2020

جنوری ۲۰۲۰ء

بھارتی شہریت کا متنازعہ قانون اور دو قومی نظریے کی بحثمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۱)ڈاکٹر محی الدین غازی
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ: ایک تقابلی مطالعہ (۸)مولانا سمیع اللہ سعدی
امت مسلمہ کے مسائل اور عالمی قوتوں کی اصول پرستیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
کوالالمپور سمٹ میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کا افتتاحی خطابطاہر شاہین
قرآن جلانے کا حق؟ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۳)محمد عمار خان ناصر
ہدایہ کی بے اصل احادیث اور مناظرانہ افراط وتفریطمولانا محمد عبد اللہ شارق
الشریعہ اکادمی میں ختم خواجگان کا آغازمولانا حافظ عبد الغنی محمدی

بھارتی شہریت کا متنازعہ قانون اور دو قومی نظریے کی بحث

محمد عمار خان ناصر

بھارت میں شہریت کے متنازعہ قانون کے تناظر میں  ہمارے ہاں  یہ سوال ان دنوں دوبارہ اٹھا یا جا رہا ہے کہ آیا  دو قومی نظریے کی بنیاد پر  تقسیم ہند کا عمل درست تھا یا نہیں اور  یہ کہ کیا متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی پوزیشن آج کے مقابلے میں زیادہ مضبوط نہ ہوتی؟   یہ سوال وقتا فوقتا  موضوع بحث بنتا رہتا ہے  اور امر واقعہ یہ ہے کہ ایک بڑا حلقہ اس بحث کے دائرے سے ابھی تک باہر نہیں آ سکا کہ تقسیم ہند درست تھی یا غلط اور یہ کانگریس کا منفی رویہ تھا یا انگریز کی سازش۔ چنانچہ کچھ حضرات اب تاریخ کے اس دور کا تجزیہ اس نظر سے کر رہے ہیں کہ سب کچھ کا ذمہ دار بس جناح صاحب کی شخصیت اور ان کی غلطیوں یا ضد بازیوں کو قرار دیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ تقسیم نہ ہوتی تو یہ سارے مسائل بھی نہ ہوتے۔ گویا ان حضرات کے نزدیک تحریک پاکستان اصلا محمد علی جناح کی شخصیت کے بعض غیر معتدل پہلووں اور برطانوی حکومت کی ’’ڈیوائڈ اینڈ رول“ کی پالیسی کا نتیجہ تھی، ورنہ حقیقتا اس کا کوئی سیاسی جواز نہیں تھا۔

تقسیم کے مسئلے پر حتی الامکان معروضیت سے غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ  متحدہ ہندوستان کے حامیوں  کے موقف میں اس اعتبار سے وزن تھا کہ تقسیم کے سنگین مضمرات ونتائج کا یہ خطہ متحمل نہیں اور اکٹھے رہنا نہ صرف ممکن بلکہ بہتر ہے،  چنانچہ قوم پرست علماء نے معاصر تبدیلیوں کے اپنے فہم کی بنیاد پر علی ٰ وجہ البصیرت تقسیم ہند کے مطالبے سے اختلاف کیا اور باقاعدہ یہ مذہبی پوزیشن لی کہ اسلامی ریاست کا قیام ہر طرح کے حالات میں شریعت کا مطالبہ نہیں۔ اس کے بجائے مسلمانوں کے عمومی سیاسی وقومی مفادات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور ان کی روشنی میں، ان کے نقطہ نظر سے، یہی بہتر تھا کہ مسلمان متحدہ قومیت کا راستہ اختیار کریں۔

تاہم مسلم لیگ کے اس موقف کے وزن کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ کانگریسی لیڈروں کا رویہ مدبرانہ اور accommodative نہیں، بلکہ مسلم لیگی قیادت کو نیچا دکھانے کا تھا۔ خود کانگریس میں شریک علماء اس پالیسی کو بحیثیت مجموعی خطے کے مفاد میں سمجھتے ہوئے بھی کانگریسی قیادت کے رویے سے شاکی تھے، جیسا کہ گاندھی وغیرہ کے نام رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے (غیر مطبوعہ) خطوط سے واضح ہے۔ (یہ غیر معمولی تاریخی اہمیت کا حامل ذخیرہ فیصل آباد کے مولانا انیس الرحمن لدھیانوی نے مرتب کیا ہے، لیکن  غالبا ابھی تک زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہو سکا)۔ مولانا ابو الکلام آزاد ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ میں خود لکھتے ہیں کہ میں نے گاندھی کو بہت اصرار سے کہا تھاکہ فلاں فلاں سیاسی مواقع پر آپ نے جناح کو خواہ مخواہ اہمیت دے کر غلطی کی۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو مسلم لیگ اپنی موت آپ مر جاتی۔ اب اس سطح کے اکابر کے ہاں اس طرح کے رویے کے بعد یک طرفہ طور پر مسلم لیگ سے شکایت کرنا منصفانہ نہیں لگتا۔

سیاست میں یقیناًغلطیاں بھی ہوتی ہیں اور سیاسی ضرورتوں کے تحت مبالغہ اور بے اعتدالی بھی در آتی ہے جس کی بہت سی مثالیں مسلم لیگی سیاست میں یقیناًملیں گی، لیکن ہندو اکثریت کے غلبے سے مسلم اقلیت کو محسوس ہونے والے خطرات بالکل ہی بے بنیاد اور تخیل کی پیداوار نہیں تھے۔ ان کا وزن تسلیم کیا جانا چاہیے تھا، جیسا کہ کانگریس نے ’’میثاق لکھنو‘‘ کی صورت میں کیا بھی۔ اس کے باوجود مولانا مدنی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جیسے حضرات اپنے مضامین میں صاف صاف یہ فرماتے رہے کہ اقبال اور جناح اور ’’مسلم سیاست‘‘ کے دوسرے راہ نماؤں کے فکر والہام کا ماخذ حکومت برطانیہ ہے جو انھیں ڈیوائیڈ اینڈ رول کی پالیسی کے تحت استعمال کر رہی ہے۔

قائد اعظم کے ہاں اگر کئی حوالوں سے مبینہ طور پر ’’ضد‘‘ اور ’’انا‘‘ کا رویہ دکھائی دیتا ہے تو سیاسی موقف میں لچک کے بہت نمایاں شواہد بھی شروع سے آخر تک ملتے ہیں۔ ۱۹۲۷ء میں کانگریس کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں انھوں نے ’’تجاویز دہلی‘‘ پیش کیں جس میں اب تک کے اپنے بنیادی مطالبے یعنی جداگانہ انتخابات سے دست برداری اختیار کر لی۔ پھر نہرو رپورٹ سامنے آنے کے بعد ابتداء اً تین ترامیم پیش کر کے مفاہمت چاہی تو اس میں بھی جداگانہ انتخابات کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔ الگ وطن کا تصور اور مطالبہ سامنے آنے کے بعد سالہا سال تک جناح نے خود کو اس موقف سے بالکل الگ رکھا، حتی کہ ۱۹۴۰ء سے غالباً ایک آدھ سال قبل اقبال کے اس خیال کو ’’غیر عملی‘‘ تک قرار دیا، اور سب سے آخر میں کابینہ مشن پلان سے اتفاق کر کے تو لچک اور مفاہمت کی آخری انتہا تک چلے گئے۔ اس لیے ہماری رائے میں  تحریک پاکستان  جیسی قبولیت عامہ حاصل کرنے والی  سیاسی جدوجہد  کی تاریخی تفہیم کلیتا قائد اعظم کے شخصی مزاج  کے حوالے سے کرنا   ایک غیر حقیقی انداز فکر ہے۔ سیاسی تحریکوں کے تشکیلی عناصر میں تاریخی وسماجی سیاق، سیاسی گروہوں کی تنظیم سے پیدا ہونے والی کشمکش اور سیاسی قائدین کی شخصیت ومزاج، یہ تینوں پہلو شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے کون سا پہلو غلبہ حاصل کر لیتا ہے، یہ چیز البتہ مختلف تحریکوں میں مختلف ہو سکتی ہے، لیکن کسی بھی مقبول عام سیاسی جدوجہد کی توجیہ صرف لیڈر شپ کے شخصی اوصاف کے حوالے سے کرنے اور سیاسی عصبیتوں کی کشمکش نیز تاریخی صورت حال سے پیدا ہونے والے تقاضوں کو نظر انداز کر دینے کو کسی بھی طرح معروضی انداز نظر نہیں کہا جا سکتا۔

بھارتی شہریت کے متنازعہ قانون کے سیاق میں ہمارے ہاں بعض حضرات کی طرف سے یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا  کہ جب اکثریت کی رائے کی بنیاد پر پاکستان میں صدر کے عہدے کو مسلمانوں کے لیے مخصوص قرار دینے یا مثال کے طور پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور مختلف قانونی پابندیاں عائد کرنے کا جواز ہے تو بھارت میں شہریت کے حق کو مذہبی بنیاد پر طے کرنے پر کیسے اعتراض کیا جا سکتا ہے؟ اس سے ان دوستوں کا مقصد بھارت کی حالیہ قانون سازی کی تائید کرنا نہیں، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ جیسے وہ فیصلہ غلط ہے، اسی طرح ہمارے ہاں کیے گئے اس نوعیت کے فیصلے بھی درست نہیں۔

ہماری گزارش یہ ہے کہ یہ استدلال واقعاتی اور تاریخی سیاق سے ہٹا ہوا ہے۔ بنیادی نکتہ جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے، یہ ہے کہ آزادی کے بعد ان دونوں ریاستوں نے اپنی نظریاتی نوعیت متعین کرنی تھی، اور اپنی اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق وہ دونوں نے کی۔ انڈیا نے سیکولر جمہوریت کا انتخاب کیا اور پاکستان نے اسلامی جمہوریہ بننے کا فیصلہ کیا۔ جمہوری اصولوں کے مطابق دونوں ریاستیں اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہیں، لیکن جب تک اس اساسی فیصلے کو تبدیل نہیں کرتیں، دونوں اسی کے تحت قانون سازی کرنے کی پابند ہیں۔ اس لیے کسی بھی فیصلے پر سوال اس بنیادی تناظر سے ماورا ہو کر نہیں اٹھایا جا سکتا۔

ہمارے ہاں صدر کے مسلمان ہونے کی شرط اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ ’’اسلامی جمہوریہ“ کی اساس کے تحت کیا گیا ہے اور اس سے بنیادی طور پر ہم آہنگ ہے (گو بعض قانونی تفصیلات پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں)، جبکہ بھارت میں شہریت کے حق کو مذہب کی بنیاد پر محدود کرنے کا فیصلہ سیکولرزم کی اساس سے متصادم ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بے شمار مذاہب اور قومیتوں کے ملک کو ایک ’’قومی وطن“ بنانے کا سیاسی جواز ہی سیکولرزم کی بنیاد پر پیش کیا گیا تھا۔ اگر ہندوستان کی کچھ طاقتیں اس بنیاد کو ختم کرنا چاہتی ہیں تو وہ ساتھ ہی اس کے ایک وطن ہونے کا جواز بھی ختم کر دیں گی۔ اس کے بعد صرف طاقت اور زبردستی ہی ہوگی جس کا کوئی سیاسی یا اخلاقی جواز نہیں۔  اس لیے پاکستان میں کیے گئے قانونی فیصلوں اور بھارت کے حالیہ متنازعہ قانون کی نوعیت ایک جیسی نہیں، بلکہ بالکل مختلف ہے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ آئین کی جو اساسات طے کی گئی ہیں، ان کے خلاف قانون نہیں بنانا چاہیے اور اساسات کے مطابق جو قانون بنایا جائے، اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس اصول پر کسی بھی ملک میں جو قانون آئینی اساسات سے متصادم بنایا جائے، اس پر اعتراض کا حق معقول اور آئینی حق ہے۔

جہاں تک ہندوستانی سیاست میں   ہندو جارحیت کی  تازہ لہر کا تعلق ہے تو تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ’’ہندتوا “ فیکٹر ہندوستانی سیاست کا رخ پیچھے کی جانب موڑنے کے بجائے تنگ نظر ہندو ذہنیت کی گرفت کو مزید کمزور کرنے کا موجب بنے گا۔ ممکن ہے، اس اندازے میں خواہش اور جذبات  بھی کارفرما ہوں، لیکن تاریخ کا اب تک کا سفر عمومی طور پر اسی جانب دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ پچھلے دو ہزار سال سے برہمنیت کے چنگل سے نکلنے کی جدوجہد کر رہا ہے اور ہر قدم آگے کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بدھ مت، جین مت، سکھ مت کا ظہور اور خود ہندو مذہب کے اندر اصلاحی تحریکوں کی پیدائش اسی عمل کے مظاہر ہیں۔ داخلی حرکیات کے علاوہ مسلمانوں کی اور پھر استعمار کی آمد نے بھی اس کی رفتار کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

معاشرتی سطح پر انڈیا کی ماڈرنائزیشن اور معاشی سطح پر عالمی سرمایہ داری نظام میں integration بھی اسی سمت میں دباو بڑھانے والے عوامل ہیں۔ سیاسی سطح پر جمہوریت اور سیکولرزم، نظریے اور تصور کی سطح پر عوامی شعور کا ناگزیر حصہ بن چکے ہیں۔ حالیہ متنازعہ قانون سازی پر بھارتی معاشرے کا عمومی ردعمل اس کا واضح اظہار ہے۔ عالمی رائے عامہ بھی دوٹوک انداز میں اپنا موقف دے رہی ہے۔ اس سارے تناظر میں، مجھے یہ امکان بہت کمزور دکھائی دیتا ہے کہ کوئی طبقہ، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور ہو، محض دھونس اور غنڈہ گردی کے زور پر تاریخ کے سفر کو معکوس کر کے دوبارہ ’’برہمنیت “ کے دور کی طرف لے جانے میں کامیاب ہو سکے گا۔ دوبارہ عرض ہے کہ ہو سکتا ہے، اس تجزیے میں خواہشات بھی اثرانداز ہو رہی ہوں، لیکن تاریخی شواہد بظاہر اسی کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’ہندتوا “ قوتوں کے جارحانہ ظہور میں شاید کوئی نیا جنم رونما نہیں ہوا، بلکہ یہ تاریخی برہمنیت کی ’’حرکت مذبوحی“ کا نظارہ ہے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

 (185)    استجاب کا ترجمہ

قرآن مجید میں استجاب کا لفظ مختلف صیغوں کے ساتھ آیا ہے، جہاں یہ بندوں کے لیے آیا ہے، وہاں اس لفظ سے مراد ہوتی ہے پکار پر لبیک کہنا، اور جہاں یہ اللہ کے لیے آیا ہے، وہاں مراد ہوتی ہے دعا قبول کرنا، مراد بر لانا اور داد رسی کرنا۔ جھوٹے معبودوں کے سلسلے یہ لفظ یہ بتانے کے لیے آتا ہے کہ یہ معبودان باطل پکارنے والوں کی کچھ بھی داد رسی نہیں کرسکتے۔

پہلے مفہوم کی وضاحت علامہ ابن عاشور اس طرح کرتے ہیں:

والاستجابۃ: مبالغۃ فی الاجابۃ، وخصت الاستجابۃ فی الاستعمال بامتثال الدعوۃ او الامر۔ (التحریر والتنویر: 25/ 90)

دوسرے معنی کی وضاحت علامہ ابن عاشور اس طرح کرتے ہیں:

والاستجابۃ: الاجابۃ، والسین والتاءفیہ للتاکید وھی مستعملۃ فی المعاونۃ والمظاھرۃ علی الامر المستعان فیہ۔ (التحریر والتنویر: 12/21)

والاستجابۃ تطلق علی اعطاءالمسؤول لمن سالہ وھو اشہر اطلاقہا۔ (التحریر والتنویر:24/182)

استجاب کا استعمال جواب دینے کے لیے نہیں آتا ہے، بطور خاص قرآن مجید میں تو یہ کہیں بھی استفسار کے سیاق میں نہیں آیا ہے، جہاں بھی آیا ہے طلب کے سیاق میں آیا ہے، طلب اگر اوپر سے آئے تو منشا یہ ہوتی ہے کہ اس کی تعمیل کی جائے اور اس پر لبیک کہا جائے۔ اور اگر طلب کسی حاجت مند کی طرف سے ہو، تو وہ طلب داد رسی اور قبولیت کا انتظار کرتی ہے، نہ کہ محض جواب کا۔

ہم نیچے قرآن مجید کے کچھ ایسے مقامات ذکر کریں گے، جہاں مختلف صیغوں سے استجاب آیا ہے، اکثر مترجمین نے تو قبول کرنے کا ترجمہ کیا ہے، لیکن بعض مترجمین نے بعض مقامات پر جواب دینا ترجمہ کردیا ہے، جو مناسب نہیں ہے۔

(1) اِنَّ الَّذِینَ تَدعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ عِبَاد امثَالُکُم فَادعُوہُم فَلیَستَجِیبُوا لَکُم ان کُنتُم صَادِقِینَ۔ (الاعراف: 194)

”تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو ان سے دعائیں مانگ دیکھو، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں “۔(سید مودودی)

”وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو “۔(احمد رضا خان)

”اگر سچے ہو تو چاہیے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پھر ان کو چاہیے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو “۔(محمد جوناگڑھی)

(2) فَاستَجَابَ لَہُم رَبُّہُم انِّی لَا اضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنکُم من ذکر او انثی (آل عمران: 195)

”جواب میں ان کے رب نے فرمایا، ”میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت“۔(سید مودودی)

”تو ان کے پرردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا“۔ (فتح محمد جالندھری)

(3)  اذ تَستَغِیثُونَ رَبَّکُم فَاستَجَابَ لَکُم انِّی مُمِدُّکُم بِالفٍ مِنَ المَلَائِکَۃِ مُردِفِینَ (الانفال: 9)

”اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں“۔ (سید مودودی)

”اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(4) فَاستَجَابَ لَہُ رَبُّہُ فَصَرَفَ عَنہُ کَیدَہُنَ (یوسف: 34)

”اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں“۔ (سید مودودی)

(5) اِن تَدعُوہُم لَا یَسمَعُوا دُعَائَکُم وَلَو سَمِعُوا مَا استَجَابُوا لَکُم (فاطر: 14)

”انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے“۔ (سید مودودی)

”تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں، اور بالفرض سن بھی لیں تو تمہاری حاجت روانہ کرسکیں “۔(احمد رضا خان)

”تم انہیں پکارو گے تو تمہاری آواز کو نہ سوُ سکیں گے اور صَن لیں گے تو تمہیں جواب نہ دے سکیں گے“۔(جوادی)

(6) وَنُوحًا اِذ نَادَی مِن قَبلُ فَاستَجَبنَا لَہُ (الانبیاء: 76)

”اور یہی نعمت ہم نے نوحؑ کو دی یاد کرو جبکہ اِن سب سے پہلے اُس نے ہمیں پکارا تھا ہم نے اس کی دعا قبول کی“۔(سید مودودی)

(7) فَاستَجَبنَا لَہُ فَکَشَفنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ (الانبیاء: 84)

”ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور جو تکلیف اُسے تھی اس کو دُور کر دیا“۔ (سید مودودی)

(8) فَاستَجَبنَا لَہُ وَوَہَبنَا لَہُ یَحیی (الانبیاء: 90)

”پس ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا“۔ (سید مودودی)

(9) وَیَومَ یَقُولُ نَادُوا شُرَکَائِیَ الَّذِینَ زَعَمتُم فَدَعَوہُم فَلَم یَستَجِیبُوا لَہُم (الکہف: 52)

”اس روز جب کہ ان کا رب ان سے کہے گا کہ پکارو اب ان ہستیوں کو جنہیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے، یہ ان کو پکاریں گے، مگر وہ ان کی مدد کو نہیں آئیں گے“۔ (سید مودودی)

”تو وہ ان کو بلائیں گے لیکن وہ ان کو کوئی جواب نہیں دیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(10) وَالَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِہِ لَا یَستَجِیبُونَ لَہُم بِشَیئٍ (الرعد: 14)

” رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں“۔ (سید مودودی)

”جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”رہے وہ جن کو یہ اس کے سوا پکارتے ہیں تو وہ ان کی کوئی بھی داد رسی نہیں کرسکتے“۔ (امین احسن اصلاحی)

” اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(11) وَقِیلَ ادعُوا شُرَکَائَکُم فَدَعَوہُم فَلَم یَستَجِیبُوا لَہُم (القصص: 64)

”تو وہ ان کو پکاریں گے لیکن وہ ان کو جواب نہ دیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ۔ تو وہ اُن کو پکاریں گے اور وہ اُن کو جواب نہ دے سکیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پھر اِن سے کہا جائے گا کہ پکارو اب اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ اِن کو کوئی جواب نہ دیں گے“۔ (سید مودودی)

”کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ، وہ بلائیں گے لیکن انہیں وہ جواب تک نہ دیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو کہا جائے گا کہ اچھا اپنے شرکاءکو پکارو تو وہ پکاریں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے“۔ (ذیشان جوادی)

”اور ان سے کہا جائے گا کہ اب اپنے شریکوں کو بلاؤ۔ تو وہ ان کو پکاریں گے لیکن وہ ان کو جواب نہ دیں گے“۔(امین احسن اصلاحی)

”اور ان سے فرمایا جائے گا اپنے شریکوں کو پکارو تو وہ پکاریں گے تو وہ ان کی نہ سنیں گے “۔(احمد رضا خان)

مذکورہ بالا اس آیت میں اکثر لوگوں نے جواب دینے کا ترجمہ کیا ہے، حالانکہ سیاق کلام میں جواب دینے کا کوئی محل ہی نہیں ہے، شریکوں سے جواب مانگنے کی بات نہیں ہے بلکہ بات یہ کہی جارہی ہے کہ انہیں مدد کے لیے پکارو گے تو وہ تمہاری مدد نہیں کرسکیں گے۔

(186) یفقھون کا ترجمہ

فقہ یفقہ کا مطلب سمجھنا ہوتا ہے، عام طور سے یہی ترجمہ کیا گیا ہے، لیکن بعض مقامات پر بعضے مترجمین نے سوچنا یا جاننا کردیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

(1) لَہُم قُلُوب لَا یَفقَہُونَ بِہَا (االاعراف: 179)

”ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں“۔ (سید مودودی)

”ان کے دل و دماغ ہیں مگر سوچتے نہیں ہیں“۔ (محمد حسین نجفی)

”ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(2) وَلَکِنَّ المُنَافِقِینَ لَا یَفقَہُونَ (المنافقون: 7)

”لیکن یہ منافقین نہیں جانتے “۔(امین احسن اصلاحی)

”مگر یہ منافق سمجھتے نہیں ہیں “۔(سید مودودی)

(3) قَد فَصَّلنَا الآیَاتِ لِقَومٍ یَفقَہُونَ (الانعام: 98)

”یہ نشانیاں ہم نے واضح کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں “۔(سید مودودی)

(4) وَطُبِعَ عَلَی قُلُوبِہِم فَہُم لَا یَفقَہُونَ (التوبۃ: 87)

”اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا گیا، اس لیے ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا“۔ (سید مودودی)

(5) بِانَّہُم قَوم لَا یَفقَہُونَ (الانفال: 65)

”کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے“۔ (سید مودودی)

(6) بِانَّہُم قَوم لَا یَفقَہُونَ (التوبۃ: 127)

”کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں“۔ (سید مودودی)

(7) بِانَّہُم قَوم لَا یَفقَہُونَ (الحشر: 13)

”اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے“۔ (سید مودودی)

(187) جیب کا ترجمہ جیب نہیں

درج ذیل آیتوں کے ترجمے دیکھیں:

(1) وَنَزَعَ یَدَہُ فَاِذَا ھِیَ بَیضَاءُ لِلنَّاظِرِین (الاعراف: 108)

”اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا “۔(سید مودودی)

(2)  وَنَزَعَ یَدَہُ فَاذَا ھِیَ بَیضَاءُ لِلنَّاظِرِینَ (الشعراء: 33)

”پھر اُس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا“۔ (سید مودودی)

(3) وَادخِل یَدَکَ فِی جَیبِکَ (النمل: 12)

”اور ذرا اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں تو ڈالو“۔ (سید مودودی)

(4) اسلُک یَدَکَ فِی جَیبِک (القصص: 32)

”اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال “۔(سید مودودی)

 پہلی آیت میں جیب کا ذکر ہے، حالانکہ وہاں کوئی لفظ نہیں ہے جس کا ترجمہ جیب کیا جائے۔ بالکل اسی طرح کی دوسرے نمبر والی آیت میں قوسین میں جیب کی بجائے بغل ہے۔ تیسرے اور چوتھے جملوں میں جیب کا لفظ آیا ہے، تاہم اس کا ترجمہ گریبان کیا ہے۔ جیب کا ترجمہ گریبان اور بغل تو درست ہے، تاہم جیب کا ترجمہ جیب درست نہیں ہے۔ اور لفظی لحاظ سے تو وہاں صرف ہاتھ نکالنے کا ذکر ہے، کسی چیز کا ذکر ہی نہیں ہے کہ ترجمے میں اسے ذکر کیا جائے۔

اس طرح پہلی آیت کا درست ترجمہ حسب ذیل ہے:

”اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو اسی دم دیکھنے والوں کی نگاہوں میں سفید براق (تھا)“ ۔(فتح محمد جالندھری)

(جاری)

اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ: ایک تقابلی مطالعہ (۸)

مولانا سمیع اللہ سعدی

اہل تشیع کا علم الدرایہ اور اہلسنت کا فن مصطلح الحدیث

 ان تمام سوالات و ملاحظات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اہل تشیع کے متاخرین نے اہلسنت کے  طرز پر مصطلح الحدیث کا جو فن ایجاد کیا ،جو شیعی حلقوں میں علم الدرایۃ کے نام سے موسوم ہے ،وہ  متعدد وجوہ سے  اہلسنت کے علم مصطلح الحدیث سے فروتر اور تساہل پر مبنی  ہے ،اللہ تعالی  اس سلسلے کو مکمل کرنے کی توفیق دے ،اس سلسلے کی ایک بحث میں ہم اہلسنت کے علوم مصطلح الحدیث اور شیعہ متاخرین کے علم درایۃ کا تقابلی جائزہ پیش کریں گے ، جب تساہل پر مبنی علم الدرایہ کی رو سے الکافی کے دو ثلث ضعیف ہیں ،اگر اہلسنت کے کڑے معیارات پر الکافی کو پرکھا جائے ،تو الکافی میں صحیح احادیث کی تعداد  چند سو رہ جائے گی ۔

بطور ِنمونہ صرف ایک معیار کا فرق بتانا چاہوں گا تاکہ اندازہ ہوجائے کہ اہلسنت  کے علوم مصطلح الحدیث کا معیار کتنا سخت اور اہل تشیع متاخرین کے علم الدرایۃ کا معیار کتنا تساہل پر مبنی ہے ۔(دیگر امور میں تقابل ایک مستقل بحث میں ان شا اللہ ذکرکریں گے)

اہل سنت کے نزدیک  صحیح حدیث کونسی کہلائے گی ؟اس سلسلے میں حافظ ابن حجر شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں:

"وخبر الاحاد بنقل عدل ،تام الضبط ،متصل السند ،غیر معلل و لاشاذ ھو الصحیح لذاتہ"1

یعنی روایت کے صحیح بننے کے لئے پانچ شرائط ہیں:

1۔تمام راوی عادل ہوں ۔

2۔ضبط میں تام ہوں ۔

3۔سند اول تا  آخر متصل ہو ۔

4۔معلل نہ ہو ۔

5۔شاذ نہ ہو ۔

جبکہ اس کے برخلاف اگر ہم شیعہ علم الدرایہ میں صحیح کا معیار دیکھیں ،تو ہمیں اہلسنت کے معیار سے  تساہل پر مبنی نظر آئے گا ،چنانچہ معروف شیعہ محدث زین الدین عاملی المعروف بالشہید الثانی اپنی کتاب "البدایہ فی علم الدرایۃ " میں صحیح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"الصحیح وھو ما اتصل سندہ الی المعصوم  بنقل العدل الامامی عن مثلہ ،فی جمیع الطبقات  وان اعتراہ شذوذ ،"2

یعنی صحیح حدیث وہ ہے ،جس کی سند متصل ہو اور تمام رواۃ عادل اور امامی شیعہ ہو،خواہ اس حدیث میں شذوذ ہوں ، یوں اہل تشیع کے معیار کے مطابق  صحیح حدیث وہ ہوگی ،جس میں یہ تین  شرائط ہوں: ( اہلسنت کے ہاں صحت حدیث کے  لئے پانچ شرائط ضروری  ہیں کما مر)

1۔ تمام رواۃ عادل ہوں ۔

2۔تمام رواۃ امامی شیعہ ہوں ۔

3۔اس حدیث کی سند متصل ہو ۔

 حدیث کے صحیح ہونے کے لئے  اس کا شذوز اور علت سے سالم ہونا اہل  تشیع کے نزدیک ضروری نہیں ،چنانچہ  شہید ثانی اپنی اسی کتاب کی شرح میں لکھتے ہیں:

ونبہ بقولہ "و ان اعتراہ شذوذ" علی خلاف ما  اصطلح علیہ العامہ  من تعریفہ  ،حیث اعتبرو سلامتہ من الشذوذ۔۔۔و ارادو بالعلۃ  ما فیہ من اسباب خفیۃ قادحۃ یستخرجھا   الماہر فی الفن ،و اصحابنا لم یعتبروا فی حد  الصحیح ذلک"3

اور ماتن  نے و ان اعتراہ شذوذ کے قول سے عامہ (اہلسنت ) سے اختلاف کیا ،جن کے نزدیک  صحیح کی تعریف میں سلامت  عن الشذوذ ضروری ہے ،نیز اہل سنت کے نزدیک علت  فی الحدیث سے مراد   وہ خفی خرابی ہے ،جس پر ماہر فن ہی مطلع ہوسکتا ہے ،ہمارے اصحاب(شیعی محدثین ) نے صحیح کی تعریف میں علت سے حفاظت کی شرط نہیں لگائی ہے۔

اس کے علاوہ الشہید الثانی کی عبارت میں ضبط کا بھی ذکر نہیں ہے ،جبکہ ضبط یعنی حدیث کو یاد رکھنے کے لئے حافظہ یا اس کی کامل کتابت  ایک ضروری شرط ہے ،اس لئے بعض شیعہ علماء کو یہ بات کھٹکی اور انہوں نے لکھا کہ  عدالت کی شرط میں ضبط کا ذکر بھی ضمنا آگیا ،چنانچہ علامہ مامقانی لکھتے ہیں:

"وانت خبیر بان قید العدل یغنی عن ذلک لان المغفل المستحق للترک لا یعدلہ احد"4

آپ کو پتا ہے کہ عدل کی قید ضبط سے مستغنی کر دیتی ہے ،کیونکہ ایسا غافل آدمی ،جو ترک کا مستحق ہو ،اس کی تعدیل کوئی بھی نہیں کرتا ۔

ہم اس پر مزید تبصرہ نہیں کرتے ،کیونکہ اس سلسلہ مضامین میں ہم نے کوشش کی ہے کہ وہی بات ذکر کریں ،جو خود اہل تشیع علماء نے لکھی اور کہی ہے ،ورنہ یہ بات  بدیہی ہے کہ عدالت  ایک اختیاری وصف ہے ،جو انسان کی دینداری کو ظاہر کرتی ہے ،جبکہ ضبط  دینداری سے الگ ایک وصف ہے ،جو پڑھی ہوئی چیز کو یاد رکھنے اور اس کو محفوظ رکھنے  کے اہتمام کو ظاہر کرتا ہے ،اسی وجہ سے  شیخ جعفر سبحانی نے ضبط کو  عدالت  کے مفہوم میں داخل  کرنے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے:

"المقصود من السلامۃ من غلبۃ السہو و الغفلۃ الموجبۃ لوقوع الخلل علی سبیل الخطا کما حقق فی الاصول  ،وحینئذ فلا بد  من ذکرہ"5

ضبط سے مقصود غلبہ سہو اور ایسی غفلت سے سلامتی ہے ،جو روایت میں خطا کیو جہ سے خلل کے وقوع کا سبب ہو ،جیسا کہ اصول میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے ،اس لئے ضبط کا ذکر تعریف میں ضروری ہے ۔

ضبط سے متعلق ہم اہل تشیع کی تاویل قبول بھی کر لیں کہ وہ عدالت کے مفہوم میں داخل ہے ،تب  بھی  اہل سنت و اہل تشیع کے ہاں  صحیح کے معیار میں فرق یہ ہے کہ اہل سنت  نے معیار سخت کرتے ہوئے پانچ شرائط کا ذکر کیا ہے ،جبکہ اہل تشیع نے تساہل سے کام لیتے ہوئے  صحیح کے لئے صرف تین شرائط کو کافی قرار دیا ہے ۔اس  لئے اگر ہم اہل سنت کے معیار  پر الکافی کو پرکھیں گے ،تو   الکافی میں  صحیح احادیث کی تعداد  اس سے کہیں کم رہ جائے گی ،جو صحیح روایات  اب اہل تشیع نے الگ کی ہیں ۔

8۔موضوع  احادیث  کی  چھان بین و تنقیح

 اہلسنت اور اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کے بنیادی فروق میں سے ایک اہم ترین فرق فریقین کے حدیثی تراث میں موضوع  روایات کی چھان بین  و تنقیح کا فرق ہے ،علمائے اہل سنت نے حدیث کی تدوین کے ساتھ ہی حدیثی ذخیرے   میں مختلف طرق و اسباب  سے وارد شدہ موضوع احادیث  کی چھان بین کا کام شروع کیا ، علمائے اہل سنت نے   دو طرح سے  اس موضوع پر کام کیا:

1۔ پہلا کام حدیث ِموضوع پر اصولی مباحث  کی صورت میں کام کیا ،وضع حدیث کا معنی و مفہوم ،وضع ِحدیث کی اقسام ،وضع ِحدیث کے اسباب ،متھم بالکذب اور وضع حدیث کے عادی رواۃ کا تعین وغیرہ جیسے امور پر تفصیلی مباحث کتب رجال اور کتب مصطلح الحدیث میں ملتے ہیں ۔

2۔وضع ِحدیث پر علمی کام کے ساتھ  عملی طور پر موضوع احادیث کو حدیثی ذخیرے سے الگ کرنے کاکام بھی کیا اور الموضوعات کے نام سے بکثرت کتب لکھی گئیں ،جن میں حدیثی تراث میں موجود موضوع اور جھوٹی روایات کو الگ جمع کیا گیا ہے ،تاکہ ان کی طرف مراجعت کر کے  موضوع حدیث کی پہچان  ہوسکے ۔چنانچہ اس سلسلے کی اہم کتب یہ ہیں:

1۔کتاب الموضوعات محمد بن عمرو العقلی ، م ۳۲۲ھ

2۔تذکرۃ الموضوعات محمد بن طاہر مقدسی م ۵۰۷ھ

3۔ الاباطیل والمناکیر حسین بن ابرہیم الجوزقانی ، م ۵۴۳ھ

4۔ کتاب الموضوعات عبدالرحمن بن الجوزی ، م ۵۹۷ھ

5۔ المغنی عن الحفظ والکتاب عمر بن بد موصلی ، م ۶۲۳ھ

6۔الدر الملتقط فی تبیین الغلط حسن بن محمد صاعانی ، م ۶۵۰ھ

7۔اللألی المنشورۃ فی الاحادیث المشہورۃ حافظ ابن حجر عسقلانی ، م ۸۵۲ھ

8۔الکشف الخبیث عمن رمی بوضع الحدیث حافظ ابراہیم الحلبی ، م ۸۴۱ھ

9۔المقاصد الحسنۃ عبدالرحمن سخاوی ، م ۹۰۲ھ

10۔اللألی المضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ جلال الدین السیوطی ، م ۹۱۱ھ

11۔الذیل علی الموضوعات جلال الدین السیوطی

12۔ تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص جلال الدین السیوطی

13۔الغماز علی اللماز نور الدین ابو الحسن سمہودی ، م ۹۱۱ھ

14۔الدرۃ اللامعۃ فی بیان کثیر من الاحادیث الشائۃ  شہاب الدین احمد، م ۹۳۱ھ

15۔تنزیہ الشریعۃ عن الاحادیث الموضوعۃ ابوا لحسن علی بن محمد عراق ، م ۹۶۳ھ

16۔تذکرۃ الموضوعات محمد طاہر بن علی پٹنی ، م ۹۸۶ھ

17۔قانون الموضوعات محد طاہر بن علی پٹنی

18۔موضوعات کبیر علی بن سلطان القاری ، م ۱۰۱۴ھ

19۔ المصنوع فی احادیث الموضوع علی بن سلطان ……………

20۔الفوائد الموضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ مرعی بن یوسف الکرمی ، م ۱۰۳۳ھ

21۔کشف الالتباس فیما خفی علی کثیر من الناس غرس الدین خلیلی ، م ۱۰۵۷ھ

22۔ الاتقان ما یحسن من الاحادیث الدائۃ علی اللسن نجم الدین محمد بن الغزی ، م ۱۰۶۱ھ

23۔ کشف الخفا و مزیل الالباس اسماعیل بن محمد عجلونی ، م ۱۱۶۲ھ

24۔کشف الالہی عن شدید الضعف والموضوع الواہی محمد حسینی سندروسی ، م ۱۱۷۷ھ

25۔ الفوائد المجموعۃ فی ا لاحادیث الموضوعۃ محمد بن علی شوکانی ، م ۱۲۵۰ھ

26۔ الاثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ عبدالحئ لکھنوی ، م ۱۳۰۴ھ

اس فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ چوتھی صدی سے لیکر عصر حاضر تک بلا تعطل اہل سنت میں موضوع احادیث و روایات کی تنقیح کا کام جاری رہا  ،ان  کتب کی بدولت اہل سنت کا حدیثی تراث موضوع احادیث سے بلا شبہ  کافی حد تک پاک ہے ،نیز عہد بہ عہد گھڑی جانے والی روایات اور ان کے رواۃ کا بھی ایک واضح تعارف ان کتب سے ملتا ہے ،یوں اہل سنت کے حدیثی تراث میں موضوع روایت کا تعین  با آسانی ہوسکتا ہے ۔

اس کے برخلاف جب شیعی تراث ِحدیث کو دیکھا جاتا ہے تو وہاں اس قسم کی کوئی سر گرمی نظر نہیں آتی ، اس کا اقرار اہل تشیع محققین نے بھی کیا ہے ،چنانچہ معروف شیعہ محقق ہاشم  معروف بحرانی  اپنی کتاب "الموضوعات  فی الاثار و الاخبار" میں لکھتے ہیں:

"والذی لا یجوز لہ التنکیر لہ ان محدثی السنۃ من اوساط القرن الخامس کانو اکثر وعیا و ادراکا للاخطار التی احاطت بالحدیث الشریف من محدثی الشیعۃ فالفوا با لاضافۃ لی کتب الروایہ و احوال الرجال عشرات الکتب خلال القرنین  من الزمن حول الموضوعات و بعضہا یجعل ھذا الاسم بالذات"6

ترجمہ:اس بات کا انکار ممکن نہیں کہ پانچویں صدی ہجری  کے وسط سے ہی  محدثین اہل سنت بنسبت اہل تشیع محدثین کے ،حدیث شریف کو لاحق خطرات سے زیادہ آگاہ  اور باخبر تھے ،چنانچہ اہل سنت محدثین نے رجال و حدیث کی کتب کے ساتھ ساتھ دو صدیوں تک  بیسیوں کتب موضوعات سے متعلق لکھیں،اور بعض کتب موضوعات ہی  کے  نام سے  موسوم کر دی گئیں ۔

  آگے شیخ ہاشم بحرانی موضوعات سے متعلق اہل تشیع  محدثین  پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اما الشیعہ فقد تجاہلوا ھذا الموضوع و کانہ لا یعنیہم من امرہ شیئ فی حین ان الموضوعات بین مرویاتہم لا تقل عددھا و اخطارھا عن الموضوعات السنیہ۔۔۔۔لکنھم  لم یحاولوا  خلال ھذا لقرون الطوال  ان یضعوا ولو کتابا واحدا یشتمل ولو علی نماذج من الموضوعات فی مختلف المواضیع"7

ترجمہ:بہرحال شیعہ اس موضوع سے بے خبر رہے ،ایسا لگتا ہے کہ ان کے نزدیک اس موضوع کی کوئی اہمیت نہیں تھی ،حالانکہ شیعہ مرویات میں موضوع احادیث اور ان مرویات  کے متنوع نقصانات سنی موضوع روایات سے ہر گز کم درجہ کی نہیں ہیں ۔۔۔لیکن شیعہ محدثین نے ان  صدیوں میں  بطورِ نمونہ بھی ایک ایسی کتاب نہیں لکھی ،جو مختلف موضوعات سے متعلق موضوع روایات پر مشتمل ہو ۔

چونکہ موضوع روایات کی تنقیح اور ذخیرہ حدیث سے اس کی علیحدگی تراث ِحدیث کو تشکیک و وضع سے بچانے کے لئے اہم ترین عامل ہے ،اس لئے   بعض معاصر شیعہ محققین   نے  شیعی تراث میں موضوعات سے متعلق کتب نہ ہونے کی کچھ توجیہات کی ہیں ،ہم بغرض افادہ ان توجیہات پر بھی ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں ۔

معاصر شیعہ محقق شیخ حیدر حب اللہ  نے شیعی تراث کی اس خامی پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:

لكن الملاحظ ھنا أنّ الإماميۃ لم يتركوا كتاباً في الأحاديث الموضوعۃ، ولعلّ أول كتاب ـ كما يری بعض الباحثين المعاصرينـ ھو كتاب الأخبار الدخيلۃ الذي أنھی مؤلّفہ الشيخ محمد تقي التستري المجلّد الأول منہ عام 1369ھ، فيما أنھی المجلّد الرابع والأخير منہ عام 1401ھ ،يطرح ھذا الأمر تساؤلاً: لماذا لم تشتغل الإماميۃ علی التصنيف في الموضوعات كما اشتغل سائر المسلمين؟8

ترجمہ: ملاحظہ کرنے کی بات یہ ہے کہ امامیہ نے احادیث موضوعہ پر کوئی کتاب نہیں لکھی ،شاید اولین کتاب بعض محققین کے بقول محمد تقی تستری کی الاخبار الدخیلہ (یاد رہے یہ کتاب اصلا موضوعات پر نہیں لکھی گئی ،بلکہ یہ کتاب  شیعی  تراثِ حدیث میں  موجود اغلاط و اخطاء  کے تعین پر مشتمل ہے ، کتاب کی چار جلدوں میں موضوع روایات پر صرف ایک باب باندھا  گیا ہے )ہے،جس کی پہلی جلد 1369ھ اور آخری چوتھی جلد 1401ھ میں لکھی گئی ،یہاں ایک سوال  اٹھتا ہے کہ  امامیہ نے  دیگر مسلمانوں  طرح موضوع روایات  پر مستقل کتب کیوں نہیں لکھیں؟ 

شیخ حیدر حب اللہ نے اس سوال کے جواب پر  لمبی بحث کی ہے ،نکات کی  شکل میں  موصوف کی توجیہات  کاخلاصہ پیش  کیا جاتا ہے:

1۔پہلی توجیہ موصوف نے یہ  کی ہے کہ دور اموی میں خلافت پر قبضہ جمانے کے لئے سنی  تراث میں   وضع ِحدیث کی وبا چل پڑی ، جبکہ شیعی تراث کو اس قسم کی صورتحال سے واسطہ نہیں پڑا ،اس لئے شیعہ محدثین کو موضوعات الگ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی ۔ اس توجیہ پر خود موصوف نے رد کیا ہے کہ کسی ایک کا سبب کا نہ ہونا دلیل نہیں ہے کہ وضع ِحدیث کے دیگر اسباب بھی منتفی ہوئے۔

2۔دوسری توجیہ موصوف نے شیعہ معاصر شیخ رضا سے نقل کی ہے کہ شیعہ تراث چونکہ چھانٹی کے دو مراحل سے گزرا ،پہلا مرحلہ  کتبِ اربعہ سے پہلے اصول اربعمائہ کی صورت میں ،دوسرا مرحلہ کتب اربعہ کی صورت میں ،اس لئے شیعہ محدثین کو   موضوع روایات الگ کرنے ضرورت پیش نہ آئی ( اصول اربعمائہ پر ہم اس سلسلے میں مفصلا بحث کر چکے ہیں کہ کیسے دو تہائی اصول محض فرضی ہیں ،نیز کتب اربعہ نے صحت حدیث کا جو معیار مقرر کیا تھا ،اس پر بھی ہم اس سلسلے میں نقدِ حدیث کے اصولی معیار کے تحت مفصلا بحث کر چکے ہیں ،اس لئے ہر دو مراحل  ہی  تراث ِ  حدیث میں موضوع روایات  کا سبب بنی ہیں ،کما مر)

3۔ تیسری توجیہ موصوف نے   یہ پیش کی ہے کہ  پانچویں صدی میں بعض شیعہ محدثین  وضع حدیث کو روکنے کی اہم ترین کوششیں کیں ،جیسے  قم کے  ایک محدث احمد بن محمد اشعری نے بعض کبار رواۃِ حدیث کو قم سے اس لئے نکالا کہ وہ وضاعین سے روایت کرتے تھے ،اس لئے بھی شیعہ محدثین  کو الگ سے موضوع روایات  مرتب کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی ۔(یہ توجیہ علمی  اعتبار سے لطیفہ ہی کہلائی جاسکتی ہے ،اس لئے کہ کسی  ایک یا زیادہ محدثین کا وضاعین و ضعاف رواۃ سے روایت نہ لینا  یا اس بارے میں تشدد سے کام لینا اس بات کی دلیل کیسے بن سکتی ہے کہ اب ان وضاعین  یا دوسرے  وضاعین کی موضوع روایات کو الگ سے مرتب کرنے کی ضرورت نہیں ہے  فافہم)

 4۔ ایک توجیہ موصوف نے یہ بھی پیش کی کہ چونکہ شیعہ حلقوں میں روایت من باب التقیہ بھی ایک جہت ہے ،اس لئے  بہت  سی روایات  کو  موضوع سمجھنے کی بجائے اسے تقیہ پر مبنی روایات  کہا جاسکتا ہے ۔(یہ توجیہ بھی موضوعات کے باب میں غیر متعلق ہے ،اس  لئے کہ  تقیہ کا تعلق روایت کے معنی و مفہوم  اور مدلول سے ہے ،جبکہ وضع ِروایت کا تعلق روایت کے سندی و رجالی اعتبار سے ثبوت و تیقن  سے ہے ، مدلولی اعتبار سے روایت کا تقیہ پر مبنی ہونا  اس کے سندی اعتبار سے ثبوت یا عدم ِ ثبوت میں کیونکر موثر ہوگا؟یا للعجب)9

ان توجیہات کی    کمزوری بلکہ غیر متعلق ہونا چونکہ کافی واضح ہے ،اس لئے شیخ حیدر موصوف بھی بحث کے آخر میں یہ لکھنے پر مجبور ہوئے:

المھم أننا نميل إلی رأي السيد ھاشم معروف الحسني، ونری أنّہ آن الأوان لعلماء الحديث الشيعۃ أن يفتحوا ھذا البحث، ويضبطوا قواعدہ. ولا يكتفوا بجھود السلف، مھما كانت الموضوعات قليلۃ، شرط أن لا يفرطوا في ذلك خارج إطار الدليل والحجّۃ10

ترجمہ: ہم اس بارے میں ہاشم معروف بحرانی کی رائے کی طرف میلان رکھتے ہیں  اور ہماری رائے  یہ ہے کہ  اب وہ وقت  آگیا کہ شیعہ محدثین  موضوع مرویات کی چھانٹی کا بند دروازہ کھولیں ،اس کے قواعد منضبط کریں ،اور اس سلسلے میں سلف کی کوششوں پر اکتفاء نہ کریں (سلف کی کونسی کوششیں اس با ب میں ہوئی ہیں ،جن کی طرف موصوف اشار ہ کر رہے ہیں ،ایک طرف خود شیعہ حلقوں میں اس دروازے کے بند ہونے  کی بات کر رہے ہیں ،دوسری طرف سلف کی  کوششیں بھی مان رہے ہیں ،یا للعجب)خواہ موضوع مرویات کتنی بھی قلیل ہوں ،بشرطیکہ اس باب میں دلیل و حجت  کے دائرے سے خارج  کوئی کام نہ کیا جائے ۔

ان موضوع روایات کی چھانٹی نہ ہونے کی وجہ سے  شیعی حلقے   اپنے عقائد و مذہب کے بارے میں مختلف مشاکل کا شکار رہے ہیں،اہل تشیع اہل علم کو بھی اس کا ادراک ہے ،چنانچہ شیخ ہاشم بحرانی لکھتے ہیں:

"انھم  لا یزالون یعانون مما ترکتہ  تلک الموضوعات من اثار سیئۃ علی المذہب الشیعی"11

اہل تشیع مسلسل ان   برے نتائج و آثار  کو جھیل رہے ہیں ،جو ان موضوع روایات کی وجہ سے مذہب شیعہ  پر پڑ رہے ہیں ۔

حواشی

    1.  نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر ، حافظ ابن حجر ،ص 67

    2.  البدایہ فی  علم الدرایہ ،شہید ثانی ،انتشارات ِمحلاتی ،قم ،ص23

    3.  شرح البدایہ فی علم الدرایہ ،منشورات ضیاء الفیروز آبادی ،قم ،ص22

    4.  مقباس الھدایہ ،عبد اللہ مامقانی ،منشورات دلیل ما ،قم،ص124

    5.  اصول الحدیث و احکامہ  فی  علم الدرایہ ،جعفر سبحانی ،ص51

    6.  الموضوعات فی الاثار و الاخبار ،ہاشم بحرانی ، دار التعارف للمطبوعات ،بیروت ،ص88

    7.  ایضا:ص89

    8.  ظاہرۃ الوضع فی الحدیث الشریف ،حیدر حب اللہ ،ص62

    9.  ایضا:ص63 تا 69

    10.  ایضا:ص 68

    11.  الموضوعات فی الاثار و الاخبار ،ہاشم بحرانی ،ص89

(جاری)

امت مسلمہ کے مسائل اور عالمی قوتوں کی اصول پرستی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک قومی اخبار کی خبر کے مطابق امریکی کانگریس کے ایک سو پینتیس (۱۳۵) ارکان نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں جس میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومیو کے فلسطین میں یہودی بستیوں کی حمایت پر مبنی بیان کی شدید مذمت کی گئی ہے، اور کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کا موقف فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن مساعی کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق امریکی ارکان کانگریس کی طرف سے تیار کردہ پٹیشن میں وزیرخارجہ مائیک پومیو سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غرب اردن میں یہودی آباد کاری کی حمایت سے متعلق اپنا بیان واپس لیں۔ یاد رہے کہ یہ پٹیشن ایک ایسے وقت میں تیار کی گئی ہے جب پومیو نے سال ہا سال سے چلی آنے والی امریکی پالیسی کے برعکس بیان میں کہا تھا کہ ان کا ملک اب فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو خلاف قانون نہیں سمجھتا۔ اس بیان پر عرب ممالک، عالم اسلام اور عالمی برادری کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ امریکی کانگریس کے ارکان کا کہنا ہے کہ ۱۹۷۸ء میں امریکہ نے فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف اصولی موقف اختیار کیا تھا جس میں ان بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا گیا تھا۔

فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے بارے میں امریکی موقف میں یہ یوٹرن ہمارے لیے غیر متوقع نہیں ہے اس لیے کہ فلسطین میں برطانوی نوآبادیاتی دور سے اب تک اسرائیل کے قیام، یہودی آبادکاری میں مسلسل توسیع، فلسطینیوں کو ان کے وطن اور شہری و انسانی حقوق سے بتدریج محروم کرتے چلے جانے، اور عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کو مختلف قسم کے تزویری حربوں کے ذریعے فلسطینیوں کی حمایت سے دست کش یا کم از کم خاموش کر دینے کا جو عمل گزشتہ ایک سو سال کی تاریخ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے، وہ اسی قسم کی پالیسیوں سے عبارت ہے، اور کوئی ایک مرحلہ بھی اس دوران ایسا دکھائی نہیں دیتا جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہو کہ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ نے خود اپنے طے کردہ اصولوں کا کوئی دائرہ بھی قائم رہنے دیا ہو۔

اصول اور اصولی موقف کی گزشتہ تاریخ سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ دنیا کے کسی خطہ میں اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے مرحلہ وار پالیسیوں کو ’’اصول‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے، ایک مرحلہ مکمل ہونے پر وہ اصول تکمیل تک پہنچ جاتا ہے، اور دوسرا مرحلہ شروع ہونے کے بعد اس کے اختتام پذیر ہونے تک نئی پالیسی اور حکمت عملی کو ’’اصول‘‘ کا عنوان دے دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کھیل کا دائرہ صرف مشرق وسطٰی تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی اصولوں کے نام سے یہی ’’ناٹک‘‘ جاری ہے۔ مثال کے طور پر مسئلہ کشمیر کا حال بھی اس سے مختلف نہیں:

عالم اسلام کے یہ دونوں مسئلے یعنی فلسطین اور کشمیر مغربی ممالک کی اس مرحلہ وار ’’اصول پرستی‘‘ کا شاہکار ہیں، اور نہ صرف امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اس میں پیش پیش ہیں بلکہ عالم اسلام میں ان کے حواری بھی اسی نام نہاد اصول پرستی کے پیچھے تالیاں پیٹتے نظر آرہے ہیں۔ چنانچہ امریکی کانگریس کے ۱۳۵ ارکان نے اس پر جو احتجاج ریکارڈ کروایا ہے اس کی حیثیت اور افادیت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ان قراردادوں سے زیادہ دکھائی نہیں دیتی جو گزشتہ پون صدی سے امت مسلمہ کے مسائل پر منظور کی جا رہی ہیں۔ جبکہ ہمارے خیال میں یہ مسئلہ ان کا نہیں ہے بلکہ مسلم حکمرانوں اور حکومتوں کا ہے کہ جب تک ان کی غیرت نہیں جاگتی، یہ ڈرامے اسی طرح جاری رہیں گے۔

کوالالمپور سمٹ میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کا افتتاحی خطاب

طاہر شاہین

  1. سب سے پہلے ، میں مسلم قائدین اور اسکالرز اور ان کے پیروکاروں کی اس سمٹ میٹنگ میں آپ کی موجودگی کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
  2. میں اس سربراہی اجلاس کے مقاصد کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ہم یہاں مذہب کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس کی بجائے مسلم دنیا میں امور کی صورتحال پر بات چیت کر رہے ہیں۔
  3. ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمان ، ان کے مذہب اور ان کے ممالک بحران کی حالت میں ہیں۔ ہم جہاں بھی مسلمان ممالک کو تباہ ہوتے دیکھتے ہیں ، ان کے شہری اپنے ممالک سے بھاگنے پر مجبور ، غیر مسلم ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ بہت سے ہزاروں ، اپنی لڑائی کے دوران ہی مر جاتے ہیں اور بہت سے افراد کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا جاتا ہے۔
  4. دوسری طرف ، ہم مسلمان متشدد کارروائیوں کا ارتکاب کرتے ہوئے ، بے گناہ متاثرین ، مرد ، خواتین ، بچوں ، بیماروں اور معذور افراد کو ہلاک کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ کام اس لیے کیا ہے کہ ان کے اپنے ممالک ان کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہیں یا دوسروں کے قبضے والی اراضی پر قبضہ کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ مایوس اور ناراض ، وہ اپنے مقاصد کے حصول کے بغیر کسی بھی طرح سے پُرتشدد رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔
  5. وہ بدلہ لیتے ہیں لیکن وہ جو بھی کام کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی مذہب اسلام کو بدنام کریں۔ انہوں نے اپنے عمل سے خوف پیدا کیا ہے اور اب اس اسلامو فوبیا ، اسلام کے اس بلا جواز خوف نے ہمارے مذہب کو دنیا کی نظر میں بدنام کردیا ہے۔
  6. لیکن ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ خوف کس طرح پیدا ہوتا ہے ، چاہے یہ سچ ہے یا محض ہمارے مخالفین کا پروپیگنڈا ہے یا دونوں کا مجموعہ۔
  7. پھر ہمیں جنگی جنگوں ، خانہ جنگیوں ، ناکام حکومتوں اور بہت ساری تباہیوں سے نمٹنا ہے جنہوں نے امت مسلمہ اور اسلام کو دوچار کیا ہے اور ان کو ختم کرنے یا کم کرنے یا مذہب کی بحالی کے لئے بغیر کسی سنجیدہ کوشش کی جارہی ہے۔
  8. ہاں ، اسلام ، مسلمان اور ان کے ممالک بحران کی حالت میں ہیں ، بے بس اور اس عظیم مذہب سے ناواقف ہیں جس کا مقصد بنی نوع انسان کے لئے بھلائی ہے۔
  9. ان وجوہات کی بناء پر سمٹ میٹنگ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بہت کم سے کم ، اپنی گفتگو کے ذریعے ہمیں معلوم ہوسکتا ہے کہ کیا غلط ہوا ہے۔ اگرچہ کم از کم عالم اسلام کو بیدار کرنے کے لئے ان تباہیوں کا خاتمہ نہ کیا گیا تو ہم اس کے حل بھی ڈھونڈ سکتے ہیں ، امت کو مسائل اور ان کے اسباب کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ مسائل اور ان کے اسباب کو سمجھنا امت کو درپیش آفات سے نمٹنے یا اس کے خاتمے کے راستے پر روشنی ڈال سکتا ہے۔
  10. ہم نے دیکھا ہے کہ دوسری عالمی جنگ سے تباہ حال دیگر ممالک نہ صرف تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں بلکہ ترقی پذیر ہونے کے لئے مضبوطی سے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن کچھ مسلمان ممالک اچھی طرح سے حکمرانی کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ، ترقی یافتہ اور خوشحالی کے امکانات کم ہیں۔
  11. کیا یہ ہمارا مذہب ہے جو چل رہا ہے؟ کیا اسلام دنیاوی کامیابی اور ترقی یافتہ ملک بننے کے خلاف ہے؟ یا یہ خود مسلمان ہے جو اپنے ممالک کو ترقی یافتہ ہونے سے اچھی طرح سے چلنے سے روکتا ہے۔
  12. ان امور پر ریاست کے اعلی سطح پر تبادلہ خیال کیا جائے گا لیکن اس کے لیے صرف چند ممالک ہی شامل ہوں گے۔ پوری دنیا کے مسلم ممالک کو سنبھالنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ ناجائز ہوگا اور فیصلے کیے جاتے ہیں اور تجویز کردہ حل قابل عمل نہیں ہوسکتے ہیں۔
  13. ہم کسی کو امتیازی سلوک یا الگ تھلگ نہیں کر رہے ہیں۔ ہم شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر یہ نظریات ، تجاویز اور حل، قابل قبول ہیں اور قابل عمل ثابت ہوتے ہیں ، تو ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر غور و فکر کے لئے بڑے پلیٹ فارم تک لے جائیں۔
  14. اس کے باوجود ، ہم نے تقریبا تمام مسلم اقوام کو بھی مختلف سطح پر اس سمٹ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
  15. ہم ممتاز شرکاء کے خیالات اور دانشمندی کو سننے کے منتظر ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اس سربراہی اجلاس کے ذریعے ہم اپنے مسائل حل کرنے کی طرف تھوڑا آگے بڑھیں۔
  16. اللہ تعالیٰ اس شان کو بحال کرنے کی اس چھوٹی سی کوشش میں ہمیں کامیابی سے نوازے جو ایک بار ہمارے دین اسلام کی حیثیت سے پیش کی جاتی تھی۔ آمین

ترجمہ۔ طاہر شاہین

قرآن جلانے کا حق؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ناروے میں ہونے والے واقعے پر مختلف اطراف سے بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ دیارِ مغرب میں، بالخصوص ناروے میں رہنے والوں کا زاویۂ نظر کچھ اور ہے، دیارِ مشرق، بالخصوص پاکستان میں رہنے والے کچھ اور انداز میں سوچتے ہیں۔ کسی کی توجہ ناجائز پر صبر و تحمل اور لغو سے اعراض والی آیات و احادیث پر ہے تو کوئی جہاد و قتال یا کم سے کم بائیکاٹ کی ضرورت پر زور دیتا ہے؛ جبکہ کسی نے اپنے ہاں کے بعض جذباتی لوگوں کو شرمندہ کرنا زیادہ ضروری سمجھا جو بعض اوقات غیرمسلموں کی مذہبی شخصیات یا شعائر کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ کل سے جاری اس ساری بحث میں وہ سوال کہیں دب گیا ہے جس پر اس طرح کے واقعات کے تناظر میں بحث سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے۔

وہ سوال یہ ہے کہ کیا اظہار راے کی آزادی کے حق پر یہ قید لگائی جاسکتی ہے کہ اس حق کے ذریعے آپ کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین نہیں کریں گے اور اگر آپ ایسا کریں گے تو یہ جرم ہوگا؟

واضح رہے کہ ناروے میں پولیس کی جس کارروائی کا ذکر کیا جارہا ہے ، اس کا تعلق "توہینِ مذہب" سے نہیں بلکہ "نفرت انگیز" تحریر و تقریر یا حرکات سے ہے اور دونوں باتوں میں اصولی طور پر بہت بڑا فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کےلیے صرف اس بات پر توجہ کریں کہ اگر ایسی تحریر و تقریر یا حرکات کو آپ ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیں ، یعنی ان پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے اعراض کا رویہ اختیار کرلیں، تو یہ معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث نہیں رہیں گی اور اس وجہ سے ان کو "نفرت انگیز" نہیں مانا جائے گا اور قانون ان کو تحفظ فراہم کرے گا۔

اس لحاظ سے دیکھیں تو شامی نوجوان عمر نے جو کچھ کیا اس کا کم سے کم فائدہ یہ ہے کہ ایسی تحری و تقریر و حرکات کو  بدستور نفرت انگیز اور معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث سمجھا جاتا رہے گا اور اس وجہ سے پولیس ان کو روکنے پر خود کو مجبور پائے گی۔

"توہینِ مذہب کے حق "کے متعلق استدلال کو سمجھنے کےلیے زیادہ نہیں تو دو صفحات کا ایک مضمون پڑھنے کی تجویز دوں گا جو مشہور امریکی فلسفیِ قانون رونالڈ ڈوورکن نے The Right to Ridicule کے عنوان سے نیو یارک ٹائمز کےلیے لکھا تھا اور 23 جون 2006ء کو شائع ہوا تھا۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ رونالڈ ڈوورکن میرے پسندیدہ ترین فلسفیِ قانون ہیں۔ قانونی اصولوں کی وضاحت جس طریقے سے وہ کرتے ہیں ، وہ انھی کا خاصہ ہے۔ ان کے فلسفیانہ نظام کا ایک اہم جزو حقوق کے متعلق ان کے تصورات ہیں جن کی وضاحت کےلیے انھوں نے کئی مقالات لکھے جو بعد میں Taking Rights Seriously کے عنوان سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ ان کی ایک قابلِ قدر کاوش ، جوقانون کے متعلق نظریات میں اساسی تبدیلی کا باعث بنی، یہ تھی کہ انھوں نے دکھایا کہ  قانونی احکام (rules) جو جزئیات پر لاگو ہوتی ہیں، جج کےلیےان سے بھی زیادہ اہمیت قانون کے قواعدِ عامہ (general principles of law) کی ہوتی ہے اور یہ کہ وہ امور جہاں عام طورپر فرض کیا جاتا ہے کہ قانون خاموش ہے کیونکہ اس کے متعلق قانون میں کوئی جزئیہ نہیں پایا جاتا، وہاں بھی قانون خاموش نہیں ہوتا بلکہ اپنے قواعدِ عامہ کے ذریعے ان امور کے جواز  و عدم جواز کا فیصلہ کرتا ہے اور جج کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی پر فیصلہ کرنے کے بجاے قانون کے متعلقہ عام قواعد مستخرج کرکے ان کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ کرے۔ جنھیں اصولی مباحث سے دلچسپی ہے وہ جانتے ہیں کہ ڈوورکن کا یہ منہج فقہاے احناف کے منہج سے بے حد قریب ہے ۔

تو آئیے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ ممتاز امریکی فلسفیِ قانون اس مسئلے کا تجزیہ اصولی بنیادوں پر کیسے کرتا ہے؟

ڈوورکن کے مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ 2006ء میں ڈنمارک کے بعض اخبارات نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق توہین آمیز خاکے شائع کیے تھے جس پر مسلم دنیا میں شدید ردعمل ہوا تھا۔ بعد میں بعض برطانوی اور امریکی اخبارات نے بھی یہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم مسلمانوں کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے انھوں نے یہ فیصلہ منسوخ کردیا اور یہ خاکے شائع نہیں کیے۔ اس تناظر میں ڈوورکن نے نیو یارک ٹائمز کےلیے یہ مضمون لکھا جسے اس نے عنوان دیا : The Right to Ridicule، یعنی تضحیک کا حق۔

ڈوورکن آغاز یوں کرتے ہیں کہ  برطانوی اور امریکی اخبارات کا یہ فیصلہ کہ وہ یہ کارٹون شائع نہیں کریں گے، عملی نتائج کے اعتبار سے اچھا فیصلہ ہے کیونکہ ان کے شائع ہونے کے نتیجے میں قوی اندیشہ تھا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی جانب سے اسی طرح شدید ردعمل سامنے آتا اور مختلف ممالک میں مزید لوگوں کی جانیں ضائع ہوتیں اور مزید املاک کو نقصان پہنچتا۔ مزید یہ کہ ان کارٹونوں کی اشاعت سے برطانوی اور امریکی مسلمانوں کو بھی مزید اذیت ہوتی کیونکہ انھیں دیگر مسلمانوں کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ ان کارٹونوں کی وجہ سے ان کے مذہب کی توہین ہوئی ہے۔

کیا برطانوی اور امریکی مسلمان خود یہ توہین محسوس نہ کرتے جب تک غیربرطانوی اور غیر امریکی مسلمان انھیں نہ بتاتے؟ ڈوورکن اس سوال سے تعرض نہیں کرتا لیکن بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک برطانوی اور امریکی مسلمان اتنے عقل مند ہیں کہ وہ توہینِ مذہب پر جذباتی ردعمل ظاہر نہ کرتے ، یا اسے اتنی اہمیت نہ دیتے لیکن برطانیہ اور امریکا سے باہر کے مسلمانوں کی وجہ سے انھیں بھی اذیت محسوس ہوتی۔ اس بحث میں یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے اور دیارِ مغرب میں مقیم صبر و تحمل کے داعی مسلمانوں کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

ڈوورکن دوسرا اہم پہلو یہ سامنے لاتا ہے کہ عام قارئین کا یہ حق تھا کہ وہ خود دیکھ لیتے کہ کیا یہ کارٹون واقعی توہین آمیز تھےیا نہیں ؟مزاح کی سطح کیا تھی؟ان کا اثر کیا تھا؟ وغیرہ۔ وہ کہتا ہے کہ اس لحاظ سے شاید پریس کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ یہ کارٹون شائع کرتا۔ تاہم ساتھ ہی ڈوورکن کہتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ جو مرضی دیکھیں یا پڑھیں ، خواہ اس کا نقصان کتنا ہی زیادہ ہو۔ بہ الفاظِ دیگر نقصان کے پہلو سے قدغن کے جواز کو وہ مجبوراً مانتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قدغن کب اور کس حد تک لگائی جاسکتی ہے؟

پریس اگر اس طرح خود پر قدغن لگاتا رہے تو اس کے نتیجے میں کیا نقصانات ہوسکتے ہیں؟ ڈوورکن اس سلسلے میں معلومات، دلیل ، ادب ، آرٹ کے ضیاع کے خدشات ذکر کرتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پر تشدد ردعمل دکھانے والوں کو شہ ملتی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اس ردعمل کی وجہ سے وہ ان چیزوں کی شاعت روک پائے ہیں۔ وہ اس سے یہ استدلال کرتا ہے کہ گویا پریس ان لوگوں کا دباو مان کر انھیں آئندہ کےلیے مزید دباو ڈالنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم ڈوورکن متوقع نقصان کا ایک اور پہلو واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کارٹونوں کے خلاف مشرق وسطی اور دیگر ممالک میں ہونے والے مظاہرے سیاسی مقاصد کےلیے تھے اور اب اگر یہ کارٹون دوبارہ شائع کیے جاتے تو سیاسی مقاصد کے حصول کےلیے لوگ مزید مظاہرے کرتے جس کے نتیجے میں زیادہ توڑ پھوڑ ہوتی۔ یوں ڈوورکن کی راے میں کارٹونوں کی اشاعت کا فیصلہ واپس لے کر پریس نے عملاً بہتر راستہ اختیار کیا۔

اس مقام پر ڈوورکن یہ اہم سوال اٹھاتا ہے کہ خواہ عملی نتائج کے اعتبار سے کارٹونوں کی اشاعت کا فیصلہ حکیمانہ نظر آتا ہو ، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اظہار راے کی آزادی کے حق پر بالخصوص "کثیر الثقافتی معاشرے" کے تناظر میں قدغن لگائی جاسکتی ہے؟  کیا کسی مذہب کےلیے جو بات توہین آمیز یا مضحکہ خیز ہو ، اسے جرم قرار دیا جانا چاہیے؟ یہاں پہنچ کر ڈوورکن اصل قانونی اور اصولی مباحث کی طرف آتا ہے۔

وہ پوری صراحت کے ساتھ یہ دعوی کرتا ہے کہ اظہار راے کی آزادی مغربی ثقافت کی کوئی امتیازی خصوصیت نہیں ہے جسے دوسری ثقافتوں کی خاطر، جو اسے نہیں مانتیں، محدود کیا جاسکے، بالکل اسی طرح جیسے مسیحی علامات کے ساتھ ہلال یا منارے کےلیے گنجائش پیدا کی جائے۔ اس کے برعکس اس کا کہنا ہے کہ اظہار راے کی آزادی حکومت کے جواز کی شرط ہے! (Free speech is a condition of legitimate government.)کوئی قانون اور کوئی پالیسی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسے جمہوری طریقے سے نہ بنایا جائے اور جب کسی کو کسی قانون یا پالیسی کے متعلق اپنی راے کے اظہار سے روکا جائےتو جمہوریت بے معنی ہوجاتی ہے۔

وہ مزید کہتا ہے کہ تضحیک اظہار کا ایک خاص پیرایہ ہے اور اگر اس کی نوک پلک درست کرنے یا اصلاح کی کوشش کی جائے تو وہ پیرایہ غیرمؤثر ہوجاتا ہےاور اسی وجہ سے صدیوں سے اچھے یا برے ہر طرح کے مقاصد کےلیے کارٹون اور تضحیک کے ہتھیار استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس بنیاد پر ڈوورکن یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ جمہوریت میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور یا کتنا ہی کمزور ہو، کہ اس کی توہین یا تضحیک نہیں کی جائے گی۔

یہاں ڈوورکن اس بات کی وضاحت کےلیے ، کہ کیوں جمہوریت میں اظہار راے کے حق پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی، کہتا ہے کہ اگر کمزور اور غیرمقبول اقلیتیں یہ چاہتی ہیں کہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو اور اکثریت محض اپنی اکثریت کی وجہ سے ان کے حقوق سلب نہ کرسکے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اظہار راے کے حق پر کوئی قدغن نہ مانیں خواہ اس کے نتیجے میں خود انھیں بھی تضحیک کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ اقلیت میں ہونے اور کمزور ہونے کے باوجود اظہار راے کے حق کے ذریعے وہ کسی بھی قانون یا پالیسی کے خلاف کھل کر بات کرسکیں گے۔

اسی استدلال پر وہ مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اظہار راے پر قدغن سے ان کو نقصان ہوگا ۔ اس ضمن میں وہ اس بات پر بھی بحث کرتا ہے جس کی طرف مسلمان عام طور پر توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ کئی یورپی ممالک میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام سے انکار کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے اور اظہار راے پر اس قدغن کو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلمان بالعموم اسے دوغلی پالیسی اور منافقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ڈوورکن کہتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اعتراض بالکل درست ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اظہار راے پر ایک اور قدغن بھی مان لیں۔ اس کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ مذکور قدغن بھی دور کردی جائے۔

ڈوورکن مزید یہ کہتا ہے کہ اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ایسے قوانین اور پالیسیاں ختم کی جائیں جو مسلمانوں کی پروفائلنگ کو جواز دیں یا جن کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے سے دکھائی دینے والے لوگوں کی نگرانی کی جائے کیونکہ ان پر دہشت گردی کا شبہ ہوتا ہے ، تو پھر مسلمانوں کو اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی راے کو بھی برداشت کرنا پڑے گا جو انھیں دہشت گردی سے منسلک کرتے ہیں اور کارٹونوں کے ذریعے ان کی تضحیک کرتے ہیں، خواہ ان لوگوں کی یہ بات کتنی ہی بے بنیاد اور بذات خود مضحکہ خیز ہو !

آخر میں وہ ساری بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتا ہے :

Religion must observe the principles of democracy, not the other way around. No religion can be permitted to legislate for everyone about what can or cannot be drawn any more than it can legislate about what may or may not be eaten. No one’s religious convictions can be thought to trump the freedom that makes democracy possible.

(مذہب پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں کی پابندی کرے ، نہ کہ الٹا جمہوریت کو مذہب کا پابند بنایا جائے۔ کسی مذہب کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سب کےلیےیہ قانون بناسکے کہ وہ کیسا خاکہ بناسکتے ہیں اور کیسا نہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ ہر کسی کےلیے یہ قانون نہیں بناسکتی کہ وہ کیا کھاسکتے ہیں اور کیا نہیں ۔ کسی کے مذہبی اعتقادات کے متعلق یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ وہ اس آزادی کو فتح کرلیں گے جو جمہوریت نے ممکن بنادی ہے ۔ )

ڈوررکن کے اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مذہب کو جمہوریت کے اصولوں کی پابندی اختیار کرنی چاہیے یا جمہوریت کو مذہبی قیود کی پابندی تسلیم کرنی چاہیے؟ جب تک اس بنیادی مسئلے پر بحث نہیں کی جائے گی، ضمنی سوالات پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی سوال پر بحث سے ناروے یا دیگر مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی مجبوریاں بھی سمجھ میں آجاتی ہیں اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کیوں وہ صبر و تحمل اور اعراض کا رویہ اپنانے کی تلقین کرتے ہیں؟ یادرکھیے کہ ناروے ، یاکہیں اور ، پولیس یا دیگر ادارے اگر اس طرح کی حرکتیں روکنے کی کوشش کریں تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے قانون کی رو سے "توہینِ مذہب" جرم یا ان کے اخلاقی پیمانے پر یہ برا کام ہے۔ ان کےلیے اصل معیار "جمہوریت" اور "حقوقِ انسانی" کا معیار ہے اور اس معیار پر اس کام کو وہ برا نہیں سمجھتے۔ یہ کام صرف تب برا بنتا ہے جب اس کی وجہ سے "خوفِ فسادِ خلق" پیدا ہو۔ چنانچہ مکرر عرض ہے کہ اگر عمر کی طرح کے "جنونی " اور "جذباتی" مسلمان مفقود ہوجائیں تو پھر ناروے کی پولیس یا دیگر ادارے کبھی اس کام میں مداخلت نہیں کریں گے بلکہ اس کام میں مداخلت کرنے والوں کو مجرم اور برا سمجھیں گے۔

یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ٹیکنولوجی کی ترقی کی وجہ سے کوئی ملک الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ اس وجہ سے ناروے یا دیگر ممالک یہ موقف نہیں اختیار کرسکتے کہ ہمارے معاملات پر دیگر ممالک کے مسلمانوں کو رد عمل دکھانے کا حق نہیں ہے، اور ہمارے مسلمانوں کو تو صبر و تحمل کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ دنیا اگر واقعی گلوبل ویلج بن چکی ہے تو پھر معاملہ صرف ناروے کی مسلم اقلیت کا نہیں بلکہ دنیا میں سوا ارب سے زائد مسلمانوں کا ہے۔

آخر میں پاکستان کے قانونی نظام کے متعلق بھی اہم بات نوٹ کرلیں کیونکہ اگر ناروے یا امریکا میں مذہب پر لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں کی پابندی کرے تو پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔

چنانچہ ہم نے اپنے اساسی قانون، یعنی دستورِ پاکستان ، کے دیباچے میں پہلے جملے میں ہی اقرار کیا ہے کہ پوری کائنات پر حکم صرف اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے اور یہ کہ ہم قانون سازی اور حکومت کے تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر ہی استعمال کریں گے۔ اسی دیباچے میں ہم نے مزید یہ اقرار کیا ہے کہ  ہمارا قانونی نظام ان اصولوں پر قائم ہے جو جمہوریت، آزادی، مساوات، برداشت اور معاشی انصاف کے متعلق اسلام نے دیے ہیں (The principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed)۔

جی ہاں، ہمارے ہاں جمہوریت اور حقوق کو مذہب کی پابندی کرنی ہوگی، خواہ ڈوورکن کو کتنا ہی برا لگے ۔


قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۳)

محمد عمار خان ناصر

شاہ ولی اللہ کا زاویۂ  نظر

سابقہ فصل میں ہم نے امام شاطبی کے نظریے کا تفصیلی مطالعہ کیا جس کے مطابق تشریع میں مخصوص مقاصد اور مصالح کی رعایت کی گئی ہے جن کا بنیادی ڈھانچا قرآن مجید نے وضع کیا ہے، جب کہ سنت انھی کے حوالے سے کتاب اللہ کے احکام کی توضیح وتفصیل اور ان پر تفریع کرتی ہے۔ شاطبی نے تشریع کے عمل کو ایک منضبط اور مربوط پراسس کے طور پر دیکھتے ہوئے، جس کے واضح مقاصد اور متعین اصول کلیہ اپنی جگہ ثابت ہیں ، قرآن اور سنت، دونوں کا کردار اس طرح واضح کیا ہے کہ یہ دونوں مآخذ ایک ہی طرح کے مقاصد کے لیے اور ایک جیسے اصولوں کے تحت تشریع کے عمل کو مکمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

شاطبی نے مقاصد شرعیہ اور اصول تشریع کی بحث کو جو شکل دی تھی، بارھویں صدی ہجری میں برصغیر کے مایہ ناز عالم شاہ ولی اللہ دہلوی (وفات:  ۱۱۷۶ھ) نے کئی اہم ترمیمات اور اضافوں کے ساتھ اسے ایک نیا فریم ورک دیا، جس کے اثرات قرآن اور سنت کے باہمی تعلق کے سوال پر بھی پڑتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ نے حنفی اصولیین کے ہاں معروف فریم ورک میں بھی قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث کے بعض گوشوں سے تعرض کیا ہے جس کی کچھ مثالیں آیندہ سطور میں پیش کی جائیں گی، لیکن انھوں نے اس پوری بحث کو بنیادی طور پر ایک مختلف زاویے سے دیکھا ہے جس کا بنیادی نکتہ عمل تشریع کے بنیادی اصولوں کی وضاحت اور اس عمل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت، یعنی آپ کے تشریعی اختیار کی نوعیت کی تفہیم ہے۔ مقاصد شرعیہ اور مصالح کلیہ کی روشنی میں تشر یعی عمل کی تکمیل کا تصور، جیسا کہ واضح کیا گیا، امام شاطبی کے ہاں بھی موجود ہے اور اس حد تک شاہ صاحب کے فریم ورک کی اساسات کو امام شاطبی کے ساتھ مشترک قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن ان اساسات کے تحت قرآن وسنت کے باہمی تعلق کو متعین کرنے کا منہج اپنی تفصیلات میں شاہ صاحب کے ہاں شاطبی سے کافی مختلف ہے۔

ذیل میں شاہ صاحب کے زاویۂ نظر کے بنیادی پہلوؤں کی توضیح پیش کی جائے گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی اختیار کی نوعیت

شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ تشریع بنیادی طور پر مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہوتی ہے اور احکام وقوانین کو وضع کرنے سے مقصود ان مصالح کی حفاظت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بنیادی سطح پر تشریع کے عمل میں شریک فرمایا تھا اور آپ کو شریعت کے مقاصد اور قانون سازی کے اصول اور ضابطے سکھا دیے تھے جن کی روشنی میں آپ احکام وشرائع وضع کرنے کا پورا اختیار رکھتے تھے۔

شاہ صاحب لکھتے ہیں :

ولیس یجب أن یکون اجتھادہ استنباطاً من المنصوص کما یظن، بل أکثرہ أن یکون علمہ اللہ تعالیٰ مقاصد الشرع وقانون التشریع والتیسیر والأحکام، فبین المقاصد المتلقاۃ بالوحي بذلک القانون.(حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۳۷۱-  ۳۷۲)

’’یہ ضروری نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد،  منصوص احکام سے استنباط تک محدود ہو، جیسا کہ گمان کیا جاتا ہے، بلکہ عموماً اس کی صورت یہ تھی کہ اللہ نے آپ کو شریعت کے مقاصد اور قانون سازی، تیسیر اور وضع احکام کے اصول سکھا دیے تھے اور آپ نے وحی کے ذریعے سے بتائے جانے والے ان مقاصد کو احکام کی صورت میں متشکل فرما دیا۔‘‘

اسی نکتے کی روشنی میں شاہ صاحب، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد اور امت کے مجتہدین کے اجتہاد کی نوعیت کا فرق واضح کرتے ہیں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ امت کے قیاس کی نوعیت یہ ہے کہ وہ منصوص حکم کی علت کو پہچانیں اور حکم کو علت کے ساتھ وابستہ کر دیں ، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب وحی کے ذریعے سے شریعت کا کوئی حکم بتا دیا جاتا اور آپ اس کی حکمت اور سبب سے واقف ہو جاتے تو آپ کو یہ اختیار تھا کہ اس مصلحت کو سامنے رکھ کر اس کی کوئی ظاہری علت مقرر فرمائیں اور اس علت پر حکم کا مدار رکھ دیں ۔ اس کی ایک مثال وہ اذکار ہیں جو آپ نے صبح اورشام کے اوقات اور سونے کے وقت کے لیے مقرر فرمائے۔ جب آپ نے نمازوں کی مشروعیت کی حکمت کو سمجھ لیا تو اس کی روشنی میں اللہ کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے مزید محنت اور سعی فرمائی (ایضاً ۱/ ۳۱۱)۔

اس اختیار کے تحت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر کلام الہٰی کے بعض اشارات سے آپ کا فہم کسی پہلو کی طرف منتقل ہو تو اس کو بھی ایک باقاعدہ تشریعی ضابطے کی شکل دے کر امت پر اس کی پابندی لازم کر دیں ۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  ’اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ‘ (البقرہ  ۲: ۱۵۸) میں صفا کا ذکر مقدم ہونے سے یہ استنباط کیا کہ سعی کا آغاز صفا سے ہونا چاہیے اور اسی کو امت کے لیے مشروع فرما دیا۔ آپ نے سورج اور چاند تاروں کو سجدہ کی ممانعت سے یہ اخذ کیا کہ اگر سورج یا چاند کو گرہن لگے تو ان کو معبود سمجھنے والوں پر اتمام حجت کے لیے ایسے وقت میں اللہ کی عبادت کا اہتمام کیا جائے۔ اسی طرح ’لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ‘  (البقرہ ۲: ۱۱۵) سے یہ استنباط فرمایا کہ عذر کی حالت میں استقبال قبلہ کی شرط ساقط ہو سکتی ہے، اس لیے اندھیری رات میں اگر کوئی غلط سمت میں منہ کر کے نماز ادا کر لے تو نماز ادا ہو جائے گی اور حالت سفر میں بھی قبلہ رخ ہوئے بغیر سواری پر نماز ادا کرنا جائز ہے (ایضاً ۱/ ۳۱۲) ۔

اسی طرح کسی مطلوب حکم کی ترغیب پیدا کرنے کے لیے اس کے دواعی ومقدمات کو مطلوب اور کسی غیرمطلوب چیز سے روکنے کے لیے اس تک پہنچانے والے اسباب وذرائع کو ممنوع قرار دینا بھی پیغمبر کے دائرۂ اختیار میں شامل تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، مثال کے طو رپر بت پرستی کے سد ذریعہ کے طور پر تصویر سازی سے، شراب نوشی سے روکنے کے لیے انگور کا شیرہ تیار کرنے اور ایسے دستر خوان پر جانے سے منع فرمایا جہاں شراب موجود ہو اور اسی طرح فتنے کی کیفیت میں قتال کے سدباب کے لیے ایسے حالات میں ہتھیار بیچنے کو ممنوع قرار دیا (ایضاً ۱/ ۳۱۳) ۔

شاہ صاحب اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے کہ تشریع میں پیغمبر کے اجتہاد کو پورا دخل ہوتا ہے، ان احادیث کا حوالہ دیتے ہیں، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے امت کے لیے کوئی شرعی حکم مقرر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، لیکن پھر رفع حرج کے اصول کے تحت اس کو عملی جامہ پہنانے سے گریز فرمایا۔ مثلاً  آپ کی خواہش تھی کہ ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کو فرض قرار دیا جائے اور عشاء کی نماز کا وقت رات کا کم سے کم ایک تہائی وقت گزرنے پر مقرر کیا جائے۔ اس نوعیت کی احادیث سے شاہ صاحب یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ:

وقد ورد بھذا الأسلوب أحادیث کثیرۃ جدًا وھي دلائل واضحۃ علی أن لاجتھاد النبي صلی اللہ علیہ وسلم مدخلًا في الحدود الشرعیۃ، وأنھا منوطۃ بالمقاصد، وأن رفع الحرج من الأصول التي بنی علیھا الشرائع. (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۵۱۹)

’’اس اسلوب میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ شرعی احکام وحدود کو وضع کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کا بھی دخل ہے اور یہ کہ احکام، مقاصد سے وابستہ ہیں اور یہ کہ رفع حرج ان اصولوں میں سے ایک ہے جن پر شرائع کی بنیاد رکھی گئی ہے۔‘‘

شاہ صاحب اس نکتے کی تفہیم کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ایسے اجتہادات کا حوالہ بھی دیتے ہیں جن میں آپ نے نئی صورت حال میں شرعی مصالح اور اصول تشریع کی روشنی میں سابقہ حکم کی جگہ نیا طریقہ اختیار کرنے کو مناسب سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اجتہاد کی تصویب فرمائی۔ مثال کے طور پر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا فیصلہ شاہ صاحب کی راے میں ایک اجتہادی فیصلہ تھا جونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نئی صورت حال کے تناظر میں کیا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ مدینہ منورہ میں دین کی نصرت کی ذمہ داری اوس وخزرج نے قبول کی تھی جو اس وقت علمی ودینی طور پر یہود سے بہت متاثر تھے، چنانچہ ان کی اور ان کے حلیف یہودیوں کی تالیف قلب کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اجتہاد فرمایا کہ مسجد حرام کی جگہ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا جائے (ایضاً ۱/ ۳۵۷) ۔

شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں کہ شریعت کے مبنی بر مصالح ہونے کی وجہ سے اس میں اس قوم کے اجتہاد کا بھی پورا دخل ہوتا ہے جن کے لیے شریعت وضع کی جا رہی ہو اور پیغمبر، تشریع میں اپنی قوم کے اہل الراے کے مشورے اور راے کو بھی پورا وزن دیتا ہے۔ چنانچہ صحابہ نے نماز باجماعت کے مطلوب اور موکد ہونے کے تناظر میں ازخود اس بات پر غور کرنا شروع کر دیا کہ چونکہ ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر جمع ہونا اطلاع واعلان کے بغیر ممکن نہیں ، اس لیے نماز کی اطلاع دینے کا کوئی طریقہ وضع کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مختلف مذاہب کے ہاں مروج طریقے زیر بحث آئے اور آخر میں عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے خواب کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کہنے کے طریقے کی تصویب فرما دی۔ اس واقعے سے استنباط کرتے ہوئے شاہ صاحب لکھتے ہیں :

وھذہ القصۃ دلیل واضح علی أن الأحکام إنما شرعت لأجل المصالح، وأن للاجتھاد فیھا مدخلًا، وأن التیسیر أصل أصیل. (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۵۳۸)

’’یہ قصہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ احکام صرف مصالح کی حفاظت کے لیے وضع کیے گئے ہیں اور یہ کہ ان کے وضع کرنے میں اجتہاد کا دخل ہے اور یہ کہ (تشریع میں ) آسانی پیدا کرنا ایک نہایت بنیادی اصول ہے۔‘‘

تشریعی مصالح کی روشنی میں عمومات کی تخصیص

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی اختیار سے متعلق اس اصولی زاو یۂ نظر سے شاہ صاحب نے قرآن اور سنت کے باہمی تعلق کی توضیح بھی کی ہے اور ان کا فریم ورک اپنی مجموعی شکل میں شافعی اور حنفی اصولیین کے وضع کردہ فریم ورک سے مختلف اور شاطبی کے فریم ورک کے قریب تر ہے۔ شافعی اور حنفی فقہا باہمی اختلافات کے باوجود اس بحث کو بنیادی طور پر، جزوی اور انفرادی نصوص کے باہمی تعلق کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور ایک نص کو اصل اور محور قرار دے کر اس کے ساتھ متعلق ہونے والے اضافی نصوص کے ربط وتعلق کی نوعیت کو متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چنانچہ اگر قرآن کے کسی حکم میں سنت نے تخصیص یا اس پر زیادت کی ہو تو حنفی نقطۂ نظر سے یہ سوال بنیادی ہوگا کہ اصل حکم اپنی دلالت کے لحاظ سے اس تخصیص کا محتمل تھا یا نہیں ۔ اگر محتمل تھا یا اس تخصیص کی بنیاد اسی متعین حکم میں موجود تھی تو پھر یہ قرآن کے حکم ہی کی تفصیل وتبیین ہوگی، لیکن اگر اصل حکم محتمل نہیں تھا اور اس میں جواز تخصیص کے لیے کوئی قرینہ بھی موجود نہیں تو یہ سابقہ حکم میں تبدیلی سمجھی جائے گی اور اسے نسخ کا عنوان دیا جائے گا۔ امام شافعی نے اس کے برعکس یہ موقف اختیار کیا کہ عموم کا اسلوب کلام عرب میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے ہی تخصیص کا محتمل ہوتا ہے جس کی وضاحت متکلم اسی کلام میں یا کسی دوسرے موقع پر کر سکتا ہے۔ امام شافعی نے بہت سی مثالوں میں تخصیص کے ان قرائن کو بھی واضح کیا جو کلام کے سیاق وسباق سے اخذ کیے جا سکتے ہیں ، تاہم انھوں نے اصل حکم میں تخصیص کے لفظی یا عقلی قرائن کے موجود ہونے کو ایک لازمی شرط کا درجہ نہیں دیا اور یہ کہا کہ قرآن کے حکم سے اللہ تعالیٰ کی جو مراد تھی، وہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر واضح فرمائی اور آپ نے اسے حدیث کی صورت میں بیان کر دیا۔ چنانچہ جب سنت کا ماخذ بھی وحی ہے تو وحی کا ایک حصہ بدیہی طور پر دوسرے حصے کی توضیح وتبیین کر سکتا ہے اور اسے نسخ یا تبدیلی قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ۔

شاطبی نے اس بحث میں اصولی طور پر امام شافعی کے نقطۂ  نظر سے اتفاق کیا اور قرائن تخصیص کی بحث کو وسعت دیتے ہوئے یہ قرار دیا کہ سنت کے جن احکام میں قرآن کی تخصیص یا اس پر زیادت وارد ہوئی ہے، ان کی تفہیم مختلف علمی اصولوں، مثلاً مشتبہ فروع کا کسی اصل کے ساتھ الحاق، علت کی بنیاد پر حکم کی توسیع اور قرآن کے لفظی و معنوی اشارات سے استنباط کے تحت کی جا سکتی ہے۔ اسی ضمن میں شاطبی نے عمومات کی تخصیص ایک بہت اہم پہلو یہ واضح کیا کہ شریعت میں جو احکام کلیہ بیان کیے گئے ہیں ، بعض دفعہ کسی دوسرے کلی شرعی اصول کی رعایت سے ان میں تخصیص اور استثنا قائم کرنا پڑتا ہے اور یہ اصل حکم کے عموم اورکلیت کے منافی نہیں ہوتا۔ گویا خاص صورتوں کو مخصوص اسباب کے تحت حکم کلی سے مستثنیٰ یا مخصوص قرار دینا بذات خود ایک تشریعی اصول ہے اور اس کے تحت مختلف شرعی احکام میں تخصیص اور استثنا کی مثالیں نصوص میں موجود ہیں  (الموافقات ۱/ ۱۴۷، ۲۴۱)۔

شاطبی کے فریم ورک میں مسئلے کی نوعیت، جمہور اصولیین کے موقف سے بہت مختلف ہو جاتی ہے۔ اگر جزوی نصوص میں بیان ہونے والے احکام کو تشریع کے ایک کلی فریم ورک کا حصہ سمجھا جائے جس میں واضح اصول وقواعد اور مصالح ومقاصد کے تحت وضع احکام کا عمل کیا جا رہا ہے تو پھر کسی جزوی حکم کی قیود وشرائط یا اس میں تخصیص واستثنا کی وضاحت میں بھی اصل اور بنیادی اہمیت دلالت الفاظ کو نہیں ، بلکہ انھی تشریعی اصولوں اور مقاصد کو حاصل ہو جاتی ہے جن کی روشنی میں کسی حکم کاتعین ہوا ہے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود تشریع کے عمل میں شریک تھے اور آپ کا تشریعی اختیار جزوی نصوص اور ان میں موجود لفظی دلائل وقرائن سے استنباط تک محدود نہیں تھا، اس لیے تشریعی اصول ومقاصد کے تحت آپ کا کسی بھی حکم میں قیود وشرائط کا اضافہ یا تخصیص واستثنا کی گنجایش واضح کرنا کسی تردد کے بغیر قابل فہم بن جاتا ہے اور تخصیص کے لفظی قرائن کی بحث غیرمتعلق ہو جاتی ہے۔

شاہ صاحب نے اس بحث میں یہی نقطۂ نظر اختیار کیا اور سنت میں وارد تمام زیادات اور تخصیصات کی توجیہ اسی پہلو سے کی ہے جس کی چند نمایاں مثالیں حسب ذیل ہیں :

ماں اور بچے کے مابین حرمت رضاعت کے ثابت ہونے کے لیے احادیث میں پانچ دفعہ دودھ پینے کی قید مذکور ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک یا دو دفعہ دودھ پینے یا ایک یا دو دفعہ پستان چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، جب کہ قرآن میں بظاہر دودھ پلانے کا ذکر کسی تحدید کے بغیر کیا گیا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ شریعت میں عورت کا دودھ پینے کو اس پہلو سے حرمت کا موجب قرار دیا گیا ہے کہ اس عمل سے دودھ پلانے والی گویا بچے کی جسمانی نشوونما کا حصہ بن جاتی اور یوں اس کی حقیقی ماں کے مشابہ ہو جاتی ہے۔ اس پہلو سے رضاعت کی مقدار کی تحدید ضروری ہے، کیونکہ بالکل معمولی مقدار میں دودھ پینے میں مذکورہ پہلو نہیں پایا جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اسی پہلو کی وضاحت کی گئی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۵۱) ۔

ترکے میں وصیت سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قیود وشرائط بیان فرمائیں ، شاہ صاحب نے ان کی توضیح بھی اسی اصول کی روشنی میں کی ہے۔ قرآن مجید میں وصیت کے حق کا ذکر کسی قید اور شرط کے بغیر کیا گیا ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وارث کے حق میں وصیت کرنے کو ممنوع اور وصیت کے حق کو ترکے کے ایک تہائی تک محدود قرار دیا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ چونکہ اہل جاہلیت عموماً وصیت میں عدل وانصاف کو ملحوظ نہیں رکھتے تھے اور ان کی ناانصافی اہل قرابت کے مابین نفرت وکدورت اور تنازع کا موجب بنتی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ترکے میں میت کے قریبی رشتہ داروں کے حصے خود متعین فرما دیے اور چونکہ اس اقدام کا مقصد ہی باہمی تنازعات کو ختم کرنا تھا، اس لیے ازروے شرع وارث بننے والے کے حق میں وصیت کو ممنوع قرار دینا اس بندوبست کا لازمی تقاضا تھا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۰۹) ۔

اسی طرح مرنے والے کے مال میں اولو الارحام کے حق اور ان کے علاوہ اس کے دیگر متعلقین کے حق میں ، جنھیں وہ اپنے مال میں سے کوئی حصہ دینا چاہے، توازن قائم کرنا ضروری تھا تاکہ نہ تو صاحب ترکہ کی جانب داری یا میلان اس کے اولو الارحام کے حق پر اثر انداز ہو سکے اور اولو الارحام کے حق کی وجہ سے خود صاحب ترکہ کا اپنے مال میں اختیار بالکل ختم ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کے حق کو ایک تہائی تک محدود فرما دیا تاکہ ترکے کا زیادہ حصہ اولو الارحام کو اور کم تر حصہ دیگر متعلقین کو دیا جا سکے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۰۸- ۳۰۹) ۔

یہی اصول ہمیں حق وراثت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائد کردہ بعض تحدیدات میں کارفرما دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً  آپ نے مسلمان کے، کافر کا اور کافر کے، مسلمان کا وارث بننے کی نفی فرمائی۔ اسی طرح فرمایا کہ قاتل کو اس کے مورث کے ترکے میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ان میں سے پہلی ممانعت ایک دینی مصلحت پر مبنی ہے اور شارع کی منشا یہ ہے کہ معاشرتی معاملا ت میں مسلمان اور کافر کے مابین اختلاط چونکہ دین میں بعض خرابیوں کا موجب ہو سکتا ہے، اس لیے اسے ممنوع یا محدود کر دیا جائے۔ اسی وجہ سے شریعت میں مشرکین کے ساتھ نکاح کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ جہاں تک قاتل کو وراثت سے محروم کرنے کا تعلق ہے تو اس کا باعث ایک تو سد ذریعہ ہے تاکہ متوقع وارث، مال حاصل کرنے کے لیے اپنے مورثوں کو قتل نہ کرنے لگیں اور دوسرے یہ اس کے لیے سبق بھی ہے کہ حرام طریقے سے مال کے حصول کی کوشش کا نتیجہ اس سے محرومی ہی ہو سکتا ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۲۳) ۔

والد کو بیٹے کے قصاص میں قتل نہ کرنے کی توجیہ شاہ صاحب کے نزدیک یہ ہے کہ اولاد کے ساتھ باپ کی محبت اور شفقت کی وجہ سے عام حالات میں غالب گمان یہی ہے کہ اس نے جان بوجھ کر، یعنی بیٹے کی جان لینے کی نیت سے یہ اقدام نہیں کیا ہوگا، بلکہ بے احتیاطی میں اس سے قتل سرزد ہو گیا ہوگا۔ گویا باپ، بیٹے کے قصاص سے اصولاً مستثنیٰ نہیں ہے، بلکہ اسے شبہے کا فائدہ دیتے ہوئے اس سے قصاص کو ٹالا گیا ہے، لیکن اگر قرائن ودلائل سے واضح ہو جائے کہ اس نے عمداً بیٹے کو قتل کیا ہے تو مذکورہ حدیث اس سے متعلق نہیں اور ایسی صور ت میں باپ سے قصاص لیا جائے گا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۰۶) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض معذور اور اپاہج مجرموں پر زنا کی سزا نافذ کرنے کے بجاے علامتی طور پر انھیں ایک ہی دفعہ ٹہنیوں کا ایک گٹھا مارنے کا حکم دیا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ معذور اصول تشریع کی رو سے سزا کے نفاذ کا محل نہیں ہے، کیونکہ وہ اس کا تحمل نہیں کر سکتا۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بالکل چھوڑ دینے کے بجاے علامتی طور پر سزا دینا ضروری سمجھا تاکہ حدود کے نفاذ کے لازم ہونے کا تصور برقرار رہے اور جس حد تک بھی تکلیف، مجرم کے لیے قابل برداشت ہے، وہ اسے دی جائے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۳۰)۔

حکم کے مقصد اور اس کے ساتھ وابستہ مصالح ہی کے تناظر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے ساتھ جنگ کے دوران میں چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹنے سے منع فرمایا۔ شاہ صاحب سیدنا عمر کے قول کی روشنی میں اس کی حکمت یہ بیان کرتے ہیں کہ ایسی کیفیت میں شیطان اس آدمی کی حمیت کو انگیخت کر کے اسے اس پر آمادہ کرسکتا ہے کہ وہ دشمن کی صف میں جا شامل ہو او ر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۲۵ -  ۴۶۸)۔

قرآن مجید میں مال غنیمت کے پانچویں حصے کو بعض اجتماعی ضروریات کے لیے خاص کرتے ہوئے باقی مال کو جنگ لڑنے والوں کا حق قرار دیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خمس نکالنے کے بعد باقی مال میں ، مجاہدین کی رضامندی کے بغیر کوئی اور تصرف نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں اس پابندی کا لحاظ دکھائی نہیں دیتا اور مختلف مواقع پر آپ سے، سارا مال غنیمت عام مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجاے اس کا کچھ حصہ اپنی صواب دید کے مطابق بعض خاص افراد یا گروہوں کو دینا ثابت ہے۔ فقہا کے ہاں ان اقدامات کی توجیہ عموم کی تخصیص وغیرہ فقہی اصولوں کے تحت کی جاتی ہے، لیکن شاہ ولی اللہ کا زاو یۂ  نظر یہ ہے کہ خمس نکالنے کے بعد باقی مال کی مجاہدین میں تقسیم کی ہدایت مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت کی رعایت سے مشروط ہے، جس کا فیصلہ مسلمانوں کا امام حسب صواب دید کر سکتا ہے۔ چنانچہ اگر دار الحرب میں داخل ہونے کے بعد امام ایک مخصوص جماعت کو کسی خاص بستی پر حملے کے لیے بھیجے تو حاصل شدہ مال غنیمت کا کچھ حصہ، عام مجاہدین میں تقسیم سے پہلے خاص طور پر اس جماعت کو دیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اصول پر دشمن سے انفرادی طور پر چھینے جانے والے ساز وسامان کو اس کے قاتل کا حق قرار دیا اور بعض غزوات میں کچھ مجاہدین کو، جنھوں نے غیر معمولی داد شجاعت دی تھی، عام مجاہدین سے زیادہ حصہ عطا کیا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۷۲-  ۴۷۳)۔


شریعت کے کسی حکم میں دی گئی کسی بھی نوعیت کی تخفیف کو ، چاہے وہ قرآن میں بیان کی گئی ہو یا سنت میں ، شاہ صاحب تیسیر وتخفیف کے اسی اصول کی مثال کے طور پر بیان کرتے ہیں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ عذر کی حالت میں حکم کی رخصتوں کی وضاحت، تشریع کی تکمیل اور اتمام کا حصہ ہے اور اس پہلو سے شریعت میں رخصتوں کے بیان کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ مثلاً سفر ایک عذر کی حالت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے مختلف رخصتیں مشروع فرمائی ہیں ۔ ان میں سے ایک رخصت، نماز کو قصر کرنے کی ہے جو قرآن مجید میں حالت خوف کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ خوف کا ذکر صرف اس رخصت کی حکمت کو بیان کرنے کے لیے ہوا ہے، رخصت کو اس تک محدود قرار دینے کے لیے نہیں ہوا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۵۷-  ۵۸)۔ اسی اصول کے تحت آپ نے سفر میں نمازوں کو تقدیم وتاخیر کے ساتھ بیک وقت ادا کرنے کی اجازت دی، لیکن اسے لازم نہیں کیا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۶۰)۔

مسح علی الخفین سے متعلق شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ وضو دراصل ایسے اعضا کو دھونے کا نام ہے جو ظاہر ہوں اور ان پر میل کچیل جمع ہو سکتی ہو۔ چونکہ موزے پہنے ہونے کی صورت میں پاؤں ایک لحاظ سے ظاہری اعضا کا حصہ نہیں رہتے اور اہل عرب کے ہاں موزے پہننے کا عام رواج ہونے کے باعث ہر نماز کے لیے موزے اتارنا مشقت کا موجب ہو سکتا تھا، اس لیے اس کیفیت میں فی الجملہ پاؤں کو دھونے کا حکم ساقط ہو گیا اور اس کی جگہ علامت کے طور پر پاؤں پر مسح کرنے کا حکم دے دیا گیا (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۵۰۴-  ۵۰۵)۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید سے زائد جو احکام بیان فرمائے، شاہ صاحب ان کا ماخذ بھی اصل احکام کی علت اور حکمت ومصلحت کو قرار دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کے ترکے میں سے اصحاب الفروض کو دینے کے بعد اگر کچھ مال بچ جائے تو وہ اس کے قریب ترین مرد رشتہ دار کو دے دیا جائے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ہدایت انھی اصولوں کی ایک فرع ہے جس پر وراثت کا پورا قانون مبنی ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک یہ دو اصول ہیں : ایک، باہمی مودت اور محبت جو قریبی رشتہ داروں کے مابین ہوتا ہے ، اور دوسرا باہمی تعاون وتناصر جو کسی آدمی اور اس کی قوم اور برادری کے مابین ہوتا ہے۔ اس اصول کی رو سے اگر ترکہ اہل قرابت کے حصوں سے زائد ہو تو بدیہی طور پر اس کا حق دار، الاقرب فالاقرب کے اصول پر، میت کے اہل تناصر کو ہونا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ ہدایت میں اسی اصول کا اطلاق فرمایا ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۲۳)۔

قرآن مجید میں دو بہنوں کو بیک وقت ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اس حکم کی مصلحت قریبی رشتہ داروں کے مابین قطع رحمی کا سد باب کرنا ہے، کیونکہ سوکنوں کے مابین فطری طور پر حسد اور بغض کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی علت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دو بہنوں کے ساتھ ساتھ پھوپھی اور بھتیجی نیز خالہ اور بھانجی کو بھی ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے سے منع فرما دیا (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۵۱-  ۳۵۲)۔

قرآن مجید میں نکاح میں مہر کے تقرر کی ہدایت ’اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ‘ کے الفاظ سے کی گئی ہے۔ احادیث میں بیان ہو ا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر شوہر کی طرف سے بیوی کو قرآن مجید کی ایک سورت سکھانے کو اس کا مہر قرار دیا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ آپ کا یہ فیصلہ قرآن کی ہدایت کی اصل روح اور حکمت کے مطابق ہے، کیونکہ شارع کی نظر میں قرآن کی سورت کی تعلیم بھی ایک بہت اہم اور قدر وقیمت رکھنے والی چیز ہے جو اسی طرح مرغوب اور مطلوب ہے، جیسے مال مرغوب اور مطلوب ہوتا ہے، اس لیے (خاص حالات میں ) اپنی اس اہمیت کے اعتبار سے قرآن کی تعلیم بھی مال کے قائم مقام ہو سکتی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۴۵)۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مالی لین دین کے معاملات میں دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت فرمائی ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ فرما دیا۔ شاہ صاحب کے نزدیک یہ طریقہ بھی حکم کے اصل مقصد کے لحاظ سے درست اور تشریعی اصول کے مطابق ہے ۔ فرماتے ہیں کہ ایک عادل گواہ کے ساتھ اگر قسم شامل ہو جائے تو بھی مدعی کا دعویٰ موکد ہو جاتا ہے اور شہادات کے باب میں اس طرح کی توسیع ناگزیر ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۴۸)۔ شاہ صاحب کی مراد یہ ہے کہ ایک کے بجاے دو گواہ طلب کرنے کا مقصد بھی مدعی کے دعوے کو موکد بنانا ہے، پس اگر کسی مقدمے میں دو گواہ موجود نہ ہوں ، لیکن ایک عادل گواہ کے ساتھ قرائن سے قاضی کو مدعی کا سچا ہونا معلوم ہو رہا ہو تو دوسرے گواہ کی جگہ اس سے قسم لے کر اس کے دعوے کو موکد کر سکتا ہے اور اس قسم کے توسع سے کام لینا شریعت کے اصول تیسیر کا تقاضا بھی ہے۔

اسی کی ایک مثال تین طلاقوں کے بعدبیوی کو شوہر کے لیے حرام قرار دینے کا حکم ہے، تا آنکہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کے بعد اسے وہاں سے طلاق مل جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ دوسرے شوہر کے ساتھ محض عقد نکاح کافی نہیں ، بلکہ دونوں کے مابین زن وشو کا تعلق قائم ہونا بھی ضروری ہے۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں کہ یہ شر ط ا س پابندی کو موثر اور حقیقی بنانے کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی ہے، کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو لوگوں کے لیے یہ حیلہ اختیار کرنے کا راستہ کھل سکتا ہے کہ دوسرے شوہر سے نکاح کو ایک رسمی کارروائی بنا لیا اور عقد کے بعد اسی مجلس میں دوسرے شوہر سے طلاق لے لی جائے، جب کہ یہ طریقہ شریعت کی عائد کردہ تحدید کے مقصد کے خلاف ہے، کیونکہ شارع کی منشا یہ ہے کہ وہ عورت اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ حقیقتا میاں بیوی کے طور پر زندگی بسر کرنا شروع کر دے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۷۰)۔

بیوہ پر دوران عدت میں زیب وزینت سے اجتناب کی پابندی کا ماخذ بھی یہی تشریعی اصول ہے۔ چونکہ بیوہ کے لیے عدت مکمل ہونے تک انتظار کرنا لازم اور نکاح کی خواہش رکھنے والوں کو اس دوران میں اسے نکاح کا پیغام بھیجنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل مقصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیوہ کو زیب وزینت اختیار کرنے سے منع فرما دیا، کیونکہ زیب وزینت فریقین میں شہوت کو تحریک دینے کا موجب بنتی ہے، جب کہ عدت کے دوران میں اس کیفیت سے بچنا شریعت کا مقصودہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۳۷۸)۔

جزوی نصوص کی دلالت سے تعرض

شاہ صاحب کا منہج اس بحث میں ، جیسا کہ واضح کیا گیا، احکام شرعیہ کے مختلف اجزا کی تفہیم مصالح اورمقاصد کے کلی اور عمومی فریم ورک میں کرنے کا ہے اور وہ اسے قرآن اور سنت کے باہمی تعلق کے سوال کے بجاے تشریعی اصولوں اور مقاصد اور فروعی احکام اور نصوص کی باہمی مطابقت کے عمومی سوال کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ تاہم بعض مثالوں میں شاہ صاحب نے جزوی نصوص کی دلالت اور ان کے باہمی تعلق سے بھی کسی حد تک تعرض کیا ہے جس سے واقفیت اس بحث کے تناظر میں دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی۔

مثال کے طور پر شاہ صاحب کے نزدیک سرقہ پر قطع ید سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی بھی قیود و شرائط بیان فرمائی ہیں ، ان کی نوعیت عمل سرقہ کی توضیح وتنقیح کی اور اسے دوسرے کا مال ناحق لینے کی ان صورتوں سے ممتاز کرنے کی ہے جو اپنے اوصاف وخصائص کی بنیاد پر چوری سے مختلف ہیں ۔ لکھتے ہیں :

ومعلوم أن أخذ مال الغیر أقسام: منھا السرقۃ، ومنھا قطع الطریق، ومنھا الاختلاس، ومنھا الخیانۃ، ومنھا الالتقاط، ومنھا الغصب، ومنھا قلۃ المبالاۃ، وفي مثل ذلک ربما یسال النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن صورتہ ھل ھي من السرقۃ سوال مقال أو سوال حال، فیجب علیہ أن یبین حقیقۃ السرقۃ متمیزۃ عما یشارکھا بحیث یتضح حال کل فرد فرد … والسرقۃ تنبئ عن الأخذ خفیۃ، فضبط النبي صلی اللہ علیہ وسلم السرقۃ بربع دینار وثلاثۃ دراھم لیتمیز عن التافہ، وقال: ’’لیس علی خائن ولا منتھب ولا مختلس قطع‘‘، وقال: ’’لا قطع في ثمر معلق ولا في حریسۃ الجبل‘‘ لیشیر إلی اشتراط الحرز. (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۳۱۶- ۳۱۷)

’’یہ معلوم ہے کہ دوسرے کا مال لینے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ، مثلاً چوری، راہ زنی، سامان اچک لینا، خیانت کرنا، کسی کی گری ہوئی چیز اٹھا لینا، غصب کرنا اور (دوسرے کی چیز استعمال کرنے میں)  بے پروائی سے کام لینا۔ اس قسم کے معاملات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زبان قال یا زبان حال سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ کیا فلاں صورت چوری کے زمرے میں آتی ہے؟ چنانچہ آپ پر لازم تھا کہ آپ چوری کی حقیقت کو دوسرے کا مال لینے کی ملتی جلتی صورتوں سے اس طرح ممیز کر کے بیان فرمائیں کہ ہر ہر صورت کا حکم بالکل واضح ہو جائے۔ چوری دراصل کسی کا مال خفیہ طور پر اڑانے کو کہتے ہیں ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی چیز سے ممیز کرنے کے لیے یہ ضابطہ متعین فرمایا کہ چوری وہ شمار ہوگی جو چوتھائی دینار یا تین درہم کے برابر ہو۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ خیانت کرنے والے یا مال لوٹنے والے یا اچک لینے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ مزید فرمایا کہ درخت کے ساتھ لگے ہوئے پھل یا رسی کے ساتھ بندھا ہوا جانور لے جانے پر بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اس سے مقصود اس شرط کو واضح کرنا تھا کہ (قطع ید کے لیے) مال کو کسی محفوظ جگہ سے چرایا جانا ضروری ہے۔ ‘‘

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي‘ کے ظاہری عموم سے فقہاے احناف یہ استدلال کرتے ہیں کہ مسلمان سے غیر مسلم کا قصاص بھی لیا جائے گا، جب کہ جمہور فقہا آیت کے سیاق وسباق یا احادیث کی روشنی میں اس حکم کو غیر مسلم کے قتل سے غیر متعلق قرار دیتے ہیں ۔ شاہ صاحب اس آیت کی تعبیر عام راے سے مختلف انداز میں کرتے ہیں جس کے نتیجے میں احادیث میں وارد تخصیص قرآن کے ظاہر سے متعارض نہیں رہتی، بلکہ اس کا تقاضا بن جاتی ہے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ آیت میں ’كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ‘ کا مطلب یہ نہیں کہ مقتولوں کے بدلے میں قاتلوں کو قتل کرنا فرض ہے، بلکہ قصاص کا لفظ یہاں مقتولوں اور قاتلوں کے مابین برابری کو ملحوظ رکھنے کے معنی میں آیا ہے اور اس کے تحت آزاد آدمی کو صرف آزاد آدمی کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سنت میں اسی اصول کی رعایت سے قرار دیا گیا ہے کہ مسلمان کو کافر کے قصاص میں اور آزاد آدمی کو غلام کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ شاہ صاحب کی راے میں مسلمان سے غیر مسلم کا قصاص نہ لینا شریعت کے ایک دوسرے اصول اور مقصد کا تقاضا ہے اور وہ یہ ہے کہ دین حق کی شان کو بلند رکھا جائے جو اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا کہ مسلمان کو کافر پر فضیلت حاصل ہو اور دونوں کے ساتھ مساوی برتاؤ نہ کیا جائے۔ چونکہ کافر اصل میں مباح الدم ہے، اس لیے اس کو قتل کرنے کا گناہ بھی کم تر درجے کا ہے، اس لیے شریعت میں مسلمان پر اس کا قصاص بھی مشروع نہیں کیا گیا اور اس کی دیت بھی مسلمان سے نصف مقرر کی گئی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۰۵، ۴۱۱-  ۴۱۲)۔

حلال وحرام کے دائرے میں شاہ صاحب کے نزدیک شریعت نے پاکیزہ اور انسانی فطرت سے موافقت رکھنے والی چیزوں کو حلال اور فطرت انسانی کے منافی اوصاف رکھنے والی چیزوں کو حرام قرار دینے کا اصول اختیار کیا ہے اور طیبات وخبائث کی تعیین کے لیے دنیا کی متمدن اقوام کی عادات اور انبیا کی شریعتوں میں متفقہ طور پر چلے آنے والے قوانین کو بنیاد بنایا ہے۔ چنانچہ بندر، خنزیر، چوہے، درندے، چیل کوے، سانپ بچھو، حشرات الارض اور گدھے جیسے جانوروں کا گوشت شریعت میں حرام ٹھیرایا گیا ہے اور حلال جانوروں میں سے مردار کا گوشت کھانا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۸۳ -  ۴۹۴)۔ اس بحث میں قرآن مجید کی آیت ’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ‘ سے اشکال پیدا ہوتا ہے اور شاہ صاحب نے اس کی توجیہ یہ ذکر کی ہے کہ یہ اباحت علی الاطلاق ہر طرح کے جانوروں کے حوالے سے نہیں ، بلکہ ان خاص جانوروں کے تعلق سے بیان کی گئی ہے جنھیں اہل عرب حرام سمجھتے تھے، جب کہ شارع کی حکمت کے مطابق ان میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں پائی جاتی تھی (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۵۲۳)۔ گویا اس آیت کا موضوع حلت وحرمت کے باب میں کسی اصولی ضابطے کا یا حرام اشیا کی کسی حتمی فہرست کا بیان نہیں ، بلکہ بعض جانوروں کے حوالے سے اہل عرب میں رائج توہمات کا ازالہ ہے۔

أحلت لنا میتتان ودمان‘  کی حدیث بظاہر قرآن مجید میں خون اور مردار کی حرمت کے عام حکم کے معارض دکھائی دیتی ہے۔ تاہم شاہ صاحب واضح کرتے ہیں کہ مچھلی اور ٹڈی پر مردار کا اور جگر اور تلی پر خون کا اطلاق محض ظاہر کے لحاظ سے، یعنی مجازاً کیا گیا ہے، ورنہ حقیقت میں ان کو وہ خون اور وہ مردار نہیں کہا جا سکتا جس کی حرمت قرآن نے بیان کی ہے۔ جگر اور تلی دراصل حیوان کے جسم کے دو اعضا ہیں جو دیکھنے میں خون کے مشابہ لگتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلو سے ان کو خون کہہ دیا ہے، ورنہ حقیقت میں یہ گوشت کی قسم ہیں ۔ اسی طرح مردار اس جانور کو کہا جاتا ہے جس کو ذبح کر کے اس کا دم مسفوح نکالا جا سکتا ہو، جب کہ مچھلی اور ٹڈی میں دم مسفوح نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ذبح کرنا ممکن نہیں ۔ اس لیے جب مچھلی کو پانی سے نکال کر اور ٹڈی کو ضرب وغیرہ لگا کر مار دیا جائے تو ظاہری لحاظ سے ان پر مردار کا اطلاق کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ اطلاق محض مجازی ہے، کیونکہ ان کو ذبح کر کے ان کا خون نکالنا ممکن ہی نہیں  (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۹۲)۔

احادیث میں ذبح کیے جانے والے مادہ جانور کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچے کو حلال اور ماں کے ذبح کرنے کو بچے کی حلت کے لیے بھی کافی قرار دیا گیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اس کے ’میتہ‘ ہونے کی وجہ سے اس کی حلت تسلیم نہیں کرتے۔ تاہم شاہ ولی اللہ کی راے جمہور فقہا سے ہم آہنگ ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۹۸)۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب ایسے جنین پر ’میتہ‘ کے اطلاق کو قطعی نہیں سمجھتے، کیونکہ ماں کے پیٹ میں ہونے کی وجہ سے اس کی اپنی الگ کوئی حیثیت نہیں تھی۔ گویا اسے ماں ہی کے جسم کا ایک حصہ تصور کرنے میں عقلی وقیاسی طور پر کوئی مانع نہیں اور یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ ہدایت کو قرآن کے معارض کہنا بھی ممکن نہیں ۔

زنا کی سزا سے متعلق شاہ صاحب کی راے کا حاصل یہ ہے کہ کوڑے لگانے اور رجم کرنے، دونوں کا ماخذ قرآن مجید ہے۔ ہر قسم کے زانی کو سو کوڑے لگانے کی سزا سورۂ نور میں مذکور ہے، جب کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا حکم بھی سیدنا عمر کی روایت کے مطابق قرآن مجید میں نازل کیا گیا تھا۔ عبادہ بن صامت کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے لگانے کے ساتھ ساتھ ایک سال کے لیے جلاوطن بھی کیا جائے گا، جب کہ شادی شدہ زانی کو (آیت نو رکے مطابق) کوڑے لگانے کے ساتھ ساتھ (آیت رجم کے مطابق) رجم بھی کیا جائے گا۔ شاہ صاحب کی راے میں شادی شدہ زانی اصولاً ان دونوں سزاؤں کا حق دار ہے، تاہم چونکہ رجم کی سزا سنگین تر ہے اور اس کے نفاذ کی صورت میں کوڑے لگانے کی ضرورت نہیں رہتی، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملا ًایسے مقدمات میں صرف رجم کرنے پر اکتفا فرمائی۔ لیکن اصولی طورپر دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں او ر سیدنا علی نے بعض مقدمات میں اس پر عمل بھی کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہر مجرم کے ساتھ یہ معاملہ کیا جا سکتا ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا لازم اور کوڑوں کی سزا اختیاری ہے، البتہ غیر شادی شدہ کو کوڑے لگانا تو ضروری ہے، لیکن جلا وطن کرنے کی سزا معاف کی جا سکتی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۲۵ -  ۴۲۸)۔

زنا میں چار گواہوں کی شرط کے لیے شاہ صاحب بنیادی ماخذ قرآن مجید کی آیت کو قرار دیتے ہیں ، تاہم زہری کی روایت کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ عہد نبوی سے تعامل یہ چلا آ رہا ہے کہ حدود میں خواتین کی گواہی قبول نہ کی جائے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۴۷)۔ شاہ صاحب نے قرآن مجید کے مطلق حکم میں اس تقیید کی کوئی حکمت یا توجیہ بیان نہیں کی، لیکن قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ آیت کو صرف گواہوں کی تعداد کے حوالے سے ناطق سمجھتے ہیں ، جب کہ گواہوں کے دیگر اوصاف وشرائط سے ان کے خیال میں آیت میں تعرض نہیں کیا گیا۔

مختلف انفرادی احکام کی توجیہ کے علاوہ اسلوب عموم کی نوعیت اور تخصیص کے جواز کے حوالے سے شاہ صاحب کا اصولی موقف امام شافعی سے ہم آہنگ ہے اور وہ عموم کے اسلوب کو محتمل اور قابل تخصیص قرار دیتے ہوئے حنفی اصولیین کے موقف پر تنقید کرتے ہیں جو عام کی دلالت کو قطعیت کے اعتبار سے خاص کے مساوی قرار دیتے ہیں۔  شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ کوئی عام حکم ایسا نہیں جس میں کسی نہ کسی پہلو سے تخصیص نہ ہوئی ہو اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عام کے اسلوب سے حقیقتا عموم مراد نہیں ہوتا۔ چنانچہ شاہ صاحب کے نزدیک اصول یہ ہے کہ ہر عام حکم کی تعبیر مناسب تخصیصات ہی کی روشنی میں  کرنی چاہیے (الأصل في العمومات التخصیص بما یناسب)   اور شافعی اصولیین سے اتفاق کرتے ہوئے وہ دلیل تخصیص کے، اصل حکم کے ساتھ مقارن ہونے کو بھی ضروری تصور نہیں کرتے۔ اسی طرح وہ خاص کو قطعی اور غیر محتمل البیان قرار دے کر بعض احادیث کو قبول نہ کرنے نیز خبر واحد سے کتاب اللہ پر زیادت کو قبول نہ کرنے کے حوالے سے بھی احناف کے موقف کو درست نہیں سمجھتے۔1

حاصل بحث

اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ شاہ صاحب کے فریم ورک میں احکام وضع کرنے، ان کی قیود وشرائط متعین کرنے اور ان میں تخصیص واستثنا میں جزوی نصوص کا کردار اصل اور بنیادی نہیں ہوتا، بلکہ یہ عمل شریعت کے مقاصدو مصالح اور ان پر مبنی قواعد کے ایک کلی اور مجموعی تناظر میں ہوتا ہے اور جزوی نصوص، چاہے وہ قرآن میں وارد ہوں یا حدیث میں ، کسی مخصوص معاملے سے متعلق ان کلی مصالح کے مقتضا ہی کو اطلاق وانطباق کی سطح پر واضح کر رہی ہوتی ہیں ۔ اس زاویۂنظر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نصوص کے مابین تخصیص وتقیید کے تعلق کو سمجھنے کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے۔ شافعی اور حنفی نقطۂ نظر کے مطابق جزوی نصوص کو تعیین حکم میں اصل اور محور سمجھا جائے تو دلالت عموم کی نوعیت اور ا س میں کسی دوسری لفظی دلیل سے تخصیص کے جواز یا عدم جواز کا مسئلہ بہت اہم بن جاتا ہے، اس لیے کہ حکم کی تعیین اگر اصلاً کسی نص کے الفاظ سے ہوئی ہے اور اس میں عموم کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے تو پھر تخصیص یا تقیید میں دلالت الفاظ سے متعلق بنیادی سوالات سے تعرض کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ کے فریم ورک میں سوال کی نوعیت بالکل بدل جاتی ہے۔ اس کے مطابق بنیادی اہمیت اس کی نہیں کہ اصل حکم میں تخصیص کا قرینہ موجود ہے یا نہیں ، بلکہ اس کی ہے کہ شریعت کے مجموعی نظام میں کسی بھی حکم میں قیود عائد کرنے اور تخصیص یا استثنا پیدا کرنے کا جو ایک عمومی منہج ہے، آیا اس کی رو سے اس خاص حکم میں وہ تخصیص وتقیید بامعنی ہے یا نہیں جو حدیث میں بیان کی گئی ہے؟ اگر بامعنی ہے تو وہ پوری طرح قابل قبول ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو واضح کرنے کے لیے اصولاً سابقہ حکم میں موجود کسی قرینے یا کسی مستقل وحی کے محتاج نہیں تھے، بلکہ شریعت کے کلی مقاصد اور مصالح کا فہم حاصل ہونے کی وجہ سے خود اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ فرما سکتے تھے کہ فلاں حکم میں فلاں نوعیت کی تقییدات یا تخصیصات کو شامل کرنا شارع عزوجل کی منشا ہے۔

حواشی

۱۔ (اس حوالے سے شاہ صاحب کے موقف کی تفصیلی توضیح کے لیے دیکھیے: حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۴۲۱، ۴۵۹-  ۴۶۰۔ اصول فقہ اور شاہ ولی اللہ، ڈاکٹر مظہر بقا،  ۳۴۸- ۳۵۹، بقا پبلی کیشنز کراچی، اشاعت دوم ۱۹۸۶ء)

ہدایہ کی بے اصل احادیث اور مناظرانہ افراط وتفریط

مولانا محمد عبد اللہ شارق

( زیرِ ترتیب مقالہ ”احادیثِ ہدایہ ۔ فنی حیثیت اور غیر علمی رویے“ سے انتخاب)

تسامحات کی اقسام

  حدیث وروایت کے معاملہ میں الہدایہ کے مصنف مرغینانی سے جو تسامحات ہوئے ہیں، وہ کئی طرح کے ہیں اور ہمارے علم کے مطابق یہ تسامحات زیادہ نہیں، محض اکا دکا مقامات پر ہوئے:

(۱) بعض احادیث کے مضمون میں اضافہ ہوگیا۔ جیسے”ایما صبی حج عشر حج ثم بلغ فعلیہ حجۃ الاسلام“ یہ حدیث کتبِ حدیث میں موجود ہے، مگر اس میں ”عشر“ کا لفظ نہیں ہے، جس کے ہونے نہ ہونے سے بہرحال معنی اور مفہوم میں کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا۔(الدرایۃ۔ رقم۳۹۱)

(۲)حدیثِ مو قوف کو مرفوع لکھ دیا۔ چنانچہ انہوں نے ایک حدیث ”من ام قوما ....“ کو مرفوع لکھا جوکہ محدثین کے علم کے مطابق موقوف ہے اور ان کے ہاں یہ مرفوعا ثابت نہیں۔ (الدرایۃ۔ رقم ۲۱۴)

(۳) راوی کا نام درج کرنے میں چوک ہوگئی۔ (الدرایۃ۔ رقم ۱۶۶)

(۴) کہیں کہیں روایت بالمعنی کا ”ارتکاب“ کردیا۔

(۵) محدثین کے حوالہ سے کوئی بات نقل کرنے میں مغالطہ ہوگیا۔ مثلا انہوں نے ایک حدیث کے بارہ میں ابوداود کے حوالہ سے نقل کیا کہ انہوں نے اس کو ضیعف قرار دیا ہے، جبکہ بعد والوں کو سنن ابوداود میں ایسی کوئی بات کہیں نہیں مل پائی۔(الدرایۃ۔ رقم ۴۵)

(۶) بعض جگہ ضعیف حدیث سے استدلال کیا، ورنہ صحیح احادیث موجود تھیں۔

(۷) بعض ایسی احادیث سے انکار کردیا جو ان کے علم میں نہ تھیں یا پھر مستحضر نہ تھیں۔ (الدرایۃ۔ رقم۱٠۲۷)

(۸) بعض ایسی بے اصل احادیث بیان ہوگئیں جن کی کوئی سند محدثین کو نہ مل سکی اور نہ ہی کتبِ حدیث میں ان کا کوئی اتا پتہ ہے۔

بے اصل احادیث کی امثال

  یہاں چونکہ ہم بے اصل احادیث پر بطورِ خاص بات کررہے ہیں اور افراط وتفریط سے دوچار ہونے والے فریقین کے درمیان زیادہ موضوعِ بحث بھی الہدایہ کی ایسی ہی احادیث بنتی ہیں، اس لئے آخری نکتہ پر ہی ہم تفصیل سے بات کریں گے، جبکہ باقی نکات کے بارہ میں اتنا بتاتے چلیں کہ ایسے تسامحات کی مثالیں محدثین کے ہاں بھی اتنی مل جائیں گی کہ شاید ان کا احصاءمشکل ہوگا۔ سو اگر ان تسامحات کی بنیاد پر صاحبِ ہدایہ کی تحقیر وتذلیل درست ہے تو پھر محدثین کو کس ضابطہ کی رو سے ریلیف دیا جاسکے گا؟ افراط وتفریط کے رویوں پر بات کرنے سے قبل مناسب ہوگا کہ ہم یہاں پر ہدایہ میں مذکور بے اصل احادیث کی چند مثالیں بھی آپ کے سامنے رکھتے چلیں۔ الہدایہ کی کئی بے اصل احادیث ایسی ہیں جن کی کسی مکمل یا ادھوری سند کا کوئی اتہ پتہ اور کوئی سرا محدثین کو نہیں ملا، نہ تو روایت باللفظ کے درجہ میں اور نہ ہی روایت بالمعنی کے درجہ میں اور انہی کو ”بے اصل احادیث“ کہتے ہیں۔ ایسی دس ”احادیث“ بطورِ مثال ہم یہاں ذکر کرتے ہیں:

(۱)من صلی خلف عالم تقی فکانما صلی خلف نبی (الدرایۃ۔ رقم۲٠۱)

(۲) من ترک الاربع قبل الظہرلم تنلہ شفاعتی (الدرایۃ۔ رقم۲۶٠)

(۳) اخروہن (ای: النساء) من حیث اخرہن اللہ (الدرایۃ۔ رقم۲٠۹)

(۴) الرفع محمول علی الابتداء۔ کذا نقل عن ابن الزبیر (الدرایۃ۔ رقم۱۸٠)

(۵) لاترفع الایدی الا فی سبعۃ مواطن۔۔۔۔۔۔ (الدرایۃ۔ رقم۱۸٠)

(۶) فاوضوا فانہ اعظم للبرکۃ (الدرایۃ۔ رقم۷۵۵)

(۷) ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلس علی مرفقۃ حریر (الدرایۃ۔رقم۹۴۲)

(۸) صلوۃ النہار عجماء (الدرایۃ۔ رقم ۱۹۳)

(۹) ثلاث جدہن جد، النکاح والطلاق والیمین (الدرایۃ۔ رقم۶۲۷)

(۱۰) قال فی خبیب: سید الشہداءورفیقی فی الجنۃ (الدرایۃ۔ رقم ۸۸٠)

اینٹی احناف مصنفین کا رویہ

  بر صغیر کے جوشیلے انیٹی احناف مصفنین صاحبِ ہدایہ کے ان تسامحات کو کیا رنگ دیتے ہیں، کیسے ان تسامحات کی بنیاد پر صاحبِ ہدایہ کی شخصیت کا مثلہ تک کردیتے ہیں اور کس طرح مناظرانہ حاشیہ آرائی کے جوش میں علمی آداب وقرائن کو یکسر نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں، اس کا اندازہ کرنے کے لیے اپنے حلقہ کے ایک ذمہ دار مصنف مولانا محمد جوناگڑھی کے جملوں کا ایک انتخاب ملاحظہ کیجئے جو ان کی کتاب ”درایتِ محمدی“ سے اخذ کیا گیا ہے، واضح رہے کہ یہ سب جملے من وعن انہی کے الفاظ پر مشتمل ہیں:

 ”صاحبِ ہدایہ نے بڑی دلیری کی ہے کہ اپنا مذہب ثابت کرنے کے لئے حدیثِ رسول میں اضافہ کردیا۔(درایتِ محمدی۔ صفحہ۳۵) یہ اضافہ ان کا گھریلو جملہ ہے جو کسی حدیث کی کتاب میں نہیں۔ (صفحہ۳۴)حنفی مذہب ثابت کرنے کے لئے ٹھیکیدار مذہبِ حنفی صاحبِ ہدایہ بڑا زور لگاتے ہیں، ضعیف احادیث پیش کرتے ہیں اور پھر ان میں بھی اضافے کرتے ہیں(۳۵، ۳۶)محبانِ رسول اس تہمت کو قطعا برداشت نہیں کرسکتے۔ (صفحہ۳۶)علامہ موصوف نے ایک حدیث میں ایک ایسا لفظ بڑھا دیاکہ دونوں مطلب نکل آئے۔ شافعی مذہب اڑ گیا، حنفی مذہب جم گیا۔ اور فتح مندی کا سہرا سر پر بندھ گیا۔ گو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا بڑا جرم ہے، لیکن مذہب کی پاسداری بھی عجیب چیز ہے جو انسان کے دل میں سوائے اس کی وقعت کے جس کا مذہب مانتا ہے، کسی اور کو باوقعت رہنے ہی نہیں دیتی۔ (۳۶)یہ مصنف صاحب کا کارخانہ ساز لفظ ہے۔ (۳۸) انہوں نے اپنے قول کو قولِ پیغمبر کہا ہے۔ (۳۸)ضرورت تھی کہ شافعی مذہب کی جڑیں کھودی جائیں، اس لیے ایک حدیث میں یہ جملہ بڑھا دیا۔ (۴٠) سوائے ہدایہ شریف کے حدیث کی کسی اور کتاب میں تو یہ الفاظ نہیں ہیں، ہاں اگر مصنف ہدایہ ہی کو نبی مان لیا جائے پھر تو سارا ہدایہ ہی حدیث ہے۔ (۳۹) پوری کی پوری حدیث گھڑ لی (۴۲) یہ خاص مصنف کے گھریلو اور من گھڑت الفاظ ہیں (۵۲) کسی کے بیٹے کو دوسرے کا بیٹا کہنا بڑا پاپ ہے، اسی طرح ایک کی بات کو دوسرے کی طرف منسوب کرنا بھی ایک شرمناک علمی غلطی ہے۔ پھر غیر نبی کی باتو ں کو نبی کی باتیں کہنا صریح ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن علامہ مصنف نے بے کھٹکے موقوف روایت کو مرفوع حدیث کہہ دیا (۵۹) ابراہیم نخعی کے قول کو رسول اللہ کا قول کہنا یا تو یہ معنی رکھتا ہے کہ ابراہیم نخعی بھی رسول اللہ تھے یا یہ کہ امام ابو حنیفہ کی رائے کے ثبوت کے لئے یہ جائز ہے کہ رسول اللہ کی نہ کہی بات کو ہم رسول اللہ کی بات کہہ دیں(۶٠) مصنف صاحب جانتے ہیں کہ میری یہ کتاب مقلد پڑھیں گے جنہیں قرآن وحدیث ٹٹولنا کہاں نصیب ہوگا۔ جو ہم کہیں گے وہ پتھی کی لکیر ہوگی، بس اس ہمت پر جو چاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں اور جس کا چاہتے ہیں نام لے دیتے ہیں۔ (۴۱)“

مقلدین کو قرآن وحدیث ٹٹولنا نصیب ہوا؟

  مصنف کہتے ہیں کہ مقلدین کو قرآن وحدیث ٹٹولنا کہاں نصیب ہوگا، سو اطلاعا عرض ہے کہ مقلدین کو قرآن وحدیث ٹٹولنا نصیب ہوا ہے۔ چنانچہ کئی حنفی مقلدین نے ہی ”الہدایہ“ کی احادیث کی تخریج لکھی ، علم الاسناد کے اصولوں پر ان کو پرکھا، تسامحات کی توضیح کی، نیز تنقیح وتخریج کا یہ سارا کام خود مرغینانی ہی کے منہج فکر کے مطابق اور گویا ایک معنی میں انہی کی رضامندی سے ہوا کیونکہ ہم جان چکے ہیں کہ وہ خود بھی اپنے پیش روﺅں کی احادیث کو اسی اصول پر پرکھتے رہے ہیں اور وہ اس معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار نہ تھے۔ پچھلے ہمیشہ پہلوں کے علمی تسامحات کو نشان زد کرتے رہے ہیں، یہ کوئی حیرت کی بات نہیں اور نہ ہی اس معاملہ میں غیر ضروری عقیدت یا مخالفانہ عصبیت کو ہوا دینے کی ضرورت ہے۔ احناف کے محدثین نے جس طرح الہدایہ کی احادیث کی تخریجات لکھی ہیں اور جس طرح بے اصل احادیث کو نشان زد کیا، جوشیلے اینٹی احناف مصنفین کو بھی اس کی اچھی طرح خبر ہے۔ چنانچہ مرغینانی کے مختلف تسامحات پر نکتہ چینی کرتے ہوئے یہ خود ہی حنفی علماءکے حوالے بھی دیتے رہتے ہیں کہ دیکھئے ، کیسے ایک حنفی عالم ہی احادیثِ ہدایہ پر (علمی انداز میں)ناقدانہ کلام کررہا ہے، لیکن افسوس کہ خود اسی پہلو پر غور کرتے ہوئے اپنے افراط کو اعتدال میں بدلنے کے لئے کوئی محنت نہیں کرتے۔

کیا تساہل اور افتراءہم معنی ہیں؟

  ”درایتِ محمدی“ سے لیے گئے گذشتہ اقتباس کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ مصنف مذکور کے نزدیک مرغینانی مفتری، کذاب اور واضع الحدیث ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹی احادیث اپنے دل میں بیٹھ کر جوڑتے تھے، جبکہ ثبوت اس کا صرف یہی ہے کہ ان کی کتاب میں چند بے اصل احادیث آگئی ہیں۔ چنانچہ یہ خیالات صرف ایک محمد جوناگڑھی صاحب کے نہیں، اسی طبقہ  فکر کے مولانا وحید الزمان خان نے ”تنقید الہدایہ“ میں اور محمد یوسف جے پوری نے ”حقیقۃ الفقہ“ میں بھی چند بے اصل احادیث کی بناءپر صاحبِ ہدایہ کے لئے ”افتراء“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے معاصر حافظ ارشاد الحق اثری تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ (دیکھئے ان کی کتاب: احادیثِ ہدایہ کی فنی وتحقیقی حیثیت۔ صفحہ۱۸)

  یہاں میں ایک سادہ سا سوال ان حضرات کے سامنے رکھتا ہوں کہ کیا محض اس بنیاد پر کسی کومکمل وثوق کے ساتھ ”واضع الحدیث“  کہا جاسکتا ہے کہ اس کی کتاب میں چند غیر معتبر اور بے اصل احادیث بغیر تصریح کے آگئی ہیں؟ (واضح رہے کہ کسی کو مکمل وثوق کے ساتھ ”واضع الحدیث“  کہنا تقریبا اس کو دائرہ ایمان سے خارج کرنے کے مترادف ہے) اگر ان کا جواب اثبات میں ہے تو پھر کیا وہ ابنِ قیم، ابنِ جوزی، شوکانی، ذہبی، امام شافعی، ابن عبدالبر اور سیوطی کو بھی کذاب اور ”واضع الحدیث“ کہیں گے جن کی کتابوں میں موضوع، بے اصل اور غیر معتبر احادیث بغیر کسی سند اور صراحت کے موجود ہیں،جیساکہ ہم مقالہ کی ابتداءمیں اس کی تفصیل عرض کرچکے ہیں۔

اینٹی احناف مصنف اور مولانا عبد الحی لکھنوی

  اہلِ علم کے تسامح کو تسامح اور تساہل پر محمول کرنے کی بجائے اسے ان کی ”دین دشمنی“ پر محمول کرنا اور یہ سمجھنا کہ وہ دین کے حلیہ کو جان بوجھ کر بگاڑنا چاہتے تھے، شاید اِس حلقہ کے جوشیلے مصنفین کا یہی وہ رویہ ہے جسے دیکھتے ہوئے مولانا عبد الحی لکھنوی فرنگی محلی جیسے نہایت معتدل حنفی نے بھی ان کے لیے بہت سخت الفاظ استعمال کیے ہیں، واضح رہے کہ مولانا عبد الحی لکھنوی ایک جید حنفی عالم ہیں، وہ تقلیدِ جامد کے سخت خلاف ہیں اور حنفی ہونے وکہلانے کے باوجود انہوں نے بے شمار مسائل میں اپنے ہی امام سے برملا اختلاف کیا ہے اور ان کے انہی اختلافات کو لے کر اینٹی احناف مصنفین عمومی حنفیوں کو چھیڑتے بھی رہتے ہیں، نیز مولانا ارشاد الحق اثری نے ایک کتابچہ ”مسلکِ احناف اور مولانا عبد الحی لکھنوی“ میں ان تمام اختلافات کو بڑی عرق ریزی سے جمع کردیا ہے جس پہ وہ بجا طور پر مستحقِ تبریک ہیں، مگر کیا وہ جانتے ہیں کہ مولانا فرنگی محلی نے خود ان کے طبقہ کے غیر عالمانہ رویوں کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے کتنے شدید الفاظ استعمال کیے ہیں، اگر نہیں تو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں، مگر اس وضاحت کے ساتھ کہ ہماری حیثیت یہاں پر صرف ناقل کی ہے اور ذاتی طور پر ہم خود اتنے شدید تبصرہ کے حق میں نہیں۔ مولانا لکھنوی لکھتے ہیں کہ یہ نیچریوں کے چھوٹے بھائی اور نیچریت کے بعد مسلمانانِ ہند کے لیے دوسرا بڑا فتنہ ہیں، ان کے الفاظ ہیں:

”واخوانہم (ای: النیاشرہ) الاصاغر المشہورین بغیر المقلدین الذین سموا انفسہم باہل الحدیث وشتان مابینہم وبین اہل الحدیث شاع فی جمیع بلاد الہند وبعض بلاد غیر الہند فخربت بہ البلاد ووقع النزاع والعناد“ (الآثار المرفوعۃ۔ صفحہ۶)

نیز اس سے ملتی جلتی ایک عبارت ان کی کتاب ”امام الکلام فی القراءۃ خلف الامام“ کے آغاز میں بھی موجود ہے۔

  واللہ ہم خود حیران ہیں کہ مولانا لکھنوی نے یہ اتنی غیر معمولی اور مبالغہ آمیز بات کیسے لکھ دی، جبکہ ان کا اعتدال ضرب المثل ہے؟ کیا یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ اینٹی احناف حضرات کچھ فروعی مسائل میں احناف سے اختلاف کرتے ہیں؟ نہیں، حنفیوں سے اختلاف تو خود فرنگی محلی نے بھی بہت سے مسائل میں کیا ہے، پھر دوسروں سے کیا شکوہ؟ ہمارا خیال ہے کہ مولانا کی حسیات میں یہ تیزی فقط ان رویوں کو دیکھ کر پیدا ہوئی کہ اینٹی احناف حضرات کے یہاں محض دوسروں سے اختلاف ہی نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ فروعی مسائل میں مختلف رائے رکھنے والوں کے بارہ میں یوں تاثر دیا جاتا ہے کہ شاید وہ دین کے دشمن ہیں اور قصدا وعمدا غیر صحیح آراءاختیار کرکے دین کا حلیہ بگاڑنا چاہتے ہیں، ظاہر ہے کہ فروعی مسائل میں ہونے والے اختلاف کو اگر یہ رنگ دیا جائے تو پھر احناف کو چھوڑیے، کیا سلف وخلف میں سے کوئی بھی آدمی ہماری بدگمانی کی تلوار سے بچ سکے گا اور کیا یہ بدگمانی امت کی دینی صحت کے لیے درست ہے؟ تقلیدِ جامد کے رویوں پر تنقید ہونی چاہئے اور اس حوالہ سے لوگوں کی ذہن سازی کے لیے اینٹی احناف طبقہ کے بھی کسی قدر مثبت کردار کا اعتراف کرنا چاہئے، مگر دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ فروعی اختلافات اور اہلِ علم کے تسامحات کو لے کر طعن وتشنیع کا توپ خانہ کھول لینا قطعا درست نہیں اور یہ اسلاف ومحدثین کے نہج کے خلاف ہے۔

خوش گمانی کے غلو پر مبنی رویہ

  پہلا رویہ اگر مخالفانہ عصبیت پرمبنی تھا تو یہ دوسرا رویہ غیر ضروری حد تک بڑھے ہوئے جوشِ عقیدت کا نتیجہ ہے اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیساکہ بعض لوگ جوشِ عقیدت میں اور اپنی کم علمی کی بناءپر غزالی کی احیاءالعلوم وغیرہ میں مذکور احادیث کو صرف اس وجہ سے سندِ قبولیت دینا چاہتے ہیں کہ غزالی بہت بڑے عالم تھے اور یقینا چھانٹ پھٹک کرکے ہی انہوں نے یہ احادیث نقل کی ہوں گی۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ احادیثِ ہدایہ کے معاملہ میں ہمارے ہاں کے بہت سے احناف خاصی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، انہیں محض حسنِ ظن کی بناءپر بغیر سند کے سندِ قبولیت عطا کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے عجیب وغریب تاویلات بیان کی جاتی ہیں۔ حالانکہ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ احادیثِ ہدایہ علمی نقد ونظر سے بالا تر نہیں اور یہ کہ جن علماءنے ہدایہ میں مذکور روایات کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ علم الاسناد کی کسوٹی پر تولا ہے، ان میں اکثریت خود حنفی علماءاور شارحین کی ہے، مثلا علامہ زیلعی، عینی، ابن الہمام، عبدالقادر القرشی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، قاسم بن قطلوبغا اور مولانا عبدالحی لکھنوی وغیرہ کے ناموں پر آپ غور کرسکتے ہیں، جن کی عبارات وتخریجات کا ایک مفصل تعارفی اشاریہ ہم سابقہ سطور میں عرض کرچکے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ خصوصا ہندوستانی احناف حدیث کے باب میں عمومی طور پر دوسروں کی تو کیا، خود اپنے محدثین کی بھی ٹھیک طرح قدر نہیں کرپائے۔

  مولانا عبدالحی نے اپنی کتابوں میں جہاں احادیثِ ہدایہ پر کلام کیا ہے، وہاں بعض حنفیوں کی اس حساسیت کا بھی ذکر کیا ہے اور ان کی اس طرح کی عبارات کا ایک اشاریہ گذشتہ سطور میں گذر چکا ہے۔ اسی طرح شیخ عبد الفتاح ابوغدۃ نے جو اپنی تصانیف میں مذکورہ رویہ پر بار بار تنقید کی ہے، وہ بھی غالبا اسی تناظر میں ہے۔ پہلے مذکور غیر علمی رویہ کی طرح یہ رویہ بھی اپنے حلقہ کے بعض ذمہ دار مصنفین کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے اور اسی وجہ سے اِس رویہ کو بھی زیرِ بحث لانے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ تاہم یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ استدلال کی کم زوری کے باوجود اس حلقہ کے لب ولہجہ میں ہمیں فریقِ اول کی طرح کی کوئی ناشائستگی بہرحال نظر نہیں آئی۔ لہجہ کی شائستگی کا اندازہ کرنے کے لیے ایک معروف حنفی مصنف مولانا عبد القیوم حقانی کا اقتباس ملاحظہ کیجئے، وہ لکھتے ہیں:

”صاحبِ ہدایہ نے متقدمین ائمہ پر اعتماد کرتے ہوئے ا ن کی روایات کو اپنی تصنیف میں جگہ دی ہے۔ بعد میں فتنہ  تاتار میں متقدمین کا علمی سرمایہ بہت کچھ ضائع ہوگیا اور بہت سی کتابیں جو پہلے متداول تھیں، اب فتنہ میں بالکل معدوم ہوگئیں۔ اب اربابِ تخریج نے ان روایات کو متقدمین ائمہ کی تصانیف میں تلاش کرنے کی بجائے ان کتابوں میں تلاش کیا ہے جو ان کے عہد میں تھیں،  اسی لیے ان کو متعدد روایات کے متعلق یہ کہنا پڑا کہ یہ روایت حافظ زیلعی اور حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ مخرجینِ احادیث ہدایہ بصراحت لکھتے ہیں کہ ہم کو نہ مل سکیں، حالانکہ وہ روایات کتاب الآثار اور مبسوط امام محمد وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ کچھ ہدایہ ہی کی خصوصیت نہیں، خود صحیح البخاری کی تعلیقات میں بھی بہت سی ایسی روایتیں موجود ہیں جن کے بارہ میں حافظ ابنِ حجر نے یہی تصریح کی ہے جس کی اصل وجہ وہی متقدمین کی کتابوں کا فقدان ہے، ورنہ امام بخاری یا صاحبِ ہدایہ کی شان اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ ان کے متعلق کسی نے بے اصل روایت بیان کرنے کا شبہ بھی ظاہرکیا ہو۔“ (ہدایہ اور صاحبِ ہدایہ۔ صفحہ۵۷، ۵۸)

عبارت میں ابہام

  واضح رہے کہ ہم نے مولانا حقانی کا یہ اقتباس صرف لہجہ کی شائستگی کو واضح کرنے کے لیے دیا ہے، ورنہ مولانا حقانی کی عبارت مبہم ہے کہ آیا وہ امکانات اور حسنِ ظن کی بنیاد پر صاحبِ ہدایہ کا حقِ احترام محفوظ رکھوانا چاہتے ہیں یا پھر ان امکانات کے زور پر ہدایہ کی بے اصل احادیث کو نقد ونظر سے ماوراءبھی ٹھہرانا چاہتے ہیں، تاہم انہوں نے جس طرح ہدایہ کی بے اصل احادیث کو تعلیقاتِ بخاری پر قیاس کیا ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف صاحبِ ہدایہ کے ساتھ حسنِ ظن کا تقاضا ہی نہیں کر رہے، بلکہ ان کی نقل کردہ بے اصل روایات کو بے اصل کہنا بھی درست نہیں سمجھتے ہیں اور ہم مولانا حقانی کا تمام تر احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس معاملہ میں ان سے اختلاف کی جسارت کرتے ہیں۔ ہم اپنے مقالہ میں اہلِ علم کے حوالہ سے بہت تفصیل کے ساتھ عرض کرچکے ہیں کہ بعض بے اصل احادیث کا کسی کی کتاب میں مذکور ہوجانا جیسے اسے تہمت زدہ نہیں بنا دیتا کہ اس نے خود یہ احادیث وضع کی ہیں، اسی طرح یہ تساہل اس کی علمی ثقاہت کے خلاف بھی نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا صرف مرغینانی کے ساتھ نہیں ہوا، بلکہ ابن قیم، ابن ِ جوزی اور شافعی جیسی قد آور شخصیات کے ہاں بھی اس طرح کے تساہل کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ لہذا تساہل کی ایسی کوئی مثال سامنے آنے پر مصنف کے معتقدین کو پریشان نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کی علمی ثقاہت کو تحفظ دینے کے لیے کوئی غیر علمی رویہ اپنانا چاہئے کیونکہ اس نوعیت کے تساہل سے اگر کسی کی ثقاہت متاثر ہونے لگے تو پھر ہمیں سب سے پہلے ان محدثین سے ہاتھ دھونے پڑیں گے جن سے یہ تساہل ہوا اور جن کی تفصیل گذشتہ سطور میں گذر چکی ہے۔ خصوصا مرغینانی کی احادیث کو محض حسنِ ظن کی بناءپر قبول کرنا تو خود ان کے اپنے منہج سے انحراف ہے جسے قبل ازیں بیان کیا جاچکا ہے۔

  مختصرا دوبارہ کہہ دیتے ہیں کہ بے اصل روایات میں دو امکانات ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ مصنف سے تساہل ہوا ہو اور وہ ان روایات کی اسنادی پوزیشن پر کماحقہ نظر نہ ڈال سکا ہو یا پھر یہ کہ وہ روایات کسی ایسی کتاب اور سند کے ذریعہ اس تک پہنچی ہوں جو حوادثِ زمانہ کی نذر ہوگئی ہو، سو اصحاب الحدیث اور سنجیدہ علماءکا مزاج یہ رہا ہے کہ وہ ایسی روایات پر کلام کرتے ہوئے ان دونوں امکانات کو مدِ نظر رکھتے ہیں، وہ ایک طرف ناقل مصنف کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ان روایات کو علم الاسناد کی کسوٹی پر تولنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ اگر روایات کو محض حسنِ ظن کے زور پر قبول کرنا شروع کردیا جائے اور حسنِ ظن ہی کو اساس ٹھہرایاجائے تو پھر علم الاسناد کی کوئی وجہِ جواز باقی نہیں رہتی۔ جس طرح سلف حسنِ ظن کی بجائے علم الاسناد کی کسوٹی پر روایات کو تولتے رہے، اسی طرح خلف نے سلف کی روایات کو بھی تولا ہے اور کسی روایت کی صحت وضعف کا واحد دائمی معیار علم الاسناد ہی رہا ہے۔ اسلاف کی علمی روایت کے مداح اور ترجمان معاصرین میں اب یہ اعتدال کی شان نظر نہیں آتی، وہ یا تو حسنِ ظن کی بناءپر بے اصل احادیث کو مقبول ٹھہرادیتے ہیں اور بشری تساہل کے امکان کو نظر انداز کردیتے ہیں، یا پھر بدگمانی کے زور پر بات کو اس حد تک لے جاتے ہیں کہ جس مصنف کی کتاب میں یہ بشری تساہل ہوا، وہ خود ہی مفتری اور کذاب ہے، جبکہ حسنِ ظن کے پہلو کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں۔

تعلیقاتِ بخاری اور بلاغاتِ مالک وغیرہ پر قیاس

  رہی بات احادیثِ ہدایہ کو ”تعلیقاتِ بخاری“ پر قیاس کرنے کی تو تعلیقاتِ بخاری کے ساتھ ہم یہاں ”بلاغاتِ مالک“ اور ترمذی کے ”وفی الباب“ کوبھی شامل کرلیتے ہیں کیونکہ بعض لوگوں کے لئے یہ بھی مغالطہ کا باعث بنتے ہیں اور احادیثِ ہدایہ کو وہ ان پر بھی قیاس کرتے ہیں۔صحیح البخاری میں بعض روایات بغیر سند کے یا نامکمل سند کے ساتھ موجود ہیں جنہیں ”تعلیقاتِ بخاری“ کہا جاتاہے، اسی طرح موطا امام مالک میں بھی کچھ روایات بغیر سند کے موجود ہیں جنہیں ”بلاغاتِ مالک“ کہا جاتا ہے، نیز جامع الترمذی میں بھی اکثر وبیشتر ”وفی الباب“ کے تحت کسی ایسی روایت کی دیگر سندوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جس کی ایک مکمل سند خود امام ترمذی چند سطور قبل درج کرچکے ہوتے ہیں، تاہم ”وفی الباب“کے تحت وہ اس روایت کی باقی سندوں میں سے صرف صحابہ کے نام ذکر کرتے ہیں اور طوالت سے بچنے کے لیے پوری اسناد ذکر نہیں کرتے۔ان میں سے کسی کے بارہ میں بھی یہ سمجھنا کہ یہ سب بغیر سند کے ایسے ہی مقبول ہیں جیساکہ مکمل سند والی احادیث ہوتی ہیں اور پھر ہدایہ کی بے اصل احادیث کو بھی ان پر قیاس کرنا، ناواقفیت ہے۔ ذیل میں ترتیب وار ان کی تفصیل دی گئی ہے:

  امام بخاری نے التزام کیا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف صحیح احادیث درج کریں گے۔ نیز سند کے ساتھ انہوں نے جو احادیث بیان کی ہیں، وہ گواہی دیتی ہیں کہ انہوں نے اپنا یہ التزام اور وعدہ مکمل طور پر نبھایا بھی ہے۔ نیز ان کی بہت ساری تعلیقات ایسی ہیں جنہیں وہ خود دوسرے مقام پر مکمل سند کے ساتھ بیان کردیتے ہیں یا پھر کسی اور کتاب میں اس کی مکمل سند مل جاتی ہے اور وہ بھی صحیح ہوتی ہے۔ امام بخاری کی احتیاط، ایفائے عہد اور ان مذکور قرائن کو دیکھتے ہوئے بعض علماءنے ان کی ”تعلیقات“ کو بھی مجموعی طور پر”صحیح“ فرض کیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان حضرات کے نزدیک بھی ان کا وہ درجہ نہیں جو صحیح البخاری کی سند والی یعنی ”مسند“ احادیث کا ہے۔ جبکہ بعض علماءتو ان سب تعلیقات کو مجموعی طور پر ”صحیح“ ہی نہیں سمجھتے، بلکہ کچھ اضافی قرائن کی روشنی میں ان کی تعلیقات کی صحت کو جانچتے ہیں۔ (کوثر النبی، مولانا عبدالعزیز پرہاروی۔ صفحہ۲۲) لہذا یہ بات واضح ہوگئی کہ ”صحیح البخاری“ اپنی تمام تر قدرومنزلت کے باوجود بھی علم الاسناد کی نقد وپرکھ سے مستثنی نہیں۔ اس کی تعلیقات کو مطلقا قبول کرنے کے اضافی شواہد وقرائن موجود ہیں، مگر اس کے باوجود بعض محدثین ان کو مطلقا قبول نہیں کرتے اور ان کا یہ اختلاف ریکارڈ پر ہے، جبکہ جو کرتے ہیں تو وہ بھی ان کو خود بخاری ہی کی ”مسند احادیث“ کے برابر نہیں سمجھتے۔ اب ”الہدایہ“ کی بے سند احادیث کے لئے بھی اگر کچھ قرائنِ قبولیت کسی بھی درجہ میں موجود ہوتے تو کم ازکم حنفی ناقدین ومحدثین میں سے ہی کوئی نہ کوئی ان کا ضرور ذکر کرتا اور وہ متفقہ طور پر انہیں نقد وجرح کا موضوع نہ بنا رہے ہوتے۔

  بلاغاتِ مالک کے لیے بھی قرائنِ قبولیت موجود ہیں، مثلا سفیان ثوری کا قول ہے کہ امام مالک جب کسی حدیث کے ساتھ ”بلغنی“ (بلاغت) کا اسلوب اختیار کریں تو فی الواقع اس کی صحیح سند موجود ہوتی ہے۔ (اوجزالمسالک۔ جلد۱، صفحہ۳۱۷)لیکن اس کے باوجودامام مالک کے ہی پیروکار ابن عبدالبر نے ضرورت محسوس کرتے ہوئے”بلاغاتِ مالک“ کی تخریج کی ہے جن کی تعداد اکسٹھ (۶۱) تک پہنچتی ہے۔ ستاون (۵۷) بلاغات کی تخریج میں وہ کامیاب ہوگئے، جبکہ چار احادیث کے بارہ میں انہوں نے برملا لاعلمی کا اظہار کیاجن کے نمبر ہیں: ۳۳۱، ۴۵۶، ۱۱۴۵، ۳۳۵٠۔پھر ان میں سے بھی تیسری روایت کے ساتھ امام مالک کے صریح الفاظ موجود ہیں کہ مجھے یہ روایت ثقہ اور معتبر راویوں کے ذریعہ پہنچی ہے، خواہ انہوں نے ان کے نام ذکر نہیں کئے، جبکہ دوسری حدیث کی تخریج بھی ابنِ عبدالبر کے علاوہ بعض دیگر حضرات نے کسی درجہ میں کردی ہے۔(اوجزالمسالک۔ جلد۲، صفحہ ۳۲۳) باقی رہ گئی چوتھی اور پہلی حدیث تو اگرچہ بلفظہ ان کی تخریج نہیں ہوسکی، مگر روایت بالمعنی کے درجہ میں ان کی سند بھی موجود ہے۔ (اوجزالمسالک۔ جلد۶، صفحہ ۱۷٠، ۱۷۱۔ جلد۱، صفحہ ۳۱۷) اب الہدایہ کی احادیث کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اگر کسی حدیث کی تخریج میں محدثین کسی بھی درجہ میں کامیاب ہوگئے تو اسے قبول کیا گیا ہے لیکن جو سراسر بے اصل ہیں تو انہیں آخر ”موطا“ کی کون سی احادیث پر قیاس کرتے ہوئے سندِ قبولیت بخشی جاسکتی ہے؟

  باقی رہا ”جامع الترمذی“ کے ”وفی الباب“ کامعاملہ تو اس کی نوعیت یہ ہے کہ امام ترمذی ہر باب میں کم از کم ایک روایت مقدور بھر مکمل سند کے ساتھ لکھتے ہیں، بعد ازاں اسی باب میں ”وفی الباب“ کے عنوان کے تحت ان تمام صحابہ کے نام جمع کرتے ہیں جن سے وہ حدیث مروی ہوتی ہے ، لیکن طوالت سے بچنے کے لئے ہر صحابی تک اپنی مکمل سند ذکر نہیں کرتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ”نفسِ حدیث“ پر کوئی ضعیف اثر نہیں پڑتا، بلکہ کسی درجہ میں اس کی مزید تائید ہی ہوجاتی ہے۔ ترمذی نہ تو کسی روایت کو بغیر سند کے نقل کرتے ہیں اور نہ ہی کسی نے ان کی روایات کو بغیر سند کے قبول کرنے کی بات کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہدایہ کی بے اصل احادیث کو ان کے ساتھ جوڑتے ہوئے سندِ قبولیت عطا کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

حسنِ ظن کا دائرہ کار اور محدثین کا اعتدال

  باقی اس میں شک نہیں کہ ہم ہدایہ کی جن احادیث کو تساہل پر محمول کررہے ہیں، ضروری نہیں کہ ان میں واقعی مصنف سے ہی تساہل ہوا ہو، بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ ان کے پاس اس کی صحیح سند کا کوئی حوالہ موجود رہا ہو اور تخریج کرنے والے اصحابِ علم سے ہی تحقیق وتفتیش میں کوئی کمی رہ گئی ہو، چنانچہ ہدایہ کی ایسی کئی احادیث ہیں جن کو بعض اصحابِ تخریج نے بے اصل قرار دیا، مگر قاسم بن قطلوبغا نے اپنی تصنیف ”منیۃ الالمعی“ میں ان کی تخریج کردی۔ ہم اس امکان اور حسنِ ظن کے قائل ہیں اور یہ خود محدثین ہی کے منہج کے عین مطابق ہے۔ علامہ ابراہیم بن حسن الکورانی الشافعی نے المسلک الوسط الدانی الی الدرر الملتقط للصنعانی کے ابتدائی دو صفحوں میں اس پہلو پر بڑی نفیس گفتگو کی ہے۔ وہ امام سیوطی کے توسط سے نقل کرتے ہیں کہ سے ان احادیث کے بارہ میں سوال کیا گیا جن کو شوافع کے ائمہ اور احناف کے ائمہ اپنی فقہ کی کتابوں میں نقل کرتے ہیں اور کتبِ حدیث میں ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ملتاتو انہوں نے جواب دیا کہ عین ممکن ہے کہ ان ائمہ کے پاس ان احادیث کی کچھ اسناد موجود رہی ہوں جو ہم تک نہ پہنچ سکی ہوں۔“ (صفحہ۲)

  تاہم یہ محض ایک امکان ہے اور محض اس امکان کے زور پر کسی حدیث کی توثیق نہیں کی جاسکتی چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خود ابنِ حجر، سیوطی اور کورانی نے ہی حسنِ ظن اختیار رکھنے کے ساتھ ساتھ، دوسری طرف کئی ایسی احادیث کو اپنی کتابوں میں نشان زد بھی کیا ہے جن کی تخریج وہ نہیں کرپائے تاکہ لوگوں کو ان پر متنبہ کیا جاسکے، لیکن ان کو صاف صاف جھوٹ ومن گھڑت قرار دینے کی بجائے وہ ذومعنی الفاظ اختیار کرتے ہیں جو اعتدال کا مرقع ہوتے ہیں اور جو حدیث کی اسنادی پوزیشن کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ناقل مصنف کے بارہ میں حسنِ ظن کی گنجائش بھی باقی چھوڑتے ہیں۔اس کی تفصیل مقالہ میں ذکر کردی گئی ہے۔


الشریعہ اکادمی میں ختم خواجگان کا آغاز

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

الشریعہ اکادمی میں ہر ماہ فکری نشست ہوتی ہے جس میں استاد محترم  مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم   سال کے آغاز میں  طے کر دہ عنوانات پر ترتیب وار گفتگو کرتے ہیں جو کہ بہت  جامع ، پر مغز اور مفید ہوتی ہے  ۔ اس ماہ 19 دسمبر کو نشست ہوئی جس کا عنوان " 1953 کی تحریک ختم نبوت " تھا ۔ اس نشست میں خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کے سجادہ نشین  حضرت  مولانا خواجہ خان محمد ؒ کے جانشین حضرت  خواجہ خلیل احمد  دامت برکاتہم تشریف لائے  جس کا مقصد یہ تھا کہ نشست کے ساتھ ختم خواجگان شروع کیا جائے ۔ الشریعہ اکادمی کے زیر انتظام جامع مسجد خورشید کوروٹانہ میں ہر ہفتے مجلس ذکر ہوتی ہے اورکچھ عرصہ قبل  "سالانہ روحانی اجتماع " کے عنوان سے جامع مسجد  خورشید کوروٹانہ میں ایک پروگرام ہوا ، جس میں خواجہ صاحب تشریف لائے تھے ۔ استاد محترم مولانا زاہد الراشدی نے بتایا کہ وہ امام اہلسنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ  کے متوسلین کے لیے اس نشست کا اہتمام کرتے ہیں اورمیں اپنے فکری اور طبعی میلان کی وجہ سے چاہتا ہوں کہ  یہ مجلس ذکر آپ کی سرپرستی میں نقشبندی سلسلہ کے مطابق  کی جائے  ۔ خواجہ صاحب نے اس درخواست کو قبول فرمایا  چنانچہ مجلس ذکر کے ساتھ ختم خواجگان کو شروع کرنے کے لیے اب  دوبارہ تشریف لائے ۔

نشست کے آغاز میں استاد محترم مولانا زاہد الراشدی نے نقشبندی سلسلہ ، خانقاہ سراجیہ  اور حضرت خواجہ خان محمد ؒ سے اپنی قلبی   و فکری مناسبت  اور  میلان کا ذکر کیا ۔خانقاہ سراجیہ شریف ہمارے قومی سطح کے روحانی، دینی اور تحریکی مراکز میں سے ہے۔ حضرت خواجہ خان محمد ؒ  ہمارے بڑے بزرگوں  میں سے تھے ، خانقاہ سراجیہ کے مسند نشین تھے ،  والد محترم امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر کے دورہ حدیث  ساتھیوں میں سے تھے  ، دونوں دار العلوم دیوبند کے فضلاء اور  شیخ العرب و العجم حضرت  مولانا حسین احمد مدنیؒ    کے شاگر دتھے ۔ 1953 ء  کی تحریک ختم نبوت میں والد محترم 10 ماہ جیل میں رہے اور خواجہ صاحب سات ماہ جیل میں رہے  جبکہ حضرت خواجہ صاحب نے 84ء  کی تحریک ختم نبوت کی قیادت کی ۔ اور اس کے بعد بھی تا عمر وہ ختم نبوت کی تمام تحریکوں اور پروگراموں کی قیادت وسرپرستی فرماتے رہے ۔ ان کا ذوق و مزاج تقریر نہ کرنے کا تھا لیکن ان کی خاموشی میں ہی سب کچھ ہوتا تھا۔  وہ گھنٹوں ختم نبوت کے پروگراموں میں بیٹھے رہتے اور آخر میں دعا فرمادیا کرتے تھے ۔ وہ تمام مسالک کی مسلمہ و محترم  شخصیات میں سے تھے ۔ ان کے کہنے پر سبھی آجاتے تھے  ، کوئی انکار نہیں کرتا تھا۔ سبھی کے ہاں ان کا یکساں احترام تھا ۔ مسلمانوں  کی باہمی فرقہ واریت میں اتحاد امت  کے حوالے سے ان کا مؤثر کردار رہا ۔ بہت بڑ ے اللہ والے تھے،   نقشبندی سلسلہ کے بڑے بزرگوں میں سے تھے ۔  ان کے ساتھ جماعتی اور تحریکی زندگی کا طویل عرصہ ایک کارکن کے طور پر گزارنے کی سعادت مجھے حاصل رہی ہے۔

استاد محترم کے  بعد  نشست کے مہمان خصوصی حضرت خواجہ خلیل احمدصاحب نے خانقاہ سراجیہ کی تاریخ پر کچھ روشنی ڈالی ۔بزرگوں کی خواہش تھی کہ اردو  ، پنجابی اور پشتو بولنے والوں کے سنگم پر ہو ،  اسی سوچ کے مطابق اس کو بنایا گیا ۔ ختم خواجگان کی تاریخ و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری خانقاہ میں 1920 ء سے اس ختم کا اہتمام ہورہا ہے اور اس میں کسی صورت بھی ناغہ نہیں ہوتا۔کبھی کوئی ایسا مسئلہ ہوجائے جس کی وجہ سے یہ نہ ہوسکے تو الگ بات ہے، ورنہ اس میں ایک تسلسل ہے اور ایک صدی سے جاری ہے ۔ خانقاہ سراجیہ میں ختم خواجگان صبح و شام ہوتاہے ۔ اس کوا جتماع یا مجمع میں لوگوں کے ساتھ مل کر بھی پڑھ سکتے ہیں اور  اکیلے بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ اس ختم کے ذریعہ  مصیبتیں و مشکلات حل ہوتی ہیں ، ہر قسم کی حاجات و ضرورتیں پوری ہوتی ہیں ، امراض سے شفاء ملتی ہے  ،  دعائیں قبول ہوتی ہیں اور برکت کے حصول کا ذریعہ ہے ۔

ختم خواجگان کا طریقہ یہ ہے کہ اول ہاتھ اٹھا کر سورۃ فاتحہ شریف ایک مرتبہ پڑھ کر دعا مانگے کہ یا اﷲ اس ختم خواجگان کو قبول فرما لے اور جن بزرگوں کی طرف یہ ختم منسوب ہے، ان کو اس کا ثواب پہنچا دے۔ اس کے بعدسات بار الحمد شریف، اس کے بعد  ۷۹ بار سورہٴ الم نشرح، پھر  ۱۰۰بار درود شریف، اس کے بعد ایک ہزار بار سورہٴ اخلاص، پھر ۷ بار الحمد شریف، پھر ۱۰۰ بار درود شریف، پھر  ۱۰۰ بار یا قاضيَ الحاجات ویَا کافيَ المہمات، یا دافعَ البلیّاتِ، یا حلّ المشکلات، یا رافعَ الدرجات، یَا شافيَ الأمراض، یا مجیب الدعوات، یا أرحم الراحمین پڑھا جاتا ہے ۔ حضرت خواجہ صاحب نے لوگوں کو دائرے کی شکل میں بیٹھا کر گٹھلیوں پر اس ختم کا ورد کروایا اور پھر دعا کے ساتھ اس روحانی و فکری مجلس کا اختتام ہوا ۔


فروری ۲۰۲۰ء

مدرسہ ڈسکورسز: اہداف ومقاصد اور توقعاتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۲)ڈاکٹر محی الدین غازی
دینی مدارس اور مشترکہ تعلیمی نصابمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی ؒ کا انتقالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مدرسہ ڈسکورسز : علماء وفضلاء کے تاثراتادارہ

مدرسہ ڈسکورسز: اہداف ومقاصد اور توقعات

محمد عمار خان ناصر

مسلم علمی روایت سے گہری واقفیت کے فقدان کے اثرات ہمارے ہاں دو طرح سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ ایک اس طبقے کے ہاں جو جدیدیت کے بعض نتائج کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے اور ان سے متصادم ہونے کی وجہ سے روایت کی بحیثیت مجموعی تحقیر کا رویہ رکھتا ہے۔ دوسرا وہ طبقہ جو جدیدیت کے بعض نتائج سے نالاں اور نفور ہے اور اس کی بحیثیت مجموعی مذمت اور تردید کے رجحان کا حامل ہے، چنانچہ روایت سے براہ راست اور گہری واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی چیزوں کو محض جدیدیت کا نتیجہ فرض کر لیتا ہے۔  ان دونوں رجحانات کا اس کے علاوہ کوئی مداوا نہیں کہ مسلم علمی روایت سے گہری اور original واقفیت کا علمی ماحول پیدا کیا جائے۔ اگر آج ایک تازہ فکری روایت کی تشکیل کی ضرورت ہے تو اس کا پہلا قدم اسلامی علمی تراث کے ساتھ ایک زندہ اور گہرا ربط قائم کرنا ہے۔

مدرسہ ڈسکورسز کے پلیٹ فارم سے اسی نوعیت کی ایک سعی کی جا رہی ہے جس میں مدارس کے ذہین اور باصلاحیت فضلاء غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔   مدرسہ ڈسکورسز کے مباحث، مختلف پہلوؤں سے اسلامی علمی روایت کی ایسی تفہیم پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ’’منقول دینی روایت” کے لیے مختلف تاریخی تناظرات میں پیدا ہونے والے فکری وعقلی مباحث سے تعامل ناگزیر ہے۔ اس کے لیے کلاسیکی اسلامی روایت میں اس نوعیت کے مباحث کی روشنی میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ مذہبی فکر نے جدیدیت کے روبرو ’’فکری تعامل” کی اس روایت کو کس انداز میں آگے بڑھایا ہے، اس کی مشکلات کیا ہیں اور کس قسم کی متنوع پیچیدگیاں تنقیدی تجزیے کا تقاضا کرتی ہیں۔

زیر نظر شمارے میں ، مدرسہ ڈسکورسز کے نئے گروپ میں  شامل ہونے والے ممتاز علماء وفضلاء  کے تاثرات کا ایک انتخاب پیش کیا جا رہا ہے  جن سے اس نوعیت کی علمی وفکری مساعی کی اہمیت اور  فضلاء میں  علمی تشنگی  کا احساس   نمایاں طور پر  سامنے آتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ شرکاء کی  گہری دلچسپی، علمی وتحقیقی ذوق، اور فکری سنجیدگی کی بدولت  مطلوبہ علمی وفکری ماحول کے احیاء میں   یہ پلیٹ فارم  ان شاء اللہ  مفید اور موثر کردار ادا کر سکے گا۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۸۸)    شقاق کاترجمہ

قرآن مجید میں شقاق کا لفظ اور اس سے مشتق فعل متعدد مقامات پر ذکر ہوئے ہیں۔ اہل لغت کی صراحت کے مطابق شقاق کا مطلب ہے، مخالف ہوجانا، دشمنی اختیار کرلینا۔

خلیل فراہیدی کے الفاظ میں: والشِّقَاقُ: الخلاف۔ (العین)

فیروزابادی لکھتے ہیں: والمُشَاقَّۃ والشِّقاقُ: الخِلافُ، والعَدَاوَۃ۔ (القاموس المحیط)

راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والشِّقَاقُ: المخالفۃ، وکونک فی شِقٍّ غیر شِقِ صاحبک۔ (المفردات فی غریب القرآن)

تراجم قرآن کا جائزہ بتاتا ہے کہ اکثر جگہ اکثر مترجمین نے یہی مذکورہ مفہوم اختیار کیا، لیکن کچھ مترجمین نے کچھ مقامات پر اس سے کچھ مختلف مفہوم بھی ذکر کیا، جیسے جھگڑا کرنا، ضد کرنا، مقابلہ کرنا وغیرہ۔ گو کہ جھگڑا، ضد، جنگ، مقابلہ یہ سب مخالفت اور دشمنی سے نکلے ہوئے رویے ہیں، لیکن ان میں بہرحال فرق ہے، جسے ملحوظ رکھنا مناسب ہے۔

ذلِكَ بِأنَّھُم شاقُّوا اللَّـہ وَرَسولَہ وَمَن يُشاقِقِ اللَّـہ وَرَسولَہ فَإنَّ اللَّـہ شَديدُ العِقابِ (الانفال: 13)

“یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے ” ۔(سید مودودی)

“یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔ اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے سو بےشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے”۔ (محمد جوناگڑھی)

“یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخا لفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کرے تو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے”۔ (احمد رضا خان)

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـہِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمُ الْھُدَى لَن يَضُرُّوا اللَّـہَ شَيْئًا وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَھُمْ۔ (محمد: 32)

“جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول سے جھگڑا کیا جبکہ ان پر راہ راست واضح ہو چکی تھی، در حقیقت وہ اللہ کا کوئی نقصان بھی نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ ہی ان کا سب کیا کرایا غارت کر دے گا “۔(سید مودودی)

“بیشک جن لوگوں نے کفر اختیار کرلیا اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکا اور ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی پیغمبر سے جھگڑا کیا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں اور اللہ عنقریب ان کے اعمال کو بالکل برباد کردے گا”۔ (ذیشان جوادی)

“جن لوگوں کو سیدھا رستہ معلوم ہوگیا (اور) پھر بھی انہوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) خدا کی راہ سے روکا اور پیغمبر کی مخالفت کی وہ خدا کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے۔ اور خدا ان کا سب کیا کرایا اکارت کردے گا”۔ (فتح محمد جالندھری)

ذَلِكَ بِأَنَّھُمْ شَاقُّوا اللَّـہَ وَرَسُولَہ وَمَن يُشَاقِّ اللَّـہَ فَإِنَّ اللَّـہَ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔ (الحشر: 4)

“یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کو سزا دینے میں بہت سخت ہے”۔ (سید مودودی)

“یہ اس لیے کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔ اور جو شخص خدا کی مخالفت کرے تو خدا سخت عذاب دینے والا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

ثُمَّ يَومَ القِيامَۃِ يُخزيھِم وَيَقولُ أَينَ شُرَكائِيَ الَّذينَ كُنتُم تُشاقّونَ فيھِم قالَ الَّذينَ أوتُوا العِلمَ إِنَّ الخِزيَ اليَومَ وَالسّوءَ عَلَی الكافِرينَ ۔ (النحل: 27)

“پھر قیامت والے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں رسوا کرے گا اور فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کے بارے میں تم لڑتے جھگڑتے تھے”۔ (محمد جوناگڑھی)

“پھر قیامت کے روز اللہ اُنہیں ذلیل و خوار کرے گا اور اُن سے کہے گا ''بتاؤ¶ اب کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے لیے تم (اہل حق سے) جھگڑے کیا کرتے تھے؟”۔(سید مودودی)

“پھر وہ ان کو قیامت کے دن بھی ذلیل کرے گا اور کہے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کے بارے میں تم جھگڑا کرتے تھے”۔ (فتح محمد جالندھری)

“پھر قیامت کے دن انہیں رسوا کرے گا اور کہے گا میرے شریک کہاں ہیں جن پر تمہیں بڑی ضد تھی”۔ (احمد علی)

یہاں عام طور سے لوگوں نے جھگڑا کرنا ترجمہ کیا ہے۔ مناسب ترجمہ یہ ہے کہ: جن کی بنا پر تم نے مخالفت اور دشمنی اختیار کی تھی۔

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْھُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا۔ (النساء: 115)

“مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو”۔ (سید مودودی) یہاں عام طور سے لوگوں نے مخالفت کرنے کا ترجمہ کیا ہے۔

فَإنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوا وَّإن تَوَلَّوْا فَإنَّمَا ھُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَھُمُ اللَّـہُ وَھُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔ (البقرة: 137)

“پھر اگر وہ اُسی طرح ایمان لائیں، جس طرح تم لائے ہو، تو ہدایت پر ہیں، اور اگراس سے منھ پھیریں، تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں”۔ (سید مودودی)

“پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر منھ پھیریں تو وہ نری ضد میں ہیں”۔(احمد رضا خان)

“اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منھ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

ذَٰلِكَ بِأنَّ اللَّـہَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ۔ (البقرة: 176)

“ اور اس کتاب میں اختلاف کرنے والے یقینا دور کے خلاف میں ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

“مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے “۔(سید مودودی)

“اور بے شک جو لوگ کتاب میں اختلاف ڈالنے لگے وہ ضرور پرلے سرے کے جھگڑالو ہیں”۔ (احمد رضا خان)

“اور جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا وہ ضد میں (آکر نیکی سے) دور (ہوگئے) ہیں”۔(فتح محمد جالندھری)

 وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِھِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أھْلِہٖ وَحَكَمًا مِّنْ أھلِھَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـہُ بَيْنَھُمَا إنَّ اللَّـہَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ۔ (النساء: 35)

“اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں اَن بن ہے” ۔(فتح محمد جالندھری)

“اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو”۔ (سید مودودی)

“اور اگر تم کو میاں بی بی کے جھگڑے کا خوف ہو ”۔(احمد رضا خان)

“اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی اَن بن کا خوف ہو”۔ (محمد جوناگڑھی)

بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّۃٍ وَشِقَاقٍ۔ (ص: 2)

“مگر جو لوگ کافر ہیں وہ غرور اور مخالفت میں ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)

“بلکہ یہی لوگ، جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے، سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں” ۔(سید مودودی)

“بلکہ کافر تکبر اور خلاف میں ہیں”۔ (احمد رضا خان)

“بلکہ کفار غرور ومخالفت میں پڑے ہوئے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

وَيا قَومِ لا يَجرِمَنَّكُم شِقاقي أَن يُصيبَكُم مِثلُ ما أَصابَ قَومَ نوحٍ أَو قَومَ ھُوْدٍ أَو قَومَ صالِحٍ وَما قَومُ لوطٍ مِنْكُم بِبَعيدٍ۔ (ہود: 89)

“اور اے برادران قوم، میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچا دے کہ آخر کار تم پر بھی وہی عذاب آ کر رہے جو نوحؑ یا ہودؑ یا صالحؑ کی قوم پر آیا تھا اور لوطؑ کی قوم تو تم سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے” ۔(سید مودودی)

“اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموادے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صا لح کی قوم پر، اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں”۔ (احمد رضا خان)

“اور اے قوم! میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے کہ جیسی مصیبت نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر واقع ہوئی تھی ویسی ہی مصیبت تم پر واقع ہو۔ اور لوط کی قوم (کا زمانہ تو) تم سے کچھ دور نہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)

“اور اے میری قوم (کے لوگو!) کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو میری مخالفت ان عذابوں کا مستحق بنا دے جو قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح کو پہنچے ہیں۔ اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور نہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ۔ (الحج: 53)

“بیشک ظالم لوگ گہری مخالفت میں ہیں”۔(محمد جوناگڑھی)

“حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دور نکل گئے ہیں”۔(سید مودودی)

“اور بیشک ستمگار دُھرکے (پرلے درجے کے) جھگڑالو ہیں”۔(احمد رضا خان)

“بے شک ظالم پرلے درجے کی مخالفت میں ہیں”۔(فتح محمد جالندھری)

مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ ھُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ۔ (فصلت: 52)

“بس اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہوگا جو مخالفت میں (حق سے) دور چلا جائے”۔ (محمد جوناگڑھی)

“اُس شخص سے بڑھ کر بھٹکا ہوا اور کون ہوگا جو اِس کی مخالفت میں دور تک نکل گیا ہو؟” (سید مودودی)

“تو اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو دور کی ضد میں ہے”۔ (احمد رضا خان)

“تو اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو (حق کی) پرلے درجے کی مخالفت میں ہو”۔ (فتح محمد جالندھری)

مذکورہ بالا آخری دونوں آیتوں میں شقاق بعید کی تعبیر ہے، جس کا صحیح مطلب مخالفت میں دور نکل جانا ہے، نہ کہ دور کی مخالفت میں ہونا۔ جس طرح ضلال بعید کا مطلب گمراہی میں دور نکل جانا ہے، نہ کہ دور کی گمراہی میں پڑنا۔

(۱۸۹) اصحاب المیمنۃ اور اصحاب المشئمۃ کا ترجمہ

قرآن مجید میں کہیں اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال آیا ہے، جس کا ترجمہ دائیں بازو والے اور بائیں بازو والے کیا جاتا ہے۔ البتہ دو مقامات پر اصحاب المیمنۃ اور اصحاب المشئمۃ آیا ہے، شمال کا اصل معنی بائیں طرف اور بایاں بازو ہے، وہ بدنصیبی اور نحوست کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ مشئمۃ، شؤم سے ہے، جس کے اصل معنی بدنصیبی اور نحوست کے ہیں، اور کبھی بائیں کے معنی میں بھی استعمال ہوجاتا ہے۔

خلیل فراھیدی کے الفاظ ہیں: والمشئمۃ من الشُّؤم، ویقال: رجل مشؤوم۔

یمین اور میمنة میں دونوں مفہوم ہیں دائیں بازو اور دائیں طرف کا مفہوم بھی ہے، اور برکت وخوش نصیبی کا مفہوم بھی ہے۔ مقابل کے لحاظ سے اس کا معنی متعین ہوسکتا ہے۔ درج ذیل دونوں مقامات میں سے اول الذکر مقام پر عام طور سے میمنة اور مشئمة کا ترجمہ یمین اور شمال یعنی دائیں اور بائیں کا کیا گیا ہے، جب کہ ثانی الذکر مقام پر بہت سے مترجمین نے میمنة اور مشئمة کا ترجمہ خوش نصیبی اور بدنصیبی کیا ہے، اور یہی دونوں مقامات پر زیادہ مناسب ہے۔

فَأصْحَابُ الْمَيْمَنَۃِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَۃِ۔ وَأصْحَابُ الْمَشْأمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأمَةِ۔ (الواقعة:8۔9)

“دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا، اور بائیں بازو والے، تو بائیں بازو والوں (کی بد نصیبی کا) کا کیا ٹھکانا”۔ (سید مودودی)

“تو دہنی طرف والے کیسے دہنی طرف والے، اور بائیں طرف والے کیسے بائیں طرف والے”۔ (احمد رضا خان)

“پس داہنے ہاتھ والے کیسے اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے، اور بائیں ہاتھ والے کیا حال ہے بائیں ہاتھ والوں کا”۔ (محمد جوناگڑھی)

“تو داہنے ہاتھ والے (سبحان اللہ) داہنے ہاتھ والے کیا (ہی چین میں) ہیں، اور بائیں ہاتھ والے (افسوس) بائیں ہاتھ والے کیا (گرفتار عذاب) ہیں” ۔(فتح محمد جالندھری)

أُولَـئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَۃِ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا ھُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأمَةِ۔ (البلد: 18۔19)

“یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے، اور جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا وہ بائیں بازو والے ہیں”۔ (سید مودودی)

“یہ دہنی طرف والے ہیں، اور جنہوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا وہ بائیں طرف والے” ۔(احمد رضا خان)

“یہی لوگ صاحب سعادت ہیں، اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو نہ مانا وہ بدبخت ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)

“یہی لوگ خو ش نصیبی والے ہیں، اور جن لوگوں نے ہماری آیات سے انکار کیا ہے وہ بد بختی والے ہیں”۔ (ذیشان جوادی)

“یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے (خوش بختی والے) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا یہ کم بختی والے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)


دینی مدارس اور مشترکہ تعلیمی نصاب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلٰی مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے گزشتہ روز درویش مسجد پشاور میں علماء کرام اور کارکنوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جن خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے وہ پورے ملک کے دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کے دل کی آواز ہیں، بالخصوص ان کا یہ کہنا کہ حکومت کے ساتھ جو معاہدات ہوئے ہیں ان پر اگر ان کی روح کے مطابق عمل نہ ہوا تو ہم ان کی پابندی ضروری نہیں سمجھیں گے۔

دینی مدارس کے وفاقوں کی مشترکہ تنظیم ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ کے قائدین کے ساتھ وفاقی وزیر تعلیم کے چند ماہ قبل ہونے والے مبینہ معاہدہ کے بارے میں جن تحفظات کا مختلف سطحوں پر کچھ دنوں سے اظہار ہو رہا ہے اس کے پیش نظر وفاقوں کی قیادت کی طرف سے اپنے موقف کا واضح اظہار اور دینی مدارس کے منتظمین، اساتذہ، طلبہ اور معاونین کو اعتماد میں لینا ضروری ہوگیا تھا، جس کا آغاز پشاور سے ہوا ہے اور امید ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کا اہتمام کیا جائے گا۔

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان نے دو روز قبل دینی مدارس کے وفاقوں کی ذمہ دار قیادت کے ساتھ اس سلسلہ میں تفصیلی بات کی ہے ،جبکہ مختلف مکاتب فکر کے مشترکہ فورم ملی مجلس شرعی پاکستان کا ایک اجلاس لاہور میں راقم الحروف کی صدارت میں منعقد ہوا ہے جس میں مختلف دینی جماعتوں کے سرکردہ راہنماؤں نے شرکت کی اور ان کی طرف سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

ان سرگرمیوں کی خبریں تفصیل کے ساتھ اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں اس لیے ان کا اعادہ کرنے کی بجائے ہم ان خدشات و تحفظات کا ایک بار پھر تذکرہ کرنا چاہیں گے جن کا اگرچہ بار بار ذکر ہوتا آ رہا ہے، مگر موجودہ حالات کے پیش نظر انہیں پھر سے ایک ترتیب کے ساتھ پیش کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

اس لیے میں دینی مدارس کے تمام وفاقوں کی قیادت سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح ہمارے اکابر نے دستوری حوالہ سے ۲۲ متفقہ نکات پیش کر کے ایک جامع دستاویز قوم کے حوالے کی تھی اسی طرح عصری و دینی تعلیم کے جملہ شعبوں اور مراحل کے حوالہ سے ایک جامع خاکہ بھی سامنے آجانا چاہیے، تاکہ وہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات کی طرح تعلیمی شعبوں میں قوم کی راہنمائی کی مستقل اساس بن جائے، اس کے سوا میرے خیال میں اس مسئلہ کا شاید کوئی مناسب حل نہیں نکل سکے گا۔

حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی ؒ کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی بھی کم و بیش پچاسی برس اس جہانِ رنگ و بو میں گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

۳۱ دسمبر کو اسلام آباد میں حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی سے ملاقات کا پروگرام طے تھا۔ حضرت سے رات سونے سے قبل رابطہ ہوا تو فرمایا کہ کل ظہر آپ میرے ساتھ پڑھیں گے اور پھر کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ پروگرام طے کر کے ہم سو گئے مگر صبح اذان فجر سے قبل آنکھ کھلی تو موبائل نے صدمہ و رنج سے بھرپور اس خبر کے ساتھ ہمارے دن کا آغاز کیا کہ حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کا رات اسلام آباد میں انتقال ہوگیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

مولانا فداء الرحمان کے ساتھ میری جماعتی رفاقت نصف صدی سے زیادہ عرصہ کو محیط ہے اور ہم نے مختلف دینی تحریکات و مہمات میں اکٹھے کام کیا ہے۔ ان کے مزاج میں دوستوں کے ساتھ مشاورت کے ساتھ چلنا بطور خاص شامل تھا اور ان کی ساری زندگی اسی ذوق کے تسلسل سے عبارت ہے۔ دوستوں کی بات سننا، انہیں احترام دینا، ان کے مشورہ کو قبول کرنا اور اعتماد میں رکھنا ان کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔ دینی مدارس کے قیام اور ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی انہیں اپنے والد گرامی حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی قدس اللہ سرہ العزیز سے ورثہ میں ملی تھی، اور ان کی نگرانی میں جامعہ انوار القرآن کراچی، مرکز حافظ الحدیث حسن ابدال اور مدرسہ تعلیم القرآن پتھورو سندھ کے مرکزی مدارس سمیت بیسیوں مدارس خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔

دینی جماعتوں کی سرپرستی کرنا اور حسب موقع ان کی تائید و حمایت کرنا بھی حضرت درخواستی ہی کی روایت تھی جو ان کے جانشین کے طور پر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے قائم رکھی اور دینی تحریکات کی سرپرستی کرتے رہے۔ وہ سب سے زیادہ زور اس بات پر دیتے تھے کہ ہمیں کسی بھی دینی جدوجہد کے لیے اپنے اکابر اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہیے، وہ کہتے تھے کہ اس میں برکت اور کامیابی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تلاوت کلام پاک، احادیث نبویہ کا مسلسل تذکرہ اور اللہ اللہ کی تلقین بھی ان کے معمولات کا حصہ تھی۔ اور وہ اسی طرز زندگی کے ساتھ اب اللہ رب العزت کے بلاوے پر لبیک کہہ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالٰی ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہم سب کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مدرسہ ڈسکورسز : علماء وفضلاء کے تاثرات

ادارہ

پروفیسر ادریس آزاد 

(استاذ زائر، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد)

مجھے جب پہلی بار مدرسہ ڈسکورسز کا پتہ چلا تو میں نے کچھ دھیان نہ دیا۔ایک سال یونہی گزرگیا۔ پھر جب میں نے مدرسہ ڈسکورسز کے نصاب اورمباحث پر نظرڈالی تو مجھے حیرت کا نہایت خوشگوارجھٹکالگا۔ یہ  میرے لیے بالکل ہی نئی بات تھی۔میں تو مدرسہ ڈسکورسز  کو فقط کوئی  جدیدیت زدہ پروگرام سمجھ رہاتھا لیکن یہ تو ایک ایسی تحریک تھی جس میں مدرسہ کی پرانی ساکھ اورقوت واپس بحال کرنے کی پوری پوری صلاحیت موجود تھی۔ چنانچہ  میرے دل میں  مدرسہ  ڈسکورسزکے ساتھ متعلق ہوجانے کی خواہش پیدا ہوئی۔میری یہ خواہش ابھی میرے دل میں ہی تھی کہ مدرسہ ڈسکورسز کے پاکستان میں لیڈفیکلٹی (Lead Faculty)  برادرم ڈاکٹر عمارخان ناصرنے مجھےکال کرکے مدرسہ ڈسکورسز کی کلاسوں کو سائنس پڑھانے کی پیشکش کردی جسے  میں نے فوراً قبول کرلیا۔

مدرسہ ڈسکورسز، دراصل ایک تعلیمی و تدریسی سرگرمی کا نام ہے۔ یہ ایک پروگرام ہے جو پروفیسر ڈاکٹرابراہیم موسیٰ نے شروع کیا ہے۔ڈاکٹرابراہیم مُوسیٰ اسلامی دنیا کا ایک معروف نام ہیں۔اُن کاتعلق جنوبی افریقہ سےہے جبکہ اُن کے ننھیال ہندوستان میں ہیں۔ڈاکٹرابراہیم موسیٰ کی ابتدائی  تعلیم ہندوستان کے مدراس میں ہوئی۔ ان مدارس میں دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ ندوۃ العلمأ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ  کا تعلیمی پس منظر مدارس کا ہے اس لیے وہ مدارس کے نظام کی اصل خوبیوں سے واقف ہیں۔فی زمانہ ڈاکٹرابراہیم موسیٰ دینی مدارس کی روایت زندہ کو کرنے کے بہت بڑے حامی ہیں۔چنانچہ وہ اپنی کتاب ’’مدرسہ کیا ہے؟‘‘ میں اسکول اور مدرسہ میں سے،  مدرسہ کوبہترسمجھتےاوراس کی بھرپوروکالت کرتے ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز کے پاکستان میں لِیڈ فیکلٹی ڈاکٹرعمارخان ناصر ہیں۔ڈاکٹرعمارخان ناصراپنے علم و حلم، دونوں کے حوالے سے معروف ہیں۔عام طورپر عمارخان کو غامدی صاحب کے ہم مؤقف سمجھ لیا جاتا ہے جو کسی حدتک شاید درست بھی ہے، لیکن فی الحقیقت وہ اپنی فکری زندگی میں بالکل آزادی کے ساتھ غوروفکر کرنے والے ایک نہایت باریک بین اسکالر ہیں۔اُن کا مزاج اورطبیعت محققانہ ہےجبکہ اُن کی شخصیت میں بلا کی متانت ہے۔میں نے ذاتی طورپر اُنہیں ایک صالح اوردیانتدارشخص پایا۔

گزشتہ ہفتے  سمسٹرکے اختتام پر مدرسہ ڈسکورسز کی ورکشاپ تھی۔مجھے پہلی بار اپنی کلاس کے علمائے کرام سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ کہنے کو تو میں ان نابغوں کا استاد تھا کیونکہ میں ان علمائے کرام کو سائنس پڑھاتاہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ورکشاپ کا پورا ہفتہ میں نے حالتِ مرعوبیت میں گزارا۔ میرے چاروں طرف ہندوستان اور پاکستان کے ایسے ایسے فاضل  ، نوجوان علمأ  موجودتھے کہ میں ان کے درمیان اپنے آپ کو اَن پڑھ محسوس کرتاتھا۔ عربی، فارسی، اورفقہ پربے پناہ عبوررکھنےوالے یہ نوجوان ہرمسلک سے تھے۔ بریلوی، دیوبندی اورشیعہ علمأ کی نمائندگی میں تعداد کا فرق تھا تو میں اُس فرق کو ایک عارضی فرق سمجھتاہوں جو وقت کے ساتھ دُورہوسکتاہے۔صرف یہی نہیں کہ مختلف مسالک کے فقط مرد علمأ ہی  اس کورس میں  شریک ہیں بلکہ  خواتین کی نمائندگی بھی مناسب حدتک معقول ہے۔ ورکشاپ میں پاکستانی اور ہندوستانی خواتین اور طالبات نے دقیق  علمی موضوعات پر نہایت سہولت کےساتھ رواں انگریزی میں ایسی  بہادری  سے حصہ لیا کہ میں اپنی سگی بیٹی کو مدرسہ ڈسکورس کی طالبہ بنانے کی خواہش کرنے لگا۔ان میں سے زیادہ تر  طالبات کا تعلیمی  پس منظر بھی مدراس   سے تھا۔

مولانا سمیع اللہ سعدی

مدرسہ ڈسکورسز کی ابتدا ہوتے ہی اسے جوائن کرنے کا ارادہ کیا تھا ، لیکن بعض وجوہ سے اس میں تاخیر ہوگئی ،آخر کار تیسرے بیچ کے لئے اپلائی کیا ،تحریری و تقریری امتحان کے مراحل سے گزرنے کے بعد بحیثیت طالب علم مدرسہ ڈسکورسز کا حصہ بن گیا ۔ ٹھیٹھ روایتی طبقے کی مخالفت اور اپنی افتاد طبع کے سبب ذہن میں اندیشوں و وسواس کا جال بھی بن چکا تھا ،لیکن کچھ وجوہ سے اس چوٹی کو سر کرنے کا اٹل فیصلہ کر لیا تھا ،مدرسہ ڈسکورسز کے تین مہینے کے اسباق ہوچکے ہیں اور قطر میں ایک ہفتہ کی ورکشاپ ،اس لیے ایک سہ ماہی کے اسباق پڑھنے ،ایک ہفتہ قطر میں کورس کے شرکاء اور اساتذہ و منتظمین کو خوب تنقیدی طور پر پرکھنے کے بعد جو تاثرات بنے ہیں ،اس میں اپنے قارئین و احباب کو شریک کرنا چاہوں گا :

1۔ کورس کے شرکاء مضبوط استعداد کے ذہین فضلاء ہیں ،ہر شریک کورس علمی میدان میں (نوجوان فضلاء کے اعتبار سے ) کسی نہ کسی حوالے سے ممتاز ہے ،(سوائے میرے )اس سے کورس کے منتظمین کی نظر انتخاب کی داد دینی پڑے گی ۔ان میں سے بعض شرکا مدارس کے جید اساتذہ کرام اور مفتیانِ کرام ہیں ،خصوصا ازہر الہند دار العلوم دیوبند کے بعض جید مفتیان کرام بھی قافلہ ڈسکورسز کے شرکاء میں سےہیں ۔

2۔مدرسہ ڈسکورسزکے بانی و روح رواں ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کے بارے میں یہ محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب علم و فکر کے آدمی ہیں ،گپ شپ ،فضول گفتگو اور ادھر ادھر کی باتوں سے کوسوں دور ہر وقت ،ہر موقع پر وہ سیکھنے سکھانے کی باتوں میں مصروف ہوتے ہیں ۔ان کی فکری باتوں کا مرکزی محور مدارس ،مدارس کو درپیش چلینجز اور مدارس کے فضلا کو اپنی چودہ سو سالہ روایت سے جوڑنے کی فکر تھی ۔مدرسہ کا ذکر کرتے ہوئے آخری مجلس میں ان کے زار و قطار آنسووں نے ساری مجلس کو عجیب کیفیت سے سرشار کیا ۔ ان کے طریقہ کار سے اختلاف کا حق ہر ایک کو ہے ، اور شاید مجھے بھی بعض باتوں میں اختلاف ہو ،لیکن مدرسہ سے ان کی محبت اور مدرسہ کو مدرسہ رہنے کی ان کی خواہش و لگن اور اپنے کاز سے بے پناہ دلچسپی و اخلاص ہر شک وہ شبہ سے بالاتر نظر آتی ہے ۔یہ تاثر صرف میرا نہیں ، پاک وہند کے پچاس کے قریب فضلا کی بالکل نجی مجالس و گفتگووں کے تاثرات بھی تقریبا یہی تھے ۔

3۔مدرسہ ڈسکورسز کے پاکستان میں لیڈ فیکلٹی مولانا عمار خان ناصر صاحب ہیں ۔استاد عمار صاحب پر موافق و مخالف اتنا کچھ لکھا گیا کہ مزید لکھنا ضیاع ِ وقت محسوس ہوتا ہے ۔ آپ کے افکار سے اختلاف اور بعض سے باوجود اب استاد ہونے کے شدید اختلاف کے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ مولانا عمار صاحب کو اسلاف کی علمی روایت سے حد درجہ اعتنا اور محبت ہے ۔آپ شاید اس کا یقین نہیں کریں گے لیکن اس بات کے گواہ کورس کے پچاس کے قریب شرکاء ہیں کہ آخری مجلس میں جب مولانا عمار صاحب نے مدارس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ مدارس ہماری تہذیب کی واحد آخری نشانی ہیں تو ان پر کچھ ایسی رقت طاری ہوئی اور آنسووں کی لڑی ایسی جاری ہوئی کہ ان سے پھر مزید نہیں بولا گیا اور قطع کلامی کر کے اپنے الوداعی کلمات درمیان میں چھوڑنے پڑے ۔اس کورس کا علمی وقار بلا شبہ استاد عمار صاحب کے دم سے قائم ہے ۔

4۔ مدرسہ ڈسکورسز کے ہندوستان کے لیڈ فیکلٹی جناب ڈاکٹر وارث مظہری صاحب ہیں ۔ڈاکٹر وارث صاحب انگریزی و عربی  کی اعلی استعداد،جدید و قدیم تراث اور تحریری و تقریری میدان میں یکساں مہارت کے باوجود ایک درویش صفت انسان ہیں ۔انہیں بلا شبہ مدرسہ ڈسکورسز کا صوفی کہا جاسکتا ہے ،ایک متدین و صاحب تقوی عالم دین ہیں۔

5۔مدرسہ ڈسکورسز کے امریکہ سے لیے گئے استاد بلوچستان، چمن کے ایک ہونہار نوجوان ڈاکٹر شیر علی ترین ہیں۔عربی ،اردو اور انگریزی (پشتو بھی ) کے ماہر اور خاص طور پر پاک وہند کے مکاتب اور پاک وہند کی علمی و فکری روایت کا تقابلی مطالعہ ان کا اختصاصی میدان ہے ۔ ڈاکٹر ترین صاحب مدرسہ ڈسکورسز کے مستقل استاد ہیں ،ان سے تین مہینے پڑھنے کے بعد شرکائے کورس کی ان سے والہانہ تعلق ان کے اپنے فن میں مہارت اور طلبہ کے دلوں میں گھر کرنے والی معلمانہ صفات کا اظہار ہوتا ہے ۔

6۔مدرسہ ڈسکورسز کو شرورع کرتے وقت ہمارے میں ذہن میں سب سے بڑا سوال کورس کے نصاب کا تھا اور شاید مدرسہ ڈسکورسز کے بارے میں تجسس رکھنے والوں کے اذہان میں بھی یہی سوال کھلبلا رہا ہے ۔کورس کے نصاب کی ترتیب کچھ یوں رکھی گئی ہے کہ کورس کو بنیادی طور پر دو حصوں میں بانٹا گیا ہے ،جس کو حصہ محاضرات اور حصہ مطالعاتی مواد  کہا جاسکتا ہے ۔

7۔حصہ محاضرات میں ہر ہفتے سائنس اور  فلسفے کی ایک کلاس ہوتی ہے ۔سائنس کی کلاس انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ادریس آزاد صاحب لیتے ہیں ۔سر ادریس آزاد اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں ۔جتنا انچا ان کا علمی قد ہے ،اتنی ہی اونچی صفات کے حامل ہیں۔سائنس کا ٹیچر ہوکر اتنا تدین اور مضبوط عقیدے کا حامل ہونا باعث تعجب ہے ۔مبتدیوں کو نیوٹن و آئن سٹائن کے دقیق سائنسی نظریات کو ادبی چاشنی کے ساتھ آسان اسلوب اور پاور پوائنٹ پر بہترین پریزنٹیشن کی صورت میں سمجھانا سر ادریس آزاد صاحب کا امتیاز ہے ۔کورس میں ایک دن جب انہوں نے نظریہ ارتقاء پر اپنی پریزٹیشن پیش کی تو سماں بندھ گیا ،جبکہ فلسفے کی کلاس فلسفے میں ایم فل  کرنے والے نوجوان استاد عثمان رمزی صاحب پڑھاتے ہیں ۔ رمزی صاحب بھی فلسفے جیسے خشک موضوع کو ہم جیسے مبتدیوں کے لیے آسان سے آسان کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں ،فجزاہم اللہ ۔

8۔ حصہ مطالعاتی مواد  میں ترتیب یوں ہے کہ کچھ بڑے موضوعات طے کئے گئے ہیں ،جیسے اسلام اور سائنس،اسلامی تہذیب اور اس کا ارتقاوغیرہ ۔ان موضوعات سے متعلق ہر ہفتہ کا مطالعاتی مواد دیا جاتا ہے۔ مواد کا ایک حصہ عربی میں  ہوتا ہے ،جس میں متعلقہ موضوع پر ایک ٹھیٹھ روایتی کتاب ہوتی ہے ،جیسے امام غزالی ،امام ابن تیمیہ ، امام شاہ ولی اللہ ،مولانا قاسم نانوتوی وغیرہ کی کتب اور ایک حصہ انگریزی مواد کا ہوتا ہے،جس میں کسی مغربی مفکر کی تحریر ہوتی ہے ۔اس مواد کو خود پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ایک دن تیاری کلاس کے عنوان سے اس مواد کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔دوسرے دن مرکزی کلاس میں کورس کے اساتذہ مواد سے متعلق مناقشہ کرواتے ہیں۔ مناقشہ کا انداز یہ ہوتا ہے کہ اساتذہ پہلے ریڈنگ کے بنیادی نکات سمجھانے کے بعد شرکائے کورس کے اس بارے میں سوالات رکھتے ہیں اور شرکاء کو اپنی آرا ء پیش کرنے کا کہتے ہیں ۔یوں ہر شریک کورس اس مواد سے متعلق اپنے ملاحظات و سوالات پیش کرتا ہے ،پھر دوسرے شرکاء ان سے اتفاق یا اختلاف کرتے ہیں ۔یہ حصہ اتنا دلچسپ ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔اس کورس کا مغز یہی مناقشہ و مباحثہ ہے ،یوں ایک ٹیکسٹ اور ایک موضوع کے متنوع ابعاد سے واقفیت ہوتی ہے ۔

9۔کورس کو تین مہینے پڑھنے کے بعد ایک واضح تاثر یہ ابھرا کہ اس کورس میں کسی بھی موضوع سے متعلق پہلے سے کچھ نتائج فکس نہیں کیے گئے ،بلکہ مواد دے کر اس پر مناقشہ کروایا جاتا ہے ۔آپ اس مناقشہ میں جو موقف پیش کریں ،جو سوالات کریں ، اتفاق کریں ،اختلاف کریں ،آپ کا حق ہے ۔پھر مناقشہ کرنے کے بعد بھی نتائج کو حتمی شکل نہیں دی جاتی ۔یوں یہ کورس ایک ڈسکشن فورم ہے ،جس سے کسی بھی موضوع سے متعلق مکالمہ و مباحثہ ہوتا ہے۔تین مہینے اور قطر میں پوراا  یک ہفتہ صبح شام مسلسل پڑھنے کے بعد کم از کم یہ تاثر ہر ایک کا بن گیا  کہ یہاں کوئی متعین موقف پیش کر کے اس کے حق میں دلائل نہیں دیے جاتے ،جیسا کہ عمومی طور پر اس طرح کے کورسز میں ہوتا ہے ،بلکہ مناقشہ کروایا جاتا ہے اور خود شرکائے کور س کی آرا و ملاحظات سننے کا اہتمام ہوتا ہے ۔کم از کم میں جس گمراہی کی تلاش میں نکلا تھا ،یہاں سے مایوسی ہوئی ،اور استاد عمار صاحب سے از راہ تفنن عرض کیا کہ آپ لوگوں کے گمراہی والے در کب کھلیں گے؟ہمیں تو گمراہی کی تلاش ہے (اس سوال سے کورس کے شرکاء و اساتذہ کی بے تکلفی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے )۔ استاد عمار صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ گمراہی نظر نہ آنے کا مطلب ہے کہ آپ گمراہ ہوچکے ہیں، کیونکہ گمراہ کو گمراہی نظر نہیں آتی ۔اس سے محفل کشت زعفران بن گئی ۔

10۔مدرسہ ڈسکورسز کے بارے میں دو بڑے سوال ہر ذہن میں اٹھتے ہیں اور حق ہے کہ یہ سوال پیدا ہوں۔

 پہلا سوال یہ کہ کورس کی اس ساری ایکٹویٹی کا ہدف و مقصد کیا ہے؟اس کے بانی ارکان و اساتذہ کے ذہن میں وہ کون سا  ہدف ہے جس کی وجہ سے نصاب ،موضوعات اور طریقہ کار طے ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب جہاں تک میں سمجھا ہوں ، اور مدرسہ ڈسکورسز کے بانی ارکان و اساتذہ کی اس موضوع پر مختلف تحاریر پڑھی ہیں ،تو ان سے اس کورس کے دو بڑے ہدف نکلتے ہیں :

  1. اسلامی روایت کے تنوع کو جاننے کی کوشش اور موجودہ حالات میں اس سے استفادہ
  2. ماڈرن و پوسٹ ماڈرن ایج میں مذہب خصوصا اسلام اور اسلامی مواقف کی پوزیشن کے تعین  کی طرف پیش رفت

جہاں تک پہلا نکتہ ہے تو اس کے لیے ٹھیٹھ روایتی علماء کی نصوص کا مطالعہ کروایا جاتا ہے ،پھر ان نصوص کی مدد سے کسی بھی موضوع میں متعلقہ تنوع کو تلاشنے کی کوشش ڈسکشن کی صورت میں کی جاتی ہے ۔ اسلامی روایت میں تنوع ایک امر واقعہ ہے ۔فقہی اعتبار سے مذاہب اربعہ ،کلامی اعتبار سے اشعری ،ماتریدی ،حنابلہ ،محدثین ، میدانِ تصوف میں چشتی ،قادری وغیرہ ،دورِ جدید کے روایتی حلقوں میں دیوبندی ،بریلوی ،اہل حدیث ،عرب دنیا میں وہابی، سلفی الغرض مکاتب کے اعتبار سے تنوع کا ایک جہاں آباد ہے ۔پھر ہر مکتب میں مختلف مسائل میں تنوع ہے ،مثلا حسن و قبح کے مسئلے میں اہل سنت کے اندر اشعری موقف ،پھر اس موقف پر امام غزالی و رازی کے اضافہ جات ،پھر اس پر قرافی وغیرہ کی تعلیقات ۔الغرض ہماری اسلامی روایت ایک گلدستہ ہے ،جہاں ہر گل ِ را  رنگ و بوئے دیگر کا نظارہ ہوتا ہے ۔ اس تنوع کو جاننا ہر روایت پرست عالم کے لیے ضروری ہے ۔مدرسہ ڈسکورسز ہو یا نہ ہو ،اس کی ضرورت مسلم ہے اور خود درسِ نظامی کے نصاب میں اس تنوع کی کچھ نہ کچھ جھلک رکھی گئی ہے ۔اس نکتے کے تحت کورس کے نصاب میں یہ بھی شامل ہے کہ جب اسلامی روایت و تہذیب کا بیرونی افکار اور ثقافتوں  سے سامنا ہوا تو کس قسم کی صورتحال بنی؟ قبول کیا گیا ہے؟رد کا رویہ اپنایا گیا ؟یا بعض افکار مستعار لیے گئے؟ وغیرہ۔

دوسرے نکتے یعنی ماڈرن و پوسٹ ماڈرن ایج میں مذہب کی پوزیشن کے تعین کے ضمن میں جدید علوم وافکار کی تفہیم کے لیے  مغربی مفکرین کے متون کا مطالعہ کروایا جاتا ہے ،اگرچہ مغربی متون کا مطالعہ بسا اوقات اسلامی روایتی متون کے ساتھ مثبت یا منفی تقابل کے طور پر بھی کروایا جاتا ہے ۔

یہ نکتہ عالم ِاسلام کے دورِ زوال سے لے کر آج تک مسلسل علمی حلقوں میں زیر ِبحث آرہا ہے ،اسی سے دورِ جدید کے کلامی گروہ بنے ہیں ۔مدرسہ ڈسکورسز نے یہ نکتہ اٹھا کر دراصل اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ،جو روایت و جدیدیت دونوں حلقوں میں زیرِ بحث آیا ہے اور ابھی بھی زیرِ بحث ہے ،اس لیے ہر دو نکات کے لحاظ سے مدرسہ ڈسکورسز کوئی نئی بحث نہیں اٹھا رہا ،بلکہ انہی پامال موضوعات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دے رہے ہیں جس میں دورِ زوال کے مایہ ناز مسلم مفکرین کی زندگیاں صرف ہوئی ہیں ۔ اسلامی بینکاری ماڈرن ایج کی اقتصادیات کے میدان میں اسلامی موقف کا اظہار ہے ،جس سے خود مسلم مفکرین کا ایک بڑا گروہ اختلاف کر رہا ہے۔اسلامی جمہوریت ماڈرن ایج کے تصورِ ریاست و سیاست میں اسلامی موقف کا بیانیہ ہے جو آج تک مختلف فیہ ہے ۔اسی طرح ماڈرن کلچر،علمیات ،سائنس و فلسفہ ،ٹیکنالوجی اور اب پوسٹ ماڈرن ایج میں مذہب خصوصا اسلام کا کیا موقف ہونا چاہئے؟یہ عصر حاضر کا سب سے بڑا سوال ہے ۔مدرسہ ڈسکورسز اسے اٹھائے یا نہ  اٹھائے،مسلم امت کے مفکرین اس پر بحث کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

 دوسرا بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پروجیکٹ کو امریکہ کی جو یونیورسٹی اور امریکی ادارہ فنڈنگ دے رہا ہے، انہیں اس ہدف میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟اور شاید اس پروگرام سے مذہبی طبقے کی دوری ،اس کی مخالفت یا احتیاط کی وجہ بھی یہی فنڈنگ ہے کہ مغرب کی اسلام و مشرق دشمنی اظہر من الشمس ہے ،تو ایک خالص مسلم امت کو درپیش کسی مسئلے میں مغربی اداروں کی کیا دلچسپی ہوسکتی ہے ؟اس سوال کا جواب جاننے کے لیے یہاں دو باتوں کو الگ الگ کرنا ہوگا۔پہلی بات ہے کہ اس پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ کیسے اور کس عنوان کی بنیاد پر کی گئی ہے؟ دوسر ی بات کہ فنڈنگ کرنے والے ادارے کا اس کورس کے نصاب، پروگرامز،موضوعات میں کس قسم کا عمل دخل ہے؟جہاں تک دوسری بات ہے تو اس کورس کے نصاب،پروگرامز ،ورکشاپس ،داخلے ،ٹیچرز اول تا آخر بانی رکن ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر طے کرتے ہیں ،نیز آج تک اس کورس کے کسی بھی پروگرام میں فنڈنگ کرنے والے ادارے کے نمائندے نہیں آئے ہیں ، نہ ہی انہوں نے نے کسی قسم کا حصہ لیا ہے ۔

جہاں تک مسیحی یونیورسٹی کی دلچسپی  والی بات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے استاد عمار صاحب کی زبانی ڈاکٹر موسی صاحب کا موقف نقل کیا جاتا ہے۔ مولانا عمار صاحب لکھتے ہیں:

"ڈاکٹر ابراہیم موسی کا version یہ ہے کہ یہ مسیحی یونیورسٹی کا نہیں، بلکہ ابراہیم موسی کا پراجیکٹ ہے جو ایک مسیحی یونیورسٹی میں کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے مغربی جامعات میں کام کے انداز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو بھی اسکالر پروفیسر کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے، مغربی تعلیمی اداروں میں اس کو اپنے ذاتی تجربات اور ذوق کے حوالے سے مختلف منصوبے بنانے کی پوری آزادی حاصل ہوتی ہے اور ادارے پروفیسر حضرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ پراجیکٹس بنا کر فنڈ فراہم کرنے والے مختلف اداروں سے فنڈز لے کر آئیں۔ اس فنڈ میں سے یونیورسٹی، انتظامی اخراجات کے لیے ایک خاص تناسب سے کچھ رقم منہا کر لیتی ہے اور علمی طور پر ایسے پراجیکٹس یونیورسٹی کا امیج اور ریپوٹیشن بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پروفیسر حضرات پراجیکٹ کے طور پر کوئی انفرادی منصوبہ بھی بنا سکتے ہیں، ایک گروپ بنا کر بھی کام کر سکتے ہیں اور مختلف دوسرے طریقے بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ سسٹم کی سطح پر انڈرسٹینڈنگ یہ ہے کہ اس سارے عمل سے بحیثیت مجموعی علم کی روایت کو فائدہ پہنچے گا اور اس میں نئی جہات سامنے آئیں گی۔

اس تناظر میں پروفیسر ابراہیم موسی نے (جنھیں کئی سال سے انڈیا کے بعض ذمہ دار حضرات کی طرف سے یہ دعوت موصول ہو رہی تھی کہ انھیں مدارس کے فضلاء کے لیے کچھ کرنا چاہیے) یہ منصوبہ جان ٹمپلٹن فاونڈیشن کو پیش کیا کہ انھوں نے مدرسے سے فراغت کے بعد اب تک کے علمی سفر میں جو کچھ سیکھا ہے، اس میں وہ مدرسہ کمیونٹی کو شریک کرنا چاہتے ہیں اور اسلامی الہیات کے تعلق سے جدید فلسفہ اور جدید سائنس کے پیدا کردہ سوالات کی تفہیم پر مبنی ایک تربیتی کورس ان کے لیے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ جان ٹمپلٹن فاونڈیشن نے اور اسی طرح نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں کراک انسٹی ٹیوٹ نے (جس میں ابراہیم موسی کام کر رہے ہیں) اس منصوبے میں دلچسپی محسوس کی اور یوں مدرسہ ڈسکورسز کی بنیاد پڑ گئی۔ ابراہیم موسی کا کہنا ہے کہ مغربی تعلیمی نظام کے norms کے لحاظ سے یہ ایک بالکل معمول کا تعلیمی منصوبہ ہے جس میں کوئی چیز نہ مخفی ہے اور نہ معروف طریقے سے ہٹی ہوئی ہے۔"

لہذا یہ پراجیکٹ مدرسہ سے پڑھے ہوئے ایک پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کا ہے ،ایسے علمی پراجیکٹ کے لیے وہاں کے اداروں کی فنڈنگ ایک عام سی بات ہے ۔خود پاکستانی یونیورسٹیز میں ایسے کئی پراجیکٹ چلتے رہتے ہیں جنہیں فنڈ بیرونی جامعات و ادارے مہیا کرتے ہیں ،بلکہ آج سے کچھ سال پہلے جرمنی کی ایک این جی او نے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ایک ہفتہ کی ورکشاپ رکھی تو پانچوں وفاقوں سے وابستہ اہل علم کے صاحبزادگان اور کچھ دوسرے طلبہ ایک ہفتہ کے لیے جرمنی گئے  تھے اور وہاں مختلف ایکٹویٹیز میں حصہ لیا ۔اس میں بعض مواقع کی تصاویر سے معلوم ہوا کہ لیکچر بھی وہاں کے جرمن مسیحی حضرات نے دیے،جبکہ یہاں تو اول تا آخر سارا نصابی مواد ،لیکچرز وغیرہ ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب اور مدرسہ ڈسکورسز سے وابستہ اساتذہ و منتظمین کے ہاتھ میں ہے ۔

11۔ آخر میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ مدرسہ ڈسکورسز کے اساتذہ و بانین یقینا کسی نہ کسی فکر سے جڑے ہیں ،ان کی فکری آراء قابل تنقید اور قابل ِ اختلاف ہوں گے یا شاید ہوں،لیکن کم از کم مدرسہ ڈسکورسز میں ان حضرات نے شرکا ء پر اپنے نظریات یا اپنے فکری نتائج تھوپنے یا اس کے حق میں دلائل دینے کی کوشش بالکل نہیں کی،  بلکہ آج تک کسی بھی استاد نے درسگاہ میں اپنی خاص فکری آرا کا اظہار تک نہیں کیا ۔اساتذہ کا بس اتنا کام ہے کہ مواد دے کر اس پر مناقشہ کرواتے ہیں ،اس لیے مدرسہ ڈسکورسز کو اساتذہ و بانیین کے فکری فریم ورک سے ہٹ کر دیکھا جائے تو شاید اس کے بارے میں پھیلے شکوک و شبہات مزید کم ہوں ۔نیز یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس کورس میں شریک طلبہ چھوٹے اور ناپختہ ذہن کے بچے نہیں ،بلکہ درس ِنظامی کی تکمیل کر کے عملی زندگیوں میں سالہا سال سے کام کر رہے ہیں ،اس لیے یہ سمجھنا کہ مدرسہ ڈسکورسز کے اساتذہ انہیں دو سالہ کورس میں گمراہ کر دیں گے ، خود مدارس کے نظام ِ تربیت پر سوالات اٹھانے کے مترادف ہے۔ (یعنی  اگر اس کورس کا مطمح نظر فضلاء کی گمراہی ہو،لیکن یہ محض مفروضہ ہے ،اس کورس کو جوائن کرنے والوں میں سے اب تک کسی نے گمراہی کی کسی قسم کی کوئی کوشش یا ترغیب نہیں دیکھی ،کورس کا نظام و نصاب آپ اس مضمون میں بالتفصیل پڑھ چکے ہیں، جس سے اس بات کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے )۔ انڈیا کے ایک شریک کورس کے الفاظ میں ،جو انہوں نے الوداعی تاثرات میں برملا سب اساتذہ و منتظمین کے سامنے کہا کہ اگر کورس کے اساتذہ ہمیں کسی بھی فکری کجی یا واضح گمراہی کی بات کریں گے تو ہم علی الاعلان مخالفت کریں گے ،کیونکہ ہم عاقل بالغ ہیں ،کوئی بچے نہیں کہ جو جس طرف لے جائے ،چل پڑیں گے ۔نیز شرکائے کورس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم آٹھ سال مدارس میں پڑھ کر کئی سال تدریس سے وابستہ ہو کر دو سالہ کورس ( جس میں ہفتہ میں صرف دو روز اسباق ہوتے ہیں) سے گمراہ ہوسکتے ہیں تو یہ کمزوری ہماری نہیں،مدارس کے سسٹم کی ہوگی کہ آٹھ سال ایک بچے پر محنت کر کے اسے عالم ِ دین کی سند تھما کر اسے مسند تدریس کی اجازت دے کر بھی وہ فکری میدان میں اتنا کچا ہے کہ کوئی بھی چند ہفتوں کے اسباق سے اس کے پورے فکری فریم ورک کو تبدیل کر سکتا ہے ۔ شرکاء کی اس حوالے سے حساسیت حد درجہ باعثِ اطمینان ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ کورس اب تک ایک اچھا تجربہ ثابت ہوا ۔فکری تبدیلی (یعنی مدارس ،روایت سے بدگمانی ، مولوی، داڑھی پگڑی کی تحقیر ،جو عمومی طور پر مدرسہ ڈسکورسز کے اثرات و نتائج کے کھاتے میں ڈالے جاتے ہیں ) کی تو مجھے(اور یقین کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی شریک کورس کو ) ہوا بھی نہیں لگی ،البتہ مناقشہ کے نتیجے میں اپنی بعض فکری آراء پر مضبوطی ہوگئی ،اس لیے میری ہر صاحب استعداد فاضل سے گزارش ہے کہ اسے جوائن کریں ، تاکہ جدید دنیا میں مذہب کی پوزیشن کو سمجھنے میں مدد ملے ،جدید سوالات کا فہم حاصل کریں ،اور جدید تعبیر و اسلوب کے ساتھ جدید ذہن کے مطابق اسلاف کی علمی روایت کے تنوع سے مستفید ہوتے ہوئے اسلام کو دورِ جدید کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ دکھائیں تاکہ موجودہ مسلم نسلوں میں الحاد اور مذہب سے بے اطمینانی کے سیلاب کے سامنے اپنی حد تک بند باندھ سکیں ۔

مذہبی طبقے سے درخواست ہے کہ یہ آپ کے اپنے لوگ ہیں ،انہیں اچھوت بنانے کی بجائے اسے لیڈ کریں ،اپنی سرپرستی دیں ،جو فضلاء اس میں شریک ہورہے ہیں ،ان کی حوصلہ افزائی کریں ،اپنے تیا رکردہ فاضلین پر بدگمانی مت کریں ،اپنے باغ کے پھل سے انکار مت کریں ۔دین بھی قائم رہے گا ،دینی فکر بھی چلتی رہے گی،اتنی زیادہ احتیاط کہیں ہماری فکری کمزوری اور دین کی حقانیت کے بارے میں احساس کمتری کی علامت نہ ہو۔دینی مدارس کی چار دیواری سے جو نکلا ،اسے گمراہی کے مترادف سمجھنے کا رویہ چھوڑ دیں ،وما علینا الا البلاغ۔

ڈاکٹر محمد سعید شفیق

مدرسہ ڈسکورسز کا تیسرا بیچ اپنے پہلے ونٹر انٹینسو کے لیے پاک وہند کے فضلا ءکولے کر دسمبر کے آخری ہفتے میں قطر وارد ہوا۔اس کورس کا آغاز 2017 میں ہوا جس کے روح رواں ڈاکٹر ابرہیم موسیٰ صاحب (پروفیسر یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم۔امریکہ) ہیں۔آپ نے دارالعلوم دیوبند اور نددوۃ العلماء سے دینی تعلیم حاصل کی ،اور پھر امریکہ سے امام غزالی کے فلسفہ لسانیات پر پی ایچ ڈ ی کی۔ آپ کے ساتھ اس کورس میں پاکستان سے مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر اور انڈیا سے مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب بطور لیڈ فیکلٹی ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ماہان مرزا کی جگہ اس سال کوئٹہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان ڈاکٹر شیر علی ترین صاحب کا مدرسہ ڈسکورسز کی ٹیم میں ایک بہترین اور عمدہ اضافہ ہوا۔ آپ برصغیر پاک وہند میں استعماری ومابعد استعماری دور کی مذہبی فکر پر عمدگی سے بحث کرتے ہیں اور روانگی کے ساتھ چھ زبانیں بول لیتے ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز ایک خالص تعلیمی اور تحقیقی پراجیکٹ ہے جس میں پاک و ہند سے شرکاء کو باقاعدہ ٹیسٹ اور انٹریو کے بعد ایک مکمل پراسیس کے ساتھ منتخب کیا جاتا ہے۔ حسبِ سابق اس بیچ  میں بھی تقریباً تمام فضلاء پاک وہند کے بڑے بڑے دینی جامعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور پاکستان میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی، دارالعلوم کراچی، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، دارالعلوم حقانیہ، دارالعلوم غوثیہ محمدیہ اور جامعۃ الکوثر وغیرہ کے فضلاء شامل تھے۔ تمام شرکاء مضبوط استعداد کے ذہین فضلاء اور عصری علوم سے بھی آراستہ ہیں۔ میرے اعداد وشمار کے مطابق اس تیسرے بیچ میں 10 پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، گیارہ پی ایچ ڈی سکالرز اور بہت سے  ایم فل اسکالر تھے۔ بہرحال یہ نیا گروپ اپنے ونٹر انٹینسو کے لیے پچیس سے تیس دسمبر تک کالج آف اسلامک اسٹڈیز، حمد بن خلیفہ یونیورسٹی ، ایجوکیشن سٹی قطر میں جمع ہوا  جس میں پاکستان سے چوبیس اور ہندوستان سے انیس جید علماء اور بااستعداد نوجوان فضلاء کے علاوہ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کی بعض انڈر گریڈیجویٹ طالبات نے بھی شرکت کی۔

ونٹر انٹینسیو میں شرکت کے لیے پاکستان سے ہماری فلائٹ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ لاہور سے روانہ ہوئی، رات تین دن بجے ہم سب بخیر وعافیت ایجوکیشن سٹی میں واقع ہوٹل پریمئیر ان میں پہنچ گئے۔ہماری آمد سے پہلے انڈین شرکاء پہنچ چکے تھے۔کوشش یہ کی گئی کہ ہر کمرہ ایک پاکستانی اور انڈین شریک ِ کورس کا مشترکہ ہوجس کا یہ فائدہ ہواکہ مختلف پس منظر رکھنے والوں کا آپس میں گہرا ربط و تعلق قائم ہوا اور ثقافتی و مذہبی افکار کا تبادلہ ہوتا رہا۔مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے شرکاء کی طرح ہمارےورکشاپ کی میزبانی بھی دوحہ کے ایجوکیشن سٹی میں واقع حمد بن خلیفہ کے کالج آف اسلامک اسٹڈیز نے کی۔یہ ہوائی جہاز کے ماڈل کے طرز پر انتہائی دلکش ، دیدہ زیب اور جدید انداز سے بنائی گئی انتہائی وسیع وعریض عمارت ہے  جس کا ہر کونہ فن ِ تعمیر کا شاہکار ہے۔

25 دسمبر 2019 بروز بدھ ورکشاپ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ابتدائی سیشن میں پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر شیر علی ترین نے ورکشاپ کا طریقۂ کار،اہداف اور سرگرمیوں کو واضح کیا اور بعض شرکاء کا تعارف ہوا۔چائے کے وقفے کے بعد نوٹرے ڈیم یونیورسٹی سے ڈاکٹر جوش لوپو نے پیٹر ہیریسن کی کتاب  Territories of Science and Religion  کے حوالے سے مذہب اور سائنس کے آپس میں ربط و تعلق پر بڑی عمدہ گفتگو کی  اور سوالات پیش کیے جس پر شرکاء نےتبادلہ خیال کیا۔ حسب ضرورت اردو ترجمہ کے فرائض ڈاکٹر شیر علی ترین نے ادا کیے۔ نماز اور کھانے کے وقفے کے بعد اگلی نشست میں اسی موضوع پر گروپ ڈسکشنز ہوئے اور ہر گروپ میں ایک ممبر نے ان کا خلاصہ پیش کیا۔مغرب کے بعد نشست میں ڈاکٹر وار ث مظہری اور ڈاکٹر شیرعلی ترین نے امام ابوالحسن العامری(المتوفیٰ 381ھ) کی کتاب "الاعلام بمناقب الاسلام" اور مرزا مظہر جانِ جاناں کے مکاتیب کی روشنی میں اسلامی سیاسی حاکمیت اور برتری پر لیکچرز دیے اور اس بارے میں مغربی مفکرین کی آراء پیش کر کے اس پر مناقشہ کیا گیا  کہ جانبین کے درمیان اسلام کی جو فوقیت بیان کی گئی، وہ کس حد تک آپس میں مختلف ہے۔

26 دسمبر ورکشاپ کا دوسرا دن تھا۔ کل کے محاضرات سے متعلق اایک اور دلچسپ مضمون شامل کرکے مناقشہ کو جاری رکھا گیا۔ ڈاکٹر عمار خان ناصر نے بانئ دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی کے مشہور مناظرہ "مباحثہ شاہجہان پور" کا خلاصہ پیش کیا  اور ایک دلچسپ انداز میں اس مناظرے کی گفتگو سے دس سوالات غیر مرتب انداز میں شرکاء کے سامنے رکھ دیے ۔ پھر ان سوالات کو ترتیب دینے کے لیے شرکاء کو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا ۔ یہ ایک دلچسپ تجربہ تھا جس کاخاطرخواہ فائدہ ہوا اور تمام شرکاء نے اس کو سراہا۔ چائے کے وقفے کے بعد اس پر مزید بحث و مباحثہ ہوا اور بیشترشرکاء نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ ظہر اور لنچ کے بعد شام تک وقفہ رکھا گیا۔ مغرب کے بعد مشہور مغربی باحث یوحانن فرائیڈمین کی کتاب “Tolerance and Coercion in Islam” پر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر وارث مظہری نے اپنے ملاحظات پیش کیے کہ کس طرح Tolerance کے جدید تصور کو معیار بنا کر پیش کی جانے والی مذہبی تعبیرات کا مصنف نے تفسیر ،حدیث اور فقہ کی روشنی میں ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ اس پر نہایت عمدہ مناقشہ ہوا اور شرکاء کے سوالات کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

27 دسمبر کو تیسرا دن جمعہ کا تھا، اس لیے صرف ایک سیشن رکھا گیا  جس میں ڈاکٹر عمار ناصر اور ڈاکٹر وارث مظہری نے ابوحیان توحیدی کی کتاب "الامتاع والمؤانسۃ" سے متی بن یونس اور ابوسعید السیرافی کے درمیان عربی نحو اور یونانی منطق کی باہمی افضیلت کے سوال  پر ہونے والے مناظرے  پر سیر حاصل گفتگو کی  اور شرکاء نے بھی اس پر اپناتبصرہ پیش کیا۔ اس کے بعد نمازِ جمعہ کے لیے وقفہ دیا گیا۔ جمعہ کے بعد لنچ کیا گیا اور پھر شرکاء کو قطر میوزیم آف اسلامک آرٹ کا وزٹ کرایا گیا۔ ساحلِ سمندر پر کئی ایکڑ پر پھیلی ہوئی یہ  پانچ منزلہ عمارت فنِ تعمیر کا شاہکار ہے جس میں مختلف ادوار اور مشرق ومغرب میں پھیلی مسلم ثقافتوں کی تاریخ کو نہایت عمدگی اور سلیقے سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہمیں قطر کے مشہور بازار سوق واقف کے پاس واقع بیت جلمود میوزیم لے جایا گیا۔ اس میوزیم میں مختلف ممالک بشمول قطر میں غلامی کی تاریخ ، مظاہر اور اشکال محفوظ کی گئی ہیں۔ کچھ کمروں میں بڑی بڑی سکرینوں پر غلامی کے نظام پر مبنی ویڈیوز دکھائی جا رہی تھیں۔ یہاں ایک چھوٹی سی لائبریری بھی ہے  جہاں غلامی سے متعلق بنیادی مصادر ومراجع پر مشتمل کتابیں موجود ہیں ۔ یہاں سے ہم سوق واقف گئے۔یہ دوحہ کا سوسالہ قدیم ترین بازار ہےجو آج بھی پرانی طرز پر قائم ہے۔ یہاں ہر وقت سیاحوں اور مقامی لوگوں کا رش ہوتا ہے اور مختلف علاقوں کے لوگ اپنی روایات اور ثقافتوں کو مختلف انداز سے پیش کررہے ہوتے ہیں۔ شرکاء کے لیے اسی بازار میں واقع ایک ترکش ریسٹورنٹ "دی ویلج " میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ ڈنر کے بعد کچھ دیر کے لیے کورنیش یعنی ساحل سمندر پر گئے اور پھر ہوٹل واپسی ہوئی۔

28 دسمبر کو پہلے سیشن کا آغاز ڈاکٹر سہیرا صدیقی (ایسوسی ایٹ پروفیسر، جارج ٹاؤن یونیورسٹی ، دوحہ کیمپس) کے لیکچر سے ہوا ۔انہوں نے علم  کی تعریف اور مصادر پر بحث کی اور قانون وشریعت کا علم معرفت سے کیا رشتہ ہے، نیز جدید مسلم معاشرے میں علم معرفت کا کیا کردار ہے،اس کو عمدگی سے واضح کیا۔ اس پر بھرپور مناقشہ ہوا اور اساتذہ سمیت تقریباً تمام شرکاء نے پینل ڈسکشن کے ذریعے اپنے ملاحظات پیش کیے۔ شام کے وقت مہمان اسکالر ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی کا لیکچر تھا جو اسلامی اقتصادیات کے عالمی سطح کے ممتاز اسکالر اور اس موضوع پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ۔ آپ نے تفصیل کے ساتھ "الفقہ الاسلامی بین النصوص والتراث والمعاصرۃ وقفاً لفقہ المیزان" کے موضوع پر بڑی عمدگی سے بحث کی ، اور پھر بڑی فراخ دلی کے ساتھ شرکاء کی جانب سے تقریباً بیس سے زیادہ سوالات کے جوابات دیے ۔ ڈنر کے بعد شرکاء کو ساحل سمندر کورنیش کا وزٹ کرایا گیا اور  بیشتر شرکاء نے  کشتیوں میں سمندر کی سیر کی۔

29 دسمبر بروز اتوار ڈاکٹر رنا دجانی (ایسوسی ایٹ پروفیسر، الجامعہ الہاشمیہ اردن) نے اسلام اور ارتقاء کے حوالے سے ویڈیو لنک کے ذریعے تفصیلی لیکچر دیا، اور آخر میں چائے کے وقفے کے بعد بھی مسلسل ایک گھنٹہ شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے۔شام کے وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے استاذ ادریس آزاد صاحب نے سائنس اور ارتقاء کے کائناتی قوانین کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر حیات کی ابتدا اور نشو ونما پر اپنی پرمغز پریزینٹیشن پیش کی جس سے حاضرین کی سائنس کے حوالے سے معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوا،اور پھرسوالات کے سیشن کے بعد اپنی شاعری سے بھی شرکاء کو محظوظ کیا۔

30 دسمبر ورکشاپ کا آخری دن تھا۔پہلے سیشن میں ڈاکٹر عمار ناصر صاحب نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم کی روشنی میں مسلم ثقافت اور تشبہ بالکفار پر بحث کی۔ ان کے بعد پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ صاحب نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ایک آرٹیکل کے حوالے سے مذہب اور ثقافت کے باہمی روابط پر گفتگو کی۔ چائے کے وقفے کے بعد شرکاء نے اپنے مشاہدات اور آئندہ کے لیے تجاویز پیش کی جن کو اساتذہ کرام نوٹ کرتے اور سراہتے رہے۔ظہر اور لنچ کے بعد ایجوکیشن سٹی ہی میں واقع قطر نیشنل لائبریری کا آفیشل وزٹ کرایا گیا۔ یہ عظیم الشان لائبریری بیس لاکھ کتابوں پر مشتمل ہے۔ یہاں دینی علوم وفنون پر مشتمل کتب/مصادر ومراجع کے کئی کئی ایڈیشن دیکھنے کو ملے۔ایک خاتون نے لائبریری کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بریفنگ دی اور یہاں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے بارے میں بتایا۔ تہہ خانے میں قدیم مخطوطات، نایاب کتابیں اور مکاتیب محفوظ کیے گئے ہیں۔

شام کے وقت الوداعی سیشن اور ڈنر تھا جس میں بقیہ شرکاء نے اپنے تاثرات اور تجاویزپیش کیں اور آخر میں اساتذہ کرام نے الوداعی کلمات کہے جس میں انہوں نے اسلامی فکری روایت کے اس پہلو پر گفتگو کی کہ دینی مدارس کے فضلاء کو اپنے مذہبی متون ، قدیم وجدید تراث ، الہیات اور اخلاقیات سے متعلق روایتی منہج کو فلسفہ، سائنس سے متعلق نئے علمی نظریات وافکار کی روشنی میں بروئے کار لانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ یہ کورس علماء کرام کے اندازِ فکر میں مثبت تبدیلیوں کا ذریعہ اور محرک ثابت ہوگا۔ دینی مدارس کے ساتھ ربط وتعلق کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے رقت آمیز لہجے میں ڈاکٹر عمار ناصر نے کہا کہ مدرسہ ہماری تاریخ اور تہذیب کا کسی نہ کسی رنگ میں بچا ہوا واحد ادارہ ہے۔ہماری تاریخ وتہذیب نے جتنے ادارے قائم کیے تھے، وہ سارے مختلف حوادث کی نذر ہوچکے ہیں۔یہ ایک واحد ادارہ ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے اوراسے لوگوں کا اعتمادآج بھی حاصل ہے۔ تہذیب و تاریخ میں ادارے آسانی سے نہیں بنتے،ایک ادارے کو اپنا نام بنانے اور اپنی خاص شناخت  حاصل کرنے میں صدیاں لگتی ہیں۔اس لیے اس ادارے کی قدروقیمت کو سمجھنا چاہیے اور جس علمی روایت کا یہ ادارہ امین ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔

الوداعی ڈنر کے بعد اسی رات چار بجے پی آئی اے کی پرواز سے روانہ ہوئے اور صبح 9 بجے اسلام آباد ائیرپورٹ بخیر وعافیت پہنچ گئے۔

خلاصہ یہ کہ یہ کورس اب تک ایک اچھا تجربہ ثابت ہوا  ہے،اوراس پہلی ورکشاپ میں کئی چیزوں سے ہم نے بہت استفادہ کیا۔میرااحساس ہے کہ اب ہم پہلے سے بہتر طور پر تحریر اور تبادلہ افکارکے ذریعے دوسروں تک پیغام پہنچا سکتے ہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ، مدرسہ ڈسکورسز ایک خالص تعلیمی وتحقیقی پروگرام ہے جس کا مقصد مدارس کے روایتی طرز فکر کو برقرار رکھتے ہوئے معاصر افکار ورجحانات کے تناظر میں دینی حقائق کو سمجھنا اور عصر حاضر کے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے جدید اسلامی فکر کی تشکیل ہے۔ ہمارے لیے اس کورس کے نصاب میں تاریخ، فلسفہ،سائنس اور علم الکلام سے متعلق مراجع ومصادر کا درجہ رکھنے والی کتابوں کا انتخاب کیا گیا جو طلبہ کے فکری دائرے کو وسیع کرنے میں ممد اور معاون ثابت ہوتی ہیں۔یہ پروگرام اپنی پوری ترتیب کے اعتبار سے ایک خالص علمی اور نظری سرگرمی ہے  جس میں ہم اپنی شاندار علمی روایت سے کسی درجہ میں واقف ہوئے۔ ہم نے اس کورس میں آنے کے بعد مسلم فلاسفہ کے جو مختلف رجحانات فکر ہیں، ان تک رسائی حاصل کی اور یہ جانا کہ عقل اور نقل کے تعارض میں اشاعرہ، ماتریدیہ، امام رازی، غزالی اور امام ابن تیمیہ کا مؤقف کیا رہا ہے؟ان فوائد کے ضمن میں ہمیں یہ بھی فائدہ ہوا کہ کس طرح علمی انداز میں ہم گفتگو کریں، نیزاپنی بات کو مدلل انداز میں کیسے پیش کیا جائے؟ بحث و مباحثہ میں کھلے ذہن کے ساتھ بغیر کسی تحقیر وتنقیص کے ساتھ شمولیت  اور اپنی بات پر ڈٹے رہنے کی بجائے دوسروں کو ان کا مدعا پیش کرنے کا موقع دینے کا سلیقہ حاصل ہوا۔

مولانا امیر حمزہ

مدرسہ ڈسکورسز کا یہ تیسرا بیچ ہے اور اس تیسرے قافلے میں راقم بھی شریک ہے۔ آغاز سے تاحال یہ پروگرام تنقید کی زد میں ہے۔ جوں جوں یہ متعارف ہورہا ہے، تنقید کی لہر میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پر تنقید میں سواد اعظم کا اجماع دکھائی دیتا ہے۔ دیوبندیت، سلفیت، بریلویت، غامدیت، جامعیت، جوہریت غرض نگاہ کے سبھی زاویے اس پر ترچھے پڑ رہے ہیں۔ ظاہر ہے، ناقدین کے اعتبار سے اس پر ہونے والی تنقید کے محتویات اور محرکات مختلف ہیں۔ اس پر ڈسکورسز کے شرکا اور فضلا کی طرف سے بھی لکھا جارہا ہے۔ عمومی تاثرات پر مولانا سمیع اللہ سعدی کی تحریر بہت جامع ہے۔ اس موضوع بالخصوص تنقید کے جواب میں مزید کچھ لکھنا کارِ عبث ہے۔ تاہم ایک دو ملاحظات پیشِ خدمت ہیں۔

ویسے تو دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، مگر مدرسہ ڈسکورسز کے ڈھول کا تجربہ مختلف رہا۔ یہ ہمیں دور سے بہت کرخت محسوس ہوا تھا، تاہم جوں جوں قریب آئے تو اس کے سُروں نے دل موہ لیے۔ میں نے اس سے متعلق احباب سے جب معلومات لیں اور اس کی بنا پر داخلہ لینے کا سوچا تو شرکت کے بعد حاصل شدہ معلومات سے بھی مفید تر پایا۔ موضوعات کے حوالے سے اس کی افادیت پر ان شاء اللہ وقتا فوقتا لکھوں گا۔ تاہم سر دست جو انقلاب محسوس ہوا، وہ علم کی نہ بجھنے والی پیاس ہے جس میں گذشتہ کچھ عرصے سے سیری کی کیفیت محسوس ہوتی تھی اور ہم اسے قدرت کے طرف سے "شرح صدر" کا مقام سمجھ رہے تھے۔ یہ وہ واحد "گمراہی" ہے جو میں نے اس پروگرام میں آنے کے بعد محسوس کی۔ ذاتی طور پر میری اس پروگرام میں دلچسپی کے کئی محرکات ہیں۔ ان میں بالخصوص یہ موضوع کہ استشراق کے بعد مغربی فکر (western scholarship) کے مطالعہ اسلام کے حوالے سے کیا رجحانات ہیں؟ اس کے نتیجے میں فہم دین کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟ کیا یہ رجحانات ہماری علمی تاریخ میں پیدا شدہ رجحانات کی ارتقائی شکل ہیں یا ان کا منشا جدید ہے؟ اگر سابقہ رجحانات کے مماثل ہیں تو ہماری قدیم روایت انہیں کیسے دیکھتی ہے؟ اس عنوان پر مطالعہ اور مناقشہ میرے لیے بہت دلچسپ رہا۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ مدرسہ کی روایت پر اعتماد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ مدرسہ پر ہم جتنی بھی تنقید کریں، مگر یہ بات بالکل درست ہے کہ مادیت کے اس ماحول میں اگر علمی و فکری خدمات کے لیے کسی طبقے نے خود کو حقیقی معنی میں وقف کیا ہے تو وہ اہل مدرسہ ہی ہیں۔ کل جو فکری ازمات ابھرے تو اسی طبقے سے غزالی، رازی، ابن رشد اور ابنِ تیمیہ پیدا ہوئے۔ آج کے ازمات میں بھی امت اسی طبقے کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہی امید کی کرن ہے۔ ان تمام ایجابی تاثرات کا سہرا مدرسہ ڈسکورسز کے اساتذہ اور فائق رفقا کو جاتا ہے۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔

فی الجملہ تنقید کے حوالے سے بھی مجھے بہت اطمینان ہوا۔ الحمد للہ ہمارے بڑوں کی سرپرستی قائم ودائم ہے۔ وہ ہمیں اون (Own)کرتے ہیں۔ ہمیں پرخطر راستوں پر چلتا دیکھ کر احتیاط کی تلقین کرتے ہیں۔ ہمارے اندر بغاوت کے جذبات ابھرتے دیکھتے ہیں تو ہماری مناسب گوشمالی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تاثر اس قدر خوبصورت ہے کہ تصور سے ہی دل ودماغ روشن ہوجاتے ہیں اور دہن میں چاشنی محسوس ہوتی ہے۔ الحمد للہ یہ بھی مدرسے کی دین ہے۔ اسے وہی محسوس کرسکتا ہے جو مدرسے کی روایت سے جڑا ہوا ہے۔ ہم بڑوں کے اس ناقدانہ مزاج کی قدر کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ایسے مخلص احباب اور اکابر کے ہوتے ہوئے کوئی اندھیرے میں گمراہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں گمراہی اپنا انتخاب ہو تو اور بات ہے۔

اٗئیر پورٹ پر فارن کرنسی کا آڈٹ ہورہا تھا تو میں نے ایک دوست سے از راہ تفنن کہا کہ اگر مدرسہ ڈسکورسز میں داخلے سے پہلے ہدایت اور ضلال کے ہمارے اثاثوں کا اس طرح کا آڈٹ ہوجاتا تو بہت اچھا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ جس قدر "گمراہی کے اثاثوں" کے ہم پہلے ہی مالک ہیں، وہ مدرسہ ڈسکورسز کے کھاتے میں پڑجائیں۔ اس لیے ناقدین سے میری ایک گزارش ہے کہ تنقید میں اسے ضرور ملحوظ رکھیں۔

مولانا محمد یونس قاسمی

جیسے ہی مدرسہ ڈسکورس کی کسی نئی علمی سرگرمی کا آغاز ہوتا ہے تو پاکستان میں مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ کسی بھی اقدام پر سوال اٹھانے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے اور اس پہ کوئی قدغن ہونی بھی نہیں چاہیے، تاہم اس کے ساتھ اگر ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کا عنصر کارفرما ہو تو بات چیت اور اختلاف کی مشق سودمند ثابت ہوسکتی ہے، اور اگر یک طرفہ تنقید ہی مقصود ہوتو غبار مزید غالب آتا ہے اور بدگمانیوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ چونکہ راقم خود اس عمل کا حصہ ہے، لہذا بہتر محسوس ہوا کہ جو دیکھا اور سمجھ میں آیا، اس کے تناظر میں مدرسہ ڈسکورسز کی تھوڑی بہت وضاحت کردی جائے۔

مدارس کے فضلاء کو ایک پختہ علمی سرگرمی کے ماحول میں بحث ومباحثہ کرنے کی عادت ڈالنے، ماضی کے علمی مواقف پر غوروفکر کرتے ہوئے سوالات اٹھانے اور مسلمانوں کواپنے  گزرے سنہری دور میں پیش آنے والے مسائل ومشکلات کو سمجھنے کی اس کوشش کا نام مدرسہ ڈسکورسز ہے جس میں نہ صرف علمی نصوص کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا جاتا ہے بلکہ اسلاف کےان مناظروں، مباحثوں اور علمی افکار وخیال کو بھی پڑھا جاتا ہے تاکہ یہ سمجھ آسکے کہ انہیں کیسے مسائل کا سامنا رہا اور وہ اس کا حل کیسے تلاش کرتے تھے۔

ناقدین کی اکثریت نے مدرسہ ڈسکورسز کے نصاب کو دیکھے بغیر، اس سے سے وابستہ اہل علم سے سوال کیے بنا ایسے الزامات لگانے شروع کردیے ہیں کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی افسوس ہوتا ہے کہ یہ الزام کن لوگوں پر لگایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز میں مسائل تو زیر بحث آرہے ہیں مگر ان کا کوئی مخصوص حل نہیں پیش کیا جاتا، بلکہ یہ تربیت دی جاتی ہے کہ غوروفکر کرنے کی عادت ڈالیں اور ان فکری، تہذیبی مسائل و مشکلات کا حل خود تلاش کریں۔ مجھے اس میں شامل ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے، مگر مولانا عمار خان ناصر اور ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ وغیرہم کو ایک عرصہ سے جانتا ہوں، ان کی کتب و افکار سے مستفید ہوتا رہا ہوں۔ یہ حضرات اپنی تمام علمی سرگرمیوں میں کامیابی کا سبب مدرسہ کے ساتھ قائم اپنے تعلق کو بتاتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں مدرسہ ڈسکورسز کے زیر اہتمام موسم سرما کی ایک پانچ روزہ علمی سرگرمی میں شریک ہونے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ کورس ہمیں اپنی دینی روایت سے جوڑنے اور اسے سمجھنے کی ایک کوشش کا نام ہے۔ ڈاکٹر موسیٰ کو ڈاکٹر فضل الرحمن کا شاگرد قرار دے کر تجدد پسند اور ڈاکٹر فضل الرحمن کا متبادل کہا جارہا ہے مگر میں نے جب ڈاکٹر موسیٰ سے اس بارے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فضل الرحمن سے میری صرف ایک ملاقات ہے۔ بلاسوچے سمجھے ان اہل علم کو متجددکے ساتھ ساتھ مشرک تک قرار دیتے جانا درست رویہ نہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز کی پانچ روزہ علمی ورکشاپ کے آخری روز جب طلبہ و اساتذہ اپنے اپنے خیالات و تجاویز کا اظہار کررہے تھے تو مولانا محمد عمار خان ناصر نے مدرسہ سے متعلق چند الفاظ کہے۔ وہ الفاظ میں یہاں من وعن پیش کرتے ہوئے یہ اپیل کرتا ہوں کہ توہمات کی دنیا سے باہر نکلیں اور حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اگر اس علمی سرگرمی کی حمایت نہیں کی جاسکتی تو لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنا اچھا طرز نہیں۔ مولانا عمار خان ناصر کا کہنا تھا:

’’ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کے بارے میں چند ایک باتیں کہنا چاہتا تھا، جن میں سے کچھ ڈاکٹر وارث مظہری نے کردی ہیں، کچھ اور تفصیلات بھی ہیں لیکن پھر کبھی بیان کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب کی ذات سے بہت ساری باتیں سیکھنے کی ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر جو چیزیں ڈاکٹر موسیٰ سے سیکھی ہیں، ان میں سے اہم چیز  ہر وقت علم سے کسی نہ کسی رنگ میں اشتغال رکھنا ہے۔ مطالعہ، تلاش، تحقیق  اس سے ہر وقت اشتغال ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ  کسی زمانے میں مدرسہ کمیونٹی کا حصہ ہوتے تھے، یہاں سے باہر جانے کے بعد اور ایک دوسری دنیا میں اپنا علمی مقام بنانے کے بعد اب ڈاکٹر موسیٰ امریکہ میں مقیم ہیں۔ امریکہ میں  اسلامک اسٹڈیز کے جو چند بڑے شیو خ ہیں ،ان میں اب ڈاکٹر صاحب کا شمار ہوتا ہے مگر مدارس سے وہ رشتہ جو کئی سال پہلے قائم ہوا تھا، انہیں اب بھی یاد ہے کہ میں نے اپنی دینی تعلیم کی بنیادیں اس مدرسہ کی صفوں پر بنائی تھیں۔

میرے خیال میں ہمارے سیکھنے کے لیے یہ بڑی اہم چیز ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ، بالخصوص پاکستان کے احباب کسی نہ کسی طور پر مدارس سے اپنا تعلق قائم رکھے ہوئے ہیں، مگر ہمارے کیریئر دوسرے اداروں  سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ تعلق یاد رکھنا بہت اہم ہے کہ بطور ادارہ اس کا ہم پر ذاتی حوالے سے حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مدرسہ  ہماری تاریخ اور تہذیب کا کسی نہ کسی رنگ میں بچا ہوا واحد ادارہ ہے۔ ہماری تاریخ و تہذیب نے جتنے ادارے قائم کیے تھے، وہ سارے مختلف حوادث کی نذر ہوچکے ہیں۔ یہ ایک واحد ادارہ ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے اوراسے لوگوں کا اعتماد آج بھی  حاصل ہے۔ ہم داخلی طور پر جتنی بھی تنقید کریں مگر اس کی تہذیبی اہمیت کا انکار ممکن نہیں۔

ایک زمانہ مجھ پر بھی ایسا گزرا ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ ادارہ اب کسی کام کا نہیں رہا اور اس کی جگہ کسی دوسرے ادارے کو سامنے آنا چاہیے مگر اب میں شرح صدر سے اس کی اہمیت کا قائل ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تہذیب و تاریخ میں ادارے آسانی سے نہیں بنتے، ایک ادارے کو اپنا نام بنانے اور معاشرے میں اپنے کام سے متعلق تعارف پیدا  کرنے میں صدیاں لگتی ہیں۔ بہت سے مسائل آئے، بہت ساری چیزوں کا سامنا کرنا پڑا، تاریخ نے بڑے عجیب کھیل ہمارے ساتھ کھیلے مگر اس ادارے کی قدروقیمت کو سمجھنا چاہیے اور جس علمی روایت کا یہ ادارہ امین ہے، ہمارا ایک تاریخی  ورثہ ہے جس کا مدرسہ ایک بڑا حصہ ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس کے ہماری ذات پر جتنے حق ہیں، انہیں ادا کرنے کی بھرپور کوشش   کرنی چاہیے۔‘‘

اختلاف رکھنے والے احباب سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان کی دینی روایت میں شروع ہونے والے اس نئے عمل پر اعتراض کی بجائے اس سے وابستہ اہل علم سے رابطہ کریں، ان سے سوال کریں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بدگمانیوں نے پہلے ہی بہت تفریق پیدا کی ہے، نفرتیں اٹھائی ہیں۔ بجائے اس کے کہ ایک نئی سعی کو بھی اس کی نذر کردیا جائے، بہتر ہے کہ اس پر بات چیت کا رُخ مثبت و تعمیری ہو۔

مولانا وقاص احمد

مدرسہ ڈسکورسز ایک مرتبہ پھر زیر بحث ہے، ہونا بھی چاہیے کیونکہ مدارس کے کئی فضلاء ان دنوں مدرسہ ڈسکورسز کی ایکٹوٹیز فیس بک پر شیئر کر رہے ہیں۔ بعض دوستوں نے مدرسہ ڈسکورسز  کے پہلے بیچ کو بھی موضوع بحث بنایا ہے جس میں راقم بھی شریک تھا۔ کچھ دیگر احباب کی تحاریر بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ سو چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

1۔ مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے بیچ میں مجھ سمیت چند دوست وہ ہیں جنہوں نے مباحث کو جیسے تیسے اور جتنا سمجھا، ان کے متعلق اپنا مطالعہ یا سوالات فیس بک پر لکھنے کا وتیرہ اپنایا تھا۔ دیگر دوستوں کا تو پتہ نہیں مگر میں نے اس تناظر میں لکھنا ترک کر دیا ہے، کیونکہ ہمارے سماج میں ہر وہ شخص اپنے پس منظر کے ساتھ اچھوت بنا دیا جاتا ہے جو سوچنے کی زحمت کرتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ مدرسہ ڈسکورسز  میرے جیسے عام نوجوان کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنے۔ اس لیے اگر کسی دوست کو مجھ یا مجھ ایسے دیگر کچھ لوگوں سے مسئلہ ہے تو انہیں چاہیے کہ اپنی تنقید کا رخ براہ راست ہماری طرف ہی رکھیں نہ کہ مدرسہ ڈسکورسز کی طرف۔

2۔ میرے تجربے کے مطابق مدرسہ ڈسکورسز  ایسا کوئی سبق نہیں پڑھاتا جس کی ترویج شرکاء پر لازم ہو۔ میری دانست میں مدرسہ ڈسکورسز  کا مقصود وہی جملہ ہے جو استاد مہان مرزا نے اپنے پہلے لیکچر میں کہا تھا کہ "علمائے کرام اگر مغربی فکر و فلسفہ کا رد کریں تو اس میں ہرگز کوئی برائی نہیں ہے، اس معاملے میں شناعت کا عنصر تب پیدا ہوتا ہے جب علمائے کرام مغربی فکر و فلسفے کو سمجھے اور جانے بغیر اس کا رد کریں اور یہ شناعت بھی فکری نہیں بلکہ عملی ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے کے ہاں خود علمائے کرام کے بارے میں یہ تاثر بننے لگتا ہے کہ یہ جاہل ہیں"۔ میں نے اس تناظر میں کئی علمائے کرام سے بالمشافہہ ملاقات کی، کئی کو سنا اور پڑھا، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکا دکا استثناءات کے علاوہ سب کے ہاں یہی خرابی پائی جاتی ہے۔ آپ ہی بتا دیجیے کہ کیا اہل علم کو اپنی یہ کمی دور نہیں کرنی چاہیے؟

3۔ مدرسہ ڈسکورسز  کے حوالے سے ایک پشتو ٹی وی پروگرام میں مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ ابراہیم موسی مدارس کے نظام کو کیوں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ استاد ابراہیم موسی مدارس کا نظام تبدیل نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس نظام کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کوشش بھی خود مذہبی روایت ہی کے ذریعے کر رہے ہیں۔ کیا آج کا کوئی بھی مفکر امام غزالی کی کاوش "مقاصد الفلاسفۃ" کو غلط کہہ سکتا ہے؟ اگر کوئی بھی شخص مغربی فکر و فلسفہ کو سمجھنے کی دعوت کو غلط سمجھتا ہے تو اسے لازما امام غزالی کو بھی غلط کہنا چاہیے، بلکہ ساری Greco-Arabic Translation Movement کو بھی سرے سے ناجائز ماننا چاہیے۔ مسلم مفکرین نے بلاشبہ یونانی فکر و فلسفہ کے ساتھ رد و قدح کا معاملہ کیا ہے مگر کیا کوئی ایک بھی ایسی روایت موجود ہے جس کے مطابق ترجمے کے اس پورے عمل ہی کو کسی نے غلط کہا ہو؟ نہیں۔ پھر مدرسہ ڈسکورسز جو کہ بعینہ یہی کام کر رہا ہے، موضوع تنقید کیوں ہے؟

4۔ میری دانست میں ہمارا سماج ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس میں ریڈ لائنز عوام نے نہیں بلکہ دانشور حضرات نے کھینچ رکھی ہیں اور یہ حادثہ شاید انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا کہ جن لوگوں کا کام ہی فکر و تدبر ہو، وہی غور و فکر پر قدغن لگا رہے ہوں۔ ایسی صورتحال میں ہر وہ کاوش بیک جنبش قلم ممنوع قرار پاتی ہے جو دانشوران ملت کی منظور نظر نہ ہو۔ دور نہ جائیے، طاہر القادری صاحب کو لے لیجیے، مسلکا بریلوی ہیں مگر خود بریلوی مکتب فکر کے کئی بزرگ انہیں شیطان کہے دیتے ہیں۔ جاوید احمد غامدی، ابراہیم موسی اور عمار خان ناصر تو پھر وہ لوگ ہیں جن کے پیچھے مسلکی طاقت بھی نہیں کھڑی۔ سو فقیہان حرم کی نظر میں ایسے لوگوں کی کاوشیں مردود نہ ہوں گی تو اور کیا ہوگا؟

5۔ آخری بات یہ ہے کہ سب چھوڑیے، مذکورہ بالا عمومی مسائل کو ایک جانب رہنے دیجیے، بس یہ بتائیے کہ جس دور میں ہم زندہ ہیں، اس دور میں بحیثیت مسلمان (اسکالر یا طالب علم) ہمارا کام کیا ہے؟ ائمہ تفسیر و حدیث و فقہ و کلام کی روش پر چلنا جنہوں نے خدا کی منشا اور اپنے دور کے حالات کی تفہیم میں عمریں کھپا دی تھیں یا ان لوگوں کی روش پر جنہوں نے ہر علمی کام کو تب تک کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا جب تک وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے؟ شاہ ولی اللہ کو بطور مثال لے لیجیے۔ آج شاید ہی کوئی مذہبی روایت ایسی ہو جو انہیں امام کے درجہ پر فائز نہ کرتی ہو، لیکن شاہ صاحب کے بعد سو ڈیڑھ سو سال تک سوائے ان کی آل و اولاد کے کسی نے انہیں "اون" کرنے کی ہمت نہیں کی، الٹا ان کے خلاف فتوے ہی جاری ہوتے رہے۔

میرا معاملہ تو یہ ہے کہ درس نظامی سے فراغت کے بعد جب پڑھنا اور پڑھانا شروع کیا تو سوال یہ پیدا ہو گیا تھا کہ آج کے حالات کو سمجھ کر مذہبی روایت کی ان کے ساتھ Relevance کیسے قائم کرنی ہے؟ مدرسہ ڈسکورسز نے مجھے اس سوال کا جواب نہیں دیا، بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ برصغیر کے متنوع مسالک، شاہ ولی اللہ، عبید اللہ سندھی، سید مودودی، جاوید احمد غامدی، مدرسہ ڈسکورسز  اور اب ماڈرن ویسٹرن فلاسفی اس ایک سوال کا جواب تلاش کرنے میں بطور معاون کردار ادا کرتے ہیں اور بس۔

مولانا عبد الغنی محمدی

مدرسہ ڈسکورسز کے حوالے سے تنقیدات میں یہ پہلو کافی غالب نظر آرہا ہے کہ ان فضلاء نے اسلام کے سیاسی نظام اور افکار کے حوالے سے کچھ نہیں پڑھا ہوتا، اس لیے ان کو گمراہ کرنا بہت آسان ہے یا سیکولرازم اور ایسے فلسفوں سے یہ بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں فضلاء مدارس کو کم از کم درجے میں جاہل شمار کیا جاتا ہے جن کو دور جدید اور اس کے فلسفوں کی بالکل کوئی سمجھ نہیں۔ اس تنقید میں خود پسندی و خود نمائی کے جذبات کے ساتھ ساتھ بات نہ بن سکنے کی صورت میں غصہ ، حقارت اور جذباتیت کھلے لفظوں دکھائی دیتی ہے۔

میں مدرسہ ڈسکورس کے اوسط لوگوں میں سے ہوں ، مجھ سے زیادہ مطالعہ والے بیسیوں احباب ہیں ۔ مختلف موضوعات پر روایتی و غیر روایتی علماء و مفکرین کی کتابیں مستقل زیر مطالعہ رہتی ہیں۔  پچھلے ایک سال میں جن کتابوں کا مطالعہ کیا، ان میں   جہاد کے حوالے سے ڈاکٹر مشتاق احمد، مولانا عمار خان ناصر ، مولانا فضل محمد اور وہبہ الزحیلی کی کتابیں شامل ہیں۔  تفسیر میں سارے قرآن کریم کو ایک مرتبہ دوبارہ غورو فکر کا موضوع بنایا اور اول تا آخر تفسیر عثمانی اور بعض مختصر تفاسیر کی روشنی میں دیکھا ۔ علوم القرآن پر صرف ایک سال میں تین سے چار کتابیں پڑھیں جن میں ہمارے استاد ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب کی تدوین قرآن کے حوالے سے کتاب اور بعض دیگر کتابیں شامل ہیں ۔علامہ شبلی کی الغزالی اور علم الکلام پڑھی، اس موضوع پر کچھ دیگر لوگوں کو بھی پڑھا ۔ مولانا مودودی کی تین سے چار کتابیں صرف اس ایک سال میں پڑھیں۔ مولانا تقی عثمانی کی ایک دو کتابوں کو پڑھا ۔ابھی محمد اسد کی شاہراہ مکہ دوبارہ پڑھ رہا ہوں، اسلام دو راہے پر اس سے قبل پڑھ چکا ہوں ۔ اس کے علاوہ اصول الفقہ پر نئی سامنے آنے والی کچھ کتابوں کو پڑھا۔ اس کے علاوہ بہت کچھ وہ جو ابھی مستحضر نہیں۔  ماضی میں سید ابو الحسن ندوی کی کافی کتابیں پڑھیں ۔ مضامین اور فیس بک کی تحریرات اس کے علاوہ ہیں ۔

اگر تنقید یہ مفروضہ طے کرکے ہے کہ ان لوگوں نے نہ کچھ پڑھ رکھا ہے اور نہ ان کو کچھ پتہ ہے تو اس سے باہر آجائیے ۔ مدرسہ ڈسکورسز خالصتا پڑھنے والے لوگوں کا گروپ ہے۔  سبھی ایک سے بڑھ کر ایک مطالعہ کرنے والی اور پڑھنے لکھنے والی شخصیات ہیں اور ایسے لوگوں کو ہی اس میں لیا جاتا ہے۔  پھر بھی اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دور میں اسلامی فکر کی جو کڑیاں آپ کو معلوم ہیں، وہ کسی کو معلوم نہیں ہیں تو پھر یہ وحی ہی ہوسکتی ہے جو صرف آپ پر اترتی ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی وسعت ظرفی تو یہ ہے کہ اس میں تمام قسم کی فکریں سامنے لائی جاتی ہیں اور ہم بھی جدیدیت کی طرف مائل یا مخالف، ہر ایک کو کھلے دل سے پڑھتے ہیں ۔ بات علمی موضوعات  کی بجائے بس طعن وتشنیع میں ہی کرنی ہے کہ ان لوگوں کو کچھ پتہ نہیں ، یا مالی مفادات کے چکر میں اس طرف  راغب ہیں تو حمایت یا مخالفت کا مورچہ کھولنے والے لوگ ہم نہیں ۔ ہاں، ہم آپ کو بھی پڑھیں گے، پڑھنے کے بعد اگر آپ کی بات ہمیں کمزور لگے تو ہمیں جاہل کہنے کی بجائے اتنا حق ضرور دیں کہ ہم اس کو نہ مانیں اور جس چیز پر شرح صدر ہو، اس کو مانیں۔ باقی اہل مدارس کو آپ جاہل کہیں گے تو وہ آپ کو جاہل سمجھتے رہیں گے۔ بات مکالمے اور دلیل سے نتیجہ خیز ہوگی، جہالت کے لیبل لگانے سے نہیں۔

مولانا عاطف ہاشمی

مدرسہ ڈسکورسز سے متعلق مختلف حلقوں کی جانب سے ملی جلی آرا سامنے آتی رہتی ہیں۔ دسمبر کے آخری  ہفتے میں جب اس کورس کا تیسرا بیچ ونٹر انٹنسو کے لیے قطر آیا تو یہ سلسلہ ازسرنو شروع ہو گیا۔ قطر میں موجود ہونے کی وجہ سے مجھے بھی کورس کے شرکاء سے ملنے اور خود ان کے تاثرات جاننے کا موقع ملا، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں بھی اس بابت اپنی رائے کا اظہار کروں۔

میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ یہ کورس انتہائی اہمیت کا حامل اور وقت کی ضرورت ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بہت پہلے ہی ہمارے اکابرین جدید چیلنجز کو سمجھنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنے فضلا کو تیار کرتے اور اگر وہ خود اس انداز میں آگے نہیں بڑھ سکتے تھے تو کسی ایسے فاضل سے اس بابت مدد لیتے جو اپنی مدد آپ کے تحت یہ صلاحیت حاصل کر چکے ہیں تاکہ وسیع پیمانے پر نوجوانوں کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تیار کیا جا سکے، لیکن افسوس کہ ایک طرف خود اہل مدرسہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس طرف توجہ نہیں دے سکے تو دوسری طرف اپنی سرپرستی میں جدید و قدیم سے آراستہ کسی شاگرد سے بھی استفادے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ (اس سب پر مستزاد یہ کہ نہایت اخلاص کے ساتھ اس جانب قدم رکھنے والوں کو گمراہ اور شر کا پروردہ قرار دیا گیا۔ فإلى الله المشتكى.)

ایسے میں اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کو اس کام کے لیے چنا اور انہیں پاکستان سے مولانا عمار خان ناصر اور ہندوستان سے ڈاکٹر وارث مظہری صاحب جیسے مخلص اور درد دل رکھنے والے رفقاء کار عطا کیے جنہوں نے علماء کی جدید خطوط پر تربیت کا بیڑہ اٹھایا اور اس میں کافی حد تک کامیاب جارہے ہیں۔ لیکن تاحال اس کورس کے شرکا اور اس کے منتظمین کو اجنبیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جس کی راقم کی نظر میں تین وجوہات ہیں۔ جب تک ان تین خامیوں کو دور نہیں کر لیا جاتا یا یہ کہ دیکھنے والے انہیں خامیاں سمجھنا چھوڑ دیں، تب تک یہ منفی تاثر باقی رہے گا۔

سب سے پہلی اور بڑی خامی اس کورس کی یہ ہے کہ اس کے منتظم اعلی ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب ہیں جوکہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی (نوٹرے ڈیم) میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ اگر یہی ڈاکٹر صاحب انھی افکار و نظریات کے ساتھ کسی عرب ملک کی یونیورسٹی کے پروفیسر ہوتے تو مجدد دوران کہلاتے، اور علما ان کی پیشانی کو چومتے لیکن ان کی سب سے بڑی خامی امریکہ میں مقیم ہونا ہے، چاہے پس منظر میں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء ہی کیوں نہ ہوں۔

پاکستان کی حد تک دوسری خامی کی وجہ مولانا عمار خان ناصر صاحب ہیں جو اگرچہ سکہ بند دیوبندی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن بعض دیوبندی حلقوں کی طرف  سے " گمراہی" کا سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے ہیں۔ وقت نے ایسی بہت سی پیش گوئیوں کو غلط ثابت کر دیا ہے اور دوسری طرف عمار خان صاحب سے متعلق غلط فہمیاں بھی وقت کے ساتھ ساتھ دور ہو رہی ہیں اور بڑی تیزی سے فضلاء ان کے قریب ہو رہے ہیں۔

 تیسری خامی مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے بیچ (batch) کا انتخاب تھا۔ میں تینوں بیچوں کے بہت سے شرکا سے واقف ہوں اور ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ انتہائی ذی استعداد و باصلاحیت ہیں، لیکن پہلے بیج کے بعض شرکا جدیدیت کے اسباق کو اچھی طرح ہضم نہیں کر سکے اور قدیم و جدید کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کر دیا، اس طرح وہ روایت سے باغی بن کر سامنے آئے اور شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کے شکوک وشبہات کو تقویت دیتے رہے، اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔

میں مدرسہ ڈسکورسز سے متعلق منفی تاثر قائم کرنے والے مذکورہ تینوں امور کے بارے میں پوری دیانت داری کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ یہ تینوں ہی محض اتفاقات ہیں نہ کہ کوئی سوچی سمجھی سکیم۔ ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب اگر امریکہ کی بجائے کسی مشرقی ملک میں ہوتے تو شاید انہیں ان چیلنجز کا ادراک ہی نہ ہوتا جو وہ اس دنیا میں رہ کر دیکھ رہے ہیں۔ اچھا اور مخلص مسلمان ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ پاکستانی بھی ہو، انڈیا، امریکہ یا کسی بھی غیر اسلامی ملک میں پاکستانیوں جیسے یا ان سے بھی زیادہ مخلص مسلمان ہو سکتے ہیں۔ مولانا عمار خان ناصر صاحب کی طرح ان سے پہلے بھی بہت سے اہل علم لگی بندھی سوچ سے ہٹ کر سوچتے رہے ہیں، لیکن اپنی متفردانہ رائے کا کھل کر اظہار نہیں کر سکے، لیکن عمار صاحب یہ "غلطی" کر گئے جو بہت ہی خیر کا سبب بن رہی ہے اور مزید بنے گی ان شاءاللہ۔

رہی بات پہلے بیچ کے چند فضلاء کی تو اس کا ادراک مدرسہ ڈسکورسز کی انتظامیہ کو بھی ہے اور حالیہ ورکشاپ کی آخری نشست میں برادرم منصور احمد صاحب نے بھی سب کے سامنے اس کا اظہار کیا اور امیج بلڈنگ سے متعلق ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کو متوجہ کیا۔ انہوں نے مسند احمد کی ایک حدیث کا حوالہ بھی دیا جس کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنیاد پر ایک شخص کے جہنمی ہونے کا فیصلہ کر دیتے ہیں، لیکن چونکہ اس کے حق میں لوگوں کی گواہی مثبت ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ لوگوں کی گواہی کو دیکھتے ہوئے اسے جنتی قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے بھی مدرسہ ڈسکورسز کی انتظامیہ کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ ان حضرات کی کوششوں کو بار آور بنائے اور امت کی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں اسے ذریعے کے طور پر قبول فرمائے۔  آمین

مولانا  ابو اعتصام الحق بختیار

(حیدر آباد، انڈیا)

یہ دنیا تغیر پذیر ہے۔ نظریہ ارتقاء کو کوئی مانے یا نہ مانے؛ لیکن دنیا اپنے وجود کے ساتھ ہر آن ہر سو متغیر ہورہی ہے۔ یہاں ہر چیز میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے، حتی کہ انسان کے سوچنے سمجھنے کے انداز اور طریقوں میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہےاور ہم جانتے ہیں کہ اسلام دائمی اور ہمیشہ رہنے والا مذہب ہے۔ دنیا میں چاہے کیسی ہی تبدیلی واقع ہوجائے، لیکن اسلام ہر تبدیلی میں اپنے  پورے وجود اور نظام کے ساتھ قائم رہنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے؛ البتہ ضرورت ہوتی ہے ایسے دماغوں کی، ایسے افراد کی جو جدید دنیا کے مطابق اسلام کو سمجھنے ، سمجھانے اورقابل عمل بتانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔بدلے ہوئے ذہنوں کو، سوچنے کے نئے انداز کے حامل افراد کو اسلام کی خوبصورت تصویر پیش کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ موجودہ چیلنجز اور اسلام پر ہو رہی جدید یلغار کو سمجھنے اور موجودہ زبان اور انداز میں اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ الاسلام يعلو ولا يعلی عليہ کی ہر زمانہ میں نمائندگی کر سکتے ہوں۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں، کچھ اسی طرح کی جدوجہد اور اسی خواب کو عملی تعبیر دینے کی ایک کوشش کا نام مدرسہ ڈسکورسزہے۔

انہی مقاصد کے حصول کے لیے ہم بھی مدرسہ ڈسکورسز سے مربوط ہوئے اور ستمبر2019 سے دسمبر 2019 تک مختلف موضوعات پر آن لائن کلاسز ميں شریک ہوکر مستفید ہوئے۔ ان کلاسز کے لیے اہم اور مفید مواد اور نصاب کا انتخاب کیا گیا تھا۔ عربی ، انگریزی اور اردو تینوں زبانوں میں علمی متون کا مطالعہ کرایا گیا، نیز یہ متون بڑے علماء، مفکرین ، دانشوران، سائنسدان اور علم کلام کے اساطین کی تھیں۔ علم کلام کے بیشتر متون بنیادی مآخذ  کی حیثیت سے تھے اور مجموعی طورپر پورے سمسٹر میں علم کلام کا رنگ غالب رہا؛ اگر چہ دیگر موضوعات پر بھی کافی مطالعہ اورمناقشہ ہوا ۔

اس کورس کی بہت سی خصوصیتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں مطالعہ کرنے کا انداز اور طریقہ بھی بتایا جاتا ہے جو کافی مفید ثابت ہوا۔ اس سے انکار نہیں کہ کسی کے پاس مطالعہ کا  اس سے بھی بہتر طریقہ ہو، اسی طرح اس کورس کی یہ بھی خوبصورتی ہے کہ یہاں استاذ خود کم گفتگو کرتے ہیں اورمشارکین کو تبادلہ خیال اور مطالعہ کی روشنی میں اپنی رائے رکھنے کا زیادہ موقع دیتے ہیں، نیز چند استثناءات کے سوا کبھی کسی کی رائے کی سختی کے ساتھ تردیدنہیں کی جاتی اور نہ ہی کسی کی بے جا تائید۔

سمسٹر مکمل ہونے کے بعد طے شدہ پروگرام کے تحت ونٹر انٹیسو (Winter Intensive)کا قطر میں ایک ہفتہ کا پروگرام تھا ۔ ۲۴  دسمبر کی صبح کو وہاں کے وقت کے حساب سے سوا نو بجے ہم قطر کے حمد انٹر نیشنل ائیر پورٹ پہنچے۔انتظامیہ کی جانب سے قطر میں شرکاءکے لیے تمام انتظامات شاندار رہے۔ ہوٹل ، ناشتہ ،کھانا ، ٹرانسپورٹ اور جائے محاضرات سب سکون بخش اور فرحت آمیز تھے۔  تمام نشستیں جامعہ حمد بن خلیفہ کے کلیۃ الدراسات الاسلامیۃ میں منعقد کی گئیں۔ جامعہ کا یہ حصہ اسلامی اور ماڈرن طرز تعمیرکا شاہکار ہے، بہت دیدہ زیب، پرکشش اور خوبصورت عمارت ہے۔ سمندر کی سطح پر، آدھی پانی میں اور آدھی اس کے اوپر،آسمان کی طرف اپنی دم کو تانے، تیرتی ہوئی شارک مچھلی کے نقشہ پر کلیہ کی عمارت تعمیر کی گئی ہے  جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں ایک وسیع وعریض مسجد بھی ہے ۔ ہماری نماز ظہر زیادہ تر وہیں ہوتی تھی۔

اس سات روزہ پروگرام میں مختلف موضوعات پر محاضرے پیش کیے گئے۔ ڈاکٹر شیر علی ترین ، ڈاکٹر عمار ناصر ، ڈاکٹر وارث مظہری ، ڈاکٹر ابراہیم موسی ،ڈاکٹر ادریس آزاد اور ڈاکٹر محی الدین علی قرہ داغی وغیرہ نے قیمتی محاضرات پیش فرمائے۔ اول الذکر تینوں حضرات کورس کے باضابطہ لیکچرارہیں اور تینوں ہی غضب کی صلاحیتوں کے مالک ہیں ، ڈاکٹر وارث مظہری کا مطالعہ وسیع ، فکر بلند اور نظر عمیق ہے ۔ جب وہ کسی نص پر کلام کرتے ہیں تو اس کے تمام گوشے چوپٹ کھل جاتے ہیں، اس نص کا فہم مشارکین کے لیے بالکل آسان ہوجاتا ہےاور ڈاکٹر عمار ناصر جب علم و تحقیق کی گرہیں کھولتے ہیں تو ان کے اندر سمندر جیسا ٹھہراؤ دکھائی دیتا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دور کسی سناٹے میں کوئی موسیقی کے تاروں کو چھیڑ رہا ہو ، نیز وہ کسی بھی نص کی تنقیح اس طرح کرتے ہیں کہ مشارکین کو لگتا ہے کہ اس متن کے تمام سرکش گھوڑوں کی لگام ہمارے ہاتھوں میں آچکی ہے۔

  ڈاکٹر شیر علی کو اگر نابغہ روزگار اور عبقری کہا جائے تو شایدمبالغہ نہ ہو۔ موصوف بلا کی ذہانت اور حیرت انگیز صلاحیت کے مالک ہیں، نصوص کے مطالعہ کا ان کا انداز انوکھا ہوتا ہے، جب یہ نصوص میں غوطہ زن ہوکر نتائج کا استخراج کرتے ہیں تواہل فضل وکمال مشارکین وسامعین کا مجمع انگشت بدنداں رہ جاتاہے۔ ان کوکئی زبانوں پر عبور حاصل ہے؛ البتہ ان کی اردو میں تقریباً 60 فی صد عربی الفاظ وترکیبات کی آمیزش ہوتی ہےاوریہ بھی ان کی شخصیت کی ایک خوبصورتی ہے ۔

ڈاکٹر ابراہیم موسی اس علمی قافلہ کے روح رواں ہیں۔  سادگی، خورد نوازی، حوصلہ افزائی ان کی شخصیت کے نمایاں عناصر ہیں، ان کی باتوں کے دریچوں سے ان کے قلبی احساسات، تڑپ اور بے قراری کو بخوبی دیکھا جا سکتاہے۔ عربی، انگریزی اور اردو تینوں زبانوں میں بولنے اور لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

قطر کے پروگرام میں جتنے محاضرات پیش کیے گئے سب اپنی افادیت میں ممتاز تھے۔ سائنس ، علم کلام، تہذیب، فقہ اور علمیاتی معاییر جیسے اہم موضوعات پر محاضرات مشتمل تھے۔ ڈاکٹر شیر علی تارین نے بھی کئی محاضرے دیے، ان کے محاضرات بڑے دل چسپ اور انوکھے انداز کے ہوتے تھے ۔ جو نصوص ہم نے پڑھ رکھی ہیں، انہی نصوص کو جب وہ پیش کرتے ہیں، تو ان میں ایسے ایسے نکتے پیش کرتے ہیں ، جو سامعین کے لیے بالکل نئے ہوتے ہیں اور ان کا انداز بھی اچھوتا ہوتاہے۔ حضرت نانوتوی کے مباحثہ شاہ جہان پور کی نص پیش کی گئی اور اس میں اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی کہ وقت اور ماحول کا کتنا اثر حضرت نانوتوی کے کلام اور ان کی تعبیرات پر تھا، کیوں کہ امام نانوتوی نے اپنے اس مناظرہ میں بعض ایسی تعبیرات کا استعمال کیا ہے، جس سے ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارگی کو فروغ ہوتا ہے اور اس طرح کی تعبیرات دوسرے مناظروں میں ہمیں نہیں ملتیں۔ نیز حضرت نانوتوی کے مناظرے میں اور دیگر علماء کے مناظروں میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے ۔ نیزاس محاضرہ میں مشارکین کو چند سوالات دیے گئے تاکہ وہ اپنے مطالعہ کی روشنی میں اس کے جوابات دیں۔ مشارکین نے اس میں خوب حصہ لیا اور امام نانوتوی اور دیگر علماء کے مناظروں کے درمیان فرق کو واضح کیا۔

مفتی امانت علی قاسمی نے مناقشہ میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حضرت نانوتوی کا یہ مناظرہ اگر چہ ہندو اور عیسائی دونوں سے تھا؛ لیکن اس مناظرہ میں ہندو اور مسلم دونوں ہی مناظرکرنے والوں کے پیش نظر عیسائی مناظر کو ہزیمت دینی تھی؛ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت نانوتوی کو اس مناظرہ میں بڑی کامیابی ملی اور عیسائیت اور ہندوازم دونوں کے مناظر بے بس نظر آئے، تو اس کامیابی پر صرف مسلمان ہی نہیں؛ بلکہ ہندوؤں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی؛ کیوں کہ عیسائی پادری ہندوستان کے طول وعرض میں اسلام کے ساتھ ساتھ ہندوازم کوبھی چیلنچ کر رہے تھے، وہ پورے ملک کوعیسائیت کے رنگ میں رنگنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔

ڈاکٹر سہیرا صدیقی  نے ایک محاضرہ علمیات (Epistemology)کے عنوان پر دیا ، جس میں بنیادی طور پر تین اہم عناصر پر بحث کی گئی : (1) معرفت کیا ہے؟ (2) ذرائع کیا ہیں؟ (3) معاییر کیا ہیں ؟نیز اس محاضرہ میں اس پر بھی اہم گفتگو کی گئی کہ مغرب میں علمیاتی معاییر میں کس قسم کی تبدیلی واقع ہوئی ہے؟

اسی طرح ایک بہت ہی پرمغز، مفید اور اطمینان بخش محاضرہ ڈاکٹر ادریس آزاد نےنظریہ ارتقاء کے شواہد (Evidences of Evolutionary Theory)کے عنوان سے پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا انداز تفہیم سادہ اور آسان تھا ، ان کی اس بحث سے سائنس کی بہت سی باتیں معلوم ہوئیں، نیز سائنس کے تئیں اشتیاق میں اضافہ ہوا ۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑے اچھے اندازمیں دنیا کی مخلوق میں ارتقائی مراحل کو سمجھانے  کی کوشش کی ، بڑی اچھی مثالیں اور مضبوط شواہد پیش کیے۔ اسی سے ملتا جلتا ایک آن لائن محاضرہ ڈاکٹر رانا دجانی صاحبہ نے پیش کیا ، ان  کے محاضرہ کا عنوان تھا : سائنس، ارتقاء اور اسلام (Science, Evolution and Islam)انہوں نے بھی اس عنوان پر انگریزی میں اچھا محاضرہ پیش کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نظریہ ارتقاء اسلام سے متصادم نہیں ہےاور بڑے پرجوش انداز میں قرآن کریم کی آیتوں کے حوالوں سے انہوں نے اپنا علمی محاضرہ پیش کیا۔  سوالات کے وقفہ میں مشارکین نے اپنے بہت سے خدشات، شبہات اور اعتراضات وسوالات کیے، میں نے بھی درج ذیل سوال کیا:

(1) ارتقاء کی وجہ سے بندر انسان بن گیا، تو سوال یہ ہے کہ بندروں کا ارتقائی مرحلہ انسان پر آکر کیوں رک گیا؟ اب ارتقاء کی وجہ سے بندرسے بننے والا انسان کوئی دوسری مخلوق کیوں نہیں بن رہاہے؟

(2)  ہمارے زمانہ کے بندروں میں یا ہم سے قریب تر ماضی کے بندروں میں اب یہ ارتقاء کیوں نہیں ہورہا ہے، یعنی   اب کے زمانہ کے بندر، انسان کیوں نہیں بن رہے ؟ کیا سابق میں جو بندر انسان بنے تھے، وہ مخصوص اوصاف کے حامل تھے، جو اوصاف ہمارے زمانہ کے بندروں میں نہیں پائے جاتے؟

ڈاکٹر صاحبہ نے اس کا کیا جواب دیا تھا، اب ذہن میں نہیں؛ لیکن ڈاکٹر ادریس صاحب نے ان دونوں سوالوں کا مختصر سا اور مشترک یہ جواب دیا تھا کہ ارتقائی مرحلہ کوئی ایک دن یا ایک سال میں طے نہیں ہوتا کہ ایک نسل اس کا ادراک کرسکے؛ بلکہ یہ ہزارہا ہزار سال کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔

اس محاضرہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ انسانی زندگی کی پیش قدمی کے لیے ارتقائی نظریہ بہت ضروری ہے، محاضرہ کے بعد ہم نے ڈاکٹر ادریس صاحب سے شخصی ملاقات میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم بندر اور انسان کے قصہ کے علاوہ دیگر تمام چیزوں میں نظریہ ارتقاء کو مانیں، کیا اس نظریہ کو ماننےکے لیے ضروری ہے کہ ہم بندر اور انسان کی بنائی ہوئی کہانی کو بھی مانیں، جبکہ یہ اسلامی تصور سے صاف متصادم ہے؟ ڈاکٹر موصوف نے صراحت کے ساتھ کہا کہ بندر اور انسان کی کہانی کو مانے بغیر بھی نظریہ ارتقاء کو مانا جاسکتا ہے۔

اسی طرح ان نشستوں میں ایک بیش قیمت محاضرہ تنظم الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر علی محی الدین القرہ داغی کا تھا ۔ محاضرہ کا عنوان تھا "الفقہ الاسلامی بين النصوص والتراث والمعاصرۃ وفقا لفقہ الميزان"۔ ڈاکٹر صاحب کا محاضرہ بہت شاندار تھا، قرآن کریم کی آیات کی تفسیر ، لطائف، دقائق اور نکات کا استخراج حیرت انگیز تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے محاضرہ میں ایک نئی بات یہ ملی کہ انہوں نے تراث اور نص کے درمیان فرق قائم کیا، ان کے نزدیک تراث میں نصوص شرعیہ اور دینیہ داخل نہیں ہے، تراث ان سے الگ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نصوص شرعیہ یعنی تفسیر اور حدیث وغیرہ سے متعلق اہل علم کے جتنے اجتہادات اور آراء ہیں، ان پر تراث کا اطلاق ہوتا ہے، بلکہ تراث کا امتداد حضرت آدم سے لے کر اب تک کے علماء اور فقہاء تک ہے، تراث صرف امت محمدیہ کے اجتہادات میں منحصر نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا موضوع پر نہایت ہی وقیع محاضرہ پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اچھے محاضرے پیش کیے گئے، جن کی فہرست اور ان پر تبصرہ طویل الذیل ہے۔

مدرسہ ڈسکورسز کی انتظامیہ نے جہاں ہماری علمی سیرابی کا خوبصورت نظم کیا تھا، وہیں ذہنی تفریح ، تاریخی مقامات کی سیر اور قطر کے دل کش اور حسین وجمیل مناظر سے ہمیں محروم نہیں رکھا گیا۔ ہمارا پورا قافلہ قطر کے متعدد عجائب گھروں  اور ساحل سمندر کے حسین نظاروں سے خوب محظوظ ہوا۔ سوق واقف کا تاریخی بازار بھی نظر نواز ہوا، جو صرف قطر کا بازار نہیں تھا، بلکہ وہاں قطر کی تقریباً تہذیب کا جامع تھا۔ سوق واقف میں ہی واقع ہوٹل دی ویلیج (The Village) میں عشائیہ تھا، جہاں ہمارے سامنے ایرانی اور انڈین کھانے پروسے گئے، گویا کہ یہ کھانا بزبان حال پکار رہا تھا "بضاعتكم ردت إليكم" تاہم کھانا بڑا مزیدار تھا، ایرانی کبابوں کا ذائقہ تو ہنوز زبان فراموش نہیں کرسکی۔

پیر کے دن دوپہر سے رات ساڑھے نو بجے تک اختتامی تاثراتی نشست تھی۔ درمیان میں لمبا وقفہ بھی تھا۔ یہ نشست پورے پروگرام کا خلاصہ تھی، اس میں مشارکین نے اپنے قیمتی تاثرات کا برملا اظہار کیا۔ بیشتر مشارکین کے تاثرات تین مرکزی عناصر میں محدود تھے: (1) مدرسہ ڈسکورسز پر ہونے والے اعتراضات کا جواب (2) اس کی افادیت۔ (3) اپنے تاثرات مشورے اور تجاویز۔ مجھے بھی تاثرات پیش کرنے کا موقع دیا گیا، میں نے اس کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے عرض کیا کہ فی زمانہ دنیوی تعلیم اور دینی تعلیم کے درمیان ایک خلیج قائم کردی گئی ہے، عام طور پر اِدھر کے حضرات اُدھر سے بے بہرہ رہتے ہیں اور اُدھر کے لوگ اِدھر سے۔ مدرسہ ڈسکورسز نے اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی ہے۔ یہ آخری نشست تھی، اس کے بعد سب کوجدا ہونا تھا؛ اس لیے بڑی جذباتی رہی؛ بالخصوص ڈاکٹر عمار ناصر اور ڈاکٹر ابراہیم موسی وغیرہ کی آنکھیں چھلک آئیں اور اس کے بعد چند منٹوں تک پوری مجلس میں سناٹا چھایا رہا۔

ان نشستوں اور کورس کے تعلق سے درج ذیل چند تاثرات اور مشورے پیش خدمت ہیں:

  1. مدرسہ ڈسکورسز کے روح رواں ڈاکٹر موسی ابراہیم کا نوجوان فضلاء اور حالات حاضرہ کے تئیں جذبہ قابل تقلید ہے۔
  2. مدرسہ ڈسکورسز کے تمام اساتذہ مسلکی، مذہبی غیر جانب داری اور اچھی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
  3. مدرسہ ڈسکورسزکا منتخب کردہ نصاب بہت مفید ہے۔
  4. ہمیں چار مہینے کے سمسٹر سے جتنا فائدہ ہوا، اس سے کہیں زیادہ آٹھ دن کے قطر کے پروگرام سے محسوس ہوا۔
  5. ڈاکٹر جوشوا لوپو  کی خدمات اور ان کے اخلاق متاثر کن ہیں۔
  6. مطالعے کے لیے عربی یا انگریزی میں جونص دی جاتی ہے، اگر ان نصوص کے اصطلاحی اورمشکل الفاظ کا حل بھی ساتھ ہی میں فراہم کردیا جائے تو ہماری توانائی نص کے اصل مغز کوسمجھنے پر زیادہ خرچ ہوسکتی ہے؛ ورنہ ہم الفاظ کے پیچوں میں ہی الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
  7.  کسی بھی مسلک کے بڑے عالم اور رہنما کا اگر ذکر آئے تو تمام مشارکین کو حتمی طور پر یہ التزام کرنا چاہیے کہ ان کے حوالے سے گفتگو کرتے وقت ادب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں، بصورت دیگر مشارکین کے درمیان ہی بدمزگی پیدا ہوجانے کا قوی اندیشہ رہتا ہے۔
  8. محاضرہ پیش کرنے والی مسلم خواتین میں اگر ان کی اسلامی وضع قطع اور ہیئت کذائیہ کو ترجیحات میں رکھا جائے تو مناسب ہوگا۔
  9. ونٹر اینڈ سمر انٹینسو میں صرف اساتذہ کے محاضرات کے بجائے مشارکین کو پچھلی نصوص کی روشنی میں کسی موضوع پر مقالہ لکھنے اور انٹینسو میں پیش کرنے کا مکلف کیا جائے۔
  10. پختہ عمر کے ماہرین فن اور صلاحیتوں کے حامل افراد کی کثرت کے بجائے شرکاء  کے انتخاب میں یونیورسٹی اور مدارس کے جدید فضلاء کو ترجیح دے کر ان کو تیار کرنا چاہیے۔

مولانا جاوید اقبال 

(نئی دہلی، انڈیا)

بحمد اللہ مدرسہ ڈسکورسز کا پہلا سمسٹر بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا۔ چند ماہ بیشتر جب  ایک باصلاحیت ، تحقیقی مزاج اور مثبت فکر کے حامل کرم فرما نے کورس کا تعارف کراتے ہوئے شرکت کی دعوت دی تو ناچیز نے انٹرویو میں شریک ہونے کا ارادہ کرلیا۔ جو اجمالی تعارف انھوں نے کرایا وہ اس مفید علمی حلقہ سے منسلک ہونے پر ابھارنے کے لیے کافی تھا۔ پھر انھی دنوں فیس بک اور واٹس ایپ پر کورس کے تعلق سے کئی تحریریں گردش کرنے لگیں جن میں حمایت سے زیادہ مخالفت کے سر نمایاں تھے۔ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں میں زیادہ تر لوگ ایسے تھے جن کی "دور اندیشی" اور "احتیاط پسندی" کو بآسانی 'قانونِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پر اڑنا" کے زمرے میں ڈالا جا سکتا تھا۔ تاہم ان میں کئی معتبر اشخاص بھی تھے جن کے خلوص پر شک نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان کے دلائل غیر منطقی بزرگانہ شفقت و خیر خواہی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے تھے۔ حد درجہ خلوص بھی بسا اوقات بے جا اندیشوں کو جنم دیتا ہے۔ لہذا ایسے تمام مخلصین معذور تھے۔ کسی بھی ڈسکورس میں جبر و اکراہ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور کورس کے بعض ذمہ داران کی کسی رائے سے علمی اختلاف کی بنا پر اپنے فضلاء کو کورس میں شرکت سے بچنے کی تلقین کرنا یا ان کے گمراہ ہوجانے کا رونا رونا "اپنے ہونہار" علمی فرزندوں کے تئیں صریح بدگمانی اور مدرسوں کے نظامِ تعلیم و تربیت کی افادیت پر ہی سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے۔ ویسے بھی جن فضلاء کو جدید مسائل اور مختلف افکار و نظریات کے مطالعہ کا شوق ہوتا ہے، ان کے لیے دنیا بہت وسیع ہوچکی ہے۔

مختصر یہ کہ کورس یا اس کے ذمہ داران کی نیک نیتی کے تعلق سے ناچیز کو کبھی کبھی کوئی بدگمانی نہیں رہی۔ جو چیز میرے لیے زیادہ باعثِ مسرت و انبساط ہے، وہ ہے کورس کی افادیت جس کا صحیح اندازہ باقاعدہ اس کا حصہ بننے اور دروس میں شریک  ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔ ساحل کے تماشائی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ قیاس ہر مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ کسی بھی موضوع پر مختلف قدیم و جدید تحریروں کا تقابلی مطالعہ اور پھر خالص دوستانہ ماحول میں ہر پہلو ہر سیر حاصل بحث، مشارکین کی آراء، اعتراضات، جوابات اور جواب الجوابات پر مشتمل ایک ایسا پر لطف علمی ماحول جس سے بلاشبہ فکر کے کئی زاویے وا اور کئی دریچے روشن ہوتے ہیں۔  تحریروں کے انتخاب میں جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا گیا ہے، وہ بذاتِ خود حیرت انگیز ہے۔

 یہاں کورس میں شامل مضامین کا جائزہ لینا میرا مقصد نہیں ہے اور نہ ہی ونٹر انٹیسو کے محاضرات پر تبصرہ۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے اب تک کی سرگرمیوں پر اپنے دلی تاثرات پیش کرنا ہے۔ کورس کے آغاز سے قطر کے سفر تک چونکہ صرف آنلائن کلاسز ہی ہوئیں، اس لیے باجود دوستانہ ماحول کے ایک گونہ اجنبیت تھی۔ لیکن اس سفر کے دوران جہاں ذمہ داران اور دیگر مہمان علمی شخصیتوں سے براہِ راست استفادہ کا زریں موقع نصیب ہوا، وہیں اس حقیقت کا بھی مشاہدہ سب نے  کیا کہ زاہدِ تنگ نظر جنھیں کافر سمجھتا ہے، وہ ولی ہے۔ فضلاء مدارس کے لیے  یہ خلوص، یہ کڑھن، اور ایسی فکر مندی صاحبانِ جبہ و دستار میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ مطالعہ میں تنوع آپ کو مختلف فکری جہات سے آشنا کراتا ہے۔ شوقیہ مطالعہ کی بھی اپنی افادیت ہے لیکن کسی خاص موضوع پر مختلف الفکر مصنفین کی تحریروں کا بنظرغائر مطالعہ اور اہل علم اور متجسس اذہان کی صحبت میں ان پر مناقشہ اس کی افادیت کو دو چند کردیتا ہے اور یہی اس کورس کا سب سے نمایاں اور مفید پہلو ہے۔ موضوعات بذاتِ خود اس قدر حساس اور اہم ہوتے ہیں کہ ان پر غور و خوض اور عصری اسلوب میں ان کی پیش کش وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ جدید علم الکلام یا فقہ کی تشکیلِ نو کا مطلب روایتی علم الکلام یا روایتی فقہ سے دستبرداری ہرگز نہیں ہے بلکہ تمام شرعی و اصولی نزاکتوں کا خیال رکھتے ہوئے اسے عصری اسلوب میں پیش کرنا ہے۔

فقہ جدید پر کافی کام ہوچکا ہے اور ہورہا ہے، لیکن علم الکلام کی تشکیلِ نو ہنوز توجہ طلب ہے۔ دونوں ہی کام عصری مزاج و اسلوب اور علم جدید کی بعض  شاخوں سے بقدرِ ضرورت آگہی و استفادہ کے بغیر ناممکن ہیں۔ وارثینِ انبیاء سے ہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے۔ کسی بھی ایسی کوشش میں فکری و علمی اختلاف فطری ہے اور دلیل کا جواب صرف دلیل ہی ہوسکتی ہے، فرار یا محض مخالفت نہیں۔

  الحمد للہ، اب تک کا سفر بہت ہی بصیرت افزوز، معلومات افزا اور لطف انگیز رہا ہے۔ امید ہے آگے کے مراحل مزید دلچسپ اور علمی و فکری لحاظ سے مفید تر ہوں گے۔

مولانا سید عبد الرشید

(کلکتہ، انڈیا)

مدرسہ ڈسکورسز پروگرام میری دانست میں ایک اہم پروگرام ہے، فارغین مدارس اور اسلامیات سے وابستہ افراد کے لئے یہ پروگرام کئی اعتبار سے مفید ہے، مثلا:

مولانا نوشاد نوری قاسمی

(دیوبند، سہارنپور، انڈیا)

اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ علم ایک نہ بجھنے والی پیاس کا نام ہے، یہ وہ تشنگی ہے جو علم وفضل کے دریائے ناپیدا کنار کو پی جانے کے بعد بھی ، اسی شدت کے ساتھ باقی رہتی ہے، اپنی علمی حالت کی اصلاح اور مجہول کی تلاش ہی انسانی زندگی کا وہ جوہر ہے ، جو اسے دنیا کی تمام تر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے ۔ علم وفن کی چند کلیوں پر قناعت کرنا کسی بھی دور میں اہل کمال کا شیوہ نہیں رہا ہے، بلکہ  “علاج تنگی· داماں” کی نئی نئی شکلوں کی دریافت ہی اس بزم کے دیوانوں کا دائمی شعار رہا ہے۔

مدرسہ ڈسکورسز پر گفتگو کرتے وقت میرا ذہن اس طرف اس لیے جارہا ہے کہ “ مدرسہ ڈسکورسز” کے ساتھ، چند ایسے خیالات کچھ لوگوں نے وابستہ کردیے ہیں جنہیں “اندیشہ ہائے دور دراز” کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، اور ان خیالات کے لیے جو دلائل فراہم کیے گئے ہیں، وہ غیر ضروری طور پر بدگمانیوں پر قائم ہیں۔ کبھی مدارس کے نصاب کی جامعیت کا حوالہ دیاگیا ، کبھی ان کی تاریخ اور ان کے افکارونظریات کے حوالہ سے گفتگو کی گئی ؛ لیکن ان سب کے پےچھے ایک قسم کی بدگمانی اور تعلیم واصلاح کے ہرنئے نظام کی مخالفت کا مزاج کارفرماتھا۔

مدرسہ ڈسکورسز کا میں نے پہلی بار نام اپنے رفیق محترم جناب مفتی محمد امانت علی قاسمی صاحب استاذ ومفتی دار العلوم وقف دیوبند سے سنا۔ اس کے کچھ ہی مہینوں بعد جناب ڈاکٹر مولانا وارث مظہری صاحب، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامیات جامعہ ہمدرد دہلی کی دیوبند آمد ہوئی۔ ان کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد کے متعدد اساتذہ بھی تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب سے تفصیلی ملاقات ہوئی، اور مدرسہ ڈسکورسز کے اغراض ومقاصد اور اس کا حصہ بننے کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں کے معیار کا علم ہوا۔ اس بات سے بھی کافی اطمینان ہوا کہ جناب ڈاکٹر صاحب ہی ہندوستان میں اس کے نگراں ہیں ؛ کیوں کہ ڈاکٹر صاحب اپنی تحقیقی ، تخلیقی اور علمی شناخت کی وجہ سے ہندوبیرون ہند کے علمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔

میرے لیے خوشی کی بات تھی کہ مجھے اس کاروان علم کا حصہ بننے کا موقع ملااور اس تعلیمی نظام کے آغاز کے موقع پر  جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی میں ایک پروگرام کا انعقاد کا عمل میں آیا، جس میں بذات خود جناب ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب نے بڑی وضاحت سے علم وتحقیق کی ضرورت اور فکری مسائل میں ہماری کم مائیگی کا احساس دلایا اور بڑے ہی درد مند لہجے میں یہ یقین دہانی کرائی کہ یہ تعلیمی نظام کوئی نئی چیز نہیں ہے ؛ بلکہ ہمارے اپنے اکابرین اور سلف کے تحقیقی مزاج کی تلاش اور ان کے منہج کے احیاءکی کوشش ہے۔ اس میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بعض ہندوستان کے فکر مند علماءانہےں ایسا کچھ کرنے کی ترغیب دیتے رہتے تھے، اور ان کی کوشش سے یہ “علمی مشروع” نوٹریڈیم یونیورسٹی، امریکہ میں منظورہوسکا۔

اس موقع پر فقیہ العصر حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کا پرمغز خطاب ہوا جس میں علم وفن کے ہر مثبت اقدام کی تعریف کی گئی اور حالات کے تناظر میں بدلتے رجحانات اور ان کے لیے مناسب اور ضروری تیاری کی اہمیت پر زور دیا گیا۔اسی زمانے میں ایک تحریر سامنے آئی اور مدارس کے حلقے میں ایک سنسنی پھیل گئی۔ پھرکیاتھا، ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا گیااور اس میدان میں وہ لوگ بھی کود پڑے جن کو نہ اس نظام کا پتہ تھااور نہ ہی اس کے طریقہ تعلیم کا، نہ اس کے نصاب کا اور نہ ہی مثبت اندازمیں بحث ومباحثے کا۔ ہرچند کہ اس ہنگامے سے طائر شوق کی بلندپروازی میں اضافہ ہی ہوا اور جلد سے جلد اس علمی سفر کے آغاز کی آرزو مچلنے لگی،لیکن ادارہ کی مصلحت کی وجہ سے گومگوکی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس موقع پر مدرسہ ڈسکورسز اور اس سے وابستہ تمام افراد کو جناب ڈاکٹر مولانامحمد شکیب قاسمی صاحب ڈائریکٹر حجة الاسلام اکیڈمی واستاذ دار العلوم وقف دیوبندکا مشکور ہونا چاہیے کہ انہوں نے مدرسہ ڈسکورسزکی مخالفت کے دھارے کو اپنی معروضی اورمنطقی تحریر سے موڑدیااور مخالفین کوہنگامہ اور سنسنی پھیلانے کی روش سے باز آنے کی نصیحت کی ۔

رفتہ رفتہ وہ دن بھی آیا جس کا انتظار رہتا تھا۔ ۴ ستمبر بروز بدھ ۲٠۱۹ء کی شام کو، آن لائن زوم ایپ کے ذریعہ اس درس کاآغاز ہوا جس میں ابن کثیر کی کتاب البدایة والنہایة کی آٹھویں جلد سے دلائل النبوةسے متعلق تقریبا بیس صفحات ریڈنگ کے لیے طے کیے گئے تھے۔ اسی طرح انگریزی میں بھی ایک ریڈنگ تھی جس کا موضوع مذہبی تعلیمات اور مغرب میں اسلامک اسٹڈیز کا منہج تھا۔ پہلے دونوں تحریر کا خلاصہ کیا گیا۔ انگریزی تحریر کا خلاصہ جناب ڈاکٹر شیر علی تارین صاحب نے اور اردو جناب مولانا عمار خان ناصر اورجناب ڈاکٹر وارث مظہری صاحبان نے کیا اور پھر اس موضوع کے تعلق سے بحث ومناقشہ کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس کورس میں سارے لوگ نہ صرف فضلاءمدارس ہیں، بلکہ فضلاءمدارس میں سے بھی ایسے ہیں جو کسی مدرسہ میں تدریس وغیرہ کی ذمہ داریوں سے وابستہ ہیں ؛ اس لیے تخصصات کے تنوع نے بحث ومناقشہ کا جو دروازہ کھولا تو ایک علمی تفریح اورصحت مند افادہ واستفادہ کا بالکل ایک نیا سرا ہاتھ آیا۔ افکار ونظریات کے باب میں اتفاق اور اختلاف کی پوری گنجائش رکھی گئی اور کوئی بھی ایسا نظریہ شامل نصاب نہیں کیا گیا جو امت مسلمہ کے یہاں قطعی طور پر مسترد ہو۔ یہ علمی قافلہ ۴ ستمبر سے لے کر ۱۲نومبر تک مسلسل پا بہ رکاب رہا۔ پھر کچھ وقت کے لیے وقفہ استراحت آیا ، اورایک نصاب دیا گیا تاکہ  ۲۵ دسمبر سے ۳٠  دسمبر تک دوحہ قطر میں ہونے والی ورکشاپ میں تیاری کے ساتھ حاضری دی جائے۔اس نصاب میں بھی مسلم مفکرین کی اہم تحریریں شامل کی گئیں  جن میں علامہ ابن تیمیہ کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم کا ایک حصہ اور امام نانوتوی ؒ کی کتاب مباحثہ شاہجہاں پور شامل تھی ۔

۲۳ دسمبر ۲٠۱۹ءکو یہ قافلہ قطر کی طرف روانہ ہوا۔ اس قافلہ میں تمام ہندوستانی احباب شامل تھے جن کی قیادت مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب فرمارہے تھے۔ ۲۴ تاریخ کومولانا عمار خان ناصرصاحب کی سربراہی میں پاکستانی احباب بھی شامل ہوئے اور اسی دن جناب پروفیسر ابراہیم موسی اورڈاکٹر شیر علی ترین سمیت دیگر امریکی احباب بھی شامل ہوگئے۔۲۵ دسمبر سے ورکشاپ شروع ہوا جو جامعہ حمد بن خلیفہ کے خوبصورت آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا اور جس خوب صورت انداز میں فکری موضوعات پر بحث و مباحثے کے مواقع فراہم کیے گئے ، ان کو قید تحریر میں لانا بھی مشکل ہے ۔مناسب ہوگاکہ موضوعات پر تھوڑی روشنی ڈالی جائے۔

واضح رہے کہ ان مضامین کا تعلق فکر وفن کے ان گوشوں سے ہے   جو کسی بھی حیثیت سے عصر حاضر میں بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ مطالعاتی مواد  کا ایک اجمالی خاکہ پیش ہے: (۱) الاعلام بمناقب الاسلام لابی الحسن العامری (۲) مباحثہ شاہ جہاں پور از حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ  (۳) المنتخب من الامتاع والموانسة لابی حیان التوحیدی (۴) المنتخب من مشکاة الانوار للامام محمد الغزالی (۵) المنتخب من اقتضاء الصراط المستقیم للعلامۃ ابن تیمیۃ۔

اس کے ساتھ اہم موضوعات پر چار محاضرات بھی ہوئے ۔ علامہ محی الدین قرہ داغی(قطر) نے ”الفقہ الاسلامی بین النصوص والتراث والمعاصرۃ وفقا لفقہ المیزان“ کے عنوان پر، ڈاکٹر ادریس آزاد (پاکستان) ڈاکٹر رنا دجانی(اردن)نے نے نظریہ ارتقاء پر اور   ڈاکٹر سہیرہ صدیقی (قطر)  نے اسلامی علمیات پر اپنے محاضرات پیش کیے۔

بلاشبہ یہ موضوعات جویائے علم و فن کے لیے  عقل ونظر کی تسکین کااہم ترین ذریعہ ثابت ہوئے۔ ہرموضوع پر ایک مختصر بیانیہ کے بعد بحث ومناقشہ کا دروازہ کھلتا۔ہر شخص کی چونکہ ان موضوعات پر مکمل تیاری ہوتی تھی، اس لیے مناقشہ کے لیے وقت کم ہورہا تھا۔ شرکاءکے اختصاصات کے تنوع اور نقطہ ہائے نظر کے اختلاف نے  ہرموضوع میں اتنے علمی ومعنوی اضافے کیے کہ محسوس ہوتا، معلومات کا کوئی چشمہ ہے جو پھوٹ پڑا ہے۔ متعلقہ موضوعات کے نئے نئے زاویے کھل کرسامنے آئے ۔ شرکاءکی مداخلات کے بعد ، جناب مولانا عمار خان ناصر، جناب ڈاکٹر وارث مظہری اور جناب ڈاکٹر شیر علی ترین صاحبان کے تحلیل وتجزیہ کا علمی وانوکھا اندازاور بات سے بات نکالنے کا انتہائی خوب صورت جوہر، تمام شرکاءکے دلوں پر ان حضرات کے علم وفضل کا ایک نقش قائم کرگیا۔

جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب کے بعض تنقیدی مضامین سے بہت سے لوگ نالاں ہیں۔ ہمیں کسی کے نظریات سے اتفاق اور اختلاف کا پورا حق ہے ، لیکن ضروری ہے کہ یہ اختلاف علمی دائرے اور صحیح علمی دلائل پر قائم ہوں ۔ اختلاف کے منہج اور اصول کی رعایت طرفین کے حق میں یکساں مفید ہوتی ہے ۔ اختلاف کرنے والے کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کی بات سنی جاتی ہے اور اس کا علمی اور سنجیدہ چہرہ سامنے آتاہے ، جبکہ دوسرے فریق کویہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی پر سکون ماحول میں اپنی آراءپر غور وخوض اور نظرثانی کرتا ہے اور غلطی سامنے آجانے پر رجوع بھی کرلیتا ہے۔  اس پوری مدت میں ، جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب نے ایک بھی ایسی بات نہیں کہی جو جمہور کی رائے کے خلاف ہو، بلکہ مدارس اور اہل مدارس کے بارے میں یہ کہتے ہوئے الوداعی مجلس میں آب دیدہ ہوگئے کہ ہماری قوم نے علم وفن کے جو مراکز قائم کیے ، وہ سب ختم ہوگئے ۔ یہی ایک علمی مرکز باقی ہے جس کی خدمات کا پورا عالم قائل ہے  اور اس کی بقا وتحفظ کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

بات شاید طویل ہورہی ہے ، لیکن یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اس پوری مدت میں علمی وروحانی غذا کے ساتھ، جسمانی غذا کا بھی پورا خیال رکھا گیا۔ رہائش کے لیے آ رام دہ ہوٹل کا انتخاب کیا گیا، قطر کے تاریخی مقامات کی سیرکی گئی  جن میں اسلامک میوزیم، قطر کی نیشنل لائبریری اورسوق واقف اور متعدد تفریحی اور سیاحتی مقامات شامل ہیں۔ بیشتر احباب سے کوئی خاص تعارف نہیں تھا، اس سفر میں بیشتر احباب سے تعارف اور علمی افادہ واستفادہ کی راہ ہموار ہوئی ۔

پروگرام کے روح ورواں جناب پروفیسر ابراہیم موسی صاحب نے  اس پروگرام کو نفع بخش اور دلچسپ بنانے کے لیے بے حد کوششیں کیں  جس کے لیے وہ تمام شرکاءکی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں۔ اس پروگرام میں جناب ابراہیم موسی صاحب کے علمی کمالات کا بھی خوب اظہار ہوا۔ امام الحرمین جوینی، امام غزالی ، امام رازی اور علامہ ابن تیمیہ کے فکر وفلسفہ اور ان کے باہمی اختلافات اور ان کے اسباب ، نیز علم کلام اور اس کے جدید موضوعات جیسے انتہائی اہم فکری موضوعات پر  ان کی گفتگو انتہائی چشم کشا ثابت ہوئی جس کا مجھے ذاتی طور پر کچھ بھی اندازہ نہیں تھا۔ مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب اور جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب کی علمی قابلیت اور فکری موضوعات میں ان کے تعمق کا علم پہلے سے تھا، جو اس پروگرام میں بہت ہی نکھرکر واضح شکل میں سامنے آیا۔اس پروگرام سے بہت سے علمی فوائد حاصل ہوئے۔ سب کا تفصیلی تذکرہ تو کسی اور موقع پر کیا جائے گا، لیکن بعض کا انتہائی اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے :

۱۔ مغربی مفکرین کی تحریروں کو پڑھنے اور ان کے نظریات کو براہ راست جاننے کا پہلی بار موقع ملا۔

۲۔ صحت مند علمی مناقشہ کا ایک بہترین نمونہ سامنے آیا۔

۳۔ عبارات کی تحلیل اور تجزیہ کا انتہائی خوب صورت اور دلچسب منہج سامنے آیا۔

۴۔ علمی مناقشوں سے بہت سے نئے علمی زاویے کھل کر سامنے آئے۔

۵۔ بہت سے جدید موضوعات پر   اکابرین کی تحریریں پیش کی گئیں  جو منتظمین کی وسعت فکر ونظر کی غماز ہیں۔نیز ان سے سلف کے علمی تراث سے شرکاءکی عقیدت ومحبت میں اضافہ ہوا۔بلاشبہ یہ خوب صورت علمی تجربہ رہا۔ اللہ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلائے اور ہمارے علم وفضل میں اضافہ فرمائے ، آمین۔

مولانا مفتی امانت علی قاسمی 

(دیوبند، سہارنپور، انڈیا)

۲۴ دسمبر ۲٠۱۹ء کو طے شدہ پروگرام کے تحت قطر کے لیے روانگی ہوئی ۔ یہ سفر علمی و فکری ارتقاءاورتحقیق کے بند دریچوں کو کھولنے کے لیے تھا ۔ علم کی کوئی انتہاءنہیں ہے ، علم کی معراج ”لا ادری“ ہے، یعنی جب انسان علم کی معراج کو پہنچتاہے تو معلوم ہوتا ہے مجھے کچھ نہیں معلوم ہے۔ علم کی نہ کوئی حد ہے اور نہ ہی کوئی منزل۔حدیث میں ہے : الحکمۃ ضالۃ المومن حیث وجدھا فہو احق بہا (سنن الترمذی حدیث نمبر ۷۸۶۲) : “حکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے وہ جہاں مل جائے وہی اس کا حقدار ہے” ۔ اس لیے ایک مسلمان کو خاص کر علم کے متلاشی اور میدان علم کے آبلہ پا کو اس کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ علم و حکمت کے جو بھی دروازے ہیں، ان کی تلاش کی جائے اور اپنے لیے اس دروازے کو وا کرنے کی سعی کی جائے ۔ علم و فکر کے جنگلات میں صحرا نوردی کی جائے اور وہاں موجود عودو عنبر کی خوشبو سے فائدہ اٹھایا جائے ۔علم کے جویا کے لیے لازم ہے کہ سفینہ علم میں بیٹھ کر سمندر کے سیر کرے اور وہاں موجود صدف سے اپنے آپ کو مالا مال کرے ۔علم کا یہ حق ہے کہ ہر گلستاں کی سیر کی جائے اور وہاں موجود نسرین و نسترن کی خوشبووں سے اپنے قلب و جگر کو معطر کیا جائے۔یہی وہ جذبہ تھا جس نے مجھے مدرسہ ڈسکورسز کی دہلیز تک پہنچادیا۔

ڈاکٹر وارث مظہری صاحب میرے استاذ ہیں ،ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور آج بھی علمی موضوعات پر میں ان سے مشورہ لیتا ہوں ۔ڈاکٹر صاحب نے مدرسہ ڈسکورسز کا تذکرہ کیا اور دہلی میں ہونے والے ایک پروگرام کا تذکرہ کیا چنانچہ ۲۳  جولائی۲٠۱۹ء کو ہوئے اس پروگرام میں میں نے شرکت کی ۔ہندوستان بھر سے حضرات اہل علم نے اس میں شرکت کی تھی۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اس میں کلیدی خطبہ دیااور فکراسلامی کو اس وقت کیا چیلنجز درپیش ہیں اور کس نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس پر مولانا نے مفصل روشنی ڈالی ۔مولانا نے جن باتوں کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی تھی ،ان میں چند اہم باتیں یہ تھیں :

پروگرام کایہ ابتدائیہ بڑا دلچسپ تھا ،اس لیے میں نے اس پروگرام میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا ،اور تین ماہ آن لائن کلاسوں میں بھی شریک ہوا جس میں کل بارہ کلاسیں ہوئیں جس میں بڑے دلچسپ فکری اور کلامی مباحث پر گفتگو ہوئی ۔علم کی ایک دنیا سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ آن لائن کلاسوں کی ترتیب بھی وہی تھی جو ونٹر انٹینسو کے پروگراموں کی تھی۔ بس دونوں میں فرق یہ تھا کہ آن لائن کلاسوں میں ہم“زوم ایپلیکیشن” کی کھڑکی سے سب کو دیکھتے اور سنتے تھے اور یہاں اس کھڑکی سے باہربالمشافہہ محاضرات اور ان پر ہونے والی بحثوں کو سننے اور ان پر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔

 مکمل ایک سمسٹر آن لائن کلاس کرنے کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق ونٹر انٹینسومیں شرکت کے لیے ہم لوگوں نے قطر کا سفر کیا ۔ یہ ایک ہفتہ کا سفر تھا۔ پروگرام قطر کے بہت ہی خوبصورت اور پرشکوہ یونیورسٹی حمد بن خلیفہ میں تھا ۔یہ یونیورسٹی ایجوکیشن سٹی میں واقع ہے اوربالکل منفرد طرز تعمیر سے آراستہ ہے۔ اس کا ہر حصہ فن تعمیر کا حیرت انگیز شاہ کا رمعلوم ہوتا ہے۔اس کا بیرونی منظر جس قدر دلکش ہے، اسی قدر اس کا اندورنی منظر بھی جاذب نظر اور زائرین کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والا ہے۔یونیورسٹی کا آڈی ٹوریم بھی جدید سہولیات سے مزین تھا جس میں سامعین کے سامنے مائک کا نظم تھا ۔ کتاب یا لیپ ٹاپ رکھنے کے لیے ڈیسک ، موبائل اور لیپ ٹاپ چارج کرنے کی سہولت بھی بہم تھی۔ ۲۵ دسمبر سے ۳٠ دسمبر تک یہ پروگرام چلا ، اس دوران وہاں کے تاریخی اور تہذیبی مقامات کو دیکھنے کا بھی موقع ملا، وہاں کی لائبریری ،اور ساحل سمندر پر واقع وسیع اور پرشوکت میوزیم کا نظارہ کیا۔ “غلامی میوزیم ”بھی دیکھا جس میں غلامی کی قدیم وجدید تاریخ، انسانی زندگی اور معاشرے پر اس کے اثرات پرموثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں ایک لائبریری بھی تھی جس میں صرف غلامی سے متعلق کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ان سب پرمستزاد ساحل سمندر کشتی کی سیر کی اس دوران ساحل پر واقع وہاں کی خوشنما عمارتوں کے دل فریب منظر نے لطف کو دوبالا کردیا ۔وہاں کے مشہور بازار ”سوق واقف“ میں قدیم طرز کے بنے ہوئے ترکی ہوٹل میں انڈین او رایرانی پرتکلف ڈشوں کا ذائقہ بھی چکھنے کو ملا ۔ یہت سے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں، لیکن یہ سب چیزیں ضمنی تھیں ،اصل تو وہ علمی ورک شاپ تھی جس کی کشش ہمیں یہاں کھینچ لائی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس پروگرام سے بڑا فائدہ محسوس کیا ۔ علم کے بہت سے گوشے کھلے ، فکر کے نئے زاویے معلوم ہوئے ۔ ہم مدارس کے فضلاءیہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں مدارس نے بہت کچھ دے دیا ہے، اب مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس مقدمہ کا آدھا جز صحیح ہے اور آدھا غلط ہے ۔ مدارس نے بہت کچھ دیا ہے، یہ صحیح ہے ۔ مدارس نے ہماری تربیت کی ہے ، اسلامی مزاج بنایا ، مصادر کی طرف رجوع کرنا ،قرآن و حدیث کو زندگی میں بنیاد بنانا ،علم کے ساتھ عمل سے وابستگی کا ذوق۔ ان کے علاوہ بہت کچھ مدارس نے ہمیں سکھایا، لیکن یہ احساس کہ اب مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ،اور اپنے یمین و شمال کی طرف دیکھنا فضول ہے ،میرا احساس ہے کہ یہ غلط ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عمومی تصور نہ ہو، لیکن کسی نہ کسی حد تک خود ہمارے اندر ابتداءمیں یہ تصور ضرور تھاجو بعد میں تجربہ سے غلط ثابت ہوا ،اس لیے کہ علم کی کوئی انتہاءنہیں ہے۔ مدارس کے فضلاءچیزوں کو جس انداز سے پڑھتے اور سمجھتے ہیں، دوسرے لوگ ضروری نہیں ہے کہ اسی انداز میں سوچیں اور سمجھیں ۔ جب ہم دوسرے لوگوں سے ملتے ہیں، ہمیں اپنی ہی معلومات کے نئے گوشے معلوم ہوتے ہیں ۔ امام اعمش کا مشہورواقعہ ہے کہ امام ابوحنیفہ سے ایک مسئلہ معلوم کیا گیا جس کا انہوں نے جواب دیا ۔اس پر امام اعمش نے پوچھا کہ تم نے یہ جواب کہاں سے دیا؟ تو امام ابوحنیفہ نے کہا کہ آپ نے جو روایت ابراہیم نخعی سے اور انہوں نے امام شعبی سے بیان کی ہے، اسی کی روشنی میں میں نے یہ جواب دیا۔اس پر امام اعمش نے کہا: یا معشر الفقہاء انتم الاطباء و نحن الصیادلۃ (الفقیہ و المتفقہ ۱/۴۳۴) معلوم ہوا کہ صرف فکر کے زاویے بدلنے سے بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں ۔ امام اعمش کے پاس وہ حدیث تھی، لیکن ان کے پاس فکر کا وہ پیمانہ نہیں تھا ، جو امام ابوحنیفہ کے پاس تھا ۔ اس لیے جب ہم مختلف فکراور مختلف خیال لوگوں کے درمیان بیٹھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات تو ہمیں بھی معلوم تھی، لیکن اس یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں تھا۔

 مدرسہ ڈسکورسز کے پروگرام میں ہم نے یہی سیکھا کہ جب ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وسعت اور فکر میں بلندی پیدا ہوتی ہے ۔گویا کہ مدرسہ ڈسکورسز پروگرام ہماری نگاہ کو عقابی بناتا ہے،ہمارے فکر اورحوصلے کو شاہین کا جگر دیتا ہے ۔ مدرسہ ڈسکورسز کے ایک اہم استاذ ڈاکٹر شیر علی تارین ہیں جو چھ سات زبان میں مہارت رکھتے ہیں۔ پاکستانی ہیں  اور امریکہ میں اسلامک اسٹڈیز کے استاذ کی حیثیت سے ایک فرینکلن اینڈ مارشل کالج، پنسلوانیا میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔آپ اردو ، عربی اور انگلش تینوں زبان میں روانی سے بولتے ہیں ۔برصغیر میں اسلامیات کی صورت حال پر انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہے ۔ حضرت نانوتویؒ اور حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کی کتابوں کا اچھا مطالعہ کیا ہے ۔ ہمارے پروگرام میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کی کتاب “مباحثہ شاہ جہاں پور” بھی شامل تھی۔ اس کتاب کا میں نے مطالعہ کرلیا تھا ، لیکن ڈاکٹر شیر علی تارین نے اس کتاب کا جس انداز سے تجزیہ کیا، وہ ہمارے لیے بالکل نیا تھا ۔اس سے محسوس ہوا کہ اس کتاب کے مطالعہ کے دوران ان پہلو وں کو بھی سامنے رکھنا چاہیے تھا جو ہم نے نہیں رکھا ۔ ان کے اس تجزیاتی مکالمے سے مطالعہ کا زاویہ اور نقطہ نظر معلوم ہوا  اور استدلالی منہج کے ایک نئے تجربے سے آشنائی ہوئی ۔یہ حقیقت ہے جس میں کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ۔

مدرسہ ڈسکورسز کے روح ورواں جن کی فکر سے یہ نئی بزم آباد ہوئی ہے، وہ پروفیسر ابراہیم موسی صاحب ہیں جو دیوبند و ندوہ کے فیض یافتہ ہیں۔ اس وقت امریکہ کی نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ امام غزالی سے خاص مناسبت ہے۔ اس پروجیکٹ کے یہی ذمہ دار وسرپرست ہیں ۔ان کی فکر یہ ہے کہ مدراس کے فضلاءکا فکر ارتقاءہو اور جدید چیلنجزکو جدید اسلوب میں حل کرنے کی ان کے اندر صلاحیت پیداہو ۔ وہ دنیا میں ہورہے انقلابات سے واقف ہوں ۔ اسلامو فوبیا کا جو سیلاب بڑی تیز ی سے اسلام کو مجروح کررہا ہے، ہمارے فضلاءان کا مسکت جواب دے سکیں ۔ مغربی مفکرین اسلام کو کس انداز میں پڑھتے ہیں اور اسلام کو کس طرح سمجھتے ہیں، ہمارے فضلاءبھی ان سے واقف ہوں۔ ا س سے ان کی فکر کی پروازبلند ہوگی ، ذہن میں عمق ، گہرائی اور وسعت پیداہوگی ۔

ڈاکٹر وارث مظہری صاحب بھی اس پروگرام کا حصہ ہیں ، اور ہندوستانی طلبہ کو لیڈ کرتے ہیں ۔ ان کی فکر میں کافی توسع اور اعتدال ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی مفکرین ،شاہ ولی اللہ ، علامہ شاطبی ، ابن تیمیہ ، رازی وغزالی کے افکار کو کثرت سے پڑھا ہے اور جب آدمی اتنے بڑے بڑے مفکرین کو جن کی فکروں میں کافی تنوع ہو پڑھتا ہے توان کی فکر میں بھی توسع پیدا ہوجاتی ہے، اس لیے ڈاکٹر وارث صاحب کی فکر میں گہرائی کے ساتھ بلندی ہے، لیکن یہ بلندی ان کو اعتدال کی راہ سے دور لے کر نہیں گئی ہے اور نہ ہی ان کے اندر کسی قسم کی تعلی کی صفت پیدا کی ہے بلکہ ایک اجنبی اور ناشناس شخص ابتدائی ملاقات میں ان کی علمی و فکری صلاحیتوں کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتا ہے۔

پاکستان کے مولانا عمارخان ناصر صاحب بھی اس پروگرام کی ایک اہم کڑی ہیں۔ مولانا عمار ناصر صاحب ہندو پاک میں محتاج تعارف نہیں ہیں ، ان کا رسالہ الشریعہ ہندوستان میں آن لائن پڑھے جانے والے رسالوں میں کافی مقبول ہے ۔ پاکستان میں ان کی فکر سے کافی اختلاف کیا گیاہے اورفکری اختلاف کا ہونا غلط نہیں ہے، لیکن جب یہ اختلاف فکر ی دائرے سے تجاوز کرکے شخصیت اور ذات پر آجائے تو یہ برا ہے ۔ کوئی شخص برا نہیں ہوتا ہے، اس کے نظریات اچھے اور برے ہوتے ہیں اور دلائل کی روشنی میں نظریات کی تردید کرنے کا ہر ایک کو حق ہوتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے شخصیت کو مجروح کرنا اور ان کی اچھی کاوشوں اور سنجیدہ علمی کاموں سے بھی انحراف کرنا علمی روش نہیں ہے ۔

 اس پروگرام کے حوالے سے چند اور باتیں بھی قابل ذکر ہیں:

(۱) اس پروگرام میں علمی انفتاح پایا جاتا ہے ، اسلامی مفکرین کیا کہتے ہیں اور کس انداز سے سوچتے ہیں اور مغربی مفکرین کس انداز سے سوچتے اور لکھتے ہیں، دونوں کا تقابل اس پروگرام کا بڑا دلچسپ حصہ ہے ۔ جو لوگ عربی اور انگریزی دونوں زبان پر مکمل عبور رکھتے ہیں، وہ اس کا زیادہ لطف لے سکتے ہیں ۔

(۲) جو کتابیں اس میں مطالعہ کے لیے دی جاتی ہیں، وہ زیادہ تر اسلامی مفکرین کی ہیں ، امام ابن تیمیہؒ ،امام رازیؒ، حجة الاسلام مولانامحمد قاسم نانوتویؒ ،شاہ ولی اللہؒ اور ان جیسے مفکرین کی ہیں۔ اس کے علاوہ چند مغربی مفکرین کی تحریریں بھی ہوتی ہیں، وہ بھی زیادہ تر انہی موضوعات پر جن پر اسلامی مفکرین کی تحریریں ہوتی ہیں۔ ہمارا وہ علمی وفکری سرمایہ جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے یا ہم ان کتابوں سے واقف ہونے کے باوجود مصروفیات کی وجہ سے انہیں نہیں پڑھ پاتے ہیں، اس پروگرام کی وجہ سے ہمیں ان کتابوں کو بھی پڑھنے کا موقع ملااور ساتھ میں مغربی مفکرین کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز بھی معلوم ہوا ۔

(۳) پورے پروگرام میں ہم نے دیکھا کہ سوالات قائم کیے جاتے ہیں، پھر ہر کسی کو اپنی رائے پیش کرنے اوراپنے مطالعہ کی روشنی میں آزادی کے ساتھ اپنی بات رکھنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے ،کسی کو کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی جبر ہوتا ہے ۔سوالات کے درمیان بعض مرتبہ ایسا ہوتاہے کہ آپ کی رائے کے مخالف کسی کی رائے آتی ہے، آپ ان کے دلائل کو بھی سنتے ہیں اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے ۔ ہم صرف اپنی رائے اور اس کے دلائل جانتے ہیں، مخالف کی رائے نہیں پڑھتے اور نہ ہی سنتے ہیں ،لیکن یہاںمخالف آراکو بھی سننے کا موقع ملتاہے ، اس سے تحمل اور قوت برداشت کی صفت پیدا ہوتی ہے اور ہم مخالف کی باتوں کو سننے کے متحمل ہوتے ہیں ۔ آداب اختلاف میں یہ چیز بہت ضروری ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کی باتوں کو بھی سنجیدگی سے سنیں، ہمیں اس پروگرام میں اس کا اچھا تجربہ ہوا ۔

(۴) ذہن وفکر میں وسعت جو اس پروگرام کا اہم مقصد ہے، اس جانب بھی ہماری پیش رفت ہوئی ۔پروگرام کے دوران ایک دن ایک مغربی مفکر کی تحریر کی روشنی میں قتل مرتد کی بحث آئی ۔ہمیں احساس ہوا کہ اس موضوع کو یہاں نہیں لانا چاہیے ۔یہ ائمہ اربعہ کا متفقہ موقف ہے اور اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں ، چنانچہ مناقشہ کے دوران میں نے اپنی بات بھی رکھی ۔ بہت سی آراءموافقت میں اور بہت سی مخالفت میں آئیں ۔ بات ختم ہوگئی، لیکن ہمیں تردد باقی رہا ۔اسی شام کو قطر کے مشہور عالم دین اور شیخ یوسف القرضاوی کے تربیت یافتہ شیخ محمد علی قرہ داغی کا محاضرہ ہوا جس کا عنوان تھا”الفقہ الاسلامی بین النصوص و التراث والمعاصرۃ وفقا لفقہ المیزان“۔ انہوں نے اپنے محاضرہ میں بڑی عمدہ گفتگو کی ۔ جب سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو سوالوں میں بہت سے احباب نے قتل مرتد کے متعلق ہی سوال کیا۔ اس کا انہوں نے جو متوازن اور معتدل جواب دیا، اس سے بڑا اطمینان ہوا اور محسوس ہوا کہ یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہاں کوئی پہلی مرتبہ ا س کو گفتگو کے لیے لایا گیا بلکہ اس پر بہت کچھ لکھا چکا ہے اور اس پر گفتگو ہوسکتی ہے اور سوچا جاسکتا ہے ۔

(۵)مذہب اور سائنس کے موضوع پر بھی محاضرہ ہوا اور اس سے بھی بڑا فائدہ محسوس ہوا۔ اس میں ایک محاضرہ پاکستان کے ڈاکٹر ادریس ازاد صاحب کا ہوا جس میں انہوں نے سائنس اور ارتقاءکے موضوع پر بڑا دلچسپ محاضرہ دیا۔ اس سے ہمیں سائنس کے نظریہ ارتقاءکو سمجھنے میں مدد ملی ۔پروگرام میں ہوئے محاضروں کے دوران ٹیسٹ ٹیوب بے بی ، کلونگ ، تبدیلی جنس ،ڈی این اے جیسے مسائل سے واقفیت ہوئی ۔یہ وہ مسائل ہیں جن کے حوالے سے سائنسی دنیا نے حیرت انگیز پیش رفت کی ہے اور آج ہمیں سماجی اور عملی میدان میں ان موضوعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں اس پروگرام کے ذریعہ ان موضوعات کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملی ۔

(۶)فکری موضوعات کو پڑھنا تو بہت آسان ہوتا ہے، لیکن فکری موضوعات پر گفتگو کرنا بہت دشوار گزار وادی ہے جس میں ہر کوئی آسانی سے سفر نہیں کرسکتاہے ،اس لیے کہ فکر کی تہوں میں بھی بہت سے افکار ہوتے ہیں۔ ان سے پردہ اٹھانا اور گفتگو کے دوران اس پر لب کشائی کرنا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے، لیکن مدرسہ ڈسکورسز کا مقصد ہی فکری موضوعات کو گفتگو کا موضوع بنانا ہوتا ہے، اس لیے اس کے ذریعہ ہمیں ایسے موضوعات پر گفتگو کرنے کاسلیقہ حاصل ہوتا ہے۔

مولانا ابوالاعلی سید سبحانی

(نئی دہلی، انڈیا)

ایک معروضی اور غیرجانبدارانہ علمی وتحقیقی سفر کے لیے ذہنی وسعت اور کشادہ ظرفی کی یک گونہ اہمیت ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی جانب سے حمد بن خلیفہ یونیورسٹی قطر میں منعقد ورکشاپ (Science, Hermeneutics, Tolerance: An Encounter of Western and Muslim Humanities) اس ضمن میں ایک اہم کوشش کہی جاسکتی ہے۔

مختلف مکاتب فکر کے حاملین کا یہ اجتماع میرے علمی سفر کا ایک اہم اور یادگار تجربہ ہے۔ مختلف مکاتب فکر، مختلف مسالک فقہ اور مختلف افکارونظریات کے حاملین کے ساتھ انٹرایکشن اور تبادلہ خیال کا یہ ایک شاندار موقع تھا۔ میرے لیے یہ خاص اس طور پر بھی رہاکہ ہندوپاک کے اہل علم ودانش کے درمیان مائنڈ سیٹ اور غوروفکر کے اندازمیں موجود فرق سے راست تعامل کا تجربہ حاصل ہوا۔ یہ فرق پہلے معلومات کی نوعیت کا تھا، اب اس کی حیثیت مشاہدہ اور تجربہ کی ہوگئی ہے۔

اسلامیات اور دینیات سے متعلق مباحثوں میں خواتین کا کردار عالمی سطح پر گزشتہ صدیوں میں بہت کمزور رہا ہے، برصغیر کی موجودہ صورتحال اس تناظر میں کافی حد تک تشویشناک کہی جاسکتی ہے، تاہم مدرسہ ڈسکورس کے اس پورے پروگرام میں طالبات کی نمائندگی امید افزا رہی، ورکشاپ کے دوران مختلف سیشنوں میں چھڑنے والے مباحث میں بھی ان کی شرکت اچھی رہی۔ یہ تجربہ اگر اسی طرح کامیابی کے ساتھ جاری رہا تو برصغیر کی علمی دنیا میں اس حوالے سے ان شاءاللہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔

اس دوران مختلف اہل علم اور اہل نظر، بالخصوص ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی، ڈاکٹر موسی ابراہیم، ڈاکٹر عمار خان ناصر، ڈاکٹر شیر علی اور یونیورسٹی کے دیگر پروفیسرس سے مستفید ہونے، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور مختلف ایشوز اور موضوعات پر کھل کر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ علامہ یوسف القرضاوی سے ملاقات کرنے اور ان سے دعائیں حاصل کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ معروف اسلامی دانشور ڈاکٹر مختار شنقیطی سے بھی اچھی ملاقات رہی۔ اس کے علاوہ مدرسہ ڈسکورسز سے وابستہ ہم ساتھیوں کا بھی آپس میں اخذواستفادہ کا اچھا سلسلہ رہا۔

اس ورکشاپ کے دوران ناچیز کا یہ خیال اور مضبوطی اختیار کرگیا کہ دلائل اور شواہد کی اپنی عظمت ہوتی ہے، ان پر شرح صدر آپ کو نہ کبھی کمزور پڑنے دیتا ہے اور نہ کبھی پندارعلم کا شکار بناتا ہے، نہ کچھ اہل علم اوربڑی شخصیات کا مخالف رائے رکھنا آپ کو کمزور کرتا ہے اور نہ کسی کا ہم خیال ہونا آپ کو تعلّی کی طرف لے جاتا ہے۔

بہرحال اس دوران بہت کچھ سیکھا، بہت اچھے علمی وفکری ماحول میں ایک اچھا وقت گزارا۔ سچ بات یہ ہے کہ ہفتہ گزرنے کے بعد بھی تشنگی جوں کی توں برقرار رہی۔

ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے

اصولی مباحث اور عملی مسائل پر بحث کے درمیان ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ اصولی مباحث سے آپ بہت آسانی کے ساتھ گزرجاتے ہیں اور زیادہ الجھنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن جب عملی مسائل پرآتے ہیں تو انہی اصولی مباحث کو اپلائی کرتے وقت ذہن کھلتا ہے، علمی سفر کو ایک رُخ ملتا ہے اور طرح طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔ اصولوں پر بحث سے گہرائی آتی ہے اور عملی مثالوں اور عملی مسائل پر بحث سے وضوح فکر حاصل ہوتی ہے۔ میرے خیال سے مدرسہ ڈسکورسز کے ساتھیوں کے درمیان ہونے والے مباحث میں اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ورکشاپ کے دوران مرتد کی سزا اور نظریہ ارتقاءسے متعلق ہونے والے ڈسکشن کو اس تناظر میں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ کے تحت شائع ہونے والا لٹریچر اس سلسلہ میں جدید مسائل کے تناظر میں اچھی رہنمائی کرتا ہے۔

ناچیز کے خیال میں مدرسہ ڈسکورسز کی کلاسیز میں کچھ وقت موجودہ دنیا کے عملی مسائل پر بحث ومباحثہ کے لیے مختص کردینا چاہیے، تاکہ مختلف نئے اور عملی مسائل پربھرپور ڈسکشن ہوسکے، اور ذہنوں کوان حقیقی سوالات کی طرف متوجہ کیا جاسکے جو ہمیں سوسائٹی کے حقیقی مسائل اور حقیقی چیلنجز سے جوڑ سکیں۔ اگر ایسا ہوسکے تو یہ مدرسہ ڈسکورسز کے پروگرام کا ایک بڑاحاصل ہوگا، واللہ ولی التوفیق۔

مارچ ۲۰۲۰ء

مسئلہ جنس اور ہمارا روایتی معاشرتی نظاممحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۳)ڈاکٹر محی الدین غازی
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۹)مولانا سمیع اللہ سعدی
زکاۃ بمقابلہ احساسپروفیسر عمران احسن خان نیازی
عالمی عدالت انصاف کا ایک مستحسن فیصلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قومی اور مذہبی اظہاریوں کا خلط مبحث اور سماج کی تقسیم کاریڈاکٹر عرفان شہزاد
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۴)محمد عمار خان ناصر
آنجہانی جسٹس رانا بھگوان داس کی یاد میں تقریبمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسئلہ جنس اور ہمارا روایتی معاشرتی نظام

محمد عمار خان ناصر

جنسی جبلت کے مسئلے کو کسی معاشرتی نظام میں کیسے حل کیا جائے، اس کے متعلق موجودہ دنیا میں دو بنیادی تہذیب  موقف پائے جاتے ہیں۔

ایک موقف کی نمائندگی جدید لبرل اخلاقیات میں ہوتی ہے جس کی رو سے جنس کی تسکین فرد کا ایک ذاتی مسئلہ ہے اور اسے اس کی تکمیل کی آخری حد تک آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ دو افراد، صنف اور مذہب وغیرہ کے امتیاز سے بالکل آزاد ہو کر، باہمی رضامندی سے جیسے بھی اس کی تکمیل کرنا چاہیں، یہ ان کا حق ہے۔ جنسی جبلت کی تسکین کے علاوہ، خاندان بنانے اور بچے پیدا کرنے کی کسی بھی اضافی ذمہ داری کو اس کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہیے اور اس حوالے سے کسی قسم کا معاشرتی یا قانونی دباؤ بروئے کار نہیں لانا چاہیے۔ گویا جنسی جبلت کی تسکین اور نسل انسانی کی بقا کے مسئلے کو الگ الگ دیکھنا چاہیے اور فرد کی آزادی پر مجموعی انسانی مصالح کی پابندی کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ جہاں تک بقائے نسل کا تعلق ہے تو اسے انفرادی ذمہ داری کے دائرے سے نکال کر اجتماعی نظام کی ذمہ داریوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ برٹرینڈ رسل نے اسی تناظر میں یہ تجویز کیا کہ بچے پالنے کی ذمہ داری بھی، دوسری بہت سی اجتماعی ذمہ داریوں کی طرح، اب ریاست کو سنبھال لینی چاہیے۔

دوسرا رجحان قدیم معاشرتی روایات پر مبنی ہے جسے دنیا کی اب تک کی تمام تہذیبوں کی تائید حاصل رہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ جنس کا مسئلہ چونکہ صرف ایک جبلت کی وقتی تسکین کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کے ساتھ نسل انسانی کی بقا کا سوال بھی وابستہ ہے، اس لیے اس کا حل معاشرت کی عمومی تشکیل اور اجتماعی معاشرتی ضروریات کے تناظر میں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے خاندان کا ادارہ وجود میں آیا جس میں بچے کی تربیت اور پرورش کے حوالے سے ذمہ داریوں کی ایک تقسیم اختیار کی گئی۔ خاندان نے وسعت پذیر ہو کر قبیلوں اور برادریوں کی صورت اختیار کی اور ایک  پیچیدہ معاشرتی نظام وجود پذیر ہوا جو ہم روایتی اور خاص طور پر مشرقی معاشروں میں دیکھتے ہیں۔  برصغیر میں یہ  نظام ، زرعی معاشرے  کی مخصوص ضروریات کے سیاق میں، جن خطوط پر استوار ہوا، اس میں دو افراد کے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے لیے ان کی ذاتی پسند وناپسند اور فیصلے سے زیادہ خاندان اور برادری کی ترجیحات زیادہ اہمیت اختیار کرتی چلی گئیں اور خاص طور پر خواتین کے حق نکاح کو ان کے انفرادی حق سے زیادہ خاندان، قبیلے یا برادری کی ایک ’’اجتماعی ذمہ داری“ تصور کیا جانے لگا۔ اجتماعی ذمہ داری کی انجام دہی عملا ایک ’’اجتماعی حق“سمجھی جاتی ہے جس کے مقابلے میں انفرادی حق کا استعمال، حدود سے تجاوز شمار کیا جاتا ہے۔ یوں  اس نظام میں فرد کی اور خاص طور پر خواتین کی ذاتی ترجیحات بنیادی طور پر خاندان اور برادری کی ترجیحات کے تابع ہو جاتی ہیں، اور دو افراد کے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے لیے ان کی ذاتی پسند وناپسند اور فیصلے سے زیادہ خاندان اور برادری کی ترجیحات زیادہ اہمیت رکھتی ہیں جن میں کفاءت یعنی خاندانی برابری اور معاشی اسٹیٹس وغیرہ باقی تمام پہلووں پر حاوی رہتی ہیں۔

معاشرت کے اس روایتی ڈھانچے میں بے اعتدالی کے یہ پہلو تو، جیسا کہ واضح کیا گیا، موجود تھے اور خاندان اور فرد کے اختیارات کے مابین توازن کا فقدان نمایاں تھا جس سے خواتین، شریعت کے دیے ہوئے ایک اختیار سے عملا محروم رہ جاتی تھیں، لیکن عفت وعصمت کی حفاظت کا مسئلہ عمومی سطح پر پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جدیدیت کے زیراثر متعارف ہونے والی نئی حرکیات کی وجہ سے خواتین کے لیے تعلیم اور گھر سے باہر معاشرتی سرگرمیوں میں شرکت کے مواقع پیدا ہوئے اور خاص طور پر شہری ماحول کی طرف انتقال آبادی کا عمل بڑھا تو کسی قدر کشمکش کی کیفیت کے ساتھ، خاندان اور فرد کے مابین اختیارات کا توازن بھی تبدیل ہونے لگا۔ یوں تعلیم، روزگار، معاشرتی میل جول اور شہری ماحول کے ساتھ تعامل کے تناسب سے خواتین کی پسند وناپسند کو بھی نسبتا زیادہ وزن دیا جانے لگا۔

تاہم عمومی تعلیم کی شرح میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے، جو زیادہ پرانی بات نہیں ہے اور پچھلی دو تین دہائیوں میں ہی یہ ظاہرہ زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے، صورت حال کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ حصول تعلیم کے ساتھ معاشی وسائل میں شرکت اور ان دونوں کے ساتھ معاشرتی اختلاط کے مواقع جڑے ہوئے ہیں جن کے اثرات لازما خود اختیاری کے احساس میں اضافے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ پیچیدگی کو بڑھانے والے دو مزید عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔ ایک، شہروں میں عمومی تعلیم کی طرف رغبت کے حوالے سے نوجوانوں اور خواتین کی تعداد میں عدم تناسب، اور دوسرا صنفی رغبت اور حق خود اختیاری وغیرہ کو ہنگامی انداز میں فروغ دینے میں ہر طرح کے ابلاغی ذرائع کا کردار۔ شخصی رابطے کو آسان بنانے والی جدید ٹیکنالوجی کے اثرات اس پر مستزاد ہیں۔ ان تمام عوامل کے اجتماع کا نتیجہ ایک سنگین صورت حال کی شکل میں سامنے آ رہا ہے جس میں نوجوانی کی عمر کے داعیات، صنفی اختلاط کے مواقع، اور جنسی ترغیب کے وسائل کی فراوانی سب کا دباؤ ایک طرف ہے، جبکہ مذہب واخلاق کے تقاضے اور خاندانی ومعاشرتی روایات اس کے بالکل مخالف قدغنیں عائد کرنا چاہتی ہیں۔ کشمکش کے اس عبوری مرحلے میں نوجوان نسل نہ تو خاندانی معاشرت کے سانچے میں فٹ ہو پا رہی ہے اور نہ مکمل طور پر اس سے آزاد ہو جانے کو ہی ممکن پاتی ہے، اور اس کا نتیجہ ناگزیر طور پر نفسیاتی فرسٹریشن اور غیر اخلاقی وغیر صحت مندانہ رجحانات کے پنپنے کی صورت میں نکل رہا ہے۔

گویا صورت حال یوں ہے کہ عمر کے طبعی تقاضوں اور ماحول کی ترغیبات کا مطالبہ یہ ہے کہ بلوغت کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو، اخلاقی ومذہبی حدود میں جنسی تسکین کی سہولت نوجوانوں کو دستیاب ہو اور مذہب کی تعلیمات مکمل طور پر اس بندوبست کی تائید میں کھڑی ہیں، لیکن معاشرتی روایات اس مطالبے کا ساتھ دینے سے قطعی طور پر قاصر ہیں۔ چونکہ خاندانی نظام مضبوط ہے اور خاندان کے اندر وہی اقدار ابھی تک حاکم ہیں جو صدیوں میں مستحکم ہوئی ہیں، اس لیے نوجوان نسل خاندان اور معاشرے کے دو پاٹوں کے درمیان پسنے پر مجبور ہے۔ جبلت، مذہب اور اخلاق، تینوں کا تقاضا یہ ہے کہ مذہبی اور اخلاقی جواز کی کم سے کم لازم شرائط پر جنسی تسکین کے مسئلے کا حل نکالا جائے، لیکن معاشرتی روایات کا اصرار برقرار ہے کہ

۱۔ شریک حیات کے انتخاب کا حتمی حق نوجوانوں کو نہیں، والدین کو ہے،

۲۔ انتخاب خاندان، برادری، معاشی اسٹیٹس وغیرہ کی تمام روایتی چھلنیوں سے گزار کر ہی کیا جائے گا،

۳۔ بچیوں کو بیاہے جانے کے بعد لازما جوائنٹ فیملی سسٹم میں ہی نئی زندگی کا آغاز کرنا ہوگا،

۴۔ بہن بھائیوں میں بڑی بہنوں کی شادی لازما پہلے اور چھوٹی بہنوں کی بعد میں ہوگی، نیز اگر بھائی بڑا اور بہنیں چھوٹی ہیں تو بہنوں کے بیاہے جانے تک بھائی نابالغ ہی شمار کیا جائے گا۔

خلاصہ یہ کہ  مذہب اور اخلاق نے فطری جبلت کی جائز تسکین اور عفت کی حفاظت کی جو بنیادی ترین ترجیح متعین کی تھی، ہماری معاشرتی روایات اس سے بالکل الٹ ترجیحات پر استوار ہیں اور ہمارا مائنڈ سیٹ فطری ضروریات اور مذہب واخلاق کی قیمت پر ان ترجیحات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

خاندانی اسٹرکچر اور معاشرتی روایات کی مجموعی صورت حال میں فرد کی پسند وناپسند اور اس کی ایک بنیادی جبلی وسماجی ضرورت کس طرح نظرانداز بلکہ مجروح ہو رہی ہے، یہ دیکھنے کے بعد اب کچھ معروضات اس حوالے سے پیش کی جانی چاہییں کہ سماجی اصلاحات کا رخ اور حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اور اس میں کن طبقات کا کیا کردار بنتا ہے۔

ہمارے نزدیک اس حوالے سے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ معاشرت کے کسی مخصوص سانچے کو فی نفسہ یا کلی طور پر مطلوب یا، اس کے برعکس، کلی طور پر مسائل ومشکلات کی جڑ قرار دینا دانش مندی نہیں، بلکہ ردعمل کی نفسیات کا مظہر ہوتا ہے۔ سوشل اسٹرکچرز بنیادی طور پر معاشرے کی مجموعی بقا اور استحکام کی غرض سے بنائے جاتے ہیں اور مخصوص تاریخی اور تمدنی حالات میں انسانوں کے عمومی تجربات اور اجتماعی بصیرت سے ایک خاص شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ اسٹرکچرز جن مصالح کی رعایت سے بنائے جاتے ہیں، ان میں اور بدلتے ہوئے حالات میں، عموما، ایک متناسب توازن پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں جزوی سطح پر ضروری تبدیلیوں اور ارتقا کا عمل بھی غیر محسوس سے انداز میں جاری رہتا ہے۔ تاہم یہ عمل ہمیشہ اتنا ہموار نہیں ہوتا، اور بعض تاریخی انقلابات بنے ہوئے اسٹرکچرز کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں یا ان میں بہت جوہری قسم کی تبدیلیوں کے مطالبے کو جنم دے سکتے ہیں۔ ایسے ہی مواقع پر روایتی طور پر چلے آنے والے سانچے اور نئی تبدیلیوں کی باہمی نسبت طے کرنے میں سب سے زیادہ بصیرت اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری موجودہ معاشرت کو بھی اسی نوعیت کی ایک غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام ، معاشرت کے جس سانچے کے لیے اصلا وضع کیا گیا تھا ، وہ دیہی اور   زمیندارانہ معاشرت تھی جو جدید شہری ماحول میں  اپنی تمدنی اساسات رفتہ رفتہ کھو رہی ہے۔   مشترکہ خاندانی نظام کئی طرح کی قدغنوں  اور پابندیوں سے عبارت ہے جو افراد کو ان فوائد  کے بدلے میں قبول کرنی پڑتی ہیں جو  اس نظام سے انھیں حاصل ہوتی ہیں۔   یہ ایک پورا ماحول ہوتا ہے جس میں  ایک خاص نہج پر افراد کی  نفسیات اور ذہنی رجحانات کی تشکیل کا بھی ابتدا ہی سے بندوبست موجود ہوتا ہے۔ جدید شہری ماحول میں  یہ دونوں عوامل، یعنی  اجتماعی فوائد اور ذہنی تربیت،  اپنی  اصل شکل اور اصل قوت  برقرار نہیں رکھ سکتے، چنانچہ ایک بدلے ہوئے ماحول میں  نئی نسل پر وہ قدغنیں اور پابندیاں عائد کرنا   بھی عملا ممکن نہیں رہا جو  روایتی طور پر   کی جا سکتی تھیں، اور اگر اس کی کوشش کی جائے تو اس کا نتیجہ  بغاوت اور گھریلو انتشار کی صورت میں  نکلنا ناگزیر ہے۔ ساس اور بہو  کے تنازعات، نندوں اور بھاوجوں کے جھگڑے،  بھائیوں کے باہمی اختلافات،  بیشتر صورتوں میں اسی کشمکش کا نتیجہ ہیں۔ چنانچہ لازم ہے کہ حکمت اور مناسب تدریج کے ساتھ مشترکہ خاندانی نظام سے  نیو کلیئر فیملی کی طرف انتقال کی راہ ہموار کی جائے۔  مولانا اشرف علی تھانویؒ جیسے معاشرتی مصلحین نے تقریبا ایک صدی قبل  اسی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے  بہت زور دے کر یہ بات کہنا شروع کر دی تھی کہ  شادی کے بعد نوجوان جوڑے کو  الگ گھر میں بسنے  اور نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دینا چاہیے۔

اس بنیادی نکتے کے ساتھ کہ معاشرتی سانچے فی نفسہ مطلوب ومقصود نہیں ہوتے، بلکہ فرد اور معاشرہ کے مصالح کو، معروضی حالات میں، خاص اصول وقواعد کے تحت یقینی بنانے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں، ایک دوسرا اہم نکتہ یہ بھی شامل کر لینا چاہیے کہ ایک خاص طرح کی لچک، رنگا رنگی اور تنوع بھی معاشرتی سانچوں کا حصہ ہوتا ہے جو مصالح کی تکمیل میں معاون ہوتا ہے۔ ان دو نکتوں کی روشنی میں، سب سے بنیادی غلطی جس سے اجتناب ہمارے لیے ضروری ہے، یہ ہوگی کہ ہم روایتی سانچوں کو یک قلم اور بالکلیہ منبع فساد قرار دے دیں اور مختلف قسم کے فلسفوں کے زیراثر، جو بنیادی طور پر نہ تو ہمارے معاشرتی سوالات کا کوئی داخلی رسپانس ہیں اور نہ ہمارے حالات سے فطری مناسبت رکھتے ہیں، کسی یک رنگ اور یکسانی کے عکاس نئے معاشرتی سانچے کو نسخہ کیمیا سمجھنا شروع کر دیں۔

اگر سماجی اصلاح کے یہ مفروضات درست ہیں تو روایتی معاشرت اور نئی تبدیلیوں کی باہمی نسبت طے کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کہاں روایتی خاندان کا ڈھانچہ مجموعی طور پر اب بھی ان مصالح کو پورا کر رہا ہے جن کی اس سے توقع کی جاتی ہے، کہاں اس ڈھانچے میں معاشرتی رویوں یا قانونی اصلاحات کی سطح پر جزوی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، کہاں اس ڈھانچے میں اور نئی تبدیلیوں میں فاصلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ جزوی ترمیم واصلاح کارگر نہیں ہو سکتی، اور کہاں صورت حال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ سرے سے کوئی ڈھانچہ باقی ہی نہیں رہا اور کوئی مناسب ڈھانچہ وجود میں لانے کی ضرورت ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ گفتگو اساسی طور پر معاشرے کی سطح پر، فرد اور معاشرے کی فطری ضروریات کے تناظر میں ہونی چاہیے  جس کی ترجیحات ریاستی طاقت اور قانونی بندوبست کی ترجیحات سے بالکل مختلف ہوں گی۔

اس کام کے لیے اگر عمومی سماجی شعور کو  بہتر بنانے اور افادیت کھو دینے والی معاشرتی رسوم وعادات  میں تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے  لوگوں میں  ذہنی آمادگی پیدا کرنے کو  بنیادی ترجیح بنایا جائے اور وہ تمام طبقات جو رائے عامہ کی تشکیل میں کسی بھی  پہلو سے اور کسی بھی نوعیت کا کردار ادا کر سکتے ہیں، (مثلا علماء، اساتذہ،  سیاسی قائدین، اہل ثروت، ذرائع ابلاغ سے وابستہ حضرات) اس میں  حصہ ڈالنے کو  اپنی ذمہ داری تصور کریں تو   مطلوبہ معاشرتی اصلاحات  پیدا کرنا، ہمارے نزدیک  پوری طرح ممکن ہے۔   ہماری رائے میں   اس حوالے سے اصلاحی مساعی کو درج ذیل پہلووں پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے:

یہاں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دینی نصوص میں طلاق کے مبغوض ہونے کی بات انفرادی اخلاقیات سے متعلق ہے نہ کہ معاشرتی رویوں کی تشکیل سے۔ یعنی رشتہ نکاح میں بندھے ہوئے مرد اور عورت کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اسے حتی الامکان نبھانے کی کوشش کریں اور بلا وجہ یا معمولی وجوہ سے اس سے جان چھڑانے کی کوشش نہ کریں۔ لیکن اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ عمومی رویے اس طرح تشکیل پا جائیں کہ طلاق کو ایک معاشرتی عیب تصور کیا جانے لگے اور اس کے اثرات فریقین اور ان کے خاندانوں کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیں جس طرح ہمارے ہاں عموما لے لیتے ہیں۔ اس پرسپشن کے ازالے کے لیے عہد نبوی وعہد صحابہ کی معاشرت کا مطالعہ بہت مفید ہوگا جہاں  تبدل نکاح ایک عام معمول دکھائی دیتا ہے اور کم وبیش ہر صحابی یا صحابیہ کے حالات میں ایک کے بعد دوسرے یا دوسرے کے بعد تیسرے نکاح کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس معاشرت کی جھلک آج کے عرب معاشرے میں بھی کافی حد تک دکھائی دیتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں بھی معاشرت کے، ایک سانچے سے دوسرے سانچے میں منتقل ہونے کے اس مرحلے میں ذہنی ونفسیاتی تربیت کے لیے ان نمونوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور ایسی social imaginaries تشکیل دی جائیں جو جدید معاشرت کے اوضاع کے لحاظ سے رشتہ نکاح کے مصالح ومقاصد کی بہتر انداز میں تکمیل کر سکیں۔

ہذا ما عندی واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۹٠)    سورة الحشر کے بعض مقامات

(۱) لِلفُقَرَاء المُہَاجِرِینَ الَّذِینَ اخرِجُوا مِن دِیَارِہِم وَاَموَالِہِم۔ (الحشر: 8)

اس آیت میں فقراءموصوف ہے اور مہاجرین صفت ہے، اس لحاظ سے ترجمہ ہوگا: مہاجر فقراء، نہ کہ فقیر مہاجرین۔ ایک تو یہ زبان کے قواعد کا تقاضا ہے، دوسرے معنوی لحاظ سے بھی مہاجرین کی تقسیم مقصود نہیں ہے کہ فقیر مہاجرین کو حصہ دیا جائے اور غیر فقیر مہاجرین کا حصہ نہیں لگایا جائے۔ بلکہ یہ فقر سے دوچار لوگوں کی ایک خاص قسم یعنی مہاجرین اور گویا تمام مہاجرین پر مشتمل ہے، کیوں کہ تمام ہی مہاجرین گھر اور دولت چھوڑ کر آئے تھے۔ اس کا صحیح ترجمہ ہوگا: مہاجر فقیروں کے لیے، یا دوسرے لفظوں میں ان فقیروں کے لیے جو ہجرت کرکے آئے ہیں۔ درج ذیل ترجموں میں آخری ترجمہ قواعد کے مطابق ہے:

” ان محتاج مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنی املاک سے نکالے گئے ہیں “۔(امین احسن اصلاحی)

”(نیز وہ مال) اُن غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں “۔(سید مودودی)

”ان فقیر ہجرت کرنے والوں کے لیے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے“۔(احمد رضا خان)

”(فیءکا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیے گئے ہیں “۔(محمد جوناگڑھی)

(۲) وَالَّذِینَ تَبَوَّءوا الدَّارَ وَالاِیمَانَ مِن قَبلِہِم یُحِبُّونَ مَن ھَاجَرَ اِلَیہِم۔ (الحشر: 9)

اس جملے کے ترجمے دیکھتے ہوئے دو مقامات پر غور کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

 ایک ہے ”والایمان“ کا ترجمہ، کیوں کہ گھر کو ٹھکانا بنانا تو واضح ہے، مگر ایمان کو ٹھکانا بنانا واضح نہیں ہوپاتا ہے، بعض لوگوں نے تو یہی ترجمہ کردیا ہے، کہ ایمان میں گھر بنالیا، اور بعض لوگوں نے کوئی فعل محذوف مان کر ترجمہ کیا ہے، جیسے ایمان کو استوار کرنا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی یہاں واو کو معیت بتانے والا مان کر ترجمہ کرتے ہیں: ”اور ایمان کے ساتھ جو لوگ پہلے سے بسے ہوئے ہیں“۔ یعنی مدینہ منورہ میں ہجرت سے پہلے سے مقیم اہل ایمان یعنی انصار مدینہ۔ علامہ طاہر بن عاشور نے اس توجیہ کا ذکر کیا ہے، اور کہا ہے کہ اگرچہ اس کے قائلین کم ہیں، مگر یہ سب سے اچھی توجیہ ہے۔

وقیل الواو للمعیۃ. والایمان مفعول معہ. وعندی ان ہذا احسن الوجوہ، وان قل قائلوہ۔ (التحریر والتنویر)

دوسرا غور طلب مقام والذین کا ترجمہ ہے۔ یہاں مفسرین اور مترجمین والذین کو للفقراء المھاجرین پر معطوف قرار دے کر یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ مہاجرین کی طرح یہ انصار بھی مال فیءمیں حصہ دار ہیں۔ اس کے لحاظ سے ترجمہ کرتے ہیں: ”اور یہ ان کے لیے بھی ہے جو۔۔۔”مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ اس پر معطوف نہیں ہے، ورنہ وللذین ہونا چاہیے تھا۔ کیوں کہ درمیان میں طویل فصل ہوگیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یحبون من ھاجر الیھم بظاہر والذین کی خبر ہے، گو کہ لوگوں نے اسے حال مانا ہے، اور کچھ مترجمین نے تو اس سے پہلے (اور) مان کر ترجمہ کیا ہے۔ لیکن اس سب میں تکلف معلوم ہوتا ہے۔ آیت میں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ والذین مبتدا  ہے اور یحبون اس کی خبر ہے۔ دراصل مال فیءکا مسئلہ تو فقیر مہاجرین تک مکمل ہوگیا، اور چونکہ مہاجرین کے اوصاف بتائے گئے تو مناسبت تھی کہ انصار کے اوصاف کا ذکر بھی ہو، اور بعد والوں کے اوصاف بھی بیان کیے جائیں۔ یہ بات خود اس آیت میں مذکور ہے کہ مہاجرین کو جو دیا جاتا ہے اس کے سلسلے میں یہ انصار کوئی خلش محسوس نہیں کرتے، اس سے خود معلوم ہوا کہ مال فیءمیں شروع میں مذکور مدات کے علاوہ عمومی طور سے صرف مہاجرین کے لیے حصہ رکھا گیا تھا۔ غرض ترجمہ ہوگا: ”اور جو لوگ ایمان کے ساتھ پہلے سے بسے ہوئے ہیں، وہ محبت کرتے ہیں ان سے جو ان کی طرف ہجرت کرکے آئے“۔

اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

”اور جو لوگ پہلے سے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں، اور (ایمان استوار کیے ہوئے ہیں) وہ دوست رکھتے ہیں ان لوگوں کو جو ان کی طرف ہجرت کرکے آرہے ہیں“ ۔(امین احسن اصلاحی)

”(اور وہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے) جو اِن مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم تھے یہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اِن کے پاس آئے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور جنہوں نے پہلے سے اس شہر اور ایمان میں گھر بنالیا دوست رکھتے ہیں انہیں جو ان کی طرف ہجرت کرکے گئے “۔(احمد رضا خان)

”اور (ان لوگوں کے لیے بھی) جو مہاجرین سے پہلے (ہجرت کے) گھر (یعنی مدینے) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے (اور) جو لوگ ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں “۔(فتح محمد جالندھری)

”اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

وَالَّذِینَ جَاءُوا مِن بَعدِہِم یَقُولُونَ رَبَّنَا اغفِر لَنَا وَلِاِخوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالاِیمَانِ۔ (الحشر: 10)

گزشتہ مقام کی طرح اس مقام پر بھی اہل تفسیر وترجمہ نے یہ مان لیا ہے کہ یہاں بھی والذین، للفقراء المھاجرین پر معطوف ہے، اور گویا یہ بھی مال فیءکے حصے دار ہیں، حالانکہ یہاں بھی صاف نظر آتا ہے کہ والذین مبتدا ہے اور یقولون اس کی خبر ہے، جیسا کہ درج ذیل ترجموں میں آخری ترجمہ میں ہے:

”(اور وہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے) جو اِن اگلوں کے بعد آئے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ”اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور (ان کے لیے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جو ان کے بعد آئے (ان کا بھی اس مال میں حصہ ہے) جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جنہوں نے ایمان لانے میں ہم پر سبقت کی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے“۔ (احمد رضا خان)

(۱۹۱)    بریء کا ترجمہ

قرآن مجید میں بریء کا لفظ بار بار آیا ہے، اس کا مطلب ہوتا مکمل طور سے دوری، لاتعلقی اور بیزاری اختیار کرنا۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:

اصل البُرئِ والبَرَاء والتَبَرِّی: التقصّی مما یکرہ مجاورتہ۔ (المفردات فی غریب القرآن)

عام طور سے مترجمین نے یہی ترجمہ کیا ہے، لیکن کہیں کہیں بری الذمہ ہونے اور ذمہ داری سے بری ہونے کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ ایک تو صرف لفظ بریء بری الذمہ ہونے کے لیے نہیں آتا ہے، دوسرے ذمہ داری سے بری ہونے کی کوئی بات ہی نہیں ہے جس کا اعلان کیا جائے، اور تیسرے یہ کہ ذمہ داری سے بری ہونے سے وہ لاتعلقی اور بیزاری ظاہر نہیں ہوتی ہے جس کا اظہار یہاں مقصود ہے۔ اس روشنی میں درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

(۱) قُل اِنَّمَا ہُوَ الَہ وَاحِد وَاِنَّنِی بَرِیء مِمَّا تُشرِکُونَ۔ (الانعام: 19)

”کہو، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو“۔ (سید مودودی)

”اور جن کو تم لوگ شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں “۔(فتح محمد جالندھری)

(۲) قَالَ یَا قَومِ اِنِّی بَرِیء مِمَّا تُشرِکُونَ۔ (الانعام: 78)

”تو کہنے لگے لوگو! جن چیزوں کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں “۔(فتح محمد جالندھری)

”تو ابراہیم ؑ پکار اٹھا: ”اے برادران قوم! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھیراتے ہو “۔(سید مودودی)

(۳) وَقَالَ اِنِّی بَرِیء  مِنکُم ۔ (الانفال: 48)

”اور کہنے لگا کہ میرا تمہارا ساتھ نہیں ہے“۔ (سید مودودی)

”اور کہنے لگا کہ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں “۔(فتح محمد جالندھری)

(۴) اَنَّ اللَّہَ بَرِیئ  مِنَ المُشرِکِینَ وَرَسُولُہُ۔ (التوبة: 3)

”کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذمہ ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی“۔ (سید مودودی)

”کہ خدا مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی (ان سے دستبردار ہے)“۔(فتح محمد جالندھری)

(۵) انتُم بَرِیئُونَ مِمَّا اعمَلُ وَاَنَا بَرِئ مِمَّا تَعمَلُونَ۔ (یونس: 41)

”تم بری ہو میرے عمل کی ذمہ داری سے اور میں بری ہوں تمہارے عمل کی ذمہ داری سے “۔(امین احسن اصلاحی)

”جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بَری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں“۔ (سید مودودی)

”تم میرے عملوں کا جواب دہ نہیں ہو اور میں تمہارے عملوں کا جوابدہ نہیں ہوں “۔(فتح محمد جالندھری)

”تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۶) وَاَنَا بَرِیئ  مِمَّا تُجرِمُونَ۔ (ہود: 35)

”اور جو جرم تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں“۔ (سید مودودی)

”اور جو گناہ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں “۔(فتح محمد جالندھری)

”اور جو جرم تم کر رہے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں“۔(محمد حسین نجفی)

And I am free of the sins of which ye are guilty! (Yousuf Ali)

(۷) قَالَ اِنِّی اُشہِدُ اللَّہَ وَاشہَدُوا اَنِّی بَرِیء مِمَّا تُشرِکُونَ۔ (ہود: 54)

”ہودؑ نے کہا ”میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں اور تم گواہ رہو کہ یہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھیرا رکھا ہے اس سے میں بیزار ہوں “۔(سید مودودی)

 He said: "I call Allah to witness, and do ye bear witness, that I am free from the sin of ascribing, to Him. (Yousuf Ali)

(۸) فَاِن عَصَوکَ فَقُلِ انِّی بَرِیء مِمَّا تَعمَلُونَ۔ (الشعراء: 216)

”لیکن اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو ان سے کہو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذ مہ ہوں“۔ (سید مودودی)

Then if they disobey you, say: "I am innocent of what you do." (Mubarakpuri)
But if they disobey thee, say, "I am free of responsibility for aught that you may do!" (Asad)
If they disobey you, say, "I bear no responsibility for what you do." (Wahduddin Khan)

(۹) کَمَثَلِ الشَّیطَانِ اِذ قَالَ لِلاِنسَانِ اکفُر فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّی بَرِیء مِنکَ۔ (الحشر: 16)

”اِن کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر، اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں “۔(سید مودودی)

”شیطان کی کہاوت جب اس نے آدمی سے کہا کفر کر پھر جب اس نے کفر کرلیا بولا میں تجھ سے الگ ہوں“۔ (احمد رضا خان)

”(منافقوں کی) مثال شیطان کی سی ہے کہ انسان سے کہتا رہا کہ کافر ہوجا۔ جب وہ کافر ہوگیا تو کہنے لگا کہ مجھے تجھ سے کچھ سروکار نہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۱٠) وَاِذ قَالَ اِبرَاہِیمُ لِاَبِیہِ وَقَومِہِ اِنَّنِی بَرَاء مِمَّا تَعبُدُونَ۔ (الزخرف: 26)

”یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں“۔(سید مودودی)

(۱۱)   اِذ قَالُوا لِقَومِہِم اِنَّا بُرَآء مِنکُم وَمِمَّا تَعبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ۔ (الممتحنۃ: 4)

”کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ہم تم سے اور تمہارے اِن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں“ ۔(سید مودودی)


(جاری)

اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۹)

مولانا سمیع اللہ سعدی

بحث دوم : فریقین کے علم اصولِ حدیث کا تقابلی مطالعہ

بحثِ اول میں  آٹھ اساسی اور بڑے موضوعات کے تحت ان بنیادی مفاہیم و اصطلاحات کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا  ، جن کی وجہ سے اہل تشیع  اور اہل سنت کا  حدیثی ذخیرہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہوجاتا ہے ،ان اساسی مفاہیم میں فریقین کے حدیثی ذخیرے کے  امتیازات   و خصوصیات کا جائزہ لیا گیا ،تاکہ فریقین کے تراث ِ حدیث کے محاسن و مساوی کا تقابل کیا جاسکے ۔ ان موضوعات کی فہرست یہاں دی جارہی ہے ،تاکہ اقساط کی طوالت کی وجہ سے بحث کی تنقیح اور تسلسل میں جو اخفا رہ گیا ہے ،وہ  دور کیا جاسکے ،بحث اول میں ان آٹھ موضوعات میں فریقین کے علم حدیث کے مفاہیم و مصطلحات کا تقابل پیش کیا گیا :

1۔ فریقین کے حدیثی ذخیرے میں حدیث و سنت کا مفہوم و مصداق 

2۔عدالتِ صحابہ کا مسئلہ اور تراثِ حدیث پر اس کے اثرات

3۔ فریقین کا حدیثی ذخیرہ  قبل از تدوین،تحریری و تقریری سرمایہ

4۔فریقین کی کتبِ حدیث میں تعداد روایات   کا  فرق اور اس کے نتائج

5۔ فریقین کا زمانہ روایت و اسناد

6۔ فریقین کی کتبِ حدیث کے مخطوطات و نسخ

7۔ فریقین کے معیاراتِ نقد حدیث

8۔فریقین کی تراثِ حدیث میں موضوع روایات اور اس کی تنقیح

اب بحث دوم  میں فریقین کے اصول ِحدیث کا تعارف تقابلی انداز میں کرایا جائے گا ،تاکہ  ہر دو فریقوں نے حدیثی تراث کو پرکھنے کے لیے جو اصول و قواعد ترتیب دیے ہیں ، ان کی افادیت اور حدیثی ذخیرے کو پرکھنے میں اس کے اثرات و نتائج سامنے آسکے ۔ما قبل کی اقساط میں اس کا ذکر ہوچکا ہے  کہ اہل تشیع کے ہاں حدیث کو پرکھنے  کے حوالے سے اخباری و  اصولی دو مکتب پائے جاتے ہیں ،ان میں  سے اصولی مکتب نے اہلسنت کے طرز پر حدیث کو پرکھنے کا ایک فن ترتیب دیا ہے ،جو  شیعی حلقوں میں علم الدرایہ کے نام سے موسوم ہے ،جبکہ اہلسنت  کے ہاں حدیث کو پرکھنے کا فن عمومی طور پر علم مصطلح الحدیث  کے نام سے پکارا جاتاہے ، اس بحث میں شیعی علم الدرایہ اور سنی مصطلح الحدیث کا تقابلی مطالعہ پیش کیا جائے گا ۔

1۔زمانہ تدوین

شیعی علم الدرایہ  اور سنی علم مصطلح الحدیث میں بنیادی ترین فرق  زمانہ تدوین کا فرق ہے ،سنی اصول ِ حدیث اسی زمانے میں مدون ہوئے ،جس زمانے میں اہل سنت کے بنیادی مراجع صحاح ستہ لکھی گئیں ،بلکہ خود  اصحاب صحاح ستہ نے مصطلح الحدیث کے اہم مباحث کو اپنی کتب میں جگہ دی،ہم نکات کی شکل میں سنی مصطلح الحدیث کے اولین  تحریری ورثے پر ایک نظر ڈالتے ہیں :

1۔اصول ِ حدیث کے اہم مباحث کو سب سے پہلے امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الرسالہ میں تحریر فرمایا ،چنانچہ  محقق عبد الماجد غوری لکھتے ہیں :

"و یمکن  ان یقال ایضا :ان الامام الشافعی رضی اللہ عنہ (المتوفی سنہ204ھ) ھو اول من دون  بعض المباحث الحدیثیۃ فی کتابہ الرسالہ "1

ترجمہ: یہ کہنا بھی درست ہے کہ امام  شافعی رحمہ اللہ وہ ا ولین شخصیت ہیں ،جنہوں نے اصول حدیث کے بعض مباحث کو الرسالہ میں مدون کیا ۔

امام شافعی رحمہ اللہ سے پہلے بھی مصطلح الحدیث کو محدثین نے لکھا ،  مثلا علی ابن مدینی و غیرہ ، ان کی کتب چونکہ محفوظ نہیں رہ سکیں ،اس لیے  باقی رہنے ولے تحریری سرمایے میں امام شافعی رحمہ اللہ کی الرسالہ  اس موضوع پر اولین تحریر کہلا ئے گی ۔امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الرسالہ میں مصطلح الحدیث کے ان مباحث پر روشنی ڈالی:

    • روایت بالمعنی کی بحث

    • مدلس کا عنعنہ

    • مرسل روایت کی  بحث

    • شرائط حفظ الراوی

    • عدالتِ راوی کی پہچان کے طرق

    • مقبول راوی کے اوصاف

    • خبر واحد اور خبر مراۃ کی بحث2

2۔ معروف محدث امام دارمی(255ھ) نے اپنی کتاب سنن دارمی کے مقدمے  میں مصطلح الحدیث  کے اہم مباحث کو موضوع ِ بحث بنایا ،یہ مقدمہ کافی طویل ہے ، جس میں تقریبا 57 کے قریب  ابواب میں  امام دارمی نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی ،ان میں مصطلح الحدیث کے مباحث بھی شامل ہیں ۔

3۔  صحاح ستہ میں سب سے اولین کتاب لکھنے والے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں مصطلح الحدیث  کے اہم مباحث کو بیان کیا ہے ،طرق تحمل حدیث ،اخبرنا و حدثنا میں فرق ،سماع الصغیر جیسے موضوعات  پر صحیح بخاری میں   باقاعدہ ابواب باندھے ،زیادت ثقہ ،متابعات  وغیرہ جیسے مباحث  پر متعدد مقامات پر روشنی ڈالی ،اس کے علاوہ اپنی  دیگر کتب خصوصا کتب رجال میں رجال پر تبصرہ کرتے ہوئے  متنوع موضوعات پر اپنی رائے دی۔

4۔امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم کا مقدمہ خاص مصطلح الحدیث کے اہم مباحث کے لیے  تحریر کیا ،مقدمہ مسلم  میں امام مسلم نے سات بڑے اصولی مباحث پر گفتگو کی ۔

5۔امام ترمذی نے  العلل الصغیر کے نام سے ایک  مصطلح الحدیث میں ایک مستقل رسالہ لکھا ،جس میں مصطلح الحدیث کے دس بڑے موضوعات کو موضوع بحث بنایا،محقق عبد الماجد غوری ان موضوعات ِ عشرہ کے بارے میں لکھتے ہیں :

"فھذہ  جملۃ البحوث  التی اوجز الترمذی الحدیث عنھا فی ھذہ  المقدمہ القیمہ، والتی کما رایت تتناول اھم ارکان علوم الحدیث"3

ترجمہ:یہ وہ مباحث ہیں ،جن سے امام ترمذی نے اختصار کے ساتھ اپنے وقیع مقدمے میں  تعرض کیا ہے ،یہ مباحث ،جیسا کہ آپ دیکھ چکے ہیں ،مصطلح الحدیث کے اہم ترین ارکان میں سے ہیں ۔

6۔ امام ابو داود نے اہل مکہ کو اپنی سنن کے تعارف پر مشتمل ایک خط لکھا ،اس میں مصطلح الحدیث کے اہم مباحث پر گفتگو کی ۔

7۔امام طحاوی نے حدثنا و اخبرنا کے تسویہ پر ایک مستقل رسالہ لکھا ۔

8۔انہی منتشر مباحث اور  متقدمین سے منقول دیگر مصطلح الحدیث  کے  اصول و ضوابط کو باقاعدہ بطورِ  فن کے چوتھی صدی ہجری کے مایہ ناز محدث قاضی عبد الرحمان الرامھرمزی  نے  اپنی کتاب " المحدث الفاصل  بین الراوی و الواعی "  میں جمع کیا ،جو مصطلح الحدیث کی پہلی باقاعدہ تصنیف شمار ہوتی ہے ۔

9۔ اس کے بعد پانچویں صدی ہجری میں امام حاکم  نے معرفۃ علوم الحدیث لکھ کر اس فن کو کمال تک پہنچایا ۔

 سنی مصطلح الحدیث  کے اولین سرمایے کا ایک خاکہ ذکر کیا جاچکا ہے ،اس خاکے سے یہ بات بخوبی ثابت ہوتی ہے کہ سنی مصطلح الحدیث اسی زمانے  اور انہی محدثین  یا ان کے اساتذہ و تلامذہ کے ہاتھوں مدون ہوا ،جنہوں نے بنیادی کتب ِ حدیث صحاح ستہ لکھیں  ،اس کے برخلاف جب ہم شیعی علم الدرایہ کو دیکھتے ہیں ،تو  اس لحاظ سے شیعی علم الدرایہ ہمیں سنی اصول ِ حدیث سے کافی فروتر نظر آتا ہے کہ شیعی علم الدرایہ   اہل تشیع کے بنیادی مراجع حدیث (کتب اربعہ ) کے تقریبا  تین صدیوں بعد مدون ہوا ، چنانچہ معروف شیعہ محقق جعفر سبحانی لکھتے ہیں :

"ان اول من الف من  اصحابنا فی علم الدرایہ کما ھو المشہور ھو جمال الدین احمد بن موسی بن جعفر بن طاووس المتوفی عام 673ھ"4

ترجمہ:ہمارے شیعہ حضرات میں سے علم الدرایہ میں سب سے اولین کتاب لکھنے والے جمال الدین احمد بن طاوس ہیں ،جیسا کہ  مشہور ہے۔

اس کے بعد اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :

"فالقدر المتیقن  ان اول من الف ھو احمد بن طاووس الحلی"5

یعنی اتنی بات یقینی ہے کہ اس موضوع پر سب سے اولین کتاب احمد بن طاووس حلی نے لکھی ہے ۔

 شیعی علم الدرایہ اور سنی مصطلح الحدیث کے زمانہ تدوین  کے اس فرق سے( فرق سے مراد  یہ کہ سنی علم اصول حدیث خود حدیث کی تدوین  کرنے والے محدثین  کے زمانہ میں مدون ہوا جبکہ شیعی علم الدرایہ شیعی حدیث کے زمانہ تدوین کے کافی عرصہ بعد مدون ہوا) ہر دو فنون افادیت ،تطبیق اور اثرات میں ایک دوسرے سے کلی طور پر مختلف ہوجاتے ہیں ،ہم چند اہم فروق نکات کی شکل میں بیان کرتے ہیں :

1۔سنی مصطلح الحدیث چونکہ  صحاح ستہ کے زمانے میں ہی  اور کچھ صحاح ستہ کے زمانے سے پہلے مدون ہونا شروع ہوا ،بلکہ اس کے بعض اہم قواعد خود اصحاب صحاح ستہ نے ترتیب دیے ،اس لیے صحاح ستہ انہی قواعد و اصول کی بنیاد پر مدون  ہوئیں ،جس کی وجہ سے  مصطلح الحدیث کا فن بھر پور تطبیق سے گزرا ،جبکہ شیعی علم الدرایہ شیعہ علم ِ حدیث کے مدون ہونے کے کئی صدیوں بعد منظر عام پر آیا ،جس کی وجہ سے  شیعی علم الدرایہ کے قواعد و اصول کا  شیعہ علم حدیث پر  انطباق نہ ہونے کے برابر ہے ،کیونکہ ایک لاکھ سے زائد احادیث پر  قواعد کا انطباق ناممکن نہ سہی ،مشکل ترین ضرور ہے ،اسی لیے آج بھی شیعی علم الدرایہ میں  قواعد و اصول بیان کرتے ہوئے شیعہ اہل علم امثلہ شیعی ذخیرہ حدیث کی بجائے سنی  ذخیرہ حدیث سے لینے پر مجبور ہیں ،اس کی  متعدد امثلہ پچھلی  اقساط میں ہم بیان کر چکے ہیں ۔

2۔زمانہ تدوین میں فرق کا دوسرا بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ شیعی تراث میں صحیح  اور ضعیف حدیث کے معیارات کے سلسلے میں متعدد نقطہ نظر سامنے آئے ،کتب اربعہ کے محدثین کے ہاں صحیح و ضعیف روایت کا معیار الگ تھا ،اخباری گروہ کے نزدیک الگ معیار ہے،(کتب اربعہ و اخباری مکتب کا نقطہ نظر قریب قریب ہے ،لیکن کچھ وجوہ سے یہ الگ نقطہ نظر شمار ہوتے ہیں )جبکہ اصولی مکتب کے نزدیک   صحیح و ضعیف کا معیار الگ ہے ، ان   مکاتب کی تفصیل ہم  اس سلسلے  میں معیارات ِ نقد حدیث کے عنوان کے تحت دے چکے ہیں ،ان متعدد نقطہ ہائے نظر کی وجہ سے شیعہ  ذخیرہ حدیث میں سے صحیح و ضعیف  روایات کا تعین ایک ایسی گتھی بن چکا ہے ،جس کو آ ج تک نہیں سلجھایا جاسکا ،کتب اربعہ کے مصنفین نے اپنے معیارات کے مطابق  احادیث کی تدوین کیں ،اخباری مکتب    نے اپنے معیارات کے مطابق ذخیرہ حدیث پر حکم لگایا ،جبکہ  اصولی منہج کے حاملین نے احادیث کو پرکھنے کا اپنا الگ نظام بنایا ،یوں  شیعہ ذخیرہ حدیث  میں صحیح، ضعیف،  موضوع  روایات کا متفقہ معیار نہ ہونے  کی وجہ سے محققین کو متعدد الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جبکہ اس کے برخلاف اہل سنت میں حدیث کو پرکھنے کے معیارات کم و بیش ایک جیسے ہیں ،البتہ ان کی تطبیق میں اہل سنت  محدثین کے ہاں اختلافات پائے جاتے ہیں ، جو  ظاہر ہے ،ہر  تطبیقی علم و فن کا خاصہ ہے ،نیز فقہائے اہل سنت بھی حدیث کے ثبوت و عدم ثبوت میں محدثین کے معیارات کو ہی بنیاد بناتے ہیں ،البتہ فقہاء حدیث کےثبوت و عدم ثبوت کے ساتھ ایک زائد چیز یعنی  حدیث کے قابلِ عمل ہونے یا نہ ہونے کو بھی دیکھتے ہیں ،جو اصول ِ فقہ کی مبحث السنہ میں بیان ہوتا ہے ۔

3۔زمانہ تدوین میں فرق کا تیسرا  نتیجہ یہ نکلا کہ اہل سنت کا علم مصطلح الحدیث ایک فطری ارتقاء کے ساتھ تدوینِ حدیث کے مجموعوں کے ساتھ چلتا رہا ،ہر محدث جہاں حدیث مدون کرتا ،وہاں مصطلح الحدیث کے تصورات میں اضافہ  اور پچھلوں کے تصورات میں تنقیح و تہذیب  کا عمل  جاری رکھتا،یوں کسی بھی علم و فن کی طرح اہل سنت کا مصطلح الحدیث فطری  ارتقا کے عمل ِمسلسل سے گزرا ہے ،جبکہ اہل تشیع کا علم الدرایہ ساتویں صدی ہجری میں ایک ہی شخص کے ہاتھوں بیک وقت منظر عام پر آیا ،خصوصا    تدوین کرنے والا شخص  تدوینِ حدیث کے زمانے کے کئی صدیوں بعد آیا ،یوں وہ  تدوینِ حدیث کے زمانے کا بچشمِ خود مشاہدہ  اور رواۃ  ومجالسِ حدیث کے از خود تجربے  کے عمل سے نہیں گزرا تھا  اور  عملی میدان سےہٹ کر خالص نظری دنیا میں اس  فن کے اصول و قواعد لکھنے کا کام سر انجام دیا ،یہی وجہ ہے کہ اہل تشیع کے ایک بڑے حلقے (اخباری مکتب ) نے  سرے سے اس  پورے علم کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اسے اہل سنت کی نقل قرار دیا ،اگر اہل تشیع کا علم الدرایہ  اہلسنت کے علم مصطلح الحدیث کی طرح تدوین ِ حدیث کے ساتھ ہی ایک فطری ترتیب کے ساتھ صدی بہ صدی ارتقائی عمل کے  نتیجے میں وجود میں آتا اور ہر محدث کے اضافہ جات و تنقیحات سےہو کر گزرتا ،تو   اس علم کو  اس طرح کے مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔

4۔زمانہ تدوین میں فرق کا ایک بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ   اہل  تشیع کا علم الدرایہ متقدمین کے استناد اور علومِ متقدمین سے اخذ و التقاط  سے  خالی ہے ،کیونکہ  یہ علم ساتویں صدی ہجری کے ایک عالم نے متقدمین  کے منہج  سے بالکل ایک الگ  منہج اختیار کرتے ہوئے   ایجاد کیا ،جبکہ اہلسنت کا علم مصطلح الحدیث  متقدمین ہی کے زمانے اور علمائے متقدمین  کے ہاتھوں  مدون ہوا ،اہل علم جانتے ہیں کہ کسی بھی علمی  روایت میں  اس روایت کے اولین علماء سے استناد روایت کے اعتبار و اعتماد کے لیے بنیادی  عامل ہے ،علمی روایت کو اعتماد بخشنے کے لیے  اس کا تسلسل  اساسی عنصر ہے،اس تسلسل اور استناد سے بلا شبہ اہل تشیع کا علم الدرایہ خالی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اخباریوں نے اس علم  پر جو متعدد اعتراضات کئے ،ان میں یہ اعتراض سر فہرست تھا کہ یہ علم کتبِ اربعہ کے مصنفین و دیگر متقدمین علماء سے ماخوذ نہیں ہے ،چنانچہ معروف اخباری عالم  محمد بن حسن حر عاملی لکھتے ہیں :

"أن طريقۃ القدماء موجبۃ للعلم، مأخوذۃ عن أھل العصمۃ لأنھم قد أمروا باتباعھا وقرروا العمل بھا، فلم ينكروہ، وعمل بھا الإماميۃ في مدۃ تقارب سبعمائۃ سنۃ منھا في زمان ظھور الأئمۃ عليھم السلام - قريب من ثلاثمائۃ سنۃ واصطلاح الجديد ليس كذلك قطعا، فتعين العمل بطريقۃ القدماء"6

ترجمہ:متقدمین کا منہج علم کا موجب ہے ،اور ائمہ معصومین سے ماخوذ ہے ،کیونکہ ائمہ معصومین  نے ان متقدمین اہل علم کی اتباع کا حکم دیا ہے اور ان کے منہج پر عمل کی تائید کی ہے ،ان پر نکیر نہیں کی ہے ،نیز امامیہ نے انہی کے منہج پر سات سو سال تک عمل کیا ہے ،جن میں سے تین سو سال کا عرصہ ائمہ کا زمانہ ہے ،جبکہ اصطلاح جدید (یعنی علم الدرایہ )اس طرح نہیں ہے ،اس لیے قدماء کے طریقہ پر عمل واجب ہے۔

5۔کسی بھی علم کے اساسی قواعد و ضوابط  (جنہیں ہم اصول ِعلم کہتے ہیں ،جیسے کہ اصول فقہ ،اصول ِحدیث  وغیرہ)مرتب کرنے کا مقصد اس علم کی تدوین ،ترتیب اور اس کی نشو ونما میں ہونے والی بنیادی اغلاط و اخطا سے اس علم کو بچانا ہوتا ہے ،نیز  وہ علم کن بنیادوں پر مرتب ہو نا چاہئے ،اس کے خدوخال واضح کرنے کے لیے بھی پہلے اس کے قواعد و ضوابط مرتب کئے جاتے ہیں ،مثلا، شوافع و احناف کے فقہی مسالک  میں فرق دراصل ان دونوں کے  اصولِ فقہ میں فرق کی وجہ سے ہے ،اگر ہر دو مسالک کے اصولِ فقہ سامنے نہ ہوں تو محض فقہی مسائل میں فرق کی وجہ سے دونوں مسالک میں موجود اساسی فروق کا کامل علم نہیں ہوسکے گا ،اسی طرح اہلسنت میں جب علم ِحدیث کی تدوین کا عمل شروع ہوا ،تو ساتھ ہی اصولِ حدیث  کی تدوین اور اس کے خدوخال واضح کرنے کا عمل بھی شروع ہوا ،اس کی تفصیل ہم اس کے مضمون کے شروع میں نکات کی شکل میں دے چکے ہیں ،کہ کیسے حدیث کی تدوین کے ساتھ ساتھ اصول ِحدیث بھی منقح  ہوتے گئے ،یوں حدیث و اصولِ حدیث مقارن صورت میں مدون ہوئے ،یہی وجہ ہے کہ آج اہلسنت کے بنیادی مراجع حدیث خصوصا صحاح ستہ کی روایات اور اصحاب صحاح ستہ کے مناہج و شروط بآسانی معلوم کئے  جاسکتے ہیں ،جب ہم اس اصل پر اہل تشیع کا علم الدرایہ پرکھتے ہیں تو صورتحال بالکل مختلف بلکہ الٹ نظر آتی ہے کہ اہل تشیع کے اساسی کتب حدیث کے مصنفین (اصحاب کتب اربعہ ) نے ایک خاص منہج  اور اپنے تئیں کچھ اصول و قواعد کی بنیاد پر کتب اربعہ لکھیں ،اس کے  تین صدیوں بعد ایک عالم آکر پہلے سے مدون شدہ کتب  اور ان  کتب کے مصنفین کے طے کئے ہوئے  اصولی منہج سے بالکل الگ ،جداگانہ اور مختلف   اصولی منہج وضع کرتا ہے ،اور تقاضا کرتا ہے کہ تین صدیوں بعد وضع کئے ہوئے اصولوں کی روشنی میں  ماضی کی ان کتب کا جائزہ لیا جائے اور ان میں موجود روایات کی تصحیح و تضعیف کا تعین کیا جائے ،تو یہاں عقلی طور پر ترتیب بالکل الٹ جاتی ہے کہ علم پہلے مدون ہوا ،کتب پہلے لکھی گئیں اور  لکھنے والوں نے   اپنے تئیں ایک خاص کے تحت تدوین و تریب کا یہ عمل سر انجام دیا ،پھر کئی صدیوں بعد ان کتب کی تدوین ،ترتیب ،نشوونما اور ان میں موجود اغلاط و اخطا کی نشاندہی کے لیے  ان کتب کے مصنفین کے منہج سے بالکل ایک الگ منہج پر مبنی جداگانہ علم وضع کیا جاتا ہے ،یوں عمارت کی تکمیل کے بعد بنیادیں بنانے کا کام کیا گیا ،فصل مکمل ہونے کے بعد بیج ڈالنے کا  عمل سر انجام پایا ،کام کرلینے کے بعد اس کے اصول و ضوابط طے کیے گئے ، وضع کی اس الٹی ترتیب کی وجہ سے علم الدرایہ انطباق  اور  کتب اربعہ کی احادیث اور ان احادیث میں کار فرما اصولی منہج کے معلوم کرنے سے بالکل عاری علم ہے ، یہاں تک کہ ان قواعد کی امثلہ کے لیے بھی احادیث ِ اہلسنت سے مستعار روایات لی  جاتی ہیں ،یوں علم الدرایہ  مدون ہونے کے باوجود اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کے تدوینی عمل، نشوونما ،تدوین کے منہج  اور ترتیب و تدوین میں کار فرما اصول و قواعد معلوم کرنے کے  لیے ممد و معاون نہیں ہے، اوریہ  علم   اپنامنطقی نتیجہ نہ دینے کی بنیاد پر  اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے  بے فائدہ علم بن جاتا ہے۔


حواشی

  1. المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ۔عبد الماجد غوری ،دار ابن کثیر ،بیروت ،ص617
  2. ایضا:ص617
  3. المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ،عبد الماجد غوری ،ص 621
  4. اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ،جعفر سبحانی ،دار جواد الائمہ ،بیروت ،ص
  5. ایضا:ص11
  6. وسائل الشیعہ ،،حر عاملی ،موسسہ اہل البیت لاحیاء التراث م،ج30،ص258

زکاۃ بمقابلہ احساس

پروفیسر عمران احسن خان نیازی

(ترجمہ: مراد علوی)

تحریک انصاف حکومت کا احساس پروگرام یقینا قابل ستائش ہےاور اس پر یہ تنقید درست نہیں کہ پاکستانی قوم بھکاری بن رہی ہے۔ یہ پناہ گاہیں سردی کے اس موسم میں غریبوں کو راحت پہنچا رہی ہیں۔ نیز یہ پروگرام غریبوں  کے لیے تقریباً ماہانہ بنیادوں پر سہولت فراہم کررہا ہے۔ اس میں ہم صحت کارڈکو بھی شامل کرسکتے ہیں جو طِبّی امداد  سے محروم لوگوں کو  دیے گئے ہیں۔ یہ سب اچھے اعمال ہیں لیکن جب ہم اس پروگرام کو اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں تو اس سے  یہ قانونی الجھن سامنے آتی ہے کہ یہ پروگرام ٹیکس کے ان پیسوں سے چل رہے ہیں  جو لوگوں سے زبردستی وصول کیے گئے ہیں اور  قربِ الٰہی کے حصول کا جذبہ اس انتظام میں  نظر انداز ہوجاتا  ہے۔ اگر حکومت یہ پروگرام عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے کر رہی ہے ، تو   یہ عوام کی طرف سے حکومت کے ذریعے ایک رضاکارانہ عمل ہےجو حکومت بہ طور وکیل سر انجام دیتی ہے۔ یہ استدلال ہمیں اس نتیجے تک  پہنچاتا  ہے کہ ایک رضاکارانہ عمل، جس کی حیثیت صدقات کی ہے، اسے  زکاۃ کے مقابلے میں  لوگوں پر نافذ کردیا گیا ہے جس کے نفاذ میں ہر حکومت نے محض  آنکھ مچولی سے کام لیا ہے۔  المیہ یہ ہے کہ زکاۃ کو  اس  ملک میں ایک رضاکارانہ  ادائیگی میں ، جبکہ رضاکارانہ خیرات کو  فلاحی پروگراموں کے لیے لازمی ٹیکس میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

 زکاۃ اسلام کے ارکان میں سے ہے۔ خلیفۂ اوّل ]سیدنا ابو  بکر صدیق[نے اس کے نفاذ کے لیے جہاد کیا۔ سورۃ البقرہ کے آغاز ہی میں ایمان بالغیب اور قیام صلاۃ کے بعد اس فرض کی ادائیگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت احکام القرآن کی تفسیر کرنے والے اہلِ علم نے کی ہے ۔ چنانچہ جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ اللہ کو جواب دہ ہوگا لیکن جو زکاۃ ادا نہیں کرتا ،  اسےحکومت  ادا کرنے پر  مجبور کرسکتی ہے۔

فقہا   نے قرار دیا  ہے کہ   چراگاہوں سے چرنے والے جانوروں کی زکاۃ حکومت کو ادا کرنا لازم ہے۔ اس کے علاوہ زکاۃ کے متعلق دیگر ادائیگیاں ہر فرد  اپنی ذمہ داری کے مطابق خود کرسکتا ہے ۔ تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ زکاۃ کی ادائیگی اختیاری ہے۔ نماز کے برعکس، جو حق اللہ ہے، زکاۃ نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ اس کا تعلق غریب کے حق سے   بھی ہے۔ یہ ایسا حق ہے جس کا پورا کرنا فرض ہے اور غریب کے اس حق کی حفاظت  کی کلی ذمہ داری حکومت کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے ۔ ہر فرد،   خواہ وہ زکاۃ سے فائدہ اٹھانے کا دعویٰ کرے یا نہ کرے،بہ طور  ِاصول اس کا پابند ہے کہ وہ  زکاۃ   ادا کرے گااور نہ دینے کی صورت میں زکاۃ اس سے زبردستی  وصول کی جاسکتی ہے۔ زکاۃکا  نظام گوشواروں  (Zakat Returns)کے ذریعے نافذ کیا جانا چاہیے ۔ چنانچہ ہر شخص  کو ، جو نصاب (دولت کی کم سے کم مقدار جس پر زکاۃ فرض ہوتی ہے ) کا مالک ہو، زکاۃ ادا کرنی  ہوگی اور   اگر اس نے گوشوارے میں کسی ادارے یا فرد کو زکاۃ دینے کا  دعویٰ کیا،تو   اسے گوشوارے کے ساتھ اس ادارے یا فرد سے لی گئی رسید لگانی ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ تعمیل نہ کرنے والوں کو سزا دینے کا قانون بنائے۔

نظامِ زکاۃ کے نفاذ سے تین چیزوں کا حصول متوقع   ہے۔  ان میں سے سب سے پہلی یہ ہے کہ زکاۃ کے گوشواروں  (Zakat Returns) سے  پوری معیشت اور نجی  اثاثوں کی  تفصیل دستاویزی صورت میں آجائے گی۔ حکومت ان معلومات کی روشنی میں پھر اپنے ٹیکس کے نظام  کو بہتر بناسکے گی۔  اس قانون کی خلاف ورزی محض ریاستی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوگی بلکہ غریبوں کے حق  کے متعلق اللہ کے حکم کی نافرمانی ہوگی ۔ ثانیاً،  جمع شدہ فنڈز کے موثر تقسیم سے کافی حد تک غربت کا خاتمہ ہوگا۔ یہ محض بڑا بول نہیں ہے۔ جو لوگ  زکاۃ  کی وصولی کو ٹیکس وصولی کے مقابلے میں حقیر کاوش سمجھتے ہیں، وہ زکاۃ کے نظام سے واقفیت نہیں رکھتے۔ ہم یقین سے کَہ سکتے ہیں کہ  احساس اور صحت کارڈ کے پروگرام سے غریبوں پر سالانہ خرچ ہونے والی رقم  میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ ثالثاً، جب  ایک بار غریبوں کو مناسب فنڈز  اپنے قانونی حق کے طور پر مل جائیں، تو وہ روٹی کپڑا اور مکان جیسے جھوٹے وعدوں پر مبنی سیاسی نعروں  کی طرف توجہ نہیں دیں گے۔

یہاں زکاۃ، عشر اور خمس کے ماخذ کو سمجھنا ضروری ہے۔زکاۃ ادا کرنے والا قاری جانتا ہے کہ سونے  کے لیے نصاب  ساڑھے سات تولے، جب کہ چاندی کے لیے ساڑھے باون تولے ہے۔ زکاۃ کے نصاب میں زیادہ لوگوں کو شامل کرنے کےلیے کاغذی کرنسی کو  ساڑھے باون تولے چاندی   کے نصاب کے حساب میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ ہماری تجویز یہ ہے  کہ اشیا اور نقدی کےلیے سونے کے نصاب کو معیار بنایا جائے تاکہ مستحقین کو ، جونصاب کی حد تک ہی وصول کرسکتےہیں ، بڑی مقدار کی ادائیگی کے ذریعے زیادہ فائدہ پہنچایا جاسکے۔

بہت  ساری چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں لوگ فکرمند نہیں ہیں۔ ان میں پہلی چیز کاروبار میں استعمال ہونے والے اثاثے ہیں۔  ان سے مراد کاروبار کی فہرست میں شامل اموال اور قابلِ عمل سرمایہ ہیں ۔ ہر کاروبار، خواہ کمپنی ہو، شراکت یا کسی کا  ذاتی  کاروبار ہو، اس کو لگائے ہوئے سرمایے کاڈھائی فیصد بہ طورِ زکاۃ ادا کرنا ہوگا۔ اس  سے کچھ ہی ساز و سامان اور مشینری مستثنا  ہوسکتے ہیں۔ اس مد سے حاصل ہونے والی رقم ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہے۔

جائیداد سے ملنے الے کرایہ کی آمدنی کے بارے میں کچھ الجھن پائی جاتی ہے۔ ہمارے علما کا خیال یہ ہے کہ یہ بھی عام آمدنی جیسی ہے بایں طور کہ اس پر بھی سال گزر جانے کے بعد ہی زکاۃ کا اطلاق ہوگا۔ تاہم عظیم حنفی فقیہ امام سرخسی اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔  ان کا موقف یہ ہے  کہ کرایہ والی جائیداد پر  پہلے ہی سال گزر چکا ہوتا ہے؛ لہذا کرایہ جب واجب الادا ہوجائے ، یا وصول کی جائے ، تو اسی لمحے ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے ۔ یہ زیادہ معتبر موقف ہے۔ اگر اسےنافذ کیا جائے تو اندازہ لگائیں کہ اس کے دائرے میں کرایے کے  کتنے پلازے اور مکانات آجائیں گے۔ یہ بہت بڑی رقم ہوگی۔

زمین کی تمام پیداوار پر عشر ، یعنی دس فیصد کی ادائیگی لازمی ہے (پانچ  فیصد ، اگر زمین نہری ہو) ۔ اس میں ڈیری فارم بھی  شامل ہے،  جو کاروباری آمدنی میں شمارکیا  جائے گا۔  ملک میں باہر سے لائے جانے والے اموال پر کسٹم ڈیوٹی کی مقدار برابر کے بدلے کے اصول پر عائد کی جاتی تھی اور اسے بھی عشر کہا جاتا تھا کیونکہ اس کی شرح عموماً دس فیصد ہوا کرتی تھی ۔ اس کے علاوہ دیگر چیزیں بھی ہیں، لیکن اب ہم معدنیات اور دفینوں پر بات کریں گے ۔

ہدایہ میں ، جو  کہ ہر مدرسے میں پڑھائی جاتی ہے،  تصریح  ہے کہ:" جب خراجی اور عشری  زمین  سے سونا، چاندی ، لوہا، سیسہ اور تانبہ جیسی معدنیات  نکالی جائیں تو ان پر پانچواں حصہ (خمس) ہے۔  "اس سے تمام زمینیں مراد ہیں۔  یہاں ان معدنیات کا ذکر ہوا جو اس زمانے میں معروف تھیں ۔  آج تمام معدنیات پر 20 فیصد خمس عائد ہوگا، اور اس میں تھر کا  کوئلہ یا  ریکو ڈک کی معدنیات بھی شامل ہوں گی۔  اس میں پیٹرول بھی شامل ہے، اگر چہ عرب ممالک سے اس  کے عدمِ جواز کے بارے میں فتویٰ آیا ہے۔   زکاۃ کے مصارف کی  پابندیاں خمس پر لاگو نہیں ہوتیں ۔

  مذکورہ بالا زرائع سے جمع کی جانی والی رقم چند ہی سالوں میں ملک سے  غربت کا خاتمہ کرے گی۔ اگر سونے کو آج زکاۃ کے حساب کے لیے معیار کے طور پر استعمال کیا جائے ، تو  ایک غریب مستحق کو زیادہ سے زیادہ جو رقم  ملے گی  وہ  چھے لاکھ چھیا سٹھ ہزار روپیہ ہوں گے۔  اگر چاندی کو استعمال کیا جائے تو  موجود قیمت کے مطابق زیادہ سے زیادہ  پچپن ہزار  روپے ہوں گے۔  ہمیں یقین ہے کہ ہر غریب آدمی کے لیے کافی رقم دستیاب ہوگی ۔  سینٹ آگسٹین نے ایک بار کہا تھا کہ  انصاف کے بغیر   ریاست ڈاکوؤں کے ٹولے سے بہتر نہیں ہوتی۔ اسلامی  عدل کے بغیراسلامی ریاست اس سے بھی  بدتر ہوگی۔  ہم یہ  فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔


عالمی عدالت انصاف کا ایک مستحسن فیصلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۲۴ جنوری ۲۰۲۰ء کو شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیں:

’’عالمی عدالت انصاف نے میانمار حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کا حکم دے دیا، نسل کشی کے خلاف ۱۹۴۸ء کے کنونشن کے تحت افریقی ریاست گیمبیا کی درخواست پر اقدامات کی منظوری دیتے ہوئے عالمی کورٹ کے جج عبد القوی احمد یوسف نے درخواست گزار ملک کو مقدمے کی کاروائی مزید آگے بڑھانے کی اجازت دے دی ہے، عدالت نے میانمار کی حکومت کو پابند بنایا کہ وہ مسلمان کمیونٹی کے خلاف اپنی فوج کے ظالمانہ اقدامات روکے، نیگون حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے لیے چار ماہ کے اندر تمام اقدامات کر کے رپورٹ جمع کرانے، اور ہر چھ ماہ بعد اس حوالہ سے رپورٹ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران میانمار کی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ عالمی عدالت انصاف اس کیس کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتی جس پر گیمبیا کے دلائل سن کر عدالت نے قرار دیا کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے مقدمہ سننے کی یہ عدالت مجاز ہے، واضح رہے کہ میانمار میں ۲۰۱۷ء کے فوجی کریک ڈاﺅن کے نتیجے میں سات لاکھ چالیس ہزار مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی تھی۔‘‘

میانمار (برما) کا یہ خطہ جو اراکان کہلاتا ہے، مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور یہاں صدیوں مسلمانوں کی آزاد حکومت رہی ہے۔ جسے برطانوی استعمار نے اس علاقے میں کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تقسیم کر کے اس کے دارالحکومت چٹاگانگ کو بنگال میں شامل کیا تھا اور دوسرے حصے کو برما کے سپرد کر دیا تھا۔ یہاں روہنگیا نسل کے مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے جو طویل عرصہ سے نسلی تعصب اور اس کی آڑ میں مذہبی منافرت کا نشانہ بنتے آرہے ہیں اور مختلف ادوار میں ہزاروں افراد شہادت سے ہمکنار ہونے کے علاوہ لاکھوں مسلمان بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔ انہیں نسل در نسل اس خطہ میں آباد چلے آنے کے باوجود وہاں کا شہری تسلیم نہیں کیا جا رہا اور میانمار کی حکومت وہاں کے بدھ کاشٹوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے متعدد بار فوجی آپریشنوں کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام اور جلاوطنی کے جرائم کا ارتکاب کر چکی ہے۔

اس کے بارے میں اقوام متحدہ کے علاوہ متعدد دیگر عالمی ادارے اور مسلم ممالک کی باہمی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) مختلف مواقع پر رپورٹیں پیش کرتے ہوئے آواز اٹھاتے رہے ہیں مگر توجہ دلانے اور آواز اٹھانے سے آگے کوئی عملی جدوجہد کسی طرف سے اب تک سامنے نہیں آئی۔ اس لیے اب اگر گیمبیا کی حکومت نے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا کر مظلوم اراکانی مسلمانوں کی دادسی کی کوئی صورت نکالی ہے تو وہ پورے عالم اسلام کی طرف سے شکریہ کی مستحق ہے اور اس سے کسی حد تک دلوں میں اطمینان کا احساس اجاگر ہوا ہے کہ کسی طرف سے کوئی آواز تو اٹھی ہے اور کسی مسلمان حکومت نے دینی حمیت کا مظاہرہ تو کیا ہے۔ یہ کام دراصل بنگلہ دیش کے کرنے کا تھا کہ وہ پڑوسی مسلمان ملک ہونے کے ساتھ ساتھ اراکان کے سابق دارالحکومت چٹاگانگ کو اپنے دامن میں سنبھالے ہوئے ہے اور اس نے لاکھوں اراکانی مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے، اور حکومت پاکستان کا حق بنتا تھا کہ متحدہ پاکستان کے دور میں اراکان اس کی پڑوسی ریاست تھی۔ جبکہ تاریخ کے ریکارڈ کے مطابق قیام پاکستان کے وقت اس ریاست کے مسلمانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور ہمارے خیال میں ان کی یہ معصوم خواہش ہی ان پر ظلم کی رسی دراز ہونے کا باعث بنی ہے۔ پھر اس کیس کی اصل مدعی او آئی سی تھی کہ اس کے قیام کا مقصد ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کی دیکھ بھال اور مسلم علاقوں کے درمیان ربط و تعاون کا فروغ بیان کیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا اور گیمبیا نے بالآخر یہ قدم اٹھایا جس پر ہم گیمبیا کو خراج تحسین پیش کرنا اپنی دینی و ملی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

اگرچہ عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے سے عملی طور پر کسی بڑی تبدیلی کی توقع بظاہر مشکل ہے اس لیے کہ عالمی عدالت اور عالمی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے اس نوعیت کے بہت سے اہم فیصلے صرف اس لیے گومگو کی سولی پر لٹکے چلے آرہے ہیں کہ ان کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ اور فلسطین اور کشمیر سمیت بہت سے علاقوں کے بارے میں اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے متعدد فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال سے واضح ہے۔ جبکہ مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام و جلاوطنی کا یہ سلسلہ صرف اراکان تک محدود نہیں بلکہ کشمیر، سنکیانگ اور دنیا کے بہت سے دیگر علاقوں میں بھی جاری ہے۔ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے والے بھارت میں مسلمانوں کی شہریت کے بارے میں مودی حکومت کے حالیہ اقدامات بھی اس سے مختلف دکھائی نہیں دیتے۔

تاہم عالمی عدالت انصاف اور گیمبیا کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم دنیا بھر کی مسلمان حکومتوں، اداروں اور لابیوں سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ اراکان، سنکیانگ اور اراکان کے مسلمانوں کی یہ مسلسل مظلومیت بہرحال دنیا بھر کے مسلمانوں کی ملی حمیت کے لیے سوالیہ نشان کی حقیقت رکھتی ہے اور ہمیں اس کے لیے ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کے مسلط کردہ دائروں سے ہٹ کر ملی تقاضوں اور دینی ذمہ داریوں کے حوالہ سے ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا کہ اس کے سوا اس کا مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔

آنجہانی جسٹس رانا بھگوان داس کی یاد میں تقریب

آئی پی ایس (انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد) کی طرف سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان آنجہانی رانا بھگوان داس کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تو موجودہ حالات کے تناظر میں یہ بات مجھے اچھی لگی کہ ہم ان شخصیات کو یاد رکھیں جنہوں نے اصول، قانون اور انسانی روایات کو زندہ رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ یہ تقریب ۱۱ فروری کو منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری تھے۔ جبکہ دیگر مہمانان خصوصی میں محترم راجہ محمد ظفر الحق، جناب محمد اکرم شیخ ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر رامیش کمار (ایم این اے) کے ساتھ راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔

موجودہ عالمی تہذیبی کشمکش میں مجھے ایسی مجالس کی تلاش رہتی ہے جن میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ ارباب فکر مل بیٹھ کر انسانی اقدار و روایات کے فروغ اور مذہب کے معاشرتی کردار کے حوالہ سے گفتگو کریں۔ کیونکہ میری طالب علمانہ رائے میں اس وقت نسل انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ اور بحران انسانی اخلاقیات اور اقدار کا ہے جن سے انسانی سوسائٹی مسلسل محروم ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ انسانی اخلاق و روایات کے سب سے بڑے علمبردار مذاہب ہیں جو تمام تر باہمی اختلافات اور تنازعات کے باوجود انسان کو اس کی بنیادی اقدار سے وابستہ رکھنے میں سب سے مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی اخلاقیات و روایات اور سوسائٹی کے معاملات میں مذہب کے کردار کو کمزور کرتے چلے جانا اس وقت تمام مذاہب کے سنجیدہ راہنماؤں کے لیے مشترکہ چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں اس سلسلہ میں امریکہ، برطانیہ اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مختلف مذاہب کے متعدد راہنماؤں سے بات چیت کر چکا ہوں اور اس مکالمہ کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی خواہش رکھتا ہوں بلکہ کوشش بھی کرتا رہتا ہوں۔

اس سیمینار کے بارے میں آئی پی سی کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کو اس کالم کا حصہ بناتے ہوئے میں اپنی گفتگو کے بعض حصے بھی ریکارڈ میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ اپنے محسنین کو یاد رکھنا ان کا حق ہونے کے ساتھ ساتھ جناب سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے آنحضرتؐ کو اپنے ایک پرانے محسن مطعم بن عدی یاد آگئے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر طائف میں پتھراؤ کرنے والے اوباش لڑکوں سے آپؐ کو پناہ دی تھی۔ اللہ تعالٰی کے آخری رسول ان لڑکوں کے پتھراؤ اور تعاقب کے باعث زخمی اور لہولہان حالت میں اپنے خادم حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف واپس آرہے تھے کہ راستہ میں مطعم بن عدی نے اپنے ڈیرے کا دروازہ کھول دیا اور آپؐ وہاں کچھ دیر ٹھہرے، خون وغیرہ دھویا اور آرام کیا۔ نبی اکرمؐ نے غزوہ بدر کے موقع پر اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان قیدیوں کی سفارش کرتے تو میں انہیں فدیہ لیے بغیر ہی آزاد کر دیتا۔ اس میں جناب رسول اکرمؐ کی طرف سے یہ تعلیم ہے کہ محسن خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اس کی احسان مندی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

دوسری بات یہ کہ میں جب اس سیمینار میں شرکت کے لیے حاضر ہوا تو مہمانوں میں جناب سبھاش چندر کو دیکھا جو آنجہانی رانا بھگوان داس کے برادر نسبتی ہیں اور مجھ سے پہلے انہوں نے شرکاء سے گفتگو کی، انہیں دیکھ کر مجھے تحریک آزادی کے نامور راہنما سبھاش چندر بوس یاد آگئے اور میں اسٹیج پر بیٹھا کچھ دیر تک ماضی کے مناظر میں کھویا رہا۔

ان گزارشات کے ساتھ اس سیمینار کے بارے میں آئی پی سی کی رپورٹ پیش خدمت ہے:

’’اسلام آباد، 12 فروری: پاکستان کی تعمیر و ترقی اور اس کے قومی اداروں کو استحکام دینے اور مضبوط بنانے میں جسٹس رانا بھگوان داس جیسے ملک کے کئی غیر مسلم فرزندوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف ان غیر مسلم ماہرین کی خدمات کو سراہا جائے بلکہ ملک کے نوجوانوں کی نظریاتی سوچ کی تعمیر کے لیے ان میں یہ آگہی بھی پیدا کی جائے کہ کس طرح ان ماہرین نے اقلیت میں سے ہونے کے باوجود ملک کی قانونی، عدالتی، آئینی اور سماجی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ اسلام آباد میں جسٹس رانا بھگوان داس کے یاد میں ہونے والی ایک تقریب کا خلاصہ تھا جس کا اہتمام اسلامی نظریاتی کونسل اور انسٹیٹوٹ آف پالیس اسٹڈیز کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا تھا۔ اس تقریب سے خظاب کرنے والوں میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، ایڈووکیٹ اکرم شیخ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایگزیگٹیو پریزیڈنٹ خالد رحمٰن، قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی، مولانا ابو عمار زاہدالراشدی، اسلام آباد ہندو پنچایت کے صدر مہیش کمار، اور جسٹس رانا بھگوان داس کے برادرِ نسبتی سبھاش چندرشامل تھے ، جبکہ سینیٹر راجہ ظفر الحق کا خصوصی پیغام بھی انسٹیٹیوٹ کے سینئیر تحقیق کار سید ندیم فرحت نے اس موقع پر پڑھ کر سنایا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ جسٹس بھگوان داس ایک محبِ وطن شہری تھے جو قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے اور اپنے تمام فیصلے بھی قوانین کی روشنی میں ہی کرتے تھے۔ انہوں نے اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی اور اسی بنا پر انہیں اسلامی فکر اور قانون پر عبور حاصل تھا۔ وہ ایک انتہائی اصول پسند انسان تھے اور انہوں نے اپنے کردار، رویے، غیر جانبداری، متوازن سوچ کی بنا پر اتنی عزّت اور اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جسٹس بھگوان داس اور ان کی طرح اقلیت سے تعلق رکھنے والے ملک کے دیگر فرزندوں مثلا جسٹس اے آر کانیلیس اور جسٹس دراب پٹیل وغیرہ کی خدمات کو یاد رکھیں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں کہ کیسے انہوں نے اپنی محنت او مستقل مزاجی سے یہ مرتبہ حاصل کیا۔ مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں اقلیتوں کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ملکی سطح پر غیر امتیازی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ اگرچہ کسی بھی ملک کی طرح یہاں بھی کچھ انتہا پسند طبقات موجود ہیں، لیکن حال میں ہی ہونے والے مختلف واقعات اور قانونی فیصلوں کی روشنی میں عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کے نظام اور معاشرے میں بھی اقلیتوں کو ان کا حق دینے کی گنجائش نظر آتی ہے۔ مقررین نے اس موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور اسلامی نظریاتی کونسل کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قومی ہیرو اور فرزندوں ، اور ان کی قومی خدمات کو یاد کرنے والی ایسی کوششوں کو جاری رہنا چاہیے۔‘‘


قومی اور مذہبی اظہاریوں کا خلط مبحث اور سماج کی تقسیم کاری

ڈاکٹر عرفان شہزاد

قومی ریاستوں کی تشکیل کے دور میں پاکستان ایک قومی مذہبی ریاست کی صورت میں منصہ شہود پر نمودار ہوا۔ قومی ریاستوں کی تشکیل میں جغرافیہ کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ جغرافیہ میں شامل مختلف رنگ و نسل کے لوگ نظریے اور عقیدے کے فرق کے علی الرغم قومی ریاستوں کا حصہ بنے۔ پاکستانی ریاست کی تشکیل بھی اسی اصول پر عمل میں آئی لیکن سیاسی عمل کے دوران میں مذہبیت یا اسلامیت کا عنصر بھی اس میں شامل ہو گیا جو قومی شناخت کی اظہاریوں میں غلبہ پاتا چلا گیا۔ مذہبیت کے اس عنصر نے اس نومولود ریاست کی اکثریتی مسلم کمیونٹی کے احساس میں اس کی ملکیت کا تصور پیدا کر دیا۔ یہ حقیقت لیکن نظر انداز کر دی گئی کہ یہ ریاست بادشاہتوں کے گزشتہ دور کی طرح کسی مسلم حکم ران نے فتح نہیں کی تھی کہ فاتح کا مذہب اس کا مذہب اور اس کا دیا ہوا نظام اس کا سرکاری نظام قرار پاتا۔ یہ ایک ایسی جمہوری سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا جس نے جغرافیہ کی بنیاد پر ایک قومی ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تشکیل میں یہاں کی تمام قومیتوں اور مذاھب کے پیروکاروں نے ووٹ ڈالا تھا جس میں اکثریتی ووٹ مسلم آبادی کا تھا۔ ریاست کے اس کثیر القومی تشخص کو بانی پاکستان نے 11 اگست 1947 کی اپنی سرکاری تقریر میں بالکل دو ٹوک انداز میں پیش بھی کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا:

’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘

لیکن اس ریاست کے قیام کے بعد قرون وسطی کے نمونے پر اسے مسلم قومی ریاست بنانے کا خیال یہاں کی مسلم اکثریت میں سرایت کر گیا۔ تحریک پاکستان کے دوران میں مسلم کارڈ کا استعمال اس دو شناختی قومیت کے لیے وجہِ جواز بنا۔ لیکن جغرافائی وحدت کے اساس پر حصولِ ریاست کا اصول اس ساری ہمہ ہمی میں نظر انداز ہو گیا۔ یوں دو شناختی قومیت کی حامل ریاستِ پاکستان وجود میں آئی۔ اس کی یہی آئینی حیثیت برقرار کرنے کے لیے پہلے قرار داد مقاصد اور بعد ازاں '73 کے آئین میں مسلمان کی تعریف اور دیگر اسلامی شقیں عمل میں لائی گئیں۔ چناں چہ مسلم اکثریت کو اس ملک کا حقیقی وارث باور کرا دیا گیا جس میں غیر مسلم اقلیت کو وہی حقوق ملے جنھیں مسلم اکثریت نے دینا منظورکیا۔ بلکہ مسلم بھی اسے ہی قرار دیا گیا جسے یہاں کی اکثریت نے مسلم تسلیم کیا۔ ریاست ایک مسجد کی طرح مسلم اکثریت کے زور پر ان کے مذہب کے نام پر رجسٹرڈ کرا لی گئی۔

قومی ریاستوں کے دور میں اسلام کے نام پر مذہبیت کی یہ پیوند کاری گھمبیر نتائج کی وجہ بنی۔ دین اسلام زندہ فرد سے مخاطب ہوتا ہے۔ یہ فرد اگر حاکم ہو تو اس سے بھی مخاطب کرتا ، اسے ہدایات اور ذمہ داریاں دیتا ہے، لیکن ریاست ایک غیر شخصی وجود تھا، دین کا مخاطب بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی مگر یہاں اسے بھی کلمہ پڑھوا کر مسلمان بنایا لیا گیا۔ اس کے لیے عقیدہ (نظریہ پاکستان) وضع کیا گیا جس کی تعریف پر پورا نہ اترنے والوں کو غیر مسلم اور اسے تسلیم نہ کرنے والوں کو غدار قرار دے دیا گیا۔ بلکہ اختلاف عقیدہ کی بنا پر ملک میں رہنے بسنے کے استحقاق پر ہی سوال اٹھا دیا گیا۔ صدیوں سے اس زمین پر آبائی حق سے رہنے والوں کے لیے نئے سرے سے استحقاق رہایش کی بحث پیدا ہو گئی۔ دین و ریاست کی ملکیت کا یہ تصور اس حد کو پہنچا کہ دینی شعائر پر مسلم ملکیت کا دعوی قائم ہوگیا ۔ مطالبہ کیا گیا کہ ان کی سند کے بغیر خارج از ملت فرقے انھیں اختیار نہیں کر سکتے۔

یہی معاملہ مقامی شناخت پر اصرار کرنے والوں سے بھی برتا گیا۔ ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی مقامی شناخت کو قومی شناخت کے تابع کر دیں اور ریاست کے وسیع تر مفاد میں اپنے انفرادی اور مقامی اور علاقائی قومی مفادات سے دست بردار ہو جائیں۔ ایسا نہ کرنے پر ریاست نے ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا۔ ریاست کا یہ قومی مذہبی نظریہ یا عقیدہ اس قدر اہم گردانا گیا کہ ریاست نے اس کے تحفظ کو سرکاری کار منصب قرار دے دیا۔ عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس ریاستی بیانیے کو تسلیم کرلیا ۔ جنھوں نے اس سے اختلا ف کیا ان کی وطنیت کو بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے انھیں غدار اور منافق مشتہر کیا گیا۔ ان سے جلا وطن ہو جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ یوں زمین کے ساتھ فرد کے رشتے کی فطری اور دیرینہ وابستگی نظر انداز ہو گئی اور ریاست کے نظریے سے وابستگی اس ملک میں رہنے کے لیے واحد معیار قرار پائی۔

مقامی شناختوں کو دبانے اور غیر نمایاں کرنے کے لیے مقتدرہ نے مقامی بولیوں اور ثقافتی مظاہر اپنانے سے گریز کیا۔ مقامی شناختوں کو تحقیر اور اجنبیت کی نظر سے دیکھا گیا۔ تعلیم اور سرکاری دفتری زبان اردو اور انگریزی قرار دی گئی۔ کسی دوسری زبان کا استعمال ممنوع اور حقیر بنا دیا گیا۔ اس خطے کی تاریخ کے غیر مسلم مشاہیر کے تذکروں کو نصاب اور تاریخ سے محو کر دیا گیا۔ بلکہ مشترکہ تاریخ سے رشتہ ہی توڑ دیا گیا۔ تاریخ کی تشکیل نو کی گئی۔ تاریخ کےٹکڑے منتخب کر کے ماضی میں بھی موجودہ قومی مذہبی ریاستی بیانیے کو ثابت کر کے دکھایا گیا۔ اس سارے عمل نے نوجوان مسلم اذہان کو مصنوعی شناخت کے حوالے سے ریڈکلائز کر دیا۔

اس مصنوعی بنانیے نے ملک کے باسیوں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ریاست کے قومی مذہبی ملی شناخت پر اصرار سے قومی سطح پر فرقہ واریت پیدا ہو رہی ہے۔ افراد کو ریاستی بیانیے پر مکمل ایمان لانے اور مکمل ایمان نہ لانے کی بنیاد پر محب وطن، منافق اور غدار کے زمرہ جات میں تقسیم کیا جا رہا ہے اور یہ تقسیم روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سماج میں ایک طرف مذہبی انتہا پسندی ہے جو اپنے فتوی کی قوت سےفرد کو باوجود اس کے اپنے دین اور ایمان پر اصرار کے اس سے اس کی مذہبی شناخت چھین لینا چاہتی ہے تو دوسری طرف ریاستی انتہا پسندی ہے جو ریاستی قوت کے زور پر ایسے تمام عناصر کو ریاست کا باغی قرار دے کر انھیں عاق کر رہی ہے جو فرد کے مفاد پر ریاست کے غیر محدود مفادات پر نقطہ اعتراض پیش کرتے، ریاست کی فرد کے خلاف زیادتیوں پر توجہ دلاتے، اپنی قومی شناختوں پر اصرار کرتے اور تاریخ کی مصنوعی تشکیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ فرد اور اس کے حقوق کی بحث پس منظر میں چلی گئی ہے۔ فرد کی ریاست سے شکایت کی داد رسی سے پہلے یہ بحث جاری کر دی جاتی ہے کہ فریاد کناں غدار اور منافق ہے۔ اس صورت حال میں ریاست اور اس سے معاشی مفاد پانے والے ایک گروہ اور اس سے محروم دوسرا گروہ بن گئے ہیں۔ یوں ملک کے اندر ایک خلیج پیدا ہوتی جا رہی ہے جو اگر یوں ہی جاری رہی تو باہمی نفرت اور خانہ جنگی کی آگ کو ہوا دے گی۔ یہ صورت حال سقوطِ ڈھاکہ جیسے مزید کسی سانحہ پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔

شناخت کے بحران کی جڑیں ماضی میں پیوست ہیں

قومی مذہبی شناخت سے پیدا ہونے والے اس بحران کی جڑیں متحدہ ہندوستان کے ماضی میں پیوست ہیں۔ ان کا درست تجزیہ ضروری ہے۔ مسلمان جب ہندوستان میں وارد ہوئے تو یہاں کی مقامی آبادی نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ علما و فقاا نے ہندو دھرم کے مذہبی رسوم و رواج سے مسلم کمیونٹی کو بچنے کی تلقین کی۔ لیکن اس تلقین میں وہ مذہب و ثقافت کے فرق کو مسلسل دھندلاتےچلے گئے۔ ثقافتی ہم آہنگی سے مذہبی ہم آہنگی کے راستے کو بند کرنے کے لیے وہ مذہب کے ثقافتی امتیازات وضع کرتے چلے گئے۔ یوں دو قومی نظریہ کے خدوخال نمایاں ہونے لگے۔ دین دعوت کی بجائے ایک پارٹی بنانے کا تاثر دینے لگا۔ اس کے لیے نو مسلموں کے "اسلامی نام' رکھنے کی اختراع وضع کی گئی۔ ہندوستانی ثقافتی مظاہر میں سے ہی کچھ کو چن کر اور کچھ ردوبدل کر کے انھیں مسلمانوں کے حلیے اور امتیازی اسلامی ثقافتی علامتوں کے طور پر جاری کر دیا گیا۔

عہد سلاطین میں محمد تغلق اور التمش جیسے متشرع سلاطین کے پاس اس وقت کے فقہا تشریف لائے تھے اور انھیں ہندوؤں کو مشرک قرار دے ان کو گردن اڑانے کے قرآنی حکم پر عمل کی تلقین کی۔ ان سلاطین نے عملی مجبوریوں کے بہانےان مطالبات کو نظر انداز کیا۔ اس پر فقہا کی طرف سے نصیحت کی گئی کہ ہندوؤں کو ذلیل کر کے رکھا جائے اور امور سلطنت میں ان کو شامل نہ کیا جائے۔ ادھر ہندوستان کے مسلم مورخین نے وسط ایشیا سے آنے والے مسلم حملہ آوروں کو محض اشتراک مذہب کی بنیاد غازی اور مجاہد بنا کر پیش کیا۔ یہ مسلم سلاطین اپنی سلطنت کی توسیع اور ترقی کا ذاتی ایجنڈا رکھتے تھے۔ اپنے مقابل مسلم بادشاہوں سے بھی وہ ایسے ہی برسر پیکار ہو جاتے جیسے غیر مسلم راجاؤں کے خلاف۔ لیکن مسلم مورخین ان کی اپنے معاصر مسلم حکم رانوں سے جنگ کو تو جنگ لکھتے لیکن یہی جب ہندو راجاؤں سے جنگ کرتے تو اسے جہاد قرار دیتے اور جنگ جوؤں کا لشکر، اسلامی لشکر قرار پاتا تھا۔ تاہم سماجی سطح پر مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان سماجی تعامل جاری رہا اور تعلیم یافتگان اور اہل مذہب کی پیدا کردہ تفریقات کو انھوں نے عملی ضرورتوں اور ایک جیسے حالات و وسائل میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے اہمیت نہیں دی۔

مقامی قومیت کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر علیحدہ سیاسی شناخت کا یہ احساس عوام سے زیادہ اہل علم میں موجود رہا۔ عوام میں ایسے بیانیوں کو عموما عملی سطح پر پذیرائی نہ ملی۔ جب قومیت کا تصور مغرب سے درآمد ہوا تو یہاں کے تعلیم یافتہ متوسط طبقے نے ہی اسے سب سے پہلے اپنایا۔ راشٹریہ سیوک سنگ کے تعلیم یافتہ متوسط ہندؤوں نے ہندو قومیت اور آل انڈیا مسلم لیگ کے تعلیم یافتہ مسلم متوسط طبقے نے مسلم قومیت کو فروغ دیا۔ برطانوی راج کی طرف سے ہندوستان میں جداگانہ انتخابات کا انعقاد ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے معاون ثابت ہوا۔ جمہوریت نے چوں کہ حصول اقتدار کے لیے طاقت کا منبع عوام کو منتقل کر دیا تھا اس لیے عوام کو اس فرقہ وارانہ ایجنڈے پر قائل کرنے کی سیاست کا آغاز ہوا۔ وہ عوام جو اپنے معاشی مسائل، سماجی تعامل اور معاشرتی روابط کی بنا مذہبیت کے نام پر تقسیم جیسے بیانیوں کو قومی سطح پر کبھی پذیرائی نہ دے سکے اس سیاست بازی کی راہ سے اس کا شکار ہوگئے۔ راشڑیہ سیوک سنگھ کو تو کانگریس کے متحدہ قومیت کے نعرے کے سامنے خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی، تاہم آل انڈیا مسلم لیگ اپنی الگ مسلم شناخت کو بہرحال کامیابی سے برتنے میں کامیاب ہو گئی۔ اور یوں ایک ثقافت اور ایک تاریخ کی حامل دو مختلف مذہبی شناختیں رکھنے والی دو قوموں، ہندو اور مسلم کو مشترکہ جغرافیہ کے باوجود ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ جو مسلم بھارت سے الگ نہ ہوئے، وہ بھی بہرحال مسلم شناخت کی سیاسی تقسیم کا شکار ہوئے۔

مسلم لیگ کی کامیابی نے وطن کی بنیاد پر متحدہ قومیت کو شکست دی جس سے ہندو قومیت کے احساس کو انگیخت ملی۔ یہ تاثر ہندوستان میں آنے والی دہائیوں میں بڑھتا چلا گیا۔ اس احساس نے بھارتی سماج میں بھی ہندو مسلم تقسیم کو مزید گہرا کیا۔ بھارتی مسلمانوں کا اپنے مذہبی ثقافتی اظہاریوں پر مستقل اصرار اجنبیت کو گہرا کرتا چلا گیا۔ بھارت کے مسلمانوں کا انیس کو چھیالسی کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو ووٹ دینا بھی انھیں ہندوستان میں اجنبی بنا گیا۔ پاکستان کے درمیان جنگوں نے اس احساس کو مزید ابھارا ۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو قومیت اور ہندوتوا پر اصرار کرنے والی جماعت، آر ایس ایس، جسے تقسیم ہند کے دوران بھی موثر پذیرائی نہ مل پائی تھی آج اسی کے ایجنڈے کی حامی جماعت بی جے پی دوسری بار انتخابات جیت کر ہندوستان پر حاکم ہے۔

مسئلے کا حل

سیاسی جھگڑوں کے جھمیلے میں اسلام کا بیانیہ بے صدا رہ گیا۔ ہم اس کو یہاں نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

مذہب و ثقافت کے جھگڑے میں دین اسلام کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ فرد کی ثقافتی مظاہر کو موضوع نہیں بناتا، سوائے یہ کہ ان مظاہر میں شرک، فحاشی، ظلم یا عدوان جیسی کسی بد اخلاقی کا پہلو پایا جائے۔ ایک آفاقی پیغام رکھنے والے دین کو کسی مقامی ثقافت سے منسلک کرنا محض غلط ہے۔ اسلام فرد کے عقیدے اور اخلاق کو موضوع بناتا اور ان کی اصلاح کرتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ اسلام قبول کرنے والوں کے نام تبدیل نہیں فرمایا کرتے تھے سوائے یہ کہ نام میں کوئی شرک یا کسی اور برائی کا کوئی پہلو پایا جاتا تو تبدیل فرماتے۔ اسی طرح آپ نے پہلی مسلم کمیونٹی کے ظاہری حلیے میں کبھی کوئی ایسی امتیازی علامات قائم نہیں کیں جس سے عرب کے مشرک، یہودی اور مسلمان کے درمیان کوئی شناخت ممکن ہو سکتی۔ در حالاں کہ ایک لحاظ سے یہ ضروری بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسی علامات قائم کی جاتیں تاکہ دوست دشمن میں پہچان ہو سکے۔ یہی وجہ تھی کہ بعض صحابہ کے ہاتھوں سے دوران جنگ ایسے افراد بھی مارے گئے جن کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کو کہنا پڑا جو تمھیں سلام کر دے اسے مت کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو۔ سلام کے علاوہ کسی بستی سےآذان کی آواز آنا، کلمہ شہادت، نماز اور زکوۃ ادا کرنا کسی فرد یا قبیلے کے مسلمان ہونے کی علامت قرار پایا تھا۔ لیکن کہیں یہ نہیں ملتا کہ مسلمانوں کی ظاہری شناخت کے لیے ان کے حلیے اور لباس میں کوئی امتیاز برتا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی نامعلوم لاش ملتی تو یہ معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ مسلم تھا مشرک۔ مشرکین عرب اور یہودمختون بھی ہوتے تھے۔ چناں چہ حلیہ اور لباس میں کوئی علامت موجود نہ تھی جس سے مذہب کی شناخت ممکن ہو سکے۔

اسی فہم دین کے ساتھ صحابہ نے جب بیرون عرب فتوحات کیں تو لوگوں کے نام تبدیل کروائے نہ ثقافتی مظاہر میں کوئی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ اس بارے میں مسلم ہیت مقتدرہ کی بے تعصبی کا یہ عالم تھا کہ خالص مذہبی رسوم و رواج مثلا صلوۃ اور صوم کے مقامی زبان کے متبادلات یعنی نماز اور روزہ کو اختیار کرنے دیا گیا۔ دور جدید میں ان کے انگریزی متبادلات Prayer اور Fast کے اپنا لینے پر بھی کوئی قابل ذکر اعتراض نہیں کیا گیا۔ عہد صحابہ میں مساجد کے لیے مینار بنانے کا خیال شام کے گرجا گھروں سے لیا گیا تھا، بلکہ مسجد کا منبر جسے منبر رسول کہا جاتا ہے، اس کی تعمیر کا خیال ایک صحابی نے پیش کیا تھا جنھوں نے شام کے گرجا گھروں میں پادریوں کو اس کا استعمال کرتے دیکھا تھا۔عربی ناموں کے ساتھ فارسی اور ترک نام جیسے شہریار، پرویز، چنگیز خان وغیرہ مسلمانوں میں عام رہے۔ برصغیر میں آکر یہ رواداری البتہ برقرار نہ رہی۔ شروع میں ہندی ناموں کو بھی گوارا کیا گیا لیکن جلد ہی یہاں عربی اور فارسی اور ترک ناموں کو اسلامی نام سمجھ کر رکھا جانے لگا۔

مذہب سے ثقافت کو تبدیل نہ کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا تھا کہ لوگ تبدیلی مذہب کے باوجود اپنے سماج سے نہیں کٹتے تھے۔ وہ مندر کی بجائے مسجد جانے لگتے تھے مگر بولی وہی بولتے تھے جو ان کے لوگ بولتے تھے، لباس وہی پہنتے تھے جو ان کے لوگ پہنتے تھے، نام ان کے وہی رہتے تھے جو ان کا پیدایشی ہوتا تھا جس کے ساتھ ان کی ثقافتی اور نفسیاتی وابستگی ہوتی تھی۔ یوں تبدیلی مذہب کے باجود دو مختلف مذہبی گروہوں میں اجنبیت پیدا نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کرنے کے باوجود وطن کی حفاظت میں ہندو راجپوتوں کے ساتھ مل کر وسط ایشائی مسلم حملہ آوروں کے خلاف لڑا کرتے تھے۔ لیکن جب ثقافتی امتیازات برتے جانے لگے، نماز کو پوجا کہنے نہ دیا گیا، روزہ کو بھرت کہنے پر آمادہ نہ ہو پائے، جب آکاش اور پرکاش کو محمد یوسف اور عبد اللہ نام اختیار کرنا پڑے، بلکہ اس کے آگے بڑھ کر ان کے لیے مخصوص لباس اور حلیہ اختیار کرنے کی شرائط بھی عائد کر دی گئیں، تو لوگوں میں باہمی طور پر اجنبیت اور پھر نفرت پھیلی۔ انیسیوں صدی عیسوی میں قومیت کا تصور برصغیر میں نو آبادیاتی دور میں متعارف ہوا۔ جس سے پہلے وطنی قومیت اور بعد ازاں وطنی مذہبی قومیت نے وجود پایا۔ سماجی اور ثقافتی سطح پر شناختی امتیازات کو نمایاں کیا جانے لگا۔

"اسلامی ثقافت"کے نام پر ہونے والی امتیازی کارروائیوں نے درحقیقت ایک سماج کے لوگوں کو علیحدہ کیا، جس نے آگے بڑھ کر سیاست کی سطح پر گروہ بندی اختیار کر لی گئی۔ برصغیر میں ثقافتی تفریق کا عمل اس وقت زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیا جب 1905 میں بنگال کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ وہ ہندو مسلم تقسیم دکھائی دی۔ 1909 میں اس کی اساس پر جداگانہ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ اقتدار کی رقابت، سیاسی گروہ بندی کا لازمہ ہے۔ سیاسی رقابت کی منافرت نے مذہبی منافرت کا عنوان اختیار کر لیا۔ الزام پھر مذہب پر آیا کہ مذاہب انسانوں کو لڑاتے ہیں۔ سیاسی رقابت بنام مذہب سے پھر وہ نفرت پیدا ہوئی جس کا المناک نتیجہ تقسیمِ ہند اور اس دوران ہونے والے خون خرابے میں سامنے آیا، اور جس کے اثرات پون صدی ہونے کو آئے ،اب بھی جاری ہیں۔

ہندو اور مسلمانوں کی مذہبی ثقافتی حساسیت کے رد عمل میں یہاں کے مسیحیوں بھی یہی راہ اپنائی۔ وہ بھی الگ مذہبی قومیت کے تصور سے متاثر ہو کر اپنے مقامی ثقافتی ناموں، جیسے اقبال، اختر، مبارک، شہریار کو چھوڑ کر ڈیوڈ، مائیکل،  سائمن رکھنے لگے۔ یہ رجحان پر شہری علاقوں کے تعلیم یافتہ مسیحیوں میں زیادہ نمایاں ہے۔ دیہی علاقے کے مسیحی اب بھی زیادہ تر مقامی زبانوں کے نام ہی رکھتے ہیں، یہی نام مسلم بھی رکھتے ہیں۔ مسیحی افراد شناختی امتیاز قائم کرنے کے لیے گلے میں اور گھروں پر صلیب لٹکانے لگے۔ شناختی امتیازات قائم رکھنے کی یہ لَے اس قدر بڑھی کہ مسلم اور مسیحیوں کے درمیان "مریم" جیسے مشترکہ نام کو اردو میں ممکن نہ ہو سکا تو انگریزی کے ہجوں میں مختلف کر دیا گیا۔ مسلم اسے Maryam لکھتے ہیں اور مسیحی Marriam اور تلفظ بھی عام تلفظ سے مختلف کرتے ہیں۔

اہل تشیع اس سب سے بہت پہلے سے اپنی امتیازی شناختی علامتوں کے بارے میں حساس رہے ہیں جس سے وہ نہ صرف الگ پہچانے جاتے ہیں بلکہ اسی بنا پر ان سے الگ سے امتیازی سلوک بھی روا رکھنا بھی دوسروں کے لیے ممکن ہو جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے ریاست یہ باور کرے کہ قومی ریاستوں کے دور میں مذہبی ریاست کا تصور ایک بے جوڑ اضافہ ہے۔ یہ ملک یہاں بسنے والی تمام قوموں نے مل کر بنایا تھا۔ اکثریت کو محض عددی برتری کے زعم میں اس کو اپنے نام کے ساتھ رجسٹر کرانے کا حق نہیں ہے۔ سیاسی نمائندگان کا چناؤ سماج کا آزادانہ فیصلہ ہوتا ہے۔ مسلم اکثریت کے ملک میں کسی غیر مسلم کا ملک کی سربراہی کے لیے چنے جانا ویسے بھی حد امکان میں نہیں تو اس معاملے میں بلاوجہ قانون سازی کرکے غیر مسلموں کو دوسرے درجے کے شہری ہونے کا تاثر دینا عبث ہے۔ مسلمان حکومت میں ہوں گے تو دین کے مسلم اجتماعیت سے متعلق احکام پر عمل کرنا ان کا فرض منصبی سمجھا جائے گا۔

سماجی سطح پر یہ بات مسلم کمیونیٹی کو سمجھانے کی ہے کہ مذہب، ثقافت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ پرویز، ڈیوڈ اور آکاش جیسے نام ایسے ہی قابل قبول ہے جیسے محمد یوسف، عبد اللہ ور عبد الرحمان؛ صلوۃ کے لیے ورشپ اور پوجا کا لفظ بھی ایسے ہی درست ہے جیسے نماز؛ کرتا پائے جامہ اور پینٹ شرٹ بھی ایسے ہی درست لباس ہیں جیسے عربی چغہ؛ ثقافتی اور موسمی تہوار بھی اسلامی اور غیر اسلامی نہیں ہوتے۔ دین میں ان چیزوں کو موضوع نہیں بنایا گیا۔ دین کا موضوع فرد کے عقائد اور اخلاق کی اصلاح ہے۔ کسی مذہب کو اختیار کرنا کسی سیاسی پارٹی کو اختیار کرنے کی طرح نہیں ہے جس میں الگ بیج اور جھنڈے لگا کر اپنا امتیاز ظاہرکرنا ضروری ہو۔ مسلمان کی پہچان، سلام، نماز اور زکوۃ کی ادائیگی بتائی گئی ہے نہ کہ کوئی مخصوص حلیہ۔ ثقافتی امتیازات اختیار کرنےکا تصور تب پیدا ہوا جب اہل مذہب نے خود کو سیاسی اور سماجی گروہوں میں سے ایک گروہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ضروری ہے کہ مذہب و ثقافت کے درمیان حد فاصل کا شعور اجاگر کیا جائے اور لوگوں میں منافرت کی خود ساختہ بنیادوں کو ختم کیا جائے۔

ریاست کے تصورمیں اصلاح کی ضرورت

ریاست کا یہ تصور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مقدس ہے جس پر تنقید سے اس کی توہین ہو جاتی ہے۔ اور یہ کہ وہ فرد اور اس کے حقوق سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ریاست بادشاہت کی جگہ آئی اور اسی وجہ سے اسے بادشاہت والی اختیار اور تقدس دے دیا گیا۔ اسی بنا پر اس سے غیر مشروط وفاداری کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بنیادی حقیقت جانے کیسے نظر انداز ہو گئی کہ بادشاہتوں کی یہ مطلق العنانی اور غیر مشروط وفاداری جیسی برائیاں تھیں جن کو ختم کرنے کے لیے انسانیت نے جمہوریت کی طرف قدم اٹھایا۔ جمہوریت سے پیدا ہونے والی حریت فکر کو لیکن حکومت اور حکومتی نمائندوں تک محدود کر دیا گیا اور ریاست کے ساتھ وہی قدیم وابستگیاں برقرار رکھی گئیں جو بادشاہت کے دور کی خصوصیت تھی۔ انسانیت کو اب ایک قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ وہ تسلیم کرے کہ مقدس اگر ہے تو وہ فرد کا جان، مال اور آبرو ہے۔ ریاست کا وجود فرد کا مرہون منت ہے۔ ریاست اس کے ٹیکس کی محتاج ہے۔ ریاست ایک مینجر ہے، ایک انتظامی بندوبست ہے جس کو فرد کی فلاح و بہبود کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ وہ اپنا وجود اسی افادیت کے ثبوت پر برقرار رکھنے کا جواز رکھتی ہے۔ اس انتظامی بندوبست میں فرد کی فلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے بشمول جغرافیہ دیگر تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ خود قومی ریاستوں کو ان سے قبل کی ریاستوں کی سرحدوں میں ردو بدل کر کے وجود دیا گیا ہے، اس بارے میں جمہور افراد کی رائے فیصلہ کن ہونی چاہیے۔ ریاست ایک ڈھانچہ ہے۔ حکومت اس میں قانون کا نفاذ کرتی ہے جس کی اطاعت کی جائے گی۔ فرد ریاست کا خیر خواہ ہونا چاہیے، لیکن اس کے لیے وفاداری کا تصور پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔ وفاداری کا تصور ہی ریاست کو فرد کے استحصال کا لائسنس دیتا۔ ریاست کے ساتھ وفاداری کا تصور بادشاہت کے دور کی یادگار ہے۔ اسے اب جلد ختم ہو جانا چاہیے۔ فرد کی سلامتی، ریاست کی سالمیت پر مقدم ہے۔انسانی جان کو تقدس خدا نے دیا ہے، ایک شخص کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل خدا نے قرار دیا ہے۔ ریاست کا تقدس بیسویں صدی کے آذروں کا تراشا ہوا بت ہے جس پر انسان کو قربان کرنے کا خود ساختہ عقیدہ انسان نے ایجاد کیا ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

ریاست کی سرحدوں کے ابدی نہ ہونا اور ریاست کے ساتھ غیر مشروط وفاداری کی نفی ریاست کو قانون کے دائرے میں لانے اور اپنی ہیئت اور جغرافیہ کو برقرار رکھنے کی خاطر سماجی انصاف کے قیام کو یقینی بنانے کی راہ اختیار کرائے گی۔ جبر وہ قوت نہیں جو ایک ریاست میں بسنے والے مختلف قومی شناختوں اور مفادات رکھنے والے گروہوں کو جوڑ کر رکھ سکے۔ ایسے کسی بھی جبر کا نتیجہ ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ محض سماجی انصاف کا حقیقی قیام ہے جو انھیں مل کر رہنے کا محرک بنتا ہے۔ اپنے حقوق اور مفادات کی منصفانہ یقین دہانی ہی وہ اصل قوت ہے کہ عوام کی عقل عام اور عملیت پسندی کسی قوم پرستی کی آواز پر بھی کان نہیں دھر سکتی۔

وفاقی اکائیوں کو آئین میں یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اگر اپنی اکثریت کی مرضی سے ایک وفاق میں شامل ہوئیں تھیں تو اکثریت کی راے کی بنا پر اس سے علیحدہ ہونا چاہیں تو ہو سکیں۔ اس کے لیے ریفرنڈم جیسا پر امن طریقے اختیار کیا جا سکتاہے۔ کسی اکائی کے وفاق سے علیحدہ ہونے کا اندیشہ وہ قوی محرک ثابت ہو سکتا ہے جو ریاست کو یاوفاق کو جبریہ ہتھکنڈوں سے اس اکائی کو خود سے جوڑے رکھنے کی بجائے اس کی خوش نودی سے اسے وفاق ملحق رکھنے کی راہ ہم وار کر سکتی ہے۔

ہمیں اپنے ریاستی اور قومی بیانیوں کی کی تشکیل نو کی ضرورت ہے جس کے لیے سماجی علوم کے ماہرین کی خدمات کو بروئے کار لانا چاہیے۔

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۴)

محمد عمار خان ناصر

جاوید احمد غامدی کا نقطۂ  نظر

شاہ ولی اللہ پر قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے اصول فقہ کی کلاسیکی بحث ایک طرح سے اپنے منتہا کو پہنچ جاتی ہے اور ان کے بعد کلاسیکی تناظر میں اس بحث میں کوئی خاص اضافہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری میں سنت کی تشریعی حیثیت اور قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث ایک نئے فکری تناظر میں ازسرنو اہل علم کے غور وخوض اور مباحثہ ومناقشہ کا موضوع بنی ہے۔ اس نئے فکری تناظر کی تشکیل میں جدید سائنس اور جدید تاریخی  وسماجی علوم کے پیدا کردہ سوالات نیز ذخیرۂ حدیث کے تاریخی استناد کے حوالے سے مستشرقین کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کا کردار بنیادی ہے۔ جیسا کہ ہم نے تفصیلاً دیکھا، کلاسیکی تناظر میں بنیادی نکتۂ نزاع سنت کی تشریعی حیثیت کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا نہیں تھا، بلکہ احادیث کے ثبوت کے، قرآن کے مقابلے میں، ظنی ہونے کے پہلو سے بعض ایسی احادیث زیر بحث تھیں جو قرآن کے ظاہری عموم سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اس کے برخلاف، دور جدید میں بعض فکری حلقوں کی طرف سے جو بنیادی سوال اٹھایا گیا، وہ فی نفسہٖ سنت کی تشریعی حیثیت سے متعلق ہے، جب کہ احادیث کے ظنی الثبوت ہونے اور ذخیرۂ حدیث کے تاریخی استناد کے علاوہ احادیث میں، ظاہر قرآن میں تخصیص وزیادت کی مثالوں کو سنت کی تشریعی حیثیت کی نفی کے معاون اور موید دلائل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران میں عالم اسلام کے طول وعرض میں یہ بحث اہم ترین اعتقادی واصولی سوال کے طور پر اہل علم کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے اور بلا مبالغہ سیکڑوں اہل علم نے ان سوالات کو اپنے اپنے انداز میں موضوع بحث بنایا ہے۔ تاہم اس بحث میں ہمارے پیش نظر اس خاص علمی رجحان کا ایک جائزہ پیش کرنا ہے جس کی اصولی ابتدا برصغیر کے جلیل القدر عالم اور مفسر مولانا حمید الدین فراہی کے ہاں ہوئی اور جو کئی اہم اضافوں کے ساتھ اپنی تفصیلی شکل میں جاوید احمد غامدی صاحب کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے۔

مولانا حمید الدین فراہی کے ہاں ان مباحث پر غور وفکر کا آغاز قرآن مجید کی تفسیر کے اصول وقواعد کی تعیین کے حوالے سے ہوا تھا جس نے جدید سائنس کے پیدا کردہ سوالات کے تناظر میں ایک خاص اہمیت اختیار کر لی تھی۔ سرسید احمد خان نے قرآن مجید کی ان آیات کی تفسیر کے ضمن میں جن میں مختلف انبیا کے معجزات کا ذکر ہوا ہے، یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ جدید سائنس نے قوانین فطرت کے مطالعے کی روشنی میں قطعی طور پر یہ دریافت کر لیا ہے کہ ان قوانین میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور خود قرآن مجید بھی ’سنت اللہ‘ کے تبدیل نہ ہونے کی بات بیان کرتا ہے، اس لیے خرق عادت کا رونما ہونا ناممکن ہے۔ اس بحث میں سرسید نے ایک مستقل تفسیری اصول کے طور پر یہ نکتہ پیش کیا کہ چونکہ اللہ کا کلام، (یعنی قرآن) اور اللہ کا فعل، (یعنی قوانین فطرت) باہم متعارض نہیں ہو سکتے، اس لیے معجزات سے متعلق آیات کی جو تفسیرعلماے سلف نے عموماً کی ہے، وہ درست نہیں ہو سکتی اور ان  کا ایسا مفہوم مراد لینا ضروری ہے جو سائنس کی فراہم کردہ نئی معلومات اور قوانین فطرت کے مشاہدے سے ہم آہنگ ہو۔

آیات کے ظاہری مفہوم میں تاویل کی بحث کلاسیکی اسلامی روایت میں بھی مختلف حوالوں سے موجود تھی اور خاص طور پر معتزلی واشعری متکلمین یہ اصولی موقف رکھتے تھے کہ آیت کا ظاہری مفہوم یقینی عقلی دلائل کے معارض ہو تو آیت کی تاویل ضروری ہے۔ فقہی مضمون رکھنے والی آیات کے حوالے سے اسی نوعیت کا موقف، نسبتاً مختلف تناظر میں، امام شافعی نے پیش کیا اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اگر حدیث میں کسی حکم کی تشریح اس طرح کی گئی ہو جو آیت کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہو تو آیت کو اسی مفہوم پر محمول کرنا ضروری ہے جو حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ قرآنی آیات کی ظاہری دلالت کے حوالے سے مفسرین کا عمومی رجحان بھی یہی ہے کہ ان میں ایسی قطعیت نہیں پائی جاتی جس سے کسی ایک ہی مفہوم کا حتمی طور پر مراد ہونا طے کیا جا سکے، چنانچہ تفسیری ذخیرے میں بیش تر آیات کی ایک سے زیادہ قریب یا بعید تاویلیں ذکر کرنے کا اسلوب عام ہے اور اس کے لیے الفاظ کے مختلف ممکنہ مفاہیم کے علاوہ تفسیری روایات وآثار سے بھی استشہاد کیا جاتا ہے۔

اس پس منظر میں مولانا فراہی نے قرآن مجید کے الفاظ واسالیب کی دلالت اور مختلف احتمالات میں سے کسی احتمال کی تعیین کے سوال سے بطور خاص اعتنا کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ قرآن کے الفاظ اور تعبیرات قطعی الدلالۃ ہیں جو ایک ہی متعین مراد کی نشان دہی کرتے ہیں اور یہ کہ فہم مدعا کے اس عمل میں قرآن کے اپنے الفاظ، اسالیب،  سیاق وسباق، عرف اور نظم کلام فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ اس بنیادی موقف کی روشنی میں مولانا فراہی نے تاویل وتفسیر کے تمام معاون ذرائع، مثلاً احادیث وآثار اور تاریخی روایات پر قرآن کے اپنے الفاظ کی حاکمیت کو ہر حال میں قائم رکھنے کے اصول پر اصرار کیا اور یہ قرار دیا کہ تفسیر وحدیث کے ذخیرے میں موجود ایسی روایات جو قرآن مجید کی آیات کے مطالب یا ان کے پس منظر پر مختلف حوالوں سے روشنی ڈالتی ہیں، وہ تفسیر کے ماخذ کے طور پر بنیادی نہیں، بلکہ ثانوی درجہ رکھتی ہیں اور انھیں قبول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خود قرآن کے داخلی نظام اور متن کی اندرونی دلالتوں کی حاکمیت ان پر قائم رکھی جائے۔ مولانا نے اپنے فہم کے مطابق اس معیار پر پورا نہ اترنے والی متعدد تفسیری روایات کو جو اس سے پہلے عام طور پر مستند سمجھی جاتی تھیں، قبول کرنے سے انکار کیا اور ان پر تنقید کی۔

مولانا فراہی کے غور وفکر اور تحقیقات کا موضوع زیادہ تر تفسیر کے عمومی مباحث رہے اور اپنے نتائج فکر کو اصول فقہ کے مباحث سے مربوط کرنے کا انھیں زیادہ موقع میسر نہیں آیا، تاہم اپنی ناتمام تصنیف ’’احکام الاصول باحکام الرسول‘‘ میں انھوں نے حدیث اور قرآن کے باہمی تعلق کے مختلف پہلوؤں پر اپنے اصولی نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے اور احادیث کے ذریعے سے قرآن میں نسخ یا تخصیص کے نظریے کی تردید کرتے ہوئے ایسے تمام احکام کو قرآن مجید پر مبنی اور ان سے ماخوذ قرار دیا ہے جو بظاہر قرآن کے حکم میں تبدیلی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی ضمن میں مولانا نے ان احادیث کی بھی توجیہ کی ہے جن میں شادی شدہ زانی کو سنگ سار کرنے کی بات بیان کی گئی ہے۔ مولانا اس سزا کا ماخذ قرآن مجید میں سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ کو قرار دیتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ مولانا کی راے میں’رجم‘ بھی تقتیل، یعنی عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے ہی کی ایک صورت ہے۔ مولانا فراہی کی مذکورہ راے کو ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’ تدبر قرآن‘‘ میں زیا دہ وضاحت کے ساتھ موضوع بحث بنایا اور یہ موقف پیش کیا کہ زانی کو سنگ سار کرنے کی بنیاد اس کا شادی شدہ ہونا نہیں، بلکہ ’مفسد فی الارض‘ ہونا ہے اور کسی بھی مجرم کو، چاہے وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ، اس کی آوارہ منشی اور اوباشی یا جرم میں کسی بھی نوعیت کی سنگینی شامل ہونے کی وجہ سے سنگ سار کیا جا سکتا ہے اور احادیث میں رجم کے جن واقعات کا ذکر ہوا ہے، ان کی نوعیت یہی تھی۔

مولانا کے اس موقف پرفطری طور پر علمی حلقوں میں ایک بحث پیدا ہو گئی اور طرفین سے مباحثہ واستدلال کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں درجنوں کتابوں اور علمی مقالات میں فریقین کی طرف سے اپنے اپنے موقف اور استدلال کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں جناب جاوید احمد غامدی نے، رجم کی سزا کے تناظر میں، مکتب فراہی کے اہل علم کے موقف کی توضیح کرتے ہوئے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث کو ایک بنیادی اور اصولی سوال کے طور پر موضوع بنایا اور تبیین، تخصیص اور نسخ کے باہمی فرق کی وضاحت کے علاوہ سنت کے ذریعے سے قرآن کے حکم میں نسخ یا تغییر کے موقف پر  اپنی تفصیلی تنقید پیش کی۔ ’’رجم کی سزا‘‘ کے زیر عنوان ان کا یہ مقالہ جو ۱۹۹۳ء میں لکھا گیا، اب ان کی کتاب ’’برہان‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں غامدی صاحب نے قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے جو موقف پیش کیا ہے، اس کے بنیادی نکات دو ہیں:

پہلا یہ کہ جن معاملات میں قرآن خاموش ہو، ان میں تو سنت شریعت کے ایک مستقل بالذات ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن کوئی مسئلہ قرآن میں زیر بحث آنے کی صورت میں سنت کا دائرہ صرف اس کی تبیین تک محدود ہے۔  وہ قرآن کے کسی حکم کو نہ منسوخ کر سکتی ہے اور نہ اس میں کسی نوعیت کا کوئی تغیر وتبدل کر سکتی ہے (برہان ۳۹)۔

دوسرا یہ کہ تبیین سے مراد متکلم کے اس فحویٰ کو واضح کرنا ہے جو ابتدا ہی سے اس کے کلام میں موجود ہو۔ کلام کے وجود میں آنے کے بعد اس میں کسی بھی قسم کا تغیر پیدا کیا جائے تو اسے تبیین نہیں کہا جا سکتا (برہان ۴۶)۔

ان دو نکتوں کی روشنی میں غامدی صاحب یہ استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ زنا کی سزا کو خود قرآن مجید نے موضوع بنایا ہے اور زانی مرد وعورت کو سو سو کوڑوں کا مستوجب قرار دیا ہے، جب کہ جمہور فقہا کی تعبیر کے مطابق رجم کی سزا کو اس حکم کے ساتھ تبیین کے طریقے پر متعلق نہیں کیا جا سکتا، اس لیے یہ لازماً نسخ ہے جو سنت کے دائرۂ اختیار میں شامل نہیں (برہان  ۵۴-  ۵۵)۔ اس بنیادی موقف کی وضاحت کے علاوہ غامدی صاحب نے رجم سے متعلق روایات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’...اِس سے زیادہ سے زیادہ کوئی بات اگر معلوم ہوتی ہے تو بس یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین نے زنا کے بعض مجرموں کو رجم اور جلاوطنی کی سزا بھی دی ہے۔ لیکن کس قسم کے مجرموں کے لیے یہ سزا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفا نے کس طرح کے زانیوں کو یہ سزا دی؟ اِس سوال کے جواب میں کوئی حتمی بات اِن مقدمات کی رودادوں اور اِن روایات کی بنیاد پر نہیں کہی جا سکتی‘‘ (برہان  ۸۸) ۔

رجم کی سزا کے تناظر میں قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے سوال سے تعرض غامدی صاحب کے ہاں اس بحث سے اعتنا کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کی تصنیف کے مرحلے میں انھوں نے ازسرنو اس بحث کا تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ کیا اور گفتگو کا دائرہ اصول فقہ میں زیربحث تمام اہم سوالات تک وسیع کرتے ہوئے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی تفہیم کا ایک ایسا فریم ورک پیش کیا ہے جو کئی حوالوں سے بڑی اہمیت کا حامل اور مستقل تجزیے کا متقاضی ہے۔

غامدی صاحب کی کتاب ’’میزان‘‘ میں اس حوالے سے جو اصولی نقطۂ نظر پیش کیا گیا اور کتاب کے جملہ مباحث میں اس کے تحت کتاب وسنت کے باہمی تعلق کو تفصیلاً واضح کیا گیا ہے، اس کے بنیادی اور اصولی نکات حسب ذیل ہیں:

۱۔ دین کا تاریخی ثبوت کے لحاظ سے قطعیت سے متصف ہونا ضروری ہے، اس لیے دین وہی ہے جو مسلمانوں کے اجماع وتواتر سے ثابت ہو۔ اس کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر دین کے مآخذ کو بھی قطعی ہونا چاہیے۔ چنانچہ ماخذدین کی حیثیت صرف قرآن اور متواتر سنت کو حاصل ہے، جب کہ اخبار آحاد کا کردار قرآن وسنت میں محصور دین کی تفہیم وتبیین تک محدود ہے۔

۲۔ سنت اپنے تاریخی وزمانی تحقق کے لحاظ سے قرآن پر متفرع نہیں ہے، بلکہ اس سے مقدم ہے۔

۳۔ سنت اپنے تشریعی کردار کے لحاظ سے قرآن کی فرع نہیں ہے، بلکہ قرآن کے متوازی ایک مستقل بالذات ماخذ ہے۔

۴۔ اخبار آحاد دین کے کسی مستقل بالذات حکم کو بیان نہیں کرتے، اس لیے انھیں  قرآن، سنت یا عقل عام میں ان کی اصل اور اساس سے متعلق کرنا اور اسی کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔ اس سے مختلف نوعیت رکھنے والا کوئی حکم اخبار آحاد میں نہ اصولاً پایا جا سکتا ہے اور نہ واقعتاً موجود ہے۔

۵۔ اخبار آحاد میں قرآن کے بظاہر محتمل احکام کی توضیح یا ان پر زیادت یا ان کی تخصیص کی جتنی بھی مثالیں ملتی ہیں، ان سب کی بنیاد لفظی یا عقلی قرائن کی صورت میں خود قرآن مجید میں موجود ہے اور پوری طرح واضح کی جا سکتی ہے۔

۶۔ جو اخبار آحاد قرآن مجید یا سنت ثابتہ یا عقل عام کے ساتھ متصادم ہوں ، وہ قابل قبول نہیں ہو سکتیں۔

زیر نظر سطور میں ہم مذکورہ نکات کی تفصیل متعلقہ مثالوں کی روشنی میں پیش کریں گے۔

مآخذ دین کی قطعیت

شاطبی کی طرح غامدی صاحب کے زاویۂ نظر میں بھی دین کی قطعیت کا سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ شاطبی نے اس سوال کو یوں حل کیا ہے کہ شریعت، کلیات واصول اور جزئیات وفروع پر مشتمل ہے اور ان میں سے کلیات، جو اصل اور اساس کی حیثیت رکھتے ہیں، قطعی، جب کہ جزئیات وفروع ظنی ہیں۔ شاطبی کے نزدیک ظن، شریعت کی جزئیات کو تو لاحق ہو سکتا ہے، لیکن اگر کلیات کا بھی ظن کے دائرے میں آنا ممکن مانا جائے تو اس سے خود شریعت معرض شک میں آ جاتی ہے جو اس کے محفوظ ہونے کے منافی ہے۔ کلیات کی قطعیت کے اثبات کا طریقہ شاطبی کے نزدیک شرعی دلائل کا استقرا ہے اور شریعت میں جتنے بھی احکام قطعی اور یقینی مانے جاتے ہیں، ان کا مدار کسی جزوی نص کی قطعی دلالت پر نہیں، بلکہ ان کی قطعیت شریعت میں وارد متعدد نصوص کی مجموعی دلالت سے ثابت ہوئی ہے۔ شاطبی کسی بھی انفرادی دلیل شرعی سے قطعیت کے مستفاد ہونے کو ناممکن تصور کرتے ہیں، کیونکہ انفرادی دلیل یا تو اخبار آحاد کی طرح ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوتی ہے اور یا باعتبار ثبوت قطعی ہونے کے باوجود متعدد اسباب سے اس کی دلالت کبھی قطعیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتی۔

غامدی صاحب شاطبی کے اس اصولی موقف سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ دین کا قطعی ہونا ضروری ہے، تاہم قطعیت کے اثبات میں ان کا منہج شاطبی سے مختلف ہے اور وہ اس ضمن میں تاریخی ثبوت کے لحاظ سے تواتر یا عدم تواتر کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن مجید کا نزول ’فرقان‘ اور ’میزان‘ کی حیثیت سے حق وباطل کے امتیاز کو قطعی طور پر واضح کر دینے اور اللہ کی ہدایت کو، جو پچھلی قوموں کے انحرافات وضلالا ت کے نتیجے میں مشتبہ ہو چکی تھی، قیامت تک کے لیے تاریخ کی سطح پر محکم اور محفوظ بنا دینے کے لیے ہوا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے موقوف کر دیے جانے کے نتیجے میں اس بات کا اہتمام ناگزیر تھا کہ دین کے تاریخی ثبوت کی قطعیت کو یقینی بنایا جائے۔ غامدی صاحب کے نزدیک اس مقصد کے لیے قرآن مجید کے متن اور دین کے مستقل بالذات اور اساسی احکام کے حفظ وضبط، عمومی تعلیم اور تبلیغ واشاعت کا اس طرح اہتمام کیا گیا کہ آیندہ نسلوں تک ان کے انتقال کا بنیادی ذریعہ مسلمانوں کا اجماع اور تواتر قرار پایا، جب کہ ضمنی اور فروعی نوعیت کے امور میں ان کی تفہیم وتبیین کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا، اس کی نقل وروایت کو اخبار آحاد پر منحصر چھوڑ دیا گیا۔ یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ہدایت جن صورتوں میں امت کو منتقل ہوئی ہے، غامدی صاحب اسے تاریخی ثبوت کے لحاظ سے تین صورتوں میں تقسیم کرتے ہیں، یعنی قرآن، سنت اور اخبار آحاد۔ ان میں سے قرآن اور سنت امت کے اجماع اور تواتر سے ثابت ہیں، جب کہ اخبار آحاد ظنی طریقے سے نقل ہوئی ہیں۔ غامدی صاحب کے نزدیک دینی احکام وہدایات کا اس طرح متواتر اور آحاد میں تقسیم ہونا اتفاقی امر نہیں، بلکہ شارع کا ایک ارادی اور مقصود طریقہ ہے جس کا تعلق دین کے مجموعی نظام میں متواتر احکام و شرائع اور ظنی الثبوت اخبار آحاد کے درجہ واہمیت اور ان کے کردار کی نوعیت سے ہے۔

غامدی صاحب کے نقطۂ نظر میں ’’دین‘‘ دراصل شارع کی طرف سے مقرر کیے گئے ان مستقل بالذات احکام سے عبارت ہے جو کسی دوسرے حکم کی فرع یا تفصیل پر مبنی نہیں ہیں۔ ایسے تمام احکام ان کے نزدیک تاریخی طور پر تواتر سے ثابت اور قرآن اور سنت جیسے قطعی الثبوت مآخذ میں موجود ہیں۔ اس تناظر میں غامدی صاحب ’’دین کے ماخذ‘‘ ہونے کی تعبیر کو قرآن اور سنت کے لیے خاص قرار دیتے ہیں، جس سے ان کی مراد یہ ہے کہ دین کی بنیادی، اصولی اور مستقل بالذات تعلیمات قرآن اور سنت میں محصور ہیں اور ان کا کوئی بھی جزو قرآن اور سنت سے باہر نہیں پایا جاتا۔ جہاں تک اخبار آحاد کا تعلق ہے تو وہ صرف قرآن اور سنت میں بیان کیے گئے دین کی تفہیم وتبیین کرتی یا عقل عام کے کسی تقاضے کی وضاحت کرتی ہیں اور دین کے کسی مستقل بالذات حکم کا ثبوت ان پر منحصر نہیں۔ یوں سنت اور حدیث میں فرق اور احکام شریعت کی تاصیل وتبیین میں ان دونوں کے دائرۂ کار اور کردار کی مختلف نوعیت غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کا بنیادی نکتہ قرار پاتا ہے۔

غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی وعملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:

۱۔ قرآن مجید

۲۔ سنت …

دین لاریب، اِنھی دو صورتوں میں ہے۔ اِن کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اُسے دین قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (میزان  ۱۳، ۱۵)

’’...سنت کی حیثیت دین میں مستقل بالذات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسے پورے اہتمام، پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ انسانوں تک پہنچانے کے مکلف تھے۔ اخبار آحاد کی طرح اِسے لوگوں کے فیصلے پر نہیں چھوڑا جا سکتا تھا کہ وہ چاہیں تو اِسے آگے منتقل کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔‘‘ (میزان  ۶۲)

سنت کے مقابلے میں اخبار آحاد کی نوعیت یہ ہے کہ :

’’...رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، اِن کے بارے میں یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ اِن کی تبلیغ وحفاظت کے لیے آپ نے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا، بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ چاہیں تو اِنھیں آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں، اِس لیے دین میں اِن سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں اِن میں آتی ہیں، وہ درحقیقت قرآن وسنت میں محصور اِسی دین کی تفہیم وتبیین اور اِس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ اِس معاملے میں یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اِس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اُسے قبول کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (میزان  ۱۵)

جہاں تک سنت اور حدیث میں امتیاز کا تعلق ہے تو اس نکتے کی حد تک یہ کہنا درست ہوگا کہ غامدی صاحب اس امتیاز سے قطعی الثبوت اور ظنی الثبوت یا سنت متواترہ اور اخبار آحاد کی جس تقسیم کو واضح کرنا چاہتے ہیں، وہ فی نفسہٖ کوئی نئی تقسیم نہیں، بلکہ اصولی طور پر جمہور فقہا واصولیین کے ہاں مسلم ہے۔ جمہور محدثین اور فقہا کی اصطلاح کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تمام اقوال وافعال اور تقریرات کے لیے ’سنت‘ کی تعبیر اختیار کی جاتی ہے۔ اس پورے مجموعے کا ثبوت کے اعتبار سے قطعی اور ظنی میں تقسیم ہونا مسلم ہے جس کے لیے ’متواتر‘ اور ’خبر واحد‘ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ جمہور اصولیین کے ہاں اس فرق کا عملی اثر عموماً دو پہلوؤں سے مانا جاتا ہے: پہلا یہ کہ اخبار آحاد کے انکار پر کسی کی تکفیر نہیں کی جا سکتی، اور دوسرا یہ کہ خبر واحد اگر متواتر روایت کے معارض ہو تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اصولیین کی ایک جماعت اور خاص طور پر احناف ایک تیسرا فرق بھی بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ عموم بلویٰ کی نوعیت رکھنے والے امور میں خبر واحد سے شریعت کا کوئی واجب اور لازم حکم اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ گویا احناف کے نزدیک اخبار آحاد کی قبولیت اور حجیت احکام دین کے ایک خاص دائرہ میں محصور ہے اور ان سے وہی احکام اخذ کیے جا سکتے ہیں جن کا تعلق دین کے فروع اور جزئیات سے ہو اور جن کا جاننا یا ان پر عمل کرنا ساری امت پر لازم نہ ہو۔ احناف کا استدلال یہ ہے کہ اگر دین کا کوئی حکم ایسا ہو جس کا جاننا اور جس کی پابندی کرنا لوگوں پر عمومی طور پر واجب ہو تو پھر یہ ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کا ابلاغ بھی اسی درجے میں، پورے اہتمام کے ساتھ کیا اور آپ کے بعد آپ کی امت اسے اسی طرح شہرت واستفاضہ کے ساتھ نسلاً بعد نسلٍ نقل کرتی رہے۔

ان تینوں فروق سے ایک بدیہی نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی احکام و ہدایات کی اشاعت اور ان کی تبلیغ وتعلیم کا اہتمام کرتے ہوئے دین میں ان کی اہمیت اور حیثیت کو ملحوظ رکھا ہے اور کسی ایسے بنیادی اور اصولی حکم کے ابلاغ کو اخبار آحاد پر منحصر نہیں چھوڑا جس کا جاننا یا اس پر عمل کرنا عمومی طور پر امت پر لازم ہو۔ غامدی صاحب کی تقسیم میں اس نکتے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت دینی احکام وہدایات کی زمرہ بندی میں بنیادی اہمیت اس سوال کو دیتے ہیں کہ آیا کسی حکم کو امت کے عمومی تعامل کا حصہ بنایا جانا شارع کا مقصود تھا یا نہیں۔ پہلی صورت کو وہ کسی عمل کے ’’بطور سنت جاری کرنے‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں جس کے لیے لازم تھا کہ آپ اس حکم کا ابلاغ پوری قطعیت کے ساتھ کریں اور وہ تواتر کے ساتھ امت میں نسل در نسل منتقل ہو، جب کہ دوسری صورت میں ابلاغ میں اس نوعیت کا اہتمام مطلوب نہیں تھا۔ پہلی قسم کے احکام کے لیے غامدی صاحب ’سنت‘ کی تعبیر اختیار کرتے ہیں جو امت کے اجماع وتواتر سے ثابت ہے، اور دوسری قسم کے اعمال کو ’اسوۂ حسنہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں جن کا تاریخی ماخذ احادیث وآثار ہیں۔ یوں سنت اور حدیث کی الگ الگ اصطلاحات جس تقسیم کی وضاحت کے لیے اختیار کی گئی ہیں، وہ فی نفسہٖ فقہا ومحدثین کے ہاں تسلیم شدہ ہے، البتہ اس بنیادی نکتے میں اشتراک کے بعد ’سنت‘ اور ’حدیث‘ کے دائرۂ کار اور ان کے باہمی تعلق کی تحدید و تعیین میں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر جمہور سے مختلف ہے اور اپنے متعین کردہ حدود وقیود کے لحاظ سے وہ ’سنت‘ اور ’حدیث‘ کو ایک نئے اصطلاحی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں جس کی وضاحت ’’میزان‘‘ میں ’’مبادی تدبر سنت‘‘ اور ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کے عنوانات کے تحت ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

’سنت‘ بطور مستقل بالذات ماخذ

غامدی صاحب کی تقسیم میں دوسرا اہم امتیازی نکتہ، سنت کی تعریف اور تعیین سے متعلق ہے۔ جمہور اصولیین اور خاص طور پر شاطبی کے نزدیک احکام شریعت کے بیان اور تشریعی نظام کی تاصیل میں بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کے ایک ذیلی اور توضیحی ماخذ کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق دین اصلاً قرآن میں بیان ہوا ہے اور وہی اس کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل کرتا ہے، جب کہ سنت کا کام یا تو ان امور کی تشریح وتفصیل کرنا ہے جو قرآن نے بیان کیے ہیں اور یا ان ذیلی وضمنی امور سے متعلق شارع کی مراد کو واضح کرنا جنھیں قرآن نے تصریحاً بیان نہیں کیا۔ گویا جمہور اصولیین کے مطابق سنت واجب الاتباع ہونے کے اعتبار سے تو قرآن کے مساوی ہے، لیکن نظام تشریع کی توضیح وتکمیل میں اس کا کردار مستقل اور متوازی نہیں، بلکہ قرآن کریم کے تابع ہے اور اس کی فرع کی حیثیت رکھتا ہے۔

غامدی صاحب کا نقطۂ نظر اس دوسرے پہلو سے  جمہور اصولیین سے مختلف ہے۔ ان کی راے میں سنت، زمانی لحاظ سے قرآن سے موخر اور قرآن کے احکام پر متفرع نہیں، بلکہ قرآن سے مقدم ہے۔ اس کی تفصیل وہ یوں کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاً ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور کیا گیا تھا جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے ذریعے سے اہل عرب کے لیے مقرر کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ان کے ہاں بحیثیت مجموعی ایک معروف ومسلم دینی روایت کے طور پر موجود تھی۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالکل نیا دین لے کر نہیں آئے تھے اور نہ اس کے جملہ اصول ومبادی اور جزئیات وتفصیلات آپ نے پہلی مرتبہ دنیا کے سامنے پیش کیے تھے۔ آپ درحقیقت دین ابراہیمی کے مجدد تھے اور دین کے تمام بنیادی عقائد اور اس کے عملی ڈھانچے میں آپ کو ملت ابراہیمی ہی کی پیروی اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ یہ روایت عبادات، دینی شعائر اور معاشرتی زندگی کے معاملات کو محیط تھی، البتہ ان تمام دائروں میں اس میں کچھ بدعات اورانحرافات شامل ہو گئے تھے جن کی اصلاح کو اللہ اور اس کے رسول نے موضوع بنایا اور قرآن اور سنت، دونوں نے اس دینی روایت کو تجدید وتصویب، اصلاح وترمیم اور اضافہ وتکمیل کے ذریعے سے ایک نئی اور مستقل شریعت کے قالب میں ڈھالنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ غامدی صاحب دین ابراہیمی کی اسی روایت کو اپنی اصطلاح میں ’’سنت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ سنت کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ قرآن میں آپ کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ روایت بھی اُسی کا حصہ ہے۔‘‘ (میزان  ۱۴)

سنت کی نسبت تاریخی اعتبار سے ملت ابراہیمی کی طرف کرنے سے ایک عمومی اشکال جس کا غامدی صاحب کو سامنا کرنا پڑا ہے، یہ ہے کہ شاید وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل تشریعی حیثیت کو نہیں مانتے اور آپ کے کردار کو صرف ملت ابراہیمی کی اتباع تک محدود تصور کرتے ہیں۔ اس اشکال کے جواب میں غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...سنت کے ذریعے سے جو دین ملا ہے، اُس کا ایک بڑا حصہ دین ابراہیمی کی تجدید واصلاح پر مشتمل ہے۔ تمام محققین یہی مانتے ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس میں محض جزوی اضافے کیے ہیں۔ ہرگز نہیں، آپ نے اِس میں مستقل بالذات احکام کا اضافہ بھی کیا ہے۔ ... اِس لیے یہ الزام بالکل لغو ہے کہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم دینا یا دین میں کسی نئی بات کا اضافہ کرنا میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن مجید کے دائرۂ کار میں شامل ہی نہیں ہے۔‘‘ (مقامات  ۱۶۲، ۱۶۳)

سنت کے زمانی تقدم کے اصولی مضمرات

یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنیادی طورپر ملت ابراہیمی کی پیروی پر مامور تھے، جمہور علماے اصول کے ہاں بھی مسلم ہے، تاہم وہ عموماً اس کا ذکر تاریخی پس منظر کے طور پر کرتے ہیں اور اصول فقہ کے اہم مباحث پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان سے زیادہ تعرض نہیں کرتے۔ غامدی صاحب اس نکتے کو اصول فقہ کے متعدد بنیادی سوالات کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے اس سے بعض اہم نتائج اخذ کرتے ہیں ۔ ان میں سے دو نتائج یہاں بطور خاص قابل ذکر ہیں:

پہلا اہم اور بنیادی نتیجہ یہ ہے کہ سنت کو قرآن سے الگ ایک مستقل ماخذ تصور کرتے ہوئے امور دین کی تشریح میں اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ کون سی بات کا ماخذ اصلاً قرآن ہے اور کون سی بات ابتداء ً سنت سے ثابت ہوئی ہے۔ چنانچہ کسی بات کے محض قرآن مجید میں مذکور ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن اسے ابتداء ً بیان کررہا ہے اور سنت میں اس سے متعلق جو بھی تفصیلات وارد ہوئی ہیں، وہ قرآن پر متفرع ہیں۔ مستقل بالذات احکام کو ابتداء ً بیان کرنا قرآن کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ اس میں قرآن کے ساتھ سنت بھی شریک ہے۔ جس طرح قرآن دین کے بہت سے مستقل بالذات احکام بیان کرتا اور سنت، قرآن سے ثابت احکام کے طور پر ان کا ذکر کرتی ہے، اسی طرح سنت بھی ایسے مستقل بالذات احکام بیان کرتی ہے جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی، اور پھر قرآن ان کا ذکر ایک ثابت شدہ حکم کے طور پر کرتے ہوئے ان کے بعض مزید پہلوؤں سے تعرض کرتا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں مذکور احکام میں اس نکتے کی تنقیح قرآن کے صحیح فہم کے لیے بھی ضروری ہے اور سنت کے دائرے میں آنے والے امور کی تعیین میں بھی اس کی اہمیت بنیادی ہے۔

غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’تیسرا اصول یہ ہے کہ عملی نوعیت کی وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہو سکتیں جن کی ابتدا پیغمبر کے بجاے قرآن سے ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلوم ہے کہ آپ نے چوروں کے ہاتھ کاٹے ہیں، زانیوں کو کوڑے مارے ہیں، اوباشوں کو سنگ سار کیا ہے، منکرین حق کے خلاف تلوار اٹھائی ہے، لیکن اِن میں سے کسی چیز کو بھی سنت نہیں کہا جاتا۔ یہ قرآن کے احکام ہیں جو ابتداء ً  اُسی میں وارد ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی تعمیل کی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور قربانی کا حکم بھی اگرچہ جگہ جگہ قرآن میں آیا ہے اور اُس نے اِن میں بعض اصلاحات بھی کی ہیں، لیکن یہ بات خود قرآن ہی سے واضح ہو جاتی ہے کہ اِن کی ابتدا پیغمبر کی طرف سے دین ابراہیمی کی تجدید کے بعد اُس کی تصویب سے ہوئی ہے۔ اِس لیے یہ لازماً سنن ہیں جنھیں قرآن نے موکد کردیا ہے۔ کسی چیز کا حکم اگر اصلاً قرآن پر مبنی ہے اور پیغمبر نے اُس کی وضاحت فرمائی ہے یا اُس پر طابق النعل بالنعل عمل کیا ہے تو پیغمبر کے اِس قول وفعل کو ہم سنت نہیں، بلکہ قرآن کی تفہیم وتبیین اور اسوۂ حسنہ سے تعبیر کریں گے۔ سنت صرف اُنھی چیزوں کو کہا جائے گا جو اصلاً پیغمبر کے قول وفعل اور تقریر وتصویب پر مبنی ہیں اور اُنھیں قرآن کے کسی حکم پر عمل یا اُس کی تفہیم وتبیین قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ (میزان  ۶۰)

اس نکتے کا حاصل یہ ہے کہ بیان احکام میں اصل اور فرع کا رشتہ صرف یک طرفہ نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں کہ قرآن مجید ہی مطلقاً اصل ہے اور سنت ہمیشہ اس کی فرع ہوتی ہے، بلکہ یہ تعلق دو طرفہ ہے، اس لیے ایک ہی حکم سے متعلق قرآن اور سنت، دونوں میں احکام وارد ہوں تو یہ تحقیق ضروری ہے کہ کسی مسئلے کو ابتداء ً  قرآن یا سنت میں سے کس نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ جیسے یہ امکان ہے کہ کسی حکم کو اصلاً وابتداء ً قرآن نے بیان کیا ہو اور سنت نے اس کی مختلف فروع کی وضاحت کی ہو، اسی طرح یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس مسئلے میں تشریع کی ابتدا سنت سے ہوئی ہو اور اسی نے اس باب میں بنیادی و تاصیلی ماخذ کا کردار اد اکیا ہو، جب کہ قرآن نے اس کو ایک ثابت شدہ حکم مان کر اس پر بعض مزید احکام کا اضافہ کیا ہو۔ یوں تشریع کی ابتدا کرنے میں قرآن اور سنت، دونوں مساوی درجے کے ماخذ ہیں اور دونوں اپنی مستقل حیثیت میں دین کے تاصیلی احکام بھی بیان کر سکتے ہیں اور پہلے سے ثابت شدہ احکام میں اضافات بھی شامل کر سکتے ہیں۔

غامدی صاحب نے اس نکتے سے ایک اور بہت بنیادی اور اہم نتیجہ اخذ کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’...سنت قرآن کے بعد نہیں، بلکہ قرآن سے مقدم ہے، اِس لیے وہ لازماً ا ُس کے حاملین کے اجماع وتواتر ہی سے اخذ کی جائے گی۔ قرآن میں اُس کے جن احکام کا ذکر ہوا ہے، اُن کی تفصیلات بھی اِسی اجماع وتواتر پر مبنی روایت سے متعین ہوں گی۔ اُنھیں قرآن سے براہ راست اخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، جس طرح کہ قرآن کے بزعم خود بعض مفکرین نے اِس زمانے میں کی ہے اور اِس طرح قرآن کا مدعا بالکل الٹ کر رکھ دیا ہے۔‘‘ (میزان ۴۸)

سنت کے زمانی تقدم کے نکتے سے غامدی صاحب نے دوسرا اہم نتیجہ قرآن مجید کے ان بیانات کے حوالے سے اخذ کیا ہے جنھیں علماے اصول ’’مجمل مفتقر الی البیان‘‘ کی اصطلاح سے بیان کرتے ہیں۔ اصولیین ذکر کرتے ہیں کہ قرآن مجید نے بہت سے الفاظ کو ان کے عام لغوی مفہوم سے بالکل مختلف معنوں میں ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس اصطلاحی مفہوم کی خود وضاحت نہیں کی۔ مثلاً ’صلاۃ‘ کا لفظ عربی زبان میں ’دعا‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، لیکن قرآن مجید میں ’اقيموا الصلوٰۃ‘ کے حکم میں اس کا معروف لغوی معنی مراد نہیں۔ اسی طرح ’زكاۃ‘ کا لفظ عربی میں بڑھوتری کے لیے، ’صوم‘ کا لفظ کسی چیز سے رکنے کے لیے اور ’حج ‘ کا لفظ لغت میں کسی جگہ کا قصد کرنے کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن قرآن میں زکوٰۃ کی ادائیگی، صوم کے اہتمام اور حج کے اتمام سے مراد یہ لغوی معانی نہیں ہیں۔ ان تمام الفاظ کو شرعی اصطلاح میں نئے مفاہیم کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے جو ان کے عام لغوی مفہوم سے مختلف ہیں۔ یوں یہ تمام الفاظ مجمل ہیں جو متکلم کی طرف سے اپنی مراد کی وضاحت کا تقاضا کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جو مفہوم واضح کیا، وہ ان کے بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔

سنت سے متعلق غامدی صاحب کے زیر بحث نقطۂ نظر کی روشنی میں الفاظ کی ایسی کوئی قسم قرآن میں موجود نہیں۔غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کے مطابق مذکورہ تمام امور دین ابراہیمی کے معروف مسلمات تھے جن میں اگرچہ بہت سی بدعات در آئی تھیں، لیکن اپنے بنیادی مفہوم اور شکل وصورت کے لحاظ سے یہ عبادات قرآن کے مخاطبین کے لیے ہرگز اجنبی نہیں تھیں، چنانچہ نہ تو قرآن کو ان عبادات کی کوئی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت تھی اور نہ مخاطبین ان کے مفہوم کو جاننے کے لیے کسی خارجی توضیح کے  محتاج تھے۔

غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، یہ سب اِسی ملت کے احکام ہیں جن سے قرآن کے مخاطب پوری طرح واقف، بلکہ بڑی حد تک اُن پر عامل تھے۔ سیدنا ابوذر کے ایمان لانے کی جو روایت مسلم میں بیان ہوئی ہے، اُس میں وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی وہ نماز کے پابند ہو چکے تھے۔ جمعہ کی اقامت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ قرآن کے مخاطبین کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ نماز جنازہ وہ پڑھتے تھے۔ روزہ اُسی طرح رکھتے تھے، جس طرح اب ہم رکھتے ہیں۔ زکوٰۃ اُن کے ہاں بالکل اُسی طرح ایک متعین حق تھی، جس طرح اب متعین ہے۔ حج وعمرہ سے متعلق ہر صاحب علم اِس حقیقت کو جانتا ہے کہ قریش نے چند بدعتیں اُس میں بے شک، داخل کر دی تھیں، لیکن اُن کے مناسک فی الجملہ وہی تھے جن کے مطابق یہ عبادات اِس وقت ادا کی جاتی ہیں، بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اِن بدعتوں پر متنبہ بھی تھے۔ چنانچہ بخاری و مسلم، دونوں میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے جو حج کیا، وہ قریش کی اِن بدعتوں سے الگ رہ کر بالکل اُسی طریقے پر کیا، جس طریقے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج ہمیشہ جاری رہا ہے۔

یہی معاملہ قربانی، اعتکاف، ختنہ اور بعض دوسرے رسوم وآداب کا ہے۔ یہ سب چیزیں پہلے سے رائج، معلوم و متعین اور نسلاً بعد نسلٍ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھیں۔ چنانچہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن اِن کی تفصیل کرتا۔ لغت عرب میں جو الفاظ اِن کے لیے مستعمل تھے، اُن کا مصداق لوگوں کے سامنے موجود تھا۔ قرآن نے اُنھیں نماز قائم کرنے یا زکوٰۃ ادا کرنے یا روزہ رکھنے یا حج وعمرہ کے لیے آنے کا حکم دیا تو وہ جانتے تھے کہ نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج وعمرہ کن چیزوں کے نام ہیں۔ قرآن نے اِن میں سے کسی چیز کی ابتدا نہیں کی، اِن کی تجدید واصلاح کی ہے اور وہ اِن سے متعلق کسی بات کی وضاحت بھی اُسی حد تک کرتا ہے، جس حد تک تجدید واصلاح کی اِس ضرورت کے پیش نظر اُس کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔‘‘ (میزان  ۴۶-  ۴۷)

یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ جمہور اصولیین بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ملت ابراہیمی کی اتباع پر مامور ہونے اور صلوٰۃ اور حج جیسی اصطلاحات کے، اہل عرب کے ہاں معلوم ومعروف ہونے کے ان دونوں نکتوں کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان اصطلاحات کے مفہوم کی تعیین اہل عرب کے مذہبی عرف کے بجاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کے حوالے سے کرتے ہیں۔ یعنی وہ نماز اور حج وغیرہ کے، جاہلی معاشرے میں ملت ابراہیمی کی روایت کا حصہ ہونے کا ذکر تو کرتے ہیں، جس سے اہل عرب واقف تھے، لیکن اس کے باوجود وہ انھیں ایسی اصطلاحات قرار دیتے ہیں جن کا شریعت نے اپنا ایک خاص مفہوم وضع کیا ہے جس کی وضاحت ہمیں سنت سے ہی ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ’الصلوٰۃ‘ کا ایک اصطلاحی معنی اگرچہ اہل عرب کے ہاں معروف تھا اور قرآن مجید میں ابتداء ً جب ’اقامت صلوٰۃ‘ کا حکم نازل ہوا تو وہ عبادت کے اسی معروف طریقے کی طرف اشارہ تھا، لیکن ظاہر ہے کہ شریعت میں نماز کے طریقے کو بعینہ اسی طرح قائم نہیں رکھا گیا، بلکہ اس میں تدریجاً بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور ان تبدیلیوں کے نتیجے میں نماز کی جو آخری اور حتمی شکل مقرر ہوئی، وہ بدیہی طور پر وہ نہیں تھی جس سے زمانۂ جاہلیت میں اہل عرب واقف تھے۔ یوں ابتداء ً نہ سہی، لیکن مآل کے لحاظ سے یہ کہنا بجا ہے کہ شریعت نے ’الصلوٰۃ‘ کے معروف مفہوم کو برقرار نہیں رکھا، بلکہ اسے ایک نئے مفہوم کی طر ف منتقل کر دیا ہے جس کو جاننے کے لیے بہرحال سنت ہی کی طرف رجوع ناگزیر ہے۔

جس نقطۂ نظر کی ترجمانی مذکورہ اقتباس میں غامدی صاحب نے کی ہے، اس کا ذکر ایک امکانی راے کے طور پر علماے اصول کے ہاں بھی ملتا ہے۔ مثلاً ابوبکر الجصاص اور الکیا الہراسی لکھتے ہیں کہ ’الصلوٰۃ‘ کو مجمل اور محتاج بیان بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ بھی تصور کیا جا سکتا ہے کہ ان الفاظ سے ایک ایسی معہود حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس سے قرآن کے مخاطبین پہلے سے واقف تھے (جصاص، احکام القرآن ۱/۳۲۔  الکیا الہراسی، احکام القرآن ۱/۹)۔ امام ابن تیمیہ کا موقف یہ ہے کہ ’الصلوٰۃ‘ کے لغوی مفہوم میں شریعت نے کوئی تبدیلی نہیں کی، بلکہ ایک خاص طریقے سے عبادت کرنے کے معنی میں یہ لفظ پہلے سے اہل عرب کے عرف میں رائج اور مستعمل تھا، البتہ شارع نے اس عرفی مفہوم میں جزوی تخصیص کرتے ہوئے اسے اس مخصوص طریقے کے لیے استعمال کیا ہے جو شریعت میں اس کے لیے مقررکیا گیا ہے اور جو اہل جاہلیت کے طریقۂ نماز سے بہت سی تفصیلات میں مختلف ہے (الفتاویٰ الکبریٰ ۵/۳۱۷)۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے اس ضمن میں اس سوال سے بھی تعرض کیا ہے کہ شریعت نے نماز کی ہیئت میں جو مختلف تبدیلیاں کی ہیں، کیا ان کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شریعت میں لفظ ’الصلوٰۃ‘ کو اس کے حقیقی معنی، (یعنی اہل عرب کے عرفی مفہوم) کے بجاے مجازی معنی میں استعمال کیا گیا ہے؟ شاہ صاحب کا جواب یہ ہے کہ ظاہری ہیئت میں تبدیلیوں کی وجہ سے ان الفاظ کو مجازی نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ حقیقی استعمال ہی ہے، کیونکہ اگر ہیئت کے ظاہری اختلاف کی وجہ سے یہ کہا جائے کہ لفظ اپنی حقیقت پر برقرار نہیں رہا تو پھر یہ کہنا بھی ممکن ہوگا کہ احناف کے طریقۂ نماز پر ’الصلوٰۃ‘  کا اطلاق شوافع کے نزدیک، اور شوافع کے طریقۂ نماز پر اس کا اطلاق احناف کے نزدیک مجازی ہے (فیض الباری ۱/۱۱۵)۔

یوں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر اس بحث میں بالکل طبع زاد نہیں ہے، البتہ انھوں نے اصولیین کے ہاں پائے جانے والے ایک نسبتاً غیر معروف رجحان کو اپنے نظام فکر میں اس طرح ایک بنیادی او رمحوری نکتے کی حیثیت دے دی ہے جس سے اصولیین کی ذکر کردہ ایک خاص نوع، یعنی ’مجمل مفتقر الی البیان‘ کی ضرورت عملاً باقی نہیں رہتی۔

اخبار آحاد کی حیثیت

قرآن اور سنت کے ساتھ اخبار آحاد کے تعلق کے ضمن میں غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کی تفہیم کے لیے مناسب ہوگا کہ اصول فقہ کی روایت میں اس نوعیت کی دو سابقہ بحثوں کو پیش نظر رکھ لیا جائے۔

ایک بحث امام شافعی نے اٹھائی تھی کہ کیا اخبار آحاد کی اسنادی صحت کا اطمینان حاصل ہونے کے بعد انھیں کتاب اللہ پر پیش کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ امام شافعی کی بحث کا تناظر، حنفی فقہا کا یہ موقف تھا کہ اخبار آحاد کو کتاب اللہ کے معارض ہونے کی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ امام شافعی نے اس کے جواب میں، جیسا کہ وضاحت کی جاچکی ہے، یہ موقف اختیار کیا کہ اخبار آحاد کے، کتاب اللہ کے معارض ہونے کا مفروضہ ہی درست نہیں اور یہ کہ صحت سند کے ساتھ کوئی خبر واحد مروی ہو تو اسے نظر انداز کر کے کتاب اللہ کی مراد متعین کرنا ہی اصولی طور پر غلط ہے۔ تاہم اس ساری بحث میں خبر واحد کو کتاب اللہ پر پیش کرنے کا مطلب صرف عدم تعارض کا اطمینان حاصل کرنا تھا۔ امام شاطبی نے، شریعت کے مقاصد اور کلیات کے حوالے سے اپنے مخصوص نقطۂ نظر کے سیاق میں، اس بحث میں ایک اور اہم نکتہ بھی شامل کیا، اور وہ یہ تھا کہ کیا خبر واحد کی قبولیت کے لیے، کسی قطعی دلیل کے معارض نہ ہونے سے آگے بڑھ کر، کیا یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی کلی قاعدے اور اصول کے تحت آتی ہو، یعنی کسی کلی کی جزئی اور کسی اصول شرعی کے اطلاق کی نظیر بن سکتی ہو؟ دوسرے لفظوں میں، خبر واحد میں جو حکم بیان کیا گیا ہے، شریعت کے اصولوں اور قواعد میں سے کوئی قاعدہ اس کی بنیاد بن سکتا ہو؟ اس ضمن میں ان کے نقطۂ نظر کی تفصیل متعلقہ فصل میں بیان کی جا چکی ہے۔

غامدی صاحب کے نزدیک اخبار آحاد میں بیان کی جانے والی ہدایات کا قرآن، سنت یا عقل وفطرت میں سے کسی ایک پر مبنی ہونا اور اپنی اصل کے ساتھ اس کے تعلق کا واضح ہونا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے ان کا نقطۂ نظر جمہور اصولیین کے مقابلے میں امام شاطبی کے موقف کے قریب تر ہے جو دلیل ظنی کے کسی اصل قطعی کی طرف راجع ہونے کو ضروری قرار دیتے ہیں اوراصل قطعی کے ساتھ دلیل ظنی کا تعلق واضح ہوئے بغیر علی الاطلاق اخبار آحاد کو واجب الاتباع نہیں سمجھتے۔ اس نکتے کو غامدی صاحب یوں تعبیر کرتے ہیں کہ احادیث سے ’’...دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا‘‘ (میزان  ۶۲) اور ’’...یہ چیز حدیث کے دائرے ہی میں نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے‘‘ (ایضاً  ۶۲)۔ ان کے نزدیک حدیث دراصل ’’...نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح، آپ کے اسوۂ حسنہ اور دین سے متعلق آپ کی تفہیم وتبیین کے جاننے کا سب سے بڑا اور اہم ترین ذریعہ‘‘ (ایضاً  ۶۲)  ہے۔ مذکورہ قیود کے ساتھ، غامدی صاحب جمہور اصولیین کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ اخبار آحاد کو باعتبار ثبوت ظنی ہونے کی بنیاد پر رد کر دینا درست نہیں، بلکہ انھیں قبول کرنا واجب ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’اِس دائرے کے اندر، البتہ اِس کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل یا تقریر وتصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘ (میزان  ۱۵)

بعض معترضین نے اخبار آحاد سے دین کا کوئی نیا حکم ثابت نہ ہونے کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ خبر واحد، قرآن سے ’’زائد‘‘ کسی حکم کا ماخذ نہیں بن سکتی، تاہم غامدی صاحب کا مدعا ہرگز یہ نہیں ہے۔ ’’دین کے نئے حکم‘‘ سے غامدی صاحب کی مراد ’’قر آن سے زائد حکم‘‘ نہیں، بلکہ دین کا ایسا مستقل بالذات حکم ہے جو کسی بھی اعتبار سے قرآن کے حکم پر مبنی اور اس سے متعلق نہ ہو سکتا ہو۔ اس ضمن میں بعض اعتراضات واشکالات کے جواب میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔ اِس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں، وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:

۱۔ مستقل بالذات احکام وہدایات جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی۔

۲۔ مستقل بالذات احکام وہدایات کی شرح ووضاحت، خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر۔

۳۔ اِن احکام وہدایات پر عمل کا نمونہ۔

یہ تینوں چیزیں دین ہیں۔ دین کی حیثیت سے ہر مسلمان اِنھیں ماننے اور اِن پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِن کی نسبت کے بارے میں مطمئن ہو جانے کے بعد کوئی صاحب ایمان اِن سے انحراف کی جسارت نہیں کر سکتا۔‘‘ (مقامات  ۱۶۱ - ۱۶۲)

غامدی صاحب کے نزدیک اخبار آحاد میں بیان ہونے والے تمام احکام قرآن مجید یا سنت متواترہ کے احکام کی تفصیل وتفریع سے عبارت ہیں اور قرآن سے بظاہر زائد دکھائی دینے والے احکام بھی اپنی لِم کے اعتبار سے قرآن ہی کے حکم کی توسیع ہیں۔ اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں ہر جگہ انھوں نے شریعت کی تفصیل وتشریح کرتے ہوئے قرآن اور سنت متواترہ سے ثابت احکام کے ساتھ ساتھ ان کے تحت اخبار آحاد سے ثابت شدہ احکام کا بھی اہتمام اور التزام کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اصل اور فرع کے باہمی تعلق کو بھی واضح کیا ہے جس کی کچھ مثالیں آیندہ مباحث میں پیش کی جائیں گی۔

نسخ، تخصیص اور تبیین

حدیث سے قرآن کے نسخ یا تخصیص کی بحث میں فراہی مکتب فکر نے علی العموم اور غامدی صاحب نے بالخصوص جمہور فقہا واصولیین سے مختلف موقف اختیار کیا ہے۔ جیسا کہ سابقہ مباحث میں تفصیلاً واضح کیا جا چکا ہے، امام شافعی اصولی طور پر حدیث کے ذریعے سے قرآن کے حکم کے نسخ، یعنی جزوی یا کلی تبدیلی کے جواز کے قائل نہیں، تاہم اس موقف کا احادیث کے رد وقبول کے حوالے سے کوئی خاص عملی اثر اس لیے مرتب نہیں ہوتا کہ امام شافعی قرآن کی ظاہری دلالت اور احادیث کے مابین کسی تعارض کی صورت میں قرآن کی مراد کی تعیین میں حدیث کو فیصلہ کن قرار دیتے ہیں۔ چونکہ قرآن کی اصل مراد وہ نہیں جس پر اس کے الفاظ ظاہراً دلالت کرتے ہیں، اس لیے ان کے نقطۂ نظر سے کسی حدیث کو اس لیے ترک کرنے کی کوئی گنجایش یا ضرورت بھی نہیں پڑتی کہ وہ قرآن کے معارض ہے۔ یوں حدیث، قرآن کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی، لیکن حدیث میں جو کچھ وارد ہو، وہ قرآن ہی کی تبیین ہے، کیونکہ قرآن کی مراد کو حدیث سے الگ مستقلاً طے کرنا درست نہیں۔  اس کے برخلاف اصولیین کا ایک دوسرا گروہ اور خاص طور پر حنفی فقہا قرآن کی اپنی مستقل دلالت کو اہمیت دیتے ہیں اور قرآن میں زیربحث احکام کے دائرے میں وارد احادیث کا ان سے تعلق واضح کرنے کے لیے تبیین کے ساتھ ساتھ نسخ کے اصول کو بھی استعمال کرتے ہیں، البتہ حنفی فقہا چونکہ نسخ کی صورت میں احادیث کی قبولیت کے لیے شہرت واستفاضہ اور تلقی بالقبول کی شرائط بھی عائد کرتے ہیں، اس لیے ان کے اصول کے مطابق نسخ کے شرائط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے بعض احادیث کو رد کرنے کی گنجایش بھی پیدا ہو جاتی ہے۔

غامدی صاحب کا نقطۂ نظر ان دونوں اصولی مواقف سے مختلف ہے۔ وہ حدیث کے ذریعے سے قرآن کے نسخ کے مطلقاً عدم جواز سے متعلق تو امام شافعی کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں، لیکن قرآن کی ظاہری دلالت کو ہر حال میں احادیث کے تابع کرنے کے سوال پر امام شافعی کے بجاے حنفی اصولیین کی راے کو درست سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک حدیث، چاہے وہ خبر مشہور ہو یا خبر واحد، نہ تو کسی حال میں قرآن کے حکم میں کوئی تبدیلی کر سکتی ہے اور نہ حدیث کی بنیاد پر قرآن کے الفاظ کی ظاہری دلالت کو ظنی قرار دے کر ترک کیا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً، حدیث کے قرآن کے ساتھ متعلق ہونے کی ایک ہی صورت ممکن ہے اور وہ تبیین ہے جس کی نوعیت کلام کے اندر ابتدا سے موجود مضمرات کو واضح کرنے یا کلام کے اشارات اور مخفی دلالتوں کو منصۂشہود پر لانے کی ہوتی ہے، جب کہ کلام کے واضح اور طے شدہ مفہوم میں کسی قسم کی جزوی یا کلی تغییر ’تبیین‘ کے دائرے میں نہیں آتی۔

جہاں تک سنت سے قرآن کے نسخ کے عدم جواز کا تعلق ہے تو اس حوالے سے غامدی صاحب نے امام شافعی کے استدلال کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اضافہ بھی کیا ہے۔ ’’برہان‘‘ میں رجم کی سزا پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ سنت کے لیے یہ اختیار کسی قیاس یا عقلی استدلال سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے خود قرآن کی تصریح درکار ہے جو موجود نہیں، بلکہ اس کے برعکس قرآن نے پیغمبر کے لیے اس اختیار کی نفی کی ہے۔ یہاں غامدی صاحب نے سورۂ یونس کی آیت ’مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اُبَدِّلَہ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْ‘ (۱۰: ۱۵) سے استدلال کیا اور اس پر اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ جواز نسخ کے قائلین اس آیت سے استدلال کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہاں جس چیز کی نفی کی گئی ہے، وہ پیغمبر کا خود اپنی طرف سے کلام الہٰی میں تبدیلی کرنا ہے، جب کہ سنت کے ذریعے سے قرآن میں نسخ پیغمبر کی اپنی راے پر نہیں، بلکہ وحی الہٰی پر مبنی ہوتا ہے اور چونکہ قرآن اور سنت، دونوں وحی ہی کی دو صورتیں ہیں، اس لیے وحی خفی کے ذریعے سے وحی جلی کے نسخ پریہ اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اس معارضے کے جواب میں غامدی صاحب کے استدلال کا حاصل یہ ہے کہ وحی متلو اور وحی غیر متلو اگرچہ وحی ہونے میں مشترک ہیں، لیکن ان دونوں کے ابلاغ وانتقال اور حفاظت میں جو بنیادی فرق ملحوظ رکھے گئے ہیں، انھیں اس بحث میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے ایک متعین الفاظ میں نازل کی گئی، خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے مربوط کلام کی صورت میں مرتب کی گئی اور روایت باللفظ کے ذریعے سے تواتر کے ساتھ امت کو منتقل کی گئی ہے، جب کہ دوسری کا مفہوم پیغمبر کو القا کیا گیا، اس کی بالمعنیٰ روایت کی گئی اور وہ منتشر اقوال کی صورت میں امت کو منتقل ہوئی ہے۔ ان سب بنیادی امتیازات کے ہوتے ہوئے دونوں کو یکساں درجے میں نہیں رکھا جا سکتا(برہان  ۴۹- ۵۱)۔

اس موقف کی تائید میں ایک اہم استدلال کا اضافہ غامدی صاحب نے قرآن کے میزان، فرقان اور مہیمن ہونے کے نکتے کی روشنی میں کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’...اس کی حقیقت محض یہی نہیں کہ وہ وحی متلو ہے۔ وہ تو سلسلۂوحی کا مہیمن، دین کی برہان قاطع، حق وباطل کا معیار، خدا اور خدا کے رسولوں کی طرف منسوب ہر چیز کے لیے فرقان اور زمین پر خدا کی میزان ہے۔ ’اَللّٰہ الَّذِيْ٘ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَ‘ (اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری، یعنی میزان نازل کی)۔ ہر چیز اب اِسی میزان پر تولی جائے گی۔ اُس کے لیے کوئی چیز میزان نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جو قرآن کے اِس مقام سے واقف ہے، بغیر کسی تردد کے مانے گا کہ وحی خفی تو ایک طرف، اگر کوئی وحی جلی بھی ہوتی تو وہ خدا کی اِس میزان میں کوئی کمی بیشی کرنے کی مجاز نہ تھی۔ وہ بہرحال تسلیم کرے گا کہ قرآن کو صرف قرآن منسوخ کر سکتا ہے۔ قرآن پر قرآن سے باہر کی کوئی چیز، جب تک وہ خود اِس کی اجازت نہ دے، کسی طرح اثرانداز نہیں ہو سکتی۔‘‘ (برہان  ۵۱-  ۵۲)

’’میزان‘‘ میں غامدی صاحب نے استدلال کو اس دوسرے نکتے تک محدود رکھا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:

’’...قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے، اِس کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اِس میں کوئی ترمیم وتغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے رد وقبول کا فیصلہ اِس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہوگا۔ ایمان وعقیدہ کی ہر بحث اِس سے شروع ہوگی اور اِسی پر ختم کر دی جائے گی۔ ہر وحی، ہر الہام، ہر القا، ہر تحقیق اور ہر راے کو اِس کے تابع قرار دیا جائے گا۔‘‘ (میزان  ۲۵)

(جاری)

آنجہانی جسٹس رانا بھگوان داس کی یاد میں تقریب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آئی پی ایس (انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد) کی طرف سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان آنجہانی رانا بھگوان داس کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تو موجودہ حالات کے تناظر میں یہ بات مجھے اچھی لگی کہ ہم ان شخصیات کو یاد رکھیں جنہوں نے اصول، قانون اور انسانی روایات کو زندہ رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ یہ تقریب ۱۱ فروری کو منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری تھے۔ جبکہ دیگر مہمانان خصوصی میں محترم راجہ محمد ظفر الحق، جناب محمد اکرم شیخ ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر رامیش کمار (ایم این اے) کے ساتھ راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔

موجودہ عالمی تہذیبی کشمکش میں مجھے ایسی مجالس کی تلاش رہتی ہے جن میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ ارباب فکر مل بیٹھ کر انسانی اقدار و روایات کے فروغ اور مذہب کے معاشرتی کردار کے حوالہ سے گفتگو کریں۔ کیونکہ میری طالب علمانہ رائے میں اس وقت نسل انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ اور بحران انسانی اخلاقیات اور اقدار کا ہے جن سے انسانی سوسائٹی مسلسل محروم ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ انسانی اخلاق و روایات کے سب سے بڑے علمبردار مذاہب ہیں جو تمام تر باہمی اختلافات اور تنازعات کے باوجود انسان کو اس کی بنیادی اقدار سے وابستہ رکھنے میں سب سے مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی اخلاقیات و روایات اور سوسائٹی کے معاملات میں مذہب کے کردار کو کمزور کرتے چلے جانا اس وقت تمام مذاہب کے سنجیدہ راہنماؤں کے لیے مشترکہ چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں اس سلسلہ میں امریکہ، برطانیہ اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مختلف مذاہب کے متعدد راہنماؤں سے بات چیت کر چکا ہوں اور اس مکالمہ کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی خواہش رکھتا ہوں بلکہ کوشش بھی کرتا رہتا ہوں۔

اس سیمینار کے بارے میں آئی پی سی کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کو اس کالم کا حصہ بناتے ہوئے میں اپنی گفتگو کے بعض حصے بھی ریکارڈ میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ اپنے محسنین کو یاد رکھنا ان کا حق ہونے کے ساتھ ساتھ جناب سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے آنحضرتؐ کو اپنے ایک پرانے محسن مطعم بن عدی یاد آگئے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر طائف میں پتھراؤ کرنے والے اوباش لڑکوں سے آپؐ کو پناہ دی تھی۔ اللہ تعالٰی کے آخری رسول ان لڑکوں کے پتھراؤ اور تعاقب کے باعث زخمی اور لہولہان حالت میں اپنے خادم حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف واپس آرہے تھے کہ راستہ میں مطعم بن عدی نے اپنے ڈیرے کا دروازہ کھول دیا اور آپؐ وہاں کچھ دیر ٹھہرے، خون وغیرہ دھویا اور آرام کیا۔ نبی اکرمؐ نے غزوہ بدر کے موقع پر اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان قیدیوں کی سفارش کرتے تو میں انہیں فدیہ لیے بغیر ہی آزاد کر دیتا۔ اس میں جناب رسول اکرمؐ کی طرف سے یہ تعلیم ہے کہ محسن خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اس کی احسان مندی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

دوسری بات یہ کہ میں جب اس سیمینار میں شرکت کے لیے حاضر ہوا تو مہمانوں میں جناب سبھاش چندر کو دیکھا جو آنجہانی رانا بھگوان داس کے برادر نسبتی ہیں اور مجھ سے پہلے انہوں نے شرکاء سے گفتگو کی، انہیں دیکھ کر مجھے تحریک آزادی کے نامور راہنما سبھاش چندر بوس یاد آگئے اور میں اسٹیج پر بیٹھا کچھ دیر تک ماضی کے مناظر میں کھویا رہا۔

ان گزارشات کے ساتھ اس سیمینار کے بارے میں آئی پی سی کی رپورٹ پیش خدمت ہے:

’’اسلام آباد، 12 فروری: پاکستان کی تعمیر و ترقی اور اس کے قومی اداروں کو استحکام دینے اور مضبوط بنانے میں جسٹس رانا بھگوان داس جیسے ملک کے کئی غیر مسلم فرزندوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف ان غیر مسلم ماہرین کی خدمات کو سراہا جائے بلکہ ملک کے نوجوانوں کی نظریاتی سوچ کی تعمیر کے لیے ان میں یہ آگہی بھی پیدا کی جائے کہ کس طرح ان ماہرین نے اقلیت میں سے ہونے کے باوجود ملک کی قانونی، عدالتی، آئینی اور سماجی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ اسلام آباد میں جسٹس رانا بھگوان داس کے یاد میں ہونے والی ایک تقریب کا خلاصہ تھا جس کا اہتمام اسلامی نظریاتی کونسل اور انسٹیٹوٹ آف پالیس اسٹڈیز کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا تھا۔ اس تقریب سے خظاب کرنے والوں میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، ایڈووکیٹ اکرم شیخ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایگزیگٹیو پریزیڈنٹ خالد رحمٰن، قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی، مولانا ابو عمار زاہدالراشدی، اسلام آباد ہندو پنچایت کے صدر مہیش کمار، اور جسٹس رانا بھگوان داس کے برادرِ نسبتی سبھاش چندرشامل تھے ، جبکہ سینیٹر راجہ ظفر الحق کا خصوصی پیغام بھی انسٹیٹیوٹ کے سینئیر تحقیق کار سید ندیم فرحت نے اس موقع پر پڑھ کر سنایا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ جسٹس بھگوان داس ایک محبِ وطن شہری تھے جو قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے اور اپنے تمام فیصلے بھی قوانین کی روشنی میں ہی کرتے تھے۔ انہوں نے اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی اور اسی بنا پر انہیں اسلامی فکر اور قانون پر عبور حاصل تھا۔ وہ ایک انتہائی اصول پسند انسان تھے اور انہوں نے اپنے کردار، رویے، غیر جانبداری، متوازن سوچ کی بنا پر اتنی عزّت اور اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جسٹس بھگوان داس اور ان کی طرح اقلیت سے تعلق رکھنے والے ملک کے دیگر فرزندوں مثلا جسٹس اے آر کانیلیس اور جسٹس دراب پٹیل وغیرہ کی خدمات کو یاد رکھیں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں کہ کیسے انہوں نے اپنی محنت او مستقل مزاجی سے یہ مرتبہ حاصل کیا۔ مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں اقلیتوں کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ملکی سطح پر غیر امتیازی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ اگرچہ کسی بھی ملک کی طرح یہاں بھی کچھ انتہا پسند طبقات موجود ہیں، لیکن حال میں ہی ہونے والے مختلف واقعات اور قانونی فیصلوں کی روشنی میں عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کے نظام اور معاشرے میں بھی اقلیتوں کو ان کا حق دینے کی گنجائش نظر آتی ہے۔ مقررین نے اس موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور اسلامی نظریاتی کونسل کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قومی ہیرو اور فرزندوں ، اور ان کی قومی خدمات کو یاد کرنے والی ایسی کوششوں کو جاری رہنا چاہیے۔‘‘


اپریل ۲۰۲۰ء

کورونا وائرس کی آفت اور انسانی تدابیرمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۴)ڈاکٹر محی الدین غازی
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۱٠)مولانا سمیع اللہ سعدی
الحاد، مذہب اور اہلِ مذہب: چند اہم سوالات کا جائزہڈاکٹر محمد شہباز منج
مسلم معاشروں میں جدیدیت کی تنفیذمولانا حافظ عبد الغنی محمدی
کرونا وائرس اور ہماری ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بے اصل فقہی احادیث کی فنی حیثیت اور اصحاب الحدیث کا معتدل اسلوبِ نقدمولانا محمد عبد اللہ شارق
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۵)محمد عمار خان ناصر

کورونا وائرس کی آفت اور انسانی تدابیر

محمد عمار خان ناصر

گزشتہ چند ہفتوں میں کورونا وائرس نے  ایک بڑی اجتماعی انسانی ابتلا کی صورت اختیار کر لی اور   ماہرین کے اندازوں کے مطابق دنیا کو آئندہ کئی ماہ تک اس صورت حال کا سامنا رہے گا۔ یہ ایک ناگہانی آفت ہے جس میں عبرت وموعظت کے پہلو پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ عملی تدابیر اختیار کرنے اور خدانخواستہ قابو سے باہر ہو جانے کے امکان کو سامنے رکھتے ہوئے انسانی رویوں اور جذبات کی ضروری تربیت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

تہذیبی زوال اور شناخت کے بحران کی صورت حال میں ہمارے ہاں ہر مسئلہ مختلف شناختیں رکھنے والے گروہوں  کے ہاتھوں میں ایک دوسرے کو لتاڑنے کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔  موجودہ صورت حال میں بھی اس رویے کے مظاہر سامنے آ رہے ہیں۔  مثلا  ملحدین اس کو مذہب کی ضرورت وحقیقت کی نفی کرنے کا ایک سنہری موقع جانتے ہوئے اس آفت کو  تنبیہ یا عذاب کے زاویے سے دیکھنے کا مذاق اڑا رہے ہیں، حالانکہ یہ موقع دلوں کو نرم کرنے اور ہمدردی وخیر خواہی کے جذبات کی آبیاری کا ہے۔ قدرت کی طاقتوں کے آگے انسان کی کم مائیگی تو عبرت کا ایسا پہلو ہے جس سے کوئی ٹھیٹھ ملحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ مذہبی لوگوں کا ایسی صورت حال میں رجوع الی اللہ اور استغفار کی طرف متوجہ کرنا خیر خواہی کے جذبے سے ہی ہوتا ہے۔ اسے گناہوں کی پاداش یا آزمائش یا محض مادی سطح کا ایک واقعہ، جو بھی سمجھا جائے، انسانی ہمدردی کا پہلو کسی حال میں نظری بحث وجدال میں دب نہیں جانا چاہیے۔

بعض احادیث کے حوالے سے بھی یہ  اعتراض اٹھایا گیا کہ مذہب، بیماری کے متعدی ہونے کے تصور کو تسلیم نہیں  کرتا ، حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ مرض کے متعدی ہونے یا نہ ہونے کی بحث اسلامی روایت میں ایک مفروغ عنہ بحث ہے۔ محدثین، فقہاء اور متکلمین کا مجموعی موقف اس حوالے سے واضح ہے۔ صرف علم حدیث میں یہ سوال بعض روایات کی توجیہ کے تناظر میں زیربحث آتا ہے جن میں بظاہر متعدی ہونے کی نفی کی گئی ہے، اور شارحین نے واضح کیا ہے کہ ان کا سیاق اور مقصد بالکل مختلف ہے۔اشاعرہ کے ہاں تعلیل بالأسباب کی نفی بھی بعض مابعد الطبیعیاتی سوالات کے تناظر میں کی گئی ہے، نہ کہ عمل اور تدبیر کے دائرے میں۔

ایسی صورت حال کو اجتماعی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے اور قربانی اور تعاون کی اسپرٹ سے ہی ڈیل کیا جا سکتا ہے۔ تدابیر میں اجتہادی اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور غلطیاں بھی، جنھیں خیر خواہی سے ہی موضوع بنانا چاہیے۔  کرونا کی پیدا کردہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہییں اور کیا نہیں، اس پر مختلف آرا موجود ہیں اور یقینا سب فریق اپنی دانست میں بہتری ہی چاہتے ہیں۔ ذمہ داری کا بہت بڑا حصہ ریاستی نظام سے اور اتنا ہی بڑا حصہ، احتیاطی تدابیر کے پہلو سے خود عوام سے متعلق ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ دونوں اس ناگہانی آفت سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں ہر سطح پر غلطیاں، بلکہ سنگین غلطیاں ہونے کا امکان موجود ہے جسے تبصروں اور تنقیدوں میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بہتری کے لیے مشورہ، تجویز اور تنقید تو ایک اخلاقی ذمہ داری ہے، لیکن یہ ذمہ داری حکومت اور عوام، دونوں کو غلطی کی گنجائش دیتے ہوئے ادا کرنی چاہیے۔ ہم ایک ترقی پذیر ملک کے عوام اور ریاست ہیں، اس لیے انتظامی ڈسپلن، طبی انتظامات اور ذمہ دارانہ رویے کی توقعات بھی اسی کے لحاظ سے قائم کرنی چاہییں۔ خلق خدا کو کسی نقصان سے بچانا اگر انسانی ہمدردی کے جذبے سے ہے تو خلق خدا کی استطاعت اور بساط کو مدنظر رکھنا بھی اسی ہمدردی کا تقاضا ہے۔ اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہماری گفتگو اور عوامی ذہن سازی کا رخ اس طرف ہونا چاہیے کہ صورت حال کے سنگین ہونے کی صورت میں ہم سب کو کس طرح کے عملی کردار کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

وبا کیا صورت اختیار کرے گی اور نتائج کیا نکلیں گے، یہ فی الحال اللہ ہی کے علم میں ہے۔ اللہ سے عاجزانہ دعا یہی ہے کہ شدید بحران کی صورت پیدا نہ ہو اور ہمارے نیم دلانہ اور ٹوٹے پھوٹے استغفار کو ہی پروردگار قبول فرما کر اس آزمائش سے چھٹکارا عطا فرما دے۔ آمین


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۹۲) اسبغ کا ترجمہ

لفظ اسبغ قرآن مجید میں ایک جگہ آیا ہے، جب کہ اسی مادے سے ایک جگہ سابغات کا لفظ آیا ہے، اسبغ کا مطلب ہوتا ہے اتنی فراوانی جس سے ساری ضرورتیں پوری ہوجائیں۔ جس طرح درع سابغۃ کا مطلب ہوتا ہے اتنی کشادہ زرہ کہ پورے جسم پر آجائے۔ یعنی اس میں کشادگی اور فراوانی کا مفہوم ہوتا ہے، نہ کہ تمام کرنے اور پوری کرنے کا، جیسا کہ ذیل میں بعض ترجموں میں ملتا ہے۔ علامہ طاہر بن عاشور کے الفاظ میں: اسباغ النعم: اکثارہا. (تفسیر التحریر والتنویر)، یہ درست ہے کہ اہل لغت اسباغ کے معنی اتمام کے بھی ذکر کرتے ہیں، لیکن یہاں منکرین سے خطاب ہے، اور اس پہلو سے اتمام کا معنی مناسب نہیں معلوم ہوتا ہے۔

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَہٗ ظَاهِرَۃً وَبَاطِنَۃ (لقمان: 20)

“کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟ ” (سید مودودی)

“اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں” (فتح محمد جالندھری)

“اور تمہیں بھرپور دیں اپنی نعمتیں ظاہر اور چھپی” (احمد رضا خان)

“اور تمہیں اپنی ظاہری وباطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں” (محمد جوناگڑھی)

“اور تمھیں ہر قسم کی ظاہری وباطنی نعمتیں فراوانی سے دی ہیں ” (امانت اللہ اصلاحی)

آخر کے تینوں ترجمے موزوں تر ہیں۔

(۱۹۳)    زمانہ فعل کی رعایت

درج ذیل آیت میں خبردار کیا گیا ہے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مقابلے میں اپنے آباءکی پیروی کرنے والوں کو، کہ آباءکی پیروی محفوظ عمل نہیں ہے، کیوں کہ شیطان تو ان کے پیچھے بھی لگا رہتا تھا اور انھیں بہکانے کی کوشش کیا کرتا تھا، وہ شیطان سے محفوظ تو تھے نہیں کہ ان کی پیروی کو گمراہی سے محفوظ سمجھا جائے۔ علامہ طاہر بن عاشور کے الفاظ میں: والضمیر المنصوب فی قولہ یدعوہم عائد الی الآباء، ای ایتبعون آبائہم ولو کان الشیطان یدعو الآباءالی العذاب فہم یتبعونہم الی العذاب ولا یہتدون. (تفسیر التحریر والتنویر)

اس تفسیر کی رو سے شیطان کی اس دعوت کی بات ہورہی ہے، جو وہ حاضرین کے آباءواجداد کو دیتا تھا، وہ جو کہ اب نہیں ہیں، اس لحاظ سے یدعوھم کا ترجمہ’ بلاتا رہا ہو‘، درست ہے، ’بلاتا ہو‘، اور’ بلا رہا ہو‘، حاضرین کے تعلق سے تو درست ہوسکتا ہے، ان کے گزرے ہوئے آباءکے تعلق سے درست نہیں ہوسکتا ہے۔ اس روشنی میں درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَإِذَا قِيلَ لَھُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّہُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوھُمْ إلٰی عَذَابِ السَّعِيرِ۔ (لقمان: 21)

“اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اُس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اُس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کیا یہ انہی کی پیروی کریں گے خواہ شیطان اُن کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا رہا ہو؟” (سید مودودی)

“اگرچہ شیطان ان کو عذاب دوزخ کی طرف بلاتا ہو” (احمد رضا خان)

“بھلا اگرچہ شیطان ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو (تب بھی؟)” (فتح محمد جالندھری)

“اگرچہ شیطان ان کے بڑوں کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو ” (محمد جوناگڑھی)

“اگرچہ شیطان ان (بڑوں) کو بھڑکتی آگ کے عذاب کی طرف بلا رہا ہو؟” (محمد حسین نجفی)

پہلا ترجمہ زمانہ فعل کی رعایت کے پہلو سے موزوں تر ہے۔

(۱۹۴)    سابغات کا ترجمہ

درع سابغة کا مطلب ہوتا ہے کشادہ زرہ، یعنی جوپورے جسم کو اپنے اندر لے لے۔

السابغۃ: الدرع الواسعۃ (لسان العرب)، اس حوالے سے بعض ترجمے غور طلب ہیں:

 اَنِ اعمَل سَابِغَاتٍ ۔ (سبا: 11)

“اس ہدایت کے ساتھ کہ زرہیں بنا” (سید مودودی، اس ترجمہ پر اعتراض یہ ہے کہ سابغات کا ترجمہ صرف زرہیں نہیں بلکہ کشادہ زرہیں ہونا چاہیے)

“کہ ڈھیلی ڈھالی زرہیں بناؤ” (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ پر اعتراض یہ ہے کہ یہاں مراد ہے بڑی زرہیں جو پورے بدن کو ڈھانپ لیں، جب کہ ڈھیلی ڈھالی کا مطلب یہ ہوگا کہ بدن پر ڈھیلی ہو، چاہے سائز کے لحاظ سے چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ زرہ کا ڈھیلی ڈھالی ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے)

“کہ وسیع زِر ہیں بنا” (احمد رضا خان)

“کہ کشادہ زرہیں بناؤ” (فتح محمد جالندھری)

آخر الذکر دونوں ترجمے درست ہیں۔

(۵۹۱) مخلصین لہ الدین کا ترجمہ:

الدین کا مطلب اطاعت، عبادت اور دین ہے۔ بعض لوگوں نے کہیں کہیں اس کا ترجمہ عقیدہ یا اعتقاد کیا ہے جو لفظ کی مکمل ترجمانی نہیں کرتا ہے، خود وہی مترجمین اسی اسلوب والے جملے کا دوسرے مقامات پر ترجمہ کرتے ہوئے دین کا ترجمہ عبادت اور بندگی کرتے ہیں۔

اسی طرح مخلصین کا ترجمہ خالص کرنا اور خاص کرنا سب کرتے ہیں، اور درست کرتے ہیں۔ تاہم صاحب تدبر بعض جگہ ترجمہ میں عہد کرنے کا مفہوم بڑھادیتے ہیں، جس کی لفظ میں گنجائش نہیں نکلتی ہے۔ درج ذیل مختلف ترجمے ملاحظہ کریں:

(۱) وَادعُوہُ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (الاعراف: 29)

“اور اسی کو پکارو، اسی کے لیے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے” (امین احسن اصلاحی) اس کو پکارو ہونا چاہیے، کیوں کہ عبارت میں حصر کا اسلوب نہیں ہے۔

“اور اس کی عبادت کرو نرے (خالص) اس کے بندے ہوکر ” (احمد رضا خان)

“اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خالص اللہ ہی کے واسطے رکھو” (محمد جوناگڑھی)

(۲) دَعَوُا اللَّہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (یونس: 22)

“تو وہ اللہ کو پکارتے ہیں، خالص اسی کی اطاعت کا عہد کرتے ہوئے” (امین احسن اصلاحی)

“ (اس وقت) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں ” (محمد جوناگڑھی)

“اس وقت اللہ کو پکارتے ہیں نرے اس کے بندے ہوکر” (احمد رضا خان)

(۳) فاِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللَّہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (العنکبوت: 65)

“پس جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں اسی کے لیے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے ” (امین احسن اصلاحی)

“پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لیے عبادت کو خالص کر کے” (محمد جوناگڑھی)

“پھر جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں اللہ کو پکارتے ہیں ایک اسی عقیدہ لاکر ” (احمد رضا خان)

(۴) وَاِذَا غَشِیَہُم مَوج کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (لقمان: 32)

“اور جب موجیں سائبانوں کی طرح ان کو ڈھانک لیتی ہیں وہ اللہ کو پکارتے ہیں، خالص اس کی اطاعت کا عہد کرتے ہوئے” (امین احسن اصلاحی)

“اور جب ان پر آپڑتی ہے کوئی موج پہاڑوں کی طرح تو اللہ کو پکارتے ہیں نرے اسی پر عقیدہ رکھتے ہوئے” (احمد رضا خان)

“اور جب (سمندر میں) اِن لوگوں پر ایک موج سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کر کے” (سید مودودی)

“اور جب ان پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ (نہایت) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں” (محمد جوناگڑھی)

(۵) فَادعُوا اللَّہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (غافر: 14)

“تو اللہ ہی کو پکارو اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ” (امین احسن اصلاحی)

(۶) فَادعُوہُ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (غافر: 65)

“تو اسی کو پکارو، اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ” (امین احسن اصلاحی)

(۷) وَمَا اُمِرُوا اِلَّا لِیَعبُدُوا اللَّہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ۔ (البینة: 5)

“اور ان کو حکم یہی ہوا تھا کہ وہ اللہ ہی کی بندگی کریں، اسی کی خالص اطاعت کے ساتھ” (امین احسن اصلاحی)

(۱۹۶) ویعلم مافی الارحام کا ترجمہ

رحم کے اندر پلنے والے جنین کے سلسلے میں باخبرہونے کے حوالے سے قرآن مجید پر اعتراض کیا جاتا ہے، جو دن بدن زور پکڑتا جارہا ہے، اور اس کے جو جواب عام طور سے دیئے گئے ہیں، وہ کم زور ہیں، اور دن بدن ان کی کم زوری اور زیادہ واضح ہورہی ہے۔ اس اعتراض کی بنا اس پر ہے کہ قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ ہی جانتا ہے رحم کے اندر کی صورت حال کو، کوئی اور نہیں جان سکتا ہے۔ جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ترجموں میں تو یہ بات ہے، لیکن کچھ ترجموں میں یہ بات نہیں ہے، بلکہ بغیر حصر کے ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی ’وہی جانتا ہے‘ کی بجائے ’وہ جانتا ہے‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۱)  إِنَّ اللَّہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّہَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (لقمان: 34)

“اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے” (سید مودودی)

“خدا ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے۔ اور وہی (حاملہ کے) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (کہ نر ہے یا مادہ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا۔ اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کس سرزمین میں اُسے موت آئے گی بیشک خدا ہی جاننے والا (اور) خبردار ہے” (فتح محمد جالندھری)

“بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے۔ کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا۔ (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے” (محمد جوگڑھی)

“بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ بڑا جاننے والا (اور) بڑا باخبر ہے” (محمد حسین نجفی)

“بیشک اللہ کے پاس ہے قیامت کا علم اور اتارتا ہے مینھ اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے، اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی، بیشک اللہ جاننے والا بتانے والا ہے” (احمد رضا خان)

اسی مضمون سے ملتی جلتی ایک آیت درج ذیل ہے، اس میں بھی اہل ترجمہ کے یہاں دو طرح کے ترجمے ملتے ہیں۔ یہاں بھی حصر کا معنی دینے والی کوئی علامت عبارت کے اندر نہیں ہے۔

(۲) اللَّہُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثٰی وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ۔ (الرعد: 8)

“خدا ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے)۔ اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے ” (فتح محمد جالندھری)

“اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر عورت (اپنے پیٹ میں) کیا اٹھائے پھرتی ہے؟ اور اس کو بھی (جانتا ہے) جو کچھ رحموں میں کمی یا بیشی ہوتی رہتی ہے اور اس کے نزدیک ہر چیز کی ایک مقدار مقرر ہے” (محمد حسین نجفی)

“اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے” (سید مودودی)

“اللہ جانتا ہے جو کچھ کسی مادہ کے پیٹ میں ہے اور پیٹ جو کچھ گھٹتے بڑھتے ہیں اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے” (احمد رضا خان)

“مادہ اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی، ہر چیز اس کے پاس اندازے سے ہے” (محمد جوناگڑھی)


اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۱٠)

مولانا سمیع اللہ سعدی

2۔مباحث و موضوعات

اہلسنت اور اہل تشیع کے علم مصطلح الحدیث کے مباحث،موضوعات کی ترتیب اور اسماء و اصطلاحات  کا جائزہ اگر لیا جائے  تو حیرت انگیز حد تک مماثلت (بعض جزوی اختلافات کے باوجود ،جن کی تفصیل ہم ان شا اللہ  آگے بیان کریں  گے )نظر آتی ہے ،یہاں بجا  طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شیعہ علم حدیث اور سنی علم حدیث اپنے اساسی مفاہیم و مصطلحات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے ،جیسا کہ بحث اول میں ہم اس کو مفصل بیان کر چکے ہیں ،تو پھر علمِ اصولِ حدیث میں  موضوعاتی یکسانیت کیونکر پیدا ہوئی؟اس سوال کا جواب خود شیعہ محققین کے ہاں یہ ملتا ہے کہ یہ فن بنیادی طور پر اہلسنت  کی علم مصطلح الحدیث سے ماخوذ ہے ،ماقبل کی  کی اقساط میں  ہم اخباری علماء کے بعض حوالہ جات اس حوالے سے نقل کر چکے ہیں ،اب  اصولی علماء کی شہادت ذکر کی جاتی ہے :

گیارہویں صدی ہجری کے معروف   شیعہ عالم  حسین بن شہاب کرکی لکھتے ہیں :

"و اول من الف فی الدرایہ من اصحابنا الشہید الثانی اختصر  درایۃ ابن الصلاح الشافعی  فی رسالتہ ثم شرحہا"1

 ترجمہ :ہمارے  اصحاب میں سے علم الدرایہ میں سب سے پہلی تصنیف شہید ثانی کی کتاب ہے ،جس میں انہوں نے ابن صلاح کی کتاب کا اختصار کیا ،پھر خود اپنے تیار کردہ متن کی شرح لکھی ۔

معروف اصولی محقق و محدث علامہ خوئی لکھتے ہیں:

"وھو اول من صنف من الامامیہ فی درایۃ الحدیث لکنہ نقل الاصطلاحات من کتب العامۃ  کما ذکرہ ولدہ و غیرہ"2

ترجمہ: شہید ثانی درایہ میں لکھنے والے پہلے امامی مصنف ہیں ،لیکن انہوں نے یہ اصطلاحات عامہ (اہلسنت)  سے نقل کی ہیں ،جیسا کہ یہ اعتراف ان کے بیٹے اور دیگر شیعہ علماء کرچکے ہیں ۔

شہید ثانی کی مذکورہ کتاب  البدایہ فی علم الدرایہ کے محقق غلام حسین قیصریہ  اس کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

"وجدنا  ان الشہید تاثر بمقدمہ ابن الصلاح"3

یعنی اثنائے تحقیق ہمیں یہ محسوس ہوا کہ شہید ثانی مقدمہ ابن الصلاح سے متاثر ہیں۔

اس پر اخباری علماء کثرت سے لکھ چکے ہیں کہ یہ فن اہلسنت سے ماخوذ ہے ،(پچھلی اقساط میں بعض  حوالے آچکے ہیں )اخباری و اصولی علماء کی ان تصریحات  جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اہل تشیع کا علم الدرایہ اہلسنت کے علم مصطلح الحدیث کا چربہ اور اسی کی نقل ہے ،یہاں تک کہ امثلہ و شواہد بھی تقریبا وہی لیے گئے ہیں ،جو اہلسنت کی کتب میں مذکور ہیں کما مر ،تو بجا طور پر سوال  پیدا ہوتا ہے کہ وہ فن جو اہلسنت کے حدیثی ذخیرے کو پرکھنے کے لیے وضع کیا گیا ہے ،تو اس فن سے اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ کیسے اور کیونکر پرکھا جاسکے گا،جب ہر دو علوم اپنی اساسیات و مبادیات میں کلی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،دونوں کا زمانہ تدوین الگ الگ ،معیارات  نقد الگ الگ ،حدیث و سنت کا مفہوم الگ الگ ،وغیرہ۔

3۔ انواعِ حدیث

اہل تشیع کا علم الدرایہ اگرچہ بنیادی طور پر اہل سنت کے علم مصطلح الحدیث سے ماخوذ ہے ،لیکن علمائے شیعہ نے اس اخذ و التقاط کے عمل میں  اپنے ذخیرہ حدیث کے اعتبار سے کچھ تبدیلیاں کیں ،اس بحث میں انہی تبدیلیوں کا موازنہ اہل سنت کے علم مصطلح الحدیث سے کریں گے تاکہ ہر دو علوم کے محاسن و مساوی کا تقابل سامنے آسکے ۔ اس عنوان میں  ہر دو علوم میں  احادیث کی مقبول و مردود کے اعتبار سے جو  تقسیم کی گئی ہے ، نکات کی شکل میں  دونوں علوم میں کی گئی تقسیم کا  موازنہ پیش کیا جائے گا :

1۔حدیث کی صحت کے لیے اہل سنت محدثین نے عدمِ شذوذ اور عدمِ علت کی شرط لگائی ہے ،جبکہ اہل تشیع محدثین کے  ہاں حدیث کے صحیح ہونے کے لیے اس کا شذوذ و علت سے خالی ہونا شرط نہیں ،یوں اہل سنت کا معیار بنسبت اہل تشیع کے ،زیادہ کڑا اور سخت ہے ،اس بات پر ہم پچھلی اقساط میں بحث کر چکے ہیں ۔

2۔ اہل سنت محدثین نے مقبول حدیث کی اقسام میں سے دو اقسام (صحیح لغیرہ اور حسن لغیرہ ) کی بنیاد کثرت طرق پر رکھی ہے ،کیونکہ اہل سنت  کے حدیثی ذخیرے میں تکرار کثرت سے واقع ہوا ہے ،جیسا کہ ہم اس کی تفصیل اس سلسلے کی تعداد روایات والے عنوان کے تحت بیان کرچکے ہیں ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں مقبول حدیث کی چاروں  اقسام (صحیح ،حسن ،موثق ،قوی ) میں سے کوئی بھی قسم کثرت طرق و اسناد پر مبنی نہیں ہے ،کیونکہ اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے میں تکرار نہ ہونے کے برابر ہے کما مر ،اس لیے کثرت طرق و اسناد پر مقبول خبر کی کسی قسم کی بنیاد  رکھنا امر ِواقعہ کے اعتبار سے لغو اور ناممکن تھی ۔

3۔اہل سنت کے ہاں مقبول حدیث کی دو  پہلی اعلی اقسام (صحیح و حسن ) میں اتصال ِسند ،عدالت ِراوی ،عدم شذو،عدم ِعلت ضروری ہے ،صحیح و حسن میں فرق صرف یہ ہے کہ صحیح کے رواۃ ضبط میں اعلی مقام پر فائز ہوتے ہیں جبکہ حسن میں رواۃ نفس  ضبط  کے حامل ہوتے ہوئے درجہ میں صحیح رواۃ سے   ناقص ہوتے ہیں ،جبکہ اس برخلاف اگر ہم اہل تشیع کے ہاں مقبول خبر کی پہلی دو اعلی اقسام (صحیح و حسن ) کو دیکھیں ،تو  ان دونوں میں فرق عدالت کے ثبوت و عدمِ ثبوت پر ہے کہ صحیح حدیث کے رواۃ سارے امامی عادل ہوتے ہیں ،جبکہ حسن حدیث کے رواۃ کی عدالت ثابت نہیں ہوتی ،بلکہ وہ مستور الحال ہوتے ہیں ،صرف ان کے حق میں مدح مطلق ثابت ہوتی ہے ،چنانچہ زین الدین عاملی حسن  حدیث کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ھو ما اتصل سندہ بامامی مدوح من غیر نص علی عدالتہ فی جمیع مراتبہ او فی بعضھا ،مع کون الباقی من رجال الصحیح"4

یعنی حسن حدیث وہ ہے ،جس کی سند متصل ہو اور اس کے رواۃ سارے امامی ممدوحین ہوں ،لیکن ان کی عدالت پر کسی کی کوئی تصریح نہ ہو ،تمام طبقات میں یا بعض طبقات میں ،اور باقی رواۃ صحیح حدیث کے رواۃ ہوں ۔

اہل علم جانتے ہیں کہ حدیث کے معتبر ہونے یا نہ ہونے میں عدالت بنیادی ترین وصف ہے ،اہلسنت کے ہاں مردود حدیث کی اقسام  انقطاعِ سند یا عدمِ عدالت سے بنتی ہیں ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں صحیح حدیث کی دوسری بڑی قسم کے لیے عدالت کی صراحت یا اس کے ثبوت کی ضرورت نہیں ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ  جو قسم اہل سنت کے ہاں عدم ِ ثبوتِ عدالت کی وجہ سے خبر مردود میں شامل ہوتی ہے ،وہی قسم اہل تشیع کے ہاں مقبول حدیث کی دوسری بڑی قسم  شمار ہوتی ہے ،اس سے اہل سنت اور اہل تشیع کے معیارات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

4۔ اہل تشیع  محدثین نے مقبول حدیث کی پہلی دو اعلی اقسام (صحیح و حسن ) کے لیے ایک بنیادی شرط "امامی "ہونا بیان کیا ہے ،لہذا شیعہ اصول ِحدیث کی رو سے   راوی خواہ کتنا ہی ضابط ،کتنا ہی عادل اور کتنا ہی ثقہ کیوں نہ ہو ،اگر وہ امامی نہیں ہے ،تو اس کی حدیث صحیح و حسن کی درجہ بندی میں نہیں آسکتی ، جبکہ اس کے برخلاف اہل سنت کے ہاں اس قسم کی کوئی شرط نہیں ہے ،چنانچہ اہل سنت کے ہاں صحیح و حسن حدیث کی شرائط  میں راوی کا اہل سنت میں سے ہونا شرط نہیں ہے ،خود امام بخاری  نے صحیح بخاری میں  متعدد ایسے رواۃ کی روایت کو صحیح سمجھتے ہوئے  اپنی کتاب میں درج کیا ،جو اہل سنت میں سے نہیں ہیں ،ان رواۃ کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری کے مقدمے ہدی الساری میں دی ہے ،اس شرط سے  ایک  خالص علمی سرگرمی میں "مذہبی تعصب " کی واضح جھلک نظر آتی ہے ۔

5۔ اہل تشیع کے ہاں مقبول حدیث کی اقسام میں سے ایک قسم "قوی حدیث" کی ہے ، شیعہ محدثین کے ہاں  اس قسم کی تعریف یوں کی گئی ہے :

"الحدیث الذی یکون جمیع رواتہ من الامامیہ و لم یرد فیھم  او فی بعضھم مدحا کما ھو الحال فی الحدیث الحسن  او ذما فرتبتہ بعد الحسن و قبل الموثق"5

یعنی وہ حدیث جس کے جملہ رواۃ امامی شیعہ ہوں اور ان میں سے سب کے یا بعض کے بارے میں مدح و ذم منقول نہ ہو ،تو اس کو قوی کہا جاتا ہے ،درجہ بندی میں یہ حسن کے بعد اور موثق سے پہلے ہے ۔

اس حدیث کے حوالے سے پہلی بات تو قابل بحث یہ ہے کہ اہل سنت محدثین ایسے  رواۃ کی حدیث کو مجہول العین (جب اس سے ایک راوی روایت کرے ) یا مجہول الحال (جب اس سے دو یا اس سے زیادہ راوی روایت کرے) کی درجہ بندی میں لاتے ہیں اور مجہول راوی کی روایت جمہور اہل سنت کے ہاں  رد ہے ،البتہ بعض محدثین اس کے قبول و عدم قبول میں توقف کرتے ہیں ۔6 یعنی وہ بھی قبول نہیں کرتے ،اسی وجہ سے اہلسنت کی کتب مصطلح الحدیث میں مجہول حدیث  حدیث کی مردود اقسام میں شمار کی گئی ہے،جبکہ اہل تشیع محدثین ایسے راوی کی روایت کو مقبول حدیث کی تیسری قسم میں شمار کرتے ہیں ،اس سے اہل سنت اور اہل تشیع کے معیاراتِ نقد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

دوسری بات یہ قابل ذکر ہے کہ اہل تشیع محدثین نے قوی حدیث کو درجہ بندی میں  موثق حدیث (وہ حدیث جس کے  کل یا بعض رواۃ غیر امامی ہوں اور ان کی توثیق شیعہ محدثین و اہل علم کی زبانی ثابت ہوچکی ہو )سے پہلے  رکھتے ہیں ،جو مذہبی تعصب(اور ساتھ غیر معقولیت ) کی ایک واضح مثال ہے ،کہ جس  حدیث کے رواۃ کی ثقاہت  خود  شیعہ  اہل علم کی زبانی ثابت ہوچکی ہو ،ان کی حدیث باوجود ثقہ ہونے کے ایسے رواۃ سے کم درجہ کی ہے ،جو امامی ہوں ،لیکن ان کی ثقاہت و عدالت کے بارے میں شیعہ تراث خاموش ہو،گویا اہل تشیع کے ہاں ایک  مجہول الحال امامی ایک ثابت شدہ ثقہ(جس کی توثیق خود شیعہ اہل علم کر چکے ہوں  ) غیرامامی سے روایت ِحدیث میں اعلی شمار ہوگا ۔یا للاسف

6۔مقبول حدیث کی اقسام  کا تقابل کرتے ہوئے ایک اہم چیز یہ نظر آتی ہے کہ اہل سنت محدثین کے ہاں حدیث کی صحت میں ضبط یعنی حدیث کو زبانی یا تحریری یاد رکھنا خصوصی اہمیت کا حامل ہے ،چنانچہ اسی ضبط کی بنیاد پر  اہل سنت کے ہاں مقبول حدیث صحیح و حسن میں بٹ جاتی ہے کہ حسن کے رواۃ ضبط میں صحیح سے ناقص  ہوتے  ہیں ، چونکہ ضبط کی بنیاد پر حدیث صحیح یا حسن قرار پاتی ہے ،اس لیے محدثین ِ اہل سنت نے ضبط تام اور ضبط ناقص کے معیارات  مقرر کئے ہیں ،اسی طرح اہل سنت محدثین نے سییء الحفظ یعنی حافظے کے اعتبار سے کمزور رواۃ یا وہ رواۃ جن کا حافظہ کسی وجہ سے بگڑ چکا ہو، اس پر اختلاط کے عنوان سے مفصل بحث کی ہے ،الرواۃ المختلطون  پر مستقل کتب لکھی گئیں ہیں   اور  ایسے رواۃ کے بارے میں اس بات کی تعیین کی کوشش کی گئی ہے کہ کس راوی کا حافظہ کب ،کہاں اور کس بنیاد پر کمزور پڑ گیا ؟اور اس کی کون کون سی احادیث اس زمانے کی ہیں ،7 جبکہ اس کے برخلاف جب ہم اس حوالے سے اہل تشیع  کا علم الدرایہ دیکھتے ہیں ،تو ضبط کے بارے میں اہل تشیع محدثین کے ہاں وہ حساسیت اور وہ تفصیل نظر نہیں آتی ،جو اہل سنت کے ہاں موجود ہیں ،چنانچہ علم الدرایہ کی اولین کتب جیسے زین الدین عاملی کی البدایہ اور اس کی شروحات میں مقبول حدیث کی شرائط میں ضبط کا ذکر ہی مفقود ہے ،چنانچہ زین الدین عاملی البدایہ میں صحیح حدیث کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"الصحیح وھو  ما اتصل سندہ الی المعصوم بنقل العدل الامامی عن مثلہ فی جمیع الطبقات و ان اعتراہ شذوذ"8

یعنی صحیح حدیث وہ ہے ،جس کی سند معصوم تک متصل ہو اور اس کے جملہ طبقات کے راوی عادل امامی ہوں خواہ اس حدیث میں شذوذ ہو ۔

بعد کے علمائے شیعہ میں ضبط کے حوالے سے بحث پیدا ہوگئی ،کہ زین الدین عاملی نے ضبط کو بیان کیوں نہیں کیا؟چنانچہ بعض محدثین کے ہاں ضبط  کی شرط عدالت میں داخل ہے ،جبکہ بعض کے نزدیک ضبط کو  عدالت میں داخل کرنا درست نہیں ،اسے الگ بیان کرنا چاہیئے،اس کی تفصیل علامہ مامقانی نے  اپنی مفصل کتاب "مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ"9 میں دی ہے ۔

7۔ حدیث کی صحت و حسن میں چونکہ ضبط بنیادی ترین عامل ہے ،اس لیے علمائے اہل سنت کے ہاں راوی کے ضبط کے بارے میں باقاعدہ کلمات مقرر کئے گئے ہیں ،ہم ذیل میں وہ الفاظ دیتے ہیں ،جو نفیا یا اثباتا راوی  کے ضبط کے کامل ،ناقص یا فقدان پر دلالت کرتے ہیں :

متقن،اضبط الناس،ضابط،کانہ مصحف ،سیء الحفظ ،یھم،لہ اوہام ،تغیر باخرہ ،لین الحدیث ،فیہ لین ،ردیء الحفظ ،لم یکن ممن یحفظ الحدیث ،مضطرب الحدیث ،یخالف فی حدیثہ ،کثیر الخطا،ربما یخالف،لیس من اہل الحفظ

یہ سب الفاظ ضبط کےمختلف مراتب کو ظاہر کرتے ہیں ،ان الفاظ کا مرتبہ معلوم کرنے کے لیے معروف محقق عبد الماجد غوری کی کتاب "معجم الفاظ الجرح و التعدیل" اور دیگر کتب ِجرح و تعدیل  کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ۔

اس کے برعکس جب شیعہ علم الدرایہ کو دیکھتے ہیں ،تو وہاں ضبط بتانے کے لیے یا اس کا کوئی درجہ بتانے کے لیے کوئی لفظ ہی موجود نہیں ہے ،چنانچہ علامہ مامقانی اس حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے  لکھتے ہیں:

"لایقال لو کان  الضبط شرطا للزم اہل الرجال الاعتناء بہ و تحقیقہ  والتصریح بہ کما فی العدالۃ"10

یعنی یہ سوال نہ اٹھایا جائے کہ اگر راوی کا ضبط بھی صحت حدیث کے لیے ایک لازمی شرط ہوتا ،تو علمائے رجال اس کے ساتھ ضرور اعتنا کرتے ،اور اس کی تحقیق و التصریح کرتے جیسا کہ عدالت کی صراحت کرتے ہیں ۔

علامہ مامقانی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہی سوال علامہ بہائی کو بھی پیدا ہوا کہ  علمائے رجال نے راوی کے ضبط کے بارے میں کوئی صراحت نہیں کی ،تو ہم راوی کا ضبط کیسے معلوم کریں گے ؟پھر علامہ بہائی کا جواب نقل کیا ہے کہ علمائے رجال جب کسی کے بارے میں ثقۃ کے الفاظ کہتے ہیں ،تو دراصل وہ "عدل ضابط" کے الفاظ کہہ رہے ہوتے ہیں،اس لیے ثقۃ کے لفظ میں ضبط کاذکر بھی آگیا۔11

علامہ مامقانی کی یہ تاویل قبول بھی کر لی جائے ،تب بھی  لفظ ثقہ  صرف  نفسِ ضبط بتائے گا ،ضبط میں اعلی و ادنی درجات ،ضبط میں کمی ،آخر عمر میں اختلاط   ،روایت ِحدیث میں اوہام کی قلت یا کثرت جیسے امور پھر بھی تشنہ طلب رہیں گے ۔ اہل سنت کے ہاں چونکہ ضبط کے بارے میں مستقل کلمات ہیں ،اس لیے اہل سنت کو ثقہ کے مفہوم میں ضبط کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں رہی ،اس لیے   جمہور  محدثین ثقہ کے لفظ کو صرف عدالت کے اثبات کے لیے استعمال کرتے ہیں ،اس میں ضبط کو شامل نہیں کرتے ،چنانچہ محقق عبد الماجد غوری علامہ سخاوی  کا قول نقل کرتے ہوئے  لکھتے ہیں :

"ان تفسیر الثقۃ بمن فیہ وصف زائد علی العدالۃ وھو الضبط انما ھو اصطلاح لبعضھم"12

یعنی ثقہ کے لفظ میں عدالت کے ساتھ ضبط کو بھی شامل کرنا بعض محدثین کی اصطلاح ہے ۔

8۔اہل تشیع  محدثین نے  صحیح حدیث کو تین اقسام  اعلی ،اوسط اور ادنی میں تقسیم کیا ہے ،ان میں صحیح ِادنی  کی تعریف یوں کی گئی ہے:

"الصحیح الادنی بان تثبت عدالۃ السند بظنون اجتہادیۃ لا عن شہادۃ حسیۃ ،والمراد من الظنون الاحتمال الراجح الذی یحصل من امثال استصحاب العدالۃ او اصالۃ عدم الفسق فی کل امامی او ایۃ جھۃ اخری اوجبت الظن بعدالۃ الرجل و وثاقتہ ،و یطلق علیھا الظنون الرجالیہ"13

یعنی  صحیح ادنی سے مراد یہ ہے کہ رواۃِ سند کی عدالت حسی شہادت کی بجائے  اجتہادی گمان سے ثابت ہو ،اور ان ظنون سے مراد یہ ہے کہ ہر امامی میں عدالت  و عدم فسق  کو اصل مانا جائے ،یا کوئی اور ایسی وجہ ،جس کی وجہ سے راوی کی عدالت و وثاقت ثابت ہوجائے ،اور اس ظنی عدالت کی وجہ سے صحت کے احتمال کو ترجیح دی جائے ،ان جیسے ظنون کو ظنون رجالیہ کہتے ہیں۔

 اسی سے ملتی جلتی تعریف  شیخ جعفر سبحانی نے اپنی کتاب "اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ " میں کی ہے،14  اس تعریف سے جہاں حدیث کی صحت میں اہل تشیع کا  انتہا درجے کا تساہل ثابت ہوتا ہے کہ محض کسی شخص کے بارےمیں ظاہری فسق نہ ہونے کی وجہ سے اسے روایت کے باب میں   باقاعدہ عادل و ثقہ فرض کر کے اس کی روایت صحیح  یعنی روایت ِ مقبول کی پہلی قسم قرار دی گئی ہے ، وہیں  مسلکی تعصب بھی عیاں ہوتا ہے کہ ہر امامی کو غیر فاسق اور عادل مانا گیا ہے ،جب تک اس کے بارے میں ظاہری فسق کی کوئی شہادت نہ ہو ،اہل تشیع محققین عموما   صحابہ کے بارے میں اہل سنت کے اصول "الصحابۃ کلھم عدول"  کو غیر معقول قرار دیتے آئے ہیں کہ یوں بلا تحقیق سب صحابہ کو محض صحابہ ہونے کی بنیاد پر عادل قرار دینا ایک غیر عقلی اور عقیدت پر مبنی اصول ہے ،لیکن خود یہی اصول تمام  امامی شیعوں کے بارے میں ا پنا رہے ہیں کہ  کسی شخص کی عدالت و وثاقت محض اس کے امامی ہونے کی وجہ سے  ثابت ہوگی ،جب تک اس کا فسق ظاہر نہ ہوا ہو ،حالانکہ صحابہ کرام کے بارے میں قرآن پاک کی نص صریح "رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ" ثابت ہے ،تو نص صریح اور  بنص قرآن صحابہ کا ایمان ثابت ہونے کے باوجود انہیں عادل سمجھنا اہل تشیع کے ہاں غیر عقلی ہے ،لیکن محض کسی کے امامی ہونے کی وجہ سے  اسے عادل سمجھنا  اہل تشیع کے اصول ِحدیث کا ایک اصولی قاعدہ ہے ،یا للعجب و یا للاسف

حواشی

1.  ہدایۃ الابرار ،حسین بن شہاب الکرکی ،ص104

2.  معجم رجال الحدیث ،خوئی ،ج8،ص385

3.   مقدمہ تحقیق البدایہ فی علم الدرایہ ،ص19 ،بحوالہ الجرح و التعدیل عند الشیعۃ ،عرض و نقد،سعد راشد عوض ،ص68

4.   البدایہ فی علم الدرایہ ،زین الدین عاملی ،قم المقدسہ ،ص24

5.  دروس فی علم الدرایہ ،سید رضا مودب،مرکز دراسات المصطفی الدولی ،قم،ص57

6.  دیکھیے :نزھۃ النظر،بحث الجہالۃ و اسبابہا

7.  دیکھیے:المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ،عبد الماجد غوری ،ص

8.  البدایہ فی علم الدرایہ ،زین الدین عاملی ،قم المقدسہ ،ص23

9.  دیکھیے:مقباس الہدایہ فی علم الدرایہ ،عبد اللہ مامقانی ،منشورات دلیل ما ،قم ،ج1،ص 334

10.  ایضا:مقباس الہدایہ ،ج1،ص337

11.  ایضا:ج1،ص334

12.  معجم الفاظ الجرح و التعدیل،سید عبد الماجد ٖغوری،دار ابن کثیر ،ص117

13.  اضواء علی علم الدرایہ و الرجال ،سید ہاشم ہاشمی ،دار التفسیر ،قم،ص138

14.  اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ ،جعفر سبحانی ،ص59

(جاری)

الحاد، مذہب اور اہلِ مذہب: چند اہم سوالات کا جائزہ

ڈاکٹر محمد شہباز منج

مذہب اور الحاد کی فکری  پیکار یوں تو  جاری ہی رہتی ہے، لیکن کرونا وائرس کے تناظر میں آج کل اس  پر بحث کچھ زیادہ ہی  ہو رہی ہے ،اور ہونی بھی چاہیے کہ اس نوعیت کے حالات میں مذہب کے حامی اور مخالف کیمپوں کے عمومی نقطہ ہائے نظر کے ساتھ ساتھ ان کے رویوں سے جڑے  چند اہم مباحث پر گفت گو خصوصی اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اہم نکات و سوالات  کو لے کر ملحدین کے ساتھ ساتھ اہلِ مذہب کے عمومی رویوں کا بھی تجزیہ کیا جائےتا کہ معروضی انداز سے درست نتائج تک پہنچنے میں سہولت ہو۔

ایک سوال  ملحدین  کی طرف یہ کیا جا رہا ہے کہ  دیکھیں کرونا نے کعبے اور عبادت خانوں کو ویران کر دیا ہے۔ اگر مذہب کی کوئی حقیقت ہوتی ، خدا کہیں موجود ہوتا تو   عام مسجدوں کو چھوڑیں کعبے کو تو ویران ہونے سے بچا ہی لیتا؟یہ مذہبی لوگ کہتے ہیں  ہر چیز  خدا کے  اختیار میں ہے تو کرونا کو کعبے سے دور کہیں روکے نا ، ہم بھی تو دیکھیں خدا کی طاقت!

ملحدین کا یہ اعتراض   محض ایک  جذباتیت اور سطحیت  ہے، جس سے ایک تو یہ واضح ہوتا ہے کہ  وہ  انکار ِ خدا کے معاملے میں اس سے زیادہ  تعصب کا شکار ہیں  جس کا الزام وہ اقرارِ خدا کے معاملے میں اہلِ مذہب پر لگاتے رہتے  ہیں۔ دوسرے یہ کہ  عقل و خرد کو معیارِ استدلال ماننے والے یہ حضرات اس نوع کے سوالات کرتے ہوئے عقل و  خرد کوبالکل ایک طرف رکھ کر محض شاعری سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور تیسرے یہ کہ اپنے اس دعوے میں وہ  مذہب کی پوزیشن سے یا تو یکسر ناواقفیت کا مظاہرہ کر رہے  ہوتے ہیں یا پھر اس کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیا مذہب نے کہیں یا دعویٰ کیا ہے کہ عبادت خانوں، مسجدوں یا کعبے کو کوئی ویران نہیں کر سکتا! یاکسی میں یہ طاقت نہیں کہ اس کے گھر کو نقصان پہنچا سکے، یااس میں کوئی غلط کام کر سکے،یا  اس میں کوئی وائرس داخل ہو سکے،یا  اس میں داخل ہونے والا کوئی بندہ بیمار ہو سکے۔ اس طرح کا کوئی دعویٰ مذہب میں سرے سے موجود ہی  نہیں ہے۔مذہب تو اس کے برعکس  واضح طور پر تسلیم کرتا ہے کہ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے، اس کے گھر کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے ، کعبے کو گندا کیا جا سکتا ہے۔ بھلا اس کے گھر کو نقصان  نہ پہنچایا جا سکتا ہو تو وہ یہ کیوں کہے کہ کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو لوگوں کو اس کی مسجدوں میں جانے سے روکے ، اور ان کو خراب کرنے کی کوشش کرے۔(البقرہ:114)ظاہر ہے مذمت اسی فعل کی کی جا سکتی ہے، جو یا تو لوگ کرتے ہوں یا کر سکتے ہوں ۔  اور اگر اس کے گھر کو گندا نہ کیا جاسکتا ہو تو وہ یہ کیوں کہے کہ ہم نے ابراہیم و اسماعیل سے وعدہ لیا کہ وہ  ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور او رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک و صاف رکھیں(البقرہ:125)اگر کعبے کو گندہ نہ کیا جا سکتا تو اس میں تین سو ساٹھ بت خدا کیوں رکھنے دیتا۔حضورﷺ پر کعبے کے اندر کفار کی طرف سے ظلم و زیادتی کیوں ہونے دیتا۔سو  بات یہ ہے کہ  یہ سوال اٹھانے والے مذہب کی اس پوزیشن کو بالکل نظر انداز کر جاتے ہیں کہ اس نے یہ کہا ہی نہیں کہ اللہ کے گھر کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا یا خراب نہیں کیا جا سکتا۔

جہاں تک اس سوال  کا تعلق ہے کہ اللہ ہر چیز ہر قادر ہے تو اپنے گھر کو نقصان پہنچانے ہی کیوں دیتا ہے؟ تو یہ پھر ایک انتہائی سطحی سوال ہے ،جو مذہب ، انسان ، خدا اور اس دنیا میں انسان کے کردار اور تصورِ آزمائش و امتحان کو نظر انداز کر دینے کا نتیجہ ہے۔بات یہ ہے کہ مذہب کے مطابق اللہ نے اس دنیا میں انسان کو آزمایش کے لیے بھیجا ہے اور اسے  نیک و بد ہر کام  کی  اجازت دی ہے۔ وہ کسی بندے کو کسی برے کام سے زبردستی نہیں روکتا، اگر ایسا کرے تو آزمایش کا سارا فلسفہ ہی فضول قرار پائے گا، حالانکہ مذہب کا بنیادی مقدمہ اور مقصد و منشور ہی یہی ہے۔ ہاں یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کسی برے کی برائی سے خوش نہیں ہوتا۔مثلاً اس کے گھر کو نقصان پہنچایا تو جا سکتا ہے ، لیکن اس عمل سے وہ خوش نہیں ہوتا ،بلکہ ناراض ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو اس کے گھر کی آبادی کی کوشش کرتا ہے ،اس سے وہ خوش ہوتا ہے۔لیکن ان دونوں قسم کے لوگوں کے عمل کا نتیجہ اس کی مشیت کے مطابق وقوع پذیر ہوتا ہے، اور ایسا ہونا آزمایش کے مذکورہ بنیادی مذہبی تصور کے عین مطابق ہے۔

ملحدین  اپنے زعم میں اہلِ مذہب کے خدا کو ایسا سمجھتے ہیں کہ گویا وہ   اپنے نافرمانوں  کے خلاف برسرِ جنگ ہے۔ اس کو ہر وقت ان لوگوں پر کچیچیاں چڑھ  رہی ہیں، جو اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔جب  کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے ،اور وہ یہ  کہ خدا اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے،وہ نافرمانوں کو بھی موقع دیتا ہے کہ واپس آجائیں۔ کسی سے کتنی غلطیاں ہو گئی ہوں، وہ اس کے حضور حاضر ہو کر معافی کو خواستگار ہو تو وہ  نہ صرف معاف فرما دیتا ہے بلکہ انعام و اکرام سے بھی نوازتا ہے۔ زیادہ سرکش لوگ تو بعض اوقات اس  کی مان لینے کے بعد زیادہ مطیع ہو جاتے ہیں، حتی کہ ان لوگوں سے بھی زیادہ جو پہلے سے نیکی کر رہے ہوں ۔ لہذا  وہ فورا کسی برائی کرنے والے کا ہاتھ نہیں  روکتا۔وہ برائی کو مٹانے سے  خوش ہوتا، برے کو مٹانے سے نہیں۔برے کے حوالے سے تو وہ ہمدردی رکھتا ہے اور پیغمبروں تک کو آخری حد تک جا کر ان کے راہ  راست پر آجانے کے لیے کام کرنے  کی ہدایت کرتا ہے، اور پیغمبر بھی ان کے لیے اتنی ہمدردی رکھتے ہیں کہ خود خدا کو  کہنا پڑتا ہے  کہ آپ تو ان کے راہ راست پر نہ آنے کا تنا غم کر رہے کہ اپنی  جان ہی کو ہلاک کر ڈالنے پر اتر آئے ہیں۔

تو پھر یہ کرونا وائرس یا اس طرح کی بیماریوں اور قدرتی آفات کو اللہ کی ناراضی سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے؟ اس سوال کے حوالے سے  واضح رہے کہ  اس نوع کی بیماریوں کے بارے میں مذہبی موقف یہ نہیں ہے کہ وہ ہر صورت میں  کسی پر عذاب یا اس سے اللہ کی ناراضی ہی کی مظہر ہوتی ہیں۔ ان میں سارے عنصر ہو سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کسی کی آزمایش کے لیے بھی ہو سکتی ہیں، حالانکہ اللہ اس سے ناراض نہ ہو، مثلاً اللہ کے نبیوں اور بعض بڑے نیک لوگوں کو اس ذریعے سے آزمایا گیا، حالانکہ اللہ  ان سے پہلے ہی راضی تھا۔ یا  پھر کسی بیمار کے حوالے سے دوسروں کے رویے کے امتحان کا پہلو بھی ان میں شامل ہو سکتا ہے، کہ کسی پر کوئی مصیبت اور بیماری آئے تو دوسرے اس سے متعلق کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں! کبھی یہ بطور عذاب بھی آ سکتی ہیں، جیسا کہ تاریخ میں مختلف قوموں پر عذاب آیا، اس صورت میں یہ اللہ کی ناراضی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ لیکن عذاب کے لیے ہونے کے حوالے بھی ان  کا ایک خاص پس منظر ہوتا ہے ، اللہ نے اپنی بسیط حکمت کے تحت ان پر عذاب لانا ہوتا ہے۔ کبھی وہ ناراض ہو تو بھی عذاب نہیں دیتا ، مہلت دیتا ہے۔ گویا مختلف حالات میں ایسی وباؤں کی نوعیت  سے متعلق  مذہبی نوعیت کے سوال کا جواب مختلف ہو سکتا ہے۔ اصل چیز اس میں بندے کا رویہ ہوتا ہے۔ مذہب کی رو سے بندے کاکام یہ ہے کہ اللہ سے معافی اور مدد کا طلب گار رہے اور اپنی دنیوی تدبیر ، اسباب  اور کوشش میں بھی کوئی کوتاہی نہ کرے(تدبیر و دعا کے حوالے سے ذرا تفصیلی بحث آگے آتی ہے)

اب اس  حوالے سے ذرا  عوامی اور سطحی مذہبی رویے کو دیکھیے۔ وہ بھی ملحدین کے مذکورہ رویے کی طرح فضول اور مذہب کی درست تعبیر سے کوسوں دور ہے۔ مثلاً ان کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اللہ اپنے گھر اور اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے، لہذا مسجدوں ،خانے کعبے اور مذہبی اجتماعات پر روک لگانایا  کسی بھی ضرورت کے تحت لوگوں کو اس میں عبادت سے روکنا  اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔اس مزاج اور رویے کے حامل لوگوں کے مذہبی رہنما بھی اسی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں ، یہ جذباتی باتیں کر کے مذہب کے مقدمے کو اتنا خراب کرتے ہیں کہ ملحدین کو اعتراضات کا موقع مل جاتا ہے ( اس لیے کہ ملحدین اکثرو بیشتر اپنی ترنگ میں مذہب کی صحیح پوزیشن جانے بغیر اس کے ایسے خوش عقیدہ پیروکاروں کی بے بصیرتی کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں )مثلاً ان مذہبی خوش عقیدہ لوگوں اور مذہبی رہنماؤں  میں سے   کوئی کہتا ہے کہ  خانہ کعبہ کو کھولو، وہاں کوئی نقصان کیسے ہو سکتا ہے؟ کوئی کہتا ہے  میرے فلاں مذہبی اجتماع میں کسی کو کرونا نہیں ہو سکتا، ہو جائے تو مجھے  پھانسی دے دینا (ابھی مولانا جلالی صاحب کا بیان آیا تھا کہ ان کی سنی کانفرنس میں کسی کو کرونا ہو جائے ،تو مجھے پھانسی دیے دیں)۔ یہ لوگ لوگوں کے مذہبی جذبات  سے کھیلتے ہیں۔یہ بظاہر مذہب کے سچے داعی اور اس پر کامل یقین رکھنے والے ہونے کے مدعی ہوتے ہیں، لیکن فی الواقع وہی کام کر رہے ہوتے ہیں، جو  ملحدین کرتے ہیں، اور وہ یہ کہ مذہب کے نام پر ایسے دعوے کر رہے ہوتے ہیں ، جو مذہب کے دعوے ہیں ہی  نہیں،بلکہ مذہبی نظام ایسے دعوؤں کی  دو ٹوک تردید کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ دعوی کرنا کہ فلاں اجتماع میں کسی کو  کچھ نہیں ہو سکتا، مذہب  کی حمایت نہیں اس کی مخالفت ہے۔اس لیے کہ مذہب کے نزدیک یہ دعوی اس کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، بلکہ یہ خود کو خدا بنانے والی بات ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جس کی مذمت یہود و نصاریٰ کے حوالے سے قرآن میں کی گئی ہے۔مثلاً کہا گیا کہ ہے  وہ کہتے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں، ہمیں آگ بھی  چھوئے گی تو چند دن۔ ان کو نبیوں کی اولاد اور بنی اسرائیل میں سے ہونے کا گھمنڈ تھا۔ ان کے اس نوع کے دعووں پر قرآن نے کہا تم فضول باتیں کیے جارہے ہو ،بتاؤ تو سہی  اللہ نے کب اور کن لفاظ میں تم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ جنت تمھارے ہی لیے اور تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، اللہ تمھاری خواہشات کے  مطابق ہی کرے گا؟ اللہ نے تو ایسا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں ،تم اپنے زعم ِ پارسائی میں یہ دعوے کیے جا رہے ہو۔ یہی حال ان  نام نہاد  مسلم علما اور ان کے پیروکاروں کا ہے کہ  اللہ نے جس چیز کا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں اس کو خواہ مخواہ اس کے ذمے لگا رہے ہیں۔

کہا جا سکتا ہے کہ دیکھیں  کیوں وعدہ نہیں کیا؟ اللہ نے ابرہہ سے خانے کعبے کو نہیں بچایا تھا! ابابیل نہیں بھیجے تھے! فلاں موقعے پر اپنے بندوں کی معجزانہ مدد نہیں کی تھی! اس حوالے سے  درج ذیل نکات ذہن نشین  کر لینے چاہییں:

1۔ ان خارق عادت اور معجزانہ تاریخی واقعات کا  مخصوص سیاق و سباق ہے، ان کو اللہ کی عمومی سنت سمجھنا بالکل غلط ہے، اور یہی نافہمی دراصل ان لوگوں کے گمراہانہ نظریات کی اساس ہے۔ اس چیز  میں مبالغے نے ان کو  محنت و کوشش  سے دور کر دیا اور معجزوں کا تمنائی بنا دیاہے۔

2۔ کسی  خاص وقت  میں کسی معجزے کے ظہور کو اس تناظر میں دیکھنا ضروری ہے کہ  وہ کن خاص حالات میں ظہور پذیر ہوا، اور عام مادی اسباب سے ماورا کیوں جانا پڑا؟  اس بارے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے۔ مثلاً ابرہہ اگر کا میاب ہوجاتا تو کعبے کو ملیا میٹ کر دیتا اور یمن میں اپنے بنائے قبلے کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔ یہ چیز اللہ کے اس گریٹر پلان اور بسیط حکمت و مصلحت کے خلاف تھی، جس کے تحت حق و باطل کی آویزش کا سارا نظام واضح  دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اب قیامت تک کوئی کعبے کو ہٹ نہیں کر سکتا، بالکل نان سینس بات ہے ،خود مسلم حکمرانوں کے دور میں حرمین کی حرمتیں پامال ہوئیں، یزید کے دور میں مسجد نبوی کے اصطبل بننے اور کعبے میں آگ لگنے کی روایات عام بیان کی جاتی ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ  یہاں اللہ نے ایسا کیوں ہونے دیا؟ واضح ہے کہ یہاں آزمایش اور طرح کی ہے اور کعبے کے  مکمل انہدام اور مسجد نبوی کے  خاتمے کا کوئی خدشہ نہیں۔ لہذا معجزانہ واقعات کو ان کے صحیح تناظر  میں سمجھنے کی ضوررت ہوتی ہے۔ مثلاً  جنگ بدر میں جس  طرح مسلمانوں کی معجزانہ مدد ہوئی ، احد میں کیوں نہ ہوئی ؟ جو خدا بدر میں فتح دلوا سکتا تھا اس نے احد میں شکست سے کیوں دوچار ہونے دیا ؟  گویا حقیقت یہ ہے کہ خوارق عادت خاص حالات میں اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے، نہ  کہ ایسے  لوگوں کے متکبرانہ دعووں کے نتیجے میں۔معجزات کے باب میں خود حضور ﷺ نے واضح فرمایا کہ تم جو فلاں  فلاں معجزات کے مطالبے کر رہے ہو، یہ میرا کام نہیں، اللہ کاکام ہے۔ گویا آپ نے باور کرایا کہ  میرا کام اللہ کی ہدایت کے مطابق تمھیں راہ ہدایت پر لانے کی کوشش ہے ، اس میں کوئی معجزہ اس کی حکمت کے مطابق وقوع پذیر ہو سکتا ہے، میں نہ ایسے دعوے کرتا ہوں اور نہ یہ معجزات دکھانا میرا کام ہے۔اور نہ اللہ کے مطیع ہونے والوں کے شایانِ شان ہے کہ معجزات اور خوارق عادت دیکھ کر ہی ایمان لائیں۔ مختصر یہ کہ اہل ِاسلام کو عام حالات میں دنیوی اسباب کے  مطابق ہی کام کرنے کا حکم ہے ، اس میں اللہ کی کہیں غیر معمولی مدد  اور معجزے کا ہو جانا اس کی عنایت سمجھا جانا چاہیے نہ کہ اپنا کوئی استحقاق۔لیکن بد قسمتی سے مذکورہ نوعیت کے اہلِ مذہب اپنا حق سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کی مرضی کے مطابق نتیجے نکالے۔

 تو کیا پھر دعا اور عبادت نہ ہو؟  یہ سوال دو نوعیتیں رکھتا ہے: پہلی ملحدین کے اعتراض کی  اور دوسری مذکورہ نوعیت کے خوش عقیدہ اہلِ مذہب کی۔ ملحدین اس پر موقف اختیار کرتے ہیں کہ جب ہر چیز تدبیر اور کوشش ہی سے ہونی ہے، تو پھر دعا اور عبادت چہ معنی دارد۔ اور خوش عقیدہ اہلِ مذہب کہتے ہیں کہ دعا اور عبادت ہی سے سب کچھ ہوگا، حتی کہ وہ اس سلسلے میں ضروری مادی اسباب کو بھی نظر انداز کر دیتے اور ترنگ  میں آ کر دعوے کرتے ہیں کہ ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ  فلاں بیماری فلاں موقعے پر نہیں لگ سکتی ،یا یہ کہ مثلاًفلاں دعا پڑھ لو  سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس ضمن میں  یہاں میں وہ  سوال بھی شامل کرنا چاہتا ہوں جو کسی بیمار کے لیے دعا  اور دم وغیرہ کے مذہبی تصور کے بارے میں مجھ سے کئی لوگ کرتے ہیں ،اور وہ یہ کہ بعض لوگوں کے اس نظریے کی کیا حقیقت ہے کہ  کچھ پڑھ کر پھونکنے اور قرآن سے شفا حاصل کرنے کا تصور جہالت کے سوا کچھ نہیں ، آدمی کو میڈیکل ٹریٹمنٹ کروانا چاہیے اور بس۔

میرے نزدیک یہ دونوں سوالات مذکورہ تناظر میں پائی جانے والی حقیقی مذہبی پوزیشن سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں ، جو مذہب کی بعض باتوں کی غلط تعبیر اور ان کو کلیت کی صورت  میں نہ دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ  مذہب علاج ، مادی اسباب اور دعا و عبادت  دونوں کو برابر اہمیت دیتا ہے۔ ایک کی وجہ سے دوسرے کو ترک کرنے کا نہ صرف یہ کہ حامی نہیں بلکہ مخالف ہے۔ سادہ الفاظ میں وہ کہتا ہے کہ  دعا اور عبادت بھی بھرپور کرو اوردوا اور مادی اسباب اختیار کرنے  میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑو۔یہ تصور فی الواقع یہ تناظر رکھتا ہے کہ   مذہب کے نقطۂ نظر سے انسان کو اپنے کاموں اور کردار کے لیے اس دینا میں تدبیر بہر حال کرنی ہے ، اور تدبیر کی صورتیں مذہب کے نقطۂ نظر سے دو ہیں : ایک دعا اور ایک دوا۔ یوں سمجھیں کہ کسی مصیبت یا بیماری میں پھنسا انسان ایسے  ہی ہے جیسے دریا میں ڈوبتا کوئی شخص ، وہ ہاتھ پیر مارتا ہے کہ کہیں کوئی سہارا مل جائے اور وہ ڈوبنے سے بچ جائے، حتی کہ وہ ایک تنکے کو بھی سہارا بنا لیتا ہے (ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ایسے تو نہیں کہتے)حالانکہ تنکا اس کو بچا نہیں سکتا ، لیکن اپنے حالات کے تناظر میں وہ اس کو بھی اختیار کرتا ہے اور کرنا بھی چاہیے کہ اس کی  پوزیشن ہی ایسی ہے کہ کوئی امکان ہاتھ سے نہ جانے ، جس سے اس کے بچ جانے کی موہوم سی امید بھی  ہو سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح ایک بیمار یا مصیبت زدہ شخص  ہر وہ تدبیر کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور اسے کرنی بھی چاہیے جس سے اس کے اس مصیبت اور بیماری سے نکلنے کی کوئی موہوم امید بھی لگائی جا سکتی ہے۔اور یہ امید جہاں سے لگائی جا سکتی ہے دعا سے بھی لگائی جا سکتی ہے۔ اور مذہب یہی کہتا ہے کہ دونوں سے امید لگاؤ اور دونوں تدبیریں اختیار کرو۔ حضورﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم  اور دیگر اہل تقویٰ  مسلم اسلاف کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ دوا بھی کرتے اور دعا بھی اور اسی کی اپنے ماننے والوں کو ہدایت کرتے۔

ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ  دعا سے بندہ ٹھیک ہوتا ہے تو فلاں  کیوں نہیں ہوا؟ مجھ سے ایک  جاننے والے ڈاکٹر نے  یہی سوال کیا تو میں نے عرض کیا: آپ یہ بتائیں جب آپ کا کوئی مریض قریب المرگ ہوتا ہے اور اس کے  لواحقین امید بھری نظروں سے آپ کی طرف دیکھتے ہیں تو آپ ان کو کیا جواب دیتے ہو ؟ اس نے کہا : کہتے ہیں دعا کرو! میں نے عرض کیا دعا کیوں کرو، اس سے تو آپ کے بقول فائدہ کوئی نہیں ہوتا ، صرف دوائی سے  ہوتا ہے، تو اب اس مریض کو ٹھیک کرو۔  اگر خود ٹھیک نہیں کر سکتے تو کسی اور ماہر ڈاکر سے ٹھیک کرادو ، اس سے بھی نہیں ہوتا تو امریکہ یورپ بھیج دو۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں  کہ بندہ نہ آپ سے بچ سکتا ہے اور نہ یورپ اور امریکہ جا کر۔ تو  آپ کے نظریے سے دیکھیں تو دوا کی حیثیت بھی دعا والی  ہی ہوگی ، یعنی دوا سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا اور بندہ مر گیا۔ کیا یہ بات سمجھانے کو کافی نہیں کہ   شفا دوا میں نہیں ، اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو بندہ مرتا کیوں؟  اب رہا آپ کا یہ سوال کہ دعا سے کون سا مرنے سے بچ جاتا ہے؟ تو بھائی ہم نے کب دعوی کیا اور مذہب نے کہاں کہا کہ دعا کے نتیجے میں بندے کی ہر وقت ہر بیماری ٹھیک ہوگی اور اس کے ذریعے اس کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے! مذہب تو دور کی بات ہے ایک عام سا ان پڑھ مسلمان بھی یہ سمجھتا ہے کہ دعا ہر چیز کا ہر وقت توڑ فراہم کرنے کا نام نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں مذہب کی پوزیشن یہ ہے کہ شفا نہ دوا میں ہے اور نہ دعا میں، بلکہ شفا اللہ کی مشیت میں ہے۔ اللہ چاہے تو دوا سے شفا مل جائے گی اور اگر اللہ چاہیے تو دعا سے مل جائے گی، اللہ چاہے تو دونوں سے مل جائے گی، اللہ چاہے تو کسی ایک سے مل جائے ، اللہ چاہے تو دونوں ہی سے نہ ملے گی۔ بندے کاکام یہ ہے کہ دونوں تدابیر اختیار کرے ۔ یہی اللہ کی بندگی کا فلسفہ ہے۔ ظاہری اسباب بھی اسی کے بنائے ہوئے ہیں اور روحانی و مابعدالطبیعی اسباب بھی اسی  کے فراہم کردہ ہیں، وہ اپنی حکمت کے مطابق ان کو جہاں چاہتا ہے  بروئے کار لاتا ہے۔ایک کی بنا پر دوسرے کو ترک کرنا مذہب کی مخالفت ہے۔ سو دعا کی ضرورت و اثرات کا کلی انکار کرنے والے ملحد یا مذہبی لبرل ہوں  یا  دنیوی اسباب کو نظر انداز کرنے والا خوش عقیدہ مولوی یا اس کے پیروکار دونوں کے رویے کا نتیجہ ایک ہی ہے  ،اور وہ ہے  اس معاملے میں مذہب کی پوزیشن کو غلط سمجھنا اور اس کے ذمے وہ چیز لگانا جس کا وہ روادار نہیں  یا اس سے وہ امید رکھنا جو امید اس نے  دلائی ہی نہیں۔

خلاصہ یہ کہ مذہب کے نقطۂ نظر سے انسان اس دنیا میں آزمایش میں ہے۔ اسے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے گردو پیش کی دنیا سے بھی اچھا اور مثبت تعلق رکھے اور اس کائنات کے ان دیکھے خالق سے بھی ۔تدبیر اور مادی اسباب کو بھی اس حد تک  اختیار کرے جتنی اس کی بساط ہے ،اور  اللہ کی عبادت اور اس سے تعلق بھی مقدور بھر رکھے۔ دونوں کوبھر پور کام میں لانے کے بعد آخری نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے ۔ اس لیے کہ دنیا کا ہرکام اور ہر چیز آدمی کے اختیار میں نہیں، یہ ایسی حقیقت ہے، جس  کاکوئی ملحد انسان بھی انکار نہیں کر سکتا۔ انسان  کا کہیں نہ کہیں بے بس ہونا واضح کرتا  ہے کہ اس دنیا میں  اصل اختیار  آدمی کا اپنا نہیں کسی اور کا ہے۔ سب اختیار آدمی کا ہوتا تو وہ کبھی کسی ارادے میں ناکام نہ ہوتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی طرف منسوب یہ قول بہت معنی خیز ہے کہ میں نے خدا کو اپنے ارداوں کی شکست سے پہچانا ہے۔ اور جو لوگ  مذہب کے معجزاتی عناصر اور اپنے خاص بندوں پر اللہ کی نوازشات کی تاریخ کی روشنی میں یہ مفروضہ قائم کرتے  ہیں کہ کسی نیک شخص اور مقدس جگہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ہر وقت معجز نمائی کے خواہاں رہتے ہیں، وہ خوش عقیدگی میں گویا اللہ کو اپنی خواہشات کا پابند کرنا چاہتے ہیں۔ مذہب دنیا اور دین  دونوں کو اکٹھا لے کر چلتا ہے۔ مذکورہ دونوں نوعیت کے حضرات دو انتہاؤں پر ہیں اور مذہب کی پوزیشن دونوں  کے بین بین ہے۔ اللہ  سے دعا ہے کہ ہمیں  دین کے صحیح فہم و شعور اور اپنی بندگی کی توفیق سے نوازے ۔ آمین۔


مسلم معاشروں میں جدیدیت کی تنفیذ

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

مسلمان ممالک میں سے مصر ، ترکی اور ایران میں جدیدیت کا عمل کیسا رہا   ؟ فائد ہ مند ثابت ہوا یا نقصان دہ ، اس سے کوئی ترقی یا خوشحالی آئی یایہ   تنزل کی طرف گئے   ؟ جدیدیت کو اپنا نا وقت کی ضرورت بن چکا تھا یا اس کو زبردستی ان معاشروں پر تھوپا گیا ؟ ان معاشروں میں آنے والی جدیدیت میں کوئی خامی تھی یا لانے والوں کا طرز عمل اور طریق کار درست نہیں تھا ؟ ان سوالوں کو کیرم آرم سٹرانگ کی کتاب  “The Battle for God “  کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش  کی گئی ہے   ۔یہ کتاب ویسے تو مجموعی طور پر جدیدیت اور قدامت پسندی کی کشمکش کی تصویر کشی کرتی ہے  اور ان سوالوں  کو موضوع بناتی ہے کہ  مختلف معاشروں اور مذاہب میں جدیدیت کے حوالے سے کیا رسپانس رہا  ، اور جدیدیت نے انسانیت کے لیے کیا اچھا اور برا کیا۔ اگر چہ مصنفہ بنیاد پرستی اور مذہب اورخدا کے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کی تاریخ یا ایسی کاوشوں کا ذکرکرنا چاہتی ہیں جو ان ناموں پر کی گئیں تاہم میرے خیال میں انہوں نے اس کتاب میں زیادہ ترجدیدیت اور قدامت کی کشمکش کو ہی موضوع بنایا ہے ۔

یورپ میں جدیدیت کا انقلاب یکدم نہیں آگیا تھا بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کا ارتقاء تھا جبکہ مشرقی معاشروں  میں  جدیدیت کی اقدار کو نافذ کرنے کی کوششوں نے منفیت کو جنم دیا ۔ ان علاقوں کے حکمرانوں نے بزور بازو جدیدیت کو نافذ کرنے کی کوششیں کیں ۔ مغرب میں جدیدیت کا سفر عوام سےحکمرانوں کی طرف ہوا جبکہ ان علاقوں میں جدیدیت کا سفر حکمرانوں سے عوام کی طرف ہورہا تھا اور صرف ہنگامی نوعیت کے چند حالات کی وجہ سے  یہ سب ہورہا تھا۔

مغرب میں جدیدیت کا سفر اقداری سطح پر تھا  ، علوم و فنون، ٹیکنالوجی اور  سائنس میں تھا ، جبکہ ان علاقوں کو  صرف فوجی اور دفاعی  طور پر پرانے طور طریقوں کو بدلنے اور اپنی افواج اور اسلحہ کو مغرب کی طرح نئے طرز  پر ڈھالنے کی ضرورت تھی ۔ جدید ٹیکنالوجی جس کی بدولت مغرب نے دنیا پر قبضہ پایا، ان کو تین صدیاں لگ گئیں تھیں،  لیکن  مسلمان علاقوں کے حکمران  یکدم وہی سب تبدیلی چاہتے تھے ۔

ان علاقوں میں چونکہ لوگ جدیدیت کو قبول کرنا نہیں چاہ رہے تھے بلکہ حکمران اس کے نفاذ کی کوششوں میں تھے، اس لیے لوگوں کے لیے ان کی اصلاحات سے اجنبیت رہی ۔ جدیدیت زدہ معاشروں میں لوگوں نے خود کو اجنبی محسوس کرنا شروع کردیا تھا ۔ ابتدا اگر چہ ایسی ہی تھی تاہم بعد میں حکمرانوں نے جدیدیت کے نفاذ کے لیے ایک طبقے کی باقاعدہ تربیت کی تو معاشرہ جدیدیت اور قدامت پسندی کے حامیوں کی رزم گاہ بن گیا ۔ اس  میں کچھ لوگ جدیدیت کو تمام غموں کی دوا کہتے نظر آئے اور کچھ نے جدیدیت کو اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے زہر قاتل قرار دیا ۔

جدیدیت زدہ معاشرو ں میں لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ دوہری زندگی گزاریں، ایک جدید اور مغربی زندگی اور دوسری اپنی روایتی زندگی ۔ اس دوہرے پن اور دوہری ثقافت نے شناخت کے بحران کو جنم دیا  جس سے تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی مسائل ان معاشروں  میں  پیدا ہوگئے ۔

مغرب میں   بھی جدیدیت کا عمل اتنی آسانی سے  نہیں رونما ہوگیا تھا ،  بلکہ یہ انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوا جس کے لیے خون خرابہ کے علاوہ روحانی خواری بھی اٹھانی پڑی تھی ۔ ایسا نہیں کہ وہاں کشمکش ختم ہوگئی تھی یا ہوگئی ہے بلکہ مختلف ناموں سے کشمکش موجود رہی ہے ۔

مختلف اسلامی ممالک میں جدیدیت کن تجربات سے گزری ، اور اس نے کیا نتائج و اثرات مرتب کیے، ذیل میں تین ملکوں کا اس حوالے سے مطالعہ کرتے ہیں ۔

محمد علی پاشا کو جدید مصر کا بانی کہا جاتاہے ۔ پاشا مصر میں جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا ، بطور عثمانی حکومت کے نمائندے کے آیا اور بعد میں اس کا آزاد والی بن گیا ۔ محمد علی پاشا نے مصر کو جدید طرز پر ڈھالنے  کے حوالے سے جو تبدیلیاں کیں، ان کو دیکھنے سے جدیدیت کا سفر سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ محمد علی پاشا ایک فوجی جرنیل تھا ، مصر میں اس کو برطانیہ اور فرانس کی فوجوں کا مقابلہ تھا اور ساتھ میں مملوکوں سے خطرہ تھا  جن کی یہاں ماضی میں حکومت تھی۔   محمدعلی پاشا نے برطانیہ اور فرانس کی فوجوں ، اسلحہ اور ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہوئے ملک کو جدید خطو ط پر ڈھالنا ضروری سمجھا کیونکہ مصر اور سلطنت عثمانیہ کئی مواقع پر فرانس اور برطانیہ سے بری طرح شکست کھا چکے تھے  ۔ محمد علی کا ارتکاز  چونکہ فوج پر تھا اس لیے جدیدیت براستہ فوج والا معاملہ اپنایاگیا جو کہ مغرب سے بالکل مختلف تھا ۔

محمد علی ٹیکنا لوجی ، تعلیم ، دفاع   اور انتطامی امور کے ان کاموں میں یورپ کی تقلید کررہا تھا جو کہ جذبہ جدید کے سکے کا سیدھا رخ تھے  ۔ لیکن ان تمام معاملات میں اس کو جن افراد کی ضرورت تھی، وہ اس کے پاس نہیں تھے، جن اقدارا ور آزادیوں کی ضرورت تھی، وہ اس کے ملک میں نہیں تھیں۔ اس  کے ملک کے لوگ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، اس نے ایک طرف جبری بھرتیاں کیں تو دوسری طرف اس نے ایسے لوگ تیار کرنے کےلیے سکول و کالجز قائم کیے ۔ محمد علی نے تین صدیوں کا سفر چند سالوں میں کیا اور ایک زبردست اور مضبوط فوج بنائی ۔ اس فوج سے اس نے اردگر د کے علاقوں میں کافی تباہی مچائی اور فتوحات بھی کیں ۔ اس کی فوج ایک مضبوط فوج شمار ہوتی تھی ۔ محمدعلی نے اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا  اور خون کی ہولی کھیلی ۔اس نے جدیدیت کو لانا چاہا، لیکن اس کی جمہوری اقدار ، آزادی اور مساوات کو  یکسر نظر  انداز کردیا ۔

محمد علی کی انتظامیہ و اداروں میں یورپین ، ترکی اور جدیدیت  کے حامل اہلکار بھرتی کیے  جاتے تھے ۔ اس کے تیار شدہ لوگ  مخصوص ذہنیت کے تھے جو قدامت پسندوں سے  مختلف تھے  ۔ یوں قدیم اور جدید کی آویزش نے جنم لیا ۔ محمدعلی کاروبار میں صنعتیں چلانا چاہتا تھا ،ا ن صنعتوں کے لیے جن تربیت یافتہ لوگوں کی ضرورت تھی، وہ بھی یورپ کے یا محمدعلی کے قائم کردہ مخصوص اداروں کے تربیت یافتہ تھے ۔ جدید صنعت نے مقامی  صنعت اور کاریگری کے نظام  کو بہت متاثر کیا ۔ مصر میں دو عد د معاشرے بن چکے تھے، ایک قدامت پسندانہ سوچ جبکہ دوسرا جدیدیت کا حامل تھا ۔ اہل مغرب نے بتدریج چرچ اور ریاست کو جدا کیا تھا جبکہ مصر میں ایک ہی مرتبہ یہ کام کردیا گیا۔ان تمام اقدامات سے یہ عوام اپنے ہی ملک میں اجنبی بن گئے تھے ۔

محمد علی نے مصر میں کپاس کی صنعت کو فروغ دیا اور ملک بھر میں کسانوں کو کپاس کی کاشت پر آمادہ کیا۔ اس کے علاوہ اس نے جدید تعلیمی اداروں، سڑکوں، نہروں اور صنعتوں کا جال بچھا دیا اور اسکندریہ میں بحری جہاز ساز کارخانہ قائم کیا۔اس نے قاہرہ کو جدید بنیادوں پر استوار کیا اور اسے ایک جدید شہر بنایا۔ محمد علی پاشا کی جدیدیت پسندی سے جہاں مصر کو زراعت اور صنعت کے اعتبار سے ترقی ملی، وہیں ترقیاتی کاموں پر اندھا دھند رقم خرچ کرنے سے مصر قرضوں میں جکڑ گیا۔ دیوان مالیہ کے مطابق مصر پر 80 ملین فرانک (2،400،000 پاؤنڈ) قرضہ تھا۔

محمد علی پاشا اور اس کے بعد کے حکمرانوں نے جدیدیت کے تمام تر عمل سے نتیجہ یہی اخذ کیا کہ جدیدیت کا مطلب ہے مغرب کی غلامی ۔ یورپین جس دھوکہ دہی سے دنیا پر قابو پانے کی تگ و دو میں رہتے  تھے اور وسائل کو لوٹتے رہتے تھے، اس  سے یہ سخت دلبرداشتہ ہوئے ۔محمد علی کے   پوتے عباس نے جب یورپ کا رویہ دیکھا تووہ یورپ کی ہر چیز سے نفرت کرتا تھا ، وہ اس نظریے کا حامل تھا کہ مغرب کا مطلب ذلت  ہے۔ محمد علی چونکہ برطانیہ اور فرانس سے معاہدہ کرکے سلطنت عثمانیہ سے آزاد  مصر کا حکمران بنا تھا، اس لیے مصر میں ان ملکوں کی  مداخلت  رہی ۔ بعد میں یہ مداخلت اس قدر بڑھی کہ یہ ملک برطانیہ کی کالونی بن کر رہ گیا ۔برطانیہ کے قبضے کے بعد اس معاشرے میں جدیدیت کا عمل اور بھی بڑھ گیا ۔ افکار و نظریات میں مصر میں جمال الدین افغانی ، شیخ عبدہ ، رشید رضا ، ڈاکٹر طہ حسین ، رفاعہ رافع الطہطاوی جیسے اساطین علم  مذہب اور جدیدیت کے حوالے سے جدید سوالات کو مختلف انداز سے دیکھ رہے تھے ۔ایسا نہیں کہ یہ معاشرے کو جدیدیت کی طرف دھکیل رہے تھے بلکہ یہ جدیدیت سے پیدا شدہ سوالات اور حالات کا رسپانس دے  رہے تھے ۔ سیاسی طور پر  مصر میں اس کے بعد اسلامی سوشلزم اورایسی ہی جدیداصللاحات  کے نام سے  مختلف حکمرانوں نے نظام حکومت چلانا چاہا ۔

سلطنت ترکیہ میں بھی اسی قسم کا عمل دیکھنے میں آیا ۔ترکی میں احمد ویفک پاشا  اور  مصطفی رشید پاشا  جویورپی افکار اور شخصیات سے آشنا تھے ، ان کا یقین تھا کہ سلطنت ترکی اس وقت تک جدید دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور جدید اقوا م میں اعلیٰ مقام حاصل نہیں کرسکتی جب تک یہ جدیدیت کی راہ پر گامزن ہوکر اپنی افواج اور نظام حکومت کو جدید خطوط پر استوار نہیں کرلیتی ۔ سلطنت میں تمام شہریوں کو برابر حیثیت حاصل ہونی چاہیے ، عیسائیوں اور یہودیوں کو اب ذمی نہیں رہنا چاہیے ۔عدالت کے طریق کار میں اصلاح کی گئی اور اس کو فرانسیسی طرز پر ڈھالا گیاا ور شریعہ پس منظر میں چلی گئی ۔  سلطان محمود دوم نے 1826ء میں نئے قوانین متعارف کروادیے ۔ علماء نے ان تمام اصلاحات کی  مخالفت کی کہ اس میں تو ا ن کو اپنے اسلامی ورثے سے محروم ہونا پڑے گا ۔ سلطان سلیم ثالث اور اس کے بعد محمود دوم کا  تمام تر ارتکاز  جدید فوج ، اسلحہ اور ٹیکنالوجی پر تھا جس کے جلو میں دیگر چیزیں بھی آتی چلی گئیں ۔  بعد میں مصطفی کمال پا شا نے بزور بازو اسلامی نظام اور اس کے نشانا ت پر پابندی عائد کی ، خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا  اور سیکولر ترکی کی بنیاد رکھی ۔

ایران بھی جدیدیت کے اسی عمل سے گزرا۔ شہزادہ عباس نے ایک جدید فوج کی ضرورت محسوس کی ۔شاہ عباس نے  ایرانی فوج کو جدید طرز پر مسلح کرنے میں برطانیہ  سے مدد لی۔ ان انگریزوں نے ایران میں توپ سازی کی صنعت شروع کی اور ایرانی افواج کو توپ خانے سے مسلح کر دیا۔ایرانی بعد کے ادوار میں عثمانیوں کے خلاف صف آرا رہے ۔  صفوی دور علمی لحاظ سے بنجر دور نظر آتاہے، لیکن شاہ عباس کے دور میں علم و فن میں قابل قدر ترقی ہوئی ۔ صفوی سلطنت کے بعد قاچار خاندا ن کے مختلف بادشاہوں میں بھی جدیدیت اور قدامت کی کشمکش جاری رہی ۔ جنگ عظیم میں ایران کو جرمنی کا ساتھ دینے پر شکست ہوئی ۔ اس کے بعد پہلوی خاندانی کی حکومت آئی جو کہ مکمل طور پر مغرب کی منظور نظر اور امریکہ کے اشارہ ابرو  پر چلنے والی تھی ۔  اس کے بعد خمینی حکومت بھی اسلامی جدیدیت کا ایک نیا ماڈل تھی جس کی شیعہ روایت میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔  ولایت فقیہ اور ایسے نظریات بالکل نئے تھے جن کا ماضی میں کبھی کہیں وجود نہیں رہا تھا۔

مسلم معاشروں میں کبھی مغربیت اور جدیدیت کے اثر و نفوذ  اور اس کی اقدار کے لیے تشدد کی راہ اپنائی گئی اورکبھی اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اس راہ کو اپنایا گیا ۔ اسی طرح  یہ دونوں طبقات بھی باہمی آویز ش میں رہے ۔ لیکن ان ممالک میں  وہ طبقات جو جدیدیت  کو لانا چاہتےتھے ، انہوں نے بھی اپنا مذہب اسلام ہی ظاہر کیا اور سلطنت میں بھی اسلام کو لانے کی بات اگر کی گئی تو اس سے انکار نہیں کیا ۔ ایران میں تو بعد ازاں اسلامی اسٹیٹ قائم ہوئی ، اسی طرح ترکی میں بھی اسلامسٹوں کی حکومت ہے اور مصر میں بھی ایک سروے کے ذریعے یہی بات سامنے آئی کہ وہ لوگ جو جدیدیت کی بات کرتے ہیں، وہ بھی اسلام یا اسلامی نظام کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور اسلامسٹ بہت سی جدید چیزوں کو بالکل ایسے ہی اپنائے ہوئے ہیں جیسے  وہ اسلام میں منع نہیں ہیں ۔

مصر میں 1982ء میں ایک سروے میں یہ بات آئی کہ پردہ دار خواتین جو کہ قدامت پسند تھیں، ان میں سے اسی فیصد اس نقطہ نظر کی حامل تھیں کہ تعلیم عورتوں کے لیے لازمی ہے ۔ اٹھاسی فیصد پردہ دار خواتین یہ نقطہ نظر رکھتی تھیں کہ عورتوں کو گھروں سے نکل کر ملازمت اختیار کرنی چاہیے اور پردہ دار خواتین میں 77 فیصد کا ذہن تھا کہ عورتوں کو گریجویشن کرنے کے بعد ملازمت اختیار کرلینی چاہیے ۔ یہ مردو زن کے لیے ایک جیسے حقوق کی خواہاں تھیں ، عورتوں کو ریاستی عہدوں پر تعینات ہونا چاہیے ۔ ایک دلچسپ امر یہ تھا کہ پردہ دار خواتین اور مغرب زدہ خواتین دونوں اس امر پر متفق تھیں کہ ملک میں شرعی نظام نافذ ہونا چاہیے ۔

ترکی ، ایران  اور مصر کے حالا ت کے مطالعہ سے یہ بات بآسانی سمجھ آجاتی ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں نے جدیدیت کو جس حدتک قبول کرنے کی ضرورت تھی اس کو قبول کیا ، لیکن اسلام یا اپنی ثقافت سے بے تعلق نہیں  ہوئے تھے ۔ قدامت پسندوں نے جدیدیت کی وہ اقدار جو زمانی تبدیلی کے  تحت لازمی ہوچکی تھیں، ان کو قبول  کیا اور ان سے فائدہ اٹھا کر اپنے حق  میں استعمال کرنا چاہا ۔ اسی طرح جدیدیت کے حامی لوگ بھی اپنی روایت ، مذہب ، ثقافت  سے بے تعلق نہیں ہونا چاہتے، ان سے اگر ملک میں شریعت اور اسلام کے نفاذ کی بات کی جائے تو وہ بھی یہ چاہتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلم ریاستوں کو فلاحی ریاستیں بنانے پر تمام تر زور صرف کیاجاتا جس میں اسلامسٹ اور جدت پسند دونوں  ابھی تک فیل نظر آتے ہیں ۔

یورپ اور مشرق وسطیٰ کی جدیدیت میں فرق کرتے ہوئے مصنفہ  لکھتی ہیں کہ جدیدیت کا تمام تر عمل مشرق وسطیٰ میں یکسر مختلف واقع ہوا تھا ۔ یہ حصول طاقت ، خود مختاری ، اور نئی اختراع کا عمل نہ تھا جیسا کہ یہ یورپ میں ظہور پذیر واقع ہوا تھا بلکہ یہ محرومیت ، خود انحصاری سے دست برداری اور غیر کامل اور غیر معیاری نقالی کا ایک عمل تھا ۔


کرونا وائرس اور ہماری ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کرونا فلو طرز کی ایک وبائی بیماری کو کہا جاتا ہے جس کے وائرس کچھ دنوں قبل چائنہ میں پھیلنا شروع ہوئے اور ان کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک مہلک بیماری ہے جس نے پوری دنیا کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ وبائی بیماریاں دنیا میں مختلف مواقع پر رونما ہوتی آئی ہیں جن کا دائرہ اس سے قبل عام طور پر علاقائی ہوتا تھا، لیکن جوں جوں انسانی سوسائٹی گلوبل ہوتی جا رہی ہے یہ وبائیں بھی گلوبل رخ اختیار کرنے لگی ہیں۔ چنانچہ چائنہ سے شروع ہونے والے کرونا وائرس نے امریکہ، یورپ، مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک کو لپیٹ میں لے لیا ہے اور پاکستان میں بھی تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود اس کے کیسز میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

جہاں تک اس کے اسباب کا تعلق ہے مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں۔ مثلاً یہ امکان بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ جراثیمی جنگ (وائرس وار) کی صورت بھی ہو سکتی ہے اور اب تک ہونے والی جنگوں کے پس منظر میں اس امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ کے کیمیاوی ہتھیاروں کے بعض جنگوں میں استعمال اور بین الاقوامی سطح پر ان ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی کے بعد دفاعی سائنس کے ماحول میں جراثیم کے ذریعے حیاتیاتی جنگ اور وائرس وار کے امکانات کا ذکر سننے میں آرہا ہے اور اس کی تیاری کی خبریں بھی چل رہی ہیں۔ اس لیے کوئی بعید بات نہیں ہے کہ کرونا وائرس بھی اسی کے تجربہ کی کوئی صورت ہو، مگر یہ صرف امکان کے درجہ کی بات ہے جس کی نہ تو تصدیق کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔

اسباب میں ایک بات موسمیاتی تبدیلی بھی ذکر کی جاتی ہے کہ موسموں کا دائرہ اور دورانیہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے، اس کی وجہ کچھ بھی ہو مگر یہ ایک معروضی حقیقت ہے کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں آگے بڑھ رہی ہیں اور ان کے مختلف النوع اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح خوراک میں بے احتیاطی کو بھی ایک سبب بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے جانور اور چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب انسان کے کھانے کی نہیں ہیں، اسی لیے اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں حلال و حرام اور طیب و خبیث کا فرق واضح کیا ہے۔ مگر جہاں سے اس وائرس کا آغاز ہوا ہے وہاں حلال و حرام اور طیب و خبیث کا کوئی فرق موجود نہیں ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ خوراک میں بے احتیاطی اور بے پروائی بھی کرونا وائرس کا سبب ہو سکتی ہے۔

بہرحال اسباب کچھ بھی ہوں کرونا وائرس ایک زندہ حقیقت کے طور پر انسانی معاشرہ میں اپنا وجود اور اثرات منوا رہا ہے اور کرہ ارضی کے ہر خطہ کے لوگ اس سے احتیاط کی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ ایک محفل میں موسمیاتی تبدیلیوں اور کرونا وائرس کے بارے میں مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے ازراہ تفنن عرض کیا کہ اللہ تعالٰی فرما رہے ہیں کہ ’’میری زمین میری مرضی‘‘ جس سے دوست بہت محظوظ ہوئے۔ مگر سنجیدگی کے ماحول میں قرآن و سنت کی روشنی میں دو تین باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔

ایک یہ کہ اللہ تعالٰی وقتاً فوقتاً اس قسم کی صورتحال پیدا کر کے انسانوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ بے شک آپ لوگ اسباب کی دنیا میں رہتے ہیں اور ان اسباب کو اختیار بھی کرتے ہیں مگر اصل قوت یہ اسباب نہیں ہیں، ان کے پیچھے ’’مسبب الاسباب‘‘ اصل قوت ہے جو اسباب کو غیر موثر بھی کر سکتا ہے اور ان کے اثرات کو غیر محدود بھی کر سکتا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس قسم کی صورتحال کو تنبیہ کے انداز میں بیان کیا گیا ہے مثلاً ایک مقام پر بنی اسرائیل کے حوالہ سے ذکر کیا کہ ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک اور خون کو عذاب کے طور پر مسلط کر دیا جس پر وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی خدمت میں آ کر درخواست گزار ہوئے کہ دعا کریں اگر یہ عذاب ٹل جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ قرآن کریم میں ہے کہ حضرت موسٰیؑ کی دعا سے عذاب کی کیفیت تو ختم ہو گئی مگر وہ لوگ ایمان لانے کے وعدہ سے منحرف ہو گئے۔ چنانچہ ایسی صورتحال میں پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کی قدرت اور طاقت پر اپنے ایمان کو پختہ کریں اور اس کی طرف رجوع اور توبہ کریں۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں وبائی صورتحال تھی حتٰی کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت بلالؓ بھی بیمار پڑ گئے اور بے چینی میں وطن کو یاد کرنے لگے۔ اس پر آنحضرتؐ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! مدینہ منورہ سے وبا کی کیفیت کو ختم فرما دے جس پر مدینہ منورہ اس وبائی صورتحال سے محفوظ ہوگیا۔ اس لیے دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ دعاؤں کا اہتمام کریں اور انفرادی و اجتماعی سطح پر دعا، استغفار اور توبہ کو اپنے معمولات کا حصہ بنائیں۔

جبکہ تیسری گزارش یہ ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب بیت المقدس کی فتح کے موقع پر فلسطین تشریف لے گئے تو سرحد پر انہیں بتایا گیا کہ آگے علاقہ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے، آپ بہت سی اہم شخصیات کے ہمراہ وہاں جا رہے ہیں جو خطرہ اور رسک کی بات ہے۔ حضرت عمرؓ نے صحابہ کرامؓ کے مختلف طبقات کے ساتھ مشورہ کے بعد وہاں نہ جانے اور واپسی کا فیصلہ کر لیا جسے سن کر حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے فرمایا کہ میں نے جناب نبی اکرمؐ سے سنا ہے کہ جس علاقے میں کوئی وبائی مرض پھیلا ہوا ہو، باہر سے اس علاقہ میں نہ جائیں، اور نہ ہی وہاں سے باہر آئیں، اس لیے حضرت عمرؓ کا وبائی علاقہ میں نہ جانے کا فیصلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وبائی امراض سے خود بچنے اور لوگوں کو بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ اور سنت نبویؐ ہے جسے پوری طرح اختیار کرنا چاہیے۔



بے اصل فقہی احادیث کی فنی حیثیت اور اصحاب الحدیث کا معتدل اسلوبِ نقد

مولانا محمد عبد اللہ شارق

(زیرِ ترتیب مقالہ ”احادیثِ ہدایہ ۔۔۔ فنی حیثیت اور غیر علمی رویہ“ سے ایک انتخاب)

محدثین کی تخریجات کیا ہیں؟

  کسی حدیث کی سند او رحوالہ تلاش کرنے کے عمل کو ”تخریج“ کہتے ہیں۔ اس عمل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آیا اس حدیث کی کوئی سند ہے بھی یا نہیں، اگر ہے تو وہ کس درجہ کی ہے؟ اس سے حدیث کی فنی پوزیشن واضح ہوجاتی ہے۔ محدثین نے مختلف ادوار میں کئی کتابوں پر مایہ ناز تخریجات لکھیں۔ یہ تخاریج دراصل وہ حواشی ہوتے تھے جو متعلقہ کتاب میں مذکور احادیث کی فنی حیثیت کو واضح کرتے اور مصنف سے کسی بے اصل حدیث کو نقل کرنے میں اگر تساہل ہوگیا تھا تو وہ بھی اس سے واضح ہوجاتا۔ یہ تخریجات محدثین نے خود محدثین کی کتابوں پر بھی لکھیں اور فقہ، تصوف وتفسیر کی کتابوں پر بھی لکھی گئیں۔ مثلا

(۱) ابن عبدالبر نے موطا امام مالک میں بغیر سند کے مذکور ایک سو کے قریب احادیث کی تخریج لکھی ۔

(۲) امام بغوی کی کتاب ”مصابیح السنۃ“ میں مذکور احادیث کی تخریج، جو ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی نے لکھی اور ”مشکوة المصابیح“ کے نام سے معروف ہے۔ ”مصابیح السنۃ“ احادیث کا گراں قدر مجموعہ تھا، لیکن اس میں تمام احادیث بغیر سند اور حوالہ کے مذکور تھیں۔ یہی مجموعہ حوالہ جات کے ساتھ اب ”مشکوة المصابیح“ کے نام سے مشہور ہے۔

(۳)علامہ زمخشری کی تفسیر ”الکشاف“ میں مذکور احادیث کی تخریج، جو امام جمال الدین ابو محمد یوسف بن محمد الزیلعی الحنفی نے لکھی۔

(۴) تصوف کے موضوع پر امام غزالی کی گراں مایہ کتاب ”احیاءالعلوم“ میں مذکور احادیث کی تخریج، جو حافظ ابو الفضل العراقی نے لکھی۔ اس کا نام ہے: ”المغنی عن حمل الاسفار“۔

(۵) فقہِ حنفی کی کتاب ”الہدایہ“ میں مذکور احادیث کی تخریج جو مذکور الصدر امام زیلعی نے ”نصب الرایۃ“ کے نام سے لکھی اور حافظ ابن حجر نے ”الدرایۃ“ کے نام سے اس کی تلخیص کی۔

(۶) فقہِ شافعی کی کتاب ”شرح الوجیز“ میں مذکور احادیث کی تخریج، جو سراج الدین ابن الملقن الشافعی نے ”البدر المنیر“ کے نام سے اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے ”التلخیص الحبیر“ کے نام سے لکھی۔

(۷)قاسم ابن قطلوبغا کی تخریج ”منیۃ الالمعی“ جو دراصل ہدایہ کی ان احادیث کی تخریج ہے جن کا ماخذ امام زیلعی کو نہ مل سکا اور ”نصب الرایۃ“ میں انہوں نے ان کے حوالہ سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ تاہم کچھ احادیث کے بارہ میں ابن قطلوبغا نے غالبا صرف اتنا بتایا ہے کہ ”الہدایہ“ سے پہلے یہ روایت کون کون سی کتبِ فقہ میں نظر آتی ہے۔ اگرچہ یہ علمِ حدیث کے اصولوں کی رو سے کوئی ”معیاری تخریج“ نہیں ہے، تاہم آئندہ ہونے والی گفتگو سے معلوم ہوگا کہ اس قدر تخریج بھی فائدہ سے خالی نہیں۔

  الکشاف، احیاءالعلوم اور الہدایہ جیسی کتابوں میں چونکہ تمام احادیث بغیر سند کے مذکور تھیں، اس لیے ان کی تخریج کرنے کی ضرورت پیش آئی۔  ان تخریجات کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ کسی ایک علمی موضوع کی بہت سے احادیث یکجا ہوگئیں اور ان کی فنی حیثیت بھی واضح ہوگئی۔ یوں تو فقہ وتصوف کی اور بھی بہت سی کتابوں پر تخریجات لکھی گئی ہوں گی،لیکن فقہ پر ”نصب الرایۃ“ اور تصوف پر ”المغنی“ اس لیے زیادہ مشہور ہوئیں کہ ان میں فقہ وتصوف کی بہت سی متعلقہ احادیث پر جامع گفتگو ہوگئی تھی۔ چنانچہ ”نصب الرایۃ“ کو فقہی احادیث اور ”المغنی“ کو احادیثِ تصوف کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاتا ہے کیونکہ ان میں فقہ وتصوف کی ان بہت سی احادیث پر جامع کلام ہوگئی ہے جو عموما فقہاءاور صوفیاءکے ہاں متداول ہیں اور مذاکرہ کا موضوع بنتی ہیں۔

  لطف کی بات یہ ہے کہ ”نصب الرایۃ“کے مصنف امام زیلعی اور ”المغنی“ کے مصنف حافظ عراقی دونوں ہم عصر ہیں، دونوں نے بیک وقت یہ کام کیا اور دونوں کو اس میں ایک دوسرے کی معاونت بھی حاصل رہی۔ (الدررالکامنۃ جلد۳، صفحہ۹۶) فقہ وتصوف کے موضوعات پر لکھی جانے والی بعد کی اکثر تخریجات میں انہی دو حضرات کی تخاریج سے مدد لی جاتی رہی اور یہ ان موضوعات پر ”نقشِ پائے دار“ اور ”نقشِ یادگار“ ثابت ہوئیں۔چنانچہ مثلا ابن الملقن اور ابن حجر باوجود خود ماہرِ فن ہونے کے اپنی مذکورہ تخریجات میں اپنے پیش رو زیلعی کی تحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بے اصل احادیث اور محدثین کا معتدل اسلوبِ نقد

  تخریج کا عمل کرنے والے محدثین کا طریقہ یہ ہے کہ جب انہیں کسی حدیث کا حوالہ نہیں ملتا تو وہ اس پر نقد کے لیے عموما اس طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں: (۱) لم اجدہ (مجھے اس کا کوئی حوالہ نہیں ملا)، (۲) لم یوجد (اس کا کوئی حوالہ نہیں مل سکا)، (۳) لا اعرفہ (میں اس کے ماخذ سے واقف نہیں ہوسکا)، (۴) لم اظفر لہ باسناد (اس کی کوئی سند مجھے نہیں مل سکی)، (۵) لا اصل لہ، (یہ حدیث بے اصل ہے)، وغیرہ وغیرہ یہ سب الفاظ متواضعانہ ہیں اور ان کا معنی کم وبیش یہ ہے کہ مجھے اس حدیث کا کوئی ثبوت نہیں ملا یا اس حدیث کی کوئی سند میرے علم میں نہیں۔ مفہوم اور حاصلِ معنی ان جملوں کا بھی یہی ہوتا ہے کہ سند سامنے آنے تک یہ حدیث غیر مستند سمجھی جائے، مگر صاف الفاظ کی بجائے ذومعنی انداز اختیار کرنا ان کی احتیاط کا غماز ہے، ورنہ کہنے کو تو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث جھوٹ اور من گھڑت ہے۔

  صرف ”لا اصل لہ“ (یہ حدیث بے اصل ہے) کا ایک اسلوب ایسا ہے جس سے قطعیت کا رنگ سا جھلکتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ شاید محدث اس پہ دوٹوک فتوی عائد کررہا ہے،یہی وجہ ہے کہ بعض محدثین نے اس اسلوب پہ اعتراض بھی کیا ہے۔ علامہ کورانی امام سیوطی کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں:

”ومثل ہذا یقول فیہ الحفاظ المتاخرون: لا اصل لہ، والمتورعون یقتصرون علی قولہم: لم نقف علیہ“ (المسلک الوسط الدانی۔ صفحہ۲)

”یعنی” جن حدیثوں کی تخریج نہ ہوسکے، متاخرین ان کے بارہ میں ”بے اصل“ کا لفظ استعمال کردیتے ہیں، ورنہ محتاط محدثین ان کے بارہ میں صرف یہ کہنے پر اکتفاءکرتے ہیں کہ ہم ان کی سند سے آگاہ نہیں ہوسکے۔ (یعنی وہی ”لم اجدہ“ والا اسلوب ہی اختیار کرتے ہیں۔) “

  ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو متاخرین کہیں کہیں ایسی حدیثوں کے لیے ”لااصل لہ“ کا لفظ استعمال کرتے ہیںتو وہ بھی در اصل اسی معنی میں ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کوئی سند اور ”اصل“ میرے علم میں نہیں آسکی، نہ یہ کہ اس کی کوئی سند سرے سے ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جو محدثین ایسی حدیثوں کے لیے کہیں کہیں ”لا اصل لہ“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، وہی محدثین ایسی حدیثوں کے لیے موقع بموقع ”لم اجدہ“ کے الفاظ بھی بکثرت استعمال کرتے نظر آتے ہیں، مثلا ابنِ حجر ہی کی تخریجات کو دیکھ لیجئے۔ ہاں، سیوطی کی عبارت سے البتہ اتنا سمجھا جاسکتا ہے کہ متاخرین کے عمومی طرزِ عمل کے برعکس، محتاط محدثین ”لا اصل لہ“ جیسے ان موہوم الفاظ سے کلی اجتناب کرتے ہیں جن سے غلط تاثر کا کوئی شائبہ بھی پیدا ہوتا ہواور ”لم اجدہ“ جیسے متواضعانہ الفاظ کی ہی وہ مکمل پابندی کرتے ہیں۔

مناظرانہ افراط وتفریط نے اس اعتدال کو کیا رنگ دیا؟

  ا ٓپ نے جانا کہ مذکورہ الفاظ کے ذریعہ کس طرح محدثین بے اصل حدیث کی پوزیشن بھی واضح کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تواضع اور اعتدال کا دامن بھی نہیں چھوڑتے۔ اب جن حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح فقہ وتصوف کی کتابوں میں مذکور بے سند احادیث من وعن قبول کرلی جائیں، وہ کہتے ہیں کہ صاحبِ تخریج محدث نے مذکورہ الفاظ کے ذریعہ صرف اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے، حدیث کو غلط نہیں کہا۔ ان کے مطابق یہ عین ممکن ہے کہ اصل مصنف کے پاس اس کی سند موجود ہو اور حسنِ ظن کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہی گمان رکھا جائے۔ ہمارے نزدیک یہ بات ٹھیک ہے اور ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ بھی اسی حسنِ ظن کے متقاضی ہیں۔مگر اس کا یہ نتیجہ نکالنا ٹھیک نہیں کہ محض اس امکان اور گمان کے زور پر اب وہ حدیث قبول بھی کرلی جائے، کیونکہ اگر انہی امکانات اور حسن ظن کی بناءپر حدیث کو قبول کرنا ہے تو پھر علم الاسناد کی کیا معنویت باقی رہ جاتی ہے؟ محدث کی طرف سے کسی حدیث کے بارہ میں لاعلمی کا اظہار‘ ایک ذومعنی اظہار ہے اس بات کا کہ یہ حدیث باوجود تلاش کے نہیں مل سکی، تلاش جاری رکھی جائے، مگر سند نہ ملنے تک اس کو غیر ثابت ہی سمجھا جائے۔

  آپ اپنے گرد وپیش کے عرف کو دیکھ لیجئے کہ اس اسلوب میں کہی جانے والی بات کا کیا مفہوم لیاجاتا ہے؟ مثلا آپ اپنے معالج سے پوچھتے ہیں کہ کیا چاول کھانے سے قبل پانی پینا نقصان دہ ہے، جس پر وہ کہتا ہے کہ میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں، ذرا سوچئے کہ اس بات کا کیا مطلب لیا جائے گا کہ اگرچہ میرے علم میں نہیں مگر تم اس کو نقصان دہ ہی سمجھو، ظاہر ہے کہ نہیں۔ مذکورہ حضرات نے ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ کے اسلوب کو تو دیکھا ہے، اس کے مقصد، ما فی الضمیراور حاصلِ معنی کو نظر انداز کردیا ہے۔ امام سیوطی نے تصریح کی ہے کہ جب کوئی حافظ الحدیث کسی حدیث کی سند اور اس کے ماخذ کے بارہ میں لاعلمی کا اظہار کردے تو اس سے مقصود اس حدیث کی نفی کرنا ہوتا ہے کہ یہ لائقِ استناد نہیں ۔ (تدریب الراوی۔ صفحہ۲۶۳)اگر اس لاعلمی کے اظہار کا مطلب یہ ہے کہ تم اس حدیث کو اصل میں ثابت ہی سمجھو، خواہ اس کی سند مجھے نہیں ملی تو پھر تخریج کے لیے اس کی ساری محنت ہی لغو ہوجاتی ہے کہ جب حدیث بغیر سند کے علم میں آئے ہی مستند تھی تو اس کی سند تلاش کرنا اور تخریجات لکھنا ایک بے سود کام ہوجاتا ہے۔

  دوسری طرف وہ اینٹی احناف مصنف ہیں جنہوں نے ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ کے حاصلِ معنی پر سارا زور صرف کیا اور ان کے اسلوب کو نظر انداز کردیا۔ چنانچہ انہوں نے پہلے تو ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ کو ”موضوع“ کے ہم معنی وہم پلہ قرار دیا اور پھر ”موضوع“ کا معنی یہ متعین کیا کہ یہ سو فی صد جھوٹ ہے۔ اس لیے جس حدیث کے بارہ میں کوئی محدث ”لم اجدہ“ جیسا لفظ کہہ دے، وہ حدیث ان مصنفین کی نظر میں سو فی صد جھوٹ اور من گھڑت ہے، بلکہ ان کے نزدیک اس کے بارہ میں اس سے زیادہ یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ اس حدیث کو خود نقل کرنے والے مصنف نے خود ایجاد کیا ہے، والعیاذ باللہ۔ محدثین ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ کس تواضع سے استعمال کرتے ہیں، اس کے لیے ”مشکاۃ المصابیح“ کا ایک اقتباس سنئے۔ مشکاة المصابیح کے مصنف نے ”مصابیح السنۃ“ کی تمام احادیث کی مقدور بھر تخریج کی، مگر بعض حدیثوں کی تخریج وہ نہ کرپائے، ایسی حدیثوں کے بارہ میں وہ کہتے ہیں:

”وقلیلا ما تجد اقول: ما وجدت ہذہ الروایة فی کتب الاصول او وجدت خلافہا فیہا فاذا وقفت علیہ فانسب القصور الی لقلة الدرایة ، لا الی جناب الشیخ“ (مشکاة المصابیح۔ صفحہ۱۱)

یعنی ”جب تم دیکھو کہ میں کسی حدیث کے بارہ میں لاعلمی کا اظہار کردوں کہ یہ حدیث بنیادی کتابوں میں مجھے نہیں ملی تو اس کو میرا قصور سمجھو، جنابِ شیخ کا نہیں۔“

  ”لم اجدہ“ اور اس جیسے دوسرے الفاظ کے مفہوم اور اسلوب کو بیک وقت ملحوظ رکھنے سے ہی اس کا صحیح اطلاق سمجھ میں آسکتا ہے۔ اصل میں یہ اطلاق اور اس میں کارفرما اسلوب ومفہوم معمولی شعور سے بھی سمجھ میں آسکتا ہے، مگر طرفین کے افراط وتفریط نے اس کے اصل اطلاق کو دھندلادیا ہے۔

کیا موضوع کا قطعی طور پر جھوٹ ہونا ضروری ہے؟

  ”لم اجدہ“ جیسے اطلاقات کواگر” موضوع“ کے اطلاق کے ہم پلہ بھی فرض کرلیا جائے تو ابنِ حجرنے تصریح فرمائی ہے کہ خود جو حدیث اصطلاحِ حدیث کی رو سے ”موضوع“ ہوتی ہے، اس کا سو فی صد جھوٹ ہونا بھی ضروری نہیں۔ ہم اس بات کو تھوڑا وضاحت سے عرض کرتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ جس حدیث کی سند میں کوئی ایسا راوی ہو جس کے بارہ میں احادیث کے اندر جھوٹ بولنا ثابت ہے تو ایسی حدیث اصطلاحا”موضوع“ کہلاتی ہے اور جس حدیث میں کوئی ایسا راوی ہو جس کے بارہ میں حدیثِ رسول کے اندر تو نہیں، البتہ عمومی معاملات میں جھوٹ بولنا ثابت ہے، تو ایسی حدیث ”متروک“ کہلاتی ہے۔ غور کیجئے ! ”موضوع“ اور ”متروک“ دونوں میں جو نقص آرہا ہے‘ وہ محض اس وجہ سے ہے کہ ان کا راوی جھوٹا اور غیر مستند ہے، اب چونکہ غیر مستند آدمی کی بات بھی غیر مستند ہوتی ہے‘ اس لیے حدیث موضوع اور متروک بھی غیر مستند ہیں‘ مگر یقین سے یہ دعوی کرنا کہ ہر ہر موضوع حدیث قطعی طور پر جھوٹ ہے، یہ ممکن نہیں کیونکہ غیر مستند آدمی کی بات غیر مستند ضرور ہوتی ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس کی ہر بات سو فی صد جھوٹ پہ مبنی بھی ہے اور وہ کبھی سچ بولتا ہی نہیں۔ ہم اسے ناقابلِ اعتماد تو کہہ سکتے ہیں ‘ سو فی صد جھوٹ نہیں کیونکہ جھوٹا آدمی بھی کبھی کبھی سچ اور صحیح بات کہہ دیتا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ اس نے زیرِ غور حدیث میں سچ ہی بیان کیاہو۔اگر محدثین اسے من گھڑت او رجھوٹ کہتے ہیں تو وہ بھی محض غالبِ ظن کی حدتک ہوتا ہے۔چنانچہ ابنِ حجر اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”والحکم علیہ بالوضع انما ہو بطریق الظن الغالب لا بالقطع ‘ اذ قد یصدق الکذوب“ (نزہۃ النظر۔ صفحہ۸۴)

یعنی ”موضوع حدیث کوموضوع اورمن گھڑت کہنے کا معاملہ صرف ظن غالب کی حد تک ہے‘ قطعی اور یقینی طور پر نہیں‘ کیونکہ کبھی کبھی جھوٹا آدمی بھی سچ کہہ دیتا ہے۔“

تاہم چندمستثنیات کا معاملہ اور ہے کہ ان میں بعض اضافی قرائن ان کے سوفیصد جھوٹ ہونے پر دلالت کر رہے ہوتے ہیں۔

  شاید یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر اور ان کے استاد حافظ عراقی اس وقت تک کسی حدیث کو ”موضوع“ نہیں کہتے جب تک کہ (اضافی قرائن کی رشنی میں) اس کا واقعتا موضوع ومن گھڑت ہونا نصف النہار کی طرح واضح نہ ہوجائے اور ایسی احادیث کو اکثر اوقات صرف ضعیف کہنے پر اکتفاءکرتے ہیں جن کی سند میں کوئی کذاب ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ حدیث اصطلاحا ”موضوع“ کہلائی جاسکتی ہے۔ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ سمیت بعض حضرات کی نگاہ چونکہ ابنِ حجر اور عراقی کی احتیاط کے اس پسِ منظر کی طرف نہیں جاسکی، اس لیے انہیں ابنِ حجر اور حافظ عراقی کی یہ عادت قابلِ اشکال محسوس ہوئی ہے (الاجوبۃ الفاضلۃ، مولانا عبد الحی لکھنوی فرنگی محلی، تعلیق: شیخ عبد الفتاح ابو غدہ، صفحہ ۱۲۵، ۱۲۶)، مگر راقم کی رائے میں ابن حجر اور حافظ عراقی کی یہ عادت قابلِ اشکال نہیں، قابلِ تقلید ہے۔

  وجہ یہ کہ جس طرح کسی بات کو آنحضور کی طرف منسوب کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہے، یوں ہی کسی حدیث کی نسبت آنحضور سے بایقین قطع کرنے میں بھی احتیاط درکار ہے اور سند نہ ہونے کی وجہ سے کسی حدیث کا مشتبہ، ناقابلِ قبول اور غیر مستند ہوناایک بات ہے، جبکہ قطعی طور پر آنحضور کا قول نہ ہونا چیزے دیگر۔ بہت سے لوگ جو ”موضوع“ کی اصطلاحی تعریف سے ناواقف ہوتے ہیں اور وہ ”موضوع“ کے لغوی معنی کو دیکھتے ہوئے اس کا مطلب یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ حدیث قطعی طور پر جھوٹ اور من گھڑت ہے۔

زیلعی وابن الملقن کی خاص اصطلاح

  امام زیلعی اور ابن الملقن دو محدث ایسے ہیں جو اپنی تخریجات میں بے اصل احادیث کے لیے ”لم اجدہ“ وغیرہ کی بجائے ”غریب“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور یہ ان کا خاص اسلوب ہے۔ اصل میں یہ اسلوب زیلعی کا ہے اور لگتا ہے کہ ابن الملقن نے انہی کی پیروی کرتے ہوئے یہ اسلوب اختیار کیا۔ ”غریب“ کا لغوی معنی ہے: ”انجان“، ”اجنبی“۔ ایسی حدیث جو محدثین کی کتابوں میں اور ان کی روایات میں نہ ملے، یہ دو حضرات اس کو غریب اس لیے کہتے ہیں کہ وہ جانی پہچانی، معلوم اورمستند احادیث میں سے نہیں۔ دیگر محدثین کے ہاں بھی غریب کا لفظ استعمال ہوتا ہے مگر وہ اس معنی میں نہیں ہوتا۔ اصولِ حدیث میں ”غریب حدیث“ کی اصطلاح اس حدیث کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کو ہر دور میں نقل کرنے والے ایک آدھ لوگ ضرور موجود رہے ہوں، محدثین کے ہاں عام طور پر ”غریب“ کی اصطلاح انہی معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔اس معنی کی رو سے لازم ہے کہ غریب حدیث بے اصل نہ ہو، بلکہ اس کی ایک مکمل سند موجود ہو اور وہ کبھی ضعیف، کبھی حسن اور کبھی صحیح بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کی سند ضرور موجود ہوگی، خواہ اس کے راوی ہر دور میں ایک ایک رہے ہوں اور ایک سے زیادہ نہ ہوں۔ جبکہ زیلعی اور ابن الملقن غریب کی اصطلاح اس حدیث کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کی سرے سے کوئی سند موجود نہ ہو اور نہ ہی کتبِ حدیث میں وہ روایت ملے، بلکہ وہ بے اصل ہو۔

  چونکہ معروف تعریف کی رو سے ”غریب“ وہ حدیث کہلاتی ہے جس کی ایک مکمل سند بہرحال موجود ہو، اس لیے بعض حنفی علماءکو یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ زیلعی جہاں احادیثِ ہدایہ کے لیے غریب کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان کی مراد بھی یہی ہوتی ہے کہ اس کی ایک مکمل سند موجود ہے اور یہ بے اصل نہیں، تاہم یہ بات درست نہیں۔ قاسم بن قطلوبغا نے ”منیۃ الالمعی“ (صفحہ۹، ۰۱) میں اور دیگر دسیوں علماءنے تصریح کی ہے کہ زیلعی اور ابن الملقن ”غریب“ کی اصطلاح کو ”بے اصل“ کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور اس سے ان کی مراد معروف معنی بالکل نہیں ہوتا، زیلعی اور ابن الملقن جہاں یہ لفظ استعمال کرتے ہیں، وہاں پر سیاق وسباق کو دیکھ کر بھی بآسانی یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی مراد اس لفظ سے بے اصل ہی ہے، نہ کہ کچھ اور، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ زیلعی ”نصب الرایۃ“ کے اندر جہاں ”غریب“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، نصب الرایۃ کے تلخیص نگار حافظ ابنِ حجر عسقلانی اس حدیث کے لیے کئی جگہ ”لم اجدہ“ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

  مقصود اس گفتگو سے یہ واضح کرنا ہے کہ بے اصل حدیث کے لیے”لم اجدہ“ جیسے الفاظ کی بجائے، بعض محدثین کا ”غریب“ کا لفظ استعمال کرنا بھی باقی الفاظ کی طرح ان کی تواضع او راحتیاط کا مظہر ہے کہ وہ اس کو نامعلوم اور انجانی کہتے ہیں، جھوٹ، بہتان اور من گھڑت نہیں، تاہم دوسری طرف ڈھیلے ڈھالے انداز میں یہ لفظ اس حدیث کی استنادی حیثیت کو بھی واضح کردیتا ہے کہ بے سند، بے ثبوت اور انجان ہونے کی وجہ سے یہ قابلِ استدلال نہیں، جب تک کہ اس کی تخریج نہ ہوجائے۔

بے اصل فقہی احادیث کی فنی حیثیت

  ہدایہ کی بے اصل احادیث کے حوالہ سے برصغیر کے بعض مصنفین نے مناظرانہ اسلوب میں جو لے دے کی ہے، خدا جانے انہیں اس کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی کیونکہ استاذانِ فن ”اصول الحدیث“ آج سے صدیوں قبل اپنی کتابوں میں تصریحا واضح کرچکے ہیں کہ کتبِ فقہ میں مذکور بے اصل احادیث کی فنی حیثیت کیا ہے اور ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہئے، مثلا ابن الصلاح کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:

”قلت: وقول المصنفین من الفقہاءوغیرہم: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کذا وکذا ونحو ذلک کلہ من قبیل المعضل“ (صفحہ۲۸)

یعنی ”فقہاءکا اپنی تصانیف میں کسی حدیث کو بغیر سند کے نقل کرنا اور اسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا بھی معضل ہی کے قبیل سے ہے۔“

  ”معضل“ ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے، اس کو نہ تو موضوع کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ ”موضوع“ کے ہم پلہ ہے، بلکہ غیر مستند اور ضعیف ہونے کے باوجود یہ بہر حال ”موضوع“ سے بہتر درجہ کی حدیث ہے۔ ”معضل“ کی اصل تعریف یہ ہے: ”وہ حدیث جس کی سند میں دو یا دو سے زیادہ راوی لگاتار غائب ہوں۔“ (نزہۃ النظر۔ صفحہ۷۸) چونکہ اب ایسی احادیث جن میں مصنفینِ فقہ اپنے اوپر کسی بھی راوی کا ذکر نہیں کرتے یا بالفاظِ دیگر کسی حدیث کو بلا سند نقل کرتے ہیں، ان پر بھی یہ تعریف صادق آتی ہے، اس لیے انہیں بھی محدثین ”معضل“ کہتے ہیں۔ امام مالک کی موطا میں ایسی احادیث موجود ہیں جو بلا سند ہیں یا نامکمل سند کے ساتھ نقل کی گئی ہیں جنہیں معضلات، مراسیل یا بلاغاتِ مالک کہا جاتا ہے، ان کا حکم بھی معضل والا ہے۔ اسی طرح امام بخاری کی ”الجامع الصحیح“ میں بھی کئی بلا سند احادیث موجود ہیں جنہیں ”تعلیقاتِ بخاری“ کہا جاتا ہے۔ ابن الصلاح نے ان کو بھی معضل کی بحث میں شامل کیا ہے، البتہ ان کے نزدیک ان کا حکم معضل والا نہیں، یعنی یہ ضعیف نہیں بلکہ بوجوہ صحیح ہیں۔ (مقدمہ ابن الصلاح۔ صفحہ ۳۱)

  واضح رہے کہ ابن کثیر نے ”الباعث الحثیث“ (صفحہ۴۳) میں اور امام سیوطی نے ”تدریب الراوی“ (صفحہ۱۸۷) میں بھی فقہاءکی نقل کردہ بے اصل احادیث کے بارہ میں ابن الصلاح کا یہی قول بعینہ نقل کرکے اس کی توثیق کی ہے کہ یہ حکما معضل و ضعیف ہی ہیں اور بس۔ خدا جانے، استادانِ فن کی ان تصریحات کے بعد ہم جیسے طفلانِ مکتب کو ان احادیث کی فنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے ذہنی مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی؟

بے اصل کا معنی ہمیشہ موضوع نہیں ہوتا

  اب ”بے اصل“ کا معنی خود محدثین کی تصریح کے مطابق چونکہ ”بلا سند“ ہے (تدریب الراوی۔ صفحہ۲۶۳) اور بے سند حدیث چونکہ کبھی کبھی معضل ہوتی ہے جیساکہ ابھی بیان ہوا ہے، اس لیے محدثین بعض اوقات معضل کو بھی ”بے اصل“ لکھ دیتے ہیں کیونکہ اس کی بھی ابتدائی راوی کے علاوہ بعض اوقات پوری سند غائب ہوتی ہے۔ عام طور پر چونکہ ”بے اصل“ کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوتا ہے کہ یہ موضوع کی طرح غیر مستند ہے، اس لیے جب کبھی محدثین کسی معضل کو بے اصل لکھ دیں تو بعض لوگ اس کو موضوع ہی ثابت کرنے پر مصر ہوجاتے ہیں حالانکہ وہ حدیث فی الواقع صرف معضل ہوتی ہے اور محدث محض بے سند ہونے کی وجہ سے اسے بے اصل لکھ رہا ہوتا ہے، جبکہ بعض حضرات کو خود اس محدث کا قول ہی قابلِ اعتراض محسوس ہوتا ہے جو ایک ضعیف اور معضل حدیث کو ”بے اصل“ لکھ کر گویا اسے موضوع کہہ رہا ہے، حالانکہ بے اصل کا مطلب صرف ”بے سند“ اور غیر مستند ہے، ضروری نہیں کہ وہ موضوع یا موضوع کے ہم وزن بھی ہو۔

  چنانچہ اس کی ایک مثال موطا امام مالک کی وہ معضل حدیث (رقم۳۳۱) ہے جس کے بارہ میں ابنِ حجر نے ”لا اصل لہ“ (بے اصل) کا لفظ لکھا (فتح الباری۔ جلد۳، صفحہ۱۳۱) اور مولانا زکریا کاندھلوی نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ ابنِ حجر ایک ضعیف حدیث کو ”موضوع“ کیوں لکھ رہے ہیں؟ (اوجز المسالک، جلد۱، صفحہ۳۱۷) مذکورہ وضاحت کی روشنی میں واضح ہے کہ مولانا کاندھلوی کا یہ اعتراض درست نہیں اور ابنِ حجر کا اسے ”بے اصل“ کہنا معضل وضعیف ہی کے معنی میں تھا، نہ کہ موضوع کے معنی میں۔

حدیث صرف تدوینِ حدیث کے زمانہ کی معتبر ہے

  مذکورہ گفتگو پر یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر آج کے دور میں کوئی آدمی بغیر سند کے کوئی ایسی حدیث بیان کرے جو کتبِ حدیث میں مذکور نہیں ہے تو کیا اس کا حکم بھی وہی معضل والا ہوگا؟ جواب ہے کہ نہیں کیونکہ ضعیف، معضل، موضوع اور صحیح کے درجے تدوینِ حدیث کے دور میں بیان ہونے والی احادیث سے متعلق ہیں ، اُس دور کا کوئی آدمی اگر حدیث نقل کرے تو دیکھا جائے گا کہ اصولِ حدیث کی رو سے اِس کا کیا درجہ ہے؟تدوینِ حدیث کا یہ دور ابن المرابط کے بقول چوتھی صدی ہجری تک جاری رہا۔ (فتح المغیث۔ جلد۳، صفحہ۳۵۷) البتہ شیخ عبدالفتاح اپنے جلیل القدر استاد عبداللہ بن الصدیق الغماری سے نقل کرتے ہیں (جس کا خلاصہ ہے) کہ ”تدوینِ حدیث کا یہ سلسلہ پانچویں صدی ہجری کے درمیان تک جاری رہا، جوابو نعیم، ابنِ مندہ اور بیہقی کا زمانہ ہے۔ البتہ پانچویں صدی ہجری کے بعد صرف دو کتابیں ان کی نظر میں ایسی ہیں جن کو تدوینِ حدیث کے مجموعوں میں شمار کرنا چاہئے۔ ان میں ایک ابنِ عساکر کی ”تاریخِ دمشق“ ہے اور دوسری ضیاءمقدسی کی کتاب ”المختارة“ ہے۔ ان دو کتابوں میں سند کے ساتھ چند ایسی نئی روایات بھی نقل کی گئی ہیں جو حدیث کے سابقہ مجموعوں میں نظر نہیں آتیں۔اس کے بعد تدوینِ حدیث کا کام اپنے حتمی انجام کو پہنچا۔“ (حاشیة: الاجوبة الفاضلة، صفحہ۱۴۹، ۱۵٠) تو گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تدوینِ حدیث کا کام تکمیل پذیر ہونے تک کا دور تدوینِ حدیث کا دور ہے۔

  تدوینِ حدیث کا یہ دور مکمل ہوجانے کے بعد اب ضعیف، معضل اور صحیح کے درجے نہیں ہیں، بلکہ بے سند تو کجا، اگر اب سند کے ساتھ بھی کوئی آدمی کوئی ایسی حدیث بیان کرے جو تدوینِ حدیث کے دور کی کتابوں میں نہیں ہے تو اس کا بس ایک ہی حکم ہے کہ وہ غیر مستند، ناقابلِ استدلال اور ناقابلِ التفات ہے۔ ابن الصلاح کی عبارت کا مفہوم ہے:

”تدوینِ حدیث مکمل ہونے کے بعد چونکہ متاخرین میں راویوں کے احوال کو ضبط کرنے اور ان پر نقد وجرح کرنے کا کام پہلے جیسی شان اور ذمہ داری کے ساتھ باقی نہیں رہا، اس لیے اب تمام تر اعتماد تدوینِ شدہ کتابوں پر ہے، اگر کوئی آدمی سند کے ساتھ کوئی ایسی حدیث نقل کرے جو تدوین شدہ کتابوں میں نہیں ملتی تو باوجود سند کے اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔“ (مقدمہ ابن الصلاح۔ صفحہ۵۸)

ہدایہ کی بے اصل احادیث معضل ہیں یا موضوع؟

  الہدایہ کے مصنف علی بن ابی بکر المرغینانی چھٹی صدی ہجری کے آدمی ہیں اور یہ زمانہ تدوینِ حدیث ہی کا آخری زمانہ ہے۔ ۵۱۱ھ میں پیدا ہوکر انہوں نے ۵۹۳ھ میں وفات پائی۔ لہذا ابن الصلاح، ابنِ کثیر اور امام سیوطی کی مذکورہ تصریحات کے مطابق، اب ہدایہ (ودیگر کتبِ فقہ) میں مذکور بے اصل احادیث کی فنی حیثیت کا صحیح تناظر یہی بنتا ہے کہ وہ ”موضوع“ کے ہم پلہ نہیں، بلکہ معضل اور ضعیف ہیں اور محدثین جو ان کے بارہ میں بے اصل کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہ بھی اسی معنی میں ہے، خصوصا جبکہ ان احادیث کا ذکر تیسری اور چوتھی صدی میں لکھی گئی کتبِ فقہ کے اندر بھی (خواہ بغیر سندکے) پایا جاتا ہو۔

  چنانچہ الہدایہ کی ایسی بہت سی احادیث کہ جن کی تخریج عام طور محدثین نہیں کر پائے، وہ امام محمد وغیرہ کی کتب میں (خواہ بغیر سند کے) موجود ہیں جو کہ الہدایہ سے بھی پہلے لکھی گئی ہیں اور امام محمد توخود راویءحدیث بھی ہیں۔ لہذا ایسی احادیث لامحالہ صرف ضعیف ہی ہوں گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے احادیثِ ہدایہ کے بارہ میں لکھے گئے اپنے تنقیدی نوٹ میں یہ تو کہا ہے کہ صاحبِ ہدایہ ضعیف احادیث سے استدلال کرتے ہیں، مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ موضوع احادیث سے بھی استدلال کرتے ہیں۔

ہدایہ کے جوشیلے معتقد اور شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ

  شیخِ محدث کی عبارت یہ ہے:

”در اذہانِ بعض مردم چناں آمدہ کہ مذہبِ امام شافعی موافقِ احادیث است وسلوک طریقہء اقتداء واتباع در مذہبِ ایشان بیشتر است.... وکتابِ ہدایہ کہ در دیار مشہور ومعتبر ترین کتابہا است نیز دریں وہم انداختہ ، چہ مصنفِ وی رحمہ اللہ در اکثر بنائِ کار بر دلیلِ معقول نہادہ و اگر حدیثی آوردہ نزدِ محدثین خالی از ضعفے نہ، غالبا اشتغالِ وقتِ آں استاد در علمِ حدیث کم تر بودہ است،لیکن شرح شیخ ابن الہمام جزاہ اللہ تعالی خیر الجزاءتلافئی آن نمودہ وتحقیقِ کار فرمودہ است“ (شرح سفر السعادة، شیخ عبد الحق محدث دہلوی۔صفحہ ۲۳)

”بعض ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ امام ابوحنیفہ کی نسبت امام شافعی کا مذہب حدیث وسنت سے زیادہ قریب ہے.... کتابِ ہدایہ جو فقہِ حنفی کی شہرہ آفاق اور معتبر ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے، اس نے بھی اس وہم میں ڈال دیا ہے (کہ شاید فقہِ حنفی کی نسبت، فقہِ شافعی حدیث سے زیادہ قریب ہے) کیونکہ اس کے مصنف رحمہ اللہ مسئلہ کو زیادہ تر عقلی دلیل کی بنیاد پر ثابت کرتے ہیں اور اگر کوئی حدیث لے بھی آتے ہیں تو وہ محدثین کے ہاں ضعف سے خالی نہیں ہوتی، غالباعلمِ حدیث سے ان کا تعلق کم رہا تھا، لیکن شیخ ابن الہمام کو اللہ جزائے خیر دے کہ ان کی شرح نے ہدایہ کی اس کمی کی تلافی کردی ہے اور تحقیقِ کار فرمادی ہے۔“

  شیخ محقق نے ہدایہ کے بارہ میں جو تاثر لکھا ہے کہ اس کے اسلوبِ دلیل کی وجہ سے بعض لوگ حنفیت کی نسبت شافعیت کو اتباعِ حدیث کے قریب سمجھنے لگ جاتے ہیں، وہ غلط نہیں اور راقم خود ایک عرصہ تک عملا اس تاثر سے مغلوب رہا۔ شیخِ محقق کے اس اقتباس میں برصغیر کے جوشیلے حنفیوں کے لیے بھی سیکھنے کو کافی کچھ ہے جو ہدایہ کے بارہ میں اعتدال پر مبنی کوئی تبصرہ سن کر بر افروختہ ہوجاتے ہیں اور ان کے نزدیک ہدایہ کی تعظیم کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہدایہ کو ہر قسم کی انسانی کوتاہی سے معری قرار دے کر اس کی شان میں زمین وآسمان کے قلابے نہ ملائے جائیں اور قرآن کی طرح (خواہ مجازی مفہوم ہی میں سہی) اسے ایک معجزہ نہ قرار دے دیا جائے۔ والی اللہ المشتکی!

آخری بات

  ہمارے اس مقالہ کا مقصودِ اصلی ہدایہ کی بے اصل احادیث کو باوقعت ثابت کرنا نہیں، بلکہ صرف یہ واضح کرنا ہے کہ کس طرح ہمارے اسلاف اعتدال کے دائرہ میں رہتے ہوئے علمی معاملات کا ضعف وسقم واضح کرلیتے تھے، جبکہ ہم لوگوں کے لیے یہ کام اعتدال کے دائرہ میں رہتے ہوئے کرنا مشکل وقریب از محال ہوچکا ہے۔ اگر کوئی حدیث ضعیف ہے تو اس کو ضعیف کہئے، اگر کوئی موضوع ہے تو اسے موضوع کہئے اور اگر کسی مصنف سے تساہل ہوا ہے تو اس کو تساہل کہئے، اگر حسنِ ظن کے نمبر اسے دیے جاسکتے ہیں تو اسے وہ دیجئے اور خدا را جو بات جس درجہ کی ہے، اسے اسی درجہ میں رکھتے ہوئے اسلاف کے علمی رویوں کی ترجمانی کیجئے۔ ہمارے اس مقالہ کی صدا یہ نہیں کہ بے اصل احادیث قابلِ استدلال ہیں، نہیں ہرگز نہیں! بلکہ یہ کہ ان احادیث کی پوزیشن کو علمی اسلوب میں واضح کیجئے اور مناظرانہ افراط وتفریط سے احتراز کرتے ہوئے خواہ مخواہ رائی کا پہاڑ نہ بنائیے۔

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۵)

محمد عمار خان ناصر

اسلوب عموم اور تخصیص و زیادت

غامدی صاحب، جیسا کہ واضح کیا گیا، امام شافعی کے اس موقف سے متفق ہیں کہ حدیث، قرآن کی صرف تبیین کر سکتی ہے، اس کے حکم میں تبدیلی نہیں کر سکتی۔ البتہ اس اصول کے انطباق اور تفصیل میں ان کا منہج امام شافعی سے مختلف ہے اور یہ اختلاف بظاہر جزوی ہونے کے باوجود نتائج کے اعتبار سے بہت اہم اور بنیادی ہے۔

امام شافعی کے منہج میں قرآن مجید میں اسلوب عموم کو تخصیص پر محمول کرنے کی درج ذیل تین صورتیں جائز مانی جاتی ہیں:

پہلی یہ کہ کلام کے سیاق وسباق سے تخصیص واضح ہو رہی ہو۔

دوسری یہ کہ حکم کی علت اور معنوی اشارات سے تخصیص اخذ کی جا سکتی ہو یا حکم میں اس کا احتمال نمایاں ہو۔

تیسری یہ کہ ایسی کوئی تخصیص حدیث میں بیان ہوئی ہو، چاہے اس کا کوئی ظاہری قرینہ یا اساس خود قرآن کے حکم میں نہ بتائی جا سکے۔

گویا امام شافعی اس اصول کا انطباق ان صورتوں میں بھی کرتے ہیں جہاں کلام کی تخصیص کے قرائن خود کلام کے سیاق وسباق یا اشارات میں موجود ہوں اور ان صورتوں میں بھی جہاں کلام کی تخصیص احادیث میں بیان ہوئی ہو، اگرچہ خود قرآن کے سیاق وسباق میں اس کا کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو۔ غامدی صاحب ان میں سے پہلی دو صورتوں میں حدیث کے ذریعے سے قرآن کی تخصیص کو درست تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ یہ ان کے نزدیک کلام کی تبیین ہی کی صورتیں ہیں، جب کہ تیسری صورت کو درست نہیں سمجھتے، کیونکہ یہ تبیین کے دائرے سے متجاوز اور نسخ وتغییر کے زمرے میں آتی ہے۔

پہلی صورت سے متعلق غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...امام شافعی نے اپنی کتاب ’’الرسالہ‘‘ میں قرآن کے خاص وعام سے متعلق فرمایا ہے کہ زبان محتمل المعانی ہوتی ہے۔ اُس کے خاص وعام بھی جب کسی کلام کا جزو بن کر آتے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ ہر حال میں اُسی معنی کے لیے آئیں جس کے لیے وہ اصلاً وضع کیے گئے ہیں۔ اللہ کی کتاب اس طرح نازل ہوئی ہے کہ اُس میں لفظ عام ہوتا ہے، مگر اُس سے خاص مراد لیا جاتا ہے اور خاص ہوتا ہے، مگر اُس سے عام مرادلیا جاتا ہے۔ لہٰذا نہ خاص کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مدلول کے لیے قطعی ہے اور نہ عام کے بارے میں کہ وہ اپنے تحت تمام افراد پر لازماً دلالت کرے گا۔ ائمۂ اصول کے ایک گروہ کو اِس سے اختلاف ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ اِس معاملے میں امام شافعی کا نقطۂ نظر ہی صحیح ہے، اِس لیے کہ یہ مجرد لفظ نہیں، بلکہ اُس کا موقع استعمال ہے جو سامع یا قاری کو اُس کے مفہوم سے متعلق کسی حتمی نتیجے تک پہنچاتا ہے۔‘‘ (مقامات ۱۴۱-  ۱۴۲)

بعض انطباقی مثالوں کی روشنی میں اس اصول کو واضح کرتے ہوئے غامدی صاحب نے لکھا ہے:

’’...قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر الفاظ عام ہیں، لیکن سیاق وسباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ اُن سے مراد عام نہیں ہے۔ قرآن ’النَّاس‘ کہتا ہے، لیکن ساری دنیا کا تو کیا ذکر، بارہا اِس سے عرب کے سب لوگ بھی اُس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ وہ  ’عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہ‘ کی تعبیر اختیار کرتا ہے، لیکن اِس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا۔ وہ ’الْمُشْرِكُوْن‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے، لیکن اِسے سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا۔ وہ ’اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ‘ کے الفاظ لاتا ہے، لیکن اِس سے پورے عالم کے اہل کتاب مراد نہیں ہوتے۔ وہ ’الْاِنْسَان‘ کے لفظ سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے، لیکن اِس سے ساری اولاد آدم کا ذکر مقصود نہیں ہوتا۔ یہ قرآن کا عام اسلوب ہے جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح ووضاحت میں متکلم کا منشا بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے، لہٰذا ناگزیر ہے کہ اِس معاملے میں قرآن کے عرف اور اُس کے سیاق وسباق کی حکومت اُس کے الفاظ پر ہر حال میں قائم رکھی جائے۔‘‘ (میزان ۲۳-  ۲۴)

دوسری اور تیسری صورت کے تعلق سے امام شافعی کے ساتھ اپنے اتفاق اور اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’زبان کی یہی نوعیت ہے جس کے پیش نظر قرآن کے علما ومحققین تقاضا کرتے ہیں کہ متکلم کے منشا تک پہنچنا ہو تو محض ظاہر الفاظ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اُن کے باطن کو سمجھ کر حکم لگانا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب الہٰی کی یہی خدمت انجام دی ہے اور اپنے ارشادات سے اُن مضمرات وتضمنات کو واضح کر دیا ہے جن تک رسائی اُن لوگوں کے لیے مشکل ہو سکتی تھی جو لفظ ومعنی کی اِن نزاکتوں کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ امام شافعی بجا طور پر اصرار کرتے ہیں کہ ظاہر الفاظ کی بنیاد پر آپ کی اِس تفہیم وتبیین سے صرف نظر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ قرآن کا بیان ہے، اِس میں کوئی چیز قرآن کے خلاف نہیں ہوتی۔ خدا کا پیغمبر کتاب الہٰی کا تابع ہے۔ وہ اُس کے مدعا کی تبیین کرتا ہے، اُس میں کبھی تغیر وتبدل نہیں کرتا۔ امام اپنی کتاب میں اِس کی مثالیں دیتے اور بار بار متنبہ کرتے ہیں کہ قرآن کے احکام سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے، وہ بیان اور صرف بیان ہے۔ اُسے نہیں مانا جائے گا تو یہ قرآن کی پیروی نہیں، اُس کے حکم سے انحراف ہوگا، اِس لیے کہ اُس کا متکلم وہی چاہتا ہے جو پیغمبر کی تفہیم وتبیین سے واضح ہو رہا ہے، اُس کا منشا اُس سے مختلف نہیں ہے۔

امام شافعی کی اِس بات سے زیادہ سچی بات کیا ہو سکتی ہے! لیکن امام کے استدلال کی کم زوری یہ ہے کہ بیش تر موقعوں پر وہ مبرہن نہیں کر سکے کہ لفظ اور معنی کے جس تعلق کو وہ ’بیان‘سے تعبیر کرتے ہیں، وہ اُن میں پیدا کس طرح ہوتا ہے؟ چنانچہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کی چند ایسی روایتوں پر بھی مطمئن ہو گئے ہیں جنھیں کسی طرح بیان قرار نہیں دیا جا سکتا، دراں حالیکہ اُن کے بارے میں یہ بحث ہو سکتی تھی کہ اُن کے راویوں نے آپ کا مدعا ٹھیک طریقے سے سمجھا اور بیان بھی کیا ہے یا نہیں؟...

ہم نے ’’میزان‘‘ میں کوشش کی ہے کہ امام کے موقف کو پوری طرح مبرہن کر دیں، اِس لیے کہ اصولاً وہ بالکل صحیح ہے۔ … اِس سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ قرآن مجید کے احکام سے متعلق روایتوں میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ اُس کے الفاظ کا مضمر ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تشریحات سے ظاہر کر دیا ہے۔ قرآن کے طالب علموں کو اِس سے لفظ کے باطن میں اتر کر اُس کو سمجھنے کی تربیت حاصل کرنی چاہیے، اِسے رد کر دینے یا اِس سے قرآن کے نسخ پر استدلال کی جسارت نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ (مقامات ۱۴۳- ۱۴۵)

ان توضیحات سے، امام شافعی کے نقطۂ نظر سے غامدی صاحب کا اتفاق اور اختلاف بالکل متعین ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ امام شافعی ایسی صورتوں کا امکان، بلکہ وقوع تسلیم کرتے ہیں جن میں خود قرآن میں کسی حکم کی تخصیص کے قرائن واضح نہ ہوں اور تخصیص کو صرف حدیث میں وارد ہونے کی بنا پر قرآن کی مراد قرار دیا جائے۔ غامدی صاحب کے نزدیک اگر ایسی کوئی صورت بالفرض پائی جاتی ہو تو اصولاً اسے تبیین نہیں کہا جا سکتا اور نتیجتاً قبول بھی نہیں کیا جا سکتا، تاہم ایسی کوئی صورت عملاً پائی نہیں جاتی اور تمام مستند احادیث کا تعلق قرآن سے تبیین کے اصول پر واضح کیا جا سکتا ہے۔ اس بحث میں غامدی صاحب کا اہم ترین اضافہ یہی ہے اور اس نقطۂ نظر کے تحت انھوں نے سنت میں بیان ہونے والے تمام ایسے احکام کا ماخذ، جنھیں فقہا واصولیین قرآن کی تخصیص یا اس پر زیادت کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، خود قرآن مجید میں متعین کیا ہے۔ یہ ’’میزان‘‘ میں اختیار کردہ علمی منہج کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے اور تمام اعتقادی وفقہی نوعیت کے مباحث میں قرآن کے بیانات کے ساتھ احادیث کے تعلق کو واضح کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔

تاہم غامدی صاحب کے منہج میں تفہیم وتوجیہ کا یہ طریقہ یک طرفہ نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہر مثال میں جہاں حدیث، ظاہر کے لحاظ سے قرآن کے بیان سے متجاوز یا اس کے معارض ہو، وہاں قرآن میں اس کے موید قرائن ودلائل تلاش کیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس یہ دو طرفہ تعلق ہے اور جہاں بہت سی مثالوں میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ حدیث میں وارد تبیین یا تخصیص وزیادت کی بنیاد خود قرآن میں موجود ہے، وہاں بہت سی مثالوں میں احادیث کی تفہیم قرآن کے مدعا کی روشنی میں اس طرح کی گئی ہے کہ ان کا تجاوز یا تخالف باقی نہ رہے۔

ذیل میں ہم ’’میزان‘‘ سے ان دونوں نوعیت کی اہم مثالوں کی روشنی میں غامدی صاحب کے منہج کی وضاحت کریں گے۔

قرآن مجید میں تبیین یا تخصیص وزیادت کی اساسات

اس نوعیت کی اہم مثالیں حسب ذیل ہیں:

۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے وضو کرتے ہوئے پاؤں کو دھونا ثابت ہے۔ اس پر بظاہر قرآن مجید کی آیت سے اشکال ہوتا ہے جس میں ’فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَي الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَي الْكَعْبَيْنِ ‘ (المائدہ ۵: ۶) کے الفاظ آئے ہیں اور ’اَرْجُلَكُمْ‘ کا عطف اس سے بالکل متصل ’ رُءُوْسَكُمْ ‘ پر ہونے سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ پاؤں کا وظیفہ بھی مسح کرنا ہے۔ غامدی صاحب اس ظاہری احتمال کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’...پاؤں کا حکم، اگرچہ بظاہر خیال ہوتا ہے کہ ’وَامْسَحُوْا‘ کے تحت ہے، لیکن ’اَرْجُلَكُمْ‘ منصوب ہے اور اِس کے بعد ’اِلَي الْكَعْبَيْنِ‘ کے الفاظ ہیں جو پوری قطعیت کے ساتھ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ اِس کا عطف ’اَيْدِيَكُمْ‘ پر ہے، اِس لیے کہ یہ اگر ’بِرُءُ وْسِكُمْ‘ پر ہوتا تو اِس کے ساتھ ’اِلَي الْكَعْبَيْنِ‘  کی قید غیرضروری تھی۔ تیمم میں دیکھ لیجیے کہ جہاں مسح کا حکم دیا گیا ہے، وہاں ’اِلَي الْمَرَافِقِ‘ کی قید اِسی بنا پر ختم کر دی ہے۔ چنانچہ پاؤں لازماً دھوئے جائیں گے۔ آیت میں اِن کا ذکر محض اِس وجہ سے موخر کر دیا گیا ہے کہ وضو میں اعضا کی ترتیب سے متعلق کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو جائے۔‘‘ (البیان  ۱/۵۹۹)

یہی نکتہ امام الحرمین الجوینی اور الکیا الہراسی نے بھی پیش کیا ہے (البرہان فی اصول الفقہ ۱/۵۴۹ ۔  الکیا الہراسی، احکام القرآن ۲/۴۱) اور علمی لحاظ سے اس کی اہمیت یہ ہے کہ عمومی استدلال کی رو سے قرآن مجید کا زیر بحث حکم فی نفسہ ٖصریح نہ ہونے کی وجہ سے محتمل اور قابل تاویل ہے جس کی تفسیر وتفصیل سنت میں کی گئی ہے، جب کہ الجوینی اور غامدی صاحب کے استدلال کے مطابق خود قرآن مجید میں ایک واضح قرینہ موجود ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ’اَرْجُلَكُمْ ‘ کا تعلق کسی بھی طرح ’وَامْسَحُوْا‘ کے ساتھ نہیں ہو سکتا اور اسے ’فَاغْسِلُوْا‘ سے متعلق ماننا ہی بلاغت کلام کا مقتضی ہے۔

۲۔ وضو کرتے ہوئے موزوں پر مسح کرنے کی رخصت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی روایا ت میں ثابت ہے، تاہم قرآن مجید میں پاؤں کو دھونے کے حکم کے تناظر میں یہ روایات صدر اول میں خاصی بحث و نزاع کا موضوع رہی ہیں۔ خوارج نے ان روایات کو قرآن کے خلاف قرار دیتے ہوئے رد کر دیا، جب کہ فقہاے صحابہ میں سے بعض نے یہ راے اختیار کی کہ یہ طریقہ سورۂ مائدہ کی آیت نازل ہونے کے بعد منسوخ ہو چکا ہے۔ جمہور فقہا نے، البتہ اس رخصت کو قرآن کے حکم کی تبیین کے طور پر، جب کہ فقہاے احناف نے سنت مشہورہ سے قرآن کی تخصیص کی مثال کی حیثیت سے قبول کیا۔

غامدی صاحب قرآن مجید میں اس رخصت کا مبناے استنباط، تیمم کے حکم کو قرار دیتے ہیں اور ان کی راے یہ ہے کہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کے اِسی حکم پر قیاس کرتے ہوئے موزوں اور عمامے پر مسح کیا اور لوگوں کو اجازت دی ہے کہ اگر موزے وضو کر کے پہنے ہوں تو اُن کے مقیم ایک شب وروز اور مسافر تین شب وروز کے لیے موزے اتار کر پاؤں دھونے کے بجاے اُن پر مسح کر سکتے ہیں۔‘‘ (میزان ۲۹۰)

۳۔ سورۂ نساء (۴: ۱۰۱) میں سفر کی حالت میں دشمن کے خوف کی صورت میں نماز کو قصرکرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہاں حالت خوف کی قید کی معنویت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہی اہل علم کی توجہ کا موضوع رہی ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رخصت کو حالت خوف تک محدود نہیں رکھا، بلکہ عام اسفار میں بھی اس رخصت پر عمل فرمایا۔ جمہور فقہا نے عموماً اس قید کی توجیہ یہ کی ہے کہ یہ بطور احتراز نہیں، بلکہ اس واقعاتی تناظر میں آئی ہے جس کا اس آیت کے نزول کے وقت مسلمانوں کو سامنا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اسی بات کو واضح فرمایا ہے کہ حالت خوف کی قید، اس رخصت کو صرف اس حالت تک محدود رکھنے کے لیے نہیں ہے۔

غامدی صاحب نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ ابتداء ً تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رخصت حالت خوف ہی کے تناظر میں دی گئی تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیاس واستنباط سے کام لیتے ہوئے اس کی توسیع سفر کے عمومی حالات میں بھی کر دی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس استنباط کی توثیق فرما دی۔ لکھتے ہیں:

’’نماز میں کمی کرنے اور اُسے چلتے ہوئے یا سواری پر پڑھ لینے کی یہ رخصتیں یہاں ’اِنْ خِفْتُمْ‘ کی شرط کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے عام سفروں کی پریشانی، افراتفری اور آپادھاپی کو بھی اِس پر قیاس فرمایا اور اُن میں بالعموم قصر نماز ہی پڑھی ہے۔ اِسی طرح قافلے کو رکنے کی زحمت سے بچانے کے لیے نفل نمازیں بھی سواری پر بیٹھے ہوئے پڑھ لی ہیں۔ سیدنا عمر کا بیان ہے کہ اِس طرح بغیر کسی اندیشے کے نماز قصر کر لینے پر مجھے تعجب ہوا۔ چنانچہ میں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ کی عنایت ہے جو اُس نے تم پر کی ہے، سو اللہ کی اِس عنایت کو قبول کرو۔ … اِس جواب سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس استنباط کی تصویب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہو گئی تھی۔‘‘ (میزان ۳۱۵)

یہی راے اس بحث میں امام طحاوی کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے یہ رخصت اسی قید کے ساتھ دی تھی، لیکن پھر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرتے ہوئے مطلقاً سفر میں نماز قصر کرنے کی اجازت دے دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا عمر سے فرمایا کہ حالت امن میں قصر کرنا اللہ کی طرف سے ایک صدقہ ہے، اسے قبول کرو(تحفۃ الاخیار ۶/۳۰۴)۔

۴۔ احادیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر سفر کی حالت میں دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر کے ادا فرمایا۔ غامدی صاحب کی راے میں یہ تخفیف اس رخصت ہی کی ایک توسیع ہے جو قرآن میں حالت سفر میں نماز کی رکعات کو قصر کرنے کے حوالے سے بیان کی گئی ہے، اس رخصت کا قرینہ قرآن مجید میں واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’نماز میں تخفیف کی اِس اجازت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے اوقات میں تخفیف کا استنباط بھی کیا ہے اور اِس طرح کے سفروں میں ظہر وعصر، اور مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کر کے پڑھائی ہیں۔ … اِس استنباط کا اشارہ خود قرآن میں موجود ہے۔ سورۂ نساء میں یہ حکم جس آیت پر ختم ہوا ہے، اُس میں ’اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا‘ کے الفاظ عربیت کی رو سے تقاضا کرتے ہیں کہ اِن سے پہلے ’اور وقت کی پابندی کرو‘ یا اِس طرح کا کوئی جملہ مقدر سمجھا جائے۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوتی ہے کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کرلیں۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ جب اطمینان میں ہو جاؤ تو پوری نماز پڑھو اور اِس کے لیے مقرر کردہ وقت کی پابندی کرو، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔‘‘ (میزان ۳۱۵-  ۳۱۶)

یہ استنباط اس پہلو سے دل چسپ ہے کہ حنفی فقہا نے، جو حج میں یوم عرفہ کے علاوہ عام سفر میں جمع بین الصلاتین کے قائل نہیں ہیں، قرآن مجید کے مذکورہ جملے کو ہی اس ممانعت کی دلیل بنایا اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ اوقات کی پابندی قرآن مجید کی صریح نص سے ثابت ہے، اس لیے اخبار آحاد کی بنیاد پر اس میں تخصیص نہیں کی جا سکتی (جصاص، شرح مختصر الطحاوی ۲/ ۱٠۱- ۱٠۲)۔ غامدی صاحب نے ’اِنَّ الصَّلٰوۃ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا‘ کے جملے کو سیاق کلام کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے اس کا ایسا محل متعین کیا ہے جس سے یہ جملہ فی نفسہٖ اوقات نماز کی پابندی کا حکم ہونے کے ساتھ ساتھ سیاق کلام میں مضمر اس رخصت پر بھی دال بن جاتا ہے کہ حالت سفر میں نماز کی رکعتوں کے ساتھ ساتھ اس کے اوقات میں بھی قصر کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی نادر اور لطیف استنباط ہے جو ہمارے علم کی حد تک تفسیری وفقہی ذخیرے میں اس سے پہلے نہیں ملتا۔

۵۔ قرآن مجید میں نسبی رشتوں کے ساتھ ساتھ رضاعت کے تعلق سے بھی دو رشتوں، یعنی رضاعی ماں اور رضاعی بہن کو نکاح کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے (النساء ۴: ۲۳)۔ قرآن مجید میں انھی دو رشتوں کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ساتھ رضاعی پھوپھی، رضاعی خالہ، رضاعی بھانجی اور رضاعی بھتیجی وغیرہ کو بھی حرام قرار دیا۔

غامدی صاحب کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد قرآن کے حکم میں کوئی زیادت یا تبدیلی نہیں کرتا، بلکہ اسی علت کی بنیاد پر حکم کی توسیع کرتا ہے جو قرآن کے بیان کردہ دو رشتوں میں پائی جاتی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’...الفاظ وقرائن کی دلالت اور حکم کے عقلی تقاضے جس مفہوم کو آپ سے آپ واضح کر رہے ہوں، اُسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاتا۔ … رضاعی ماں کے ساتھ رضاعی بہن کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ بات اگر رضاعی ماں ہی پر ختم ہو جاتی تو اِس میں بے شک، کسی اضافے کی گنجایش نہ تھی، لیکن رضاعت کا تعلق اگر ساتھ دودھ پینے والی کو بہن بنا دیتا ہے تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ رضاعی ماں کے دوسرے رشتوں کو بھی یہ حرمت لازماً حاصل ہو۔ دودھ پینے میں شراکت کسی عورت کو بہن بنا سکتی ہے تو رضاعی ماں کی بہن کو خالہ، اُس کے شوہر کوباپ، شوہر کی بہن کو پھوپھی اور اُس کی پوتی اور نواسی کو بھتیجی اور بھانجی کیوں نہیں بنا سکتی؟ لہٰذا یہ سب رشتے بھی یقیناً حرام ہیں۔ یہ قرآن کا منشا ہے اور ’اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃ‘ کے الفاظ اِس پر اِس طرح دلالت کرتے ہیں کہ قرآن پر تدبر کرنے والے کسی صاحب علم سے اُس کا یہ منشا کسی طرح مخفی نہیں رہ سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر فرمایا ہے: ...ہر وہ رشتہ جو ولادت کے تعلق سے حرام ہے، رضاعت سے بھی حرام ہو جاتا ہے۔‘‘  (میزان ۴۱۶)

۶۔ قرآن مجید میں حرمت رضاعت کا ذکر کرتے ہوئے مقدار رضاعت کا ذکر نہیں کیا گیا جس سے فقہا کا ایک گروہ یہ اخذ کرتا ہے کہ کم یا زیادہ، کسی بھی مقدار میں بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو دونوں کے مابین حرمت رضاعت متحقق ہو جائے گی اور اسی بنیاد پر وہ مقدار رضاعت کی تحدید بیان کرنے والی روایات کو قرآن کے معارض ہونے کی بنا پر قبول نہیں کرتا۔ غامدی صاحب اس استدلال کو درست نہیں سمجھتے اور اس ضمن میں انھوں نے مولانا امین احسن اصلاحی کا یہ استدلال نقل کیا ہے کہ ’’قرآن نے یہاں جن لفظوں میں اسے بیان کیا ہے، اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ اتفاقی طور پر نہیں، بلکہ اہتمام کے ساتھ ایک مقصد کی حیثیت سے عمل میں آیا ہو، تب اس کا اعتبار ہے۔ اول تو فرمایا ہے: ’’تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہے۔‘‘ پھر اس کے لیے ’رضاعت‘ کالفظ استعمال کیا ہے: ’وَاَخَوٰ تُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃ‘۔ عربی زبان کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ’ارضاع‘ باب افعال سے ہے جس میں فی الجملہ مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی طرح رضاعت کا لفظ بھی اس بات سے ابا کرتا ہے کہ اگر کوئی عورت کسی روتے بچے کو بہلانے کے لیے اپنی چھاتی اس کے منہ میں لگا دے تو یہ رضاعت کہلائے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/۲۷۵)

اس استدلال کی روشنی میں غامدی صاحب ان احادیث کو قرآن ہی کے منشا کا بیان قرار دیتے ہیں جن میں حرمت رضاعت کو بچے کے دودھ پینے کی عمر تک محدود قرار دیا گیا ہے اور اتفاقاً ایک دو گھونٹ پی لینے کو حرمت کا موجب تسلیم نہیں کیا گیا، جب کہ ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے منہ بولے بیٹے سالم کے واقعے کو، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سالم کی بلوغت کے بعد ابو حذیفہ کی اہلیہ سے ان کا رشتہ رضاعت قائم کرنے کی اجازت دی، ایک استثنائی واقعے پر محمول کرتے ہیں جس میں ابو حذیفہ کے گھرانے میں پیدا ہو جانے والی ایک مخصوص صورت حال کا حل تجویز کرنا مقصود تھا (میزان ۴۱۵)۔

۷۔ قرآن مجید میں دو عورتوں کو بہ یک وقت ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت کے ضمن میں صرف دو بہنوں کا ذکر کیا گیا ہے، جب کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ممانعت کے دائرے میں پھوپھی اور بھتیجی اور خالہ اور بھانجی کو بھی شامل فرمایا ہے جو بظاہر قرآن کے حکم سے متجاوز ہے۔ غامدی صاحب اس توسیع کو بھی حکم کی علت کا تقاضا اور قرآن ہی کے منشا کا بیان قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں :

’’...قرآن نے ’بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ‘ ہی کہا ہے، لیکن صاف واضح ہے کہ زن وشو کے تعلق میں بہن کے ساتھ بہن کو جمع کرنا اُسے فحش بنا دیتا ہے تو پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو جمع کرنا بھی گویا ماں کے ساتھ بیٹی ہی کو جمع کرنا ہے۔ لہٰذا قرآن کا مدعا، لاریب یہی ہے کہ ’أن تجمعوا بين الأختين وبين المرأۃ وعمتھا وبين المرأۃ وخالتھا‘۔ وہ یہی کہنا چاہتا ہے، لیکن ’بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ‘  کے بعد یہ الفاظ اُس نے اِس لیے حذف کر دیے ہیں کہ مذکور کی دلالت اپنے عقلی اقتضا کے ساتھ اِس محذوف پر ایسی واضح ہے کہ قرآن کے اسلوب سے واقف اُس کا کوئی طالب علم اِس کے سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔‘‘ (میزان ۴۱۸)

۸۔  بنو اسلم کی خاتون سبیعہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا کہ اگر حاملہ عورت بیوہ ہو جائے تو بچے کی پیدایش کے بعد اس کی عدت مکمل ہو جائے گی، یعنی اسے نئے نکاح کے لیے چار ماہ دس دن پورے ہونے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا (بخاری، رقم ۵۳۱۸)۔ تاہم صحابہ وتابعین کا ایک گروہ، مذکورہ روایت کے برخلاف، ظاہر قرآن کی روشنی میں ایسی صورت میں بیوہ کے لیے دونوں عدتیں گزارنے کا پابند سمجھتا تھا۔

غامدی صاحب واضح کرتے ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ فرمایا، وہی حکم کی علت کا تقاضا تھا ۔ ان کی راے کے مطابق عدت کی اصل علت استبراء رحم ہے۔ چونکہ بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دینے کی ہدایت کی گئی جس میں شوہر نے اس سے ہم بستری نہ کی ہو، جب کہ بیوہ کے لیے اس طرح کا کوئی ضابطہ بنانا ممکن نہیں، اس لیے قرآن مجید نے احتیاطاً اس کی عدت کی مدت میں، مطلقہ کے مقابلے میں ایک ماہ دس دن کا اضافہ کر دیا ہے۔ جب دونوں صورتوں میں عدت کی علت ایک ہی ہے تو وضع حمل کی صورت میں حکم کا مقصد بھی دونوں صورتوں میں پورا ہو جاتا ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...مطلقہ اور بیوہ کے لیے عدت کا حکم چونکہ ایک ہی مقصد سے دیا گیا ہے، اِس لیے جو مستثنیات اوپر طلاق کی بحث میں بیان ہوئے ہیں، وہ بیوہ کی عدت میں بھی اِسی طرح ملحوظ ہوں گے۔ چنانچہ بیوہ غیر مدخولہ کے لیے کوئی عدت نہیں ہوگی اور حاملہ کی عدت وضع حمل کے بعد ختم ہو جائے گی۔ بخاری اور مسلم، دونوں کی روایت (رقم ۵۳۱۸، ۳۷۲۳) ہے کہ ایک حاملہ خاتون، سبیعہ رضی اللہ عنہا نے جب اپنا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے یہی فیصلہ فرمایا۔‘‘ (میزان ۴۶۳)

۹۔ قرآن مجید میں بیوہ کی عدت کے احکام بیان کرتے ہوئے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اس سے نکاح کی خواہش رکھنے والے حضرات دوران عدت میں اشارے کنایے میں اپنی خواہش کے ابلاغ سے ہٹ کر تصریحاً اسے نکاح کا پیغام نہ بھیجیں اور اس کے لیے عدت کے مکمل ہونے کا انتظار کریں۔ غامدی صاحب احادیث میں بیوہ کے لیے زیب وزینت اور بناؤ سنگھار کی ممانعت کو قرآن کی اسی ہدایت کی تفریع قرار دیتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی ہدایت سے ’’یہ بات نکلتی ہے کہ زمانۂ عدت میں عورت کا رویہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر عورتوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اگر اپنے مرحوم شوہر کے گھر میں اس کے لیے عدت گزار رہی ہیں تو سوگ کی کیفیت میں گزاریں اور زیب وزینت کی کوئی چیز استعمال نہ کریں‘‘ (میزان ۴۶۴)۔

۱۰۔قرآن کے عام احکام کی تخصیص کے ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم اصول فقہ کے مباحث میں ایک نمایاں مثال کے طور پر زیر بحث رہا ہے کہ مسلمان، کافر کا اور کافر، مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔ غامدی صاحب اس تخصیص کی بنیاد بھی خود قرآن کے حکم میں واضح کرتے ہیں، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ مرنے والے کی میراث میں رشتہ داروں کو حصہ دار قرار دینا منفعت کے اصول پر مبنی ہے اور مختلف حصہ داروں کے حصوں میں باہمی فرق کا اصول بھی منفعت کا کم یا زیادہ ہونا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں اگر کسی خاص صورت میں رشتہ داروں کے مابین منفعت ختم ہو جائے تو اس پر مبنی وراثت کے حکم کو بھی منتفی ہو جانا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر بحث صورت میں اسی اصول کا اطلاق کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’والدین، اولاد، بھائی بہن، میاں بیوی اور دوسرے اقربا کے تعلق میں یہ منفعت بالطبع موجود ہے اور عام حالات میں یہ اِسی بنا پر بغیر کسی تردد کے وارث ٹھیراے جاتے ہیں۔  لیکن اِن میں سے کوئی اگر اپنے مورث کے لیے منفعت کے بجاے سراسر اذیت بن جائے تو حکم کی یہ علت تقاضا کرتی ہے کہ اُسے وراثت سے محروم قرار دیا جائے۔ یہ استثنا، اگر غور کیجیے تو کہیں باہر سے آ کر اِس حکم میں داخل نہیں ہوا، اِس کی ابتدا ہی سے اِس کے ساتھ لگا ہوا ہے، لہٰذا قرآن کا کوئی عالم اگر اِسے بیان کرتا ہے تو یہ ہرگز کوئی تغیر وتبدل نہیں ہے، بلکہ ٹھیک اُس مدعا کی تعبیر ہے جو قرآن کے الفاظ میں مضمر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی کے پیش نظر جزیرہ نماے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ کے بارے میں فرمایا: … ’’نہ مسلمان اِن میں سے کسی کافر کے وارث ہوں گے اور نہ یہ کافر کسی مسلمان کے۔‘‘‘‘ (میزان ۴۰)

قرب منفعت کے اسی اصول کو غامدی صاحب اس حدیث کا بھی ماخذ قرار دیتے ہیں جس میں ترکے سے بچا ہوا مال مرنے والے کے قریب ترین مرد کو دینے کی ہدایت کی گئی ہے، کیونکہ ’’یہ رہنمائی بھی ضمناً اس آیت سے حاصل ہوتی ہے کہ ترکے کا کچھ حصہ اگر بچا ہوا رہ جائے اور مرنے والے نے کسی کو اس کا وارث نہ بنایا ہو تو اسے بھی ’أقرب نفعًا‘ کو ملنا چاہیے‘‘ (میزان ۵۲۵)۔

۱۱۔ اس ضمن کا ایک اہم مسئلہ حلال او رحرام جانوروں کی تعیین سے متعلق قرآن اور حدیث کے بیانات ہیں۔ فقہا کے سامنے یہ سوال ہے کہ قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مقامات پر حرام چیزوں کو صرف چار میں محصور قرار دیا گیا ہے، یعنی مردار، دم مسفوح، خنزیر کا گوشت اور جس جانور کو اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، تاہم احادیث میں ان کے علاوہ بھی بہت سے جانوروں، مثلاً درندوں اور گدھے وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف توجیہات کا ذکر سابقہ مباحث میں کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے ایک معروف توجیہ یہ ہے کہ شریعت میں حرمت کا دائرہ اصولاً وسیع تر ہے اور اس میں مذکورہ چار چیزوں کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ جہاں تک آیت میں حصر کے اسلوب کا تعلق ہے تو وہ حلت وحرمت کے عمومی تناظر میں وارد نہیں ہوا، بلکہ ایک خاص سیاق میں اختیار کیا گیا ہے اور چار کے علاوہ باقی چیزوں کی اباحت بھی اسی خاص دائرے میں مراد ہے۔ چونکہ یہاں حلت وحرمت کا عمومی دائرہ زیر بحث ہی نہیں، جب کہ احادیث میں جن جانوروں کی حرمت کا ذکر ہے، وہ اس عمومی دائرے سے متعلق ہے، اس لیے یہاں قرآن اور حدیث کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔

غامدی صاحب بھی اصولاً اسی نکتے کی روشنی میں زیر بحث تعارض کی توجیہ کرتے ہیں، البتہ آیت میں جس خاص سیاق میں حصر وارد ہوا ہے، اس کی تعیین میں ان کی راے عام فقہی توجیہ سے کسی قدر مختلف ہے۔ امام شافعی اور دیگر اصولیین آیت کا سیاق اس سوال کو قرار دیتے ہیں جو سورۂ انعام میں مشرکین عرب کی خودساختہ حرمتوں کے حوالے سے زیربحث ہے۔ اس توجیہ کے مطابق مشرکین نے اللہ کے حلال کردہ جانوروں میں سے کچھ کو اپنے مشرکانہ تصورات کے تحت اپنی طرف سے حرام قرار دے رکھا تھا اور قرآن مجید نے اسی تناظر میں مذکورہ آیت میں یہ فرمایا ہے کہ جن جانوروں کو تم حرام سمجھتے ہو، اللہ نے ان کو حرام قرار نہیں دیا اور یہ کہ اللہ کی طرف سے خور ونوش کی حرمت صرف ان چار چیزوں تک محدود ہے۔ گویا یہاں عمومی اور کلی تناظر میں حلت و حرمت زیر بحث نہیں، بلکہ چند خاص جانوروں کے حوالے سے مشرکین کی بدعات کی اصلاح اور اصل شرعی حکم کی وضاحت مقصود ہے۔

غامدی صاحب بھی آیت کے حصر کے ایک مخصوص دائرے سے متعلق قرار دیتے اور قرآن کے دائرۂ خطاب اور احادیث کے دائرۂ خطاب کے فرق کو فطرت اور شریعت کے باہمی فرق کی روشنی میں واضح کرتے ہیں۔ ان کی راے میں خور ونوش میں حلت وحرمت سے متعلق انسانوں کو جو اصول اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے، وہ طیبات اور خبائث میں امتیاز ہے۔ پاکیزہ اور طیب چیزیں انسانوں کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں حرام ٹھیرائی گئی ہیں اور اس کی تعیین کے لیے دو ذریعوں سے انسان کی رہنمائی کی گئی ہے؛ ایک فطرت اور دوسرا شریعت۔ فطرت کی رہنمائی کی حیثیت اصل اور اساس کی ہے، جب کہ انبیا کے ذریعے سے دی جانے والی شریعت میں اصلاً ان چیزوں کو موضوع بنایا گیا ہے جن کی حلت یا حرمت کے متعلق صحیح فیصلہ کرنا انسان کے لیے محض اپنی فطرت کی بنیاد پر ممکن نہیں تھا۔ فطری ہدایت اور شرعی ہدایت کے دائرے میں اس فرق کی روشنی میں غامدی صاحب قرآن مجید کی زیر بحث آیا ت کو بیان شریعت قرار دیتے ہیں جہاں صرف مشتبہ چیزوں کی وضاحت مقصود ہے اور گویا جس معاملے میں انسانی عقل اور فطرت حتمی فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی، اس سے متعلق حکم الہٰی کے طور پر ایک پابندی ان پر لازم کی گئی ہے، جب کہ احادیث میں ان کے علاوہ جن بہت سی چیزوں کی حرمت کا ذکر ہوا ہے، غامدی صاحب اسے بیان فطرت کا عنوان دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ابتداء ً ایک حکم شرعی کے طور پر کوئی نئی حرمت بیان نہیں کی گئی، بلکہ بنی نوع انسان اپنی فطرت کی رو سے جن چیزوں کی نجاست اور خباثت سے عموماً واقف رہے ہیں، انھی کی تاکید وتصویب مقصود ہے۔ یوں دائرۂ خطاب کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے آیت اور احادیث میں باہم کوئی تعارض باقی نہیں رہتا۔

غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...انسان کی یہ فطرت بالعموم اُس کی صحیح رہنمائی کرتی اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ اُسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔ اُسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب، سانپ، بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گھوڑے، گدھے، دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اِن جانوروں کے بول وبراز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اُس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اُن کی ایک بڑی تعداد اِس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔ چنانچہ خدا کی شریعت نے بھی اِن جانوروں کی حلت وحرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا، بلکہ صرف یہ بتا کر کہ تمام طیبات حلال اور تمام خبائث حرام ہیں، انسان کو اُس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ شریعت کا موضوع اِس باب میں صرف وہ جانور اور اُن کے متعلقات ہیں جن کے طیب یا خبیث ہونے کا فیصلہ تنہا عقل وفطرت کی رہنمائی میں کر لینا انسان کے لیے ممکن نہ تھا۔‘‘ (میزان ۳۶-  ۳۷)

مزید لکھتے ہیں:

’’بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں اور چنگال والے پرندوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اُسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ اُنھوں نے اِسے بیان فطرت کے بجاے بیان شریعت سمجھا، دراں حالیکہ شریعت کی اُن حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اِس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اِس کی بنیاد پر حدیث سے قرآن کے نسخ یا اُس کے مدعا میں تبدیلی کا کوئی مسئلہ پیدا کیا جائے۔‘‘ (میزان  ۳۸)

۱۲۔ حدیث میں مچھلی اور ٹڈی کی حلت کو بیان کرتے ہوئے ’أحلت لنا ميتتان‘ اور جگر اور تلی کی حلت کو واضح کرنے کے لیے ’دمان‘ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جو بظاہر قرآن مجید کے عام حکم کی تخصیص دکھائی دیتا ہے جس میں مطلقاً خون اور مردار کو حرام کہا گیا ہے۔ تاہم غامدی صاحب واضح کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیث کا قرآن کے ساتھ کوئی تعارض نہیں، کیونکہ قرآن نے ’مَيْتَۃ‘ اور ’دَم‘ کے الفاظ عرفی مفہوم میں استعمال کیے ہیں، جب کہ مچھلی اور ٹڈی کو اس عرفی مفہوم کے لحاظ سے ’مَيْتَۃ‘ نہیں کہا جاتا۔ اسی طرح جگر اور تلی بھی عرفی مفہوم کے لحاظ سے لفظ ’دَم‘ کا مصداق نہیں سمجھے جاتے۔ چنانچہ قرآن نے جس مفہوم میں ’مَيْتَۃ‘ اور ’دَم‘ کو حرام قرار دیا ہے، حدیث میں مذکور چیزیں چونکہ اس کے دائرۂ اطلاق میں ابتداء ً ہی شامل نہیں، اس لیے حدیث میں ان کی حلت کے بیان کو قرآن کے حکم کی تخصیص نہیں کہا جا سکتا (میزان ۴۱)۔ غامدی صاحب نے یہ نکتہ زمخشری کے حوالے سے واضح کیا ہے، جب کہ شاہ ولی اللہ نے بھی اس حدیث کی تشریح اسی نکتے کی روشنی میں کی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/۴۹۲)۔

۱۳۔ قرآن مجید میں چوری کرنے والے کے لیے قطع ید کی سزا مطلق اسلوب میں بیان کی گئی ہے، تاہم احادیث میں اس کے نفاذ کے لیے کئی قسم کے شرائط اور قیود کا ذکر ملتا ہے۔ جمہور فقہا کے موقف کے مطابق، غامدی صاحب بھی ان تخصیصات کو قبول کرتے ہیں اور انھیں قرآن مجید ہی سے مستنبط قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب  کا استدلال یہ ہے کہ ’’عربی زبان کے اسالیب بلاغت سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ یہ صفت کے صیغے ہیں جو وقوع فعل میں اہتمام پر دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کا اطلاق فعل سرقہ کی کسی ایسی ہی نوعیت پر کیا جا سکتا ہے جس کے ارتکاب کو چوری اور جس کے مرتکب کو چور قرار دیا جا سکے‘‘ (میزان ۶۳۰)۔ یوں وہ تمام احادیث قرآن مجید کے اسی مدعا کی توضیح وتبیین کرتی ہیں جن میں معمولی قیمت کی چیز چرانے یا درخت سے بلا اجازت پھل اتار لینے یا بغیر حفاظت کے کسی جگہ پڑا ہوا مال اٹھا لینے یا کسی مجبوری اور اضطرار کی بنا پر چوری کرنے کی صورت میں ہاتھ کاٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ غامدی صاحب کے الفاظ میں ’’یہ سب ناشایستہ افعال ہیں اور ان پر اسے تادیب وتنبیہ ہونی چاہیے، لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کا حکم ان آیات میں بیان ہوا ہے‘‘ (میزان  ۶۳۰)۔

۱۴۔ غامدی صاحب، جمہور فقہا کے مسلک کے مطابق، اس کے قائل ہیں کہ مرنے والے کو ان وارثوں میں سے کسی کے حق میں وصیت کرنے کا حق نہیں جن کے حصے خود قرآن نے متعین کر دیے ہیں۔ اس ضمن میں وہ فقہا کے اس استدلال سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ والدین واقربین کے لیے وصیت کرنے کی جو ہدایت سورۂ بقرہ میں دی گئی تھی، سورۂ نساء میں میراث کا قانون نازل ہو جانے کے بعد وہ منسوخ ہو چکی ہے اور ’’اب کسی مرنے والے کو رشتہ داری کی بنیاد پر اللہ کے ٹھیراے ہوئے وارثوں کے حق میں وصیت کا اختیار باقی نہیں رہا ‘‘ (میزان ۵۲۴)۔ گویا وہ اصولیین کے اس گروہ کی تائید کرتے ہیں جس کے نزدیک ورثا کے لیے حق وصیت کا اصل ناسخ قانون میراث ہے، جب کہ’لا وصيۃ لوارث‘ کی حدیث محض اس کا بیان ہے۔ البتہ غامدی صاحب  کا موقف اس پہلو سے جمہور سے مختلف ہے کہ وہ وصیت کی اس ممانعت کو اس صورت میں قابل اطلاق نہیں سمجھتے جب، رشتہ داری کے عمومی تعلق سے ہٹ کر، وارثوں کی کسی خاص ضرورت کے پیش نظر یا ان کی کسی خدمت کے صلے میں مرنے والا ان کو اپنے ترکے میں سے کچھ دینا چاہے (میزان  ۵۲۴-  ۵۲۵)۔

۱۵۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۸۲ میں قرض کے معاملات میں گواہ مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دو مردوں کو یا اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لیا جائے۔ حنفی فقہا اس نصاب شہادت کی پابندی کو عدالت کے لیے بھی ضروری قرار دیتے ہیں اور اس کی روشنی میں ان روایات کو قبول نہیں کرتے جن کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مقدمات میں ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ غامدی صاحب نے اس ضمن میں مذکورہ حدیث کا تو حوالہ نہیں دیا، تاہم آیت میں مذکورہ ہدایت کی نوعیت کے حوالے سے وہ جمہور فقہا کی اس راے سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں عدالت کے لیے کسی ضابطے کا بیان مقصود نہیں ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’...اِس میں عدالت کو مخاطب کرکے یہ بات نہیں کہی گئی کہ اِس طرح کا کوئی مقدمہ اگر پیش کیا جائے تو مدعی سے اِس نصاب کے مطابق گواہ طلب کرو۔ اِس کے مخاطب ادھار کا لین دین کرنے والے ہیں اور اِس میں اُنھیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگر ایک خاص مدت کے لیے اِس طرح کا کوئی معاملہ کریں تو اُس کی دستاویز لکھ لیں اور نزاع اور نقصان سے بچنے کے لیے اُن گواہوں کا انتخاب کریں جو پسندیدہ اخلاق کے حامل، ثقہ، معتبر اور ایمان دار بھی ہوں اور اپنے حالات ومشاغل کے لحاظ سے اِس ذمہ داری کو بہتر طریقے پر پورا بھی کرسکتے ہوں۔  … اِس کے یہ معنی، ظاہر ہے کہ نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتے کہ عدالت میں مقدمہ اُسی وقت ثابت ہوگا، جب کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اُس کے بارے میں گواہی دینے کے لیے آئیں۔‘‘ (میزان ۵۱۶)

ہدایت کی اس نوعیت کے حوالے سے جمہور اہل علم کے موقف اور استدلال کو امام ابن قیم نے ’’اعلام الموقعین‘‘ اور ’’الطرق الحکمیۃ‘‘ میں تفصیل سے واضح کیا ہے۔


مئی ۲۰۲۰ء

کورونا وائرس کی وبا اور مذہبی سوالات / قومی اقلیتی کمیشن میں احمدیوں کی شمولیتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۵)ڈاکٹر محی الدین غازی
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۱۱)مولانا سمیع اللہ سعدی
دعوت ِ دین میں درپیش چیلنجز اور علماءکی ذمہ داریاںڈاکٹر محمد اکرم ورک
قوموں کی سرکشی پر عذاب الٰہیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
عقل و نقل کا تعارض اور تاویل کے لیے امام غزالی کا قانون کلیمحمد زاہد صدیق مغل
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۶)محمد عمار خان ناصر
قادیانیوں کوقومی اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کا فیصلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کورونا وائرس کی وبا اور مذہبی سوالات / قومی اقلیتی کمیشن میں احمدیوں کی شمولیت

محمد عمار خان ناصر

کورونا وائرس  کی حالیہ عالمی وبا کے تناظر میں  مذہبی نوعیت کے بعض اہم سوالات   بھی قومی سطح پر زیر بحث آئے اور مختلف حلقے ان پر اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔ مثلا کیا اس وبا کی نوعیت اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ یا سرزنش  کی ہے یا یہ محض  طبیعی وحیاتیاتی قوانین  کے تحت رونما ہونے والا ایک واقعہ ہے؟ کیا وبائے عام کی صورت حال میں  مساجد میں باجماعت نماز کا نظام  عارضی طور پر معطل یا محدود کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟  اس نوعیت کے فیصلوں میں بنیادی اہمیت  ارباب حل وعقد یا طبی ماہرین  یا علما وفقہا میں  کس کی رائے کو دی جانی  چاہیے؟  پاکستان میں   بطور ایک طبقے کے علماء اور اہل مذہب  کا موقف   عالم اسلام کے دیگر ممالک اور ہندوستان کے  علماء سے بالکل مختلف ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ وغیرہ

آئندہ  سطور میں ہم  مذکورہ سوالات کے حوالے سے  اپنے نقطہ نظر  کی وضاحت کریں گے۔

آفات، بیماریاں اور مشکلات انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی  زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں اور ان کے حوالے سے بساط بھر تدابیر اختیار کرنے  کے علاوہ  ان کی تفہیم کے حوالے سے کوئی زاویہ نظر متعین کرنا بھی انسانی شعور کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔  آفات اور  تکالیف کی تفہیم  کا سوال حیات وکائنات کی مجموعی معنویت کے بڑے سوال سے جڑا ہوا ہے،  اس لیے انسان کا ذہنی رویہ اس کے مذہبی عقیدے     کے زیر اثر    ہی طے ہوتا ہے۔  انسانی فکر اگر حیات وکائنات کے ظہور کو   ناقابل توجیہ اتفاقات  کا  نتیجہ تسلیم کر لے تو  انسانی زندگی اور اس کے تمام مظاہر میں بھی  معنویت  یا مقصدیت کا سوال   بے معنی ہو جاتا ہے، لیکن مذہبی عقیدے کے زیر اثر  اگر  انسانی زندگی کو ایک شعوری اور بامقصد تخلیقی عمل کا حصہ مانا جائے تو  پھر زندگی کے مختلف احوال  کی تفہیم وتوجیہ  کے سوال کو بھی  مذہبی  تصورات اور عقائد سے   الگ کرنا ممکن نہیں رہتا۔   اس وجہ سے آفات ومصائب کی مابعد الطبیعی تفہیم  کا زاویہ نظر مذہب بیزار یا مذہب گریز ذہن کو کتنا ہی غیر منطقی   محسوس ہوتا ہو، مذہبی ذہن کے لیے  وہ اس کے شعوری مسلمات کا ناگزیر  تقاضا ہے  اور  مذہب کا مطالبہ بھی انسان سے یہی ہے کہ وہ زندگی کے روز مرہ اور معمول کے  احوال میں عموما اور غیر معمولی اور ہنگامی نوعیت کے حالات میں خصوصا عبرت اور سبق آموزی کے ان پہلووں کی طرف  اپنی توجہ مرکوز رکھے جو اسے زندگی  اور مقصد زندگی سے متعلق بڑے  حقائق کی یاددہانی کرانے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ مذہب کی اسی تعلیم کی روشنی میں اہل مذہب  اجتماعی آفات کے موقع پر ، ضروری تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ، توبہ واستغفار اور دعا ومناجات کی طرف بھی لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں اور یہ مذہبی  تصور حیات سے ہم آہنگ ایک عین عقلی اور منطقی  رویہ ہے۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ  کیا وبائے عام کی صورت حال میں  ارباب حل وعقد  مسجد میں باجماعت نماز کے سلسلے کو وقتی طور پر معطل یا محدود  کرنے کا  حکم دے سکتے ہیں یا نہیں  تو  ہمارے نزدیک اس ضمن میں  سوال کی تصحیح ضروری ہے۔ یہ سوال  بنیادی طور پر باجماعت نماز سے  لوگوں کو روکنے    کے اختیار کا نہیں،  وبا کے پھیلاو کو روکنے کے لیے لوگوں کی نقل وحرکت اور  اجتماع کو  روکنے کے اختیار کا ہے جس کا ایک نتیجہ، بہت سے دیگر معاشرتی نتائج کے ساتھ، یہ بھی مرتب ہوتا ہے کہ لوگ باجماعت نماز کے لیے مسجد میں جمع نہیں ہو سکتے۔  اس کو مسجد یا باجماعت نماز سے روکنے کے حق سے تعبیر کرنا صورت حال کی  درست ترجمانی نہیں ہے۔   مثلا   وبا ہی کی صورت حال میں  حکومت نے لوگوں کو عام علاج معالجے کے لیے  اسپتال جانے سے روک دیا گیا تاکہ بغیر شدید ضرورت کے، لوگوں کا ہجوم نہ ہو  اور طبی سہولیات زیادہ سنگین نوعیت کے مریضوں کے لیے دستیاب رہیں۔ اب اس کو  اگر یوں تعبیر کیا جائے کہ کیا حکومت کو   یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ لوگوں کو اسپتال جانے یا علاج معالجہ سے روک دے تو  ظاہر ہے، سوال کا یہ زاویہ درست نہیں ہوگا، کیونکہ یہاں سوال دراصل کسی کو علاج سے روکنے  یا باجماعت نماز پڑھنے سے روکنے کا نہیں،   وبا کے شیوع کو روکنے کے لیے  لوگوں کی معمول کی نقل وحرکت کو محدود کرنے کا ہے۔

اس ضروری تصحیح کے بعد  اگلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ ارباب حل وعقد کو  اجتماعی مصلحت کے لیے  لوگوں کی نقل وحرکت اور اجتماع کو محدود کرنے کا جو اختیار حاصل ہے، کیا اس کے استعمال میں  مساجد کا معاملہ  دیگر مقامات  سے مختلف ہے،  یعنی کیا اس دائرے میں حکومتی اختیار    کو بروئے کار لانے پر کچھ  زیادہ سخت شرطیں عائد ہوتی ہیں؟  بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ  مساجد کا معاملہ روز مرہ  سرگرمیوں کے دیگر مراکز سے  مختلف ہے،   اور مساجد  میں آنے جانے کے لیے  ضروری احتیاطی تدابیر  کا پابند بنانے سے آگے بڑھ کر  حکومت باجماعت نماز کے سلسلے کو علی الاطلاق  محدود    نہیں کر سکتی،  البتہ وہ مخصوص افراد کو  مسجد میں جانے سے روک سکتی ہے اور اسی طرح کسی خاص جگہ پر  وبا  کے اثرات کا پایا جانا متحقق ہو جائے تو بھی  احتیاطا اس مخصوص علاقے میں مساجد   میں باجماعت نماز کے سلسلے کو وقتی طور پر معطل یا محدود کر سکتی ہے۔  ہماری رائے میں یہ تفریق  زیادہ مضبوط استدلال پر مبنی نہیں۔    حکومت کے لیے  لوگوں کی نقل وحرکت یا اجتماع پر پابندی  کے اختیار کی بنیاد ، ایک اجتماعی مصلحت کے تحت، وبا کے  پھیلاو کو روکنے کی ذمہ داری پر  ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے  اگر حکومت   وبا  کے پھیلنے کے امکان کے پیش نظر  ، لوگوں کو  باقی  جگہوں پر جمع ہونے سے روک سکتی ہے، چاہے ان مقامات پر اثرات کا پایا جانا یقینی نہ ہو، تو  مسجد میں جمع ہونے سے بھی روک سکتی ہے۔  دوسرے لفظوں میں،  وبا کے یقینی یا امکانی ہونے کی  بنیاد پر مسجد اور  عام مقامات میں فرق   نہیں کیا جا سکتا، یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ باقی جگہوں پر تو امکان کے پیش نظر بھی  جمع ہونے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے، لیکن مسجد میں  پابندی لگانا صرف تب  جائز ہوگا جب یقینی طور پر مسجد کے ارد گرد  کے علاقے  میں وبا کا پایا جانا  متحقق ہو چکا ہو۔ 

یہی نوعیت اس نکتے کی بھی ہے کہ  آیا  حکومت مخصوص افراد یا مخصوص علاقوں  کے علاوہ عمومی طور پر  پورے ملک کی مساجد کے حوالے سے کوئی حکم جاری کر سکتی ہے یا نہیں۔   ظاہر بات ہے کہ یہاں  اصل مسئلہ لوگوں کو اجتماعی عبادت سے روکنے یا نہ روکنے کا نہیں،  وبا کے شیوع کو   محدود رکھنے کا ہے، چنانچہ احتیاطی تدبیر کے جس اصول پر  مخصوص افراد کو یا  مخصوص  علاقوں کی  مساجد کو باجماعت نماز کے  عام معمول سے روکا جا سکتا ہے، اسی اصول پر پورے ملک کی مساجد کو بھی  اس کا پابند کیا جا سکتا ہے۔  بنیادی اہمیت اس کی ہے کہ حکومت کے پاس  وبا سے متعلق کیا معلومات ہیں اور  اس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے وہ کس سطح کے اقدامات کو ضروری یا مناسب خیال کرتی ہے۔  معلومات اور صورت حال کے تجزیے میں یقینا اختلاف  کیا جا سکتا ہے، لیکن اصولی طور پر  اس تفریق کی کوئی مضبوط بنیاد موجود نہیں  کہ  حکومت عام مقامات پر تو  اجتماع پر عمومی پابندی لگا سکتی ہے، لیکن مساجد میں   اس کا اطلاق صرف ضرورت یا استثناء کے دائرے میں کر سکتی ہے۔  باجماعت نماز اور جمعہ کی ادائیگی کی شرعی اہمیت مسلم ہے، لیکن ان فرائض کی ادائیگی میں  دیگر شرعی مصالح کی رعایت بھی ضروری ہے اور خاص طورپر   جمعہ وجماعت کی ادائیگی کو اگر مسجد کے مستقل عملے تک محدود   کر لیا جائے تو  اس میں دینی شعائر کے تسلسل اور احتیاطی تدبیر، دونوں کی پوری رعایت پائی جاتی ہے۔

اس وضاحت سے  اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ ایسے معاملات میں فیصلے کی اتھارٹی کون ہے اور  وبائی امراض کے ماہرین یا علماء میں سے کس کی رائے کو زیادہ اہمیت  حاصل ہونی چاہیے۔  فقہ اسلامی کے اصول اس حوالے سے بالکل واضح ہیں۔  ایسے معاملات جن میں شرعی وفقہی اصول نظری طور پر واضح ہو    اور اصل سوال  صورت واقعہ کی صحیح تعیین کرنا ہو،    ان میں بدیہی طور پر متعلقہ شعبے کے ماہرین کی رائے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جبکہ فیصلے کا حتمی اختیار ارباب حل وعقد کو حاصل ہوتا ہے۔  اسی طرح اگر فقہی  وشرعی حکم کی تعیین  میں علماء کی یا صورت حال کے تجزیے میں متعلقہ شعبے کے ماہرین کی آرا مختلف ہوں تو بھی فیصلے کا  حتمی اختیار  حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ زیر بحث مسئلے میں  طبی ماہرین کی رائے تو  کم وبیش اجماع کے درجے میں  یہ رہی ہے کہ ہر طرح کے اختلاط کو سختی سے روکا جائے،  جبکہ  مسئلے کی شرعی نوعیت کے حوالے سے  واضح شرعی اصولوں کے علاوہ عالم اسلام کے علماء کی اکثریت اور خود پاکستان کے بہت سے معتمد اہل علم  کی رائے یہ ہے کہ  ان حالات میں مساجد کے عام معمولات کو  موقوف کیا جا سکتا ہے ۔   طبی ماہرین کے اندازوں یا حکومتی ذمہ داران کے تجزیوں پر  عملی شواہد کی بنیاد پر  یقینا سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں اور  اس پر ایک مسلسل  بحث چل رہی ہے، لیکن  بطور شرعی اصول کے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ  یہ ایک اجتہادی بحث  ہے جس میں  حتمی فیصلے کا اختیار حکومت کو حاصل ہے اور اس سے  نظری اختلاف  رکھتے ہوئے بھی عملا حکومتی  فیصلے کی پابندی ضروری ہے۔  یہی وجہ ہے کہ جن علماء نے حکومت کی طرف سے لاک ڈاون سے پہلے  واضح طور پر اپنی رائے دی تھی،  حکومتی فیصلے کے بعد انھوں نے بھی عملا اس کی پابندی کی   اور لوگوں سے بھی یہی کہا کہ وہ فیصلے کی پابندی کریں۔

اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی طبقے اور علماء کا موقف  عمومی طور پر   عالم اسلام کے دیگر ممالک کے اہل علم سے مختلف کیوں ہے۔   اس سوال کے جواب میں یہ سمجھنا اہم ہے کہ مذہبی مواقف کی تعیین  میں صرف فقہی وشرعی اصول کارفرما نہیں ہوتے، بلکہ معاشرتی وسیاسی عوامل بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں شناخت پر مبنی سیاست اور حکومت اور مذہبی علماء کے مابین مذہبی معاملات میں اتھارٹی کا سوال، دو ایسے سیاسی عوامل ہیں جو بدیہی طور پر زیربحث اجتہاد پر اثر انداز ہوئے ہیں۔  ایک خاص تاریخی پس منظر میں ریاست اور مذہبی طبقات کے   تعلقات میں باہمی اعتماد  کا عنصر مفقود ہے اور  خاص طور پر  مساجد اور مدارس کے نظام میں حکومتی مداخلت کو مذہبی طبقے اپنے دینی کردار کے لیے ایک  خطرہ تصور کرتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں   یہ حساسیت  اس وجہ سے مزید بڑھ گئی کہ    علماء کو اس مسئلے سے اچانک اور کسی تیاری کے بغیر دوچار ہونا پڑا  اور معمول کے حالات میں ایک سوچا سمجھا موقف طے کرنے کا جو موقع ہوتا ہے، وہ انھیں نہیں مل سکا۔ ہوا یوں کہ ابھی ملکی سطح پر صورت حال پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی کہ پوری دنیا میں مسلم حکومتوں کی طرف سے وہاں کے علماء کی تائید سے لاک ڈاون کا اقدام  کر دیا گیا۔ وبا کی خوف ناکی اور عالم اسلام کے عمومی رجحان کے زیر اثر ہمارے ہاں بھی سوشل میڈیا پر فوری طور پر اس موقف نے عمومی شیوع حاصل کر لیا کہ مساجد کے معمولات معطل کر دینے چاہییں۔

سوئے اتفاق سے اس موقف کی ترجمانی عموما ایسے حلقوں کی طرف سے اور ایسے اسلوب میں کی گئی کہ علماء صورت حال کے تجزیے  کا پورا موقع ملنے سے پہلے ہی ایک طرح سے کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے اور یہ تاثر بن گیا کہ کچھ حلقے جو ویسے ہی مذہب اور مذہبی طبقے سے متنفر یا مذہبی طبقے کے کردار کے ناقد ہیں، اس موقع کو مساجد اور علماء پر دباو ڈالنے اور انھیں کارنر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔  حکومت ویسے ہی سیاسی وانتظامی معاملات میں الجھی ہوئی تھی، اس لیے بروقت علماء سے رابطہ کر کے انھیں اعتماد میں نہیں لے سکی۔ جب کوشش کی بھی تو اس وقت جب کشاکش کا ماحول بن چکا تھا اور اس میں بھی اپنے تئیں بات کا وزن بڑھانے کے لیے ازہر سے فتوی منگوا کر علماء کو قائل کرنا چاہا جو ایک طرح سے ان پر عدم اعتماد کا اظہار تھا۔ یوں چند در چند پہلووں سے علماء کی نظر میں مسئلے کی شرعی وفقہی حیثیت سے زیادہ اس کا سیاسی پہلو اہمیت اختیار کر گیا اور نتیجتا ایک سیاسی انداز ہی کی پوزیشن لینے کی سوچ غالب آ گئی۔ اسی نکتے نے دراصل معاملے کو وہ رخ دے دیا جو ابھی تک قائم ہے۔

اللہ تعالی ٰ سے دعا ہے کہ وہ ان مشکل حالات سے عافیت کے ساتھ نکلنے میں ہماری مدد فرمائے اور  ہمارے ارباب حل وعقد اور تمام طبقات حکمت اور تدبر، باہمی ہمدردی اور قومی  جذبے کے ساتھ دین، ملک وقوم اور انسانیت کے حق میں درست فیصلے کر سکیں۔ آمین

قومی اقلیتی کمیشن میں احمدیوں کی شمولیت

قومی اقلیتی کمیشن میں  بطور غیر مسلم اقلیت، احمدیوں کی شمولیت کے حالیہ حکومتی فیصلے کے تناظر میں  احمدیوں کی آئینی حیثیت کا سوال ایک دفعہ پھر  سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن گیا ہے۔  معروف  مذہبی اسکالر علامہ خلیل الرحمن قادری صاحب نے اس حوالے سے مذہبی حلقوں کے خدشات وتحفظات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’اقلیتوں کے کمیشن میں قادیانی کی شمولیت کے فیصلہ میں بظاہر کوئی حرج نہیں کیونکہ ریاست کی طرف سے آئین کے تتبع میں ایک بار پھر انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے، لیکن عملاً اس سے کئی قباحتیں جنم لیں گی، کیونکہ قادیانیوں نے کبھی بھی خود کو غیر مسلم اقلیت تسلیم نہیں کیا ۔ ان کے اور اہل اسلام کے مابین بہت سی باتیں مشترک ہیں، مثلاً وہ عبادت کی جگہ کو مسجد ہی کہتے ہیں ، نماز ، اذان اور قرآن حکیم کی تلاوت وغیرہ سبھی کچھ اہل اسلام سے مشابہ ہے ۔ اگر چہ ان پر شعائر اسلام کو اپنانے کے حوالے سے قانونی قدغن موجود ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ڈھکے چھپے انداز میں یہ سب کچھ کرتے رہتے ہیں ۔ اگر کوئی قانون کی گرفت میں آ جائے تو وہ مغربی ممالک کا چہیتا بن جاتا ہے اور جلد ( ضمانت پر ) یا مقررہ سزا کاٹنے کے بعد اسے قادیانی کمیونٹی ہیرو سمجھتی ہے۔

ہماری روایتی مذہبی سوچ انہیں زندیق سمجھتی ہے کیونکہ وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود خود کو مسلمان سمجھتے ، کہتے اور کہلواتے ہیں بلکہ اہل اسلام اور غیر مسلموں کو اپنے مسلمان ہونے کا فریب دیتے ہیں ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر از روئے شرع ان کا یہ عمل زندیقیت ہے تو اس کی سزا صرف تین سال قید اور جرمانہ کیوں ہے ؟

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ وہ اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے جب تعزیرات پاکستان کی دفعات 298 اے اور بی کی خلاف ورزی کریں گے تو کیا ان کے خلاف موثر قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی اور کیا اس قانونی کارروائی پر وہ اقلیتوں پر مظالم کی دہائیاں نہیں دیں گے ؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ اقلیتوں کا کمیشن دوسرے اقلیتی مذاہب کی طرح انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ سے کیسے روک سکے گا ؟ اگر ان کے سالانہ جلسے ہوں گے اور وہ اپنے مذہب کے بانی کی یاد منائیں گے تو اہل اسلام اسے کیسے قبول کر پائیں گے ؟

الحاصل قادیانیوں کا معاملہ دیگر اقلیتوں سے یکسر مختلف ہے اور عملی نتائج کے اعتبار سے ان کی اقلیتوں کے کمیشن میں شرکت سے کبھی بھی بہتر نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اول میں جھوٹے مدعیان نبوت کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا تھا ۔ اس فیصلے سے یہ بات تو مکرر ثابت ہو گئی کہ ریاست انہیں غیر مسلم اقلیت ہی سمجھتی ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ریاست ان کے اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے مابین خط امتیاز کیسے کھینچ پائے گی اور ان کے مذہبی حقوق کی پاسداری کیسے کر سکے گی جس سے اسلامیان پاکستان بھی مطمئن ہوں اور قادیانی بھی اپنی حدود سے تجاوز نہ کر پائیں ۔“

ہماری رائے میں علامہ صاحب نے مسئلے کی اصل الجھن کو درست طور پر واضح کیا ہے۔ البتہ ہماری گزارش یہ ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ ریاست نے ازخود نہیں، بلکہ علماء کے مطالبے پر اور ان کی تحریک کے نتیجے میں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ فیصلے کے ان مضمرات پر کیا علماء نے خود بھی غور کیا تھا یا نہیں؟ اور ان کے پاس اس الجھن کا کیا حل ہے؟ بظاہر صورت حال یہ معلوم ہوتی ہے کہ آئینی فیصلے کو نہ احمدیوں نے تسلیم کیا ہے اور نہ آئینی مفہوم میں خود علماء نے، کیونکہ اس فیصلے کے بعد آئینی طور پر احمدیوں کو جو حقوق ملنے چاہییں، علماء وہ انھیں نہیں دینا چاہتے۔ اس کے لیے آئین کو تسلیم نہ کرنے اور غداری کے جس نکتے کو علماء بنیاد بناتے ہیں، وہ آئینی وقانونی طور پر بنیاد نہیں بنتا، کیونکہ قانون کی عملا پابندی ضروری ہوتی ہے، اس کو درست تسلیم کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ آئین کی بعض شقوں اور بہت سے قوانین کو علماء بھی درست تسلیم نہیں کرتے، لیکن اس عدم تسلیم کو آئین شکنی یا غداری نہیں کہا جاتا۔ پس گیند دراصل ریاست کی کورٹ میں نہیں، بلکہ علماء کی کورٹ میں ہے۔ ریاست کی تو آئینی ذمہ داری بھی ہے اور بین الاقوامی قوانین کا بھی اس سے تقاضا ہے کہ وہ آئین کے مطابق احمدیوں کو اقلیتوں کے حقوق دلوائے۔ ہاں، تکفیر کے فیصلے کو کالعدم کرنے کا مطالبہ، ظاہر ہے، نہیں مانا جا سکتا اور نہ ریاست کم سے کم اس وقت اسے مان رہی ہے۔

علماء کو اس مشکل سوال پر سنجیدہ غور کرنا ہوگا کہ   آیا احمدیوں کی  شرعی حیثیت کی تعیین کے  سوال پر ازسرنو غور ہونا چاہیے یا آئینی فیصلے کو اس کی روح کے مطابق مان کر آگے بڑھنا چاہیے؟ ریاست کو اب زیادہ دیر تک چکی کے دو پاٹوں کے درمیان نہیں رکھا جا سکتا۔ اسے اپنا کام کرنا ہے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

سورة الاحزاب کے کچھ مقامات

(۱۹۷) صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا کا ترجمہ عام طور لوگوں نے ”عہد کو سچا کردکھایا ہے“ کیا ہے، اور اس کے بعد قَضَی نَحبَہُ کا ترجمہ بھی ”عہد یا نذر کو پورا کردیا“ کیا ہے۔ اس سے عبارت میں اشکال پیدا ہوجاتا ہے، کہ ایک ہی بات کو دو بار کیوں کہا گیا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا کا ترجمہ کرتے ہیں ”جنھوں نے سچا عہد کیا“ اس طرح مفہوم یہ بنتا ہے کہ اہل ایمان نے جب عہد کیا تو سچے دل سے عہد کیا، اور پھر کچھ نے موقع آنے پر عہد پورا کردکھایا اور کچھ موقع کے منتظر ہیں، اور ان کے عہد کی سچی کیفیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل ترجموں پر غور کریں:

مِنَ المُمِنِینَ رِجَال صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللَّہَ عَلَیہِ فَمِنہُم مَن قَضَی نَحبَہُ وَمِنہُم مَن یَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبدِیلاً۔ (الاحزاب: 23)

”ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی“۔ (سید مودودی)

”مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اہل ایمان میں وہ جانباز بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کردکھایا۔ سو ان میں سے بعض تو اپنا عہد پورا کرچکے ہیں اور بعض منتظر ہیں۔ اور انھوں نے ذرا بھی تبدیلی نہیں کی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اہل ایمان میں وہ جانباز بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے سچا عہد کیا۔ سو ان میں سے بعض تو اپنا عہد پورا کرچکے ہیں اور بعض منتظر ہیں۔ اور انھوں نے ذرا بھی تبدیلی نہیں کی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(۱۹۸)  وَارضًا لَم تَطَئُوہَا کا ترجمہ

وَاورَثَکُم ارضَہُم وَدِیَارَہُم وَاموَالَہُم وَارضًا لَم تَطَئُوہَا۔ (الاحزاب: 27)

درج ذیل ترجمے ملاحظہ کریں:

”اس نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور وہ علاقہ تمہیں دیا جسے تم نے کبھی پامال نہ کیا تھا“۔ (سید مودودی)

”اور اُن کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا اور اس زمین کا جس میں تم نے پاؤں بھی نہیں رکھا تھا تم کو وارث بنا دیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ہم نے تمہارے ہاتھ لگائے ان کی زمین اور ان کے مکان اور ان کے مال اور وہ زمین جس پر تم نے ابھی قدم نہیں رکھا ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور اس نے تمہیں ان کی زمینوں کا اور ان کے گھر بار کا اور ان کے مال کا وارث کر دیا اور اس زمین کا بھی جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

پہلے دونوں ترجموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت جو علاقے مل گئے تھے ان کا ذکر ہورہا ہے، لیکن پھر لَم تَطَئُوہَا کی معنویت سامنے نہیں آپاتی ہے۔ کیوں کہ اس وقت تک تو اسلامی ریاست کے حدود مدینہ اور اس کے نواح تک ہی تھے۔

جب کہ بعد کے دونوں ترجموں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دور دراز علاقوں کو دینے کی بشارت ہے جن تک ابھی اہل اسلام کے قدم بھی نہیں پہنچے ہیں۔ اس مفہوم میں بڑی وسعت ہے اور اس سے لَم تَطَئُوہَا کی معنویت بڑی خوبی کے ساتھ کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

(۱۹۹)    المُحسِنَات کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں المُحسِنَات کا ترجمہ عام طور سے ”نیکو کار“ کیا گیا ہے، لیکن صاحب تدبر نے ”خوبی سے نباہ کرنے والیوں“ کیا ہے، یہ ترجمہ المُحسِنَات کے مفہوم کو بہت محدود کردیتا ہے، اور سیاق کلام سے مطابقت بھی نہیں رکھتا ہے۔ سیاق تو اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو دنیا کی زندگی اور اس کی آرائشوں پر ترجیح دینے کا ہے، اس میں خوبی سے نباہ کی بات ہی نہیں بلکہ پوری زندگی کی بات ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی المُحسِنَات کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں: ”بہترین عمل کرنے والیوں“۔

درج ذیل ترجمے ملاحظہ کریں:

وَاِن کُنتُنَّ تُرِدنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَاِنَّ اللَّہَ اَعَدَّ لِلمُحسِنَاتِ مِنکُنَّ اَجرًا عَظِیمًا۔ (الاحزاب: 29)

”اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کی طالب ہو، تو اطمینان رکھو کہ اللہ نے تم میں سے خوبی سے نباہ کرنے والیوں کے لیے ایک اجر عظیم تیار کر رکھا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کی طالب ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکو کار ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے“۔ (سید مودودی)

”اور اگر تم خدا اور اس کے پیغمبر اور عاقبت کے گھر (یعنی بہشت) کی طلبگار ہو تو تم میں جو نیکوکاری کرنے والی ہیں اُن کے لیے خدا نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۲٠٠) فَمَا لَکُم عَلَیہِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدُّونَہَا کا ترجمہ

درج ذیل آیت کے مذکور حصے کے ترجمے ملاحظہ کریں:

فَمَا لَکُم عَلَیہِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدُّونَہَا۔ (الاحزاب: 49)

”تو ان کے بارے میں تم پر کوئی عدت واجب نہیں ہے، جس کا تمھیں لحاظ کرنا ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو“۔ (سید مودودی)

”تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ ان سے عدت پوری کراؤ“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو“۔ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”تمہارے لیے ان پر کوئی عدت واجب نہیں ہے جسے تم شمار کرو“۔

بعض ترجموں سے لگتا ہے کہ عدت مرد پر واجب ہوتی ہے، بعض سے لگتا ہے کہ عدت مرد کا کوئی حق یا اختیار ہے، بعض سے لگتا ہے کہ عورت پر عدت مرد کی طرف سے واجب ہوتی ہے۔

حقیقت میں عدت گزارنا عورت پر واجب ہوتا ہے، اور اس کا مقصد مرد سے وابستہ ہوتا ہے، کہ طلاق دینے والا عدت کے دوران رجوع کرسکتا ہے، اور نکاح کرنے والا عدت کے بعد ہی کسی مطلقہ خاتون سے نکاح کرسکتا ہے۔ یہ آیت اسی سلسلے میں رہنمائی دیتی ہے۔

(۲٠۱) مَا مَلَکَت اَیمَانُہُنَّ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں مَا مَلَکَت اَیمَانُہُنَّ کا ترجمہ متعدد مترجمین نے لونڈیوں یا کنیزوں کیا ہے، یہاں آیت کے الفاظ عام ہیں، اور سیاق پردے کا ہے۔ یوں تو اہل تفسیر اور اہل فقہ میں اس پر اختلاف ہے کہ یہاں صرف عورت مملوک یعنی کنیزیں اور لونڈیاں مراد ہیں یا عام مملوک مراد ہیں جن میں مرد عورتیں دونوں شامل ہیں۔ لیکن اگر ہم اسی مضمون کی آیت جو سورة نور میں آئی ہے اس کے ترجموں کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ تفسیری اختلاف کا نہیں بلکہ ترجمے میں تساہل ہوجانے کا بھی ہے، کیوں کہ بعض مترجمین نے اس مقام پر تو ترجمہ کنیزوں اور لونڈیوں کا کیا، مگر سورہ نور والی آیت کے ترجمہ میں کنیزوں اور غلاموں دونوں کو شامل کرلیا۔ دونوں مقامات کے درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

لَا جُنَاحَ عَلَیہِنَّ فِی آبَائِہِنَّ وَلَا اَبنَائِہِنَّ وَلَا اِخوَانِہِنَّ وَلَا اَبنَاء اِخوَانِہِنَّ وَلَا اَبنَاء اَخَوَاتِہِنَّ وَلَا نِسَائِہِنَّ وَلَا مَا مَلَکَت اَیمَانُہُنَّ۔ (الاحزاب: 55)

”ان پر مضائقہ نہیں ان کے باپ اور بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنے دین کی عورتوں اور اپنی کنیزوں میں اور اللہ سے ڈرتی ہو، بیشک اللہ ہر چیز اللہ کے سامنے ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور نہ لونڈیوں سے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ان کی مملوکہ کنیزیں“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور اپنی کنیزوں کے سامنے آئیں“۔ (جوادی)

”اور ملکیت کے ماتحتوں (لونڈی، غلام) کے سامنے ہوں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ان کے مملوک گھروں میں آئیں“۔ (سید مودودی)

وَقُل لِلمُومِنَاتِ یَغضُضنَ مِن اَبصَارِہِنَّ وَیَحفَظنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبدِینَ زِینَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنہَا وَلیَضرِبنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبدِینَ زِینَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ اَو آبَائِہِنَّ اَو آبَاء بُعُولَتِہِنَّ اَو اَبنَائِہِنَّ اَو ابنَاء بُعُولَتِہِنَّ او اِخوَانِہِنَّ اَو بَنِی اِخوَانِہِنَّ اَو بَنِی اَخَوَاتِہِنَّ اَو نِسَائِہِنَّ اَو مَا مَلَکَت اَیمَانُہُنَّ۔ (النور: 31)

”اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی ملک ہوں“۔ (احمد رضا خان)

” یا غلاموں کے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”یا اپنے غلاموں یا لونڈیوں کے“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور اپنے غلام اور کنیزوں“۔ (جوادی)

”یا اپنے مملوکوں کے سامنے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”ا پنے مملوک“۔ (سید مودودی)

(۲۰۲)   لَقَد  کَانَ لَکُم کا ترجمہ

قد کان عام طور سے تو ماضی کے لیے آتا ہے، اور اس کی قرآن مجید میں مثالیں بھی موجود ہیں جیسے:

قَد کَانَت آیَاتِی تُتلَی عَلَیکُم فَکُنتُم عَلَی اَعقَابِکُم تَنکِصُونَ۔ (المومنون: 66)

”میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں اور تم الٹے پاؤں پھر پھر جاتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

البتہ کبھی یہ ماضی کے لیے خاص نہ ہوکر عام ہوکر آتا ہے، ایسے ہی بعض مقامات کے سلسلے میں مترجمین کا موقف متعین نہیں ہوسکا، ایک ہی اسلوب کا وہ ایک جگہ ماضی سے ترجمہ کرتے ہیں اور دوسری جگہ حال کا ترجمہ کرتے ہیں۔ ذیل کی مثالوں سے اس کی وضاحت ہوتی ہے:

لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللَّہِ اُسوَۃ حَسَنَۃ لِمَن کَانَ یَرجُو اللَّہَ وَالیَومَ الآخِرَ۔ (الاحزاب: 21)

”در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو“۔ (سید مودودی)

”یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو“۔ (احمد رضا خان)

قَد کَانَت لَکُم اسوَۃ حَسَنَۃ فِی اِبرَاہِیمَ وَالَّذِینَ مَعَہُ۔ (الممتحنۃ: 4)

”تم لوگوں کے لیے ابراہیم ؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے“۔ (سید مودودی)

”بیشک تمہارے لیے اچھی پیروی تھی ابراہیم اور اس کے ساتھ والوں میں“۔ (احمد رضا خان)

لَقَد کَانَ لَکُم فِیہِم اُسوَۃ حَسَنَۃ لِمَن کَانَ یَرجُو اللَّہَ وَالیَومَ الآخِرَ۔ (الممتحنۃ: 6)

”اِنہی لوگوں کے طرز عمل میں تمہارے لیے اور ہر اُس شخص کے لیے اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخر کا امیدوار ہو“۔(سید مودودی)

”بیشک تمہارے لیے ان میں اچھی پیروی تھی اسے جو اللہ اور پچھلے دن کا امیدوار ہو“۔ (احمد رضا خان)

مذکورہ بالا تینوں آیتوں کا اسلوب ایک سا ہے، لیکن ترجموں کا معاملہ مختلف ہوگیا ہے، زیادہ مناسب یہی ہے کہ ان تینوں مقامات پر ماضی کے بجائے حال کا ترجمہ کیا جائے تاکہ اسوے کا عموم سب کے لیے باقی رہے۔ اور وہ ماضی کی کوئی خبر بن کر نہ رہ جائے۔ اسی طرح درج ذیل مقام پر بھی عام طور سے لوگوں نے ماضی کا ترجمہ کیا ہے، اس کا بھی حال والا ترجمہ زیادہ مناسب ہے، نشانی صرف ان کے لیے نہیں تھی جو اس وقت موجود تھے، بلکہ ان سب کے لیے نشانی ہے جن تک اس واقعہ کی خبر پہنچے۔

قَد کَانَ لَکُم آیَۃ فِی فِئَتَینِ التَقَتَا فِئَۃ تُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَاخرَی کَافِرَۃ یَرَونَہُم مِثلَیہِم رَایَ العَینِ وَاللَّہُ یُویِّدُ بِنَصرِہِ مَن یَشَاءُ انَّ فِی ذَلِکَ لَعِبرَۃً لِاولِی الابصَارِ۔ (آل عمران: 13)

”تمہارے لیے اُن دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا، جو (بدر میں) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کو چاہتا ہے، مدد دیتا ہے۔ دیدہ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے“۔ (سید مودودی)

”بیشک تمہارے لیے نشانی تھی دو گروہوں میں جو آپس میں بھڑ پڑے“۔ (احمد رضا خان)

”تمہارے لیے دو گروہوں میں جو (جنگ بدر کے دن) آپس میں بھڑ گئے (قدرت خدا کی عظیم الشان) نشانی تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”یقینا تمہارے لیے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”جن دو گروہوں میں مڈ بھیڑ ہوئی، ان کی سرگزشت میں تمہارے لیے نشانی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(جاری)


اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۱۱)

مولانا سمیع اللہ سعدی

پچھلی قسط میں انواعِ حدیث کے عنوان کے تحت مقبول حدیث   اور اس کی اقسام سے متعلق سنی و شیعہ مواقف کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا تھا ،اس قسط میں اسی موضوع کے دوسرے جزو یعنی مردود  حدیث کی اقسام  کے بارے میں سنی مصطلح الحدیث و شیعہ علم الدرایہ کا تقابلی جائزہ  نکات کی شکل میں لیا جائے گا :

(1) اہل سنت کے ہاں ضعیف حدیث کی جملہ اقسام میں ایک منطقی ترتیب ہے ،جس کی تفصیل یہ ہے کہ علمائے اہل سنت ضعیف حدیث کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کرتے ہیں :

پہلی قسم وہ ضعیف حدیث ،جس کا سبب سقط فی السندیعنی سند میں کسی راوی کا سقوط ہو ،پھر  سقوط کو بھی دو قسموں میں منقسم کیا جاتا ہے:

اگر سقط ظاہر ہو تو اس سے ضعیف حدیث کی درجہ  ذیل اقسام بنتی ہیں:

معلق ،معضل ،مرسل ،منقطع

اور اگر سقط خفی ہو تو اس سے درجہ ذیل اقسام بنتی ہیں :

مدلس اور مرسل خفی

دوسری قسم وہ ضعیف حدیث ،جس کا سبب طعن فی الراوی ہو ،یعنی راوی کی عدالت و ضبط میں کوئی مسئلہ ہو :

اگر عدالت میں مسئلہ ہو تو اس سے درجہ ذیل اقسام بنتی ہیں :

موضوع،متروک ،منکر ،مجہول(حدیث مستور ،حدیث مبھم)

اگر ضبط میں مسئلہ ہو تو  اس سے درجہ ذیل اقسام بنتی ہیں:

مقلوب،مدرج،مضطرب،مصحف ،محرف ،شاذ،معلل(یہ وہم راوی سے پیدا ہوتا ہے ،جو ضبط سے متعلق ہے)منکر(یہ کبھی عدالت اور کبھی ضبط سے پیدا ہوتا ہے ،اس لئے دونوں جگہ اس کا ذکر ہے )1

علمائے اہل تشیع نے (اہل سنت کی متابعت میں )بھی کم و بیش یہی اقسام ذکر کئے ہیں ،لیکن  علمائے شیعہ نے ان اقسام کو ذکر کرنے وقت چند باتیں نظر انداز کی ہیں ،جن کا ذکر کیا جاتا ہے:

(2) اہل سنت کی علم مصطلح الحدیث کی کتب میں ضعیف حدیث  کی  بحث میں اوھی الاسانید کا ذکر ہوتا ہے ، یعنی سلاسل ِرواۃ  میں سے کون سے کون سے رواۃ کا سلسلہ ضعیف ہے ،اس  بحث سے معروف ائمہ حدیث ،بلدان اور حفاظ ِحدیث کے ضعیف طرق و اسناد سے واقفیت ہوجاتی ہے ، چنانچہ  محقق عبد الماجد غوری نے المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث  میں جو اوھی الاسانید ذکر کیے ہیں ،بطورِ نمونہ چند ملاحظہ فرمائیں :

اس فہرست سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل سنت محدثین نے ضعیف رواۃ و روایات کی  تعیین میں کس قدر باریکی سے کام کیا ہے ،کیونکہ اوھی الاسانید فی فلاں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ویسے تو ممکن ہے کہ یہ رواۃ اپنی جگہ ثقہ و معتمد ہوں ،لیکن خاص اس سلسلے میں فلاں فلاں وجہ سے  ان رواۃ کی روایات قابلِ اعتماد نہیں ہونگی ،یوں حدیث کے ضعف میں محض رواۃ کی انفرادی ثقاہت  و ضعف  کی بجائے اجتماعی سلسلہ سند کو بھی  اہل سنت محدثین نے پیش ِ نظر رکھا ہے ،لیکن اس قسم کی  تفصیل اور یوں مفصل اوھی الاسانید کی فہارس اور ان کی رواۃ کا ذکر شیعہ علم الدرایہ میں مفقود ہے ۔

(3) اہلسنت محدثین نے ضعیف حدیث کی صحیح حدیث سے تمییز کے سلسلے میں مزید کام یہ  بھی کئے ہیں :

جبکہ شیعہ محدثین کے ہاں اس قسم کی سرگرمیاں نایاب یا نہایت کمیاب ہیں ۔

حواشی

  1.  دیکھیے:الحدیث الضعیف و حکم الاحتجاج بہ ،عبد الکریم بن عبد اللہ الخضیر،دار المسلم للنشر و التوزیع ،ریاض
  2.  دیکھیے:البدایہ فی علم الدرایہ ،زین الدین عاملی ،قم مقدسہ ،ص30،36
  3.   المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ،عبد الماجد غوری ،ص765
  4.   ایضا:ص 395
  5.  المدخل الی موسوعۃ الحدیث ،حیدر حب اللہ ،ص515
  6.  المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث ،عبد الماجد غوری ، 692-693

(جاری)

دعوت ِ دین میں درپیش چیلنجز اور علماءکی ذمہ داریاں

ڈاکٹر محمد اکرم ورک

 اصلاح ِ احوال کے ذمہ دار طبقات میں جن دو طبقات کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے ان میں علماءکرام اور حکمران طبقہ خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں ۔مجموعی انسانی رویوں کی تشکیل میں ان دو طبقات کا کردارسب سے اہم ہے۔ اگر کسی معاشرے کا دانشور طبقہ(Intellectuals) بد دیانت ہوجائے تو پھر اس معاشرے کی اصلاح کی امیدیں دم توڑ نے لگتی ہیں ۔اس پس منظر میں دانشور طبقے کی اہمیت اور ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ۔ سماجی اور معاشرتی سطح پر اصلاح ِ احوال کے لئے اپنے دور کی تفہیم اور در پیش تحدّیات کا ادراک اہل ِ علم کے لئے ضروری ہے ۔ اس وقت ہمارے پیش ِ نظر ان تحدّیات کا جائزہ پیش کرنا ہے جو داعیان ِ اسلام کو دعوت ِ دین میں در پیش ہیں۔اس سلسلے میں ہماری معروضات حسب ِ ذیل ہے:


دعوت ِ دین میں درپیش خارجی چیلنجز

۱۔ اسلام کی عالمگیر یت :

اسلام نے اپنی دعوت کا آغاز ایک عالم گیر دین کی حیثیت سے کیا ہے، اس دین کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں خود اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف”رب العالمین“ اپنے رسول کا ”رحمۃ للعالمین“ جیسے اوصاف سے کروایا ہے ،اور پھراپنی آخری کتاب قرآن مجید کو ”ھدی للناس“کہہ کر اس کی عالمگیر یت اور آفاقیت کو نمایاں کیا ہے۔جس طرح اللہ تعالیٰ سب کا رب ہے ،قرآن مجید پوری انسانیت کے لئے صحیفہ ہدایت ہے، اسی طرح رسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت بھی عالمگیر (Global) ہے ۔پیغمبر نے صلح حدیبیہ (۶ھ) کے بعد شاہان ِ عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ فرما کر اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ اسلام کا پیغام پوری انسانیت کے لئے ہے ،لیکن بدقسمتی سے مسلمان دور ِ حاضر میں اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے رسالتِ محمدی ﷺ کی آفاقیت اور ہمہ گیریت کو اس طرح نمایاں نہیں کرسکے جس طرح کہ آپپر ایمان لانے کا حق تھا۔ شاید یہ کہنا کسی حد تک درست ہو کہ اس وقت دیگر اقوام بالخصوص مغر ب میں اسلام اور رسول اللہﷺ کی سیرت کے حوالے سے جو غلط فہمیاں پائی جارہی ہیں اس کا ایک سبب خود مسلمان اور ان کا کردار بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو محسن ِ انسانیت اور رحمةللعالمین بنا کر مبعوث کیا ، آپ کی بعثت کے نتیجے میں سسکتی ہوئی انسانیت کووہ زریں اصول عطاہوئے ،جن کو اپنا کر عرب قعر مذلت سے نکل کر اوجِ ثریا پر جا پہنچے۔اس وقت عالم ِ انسانیت جس روحانی کرب اور معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں میں مبتلاءہے اس کا واحد حل صرف اسلام کے پاس ہے۔  سیاسی اور معاشرتی سطح پر جاگیر داری نظام(Feudalism) اور سوشلزم(socialism) کے ناکام تجربات کے بعد کیپیٹلزم (Capitalism) نے انسانیت کو تباہی کے جس دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اس کے بعد اسلام ہی بنی نو ع انسان کے لئے واحد آپشن کے طور پر باقی بچتا ہے ، اب توخود مغرب کا دانشور طبقہ بھی اس حقیقت کااعتراف کر رہا ہے۔ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے اپنے ایک مضمون "Islam and the west" میں مغربی دانشوروں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ ایک متبادل نظام کے طور پر اسلام کا مطالعہ کریں ، لیکن ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ اسلام کو عالمگیر دین سمجھنے والے مسلمان دانشور عصری احوال و ظروف میں دین ِ اسلام کو متبادل بیانےے کے طورپر پیش کرنے کی صلاحیت سے ہی عاری ہےں۔مسلمان اہل ِ علم کی علمی تگ و تاز کے میدان دیکھتے ہوئے تو یہی واضح ہو تا ہے کہ وہ اسلام کے عالمگیر اور پوری انسانیت کا دین ہونے کے تصور سے عملاً دستبردار ہو چکے ہیں،یہ اپروچ کسی المےے سے کم نہیں ہے ۔ دورِ حاضر میں داعیان ِ اسلام کے لئے ایک بڑا چیلنج تویہی ہے کہ وہ اسلام کی آفاقیت کے تصور کو دوبارہ سے دریافت کریں۔

۲۔ سیکو لرازم :

کہنے کی حد تک تو سیکولرازم (Secularism) سے مراد لادینیت ہے ،لیکن عملاً مغربی فکرو فلسفے کی بنیاد پر پروان چڑھنے والاسیکولرازم بذات ِ خود ایک دین اور عقیدے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔مغربی تہذیب نے گذشتہ کئی صدیوں میں فکری ارتقاءکا کٹھن سفر طے کیا ہے،مسلسل فکری ارتقاءاور تہذیبی تجربات کے نتیجے میں ان کے ہاں کئی تصوّرات اور نظریات اب مسلمہ عقائد کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔اہل ِ مغرب اب ان نظریات پرکوئی سمجھوتا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔مغرب نے سماجی ،معاشرتی اور اخلاقی حوالے سے جو تجربات کئے ہیں اس کے نتیجے میں ان کے ہاں یہ سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ انسانیت اپنے سماجی ارتقاءکی آخری سیڑھی پر قدم رکھ چکی ہے ۔مغرب میں "The End of History"کے عنوان سے لکھی جانے والی کتب اسی سوچ کی مظہر ہیں کہ مغربی فکر وفلسفہ کے نفاذ میں ہی انسانیت کی بقا ہے ۔مغرب کو اسلام کی ان تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں ہے جن کا تعلق انسان کی نجی اور انفرادی زندگی سے ہے ،لیکن وہ مسلمانوں کو یہ حق دینے کے لئے تیار نہیں کہ وہ نظام ِ خلافت کی بات کریں اور اجتماعی زندگی میں مذہب کے کردار کی دعوت دیں ۔

 مغربی فکروفلسفہ کی بنیاد عقل پر ہے، دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے مغرب کا خدا عقل ہے ،اور صرف وہی چیز ان کے ہاں قابل ِ قبول ہے جو عقلی اصولوں پر ثابت ہو ۔ مسلمان اہل ِ علم کو اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت مغرب سیکولرازم انسانوں کا مقبول ِ عام مذہب بن چکا ہے ، جبکہ اس کے بالمقابل مذاہب ِ عالم اپنی غیر عقلی اور غیر فطری تعلیمات کی وجہ سے محض تاریخ بنتے جا رہے ہیں ۔ اس پس منظر میںعلماءکرام پر لازم ہے سیکولرازم کے بنیادی سوالات کا سامنا کریں ۔ سیکولرازم کے بنیادی سوالات (۱) انسانی حقوق(۲)دین اور سیاست کا باہمی تعلق (۳)مرتد کی سزا (۴)آزادی نسواں (۵)آزادی اظہارِ رائے (۶) جمہوریت (۷) جہاد (۸)مذہبی رواداری اور اسی نوعیت کے دیگر موضوعات سے متعلق ہیں۔مغرب کے فکری چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے علماءکرام کے لئے ضروری کہ وہ دینی احکام کے اسرارو حکم کو نئے سرے سے دریافت کریں۔دور ِ حاضر میں دینی احکام کی عقلی تعبیر دعوت ِ دین میں ”اصول ِ حکمت“ کا بنیادی تقاضا ہے ۔اس حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی شہرہ آفاق کتاب” حجة اللہ البالغہ“اور اس جیسی دیگر کتب سے استفادہ کی ضرورت ہے۔

داعیا نِ اسلام کے لئے ان اسباب اور وجوہات کا ادراک بھی لازم ہے جن کی وجہ سے مغرب میں دین سے نفرت پیدا ہوئی، مذہب کے حوالے سے اہل ِ مغرب کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے یورپ کے دور ِ تاریک (Dark Ages) میں کلیسیا اور علم جدید میں تصادم کی تاریخ پر گہری نظر ضروری ہے ، اس دور کی درست تفہیم سے ہی ہمیں مغرب میں عیسائیت سے لوگوں کی نفرت کی وجوہات کا اندازہ ہو سکے گا اورہم جان پائیں گے کہ کس طرح عیسائیت کی غیر عقلی اور غیر فطری تعلیمات، پوپ کے خدائی اختیارات، مذہب اور سائنس کا تصادم ،پوپ کی حکمران طبقے کی ناجائز حمایت وغیرہ نے عام لوگوں کو عیسائی مذہب سے متنفر کیا۔ لازم ہے کہ علماءکرام دلائل سے واضح کریں کہ عیسائیت اور اسلام میں کیا فرق ہے ؟اور بتائیں کہ جن وجوہات کی بنا پر مغرب میں لوگ مسیحیت سے متنفر ہوئے ان کے بارے اسلام کا موقف کیا ہے ؟نیز مسیحیت میں پوپ اور علمائے اسلام کی دینی حیثیت میں فرق واضح کرنا بھی ضروری ہے۔ داعیان ِ اسلام پرلازم ہے کہ مذاہب کے تقابلی مطالعے کے ساتھ مغربی فکرو فلسفہ کا تجزیاتی مطالعہ بھی کریں اور مغربی فکرکی اصولی غلطیوں کو واضح کریں۔

۳۔ بین المذاہب ہم آہنگی :

مذہبی تکثیریت پر مبنی معاشروں میں مسلمانوں کاطرز ِ عمل کیا ہو نا چاہےے؟اس حوالے سے اسلام اپنی شاندار تاریخ رکھتا ہے ۔ اسلام اس دعوے کے ساتھ کھڑا ہے کہ دین میں کو ئی جبر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرت ِ سلیمہ پر پیدا کیا ہے اور ہدایت اور راہنمائی کے لئے اسے عقل جیسی نعمت سے سرفراز کیا ہے اور پھر مزید مہربانی یہ فرمائی کہ اسے حق کی یاد دہانی کے لئے تسلسل کے ساتھ انبیاءکرام کو مبعوث فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے خیرو شراورحق وباطل کے انتخاب میں انسان کو اختیار دیا اوریہی بنی نوع ِ انسان کی آزمائش ہے ۔اس امکان کو تسلیم کرلینے کے بعد کہ مختلف اسباب کی بنا پر تمام لوگ خدا پر ایمان لانے والے نہیں ہونگے ، اسلا م لوگوںکے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔یہ وہ تناظر ہے جس میں اسلام مذہبی رواداری اور آزادی اظہارِ رائے کا داعی ہے۔ اسلام بین المذاہب ہم آہنگی (Inter-Faith Dialogue) اور اقوام کے ساتھ تعمیری تعلقات کے حوالے سے واضح راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔قرآن مجید نے دیگر قوموں کے ساتھ مکالمے کے جو بنیادی اصول بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں : (اُدعُ  اِلِی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالحِکمَۃِ وَالمَوعِظَۃِ الحَسَنَۃِ وَجَادِلہُم بِالَّتِی ھِیَ اَحسَنُ) (1) (آپ لوگوں کو اپنے پروردگارکی طرف حکمت اوراچھی نصیحت سے بلائیے اوران کے ساتھ پسندیدہ طریقہ سے بحث کیجئے۔)میثاق ِ مدینہ ،معاہدہ نجران اورعہد ِ خلافت ِ راشدہ میں غیر مسلموں سے کئے گئے سیاسی معاہدات ہمارے دعویٰ کی سب سے بڑی دلیل ہیں ۔شاہان ِ عالم کے نام رسول اللہ ﷺ کے دعوتی خطوط اس حوالے سے ہمارے لئے راہنمائی کا بڑا ذریعہ ہیں ۔اسلام کے اصول ِ دعوت میں موعظہ حسنہ اور مجادلہ کے ساتھ مکالمہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ویسے بھی سماجی مقاطعہ (Social Boycott) کی نفسیات ان گروہوں میں پائی جاتی ہے جن کو اپنی دلیل کی طاقت پر اعتمادنہیں ہوتا ۔تاریخ گواہ ہے کہ قریش ِ مکہ نے رسول اللہ ﷺ کا مقاطعہ کیا تھا ،اس لئے کہ ان کے پاس رسول اللہ ﷺ کے دلائل کا کوئی جواب نہیں تھا،آپ تو ان سے گفتگو کے مواقع تلاشنے میں لگے رہتے تھے۔

دیگر قوموں کے برعکس بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے مسلمانوں کا رویہ ہمیشہ قابل ِ ستائش رہا ہے ،تاریخ گواہ ہے کہ مختلف ادوار میں یہود و نصاریٰ میں سے جس گروہ کو بھی سیاسی غلبہ حاصل ہوا اس نے دوسرے فریق پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑدےے، لیکن مسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی غلبے کے دور میں دونوں گروہوں نے اسلام کے زیر سایہ ہی امن و سلامتی کے ساتھ رہنا سیکھا ۔ برّصغیر کے مسلمان تو اس حوالے سے اوربھی منفرد تاریخ رکھتے ہیں ،یہ حقیقت کچھ کم تعجب انگیز نہیں ہے کہ تقریباً بیس(۲٠) فیصد لوگ محض اپنی رواداری اور برداشت کے رویے کی وجہ سے اسی (۸٠)فیصد لوگوں پر صدیوں تک حکومت کرتے رہے ۔رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے : ﴿قُل یَا اَہلَ الکِتَابِ تَعَالَوا الَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَینَنَا وَبَینَکُم اَلاَّ نَعبُدَ الاَّ اللّہَ وَلاَ نُشرِکَ بِہِ شَیئاً﴾ (2) (آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل ِ کتاب ! ایسے قول کی طرف آ جاو جو ہم میں اور تم میں مشترک ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اورکسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں)،دور ِ حاضر میں مسلمانوں کی بد قسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ بین المذاہب ہم آہنگی تو بڑی دور کی بات ہے، بین المسالک ہم آہنگی کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکے ہےں ۔مذاہب ِ عالم سے ہم آہنگی کے حوالے سے داعیان ِ اسلام کے لئے حضور ﷺ کی مکی اور مدنی زندگی کا مطالعہ اس نقطہ  نظر سے از بس ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ آپ کا غیر مسلموں کے رویہ کیا تھا ؟ اورمدنی ریاست میں تمام گروہوں کو جو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی اس کی حدود اور اصول وضوابط کیا تھے؟

داعیان ِ اسلا م پر لازم ہے کہ وہ منکر اور گستاخ میں فرق کو ملحوظ رکھےں ، اہم سوال یہ ہے کہ کیا غیر مسلم ہماری دعوت کا مخاطَب ہے یا نہیں؟ اگر تمام غیر مسلم ہماری دعوت کے مخاطَبین ہیں تو پھر سماجی مقاطعہ چہ معنیٰ دارد؟ مملکت خداد پاکستان میں آئینی طور پر تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے تو پھر جوزف کالونی ،مریم آباد اور فرانسیس آباد جیسی مذہبی بنیادوں بننے والی آبادیوں کا وجود میں آنا کیاہمارے غیر متوازن رویے کا آئینہ دار نہیں ہے؟ رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ تو یہ ہے کہ آپ غیر مسلموں کو کھانے دعوت پر بلاتے تھے اور ان کی دعوت قبول بھی کرلیتے تھے۔ آپ ایک یہودی کے جنازے کے احترام میں کھڑے ہو گئے اور ایک یہودی کا بچہ آپ کے خدمت گاروں میں بھی شامل تھا ۔ آپ نے مسجد ِ نبوی میں ِنجران کے عیسائی وفد کو اجازت دی کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کر سکتے ہیں ۔ ان چند مثالوں کو ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ داعیان ِ اسلام اپنے اسلوب ِ دعوت پر غور کریں ، اور اس حقیقت کا ادراک کریں کہ چند ہزار صحابہ کرام ؓ نے تو ایک صدی بھی مکمل نہ ہونے پائی تھی کہ اسلام کے پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچادیا ،اور آج کروڑں مسلمان اور بلامبالغہ لاکھوں داعیان ِ اسلام اس مشن میں ناکام کیوں ہیں ؟

۴۔ روز مرہ کی زبان :

دعوت ِ دین میں ہم زبانی کی اہمیت شک و شبہ سے بالا تر ہے ۔رسول اللہﷺ کے نزدیک دعوت ِ دین اور مکالمہ بین المذاہب کے لئے مخاطَب کی زبان سے واقفیت کی اہمیت کیا ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے مختلف صحابہ کرام ؓ کودوسری قوموں کی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا ، کیونکہ دعوت وتبلیغ اور باہمی مکالمہ میں تاثیر اور قوت اسی وقت پیداہوسکتی ہے جب داعی اور مدعو کی زبان ایک ہو۔ ہم زبانی سے اُنسیت میں اضافہ ہوتاہے،اجنبیت دور ہوجاتی ہے اور گفتگو کا مقصد آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتاہے ۔اسی ضرورت کے پیش ِ نظر رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن ثابتؓ (م ۴۴ھ) کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ،تاکہ یہود سے انہی کی زبان میں گفتگو کی جاسکے اور ان کے خطوط کا جواب دیاجاسکے۔حضرت زید بن ثابت ؓ کا بیان ہے:”فتعلّمت کتابھم مامرّت بی خمس عشرة لیلۃ حتی حذقتہ وکنت اقراءلہ کتبھم اذا کتبوا الیہ واجیب عنہ اذا کتب“ (3) ”پس میں نے ان کی زبان میں لکھنا سیکھ لیا، ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کہ میں اس میں ماہر ہو گیا۔ جب یہودی کوئی خط آپ کی طرف لکھتے تو میں آپ کو پڑھ کر سنا دیتا اور اگر آپ کو جواب لکھنا ہوتا تو میں وہ لکھ دیتا۔“ ایک روایت میں ہے کہ ایک ایرانی عورت حضرت ابو ہریرہؓ (م ۵۸ ھ) کی خدمت میں استغاثہ لے کر آئی کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب مجھ سے میرا بیٹا بھی چھیننا چاہتاہے اس عور ت نے یہ ساری گفتگو فارسی زبان میں کی اور ابو ہریرہؓ نے بھی اس سے اسی زبان میں گفتگو کی اور پھر آپؓ نے بچہ عورت کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔(4) ان واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ نے دوسری قوموں کی زبانیں صرف اس غرض سے سیکھ رکھی تھیں، تاکہ ان سے براہ راست تبادلہ  خیال کرکے ان کے مسائل کو حل کیاجاسکے۔ بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کے بعض اجزا کادوسری زبانوں میں ترجمہ بھی کیا تھا، تاکہ عربی زبان سے ناواقف لوگ اسلام کی حقیقی روح اور تعلیمات سے محروم نہ رہ جائیں ۔چنانچہ علامہ سرخسیؒ (م ۴۹٠ھ) لکھتے ہیں: ”ان الفرس کتبوا الی سلمانؓ ان یکتب لھم الفاتحۃ بالفارسیۃ فکانوا یقرءون ذالک فی الصلوۃ حتیٰ لانت السنتھم للعربیۃ“ (5) ”بعض نو مسلم ایرانیوں نے حضرت سلمان ؓکی خدمت میں لکھا کہ ان کے لیے سورہ فاتحہ کو فارسی میں نقل کر دیا جائے، چنانچہ وہ لوگ (اسی ترجمہ کو)نماز میں پڑھتے تھے یہاں تک کہ وہ عربی سیکھ گئے ۔“اسی واقعے کو ڈاکٹر حمیداللہ ؒنے ”النہایة حاشیة الھدایة “ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؓ (م ۳۳ھ) نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے یہ کام انجا م دیا اور ان کے ترجمے کا ایک جز بھی نقل کیاہے ،”بنام خداوند بخشا یندہ مہربان “ یہ بسم اللہ کا ترجمہ ہے۔ (6) شاہان ِ عالم کی طرف بھیجے جانے والے نبوی سفراءکا معجزانہ طور پر انہیں قوموں کی زبان میں گفتگو کرنے لگ جانا بھی دعوت وتبلیغ اور مکالمے میں ہم زبانی کی اہمیت کو واضح کرتاہے۔ (7) اس کے علاوہ جن صحابہ کرام ؓ کو رسول اللہﷺ نے مختلف قوموں کی طرف داعی اور مبلغ بنا کر روانہ فرمایا اس میں بھی یہ چیز آپ کی حکمت ِعملی کا حصہ نظر آتی ہے کہ وہ مبلغ اسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں ،اور اگر مبلغین کا تعلق کسی دوسری قوم سے ہو تو کم ازکم وہ اس قوم کی زبان، رسم ورواج اور کلچر سے لازمی طور پر آگاہ ہوں۔

مذکورہ بالا چند حوالہ جات سے واضح ہوتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کے لئے مدعو قوموں کی زبان ،کلچراور نفسیات سے آگاہی کس قدر اہم ہے ،اس حوالے سے ویسے تو پورے عالم ِ اسلام کی حالت ہی ناگفتہ بہ ہے ،تاہم اگر اسلامیا نِ ہند سے تعلق رکھنے والے علماءکرام کے طرز ِ عمل کا تجزیہ کیا جائے توصورتِ حال کی سنگینی کا زیادہ احساس ہوتا ہے ۔ اس حد تک تو یہ بات قابل ِ فہم ہے کہ ۱۸۵۷ءکی جنگ آزادی میں شکست کے بعد بچی کچی مسلمان قیادت نے دینی مدارس میں جو نصاب رائج کیا اور اس کا بنیادی مقصد لوگوں کے ایمان کی حفاظت تھا ،تاکہ ہندوستان کو اندلس بننے سے بچایا سکے ۔ یہ اعتراف بھی لازم ہے کہ ہندوستان کے علماءکرام کی قربانیوں اور دینی مدارس کے شاندار کردار کی وجہ سے یہ مقصد پورا ہو گیا،لیکن آزادی کے بعد نصاب ِتعلیم میں جس تبدیلی کی ضرورت تھی اس کی طرف توجہ نہ دی جاسکی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ایسے علماءکرام کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے جو آج کی زبان اور محاورے میں گفتگو کر سکےں ،لیکن عملی صورت ِ حال مایوس کن ہے ،آج کے داعیان ِ اسلام پر اصحاب کہف کی مثال صادق آتی ہے،کہ تقریباً تین صدیوں کی نیند سے بیدار ہونے کے بعد جب وہ غار سے نکلے تو ان کا سکہ اور زبان دونوں ان کی اپنی بستی کے لوگوں کے لئے اجنبی ہو چکے تھے ،گویا وہ اس زمانے کے لئے غیر متعلق (Irrelevant) ہو چکے تھے، اور بالآخر ان کو وآپس غار میں ہی پناہ لینا پڑی ۔غلامی کے طویل دور سے نکلنے کے بعد ہماری صورت ِ حال بھی اصحاب ِ کہف ہی کے مماثل ہے ، عصری تقاضوں کے مطابق علماءکرام کی تربیت کے بغیر اسلام کی عالمی سطح پر دعوت کا خواب شرمندہ  تعبیر نہیں ہو سکتا۔دور ِ حاضر میں داعیان ِ اسلام اگر بین الاقوا می قوانین،جدید نظامہائے معیشت و سیاسیات اور مغرب کے فلسفہ  اخلاق سے واقف نہیں ہوں گے تو ان کے مخاطبین کا دائرہ صرف مسلم معاشروں تک ہی محدود رہ جائے گا اور اگر وہ ”کتاب البیوع“ اور ”کتاب الامارہ “ کی عصری تعبیرات پر عالمانہ دسترس نہیں رکھتے تو اس کا مطلب یہ ہواکہ دین کا ایک بڑا حصہ ان کے دعوتی مضامین ہی سے خارج ہوجائے گا ،اور اسلام کے مکمل ضابطہ  حیات ہونے کے تصور کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہے۔


دعوت ِ دین میں درپیش داخلی چیلنجز

۱۔ عرف کی تفہیم :

انسانی معاشرہ ہر لمحہ تغیر پذیر ہے ،معاشرتی اور تہذیبی ارتقاءکا لازمی نتیجہ عرف کی تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ بہت سارے فقہی احکام ومسائل کا تعلق عرف کے ساتھ ہوتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عرف کی تبدیلی کے براہِ راست اثرات فقہی احکام و مسائل کے استنباط پر مرتب ہوتے ہیں ۔عرف اور زمان ومکان کی تبدیلی فقہی مسائل کے استنباط پر کس حد اثر انداز ہوتی ہے، اس کا اندازہ صرف اس ایک مثال سے ہی کیاجا سکتا ہے کہ امام مالک ؒ (م ۱۷۹ھ) کے نزدیک پانی کے طاہر ہونے کے لئے اس کی کم ازکم مقدار ”قُلَّتَان “ یعنی دو بڑے مٹکوں کے برابر ہونا لازم ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵٠ھ) کے نزدیک پانی کے طاہر ہونے کے لئے اس کی کم ازکم مقدار”دہ در دہ“ ہونا ضروری ہے ۔ ایک امام مدینہ میں بیٹھ کر یہ رائے قائم کر رہا ہے جہاں پانی کی شدید قلت ہے، جبکہ دوسرا امام دجلہ و فرات کے کنارے بیٹھ کرفتویٰ جاری کررہا ہے جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہے ، گویا عرف اور زمان ومکان کی تبدیلی کے اثرات مسائل کے استنباط پر براہ ِ راست مرتب ہوتے ہیں۔

قابل ِ توجہ بات یہ ہے کہ جب غیر مشروط اطاعت صرف خدا و رسول کے لئے ہی ہے تو پھر فقہ کی تقدیس چہ معنیٰ دارد؟ جبکہ فقہ سے مراد دین نہیں بلکہ دینی تعبیرات ہیں یعنی وہ تمام فروعی مسائل جو واضح طور پر قرآن و سنّت میں موجود نہ ہوںاور ان کو مقاصد شریعت کی روشنی میں قرآن و سنّت سے مستنبط کیا گیا ہو۔ اس نوعیت کے مسائل میں ایک تووہ احکام ہیں جن کے بارے اسلاف نے کوئی رائے قائم کی ہو اور دوسرے وہ احکام ہیں جن کا تعلق زمان و مکان اور عرف کی تبدیلی سے ہے ۔اس میں متوازن رائے یہ کہ اگرکسی مسئلے میں صحابہ کرام ؓ کی رائے منقول ہو تو فبھا ،اور اگر دیگر اہل ِ علم کی مختلف آراءمنقول ہوں تو یہ ہر دور کے علماءکا حق ہے کہ وہ کسی بھی رائے کو دلیل کے ساتھ قبول کریں اور دلیل کے ساتھ رد کردیں ۔ صحابہ کرام کے علاوہ دیگر ارباب ِ فکرو دانش کے حوالے سے بہترین بات وہی ہے جو امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمائی :”ھُم رِجَال وَ نَحنُ رِجَال “ یعنی جس طرح انہیں اجتہاد کا حق حاصل ہے اسی طرح ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے ۔ وہ تمام فقہی مسائل جن میں صحابہ کرام ؓ کے درمیان اختلاف منقول ہے ،اس کو تنوع اور توسع پر محمول کر کے کسی ایک پہلو کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔

علماءکرام جب مختلف احکام و مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو عمومی طور پر وہ ان مسائل کو فقہی تناظر میں ہی دیکھتے ہیں اوران کے سماجی تناظر کو نظر انداز کردیتے ہیں اس کی مثال عائلی زندگی سے متعلق نکاح،طلاق اور خلع جیسے مسائل میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ کیا آج کے معاشرتی ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے ولی کے بغیر نکاح کو درست قرار دیا جانا چاہیے ؟ جبکہ نکاح کے انعقاد کے لئے اگر ایک طرف عاقل و بالغ کی رائے ضروری ہے، تو دوسری ”لا نکاح الا بولی “، کی شرط بھی موجود ہے ،اسی طرح طلاقِ ثلاثہ سے متعلق مسائل کو محض فقہی تناظر میں ہی دیکھا جاتا اس کے عملی نتائج خاندانوں کو کس طرح برباد کر رہے ہیں یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی جاتی ۔غور کیا جائے تو بہت سارے مسائل میں صحابہ کرام اور فقہاءکے درمیان جو اختلافات نظر آتے ہیں اس کا بڑا سبب وہ سماجی تناظر ہے جس میں انہوں نے مختلف اورمتنوع نصوص پر غور کیا اور پھر اس نص کو ترجیح دے دی یا اس تعبیر کو اختیار کر لیا جس میں حالات اور زمان و مکان کی رعایت نظر آئی یا پھر خلق ِ خدا کے لئے آسانی اور سہولت کا پہلو نظر آیا ۔ہمارے ہاں عملی صورت ِ حال یہ ہے کہ علمائے اسلام اپنے مسلک اور فقہی مذاہب سے ہٹ آج کے ماحول اور عرف کی روشنی میں قرآن و سنّت کا مطالعہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

اس وقت مذہب کو علم ِ جدید کا سنجیدہ چیلنج درپیش ہے۔ جدید سائنسی علوم نے انسانی زندگی پر جو اثرات مرتب کئے ہیں اس کے نتیجے میں کئی نئے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ مثلاًDNAٹیسٹ کے سو فیصد درست نتائج نے گواہی اور حسب ونسب جیسے مسائل کے حوالے سے نئے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔غالباً 2002ءمیں جب سائنسدا نوں نے محض جینز کی مدد سے”ڈولی “ نامی بھیڑ تخلیق کی تو علماءکے لئے اس پر کوئی واضح موقف اختیار کر نا مشکل تھا ۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی (Test tube baby)اور کلوننگ(Cloning) جیسے کامیاب تجربات نے ماں کے قدموں تلے جنت کے تصور کو چیلنج کر دیا ۔اس نوعیت کی محیر العقول ایجادات اور تخلیقات نے انسان کے لئے جہاں کئی آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں بہت سے سوالات بھی کھڑے کر دیئے ہیں ۔اب بہت سارے مسائل کو صرف سابقہ فتاویٰ کی بنیاد پربیان کرنا ممکن نہیں رہا،اس لئے علماءکرام کے لئے اپنے دور کی حقیقی تفہیم بڑا چیلنج بن کر ابھر رہا ہے۔

دور ِ حاضر میں علماءکرام کے لئے صرف علاقائی عرف کا جاننا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسلام کی عالمگیریت کے تناظر میں عالمی عرف سے گہری واقفیت بھی ضروری ہے۔مثال کے طور پرفقہائے اسلام نے ”دالاسلام“ اور” دار الحرب“ کی تقسیم کے ساتھ قرآن و سنّت سے جو احکام مستنبط کئے ہیں ،ان تعبیرات کا تعلق مسلمانوں کے دور ِ عروج سے ہے ،جبکہ اس وقت صورت ِ حال بالکل تبدیل ہو چکی ہے ۔ جزیہ ، ذمی اور اہل ِ کتاب سے متعلق احکام ومسائل کو ان عالمی قوانین کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جن کو خود مسلمان ملک تسلیم کر چکے ہیں۔ تسلیم کرنا ہوگا کہ ”انسانی حقوق کا عالمی منشور“ (Universal Declaration of Human Rights) آج کا عالمی قانون ہے۔ اس قانون کی تمام شقوں کو قبول کرنا تو مسلم معاشروں کے لیے ممکن نہیں ہے، تاہم اس بحث میں زیادہ مثبت اور تعمیری انداز میں حصہ لینے کی ضرورت ہے اور اگر کسی جگہ لچک کی گنجائش موجود ہو تو اس کا لحاظ کیا جانا چاہیے۔ سیرتِ طیبہ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ کئی مواقع پر رسول اللہﷺ نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے بھی بین الاقوامی قانون ،عرف اور قبائلی رسم ورواج کا احترام کیا ۔مثلاً :جب حضور ﷺ کا مسیلمہ کذّاب کے سفیروں سے مکالمہ ہوا تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم مسیلمہ کو نبی مانتے ہو؟ تو انھوں نے کہا :ہاں ، حضرت عبداللہ ابن ِ مسعود سے روایت ہے کہ مسیلمہ کذّاب کے سفیروں کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”لوکنت قاتلاً رسولاً لقتلتکما، فمضت السنّۃ انّ الرّسلَ لا تَقتُل“ (8) یعنی اگر سفیروں کا قتل جائز ہوتا تو  میں تمہیں قتل کروادیتا۔ دیکھئے اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے لیکن آپ نے ان پر یہ حد جاری نہیں کی بلکہ فرمایا کہ چونکہ عالمی قانون یہ ہے کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا اس لئے میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں ورنہ میں تمہیں قتل کروا دیتا۔

سن ۹ہجری میں اقرع بن حابسؓ کی زیر ِقیادت بنوتمیم کا وفد اسلام قبول کرنے کے لیے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا، ان لوگوں نے قبولِ اسلام کے لیے بڑی عجیب شرط رکھی کہ آپ پہلے ہمارے ساتھ مفاخرت کریں،آپ کا خطیب ہمارے خطیب کا اور آپ کا شاعر ہمارے شاعر کا مقابلہ کرے ، تب ہم اسلام قبول کریں گے ۔آپ نے ان کے اس مطالبہ کو قبول کیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺکے حکم پر حضرت حسان بن ثابت ؓ نے ان کے شاعر زبر قان بن بدر کا مقابلہ کیا اور ثابت بن قیسؓ نے ان کے خطیب عطارد ابن حاجب کا مقابلہ کیا۔بنو تمیم نے با لآ خر حضورﷺ کے شاعر اور خطیب کی برتری کو تسلیم کر تے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔ (9) دیکھا جائے تو وفد ِبنی تمیم کا مطالبہ بالکل لایعنی تھا ،بالفرض اگر مسلمانوں کا شاعر اور خطیب مقابلے میں شکست بھی کھا جاتے تو پھر بھی اسلام کی حقانیت میں کوئی شک نہ تھا،لیکن اس کے باوجود آپ نے ان کے رسم ورواج کا احترام کیا۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے دوسری قوموں کے ساتھ مکالمے کی اتنی زبردست تیاری کر رکھی تھی کہ بنو تمیم نے جب قبول ِاسلام کی یہ عجیب وغریب شرط رکھی تو آپ نے بلا جھجک اپنے ان ساتھیوں کو طلب کیا جن کی خاص اسی مقصد کے لئے تربیت کی گئی تھی۔ اسی طرح جب آپ نے شاہان ِعالم کے نام دعوتی خطوط روانہ کرنے کا پروگرام بنایا تو واقفان ِحال نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! حکمرانوں میں یہ اصول ہے کہ وہ ان خطوط پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے جن پر کوئی مہر(Seal) وغیرہ نہ ہو،چنانچہ اسی وقت آپ نے خطوط کو ُمہر بند کرنے کے لیے مُہر بنانے کا حکم دیا۔(10)

اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ داعیان ِ اسلام کے لئے لازم ہے کہ وہ عالمی عرف کو سمجھیں اور ان قوانین اور معاہدات کے مندرجات کا بھی تنقیدی مطالعہ کریں جن کی حیثیت اب مسلمہ بین الاقوامی قانون کی ہے ،اور جن کی پاسداری کا حلف خود مسلمان ممالک نے بھی اٹھا رکھا ہے ۔عالمی عرف اور بین الاقوامی معاہدات کے مثبت مطالعہ و تجزیہ سے مسلم معاشروں کے علاوہ عالمی سطح پر دعوت ِ دین کی سرگرمیوں کو مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔

۲۔ فرقہ واریت :

عصر حاضر کا ایک بڑا فتنہ مختلف عنوانات کے ساتھ اسلام کی تقسیم ہے ۔صوفی اسلام ،تبلیغی اسلام،سلفی اسلام، وہابی اسلام، جہادی اسلام،سیاسی اسلام،یہ تقسیم شیعہ اور سنّی اسلام کے علاوہ ہے ۔اس کے علاوہ دین کی فقہی اور کلامی تعبیرات کو مکمل دین کے طور پر پیش کرنے کا رجحان بھی پوری شدّومد کے ساتھ موجود ہے ۔حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مساجد اور مدارس کے ناموں سے مسالک کی نشاندہی کی جاسکتی ہے ،اس پر مستزاد یہ کہ آپ مذہب سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے ناموں ،کاموںاور حلیے سے باآسانی ان کا مسلک معلوم کرسکتے ہیں۔ علماءکرام دین ، مذہب ، مسلک، ذوق اور تاریخ میں فرق کرنے کے لئے تیار نہیں ہےں جس سے فرقہ واریت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ علماءکرام کی اکثریت اپنے مسالک،فقہی مذاہب اور روحانی سلاسل کو ہی کل دین کے طور پیش کر رہی ہے۔اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ بعض کوتاہ نظر اور نام نہاد علماءبعض تاریخی واقعات اور علاقائی رسم و رواج کو ہی کل دین کا درجہ دے رکھا ہے۔

 ضرورت اس امر کی ہے کہ کلامی، فقہی اوراسلامی فرقوں کا مثبت انداز میں مطالعہ کیا جائے ۔ بین المسالک ہم آہنگی کا فروغ اس دور کی ضرورت ہے ۔ مسلک اور دین میں فرق کئے بغیرہم آہنگی کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ موجودہ صورت ِ حال یہ ہے کہ نصوص ، اجتہادات اور رواجات میں فرق کی ضرورت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ فروعی مسائل اور بنیادی عقائد میں فرق نہیں کیا جا رہا ۔سماجی رسوم و آداب میں بھی ہمارا رویہ بڑا عجیب و غریب ہے ، کسی رواج کا اسلام کے مطابق ہونا اور چیز ہے اور اسلام ہونا بالکل دوسری چیزہے ،دین اور کلچر کا باہمی تعلق اور اس کی حدود کیا ہےں ؟یہ بات بھی سمجھنا بہت ضروری ہے ،ورنہ اس ملت کونئے سے نئے فتنوں سے بچانا ممکن نہیں ہوگا۔

آج کے ماحول میں ایک سچے داعی کے لئے صحیح رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اسلام کو مکمل ضابطہ  حیات کے طور پر تسلیم کرے، اب بے شک وہ عملی جدوجہد کے لئے کسی ایک میدان کا انتخاب کرلے، لیکن دین کے دوسرے شعبوں کے ساتھ اس کو مربوط کرے ،اور مناسب یہ ہے کہ وہ دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے لوگوں کی قدر کرے ۔ فروعی مسائل میں دین میں تنوع اور توسع کے حوالے سے اعتدال پسندعلماءکی فکرکا مطالعہ راہنمائی کے لئے مناسب ہوگا۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے کہ فرقہ بنیادی عقائد میں انحراف سے بنتا ہے تو اس لحاظ سے دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث ایک ہی گروہ شمار ہوں گے اور ان کے مقابل شیعہ دوسرا گروہ شمار ہوگا، ملی یکجہتی کا تقاضا یہ ہے کہ شیعہ کی عمومی تکفیر اجتناب کرنا چاہیے ،تاہم شیعہ کے وہ ذیلی فرقے جن کی تکفیر خود اہل ِ تشیع نے کی ہے ان کا معاملہ البتہ دوسرا ہے ،کیونکہ شیعہ کے بعض اقلیتی گروہوں کی گمراہی کے دلائل موجود ہیں ۔مرزا غلام احمد قادیانی(م ۱۹٠۸ء) کی جانب منسوب ”جماعت ِ احمدیہ “ کو ایک باطل فرقہ کہنا حق بجانب ہے کیونکہ وہ ختم ِ نبوت کے بنیادی عقیدے کے منکر ہیں۔

۳۔ مروّجہ تصو ّف :

جس طرح تصوف کوعین ِ دین کہنا غلط ہے اسی طرح تصوف کو متوازی دین کہنا بھی غلط ہے، بلکہ د رست یہی ہے کہ یہ دین کی روحانی تعبیر کا ایک ایسا پہلو ہے جو ”وَیُزَکِّیہِم“ کے عنوان کے ساتھ منصب ِ رسالت کا لازمی تقاضا ہے اور رسول اللہ ﷺ کا مقصد ِ بعثت ہے ۔ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے تکوینی نظام کے مطابق مختلف افراد اور گروہوں سے دین کی حفاظت اور ترویج و اشاعت کا کام لیا ۔محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل نے متون (Texts) کی حفاظت کا کارنامہ اس انداز میں انجام دیا کہ تاریخ ِ علوم میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے ۔ فقہاءکرام نے اس متن کو بنیاد بنا کر دین اسلام کو معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ کر نے کا عظیم کارنامہ انجام دیا اور ثابت کیا کہ دین اسلام صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیوی کامیابی کا بھی ضامن ہے، صوفیہ کرام نے تزکیہ نفس کے عنوان کے ساتھ دین کے روحانی پہلو کو اجاگر کیا ، خدمت ِ خلق اور ذاتی کردار سے مخلوق ِ خدا کو ایمان کی دولت سے آشنا کرکے ان کی روحانی تسکین کا سامان کیا ۔دین ِ اسلام کے تحفظ اور ترویج و اشاعت میں محدثین ،فقہاءاور صوفیہ ،تینوں طبقات کا کردار آب ِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔یہ وہ تناظر ہے جس میں تمام روحانی سلاسل کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ برصغیر کے معروف روحانی سلاسل کے مزاج کا ادراک کئے بغیر ان کی خدمات کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔

حضرت باقی باللہ(۱۵۶۴۔۱۶٠۳ء) کی آمد سے پہلے ہندوستان میں جو روحانی سلاسل قادریہ، سہرودیہ اور چشتیہ مقبول و مشہور تھے وہ تمام کے تمام ایران اور ایرن کی علمی سرحد عراق کی پیداوار تھے ۔ان تینوں سلسلوں میں جزوی اور فروعی اختلافات تو تھے لیکن ان کا روحانی پس منظر اور مزاج ایک ہی جیسا تھا،ان تینوں سلسلوں میں وحدة الوجود کا طریقہ رائج تھا ۔ان روحانی سلاسل میں دیگر سلاسل کی بنسبت بین المذاہب ہم آہنگی کی صلاحیت زیادہ ہے ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بر صغیر میں آغاز ِاسلام کے وقت ان سلاسل کے مزاج نے فروغ ِ اسلام میں اہم کردار ادا کیا۔ان روحانی سلاسل نے دعوت وتبلیغ کے میدان میںکئی نئے تجربات کئے۔ان سلاسل کے بزرگوں نے وقت اور حالات کے زیر اثر اس طرح کے” تبلیغی اجتہادات“ فرمائے جس کے نتیجے میں دیگر قوموں سے مسلمانوں کی سماجی اور معاشرتی سطح پر ہم آہنگی میں زبردست اضافہ ہوا ۔ذات پات کے نظام میں جھکڑے ہوئے برصغیر میں صوفیہ نے انسانی مساوات کے اسلامی تصور کو اپنے عمل سے اس طرح نمایاں کیا کہ پسے ہوئے طبقوں کے لئے اسلام امید کی آخری کرن بن کر ظاہر ہوا۔

 ہندوستانی معاشرے میں جہاں لوگ مذہبی رسومات وعبادات ،بھجن اور اشلوک وغیرہ صرف ساز و ترنم کے ساتھ ہی سننے کے عادی تھے، وہاں صوفیہ نے ہندو قوم کو دعوت وتبلیغ کے لئے سماجی سطح پر اپنے قریب رکھنے کے لئے ”قوالی “ کی صورت میں ایک منفرد تجربہ کیا ۔ خانقاہی نظام میں ”لنگر خانے“ کے ادارے کو بھی دعوتی نقطہ  نظر سے دیکھنے کی ضرروت ہے۔ جس میں بلا رنگ و نسل اور مذہبی شناخت ،لوگوں کی حاجت براری کی جاتی ہے ۔ اسی دور میں ہم حضرت میاں میر ؒ جیسی بزرگ ہستی کو سکھوں کے مقدس مذہبی مرکز ” دربار صاحب امرتسر “(گولڈن ٹیمپل ) کا سنگ ِ بنیاد رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔برصغیر میں ہندو اکثریت کے کئی علاقوں میں صوفیہ نے اپنے مریدین کو تلقین کی کہ وہ ہندووں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے گائے کے ذبیحہ سے اجتناب کریں۔ دیگر مذاہب کے بارے احترام کا یہ رویہ صوفیہ کا آزمودہ دعوتی منہج ہے ،مذہبی تکثیریت پر مبنی ہندوستانی معاشرے میں اس طریقِ دعوت کے گہرے اثرات کا ہم بآسانی مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ہماری رائے میں سر زمین ہند میں صوفیہ نے وحدة الوجود کی تعبیر خاص مصلحت کے تحت اختیار کی تھی اوریہ بھی ایک طرح کا” تبلیغی اجتہاد “ہی تھا جس کے نتیجے ہیں تبلیغ اسلام میں بہت سہولتیں پیدا ہوئیں ۔ ہندو جوگی اور بہت سے ریاضت کرنے والے قدیم ہندو ”ویدانت فلاسفی “ کو ماننے والے جو وحدة الوجود کے قائل تھے وہ اس تعبیر کے نتیجہ میں ہی مسلمان ہوئے۔

مذاہب عالم کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مختلف مذاہب کی شریعتیں اگرچہ مختلف ہوتی ہیں، لیکن حکمت کے کئی اعلیٰ اصول بالعموم تمام مذاہب میں مشترک ہوا کرتے ہیں اور یہ اصول اقوام و ملل کے درمیان فکری اتحاد اور یگانگت کا باعث بنتے ہیں ۔ ایک بالغ نظر داعی ،مدعو قوم کے ان اصولوں کو بھلا کیسے نظر انداز کر سکتا ہے جو باہمی قربت کا باعث بن سکتے ہیں ۔ سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کے ان تمام مظاہر کے باوجودصوفیہ نے اس چیز کا ہمیشہ خیال رکھا کہ مسلمانوں کی مذہبی شناخت پوری طرح برقرار رہے۔لیکن جس طرح کہ اس طرح کے معاملات میں ہمیشہ سے ہوتا آیاہے بعض غیر محتاط صوفیہ، جن کے لئے حضرت مجددؒ نے ”صوفیائے خام “ کی اصطلاح کثرت سے استعمال کی ہے ، نے مذہبی رواداری کی آڑ میں اسلامی اورہندوتصوف میں قائم حد فاصل کو مٹانے کی کوشش کی ۔ ہندوستانی معاشرے میں غیر محتاط صوفیہ نے اس طرح کے حالات پیدا کر دیے جس سے مسلمانوں کا تشخص خطرے سے دو چار ہونے لگا اور یہ خدشہ حقیقت کا روپ دھارتا ہوا نظر آ رہا تھا کہ جس طرح دیگر کئی مذاہب ہندوستانی معاشرے میں ضم ہو کر اپنی شناخت کھو چکے ہیں کہیں مسلمان بھی اپنی مذہبی شناخت سے محروم نہ ہو جائیں ۔ یہی وہ دور ہے جب ہندوستان کے افق پر نقشبندی سلسلے کا ظہور ہوا۔بر صغیر میں مختلف روحانی سلاسل کی آمد کے ادوار کو محض اتفاق کہنا شاید درست نہ ہو بلکہ اس میں قضاءو قدر کی دخل اندازی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے ، اگر آغاز میں ہی برصغیرمیں نقشبندی سلسلے کا ورود ہو جاتا تو شایدہندوستانی معاشرے میں اشاعت ِاسلام کی رفتار کم رہتی۔ نقشبندیہ کا عمومی مزاج تاریخ علوم میں محدثین کے مماثل ہے جبکہ قادریہ ،سہروردیہ اور چشتیہ کا عمومی مزاج فقہاءکے مزاج کے مماثل ہے ۔لیکن جو چیز محسوس کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تکوینی نظام کے مطابق اشاعت ِ اسلام کاکام دیگر سلاسل سے لیا اوراسلامیان ِ ہند کے اسلامی تشخص کے تحفظ کا کام اس روحانی سلسلے سے لیا جو تاریخ میں مجددی نقشبندی سلسلے کے نام سے معروف ہے۔

ان سطور میں ہمارے پیش ِ نظر صرف یہ بتانا ہے کہ اگرچہ بر صغیر میں فروغ ِ اسلام میں عرب تاجروں،مجاہدین اسلام اور مسلم حکمرانوں کی خدمات بھی قابل ِ قدر ہیں ،لیکن ہندوستان میں اسلام کی جڑیں پاتال تک پہنچانے کا بنیادی کردار صوفیہ کرام نے ہی انجام دیا ۔ لیکن اس وقت صوفیہ کرام اور خانقاہی نظام کے نام پر جو جعل سازی ہو رہی ہے وہ انتہائی قابل ِ افسوس ہے ۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ اہل ِ تصو ّف کی کتب میں تصو ّف اور ہے ،جبکہ مروجہ تصوف کی شکلیں اس سے بالکل ہٹ کر اور الگ ہیں ۔کوئی صوفی اور پیر جاہل نہیں ہو سکتا ،اور ناہی کسی ایسی خانقاہ کا تصور بھی کیا سکتا ہے جس کے ساتھ مسجد ،مدرسہ اور تزکیہ نفس کا مستقل حلقہ موجود نہ ہو ۔علماءکرام پر لازم ہے کہ وہ مروجہ تصوف پر قرآن و سنّت کی روشنی میں کھل کر تنقید کریں ۔ یہ جان لینا ضروری ہے کہ جاہل صوفیہ اور ان کے پھلائے گئے غلط تصو ّرات پر علمی تنقید کے بغیر اسلامی تصو ّف کا دِفاع ممکن نہیں ہے ۔ آج سے ایک ڈیڑھ صدی قبل یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتاتھا کہ کوئی شخص کسی صوفی سلسلے سے وابستگی کے بغیر دین کی حقیقت سے آشنا بھی ہو سکتا ہے ، لیکن پھر جعل سازی نے خانقاہی نظام کے مقدس ادارے کو بری طرح متاثر کیا، جس کی ذمہ داری جعلی صوفیہ اور سجادہ نشین حضرات پر عائد ہوتی ہے ۔علماءکرام پر لازم ہے کہ وہ صوفیہ کرام کی خدمات،اسلوب ِ دعوت اور میدان ِ دعوت میں ان کے اجتہادات پر پوری بصیرت سے غوروفکر کریں ،تمام سلاسل تصوف کے مزاج کو سمجھیں اور ان کی اصل تعلیمات کو اجاگر کریں۔

۴۔ اسلامی جدیدیت اور مابعد جدیدیت :

جدیدیت (Modrenism)اور مابعد جدیدیت(Post Modrenism) اگر چہ مغربی اصطلاحات ہیں لیکن محض تفہیم ِ مطلب کے لئے ہم ان اصلاحات کو مسلمانوں کے عہد ِ زوال میں جنم لینے والی مختلف علمی اور فکری تحریکوں کے تعارف اور تجزیہ کے لئے استعما ل کریں گے۔گذشتہ دو اڑھائی صدیوں میں مسلمانان ِ عالم ،سیاسی ، معاشرتی،معاشی اور علمی واخلاقی سطح پر زوال کا شکار ہیں، فکری انحطاط کے اس دور میں ایسے افراد اور گروہوں نے جنم لیا، جنہوں نے اسلامی نصوص کی تعبیر و تشریح میں بالکل آزادانہ نقطہ نظر اختیار کیا ۔ مغربی فکر و فلسفہ سے ذہنی مرعوبیت کے شکار جن اہل ِ علم نے مغربی اصولوں کی روشنی میں اسلام کی ” تشکیل ِ جدید “کا بیڑا اٹھایا، ان میں سر سید احمد خان ( م ۱۸۹۸ء) اور ان کے رفیق ِ کار مولوی چراغ علی (م ۱۸۹۵ء)، فرقہ اہل ِ قرآن کے بانی مولوی عبداللہ چکڑالوی (م ۱۹۱۴ء)،خواجہ احمد الدین امرتسری(م ۱۹۳۶ء)، حافظ محمد اسلم جیراج پوری (م ۱۹۵۵ء)، علامہ عنایت اللہ المشرقی(م ۱۹۶۴ء)، نیاز فتح پوری (م ۱۹۶۶ء) ، علامہ غلام احمد پرویز (م ۱۹۸۵ء) ،ڈاکٹر فضل الرحمن (م ۱۹۸۸ء)، مولانا جعفر شاہ پھلواری (م ۱۹۸۸ء)،علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی (م ۱۹۹۱ء) اور عمر احمد عثمانی(م ۱۹۹۶ ء) وغیرہ اسلام میں جدیدیت کے حوالے سے خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں ۔عالم ِ عرب میں ڈاکٹر احمد امین مصری (م ۱۹۵۴ء) محمود ابوریّہ اور جامعہ ازہر کے استاذ شیخ محمد شلتوت بھی اسی گروہ میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔

ما بعدجدیدیت کی اصطلاح کے ذیل میں علامہ شبلی نعمانی (م ۱۹۱۴ء) ،علامہ حمید الدین فراہیؒ(م ۱۹۳٠ء) اور مولانا امین احسن اصلاحی (م ۱۹۹۷ء) قابل ِ ذکر ہیں۔ دور ِ حاضر میں محترم جاوید احمد غامدی اس مکتب ِ فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں ، جبکہ بعض اہل ِ علم نامور محقق اور دانشور جناب ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر کو بھی فراہی مکتب ِ فکر کا نمائندہ خیال کرتے ہیں ۔ بہرحال یہ وہ لوگ ہیں جو روایت پسند اور جدیدیت پسندطبقے میں پل کا کردار ادا کررہے ہیں اوربے چارے پل کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی طرف بھی شمار نہیں ہو پاتا،اور اس کا تعارف بھی بالآخر ایک مستقل گروہ کے طور پر ہی کیا جانے لگتا ہے ۔اس کے علاوہ مسلم معاشروں کے اندر کئی ایسے اہل ِ علم اور تحریکوں نے بھی جنم لیا ، جنہوں نے روایت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے تئیں عصری تناظر میں اسلام کی تعبیر و تشریح کا بیڑا اٹھایا ۔ عالم ِ عرب میں اخوان المسلمون کے بانی حسن البناءشہید ؒ اور پاکستان میں جماعت ِاسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰؒ (م ۱۹۷۹ء) نے اسلام کے ہمہ گیر غلبے کے لئے اسلام کی جدید سیاسی تعبیر پیش کی۔ پہلی جنگ ِ عظیم میں ترکوں کی شکست اور خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مغربی استعمارکے رد ِ عمل میں سیاسی تحریکوں کے ساتھ جہادی تحریکوں نے بھی جنم لیا ، رد ِ عمل کی نفسیات لے کر پروان چڑھنے والی جہادی تحریکوں کے پلیٹ فارم سے اسلام کے تصور ِ جہاد کی بعض ایسی تعبیرات بھی سامنے آئیں جن پر راسخ العقیدہ علماءبھی شدید تحفظات رکھتے ہیں، اس حوالے سے القاعدہ اور داعش وغیرہ کے تصور ِ جہاد کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

علماءکرام کے لئے لازم ہے کہ وہ اس نوعیت کی فکری بحثوں سے گہری واقفیت حاصل کریں ، اور فکری کشمکش کے اس ماحول میں اسلام اور اہل ِ اسلام کے حوالے سے جو سوالات اٹھ رہے ہیں ان کو ایڈریس کریں ۔ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ نئی نسل جس ماحول میں پروان چڑھ رہی وہ بے لگام عقل پرستی کا دور ہے ۔ اب وہ دور نہیں ہے کہ جب علماءکرام پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ صرف مسئلہ بتادینا کافی سمجھا جاتا تھا ،بلکہ اب لوگ مسائل کو دلائل کے ساتھ جاننا چاہتے ہیں۔ مزید یہ کہ مغربی تہذیب نے مسیحیت کو چاروں شانے چت کرکے اپنی برتری منوائی ہے اور مذہب کو انسان کی اجتماعی زندگی سے خارج کرکے اس کو انسان کا نجی معاملہ قرار دے دیا ہے ۔آج کا نوجوان مغرب کی ان کامیابیوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ،اور ان اسباب سے بھی آگاہ ہے جن کی بدولت ان کو یہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔اس ماحول میں نئی نسل کے سوالات سے صر فِ نظر نہیں کیا جا سکتا ،فتوے سے زبان تو بند کی جاسکتی ہے، لیکن ذہن کو سوچنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ جدید ذہن میں مذہب کے بارے جو شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں، ان کاجواب اس پس منظر کو جانے بغیر ممکن نہیں ہے جس میں ان سوالات نے جنم لیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ مغربی فکر و فلسفہ کے عالم گیر غلبے کے بعد خود مذہب کے حوالے جن نئے سوالات نے جنم لیا ہے ان کا کوئی جواب مدارس کے روایتی نصاب کی بنیاد پر دینامشکل ہورہا ہے ۔اہل ِ مذہب نے مذہب سے متعلق اٹھنے والے سوالات سے چشم پوشی کا جو رویہ اختیار کر رکھا ہے اس سے یہ تاثر پیدا ہورہاہے کہ مذہب کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب سرے سے موجود ہی نہیں ۔ اس رویے کے بعض نتائج و اثرات ہم اپنی انکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ نئی نسل تیزی کے ساتھ تہذیبی ارتداد کا شکار ہو رہی ہے ۔ حال یہ ہے کہ مسلم معاشروں کے اندر ایک طبقہ تو وہ ہے جو غیرعلانیہ طور پر مذہب سے دستبرداری اختیار کرچکا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ مذہب کا اب انسانی زندگی میں کوئی کردار باقی نہیں رہا ،جبکہ دوسرا طبقہ اپنے آپ کو ان اہل ِ تجدد سے وابستہ کر رہا ہے جو ان کے سوالات کو ایڈریس کرتا ہے اور وہ ان کو مطمئن کرنے میں کوشاں ہے۔ علماءکرام پر لازم ہے کہ وہ مذہب کو درپیش ان چیلنجز کا ادراک کریں اور فتوے کی زبان میں بات کرنے کی بجائے عقلی اور فطری دلائل کے ساتھ مذہب کی ضرورت و اہمیت کو ثابت کریں۔ اہل ِ تجدد میں سے جن افراد یا جماعتوں سے جو علمی اور فکری غلطیاں ہوئی ہیں، فتویٰ بازی کے بجائے ان کا علمی اور فکری محاذ پر تعاقب ضروری ہے، بصورت ِ دیگر نئی نسل کو فکری پراگندگی اور تہذیبی ارتداد سے بچانا ممکن نہیں ہو گا۔


دعوت ِ دین میں درپیش شخصی چیلنجز

۱۔ عزت و احترام کی بحالی :

علماءکرام ہر دور میں معاشرے کا ایک معزز طبقہ شمار ہوتے رہے ہےں ،لیکن اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ علماءکرام اپنا مقام تیزی سے کھورہے ہیں۔ایک وقت وہ تھا جب مولوی ،مولانا اور علامہ جیسے الفاظ باعث ِ عزت سمجھے جاتے تھے ،اور کسی شخص کے نام کے ساتھ ان القابات کا لکھا جانا اس کے علمی اور سماجی قد کاٹھ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مولانا ظفر علی خان، مو لانا الطاف حسین حالی،بابائے اردومولوی عبد الحق اور تحریک ِ خلافت کے روح ِ رواں علی برادران سمیت بیسیوں اہل ِ علم کے ناموں کے ساتھ ان القابات کا بولا جانا ان الفاظ کی حرمت و تقدس کی دلیل ہے، لیکن اب یہ الفاظ اپنی قدر و قیمت کھو چکے ہیں۔ مدارس ِ دینیہ کے فضلاءبھی اب مولوی کہلوانا پسند نہیں کرتے ۔یہ بات بھی کم تشویشناک نہیں کہ سوسائٹی کے مقتدر طبقات مسجد ، مدرسے اور دین سے اپنی محبت اور وابستگی کا اظہار تو ضرور کرتے ہیں اور دینی مقاصد کے لئے رقم بھی خرچ کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کودین کی راہ میں دینے سے ہچکچاتے ہیں ۔ اس وقت دینی مدارس میں پڑھنے والے زیادہ تر طلبہ کا تعلق ایسے غریب گھرانوں سے ہے جو ان کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں یا پھر ایسے خاندانوں سے ہے جو پہلے سے اپنی الگ اور مستقل مذہبی شناخت رکھتے ہیں ۔اس صورت ِ حال میں سیاسی گھرانوں کی طرح مذہبی گھرانوں اور ایسے سجادہ نشینوں کا طبقہ وجود میں آچکا ہے جن کا مقصد مذہب کے نام پر عوام الناس کا استیصال ہے ، کسی ذاتی صلاحیت کی بجائے محراب ومنبر کا وراثت میں منتقل ہونا اور ایک ہی خانقاہ پر سجادہ نشینوں کی فوج ظفر موج کا معرضِ وجودمیں آناایک ایسی خوف ناک حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔یہ ایک بڑی وجہ ہے جس نے دینی قیادت کو بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔ بقو ل اقبال

میراث میں آئی ہے انھیں مسند ِ ارشاد
زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن

دعوت ِ دین کو خاندانی پیشے اور کاروبار کے طور پر اختیار کرنے کا نتیجہ اور ردِ عمل بھی عوامی سطح پر دیکھا جا سکتا ہے کہ معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ حق پرست علماءکرام کو بھی”کاروباری“ سمجھنے لگا ہے۔

علما ءکرام اور داعیان ِ اسلام کا وہ طبقہ جنہوں نے اس میدان کو ایک مشن کے طور پر اختیار کیا ہے ان کے مسائل البتہ دوسرے ہیں۔ اپنی نیک نیتی اور اخلاص کے باوجود ایسے علماءکا دائرہ اثر بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے ۔ اس صورت ِ حال کے اسباب بالکل ظاہر ہیں ، ہماری رائے میں اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اس وقت عمومی طور پر اسلام کی جو تبلیغ ہو رہی ہے اس کے غالب حصے کا تعلق شمائل و فضائل اور ہمارے مرنے کے بعد کے معاملات سے ہے ، جس سے یہ تاثر بن رہا ہے کہ دین محض جینے مرنے کے چند رسوم و آداب پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے اور بس،ہماری دنیوی زندگی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علما ءکرام کو عام طور پر صرف مرحومین کو بخشوانے کے لئے ہی زحمت دی جاتی ہے ۔ہمارے خیال میں اس کا دوسرا سبب قرآن و سنّت کا تقلیدی مطالعہ ہے ، سنجیدہ فکر علماءکرام بھی اکابر کی فقہی آراءاور کلامی تعبیرات کو عملاً منزل من اللہ کے درجے میں ہی شمار کرتے ہیں اوربراہ ِ راست قرآن و سنّت کا مطالعہ کرنے کی بجائے اکابرین کی اجتہادی آراءکی روشنی میں قرآن و سنّت کا مطالعہ کرتے ہیں۔علماءکرام کا یہ انداز ِ فکر اس وجہ سے قابل ِ اصلاح ہے کیونکہ قرآن و سنّت پر براہ ِ راست اور تواتر کے ساتھ غوروفکر کے نتیجے میں جو بصیرت پیدا ہوتی ہے انسان اس سے محروم ہو جاتا ہے۔

ہماری رائے میں علماءکرام کی اثرپذیری میں کمی کا سبب یہ بھی ہے کہ اسلام کا بہت گہرا اور برا ہ ِ راست تعلق ہماری معاشی ،سیاسی،معاشرتی اور اخلاقی زندگی سے ہے ،لیکن علماءکرام کی ایک بڑی تعداد جیتے جاگتے اور معاشرے کے زندہ موضوعات(Current issues) پر عصری تناظر پر گفتگو کرنے سے قاصر ہے ۔ ہماری رائے میں اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس وقت جدید تعلیمی اداروں سے جو نسل تیار ہوکر نکل رہی ہے ان کی سوشل سائنسز پر تو نظر ہے لیکن ان کا دینی علم انتہائی کمزور ہے اور دوسری طرف جو نسل روایتی دینی اداروں سے فارغ التحصیل ہو رہی ہیں ان کا حالات حاضرہ ،جدید معاشی ،سیاسی اور عمرانی علوم سے تعارف نہ ہونے کے برابر ہے،عالمی قانون ،عرف،رسم ورواج اور مغربی فکر وفلسفہ توان کے لئے قطعاً اجنبی چیزیں ہیں ۔ ملک میں پڑھے لکھے طبقے کی دو مستقل جماعتیں قائم ہوگئیں ہیں،ایک طبقہ دوسرے پر فسق والحاد اور بے دینی کا الزام عائد کرتاہے، تو دوسرا اس پرتاریک خیالی اور زمانے سے ناواقفیت کی پھبتیاں کستا ہے۔مسڑاور ملا  کے طنزیہ ناموں سے قائم ان طبقوں میں کشمکش مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس ِ دینیہ کے نظام و نصاب میں کسی خارجی دباوکے بغیر از خود ایسی تبدیلیوں کو بروئے کا ر لایا جائے جس کے نتیجے میں علماءکرام کی ایک ایسی کھیپ تیار ہو جو عصری موضوعات پر علمی انداز میں گفتگو کرسکے ۔ انسانیت نوازی، وسعت علمی اور ذاتی کردار ہی علماءکرام کی عزت و وقار اور معاشرتی کردار کی بحالی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

۲۔ علمی تراث سے واقفیت :

قوموں کے عروج و زوال میں علم اور اخلاق کا کردار بنیادی نوعیت کا رہا ہے ۔اسلام میں پہلی وحی کا آغاز ہی ”اِقرَا“ سے ہوا ۔مسلمانوں کے عروج میں ان کے اخلاق و کردار کے ساتھ علم و تحقیق سے ان کی والہانہ محبت نے اہم کردار ادا کیا ،اور پھر تحقیق و جستجو کے میدان میں تنزلی نے ہی ان کے عروج کو زوال آشنا کیا ۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور کی متمدن تہذیبوں سے بھر پور استفادہ کیا اور ان علوم کا اس انداز میں ”تزکیہ“ کیا کہ مسلمانوں کے ایجاد کردہ علوم و فنون پوری انسانیت کی اجتماعی ترقی کی بنیاد بن گئے ۔ مسلمانوں کی تحقیقات کے نتیجے میں مشرق و مغرب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا،اقوامِ ِ عالم بالخصوص مغرب نے علمی میدان میں مسلمانوں سے خوب اخذ و استفادہ کیا ۔ ہلاکو خان کے حملہ بغداد ۱۲۵۸ء  تک مسلم فکر میں زبردست ارتقاءنظر آتاہے ۔بغداد کی تباہی سے نہ صرف مسلمانوں کی صدیوں کی علمی ترقی اور ذہنی ریاضت دریا برد ہوگئی بلکہ کئی نامور علماءبھی تاتاری تلوار کی نذرہوگئے ،اور ۱۴۹۲ء  میں سقوط غرناطہ کے بعد مسلم فکر کے تقریباً تمام علمی سر چشمے خشک ہوگئے۔ مسلمان علمی میدان میں اجتہاد کے بجائے تقلید کا شکار ہو گئے اور علمی روایت آہستہ آہستہ مکمل طورپر مغر ب کی طرف منتقل ہوگئی۔ اگر چہ ان دو بڑے حادثات کے بعد بھی مسلمانوں کو سیاسی عروج حاصل رہا،لیکن فکری اور علمی اعتبار سے یہی مسلمانوں کادورِ انحطاط ہے۔

درس نظامی کے روایتی نصاب پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مدارس ِ دینیہ کے نصاب میں شامل اکثر کتب اور علوم وفنون اسی دور زوال کی یاد گار ہیںجب مسلمانوں کا علمی انحطاط شروع ہوچکاتھا اور مسلم فکر پر جمود کے سائے پڑنا شروع ہوگئے تھے ۔جب کہنے کو کچھ باقی نہ رہا تو غیر منقوط کتب نویسی ہی کمال ِ فن قرار پایا، نئے علوم وفنون اور زندہ موضوعات پر غور وفکر کی بجائے ایسی کتابیں منصہ شہود پر آنے لگیں ،جن میں اختصار نویسی ، لفظی بحثوں اور لفظی موشگافیوں کو ہی کمال فن سمجھا جانے لگا۔بڑا کمال یہی سمجھا گیا کہ عبارت ایسی دقیق اور غامض ہو جس کے لئے شرح وحاشیہ کی ضرورت ہو ، لطیفہ یہ ہے کہ بعض اصحاب ِ علم نے ذہنی عیاشی کی خاطر انتہائی مختصر کتب تصنیف کیں ۔اور پھر خود ہی ان پر طویل حواشی لکھنے بیٹھ گئے، اور اب ہمارے مدرسین اپنی عمر عزیز کا زیادہ حصہ انہی دقیق عبارتوں کے سمجھنے اور سمجھانے میں گزار دیتے ہیں۔مصنف کی مراد ،ضمائر کے امکانی مراجع اور عبارت کی اعرابی حالتوں کے ایسے خیالی پلاﺅ پکائے جاتے ہیں کہ بسااوقات ایسی بحثوں میں کئی کئی ہفتے گزر جاتے ہیں اور نتیجہ پھر بھی غیر حتمی ہی رہتاہے۔گویا فن میں مہارت کے بجائے کتاب کی تفہیم حقیقی مقصد بن کر رہ گئی ہے ۔ علم و تحقیق میں زوال کے ساتھ ہی ہماری علمی روایت اور علمی میراث بھی مغرب کی طرف منتقل ہو گئی ۔بقول علامہ اقبال   وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباءکی  دیکھا ان کو جو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سہ پارہ     

عام طور پر درس نظامی کی تکمیل پر فرض کرلیا جاتا ہے کہ علم کی تکمیل ہو گئی ہے ،حالانکہ حقیقت صرف اس قدر ہے کہ درسیات کی تکمیل سے انسان صرف ایک سچا طالب علم بننے کی صلاحیت حاصل کرپاتا ہے۔

علماءکرام کو اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ علم کے جدید وسائل اور ذرائع نے نئی نسل کو بہت باخبر بنا دیا ہے ،جدید عمرانی علوم میں گہری بصیرت کے بغیر اسلا م کی عصری احوال و ظروف میں تبلیغ ممکن نہیں ہے۔طبقہ  علماءمیں موجود”العوام کالا نعام “ کے دقیانوسی تصور کو اب تبدیل کر لینا چاہیے۔ علماءکرام کے لئے ضروری ہے کہ وہ علمی اختلاف ِ رائے کے باوجود متقدمین کے ساتھ ساتھ دور ِ جدید کے نامور علماءاور شخصیات کی فکر کا مطالعہ کریں اور ان کی اہم کتب پڑھ ڈالیں ،نیز مختلف موضوعات مثلاً سوشل سائنسز پر منتخب کتب کا مطالعہ بھی ضروری ہے ۔اس چیلنج سے نبرد آزما ءہونے کے لئےمطالعہ کی کمی،مخصوص ذہنیت کے ساتھ مطالعہ کا ذوق،متشددانہ رویے ، جذباتیت ،سطحیت جیسی منفی اپروچ کی اصلاح ضروری ہے۔

۳۔ معاشی مسائل :

 دنیا میں ایساکوئی مذہب اور نظریہ کامیاب نہیں ہو سکتا جو روح اور بدن میں سے ایک کو ابھارے اور دوسرے کو کچل دے۔ عیسائیت ، ہندو مت ، بدھ مت، اور دیگر مذاہب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ انہوں نے ترک دنیا اور رہبانیت کے تیشے سے انسانی جسم کو صرف اس لیے گھائل کر دیا ہے تاکہ انسانی روح کو بیدار کیا جا سکے۔ لیکن اس غیر طبعی تعلیم اور جان سوزی کے نتیجے میں روح کی شمع بھی گل ہو کر رہ گئی۔ اہل کلیسا نے خانقاہوں میں بسیرا کر لیا، ہندووں او ر بدھوں نے جنگلوں کا رخ کر لیا۔مذاہب عالم میں ا سلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے روح اور جسم ددنوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھا، اور انسان کے پیٹ کے مسائل کو ایک معاشی مسئلے کے طور پر موضوع بنایا ۔مذاہب ِ عالم میں اسلام یہ منفرد سوچ رکھتا ہے کہ اس نے خالصتاً روحانی غلطیوں پر بھی مالی جرمانے کی سزا عائد کی ہے، تاکہ ضرورت مندوں کی داد رسی کے ذریعے خدا کی مرضی حاصل کی جا سکے ۔حکم ہے کہ اگر رمضان کا روزہ ٹوٹ جائے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔قسم ٹوٹنے کی صورت میں تین مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے ۔اپنی بیوی سے ظِہار کی صورت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے ۔حتی کہ قتل جیسے سنگین معاملے میں مقتول کے ورثاءضرورت مند ہوں تو وہ دیت پر صلح کر سکتے ہیں ۔ دیت پر صلح کے امکان کو تسلیم کیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام نے انسان کے معاشی مسائل کے حل کو اتنی اہمیت دی ہے کہ ایک پہلو سے اس کو دین اور ایمان کی مضبوطی کے لےے اساس قرار دیا ہے۔  رسول اللہ ﷺکا یہ فرمان معاشی مسئلے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے:

      کَادَ الفَقرُ اَن یَّکُونَ کُفراً۔ (11)  قریب ہے کہ تنگدستی انسان کو کفر تک پہنچا دے۔

 اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ داعیان ِ اسلام کو ایک طرف تو یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ دین کی دعوت کا کام ایک مشن کے طور پر کریں اور دوسری طرف ضروریاتِ زندگی سے بھی صرف ِ نظر ممکن نہیں ہے ۔تاریخ کے مختلف ادوار میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلم معاشروں میں دین کی دعوت و تبلیغ کو عوامی سر پرستی کے ساتھ ریاست کی معاونت بھی حاصل رہی ہے ،لیکن اب کم ازکم برصغیر کی حد تک ریاست علماءکرام کی معاشی ضروریات کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ ان حالات میں مدارس کے مہتمم حضرات سے ہی یہ گزارش کی جاسکتی ہے کہ وہ حالات ِ حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے نصاب ِ تعلیم میں شعوری طور پر ایسی تبدیلیاں بروئے کار لائیں جو باعزت روز گار کی ضمانت بن سکیں ۔آج مارکیٹنگ کا دور ہے اس دور میں علماءکرام کے لئے ایسی ورکشاپس کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے، جو ان کے لئے درست میدانِ عمل (ملازمت ،تدریس، خطابت ، کاروبار ، وغیرہ )کے لئے معاون ہوں۔


مصادرو مراجع

    1.   النحل ،۱۶/۱۲۵

    2. اٰل عمران ،۳/۶۴

    3. احمد بن حنبل ؒ،ابو عبداللہ الشیبانی، الامام (م ۲۴۱ھ)

    4.    ”المسند“ ،حدیث زید بن ثابتؓ،ح:۱۱٠۸،۲۳۸۶ (دار احیاءالتراث العربی،بیروت،۱۹۹۱)

    5. ابو داودؒ ،سلیمان بن الاشعث بن اسحاق السجستانی (م ۲۷۵ھ)،   ” سنن ِابی داود“،کتاب الطلاق،باب من احق بالولد،ح:۲۲۷۷،ص:۲۳٠ (دارالسلام للنشر والتوزیع ،الریاض،۱۹۹۱ء)

    6.  سرخسی ،ابو بکر محمد بن احمد بن ابی سہل ،(م ۴۹٠ھ) ،   ”المبسوط “ کتاب الصلوٰة ،۱/۳۷،(دار المعرفة ،بیروت ،۱۹۷۸ء)

    7.  حمید اللہ ،ڈاکٹر ،(م ۲۰۰۲ء) ،    ”صحیفہ ہمام بن منبہ“ ، ص ۱۹۳،(ناشر رشید اللہ یعقوب ،کلفٹن ،کراچی ،۱۹۹۸ء)

    8. ابن سعد ،ابو عبد اللہ محمد،(م ۴۵۶ھ)،  ”الطبقات الکبری “ذکر بعثة رسول اللّٰہ ﷺ الرسل بکتبہ الی الملوک ، ۱/۲۵۸،(دار صادر ،بیروت،۱۹۸۵ء)

    9. ”المسند“ ،حدیث عبداللہ ابن ِ مسعودؓ،ح:۳۷۵۲،۶۵۴۱)

    10. ”الطبقات الکبری “،وفد تمیم،۱۴۲۱

    11. ”الطبقات الکبری “،ذکر نقش خاتم ِ رسول اللہ ﷺ،۲۳۲۱

    12. خطیب التبریزی، مشکوة المصابیح ،رقم الحدیث ۴۹۷۹


قوموں کی سرکشی پر عذاب الٰہی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سورۃ یوسف کے آخر میں اللہ تعالی ٰ نے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور مختلف اقوام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن کریم میں ماضی کی قوموں کے واقعات کا ذکر اس لیے کیا ہے تاکہ وہ ارباب فہم و دانش کے لیے سبق اور عبرت کا ذریعہ بنیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ گھڑی ہوئی باتیں نہیں بلکہ پہلی آسمانی کتابوں میں بیان کردہ باتوں کی تصدیق اور وضاحت کرتی ہیں۔ اس پس منظر میں ماضی کی دو قوموں کا تذکرہ موجودہ حالات کے تناظر میں مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ ہمیں ان سے سبق حاصل کرنے اور عبرت پکڑنے کا موقع ملے، آمین یا رب العالمین۔

سورۃ الاعراف کی آیت ۱۳۰ تا ۱۳۷ میں آل فرعون کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرمان الٰہی ہے کہ ہم نے پہلے انہیں قحط سالی اور اموال و پیداوار میں کمی کر کے تنبیہ کی تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ مگر ان کا مزاج و نفسیات یہ تھیں کہ اگر انہیں کوئی حسنۃ یعنی اچھی چیز یا بات ملتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارا حق ہے، لیکن اگر سیئۃ یعنی تکلیف اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اسے حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں سے منسوب کر دیتے کہ یہ ان کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ان کی اس کیفیت کا ذکر کر کے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ان کی برکت و نحوست سب اللہ تعالٰی کے کنٹرول میں ہے مگر اکثر لوگ اس کو سمجھتے اور جانتے نہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ انہوں نے حضرت موسٰیؑ سے یہ کہا کہ تم ہمارے سامنے جتنی مرضی نشانیاں پیش کر دو اور ان کے ذریعے ہم پر جادو کر دو (نعوذ باللہ) ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔

اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ان کے اس دوٹوک انکار کے بعد ہم نے (۱) طوفان (۲) ٹڈیاں (۳) جوئیں (۴) مینڈک اور (۵) خون اپنی قدرت کی کھلی نشانیوں کے طور پر مسلط کر دیں۔ مگر پھر بھی وہ اپنے تکبر پر قائم رہے اور وہ مجرم قوم ہی بنے رہے۔ لیکن جب ان پر عذاب واقع ہو گیا تو حضرت موسٰی علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنے رب سے وہ دعا کریں جس کا آپ کے رب نے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے۔ اگر آپ یہ عذاب ہم سے ہٹوا دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور آپ کی قوم بنی اسرائیل کو آزادی بھی دے دیں گے۔ لیکن جب ہم نے ان سے ایک مقررہ وقت تک کے لیے عذاب ہٹا دیا تو وہ اپنے وعدہ سے پھر گئے اور عہد توڑ دیا۔ پھر ہم نے ان سے اس کا انتقام لیا اور انہیں سمندر کی موجوں میں غرق کر کے ان لوگوں کو زمین کا وارث بنا دیا جو اس سے پہلے کمزور سمجھے جاتے تھے اور غلام بنا لیے گئے تھے۔ اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان کے صبر کا بہتر صلہ دیا اور فرعون اور اس کی قوم نے جو کچھ بھی تیاریاں کر رکھی تھیں سب کو غارت کر دیا۔

یہ سورۃ الاعراف کی چند آیات کا مفہوم ہم نے عام فہم انداز میں عرض کیا ہے، اس سے قوموں کے طرزعمل، نفسیات اور ان کی سرکشی و بغاوت کی صورت میں اللہ تعالٰی کے قانون اور سنت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے اور ان سے سبق اور عبرت پکڑی جا سکتی ہے۔

سورۃ بنی اسرائیل آیت ۷۷ میں قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے یہ بھی وضاحت کے ساتھ فرما دیا ہے کہ تم اللہ تعالٰی کی سنت و قانون میں تبدیلی دیکھو گے اور (تحویل) لچک بھی کبھی نہیں پاؤ گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک اللہ تعالٰی کا ضابطہ یہی ہے کہ قوموں کی سرکشی، بغاوت، ظلم اور نا انصافیوں پر پہلے تنبیہ کرتے ہیں مگر جب اس تنبیہ اور سرزنش سے ان کا رویہ تبدیل نہیں ہوتا تو پھر اس سے زیادہ سخت عذاب سے دوچار کر دیتے ہیں جو دائمی ہوتا ہے اور پھر توبہ اور واپسی کے سب دروازے بند ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح اللہ رب العزت نے سورۃ یونس آیت ۹۸ میں ماضی کی متعدد اقوام کی سرکشی اور ان پر نازل ہونے والی تنبیہات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایک قوم کے سوا ساری سرکش قومیں اپنی سرکشی پر قائم رہیں اور عذاب کا شکار ہوئیں۔ البتہ ایک قوم جو بچ گئی جو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم تھی جو موصل کے علاوہ نینوا میں مبعوث ہوئے تھے۔ اس قوم پر جب عذاب کے آثار نمودار ہوئے تو وہ سب کے سب اللہ تعالٰی کے حضور جھک گئے اور توبہ و استغفار کر کے حضرت یونسؑ پر ایمان لے آئے جس پر ان سے وہ وقتی عذاب ٹل گیا، جیسا کہ سورۃ یونس میں فرمان خداوندی ہے کہ ’’ومتعناھم الٰی حین‘‘ ہم نے انہیں ایک وقت تک مہلت دے دی۔

قرآن کریم کے بیان کردہ اس تاریخی پس منظر میں آج پوری دنیا کی عمومی صورتحال کو دیکھا جا سکتا ہے، البتہ امت مسلمہ کی صورتحال کسی حد تک مختلف ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے اللہ تعالٰی کا وعدہ ہے کہ وہ آپؐ کی امت کو مجموعی طور پر پہلی امتوں کی طرح عذاب سے دوچار نہیں کریں گے، لیکن کیا جناب نبی کریمؐ کی دعا اور اس پر اللہ تعالٰی کے وعدے کا مطلب یہ ہے کہ یہ امت ہر قسم کی سزا، عذاب، تنبیہ اور سرزنش سے محفوظ ہو گئی ہے؟ یہ بات توجہ طلب ہے اور اس عمومی مغالطہ سے ہمارا نکلنا ضروری ہے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور اس کی برکت سے امت کو مجموعی طور پر عذاب سے محفوظ رکھنے کا اللہ تعالٰی کی طرف سے وعدہ حدیث مبارکہ میں مذکور ہے، جبکہ مختلف احادیث مبارکہ میں اس امت پر آنے والی مصیبتوں، آزمائشوں اور تنبیہات کا ذکر بھی موجود ہے جن میں سے صرف ایک کا تذکرہ موجودہ صورتحال کا اندازہ کرنے کے لیے شاید کافی ہو۔

مشکٰوۃ المصابیح میں ترمذی شریف کے حوالہ سے حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت منقول ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ جب: (۱) غنیمت کے مال کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جائے گا (۲) امانت کے مال کو غنیمت سمجھ لیا جائے گا (۳) زکٰوۃ کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے گا (۴) دین کے مقصد سے ہٹ کر تعلیم حاصل کی جائے گی (۵) ایک شخص بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرے گا (۶) دوست کو قریب اور باپ کو دور کر دے گا (۷) مسجدوں میں شوروغل بلند ہونے لگے گا (۸) قبیلہ کا سردار اس کا فاسق شخص ہو گا (۹) قوم کا لیڈر سب سے رذیل آدمی ہو گا (۱۰) کسی شخص کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے گی (۱۱) ناچنے والی عورتیں اور گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں گے (۱۲) شرابیں پی جائیں گی (۱۳) امت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں گے۔ تو پھر (۱) سرخ آندھی (۲) زلزلوں (۳) زمین میں دھنسائے جانے (۴) شکلیں بدل جانے (۵) اور پتھروں کے برسنے کے انتظار میں رہنا۔ اور پھر ایسی لگاتار نشانیاں سامنے آئیں گی جیسے کسی ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور اس کے موتی مسلسل گرنے لگ جائیں۔

اللہ تعالٰی ہمیں ان تنبیہات اور ماضی کے واقعات سے سبق حاصل کرنے اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی طرح اجتماعی توبہ و استغفار کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔



عقل و نقل کا تعارض اور تاویل کے لیے امام غزالی کا قانون کلی

محمد زاہد صدیق مغل

امام ابن تیمیہ (رحمہ اللہ  علیہ) اپنی کتاب "درء تعارض" میں امام غزالی (رحمہ اللہ  علیہ) اور  امام رازی (رحمہ اللہ  علیہ) پر اپنے روایتی جارحانہ انداز میں تنقید کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں کہ یہ حضرات آیات قرآنی کی تاویل کے باب میں ایک ایسا عمومی قانون بیان کرگئے ہیں جو زندقہ کا پیش خیمہ اور اہل کتاب کے گمراہ لوگوں جیسا کام ہے۔ اس تحریر کا مقصد امام غزالی کی متعلقہ تحریر اور امام غزالی کے تصور عقل کی روشنی میں یہ دکھانے کی کوشش کرنا ہے کہ یوں لگتا ہے اس معاملے میں علامہ ابن تیمیہ سے دو امور میں سہو نظر ہوگیا ہے: پہلا امام صاحب کی بات کو اس کے خصوصی محل سے ہٹا کر عمومی معنی دے دینا، اور دوسرا امام صاحب کے تصور عقل کو مد نظرنہ  رکھنا۔

نفس مسئلہ کا پس منظر

پہلے یہ جاننا لازم ہے کہ جس قانون کلی کی نسبت علامہ ابن تیمیہ امام غزالی کی طرف کرتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے۔ امام غزالی کے ایک شاگرد ابوبکر ابن عربی امام صاحب سے بذریعہ خط چند مسائل سے متعلق استفسار کرتے ہیں، اس کے جواب میں امام صاحب نے جو خط  ( قریب 12 صفحات پر مشتمل ) لکھا اس تحریر کو "القانون الکلی فی التاویل" کہا جاتا ہے (اس مسودے کو امام صاحب کی زندگی کے بعد "قانون التاویل" کے نام سے چھاپا گیا۔ بعض محققین کے نزدیک اس خط کی نسبت امام صاحب کی طرف مشکوک ہے لیکن کئی محققین کے نزدیک اس کی نسبت درست ہے، فی الوقت اس بحث سے سہو نظر کریں اور دوسری تحقیق کو درست سمجھئے ) ۔ اس خط میں امام غزالی سے چند امور متشابہات سے متعلق سوال کیا جاتا ہے جس کے جواب میں وہ سائل کو کہتے ہیں کہ اس معاملے میں تمہیں ایک قانون کلی بتاؤں گا۔ خط میں امام صاحب سائل کو تین وصیتیں بھی فرماتے ہیں۔ سوالات کی نوعیت کچھ ایسی تھی:

شیطان انسان کی رگوں میں دوڑتا ہے، شیطان آذان کی آواز سن کر بھاگ جاتا ہے، اس قسم کی احادیث کا کیا مفہوم ہے ؟ یہاں شیطان سے مراد پانی (خون) کے اندر پانی کی مانند کوئی شے ہے یا وہ تمام رگوں کے اندر ہوتا ہے؟ کیا شیطان کوئی جسم کی مانند شے ہے؟ انسانی قلب پر شیطان کے وساوس پیدا کرنے کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟  کیا حدیث میں مذکور اس قسم کی باتیں ان باتوں کی طرح ہیں جہاں جن یا فرشتے کا کسی زندہ شے کی صورت میں ظاہر ہوجانا مراد ہوتا ہے؟ کیا وحی میں مذکور جن اور شیطان سے متعلق ایسی باتوں کو فلاسفہ کے خیالات کے ساتھ (بطریق تاویل) مطابقت دی جاسکتی ہے ؟  برزخ سے کیا مراد ہے؟ جنت کے زمین و آسمان سے بڑا ہونے سے کیا مراد ہے؟ وغیرہ غیرہ (سوال تقریبا دو صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں اس نوع کے بہت سے سوالات ہیں)۔

خط کا جواب دینے سے قبل امام غزالی پہلے تو سائل کو اس قسم کے معاملات میں نہ الجھنے کی نصیحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے ایسے سوالات کا جواب دینا نا پسند ہے لیکن چونکہ اس قسم کے سوالات پھر پوچھے جاسکتے ہیں لہذا میں اس معاملے کے لئے ایک قانون کلی بیان کئے دیتا ہوں جو مفید ہوگا۔ پھر نص اور عقل سے متعلق اصولی گفتگو   کرنے کے بعد سائل کے چند سوالات کا جواب دیتے ہیں۔

عقل و نقل سے متعلق پانچ رویے، تین وصیتیں  اور قانون کلی کی نوعیت

اس پس منظر سے صاف واضح ہے کہ امام صاحب کے پیش نظر امور متشابہات سے متعلق ایک عمومی نوعیت کا کلیہ بیان کرنا تھا جو سائل کے لئے اس نوع کے مسائل میں مفید ثابت ہوسکے۔ امام صاحب بتاتے ہیں کہ سطحی غور و فکر کے بعد بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نقل و عقل میں تصادم ہے اور عقل و نقل کے اس تنازع میں لوگ پانچ رویوں میں منقسم ہوگئے:

  1. وہ لوگ جو وحی میں منقول ہر بات جوں کے توں مراد ہونے میں مبالغے کا شکار ہیں (مراد شاید حنابلہ تھے، اگرچہ امام صاحب ان کا نام نہیں لیتے )
  2. وہ لوگ جو عقلی دلائل سے معلوم شدہ امور درست ہونے میں مبالغے کا شکار ہیں  (مراد شاید فلاسفہ تھے)
  3. ان کے مابین وہ لوگ ہیں جو عقل و نقل میں مطابقت کے قائل ہیں۔ یہ تیسری قسم کے لوگ پھر تین انواع میں تقسیم ہیں:

الف) وہ جو عقل کو اصل اور وحی کو ثانوی قرار دیتے ہیں اور وحی پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے ، یہ ہر اس منقول بات کو رد کردیتے ہیں جس کی عقلی توجیہ ان کے نزدیک مشکل ہو

ب) وہ جو وحی کو اصل اور عقل کو ثانوی قرار دیتے ہیں اور عقلی مقدمات پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے،  البتہ یہ لوگ بھی بعض مقامات پر عقلی مقدمات اور نص کے ظاہری معنی میں تصادم کے قائل ہیں

ج) تیسرے وہ جو عقل و نقل دونوں کو علم کی بنیاد سمجھتے ہیں اور دونوں کے مابین تالیف و تلفیق کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں عقل و نقل میں تعارض ممکن نہیں ۔

اس خط میں امام غزالی سائل کو بتانا چاہتے ہیں کہ دراصل یہی ان کا منہج ہے۔ یاد رہے کہ یہ ایک خط ہے جو شاگرد کے جواب میں اس کی اصولی ہدایت کے لئے لکھا گیا اور اس طرح کی تحاریر میں بہت سے امور سائل اور جواب دینے والے کے مابین مفروضے کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ بات کہ امام صاحب اسی آخری رویے کو اپنا منہج کہتے ہیں اس کی تصدیق امام صاحب  کی کتاب "الاقتصاد فی الاعتقاد" کے ابتدائی جملوں ہی سے ہوجاتی ہے جہاں وہ نفس معاملہ کی پردہ کشائی کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ جن صاحب نظر کو اللہ تعالی نے نور ایمانی اور استعداد قرآنی عطا فرمائی ہے وہ جانتے ہیں کہ شرع اور عقل کے مابین تضاد ممکن نہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عقل بغیر شرع کسی کام کی نہیں اور شرع عقل کے بغیر اپنا مدعا پورا کرنے سے قاصر ہے (اس کتاب کا یہ مقدمہ اس حوالے سے پڑھنے لائق ہے، اہل ذوق کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے)۔ چنانچہ یہ واضح ہوگیا کہ امام غزالی اس پانچویں رویے ہی کو اپنا مسلک بتاتے ہیں۔

امام غزالی سائل کو ان پانچ رویوں  کے مابین اختلاف کی بنیاد بیان کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ نص میں مذکور کن الفاظ کے ظاہری معنی مراد لینے کے بجائے ان کی تاویل کرنا ہے، اس اختلاف کی وجہ  ہر گروہ کا تصور " ناممکن  ہے " ،  یعنی  اس کے نزدیک کیا ممکن ہے، کیا ناممکن  ہے اور کیا ممکن اور ناممکن دونوں ہیں (اس خط میں امام غزالی اس بات کی تفصیل بیان نہیں کرتے، اس موضوع کو امام صاحب اپنی کتاب "التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ"  (اسلام اور زندقہ کے مابین حد فاصل کا اصول) میں موضوع بنا کر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں   کہ کسی پر کفر کا فتوی لگانا کب جائز ہے اور کب نہیں)۔

اس کے بعد امام صاحب سائل کو تین وصیتیں کرتے ہیں:

  1. ان امور کو مان کر ان کے معنی میں صبر سے کام لینا چاہئے کیونکہ ان کے حقیقی معنی جان سکنا انسانی عقل کے لئے ممکن نہیں (یہ اصحاب تعطیل کے مدمقابل اشاعرہ کا موقف ہے جس کے مطابق ان امور کو اصولا ، یعنی ان کی کیفیت میں الجھے، مان لینا چاہئے) 
  2. عقلی "برہان" (یہ بھی ایک خاص اصطلاح ہے) کو رد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ غلط نہیں ہوتی۔ عقل نقل کی گواہ ہے (یعنی اس کی تصدیق کرنے والی ہے)، نبی جن امور کی خبر دیتا ہے انسان اس کی "تصدیق" عقل کے ذریعے ہی کرتا۔ اگر عقل کو رد کردیا گیا تو نقل بھی رد ہوجائے گی جس کی تصدیق عقل سے کی جاتی ہے۔ یہ اس خط کی وہ بات ہے جسے علامہ ابن تیمیہ نے "قانون کلی" قرار دے کر اپنی تنقید  کی بنیاد بنایا ہے 
  3. ایسی آیات کی تاویل میں جب ایک سے زیادہ توجیہات کا امکان ہو تو کسی ایک پر اصرار کرنے سے بچنا چاہئے 

امام غزالی کے نظام فکر میں عقل و برہان سے مراد کیا ہے اسے دیکھنے سے قبل ذرا ان تین وصیتوں کی معنویت پر غور کیجئے۔ پہلی وصیت میں امام صاحب سائل کو ان لوگوں کا سا رویہ اختیار کرنے سے روکتے ہیں جنہوں نے ایسے امور کا انکار کردیا ، لہذا صائب رویہ یہ ہے کہ مذکورہ امور کو اصولا مان لینا چاہئے، تیسری وصیت میں ان لوگوں کا سا طرز عمل اختیار کرنے سے منع کیا جو ان امور میں مبالغے سے کام لیتے ہوئے کسی ایک ہی بات کے حق ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور دوسری وصیت میں اس اصولی بات کی نشاندہی کردی کہ نقل  کے ظاہری مفہوم اور عقل (برہان) کے مابین "بظاہر " (یہ لفظ اس لئے کہنا ضروری ہے کیونکہ امام غزالی کے نزدیک عقل و نقل میں حقیقی تضاد ممکن نہیں ہے جیسا  کہ "الاقتصاد" اور خط کے پانچویں رویے میں درج بیانات سے واضح ہے) تصادم کے وقت یہ لازمی نہیں ہوتا کہ نص کی تاویل کرنا باطل ہے بلکہ ایسا کرنا حق  ہے ۔ یوں انہوں نے اشاعرہ کے منہج کو بیان کردیا جو "قانون کلی " بن جاتا ہے۔ درج بالا پانچ رویوں اور وصیتوں کے مابین ترتیب پر غور کرنے سے یہ قانون کلی ابھر کر واضح ہوجاتا ہے:

یہ دراصل سائل کے بیان کردہ امور متشابہ کے بارے میں اشاعرہ کی پوزیشن کا خلاصہ ہے جو امام غزالی کے نزدیک قانون کلی کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ سائل کے سوالات اور جواب کے تناظر میں امام صاحب کی یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کا دائرہ کار کیا ہے اور کیا نہیں۔

عقل و برہان کا معنی اور قانون کلی

اب تک کی گفتگو سے یہ واضح ہوگیا کہ "قانون کلی" کا تعلق  ان امور سے ہے جنہیں "متشابہات" کہا جاتا ہے نیز اس کا اطلاق تب ہوگا جب  نص کے ظاہری مفہوم کے خلاف "قطعی عقلی دلیل" موجود ہو۔  اب اس بات کی طرف آتے ہیں کہ امام غزالی جب یہ کہتے ہیں کہ "اگر عقل کو رد کردیا جائے تو نقل کی بھی تردید ہوگی" تو اس بات میں عقل سے ان کی مراد کیاہے۔ اس خط میں امام غزالی اس کی تفصیل بیان نہیں کرتے البتہ امام صاحب کی دیگر کتب میں عقل پر جو گفتگو موجود ہے اس سے یہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ اس قانون کلی کا دائرہ کار ان کے نزدیک کیا ہے اور کیانہیں ۔ امام غزالی کے تصور عقل پر دو جہات سے گفتگو ممکن ہے ، ایک خالصتا ریشنلسٹ نظام فکر کے اندر رہتے ہوئے اور دوسری اسلامی نظام فکر کی رو سے۔ اس تحریر میں اس تفصیل سے سہو نظر کرتے ہوئے صرف اس پہلو کا خلاصہ پیش کیاجاتا ہے جو زیر بحث مسئلےسے متعلق ہے۔ چنانچہ اس بحث میں امام غزالی کے تصور عقل سے متعلق چار امور قابل غور ہیں : 

  1. عقل نقل کی تصدیق کرتی ہے: "المستصفی" (اصول فقہ پر امام صاحب کی کتاب) کے مقدمے میں امام غزالی عقل کے ذریعے نقل کی تصدیق پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کی ابتداء ہی امام غزالی یہاں سے کرتے ہیں کہ عقل ایسا قاضی اور حاکم ہے جسے اس عہدے سے معزول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قاضی کیا کرتاہے؟ اس کا پہلا کام خدا اور نبی کی تصدیق کرنے کے دلائل فراہم کرنا ہے۔ چنانچہ امام صاحب اس کتاب کے مقدمے میں ان دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن سے ان کے خیال میں عقل خدا کے وجود اور نبی کی صداقت پر مطمئن ہوسکتی ہے۔
  2. عقل نبی کی تعلیمات کی پیروی کرتی ہے: جب ایک مرتبہ عقل نبی کی تصدیق کرلیتی ہے تو اپنے اس عہدے سے معزول ہوجاتی ہے اور خدا، آخرت، حشر و نشر، خیر و شر  وغیرہ سے متعلق نبی جو کچھ کہتا ہے عقل اس کی پیروی کرتی ہے کیونکہ عقل کے پاس انہیں جان سکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں  (جب عقل نبی کی تصدیق کرچکتی ہے تو اس کے بعد امام غزالی کے الفاظ کچھ یوں ہیں: عند ھذا ینقطع کلام المتکلم وینتھی تصرف العقل بل العقل یدل علی صدق النبی ثم یعزل نفسہ ویعترف بانہ یتلقی من النبی بالقبول ما یقول فی اللہ والیوم الآخر ولایقضی باستحالتہ)۔  یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہئے کہ حسن و قبح کے معاملے میں امام غزالی اشعری ہیں اور اہل علم جانتے ہیں کہ معاملات شرع میں صرف یہی ایک بات حاکمیت عقل کے دائرے کو کس قدر محدود کردینے والی ہے۔
  3. علم قطعی کا انکار لازم نہ آنے پر نص کی تاویل نہیں کی جائے گی: اسی مقدمے میں امام صاحب "علم ضروری" پر بھی گفتگو کرتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ عقل چند تصورات اور معلومات کے بدیہی ہونے کا حکم لگاتی ہے اور ان کی نفی نہیں کرسکتی۔ اس مسئلے پر کچھ گفتگو اپنی تحریر "امام غزالی، سلسلہ اسباب اور امکان معجزہ" کی بحث میں کرنے کا ارادہ ہے(یہ ان شاء اللہ عنقریب چھپ کر آجائے گی)۔ خلاصہ یہ کہ علم ضروری سے مراد وہ لازمی عقلی مقدمات ہیں جنہیں رد کرنا عقل کے لئے ممکن نہیں ، اگر عقل کے ان مقدمات (جنہیں امام صاحب "برہان" کہتے ہیں) کی نفی کردی جائے تو وحی کی تصدیق بھی ناممکن ہوجائے گی۔ امام غزالی ریشنلسٹ پیراڈئیم کے اندر رہتے ہوئے عقل کے دائرہ کار پر گفتگو کرتے ہیں، یعنی وہ کم از کم مقدمات (necessary knowledge) جن پر شک ممکن نہ ہو مثلا جمع بین الضدین ، دو کا ایک سے بڑا ہونا وغیرہ(اس necessary knowledge کی قطیعت کاانکار علامہ ابن تیمیہ بھی نہیں کرتے)۔ المستصفی کے مقدمے میں امام صاحب ان میں سے دو کا ذکر کرتے ہیں: ایک law of identity اور دوسرا laws of implications  ۔ یہ بات کہ امام غزالی عقل و نقل میں تعارض کی بحث میں عقل سے یہی بات مراد لیتے ہیں، یہ بات تہافت الفلاسفہ کے سترہویں باب میں سلسلہ اسباب کی روشنی میں فلاسفہ پر ان کی طرف سے کی جانے والی تنقید سے واضح ہوجاتی ہے جہاں وہ نصوص میں بیان شدہ معجزات کو جوں کےتوں ماننے پر اسی بنا پر اصرار کرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی "برہان" (قطعی دلیل) موجود نہیں۔ اسی طرح امام غزالی نے فلاسفہ پر جن تین  وجوہ کی بنا پر زندقہ و تکفیر کا فتوی جاری کیا ان میں سے ایک یہ تھی کہ یہ لوگ قیامت والے روز اجسام کے دوبارہ اٹھا لئے جانے کا انکار کرتے ہیں جبکہ یہ سب کچھ نصوں میں صراحتا مذکور ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اسی ضمن میں وہ یہ اہم بات بھی بتاتے ہیں کہ کس بات کا اثبات انسانی عقل کے لئے معجزتا بھی ناممکن ہے (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ معجزہ محال عقلی کے اثبات کا  نہیں بلکہ خلاف عادت واقع اور خبر  کی تصدیق کا نام ہے)۔ ان دو باتوں کا معنی کیا ہے؟ یہ کہ نص میں مذکور ایسی بات کی تصدیق کی جائے گی جس کے خلاف "برہان" (indubitable evidence) موجود نہ ہو، یعنی جو "علم ضروری" سے نہ ٹکراتی ہو۔
  4. علم قطعی سے ٹکراؤ کی صورت میں نص کی تاویل کی جائے گی: اگر نص کا ظاہری مفہوم قطعیات عقلیہ سے ٹکراتا ہوا محسوس ہو تو اس  صورت میں نص کی تاویل کی جائے گی، بصورت دیگر "عقل" (قطعیات و بدیہیات) کا انکارلازم آئے گا اور اگر قطعیات عقل ہی کا انکار کردیا گیا تو پھر نص کی کسی بھی بات کی تصدیق نہ ہوسکے گی کیونکہ عقل انہی قطعیات  کی روشنی میں سفر طے کرکے نقل کی تصدیق کرنے لائق ہوتی ہے۔ عقل و نقل میں ایسے تعارض کے امکان نیز اس صورت میں یقینی عقلی استدلال کو نص کے ظنی معنی پر ترجیح دینے کے علامہ ابن تیمیہ بھی قائل ہیں جو اسی قانون کلی کو دوسرے طریقے سے بیان کرنے کا انداز ہے۔ علامہ ابن تیمیہ "درء تعارض" میں کہتے ہیں کہ نفس مسئلہ کو عقل و نقل کے مابین تعارض کے زاویہ نگاہ سے دیکھنا درست نہیں ، اس کے بجائے معاملے کو یوں دیکھنا چاہئے کہ عقل و نقل میں سے ہر دو کی دلیل یقینی یا ظنی ہونے کا امکان ہے۔ تو اس اعتبار سے چار صورتیں بنتی ہیں: (1) منقول دلیل یقینی ہو اور عقلی بات بھی یقینی ، علامہ صاحب کے نزدیک ایسا ہوسکنا محال ہے  کیونکہ قطعیات نقلیہ اور عقلیہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں اور ان میں تعارض ناممکن ہے، (2)  منقول دلیل یقینی ہو اور عقلی ظنی، اس صورت میں یقینی بات یعنی منقول کو ترجیح دی جائے گی، (3) منقول دلیل ظنی ہو اور عقلی دلیل یقینی، اس صورت میں بھی یقینی یعنی عقلی دلیل کو ترجیح دی جائے گی (4) دونوں ظنی ہوں تو پھر توقف کیا جائے گا یہاں تک کہ غور فکر کے نتیجے میں کسی ایک کو اختیار کرنے کی وجہ ترجیح سامنے آجائے۔ چنانچہ علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک معاملے کو نص بمقابلہ عقل کے بجائے یقین بمقابلہ ظن  کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور فوقیت یقین کی کیفیت کو ظن پر حاصل ہوتی ہے۔

تو یہ قانون کلی سے متعلق امام غزالی کے کلام کا مفہوم ہے، اگر اس میں کوئی سقم رہ گیا تو میری کوتاہ نظری کا نتیجہ ہے اور اگر یہ ان کی مراد کے مطابق ہے تو اللہ کا فضل ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالی روز قیامت اس کے صدقے امام غزالی سے محبت کرنے والوں میں شمار کردے۔ رہ گئی یہ بات کہ اس سب پر علامہ ابن تیمیہ کو اعتراض کیا تھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہ ایک الگ قسم کا مابعد الطبعیاتی، علمیاتی اور لسانیاتی تناظر قائم کرکے اشاعرہ اور اصول فقہ پر تنقید کرتے ہیں جس کا مقصد حنبلی نظام فکر کو عقلی بنیادیں فراہم کرنا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے اپنے مخصوص نظام فکر کے اندر رہتے ہوئے ان کی بہت سی تنقیدات بامعنی معلوم ہوتی ہیں۔ اگر زندگی نے یارانہ کیا تو اس حوالے سے علامہ صاحب کے اعتراض کی اصل بنیادوں اور ان سے جنم لینے والے مسائل کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

وما توفیقی الا باللہ۔

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۶)

محمد عمار خان ناصر

قرآن کی روشنی میں احادیث کی توجیہ وتعبیر

قرآن کے ساتھ احادیث کے تعلق کو متعین کرنے کا دوسرا طریقہ جو غامدی صاحب کے علمی منہج میں اختیار کیا گیا ہے، یہ ہے کہ روایات کو ان کے ظاہری مفہوم یا عموم پر محمول کرنے کے بجائے ان کی مراد ان تخصیصات کے ساتھ متعین کی جائے جو انھیں قرآن میں ان کی اصل کے ساتھ متعلق کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔اس اصول کی وضاحت میں وہ لکھتے ہیں:

”دوسری چیز یہ ہے کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے۔ دین میں قرآن کا جو مقام ہے، وہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیثیت نبوت ورسالت میں جو کچھ کیا، اس کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ بھی قرآن ہی ہے۔ لہٰذا حدیث کے بیش تر مضامین کا تعلق اس سے وہی ہے جو کسی چیزکی فرع کا اس کی اصل سے اور شرح کا متن سے ہوتا ہے۔ اصل اور متن کو دیکھے بغیر اس کی شرح اور فرع کو سمجھنا، ظاہر ہے کہ کسی طرح ممکن نہیں ہوتا۔ حدیث کو سمجھنے میں جو غلطیاں اب تک ہوئی ہیں، ان کا اگر دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت صاف واضح ہو جاتی ہے۔ عہد رسالت میں رجم کے واقعات، کعب بن اشرف کا قتل، عذاب قبر اور شفاعت کی روایتیں، ’امرت ان اقاتل الناس‘ اور ’من بدل دینہ فاقتلوہ‘ جیسے احکام اسی لیے الجھنوں کا باعث بن گئے کہ انھیں قرآن میں ان کی اصل سے متعلق کر کے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ حدیث کے فہم میں اس اصول کو ملحوظ رکھا جائے تو اس کی بیش تر الجھنیں بالکل صاف ہو جاتی ہیں۔“ (میزان، ص 64)

اس اصول کی روشنی میں غامدی صاحب نے بہت سی احادیث کی توجیہ وتعبیر مستقل بالذات احکام کے طور پر کرنے کے بجائے قرآن مجید کی روشنی میں کی ہے اور نتیجتاً انھیں ظاہری اطلاق اور عموم پر محمول کرنے کے بجائے ان کا ایک مخصوص اور محدود دائرہ اطلاق متعین کیا ہے جو قرآن میں ان کی اصل سے ہم آہنگ ہے۔ مذکورہ اقتباس میں انھوں نے اس کی چند مثالوں کی طرف اشارہ کیا ہے، جبکہ بہت سی دوسری احادیث کی تعبیر بھی غامدی صاحب نے اسی اصول کے تحت کی ہے جن کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنا ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے مناسب ہوگا۔

۱۔ احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، قیامت کے دن اپنے امتیوں کے حق میں شفاعت کرنے کا ذکر کثرت سے ہوا ہے۔ غامدی صاحب اس کو قرآن مجید کی متعدد آیا ت کی روشنی میں، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو، گناہ کے بعد توبہ کرنے والوں کے حق میں استغفار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے (النساء۶۴:۴، المنافقون ۵:۶۳) اس شرط کے ساتھ مشروط کرتے ہیں کہ ”بندے کی طرف سے توبہ واستغفار کے بغیر اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔“ (میزان، ص ۱۵٠) نیز یہ کہ سورة النساءکی آیت ۱۸-۱۷ کی رو سے اللہ تعالیٰ پر صرف انھی لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا حق قائم ہوتا ہے جو گناہ کے بعد فوراً نادم ہو کر توبہ کی طرف لپکتے ہیں، جبکہ جو لوگ زندگی بھر گناہوں میں ڈوبے رہتے ہیں اور صرف موت کے وقت انھیں توبہ یاد آتی ہے، ان کی توبہ کا اللہ کے نزدیک کوئی اعتبار نہیں۔ غامدی صاحب اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ جو لوگ گناہ کے بعد فوراً توبہ تو نہیں کرتے، لیکن اتنی دیر بھی نہیں کرتے کہ موت کا وقت آپہنچے، ”یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں شفاعت کی توقع ہو سکتی ہے۔“ (میزان، ص ۱۵۱) غامدی صاحب کے نزدیک، قرآن مجید سے شفاعت کی تحدیدات اور شرائط واضح ہو جانے کے بعد ”اس سلسلہ کی روایتوں کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے اور اس سے کوئی چیز متجاوز نظر آئے تو اسے راویوں کے تصرفات سمجھ کر نظرانداز کر دینا چاہیے۔“ (میزان، ص ۱۵۳)

۲۔ متعدد احادیث میں یہ بات نقل ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روزہ، صدقہ اور حج جیسے اعمال کے متعلق یہ سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنے والد یا والدہ کی معذوری کی حالت میں یا ان کی وفات کے بعد ان کی طرف سے انھیں ادا کرنا چاہے تو کیا وہ ان کی طرف سے ادا متصور کیے جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب اثبات میں دیا اور فرمایا کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی پر واجب الادا قرض اس کی طرف سے ادا کر دیا جائے۔  فقہاء، بعض جزوی اختلافات کے ساتھ، ان روایات سے ایصال ثواب کا ایک عمومی حکم اخذ کرتے ہیں جس کی رو سے کوئی بھی آدمی اپنے نیک اعمال کا اجر کسی مرنے والے کو ہدیہ بھیج سکتا ہے۔

غامدی صاحب ان احادیث سے ایصال ثواب کا عمومی تصور مستنبط کرنے کو درست نہیں سمجھتے، بلکہ ان کی تعبیر قرآن مجید کے بیان کردہ اس اصولی ضابطے کی روشنی میں کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنے عمل کا خود ہی ذمہ دار ہے اور اسے اجر بھی اسی عمل کا مل سکتا ہے جس میں اس کی اپنی سعی شامل ہو۔ (النجم ۵۳: ۴۱-۳۸) مزید یہ کہ انسان کے عمل میں جو چیز اسے دراصل اجر کا مستحق بناتی ہے، وہ عمل کی ظاہری صورت نہیں، بلکہ دل کا تقویٰ ہے (الحج ۳۷:۲۲) جو قابل انتقال نہیں ہے۔ اس لیے ”دوسروں کی نیکی یا بدی سے آدمی کو خدا کے ہاں کسی فائدے یا نقصان کے پہنچنے کی ایک ہی شکل باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس کی نیت، ارادے، اور سعی وجہد کو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس نیکی یا بدی میں دخل ہو۔“ (مقامات، ص ۲۶۶) غامدی صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض افراد کو اپنے والدین کی طرف سے حج کرنے یا روزہ رکھنے کی جو اجازت دی، وہ بھی اسی اصول پر تھی، کی