریوں سے فرار۔

دین میں غلو، جو عسکریت پسندی کی صورت بھی اختیار کرلیتا ہے۔

ایسے تصورات کا رواج جو انسانیت کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتے ہیں۔

اندھی تقلید کا عمومی غلبہ، جو کسی اجتہادی مباحثے کو چھیڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔

دنیوی حوالے سے:

غیر مذہبی لوگ دنیوی معاملات میں عقل کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، انکشافات، تحقیقات، ایجادات، مباحثات، تجزیات، تنقیدات، تجویزات، غرض عقل کے تنے سے پھوٹنے والی تمام شاخیں غیر مذہبی لوگوں کے تصرف میں نظر آتی ہیں۔ مذہبی افراد ان سب میدانوں میں کہیں پسماندہ نظر آتے ہیں اور کہیں نظر ہی نہیں آتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر مذہبی لوگوں کے پاس عقل کو استعمال کرنے کا فطری جذبہ ہوتا ہے، اور اس راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے، جب کہ مذہبی لوگوں کے سامنے ایک رکاوٹ ہوتی ہے اور وہ ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ عقل گم راہی کی طرف لے جاتی ہے۔ گو کہ اس جملے کی شہرت دینی حوالے سے ہے، لیکن اس کا منفی اثر دنیوی حوالے سے بھی ہوتا ہے۔

بہت سے خالص دنیوی رسم ورواج عقل کی سطح پر بحث ومباحثے کا موضوع نہیں بن پاتے، اور اپنی تمام تر بے عقلیوں کے باوصف جاری وساری رہتے ہیں۔

امت میں عقل سے دوری کے اسباب

ذیل میں کچھ بنیادی اسباب ذکر کیے جاتے ہیں:

قرآن سے دوری

قرآن مجید عقل کو فعال بنانے اور غور وفکر کے عمل کو مہمیز لگانے والی کتاب ہے۔ قرآن سے شعوری قربت جتنی زیادہ بڑھے گی، عقل اتنا ہی زیادہ اپنی ذمہ داری کومحسوس کرے گی۔ قرآن مجید کی ہر آیت دعوت غور وفکر دیتی ہے، بلکہ غور وفکر کرنے پر مجبور کرتی ہے، اور اس کی راہیں دکھاتی ہے۔

اہل اسلام کی عقل سے دوری کی سب سے بڑی وجہ ان کی قرآن سے دوری ہے۔ضعیف اور موضوع روایتوں میں انہماک اور قرآن مجید سے شعوری تعلق کے فقدان نے امت کاعقل سے رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے۔

ضعیف روایتوں کا فروغ

اس سب کی طرف علامہ غزالی نے اشارہ کیا، وہ لکھتے ہیں:

مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب میں سے ہے: مسلمانوں کا ضرورت سے زیادہ روایتوں میں انہماک۔ صحیح حدیثیں ہوسکتا ہے کچھ ہزار ہوں، لیکن وہ روایتیں جن میں مسلمان منہمک رہے اور ابھی بھی ہیں،وہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ اس نے مسلم عقل کو منجمد کردیا ہے، اور اسے کائنات میں جستجو کرنے والی عقل کے بجائے روایتوں اور کہی سنی باتوں والی عقل بنادیا ہے۔(کیف نتعامل مع القرآن،محمد الغزالی ص143)

اس حقیقت کوسامنے رکھنا بے شک مفید ہوگا کہ مذہبی روایتیں، چاہے وہ اسلام کی طرف منسوب کی جانے والی موضوع حدیثیں ہوں، یا پچھلے مذاہب کے حوالے سے گھڑی جانے والی روایتیں ہوں، ان روایتوں کو گھڑنے والے وہ لوگ نہیں ہوتے ہیں جو عقل کی قدروقیمت پہچانتے ہیں، اور عقل کے استعمال میں ماہر سمجھے جاتے ہیں، ظاہر ہے وہ ایسی بے عقلی کا کام نہیں کرسکتے، درحقیقت یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو عقلی افلاس کا شکار ہوتے ہیں، اور شدید ترین حماقت کا ارتکاب کرنے سے بھی شرماتے نہیں ہیں۔ایسے لوگوں کی احمقانہ باتیں مذہبی روایتوں کا روپ اختیارکرلیتی ہیں،اور اس طرح مقدس ہوجانے کے باوجود وہ عقل کے معیار سے گری ہوئی ہوتی ہیں۔ایسی باتوں پر یقین کرنے کے لیے اپنی عقل کی سطح کو کتنا پست کرنا پڑتا ہے، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔اور جب پوری قوم ان کو مسلمات کا درجہ دے دے تو قوم کی ذہنی پستی اور اس کے نقصانات کا اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں ہے۔

ضعیف وموضوع روایتوں پر یقین کرنے کے بعض نقصانات:

(۱)  غور وفکر اور تحقیق کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے:

ضعیف اور موضوع حدیثوں کو شوق کے کانوں سے سنتے سنتے، عام بزرگوں سے متعلق سنی سنائی حکایتوں اور باتوں پر یقین کرنے کا مزاج بنتا ہے، اور پھر عام لوگوں کی سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے میں کوئی تکلف نہیں رہتا ہے، اس مزاج کے غالب ہوجانے کے بعد پھر تحقیق وتنقید اور غور وفکر کی ضرورت کا احساس بھی ختم ہونے لگتا ہے۔ اس طرح ایسا انفرادی اور اجتماعی مزاج تشکیل پاتا ہے، جس میں تحقیق وجائزہ اور غور وفکر کے لیے کوئی قابل لحاظ مقام نہیں ہوتا ہے۔

(۲ )بے عقلی سے تنفر ختم ہوجاتا ہے:

ضعیف اور موضوع روایتوں کو گھڑنے اور بیان کرنے والے جس ذہنی سطح کے ہوتے ہیں، اسی ذہنی سطح کی وہ روایتیں بھی گھڑتے اور بیان کرتے ہیں، اس لیے یہ روایتیں عام طور سے دین کے اصل مزاج سے دور اور سراسر بے عقلی کی باتوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ایسی بے عقلی کی باتیںشوق اور عقیدت سے سنتے سنتے پھر ہوتا یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں بے عقلی سے جو تنفر اور اس کی تردید کا جو داعیہ ودیعت کیا گیا ہے، وہ کم زور پڑتا جاتا ہے۔

پھر ہوتا یہ ہے کہ زندگی کے کسی بھی معاملے میں بے عقلی اور عقل مندی کی باتیں یکساں لگنے لگتی ہیں۔ کسی فرد یا قوم کے لیے بڑے خسارے کی بات ہوتی ہے جب بے عقلی کی باتوں اور عقل مندی کی باتوں میں امتیاز ختم ہوجائے۔اور حکمت ودانائی کی کوئی قیمت ہی نہیں رہ جائے۔

(۳) اصلاح وتجدید کے مواقع کم ہوجاتے ہیں:

جس معاشرے میں غور وفکر کی جگہ سنی سنائی باتیں لے لیں، بے عقلی سے تنفر ختم ہوجائے اور معقولیت وغیر معقولیت یکساں قرار پائے، اس معاشرے کے اندر اصلاح اور تجدید کے کاموں کے لیے راستے تنگ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ اصلاح وتجدید کے لیے عقل کو آواز دینا ہوتی ہے، اور اسے سوچنے کے مقام پر لانا ہوتا ہے۔ لیکن اگر عقل بے مصرف قرار دی جاچکی ہو، تو پھر اصلاح وتجدید کی دعوت بھینس کے آگے بین بجانے سے زیادہ نہیں رہ جاتی ہے۔

(۴) گفتگو کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے:

جہاں سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیا جاتا ہو،وہاں پروپیگنڈے کا راج اور رواج ہوتا ہے،حقیقت کی جستجو اور اس سلسلے میں گفتگو کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔اور اس طرح پریشر کوکر کی طرح ہوا بند اجتماعیت وجود میں آتی ہے۔ جہاں افکار کو نشوونما دینے کے بجائے انھیں گھونٹنے کا کام انجام پاتا ہے۔

تقلید پر حد سے بڑھا ہوا زور

تقلید اپنی اصل کے لحاظ سے عقل کی دشمن ہے۔ درج ذیل آیت پر غور کریں کس طرح تقلید اور بے عقلی کے درمیان رشتے کو واضح کیا گیا ہے۔

وَاِذَا قِیلَ لَہُمُ اتَّبِعُوا مَا اَنزَلَ اللَّہُ قَالُوا بَل نَتَّبِعُ مَا اَلفَینَا عَلَیہِ آبَاءنَا اَوَلَوکَانَ آبَاوُہُم لَا یعقِلُونَ شَیئًا وَلَا یہتَدُونَ۔ (البقرة:170)

(اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو، تو وہ کہتے ہیں ہم اس کی پیروی کریں گے جس پر اپنے آباءکو پایا ہے، کیاان کے آباءکچھ سوچتے سمجھتے نہیں ہوں، اور صحیح راستے پر نہیں ہوں تو بھی)

پوری زندگی کو تقلید کے تابع کردینے کے بعد غور وفکر کی گنجائش خود ہی ختم ہوجاتی ہے۔اس لیے تقلید کے مسئلے کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔

دین کے دو حصے ہیں، ایک حصہ وہ ہے جس میں اجتہاد کرنا ہی نہیں ہے، بلکہ بنا اجتہاد کے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرنا ہے۔ جیسے کلمہ توحید کی ادائیگی ہے، فرض نمازیں، فرض زکات، فرض روزے اور حج کا فریضہ ہے۔ یہ دین کا اصل حصہ ہے، اور دین پر چلنے کے لیے اس کا علم ہوناناگزیر ہوتا ہے۔ یہ حصہ ہمیں قرآن مجید اور سنت صحیحہ کے ذریعہ سے حاصل ہوا ہے۔دین کا یہ حصہ اجتہاد کے دائرے سے باہر ہے۔ اس میں کسی امام کی تقلید بھی نہیں کی جاتی ہے۔ بلکہ اسے راست قرآن وسنت سے اخذ کیا جاتا ہے۔

دین کا باقی حصہ وہ ہے جسے ہم اجتہاد کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں،اس میں غور وفکر اور بحث وتحقیق کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس حصے کا تعلق فقہ وسیاست سے بھی ہے اور فکر ونظر سے بھی ہے، یہی وہ حصہ ہے جس میں امت کے اماموں نے عظیم خدمات انجام دی ہیں، یہی وہ حصہ ہے جس میں امت کے اماموں کے درمیان فہم وتحقیق کا اختلاف ہوا، یہی وہ حصہ ہے جس کے بارے میں اماموں نے کہا کہ صحیح حدیث اگر ان کے اجتہادکے مخالف ہو تو صحیح حدیث کو اختیار کیا جائے، اور یہی وہ حصہ ہے جس میں دلائل میں تعارض کی وجہ سے امت کے اہل علم نے مختلف موقف اختیار کیے، غرض یہ دین کا وہ حصہ ہے جس میں امت کو اپنے غور وفکر اور بحث وتحقیق کو روبہ عمل لانا ہے، اور اس میں مزید خدمات پیش کرنے کا امت کے پاس موقع ہے، اور قیامت تک کے لیے ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ فکری جمود کے دور میں دین کے اس حصے پر تقلید کا کرفیو نافذ کرکے لوگوں کی اس میں چلت پھرت اور سعی وکوشش پر پابندی لگادی گئی ہے۔

خلاصہ یہ کہ دین میں ایک بڑا حصہ غور وفکر کے لیے رکھا گیا ہے، جس میں امت کے سلف نے خوب آزادی سے غور وفکر کیا ہے، کسی نے کسی بھی حوالے سے انھیں روکا نہیں، سابقین کے غور وفکر کے تقدس کے حوالے سے اسے ختم نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس حصے میں غور وفکر کی سرگرمی ہمیشہ جاری رہنی چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ دین کے جس حصے میں اجتہاد کی گنجائش ہے، اور اس گنجائش کو تقلید کا حوالہ دے کر ختم کیا گیا ہے، وہ ایسا حصہ ہے ہی نہیں جس کا تعلق ہدایت اور گمراہی کے مسئلے سے ہو، اس لیے تقلید کی پابندی گمراہی سے نہیں بچاتی ہے، جیسا کہ تقلید کے حامیوں کا کہنا ہے۔ اور نہ وہ ایسا حصہ ہے جس کا تعلق راست اتباع رسول سے ہو، کہ تقلید کی وجہ سے اتباع رسول نہیں ہوپاتی ہو، جیسا کہ تقلید کے مخالفین کا کہنا ہے۔اجتہادی مسائل میں نہ تو تقلید چھوڑ کر کوئی گمراہ ہوتا ہے، اور نہ ہی تقلید کرکے کوئی اتباع رسول سے محروم ہوتا ہے۔ اصل میں تقلید کی پابندی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ امت کی اجتماعی عقل جمود کا شکار ہوجاتی ہے، اورغور وفکر کا عمل قید وبندسے دوچارہوجاتا ہے، اور یہ بہت بڑا نقصان ہے، جس سے ان لوگوں کو ضرور محفوظ رکھنا چاہیے جو غور وفکر کی صلاحیت اور داعیہ رکھتے ہوں۔

حقیقت یہ ہے کہ تقلید جامدکے اس کرفیو جیسے ماحول میں امت کی غور وفکر کی صلاحیت پہلے معطل ہوتی ہے اور پھر مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے۔ اور انکشاف، تحقیق، تنقید اور تجزیہ وغیرہ امت کے لیے اجنبی اصطلاحات بن کر رہ جاتی ہیں۔

اجتہاد کے لیے ایسی شرطیں جن کا حصول ناممکن ہو

اجتہاد دراصل امت کے غور وفکر کے لیے ایک بہت بڑی جگہ(Space)ہے، جو اسلام نے اہل اسلام کو عطا کی ہے، اور یہ امت مسلمہ کی بہت بڑی دینی خصوصیت ہے، تاہم اس سے روکنے کے لیے بعد کے لوگوں نے اس کے لیے ایسی شرطیں رکھ دیں، جن کا ذکر کتاب وسنت اور صحابہ وتابعین کے یہاں نہیں ملتا ہے،اور جن کا حصول بے حد مشکل ہے، اور جن کی حصو لیابی کو ثابت کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔

اجتہاد کرنے والے کے علم کو ناپنے کے بجائے دیکھنا یہ چاہیے کہ جس مسئلے میں اس نے اجتہاد کیا ہے، اور اپنی رائے بنائی ہے، اس میں کہاں تک کم زوری یا مضبوطی پائی جاتی ہے۔ اس کے دلائل اور طریقِ استدلال کا جائزہ لے کر جہاں کمزوری ہو اسے واضح کیا جائے، نہ کہ علمی کم مائیگی کا حوالہ دے کر اس سے غور وفکر کی آزادی سلب کرلی جائے۔

اجتہاد کی راہ میں رکاوٹیں

اجتہاد کا عمل اصولوں کی پابندی کے ساتھ غور وفکر کی آزادی چاہتا ہے، تاہم اجتہاد سے روکنے کی ایک کوشش یہ کی گئی کہ اس کے سامنے بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں۔

اجتہاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ (بذات خود اجماع نہیں بلکہ) اجماع کا حوالہ ہے۔یہ حوالہ اکثر فرضی اور بے بنیاد ہوتا ہے۔

اجتہادکی راہ میں ایک دوسری بڑی رکاوٹ قول جمہور کا حوالہ ہے۔ بجائے اس کے کہ کسی رائے کا دلائل کی روشنی میں محاکمہ کیا جائے، اسے یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ یہ شاذ رائے ہے، اور یہ جمہور کی رائے کے خلاف ہے۔

اجتہاد کی راہ میں ایک تیسری بڑی رکاوٹ کسی بڑے بزرگ کا حوالہ ہوتا ہے، جس کے ذریعہ غور وفکر کے عمل کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اجتہاد کی راہ میں بڑی رکاوٹ اس طرح کے اندیشے بھی ہیں کہ اجتہادات کی کثرت سے امت میں اختلاف  بڑھے گا، امت کی وحدت متاثر ہوگی، دین پر سے لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے گا،وغیرہ۔

لیکن گہرا جائزہ بتاتا ہے کہ اجتہاد کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرنے سے امت کو کوئی فائدہ تو نہیں ہوا، لیکن ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ اجتہاد اور غور وفکر کی دولت سے امت قدرے محروم ہوگئی۔

شورائیت کے ادارے کی جگہ آمریت کا تسلط

جہاں شورائیت اپنی اصل روح اور آب وتاب کے ساتھ ہوتی ہے، وہاں غور وفکر کی زبردست ہمت افزائی ہوتی ہے۔ شورائیت اصل میں اجتماعی غور وفکر کا نام ہے۔ اجتماعی غور وفکر اسی وقت ظہورپذیر ہوتا ہے جب انفرادی غور وفکرکی آزادی ہوتی ہے اور اس کے لیے سازگار فضا میسر ہوتی ہے۔

امت مسلمہ جب شورائی نظام سے محروم ہوئی، اور اس کی جگہ آمرانہ نظام نے لے لی، تو دھیرے دھیرے شورائی ثقافت بھی ختم ہوتی گئی۔ آمریت کے راج میں سب سے زیادہ مار غور وفکر کے عمل پر پڑتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ غور وفکر کی آزادی سلب کرلی جاتی ہے، بلکہ غور وفکر کا ماحول بھی تہس نہس کردیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں سوچنا اور سوچ کا اظہار کرناہی سب سے بڑا جرم ہوتا ہے۔

عقل کو فعال بنانے والے طاقت ور محرکات

عقل استعمال کرنا تو انسان کی فطرت میں شامل ہے، تاہم عقل کے استعمال سے روکنے والے محرکات کبھی اتنا زیادہ اثر انداز ہوجاتے ہیں، اور عقل کو اس طرح جمود وتعطل کا شکار کردیتے ہیں، کہ پھر ایسے محرکات کی ضرورت پڑتی ہے، جو عقل کو فعالیت اور حرکیت عطا کریں۔ یہاں بعض طاقت ور محرکات کا تذکرہ کرنا مفید ہوگا:

قرآن مجیدسے شعوری تعلق

قرآن مجید غور وفکر کے سلسلے میں ایک طاقت ور محرک ہے۔

قرآن مجید میں عقل اور عقل کے مختلف اعمال کا ذکر بار بار آیا ہے، لیکن کہیں بھی عقل استعمال کرنے کی مذمت نہیں ہے، ہر جگہ عقل استعمال کرنے پر ابھارا گیا ہے، عقل کے استعمال کی ستائش بہت زیادہ ہے، عقل نہیں استعمال کرنے کی ستائش کہیں نہیں ہے، بلکہ عقل استعمال نہیں کرنے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

عقل سے انسیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید عقل کے بارے میں کیا موقف رکھتا ہے اسے جانا جائے۔امت کو عقل سے قریب کرنے اور مانوس کرنے کا قرآن سے زیادہ موثر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔عقل سے قربت قرآن سے قربت کا ایک پیمانہ ہے۔ امت قرآن سے جتنا زیادہ قریب ہوگی وہ عقل سے بھی اتنی ہی زیادہ قریب ہوگی، اور قرآن سے جتنی زیادہ دور ہوگی وہ عقل سے بھی اتنی ہی زیادہ دور ہوگی۔

امام فراہی لکھتے ہیں:”آسمانی کتابوں میں قرآن وہ کتاب ہے جو سب سے بڑھ کرعقل کو مخاطب کرتی ہے، عقلی دلائل کی طرف عقل کو متوجہ کرتی ہے، عاقلوں کی تعریف اور غافلوں کی مذمت کرتی ہے، یہ ایسی محکم اور واضح قرآنی حقیقت ہے جس کے سلسلے میں کسی کو شک بھی نہیں ہوسکتا“۔( حجج القرآن 226)

عقاد لکھتے ہیں: ”قرآن کریم عقل کا ذکر صرف وہاں کرتا ہے جہاں عقل کی تعظیم مقصود ہوتی ہے، اور جہاں اس کے مطابق عمل کرنے اور اس کی طرف رجوع کرنے کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ اور پھر یہ تذکرہ آیتوں کے سیاق میں ضمنی یا اتفاقی طور سے نہیں ہوتا، بلکہ ہر جگہ لفظ اور دلالت کی تاکید کے ساتھ ہوتا ہے۔امر اور نہی کے ہر موقعہ پر اس کی تکرار ہوتی ہے، جہاں مومن کو اپنی عقل کو حکم بنانے پر ابھارا جاتا ہے، یا منکر کو عقل کے بارے میں لاپرواہ ہونے اور اس پر پابندی قبول کرلینے پر ملامت کی جاتی ہے۔ مزید برآں جدید علوم کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والے علم نفس کے ماہرین عقل کے جتنے اطلاقات بتاتے ہیں ان میں سے کسی ایک کے بجائے عقل کے سارے ہی مختلف کاموں اور مختلف خصوصیات سے متصف پہلووں کا احاطہ کیا گیا ہے“۔  ( التفکیر فریضة اسلامیة لعباس محمود العقاد ص1)

عقاد مزید لکھتے ہیں؛ ”ہمیں یہ بات بار بار تازہ کرنی چاہیے، کہ قرآن مجید میں عقل کی ستائش یونہی نہیں آئی ہے، اور اس کی بار بار تکرار بلا وجہ نہیں ہے۔ بلکہ عقل کی یہ سراہنا ایک متوقع امر تھا، دین کا مغز اور اس کا جوہر اسی کا تقاضا کرتا ہے، جو اس دین کی حقیقت سے واقف ہوگا اور اس انسان کی حقیقت سے واقف ہوگاجو اس دین کا مخاطب ہے اسے اسی کی توقع ہوگی“۔)التفکیر فریضة اسلامیة ص12)

مومن کا کائنات سے رشتہ (آیات، اور خلافت دو اہم رشتے)

غور وفکر کے لیے طاقت ور محرک یہ کائنات بھی ہے، جس میں انسان کو بسایا گیا ہے، جسے انسان کے لیے امتحان گاہ بنایا گیا ہے، اور جس میں غور وفکر کرنے کے بے شمار مواقع رکھ دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید نے انسان اور کائنات میں دو بڑے رشتے بتائے ہیں، اور دونوں ہی رشتے غور وفکر کے عمل کی ہمت افزائی کرنے والے ہیں۔

ایک رشتہ آیات کا ہے، کہ کائنات کی ہر چیز میں نشانی ہے، اور یہ وہ نشانیاںہیں جو سمع وبصر اور تفکر کا تقاضا کرتی ہیں۔ جب تک سمع وبصر اور تفکر کا فعال رشتہ قائم نہیں ہوگا، نشانیوں والے پہلو تک رسائی نہیں ہوسکے گی۔

دوسرا رشتہ خلافت کا ہے، کہ کائنات انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے، ان کے لیے مسخر کی گئی ہے، اور انسان اس کے عمرانی پہلو کے لیے ذمہ دار ہیں۔انھیں اس کائنات میں کھوج لگانے کا اختیار اور اس کے وسائل دیے گئے ہیں۔ اور کائنات کی چیزوں سے منفعت حاصل کرنے اور منفعت کو بڑھانے کی تدبیریں اختیار کرنے کا موقع اور طاقت دی گئی ہے۔

غرض اس کائنات سے انسان کا صحیح رشتہ اس وقت استوار ہوسکے گا، جب وہ اپنی عقل کا بھر پور استعمال کرے گا۔

انسان کے اندر غور وفکر کا داعیہ

غور وفکر کا طاقت ور محرک انسان کے اندر تلاش وجستجو اور غور وفکر کا وہ داعیہ بھی ہے جو اللہ نے ہر انسان کے اندر ودیعت کیا ہو ا ہے۔ انسان فطری طور پر غور وفکر کرنے والا واقع ہوا ہے۔ اگرغور وفکر کے مخالف بیرونی اسباب کی وجہ سے یہ فطری جذبہ سرد نہ پڑجائے، تو انسان کو کسی خارجی محرک کی ضرورت ہی نہ پڑے، اور وہ داخلی جذبے کے تحت ہی عقل کے دوش پر بیٹھ کرحقائق کی جستجو میں پرواز کرتا رہے۔

سنت میں فقہ واجتہاد کی ترغیب

اللہ کے رسول ﷺ کے پیش نظر ایسی جماعت کی تیاری تھی جو غور وفکر اور فقہ واجتہاد کے اس مقام پر پہنچ جائے، کہ آپ ﷺ کے بعد خلافت کی ذمہ داریاں انجا م دے سکے۔ آپ اپنی امت کو دین میں گہری سمجھ حاصل کرنے کی تلقین فرماتے تھے: مَن یرِدِ اللَّہُ بِہِ خَیرًا یفَقِّہہُ فِی الدِّینِ (صحیح البخاری) (اللہ جس کے لیے خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سوجھ بوجھ عطا کرتا ہے)

اسلام میں آنے کے بعد بہترین لوگوں میں شامل ہونے کے لیے سمجھ بوجھ کی منزل سر کرنا ضروری شرط تھی۔فرمایا: فَخِیارُکُم فِی الجَاہِلِیۃ خِیارُکُم فِی الاِسلاَمِ اِذَا فَقُہُوا (صحیح البخاری) (تم میں جو جاہلیت میں بہترین ہیں، وہ اسلام میں بھی بہترین ہوں گے، اگر وہ سوجھ بوجھ پیدا کرلیں)

اللہ کے رسول ﷺ نے عبداللہ بن عباسؓ کو دعا دی: اللَّہُمَّ فَقِّہہُ فِی الدِّینِ (صحیح البخاری) (اللہ اسے دین میں سوجھ بوجھ عطا کر)

حضرت عمرؓ نے حسن بصری کے لیے یہی دعا کی۔(سیر اعلام النبلاء)

اللہ کے رسول ﷺ نے اجتہاد کی ترغیب دی، اور اس راہ کے اندیشوں کو دور کیا: عَن عَمرِو بنِ العَاصِ، اَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یقُولُ: اِذَا حَکَمَ الحَاکِمُ فَاجتَہَدَ ثُمَّ اَصَابَ فَلَہُ اَجرَانِ، وَاِذَا حَکَمَ فَاجتَہَدَ ثُمَّ اَخطَاَ فَلَہُ اَجر.(صحیح البخاری) (جب حاکم فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے اجتہاد کرتا ہے، اور صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے دو اجر ہوتے ہیں، اور جب فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے اجتہاد کرتا ہے، اور غلط فیصلہ کرتا ہے،تو اس کے لیے ایک اجر ہے)

غور وفکر کے سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ غلطی کردینے کا خوف ہوتا ہے،اس خوف سے متاثر ہوکر انسان خود کو روک کر رکھتا ہے، اور اسی خوف کا حوالہ دے کر انسان دوسروں کو بھی روکتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس خوف کو یکسر ختم کردیا، اور غلطی کرنے والے کو بھی ایک اجر کی خوش خبری سنادی۔ یہ غور وفکر کے عمل کی بہت بڑی تائید اور نصرت ہے۔

ایک مشہور زمانہ روایت ہے (گو کہ اس کی سند پر بعض محققین کو کلام ہے) کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ کو یمن بھیجا، اور کہا کیسے فیصلے کرو گے؟ انھوں کہا: میں اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا، ارشاد ہوا: تو اگر اللہ کی کتاب میں نہ ہو؟ کہا: اللہ کے رسول ﷺ کی سنت سے کروں گا، ارشاد ہوا: اگر اللہ کے رسول کی سنت میں بھی نہ ہو؟ کہا: میں محنت سے غور وفکر کروں گا، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی حمد ہے جس نے اللہ کے رسول کے فرستادے کو صحیح راہ دکھائی۔ (سنن ترمذی)

بدلتے ہوئے زمانے کی ضرورتوں کا احساس

زمانے میں ہونے والی تبدیلیوں کا شعور جتنا زیادہ ہوتا ہے، غور وفکر کے لیے اکساہٹ بھی اتنی ہی زیادہ بڑھتی ہے۔لاعلمی اور بے خبری کے خول میں بند افراد کے اندر غور وفکر کا طاقت ور داعیہ پیدا نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی لیے ہر زمانے میں تجدید واجتہاد کے کارنامے انھوں نے انجام دیے جن کی نگاہ زمانے کی تبدیلیوں پر تھی، خواہ وہ سماجی تبدیلیاں ہوں، نئے نظریات اور نظاموں کی آمد ہو، دین کے تعلق سے نئے اعتراضات اوربحثوں کا ظہور ہو۔

امت کے اندر زمانے کی تبدیلی سے واقفیت پیدا کرکے، غور وفکر کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔

امت کی پسماندگی کے سلسلے میں فکرمندی

خوش فہمیوں سے باہر نکال کردینی اور دنیوی دونوں پہلووں سے امت کو اس کی اپنی پسماندگی سے باخبر کرنا بھی غور وفکر کی تحریک چھیڑ نے میں معاون ہوسکتاہے۔غور وفکر کی دعوت دینے والوں کے اندر ہم یہ بات مشترک پاتے ہیں کہ وہ غور وفکر کو ایک مشغلے کے طور پر اختیار کرلینے کے داعی نہیں تھے، بلکہ وہ امت کی صورت حال کو دیکھ کر سخت تشویش میں مبتلا تھے، اور امت کی پسماندگی کا علاج وہ وحی اور عقل کی طرف رجوع ہونے میں دیکھتے تھے۔

عقل کا مقام بہت بلند ہے، انسانی جسم میں اسے سب سے اونچے مقام پر رکھا گیا ہے، قوموں کو بھی اسے اتنے ہی اونچے مقام پر رکھنا چاہیے۔جو قومیں عقل کو صحیح مقام نہیں دیتی ہیں، وہ ترقی نہیں کرتی ہیں، اور ترقی کرتی بھی ہیں تو انجام کار ترقی کے نام پر تباہی کی طرف سفر کرتی ہیں۔


افتاء کے ساتھ مشورہ اور تحکیم کے نظام کی ضرورت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معاشرے میں شرعی احکام پر عملداری کا رجحان فروغ دینے کے لیے محنت و کاوش کے مختلف دائرے ہیں جن میں بعض تو حکومت و ریاست سے تعلق رکھتے ہیں مگر زیادہ تر کام وہ ہیں جو حکومت و ریاست کے عمل دخل کے بغیر آزادانہ طور پر بھی کیے جا سکتے ہیں، مگر ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ سارے کام حکومت کے کھاتے میں ڈال کر اپنے حصے کا کام بھول جاتے ہیں اور سوسائٹی میں دینی ماحول کے کمزور ہوتے چلے جانے کی ساری ذمہ داری سرکار پر ڈال دیتے ہیں۔

مثلاً ملک میں شرعی قوانین کا نفاذ، ان پر عملداری کا انتظام و اہتمام، اور ان کے لیے ضرورت و معیار کے مطابق انتظامی و عدالتی ڈھانچہ کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے، اور کسی بھی مسلمان حکومت کا شرعی فریضہ ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں قرآن و سنت کے احکام کو قوانین کی صورت میں نافذ کرے اور حکومت کے انتظامی و عدالتی نظام کو اس کے مطابق تعلیم و تربیت سے بہرہ ور رجال کار فراہم کرے۔ جو مسلمان حکومت بھی دنیا کے کسی حصے میں اس ذمہ داری کو پورا نہیں کر رہی وہ عند اللہ اور عند الناس اس کوتاہی کی ذمہ دار اور مسئول ہے، اور مختلف مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکات کا بنیادی ہدف یہی ہے۔ لیکن اس دائرے سے ہٹ کر بھی کچھ دائرے موجود ہیں جو پرائیویٹ سطح پر حکومتی مداخلت کے بغیر کیے جا سکتے ہیں اور جن کی طرف عام طور پر ہماری توجہ نہیں ہے، مثلاً:

مگر ہم اس سلسلہ میں مروجہ معمول سے ہٹ کر کچھ تجاویز رکھتے ہیں جن کا وقتاً فوقتاً اظہار کرتا رہتا ہوں اور آج بھی ان کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ چنانچہ اس حوالہ سے مفتیان کرام سے گزارش کیا کرتا ہوں کہ فتوٰی صادر کرنے کے علاوہ بھی ایک دو صورتیں ہمارے دائرہ اختیار میں ہیں جو ہمارے استعمال میں ہونی چاہئیں:

  1. ایک یہ کہ اگر فتوٰی صادر کرنے سے پہلے اس کام کے لیے آنے والے مبتلا بہ شخص کی مشورہ کے طور پر راہنمائی کر دی جائے تو اس میں میری طالب علمانہ رائے میں زیادہ وسعت اور گنجائش ہوتی ہے۔ اس لیے کہ فتوٰی میں تو آپ جچی تلی بات کریں گے اور اصول و قواعد سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کر سکیں گے، مگر مشورہ میں اس مخمصہ سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ دے سکتے ہیں کہ وہ جس مشکل میں پھنس گیا ہے اس سے نکل سکے۔ اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ بھی موجود ہے کہ حضرت بلالؓ عمدہ کھجوریں لے کر آئے اور بتایا کہ اچھی کھجوریں ایک صاع میں نے عام قسم کی دو صاع کھجوروں کے عوض خریدی ہیں۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ یہ تو سود ہے، ایسا نہیں کرو۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ اگر ایسا کرنا مجبوری ہو تو کیا کریں، اس پر حضورؐ نے فرمایا کہ پیسوں کے عوض عام کھجوریں بیچ کر انہی پیسوں سے اچھی کھجوریں خرید لو۔ یعنی یہ کام ایک سودے میں نہیں بلکہ دو سودوں کی صورت میں کر لو تو یہ سود نہیں رہے گا۔ میری طالب علمانہ رائے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے ارشاد فتوٰی تھا جو وہی بنتا تھا، جبکہ دوسرا ارشاد مشورہ تھا جو اس مخمصے سے نکلنے کی راہ بتاتا ہے۔ موجودہ حالات میں میرے خیال میں عوام کو مشورہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اکثر لوگوں کو مسائل کا علم نہیں ہوتا اور جب وہ کسی نہ کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں تو انہیں اس مشکل سے نکلنے کا راستہ بتانا اور اس کا مشورہ دینا بھی شرعی طریقہ ہی ہے۔
  2. اس کے ساتھ ہی ہمارے دارالافتاء اگر تحکیم یعنی ثالثی اور کونسلنگ کو بھی اپنے دائرہ کار میں باضابطہ شامل کر لیں تو لوگوں کے بہت سے الجھے ہوئے مسائل عدالتوں کا چکر لگائے بغیر اور بے پناہ اخراجات کا بوجھ اٹھائے بغیر حل ہو سکتے ہیں، جس کی اس وقت معاشرتی طور پر بہت زیادہ ضرورت ہے بلکہ عدالتوں پر مقدمات کا ناقابل برداشت بوجھ بھی اس سے کم ہو سکتا ہے۔ یہاں بھی صورتحال اسی طرح کی ہے جسے مفتیان کرام اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ قضا کی بہ نسبت تحکیم اور ثالثی میں مسائل کو سلجھانے اور کسی ایک بات پر فریقین کو لا کر فیصلہ کرنے میں سہولتیں اور گنجائشیں زیادہ ہوتی ہیں، جو شاید موجودہ دور کی سب سے زیادہ سماجی ضرورت ہے۔ جبکہ قضا اور فیصلے کی تنفیذ بہرحال حکومتی اداروں کا کام ہے، اس میں دخل اندازی قانوناً اور شرعاً کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ مگر اس سے نیچے رہتے ہوئے باقی سارے کام دارالافتاء کی سطح پر منظم کیے جا سکتے ہیں۔

مفتیان کرام عام طور پر ان سب دائروں میں خدمات سرانجام دیتے رہتے ہیں مگر ہماری گزارش ہے کہ اگر مشورہ اور تحکیم دونوں کو دارالافتاء کے نظام و عنوان میں باضابطہ شامل کر لیا جائے تو اس کی افادیت زیادہ ہو جائے گی۔

جناب احمد جاوید سے ایک ملاقات

سید مطیع الرحمٰن مشہدی

جنوری 2020 کے آخری دنوں کی بات ہے، ایک دن کلاسز سے فارغ ہونے کے بعد محترم رفیق ِ کار میاں انعام الرحمن حسب ِ معمول میرے پاس اسلامک ڈیپارٹمنٹ میں تشریف لائے اور معمول کی گپ شپ شروع ہوئی۔باتوں باتوں میں بات ملک کے معروف دانش ور ،صوفی،فلسفی اور ادیب محترم جناب احمد جاوید صاحب کے بارے میں چل پڑی ۔اسی گفتگو کے اختتام پر یہ طے پایا کہ ان سے ملاقات کی کوئی سبیل نکالی جائے ۔میاں انعام صاحب کا غائبانہ تعارف ان سے الشریعہ میں وقتا فوقتا چھپنے والے مضامین کے توسط سے ہو چکاتھا ۔چنانچہ میاں انعام صاحب کے نہایت نفیس دوست عمران مرزا صاحب سے گزارش کی گئی کہ وہ احمد جاوید صاحب سے کسی دن کاکوئی مناسب وقت لے کر مطلع فرمائیں۔ 8 فروری 2020 بروز اتوار بعداز ظہر کا وقت عنایت ہوا۔ ڈاکٹر پروفیسر محمد اکرم ور ک ، میاں انعام الرحمٰن، ڈاکٹر سلطان شمس الحق فاروقی اورراقم الحروف مقررہ وقت پر ان سے ملاقات سے شرف یاب ہوئے ۔یہ ایک غیر رسمی ملاقات تھی ، اس لئے کسی متعین موضوع کی بجائے مختلف موضوعات پر ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی۔ بنیادی مقصد ان کی زیارت کرنا اور ان کی صحبت میں چند لمحے گزارناتھا۔ ڈاکٹر شمس الحق فاروقی کا نہایت شکر گزار ہوں کہ ان کی ریکارڈنگ کی بدولت یہ ملاقات صفحہ قرطا س پر منتقل کی جاسکی ۔رودادِ ملاقات ملاحظہ کیجیے۔

مطیع مشہدی: مولانا ایوب دہلوی صاحب سے آپ کی باقاعدہ ملاقات رہی ہے؟

احمد جاوید صاحب: تقریبا دوسال کے لگ بھگ میں ان کی صحبت میں رہا ۔میر ی عمر اس وقت کم تھی ۔یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ شاگر د تھا ۔خادم تھا ،پان لا کے دے دیا، وغیرہ ۔

میاں انعام الرحمان: ہمارا ان سے تعارف ان کی چھوٹی سی کتاب " فتنہ انکار ِ حدیث " سے ہوا۔بہت اچھا لکھا ہے، بہت مختصر اور جامع ۔ جب اس کا عنوا ن دیکھا تو میں نہیں لے رہا تھا کہ پتہ نہیں کیا ہو گا ،لیکن جب اس کے صفحے الٹے تو دلچسپ لگی، لے آیا۔اس سے ان کاتعارف ہوا،پھر ان کی مزید کتابیں ڈھونڈیں تو سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے بتایا کہ ان کے پاس  " مقالات دہلوی " کی فوٹو کاپی ہے،وہ اتنے ہزار کی ہے۔ خاصی مہنگی تھی۔پھر میں نےاس کی پی ڈی ایف ڈھونڈ لی ۔

احمد جاوید صاحب: اصل کام ان کا وہی ہے مقالات ِدہلوی، جو ان کی تقریریں ہیں ۔یہ جو انکار ِ حدیث ہے، یہ انہوں نے اپنے قلم سے لکھا ہے ۔حالانکہ لکھنے کی مشق بالکل نہیں تھی۔تین رسالے انہوں نے اپنے قلم سے لکھے ہیں،مسئلہ جبر و قدر ،ختم ِ نبوت اور فتنہ انکار ِ حدیث،۔جس میں انہوں نے سوال جواب قائم کر کے مدرسانہ انداز میں لکھا ہے ۔ان کو لکھنے سے بالکل مناسبت نہیں تھی ۔ بولنے پر تھی ۔ وہ عجیب عالم تھے ،ان کو دیکھنے کے بعد کوئی شخص عالم نہیں معلو م ہوتا۔ سب سطحی باتیں، ناقل ہیں، عالم نہیں ہیں ۔یہ مسئلہ یہ ہے ،یہ فلاں کتاب میں لکھاہے ۔عالم جو ہوتا ہے علم والا، مطلب تاثر ہے ،ہوں گے ظاہر ہے بڑ ے بڑے عالم ،لیکن ان کو جس نے بھی دیکھ لیا نا، وہ بیچارہ بعد میں پریشان ہی رہا ۔وہ ہر ایک میں انہیں ڈھونڈنے لگتا ہے ۔کر دار اور علم دونوں اپنی منتہی ٰ پر تھے۔اور علم متوسط نہیں، منتہی۔کر دار میں بھی اور علم میں بھی۔ان کی سپیشیلٹی معقولات میں تھی ۔ان کی للہیت کا کیا عالَم ہو گا کہ فلسفہ پڑھا رہے ہیں اور لوگ رورہے ہیں ۔

ڈاکٹر محمد اکرم ورک: شاید وہ اس لیے رو رہے ہوں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہاہوتا تھا ۔

ایک قہقہہ بلند ہو ا۔

احمد جاوید صاحب: بیچ بیچ میں کوئی فقرہ ایسا کہہ دیتے تھے ۔ اس وقت آڈیئنس (Audience)اچھی تھی۔ان کی مجلس میں زیادہ تر علما ہوتے تھے ،طالب علم یا علما۔

مطیع مشہدی: پاکستان میں آپ فارسی کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں ؟

احمد جاوید صاحب: فارسی تو ختم ہو گئی ہے ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کبھی نصاب میں اس کو دوبارہ کوئی حیثیت مل جائے یا اس کی کوئی دنیاوی افادیت نکل آئے ،پھر شاید ہو سکے ۔

ڈاکٹر محمد اکرم ورک: آپ کی تصوف اور فلسفہ دونوں میں دلچسپی ہے ،آپ کے خیال میں ان دونوں میں فرق کیا ہے؟لگتا تو ایسے ہے کہ جیسے صوفی بھی اچھا خاصا فلسفی ہوتا ہے ۔

احمد جاوید صاحب: فلسفہ عقل کی خود مختاری ہے اور تصوف دل کی بے اختیار ی ہے ۔جو اس بات کو نہیں سمجھ پا یا، وہ ان کے مابین فرق کو نہیں سمجھ پائے گا ۔

مطیع مشہدی: کیا یہ دونوں چیزیں کسی ایک شخصیت میں اکٹھی ہو سکتی ہیں ؟

احمد جاوید صاحب: ہاں لوگوں میں ہوئی ہیں ، کم ہو سکتی ہیں کیوں کہ قلب عقل کے گر د Boundaries کھینچ دیتا ہے،اس میں عقل کی خو دمختاری مثبت ہوتی ہے ،کارآمد ہوتی ہے ۔ بے اختیاری کا دائرہ جو ہے وہ اختیار سے بہت بڑا ہے۔ ہمارا سارااختیار بے اختیاری کے دائرےمیں ہے ۔صوفی اس بات کو سمجھتا ہے۔

مطیع مشہدی: فارسی شاعری میں آپ سب سے زیادہ کس سے متاثر ہوئے ؟

احمد جاوید صاحب: دیوانِ شمس سے ،مولانا روم کی غزلوں کےمجموعے سے ،پھر حافظ شیرازی سے ،لیکن ایک ہوتا ہے شعر کو فن کے طور پر پڑھنا ، اس میں فردوسی اور نظامی ۔

مطیع مشہدی: قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ و لکل قوم ھاد اور ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ۔لیکن ہم ہندوستا ن کی تاریخ میں پانچ ہزار سال بھی پیچھے چلے جائیں، تب بھی ہمیں کوئی موہوم سا رسالت کا تصور بھی نہیں ملتا جس طرح کا تصور ہماری سامی ادیان کی روایت میں ملتا ہے ۔ پھر بر اعظم امریکہ تقریبا پانچ سو بر س پہلے دریافت ہوتاہے اور جب ہم ان کی مذہبی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں جو ہزاروں سال پرانی ہے ،تو وہاں بھی کوئی اس طرح کا رسالت کا تصور نہیں ملتا ،جبکہ جن علاقوں میں سامی ادیان کی روایت پائی جاتی ہے وہاں پے در پے پیغمبر آتے گئے تو کیا اس خطے کے انسانوں کو ہدایت کی زیادہ ضرورت تھی ؟ہندوستان یا امریکہ یا آسٹریلیا وغیرہ میں پائی جانے والی انسانیت ہدایت سے بے نیاز تھی ؟ ان کے ہاں دور دور تک پیغمبروں کا نام و نشان نظر نہیں آتا ۔

احمد جاوید صاحب:  میرے خیال میں ہندوستا ن میں جو شروتی ہوتے تھے یا اوتار ہوتے تھے ،یہ پیغمبر ہی ہوتے تھے۔ جیسےچودہ اوتار ہیں ، تیرہ اوتار ہیں ۔اس طرح بے شمار شرتی تھے۔ ـشرتی کہتے ہیں جس نے سنا ،یعنی جس پر وحی اتریـ، وہ ہوتے تھے ۔پھر حکمت والے ہوتے تھے،انہیں گیانی کہتے تھے۔ یہ زیادہ تر نظام ہندوستان میں تھا ،مطلب آپ اس سے نبوت برآمد کر سکتے ہیں بغیر کوئی تکلف کیے۔اور جو قدیم تہذیبیں دوسرے خطوں کی،یعنی غیر سامی تہذیبیں ہیں،ان میں بھی افراد مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔اب شامانزم ہے ،جو جنوبی امریکہ یا شمالی امریکی کی پرانی تہذیب ہے ،جو سات ہزار سال پرانی ٹریس(Trace) ہو گئی ہے ،تو اس میں شامانزم (Shamanism) یا کوئی اور، وہ سب ایک ایک فرد کے گر د بننے والے دائرے ہیں تو اس فرد کو قیا س کیا جا سکتاہے کہ وہ ہادی یا نبی ہو سکتاہے۔اسی طرح اس طرف چلے جائیں میسو پوٹیمیا(Mesopotamia) یا یونانی تہذیبیں ، یہ بھی پانچ سات ہزار سال قدیم ٹریس ہو چکی ہیں ،تو ان میں بھی یہی ملتا ہے "معلم "۔یونانیوں میں معلم اور مربی دونوں ملتے ہیں ۔اور میسوپوٹیمیا میں اللہ کی طرف بلانے والے کثرت سے ملتے ہیں ،توحید کی طرف بلانے والے ۔پھر میسوپوٹیمیا ہی کی توسیع ایرانی تہذیب ہے سینڑل ایشیین آرین وغیرہ ،ان کے ہاں بھی توحید ، توحید کی دعوت اور مربوط دعوت Text کی صورت میں ہے ۔اس میں دورجحانات ہیں ،ایک زروایسٹرین(Zoroastrianism) ہے، ایک آرین ہے جیسے ویدانتی ۔ان میں ایک میں تشبیہ کا غلبہ ہے اور دوسرے میں تنزیہ کا،لیکن ان سب کا Principal Content توحید ہے ۔ ہر تہذیب میں شر ک اور توحید کی لڑائی کا ماحول رہا ہے ۔ شرک اور وحدانیت لگتا ہے، ہم عمر ہیں ۔تو کہہ سکتے ہیں کہ نبی یا دوسری اصطلاح میں ہادی ہر قوم میں بھیجے گئے۔البتہ  اس سلسلہ نبوت کی قانونی تشکیل کا عمل یعنی نبوت کو شریعت دینے والے ادارے بنانے کی روایت، وہ سامی ہے ۔

مطیع مشہدی: صرف اس روایت میں ہے ؟

احمد جاوید صاحب: ہاں اس روایت میں ہے، لیکن ہندوں میں بھی شریعت ہے ۔

مطیع مشہدی: سائنس اور قرآن کی جو دو دنیائیں ہیں ،اور ان کا جو ایک طرح کا کلیش(Clash) دکھایا جاتا ہے، اس میں بہت ساری پوزیشنز لی جاتی ہیں ۔کچھ پوزیشنز یوں لی جاتی ہیں کہ جو جدید تحقیق سامنے آتی ہے ،اسے قرآن سے ثابت کر نے کی کوشش کی جاتی ہے ، ایک پوزیشن یہ لی جاتی ہے کہ یہ دو الگ دائرے ہیں ،ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ، ایک مابعد الطبیعاتی ہے اور دوسری مادی دنیا سے متعلق ۔آپ کس پوزیشن کو آج کے دورمیں زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ؟

احمد جاوید صاحب: میرے خیال میں ان میں انٹر ڈیپنڈینس(Interdependence) نہیں ہے ۔ظاہر ہے کہ انسانی ذہن میں جو دو چیزیں آجائیں تو ان میں تعلق تو لازماََپیدا ہوجاتاہے ۔اگر علم کی اصطلاح میں دیکھیں تو اس میں بنیادی فرق ہے۔جس علم کا مقصود ہدایت دینا یا حاصل کرنا ہو ،وہ Falsifiable نہیں ہوتا ۔اور جس علم کا مقصد دنیا اور اس کے مکینکس ، سائنس یا کوئی اور مطالعہ ہو، ان کو Falsifiable ماننا ضروری ہے،ورنہ دنیاوی علم میں ترقی نہیں ہو سکے گی۔یہ دوبہت بنیادی فرق ہیں وہ۔ بالکل الگ Episteme ہیں، یہ بالکل مختلف Episteme میں ہے ۔اور ہمیں چاہیے یہی تھا کہ ہم Falsifiable علم میں کوئی کر دار ادا کرتے ،لیکن ہمارے ذہن اس طرح بنا دیے گئے کہ ہمارے ہاں تمام معلومات عقیدے کی طرح اٹل ہونی چاہییں۔اس سے ہم نے بڑا نقصان اٹھایا ہے ۔ دنیا کا علم صحیح ہو یا غلط، مجھے کوئی نقصان نہیں ہے ۔اور دینی علوم کو اتنی تفصیل دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دینی علم Perspective ہے،چیزوں کو دیکھنے کا مستقل Perspective ہے ،اس علم سے صرف فقہ پیداہوتی ہے ۔صرف فقہ جائز دینی علم ہے ۔اس کو دینی علم کہیں گے Falsifiability کے ساتھ،کیوں کہ عقل جہاں بھی Active ہوگی، وہاں وہ Falsifiable ہے ۔جہاں Passive ہے، وہاں Falsifiable نہیں ہے ۔صرف خبر Falsifiable نہیں ہے نبی کی خبر،باقی تو سب Falsifiable ہے ۔ہم نے عجیب طرح سے دین کو فلسفے کی بنیاد بنانا شروع کردیا ۔اس میں پھر ہمیں بہت زیادہ جھوٹ بولنا پڑتا ہےکہ ہم فلسفہ بھی جانتے ہیں ۔بھائی ایمان کا Perspective قائم رکھ کے پرانے متقدمین کی طرح فلسفیوں سے کوئی رعایت کیے بغیر ،ایک مشترکہ منطق اور ایک مشترکہ اصطلاحات کے نظام میں گفتگو کرکے دکھاؤ۔

مطیع مشہدی: کیا عقل کی  Form  Purified کو وحی کہہ سکتے ہیں ؟

احمد جاوید صاحب: یہ کچھ لوگوں نے کہا ہے، لیکن بڑی خطر ناک بات ہے ۔وحی خارج میں ہونے والا ایک عمل ہے۔ اس کی تخلیق کا یعنی اس کے وجود میں آنے کا کوئی ایک سبب بھی عقل میں نہیں ہے ۔عقل اس کے سامنے محض Passive ہے۔اوریہ بات کہنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہے کیونکہ عقل کا مطالعہ کرنے والے کلینیکل علوم میں، ذہن کا مطالعہ کرنے والے جن لوگوں نے بہت مطالعہ کیا ہے ، کلینکل مطالعہ،تو وہ سب جانتے ہیں کہ ذہن کا بڑاحصہ جو ذہن کا گورننگ (Governing)حصہ ہوتا ہے ،وہ Passiveہوتا ہے ،وہ مسلمات کو نافذ کرتا ہے عقل کی Activity پر۔توہمیں کیا اس میں گھبر انے کی ضرورت ہے۔وحی عقل کی Passivity کا بہترین مصرف ہے اور عقل اپنے Passive مسلمات کو اپنی Activities پر حاکم رکھتی ہے ۔کوئی عقل نہیں ہے جو ٹائم اور سپیس کے آرڈر سے باہر کام کرے ۔ٹائم (Time)اور سپیس(Space) کوئی چیز نہیں ہیں، یہ عقلی تصورات ہیں۔ وحی اس آرڈ ر کو میٹا فزیکلائز(Metaphysicalize) کرتی ہے اور گاڈ سنٹرڈ(God Centered) بناتی ہے۔خداکو ماننا ہر چیزکو ڈیفاین (Define)کر دیتا ہے ۔بس یہ بات ہمیں اعتماد کے ساتھ کہنی چاہیے بغیر غصے میں آئے ۔

مطیع مشہدی: قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ اپنی صفت و قدر ت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تمہاری تصویر کشی کرتے ہیں جس طرح ہم چاہتے ہیں ۔اب جینیٹک انجینئر نگ (Genetic Engineering)میں سائنس اس پوزیش میں آچکی ہے کہ وہ خود طے کر سکتی ہے کہ کسی نئے آنے والے بچے کا قد کاٹھ کیسا ہو،رنگ و روپ کس طرح کا ہو ،وغیرہ وغیرہ ۔تو سوال کیا جاتا ہے کہ جب انسان کو ان چیزوں کا علم نہیں تھا تو وہ ایک بڑی ہستی کے ذمے لگا دیتا تھا کہ وہ یہ سب کرتی ہے۔لیکن اب تو انسان نے خود یہ کر لیا ہے ۔اب قرآن کا یہ بیانیہ کیا خدا کی قدر ت کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے ؟

احمد جاوید صاحب: جینیٹک انجینئر نگ (Genetic Engineering)علم کے طورپر بعد میں ہے ،انجینئرڈ جینیٹکس (Engineered Genetics)تو پہلے سے موجود ہے۔وہ اللہ کی بنائی ہوئی ہے ۔وجود ہمیشہ علم سے پہلے ہے ،اگر وجود ایسا تھا جو آج میں نے دریا فت کیا ہے تو یہ اللہ کے علم میں جب سے ہے،جب سے ہے ۔پھر اللہ اور بندے کے علم میں Objectسے نتائج مشترک بھی ہو ں تو علم کی ساخت کا فرق انہیں ایک کہنے کی اجازت نہیں دیتا۔یعنی Object جس Consciousness میں ہے، جس Order  Conscious میں ہے،بہت زیادہ Significant ہے۔ یہ بات کہ ایک لفظ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں لیکن بہت زیادہ فرق ہو گا،آپ بہت زیادہ جانتے ہوں گے اور میں بہت کم جانتا ہوں گا۔مطلب کئی پہلو ہیں۔علم کی الوہی ساخت اپنے Contentsکو انسانی علم کے Contents حتما َمطلقا ممتاز رکھتی ہے۔یعنی معلومات ِ الٰہیہ کا بعد میں کہیں انکشاف بھی ہوتا ہے تو وہ انکشاف ہمیشہ جزوی ہوگا ۔اور وجود خالق ِ وجود کا معلوم ہے، کیا اس میں فرق نہیں پڑے گا ۔ہمار ا علم ناظرِ وجودکا علم ہے ،وہ خالقِ وجو دکا علم ہے ۔

مطیع مشہدی: جو تہذیبوں کا باہمی تعامل(Civilizational Encounter) ہوتا ہے جیسا کہ آج مغربی تہذیب اور ہم، تو اس تعامل میں ہم کن دوائر میں مجبور ِ محض ہیں کن دوائر میں ہم بااختیار ہیں ،اپنی مرضی کر سکتے ہیں ۔

احمد جاوید صاحب: ہم سے مراد اگر مسلمان ہیں ، تو ایمان اور ایمان سے بننے والے نفسیاتی Structure سے،ان دائروں میں ہم مجبور ہیں کہ ان پہ آنچ نہ آنے پائے ،باقی میں آزادی ہے ۔

مطیع مشہدی: باقی کے اثرات اس ڈھانچے پر نہیں پڑیں گے ؟

احمد جاوید صاحب: جی،بشرطیکہ ہم نے انہیں رغبت سے اختیار کیا یا مغلوبیت سے اختیار کیا ،یعنی By Choiceنہ ہوا۔

مطیع مشہدی: میرے والد صاحب علامہ اقبال کے حوالے سے اکثر فرماتے ہیں کہ یہ جو اقبال نے ایک ولی اللہ کے بارے میں کہا ہے کہ مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا ،اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اقبال یہ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔

احمد جاوید صاحب:  یہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ اس کے بعد یہ نہیں پو چھا جائے گا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں ۔بہت بڑی غلطی کی ہے۔ان کی یہ نوجوانی کی نظم ہے ۔جب انگلینڈ پڑھنے جا رہے تھے توحضرت نظام الدین اولیا کے مزارپہ گئے، وہاں انہوں نے یہ نظم پڑھی تھی،اس وقت نوجوانی ہی تھی ۔

تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا

(نعوذ باللہ )  اس زمانے میں تھوڑا سا قادیانیت کے زیر اثر یا مزاج میں قادیانیت کے اثرات بھی تھے ۔ مسیح و خضر ان کے مذہب میں تو تختہ مشق ہی بنے رہتے ہیں ۔

مطیع مشہدی: آخر وقت تک انہوں نے اسے بدلا بھی نہیں۔

احمد جاوید صاحب: میرا خیال ہے کسی نے متوجہ نہیں کر وایا، ورنہ وہ ایسے آدمی نہیں تھے ،بڑے منکسر المزا ج آدمی تھے۔لیکن یہ Poetic License ہم نے دے رکھاہے جس کی چاہے جو کرو۔اب ہمارے بڑے بڑے شاعروں نے عیسی ٰ موسیٰ اور جبریل علیہم السلام کے ساتھ جیسا سلوک رکھا ہے ۔

بگذر مسیح از سر ِ ما کشتگانِ عشق
یک زندہ کر دن ِ تو بصد جاں برابر است

اب حضرت عیسیؑ ملیں گے تو پوچھیں گے ان سے۔شاعری میں ایک طرح کی یہ نحوست آگئی ہے بعض اثرات کی وجہ سے۔کیوں کہ شاعری کا خمیر تہذیب ہوتی ہے ۔ہماری شاعری کا خمیر جس تہذیب میں ہے ،وہ تہذیب ہمارے دین نے نہیں پیدا کی۔

میاں انعا م الرحمٰن: مغرب کو آپ نے کافی سٹڈی (Study) کیا ہے، ان میں جو بڑے بڑے سکالرز ہیں جنہوں نے آپ کو متاثر کیا ہے ، سقراط ، افلاطو ن ، ارسطو وغیرہ ان میں آپ کن کو قابل مطالعہ سمجھتے ہیں؟

احمد جاوید صاحب:  Plato کے ڈائیلاگز (Dialogues) سب کو پڑھنے چاہییں۔

میاں انعام الرحمٰن: سب ڈائیلاگز؟

احمد جاوید صاحب: بہتر ہے سب ورنہ ریپبلک (Republic) اور ایک آدھ چھوڑ کے باقی پڑھ لے ،بعض دو تین ڈائیلاگ ایسے ہیں کہ اب ان کا کوئی مصرف نہیں رہا ۔مثلا ریپبلک اور اس طرح کے ایک آدھ اور۔ا س میں تصور ِ ریاست ،حکومت یہ سب بتایا ہے ۔ لیکن مثلافیڈو (Phaedo) ہے، سوفسٹ (Sophist) ہے،مینو (Mino) ہے، یہ ضرور پڑھنے چاہییں۔اور جن صاحب نے یہ ڈائیلاگ نہ پڑھے ہوں، جب وہ پڑھیں گے تو جب انہیں معلوم ہوگا کہ وہ آج بھی کتنی بڑی کمی کا شکار تھے۔

میاں انعام الرحمٰن: ری پبلک ہمارے پولیٹیکل سائنس کے نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے اور مجھے تو آج بھی بڑی ریلیونٹ (Relevant) لگتی ہے۔

احمد جاوید صاحب:  نہیں وہ تو جو پولیٹیکل سائنس (Political Science) پڑھتا ہو وہ پڑھ لے لیکن یہ جو مجموعی انسانی شعور کی Richness ہے اس کا احساس ڈائیلا گ (Dialogues) کو پڑھے بغیر نہیں ہو سکتا۔

میاں انعام الرحمٰن: پڑھ کے ایسے لگتا ہے جیسے آج کے دور کے کسی بندے نے لکھی ہے ۔

احمد جاوید صاحب: بہت اچھی نثر ،افلاطون سے اچھی نثر بھی کسی نے نہیں لکھی۔

مطیع مشہدی: آپ سمجھتے ہیں کہ ترجمے میں وہ نثر آئی ہے؟

احمد جاوید صاحب: یہ میں نہیں کہوں گا کیوں کہ زبان آتی نہیں ، لیکن جن لوگوں نے ترجمے کیے ہیں ان میں اکثریت یونانی زبان کے ماہرین کی ہے۔ وہ ہماری طرح کے مترجمین نہیں ہیں ،انہوں نے زندگی لگا دی ہے ڈائیلاگز ترجمہ کرنے میں۔مثلا ََجوویٹ (Benjamin Jowett) کا جو ترجمہ ہے اس نے ساری زندگی یہی کام کیا ہے، یونانی کلاسیکس کا ترجمہ کرنے میں۔

مطیع مشہدی: کیا یہ بات درست ہے کہ ہماری مسلم روایت میں جینئون فلاسفر ز نہیں ہیں، مغرب میں جیسے ہیگل وغیرہ  ہیں،  بلکہ جو یونانی فلسفہ ہمارے ہاں آیا، بس اس کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ۔

احمد جاوید صاحب: جی ہاں ۔تھوڑی بہت اوریجنیلٹی(Originality) ہے شہاب الدین سہروردی مقتول میں ۔

مطیع مشہدی: کیاہماری روایت میں اوریجنل فلاسفر ز ہونے چاہییں تھے ؟

احمد جاوید صاحب:  بہت ضروری تھے ۔مذہب جوہے، وہ علم الکلام پیداکرسکتا ہے، فلسفہ نہیں۔فلسفہ تو عقل کی مکمل آزادی اور خو دمختاری سے پیداہوتا ہے ، free inquiry،ہر بات پہ شک کرو۔

مطیع مشہدی: ایک مسلمان کیا جینئون فلاسفر بن سکتا ہے؟

احمد جاوید صاحب:  میرے خیال میں نہیں بن سکتا۔ لیکن فلسفہ پڑھناضرور چاہیے، اس سے آدمی کے ذہن کو جِلا ملتی ہے ۔

میاں انعام الرحمٰن: وحی کے حوالےسے ایک سوال تھا ذہن میں کہ ابھی جو آپ نے وحی اور عقل کے حوالے سے بات کی ،تو مجھے کچھ ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم قرآن کا مطالعہ کریں  جو وحی الٰہی ہے، خداکا آخری کلام ہے ،تو اس میں جو اجتماعی انسانی شعور ہے جسے ہم تاریخ کہہ رہے ہیں، اس کا خاصا حصہ اس پر مشتمل ہے ،تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو وحی ہے ،یہ جو انسانی شعور چلا آرہا ہے ،اس کی ایک حد تک محتاج بھی ہے ؟

احمد جاوید صاحب:  نہیں یہ تو اس طرح ہےکہ جیسے خالق کو مخلو ق کی ضرورت ہے ۔اگر اس طرح سمجھا جائے کہ متکلم کو مخاطب کی حاجت ہے، ان معنوں میں تو ٹھیک ہے لیکن وحی کی جو مین باڈی(Main body) ہے، اس میں عقل کا کوئی فاعلانہ کردار نہیں ہے، اس میں عقل محض ریسیور (Receiver)ہے ۔ہماری رائے یہ ہے کہ عقل دی ہی گئی ہے وحی کو قبول کرنے والی قوت کے طورپر ،ورنہ انسان کی عمومی فہم یعنی نان ریشنل ریفلیکشن(non rational reflection ) ،اس کی خواہشات اور اس کی Instinctsدنیاوی زندگی گزار نے کے لیے کافی ہیں ۔عقل دی ہی اس لیے گئی ہے کہ اس میں خداکی مخاطب بننے کی قابلیت ہے ،کیوں کہ عقل میں سب سے Basicچیز کیا ہے، Abstractionکی قوت۔یعنی Matter سے ٹرانسنڈ کرنے کی طاقت ،یہ طاقت بے سود اور بے بقا ہوتی اگر یہ وحی کی مخاطب نہ ہوتی ،کیوں کہ عقل میں Abstraction کا مادہ ایمان بالغیب کی اساس ہے ۔توشروع سے اگر بات کریں نا آغاز سے کہ عقل کیا ہے تو پھر باتیں زیادہ واضح ہو جائیں گی ،اور وحی کیا ہے ۔میرے خیال میں ان میں کوئی تخلیقی ربط نہیں ہے ،عقل وحی کی تشکیل میں شامل نہیں ہے۔وحی ایک واقعہ ہے جیسے ایک چیز وہاں سے چلی اور یہاں پہنچی۔

میاں انعام الرحمٰن: اگر اس بات کو بڑھایا جائے کہ اگر وحی کا یہ shade ہوتا ہے تو نبی ﷺپر وحی نازل ہوئی اور مکی زندگی میں آپ کا ایک گروپ بن گیا تو ہجرت کرتے وقت چاہیے تو یہ تھا کہ کوئی نئی کالونی بسائی جاتی ،بڑا آسان تھا یہ،بجائے مدینہ ہجرت کرنے کے ،وہاں مختلف عقلیں موجود تھیں ،اوس و خزرج تھے ان سے انٹریکشن (Interaction) ہونا تھا ،تو صحیح صورت حال تو بنتی ہے کہ وحی کے مطابق ایک نئی بستی بسائی جاتی لیکن ایسانہیں کیا گیا۔ یہ آپشن تھا ،نہیں اختیار کیا گیا ۔اس کا مطلب ہے کہ وحی کا انٹریکشن لازما ہونا ہے مختلف عقلوں کی جہتوں سے،مختلف ثقافتوں سے ۔تو یہ جو آپ وحی کو بالکل الگ رکھ رہے ہیں کہ بالکل الگ چیز ہے ،عمومی طورپر ایسا نظر نہیں آتا ۔

احمد جاوید صاحب: تھوڑا سا وحی کو ہم ڈیفائن کرلیں نا ،وحی اللہ کا کلام ہے جو اپنے ہر مخاطب کے لیے بائنڈنگ ہے جو اس میں کہاجارہا ہے ڈائیریکٹ اسے مانے میر ی عقل،اور اپنے حالات کے مطابق اس کو سمجھنے میں غلطی بھی کر دے تو کیا ہے ۔تو وحی سب سے پہلے عقل پہ حکومت کرتی ہے اور اس کے بعد عقل کا مادہ ءِ تعقل بنتی ہے ۔آپ جو بات کر رہے ہیں، وہ وحی کے سیکنڈ فیز سے متعلق ہے کہ جہاں عقل وحی کو قبو ل کرکے کلمات ِ وحی کو اپنے تعقل کی اسا س بنا لیتی ہے ،وہاں ظاہر ہے کہ عقلی تصورات اور وحی کے Contents کہیں کہیں خلط ملط ہو سکتے ہیں ،وہاں تو ایک شانِ نزول کا قصہ شروع ہو سکتا ہے ،وہاں چیزوں کو ہسٹوریسائز (Historicize)کرنے کی ضرورتیں پیش آسکتی ہیں ،اس میں وحی کے ایک سالم کل کو اجزا میں تقسیم کرنے کی ضرورتیں پیش آسکتی ہیں جو عقل کرتی ہے ، وہ سب ٹھیک ہے اگر آپ دوسرے فیز (Second phase)پہ ہیں۔اگر آپ وحی as such اور  عقل as suchکے درمیان تعلق بنائیں گے تو وحی کے وجود کی تشکیل میں ،وحی کے کلمے اور معانی کی تشکیل میں عقل کا کر دار ریسیور کے سوا کچھ نہیں ہے ۔وہ ریسیو(Receive) کر کے پھر اپنی دنیا پہ جب اسے اپلائی کرتی ہے نا،تو وہاں پہ وہ ایکٹو ہوتی ہے، وہاں اس کی مرضی ، اس کے میلانات یا اس کی کمزوریاں اس کی تشریحات و توجیحات ،وہ لگتا ہےوحی کے ساتھ اپنا امتیاز ختم کر لیتے ہیں بعض جگہوں پر ،وہاں آپ کی بات ٹھیک ہے ۔

میاں انعام الرحمٰن: ہمارے انسانوں کی اکثریت کے ساتھ تو یہی معاملہ پیش آتا ہے کہ جو دوسر افیز (Phase)ہے، اسی کے مخاطب ہم ہیں۔ وہی ہم نے کرنا بھی ہے ،اور جو پہلا فیز ہے، وہ بہت محدود لوگ ہوں گے جن کا یہ مسئلہ ہوگا ،لیکن انسانوں کی جو عمومی معاشرت ہے، اس میں تو دوسرا فیز(Phase) ہی ہوتا ہے۔

احمد جاوید صاحب: جی بالکل ٹھیک،عمومی کیا ،مطلب کلی معاشرت میں یہی فیز ہے۔ جیسے قرآن اور قرآن کی تفسیر،یہ ایسے ہی تعلق ہے کہ اللہ کیا اس بات پر قادر نہیں کہ اپنی بات پوری سمجھا دے ،تفسیر کی کیا ضرورت ہے یعنی تفسیر کی ہمیں ضرورت ہے، کلام اللہ کو ضرورت نہیں ہے ۔

میاں انعام الرحمٰن: سیرت النبی کے حوالے سے آج کے Context میں کس پہلو پر فوکس کرنا چاہیے؟

احمد جاوید صاحب: تعلق کے شعور اور جذبے کو ، اس کی تفصیل یہ کہ اللہ سےتعلق اپنی احساساتی رسوخ کے ساتھ، مخلوق سے تعلق ایثار اور انکسار سے ساتھ ۔اس کے لیے رسول اللہ ﷺ واحد ماڈل ہیں ہمارے لیے ،یعنی ہمیں اپنی ہدایت بھی وہیں سے فنکشنل(Functional) انداز میں اخذ کرنی ہےاور اپنی بشریت کی تکمیل بھی انہی سے کروانی ہے ۔یہ اجمالا  َہمارے ذہن میں آتا ہے۔ اس کی تفصیل ہے جس کا پہلا جملہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ہم مزاجی پیداکرنا ،کیوں کہ میں کنڈیشن ہوجاؤں نا رسول اللہ کی شخصیت کے ساتھ،تو بہت بڑے بڑے معجزات کا صدور ہو سکتا ہے۔چیزیں رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے میرے اندر پیداہوتے ہی تاریخی جبر کو توڑ دیتی ہیں ،نفسیاتی بندشوں کو توڑ دیتی ہیں اور پر کشش ہو جاتی ہیں۔یعنی آپ اللہ کو بھی رسو ل اللہ ﷺ کے حوالے کےبغیر دیکھیں تو محض ایک Grand concept ہے۔آپ ﷺ کا حوالہ آکر اسے معبود حئ اور معبودِ واحد بناتا ہے ،پرکشش بناتا ہے۔اور صحابہ کو بھی اگر ریفرنڈم (Referendum)کر والیا جا تا کہ رسول اللہ ﷺ کے بغیر جنت میں رہو گے یا آپ ﷺ کی مصاحبت میں مدینے میں رہو گے ،ایک ووٹ بھی جنت کے حق میں نہ آتا ۔

میاں انعام الرحمٰن: اس پہلو کی جو Practical realization ہے اس میں ہمارا ادب بھی کوئی کردار ادا کر سکتا ہے ؟

احمد جاوید صاحب: بہت زیادہ ،کیوں کہ ادب نظریے کو درکا ر احساسات فراہم کر دیتا ہے ۔کیوں کہ احساسات ہمارے ذہن کو در کا رہیں اپنے تصور میں ثابت قدم رہنے کے لیے۔ادب احساسات میں رفعت پیدا کرتا ہے۔ان کی رینج بڑھا دیتا ہے ۔

میاں انعام الرحمٰن: ہمارا جو مذہبی طبقہ ہے اس میں ذوق تو۔

احمد جاوید صاحب:  جبھی تو یہ حال ہے۔

مطیع مشہدی : فلسفہ اور ادب کی چند ایسی کتابیں جو آپ ہمارے جیسے طالب علموں کے لیے  Recommend کریں کہ یہ تو ضرور پڑھنی چاہییں۔

احمد جاوید صاحب:  فلسفے میں میں نے ابھی بتائی ہے نا Dialoguesپڑھیں۔ادب میں اپنی روایت کی امہات الکتب ،اپنی روایت کے بڑے شاعروں کو یا ادیبوں کو پڑھنا چاہیے۔اور پھر اپنے ذوق کے مطابق،کوئی کہتا ہے کہ اردو روایت میں میر سے پڑھنا شروع کرو ،کوئی کہتا ہے غالب سے کوئی کہتا ہے اقبال سے ،لیکن بڑے لوگوں کو پڑھنا ضرور چاہیے۔کسی بھی ڈسپلن میں جانے کا یہ تقاضا ہے ،شر ط ہے کہ اس کے کم از کم ایک بڑے آدمی کو پڑھنا۔یہ جو ہمارے ہاں تن آسانی پیداہوئی نا کہ چیزو ں کو ویکیپیڈیا (Wikipedia) میں دیکھو (یہ درست نہیں )۔

میاں انعام الرحمٰن: ہمارا جو جدید ادب ہے، یہ ہمارے احساسات کی تشکیل کر رہا ہے جیسا ماضی میں تھا ؟

احمد جاوید صاحب:  ہماری تہذیب کی کوئی جمالیاتی ساخت رہ نہیں گئی ۔

میاں انعام الرحمٰن: تو پھر مسئلہ کہاں پر ہے ،ادب میں ہے یا دین کے نمائندوں میں ؟

احمد جاوید صاحب: تہذیب میں ۔

میاں انعام الرحمٰن: تہذیب کوئی Abstract چیز تو نہیں ہے ۔ اس کے کوئی نمائندے توہوں گے ۔یا ادب کے نمائندے ہوں گے یا دین کے نمائندے ہوں گے ۔

احمد جاوید صاحب: جیسے فرض کیا اساتذہ ہیں ،علما ء ہیں ،حکمران ہیں،یعنی جو نظام چلانے والی قوتیں ہیں اور ان قوتوں کے جو ہولڈرز ہیں ،ان میں جمالیاتی حس مفقود ہے ۔

میاں انعام الرحمٰن: مطیع صاحب سے آپ کی جو بات ہورہی تھی تو ایک چھوٹا سا سوال میرے ذہن میں آیا کہ ایک طرف تو آپ نے یہ فرمایاکہ عقل اور وحی کی ڈومین (Domain)بالکل الگ ہیں اور سائنس اور قرآن کو اسی حوالے سے دیکھنا چا ہیےاور ان کا اپنا اپنا دائرہ ہے ۔دوسری طرف آپ نے شاعر ی کے حوالے سے بھی بات کی کہ شاعری جس تہذیب سے ابھرتی ہے جیسا کہ ہماری شاعری ہے ،و ہ اگر لادینی ہو تو بڑی گڑ بڑ ہوتی ہے تو شاعری کا اور ادب کا الگ ڈومین نہیں ہوتا ؟وحی کو مد نظر کیوں رکھیں؟

احمد جاوید صاحب: الگ ڈومین ہونے کا مطلب بے نیا زہونا نہیں ہے ۔الگ ڈومین ہونے کا میرا مطلب یہ ہے کہ دین کو اس بات کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنے بتائے ہوئے حقائق کی سائنس وغیر ہ سے تصدیق کر وائے ۔لیکن ادب اور سائنس کو اپنی معنویت میں اضافے کے لیے اس بات کی محتا جی ہے کہ وہ دین کے ایمانی سٹرکچرز (Structures)کو خیال اور حال کی سطح تک اتارکے ایکسپریس (Express)کرنے کے لائق ہوجائے ،تو یہ بات تو taken for granted ہے ۔

میاں انعام الرحمٰن: یہ تو بطور متکلم آپ وحی کو یا اسلام کو ڈیفنڈ (Defend) کر رہے ہیں ،ورنہ عملی طورپر دیکھا جائے تو لین دین تو دو طرفہ ہوگا ۔

احمد جاوید صاحب: نہیں ایک ہوتا ہے نفسِ دین میں (لین دین) ہوا ہو ،تعبیر ِ دین میں تو ظاہر ہے میرا ذہن جن جن علوم سے مانوس ہے ،میرے فہم ِ دین پر ان کا اثر لازما پڑے گا ۔وہ تو ہوگا ،وہ تو ایک جبری اثر ہے ،اس سے مفر نہیں ہے ۔اس میں صرف اتنا مجھے دیکھنا پڑے گا کہ میرا ایک سائنس کا ڈسکور س ہے ،ایک ادب کا ہے ،اور ایک دین کا ہے ،تو ان میں وہ بائنڈنگ ڈسکور س کون سا ہے جو میرے شعور میں Objects کے سلسلے میں انتشار نہ پیداہونے دے۔

میاں انعام الرحمٰن: اگر ہم دین کے اوریجنل ڈسکورس(Original discourse) کو دریافت کریں تو وہ کیا ہوگا ؟

احمد جاوید صاحب: میرے خیال میں اویجنل ڈسکورس ایک واہمہ ہے ۔اوریجنل ٹیکسٹ ہوتا ہے ،ڈسکورس اس کی تعبیر ہی ہوتا ہے ،کیوں کہ میں اپنے فہم ِ دین کو پانچ سو سال پہلے کے آدمی کے مطابق بنانے میں قادر نہیں ہوں۔ کنٹکسٹ (Context)بدلتے رہتے ہیں نا ،علم کنٹکسٹ(Context) ہے ،کنٹکسٹ (Context)میری مرضی سے تھوڑی بدلتے ہیں ۔

مطیع مشہدی: وحی کے آنے کی جو وجوہات تھیں ،وہ ساری کی ساری موجود ہیں،انسان کو ان ساری چیزوں کی ضرورت ہے بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے پہلے سے زیادہ ضرورت ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کا سلسلہ منقطع کر دیا ۔ آپ اس ختم ِ نبوت کے پیچھے کیا بڑی حکمت سمجھتے ہیں ؟

احمد جاوید صاحب: جن ضرورتوں سے وحی کا سلسلہ جاری تھا ،وہ سب ضرورتیں ایک مخصوص ٹیکسٹ کی صورت میں Addressہو گئی ہیں ،تو اس میں پھر ہمیں کسی نئی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے ۔ہمیں ہدایت کی مسلسل ضرورت ہے ،لیکن موجود ہدایت کی،کسی نئی ہدایت کی نہیں ۔تو اس وجہ سے ہم ہدایت کے Perspective سے اپنے اندر کوئی نئی ضرورت دریافت نہیں کر سکتے۔بعثت ِ رسول اللہ ﷺ سے پہلے ایک طالب ِ حق آدمی اپنی کچھ ضرورتیں ہدایت کی بیان کر سکتا تھا جو اس تک پہنچنے والی عیسائیت میں Addressنہ ہوئی ہوں ،لیکن اسلام کے بعد نہیں ۔ایک حکمت تو اقبال نے بتائی، وہ بہت قابل ِ غور ہےکہ یہ عقلِ استقرائی کا سرٹیفکیٹ ہے ،لائسنس ہے کہ اب اپنے فیصلے خود کرو۔تو ایک یہ حکمت قابلِ غور ہے چاہے سو فیصد لائق ِ اتفاق نہ ہو۔دوسری اس میں ایک بڑی عرفانی حکمت جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ نبوت ،اللہ کا اظہار ہے اس کے بندوں کو اپنے طرف متوجہ کرکے ،اس توجہ کے عملی اور اعتقادی تقاضے پورے کرنے کے لیے ۔ہر نبی حق کا مظہر ہوتا ہے۔رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں حق as such اپنے مظہر میں آگیا ہے ،manifest ہو گیا ہے ۔پہلے ایک ہی زمانے میں کئی انبیا علیہم السلام ہوتے تھے تو حق کا اظہار کثرت کے اصول پر ہوتا تھا ۔توحید کا اظہار کثرت کے اصول پر ہوتا تھا ۔رسول اللہ ﷺ پر پہنچ کے توحید کا اظہار اب وحدت ِ مظہر کے اصول پر ہو چکا ہے ،تو یہ ختم ِ نبوت کی ایک عر فانی معنویت ہے ۔مثلاجو اگر ذرا صوفیانہ ذہن ہو یا تھوڑی آپ کی نظر اگر (Perennial philosophy) وغیرہ کی طرف ہو، تو اس حکمت کی افادیت سمجھ آئے گی۔وہ کہتے ہیں ناکہ ہر دین برحق ہے ،اس کے جواب میں یہ دلیل ہے ۔باقی اس کی ایک نفسیاتی ضرورت ہے کہ آدمی کو یہ احساس دلا دیا گیا ہے کہ اللہ تم پر اعتماد کرتا ہے ،تم اب بڑے ہو گئے ہو ۔

مطیع مشہدی: مجھےپچھلے کچھ ماہ سے سکھ مت کو پڑھنے کا موقع ملا ، میں نے دیکھا کہ ان کے ہاں توحید کا تصور بڑا خالص ہے اور قرآن میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرک کی بخشش نہیں کر ے گا، اس کے علاوہ جس کو چاہے بخش دے۔آپ ان کی توحید کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟

احمد جاوید صاحب:  سکھوں نے توحید مسلمانوں سے لی ہے ،وہی توحید ہے۔

مطیع مشہدی: گرو نانک صاحب ہر وقت قرآن اپنے ساتھ رکھتے اور مطالعہ کرتے تھے ،تو ایسالگتا ہے وہ اس سے بہت مثاثر ہوئے ہیں ۔

احمد جاوید صاحب:  جی ان کی توحید اسلامی توحید سے ملتی جلتی ہے ۔

مطیع مشہدی: تو پھر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگرچہ یہودیت اور عیسائیت نے توحید گہنا دی تھی،اس کے باجود انہیں اہلِ کتاب قرار دے کر ان کے لیے  Exceptional چیزیں رکھی گئیں ۔تو کیا آج علماء سکھ کمیونٹی کے لیے وہ استثنائی چیزیں رکھ سکتےہیں۔

احمد جاوید صاحب: نہیں ،کیوں کہ یہ ختم ِ نبوت کے خلاف ہے ۔گرو نانک کو چاہیے تھا کہ تم نے ساری توحید مسلمانوں سے لی ہے ،تو مسلمان کیوں نہیں ہوئے ،تو کیا شوق تھا کہ الگ مذہب بناؤ۔

مطیع مشہدی: لیکن پیغمبر ہونے کا دعویٰ تو انہوں نے نہیں کیا ۔

احمد جاوید صاحب: Prophet ہونے کی پوزیشن لے لی نا۔وہ ہندو اثر ہے ۔اب وہ اوتار ہے یعنی Prophet سے بھی بڑے۔

میاں انعام الرحمٰن: قرآن مجید کامطالعہ کریں تو ہر صفحے پہ اس کا جو بنیادی پیغام ہے وہ آخرت کے حوالے سے ہے۔میرے محدود سے مطالعے کے مطابق ۔یہ جو بنیادی میسج (Massage) ہے، اسے ہم اپنی معاشرت میں نہیں لا سکے۔اس کا کیا طریقہ کار ہو سکتاہےکہ دس فیصد پندرہ فیصد ،نظر تو آئے ۔

احمد جاوید صاحب:  اس کا ایک اصولی حل ہے، ایک اطلاقی ہے۔اصولی حل یہ ہےکہ خداتعالیٰ زندہ خدا ہے ،اس سے تعلق احساسات کی تصدیق کے ساتھ ہونا چاہئے ،وہ ہمارے ہاں نظام ِ تربیت کا حصہ نہیں رہ گیا ،خصوصا گھروں میں بلکہ مدارس میں بھی ۔دوسرا یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں کوئی چیک نہیں رکھا ۔آخرت کاجو سب سے زیادہ قطعی ایفکٹ (Effect)ہےنا جس کے لئے آخرت پر اتنی تاکید کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور یہاں کی چکاچوند تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے یعنی دنیا تمہاری محبوب نہ بن جائے ،کبھی جہنم کے ڈر سے محبو ب نہ بنے ،کبھی جنت کی کشش سے محبوب نہ بنے ۔وہ کام اب کرنا پڑے گا اب نظام ِ تربیت میں ۔آپ دیکھیں آپ کو کتنے لوگ ایسےملتے ہیں جنہیں مرنے کی جلدی ہو ،کہ کسی طرح جنت میں پہنچ جائیں ۔

میاں انعام الرحمٰن: یہی تو سوال ہے کہ ہماری جو سورس بک (Source Book)ہے قرآن مجید ، اس میں آخرت پر اتنا فوکس(Focus) ہے اور یہی ہمارے اندر نہیں ہے ،بلکہ پوری معاشرت میں نہیں ہے ،جو بہت زیاد ہ ہونی چاہئے ۔

احمد جاوید صاحب: اس میں یہ ہے کہ تعلیم ِ قرآن فالٹی(Faulty) ہے ۔ ہم قرآن کو مفہوم بنالینا کافی سمجھتے ہیں، قرآن کا تقاضا ہے کہ سنو ،سمجھو اور اپنے آپ کو اس پہ ڈھالو ،یعنی اس کی تاثیر لو ۔ہم نے قرآن کی تاثیر کے چینلز(Channels) نہیں ڈھونڈے۔قرآن کتابِ شعور بھی ہے، کتا بِ وجود بھی ہے ۔نہ ہم نے اس کے کتابِ شعور ہونے کا حق ادا کیا ،نہ کتاب ِ وجود ہونے کا ۔کتاب ِ وجود ہونے کامطلب اس کا ہر لفظ ہمارے لئے کلمہ ءِکن کی طرح ہے۔

میاں انعام الرحمٰن: مسئلہ شاید یہ ہوآج کے دور میں جیسے آپ نے پہلے فرمایا کہ ہر دور کا ایک خاص کنٹکس(Context) ہوتا ہے ،اس کے مطابق تعبیر کرنی پڑتی ہے ۔چار پانچ سو بر س سے ہم شاید کنٹکس نہیں سمجھ پائے ،اس کے مطابق تعبیر نہیں کر پائے تو جو ٹیکسٹ(Text) ہے، وہ تو as it isنافذ نہیں ہوگا ۔اس کی تاثیر بھی نظر نہیں آئے گی جو تعبیر کی صورت میں ہی نظر آئے گی۔ تعبیر کو عمل میں لانے کے لئے ہم جدید دور کے کنٹکس (Context)کو سمجھ نہیں پائے ۔شاید یہ وجہ ہو۔

احمد جاوید صاحب: ہم نے کنٹکس(Context) کو ہسٹوریکل (Historical)رکھا ، Religious نہیں بننے دیا۔ہم نے ہر کنٹکس کو افقی (Horizontal)  رکھا،  عمودی (Vertically) نہیں دیکھا ۔یہ غلامی کے اثرات ہیں ۔لیکن صحیح ہے کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے نا ،اب اس غلطی کو درست کرناہے تو اس میں طریقہ یہی ہے کہ ان دو تین تھیمز پہ توجہ کی جائے۔قرآن پہ کبھی رونا بھی چاہئے ،کبھی ہنستے ہوئے خوشی میں بے حالی کا تجربہ بھی ہونا چاہیے۔کبھی رونگٹے کھڑے ہونے چاہییں۔یہ سب ہمارے ہاں ہے ہی نہیں۔قرآن یا تو فرفر پڑھے جاتے ہیں یا اسکالر بن کر پڑھتے ہیں ۔

مطیع مشہدی : قرآن حکیم میں ہمارے ہاں جو مفسرین نظم پیدا کرتے ہیں،آیت کا دوسری آیت سے تعلق پیداکرتےہیں ،یا صوفیا کے ہاں جس طرح مفاہیم کشید کیے جاتے ہیں ،اگر یہ طریقہ اگر ہم "وید " پر اپنائیں گے تو وہ بھی منظم نظر آئے گی ،اس میں بھی ربط نکل آئے گا اور اس میں بھی جنتے مرضی معنی چاہیں نکالتے جائیں ۔پھر قرآن میں کیا خاص چیز ہے جو اسے وید سے Differentکرے گی۔اس طریقے سےتوہم ہر مذہب کی کتاب میں ربط بھی قائم کر دیں گے، اس کے اندر ایک نظم بھی نکال لیں گے ۔ایک فلسفیانہ ذہن کا آدمی وید کو پڑھے گا تو اس میں بھی وہ ایک نظام ِ فکر قائم کرلے گا ۔تو قرآن اور ان دیگر کتب میں کیسے فرق کریں گے ؟

احمد جاوید صاحب: بہت فرق ہے۔ پچھلے صحیفوں میں ،مطلب جنہیں ہم صحیفے مان کر بات کرتے ہیں ،وید یقینا َالہامی صحیفہ ہے،بہت فرق ہے ۔ایک تو ویدوں میں یا دیگر تمام صحائف میں خداکا تعارف پورا نہیں ہے۔دوسرا یہ کہ آخرت کا Thesisبہت ہی ابتدائی صورت میں ہے ۔یعنی ان کتابوں سے کوئی آخرت اساس ورلڈ ویو (World view)بنانا ممکن نہیں ہے ۔یہ قرآن کا امتیاز ہے جس نے ہمارے خدا کے بارے میں علم کو بھی مکمل کیا ،خدا سے تعلق کی تمام جہتوں کو بھی واضح کیا اور کائنات کی حقیقت اور غایت دونوں کا شعور بخشا،ورنہ وید توکہتے ہیں کہ یہ سب نظر کا دھوکہ ہے۔ تو اب اس میں انہوں نےجو نیچرل تضادات ہیں، اس کو Readہی نہیں کر پائے ۔مایا ہےتو کھانا کیوں کھاتے ہو ؟تم کیوں ہو ؟تمہارا نام کیوں ہے ؟من و تو کا پورا نظام کیا ہے؟اب اس کی ظاہر ہے، وہ فلسفیانہ توجیہات کردیں گے، لیکن ان توجیہات اور تشریحات کا کوئی اثر میری زندگی میں نہیں پڑتا۔تو قرآن نے میٹافیزیکل ایسنس (Metaphysical essence) کو ایپمیریکل (Empirical)کی حد تک یقینی بنایا ہے ۔قرآن کا نظام ِ عقائد ایمپیریکل تیقن کی قابلیت دیتا ہے جو پہلے کہیں بھی نہیں ہے ۔

میاں انعام الرحمٰن: اس کا سب سے بڑا مظہر سیرت الرسول ﷺ ہے۔

احمد جاوید صاحب: جی رسو ل اللہ ﷺ ۔اور وہ ہسٹاریکل ٹیکسٹ (Historical text) بھی ہے، ہسٹاریکل پروفٹ (Historical prophet)بھی۔ باقی کسی دین کا ٹیکسٹ ہسٹاریکل نہیں ہے اور پروفٹ ہسٹاریکل نہیں ہے، مطلب ہسٹاریکل تفصیل نہیں ہے ۔بہت سارے فر ق ہیں ۔ہاں یہ ٹھیک ہے کہ یہ جو ہم مختلف تھیریز(Theories) اپلائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن سے نکلی ہیں ،تو وہ ہم قرآن پر اپلائی کرتے ہیں، قرآن سے ڈرائیو (Drive)تھوڑا کرتے ہیں ۔

مطیع مشہدی: اگر ہم قرآن ِحکیم کا مطلوب فرد دیکھیں جو ایک مومن ہوتا ہے یعنی متقی ہو ، سچا ہو ، جھوٹ نہ بولتا ہو،وغیرہ وغیرہ،اس طرح کے بندے تو ہر مذہب میں مل جاتے ہیں ۔ایک سکھ بھی بہت متقی انسان ہو سکتا ہے ،ایک ہندو بھی متقی ہو سکتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہو ا کہ اسلام اپنے پورے نظام کی بدولت جو ایک فرد تیارکرنا چاہ رہا تھا ،وہ آدمی تو سکھ مذہب نے بھی تیار کرلیا ،اور ہندو مذہب نے بھی تیار کرلیا ۔یہا ں پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی خاصیت کیا رہ جاتی ہے ؟

احمد جاوید صاحب:  یہ بہت اچھا (سوال) ہے ۔ انسانی نفس کی ایک Hierarchy ہے ،جبلت ،طبیعت ، قلب اور شعور ۔تو اس کو ہم آسانی کے لیے کہہ دیتے ہیں اخلاق اور شعور ۔آدمی کو اپنے اخلاقی وجود کے تقاضے پورے کرنے کے لیے دین کی لازمی حاجت نہیں ہے ۔اخلاقیات فطری ہیں، یہ سب مظاہر اخلاق کے ہیں ۔انسان کی فطرت کی نمود کی حیثیت سے اللہ کو ماننے والوں میں بھی نظر آسکتے ہیں ،نہ ماننے والوں میں بھی نظر آسکتے ہیں۔تو اصل چیز یہ ہے کہ شعور میں کیا ہے ،شعور کا Content کیا ہے جو اختیار ی ہے ۔تو شعور میں اللہ اور خدا نہیں ہے تو اخلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،کیونکہ آپ نے اوپر کی منزل میں جن بھوت ٹھہرا رکھے ہیں ،نیچے فرشتے بسا رکھے ہیں ،تو اس سے کیا ہو گا۔

ڈاکٹرمحمد اکرم ورک: اس سے جو مغرب کا فلسفہ اخلاق ہے اور اسلام کا فلسفہ اخلاق ہے، ان میں جو بنیادی فرق ہے، وہ اسی تناظر میں دیکھیں گے؟

احمد جاوید صاحب: ظاہرہے۔مطلب میری ساری Definitions جوہیں، وہ اللہ کے بندے اور رسول اللہ ﷺ کے امتی کی حیثیت سے ہیں ۔میرے اخلاق بھی ،میرے ریفلیکسس (Reflexes)بھی ،حتی کہ میری Instinctive drives بھی۔

میاں انعام الرحمٰن: ہماری جو روایتی اصطلاح ہے، اس کے مطابق یوں سمجھ لیں کہ جو مغرب کے لوگ ہیں، وہ تکوینی ذریعے سے پہنچتے ہیں اور ہم تشریعی ذریعے سے پہنچتے ہیں۔منزل وہی ہے، لیکن ذریعہ کا بہت زیادہ فر ق ہے ۔

احمد جاوید صاحب: ایک آدمی میں اچھائی خودرو ہے ،ایک آدمی میں اچھائی جوابدہی کےتحت ہے ،خداسے تعلق کے تقاضے کے طور پر ہے ،دونوں میں فرق ہو گا نا۔

اس کے بعد ہم نے ان سے رخصت چاہی اور وہ دروازے تک چھوڑنے آئے۔علم وفکر کی گہرائی وگیرائی کو عجز و انکساری اور عملیت کے پیکر میں دیکھ کر رشک آرہاتھا اور اقبال کا یہ شعر ان کی شخصیت کے سامنے بے وقعت دکھائی دے رہاتھا۔

افکار کے نغمہ ہائے بے صوت 
ہیں ذوق ِعمل کے واسطے موت

خدا انہیں طویل صحت مند زندگی عطا فرمائے اور ان کے سر چشمہ ءِ فیض کو ہمیشہ جاری و ساری رکھے۔آمین

غیر مسلموں کی نئی عبادت گاہوں کی تعمیر

ڈاکٹر عرفان شہزاد

حجاز کو اللہ تعالی نے توحید کا مرکز بنا کر مقدس کیا، کعبہ خدائے واحدت کے گھر اور قبلے کے حیثیت سے تعمیر ہوا۔ وہاں جب شرک نے قبضہ کر لیا تو یہ قبضہ واگزار کرایا گیا اور مشرکانہ عبادت گاہوں اور آثار کو مٹا ڈالا گیا۔ حجاز کی یہ خصوصی حیثیت ہے کہ وہاں کوئی مشرکانہ عبادت گاہ قائم رہ سکتی ہے اور نہ تعمیر کی جا سکتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کعبہ کو بیت اللہ ہونے کی خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ نہ کعبہ کہیں اور تعمیر ہو سکتا ہے اور نہ حجاز جیسا  تقدس کسی اور زمین کو دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے صحابہ نے حجاز سے باہر کسی بت خانہ، کسی آتش کدہ کو نہیں گرایا اور نہ ایسی عبادت گاہوں کی نئی تعمیر کو روکا۔ البتہ اپنے مفتوحہ علاقوں میں جو  نئے شہر بسائے، اس کے مالکانہ حقوق کی بنا پر اگر چاہتے تو غیر مسلم عبادت گاہ کی نئی تعمیر سے منع کر سکتے تھے۔ اس کے باوجود کوئی غیر اسلامی معبد وہاں تعمیر ہوا یا نہیں، یہ تاریخی معلومات کا موضوع ہے جس پر تحقیق درکار ہے۔

دور جدید میں بین الاقوامی سطح پر اقوام کی ایک نئی تقسیم وجود میں آئی۔ جنگوں کےذریعے سے ممالک فتح کرنے کی صدیوں پرانی طاقت کی روایت کو قانون کی بیڑیاں پہنانے کی کوشش کی گئی اور طے پایا کہ جس قوم کے لیے جوسرحدیں مقرر کر دی جائیں، کوئی دوسری قوم اس پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ (اس تقسیم میں جہاں جہاں تنازعات رہ گئے، ان میں سے کئی حل ہو چکے اور چند ابھی تک محل نزاع ہیں)۔ یہ قومی ریاستیں کہلائیں جن کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ایک خاص جغرافیہ میں رہنے والے بلا امتیاز مذہب و نسل برابر کے شہری ہیں۔

 اس لحاظ سے قومی ریاست ہماری فقہ کے لیے ایک نیا مظہر ہے۔ پہلے وقتوں میں جو ممالک مسلمان فاتحین فتح کرتے، اس میں غیر مسلم محکوم سمجھے جاتے تھے۔ وہ جو جزیہ اور خراج ادا کرتے تھے، وہ مسلمانوں کی ملکیت قرار پاتا تھا۔ قومی ریاستوں میں یہ حیثیت بدل گئی ۔ چنانچہ جس طرح ایک غیر مسلم اکثریت میں رہنے والے مسلمان اپنے ہم قوم غیرمسلموں کے ساتھ برابر کے حقوق  کے حق دار قرار پائے، اسی طرح مسلم اکثریت میں رہنے والے غیر مسلم، اپنے ہم قوم مسلمانوں کے ساتھ برابر کے شہری قرار پائے۔ ان کے حقوق و فرائض میں کوئی فرق نہیں۔ سب پر یکساں طور پر ٹیکس کا نفاذ کیا جاتا اور بطور شہری ان کی شہری ضروریات ان سے پوری کی جاتی ہیں۔

چنانچہ کوئی قومی ریاست آئینی طور پر اس لیے مسلم ریاست نہیں بن جاتی کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ایسے ہی جیسے کوئی ریاست آئینی طور پر اس لیے مسیحی یا ہندو ریاست نہیں بن جاتی کہ وہاں مسیحیوں یا ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ درست ہے کہ قیام پاکستان کی سیاسی تحریک کے دوران میں اسلام کا نعرہ استعمال کیا گیا تھا، لیکن ملک کی تشکیل قومی ریاست کے اصول پر ہی ہوئی تھی، جس میں مسلم اور غیر مسلم برابر کے شہری  قرار دیے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نے جو ووٹ پاکستان کے نام پر لیا، اس میں غیر مسلم کا ووٹ بھی شامل تھا اور یہ ووٹ مسلم ووٹ کے برابر تھا۔ مسیحیوں نے اسی اصول پر مسلم لیگ کو ووٹ دیا تھا۔

پاکستان کا قومی خزانہ صرف مسلمانوں کے  پیسے سے جمع نہیں ہوتا،  اس میں غیر مسلم کا ٹیکس بھی برابری کے اصول پر شامل ہے نہ کہ جزیہ یا خراج کے نام پر محکومی کا ٹیکس۔ ٹیکس کی یہ رقم حاکم کی ملکیت نہیں، عوام کی ملکیت ہے اور حاکم اس کا مینیجر ہے۔ وہ اس میں مالکانہ تصرف نہیں کر سکتا۔ اسلام آباد سمیت کوئی شہر بھی اس وجہ سے مسلمانوں کا تعمیر کردہ شہر نہیں کہلائے گا کہ اس وقت اس کی منظوری دینے والی اتھارٹی مسلمان تھی۔ وہ ایک قومی ریاست کا سربراہ تھا اور جو پیسہ خرچ ہوا، وہ قومی خزانے کا پیسہ تھا جس میں بلا امتیاز سب کے ٹیکسوں کا پیسہ جمع تھا۔ اسی وجہ سے وزارت مذہبی امور صرف مسلم امور کو نہیں دیکھتی، سبھی مذاہب کی عبادت گاہوں کے بارے میں ایک ہی اصول پر عمل پیرا رہنے کی پابند ہے۔

ان بنیادوں پر قانونی پوزیشن یہ ہے کہ  کسی بھی کمیونٹی کو اپنی عبادت گاہ  بنانے کا حق آئینی طور پر حاصل ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہیں کی جا سکتی۔ ضرورت اور جواز کے ثبوت پر مسجد، مندر اور گردوارہ سمیت کسی بھی دوسری عبادت گاہ کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ جب تک قومی ریاست کا اصول آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے، غیر مسلم عبادت گاہوں کے بارے میں  اصولی پوزیشن یہی رہے گی۔ کعبہ اور حجاز کی تقدیس کے خصوصی احکام کا اطلاق بیرون حجاز نہ پہلے کبھی کیا گیا اور نہ اب کیا جا سکتا ہے۔

آئین میں صدر اور وزیر اعظم کے مسلم ہونے کی شرط اکثریت نے منظور کر لی ہے۔ اس استثنا کے علاوہ اور کوئی استثنا آئین میں مذکور نہیں۔ اس لیے مزید استثنا پیدا کرنے کا جواز بھی نہیں۔ یہ سب کنفیوژن پاکستان کے بارے میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے تصور کو قومی ریاست کے تصور سے گڈ مڈ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ آئینی طور پر پاکستان  تمام تر اسلامائزیشن کے باوجود اب تک ایک قومی ریاست ہے جس پر نہ حجاز کے خصوصی احکام لاگو ہوتے ہیں اور نہ گزشتہ دور  کے استبدادی ریاستوں کے فقہی احکام۔ جو علما قومی ریاست کے اس اصول کو تسلیم نہیں کرتے،  انھیں پہلے اس  آئینی صورت حال کو بدلنے کے لیے  کوشش کرنا ہوگی، اس کے بغیر مندر یا گرودوارے کی تعمیر اور سہولت کاری پر حرمت کے فتاوی بے محل رہیں گے۔


صحابہ کرام کے بارے مولانا مودودی کا اصولی موقف

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت  اور تجدید و احیائے دین کی بعض عبارتیں ایک مرتبہ پھر موضوع بحث بنی ہوئی ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر خاص ان عبارتوں کی بجائے اس پر بات کی جاتی  کہ اصولی طور پر مولانا مودودی کس جگہ غلطی پر ہیں ۔ اصولی چیزوں کے علاوہ تاریخی چیزوں میں بعض جگہ ان کی غلطی یا بددیانتی بھی اگر ثابت ہوجاتی ہے تو دیگر بہت سی جگہوں میں اسی قسم کی چیزیں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ۔

مولانا مودودی صحابہ کرام کو محترم اور مکرم مانتے ہیں۔ اپنی تفسیر میں بہت سی جگہوں پر شیعی نظریات  کا رد کرتے ہیں ۔ صحابہ کرام کے حوالے سے جس قدر فضائل و مناقب ہیں، ان سب کو تسلیم کرتے ہیں ۔ صحابہ معیار حق ہیں ، سبھی صحابہ عادل ہیں ، سبھی صحابہ قابل اتباع  ہیں، ایسی جس قدر بھی روایات ہیں، مولانا مودودی ان کو مجموعی طور پر سبھی صحابہ  کے لیے مانتے ہیں، تاہم  انفرادی طور پر کسی سے غلطی سرزد  ہوسکتی ہے لیکن اس کی  وجہ سے  ان کے رتبہ صحابیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ پھر   اس میں بھی جہاں ممکن ہو، تاویل کی جائے گی، لیکن جہاں تاویل ممکن نہ ہو تو غلطی کو بحیثیت غلطی تو نہیں ذکرکریں گے  یعنی صرف ان کی غلطیوں پر کلام کرنا تو درست نہیں ہوگا، تاہم کسی بحث کے دوران اگر اس غلطی کا ذکر آجاتا ہے تو اس کو ہم غلطی  ہی کہیں گے ، یعنی صحیح اور غلط کے جو طے شدہ معیارات ہیں، ان سے نہیں ہٹیں گے ۔

صحابہ کرام کی عظمت اور احترام کے بارے مولانا کی بعض عبارات ملاحظہ ہوں :

"بلاشبہ ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ کے تمام صحابہ واجب الاحترام ہیں اور بڑا ظلم کرتا ہے وہ شخص جو ان کی کسی غلطی کی وجہ سے ان کی ساری خدمات پر پانی پھیر دیتاہے ۔ اور ان کے مرتبے کو  بھول کر گالیاں دینے پر اتر آتاہے"۔ (خلافت و ملوکیت ص 143،44)

"صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہنے والا میرے نزدیک صرف فاسق ہی نہیں بلکہ اسکا ایمان بھی مشتبہ ہے. من ابغضھم فببغضی ابغضھم"۔ (ترجمان القرآن ، اگست 1961)

"وہ  ایک دوسرے پر تلوار اٹھا کر رُحَمَاء بَيْنَھُمْ ہی رہتے تھے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی قدر، عزت، محبت، اسلامی حقوق کی مراعات، اس شدید خانہ جنگی کی حالت میں بھی جوں کی توں برقرار رہی۔ اس میں یک سر مو فرق نہ آیا۔ بعد کے لوگ کسی کے حامی بن کر ان میں سے کسی کو گالیاں دیں تو یہ ان کی اپنی بدتمیزی ہے، مگر وہ لوگ آپس کی عداوت میں نہیں لڑے تھے اور لڑ کر ایک دوسرے کے دشمن نہ ہوئے تھے " ۔(ترجمان القرآن ،نومبر 1957)

مولانا مودودی پر سب سے بڑا الزام حضرت امیر معاویہ اور حضرت عثمان کی توہین کا عائد کیا جاتا ہے۔ حضرت امیر معاویہ کے بارے میں لکھتے ہیں :

"حضرت معاویہ کے محامد و مناقب اپنی جگہ پر ہیں ۔ ان کا شرف صحابیت بھی واجب الاحترام ہے ۔ ان کی یہ خدمت بھی ناقابل انکار ہے کہ انہوں نے پھر سے دنیائے اسلام کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا اور دنیا ئے اسلام میں اسلام کے غلبے کا دائرہ پہلے سے زیادہ وسیع کردیا ۔ ان پر جو شخص لعن طعن کرتاہے وہ بلاشبہ زیادتی کرتاہے لیکن ان کے غلط کام کو تو غلط کہنا ہی ہوگا ۔ اسے صحیح کہنے کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم  اپنے صحیح و غلط کے معیار کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔" (خلافت و ملوکیت ، 155)

صحابہ کرام کے بہت سے فیصلوں خاص طور پر حضرت امیر معاویہ کے فیصلوں کو اجتہادی قرار دیتے ہوئے ان کے لئے گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔ مولانا اس کو تسلیم نہیں کرتے ہیں بلکہ صحیح و غلط کے جو معیارات ہیں ان کی روشنی میں ہی ان کو دیکھا جائے گا ، لیکن کہیں بھی مولانا توہین پر نہیں اترتے ہیں بلکہ بار بار یہ بات کہتے ہیں کہ اس خاص واقعہ یا خاص بات کے غلط ہونے کے علاوہ ان کی شخصیت کے فضائل و مناقب اسی طرح رہیں گے ۔

"یہ بھی کچھ کم زیادتی نہیں ہے کہ اگر ان "صحابہ کرام " میں سے کسی نے کوئی غلط کام کیا ہو تو ہم محض صحابیت کی رعایت سے اس کو اجتہاد قراردینے کی کوشش کریں ۔ بڑے لوگوں کے غلط کام اگر ان کی بڑائی کے سبب سے اجتہاد بن جائیں تو بعد کے لوگوں کو ہم کیا کہہ کر ایسے اجتہادات سے روک سکتے ہیں ۔ ۔۔۔۔ کوئی غلط کام محض شرف صحابیت کی وجہ سے مشرف نہیں ہوجاتا بلکہ صحابی کے مرتبہ بلند کی وجہ سے وہ غلطی اور زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے ۔ لیکن اس پر رائے زنی کرنے والے کو لازما یہ احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے کہ غلط کو صرف غلط سمجھنے اور کہنے پر اکتفاء کرے ۔ اس سے آگے بڑھ کر صحابی کی ذات کو بحیثیت مجموعی مطعون نہ کرنے لگے ۔ حضرت عمرو بن عاص یقینا بڑے مرتبے کے بزرگ ہیں اور انہوں نے اسلام کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں ۔ البتہ ان سے یہ دو کام "قرآن کوبلند کرنا ، تحکیم میں بات بدل دینا " ایسے سرزد ہوگئے ہیں جنہیں غلط کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے  ۔" (خلافت و ملوکیت ،  143، 144)

 حضرت عمرو بن عاص کے اس فعل کو اجتہادی غلطی کیسے قرار دیا جاسکتاہے ؟ حضرات صحابہ کرام سے جو غلطیاں سر زد ہوئیں  خاص طور پر باہمی جنگوں کے معاملات میں، وہ اجتہادی تھیں یا  نہیں ؟ مولانا مودودی اپنے اجتہاد سے ان کو غیر اجتہادی غلطی ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ یہ غلطیاں اجتہادی تھیں یا نہیں  ؟ حضرات صحابہ کرام کے پاک پیغمبر کی صحبت کی  برکت ، ان کی عظمت ،  اور قرآن و حدیث میں مذکور ان کے  فضائل اور خدمات   کو مدنظر رکھتے ہوئے محتاط یہی ہے کہ ان کو اجتہادی غلطی قرار دیا جائے ۔ لیکن کیا صحابہ کرام سے سرزد ہونے والی ہر غلطی اجتہادی تھی ؟ قرآن کریم نے بہت سی جگہوں پر صحابہ کرام کو تنبیہ کی ہے ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے دور میں مختلف لوگوں کو سزائیں بھی ہوئیں ۔ وہ ایک بہترین سماج  ، رسول اللہ کی صحبت اور تربیت کے زیر اثر رہے لیکن اس معاشرے میں ہر طرح کے انسان تھےان سے کوئی سرزد ہونے والی ہر غلطی کو اجتہادی قرار دینا اس دور ، تاریخ اور نصوص کا درست مطالعہ نہیں ہے ۔

اجتہادی غلطی کی تعریف کیاہے، اس کو ذکرکرکے مولانا بتاتے ہیں  کہ حضرت علی کے خلاف جنگ کو اجتہادی غلطی نہیں قرار دیا جاسکتا ۔

"اجتہادی غلطی کے لئے شریعت میں کوئی گنجائش ہوتی ہے اور اجتہادی غلطی وہ رائے ہوتی ہے جس کے حق میں کوئی نہ کوئی شرعی استدلال تو ہو مگر وہ صحیح نہ ہو یا بے حد کمزور ہو ۔ حضرت علی کے خلاف تلوار اٹھانے کے جوا ز کی کوئی کمزور سے کمزور گنجائش بھی شریعت میں اگر تھی تو وہ کیا تھی ؟ ان کے ایسے افعال محض غلطی تھی ان کو اجتہادی غلطی قرار دینے کی کوئی گنجائش نہیں ۔" (خلافت و ملوکیت ، ص 344)

صحابہ کرام کی صرف غلطیوں کو موضوع بحث بنانے کو مولانا مودودی بالکل درست نہیں سمجھتے ہیں۔ اس بارے ان کا اصولی موقف بہت اچھا ہے  :

"ایسے واقعات جن میں صحابہ کی غلطیوں کا بیان ہے جیسا کہ ماعز کے زنا کا واقعہ ہے محض مشغلہ کے طور پر بیان کرنا تو یقینا بہت برا ہے ، لیکن جہاں فی الواقع بیان کرنے کی ضرورت پڑے وہاں بھی اجتناب کرنا چاہیے ۔ بیان کرنے میں بات کو صرف بیان واقعہ تک محدود رکھا جائے اور کسی صحابی کی تنقیص نہ ہونے پائے" ۔(خلافت و ملوکیت ،  305)

اگر کسی صحابی کی طرف کسی ایسے کام کی نسبت کی جاتی ہے جو درست نہ ہو تو اس میں حتی الامکان تاویل کی جائے گی لیکن اس کا یہ مطلب کہ نہیں کہ ان سے غلطیاں سرزد نہیں ہوسکتیں ، اور غلطیاں سرزد ہونے کا یہ مطلب نہیں جیسا کہ روافض کہتے ہیں کہ ان کی تمام تر بزرگی اور فضائل جاتے رہے ۔ مولانا کی مودودی کی عبارت ملاحظہ ہو :

"میرے نزدیک ایک غیر نبی بزرگ کا کوئی کام غلط بھی ہوسکتاہے اور اس کے باوجود  وہ بزرگ بھی رہ سکتا ہے ۔ میں  کسی بزرگ کے کسی کام کو غلط صرف اسی وقت کہتا ہوں جب وہ قابل اعتماد ذرائع سے ثابت ہو اور کسی معقول دلیل سے اس کی تاویل نہ کی جاسکتی ہو ۔ اس غلطی کی حدتک تنقید کو محدود رکھتا ہوں ، اس غلطی کی وجہ سے میری نگاہ میں نہ ان بزرگ کی  بزرگی میں کوئی فرق آتا ہے نہ ان کے احترام میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے ۔

صحابہ بھی ایک انسانی معاشرہ تھا ان میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے تھے اور فی الواقع تھے جن کے اندر تزکیہ نفس کی اس بہترین تربیت کے باوجود کسی نہ کسی پہلو میں کوئی کمزور باقی رہ گئی تھی ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اور یہ صحابہ کرام کے ادب کا کوئی لازمی تقاضا بھی نہیں ہے کہ اس کا  انکار کیا جائے۔ تمام بزرگان دین کے معاملہ میں عموما اور صحابہ کرام کے معاملہ میں خصوصا میرا طرز عمل یہ ہے کہ جہاں تک کسی معقول تاویل سے یا کسی معتبر روایت کی مدد سے ان کے کسی قول یا عمل کی صحیح تعبیر ممکن ہو اسی کو اختیار کیاجائے اور اس کو غلط قراردینے کی جسارت اس وقت تک نہ کی جائے جب تک کہ اس کے سوا چارہ نہ رہے ۔ لیکن دوسری طرف میرے نزدیک معقول تاویل کی حدوں سے تجاوز کرکے اور لیپ پوت کرکے غلطی کو چھپانا یا غلط کو صحیح بنانے کی کوشش کرنا نہ صرف انصاف اور علمی تحقیق کے خلاف ہے بلکہ میں اسے نقصان دہ بھی سمجھتا ہوں  کیونکہ اس طرح کی کمزور وکالت کسی کو مطمئن نہیں کرسکتی اور اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ صحابہ اور دوسرے بزرگوں کی اصلی خوبیوں کے بارے میں جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ بھی مشکوک ہوجا تاہے ۔ غلطیاں بڑے سے بڑے انسانوں سے بھی ہوجاتی ہیں اور ان سے ان کی بڑائی میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ ان کا مرتبہ ان کے عظیم کارناموں کی بنا پر متعین ہوتاہے نہ کہ ان کی کسی ایک یا دو چار غلطیوں کی بناء پر ۔" (خلافت و ملوکیت ،  308)

محدثین کا ایک اصول ہے الصحابۃ کلہم عدول ، مولانا اس میں تاویل کرتے ہیں :

"میں الصحابۃ کلہم عدول کا مطلب یہ لیتا کہ تما م صحابہ بے خطا تھے اور ان میں ہر ایک ہر قسم کی بشری کمزوریوں سے بالاتر تھا اور ان میں سے کسی نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی ہے بلکہ میں اس کا مطلب یہ لیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنے یا آپ کی طرف کوئی بات منسوب کرنے میں کسی صحابی نے کبھی راستی سے ہرگز تجاوز نہیں کیا ہے۔" (خلافت و ملوکیت ، ص 303 )

حضرت عثمان کے بارے مولانا کی  جس قدر عبارات ہیں ان پر بحث ہوسکتی لیکن ان کا اصولی موقف ملاحظہ ہو۔ حضرت عثمان کی پالیسیوں کے بارے بات چیت انتہائی محتاط انداز میں کرتے ہیں ، جس میں توہین یا تنقید کا دور تک بھی اندیشہ نہیں پڑتاہےاور الفاظ کا چناؤ بھی بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں  :

"حضرت عثمان کی پالیسیاں بلحاظ تدبیر نا مناسب تھی اور عملا سخت نقصان دہ ثابت ہوئیں ۔ ، جائز ناجائز ایک الگ معاملہ ہے لیکن سیاسی تدبیر کے لحاظ سے کسی چیز کا نامناسب ہونا ایک الگ معاملہ ہے حضرت امیر معاویہ کو ایک صوبے کی گورنری دینا  سیاسی  تدبیر کے لحاظ سے نامناسب ضرور تھا ۔" (خلافت و ملوکیت ، 322تا    325)

مولانا مودودی کی ایک عبارت پر اعتراض کیاگیا اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں  :

" دوسری طرف حضرت عثمان جن پر اس کار عظیم کا بار رکھا گیا ، ان تمام خصوصیات کے حامل نہ تھے جو ان کے جلیل القدر پیش روؤں کو عطاء ہوئی تھیں ۔ اس لئے ان کے زمانہ خلافت میں جاہلیت کو اسلامی نظام اجتماعی کے اندر گھس آنے کا موقع مل گیا  ۔ بعض مفتیان کرام نے اس فقرے سے حضرت عثمان کی توہین کا پہلو نکالا ہے ۔ حالانکہ میرا مدعا صرف یہ ہے کہ حضرت عثمان میں بعض اوصاف حکمرانی کی کمی تھی جو سیدنا ابو بکر صدیق اور سید عمر میں بدرجہ کمال پائے جاتے تھے ۔ یہ تاریخ کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں تاریخ کے طالب علم مختلف رائیں ظاہر کرسکتے ہیں ۔ یہ کوئی فقہ و کلام کا  مسئلہ نہیں ہے کہ دار الافتاؤں سے اس کے متعلق کوئی رائے بصورت فتویٰ صادر کی جائے " ۔  (تجدید و احیائے دین ، 28 )

 مولانا یہاں  کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے جس میں مختلف رائیں ہوسکتی ہیں لیکن حضرت علی  کے خلاف جنگ میں حضرت امیر معاویہ کو غلطی پر ٹھہرانا ضروری سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بھی خالص ایک تاریخی معاملہ ہے جس میں فریقین کے پاس بنیادیں موجود تھیں ۔ کسی تاریخی مسئلے پر اگر مولانا مودودی فتویٰ لگائیں تو ان پر فتویٰ کیوں نہیں لگایا جاسکتا ؟ اور پھر وہ حضرت علی کے فعل کی تاویل کرسکتے ہیں تو دیگر صحابہ کے بارے ایسا کیوں نہیں کرتے ؟

صحابہ کی باہمی جنگوں میں مولانا حضرت علی کے مقابلے میں  عموما حضرت امیر معاویہ کو غلطی پر ٹھہراتے ہیں تاہم تاریخی ریکارڈ کی بنا پر وہ کہیں حضرت علی کو بھی غلطی پر کہتے ہیں ۔

"جنگ جمل کے بعد حضرت علی نے قاتلین عثمان کے بارے اپنا رویہ بدل دیا ۔ جنگ جمل تک وہ ان لوگوں سے بیزار تھے ، بادل نخواستہ ان کو برداشت کررہے تھے ، اور ان پر گرفت کرنے کے لئے موقع کے منتظر تھے ۔ مالک بن اشتر اور محمد بن ابی کو گورنری کے عہدے دیے ۔ حضرت علی کے پورے زمانہ خلافت میں ہم کو صرف یہی ایک کام ایسا نظر آتا ہے جس کو غلط کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔" (خلافت و ملوکیت ، 146)

حضرت علی مجبور ہوگئے جب صحابہ کرام ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے کہ جس گروہ سے بھی ہوسکے مددلیں اور قاتلین عثمان سے لڑائی نہ چھیڑیں ۔(خلافت و ملوکیت ،  323)

اگر چہ اس معاملے میں بھی وہ حضرت علی کو سپیس دینے کی طرف مائل ہیں  ، ملاعلی قاری کی ایک عبارت ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں  کہ قاتلین عثمان  باغی تھے اور ان کے پاس قوت تھی اور وہ اپنے فعل کے جواز کی تاویل کررہے تھے  اس قسم کے باغی اگر اطاعت کی طرف آجائیں تو جو کچھ انہوں نے نقصان کیا ہو اس پر مواخذہ نہیں ہوگا ، اور جن فقہاءکی رائے ہے کہ ان کا مواخذہ واجب ہے وہ اس وقت ہے جب ان کازور ٹوٹ جائے ۔ (خلافت و ملوکیت  ص ،)342۔  حضرت عثمان کے قاتلین کے بارے میں یہ سپیس اور رویہ اور حضرت امیر معاویہ جن کےساتھ بڑے بڑے صحابہ کھڑے تھے ان کے فعل میں کسی قسم کی تاویل کرکے اس کو اجتہاد غلطی نہیں کہا جاسکتا ؟  مولانا  کی فکر میں یہ تضاد موجودہے ۔

مولانا کی مجموعی فکر کی روشنی میں بھی اس مسئلہ کو دیکھنا ضروری ہے ۔ مولانا خلافت اور اسلامی ریاست کے داعی تھے اور اس کے لئے خلفاء راشدین کے دور کو آئیڈیل قرار دیتے  ہیں ۔ اس دوران یا اس کے بعد دور کی تبدیلیوں کے زیر اثر جو کچھ ہوا، اس کو اپنے خالص اسلامی نکتہ نظر کے منافی سمجھتے ہیں ۔ مولانا کی کتابوں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ مولانا صرف کسی خاص حکومت مثلا بنو امیہ کی بات نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے بعد بھی جتنی حکومتیں قائم ہوئیں، ان کے بارےیہی نقطہ نظر رکھتے ہیں کہ درحقیقت وہ اسلامی نہیں تھیں  ، ان  کو برداشت تو کیا جاسکتا تھا لیکن ان کو قبول نہیں کیا جاسکتا تھا، ان کا خاتمہ ہر حال میں ضروری تھا ، اور آج بھی مسلم یا غیر مسلم جتنی بھی حکومتیں ان سب کے بارے مولانا مودودی کی رائے یہی ہے ۔ یہ مسئلہ صرف مولانا مودودی کا نہیں ہے بلکہ اسی مخمصے میں بہت سے اسلامسٹ  مبتلا ہیں  ۔ آئیڈیلزم اور خالص اسلام کے نعرے تلے وہ دور  کے تحت ہونے والی فطری اور ضروری تبدیلیوں کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں اوراپنے ذہن کے تحت پوری تاریخ حتی کے مقدس شخصیات جن کا اجتہاد ایک معتبر مقام رکھتا ہے، اس کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں ۔

مولانا مودودی جس کو ملوکیت قرار دے کر منفی تصور قائم کرتے  ہیں اور بعض ضعیف روایات کی روشنی میں اپنے اس تصور کو تقویت دیتے ہیں، اس میں اکیلے حضرت امیر معاویہ ہی شریک نہ تھے بلکہ اس دور کے اہل حل و عقد کی اکثریت نے اس کو قبول کرلیا تھا ۔ مابعد کے ادوار میں شخصیات کی غلط پالیسیوں اور ناجائز اقدامات کی بناء پر حکومتوں کے خلاف خروج اور بغاوتیں بھی ہوئیں تاہم صرف ملوکیت کی بناء پر  ہر حکومت کا تختہ الٹنا ضروری تھا اور اس حکومت کو ختم کرنا کوئی شرعی اور دینی امر تھا روایت میں ایسا تصور نہیں ہے بلکہ علماء ، فقہاء ، اھل حل وعقد ان حکومتوں کے ساتھ رہے اور  اسلامی احکامات پر عمل انہی حکومتوں کے زیر اثر ہوتار ہا ہے۔ علماء و فقہاء ان حکومتوں کے زیر اثر کام کرتے رہے ہیں ۔

 مولانا موودی پر اس حوالے سے یہ بڑا اعتراض رہا ہے کہ اگر پاک پیغمبر کے براہ راست تربیت یافتہ لوگ حکومت الہیہ کو محض پندرہ سال کے بعد ٹھیک طرح نہ چلا سکے اور تیس سال کے بعد وہ ایسی حالت میں رہی کہ  ہردم اس کا خاتمہ شرعی و دینی امر تھا تو آج حکومت الہیہ کو قائم کرنے والے لوگ کہاں  سے نازل ہوں گے ؟ مولانا مودودی اس  سوال  کا جواب اس طرح دیتے ہیں کہ شخصیات کی بجائے ہمیں اصولوں کی طرف دیکھنا ہے جو کسی حالت میں بھی غلط قرار نہیں پاتے ہیں ۔ لیکن اعتراض وہیں کا وہیں رہتا ہے کہ حکومت الہیہ  اور ان اصولوں کو چلانے کے  لئے خدائی فوج کہاں سے نازل ہوگی ؟ اس کا کسی دور کے ساتھ کوئی تعلق  ہوگا کہ نہیں ؟ 

حقیقت تو یہ ہے کہ دور  کے زیر اثر  ہونے والی تبدیلیوں کومولانا مودودی نے بھی تسلیم کیا ہے ۔ آج اگر مولانا جمہوریت کو قبول کررہے ہیں تو ملوکیت جمہوریت سے بری تو نہیں تھی ۔ اسی طرح ایک خالص اسلامی حکومت کے تصورات میں مولانا بہت کچھ تبدیلی کرتے ہیں جیسا کہ ہم ایک مضمون میں اس کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اگر مولانا خود کو مجبور پاتے ہیں اور اسلامی نظام کی بنیاد بننے والی جماعت کو جب تک اکثریت میں نہ آجائے، اسی نظام کے زیر اثر چلنے کی ہدایت کرتے ہیں  اور اپنی اکثریت پیدا کرکے  اسلام نافذکرنے کی بات کرتے ہیں جو کہ ایک خالص جمہوری تصور ہےتو پھر  ملوکیت بھی ان کے نزدیک قابل اعتراض نہیں رہنی چاہیے تھی ۔ ملوکیت ، جمہوریت یا خلافت کسی بھی نام کے تحت واقع حکومت کو اس کے قانون اور طریقہ حکومت سے  ہی جانچنا چاہیے ۔


ستمبر ۲۰۲۰ء

شناخت کابحران اور پرتشدد مذہبی رویےمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۸)ڈاکٹر محی الدین غازی
دعوت ِ دین کا متبادل بیانیہپروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک
یہود ونصاری ٰ کے ساتھ تعلقات اور اسرائیل کی حیثیتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلامسٹ کیسے اسلام کو منہدم کر رہے ہیں؟مصطفٰی اکیول
تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ:ایک جائزہڈاکٹر محمد شہباز منج
’’خلطِ مبحث‘‘ کی مصنوعی افزائشڈاکٹر اختر حسین عزمی

شناخت کابحران اور پرتشدد مذہبی رویے

محمد عمار خان ناصر

پشاور  میں بھری عدالت میں  ایک مدعی نبوت کے قتل  جیسے واقعات پر مذمتی بیانات اور شریعت وقانون کے حدود کی مکرر وضاحت سے بات کچھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ انفرادی واقعات نہیں ہیں اور نہ انھیں، آخری تجزیے میں، بعض ’’افراد “ کے رویے سمجھنا درست ہے، کیونکہ تشخیص ہی ناقص ہو تو تجویز کا ناقص ہونا ناگزیر ہے۔ یہ شناخت کے اس بحران کی علامات ہیں جس سے جنوبی ایشیائی اسلام پچھلے دو سو سال سے دوچار ہے۔ اس پورے عرصے میں مذہبی یا غیر مذہبی سیاسی شناخت کی تشکیل کا عمل ہمارے ہاں بنیادی طور پر مثبت اصولوں پر نہیں، بلکہ منفی اصولوں پر ہوا ہے جس میں بنیادی محنت کسی ’’دوسرے “ کو اپنی شناخت کے لیے خطرہ قرار دینے اور پھر اس کے خلاف تن من دھن کی بازی لگا دینے کا جذبہ پیدا کرنے پر کی گئی ہے۔

تحفظ شناخت کی اس سیاست کی ابتدا استعماری دور سے پہلے اہل تشیع کی تکفیر کی صورت میں ہو چکی تھی جس میں حضرت مجدد رحمہ اللہ جیسی بلند قامت شخصیت نمایاں تھی۔ استعماری دور میں شناخت کے تحفظ کا یہی اصول بریلوی علماء نے باقی تمام گروہوں اور خاص طور پر دیوبندی علماء کے خلاف استعمال کیا۔ نیچریوں، قادیانیوں اور منکرین حدیث وغیرہ کے ظہور نے تمام روایتی مذہبی گروہوں کے لیے شناخت کے تحفظ کے لیے کچھ مزید ’’اہداف “ کا اضافہ کر دیا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں سیاسی شناخت کے تحفظ کے لیے مسلم لیگ نے بھی بتدریج اسی طرز کو اختیار کیا اور مکمل کامیابی حاصل کی۔ اس کی تشکیل کردہ شناخت اپنے تمام تر لوازم کے ساتھ آج بھی پاکستان کی قومی ریاست کا اثاثہ ہے۔

استعماری دور میں مختلف مذہبی شناختوں کے لیے ایک دوسرے سے بھڑنا استعماری طاقت کی موجودگی کی وجہ سے ممکن نہیں تھا، لیکن حصول وطن کے بعد اس میں یہ رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ چنانچہ مختلف مراحل پر پہلے قادیانی، پھر انقلاب ایران کے پس منظر میں شیعہ، پھر سلمان رشدی کے واقعے کے تناظر میں مقامی مسیحی آبادی، پھر سیکولرزم کے نمائندے، اور آخرکار خود ریاست اور ریاستی ادارے اس کا نشانہ بنے۔  توہین مذہب کے الزام نے ایک مذہبی ہتھیار کی صورت اختیار کر لی ہے جس سے لگتا نہیں کہ کوئی طبقہ بچ پائے گا، یہاں تک کہ خود  ناموس رسالت کے محافظ اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ blasphemy hunting کا ایک  ہیجان ہے جو معاشرے میں برپا کر دیا گیا  ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سلمان رشدی اور اس جیسے بدبختوں کا انتقام مذہبی جنونی خود  اپنے ہی معاشرے سے لینا چاہ رہے ہیں۔ دشمنان اسلام کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی مہم کے جواب میں قرآن نے صبر وتقوی کی جو تعلیم دی تھی، نہ وہ ہماری توجہ کی حقدار رہی ہے اور نہ رسول اکرم کا یہ اسوہ یاد رہ گیا ہے کہ آداب مسجد سے ناواقف کوئی بدو مسجد میں پیشاب کے لیے بیٹھ جائے تو اسے ڈانٹ ڈپٹ تک نہ کی جائے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ  معاشرے کی موجودہ کیفیت واقعی ایمانی جذبات کا مظہر ہے یا کوئی اجتماعی نفسیاتی عارضہ ہمیں لاحق ہو گیا ہے۔

پہلے وقتا فوقتا اور اب زیادہ تیز رفتاری  سے رونما ہونے والے مختلف انفرادی واقعات کا بنیادی سیاق شناخت اور اس کے تحفظ کی یہی کشمکش ہے۔ ان کی کوئی اور تفہیم اس کے علاوہ ممکن نہیں۔ ان میں  عملی اقدام کرنے  والے افراد صرف ایک آلہ  ہیں اور ان کی شخصی سوچ یا حالات کا دخل اس میں محض ضمنی اور ثانوی ہے۔ یہ سوچ ان کی اپنی وضع کردہ نہیں ہے، انھیں ان مختلف شناختی بیانیوں سے ملی ہے جو ماحول میں موجود ہیں۔ شناخت کے مسئلے کو اس کے تاریخی سیاق میں موضوع بنائے بغیر ان واقعات کی کوئی تفہیم اور اصلاح کی کوئی تجویز قطعا بے معنی ہے۔


مختلف مذہبی عنوانات کے تحت تشدد کا ظہور، جیسا کہ عرض کیا گیا، کوئی نئی پیدا ہونے والی بیماری نہیں، بلکہ استعماری دور میں جنم لینے والے شناخت کے بحران کا تسلسل اور بدلتے ہوئے حالات میں اس عدم تحفظ کے احساس کا اظہار ہے جو مختلف مذہبی شناختوں کے ہاں پایا جاتا ہے اور تخفیف کے بعض ظاہری اشاریوں کے برخلاف، معاشرے میں مذہب کے سکڑتے ہوئےاثر ورسوخ کے پیش نظر درحقیقت شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں دو عمل بیک وقت ہو رہے ہیں اور الگ الگ زاویوں سے اس عمل کو دیکھنے سے بظاہر دو متضاد تعبیرات کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ مذہبی شناختیں بالکل درست طور پر محسوس کرتی ہیں کہ وہ خطرے میں ہیں اور سیکولرائزیشن کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے رد عمل میں مذہبی بیانیوں میں خوف اور عدم تحفظ کا اظہار بلند آہنگ ہو جاتا ہے اور اس سے تشدد کا ذہنی رویہ پیدا ہوتا ہے جسے ، ظاہری شکل میں اور مرتبہ نتائج کے حوالے سے قبول نہ کرنے کے باوجود، مذہبی بیانیے کسی نہ کسی صورت میں جواز بھی مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جیسا کہ ہم سلمان تاثیر، مشال خان اور اس طرح کے دیگر واقعات میں مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ اب اس رد عمل کو اور اس کی شدت کو جب سیکولر حلقے دیکھتے ہیں تو انھیں لگتا ہے کہ یہ تو معاشرے پر مذہبی طبقوں کی گرفت زیادہ مضبوط ہو رہی ہے اور معاشرہ مذہبی شدت پسندی کا یرغمال بنتا جا رہا ہے۔

اس ساری صورت حال میں ریاستی طاقت بھی ایک کھلاڑی بن جاتی ہے۔ وہ ایک طرف مذہبی شناختوں کے ساتھ معاملہ کر کے انھیں استعمال  کرتی ہے، ان کے ذریعے سے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتی ہے، اور بقدر ضرورت انھیں اوپر چڑھا کر بوقت ضرورت انھیں اٹھا کر پٹخ بھی دیتی ہے، جیسا کہ ہم جہادی تنظیموں، سپاہ صحابہ اور تحریک لبیک وغیرہ کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ قطع تعلق کسی حال میں نہیں کرتی، بلکہ ایک دروازہ بند کر کے کوئی دوسرا دروازہ کھول لیتی ہے تاکہ مذہبی شناختوں میں عدم تحفظ یا لاوارثی کا احساس اتنا سنگین نہ ہو جائے کہ خود ریاست کے لیے خطرہ بن جائے۔ اس سارے عمل میں ریاست بتدریج ایک اور مقصد بھی حاصل کرتی جا رہی ہے، یعنی مذہبی اور مذہبی اظہارات پر مکمل ریاستی کنٹرول قائم کرنے کی طرف پیش قدمی۔ مذہبی شناختیں اپنے بھولے پن کی وجہ سے بعض چیزوں میں ریاست کو ’’دباو “ قبول کرتا ہوا دیکھ کر سمجھتی ہیں کہ وہ پیش قدمی کر رہی ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ مذہب کے دائرے میں ریاست کے دخل کو جواز دینے میں نہ صرف آلہ کار کا کردار ادا کر رہی ہیں، بلکہ خود دعوت دے کر ریاست کو مذہب میں دخیل بنا رہی ہیں۔ اس سارے کھیل کا آخری نتیجہ مذہب اور مذہبی ڈسکورس کے مکمل طور پر سیکولرائزڈ ہو جانے کی صورت میں نکلنا نوشتہ دیوار ہے، اور یہی وہ نکتہ ہے جس کا فہم عام جذباتی مذہبی ذہن تو کیا، مذہبی لیڈر شپ کو بھی حاصل ہونا قطعی طور پر مشکوک ہے۔

جنوبی ایشیائی اسلام کو اور خاص طور پر مذہبی گروہوں کو تاریخ اور نئے سیاسی ومعاشرتی حقائق کی ایک نئی اور معروضی تفہیم کی ضرورت ہے جس میں مختلف مذہبی شناختوں کی بقائے باہمی کو شعوری طور پر، نہ کہ صرف حالات کے جبر کے طور پر، قابل قبول بنایا جا سکے۔ یہ مذہب کے معاشرتی کردار کو باقی رکھنے اور اسے مکمل ریاستی کنٹرول سے بچانے کی واحد ممکن ضمانت ہے۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(214)  زاد کے ایک خاص اسلوب کا ترجمہ

زاد کا ایک خاص اسلوب یہ ہے کہ اس کا مفعول آتا ہے اور اس کے بعد تمیز مذکور ہوتی ہے، زاد کا مطلب اضافہ کرنا ہوتا ہے مگر اس اسلوب میں زاد کے مفعول بہ میں اضافہ کرنا مراد نہیں ہوتا ہے بلکہ تمیز میں اضافہ کرنا مراد ہوتا ہے۔

جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے زادہ اللہ علما ومالا، تو اس کا مطلب اس فرد کی ذات میں کوئی اضافہ یا ترقی نہیں بلکہ اس کے علم اور مال میں اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی اللہ اس کے علم اور مال میں اضافہ کرے، نہ کہ خود اس شخص میں اضافہ کرے، اگرچہ زاد کا مفعول بہ وہ شخص ہوتا ہے، لیکن اس سے مراد اس چیز میں اضافہ ہوتا ہے جسے آگے بطور تمیز ذکر کیا گیا۔ اس وضاحت کے بعد درج ذیل ترجمہ دیکھیں:

وَلَا یَزِیدُ الکَافِرِینَ کُفرُہُم عِندَ رَبِّہِم اِلَّا مَقتًا وَلَا یَزِیدُ الکَافِرِینَ کُفرُہُم اِلَّا خَسَارًا۔ (فاطر: 39)

اس آیت کا درج ذیل ترجمہ اس اسلوب کی صحیح ترجمانی کررہا ہے۔

”اور کافروں کے لیے ان کا کفر، ان کے رب کے نزدیک، اس کے غضب کی زیادتی ہی کا موجب ہوگا اور کافروں کے لیے ان کا کفر ان کے خسارے ہی میں اضافہ کرے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)

جب کہ یہ درج ذیل ترجمہ اس اسلوب کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا:

”اور کافروں کو اُن کا کفر اِس کے سوا کوئی ترقی نہیں دیتا کہ ان کے رب کا غضب اُن پر زیادہ سے زیادہ بھڑکتا چلا جاتا ہے کافروں کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا کوئی ترقی نہیں“۔ (سید مودودی)

اس ترجمے میں کافروں کی ترقی کا ذکر ہے، حالانکہ اس اسلوب کی رو سے کافروں کو ترقی دینے یا نہیں دینے کا کوئی محل ہی نہیں ہے، یہاں صرف اللہ کی ناراضگی اور کافروں کے خسارے میں اضافے کی بات ہے۔

اس ترجمے سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ مترجم کی نگاہ سے زاد کا یہ خاص اسلوب ترجمہ کرتے ہوئے غلطی سے اوجھل ہوگیا۔ غلطی سے اوجھل ہونا اس لیے کہنا مناسب ہے کہ زاد کے اسی اسلوب کا صاحب ترجمہ نے دوسرے سبھی مقامات پر درست ترجمہ کیا ہے۔ جیسے:

وَنُخَوِّفُہُم فَمَا یَزِیدُہُم اِلَّا طُغیَانًا کَبِیرًا۔ (الاسراء: 60)

”ہم اِنہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں، مگر ہر تنبیہ اِن کی سر کشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے“۔ (سید مودودی)

(215) وَمَا یُعَمَّرُ مِن مُعَمَّرٍ وَلَا یُنقَصُ مِن عُمُرِہِ کا ترجمہ

وَمَا یُعَمَّرُ مِن مُعَمَّرٍ وَلَا یُنقَصُ مِن عُمُرِہِ اِلَّا فِی کِتَابٍ۔ (فاطر: 11)

اس جملے کے کچھ ترجمے ملاحظہ کریں:

”اور جس بڑی عمر والے کو عمر دی جائے یا جس کسی کی عمر کم رکھی جائے یہ سب ایک کتاب میں ہے“۔ (احمد رضا خان، سوال: عمرہ میں ضمیر تو معمر یعنی بڑی عمر والے کی طرف لوٹ رہی ہے، تو دوسرا کوئی کیوں مراد ہوگا۔)

”اور جو بڑی عمر والا عمر دیا جائے اور جس کی عمر گھٹے وہ سب کتاب میں لکھا ہوا ہے“۔(محمد جوناگڑھی، وہی سوال۔)

” اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے“۔(فتح محمد جالندھری، سوال: کیا بڑی عمر والے کی عمر کم کی جاتی ہے؟)

”کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے“۔ (سید مودودی، سوال: کچھ کمی ہونے کا کیا مطلب؟)

”اور کسی عمر والے کی عمر میں نہ زیادتی ہوتی نہ کمی مگر یہ ایک کتاب میں نوشتہ ہے“۔ (امین احسن اصلاحی، سوال کیا عمر مل جانے کے بعد زیادتی یا کمی ہوتی ہے؟)

”اور نہ کسی شخص کی عمر میں زیادتی ہوتی ہے اور نہ کمی ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ ایک کتاب (لوحِ محفوظ) میں موجود ہے“۔ (محمد حسین نجفی، وہی سوال۔)

اوپر کے ترجموں سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ عمر مل جانے کے بعد اس میں کمی یا کمی اور زیادتی ہوتی ہے، جب کہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کی عمر اور اس کا اجل متعین ہے۔ صحیح مفہوم تک پہنچنے میں یہ چیز بھی شاید رکاوٹ بنی کہ معمر کا مطلب لمبی عمر والا سمجھ لیا گیا، جب کہ معمر وہ ہے جسے عمر دی جائے، وہ لمبی بھی ہوسکتی ہے اور چھوٹی بھی۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی اس جملے کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں کہ کوئی اشکال باقی نہیں رہتا اور بات بہت واضح ہوکر سامنے آتی ہے۔

”اور کسی کو جو عمر ملتی ہے اور جو کچھ اس کی عمر میں سے گھٹتا ہے وہ کتاب میں درج رہتا ہے“۔

اس جملے کامطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو ایک عمر ملتی ہے، اور پھر وہ گزارنے کے ساتھ ساتھ گھٹتی جاتی ہے، تو عمر کا ملنا اور پھر اس کا گھٹتے گھٹتے ختم ہوجانا سب اللہ کے یہاں لکھا ہوا ہے۔

گویا آیت میں اللہ کی طرف سے لمبی عمر اور چھوٹی عمر دیے جانے کی، یا لمبی عمر والے کی عمر چھوٹی کرنے کی اور چھوٹی عمر والے کی عمر لمبی کرنے کی بات نہیں ہے، بلکہ اللہ کی طرف سے عمر دیے جانے اور بندے کے اس عمر کو گزاردینے کی بات ہے۔ کہ یہ سب کچھ اللہ کی کتاب میں درج ہے۔

(216) شکور، شاکر اور مشکور کا ترجمہ

عربی زبان میں شکر کا اصل مطلب قدر کرنا ہوتا ہے۔ خلیل فراہیدی لکھتے ہیں: الشکر عرفان الاحسان، (کتاب العین)

جب شکر اس کے لیے آتا ہے جس پر نوازش کی گئی، تو اس کا مطلب اپنے محسن ومنعم کی تعریف کرنا ہوتا ہے، قرآن مجید میں بندوں کے لیے یہ بہت استعمال ہوا ہے۔ لیکن جب یہ لفظ اللہ کے لیے آتا ہے تو اس کا مطلب بندوں کے اچھے کاموں کی قدر کرنا ہوتا ہے۔ قدر کرنے میں تعریف کرنا بھی ہے، عمل قبول کرنا بھی ہے، صاحب عمل کی عزت افزائی بھی ہے، اور اسے اچھا بدلہ دینا بھی ہے۔ غرض جب یہ لفظ اللہ کے لیے استعمال ہو تو اس کا جامع مفہوم قدر کرنا ہے۔ بعض لوگوں نے کہیں قدر کرنا اور کہیں قبول کرنا ترجمہ کیا ہے، تاہم صحیح ترجمہ وہی ہے جو عام طور سے کیا گیا ہے یعنی قدر کرنا۔

اللہ کے لیے شکور اور شاکر کی صفت آئی ہے، اور اللہ ہی کے حوالے سے عمل کے لیے مشکور کی صفت بھی آئی ہے۔ ان تینوں لفظوں کا ترجمہ دیکھیں:

(۱)  اِنَّہُ غَفُور شَکُور۔ (فاطر: 30)

”بے شک وہ بخشنے والا اور قبول فرمانے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بے شک اللہ بخشنے والا اور قدردان ہے“۔ (سید مودودی)

”بےشک وہ بڑا بخشنے والا قدردان ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۲) اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُور شَکُور۔ (فاطر: 34)

”بے شک ہمارا رب بخشنے والا، قبول فرمانے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بےشک ہمارا پروردگار بخشنے والا (اور) قدردان ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۳) اِنَّ اللَّہَ غَفُور شَکُور۔ (الشوری: 23)

”بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا اور بڑی قدر افزائی کرنے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بیشک اللہ بخشنے والا قدر فرمانے والا ہے“۔(احمد رضا خان)

(۴) وَاللَّہُ شَکُور حَلِیم۔ (التغابن: 17)

”اور اللہ قدردان اور بردبار ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اللہ بڑا قدر دان بڑا بردبار ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۵) فَاِنَّ اللَّہَ شَاکِر عَلِیم۔ (البقرة: 158)

”تو بے شک اللہ قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اللہ کو اس کا علم ہے او ر وہ اس کی قدر کرنے والا ہے“۔ (سید مودودی)

(۶) وَکَانَ اللَّہُ شَاکِرًا عَلِیمًا۔ (النساء: 147)

”اور اللہ تو بڑا قبول کرنے والا اور جاننے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

” اور وہ تو ہر ایک کے شکریہ کا قبول کرنے والا اور ہر ایک کی نیت کا جاننے والا ہے“۔ (جوادی، یہ عجیب ترجمہ ہے)

”اللہ تعالیٰ بہت قدر کرنے والا اور پورا علم رکھنے والا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۷) فَاولَئِکَ کَانَ سَعیُہُم مَشکُورًا۔ (الاسراء: 19)

”تو درحقیقت یہی لوگ ہیں جن کی سعی مقبول ہوگی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تو انہیں کی کوشش ٹھکانے لگی“۔ (احمد ضاخان)

”تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۸) وَکَانَ سَعیُکُم مَشکُورًا۔ (الانسان: 22)

”اور تمہاری سعی مقبول ہوئی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور تمہاری کوشش کی قدر کی گئی“۔ (محمد جوناگڑھی)

” اور تمہاری محنت ٹھکانے لگی“۔ (احمد رضا خان)

”اور تمہاری کوشش (خدا کے ہاں) مقبول ہوئی“۔ (فتح محمد جالندھری)

مذکورہ بالا تمام مقامات پر قدر کرنے کا ترجمہ ہی شکر کا صحیح مفہوم ادا کرتا ہے۔

(217) ”ان“ ماضی کے لیے نہیں

گزشتہ مضمون میں ہم نے وضاحت کی تھی کہ لو ماضی کے لیے ہوتا ہے، لیکن بسا اوقات مستقبل کا ترجمہ کردیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ اسی طرح ”ان“مستقبل کے لیے ہوتا ہے، لیکن کبھی غلطی سے ماضی کا ترجمہ کردیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سورة فاطر کی درج ذیل آیت کا ترجمہ دیکھیں:

وَاَقسَمُوا بِاللَّہِ جَہدَ اَیمَانِہِم لَئِن جَائَہُم نَذِیر لَیَکُونُنَّ اَہدَی مِن اِحدَی الاُمَمِ۔ (فاطر: 42)

”یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آ گیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو ہوتے“۔ (سید مودودی)

”اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنی قسموں میں حد کی کوشش سے کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈر سنانے والا آیا تو وہ ضرور کسی نہ کسی گروہ سے زیادہ راہ پر ہوں گے“۔ (احمد رضا خان، ”کسی نہ کسی گروہ“ کے بجائے ”ایک ایک گروہ“ ہونا چاہیے)

”اور انھوں نے اللہ کی پکی پکی قسمیں کھائیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نذیر آیا تو وہ ہر امت سے زیادہ ہدایت اختیار کرنے والے بنیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی، ”تو وہ ہدایت میں ایک ایک سے بڑھ کر ہوں گے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

”اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی ہدایت کرنے والا آئے تو ہر ایک اُمت سے بڑھ کر ہدایت پر ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری،  اَقسَمُوا کا ترجمہ حال کا کیا ہے، جب کہ صیغہ فعل ماضی ہونے کے علاوہ سیاق کلام خود ماضی کے ترجمے کا تقاضا کرتا ہے)

پہلے ترجمہ میں ان کا ترجمہ ماضی سے کیا گیا ہے: ”اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آ گیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو ہوتے“، لیکن یہ درست نہیں ہے، صحیح ترجمہ ہوگا: ”اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آجائے تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو ہوں گے“۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ترجمہ کا جب انگریزی ترجمہ کیا گیا تو اس میں یہ غلطی درست کردی گئی:

Swearing by Allah their strongest oaths they claimed that if a warner came to them, they would be better-guided than any other people. (Maududi)

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس مقام سے مشابہ دو اور مقامات پر صاحب ترجمہ نے مستقبل کا ترجمہ کیا ہے:

وَاقسَمُوا بِاللَّہِ جَہدَ ایمَانِہِم لَئِن جَائَتہُم آیَة لَیُومِنُنَّ بِہَا۔ (الانعام: 109)

”یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نشانی ہمارے سامنے آ جائے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے“۔ (سید مودودی)

وَاقسَمُوا بِاللَّہِ جَہدَ ایمَانِہِم لَئِن امَرتَہُم لَیَخرُجُنَّ۔ (النور: 53)

”یہ (منافق) اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ”آپ حکم دیں تو ہم گھروں سے نکل کھڑے ہوں“۔ (سید مودودی)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلطی ناواقفیت نہیں بلکہ بھول چوک کی قبیل سے ہے۔

دعوت ِ دین کا متبادل بیانیہ

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

(مفتی ابو احمد عبداللہ لودھیانویؒ کی تصنیف ”عالمی مشکلات کا یقینی حل “  کی تازہ اشاعت کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا)

اسلام دین ِدعوت ہے اور اس کے مخاطَب دنیا کے تمام انسان ہیں ۔ عصری تناظر میں دیکھا جائے تو ان اصحاب ِ فکرو دانش کی رائے زیادہ وزنی معلوم ہو تی ہے جو دنیا کو دار الاسلام اور دار الحرب کے بجائے دارلاسلام اور دار الدعوة میں تقسیم کرتے ہیں ۔ زرعی دور سے گزرنے کے بعد انسان صنعتی دور میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے اس فیز میں داخل ہوچکا ہے جس نے دنیاکو حقیقی معنوں میں عالمی گاوں(Global village)میں تبدیل کردیا ہے ۔ دنیاقومی ریاستوں کے دور سے گزرنے کے بعدپوسٹ نیشن سٹیٹ(Post Nation State)کے دور میں داخل ہوچکی ہے۔اس وقت جدید دانش کے سامنے اہم سوال یہ ہے کہ کیا عالمگیر نظم(World order)انسان کے مفاد کا تحفظ کرسکے گا؟ تاریخی تناظر یہ ہے کہ انسان عالمگیر نظم کے کئی تجربات سے پہلے بھی گزر چکا ہے ۔مذہبی حوالے سے اس طرح کے تجربات یہودیت اور مسیحیت کے عنوانات سے ہوچکے ہیں جبکہ دور ِ حاضرمیں اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی عالمگیر غلبے کے لئے کشمکش کے بعد دنیا میں نئی صف بندی ہو رہی ہے ۔عالمگیر نظم کے تمام تجربات مجموعی طور پر انسان کے مسائل کا حل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ ہماری رائے میں تاریخ نے انسانیت کو ایک ایسے دوراہے پر کھڑا کردیا ہے جہاں اس کے پاس شاید اب اسلام کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا۔اس لئے دور ِ حاضر میں اسلام کو دنیا کے سامنے متبادل بیانیے کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔

 اسلام کی عالمگیر دعوت میں ہماری دینی قیادت بھی اسی غلطی کا ارتکاب کررہی ہے جو مختلف مذاہب کے پیروکاروں سے سرزد ہوئی ۔ یہ حقیقت سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ مذہب جب دعوت کی بجائے عصبیت کے پیراہن میں ظہور کرتا ہے تولامحالہ دوسرے مسالک اور مذاہب کے لئے ایک فریق اور مد مقابل کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور ایک گروہ،علاقے اورنسل سے منسوب ہونے کی وجہ سے اپنی آفاقیت اور عالمگیریت سے محروم ہو جا تا ہے۔  کسی بھی فکر کی آفاقیت کے لئے نسلی، شخصی اور علاقائی نسبتیں رکاوٹ بن سکتی ہیں ،دین ِ اسلام، یہودیت ،مسیحیت اور ہندومت جیسی شخصی اور علاقائی نسبتوں کا قائل نہیں ہے ۔قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کو اقوام ِ عالم کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا اوران کی سیرت کے آفاقی پہلو واضح کرتے ہوئے ان کی طرف منسوب کی جانے والی تمام عصبیتوں کی تردید کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جناب ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے نہ نصرانی اور نہ ہی وہ مشرکوں میں سے تھے ،بلکہ وہ راست رو ” مسلم“ تھے۔قرآن ِ مجید نے مسلمانوں کے لئے بھی یہی پیغام دیاہے کہ اے اہل ِ ایمان ! اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے اور تم مرنا تو ”مسلمان“ ہی مرنا۔ قرآنِ مجید نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دین صرف اسلام ہی ہے اور روز ِ قیامت اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین قبول نہیں کیا جا ئے گا۔قرآن کریم کا بیان بالکل واضح اور دو ٹوک ہے ،اس لئے اسلام کو کسی شخصیت ،گروہ اور علاقے کی طرف منسوب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے عالمگیردین ہونے کے تصوّر سے دست برداری اختیار کر لی جائے۔ گروہی اور جغرافیائی عصبیتوں کے مضبوط ہونے سے ہی اسلام کے بارے میں ایک دور میں اس غلط فہمی نے جنم لیا کہ اسلا م صرف پہلی ہزاری کے لئے ہی تھا اورخاتم النبیین حضرت محمد ﷺصرف عربوں ہی کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ایران میں نقطوی تحریک اور ہندوستان میںمغل حکمران جلال الدین محمد اکبر(۱۵۵۶ء۔۱۶٠۵ء) کے ”دین ِ الٰہی “ کاظہور اسی غلط فہمی کا نتیجہ تھا ۔ اسلام ”محمڈن ازم “ نہیں ہے، وہ صرف اسلام ہے ۔ اسلام کے لئے محمڈن ازم کی اصطلاح مستشرقین (Orientalists)نے استعمال کی ،تاکہ اسلام کی آفاقیت پر حرف گیری کی جا سکے۔ غور کیا جائے تو اعتراف کرنا پڑے گا کہ دیگر مذاہب کی طرح اسلامبھی اپنے داعیوں کی پیدا کردہ عصبیتوں کے نتیجے میں متنازع بن چکاہے اور شدید طور پر سیکولرازم کی زد میں ہے۔

 تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک غیر متعصب اور عظیم الشان مذہب ہے جو بلا امتیاز ِرنگ و نسل انسانی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے اور حسن ِ کردار کی بنا پر اہل ِ کتاب کی بھی تحسین کرتا ہے ۔اسلام نے مخاطَب قوموں کے لئے حکمت ،موعظہ حسنہ اور جدال بالاحسن جیسے دعوتی اصول دیے ہیں۔ مناظرہ،تقابل اور ردجیسے رویوں کا اسلام کے اسالیب دعوت سے تعلق محض جزوی نوعیت کا ہے ۔ اسلام کی نگاہ میں تو مجادلہ بھی مناظرہ نہیں بلکہ دعوت کا ایک ایسا اسلوب ہے جس میں الزام تراشیاں ،چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوںاور مقصد محض فریقِ مخالف کو چپ کرادینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجانا نہ ہو، بلکہ اس میں شیریں کلامی ،اعلیٰ درجہ کا شریفانہ اخلاق، معقول اور دل لگتے دلائل ہوں جو مخاطَب کے اندر ضد اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دیں ،اور وہ داعی کے خلوص اور للہیت سے متاثر ہو کر برضا و رغبت اسلام پر غوروفکر کے لئے تیار ہوجائے۔ مذہب کے ساتھ سب سے بڑا حادثہ یہ ہواہے کہ اسے اخلاق اور تزکیہ نفس سے الگ کردیا گیا ہے اوراب مذہب محض ایک گروہی اور مسلکی عصبیت ہے یا پھر بے لگام جذبات کا نام،حالانکہ پیغمبر اسلام کا فرمان ہے کہ دین خیر خواہی کا نام ہے ،اورخیر خواہی بھی کسی خاص گروہ کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہو ، آپ ﷺکا ہی فرمان ہے کہ لوگوں میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لئے زیادہ نفع بخش ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقوام ِ عالم کے معاشی،سیاسی اور گروہی مفادات کے مقابل ایک عالمی معاشرے کے قیام کے لئے دین ِ اسلام ہی فکری بنیادیں فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسلام کاامتیاز یہ ہے کہ اس میں خود اللہ تعالیٰ کا تعارف”رب العالمین“ پیغمبر اسلام کا ”رحمۃ للعالمین“ اور قرآن مجید کا ”ذکر للعالمین“کے عالمگیر اور آفاقی اوصاف سے کروایا ہے۔جس طرح اللہ تعالیٰ سب کا رب ہے ،قرآن مجید پوری انسانیت کے لئے صحیفہ ہدایت ہے، اسی طرح رسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت بھی عالمگیر اور گلوبل ہے۔مذہب ِ اسلام دانش کا مستند ترین مجموعہ ہے اور دانش بھی فن کی طرح جغرافیائی حد بندیوں سے بالا تر ہو کر اپنے اندر آفاقیت کا فطری جوہر رکھتی ہے ۔لیکن بدقسمتی سے مسلمان اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے رسالتِ محمدی ﷺ کی آفاقیت اور ہمہ گیریت کو اس طرح نمایاں نہیں کرسکے جس طرح کہ آپپر ایمان لانے کا حق تھا۔ اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے مسلمانوں نے اسلام کوعالمی محاذ پر شیعہ،سنّی،سلفی،جہادی اور صوفی اسلام میں تقسیم کر رکھا ہے جبکہ داخلی محاذ پر ہمارے ہاں اسلام کے بریلوی ،دیوبندی اوراہلحدیث ایڈیشن متعارف ہیں ،اوران مسالک کی ذیلی تقسیم ایک الگ گورکھ دھندا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسلام کی مسلکی تقسیم پر مبنی یہ عصبیتیں اس قدر شدید ہیں کہ آج کے نام نہاد داعیان ِ اسلام لوگوں کو اسلام کی طرف بلانے کی بجائے ان عصبیتوں کی طرف ہی دعوت دے رہے ہیں ۔ ہمارے عملی رویوں سے بہرحال یہی ثابت ہوتا ہے کہ مذہب ایک ایسی دیوار ِ چین ہے جس سے انسانوں کو تقسیم تو کیا جا سکتا ہے لیکن جوڑا نہیں جا سکتا ۔بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہعلماءکرام کی اکثریت اس وقت عوام الناس کا بد ترین فکری استیصال کررہی ہے۔

 سماجی تشکیل محض نظریات نہیں بلکہ رویوں کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔مذہب ان دونوں کا مجموعہ ہے۔عصری تناظر میں اسلام کے سماجی پہلو کا مطالعہ وقت کی ضرورت ہے۔ مذہب کے سماجی مطالعہ میں ہی یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ معاشرتی رویوں کی تشکیل میں مذہب کا کردار کیا ہے ؟ہمارے ہاں مطالعہ مذہب کی روایت تو کافی پختہ ہے لیکن مذہب کے عمرانی پہلو کے مطالعہ کی روایت مسلسل نظرانداز ہو رہی ہے ۔مذہب اور مذہب کے سماجی مطالعہ (Sociology of Religion) کے فرق کو ملحوظ رکھنا اس از بس ضروری ہے۔ جدید دانش تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے حضرت شاولی اللہ کی معروف کتاب ”حجۃ اللہ البالغہ “ کا سا اسلوب اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مغربی تہذیب نے گزشتہ کئی صدیوں میں فکری ارتقاءکا کٹھن سفر طے کیا ہے،مسلسل فکری ارتقاءاور تجربات کے نتیجے میں ان کے ہاں کئی تصورات اب مسلمہ عقائد کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ فیمنزم (Feminism)، ہیومنزم (Humanism)، جمہوریت(Democracy)،مذہبی رواداری(Interfaith Harmony) اورآزادی  اظہار ِ رائے (Freedom of speech) جیسے تصورات پر اہل ِ مغرب کوئی سمجھوتا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔اہل ِ مغرب نے سماجی ،معاشرتی اور اخلاقی حوالے سے جو تجربات کئے ہیں اس کے نتیجے میں ان کے ہاں یہ سوچ پختہ ہو رہی ہے کہ انسانیت اپنے سماجی، سیاسی اور اخلاقی ارتقاءکی آخری سیڑھی پر قدم رکھ چکی ہے ۔مغرب میں "The End of History"کے عنوان سے لکھی جانے والی کتب اسی سوچ کی مظہر ہیں ۔

اس پس منظر میں اقوام عالم کو کسی دوسرے نظام ِ حیات پر غور کرنے کے لئے اسی وقت آمادہ کیا جا سکتا ہے جب وہ نظام ِ حیات ایسی اقدار کا حامل ہو جو مغربی فکر وفلسفہ میں پائی جانے والی فکری اور عملی کمزوریوں کا مداواکرسکے۔ یہ تسلیم کہ اسلام ،مغربی فکروفلسفہ کے مقابل انسانیت کے لئے واحد آپشن ہے ،لیکن ایسے علماءکرام اور داعیان ِ اسلام کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جو اسلام کو مغربی تہذیب کے مقابل ایک متبادل بیانےے کی شکل میں پیش کرنے صلاحیت رکھتے ہوں ۔اسلام کی عالمگیر دعوت کے لئے داعیان ِ اسلام پر لازم ہے کہ وہ گروہی عصبیتوں کو ترک کریں، فرقہ وارانہ تعبیرات کو ایمانیات میں داخل نہ کریں،فقہاءکرام اور مفسرین کے فہم ِ دین کو کل دین نہ بنائیں،فقہی اور مسلکی تعصبات کے بجائے براہ ِ راست قرآن و سنّت کے مطالعہ کو عادت بنائیں ،مذہب کی عمرانی جہتوں کو اجاگر کریں ،انسانیت کو درپیش چیلنجز کا ادراک کریںاور عصری تناظر میں اسلام کی عقلی اور فطری اصولوں پر ایسی تعبیر کریں کہ وہ سسکتی ہوئی انسانیت کے لئے جسم اور روح کی تسکین کا واحد ذریعہ بن سکے ۔

 زیر نظر کتاب ”عالمی مشکلات کا یقینی حل “ مفتی ابو احمد عبداللہ لودھیانویؒ (م ۱۹۷۵ء) کی مایہ ناز تصنیف ہے ۔ مفتی ابو احمد عبداللہ لودھیانویؒ برصغیر کی علمی روایت کے امین خاندان”علمائے لودھیانہ “ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ کتاب لگ بھگ ستر برس قبل تصنیف کی گئی ہے ، لیکن کتاب کے مضامین پر نظر ڈالنے سے معلو م ہوتا ہے جیسے کتاب آج کے ماحول کو مد نظر رکھ کر تصنیف کی گئی ہے ۔ کتاب کے مطالعہ سے فاضل مصنف کے بارے میں ایک فکری راہنما  کا تا ثر ابھرتا ہے۔ ایک سچا دانشور بجاطور پر اپنے عہد سے جڑا ہوتا ہے، وہ عوام کی فکری راہنمائی کرتا ہے اور نہ صرف اپنے عہد کی دانش کو متوجہ کرتا ہے بلکہ مستقبل میں جھانک کر کل کی خبر بھی دیتا ہے ۔ کتاب کے مطالعہ سے محترم مفتی صاحبؒ کے علمی قد کاٹھ کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جغرافیائی حدبندیوں سے بالا تر ہو کر اپنے آپ کو عالمی معاشرے کا شہری سمجھتے ہیں اور پوری انسانیت کے لئے فکر مندہیں۔ ان کے پیش ِ نظر کسی مسلکی گروہ کی نمائندگی نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں انھوں نے اپنے آپ کو دین ِ اسلام کے نمائندہ کے طور پر متعارف کروایا ہے ۔زیر نظر کتاب میں مفتی صاحب نے جن دانشورانہ خیالات کا اظہار کیا ہے وہ گروہی اور مسلکی عصبیتوں کے دائرے میں بند رہنے والے شخص کے لئے ممکن نہیں ۔ دانش کی ایک سطح تو یہ ہے کہ اپنے ماحول کا تنقیدی جائزہ لے کر مسائل کی نشاندہی کی جائے اور ان کا حل پیش کیا جائے ، لیکن دانش کی اعلیٰ ترین سطح یہ ہے کہ وہ مجموعی انسانی معاشرے کے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے عالمگیر سطح پر ظہور کرے ۔ کتاب کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ مفتی صاحبؒ دانش کی اعلیٰ ترین سطح پرفائز ہیں ۔

 زیر نظر کتاب میں مفتی صاحبؒ نے ”پیغام ِ قرآن پیشوایان ِ مذاہب کے نام“سے دنیابھر کی مذہبی دانش کو مخاطَب کیا ہے ۔مفتی صاحبؒ کو یقین ہے کہ”عالمی مشکلات کا یقینی حل “ صرف اسلام کے پاس ہے ۔مفتی صاحبؒ کا یہ اعتماد کس وجہ سے ہے ؟ اس کا اندازہ کتاب کے مطالعہ سے ہوتا ہے ۔ مغرب میں عیسائیت کی ناکامی کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے مفتی صاحب ؒ لکھتے ہیں :

’’عیسائی پادریوں نے اپنے مذہبی معتقدات کو قدیم یونانی فلسفہ و حکمت کی بنیادوں پر قائم کررکھا تھا اور ان پادریوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی اخلاقی تعلیمات کو تو فی الجملہ برقرار رکھا ، لیکن معاشی اور معاشرتی و سیاسی معاملات میں ان کی ہدایات کو مسخ کرکے ان میں اپنی رائے اور مرضی کو وہی مقام دیا جو فی الواقع حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا ہونا چاہےے تھا ۔ان پادریوں نے یورپ کی سرکردگی میں جو نظام قائم کیا وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی بتائی ہوئی راہ سے کوسوں دور تھا ۔ ان اسباب و حالات کے تحت رومن کیتھولک نظام میں خدا اور یسوع کے نام پر حکم دیا جاتا تھا ، جس کا بیشتر حصہ انہی مذہب سازوں کا من گھڑت تھا ۔چنانچہ ان حالات نے ایک حریت پسند گروہ کو(جو ہسپانیہ کی مسلم یونیورسٹیوں سے نکل کر یورپ میں داخل ہوئے تھے ،جن کو ان مسلم یونیورسٹیوں نے سائنٹیفک غورو فکر کے اصول دےے تھے،  جن کی روشنی میں من گھڑت اور بے سروپا عقائد کے سائے طویل اور ہلکے ہوکر اپنا اثر کھو بیٹھے ) بغاوت پر آ مادہ کردیا اور اس گروہ نے رومن کیتھولک عقائد کو پارہ پارہ کردیا۔‘‘  (ص:۷٠۔۷۱)

مفتی صاحب ؒ کی رائے یہ ہے کہ دین ِ اسلام معاشی،معاشرتی،سیاسی اور اخلاقی تعلیمات کا جامع تصوّر رکھتا ہے،اور ان کمزوریوں سے پاک ہے جن کی وجہ سے مغرب میں عیسائیت کو پسپائی اختیارکرنا پڑی ۔اسلام کو جدید دانش کے سامنے عصری احوال و ظروف میں ایک چیلنج کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔مذہب کا انکار کرنے بعد مغرب نے تہذیبی سطح پر کئی تجربات کئے ہیں، لیکن پھر بھی انسانی معاشروں کو در پیش چیلنجز کم ہونے کو نہیں آرہے ۔ مفتی صاحب ؒ مغرب کی نمائندہ فکر کو مخاطَب کرتے ہوئےلکھتے ہیں :

’’کسی مذہب پر غور کرتے ہوئے سب سے پہلے دو ہی بنیادی حقیقتیں دیکھی جاتی ہیں ،ایک یہ کہ اس نے خدا کا کیا تصوّر دیا ہے ؟ دوسرے یہ کہ اس نے انسان کو کیا مقام دیا ہے؟ جہاں خدا کا تصوّر ناقص یاخلاف ِ حقیقت ہو گا وہاں انسان بھی اپنے اصل مرتبہ و مقام سے ہٹا ہواملے گا،اور جہاں انسان کو اس کا شان ِ شیان درجہ نہ دیا گیا ہو ،وہاں خدا کا تصوّر کبھی صحیح اور مطابق ِ حقیقت نہیں ہو سکتا ۔مذہب کے تصوّرِ خدا کی کسوٹی اس کا تصوّر ِ انسانی ہے۔‘‘ (ص:۱٠۹)

ہماری رائے میں مفتی صاحب ؒ نے دین ِ اسلام کے عمرانی پہلوپر گفتگو کرتے بڑااہم نکتہ اجاگر کیا ہے ۔ مذاہب عالم کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں خدا اور انسان کے باہمی تعلق میں توازن نہیں ہے یہودیت اور عیسائیت میں جس خدا سے ہم متعارف ہوتے ہیں وہ صرف انہی کے لئے مہربان ہے اور باقی مخلوق اس کے ہاں کوئی اہمیت اورحیثیت نہیں رکھتی۔ہندو مت میں مذہبی بنیادوں پر انسان کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ظاہر ہے ایسی تعلیمات ایک عالمگیر معاشرے کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔جدید مغربی تہذیب نے انسانی مساوت کا تصوّر تو دیا لیکن انسانی مساوات کے تصوّ ر کو جن اصولوں پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے وہ اصول ہی غیر عقلی اور غیر فطری ہیں۔  ”بنیادی انسانی حقوق کا عالمی منشور“(Universal Declaration of Human Rights) اقوام متحدہ کے منشور کی صورت میں وہ دستاویز ہے جس کو مغربی اقوام میں تقدس کا خاص درجہ حاصل ہے ۔انسانی مساوات کے حوالے سے اس دستاویز کی پہلی دفعہ کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

’’تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں ضمیر و عقل دی گئی ہے اس لئے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ کا سلوک کرنا چاہئے۔‘‘

اس دفعہ میں ضمیر و عقل کے اشتراک کو انسانی بھائی چارے کا سبب اور اساس قرار دیا گیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا محض عقل و ضمیر کا اشتراک ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ بھائی چارے پر ابھار سکتا ہے؟ اور اقوام عالم میں مساویانہ سلوک کی ترغیب پیدا کرسکتا ہے؟ عقل و ضمیر کے جس اشتراک کو بھائی چارے اورمساوات کی بنیاد بنایا گیا ہے ، وہ تو قوموںمیں تفوق و برتری کے جذبات کو ابھارنے والا ہے۔ اس لئے اگر عقل و ضمیر کے پیچھے کوئی اخلاقی محرک نہ ہو تو عالمگیربرابری اور مساوات کا تصور پروان نہیں چڑھ سکتا ۔اس اخلاقی محرک اور اصول کی نشاندہی اسلام نے کی ہے ۔قرآن مجید میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے کہ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اورتمہیں مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔تم میں سے اللہ کی بارگاہ میں زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے ،بے شک اللہ علیم و خبیر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں دو باتیں خاص طورپر توجہ کے قابل ہیں ،ایک یہ کہ آیت کا تخاطب عام ہے ۔ خطاب مسلمانوں سے نہیں بلکہ ”یَا ایُّہَا النَّاسُ“ کے الفاظ سے تمام انسانوں سے ہے ۔ دوسرا انسانوں کے درمیان برتری اور فضیلت کا اصول اخلاقی اور مابعد الطبعیاتی نوعیت کا ہے ۔اس تناظر میں انسان کی ذمہ داری ایک دوسرے سے تعارف اور اپنی اصل مشترک کی طرف انتساب کے ذریعہ ان اختلافات پر قابوپانا ہے ۔

انسانی مساوات کی یہ ایسی اخلاقی قدر ہے جس پر عالمی معاشرے کی عمارت قائم رہ سکتی ہے ۔اسلام مذاہب و ادیان اور ثقافتوں کی الگ الگ شناخت کو تسلیم کرتا ہے اور ان مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان باہمی تعارف، رابطہ و اتصا ل اور تعلقات کار کی اہمیت پر زور دیتا ہے ۔مفتی صاحبؒ نے بجا طور پر اس نکتے کو خوب واضح کیا ہے کہ کسی بھی تہذیب کی پہچان ان تصوّرات سے ہوتی ہے جن پر اس تہذیب کی بنیاد ہو ،یعنی کسی تہذیب کا اصل مقام متعین کرنے کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس تہذیب میں تصوّرِ الہ ،تصوّر ِ انسان ،تصوّر ِ علم اور تصوّر ِ تخلیق وغیرہ کیا ہیں ؟اس لحاظ سے مفتی صاحبؒ کے اس تجزےے سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ عالمی معاشرے کے قیام کے لئے انسانی مساوات کا تصوّر ناگزیر ہے ، اور انسانی مساوات کے لئے صحیح بنیاد وہی ہے جو اسلام نے فراہم کی ہے۔

 مفتی صاحبؒ کی نظر میں اسلامی تعلیمات کا عقل و دانش کے اعلیٰ ترین معیارات اور فطری اصولوں پر پورا اترنا بجا طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسانی معاشروں کو درپیش چیلنجز کے لئے اسلام کی طرف رجوع کیا جائے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دور ِ حاضر عقل پرستی کا دور ہے۔انسانی معاشروں میں مذہب کی مسلسل پسپائی اور سیکولرازم کے نفوذ کے بعد اب عقل ہی انسان کا خدا ہے۔ صرف سیکولر معاشروں ہی کا کیا ذکر، خود مسلم معاشروں میں بھی عقل پرستی خوب زوروں پر ہے اور نئی نسل میں یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہاہے ۔ اس ماحول میں داعیان ِ اسلام پر لازم ہے کہ وہ اسلام کو عقلی اور فطری دین ثابت کریں ۔مفتی صاحب کی رائے یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات اور سیرت ِ نبوی کو آج کے عقل پرستوں کے سامنے بطور چیلنج پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ مفتی صاحب بڑے دلچسپ انداز میں جدید دانش کو قرآن مجید کے ساتھ سیرت ِ نبوی کی عقلی اور فطری اصولوں کی تفہیم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’پہلے انبیاءکو ایسے معجزے دےے گئے جو نبی کی نبوت پر دلیل اور نشانی ہوں کہ انسان ان کی باتوں کو بلادلیل مانیں،لیکن عالم الغیب کو معلوم تھا کہ آیندہ ایسی باتوں کو انسان علم و عقل کے معیار پر پرکھ کر قبول کریں گے۔اس لئے آخری اور خاتم الانبیاءکو علمی اورعقلی معجزے دے کر مبعوث کیا گیااور آپ کی تعلیمات کو علم و حکمت اور فلسفہ الٰہی پر مستحکم کیا گیا۔‘‘ (ص:۱٠۴)

مفتی صاحب ؒ مزید لکھتے ہیں :

’’جب عقلیں کمال کو پہنچ گئیں تومحمد رسول اللہ ﷺ کو بھیجا جنھوں نے اپنی رسالت منوانے کے لےے آنکھوں کو خیرہ کیا نہ حواس کو حیرت زدہ کیا ،بلکہ انہیں دعوت دی ،سوچنے سمجھنے کے لےے پکارا اور عقل ہی کو فیصلہ کے لےے حاکم قرار دیا ۔اس طرح خدا تعالیٰ نے عقل،دلیل،قوت ِ گویائی اور بلاغت کی قدرت ہی کو حق کی نشانی اور نبوت کا معجزہ قرار دے دیا ۔۔۔ اسلام انسانی فطرت سے حسن ِ ظن رکھتا ہے ،اس کے دل و دماغ پر اعتماد کرتا ہے اور اس کے فطری حق ِ خود ارادیت کا پورا پورا احترام کرتا ہے ،چنانچہ وہ اسے اپنی بات جبرو اکراہ سے نہیں منواتا بلکہ اس کی عقل کے سامنے سوچنے اور سمجھنے کے لئے سارا مواد رکھ دیتا ہے۔‘‘ (ص:۱۰۱۔۱۱۳)

مفتی صاحب ؒنے سیرت ِ نبوی کے حوالے سے ایک ایسا نکتہ اٹھایا ہے جس کی بنیاد ہمیں قرآن مجید میں ملتی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ کہلوائے کہ اے لوگو! میں نے ایک عمر تمہارے درمیان گزاری ہے کیا تمہیں کوئی عقل اور سمجھ نہیں ہے ۔ گویا رسول اللہ ﷺ کی زبان سے یہ کہلوادیا گیا کہ جس طرح قرآن مجید ہر دور کی دانش کے لئے چیلنج ہے اسی طرح سیرت نبوی کو بھی ہر دور کی عقل دانش پر چیلنج کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے فضائل و مناقب، شمائل اور معجزات سے متعلق روایات کا بیان ایمان کی تازگی کا باعث ہے ،لیکن اقوام ِ عالم کے سامنے ہمیں سیرت کے ان پہلووں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جن کا تعلق انسان کی عملی اور اخلاقی زندگی کے ساتھ ہے ۔

زیر نظر کتاب میں براہ ِ راست مخاطَب تو عالمی دانش کو ہی بنایا گیا ہے، لیکن عام مسلمان اور علمائے امت بھی اس کتاب کا مخاطَب ہیں ۔ وہ وارثانِ محراب و منبر جو ہر وقت مناظرانہ انداز میں اپنے مد مقابل کو رسوا کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں ،مفتی صاحب ان کو مخاطَب بناتے ہوئے رقمطراز ہیں :

’’جو لوگ اپنے مدعا کو تقابل کی شکل میں پیش کرکے دوسروں پر اٹیک کرتے ہیں یاالزام سے صرف نیچادکھانا ان کا مقصد ہوتا ہے،ایسے لوگ انسانیت کے صحیح معنوں میں خادم نہیں ہو سکتے بلکہ بات کے درمیان میں مزید رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں اور تعصّب و ضدیت کو ابھارتے ہیں ۔ضد اورتعصب ایسی بری چیزیں ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے حق اور صداقت سے بھی انسان انکار کردیتا ہے اور استدلال کے اس طریقہ سے کوئی چیز بھی اس کی راہنمائی نہیں کر سکتی۔‘‘  (ص:۹۷)

مفتی صاحب ؒ نسلی، جغرافیائی اور گروہی عصبیتوں کے شکار مذہب اور اہل ِ مذہب کے بارے لکھتے ہیں :

’’مذہب میں انقلابی روح نہ ہواور وہ کسی ایک جماعت یا مخصوص قوم کا اجتماعی دین بن جائے اور اس میں خود بدلنے اور دوسروں کو بدل دینے کا جنون یا انقلابی جذبہ سرد پڑ جائے،اس و قت اس مذہب کے ہاتھ میں زمام ِ اقتدار دے دینا دراصل قوم کے رجعت پسندوں کو حکومت سونپ دینا ہے ،اور رجعت پسندوں کی حکومت ! خدا اس شر سے ہر قوم کو مامون رکھے۔‘‘ (ص:۷٠)

ہماری رائے میں مفتی صاحب ؒنے اپنی اس مختصر کتاب میں دین ِ اسلام کو عالمی دانش کے سامنے ایک متبادل بیانئے کے طور پر پیش کیا ہے۔کتاب پر داعیانہ اسلوب کا غلبہ ہے اور مفتی صاحب ؒ نے ایک جگہ جدید دانش کو یہ دلچسپ چتاونی دی ہے کہ اگر وہ اسلام کے مابعدالطبیعاتی عقائد کو تسلیم کرنے کے تیار نہیں تب بھی وہ اسلام پر دنیوی نظام ِ حیات کے طور پر ہی غور کرلیں تو بھی اسلام ان کو مایوس نہیں کرے گا ۔ مفتی صاحب ؒ نے جس بنیاد پر اسلام کو عالمی مشکلات کے یقینی حل کے طور پر پیش کیا ہے ہم نے ان میں سے صرف دو تین اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے ۔امید ہے کہ کتاب کے مطالعہ کے بعد قارئین اس نوعیت کے مزید دلائل کا مشاہدہ کرسکیں گے۔ ہماری رائے میں یہ کتاب مسلمان اہل ِ دانش کے لئے بھی برابر قابل ِ توجہ ہے کہ اگر وہ نئی نسل کو تہذیبی ارتداد اور الحادی نظریات سے بچانا چاہتے ہیں تو پھرعقلی اور فطری اصولوں پر اسلام کو نئے سرے سے دریافت کریں ، داعیان ِ اسلام پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی عالمگیریت کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے اس کے عمرانی پہلو کو اجاگر کریں ۔کتاب کی اشاعت ِ نو پر مفتی صاحب مرحوم ومغفور کے پوتے پروفیسر میاں انعام الرحمن مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کی بدولت طویل مدت کے بعد کتاب ایک بار پھر شائقین ِ علم کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔

یہود ونصاری ٰ کے ساتھ تعلقات اور اسرائیل کی حیثیت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں یہ بات  بالکل بجا ہے کہ قرآن کریم کی جس آیت کریمہ میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ ’’ولایت‘‘ کے درجہ کی دوستی سے منع کیا گیا ہے، وہ یہود ونصاریٰ کے ساتھ معمول کے تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی ممالک کے ساتھ تعلقات اور معاملات میں ملت اسلامیہ نے کبھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا اور خلافت راشدہ سے لے کر اب تک مسیحی ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اور معاملات مسلسل چلے آ رہے ہیں۔ البتہ یہودیوں کی دو ہزار سال بعد تشکیل پانے والی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ قدرے مختلف نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ آیت کریمہ نہیں، بلکہ اگر اس آیت کریمہ کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی ممانعت میں پیش کیا جائے تو میرے خیال میں یہ خلط مبحث ہوگا اور مسئلہ کو زیادہ الجھا دینے کی صورت ہوگی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات سے اختلاف کی وجوہ مختلف ہیں۔

  1. مثلاً سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری وہاں کی صدیوں سے چلی آنے والی آبادی یعنی فلسطینیوں کی رضامندی کے ساتھ نہیں ہوئی، بلکہ پہلے برطانیہ نے اس خطہ پر ۱۹۱۷ء میں باقاعدہ قبضہ کر کے فوجی طاقت کے بل پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا ہے، اور اب امریکہ اور اس کے اتحادی پوری فوجی قوت استعمال کر کے فلسطینیوں کو یہودیوں کی اس جبری آباد کاری کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جس پر فلسطینی راضی نہیں ہیں کیونکہ یہ دھونس اور جبر کا راستہ ہے جسے دنیا کی کوئی مہذب اور متمدن قوم قبول نہیں کر سکتی۔ میرا خیال ہے کہ جس طرح ہم کشمیر کے بارے میں اصولی موقف رکھتے ہیں کہ بھارتی فوج وہاں سے چلی جائے اور کشمیریوں کو کسی دباؤ کے بغیر اقوام متحدہ کے نظم کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے، اسی طرح فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے بارے میں ہمارا اصولی موقف یہ ہونا چاہیے کہ امریکہ اپنی فوجیں اس خطہ سے نکالے اور نہ صرف فلسطین بلکہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی فوجی دباؤ سے آزاد کر کے وہاں کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا آزادانہ موقع فراہم کرے۔ انصاف اور مسلمہ اصولوں کا تقاضا تو بہرحال یہی ہے اور اگر بالادست قوتیں طاقت کے نشے میں اس اصول پر نہیں آتیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے موقف سے دستبردار ہو جائیں اور بے اصولی اور دھونس کو اصول و قانون کے طور پر تسلیم کر لیں۔
  2. پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ایک عملی رکاوٹ یہ بھی ہے جسے دور کیے بغیر اسے تسلیم کرنا قطعی طور پر نا انصافی کی بات ہوگی۔ وہ یہ کہ اسرائیل کی سرحدی حدود اربعہ کیا ہیں؟ یہ بات ابھی تک طے نہیں ہو سکی۔ بہت سے عرب ممالک اور فلسطینی عوام کی اکثریت سرے سے فلسطین کی تقسیم کو قبول نہیں کررہی۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جو سرحدات اپنی قراردادوں میں طے کر رکھی ہیں، انہیں اسرائیل تسلیم نہیں کر رہا۔
    • اسرائیل کی اقوام متحدہ کی طرف سے طے کردہ سرحدات اور ہیں،
    • اس وقت اس کے زیر قبضہ علاقے کی حدود اربعہ اور ہیں،
    • کسی اصول اور قانون کی پروا کیے بغیر پورے فلسطین میں دندناتے پھرنے سے اس کی سرحدوں کا نقشہ بالکل دوسرا دکھائی دیتا ہے،
    • اور اسرائیلی حکمرانوں کے عزائم پر مشتمل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا جو نقشہ ریکارڈ پر موجود ہے، وہ ان سب سے مختلف ہے۔
    • اس کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کا یہ اعلان کئی بار سامنے آ چکا ہے کہ وہ فلسطین کی مجوزہ ریاست کو صرف اس شرط پر تسلیم کریں گے کہ اس کی سرحدات کا تعین نہیں ہوگا اور اس کی الگ فوج نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ اسرائیل پورے فلسطین پر حکمرانی کے حق کا اعلان کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو سرحدات کے تعین کے ساتھ کوئی چھوٹی سی برائے نام ریاست دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
  3. اس کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل آپ کو بیت المقدس کے بارے میں بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو اسرائیل کو بیت المقدس سے دستبرداری پر آمادہ کر لیں اور یا خود ’’یو ٹرن‘‘ لے کر بیت المقدس سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیں۔

یہ تینوں رکاوٹیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے، پریکٹیکل ہیں، عملی ہیں اور معروضی ہیں، ان کا کوئی باوقار اور قابل عمل حل نکال لیں اور بے شک اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر اسی طرح تسلیم کر لیں جس طرح ہم بہت سے مسیحی ممالک کو تسلیم کرتے آ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس حوالے سے بات عملی مسائل پر ہونی چاہیے اور معروضی حقائق پر ہونی چاہیے، نظری اور علمی مباحث میں الجھا کر اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے۔

اسلامسٹ کیسے اسلام کو منہدم کر رہے ہیں؟

مصطفٰی اکیول

ترجمہ: عاصم رضا

نوٹ:     ہڈسن انسٹی ٹیوٹ  نے  بارہ جون ، 2020ء کو اپنی ویب گاہ  سے  نوجوان ترک لکھاری اور صحافی(جرنلسٹ) مصطفیٰ اکیول کا ایک  انگریزی مضمون شائع کیا ، جس کا عنوان How Islamist are ruining Islam? ہے ۔  زیرِ نظر ترجمہ اس سے پہلے جائزہ نامی ویب گاہ(Jaeza.pk)  پر شائع  ہو چکا ہے۔


’’جب مذہب ابدی حقائق  کی ارفع اقلیم کو ترک کر دیتا ہے، اور  نیچے اتر کے دنیاوی جھمیلوں میں دخل اندازی شروع کر دیتا ہے، تو  وہ اپنی اوردنیا و مافیہا  کی ہر شے کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے‘‘    (عثمانی سیاست دان ، مصطفیٰ فاضل پاشا ، 1867) ۔

دس اپریل ، 2018ء کو  قومی قانون ساز مجلس (پارلیمنٹ) سے اپنے ہفتہ وار خطاب کے دوران  ترکی کے طاقت ور صدر طیب اردگان  اور ان کے وزیر تعلیم عصمت یلماز کے مابین ایک مختصر گفتگو ہوئی ،جس کے کچھ ٹکڑے نادانستگی میں ٹیلی ویژن پر نشر ہو گئے حالانکہ  مائیکروفون کو بند رکھنے کا اہتمام تھا   [1]۔  

یہ ایک دلچسپ منظر تھا ۔ اپنے خطاب کے درمیان میں ، اردگان نے  وزیر یلماز کو  منصۂ   سٹیج (پوڈیم  )   پر بلایا  ، اور’’الحادی   الہیت  (Deism)  پر رپورٹ‘‘کے بارے میں دریافت  کیا ، جس کا ذکر اُن کے کلیدی سیاسی اتحادی دولت باغچہ لی (Devlet Bahceli) نے کچھ گھنٹے قبل ہی اپنی ایک تقریر  میں کیا تھا ۔ جب وزیر  صاحب نے ، بصد احترام، اپنے صدر کو  اس رپورٹ کےنتائج کی بابت آگاہی دینے کی کوشش کی ، تو اردگان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ، ’’نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا‘‘۔

مذکورہ رپورٹ کو چند ہفتے قبل ہی ترکی کی وزارتِ تعلیم کی ایک مقامی شاخ نے تیار کیا تھا، اور اس نے اردگان حکومت کو ’’ نوجوان نسل کے درمیان تیزی سے پھیلتی ہوئی الحادی الہیت‘‘کے حوالے سے متنبہ کیا تھا۔ سرکاری جانکاری (رپورٹ) کے مطابق حکومت کی زیرِ نگرانی چلنے والے مذہبی سکولوں کے اندر بھی الحادی الہٰیت کا کھوج ملا، یہاں تک کہ (دینی تعلیم دینے والے) امام خطیب (Imam Hatip) نامی مکاتیب کے اندر بھی، جہاں اردگان کے دورِ حکومت میں حکومتی ترغیبات اور سرکاری بھرتیوں کے طفیل  داخلوں کی تعداد آسمان کو چھو چکی ہے، طلباء کی ایک کثیر تعداد اسلام پر ایمان کھو رہی تھی۔ رپورٹ کے نتیجے کے مطابق، ’’مکمل الحاد کو اختیار کرنے کی بجائے، (ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے) نوجوانوں کی کثیر تعداد الحادی الہیت کا انتخاب کر رہی ہے‘‘۔ اس  سے مراد ہے کہ ایک نئی   ’’پاک باز/نیکوکار نسل‘‘  کی آبیاری کے واسطے ،اردگان حکومت کی جان توڑ کاوشوں کے باوجود ترکی کے نوجوانوں کا ایک قابل ذکر حصہ اسلامی عقیدے سے دور ہٹتے ہوئےایک غیر معین و غیر واضح خدا (vaguely defined God) پر یقین کرنے کا انتخاب کر رہا ہے ۔

حالیہ برسوں کے اندر اس سماجی رجحان کا مشاہدہ بہت سے دوسرے ترکوں کو بھی ہوا ہے، اور اس وقت یہ معاملہ ترک قوم کے ہاں زبان زد عام بن چکا ہے۔ ’’ہماری نوجوان نسل الحادی الہٰیت کی جانب کیونکر مائل ہو رہی ہے؟‘‘ ، اس سوال کے حوالے سے (ترکی کے) پرنٹ میڈیا میں سینکڑوں مضامین لکھے جا چکے ہیں اور ٹیلی ویژن پر درجنوں مکالماتی نشستیں منعقد ہو چکی ہیں۔ اپریل 2018ء میں ڈائریکٹر مذہبی امور ،علی ایرباش  (Ali Erbas ) نے پہلے پہل تو الحادی الہٰیاتی عقیدے کے فروغ  کی بابت منظر عام پر آنے والی رپورٹوں کی مکمل تردید کی نیز اس امکان کو یکسر جھٹلایا کہ ’’ہماری قوم کا کوئی فرد (الحادی الہٰیت) ایسے گمراہ کن تصور میں دلچسپی لے سکتا ہے‘‘ [2]۔ تاہم پانچ ہی مہینوں کے بعد ایرباش  کے محکمے نے الحادی الہٰیت(deism) کے خلاف ’’اعلانِ جنگ‘‘ کر دیا  [3]۔

ترک قوم میں الحادی الہٰیت کی وبا: اب ہی کیوں؟

اس ’’الحادی الہٰیت کی وبا‘‘ ، جیسا کہ ترکی کے قدامت پرست مذہبی حلقے اس کو منسوب کرتے ہیں، کے پس پردہ قوت کیا ہے؟  [4] اردگان کے بعض حمایتی پنڈتوں نے اس سوال کا جواب اسی شے میں کھوجا ہے جو ان کے اندازِ جہاں بینی (worldview) کی بنیاد بن چکی ہے: مغربی سازش۔ مثال کے طور پر دنیائے صحافت (میڈیا) کے  معروف مسلمان مبلغ نہاد ہاتی پوغلو (Nihat Hatipoglu) کے نزدیک، ’’سامراج ‘‘ نے جلیل القدر ترک قوم کو الحادی الہٰیت کا ٹیکہ لگایا، بالخصوص ایسے وقت میں ترکی کو کمزور کرنے کے واسطے جب وہ آخرکار دوبارہ سے شاہراہِ عظمت پر گامزن ہے نیز اپنی اسلامی بنیادوں کی جانب پلٹ رہا ہے۔ اعلیٰ سطح کے سرکاری مذہبی رہنما   ،علی ایرباش کے نزدیک، نوجوان ترک نسل کے الحادی الہٰیت کی جانب مائل ہونے کے پیچھے حقیقی قوت، مغربی ’’مبلغین ‘‘   ہیں، جو مفروضہ طور پر اس جتن میں ہیں کہ نوجوانوں کو’’اسلام سے دور کرنے کی غرض سے‘‘  الحادی الہٰیت کی جانب متوجہ کیا جائے اور پھر بعد ازاں ان کو مسیحی بنا لیا جائے [5]۔

تاہم دوسرے ترکوں کے نزدیک الحادی الہٰیت سے متعلق تمام تر بحث ایک بہت بڑی سازش کی بجائے  اعلیٰ درجے کی ستم ظریفی پر مبنی ہے: ترک قوم، جو اپنی ’’ننانوے فیصد مسلم آبادی‘‘  پر اکثر و بیشتر فخر کا اظہار کرتی ہے، اس  کے اندر ایک ایسے وقت میں اسلام سے بے نظیر دوری وقوع پذیر ہو رہی ہے جب اسلام کے علمبردار یعنی  اسلامیت پسند (اسلامسٹ)، بشمول صدر طیب اردگان اور برسراقتدار جسٹس و  ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) میں اردگان کے وفادار حضرات، ماضی کے مقابلے میں سیاسی اعتبار سے نسبتاً بہت زیادہ طاقت ور ہیں۔

درحقیقت، کوئی اس طرح سے استدلال کر سکتا ہے کہ یہ ایک ستم ظریفی نہیں ہے بلکہ ایک قابل فہم سلسلہ علت و معلول ہے: اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) کے اقتدار میں ہونے کی بدولت ہی اسلام سے دوری میں اضافہ ہو رہا  ہے۔ چونکہ جسٹس و  ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کا اقتدار، یقینی طور پر استبدادی، بدعنوان اور ظالم ثابت ہو چکا ہے، چنانچہ بعض ایسے لوگ جو اس پارٹی کی طاقت اور ایجنڈے سے خار کھاتے ہیں، وہ اسلام سے بھی دوری اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ترکی میں بہت سے لوگ یہی دلیل دے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے ایک تمل قاراملّا اوغلو (Temel Karamollaoglue) صاحب ہیں جو حزبِ سعادت (Felicity Party) کے رہنما ہیں۔ جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی کی مانند اس پارٹی کی جڑیں بھی اسلام ازم (اسلامیت)  میں پیوست ہیں، تاہم اس نے اردگان حکومت کے خلاف مرکزی سیکولر حزب اختلاف (اپوزیشن جماعت) کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا ہے۔ قاراملّا اوغلو (Karamollaoglue)  نے جون 2019ء میں کہا، ’’مذہب کی نمائندگی کے دعویداروں کی بدولت ترکی میں خوف و آمریت کا راج ہے۔ اور اسی وجہ سے لوگ اسلام سے دور بھاگ رہے ہیں‘‘ [6]۔ (قاراملّا اوغلو صاحب کی چھوٹی سی پارٹی مذہبی قدامت پرستوں کی  ایک ایسی اقلیت، جس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، نمائندگی کرتی ہے جو اردگان حکومت سے تنگ ہے۔ ایسے ترک رائے دہندگان (ووٹرز) کے سامنے دو نئی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں جن کے مرکزی رہنما جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کے سابقہ اہم رہنما ہیں جنھوں نے اپنی راہوں کو اردگان سے جدا کر لیا ہے: سابق وزیراعظم  احمد  داؤد اوغلو(Ahmet Davutogle) کی رہنمائی میں ’’فیوچر پارٹی‘‘، اور سابقہ ماہر معاشیات (czar) علی بابا جان (Ali Babacan) کی زیرِ قیادت میں ’’تحریک نجات‘‘  (Remedy Party))۔

امریکہ میں رہائش پذیر ترک ماہر سماجیات مجاہد بیلیجی (Muchait Bilici) ایک دوسرے نقاد ہیں جو ایک باعمل مسلمان ہیں اور الحادی الہٰیت کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان کو ’’ ترکی اسلام ازم(اسلامیت) میں مذہبیت کے بحران‘‘  کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں[7]۔ ان کے نزدیک، مصطفیٰ کمال کے سیکولر نظام کو آخرکار شکست سے دوچار کرنے کے بعد، ’’ترکی مذہبیت نے آزادی کے ساتھ سانس لینے کا آغاز کیا ہے‘‘۔ تاہم، اس کے نتیجے میں ’’ترکی مذہبیت کو آزمائش کی ایک بھٹی سے گزرنا پڑا ہے۔ یہ مذہبیت سیاسی اعتبار سے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے باوجود روحانی اعتبار سے ناکام ٹھہری ہے‘‘ ۔ مزید یہ کہ، الحادی الہٰیت کا ظہور اس ڈرامائی ناکامی کا  ایک نتیجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

’’اس بات پر زور دینا چاہیے کہ  اس عمل (پروسث)  کا تعلق کمالی سیکولرازم (laïcité) یعنی جدید ترکی کےبانی سیاست دان مصطفیٰ کمال اتاترک کی ریاستی سیادت کے تحت کارفرما سیکولرائزیشن منصوبے کے ساتھ بہت ہی کم ہے۔ اس کے برخلاف، یہ ایک نامیاتی سیکولرائزیشن ہے جو کلیتاً پرامن ہے اور ریاستی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ سرکاری پولیسیوں کے باوجود رونما ہو رہا ہے۔ یہ ایک مقامی اور ترک روشن خیالی کا نتیجہ ہے نیز مابعد اسلامسٹ (اسلامیت پسند ) جذبے کا ثمر ہے۔ اپنے والدین کے مذہبی دعووں، جنھیں وہ ریاکارانہ یا منافقانہ سمجھتے ہیں، سے مایوس ہو کر نوجوان نسل انفرادی روحانیت اور روایت کے ایک خاموش انکار کا انتخاب کر رہی ہے‘‘۔

تہران : مشرق وسطیٰ میں سب سے کم مذہبی دارالحکومت

پچھلی دہائی میں جو کچھ ترکی میں ہوا ہے، وہ اس سے بدرجہا کم ہے جو پچھلی چار دہائیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران میں ہو چکا ہے۔ وہاں بھی معاشرے  کے نسبتاً زیادہ بلند آہنگ اسلامی طبقے، جسے  سیکولر حکومت کے تحت لگ بھگ ایک صدی تک دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا تھا، نے ایک انقلابی ولولے کے ساتھ دوبارہ سے اقتدار حاصل کر لیا۔ ایران میں 1979ء سے شروع ہونے والا اسلامی انقلاب زیادہ واضح، ایکاایکی اور خونی اوصاف سے متصف تھا۔ اس کے برعکس، ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کی حکومت میں زور پکڑنے والا انقلاب نسبتاً ملائم، بتدریج، جمہوری اور قدرے پرامن تھا۔ تاہم اس کے باوجود دونوں ملکوں کے حوالے سے یہ کہنا بجا ہے کہ اسلام ایک انتقامی جذبے کے تحت سیاسی قوت کی صورت میں سامنے آیا، لیکن اس سے صرف غیرمتوقع نتائج برآمد ہوئے۔

یہی وجہ ہے کیونکہ 1979ء کے ایرانی انقلاب کو اپنے اصل مقصد یعنی ایرانی معاشرے کی دوبارہ سے اسلام کی جانب واپسی (re-islamize) کی بجائے، کم از کم  جزواً ہی سہی  تاہم  اس کے الٹ، یعنی ایران کی اسلام سے دوری، کے حوالے سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تہران  جانے والے غیر ملکی روز مرہ زندگی میں اکثروبیشتر ان نتائج کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ نکولس پیلم (Nicholas Pelham) ایسے ہی ایک سیاح ہیں جو ’’دی اکانومسٹ‘‘  اخبار کے مشرق وسطیٰ میں نمائندے کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ ان کو سال 2019ء کے موسم گرما میں ایرانی انٹیلی جنس نے ہفتوں تک حراست میں رکھا اور پھر رہائی کے بعد ہی وہ درج ذیل مشاہدات کو رپورٹ کرنے کے قابل ہوئے :

’’ایران کی مذہبی شہرت کے باوجود تہران شاید مشرق وسطیٰ کا وہ دارالحکومت ہے جو سب سے کم مذہبی ہے۔ اخبار مذہبی رہنماؤں کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں جو قسط وار ڈراموں (soap operas) میں معاشرے کے بڑوں کا کردار ادا کرتے ہیں، لیکن میں نے ان کو اشتہاری بل بورڈوں کے علاوہ گلیوں محلوں میں کبھی نہیں دیکھا۔ بہت سے دوسرے مسلمان ملکوں کے برخلاف، تہران میں اذان کی صدا تقریباً سنائی ہی نہیں دیتی۔ نئی مساجد کی تعمیر کے واسطے ایک بھرپور مہم برپا ہے، تاہم جمعہ کے روز نماز جمعہ ادا کرنے کی بجائے لوگوں کی اکثریت آرٹ گیلریز کو جاتی ہے۔۔ شراب ممنوع ہے تاہم پیزا(Pizza)کے مقابلے میں گھر پہ شراب زیادہ جلدی پہنچائی جاتی ہے‘‘۔۔۔۔۔

’’ اپنے گھروں کی محفوظ چاردیواری کے اندر خواتین اکثر و بیشتر اپنے سر کو ڈھکنے والے حجابات کو اتار دیتی ہیں جب وہ انٹرنیٹ پر گفتگو (چیٹ) کرتی ہیں۔ تاریک سینما ہال، اخلاقی نظم و ضبط کا نفاذ کرنے والی پولیس کی نگاہ سے بچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ چائے خانوں (Cafe) میں خواتین بےاطمینانی کے سبب  اپنے سکارفوں کو کھول دیتی ہیں۔ قدرے زیادہ شوخ و بیباک خواتین دس برس کی قید کا خطرہ مول لے کر  گلیوں میں بے حجاب نکلتی ہیں ۔ ۔۔ ایران خود کو ایک ملائی حکومت قرار دیتا ہے، اس کے باوجود مذہبیت کو تلاش کرنا پریشان کن حد تک مشکل معلوم ہوتا ہے نیز حقیقی مذہبی پیروکار کسی اقلیت کی مانند حاشیے تک محدود دکھائی دیتے ہیں‘‘ [8]۔

عمل صالح  سے ہمہ گیر دُوری، اسلام کی تشکیلِ نو (re-Islamization)کی بابت ایرانی انقلاب کے ولولے کی ناکامی کی صرف ایک جہت ہے۔ اسلام سےکھلم کھلا انحراف   نسبتاً زیادہ سنگین جہت ہے یعنی ایک انتہائی ناگوار فعل جس سے روکنے کے واسطے اسلامی جمہوریہ ایران سزائے موت کے نفاذ کی خواہاں ہے۔ جیسا کہ میں نے کسی دوسری جگہ لکھا کہ ایران مسلم اکثریت کا حامل ملک ہے جو مرتدین  کی تعداد کے اعتبار سے سرفہرست ہے[9]۔ ان سابقہ مسلمانوں کی اکثریت مسیحیت اختیار کرتی ہے جس کی بدولت ایرانی کلیسا، دنیا کا سب سے تیزی سے پھلنے پھولنے والا چرچ ہے[10]۔ ایک مطالعہ کے مطابق، 1960ء سے لیکر 2010ء تک کے درمیانی عرصے میں دائرہ اسلام سے نکل کر مسیحیت اختیار کرنے والوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے[11]۔ ایک حالیہ مطالعے  کے مطابق  یہ تعداد  ڈھائی سے لے کر پانچ لاکھ لوگوں  کے لگ بھگ  ہے[12]۔ مذہب بدلنے والوں میں سے بعض خفیہ طریقے سے اپنے نئے عقیدے پر عمل کرتے ہیں؛ اور بعض اپنی جانوں کو بچانے کے واسطے بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں ۔

علاوہ ازیں ، کچھ ایرانی مرتدین مسیحیت اختیار نہیں کرتے، بلکہ اس کی بجائے کھلم کھلا ’’ ملحد‘‘  بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے ایک اعظم کمگویان (Azam Kamguian) نامی خاتون ہے جو تاثینی حوالے سے سرگرم ہے اور بمشکل ہی ایرانی انقلاب کے ہاتھوں سے محفوظ رہی، بیرون ملک منتقل ہو گئی، اور کئی کتابیں بشمول ’’لادینیت، مذہب سے چھٹکارا اور انسانی مسرت‘‘  (Godlessness, Freedom from Religion & Human Happiness) تحریر کیں[13]۔ ایک دوسری کتاب میں، مذکورہ خاتون نے نہایت پرجوش انداز میں اس بارے میں لکھا کہ 1979ء کے بعد ایران میں ’’اسلام نے تین متواتر نسلوں کی زندگیوں، خوابوں، امیدوں اور امنگوں کو کیسے تباہ  کر ڈالا‘‘ [14]۔ یقیناً، ان تمام عوامل کے پس پردہ قوت، اسلام بذات خود نہیں تھا بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران  تھی۔ تاہم بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ مابعد انقلاب کے ایران میں ان دونوں کو باہم گڈمڈ کر دینا آسان ہے ۔

عرب دنیا میں لادینیت کی ایک موج

عرب دنیا  سے متعلق  بھی جان لیجیے۔ یقیناً یہ ایک بڑا اور متنوع منظرنامہ ہے، جو مختلف سیاسی تواریخ  اور نظاموں (سسٹمز) کے علاوہ جدا جدا فرقوں، نسلوں یا قبائل کے حامل بائیس آزاد ممالک پر مشتمل ہے۔ تاہم، عرب دنیا میں لادینیت کی ایک نئی لہر کے آثار کا مشاہدہ ممکن ہے ۔

پرنسٹن اور مشی گن کی دانشگاہوں میں واقع عرب بیرومیٹر (Arab Barometer) نامی ایک تحقیقی نیٹ ورک نے حال ہی میں اس قسم کے چند آثار کو نشان زد کیا ہے۔ چھ عرب ممالک (الجیریا، مصر، تیونس، اردن، عراق اور لیبیا) میں ہونے والی رائے شماری میں اس تحقیقی نیٹ ورک کے محققین نے اس بات کو دریافت کیا کہ ’’عرب مذہبی جماعتوں اور رہنماؤں کے حوالے سے بدظن ہو رہے ہیں‘‘[15]۔ چنانچہ پانچ برس کے عرصہ میں اسلامی جماعتوں پر اعتبار نہ کرنے والے عراقیوں کی تعداد اکیاون (51) سے بڑھ کر اٹھہتر (78) فیصد تک پہنچ گئی تھی، اور متذکرہ بالا ممالک میں ’’ اسلامی جماعتوں پر اعتبار‘‘  کا تناسب 2013ء میں پینتیس (35) فیصد تھا جو 2018ء میں گھٹ کر بیس (20) فیصد رہ گیا۔ مسجد میں جانے والوں کی تعداد میں بھی اوسطاً دس فیصد سے زیادہ کمی ہوئی، نیز 2013ء میں اپنے آپ کو ’’غیر مذہبی‘‘  کہنے والے عربوں کی تعداد آٹھ (8) فیصد تھی جو 2018ء میں تیرہ (13 فیصد) ہو گئی۔

ایسا کیونکر ہو رہا ہے؟ ایک جواب یہ ہے کہ حال ہی میں عرب دنیا کے اندر اسلام کے نام پر بہت زیادہ خطرناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں شام، عراق اور یمن میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی خانہ جنگیاں شامل ہیں، جہاں متحارب گروہوں نے اکثر و بیشتر انتہائی ظالمانہ انداز میں خدا کے نام پر جنگ میں حصہ لیا ہے۔ ان جنگوں سے متاثر ہونے والے لاکھوں مقامی اور دور بیٹھ کر ان حالات کا مشاہدہ کرنے والے، دونوں ہی مذہبی سیاست کے ہاتھوں شدید صدمے اور مایوسی کے تجربے سے گزرے ہیں، نیز چند ایک نے عمیق سوالات کو اٹھانا شروع کر دیا۔

سخت سوالات پوچھنے اور ان کے نتیجے میں مذہب سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں میں سے ایک، بغداد کا رہائشی باون (52) برس کا  عمر رسیدہ ابو سمیع  نامی شخص ہے، جس نے ایک ’’ڈھکے چھپے عراقی ملحد‘‘  کی حیثیت سے اپریل 2019ء میں امریکہ کے خبر رساں ادارے قومی نشریاتی کمپنی (NBC News) سے بات چیت کی[16]۔ رپورٹ کے مطابق، اس نے کہا کہ ’’ ہم سنتے تھے کہ اسلام امن کا دین ہے، تاہم داعش (ISIS) نے عفریتوں اور وحشیوں بلکہ ان سے بھی بدتر سلوک کیا‘‘ ۔ اور اسی نکتے کے سہارے  ابوسمیع نے ایک بڑا موقف اختیار کیا،’’  کیا اسلام ایک امن پسند مذہب ہے؟ بالکل نہیں، اور میں ایسے مذہب کا حصہ بن کر نہیں رہنا چاہتا‘‘  ۔

ایک دوسرا عراقی شہری، اسلامسٹ (اسلامیت پسند) دانشور اور محقق، غالب الشابندر (Ghalib al-Shahbandar) بھی اس صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے اور ایک  مسلمان کی حیثیت سے اس بابت پریشانی کا شکار ہے۔ وہ تنبیہ کرتا ہے کہ ’’ اسلامی جماعتوں کی  الٹی حرکتوں  کی بدولت لادینیت کی ایک لہر عراق میں پھیل جائے گی‘‘[17]۔(نیز)’’   یہی وہ حرکتیں ہیں  جس نے لوگوں کو اسلام و دیگر مذاہب کو ترک کرنے پہ مجبور کر دیا ہے‘‘ ۔

داعش اور اس کے ذیلی گروہوں کی بربریت کے علاوہ، بشار الاسد حکومت کے جبر کے نتیجے میں، کٹے پھٹے ہمسایہ ملک شام میں بھی ایسا ہی  رجحان موجود ہے: ’’  شامی نوجوانوں کے ہاں ارتداد میں اضافہ‘‘[18]۔ تشدد اور انتشار کی اس صورتحال کے بیچوں بیچ، مصری لکھاری شام العلی (Sham al-Ali) لکھتا ہے کہ ’’  مذہب (اسلام) پر ہونے والی تنقید پہلے سے زیادہ زور پکڑ چکی ہے، اور بہت سے شامی نوجوان بالخصوص یورپ کے باسی، اپنے قدیم  مذہبی طرزِ حیات کو ترک کر رہے ہیں‘‘ ۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ’’   اجتماعی سطح پر بھی عرب سوشل میڈیا مذہب مخالف نقادوں اور ان کے (مذہب دشمن) مواد  سے لبالب ہے، جو اس بات کی پرجوش دعوت دیتا ہے کہ مذہبی اساطیر کی حیثیت کو ازسرنو طے کیا جائے ، یا پھر وہ مذہبیت کا خوب ٹھٹھا اڑاتا ہے‘‘[19]۔

سوڈان بھی اسلام ازم (اسلامیت)کے ایک ہولناک تجربے سے گزرا ہے۔ مسلم اکثریت کی حامل افریقی قوم نے 1989ء تا 2019ء کا عرصہ، فوجی صدر عمر البشیر کی آمرانہ حکومت کے تحت گزارا ہے۔ 2019ء کے اوئل میں ہونے والے عوامی احتجاجوں یا ’’   سوڈانی انقلاب‘‘ کے نتیجے میں البشیر کا اقتدار ختم ہوا، اور اس کی حیران کن بدعنوانی بھی آشکار ہوئی: سیکورٹی فورسز نے تین سو پچاس (350) ملین ڈالر (پینتس کروڑ ڈالر) کی نقدی صرف اس کی رہائش گاہ سے برآمد کی۔ یہ ایک عوامی سبق تھا کہ ’’   ایک شخص جس نے اپنے غربت زدہ ابتدائی حالات کا ذکر کرتے ہوئے ہمیشہ عوامی جذبات کو بھڑکایا تھا‘‘ ، وہ صرف ’’   عوام کی نسلوں کی تباہی کے واسطے اپنے لالچ اور ہوس‘‘ کو چھپا رہا تھا[20]۔ اور عوام نے واقعی یہ سبق سیکھ لیا۔ قطر  ی نژاد  ایک ممتاز مسلم عالم،  عبدالوہاب الآفندی  کے بقول، مابعد انقلاب دور کے سوڈان میں ’’  اسلام ازم (اسلامیت) بدعنوانی، منافقت، ظلم اور بدعقیدگی کا نشان بن گیا۔ معروف معنوں میں سودان ہی وہ پہلا ملک ہے جو حقیقی معنوں میں اسلامسٹ (اسلامیت پسندوں کا)مخالف ہے‘‘[21]۔

تاہم حقیقی معنوں میں اسلام ازم (اسلامیت)  کیا ہے؟

اس موقع پر یہ نشان دہی کر دینا شاید کارآمد ثابت ہو کہ ہم یہاں دو باہم منسلک مگرامتیازی رجحانات کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ ترکی، ایران، سودان اور کسی بھی دوسرے ملک میں اسلام ازم(اسلامیت) بیزاری، عین ممکن ہے کہ خود اسلام بیزاری کی جانب لے جائے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بیزاری، لادینیت یا الحادی الہٰیت یا پھر مسیحیت کی جانب لے چلے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ مذکورہ امر کے سبب انسان نسبتاً کم سیاسی عقیدے کی آرزو کرنے لگ پڑے۔ مؤخر الذکر سبب یقیناً تمام ’’ مابعد اسلامسٹ‘‘  پس منظروں میں موجود ہے، اور  ہو سکتا ہے کہ آخر میں مذکورہ رجحان (نسبتاً کم سیاسی عقیدے کی آرزو) مکمل ترکِ اسلام کے مقابلے میں زیادہ زور پکڑ لے ۔

تاہم اسلام ازم(اسلامیت) کو سنی یا شیعہ اسلام کے مرکزی دھارے سے جدا کرنا سہل نہیں ہے۔ اسلامسٹ(اسلامیت پسند) جماعتیں مثلاً  مصر میں اخوان المسلمین، شاید مذہب کو سیاست سے مزید آلودہ کر رہی ہوں نیز دہشت گرد گروہ اس آلودگی میں اندھا دھند تشدد جیسے گمراہ کن عنصر کا اضافہ کر رہے ہیں۔ تاہم یہ سبھی لوگ (اسلامیت پسند جماعتیں اور دہشت گرد گروہ) اسلام کی فقہی روایت یعنی نفاذِ شریعت کے علمبردار بن رہے ہیں۔ وہ شریعت جس کی مرکزی تعبیرات ایسے احکامات پر مبنی ہیں جن کی قبولیت جدید زاویہ نگاہ کے لیے دشوار ہے۔ مثلاً مرتدین اور توہین رسالت کے مجرموں کے لیے سزائے موت، زانی کے لیے سزائے رجم، چوروں کے ہاتھ کاٹنا، کئی گناہوں پر سرعام کوڑے مارنا، خواتین پر لباس کے ضابطوں کی پابندی، عورتوں پر مردوں کی حاکمیت، غیرمسلموں پر مسلمانوں کی برتری، اور مجموعی طور پر ایک ایسے تنگ نظر (closed) معاشرے کا کلی تصور جو نہ صرف مذہب پر استوار ہے بلکہ مذہب اس پہ نگہبان (policed)ہے۔

شامی نژاد عوامی دانشور محمد شحرور (متوفی 2019ء) نے، جن کے اسلام سے متعلق اصلاح پسند تصورات کو عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر موضوع بحث بنایا گیا ہے، اس نکتے پر زور دیا ہے: کہ مسئلہ صرف اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) کی جانب سے نہیں ہے جو شاید نفاذ شریعت کے واسطے مخصوصی سیاسی لائحہ عمل کے حامل ہیں، بلکہ مرکزی دھارے کے ان روایتی اہل علم یعنی علماء کی جانب سے بھی ہے جو شریعت کی قدیم تعبیرات کے علمبردار ہیں۔ اپنی ایک تحریر میں مسلمانوں کو ’’ تنقیدی استدلال‘‘  (critical reasoning) کی دعوت دیتے ہوئے شحرور نے لکھا:

’’ ابتداء میں ہم سمجھے کہ اسلام ازم(اسلامیت)  کو علماء کے ہاں موجود ٹھوس علمی روایت سے انحراف کی حیثیت سے بیان کیا جائے گا، اور ہمیں علماء سے توقع تھی کہ وہ اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) نیز سیاسی اسلام اور ساری دنیا کو مسلمان کرنے سے متعلق ان کے جارحانہ جذبات کی تردید کریں گے۔ ہمیں اس وقت بہت حیرت ہوئی جب ہم نے ذی وقار علماء کی جانب سے کسی قسم کے تردیدی بیان کی بجائے ایسی قانونی تشریحات سنیں جو بنیادی طور پر اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں)کے من گھڑت دعووں سے اغماض برتتی تھیں۔ ہم نے تب جانا کہ درحقیقت ارتداد، جہاد اور جنگ و جدل سے متعلق علماء کی تعبیرات اسلامسٹوں کی آرا سے زیادہ مختلف نہ تھیں‘‘ [22]۔

اس پس منظر میں، معاصر زمانے میں اسلام بیزاری صرف اسلامسٹوں (خواہ اخوان المسلمین جیسی سیاسی تحریکوں کی صورت میں متعین ہو، یا پھر انتہائی رخ پر دہشت گردوں کی صورت میں سامنے آئے)کی بدولت ہی نہیں ہے، بلکہ  قدامت پسند سنی، سلفی، یا شیعی علماء کے کارن بھی ہے، جو حریت، مساوات، اور انسانی حقوق جیسے جدید تصورات کے مخالف مذہبی نقطہ ہائے نظر کے حامی ہیں۔

مثال کے طور پر سعودی عرب کی مثال لے لیجیے جس نے حال ہی میں اخوان المسلمین جیسے اسلامسٹوں کی غضب ناک طریقے سے مخالفت کی ہے، تاہم اپنے ہاں شریعت کی سخت ترین قسم کو نافذ بھی کر رکھا ہے۔ سعودی حکمران  ’’لادینی افکار سے متعلق کسی بھی قسم کی تبلیغ، یا مذہب اسلام کے بنیادی ارکان پر سوال اٹھانے‘‘   کو دہشت گردی کے برابر جرم قرار دیتے ہیں[23]۔ تاہم جیسا کہ حاکم خطیب (Hakim Khatib) جیسے صحافی کے مشاہدے میں آیا، ’’  سعودی بادشاہت کے بہت سے شہری اسلام سے منہ موڑ رہے ہیں‘‘ اور ان میں سے بعض “Saudis without religion.”  نامی ویب گاہ پر اپنے خیالات وضاحت سے لکھ رہے ہیں[24]۔ اس کی ایک وجہ ان پر نافذ کردہ اسلام کی سخت تعبیر کا جبر ہے اور دوسری وجہ اس امکان  پر مبنی ہےکہ ایک متبادل دنیا کا ذائقہ چکھا جائے۔ بقول خطیب،

’’دیگر اشیاء کے علاوہ، غالباً جو شے سعودی باشندوں کو ان کے مذہب سے دور لے جا رہی ہے، وہ سعودی عرب میں نافذ کردہ سخت گیر اور غیر انسانی اسلامی قانون نیز معلومات اور بڑے پیمانے پر ترسیل معلومات تک آسان رسائی ہے‘‘ [25]۔

عقیدے سے دوری کے اصل تناسب  کا اندازہ لگانا دشوار ہے کیونکہ اس حوالے سے کوئی (باقاعدہ) سروے نہیں ہے نیز بیشتر لوگ اس موضوع پر بات کرنے میں محتاط ہیں۔ تاہم یہ معاملہ نہ صرف سعودی عرب میں بلکہ دیگر ہمسایہ بادشاہتوں میں ایک نہایت سنجیدہ مسئلے کی صورت اختیار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جسے میڈیا بھی اٹھا رہا ہے کہ ’’ ہمارے خلیج فارس کے معاشروں کی نوجوان نسل میں لادینیت کو قبول کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے‘‘[26]۔

 (لادینی فکر کی ترویج میں) انٹرنیٹ اور بالخصوص سوشل میڈیا ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے جیسا کہ اکثر و بیشتر اس جانب اشارہ کیا جاتا ہے، تاہم محض ایک برآمد شدہ ’’ملحدانہ خیال" کے علمبردار کی حیثیت سے  نہیں جیسا کہ قدامت پسندوں کا عمومی ایقان ہے، بلکہ ایک آزاد مقام کی حیثیت سے، جہاں لوگ (مذہب سے متعلق) اپنے داخلی اضطراب کو بیان کر سکتے ہیں اور ان  میں ایک دوسرے کو شریک  کر سکتے ہیں، جیسا کہ عبداللہ حمید الدین نے 2019ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب (Tweeted Heresies: Saudi Islam in Transformation) میں اس بات کو اجاگر کیا[27]۔ نوجوان نسل کے ہاں عقیدے  سے محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے، حمید الدین اپنے ذاتی تجربے کے ذریعے دکھاتے ہیں کہ ایسا صرف ان  کے اٹھائے ہوئے سوالات کی بنا پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی ایک وجہ ’’ روایتی مذہبی علماء کی جانب سے دیے جانے والے گھڑے گھڑائے جوابات پر شک اور اضطراب‘‘ بھی ہے[28]۔

ایسی ہی کہانیاں مراکش  سے سننے کو ملتی ہیں جہاں سیاست اور قوانین قدرے نرم ہیں لیکن روایتی اسلام اور جدید اقدار کے مابین کشمکش ہنوز برقرار ہے۔ اس کشمکش کی بدولت ترکِ اسلام کرنے والوں میں سے ایک سابقہ مسلمان محمد نامی شخص ہے جس نے ایک مغربی استاد کے ساتھ بات چیت کی۔ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس کے مسلمان ساتھیوں کی خود راستی (self-righteousness) اس کے لادین ہونے کی وجہ بنی:

’’اس کے ترکِ دین کا بنیادی محرک اہل اسلام کے ہاں اس حقیقت کا مشاہدہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو ’’  ایک حتمی صداقت کے واحد مالک‘‘  سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ’’ صرف اور صرف مسلمان ہی جنت میں داخلے کے مستحق  ہیں‘‘ ۔ ’’  تو باقی دنیا کا کیا بنے گا؟‘‘ محمد نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ نیز یہ بھی کہ ’’ میرے ایک ہم جماعت کی ماں یہودی تھی۔ میں اس اچھی خاتون کے دوزخ میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘‘ ۔ بعینہ، وہ محمد رسول اللہ (ﷺ) کی ایسی احادیث سے تکدرمحسوس کرتا تھا جو ’’ عورتوں، غیرمسلموں، جنگوں وغیرہ کےحوالے سے ہرگز اخلاقیات پر مبنی محسوس نہ ہوتی تھیں‘‘[29]۔

دیگر مراکشی ملحدین اپنے ترکِ اسلام کی بابت ایسی ہی ملتی جلتی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ عبداللہ نامی ایک سابقہ مسلمان کے نزدیک، اسکے ترکِ دین کی کلیدی  وجہ اس کے رابطے میں آنے والے مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے ہاں ہم جنس پرستوں (gays)  سے نفرت تھی۔ اس کا سوال تھا کہ ’’  اگر خدا نے ہی ہم جنس پرستوں کو پیدا فرمایا ہے تو پھر وہ ان کے گناہوں کے سبب ان کو کیونکر پھٹکار سکتا ہے؟‘‘[30]۔ ایک دوسرے سابقہ مسلمان کے نزدیک،’’   صنفی امتیاز جیسے اخلاقی مسائل کی بدولت جنم لینے والا تذبذب‘‘  ہی اس کے ترکِ دین کی حتمی وجہ ثابت ہوا [31]۔

یہی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر شمالی افریقہ سے لیکر جنوب مشرقی ایشیاء تک اسلامسٹ (اسلامیت پسند) اور  قدامت پسند علماء مسلمانوں کو فرد  اور رائے کی آزادی یا صنفی امتیاز جیسی جدید اقدار کے خلاف متنبہ کر رہے ہیں۔ ملائیشیا میں ’’   لبرلزم اور تکثیریت‘‘   کے خلاف مساجد میں خطبے دیئے گئے، جب کہ اس کے سابق وزیراعظم نے ’’   انسانی حقوق پرستی‘‘   کی مذمت کی[32]۔ سعودی عرب میں، وزارت تعلیم کے تحت سرکاری سکولوں میں ایک پروگرام رواں دواں ہے جو ’’   لبرلزم‘‘  ، ’’سیکولرازم‘‘ ، اور ’’  مغربیت‘‘  کے خلاف ’’  مدافعت‘‘  (immunity) پیدا کرتا ہے[33]۔ اور ترکی میں، اردگان کے حامی دانشور ’’   لبرل جمہوریت بحران کا شکار ہے‘‘   کی دہائی  دے رہے ہیں [34]۔

بحران کا شکار اسلام

محولہ بالا تمام تر واقعات، مشاہدات، رپورتاژ اور اعداو و شمار ایک وسیع تر داستان، کہ عظیم اسلامی تہذیب ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہے، کے محض چند اجزا ہیں۔ شاید یہ بات چند مغربی افراد کے کانوں کو ایک اونچی بڑھک سنائی دے، تاہم درحقیقت اس بحران کو بیشتر معاصر مسلمان بشمول اسلامسٹ اور قدامت پسند، جن پر محولہ بالا سطور میں تنقید ہوئی ہے، ایک منصفانہ بات تسلیم کریں گے۔ وہ لوگ مجھ سے صرف بحران کی نوعیت کے ضمن میں اختلاف کریں گے۔

بیشتر لوگوں بالخصوص اسلامسٹوں کے نزدیک، مذکورہ بحران دراصل سیاسی ہے کیونکہ (بیسویں صدی کے اوائل میں) سقوط خلافت کے زمانے سے اہل اسلام کے ہاں مضبوط ریاستوں یا رہنماؤں کا وجود نہیں ملتا۔ وہ رہنما جو ان کے داخلی مناقشات کو ختم کرنے، بیرونی دشمنوں (بالعموم مغرب اور اسرائیل) کو شکست دینے اور دنیاوی کامیابی کے حصول کی خاطر ان کو متحد اور متحرک کرنے کے قابل ہوں۔ مسلمان معاشرے، استعمار کے تنخواہ دار گماشتوں یا (مِلی و قومی) غداروں (ففتھ کالمز) کے ہاتھوں گنجلگ ’’غیر اسلامی‘‘ تصورات کی دلدل میں دھنس رہے ہیں، اور ہنوز ’’خوابِ خرگوش‘‘  میں مگن ہیں۔ اسلامسٹوں کی عمومی رائے کے مطابق،  بیداری کی خاطر مسلمانوں کو ایک ہراول تحریک (جس سے ان کی مراد عموماً وہ خود ہوتے ہیں)، یا پھر ایک ’’نئے صلاح الدین ایوبی‘‘  (جس سے ان کی مراد عموماً اسلامسٹوں کا کرشماتی رہنما ہوتا ہے)، کی حاجت ہے جو اسلامی اتحاد کو ازسرنو بحال کرے گا اوروہی  ہماری قدیمی شان و شوکت کو پھر سے زندہ کرے گا۔

قدامت پسند مذکورہ استدلال کے جوہر سے متفق ہوں گے لیکن وہ عام طور سے اس بات کا اضافہ کریں گے کہ حالیہ بحران کی بنیاد میں  ایک اخلاقی بحران بھی ہے  کہ ایک اعتبار سے ہم مسلمان راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ قدامت پسندوں کا استدلال ہے کہ ابتدائی زمانے کے مسلمانوں کے برخلاف، ہم جدید عہد کے مسلمانوں کو اخروی کی بجائے دنیاوی نفع اور مسرتوں کی لت لگ چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم رحمتِ خداوندی اور اپنے دین کی روحانی قوت کو کھو بیٹھے ہیں ۔

بالفاظِ دگر، اسلامسٹ اور قدامت پسند، دونوں کا استدلال ہے کہ ہمارے پاس موجود نظریہ، یعنی اسلامی روایت، تو کامل ہے اور ہم صرف اس پر عمل کرنے کے باب میں ناقص ہیں۔ اور (اس کامل روایت پر عمل پیرا ہونے کی) ہر ناکام کاوش کے بعد وہ لوگ  بڑی آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ’’ لیکن یہ حقیقی اسلام نہیں ہے‘‘، اس امید کے ساتھ کہ اگلی کوشش کامیاب ٹھہرے گی۔ تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے ہاں بنیادی نظریے کے ساتھ ہی مسئلہ اور نقص ہے۔ اور خاص کر اس سطح پر کہ جہاں اسلامسٹ اور قدامت پسند دونوں ہی اسلامی روایت کو بے عیب سمجھتے ہیں: یعنی اقدار۔

میری مراد یہ ہے۔ چند صدیاں قبل، دنیا میں بمشکل ہی کوئی شخص اسلامی تہذیب کو اس کی اقدار کے پیش نظر تنقید کا نشانہ بنا سکتا تھا۔ کیونکہ دنیا کے دیگر حصوں بشمول یورپ کے پاس دینے کو کچھ بہتر نمونہ نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، جب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ تیس سالہ جنگ (1618ء تا 1648ء) کے دوران ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے تھے، تو کثیر المذہبی عثمانی سلطنت برداشت اور رواداری کا روشن مینار دکھائی دیتی تھی۔ بعینہ، جب پندرھویں صدی عیسوی میں کیتھولک سپین میں یہودیوں پر مقدمے چلائے جا رہے تھے، ان میں سے بیشتر امن اور آزادی کی تلاش میں اسلامی تہذیب کی جانب روانہ ہوئے۔

تاہم لبرل جدیدیت کے ظہور کے ساتھ دنیا ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو چکی ہے، لازمی طور پر بہتری کی جانب اور کم از کم اپنی اقدار کے ضمن میں۔ ’’انسانی حقوق‘‘ انسانیت کے ایک عظٰم الشان حصے کے ہاں تسلیم کردہ ایک ’’ عالمی‘‘  قدر بن چکی ہے (خواہ ان کے ناقابلِ احتساب حکمرانوں کے ہاں ایسا نہ ہو)۔ چنانچہ یہ امر ایک بدیہی صداقت بن چکا ہے کہ کسی شخص کو بھی مذہب پر ایمان لانے کی خاطر مجبور نہیں کرنا چاہیے، اور تمام افراد کو اپنی مرضی کے عین مطابق زندگی بسر کرنے کا اہل ہونا چاہیے تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ بعینہ، قانون کی نگاہ میں رنگ، نسل اور جنس کی تفریق کے بغیر برابری نے انصاف اور شعور کے ایک نئے معنی کو جنم دیا ہے۔

عصرِ جدید سے بہت پہلے ظاہر ہونے والے تمام تر روایتی مذاہب کو (عصر جدید کے ساتھ) مطابقت درکار تھی اور بیشتر نے ایسا کر لیا۔ پروٹسٹنٹ نے ’’  بدعتیوں‘‘ (heretics)  اور ’’ جادوگرنیوں‘‘ کو آگ میں جلا کر یا کسی دوسرے مہلک ذریعے سے ہلاک کرنے کو ترک کر دیا۔ کیتھولک نے، جن کی تاریخ صلیبی جنگوں اور مذہبی تفتیش (Inquisition) جیسے سنگین واقعات پر مشتمل ہے، بیسویں صدی تک سیاسی سیکولرازم یا مذہبی آزادی جیسے جدید تصورات کی مزاحمت کی۔ تاہم 1960ء کی دوسری ویٹیکن کونسل اور اس کے ’’ عظمتِ انسان‘‘ (Dignitatis Humanae) نامی  لبرل اعلامیے کے ذریعے کلیسا نے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا۔ یہودیت، جو  کسی گروہ کے قانونی مقاطعے کے قابل کسی قسم کی سیاسی سیادت سے محروم تھی، مگر  اس کے باوجود گتھی ہوئی معاشریت (communitarianism) کی حامل تھی، (اٹھارویں صدی کی تحریک برائے اصلاحِ مذہب یعنی) ’’ دانش‘‘ (Haskalah) یا یہودی روشن خیالی کے دور سے گزری جس نے یہودیوں کو جدید معاشرے میں جذب ہونے، حتی کہ کچھ معاشروں کی بنیاد رکھنے میں آسانی فراہم کی۔

تاہم اسلام کے ضمن میں ابھی تک ہم نے کوئی بڑا لبرل قدم نہیں اٹھایا۔ مسلم اکثریت کے حامل بیشتر ممالک میں مذہب کے مرکزی رہنماؤں کے ہاں ابھی تک ماقبل جدید دور کا اندازِ جہاں بینی اور اصولِ فقہ و قانون (jurisprudence) موجود ہے، جس کا جدید اقدار کے ساتھ تناؤ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ’’ اسلام امن کا مذہب ہے‘‘، یہ بات ناقابلِ یقین ہے جب اس کے ساتھ یہ بھی کہا جائے کہ ’’ مرتدینِ اسلام واجب القتل ہیں‘‘۔ بعینہ، اس بات پر اصرار کرنا بے معنی ہے کہ ’’  اسلام خواتین کو بہت عزت بخشتا ہے‘‘  جب کہ ہمارے پاس ایسے مستند متون موجود ہوں کہ بیوی کو مارنے کے مناسب انداز کون سے ہیں۔

مستقبل کا راستہ : اسلامی جدیدیت

چنانچہ، عظیم الشان اسلامی تہذیب کو درپیش یہ بہت بڑا بحران، دو گروہوں کی باہمی کشمکش سے پھوٹتا ہے۔ پہلے وہ مسلمان جو اس ماقبل جدید دور کے اندازِ جہاں بینی اور اصولِ فقہ و قانون کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں (اور زیادہ بڑا المیہ یہ کہ اس کو سبھی پر نافذ کرنا چاہتے ہیں)، اور دوسرے وہ مسلمان جنھوں نے جدید لبرل اقدار کو تسلیم کر لیا ہے۔ موخر الذکر میں سے بعض لوگ بالخصوص جو مغربی ممالک میں مقیم ہیں نیز اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) اور قدامت پسندوں دونوں کے دباؤ سے آزاد ہیں، عین ممکن ہے کہ اس مسئلے سے نظریں چرا پائیں، تاہم ان کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ روایتی تعلیمات کو قدرے باریک بینی کے ساتھ دیکھیں۔ نوٹرے ڈیم کی دانشگاہ میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ابراہیم موسی بیان کرتے ہیں کہ ’’معاصر عہد کے وہ مسلمان جو دینی تعلیمات سے آگاہ ہیں‘‘ ، کیسے شدید حیرت کا شکار ہو سکتے ہیں:

’’جب غور و خوض کرنے والے ایسے جدید مسلمان مساجد کے خطبات سنتے اور وہاں دی جانے والی تعلیمات کو دیکھتے ہیں یا علماء کے جاری کردہ فتاویٰ پڑھتے ہیں، وہ اکثرو بیشتر چکرا کر رہ جاتے اور غم و غصہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تاہم جو وہ سنتے ہیں، وہی سنیت (Sunnism) کا حقیقی موقف ہے‘‘[35]۔

ابراہیم موسیٰ بذات خود ’’اسلامی جدیدیت‘‘  یا ’’اسلامی ترقی پسندی‘‘  (Islamic Progressivism) کے ایک سوچنے سمجھنے والے حمایتی ہیں۔ ’’اسلامی جدیدیت‘‘  اسلام کے بنیادی ماخذوں یعنی قرآن مجید، اور سنت (فعلِ پیغمبرﷺ) کے ازسرنو مطالعہ کی ایک کاوش ہے جو بنیادی ماخذوں کو ان کے تاریخی پس منظر میں رکھتے ہوئے جدید تناظر میں ان کی غیر جامد/اجتہادی (non-literal) تعبیر نو  سے عبارت ہے۔ مذکورہ رجحان نوجوان عثمانیوں (Young Ottomans) جیسے سیاسی مصلحین اور محمد عبدۂ جیسے مصری یا ہندوستانی سرسید احمد خان جیسے مذہبی مصلحین کی بدولت انیسویں صدی میں ظاہر ہوا، وہ مصلحین جنھوں نے بقول کرسٹوفر ڈی بیلاگ (Christopher de Bellaigue) ’’اسلامی روشن خیالی‘‘ (Islamic Enlightenment) کی دانشوارانہ بنیادیں استوار کیں[36]۔ بیسویں صدی میں سیکولر اور اسلامسٹ قوتوں کے مابین مسلسل تصادم کی بدولت اسلامی جدیدیت کا دائرہ سکڑ گیا (اور بعض اوقات اسلامی جدیدیت کو ان طاقتور فریقین نے اختیار کیا)، تاہم اس نقطہ نگاہ کو فضل الرحمن ملک جیسے دانشوروں نے مزید کھول کر بیان کیا، جنھوں نے تعبیرِ قرآن مجید کے واسطے ایک جدید علم التفسیر اور سنت رسول (ﷺ) کے ایک تنقیدی تجزیاتی مطالعہ کو پیش کیا[37]۔

اسلامی جدیدیت (تاریخی اعتبار سے) عیسائیت اور یہودیت سے مماثلت کی حامل ہےکہ اس  نے بھی لبرل جدیدیت کو اختیار کرتے ہوئے یکساں رویہ اختیار کیا، یعنی حاصلاتِ عقل کی تحسین کرتے ہوئے اپنی مذہبی جڑوں سے وفاداری۔ ڈینیل فلپوٹ (Daniel Philpott) اپنی کتاب ’’اسلام میں مذہبی آزادی‘‘  (Religious Freedom in Islam) (مطبوعہ 2019) میں اس مماثلت کو بیان کرتے ہیں کہ ’’ عظمتِ انسان‘‘ (Dignitatis Humanae) کی جانب کیتھولک عیسائیت کا اختیار کردہ راستہ کیسے اسلام کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کہ وہ اپنے ہاں قرآن و سنت سے استناد حاصل کرنے والے ’’ تخمِ حریت و روشن خیالی‘‘  کی آبیاری کرے[38]۔

ایسے مسائل سے نبردآزما ایک مسلمان کی حیثیت سے میں بذات خود اس یقین کا حامل ہوں کہ مذکورہ یعنی اسلامی جدیدیت کا راستہ ہی امت مسلمہ کے مستقبل کے واسطے   محفوظ ترین راستہ ہے۔ مذکورہ راستہ اسلام کی بنیادوں کے ساتھ وفادار رہنے کا راستہ ہے، نہ صرف معاصر انسانی شعور میں پیوست جدید اقدار کو قبول کرتے ہوئے بلکہ اپنے (مذہبی) عقائد کے ساتھ ان  کو ہم آہنگ کرتے ہوئے۔ یہ اینگلو سیکسن معاشروں سے مماثل  راستہ ہے، وہ معاشرے جہاں مذہب، حریت اور جدید ترقی، جانی دشمنوں کی بجائے  اکثر و بیشتر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دکھائی دیتے ہیں[39]۔

تاہم اگر اسلامی جدیدیت کو حاشیے پر ہی رکھا جاتا ہے، تو امت مسلمہ ان دونوں انتہائوں کے مابین بٹی رہے گی: (ایک جانب) قدامت پسند اور اسلامسٹ (اسلامیت پسند)  جو ماضی کے عہد کو محفوظ اور یہاں تک کہ ازسرنو تازہ کرنا چاہتے ہیں اور (دوسری جانب) جدید ذہن کے حامل مسلمان جو ’’ الحادی الہٰیت‘‘ (deism)، لادینیت اور مختلف انواع کے جنگی سیکولرازم کی جانب پہلے سے زیادہ مائل ہوں گے۔ یہ فرانس کے تجربے سے مشابہ ہے جہاں مذہب اور حریتِ فکر باہمی متصادم قوتوں کی حیثیت سے ابھرے جس نے معاشرے کو شدید سماجی جنگوں کی جانب دھکیل دیا۔

اس وقت تک اسلامی تہذیب میں (فرانس سے مشابہ) تھوڑے بہت واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ تاہم سخت ترین تصادم، چاہے خونی نہ بھی ہو، عین ممکن ہے کہ سماجی جنگوں کی شکل میں رونما ہو بالخصوص اگر قدامت پسند اور اسلامسٹ اپنے غیر لبرل، عدم برداشت پر مبنی اور نظریاتی بالادستی کے حامل طریقہ ہائے کار پر ڈٹے رہے۔ قدامت پسندوں کے ہاں روایت کے ساتھ غیر متبدل وابستگی اور اسلامسٹوں کے ہاں روایت کے نفاذ کی خاطر ہونے والی جارحانہ کوششوں نے پہلے ہی معاشروں کو مفلوج اور بہت سے لوگوں کو تباہ کر ڈالا ہے۔ عین ممکن ہے کہ مزید تباہی آئے تاوقتیکہ قدامت پسند اور اسلامسٹ اپنے نقطہ نگاہ کو نہیں بدلتے۔


کتابیات

    1. “Deizm Admonition from Erdogan to Minister Yilmaz,” Sozcu, April 10, 2018, https://www.sozcu.com.tr/2018/gundem/erdogan-konusuyor-155-2341574/.
    2. “Statement on Deism by Director of Religious Affairs Erbas,” Hurriyet, April 12, 2018, https://www.hurriyet.com.tr/gundem/diyanet-isleri-baskani-erbastan-deizm-aciklamasi-40803317.
    3. “The Directorate Declared War on Deism,” Hurriyet, Sep 22, 2018, https://www.hurriyet.com.tr/gundem/diyanet-deizme-savas-acti-40964168.
    4. Mustafa Acar, “The Deism Plague,” Istiklal, Sep 7, 2019, https://www.istiklal.com.tr/kose-yazisi/deizm-salgini/38218.
    5. “Deism is a Trap of the Missionaries,” Diyanet Haber, Nov 1, 2018, https://www.diyanethaber.com.tr/gundem/prof-dr-ali-erbas-deizm-misyonerlerin-bir-tuzagidir-h2163.html.
    6. “Karamollaoglu: Deism is Rising Due to the Government,” Gazete Duvar, July 23, 2019, https://www.gazeteduvar.com.tr/politika/2019/07/23/karamollaoglu-deizmin-yukselme-nedeni-iktidar/.
    7. Mucahit Bilici, “The Crisis of Religiosity in Turkish Islamism,” Middle East Report, vol. 288, Fall 2018, pp. 43-45, https://www.academia.edu/37968958/The_Crisis_of_Religiosity_in_Turkish_Islamism.
    8. Nicholas Pelham, “Trapped in Iran,” The Economist 1843, Feb/March 2020,https://www.1843magazine.com/features/trapped-in-iran.
    9. Mustafa Akyol, “How Islamism Drives Muslims to Convert,” The New York Times, March 25, 2018, https://www.nytimes.com/2018/03/25/opinion/islam-conversion.html.
    10. “Iran has world’s ‘fastest-growing church,’ despite no buildings - and it's mostly led by women,” Fox News, Sep 27, 2019, https://www.foxnews.com/faith-values/worlds-fastest-growing-church-women-documentary-film.
    11. Duane Alexander Miller, “Believers in Christ from a Muslim Background: A Global Census,” Interdisciplinary Journal of  Research on Religion, Volume 11, Article 10, 2015,https://www.academia.edu/16338087/Believers_in_Christ_from_a_Muslim_Background_A_Global_Census.
    12. “Iran: Christian Converts and House Churches (1) – Prevalence And Conditions For Religious Practice,” Landinfo, Nov 27, 2017, https://landinfo.no/wp-content/uploads/2018/04/Iran-Christian-converts-and-house-churches-1-prevalence-and-conditions-for-religious-practice.pdf.
    13.  https://centerforinquiry.org/blog/authors/azam-kamguian/.
    14. Azam Kamguian, “Leaving Islam and Living Islam,” in Leaving Islam: Apostates Speak Out (ed. Ibn Warraq), Prometheus Books, 2009, p. 217,  https://www.amazon.com/Leaving-Islam-Apostates-Speak-Out/dp/1591020689.
    15. “Arabs are Losing Faith in Religious Parties and Leaders”, The Economist, December 5, 2019 https://www.arabbarometer.org/2019/12/arabs-are-losing-faith-in-religious-parties-and-leaders/.
    16. “Iraq's atheists go underground as Sunni, Shiite hard-liners dominate,” NBC News, Apr 5, 2019, https://www.nbcnews.com/news/world/iraq-s-atheists-go-underground-sunni-shiite-hard-liners-dominate-n983076.
    17. Ibid., https://www.nbcnews.com/news/world/iraq-s-atheists-go-underground-sunni-shiite-hard-liners-dominate-n983076.
    18. Sham al-Ali, “On Rising Apostasy Among Syrian Youths,” Al-Jumhuriya, August 22, 2017, https://www.aljumhuriya.net/en/al-jumhuriya-fellowship/on-rising-apostasy.
    19. Ibid.
    20. Olumide Oyekunle, “Over $350m Cash Found In Omar Al-Bashir's Apartment,” April 20th, 2019, https://www.africanexponent.com/post/10082-millions-of-dollars-found-in-al-bashirs-house.
    21. Abdelwahab El-Affendi, “Sudan protests: How did we get here?” Al Jazeera.com, Dec 28, 2018, https://www.aljazeera.com/indepth/opinion/sudan-protests-181227154036544.html.
    22. Andreas Christmann, The Qur'an, Morality and Critical Reason: The Essential Muhammad Shahrur, BRILL, 2000, p. 329.
    23. “Saudi Arabia: New Terrorism Regulations Assault Rights,” Human Rights Watch, March 20, 2014, https://www.hrw.org/news/2014/03/20/saudi-arabia-new-terrorism-regulations-assault-rights.
    24. Hakim Khatib, “Atheism in Saudi Arabia: God's own country,” Qantara.de, July 3, 2017,https://en.qantara.de/content/atheism-in-saudi-arabia-gods-own-country.
    25. Ibid.
    26. “Is Gulf youth increasingly drawn to atheism?,” The National, August 19, 2012, https://www.thenational.ae/is-gulf-youth-increasingly-drawn-to-atheism-1.360041.
    27. Abdullah Hamidaddin, Tweeted Heresies: Saudi Islam in Transformation, Oxford University Press, 2019.
    28. From the book review by Madawi Al-Rasheed, “‘Being Young, Male and Saudi’ by Mark Thompson and ‘Tweeted Heresies’ by Abdullah Hamidaddin,” https://blogs.lse.ac.uk/mec/2020/03/02/book-review-being-young-male-and-saudi-by-mark-thompson-and-tweeted-heresies-by-abdullah-hamidaddin/.
    29. Alessandro Balduzzi, “Atheism in the Arab-Islamic world (with a focus on Morocco),” Master Thesis submitted to Naples Eastern University, 2016, pp. 126-127,https://www.academia.edu/32873876/_Atheism_in_the_Arab Islamic_world_with_a_focus_on_Morocco_.
    30. Ibid. p. 34.
    31. Ibid. p. 145
    32. “Liberal thinking is deviant teaching, says Malaysia's Islamic authority,” Malay Mail, Oct 24, 2014. https://www.malaymail.com/news/malaysia/2014/10/24/liberal-thinking-is-deviant-teaching-says-malaysias-islamic-authority/769625.
    33. Hakim Khatib, “Atheism in Saudi Arabia: God's own country,” Qantara.de, July 3, 2017, https://en.qantara.de/content/atheism-in-saudi-arabia-gods-own-country.
    34. See, Ali Aslan “The Crisis of Liberal Democracy,” Seta.org, Nov 20, 2016.
    35. Ebrahim Moosa, “The Sunni Orthodoxy,” Critical Muslim, Vol. 10, August 2014, p. 30.
    36. Christopher de Bellaigue, The Islamic Enlightenment: The Struggle Between Faith and Reason: 1798 to Modern Times, Liveright Publishing, 2017.
    37. See: Safet Bektovic, “Towards a neo-modernist Islam: Fazlur Rahman and the rethinking of Islamic tradition and modernity,” Studia Theologica - Nordic Journal of Theology, 70:2, 2016, 160-178.
    38. Daniel Philpott, Religious Freedom in Islam: The Fate of a Universal Human Right in the Muslim World Today, Oxford University Press, March 1, 2019. https://www.amazon.com/Religious-Freedom-Islam-Universal-Muslim/dp/0190908181.
    39. See: Walter Russel Mead, “Faith and Progress,” The American Interest, Vol 3, Number 1, 2007. https://www.the-american-interest.com/2007/09/01/faith-progress/. 



تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ:ایک جائزہ

ڈاکٹر محمد شہباز منج

تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ  کے عنوان سے پنجاب اسمبلی نے گذشتہ دنوں جو ایکٹ منظور کیا ہے، اس کی خبر اور اس  کی بعض دفعات کے مندرجات کا تذکرہ  پڑھنےسے میرا پہلا تاثر یہ  بناتھا  کہ یہ ایکٹ جہالت کا بد ترین نمونہ ہے، تاہم میں اس کے متن کو دیکھ کر اس پر  کوئی تفصیلی بات کرنا چاہتا تھا۔ اب متن دستیاب ہوا ہے، تو اس کو پڑھ کرمیرا تاثر یہ  ہے کہ یہ صرف جہالت نہیں، بلکہ تکبر، ظلم اور فریب کا بھی مرکب ہے۔ آیئے ذرا اس کا مطالعہ کر کےدیکھیے:

مذہبی حلقوں میں اس ایکٹ کے حوالے سے جس مسئلے پرنفیاً یا اثباتاً  زیادہ بحث ہو رہی ہے، وہ ایکٹ کے سیکشن  3 کی شق ایف  اور سیکشن 8 کی شقوں 5تا 11 میں بیان ہواہے۔جاہلوں یا فریب دینے والوں کی طرف سے باور کرایا جا رہا ہے کہ  اس ایکٹ میں تو بس   دینِ اسلام ،حضور نبی اکرمﷺ ،آپ کی ازواج مطہرات اور اولاد، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اہلِ بیت رضی اللہ عنہم،قرآن ، صحفِ سماویہ  وغیرہ مقدسات کا احترام یقینی بنایا گیا ہے۔ اور یہ ایسا تاریخی اقدام ہے، جس پر پنجاب اسمبلی ، اس کے سپیکر جناب پرویز الہی ، اراکینِ اسمبلی  اور وزیر اعظم پاکستان  کو  اسلام کے بہت بڑے محافظ ہونے کا سرٹیفیکیٹ ملنا چاہیے۔ (جی ہاں یہ مبالغہ نہیں ہے، اس پر حکمرانوں کے قصیدہ خواں متعدد علما اور  اسلام کے بہت سے نادان دوستوں کے ایسے تاثرات ریکارڈ پر موجود ہیں۔)

اگرچہ ان شقوں  کا متن  بھی اپنی   جگہ جہالت یا فریب سے مملو ہے (جیسا کہ اس کی وضاحت آگے آ رہی ہے)، لیکن ایک طبقے کے مذہبی سادہ لوح اس وجہ سے اس پر  شادیانے  بجا رہے ہیں کہ حضورﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین اور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  اور صحابی کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ وغیرہ لکھا جایا کرے گا،  اور دوسرے طبقے کے سادہ لوح اس پر نالاں ہیں کہ وہ بعض شخصیات کے ساتھ علیہ السلام نہیں لکھ سکیں گے۔ حالانکہ یہ  دونوں  انتہائی محدود اور فرقہ وارانہ سوچ سے بات کر رہے ہیں، فی الاصل  مسئلہ  اس سے زیادہ گہرا ہے، اور دونوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ محولہ شقوں  میں جو  قرار دیا گیا ہے کہ حضورﷺ کے نام کےشروع میں خاتم النبیین اور آخر میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ہر صحابی کے نام  کے بعد رضی اللہ عنہ اورہر  نبی کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھا جائے گا، اس سے بعض  شیعہ دوست یہ سمجھے کہ اہلِ بیت کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام لکھنے سے ہمیں روکا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی سادہ لوحی اس لیے  ہے کہ آپ کے موقف سے مترشح ہوتا ہے کہ ان شخصیات کے ساتھ علیہ السلام  لکھنے کی اجازت دے دی جائے، تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ حالانکہ اس کی اجازت سے بھی اصل مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔

اصل مسئلہ کیا ہے؟اس ایکٹ کا سب سے قابلِ اعتراض  بلکہ گھناؤنا پہلو ڈی جی پبلک ریلیشنزیا حکومت کے کسی  بھی  مجاز افسر کے کتابوں اور ان کے مواد سے متعلق آمرانہ اختیارات ہیں۔ ایکٹ کے اکثر سیکشن  حکومتی افسران کے لا محدود اختیارات کے ذریعے کتابوں اور بالخصوص مذہبی کتب کی اشاعت و ترسیل کا گھلا گھونٹ رہے ہیں۔  کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ جس قوم میں کتاب کا پہلے ہی حال یہ ہے کہ پبلشر کسی کتاب کو چھاپنے سے پہلے  ہزار دفعہ سوچتا ہے کہ اس کا خرچ بھی پورا ہو گا یا نہیں، وہاں بیوروکریسی کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی کتاب کے کسی بھی لفظ پر  اعتراض کر کے  کتاب کی اشاعت  یا اسے عوام تک پہنچانے کے اختیارات سلب کر سکتی ہے۔ یہ ایکٹ منظور ہو کر عمل میں آ جاتا ہے، تو کتابوں کا کلچر جو پہلے ہی آخری سانسیں لے رہا ہے اس کا جنازہ پڑھ لیجیے گا۔

 سیکشن 7 کی شق 1  کی ذیلی شقوں(اے، بی اور سی) میں قرار دیا گیا ہے  کہ  ڈی جی پبلک ریلیشنز کو اختیار ہو گا کہ وہ کسی بھی  بک ہاوس پر کسی بھی کتاب کو قابلِ اعتراض پا کر وہاں سے اٹھوا سکے گا۔ یہ  تحقیق بھی اس کے اختیار میں ہوگی کہ کسی کتاب میں کوئی ایسا مواد تو نہیں پایا جاتا،  جس میں ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی ہے!  اس سیکشن کی شق 2 ڈی جی صاحب کو اختیار دیتی ہے کہ  وہ اپنے مذکورہ اختیارات میں سے کوئی بھی اختیار  کسی بھی مجاز افسر کے سپرد کر سکتے ہیں۔(یعنی ڈی جی صاحب کا با اختیار بنایا ہوا کوئی مجاز افسر بھی وہی کارروائی کر سکے گا ،جو ڈی جی صاحب کا اختیار ہے۔) اس ایکٹ کے سیکشن 4 کی شق 2 کے مطابق مجاز افسر پبلشر  سے کتابوں سے متعلق  جو تفصیل بھی  پوچھنا چاہے، وہ دینے کا پابند ہوگا۔اسی سیکشن کی  شق 3 کے مطابق ہر پبلشر پنجاب کے باہر سے آنے والی کتابوں سے متعلق مطلوبہ تفصیل مجاز افسر کو پندرہ دن کے اندر اندر دینے کا پابند ہوگا۔ ایکٹ کے سیکشن 5 کی رو سے جس دن کتاب چھپے اسی دن پبلشر کو اس کی چار کا پیاں  اُن افسروں کو اُس جگہ  مفت فراہم کرنی ہوں گی ، جن کے لیے جس مقام پر گورنمنٹ کی مرضی ہو۔ ایکٹ کے سیکشن  8 کی شق 1کے مطابق کوئی کتاب ڈی جی صاحب کی اجازت کے بغیر پرنٹ  کی جا سکتی ہے اور نہ درآمد کی جا سکتی ہے۔اس سیکشن کی شق 2 کے مطابق کسی بھی کتاب کو چھاپنے کے لیے طے کردہ طریقے کے مطابق درخواست دینی ہوگی ،اور اس کی طے کردہ فیس جمع کرانی ہوگی۔

شق 3 کہتی ہے کہ  ڈی جی صاحب ہر اس کتاب کی اشاعت روک سکتے ہیں،  جس کو وہ  قومی مفاد،کلچر اور مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی  وغیرہ کے خلاف خیال کریں۔ایکٹ کے سیکشن 9کی شق 1 کے رو سے کوئی بک سیلر یا پبلشر کوئی کتاب مجاز افسر  کی  طے کردہ طریقے کے مطابق منظوری کے بغیر  فروخت نہیں کر سکے گا۔اسی سیکشن کی شق 2 کے مطابق  کوئی ایسی کتاب فروخت نہیں ہو سکے گی، جس میں زیرِ نظر ایکٹ کی کسی شق  کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔سیکشن 10 کے مطابق  پنجاب کی حدود میں شائع ہونی والی ہر کتاب کے لیے مجاز افسر کی طرف سے طے شدہ طریقے کے مطابق یونیک نمبر حاصل کرنا ہوگا۔ سیکشن 11قرار دیتا ہے کہ  سیکشن3  (جو قابل اعتراض مواد پر پابندی عائد کرتا ہے، سوائے اس کی شق ایف کے) کی خلاف ورزی پر پانچ سال سزا اور پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو سکے گا۔یہ سیکشن وضاحت کرتا ہے کہ سیکشن3  کی شق ایف (جو مقدس شخصیات کے القاب وغیرہ سے بحث کرتی ہے)سے متعلق جرم پر پاکستان پینل کوڈ 1860ء کے مطابق سزا ہوگی۔سیکشن  12 کہتا ہے کہ اگر پبلشر سیکشن 5 کے مطابق کتابیں مجاز افسر تک پہنچانے میں ناکام رہا، تو اس  کو اس سے متعلق ہر غلطی پرکم زکم  دس ہزار جرمانہ بھرنا ہوگا، مزید برآں ان کاپیوں کی قیمت جو عدالت طے کرے گی ، اس کے مطابق رقم  حکومت کے خزانے میں جمع کرانی ہوگی۔ سیکشن  13 کے مطابق قابلِ ادا رقم گورنمنٹ کے مخصوص اکاؤنٹ میں پندرہ دن کے اندر اندر جمع کرانی ہوگی ۔ اس میں کسی غلطی کی صورت میں یہ رقم لینڈ ریوینیو کے بقایاجات کے ساتھ قابلِ وصول ہو گی۔

بیوروکریسی کے ان اختیارات کی روشنی میں اب ذرا دوبارہ ان شقوں  کی طرف آیے جو مذہبی حلقوں میں زیربحث ہیں، یعنی سیکشن 3 کی شق ایف اور سیکشن 8 کی شقیں 5تا 11۔ موخر الذکر شقوں کی رو سے  حضورﷺ کے نام سے پہلے خاتم النبیین ، آخری نبی یا دی لاسٹ پرافٹ اور بعد میں عربی ٹیکسٹ صلی اللہ علیہ  والہ وسلم لکھنا ہوگا۔ کسی بھی نبی کے  نام کے ساتھ  علیہ السلام  لکھنا ہوگا۔ حضورﷺ کی بیویوں (جن کو مزے کی بات یہ ہے کہ ایکٹ کے متن میں  ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم  اجمعین لکھا گیا ہے، جس سے معلوم ہو سکتا کہ اتنے اہم ایکٹ کے الفاظ  کی درستی اور پروف ریڈنگ  پر کتنی توجہ دی گئی ہے!)کے ناموں سے پہلے امہات المومنین اور بعد میں رضی اللہ عنہا  لکھنا ہوگا۔ خلفاے راشدین کے ناموں سے پہلے خلیفۂ راشد یا امیر المومنین اور بعد میں  رضی اللہ عنہ لکھنا ہوگا۔ حضورﷺ کے تین صاحبزادوں اور چار صاحبزادیوں کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہا یا رضی اللہ عنہ لکھنا ہوگا۔آپ ﷺ کےا ہلِ بیت اور نواسے نواسیوں کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ یا رضی اللہ عنہا  لکھنا ہوگا۔ کسی بھی صحابی کے نام کے بعد رضی اللہ عنہ اور صحابیہ کے نام کے بعد رضی اللہ عنہا لکھنا ہوگا۔سیکشن 3کی شق ایف کی رو سے جو شخص اللہ تعالیٰ، حضورﷺ اور دیگر مذکورہ مقدس شخصیات قرآن، تورات ، زبور، انجیل،دینِ اسلام پر تنقید کرے گا یا ان کو ڈی فیم یا  ڈس ریپیوٹ کرے گا، اسے پاکستان پینل کوڈ 1860ء یا کسی اور قانون کی رو سے  سزا دی جا سکے گی۔

ناظرینِ کرام  نوٹ فرما لیجیے کہ اس اوپر والے پیرے میں جو کچھ لکھا گیا ہے ، یہ وہ تمام کا تمام مواد ہے، جس کی  بنا پر اس ایکٹ کا نام مبارک " پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ 2020ء" رکھا گیا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اسلام کی پوری تاریخ میں اسلام کی بنیاد کے تحفظ کی اس سے بہتر کوئی مثال موجود ہے یا نہیں ؟ شاہ کے کسی مصاحب کا ایک  اخباری مضمون نظر سے گزرا، جس میں اس ایکٹ کی عبارات کی روشنی میں یہ  ثابت فرمانے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ حکومت یا وزیر اعظم کا ریاستِ مدینہ کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ یہ اگر کوئی شاہ کا مصاحب ہی سمجھتا ہوتا، تو پھر بھی بات نظر انداز کر دی جاتی ، مگر رونا یہ ہے کہ تمام شاہ صاحبان بھی دھڑلے سے فرما رہے ہیں کہ ہم  نے گویا اسلام اور مولویوں پر وہ احسان کیا ہے کہ قیامت تک ان سے اتارا نہ جا  سکے گا۔

اس ایکٹ اور اس کا  کریڈٹ لینے کے اندازِ شاہانہ سے ہم کو یہ اندازہ تو خوب خوب ہو گیا ہے کہ ہمارے  قابلِ احترام شاہوں  کا تصورِ ریاستِ مدینہ کتنا واضح اور پختہ ہے! یعنی ان کے نزدیک بس مقدس شخصیات کے ناموں  کے ساتھ کچھ القاب لگانے سے ریاستِ مدینہ قائم ہو جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں ان کے لیے انصاف ، دیانت داری اور  میرٹ  وغیرہ حسنات، جن پر دین کے سارے فلسفے کا مدار ہے، کو یقینی بنانے اور اس ضمن  میں سخت قانون سازی کرنے سے زیادہ اہم اس اشو پر قانون سازی کرنا ہے ،  جس کا شریعت نے کہیں کوئی حکم نہیں دیا کہ فلاں نام کے ساتھ کتاب میں ہر جگہ فلاں لقب لکھا  جائے ۔

خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے

حضورﷺ، صحابہ اور اہلِ بیت کا احترام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے ، اس سے ہر مسلمان واقف ہے، لیکن ان کے نام لکھتے ہوئے ہر جگہ مذکورہ القاب  لگانا بھی ایمان کا حصہ ہے،یہ  وحی پہلی دفعہ پنجاب اسمبلی پر نازل ہوئی ہے۔ ان کی وحی کے مطابق اسلامی تاریخ کی وہ تمام معتبر کتابیں  گستاخانہ  اور پابندی کے قابل ہیں، جن میں  جگہ جگہ ان شخصیات کے نام ان القاب کے بغیر لیے گئے ہیں۔ اسلامی علمی تراث سے ذرا  مس رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ان شخصیات کا پنجاب اسمبلی والوں سے ہزاروں گنا بڑھ کر احترام کرنے والے علما، محدثین ، مفسرین، وغیرہ  حضرات میں سے کسی نے بھی اس التزام کو ضروری قرار نہیں دیا ،اور نہ خود اس کی پابندی کی۔اس ایکٹ کے ذمے داروں نے اگر کوئی مذہبی کتاب لکھی یا پڑھی ہی ہو تو ان کو معلوم ہو کہ  یہ التزام تکلیف مالایطاق ہے۔ پھر معاملہ اگر تکلیف و تکلف تک ہی محدود ہو تو اس پر بھی صبر کیا جا سکتا تھا، لیکن معاملہ شریعت میں ایک ایسے التزام کو ضروری قرار دینے کا ہے، جس کے ضروری ہونے کی کوئی بھی شرعی بنیاد موجود نہیں!

ان جہلا  یا فریبیوں  کے مطابق مقدس شخصیات کا احترام القاب لگانے میں ہے، حالانکہ کوئی شخص یہ  القاب لکھ کر بھی  بدترین قسم کا گستاخ  اور منکرِ ختمِ نبوت ہو سکتا ہے۔ مثلاً یہ خیال کہ خاتم النبیین لکھنے سے ختمِ نبوت کے منکروں کی حوصلہ شکنی  ہوگی، نری جہالت یا دھوکا ہے۔قادیانی تو خود کہتے ہیں کہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں،لیکن وہ خاتم النبیین لکھ کر بھی آپ ﷺ کی ختم نبوت کے منکر ہی  رہتے ہیں، اس لیے کہ  وہ  فی ا لواقع خاتم النبیین کی تشریح ایسی کرتے ہیں کہ آپ کے آخری نبی ہونے کا انکار ہو جاتا ہے۔ اگر آپ ان کو روکنے خواہش مند ہیں، تو صرف اس لفظ سے کام نہیں چلے گا ، بلکہ  اس سے پہلے یا بعد میں یہ وضاحت بھی کرنی پڑے گی کہ خاتم النبیین اُس مفہوم میں جس میں مسلمان استعمال کرتے ہیں، نہ کہ قادیانیوں کے مفہوم میں ، اور یہ وضاحت کسی کتاب  میں  ہر جگہ شامل کرنے سے اس  کتاب کا جو تماشا بنے گا ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں!قادیانیوں کے بعد متشککین اور ملحدین کی طرف آیے ۔وہ دینِ  اسلام اور مقدس شخصیات  کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ،لیکن لکھنے میں اپنے مقصود کی حکمت کے تحت ہر جگہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، علیہ السلام اور رضی اللہ عنہ بھی لکھتے رہتے ہیں، بلکہ بہت دفعہ  ان کے انداز ِ بیان اور عبارت سے مترشح ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ یہ القاب بہ طورِ طنز لکھ رہے ہیں۔ اب جناب آپ کے پاس کون سا پیمانہ ہے یہ جاننے کا کہ  فلاں صاحب یہ تمام القاب لکھ کر بھی دین ِاسلام یا مذکورہ مقدس شخصیات کے گستاخ ہیں یا نہیں؟

مجاز افسر کو جو آمرانہ اختیارات دیے گئے ہیں ، ان کے نتائج پر ذرا غور فرمایے۔اس ایکٹ میں کہیں یہ تو نہیں لکھا کہ اہلِ بیت کے ساتھ آپ علیہ السلام نہیں لکھ سکتے ، لیکن اگر  مجاز افسر ایکٹ کی عبارت  کی تعبیر یہ کرےکہ چونکہ  ایکٹ میں صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ اور نبیوں کے لیے علیہ السلام لکھنے  کا کہا گیا ہے  اور  فلاں آدمی نے فلاں صحابی کے لیے علیہ السلام لکھا ہے، لہذا اس کی کتا ب قابلِ اعتراض ہے، اس پر پابندی لگائی جانی چاہیے، تو وہ اس پر پابندی لگانے کا مجاز ہو گا۔اور اگر افسر صاحب یہ تعبیر کریں کہ صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ کا تو کہا گیا ہے ، لیکن ان کے لیے علیہ السلام سے منع نہیں کیا گیا، تو وہ آپ کو کتاب چھاپنے اور فروخت کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ گویا آپ افسر صاحب کی ڈسپوزل پر ہیں، چاہے تو وہ آپ کو کتاب چھاپنے دے چاہے نہ چھاپنے دے۔  مزید برآں ملکی مفاد،کلچر ، اخلاقیات   اور مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے متعلق مواد پر کتاب ضبط کرنے کے اختیار کو ہمارے کلچر میں کس کس حربے سے افسران ناجائز استعمال نہیں کریں گے، یہ روزِ روش کی طرح عیاں ہے! اس  اصول پر آپ مذہب ہی کی نہیں ،کسی بھی موضوع پر کسی بھی کتاب پر اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ اس کے فلاں الفاظ یا فلاں سطور  یا فلاں پیراگراف نظریۂ پاکستان یا قومی مفاد یا کلچر یا  اخلاقیات  یا مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی  کے خلاف ہیں ،لہذا یہ پبلش نہیں ہو سکتی یا فروخت نہیں کی جا سکتی۔

آپ مزید فرما رہے ہیں کہ تورات ، زبور ، انجیل وغیرہ پر تنقید یا ان کو ڈی فیم یا ڈس ریپیوٹ کرنے پر سزا دی جائے گی ۔ اس اصول کی رو  سے  قرآن بھی کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے، اس لیے کہ  وہ ثابت کرتا ہے کہ تورات و انجیل وغیرہ مذہبی کتب  کو یہودو نصاریٰ  نے بدل ڈالا ہے۔ وہ تمام علمی و تحقیقی کتابیں جو اس بارے میں علما نے لکھی ہیں،  اور یونی ورسٹیوں کے  تحقیقی مقالات  ،جن میں ان کتب کی تاریخی حیثیت پر بحث وتنقید کر کے قرآن کی برتری ثابت کی گئی  ہے، پابندی کی زد میں  آ جاتے ہیں، ۔ وہ تمام تفاسیر بھی اس زد میں آتی ہیں جن میں آیاتِ قرآنی کی تفاسیر کے دوران میں ان کتب پر ناقدانہ بحثیں کی گئی ہیں۔ اس لیے کہ  یہ سب چیزیں ان کتابوں کو ڈس ریپیوٹ کرتی ہیں۔ وہ تمام کتابیں جو مسلمانوں نے یہودیوں اور مسیحیوں  اور اسلام کے  مغربی ناقدین  کے  اسلام مخالف رویوں کے ناقدانہ جائزے پر لکھی ہیں، وہ سب مذہبی ہم آہنگی کے خلاف قرار دی جا سکیں گی۔ہر وہ کتاب جس میں  کسی مسلم ناقد نے  کسی مسلم گروہ  یا شخص  کے عقائد و نظریات  پر گرفت کی ہے ، مسلکی ہم آہنگی کے خلاف قرار دی جا سکے گی۔ ہر وہ کتاب جس میں کسی ادارے کی کسی روش پر تنقید کی گئی ہو ملکی مفاد یا  نظریۂ پاکستان  کے خلاف قرار دی جا سکے گی۔ ہر وہ افسانہ یا  ناول بھی جس میں افسر صاحب سمجھیں  کہ ان کے تصورِ اخلاق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، پابندی کی زد میں آسکے گا۔

خلاصہ یہ کہ مجاز افسرصاحب جس کتاب کی اشاعت روکنا چاہیں گے، اس پر اعتراض کر کے اس کو روک سکیں گے۔ یہ صورت حال مرتے ہوئے کتاب کلچر اور بالخصوص مذہبی کتب کے کلچر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔

یہ ہے وہ ایکٹ جس کے ذریعے اسلام کی بنیاد کا وہ تحفظ فرمانا مقصود ہے، جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی۔ فریب بالائے فریب اور ظلم بالائے ظلم  دیکھیے کہ میڈیا اور مولویوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ایکٹ تو صرف صلی اللہ علیہ وسلم ، رضی اللہ عنہ اور علیہ السلام لکھنے کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔ ابھی جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ایک  نیوز پر یہ خبر چل رہی کہ پنجاب اسمبلی نے یہ ایکٹ پاس کیا ہے ،جس میں حضورﷺ کے لیے خاتم النبیین  اور امہات المومنین اور دیگر صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ لکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اب اس کو سننے والا ہر آدمی سمجھے گا کہ یہ بڑا مبارک کام ہے۔ لیکن اس مبارک کام  کے حسین نام  کے  نیچے جو گھناؤنا کاروبار ہے، اس کوچھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

یہاں ضمناً یہ بات بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ پھر کیا واقعی قابلِ اعتراض یا مقدسات کی توہین پر مبنی مواد کی حامل کسی  کتاب پر  سوال نہیں اٹھایا جا سکتا ؟ تو اس کو یہ جان لینا چاہیے کہ ایسے معاملے سے  ڈیل کرنے کے لیے پہلے ہی قوانین موجود ہیں(مثلاً تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295تا 298 وغیرہ)، اور مزے  کی بات یہ ہے کہ خود اس ایکٹ میں ، جیسا کہ اوپر گزر،اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ توہین آمیز مواد پر پہلے سے موجود قوانین کے مطابق سزا دی جائے گی۔تو پھر اس ایکٹ کی  ضرورت خود اسی ایکٹ کی وضاحت  کے مطابق بھی ختم ہو جاتی ہے، اور یوں یہ ایک فضول ایکٹیوٹی قرار پاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں (بہ طورِ خاص  اس حوالے سے کہ کیسے اس ایکٹ کو علما اور اہلِ علم کے درمیان کسی مباحثے اور اسلامی نظریاتی کونسل وغیرہ سے بھی رائے لیے بغیر  جلدی میں  منظور کیا گیا ہے )تو یہ  شک پیدا ہونا بے جا نہیں کہ یہ مذہبی طبقے کو خوش کرنے کا ایک سٹنٹ ہے اور بس۔

ایکٹ کے مندرجات اور واضح نتائج  کا خلاصہ میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیا ۔ آپ دیانت داری سے بتایے اس ایکٹ کو "تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ" کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے!حق یہ  ہے کہ اس ایکٹ کا یہ نام اگر جہالت نہیں ہے ،تو دھوکا ضرور ہے۔ ان مذہبی حلقوں کی سادہ لوحی پر افسوس ہے، جو اس جہالت یا فریب کو اسلام کی خدمت سمجھ رہے ہیں ،اور ان شیعہ حضرات کی سادہ لوحی پر بھی جن کو اس میں صرف یہ مسئلہ نظر آتا ہے کہ آئمۂ  اہلِ بیت  یا بعض دیگر صحابہ کے  لیے علیہ السلام نہیں لکھا جا سکے گا، حالانکہ حقیقتااس کی واضح اجازت مل جانے پر بھی یہ ایکٹ اسی طرح  جہالت ، فریب، تکبر اور ظلم کا مرکب رہے گا ، جیسا کہ پہلے ہے۔

کتابوں اور بالخصوص مذہبی کتب سے دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کو اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔اور اگر یہ لاگو ہو جاتا ہے، تو اس کو کورٹ میں چیلنج کرنا چاہیے۔ یہ ایکٹ  ہر مصنف  اور بہ طور خاص مذہبی مصنفین اور پبلشرز کے اوپر بے لگام فرعون بٹھا دے گا، جن کے ہوتے کوئی مصنف کتاب لکھنے اور کوئی پبلشر اسے چھاپنےکی ہمت نہیں کرے گا۔ ان جاہلوں کا خیال ہے کہ کتابوں کا  وطنِ عزیز میں بڑا کاروبار ہے!کوئی ان سے پوچھے آپ نے کتنی مذہبی کتابیں  خرید کر پڑھی ہیں؟ یہاں تو کتب کا عالم یہ ہے کہ مصنفین اور پبلشرز پلے سے پیسے لگا کر اور گھاٹا کھا کر کتابوں  سے اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کتابیں چھاپ رہے ہیں۔ کسی تحقیقی و علمی کتاب پر آج کل کتنا منافع کمایا جا سکتا ہے؟  اس کام سے متعلق ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے! کوئی کتاب چھاپ لیں تو سوچتے رہتے  ہیں کہ اس کا آدھا  خرچ تو چلیں پلے سے ڈال لیں  گے، آدھا  خرچ تو نکلے گا یا نہیں؟ اس صورتِ حال کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مصنف کتاب لکھنے اور پبلشرر چھاپنے سے بالکل ہاتھ کھینچ لیں گے۔

 واضح رہے کہ مذہبی کتابیں ہی نہیں افسران صاحبان کو جو اختیارات دیے گیے ہیں ،اور جو الفاظ ایکٹ میں  استعمال کیے گئے ہیں،ان کی رو سے شاعری، ڈرامہ ، ناول ، ادبی تنقید وغیرہ کسی بھی کتاب پر پابندی عائد کی جا سکے گی، بس اتنا چاہیے کہ مجاز افسر صاحب فرما  دیں  کہ اس میں   ایکٹ کے کسی لفظ یا حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

یہ القاب کو لازمی کرنے کی حرکت کتنی مضحکہ خیز ہے (اس ضمن میں ہمارے  ایک  مضمون  بعنوان "اللہ اور خدا" کا مطالعہ بھی بہت مفید ہوگا، جو ہم نے   اسلام کے کچھ اسی قبیل کے نادان دوستوں کے اِس تصور  اور اِس سے بحث کرتی ایک کتاب  کی تردید میں لکھا تھا کہ اللہ کو خدا نہیں کہا جا سکتا۔) اس کے حوالے سے چند نکات پر غور کیجیے:

یہ القاب مسلمانوں نے بعد کے ادوار میں اپنی اپنی عقیدت اور محبت کے خاص انداز میں  لگانا شروع کیے ، ابتدائی کتابوں میں بڑی روانی کے ساتھ مقدس شخصیات کے نام ان سب القاب کے بغیر عام لیے جاتے تھے، اور قدیم کتب  میں اب  بھی یہ نام ان القاب کے بغیر موجود ہیں۔ کبھی بھی کسی نے اعتراض  نہیں کیا کہ فلاں جگہ چونکہ یہ لقب نہیں لکھا ہوا، لہذا یہ گستاخی ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ القاب اصل میں ہم عجمیوں کا رواج ہیں ،ہم یہ اپنے مخصوص اندازِ عقیدت و محبت میں لگاتے ہیں اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اچھی بات ہے ، لیکن اس کو لازم کرنا شریعت میں ایک ایسے امر کو لازم کرنا ہے، جس کو لازم کرنے کی شریعت میں کوئی گنجایش نہیں۔ دوسرے لفظوں اپنی محبت میں ان القاب کو استعمال کرنا تو مستحسن ہے ، لیکن ان کو شرعا لاز م کہنا غلط بلکہ بدعت  ہے۔( اس لیے کہ بدعت دین میں اسی چیز کولازم کرنے کو کہا جا تا ہے،جس کو لازم کرنے کی کوئی شرعی بنیاد موجود نہ ہو۔)

  شعر میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ  اگر حضورﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ ہر جگہ عربی ٹیکسٹ میں  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  اور شروع میں خاتم النبیین لکھا جائے تو  شعر ایک عجیب و غریب شکل اختیار کر لیتا ہے، اس کا وزن بھی خراب ہو جاتا ہے اور جس سپیس میں وہ لکھا جاتا ہے، اس کو اس فونٹ میں لکھنے کی گنجایش ہی نہیں ہوتی۔ چلو آیندہ نسلوں کی  زبان و بیان اور ذوقِ شعر وسخن کا آپ نے بیڑا غرق کرنا ہے تو کر لیں ، لیکن علامہ  اقبال ،  میاں محمد بخش   اور دیگر مایہ ناز  اردو اور پنجابی شاعروں کے کلام   کا  کیا کریں گے؟ مثلاً اقبال کا مصرعہ : کی  محمد سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں۔۔۔، آپ کو  کلیات ِ اقبال میں یوں لکھنا ہوگا: کی  خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں۔ ۔۔اگر کلیاتِ اقبال  کو یہ لکھے بغیر آپ چھپنے اور فروخت ہونے کی اجازت دیں گے ،تو اسی طرز پر کسی اور کتاب کو کیسے روک سکیں گے؟ یہ آپ کے لیے چیلنج ہوگا، جب تک ان سب مایہ ناز  شعرا   و مصنفین کی کتابوں کی اصلاح نہیں ہوگی ، ان کے حوالے دینے والوں اور ان کو اپنا رہنما اور موٹیویٹر سمجھنے والوں کی اصلاح آپ کیسے کر سکیں گے!

اور ہاں یاد آیا وہ ڈی فیم اور   ڈس ریپیوٹ کرنے والی عبارت میں آپ نے اللہ کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ تو جناب آپ کو اقبال کے ایسے بہت سے اشعار بھی نظر آئیں گے ، جو بادی النظر میں اللہ کو ڈی فیم یا ڈس ریپیوٹ کرتے ہیں ۔مثلاً:  ہم وفادار نہیں تو بھی تو  دل دار نہیں۔۔۔ یااپنا  گریباں  چاک یا دامن ِ یزداں چاک ۔۔۔کارِ جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اشعار آپ کے سیکشن 3 کی شق ایف کی زد میں آتے ہیں،ان پر آپ کو پابندی لگانی ہوگی۔ (اور ہاں یہ بھی جان رکھیے کہ  بعد والوں کے معاملے میں تو ابھی آپ کو  تحقیق کرنی پڑے گی کہ ان  کی کتب  میں خدا کو ڈس ریپیوٹ  یا ڈی فیم کیا گیا ہے یا نہیں ، اقبال کے اس قبیل کے اشعار سے متعلق  آپ کو یہ سہولت میسر ہے کہ   ہمارے  کئی علما و مفسرین  نے پہلے ہی  تحقیق فرما رکھی ہے کہ  یہ  اشعار کفریہ ہیں اور خدا کی گستاخی پر مبنی ہیں۔)


’’خلطِ مبحث‘‘ کی مصنوعی افزائش

ڈاکٹر اختر حسین عزمی

علم و دانش کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ افراد و اقوام کے مسائل اور تنازعات باہمی مشاورت سے طے کیے جائیں۔ لیکن اگر کسی قوم کے طے شدہ معاملات کو ہی متنازع بنانے پر زور صرف ہونے لگے تو وہ قوم ایک دائرے کے اندر ہی سفر کرتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ ایک طبقہ قومی رہنمائوں کی مشاورت سے طے کردہ معاملات پر بھی مسلسل چاند ماری کرتا رہتا ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش ماہنامہ الشریعہ کے مارچ 2020ء کے شمارے میں ڈاکٹر عرفان شہزاد کے مضمون ’’قومی اور مذہبی اظہاریوں کا خلطِ مبحث‘‘ کی صورت میں نظرآتی ہے جس میں انہوں نے پاکستانی قوم کے ایک طے شدہ ریاستی اظہار یئے کو خلطِ مبحث کا شکار کرنے اور اسے متنازع بنانے کی کوشش کی ہے۔

اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کیا ایک دینی و علمی جریدہ اپنے علمی معیار کی اس قدرقربانی دینے کا متحمل ہوسکتا ہے کہ دینی اقدار و روایات اور قریب ترین تاریخ سے نابلد قلمکاروں کے طفلانہ خیالات کی ترویج کے لیے نو نو صفحے وقف کر دے۔ یقینا ہم جیسے قدامت پسند ان کی روشن خیالی سے محروم رہتے اگر ان کے یہ خیالات کسی اور اخبار میں شائع ہوئے ہوتے اور ان کے خیالات پر تبصرہ کرنے کی کوئی سنجیدہ ضرورت تک محسوس نہ کرتے لیکن ایک دینی و علمی پس منظر کے حامل جریدے میں چھپنے والے ان کے خیالات نے ہمیں خامہ فرسائی پر مجبور کیا ہے۔

مضمون نگار کی پریشانی یہ ہے کہ ’’قومی ریاستوں کی تشکیل کے اس دور میں‘‘ پاکستان کی مقتدرہ اور عوام نے ویسی ہی قومی ریاست کیوں نہیں بنائی جیسے یورپ اور اس کے زیر اثر دیگر ریاستیں پائی جاتی ہیں۔ گویا ہمارے لیے معیار نہ تو دو قومی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر سات آٹھ سال تک تحریک پاکستان چلتی رہی۔ نہ قائدین تحریک پاکستان کے بیانات کی کوئی حیثیت ہے اور نہ قربانی دینے والے لاکھوں مسلمانوں کی امنگوں کا لحاظ رکھنے کی کوئی ضرورت ہے۔خلافتِ راشدہ، اُموی، عباسی اور عثمانی خلافت سے رہنمائی لینے کی اس جدید دور میں ضرورت ہی ختم ہو گئی ہے   ؎

مانگے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پہ پھیلا دیے سائے ہم نے

جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کی غلطی کا رونا آج صاحبِ مضمون رو رہے ہیں، یہ رونا تو کانگریسی رہنما اور اس وقت کے سیکولر دانشور بہت رو چکے تھے۔ لیکن اس کے علی الرغم دو قومی نظریے، یعنی ہندو اور مسلمان الگ الگ قومیں ہیں، کی بنیاد پر ملک تقسیم ہو چکا۔ جسے انگریز حکمرانوںاور کانگریسی قیادت نے طوعاً و کرہاً تسلیم کرلیا۔ اب اگرکوئی اس سے اختلاف کرنا چاہتا ہے تو کم از کم تاریخی حقائق کو تو مسخ نہ کرے۔

مضمون نگار کے مطابق اس دور میں چونکہ قومی ریاستوں کا وجود ایک حقیقت ہے، لہٰذا قرآنی تعلیمات کے برعکس قومیت کے اس تصور پر تمام مسلمانانِ پاکستان کا ایمان لانا ضروری ہے جو اربابِ سیکولر ازم نے دنیا کو عطا فرمایا ہے۔مضمون کا پہلا پیرا ملاحظہ ہو:

 ’’قومی ریاستوں کی تشکیل کے دور میں پاکستان ایک قومی مذہبی ریاست کی صورت میں منصہ شہود پر نمودار ہوا۔ قومی ریاستوں کی تشکیل میں جغرافیہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے… پاکستان کی ریاست بھی اسی اصول پر عمل میں آئی لیکن سیاسی عمل کے دوران میں مذہبیت یا اسلامیت کا عنصر بھی اس میں شامل ہوگیا جو قومی شناخت کے اظہاریوں پر غلبہ پاتا چلا گیا‘‘۔ (ص31)

یہ بات درست کہ دور حاضر میں قومی ریاستوں کی تشکیل میں جغرافیہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لیکن کیا صاحبِ مضمون اپنی یہ بات ثابت کرسکتے ہیں کہ: ’’پاکستانی ریاست کی تشکیل بھی اسی اصول (جغرافیے) کی بنیاد پر عمل میں آئی‘‘ یہاں تو ساری تحریک ہی جغرافیے کی نفی کرکے دو قومی نظریے یعنی مذہب کی بنیاد پر چلائی گئی۔ مسلمان اکثریت کے حامل صوبوں پر مشتمل دو یونٹس میں ایک مسلمان ریاست کے قیام کے لیے آواز اٹھائی گئی۔ رہے باقی علاقوں کے مسلمان جنہوں نے پاکستان کو نظریاتی و عملی طور پر قبول کیا تو وہ مشرقی پنجاب، بہار یو پی، سی پی اور دیگر دور دراز علاقوں سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ اسی طرح اپنی مذہبی سوچ کے زیر اثر لاکھوں ہندو اور سکھ مغربی پنجاب، سرحد و سندھ سے ہندوستان سدھار گئے۔ اب صاحب مضمون کا یہ کہنا کہ: ’’سیاسی عمل کے دوران میں مذہبیت یا اسلامیت کا عنصر بھی شامل ہوگیا جو قومی شناخت کے اظہاریوں پر غلبہ پاتا چلا گیا‘‘۔ تقاضا کرتا ہے کہ صاحب مضمون ’’سیاسی عمل‘‘ کے ان تاریخی مراحل کا زمانی ترتیب سے کچھ ذکر کرتے کہ یہ کب اور کس دن سے ہوا۔ اگر ایسا قیام پاکستان کے بعد ہوا ہے تو مضمون نگار کی بات قابل توجہ ہوتی لیکن ’’مذہبیت اور اسلامیت کا یہ عنصر‘‘ تو سیاسی عمل کے دوران نہیں، روزِ اوّل سے شامل تھا۔ یعنی1940کی قرارداد لاہور اور مزید پیچھے جائیں تو علامہ اقبال کے خطبہ 1930ء کی صورتمیں۔

’’قومی شناخت کے اظہاریے‘‘ پر جس ’’مذہبیت کے غلبے‘‘ کا مضمون نگار کو شکوہ ہے، وہ مولویوں اور دینی جماعتوں نے داخل نہیں کیا، اس دور کے جدید تعلیم یافتہ مسلمان لیڈروں نے اسے اختیار کیا۔ اور یقینا اقبال اور قائداعظم سیکولر قومی ریاست کے تصور اور تقاضوں کو مضمون نگار سے زیادہ جانتے تھے جنہوں نے ’’قومی ریاست کی تشکیل کے دور میں‘‘ حصول ریاست کی جدوجہد کو مذہب کے تصور سے جوڑا۔ اسلامیان ہند نے بحیثیت مجموعی اس تصور کو قبول کیا۔ بقول قائداعظم:

 ’’ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ اور فن تعمیر، احساسِ اقدار، قانونی احکام و اخلاقی ضوابط، رسم و رواج، کیلنڈر، تاریخ و روایات، رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ بین الاقوامی قانون کی ہر دفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔‘‘ (مسٹر جناح کی تقریریں اور تحریریں۔ مرتبہ جمیل الدین احمد، ص181)

مضمون نگار کا یہ کہنا کہ: ’’یہ ریاست کسی مسلمان حکمران نے فتح نہیں کی تھی اور یہ ملک جمہوری اور سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا۔‘‘ درست بات ہے۔ لیکن بار بار اس بات کی تکرار کہ ’’جغرافیہ کی بنیاد پر ایک قومی ریاست کا مطالبہ کیا تھا‘‘ تحریک پاکستان کے بارے میں اتنا بڑا دعویٰ ہے جس کے ثبوت کے لیے مضمون نگار کوئی ایک شہادت تو پیش فرماتے اور پھر بڑے دھڑلّے سے ان کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان کی تشکیل میں تمام قومیتوں اور مذاہب کے پیروکاروں نے ووٹ ڈالا (ص31) اتنے بڑے دعوے کا کوئی ثبوت پیش کرتے تو ہم جیسے کم فہموں کی رہنمائی کا بھی سامان ہو جاتا۔

صاحبِ مضمون ایک طرف بانیٔ پاکستان کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کو ’’ریاست کے کثیر القومی تشخص کی دو ٹوک بنیاد‘‘ قرار دیتے ہیں اور اسی سانس میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’تحریک پاکستان کے دوران میں ’’مسلم کارڈ‘‘ کا استعمال اس دو شناختی قومیت کے لیے وجہ جواز بنا۔‘‘ اب اس ’’مسلم کارڈ‘‘ کو نیک نیتی کے ساتھ استعمال کیا گیا یا بدنیتی کے ساتھ اور اس کا رڈ کو قائداعظم نے استعمال کیا کہ نہیں، اس کی وضاحت تو مضمون نگار کے ذمہ قرض ہے تو پھر ان کی اس تقریر کو بھی کیوں سنجیدگی سے لیا جائے۔ اس سوال کا جواب بھی ان کے ذمہ ہے کہ دوشناختی قومیت کے لیے مسلم کارڈ کا استعمال وجہ جواز بنا یا کہ تحریک پاکستان کی بنیاد ہی دو قومی نظریہ پر تھی۔ بظاہر ان کے جملے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا استحصال Explotationکیا تھا۔ اب مسلم کارڈ کا یہ استعمال اگر غلط تھا تو اس کے ذمہ دار قائداعظم اور تحریک پاکستان کے قائدین ہیں جن کے سینکڑوں بیانات پاکستان کے اسلامی ریاست بننے کے بیانیے پر مشتمل ہیں۔ گویا قائداعظم اتنا بے اصول لیڈر تھا کہ جونہی انہیں اپنی منزل قریب نظر آئی تو انہوں نے گیارہ اگست 1947ء کو اپنے بیانات سے یوٹرن لے لیا۔اس لیے کہ جس قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کو وہ اپنے موقف کے لیے آڑ بنا رہے ہیں وہ تو خود مضمون نگار کے مطابق بے اصول سیاستدان قرار پاتے ہیں۔ جنہوں نے ’’مسلم کارڈ‘‘ کو مسلمانوں کے جذباتی استحصال کے لیے استعمال کیا۔

اگر قائداعظم کی یہ تقریر مخلصانہ اور ذمہ دارانہ ہے تو ان کے صرف اتنا کہنے سے کہ ’’ہر مذہب والا مسجد و مندر جاسکتا ہے اور اس کے مذہب اور ذات یا نسل سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں‘‘ سیکولر قومی ریاست کا مفہوم کیسے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اگر تو اقلیتوں کو مذہبی آزادی اور عقائد و عبادت کا حق پہلی مرتبہ سیکولرازم نے ہی دیا ہوتا تو مضمون نگار کا اس تقریر سے سیکولر قومی ریاست مراد لینا درست قرار پاتا۔ لیکن اگر مضمون نگار تسلیم کرتے ہیں کہ اقلیتوں کو ایک اسلامی ریاست میں نہ صرف جینے اور معاش کرنے کے حقوق حاصل ہیں بلکہ انہیں اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق عقائد و عبادات کرنے کا حق بھی حاصل ہے تو قائداعظم کی تقریر ان کے سابقہ بیانات سے ہم آہنگ قرار پاتی ہے۔ اب اگر عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں، اموی و عباسی خلافت میں، خلافت اندلس اور خلافت عثمانیہ میں، غیر مسلم اقلیتوں کو مذہبی حقوق دینے کی روایت رہی ہے تو قائداعظم نے ایک مسلمان حکمران اور رہنما ہونے کی حیثیت سے اسی بات کا اعادہ کیا ہے، اس میں سیکولر ریاست کا تصور کہاں سے آگیا۔ ہماری بات کی تائیدگیارہ اگست والی تقریر کے ساڑھے چار مہینے بعد بطور گورنر جنرل قائداعظم کے اس ارشاد سے ہوتی ہے:

’’میرے لیے وہ گروہ ناقابل فہم ہے جو خوامخواہ شرارت برپا کرنا چاہتا ہے اور یہ پراپیگنڈہ کرتا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنے گا۔ ‘‘ (روزنامہ پاکستان ٹائمز 27جنوری 1948ء)

مضمون نگار کو اعتراض ہے کہ قرار داد مقاصد 1949ء، اور 1973ء کے آئین کی اسلامی شقوں کی بنیاد پر ’’ریاست ایک مسجد کی طرح مسلم اکثریت کے زور پر ان کے مذہب کے نام پر رجسٹرڈ کروائی گئی۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا صرف پاکستان میں ہوا ہے۔ کیا روس اور دیگر سوشلسٹ ریاستیں سوشلزم کے نام پر رجسٹرڈ نہیں ہیں جہاں نہ صرف سوشلزم کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں بلکہ مسلمانوں کو اتنا بھی مذہبی حق حاصل نہ تھا کہ وہ نماز اور تعلیم قرآن حاصل کرسکیں۔ کیا اسرائیل کی ریاست یہودی نسل پرستوں کے نام رجسٹرڈ نہیں ہے۔ کیا امریکہ و یورپ کی ریاستیں سیکولر جمہوریت کے نام پر رجسٹرڈ نہیں جہاں جمہوریت کو الہامی مذہب کی حیثیت حاصل ہے۔ کیا ہمارے ہاں بھی سیکولرازم کو حکم اور معیار مان کر اسلامی تعلیمات کے پر کاٹنا ضروری قرار پا چکا ہے۔ کیا اکثریت کی بنیاد پر ریاست اپنے نام رجسٹرڈ کروانا صرف سوشلسٹ اور سیکولر قوموں کا ہی حق ہے۔ مسلمانوں کا حق نہیں ہے۔

 صاحب مضمون کے مطابق ’’قومی ریاستوں کے دور میں اسلام کے نام پر مذہبیت کی یہ پیوند کاری گھمبیر نتائج کی وجہ بنی‘‘۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ صاحب مضمون کے نزدیک ’’قومی ریاست‘‘ کے تصور کو جتنی تقدیس حاصل ہے، اتنی اسلامی تعلیمات کو نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کے اجتماعی قوانین و احکام، حدود تعزیرات، معیشت و معاشرت سے متعلق قرآنی تعلیمات محض تلاوت کے لیے ہیں۔ کیا قومی ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد اسلام کے اجتماعی احکام کے نفاذ کی ضرورت اب نہیں رہی؟ گویا قومی ریاست اب منزّ ل من اللہ دین الٰہی قرار پا چکی ہے اور اس کے اندر اسلامی تعلیمات کے نفاذ پر اصرار فساد فی الارض ہے۔

مضمون نگار کی قادیانیوں سے محبت کی بلّی بھی بار بار تھیلے سے نکلنے کو بے تاب دکھائی دیتی ہے، جب وہ کہتے ہیں کہ ’’غیر مسلم اقلیت کو وہی حقوق ملے جنہیں مسلم اکثریت نے دینا قبول کیا (ص 32) ’’دینی شعائر پر بھی مسلم ملکیت کا دعویٰ قائم ہوگیا۔‘‘ (ص32)

ہمارے ہاں کے لبرلز جمہوریت اور اکثریت کا بڑا راگ الاپتے ہیں۔ لیکن اگر یہی جمہوریت اور اکثریت اسمبلی میں متفقہ طور پر قرار داد مقاصد(1949ء) پاس کرتی ہے، 1973ء کے آئین کی اسلامی شقیں طے کرتی ہے۔ 1974ئمیں اجتماعی طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم پاس کرتی ہے تو وہ اسے اکثریت کی دھونس باور کرواتے ہیں۔ مضمون نگار کے ذہنی خلجان کو مزید پڑھیے اور سر دُھنیے۔ فرماتے ہیں:

’’ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست یہ باور کرے کہ قومی ریاستوں کے دور میں مذہبی ریاست کا تصور ایک بے جوڑ اضافہ ہے۔ یہ ملک یہاں بسنے والی تمام قوموں نے مل کر بنایا تھا۔ اکثریت کو محض عددی برتری کے زعم میں اس کو اپنے نام رجسٹرڈ کرانے کا حق نہیں‘‘۔ (ص37)

(1)    پھر وہی قومی ریاست کو وحی الٰہی جیسی تقدیس دینے کی تکرار۔

(2)    چونکہ یہ ملک تمام قوموں نے مل کر بنایا تھا، اس لیے ان کی اجازت سے ہی چلایا جاسکتا ہے۔ چاہے ان کی تعداد دو فی صد بھی نہ ہو۔ ویسے مضمون نگار یہ بھی بتا دیتے کہ ہندو، سکھ، عیسائی اقوام نے کس کس مقام پر تحریک پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی تو ہمارے بھی علم میں اضافہ ہو جاتا۔

(3)    اکثریت (مسلمانوں) کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنی اکثریت کے ملک میں بھی اپنی مرضی کا تصورِ مملکت جاری کرسکیں۔ یا للعجب۔

کیا مضمون نگار یہی مطالبہ امریکہ و یورپ سے بھی کریں گے کہ وہ ’’اکثریت کی محض عددی برتری کے زُعم میں بنائے گئے ہم جنسی جیسے غیر انسانی ہی نہیں غیر حیوانی عمل کو تحفظ دینے والے قوانین کو منسوخ کرے۔ اسقاط حمل جیسے قاتلانہ ایجنڈے، اور بے نکاحی پارٹنر شپ جیسی بے ہودگی کے قانونی جواز کو ختم کرے۔ سود جیسے انسانیت کش نظام کے کاروباری جواز کو ختم کرے۔تضاد بیانی ملاحظہ ہو کہ دوسری طرف خود قومی ریاستوں کی سرحدوں میں رد و بدل کے لیے جمہورکی رائے کے فیصلہ کن ہونے کا فتویٰ بھی صادر فرماتے ہیں۔ (ص38)گویا جمہوریت اور اکثریت سے انہیں کِد اس وقت ہی ہوتی ہے جب اکثریت کا پلڑا اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی طرف جھکتا ہے۔

ہماری معلومات کے مطابق مضمون نگار کا تعلق جس مکتب فکر سے ہے وہ اپنی جمہوریت پسندی کا علمبردار ہے۔ لیکن مضمون نگار کی اکثریت کے حوالے سے تضاد بیانی سے واضح ہے کہ ان کا طریقہ واردات وہی ہے جو آج عالمی ایجنڈے کا نمایاں حصہ ہے۔ یعنی جس محاذ پر جمہوریت کے ذریعے اسلامی قوتوں کو کمزور کیا جاسکتا ہو، وہاں جمہوریت کا راگ الاپا جائے اور جہاں جمہوریت کے ذریعے اسلام پسند فیصلہ کن پوزیشن میں آجائیں یا اسلام کے حق میں کوئی اجتماعی فیصلہ کروالیں تو اس اکثریت کو مشکوک، متنازعہ اور دھونس باور کروا دیا جائے۔ نوے کی دھائی میں الجزائر میں اسلامک فرنٹ ستر فی صد سے زاید ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوا تو فرانس کی پشت پناہی سے فوج کے ذریعے انہیں کچل دیا گیا، 2013ء میں مصر میں اسلام پسند صدر مملکت مرسی کو فوج کے ذریعے فارغ کرکے محبوس کر دیا گیا اور امریکہ نے جمہوری صدر کے باغی جرنیل کی مذمت تک نہیں کی۔ فلسطین میں حماس پارٹی کی منتخب حکومت کے گرد معاشی و سیاسی شکنجہ کس دیا گیااور کوئی یورپی ملک نہیں بولا۔ ترکی کے منتخب اسلام پسند صدرطیب اردگان کے خلاف امریکہ نے فوجی بغاوت کروائی۔ ایسی صورت میں کسی بھی فوجی جرنیل کی بغاوت کی اہل مغرب مذمت تک نہیں کرتے۔ یہی فریضہ جدت پسندی کے فریب میں مبتلا ہمارے ہاں کے مضمون نگار انجام دے رہے ہیں:

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں ہے

مضمون نگار کو یہ غم بھی ہلکان کیے جارہا ہے کہ: ’’علماء و فقہاء نے ہندو دھرم کے مذہبی رسوم و رواج سے مسلم کمیونٹی کو بچنے کی تلقین کی۔‘‘ (ص33) گویا انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ بہتر ہوتا کہ مضمون نگار ان بیسیوں احادیث کا محل بھی متعین فرما دیتے جس میں دیگر اقوام کی مشابہت سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ صاحب مضمون نو مسلموں کے اسلامی نام رکھنے کو بھی  علماء کی اختراع قرار دیتے ہیں (ص33-34) البتہ آگے چل کر خود ہی لکھتے ہیں کہ: ’’رسول اللہؐ قبول اسلام کرنے والوں کے نام اس صورت میں تبدیل کرتے تھے جب نام میں شرک یا کسی برائی کا پہلُو پایا جاتا ہو۔‘‘ آج ہمارے علماء فقہا نے بھی تو ہندوستان میں یہی کچھ کیا ہے، اس سے زاید تو کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ اب اگر کوئی نو مسلم خود صحابہ و صحابیات کے نام پر نام رکھنا چاہتا ہے تو کیا اسے اس سے روک دیا جائے۔ مضمون نگار کا یہ کہناکہ: ’’یہ کہیں نہیں ملتا کہ مسلمانوں کی ظاہری شناخت کے لیے ان کے حلیے اور لباس میں کوئی امتیاز برتا گیا ہو۔‘‘ جبکہ ہمارے علم کے مطابق حضرت عمر مسلم اور غیر مسلم کے لباس کے معاملے میں سختی سے امتیاز برتتے تھے۔ آخر مضمون نگار مسلمانوں کو غیر مسلموں جیسا بن کر رہنے پر دیکھنے کے متمنی کیوں ہیں؟

صاحب مضمون بڑے تحسین آمیز انداز میں فرماتے ہیں: ’’برصغیر میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کرنے کے باوجود وطن کی حفاظت میں ہندو راجپوتوں کے ساتھ مل کر وسط ایشیائی مسلم حمہ آوروں کے خلاف لڑا کرتے تھے۔‘‘ اب اس بات پر ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں فکر مند ہونا چاہیے یا کہ ان غیر تربیت یافتہ مسلمانوں کے فعل کو اپنے موقف کے ثبوت اور جواز کے لیے دلیل پکڑنا چاہیے۔ آخر مضمون نگار مسلمانوں کو کس ایمانی و اخلاقی پستی تک پہنچانا چاہتے ہیں۔


اکتوبر ۲۰۲۰ء

جنسی درندگی کا بڑھتا ہوا رجحانمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۹)ڈاکٹر محی الدین غازی
تحفظ ناموس صحابہ اور عالم اسلام کا داخلی خلفشارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس اور محکمہ تعلیممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا امین عثمانی ؒ: حالات وخدمات اور افکارڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ پنجاب کا ایک رخڈاکٹر اختر حسین عزمی
امام ابن جریر طبری کی شخصیت اور ایک تاریخی غلط فہمیمولانا سمیع اللہ سعدی
امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوارڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

جنسی درندگی کا بڑھتا ہوا رجحان

محمد عمار خان ناصر

لاہور موٹروے پر  رونما ہونے والے  حالیہ واقعے کے تناظر میں تحریک انصاف کی حکومت نے آبرو ریزی کے مجرموں کو سرجری کے ذریعے سے نمونہ عبرت بنانے کے لیے قانون سازی کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ اس طرح کے اعلانات ایسے واقعات کے تناظر میں حکومتوں کی سیاسی ضرورت ہوا کرتے ہیں اور اجتماعی غم وغصہ کو نیوٹرلائز کرنے کا ایک فوری اور موثر ذریعہ بنتے ہیں، اس لیے ان سے زیادہ امیدیں باندھنے کے بجائے ایک بڑے تناظر میں اس انتہائی سنگین مسئلے کا جائزہ لینے اور ایک اجتماعی معاشرتی سوچ کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

آبروریزی کا عمل مختلف واقعاتی سیاقات میں مختلف نوعیتیں رکھتا ہے اور اس کے محرکات ہمیشہ ایک جیسے نہیں ہوتے، اس لیے کس نوعیت کی آبروریزی کی روک تھام کے لیے کس طرح کے اقدامات موثر ہو سکتے ہیں، اس کا گہرا تجزیہ کیے بغیر اس باب میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں کی جا سکتی۔

بنیادی طور پر آبروریزی کے چار بڑے محرکات مشاہدے میں آتے ہیں:

۱۔ دشمن گروہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی آبروریزی کو دشمن کی اجتماعی تذلیل اور ڈی مورلائزیشن کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنے کا طریقہ جنگوں میں فتح یاب ہونے والی فوجیں اختیار کرتی آئی ہیں اور انسانی ضمیر کے اجماع اور بین الاقوامی قانون انسانیت جیسے ضابطوں کی موجودگی میں بھی اس نفسیات سے چھٹکارا پانا ابھی تک انسانوں کے لیے ممکن نہیں ہو پایا جس پر حالیہ تمام  جنگوں کے واقعات شاہد ہیں۔ ذرا نچلی سطح پر یہی نفسیات وڈیرہ شاہی کلچر میں ایسے واقعات میں کارفرما ہوتی ہے جس میں کسی کمی کمین کو اس کی اوقات بتانے کے لیے اس کے خاندان کی خواتین کو آبروریزی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک اور سطح پر یہی نفسیات بعض افراد کو بھی اس پر آمادہ کر سکتی ہے کہ ذاتی رنجش کی وجہ سے کسی خاتون کو آبروریزی کا نشانہ بنا کر اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کریں۔

۲۔ جنسی جبلت سے مغلوبیت کی کسی وقتی کیفیت کے تحت انفردی سطح پر بھی اس طرح کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ اس کا نشانہ عموما ماحول میں موجود کمزور اور غیر محفوظ خواتین بنتی ہیں، تاہم بعض صورتوں میں اس کی ابتدائی تحریک یا حوصلہ افزائی میں خود متاثرہ فریق (victim)  کا بھی کردار ہو سکتا ہے۔ ناجائز اور خفیہ روابط کی صورت میں اس کے امکانات عموما زیادہ ہوتے ہیں۔ اس محرک میں اہم نکتہ یہ ہے کہ مردانہ طاقت کے اظہار یا متاثرہ فریق کی تذلیل وغیرہ کا داعیہ  بنیادی طور پر شامل نہیں ہوتا اور ضروری نہیں کہ اس کا ارتکاب کرنے والے بنیادی طور پر مجرمانہ ذہنیت کے حامل یا جرائم پیشہ لوگ ہوں۔

۳۔ جنسی جبلت سے مغلوبیت بعض خاص حالات میں  perversion کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کے زیراثر بیمار ذہن کے افراد اس کی تسکین کے لیے بہت ہی پست اور مجرمانہ طریقے اختیار کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کو قتل کر دینا اور محارم کو آبروریزی کا نشانہ بنانا وغیرہ اس مجرمانہ نفسیات کے عمومی مظاہر ہیں۔

۴۔ جنسی جبلت جب مختلف عوامل سے انسان کو بالکل حیوانیت کی سطح پر لے آئے اور اس کے ساتھ مجرمانہ ذہنیت اور مردانہ طاقت کے اظہار کی نفسیات بھی شامل ہو جائے تو ایسے افراد یا گروہ ماحول میں اس طرح کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور ایسا ماحول ان کی جرات کو خاص طور پر شہہ دیتا ہے جس میں نظام انصاف بہت کمزور اور الٹا طاقتور کی مدد کرنے والا ہو۔ لاہور موٹروے کا واقعہ اس نوعیت کی ایک مثال ہے۔

ان میں سے ہر سیاق، ایک مختلف نوعیت رکھتا ہے اور اس مخصوص نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی پیش بندی کی کوئی حکمت عملی زیربحث لائی جا سکتی ہے۔ ہر طرح کے واقعے پر ایک ہی جیسے عمومی تبصرے کرنا یا غم وغصہ کا وقتی اظہار کرنا یا حکومتی سطح پر کچھ اعلانات وغیرہ کر دیا جانا، اصلاح احوال میں کوئی مدد نہیں دے سکتا۔

آبروریزی کے رجحان کا تجزیہ جب نفسیاتی وسماجی عوامل کی روشنی میں کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا اہم ترین مقصد اس پہلو کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے کہ ریاستی طاقت اور قانون کا کردار اس معاملے میں بہت بنیادی ہونے کے باوجود اسے مسئلے کے حل کی شاہ کلید نہیں سمجھا جا سکتا۔ انسانی بساط کی حد تک مسئلے کے حل کی تدبیر کے لیے ضروری ہے کہ جرم کی نفسیات کو پیدا کرنے یا فروغ دینے والے عوامل کے سدباب، اور جرم کے وقوع کے بعد ریاستی طاقت کے کردار، دونوں کے مابین ایک متوازن تعلق وجود میں لایا جائے، یعنی جرم پر مناسب تعزیری اقدامات کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ جرم کی پیش بندی پر بھی اتنی ہی توجہ دی جائے۔ جرم کو اگر آوارہ کتے کے کاٹنے کی مثال سے سمجھا جائے تو جرم پر قابو پانے کا یہ طریقہ کبھی موثر نہیں ہو سکتا کہ شہری آبادیوں میں آوارہ کتوں کے پھیلتے چلے جانے پر تو کوئی توجہ نہ دی جائے اور سارا زور اس پر صرف کیا جائے کہ اگر کتا کسی کو کاٹ لے تو سگ گزیدہ کی اشک شوئی کے لیے ہر ڈسپنسری اور اسپتال میں انجکشن وافر تعداد میں میسر ہوں اور میونسپل کمیٹی کے کارندے فوری طور پر ایسے کتے کے خلاف ایکشن لینے کے لیے مستعد ہوں۔ ان ضروری اقدامات سے پہلے آوارہ کتوں کی افزائش نسل پر قدغن لگانے کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے، اور یہ صرف ریاستی اداروں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ شہری آبادی اور حکومتی اداروں کے باہمی تعاون کے ساتھ اجتماعی طور پر انجام دی جانے والی ایک ذمہ داری بنتی ہے۔

اس بنیادی تناظر میں اگر آبروریزی کی مختلف صورتوں کا تجزیہ کیا جائے تو پہلی صورت میں بنیادی کردار ریاستی طاقت اور قانون کا بنتا ہے، کیونکہ اس کے وجود میں آنے کا اصل محرک اندھی طاقت اور اس کا اظہار ہوتا ہے اور طاقت کے نشے کو طاقت کے تریاق سے ہی توڑا جا سکتا ہے۔ تاہم باقی تین صورتوں میں معاشرتی سانچوں، عمومی ذہنی رویوں، مذہبی وغیر مذہبی فکری بیانیوں، نفسی واخلاقی تربیت کے معاشرتی انتظامات اور خاص طور پر سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی اخلاقیات کو زیربحث لائے بغیر آوارہ کتوں کی افزائش نسل پر قدغن لگانے کی کوئی بامعنی حکمت عملی نہیں سوچی جا سکتی۔

سب سے پہلے عمومی ذہنی رویوں اور نفسی واخلاقی تربیت کے انتظامات پر نظر ڈالیے۔

مرد کا جارحانہ جنسی جبلت کا حامل ہونا ایک حیاتیاتی حقیقت ہے اور اسے مسئلے کی اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے، اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، البتہ اسے حدود کا پابند بنانے کی تدبیر کی جا سکتی ہے۔ تدبیر کے دو پہلو ہیں اور دونوں ہی اہم ہیں۔ ایک، شعور اور اخلاق کی تربیت کے ذریعے سے افراد میں انسانی ہمدردی اور خاص طور پر صنف بہتر کے احترام کے جذبات کی آبیاری کرنا اور انھیں معاشرتی اقدار کے طور پر رائج کرنا، اور دوسرا، حدود سے تجاوز پر محاسبہ اور سزا کے خوف کو موثر بنانا۔ اس میں کلیدی اہمیت صنف بہتر کے بارے میں مردوں کے نفسیاتی احساسات کو حاصل ہے اور ان کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار معاشرتی سانچوں اور فکری بیانیوں کا ہوتا ہے۔

ایک امر واقعہ کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ آبرو ریزی کا، ایک کثیر الوقوع جرم  کی صورت اختیار کرنا جدید طرز معاشرت کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے اور اس کا براہ راست تعلق خواتین کے لیے ’’محفوظ “ روایتی طرز معاشرت میں تبدیلیوں سے ہے۔ جدید طرز معاشرت نے خواتین کے لیے گھر کے ماحول سے باہر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں حصہ لینے کے مواقع پیدا کیے ہیں اور اس کے نتیجے میں اختلاط پر مبنی ایک ایسی معاشرت تشکیل پذیر ہے جس میں ایسے حفاظتی انتظامات سردست مستحکم نہیں ہیں جو گھر کے ماحول میں میسر حفاظت کا متبادل بن سکیں۔ معاشرت کے ایک سانچے سے دوسرے سانچے کی طرف انتقال کے مرحلے میں بنے ہوئے ذہنی رویوں کے لیے نئی صورت حال کے روبرو اپنا ردعمل طے کرنا ایک بہت مشکل اور کافی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ ہمارا صدیوں سے بنا ہوا نفسیاتی سانچہ عورت کے عزت اور احترام کو گھر کی چاردیواری سے الگ نہیں دیکھ سکتا، اور اختلاط کے ماحول میں کام کرنے والی خواتین کے لیے ’’عزت واحترام“ کا زاویہ نظر ہماری اس نفسیاتی تشکیل میں قابل قبول نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہمارے روایتی معاشرت سے تشکیل پانے والے ذہنی رویوں اور جدید طرز معاشرت میں ایک dissonance (مغایرت) ہے جو صرف غیرشعوری نہیں ہے، بلکہ ہمارے ہاں رائج مختلف فکری بیانیوں میں اس کا باقاعدہ اظہار ہوتا ہے۔

ہمارا اجتماعی نفسیاتی سانچہ، مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ عزت واحترام کے تصور کو وابستہ کرنے میں شدید دقت محسوس کرتا ہے، اس میں ایک تنقیح بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ گھر سے باہر یا مخلوط ماحول میں عورت کی موجودگی فی نفسہ اس نفسیاتی سانچے میں قابل قبول نہیں یا عورت کے احترام کے احساس کو زائل کر دیتی ہے۔ تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اس سے ہے کہ عورت کس ’’حیثیت “سے مخلوط ماحول میں موجود ہے۔ ایک گھریلو خاتون کی حیثیت سے عورت کو اب بھی پبلک مقامات پر احترام دیا جاتا ہے اور اس کے مظاہر ہم دفاتر، بنکوں، پبلک ٹرانسپورٹ، اسپتالوں وغیرہ میں ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے معاشرے کا مسئلہ خواتین کے لیے عزت واحترام کے تصور کے فقدان کا نہیں، بلکہ اس کے معیارات کا ہے۔ عورت کے باکردار اور مستحق احترام ہونے کا تصور ہمارے نفسیاتی سانچے میں گھریلو خاتون کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس حیثیت میں ہم ایک معاشرتی قدر کے طور پر خواتین کو ہر جگہ احترام دیتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی خواتین کو ’’ورکنگ ویمن“ کی حیثیت میں یا اس کی اہلیت پیدا کرنے کی سعی کرتے ہوئے (مثلا تعلیمی اداروں میں) تصور کیا جاتا ہے تو ہمارا نفسیاتی سانچہ ایسی خواتین کو بنظر احترام دیکھنے پر خود کو آمادہ نہیں پاتا۔ ہمارا reflexive reaction ایسی خواتین کے کردار کو منفی زاویے سے اور، حسب موقع، نظربازی یا جنسی پیش قدمی کے ایک ممکنہ ہدف کے طور پر دیکھنے کا ہوتا ہے۔

اس غیرشعوری نفسیاتی احساس کو فکری جواز اور تائید فراہم کرنے کا کام وہ بیانیے کرتے ہیں جو جدید طرز معاشرت میں اختلاط کے مواقع کو فی نفسہ ایک برائی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ان بیانیوں میں سب سے زیادہ بلند آہنگ بیانیہ، مذہبی طبقوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے۔ مذہبی طبقوں کا بنیادی ترین مسئلہ چونکہ جدید معاشرت میں اپنی شناخت کا تحفظ ہے، اس لیے ایک مخصوص برقع پوش معاشرت کو دینی واخلاقی اقدار کے معیاری نمونے کے طور پر پیش کرتے ہوئے انھیں یہ احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ جدید طرز معاشرت میں خواتین کے ایک بہت بڑے طبقے کے لیے، جو تدریجا اکثریت میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے، کس نوعیت کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ جدید تمدن کے اوضاع کے لحاظ سے، خواتین کی عزت واحترام کا ایک مذہبی بیانیہ تشکیل دیا جاتا جس سے نئی طرز معاشرت میں اجتماعی نفسیاتی احساسات میں مطلوبہ تبدیلیاں پیدا کرنے میں مدد ملتی، مذہبی بیانیوں نے ہر اہم معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی معاشرے میں تقسیم اور منافرت پیدا کرنے کو اپنی شناخت کے تحفظ کا ناگزیر ذریعہ سمجھنے کو ترجیح دی ہے۔

مخلوط ماحول  میں خواتین کی سماجی سرگرمیوں پر مذہبی یا معاشرتی اقدار   کے لحاظ سے  منفی حکم لگانے والے بیانیوں   کے ذکر کا مطلب یہ نہیں کہ  وہ براہ راست جنسی ہراسانی  یا جنسی  درندگی جیسے   رجحانات کے ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح بدیہی طور پر اس تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی درست نہیں ہوگا کہ    ان رویوں کا نشانہ صرف  مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین بنتی ہیں۔     زیربحث بیانیوں کا کردار ان رویوں کے فروغ میں بالواسطہ ہے،  یعنی  مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین  کے بارے میں   یہ بیانیے ایسی  سماجی نفسیات  کو تقویت پہنچاتے ہیں  جس میں  انھیں  احترام اور تقدس کی نظر سے دیکھنے کے بجائے جنسی تلذذ کا  ذریعہ  سمجھا جاتا ہے۔   یہ چیز پھر دیگر کئی عوامل کے ساتھ مل کر  جنسی درندگی جیسے مجرمانہ رجحانات کی  صورت اختیار کر لیتی ہے  اور  چونکہ  یہ رجحانات شعوری نہیں ہوتے، یعنی   ایسا نہیں   ہوتا کہ مجرم باقاعدہ سوچ سمجھ کر   مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کریں،  بلکہ دراصل      کئی نفسیاتی عوامل کے اشتراک سے ایسے  افراد میں فی نفسہ خواتین  کے تقدس اور احترام کا  جذبہ  ختم ہو جاتا ہے ، اس لیے نتیجے کے طور پر ان مجرمانہ حملوں کا ہدف صرف مخلوط ماحول کا حصہ بننے والی خواتین نہیں رہتیں، بلکہ ہر طرح کی خواتین ان کی زد میں آ جاتی ہیں۔

جہاں تک ان عوامل کا تعلق ہے جنھیں براہ راست  جنسی درندگی یا جنسی ہراسانی جیسے مظاہر  کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے  تو وہ بنیادی طور پر دو ہیں:

سب سے پہلا اور بنیادی  عامل، سرمایہ دارانہ معیشت کی اخلاقیات ہے جو  نسوانی حسن اور جنسی جذبات کی انگیخت کو ایک باقاعدہ فروختنی چیز تصور کرتی  اور ان کی مارکیٹنگ کے لیے مذہب واخلاق اور انسانی معاشرے کی صلاح وفلاح کو  بالکل بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر قسم کے کاروباری طریقے اختیار کرنے کو     جائز قرار دیتی ہے۔  اس کی بد ترین شکل عریاں فلموں کی صنعت کی صورت میں سامنے آتی ہے  جس سے بڑھ کر نسوانی تذلیل اور توہین کی کوئی شکل انسانی تاریخ نے نہیں دیکھی ہوگی، لیکن مغربی معاشروں میں اسے باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے۔    تاہم  اس سے نچلی سطحوں پر نیم عریانی  سمیت  جنسی جذبات کو بے قید کرنے  کے جو متنوع طریقے اختیار کیے جاتے ہیں اور جنھیں  بتدریج مشرقی معاشروں میں بھی قبولیت حاصل ہوتی جا رہی ہے، ان کا کردار     خواتین کے متعلق مجرمانہ جنسی نفسیات پیدا کرنے میں  کسی طرح بھی  نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے۔

دوسرا بنیادی عامل،  اختلاط کے ماحول میں   ان آداب وحدود کی پابندی کو  اہمیت نہ دینے بلکہ آزادی نسواں  کے عنوان سے  ان کی پامالی کا پرزور دفاع کرنے کا رویہ ہے  جن کی  تعلیم نہ صرف مذہب اور اخلاق دیتے ہیں، بلکہ انسانی نفسیات  کے  آزمودہ اصول بھی  ان کی تائید کرتے ہیں۔  مذہب واخلاق، خواتین کے تحفظ کے مسئلے کو حیا اور پاک دامنی کی قدروں  سے الگ کر کے نہیں دیکھتے اور یک طرفہ طور پر صرف مردوں کو ’’احترام خواتین“ کا پابند نہیں کرتے، بلکہ خواتین کو بھی ان اخلاقی حدود وآداب کا پابند بنانا چاہتے ہیں جن کا نتیجہ خواتین کے تحفظ کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کے برعکس حقوق نسواں کا عصری فلسفہ اس معاملے میں عورت کی انفرادیت اور آزادی کو تو اہمیت دیتا ہے جس کی رو سے عورت کو پورا حق ہے کہ وہ جیسا چاہے، لباس پہنے اور اپنے نسوانی حسن کی داد یا صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جو انداز چاہے، اختیار کرے، لیکن  اس کے نتیجے میں مخالف صنف میں جس طرح کے جنسی رجحانات اور رویوں کا  فروغ پانا     لازم ہے، ان سے کلی طور پر صرف نظر  کر لیا جاتا ہے۔

گفتگو کو سمیٹتے ہوئے،   بنیادی نکتے کو  نمایاں کرنے کے لیے  ایک سابقہ تحریر کا اقتباس نقل کرنا یہاں  مناسب ہوگا:

’’جنسی ہراسانی کا تعلق صرف مرد کی جارحیت سے نہیں ہے، اس کو تقویت دینے والے اسباب میں بنیادی کردار عورت سے متعلق اس عمومی ذہنی واخلاقی تصور کا ہے جو کسی معاشرے میں پایا جاتا ہے۔  اگر عمومی معاشرتی ماحول اور اس میں ذہنی واخلاقی تربیت کے ذرائع عورت کے متعلق احترام، ہمدردی اور تحفظ کا رویہ پیدا کریں گے (جس کے لیے مرد وزن کے اختلاط اور نسوانی حسن کی نمائش کے حدود وآداب کی اہمیت بنیادی ہے) تو اس کے نتائج اور ہوں گے، لیکن اس پہلو کو نظر انداز کیا جائے گا تو ایسے ماحول میں جنسی ہراسانی اور خواتین کے عدم تحفظ جیسے مسائل مستقل طور پر حل طلب رہیں گے۔  

مرد وزن کے اختلاط کے حوالے سے عمومی اخلاقی تربیت اور رویہ سازی میں اس  نکتے کو بنیادی اہمیت دی جانی چاہیے کہ مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین کے لیے عزت واحترام، ہمدردی اور ترحم کے جذبات بیدار کیے جائیں۔  جدید طرز معاشرت نے خواتین کو بھی معاشی ذمہ داریوں میں  شریک کر دیا ہے اور  انھیں اپنے خاندان کا سہارا بننے کے لیے کئی طرح کی پر مشقت معاشی سرگرمیوں میں  حصہ لینا پڑتا ہے۔ ایسے ماحول میں انھیں جنسی تلذذ کا ذریعہ تصور کرنے والی نفسیات  سے خواتین کی صورت حال کا یہ پہلو اوجھل ہوتا ہے اور وہ اس جبر کو محسوس کیے بغیر جس کا خواتین کو سامنا ہے، خود غرضی اور نفس پرستی کی کیفیت میں  انھیں صرف صنف مخالف کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ بار بار کی تذکیر سے لوگوں کی اخلاقی حس کو بیدار کرنے کا اہتمام کرنے اور خواتین کے حوالے سے کلچرل زاویہ نظر  کی تشکیل میں احترام، ترحم اور ہمدردی جیسے جذبات کو بنیادی عناصر کے طور پر شامل کرنے کی ضرورت ہے۔“

موجودہ گفتگو کے تناظر میں، اس میں یہ اضافہ کر لیا جائے کہ  جنسی درندگی  کے رجحان کے سدباب کے لیے  جہاں معاشرے میں خواتین کی توقیر واحترام  کو بطور قدر  فروغ دینے اور   بے توقیری  کا رویہ پیدا کرنے والے جملہ اسباب کی سخت حوصلہ شکنی  کی ضرورت ہے،  وہاں  تعلیم وتربیت کے  تمام ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے   انتہائی ترجیحی بنیادوں پر افراد کی نفسی واخلاقی تربیت کو بھی  ایک  مہم کی صورت میں جاری کرنا  ضروری ہے۔  اس ضمن میں ذہنی رویوں کی تطہیر کے لیے مذہبی  وعظ ونصیحت اور  انسانی ونسوانی ہمدردی کی تلقین وتعلیم کے پہلو بہ پہلو  علم نفسیات کی مدد سے لوگوں میں  یہ آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ  ماحول میں  موجود جنسی ترغیبات  کس طرح ان کے  معمول کے ذہنی رویوں  پر اثر انداز ہوتی  اور ان کی شخصیت  کو آلودہ وپراگندہ کرنے کا موجب بنتی ہیں اور  یہ کہ کن مختلف تدابیر سے کام لیتے ہوئے  وہ  ان کے مضر اثرات سے خود کو   زیادہ سے زیادہ  محفوظ بنا سکتے ہیں۔  نفسیاتی علاج معالجے کی سہولت جو ہمارے معاشرے میں اب تک انفرادی سطح پر   اور بہت محدود  دائرے میں دستیاب ہے، اسے  ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے تعلیم عامہ کے پروگراموں میں بدلنے کی ضرورت ہے ۔ جدید طرز معاشرت نے انسانوں کو جن ان گنت نفسیاتی  عوارض سے دوچار کر دیا ہے،  ان کا موثر علاج   نفسی واخلاقی تربیت   کے ایک عمومی ماحول  سے ہی ممکن ہے۔  ریاست اور قانون اس باب میں ایک خاص حد تک ہی  مددگار ہو سکتے ہیں، ان سے اس سے زیادہ کی توقع کرنا  غیر حقیقت پسندانہ  انداز فکر ہوگا۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(218) اذا  الفجائیۃ والے جملے کا ترجمہ

اذا کی ایک قسم وہ ہے جسے اذا فجائیہ کہا جاتا ہے، یہ درست ہے کہ اس کا نام فجائیہ ہے، اذا میں ایک طرح کا تحیر کا عنصر تو پایا جاتا ہے، لیکن اس کے مفہوم میں ضروری نہیں ہے کہ اچانک واقع ہوجانے کا مفہوم بھی ہو۔ شاعر کہتا ہے:

کم تمنیت لی صدیقا صدوقا
فاذا انت ذلک المتمنی

(میں نے ایک سچے دوست کی کتنی تمنا کی تھی، تو ایسا ہوا کہ تم وہ ہوئے جس کی میں نے تمنا کی تھی)

یہاں تحیر آمیز مسرت ہے تو ہے، مگر یکایک ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔

کبھی اذا کے بعد مذکور بات یکایک اور فورا پیش آنے والی بات بھی ہوسکتی ہے، ایسی صورت میں ترجمے میں اس کا اظہار بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ ہمیشہ ضروری نہیں ہے۔تراجم کا جائزہ لیتے وقت ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مترجمین یکایک، دفعة ، فورا ، جبھی، ایک دم اور جھٹ سے جیسے الفاظ وہاں استعمال کرتے ہیں جہاں ان کا محل ہی نہیں ہوتا ہے، اس کی وجہ شاید یہ تصور ہے کہ اذا فجائیہ میں بغتۃ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہی مترجمین بعض دوسرے مقامات پر اس کی رعایت بھی کرتے ہیں۔مثال کے طور پر نیچے دی گئی مثالوں میں سے پہلی مثال میں یکایک کا کوئی محل نہیں ہے، پھر بھی یکایک کا ذکر کردیا گیا، دوسری مثال میں بھی اس کا محل نہیں ہے اور وہاں ذکر نہیں کیا گیا۔دراصل گنجائش ہوتے ہوئے ذکر نہ کرنے سے کوئی معنوی خرابی پیدا نہیں ہوتی ہے، لیکن جہاں محل نہ ہو وہاں اس طرح کے الفاظ ذکر کرنے سے معنوی خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔اس کا اندازہ پہلی مثال کے دونوں ترجموں میں موازنہ کرنے سے ہوجاتا ہے۔ذیل میں دی گئی باقی مثالوں میں بھی اس پہلو سے دونوں طرح کے ترجموں میں موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ایک اور امر قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اذا فجائیہ کا ترجمہ مستقبل کا نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ حال کا کیا جاتا ہے، مستقبل کا ترجمہ اذا شرطیہ کا کیا جاتا ہے، نیچے مثال نمبر چھ اور سات میں مستقبل کا ترجمہ کردیا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔

(1)  الَّذِي جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنتُم مِّنْہُ تُوقِدُونَ (یس: 80)

”وہی جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو“۔ (محمد جوناگڑھی)

”وہی جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو“۔ (سید مودودی)

(2) حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاھُم بَغْتَۃً فَإِذَا ھُم مُّبْلِسُونَ  (الانعام: 44)

” یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے“۔ (سید مودودی)

”یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(3) إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّھُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا ھُم مُّبْصِرُونَ  (الاعراف: 201)

”حقیقت میں جو لو گ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے“۔ (سید مودودی)

”یقیناً جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں، سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی شیطانی چھوت لاحق ہونے لگتی ہے وہ خدا کا دھیان کرتے ہیں اور دفعة ان کو دکھائی دینے لگتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(4) وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَی ثَمُودَ أَخَاھُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـہَ فَإِذَا ھُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ (النمل: 45)

”یقیناً ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو پھر بھی وہ دو فریق بن کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو، تو یکایک وہ دو متخاصم فریق بن گئے“۔ (سید مودودی)

(5) وَآيَۃٌ لَّھُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّھَارَ فَإِذَا ھُم مُّظْلِمُونَ (یس: 37)

”اِن کے لیے ایک اور نشانی رات ہے، ہم اُس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں تو اِن پر اندھیرا چھا جاتا ہے“۔ (سید مودودی)

”اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں تو وہ یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ان کے لیے ایک بہت بڑی نشانی رات ہے۔ ہم اس سے دن کو کھینچ لیتے پس وہ دفعتا اندھیرے میں رہ جاتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

(6) وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا ھُم مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلَی رَبِّھِمْ يَنْسِلُونَ (یس: 51)

”پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے“۔ (سید مودودی)

”اور پھونکا جائے گا صور جبھی وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑتے چلیں گے“۔ (احمد رضا خان)

”پھر ایک صور پھونکا جائے گا اوریہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(7) إِن كَانَتْ إِلَّا صَيْحَۃً وَاحِدَۃً فَإِذَا ھُمْ جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُونَ (یس: 53)

”ایک ہی زور کی آواز ہو گی اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دیے جائیں گے“۔ (سید مودودی)

”یہ نہیں ہے مگر ایک چیخ کہ یکایک سارے کے سارے ہمارے سامنے حاضر کر دیئے جائیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ایک ہی زور کی آواز ہو گی اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دیے گئے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(8) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَۃٍ فَإِذَا ھُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ (النحل: 4)

”(اس نے) آدمی کو ایک نِتھری بوند سے بنایا تو جبھی کھلا جھگڑالو ہے“۔ (احمد رضا خان، یہاں جبھی کا لفظ بے محل معلو م ہوتا ہے)

”اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اس نے انسان کو نطفہ (پانی کی ایک بوند) سے پیدا کیا پھر وہ ایک دم کھلم کھلا جھگڑالو بن گیا“۔(محمد حسین نجفی)

(9) أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن نُّطْفَۃٍ فَإِذَا ھُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ (یس: 77)

”کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑالو بن کر کھڑا ہو گیا؟“۔ (سید مودودی)

”اور کیا آدمی نے نہ دیکھا کہ ہم نے اسے پانی کی بوند سے بنایا جبھی وہ صریح جھگڑالو ہے“۔ (احمد رضا خان، یہاں جبھی کا لفظ بے محل معلوم ہوتا ہے)

(10) فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْھُمُ الرِّجْزَ إِلَی أَجَلٍ ھُم بَالِغُوہُ إِذَا ھُمْ يَنكُثُونَ (الاعراف: 135)

”مگر جب ہم ان پر سے اپنا عذاب ایک وقت مقرر تک کے لیے، جس کو وہ بہرحال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے“۔ (سید مودودی)

”پھر جب ہم ایک مدت کے لیے جس تک ان کو پہنچنا تھا ان سے عذاب دور کردیتے تو وہ عہد کو توڑ ڈالتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پھر جب ان سے اس عذاب کو ایک خاص وقت تک کہ اس تک ان کو پہنچنا تھا ہٹا دیتے، تو وہ فوراً ہی عہد شکنی کرنے لگتے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو جب ہم ان سے دور کردیتے آفت کو کچھ مدت کے لیے جس تک وہ پہنچنے والے ہوتے تو وہ دفعة عہد توڑ دیتے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تو جب ہم نے ان سے عذاب کو ہٹادیا کچھ مدت کے لیے جس کو انھیں پورا کرنا تھا تو ایسا ہوا کہ وہ عہد توڑنے لگے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(11) وَمِنْھُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْھَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْھَا إِذَا ھُمْ يَسْخَطُونَ (التوبۃ: 58)

”ان میں وہ بھی ہیں جو خیراتی مال کی تقسیم کے بارے میں آپ پر عیب رکھتے ہیں، اگر انہیں اس میں سے مل جائے تو خوش ہیں اور اگر اس میں سے نہ ملا تو فوراً بگڑ کھڑے ہوئے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اے نبی، ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خو ش ہو جائیں، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں“۔ (سید مودودی)

(12) فَلَمَّا أَنجَاھُمْ إِذَا ھُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ (یونس: 23)

”پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو بچالیتا ہے تو فوراً ہی وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں“۔ (سید مودودی)

(13) فَلَمَّا نَجَّاھُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ھُمْ يُشْرِكُونَ (العنکبوت: 65)

”پھر جب وہ اِنہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”لیکن جب وہ اُن کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگے جاتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پس جب وہ ان کو خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو پھر وہ اس کے شریک ٹھیرانے لگتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

(14) وَإِن تُصِبْھُمْ سَيِّئَۃً بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيھِمْ إِذَا ھُمْ يَقْنَطُونَ (الروم: 36)

” اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور اگر اُن کے عملوں کے سبب جو اُن کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں کوئی گزند پہنچے تو نااُمید ہو کر رہ جاتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اگر ان کے اعمال کے سبب سے ان کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو وہ فورا مایوس ہوجاتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

(15) فَإِذَا أَصَابَ بِہِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ إِذَا ھُمْ يَسْتَبْشِرُونَ  (الروم: 48)

”یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے اُسے برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(16) وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِہِ إِذَا ھُمْ يَسْتَبْشِرُونَ۔ (الزمر: 45)

”اور جب اُس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں“۔ (سید مودودی)

” اور جب اس کے سوا (اور کا) ذکر کیا جائے تو ان کے دل کھل کر خوش ہو جاتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

(17) فَلَمَّا جَاءَھُم بِآيَاتِنَا إِذَا ھُم مِّنْھَا يَضْحَكُونَ (الزخرف: 47)

”پھر جب اُس نے ہماری نشانیاں ان کے سامنے پیش کیں تو وہ ٹھٹھے مارنے لگے“۔ (سید مودودی)

(18) فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْھُمُ الْعَذَابَ إِذَا ھُمْ يَنكُثُونَ (الزخرف: 50)

”پھر جب ہم نے وہ عذاب ان سے ہٹالیا انہوں نے اسی وقت اپنا قول وقرار توڑ دیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”سو جب ہم نے ان سے عذاب کو دور کردیا تو وہ عہد شکنی کرنے لگے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(جاری)

تحفظ ناموس صحابہ اور عالم اسلام کا داخلی خلفشار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرات صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموس کے تحفظ و دفاع کا مسئلہ ہمیں اس طور پر ہمیشہ درپیش رہا ہے کہ کچھ لوگوں کی تحفظ ناموس صحابہ اور عالم اسلام کا داخلی خلفشارطرف سے ان مقدس ہستیوں میں سے چند ممتاز شخصیات کے خلاف منفی اور توہین آمیز گفتگو کے ردعمل میں اشتعال پیدا ہوتا ہے جو بعض اوقات تصادم کی حد تک جا پہنچتا ہے، جبکہ اس سال ملک بھر میں عام معمول سے ہٹ کر زیادہ تعداد میں اور مختلف مقامات پر ایسا ہوا ہے اس لیے ردعمل اور اشتعال کے دائرہ کا پھیلنا بھی فطری بات ہے جو ہر طرف دکھائی دے رہا ہے۔

عالمی سطح پر ہمیں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ناموس و حرمت کا مسئلہ درپیش ہے کہ جب ہم ان مقدس و محترم شخصیات کی اہانت کو جرم قرار دے کر ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں تو انسانی حقوق اور آزادیٔ رائے کے عنوان سے ایسی گستاخیوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے بلکہ احتجاج کرنے والوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ جس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں بنتا کہ گستاخی، توہین اور تحقیر کو آزادیٔ رائے اور انسانی حقوق کے دائرے میں شمار کیا جا رہا ہے جو ناقابل برداشت ہونے کے ساتھ ساتھ قطعی طور پر غیر منطقی اور غیر معقول بات بھی ہے۔ جبکہ یہی صورتحال ہمیں ملک کے اندر حضرات صحابہ کرام و اہل بیت عظامؓ کے حوالہ سے درپیش ہے کہ جب ہم ان بزرگ ہستیوں کی اہانت و تحقیر پر احتجاج کرتے ہیں، اضطراب کا اظہار کرتے ہیں، اور گستاخی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہاں بھی انسانی حقوق اور آزادیٔ رائے کا واویلا شروع ہو جاتا ہے اور گستاخی کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کارروائیاں سامنے آنے لگتی ہیں جس سے اضطراب اور بے چینی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم اس وقت ملک بھر میں اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں اور اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کی طرف سے عوامی سطح پر جذبات کا بھرپور اظہار کیا جا رہا ہے۔

ہم اس حوالہ سے دوہرے اضطراب اور دباؤ کا شکار ہیں کہ ایک طرف حضرات صحابہ کرام و اہل بیت عظامؓ کی حرمت و ناموس مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کا مسئلہ ہے جس میں کسی قسم کی لچک قابل قبول نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف مشرق وسطٰی کی صورتحال سامنے ہے کہ عراق، یمن، لبنان، شام اور بحرین میں اسی قسم کے مسائل چھیڑ کر خانہ جنگی کا بازار گرم کر دیا گیا ہے اور اس خانہ جنگی کی فضا میں اسرائیل کو عرب ممالک سے تسلیم کرانے کے ایجنڈے پر امریکی استعمار مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے۔ حالات کا رخ یوں نظر آ رہا ہے کہ اسی طرح کی صورتحال پاکستان میں پیدا کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر لی گئی ہے۔ چنانچہ ہمارا اس وقت کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو شام، عراق اور یمن بننے سے بھی بچانا ہے اور قومی وحدت کو بھی ہر صورت میں برقرار رکھنا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح یہ ضروری ہے کہ ہم صحابہ کرام و اہل بیت عظامؓ کے حوالہ سے اپنے ایمان و عقیدہ اور حمیت و جذبات کا تحفظ کریں اسی طرح ہماری یہ بھی ہماری ملی اور قومی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کو مشرق وسطٰی کی صورتحال سے ہر قیمت پر بچائیں۔ اس لیے ان دونوں باتوں کو سامنے رکھ کر ہمیں آگے بڑھنا ہے جس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کے اکابر اور سنجیدہ راہنما سر جوڑ کر بیٹھیں اور مشترکہ موقف کے ساتھ ساتھ متفقہ قیادت بھی قوم کو فراہم کریں۔

اس تناظر میں گزشتہ دنوں لاہور میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ناموس صحابہ کرام و اہل بیت عظامؓ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے لیے تمام مکاتب فکر کے سنجیدہ راہنماؤں پر مشتمل مرکزی رابطہ کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ کراچی میں اہل سنت کے تمام مکاتب نے جس جوش و ولولہ کے ساتھ اپنے ایمانی جذبات کا اظہار کیا ہے، وہ لائق تحسین ہے اور پوری قوم کی طرف سے کراچی کے عوام اور تمام مسالک کی دینی قیادتیں مبارکباد کی مستحق ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ اس نازک اور حساس مسئلہ پر قوم کو مشترکہ موقف اور مشترکہ قیادت فراہم کی جائے تاکہ ماضی کے تلخ تجربات سے بچتے ہوئے ایمانی جذبات کے ساتھ ساتھ قومی وحدت کا تحفظ بھی کیا جا سکے۔

دینی مدارس اور محکمہ تعلیم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بعض اخباری اطلاعات کے مطابق

’’سندھ حکومت نے صوبے میں موجود مدارس کو تعلیمی اداروں کے طور پر رجسٹرڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی جی سندھ نے بریفنگ میں بتایا کہ سندھ میں ۸۱۹۵ مدارس اور امام بارگاہیں ہیں۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبے میں مدارس تعلیمی اداروں کے طور پر رجسٹرڈ کیے جائیں گے اور انہیں محکمہ تعلیم رجسٹرڈ کرے گا۔ اس موقع پر وزیر اعلٰی نے کہا کہ مدارس کا مفت تعلیم دینے میں اہم کردار ہے۔‘‘

ہمارے خیال میں دینی مدارس کے حوالہ سے سندھ حکومت کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے اور اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون اور دیگر صوبوں میں بھی اسی نوعیت کے فیصلوں کا ماحول پیدا کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس ہمارے معاشرہ میں اس خلا کو پورا کرنے میں ڈیڑھ صدی سے مسلسل مصروف ہیں جو ۱۸۵۷ء کے بعد ریاستی تعلیمی نظام و نصاب سے قرآن و سنت، فقہ اسلامی اور عربی و فارسی زبانوں سے اخراج کے بعد پیدا ہو گیا تھا۔ اور جس سے واضح طور پر یہ خطرہ سامنے آگیا تھا کہ قومی تعلیمی نصاب کے یہ مضامین جو صدیوں سے جنوبی ایشیا کے تعلیمی نظام کا حصہ چلے آرہے تھے اور مسلم سوسائٹی کی بنیادی ضروریات میں شامل تھے، رفتہ رفتہ اجنبی ہو جائیں گے اور ان کا تسلسل سوسائٹی میں باقی نہیں رہے گا۔

دینی مدارس کا آزادانہ تعلیمی نظام جس ایثار و حوصلہ، کفایت شعاری اور اعتماد کے ساتھ ڈیڑھ سو سال سے اس سلسلہ میں مصروف عمل ہے، وہ تاریخ کا ایک روشن اور تابناک باب ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک آزاد اور خود مختار مسلم ریاست کے حکمرانوں کی ذمہ داری تھی کہ جس طرح برطانوی حکمرانوں نے ریاستی تعلیمی نظام سے (۱) قرآن کریم (۲) سنت و حدیث (۳) فقہ و شریعت اور (۴) عربی و فارسی زبانوں کو خارج کر دیا تھا، اسی طرح پاکستان کے ریاستی تعلیمی نظام میں ان مضامین کو دوبارہ شامل کیا جاتا تاکہ تعلیمی نظام کی وہ دوئی ختم ہو جاتی جو انگریزی حکومت نے پیدا کر دی تھی۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا بلکہ اس کے برعکس دینی مدارس کو کسی نہ کسی طرح ادھورے اور یکطرفہ ریاستی تعلیمی نظام کا حصہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں اور اس کے لیے ہر قسم کے دباؤ کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔

دینی مدارس اس دوران مختلف محکموں کے درمیان فٹ بال بنے رہے اور دیدہ و نادیدہ اداروں کی مسلسل دخل اندازی کا شکار رہے۔ جس کا سب سے بڑا ہدف دینی مدارس کو ان کے آزادانہ تعلیمی کردار سے محروم کرنا اور ان کے جداگانہ دینی تعلیمی نصاب کو اجتماعی دھارے کے نام سے بتدریج تحلیل کر دینا دکھائی دے رہا تھا۔ مگر دینی مدارس کے وفاقوں نے حوصلہ اور تدبر کے ساتھ اس صورتحال کا سامنا کیا اور اب بھی وہ اسی آزمائش سے دوچار ہیں۔ چنانچہ اسی پس منظر میں دینی مدارس کے وفاقوں نے حکومت سے تقاضہ کیا کہ تعلیمی اداروں کے طور پر ان کے کردار کو تسلیم کیا جائے اور ان سے متعلقہ مسائل و معاملات کو محکمہ تعلیم کے ذریعے ڈیل کیا جائے، مگر اس سلسلہ میں محکمہ تعلیم اور دینی مدارس کے وفاقوں کے درمیان باقاعدہ معاہدہ کے باوجود ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہو رہی اور مختلف محکموں اور اداروں کے درمیان گلی ڈنڈے کا کھیل بدستور جاری ہے۔

دینی مدارس کا یہ تقاضا کسی طرح بھی ناقابل فہم نہیں ہے کہ وہ باقاعدہ تعلیمی ادارے ہیں، دینی تعلیم کے بنیادی تقاضے پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں خواندگی کی شرح بڑھانے کا مؤثر ذریعہ ہیں، اور ملک کے عام شہریوں کو مفت تعلیم دے کر وہ ذمہ داری بھی پوری کر رہے ہیں جو دراصل ریاست و حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عام شہریوں کو مفت تعلیم مہیا کیا جائے۔ حتٰی کہ دینی مدارس تو مفت تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کے نادار طبقات کے افراد کو رہائش اور خوراک، لباس اور علاج کی سہولتیں بھی بلا معاوضہ فراہم کر رہے ہیں جس کا اعتراف مذکورہ بالا خبر کے مطابق وزیر اعلٰی سندھ نے بھی کیا ہے۔ مگر دینی مدارس پر محکموں اور اداروں کا دباؤ کسی طرح کم نہیں ہو رہا حتٰی کہ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ غیر رجسٹرڈ مدارس کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔، دوسری طرف رجسٹریشن کا کوئی باقاعدہ نظام محکمہ تعلیم اور وفاقوں کے درمیان معاملات طے ہو جانے کے باوجود سامنے نہیں آرہا۔ جبکہ اس کے ساتھ رجسٹریشن کے حوالہ سے مختلف اطراف سے نئے نئے سسٹم دکھائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے معاملات سلجھنے کی بجائے ان کے الجھاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دینی مدارس کے بارے میں اصل ایجنڈا کنفیوژن اور دباؤ کو برقرار رکھنے اور انہیں اعتماد و اطمینان کے ساتھ اپنا کام جاری رکھنے کا موقع فراہم نہ کرنے کا ہے، جس سے بے یقینی بڑھ رہی ہے۔

ان حالات میں سندھ حکومت کا یہ فیصلہ بہرحال خوش آئند ہے کہ دینی مدارس کو تعلیمی اداروں کے طور پر رجسٹرڈ کیا جائے گا اور ان کی رجسٹریشن محکمہ تعلیم کرے گا۔ یہ ایک مثبت پیشرفت محسوس ہوتی ہے جس کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہم متعلقہ محکموں اور اداروں کو ایک اور کنفیوژن کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہتے ہیں جو رجسٹریشن یا الحاق کے عنوان سے دکھائی دے رہی ہے۔

جہاں تک رجسٹریشن اور اس کے ذریعہ دینی مدارس کے ضروری معاملات کی نگرانی اور انجام دہی کا تعلق ہے وہ تو قابل فہم ہے، لیکن رجسٹریشن کے عنوان سے الحاق کا ماحول پیدا کرنے کی بات دینی مدارس کے آزادانہ تعلیمی کردار اور ان کے جداگانہ تشخص و امتیاز کے منافی ہو گی، جسے قبول کرنا دینی مدارس کے اجتماعی ماحول کے لیے مشکل ہو گا۔ اس لیے دینی مدارس کے بارے میں جہاں یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ وہ تعلیمی ادارے ہیں، وہاں یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں اور اپنا الگ تشخص اور جداگانہ نظام رکھتے ہیں، جس کا احترام کرنا ان کے تعلیمی کردار اور تاریخی تسلسل کا ناگزیر تقاضا ہے۔

ہمیں امید ہے کہ دینی مدارس کے وفاقوں اور محکمہ تعلیم کے درمیان یہ معاملات جلد از جلد خوش اسلوبی کے ساتھ طے ہوں گے اور دینی تعلیمی ادارے اپنے دینی و تعلیمی کردار کو اعتماد کے ساتھ جاری رکھ سکیں گے۔

مولانا امین عثمانی ؒ: حالات وخدمات اور افکار

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حالیہ دنوں میں علماء حق اٹھتے جاتے ہیں اور ان کا کوئی متبادل بھی نظرنہیں آتا۔دو ستمبر2020کواسلامی فقہ اکیڈمی انڈیاکے سیکریٹری جنرل مولاناامین عثمانی بھی اس دارفانی کوخیربادکہہ گئے ۔ذیل کی سطورمیں مختصراًان کے حالات زندگی اورخدمات کا ایک جائزہ پیش کیاجارہاہے۔

مولاناامین عثمانی، اس عثمانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جوپانی پت(ہریانہ ) میں آبادتھا۔ان کے اجدادتصوف کے چشتی سلسلہ سے وابستہ تھے اوربہارکے مشہورصوفی شیخ شرف الدین یحیٰ منیری کی شہرت سن کران سے استفادہ کے لیے بہارچلے گئے تھے۔ان کے خاندان میں ڈاکٹرمحسن عثمانی کے علاوہ طیب عثمانی ،شاہ رشادعثمانی وغیرہ اردوزبان وادب کے معروف مصنف و ادیب ہیں۔مولاناعثمانی کے والدشاہ عیسیٰ عثمانی فردوسی بھی ایک معروف عالم اور شیخ تھے۔انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں بھی تعلیم حاصل کی اور وہ بانی جامعہ ملیہ اورصدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کے شاگردتھے بلکہ استادکے بلانے پر انھوں نے جامعہ میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔انہوں نے دو کتابیں بھی لکھیں۔ان کا انتقال 1972میں تہجدکی نمازکے لیے وضوکرتے ہوئے ہواتھا۔

مولاناامین عثمانی نے مقامی مکاتب ومدارس میں پڑھنے کے بعدندوة العلماءلکھنوسے عا لمیت وفضیلت کی۔ بعدازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے بھی کیااور ان کا تقرربحیثیت اسسٹنٹ پروفیسراسی شعبہ میں ہوگیاتھا۔لیکن انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز( IOS) کے بانی ڈاکٹرمحمدمنظورعالم اورقاضی مجاہدالاسلام قاسمیؓ کی دعوت پروہ اپنی اس safe اورمحفوظ جاب کوچھوڑکرملی کاموں کے لیے ان کے ساتھ آگئے ۔کم ازکم راقم کی معلومات کی حدتک یہ واحدایسی مثال ہے کہ کوئی یونیورسٹی کی ملازمت چھوڑکرملی کاموں کی طرف آیاہو،اس کا برعکس توبہت ہوتاہے۔ان کی ملی خدمت کے جذبہ کا عکس ان کے بچوں میں بھی بدرجہ اتم موجودہے چنانچہ صاحبزادہ ابان عثمانی بھی ملی کاموں میں سرگرم ہیں اوربیٹی ایمان عثمانی نے بھی، جوجامعہ ملیہ اسلامیہ میں انگریزی کی طالبہ ہیں، چند ماہ قبل سی اے این آرسی کے خلاف جامعہ کے طلبہ کی مہم میں جوش وخروش سے حصہ لیااورپولیس کی لاٹھیاں کھائیں۔

 اپنی خاندانی روایات کے برعکس شیخ امین عثمانی کی فکری وابستگی تصوف کی بجائے اخوان المسلمون اورجماعت اسلامی سے ہوئی ،جن سے وہ زمانہ طالب علمی میں متاثرہوگئے تھے۔ یہ بات بھی رکارڈ میں لانا ضروری ہے کہ امین عثمانی صاحب مسلمان طلبہ کی اس تنظیم سے بھی تعلق رکھتے تھے جس کانام اسٹوڈینٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (ایس آئی ایم )ہے اورجس پر آج کل ہندوستانی حکومت نے تشددپسندی کاالزا م لگاکرپابندی عائدکرکھی ہے، اگرچہ یہ الزام کسی عدالت  میں ثابت نہیں ہوسکا۔اس تنظیم کی بنیادی فکرجماعت اسلامی کی فکرتھی اوراس زمانے کی ایس آئی ایم سے جماعت اسلامی اورملت اسلامیہ ہندیہ کوکئی قیمتی افرادملے، مثال کے طورپر ڈاکٹراحمداللہ صدیقی، ڈاکٹر محمد رفعت ، ڈاکٹرعبیداللہ فہدفلاحی ،ڈاکٹرمحمدذکی کرمانی ،امین عثمانی ،ڈاکٹرقاسم رسول الیاس اور مولانارضی الاسلام ندوی وغیرہ ۔اس تنظیم سے راقم بھی وابستہ رہاہے ۔بعدمیں کئی وجوہات سے اس میں علمی وفکری زوال آیا اور اس کے کام کرنے کے اندازواسلو ب میں حدسے زیادہ جوش اورابال بڑھنے لگاتوجماعت اسلامی ہندنے اس تنظیم سے اپنا ضابطہ کا تعلق توڑکراپنی دوسری طلبہ تنظیم ایس آئی اوکے نام سے قائم کی جوجماعت کی سرپرستی میں کام کرتی ہے۔ راقم اس ممنوعہ تنظیم سے وابستہ تورہالیکن اس نے اس کا کوئی فکری وتربیتی اثرقبول نہیں کیا۔اس کے مقابلہ میں لکھنو میں مولانا ظہیر احمدصدیقی کی قائم کردہ الجمعیۃ الخیریۃ لمساعدة الطلاب کے تربیتی ورکشاپ اورپروگرام اس کے لیے زیادہ اپیلنگ اور موثر ثابت ہوئے جواخوان المسلمون کے منہج تربیت سے قریب ہوتے تھے ۔ یہ جمعیۃ اب رفاہی وفلاحی کاموں کے لیے وقف ہوکررہ گئی ہے ۔

بہرکیف شیخ امین عثمانی وفات تک جماعت اسلامی ہندکے رکن رہے اورجماعت کے تحقیقی ادارہ ،ادارہ تحقیق وتصنیف علی گڑھ کے ممبر بھی رہے۔وہ اردوعربی اورانگریزی تینوں زبانوں پر یکساں لکھنے اور بولنے کی قدرت رکھتے تھے۔مشہوراخوانی داعیہ مرحومہ زینب الغزالی الجبیلی کی جیل کی رددادکا ترجمہ :”زندان کے شب وروز“کے نام سے کیا تھا جو 1982میں ہندوستان پبلکیشنزسے شائع ہواتھااورعالمی طلبائی تنظیم اِفسونے بھی ا س کو تقسیم کیاتھا۔اسی کتاب کا نسبتازیادہ مشہورترجمہ خلیل حامدی صاحب کا کیاہوابھی ہے ۔یوں تو جماعت اسلامی کے رکن اوراخوان المسلمون سے فکری مناسبت رکھتے تھے تاہم ان کی یہ وابستگی بندبنداورClosed mind نہ تھی۔ وہ مختلف ملکوں، تنظیموں اور اداروں میں ہو رہے مختلف تجربا ت پر نظررکھتے  تھے۔چنانچہ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے عربی مدارس کے فارغین کے لیے برج کورس شروع کیاتوشیخ امین عثمانی نے اس میں دل چسپی لی ،اس کے دوسیمیناروں میں شریک ہوئے اورا س کی تائید میں  مضمون بھی لکھاکیونکہ بعض علما اوراہل مدار س کی طرف سے اس کی بڑی مخالفت شروع کردی گئی تھی۔ ویسے عملی طور پران کی ہندوستان کے مسلم تھنک ٹینک آئی اوایس اور فکراسلامی کے بین الاقوامی مرکزIIIT (واشنگٹن ) سے بہت قربت تھی اوران میں عملی وفکری شمولیت رکھتے تھے۔

مولاناامین عثمانی ایک بہترین مربی ،فکری رہنمااورنوجوان علماکی رہنمائی کرنے والے انسان تھے ۔وہ نئے نئے مضامین اورموضوعات پر ہمیشہ سوچاکرتے اوراپنے حلقہ فکرکے مختلف نوجوانوں کو ان موضوعات پر پڑھنے اوران پر لکھنے کے لیے آمادہ کرتے  اوراس سلسلہ میں برابرایس ایم ایس پیغام ،ای میل اورٹیلی فون اورخطوط سے رابطہ کرکے توجہ دلاتے رہتے  تھے۔کچھ کومسلم ممالک میں ہونے والے علمی مذاکرات وسیمیناروںکی طرف متوجہ کرتے، ان کے لیے پیپرلکھواتے اوربعض کو ان  میں بھیجنے کی بھی کوشش کرتے ۔یہی نہیں بلکہ اکیڈمی کے بعض علماءکرام کی شہرت ومقبولیت بھی تمام ترامین صاحب کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔

وہ طویل عرصہ سے اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا(قیام 1988)کے روح روا ں تھے۔مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمیؓ (بانی فقہ اکیڈمی)کے کئی دہائیوں تک ساتھ رہے اورفقہ اکیڈمی کوالمعہدالعلمی جیسے ایک چھوٹے سے منصوبہ سے لے کر ایک بڑے اوراہم علمی وفکری ،شرعی اورفقہی تحقیقی ادارہ کے طورپر دنیابھرمیں متعارف کرانے کا سہرا انھی کے سر جاتا ہے۔دوسرے علمی اداروں سے روابط اوراکیڈمی کومالیات فراہم کرانے میں بھی ان کا بڑا کردار رہا۔ ہندوستان میں بنیادی طورپر فقہ حنفی کو فالو کیاجاتا ہے ۔اسلامی فقہ اکیڈمی اوردیوبندکے مکاتب فکربھی اس کی ترجمانی کرتے ہیں۔تاہم مولاناامین عثمانی کا فقہی تصورکاسموپولیٹن فقہ کا تھا۔یعنی فقہ کے چاروں مکاتب فکرسے استفادہ بلکہ ضرورت پڑنے پر ان سے باہرجاکرقرآن وسنت کے نصوص سے آزادانہ استفادہ کرنے اورنئے مسائل کو حل کرنے کا وہ رجحان رکھتے تھے۔خاص طورپر مقاصدشریعت پر انہوں نے فکراسلامی کے بین الاقوامی مرکزIIIT (واشنگٹن )کی شائع کردہ عربی وانگریزی کتابوں کا اردوترجمہ شائع کراکرہندوستان کے چیدہ علما،طلبااورفقہ سے دل چسپی رکھنے والوں کو روانہ کیااوریہاں کے مدارس اورتحقیقی اداروںمیں فقہ مقاصدی کا ایک طرح سے تعارف کرایا۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کومستثنی کردیں تو برصغیرمیں فقہ مقاصدی یا مقاصدشریعت کے مطالعہ کا کوئی رواج نہیں ہے ،اس کی طرح یہاں فقہ اکیڈمی نے ڈالی ہے ۔ان کے ان نئے اور نامانوس کاموں کی روایتی علماکی طرف سے خاصی مزاحمت بھی ہوئی ۔ کہاگیاکہ فقہ اکیڈمی” فقہ حنفی کا جنازہ“ نکال رہی ہے ،مگرامین عثمانی صاحب(اورقاضی صاحب مرحوم بھی) جس چیز کوصحیح سمجھتے تھے، اس کے باے میں کسی لومۃ لائم کی پروانہیں کرتے تھے۔

یہاں یہ ذکرکرنامناسب ہوگاکہ طلاق ثلاثہ پرہندوستان کی سپریم کورٹ نے پابندی عائدکردی ہے۔ حکمران فسطائی جماعت نے اِس کا بڑاپروپیگنڈا کیاتھاکہ وہ تین طلاق سے مسلمان خواتین پر ہونے والے ظلم کوروکے گی ۔جب یہ مسئلہ کورٹ میں زیربحث تھا، اُس وقت ملک کے بعض علماودانشوروں نے یہ رائے اختیارکی تھی کہ مسلم فریق (آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ )کواپنے فقہ حنفی پر مبنی موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے اورخودآگے بڑھ کراس مسئلہ میں ابن تیمیہ ؒاورجماعت اہل حدیث کی رائے اختیارکرلینی چاہیے۔یہی رائے شیخ امین عثمانی کی تھی ۔انہوں نے اس سلسلہ میں علامہ یوسف القرضاوی اورترکی کے صدرمفتی کا فتوی بھی منگایا تھااور راقم کی گزارش پر اس کوبھی بھیجا تھا۔ یہ دونوں حضرات بھی فقہ حنفی کوہی Followکرتے ہیں، مگرحالات زمانہ کی رعایت سے انہوں نے اس مسئلہ میں دوسرا آپشن اختیار کیاہے۔تاہم علماکی اکثریت نے اِس کوتسلیم نہیں کیااورنہ اپنے موقف میں کوئی لچک پیداکی اوراِس کا  جو نتیجہ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔

مولاناامین عثمانی صاحب ہندوستان کی موجودہ صورت حال ،ہندتو کی قوتوں کے غلبہ اورمسلمانوں کی ہمہ جہت زبوں حالی کے بارے میں فکرمندرہتے تھے ۔اس سلسلہ میں وہ سنی سنائی نہیں بلکہ فرسٹ ہینڈمعلومات رکھتے تھے، مسلم نوجوانوں،فارغین مدارس اورملی کارکنوں کو اس کے لیے تیاری کرنے کے طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔اس موضوع پر اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے متعددورکشاپ اورلیکچربھی انہوں نے کرائے۔کچھ عرصہ پہلے مدارس کے ارباب اہتمام کو  اس جانب متوجہ کرنے کے لیے انہوں نے اہم اوربڑے مدارس کوخط بھی لکھااوران کواس با ت پر ابھارا کہ یہ مدار س اپنے نصابوں میں ہندوستانی مذاہب ،ہندی تہذیب وکلچرکے بارے میں کوئی ایک پیریڈمختص کریں یا کم ازکم ان موضوعات پر توسیعی لیکچرہی کروائیں۔راقم کوبھی انہوں نے ایک کاپی اس خط کی بھیجی تھی۔

مرحوم عثمانی مسلم دنیاکے مسائل وایشوز سے، خا ص کرفلسطین ،بیت المقدس اورشام(سیریا) کی موجودہ صورت حال سے قریبی واقفیت رکھتے  تھے۔اس مسئلہ پر انہوں نے بہت سی کتابوں،کتابچوںاورمقالوں کے عربی سے اردو میں ترجمے کروا  کر شائع کیے۔ماہنامہ افکارملی دہلی (جس سے راقم 15سال وابستہ رہا)نے فلسطین پر ایک خاص نمبرشائع کیا تواس میں موادکی فراہمی میں بڑاحصہ انھی کا رہا۔شام کے اوپر پروفیسرمحسن عثمانی صاحب کے تحریرکردہ کئی رسالے اور کتابچے شائع کرائے۔راقم سے بھی ایک فلسطینی اسکالرمجاہدالقاسمی کے لکھے ہوئے ایک رسالہ: فلسطین المضطہدة  کا ترجمہ کرایا۔ اسی طرح علامہ یوسف القرضاوی کی کتاب :القدس قضیۃ کل مسلم کا ترجمہ راقم سے کروایا۔یہ دونوںشائع شدہ ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک اخوانی عالم عبدالفتاح الخطیب کی کتاب قیم الاسلام الحضاریۃ اردوترجمہ کرنے کے لیے مجھے دی تھی ،جس کااردو نام ہے :اسلام کی تہذیبی قدریں۔نئی اسلامی انسان پروری کے خدوخال ۔چنانچہ ابھی ایک عشرہ پہلے اسی کا مسودہ لے کرمیں ان کے مکان پر حاضرہواتھا۔ انہوں نے دیرتک مختلف موضوعات پر باتیں کیں۔اس کتاب پر ایک قیمتی اورجامع پیش لفظ لکھا۔پھرمیں علی گڑھ چلا آیا۔چنددن بعدہی سوشل میڈیاپر ان کی شدیدعلالت کی خبریں آئیں اورپھران کے انتقال پرملال کی ۔

مولاناامین عثمانی نے فقہ اکیڈمی کے آغازہی میں مدارس کے فارغین کے لیے تربیتی ورکشاپ اور جدید موضوعات پر توسیعی لیکچروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ان معلوماتی ومفید لیکچروں کوانہوں نے فقہ اکیڈمی سے شائع بھی  کرایا اور بڑے پیمانے پران کونوجوانوں اورفارغین مدارس میں تقسیم بھی کیاجن میں عالم اسلام کی اقتصادی صورت حال،عالم اسلام کی سیاسی صورت حال اورعالم اسلام کی اخلاقی صورت حال(مصنفہ جناب اسرارعالم ) وغیرہ ہیں۔

یادش بخیرراقم جب ندوہ العلماء میں پڑھتا تھاتو پہلے پہل یہی مقالے مولاناامین صاحب سے ملاقات کا باعث بنے اورا س کے بعد انہوں نے خاکسارپر بڑی توجہ فرمائی اورتعلیمی وفکری رہنمائی بھی کی ۔لکھنو یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعدکچھ دن میں نے لکھنوکے ایک فکری ادارے معہدالفکرالاسلامی (حال نالج اکیڈمی )میں کام کیا۔ پھر وہاں سے چھوڑکردہلی آیا تو تقریباچھ مہینے اسلامی فقہ اکیڈمی میں شیخ امین عثمانی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملااوران کی وسعت علم کے ساتھ ان کی انتظامی صلاحیتوں خاص کرپلاننگ والے زرخیزذہن سے واقفیت ہوئی ۔ہندوستان کے معروف فقیہ وعالم مولانابدرالحسن قاسمی (مقیم کویت )نے ایک آن لائن تعزیتی نششت میں بتایاکہ شیخ امین عثمانی قاضی مجاہدالاسلام قاسمی صاحب کے دست وبازواس طرح بن گئے تھے کہ شیخ امین صاحب جلدی جلدی نئے نئے علمی وفکری منصوبے بناکران کودیتے اورقاضی صاحب اکثران سے اتفاق کرکے ان کونافذکردیتے، چنانچہ فقہ اکیڈمی نے بہت جلدی ترقی کی اورملک وبیرون ملک میں اس کی ایک ساکھ قائم ہوئی ۔

یادرہے کہ فقہ اکیڈمی نے اب تک تقریبا28فقہی سیمینارمختلف علمی وفقہی اورجدیدموضوعات پر کیے ہیں جن کے مقالات کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں اوران کا حوالہ دیاجاتاہے۔اسی طرح فقہ اکیڈمی نے کویت سے شائع ہوئے ہوئے موسوعۃ  الفقہ الاسلامی کا اردومیں  45جلدوں میں ترجمہ کرایااوران کوشائع کرایا۔امین صاحب کوبڑے مواقع ملے کہ وہ دنیا کمائیں،شہرت حاصل کریں مگرانہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کواسٹیج سے دوررکھا،زمینی سطح پر کام کیااورفقہ اکیڈمی کو عالمی ادارہ بنانے میں بنیادکے پتھرکی طرح کام کیا۔اکیڈمی کی تاریخ ان کے ذکرجمیل کے بغیرادھوری رہے گی ۔

مولانابدرالحسن صاحب نے امین صاحب کو”کئی دماغوںکا ایک انسان “کے معنی خیزنام سے یادکیاہے۔ان کا مضمون سوشل میڈیاپر گردش کررہاہے ۔اس میں وہ لکھتے ہیں:”امین عثمانی اورفقہ اکیڈمی دونوں ایک دوسرے کے لیے ایسے لازم وملزوم ہوگئے تھے کہ ایک کا تصوردوسرے کے بغیرذہن میں آتاہی نہیں ہے۔ فقہ اکیڈمی ہی ان کی زندگی تھی، وہی ان کے لیے زندگی کا سرمایہ تھی اور اسے انہوں نے اپنے خون سے سینچا تھا ، اسی کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ ہرپروگرام کے لیے ان کے ذہن میں دسیوں تجاویز ہواکرتی تھیں۔ ان کو سیمیناروں،  فقہی وفکری کانفرنسوں اور مختلف علمی موضوعات پر اجتماعی پروگرام منعقدکرنے کا خاص ملکہ تھا۔بہت جلد وہ اس کا خاکہ بناتے، اسباب وسائل فراہم کرنے کی کوشش کرتے، مناسب شخصیات کا دنیاکے مختلف ملکوں سے انتخاب کرتے اور پوری توجہ سے اس کی تنفیذمیں لگ جاتے تھے۔انتظام کے بعدپھروہ خودعمومااسٹیج سے روپوش ہو جاتے تھے،اسٹیج پر آنے سے ان کوکوئی دل چسپی نہیں تھی لیکن پروگرام کی کامیابی کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دیتے تھے۔ ان کے بنائے ہوئے خاکے اورمنصوبے اتنے زیادہ ہیں کہ ڈاکٹریٹ کا عنوان بن سکتے ہیں۔ ان کے پیش کردہ مشروعات پر عربوں کوبھی حیرت ہوتی تھی جواسباب وسائل کی فراہمی میں معاون ہوتے تھے ۔“

استاذمحترم اورمدرسہ ڈسکورسزکے بانی پروفیسرابراہیم موسی ٰ نے اس بات کا ذکرکئی موقعوں پر کیاکہ مدرسہ ڈسکورسزکے قیام کے لیے ان کوامین عثمانی صاحب نے خوب مہمیزکیااوراس سلسلے میں ان کومتعددخطوط لکھے۔ مرحوم عثمانی کواس پروگرام سے خاصی دلچسپی تھی چنانچہ وہ میری معلومات کی حدتک اس کے تین پروگراموں میں شریک ہوئےاوراس فکری وعلمی پراجیکٹ کے حوصلہ افزا نتائج سے بڑے پرامیدتھے۔ اس کے علاوہ قومی سطح پروہ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کے رکن تھے تو عالمی سطح پر علماکی عالمی انجمن (صدریوسف القرضاوی )کے رکن بھی تھے۔

ان کا یوں اچانک چلا جانا ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے ایک حادثہ سے کم نہیں ہے۔

آسماں ان کی لحدپر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھرکی نگہبانی کرے


تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ پنجاب کا ایک رخ

ڈاکٹر اختر حسین عزمی

تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ جس میں انبیائے کرامؑ، خاتم النبیین ، ازواج مطہراتؓ ، صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدین کے ناموں کے ساتھ القابات اور دعائیہ کلمات کو لکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے، اس اعتبار سے ایک اچھی قانونی پیش رفت ہے کہ اسلام میں جو محترم ومقدس اور معتبر ہستیاں ہیں ، جن سے مسلمانوں کی ایک عقیدت وابستہ ہے، ان کا تذکرہ عام دنیاوی رہنماﺅں کی طرح نہ کیا جائے، اسے کچھ اصول وآداب کا پابند بنایا جائے۔ لیکن مذہبی اعتبار سے یہ جتنا حسّاس موضوع ہے ، اس قانون کے مسودے کی نوک پلک سنوارنے والوں نے اس کی نزاکتوں کا احساس کیے بغیر اسے عجلت میں پاس کر دیا ہے۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے اسے ریاست مدینہ کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے ، اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ چند اسلام پسند قلمکاروں نے بھی اس کی تعریف وتحسین کی ہے۔

ستمبر ۲٠۲٠ء کے ماہنامہ افکار معلم میں شائع شدہ اور یا مقبول جان کے مضمون میں اس ایکٹ کے پاس ہونے پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو تحسین کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور وزیر اعظم پاکستان کو بھی پورے ملک میں اس قانون کو نافذ کر کے یہ سہرا اپنے ماتھے پر باندھنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ ماہنامہ ”افکار معلم “ کے مدیر کے مطابق بھی یہ قانون فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو جائے لیکن ہمارا تاثر یہ ہے کہ ہمارے ان احباب نے اس بل کے تمام مندرجات کو دیکھے بغیر اس سے اتنی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ انبیائے کرامؑ، اصحاب رسول اور ازواج مطہراتؓ کے ناموں کو عزت واحترام سے لینا ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن تحریرو تصنیف میں ان کے ناموں کے ساتھ اس طرح سابقے لاحقے اور القاب وآداب لگانا کیا شرعی لحاظ سے امرواجب ہے؟،اور کیا یہ قابلِ عمل بھی ہے ؟ ہمارے اہل علم کی چودہ سو سالہ تصنیفی روایت میں اس کا کتنا اہتمام ہے؟، یہ ایکٹ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ اور اشاعت کتب میں معاون ہے یا کہ رکاوٹ ؟۔اہل علم کو اس ایکٹ کے ان پہلوﺅں پر تفصیلی بحث کرنا چاہیے ۔ اب ہم اس ایکٹ کی کچھ دفعات کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔

ایکٹ کے سیکشن ۸ کی ۵ تا ۱۱ شقوں کے مطابق حضور کے نام سے پہلے خاتم النبیین ،آخری نبی یا The Last Prophet اور نام کے بعد عربی ٹیکسٹ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھنا ہو گا ۔ ہر نبی کے نام کے ساتھ علیہ السلام ، ازواج نبی کے ناموں سے پہلے امہات المومنین اور بعد میں رضی اللہ عنھا ، خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی سے پہلے خلیفہ راشد یا امیر المومنین اور بعد میں رضی اللہ عنہ لکھنا ہو گا۔ بنی کے تین صاحبزادوں اور چار صاحبزادیوں ،اہلِ بیت اور نواسے نواسیوں اور صحابی وصحابیہ کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ یا رضی اللہ عنھا لکھنا ہو گا۔

(۱)یقینا انبیائے کرام کی محبت اور احترام کا تقاضا ہے کہ ہم ان پر بار بار صلوة وسلام کہیں۔ درود کی فضیلت اور اس کے موجب اجر وثواب ہونے پر ساری امت متفق ہے لیکن ان کا نام لیتے ہوئے کیا ہر مرتبہ یا ایک مجلس میں ایک مرتبہ یا کہ زندگی میں ایک مرتبہ درود پڑھنا فرض ہے، واجب ہے ۔؟یقینا حضور پر صلاة وسلام بھیجنا سنت اسلام ہے ۔خصوصاً نماز میں اس کے پڑھنے پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ جب آپ کا نام آئے تو درود پڑھنا مستحب ہے۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ زندگی میں ایک مرتبہ آپ پر درود پڑھنا فرض ہے۔ لیکن اس کے بعد درود کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک نماز میں صلوة علی النبی پڑھنا فرض ہے۔ اس کے بغیر نماز نہ ہو گی۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک اور جمہور علما کے نزدیک درود زندگی میں صرف ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے کلمہ شہادت کی طرح ۔ اہل علم کے ایک گروہ کے نزدیک حضور کا نام جب بھی آئے درود پڑھنا واجب ہے اور ایک گروہ کے نزدیک ایک مجلس میں حضور کا ذکر خواہ کتنی مرتبہ آئے ، درود بس ایک دفعہ پڑھنا واجب ہے۔ (تفہیم القرآن ، ۴/۱۲۷)

جب ہر بار نام آنے پر ان اہل علم کے نزدیک صلوة پڑھنا لازم نہیں تو آج ایک ایکٹ کے ذریعے کسی بھی تصنیف میں اس کو ہر جگہ لکھنا لازم کرنا کیا لکھنے والے مسلمانوں پر وہ بوجھ نہیں لادا جا رہا جس کا شریعت نے اپنے ماننے والوں کو مکلف ہی نہیں کہا۔ اور” عدم تکلیف“ فقہ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ لا یُکلف اللّٰہ نفساً ِالّا وُسعھا (البقرہ ۲: ۲۸۶) ”اللہ کسی بھی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔“

 (۲) یہ بھی لازم قرار دیا گیا ہے کہ آپ کے نام سے پہلے خاتم النبیین لکھا جائے ۔ ہمارے بعض سادہ لوحوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس سے ختم نبوت کے منکروں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ اب ان سادہ اندیشوں کو کون سمجھائے کہ قادیانیوں کو بھی خاتم النبیین لکھنے، کہنے اور بولنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔ لیکن وہ خاتم النبین کی تشریح ایسی کرتے ہیں کہ اس سے آخری نبوت کا انکار لازم آتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے وہ خاتم النبیین لکھتے ور بولتے رہیں گے۔

(۳)صحابہ کرام کے لیے یقینا اللہ نے اپنی رضا مندی کا اظہار رضی اللہ عنھم کے الفاظ سے کیا ہے۔ اور ان سے ہمارے ایمان اور محبت کا تقاضا ہے کہ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے لیے یہ دعائیہ کلمات کہے جائیں ۔ لیکن سوال ہے تحریر میں اس کے شرعی لزوم کا۔ حدیث کے قدیم تریم نسخوں میں کہیں صحابی کے نام کے ساتھ اس کا اہتمام موجود ہے اور کہیں نہیں ہے۔ اب ہمارے دیگر اہل علم اور مصنفین کی کتب میں بھی یہی صورت حال ہے۔لیکن خلیفہ راشد یا ام المومنین کے الفاظ تو ایک آدھ جگہ ہی ہیں۔

اب میرے پاس الہلال بک ایجنسی شیرانوالہ گیٹ لاہور کی ۱۹۲۵ءاور ۱۹۲۷ءکی شائع شدہ امام ابن تیمیہؒ اور امام ابن قیمؒ کی پانچ کتابیں (اردو ترجمہ) موجود ہیں ۔ جن میں جہاں بھی صحابی کا نام آیا ہے انھوں نے صرف ؓ کی علامت ڈال دی ہے ۔پورا رضی اللہ عنہ نہیں لکھا۔ ہمارے ہاں عموماً اہلحدیث اور دیو بندی حضرات رضی اللہ عنہ کے الفاظ صحابہ کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں جب کہ بریلوی مکتب فکر دیگر صلحاءواولیاءکے لیے بھی ان کے استعمال کے قایل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چودھری غلام رسول مہر نے اپنی کتاب ”سیرت امام ابن تیمیہ “ کے ٹائٹل پر ان کے لیے رضی اللہ عنہ لکھا ہے۔ ابن تیمیہ کی کتاب رفع الملام (مترجم سید ریاست علی ندوی)اور خلاف الامۃ (مترجم مولانا عبدالرحیم) اور ابن قیم کی اسلامی تصوف پر کتاب طریق الہجرتین(مترجم مولانا عبدالرحیم )کے ٹائٹل پر دونوں ائمہ کے ناموں کے ساتھ پورے اہتمام سے رضی اللہ عنہ لکھا ہوا ہے۔ حالانکہ ان سب کتابوں کے شائع کرنے والے سلفی الفکر ہوں یا حنفی ، بہرحال وہ بریلوی مکتب فکر کے نہیں ہے۔ لیکن آج اہلحدیث حضرات اس کی گنجائش کو تسلیم کرنے کے لیے قطعاًتیار نہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انبیاءصحابہ اور اولیاءمیں فرق وامتیاز کرنے کے لیے ان الفاظ کا الگ مرتبہ و مقام کے مطابق اختیار کرنا، فروغ دینا اچھی بات ہے لیکن اس کے لیے کوئی ایک سخت اصول بنا لینا مناسب نہیں ہے۔ رضی اللہ عنہ کے الفاظ کی تخصیص تو رہی ایک طرف خود، صلوٰة کی نسبت ابنیاءکے علاوہ نیک بندوں کی طرف اللہ نے قرآن میں کی ہوئی ہے۔ اولئک علیھم صلٰوات من ربھم (البقرہ۱۵۷:۲) وصلِّ علیھم (التوبہ :۱٠۳) ھو الذی یصلّی علیکم (الاحزاب :۴۳)

اسی طرح حضور نے صحابی ابی اوغیٰ ، سعد بن عبادہ ، جابر بن عبداللہ اور دیگر افراد کے لیے صلِّ علیٰ کے الفاط استعمال کیے جن کی بنیاد پر قاضی عیاض مالکی ودیگر اسے مطلقاً ہر نیک انسان کے لیے جائز قرار دیتے ہیں ۔البتہ جمہور امت کے نزدیک یہ اختیار صرف رسول اللہ کا تھا، ہمارے لیے نہیں ۔ اب یہ مسلمانوں کا شعار بن چکا ہے کہ صلوٰة وسلام ابنیاءکے لیے مخصوص ہے۔ پانچویں خلیفہ راشد عمربن عبدالعزیز نے صلوٰة کو حکما رسول اللہ کے لیے مخصوص فرما دیا۔ (روح المعانی بحوالہ تفہیم القرآن ۴/۱۲۸)

(۴) ایکٹ میں ایک اور بوجھ جو لکھنے والوں پر ڈال دیا گیا ہے کہ وہ نبی کے نام کے ساتھ پہلے خاتم النبیین ازواج مطہرات کے نام کے ساتھ ُام المومنین اور خلفائے راشدین کے نام کے ساتھ خلیفہ راشدبھی لکھیں۔ اب اس بات کی ایکٹ میں کوئی وضاحت نہیں کہ کیا یہ ایک مضمون یا کتاب میں ایک بار یا ہر بار لکھنا ہے۔ اب یہ اہتمام تو چودہ سو سالہ تاریخ میں کسی سیرت نبوی اور سیرت ازواج مطہرات اور سیرت صحابہ وخلفائے راشدین کی کتابوں میں بھی نہیں ہے جب کہ دین بیزار طبقہ پہلے ہی لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کے لیے اہل دین کی باتوں کا مذاق بنانے کے مواقع تلاش کرتا رہتا ہے۔

اس ایکٹ میں وضاحت نہیں ہے کہ کیا وہ کتابیں جو سیرت نبوی اور سیرة صحابہ پر ادبی اسلوب میں لکھی گئی ہیں اور ان میں حضور یا صحابی کے نام کے ساتھ حضرت یا خاتم النبیین کے سابقے لاحقے نہیں ہوتے تو کیا انھیں گستاخی قرار دیا جائے جب کہ ادبی اسلوب کی کتابیں حُبِّ رسول میں ڈوب کر لکھی گئی ہیں۔ پھر ایک شاعر اپنے شعر میں محمد یا ابوبکر وعمر کا تذکرہ کرتا ہے تو اگر اس ایکٹ کی رو سے وہ پہلے خاتم النبیین یا خلیفہ راشد لکھے گا تو اس کے شعر کا وزن کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔

اقبال کے مصرعے: ’’دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے‘‘ کو کیا اب یوں لکھا جائے گا: دہر میں اسم خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اجالا کر دے۔

اب یہ اہتمام نہ حسانؓ بن ثابت کی مدح رسول میں نظر آئے گا نہ حفیظ تائب کی نعت گوئی میں۔ بلاشبہ ایکٹ کی یہ شق مسلمانوں کو تنگی میں ڈالنے والی ہے۔ اور فقہ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول” عدم حرج“ ہے کہ تفقہ فی الدّین مسلمانوں کو تنگی میں ڈالنے کے لیے نہیں فراخی کے راستے پر چلانے کے لیے ہے۔ وَما جعل علیکم فی الدّین مِن حرج (الحج ۷۸:۲۲)”اور تم پر دین کی کسی بات میں تنگی نہیں رکھی“۔

(۵)اب سیکشن ۳ کی شق ایف میں ملاحظہ ہو:

جو شخص اللہ تعالیٰ ، حضور اور دیگر مذکورہ مقدس شخصیات ، قرآن ، تورات ، زبور، انجیل ، دین اسلام پر تنقید کرے گا یا ان کو Defameیا Disrepute (شہرت خراب )کرے گا ۔ اسے پاکستان کے پینل کوڈ 1860 یا کسی اور قانون کی رو سے سزا دی جا سکے گی۔ اس سیکشن کی زد سب سے پہلے تو قرآن پر پڑے گی کیونکہ قرآن بار بار تورات اور انجیل کے بارے میں کہتا ہے کہ یہود ونصاری نے ان میں تحریف کر ڈالی ہے۔ اب قرآن نے تورات انجیل کو Disrepute کر دیا تو اس ایکٹ کی رُو سے مقدمہ کس پر چلے گا (نعوذ باللہ ) اب وہ تمام علمی وتحقیقی کتابیں جو تورات وانجیل کو تحریف شدہ کتاب ثابت کرنے کے لیے مسلمان علماءنے لکھیں ، رحمت اللہ کیرانوی سے لے کرشیخ احمد دیدات اور ڈاکٹر ذاکر نائیک تک ،سب اس قانون کی زد میں آ چکی ہیں۔

(۶)اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ ہر ایکٹ اشاعتِ کتب اور کتب بینی میں معاون بنے گا یا کہ رکاوٹ۔ ایکٹ کے سیکشن ۵ تا ۱۳  کی شقوں کا خلاصہ یہ ہے کہ :

۱۔ یہ تحقیق ڈی جی پبلی کیشنز کے اختیارمیں ہو گی کہ کسی کتاب میں کوئی ایسا مواد تو نہیں جس میں ایکٹ کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے اختیارات کسی بھی مجاز افسر کے سپرد کر سکتا ہے۔

۲۔ جس دن کتاب چھپے، اسی دن پبلیشر مجاز افسر کو اس کی چار کاپیاں فراہم کرنے کا پابند ہے (کیا یہ قابل عمل ہے؟)سیکشن ۸ شق ۲ کہتی ہے کہ کسی بھی کتاب کو چھاپنے کے لیے طے کردہ طریقے کے مطابق درخواست وینی ہو گی اور اس کی طے کردہ فیس جمع کرانی ہو گی۔ (یہ شق کتابوں کی اشاعت کو آسان کرے گی یا مشکل؟)۔

سیکشن ۹، شق ۱ کے مطابق پبلشر یا بک سیلر مجاز افسر کے طے کردہ طریقے کے مطابق منظوری کے بغیر کوئی کتاب فروخت نہ کر سکے گا۔ ایکٹ کی خلاف ورزی پر یا نچ سال سزا اور پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو سکے گا۔ یہ قانون پبلشر کو اتنا خوف زدہ کرے گا کہ وہ کتاب چھاپتے وقت سو مرتبہ سوچے ۔ ان کے علاوہ آٹھ دس اور پابندیاں ہیں جن کا ذکر ہم طوالت سے بچنے کے لیے نہیں کر رہے اب ایک تو پاکستان میں پہلے ہی کتاب بینی کا شوق ختم ہوتا جا رہا ہے اور جب پبلشر حضرات کو اتنا ڈرایا جائے گا کہ اسے ہر سُو پابندیاں ہی پابندیاں ، جرمانے اور سزا کا خوف دامن گیر ہو گا تو وہ اس کاروبار میں کیوں خود کو کھپائے گا۔

دوسرا ن اختیارات کا مجاز افسروں کے ہاتھوں استعمال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ لکھنے والوں کے لیے ان احکامات کی پابندی پوری کرنا ممکن ہے اور نہ اشاعتی اداروں کے نگران سرکاری حکام کے پاس اتنا وقت کہ وہ کسی کتاب کے ایک ایک لفظ کا حساب لگائیں۔ ہو گا صرف یہی کہ جس کسی پبلشر یا مصنف کی کتاب کا کوئی مخالف ہوگا ۔وہ اس میں سے آسانی سے ایسے چند نقائص نکال کر مجاز افسر کو دے دے گا اور مجاز افسر کی مرضی پر ہے کہ وہ ان الفاظ والقابات پر چاہے تو مصنّف وپبلشر کو قانون کے شکنجے میں کس دے اور چاہے تو چھوڑ دے ۔ اور اس ایکٹ کا استعمال بھی زیادہ تر مذہبی کتب کے خلاف ہوگا۔ یہ ایکٹ فروغ مذہب کی بجائے مذہبی کتابوں کے پبلشرز کے اوپر ایک لٹکی ہوئی تلوار ہو گا۔ ہماری بیوروکریسی جو پہلے ہی کام کو لٹکانے اور الجھاﺅ پیدا کرنے میں ماہر ہے۔ یہ اسے مزید با اختیار کرنے کا قانون ہے کہ وہ کسی بھی کتاب کو قبل ز اشاعت یا بعد از اشاعت عوام تک پہنچنے سے روک سکے۔

رہا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا فروغ تو اس کا نظارہ گذشتہ دنوں کے شیعہ سُنّی بیانات اور کشیدگی کی صورت میں ہم کر چکے ہیں ۔ صحابہ کرام ، ازواج مطہرات اور خلفائے راشدین سے متعلق ان کے عقائد ونظریات کا فرق ایک بیّن حقیقت ہے۔ اس سے آنکھیں بند کر کے کلہیا میں گڑپھوڑنے کی کوئی کوشش کریں گے تو وہ پنڈورا باکس کھلے گا کہ ہمارے ارباب اختیار اس کو سنبھال نہ سکیں گے کیونکہ ان کے پاس مذہبی ہم آہنگی کو قائم رکھنے کا کوئی میکنزم سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سوائے خالی خولی امن کمیٹیوں کے۔ اور اس بات کو ہماری یکجہتی کا دشمن بخوبی سمجھ چکا ہے ۔میڈیا میں بیٹھے ہمارے دین بیزار اور چالاک اینکرز عوام کے سامنے اہل مذہب کو مزید شدت پسند باورکر انے میں کامیاب ہوں گے ۔ جب کہ سیاسی زعما قوم کی بچی کچھی یکجہتی کو اپنی سستی نیک نامی کی بھینٹ چڑھا دیں گے ۔ ممکن ہے اتنی آگ لگانے سے کچھ سادہ لوحوں کے سطحی جذبات کی تسکین ہو جائے۔

اس مسئلے میں مزید بہتری کا راستہ کیا ہے؟ اگر ارباب اختیار واقعی حرمت انبیاؑءاور احترام صحابہ وازدواج ؓ کے تحفظ بارے سنجیدہ اور مخلص ہیں اور اس کام کی حساسیت سے آگاہ بھی ۔

(۱)پہلا کام وہ یہ کریں کہ اس ایکٹ کو اسلامی نظریاتی کونسل میں، اس سے رہنمائی اور مدد لینے کے لیے پیش کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ اب وہاں بھی صاحبانِ علم کم اور سیاسی وابستگان زیادہ ہیں، لیکن پھر بھی وہ ہمارا ایک آئینی علمی فورم ہے، جو اس کے تمام پہلوﺅں پر غور کر کے بہتر رائے دے سکے گا۔

(۲)ملی یکجہتی کونسل پاکستان نے شیعہ سنّی تنازعات کے بارے میں کچھ فیصلے کیے اور سفارشات تیار کی تھیں ، ان کے ذریعے بھی اس کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

(۳) القاب وآداب اور دعائیہ کلمات لکھنے کی پابندی کو کوئی بہتر شکل دیتے ہوئے اسے صرف درسی کتب تک محدود کر دیا جائے۔

(۴)القاب وآداب اور دعائیہ کلمات کا التزام شاعری اور ادبی کتب میں کرنا، ان کی ادبیت وشعریت چھیننے کے مترادف ہے، اسے ان کتب کے لیے ضروری قرار نہ دیا جائے۔

(۵) قابل اعتراض مواد پر گرفت کرنے کے لیے مجاز افسران کو مزید اختیارات سے مسلّح کرنے کی بجائے پہلے سے موجود قانون تعزیرات پاکستان کی دفعات ۵۹۲ تا ۸۹۲ کافی جامع ہیں۔ ان پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد ہو جائے تو بڑا فرق واقع ہو جائے گا۔ ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ حکومت نے پبلشرز کو قابو کرنے کے لیے نیک ہستیوں کے نام کو آڑ بنایا ہے۔ ہمیں اس ایکٹ کے پاس ہونے پر اراکین اسمبلی کی مذہب پسندی پر ایک گونہ خوشی ضرور ہوئی تھی لیکن یہ خدشہ بھی ذہن میں تھا کہ :

ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ملائی گئی چیز پبلشرز پر گرفت کرنے کے یہی حکومتی اختیارات ہیں۔

امام ابن جریر طبری کی شخصیت اور ایک تاریخی غلط فہمی

مولانا سمیع اللہ سعدی

امام ابن جریر طبری عہد عباسی کے معروف مورخ و مفسر گزرے ہیں ۔اسلامی علوم کے زمانہ تدوین سے تعلق رکھنے کی وجہ سے علوم اسلامیہ پر گہرے اثرات ڈالنے والوں میں سر فہرست ہیں ۔گرانقدر تصنیفات چھوڑیں ،جن میں خاص طور پر صحابہ و تابعین کے اقوال سے مزین ایک ضخیم تفسیر "جامع البیان عن تاویل آی القران "المعروف تفسیر طبری اور حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لیکر اپنے زمانے تک کی مبسوط تاریخ "تاریخ الا مم و الملوک" اپنے موضوع پر بنیادی کتب کی حیثیت رکھتی  ہیں ۔ تفسیر و تاریخ کے میدان میں آنے والے تقریبا تمام نامور مصنفین نے ان کتب کو ماخذ بنایا ۔امام ابن جریر اپنی جلالت شان اور گوناگوں صلاحیتوں کے باوجود اپنے زمانے میں خاصے تنازعات کا شکار رہے ،امام دادو ظاہری  کے ساتھ معاصرانہ چپقلش رہی ،اور نوبت یہاں تک پہنچی،کہ  یہ "مخاصمت" اگلی نسل میں بھی منتقل ہوئی ، ۔علامہ ذہبی  ،امام داود ظاہری کے صاحبزادے اور امام ابن جریر  سے متعلق لکھتے ہیں :

و قد وقع بین ابن جریر و بین ابن ابی داود، وکان کل منھما لا ینصف الاخر1

ترجمہ:امام ابن جریر اور  ابن ابی داود کے  درمیان تنازعہ پیدا ہوا ،اور دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔

حنابلہ کے ایک گروہ کے ساتھ طویل مخالفت رہی ،جس کے متعدد اسباب تراجم کی کتب میں مذکور ہیں ۔اس طویل کشمکش کا اثر یہ ہوا کہ حنابلہ کے علاوہ دوسرے طبقات بھی ابن جریر کے مخالف ہوگئے ،ابن اثیر الکامل میں لکھتے ہیں :

و انما بعض الحنابلۃ تعصبو ا علیہ  ووقعو ا فیہ فتبعھم غیرھم2

ترجمہ :بعض حنابلہ نے ابن جریر کے معاملے میں تعصب اختیار کیا ،اور ان کی مذمت و مخالفت میں لگ گئے ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے لوگ بھی آپ کے مخالف ہوگئے ۔

بعض نامور محدثین نے ان پر تشیع و رفض کا الزام لگایا (جن پر بحث ہم آگے کریں گے ) ۔متنوع تنازعات کے اثرات یہاں تک پہنچے کہ موصوف اپنے آخری زمانے میں گھر میں محصور ہو کر رہ گئے۔

وكانت الحنابلۃ حزب أبي بكر بن أبي داود، فكثروا وشغبوا على ابن جرير، ونالہ أذى، ولزم بيتہ۔3

ترجمہ :حنابلہ ابن ابی داود کے حامی تھے ۔ انہوں پے در پے ابن جریر کے خلاف فتنہ و فساد برپا کیا ،اور ان کو اذیتیں دیں ۔بالاخر ابن جریر گھر میں محصور ہوکر رہ گئے ۔

انہی تنازعات کا اثر ہے کہ ان کی وفات اور نمازہ جنازہ کے بارےمیں بھی متضاد قسم کی روایات ہیں ۔علامہ حموی  نے معجم الادباء میں لکھا ہے :

قال غير الخطيب: ودفن ليلا خوفا من العامۃ لأنہ يتھم بالتشيع، وأما الخطيب فإنہ قال: ولم يؤذن بہ أحد، فاجتمع علی جنازتہ من لا يحصي عددھم إلا اللہ، وصلي علی قبرہ عدۃ شھور ليلا ونھارا4

ترجمہ :خطیب کے علاوہ بقیہ مورخین نے لکھا ہے کہ ابن جریر کو رات کے وقت عام لوگوں کے خوف سے دفن کیا گیا ،کیونکہ ان پر شیعہ ہونے کا اتہا م تھا،جبکہ خطیب نے کہا ہے کہ ان کے جنازے پر کسی کو نہ بلانے کے باوجود لوگوں کی ایک کثیر تعداد جمع ہو گئی ،اور ان کی قبر پرکئی  مہینے رات دن تک لوگ جنازہ پڑھتے رہے ۔

خطیب بغدادی اور دیگر جملہ مورخین کے بیانات میں  تضاد اور اس  میں صحیح و غلط سے قطع نظر خطیب کی روایت کا آخری حصہ بلا شبہ مبالغہ پر مبنی ہے کہ قبر پر مہینوں  تک جنازہ پڑھنے کا مسلمانوں میں بشمول نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر  اور صحابہ کرام کی قبور کے، رواج و تعامل  کبھی نہیں رہا  ۔

امام ابن جریر جرح و تعدیل کے میزان میں

امام ابن جریر اپنے زمانے میں متنوع تنازعات کا  شکار ہونے کے باوجود بعد کے اہل علم میں بڑے مقبول ہوئے۔ ان کی لکھی ہوئی تصنیفات مشرق و مغرب میں پھیل گئیں ،خصوصا  تفسیر اور تاریخ سے متعلق ان کی کاوشیں  بنیادی مرجع قرار پائیں ۔اس لیے کتب رجال میں بڑے شاندار الفاظ میں ان کا ذکر کیا گیا ہے اور متعدد ائمہ نے ان کی جلالت شان ،وفور علم ،وسعت نظر اور امامت علمی کا ذکر کیا ہے ۔اختصار کے پیش نظر ہم تعدیل کے ان اقوال سے صرف نظر کرتے ہیں ۔اور امام ابن جریر پر ہونے والی جرح پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

امام ابن جریر رحمہ اللہ پر ساری جرح کا خلاصہ "تشیع و رفض"ہے ۔درجہ ذیل حضرات نے ان پر یہ جرح کی ہے :

۱۔علاہ ذہبی رحمہ اللہ  متکلم فیہ رجال کے تذکرے پر مشتمل اپنی کتاب "میزان الااعتدال "میں لکھتے ہیں :

فیہ تشیع و موالاۃ لاتضر 5

یعنی امام ابن جریر میں تشیع اور اہلبیت کے ساتھ معمول سے  زیادہ مودت تھی ،لیکن یہ موالات   ضرر کی حد تک نہیں پہنچی تھی ۔

۲۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ  "لسان المیزان"میں بعینہ یہی بات فرمائی ہے۔6

۳۔چوتھی صدی ہجری کے معروف محدث احمد بن علی سلیمانی ،جن کے بارے میں علامہ ذہبی نے ‘‘لم يكن له نظير في زمانه إسنادا وحفظا ودراية وإتقانا‘‘ 7کے الفاظ استعمال کیے ہیں ،ابن جریر کے بارے میں فرماتے ہیں :

کان یضع للروافض8

یعنی امام ابن حجر روافض کے لیے احادیث گڑھا کرتے تھے۔

۴۔چوتھی صدی ہجری کے معروف امام لغت اور شاعر ابوبکر محمد بن عباس الخوارزمی ،جو امام ابن جریر کے بھانجے تھے ،علامہ ذہبی نے "سیر اعلام النبلاء"9 میں ،ابن خلکان نے "وفیات الاعیان" 10 میں، علامہ سمعانی نے "الانساب" 11 میں ،علامہ یاقوت الحموی نے "معجم الادباء" 12 میں اور معروف علماء کے شیوخ پر متعدد کتب کے مصنف ابو طیب نائف بن صلاح المنصوری نے "الروض الباسم فی تراجم شیوخ الحاکم" 13 میں  ان کے تذکرے کے ساتھ "ابن اخت محمد بن جریر  الطبری "(امام ابن جریر کا بھانجا) لکھا ہے۔ اپنے ماموں ابن جریر کے مسلک کے بارے میں فرماتے ہیں:

بآمل مولدی و بنو جریر
فاخوالی ویحکی المرء خالہ
فھا انا رافضی عن تراث
و غیری رافضی عن کلالہ14
’’آمل میری پیدائش ہے ،اور ابن جریر کے بیٹے میرے ماموں ہیں ،اور آدمی اپنے ننھیال کے مشابہ ہوتا ہے ۔سنو میں وراثتا رافضی ہیں ،جبکہ باقی لوگ دور کے رافضی ہیں۔‘‘

۵۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان میں معروف مفسر ابو حیان الاندلسی کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی تفسیر میں لفظ  صراط کی تحقیق میں ابن جریر طبری کو ’’امام من الامامیۃ‘‘ لکھا ہے۔15 لیکن اس جرح کے بارے میں انصاف کی بات یہ ہے کہ اس میں ابن حجر صاحب سے تسامح ہوا ہے ۔ابن حیان نے اپنی تفسیر البحر المحیط  میں معروف شیعہ عالم  "ابو جعفر الطوسی "کو  لفظ صراط کی تحقیق میں امام من الامامیہ لکھا ہے۔ لکھتے ہیں:

وقال ابو جعفر الطوسی فی تفسیرہ و ھو امام من ائمۃ الامامیۃ الصراط بالصاد لغۃ قریش، ھی اللغۃ الجیدۃ 16

یہ تحقیق ابوحیان نے الطوسی کی تفسیر "التبیان "سے نقل کی ہے ۔اور التبیان میں الطوسی نے یہی تحقیق لکھی ہے۔ صراط کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بالصاد لغۃ قریش وھی اللغۃ الجیدۃ 17

ابن جریر طبری کی تفسیر میں ابو حیان کی نقل کی ہوئی کوئی تحقیق نہیں ملتی اور نہ ابو حیان نے اپنی تفسیر میں لفظ صراط کی تحقیق"ابو جعفر الطبری"کا حوالہ دیا ہے  ۔حافظ صاحب نے تسامحا(ممکن ہے کہ حافظ صاحب کے پاس جو نسخہ ہو ،اس میں الطوسی کی جگہ الطبری لکھا ہوا ہو ،لھذا  ناسخ کی غلطی بھی ہوسکتی ہے )"ابو جعفر الطوسی "کو "ابو جعفر الطبری"بنا دیا ۔

تشیع و رفض کی جرح پر تبصرہ

حافظ ابن حجر و علامہ ذہبی نے تو تشیع کی جرح کے ساتھ یسیر اور لا یضر والی بات نقل کر کے ابن جریر صاحب کے تشیع کی بنا پر ان کے ضعف کا رد کر دیا ۔البتہ یہ بات بہرحال بر قرار رہے گی کہ ابن جریر صاحب کو شیعہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام کے بارے میں ان کے نظریے میں اہلسنت و الجماعت کے مسلک سے انحراف تھا ،اب یہ انحراف کس درجے کا تھا؟اس کی وضاحت مذکورہ حضرات نے نہیں کی ، البتہ یسیر اور لا تضر کے الفاظ کہہ کر اس کی بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ انحراف خطرناک درجے کا نہ تھا ۔تشیع کے مفہوم اور متقدمین و متاخرین کے نزدیک اس کے اطلاقات سے قطع نظر امام ابن جریر جس زمانے کے ہیں ،اس زمانے میں شیعہ بطور فرقہ کے ممتاز ہو چکا تھا ، چنانچہ شیعہ اثنا عشریہ (جو اہل تشیع کا مین سٹریم طبقہ ہے )کی سب سے پہلی باقاعدہ کتاب "الکافی "کے مصنف محمد یعقوب الکلینی  اور امام ابن جریر کا زمانہ ایک ہے۔ ۔اما م ابن جریر کی وفات ۳۱۰ ھ اور الکلینی کی وفات ۳۲۹ھ میں ہوئی ہے ۔اس اعتبار سے دونوں ہم عصر قرار پاتے ہیں ۔تشیع و رفض کے شیوع کے زمانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے صرف تشیع کی جرح بھی کافی بڑی جرح ہے ۔

 علامہ احمد بن علی سلیمانی اور الخوارزمی نے تو بلا کم و کاست امام ابن جریر کو رافضی قرار دیا ہے ۔اس جرح کے جواب کے لیے جب ہم کتب رجال میں پر نظر ڈالتے ہیں ،تو سوائے اس کے اور کوئی جواب نہیں ملتا ،کہ ہر دو حضرات کی جرح معروف ابن جریر کے بارے میں نہیں ہیں ،بلکہ اس نام سے ایک اور ابن جریر تھے ،جو مسلکا شیعہ تھے ،یہ جرح  شیعہ ابن جریر کے بارے میں ہے ،نام کی مشابہت کی وجہ سے اس جرح کو سنی ابن جریر کے بارے میں سمجھا گیا۔ چنانچہ السلیمانی کی جرح کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :

ولو حلفت أن السليماني ما أراد إلا الآتي لبررت والسليماني حافظ متقن كان يدري ما يخرج من رأسہ فلا اعتقد أنہ يطعن في مثل ھذا الإمام بھذا الباطل18

ترجمہ: اگر میں قسم کھاوں، تو حانث نہیں ہوں گا کہ سلیمانی کی مراد دوسرے شیعہ ابن جریر  ہیں۔سلیمانی حافظ الحدیث اور معتمدہیں ۔اپنی زبان سے سوچ سمجھ کر الفاظ نکالتے ہیں۔ میں یقین نہیں کر سکتا کہ سلیمانی جیسا شخص امام ابن جریر جیسے امام کے بارے میں یہ باطل جرح کریں۔

شیعہ ابن جریر اور اس کی تاریخی حقیقت سنی کتب کی روشنی میں

علامہ ذہبی و عسقلانی رحمھما اللہ کی  بعض کتب (سیر اعلام النبلاء ،میزان الاعتدال اور لسان المیزان) میں ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے تذکرے کے ضمن میں طبری صاحب کے ہم نام،ہم ولدیت اور ہم وطن  ایک اور ابن جریر شیعہ کا  کا ذکر ملتا ہے۔ ہم اولا تینوں کتب سے ابن جریر شیعہ کا  پورا ترجمہ نقل کرتے ہیں۔

سیر اعلام النبلاء میں ہے:

  محمد بن جرير بن رستم: أبو جعفر الطبري قال عبد العزيز الكتاني: ھو من الروافض، صنف كتبا كثيرۃ في ضلالتھم، لہ كتاب: ’’الرواۃ عن أھل البيت‘‘، وكتاب: ’’المسترشد في الإمامۃ‘‘ 19

ترجمہ :محمد بن جریر بن رستم الطبری ،جن کے بارے میں عبد العزیز الکتانی نے لکھا ہے کہ وہ روافض میں سے تھے ،ان کے مذہب میں متعدد کتب لکھیں جیسے الرواۃ عن اہل البیت اور کتاب المسترشد فی الامامۃ

میزان الاعتدال میں ہے:

رافضي لہ تواليف، منھا كتاب الرواۃ عن أھل البيت، رماہ بالفرض عبد العزيز الكتاني20

یہ رافضی ہیں ۔کتاب الرواۃ عن اہلبیت ان کی تصنیف ہے ۔الکتانی نے انہیں رفض سے متہم کیا ہے۔

لسان المیزان میں حافظ صاحب لکھتے ہیں:

محمد بن جرير بن رستم أبو جعفر الطبري. رافضي لہ تواليف منھا كتاب ’’الرواۃ عن أھل البيت‘‘. رماہ بالرفض عبد العزيز الكتاني. انتھی.
وقد ذكرہ أبو الحسن بن بانويہ في تاريخ الري بعد ترجمۃ محمد بن جرير الإمام فقال: ھو الآملي قدم الري وكان من جلۃ المتكلمين علی مذھب المعتزلۃ , لہ مصنفات. روى عنہ الشريف أبو محمد الحسن بن حمزۃ المرعشي. قلت: وروى، عَن أبي عثمان المازني وجماعۃ. وعنہ أبو الفرج الأصبھاني في أول ترجمۃ أبي الأسود من كتابہ.
وذكرہ شيخنا في الذيل بما تقدم أولا وكأنہ سقط من نسختہ وزاد بعد لعل السليماني إلی آخرہ: وكأنہ لم يعلم بأن في الرافضۃ من شاركہ في اسمہ واسم أبيہ ونسبہ وإنما يفترقان في اسم الجد ولعل ما حكي، عَن مُحَمد بن جرير الطبري من الاكتفاء في الوضوء بمسح الرجلين إنما ھو ھذا الرافضي فإنہ مذھبھم.21

ترجمہ: ابن جریر ابن رستم رافضی ہے ،عبد العزیز الکتانی نے انہیں رفض سے متہم کیا ہے ،ان کی ایک تصنیف  "الرواۃ عن اہل البیت"ہے ۔ابو الحسن ابن بانویہ نے  تاریخ الری میں ابن جریر سنی کے بعد ان کا ذکر کیا ہے۔لکھا ہے: وہ املی ہے ،رای میں وارد ہوئے ،معتزلہ کے بڑے متکلمین میں سے ہیں ،کئی کتب کے مصنف ہیں۔ ان سے ابو محمد الحسن بن حمزہ المرعشی نے روایت کی ہے ۔

میں (حافظ ابن حجر) کہتا ہوں کہ انہوں نے ابو عثمان المازنی اور ایک بڑی جماعت سے روایات لیں ۔اور خود ان سے ابو الفرج الاصفہانی نے اپنی کتاب میں ابو الاسود کے ترجمے میں روایت لی ہے ۔(الی اخرہ)

اہلسنت کے پورے ذخیرہ رجال میں علا مہ ذہبی و عسقلانی وہ اولین شخصیات ہیں ،جنہوں نے شیعہ ابن جریر کا ذکر کیا ہے ،ہر دو حضرات سے پہلے رجال کی چار سو  سالہ تاریخ میں  رجال  یا فہارس الکتب و المصنفین کی کسی  بھی معتبر کتاب میں ابن جریر شیعہ کا ذکر نہیں ہے ۔اس موقع پر ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تاریخ و تفسیر کی اولین کتب لکھنے والی معروف شخصیت ابن جریر (سنی )کے ہم نام ،ہم وطن ،ہم ولدیت اور ہم عصر ایک اور ابن جریر (شیعہ )تھے ،اور وہ شیعہ  ابن جریر بھی سنی کی طرح اپنے مسلک کی معروف اور مقتداء شخصیت تھی ،تو یقینا اس سے گمراہ کن التباس پیدا ہو نے کا خدشہ تھا  ،اس کی وضاحت ہمیں چار صدیوں کے علمی ذخیرے میں کیوں نہیں ملتی؟ علم رجال کی تاریخ میں یہ بات ناممکن ہے کہ اتنی بڑی شخصیت جو حیرت انگیز طور پر اہلسنت کےا یک معروف امام کے ساتھ متعدد جہات سے مشابہت کی حامل ہو ،چار سو سالہ رجال کے ذخیرے میں اس کے حالات تو کجا ،اس کا نام و نسب بلکہ محض تذکرہ بھی نہ آسکے ۔اس کے علاوہ علامہ ذہبی و عسقلانی کے ذکر کردہ ترجمے میں ایسے اشارات ملتے ہیں ،جن کی وجہ سے ہم اس "افسانوی شخصیت"کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں ۔

۱۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ابن جریر شیعہ کا ذکر "ابو الحسن بن بابویہ"(لسان المیزان میں "بابویہ"کی جگہ بانویہ"لکھا ہوا ہے ،جسے تصحیف پر محمول کیا جاسکتا ہے ،اس نام سے بسیار تلاش کے باوجود کوئی شخصیت نہ مل سکی ،شاید اسی لیے شیعہ عالم محسن العاملی نے اسے "بابویہ"سمجھا کما سیاتی) تاریخ الری میں کیا ہے،شیعہ علماء کے ہاں اس نام سے قم کے معروف عالم اور شیخ صدوق کے والد مراد لیے جاتے ہیں ،لیکن اس نام سے ان کی کوئی کتاب شیعہ کتب رجال میں نہیں ملتی ،یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر مذکورہ  حوالے  سے متعلق  معروف شیعہ عالم محمد محسن العاملی اپنی کتاب "اعیان الشیعہ"میں لکھتے ہیں:

وفی لسان المیزان: ابراہیم بن ادریس القمی ذکرہ ابوالحسن بن بابویہ فی رجال الشیعۃ انتہی۔ والظاہر ان المراد بابی الحسن بن بابویہ ھؤ علی بن الحسین بن موسی بابویہ القمی والد الصدوق فانہ یکنی اباالحسن و لم یعلم این ذکرہ۔22

ترجمہ :لسان المیزان میں ہے ،ابراہیم بن ادریس القمی ،ابو الحسن ابن بابویہ (یاد رہے لسان کے موجودہ نسخ میں بابویہ کی بانویہ لکھا ہوا ہے 23۔جیسا کہ ابن جریر کے ترجمے میں ہے )نے رجال شیعہ میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ظاہر یہ ہے کہ ابو الحسن بن بابویہ سے  مراد علی بن حسین بن موسی بابویہ القمی مراد ہیں ۔جو شیخ صدوق کے والد ہیں ۔لیکن یہ معلوم نہیں ،کہ ابو الحسن بن بابویہ نے کس جگہ اس راوی کا تذکرہ کیا ہے ۔

۲۔حافظ صاحب نے ابن جریر شیعہ کو ابو عثمان المازنی کا شاگرد لکھا ہے ،جبکہ ابو عثمان المازنی کے تلامذہ میں اس نام کا کوئی راوی نہیں ہے ،البتہ اس سے جلتا ملتا ایک نام ملتا ہے ۔علامہ حموی معجم الادباء میں حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

قرأت في «كتاب الأمالي» لأبي القاسم الزجاجي قال حدثنا أبو جعفر أحمد بن محمد بن رستم الطبري صاحب أبي عثمان المازني24

ترجمہ: میں نے زجاجی کی کتاب الامالی میں پڑھا کہ ہمیں ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم طبری نے بیان کیا، جو ابو عثمان المازنی کے شاگرد ہیں۔

الفہرست میں ابن ندیم ان کی تصانیف کے بارے میں لکھتے ہیں:

ومن علماء البصريين: أبو جعفر احمد بن محمد بن رستم بن يزدبان الطبري ويعد في طبقۃ أبي يعلی بن أبي زرعۃ ولہ من الكتب كتاب غريب القرآن كتاب المقصور والممدود كتاب المذكر والمؤنث كتاب صورۃ الھمز كتاب التصريف كتاب النحو.25

ترجمہ:علمائے بصرہ میں سے ایک ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم بن یزدبان طبری ہے ،اور ابو یعلی بن ابی زرعہ کے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں ۔ان کی کتاب یہ ہیں :غریب القران ،کتاب المقصور ،کتاب المدود،کتاب المزکر و المونث، کتاب صورۃ الھمزۃ ،کتاب التصریف ،کتاب النحو ۔

اسی کو مختصر کر کے ابو جعفر بن رستم کہا جاتا ہے ،چنانچہ ایک اور جگہ کتب غریب القران کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

كتاب غريب القرآن لأبي جعفر بن رستم الطبري26

اسی ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم بن یزدبان الطبری کا ترجمہ  تاریخ بغداد 27 اور معجم الادباء 28 میں  ملتا ہے۔

درجہ بالا عبارات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ،کہ علامہ ذہبی و عسقلانی نے جس ابن جریر شیعہ کا ذکر کیا ہے ،اس نام سے تو کتب رجال کے پورے ذخیرے میں کوئی شخصیت نہیں ہے ، انہوں نے اسے ابو عثمان المازنی کا شاگرد لکھا ہے ،جبکہ  کتب رجال میں ابو عثمان المازنی کے تلامذہ میں اس نام کا کوئی راوی نہیں ہے ،البتہ اس سے ملتا جلتا ایک شخص ہے جو نام ،ولدیت میں ابن جریر کے  مشابہ نہیں ہے ،کیونکہ ابن جریر کا نام" ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری"ہے۔ جبکہ اس راوی کا نام " ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم بن یزدبان الطبری  النحوی "ہے ،دونوں ناموں کو ملاحظہ کرنے سے یہ بات  ثابت ہوتی ہے ،کہ ان دونوں میں خاصا فرق ہے ۔ نیز یہ فرق اس طرح سے مزید نمایاں ہوجاتا ہے ،کہ ابو عثمان المازنی کے شاگرد کو مختصر کر کے "ابو جعفر بن رستم"کہا جاتا ہے ،جس سے جزوی مشابہت کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے ۔اس کے علاوہ ابو جعفر بن رستم خالص لغوی ،نحوی اور قراءت قرانیہ کے ماہر عالم تھے ۔اور ان کی جملہ تصانیف اسی کے گرد گھومتی ہیں ، ان کے مسلک پر کسی کتاب میں کوئی تصریح نہیں ملی ،البتہ  غالب امکان یہ ہے کہ یہ سنی عالم ہوں گے ۔کیونکہ خاص طور پر قراءت سے شغف ان کے تسنن پر دلالت کرتا ہے ،اس لیے کہ شیعہ علماء قراءت قرانیہ کے قائل نہیں ہیں ۔اس کے علاوہ علامہ ذہبی و عسقلانی نے جن کتب کو ابن جریر شیعہ کی طرف منسوب کیا ،ان میں سے  بھی کؤئی کتاب  ابو جعفر بن رستم کی تصنیفات کے ذیل میں نہیں ملتی۔

شیعہ کتب سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ،کہ جس شخص کو ابن جریر سنی کا ہم نام و ہم عصر ثابت کیا جا رہاہے ،وہ یہی ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم الطبری مراد ہیں ،چنانچہ تیرھویں صدی کے معروف شیعہ محقق سید بحر العلوم کی  کتاب "الفوائد الرجالیہ" کے محشی  لکھتے ہیں :

محمد بن جرير بن رستم الطبري الآملي: ھو صاحب (كتاب غريب القرآن) كما ذكرہ ابن النديم في الفھرست29

محقق مذکور نے ابن جریر شیعہ کی ایک کتاب "غریب القران" بتائی ہے ،اور یہ کہ ابن ندیم نے اس کا ذکر بھی  کیا ہے ،جبکہ ابن ندیم کے حوالے سے ہم ماقبل میں لکھ آئے ہیں ،کہ صاحب غریب القرآن ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم الطبری ہے ،نہ کہ ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم الطبری ،محقق بحر العلوم کے ذکر کردہ  نام کی کسی شخصیت کا الفہرست میں ذکر نہیں ہے ۔ شیعہ و سنی کتب کے مذکورہ حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ابن جریر سنی کے ہم نام جس شخصیت کو بتا یا جارہا ہے ،اس کی عمومی طور پر دو علامتیں بیان کی جاتی ہیں ،ایک یہ کہ وہ ابو عثمان المازنی کا شاگرد ہے ،دوسرا یہ کہ ابن ندیم نے غریب القرآن کی کتب کے تذکرے میں اس کا ذکر کیا ہے ،اور ان دو علامتوں سے متصف شخص "ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم الطبری ہے نا کہ "ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم الطبری "اور وہ بھی خالص ایک لغوی،نحوی اور قراءت کے ماہر عالم ہیں ،جن کی تصنیفات انہی دائروں میں گھومتی ہیں ،کتب رجال میں سے کسی میں بھی اس کے مسلکا شیعہ یا اعاظم علمائے شیعہ کے طور پر ذکر نہیں ہے۔       

(جاری)


حواشی

 1. الذہبی ،شمس الدین احمد بن محمد،سیر اعلام النبلاء ،بیروت ،موسسۃ الرسالۃ ۱۴۰۳ھ،ج۱۴ص۲۷۷

 2. الجزری ،ابن الا ثیر ،محمد بن محمد بن عبد الکریم ،الکامل فی التاریخ ،بیروت ،دار الکتب العلمیہ ۱۴۰۷ھ،ج۷ص۹

3.  سیر اعلام النبلاء ، ج۱۴ص۲۷۷

4. الحموی ،یاقوت شہاب الدین ابو عبد للہ ،معجم الادباء ،بیروت ،دارا لغرب الاسلامی ۱۴۱۴ھ،ج۶ص۲۴۴۱

5. الذہبی ،شمس الدین احمد بن محمد ،میزان الاعتدال،بیروت ،دار المعرفۃ ۱۳۸۲ھ،ج۳ص۴۹۹

6. العسقلانی ،ابن حجر ،احمد بن علی ،لسان المیزان ،بیروت ،دالبشائر الاسلامیہ ۱۴۲۳ھ،ج۷،ص۲۵

7. سیر اعلام النبلاء ، ج۱۷ص۲۰۱

8.  لسان المیزان ، ج۷،ص۲۵

9.  سیر اعلام النبلاء ، ج۱۶ص۵۲۶

10. ابن خلکان ،ابو العباس احمد بن محمد ،وفیا ت الاعیان ،بیروت ،دار صادر ،ج۴ص۴۰۰

11. السمعانی ،ابو سعد ،عبد الکریم بن محمد،الانساب ،حیدر آباد،دائرۃ المعارف العثمانیہ ۱۳۸۲ھ،ج۵ص۲۱۳

12.  الحموی ، معجم الادباء ، ج۶ص۲۵۴۳

13. المنصوری ،ابو طیب ،نائف بن صلاح،الروض الباسم فی تراجم شیوخ الحاکم ،ریاض، دالعاصمۃ۱۴۳۱ھ،ج۲ص۱۰۵۰

14.  الحموی ، معجم الادباء ، ج۶ص۲۵۴۳

15.  لسان المیزان ، ج۷ص۲۵

16. الاندلسی ،ابوحیان ،محمد بن یوسف ،البحر المحیط ،بیروت ،دارلکتب العلمیہ ۱۴۱۳ھ،ج۱ص۱۴۴

17. الطوسی ،شیخ الطائفۃ ،ابو جعفر ،محمد بن حسن ،التبیان فی تفیسر القرآن ،بیروت ،دار احیاء التراث العربی ،ج۱ص۱۲۲

18.  لسان المیزان ، ج۷،ص۲۵

19.  سیر اعلام النبلاء ، ج۱۴ص۲۸۲

20.  میزان الاعتدال، ج۳ص۴۹۹

21.  لسان المیزان ، ج۷ص۲۹

22. الامین ،محمد محسن،اعیان الشیعہ ،بیروت ،دار التعارف للمطبوعات ،۱۴۱۹ھ،ج۳ص۴۳

23.  لسان المیزان ، ج۱ص۲۳۳

24.  الحموی ، معجم الادباء ، ج۴ص۱۸۱۲

25. ابن ندیم ،ابو الفرج ،محمد بن اسحاق،الفہرست ،بیروت،دار المعرفۃ ۱۳۹۸ھ،ص۸۹

26. ایضا،ص۵۲

27. البغدادی ،الخطیب ،ابو بکر احمد بن علی ،تاریخ مدینۃ السلام ،بیروت ،دار الکتب العلمیہ ۱۴۲۵ھ،ج۵ص۲۳۳

28.  الحموی ، معجم الادباء ، ج۱ص۴۵۷

29. طباطبائی ،بحر العلوم ،سید مہدی ،الفوائد الرجالیہ ،طہران ،مکبتۃ الصادق ۱۳۶۳ھ،ج۴ص۱۲۱

امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

1۔ تعارف

جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب "برہان" میں تصوف کے موضوع کو تختہ مشق بناتے ہوئے اکابر صوفیاء کرام بشمول امام غزالی پر ضلالت اور کفریہ و شرکیہ  نظریات فروغ دینے کے فتوے جاری فرمائے ہیں۔ نیز ان کے مطابق حضرات صوفیاء کرام نے خدا کے دین کے مقابلے میں  ایک متوازی دین قائم کیا۔  اپنے مضمون کا آغاز وہ یہاں سے کرتے ہیں:

"ہمارے خانقاہی نظام کی بنیاد جس دین پر رکھی گئی ہے، اُس کے لیے ہمارے ہاں ’تصوف‘ کی اصطلاح رائج ہے۔ یہ اُس دین کے اصول و مبادی سے بالکل مختلف ایک متوازی دین ہے جس کی دعوت قرآن مجید نے بنی آدم کو دی ہے" (برہان: ص 181)

غامدی صاحب کے مطابق اکابر صوفیاء کرام نے توحید و نبوت جیسی بنیادی تعلیمات میں قرآن و سنت سے انحرافات کئے ہیں اور یہ انحرافات اس کائنات  کی بدترین ضلالت ہیں جس کا شکار اکابر علماء اور صوفیاء ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ صوفیاء نے توحید کے جن  درجات کا ذکر کیا ہے وہ قرآن و سنت میں کہیں مذکور نہیں اور یہ سب کچھ صوفیاء کی اپنے طرف سے بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ انبیاء اور قرآن کی توحید بس اتنی اور وہی ہے جو انہوں نے اپنے اس مضمون کے چند صفحات میں بیان کی ہے ، اس کے سواء سب کچھ ضلالت ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے امام غزالی کی بعض عبارات کا حوالہ دے کر انہیں بھی اس گمراہ گروہ میں شمار کیا ہے جنہوں نے خدا کے دین کے مقابلے میں متوازی دین قائم کیا،  العیاذ باللہ۔

اس تحریر کا مقصد غامدی صاحب کے مضمون کے اس حصے کا جائزہ لینا ہے جس میں وہ توحید کے مباحث میں امام غزالی اور دیگر صوفیاء کی تضلیل کرتے ہیں۔ غامدی صاحب کی تحریر و تقریر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ نہایت وثوق اور قطعیت کے ساتھ ایک دعوی کردیتے ہیں (کہ "شریعت بس یہی ہے"، "اس بارے میں دوسری رائے ہے ہی نہیں")تاکہ قاری اور سامع ان کے دعوے کی قطعیت سے مرعوب ہوکر ان کے دعوے کو "معیار حق" فرض کرلے اور یہ پوچھنا بھول کر کہ آخر اس دعوے کی دلیل کیا ہے، مدمقابل سے سوال کرنے لگے کہ تم دلیل لاؤ اور جواب دو۔ اپنے اسی مضمون میں نبوت کی بحث کے اندر وہ اپنی طرف سے ختم نبوت کا ایک مفہوم مقرر کرکے پھر دوسروں کی تضلیل و تکفیر شروع کردیتے ہیں  لیکن اگر ان کے اس مفروضہ دعوے کی دلیل کا جائزہ لیا جائے کہ ختم نبوت کا معنی یہ ہے کہ اب ہر قسم کے کشف و الہام کا امکان ختم ہوچکا، تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے استدلال کی پوری عمارت ریت کی بنیاد پر استوار کی تھی۔ یہی حال مسئلہ توحید کے باب میں بھی ہے کہ انہوں نے نہایت قطعیت کے ساتھ اپنی طرف سے توحید کا ایک مفہوم متعین کرکے کہنا شروع کردیا کہ "قرآن کی توحید بس یہی ہے" اور صوفیاء نے جو کچھ کہا ہے وہ ان کی اپنی طرف سے بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ بہت سے لوگ ان کے اس قطعی دعوے کا شکار ہوکر صوفیاء اور ان کے مداحین سے پوچھنے لگتے ہیں کہ " بتائیے آپ نے قرآن کے خلاف یہ باتیں کہاں سے اور کیوں بنائی ہیں؟" ایک عام مسلمان جس نے نہ کبھی امام غزالی کو پڑھا ہو اور نہ ہی دیگر علماء و صوفیاء کو اور نہ ہی وہ اس کی صلاحت رکھتا ہے ، اس شور شرابے سے وہ یہ تاثر لیتا ہے کہ ممکن ہے ان صوفیاء نے واقعی کچھ کفریہ  باتیں کی ہوں گی، جبکہ یہ الزام لگانے والے صاحب ایک "معروف دینی سکالر  "بھی ہوں اور مختلف ٹی وی چینلز پر خوشنما گفتگو بھی فرماتے ہوں! اس تحریر میں ہم دکھائیں گے کہ ان کا وہ تصور توحید ہی ناقص و باطل ہے جسے قرآن کی مکمل توحید قرار دے کر انہوں نے اکابر صوفیاء کرام پر آخری درجے کی فتوی بازی کی ہے اور جسے بنیاد بنا کر  غامدی صاحب کے مقلدین و متاثرین کا ایک طبقہ امت مسلمہ کی توحید کو کفر و شرک  سمجھتا  ہے۔

2۔ غامدی صاحب کی توحید اور ان کے اعتراضات

"غامدی صاحب کی توحید" کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کو الہ مانا جائے جو ایسی صفات سے متصف اور عیوب سے پاک ہے جسے عقل و شرع مانتی ہے (ان کی تفصیلات کیا ہیں، غامدی صاحب اسے ذکر نہیں کرتے اور اسی میں ساری کہانی مضمر ہے جیسا کہ آگے بیان ہوگا)۔ "الٰہ" کا مطلب ان کے نزدیک عربی زبان کی رو سے ایک ہستی ہے جسے اسباب و علل سے ماورائے امور و تصرف مانا جائے (برہان: 181)۔ ان کے خیال میں قرآن کی توحید بس یہی ہے اور انبیاء صرف یہی توحید لے کر آئے ۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ صوفیاء کرام انبیاء کی  (یعنی غامدی صاحب  کی بیان کردہ) توحید کو عام لوگوں کی توحید اور اس کا ابتدائیہ کہتے ہیں اور اس کے علاوہ پھر انہوں نے اپنی طرف سے توحید کے کچھ درجات بنا لئے ہیں۔ یہاں ان کی تحریر سے کچھ حوالے پیش کردینا فائدے سے خالی نہیں ہوگا۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ یہ عبارت لاتے ہیں:

"التوحید علی ثلاثۃ أوجہ: الوجہ الأوّل: توحید العامۃ وھو الذي یصح بالشواھد، والوجہ الثاني: توحید الخاصۃ وھو الذي یثبت بالحقائق، والوجہ الثالث: توحید قائم بالقدم وھو توحید خاصۃ الخاصۃ. فأما التوحید الأول فھو شھادۃ أن لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، الأحد الصمد الذي لم یلد ولم یولد، ولم یکن لہ کفوًا أحد.

توحید کے تین درجے ہیں: پہلا درجہ عوام کی توحید کا ہے، یہ وہ توحید ہے جس کی صحت دلائل پر مبنی ہے۔ دوسرا درجہ خواص کی توحید کا ہے، یہ حقائق سے ثابت ہوتی ہے۔ توحید کا تیسرا درجہ وہ ہے جس میں وہ ذات قدیم ہی کے ساتھ قائم ہے،  یہ اخص الخواص کی توحید ہے۔ اب جہاں تک عوام کی توحید کا تعلق ہے تو وہ بس یہ ہے کہ اِس بات کی گواہی دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، صرف وہی الٰہ ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں، وہ یکتا ہے، سب کا سہارا ہے، وہ نہ باپ ہے، نہ بیٹا اور نہ اُس کا کوئی ہم سر ہے۔1

اپنی اِس توحید کی وضاحت میں، جسے اُنھوں نے ’قائم بالقدم‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

إنہ إسقاط الحدث وإثبات القدم.

یہ حادث کی نفی اور قدیم کا اثبات ہے۔“   (برھان: ص 184)

اس کے بعد غامدی صاحب کہتے ہیں کہ "یہی بات غزالی  نے لکھی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

والرابعۃ: أن لا یری في الوجود إلا واحدًا وھي مشاھدۃ الصدیقین و تسمیہ الصوفیۃ الفناء في التوحید، لأنہ من حیث لا یری إلا واحدًا فلا یری نفسہ أیضًا وإذا لم یر نفسہ لکونہ مستغرقًا بالتوحید، کان فانیًا عن نفسہ في توحیدہ بمعنی أنہ فنی عن رؤیۃ نفسہ والخلق.

”توحید کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ بندہ صرف ذات باری ہی کو موجود دیکھے۔ یہی صد یقین کا مشاہدہ ہے اور صوفیہ اِسے ہی فنا فی التوحید کہتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس مرتبہ میں بندہ چونکہ وجود واحد کے سوا کچھ نہیں دیکھتا، چنانچہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا۔ اور جب وہ توحید میں اس استغراق کے باعث اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا تو اُس کی ذات اِس توحید میں فنا ہو جاتی ہے، یعنی اِس مرتبہ میں اُس کا نفس اور مخلوق، دونوں اُس کی نگاہوں کے لیے معدوم ہو جاتے ہیں۔“ (برہان: 185)

اس کے بعد وہ شیخ ابن عربی سمیت چند مزید صوفیاء کی اسی قسم کے عبارات پیش کرتے ہیں جن سب کی طرف ملتفت ہونا یہاں مقصود نہیں، آخر میں پھر امام غزالی کی عبارت پیش کرکے کہتے ہیں:   

"غزالی نے لکھا ہے:

فاعلم أن ھذہ غایۃ علوم المکاشفات وأسرار ھذا العلم لا یجوز أن تسطر في کتاب، فقد قال العارفون: إفشاء سر الربوبیۃ کفر.

پس جاننا چاہیے کہ علوم مکاشفات کی اصل غایت یہی توحید ہے اور اِس علم کے اسرار کسی کتاب میں لکھے نہیں جا سکتے، اِس لیے کہ حدیث عارفاں ہے کہ سرربوبیت کو فاش کرنا کفر ہے۔“ (برہان: ص 192)

غامدی صاحب ان حوالہ جات سے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ صوفیاء نے توحید کے جو درجات بیان کئے ہیں انبیاء کی توحید میں ان کا کہیں ذکر نہیں، یہ گویا انہوں نے اپنی طرف سے بنا لئے ہیں۔نیز  صوفیاء کا یہ کہنا کہ ایک توحید عام لوگو ں کی توحید ہے  اور ایک خاص کی ، یہ انبیاء کی توحید کی ( یعنی جو غامدی صاحب نے بیان کی) کے ماسواء ہے  ۔ چنانچہ غامدی صاحب کہتے ہیں:  

"قرآن کی رو سے توحید بس یہ ہے کہ الٰہ صرف اللہ کو مانا جائے جو اُن تمام صفات کمال سے متصف اور عیوب و نقائص سے منزہ ہے جنہیں عقل مانتی اور جن کی وضاحت خود اللہ پروردگار عالم نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے کی ہے۔ ’الٰہ‘ کا لفظ عربی زبان میں اُس ہستی کے لیے بولا جاتا ہے جس کے لیے کسی نہ کسی درجے میں اسباب و علل سے ماورا امر و تصرف ثابت کیا جائے۔ قرآن مجید کے نزدیک کوئی ایسی صفت یا حق بھی اگر کسی کے لیے تسلیم کیا جائے جو اِس امرو تصرف ہی کی بنا پر حاصل ہو سکتا ہو تو یہ درحقیقت اُسے ’الٰہ‘ بنانا ہے۔۔۔۔ یہی توحید ہے جس پر اللہ کا دین قائم ہوا۔ یہی اُس دین کی ابتدا، یہی انتہا اور یہی باطن و ظاہر ہے۔ اِسی کی دعوت اللہ کے نبیوں نے دی۔ ابراہیم و موسیٰ، یوحنا و مسیح اور نبی عربی اِن پر اللہ کی رحمتیں ہوں سب اِسی کی منادی کرتے ہیں۔ تمام الہامی کتابیں اِسے ہی لے کر نازل ہوئیں۔ اِس سے اوپر توحید کا کوئی درجہ نہیں ہے جسے انسان اِس دنیا میں حاصل کرنے کی سعی کرے۔ قرآن مجید نے شروع سے آخر تک اِسے ہی بیان کیا ہے ۔۔۔۔۔ اہل تصوف کے دین میں یہ توحید کا پہلا درجہ ہے۔ وہ اِسے عامۃ الناس کی توحید قرار دیتے ہیں۔ توحید کے مضمون میں اِس کی اہمیت، اُن کے نزدیک، تمہید سے زیادہ نہیں ہے  (برہان: ص 181) "

ان کے مطابق صوفیاء اور امام غزالی کا یہ کہنا کہ توحید کا آخری درجہ یہ ہے کہ وجود دراصل ایک ہے (جسے اصطلاحا "توحید وجودی" کہتے ہیں)  یہ کفر و شرک اور گمراہی ہے نیز یہ وہی نظریہ ہے جو شرکیہ مذاہب کے لوگوں کا نظریہ ہے:

"توحید کے باب میں یہی نقطہ نظر اپنشدوں کے شارح شری شنکر اچاریہ، شری رام نوج اچاریہ، حکیم فلوطین اور اسپنوزا کا ہے۔ مغرب کے حکما میں سے لائبنز، فحتے، ہیگل، شوپن ہاور اور بریڈلے بھی اِسی سے متاثر ہیں۔ اِن میں سے شری شنکر، فلوطین اور اسپنوزا وجودی اور رام نوج اچاریہ شہودی ہیں۔ گیتا میں شری کرشن نے بھی یہی تعلیم دی ہے۔ اپنشد، برہم سوتر، گیتا اور فصوص الحکم کو اِس دین میں وہی حیثیت حاصل ہے جو نبیوں کے دین میں تورات، زبو ر، انجیل اور قرآن کو حاصل ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو اللہ کی ہدایت، یعنی اسلام کے مقابلے میں تصوف وہ عالم گیر ضلالت ہے جس نے دنیا کے ذہین ترین لوگوں کو متاثر کیا ہے"۔  (برہان: ص 192)

اس عالمگیر ضلالت کا شکار ہونے والے اور  مسلمانوں کو اس کی طرف دعوت دینے والے لوگوں میں  سے چند اہم لوگوں کے نام یہ ہیں:

امام ابو حامد الغزالی (م 505 /1111 )،  شیخ عبد القادر جیلانی (م 1166)، شیخ ابن عربی (م1240)، مجدد الف ثانی  شیخ احمد سرہندی  (م 1624) اور  شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی (م 1762)  

اس فہرست پر نظر دوڑانے سے اندازہ ہوتا ہے گویا اسلامی تاریخ میں جن حضرات کو مشائخ اور آئمہ کی حیثیت حاصل رہی ہے انہیں یہ تک معلو م نہیں تھا کہ توحید کیا ہوتی ہے نیز یہ لوگ مسلمانوں کو کفار و مشرکین کے عقائد کی تعلیمات دیتے رہے یہاں تک کہ  اللہ کے دین کے مقابلے میں ایک متوازی دین کھڑا کرکے دنیا سے رخصت ہوئے، العیاذ باللہ۔

2.1۔مضمون کے لئے امام غزالی کے تعین کی وجوہات

اس مضمون میں امام غزالی کے درجات توحید کی روشنی میں غامدی صاحب کے ان اعترضات کا جواب دیا جائے گا  نیز دکھایا جائے گا کہ امام غزالی جب توحید کے درجوں کی بات کرتے ہیں تو اس میں ایسی کوئی بات نہیں جو قرآن و سنت کے خلاف تو کجا اس سے زائد بھی ہو۔ تحریر میں معین طور پر امام غزالی کے خیالات پر اس لئے گفتگو کی جائے گی کہ یہ طریقہ تحقیق ہی غلط ہے کہ متنوع الخیال اور نظریات رکھنے والے لوگوں کی باتوں کو جمع کرکے ایک کہانی بنائی جائے جیساکہ غامدی صاحب نے اپنے مضمون میں کیا ہے۔ انہوں نے توحید وجودی کے مختلف تصورات کے حامل صوفیاء کو بری طرح سے خلط ملط کیا ہے اور پھر آخر میں انہیں غیر مسلم و مشرک   لوگوں کے نظریات کے ساتھ بھی ملا دیا ہے۔ چنانچہ امام غزالی ہوں یا ابن عربی، دونوں کے اپنے الگ نظام فکر ہیں اور دونوں پر گفتگو کے لئے الگ پیرائے کی ضرورت ہے۔ اس  لئے ہم ایک متعین شخصیت پر گفتگو کریں گے، اگرچہ اس گفتگو سے صوفیاء پر ان کے اکثر و بیشتر اعتراضات رفع ہوجائیں گے۔ اس مقصد کے لئے امام غزالی کے انتخاب کی وجوہات درج ذیل ہیں:

    1. ان تمام اہل علم و مشائخ صوفیاء میں امام غزالی کا علمی مرتبہ و مقام سب سے بلند ہے۔ مضمون سے واضح ہوگا کہ جو شخص اس طبقہ صوفیاء  کے سب سے بڑے عالم کی گفتگو سمجھنے میں ایسی فاش غلطی کرتا ہو ، دیگر لوگوں کے بارے میں اس کی تحقیق اور فہم کا عالم کیا ہوگا۔ جو شخص امام صاحب کو  سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ ان سے بعد آنے والے صوفیاء کی گفتگو سمجھنے سے عاجز رہتا ہے

    2.  امام صاحب کے تعین کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ بلند مرتبہ فقیہہ و متکلم بھی تھے نیز ان کے یہاں چاروں درجات توحید کی نکھری ہوئی، مربوط اور صریح  گفتگو ملتی ہے

    3. کسی بھی فن کے مباحث کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس فن کے ماہرین و علماء او رچوٹی کے نمائندگان کے کلام کی رعایت کی جائے تاکہ اس فن کے دیگر علماء و عاملین کی بات کا درست تناظر واضح رہے۔ امام غزالی اس معاملے میں دوہری حیثیت رکھتے ہیں، ایک طرف وہ اپنے سے ماقبل تصوف کی علمی روایت سمجھنے کے لئے ایک معیاری فریم ورک فراہم کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے بعد آنے والے حضرات صوفیاء کرام ان کے نظریات سے متاثر تھے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی ہوں یا شیخ ابن عربی ہوں ، سب کسی نہ کسی طور پر امام غزالی کے نظریات سے متاثر ہیں۔ چنانچہ مباحث تصوف میں امام صاحب کا مقام اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہیں کہ انہوں نے تصوف کی عملی روایت کو علمی روایت میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان کے بعد آنے والے کسی بھی صوفی کی گفتگو سمجھنے  کے لئے امام صاحب کی گفتگو  ابتدائیے کی حیثیت رکھتا ہے   ۔

    4. چوتھی بات یہ کہ مجھے ذاتی طور پر امام غزالی کے ساتھ ایک قلبی لگاؤ ہے اور غامدی صاحب نے اپنے سوء فہم  کی بنا پر ان کے بارے میں جس طرز کی فتوی بازی کررکھی ہے، اس کا جواب دینا ضروری محسوس ہوتا ہے تاکہ عام لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ پوری اسلامی تاریخ کو حرف غلط قرار دے کر اس پر خط تنسیخ پھیرنے والے میڈیا سکالرز کی علمی بساط کیا ہے۔

پیش نظر موضوع کی پیچیدگیوں کو آسان رکھنے کے لئے ہر درجہ توحید کی وضاحت کے لئے کلیدی سوال قائم کرکے گفتگو کی جائے گی اور آپ دیکھیں گے کہ خود غامدی صاحب بھی ان سوالات کا وہ جواب دئیے بغیر نہ رہ سکیں گے جو دراصل امام غزالی اور صوفیاء کے درجات توحید ہیں۔

2.2۔غامدی صاحب کی توحید پر چند اصولی ملاحظات

امام غزالی کے کلام کی طرف بڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ غامدی صاحب کے تصور توحید کی چند بنیادی غلطیوں کی نشاندہی کردی جائے۔ غامدی صاحب کے نزدیک الہ کی تعریف یہ ہے:

"’الٰہ‘ کا لفظ عربی زبان میں اُس ہستی کے لیے بولا جاتا ہے جس کے لیے کسی نہ کسی درجے میں اسباب و علل سے ماورا امر و تصرف ثابت کیا جائے"  (برہان: ص 181)

الہ کی اس تعریف میں بنیادی قسم کی غلطیاں ہیں:

اس سے واضح ہوتاہے  کہ غامدی صاحب جس چیز کا الزام صوفیاء کو دیتے ہیں کہ وہ قرآن و سنت سے ماوراء توحید کے قائل ہیں، ان کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل وہ خود اس الزام کی زد میں ہیں ۔

3۔ درجات توحید کی تفصیلات

اب درجات توحید کی گفتگو کی طرف متوجہ ہوکر غامدی صاحب کے اعتراضات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

3.1۔ توحید کا پہلا درجہ: اقرار

غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ الہ کا مطلب ایک ہستی کو اسباب سے ماوراء ماننا ہے۔ یہ نہایت ادھوری بات ہے، اس پر پہلا سوال درج ذیل ہے:

پہلا سوال) کسی کو اس معنی میں الہ "ماننے" سے کیا مراد ہے؟ صرف زبان سے اقرار کرلینا یا دل سے تصدیق بھی کرنا؟ اور کیا زبان سے اقرار کرتے رھنا انسان کو دنیاوی معاملات کے اعتبار سے کوئی فائدہ دے سکتا ہے؟ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص زبان سے تو اس توحید کا اقرار کرتا ہو لیکن دل سے اسے نہ مانتا ہو تو بھی اسلامی قانون کی رو سے اسے مسلمان مانا جائے گا؟ کیا اسے وہ حقوق حاصل ہونگے جو اللہ کے رسول کی شریعت ایک مسلمان کے لئے مقرر کرتی ہے؟

اہل سنت والجماعت کے نزدیک اس سوال کا جواب   یہ ہے کہ قانون کی نظر میں مسلمان کہلانے کے لئے اتنا کافی ہے  کہ ایک شخص زبان سے توحید کا اقرار کرلے، اگرچہ ممکنہ طور پر اس کا دل اس کی تصدیق سے خالی ہو کیونکہ دل کے مخفی حالات کی بنا پر شریعت کے فیصلے جاری نہیں ہوتے۔ تو مطلب یہ ہوا کہ زبان سے توحید کا ایسا اقرار بھی کسی نہ کسی درجے میں از روئے شرع فائدہ مند ہے، اگرچہ آخرت میں وہ کام نہ آئے گا۔ یعنی ایسی توحید کا اقرار ایک شخص کو دنیاوی قانون کے لحاظ سے مسلمان ہی بنائے گا، اگرچہ وہ منافق ہی ہو۔

پہلا درجہ: منافق کی توحید: امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم جلد چہارم کتاب توکل میں توحید کے چار درجات کی تفصیلات کے مطابق توحید کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان صرف زبان سے اس کا اقرار کرنے والا ہو۔ چنانچہ امام صاحب کہتے ہیں:

فالرتبة الأولی من التوحيد ھي أن يقول الإنسان بلسانہ لا إلہ إلا اللہ وقلبہ غافل عنہ أو منكر لہ كتوحيد المنافقين (احیاء العلوم: 1604)

"توحید کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ انسان زبان سے یہ اقرار کرلے کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اگرچہ اس کا قلب اس سے غافل یا منکر ہی ہو، جیسا کہ منافقین کی توحید کا حال ہوتا ہے"

توحید کا یہ اقرار انسان کو عیسائیوں کی تثلیث والی توحید سے ممیز بنا دیتا ہے:

لا الہ الا اللہ وھذا یسمی توحیدا مناقضا للتثلیث الذی صرح بہ النصاری (احیاء العلوم ص 43)

"لا الہ الا اللہ کا اقرار، یہ وہ توحید ہے  جو نصاری کے عقیدہ تثلیث کو رد کرنے والی ہے "

امام غزالی کہتے ہیں کہ ایسی توحید اخروٹ کے بیرونی چھلکے جیسی ہے جو صرف دیکھنے میں خوشنما ہوتی ہے لیکن کھانے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کڑوا ہے اور اسے پھینک دیا جاتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے دنیاوی قانون کے اعتبار سے یہ شخص ہی مسلمان ہی کہلاتا ہے اگرچہ آخرت میں اسے یہ توحید کام نہیں آئے گی۔ اسے "منافق کی توحید" کا درجہ کہتے ہیں اور ظاہر ہے اس درجے کی تفصیل سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہوسکتا۔ کیا توحید کا یہ درجہ قرآن و سنت کے مطابق مراد لیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ ہر مسلمان جانتا ہے کہ توحید کا یہ درجہ بھی اللہ کے رسولﷺ کی شریعت کا حصہ ہے لیکن توحید پر ایمان اس سے کچھ زیادہ کا بھی تقاضا کرتا ہے، جو دراصل اس کے اگلے درجات ہیں۔

تو واضح ہوا کہ امام غزالی  جسے توحید کا پہلا درجہ کہتے ہیں یہ دراصل ایک فقیہہ یا قانون دان کی دلچسپی کا سامان ہے جسے یہ طے کرنا ہے کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر، کون اسلامی حقوق و فرائض کا اہل ہے اور کون نہیں۔ اس کے لئے معیار "زبان سے اقرار کرلینا" ہے، اگرچہ دل ممکنہ طور پر اس سے خالی ہی ہو کیونکہ کسی کے دل میں جھانک کر یہ فیصلے کرنے کا شرع نے حکم نہیں دیا کہ 'کون مومن ہے اور کون کافر'۔

غامدی صاحب چونکہ قانون و فقہ کی باریکی میں نہیں اتر سکے اس لئے انہوں نے توحید کے درجات کی گفتگو سمجھنے میں ابتداء ہی سے ٹھوکر کھائی لیکن امام غزالی صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ فقیہ بھی ہیں اور وہ اپنی گفتگو میں اس کا پورا لحاظ رکھتے ہیں۔ اگر غامدی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ توحید کا بس ایک ہی درجہ  وپہلو ہے تو کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ کے نبیوں نے جس توحید کی دعوت دی وہ بس اسی قدر مان لینا تھا جو منافق کی توحید کا درجہ ہے؟

3.2۔توحید کا دوسرا درجہ: تصدیق

اب کچھ آگے بڑھتے ہیں، غامدی صاحب کی توحید یہ ہے کہ خدا کو اسباب سے ماوراء مانا جائے۔ اس پر دوسرا سوال ذہن میں آتا ہے:

دوسرا سوال)  کیا خدا کی توحید کے اس کے علاوہ بھی کچھ تقاضے ہیں یا صرف اسےاسباب سے ماوراء مان لینا ہی کافی ہے؟ کیا خدا کے بارے میں درج ذیل تصورات رکھے جاسکتے ہیں؟

یہ فہرست خاصی طویل ہے، ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء کی توحید کا موضوع ان سب امور کی تفصیلات ہیں یا نہیں، یعنی کیا توحید کے اقرار میں یہ بات شامل ہے یا نہیں کہ آیا خدا ان امور سے ماوراء ہے یا ان سے متصف؟ ظاہر ہے جواب اثبات میں ہے کہ جی ہاں انبیاء جو توحید لے کر آئے اور قرآن و سنت جس توحید کی بات کرتے ہیں یہ سب امور اس توحید کا موضوع ہیں۔

دوسرا درجہ: متکلمین کی توحید: امام غزالی نے توحید کے جن چار درجات کا ذکر کیا ہے اس کا دوسرا درجہ ان تفصیلات سے متعلق ہے جسے امام غزالی متکلمین کی دلچسپی کا موضوع کہتے ہیں، یعنی وہ امور جن پر متکلمین عقلی دلائل قائم کرتے ہیں نیز جن پر وارد ہونے والے شبہات سے وہ بحث کرتے ہیں۔ یہ دراصل وہ شخص ہوتا ہے جو زبان کے ساتھ ساتھ دل سے بھی توحید کی تصدیق کرتا ہے، عقیدہ اسلام کو برحق سمجھتا ہے، اس کی عقل عقیدہ توحید کے باب میں اس کی ذات و صفات کی تنزیہہ کی درست تفصیلات سے سرشار ہوتی ہے اور وہ مدافعین اسلام کے ساتھ مقابلہ بھی کرتا ہے۔ ایسا شخص اگر اپنے اس ایمان پر دنیا سے رخصت ہوگا تو اس کا یہ ایمان اسے دائمی عذاب سے بچانے والا ہوگا۔ چونکہ اس شخص کا توحیدی عرفان صرف دماغی عقلیت کی سطح پر موجود ایک منطقی عقیدے کی سطح  کی چیز ہوتی ہے، احساس کی سطح منتقل ہوئے بغیر یہ توحید ایک قلبی گراوٹ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس شخص کو ایمان کی وہ اصل حلاوت میسر نہیں ہوتی جو خدا کو بندے کے ہر عمل کا اصل مقصود بنا دے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

والثانيۃ أن يصدق بمعنی اللفظ قلبہ كما صدق بہ عموم المسلمين وھو اعتقاد العوام (احیاء العلوم: 1643)

"اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ قلب زبان پر جاری الفاظ کے معنی کی تصدیق تصدیق کرے ، یہ عوام الناس  کا عام اعتقاد ہے"۔

 اسی بات کو وہ یوں کہتے ہیں:

وأما الثاني وھو الاعتقاد فھو موجود في عموم المسلمين وطريق تأكيدہ بالكلام ودفع حيل المبتدعۃ فيہ مذكور في علم الكلام وقد ذكرنا في كتاب الاقتصاد في الاعتقاد القدر المھم منہ (احیاء العلوم: 43)

"توحید کا دوسرا درجہ وہ اعتقاد ہے جو عامۃ  المسلین کے یہاں موجود ہے اور اس درجہ توحید کو  موکد کرنے نیز بدعتی گروہوں سے اسے محفوظ کرنے کے طریقے علم کلام میں مذکور ہیں، اور اس کی اہم تفصیلات میں نے اپنی کتاب الاقتصاد فی الااعتقاد میں بیان کردی ہیں"  

توحید کے اس دوسرے درجے  کا حامل کس کیفیت سے دوچار ہوتا نیز اس کا حکم کیا ہوتا ہے، اس کا نقشہ وہ کچھ یوں کھینچتے ہیں:

والثاني موحد بمعنی أنہ معتقد بقلبہ مفھوم لفظہ وقلبہ خال عن التكذيب بما انعقد عليہ قلبہ وھو عقدۃ علی القلب ليس فيہ انشراح وانفساح ولكنہ يحفظ صاحبہ من العذاب في الآخرۃ إن توفی عليہ ولم تضعف بالمعاصي عقدتہ (احیاء العلوم: 1643)

"دوسرے درجے کے موحد  کا قلب  اس کی زبان پر جاری الفاظ کو جھٹلاتا تو نہیں ہے لیکن اس کے قلب کو اس پر انشراح نہیں ہوتا (یعنی وہ اس کے حقیقی معنی کی حلاوت سے واقف نہیں ہوتا)، البتہ توحید کا یہ اقرار اس شخص کو اخروی عذاب سے بچانے والا ہے اگر اس ایمان پر اس کا خاتمہ ہوجائے نیز وہ گناہوں سے بھی بچتا رہے  "

امام صاحب اسے "عام لوگوں کی توحید" بھی کہتے ہیں کیونکہ عام آدمی سے جب توحید کا اقرار کروایا جاتا ہے تو انہی امور کو عقیدے کے طور پر اس کے سامنے رکھا جاتا ہے تاکہ وہ عقیدے کی گمراہی سے بچ رہے (اگرچہ عملا وہ  گنہگار و فاسق ہی ہو)۔ وہ کہتے ہیں کہ توحید کی یہ تفصیلات میں نے اپنی کتاب "الاقتصاد فی الاعتقاد" میں بیان کی ہیں (بلکہ احیاء العلوم کی جلد اول میں بھی یہ بحثیں موجود ہیں)۔ الاقتصاد میں امام غزالی نے تفصیل کے ساتھ جس توحید کا ذکر کیا ہے اس کا موضوع اللہ کی ذات اور صفات کے بارے میں درست عقلی تصورات قائم کرلینا ہےجن کی مثالیں اوپر پیان کی گئیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ الاقتصاد میں امام صاحب توحید کے جن مباحث کو  زیر بحث لائے ہیں ان کی فہرست پر نظر دوڑا لی جائے تاکہ اندازہ ہے کہ اس کا موضوع کیا ہے۔ چنانچہ اس کتاب  میں توحید سے متعلق درج ذیل امور کو ثابت کرنے کے عقلی دلائل دئیے گئے ہیں:

اس فہرست سے واضح ہوتا ہے کہ جسے امام غزالی متکلمین کی توحید کہتے ہیں اس سے ان کی مراد ذات اور صفات باری تعالی سے متعلق درست عقیدے کی وضاحت کرنا ہے۔ سوال یہ ہےکہ انبیاء نے جو توحید بیان کی اور قرآن و سنت جس توحید سے بحث کرتے ہیں کیا اس میں یہ سب تفصیلات شامل ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو گویا مطلب یہ ہوا کہ معاذ اللہ انبیاء صرف منافقین کی توحید بیان کرنے آئے تھے اور یا پھر یہ کہ اللہ کے بارے میں درج بالا امور میں جو بھی تصور قائم کرلیا جائے، انبیاء اور قرآن و سنت کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ظاہر یہ جواب خود غامدی صاحب کو بھی قبول نہیں ہوسکتا۔ معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ بھی انبیاء اور قرآن ہی کی توحید ہے وہ اور بات ہے کہ صوفیاء پر تنقید کرنے کے لئے غامدی صاحب نے اس کا ذکر نہیں کیا اور توحید کے ایک نہایت محدود تصور کو مکمل قرآنی معیار قرار دے کر صوفیاء پر فتووں کی پوچھاڑ کر ڈالی۔ غامدی صاحب کا دعوی ہے کہ ان کی توحید کے علاوہ توحید کا کوئی درجہ قرآن میں مذکور نہیں جبکہ اب تک کی گفتگو سے واضح ہوگیا کہ ان کا تصور توحید ناقص ہے اور ناقص کو بنیاد بنا کر کامل کو نہیں تولا جاسکتا۔

توحید کے جو دو پہلو یا درجات اب تک بیان ہوئے ان کے مابین باہمی تعلق یہ ہے کہ پہلا درجہ اس سوال کا جواب ہے کہ "کس درجے کے دعوی ایمانی کا ظہور ایمان کے لئے کفایت کرسکتا ہے"، اس کا جواب ہے زبان سے اقرار کرلینا۔ دوسرا درجہ اس سوال سے متعلق ہے کہ "زبان سے جس چیز کا اقرار کرنا ہے اس کی تفصیلات کیا ہیں"، تو متکلمین وہ توحید بیان کرتے ہیں جس کا اجراء خاص و عام کی زبانوں پر ہوتا ہے، یہ توحید ذات و صفات باری تعالی کی تنزیہ و تقدیس سے متعلق ہے جس کا بلند ترین اظہار سورہ اخلاص میں ہوا (امام رازی نے اپنی کتاب "تاسیس التقدیس" میں تفصیلا ثابت کیا ہے کہ خدا کی ذات و صفات کی تنزیہ کے تقاضے سورہ اخلاص میں بیان ہوئے ہیں)۔ چونکہ توحید کے اس درجے کا تقاضا قانون شریعت کی رو سے ہر کسی سے ہے، یعنی ہر مسلمان پر زبان سے ان کا اقرار لازم ہے، لہذا صوفیاء اور امام غزالی اسے عام لوگوں (masses) کی توحید کہہ دیتے ہیں، یعنی وہ توحید جو ہر کسی سے متعلق ہے اور جو سورہ اخلاص کا موضوع ہے۔ لہذا توحید کی ان تفصیلات کو "عام لوگوں کی توحید" کہنا، یہ ایک درست اور عین احکامات شریعت کی ترتیب کے مطابق بات ہے۔

3.3۔توحید کا تیسرا درجہ: حال

درج بالا تفصیلات کے بعد ایک تیسرا سوال پیدا ہوتا ہے:

تیسرا سوال) کیا توحید کے تقاضے خدا کی ذات و صفات کی تنزیہہ زبان پر جاری ہونے پر ختم ہوجاتے ہیں؟ پوری قلبی یکسوئی کے ساتھ خدا کے احکامات پر عمل پیرا رہنا، اس میں کمی نہ آنے دینا، اس عمل کے دوران ہر قسم کی آزمائش پر صبر کرنا، ہر عمل و تعلق، محبت اور نفرت  یہاں تک کے جینے مرنے کا مطمع نظر بھی خدا کی ذات بن جانا، کیا یہ سب بھی توحی د کے تقاضوں میں شامل ہے یا نہیں؟  کچھ سوالات پر غور کیجئے:

اس قبیل کے سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے، یعنی یہ سب "حقیقتا" ممکن نہیں ہے اور فسق و فجور کی حالت یہ ظاہر کرتی ہے کہ توحید کا اقرار صرف زبان پر جاری ہے اور جس خدا کو مان لیا گیا ہے وہ ایک "منطقی خدا" ہے لیکن دل نے ابھی ان سب امور کی گواہی نہیں دی۔ علامہ اقبال کہتے ہیں :

خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں 

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شخص جو زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کررہا ہے مگر بے عمل ہے، کیا یہ بھی مسلمان ہے؟ خوارج اس معاملے میں اس قدر آگے چلے گئے کہ انہوں نے گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر کہنا شروع کردیا۔ انہوں نے کہا بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص خدا کو حاضر ناظر اور سزا دینے پر قادر بھی مانے اور پھر اس کی نافرمانی بھی کرے! یہ نافرمانی درحقیقت اپنے حال سے اپنی زبان پر جاری کلمے کی نفی کردینا ہے، ایسا شخص حقیقتا خدا کو مانتا ہی نہیں ہے لہذا یہ کافر ہے۔ اسی لئے ان کے نزدیک احکامات شریعہ پر عمل پیرا ہونا، یہ بھی توحید کا لازمی "قانونی" تقاضا تھا۔ معتزلہ نے کہا کہ ایسا شخص بہرحال مسلمان نہیں ہے اگرچہ ہم اسے کافر نہیں کہیں گے۔ البتہ نصوص میں غور و فکر کے بعد اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اجماع ہوا کہ خدا پر ایمان ہوتے ہوئے بھی صاحب ایمان سے فسق و فجور ممکن الوقوع ہے اور یہ اقرار توحید کے "قانونی تقاضوں" (یعنی توحید کے درجہ متکلمین) کے منافی نہیں، یعنی ایک فاسق و فاجر بھی مسلمان ہی ہوتا ہے۔

اہل سنت والجماعت کے صوفیاء اسی پوزیشن کے قائل ہیں، مگر صوفیاء کا مطمع نظر اس قانونی توحید کے درجے کا حصول نہیں ہے، یہ تو ہر مسلمان کو حاصل ہوتا ہے چاہے بدعمل ہی کیوں نہ ہو۔ ان کا مطمع نظر یہ ہے کہ خدا بندے کی حقیقی (نہ کہ صرف قانونی) طلب بن جائے، وہ اس سے حقیقی محبت کرنے والا ہوجائے، اس کے احکامات کو ذوق و شوق سے اپنا مفاد سمجھنے لگے۔ گویا اس کی زبان پر جاری توحید اس کا حال بن جائے اور دونوں ایک ہی گواہی دیں۔ توحید کے اس درجے کو حاصل کرنے والے شخص کی مراد اللہ کی ذات کے سواء کچھ نہیں رہ جاتی، قرآن مجید میں توحید کی اس حلاوت کا ذکر کچھ یوں ہوتا ہے:  

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (انعام: 162)

"کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العلمین ہی کے لئے ہے "

چنانچہ توحید کا تقاضا یہ بھی ہے کہ میری محبت اور نفرت نیز ہر تعلق کی بنیاد صرف اللہ کی ذات بن جائے، یہ مضمون متعدد احادیث میں بیان ہوا ہے 2 ۔ انسان اس مقام کو کیسے حاصل کرتا ہے؟ توحید کا تیسرا درجہ اسی کا جواب ہے۔

تیسرا درجہ: توحید فی التوکل: امام غزالی کے نزدیک توحید کا تیسرا درجہ خدا پر " توکل" اختیار کرنا ہے۔ یعنی انسان کی نظر اس بات پر رہے کہ ہر شے کا فاعل حقیقی صرف اور صرف خدا کی ذات ہے۔ یہ جو ظاہری اسباب ہیں یہ اس کے حکم کے ماسواء حرکت نہیں کرسکتے۔ اس کی وضاحت امام غزالی یوں کرتے ہیں:

الثالث: وھو اللباب، ان یری الامور کلہا من اللہ تعالی رؤیۃ تقطع التفاتہ عن الوسائط وان یعبدہ عبادۃ یفردہ بھا فلا یعبد غیرہ ویخرج عن ھذہ التوحید اتباع الھواء، فکل متبع الھواء فقد اتخذ ھواہ معبودہ (احیاء العلوم (احیاء العلوم: 43)

"توحید کا جوہر یا مغز یہ ہے کہ تو ہر شے اور معاملے کا منبع و ماخذ اللہ کو دیکھنے لگے اور درمیان کے جتنے واسطے اور ذرائع ہیں یہ (تیری نظر سے) منقطع ہوجائیں اور تو صرف اس ذات کو اپنی عبادت کا مرکز بنا لے۔ اس توحید سے وہ لوگ خارج ہیں جو اپنی خواہشات کی اتباع کرتے ہیں اور خواہشات کی اتباع کرنے والا دراصل اپنے نفس کو اپنا معبود بنا لیتا ہے"

اسی کی وضاحت  وہ  یوں کرتے ہیں:

والثالثۃ: ان یشاھد بطریق الکشف بواسطۃ نور الحق وھو مقام المقربین، وذالک بان یری اشیاء کثیرۃ ولکن یراھا علی کثرتھا صادرۃ عن الواحد القھار (احیاء العلوم: ص 1604)

"اور تیسرا درجہ نور حق کے ذریعے (اس توحید) کا کشف کی سطح پر مشاہدے میں آجانا ہے اور یہ مقربین کا مقام (توحید) ہے ، اس مقام کی حقیقت یہ ہے کہ تو بہت سی چیزیں ملاحظہ کرے لیکن اس کثرت کا منبع ایک ہی ذات قہار کو دیکھے  "

اس درجے پر فائز شخص کی وضاحت  یوں کرتے ہیں:

والثالث موحد بمعنی انہ لم یشاھد الا فاعلا واحد (احیاء العلوم: ص 1604)

"اور تیسرے درجے پر فائز موحد کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کائنات میں ایک ذات کے علاوہ کوئی فاعل نہیں دیکھتا "

مزید تشریح فرماتے ہوئے کہتے ہیں:

وحاصلہ ان یکشف لک ان لا فاعل الا اللہ تعالی وان کل موجود من خلق ورزق وعطاء منع و حیاۃ و موت وغنی وفقر الہ غیر ذالک مما ینطلق علیہ اسم فالمنفرد بابداعہ و اختراعہ ھو اللہ عز و جل۔اذا انکشف لک ھذا لم تنظر الی غیرہ (احیاء العلوم: ص 1606)

"اور اس درجہ توحید کا حاصل تجھ پر یہ منکشف ہوجانا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی فاعل نہیں ہے، نیز موجودات میں سے ہر چیز جیسے  خلق اور رزق، عطا ہونا اور روک لیا جانا، زندگی اور موت، غنی و فقر، الغرض ہر چیز جسے کوئی نام دیا جاسکے ان سب کو ایجاد کرنے والی اللہ کی ذات ہے۔ جب تجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوگی تو پھر تو اللہ کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوگا  "

امام غزالی کہتے ہیں کہ توحید کا یہ تیسرا درجہ توکل کی اصل ہے:

واما الثالث: فھو الذی یبنی علیہ التوکل (احیاء العلوم: ص 1606)

"یہ جو تیسرا درجہ ہے، یہ توکل کی بنیاد اور اصل ہے "

اس کے بعد وہ تفصیلا توکل کی ماہیت، اس کے اسرار اور اس پر شیطان کے حملوں  کی وضاحت کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ بتاتے ہیں کہ شیطان جس راستے سے انسان کی عملی توحید کو برباد کرتا ہے وہ اس کے توکل ہی کو برباد کرنا ہے جس کے دو اسباب ہوتے ہیں: (1) ایک یہ کہ اس کی نظر جمادات (یعنی مادی اسباب جیسے اس کی زمین، کھیتی، مال و دولت، بارش، ہوا وغیرہ) پر اٹکا دیتا ہے اور وہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ وسائل ہی میری کامیابیوں کی ضمانت ہیں (2) اور یا پھر اس کے قلب میں یہ خیال پیدا کردیتا ہے کہ یہ جاندار تجھے فائدہ نقصان دینے والے ہیں اور اگر تو نے ان کے تقاضے اور احکامات پورے نہ کئے تو نقصان اٹھانے والا ہوگا۔ تو توحید کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان کو اس کائنات میں "فاعل حقیقی" صرف اور صرف ایک ہی نظر آئے اور اس کا دل اس پر جم جائے۔ جب اسے توحید کی یہ کیفیت حاصل ہوتی ہے تو اب وہ مادی اور انسانی مفادات کے لئے خدا کی توحید کے تقاضوں کو قربان نہیں کرتا، وہ صرف اللہ ہی کے لئے ہو کے رہتا ہے۔ صوفیاء فرد کو اس درجہ توحید کا سالک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس توحید سے غافل ہر شخص اگرچہ متکلم و فقیہ کی نظر میں مسلمان ہے لیکن وہ اخروی ناکامی کے خطرات سے دوچار ہے کیونکہ قیامت والے روز ان لوگوں کا دعوی توحید ان کے منہ پر مار دئیے جانے کا خطرہ ہے جو توحید کا دم بھرنے کے باوجود عمر بھر فسق و فجور میں مبتلا رہے۔ آج کے جدید لکھاری اس درجہ توحید کو "عملی توحید" کہتے ہیں اور لوگوں کو یہ بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ اس توحید کا راز توکل میں پنہاں ہے۔

یہاں ٹھہر کر غور کیجئے کہ کیا خدا کی کتاب بندہ مومن سے اس توحید کا تقاضا نہیں کرتی کہ وہ خدا کو کائنات کا واحد حقیقی فاعل سمجھے اور ہر معاملے میں اسی پر توکل کرے اور ایمان کی اس حلاوت کو محسوس کرے جو مذکور آیت اور متعدد احادیث میں بیان ہوئی؟ کیا توحید کا یہ درجہ انبیاء کی دعوت کا مرکز نہ تھا؟ کیا انبیاء صرف اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں چند درست منطقی و عقلی تصورات کی دعوت  دینے کے لئے تھے جن سے متکلمین بحث کرتے ہیں؟ ان سب کا جواب ظاہر ہے نفی میں ہے۔ چونکہ ہر شخص توحید کی اس منزل کو حاصل نہیں کرپاتا لہذا بعض صوفیاء اسے "خواص کی توحید" سے عبارت کرتے ہیں، یعنی اس منزل کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور ہر شخص کو اس کی محنت اور صلاحیت کی مقدار کے مطابق یہ پھل میسر آتا ہے۔

لیکن کیا عوام (masses) کے دعوی ایمانی کو بھی اسی درجہ توحید سے ناپا جائے گا؟ اہل سنت کا جواب نفی میں ہے کیونکہ یہ قلبی احوال  کا معاملہ ہے نہ کہ زبان پر چند کلمات جاری ہوجانے کا۔  اس کے برعکس غامدی صاحب کی توحید میں چونکہ ایک ہی درجہ ہے لہذا عین ممکن ہے ان کی توحید یا تو منافقین کی توحید کے درجے پر ختم ہوجاتی ہو اور یا پھر خوارج کی طرح توحیدکے عملی تقاضے پورا نہ کرنے والوں کی تکفیر لازم ٹھہراتی ہو۔ صوفیاء کی توحید نہ تو منافق کی توحید کے درجے پر ختم ہوتی ہے اور نہ ہی خوارج کی توحید کو درست کہتی ہے اور نہ ہی متکلمین کی توحید کو منزل مراد سمجھتی ہے۔ توحید کے باب میں اس سے زیادہ خوبصورت توازن بھلا کسی فکر میں میسر ہے؟

تو اب تک کی گفتگو میں توحید کے تین درجات کی تفصیل بیان ہوچکی۔ ہم کہتے ہیں کہ کسی درخت کا ایک چھوٹا سا پتہ توڑئیے بلکہ زمین سے ایک ذرہ اٹھائیے اور ہمیں بتائیے کہ اس تفصیل میں اس کے مساوی بھی ایسا کچھ ہے جو خلاف قرآن و سنت تو کجا زائد از قرآن و سنت بھی ہو؟ مسئلہ تو ایک ناقص تصور توحید کا تھا جس کو بنیاد بنا کر صوفیاء کی توحید کو تولنا شروع کردیا گیا اور تولنے کے اس کھوٹے معیار پر جو کچھ خالص تھا اسے ہی ناقص قرار دیا جانے لگا۔        

(جاری)

حواشی

    30.  نوٹ کیجئے کہ عربی زبان کے جس لفظ "اوجہ" کا ترجمہ غامدی صاحب نے "درجہ " کیا ہے اس کی تعبیر کے لئے اردو زبان میں زیادہ بہتر لفظ "پہلو" ہے، جسے انگریزی میں aspects کہتے ہیں۔  گویا صاحب عبارت یہ نہیں کہنا چاہتے کہ توحید کے تین درجات ہیں بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ بیان توحید کے تین پہلو ہیں۔ لیکن چونکہ وہ اس بات پر زور دینا  چاہتے تھے کہ صوفیاء نے توحید کی درجہ بندی کی ہے لہذا انہوں نے یہ ترجمہ کرنا مناسب سمجھا۔ تاہم یہ ایک ضمنی بات ہے، ان پہلووں کو اگر "توحید کی  درجہ بندی" بھی کہا جائے تو بھی اس میں کوئی غلط بات نہیں جیسا کہ مضمون کی تفصیلات سے واضح ہوگا۔

    31.  اسے الحب فی اللہ والبغض فی اللہ کہتے ہیں

نومبر ۲۰۲۰ء

شیعہ سنی اختلاف اور مسئلہ تکفیرمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷٠)ڈاکٹر محی الدین غازی
تدبرِ کائنات، اسلامی ایمانیات اور قرآنِ مجید کا طریقِ استنباطمولانا محمد عبد اللہ شارق
مساجد و مدارس اور وقف اداروں کے بارے میں نیا قانونمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شیعہ سُنّی بقائے باہمی کا راستہڈاکٹر اختر حسین عزمی
امام ابن جریر طبری کی شخصیت اور ایک تاریخی غلط فہمی (۲)مولانا سمیع اللہ سعدی
امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار (۲)ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

شیعہ سنی اختلاف اور مسئلہ تکفیر

محمد عمار خان ناصر

مذاہب کی روایت میں  مختلف قسم کے اعتقادی وعملی اختلافات کا پیدا ہونا تاریخ کا ایک معمول  کا عمل ہے جس سے کوئی مذہبی روایت مستثنی ٰ نہیں۔  ان اختلافات میں  مستند اور غیر مستند  عقیدہ وعمل کی تعیین کی بحثیں بھی  فطری ہیں اور ہر مذہبی روایت کا حصہ ہیں۔  تاہم گروہی شناخت  کے نقطہ نظر سے یہ اختلافات دو میں سے ایک شکل اختیار کر سکتے ہیں  اور اس کی مثالیں بھی  کم وبیش ہر مذہبی روایت   میں موجود ہیں۔   کسی ایک شکل کی تعیین کا عمل اصلا اختلاف کی نوعیت اور مختلف تاریخی عوامل کے تحت ہوتا ہے،   جبکہ اعتقادی اور مذہبی بحثوں کا کردار اس میں ضمنی اور ثانوی ہوتا ہے۔

ایک شکل یہ ہو سکتی ہے کہ اختلاف یک لخت یا بتدریج وسیع ہوتا ہوا  اس سطح پر چلا جائے کہ بنیادی مذہبی شناخت میں اشتراک  کا پہلو بالکل معدوم یا نہ ہونے کے برابر رہ جائے اور دو گروہ  اپنی شناخت  کے لیے  تاریخی اور سماجی طور پر  ایک دوسرے سے بالکل بے نیاز ہو جائیں۔  یہ صورت دو متوازی اور مستقل مذہبی روایتوں کے وجود میں آنے کی ہوتی ہے۔ مذاہب کی تاریخ میں اس کی  مثال مسیحیت ہے جو ابتدا میں ایک الگ مذہب کے طور پر نہیں، بلکہ یہودیوں کے اندر ایک فرقے کے طور پر  رونما ہوئی تھی، لیکن سیدنا مسیح علیہ السلام کی شخصیت سے متعلق اختلاف کی   وجہ سے  بتدریج مسیحی شناخت، یہودیوں سے الگ ہوتی چلی گئی  اور  اب انھیں   دو مستقل مذہب مانا جاتا ہے۔

دوسرا امکان یہ ہوتا ہے کہ اختلاف  یہ شکل اختیار نہ کرے، بلکہ  بنیادی مذہبی شناخت میں گروہوں کے مابین اس سطح کا قرب اور اشتراک  باقی رہے کہ اس کی نفی کرنا ممکن نہ ہو اور  تاریخی عوامل بھی  ایسے حالات پیدا نہ کریں جس میں  دونوں گروہ، ایک دوسرے سے  بالکل بے نیاز اور لاتعلق ہو کر  اور ایک دوسرے پر تہذیبی وسیاسی انحصار کے بغیر    ایک مستقل مذہبی روایت کے طور پر خود کو منظم کر سکیں۔ مثلا مسیحی روایت  اس وقت تین بڑے گروہوں  یعنی رومن کیتھولک، گریک آرتھوڈوکس اور پروٹسٹنٹ میں تقسیم ہے جن کے مابین بہت بنیادی نوعیت کے اعتقادی وعملی اور تنظیمی اختلافات پائے جاتے ہیں، اور ان میں سے کیتھولک اور گریک آرتھوڈوکس بڑی حد تک دنیا کے الگ الگ خطوں میں تنظیمی طور پر بھی الگ الگ اسٹرکچر رکھتے ہیں، لیکن مسیحیت کی بنیادی شناخت میں یہ سب گروہ  شریک ہیں جو انھیں  اسلام اور یہودیت سے ممتاز کرتی ہے۔

اختلاف ان دونوں میں سے کون سی شکل اختیار کرتا ہے، یہ جیسا کہ عرض کیا گیا،    اختلافات سے متعلق کلامی واعتقادی پوزیشن  سے طے نہیں ہوتا۔ فی نفسہ اختلاف کی نوعیت اور  تاریخی حالات اس کا تعین کرتے ہیں۔   کلامی واعتقادی پوزیشن، اختلافات میں سے کسی  ایک موقف کو  غالب یا رائج کرنے میں تو کردار ادا کرتے ہیں، جیسے مثلا مسیحی روایت میں  آبائے کلیسا کی مختلف مجالس نے  کیا،  لیکن  کوئی گروہ بنیادی مذہبی شناخت میں شریک رہے گا یا نہیں،  اس کا تعین  اعتقادی  پوزیشن نہیں کر سکتی، اور  آبائے کلیسا نے جن متعدد مسیحی فرقوں کو  معیاری مسیحیت سے خارج  قرار دیا، وہ اس کے باوجود   مسیحی روایت ہی کا حصہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔

ان دونوں شکلوں کا فرق بالکل بدیہی ہوتا ہے اور دو سادہ اصولوں پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دو مذہبی روایتوں کے مابین شناخت کا اختلاف کس نوعیت کا ہے۔ پہلا یہ کہ وہ دو گروہ کسی تیسرے گروہ کے تقابل میں خود کو ایک مشترک شناخت میں شریک تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟ اور دوسرا یہ کہ تاریخ کی سطح پر باقی دنیا کی نظر میں ان دونوں گروہ کی شناخت کے اختلاف کو کیسے دیکھا جاتا ہے؟ ان دونوں معیارات پر کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور گریک آرتھوڈوکس ایک ہی مذہبی شناخت کے حامل ہیں، جبکہ یہودی اس شناخت میں شریک نہیں، چاہے مسیحیت کی ابتدا یہودیت کے اندر سے ہی ہوئی ہو۔


اس تناظر میں اگر مسلمانوں کی مذہبی روایت میں شیعہ سنی اختلاف  کا جائزہ لیا جائے تو   صاف واضح ہوگا کہ شیعہ سنی شناخت، تاریخ میں اس طرح  اسلام کے اندر تشکیل پا چکی ہے کہ  انھیں  ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان، قرآن اور  سنت متواترہ سے وابستگی اور  اہل بیت  کے ساتھ نسبت کے ہوتے ہوئے اختلاف کی اصولا وہ نوعیت   تھی ہی نہیں جو  شیعہ اور سنی کو یہودی اور مسیحی کی طرح دو متوازی مذاہب میں تقسیم کر دیتی۔  مسیحیوں نے بیت المقدس میں ہی  اپنا الگ قبلہ مقرر کر کے  ہیکل سلیمانی سے اپنا تعلق منقطع کر لیا تھا،  لیکن اہل تشیع نے   کبھی  بیت اللہ سے  دستبرداری اختیار نہیں کی۔  دونوں ایک ہی تاریخ کے مختلف کردار اور مذہبی وعلمی مباحث کی ایک مشترک روایت  میں حصہ دار ہیں۔ دونوں میں شناخت کی تشکیل   کے مشترک عوامل اتنے زیادہ اور بنیادی ہیں کہ  اختلاف کا وہ شکل اختیار کرنا، دیے گئے تاریخی وسماجی تناظر میں، ممکن ہی نہیں تھا اور نہ اب ہے جو یہودی اور مسیحی شناختوں  نے تاریخ میں اختیار کی۔  

ہم نے سابقہ سطور میں واضح کیا ہے کہ  کسی گروہ کو دائرہ اسلام میں  شمار کرنے یا نہ کرنے کا سوال، بنیادی طور پر  کلامی یا فقہی نہیں، بلکہ  تاریخی، تہذیبی اور سماجی ہے۔   اس کا بنیادی حوالہ شناخت کا اشتراک یا افتراق ہے جو تاریخی عوامل سے طے ہوتی ہے اور کسی کلامی سرگرمی میں پڑے بغیر  اس کے  بنیادی  determinants مکمل ہو جاتے ہیں۔   کلامی اور اعتقادی بحثوں کی جتنی بھی اہمیت ہے، اس کے بعد اور تاریخ کے  طے کردہ رخ کے تابع ہے  اور تاریخ کے رخ کو کسی کلامی یا فقہی پوزیشن سے متعین کرنے کی کوشش  کچھ نہیں مگر چھکڑے کو گھوڑے کے آگے باندھنے جیسی حرکت ہے۔  یہ بنیادی تناظر طے ہو جانے کے بعد اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ   کلامی اور فقہی بحثیں اس سوال میں کہاں   داخل ہوتی ہے  اور   مذہبی معاشرت اور تہذیب کی فکری وعملی ضروریات  کے ساتھ ان کا کیا تعلق بنتا ہے۔

ابراہیمی مذاہب میں  حق وباطل کا تصور مذہبی شعور کا ایک تشکیلی عنصر ہے اور کوئی مذہبی روایت اس سے دستبردار ہو کر  اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔  یہ سوال الگ الگ مذہبی روایتوں کے مابین  بھی زیربحث رہتا ہے اور  ایک ہی مذہبی روایت کے داخلی اختلافات میں بھی اس کو  بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔   ان اختلافات کا سنگینی کے لحاظ سے مختلف مدارج میں تقسیم ہونا واضح ہے  اور اسی کے لحاظ سے  کسی عقیدے یا عمل کے متعلق مستند مذہبی  موقف کا بیان  اہل علم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔  ابراہیمی مذاہب کی روایت میں   اس طرح کے مواقف کی توضیح    ایک عام معمول ہے اور ہر گروہ کا بحث واستدلال کے ذریعے سے  اپنے اپنے موقف کو مدلل اور مخالف موقف کو   غلط ثابت کرنا ایک  جائز بلکہ ضروری سرگرمی مانا جاتا ہے۔   اسلامی روایت میں بھی  یہ عمل اسی انداز میں جاری رہا ہے اور  مذہبی عقیدے یا عمل یا مذہبی تاریخ کی تعبیر کے دائرے میں نادرست مواقف  پر    ان کی نوعیت کے مطابق حکم لگایا جانا  ایک معروف بات ہے۔   

استثنائی مثالوں  سے صرف نظر کرتے ہوئے،  ان بحثوں میں  جب کسی موقف کے حاملین کی تکفیر کی جاتی ہے تو اس سے مراد  یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ   ان کے بیان کردہ موقف کی، مستند مذہبی معیارات کی روشنی میں ، حق کے ساتھ  اس درجے کی نسبت تضاد ہے۔     اس سے مقصود  کسی گروہ کو  اسلام کی بنیادی شناخت  سے  الگ کرنا یا آسان الفاظ میں  دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا نہیں ہوتا۔  متکلمین اس مراد کو  مختلف اسالیب میں اس طرح واضح کرتے ہیں کہ  یہ تکفیر مطلق ہے، نہ کہ تکفیر معین  اور یہ کہ   اس بات سے  کفر لازم آتا ہے جس کا التزام ضروری نہیں کہ قائل بھی کرتا ہو۔  

ایسا نہیں کہ  تکفیر کرنے والے اہل علم   اس کو  صرف نظری طور پر بیان کرتے ہیں اور اس پر کچھ عملی فقہی احکام مرتب نہیں کرتے۔   وہ  اپنے اپنے فہم کے مطابق بعض فقہی نتائج بھی مرتب  کرتے ہیں اور  ان نتائج کی بنیاد  کے طور پر تکفیر کا ذکر بھی کرتے ہیں، لیکن  اس کے ساتھ ساتھ انھیں  بنیادی شناخت کے لحاظ سے  مسلمانوں میں بھی شمار کرتے ہیں۔  یوں بظاہر ان کے اقوال متضاد  دکھائی دیتے ہیں،  لیکن  ہر قول کو اس کے محل میں سمجھا جائے تو بآسانی یہ  سمجھ میں آ جاتا ہے کہ ان کا مدعا  ایسے گروہوں کو اصولی طورپر مسلمانوں کا حصہ شمار کرتے ہوئے  ان کے کفریہ عقائد کی وجہ سے  بعض فقہی معاملات میں   ان کے ساتھ  مسلمانوں جیسا برتاو کرنے سے اجتناب کی تلقین کرنا ہے۔  اس نکتے کی وضاحت کے لیے مثال کے طور پر امام ابن تیمیہ اور  شاہ عبد العزیز کی آرا کو دیکھنا مناسب ہوگا۔

امام ابن تیمیہ اہل سنت کی روایت میں اہل تشیع کے  شدید ترین ناقدین میں سے ہیں اور اور ان کی بعض عبارات میں تکفیر کا پہلو بھی  نمایاں طور پر نکلتا ہے۔   وہ صحابہ کے بارے میں اہل تشیع کے عمومی عقیدے  کو یہود ونصاری ٰ سے  بدتر قرار دیتے ہیں، کیونکہ   یہ قومیں کم سے کم اپنے  دین کی تاریخی تاسیس کرنے والے اکابر کو برا بھلا نہیں کہتے۔  تاہم  اس کے ساتھ ساتھ ابن تیمیہ اس سوال کے جواب میں کہ کیا  روافض کو یہود ونصاری ٰ سے بدتر کہا جا سکتا ہے، لکھتے ہیں کہ  ہرگز نہیں، اور کوئی  کلمہ گو  کتنا ہی  فاسد العقیدہ کیوں نہ ہو،  کفار سے بہرحال بہتر ہے۔ اسی طرح وہ اہل تشیع کے لیے قرب الہی اور ولایت کے  مقامات کا بھی امکان تسلیم کرتے ہیں اور   ان کے پیچھے باجماعت نماز  اور جمعہ ادا کرنے کے متعلق لکھتے ہیں کہ اگر  اس علاقے میں   جمعے کا متبادل انتظام نہ ہو تو   صرف عقیدے کے اختلاف کی وجہ سے ان کے ساتھ جماعت ترک کرنا اہل سنت کا نہیں، بلکہ اہل بدعت کا طریقہ ہے۔

شاہ  عبد العزیز کے فتاوی میں متنوع قسم کے  فتوے موجود ہیں۔ بعض جگہ وہ اہل تشیع سمیت تمام   اسلامی فرقوں کو   اس حدیث کے مطابق دائرہ اسلام میں شمار کرتے ہیں کہ ’’میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی“۔    کسی دوسرے مقام پر  وہ سیدنا صدیق اکبر کی خلافت کے انکار کو   ایک قطعی  امر کے انکار کی وجہ سے موجب تکفیر  قرار دیتے ہیں۔   لیکن اس سوال کے جواب میں کہ ہندوستان انگریزوں  کے تسلط کے بعد دار الاسلام ہے یا دار الحرب، فرماتے ہیں کہ   وہ ریاستیں جہاں  انگریزوں کی حکومت نہیں ہے، دار الاسلام ہیں اور اس کی مثال کے طور پر  بعض ایسی ریاستوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جن پر  شیعہ نواب حکمران تھے۔

امام ابن تیمیہ اور شاہ عبد العزیز   کے جس زاویہ نظر کا حوالہ دیا گیا، اس سے یہ واضح ہے کہ اہل تشیع  کے  بعض عقائد  ونظریات کے متعلق  یہ سوال اٹھاتے ہوئے بھی کہ وہ حد کفر کو پہنچتے ہیں،  انھیں  اصولی طور پر   مسلمان امت کا حصہ یعنی ایک اسلامی فرقہ شمار کیا جائے گا ۔ ایسی صورت میں تکفیر کی بحث  کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں بنتا کہ ان مخصوص عقائد ونظریات کی اصولی حیثیت کے بارے میں اہل سنت کے اعتقادی موقف  کو واضح کر دیا جائے۔

اہل تشیع کے  ہاں بھی غیر امامیہ کی تکفیر کی بحث موجود ہے۔ مثال کے طور پر  چوتھی ، پانچویں صدی ہجری کے  ممتاز  شیعہ عالم شیخ مفید اپنی کتاب اوائل المقالات میں  اہل تشیع کے مخصوص عقائد مثلا عقیدہ امامت کو  تسلیم نہ کرنے  والوں کو  امامیہ کے نقطہ نظر سے کافر قرار دیتے ہیں جو مرتد کے حکم میں ہیں اور  امام کے لیے ضروری ہے کہ ان پر قابو پانے کے بعد  ان سے توبہ کے لیے کہے، ورنہ انھیں قتل کر دے۔ (بعض شیعہ کتب میں امام مہدی کے ظہور کے بعد اہل سنت کے قتل عام کی جو  پیشین گوئی  مذکور ہے، وہ اسی پر مبنی ہے)۔  ان میں سے جو لوگ اسی حالت میں مر جائیں، وہ  جہنم میں جائیں گے اور انھیں قیامت کے دن نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کی شفاعت بھی حاصل نہیں ہوگی، کیونکہ وہ صرف  شیعہ  گنہگاروں  کے لیے خاص ہے۔   تاہم شیخ مفید   ان مرتدین اور باقی  کفار میں ایک نوعیت کا ظاہری فرق بھی بیان کرتے  ہیں اور ان کے کفر  کے لیے ’’کفر ملة“ کی تعبیر  اختیار کرتے ہیں، یعنی ایسا کفر   جس کا ارتکاب ملت کے دائرے میں  رہنے والوں نے کیا ہے۔  شیخ مفید اس فرق کو  دار الکفر، دار الاسلام اور دار الایمان کی اصطلاحات سے مزید واضح کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ علاقہ جہاں  اہل کفر کا غلبہ ہو، وہ دار الکفر ہے، جہاں امامیہ  کی اکثریت اور  غلبہ ہو، وہ دار الایمان ہے، جبکہ  امامیہ کے عقیدے سے اختلاف رکھنے والے دوسرے گروہوں کے علاقے کو وہ دار الاسلام شمار کرتے ہیں۔  

اسی تناظر میں اہل سنت کے جن متکلمین نے شیعہ کے بعض نظریات مثلا تحریف قرآن، خلافت صدیقی کے انکار، ائمہ کی عصمت اور  ائمہ اہل بیت کے انبیاء   سابقین سے افضل ہونے کے امکان  پر   ان کی تکفیر کی ہے، اسے بھی  کفر ملة کا بیان سمجھا جائے  تو ان کے کلام کی  یہ توجیہ بالکل درست ہوگی اور   بعض پہلووں سے اہل تشیع کو مسلمان سمجھنے او ربعض  پہلووں سے ان کی تکفیر میں جو   ایک ظاہری تعارض  دکھائی دیتا ہے، وہ بھی    ختم ہو جاتاہے۔


سابقہ سطور میں  جو تجزیہ پیش کیا گیا،  اس سے یہ بات بآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ ہمارے ہاں  تکفیر کی بحث جس مذہبی  فریم ورک میں اٹھائی جاتی ہے، وہ بالکل ناقص اور ادھورا ہے۔   ہر بحث کی طرح اس بحث کو بھی دیکھنے کا ہمارا پیراڈائم عموما فقہی یا کلامی ہے اور بحث کی قوت محرکہ شناخت اور سیاسی طاقت کی حرکیات ہیں، جبکہ سب سے اہم سوال جو اس ساری بحث میں کہیں بھی موضوع نہیں بنتا، وہ مسئلے کی تاریخی اور سماجی جہت سے تعلق رکھتا ہے اور یہ عمرانیات مذہب (Sociology of Religion) سے بے اعتنائی کے اس عمومی فکری رویے کی عکاسی ہے جو ہمارے ہاں غالب ہے۔ سادہ لفظوں میں، مذہبی فکر میں (چاہے وہ علماء کی سطح پر ہو یا جذباتی مذہبی قائدین وعوام کی سطح پر) اس پیچیدہ مسئلے کو انتہائی سادگی کے ساتھ اس طرح دیکھا جاتا ہے کہ اسلام کے کچھ مستند اور بنیادی عقائد ہیں، اگر کسی شخص یا گروہ کے نظریات ان میں سے کسی عقیدے یا اس کی مستند تعبیر سے متصادم ہیں تو وہ کافر ہے۔ کسی گروہ کا کوئی عقیدہ، حد کفر کو پہنچتا ہے یا نہیں، اس کے لیے کسی بڑی شخصیت یا شخصیات کی کوئی عبارت مل جائے تو یہ بھی بحث کو فیصل کرنے کے لیے کافی ہے، اور اگر علماء  کی ایک جماعت نے مل کر ایسے کسی فتوے پر دستخط کر دیے ہوں تو پھر جو کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔

مسئلے کی اس کی تمام جہتوں کے ساتھ اور کلیت میں دیکھنے کے تہذیبی انداز فکر کو تج کر شخصیات کی عبارتوں اور ادھورے کلامی وفقہی استدلالات کو مسئلے کی تفہیم کی اساس سمجھنا موجودہ جذباتی  انداز فکرکا سب سے بنیادی مسئلہ ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسی مذہبی روایت میں جسے فکری ورثے میں ایک پوری تہذیب اور اس کے عقلی وسماجی علوم ملے ہیں جو نہ صرف اسلام کے بلکہ دوسرے مذاہب کے داخلی اختلافات کی تکییف کا بھی ایک پورا نظام رکھتے ہیں اور صدیوں تک ان اختلافات کے حوالے سے سیاسی، قانونی اور مذہبی مواقف کی تعیین کی عملی بنیاد فراہم کرتے رہے ہیں، مسئلے کو اتنی سطحیت اور سادگی سے دیکھا جا رہا ہے۔

اگر تکفیر شیعہ کا موقف رکھنے والے حضرات  یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ  شیعہ سنی اختلاف ، تاریخی  لحاظ سے،  یہودی  مسیحی اختلاف بن چکاہے تو یہ بدیہی طو رپر ایک خلاف واقعہ بات ہے۔ اگر یہ کوئی امر واقع ہوتا تو کسی کو اس کی اطلاع دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔  اگر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسے بالارادہ یہودی مسیحی اختلاف کی شکل دے دینی چاہیے  تو یہ تاریخ، معاشرہ   اور مذہبی شناخت کے اصولوں سے قطعی ناواقفیت کی علامت  اور بالکل  بچگانہ بات ہے۔   مذہبی شناختوں کے اشتراک یا افتراق  کا سوال اس طرح کے ارادی فیصلوں سے طے نہیں  ہوتا۔ یہ ایک خودکار تاریخی عمل ہوتا ہے جس کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں۔  اسے   اعتقادی پوزیشن کی بنیاد پر مصنوعی  انداز میں طے کرنے کا منصوبہ ایسا ہی ہے جیسے  دریا کا رخ حسب منشا  طے کرنے کے لیے انجینئرنگ کا کوئی منصوبہ بنانا۔

اس اختلاف کو  یہ شکل دینے کا   خیال بھی اگر کچھ لوگوں کے ذہن میں ہے تو  ان کی بصیرت تو ایک طرف،    سلامتی عقل بھی مشکوک ہے۔  مسیحی روایت میں  پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کے مابین صدیوں کے کشت وخون کے بعد بھی اسے  یہ شکل نہیں دی جا سکی، کیونکہ یہ تاریخ سے لڑنے کے مترادف ہے جس میں  ہمیشہ تاریخ فاتح رہتی ہے۔  ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمہ نے  بالکل  بجا طور پر  اس مفہوم میں  شیعہ کی تکفیر  کی بات کرنے کو عالم اسلام میں ٹائم بم  رکھنے کے ہم معنی قرار دیا ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷٠)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(219)    سورة الصافات کی قسموں کا ترجمہ

سورة الصافات کے شروع میں تین صفتوں کو مقسم بہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ان صفتوں کا موصوف ایک ہی ہے یا الگ الگ ہیں، اس سلسلے میں مختلف رائیں ہیں، تاہم مشہور رائے یہ ہے کہ موصوف ملائکہ یعنی فرشتے ہیں۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اسی سورہ کے آخر میں فرشتوں کے اوصاف کا تذکرہ کیا گیا جس میں انھی صفات کو ترتیب اور الفاظ بدل کر ذکر کیا گیا ہے۔ فرمایا: وَمَا مِنَّا إِلَّا لَہ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ۔ (الصافات: 164-166) اہم بات یہ بھی ہے کہ شروع کی تینوں آیتوں اور بعد کی ان تینوں آیتوں کو سامنے رکھنے سے دونوں مقامات پر الفاظ کے مفہوم متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔

وَالصَّافَّاتِ صَفًّا کے مقابل میں وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ ہے۔

فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا کے مقابل میں وَمَا مِنَّا إِلَّا لَہ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ ہے

اور فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا کے مقابل میں وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ ہے۔

وَالصَّافَّاتِ صَفًّا کا ترجمہ تو سب نے صف باندھنے والے کیا ہے۔

فَالزَّاجِرَاتِ کا ترجمہ عام طور سے ڈانٹنے پھٹکارنے والے کیا گیا ہے، کس کو ڈانٹنے والے ہیں؟ اس کے جواب میں بعض لوگ شیاطین کو، بعض گناہ گاروں کو اور بعض بادلوں کو مراد لیتے ہیں۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا کا مطلب ہے امور تکوینی کو جاری کرنے والے۔ سورة النازعات میں آیا ہے: فَإِنَّمَا ھِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَۃ ۔ (النازعات: 13) یہاں زَجْرَۃسے مراد امر تکوینی ہے، کہ اللہ کی طرف سے بس ایک حکم صادر ہوگا۔ اگرچہ زَجْرَۃ کا ترجمہ عام طور سے ڈانٹ یا اس جیسے لفظ سے کیا گیا ہے:

”تو وہ نہیں مگر ایک جھڑکی“۔ (احمد رضا خان)

”حالانکہ یہ بس اتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی“۔ (سید مودودی)

لیکن یہاں ڈانٹنے اور جھڑکنے کا محل نہیں ہے، ابن عاشور لکھتے ہیں:

وعبر بھا ہنا عن امر اللہ بتکوین اجساد الناس الاموات۔ (التحریر والتنویر)

درست ترجمہ ہے:

”وہ تو بس ایک حکم ہوگا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

سورة الصافات میں بھی زجر کی تشریح علامہ طاہر بن عاشور نے بہت اچھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

والزجر الحث في نھي الأوامر بحيث لا يترك للمامور تباطؤ في الإتيان بالمطلوب والمراد بہ تسخير الملائكۃ المخلوقات التي أمرھم اللہ بتسخيرہا خلقا أو فعلا كتكوين العناصر وتصريف الرياح وإزجاء السحاب إلی الآفاق۔ (التحریر والتنویر)

فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا  کا یہ مفہوم وَمَا مِنَّا إِلَّا لَہ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس آیت میں لفظ مقام کا ترجمہ عام طور سے مقام یا جگہ کیا گیا ہے جیسے:

”ہم میں سے تو ہر ایک کی جگہ مقرر ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقام مقرر ہے“۔ (سید مودودی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ یہاں مقام سے مراد ڈیوٹی اور ذمہ داری ہے، مقام قام یقوم سے ہے جس میں ٹھہرنے کے بجائے کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس طرح ترجمہ ہوگا:

”ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک معین ذمہ داری ہے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

اگر مقام معلوم سے مراد معین ذمہ داری ہے، تو فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی عملی تصویر ہے۔ یعنی فرشتے اللہ تعالی کے امور تکوینی نافذ کرنے والے ہیں۔

فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا کا مفہوم وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ سے متعین ہوجاتا ہے کہ یہاں اللہ کا ذکر وتسبیح مراد ہے، اس لیے یہاں نصیحت کرنے والے یا قرآن کی تلاوت کرنے والے یا وحی نازل کرنے والے ترجمہ کرنا درست نہیں ہے۔ مندرجہ بالا تشریح کی روشنی میں تینوں آیتوں کے مختلف ترجمے ملاحظہ ہوں:

وَالصَّافَّاتِ صَفًّا ۔ فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا ۔ فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا۔ (سورة الصافات ۱ تا ۳)

”شاہد ہیں صفیں باندھے، حاضر رہنے والے (فرشتے) پھر زجر کرنے والے (شیاطین کو) پھر ذکر کرنے والے (اپنے رب کا)“۔ (امین احسن اصلاحی)

”قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم، پھر اُن کی قسم جو ڈانٹنے پھٹکارنے والے ہیں، پھر اُن کی قسم جو کلام نصیحت سنانے والے ہیں“۔ (سید مودودی)

”قسم ہے صف باندھنے والوں کی پرا جما کر، پھر ڈانٹنے والوں کی جھڑک کر، پھر ذکر (یعنی قرآن) پڑھنے والوں کی (غور کرکر)“۔ (فتح محمد جالندھری)

”قسم ہے قطار در قطار صف باندھے رہنے والوں کی، امور تکوینی انجام دینے والے ہیں، ذکر پڑھنے والو ںکی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

بعض ترجموں سے یہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرشوں کے تین الگ الگ گروہوں کا تذکرہ ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ تمام فرشتوں کا تذکرہ ہے جو ان تینوں صفات سے متصف ہوتے ہیں۔

(220)    ذِكْرَى الدَّارِ کا ترجمہ

اس آیت کے مختلف ترجمے کیے گئے ہیں، عام طور سے مفہوم یہ لیا گیا ہے اللہ تعالی نے ان نبیوں کو ایک خاص بے آمیز صفت عطا کی، اور وہ آخرت کی یاد ہے۔ بعض لوگوں نے آخرت کی یاددہانی بھی ترجمہ کیا ہے۔ بعض لوگوں نے مفہوم یہ لیا ہے کہ انھیں آخرت کی یاد کے ساتھ مخصوص کردیا گیاتھا اس طرح کہ انھیں دنیا کی یاد نہیں آتی تھی، اور بعض نے یہ مفہوم لیا کہ آخرت کی یاد کی بنا پر انھیں منتخب فرمایا۔ کچھ ترجمے ملاحظہ کریں:

”ہم نے انہیں ایک خاص بات یعنی آخرت کی یاد کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ہم نے اُن کو ایک خالص صفت کی بنا پر برگزیدہ کیا تھا، اور وہ دار آخرت کی یاد تھی“۔ (سید مودودی)

”بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے امتیاز بخشا کہ وہ اس گھر کی یاد ہے“۔ (احمد رضا خان)

”ہم نے ان کو ایک (صفت) خاص (آخرت کے) گھر کی یاد سے ممتاز کیا تھا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے ان کو ایک خاص مشن –آخرت کی یاددہانی- پر مامور کیا تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ذِكْرَى الدَّارِ سے مراد دنیا میں چرچا اور شہرت لیا ہے۔ أَخْلَصْنَاھُم بِخَالِصَۃ کا مطلب انھیں خصوصی چیز سے نوازا، اور وہ چیز ذکری الدار یعنی دنیا میں چرچا ہے۔ وہ ترجمہ کرتے ہیں:

”ہم نے ان کو دنیا کی خاص شہرت سے نوازا“۔ مطلب یہ کہ انھیں دنیا میں ایسی شہرت اور نیک نامی عطا فرمائی جو صرف ان کے لیے خاص ہے، کوئی اور اس میں شریک نہیں ہے۔

اس خصوصی عطا کا تذکرہ دوسری جگہ مختلف الفاظ سے کیا ہے:

وَوَھَبْنَا لَھُم مِّن رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَھُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا۔ (مریم: 50)

”اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سچی ناموری عطا کی“۔ (سید مودودی)

خاص بات یہ ہے کہ سورہ مریم میں بھی یہ بات ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے تذکرے کے بعد ہے۔ اور سورة ص میں بھی۔ اس کے علاوہ اگر سیاق کلام پر غور کریں تو بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔

وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاھِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ ۔ إِنَّا أَخْلَصْنَاھُم بِخَالِصَۃٍ ذِكْرَى الدَّارِ ۔ وَإِنَّھُمْ عِندَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ  (ص: 45-47)

”اور ہمارے بندوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا ذکر کرو بڑی قوت عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے۔ ہم نے ان کو دنیا کی خاص شہرت سے نوازا۔ اور یقینا ہمارے ہاں ان کا شمار چنے ہوئے نیک اشخاص میں ہے“‘۔

یہاں پہلی آیت میں ان نبیوں کا ذکر کرنے کی ترغیب دی، پھر بتایا کہ دنیا میں ہم نے ان کو خصوصی ذکر خیر عطا کیا ہے، اور پھر بتایا کہ ہمارے یہاں ان کا خصوصی مقام ہے۔

زمخشری نے اس قول کو ذکر کیا ہے:

وقیل: ذکری الدار، الثناءالجمیل فی الدنیا ولسان الصدق الذی لیس لغیرھم۔ (الکشاف)

آخرت کی یاد میں مشغول رہنا نبیوں کی بہت خاص صفت تھی، لیکن یہاں موقع اللہ کی طرف سے ان پر ہونے والے انعامات کے تذکرے کا ہے۔


تدبرِ کائنات، اسلامی ایمانیات اور قرآنِ مجید کا طریقِ استنباط

مولانا محمد عبد اللہ شارق

ایک ضروری تمہید

یہ کائنات اسلامی ایمانیات کی ایک نہایت محکم ومکمل دلیل ہے اور اسلامی دعوت وپیغام کی صداقت وحقانیت کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کرتی ہے، نیز جب کسی فرد پر کائنات کی یہ گواہی منکشف ہوتی ہے تو کائنات کا ہر ایک ذرہ اور ہر ایک رنگ اس کے لیے ایمان کی تقویت کا زبردست ذریعہ بنتا ہے، ہمارا مقصود اپنی اس تحریر میں اسی موضوع کے حوالہ سے کچھ معروضات پیش کرنا ہے۔ تاہم اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ کہ کائنات کی اس شہادت کو پورا پورا سمجھنے کی توفیق انسان کو عموما انبیاء کی دعوت سننے اور تدبرِ کائنات کا صحیح منہج انہی سے سیکھ لینے کے بعدملتی ہے۔ نبی کے لب ہلتے ہیں اور کائنات سے استنباط کا منہجِ صحیح وہ بیان کرتا ہے تو یکایک ایک جہان انسان کے سامنے روشن ہوجاتا ہے اور کائنات کے جلووں میں چمکتا ہوا اللہ کا نور انسان کے ظاہر وباطن کو خیرہ کردیتا ہے، جبکہ نبوی دعوت کو سنے بغیر اگر کائنات میں تدبر کیا جائے تو بہت دفعہ انسان ایک اچھا طبیب یا سائنس دان تو بن جاتا ہے، مگر کائنات کے ان مقناطیسی انوارات تک مکمل رسائی پانے سے محروم رہتا ہے جو انسان کو اس کے رب سے ہم کنار کرتے ہیں، اس کی عظمت وجلال کا نقش دل میں بٹھاتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا احساس دل میں پیدا کرتے، نیز پیغمبرانِ خدا کے دامنِ فیض سے وابستہ کرتے ہیں۔

تاہم  یہ بھی ہوسکتا ہےکہ کسی بادیہ نشین کو اللہ پاک کسی رسول کی دعوت سنے بغیر ہی اس کی صدقِ طلب اور صفاءِ باطن کی بناء پر براہِ راست کائنات میں تدبر کرنے سے ان ایمانیات تک رسائی عطا فرمادیں جن کی دعوت دے کر اللہ پاک انبیاء کو مبعوث فرماتے ہیں۔ ایسا ممکن ہے اور بلاشبہ ممکن ہے، مگر یہ عمومی ضابطہ نہیں۔ عام طور پر انسانوں کو کائنات کی شہادت کا ادراک پیغمبر کے لب ہلنے اور اس کی دعوت سننے کے بعد ہی ہوتا ہے، چنانچہ اللہ رب العزت نے اسی وجہ سے قرآن کریم میں جہاں جابجا کائناتی نشانیوں کی طرف متوجہ کیا ہے، وہیں ایک سے زیادہ مقامات پر یہ ارشاد بھی فرمایا ہے کہ رسول بھیجے بغیر کسی قوم کو پکڑنا ہمارا طریقہ نہیں۔ مثلا ایک جگہ ارشاد ہے:

”وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُھْلِكَ الْقُرَى حَتّیٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّھَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْھِمْ آيَاتِنَا“  (القصص: 59)

یعنی ”تمہارا رب بستیوں کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان کے مرکزی مقام میں کوئی رسول مبعوث نہیں فرما لیتا جو ان کو ہماری آیات اور نشانیاں پڑھ کر سنائے۔“

”مرکزی مقام“ کا ذکر اس لیے فرمایا کیونکہ یہاں سے نبی کا پیغام بآسانی اطراف واکناف تک پہنچ جاتا ہے اور طلب گاروں کے لیے نبی تک پہنچنا آسان ہوتا ہے، اس ارشاد سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرچہ نبی  پہل کرتے ہوئے خود ہی چل کر بے طلبوں کے پاس جاتا ہے اور اس انتظار میں نہیں رہتا کہ کوئی ضرورت مند خود چل کر آئے گا تو اس کو پیغام سنادوں گا، مگر خود نبی کا ایک ایک آدمی کے دروازے پر چل کر آنا بہرحال ضروری نہیں، بلکہ نبی کا کسی مرکزی مقام میں مبعوث ہوجانا اور اطراف واکناف تک اس کے پیغام کا پہنچ جانا خود ان اطراف کے لوگوں کو بھی ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ خود آگے بڑھ کر مزید خبرگیری کریں اور خدا کے اس منادی کے حوالہ سے صحیح معلومات حاصل کریں۔

خیر، یہاں پر عرض صرف یہ کرنا مقصود ہے کہ کائنات ایک محکم ومکمل دلیل ہے دینِ الہی کے مبنی برحق ہونے کی، مگر انسان کے حواس اور دل ودماغ پر پڑے غفلت کے دبیز پردے عموما اس کو نہ تو کائنات میں کسی اعلی مقصد کے لیے تدبر کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی استنباط کرکے صحیح نتائج تک پہنچنے دیتے ہیں، عام طور یہ حجابات انبیاء کے دعوت وپیغام کو سننے کے بعد ہی دور ہوتے ہیں اور انبیاء ہی کے طریقہء استنباط کو سن کر انسان کو یہ توفیق ہوتی ہے کہ وہ اس کائنات کو کسی اعلی مقصد کے لیے دیکھے اور ایک عظیم الشان طریقہء استنباط کے ساتھ اس سے صحیح نتائج اخذ کرے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انسان کی راہ نمائی کے لیے صرف کائنات نہیں بنائی، بلکہ اس بات کا اعلان بھی کیا کہ پیغمبر بھیجے بغیر گرفت کرنا ہمارا طریقہ نہیں اور بتایا کہ ہر قوم میں ایک سمجھانے والا گذر چکا ہے۔(فاطر: 24)

ہم نے یہاں پر کائنات کی شہادتوں کے حوالہ سے اپنے طور پر کچھ کہنے کی بجائے، آخری آسمانی صحیفہ  ”قرآن“ ہی کے اسلوبِ دلیل وطریقہء استنباط کے حوالہ سے کچھ توضیحات عرض کرنے پر اکتفاء کیا ہے کہ قرآن اور اس کی اتباع میں صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی ایمانیات کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے کس طرح کائناتی حوالوں کا مسلسل ذکر کرتے ہیں اور کس طرح کائنات کے یہ حوالہ جات بنجر دلوں کو سرسبزی وشادابی عطا کرتے ہیں،  اس سے قاری کے سامنے انبیاء کی پیش کردہ مشترکہ اسلامی دعوت کا خلاصہ بھی آجائے گا  اور کائنات سے صحیح نتائج اخذ کرنے کا وہ طریقہء استنباط بھی جو عموما انبیاءِ کرام اللہ تعالی کے حکم  سے بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرتے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں۔

تدبرِ کائنات کی فیصلہ کن اہمیت

دلیل دینے کے معاملہ میں قرآنِ کریم کا ایک نہایت اہم، توجہ طلب اور تقریبا ہر سورہ میں مکرر سہ کرر ذکر ہونے والا  اسلوب یہ ہے کہ یہ طالبِ ہدایت کو بار بار تدبرِ کائنات کی اور کائناتی نقشہ کو جستجوئے حق کے جذبہ سے دیکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ ایک آزمودہ حقیقت  اور خدا کے لاکھوں کروڑوں صالح بندوں کا عملی تجربہ ہے کہ اسلامی ایمانیات کا جو پرکیف اور قطعیت سے بھر پور تجربہ انسان کو کائناتی نقشہ بچشمِ خود دیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور خصوصا خالق کے اسلامی تعارف کا جو بدیہی یا نیم بدیہی تیقن انسان کو اس راہ سے حاصل ہوتا ہے، وہ محض کتابیں پڑھنے اور لفظی دلائل کے سن لینے سے ممکن نہیں۔ جدید انسان کا المیہ یہ ہے کہ یہ بند کمروں میں بیٹھ کر فکری بوکاٹے لڑا نے سے ہی سب کچھ حاصل کرلینا چاہتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے خود ساختہ مصنوعی تفکرات نے اس سے بصیرت کی وہ روشنی سلب کر لی ہے جو زمین وآسمان کے ہوش ربا آثار وتغیرات کو بہ چشمِ خود دیکھنے سے انسان کو حاصل ہوتی ہے۔

جو آدمی قرآن فہمی کا دعوی کرتاہے اور قرآن کے مطالعہ کے ساتھ کائنات کے مطالعہ کو اس نے اپنی زندگی میں شامل نہیں کررکھا تو اس کا دعوائے قرآن فہمی درست نہیں۔ جدید دور کے انسان کے ساتھ یہ بڑا ہی درد ناک المیہ پیش آیا ہے کہ یہ کائناتی نظاروں کے عملی مشاہدہ سے محروم ہوچکا ہے اور انفس وآفاق میں موجود خدا کی عظیم نشانیوں کو بہ چشمِ تدبر دیکھنے کے لیے تیار نہیں، زیادہ سے زیادہ وہ اس سلسلہ میں تفریحی انداز کے اندر چند ایسی  کتابیں پڑھ لینا یا ویڈیوز کو دیکھ لینا ہی کافی سمجھتا ہے جن کے اندر بعض مناظرِ کائنات کی نقشہ کشی کی گئی ہوتی ہے یا پھر جو لوگ عملا دیکھتے بھی ہیں تو وہ جتنا اس کائنات کو مادی اغراض ومقاصد کے لیے دیکھنے میں ترقی یافتہ ہیں اور تدبرِ کائنات کے نام پر جتنی ہوش ربا ترقی انہوں نے اس حوالہ سے  کی ہے، موٹے حروف میں  لکھے ہوئے اور روحِ کائنات کی نشان دہی کرنے والے کائناتی اوراق کو پڑھنے   میں وہ اتنے ہی بدو اور نااہل واقع ہوئے ہیں۔

قرآنی مطالبہ ”تدبرِ کائنات“کالازمی تقاضا ایک تو یہ ہے کہ آدمی اس کائنات کو عملا کھلی آنکھ کے ساتھ بہ چشمِ خود دیکھے، دوسرا یہ کہ طالبِ حق بن کر یہ سب کچھ بہ چشمِ تدبر دیکھے۔ کائناتی مناظر کی نقشہ کشی کو صرف پڑھنا  یا ویڈیوز میں دیکھنا، انہیں عملا کھلی آنکھ کے ساتھ بہ چشمِ تدبر طالبِ حق بن کر دیکھنے کا قائم مقام کبھی نہیں ہوسکتا،ان دونوں کے اثرات میں زمین وآسمان کا فرق ہے اور قرآن کا مطالبہ اپنے قاری سے بنفسِ نفیس تدبر کرنے کاہے، نہ کہ کتابوں میں کائناتی معلومات پڑھنے کا اور سچ کہوں تو نرا کتابی انہماک سرے سے انسان کی اس حس کو ہی مار دیتا ہے جو کائنات کے جلووں میں کوئی ولولہ محسوس کرتی ہے۔ بالفاظِ اقبال

کیا ہے   تجھ کو   کتابوں نے  کور ذوق  اتنا کہ
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

جدید انسان نے الحاد کے من پسند رنگ کی ایک عینک چڑھا کر،  لیبارٹریوں میں جاکے اس کائنات کو صرف اپنے مادی مفادات اور مادی اغراض  کے لیے ہی دیکھا ہے، جبکہ غیر جانب دارانہ نگاہ سے  اس کائنات کو دیکھنے اور اس میں موجود موٹے حروف سے لکھے ہوئے معرفتِ الہی کے اوراق کا سامنا کرکے انہیں اپنے من میں اتارنے میں یہ اتنا ہی پست اور پس ماندہ واقع ہوا ہے۔ سو ظاہر ہے کہ جب ہم لوگ اسلامی مبادیات کی فکری پختگی کو ملاحظہ کرنے  کے لیے اس کائنات کو  بچشمِ خود اس زاویہ سے دیکھیں گے نہیں جس زاویہ سے رب العلمین اس کائنات کو دیکھنے کی بنی نوع انسان کو تلقین کرتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ ہم کائنات کی گواہی کو محسوس کیسےکریں گے اور عملا تدبرِ کائنات کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے ایقان وعرفان کی برکات کیسے حاصل کرسکیں گے، ورنہ جو لوگ اس کائنات کو بچشمِ خود اس زاویہ  سے دیکھتے ہیں تو وہ اس گواہی کو محسوس بھی کرتے ہیں اور اثباتِ مدعا کے لیے کافی وافی بھی سمجھتے ہیں۔

تدبرِ کائنات  اور جملہ اسلامی ایمانیات

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کائنات زیادہ سے زیادہ صرف وجودِ باری تعالی کی دلیل ہے، مگر یہ درست نہیں۔قرآن کریم میں  نہ صرف وجودِ باری تعالی یا  توحید، بلکہ رسالت اور آخرت جیسے امور کے احقاق کے لیے بھی انسان کو کائناتی نظام کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور کائنات ہی کے ایک حوالہ کو جملہ ایمانی بنیادوں کے اثبات کے لیے کام میں لایا گیا ہے۔ قرآنیات کے ایک محقق عالم امام جصاصؒ نے لکھا ہے کہ قرآن جب یہ کہتا ہے کہ کائنات میں انسان کی نصیحت اور سبق آموزی کے لیے آیات (بصیغہ جمع) ہیں تو اس کا معنی ہوتا ہے کہ کائنات میں انسان کے لیے صرف ایک ہی قسم کی ایمانی راہ نمائی نہیں، بلکہ کئی طرح کی ایمانی راہ نمائیاں موجود ہیں۔(احکام القرآن، ابوبکر الجصاص، جلد2، صفحہ66۔ ط: قدیمی کتب خانہ، کراچی) اس امر کی وضاحت کے لیے ہم چند اشارات یہاں عرض کرتے ہیں جس سے ان شاء اللہ بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ قرآن کے استندلالات اس حوالہ سے کتنے نکتہ رس اور مبہوت کن ہیں۔

خدا کا اسلامی تعارف اور تدبرِ کائنات

قرآن کا مطالبہ خدا کو صرف موجود مان لینے کا نہیں، بلکہ دل ودماغ پر اس خدا کی ہیبت طاری کرنے، حقائق کے مطابق اپنے رویے اس رب کے حوالہ سے درست کرنے اور تعظیم ومحبت کا تعلق اس سے قائم کرنے کا بھی ہے اور اسی کا نام ”ایمان باللہ“ ہے۔ نیز جس طرح یہ کائنات وجودِ باری تعالی کا اثبات ہمارے سامنے کرتی ہے، ویسے ہی اس رب  سے تعظیم وتوقیر کا تعلق قائم کرنے کی تلقین بھی ہمیں کرتی ہے۔ چنانچہ قرآن عام طور پر نہ صرف خدا کے وجود کو ماننے کے لیے، بلکہ اس کی عزت وتوقیر  کی لامتناہی حدوں کو سمجھنے کے لیے بھی کائنات میں تدبر کرتے رہنے کی برابر تلقین کرتا ہے۔ وہ سب آیات جن میں کائناتی ڈیزائن  کی طرف اشارہ کرکے خدا کی طرف متوجہ کیا گیا ہے، وہ صرف وجودِ باری تعالی کا ہی  اثبات نہیں کرتیں، بلکہ خدا کے اسلامی تعارف  کا اثبات بھی کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ وہ کن کن صفات کا حامل ہے، کیونکر تعظیم وتوقیر کے لائق ہے،  اس کے ساتھ کیسا معاملہ رکھنا  ہمارے لیے ضروری ہے، اس کے بارہ میں کون سے رویے خطرناک ہیں اور یہ کہ وہ کوئی مشینی خدا نہیں ، بلکہ ایک زندہ وجاوید، متصرف خود مختار  اور علیم وخبیر رب ہے۔

توحید اور تدبرِ کائنات

نیز  توحیدی حرارت اپنے اندر پیدا کرنے  کےلیے بھی قرآن میں انسان کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ کائنات کو دیکھے اور بتائے کہ کیا اس کا ئنات میں خدا کے سوا کسی اور کا کوئی تصرف نظر آتا ہے؟ کیا کوئی ہے جس نے خدا کی دی ہوئی قوتِ تسخیر  اور خدا کے تخلیق کردہ میٹیریل کے بغیر کوئی ایک مکھی ہی اپنی طرف سےبنائی ہو؟ جب ظاہر ہے کہ نہیں اور مشرکین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات میں حقیقی، بالذات اور اولین تصرف صرف ایک ہی ذات کا ہے اور اگر کوئی دوسرا  صاحبِ تصرف ہے بھی تو وہ خود اپنے وجود وبقاء میں اس حقیقی متصرف کا محتاج ہے، جب ایسا ہے تو پھر کسی کو اس  عظیم وجلیل رب کے برابر لا بٹھانے، حاجتوں کے لیے اس کو پکارنے، اس کے سامنے تعظیم وادب کی انتہاء پر چلے جانے، اپنی مشکل برآری کا مالک ومختار سمجھنے اور جو اپنے وجود وبقاء میں ہر آن کسی اور کا محتاج  اور اپنی اصل میں بالکل صفر کی طرح ہے، اسے اس حی وقیوم کی صف میں لاکھڑا کرنے  کی آخر کیا تُک ہے جو اس کائنات کا اول وآخر اور ظاہر وباطن ہے؟ ایک چھوٹے کو ایک بڑے کے برابر لاکھڑا کرکے اور اس پہ اصرار کرکےکیا ہم اس بڑے کی اہانت کے مرتکب نہیں ہوتے؟ اگر انسانوں کے مابین معاملہ کرتے ہوئے ہم حفظِ مراتب کے اس اصول سے کام لیتے ہیں جبکہ نفسِ انسانیت میں وہ سب برابر ہوتے ہیں  تو ایک خدا اور اس کی مخلوق کو برابر لاکھڑا کرتے ہوئے ہمیں یہ اصول اور بڑے کی تعظیم وتکریم کا خیال کیوں عجیب لگتا ہے جبکہ ان دونوں میں درجہ اور رتبہ کے اعتبار سے کوئی چیز بھی مشترک نہیں  اور نہ ہی  آپس میں کوئی تقابل بنتا ہے؟

ایمان بالآخرۃ اور تدبرِ کائنات

اس کے بعد آئیے عقیدہ آخرت کی طرف۔ اس حوالہ سے قرآنِ کریم میں ہمیں کئی طرح کے استدلالات ملتے ہیں۔

استدلال نمبر 1

انسان اس عظیم الشان اور ناقابل یقین وسعتوں کی حامل کائنات کو دیکھنے اور اس کے خالق کی عظمت کا نقش دل میں محسوس کرنے کے بعد جب اس دنیا میں انسانوں کے دو طرفہ رنگ اور ان کی دو طرفہ دوڑ دیکھتا ہے کہ ایک طرف رب کے وفا شعار، اس کے آگے رکوع وسجود کرنے والے، اس کی نعمتوں کا شکر کرنے، اس کی آزمائشوں پر صبر کرنے، اس کی مخلوق کے کام آنے والے اور رب کے ساتھ اپنے رشتہ کے مقابلہ میں ہر رشتہ کو چھوٹا سمجھنے والے اور رب کے نام پر جان دینے کا شوق رکھنے والے ہیں جو اس راہ پر پوری قوت سے دوڑے چلے جارہے ہیں، جبکہ دوسری طرف اسی رب کے کچھ باغی، اس کے خلاف زبان درازی کرنے والے، نعمتوں کو ڈکارکر ان کا انکار کرنے والے، ذرا سا سرد وگرم آنے پر ناشکریوں کے پل باندھنے والے، آزمائش کے پہلو کا مذاق اڑانے والے، غفلت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اسی کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھانے والے، راشی افسروں کی خوشامد کو تہذیب اور خداوندِ کریم کے رو برو رکوع وسجود کو خلافِ تہذیب سمجھنے والے اور کائناتی نظام کو اندھا نظام کہہ کر اس عظیم الشان کائنات کا مذاق اڑانے والے ہیں جو دوسروں کو بھی خدا پرستی کی راہ سے روکنے کے لیے جتن کر رہے ہیں اور اس راہِ بغاوت پر سرپٹ دوڑے چلے جارہے ہیں۔

جب ایک سوچنے سمجھنے والا انسان  انسانوں کی یہ دوطرفہ دوڑ اور یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھتا ہے تو اس کا حساس اور بیدار دل کبھی اس بات پر یقین نہیں کرتاہے کہ جو اس کائنات کا پر جلال، ذی وقار، سمیع وبصیر، علیم وخبیر اور علی شیء قدیر رب ہے، وہ ان دونوں فریقوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے گا، اس کے ہاں سیاہ وسفید کی کوئی تمیز نہ ہوگی اور اس نے یہ جہان  اور اِس جہاں کے دولہا میاں انسان کو بس یوں ہی فنا کے گھاٹ اتارنے کے لیے دنیا کا خلیفہ بنایا ہوگا، اس کے لیے نعمتوں اور رحمتوں کا سمندر بس یوں ہی بہا دیا ہوگا،  سرد وگرم کا ایک سلسلہ بس یوں ہی چلاکر بھول گیا ہوگا، ضروری ہے کہ قیامت کا وہ دن واقع ہو کر رہےجس کی خبر اس کے سچے نبی دیتے ہیں، جب  دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا، یہ کائنات کے رب کی صفاتِ عطمت وجلال کا تقاضا ہے۔ کیا کوئی بھی عزتِ نفس رکھنے والا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو اس نے تخلیق وتدبیر کا ایک عظیم الشان نظام قائم کر رکھا ہو جو ہر دیکھنے والے کی نگاہ کو اس خالق کے عظمت وجلال کے احساس سے آشنا کرتا ہو، جبکہ اس کے ہاں خود اپنے ہی باغیوں اور وفاداروں کا  کوئی فرق نہ ہو، بس سب کو ایک ہی طرح کا صلہ دیا جاتا ہو کہ موت کے گھاٹ اتار کر قصہ مُکا دیا جاتا ہو؟ کیا کوئی عقل والا ہے جو اس بات سے اتفاق کرے؟

انسان کی حیثیت اس دنیا میں باقی جان داروں سے بہت مختلف ہے، یہ اس دنیا کا بادشاہ ہے، دنیا کی رونق اسی کےدم سے ہے، جس ٹھاٹھ اور باٹھ سے دنیا میں یہ رہتا ہے، کھاتا پیتا ہے، سوتا جاگتا ہے،  سردی گرمی کے الگ الگ لباس زیبِ تن کرتا ہے، غیر معمولی گھر تیار کرتا ہے، صبح شام اپنے پیٹ کو بھرنے کے لیے پانی، پیاز، ٹماٹر، مرچ، نمک، گوشت، سبزی کے آمیزے آگ پہ چڑھا تا ہے، ضیافتوں میں شریک ہوکر خوش گپیاں کرتا ہے، شادیوں اور جنازوں کی تقریبات کرتا ہے، بازاروں کو آبادتا ہے، اپنے وجود کو تھکانے کی بجائے سواریوں پہ سوار ہوکر لمبے لمبے سفر کرتا ہے، علم وفن کے کمالات دکھاتا ہے، صنعت وحرفت کے جوہر آزماتا ہے، بحر وبر کے خزانوں پر کمندیں ڈالتا ہے،  لوہے کو موم اور موم کو پتھر کرتا ہے، کیا کوئی اور مخلوق ہے جو اس شان کے ساتھ ہمیں اس دنیا میں نظر آتی ہو؟  انسان کا معاملہ باقی ذی روحوں سے بالکل الگ ہے اور دنیا میں اس کی شاہانہ حیثیت موجودہ سائنسی دور میں تو کچھ زیادہ ہی کھل کر نظر آرہی ہے، اس کو عقل صرف کھانے کے نت نئے ذاتقے تیار کرنے کے لیے یا خلابازی کے کرتب دکھانے کے لیےہی نہیں دی گئی، یہ عقل اپنے رب کے معاملہ میں بھی استعمال کرنی ہے، خدانے اگر انسان کو اس کرہ ارض کا خلیفہ اور بادشاہ بنایا ہے تو ضرور اس کے پیچھے کوئی خاص مقصد بھی ہے، اگر شاکر وکافر کا کوئی فرق نہ ہو، صالح اور فاسق کا کوئی فرق نہ ہو، ظالم اور عادل کا کوئی فرق نہ ہو، ساجد اور باغی کا کوئی فرق نہ ہو، تعظیم وتمسخر میں کوئی فرق نہ ہو، رحم اور فساد میں کوئی فرق نہ ہو، بس سب نے ایک ہی طرح اس دنیا کا سرد وگرم سہہ کر پیوندِ خاک ہونا ہو تو اس انسان کی خلافتِ ارضی بے مقصد ٹھہرتی ہے اور ایسا تصور اختیار کرنا  خود خدا سےبدگمانی اور بہت بڑی بد گمانی کے مترادف ہے۔ قرآن میں ہے:

”أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ ۔ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ“ (القلم: 35، 36)

یعنی ”کیا ہم فرماں برداروں کو مجرموں کی طرح کردیں گے، تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کیسی بہکی باتیں کہتے ہو؟“

استدلال نمبر 2

خدا کے ہاں اچھے برے کی تمیز کا یہ عالم ہے کہ وہ ہم انسانوں کے ضمیر اور خمیر میں رحم وعدل کی فطری تحسین اور ظلم وبے ہودگی کی فطری کراہیت پیدا کرکے ہمیں زمین پہ اتارتا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس رب کے ہاں اچھے بری کی تمیز اتنی ضروری ہے اور وہ اس حوالہ سے ہمیں صاحبِ تمیز دیکھنا چاہتا ہے، کیا وہ  کبھی نامہ سیاہوں اور روشن پیشانیوں کو ایک لاٹھی سے ہانک سکتا ہے اور یہ کہ ایسا سوچنا کیا اس رب کی بے توقیری اور بے تعظیمی کے مترادف نہیں ہے؟ اس استدلال کا اشارہ ہمیں قرآن میں سورہ القیامہ کی پہلی دو آیات کے اندر اور سورہ الشمس کی آیات 7۔10 میں مل سکتا ہے، اگرچہ ان مقامات پر کہی گئی بات کا مقصود صرف  اسی استدلال پر روشنی ڈالنا نہیں، بلکہ اور بھی بہت کچھ وہاں مضمر ہے۔

استدلال نمبر 3

نیز یہ جہان ، اس میں انسان کی شاہانہ زندگی کا سامان، اس کی خدمت میں مصروف ایک ناقابلِ یقین اور عظیم الشان خواب ناک نظام اور خدا کے حوالہ سے سوچنے پر مجبور کردینے والے زمین وآسمان کسی بھی ذی شعور انسان کو یہ سوچنے پر حقیقتا مجبور کردیتے ہیں کہ خدا نے یہ سب ہمیں اپنی ذات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے بنایا، وہ ان کائناتی نشانیوں کے ذریعہ ہمیں اپنی ذات کا تعارف کرانا چاہتا ہے، اپنی ذات وصفات کی وحدانیت پر دلائل قائم کرکے  انسانوں کے رویوں کو آزمانا چاہتا ہے، اپنی عظمت وجلال کا نقش ہمارے دل میں بٹھانا چاہتا ہے، ہمیں اپنی بندگی کا پیکر بنانا چاہتا ہے اور اگر انسان کے کفر وشکر یا خدا کے معاملہ سے بالکل لاتعلق رہنے کے رویہ کا اس کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑنا ہوتا تو خدا  سرے سے اس جہان کو ہی نہ بناتا، نہ انسان کو سوچنے سمجھنے والا دماغ دیتا، نہ اپنی یاد میں تسکین کا سامان رکھتا اور نہ ہی ہماری آنکھوں کے سامنے اپنی نشانیوں کا ایک ناپیدا کنار جہان کھڑا کرتا۔ ضرور خدا ہمیں اپنی ذات کے حوالہ سے بیدار، حساس اور محتاط دیکھنا چاہتا ہے اور اسی لیے اس نے یہ سب کچھ کیا ہے۔  استدلال کی اس صنف کو ایک جگہ قرآن میں  مومنوں کے دل کے احساس کی صورت میں بیان کیا گیا ہے:

”رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ“ (آل عمران: 191)

یعنی ”اے ہمارے رب! تو نے یہ سب بے کار اور بے مقصد پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے اس سے (بلکہ تونے ضرور یہ سب ہمیں اپنا تعارف کرانے کے لیے بنایا ہے)۔“

نیز ایک اور جگہ ارشاد ہے:

”وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَھُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ۔ أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ ۔ كِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ“ (ص: 27-29)

یعنی ”ہم نے آسمان وزمین کو اور ان کے مابین کو بے مقصد پیدا نہیں کیا ( بلکہ اس سے مقصود  اپنی ذات کی توحید وتعارف پر دلائل قائم کرنا اور انسانوں کو اپنی عبادت ومعرفت کی طرف متوجہ کرنا ہے، سو جو شخص اب بھی ہماری راہ سے اعراض کرے گا اور کائنات کے عظیم الشان نظام کو بے مقصد ٹھہرائے گا تو اس پر ہمارا عذاب واجب ہوگا)، کائنات کو بے مقصد سمجھنا  اور اس کی سبق آموزی سے انکار کرنا اہل کفر کا خیال اور گمان ہے اور ہماری نسبت ایسے گھٹیا خیالات رکھنے والے اہلِ کفر کے لیے ہلاکت خیز جہنم تیار ہے۔ کیا ہم ایمان اور اعمالِ صالحہ کی زندگی گذارنے والوں کو ان کی طرح کردیں گے جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں؟ یا کیا ہم بچ بچا کر احتیاط سے زندگی گذارنے والوں کو بد دیانتوں کی طرح کردیں گے؟ (اے نبی!) یہ بابرکت کتاب ہم نے تمہاری طرف اس لیے نازل کی ہے کہ لوگ اس کی آیات میں غور کریں اور اصحابِ عقل اس سے سبق حاصل کرسکیں۔“

اس طرح کی آیات جن میں کائنات کی مقصدیت اور انسان کی مقصدیت کی بات کہی گئی ہے، قرآن میں جابجا بکھری ہوئی ہیں، جن کا خلاصہ یہی ہے کہ ہم نے نہ تو کائنات کے عظیم الشان نظام کو پیدا کرکے انسان کے سامنے بے مقصد لاکھڑا کیا ہے اور نہ ہی  ہم اپنے وفاداروں وباغیوں کو ایک لاٹھی سے ہانکیں گے، یہ کائنات ایک حق مقصد کے ساتھ پیدا کی گئی ہے اور وہ یہی ہے جس کی طرف کائنات اصحابِ تدبر کو چیخ چیخ کر متوجہ کرتی ہے، یعنی میرا ایک خالق ومالک ہے،  وہ عظمت وجلال اور رحم وکرم کا پیکر ہے، سمیع وبصیر اور علیم وخبیر ہے، کائنات اس کے حکم میں بندھی ہوئی ہے،  اس کو جانو اور مانو اور ویسے مانو جیسے ماننے کا حق ہے یا پھر  اس کے حق میں کوتاہی کے مرتکب ہوکر ایک دہشت ناک انجام کے لیے تیار ہوجاؤ۔  اس مضمون کا اشارہ قرآن میں سورہ  الانعام کی آیت 73 میں، سورہ  یونس کی آیت 3، 4، 5 میں، سورہ زمر کی آیت 5-7 میں، سورہ انبیاء کی آیت 16-18 میں، سورہ حجر کی آیت 85، 86 میں،  سورہ دخان کی آیت 38-42 میں، سورہ ص کی آیت 27-29 میں،  سورہ آلِ عمران کی آیت 190، 191 میں،  سورہ جاثیہ کی آیت 21، 22 میں، المومنون کی 115-118 میں اور سورہ قیامہ کی آیت 36-40 میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ کائنات کی مقصدیت کے اس ایک حوالہ سے غور وفکر کرنے کی سنجیدہ حس اگر انسان میں بیدار ہوجائے اور وہ اپنے اندر حق کی سچی طلب پیدا کرلے تو دنیا کی کوئی رکاوٹ اس کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی، وہ بتائیدِ الہی دینِ حق تک پہنچ کر ہی رہے گا، ان شاء اللہ۔

استدلال نمبر 4

جو لوگ عقیدہ آخرت پہ گفت وشنید کرتے ہیں، ان کا ایک بڑا اشکال یہ ہوتا ہے کہ آخر موت کے بعد زندگی کیسے ممکن ہے؟ انہیں یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ جنت وجہنم کا جہان کیسے وجود میں آئے گا؟ مرے ہوؤں میں پھر سے زندگی کا رشتہ کیسے جڑے گا؟ جو مر کے مٹی میں مل گئے، جن کی خاک کو ہوا نے اڑا کے کہیں سے کہیں بکھیر دیا، جن کی ہڈیاں بھی پیوندِ خاک ہوگئیں، ان کا جب تخم ہی ملنے کا نہیں تو ان میں نئی زندگی  کا بلب کیسے روشن ہوگا؟ عرب کے مشرک اور جاہل بدو ہی نہیں، آج کے عقل پرست ملحد بھی عقیدہ آخرت پہ اس طرح کا اشکال کرتے ہوئے پائے گئےہیں اور ان کے بڑے بڑے ”ذہینوں“ کی سوئی بعض اوقات اسی سوال پہ اٹکی ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن نے بہت دفعہ  عقیدہءِ آخرت کے اثبات کے لیے اور اس حوالہ سے لوگوں کے دماغ میں پیدا ہونے والے جالے کی صفائی کے لیے فقط قدرتِ خداوندی ہی کو بیان کرنے پر اکتفاء کیا ہے کہ دیکھو! اک نیا جہان کسی نتھو خیرے نے نہیں، اسی اللہ نے بنانا ہے جس نے یہ سارا ناپیدا کنار جہان سجایا ہے، پھر اس کی تخلیق پہ اعتراض کیسا اور اشکا ل کیسا؟

کیا جس نے یہ سارا جہان پیدا فرمایا، رنگ وبو کا  فرش بچھایا، کسی کو اڑنا کسی کو پھدکنا سکھایا،  آنکھوں کو چمکنا اور کانوں کو بجنے والا بنایا،  کائنات کے نظاروں سے انسانی نگاہوں کو خیرہ فرمایا، کیا وہ یہ سب بنانے کے بعد اب خالی ہاتھ ہوگیا ہے، کیا نئے سرے سے ایک اور جہان کھڑا کردینا اس کے لیے مشکل ہوگیا ہے؟ اگر کسی کو یہ رویہ علم وعقل کا نتیجہ لگتا ہے تو اس کے دماغی افلاس اور ذہنی دیوالیہ پن پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، کم ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ نیا جہان بھی اسی نے بنانا ہے جس نے یہ جہان بنایا، پھر اشکال کس بات کا اور الجھن کس بات کی؟ایک جگہ ارشاد ہے: ”قُلْ يُحْيِيھَا الَّذِي أَنشَأَھَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَھُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ“ (یس: 79) یعنی آخرت کا جہان اسی نے بنانا ہے جس نے یہ نظر آنے والا جہان بنایا۔ باقی کائنات صرف خدا کی قدرت کا نہیں، بلکہ آخرت کے فی الواقع اثبات کا بھی سامان اپنے اندر رکھتی ہے اور اس حوالہ سے چند اشارات ہم عرض کرچکے ہیں۔

ایمان بالرسالہ اور تدبرِ کائنات

اب آتے ہیں رسالت کی طرف، اللہ کی ذات کا یقین سارے ایمان کی جان اور بنیاد ہے اور یہ یقین جتنا کائنات کو دیکھنے سے حاصل ہوتا ہے، اتنا کسی اور ذریعہ سے قطعا ممکن نہیں ہے۔ کائنات کو دیکھنے سے نہ صرف اللہ کی ذات کا یقین حاصل ہوتا ہے، بلکہ اللہ کی صفات (حکیم، خبیر، قدیر، علیم، عظیم، جلیل، حلیم،  حی وقیوم، رحمن ورحیم، جبار وقہار، سمیع وبصیر وغیرہ) کا علم بھی حاصل ہوتا ہےاور اللہ کی ذات کا رعب دل میں پیدا ہوتا ہے، پھر یہی رعب انسان کو اس رب کے حوالہ سے اپنے رویے درست کرنے اور غلط رویوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر اکساتا ہے، کائنات کے خالق ومالک اور رب کے حوالہ سے محتاط اور حساس بناتا ہے، اسی احتیاط اور حساسیت کے تحت جب کوئی آواز سنائی دے کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں تو وہ اس پر چونک اٹھتا ہے، صاحبِ آواز کی صدق وسچائی اگر غیر مشتبہ ہو تو وہی ربِ کائنات کا رعب اس کو اس صاحبِ آواز کا حلقہ بگوش بناتا ہے۔ اس کی نظر میں اس بات کے اندر کوئی عقلی استحالہ نہیں ہوتا کہ ربِ کائنات غیب کے پردوں کو چیرتے ہوئے اپنے کسی بندہ پر اپنا پیغام نازل کرے۔ یوں اس رب  کی اپنی تمام تر صفات کے ساتھ موجودگی کا یقین، اس کی ہی ناراضگی کا خوف، اس کے عتاب سے بچنے کی لگن  اور اس کے ”علی کل شیء قدیر“ ہونے کا احساس اسے  انبیاء کے دامن سے وابستہ کرتا ہے، یہی طرزِ فکر پہلے بھی نیک بخت روحوں کو انبیاء کا حلقہ بگوش بنا کر رب العلمین کے رنگ میں رنگتا تھا اور یہی طرزِ فکر آج بھی انسان کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے درِ فیض تک پہنچا کر اس میں ربانیت کی شان پیدا کرسکتا ہے۔

”ایمان بالرسالۃ“ اور تدبرِ کائنات کے باہمی تعلق  کی یہ بات ہم یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ انسان ”تقوی“ اختیار کریں، ”تقوی“ کا لغوی معنی ہے: ”بچنا اور بچاؤ کرنا“، جبکہ اس کا مفہوم اورمعنی مرادی ہے: ”اپنے اندر احتیاط اور حساسیت کا رویہ پیدا کرنا۔“ اب سوال یہ ہے کہ یہ تقوی، احتیاط اور حساسیت کا رویہ کس کے بارہ میں اختیار کرنے کا مطالبہ  کیا جارہا ہے تو جواب ظاہر  ہے کہ یہ مطالبہ اللہ کی ذات کے حوالہ سے  ہے کہ رب العلمین کے حوالہ سے ہمارا معاملہ صرف عقلی اثبات کی حد تک محدود نہ ہو بلکہ اس حوالہ سے ہمارے اندر ایک گرمیء احساس بھی ہو، رب کی عظیم الشان صفات کا ادراک ہو اور اس کے حوالہ سے رعب وہیبت کا ایک نقش ہمارے دل میں پایا جاتا ہو، اس کے حوالہ سے ہم کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند نہ رکھیں،  وہ زندہ وجاوید رب موجود ہے، ہماری ہر حرکت اس کے نوٹس میں ہے، ہم  اپنے تحفظ کا سامان کر لیں اور اس کے حوالہ سے حساس بن کر زندگی گذاریں۔ اس کیفیت کا نام ”تقوی“ ہے۔

یہ کیفیت جس انسان کے اندر بھی ہوگی تو اس کا ضمیر اپنے رب کے حوالہ سے متحرک رہے گا، اس حوالہ سے غلط اور صحیح کی راہ نمائی اس کو دیتا رہے گا اور جب کسی منادی کی  آواز سنائی دے گی کہ میں خدا کا رسول ہوں، تم سے دنیا کی کوئی متاع نہیں چاہتا ہوں، بس خدا ہی کے حوالہ سے تمہاری راہ نمائی کرنے کے لیے اور تمہارے اندر عبدیت اور ربانیت کی شان پیدا کرنے کے لیے مبعوث ہوا ہوں تو ممکن ہی  نہیں کہ یہ ضمیر انسان کو اس آواز سے لاتعلق رہنے دے۔ خلاصہ معروض یہ ہے کہ خدا کے حوالہ سے تقوی، احتیاط اور حساسیت کی کیفیات انسان کے اندر خود منادیء رسالت کے حوالہ سے بھی حساسیت کی کیفیات پیدا کرتی ہیں، اب خدا کے حوالہ سے انسان کے اندر تقوی کی کیفیت پیدا ہوجائےاور مردہ احساسات میں زندگی کی حرارت پیدا ہوجائے، اس کے لیے تدبرِ کائنات بہترین ”ٹانک“ ہے کیونکہ تقوی کی یہ کیفیت جڑی ہوئی ہے اس نقشِ عظمت کے ساتھ جو انسان کے دل میں ربِ کائنات کے حوالہ سے پایا جاتا ہے، یہ نقش جتنا مضبوط ہوگا، تقوی کی کیفیت بھی اتنی ہی قوی ہوگی اور ہم بتا چکے ہیں کہ خدا کی عظمت کا نقش دل میں پختہ کرنے کے لیے خود قرآن اور صاحبِ قرآن صلی  اللہ علیہ وسلم کے ہاں سب سے زیادہ اور سب سے بڑا حوالہ کائنات کا دیا گیا ہے۔ اب اس تقوی کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ انسان منادیء رسالت کی آواز پر کان دھرے، اس کی نداء کو ”سنی ان سنی“ نہ کرے اور اس کے بارہ میں خبر گیری کرکے ایمان لے آئے، جبکہ ”ایمان بالرسالۃ“ کے بعد اسی تقوی کی کیفیت میں ترقی کی ایسی ایسی راہیں کھلتی ہیں کہ انسان ربانیت کا پیکر اور بذاتِ خود اللہ کی ایک برہان  بن جاتا ہے۔ اس تقوی کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن میں درجنوں اور بیسیوں بار مختلف الفاظ میں اس  پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

مثلا سورہ نساء کے آغاز پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ”اے انسانو! اپنے اس رب سے بچ بچا کر چلو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ۔۔۔“ یا ”سورہ یس“ میں ارشاد ہے کہ ”آگے اور پیچھے سے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے زندگی بسر کرو تاکہ تم مستحقِ رحمت بن سکو“تو  نادان لوگ یقینا ”بچ بچا کر چلنے“ کی اس ہدایت کا یقینا کوئی عجیب وغریب مفہوم ہی تراشیں گے مگرایک سلیم الطبع انسان کی نظر میں اس کا مفہوم بالکل واضح ہے اور وہ وہی ہے جو ہم عرض کرچکے ہیں کہ اپنے اندر خدا کے حوالہ سے حساسیت پیدا کرو، اس کے بارہ میں زندہ ضمیری کا ثبوت دو، ایسے افعال اور رویوں سے اپنی حفاظت کرو  جن میں ربِ عظیم کی بے توقیری کا پہلو پایا جاتا ہو اور جن کے نتیجہ میں تمہیں ربِ کائنات کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے۔ حکم ہے کہ اس دنیا میں چونکہ اللہ کی بے توقیری کی مختلف شکلوں کا ایک جنگل اگا ہوا ہے، سو اس جنگل کے اندر تم اپنی آنکھیں اپنے رب کے حوالہ سے کھلی رکھو اور ساری زندگی ایسی حساسیت اور احتیاط (تقوی) کے ساتھ گذارو جیسے کوئی آدمی خار دار جھاڑیوں کے پاس سے گذرتے ہوئے خود کو آگے اور پیچھے سے بچاتے ہوئے چلتا ہے یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ جس طرح ایک باخبر اور بارعب ریاست کا عام شہری حاکمِ وقت کے رعب اور ہیبت کی وجہ سے ملکی قوانین کو بائی پاس کرنے کا تصور نہیں کرسکتا یا جب کبھی حاکمِ وقت کے سامنے موجود ہو تو خصوصیت کے ساتھ ایسی سب حرکتوں سے اجتناب کرتا ہے جو اس بارگاہ کی نزاکتوں کے خلاف ہوں۔

اب سوچئے کہ جو آدمی واقعتا رب کو رب سمجھے گا، کائنات کو اور کائنات میں اپنی موجودگی کو اسی رب کے حوالہ سے دیکھے گا،  اس کے حوالہ سے واقعی بچ بچا کر احتیاط سے چلے گا، اس کے معاملہ میں کوئی رویہ اختیار کرتے ہوئے واقعی حساسیت سے کام لے گا تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ خدا کے  منادیوں کی آواز کو خاطر میں نہ لائے، ان کی آواز کو سنی ان سنی کردے اور ان کے حوالہ سے کوئی خبر گیری ہی نہ کرے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک آدمی کے دل میں قانون اور ریاست کی تعظیم بھی ہو، لیکن جب اسی قانون اور ریاست کا کوئی نمائندہ اس کے پاس آئے تو وہ اس کی آواز کو سنی ان سنی کردے، اس کو دروازہ سے ہی دھتکار دے اور اس کے بارہ میں یہ تک خبر گیری نہ کرے کہ کہیں اپنے بارہ میں ریاستی نمائندہ ہونے کا اس کا دعوی مبنی بر حقیقت تو نہیں تھا تاکہ پھر حسبِ حال اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا۔ ظاہر ہے ایسی حرکت کوئی ایسا آدمی ہی کرسکتا ہے جس کے دل میں ریاست اور قانون ہی کی کوئی تعظیم نہیں ہے۔ سو رسولوں کا معاملہ خدا سے الگ نہیں ہے، اگر ایک آدمی خدا کی تعظیم پر یقین رکھتا ہے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ خدا کے منادیوں کی آواز کو سنی ان سنی کردے اور ان کے حوالہ سے اس خبر گیری تک کی ضرورت محسوس نہ کرے کہ کیا یہ منادی اپنے دعوی میں سچا ہے یا جھوٹا۔ لاتعلقی کا یہ انداز کوئی ایسا آدمی ہی اختیار کرسکتا ہے جو خود خدا سے ہی لاتعلق ہے۔

تاہم خدا کی تعظیم کا یہ معنی نہیں کہ اب ہر مدعیء رسالت کے سامنے ادب سے سر جھکا دیا جائے، بلکہ خداوند ہی کی تعظیم کے احساس کے ساتھ جس طرح کسی مدعیء رسالت کی صداقت واضح ہوجانے کے بعد خود کو اس سے وابستہ کرنا ضروری ہے، بعینہ اسی طرح اگر کسی مدعیء رسالت کا جھوٹ اس حوالہ سے ثابت ہوتا ہے تو اسی خداوند ہی کی تعظیم کے احساس کے تحت خدا کا ایک مومن بندہ اپنے آپ کو اس سے دور رکھے گا، اس کے دھوکہ پر لوگوں کو متنبہ کرے گا۔ خدا جب کسی انسان کو اپنا پیغمبر بناتا ہے تو اس کو صداقت کے عام فہم دلائل بھی دیتا ہے اور جب کوئی جھوٹا خود کو اس کا رسول بتاتا ہے تو خدا لوگوں کو اس کے شر سے بچانے کے لیے اس کے جھوٹ کا پول بھی ضرور کھولتا ہے اور یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ درج بالا کلام کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں دیگر ایمانی رویوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ، خود رسولوں کی نداء پر لبیک کہنے اور ان کے معاملہ کو اپنے سے متعلق سمجھنے کا احساس پیدا کرنے  کے لیے بھی کائنات کا حوالہ دیا گیا ہے۔

قرآنی ورلڈ ویو کی اہمیت وافادیت

چونکہ قرآن خدا کی طرف سےسائنسی اور غیر سائنسی دونوں طرح کے ادوار وافراد کے لیے آخری پیامِ ہدایت بن کر آیا ہے اس لیے اس میں کائناتی جلووں میں سے عموما صرف اس جہان کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور جس تک رسائی پانے کے لیے انسانی نگاہ کو نہ خورد بین کی ضرورت ہے، نہ ہی دور بین کی، نہ خلائی شٹل کی اور نہ ہی اس کے بھاری بھرکم اخراجات کی، تاکہ ہر کس وناکس اس سے فائدہ اٹھا سکےاور کسی کو بھی اس سے استفادہ کرنے میں کوئی مانع پیش نہ آئے۔ نیز اس وجہ سے بھی کہ انسان  کی ہدایت کے لیے خود سائنٹفک دور میں بھی صرف اس کھلی آنکھ سے نظر آنے والی کائنات کا مطالعہ کافی شافی ہوگا بشرطیکہ آدمی ہدایت کا طالب ہو، ورنہ خلاو پاتال کے غوطے بھی اس کو فائدہ نہیں دیں گے۔ دور بین ایجاد ہوجانے کے بعد نہ تو یہ جہان انسان کے لیے بے قیمت ہوگیا ہے اور نہ ہی قرآن کی پیش کردہ تصویرِ کائنات نے اپنی قیمت کھوئی ہے۔

جدید انسان کو ایک ہوس لگی ہوئی ہے کائنات کی پنہائیوں میں جھانکنے کی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جتنا کچھ اللہ نے ہمارے سامنے رکھا ہے اس کا پورا سبق ہم پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ معاش کی تگ ودو سے کچھ وقت نکالئے،انکارِ مذہب کے فیشن کو چھوڑیے اور ہدایت کی طلب کے ساتھ اللہ کی طرف قدم بڑھائیے، دھوپ اور چھاؤں کی طرح آپ کو شکر وکفر کا فرق بھی اسی زمین پر سمجھ آجائے گا اور اللہ خود بڑھ کر آپ سے آملے گا۔ آسمان ، تاروں، جھلملاتی کہکشاؤں، چمکتے اجالوں، بہتے نالوں، فلک بوس پہاڑوں، سرسبز گلستانوں، سرد وگرم ہواؤں، بادل سے ابلتے فواروں، سنہری دھوپ اور خنک چھاؤں، خزاؤں وبہاروں، ہوا میں تیرتے بادل کے سائبانوں، ست رنگی چہکاروں، چڑھتے اترتے سورج اور گھٹتے بڑھتے چاند کےایمان پرورنظاروں، سمندر کی بے قابو امواجوں، ابلتی آبشاروں، خاک سے نکلتے سبزی، اناج اور پھلوں کے رنگ برنگی خزانوں میں آج بھی حیرت واستعجاب کی ایک دنیا موجود ہے، بس جدید انسان کے مزاج میں خلل آگیا ہے جو یہ موبائل نامی آلہ پر تو حیران ہوتا ہے لیکن کان اور زبان کی تخلیق پر نہیں، دور بین پر حیران ہوتا ہے اور خود اپنی آنکھ پر نہیں، سائنسی کھلونوں پر حیران ہوتا ہے اور انسانی دماغ کی تخلیق پر نہیں، نہ اس عظیم خالق پر جس نے اربوں کی تعداد میں انسانی دماغ بنائے اور ان میں کرشمہ سازی کی صنعت لگائی۔ بند کمروں، مصنوعی روشنیوں اور جدید تہذیب کی افسوں کاریوں میں پھنسا ہوا انسان اس کائنات کو بچشمِ خود کسی اعلی مقصد کے لیے دیکھنے کو تیار نہیں۔

راہ روانِ سائنس کی زندگی  بہت گاڑھے اور عمیق تدبر کے باوجود کنوئیں کے مینڈک کی طرح ہے جو اپنے کنوئیں سے باہر جھانکنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ کہنے کو تو اس وقت انسان کی دریافت کافی ”پَرِے“ تک پھیل چکی ہے،  لیکن اگر ہدایت کا طالب بن کر صرف چاند سورج تک پھیلی ہوئی کائنات کو ہی دیکھ لیا جائے تو یہ انسان کی بصیرت کے لیے نہ صرف کل کافی تھا بلکہ آج بھی کافی ہے۔ سائنس کی غیر معمولی ترقی کے باوجود  انسان کی نگاہ مادے سے آگے نہیں جارہی اور اس ترقی کے پیچھے جن لوگوں کا سرمایہ لگا ہوا ہے، انہی کے اغراض ومقاصد اور انہی کےمشن کی تکمیل ہی پیشِ نظر ہے۔ طلبِ ہدایت کے ساتھ اگر وہ صرف کھلی آنکھ سے نظر آنے والی اس کائنات کو ہی  دیکھ لیں تو ان کی ہدایت کا سفر آسان ہوسکتا ہے اور یہ کائنات انہیں اسلام کی حقانیت تک پہنچا سکتی ہے۔ لیکن جب کسی کی اغراض مادیت اور معاشی مقاصد سے آگے بڑھتی ہی نہیں ہیں،  انکارِ مذہب کو ایک فیشن بنالیا گیا ہے اور کوئی مذہب خواہ کتنا ہی سائنٹفک ہو، اس کی پیروی کو بالعموم دوسری نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے تو ذرا سوچئے کہ اس رویہ کے ساتھ ہدایت کا سفر کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔

یہ کائنات سرچشمہء نصیحت ہے، اس کے لیے وقت نکالئے اور اللہ کی دی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کبھی کبھی تنہائی میں رہ کر صرف عارفانہ نگاہ سے اس کو دیکھئے، دین ومذہب کے بارہ میں آپ کے بہت سے سوالات خود بخود آپ کی جان چھوڑ جائیں گے۔ کائناتی نقشوں میں جب ایک بار آپ خدا کی صناعی کے جلوے دیکھنے کے عادی ہوگئے تو پھر  سائنس کی مصنوعی روشنیاں بھی آپ کے لیے حجاب نہیں بنیں گی، ان روشنیوں میں بھی خدا ہی کا وجود دِکھے گا، جو سائنسی کھلونوں کا خمار  آج سر پہ سوار ہے وہ اتر جائے گا اور یہ سائنس سے قبل سائنس دانوں کے خالق ورب کی ہی یاد دلائیں گے،  اس کے بارہ میں سوچنے  کی اہمیت کا احساس دلائیں گے اور اس کے معاملہ کو خود سے غیر متعلق سمجھنے کے جدید فیشن  پر   آپ کو چوکنا کریں گے۔

اگر عارفانہ نگاہ کے ساتھ اس کائنات کو دیکھنے کی حس انسان میں بیدا ہوجائے (جو بدقسمتی سے مصنوعی طرزِ زندگی کی وجہ سے بے ہوش ہوئی پڑی ہے) توچُلو بھر پانی بھی انسان کی آنکھوں کو جکڑ لیتا ہے،  کائنات کے وہ چھوٹے چھوٹے رنگ جنہیں ہم معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں وہ انسان کو اپنی گرفت اور ٹرانس میں لے لیتے ہیں، دو چار دن تک اگر آدمی آسمان کو  ، سورج کو اور اڑتی پھدکتی زندگی کے رنگوں کو  درس وعبرت کی نگاہ سے نہ دیکھ پائے تو اس کو اپنے اندر ایک خلا محسوس ہوتا ہے،  دیکھ لے تو گذرا ہوا وقت یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی قفس میں گذرا ہو اور اس راہ سے اسلامی ایمانیات کا تیقن حاصل ہونے کے بعد آدمی کو محسوس ہوتا ہے کہ اسلام اور خدا کے اسلامی تعارف کی حقانیت اتنی پیچیدہ اور مبہم نہیں جتنی کہ ہم نے سمجھ رکھی ہے اور یہ کہ اس کا ادراک کرنے کے لیے تو بس ہوش وحواس کی سلامتی درکار  ہے۔

ہم لوگ چونکہ بچپن سے اس کائنات کو سرسری نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں اس لیے بڑے ہوکر بھی اسے بس سرسری نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں اور ایمان ومعرفت کی معراجی کیفیات کا ہمیں تجربہ نہیں ہوتا، ورنہ یہ جیتا جاگتا جہان جو ہمارے سامنے موجود ہے، ایک عظیم الشان مشاہدہ کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر ہم حقیقت پسندی کی آنکھ کھولیں  اور ذرا سنجیدگی سے اس کو دیکھتے رہا کریں تو رفتہ رفتہ منظر صاف ہوگا، آنکھیں ماحول سے مانوس ہوں گی اور ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم آج تک کتنی بڑی حقیقت  اور کتنے حیران کن مشاہدہ سے محروم رہے۔

گذشتہ گفتگو سے ہمارا یہ مقصود قطعا نہیں ہے کہ سائنس فی اصلہ اسلام  کی حریف ہے یا  اسلام سائنس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، اگر کسی کو یہ تاثر ملا ہے تو اس کے لیے دعائے خیر ہی کی جاسکتی ہے۔ ہمارا مقصود فقط یہ رہاہے کہ   جدید انسان کو مصنوعی روشنیوں کی تنگ ناؤ سے نکل کر اس وسیع وعریض کا ئنات کے رنگوں کو خود اپنے حواس کے ذریعہ سے محسوس کرنا چاہئے، اس سے بصیرت میں بے پناہ اضافہ ہوگا اور دوسرا یہ کہ اسلام اپنی صداقت کے اثبات کے لیے جدید سائنسی حوالوں کا محتاج نہیں، اگر چہ خود ان کی وجہ سےبھی اسلام کے ہی موقف کو مزید تقویت ملتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں، تاہم جو طاقت بچشمِ خود اور بچشمِ تدبر کائنات کو دیکھنے میں ہے، اس کا کوئی بدل نہیں۔ گذشتہ گفتگو سے مقصود صرف یہی ہے۔

آخری بات

کائنات کا حوالہ جو قرآن میں ایک تسلسل کے ساتھ دیا جاتا ہے، وہ  ایمان باللہ، ایمان بالرسول اور ایمان بالآخرہ سمیت انسان کے تمام تر ایمانی رویوں کی اصلاح کے لیے گویا بیک وقت مفید ہے اور یہ سب ایمانی حقائق نہایت موٹے حروف کے اندر کائناتی اوراق پر لکھے ہوئے ہیں۔ مندرجہ بالا سطور میں ہم نے اس تدبر کے منہج کو قرآنِ کریم کی روشنی میں واضح کیا ہے اور اس کے نتائج کو عقلی ولفظی ضابطوں کی شکل میں بیان کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان ضابطوں کے بیان میں کوئی جھول رہ گیا ہو، قاری کو یہ جھول ڈھونڈنے اور ان پر تنقید کے نشتر تیز کرنے کی بجائے عملا تدبرِ کائنات کی طرف قدم بڑھانا چاہئے۔ تدبر کی تاثیر کا صحیح اندازہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب آدمی عملا تدبر کرے اور اسے اپنے روز مرہ وظائف میں شامل کرے۔

ہم نے یہاں وجودِ باری تعالی، توحید، رسالت اور آخرت کے بارہ میں تدبر کے مختلف مناہج الگ الگ بیان کیے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید تدبر کی ان تمام انواع کے لیے الگ الگ بساط بچھانے کی ضرورت ہے، مگر فی الواقع یہ جدا جدا نہیں ، بلکہ ایک ہی شجر کے برگ وبار ہیں، طالبِ حق کا تدبر آہستہ آہستہ اس کے دل کی سیاہی کو دور کرتا ہے اور الوہی نظام کے حوالہ سے قرآنی منہج کے مطابق کیا گیا اس کا تدبر  اسے مذکورہ تمام اسلامی ایمانیات کے حوالہ سے ایک زبردست تجربہ سے روشناس کراتا ہے۔ مذکور الصدر ضابطے شاید کسی کو پڑھنے میں کچھ مشکل محسوس ہوئے ہوں، مگر کائناتی تدبر اور اس کے نتائج بالکل سہل الحصول اور نیم بدیہی شان کے حامل ہیں، عملا تدبر کی راہ پر چلنے والا شخص خواہ کوئی بدو ہو یا بہت بڑا مفکر، اسلامی ایمانیات کو صرف عقلی اثبات کی صورت میں نہیں، بلکہ ایک نیم بدیہی احساس کی صورت میں اپنے اندر موج زن پاتا ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ جس خدا نے مجھے پیدا کیا اور یہ سب کچھ پیدا کیا ہے، پیدا کرکے  ست رنگی نعمتوں کے جھولے میں ڈالا ہے،  کیا اس کا حق نہیں کہ اس کے نبیوں کی صداقت اگر الم نشرح ہوجائے تو میں ان کی طرف گوش بر آواز ہوجاؤں، کائناتی حقیقت، انسان کی حیثیت اور خدا کے معاملہ کی سائنٹفک نوعیت کے حوالہ سے جو وہ ہمیشہ ارشادات فرماتے رہے ہیں، انہیں دل کی کھڑکی کھول کر سن لوں،  کائنات کا خالق ومالک یقین کرتے ہوئے اس کی وسعت علمی اور وسعت ِ اختیاری پر ایمان لے آؤں،  اس کی عزت وعظمت کے معاملہ کی حساسیت کو سمجھ لوں، اس کے ارحم الراحمینی کے مناظر دیکھنے کے لیے منفی طرزِ نگاہ کی عینک اپنی آنکھوں سے اتار لوں،  اس کے بے نیازی وکرم نوازی  اور عزت ورحمت کے دونوں معاملے سمجھ لوں، اس کے خلاف زبان درازی کرنے، اس کے معاملہ کو خود سے غیر متعلق سمجھنے، اس کی قدرت وعظمت پر سوالیہ نشان لگانے، صداقت سے مسلح اس کے سچے نبیوں کے انکار کی روش اختیار کرکےاس کی غیرت وعزت کو للکارنے اور اپنی اوقات کو بھول جانے کے طرز سے بچ جاؤں؟؟

جس نے بن مانگے اتنا کچھ دیا ہے، نعمتوں کی ناقدری کے باوجود ان کا باب بند نہیں فرمایا، ہماری تمام تر بے وقعتی اور اپنی تمام تر عظمت وقدرت کے باوجود ہماری ناقدریوں کی وجہ سے اس نے ہمارے اوپر شب وروزکا سلسلہ بند نہیں فرمایا، زندگی کی راہیں کھولتا گیا اور سوچنے سمجھنے کے مواقع دیتا گیا،  اگر ہم اس کے وفا شعار بن جائیں تو وہ حلیم وصبور ہمیں کیا کچھ نہ دے گا؟  اگر یہ سچ ہے تو پھر نبیوں کی دعوت کو جھٹلانے کا آخر کیا جواز ہے؟ نبیوں نے آکر یہی کچھ تو فرمایا ہے، خدا کو راضی کرنے کا طریقہ بتلایا ہے، اس سے وفا کا قرینہ سکھا یاہے، اس کی بندگی خود کرکے دکھایا ہے اور بالکل سائنٹفک انداز میں اس کے ثابت شدہ تعارف پر ایمان لانے اور اس کی ذات کو ناپختہ اندازوں کی مشق گاہ بنانے کی حساسیت سے آگاہ فرمایا ہے۔ سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمد للہ رب العلمین۔

مساجد و مدارس اور وقف اداروں کے بارے میں نیا قانون

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت کی مساجد و مدارس اور وقف املاک کے حوالہ سے جو قانون منظور کیا گیا ہے اس پر ملک بھر میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور مختلف النوع تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کا اصل محرک مالیاتی حوالہ سے بین الاقوامی اداروں کے مطالبات ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے اس قانون کے فوری نفاذ کو ضروری سمجھا گیا ہے۔ جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے درجہ میں اسلام آباد میں اور وہاں یہ تجربہ کامیاب ہونے کے بعد ملک بھر میں اس قانون کا دائرہ پھیلایا گیا تو پورے ملک میں مساجد و مدارس اور وقف اداروں کا بنیادی ڈھانچہ یکسر تبدیل ہو کر رہ جائے گا، اور سرکاری یا پرائیویٹ ہر قسم کے اوقاف اور ان پر قائم ادارے براہ راست انتظامیہ کے کنٹرول میں چلے جائیں گے، نیز پرائیویٹ مساجد و مدارس کا سلسلہ بھی انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہو گا۔

اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان میں مساجد و مدارس کے بارے میں عالمی استعمار کے اس مبینہ ایجنڈے کی تکمیل کا فیصلہ کن قدم ہو گا جس سے ڈیڑھ سو سال سے دینی تعلیم و عبادت کا جو نظام آزادانہ کردار ادا کر رہا ہے وہ خدانخواستہ باقی نہیں رہے گا۔ قانون کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

  1.  اینٹی منی لانڈرنگ (انسداد منتقلی رقوم)
  2. اینٹی ٹیررازم (انسداد دہشت گردی)
  3. اوقاف کنٹرول پالیسی

اس کے تیسرے جزء میں پنجاب وقف املاک بورڈ ۱۹۷۹ء کو منسوخ کر کے دارالحکومت وقف املاک ایکٹ ۲۰۲۰ء منظور کیا گیا ہے جس کے مطابق:

  1. وفاق کے زیر اہتمام علاقوں میں مساجد و امام بارگاہوں کے لیے وقف زمین چیف کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہو گی اور اس کا انتظام و انصرام حکومتی نگرانی میں چلے گا۔
  2. حکومت کو وقف املاک پر قائم تعمیرات کی منی ٹریل (آمدن و خرچ) معلوم کرنے اور آڈٹ (احتساب) کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔
  3. وقف زمینوں پر قائم تمام مساجد، امام بارگاہیں اور مدارس وفاق کے کنٹرول میں ہوں گے۔
  4. وقف املاک پر قائم عمارتوں کے منتظم منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے تو حکومت ان کا انتظام سنبھال لے گی۔
  5. قانون کی خلاف ورزی پر ڈھائی کروڑ جرمانہ اور پانچ سال تک سزا ہو سکے گی۔
  6. حکومت چیف کمشنر کے ذریعے وقف املاک کے لیے منتظم اعلٰی تعینات کرے گی۔
  7. منتظم اعلٰی کسی خطاب، لیکچر یا خطبے کو روکنے کی ہدایات دے سکے گا۔
  8. منتظم اعلٰی قومی خودمختاری اور وحدانیت کو نقصان پہنچانے والے کسی معاملے کو بھی روک سکے گا۔
  9. خطبے یا تقریر کی شکایت کی صورت میں چھ ماہ تک قید رکھا جا سکتا ہے، جس کے لیے وارننگ کی ضرورت ہو گی۔ چھ ماہ تک اس کی ضمانت ہو گی نہ عدالت مداخلت کر سکے گی۔ جرم ثابت نہ ہوا تو چھ ماہ بعد رہائی ملے گی مگر اس حبس بے جا پر سوال نہیں کیا جا سکے گا۔
  10. مسجد اور مدرسے کو چلانے والی انجمن کے تمام عہدیداروں کی مکمل ویریفیکیشن (تصدیق) ہو گی اور ان کا ٹیکس ریکارڈ بھی چیک کیا جائے گا۔
  11. مسجد اور مدرسے کو زمین یا فنڈ دینے والے اپنی منی ٹریل بھی دے گا کہ اس نے یہ رقم کہاں سے حاصل کی۔
  12. مسجد اور مدرسہ کسی وقت اخراجات، فنڈنگ کرنے والوں کی تفصیل یا منی ٹریل نہ دے سکے گی تو وہ عمارت حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔‘‘

ہم اس موقع پر ملک کے دینی و علمی حلقوں سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کے بارے میں خاموشی درست نہیں ہے، اس کا قانونی، معاشرتی اور فقہی طور پر جائزہ لینا اور مبینہ خدشات و خطرات کا ادراک کرنا ضروری ہے تاکہ دینی مکاتب فکر کی مشترکہ رائے سامنے آئے اور اگر فی الواقع یہ قانون ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ہے تو اس کے سدباب اور روک تھام کے لیے مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کیا جائے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ دینی جماعتوں کی قیادتیں اور علمی مراکز اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

اس سلسلے میں ملی مجلس شرعی پاکستان کا ایک مشاورتی اجلاس گارڈن ٹاؤن لاہور میں جامعہ الاسلامیہ میں منعقد ہوا جس میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ حضرات کے علاوہ بزرگ اہل حدیث عالم دین مولانا حافظ عبد الرحمان مدنی اور مولانا عبد الرؤف ملک نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں مذکورہ وقف املاک قانون کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی متعدد شقوں کو شرعی، قانونی اور بین الاقوامی مسلّمات کے منافی قرار دیا گیا اور اس بات کا بطور خاص نوٹس لیا گیا کہ ملک کے عوام بالخصوص علماء کرام اور دینی راہنماؤں کی اکثریت اس قانون کے مندرجات اور نتائج و عواقب سے آگاہ نہیں ہیں جبکہ واضح طور پر یہ قانون دینی مدارس کے آزادانہ تعلیمی کردار اور مساجد کے آزادانہ دینی ماحول پر اثرانداز ہو رہی ہے اور دینی تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ خطبہ و وعظ کو بھی بیوروکریسی کے مکمل کنٹرول میں دے دیا گیا ہے، جو شرعی تقاضوں کے ساتھ ساتھ ہماری ملی و معاشرتی روایات سے بھی انحراف ہے جسے قبول نہیں کیا جا سکتا اور اس کا راستہ روکنا بہرحال ہم سب کی دینی ذمہ داری ہے۔

اجلاس میں اسلام آباد کے علماء کرام اور خطباء مساجد کی اجتماعی مہم کی تحسین کی گئی اور ان سے ہر ممکن تعاون کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں ملک بھر میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، دینی مدارس کے مہتممین اور دینی جماعتوں کے راہنماؤں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس قانون کا فی الفور مطالعہ کر کے اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیں اور اپنے ماحول میں بیداری پیدا کرنے کا اہتمام کریں۔

شیعہ سُنّی بقائے باہمی کا راستہ

ڈاکٹر اختر حسین عزمی

ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘کے اکتوبر ۲۰۲۰ کے شمارے میں جناب مولانا زاہد الراشدی کا شیعہ سنی کشیدگی کے تناظر میں یہ فرمانا بہت ہی گہرے غور و فکر کا متقاضی ہے:

’’ہمارا اس وقت اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو شام، عراق اور یمن بننے سے بھی بچانا ہے اور قومی وحدت کو بھی ہر صورت میں برقرار رکھنا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح یہ ضروری ہے کہ ہم صحابہ کرامؒ و اہلبیت عظام کے حوالہ سے اپنے ایمان و عقیدہ و جذبات کا تحفظ کریں، اسی طرح ہماری یہ بھی ملی اور قومی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال سے ہر قیمت پر بچائیں۔‘‘

ان کی یہ تشویش بھی بجا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان میں مشرق وسطیٰ کی طرح کی صورت حال پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ اب یہ پاکستان کے شیعہ و سنّی اہل علم کے فہم و بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ عرب و عجم کی عصبیت اور بالادستی کی اسیر قیادتوں کے اپیل پر شیعہ سنی جذباتیت کا شکار ہو کر اپنے پُر امن معاشروں کو بھی اس بدامنی کا شکار کرنا پسند کرتے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں سب دیکھ رہے ہیں یا اپنے تمام تر اختلاف کے باوجود پُرامن بقائے باہمی کا کوئی راستہ اپنے سامنے متعین کرلیتے ہیں۔ اگر اس معاملے کو بر وقت اعتدال و توازن کے ساتھ پاکستان کی شیعہ سنی قیادتوں نے نہ سنبھالا تو یہاں کسی کی بھی جیت کا کوئی امکان نہیں، ہار ہی ہار ہر ایک کا مقدر ہوگی۔ یہ معاملہ ہار جیت کی سوچ کے ساتھ نہیں، معاملات کو حل کرنے کے جذبے کے ساتھ ہی سر کیا جاسکتا ہے ہم اپنے مدعا کی وضاحت کے لیے جناب مفتی محمد زاہد، شیخ الحدیث جامعہ امدادیہ (فیصل آباد) کے الفاظ کا سہارا لیں گے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’میرے خیال میں سب سے بڑی مشترکہ بنیاد یہی ہے کہ ہم سب نے اسی کرّے (کرہ زمین) پر اور اسی ملک میں رہنا ہے۔ فی الحال تو زمین کے علاوہ کوئی اور قابل سکونت کرہ دریافت نہیں ہوا، جب سائنس دان ایسے کرّے دریافت کر لیں گے تو غور کر لیا جائے گا۔ ہر مسلک کے لیے سالم گلوب بک کرا لیا جائے، ایک گلوب اہل تشیع کے لیے، ایک اہل سنت کے لیے، اسی طرح ہر ہر فرقے کے لیے الگ کرّہ ہو جائے، لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک تو سب کو یہیں رہنا ہے اور اس ملک میں رہنا ہے۔ سنی نے رہنا بھی سنّی بن کر ہی ہے، شیعہ نے شیعہ بن کر۔ اہل حدیث نے اہل حدیث بن کر اور حنفی نے حنفی بن کر ہی رہنا ہے۔ بس سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے رہنے کی اس جگہ کو زیادہ سے زیادہ پرُامن اور رہنے کے لیے سازگار کیسے بنانا ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تسنّن بھی پھلے پھولے گا،تشیّع بھی، دیوبندیت بھی، بریلویت بھی،حنفیت بھی اور سلفیت بھی۔ اور اگر اس میں ہم ناکام رہتے ہیں اور خصوصاً ہمارا ملک بدامنی کی لپیٹ میں آکر معاشی بدحالی کا شکار ہو جاتا ہے تو ان تمام مکاتب فکر کی تنظیموں، جماعتوں، مساجد، مدارس وغیرہ کے لیے کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے پُرامن بقائے باہمی کے اصول ڈھونڈنا ہم سب کی ضرورت ہے۔‘‘ (۱)

دورِ حاضر کے چند شیعہ علماء کے خیالات بھی اس بقائے باہمی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ علامہ سید افتخار حسین نقوی فرماتے ہیں:

’’مسلمانوں کے مابین محبتِ رسول، محبتِ آلِ رسولؐ، احترامِ صحابہ کرامؓ اور احترامِ ازواجِؓ پیغمبر کی بنیاد پر قربت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہر مسلک کے علمائے کرام کو دوسرے مسلک کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے احتیاط کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔‘‘ (۲)

سنی اور شیعہ کے مابین استحقاق خلافت کے بارے میں واضح اختلاف پایا جاتا ہے بلکہ ان کے مابین ایک عقیدہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اس کا عملی حل اب کیا ہے؟ اس بارے میں مولانا افتخار حسین نقوی کہتے ہیں:

’’جہاں تک خلافت کے مسئلے پر اختلاف کا تعلق ہے، میں کہتا ہوں کہ زمانہ بدل گیا، ہمیں حقائق سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی حکومت حضرت ابوبکرؓ، ان کے بعد عمرؓ اور ان کے بعد عثمانؓ کے ہاتھ رہی، ان کے بعد لوگوں نے جمع ہو کر حضرت علیؓ کو حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے پر آمادہ کیا۔۔۔ اگر امت مسلمہ کی اکثریت ان خلفاء کو اپنا رہبر و رہنما مانتی ہے تو کسی کو ان کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے کسی کی دلآزاری ہو یا توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ خود حضرت علیؓ نے اختلاف رائے کے باوجود اسلام کے عظیم تر مفاد میں خلفائے ثلاثہ (ابو بکر و عمر و عثمان) کا ساتھ دیا اور جب بھی ان میں سے کسی نے مشورہ طلب کیا تو آپؓ نے دریغ نہ کیا۔ حضرت علیؓ کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی آپ کی پیروی کرتے ہوئے اسلام اور امت اسلامیہ کے عظیم تر مفاد میں سوچیں اور عمل کریں، ہمیں حضرت علیؓ اور آل رسولؐ سے قدم آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔‘‘ (۳)

علامہ عارف الحسینی اہل تشیع کے ایک اجتماع کی یوں تربیت فرماتے ہیں:

’’آپ جب کسی عالم کے پاس جاتے ہیں، وہاں وہ کہتا ہے کہ آج فلاں جگہ جھنگ سے فلاں فلاں آیا تھا اور اس نے شیعوں کے خلاف بڑے سخت الفاظ استعمال کیے، یہ آپ کو بُرا لگتا ہے یا نہیں لگتا۔پھر آپ شیعہ امام باڑے میں، شیعہ مسجد اور شیعہ اجتماع میں ان کے خلاف تقریر کریں گے تو کیا ان کے احساسات اس سے مجروح ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔ تو جس طرح آپ کو یہ برا لگتا ہے کہ آپ کے مقدّسات اور آپ کے پیشوائوں کے خلاف کوئی نازیبا الفاظ استعمال کرے تو بھی آپ ان کے پیشوائوں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال نہ کریں۔‘‘(۴)

تحریک جعفریہ کے قاید علامہ عارف الحسینی باہمی اتحاد کی صورت یوں بیان کرتے ہیں:

’’اتحاد سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ شیعہ اپنے تشخص کو برقرار کھے، سنّی اپنے تشخص کو برقرار رکھے۔ سُنّی اپنے مسلک اور فقہ کے مطابق عمل کرتے رہیں اور شیعہ اپنی فقہ اور تعلیمات اہل بیت کے مطابق زندگی گزارتے رہیں۔ ایک دوسرے کے امور میں مداخلت نہ کریں۔ ایک دوسرے کو تسلیم کریں۔ اس کے بعد مشترکہ طور پر دشمنانِ اسلام کے خلاف متحد ہو جائیں۔‘‘ (۵)

ایک خطیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تقریر میں دینی مصلحت کو مدّنظر رکھے۔ علامہ عارف الحسینی کے بقول:

’’کتنے دکھ کی بات ہے کہ یہ منبر خواہ اس پر شیعہ مجلسِ حسینی کے لیےبیٹھے یا سُنّی مسجد میں ایک خطیب خطبۂ جمعہ دے، یہ منبر اس لیے ہے کہ اس پر قرآن سے متعلق کہا جائے، اسلام سے متعلق کہا  جائے، مسلمانوں کی مصلحت سے متعلق کہاجائے۔ سامراج و استعمار کی سازشوں کو ناکام بنانے سے متعلق کہا جائے۔ اگر یہ منبر خواہ شیعہ امام باڑے یا مسجد میں ہو یا سُنّی مسجد میں ہو، اگر اس منبر پر بولنے والا کوئی ایسی بات کرے کہ جس کے نتیجے میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کا دشمن بن جائے، مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور جھگڑا پیدا ہو جائے تو میں یہ کہتا ہوں کہ اس بولنے والے نے اس منبر کے ساتھ بھی خیانت کی ہے اور مسلمانوںکے ساتھ بھی اس نے خیانت کی ہے۔‘‘(۶)

جامعۃ النجف ڈیرہ اسماعیل خاں کے مدیر اورتحریک جعفریہ خیبر پختونخواہ کے صوبائی رہنما علامہ محمد رمضان توقیر کا بیان ہے:

’’اگر میں حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکر ؓسے افضل سمجھتا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں حضرت ابو بکرؓ کی معاذ اللہ نفی کر رہا ہوں، وہ صحابی رسول ہیں، ان کی خدمات ہیں، لوگ پھر یہ کہتے ہیں کہ یہ تقیّہ کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں۔ میں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت کرتا ہوں جب کہ ان کو تقیّہ کی تعریف کا بھی پتا نہیں ہوتا کہ تقیّہ کیا ہوتا ہے۔ تقیّہ کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا صحابہ کرام با وجود اختلاف کے ایک دوسرے کا احترام نہیں کرتے تھے؟ آپس میں مشاورت نہیں کرتے تھے؟ کیا سنی شیعہ کتب میں یہ ذکر نہیں کہ جب مولا علیؓ نے حضرت عمرؓ کو مشورہ دیا تو حضرت عمرؓ نے کہا: لَو لَا عَلي لَھلَک عمُر ’’اگر حضرت علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ آج ہلاک ہو جاتا۔‘‘ جب صحابہ کرام اکٹھے بیٹھتے تھے تو ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، آپس میں مشاورت کرتے تھے، اسلام کی سر بلندی کے لیے متحد تھے تو ہم ان کے نام لیوا کیوں متحد نہیں ہیں۔‘‘(۷)

ممتاز شیعہ عالم علامہ محمد رمضان توقیر کے بقول:

’’جتنے بھی ہمارے فقہی مسائل ہیں، کیا ان میں کوئی بنیادی اختلاف ہے؟ کون مسلمان ہے جو لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہے اور نماز پنجگانہ کو واجب نہیں سمجھتا۔ کون سا شیعہ، کونسا سنی، دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث ہے؟ پانچ نمازوں کو تو چھوڑیے جو یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ صبح کی دو رکعت فرض ہیں، کون سے مسلک سے تعلق رکھنے والا ایسا مسلمان ہے جو عقیدہ نہیں رکھتا کہ ظہر کی چار رکعات ہیں، عصر کی چار رکعات فرض ہیں، کون سا مسلمان ہے، سنی یا شیعہ، جو یہ ایمان نہیں رکھتا کہ حج ہم پر فرض ہے۔ ماہ رمضان کے روزے رکھنا واجب ہے۔ جہاد ہم پر واجب ہے۔ سب کا یہ عقیدہ ہے۔ البتہ جزئیات میں اختلاف ہے۔ پچانوے سے زیادہ مشترکات ہیں۔ اگر جزئیات میں اختلاف ہے، پچانوے سے زیادہ ہمارے مشترکات ہیں۔ اگر کچھ اختلاف ہیں، تو وہ بھی مستحبات میں ہیں نہ کہ واجبات میں۔ اور پچانوے مشترکات کو کنارے پر رکھ کر پانچ فی صداختلافات کو اچھال کر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جانا، اور انھی تھوڑے سے اختلافات پر ساری توانائیاں خرچ کرنا، ساری طاقت خرچ کرنا کون سی دانش مندی ہے۔‘‘(۸)

تحریک جعفریہ پاکستان کے سابق سربراہ علامہ عارف حسین الحسینی کہتے ہیں:

’’میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے پلیٹ فارم سے اپنے شیعی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی طرف اخوت کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ خواہ وہ بریلوی مکتب سے تعلق رکھتا ہو یا اہل حدیث ہو یا دیوبندی ہو۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا ہو یا جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ مربوط ہو یا جمعیت علماء پاکستان کے ساتھ۔ ہماری نظروں میں یہ نام اہم نہیں ہیں بلکہ اسلام اہم ہے۔ جو بھی اپنے سینے میں اسلام کی محبت رکھتا ہو، جس کا بھی دل قرآن کے لیے تڑپتا ہو، جو بھی اپنے دل میں روس و امریکہ سے نفرت رکھتا ہو، ہم اس کی طرف اتحاد و اخوت کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔‘‘(۹)

ہماری نظر میں شیعہ اکابرین کے درج بالا خیالات شیعہ سنّی منافرت کے خاتمے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ سُنّی علماء میں سے  سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جن کی عبارتوں کو شیعہ علما اپنے موقف کی حمایت میں حوالہ بناتے ہیں، ہم ان کی ایک عبارت کو اپنے شکوے کے ابلاغ کا ذریعہ بناتے ہیں۔ شیعہ سنّی تنازعات کے ضمن میں وہ لکھتے ہیں:

’’اس معاملے میں سنّیوں اور شیعوں کی پوزیشن میں ایک بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ خاطر رکھ کر ہی فریقین کے درمیان انصاف قائم کیا جا سکتا ہے، وہ یہ کہ شیعہ جن کو بزرگ مانتے ہیں، وہ سنّیوں کے بھی بزرگ ہیں اور سنّیوں کی طرف سے ان پر طعن و تشنیع کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس سنّیوں کے عقیدے میں جن لوگوں کو بزرگی کا مقام حاصل ہے، ان کے ایک بڑے حصے کو شیعہ نہ صرف برا سمجھتے ہیں بلکہ انھیں برا کہنا بھی اپنے مذہب کا ایک لازمی جزو قرار دیتے ہیں۔ اس لیے حدود مقرر کرنے کا سوال صرف شیعوں کے معاملے میں پیدا ہوتا ہے۔ انھیں اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ بد گوئی اگر ان کے مذہب کا کوئی جزو لازم ہے تو اسے اپنے گھر تک محدود رکھیں، پبلک میں آ کر دوسروں کے بزرگوں کی برائی کرنا کسی طرح بھی ان کا حق نہیں مانا جا سکتا۔

میرا خیال یہ ہےکہ اس معاملہ کو اگر معقول طریقے سے اٹھایا جائے تو خود شیعوں میں سے بھی تمام انصاف پسند لوگ اس کی تایید کریں گے اور ان کے شر پسند طبقے کی بات نہ چل سکے گی۔ حکومت کو بھی بآسانی اس بات کا قائل کیا جا سکتا ہے کہ شیعہ حضرات کو ان کے مذہبی مراسم کی ادایگی کے معاملے میں جہاں تک کہ پبلک میں ادا کرنے کا تعلق ہے، حدود کا پابند بنانے کی ضرورت ہے، یہ حدود بھی گفت و شنید سے طے ہو سکتے ہیں، اس مسئلے کو کسی ایجی ٹیشن کی بنیاد بنانے کی بجائے اس طریقے سے حل کرنا زیادہ مناسب ہے‘‘۔ (۱٠)

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جنھیں بعض سنّی علما اس لیے مطعون کرتے ہیں کہ ان کی بعض باتیں شیعی موقف کو تقویت پہنچاتی ہیں، جب ان سے صحابہ کرام پر بعض شیعہ کی برسر عام تبرا بازی سے متعلق استفسار کیا گیا تو انھوں نے کہا :

’’شیعہ حضرات کا یہ حق تو تسلیم کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے مذہبی مراسم اپنے طریقے پر ادا کریں، مگر یہ حق کسی بھی طرح تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ دوسرے لوگ جن بزرگوں کو اپنا مقتدا و پیشوا مانتے ہیں، ان کے خلاف وہ برسر عام زبان طعن دراز کریں، یا دوسروں کے مذہبی شعائر پر حملے کریں۔ ان کے عقیدے میں اگر تاریخ اسلام کی بعض شخصیتیں قابل اعتراض ہیں، تو وہ ایسا عقیدہ رکھ سکتے ہیں۔ اپنے گھروں میں بیٹھ کر وہ ان کو جو چاہیں کہیں، ہمیں ان سے تعرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن کھلے بندوں بازاروں یا پبلک مقامات پر انھیں دوسروں کے مذہبی پیشوائوں پر تو درکنار، کسی کے باپ کو بھی گالی دینے کا حق نہیں ہے اور دنیا کے کسی آئین و انصاف کی رُو سے وہ اسے اپنا حق ثابت نہیں کر سکتے۔ اس معاملے میں اگر حکومت کوئی تساہل کرتی ہے تو یہ اس کی سخت غلطی ہے اور اس تساہل کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ یہاں فرقوں کی باہمی کش مکش دبنے کی بجائے اور زیادہ بھڑک اٹھے۔ دشنام طرازی کا لائسنس دینا اور پھر لوگوں کو دشنام طرازی کے سننے پر اس بنا پر مجبور کرنا کہ اس کا لائسنس دیا جا چکا ہے،حماقت بھی ہے اور زیادتی بھی۔ حکومت کی یہ سخت غلطی ہے کہ وہ شیعہ حضرات کے مراسم عزاداری اور اس سلسلے کے جلسوں ، جلوسوں کے لیے معقول اور منصفانہ حدود مقرر نہیں کرتی اور پھر جب بے قید لائسنسوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی بدولت جھگڑے رونما ہوتے ہیں تو فرقہ وارانہ کش مکش کا رونا روتی ہے‘‘۔ (۱۱)

اس میں شک نہیں کہ حضرت علیؓ واہل بیت پر تبرّا بازی کا آغاز بنو امیّہ کی طرف سے ہوا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پر پابندی بھی ایک اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے لگائی اور آیات قرآنی کو خطبہ کا حصہ بنایا جو آج تک سنّی خطبے کا حصہ ہے۔ اب یہ اہل تشیع کے سمجھ دار لوگوں کا انتخاب ہے کہ وہ اپنے نادان لوگوں کی اس غلط روایت کو جاری رکھتے ہیں جو حضرت علیؓ کے مخالفوں نے شروع کی تھی یا کہ حضرت علیؓ کا اسوہ اپناتے ہیں۔

ہمارے شیعہ بھائی اقلیت ہونے کی بنیاد پر اپنی مظلومیت کا رونا بھی روتے ہیں لیکن کیا وہ اس حقیقت کا انکار کر سکتے ہیں کہ ان کے ایک چھوٹے سے جلوس کی سیکورٹی کے لیے پورا پورا دن بڑی بڑی سڑکیں، چوراہے مارکیٹیں اورکاروباری مراکز، تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں۔ سنّی عوام اس کو خندہ پیشانی سے یا مجبورًا برداشت کرتی ہے۔تمام سرکاری و نجی ٹی وی چینلز جس قدر محرم کے احترام میں اپنی تفریحی نشریات محدود کر دیتے ہیں، اتنا تو رمضان المبارک کے احترام میں بھی نہیں ہوتا۔ حالانکہ سنّی اہل علم کے ہاں رمضان کی مشروعیت تو ہے، محرم کے سوگ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے باوجود سنّی عوام محرم کا بھی دل و جان سے احترام کرتے  ہیں۔

1963ء میں شاہ ا یران کے دور میں جب امام خمینی کو سیاسی پابندیوں  کا سامنا کرنا پڑا تو سیدابوالاعلیٰ مودودی کی زیر ادارت ماہنامہ ترجمان القرآن نے امام خمینی کے حق میں آواز بلند کی۔  1979ء میں ایران میں امام خمینی کا انقلاب آیا، تو انقلاب کے شیعہ پس منظر کے باوجود بہت سی سنّی شخصیات اور تنظیموں خصوصاً جماعت اسلامی نے اس کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا۔ جماعت ا سلامی کی ذیلی تنظیموں نے انقلاب ایران کی فلمیں شہر شہر دکھائیں۔ انقلاب کے حق میں رائے عامہ ہموار کی، انقلاب ایران کی حمایت کرنے پر جماعت اسلامی دیگرفرقہ پرستوں کی طرف سے مطعون بھی رہی۔

بالآخر انقلاب ایران کا شیعی پہلو غالب آیا اور یہ فطری بات بھی تھی لیکن شکوہ یہ ہے کہ شیعہ ذاکرین کی غیر محتاط گفتگو کے باعث سنی عوام اور علما میں اضطراب پیدا ہوا جس کے باعث دونوں طرف کے عوام پُر تشدد تنظیموں کا حصہ بنتے چلے گئے۔ انقلاب ایران کے باعث پاکستان میں شیعہ کمیونٹی اتنی ایگریسو ہوئی کہ اس کے نتیجے میں پاکستان عرب و عجم کی کش مکش کا میدان بن گیا۔وہ ایمانداری اور غیر جانبداری سے اس بات پر بھی غور کر لیں کہ وہ پاکستان میں اپنے لیے جتنے حقوق چاہتے ہیں کیا وہ ایران میں سنی کمیونٹی کو اتنے حقوق دینے کے لیے تیار ہیں؟

آج سے بیس سال پہلے شیعہ پس منظر کی حامل لبنانی جہادی تنظیم حزب اللہ اسرائیل کے خلاف سرگرم نظر آئی تو عرب ممالک کے سنّی عوام نے بھی اس کی تحسین کی اور سرگرم تعاون کیا لیکن شام میں بشار الاسد نے ا پنے اقتدار کے استحکام کے لیے لاکھوں سنّی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اس صریح ظلم میں حزب اللہ اور پاسداران انقلاب اس کے معاون بنے۔سنّی اکثریت کو در بدر بھٹکنے پر مجبور کردیا۔ شہروں کے شہر مٹی کے ڈھیر بنا دیے گئے۔ پہلی صدی ہجری کے شامی حکمرانوں کی یزیدیت کی مذمت بجا لیکن موجودہ شامی حکمران کی یزیدیت کی مذمت کا سوال اپنی جگہ قائم ہے۔

افغانستان و عراق میں ’’بزرگ شیطان‘‘ کو کس نے اپنا کندھا پیش کیا ۔یہ باتیں اس لیے لکھی گئی ہیں کہ انقلاب کے بعد سے آج تک سب سے زیادہ وحدت امت کی تکرار انقلابی حکومت اور شیعہ علما اور دانش ور کرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ ایران سے عقیدت رکھنے والے شیعوں کو اور سعودی عرب سے جذباتی تعلق رکھنے والے سنیّوں کو اپنے ہاں کے معروضی حالات کا تجزیہ کر کے خود ایسی راہِ عمل کا تعیّن کرنا ہو گا کہ وہ اپنے ملک میں پُرامن بقائے باہمی (Co-existance) کے اصول پر زندگی گزار سکیں۔ یہاں نہ سنّی شیعوں کو ختم کر سکتے ہیں اور نہ شیعہ سنیوں کے ساتھ کسی جھگڑے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ پھر کیا یہ دانش مندی ہو گی کہ اپنے پُرامن ماحول کو ہم اپنے جذباتی رویّوں اور تعصبات کی بھینٹ چڑھا دیں۔

حوالہ جات

(۱)   بین المسالک ہم آہنگی،(مرتب: معصوم یاسین زئی) ص:20-21بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی۔ اسلام آباد، 2016ء  

(۲)    ثاقب اکبر:  پاکستان کے دینی مسالک، ص: 284البصیرہ اسلام آباد

(۳) پاکستان کے دینی مسالک، ص:285      

(۴)   آداب کارواں، ص: 147، بحوالہ نثار ترمذی : نقیب وحدت علامہ عارف الحسنی،ص:152البصیرہ اسلام آباد

(۵)  میثاق خون، ص:229، نقیب وحدت۔ علامہ عارف الحسینی، ص:63

(۶)    گفتار صدق، ص: 80-81، بحوالہ نقیب ۔وحدیث علامہ عارف الحسینی، ص:87  

(۷)     بین المسالک ہم آہنگی،ص:31-32

(۸) بین المسالک ہم آہنگی ،ص:28    

(۹)  ميثاق خون، ص:۲۱۲، المعارف اکیڈمی، لاہور، ۱۹۹۷ء

(۱٠)     سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ: رسائل و مسائل، ج:3، ص:217، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، 2006  

(۱۱)  رسائل و مسائل: ج:3، ص 216-217


امام ابن جریر طبری کی شخصیت اور ایک تاریخی غلط فہمی (۲)

مولانا سمیع اللہ سعدی

شیعہ ابن جریر  اور اس کی تاریخی حقیقت شیعہ  کتب کی روشنی میں

اہلسنت کی کتب کی روشنی میں درج بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ  ابن جریر شیعہ  کی شخصیت  محض "افسانوی" ہے،  ابوعثمان المازنی کے ایک شاگرد ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم الطبری کو ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم الطبری بنا دیا گیا ۔اور اس بے چارے کے ذمے ایسی کتب لگ دی گئیں ،جن کا ذکر کتب رجال سے لیکر فہارس الکتب تک ان (ابو عثمان المازنی کے شاگرد)کے حالات میں نہیں ملتا ۔اسی وجہ سے شیعہ کتب میں بھی ابن جریر کے ذکر کے حوالے سے خاصا تضاد پایا جاتا ہے ،ہم پہلے اس تضاد کا ذکر کرتے ہیں ،پھر اس تضاد کو حل کرنے کے لیے متاخرین شیعہ علماء کی تطبیق پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

ہانچویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم احمد بن علی النجاشی اپنی کتاب"رجال النجاشی"میں لکھتے ہیں:

محمد بن جرير بن رستم الطبري الآملي أبو جعفر، جليل، من أصحابنا، كثير العلم، حسن الكلام، ثقۃ في الحديث. لہ كتاب المسترشد في الإمامۃ. أخبرناہ أحمد بن علي بن نوح، عن الحسن بن حمزۃ الطبري قال حدثنا محمد بن جرير بن رستم بھذا الكتاب وبسائر كتبہ۔1

عباس القمی اپنی کتاب "الکنی و الالقاب"میں لکھتے ہیں:

واما ابن جرير الطبري الشيعي فھو ابوجعفر محمد بن جرير بن رستم الطبري الآملي من اعاظم علمائنا الاماميۃ في المائۃ الرابعۃ، ومن اجلائھم وثقتھم، صاحب كتاب دلائل الامامۃ والايضاح والمسترشد۔2

ترجمہ:ابن جریر طبری شیعہ چوتھی صدی ہجری کے ہمارے جلیل القدر اور معتمد علماء میں سے ہیں ۔جن کی کتب میں دلائل الامامۃ ،الایضاح اور المسترشد شامل ہیں ۔

ان دو علماء کی عبارات سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ ابن جریر شیعہ چوتھی صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں۔ عباس القمی نے صراحۃ المائۃ الرابعۃ کہا ،جبکہ نجاشی صاحب نے ان کے تلامذہ میں حسن بن حمزہ طبری کا ذکر کیا ہے، اور حسن بن حمزہ طبری کی وفات خود نجاشی کے نزدیک ۳۵۸ھ ہے ۔اس کے علاوہ عباس القمی کی عبارت سے ان کی تصنیفات میں تین کتب دلائل الامامۃ ،الایضاح اور المسترشد ملتی ہیں ۔ چوتھی صدی ہجری کے علماء میں سے ماننے کی صورت میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ابن جریر شیعہ ابن جریر سنی کے ہم عصر ہیں ،کیونکہ ابن جریرسنی کی وفات بھی چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں ہوئی ہے ۔بعض کتب شیعہ میں ہم عصر ہونے کا ذکر صراحۃ بھی ملتا ہے ۔

معاصر شیعہ عالم "حسین عبد اللہ الراضی "اپنی کتاب"تاریخ علم الرجال "میں لکھتے ہیں:

محمد بن جرير بن رستم الطبري الكبير يكنی (أبا جعفر) دين فاضل، وليس ھو صاحب التاريخ فانہ عامي المذھب. والمترجم معاصر لسميہ محمد بن جرير الطبري صاحب تاريخ الأمم والملوك وصاحب التفسير الكبير۔3

اس میں مصنف نے تصریح کر دی ہے کہ ابن جریر شیعہ ابن جریر سنی کے ہم عصر تھے۔

دوسری طرف کتب شیعہ ہی میں کچھ ایسے اشارات بھی ملتے ہیں ،جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابن جریر شیعہ، سنی ابن جریر سے تقریبا ایک یا ڈیڑھ صدی متاخر ہیں۔

بارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ مورخ و محقق سید ہاشم البحرانی اپنی کتاب "مدینۃ المعاجز" میں ابن جریر طبری کے طریق سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

أبو جعفر محمد بن جرير الطبري: قال: نقلت ھذا الخبر من أصل بخط شيخنا أبي عبد اللہ الحسين بن عبيد اللہ الغضائري - رحمہ اللہ - قال: حدثني أبو الحسن علي بن عبد اللہ القاساني4

ترجمہ:ابو جعفر محمد بن جریر طبری کہتے ہیں کہ یہ خبر میں نے اپنے استاد ابو عبد اللہ الحسین الغضائزی کے لکھے گئے اصل (کتاب)سے نقل کی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ مجھے ابو الحسن القاسانی نے یہ حدیث بیان کی ہے۔

اس روایت میں ابن جریر طبری نے الغضائری کو اپنا استاد کہا ،جبکہ الغضائری کے بارے میں شیعہ کتب میں لکھا ہوا ہے کہ ۴۱۱ھ تک وہ حیا ت تھے5 ،اس طرح سے اس روایت سے ابن جریر شیعہ کا  تعلق چوتھی صدی کی بجائے پانچویں صدی کے طبقے (یعنی سنی ابن جریر سے پور ی ایک صدی متاخر) سے بنتا ہے ۔

عراق کے مشہور شیعہ عالم و مجتہد  شیخ عبد اللہ المامقانی نے اپنی ضخیم کتاب"تنقیح المقال فی علم الرجال"میں ابن جریر شیعہ کو مشہور شیعہ عالم اور شیعہ کے چار بنیادی مراجع میں سے دو کے مصنف محمد بن الحسن الطوسی کا ہمعصر لکھا ہے ۔اور شیخ طوسی کی وفات ۴۶۰ھ ہے ۔اس طرح سے ابن جریر شیعہ سنی ابن جریر سے تقریبا ڈیڑھ صدی متاخر بنتے ہیں ۔ابن جریر شیعہ پر مفصل بحث کے بعد لکھتے ہیں :

فتحقق مما ذكرنا كلہ أن محمد بن جرير بن رستم الطبري من أصحابنا إثنان، كبير وھو السابق، وصغير وھو ھذا، وكلاھما ثقتان عدلان مرضيان، ولكل منھما كتاب في الامامۃ، فللاول كتاب "المسترشد "، وللثاني كتاب دلائل الامامۃ۔6

شیعہ کتب میں ابن جریر کے طبقے  اور زمانہ کی تعیین سے متعلق یہ تضاد ابن جریر شیعہ کے افسانوی ہونے پر روز روشن کی طرح دلالت کرتا ہے ۔ البتہ معاصر شیعہ محققین نے اس تضاد کو بھانپ لیا ۔اور تطبیق دیتے ہوئے ابن جریر شیعہ کو ایک شخص کی بجائے دو شخص مانے ۔(مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی )اس طرح سے گویا کل تین ابن جریر ہوئے ۔ایک سنی ابن جریر (مصنف تاریخ طبری و تفسیر طبری)دوسرے شیعہ ابن جریر،جو  سنی کے ہم عصر ہیں  اور تیسرے ڈیڑھ صدی کے بعد آنے والے شیخ طوسی کے ہم عصر ۔یہ تطبیق شیعہ کتب و علماء کی سب سے بڑی بائیو گرافی لکھنے والے شیعہ محقق آغا بزرگ طہرانی نے "الذریعہ الی تصانیف الشیعہ"میں دی ہے ۔لکھتے ہیں:

الايضاح  في الامامۃ للشيخ أبي جعفر محمد بن جريربن رستم بن جرير الطبري الآملي الامامي الموصوف بالكبير في فھرس الشيخ الطوسي تمييزا لہ عن محمد بن جريرالمتأخر عنہ الذي كان معاصر الشيخ الطوسي والنجاشي ومشاركا معھما في الروايۃ عن مشايخھما في كتابہ دلائل الامامۃ وكان محمد بن جرير الكبير الامامي المتقدم معاصرا لسميہ محمد بن جرير بن كثير بنغالب الطبري العامي صاحب التاريخ والتفسير الكبيرين الذي توفي سنۃ 310 ، ولابن جرير الكبير مؤلف الايضاح  ھذا أيضا كتاب المسترشد۔7

ترجمہ :ایضاح فی الامامۃ ابو جعفر محمد بن جریر طبری املی کی تصنیف ہے ،جسے "کبیر"کہا جاتا ہے ،شیخ طوسی کی (الفہرست میں اس کا ذکر ہے ۔کبیر کہنے کی وجہ اسے بعد میں انے والے  محمد بن جریر سے ممتاز کرنا ہے ،جو طوسی و نجاشی کے ہم عصر ہیں ،اور اپنی کتاب دلائل الامامۃ میں انہی حضرات سے روایت کرتے ہیں ،جو مذکورہ دو حضرات (طوسی و نجاشی)کے شیوخ و اساتذہ ہیں۔محمد بن جریر کبیر سنی ابن جریر کے ہم عصر ہیں ۔ان کی کتب میں ایضاح کے ساتھ المسترشد بھی ہیں۔

آخر میں اس بات کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ شیعہ کتب  تراجم میں ابن جریر کبیر کا سن ولادت اور سن وفات کا ذکر ہی سرے سے نہیں ہے ۔سن ولادت کا تو عدم ذکر سمجھ میں آتا ہے ،پر سن وفات کا ذکر نہ ہونا اور معلوم نہ ہونا (خواہ احتمالا ہی ہو)  سمجھ سے بالاتر ہے، خصوصا ایسا شخص جن کے ساتھ شیعہ کتب میں "من اعاظم علمائنا" جیسے الفاظ ملتے ہیں ۔چنانچہ "المسترشد"کے محقق شیخ احمد المحمودی لکھتے ہیں:

بقی ھنا شئ وھو: أني لم أشر إلی سنۃ ولادۃ المؤلف ولا عام وفاتہ إذ لم يتعرض أحد من المترجمين في رجالھم، وھذا أيضا من حظ المؤلف، إذ ترجمہ من ھو أقرب العھد إليہ كالنجاشي والشيخ الطوسي و المفيد، مع عنايتھم التامۃ بشأنہ ومؤلفاتہ، ومع ذلك لم يتعرضوا لذكرعام ولادتہ وحتی سنۃ وفاتہ شيئا۔8

جبکہ ابن جریر صغیر کے بارے میں علامہ مامقانی نے لکھا ہے: وليس لہ ذكر في كلمات أصحابنا الرجاليين9 یعنی اس کا ذکر ہی ذخیرہ رجال میں نہیں ہے ۔

البتہ  پورے ذخیرہ رجال میں ذکر نہ ہونے کے باوجود ان کی (طرف منسوب )کتاب "دلائل الامامۃ "چھپی ہے اور شیعہ حلقوں میں متداول ہے۔یا للعجب

بحث کا ماحصل

اس پوری بحث کا حاصل قارئین کے سامنے نکات کی شکل میں پیش کرنا چاہوں گا ۔اور آخر میں اس سلسلے میں ایک اہم اشکال پیش کر کے اجازت چاہوں گا۔

۱۔سنی ابن جریر کے ہم نام ،ہم عصر ،ہم ولدیت اور ہم وطن جس ابن جریر کاذکر کیا جا رہا ہے ،اس کا اولین ذکر ابن جریر کے تقریبا چار سو سال بعد علامہ ذہبی و عسقلانی کی بعض کتب میں ملتا ہے ۔

۲۔ہر دو حضرات سےقبل اہلسنت کے پورے ذخیرے میں ،خواہ کتب رجال و تراجم  ہو یا فہارس الکتب ،کسی میں بھی شیعہ ابن جریر کا مستقلا یا تبعا تذکرہ نہیں ملتا ۔

۳۔علامہ ذہبی و عسقلانی نے شیعہ ابن جریر کے تذکرے میں ایک خاص بات یہ ذکر کی ہے کہ وہ ابو عثمان المازنی کے شاگرد ہیں ۔

۴۔ابو عثمان المازنی کے شاگردوں میں ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم طبری کے نام سے تو کوئی شخص نہیں ہے، البتہ ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم بن یزدبان طبری ملتا ہے ۔ جنہیں مختصرا ابو جعفر بن رستم کہا جاتا ہے ۔

۵۔متعدد قرائن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے ،کہ ابن جریر کے ہم نام شخصیت سے مراد یہی ابو جعفر بن رستم مراد ہیں ۔لیکن یہ شخص نام ،ولدیت میں ابن جریر سنی کے مشابہ نہیں ہے ۔نیز ابو جعفر بن رستم  ایک خالص لغوی، نحوی اور قراءات قرانیہ کے ماہر عالم ہیں ۔اور انہی موضوعات کے گرد ان کی تصنیفات گھومتی ہیں ۔جبکہ شیعہ ابن جریر کے بارے میں یہ ملتا ہے کہ وہ ایک خالص مسلکی عالم تھے ۔اور مسلکی موضوعات پر ان کی کتب ہیں ۔نیز علامہ ذہبی و عسقلانی اور شیعہ کتب میں جن تصنیفات کو ان کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے ،ان میں سے کسی بھی کتاب کا ذکر ابو جعفر بن رستم کے ترجمے میں نہیں ملتا ۔

۶۔ مذکورہ شخص مراد لینے کا  ابو عثمان المازنی کے شاگرد ہونے کے علاوہ سب سے بڑا قرینہ یہ ہے کہ شیعہ کتب میں ابن جریر شیعہ کے تذکرے میں یہ بات ملتی ہے کہ ابن ندیم نے ان کی ایک کتاب "غریب القران"کا ذکر کیا ہے، اور ابن ندیم نے ابو جعفر بن رستم کی غریب القرآن کا ذکر کیا ہے ۔شیعہ ابن جریر یعنی ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم طبری کا ذکر ابن ندیم نے نہیں کیا ہے ۔

۷۔شیعہ کتب میں ابن جریر شیعہ کے تذکرے میں ایک تضاد تو یہ پایا جاتا ہے کہ بعض علمائے شیعہ نے اسے ابن جریر سنی کا ہم عصر اور چوتھی صدی ہجری کے علماء میں سے بتایا ہے ۔جبکہ دوسرے کچھ شیعہ علماء نے اسے پانچویں صدی ہجری یعنی سنی ابن جریر سے ایک یا ڈیڑھ صدی متاخر بتا یا ہے ۔

۸۔اس تضاد کو معاصر شیعہ محققین نے یوں حل کیا ہے کہ خود شیعہ ابن جریر دو بنالیے ہیں ۔جو دو نوں ہم نام ،ہم کنیت۔ ہم ولدیت ،ہم وطن ہیں ۔طرفہ تماشا یہ کہ ان دونوں کے دادا کا نام بھی ایک ہے ۔ان میں فرق صرف کبیر و صغیر کا ہے ۔سنی ابن جریر کے ہم عصر کو ابن جریر کبیر اور پانچویں صدی کے  ابن جریر کو صغیر کہا جا تا ہے ۔

۹۔ ان دو میں سے کونسی تصنیف کس ابن جریر کی ہے ؟خود اس سلسلے میں بھی علمائے شیعہ کے مختلف بیانات ہیں۔ عباس القمی کے نزدیک دلائل الامامۃ ،الایضاح اور المسترشد ابن جریر کبیر کی تصنیفات ہیں ۔ جبکہ محقق طہرانی کے نزدیک دلائل الامامۃ ابن جریر صغیر کی تصنیف ہے ۔جبکہ بعض شیعہ علماء کے نزدیک یہ دو کی بجائے ایک کتاب ہے جسے کبھی المسترشد ،کبھی المسترشد فی الامامۃ اور کبھی دلائل الامامۃ کہا جاتا ہے ۔(اس کتاب پر مستقل بحث آگے آرہی ہے )

۱۰۔ابن جریر شیعہ کے نام سے کبیر و صغیر دو شخصیات کا مسئلہ شیعہ علمائے تراجم میں متفقہ نہیں  ہے ۔بعض صرف ایک ہی ابن جریر شیعہ کے قائل ہیں ۔جو ابن جریر سنی کے ہم عصر ہیں ۔جبکہ کچھ شیعہ علماء کے نزدیک ابن جریر شیعہ کے نام سے  کبیر و صغیر دو شخصیات ہیں ۔ چنانچہ عباس القمی نے الکنی و الالقاب میں صرف ایک ابن جریر شیعہ کا ذکر کیا ہے ۔اور دلائل الامامۃ(جو دو ابن جریر شیعہ ماننے والوں کے نزدیک دوسرے ابن جریر کی تصنیف ہے)کو بھی ابن جریر کبیر یعنی  سنی ابن جریر کے ہم عصر کی تصنیف قرار دیا ہے ،جبکہ  آغا بزرگ طہرانی کے نزدیک ایک کی بجائے دو ابن جریر شیعہ ہیں ۔اور دلائل الامامۃ پہلے کی بجائے دوسرے متاخر ابن جریر کی تصنیف ہے ۔

ایک اہم اشکال  اور اس کا ممکنہ جواب

مندرجہ بالا بحث سے قاری کے ذہن میں خود بخود ایک اشکال پیدا ہوتا ہے ،کہ ابن جریر سنی کے ہم نام ایک اور افسانوی شخصیت گھڑنے کے  کیا مقاصد ہیں ؟ایک ابن جریر سے دو اور دو سے تین بنانے میں کیا راز مضمر ہے؟

اس سوال کا تحقیقی و تسلی بخش جواب تو وہی لوگ دے سکتے ہیں ،جنہوں نے یہ فرضی شخصیت بنانے اور وضع کرنے کا عمل سر انجام دیا۔ البتہ قرائن کی روشنی میں اس کے کچھ ممکنہ جوابات دیے جاسکتے ہیں ۔ہماری نظر میں اس پورے تاریخی عمل کے بنیادی طور پر دو بڑے مقاصد معلوم ہوتے ہیں :

۱۔تاریخ طبری و تفسیر طبری کے مصنف امام محمد بن جریر طبری اپنی جلالت شان ،وسعت علم اور گوناگوں خصوصیات کے باوصف اپنے معاصرین ،خاندانی حضرات اور بعد میں آنے والے اجلہ علماء کے اس تبصرے سے نہ بچ سکے کہ موصوف میں  "تشیع و رفض" کے اثرات تھے  ۔(جس کے حوالے ماقبل میں گزر چکے ہیں )اور اس الزام کی کچھ نہ کچھ تائید ان کی  تفسیر اور خاص طور پر تاریخ سے  ہوتی ہے ۔خصوصا تاریخ میں صدر اول کے المناک حوادث میں اس وقت کے غالی شیعہ مورخین و رواۃ پر کلی اعتماد اس تاثر کو مزید قوی کرتا ہے ۔ تاریخ کے مقدمہ میں اگرچہ موصوف نے یہ کہہ کر اپنے تئیں  اپنے آپ کو بری کر دیا کہ اگر کچھ ناگوار باتیں اس کتاب میں ملیں ،تو وہ ہمارے پاس رواۃ کی طرف سے آئی ہیں ،ہم صرف اس کے ناقل ہیں ۔10مقدمہ میں یہ وضاحت اس بات کی خبر دیتا ہے کہ خود مصنف کو بھی اس کا احساس تھا کہ اس کے بعض مقامات اہلسنت و الجماعت کے بنیادی نظریے اور فریم ورک کے منافی ہیں ۔اس لیے مقدمہ میں اپنے آپ کو بری کرنے کی صراحت ضروری سمجھی۔

لیکن اس وضاحت کے باوجود یہ سوال برقرار رہتا ہے کہ جب مصنف کا مقصد تاریخی روایات کی  محض جمع و ترتیب تھی  ،تو  صدر اول کے واقعات میں محض غالی شیعہ و رافضی روایات ذکر کرنے پر کیوں اکتفاء کیا گیا؟ اس وقت کے منصف اور اہلسنت و الجماعت کے  معتمد رواۃ سے صدر اول کے واقعات کی صحیح نقل سے اعراض کیوں برتا گیا؟حالانکہ جمع و ترتیب کا تو تقاضا تھا کہ صحیح و غلط دونوں قسم کی روایات کو کتاب میں جگہ دی جاتی ۔ صدر اول کی المناک داستانوں کا صرف ایک رخ پیش کرنے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ عالم عرب سے دو محققین(محمد بن طاہر البرزنجی اور محمد صبحی حسن حلاق) کی تحقیق سے صحیح و ضعیف طبری چھپی ہے ،اس میں جمل و صفین دونوں کو ملا کر صحیح اور معتمد راویوں کی کل روایات تقریبا بارہ بنتی ہیں ،جن کا حجم محض بیس صفحات ہیں11،جبکہ ضعیف ،موضوع اور ناقابل اعتماد راویوں کی روایات کا کل حجم  تقریبا دو سو صفحات ہیں12۔بیس اور دو سو کا یہ تفاوت بتاتا ہے کہ کس طرح اس دور کے واقعات کو یک رخا پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے ۔

ابن جریر طبری صاحب پر تشیع و رفض کے اتہامات اور تاریخ میں اکثر مقامات پر شیعہ نقطہ نظر پیش کرنے کی وجہ سے اس بات کا قوی امکان تھا کہ ان کی تاریخ  بعد میں  شجر ممنوعہ قرار پاتی ،اور شیعی نقطہ کی ترجمان سمجھی جاتی ۔اس لیے ابن جریر طبری سے اس اتہام کو دور کرنے کے لیے ایک دوسرے ابن جریر کا فسانہ گھڑا گیا ،تاکہ یہ باور کرایا جاسکے کہ کہ مذکورہ اتہامات دوسرے ہم نام کے بارے میں ہیں ،غلط فہمی سے ابن جریر سنی کے بارے میں سمجھ لیے گئے ۔یہی وجہ ہے کہ  تشیع و رفض کا صرف اور صرف یہی جواب ہمیں کتب رجال میں ملتا ہے ۔ کہ یہ اتہامات دوسرے ابن جریر کے بارے میں ہیں ۔جب علماء کے اتہام کا دوسرے ابن جریر کی صورت میں  اچھے طریقے سے دفعیہ ہوگیا ،تو ان کی کتب خود بخود ایک معتمد عالم کی کتب کی حیثیت سے ہاتھوں ہاتھ لی گئیں ۔اور وہ روایات اہلسنت کے مصادر میں اس طرح سے گھل مل گئیں ،کہ محتاط ترین مفسرین  حافظ ابن کثیر و ابن خلدون جیسے حضرات بھی ان روایات سے اپنا دامن نہ چھڑا سکے ۔الغرض دوسرا ابن جریر بنانے کی پہلی وجہ قرائن کی روشنی میں ابن جریر صاحب سے تشیع و رفض کے اتہامات کی براءت یا کم از کم اس کی شناعت و قباحت میں تخفیف تھی ۔اور اس میں ان لوگوں کو قطعی طور پر کامیابی ملی ،کہ حافظ ابن حجر سے لیکر عصر حاضر تک اگر کوئی ابن جریر کے تشیع و رفض کی بات کرتا ہے ،تو فورا یہ کہہ کر اسے رد کردیا جاتا ہے کہ یہ الزمات  سنی ابن جریر کی بجائے شیعہ ابن جریر کے بارے میں ہیں ۔یا درہے ہمارا مقصد ابن جریر سنی کو شیعہ ثابت کرنا نہیں ،اور نہ ہی ابن جریر کی جملہ تصانیف کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے ،بلکہ مدعا صرف اتنا ہے کہ صدر اول کے المناک حوادث کے بارے میں ان کی فکر اور سوچ کے دھارے اہلسنت و الجماعت کے محتاط مسلک کی بجائے شیعہ و روافض کی تنقیصی سوچ سے ملتے ہیں ۔اور اسی وجہ سے وہ قابل قدر علمی کارناموں کے باجود تشیع و رفض کے اتہام سے نہ بچ سکے ۔

۲۔ ابن جریر کے ہم نام جن دوشیعہ شخصیات کبیر و صغیر ابن جریر کو مانا گیا ،علمائے شیعہ نے  ان کے تذکرے میں متعدد کتب کا ذکر کیا ہے ۔ان میں سے موجودہ دور میں ایک کتاب "دلائل الامامۃ"چھپی ہے ۔تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ائمہ اثنا عشر کی امامت کے اثبات پر آثار و روایات سے دلائل ذکر کیے گئے ہیں ۔اس کتاب کے بارے میں علمائے شیعہ میں ایک بحث تو یہ چھڑی ہے کہ یہ کتاب ابن جریر کبیر (سنی ابن جریر کے ہم عصر)کی تصنیف ہے یا ابن جریر صغیر کی ،چنانچہ عباس القمی نے اس کتاب کا ذکر ابن جریر کبیر کی تصانیف کے ذیل میں کیا ہے ۔جبکہ دیگر علماء خصوصا آغا بزرگ طہرانی  کے ہاں یہ ابن جریر صغیر کی تصنیف ہے۔ (دونوں حوالے ما قبل میں گزر چکے ہیں )طہرانی صاحب نے مزید لکھا ہے کہ  ابن جریر کبیر کی تصانیف میں امامت پر کتاب کانام "المسرشد "ہے ۔ مصنف کے اختلاف کے ساتھ اس کتاب کے نام میں بھی اختلاف ہے ۔شیعہ کی بعض کتب میں المسترشد اور دلائل الامامۃ ایک ہی کتاب کے نام ذکر کیے گئے ہیں ۔چنانچہ اعجاز حسین کنتوری اپنی  کتاب "کشف الحجب و الاستار عن اسماء الکتب و الاسفار "میں لکھتے ہیں:

دلائل الامامۃ للشيخ الجليل محمد بن جرير الطبري الامامي ويسمي بالمسترشد۔13

اس کے علاوہ معروف شیعہ محدث علامہ باقر مجلسی بحارالانوار میں لکھتے ہیں:

وكتاب دلائل الامامۃ للشيخ الجليل محمد بن جرير الطبري الامامي ويسمی بالمسترشد۔14

دلائل الامامۃ اور المسترشد ایک ہی کتاب کانام ہے یا دو الگ الگ کتب ہیں؟ نیز دونوں ایک ابن جریر (کبیر)کی تصنیف ہے یا دونوں کے مصنف الگ الگ ہیں؟ یہ بحثیں جاری تھیں کہ ایران سے المسترشد کے نام سے کتاب چھپ گئی ۔جس کے محقق احمد المحمودی نے اس کے شروع میں ایک ضخیم مقدمہ لکھا ،جس میں دلائل الامامۃ اور المسترشد کے ایک یا دو کتب ہونے پر بھی بحث کی ،لیکن بالاخر الگ الگ ہونے پر کوئی قابل ذکر قرینہ نہ ہونے کی وجہ سے محقق مذکور نے یہ اعتراف کر لیا:

أقول: ومن ھذا الكلام أيضا يستفاد أن دلائل الامامۃ يعتبر المجلد الثاني لكتاب المسترشد فتأمل جدا۔15

ایک اور جگہ معتمد علمائے شیعہ کے شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے لکھتے ہیں:

و احتمل بعض العلماء من وضع الکتاب ان یکون المجلد الثانی للمسترشد کما تقدم و لعلہ ھو الصواب۔16

طرفہ تماشا یہ کہ یہی اقرار خود اس سے پہلے دلائل الامامۃ کے ناشران نے بھی اس کے مقدمے میں کیا تھا ،ایک یا الگ الگ کتاب پر بحث کے بعد لکھتے ہیں:

و ھذا یفید ان الکتابین عندہ لرجل واحد و انما ھما جزان کل منھما باسم علی حدۃ۔17

درج بالا بحث سے یہ بات بخوبی ثابت ہوتی ہے کہ دلائل الامامۃ اور المسترشد دونوں ایک ہی کتاب کے دونام اور ایک ہی کتاب کے دو جزء ہیں ۔اہل علم جانتے ہیں کہ کسی کتاب کے محقق کی بات کتاب سے متعلق  بڑی اہم سمجھی جاتی ہے ،اس سلسلے میں متعدد علمائے شیعہ کے اعتراف کے ساتھ  دونوں کتب کے محققین نے  بھی اس کے ایک ہونے کو راجح قرار دیا ہے ۔ اور  یہ بات بھی  ثابت شدہ ہے کہ شیعہ کتب کے مطابق  المسترشد ابن جریر کبیر یعنی سنی ابن جریر کے ہم عصر کی تصنیف ہے ۔لھذا دلائل الامامۃ جب اس کا ایک جزو اور حصہ قرار پایا ،تو یہ بھی اسی مصنف کی کتاب ہے۔

ابن جریر کبیر یعنی سنی ابن جریر کے ہم عصر شخصیت کی حقیقت اور اس کے افسانوی وجود سے ما قبل میں ہم بحث کر چکے ہیں کہ اس نام کی کؤئی شخصیت تاریخ میں نہیں گزری ،ابو عثمان المازنی کے ایک شاگرد ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم طبری کو ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم طبری بنا یا گیا ۔جب ابن جریر کبیر کے نام سے کوئی شیعہ عالم کا وجود نہیں ہے ،تو لا محالہ سوال اٹھتا ہے کہ پھر مذکورہ کتاب کس کی لکھی ہوئی ہے؟اور ا سکا مصنف کون ہے؟

فہار س الکتب میں اس نام کی کتاب  ہمیں سنی ابن جریر کے تذکرے میں ملتی ہے ۔یہ بات درجہ ذیل حضرات نے ذکر کی ہے:

۱۔ابن ندیم نے اپنی کتاب "الفہرست "میں المسترشد کو محمد بن جریر طبری (سنی)کی تصنیف قرار دیا ہے ۔ابن جریر کی کتب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

كتاب المسترشد كتاب تھذيب الآثار ولم يتمہ۔18

۲۔ساتویں صدی ہجری کے عالم   ابن ساعی "الدر الثمین فی اسماء المصنفین"میں ابن جریر کی کتب کے ذیل میں لکھتے ہیں:

كتاب الخفيف في الفقہ، وكتاب المسترشد۔19

۳۔صاحب ھدیۃ العارفین امام ابن جریر کی تصنیفات گنواتے ہوئے لکھتے ہیں:

كتاب المحاضر والسجلات،كتاب المسترشد۔20

جب المسترشد ابن جریر سنی کی کتاب ہے،تو کوئی بعید نہیں کہ اس کتاب اور اس کے مصنف دونوں کو بچانے کے لیے ایک اور ابن جریر  کی شخصیت ایجاد کی گئی ہو ،تاکہ محمد بن جریر طبری صاحب  "کان یضع للروافض" (یہ نقد معروف محدث احمد السلیمانی نے ابن جریر صاحب پر کیا ہے ،المسترشد کی مذکورہ کہانی اور اس نقد میں گہرا ربط معلوم ہوتا ہے )کی تہمت سے بھی بچیں اور کتاب بھی محفوظ رہے ۔واللہ اعلم بالصواب


حواشی

  1.  النجاشی ،ابو العباس ،احمد بن علی ،رجال النجاشی ،قم ،موسسۃ النشر الاسلامی ۱۴۱۶ھ،ص۳۷۶
  2.  القمی ،عباس ،الکنی و الالقاب ،طہران ،مکتبۃ الصدر ،ج۱ص۲۴۲
  3.  الراضی ،حسین عبد اللہ ،تاریخ علم الرجال ،ص۷۸ (نسخہ اکترونیۃ )
  4.  البحرانی ،سید ہاشم ،مدینۃ المعاجز ،قم ،موسسۃ المعارف الاسلامیہ ۱۴۱۶ھ،ج۸ص۱۲۲
  5.  الطوسی ،شیخ الطائفۃ ،محمد بن حسن ،رجال الطوسی ،قم ،موسسۃ النشر الاسلامی ۱۴۱۵ھ،ص۴۲۴
  6.  المامقانی ،عبد اللہ ،تنقیح المقال فی علم الرجال بحوالہ المسترشد فی الامامۃ،قم ،موسسۃ الثقافۃ الاسلامیہ ،ص۴۰
  7.  الطہرانی ،الشیخ آغا بزرگ ،الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،بیروت ،دارالاضواء،ج۲ص۴۸۸
  8.  الطبری ،محمد بن جریر بن رستم ،المسترشد فی الامامۃ ،قم ،موسسۃ الثقافۃ الاسلامیہ ،ص۸۷
  9.  ایضآ ،ص۳۸
  10.  الطبری ،ابو جعفر ،محمد بن جریر ،تاریخ الامم و الملوک ،قاہرہ ،دار المعارف ۱۳۸۷ھ،ج۱ص۸
  11.  الطبری ،ابو جعفر ،محمد بن جریر ،صحیح تاریخ طبری ،بیروت ،دار ابن کثیر ۱۴۲۸ھ،ج۳ص۳۷۷تا۳۹۷
  12.  الطبری ،ابو جعفر ،محمد بن جریر ،ضعیف تاریخ طبری ،بیروت ،دار ابن کثیر ۱۴۲۸ھ،ج۸ص۶۲۹تا۸۱۵
  13.  الکنتوری ،اعجاز حسین ،کشف الحجب و الاستار ،قم ،مکتبۃ ایۃ العظمی المرعشی ۱۴۰۹ھ،ص۲۱۴
  14.  المجلسی ،محمد باقر ،بحار الانوار ،بیروت ،موسسۃ الوفاء ۱۴۰۳ھ،ج۱ص۱۹
  15.  الطبری ،ابو جعفر ،محمد بن جریر بن رستم،قم ،موسسۃ الثقافۃ الاسلامیہ ،ص۸۱
  16.  ایضا
  17.  الطبری ،ابو جعفر ،محمد بن جریر بن رستم ،بیروت ،موسسۃ الاعلمی للمطبوعات۱۴۰۸ھ،ص۴
  18.   ابن ندیم ، الفہرست ، ص۳۲۷
  19.  البابابی ،اسمعاعیل بن محمد امین ،ھدیۃ العارفین ،بیروت ،دار احیاء التراث العربی،ج۲ ص۲۷۱
  20.  ابن ساعی ،علی بن انجب،الدر الثمین ،تیونس ،دار الغرب الاسلامی ۱۴۳۰ھ،ص۹۴


امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار (۲)

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

3.4۔ توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی

اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو "توحید وجودی" (Existential Unity) کا عنوان بھی دیا جاتا ہے جس کی متعدد تشریحات پائی جاتی ہیں جن میں دو اہم تر ہیں:  

یہ تمام تفصیلات ہمارے موضوع سے متعلق نہیں،  نفس تحریر کا محور امام غزالی کا چوتھا درجہ توحید ہے اور امام صاحب اس معاملے میں جس توحید کی بات کرتے ہیں وہ ان دونوں میں سے اول الذکر ہے نہ کہ موخر الذکر۔ توحید کے اس چوتھے درجے، جسے "مشاہداتی وحدت" کہا جاتا ہے، اسے سمجھنے کے لئے مشاہدے کی علمیات سے متعلق چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں:

یہ سب امور امام غزالی نے واضح کئے ہیں، البتہ ان کی گفتگو کی طرف متوجہ ہونے سے قبل بات سمجھانے کے لئے ایک مثال لیتے ہیں۔ فرض کریں کسی بس سٹینڈ پر بہت سارے رنگوں اور حجم کے بیگ بکھرے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک شخص ان میں سے آدھوں پر "لاھور کا سامان" اور آدھوں پر "اسلام آباد کا سامان" کی چٹ لگا دیتا ہے۔ چٹ لگانے کا یہ عمل آدھوں کو "اسلام آباد کی وحدت" عطا کرتا ہے اور آدھوں کو "لاھور کی وحدت"، اگرچہ وہ بیگ کسی دوسرے اعتبار میں الگ الگ بھی موجود ہیں لیکن لاھور اور اسلام آباد کے اعتبارات سے واحد ہیں۔ یا فرض کریں وہ ان میں سے کچھ پر "20 کلو" اور کچھ پر "10 کلو" کی چٹ لگا کر انہیں تقسیم کرتا ہے، اب وہی بیگ "20 کلو" اور "10 کلو" کی دو وحدتوں میں تقسیم ہوگئے۔ تو ان بیگز کے ساتھ اس قسم کی کئی وحدتیں قائم کی جاسکتی ہیں، "کلو" اور "جائے مقام" (لاھور یا اسلام آباد وغیرہ)، یہ تناظرات یا اعتبارات ہیں جو ایک ہی شے کو مختلف اعتبارات سے کثیر یا واحد بنا رہے ہیں۔ پھر فرض کریں کہ اس بس سٹینڈ پر کئی بسیں موجود ہیں جنہوں نے مختلف اوقات میں سفر کا آغاز کرنا ہے۔ "لاھور کا سامان" اور "اسلام آباد کا سامان" والی انہی چٹوں والے دو قسم کے بیگوں میں سے کچھ کو اٹھا کر ایک بس میں اور کچھ کو دوسری میں رکھ دیا جاتا ہے، ابھی تھوڑی دیر قبل "لاھور کا سامان" اور "اسلام آباد کا سامان" کے جو بیگز الگ الگ تھے "ایک بس کا سامان" کے تناظر میں وہ ایک ہوگئے۔ تو انہیں مشاہداتی تناظرات کہا جاتا ہے جو مشاہد یا ناظر کے لئے اشیاء میں کثرت و وحدت کی بنیاد بنتے ہیں۔

دوسری بات یہ سمجھئے کہ کسی کثرت کو کسی وحدت میں بدل دینے کا راز اس بات میں پنہاں ہوتا ہے کہ وہ کونسا تناظر ہے جہاں ایک شے ہوتے ہوئے بھی لاموجود یا غیر متعلق ہوجائے۔ جب سامان پر "لاہور" اور "اسلام آباد" کی چٹ لگا دی گئی تو ان کا حجم موجود ہوتے ہوئے بھی غیر متعلق ہوجاتا ہے اور اس وحدت کی نفی نہیں کرتا جو چٹ لگنے سے قائم ہوگئی۔

امام غزالی ان امور کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ان الشیء قد یکون کثیرا بنوع مشاھدۃ واعتبار، ویکون واحدا بنوع  آخر من المشاھدۃ والاعتبار  (احیاء العلوم: ص 1605)

"ایک شے مشاہدے کے کسی ایک اعتبار سے کثیر ہوتی ہے اور مشاہدے کے کسی دوسرے اعتبار سے واحد"

اس مشاہداتی وحدت کو سمجھانے کے لئے امام غزالی بس اڈے پر موجود سامان کے طرز ہی کی مثال لائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک انسان گوشت، خون، کھال، ہڈی جیسی کثیر چیزوں سے عبارت ہے لیکن جب تم اسے "انسان" دیکھتے ہو تو اب یہی کثرت "وحدت انسانی" کے مشاہدے میں بدل جاتی ہے۔ اس گفتگو کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

کل ما فی الوجود من الخالق و المخلوقات لہ اعتبارات و مشاھدات کثیرۃ مختلفۃ، فہو باعتبار واحد من الاعتبارات واحد، وباعتبارات اخر سواء کثیر، وبعضھا اشد کثرۃ من بعض (احیاء العلوم: ص 1605)

"جتنی بھی موجودات ہیں، چاہے خالق ہوں یا مخلوق، سب کے لئے متعدد اعتبارات و مشاہدات ہیں، کسی ایک اعتبار سے  وہ واحد ہوتی ہیں تو کسی دوسرے اعتبار سے وہ کثیر، اور  بعض (اعتبارات سے پیدا ہونے والی مشاہداتی) کثرت  بعض (دیگر  اعتبارات سے پیدا ہونے والی مشاہداتی ) کثرت سے زیادہ ہوتی ہے"

اس وضاحت کے بعد اس سوال پر غور کیجئے:

چوتھا سوال) کیا کوئی ایسا تناظر بھی ہے جہاں "میں" (یا مخلوقات) موجود ہوتے ہوئے بھی غیرموجود، لایعنی اور غیر متعلق ہوجاؤں اور صرف خدا باقی بچ رہے؟

یہ جسے مشاہداتی توحید یا وحدت کہتے ہیں یہ اسی سوال کے جواب سے عبارت ہے۔ اس کا جواب امام غزالی اور صوفیاء اثبات میں دیتے ہیں۔ وہ تناظر کیا ہے؟ وہ تناظر توحید کے اس تیسرے درجے کہ "کائنات میں فاعل حقیقی ایک ہی ہے" کا منطقی نتیجہ ہے کہ "کائنات میں وجود حقیقی بھی صرف ایک ہی ہے"۔ حقیقی وجود کیا ہے؟ وہ وجود جو قائم بالذات ہو۔ امام غزالی کہتے ہیں:

القائم بنفسہ ھو الذی لو قدر عدم غیرہ بقی موجودا (احیاء العلوم: ص 1427)

" قائم بالذات ہستی وہ ہے کہ اگر اس کا غیر (other) معدوم ہوجائے تو بھی اس کا وجود باقی رہے"

یعنی خود اپنی ذات سے قائم وجود وہ ہوتا ہے کہ اگر اس کے سواء باقی سب وجود ختم ہوجائیں تب بھی اس کا وجود برقرار رہے۔ ایسا وجود صرف اور صرف خدا ہی کی ذات کو حاصل ہے۔ یعنی سب مخلوقات ھلاک ہوجائیں وہ تب بھی موجود ہوگا، ایسا وجود کسی کو حاصل نہیں۔ مشاہداتی وجود کے اس تناظر میں تمام مخلوقات ہوتے ہوئے بھی غیرموجود ہوجاتی ہیں۔ تو اگر میں خود سے یہ سوال کروں کہ "کیا کوئی ایسا تناظر ممکن ہے جہاں میں موجود ہوتے ہوئے بھی لاموجود اور لایعنی ہوجاؤں اور صرف خدا بچ رہے؟"۔ جواب ہے "جی ہاں"۔

چوتھا درجہ: مشاہداتی وحدت: امام غزالی کا بیان کردہ توحید کا چوتھا درجہ یہی مشاہداتی توحید ہے جسے وہ یوں بیان کرتے ہیں:

والرابعۃ: ان لا یری فی الوجود الا واحدا، وھی مشاھدۃ الصدیقین وتسمیۃ الصوفیۃ الفناء فی التوحید لانہ من حیث لایری الا واحد فلا یری نفسہ ایضا، واذا لم یر نفسہ لکونہ مستغرقا بالتوحید کان فانیا عن نفسہ فی توحیدہ، بمعنی انہ فنی عن رؤیۃ نفسہ والخلق (احیاء العلوم: ص 1404)

"اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ انسان صرف ذات واحد کا مشاہدہ کرے اور یہ صدیقین کا مشاہدہ ہے اور صوفیاء اسے توحید میں فنا ہوجانا کہتے ہیں کیونکہ اس مقام پر وہ اس ذات  کے سواء کچھ نظر نہیں آتا یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کو بھی نہیں دیکھ پاتے ، اور جب انسان توحید میں استغراق  کے سبب خود اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھ پاتا تو دراصل وہ توحید میں  اپنے نفس سے بھی فنا ہوجاتا  (یعنی اس کی نفی کرتا) ہے، ان معنی میں کہ وہ اپنے آپ اور دیگر مخلوقات کو دیکھنے سے قاصر ہوجاتا ہے "

گویا توحید کا آخری درجہ یہ ہے کہ انسان کے  مشاہدے میں صرف ایک ہی ذات رہ جائے، باقی سب فنا ہوجائے، وہ جب کسی شے کو دیکھے تو صرف وجود واحد اور حقیقی کے تناظر میں دیکھے۔  جب بندہ اس تناظر میں مشاہدہ کرتا ہے تو ہر موجود کے مشاہدے میں صرف خدا ہی باقی بچ رہتا ہے، جو نظر کے سامنے ہوتا ہے اس کے وجود نہیں بلکہ "ہلاک و فنا" ہونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس تناظر سے قائم ہونے والے مشاہداتی تناظر میں سب وجود فنا و لایعنی ٹھہرتے ہیں، اس مشاہداتی تناظر میں خدا کے سواء ہر شے دیکھ کر انسان یہی پکارتا ہے: "یہ تو فنا ہوجانے والی ہے"،1 یعنی اس کی کوئی وقعت نہیں، وقعت تو بس اس کی ہے جو وجود حقیقی ہے، جو از خود قائم ہے، امام غزالی لکھتے ہیں:

وانما الوجود ھو القائم بنفسہ، والقائم بنفسہ ھو الذی لو قدر عدم غیرہ بقی موجودا (احیاء العلوم: ص 1427)

"بیشک وجود وہ ہے جو قائم بالذات ہو، اورقائم بالذات ہستی وہ ہے کہ اگر اس کا غیر (other) معدوم ہوجائے تو بھی اس کا وجود باقی رہے"

اس وجود حقیقی اور عام انسانوں کے وجود میں جو فرق ہے نیز اس سے شرک کا خطرہ کس طرح ختم ہوجاتا ہے، اسے وہ یوں بیان کرتے ہیں:

والخاصیۃ الالھیۃ انہ الموجود الواجب الوجود بذاتہ، الذی عنہ یوجد کل ما فی الامکان وجودہ علی احسن وجود النظام و الکمال۔ وھذۃ الخاصیۃ لایتصور فیھا مشارکۃ البتتہ، ولمماثلۃ بہا لاتحصل۔ فکون العبد رحیما، صبورا، شکورا لایوجب الممثلۃ ککونہ سمیعا، بصیرا، عالما، قادرا، حیا، فاعلا (المقصد الاسنی فی معانی اسماء الحسنی: ص 49)

"خاصیت الہی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات سے قائم واجب الوجود ہستی ہے، جس کی ذات سے عالم امکان میں تمام موجودات نہایت عمدہ و کامل نظم کے ساتھ وجود میں آتے ہیں، اور یہ وہ خاصیت ہے جس میں (کسی کی) شرکت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پس ایک بندہ رحیم، صبور و شکور ہوسکتا ہے لیکن اس سے (خدا کی صفات کے ساتھ) مماثلت  لازم نہیں آتی جیسے بندہ سمیع، بصیر، عالم، قادر، حی اور فاعل ہوتا ہے"

تو جب کسی بندے پر یہ تناظر غلبہ پالیتا ہے تو وہ اپنے وجود کو کبھی ظلی کہتا ہے تو کبھی مجازی، کبھی اس کی نفی کرتا ہے تو کبھی ایک لمحاتی تجربہ۔ یہاں تفصیل کا موقع  نہیں ورنہ ہم سمجھاتے کہ کائنات کا ہر ذرہ لمحاتی وجود سے زیادہ وقت کے لئے منصف وجود پر آتا ہی نہیں اور اگر لایا بھی جائے تو خود برقرار نہیں رہ سکتا اگر وجود حقیقی اس پر اپنے عمل تخلیق کے فضل کی بارش مسلسل جاری نہ رکھے2۔ تو جو وجود ایسا ہیچ ہو کہ ایک لمحے کے لئے بھی موجود نہ رہ سکتا ہو، اس کی بھلا اس وجود سے کیا نسبت جو حقیقی اور قائم بالذات ہو؟ مخلوقات کا وجود بھی متحقق ہوگا لیکن کسی نچلے اعتبار میں اور وہ نچلا درجہ اس حقیقی اعتبار کے مقابلے میں ایسا کمتر ہے کہ بندہ اس کی طرف ملتفت ہی نہیں ہوتا۔ اگر کسی نے یہ سمجھا کہ "وجود حقیقی کے اعتبار" میں بھی وہ اور دیگر  مخلوقات موجود ہیں، تو وہ جان لے کہ یہ  شرک ہے۔ جیسے "فاعل حقیقی" کے اعتبار میں کسی کو موثر سمجھنا شرک ہے اسی طرح "وجود حقیقی" کے اعتبار میں کسی کو موجود ماننا بھی شرک ہے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ "موجود ہونے" اور "وجود میں لائے جانے" میں بڑا فرق ہے اور یہ راز ہر کسی پر نہیں کھلا کرتا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ جب تم یہ تصور قائم کرو گے کہ وجود حقیقی تو صرف خدا کو حاصل ہے تو پھر تمہارے لئے سوائے خدا کے کچھ موجود نہ رہے گا، باقی سب فنا دکھائی دے گا۔  

تو یہ ہے وہ تصور جسے وجودی توحید کے مباحث میں "مشاہداتی وحدت" کہتے ہیں۔ چونکہ یہ بحث سمجھنا ہر کسی کے بس میں نہیں، کچھ ہی لوگ اس کا ذوق رکھتے ہیں نیز اس کے ساتھ ملحق خیالات گہرائی اور اس کے مضمرات باریک بینی کا تقاضا کرتے ہیں لہذا صوفیاء کہتے ہیں کہ یہ "خاص الخاص" کی توحید ہے، یعنی توحید کا وہ ادراک جو بہت کم لوگ سمجھ پاتے ہیں۔ ہر علم کی ایک گہرائی ہوتی ہے، جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہر علم کی ہر بات ہر شخص سمجھ سکتا ہے، وہ بیوقوف ہے، اسے کبھی علم سے شناسائی ہی نہیں ہوئی۔

اس مقام پر دلوں میں کچھ سوالات مچلتے ہیں، مثلا یہ کہ مشاہداتی وحدت کا مطلب کیا یہ ہے کہ وجودی (ontological) سطح پر مخلوقات لاموجود و معدوم ہوجاتی ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خالق و مخلوق کے ایک ہونے کا مشاہدہ کیا جائے؟

امام غزالی ان دونوں سوالات کا جواب کھلے الفاظ میں نفی میں دیتے ہیں اور اس کے لئے احیاء العلوم کے بجائے امام غزالی کی دیگر تصنیفات کی طرف رجوع کرنا لازم ہے جس میں "المقصد الاسنی فی شرح معانی اسماء الحسنی"3 سرفہرست ہے جہاں وہ صاف انداز میں "اتحاد" اور "حلول" دونوں کو نہ صرف رد کرتے ہیں بلکہ منطقی طور پر ان کے ناممکن ہونے کے دلائل لاتے ہیں۔ اس مضمون میں یہ تفصیلات بیان کرنا ممکن نہیں، اہل ذوق اور علم کی پیاس بجانے کا شوق رکھنے والے حضرات امام غزالی کی اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں جس میں تصوف میں عرفان الہی کی پیچیدہ بحثوں پر نفیس گفتگو کی گئی ہے اور امام غزالی نے بہت سی گتھیوں کو عمدہ انداز میں سلجھایا ہے۔ البتہ اس ضمن میں امام صاحب کے موقف کی اصولی بات بیان کردی جانا ضروری ہے۔

امام صاحب اس سوال سے بحث کرتے ہوئے کہ بندے اور خدا کی صفات میں مماثلت کی کون سی صورتیں درست اور کون سی غلط ہیں، پانچ امکانات ذکر کرتے ہیں:

امام صاحب کہتے ہیں:

فھذہ خمسۃ اقسام، الصحیح منھا قسم واحد، وھو یثبت للعبد من ھذہ الصفات امور تناسبھا علی الجملۃ وتشارکھا فی الاسم، ولکن لا تماثلھا مماثلۃ تامۃ (المقصد الاسنی: ص 49)

"تو یہ پانچ اقسام ہوئیں، ان میں سے درست قسم صرف پہلی ہے (یعنی بندے کی صفات خدا کی صفات میں صرف نام کے اعتبار سے مماثل ہیں)، یعنی ان صفات میں بندے کے لئے صرف وہ امور ثابت ہوتے ہیں جو (بندے کے لئے) ان صفات کے مناسب ہوتے ہیں، اور (خدا کی صفات کے ساتھ) شرکت صرف نام کی سطح  پر ہوتی ہے، ہر اعتبار میں اس کے ساتھ مماثلت نہیں ہوتی"

امام غزالی کہتے ہیں کہ دیگر چاروں محال ہیں اور وہ ہر ایک کا تفصیلی رد کرتے ہیں۔ تو یہ ہے توحید وجودی پر امام غزالی کا کلام جو بالکل صاف اور نکھرا ہوا ہے اور جس میں کوئی الجھاؤ نہیں، صرف اسے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم غامدی صاحب سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ توحید کے درج بالا چوتھے درجے پر انہیں کیا اعتراض ہے؟ بلکہ یہ سوال ناقص ہے، درست سوال یہ ہے کہ آخر اسے نہ مان کر بھی آپ موحد کیسے ہوسکتے ہیں؟ اول الذکر سوال یہ فرض کرتا ہے گویا معیار غامدی صاحب کا تصور توحید ہے، جبکہ معاملہ یہ ہے کہ انبیاء کی تعلیمات میں بیان شدہ توحید کا درست و کامل معیار تو وہی ہے جسے امام غزالی اور ان کے ہمنوا صوفیاء بیان کرگئے ہیں۔ وہ جو "عین انبیاء کی توحید" تھی آپ نے اسے "متوازی دین" قرار دے کر دراصل اپنی  ناقص توحید کو دین اور انبیاء کی توحید کو متوازی دین بنا دیا۔

"ھو الحی" اور "لا موجود الا اللہ"

مناسب محسوس ہوتا ہے کہ صوفیاء کے قول "لا موجود الا اللہ" کی جو تشریح امام غزالی کے درجات توحید والی تحریر میں سمجھائی گئی اس کی منصوص بنیاد بھی ذکر ہوجائے تو اچھا رہے گا، ورنہ لوگوں کو خیال گزر سکتا ہے کہ شاید منطقی باتیں بنا کر صوفیاء کی باتوں کی تاویل کی جارہی ہے  یا صوفیاء نے منطقی موشگافیوں سے کام لیا ہے۔ یہ بات سمجھانے کے  لئے سب سے مناسب مقام آیت الکرسی ہے جو اللہ کی صفات کا ایک عظیم مجموعہ ہے۔ چنانچہ اس میں ارشاد ہوتا ہے:

لہ ما فی السموات و ما فی الارض (البقرۃ: 255)

زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اس کا ہے۔

آیت کو پڑھ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس زمین میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوسکتا کیونکہ زمین و آسمان میں سب کچھ تو اللہ ہی کا ہے نیز اگر انسان کو کسی چیز کا مالک مان لیا گیا تو یہ شرک ہوجائے گا؟ اس کا جواب سوائے اس کے کیا ہے کہ "مالک حقیقی" صرف خدا کی ذات ہے، اس کے سوا کسی کو "مستقل و حقیقی مالک" سمجھنا شرک ہے۔ تو اس جواب کا مطلب یہ ہوا کہ کسی تناظر میں "لا الہ الا اللہ" کا مطلب "لا مالک الا اللہ" ماننا بھی ہے، یعنی ایک ایسا تناظر و اعتبار بھی ہے جہاں سب انسانوں کی ملکیت کی نفی کرنا لازم ہے، نہ کی گئی تو یہ شرک ہوگا۔ تو اس اعتبار سے آیت کا مطلب ہوا کہ "زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اس 'ہی' کا ہے"، اور کسی کا نہیں۔ جب تک ترجمے میں یہ "ہی" نہیں لگے گا، ملکیت حقیقی کا یہ مفہوم ادا نہیں ہوگا۔ ملکیت کے اس معنی میں ہر کسی کی ملکیت کی نفی کرنا یہ توحید کا لازمی تقاضا ہے، یعنی ملکیت کا کوئی ایسا تصور بھی ہے جہاں خدا کے ساتھ کوئی شریک نہیں، وہاں وہ ذات اکیلی مالک ہے۔

یہ بات سمجھنا نسبتا آسان ہے کیونکہ ملکیت کی یہ نفی ہمارے وجود کو چیلنج نہیں کررہی، صرف اس چیز کی ملکیت کے اعتبار کو چیلنج کررہی ہے جسے ہم اٹھتے بیٹھتے اپنا کہتے ہیں۔ اب آیت الکرسی کی ابتداء پر آتے ہیں جہاں "ھو الحی" کے الفاظ آئے ہیں اور جس کا ترجمہ عام طور پر "وہ زندہ ہے" کیا جاتا ہے ۔ یہاں بھی وہی سوال پیدا ہوتا ہے جو ملکیت کے مسئلے میں پیدا ہوا تھا کہ آیا اللہ اور بندنے کے زندہ ہونے میں جو ظاہری مماثلت ہے اس کا کیا کیا جائے؟  کیا بندے کو زندہ ماننے سے شرک لازم آتا ہے؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ خدا کی حیات کو ہماری حیات سے کوئی نسبت ہی نہیں، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک موجود رہے گا نیز وہ از خود زندہ ہے، ہم اس زندگی اور وجود کے لئے اس کے محتاج ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حقیقی معنی میں خدا ہی کی ذات زندہ ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ کوئی ایسا تناظر بھی ہے جہاں میں، اور آپ نہ زندہ ہیں اور نہ ہی موجود، اس دائرہ میں صرف خدا ہی کی ذات زندہ اور موجود ہے۔  گویا کوئی ایسا تناظر بھی ہے جہاں "لا الہ الا اللہ" کا ترجمہ "لا موجود الا اللہ" سمجھنا ضروری ہے، اس دائرے میں اپنے وجود حادث کی نفی نہیں کی تو شرک ہوگا۔ تو اب آیت "ھو الحی" کا ترجمہ "وہ زندہ ہے" سے پورا نہیں ہوتا بلکہ "وہی زندہ ہے" ٹھہرتا ہے۔

"وجودی توحید" کا دوسرا پہلو درج بالا سوال کی دوسری جہت (flip side) ہے جہاں میں اپنی ذات کو اس سوال کے روبرو پیش کرتا ہوں: "کیا کوئی ایسا تناظر بھی ممکن ہے جہاں رب اور بندہ ایک ہوجائے؟" یہ ایک گہرا سمندر ہے جہاں الفاظ مفہوم کا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں، یہ اثباتی توحید کا وہ مقام ہے کہ جو اس میں جس قدر آگے بڑھتا گیا وہ اتنا ہی بے بس ہوتا اور حیران و پریشان ہوتا چلا گیا۔ اس حیرت کدے میں سرکرداں ہونا  اس مقالے کا موضوع نہیں لہذا ہم اس جانب گفتگو بڑھانا نہیں چاہتے اور اسے کسی دوسرے مقالے کے لئے اٹھا رکھتےہیں۔

کیا توحید وجودی مدار نجات ہے؟

توحید وجودی کے ضمن میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس کا ادراک حاصل کرنا لوازامات دین میں سے ہے؟ یعنی کیا اس درجے کی توحید کا اقرار کرنا مدار نجات ہے؟ امام غزالی کہتے ہیں کہ یہ جسے توکل کہتے ہیں، اس کا تعلق توحید کے اس چوتھے درجے کے ادراک کے ساتھ نہیں ہے بلکہ وہ تیسرے درجے سے متعلق ہے اور وہ اسی کی تفصیل بیان کرتے ہیں (احیاء العلوم ص: 1605)۔ گویا بندہ مؤمن بن کر رھنے کے لئے توحید کے جس تصور کو ہمہ وقت باندھ رکھنا کافی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات میں فاعل حقیقی صرف خدا کی ذات ہے، اس کے اذن کے بغیر یہاں کچھ نہیں ہوسکتا لہذا مجھے اسی کے کہے پر عمل کرکے اس پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ چونکہ توحید کا یہ فہم حاصل کرسکنا بہت گہرے غور و خوض کا متقاضی ہے لہذا صوفیاء اسے "خواص الخواص" کی توحید کہتے ہیں اور اسے خواص الخواص کی توحید کہنے کا مطلب ہی یہ ہےکہ یہ مدار نجات نہیں، کیونکہ مدار نجات عام لوگوں (masses) کے درجے کی چیز ہوا کرتا ہے۔ علمائے تصوف کی  روایت میں توحید وجودی کا اقرار مدار نجات نہیں سمجھا جاتا، اس کی ایک دلچسپ مثال یہ اختلاف ہے کہ جب سید عبد الرحمان لکھنوی نے اپنی کتاب تحقیق الحق میں یہ دعوی کیا کہ لا الہ الا اللہ سے لا موجود الا اللہ کا وہ گہرا ادراک حاصل کرنا از روئے شرع لازم ہے جو صوفیاء نے سمجھا، تو ان کا رد کسی اور نے نہیں بلکہ برصغیر میں خود اسی روایت کےایک  امین پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا (ان کی کتاب کا نام تحقیق الحق فی کلمۃ الحق ہے)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفی روایت کے علماء اس درجہ توحید کو مدار نجات شمار نہیں کرتے جیسا کہ امام غزالی نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا۔ تو جس چیز کو وہ خود مدار نجات نہیں کہتے اس پر ان کی نقیض کرنا کیسے درست ہے؟ جسے یہ گہرے رموز سمجھ نہیں آتے، وہ اللہ کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارے اور خالق حقیقی سے جاملے، صوفیاء نے کب ندا لگا رکھی  ہے کہ سب کے لئے اسے سمجھنا و ماننا لازم ہے!  لیکن ہر علم میں فہم و ادراک کا ایک درجہ بہرحال ایسا ہوتا ہے جس کا ذوق کچھ خاص لوگوں کو ہوا کرتا ہے، کیا شرع نے اس ادراک کے حصول کی جستجو سے منع کردیا ہے؟ جس کا یہ دعوی ہے وہ دلیل پیش کرے۔

4۔ خلاصہ

اس تحریر کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ امام غزالی بالخصوص اور صوفیاء بالعموم کفر و شرک کی ان تہمتوں سے پاک ہیں جو غامدی صاحب نے اپنے سوء فہم اور ناقص تصور توحید کی بنیاد پر ان کی طرف منسوب کیں۔ جو شخص ٹھیک طرح سے توحید کے پہلے درجے کی تعریف متعین نہ کرسکا ہو وہ اٹھے اور امت مسلمہ  کے ان لوگوں کی توحید کو کفر وشرک قرار دے جو توحید کا مغز بیان کرنے والے تھے، ایسے حالات میں سوائے افسوس کے اور کیا ہو! امام غزالی کے یہاں جو مباحث بالکل صراحت کے ساتھ چند مقامات پر مذکور ہیں دیگر صوفیاء کے یہاں وہ خاصی پیچیدگی و الجھاؤ کے ساتھ ملتے ہیں جیسا کہ امام غزالی خود کہتے ہیں کہ ان مباحث کو سمجھنے میں غلط فہمیوں کی ایک وجہ اس کلام کا سیاق و سباق ہوتا ہے اور جس سے لوگوں کو حلو ل و اتحاد کا گمان ہونے لگتا ہے (المقصد الاسنی: ص150)۔  تو جو شخص ان مباحث میں امام غزالی کے واضح اور مربوط کلام کو سمجھنے سے قاصر رہا ہو نیز اسے ویدا، اپنشد اور نجانے کس کس فلسفی کے کفریہ و شرکیہ نظریات کی طرح قرار دیتا ہو اس سے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ اس نے شیخ ابن عربی جیسے پیچیدہ و دقیق صوفی کی الجھا دینے  والی تحاریر کو سمجھ  لیا ہوگا؟ شیخ ابن عربی کی تحریروں کا حال یہ ہے کہ ان کا اپنا الگ نظام فکر ہے جس کی اپنی اصطلاحات اور معانی ہیں، وہ ابتدائے کلام میں جس اصطلاح کا ذکر کرتے ہیں اس کی تشریح کئی سو صفحات بعد کہیں مذکور ہوتی ہے۔ تو اب یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہ جاتا ہے کہ غامدی صاحب نے کتنے غور سے شیخ ابن عربی کا مطالعہ کیا ہوگا۔ اس بارے میں ہمارا گمان یہ ہے کہ انہوں نے ثانوی ماخذات سے چیزیں اخذ کرکے تصوف پر مضمون لکھا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ امام غزالی و صوفیاء کرام کا تصور توحید نہ صرف یہ کہ درست ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ یہی  تصور توحید اہل سنت والجماعت کا نمائندہ تصور توحید ہے جو ہر قسم کے افراط و تفریط سے پاک ہے۔ اس تصور  پر خط تنسیخ پھیرنا دراصل اہل سنت والجماعت کے عقیدے کی پوری علمی روایت کو باطل ٹھہرانا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اگر اس تحریر سے کسی کو نفع ہو تو اس کے صدقے میں روز قیامت امام غزالی سے محبت کرنے والوں میں شامل کردے۔

مراجعات

1۔ ابو حامد الغزالی  (2005)۔ احیاء العلوم الدین۔ دار ابن حزم (اس مکتب نے کتاب کی چار جلدوں کو ایک جلد کی صورت میں چھاپا ہے)

2۔ ابو حامد الغزالی  (2003)۔ المقصد الاسنی فی شرح معانی اسماء الحسنی۔ دار ابن حزم

3۔ جاوید احمد  غامدی (2018)۔ برھان۔ المورد، ادارہ علم و تحقیق  

حواشی

  1.  یعنی بندے کی پکار اس آیت کی بات رہ جاتی ہے: کل شیء ھالک الا وجہ، یعنی اللہ کے سواء  ہر شے فانی  یا ھلاک ہونے والی ہے (القصص:  88)۔
  2.  خالق و کائنات کے مسلسل تعلق کو بیان کرنے کی یہ تعبیر اشعری  نظام فکر پر مبنی ہے  جو اہل سنت والجماعت کا ایک گروہ ہے۔
  3.  یہ کتاب المقصد الاقصی فی شرح اسماء الحسنی کے نام سے بھی موسوم ہے۔ متعلقہ بحث کے لئے کتاب کے ان ابواب کا مطالعہ سود مند رہے گا: الفن الاول باب الرابع اور اگر صرف اتحاد و حلول کی بحث ملاحظہ کرنا ہو تو الفن الثانی کا "خاتمۃ لھذا الفصل" ملاحظہ فرمائیں۔

دسمبر ۲۰۲۰ء

ناموس رسالت اور امت مسلمہ کا موقفمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۱)ڈاکٹر محی الدین غازی
حنفی مذہب کی تفہیم وتوجیہ میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا مسلکڈاکٹر حافظ محمد رشید
ایک فراموش شدہ گواہ: قبۃ الصخرةسید ظفر احمد
علامہ خادم حسین رضویؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
میکرون، اسلام اور فرانسیسی اقدارڈاکٹر امیرہ ابو الفتوح
’’چمنستان ختم نبوت کے گلہائے رنگا رنگ‘‘مولانا وقار احمد

ناموس رسالت اور امت مسلمہ کا موقف

محمد عمار خان ناصر

توہین رسالت اور اس پر  مسلمانوں کے دینی موقف  کا مسئلہ گزشتہ دنوں میں حکومت فرانس کے ایک اقدام کے تناظر میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر زیر بحث رہا۔  فرانس کے حالیہ اقدام میں بیک وقت تین عوامل کارفرما تھے۔ ایک، سیکولر قومی شناخت کا مخصوص فرانسیسی تصور۔ دوسرا، اسلامو فوبیا کی لہر جو نسل پرستی کے رجحانات کی وجہ سے یورپی ملکوں میں پھیل رہی ہے۔ اور تیسرا، پاپولسٹ سیاست کا کھیل جو دنیا میں تقریبا ہر خطے میں اس وقت اقتدار کے کھلاڑیوں کو مرغوب ہو رہا ہے۔ فرانس کے حالیہ اقدام میں ان عوامل کی اثر اندازی کی ترتیب  معکوس ہے، یعنی سب سے اہم عامل پاپولسٹ سیاست ہے، پھر اسلامو فوبیا اور سب سے آخر میں سیکولرزم بطور ایک سیاسی قدر  اس اقدام کا محرک ہے۔

گستاخانہ خاکوں سے متعلق فرانس کے سرکاری موقف کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایک خاص کمیونٹی کے جذبات کے احترام میں آزادی اظہار پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ اس سے قومی وحدت کمزور ہوتی ہے۔ لیکن اس منافقانہ استدلال کی حقیقت اس سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ۱۹۹٠ء  کے بعد ہولوکاسٹ کا انکار فرانس میں جرم مانا جاتا ہے اور کئی معروف مصنفین اس جرم کے ارتکاب پر سزا بھگت چکے ہیں۔ ذرا غور کرنے سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ بدبودار نسل پرستی نے سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ یہودی، صدیوں سے یورپی شناخت کا حصہ ہیں، اس لیے ان کے جذبات کا احترام ضروری ہے، لیکن مسلمان باہر سے آئے ہوئے ہیں اور ایک اجنبی ثقافت کے ساتھ یورپی معاشرے میں دخیل ہو رہے ہیں، اس لیے ان کے جذبات کا احترام قومی وحدت کو کمزور کرتا ہے۔ مزید براں   فرانسیسی حکومت نے اپنے صدر پر   ترکی کے سربراہ طیب اردوان کی طرف سے کیے گئے ایک تبصرے کو ’’ناقابل قبول“ قرار دیتے ہوئے   اپنے سفیر کو واپس بلا لیا   اور  بعض اطلاعات کے مطابق  فرانسیسی حکومت ان دنوں حکومتی عہدہ داروں کی تضحیک وتمسخر  کو  قابل تعزیر قرار دینے کے لیے قانون سازی  کرنے پر غور وفکر کر رہی ہے۔ حکومت فرانس  کے اس مبنی برتعصب رویے اور  منافقانہ طرز عمل کا عالمی سطح پر  بھی بجاطور پر ادراک کیا گیا ہے اور اقوام متحدہ کی طرف سے  اسے  رواداری اور  مفاہمت کے منافی قرار دیے جانے کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے  فرانسیسی حکومت کی جانب سے  آزادی اظہار پر قدغن  عائد کرنے کی کوششوں کو ’’بے شرم منافقت“ سے تعبیر کیا ہے۔

توہین مذہب کے، ایک ’’حق “ ہونے یا نہ ہونے کی بحث سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب کی اشاعت کے بعد گزشتہ تین دہائیوں میں بتدریج  عالم اسلام اور مغرب کے مابین ایک   تہذیبی سطح کا نزاع  بن گئی ہے۔  تاہم امت مسلمہ کو اس صورت حال کا سامنا پہلی دفعہ نہیں ہوا، بلکہ   اس کی تاریخ کی ابتدا  ہی اس صورت حال سے ہوئی ہے۔ اسلام ایک دعوتی مذہب ہے اور عقلی ونفسی استدلالات کی بنیاد پر اپنی دعوت کو پیش کرتا ہے۔ وہ قرآن اور پیغمبر، دونوں کی حقانیت کو عقل وفطرت کے دلائل پر پرکھنے کے لیے پیش کرتا ہے اور ہر طرح کے اشکالات واعتراضات کا انھی کی روشنی میں جواب دیتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگوں کے مسلمہ موروثی عقائد کو چیلنج کرتا اور انھیں کفر وشرک قرار دیتے ہوئے لوگوں کو ان سے تائب ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید مخالفانہ ردعمل کا پیدا ہونا ایک فطری انسانی رویہ ہے اور اس ردعمل کو صبر وتحمل کے ساتھ گوارا کرتے ہوئے حکمت کے ساتھ دعوت دین کو پیش کرتے رہنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں جو ایک دعوتی مذہب اختیار کر سکے۔ اگر اسلام اپنی پہلی ترجیح دعوت کے فروغ کے بجائے ناموس رسالت کے تحفظ کو بناتا اور مسلمان ہر گستاخ رسول کے ساتھ لڑنے بھڑنے اور مرنے مارنے کو اپنی اولین ایمانی ذمہ داری بناتے تو تاریخ میں اس کا ذکر مکے میں پیدا ہونے والے چند "شرپسندوں“ کے الفاظ میں ملتا اور بس۔ یہ ترجیحات کا حکیمانہ تعین تھا جس نے اسلام کو ایک نہایت مخاصمانہ صورت حال سے، جس میں ہمہ وقت پورا معاشرہ توہین رسالت کا مرتکب ہو رہا تھا، نبرد آزما ہونے کی طاقت بخشی اور پرامن طور پر دنیا میں پھیلنے والا عالمی مذہب بنا دیا۔

یہ حکمت عملی  حسب ذیل دو نکات پر مبنی ہے:

۱۔ جس معاشرے میں مسلمان اصلا غیر مسلموں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہوں، وہاں ایسے مخالفانہ رویوں پر صبر اور اعراض سے کام لیں اور اشتعال ظاہر کر کے دعوت کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔   قانون کو ہاتھ میں نہ لینا ایک عام انتظامی اصول ہے جس کی پابندی ہر جگہ ہی ضروری ہے۔ خاص طور پر جن ممالک میں توہین رسالت پر قانونی طور پر قتل کی سزا مقرر نہیں کی گئی، وہاں سوچ سمجھ کر ایسا اقدام کرنا زیادہ قابل اعتراض ہے۔ کسی نے وقتی اشتعال میں ایسا کر دیا ہو تو اس کا معاملہ الگ ہے، لیکن اس کو شرعی مطلوب کے طور پر پیش کرنا یا اس کو جواز دینا درست نہیں۔ ایسے ممالک میں مسلمانوں کے لیے مکی دور میں اسوہ ہے اور صبر وحکمت کے ساتھ اور قانون کے دائرے میں ہی مبنی بر توہین اظہارات پر ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات اور دینی حمیت سے تعلق نہیں رکھتا، دین کی دعوت اور مسلمانوں کے معاشرتی وسیاسی امیج کا ساتھ بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔ کسی بھی معاشرے میں مسلمان اپنا کوئی موقف طے کرتے ہوئے ان تمام دینی مصلحتوں کو ملحوظ رکھنے کے پابند ہیں۔

۲۔  اگر مسلمانوں کے قانونی دائرہ اختیار میں  کوئی فرد یا گروہ اس جرم کا مرتکب ہو   تو اس صورت حال کے متعلق سورہ احزاب میں مسلمانوں کو    واضح راہ نمائی فراہم کی گئی ہے۔  سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اس گروہ کو تفصیل سے موضوع بنایا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، آپ کے اہل خانہ اور عام مسلمان خواتین کو مسلسل اسکینڈلائز کرنے کی مہم میں مصروف تھا اور مسلمان سماج کو اجتماعی اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ قرآن مجید نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ دنیا وآخرت میں خدا کی لعنت کے سزوار ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اپنی روش سے باز آ جائیں، اور اگر اس تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے تو پھر اے پیغمبر، ہم آپ کو حکم دیں گے کہ ان کے خلاف آپریشن کریں، اور پھر یہ لوگ مدینے میں رہنے نہیں پائیں گے، بلکہ جہاں ملیں گے، ان کو پکڑ کر قتل کر دیا جائے گا۔

اس ہدایت میں قرآن نے بتایا ہے کہ یہ معاملہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے شریعت کا یعنی فقہی اصطلاح میں "حدود" کا نہیں، بلکہ سیاست شرعیہ کا معاملہ ہے۔  چنانچہ کوئی ایک یا چند افراد یا ایک  پورا گروہ توہین رسالت کو باقاعدہ ایک مہم بنا کر مسلمانوں کے درپے آزار ہو تو اسے تنبیہ کی جائے گی، زجر وتوبیخ اور دوسرے تعزیری اقدامات سے اپنی روش بدلنے پر مجبور کیا جائے گا اور پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اس کے خلاف آخری اور انتہائی اقدام کر کے اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ توہین رسالت کے جرم کو قذف کی طرح حدود کے زمرے میں شامل نہ کرنے اور اسے سیاست شرعیہ سے متعلق قرار دینے میں گہری دینی حکمتیں مضمر ہیں جن کی کچھ تفصیل ہماری کتاب ’’براہین’’ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

قرآن مجید کی اس راہ نمائی کو پیش نظر رکھا جائے تو موجودہ صورت حال میں  توہین رسالت کے واقعات پر امت مسلمہ کی طرف سے رد عمل کے اظہار  کا  جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس میں کئی چیزیں  نظر ثانی اور اصلاح کا تقاضا کرتی ہیں۔  یہاں اس حوالے سے چند اہم پہلووں کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔

پہلا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ باعتبار عقیدہ، ہمارے لیے کسی بھی نبی کی توہین ناقابل قبول وناقابل تصور ہے، لیکن پوری امت، مغرب میں توہین انبیاء کے کسی واقعے پر صرف اس وقت برسر احتجاج ہوتی ہے جب توہین کا نشانہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا جائے۔ حالانکہ اس سے کہیں زیادہ توہین آمیز فلمیں اور کتابیں سیدنا موسیٰ اور سیدنا مسیح علیہما السلام کے متعلق منظر عام پر آئی ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اور  ظاہرہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ایمان تو تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن نعت صرف آخری نبی کی کہتے ہیں۔ کبھی کسی معروف یا غیر معروف نعتیہ مجموعے میں یا محافل نعت میں حضرت آدم سے لے کر حضرت مسیح تک، علیہم السلام، کسی نبی کی نعت پڑھنے یا سننے کو نہیں ملتی۔  غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ نبی آخر الزمان علیہ السلام کے متعلق مطلق افضلیت کے عقیدے کی وجہ سے ہم ’’تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض’’ اور ’’ولقد فضلنا بعض النبیین علی بعض’’ جیسی آیات کو ہم صرف سابقہ انبیاء تک محدود مانتے ہیں۔ ہماری نعتوں میں نبی اکرم کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے باقاعدہ ان کا سابقہ انبیاء کے ساتھ تقابل کیا جاتا ہے جس کی احادیث میں تصریحاً‌ ممانعت کی گئی ہے۔ ہمارے شارحین نے اس ’’اشکال’’ کے ساٹھ ساٹھ جوابات سوچنے کا اہتمام کیا ہے کہ درود ابراہیمی میں ’’کما صلیت علی ابراھیم’’ کے الفاظ سے تو حضرت ابراہیم کا افضل ہونا ثابت ہے، کیونکہ مشبہ بہ میں وجہ شبہ، مشبہ کے مقابلے میں زیادہ پائی جاتی ہے۔  نعت میں بھی چونکہ منعوت کی کسی نہ کسی امتیازی صفت اور فضیلت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے اور نفسیاتی طور پر ہمیں یہ گوارا نہیں کہ کسی دوسرے نبی کی کوئی امتیازی فضیلت نمایاں ہو۔ اس لیے ہم نے غیر شعوری طور پر نعت کا دائرہ ہی خاتم الرسل تک محدود کر لیا ہے۔ انبیاء اور رسولوں کی توہین پر احتجاج کو صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک محدود  کر دینا بھی اسی   سوچ کا ایک افسوس ناک مظہر معلوم ہوتا ہے۔

دوسرا قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے ناموس کی حفاظت جہاں کسی گستاخ کو کیفر کردار تک پہنچانے سے یقینی بنتی ہے، وہاں قانون کی پاسداری سے اس سے بھی زیادہ یقینی بنتی  ہے۔ اسلام اور اہل اسلام کے لیے یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کی توہین جیسے حساس ترین معاملے میں بھی قانون اور انصاف کے حدود کی پابندی کرتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے یہودیوں کے پاس فصل کا حصہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو انھوں نے یہودیوں سے کہا کہ خدا کی قسم، تم میرے لیے روئے زمین کی مبغوض ترین قوم ہو، لیکن یہ بات بھی مجھے تمھارے ساتھ ناانصافی پر آمادہ نہیں کرتی۔ اور اس کے جواب میں یہودیوں نے گواہی دی تھی کہ بخدا یہی وہ انصاف ہے جس کے سہارے زمین وآسمان قائم ہیں۔ (ابوداود)

تاہم اس نوعیت کے مقدمات میں  ہماری مذہبی قیادت نے عموما جو پوزیشن اختیار کی ہے، اس سے  معاشرے میں اس تباہ کن رجحان کو تقویت پہنچی ہے کہ توہین رسالت کا معاملہ اصلاً‌ ایمانی جذبات کا معاملہ ہے اور قانون ضابطے کی حیثیت اس ضمن میں ثانوی ہے۔  یہ پوزیشن ایک بڑے سیاق میں معاشرے میں مذہبی ڈسکورسز کے، اخلاقی جواز سے تہی دامن ہو جانے کے مرحلے کی طرف پیش رفت میں آسانی پیدا کر رہی ہے۔ توہین مذہب پر سزا کے قانون کا جواز اور معنویت اسی وقت تک ہے جب اس کی تنفیذ کے لیے عدالتی اختیار کو عملا قبول کیا جائے، چاہے نظری طور پر کسی فیصلے سے اختلاف ہی کیا جائے۔ اگر قانون کے اطلاق اور تنفیذ کا اختیار بھی مذہبی جذبات سے معمور کسی شخص  کے پاس ہے تو ظاہر ہے، قانون سازی ایک فضول کام ہے۔ اس نوعیت کے مقدمات میں مسلسل یہ پوزیشن لے کر مذہبی قیادت نے معاشرے کو دراصل یہی پیغام دیا ہے۔ وقتی طور پر ممکن ہے، خوف اور دہشت کی فضا مذہبی مواقف کو چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک کارآمد وسیلہ بن رہی ہو، لیکن اس کے مجموعی اثرات مذہبی پوزیشن کے لیے مہلک اور تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔

تیسرے نکتے کے طور پر  یہ یاددہانی بھی اس موقع پر مناسب ہے کہ مذہبی جذبات ہر کمیونٹی کے ہوتے ہیں جن کو مجروح کرنا نہ حق بات کو واضح کرنے کا کوئی تقاضا ہے، نہ مذہبی اختلاف کا اور نہ حکمت دعوت کا۔ اس حوالے سے  والد گرامی مولانا زاہد الراشدی کی ایک تحریر سے درج ذیل اقتباس نقل کرنا یہاں نہایت برمحل ہے:

’’یہ گزشتہ صدی عیسوی کی چھٹی دہائی کا قصہ ہے کہ وہ (فاتح قادیان مولانا محمد حیاتؒ) گوجرانوالہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں علما اور طلبہ کو قادیانیت کے سلسلے میں تربیتی کورس کرانے کی غرض سے چند روز کے لیے تشریف لائے۔ میں ان دنوں مدرسہ نصرة العلوم میں زیر تعلیم تھا اور قادیانیت کے عقائد کے بارے میں ابتدائی تیاری میں نے انھی دنوں حضرت مولانا محمد حیات رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس تربیتی کورس میں شامل ہو کر کی۔

کورس کے دوران ایک روز ”حیات عیسیٰ علیہ السلام“ کا موضوع زیر بحث تھا۔ مولانا مرحوم نے قادیانیوں کے چند دلائل کا ذکر کیا اور ان کے جوابات سمجھائے اور مجھے کہا کہ میں اٹھ کر تقریر کی شکل میں ان کی گفتگو کا خلاصہ بیان کروں۔ میرا نوجوانی کا دور تھا اور ایک دینی مدرسے کا طالب علم تھا، اس لیے گفتگو کا انداز فطری طور پر جذباتی اور جارحانہ تھا، چنانچہ جب مرزا غلام احمد قادیانی کی کسی بات کا حوالہ دینے کا موقع آیا تو میں نے اس کا ذکر ان الفاظ سے کیا کہ ”مرزا بھونکتا ہے۔“ مولانا محمد حیاتؒ نے فوراً یہ کہہ کر مجھے ٹوک دیا کہ:

”ناں  بیٹا ناں، ایسا نہیں کہتے۔ وہ بھی ایک قوم کا لیڈر ہے، اس لیے بات یوں کرو کہ مرزا صاحب یوں کہتے ہیں، لیکن ان کی یہ بات اس وجہ سے غلط ہے۔“

استاذ محترم کا یہ جملہ ذہن کے ساتھ کچھ اس طرح چپک گیا کہ اس نے سوچ کا زاویہ اور گفتگو کا انداز بدل کر رکھ دیا۔ اس لیے آج بھی جب اس واقعہ کی یاد ذہن میں تازہ ہوتی ہے تو مولانا محمد حیاتؒ کے لیے دل کی گہرائی سے بے ساختہ دعا نکلتی ہے۔“ (روزنامہ اوصاف، ۱۲ مئی ۲۰۰۰ )

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(221)    علا یعلو کے مختلف صیغوں کا ترجمہ

علا یعلو کا مطلب ہے اوپر اٹھنا بلند ہونا، اس کا مصدر علو ہے اور اسم فاعل عال ہے۔ اس لفظ سے قابل تعریف مفہوم بھی نکلتا ہے اور قابل مذمت مفہوم بھی نکلتا ہے۔ خلیل فراہیدی کے مطابق: والعُلُوُّ العظمۃ والتجبّر. یقال: علا مَلِک فی الارض ای: طغَی وتعظّم۔ (العین)۔

اس لفظ کے استعمالات بتاتے ہیں کہ اس کا اطلاق دل کی کیفیت پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ واقعی عمل اور حالت پر ہوتا ہے۔ یعنی کسی کے دل میں یہ احساس ہو کہ وہ سب سے اونچا ہے تو اس کے لیے علو نہیں استعمال ہوگا، اور اگر کوئی اونچا ہو، یا اونچا بننے کی کوشش کررہا ہو تو اس کے لیے علو استعمال ہوگا۔ اسی طرح غرور وتکبر پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا، غلبہ وسرکشی پر اس کا اطلاق ہوگا۔

قرآنی استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ عال جس کی جمع عالون ہے وہ قابل تعریف معنی میں استعمال نہیں ہوتا ہے، جبکہ اعلی قابل تعریف معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کے لیے عالون کا لفظ نہیں آیا بلکہ اعلون کا لفظ آیا۔ جیسے:

وَاَنتُمُ الاعلَونَ اِن کُنتُم مُومِنِینَ۔ (آل عمران: 139)اور

فَلَا تَہِنُوا وَتَدعُوا اِلَی السَّلمِ وَانتُمُ الاعلَونَ۔ (محمد: 35)

اسی طرح قرآن مجید میں اس لفظ کے فعل یعنی علا اور یعلو کا استعمال بھی اچھے لوگوں کے لیے نہیں ملتا۔

تراجم قرآن کا جائزہ بتاتا ہے کہ مترجمین نے اس لفظ کے ترجمے کے لیے کوئی متعین موقف طے نہیں کیا اور الگ الگ مقامات پر مختلف ترجمے کیے۔ ذیل کی سطور میں ان کا جائزہ لیا جائے گا۔

(1) وَان لَا تَعلُوا عَلَی اللَّہِ۔ (الدخان: 19)

”اور تم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی نہ کرو“۔(محمد جونا گڑھی)

”اللہ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو“۔ (سید مودودی)

”اور اللہ کے مقابل سرکشی نہ کرو“۔ (احمد رضا خان)

”اور خدا کے سامنے سرکشی نہ کرو“۔ (فتح محمد جالندھری)

اس آیت میں تعلوا کا ترجمہ سب لوگوں نے سرکشی کیا ہے، سرکشی کی تعبیر اس لفظ کی صحیح ترجمانی کرتی ہے، اور وہ تقریباً ان تمام مقامات پر موزوں ہوجاتی ہے جہاں یہ لفظ مذمت کے سیاق میں آیا ہے، تاہم اگلی آیتوں میں ہم دیکھیں گے کہ اس لفظ کے مختلف مقامات پر مختلف ترجمے کیے گئے ہیں۔

(2) اِنَّ فِرعَونَ عَلَا فِی الارضِ۔ (القصص: 4)

”واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی“۔ (سید مودودی)

”کہ فرعون نے ملک میں سر اُٹھا رکھا تھا“۔(فتح محمد جالندھری)

”یقینا فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی“۔ (محمد جونا گڑھی)

”بیشک فرعون نے زمین میں غلبہ پایا تھا“۔ (احمد رضا خان)

گزشتہ آیت میں فرعون اور اس کے درباریوں سے کہا گیا تھا: لا تعلوا جس کا ترجمہ کیا گیا سرکشی نہ کرو، تو اس آیت میں فرعون کے بارے میں علا فی الارض کہا گیا تو اس سے مراد سرکشی ہی ہونی چاہیے، اس کا ترجمہ غلبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور اس کی خاص معنویت بھی نہیں ہے، ظاہر ہے غلبہ پانا کوئی جرم تو ہے نہیں، جبکہ بیان اس کے جرائم کا ہے۔

(3) قَالَ یا ابلِیسُ مَا مَنَعَکَ ان تَسجُدَ لِمَا خَلَقتُ بِیَدَیَّ اَستَکبَرتَ ام کُنتَ مِنَ العَالِینَ۔ (ص: 75)

”(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔ کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

 ”کیا تو غرور میں آگیا یا اونچے درجے والوں میں تھا؟“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تو بڑا بن رہا ہے یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے؟“۔ (سید مودودی)

”تو بڑا بن رہا ہے یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تجھے غرور آگیا یا تو تھا ہی مغروروں میں“۔ (احمد رضا خان)

آخری ترجمے میں مغرور ترجمہ کیا گیا ہے، اور استکبار اور علو کو ہم معنی سمجھا گیا ہے جو درست نہیں ہے، غرور کے لیے آیت میں استکبار آیا ہے، استکبار یعنی غرور ایک باطنی کیفیت ہے، جبکہ علو ظاہری کیفیت اور حالت ہے۔ اگر کوئی شخص بظاہر لوگوں کے اوپر سوار نہیں ہے مگر اس کے اندر گھمنڈ ہے تو اسے استکبار تو کہا جائے گا مگر علو نہیں کہا جائے گا۔ مزید یہ کہ جو ترجمہ کیا گیا ہے وہ تکلف سے پر معلوم ہوتا ہے، یہاں یہ پوچھنے کا آخر کیا محل ہے کہ غرور ابھی ہوا ہے یا پہلے سے ہے؟

بقیہ ترجموں میں عالین کا ترجمہ اونچے درجے اور بڑے درجے کا کیا گیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے، ایک تو اونچے درجے کا ہونا اللہ کے حکم کی نافرمانی کی وجہ نہیں بن سکتا ہے، دوسرے یہ کہ عالین کا لفظ اونچے درجے والوں کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے، ان کے لیے اعلون استعمال ہوتا ہے۔ صحیح ترجمہ اس طرح ہے:

”تو تکبر کر رہا ہے یا تو سرکشی کرنے والوں میں سے ہے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

اس ترجمہ میں معنویت یہ ہے کہ حکم سے سرتابی کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں، یا تو غرور یا پھر سرکشی۔ غرور کا تعلق احساس کبر سے ہوتا ہے، اور سرکشی کا محرک بغاوت ونافرمانی کا جذبہ ہوتا ہے، اس میں غرور کا ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ درج ذیل مثال سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے۔

(4) اِلَی فِرعَونَ وَمَلَئِہِ فَاستَکبَرُوا وَکَانُوا قَومًا عَالِینَ۔ (المومنون: 46)

” (یعنی) فرعون اور اس کی جماعت کی طرف، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”فرعون اور اس کے لشکروں کی طرف، پس انہوں نے تکبر کیا اور تھے ہی وہ سرکش لوگ“۔ (محمد جوناگڑھی)

”فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس رسول بناکر بھیجا تو انھوں نے تکبر کیا اور وہ نہایت مغرور لوگ تھے“۔ (امین احسن اصلاحی)

” فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف تو انہوں نے غرور کیا اور وہ لوگ غلبہ پائے ہوئے تھے“۔(احمد رضا خان)

یہاں بتایا گیا کہ فرعون اور اس کے درباریوں میں دو برائیاں جمع ہوگئی تھیں، استکبار اور علو۔ پہلی آیت میں جن لوگوں نے اونچے اور بڑے درجے ترجمہ کیا تھا انھوں نے یہاں نہیں کیا، کیونکہ یہ بات یہاں زیادہ واضح ہے کہ یہاں اونچے اور بڑے درجے کا کوئی محل نہیں ہے، قوما عالین کا یہاں درست ترجمہ سرکش لوگ ہے، مغرور لوگ اس لیے درست نہیں ہے کہ علو غرور سے مختلف چیز ہے، دوسرے یہ کہ استکبار کا ذکر تو ہوہی چکا ہے، جس کے معنی غرور کے ہیں۔ غلبہ پائے ہوئے لوگ بھی موزوں ترجمہ نہیں ہے، گو کہ علو میں غلبہ پانے کا مفہوم پایا جاتا ہے، لیکن استکبار کے ساتھ سرکشی کا جوڑ ہے، غلبہ پانا کوئی برائی نہیں ہے جس کا یہاں ذکر کیا جائے، دوسری بات یہ ہے کہ اس لفظ کی دوسری نظیروں میں یہ ترجمہ موزوں نہیں ہوتا ہے، جبکہ سرکش کا لفظ تقریبا ہرجگہ موزوں بیٹھتا ہے۔

(5) وَاِنَّ فِرعَونَ لَعَالٍ فِی الاَرضِ وَاِنَّہُ لَمِنَ المُسرِفِینَ۔ (یونس: 83)

”واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رکتے نہیں ہیں“۔ (سید مودودی)

” اور بیشک فرعون زمین پر سر اٹھانے والا تھا، اور بیشک وہ حد سے گزر گیا“۔ (احمد رضا خان)

”اور واقع میں فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا، اور یہ بھی بات تھی کہ وہ حد سے باہر ہو جاتا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور بے شک فرعون ملک میں نہایت سرکش اور حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں بھی عال کا ترجمہ سرکش سب سے موزوں ہے، زمین میں غلبہ رکھنا یا زور رکھنا کوئی برائی نہیں ہے جسے ذکر کیا جائے۔

(6) مِن فِرعَونَ اِنَّہُ کَانَ عَالِیًا مِنَ المُسرِفِینَ۔ (الدخان: 31)

”فرعون سے نجات دی جو حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اونچے درجے کا آدمی تھا“۔ (سید مودودی)

”فرعون سے، بیشک وہ متکبر حد سے بڑھنے والوں سے“۔ (احمد رضا خان)

” (جو) فرعون کی طرف سے (ہو رہی) تھی۔ فی الواقع وہ سرکش اور حد سے گزر جانے والوں میں سے تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”(یعنی) فرعون سے۔ بےشک وہ سرکش (اور) حد سے نکلا ہوا تھا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”بے شک وہ بڑا ہی سرکش، حدود سے نکل جانے والا تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)

عالیا کا ترجمہ بڑے اونچے درجے کا آدمی درست نہیں ہے، ”حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اونچے درجے کا آدمی ہونا“ عجیب سی بات ہے۔ متکبر بھی موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ درست ترجمہ سرکش ہی ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں یہ لفظ مختلف صیغوں سے زیادہ تر فرعون اور اس کے درباریوں کے لیے آیا ہے، اور اگر وہ تمام مقامات ایک ساتھ سامنے رکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بڑا جرم سرکشی تھا جس کا مختلف پیرایوں میں بار بار ذکر کیا گیا۔

(7) تِلکَ الدَّارُ الآخِرَةُ نَجعَلُہَا لِلَّذِینَ لَا یُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الارضِ وَلَا فَسَادًا۔ (القصص: 83)

”وہ آخرت کا گھر تو ہم اُن لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد“۔(احمد رضا خان)

”وہ (جو) آخرت کا گھر (ہے) ہم نے اُسے اُن لوگوں کے لیے (تیار) کر رکھا ہے جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارادہ نہیں رکھتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لیے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں“۔(محمد جوناگڑھی)

”جو زمین میں غرور اور فساد کے چاہنے والے نہیں ہیں“ (امین احسن اصلاحی)

اس آیت میں علو کے لیے سرکشی ہی مناسب لفظ ہے۔

(8) وَقَضَینَا اِلَی بَنِی اِسرَائِیلَ فِی الکِتَابِ لَتُفسِدُنَّ فِی الارضِ مَرَّتَینِ وَلَتَعلُنَّ عُلُوًّا کَبِیرًا۔ (الاسراء: 4)

”تم دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاو گے“۔ (سید مودودی)

”زمین میں دو دفعہ فساد مچاوگے اور بڑی سرکشی کرو گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے بنی اسرائیل کے لیے ان کی کتاب میں صاف فیصلہ کردیا تھا کہ تم زمین میں دوبار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ضرور تم زمین میں دوبارہ فساد مچاو گے اور ضرور بڑا غرور کرو گے“۔ (احمد رضا خان)

سرکشی موزوں ہے، زیادتیاں اور غرور اس لفظ کے دائرے میں نہیں آتے، اس کے علاوہ غرور کا محل بھی نہیں معلوم ہوتا ہے۔

(9) مَا اتَّخَذَ اللَّہُ مِن وَلَدٍ وَمَا کَانَ مَعَہُ مِن الَہٍ اِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِلَہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعضُہُم عَلَی بَعضٍ۔  (المومنون: 91)

”اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے اور کوئی دوسرا خدا اُس کے ساتھ نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لے کر الگ ہو جاتا، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے“۔ (سید مودودی)

”اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ایک دوسرے پر غالب آجاتا“۔ (فتح محمد جالندھری)

غالب آجانا یہاں درست ترجمہ نہیں ہے، بعض خداوں کا بعض خداوں پر غالب آجانے کا کیا مطلب ہے؟ کوئی خدا مغلوب کیسے ہوسکتا ہے؟ اور اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟! ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنا مناسب ترجمہ ہے جو سرکشی سے قریب مفہوم رکھتا ہے۔

حنفی مذہب کی تفہیم وتوجیہ میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا مسلک

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

برصغیر پاک و ہند میں جن شخصیات کو علمی میدان میں امتیازی مقام حاصل ہے، ان میں مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ بھی شامل ہیں ۔ ان کا بے مثال حافظہ ، وسعت مطالعہ ، مسائل کا استحضار ،  دلائل کا تجزیہ و محاکمہ کرنے کی صلاحیت اور دین متین کی حفاظت و صیانت اور ترویج و اشاعت کے لیے تڑپ  شاید اپنی مثال آپ ہے ۔ علم سے لگاو اور مطالعہ کی لگن پیدائشی طور پر ان کے وجود میں گوندھ دی گئی تھی جس کا ظہور اس جہان فانی میں ان کے آخری سانس تک ہوتا رہا ۔ اپنے عہد میں انہیں جن بڑے مسائل کا سامنا تھا، ان میں ائمہ احناف پر استخفاف حدیث کا الزام لگا کر ان کی مساعی جمیلہ کی بے قدری اور مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کا فتنہ سب سے نمایاں تھے  اور بلا شبہ یہ دو پہلو ان کی علمی تگ و تاز کا محور و مرکز بنے رہے ۔ اس کے ساتھ علمی میدان میں طلبہ کی کم ہمتی ، استعمار کے زیر اثر علمی شغف میں کمی اور سب سے بڑھ کر  بدلتے حالات کے تناظر میں پیش آمدہ مسائل کا بھی ادراک تھا ، اس لیے ان کے علمی ورثہ میں ان تمام حوالوں سے متنوع علمی مواد ملتا ہے۔

حنفیت کا دفاع و ترجیح

شاہ صاحب ؒ کے درس حدیث کی ایک نمایاں خاصیت حنفی فقہ کو حدیث کے دلائل سے مبرہن کرنا تھا ۔ ان کے زمانے میں برصغیر میں اس موقف کا کافی شور تھا کہ حنفی فقہ حدیث کے متوازی مواقف پر قائم ہے  اور اس فقہ کی بنیاد احادیث کی بجائے امام ابو حنیفہ ؒ کی آرا پر ہے ۔ یہ موقف زور و شور سے عوام و خواص میں پھیلایا گیا جس کی وجہ سے فقہ حنفی کی پیروی کرنے والے اہل علم نے اس موقف کی غلطی واضح کرنے کو اپنی علمی تگ و تاز کا عنوان بنایا ۔ شاہ صاحب ؒ نے بھی فقہ حنفی کے مواقف کو حدیث سے ثابت کرنے کے لیے انتہائی کوشش کی ، لیکن بتکلف حدیث کو فقہ حنفی کے مطابق ڈھالنے  کی سعی نہیں کی بلکہ منصفانہ طور پر حدیث کی ایسی تشریح کی کہ اس سے خود بخود فقہ حنفی کی تائید ہو جاتی ۔  اسی کوشش میں شاہ صاحب ؒ کے علوم کا صحیح اظہار ہوا ۔  قاری محمد طیب صاحب ؒ شاہ صاحب ؒ کے درس کی اس خاصیت کے بارے اس طرح رقم طراز ہیں :

’’حضرت شاہ صاحب ؒ کے درس حدیث میں کچھ ایسی امتیازی خصوصیات نمایاں ہوئیں جو عام طور سے دروس میں نہیں تھیں اور حضرت شاہ صاحب ؒ کا انداز درس درحقیقت دنیائے درس و تدریس میں ایک انقلاب کا باعث ثابت ہوا۔ ۔۔  اولا آپ کے درس حدیث میں رنگ تحدیث غالب تھا۔ فقہ حنفی کی خدمت ، تائید و ترجیح بلا شبہ ان کی زندگی تھی لیکن رنگ محدثانہ تھا ۔ فقہی مسائل میں کافی سیر حاصل بحث فرماتے لیکن انداز بیان سے یہ کبھی مفہوم نہیں ہوتا تھا کہ آپ حدیث کو فقہی مسائل کے تابع کر رہے ہیں اور کھینچ تان کر حدیث کو فقہ حنفی کی تائید میں لانا چاہتے ہیں۔  بھلا اس کا قصد و ارادہ تو کیا ہوتا ؟ بلکہ واضح یہ ہوتا تھا کہ آپ فقہ کو بحکم حدیث قبول کر رہے ہیں ۔ حدیث فقہ کی طرف نہیں لے جائی جا رہی ہے ، بلکہ فقہ حدیث کی طرف لایا جا رہا ہے ، وہ آ رہا ہے اور کلیۃ حدیث کے موافق پڑتا جا رہا ہے۔ بالفاظ دیگر گویا حدیث کا سارا ذخیرہ فقہ حنفی کو اپنے اندر سے نکال نکال کر پیش کر رہا ہے اور اسے پیدا کرنے کے لیے نمودار ہوا ہے۔‘‘1

فقہ حنفی سے اسی لگاو کی وجہ سے شاہ صاحب ؒ کی تصنیفی و تالیفی باقیات عمومی طور پر انہی اختلافی مسائل پر ہیں جو احناف و غیر احناف علماء کے مابین متنازع رہے اور جنہیں بطور خاص عوام میں پھیلا کر اس تاثر کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی کہ فقہ حنفی حدیث کے خلاف ہے ۔ ان تصانیف میں " فصل الخطاب فی مسئلۃ ام الکتاب" " کشف الستر عن صلوۃ الوتر " " بسط الیدین فی مسئلۃ رفع الیدین " اور "نیل الفرقدین فی مسئلۃ رفع الیدین "  شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ املائی تقریریں اور امالی میں بھی حنفیت کے دفاع کا پہلو نمایاں اور غالب واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ انہوں نے حنفیت کا دفاع کیسے کیا اور اس مقصد کے حصول میں ان کا اسلوب و منہج کیا تھا، اسے سمجھنے کے لیے قاری طیب صاحب ؒ کے مضمون کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں ۔

’’ایک بار ایک مناظرہ میں جو حضرت ممدوح اور ایک عالم اہل حدیث کے مابین ہوا ، اہل حدیث عالم نے پوچھا۔ کیا آپ ابو حنیفہ ؒ کے مقلد ہیں ؟ فرمایا نہیں ، میں خود مجتہد ہوں اور اپنی تحقیق پر عمل کرتا ہوں ۔ اس نے کہا کہ آپ تو ہر مسئلہ میں فقہ حنفی ہی کی تائید کر رہے ہیں ۔ پھر مجتہد کیسے ؟ فرمایا یہ حسن اتفاق ہے کہ میرا ہر اجتہاد ابو حنیفہ ؒ کے اجتہاد کے مطابق پڑتا ہے ۔ اس طرح جواب سے سمجھانا یہی منظور تھا کہ ہم فقہ حنفی کو خواہ مخواہ بنانے کے لیے حدیث کو استعمال نہیں کرتے ، بلکہ حدیث میں سے فقہ حنفی کو نکلتا ہوا دیکھ کر اس کا استخراج سمجھا دیتے ہیں اور طریق استخراج پر مطلع کر دیتے ہیں۔2

’’تفسیر الحدیث بالحدیث کے اصول پر کسی حدیث کے بارہ میں جو دعوی کرتے اسے دوسری احادیث سے موید اور مضبوط کرنے کے لیے درس ہی میں کتب پر کتب کھول کھول کر دکھاتے جاتے تھے اور جب ایک حدیث کا دوسری احادیث کی واضح تفسیر سے مفہوم متعین ہو جاتا تھا تو نتیجہ وہی فقہ حنفی کا مسئلہ نکلتا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ حدیث فقہ حنفی کو پیدا کر رہی ہے  ، یہ ہر گز مفہوم نہیں ہوتا تھا کہ فقہ حنفی کی تائید میں خواہ مخواہ توڑ مروڑ کر حدیثوں کو پیش کیا جا رہا ہے ۔ یعنی گویا اصل تو مذہب حنفی ہے محض مؤیدات کے طور پر روایات حدیث سے اسے مضبوط بنانے کے لیے یہ ساری جدوجہد کی جا رہی ہے ، نہیں بلکہ یہ کہ حدیث اصل ہے لیکن جب بھی اس کے مفہوم کو اس کے فحوی اور سیاق و سباق نیز دوسری احادیث باب کی تائید و مدد سے اسے مشخص کر دیا جائے تو اس میں سے فقہ حنفی نکلتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اس لیے طلبہ حدیث حضرت ممدوح کے درس سے یہ ذوق لے کر اٹھتے تھے کہ ہم فقہ حنفی پر عمل کرتے ہوئے حقیقتا حدیث پر عمل کر رہے ہیں اور حدیث کا جو مفہوم ابو حنیفہ ؒ نے سمجھا ہے وہی درحقیقت شارع علیہ السلام کا منشاء ہے جس کو روایت حدیث ادا کر رہی ہے ، بلکہ یہ سمجھ میں آتا تھا کہ روایت حدیث سے امام ابو حنیفہ ؒ اپنا کوئی مفہوم پیش نہیں کرتے ، بلکہ صرف پیغمبر علیہ السلام کا مفہوم پیش کر رہے ہیں اور خود اس حدیث میں محض ایک جویا اور ناقل کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘2

دفاع احناف  اور تطبیق اقوال

شاہ صاحب ؒ کا امام ابو حنیفہ ؒ کے ساتھ تعلق والہانہ تھا ۔ اختلافی مسائل میں ان کا اسلوب یہ تھا کہ فقہاء احناف کے اقوال میں سے وہ قول اختیار کرتے جو اختلاف کو کم سے کم کرنے اور تطبیق پیدا کرنے کا باعث ہوتا ۔ اس مقصد کے لیے وہ اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ اختیار کردہ قول فقہاء احناف کے ہاں مرجوح سمجھا جاتا ہے ۔ مقصد اختلافی مسائل میں کوئی متفق علیہ قول اختیار کرنے کی جستجو تھی  اور اگر کوئی ایسا قول نہ ملتا تو پھر بسا اوقات خود اجتہاد کرتے اور کوئی ایسی رائے اپناتے جس سے یا تو اختلاف ختم ہو جائے یا اس کی شدت میں کمی آ جائے ۔ مولانا یوسف بنوری ؒ اس اسلوب کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

اذا تكون في مسئلۃ روايتان من الامام ابي حنيفۃ رحمہ اللہ او قولان من المشائخ الحنفيۃ، كان يختار منھما ما يوافق الحديث الصريح الصحيح من غير تكلف و تاول، و ربما كان ھو من النوادر، فان لم يكن في الباب حديث صريح، او كان الامر دائرا في البين يرجح ما يوافق مذھبا آخر من المذاھب الربعۃ، ولعلہ كان المقدم حينئذ مذھب الشافعي ثم مالك رحمھما اللہ فيما اري و اللہ اعلم ۔ فان لم يكن لذالك مساغ كان يجتھد و يسعي في تقريب المذھب اليہ ليرتفع امر الخلاف راسا، او يھون امره و يخفف وقرہ، وھذا خلاف صنيع اكثر علماء العھد الغابر والعصر الحاضر۔4

’’جب کسی مسئلہ میں امام ابو حنیفہ ؒ سے دو روایات ہوتیں  یا مشائخ حنفیہ سے دو قول مروی ہوتے ، تو آپ ان میں  سے بغیر کسی تکلف و تاویل کے وہ قول اختیار کرتے جو صحیح صریح حدیث کے موافق ہوتا ۔ کبھی یہ قول نوادر میں سے بھی ہوتا تھا، اگر اس باب میں کوئی صریح حدیث نہ ہوتی یا معاملہ بین بین ہوتا تو مذاہب اربعہ میں سے کسی دوسرے مذہب کے موافق ترجیح قائم کر لیتے ۔ شاید کہ اس وقت سب سے مقدم امام شافعی کا مذہب پھر امام مالک ؒ کا مذہب ہوتا،  میری رائے کے مطابق ، اللہ بہتر جانتا ہے ۔  اگر اس کی بھی گنجائش نہ ہوتی تو پھر وہ خود اجتہاد کرتے اور مذہب کو قریب کرنے کی کوشش کرتے تاکہ اختلاف سرے سے ہی رفع ہو جائے ، یا اختلاف کا مسئلہ ہلکا یا خفیف ہو جائے۔ یہ اسلوب ماضی و حال کے اکثر علماء کے صنیع کے خلاف ہے۔‘‘

شاہ صاحب ؒ اس بات کا بہت اہتمام کرتے تھے کہ احناف کے کسی قول  پر عمل کرنے کے لیے اس بات پر مجبور نا ہونا پڑے کہ نص کو کسی خاص مورد کے ساتھ مخصوص مانا جائے  اور اس نص کے خلاف کوئی تعبیر اختیار کی جائے ۔  ایسے مواقع پر  اگر انہیں امام ابوحنیفہ ؒ کا کوئی نادر قول یا ان کے اصحاب میں سے کسی کا کوئی ایسا قول مل جاتا جس سے ان کا موقف نص کے مطابق یا قریب ہو سکتا تو آپ اسی کو اختیار کرتے خواہ وہ قول مابین الاحناف غیر معروف یا غیر متوارث ہی کیوں نہ ہوتا ۔ وہ کسی نہ کسی مرتبہ میں اسی قول پر عمل کو ترجیح دیتے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے۔

 مثالہ: قولہ تعالی: "فلا يقربوا المسجد الحرام " الآيۃ۔ اختلف الائمۃ في دخول الكافر المسجد علي ثلاثۃ اقوال : اجازہ الامام الشافعي في غير مسجد الحرام ، و منعہ مالك في المسجد الحرام و غيرہ سواء  بسواء ، و جوزہ الحنفيۃ فيہ و بالاولی في غيرہ اعتبارا بالتعليل، و اذا ليس فليس ۔ فقال الشيخ رحمہ اللہ تعالی: قال محمد رحمہ اللہ في "السير الكبير" : لايجوز دخول المشرك في المسجد الحرام، فليستمسك ھھنا بقول محمد رحمہ اللہ، فانہ الصق بالقرآن ، و اقرب الي مذھب مالك و اوفق مذھب الشافعي۔5

 ’’اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا فرمان : " پس وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں "  ۔ کافر کے مسجد میں دخول کے معاملے میں ائمہ کرام میں اختلاف ہے اور تین اقوال ہیں : امام شافعی ؒ نے اس کی اجازت دی ہے ، سوائے مسجد حرام کے ۔ امام مالک ؒ نے مسجد حرام اور دیگر مساجد میں داخلے سے منع کیا ہے ۔ اور احناف نے مسجد حرام میں داخلہ جائز قرار دیا ہے اور دیگر مساجد میں تو بطریق اولی اجازت ہے علہ کا اعتبار کرتے ہوئے ۔ جب یہ علۃ نہیں تو ممانعت بھی نہیں ۔ پس شیخ ؒ کہتے ہیں : امام محمد السیر الکبیر میں کہتے ہیں : " مسجد حرام میں مشرک کا داخل ہونا جائز نہیں ۔ چنانچہ اس مسئلہ میں امام محمد ؒ کے قول اس تمسک کیا ہے ، کیونکہ یہ قرآن کریم کے زیادہ قریب اور امام مالک و امام شافعی ؒ کے مذہب کے زیادہ موافق ہے۔

اس کی ایک اور مثال کتا  ب اللہ کے حکم پر خبر واحد کے ذریعہ زیادتی اور تخصیص کا مسئلہ ہے ۔ عام طور پر کتب احناف میں مذکور ہے کہ خبر واحد کے ذریعہ کتاب اللہ کے عام کو خاص نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن شاہ صاحب ؒ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک کتاب اللہ کے عام کو خبر واحد کے ذریعہ خاص کیا جا سکتا ہے  اور اس ضمن میں احناف کا موقف بالکل وہی ہے جو ائمہ ثلاثہ کا ہے ۔ اس باب میں انہوں نے امام کرخی ؒ کے نقل پر اعتماد کرتے ہوئے اس عام تعبیر کو چھوڑ دیا کہ خبر واحد کے ذریعہ کتاب اللہ کے عام میں تخصیص جائز نہیں ۔ امام کرخی ؒ کا قول اختیار کرنے سے ائمہ اربعہ کے مابین اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں رہا ۔ شاہ صاحب ؒ فرماتے ہیں:

في كتبنا عامۃ ان عام الكتاب لا يخصص بالخبر عندنا ، والذي وضح لدي انہ يجوز ، لان كتب المذاھب الثلاثۃ صرحوا بجوازہ عندالائمۃ الاربعۃ، كما  في " المحصول" ، و " المختصر" و شرحہ للعضد ، و شرح " الاسنوي" علي " المنھاج" للقاضي بيضاوي ، و المستصفي" و غيرھا ۔ فاختلف علماؤنا و علماء المذاھب الاخر في نقل مذھبنا ، وكنت اظن اولا ان المذھب الصحيح ما نقلوہ، لان ما في كتبنا نقل المتاخرين، وقد نسب الي الكرخي منا رحمہ اللہ تعالي ان التخصيص جائز عندہ ، فاعتمدت عليہ للمذھب ، وجعلت ما اختارہ مذھب الامام ، لانہ اقدم و اثبت،  وما في كتبنا فكانہ مختارھم و ليس مذھبنا۔6

لیکن آخری عمر میں امام ابو حنیفہ ؒ کے ساتھ والہانہ عقیدت کی وجہ سے انہی کے قول کو اختیار کرنے لگے۔ یہ رویہ محض عقیدت پر مبنی نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے وسعت مطالعہ اور عمر بھر کی تحقیقات کے نچوڑ کے طور پر یہ قلبی اطمینان تھا کہ امام صاحب ؒ کسی بھی قول میں گہرائی و گیرائی کے اعتبار سے اپنے اقران سے زیادہ ممتاز ،  مزاج شریعت و صاحب شریعت  ﷺ کے زیادہ قریب اور عصری تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں ۔ گزشتہ اسلوب پر اس انداز میں تبصرہ کیا کرتے:

’’حضرت ممدوح کا یہ جملہ کہ عمر بھر ابوحنیفہ ؒ کی نمک حرامی کی ، شاید اس طرف مشیر ہے کہ حضرت ممدوح جہاں روایات حدیث میں تظبیق و توفیق روایات کا اصول اختیار فرمائے ہوئے تھے، وہیں روایات فقہیہ میں بھی آپ کا اصول تقریبا تطبیق و توفیق ہی کا تھا ، یعنی مذاہب فقہاء کے اختلاف کی صورت میں حنفیہ کا وہ قول نقل فرماتے جس سے خروج عن الخلاف ہو جائے اور دونوں فقہ باہم جڑ جائیں ، اگرچہ یہ قول مفتی بہ بھی نہ ہو اور مسلک معروف کے مطابق بھی نہ ہو ۔ نظر صرف اس پر تھی کہ دو فقہی مذہبوں میں اختلاف جتنا کم سے کم رہ جائے وہی بہتر ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس میں بعض مواقع پر خود امام کا قول بھی چھوٹ جاتا اور صاحبین کا قول زیر اختیار آ جاتا تھا ، یعنی فقہ حنفی کے دائرے سے تو کبھی باہر نہیں جاتے تھے ، خواہ وہ بواسطہ صاحبین ابو حنیفہ ؒ ہی کا قول ہو ۔ شاید اس کو حضرت ممدوح نے ابو حنیفہ ؒ کی نمک حرامی سے تعبیر فرمایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخر عمر میں اس توسع سے رجوع کر کے کھلے طور پر مذہب کے معروف و مفتی بہ حصے بلکہ اقوال ابی حنیفہ ؒ کے اختیار و ترجیح کی طرف طبیعت آ چکی تھی اور یہ بلا شبہ اس کی دلیل ہے کہ ابو حنیفہ ؒ کی خصوصیات کے بارہ میں حق تعالیٰ نے انہیں شرح صدر عطا فرما دیا تھا اور وہ بالآخر اسی ٹھیٹھ لکیر ہی پر جم کر چلنے لگے تھے جس پر ان کے شیوخ سرگرم رفتار رہ چکے تھے۔‘‘7

شاید یہی وجہ تھی کہ جب امام ابو حنیفہ ؒ سے اگر کسی مسئلہ میں بہت سی روایات منقول ہوں اور شاہ صاحب ؒ کے ہاں ان میں سے کوئی ایک کسی قوی دلیل و برہان کے ساتھ قابل ترجیح نہ ہو اور نہ ہی ان کے تقدم و تاخر کی کوئی اطلاع ہو  تو آپ ان سب روایات کے مابین بالکل ایسے ہی تطبیق کی کوشش کرتے جیسے متعارض نصوص کے مابین  تطبیق دی جاتی ہے۔8 فیض الباری میں اس بات کو زیادہ تفصیل سے  اس طرح بیان کیا ہے:

فائدۃ: واعلم أن الروايات إذا اختلفت عن إمامنا في مسألۃ، فعامۃ مشايخنا يسلكون فيھا مسلك الترجيح، فيأخذون بظاھر الروايۃ ويتركون نادِرَھا، وليس بسديد عندي ولا سيما إذا كانت الروايۃ النادرۃ تتأيد بالحديث، فإِني أحملہ علی تلك الروايۃ، ولا أعبأ بكونھا نادرۃ، فإِنّ الروايۃ إذا جاءت عن إمامنا رحمہ اللہ تعالی لا بد أن يكون لھا عندہ دليل من حديث أو غيرہ، فإِذا وَجَدتُ حديثًا يوافقھا أحمَلُہ عليھا. نعم، الترجيح إنما يناسب بين الأقوال المختلفۃ عن المشايخ، فإِن التضاد عند اختلاف القائلين معقول، وربما يكون التوفيق بينھما خلافَ منشئھم، وحينئذ لا سبيل إلا إلی الترجيح، بخلاف ما إذا جاء الاختلاف عن قائل واحد، فإِنّ الأَولی فيھا الجمع، فإِن الأصل في كلام متكلمٍ واحد أن لا يكون بين كلاميہ تضاد، فينبغي بينھما الجمع أوّلًا، إلا أن يترجح خلافہ، والأسف أنھم إذا مروا بأحاديث مختلفۃ يبتغون الجمع بينھا عامۃ، وإذا مروا بروايات عن الإِمام إذا ھم برجِّحون ولا يسلكون سبيل الجمع، فالأحب إليَّ الجمع بين الروايات عن الإِمام مھما أمكن، إلا أن يقوم الدليل علی خلافہ، فاعلمہ ولا تعجل.9

اختیار اقوال کا اسلوب اور احتیاط

جب کسی مسئلہ میں یہ ممکن ہوتا کہ دیگر ائمہ کرام کی موافقت میں موقف اختیار کیا جائے تو اسی موقف کو اختیار کرتے ہیں جس میں ائمہ کی موافقت ہو جائے ۔ اس کی ایک مثال ایسے اما م کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ ہے جو بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو ۔ احناف کا موقف یہ ہے کہ امام اگرچہ بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو مقتدی کے لیے کھڑا ہونا ہی ضروری ہے ۔ اس مسئلہ میں ایک مقام پر حافظ ابن حجر ؒ نے دلائل کی بنیاد پر یہ قول اختیار کیا ہے کہ مذکورہ صورت میں بیٹھ کر نماز پڑھنا واجب نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مستحب ہے ۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اگر وجوب منتفی ہو گیا ہے تو پھر ہم اس معاملے میں احتیاط پر عمل کرتے ہوئے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا ہی کہیں گے ، اس میں احتیاط بھی ہے اور دو ائمہ کی موافقت بھی ۔ اور ہمارا اسلوب بھی یہ ہے کہ ہم اس عمل کو اختیار کرتے ہیں جس پر ائمہ کرام اور امت کا تعامل ہو ۔ شاہ صاحب ؒ کے الفاظ یہ ہیں:

وصرَّح ھناك الحافظ رحمہ اللہ: أن مقتضی الأدلۃ استحباب القُعُود خلف القاعد، ولا دليلَ علی الوجوب. قلتُ: وإذا انتفی الوُجُوب علی تصريح الحافظ رحمہ اللہ، فلا ريبَ أن الأحوطَ ھو القيام، لأنہ ذَھَبَ إليہ الإمامان الجليلان. وعندنا: العملُ بما عَمِلَ بہ الأئمۃ والأُمَّۃ أَوْلی.10

تطبیق بین الاقوال

شاہ صاحب ؒ کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ وہ ائمہ کرام کے مابین معمولی اختلاف میں اقوال کی ایسی تعبیر کریں کہ اختلاف یا تو ختم ہو جائے یا بالکل معمولی سا رہ جائے ۔ مثلا نماز میں مقتدی امام کے بالکل ساتھ سارے اعمال سر انجام دے گا یا امام کے کسی عمل کو پورا کرنے کے بعد عمل کی ابتداء کرے گا ۔ اس میں اختلاف ہے امام شافعی ؒ کا موقف تعقیب کا ہے ، یعنی امام کے بعد عمل شروع کرنے کا اور امام صاحب کا موقف مقارنت کا ہے ۔ یعنی امام کے ساتھ ہی عمل کو شروع کر دے ۔ شاہ صاحب ؒ نے اس مسئلہ میں یہ وضاحت کی ہے کہ احناف تعقیب کو بالکل رد نہیں کرتے بلکہ اتنی تعقیب کہ امام کوئی عمل شروع کر دے اور پھر مقتدی شروع کرے ، یہ تو عقلا بھی ثابت ہے ۔ اس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ لیکن امام شافعی ؒ  جو تعقیب زائد کے قائل ہیں وہ الفاظ سے ثابت نہیں ہوتی ۔ گویا تعقیب کی ایک خاص حد پر دونوں کا اتفاق ہے اور قدر زائد حدیث سے ثابت نہیں ، اس لیے دونوں اقوال میں کم از کم اس حد تک تو موافقت موجود ہے ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں:  

فاعلم أنہ اتَّفق كلُّھم علی أن المُبَادرۃ من الإمام مكروہ تحريمًا، مع صحۃ صلاتہ عندھم، وھذا يَدُلُّ علی اجتماع الصحۃ مع الكراھیۃ، خلافًا لابن تَيْمِيَۃ رحمہ اللہ. واختلفوا في التعقيب والمقارنۃ. فذھب الشافعيُّ رحمہ اللہ إلی الأول، وإمامُنا إلی الثاني. قلتُ: والتعقيبُ بقَدْرِ ما يعلمہ المقتدي من حال إمامہ مستثنی عقلا، والفاء لا تَدُلُّ علی التعقيب الزائد علی ذلك، فدلَّ علی أن نزاعھم في الفاء غير محرَّر، فإنھا وإن كانت للتعقيب، لكنہ يتحقَّق بالشروع بعد الشروع. ولا يَلْزَمُ لتحُّقق التعقيب أن يَشْرَعَ بعد فراغ الإمام، فنزاع الإمام إنما يكون ممن يدَّعِي الشروع بعد الفراغ، لا ممن يدَّعي الشروع بعد الشروع. فإن شروع المقتدي لا يكون إلا بعد شروع الإِمام. فھذا القَدْرُ من التعقيب يكفي للفاء، ولا يُنْكِرُہ الإِمام أيضًا وأمَّا بعد ذلك، فيقول بالمقارنۃ، ولا حُجَّۃ في الحديث علی التعقيب أزيد من ھذا.11

اس کی ایک اور مثال فاسق کے پیچھے نماز کے جواز یا عدم جواز کا مسئلہ ہے ۔ احناف کے ہاں یہ مکروہ ہے ، لیکن اس میں کراہت تنزیہی ہے یا تحریمی ؟ شاہ صاحب ؒ نے کراہت تحریمی کے قول کو پسند کیا ہے اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ قول حدیث کے زیادہ قریب ہے اور اس کے ساتھ اس کو اختیار کرنے سے امام مالک کے ساتھ موافقت بھی ہو جاتی ہے ۔ امام مالک ؒ کا موقف عدم جواز کا ہے ، اگر کراہت تحریمی کا موقف اپنایا جائے تو مکمل نہ صحیح یک گونہ ان کے ساتھ موافقت ہو ہی جاتی ہے جو کہ غنیمت ہے ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں:

مسألۃ: في "الدر المختار": أن الصلاۃ خلف الفاسق مكروھۃ كراھیۃ تنزيہ، وفي "الكبيري شرح المنيۃ": كراھیۃ تحريم، وھو المختار عندي، لأنہ يُوَافِق الحديث، وھو مختار المالكيۃ، بل المالكيۃ ذَھبوا إلی عدم الجواز.وأما عندنا، فھذا وإن كان جائزًا عند فَقْد الإمام العدل، كما في "البحر"، لكن في اختيار التحريم موافقۃ معھم في الجملۃ، ولذا اغتنمت ھذہ المُقَاربۃ، وأَفْتَيتُ بہ علی ما علمت من دأبي.12

دیگر مسالک کے موقف پر عمل کی گنجائش

عام احناف کا یہ طریق ہے کہ کسی حدیث سے کوئی ایسا عمل ثابت ہے جو ظاہر الروایۃ کے خلاف ہے ، اور ظاہر الروایۃ میں مذکور عمل کسی اور حدیث سے ثابت ہے تو وہ ظاہر الروایۃ کے خلاف حدیث پر کسی بھی لحاظ و مرتبہ پر عمل کو جائز قرار نہیں دیتے ۔ لیکن شاہ صاحب ؒ ظاہر الراوایۃ  کے خلاف روایت سے ثابت شدہ  عمل کو اختیار کرنے کی اجازت دیتے تھے لیکن خلاف الاولیٰ کی حیثیت سے۔  اس کی مثالوں میں اذان میں ترجیع ، آمین بالجہر ، سری نمازوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی تلاوت اور رکوع و قیام کے وقت رفع الیدین اور اس جیسے دیگر مسائل شامل ہیں ۔ ان تمام مسائل میں احناف کی روایت کے خلاف روایت پر عمل  کرنا بھی ان کے نزدیک جائز تھا لیکن خلاف اولیٰ کے مرتبے پر ۔ ایک موقع پر شاہ صاحب ؒ نے فرمایا:

کنت رایت فی " البدائع" ان رفع الیدین فی غیر التحریمۃ مکروہ تحریما ۔۔ کما یشہد بہ سیاقہ من غیر خفاء۔۔ فکان فی قلبی منہ شیئ ، وکنت اتمنی ان افوز بنقل من الاکابر خلافہ حتی رایت بعد خمس و عشرین حجۃ ان الامام ابابکر الرازی الجصاص صرح فی  " احکام القرآن " فی ضمن بحث استطرادا من مسائل رؤیۃ الھلال: ان الخلاف فیہ فی الاولویۃ ، فبرد غلیل صدری و سکن جاشی ۔ ۔۔ ثم رایت فی نقول آخر من الاکابر فی سائر المذکورات فی الاولویۃ۔13

حسن تعبیر کی جستجو

شاہ صاحبؒ دوران درس طلبہ کی ایسے اصول و مسائل کی طرف راہنمائی کیا کرتے تھے کہ جہاں پر سوء تعبیر کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے یا ہونے کا اندیشہ ہوتا  ۔ ایسے مقامات پر وہ سوء تعبیر کے نتائج پر تنبیہ کرتے ہوئے حسن تعبیر اختیار کرنے کی تلقین کیا کرتے ۔مثلا احناف کا یہ موقف ہے کہ جن مسائل میں کتاب اللہ اور حدیث کے مفہوم تعارض پیش آئے تو وہاں پر کتاب اللہ پر عمل کیا جائے گا اور حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا ۔ اس اصول کی تعبیر عام طور پر وہ یوں کرتے ہیں:

 ناخذ بالكتاب و نرد الخبر۔14

شاہ صاحب ؒ اس تعبیر کو پسند نہیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے:

اعلم انہ قد وقع في كتب الاصول في حذا البحث لفظ : الرد ، ان ناخذ بالكتاب و نرد الخبر، و ارادوا بہ عدم اعتدادہ في مرتبۃ الكتاب، و صدقوا ، الا انھم اساؤوا في التعبير ، فينبغي ان يحترز عن ھذا التعبير الموھم ۔۔۔ لئلا يستوحش منہ الخصوم ، فينبغي ان يوضح لفظ آخر مكانہ۔ 15

عصر حاضر سے متعلق مسائل پر تنبیہ

شاہ صاحب ؒ دوران درس عصر حاضر سے متعلقہ مسائل پر بھی تنبیہ کرتے جاتے تھے ، مثلا خواتین کے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے جہاں اصل مسئلہ بیان کیا وہیں یہ بھی بتا دیا کہ موجودہ زمانے میں حیاء کی قلت ،امور دین میں سستی اور طبائع میں پیدا ہونے والے فساد کے پیش نظر فتوی یہ ہے کہ خواتین گھر پر ہی نماز پڑھ لیں ، باجماعت نماز کے لیے مسجد میں نہ جائیں ۔ نہ جمعہ کے لیے اور نہ ہی دیگر نمازوں میں ۔

وكذلك يَحْضُرْنَ عندنا أيضًا، كما في «الھدايۃ». وفي «العيني» ھكذا عن سِراج الدين البُلْقيني الشافعي، وھو تلميذ مُغَلْطَاي الحنفي. وأما الآن فالفتوى أن لا تخرج الشوابُّ لا في الجمعۃ، ولا في الجماعات، وھكذا ينبغي، لظھور الفساد في البَرَّ والبحر وقِلّۃ الحياء، والتواني في أمور الدين. 16

حاصل کلام

مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ کا درس حدیث کئی حوالوں سے ممتاز حیثیت کا حامل تھا ، اپنے عہد کے حالات کے پیش نظر ان کی زیادہ توجہ مسائل فقہ حنفی کو حدیث سے مبرہن کرنے کی طرف تھی ، لیکن اعتدال و انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔ ان کے درس میں مسلکی تعصب نہیں ہوتا تھا ۔ ان کی کوشش ہوتی کہ اختلافی مسائل میں ائمہ احناف کے اقوال میں سے وہ قول اختیار کریں جو اول درجے میں حدیث صحیح کے قریب ہو اور ثانوی درجے میں دیگر ائمہ کرام کے اقوال سے بھی موافقت رکھتا ہو۔ اس ضمن میں وہ نوادر اقوال کو اختیار کرنے میں بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے ۔


حوالہ جات

  1. مضمون قاری محمد طیب صاحب ؒ ،  الانور ، ص: 255
  2. مضمون قاری محمد طیب صاحب ؒ ، الانور ، ص:  258
  3. مضمون قاری محمد طیب صاحب ؒ ، الانور ، ص: 256-257
  4. بنوری ، سید محمد یوسف ، (1908ء-1977ء)نفخة العنبر فی حیاۃ امام العصر الشیخ انور ، ص:  55، المجلس العلمی ، کراچی ، پاکستان، 1969ء
  5. نفخۃ العنبر ، ص: 64
  6. محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي ثم الديوبندي (المتوفى: 1353هـ)، فيض الباري علي صحيح البخاري، 1/ 47  ،عدد الأجزاء: 6الناشر: دار الكتب العلمية بيروت – لبنان، الطبعة: الأولى، 1426 هـ - 2005 م
  7. حضرت قاری محمد طیب ؒ ، کتاب " الانور" ، ص: 262
  8. نفخۃ العنبر ، ص:58
  9. فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 465)
  10. فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 275)
  11. فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 276)
  12. فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 279)
  13. نفخۃ العنبر ، ص: 58
  14. فيض الباري علي صحيح البخاري ، 1/ 46
  15. فيض الباري على صحيح البخاري 1/ 46
  16. فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 502)



ایک فراموش شدہ گواہ: قبۃ الصخرة

سید ظفر احمد

تعارف  

عظیم اور قدیم تعمیراتی شاہکار قبۃ الصخرۃ کے لیے "فراموش شدہ  گواہ" کی ترکیب  راقم نے نیویارک کی مشہورِ زمانہ کولمبیا یونیورسٹی کی  خاتون پروفیسر  ایسٹیل وھیلن  (Estelle Whelan) (م:13  ؍ اکتوبر 1997ء) سےمستعار لی ہے  [1]۔ اس کی تقریب یہ ہوئی کہ بیسویں صدی کے آغاز میں     مستشرق الفانسو منگانا  (Alphonso Mingana)  1 نے اسلامی تاریخ  کے پورے فریم ورک کو چیلنج کرتے ہوئے    وھیلن کے الفاظ میں" واضح تعصب "کے ساتھ یہ دعویٰ  کیا  کہ قرآن کی جمع و تدوین پانچویں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہد سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔  پھر 1970ء میں جان وانسبَرو (John Wansbrough) نے آگے بڑھ کر  "انکشاف" کیا  کہ قرآن کا کوئی معیاری یا سرکاری  (canonical) مصحف نویں صدی شمسی کے اوائل تک موجود نہ تھا ۔ وھیلن کہتی ہیں،  وانسبَرو کے تجزیہ سے متشرح ہوتا ہے  کہ پوری قرآنی تاریخ حقیقت میں ایک متقیانہ جعلسازی تھی جو اتنی مؤثر تھی کہ آزاد ذرائع سے اصل حقیقت معلوم کرسکنے کی کوئی  شہادت ہی  باقی رہنے نہ دی گئی  ۔  وھیلن کے بقول، اگر وانسبَرو صحیح ہے کہ قرآن ایک معیاری مصحف کی صورت میں آغازِ اسلام کے ڈیڑھ سو سالوں  کے بعد وجود میں آیاتو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے جو قدیم نُسَخ جو اس عرصے میں لکھے گئے تو وہ سب دراصل بعد کے دور میں نقل ہوئے تھے۔ چنانچہ  انہوں نے فیصلہ کیا  کہ وانسبَرو کی تحقیق کا جائزہ لینا چاہیے۔

وھیلن کہتی ہیں کہ اسلام کی  پہلی صدی کی اہم ترین شہادت وہ طویل  قرآنی کتبات  (inscriptions) ہیں جو یروشلم میں واقع قبۃ الصخرۃ کی تعمیر کے دوران عبدالملک بن مروان  (دورِحکومت: 65-86ھ) نے  نیلے اور سنہرے رنگ  کے شیشے کی پچی کاری  (mosaic)  کی صورت لگوائے تھے۔   عام طور سے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اولین  اسلامی کتبات جن پر قرآنی اقتباسات دیکھے گئے ہیں،  وہی ہیں جو قبۃ الصخرہ  کے اندر  محرابوں کی  قطار (arcade) کے  اوپر  دونوں جانب منقش  ہیں2۔ آگے بڑھنے سے  پہلے ضروری ہے کہ کچھ تاریخی اور جغرافی پسِ منظر واضح کردیا جائے۔

یروشلم  شہرِ قدیم (Jerusalem, the Old City)

یروشلم بہت قدیم شہر ہے،  4500 ق م تک یہاں آبادی کا سراغ ملتا ہے۔ یروشلم یا اس سے  مماثل تلفظ پر مبنی نام اس شہر کیلیے زمانۂ قدیم سے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ رومی بادشاہ ہیڈرین (Hadrian)   کے دورِ حکومت (117-138ء ) میں یہود کی بغاوت 'بار کوخبا'(135-137ء)کے بعد  ہیڈرین نے  یہود کا شہر میں رہنا ممنوع قرار دے دیا تھا۔ اسی نے  شہر کا نام اپنے خاندنی نام پر   ایلیاکیپیٹولینا (Alia Capitolina) رکھا تھا ۔ چونکہ امیر امؤمنین حضرت عمر ِ فاروقؓ نے 638ء میں   رومیوں ہی سے اس شہر کاقبضہ لیا تھا ، اس لیے نہ صرف مسلم  روایات و آثار بلکہ نقاشی اور کتبات وغیرہ   میں بھی اس شہر کے لیے  ایلیاء نام کا استعمال ملتا ہے۔  

 قدیم شہرِ مُسَوَّرَہ (walled city)   میں "حرم شریف"  اوراس کے آس پاس   آرمینی، عیسائی، یہودی اور مسلم محلے شامل  ہیں (دیکھیے شکل رقم 1)۔ یہ دیواریں  اوران میں داخلہ کے  دروازے سلطان سلیمان ذیشان (دورِ حکومت: 1520ء-1566ء) کی محبت کی یاد گار ہیں۔   1981ء سے 'یروشلم، شہرِ قدیم'   یونیسکو کے عالمی ورثہ قرار دیے جانے والے  مقامات میں شامل ہے۔  قدیم شہرکے ساتھ مزید مضافات ملا کرمشرقی یروشلم کہلاتا ہے  جو 1948ء کی جنگِ فلسطین کے بعد ایک معاہدے کے نتیجہ میں اردن کے حصہ میں آیا تھا اور مغربی یروشلم اسرائیل کی عملداری میں تسلیم کرلیا گیا تھا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مشرقی یروشلم اور آس پاس کے  علاقے، سب صہیونی ریاست کے قبضہ میں آگئے۔قانون بین الممالک کی رُو سے  یہ  قبضہ اور مقبوضہ علاقوں میں  بنائی گئی بستیاں    غیر قانونی تسلیم کیے جاتے ہیں۔

الحرم الشریف

جس جگہ کو اوپر "حرم شریف" لکھا گیا وہ مشرقی یروشلم   کے جنوب مشرقی کونے پر واقع زمین سے تھوڑا بلند ایک ہموار  پلیٹ فارم ہے  جو  ذوزنقہ1 کی شکل کا ایک   احاطہ ہے۔شکل نمبر 1 میں یہ احاطہ واضح ہے۔  مشرقی یروشلم میں جو علاماتِ مرور(traffic signs) ٹیلیویژن، انٹرنیٹ  اور  اخباری تصاویر وغیرہ میں نظر آتی ہیں ان میں عبرانی، انگریزی اور عربی میں بالترتیب  ہیکلِ سلیمانی،  Temple Mount اور الحرم الشریف لکھا دیکھا گیا ہے۔ غالباًیہ نام "الحرم الشریف" لغوی معنیٰ کے اعتبار سے اختیار کیا  گیاہوگا ورنہ تو اسلام میں قرآن و حدیث کی نصوص سے صرف دو ہی حرم  معلوم ہیں۔ اس تیسرے "حرم" کا ثبوت کسی نص سے نہیں ملتا  [5]۔

اصل میں35 ؍ایکڑ رقبہ پر مشتمل یہ احاطہ ہی  وہ مسجدِ اقصیٰ ہے جس کا ذکر قرآنِ مجید اور احادیث ِ مبارکہ میں آیا ہے۔  مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ ہی وہ تین مساجد ہیں جن کیلیے بطورِ خاص سفر کی نیت کرکے جانا  جائز ہے اور وہاں پڑھی جانے والی نمازوں کا کئی گُنا اجرملنا  احادیث سے ثابت ہے۔شکل  نمبر1 میں ہی  احاطۂ  ذوزنقہ کے جنوب مغربی کونے میں وہ مسجد ہے جسے اہلِ فلسطین مسجد القِبلی کہتے ہیں لیکن عام طور پر  وہ  "مسجدِ اقصیٰ" کے نام سے معروف ہے۔  یہ مسجد چھٹے اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے بنوائی تھی۔ مسلمان اس سے جذباتی وابستگی محسوس کرتے ہیں  حتیٰ کہ رباط میں  پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا قیام اسی مسجد میں آتشزدگی کے واقعہ (1969ء) کے ردِّ عمل کے طور پر آیا تھا۔حالانکہ صحیح معنوں میں یہ اصل مسجدِ اقصیٰ کا محض جنوب مغربی  کونہ ہے جس کا سیسہ کی پتریوں سے  مزیّن  سرمئی رنگ کا گنبد  تصاویر میں نظر آتا ہے اور 'گوگل ارتھ' کے ذریعہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یقیناً اس  مسجد میں نماز کا وہی اجر ہے جو احادیث میں بیان ہوا ہے لیکن اس کے باہر احاطہ پر کہیں بھی نماز پڑھی جائے وہ مسجدِ اقصیٰ ہی میں پڑھنا سمجھی جائے گی اور وہی اجر اس کیلیے بھی ثابت ہے۔

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے مسجدِ حرام کی بناء رکھی اور پھر چالیس سال بعدارضِ مقدسہ میں جبلِ موریہ پرمسجدِ اقصیٰ کا احاطہ متعین کیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ احاطۂ اقصیٰ لمبائی کے رخ پر قبلہ  رُو ہے ۔  جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفرِ معراج میں اس جگہ تشریف لائے تھے تو اس  کا ذکر  مسجد کے عنوان سےقرآنِ عظیم کی سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں آیاہے۔ اس وقت ولید بن عبدالملک کی بنائی ہوئی "مسجدِ اقصیٰ" کا نام و نشان تک نہ تھا۔ پھر ساتویں آیات میں اسی مسجد کادوبارہ  ذکر ہے:

إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ ۖ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَھا ۚ فَإِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاخِرَةِ لِيَسُـئُوا۟ وُجُوھکمْ وَلِيَدْخُلُوا۟ المَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوہ أَوَّلَ مَرَّۃ وَلِيُتَبِّرُوا۟ مَا عَلَوْا۟ تَتْبِيرًا۔

[ترجمہ سید مودودیؒ:  "تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اُسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اُسے تباہ کر کے رکھ دیں"]۔ 4

اس آیت میں بنی اسرائیل کی دو سزاؤں کا ذکر ہے۔ پہلی سزابابل کے شاہ بخت نصر کے ہاتھوں 586ق م اور دوسری    سن 70ء میں جنرل طیطس   (Titus)  کی قیادت میں رومی سپاہ  کے ہاتھوں ملی۔  دونوں مواقع پر  مسجد کو تاراج کرنے کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ سے مراد  نہ صرف ایک  متعین احاطہ تھا بلکہ  اس پر عمارت بھی موجود تھی جو پہلے بخت نصر کے ہاتھوں اور پھر طیطس کے ہاتھوں برباد کی گئی  ۔    ممکن ہے ، یہ وہی مسجد  ہو جس کی تجدید و تزئین حضرت  داؤد اور سلیمان علیہما السلام نے کروائی  تھی،  جس کو    عام طور پر  ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے  نبی کی بنائی ہوئی عبادت گاہ کیلیے مسجد یا بیت  کے ا لفاظ  ہی موزوں ہیں اوریہی تعبیر ات قرآن و احادیث میں  استعمال کی گئی ہیں۔  پیغمبران اسلام سے نسبت  کی وجہ سے  یہ احاطہ مسلمانوں ہی  کی تراث ہے۔

  احادیث کے مطابق  شبِ اسراء میں جنابِ رسول اللہ ﷺ مسجدِ حرام سے براق کے  ذریعہ  مسجدِ اقصیٰ  تشریف لے گئے، نماز پڑھی ،  پھر آپ ﷺ نے انبیاء کرامؑ کو نماز کی  امامت کرائی، اور  پھر آپ معراج پر  آسمانوں کی طرف روانہ ہو گئے۔  واپسی پر پنجوقتہ نمازوں کی فرضیت کا حکم لیکر نبی ﷺ اسی جگہ  آئے اور پھر براق سے مکہ پہنچے—سوچنے کی بات ہے آخر بیت المقدس کا پڑاؤ کیوں اس مقدس سفر میں شامل کیا گیا  جبکہ اللہ تعالیٰ  تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجدِ حرام سے براہِ راست آسمانوں  پر لے جاسکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے نصوص  سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف احاطۂ مسجدِ اقصیٰ بلکہ ارضِ مقدسہ فلسطین اسلامی قلمرو کا لازمی اور مستقل حصہ ہے ۔  بیت المقدس کی طرف شدِّ رحال کی احادیث میں یہی اشارہ تھا جس کی وجہ سے  اسلامی فتوحات کے آغاز پر مسلمانوں کی پہلی ترجیح  شام و فلسطین کی سرزمین ہی تھی ۔  

اسلامی یروشلم

خلیفہ دوم حضرت عمر نے جب بِزَنطینیوں سے   شہرِ کا  قبضہ  لیا تو سب سے پہلے احاطۂ مسجدِ اقصیٰ  کے جنوب مغربی کونے میں ایک مسجد کی جگہ متعین کی ۔تقریباً پچاس سال بعد عبدالملک بن مروان نے اسلامی تہذیبی تشخص کو مزید نمایاں کیا جب شہر کے منظر پر   قبۃ الصخرہ جیسی عظیم الشان   عمارت  ابھری۔ اس کے معنی خیز کتبات کے ذریعہ واشگاف اعلان کردیا  گیا کہ یروشلم نصرانی نہیں بلکہ   اسلامی شناخت  اور دینِ حق کی عظمت اور غلبہ  کا علمبردار شہرہے اور رہے  گا۔  عبدالملک ہی نے حضرت عمر  کی مقرر کردہ جگہ پر  مسجد کی  بناء  رکھی ،  سرکاری زبان عربی مقرر کی، پہلی دفعہ اسلامی  سکہ ڈھالا جس پر قرآنی آیات نقش تھیں ، اور  اس کے علاوہ ا حاطہ اقصیٰ کے جنوبی سمت     بہت سے محلات اور   عمارتیں تعمیر کروائیں ۔  اس نے  شاہرائیں  بنوائیں جن پر سنگ ِمیل  بھی نصب کروائے۔ ڈاکٹر ہیثم الرطروط کہتے ہیں کہ  اس سلسلہ میں المَقدِسی  (م:380ھ) کی تاریخی شہادت ہی قابلِ اعتبار ہے کہ  خلیفہ عبد الملک نے دراصل  مسلم یروشلم  قائم کیا  تھا۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ   یروشلم میں جو سرگرمیاں عبدالملک کے زمانے میں نظر آتی ہیں، ان سے واضح ہو تا ہے کہ یہ مکہ یا مدینہ کا متبادل نہیں بلکہ ان  کا مؤید شہر بنایا جانا مقصود  تھا ۔ عبد الملک  چونکہ فقیہ بھی تھا، اس لیےاس نے  نصرانیوں اور یہودیوں پر کسی قسم کی پابندی بھی نہیں  لگائی  تھی[6]۔

قبۃ الصخرة

شکل نمبر 1میں ذُوزَنقہ شکل کی مسجدِ اقصیٰ  میں ایک اور  ذوزنقہ  دیکھا جاسکتاہے جس  کے تقریباً وسط  میں ایک مثمن  (octagon)5   عمارت ہے۔ اسی کو قبۃ الصخرۃ کہتے ہیں  اور انگریزی میں ڈوم آف راک (Dome of Rock)۔ دونوں زبانوں میں گنبد اور عمارت کو ایک  ہی  مجموعۂ الفاظ سے تعبیر کیا گیاہے۔ عاصم  الحدادؒنے سفرنامہ ارض القرآن میں گنبدِ صخرہ اور  مسجدِ صخرہ  کی الگ الگ  تعبیرات استعمال کی ہیں۔  زمینی حقیقت تو یہی ہے کہ یہ عمارت بطورِ مسجد بھی استعمال ہوتی  ہے  لیکن ابتداءً یہ بطورِ مسجد نہیں بنائی گئی  تھی ۔بلکہ  یہ اظہارِ دینِ حق اور شوکت و عظمتِ اسلام کی  علامت تھی اوراس بات کا اعلان کہ ارضِ مقدسہ بلادِ اسلام کا غیر منفک اور دائمی جزء ہے۔

قبۃ الصخرۃ کی  بیرونی  دیواریں ایک مثمن (octagon)   کے اضلاع ہیں۔ ان دیواروں کے زیریں حصہ میں  سنگِ مرمر اور بالائی حصہ میں سیرامیک کے نیلے ٹائلز  کا خوبصورت کام  عثمانی سلطان سلیمان ذیشان  (Süleymân, the Magnificent)  نے 1545-46ء میں کروایا تھا۔ اس کے کچھ باقیات ابتک موجود ہیں لیکن زیادہ تر ٹائلز 1960ء میں اٹلی میں عثمانی ٹائلز کی ہوبہو نقل کرکے بنائے گئے تھے۔ ان دیواروں پر سولہویں صدی سے پہلےشیشہ کی پچی کاری کا کام تھا  جو اولین تعمیر کا ہی حصہ تھا، جس کے کچھ آثار اب بھی موجود ہیں۔   یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ یہ پچی کاری پوری دیواروں پر تھی یا کچھ حصوں پر۔ لیکن یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ رنگین اور مرصع  کام اپنے دور میں فنِ تعمیرکا   ایک منفرد شاہکار رہا ہوگا [7]۔ عمارت میں ہر چہار سمتِ رئیسی (Cardinal Directions) سے داخلے کے دروازے ہیں جن کے اوپر پورچ بنے ہوئے ہیں۔ اندر داخل ہونے کے بعد ایک اندرونی مثمن   پر محرابوں کی ایک قطار یا آرکیڈ  (arcade) ہے ۔  اس آرکیڈ   اور چھت کو  آٹھ (8) بھاری ستونوں (piers)   نےسہار رکھا ہے جو مثمن کے ہر کونے پر واقع ہیں۔اس کے علاوہ ہر ضلع میں دو (2) یعنی کُل  16  کالم ہیں جن پر محرابیں ٹِکتی ہیں۔ اس کے بعدآگے بڑھیں تو  گنبد کا اسطوانہ (drum)ہے جو چار (4) بھاری ستونوں    پر استوار ہے۔ ان کے علاوہ 12 کالم ہیں جو ایک گول آرکیڈکو سہارنے کیلیے  ہیں۔ پلیٹ فارم سے تقریباً 30 میٹر کی بلندی تک پہنچتا ہوا گنبداصل میں  لکڑی کا بنا ہوا ہے۔  دنیا بھر میں لکڑی سے بنا ہوا  اتنا قدیم سٹرکچر جو ابتک قائم ہے، کہیں نہیں پایاجاتا ۔ 20 میٹر قطر کا گنبد سونے کی ایک بھرت (alloy) سے بناہواہے جس کی وجہ سے یہ دور سے چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔شکل نمبر 2 اور 3 میں یہ تعمیر واضح کی گئی ہے۔

مثمن آرکیڈ کی بیرونی  اور اندرونی جانب تقریباً  10 میٹرکی  بلندی پر وہ پٹی ہے جس میں نیلے اور سنہرے رنگ کے شیشہ کی  پچی کاری سے  خطِ کوفی میں وہ تحریرمنقش ہے جو اس مضمون کا موضوع ہے۔یہ تحریر اور بہت سی دوسری آرائشیں   اب تک  مکمل طور پرمحفوظ ہیں۔  کتبات میں صرف ایک تبدیلی ہوئی جب عباسی خلیفہ مامون الرشید(دورِ حکومت:  198ھ-218ھ) نے عبدالملک کے نام کے اوپر اپنا نام کندہ کروایا تھا6۔ اس نے البتہ سنِ تعمیر جو 72ھ  (691-692ء)ان کتبات میں رقم تھا اس کو ویسے ہی رہنے دیا ۔  چنانچہ یہ تاریخِ تعمیر خود ان کتبات سے ثابت ہے  اور یہ  بھی معلوم ہے کہ یہ عبدالملک بن مروان کا ہی دور تھا۔ ان کتبات میں قرآن کی آیات اور دوسری عبارات ہیں جو اللہ کی وحدانیت، اسکی شہادت، اسکی قدرت اور اس کے نبی پر درود  و سلام    اور دوسری دعاؤں پر مشتمل ہیں ۔  زیادہ تر قرآنی اقتباسات عیسائی عقائد کو چیلنج کرتے تھےایک ایسے   شہرِ کے عین مرکز میں جو عیسائیوں کی مقبول   ترین زیارت گا ہ  تھا۔

کتباتِ صخرہ

پچی کاری کے متن کی نقل  (transcription) عالمی شہرت یافتہ خاتون مؤرخ ِ فنِ اسلامی (Islamic art-historian)    کرسٹل کیسلر(Christel Kessler) کا  کارنامہ ہے جو اس نے پہلی بار 1970ء  میں پیش   کیا[8]۔  یہ اس کے اپنے ہاتھوں سے کتابت کی ہوئی تحریر ہے جس میں اس نے اصل کوفی خط سے مماثلت کی اچھی کوشش کی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ قلم کا موٹا قط جیسا کہ خطِ کوفی میں ہوتا ہے، بنانا ممکن نہ تھا۔     اردو زبان میں بھی یہ اعزاز الشریعۃہی کے حصہ میں آرہا ہے جب غالباً    پہلی بار  قبۃ الصخرۃ کے کتبات  کی کیسلر کے ہاتھ  سے کی گئی نقل کے عکوس  اور  جدید عربی خط میں  ان کی ٹرانسکرپشن  پیش کی جارہی ہے۔

موزائیک پر یہ متن اصل میں دو جدا گانہ کتبات پر مشتمل ہے۔بیرونی کتبہ  کا سامنا وہ افراد کرتے ہیں جو عمارت میں داخل ہونے کے بعد  صرف سامنے اور تھوڑا سا اطراف  کا  حصہ ہی دیکھ پاتے ہیں ۔  آرکیڈ  کے اس   بیرونی کتبہ کا آغاز اگر جنوبی ضلع سے کریں جو جانبِ قبلہ ہے اور بائیں جانب (clockwise) گھومتے جائیں تو ترتیب سے جو عبارات سامنے آتی ہیں وہ جدول نمبر 1 میں دی گئی ہیں۔ یہ متن چھے (6) حصوں میں سجاوٹی پھولوں کے ذریعے تقسیم  کیا گیا ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ راہداری  (ambulatory) بہت چوڑی نہیں ہے (تقریباً 4 میٹر) جس میں اونچائی پر منقش کتبات کی عمدہ تصاویر لینا کافی مشکل کام رہا ہوگا [7-8]۔

مثمن آرکیڈ کی اندرونی جانب جو پچی کاری کی   پٹّی ہے اس میں اصل پیغام  درج ہے۔ یہاں کشادگی بھی ہے۔اندر داخل ہونے والا  زائر جب  دائیں طرف مڑ کر گھومتے ہوئے(counter clockwise)  ایک چکر پورا  کرتا ہے تو  واپسی تک  پورا مرکزی پیغام  دیکھ چکا ہوتا ہے۔ یہی  وجہ ہے کہ بیرونی کتبہ کے بالعکس اندرونی جانب متن مسلسل ہے اور نقاط (diacritics) کا استعمال  بھی زیادہ کیا گیا ہے تاکہ پیغام کے ابلاغ میں کوئی کسر نہ رہے۔ جدول نمبر 2 میں  اندرونی کتبہ کی نقول اسی ترتیب پر پیش کی گئی ہیں۔عمارت کے بیچ گنبدِ صخرہ  کے عین  نیچے  وہ  چٹان (الصخرہ) ہے جو نیچے غار سے برآمد ہوتی ہے اور عمارت  کے  فرش سے تقریباً پانچ فٹ اونچائی تک جاتی ہے۔ اس چٹان پر  بقولِ یہود حضرت ابراہیم   علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسحٰق علیہ السلام کی قربانی دی تھی7۔  مسلمانوں میں عام طور پر مشہور ہے کہ اسی چٹان سے جنابِ رسول اللہ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔

نیچے دیے ہوئے دونوں  جداول میں  پہلا کالم اضلاعِ مثمن کی سَمتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ دوسرے  کالم  میں کیسلرکی خطِ کوفی میں کی گئی  نقل  کا عکس ہے اور اس کے  نیچے  یہی متن جدید عربی خط میں پیش کیا گیا ہے۔اس میں قرآنی آیات  کو ممیز کرنے کے لیے ان کے مصحفِ مدینہ منورہ  ( www.tanzil.net )سے بعینہ لیے گئے ہیں۔ باقی عربی  عبارات حَرَکات کے بغیر ہیں۔  قدیم عربی نسخ اور کتبات کی ایک خاصیت کہ وہ خطِ ناقص (scriptio defectiva) [9] میں لکھے جاتے تھے ، وہ ان کتبات میں بھی بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔ کچھ غیر معمولی خواص (idiosyncrasies)   کی طرف حواشی میں اشارے کیے گئے  ہیں، وہ بھی صرف قرآنی عبارات کی حد تک ۔

وھیلن نے  لکھا ہے کہ کیسلر سے نقل میں کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں  کہ سعیدنسیبہ(Saïd Nuseibeh)  اور عالمی شہرت یافتہ مؤرخِ فنِ اسلامی اور ماہرِ اثریات  پروفیسر اولیگ گرابر (Oleg Grabar)  کی  کتاب جس میں بہترین معیار کی تصاویر شامل ہیں  [7]  سے تقابل کرکے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسلر کی نقل میں درستگی کی ضرورت ہے۔      راقم نے  نُسیبہ اور گرابر کی تصاویر سے کیسلر کی تحریر کشائی کا  مقابلہ کیا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ اول الذکر میں طباعت کی اغلاط واقع ہوئی ہیں۔ جیسے  پانچ  اضلاع کے عنوانات  غلط طبع ہوئے ہیں یا  آلِ عمران:19 (اندرونی کتبہ، جنوب مغربی ضلع، جدول 2 کی آخری سطر)پر    یہ واضح  نہیں کہ باييات لکھا ہے یا باييت اور اس کے بعد ﷲ بھی نظر نہیں آرہا کیونکہ اس مقام پر تصویر تقسیم ہوگئی ہے ۔ اسی طرح صفحہ 93 ، شمال مغربی ضلع،  اندرونی کتبہ پر   دو تصاویر غلط لگنے کی وجہ سے جملہ کا ابتدائی حصہ مشتبہ ہوگیا ہے ۔    یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب مسلسل تحریر آٹھ بھاری ستونوں(piers) پر سے گزرتی ہے تو ہر موقع پر  چار دفعہ 90 درجہ کا خم کھا تی ہے۔ ایسے میں ہر ستون کےاجانب اور سامنے کی تصاویر لینا، وہ بھی 10 میٹر کی بلندی پر، بہت مشکل کام ہے۔ پھران تصاویر سےکتبہ کی تحریرکشائی (deciphering)  خاصا عرق ریزی کا کام ہے۔کیسلر نے خود 1967ء کے موسمِ بہار میں ان کتبات کو دیکھا تھا اور ان کے فوٹو  مناسب روشنی اور صفائی کے بعدلیے تھے ۔ انہوں نے سوئس مؤرخ  میکس فان برشم (Max van Berchem, d. 1921) کی 1914ء میں لی گئی تصاویر جو بہت کم روشنی میں پرانے کیمرے سے لی گئی تھیں جبکہ کتبات پرگردو غبار بھی تھا، عالمی شہرت یافتہ برطانوی مؤرخ ِ تعمیرات ِ اسلامی کیسلر (K.A.C. Cresswell, d.1974) کی 1927-28ء کی تصاویر سے، اور مصر و اردن کی مشترکہ بحالی کمیٹی کی 1960ء میں بنائی گئی رنگین شفافیوں (transparencies)سے    تقابل کرکے نقول تیار کی تھیں۔ چنانچہ  صحیح یہی ہے کہ کیسلر سے تحریر کشائی میں کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ کیونکہ زیادہ تر مؤلفین بشمول وھیلن نے کتبات کامحض ترجمہ دینے پر ہی اکتفا کیا ہے، اس لیے وھیلن کے مشاہدہ کی تصدیق کا اور کوئی ذریعہ بھی نہیں  ۔

اگرچہ وھیلن نے مِنگانا کی طرف تعصب کی نسبت کی ہے  لیکن وہ اس کیلیے  ایک تاویل بھی  پیش کرتی ہیں کہ شاید  اس نے ان کتبات کو دیکھ کر  یہ رائے قائم کی ہو کہ قرآن کی تدوین عبد الملک کے عہد میں ہوئی ہوگی۔ وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتی ہیں کہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا جب سے ان کتبات   پر مغرب میں تحقیق ہورہی ہے لیکن کسی عالم نے ان کتبات کے متن پر غور نہیں کیا ۔  بیرونی اور اندرونی پٹّی پر جو تحریر کندہ ہے اس میں قرآن کی آیات  کے علاوہ   دوسری عبارات جو اللہ کی وحدانیت، حاکمیت،اور قدرت  کا بیان اور اس کی شہادت کا اعلان ہیں،اور اس کے عالی مقام نبی  پر درود  و سلام   پر مشتمل ہیں جن کے اجزاء میں  بھی قرآنی فارمولے شامل ہوتے ہیں لیکن ان کو قرآن نہیں کہا جاسکتا۔ اس طرح کی مختلط عبارات جن کو فرد   اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہے،  سے  بعض مستشرقین  نے سمجھا کہ  قرآن کا متن ارتقاء کے عمل سے گزرتا ہواڈیڑھ یا دو سو سالوں میں مستحکم ہوا ہے۔ وھیلن اپنے ناظرین کو بتاتی ہیں کہ اس طرح کی ملے جلے بیانات  اسلام میں ممنوع نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں وہ طَبَری سے دو خطبوں کی مثال بھی پیش کرتی ہیں۔  وہ کہتی ہیں کہ قرآن مسلمانوں کی توجہات کا مرکز تھا اور اس کے معیاری متن کی حفاظت  بلا کسی ادنیٰ تحریف کے پوری اسلامی تاریخ کا معلوم واقعہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ضرورت پڑنے پر کسی خاص موضوع کے پیشِ نظر قرآنی اجزاء اور دوسرے بیانات کو ملا کر پیش کرنا  کلام  کی خوبصورتی اور تاثیر کیلیے کیا جاتا تھا۔  وہ کہتی ہیں  اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں البتہ اگر مسلمان ایسا نہ کرتے تو باعثِ تعجب ہوتا۔ اس  طرح کے رواج  کا انحصار  اس پر تھا کہ  سننے یا پڑھنے والے اچھی طرح قرآن اور غیرِ قرآن کو ممیز کرسکتے ہوں۔  بہرحال، وقت کے ساتھ ساتھ یہ رواج کم ہوتا چلاگیا یہاں تک کہ بیسویں صدی  تک  بالکل ختم ہو چکا تھا[10]۔

مصحفِ مدینہ منورہ سے تقابل

    1. مریم:33 میں مصحفِ مدینہ منورہ میں آتا ہے: وَالسَّلَـٰمُ عَلَیّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا۔ اس کے برعکس، اندرونی کتبہ کے شمال مغربی ضلع پر ثبت  اس جملہ میں ضمیرمتکلم  (1st person)کے بجائےضمیر غائب (3rd person) استعمال ہوئی ہے، اس لیےہم نے اس کو بغیر اعراب کے درج کیاہے کیونکہ اب یہ کلامِ الٰہی نہ رہا۔ اس سلسلے میں وھیلن کی وضاحت کا ذکر گزر چکا۔

    2. اگلی آیت، مریم:34 میں مصحف مدینہ منورہ میں يَمْتَرُونَ آتاہے، جبکہ اندرونی کتبہ میں شمال مغربی ضلع پر'تمتروں' دیکھا جاسکتاہے،  یعنی  خطاب کا صیغہ۔یہ عین ممکن ہے کہ پچھلا بیان جس میں قرآنی آیت میں تصرف کیا گیا تھا، وہ جاری ہے اور یہاں صیغہ بدل کر گویا زائر سے خطاب ہے: "سلام ہے اس پر جب وہ پیدا ہوا اور جب وہ مرے گا اور جب زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ یہ ہے عیسٰی ابن مریم اور یہ ہے اُس کے بارے میں وہ سچی بات جس میں تم لوگ شک کرتے ہو"۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ آیت 34  قراءت 'تمتروں'   کے ساتھ لکھی گئی ہو (دیکھیے حاشیہ 19)، تاہم  قیاس یہی  کہتاہے کہ  پہلے سے جو بیان چلا آرہا تھا، اس کی  رعایت کرتے ہوئے کلامِ پاک میں تصرف ارادتاً کیا گیا ہے۔

    3. آلِ عمران:18 میں مصحفِ مدینہ  میں قائمًا بالقسط ہے جبکہ اندرونی کتبہ میں مغربی ضلع پر اسے قیماٮالٯسط  لکھا گیاہے ۔ کیسلر کہتی ہیں کہ یہ خطِ ناقص کی وجہ سےہے1۔

    4. النساء:171 میں مصحفِ مدینہ کی قراءت ہے: القٰھآ  جبکہ اندرونی کتبہ میں مشرقی ضلع پر لکھا ہے:  الڢیھا۔ اس لفظ میں 'ق'،  جس کا نقطہ نیچے لگایاگیا ہے، کے بعد ایک زائد شوشہ  'ی' کیلیے مع  نقاط کے نظر آرہا ہےجو بظاہر  اِمالہ کیلیے ہے ۔  یہ قراءت  بھی صحیح ہے۔ نُسَخِ قدیمہ میں  'الفِ مدہ' اور 'الفِ مقصوریٰ' کا ادل بدل دیکھا گیا ہے[5]، چنانچہ یہاں 'ی' کا شوشہ الفِ مقصوریٰ کیلیے بھی ہوسکتا ہے ۔  

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ان کتبات میں مرقوم  آیاِتِ قرآنی اور   معیاری متن  میں کوئی فرق نہیں سوائےاس کے کہ اول الذکر  خطِ ناقص میں لکھے گئے ہیں۔

مسجدِ رسول ﷺ کی مثال

وھیلن مسجدِ نبوی کی جانبِ قبلہ دیوار پر  منقش  عبارتوں سے شہادت پیش کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ کتبات اب موجود نہیں ہیں لیکن تیسری/ چوتھی صدی ہجری کے ایرانی سیاح اور جغرافیہ داں    ابنِ رستہ نے 290 ھ/903ء میں  ان کو دیکھا تھا اور ان کا ذکر اپنی  کتاب الاعلاق النفیسۃ  میں کیا تھا۔  وہ کہتا ہے ، یہ کتبات مغربی دیوار میں باب دارِ مروان ( باب السلام)  سے سورۂ الفاتحہ سے شروع ہوتے ہیں۔ پھر جنوب مغربی کونے سے مڑ کرجنوبی یعنی جانبِ قبلہ  دیوار  سے ہوتے ہوئے جنوب مشرقی کونے پر مڑ کر  مشرقی دیوار پر بابِ علی ( بابِ جبرائیل) پرختم ہوتے ہیں ۔ سورۂ الفاتحہ کے بعد سور ۂ  الشمس  ہے پھر لگاتار سورتیں ہیں جن کا اختتام سور ۂ  الناس پر ہوتا ہے۔ ابنِ رستہ کہتا ہے کہ یہ کتبات اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم سے اس وقت کے گورنر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز  کی زیرِ نگرانی لکھوائے گئے تھے۔ اس مشاہدے کی تائید ایک اندلسی سیاح  کی عینی شہادت سے بھی ہوتی ہے جس نے 307ھ/920ء اور 317ھ/929ء کے دوران حرمین کی زیارت کی تھی۔  اس کا ذکر الِعقد الفرید میں ہے۔  اس  سیاح کے بیان سے معلوم ہوتاہے کہ کتبات  مرمریں  لوح پر سنہرے اور نیلے  شیشے کی پچی کاری سے لکھے گئے تھے۔ یہ بالکل  وہی سٹائل ہے جو قبۃ الصخرۃ میں پایا جاتا ہے۔ اس اندازے  کو تقویت خطِ کتبہ سے بھی ملتی ہے  جو دیکھنے والوں کے بقول  خاصا موٹا خط ہے بالکل ویسا ہی جیساقبۃ الصخرۃکے کتبات میں استعمال ہوا [1]۔

 مسجدِ نبوی کے یہ کتبات ولید بن عبدالملک کے دور میں  88ھ/706ء اور 91ھ/710ء کے درمیان لکھے گئے تھے۔ اتنے قدیم کتبات سے  تین اہم امور پتہ چلتے ہیں: ایکؔ، قرآنی سُوَرکی  ترتیب  اس وقت  ایک معلوم حقیقت تھی۔  اسی سے منسلک یہ دوسریؔ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اس وقت قرآن ایک مدون کتاب کی صورت  میں موجود تھا۔ اور آخریؔ یہ کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ  (م: 32ھ/653ء)سے منسوب روایات جن کے مطابق وہ سورۂ الفاتحہ اور معوذتین کو  اپنے مصحف میں نہیں لکھتے تھے ، کومسلم جماعت نے  تسلیم  نہیں کیا تھا۔   خود جنابِ رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں ان سورتوں کا منقش ہونا اور وہ بھی ایسی ہستی، عمر بن عبد العزیزؒ،  کے ہاتھوں جن کے تقویٰ کی قسم ان کے مخالفین بھی کھایا کرتے تھے—ان روایات کو رد کرنے کیلیے کافی ہونا چاہیے ۔

وھیلن  کہتی ہیں کہ ابنِ رستہ  اور دوسرے مشاہدین  کے مطابق ولید نے مسجد کے صحن میں نماءِ جنوب  (southern facade) میں بھی قرآنی نقوش کا کام کروایا تھا جس کو خوارج نے مروان ثانی کے عہد میں   130ھ/747ء میں تباہ کردیا تھا۔ ایسی تاریخی شہادتیں بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری مسجدِنبوی  شریف میں  حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قرآنی آیات کی نقاشی کروائی تھی۔   اموی دور  میں قرآنی اقتباسات کتبات کی صورت  میں اتنے  زیادہ پائے جاتے ہیں  جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اپنی مدون صورت میں پوری اسلامی دنیا میں ایک معروف حقیقت تھا۔ اس طرح  وانسبَرو کا یہ نظریہ کہ متنِ قرآنی نویں صدی شمسی کے اوائل  تک  قانونی معاملات میں نامعلوم تھا، بالکل بے بنیاد   ثابت ہو جاتا ہے۔

یہیں سے  ایک ضمنی معلومات ابن الندیم (م:  385 ھ)  کی الفہرست کے ذریعہ حاصل ہوتی ہےکہ خالد بن ابی الہیّاج نے مذکورہ کتبات لکھے تھے۔ خالد اموی اور عباسی ادوار کا ایک نامور خطاط تھا جس نے ولید بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز  کے زمانے میں بہت سے مصاحف  اور نُسَخ کی کتابت کی تھی۔  وھیلن خلیفہ   ولید بن عبدالملک کے ایک  کاتب سعد جو  صاحبِ المصاحف   کہلاتے تھے، کا بھی  ذکر کرتی ہیں جو کاتبِ وحی حضرت     حُوَیطِب بن عبد العزیٰ  (م 54ھ) کے مولیٰ تھے ۔ حضرت  حویطب    کے سردارِ  قبیلہ عامر بن لؤی تھے  جو اُن 16 قریشیوں میں شامل تھے جو نبی ﷺ کی بعثت کے وقت لکھنا   جانتے تھے۔  حضرت حویطب  مدینہ منورہ میں اصحاب المصاحف  کے محلہ میں رہا کرتے تھے۔ وھیلن   نے تاریخی شواہد کی بناء پر لکھا ہے کہ   ساتویں صدی شمسی (پہلی /دوسری صدی ہجری) میں مدینہ منورہ میں ایک محلہ ہوا کرتا  تھا  جہاں قرآنِ کریم کی کتابت کی جاتی تھی اور مصاحف فروخت کیے جاتے تھے۔   وہ کہتی ہیں کہ اس امر کی شہادتیں بڑھتی جارہی ہیں کہ اموی دور میں مدینہ  اہلِ علم و فکر کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ بصرہ اور کوفہ کے مراکز کے ابھرنے سے پہلے آٹھویں صدی شمسی کے نصف اول میں مدینہ منورہ میں نحویین کا  ایک مکتبِ فکربھی قائم ہوچکا تھا ۔ ان میں سے  اکثر افراد کی معاشی ضروریات قرآنِ کریم کی نقل و اشاعت کے ذریعہ پوری ہوتی تھیں۔ ان میں ایک تابعی ابو داؤد عبد الرحمٰن بن ہرمز بن کیسان الاعرج ؒ (م117 یا 119ھ) بھی تھے  جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنو ہاشم کے مولیٰ تھے اور مصحف کی کتابت کیا  کرتے تھے۔

غرض،  مدینہ میں پہلی صدی ہجری کے  ربعِ آخر اور دوسری صدی  کے اوائل میں پیشہ ورانہ  کتابت، خطاطی اور نقاشی  کرنے والوں   کا  ایک سُوق  موجود تھا۔ ظاہر ہے کہ  مساجد ، مدارس اور ذاتی استعمال کیلیے کتابِ پاک  کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کیلیے  ماہرین کی یہ   جماعت  وجود میں آئی ہوگی۔ قرآنی  مصاحف کی نشر و اشاعت،   تعمیراتی کتبات میں ان کااستعمال، دراہم و دینار  پر قرآنی اقتباسات کی  نقاشی اور منبرِ رسول ﷺ کی اتھاریٹی کا قیام —یہ سب اموی خلفاء  کی جانب سے ایک نئے اسلامی ورلڈ آرڈر کا  اعلان تھے، ایسا ورلڈ آرڈر جس کا مرکز و محور قرآنِ عظیم  تھا۔ وھیلن کہتی ہیں کہ ان حقائق سے بغیر کسی شک کے معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن کی تدوین و اشاعت  کا کام ان  واقعات سے بہت پہلے ہوچکا تھا  نہ کہ بعدمیں،  جیسا کہ وانسبرو سمجھتا ہے۔  چنانچہ وہ نتیجہ نکالتی ہیں کہ مسلم روایات ، جن کے مطابق سرکاری اہتمام کے ساتھ  تدوین و اشاعتِ قرآن کا کام خلیفۂ راشد حضرت عثمانکے ہاتھوں ہوا تھا، قطعی طور پر قابلِ اعتماد ہیں۔

اختتامیہ

آخر میں وھیلن مسجدِ صخرہ کے کتبات کی طرف  دوبارہ ر ُخ کرتے ہوئے توجہ دلاتی  ہیں کہ  یہ طرزِ کتابت واضح طور پر ابتدائی عربی تحاریر سےممیز ہے خواہ وہ کسی بھی میڈیم میں ہو (کتبات، پارچے،  عمارتی نقوش، یاسکے وغیرہ) اور اس کو مسجدِ نبوی شریف کی  قرآنی نقاشی کے پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے ۔ جس طرح خلیفہ ولید نےاصحاب المصاحف کے ایک  کاپی نویس کو مسجدِ رسول ﷺ میں قرآنی نقاشی کیلیے طلب کیا تھا،  یہ بالکل قرینِ قیاس ہے کہ پندرہ یا بیس سال قبل عبدالملک  نے بھی  ماہرین کے اُسی   گروہ کی طرف رجوع کیا ہوگا۔  وھیلن سوال اٹھاتی ہیں کہ تجربہ کار اور پیشہ ورانہ مہارت کے حامل  کاتبوں  کا ایسا مرکز جیسا کہ مدینہ میں اصحاب المصاحف کا تھا،    اور کہاں ہوسکتا تھا،  جہاں سے  ایسے  مشاق  خطاط  مل سکیں  جو  قبۃ الصخرۃکی حسین و جمیل   عمارت کے  شایانِ شان نقاشی کر سکتے ہوں— ایسے نفیس کتبات جو 1300 برسوں سے اپنی نُدرت اور خوب صورتی قائم رکھے ہوئے ہیں۔

 الحمد للہ،  الشریعۃ کو یہ اعزاز حاصل ہو ا کہ  عمارتِ صخرہ کے کتبات کی نقل پہلی بار اہالیانِ اردو کے لیے پیش کی گئی اورقرآنِ عظیم کے استناد کے بارے میں مستشرقین کے پیداکردہ شکوک  و شبہات کو انہی میں سے ایک فرد کے ذریعہ صاف کردیا گیا۔


حواشی

  1.  مِنگانا کے بارے میں کچھ معلومات  اشارہ [2] میں دی گئی تھیں۔
  2.   قبۃ الصخرہ  سے قبل  زمانے کا ایسا کتبہ جس پر  قرآنی آیات ثبت ہوں، کی ایک ہی مثال سامنے آئی ہے۔ یہ  قبرص سے دریافت ہونے  والا ایک قبر کا کتبہ ہے جس پر مکمل سورۂ اخلاص لکھی ہوئی ہے، جس کے بعد لکھا ہے: "یہ عروہ ابن ثابت کی قبر ہے جو رمضان  29 ھ میں فوت ہوا"۔تاہم اس  کتبہ کی کوئی تصویر اب تک شائع نہیں ہوئی ہے  [3] ۔
  3.  ذوزنقہ وہ چوکور ہوتا ہے جس کے صرف دو مقابل اضلاع متوازی لیکن غیر متساوی  ہوتے ہیں۔
  4.  مولانا مودودیؒ  اور کئی علماء نے  ترجمہ میں  مسجد  کے بعد قوسین میں بیت المَقدِس  یا بیت المُقَدّس لکھا ہے جو صحیح  ہے۔ عبرانی میں اس کا نام Beit HaMikdash ہے جس کا مطلب مقدس گھر ہے۔  یہ  نام اقصیٰ کمپاؤنڈ یا اصلی مسجدِ اقصیٰ ہی کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ بعد میں یہ نام یروشلم شہر کیلیے بھی  استعمال ہونے لگا لیکن صحیح  مراد احاطۂ مسجدِ اقصیٰ  ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی بیت المقدس اورمسجدِ اقصیٰ کے نام اسی معنیٰ میں آئے ہیں۔ مولانا وحید الدین خان نے سفرنامہ سپین و فلسطین میں مسجدِ صخرہ  کو بیت المقدس سے تعبیر کیا ہے حالانکہ یہ اس کا ایک جزء ہے، کُل نہیں۔
  5.   جیومیٹری میں ایسی کثیر الاضلاع (polygon)   شکل کو کہتے ہیں  جس کے  آٹھ اضلاع  ہوں۔
  6.  المامون نے قبۃ الصخرہ کے  مدخل شرقی پر بھی لنٹل کے اوپرتانبے کی پتری پر  اپنا نام اور  قرآنی آیات  کے اجزاء نقش کروائے تھے۔ اس کی تصویر مع ترجمہ  اشارہ   [11] میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس نےشمالی دروازہ پر بھی تانبے کی ایک پتری لگوائی گئی تھی لیکن اس کی کوئی تصویر میسر نہیں البتہ ترجمہ حوالۂ مذکور میں دیا گیا ہے۔
  7.  کچھ نئی تحقیقات ،جن کوابتک یہود میں قبولِ عام نہیں حاصل ہوا ہے، کے مطابق ہیکل اور قربان گاہ وغیرہ چشمۂ گیحان  پر واقع تھے (شکل نمبر 1)۔  اس تحقیق کے مطابق دیوارِ گریہ جو احاطۂ اقصیٰ کی مغربی دیوار  کا  جنوبی حصہ ہے،  ایک بے بنیاد فسانہ ہے۔
  8.   سورۂ اخلاص۔
  9.   یہاں سے ا لاحزاب: 56 کا آغاز ہوتا ہے۔
  10.  یہاں سے سورۃ الاسراء کی آیت: 111 شروع ہوتی ہے لیکن پہلا لفظ وَقُلِ محذوف ہے۔
  11.   یہ اگرچہ  سورہ الحدید آیت: 2 کا حصہ ہے، لیکن  پورا کلمہ  جو شمالی ضلع پر لا اله الا الله وحدہ لا شريك له سے لیکر  اس ضلع  پر شَىْءٍ قَدِيرٌ  تک ہے،  حدیث میں بھی  آتا ہے۔ توحید اور اللہ تعالی کی بلا شرکتِ غیرے حاکمیت اور کامل قدرت کا یہ اعلان تحریری اور زبانی طور پر کرنا اسلامی ثقافت کا ناگزیر جزء ہے۔ اس تحدی   کو اس تناظر میں بھی اس کتبہ میں  دیکھا جانا چاہیے۔
  12.    یہ  خط کشیدہ  حصہ ترمیم شدہ ہے۔ یہ الفاظ عباسی خلیفہ   مامون الرشید نے عبد الملک کے نام   کی جگہ درج کروائے تھے لیکن اس نے تاریخِ تکمیلِ تعمیر جو معاً بعد درج ہے، سے تعرض نہیں کیا تھا۔
  13. یہاں سے الاحزاب آیت:  56 شروع ہوتی ہے۔
  14.  یہاں سے سورۂ النساء آیات171-172 شروع ہوتی ہیں جن کا اختتام   شمالی ضلع پر ہوتا ہے۔
  15.  کتبہ پر اصل میں نقش ہے:    ولاتٯولوا،  دیکھا جاسکتا ہے کہ  'ق' کے اوپر یا نیچے کوئی نقطہ نہیں۔
  16.  اصل میں لکھا ہے: الحٯ، اور یہاں بھی  'ق' کے اوپر یا نیچے کوئی نقطہ نہیں۔
  17.  یہاں' الڢيها'   میں درمیانی 'ق' کے نیچے ایک نقطہ ہے۔
  18.   شمال مغربی ضلع پر یہ جملہ سورہ مریم:33 میں ضمیر متکلم کے بجائے ضمیر غائب کے ساتھ لکھا ہے، گویا یہ انسانی کلام ہے ۔
  19.   مریم:34   میں یمترون  کی جگہ تمترون لکھا گیا ہے۔  اگرچہ قراءت لٹریچر میں یہ قراءت رپورٹ ہوئی ہے،   تاہم صحیح  یہی ہے کہ قرآنی آیت کو موقع کی مناسبت سے صیغہ بدل کر بیان (paraphrase)  کیا گیا ہے۔
  20.  اصل کتبہ  میں 'ٯول الحٯ' ہے،  دونوں 'ق' بغیر نقطہ کے ہیں۔
  21.  یہاں سے مریم:35-36 شروع ہوتی ہیں۔
  22.   آ یت 35 کے اس ٹکڑے  میں  ' إِذَا قَضَىٰٓ'  اور ' يَقُولُ' دونوں میں 'ق' پر کوئی نقطہ نہیں ، لیکن اسی ضلع پر    آیت 36 کے ٹکڑے 'صِرَٰطٌ مُّسْتَقِيمٌ' میں 'ق' کے نیچے ایک نقطہ ہے۔
  23.  یہاں سے سورۂ آل عمرا ن  آیات  18-19 کا آغاز ہوتا ہے جو جنوب مغربی ضلع تک چلتا ہے۔
  24.   'ڢيما' میں 'ق' کے نیچے ایک نقطہ ہے جبکہ معاًبعد 'ٮالٯسط'  ہے جہاں  'ق' کے اوپر یا نیچے کوئی نقطہ نہیں۔
  25.  اگرچہ الزمخشری  کے مطابق یہ ابو حنیفہؒ  کی قراءت ہے [الکشاف  ،  ص 164]، تاہم کیسلر کا نکتہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔


حوالہ جات

1.    Whelan, Estelle. "Forgotten Witness: Evidence for the Early Codification of the Qur'an." Journal of the American Oriental Society, 118, (1998), pp. 1-14.

2.    احمد، سید ظفر. "جامع عمرو بن العاص: فسطاط کا ایک قدیم نسخۂ قرآن." ماہنامہ عالمی  ترجمان القرآن. جولائی  2020ء، ص 27-33

3.    "An Arabic Inscription From Cyprus, 29 AH / 650 CE," Islamic Awareness, Last Modified 05 August 2007, https://www.islamic-awareness.org/history/islam/inscriptions/urwa.html.
4.    Landay, Jerry M. Dome of the Rock. (New York: Newsweek, 1972).

5.    6b-1411- فتاویٰ الحرم المکی/الشیخ محمد بن صالح العثیمین رقم https://www.alathar.net/home/esound/index.php?op=codevi&coid=120544۔

6.    Al-Ratrout, Haithem, The Architectural Development of Al-Aqsa Mosque in Islamic Jerusalem in the Early Islamic Period, Monograph on Islamic Jerusalem Studies (no.4), (Dundee: Al-Maktoum Institute Academic Press 2004).
7.    Nuseibah, Saïd and Grabar, Oleg, The Dome of the Rock, (New York: Rizzoli International Publications, 1996).
8.    Kessler, Christel. "Abd al-Malik's Inscription in the Dome of the Rock: A Reconsideration." Journal of the Royal Asiatic Society of Great Britain and Ireland, No.1  (1970), pp. 2-14.

9.    احمد، سید ظفر. "جامع عمرو بن العاص: فسطاط کا ایک قدیم نسخۂ قرآن-2." ماہنامہ عالمی  ترجمان القرآن. اگست 2020ء،  ص61-75

10.    Blair, Sheila and Bloom, Jonathan. " Inscriptions in Art and Architecture". The Cambridge Companion to the Quran, ed. McAuliffe, Jane, D. (Cambridge: Cambridge University Press 2006), pp.163-178.
11.    The Copper Plaque Inscriptions at The Dome Of The Rock in Jerusalem, 72 AH / 692 CE. Islamic Awareness, Last modified 12 November 2005, https://www.islamic-awareness.org/history/islam/inscriptions/copper.


علامہ خادم حسین رضویؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علامہ خادم حسین رضویؒ سے کوئی ملاقات تو یاد نہیں ہے مگر ان کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی رہی ہیں اور ان کے خطابات بھی مختلف حوالوں سے سننے کا موقع ملتا رہا ہے۔ وہ بریلوی مکتب فکر کے سرکردہ راہنماؤں میں سے تھے اور مدرس عالم دین تھے۔ دینی تعلیمات و معلومات کا گہرا ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ اور تحریکات کے ادراک سے بھی بہرہ ور تھے، اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے کلام کا نہ صرف وسیع مطالعہ رکھتے تھے بلکہ اپنے خطابات میں کلامِ اقبالؒ کو موقع کی مناسبت سے مہارت کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔

میں مشترکہ دینی مسائل میں ہمیشہ اجتماعی اور مشترکہ جدوجہد کا داعی رہا ہوں اور عملاً بھی مشترکہ تحریکات کا متحرک کردار رہا ہوں۔ بریلوی مکتب فکر کے جن اکابر کے ساتھ گزشتہ نصف صدی کے دوران مختلف تحریکات میں مجھے کام کرنے کا موقع ملا ہے ان میں مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا عبد الستار خان نیازیؒ، مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ، علامہ سید محمود احمد رضویؒ، مولانا مفتی مختار احمد نعیمیؒ، مولانا ابوداؤد محمد صادقؒ، صاحبزادہ حاجی فضل کریمؒ، مولانا قاضی اسرار الحقؒ، اور مولانا مفتی عبد القیوم ہزارویؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ مسلکی اختلافات میں اپنے موقف پر پوری طرح قائم رہتے ہوئے مشترکہ دینی معاملات بالخصوص نفاذ شریعت، تحفظ ختم نبوت، تحفظ ناموس رسالتؐ، اور دینی اقدار کی بالادستی کی جدوجہد میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے ملی ضرورت کے ہر موقع پر جس اشتراک اور باہمی تعاون کا مظاہرہ کیا ہے وہ میرے نزدیک پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ نمایاں اور سنہری باب ہے، جو آئندہ بھی دینی جدوجہد کے قائدین اور کارکنوں کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اس پس منظر میں چند سال سے علامہ خادم حسین رضویؒ کی جدوجہد فطری طور پر میرے لیے دلچسپی کا باعث رہی ہے اور ہر مناسب موقع پر میں نے ان کے موقف اور تحریک کی کھلے بندوں تائید کی ہے۔ ان کی تحریک بطور خاص دو عنوانات (۱) تحفظ ختم نبوت اور (۲) تحفظ ناموس رسالتؐ پر نمایاں تھی مگر وہ نفاذ شریعت، اسلامی تہذیب و روایات کے تحفظ اور لا دینی فلسفہ و مزاج پر نقد و جرح میں بھی دوٹوک بات کرتے تھے اور ان کی گفتگو میں ملی تقاضوں اور قومی ضروریات کی جھلک نمایاں نظر آتی تھی۔ انہوں نے فیض آباد راولپنڈی میں پہلی بار جب دھرنا دیا تو اس دھرنے کا جوش و خروش اور خطابات کا منظر متعدد بار دیکھنے کا موقع ملا جس سے علامہ رضویؒ کی اپنے مشن کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ اور اس کے لیے استقامت کے ساتھ ساتھ ایثار و قربانی کے تاثر میں مسلسل اضافہ ہوا۔ ان کا لہجہ سخت اور ریمارکس تلخ ہوتے تھے مگر اس کے پیچھے ان کے خلوص اور جذبہ کی دیوار دیکھ کر اسے ان کے مزاج پر ہی محمول کرنا پڑتا تھا۔ اس پر مجھے ایک پرانی بات یاد آگئی ہے کہ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ جب تحریک آزادی کی جانگسل تگ و دو اور اس کے دوران طویل عرصہ کی جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئے تو ان کے لہجے اور گفتگو میں تلخی کا رنگ پیدا ہو گیا تھا جس پر غالباً شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے فرمایا تھا کہ اس تلخی کے پیچھے مولانا سندھیؒ کی استقامت، صبر، قربانی، ایثار اور حوصلہ کی طویل تاریخ پر نظر ڈال لی جائے تو اس کی وجہ سمجھنا اور اسے معذوری پر محمول کرنا مشکل نہیں ہے۔

علامہ رضویؒ نے اپنی تحریک کو مشترک ماحول میں لانے کی بجائے اپنے مسلکی ٹائٹل کے ساتھ آگے بڑھایا جو میرے نزدیک ان کی حکمت عملی کا حصہ تھا کہ اس کے بغیر وہ بریلوی مسلک کے عوام کو اس درجہ میں بیدار اور منظم نہ کر پاتے جو ہماری دینی تحریکات میں ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے کہ عوام میں خاصی اکثریت رکھنے والے اس مسلک کے علماء اپنے مسلکی دائروں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے قوم و ملت کے اجتماعی مسائل کی طرف بھی اسی درجہ میں متحرک ہوں جس طرح وہ مسلکی معاملات میں جذبہ و جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ میں ایک تحریکی کارکن کے طور پر مسلسل یہ دیکھتا رہا ہوں کہ اپنی تحریک کو مسلکی دائروں میں محدود رکھتے ہوئے بھی عوامی اجتماعات اور بیانات میں مسلکی اختلافات کو انہوں نے موضوع بحث نہیں بنایا اور دوسرے مسالک کو اگر اپنے ساتھ شامل نہیں کیا تو انہیں اپنی عمومی گفتگو کا ہدف بھی نہیں بنایا اور اس طرح انہوں نے پوری توجہ تحفظ ناموس رسالتؐ اور تحفظ ختم نبوتؐ کے اجتماعی تقاضوں پر مرکوز رکھی ہے۔ ویسے بھی نجی مجالس کی بات الگ ہے کہ اس حوالے سے کسی بھی مسلک کے راہنماؤں کی نجی گفتگو کو باعث نزاع بنانا مناسب نہیں ہوتا۔

علامہ خادم حسین رضویؒ نے فیض آباد کے حالیہ دھرنے میں حکومت سے جن امور پر تحریری وعدے حاصل کیے ان کے بارے میں باہمی معاہدہ ریکارڈ پر آ چکا ہے۔ چنانچہ ان کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ہماری خواہش ہو گی کہ حکومت کے ساتھ ان کے حالیہ معاہدہ کی فوری تکمیل کو مطالبات میں سرفہرست رکھا جائے اور اس کے لیے جدوجہد کا تسلسل قائم رکھا جائے۔

علامہ رضویؒ کے فرزند و جانشین حافظ محمد سعد حسین رضوی نے اپنی پہلی عوامی تقریر میں جن جذبات و عزائم کا اظہار کیا ہے وہ میرے جیسے تحریکی کارکن کے لیے حوصلہ اور خوشی کا باعث ہیں، ہمیں امید ہے کہ وہ اپنے عزم پر قائم رہتے ہوئے اپنے عظیم باپ کے مشن کو جاری رکھیں گے اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارا تعاون و حمایت انہیں بھی بدستور حاصل رہے گا۔


میکرون، اسلام اور فرانسیسی اقدار

ڈاکٹر امیرہ ابو الفتوح

ترجمہ: مراد علی

["مڈل ایسٹ مانیٹر" پر  ڈاکٹر  امیرہ ابو الفتوح کے "Macron's real crisis has more to do with French values than Islam" کے عنوان سے شائع ہونے  والے مضمون کا اردو ترجمہ]


اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایمانویل ماکرون کی جذباتی مہم کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ فرانسیسی نسل پرستی کی وہ پیدوار ہے جو اس کی نفسیات میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔ یہ اسلام کے بجائے فرانسیسی اقدار کا بحران ہے۔ فرانس سیکولر ریاست کی حیثیت سے اسلام کو بطورِ مذہب تسلیم کرنے کےلیے تیار نہیں، اگرچہ اس نے مذہب کو ریاست سے الگ کرلیا ہے، جیسا کہ عیسائیت کے ساتھ 1905ء میں کرچکا ہے۔ فرانسیسی اپنے مسلمان شہریوں کوایک مسئلہ سمجھتے ہیں؛ فرانسیسیوں کا خیال ہے کہ مسلمان ان کے ہاں گھس آئے ہیں جو ان کے معاشرے اور ثفافت میں کبھی بھی ضم نہیں ہوسکتے۔ ریاست نے متعدد  اداروں میں مسلمانوں کی، قطع نظر قابلیت اور لیاقت کے، تقرری پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اور باوجود اس کے کہ وہاں چھے ملین شہری اسلام کا پس منظر رکھتے ہیں۔ کئی فرانسیسی مسلمان وہیں پیدا ہوئے اور پرورش پائی، ان کے بچوں اور پوتوں کو فرانس نے ملکوں کو فتح کرکے کالونیاں بنانے میں استعمال کیا، اور جنھوں نے دو بڑی عالمی جنگوں میں [فرانس کا] دفاع بھی کیا۔

پھر انھیں فرانس کے بڑے شہروں کے مضافات میں الگ تھلگ غریب بستیوں میں رکھا گیا، جب ملازمت ، صحت اور تعلیم کی بات آئی تو ان کے ساتھ نفرت انگیز نسل پرستی کا اظہار کیا گیا۔

فرانسیسی نسل پرستی اور گورے رنگ کی بالادستی معاشرے میں موجود ہے اور سیاسی بکھیڑ ے میں انتہا پسند دائیں بازور سے لے کر ترقی پسند بائیں تک میں واضح طور پر عیاں ہے۔ ان میں سر مو فرق نہیں۔ مثال کے طور پر سابق فرانسیسی سوشلسٹ صدر ژا ں چیراک کی یاد تازہ کریں۔ جس نے گوری رنگت والوں کو تسلی دی جو عرب اور افریقی مہاجرین میں رہتے تھے اور اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ وہ کس طرح ان کی بد بو اور پریشان کن شور کو جھیلتے ہیں۔ عوامی سطح پر ان نسل پرستوں اور اشتعال انگیز الفاظ کا خیر مقدم کیا گیا؛ چیراک کے الفاظ کی تعریف کرنے والا پہلا شخص اس دور کے نسل پرست بائیں بازو کے قومی محاذ کا رہنما جین میر لی پین تھا۔

دراصل صدر کے الفاظ اس سے ذرا بھی مختلف نہیں تھے جو بائیں بازو کے وزیر داخلہ جیرالڈ موسا ڈارامنین نے کہے تھے ، جب اس نے فرانس کے اسٹورز میں حلال فوڈ کے اشیا کےلیے خصوصی سیکشن کی موجودگی پر حال ہی میں ناراضگی اور صدمے کا اظہار کیا تھا۔ لیکن کوشر فوڈ کےلیے خصوصی سیکشنز پر اس کو پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔ اس نے حالیہ برسوں میں نشان دہی کی کہ ماکرون حکومت نے مسلمانوں کے 358 ادارے بشمول مساجد کے بند کرائے اور 480 غیر ملکی ]مسلمان[ ملک بدر کردیے۔ ان کے دادا الجزائر کے تھے، اس وجہ سے نام کا درمیانی حصہ]موسیٰ[ہے۔ وزیر موصوف اتنی کامیابی کے ساتھ گھل مل گیا کہ اس کےلیے اس کے آبا و اجداد بھی کوئی معنی نہیں رکھتے۔

لہٰذا فرانس کا اسلام کے ساتھ مسئلہ انہونی نہیں اور یہ محض اس استاد کے قتل کے نتیجے میں نہیں ابھرا جس نے رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔ ایک استاد کی حیثیت سے اس سے یہی توقع تھی کہ وہ اسباق تیار کرتے وقت اپنے نو عمر طالب علموں کے اعتقادات کا خیال رکھتا لیکن اس نے بظاہر فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ چارلی ہپڈو کے اشتعال انگریز کارٹون پر بات کرے گا۔ سننے میں یہ آیا تھا کہ اس نے اپنے مسلمان طلبا سے کہا کہ اگر ]یہ عمل[ان کو ناگوار گزرتا ہو تو وہ کلاس چھورڑ سکتے ہیں۔ ایسا کرنے میں مساوات اور یکساں تعلیم کا شائبہ تک نظر آتا ہے؟

یہ مسئلہ فرانسیسی معاشرے کی جڑوں میں پیوست ہے اور احمق استعماری نوجوان ماکرون نے اس کا اظہار اس وقت کیا جب اس نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو للکارا اور یہ بات دہرائی کہ وہ گستاخانہ خاکوں کو پھر سے شائع کیے بغیر مسلمانوں کو نہیں چھوڑے گا۔وہ اس کےلیے پر عزم ہے کہ فرانس میں، اور ممکنہ طور پر کہیں بھی، مسلمانوں کو رسوا کرنے اور ان کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کا ماحول پیدا کررہا ہے۔ ایفل ٹاور کے قریب دو خواتین کو حجاب پہننے کی پاداش میں چھریوں سے گھونپنا اور مساجد کو جلانے کا اعلان فرانسیسی صدر کی نسل پرستی کے صر ف دو مظاہر ہیں۔

فرانسیسی حکام نے اس واقعے کو مسلمانوں کے خلاف عجیب وغریب سیکورٹی، سیاسی اور میڈیائی مہم چلاتے ہوئے اپنے فائدے کےلیے استعمال کیا۔ سول سوسائٹی گروہ کو نشانہ بنایا گیا، جس میں "Collective Against Islamophobia in France" بھی شامل ہے، جو اسلام فوبیا جرائم کو ڈیل کرتا ہے۔ یہ متاثرین کو قانونی معاونت بھی فراہم کرتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ عام لوگوں پر حملے کم و بیش ماکرون حکومت نے سینشن لگائے ہیںاور متاثرین کے دفاع کےلیے کوئی بھی نہیں ہے۔ فرانس کے مسلمان شہریوں پر دائیں بازو کے تشدد کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ مساجد، اسکول اور دکانیں "اسلامسٹ" دہشتگردی" کا مقابلہ کرنے جیسے فریب کے نام پر بند ہیں۔ ماکرون نے اس ماہ کے آغاز میں ـــ استاد کے قتل سے قبل ــــــ "فرانسیسی اسلام" کے قانون کے نفاذ کا اعلان کیا تھا جس کو اس نے "اسلامی علیٰحدگی پسندی" سے موسوم کیا جو انجمنوں اور شہریوں پر یہ شرائط عائد کرتی ہے کہ وہ اپنی سیکولر ازم کو یقیقی بنائے۔

سازشی نظریات پر یقین رکنے والے کہہ سکتے ہیں کہ استاد کا قتل ایک ڈراما تھا جس کو بند کمروں میں رچایا گیا تاکہ ماکرون کے اس نظریے کو ثابت کیا جا سکے کہ اسلام بحران کا شکار ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی سمجھ آسکتی ہے کہ کیا وجہ تھی کہ قتل کہ ذمہ دار شیشانی نوجوان کو موت کے گھاٹ اتارا گیا بجائے اس کے کہ اسے گرفتار کیا جاتا اور عوامی عدالت میں اس پر فرد جرم آید کی جاتی تاکہ سچائی سامنے آسکے۔ اس کے راستے سے ہٹائے جانے کے بعد اب ہمارے پاس سیکورٹی اداروں کے موقف کو حلق سے اتارنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

فرانس اور نیوزلینڈ کا واقعہ قابل موازنہ ہے، جو گذشتہ سال پیش آیا جب بریٹن ٹیرنٹ نامی ایک انتہا پسند نوجوان نے النور مسجد اور لین ووڈ اسلامک سنٹر میں نمازیوں کو نشانہ بنایا، جس میں سو سے زائد مسلمان جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ نیوزی لینڈ پولیس نے ،مجرم کو پکڑکر گرفتار کیا؛ اس کے خلاف مقدمہ چلایا اور اب وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ جبکہ فرانس میں فوری طور پر ختم کردیا گیا اور حقیقت اس کے ساتھ ہی ختم ہوگئی، جس نے سیاست دانوں کےلیے عوام کی ایک بڑے حصے کے خلاف اشتعال انگریز بیانات دینے کا بہترین ماحوال پیدا کیا۔ ماکرون بخوبی جانتا ہے کہ اس کی اندورونی اور خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو رہا ہے، اس لیےوہ اگلے انتخابات کےلیے انتہا کے دائیں بازو کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

ہم اسی طرح ماکرون کی حماقتوں سے معاشرے میں بڑھنے والی نفرت اور عدم روادرای کا موازنہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیکنڈا آرڈرن کا اپنے ملک کے بحران کو دنشمندی اور عقل مندی سے قابو میں لانے سے کرتے ہیں۔ اس نے اپنے شہریوں کی دیکھ بال اور ان کے عقیدے کے احترام کے بدلے میں پوری دنیا ، مسلمان اور غیر مسلم دنووں ، سے عزت و اکرام سمیٹ لیا۔

اسلام فوبیا کی جڑیں فرانسیسی معاشرے میں بہت گہری ہیں اور سایست دان لبرل ازم ، آزادی اظہار، نسانی حقوق، "ملکی اقدار "کے تحفظ اور سیکولر ازم کے نفاذ کے ساتھ سب سے بڑے واہمے: “Liberté, égalité, fraternité”.جیسے جعلی نعروں سے اس کی نگہداشت کررہے ہیں۔ یہ اس جہالت کی اصل ہے جو مسلمانوں اور دیگر پھسے ہوئے اقلیتوں کے خلاف نسل پرستی کے امتیازی برتاؤ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

    فرانس نے جن عرب اور افریقی ممالک کو کالونی بنایا وہاں وہ فی الوقاع ایک خوف ناک خونزیری کی تاریخ رکھتا ہے۔ یہاں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں؛ فرانسیسی اس کی تردید کرسکتے ہیں اور اپنی تاریخ کو روشن ثابت کرنے کی بھی کوشش کرسکتے ہیں ، لیکن بہت سے لوگ ابھی بھی زندہ ہیں جو  پہلے فرانس کی دہشت گردی کی گواہی دیں گے۔ glossy façade اور فریب دہ استدلال کے پیچھے اصل حقیقت یہ ہے کہ فرانس کبھی بھی مہذب ملک نہیں رہا، بلکہ عدم رواداری ، ناانصافی اور تاریکی کا خطہ رہا۔ فرانس کے Museum of Mankind ، الجزائریوں کی کھوپڑیوں سے مزین ہے جو فرانس نے قتل کئے تھے، کی بربریت اور جرائم کی انتہا پر شاہد ہے۔ اگر آج فرانس دہشت گردی کا رونا رو ہا ہے تو اس کی وجہ وہی ہے جو ایک بار میلکم ایکس نے امریکا کے بارے میں کہا تھا "the chickens are coming home to roost" (جیسا کروگے ویسا بھرو گے)

ترکی صدر رجب طیب اردگان نے فرانس کو اس کی شرمناک ماضی یاد کرائی۔ وہ مسلم دنیا میں واحد حکمران ہے جنھوں نے مسلمانوں کا دفاع کیا اور ماکرون کو ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے ایمان کی اہانت پر متنبہ کیا۔ اردگان نے یہ بھی کہا کہ ماکرون کا اسلام کی نئی صورت گری کرنے پر گفتگو اس کی جہالت کو ظاہر کرتی ہے اور اسے دماغی علاج کرنا چاہیے۔ اردگان کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس وقت لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کو ٹھنڈا کردیا جب ان کے اپنے حکمرانوں نے اسلام اور پیغمبرﷺ کے دفاع میں ناکام ہوکر اپنے عوام کو مایوس کردیا۔ ان کے رہنماوؤں نے اس بیوقوف کے بیانات کے جواب میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا جو ایک مذہبی جنگ چاہتا ہے۔ اسے احتیاط ہی کرنی چاہیے۔

فرانسیس مفکر مایکل اونفرے کہتا ہے کہ ہم ما بعد مسیحیت تہذیب کے دور میں جی رہے ہیں۔ لہذا، فرانس کا بحران جو ماکروں کا اصل بحران ہے، وہ یہی ہے کہ ماکرون اپنے سیکولر جمہوریہ کے مسیحی ورثہ کا احیا چاہتا ہے صرف اس لیے کہ اسلام کا مقابلہ کر سکے۔ یہ ستم ظریفی اس کی سمجھ میں نہیں آسکتی لیکن اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اسلام غالب آتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا، ان شاء اللہ۔ جب بھی اس کے خلاف قوتیں مضبوط ہوتی ہیں، اسلام مزید پھیلتا ہے۔ ایمانویل ماکرون جیسے احمق کو آخرکار پتہ چلے گا کہ وہ بس ہوا میں تیر مار رہا ہے۔


’’چمنستان ختم نبوت کے گلہائے رنگا رنگ‘‘

مولانا وقار احمد

گذشتہ دنوں غازی علم دین کے بارے میں مختلف کتب کو پڑھتے ہوئے مجاہد ختم نبوت مولانا اللہ وسایا صاحب کی بعض کتب بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ مولانا اللہ وسایا صاحب نے ختم نبوت اور رد قادیانیت کے حوالے سے بیسیوں کتب تحریر کی ہیں۔  ہماری معلومات کی حد تک عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماوں میں سے سب سے زیادہ اس موضوع پر انہوں نے ہی لکھا ہے۔  مولانا نے جہاں مسئلہ ختم نبوت کی علمی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے متعدد کتب لکھیں ، وہیں انہوں نے برصغیر کی تحریک ختم نبوت کی تاریخ کو محفوظ کرنے کا فریضہ بھی سر انجام دیا اور اس پر بھی کئی کتب لکھی ہیں۔ انہی میں سے ان کی ایک کتاب " چمنستان ختم نبوت کے گلہائے رنگا رنگ " بھی ہے۔

مولانا کی یہ کتاب 1672 صفحات اور 3 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔    اپریل 2016ء کو  عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے شائع کی ۔  اس کتاب میں مولانا نے  شخصیات کے حوالے سے لکھی گئی سابقہ تمام کتب کے مندرجات کو جمع کر دیا ہے۔ اسی طرح مولانا  نے احتساب قادیانیت کے نام سے جو مجموعہ تیار کیا ہے، اس میں شائع ہونے والی کتب ورسائل کے تعارف میں مصنفین کا بھی مختصر تعارف کروایا ہے، وہ بھی مکمل  اس کتاب میں نقل ہو گیا ہے۔  (بعض شخصیات پر مولانا کی مستقل کتب بھی موجود ہیں، جیسے حضرت خواجہ خان محمد صاحب، مولانا عبد المجید لدھیانوی صاحب ، اس کتاب میں وہ کتب نہیں بلکہ متفرق مضامین کو جمع کیا گیا ہے۔)

کتاب کے  اہم خصائص وامتیازات:

    1. کتاب میں برصغیر میں ختم نبوت اور رد قادیانیت کے حوالے سے کام کرنے والے تمام فوت شدہ  اہل علم ومجاہدین کا تذکرہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے،  گویا کہ یہ ایک انسائیکلوپیڈیا ہے۔  مولانا خود اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:  " یہ خیال رہے کہ جو حضرات اس دنیا سے رخصت ہو گئے ان کے حالات جمع کیے ہیں۔ جو حضرات زندہ سلامت باکرامت ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں دین و دنیا کی بہترین صحت و سلامتی کے ساتھ مزید زندہ رکھیں۔ ان کے حالات کو جمع کرنا آنے والی نسلوں کے ذمہ رکھ چھوڑا ہے۔"  ( جلد اول صفحہ 10 )

    2. کتاب کو الف بائی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے، جس کی بدولت تلاش آسان ہے۔

    3. کتاب میں کسی مسلک یا جماعت کی ترجمانی نہیں کی گئی، بلکہ مسلمانوں کے جتنے بھی گروہ ہیں، ان سب میں ختم نبوت ورد قادیانیت پر کام کرنے والے افراد کے حالات کو جمع  کیا گیا ہے۔ مولانا  لکھتے ہیں: " --- اس میں شیعہ ، سنی ، دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث کی تقسیم و تفریق ، سیاسی غیر سیاسی ، کانگریسی، مسلم لیگی کا امتیاز ، مسٹر ملا کے فرق کے بغیر جس نے ختم نبوت کے لیے جو خدمت سر انجام دی ان کے تھوڑے یا زیادہ حالات جمع ہو گئے ہیں۔"( جلد اول ، ص 10)

    4. قادیانی جماعت پر نقد کے حوالے سے اگر کسی قادیانی یا عیسائی نے بھی کچھ لکھا ہے تو مولانا نے اس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔  مولانا لکھتے ہیں: "  ہاں البتہ ایک وضاحت ضروری ہے کہ رد قادیانیت پر تحریری خدمات کے سلسلہ میں بعض قادیانیوں یا مسیحیوں کا تذکرہ بھی آپ کو ملے گاجو بظاہر کتاب کے نام سے میل نہیں رکھتا۔--- " (جلد اول ، ص 10  )

    5. کتاب کی جلد اول عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امراء ، نظماء اور مبلغین کے تذکرہ پر  مشتمل ہے، جبکہ جلد دوم اور جلد سوم دیگر اہل علم و مجاہدین کے تذکرہ پر  مشتمل ہیں۔

بعض تسامحات:

    1. کتاب میں حالات زندگی جمع کرنے میں کوئی خاص معیار طے نہیں کیا گیا، بلکہ جیسے اور جتنا مواد ملا دے دیا، جس کی وجہ سے بعض بزرگوں کے حالات پر تو باقاعدہ مقالے تیار ہو گئے، اور بعض دیگر معروف بزرگوں کے حالات میں صرف چند سطریں ہی لکھی جا سکیں ، اور ان میں بھی ان کا بنیادی تعارف  نہیں دیا گیاحالانکہ معمولی کاوش سے ان کا جامع تذکرہ کیا جا سکتا تھا۔

    2. حالات زندگی جمع کرنے میں تاریخ پیدائش و وفات ذکر کرنے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا گیا،  اور بعض  معروف بزرگوں کی تواریخ وفات بھی رہ گئی جس سے ان کے زمانے کا تعین کرنے میں قاری کو مشکل پیش آتی ہے۔  جیسے جلد سوم صفحہ 1548 پر مولانا پروفیسر نجم الدین مرحوم   جہلمی فاضل دیوبند کا تذکرہ ہے۔ مولانا  اورینٹیل کالج لاہور میں خدمات سرانجام دیتے رہے، 1952ء میں ان کی وفات ہوئی۔  اس کتاب میں  7  سطروں میں ان کا تذکرہ ہے جس میں ان کے سن پیدائش و وفات اور آبائی علاقہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔  

    3. کتاب کے شروع میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میں صرف مرحومین کا تذکرہ ہے، مگر کتاب میں بہت سے زندہ حضرات کا ذکر بھی آ گیا ہے۔ بعض تو بہت ہی معروف  اہل علم ہیں جن کی  حیات و موت کا معلوم ہونا نہایت سہل ہے، جیسے کہ جلد دوم ،  صفحہ 628 پر مولانا اسرار الحق شاہ، صفحہ 630 پر حکیم ڈاکٹر محمد اسحاق ، صفحہ 790 پر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ، صفحہ 943 پر رفیق باجوہ ،  صفحہ 1082 پر  پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری ،  جلد سوم صفحہ 1445 پر مجیب الرحمن شامی  ، جلد سوم ص 1524 پر پروفیسر منور احمد ملک کا تذکرہ ہے۔  یہ تمام اہل زندہ ہیں، اور معروف ہیں، ممکن ہے کہ کچھ اور بھی زندہ بزرگوں کا تذکرہ موجودہ ہو۔  

    4. کتاب کی ابتدا میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میں ختم نبوت کے حوالے سے کام کرنے والے اہل علم کا تذکرہ کیا جائے گا۔ آگے چل کر اس کا اہتمام نہیں کیا گیا،  اور بعض ایسے بزرگوں کا تذکرہ بھی آگیا جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں، جیسا کہ کتاب  کی جلد سوم کے صفحہ 1549 پر پیر سید نذر دین کا تذکرہ ہے۔  دو صفحوں پر مشتمل اس تذکرہ میں پیر مہر علی شاہ صاحب کی ایک روایت بیان ہوئی ہے، جس  میں ان کے والد محترم پیر سید نذر دین صاحب کی آوائل عمری کی کرامت کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ موضوع پر پیر سید نذر دین صاحب کا کیا کام ہے، یہ نہیں بتایا گیا۔ نیز اس طویل روایت کے علاوہ پیر صاحب کے تعارف میں بھی بالکل بنیادی امور کا بھی تذکرہ نہیں کیا گیا۔  ( یہ واقعہ اس سے پہلے مولانا نے "ایمان پرور یادیں " ، " تذکرہ مجاہدین ختم نبوت " میں بھی بیان کیا ہے۔)

    5. بعض مواقع پر ایسی تفصیلات بیان ہوئی ہیں  جن کی تاریخ و تذکرہ کی کتاب میں خاص اہمیت نہیں، جیسا کہ جلد سوم کے صفحہ 1609 سے صفحہ  1622 تک مولانا محمد یعقوب پٹیالوی کا تذکرہ ہے۔ اس میں  مولانا کی کتاب " تحقیق لاثانی" اور " عشرہ کاملہ" کا تعارف ہے۔  اس مقالہ میں مولانا محمد یعقوب پٹیالوی کے تعارف میں صرف دو جملے لکھے ہیں، باقی تمام تر تفصیلات ان کی دونوں کتابوں کے بارے میں ہیں۔ یوں لگتا ہے  کہ کتاب " عشرہ کاملہ" کا دیباچہ پورا مضمون میں دے دیا گیا ہے۔  اسی طرح کتاب پر مولانا خلیل احمد سہارنپوری و شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی تقریظات بھی نقل کر دی گئی ہے۔ یہ تمام چیزیں اپنی جگہ بہت اہم ہونے کے باوجود تاریخ و تذکرہ سے خاص مناسبت نہیں رکھتیں، بلکہ ان سے اہم مصنف کا تعارف تھا۔

    6. کتاب میں بعض تحریرات دوسرے اہل علم کی ہیں، مگر منسوب مولانا اللہ وسایا صاحب کی طرف ہو گئی ہیں۔ ( بسا اوقات بڑے لوگوں کے ہاں اس طرح کے اتفاقات ہو جایا کرتے  ہیں، جو کہ خود تحریر وہ صاحب تحریر کے لیے اعزاز ہوا کرتا ہے۔)

چند اغلاط

    1. کتاب میں بہت سی ایسی چیزیں بھی بیان ہوئی ہیں، جو کہ تاریخی حوالے سے درست نہیں ہیں، جیسا کہ  جلد اول کے صفحہ 41 پر مولانا محمد علی جالندھری کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

" جمعیت علمائے اسلام کے قیام میں آپ کی مخلصانہ کوششوں کا بہت بڑا دخل ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کا پہلا اجلاس جو مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں ہوا۔ اس میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے صدارتی خطبہ میں حضرت جالندھری رحمۃ اللہ علیہ کا نام لے کر فرمایا کہ میرے خیال میں صدر اجلاس حضرت جالندھری رحمۃ اللہ علیہ کو ہونا چاہیے تھا "

مولانا کی یہ عبارت ایک عام غلطی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کا پہلا اجلاس قاسم العلوم میں نہیں ہوا،  بلکہ یہ اجلاس 8 اکتوبر  1956ء کو  خان محمد بہرام بلڈنگ ، چوک فوارہ بالمقابل سول ہسپتال ملتان میں منعقد ہوا تھا۔  ( ماہ نامہ لولاک ،  نومبر 2016ء ص: 25 )  

اس عبارت میں مولانا نے صدارتی خطبہ کا حوالہ دیا ہے، جب کہ مولانا جالندھری کے حوالے سے مولانا احمد علی لاہوری نے خطبہ استقبالیہ میں اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا  تھا۔ مولانا احمد علی لاہوری ؒ  کے الفاظ بحوالہ " لولاک نومبر 2016ء " ملاحظہ ہوں:

" --- جب مجھے لاہور میں اس تجویز کی اطلاع دی گئی تو میں نے انکار کر دیا اور عرض کی کہ مجھ سے بہتر آدمی موجود ہیں۔ مثلا حضرت مولانا محمد علی صاحب جالندھری کا ذکر میں نے کیا کہ وہ علماء کرام کی مقدس جماعت کے بہترین صدر ہو سکتے ہیں۔"  (لولاک نومبر 2016ء ص 25 )  

اس اجلاس کی صدارت مولانا خدا بخش صاحب ملتانی کر رہے تھے۔  

    2. بعض مواقع پر محض سنی سنائی باتیں لکھی گئی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، جیسا کہ جلد سوم صفحہ 1327 سے 1329 تک غازی علم الدین کاتعارف ہے۔ اس  تعارف میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی 1927ء کو کی گئی تقریر کا  اقتباس نقل کیا اور پھر آگے چل کر لکھا :

" --- صبح ترکھان کا بیٹا غازی علم الدین رحمۃ اللہ علیہ اٹھا ، جا کر راجپال کا کام تمام کر دیا۔"

اس واقعہ  کے بیان میں تاریخی حوالے سے صریح غلطی کی گئی۔ جس جلسہ کا حوالہ دیا جاتا ہے، وہ 1927ء میں ہوا، اور اس کے بعد شاہ جی گرفتار ہوئے، جب کہ راجپال کے قتل کا واقعہ 1929ء کا ہے۔ 1929ء میں شاہ جی  اپنے آبائی شہر امرتسر اور ڈیرہ غازی خان میں مختلف تبلیغی واصلاحی دوروں پر رہے ہیں۔  (ملاحظہ ہو،  حیات امیر شریعت ، جانباز مرزا ، ص 100، 101)

مولانا اللہ وسایا صاحب نے   اپنی کتاب " ایمان پروریادیں " جون 1986ء میں شائع کی، اس کے ص 16 پر   یہ واقعہ نقل کیا ہے۔ اسی طرح " تذکرہ مجاہدین ختم نبوت"  اگست 1990ء میں شائع کی، اور  " ایمان پرور یادیں" کو اس کا حصہ بنایا  اور اب اپریل 2016ء میں "  چمنستان ختم نبوت کے گلہائے رنگا رنگ " شائع کی۔ سب جگہ یہی غلطی کی ۔ حالانکہ تھوڑی سی توجہ سے اس واضح غلطی کی اصلاح کی جا سکتی تھی۔    

علم الدین  والےواقعہ میں بہت سے تذکرہ نگاروں نے شاہ جی کی تقریر اور  علم الدین کے اقدام کو اس طرح بیان کیا ہے کہ گویا یہ تمام واقعہ شاہ جی کی  تقریر کا نتیجہ ہے۔ مولانا محمد علی  جالندھری   شاہ جی کے حوالے سے روایت کرتے ہیں:

" اور شاہ جی فرماتے تھے کہ علم الدین میرا  مرید تھا ۔ جب میں تقریر کر رہا تھا وہ اسٹیج  کے قریب زمین پر بیٹھا تھا۔ میرے الفاظ سن کر چلا گیا اور جا کر شاتم رسول  راجپال کو قتل کر دیا ۔ " ( خطبات جالندھری ،  مرتب مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی ،  ص 139، ناشر مدرسہ تعلیم القرآن صدیقیہ ، شجاع آباد ، طبع دوم ، رمضان المبارک 1433ھ)

مجلس احرار اسلام کے سرگرم کارکن اور گوجرانوالہ کے رہنما چودھری غلام نبی  مرحوم   اپنی کتاب " تحریک کشمیر سے تحریک ختم نبوت تک "  میں غازی علم الدین کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

" ---- شاہ جی فرمایا کرتے تھے کہ میری تقریر کے آخری جملے تھے کہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی دروازے پر کھڑا ہے اور پوری توجہ اور انہماک سے تقریر سن رہا ہے۔ شاہ جی کی تقریر کے آخری جملے ،  "اے لوگو! تمہاری ماں ، ہم سب کی ماں ---- اماں عائشہ صدیقہ کھڑی ہیں اور پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کوئی ہے اس گستاخ سے میرے آپ  کا دامن چھڑائے ۔ اے لوگو، یا تو راجپال نہ رہے یا سننے والے کان نہ رہیں۔" ادا ہوتے ہی وہ نوجوان جو دروازہ میں کھڑا تھا، غائب ہو گیا۔  دوسرے روز لاہور میں شور وغل تھا کہ راجپال قتل ہوگیا تھا اور غازی علم الدین کے نام سے مسلمانوں کی عظمت کا نشاں بن گیا ۔ شاہ جی کو اس مقدمے میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی کہ انہوں نے غازی علم الدین کو اشتعال دلایا تھا جس نے راجپال کو قتل کیا۔ " (47، 48)

چودھری صاحب  مذکورہ بالا روایت سید عطاء اللہ شاہ صاحب کی طرف منسوب کرتے ہیں۔  دوسری طرف مورخ احرار جانباز مرزا اس  جلسہ کی روداد بیان کرتے ہوئے تقریر کے اہم نکات روزنامہ زمیندار کے حوالے سے نقل کرتے ہیں اور پھر ان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

" یہ تقریر اس قدر مؤثر اور جذباتی تھی کہ تمام مجمع میں حشر بپا تھا۔ شاہ صاحب کی تحریک پر لوگوں کے جتھے باغ میں جلسہ گاہ جاتے اور گرفتار ہو جاتے۔ ان پر لاٹھی چارج بھی کیا جاتا، یہ سلسلہ تھوڑی دیر جاری رہا، بعد ازاں شاہ جی نے عوام کو اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی اپیل کی اور کہا!

'ہمارا مؤقف قتل و غارت  گری نہیں۔ بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ برطانوی حکومت تعزیرات ہند میں ایک ایسی دفعہ کا اضافہ کرے جس کی رو سے بانیان مذاہب کے خلاف تقریر و تحریر کی پابندی ہو اور اس کی خلاف ورزی کرنے والا مجرم قرار پائے۔'

اس قرار داد کے بعد جلسہ برخاست کر دیا گیا لیکن عوام کو پرامن طور پر احاطہ سے باہر نکالنے کے لیے شاہ جی خود دروازے پر کھڑے ہو گئے۔ ان کے سامنے مسٹر اوگلوی کھڑا تھا۔ شاہ جی اپنے مخصوص انداز میں لوگوں کو پرامن رہنے کی تلقین کر رہے تھے اور ساتھ ہی مسٹر اوگلوی سے پنجابی میں کہا: ' اوگلوی! اوکھے گھرنیوندرہ پایا ای' اوگلوی! تم نے مشکل گھرانے سے ٹکر لی ہے۔"  ( حیات امیر شریعت، جانباز مرزا، ص 102)

اب یہاں اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ علم الدین نے شاہ جی کی تقریر سن کر قتل کا فیصلہ کیا اور علم الدین  کو شاہ جی جانتے تھے،  تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم الدین کی گرفتاری کے بعد شاہ جی اور ان کی جماعت نے اس نوجوان کے لیے کیا اقدامات کیے؟ شاہ جی کا مزاج تو ان کے سوانح نگار یہ بیان کرتے ہیں کہ حیدر پہلوان کے مقدمہ میں جب  حیدر پہلوان کی غربت کی بنا پر اس کے کیس ہارنے کے امکانات پیدا ہوئے تو شاہ جی نے خود اس کے لیے چندہ کیا۔ اور سر میاں محمد شفیع کو کیس لڑنے کے لیے   آمادہ کیا۔ (ملاحظہ ہو، حیات امیر شریعت ، جانباز مرزا ،  ص 108)  جس جلسہ میں یہ تقریر ہو رہی تھی، اس  میں مفتی  اعظم ہند  مفتی کفایت اللہ دہلوی صدر جمعیت علماء ہند اور سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی  ناظم اعلیٰ جمعیت علماء ہند بھی شریک تھے، ہندوستان کی سب سے بڑی جمعیت  علماء کے ان ذمہ داروں نے اس کے کیس میں کیا کردار ادا کیا؟  

ان روایات میں اس قدر تضاد ہے کہ خودحضرت شاہ جی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت مشکوک ہو کر رہ گئی۔ حضرت شاہ جی سے عقیدت نہ رکھنے والا ایک غیر جانبدار قاری تو ان مختلف روایتوں کو سن کر کہے گا کہ شاہ جی رحمۃ اللہ علیہ خود واقعات گھڑتے تھے، جبکہ نقل کرنے والے بھی شاہ جی  کےقریبی لوگ ہوں، خصوصا حضرت مولانا محمد علی جالندھری شاگرد رشید محدث اعظم ہند حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ جیسے اہل علم کی روایت یوں نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔

غازی علم الدین کے واقعہ میں ہی  مولانا اللہ وسایا صاحب نے قاضی  احسان  احمد صاحب  شجاع آبادی کی ایک روایت نقل کی  ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:

" بعد میں حضرت قاضی احسان احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسی جیل میں گرفتار ہو کر گئے۔ آپ کو اسی کوٹھڑی میں بند  کیا گیا جس میں پہلے غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ وہ چکا تھا۔ جیل وارڈن نے کہا: "قاضی صاحب تم بہت خوش نصیب ہو، یہ بہت ہی برکت والی کوٹھڑی ہے۔"   قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے استفسار پر  اس نے بتایا کہ صاحب ! غازی علم  الدین رحمۃ اللہ علیہ  اس کوٹھڑی میں تھا تو ایک رات کوٹھڑی روشن ہوگئی ۔ بقعہ نور بن گئی۔ میں پہرے پر تھا۔ میں حیران وپریشان دوڑا ہوا آیا کہ کہیں ملزم اپنے آپ  کو آگ تو نہیں لگا رہا۔ مگر وہ تو بڑے اطمینان سے اس دنیا سے گم صم تشریف رکھتے تھے۔ میں حیران کھڑا رہا ، کافی دیر بعد جگایا، پوچھا تو میرے اصرار ، منت وسماجت پر غازی مرحوم نے کہا  کہ خواب میں رحمت عالم ﷺ میرے پاس تشریف لائے تھے۔ فرمایا علم دین ! ڈٹ جاؤ، میں حوض کوثر پر آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ " ( جلد سوم ، ص 1329)

یہ روایت حد درجہ مجہول ہے۔ قاضی صاحب سے کس وارڈن نے کہا، وہ اس کا  نام وغیرہ ذکر نہیں کرتے ۔  بعض اہل علم نے اس واقعہ کے ساتھ یہ تصریح بھی کی ہے کہ قاضی صاحب 1953ء کی تحریک ختم نبوت  میں جب گرفتار ہوئے تو اس زمانے میں  یہ واقعہ پیش آیا۔  غازی علم الدین میانوالی جیل میں تھا۔ قاضی صاحب میانوالی جیل میں  کس زمانے میں رہے ہیں؟  قاضی صاحب کے سوانح نگار  قاری محمد نور الحق قریشی ایڈوکیٹ   (داماد قاضی احسان احمد شجاع آبادی) کے مطابق قاضی صاحب  تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں چھ دفعہ قید ہوئے ہیں۔  قاری محمد نور الحق قریشی صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ 40  سے 80 تک ان کی تفصیلات دی ہیں۔ تیسری گرفتاری سن 1937ء میں وہ چھ ماہ کے لیے میانوالی جیل میں رہے۔ اس کے بعد قاضی صاحب میانوالی جیل میں نہیں رہے۔     اب سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ قاضی صاحب نے اس گرفتاری کے بعد کہاں بیان کیا ہے؟ اور کتنی دفعہ بیان کیا ہے؟   

بعض واقعہ نگاروں نے (شہیدان ناموس رسالت از  متین خالد صاحب   ْ، تحفظ ختم نبوت اہمیت اور فضیلت  از  محمد متین خالد صاحب ، ص  193)اس واقعہ کے ساتھ سن 1953کی وضاحت کی ہے۔ کیا  وہ وارڈن اتنا عرصہ وہیں تعینات رہا؟     دوسری طرف  یہ مسلم ہے کہ قاضی صاحب  نے  قید کا یہ زمانہ  سنٹرل جیل ملتان اور ڈسٹرکٹ جیل ملتان میں گزارا ہے۔  ( ملاحظہ ہو ،  سوانح حیات ، خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان  احمد شجاع آبادی ،  منصف محمد نور الحق قریشی،  ناشر مکتبہ احسان ، ملتان )  یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ قاضی  صاحب کے سوانح نگاروں میں سے کس کس نے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے؟   اور کس حوالہ سے کیا ہے؟   

بہرحال، بعض کمزوریوں کے باوجود یہ ایک انتہائی مفید کتاب ہے  جسے  حضرت مولانا نے  انتہائی  محنت وجانفشانی سے مرتب کیا ہے۔  اللہ کریم اس عظیم کاوش پر انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔