2019

جنوری ۲۰۱۹ء

غیر سازی (Otherization) کے رویے اور دیوبندی روایتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۹)ڈاکٹر محی الدین غازی
’’ترجمان القرآن‘‘ : چند نمایاں خصوصیاتمولانا وقار احمد
افغان طالبان کے ساتھ مذاکراتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا سید محمد میاں دیوبندی، عظیم مورخ اور مفکرمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱)محمد عمار خان ناصر
توہینِ رسالت کی سزا اور مولانا مودودی کا موقفمراد علوی
مولانا ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی کی تصنیف ’’تخلیق عالم‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

غیر سازی (Otherization) کے رویے اور دیوبندی روایت

محمد عمار خان ناصر

کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک مختصر تبصرے میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ بقا وارتقا اور تنازع للبقاء کی حرکیات کے بغور مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ برصغیر کی مذہبی فکر کے افق پر مستقبل دیدہ کی حد تک قائدانہ کردار دیوبندی طبقے کا ہی ہے۔ یہ بات پیروکاروں کی تعداد میں اضافے یا معاشرتی سطح پر وجود ونفوذ کے دیگر مظاہر کے حوالے سے نہیں، بلکہ مذہبی فکر کی سطح پر مرجعیت اور عمومی اعتماد کے حوالے سے عرض کی گئی تھی  جو کسی طبقے کو سوسائٹی میں علی العموم حاصل ہوتا ہے اور اس کے مخالف اور حریف طبقوں کے لیے بھی عملاً‌ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس پہلو سے دیوبندی فکر کی تاریخ ایک تفصیلی تجزیے کی متقاضی  ہے، تاہم اختصاراً‌ یہ چند نمایاں خصوصیات ہیں جو اس طبقے کو زیر بحث خصوصی کردار کا اہل بناتی ہیں:
۱۔ روایت کے ساتھ گہری وابستگی، علمی وتدریسی سطح پر تراث کے ساتھ زندہ تعلق، اور روایت کے معروف متخالف رجحانات کے حوالے سے حتی الامکان تطبیق اور شمولیت (inclusivity) کا رویہ۔
۲۔ بڑے کینوس پر زمانی اور فکری تبدیلیوں کا شعور اور طرز فکر، اسلوب استدلال اور حکمت عملی میں لچک کی صلاحیت، یعنی adaptability ۔
۳۔ مذہبی شعور کی مختلف سطحوں (عقلی، روحانی، رسمی وتقلیدی) اور تنوعات کو سمجھنے اور انھیں مخاطب بنانے کی صلاحیت اور کسی ایک خاص رجحان کو مزاج یا شناخت کا بنیادی اور مطلق عنصر بنانے سے اجتناب۔
۴۔ اپنے مخصوص علمی حلقے سے باہر ہونے والی علمی وفکری کاوشوں سے خاموش اور بھرپور استفادہ کرنے اور مفید اور قابل قبول علمی دریافتوں کو اپنے نظام فکر میں سمو لینے کی صلاحیت۔
۵۔ فکری وعملی صلاحیتوں میں میدان کی ضرورتوں کے لحاظ سے تنوع پیدا  کرنے اور ایسی تقسیم کار پیدا کرنے کی صلاحیت جس سے مختلف دائروں کے مختلف اور بعض اوقات متضاد تقاضوں کو بیک وقت نبھایا جا سکے۔
۶۔ حریف طبقات کے ساتھ تعامل کی ایسی حکمت عملی اپنانے کی صلاحیت جس سے ایک طرف اپنے امتیازی تشخص کی حفاظت اور دوسری طرف اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے تقاضے بیک وقت پورے کیے جا سکیں۔
یہ خصوصیات ظاہر ہے کہ بحیثیت مجموعی پورے طبقے کے طرز فکر کو سامنے رکھ کر شمار کی گئی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر ہر سطح پر اور طبقے سے واہستہ ہر ہر گروہ میں ان میں سے ہر خصوصیت یکساں پائی جاتی ہو۔ متضاد رویے اور انداز فکر یقینا موجود ہیں، لیکن جب یہ ایک دوسرے کو cancel out کرتے ہیں تو نتیجے کے لحاظ سے مذکورہ خصوصیات کو بلاشبہ پورے طبقے کی مجموعی خصوصیات قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس تمہید کی روشنی میں، زیر نظر سطور میں ، ہم تاریخی تناظر میں  مذکورہ فہرست میں سے آخری دو خصوصیات  کی کچھ واقعاتی تفصیل بیان کرنا چاہتے ہیں۔
استعماری دور میں برصغیر کے مسلمان معاشرے کی، روایت پسند اور جدت پسند کی بنیاد پر جو تقسیم کی گئی تھی، اس میں روایت پسندی کی نمائندگی بنیادی طور پر مذہبی طبقوں کے حصے میں آئی۔ اس تقسیم نے مختلف عنوانات (مثلا ملا اور مسٹر، قدامت پسند اور جدت پسند، مذہبی اور غیر مذہبی وغیرہ) کے تحت دو طبقوں کو ایک دوسرے کا حریف اور مدمقابل بنا دیا اور غیر سازی  (otherization )کے جو بھی اسالیب اور رویے بروئے کار لائے جا سکتے تھے، دونوں طرف سے لائے گئے۔ یہ صورت حال اب بھی برقرار ہے۔ اس پورے دور میں،  دیوبندی فکری روایت کا ایک خاص پہلو  یہ سامنے آتا ہے کہ اس روایت میں علماء کا ایک طبقہ ہمیشہ ایسا رہا ہے جس نے اس خلیج کو پاٹنے اور  غیر سازی کی تلخیوں کو کم کرنے کی کوشش کی، مختلف مذہبی، سیاسی اور قومی ضروریات کے لحاظ سے متضاد فکری رجحانات رکھنے والے طبقات کے  باہم شریک کار بننے کی  راہ ہموار کی،  اور خاص طور پر معاشرے کے مختلف طبقات کے مابین  مذہبی وغیر مذہبی یا دین دوست اور دین دشمن کی قطعی اور حتمی  صف بندی کو روکنے میں ایک ذمہ دارانہ اور موثر کردار ادا کیا۔ 
ذرا ماضی قریب کی تاریخ پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالیے:
۱۔ جدید تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں سرسید احمد خان کی  مساعی سے جو جدید تعلیم یافتہ طبقہ پیدا ہوا، وہ اس تقسیم کا سب سے پہلامظہر تھا۔  سرسید احمد خان کی نسبت سے یہ طبقہ، مذہبی علماء کی نظر میں عموما مطعون تھا، تاہم شیخ الہند مولانا محمود حسن نے  اس خلیج کو کم کرنے کے لیے آگے بڑھ کر کردار ادا کیا۔  انھوں نے  دار العلوم دیوبند اور علی گڑھ کے محمڈن اورئنٹل کالج کے مابین فضلاء کے تبادلے کی تجویز  پیش کی، اور ۱۹۲٠ء میں کالج کے، یونیورسٹی بنائے جانے کے موقع پر  تاسیسی اجلاس میں خطبہ صدارت بھی پیش کیا۔ شیخ الہند نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاسیس میں بھی   بنیادی کردار ادا کیا اور شدید علالت کے باوجود مجلس تاسیس میں شرکت کےلیے چارپائی پر   تشریف لے گئے۔ شیخ الہند کے صحبت یافتگان میں سے  بہت سے حضرات نے مذہبی وسیاسی قیادت کے میدان میں  اپنا کردار ادا کیا جو قدیم وجدید  کی تفریق کو   ایک حد میں رکھنے کے  حوالے سے  موثر ثابت ہوا۔
۲۔ ۱۹۳٠ء کی دہائی میں  مسلم سیاست نے ایک اور کروٹ لی تو   مذہبی وغیر مذہبی کی تقسیم ایک نئے رنگ میں نمایاں ہو گئی۔  یہاں  اختلافی رجحانات کا عنوان بظاہر  متحدہ قومیت یا  جداگانہ مسلم سیاسی تشخص تھا، لیکن   صف بندی کچھ اس طرح ہو گئی کہ مذہبی علماء بحیثیت مجموعی ایک طرف اور جداگانہ سیاسی تشخص کے حامی دوسری طرف  کھڑے نظر آنے لگے۔   اس نزاع میں بھی غیر سازی کے رویے فریقین کے ہاں اپنی انتہا پر نظر آئے،  اور خاص طور پر  جمعیۃ علمائے ہند اور جماعت اسلامی کی طرف سے مسلم لیگ اور اس کے قائدین سے متعلق دینی اعتبار سے کسی حسن ظن  کو خارج از امکان قرار دے دیا، تاہم مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور چند دوسری نامور مذہبی شخصیات نے اپنا سیاسی وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈال کر   اس بحث کو  خالصتا ایک سیاسی  بحث کا رنگ دے دیا اور جمعیۃ علمائے ہند  کی طرف سے  مسلم لیگ کو لادینی سیاست کا نمائندہ  قرار دے کر غیر سازی کا جو بنیادی مقدمہ  قائم کیا گیا تھا، اسے  غیر موثر  کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
۳۔ مولانا شبیر احمد عثمانی  اور ان کے ساتھ چند دیگر جید دیوبندی اکابر نے جب تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو جمعیۃ علماء ہند کے راہ نماوں کی طرف سے، جو ہندو مسلم متحدہ قومیت کے  حامی اور ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کے مخالف تھے، ان کے سامنے ایک اعتراض یہ پیش کیا گیا کہ مسلم لیگ میں تو کمیونسٹ اور قادیانی بھی شامل ہیں جو مرتد ہیں، جبکہ مسلم لیگ میں ان کی شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ انھیں مسلمان تسلیم کیا جا رہا ہے، اس لیے ایسی جماعت کو کیسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس معاملے میں مذہبی علماء کا فتوی ٰ اور  مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کا زاویہ نظر اور پوزیشن  مختلف ہو سکتی ہے۔ علماء،  شرعی حیثیت سے یہ واضح کر رہے ہیں کہ قادیانیوں کا عقیدہ اسلام کے خلاف ہے اور وہ درحقیقت مسلمان نہیں ہیں، جبکہ سیاسی قائدین  نے اپنی  ضروریات کے لحاظ سے  یہ طے کیا ہے کہ جو بھی گروہ خود کو مسلمان شمار کرتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ مذہبی علماء کے فتوے کی رو سے ان کی  حیثیت کیا ہے، انھیں مسلم لیگ میں  شامل ہونے کی اجازت ہے۔  گویا ان دونوں باتوں کا اپنا اپنا محل ہے اور  اپنے اپنے دائرے میں یہ دونوں  موقف بیک وقت  برقرار  رکھے جا سکتے ہیں۔ مولانا عثمانی اور مفتی محمد شفیع نے یہ بھی کہا کہ  قادیانی اگرچہ اپنے خلاف اسلام عقیدے کی وجہ سے حقیقتا اسلام سے دور جا پڑے ہیں، لیکن  اپنے زعم کے مطابق وہ اسلام ہی کے پیروکار ہیں اور نفس کلمہ اسلام سے دستبردار نہیں ہوئے، اس لیے ان سے متعلق فقہی احکام بعض پہلووں سے اگرچہ  زیادہ سخت ہیں، لیکن  جہاں کھلے کفار کے ساتھ مقابلہ ہو اور ایسے منحرف گروہ بھی  بزعم خود اسلام اور مسلمانوں کی تائید کے لیے  ان کے ساتھ جدوجہد میں شریک ہونا چاہیں تو شرعی وفقہی طور پر اس کی گنجائش  موجود ہے۔
۴۔ قیام پاکستان کے بعد  یہاں کے فکری منظر نامے پر ابھرنے والی نظریاتی بحثوں میں سرمایہ داری اور سوشلزم کی  بحث ، مذہبی یا سیکولر ریاست کی بحث کے بعد، دوسری بڑی بحث تھی۔  اس بحث میں بھی غیر سازی کا رویہ اپنی پوری شدت کے ساتھ نمودار ہوا   اور جہاں سوشلسٹوں نے  مذہبی اور مذہبی طبقات کی کردار کشی کو  اپنا بنیادی ہدف قرار دیا،  وہاں  مولانا مودودی کے لٹریچر اور  تنظیمی جدوجہد نے   بھی سوشلزم کے بیانیے کو   لازمی طور پر ایک مذہب مخالف بیانیہ  اور سوشلسٹوں کو  مذہب دشمن  طبقہ باور کرانے  کے لیے  اپنا پورا زور صرف کر دیا۔ اس صورت حال میں  جمعیۃ علمائے اسلام کی قیادت نے  راہ اعتدال اختیار کی  اور  معاشی نظام کی  ترجیحات کے حوالے سے  نہ صرف سوشلسٹوں کے بنیادی مطالبات کی تائید کی، بلکہ اس بیانیے کو مذہبی  استدلال بھی فراہم کیا اور اس کی پاداش میں ’’سوشلسٹ ملا“ جیسے القابات  سے نوازے گئے۔ جمعیۃ کی قیادت نے سوشلزم کو کفر قرار دینے کے حوالے سے  جید علماء کی طرف سے جاری کردہ فتوے سے بھی اختلاف کیا  اور اپنے مذہبی وعلمی پس منظر کی بدولت  اس فتوے کو مذہبی اعتبار سے  غیر موثر بنا دیا۔
۵۔ اسلام اور سوشلزم کی بحث کے زمانے میں جمعیۃ علماء کی قیادت  مولانا مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی کے ہاتھ میں تھی۔  ان کی قیادت میں جمعیۃ علماء نے  غیر سازی کے ایک او رمحاذ پر بھی  مثبت کردار ادا کیا۔ یہ محاذ، ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے  مشرقی پاکستان اور اس کے علاوہ سرحد اور بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کو  ملک دشمن   باور کرانے کا محاذ تھا۔  جمعیۃ علماء نے  اس بیانیے کو مسترد کیا  اور نہ صرف قوم پرستوں کے جائز  سیاسی مطالبات کی حمایت کی، بلکہ  ان کے ساتھ مل کر قومی سیاست میں  مشترکہ کردار ادا کرنے کو اپنی بنیادی ترجیح بنایا۔  جمعیۃ علماء نے  شیخ مجیب الرحمن  کو ملک دشمن ماننے سے انکار کیا، بلوچستان میں فوجی ایکشن کی مخالفت کی، سرحد میں  قوم پرست سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور  ۷۳ء کی دستور سازی میں  ان تمام جماعتوں کو  اعتماد میں لے کر  دستور میں واضح اور فیصلہ کن اسلامی دفعات کی شمولیت کی راہ ہموار کی۔
۶۔ غیر سازی کے اور ایک محاذ پر خود جمعیۃ علماء کی مذکورہ قیادت  کے مابین اختلاف پیدا ہو گیا۔ یہ محاذ مولانا مودودی اور  جماعت اسلامی کے حوالے سے تھا۔  مولانا مودودی کی دینی فکر اور جماعت اسلامی کے کردار پر  جارحانہ تنقید   میں مولانا ہزاروی  کا اسلوب   پورے مذہبی طبقے میں   منفرد تھا اور  وہ جماعت اسلامی کی مکمل غیر سازی  کے نظریے کے علمبردار تھے، یہاں تک کہ وہ کسی  مشترکہ اور متفقہ مذہبی یا سیاسی مسئلے میں بھی جماعت اسلامی کے ساتھ ایک پلیٹ فارم  پر اکٹھے ہونے کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ مولانا ہزاروی کی مہم کے نتیجے میں   روایتی مذہبی حلقوں میں جماعت اسلامی کی مکمل غیر سازی کا یہ نظریہ  بڑے پیمانے پر مقبول ہو چکا تھا اور ’’سو یہودی، ایک مودودی“ کا نعرہ  ایک مقبول عام نعرے کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اس صورت حال میں  مولانا مفتی محمود نے جماعت اسلامی کو نہ صرف قومی نمائندگی کا   حصہ تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا،  بلکہ مولانا مودودی کی وفات پر  ان کی دینی خدمات کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔  جمعیۃ علماء کی، مفتی گروپ اور ہزاروی گروپ میں تقسیم کے اسباب میں ایک بنیادی سبب یہ اختلاف بھی تھا۔ دو عشروں کے بعد مولانا فضل الرحمن نے بھی متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی کے ساتھ  سیاسی شراکت کا راستہ اختیار کر کے  غیر سازی کے اس انتہا پسندانہ رویے  کی نفی  کی جس کے مولانا ہزاروی علمبردار تھے۔  یوں جماعت اسلامی اور روایتی مذہبی حلقوں کے مابین ۶٠ء اور ۷٠ء کی دہائیوں کی تلخی کو  بڑی حد تک قصہ ماضی بنانے میں   مولانا مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمن کا بنیادی کردار ہے۔
۷۔ بھٹو حکومت نے  اپنے سیاسی مخالفین کے حوالے سے جو طرز عمل اختیار کیا، اس کے نتیجے میں  تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں  پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہو گئیں اور مقتدرہ کی تائید سے  ایک بھرپور سیاسی تحریک چلا کر  پیپلز پارٹی کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا گیا۔  اس دور میں جب  فوجی حکومت کی طرف سے پیپلز پارٹی کو ایک ملک دشمن  جماعت باور کرایا جا رہا تھا اور مذہبی  طبقات اسے ایک دین بیزار اور لبرل سیاسی عناصر کا  پلیٹ فارم تصور کر رہے تھے، مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جمعیۃ علمائے اسلام کے ایک دھڑے نے  پیپلز پارٹی کی قیادت میں  تحریک بحالی جمہوریت میں  فعال کردار ادا کیا اور اس موقف پر خود ٹھیٹھ دیوبندی حلقے اور اس کے اکابر کی سخت ناراضی مول لی۔   محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے لبرل خیالات کی وجہ سے مذہبی حلقوں کے لیے  قطعی طور پر ناقابل قبول تھیں اور اسلامی حدود کے متعلق ان کے اس طرح کے بیانات منظر عام پر آ چکے تھے کہ یہ (نعوذ باللہ)  وحشیانہ اور غیر انسانی سزائیں ہیں۔ چنانچہ جب وہ  ۸۸ء میں پہلی مرتبہ برسر اقتدار آئیں تو تمام مذہبی قوتوں نے بیک زبان اسے  کم وبیش کفر اور اسلام کی بحث قرار دیا اور قوم کو باور کرانے کی کوشش کی کہ عورت کی حکمرانی کی صورت میں فی الواقع خدا کا عذاب قوم پر مسلط ہو گیا ہے۔ اس صورت حال میں بھی مولانا فضل الرحمن بالفعل بے نظیر حکومت کے ساتھ کھڑے تھے اور ان کا یہ تبصرہ اخبارات میں شہ سرخیوں میں شائع ہوا تھا کہ عورت کی حکمرانی کے مسئلے میں مخالفین کی ’’سوئی ایک جگہ پر اٹک گئی ہے۔“
۸۔ ۸٠ء کی دہائی میں   ہی ایران کے شیعہ مذہبی انقلاب کے رد عمل میں   ہمارے ہاں  شیعہ سنی کشیدگی  کی فضا پیدا ہوئی  اور دیوبندی مکتب فکر کے اعلی ٰ ترین  اداروں اور شخصیات کی طرف سے اثنا عشری اہل تشیع کی تکفیر کے فتوے کے ساتھ  ’’کافر کافر شیعہ کافر“ کے نعرے کو گلی گلی میں گونجنے والی  صدا کی حیثیت حاصل ہو گئی۔  اس دور میں اس نعرے سے اختلاف یا اس پر تنقید، انتہا پسند اور جذباتی عناصر کی طرف سے  گردن زدنی قرار دیے جانے کے لیے کافی تھی، تاہم  مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں  جمعیۃ علمائے اسلام نے سیاسی محاذ پر   یہاں بھی  تکفیر وتفریق اور غیر سازی  کی اس خوفناک لہر کا  سامنا کیا ۔ جمعیۃ علماء نے  نہ صرف اس تکفیری مہم کا حصہ بننے سے گریز کیا، بلکہ  اس کی واضح مخالفت کی۔ پھر   جنرل مشرف کے دور میں، سیاسی محاذ پر متحدہ مجلس عمل  میں اور  دینی مدارس کی سطح پر اتحاد تنظیمات مدارس میں اہل تشیع کی شمولیت  کو بھی یقینی بنایا  اور یوں ذمہ دارانہ اور جرات مندانہ کردار ادا کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے اور سیاست کو شیعہ سنی بنیاد پر تقسیم ہونے   سے بچا لیا۔ 
۹۔  ۲٠٠۱ء کے بعد  پاکستان کے علمی ودینی حلقوں میں جناب جاوید احمد غامدی  کے غیر روایتی افکار وخیالات  ایک خاص تناظر میں   بحث ومباحثہ کا موضوع  بننا شروع ہوئے۔  گفتگو نے بہت جلد تضلیل وتفسیق، بلکہ بعض حلقوں کی طرف سے تکفیر کے فتووں کی صورت اختیار کر لی۔  غامدی صاحب کو  منکر حدیث  اور امت کے اجماعی عقائد ومسلمات سے منحرف  متجدد قرار دیا گیا اور تھوڑے ہی عرصے میں  نہ صرف  روایتی مذہبی گروہ، بلکہ جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی جیسے حلقے اور خود غامدی صاحب سے  فکری یا غیر فکری بنیادوں پر الگ ہونے والے  حضرات غامدی صاحب اور ان کے متبعین کو  امت سے بالکل کٹا ہوا ایک فرقہ قرار دے کر  ان کی مکمل غیر سازی  کے معاملے میں یک زبان ہو گئے۔  اس ماحول میں والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے بعض اہم علمی مسائل کے حوالے سے غامدی صاحب کے حلقہ فکر کے ساتھ علمی مکالمے کا ڈول ڈالا اور  واضح علمی اختلاف کے  اظہار کے ساتھ ساتھ  اپنا یہ اصولی موقف بیان کیا کہ ان حضرات کی جو بات جمہور اہل علم کے ہاں قابل قبول نہیں، اس سے اختلاف کے باوجود ’’دیگر اصحاب علم کے تفردات کی طرف ہم ان کا احترام کریں گے“  اور یہ کہ ہم ’’یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مختلف پیش آمدہ دینی وملی مسائل پر دیگر مکاتب فکر کی طرح ان کے نقطہ نظر سے بھی آگاہی حاصل کی جائے اور علمی بحث ومباحثہ اور مکالمہ کی صورت میں بحث وتمحیص کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے۔“  والد گرامی  نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے، غامدی صاحب کے الگ ہونے کی خبر پر  افسوس اور رنج ظاہر کیا اور لکھا کہ ’’غامدی صاحب علوم عربیہ کے ممتاز ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور دینی لٹریچر پر بھی ان کی گہری اور وسیع نظر ہے۔ اسلامی نظریہ کونسل میں ایسے فاضلین کی موجود گی بہت سے معاملات میں راہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔“  اس موقف پر والد گرامی کو خود اپنے حلقے کے اکابر کی طرف سے  فتووں، یہاں تک کہ سماجی مقاطعہ تک کی کوششوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن  انھوں نے پوری استقامت سے اس صورت حال کا سامنا کیا اور  غیر سازی کے انتہا پسندانہ رویے کی نفی کرتے ہوئے  دیوبندی روایت کے تسلسل کو قائم رکھا۔
۱٠۔ حالیہ دنوں میں  تبلیغی جماعت کے ممتاز  قائد، مولانا طارق جمیل صاحب نے طرز حکومت کو ریاست مدینہ کے نمونے پر استوار کرنے کے عزم کے حوالے سے  جناب عمران خان کے متعلق اچھی توقعات کا اظہار کیا،  جبکہ دیوبندی حلقے کا عمومی موقف تحریک انصاف کے حوالے سے بالکل مختلف ہے۔  خاص طور پر جمعیۃ علمائے اسلام کی قیادت  ایک عرصے سے تحریک انصاف کو ایک اسلام دشمن اور یہودی لابی کے زیر اثر قائم کی گئی جماعت قرار دیتی چلی آ رہی ہے  اور اس کی مخالفت کو  ملک میں اسلامی ایجنڈے کے ساتھ وفاداری کا ایک تقاضا باور کرتی ہے۔  کئی حساس مذہبی ایشوز، مثلا حکومتی مناصب پر احمدیوں کی تقرری، آسیہ مسیح کیس میں   ملزمہ کو عدالت عظمی کی طرف سے بری کیے  جانے اور شراب کی خرید وفروخت پر قانونی پابندی عائد کرنے جیسے مسائل میں حکومتی موقف نے  مذہبی جماعتوں کے نقطہ نظر سے  اس تاثر پر مزید مہر تصدیق ثبت کی ہے۔   اس صورت حال میں مولانا طارق جمیل نے  تحریک انصاف کے متعلق جو گفتگو  کی اور اسے اہتمام کے ساتھ سوشل میڈیا پر نشر کیا گیا ، وہ ہمارے نقطہ نظر سے  دیوبندی مزاج کی اسی خصوصیت کا ایک اظہار ہے جس کی مختلف مثالیں سابقہ سطور میں پیش کی گئی ہیں۔
کسی بھی طبقے کے لیے، معاشرے میں قائدانہ نوعیت کا کوئی کردار  ادا کرنے کے لیے جن فکری وعملی اور مزاجی خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے، ان میں  دوسرے طبقوں کے ساتھ ، اختلاف کے باوجود، کسی نہ کسی سطح پر تعلق  کو قائم رکھنے اور  باہمی تعامل کے لیے  ممکنہ مشترک بنیادوں کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی خصوصیت غالبا سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔  دیوبندی مزاج میں یہ خصوصیت، جیسا کہ بیان کی گئی مثالوں سے واضح ہوتا ہے،  بدرجہ اتم موجود ہے  اور دیوبندی روایت کو مذہبی فکر وعمل کے میدان میں   حاصل  امتیاز کے  ایک بنیادی سبب  کا درجہ رکھتی ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

اھتدی کا ترجمہ

اھتدی کا لفظ مختلف صیغوں کے ساتھ قرآن مجید میں بار بار آیا ہے، ماہرین لغت کی تشریح کے مطابق اس لفظ میں ہدایت کو طلب کرنا، ہدایت کو اختیار کرنا، اور ہدایت پر قائم رہنا شامل ہے۔ اس لفظ کے مفہوم میں ارادے اور اقدام کا ہونا موجود ہے۔ لفظ اھتدی کی اس روح اور اس کی اس معنوی خصوصیت کا سامنے رہنا بہت اہم اور ضروری ہے۔ یہ لفظ یاد دلاتا ہے کہ اس امتحان گاہ میں ہدایت از خود حاصل ہوجانے کے بجائے اختیار کی جانے والی چیز ہے۔
ہدایت اختیار کرنے کا یہ مفہوم ان مقامات پر اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے ، جہاں ایسا کرنے پر ایسا کرنے کے نتائج مرتب ہونے کی بات کہی گئی ہے، یا اس عمل پر اللہ کی طرف سے کسی انعام کا وعدہ کیا گیا ہے، جیسے مزید ہدایت دینے کا وعدہ ۔ غرض یہ کہ اھتداء دراصل ہدایت پانا نہیں بلکہ ہدایت اختیار کرنا ہے۔
قرآنی الفاظ کے ماہر امام راغب اصفہانی نے اس لفظ کی اس خصوصیت پر متعدد قرآنی مثالوں کے ساتھ تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، وہ لکھتے ہیں:

الاِھتدَاء یختصّ بما یتحرّاہ الانسان علی طریق الاختیار، امّا فی الامور الدّنیویۃ، او الاخرویۃ۔ قال تعالی: وھُوَ الَّذِی جَعَلَ لکُمُ النُّجُومَ لِتَھتَدُوا بھا (الانعام/۹۷) (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: المفردات فی غریب القرآن)

قرآن مجید کے مختلف تراجم کا جائزہ لیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ مترجمین نے کہیں تو اس لفظ کا اس طرح ترجمہ کیا ہے کہ اس کی یہ روح نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے، لیکن کہیں کہیں ان سے اس پہلو کی رعایت نہیں ہوسکی ہے، اور انہوں نے ترجمہ کرتے ہوئے ایسی تعبیر اختیار کی ہے، جس سے ہدایت اپنے ارادے طلب اور کوشش سے اختیار کرنے والی چیز کے بجائے از خود حاصل ہونے والی چیز محسوس ہوتی ہے۔ ذیل میں بطور مثال کچھ آیتوں کے ترجمے پیش ہیں:

(۱) قُل یَا اَیُّہَا النَّاسُ قَد جَاءکُمُ الحَقُّ مِن رَّبِّکُم فَمَنِ اھتَدَی فاِنَّمَا یَہتَدِی لِنَفسِہِ وَمَن ضَلَّ فاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیہَا۔ (یونس: ۱٠۸)

“اے محمد، کہہ دو کہ“لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آ چکا ہے اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اس کی راست روی اسی کے لیے مفید ہے، اور جو گمراہ رہے اس کی گمراہی اسی کے لیے تباہ کن ہے“ (سید مودودی)
“تم فرماؤ اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آیا تو جو راہ پر آیا وہ اپنے بھلے کو راہ پر آیا اور جو بہکا وہ اپنے برے کو بہکا۔“ (احمد رضا خان)
“کہہ دو کہ لوگو تمہارے پروردگار کے ہاں سے تمہارے پاس حق آچکا ہے تو جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے۔ اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے“ (فتح محمد جالندھری)
“آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! تمہارے پاس حق تمہارے رب کی طرف سے پہنچ چکا ہے، اس لیے جو شخص راہِ راست پر آجائے سو وہ اپنے واسطے راہِ راست پر آئے گا اور جو شخص بے راہ رہے گا تو اس کا بے راہ ہونا اسی پر پڑے گا“ (محمد جوناگڑھی)

(۲) مَّنِ اہتَدَی فاِنَّمَا یَہتَدی لِنَفسِہِ وَمَن ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیہَا۔ (الاسراء:۱۵)

“جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے“ (سید مودودی)
“جو راہ پر آیا وہ اپنے ہی بھلے کو راہ پر آیا اور جو بہکا تو اپنے ہی برے کو بہکا“ (احمد رضا خان)
“جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے لیے اختیار کرتا ہے۔ اور جو گمراہ ہوتا ہے گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا“ (فتح محمد جالندھری)
“جو راہِ راست حاصل کرلے وہ خود اپنے ہی بھلے کے لیے راہ یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہے“ (محمد جوناگڑھی)

(۳) وَانِّی لَغَفَّار لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اہتَدَی۔ (طہ: ۸۲)

“البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔“ (سید مودودی)
“اور بیشک میں بہت بخشنے والا ہوں اسے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھا کام کیا پھر ہدایت پر رہا۔“ (احمد رضا خان)
“اور جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے رستے چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں۔“ (فتح محمد جالندھری)
“ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راہِ راست پر بھی رہیں۔“ (محمد جوناگڑھی)

(۴) وَان اتلُوَ القُرآنَ فَمَنِ اہتَدَی فَانَّمَا یَہتَدِی لِنَفسِہِ۔ (النمل: ۹۲)

“اور یہ قرآن پڑھ کر سناؤں، اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لیے ہدایت اختیار کرے گا“ (سید مودودی)
“اور یہ کہ قرآن کی تلاوت کروں تو جس نے راہ پائی اس نے اپنے بھلے کو راہ پائی “ (احمد رضا خان) (راہ پائی، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 
“اور یہ بھی کہ قرآن پڑھا کروں۔ تو جو شخص راہ راست اختیار کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لیے اختیار کرتا ہے“ (فتح محمد جاندھری)
“اور میں قرآن کی تلاوت کرتا رہوں، جو راہِ راست پر آجائے وہ اپنے نفع کے لیے راہِ راست پر آئے گا“ (محمد جوناگڑھی)

(۵) انَّا اَنزَلنَا عَلَیکَ الکِتَابَ لِلنَّاسِ بِالحَقِّ فَمَنِ اہتَدَی فَلِنَفسِہِ۔ (الزمر: ۴۱)

“ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کر دی ہے اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا“ (سید مودودی)
“بیشک ہم نے تم پر یہ کتاب لوگوں کی ہدایت کو حق کے ساتھ اتاری تو جس نے راہ پائی تو اپنے بھلے کو“ (احمد رضا خان) (راہ پائی، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 
“ہم نے تم پر کتاب لوگوں (کی ہدایت) کے لیے سچائی کے ساتھ نازل کی ہے۔ تو جو شخص ہدایت پاتا ہے تو اپنے (بھلے کے) لیے“ (فتح محمد جالندھری) (ہدایت پاتا ہے،موزوں ترجمہ نہیں ہے)
“آپ پر ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کے لیے نازل فرمائی ہے، پس جو شخص راہِ راست پر آجائے اس کے اپنے لیے نفع ہے“ (محمد جوناگڑھی)

(۶) فانَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیلِہِ وَہُوَ اَعلَمُ بِمَنِ اہتَدَی۔ (النجم: ۳٠)

“یہ بات تیرا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ اُس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور کون سیدھے راستے پر ہے“ (سید مودودی)
“ان کے علم کی انتہا یہی ہے۔ تمہارا پروردگار اس کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے رستے سے بھٹک گیا اور اس سے بھی خوب واقف ہے جو رستے پر چلا“ (فتح محمد جالندھری، رستے پر چلا نہیں بلکہ صحیح راستے پر چلا کہنا درست ہوگا)
“یہاں تک ان کے علم کی پہنچ ہے بیشک تمہارا خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے جس نے راہ پائی“ (احمد رضا خان) (راہ پائی،موزوں ترجمہ نہیں ہے) 
“یہی ان کے علم کی انتہا ہے۔ آپ کا رب اس سے خوب واقف ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی خوب واقف ہے اس سے بھی جو راہ یافتہ ہے“ (محمد جوناگڑھی، راہ یافتہ موزوں ترجمہ نہیں ہے)

(۷) وَیَزِیدُ اللَّہُ الَّذِینَ اہتَدَوا ہُدًی۔ (مریم: ۷۶)

“اس کے برعکس جو لوگ راہِ راست اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو راست روی میں ترقی عطا فرماتا ہے“ (سید مودودی)
“اور جنہوں نے ہدایت پائی اللہ انھیں اور ہدایت بڑھائے گا“ (احمد رضا خان) (ہدایت پائی موزوں ترجمہ نہیں ہے)
“اور جو لوگ ہدایت یاب ہیں خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے“ (فتح محمد جالندھری) (ہدایت یاب بھی موزوں ترجمہ نہیں ہے)
“اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے“ (محمد جوناگڑھی)(ہدایت یافتہ بھی موزوں ترجمہ نہیں ہے)

(۸) وَالَّذِینَ اہتَدَوا زَادَہُم ہُدًی۔ (محمد: ۱۷)

“رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ اُن کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے“ (سید مودودی) (ہدایت پائی، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 
“اور جنہوں نے راہ پائی اللہ نے ان کی ہدایت اور زیادہ فرمائی“ (احمد رضا خان) (راہ پائی،موزوں ترجمہ نہیں ہے) 
“اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ان کو وہ ہدایت مزید بخشتا“ (فتح محمد جالندھری) (ہدایت یافتہ موزوں ترجمہ نہیں ہے)
“اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیا ہے“ (محمد جوناگڑھی)(ہدایت یافتہ موزوں ترجمہ نہیں ہے)
بات بہت واضح ہے کہ یہاں اللہ کی طرف سے اور زیادہ ہدایت دینے کا وعدہ ان لوگوں سے ہے جو اقدام کرکے ہدایت کو اختیار کریں، نہ کہ جو ہدایت پائیں۔

(۹) وَان تَدعُہُم الَی الہُدَی فَلَن یَہتَدُوا اذاً اَبَداً۔ (الکہف: ۵۷)

“تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاو، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے“ (سید مودودی) (ہدایت نہ پائیں گے، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 
“تم انہیں ہدایت کی طرف بلاو تو جب بھی ہرگز کبھی راہ نہ پائیں گے“ (احمد رضا خان) (راہ نہ پائیں گے، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 
“اور اگر تم ان کو رستے کی طرف بلاو  تو کبھی رستے پر نہ آئیں گے“ (فتح محمد جالندھری، یہ ترجمہ مناسب ہے)

(۱٠) وَرَاَوُا العَذَابَ لَو اَنَّہُم کَانُوا یَہتَدُونَ۔ (القصص: ۶۴)

“اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے کاش یہ ہدایت اختیار کرنے والے ہوتے“ (سید مودودی)
“اور دیکھیں گے عذاب، کیا اچھا ہوتا اگر وہ راہ پاتے“ (احمد رضا خان) (راہ پاتے، موزوں ترجمہ نہیں ہے) 
“اور سب عذاب دیکھ لیں گے، کاش یہ لوگ ہدایت پا لیتے“۔ (محمد جوناگڑھی) (پالیتے موزوں ترجمہ نہیں ہے)

(۱۱) وَقَالُوا یَا اَیُّہَا السَّاحِرُ ادعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِندَکَ انَّنَا لَمُہتَدُون۔ (الزخرف:۴۹)

“ہر عذاب کے موقع پر وہ کہتے، اے ساحر، اپنے رب کی طرف سے جو منصب تجھے حاصل ہے اُس کی بنا پر ہمارے لیے اُس سے دعا کر، ہم ضرور راہ راست پر آ جائیں گے“ (سید مودودی،’’وہ کہتے کے“ بجائے ’’انہوں نے کہا“، اور یہ ہر عذاب کی بات نہیں بلکہ آخری عذاب کی بات ہے)
“اور بولے کہ اے جادوگر ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر کہ اس عہد کے سبب جو اس کا تیرے پاس ہے بیشک ہم ہدایت پر آئیں گے“ (احمد رضا خان)
“اور کہنے لگے کہ اے جادوگر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بےشک ہم ہدایت یاب ہو جائیں گے“ (فتح محمد جالندھری)
“اور انہوں نے کہا اے جادوگر! ہمارے لیے اپنے رب سے اس کی دعا کر جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کر رکھا ہے، یقین مان کہ ہم راہ پر لگ جائیں گے“ (محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ انَّنَا لَمُہتَدُون کا ترجمہ مستقبل سے کرنے کے بجائے حال سے کرنا چاہئے، مطلب: ”ہم نے راہ راست کو اختیار کرلیا ہے“ ۔ کیوں کہ عذاب مسلط ہونے کے بعد موقع کا تقاضا ہے کہ راہ راست پر آنے کا اعلان کیا جائے، نہ کہ مستقبل میں راہ راست پر آنے کا وعدہ۔

(۱۲) قَالُوا ادعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّن لَّنَا مَا ہِیَ انَّ البَقَرَ تَشَابَہَ عَلَینَا وَانَّا ان شَاء اللَّہُ لَمُہتَدُون۔ (البقرة: ۷٠)

“پھر بولے اپنے رب سے صاف صاف پوچھ کر بتاو کیسی گائے مطلوب ہے، ہمیں اس کی تعین میں اشتباہ ہو گیا ہے اللہ نے چاہا، تو ہم اس کا پتہ پالیں گے“ (سید مودودی)

 لَمُہتَدُون کے مزید ترجمے

“ہم راہ پا جائیں گے“ (احمد رضا خان) (موزوں نہیں ہے)
“ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جائے گی“ (فتح محمد جالندھری) (موزوں نہیں ہے)
“ہم پتا لگالیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی یہاں یہ ترجمہ تجویز کرتے ہیں: ”ہم صحیح بات پر عمل کرلیں گے“، کیونکہ یہاں معلوم کرنے کا مسئلہ نہیں بلکہ حکم پر عمل کرنے کا مسئلہ ہے۔
(جاری)

’’ترجمان القرآن‘‘ : چند نمایاں خصوصیات

مولانا وقار احمد

ترجمان القرآن مولانا ابو الکلام آزاد کی تصنیف لطیف ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد ۱۸۸۸ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ اصل نام محی الدین احمد تھا۔ آپ کے والد ہندوستا ن کے معروف عالم اور پیر مولانا خیر الدین ہیں، جب کہ والدہ کا تعلق مدینہ منورہ سے تھا۔ مولانا کا انتقال  ۲۲ فروری ۱۹۵۸ء کو ہوا۔
مولانا ابو الکلام برصغیر کے سب سے بڑے مذہبی اور سیاسی لیڈر تھے۔ مولانا تقسیم ملک کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنے، اور ہندوستان کے نظام تعلیم کو منظم کرنے میں ان کا اہم کردار ہے۔آپ ایک بے مثل عالم تھے، ہندوستان کی سیاسیات میں متحرک کردار ادا کیا، اس کے ساتھ ہندوستان کی صحافت کو بھی ایک نئی جہت عطا کی۔ ان تمام تر مصروفیات کے باوجود آپ نے منفرد علمی کتب اور مقالات تحریر کیے ہیں۔ 

مولانا آزاد کا فہم قرآن 

قرآن حکیم مولانا کے غور و فکر کا سب سے اہم ماخذ تھا، انہیں قرآن حکیم سے ایک طویل رفاقت حاصل تھی۔ خود اپنے بارے میں کہتے ہیں:  ’’میں نے قریب قریب تیئیس سال قرآن کو اپنا موضوعِ فکر بنایا۔ میں نے ہر پارے، ہر سورۃ اور ہر آیت اور ہر لفظ کو گہرے فکر و نظر سے دیکھا۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ قرآن کی موجودہ تفاسیر مطبوعہ یا غیر مطبوعہ کا بہت بڑا حصہ میری نظر سے گزرا ہے، میں نے فلسفۂ قرآن کے سلسلے میں ہر مسئلے کی تحقیق کی ہے۔“
شورش کاشمیری نے مولانا کے ترجمہ و تفسیر اور قرآن دانی سے متعلق جو سوال و جواب مولانا ظفر علی خان سے کیا، اسے شورش اپنی کتاب میں یوں نقل کرتے ہیں: 
عرض کیا ، ’’کیا مولانا ابوالکلام تفسیرِ قرآن میں اسلاف کے پیرو اور اس عہد کے مجتہد ہیں؟“ 
فرمایا: ’’بالکل، اللہ تعالیٰ نے قرآن فہمی کے باب میں انہیں خاص ملکہ عطا کیا ہے ، وہ زمانہ کی فکری تحریکوں کو بخوبی سمجھتے اور قرآن کو ہر زمانے کی پیچیدگیوں کا حل قرار دے کر انسانی معاشرے کو اس کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ۔ وہ قرآن کی ابدی دعوت پر نظامِ کائنات کی اساس رکھتے ہیں۔ ان پر بفضلِ ایزدی علم القرآن کے اس طرح کھلے ہیں کہ ان کے لیے کوئی سی راہ مسدود و منقطع نہیں۔ اُن کی آواز قرآن کی آواز ہے۔“
راقم: ’’مولانا کے ترجمہ و تفسیر میں بڑی خوبی کیا ہے؟ اور کونسا پہلو ہے جو دوسرے تراجم اور تفاسیر کے مقابلے میں منفرد ہے؟“
مولانا : ’’اُن کے ترجمہ و تفسیر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قرآن ہی کی زبان میں خطاب کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ان کے الفاظ الوہیت اور نبوت کا جامہ پہنے ہوئے ہیں اور یہ صرف اللہ کی دین ہے۔ دوسرے تراجم جو اب تک ہندوستان میں ہوئے ہیں، وہ قرآن کے الفاظ میں لغوی ترجمہ ہیں، ان میں قرآن کے شکوہ کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ۔ عربی الفاظ کا ترجمہ اردو الفاظ میں کیا گیا ہے ، مطالب کی طاقت و پہنائی اوجھل ہو گئی ہے۔ آزادؔ کی تفسیر محض مقامی و محض اسلامی نہیں، بین الاقوامی و بین الملی ہے۔ وہ الہیاتی زبان میں کائنات کو خطاب کرتے ہیں۔“ (ابو الکلام آزاد، ص ۴۸۲)
خورشید احمد صدیقی مولانا کے فہم قرآن کے حوالے سے کہتے ہیں: ’’مولانا پہلے اور آخری شخص ہیں جنہوں نے براہ راست قرآن کو اپنے اسلوب کا سر چشمہ بنایا “ (مولانا آزاد کی قرآنی بصیرت، مولانا اخلاق حسین قاسمی، صفحہ۵۵)
ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں: ’’مولانا روح تفسیر کے محرم ہیں اور کلام الہی کے مطالب کو اس حکیمانہ انداز میں سمجھاتے ہیں جن سے نئے زمانے کے تنقیدی ذہن کو بھی تسکین ہو جاتی ہے۔“ (ابوالکلام آزاد ، شورش کاشمیری، صفحہ ۳۱۴)
مولانا آزاد قرآن حکیم کے حوالے سے تین کام کرنا چاہتے تھے: 
۱۔ مقدمہ تفسیر البصائر: اس کتاب میں مولانا قرآن کریم کے مطالب و مقاصد پر اصولی مباحث لکھنا چاہتے تھے جس کا ایک حصہ انہوں نے لکھا اور وہ شائع بھی ہوا، مگر وہ نامکمل ہے۔ 
۲۔ البیان فی مقاصد القرآن:  اس کتاب میں مولانا کے پیش نظر ایک مکمل و مفصل تفسیر تھی  جس کو مولانا اپنی سیاسی مصروفیات کی بنا پر مکمل نہ کر سکے اور لکھا ہوا حصہ بھی ضائع ہو گیا۔ 
۳۔ ترجمان القرآن: قرآن حکیم کے حوالے سے مولانا کی یہی کتاب معروف ہوئی ہے۔ اس کا تعارف کراتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں
’’ترجمان القرآن کی ترتیب سے مقصود یہ تھا کہ قرآن کے عام مطالعہ و تعلیم کے لیے ایک درمیانی ضخامت کی کتاب مہیا ہو جائے، مجرد ترجمے سے وضاحت میں زیادہ، مطول تفاسیر سے مقدار میں کم۔ چنانچہ اس غرض سے یہ اسلوب اختیار کیا گیا کہ پہلے ترجمہ میں زیادہ سے زیادہ وضاحت کی کوشش کی جائے، پھر جابجا نوٹ بڑھا دیے جائیں۔ اس سے زیادہ بحث و تفصیل کو دخل نہ دیا جائے۔ باقی رہا اصول اور تفسیری مباحث کا معاملہ تو اس کے لیے دو الگ الگ کتابیں ’’مقدمہ“ اور ’’ البیان“ زیر ترتیب ہیں۔“ (ترجمان القرآن ، ابو الکلام آزاد ، جلد۳)
مولانا کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، چنانچہ انہیں تفسیر قرآن لکھنے کے زمانے میں سیاسی مسائل کی وجہ سے متعدد بار جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی، چنانچہ اس دوران ان کے مسودات تفسیر ضائع ہوئے، متعدد دفعہ تفتیش کے نام پر حکام نے ضبط کیے، مگر مولانا نے ہمت نہ ہاری۔ مولانا کی زندگی میں تفسیر کا مقدمہ ، تفسیر سورہ فاتحہ اور پہلی دو جلدیں شائع ہو گئی تھی، جب کہ تیسری جلد ان کی وفات کے بعد ان کے مسودات سے مرتب کی گئی ہے۔

ترجمان القرآن کا انتساب

 علما کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ اپنی علمی کاوش کو کسی نامور شخصیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مولانا آزاد نے بھی اپنی کتاب کا انتساب لکھا ہے، مگر وہ کسی نامور شخصیت کے بجائے ایک گمنام شخص کی طرف ہے۔ مولانا اس کے ذوق سے متاثر ہوئے تھے، چنانچہ اس کے ذوق کی قدر دانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’انتساب
غالباً دسمبر ١٩١٨ کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا، عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آ رہا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو ایک شخص بکل اوڑھے کھڑا تھا۔
آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
ہاں جناب! میں بہت دور سے آیا ہوں۔
کہاں سے؟
سرحد پار سے۔
یہاں کب پہنچے؟
آج شام کو پہنچا۔ میں بہت غریب آدمی ہوں۔ قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا۔ وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے، انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرے سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔
افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟
اس لیے کہ آپ سے قرآن کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔ 
یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھاکہ میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے۔ اس نے واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔
مجھے اس کا نام یاد نہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔
۱۲ ستمبر سنہ ۱۹۳۱ء، کلکتہ“

ترجمان القرآن اہل علم کی نظر میں

ترجمان القرآن کی علمی حیثیت کو سید سلیمان ندوی واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:  
’’میں نے قرآن کریم کی جتنی تفاسیر پڑھی ہیں، ان میں ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تفاسیر سے بہتر کوئی تفسیر نہیں، ’’ترجمان القرآن ’’ کا مصنف قابل مبارک باد ہے کہ اس نے یورپی سامراج کے زمانے میں بڑی ہمت اور دلیری سے ابن تیمیہ اور ابن قیم کی اس صورت سے پیروی کی ہے   جس طرح انہوں نے منگولی فاتحوں کی مزاحمت کے سلسلے میں کی تھی۔“ (ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ ، اخلاق حسین قاسمی، ص ۱۶)
مفسر قرآن مولانا احمد سعید دہلوی ترجمان القرآن پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  ’’قرآن کریم کی عربی مبین مولانا آزاد کا انتظار کر رہی تھی کہ وہ آ کر اسے اردوئے مبین کے قالب میں ڈھالیں۔ ترجمان القرآن مولانا آزاد کا غیر فانی کارنامہ ہے۔“ (نقش آزاد،  غلام رسول مہر، صفحہ۸۷)
مولانا سعید احمد اکبر آبادی کہتے ہیں:  ’’(سید رشید رضا مصری کی) تفسیر المنار اور مولانا کا ترجمان القرآن مطالب و معانی کے اعتبار سے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ زبانیں دو ہیں، مقصد ایک۔ مولانا، علامہ ابن تیمیہ ، جاحظ اور ابن قیم کے شانہ بشانہ ہیں۔“ (ابوالکلام آزاد ، شورش کاشمیری، صفحہ ۳۳۴)

خصوصیات ترجمان القرآن

۱۔ ادیبانہ ترجمہ

مولانا کی تفسیر ترجمان القرآن اور اس کا ترجمہ ایک اہم علمی تحفہ ہے۔ خاص کر ترجمہ تو بہت ہی عمدہ چیز ہے ، اور اس ترجمہ پر خود مولانا کو بھی فخر تھا۔ فرماتے ہیں : ’’ترجمان القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس کی تمام خصوصیات کا اصل محل اس کا ترجمہ اور ترجمہ کا اسلوب ہے۔ اگر اس پر نظر رہے گی تو پوری کتاب پر نظر رہے گی۔ وہ اوجھل ہو گئی تو پوری کتاب نظر سے اوجھل ہو جائے گی۔“ (ترجمان القرآن، جلد  ۳) ڈاکٹر ذاکر حسین لکھتے ہیں:  ’’مولانا کی زبان میں غضب کی وہ دلکشی ہے جس نے ان کے ترجمے اور تفسیری اشارات میں اردو ادب کے ایک شاہکار کی شان پیدا کر دی ہے۔“ (ابوالکلام آزاد ، شورش کاشمیری، صفحہ ۳۳۴)

۲۔ زبان و بیان کی سادگی

مولانا نے ترجمہ میں عام قاری کے ذہن کو ملحوظ نظر رکھا ہے، اور مطالب قرآنی بالکل سادہ مگر اعلیٰ زبان میں پیش کر دیے ہیں۔ ترجمان میں مولانا نے الہلال اور البلاغ کی سی ثقیل زبان استعمال نہیں کی، نہ ہی اپنی عادت کے مطابق عربی و فارسی کی ثقیل عبارات اور استعارات استعمال کیے ہیں۔ خود مولانا کہتے ہیں: ’’ہم نے یہ مطلب اسی سادہ طریقہ پر بیان کر دیا ہے جو قرآن کے بیان و مطالب کا طریقہ ہے۔“ (ترجمان القرآن ج  ۲ ،صفحہ ۴۳)

۳۔ داعیانہ سوز

مولانا کی کتاب میں ایک داعیانہ سوز پایا جاتا ہے، پوری کتاب کا اسلوب ایسا رکھا کہ قاری کا جذبہ عمل بیدار ہو اور اسے قرآن پر عمل کرنا آسان لگے۔

۴۔ فکری اعتدال

مولانا معتدل فکر رکھتے تھے۔ انہوں نے عقل و نقل دونوں سے برابر رہنمائی حاصل کی۔ ان کے لیے رہنما شاہ ولی اللہ دہلوی کا منہج فکر تھا۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی لکھتے ہیں:  ’’مولانا آزاد کے سامنے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا طرز فکر واضح تھا  جس میں درایت و روایت اور تعقل اور اتباع سلف دونوں باتیں اعتدال کے ساتھ موجود تھیں۔“ (ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ ، ص ۲۸)

۵۔ منہج سلف کی پیروی

مولانا آزاد نے تفسیر میں اسلاف کے منہج کی مجتہدانہ پیروی کی ہے، اس کو رہنما بنا کر اپنے زمانے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مولانا قاسمی لکھتے ہیں:  ’’ مولانا آزاد نے دینی افکار کی تشریح محدثین سلف کے طریقہ کے مطابق کر کے اسلام کے بنیادی افکار وحی و نبوت اور نبوت کے حقائق اور وحدت دین کی تشریح ولی اللہی فکر کے مطابق ، حضرات صحابہ کے دینی مقام و مرتبہ اور تفسیر قرآن میں سلف کرام کے اصولی دائرہ کی پابندی وغیرہ ، دین کے مباحث پر روشنی ڈالی ۔ ترجمان القرآن کے فکری مباحث کی روح اسی منظر میں واضح ہوتی ہے۔“ (ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ ، ص ۲۹)

۶۔ فکر مغرب سے مرعوب مفکرین کا رد

مولانا نے اپنی تفسیر میں بغیر نام لیے  سرسید احمد خان اور ان کے ہمنوا دیگر مفکرین کا عمدہ طریقے سے رد کیا ہے۔ مولانا کا یہ رد خالص علمی اور مثبت انداز میں ہے، اس میں تفسیر حقانی کی طرح طنز نہیں پائی جاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ تفسیر حقانی کے بجائے مولانا کی تفسیر زیادہ مقبول ہوئی اور اس نے جدید ذہن کے اشکالات کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مولانا قاسمی لکھتے ہیں: ’’مولانا آزاد مناظرانہ انداز گفتگو کو پسند نہیں کرتے تھے، اس لیے سنجیدہ اور مثبت انداز میں سید احمد خان کے تصورات کی ترجمان القرآن میں مکمل تردید ملتی ہے۔“ (ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ ، ص ۲۹)

۷۔ جامعیت

مولانا کی تفسیر مختصر مگر جامع ہے، بسا اوقات ایک حاشیہ پورے مقالے کے قائم مقام ہے۔ مولانا خود اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:   ’’اکثر مقامات میں ایسا ہوا کہ معارف ومباحث کا ایک پورا دفتر دماغ میں پھیل رہا تھا ، مگر نوک قلم پر آیا تو ایک سطر یا ایک جملہ بن گیا۔“ (ترجمان القرآن ، جلد ۲ ،صفحہ ۴۴)
مولانا کی کتاب سے بعد کے مصنفین نے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ مولانا آزادکی تفسیر پر مختلف حضرات نے بعض پہلوؤں سے اعتراضات بھی کیے ہیں  جن کے مختلف علمی و فکری پس منظر ہیں۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی ؒ نے اپنے علمی مقالہ ’’ ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ ’’ میں ان اعتراضات کا جواب دیا ہے۔

افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وزیرخارجہ جناب شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کا یہ موقف تسلیم کر لیا ہے کہ افغانستان میں امن و امان کے قیام کے لیے مذاکرات ہی مسئلہ کا واحد حل ہیں اور افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے افغان طالبان سے کہا ہے کہ انہیں ہتھیار چھوڑ کر مذاکرات کی طرف آنا ہوگا۔
افغان مسئلہ کے فوجی حل کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو عسکری یلغار کی تھی اس کی ناکامی کا اعتراف خود امریکی جرنیل متعدد بار کر چکے ہیں اور یہ بات پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ فوجی قوت کے ذریعے افغان عوام کو زیر کرنے کا امریکی منصوبہ بھی کارگر نہیں ہو سکا جبکہ اس سے قبل برطانوی استعمار اور سوویت یونین بھی بھرپور عسکری قوت کے استعمال کے باوجود اپنے اپنے دور میں ناکام رہے ہیں۔ اور افغان عوام کی یہ قومی روایت ایک بار پھر تاریخ کے صفحات میں ثبت ہوگئی ہے کہ انہیں قوت کے زور پر زیر کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے والوں کو بہرحال ان کی غیرت و حمیت اور اسلامیت کا اعتراف کرتے ہوئے باوقار گفتگو کے ذریعے ہی باہمی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کئی بار یہ تقاضا کر چکا ہے کہ افغان طالبان مذاکرات کی میز پر آ کر بات کریں اور افغانستان میں امن و امان کے قیام کے لیے گفت و شنید کا راستہ اختیار کریں۔ طالبان کو بھی اس سے انکار نہیں ہے، البتہ وہ جائز طور پر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ امریکی اتحاد کو مذاکرات سے قبل افغانستان میں اپنے فوجی مشن کو ختم کرنے کا اعلان کر کے فوجوں کی واپسی کا ٹائم ٹیبل دینا ہوگا، اس کے بغیر مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس جائز اور معقول شرط کو قبول کرنے کے لیے ابھی تک تیار نہیں نظر آتے جس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے بیٹھے ہیں، اور یہ وجہ بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ جن مقاصد اور اہداف کے لیے انہوں نے افغانستان پر عسکری یلغار کی تھی وہ ان سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہی مقاصد مذاکرات کی میز پر حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، چنانچہ مذاکرات کے موجودہ عمل میں ہمارے خیال کے مطابق یہی پہلو کسی مثبت پیشرفت میں رکاوٹ بن گیا ہے۔
سادہ سی بات ہے کہ سوویت یونین کی عسکری جارحیت کے خلاف افغان عوام نے علم جہاد بلند کیا اور اپنی قومی خودمختاری اور اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے میدان عمل میں آئے تو امریکہ نے سوویت یونین کے ساتھ اپنی محاذ آرائی میں اسے مفید سمجھتے ہوئے افغان مجاہدین کی حمایت کی اور انہیں مکمل سپورٹ کیا جس سے افغان مجاہدین کو سوویت یونین کے خلاف جہاد میں کامیابی حاصل کرنے میں خاصی مدد ملی، البتہ وہ اس فریب کو نہ سمجھ سکے یا سمجھتے ہوئے بھی وقتی سہولت کی خاطر ٹریپ ہوگئے کہ افغان جہاد میں امریکی امداد افغانستان کی قومی خودمختاری اور اسلامی تشخص کی بحالی کے لیے نہیں بلکہ سوویت یونین کے بکھر جانے کی صورت میں اس خطہ میں امریکی اجارہ داری کے قیام کے لیے ہے۔ اور یہیں سے جہاد افغانستان کی صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی، جنیوا معاہدہ اس امریکی حکمت عملی کا شاہکار تھا جس نے افغانستان کو ایک نئی خانہ جنگی اور افراتفری سے دوچار کر دیا، اس دلدل سے افغانستان کو نکالنے کے لیے افغان طالبان سامنے آئے اور قومی خودمختاری اور اسلامی تشخص کی شاہراہ پر پھر سے افغان قوم کو گامزن کر دیا، جو نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بلکہ دنیا کی سبھی استعماری قوتوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا کیونکہ عالمی سطح پر استعماری عزائم رکھنے والے تمام ممالک اور اقوام تمام تر باہمی اختلافات و تنازعات کے باوجود اس نکتہ پر پوری طرح متفق ہیں کہ اسلامی شریعت کو دنیا کے کسی خطہ میں ملکی قانون و نظام کے طور پر برداشت نہیں کیا جائے گا، جبکہ افغان طالبان کی امارت اسلامیہ کا بنیادی ایجنڈا ہی نفاذ شریعت ہے، چنانچہ اس سے ایک نئی کشمکش کا آغاز ہوگیا جو اب تک جاری ہے۔
اس صورتحال میں جبکہ افغانستان پر امریکی اتحاد کی عسکری یلغار اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکی اور مذاکرات کی میز بچھائی جا رہی ہے، جنیوا طرز کے ایک اور معاہدے کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں تاکہ امن و امان تو کسی درجہ میں قائم ہو جائے مگر افغانستان کی مکمل قومی خودمختاری اور افغان قوم کا اسلامی تشخص بدستور ابہام کا شکار رہے اور ان کے گرد سازشوں کا حصار مسلسل قائم رہے۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا افغان طالبان کو یہ مشورہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ ہتھیار چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آئیں، کیونکہ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں بنتا کہ وہ امریکہ کی فوجی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے اس کی شرائط کے سامنے سرنڈر ہو جائیں اور جو کامیابی امریکی اتحاد عسکری میدان میں حاصل نہیں کر سکا اسے افغان طالبان خود مذاکرات کی میز پر طشتری میں سجا کر امریکہ بہادر کے حضور پیش کر دیں۔ ہم مذاکرات کے حق میں ہیں اور اسی کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں لیکن شاہ محمود قریشی کا یہ مشورہ ہمارے نزدیک مذاکرات کے لیے نہیں بلکہ سرنڈر ہونے کا مشورہ ہے جو کسی طرح بھی پاکستان کے شایان شان نہیں ہے اور حکومت پاکستان کو اس پر بہرحال نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ اگر ویت نام کی جنگ میں امریکہ وہاں کے آزادی پسندوں (ویت کانگ) سے ہتھیار رکھوانے کی شرط کے بغیر مذاکرات کر سکتا ہے تو افغان طالبان کے ساتھ موجودہ پوزیشن میں مذاکرات میں آخر کیا چیز مانع ہے؟

مولانا سید محمد میاں دیوبندی، عظیم مورخ اور مفکر

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جمعیۃ علماء ہند کے قیام کو ایک صدی مکمل ہونے پر انڈیا میں صد سالہ تقریبات کا سلسلہ جاری ہے اور جمعیۃ کے بزرگ اکابر کی یاد میں مختلف سیمینارز منعقد ہو رہے ہیں۔ دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے سرگرم راہنما، مؤرخ اور مفکر حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ کے حوالہ سے منعقدہ سیمینار کی مناسبت سے حضرت ی کے ساتھ عقیدت اور چند ملاقاتوں کے تاثرات پر مشتمل کچھ گزارشات قلمبند ہوگئیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔
حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ کا نام پہلی بار طالب علمی کے دور میں اس وقت سنا جب میں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں زیر تعلیم تھا اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کے زیر مطالعہ کتابوں اور جرائد پر میری بھی نظر پڑتی رہتی تھی بلکہ وہ خود کسی نہ کسی کتاب کے مطالعہ کا موقع فراہم کر دیتے تھے۔ ان دنوں جمعیۃ علماء ہند کے بارے میں حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کا رسالہ ’’جمعیۃ علماء کیا ہے؟‘‘ نظر سے گزرا، اس سے قبل چودھری افضل حقؒ کی ’’تاریخ احرار‘‘ دیکھ چکا تھا اس لیے تاریخ کا تھوڑا بہت ذوق رکھتا تھا۔ اس کے بعد ’’علماء حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے‘‘ اور ’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور ذہن و فکر کے دائرے متعین ہوتے چلے گئے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار و تعلیمات کا ایک نقشہ مولانا سید محمد میاںؒ کے قلم سے ’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘ میں نظر سے گزرا تو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے بارے میں وہ باتیں بھی کچھ نہ کچھ سمجھ میں آنے لگیں جو والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خوان سواتیؒ سے عام طور پر سنا کرتا تھا۔ چچا محترم اپنے بیانات، اسباق اور مواعظ میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا تذکرہ جس ذوق و محبت سے کرتے تھے اس کے نقوش ذہن میں راسخ ہوتے چلے گئے اور ان بزرگوں تک فکری رسائی کا سب سے بڑا ذریعہ میرے پاس حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کی کتابیں اور مضامین ہوتے تھے۔
میں طالب علمی کے دور میں ہی جمعیۃ علماء اسلام پاکستان سے وابستہ ہو گیا تھا اور اس کی سرگرمیوں میں کسی نہ کسی سطح پر شریک رہنا میرے معمولات کا حصہ تھا۔ اسی دور میں جامعہ مدنیہ لاہور کے بانی اور حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کے فرزند حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کی خدمت میں حاضری کے مواقع میسر آنے لگے اور ان سے نیازمندی کا تعلق استوار ہوگیا۔ اس دوران معلوم ہوا کہ حضرت مولانا سید محمد میاںؒ لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں، بے حد خوشی ہوئی اور ایک روز ان کی ملاقات و زیارت کے لیے جامعہ مدنیہ لاہور حاضر ہوگیا۔ حضرت مولانا سید حامد میاںؒ گھر میں نہیں تھے، ایک سادہ سے بزرگ نے دروازہ کھولا تو میں نے عرض کیا کہ گوجرانوالہ سے حضرت کی زیارت و ملاقات کے لیے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت تو کسی کام کے لیے گئے ہوئے ہیں تھوڑی دیر میں آئیں گے، آپ اندر آئیں اور بیٹھ جائیں۔ میں سمجھا کہ خاندان کے کوئی بزرگ ہیں اور مہمانوں وغیرہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ میں کمرہ میں بیٹھ گیا، تھوڑی دیر بعد وہ بزرگ دستر خوان اور پانی کا لوٹا لیے تشریف لائے اور فرمایا کہ کھانے کا وقت ہے آپ دور سے آئے ہیں کھانا کھا لیں۔ میں بیٹھ گیا، انہوں نے ہاتھ دھلوانے کے لیے لوٹا پکڑا ہوا تھا، میں نے لوٹا ان کے ہاتھ سے لینا چاہا اور عرض کیا کہ آپ بزرگ ہیں، میں ہاتھ خود ہی دھو لوں گا۔ فرمایا کہ نہیں آپ ہمارے مہمان ہیں اس لیے میں ہی ہاتھ دھلواؤں گا۔ میں نے ہاتھ دھوئے اور کھانا شروع کر دیا، ابھی فارغ ہوا ہی تھا کہ حضرت مولانا سید حامد میاںؒ تشریف لائے، ان سے ملا تو پوچھا کیسے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت سے ملنے آیا ہوں، پوچھا مل لیا؟ میں نے عرض کیا کہ وہ کہاں ہیں؟ کان کے قریب منہ لا کر آہستہ سے کہا کہ یہ آپ کے سامنے تو بیٹھے ہیں۔ اللہ اکبر، یہ کیا ہوگیا؟ میں تو شرم کے مارے پانی پانی ہوگیا، اب میرے منہ سے کوئی بات نہیں نکل رہی تھی اور حضرت مولانا سید حامد میاںؒ مجھے دیکھ کر مسکرائے جا رہے تھے۔ حضرت مولانا سید محمد میاںؒ نے انتہائی شفقت کے ساتھ مجھے تسلی دی اور فرمایا کہ بھائی آپ مہمان ہیں اس لیے پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔
یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی جس کے نقوش و مناظر ابھی تک ذہن میں تازہ ہیں اور کبھی کبھی ان کا تصور ذہن میں لا کر اپنے ان بزرگوں سے عالم تخیل میں ملاقات کر لیا کرتا ہوں۔ میرے ساتھ ان دنوں گوجرانوالہ کے مولانا قاری محمد یوسف عثمانی جماعتی و تحریکی کاموں میں بہت متحرک ہوا کرتے تھے، اب وہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک بار پھر جامعہ مدنیہ حاضری ہوئی اور دونوں حضرات کی زیارت و ملاقات سے شادکام ہوئے، اس موقع پر پتہ چلا کہ حضرت مولانا سید محمد میاںؒ اپنی پوتی کے نکاح میں شرکت کے لیے آئے ہیں جس کا نکاح ضلع گوجرانوالہ کے ایک بڑے قصبہ قلعہ دیدار سنگھ کے کسی نواحی گاؤں میں ہوا ہے اور نکاح کے دوسرے دن حضرتؒ نے ولیمہ میں شرکت کے لیے اس گاؤں جانا ہے۔ اس زمانہ میں گوجرانوالہ کا بائی پاس روڈ نہیں بنا تھا اور قلعہ دیدار سنگھ جانے کے لیے چوک گھنٹہ گھر کے پاس سے گزر کر جانا ہوتا تھا جس سے چند قدم کے فاصلے پر جامعہ نصرۃ العلوم واقع ہے۔ ہم بہت خوش ہوئے کہ اس بہانے حضرت مولانا سید محمد میاںؒ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی جامعہ نصرۃ العلوم میں تشریف لا سکیں گے، مگر معلوم ہوا کہ عملاً ایسا نہیں ہو سکے گا اس لیے کہ وہ ویزے کے قوانین کے تحت ان کی نقل و حرکت متعین راستوں اور مقامات سے ہی ممکن ہوگی اور ادھر ادھر کسی جگہ وہ نہیں جا سکیں گے۔ یہ بات مجھے اور قاری محمد یوسف عثمانی کو کسی طرح ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ حضرت مولانا سید محمد میاںؒ جامعہ نصرۃ العلوم کے قریب صرف چند قدم کے فاصلے سے گزریں گے اور ہمارے ہاں تشریف نہیں لائیں گے۔ ہم شش و پنج اور پیچ و تاب کے اسی حال میں تھے کہ اللہ تعالٰی نے ’’کذلک کدنا لیوسف‘‘ کی طرز پر ذہن میں ایک ترکیب ڈال دی اور ہم نے پلان بنا کر حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کو اعتماد میں لے لیا۔ پھر ہوا یوں کہ حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کو لاہور سے ولیمہ کے لیے قلعہ دیدار سنگھ لے جانے کے لیے گاڑی کا بندوبست ہم نے کیا جو جامعہ نصرۃ العلوم کے قریب سے گزرتے ہوئے اچانک ’’خراب‘‘ ہوگئی۔ ڈرائیور نے بہت کوشش کی مگر انجن کا نقص معلوم نہ ہو سکا، حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کو کو گاڑی سے باہر لا کر سڑک پر ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا تاکہ جتنی دیر گاڑی چلنے کے قابل نہیں ہوتی، وہ آرام سے بیٹھے رہیں۔ نگرانی کے لیے ساتھ جانے والے پولیس آفیسر سے ہم نے کہا کہ بزرگ مہمان ہیں۔ اس طرح سڑک پر بٹھانا مناسب نہیں ہے، قریب ہی مدرسہ ہے، اگر اجازت ہو تو گاڑی ٹھیک ہونے تک وہاں بٹھا لیا جائے۔ اس نے صورتحال دیکھتے ہوئے اجازت دے دی اور یوں ہم حضرت کو مدرسہ میں لے آئے جہاں حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے علاوہ شہر کے بزرگ علماء حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ، حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ، حضرت مولانا احمد سعید ہزارویؒ اور دیگر بہت سے حضرات پہلے سے موجود تھے، ان کے ساتھ تھوڑی دیر نشست رہی اور پھر گاڑی ٹھیک ہوجانے پر حضرتؒ کو آگے روانہ کر دیا گیا۔
حضرت مولانا سید محمد میاںؒ نے ایک مؤرخ کے طور پر برصغیر میں دینی جدوجہد کی تاریخ کو جس ذوق و محنت کے ساتھ مرتب کیا ہے وہ اہل حق پر ان کا بہت بڑا احسان ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار و تعلیمات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کر کے انہوں نے علماء حق کی راہنمائی کا ہمیشہ کے لیے اہتمام کر دیا ہے، وہ تحریک ولی اللہی کے محسنین میں سے ہیں، اللہ تعالٰی ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱)

محمد عمار خان ناصر

ساتویں صدی عیسوی میں جزیرہ عرب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کی فراہمی کا جو طریقہ اختیار کیا گیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول بھی اپنے قول وعمل کے ذریعے سے اہل ایمان کی راہ نمائی فرما رہے تھے۔ اپنی اس منصبی حیثیت میں آپ کو اہل ایمان کے لیے دینی ہدایات واحکام مقرر کرنے کا مستقل اختیار حاصل تھا اور اہل ایمان سے کتاب الٰہی اور پیغمبر، دونوں کی اطاعت کسی امتیاز کے بغیر یکساں مطلوب تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَاَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُولِی الاَمرِ مِنکُم فَإِن تَنَازَعتُم فِی شَیئٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُم تُؤمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالیَومِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیر وَاَحسَنُ تَاوِیلاً (النساء۵۹:۴)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی بھی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول اور ان لوگوں کی بھی اطاعت کرو جو تم میں سے صاحب اختیار ہوں۔ پھر اگر تمھارا کسی معاملے میں باہم تنازع ہو جائے تو اسے (فیصلے کے لیے) اللہ اور رسول کے پاس لے جاﺅ ، اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ طریقہ بہتر بھی ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا بھی۔“
مَّن یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَد اَطَاعَ اللّٰہَ وَمَن تَوَلَّی فَمَا اَرسَلنَاکَ عَلَیہِم حَفِیظاً (النساء۴: ۸٠)
”جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی اور جس نے منہ پھیرا تو ہم نے تمھیں ایسے لوگوں پر نگران بنا کر نہیں بھیجا۔“
اس کے ساتھ قرآن مجید میں یہ بات بھی اتنی ہی وضاحت کے ساتھ بتا دی گئی تھی کہ پیغمبر کو حاصل تشریعی اختیار، کتاب اللہ کے مدمقابل یا اس کے متوازی نہیں ہے، بلکہ اس کے تابع ہے۔ یعنی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم، کتاب الٰہی میں دی گئی ہدایت کے پابند اور پیروکار تھے اور اس میں کسی قسم کی ترمیم وتغییر کے مجاز نہیں تھے۔ چنانچہ کفار کی طرف سے قرآن میں تبدیلی کے مطالبے کے جواب میں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
قُل مَا یَکُونُ لِی اَن اُبَدِّلَہُ مِن تِلقَائ نَفسِی إِن اَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ إِنِّی اَخَافُ إن عَصَیتُ رَبِّی عَذَابَ یَومٍ عَظِیمٍ (یونس ۱۵:۱٠)
”تم کہہ دو کہ مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس کو تبدیل کر دوں۔ میں تو بس اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔“
ایک موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حلال چیز کو ذاتی طور پر اپنے لیے ممنوع قرار دیا تو قرآن مجید میں آپ کو اس پر تنبیہ کی گئی۔ فرمایا: 
 یَا اَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبتَغِی مَرضَاتَ اَزوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُور رَّحِیم (التحریم ۱:۶۶)
”اے نبی، تم کیوں اپنی بیویوں کی خوشنودی پانے کے لیے اس چیز کو حرام ٹھہراتے ہو جو اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہے؟ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“
اس بات کی وضاحت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد مواقع پر صاف لفظوں میں فرمائی۔ چنانچہ ابو شریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے خطبہ میں فرمایا:
ان مکۃ حرمھا اللہ ولم یحرمھا الناس، فلا یحل لامرئہ یومن باللہ والیوم الآخر ان یسفک بھا دما ولا یعضد بھا شجرۃ، فان احد ترخص لقتال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقولوا لہ: ان اللہ اذن لرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم ولم یاذن لکم، وانما اذن لی ساعۃ من نھار، وقد عادت حرمتھا الیوم کحرمتھا بالامس، ولیبلغ الشاھد الغائب (سنن ابی داود، کتاب جزاءالصید، باب لا یعضد شجر الحرم، رقم ۱۸۳۲)
”مکہ کو لوگوں نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا ہے، پس کسی آدمی کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، حلال نہیں کہ اس میں کسی کا خون بہائے یا کسی درخت کو کاٹے۔ اور اگر کوئی شخص اس بات سے رخصت نکالنا چاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں قتال کیا ہے تو اس سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی لیکن تمھیں اس کی اجازت نہیں دی۔ اور مجھے بھی اس میں قتال کرنے کی اجازت بس دن کے ایک مختصر سے حصے میں دی گئی، پھر اس کی حرمت اسی طرح دوبارہ قائم ہو گئی جیسے گزشتہ روز تھی۔ اور جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ یہ بات ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔“
 ایک موقع پر سیدنا علی نے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اس کی اجازت نہ دی۔ اس موقع پر آپ نے اپنی بات کی وضاحت میں فرمایا:
وانی لست احرم حلالا ولا احل حراما ولکن واللہ لا تجتمع بنت رسول اللہ و بنت عدو اللہ مکانا واحدا ابدا (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل فاطمة بنت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، رقم ۲۴۴۹)
”میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کر رہا، لیکن بخدا اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔“
اسی طرح ایک موقع پر آپ نے لوگوں کو لہسن کھا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا۔ لوگوں میں یہ بات پھیل گئی کہ شاید لہسن کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کی اور فرمایا:
ایھا الناس انہ لیس لی تحریم ما احل اللہ لی ولکنھا شجرة اکرہ ریحھا (صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نہی من اکل ثوما او بصلا او کراثا او نحوہا، رقم ۵۶۵)
”اے لوگو! مجھے اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ بس مجھے اس پودے کی بو پسند نہیں۔“
ان نصوص کی روشنی میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے اتارے ہوئے کسی حکم میں تبدیلی یا ترمیم کے مجاز نہیں تھے، تاہم منصب رسالت کے تحت اس کے علاوہ مستقل احکام وشرائع وضع کرنے کا پورا اختیار رکھتے تھے اور اہل ایمان پر ان کی پابندی قبول کرنا بھی کتاب اللہ ہی کی طرح لازم تھا۔ ابو رافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا الفین احدکم متکئا علی اریکتہ یاتیہ الامر من امری مما امرت بہ او نھیت عنہ فیقول لا ندری ما وجدنا فی کتاب اللہ اتبعناہ (سنن ابی داود، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، رقم ۴۶٠۵)
”میں تم میں سے کسی کو ایسی حالت میں نہ پاوں کہ وہ اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور میرا کوئی حکم اس تک پہنچے جس میں، میں نے کسی بات کا حکم دیا یا کسی بات سے منع کیا ہو اور وہ کہہ دے کہ ہم نہیں جانتے، ہمیں تو بس کتاب اللہ میں جو بات ملے گی، اسی کی پیروی کریں گے۔“
مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الا انی اوتیت الکتاب ومثلہ معہ، الا یوشک رجل شبعان علی اریکتہ یقول علیکم بھذا القرآن، فما وجدتم فیہ من حلال فاحلوہ وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ، الا لا یحل لکم لحم الحمار الاھلی ولا کل ذی ناب من السباع ولا لقطة معاھد الا ان یستغنی عنھا صاحبھا (سنن ابی داود، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، رقم ۴۶٠۴)
”آگاہ رہو کہ مجھے اللہ کی کتاب بھی دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی جیسی ایک اور چیز بھی (جس کی پیروی تم پر لازم ہے)۔ آگاہ رہو، قریب ہے کہ کوئی شخص خوب سیر ہو کر اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور تم سے کہے کہ بس اس قرآن کو اختیار کر لو اور اس میں تمھیں جو چیز حلال ملے، اسے حلال سمجھو اور جو حرام ملے، اسے حرام مانو۔ آگاہ رہو کہ تمھارے لیے گھریلو گدھے کا گوشت کھانا بھی حلال نہیں ہے اور کسی کچلی والے درندے کا بھی ، اور کسی معاہد کی گری ہوئی چیز اٹھانا بھی حلال نہیں، الا یہ کہ (وہ ایسی معمولی ہو کہ) اس کا مالک اس سے بے نیاز ہو۔“
ایک زاویے سے دیکھا جائے تو اگرچہ اس وقت اللہ کی کتاب بھی براہ راست نازل ہو رہی تھی، لیکن چونکہ اہل ایمان کو قرآن بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے مل رہا تھا اور اس کے علاوہ مستقل احکام وشرائع وضع کرنے کے اختیار کے تحت ہدایت الٰہی کی تفصیل وتکمیل کا عمل بھی آپ ہی کے ہاتھوں سے انجام پا رہا تھا، اس لیے آپ کے حین حیات میں اصل مرکز اطاعت آپ ہی کی شخصیت تھی۔ ایک روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اپنی اس حیثیت کو واضح فرمایا ہے۔ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گویا الوداعی گفتگو کرنے کے لیے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ 
فاسمعوا واطیعوا ما دمت فیکم، فاذا ذھب بی فعلیکم بکتاب اللہ، احلوا حلالہ وحرموا حرامہ (مسند احمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص، رقم ۶۶٠۶)
”جب تک میں زندہ ہوں، میری اطاعت کرو، اور جب میں رخصت ہو جاوں تو اللہ کی کتاب کو لازم پکڑنا، اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام ماننا۔“
چنانچہ یہ بدیہی بات تھی کہ کتاب اللہ کے معنی ومراد کو سمجھنے اور اس کی تشریح وتوضیح میں آپ ہی کے ارشاد یا عمل کو صحابہ کی نظر میں حتمی اور فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو۔ چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما اس کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ:
ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین اظھرنا، علیہ ینزل القرآن وھو یعرف تاویلہ، وما عمل بہ من شیءعملنا بہ (مسند احمد، مسند جابر بن عبد اللہ، رقم ۱۴۴۴٠)
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے۔ آپ پر قرآن نازل ہوتا تھا اور آپ ہی اس کی مراد کو (سب سے بہتر) جانتے تھے، چنانچہ آپ جو بھی عمل کرتے، ہم بھی وہی کرتے تھے۔“
تاہم ذخیرہ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ فقہائے صحابہ قرآن کے معنی ومفہوم پر مستقلاً بھی غور کرتے تھے اور ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں اہل علم صحابہ کو قرآن کی کسی آیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد یا عمل کے مابین تفاوت محسوس ہوا اور انھوں نے اس حوالے سے اپنا اشکال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ اس کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ ام مبشر بیان کرتی ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے سامنے فرمایا: ”اللہ نے چاہا تو (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔“ام المومنین حفصہ نے کہا کہ یا رسول اللہ، بالکل جائے گا۔ اس پر آپ نے انھیں ڈانٹ دیا تو ام المومنین نے قرآن مجید کی اس آیت کا حوالہ دیا:
وَاِن مِّنکُم اِلَّا وَارِدُھَا، کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتمًا مَّقضِیًّا (مریم ۱۹: ۷۱، ۷۲) 
”تم میں سے ہر شخص جہنم پر وارد ہوگا۔ یہ تمہارے رب کا اٹل فیصلہ ہے۔“ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں اس سے اگلی آیت پڑھی :
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِینَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِینَ فِیھَا جِثِیًّا
”پھر ہم ان لوگوں کو نجات دیں گے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا اور ظالموں کو جہنم میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔“ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل اصحاب الشجرة، رقم ۲۴۹۶)
علامہ ابن القیمؒ لکھتے ہیں کہ سیدہ حفصہ کو آیت اور حدیث کے مابین تعارض محسوس ہوا اور انھوں نے سمجھا کہ قرآن میں ورود سے مراد آگ میں داخل ہونا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ اہل ایمان اور اہل کفر کے ورود کی نوعیت مختلف ہوگی۔ متقین کا ورود ایسا ہوگا کہ وہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں گے، جبکہ ظالموں کا ورود انھیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں رکھنے کے لیے ہوگا۔ (الصواعق المرسلة ۳/۱٠۵۴)
۲۔ ام المومنین عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے حساب لیا گیا، اسے لازماً عذاب ہوگا۔ میں نے کہا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہل ایمان کے بارے میں نہیں فرمایا کہ :
فَسَوفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیرًا (الانشقاق ۸:۴۸)
”ان سے آسان حساب لیا جائے گا۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو محض سرسری پوچھ گچھ ہوگی۔ لیکن جس سے حساب لیتے ہوئے چھان بین کی گئی، وہ مارا گیا۔“ (صحیح البخاری، کتاب العلم، باب من سمع شیئا فراجعہ حتی یعرفہ، رقم ۱٠۳)
۳۔ سورة النساءکی آیت ۱۰۱ میں نماز کو قصر کرنے کا حکم اصلاً جہاد کے احکام کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے سرایا کو دشمن قبائل کے علاقے سے گزر کر جانا ہوتا تھا اور خدشہ ہوتا تھا کہ اگر کسی جگہ زیادہ دیر قیام کیا تو دشمن کو خبر ہو جائے گی اور وہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ قرآن مجید میں نماز کو قصر کرنے کی ہدایت اسی تناظر میں آئی ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رخصت کو اس خاص صورت تک محدود رکھنے کے بجائے اس کو عمومی طو رپر ہر طرح کے سفر سے متعلق قرار دیا جس پر بعض صحابہ کو اشکال ہوا اور انھوں نے یہ اشکال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ 
یعلی بن امیۃ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر سے سوال کیا کہ سورة النساء(۴: ۱۰۱) میں تو نماز کو قصر کرنے کی اجازت کفار کی طرف سے اندیشے اور خوف کی حالت میں دی گئی تھی تو اب جبکہ اہل ایمان کو امن حاصل ہو گیا ہے، اس رخصت پر عمل کیوں برقرار ہے؟ سیدنا عمر نے فرمایا:
عجبت مما عجبت منہ فسالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن ذلک فقال صدقة تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ (صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب صلاة المسافرین وقصرہا، رقم ۶۸۶)
”جس بات پر تم حیران ہوئے ہو، وہ میرے لیے بھی باعث حیرانی بنی تھی، چنانچہ میں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مہربانی ہے جو اس نے تم پر کی ہے، اس لیے اللہ کی دی ہوئی رخصت کو قبول کرو۔“
گویا آپ نے واضح فرمایا کہ آیت میں إِن خِفتُم اَن یَفتِنَکُمَ الَّذِینَ کَفَرُوا (اگر تمھیں خوف ہو کہ اہل کفر تمھیں فتنے میں ڈال دیں گے) کی قید کسی شرط کے طور پر نہیں، بلکہ قصر کی رخصت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک خاص وجہ کے طور پر ترغیب کے پہلو سے بیان کی گئی ہے۔ 
۴۔ قرآن مجید میں ایسی خواتین کی فہرست بیان کرتے ہوئے جن سے نکاح کرنا حرام ہے، مختلف نسبی اور رضاعی رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، تاہم نسبی رشتوں میں ماں اور بہن کے علاوہ خالہ، پھوپھی، بھتیجی اور بھانجی کو بھی شامل کرتے ہوئے رضاعی رشتوں کے ذکر میں صرف رضاعی والدہ اور رضاعی بہن کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔ (النساء۴: ۲۳) 
اس تناظر میں، ام المومنین عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ان کی رضاعی والدہ کے شوہر ابو القعیس کے بھائی افلح ان کے پاس آئے جب کہ امہات المومنین کے لیے حجاب کا حکم نازل ہو چکا تھا۔ ام المومنین نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر انھیں اپنے پاس نہیں آنے دوں گی کیونکہ میرا رضاعی رشتہ ابو القعیس کی بیوی سے تو بنتا ہے، لیکن ابو القعیس سے نہیں، اس لیے ان کا بھائی میرے لیے غیر محرم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ام المومنین نے آپ سے یہ سوال پوچھا۔ آپ نے فرمایا: تم اپنے چچا کو اندر آنے کی اجازت کیوں نہیں دیتیں؟ میں نے کہا یا رسول اللہ، مجھے ابو القعیس نے تو دودھ نہیں پلایا، بلکہ اس کی بیوی نے دودھ پلایا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”تمھارے ہاتھ خاک آلود ہوں، اس کو اجازت دے دو کیونکہ وہ تمھارا چچا ہے۔“ (صحیح البخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ ان تبدوا شیئا او تخفوہ، رقم ۴۷۹۶)
ایک دوسری ر وایت میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس بیٹھے تھے کہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے باہر سے کسی آدمی کی آواز سنائی دی جو اندر جانے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا کہ غالباً یہ فلاں شخص ہے۔ یہ شخص حفصہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی چچا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر فلاں شخص، جو سیدہ عائشہ کا رضاعی چچا تھا، زندہ ہوتا تو وہ بھی میرے پاس آ سکتا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں۔ رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسبی تعلق سے حرام ہوتے ہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الشہادات، باب الشہادة علی الانساب والرضاع المستفیض والموت القدیم، رقم ۲۶۴۶) 
دلچسپ امر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وضاحت کے بعد بھی سیدہ عائشہ اس پر مطمئن نہیں ہوئیں کہ کسی عورت کا دودھ پینے سے اس کے شوہر کے ساتھ بھی بچے کا حرمت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے، چنانچہ قاسم بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ ا م المومنین ایسے لڑکوں سے تو حجاب نہیں کرتی تھیں جنھیں ان کی بہنوں یا بھتیجیوں نے دودھ پلایا ہو، لیکن جن لڑکوں نے ام المومنین کے بھائیوں کی بیویوں کا دودھ پیا ہوتا، انھیں اپنے پاس آنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ (الموطا، کتاب الرضاع، رضاعة الصغیر، رقم ۱۲۸٠) یعنی وہ یہ سمجھتی تھیں کہ ان لڑکوں نے ان کے بھائی کی بیوی کا دودھ پینے سے وہ ان کے بھائی کے رضاعی بیٹے نہیں بن گئے اور نتیجتاً ام المومنین کے ساتھ بھی ان کا بھتیجے کا رشتہ قائم نہیں ہوا۔ چنانچہ جمہور فقہاءومحدثین کی طرف سے ابو القعیس کی مذکورہ روایت کو اس اصول کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ اگر کسی راوی کا عمل خود اپنی نقل کردہ روایت کے خلاف ہو تو ایسی صورت میں اس کے عمل کا نہیں، بلکہ روایت کا اعتبار کیا جائے گا۔ (فتح الباری، ۹/۵۶؛ بدایة المجتہد ۲/۳۹)
۵۔ سورة التوبہ میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے طرز عمل کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ ان لوگوں کے نفاق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کے حق میں اللہ کے رسول کی دعائے مغفرت بھی قبول نہیں کرے گا، اس لیے اے پیغمبر، آپ ان کے لیے دعا کریں یا نہ کریں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی دعائے مغفرت کریں تو اللہ ان کی بخشش نہیں کرے گا۔ (التوبہ ۹: ۸٠)
قرآن کے اس تبصرے سے واضح تھا کہ اللہ تعالیٰ کو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منافقین کے حق میں استغفار کرنا پسند نہیں، تاہم جب رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے کی فرمائش پر اس کو کفن دینے کے لیے اپنی قمیص عطا کی اور پھر اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی کھڑے ہوگئے۔ اس موقع پر سیدنا عمرؓ نے آپ کو کھینچا اور کہا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقوں کی نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا؟ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے اس معاملے میں اختیار دیا گیا ہے، اور پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب الکفن فی القمیص الذی یکف او لا یکف، رقم ۱۲۶۹)
اس واقعے سے فہم نص میں اجتہادی اختلاف کی گنجائش کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے کو واضح کرتے ہوئے مولانا ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
وحاصل اجتھادہ انہ فھم من الآیة اباحة الاستغفار لھم، وخالفہ فی ذلک عمر وفھم منھا النھی عن الاستغفار ومنع النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الصلاة علی عبد اللہ بن ابی، ولم ینکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ذلک منہ ولکن لم یرجع من اجتھادہ، واقرھما اللہ تعالی علی اجتھادھما حیث لم یعاتب واحدا منھما ولا بین المخطئ· من المصیب۔
وبہ تبین ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قد کان یجتھد فی تاویل النص ویخالفہ اصحابہ فی تاویلہ ولا ینکرہ علیھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویقرھم اللہ تعالی علیہ، لان اللہ تعالیٰ لم ینکرہ فی ھذہ القصة علی احد بین الفریقین، لا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا علی عمر، بل انزل قولہ تعالیٰ ”ولا تصل علی احد منھم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ“ ]التوبة ۸۴[ وھو یحتمل ان یکون نسخا لتخییرہ السابق ویحتمل ان یکون بیانا لقولہ ”استغفر لھم او لا تستغفر لھم“ انہ لم یکن للتخییر، بل للنھی عن الاستغفار علی وجہ الکنایة (اعلاء السنن ۱۹/۹۳۱۶)
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کا حاصل یہ تھا کہ آپ نے آیت سے منافقین کے حق میں استغفار کا مباح ہونا سمجھا، جبکہ عمر نے اس میں آپ سے اختلاف کیا اور آیت سے استغفار کا ممنوع ہونا اخذ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ آپ نے یہ اختلاف کرنے پر سیدنا عمر پر کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن اپنے اجتہاد سے بھی رجوع نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان دونوں کو ان کے اجتہاد پر برقرار رکھا، کیونکہ نہ تو دونوں میں سے کسی کو عتاب کیا اور نہ یہ واضح کیا کہ کس کا اجتہاد غلط تھا اور کس کا صحیح۔ اس واقعے سے خوب واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات قرآن کی آیت کی مراد سمجھنے میں اجتہاد سے کام لیتے تھے اور آپ کے صحابہ آپ کی سمجھی ہوئی مراد سے اختلاف کرتے تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی وجہ سے ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ بھی انھیں اس پر برقرار رکھتے تھے۔ کیونکہ مذکورہ قصے میں اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر میں سے کسی پر بھی انکار نہیں کیا، بلکہ اپنا یہ ارشاد نازل کر دیا کہ ”(اے پیغمبر، ان میں سے جو کوئی بھی مرے، تم کبھی نہ تو اس کی نمازہ جنازہ ادا کرنا اور نہ (دعا کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا“۔ یہ ارشاد اس کا بھی محتمل ہے کہ اسے سابقہ تخییر کا ناسخ سمجھا جائے اور اس کا بھی احتمال رکھتا ہے کہ اسے ’استغفر لہم او لا تستغفر لہم‘ کی تفسیر قرار دیا جائے کہ اس سے مراد اختیار دینا نہیں، بلکہ کنایے کے اسلوب میں استغفار سے منع کرنا تھا۔“
مذکورہ تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو واجب الاتباع اور قرآن مجید کی تعبیر وتشریح میں حتمی سند تسلیم کرتے ہوئے بھی فقہائے صحابہ قرآن کے بیانات کو اپنے مدعا پر دلالت کے لحاظ سے کلیتاً حدیث نبوی پر منحصر نہیں سمجھتے تھے، بلکہ قرآن کو اپنی جگہ ایک واضح کلام تصور کرتے ہوئے اس کے معنی ومفہوم پر مستقلاً بھی غور کرتے تھے اور جہاں انھیں قرآن کی کسی آیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد یا عمل کے مابین تفاوت محسوس ہوتا، وہ نہ صرف اپنا اشکال آپ کی خدمت میں پیش کرتے تھے، بلکہ بعض اوقات اپنے فہم پر اصرار بھی کرتے تھے۔ 

فقہائے صحابہ کے رجحانات

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات میں تو خود آپ کی وضاحت یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی روشنی میں اس کا قطعی فیصلہ ممکن تھا کہ زیر بحث سوال کے حوالے سے مراد الٰہی کیا ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صورت حال میں باعتبار نوعیت ایک بنیادی فرق یہ واقع ہو گیا کہ اب وضاحت یا تفصیے کے لیے خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ ایک بنیادی سوال پیدا ہوا جس نے آگے چل کر علم اصول فقہ کی ایک مہتم بالشان بحث کی صورت اختیار کر لی کہ اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے سے متعلق کوئی ہدایت ایسے اسلوب میں بیان کی گئی ہو جو فی نفسہ واضح ہو اور بظاہر محتمل اور توضیح طلب نہ ہو، جبکہ اسی معاملے سے متعلق کوئی ایسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی جائے جو قرآن مجید کے بیان سے ٹکرا رہی ہو تو ایسی صورت میں کیا موقف اختیار کیا جائے؟ 
عہد نبوی کے بعد کی صورت حال میں قرآن اور حدیث میں بظاہر دکھائی دینے والے تفاوت کی توجیہ کے حوالے سے علمی وعقلی طور پر دو مساوی امکانات کی گنجائش پیدا ہو گئی تھی: 
ایک یہ کہ قرآن مجید سے بظاہر جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے، اسے اپنے علم وفہم کا قصور تصور کیا جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ارشاد کو مراد الٰہی کی زیادہ قابل اعتماد تفسیر سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ 
دوسرا یہ کہ قرآن مجید کی ظاہری دلالت کو برقرار رکھا جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل قرآن مجید کے برعکس یا اس سے متجاوز دکھائی دے تو اس کی بنیاد قرآن مجید ہی میں تلاش کی جائے یا توجیہ وتاویل کے ذریعے سے حتی الامکان اس کے صحیح محل کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو آپ کی نسبت سے منقول بات کو راویوں کی غلط فہمی اور سوءسماع پر محمول کیا جائے۔ 
فقہائے صحابہ کی آرا میں اس نوعیت کی مثالیں محدود تعداد میں نقل ہوئی ہیں، تاہم ان سے ان کے مختلف ومتخالف رجحانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ آئندہ سطور میں اس ضمن کی بنیادی بحثوں کا ایک جائزہ پیش کیا جائے گا۔

۱۔ وضو میں پاﺅں کا دھونا:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور جمہور صحابہ واہل علم کے تعامل سے وضو کا طریقہ یہی ثابت ہے کہ چہرے اور بازووں کے ساتھ ساتھ پا¶وں کو بھی دھویا جائے۔ تاہم قرآن مجید میں وضو کا حکم بیان کرتے ہوئے سورہ مائدہ کی آیت ۶ میں ’فَاغسِلُوا وُجُوہَکُم وَایدِیَکُم إلَی المَرَافِقِ وَامسَحُوا بِرُءوسِکُم وَاَرجُلَکُم إلَی الکَعبَینِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہاں بادی النظر میں پاو¶ں کا ذکر سر کے مسح کے ساتھ ہوا ہے جس سے ذہن کا اس طرف جانا ممکن ہے کہ پاوں کا حکم بھی وہی ہے جو سر کا ہے۔ اس تناظر میں صحابہ وتابعین کی ایک جماعت کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ وضو میں اصل حکم اس کو سمجھتے تھے کہ پاوں پر صرف مسح کر لیا جائے۔ چنانچہ ربیع بیان کرتی ہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میرے پاس آئے اور مجھ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا جس میں ربیع نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے پاووں کو دھویا۔ ابن عباس نے کہا کہ :
ان الناس ابوا الا الغسل ولا اجد فی کتاب اللہ الا المسح (سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارة وسننہا، باب ما جاءفی غسل القدمین، رقم ۲۶۴)
”لوگ پاووں کے دھوئے بغیر نہیں رہتے، لیکن مجھے کتاب اللہ میں صرف مسح کرنے کا حکم ملتا ہے۔“
اسی طرح شعبی کہتے تھے کہ جبریل پاو¶ں پر مسح کرنے کا حکم لے کر اترے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۴۸۱، ۵۸۱) شعبی اس کے حق میں ایک قیاسی دلیل بھی پیش کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ : پاوں پر مسح ہی کرنے کا حکم ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ (وضو میں) جن اعضا کو دھونے کا حکم ہے، تیمم میں صرف انھی (پر مسح کرنے) کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ (وضو میں) جن اعضا پر مسح کا حکم ہے، انھیں چھوڑ دیا گیا ہے اور ان کا تیمم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا! (ایضاً، رقم ۱۸۱) یہی نقطہ نظر عکرمہ اور حسن بصری سے بھی مروی ہے۔ (ایضاً، رقم ۸۷۱، ۹۷۱) تاہم جمہور صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر سنت کی روشنی میں پاوں دھونے ہی کو وضو کے مشروع کے طریقے کے طور پر قبول کیا اور اسی کی روشنی میں قرآن کی آیت میں ’وارجلکم‘ کو حکم کے اعتبار سے ’وامسحوا‘ کے بجائے ’فاغسلوا‘ کے ساتھ متعلق قرار دیا۔

۲۔ موزوں پر مسح کرنے کی رخصت:

سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت میں ، جمہور صحابہ کے فہم کے مطابق، پاوں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے وضو کی حالت میں پاوں پر موزے پہنے ہونے کی صورت میں پاوں کو دھونے کے بجائے صرف موزوں پرمسح کرنے پر اکتفا فرمایا اور صحابہ کو بھی اس کی اجازت دی۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب المسح علی الخفین، رقم ۳۰۲؛ مسلم، کتاب الطہارة، باب التوقیت فی المسح علی الخفین، رقم ۹۳۶) 
بظاہر قرآن کی ہدایت سے مختلف ہونے کی وجہ سے یہ رخصت بعض صحابہ کے لیے باعث اشکال بنی۔ مثلاً ایک موقع پر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو کہا کہ یا رسول اللہ، کیا آپ بھول گئے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں نہیں، بلکہ تم بھول گئے ہو۔ مجھے میرے رب نے یہی حکم دیا ہے۔ (سنن ابی داود، کتاب الطہارة، باب المسح علی الخفین، رقم ۱۴٠)
صحابہ وتابعین کے مابین اس حوالے سے خاصی بحث بھی موجود رہی ہے۔ جن حضرات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اس رخصت پر عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، انھیں اس حوالے سے دوسرے صحابہ کی روایت قبول کرنے میں تردد اور مزید تحقیق کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مثلاً عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سفر میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے یہ سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں پر مسح کیا کرتے تھے۔ ابن عمر کو اس پر اطمینان نہ ہوا اور انھوں نے اس کی تحقیق کے لیے سیدنا عمر سے رجوع کیا۔ سیدنا عمر نے ان سے کہا کہ جب سعد تمھیں کوئی بات بیان کریں تو اسے رد نہ کیا کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعتا موزوں پر مسح فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب المسح علی الخفین، رقم ۱۹۸) 
تاہم عبد اللہ بن عباس کے بیان کے مطابق اس موقع پر وہ بھی وہاں موجود تھے۔ جب سیدنا عمر نے سعد بن ابی وقاص کی تائید کی تو ابن عباس نے کہا کہ:
یا سعد، قد علمنا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم مسح علی خفیہ ولکن اقبل المائدة ام بعدھا؟ قال: لا یخبرک احد ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم مسح علیھما بعدما انزلت المائدة، فسکت عمر (مسند احمد، مسند عبد اللہ بن عباس، رقم ۳۳۶۶)
”اے سعد، ہم جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا تھا، لیکن کیا یہ سورہ مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے تھا یا بعد میں؟ کوئی شخص تمھیں یہ خبر نہیں دے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ مائدہ نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کیا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ میری یہ بات سن کر سیدنا عمر خاموش ہو گئے۔“
گویا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس عمل کو کتاب اللہ میں وضو کی آیت نازل ہونے کے بعد منسوخ سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں صحرا میں کسی راہ گیر کی پشت پر ہاتھ پھیر لوں، یہ مجھے موزوں پر مسح کرنے سے زیادہ پسند ہے۔ (مسند احمد، مسند عبد اللہ بن عباس، رقم ۲۸۹٠)
تاہم عطاءابن رباح کے سامنے ذکر کیا گیا کہ عکرمہ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اللہ کی کتاب کا حکم موزوں پر مسح کے خلاف ہے تو عطاءنے کہا کہ عکرمہ نے غلط کہا ہے۔ میں نے عبد اللہ بن عباس کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۹۶۳) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی غالباً صحیح صورت حال واضح ہونے کے بعد موزوں پر مسح کی رخصت پرعمل کرنے لگے تھے۔
بہرحال ابن عباس کے مذکورہ استدلال کے تناظر میں تابعین کے دور میں مسح علی الخفین سے متعلق جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو خاص اہمیت دی جاتی تھی، (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۸۶۸) کیونکہ جب ان کے موزوں پر مسح کرنے پر اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ رخصت سورہ مائدہ کے نزول سے پہلے تھی تو انھوں نے جواب میں کہا کہ میں نے تو اسلام ہی سورہ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد قبول کیا تھا۔ (سنن ابی داود، کتاب الطہارة، باب المسح علی الخفین، رقم ۱۳۸؛ ترمذی، ابواب الطہارة، باب المسح علی الخفین، رقم ۹۳) ان کی روایت اس بات کی دلیل ہے کہ سورہ مائدہ میں وضو کا حکم نازل ہونے کی وجہ سے موزوں پر مسح کرنے کا حکم منسوخ نہیں ہوا۔
بعض دیگر صحابہ نے بھی ابتداءا ان روایات کو درست ماننے سے انکار کیا، مثلاً ام المومنین عائشہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا کہ وہ مسح کرنے کے مقابلے میں پاوں کو کٹوا دینا پسند کرتے ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۹۶۴، ۱۹۶۵)(۱) تاہم سیدہ عائشہ کو غالباً بعد میں مستند روایات سے اس کی اطلاع ملی اور وہ قائل ہو گئیں۔ چنانچہ شریح بن ہانی نے ان سے اس کے متعلق سوال کیا تو ام المومنین نے کہا کہ اس کے بارے میں علی بن ابی طالب سے پوچھو، کیونکہ وہ سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جایا کرتے تھے اور اس کے متعلق مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ (مسلم، باب التوقیت فی المسح علی الخفین، رقم ۴۴۷؛ ابن ماجہ، باب ماجاءفی التوقیت فی المسح للمقیم والمسافر، رقم ۵۵۶)
تابعین کے ہاں بھی اس حوالے سے تردد کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثلاً زر بن حبیش ، صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ میرے دل میں موزوں پر مسح کے بارے میں کھٹک ہے اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں تو کیا آپ نے اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات سنی ہے؟ صفوان نے کہا کہ ہاں، آپ ہمیں ہدایت فرماتے تھے کہ سفر کی حالت میں ہم تین دن اور تین راتوں تک موزے نہ اتارا کریں۔ (مسند احمد، حدیث صفوان بن عسال المرادی، رقم ۱۷۸۳۲) اسی طرح یحیی بن ابی اسحاق کا بیان ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے موزوں پر مسح کے جواز کا فتویٰ دیا تو میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انھوں نے کہا کہ نہیں، لیکن میں نے اپنے معتمد ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ موزوں پر مسح کرنا درست ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۸۹۵)

۳۔ بیوگی کی صورت میں حاملہ خاتون کی عدت:

قرآن مجید میں بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن (البقرہ ۲: ۲۳۴) اور حاملہ عورت کی عدت، جسے طلاق دے دی جائے، وضع حمل بیان کی گئی ہے۔ (الطلاق ۴:۶۵) لیکن اگر کوئی خاتون حاملہ ہونے کی حالت میں بیوہ ہو جائے تو اس کے لیے کیا حکم ہوگا؟ آیا وہ بچہ جنم دینے کے بعد عدت سے فارغ ہو جائے گی یا اسے چار ماہ دس دن پورے ہونے تک مزید انتظار کرنا ہوگا؟ فقہائے صحابہ وتابعین کے مابین اس حوالے سے اختلاف رائے پیدا ہو گیا۔ ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ ایسی عورت کی عدت، وضع حمل ہے اور اس کے فوراً بعد وہ نکاح کر سکتی ہے، جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا یہ تھا کہ چونکہ وہ حاملہ بھی تھی اور بیوہ بھی، اس لیے اس کے لیے دونوں عدتیں پوری کرنا لازم ہے۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پہلے گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ سورة الطلاق میں حاملہ کے لیے وضع حمل کو عدت مقرر کرنے کی ہدایت، سورة البقرة کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس نے بیوہ کے لیے چار ماہ دس دن کی عدت کے حکم میں جزوی ترمیم کر دی ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورة الطلاق، رقم ۴۹۱٠) گویا ان کے فہم کے مطابق سورة البقرة میں اللہ نے بیوہ کے لیے کسی تفصیل کے بغیر مطلقاً یہ حکم بیان کیا تھا، لیکن سورة الطلاق میں حاملہ کی عدت بیان کر کے یہ واضح کر دیا کہ حاملہ کا حکم سابقہ ہدایت سے مختلف ہے۔ 
اس بحث کا اہم نکتہ یہ تھا کہ بعض روایات میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وضاحت منقول ہے جو مذکورہ رائے کی تائید کرتی ہے اور متعدد صحابہ نے، جن کی رائے پہلے بیوہ حاملہ کو دو عدتوں کا پابند قرار دینے کی تھی، یہ روایات سامنے آنے کے بعد اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔ مثلاً عبد الکریم بن ابی المخارق کی روایت ہے کہ ایک عورت نے سیدنا عمر سے استفسار کیا کہ میں حاملہ تھی اور شوہر کی وفات کے بعد عدت پوری ہونے سے پہلے میں نے بچے کو جنم دے دیا تو اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ سیدنا عمر نے کہا کہ تمھیں دونوں عدتوںمیں سے دوسری عدت بھی پوری کرنی ہوگی۔ وہ عورت ابی بن کعب کے پاس گئی اور انھیں یہ واقعہ بتایا۔ ابی بن کعب نے کہا کہ واپس جاﺅ اور عمر کو بتاﺅ کہ ابی بن کعب نے کہا کہ تمھاری عدت پوری ہو چکی ہے۔ سیدنا عمر نے یہ سن کر ابی بن کعب کو بلایا اور پوچھا کہ کیا تم نے یہ بات کہی ہے؟ ابی بن کعب نے کہا کہ ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ کے متعلق پوچھا تھا کہ کیا بیوہ کی عدت بھی یہی ہوگی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ چنانچہ سیدنا عمر نے اس عورت سے کہا کہ یہ بات سن لو (اور اس کے مطابق عمل کرو)۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الطلاق، باب المطلقة یموت عنہا زوجہا وہی فی عدتہا، رقم ۱۱۷۱۷) (۲)
اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ وہ حاملہ عورت کے بارے میں جو بیوہ ہو جائے، یہ رائے رکھتے تھے کہ اگر وہ چار ماہ دس دن سے پہلے ولادت سے فارغ ہو جائے تو بھی اسے چار ماہ دس دن کی مدت پوری کرنی ہوگی۔ ایک موقع پر ایک خاتون نے ان سے استفسار کیا تو انھوں نے اس کو یہی جواب دیا۔ اس پر ان کے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن کے مابین اس مسئلے پر بحث ہو گئی تو ابن عباس نے مسئلے کی تحقیق کے لیے اپنے غلام کریب کو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا ۔ انھوں نے بتایا کہ سبیعہ اسلمیہ حالت حمل میں بیوہ ہو گئی تھیں اور اس کے چالیس دن کے بعد انھوں نے بچے کو جنم دے دیا۔ پھر انھیں نکاح کا پیغام ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (چار ماہ دس دن گزرنے کا انتظار کیے بغیر) ان کا نکاح کر دیا تھا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورة الطلاق، رقم ۴۹٠۹) چنانچہ ابن عباس نے اس عورت سے کہا کہ یہ بات سن لو۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الطلاق، باب المطلقة یموت عنہا زوجہا وہی فی عدتہا، رقم ۱۱۷۲۵)(۳)
تاہم صحابہ وتابعین کی ایک جماعت ایسی عورت کے لیے دونوں عدتیں لازم ہونے کے موقف پر قائم رہی۔ روایات میں اس کی تفصیل منقول نہیں کہ یہ حضرات سبیعہ اسلمیہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی کیا توجیہ کرتے تھے، تاہم بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس روایت کی صحت کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کرتے تھے۔ چنانچہ محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں ایک مجلس میں تھا جس میں عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ حاملہ اگر بیوہ ہو جائے تو وہ دونوں عدتیں پوری کرنے کے بعد حلال ہوگی۔ میں نے سبیعہ اسلمیہ کی حدیث کا ذکر کیا جو عبد اللہ بن عتبہ نے نقل کی ہے تو ابن ابی لیلیٰ کے اصحاب نے مجھے ٹہوکا دیا۔ میں سمجھ گیا (کہ وہ اس روایت کی صحت کے متعلق تحفظات رکھتے ہیں) چنانچہ میں نے کہا کہ عبد اللہ بن عتبہ مسجد کے ایک کونے میں موجود ہیں اور اگر میں ان کی طرف جھوٹ منسوب کروں تو پھر تو میں بڑا ہی جسارت مند ہوں۔ اس پر عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ جھینپ گئے اور کہا کہ لیکن عبد اللہ بن عتبہ کے چچا (یعنی ابن مسعود) یہ بات نہیں کہتے تھے۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں مالک بن عامر سے ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے اس مسئلے میں ابن مسعودسے کچھ سنا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ ابن مسعود کہتے تھے کہ تم ایسی عورت کو تنگی میں ڈالتے ہو اور آسانی پیدا نہیں کرتے؟ سورة الطلاق، سورة البقرة کے بعد نازل ہوئی تھی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورة الطلاق، رقم ۴۹۱٠)

۴۔ طلاق مغلظہ کی صورت میں دوران عدت نفقہ ورہائش کا حکم:

سورة الطلاق میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اگر اپنی بیویوں کو طلاق دیں تو فوراً انھیں ان کے گھروں سے نکال نہ دیں، بلکہ دوران عدت میں انھیں اپنی استطاعت کے مطابق رہائش مہیا کریں۔ (الطلاق ۱:۶۵) 
اسلوب سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ طلاق کی نوعیت سے قطع نظر، عدت کے حوالے سے دی گئی ایک ہدایت ہے اور عدت گزارنے والی تمام خواتین اس عرصے میں رہائش اور نفقہ کی حق دار ہیں۔ فقہائے صحابہ کے ایک گروہ کی، جن میں سیدنا عمر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما شامل ہیں، یہی رائے تھی اور وہ شوہر کو، طلاق مغلظہ کے بعد عدت گزارنے والی بیوی کو بھی رہائش اور نفقہ فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ تاہم سیدنا عمر کے دور میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا تو ایک خاتون صحابیہ، فاطمہ بنت قیسؓ نے یہ روایت بیان کی کہ ان کے خاوند نے انہیں تین طلاقیں دے دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ عدت کے دوران میں ان کا نفقہ یا رہائش خاوند کے ذمے نہیں ہے۔ آپ نے انھیں عدت گزارنے کے لیے اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر ایک دوسرے گھر میں منتقل ہو جانے کا حکم دیا۔ (مسلم، کتاب الطلاق، باب المطلقة البائن لا نفقة لہا، رقم ۳۶۹۷،۳۶۹۸ )
فاطمہ بنت قیس کی اس روایت کے حوالے سے فقہائے صحابہ وتابعین میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا۔ سیدنا عمرؓ نے اس روایت کو درست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ہم کتاب اللہ کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ایک عورت کی بات پر نہیں چھوڑ سکتے جس کو پتہ نہیں بات یاد بھی رہی یا نہیں۔ (۴) اس کو رہائش بھی ملے گی اور نفقہ بھی۔ سیدنا عمر نے سورة الطلاق کی یہ آیت پڑھی: لا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ (مسلم، کتاب الطلاق، باب المطلقة البائن لا نفقة لہا، رقم ۳۷۱٠) سیدہ عائشہ نے فاطمہ کی روایت کو رد تو نہیں کیا، لیکن یہ فرمایا کہ اس واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو اپنے شوہر کے گھر سے منتقل ہونے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ وہ زبان کی تیز تھی اور اس کے سسرال والے اس سے تنگ تھے، اس لیے آپ نے اسے ایک دوسرے گھر میں عدت گزارنے کے لیے کہا۔ 
مروان بن الحکم کی امارت کے دور میں ان کے سامنے فاطمہ بنت قیس کا یہی واقعہ پیش کیا گیا تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ حدیث ہم نے صرف ایک عورت سے سنی ہے، اس لیے ہم اس کے مقابلے میں اسی بات پر قائم رہنا پسند کرتے ہیں جس پر ہم نے لوگوں کو پایا ہے۔ جب فاطمہ بنت قیس کو مروان کے اس تبصرے کی خبر پہنچی تو انھوں نے کہا کہ میرے اور تمھارے مابین قرآن، حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیوی کو گھر سے نہ نکالنے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ممکن ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بعد دونوں کے مابین موافقت کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔ یہ بات رجعی طلاق کے بارے میں تو درست ہے، لیکن تین طلاق کے بعد موافقت کی کون سی صورت نکل سکتی ہے؟ (مسلم، کتاب الطلاق، باب المطلقة البائن لا نفقة لہا، رقم ۳۷٠۴) یوں فاطمہ نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ان کی بیان کردہ روایت قرآن کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے مطابق ہے۔ 

۵۔ ہم بستری سے پہلے طلاق کی صورت میں مہر مثل کا مسئلہ:

معقل بن سنان الاشجعیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قبیلے کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں، جس کا خاوند فوت ہو گیا تھا اور نکاح میں اس کے مہر کی مقدار طے نہیں کی گئی تھی، یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کو اتنا ہی مہر دیا جائے جتنا اس کے خاندان کی عورتوں کو عام طور پر دیا جاتا ہے۔ (ابو داﺅد، کتاب النکاح، باب فی من تزوج ولم یسم صداقا حتی مات، رقم ۲۱۱۶) 
صحابہ کے دور میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا تو مذکورہ حدیث کے بارے میں ان کے مابین اختلاف پیدا ہو گیا۔ چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس عورت کے متعلق دریافت کیا گیا جس کا شوہر نکاح کے بعد ہم بستری سے پہلے فوت ہو گیا ہے اور اس کے مہر کی مقدار طے نہ کی گئی ہو۔ ابن مسعود نے ایک مہینے تک جواب دینے سے معذرت کی، لیکن پھر اس کے اصرار پر وضو کر کے دو رکعتیں پڑھیں اور پھر کہا کہ میرے خیال میں اسے اس جیسی کسی عورت کے مہر کے برابر مہر ملنا چاہیے، وہ شوہر کی وراثت میں بھی حصہ دار ہے اور اس پر عدت گزارنا بھی لازم ہے۔ یہ سن کر قبیلہ اشجع کا ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے وہی فیصلہ کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قبیلے کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں فرمایا تھا جو ہلال بن امیہ کے نکاح میں تھی۔ ابن مسعود نے پوچھا کہ کیا تمھارے علاوہ کسی اور نے بھی آپ کا یہ فیصلہ سنا؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ وہ اپنی قوم کے کچھ لوگوں کو لے کر آیا جنھوں نے اس بات کی گواہی دی۔ شعبی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ابن مسعود کو کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا وہ اس موقع پر ہوئے جب ان کا فیصلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے موافق نکلا۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الطلاق، باب الرجل یتزوج فلا یفرض صداقا حتی یموت، رقم ۱۱۳۶۷) 
تاہم سیدنا علیؓ نے اس روایت کو قبول نہیں کیا بلکہ فرمایا: ”کتاب اللہ کے خلاف قبیلہ اشجع کے ایک بدو کی بات قبول نہیں کی جا سکتی۔ “ (بیہقی، السنن الکبریٰ، کتاب الصداق، باب من قال لا صداق لہا، رقم ۱۴۴۲۴) جب انھیں بتایا گیا کہ ابن مسعود نے اس روایت کو قبول کیا ہے تو سیدنا علی نے کہا کہ بدوو¶ں کی روایت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب نہیں کی جا سکتی۔ (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱٠۹۳۶)
روایات میں اس کی تفصیل منقول نہیں کہ سیدنا علی اسے کس بنیاد پر کتاب اللہ کے خلاف سمجھتے تھے، تاہم قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کے پیش نظر غالباً درج ذیل آیات تھیں:
لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ -وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُ  (البقرة ۲: ۲۳۶، ۲۳۷)
”اگر تم اپنی بیویوں کو ایسی حالت میں طلاق دینا چاہو کہ تم نے ان سے ہم بستری نہ کی ہو یا ان کے لیے مہر کی رقم مقرر نہ کی ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں، البتہ انھیں (بوقت رخصت) کچھ سامان دے دو۔ فراخی رکھنے والے پر اس کی استطاعت کے بقدر اور تنگ دست پر اس کی گنجائش کے مطابق۔ دستور کے مطابق سامان دینا چاہیے اور یہ اچھا برتاو¶ کرنے والوں پر لازم ہے۔ اور اگر تم ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے انھیں طلاق دے دو جب کہ تم نے ان کے مہر کی رقم مقرر کی ہوئی ہو تو پھر جو رقم تم نے طے کی ہے، اس کا نصف ادا کیا جائے۔“
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر بوقت نکاح مہر کی مقدار طے نہ کی گئی ہو یا مجامعت سے پہلے طلاق دینے کی نوبت آ جائے تو دونوں صورتوں میں مطلقہ کو حسب استطاعت بوقت رخصت کچھ سامان دے دیا جائے۔ یہاں مہر کی ادائیگی کا ذکر نہیں اور اس سے یہ سمجھنا بظاہر بہت قرین قیاس ہے کہ ایسی صورت میں صرف سامان رخصت دینا ہی کافی ہے، مہر ادا کرنا لازم نہیں۔ دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ اگر قبل از مجامعت طلاق دی جائے، جبکہ بوقت نکاح مہر کی مقدار مقرر کر لی گئی تھی تو ایسی صورت میں نصف مہر کی ادائیگی لازم ہوگی۔ یہاں وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً کی قید سے مزید یہ مفہوم ہوتا ہے کہ مہر کی مقدارطے ہونے کی صورت میں تو نصف مہر کی ادائیگی لازم ہے، لیکن اگر مقدار طے نہ کی گئی ہو تو، جیسا کہ پہلی آیت میں کہا گیا، سامان رخصت دے دینا کافی ہوگا۔ 

۶۔ بوقت ضروری عارضی نکاح کی اجازت:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف غزوات کے موقع پر صحابہ کی درخواست پر انھیں محدود مدت کے لیے مقامی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی تھی۔ (مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعة، رقم ۱۴٠۴ تا ۱۴۱۶) صحابہ آپ کے زمانے میں اور آپ کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے تک اس رخصت سے فائدہ اٹھاتے رہے، تاہم جب سیدنا عمر کا عہد خلافت آیا تو انھوں نے اس رخصت کو ختم کر دینے کا فیصلہ کیا اور اعلان کر دیا کہ دو متعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیے جاتے تھے، لیکن میں ان دونوں سے منع کرتا ہوں اور جو شخص ایسا کرے گا، اس کو سزا دوں گا: ایک متعة الحج اور دوسرا متعة النساء۔ (ابو عوانة، المسند الصحیح المخرج علیٰ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب ذکر الخبر المبین بان فسخ الحج والمتعة خاص، رقم ۳۸٠۹) اس فیصلے کے تناظر میں صحابہ کے مابین دو رجحان سامنے آئے۔ جمہور صحابہ نے سیدنا عمر کے فیصلے سے اتفاق کیا اور یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ متعہ کی اجازت ان خاص مواقع کے لیے تھی جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی، لیکن جب آپ نے اس سے منع کر دیا تو اس کے بعد یہ اباحت باقی نہیں رہی۔ یہ موقف رکھنے والے صحابہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام نمایاں ہے۔ (مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعة، رقم ۱۴٠۶، ۱۴٠۷)تاہم بعض صحابہ، جن میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا نام زیادہ معروف ہے، مخصوص شرائط کے ساتھ عارضی نکاح کی اجازت کے باقی ہونے کے قائل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آدمی سفر میں شدید اضطرار کی حالت میں اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آدمی کے لیے سخت اضطرار کی کیفیت میں مردار کھانا حلال ہو جاتا ہے۔ (مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعة، رقم ۱۴٠۴ تا ۱۴۱۶؛ الطبرانی، المعجم الکبیر، احادیث عبد اللہ بن عباس، رقم ۱۰۶۰۱) ابن عباس اس رخصت کو ایک سماجی ضرورت کے طور پر بہت اہمیت دیتے تھے اور ان کا یہ تبصرہ تھا کہ متعہ کی رخصت اللہ کی طرف سے اس امت پر ایک رحمت تھی، اگر عمر بن الخطاب اس سے منع نہ کر دیتے تو کوئی بد بخت ہی زنا کا ارتکاب کرتا۔ (طحاوی، شرح معانی الآثار، رقم ۲۷۷۷) 
دلچسپ امر یہ ہے کہ ابن عباس اس ضمن میں ممانعت کی روایات سے بھی واقف تھے۔ امام ابن القیم لکھتے ہیں کہ ابن عباس کا زاویہ نظر یہ تھا کہ یہ کوئی ابدی ممانعت نہیں، بلکہ اس کی نوعیت ایسی ہی ہے جیسے کوئی ضرورت پوری ہو جانے کے بعد رخصت سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت کر دی جائے۔ یعنی جیسے حالت اضطرار میں ضرورت کے بقدر خنزیر کا گوشت کھا لینے کے بعد اس کی اباحت ختم ہو جاتی ہے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر متعہ کی اجازت دی اور پھر ضرورت پوری ہو جانے کے بعد اس سے منع کر دیا، لیکن ہمیشہ کے لیے اس رخصت کو منسوخ نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی اضطراری صورت حال اب بھی کسی کو پیش آجائے تو وہ اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ (زاد المعاد، ص ۴۹۵ و۷۸۱، طبع موسسة الرسالة)
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ متعہ کی اجازت کا ماخذ صرف احادیث کو نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کے نزدیک یہ قرآن مجید میں منصوص تھی اور غالباً یہی نکتہ ان کے لیے متعہ سے ممانعت کو ابدی تحریم پر محمول کرنے سے مانع تھا۔ چنانچہ ان سے منقول ہے کہ وہ سورة النساءکی آیت ۲۴ میں  فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہ مِنْہنَّ فَآتُوہنَّ أُجُورَہنَّ فَرِيضَۃ میں جملہ شرطیہ کے بعد إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى کا اضافہ کر کے یوں پڑھتے تھے: 
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہ مِنْہنَّ إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی فَآتُوہنَّ أُجُورَہنَّ فَرِيضَۃ
”پھر تم ایک مقررہ مدت تک ان میں سے جس سے فائدہ اٹھاﺅ، انھیں ان کے مقررہ مہر ادا کر دو۔“
ابن عباس کہتے تھے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراءت میں ایسے ہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو ایسے ہی نازل فرمایا ہے۔ (تفسیر الطبری ۸/۱۷۷، تحقیق محمود محمد شاکر/ احمد محمد شاکر، مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ) تابعین میں سے سدی، مجاہد، قتادہ، حکم اور سعید بن جبیر بھی اس آیت کی قراءت اسی طرح کرتے اور اسے متعہ کے جواز کی دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے۔ (ایضاً، ص ۱۷۶، ۱۷۸) 
قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے مذکورہ حضرات کے بارے میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن مجید میں کسی چیز کا جواز منصوص ہونے کی صورت میں سنت سے اس کے نسخ کو قرین قیاس تصور نہیں کرتے تھے اور اس کے بجائے قرآن کی اباحت کو علیٰ حالہ قائم رکھتے ہوئے حدیث میں وارد ممانعت کی تاویل وتوجیہ کو زیادہ بہتر سمجھتے تھے۔ (۵)

۷۔ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا:

سنت کے ایسے احکام جن میں قرآن پر زیادت پائی جاتی ہے، ان میں ایک اہم مسئلہ رجم کی سزا کا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، قرآن مجید میں بدکاری کی سزا کسی تفصیل وامتیاز کے بغیر سو کوڑے بیان کی گئی ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً وفعلاً شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا ثابت ہے۔ اس حوالے سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی نقل کردہ قولی حدیث میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثیب کے لیے سو کوڑے اور رجم، دونوں سزائیں بیان کی ہیں، لیکن اس نوعیت کے سبھی مقدمات میں عملاً آپ سے مجرم کو صرف سنگسار کرنا منقول ہے۔ قرآن کی ہدایت اور سنت سے ثابت حکم کے باہمی تعلق کے حوالے سے فقہائے صحابہ سے بنیادی طور پر دو زاویہ ہائے نظر منقول ہیں۔ 
سیدنا عمر سے یہ منقول ہے کہ وہ رجم کی سزا کا ماخذ خود قرآن ہی میں نازل ہونے والے ایک حکم کو قرار دیتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے کہا کہ یہ آیت قرآن میں نازل ہوئی تھی جسے ہم نے پڑھا اور اچھی طرح سمجھا اور اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی یہ سزا نافذ کی ہے۔ انھوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد لوگ یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ ہم اللہ کی کتاب میں رجم کی آیت کو موجود نہیں پاتے اور یوں اللہ کے نازل کردہ ایک فریضے کو ترک کر دیں۔ (بخاری، کتاب الحدود، باب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت، رقم ۶۴۷۳) بعض روایات کے مطابق انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر لوگوں کے اس الزام کا ڈر نہ ہوتا کہ عمر نے کتاب اللہ میں اضافہ کر دیا ہے تو میں رجم کی آیت کو اللہ کی کتاب میں لکھ دیتا۔ (سنن ابی داود، کتاب الحدود، باب فی الرجم، رقم ۳۸۹۷) ایک روایت کے مطابق سیدنا عمر نے کہا کہ یہ آیت اللہ کی کتاب میں نازل ہوئی تھی اور ہم نے اسے پڑھا تھا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا جو بہت سا حصہ چلا گیا، اس میں یہ آیت بھی چلی گئی، لیکن اس (کے حکم الٰہی ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کیا، ابوبکر نے بھی رجم کیا اور ان دونوں کے بعد میں نے بھی رجم کی سزا دی ہے۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الطلاق، باب الرجم والاحصان، رقم ۱۲۹۳۷)
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے کہ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ اس وقت سورة الاحزاب کی ستر سے زائد کچھ آیات کی تلاوت کرتے ہو، جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سورت سیکھی تھی جو سورة البقرة کے برابر یا اس سے بھی کچھ بڑی تھی اور اس میں رجم کی آیت بھی تھی۔ (مسند احمد، حدیث زر بن حبیش عن ابی بن کعب، رقم ۲٠۷۶۲) 
اسی طرح زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر مروان کی مجلس میں یہ کہا کہ ہم ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ‘  کی آیت پڑھا کرتے تھے۔ مروان نے کہا کہ کیا ہم اسے مصحف میں درج نہ کر لیں؟ زید نے کہا کہ نہیں، دیکھتے نہیں کہ جوان شادی شدہ مردو عورت بھی اگر زنا کریں تو انھیں رجم کیا جاتا ہے۔ پھر انھوں نے بتایا کہ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں صحابہ کے مابین زیر بحث آئی تو سیدنا عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یارسول اللہ، مجھے رجم کی آیت لکھوا دیجیے، لیکن آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ ( بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۰۹۶۶۱۔ نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۷۱۴۸)
اس کے برخلاف سیدنا علی سے یہ مروی ہے کہ وہ رجم کی سزا کا ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کے سامنے شراحہ ہمدانیہ کا مقدمہ پیش کیا گیا جو ایک شادی شدہ خاتون تھی اور بدکاری کی مرتکب ہوئی تھی تو انھوں نے جمعرات کے روز اسے سو کوڑے لگوائے اور پھر جمعہ کے روز اسے سنگسار کر دیا۔ ان سے کہا گیا کہ آپ نے اس کو دو سزائیں کیوں دیں؟ تو سیدنا علی نے جواب میں فرمایا کہ:
جلدتھا بکتاب اللہ ورجمتھا بسنۃ رسول اللہ (مسند احمد، مسند علی بن ابی طالب، رقم ۱۲۸۵)
”میں نے اس کو اللہ کی کتاب کے مطابق کوڑے لگوائے اور رسول اللہ کی سنت کے مطابق رجم کیا ہے۔“
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِی‘ کی آیت نازل کی ہے، جبکہ مرد وعورت اگر محصن ہوں تو ان کے لیے حکم یہ ہے کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی رو سے رجم کر دیا جائے۔ (طبری، جامع البیان ۴/۲۹۷؛ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۶۹۱) تاہم ایک دوسری روایت میں ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ جو شخص رجم کا انکار کرتا ہے، وہ غیر شعوری طور پر قرآن کا انکار کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ يَا أَہلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ (اے اہل کتاب، تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو تمھارے لیے تورات کی ان بہت سی باتوں کو ظاہر کرتا ہے جنھیں تم چھپاتے تھے) اور رجم کا حکم بھی انھی امور میں سے ہے جنھیں اہل کتاب چھپاتے تھے)۔ (نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۷۱۶۲)
گویا ابن عباس قرآن مجید میں واضح طور پر رجم کا حکم نازل ہونے کے قائل نہیں تھے اور اس کے بجائے اسے اشارتاً قرآن میں مذکور مانتے اور اس کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو قرار دیتے تھے۔ 
یہ سوال بھی بعض حضرات کے ذہنوں میں پیدا ہوا کہ رجم کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل قرآن میں زنا کی سزا نازل ہونے سے پہلے کا تو نہیں، چنانچہ ابواسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے پوچھا کہ سورہ نور کے نازل ہونے سے پہلے یا اس کے بعد؟ انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ (بخاری، کتاب الحدود، باب رجم المحصن، رقم ۶۴۶٠)

۸۔ حلال اور حرام جانوروں کی تفصیل:

قرآن مجید میں کھانے پینے کی اشیا میں صرف چار چیزیں حرام کی گئی ہیں، یعنی مردار، خون، خنزیر کا گوشت، غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَی طَاعِمٍ يَطْعَمُہ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَۃً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّہ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُھِلَّ لِغَيْرِ اللَّہ بِہ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (الانعام ۱۴۵:۶) 
”کہہ دو کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے، اس میں، میں کسی کھانے والے کے لیے کسی چیز کو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا جانے والا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے یا گناہ کا کام، یعنی ایسا جانور ہو جسے ذبح کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ پھر جو مجبور ہو جائے، دراں حالیکہ نہ تو خواہش رکھنے والا ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا تو بے شک تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔“
تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فہرست میں اضافہ کرتے ہوئے گھریلوگدھوں، چنگال والے پرندوں اور کچلی والے درندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الذبائح والصید، باب لحوم الحمر الانسیة، رقم ۵۵۲۷ ؛ صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح وما یوکل من الحیوان، رقم ۱۹۳۴)
مذکورہ آیت میں حصر کے اسلوب کے تناظر میں ان کے علاوہ دوسرے جانوروں کی تحریم کا حکم بعض فقہائے صحابہ کے لیے باعث اشکال بنا اور اس ضمن میں ظاہر قرآن کو ترجیح دینے کا رجحان پیدا ہوا۔
عیسیٰ بن نمیلہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خارپشت (کانٹے دار جنگلی چوہے) کا گوشت کھانے کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی: قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا ۔ مراد یہ تھی کہ اس کا گوشت کھانا حلال ہے۔ اس پر وہاں موجود ایک شخص نے انھیں بتایا کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خارپشت کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ناپاک جانوروں میں سے ایک جانور ہے۔ ابن عمر نے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی ہے تو آپ ہی کی بات درست ہے۔ (ابو داﺅد، کتاب الاطعمة، باب فی اکل حشرات الارض، رقم  ۳۷۸۱)
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ وہ درندوں کے گوشت کی حرمت کی قائل نہیں تھیں۔ قاسم کابیان ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب ہر کچلی والے درندے اور ہر چنگال والے پرندے کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ یہ آیت پڑھتی تھیں: قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصید، باب ما ینہی عن اکلہ من الطیر والسباع، رقم ۲٠۲۳۵؛ ابن حجر، المطالب العالیة، کتاب التفسیر، باب سورة المائدة، رقم ۳۶۸۷)
اس آیت کی روشنی میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف بھی یہ تھا کہ قرآن مجید نے حصر کے ساتھ جن چار چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، ان کے علاوہ باقی سب چیزیں مباح ہیں:
قال کان اھل الجاھلیۃ یاکلون اشیاء ویترکون اشیاء تقذرا فبعث اللہ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم وانزل کتابہ واحل حلالہ وحرم حرامہ فما احل فھو حلال وما حرم فھو حرام وما سکت عنہ فھو عفو وتلا: قُل لاَّ اَجِدُ فِی مَا اُوحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّماً عَلَی طَاعِمٍ یَطعَمُہُ الی آخر الآیۃ (سنن ابی داود، کتاب الاطعمۃ، باب ما لم یذکر تحریمہ، رقم ۳۷۸۲)
”ابن عباس نے کہا کہ اہل جاہلیت بہت سی چیزیں کھاتے تھے اور بہت سی چیزوں سے گھن کھاتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ، اپنی کتاب نازل کی اور حلال اور حرام چیزوں کی وضاحت فرمائی۔ پس جن چیزوں کو اللہ نے حلال بتایا ہے، وہ حلال ہیں اور جن کو حرام کہا ہے، وہ حلال ہیں اور جن سے خاموشی اختیار کی ہے، ان پر کوئی مواخذہ نہیں (یعنی وہ مباح ہیں)۔ ابن عباس نے یہ آیت تلاوت کی: قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَی طَاعِمٍ يَطْعَمُہ۔“
اس بنیاد پر عبد اللہ ابن عباس گھریلو گدھے کے گوشت کو حرام نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن زید سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ جابر نے کہا کہ ہاں، حکم بن عمرو الغفاری ہمیں بصرہ میں یہی بتاتے تھے، لیکن ابن عباس جیسے بڑے عالم نے یہ بات تسلیم نہیں کی، اوریہ آیت پڑھی کہ: قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا۔ (بخاری، کتاب الذبائح والصید، باب لحوم الحمر الاہلیة، رقم ۹۲۵۵) حدیث میں وارد ممانعت کے متعلق ابن عباس نے یہ خیا ل ظاہر کیا کہ چونکہ گدھے چونکہ سواری اور باربرداری کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اس لیے ممکن ہے، آپ نے سواری کے لیے جانور کم پڑ جانے کے خدشے سے ان کے کھانے سے منع کیا ہو۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، رقم ۷۲۲۴)گویا ابن عباس کی رائے میں گدھے کے گوشت کی ممانعت فی نفسہ حرام او ر ناپاک ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ ایک دوسری معاشرتی ضرورت کے پیش نظر کی گئی۔ 
اس دوسرے پہلو سے گدھے، گھوڑے اور خچر وغیرہ کا گوشت نہ کھانے کے حق میں ابن عباس قرآن مجید کی ایک دوسری آیت سے استدلال کرتے تھے۔ چنانچہ ان سے منقول ہے کہ وہ گھوڑے، خچر اور گدھے کے گوشت کو ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَالأَنْعَامَ خَلَقَہَا لَكُمْ فِيہَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَأْكُلُونَ (النحل ۱۶: ۵) (اللہ نے تمھارے لیے چوپایوں کو پیدا کیا ہے جن میں تمھارے لیے گرمائش حاصل کرنے کا سامان اور دوسرے فائدے ہیں اور ان میں سے کچھ جانوروں کا تم گوشت کھاتے ہو)۔ سو یہ جانور کھانے کے لیے ہیں۔ (اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:) وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوھَا (النحل ۱۶: ۸) (اور گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو پیدا کیا ہے تاکہ تم ان پر سواری کرو)۔ سو یہ جانور سواری کے لیے ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الاطعمة، رقم ۲۴۸٠۳، ۲۴۸٠۵)
بعض دیگر صحابہ سے بھی اس نوعیت کی توجیہات منقول ہیں۔ مثلاً ایک توجیہ یہ کی گئی کہ چونکہ یہ گدھے مال غنیمت کے تھے اور ان میں سے ابھی بیت المال کا حق یعنی خمس نہیں نکالا گیا تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گوشت کو کھانے سے منع فرما دیا۔ اسی طرح ایک رائے یہ تھی کہ یہ گدھے گندگی کھاتے تھے، اس لیے آپ نے ان کے گوشت کوممنوع قرار دے دیا۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، رقم ۴۲۲٠)
کچلی والے درندوں اور چنگال والے پرندوں کے گوشت کی ممانعت کی روایت عبد اللہ بن عباس نے بھی روایت کی ہے۔ (مسلم، رقم ۳۵۷۴) تاہم جب ان سے کوے اور چیل کے گوشت کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ اللہ نے حلال چیزوں کو حلال ٹھہرایاہے اور حرام کو حرام ، جبکہ کئی چیزوں سے سکوت اختیار فرمایا ہے۔ سو جن چیزوں سے اس نے سکوت کیا ہے، وہ اس کی طرف سے رخصت ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصید، رقم ۲٠۲۳۹)
ابو مکین نے نقل کیا ہے کہ عکرمہ نے کہا کہ جو چیز تم پر قرآن میں حرام نہیں کی گئی، وہ تمھارے لیے حلال ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصید، رقم ۲٠۲۴۳)

حواشی


(۱) ابن ابی شیبہ کی نقل کردہ بعض روایات میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی بات منقول ہے، لیکن بظاہر وہ درست معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسح علی الخفین کی روایات خود ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی نقل کی ہیں۔ (ابن ماجہ، باب ماجاءفی التوقیت فی المسح للمقیم والمسافر، رقم ۵۵۹)
(۲) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ سوال وجواب کی روایت طبری اور ابن ابی حاتم نے بھی متعدد سندوں سے نقل کی ہے۔ (تفسیر الطبری، تفسیر ابن ابی حاتم) ابن کثیر نے اس روایت کی مختلف سندوں کو ضعیف قرار دیا ہے (تفسیر ابن کثیر ۱۴/۳۹) تاہم ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سندوں میں کلام ہے، لیکن کثرت طرق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل ثابت ہے۔ (فتح الباری ۲/۸۹٠)
(۳) ابن کثیر، ابن عبد البر سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے حدیث سبیعہ سامنے آنے پر اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا۔ (تفسیر ابن کثیر ۲ /۳۷۹۔ تفسیر القرطبی ۴/۱۲۷)
(۴) فقہائے صحابہ میں سے خاص طور پر ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں یہ رجحان سب سے نمایاں ہے کہ وہ کسی بھی روایت کے قرآن مجید کے خلاف ہونے کو اس کے غلط ہونے کی دلیل سمجھتی تھیں اور اسے قبول نہیں کرتی تھیں۔ مثلاً انھوں نے فرمایا کہ ”جو شخص تم سے یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی میں سے کوئی بات چھپائی ہے تو اس کی بات نہ مانو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے پیغمبر، جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ (لوگوں تک) پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔“ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک، رقم ۷۱۳۳) اسی طرح انھوں نے کہا کہ ”جو شخص تمھیں یہ بتائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو وہ غلط کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں۔ اور جو تمھیں یہ بتائے کہ آپ غیب جانتے تھے تو وہ بھی غلط کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ غیب صرف اللہ جانتا ہے۔“ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا، رقم ۶۹۸۶) اسی طرح جب ان کے سامنے سیدنا عمرؓ کی نقل کردہ یہ روایت بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرنے والے کو اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو ام المومنین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم کرے، بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیتے ہیں۔ آپ نے تو کافر کے متعلق فرمایا کہ اس کے پس ماندگان کے رونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے عذاب میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ ام المومنین نے کہا کہ تمہیں قرآن کی یہ آیت کافی ہے کہ کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: یعذب ا لمیت ببعض بکاءاہلہ علیہ، رقم ۱۲۸۷، ۱۲۸۸) انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی نقل کردہ اس روایت پر بھی تعجب ظاہر کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر مشرکین کی لاشوں کو، جنھیں بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا تھا، مخاطب کیا اور صحابہ کے، مردوں کو خطاب کرنے پر تعجب ظاہر کرنے پر فرمایا: ”تم لوگ ان سے زیادہ سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے، البتہ یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔“ ام المومنین نے مردوں کے سننے کی بات کو قرآن مجید کے منافی قرار دیا اور فرمایا: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا ہوگا کہ یہ لوگ اب جان گئے ہیں کہ میں ان سے جو کچھ کہتا تھا، وہ حق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: تم مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ ( بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاءفی عذاب القبر، رقم ۱۳۷٠، ۱۳۷۱) ام المومنین، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ اس حدیث پر بھی سخت ناراض ہوئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ”نحوست عورت میں، سواری کے جانور میں اور گھر میں ہوتی ہے،“ اور فرمایا کہ: ”اللہ کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں فرماتے تھے ۔ آپ تو اہلِ جاہلیت کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ یوں کہتے ہیں کہ نحوست عورت، گھر اور سواری میں ہوتی ہے۔ پھر ام المومنین نے قرآن کی یہ آیت پڑھی : مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الأَرْضِ وَلا فِي أَنفُسِكُمْ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا (تمہیں زمین میں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے، وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے، اس سے پہلے کہ ہم اس کو وجود میں لائیں)۔“ (مسند احمد، مسند عائشۃ رضی اللہ عنہا، رقم ۲۵۵۵۷)
(۵) بعض اہل علم نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ ابن عباس نے متعہ کے جواز کے حوالے سے اپنی اس رائے سے رجوع کر لیا تھا۔ (ابن الہمام، شرح فتح القدیر، ۳/۲۳۹؛ ملا علی القاری، مرقاة المفاتیح، ۶/۲۸۱) اس ضمن میں محمد بن کعب کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ متعہ کی اجازت ابتدائے اسلام میں تھی، لیکن پھر بعد میں اسے حرام قرار دے دیا گیا۔ (سنن الترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاءفی تحریم نکاح المتعۃ، رقم ۱۱۲۲) تاہم ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے اور یہ معناً بھی شاذ ہے۔ (فتح الباری، ۹/۷۷) چنانچہ ابن کثیراور ابن بطال وغیرہ نے اس دعوے کو قبول نہیں کیا اور ان کا کہنا ہے کہ ابن عباس آخر وقت اپنے اسی موقف پر قائم رہے۔ (البدایہ والنہایہ، ۶/۲۸۴؛ فتح الباری، ۹/۷۸) البتہ روایات میں اتنی بات نقل ہوئی ہے کہ جب ابن عباس کے اس فتوے سے لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیا تو پھر وہ جواز کا فتویٰ دینے سے گریز کرنے لگے۔ چنانچہ سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے کہا کہ آپ کو اندازہ ہے کہ آپ نے کیسا فتویٰ دیا ہے؟ آپ کا فتویٰ مسافر قافلوں کی زبانوں پر ہے اور شاعر، اس کے متعلق شعر کہہ رہے ہیں۔ ابن عباس نے سنا تو کہا:
”انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بخدا، میں نے نہ اس کا فتویٰ دیا اور نہ میری یہ مراد ہے۔ میں تو اسے اسی (اضطرار کی) حالت میں جائز کہتا ہوں جس میں اللہ نے مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے۔“ (طبرانی، المعجم الکبیر، احادیث عبد اللہ بن عباس، رقم ۱۰۶۰۱)
(۶) یہ نقطہ نظر جلیل القدر تابعی سعید بن المسیب سے بھی منقول ہے، تاہم ابن کثیر نے اس کے ثبوت کو محل نظر قرار دیا ہے۔ (تفسیر القرآن العظیم، ۲/۳۵۶)

توہینِ رسالت کی سزا اور مولانا مودودی کا موقف

مراد علوی

عصرِ رواں میں مولانا مودودی کا شمار ان اہلِ علم میں ہوتا ہے جن کے ساتھ تحقیق کے نام پر اکثر لوگوں نے بے حد ناانصافی کی ہے۔ مولانا کے منتسبین اسلامی قانون اور روایت سے وہ شغف نھیں رکھتے جتنی دلچسپی دیگر امور میں رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بعض طے شدہ امور میں مولانا کے چاہنے والے تردد کا شکار ہیں۔ اس کے بنیادی وجوہ میں خود مولانا کے تحریکی لٹریچر کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جس کی وجہ سے ابھی تک ان پر بہت سارے مسائل واضح نہ ہوسکے۔ مولانا کی جانب نسبت رکھنے کا اخلاقی تقاضا ہے کہ اسلامی قانون سے زیادہ نہ سہی، واجبی واقفیت حاصل کی جائے۔تاہم دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے مولانا کی طرف بہت ساری غلط باتیں منسوب کی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک توہینِ رسالت کی سزا کا مسئلہ بھی ہے۔ ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ (جولائی ۲۰۱۶ء) میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں  فاضل مضمون نگار جناب ڈاکٹر عبدالباری عتیقی نے مولانا کی مختلف کتابوں سے عبارتیں اکٹھی کرکے مولانا کی طرف وہ باتیں منسوب کی ہیں جو انھوں نے کہی ہی نہیں ہیں۔ توہینِ رسالت پر حالیہ بحث میں یہ مضمون سوشل میڈٰیا پر کافی پھیلایا گیا، جس سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ 
فاضل مضمون نگار کا انداز نہایت غیر مربوط اور اضداد کا مجموعہ تھا۔ جو نتائج انھوں نے اخذ کیے، ان سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی توہینِ رسالت کے مرتکب کے لیے سزائے موت کے قائل نہیں ہیں۔ پہلا نکتہ انھوں نے یہ اٹھایا ہے کہ اگر ذمی توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو اس کا ذمہ نھیں ٹوٹتا۔ اس کے لیے انھوں نے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کی یہ عبارت نقل کی ہے:
’’ ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے، اس کا ذمہ نھیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کردینا، مسلمان کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقص ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں جن میں عقدِ ذمہ باقی نھیں رہتا: ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکل کر دشمنوں سے جاملے، دوسرے یہ کہ حکومت اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کر کے فتنہ و فساد برپا کرے۔‘‘ 1
اس عبارت سے صاحبِ مضمون نے درج ذیل نتائج اخذ  کیے ہیں: 

پہلا نتیجہ:

اگر ان جرائم سے ذمہ نہیں ٹوٹتا تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ سزا بھی نھیں دی جائے گی؟ مولانا نے مذکورہ عبارت میں صرف گستاخی رسول کو ناقصِ ذمہ نھیں کہا بلکہ دیگر شنیع جرائم بھی ذکر کیے ہیں جیسے: مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا اور مسلمان کو قتل کرنا بھی ناقص ذمہ نہیں ہیں۔ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ ناقص ذمہ نہیں ہیں، لہذا اس پر سزائے موت نہیں دی جائے گی؟ دراصل مولانا نے یہ بات دستوری سیاق میں کہی ہے۔ اگر مسلمان ان میں سے دوسرے جرم (مسلمان عورت کی آبرو ریزی) کا ارتکاب کرے  اور کوئی یہ کہے کہ اس سے وہ خارج از ملت نہیں ہوگا تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست ہوگا کہ مجرم کو سزائے موت نہیں دی جائے گی؟ مولانا نے ’’ رسائل ومسائل‘‘ میں قانونی اور دستوری فرق کو واضح کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’جواب : یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اس میں آپ یا دوسرے حضرات جو رائے بھی رکھتے ہوں، رکھیں اور اپنے دلائل بیان کریں۔ دوسری طرف بھی علماء کا ایک بڑا گروہ ہے اور اس کے پاس بھی دلائل ہیں۔ اصل اختلاف اس بات میں نہیں ہے کہ جزیہ نہ دینا،یا سب نبی صلعم، یا ہتک مسلمات قانونی جرم مستلزم سزا ہیں یا نہیں، بلکہ اس امر میں ہے کہ یہ جرائم آیا قانون کے خلاف جرائم ہیں یا دستور مملکت کے خلاف۔ ایک جرم وہ ہے جو رعیت کا کوئی فرد کرے تو صرف مجرم ہوتا ہے۔ دوسرا جرم یہ ہے جس کا ارتکاب وہ کرے تو سرے سے رعیت ہونے ہی سے خارج ہو جاتا ہے۔ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ ذمی کے یہ جرائم پہلی نوعیت کے ہیں۔ بعض دوسرے علماء کے نزدیک ان کی نوعیت دوسری قسم کے جرائم کی سی ہے۔ یہ ایک دستوری بحث ہے جس میں دونوں طرف کافی دلائل ہیں۔‘‘ 2
صاحبِ مضمون نے بھی مولانا کے اس جواب کو نقل کیا ہے، لیکن نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ:  ’’یہ بات مولانا مودودی نے چونکہ فقہ حنفی کی کتب بدائع]بدائع الصنائع[  اور فتح القدیر کے حوالے سے بیان کی ہے، اس لیے مولانا مودودی کی رائے قطعی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ شاتمِ رسول ذمی کو موت کی سزا نہیں  دی جائے گی‘‘۔ یہ نتیجہ بھی خود ساختہ ہے۔ یہ رائے فقہائے احناف کی ہے اور نہ مولانا مودودی کی کہ ذمی کو شتمِ رسول پر سزائے موت نہیں  دی جائے گی۔3 صاحب مضمون نے اسی قسم کی تعمیم پورے مضمون میں کی ہے۔
علاوہ ازیں حدود میں ارتداد اور شربِ خمر کے علاوہ مسلمان اور ذمی میں بھی کوئی فرق نھیں، ان دو سزاؤں کے علاوہ دنوں کو یکساں سزا دی جائے گی۔ اگر ذمی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرے تو اس کا ذمہ تو نہیں ٹوٹے گا، لیکن کیا عتیقی صاحب اس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ایسے فرد کو عمومی حالات میں موت کی سزا نہیں دی جائے گی؟ فقہ حنفی کے مطابق شاتمِ رسول ذمی کو سیاسۃ سزا دی جائے گی جو امام کا حق ہے۔ ذمی کے لیے یہ سزا امام کی صوابدید پر ہے، لیکن یہ کہنا کہ عمومی حالات میں سزائے موت نہیں دی جائے گی، درست نہیں ہے۔ سیاسہ کے تحت یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ امام ذمی کے لیے اس شنیع فعل پر مستقل سزائے موت کا قانون بنائے۔ چونکہ یہ امام کا حق ہے، اس لیے وہ سزا کو معاف بھی کرسکتا ہے۔ 
بعد ازاں عتیقی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ فقہ اسلامی میں اس بات پر اجماع پایا جاتا ہے کہ توہین رسالت کی کوئی سزا قرآن وسنت میں متعین نہیں کی گئی بلکہ یہ فقہا کی اجتہادی اور استنباطی رائے ہے۔ اجماع والی بات علی الاطلاق صحیح نھیں ہے۔ نیز فقہا قرآن اور سنت ہی سے استنباط کرتے ہیں، کسی غیر اسلامی ماخذ سے نہیں۔ اگر عتیقی صاحب خود قرآن سے براہِ راست استنباط کرسکتے ہیں تو فقہاے کرام کو بھی یہ اجازت دینی چاہیے۔ تاہم پہلے یہ لکھا کہ یہ قرآں و سنت میں یہ سزا مذکور نھیں ہے اور فقہا کی استنباطی رائے ہے، مگر اس کے بعد پھر انھی فقہا کی رائے نقل کی ہے۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
تفہیم القرآن سے کچھ عبارتیں نقل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مولانا نے قتل بالحق کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں۔ لیکن اس سے بھی عتیقی صاحب کا مدعا قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتا۔ اوپر مذکور ہوا کہ اگر ذمی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرے تو اس کا ذمہ اگر چہ نہیں ٹوٹتا مگر ذمہ نہ ٹوٹنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو قتل بھی نہیں کیا جائے گا۔ مولانا نے قتل بالحق کی جو اقسام بیان کی ہیں ـــــ جو یقینا فقہ اسلامی ہی سے ماخوذ ہیں ـــــ اس میں ارتداد کے علاوہ باقی تمام سزائیں ذمی کو دی جاسکتی ہیں، ذمی کو زنا کی سزا بھی وہی دی جائے گی جو اسلامی حکومت کے قانون میں مذکور ہے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا قطعی طور پر درست نہیں ہے کہ ان پانچ صورتوں میں شاتمِ رسول کی سزا نہیں ہے، لہذا ذمی کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔ یہاں پر انھوں نے پھر وہی تعمیم کی ہے۔ ایک طرف مسلم اور غیر مسلم کا فرق ملحوظ نھیں رکھا، مسلمان کے لیے تو پانچ صورتوں میں مرتد والی سزا موجود ہے۔ غیر مسلم کے بارے میں جب واضح ہے کہ اس کو سیاسۃ سزا دی جائے گی اور مولانا کی رائے بھی صاحب مضمون فقہ حنفی کے حوالے پر نقل کرتے ہیں تو پھر یہ کیسے ثابت ہوا کہ ذمی کو سزا نہیں دی جائے گی؟ مولانا مودودی اسی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’تعزیرات میں ذمی اور مسلمان کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو بھی دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرائے یا مسلمان کا مال ذمی چرائے، دونوں صورتوں میں سارق کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ذمی کسی مسلمان عورت سے زنا کرے یا مسلمان کسی ذمی عورت سے زنا کرے، دونوں صورتوں میں سزا یکساں ہوگی۔‘‘ 4

دوسرانتیجہ:

دوسرا نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ رسول اللہﷺ کی گستاخی مولانا کے نزدیک فساد فی الارض کے زمرے میں نہیں آتی۔ ایک تو فساد فی الارض کو انھوں نے واضح نہیں کیا، اور کیا فی الواقع رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کی ہر قسم اور نوعیت فساد فی الارض کے زمرے میں نہیں آتا؟ یہ دوسرا نتیجہ مولانا کی طرف صریح طور پرغلط منسوب کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی نے یہ کس جگہ لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی فساد فی الارض کے زمرے میں نہیں آتی؟
جہاں تک کعب بن اشرف اور ابو رافع کے قتل کا تعلق ہے تو مولانا مودودی نے اس کو اسلام کے قانونِ جنگ کے تحت ذکر کیا ہے۔ کعب بن اشرف کے جرائم متعدد تھے، جن میں رسول اللہﷺ کی شان میں ہجویہ اشعار کہنا بھی تھا، لہذا توہین رسالت کو وجوہ قتل سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔5 مولانا مودودی نے بھی کعب بن اشرف کے جرائم میں اس کا ذکر کیا ہے۔6 مولانا نے اسلام کے قانون جنگ کے باب میں ’’چند مستثنیات‘‘ کے عنوان کے تحت اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ استثنائی معاملات تھے۔ دشمن کے سردار کو خفیہ طریقے سے قتل کرنا اسلامی قانون جنگ کا مستقل حصہ نہیں ہے۔ تاہم اس بنیاد پر عتیقی صاحب نے ان معروف واقعات کو، جن سے عام طور پر گستاخی رسول کی سزا ثابت کی جاتی ہے، ہدفِ تنقید بنایا ہے حالاں کہ مسئلہ کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ فقہا نے کس طرح ان مسائل کو دیکھا ہے۔
جناب اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب ’’ناموسِ رسالت اور قانونِ توہین رسالت‘‘ میں مولانا مودودی کا ایک مضمون نقل کیا ہے جو ’’رنگیلا رسول‘‘ کے فیصلے کے بعد ’’الجمعیۃ ‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ مضمون کا عنوان تھا ’’رنگیلا رسول کا فیصلہ اور اس کے نتائج‘‘ 7 اس مضمون میں مولانا نے کوئی قانونی بحث نہیں کی بلکہ واقعات جمع کرکے ان سے عمومی استدلال کیا ہے کہ شاتم رسول کو قتل کردیا جائے گا۔ فاضل مضمون نگار کی نظر میں اس مضمون اور ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘کے مندرجات میں تضاد ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کی بحث بالکل الگ نوعیت کی ہے۔ چنانچہ تضاد کو رفع کرنے کے لیے مضمون نگار ’’الجمعیۃ ‘‘ والے مضمون کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ اس مضمون کو ٢٤ سالہ نوجوان صحافی کی ایک جذبہ انگیز تحریر سمجھنا چاہیے۔‘‘
اگر صاحبِ مضمون تھوڑی سی تحقیق اور کرلیتے تو یہ بات کبھی بھی نہ لکھتے۔ ’’الجہاد فی الاسلام‘‘بھی اسی دور کی کتاب ہے۔ مولانا نے الجمعیۃ میں ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘کا پہلا مضمون ٢ فروری ١٩٢٧ء کو لکھا تھا اور ’’رنگیلا رسول ‘‘ والے مسئلے پر تبصرہ جون ١٩٢٧ء کو لکھا۔ یہ دونوں تحریریں ایک ہی زمانے کی ہیں لیکن عتیقی صاحب اپنے غلط دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک جانب مولانا کی عبارتوں کو manipulate کرتے ہیں اور دوسری جانب اس میں کامیاب نہیں  ہوپاتے تو ایک دعوے کے لیے دوسرا دعویٰ کرجاتے ہیں۔ اگر اپنے مقدمہ کے خلاف بات کو نوجوان کی جذبہ انگیز تحریر کہہ کر مسترد کیا جا سکتا ہے تو اس نوجوان کی بالکل اسی دور کی رائے پر، اگر چہ اس کی نوعیت دوسری ہے، مقدمہ کس اصول کے تحت قائم کرتے ہیں؟  مزید ستم یہ کہ توہینِ رسالت کی سزا دینے کا اختیار کس کو حاصل ہے؟ اس میں پھر اسی کتاب سے حوالہ دیا ہے، جس کو انھوں نے پہلے ٢٤ سالہ نوجوان صحافی کا جذبہ انگیز تحریر قرار دیا تھا۔
جو بھی رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کرے تو اس کو لازما سزا دی جائے گی، لیکن مسلمان اور غیر مسلم میں فرق ملحوظ رکھا جائے گا۔ اگر مسلمان کرے تو مرتد ہوجائے گا اور اس کو ارتداد کی سزا دی جائے گی جو حد ہے۔ فقہ حنفی کے مطابق مرتد کی توبہ قبول کی جائے گی۔ دوسری جانب غیر مسلم ہے۔ غیر مسلم کی سزا سیاسہ کے تحت ہے، یہ امام کا حق ہے اور امام عمومی حالات میں اس کے لیے مستقل بھی سزائے موت کا قانون نافذ کرسکتا ہے۔ چوں کہ یہ امام کا حق ہے، اس لیے اس میں تخفیف بھی کرسکتا ہے اور معاف بھی۔ لیکن فقہ حنفی سے لوگ آدھی بات لے کر کہتے ہیں کہ غیر مسلم کو موت کی سزا نہیں دی جائے۔ فقہائے احناف نے صرف یہ جزئیہ بیان نہیں کیا، بلکہ اس بابت ان کے پورے قانون کو دیکھنا چاہیے۔ 
اب مولانا مودودی کی رائے دیکھیے۔ مولانا ارتداد نے کی سزا پر ایک چھوٹی سی کتاب بھی لکھی ہے جس میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ یہ اسلامی قانون کا مستقل حصہ ہے۔8 مولانا بعض مسائل میں دوسرے فقہا کی رائے پر انحصار کرتے ہیں لیکن وہ حنفی ہی ہیں اور دیگر بیشتر مسائل کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ذمی کے بارے میں بھی مولانا کی وہی رائے ہے جو فقہ حنفی میں بیان ہوئی ہے۔ توہین رسالت کے مسئلہ پر انھوں نے کہیں بھی تفصیل سے کلام نہیں کیا لیکن اس کا یہ مقصد ہر گز نھیں کہ وہ سزا ہی کے قائل نہیں ہیں۔ چنانچہ مولانا کے بارے میں عتیقی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے وہ نتائج ثابت نہیں ہوتے جو انھوں نے لکھے ہیں۔ 
مضمون کے آخر میں فاضل مضمون نگار نے ’’خلاصہ کلام‘‘ پیش کیا ہے۔ اس کے بالعکس (اُس مضمون کے تناظر میں) درج ذیل نتائج پیشِ خدمت ہیں:

حواشی

  1. الجہاد فی الاسلام، سید ابوالاعلیٰ مودودی، لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، جون۱۹۹۶، ص ۲۸۹
    اس عبارت پر عمار خان ناصر صاحب نے تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے:  ’’بعض جگہ مولانا مودودی نے اہلِ ذمہ کے قانونی احکام کے حوالے سے فقہی رجحانات میں  ایک رجحان کو، جو ان کے اختیار کردہ زاویہ نظر سے ہم آہنگ ہے، یوں بیان کیا ہے جیسے وہ اسلامی قانون کا کوئی متفقہ مسئلہ ہو ۔‘‘ (جہاد ایک مطالعہ، محمد عمار خان ناصر، لاہور: المورد ادارہ علم و تحقیق، نومبر ۲۰۱۳، ص ۳۴۶)عمار صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ فقہا کا ایک بڑا گروہ دوسری رائے رکھتا ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے عمار صاحب ہر جگہ اس اصول کو ملحوظ رکھتے ہیں کہ جمہور کی کیا رائے ہے۔ ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں مولانا نے فقہ حنفی پر انحصار کیا ہے۔ اب ظاہر ہے جب کوئی اپنی فقہ کے مطابق رائے دے گا تو اسی اسلوب میں دے گا۔ نیز مولانا نے یہ مسئلہ فقہ حنفی سے نقل کیا ہے۔
  2. رسائل ومسائل، سید ابوالاعلی مودودی، لاہور: اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ، تاریخ ندارد، جلد ۴، ص ۱۸۵
  3. توہین رسالت کی بابت فقہائے احناف کی جانب بہت غلط باتیں منسوب کی جاتی ہیں۔ ایک جانب مذہبی جدیدیت پسند ہیں جو فقہ حنفی سے آدھی بات لے کر کہتے ہیں کہ حنفیہ غیر مسلم کو توہین رسالت پر سزائے موت دینے کے قائل نہیں ہیں۔ دوسری جانب خود کو حنفی کہلانے والے ہیں جو اپنے مذہب سے واقف نہیں ہیں۔ تاہم چونکہ مسئلہ قانونی ہے، اس لیے ہر پہلو کو دیکھنا پڑے گا۔ بات اس قدر آسان نہیں ہوتی جس قدر سمجھی جاتی ہے۔ اس تحریر کا مقصد حنفی فقہا کی رائے بیان کرنا نہیں، بلکہ عتیقی صاحب کے مضمون نے جو غلط فہمی پیدا کی ہے، اس کو واضح کرنا ہے۔ حنفی رائے پر بہترین تحقیق کے لیے ملاحظہ کیجیے: توہینِ رسالت کی سزا کے متعلق حنفی مسلک، ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، ماہنامہ الشریعہ، جون ۲۰۱۱ء
  4.  الجہاد فی الاسلام، ص ۲۸۸
  5.  کعب بن اشرف دراصل محارب تھا، اور جن مسلمانوں نے ان کو قتل کیا تھا، انھوں نے اس کو امان نہیں دی تھی، اس لیے اس کا قتل جائز تھا، لیکن توہین رسالت جیسے جرم کو وجوہ قتل سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
  6. ایضا، ص ۳۱۱
  7. یہ مضمون مولانا کے ۱۹۲۷ء میں شائع ہونے والے ’’الجمعیۃ ‘‘کے مجموعۂ مضامین ’’آفتابِ تازہ‘‘، لاہور: ادارہ معارف اسلامی ، ص ۱۸۶- ۱۸۲ میں شامل ہے ۔
  8.  مرتد کی سزا اسلامی قانون میں، سید ابوالاعلیٰ مودودی، لاہور: اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ، اپریل۱۹۷۰

مولانا ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی کی تصنیف ’’تخلیق عالم‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نحمده تبارك وتعالی ونصلي ونسلم علی رسولہ الكريم وعلٰی آلـہ وأصحـابہ وأتباعہ أجـمعين۔
حضرت مولانا عبد اللہ لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے بزرگوں میں سے تھے جن کی ساری زندگی دینی تعلیم و تدریس میں گزری اور انہوں نے اپنی اگلی نسل کو بھی دینی خدمات کے لیے تیار کیا اور ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ وہ علماء لدھیانہ کے اس عظیم خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو تاریخ میں تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت میں قائدانہ کردار کا ایک مستقل عنوان رکھتا ہے۔ انہوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سے تعلیم حاصل کی اور علمی وروحانی فیض سے بہرہ ور ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے گوجرانوالہ میں آگئے اور اپنے علمی و تحریکی سلسلہ کا تسلسل جاری رکھا۔ مجھے ان کی زیارت اور ان سے استفادہ کا شرف حاصل ہے۔ وہ جمعہ کی نماز مرکزی جامع مسجد میں باقاعدگی سے ادا فرماتے تھے اور خطیب کی گفتگو کو غور سے سن کر بسا اوقات اصلاح بھی فرمایا کرتے تھے۔ متعدد بار مجھے بھی ان کے ذوق سے استفادہ کا موقع ملا۔ ایک بار وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور اپنی بعض تصنیفات مرحمت فرمائیں۔ اس موقع پر انہوں نے مجھے اس سند حدیث کی بھی زیارت کرائی جو حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے دست مبارک سے لکھ کر انہیں روایت حدیث کی اجازت کے طور پر مرحمت فرمائی تھی۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوتا تھا کہ وہ دنیا کے سیاسی اور علمی حالات پر نظر رکھتے تھے۔ اہم معلومات کو محفوظ فرماتے تھے اور ان پر تبصرہ بھی کرتے تھے۔
ان کے فرزند گرامی حضرت مولانا عبدالواسع لدھیانویؒ کی زیارت ورفاقت سے میں کچھ عرصہ بہرہ ور رہا، جبکہ ان کے چھوٹے فرزند حضرت علامہ محمد احمد لدھیانویؒ کے ساتھ تو طویل عرصہ تک جماعتی وتحریکی رفاقت رہی اور ہم بہت سے دینی، سیاسی اور تحریکی معاملات میں ایک دوسرے کے معاون رہے۔ آج وہ گزرے ہوئے دن یاد آتے ہیں تو اردگرد ہجوم کے باوجود تنہائی کا احساس بڑھنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کو جنت الفردوس میں عالی مقام سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین
اس خاندان کے ساتھ تعلق بحمدللہ تعالیٰ آج بھی قائم ہے۔ مولانا محمد اسامہ اور مولانا محمد اسرائیل میرے دور طالب علمی کے ساتھیوں میں سے ہیں جبکہ اس سے اگلی نسل کے کچھ نوجوان میرے شاگردوں میں بھی شامل ہیں۔ علامہ محمد احمد لدھیانویؒ کے فرزند پروفیسر میاں انعام الرحمٰن صاحب کے بچپن سے ان سے واقف ہوں۔ ہمارے سامنے جوان اور اب بوڑھے ہو گئے ہیں۔ تحقیق و مطالعہ اور تفکر و تدبر کا ذوق شروع سے ان میں پایا جاتا ہے اور اس کا وہ اپنے منفرد انداز میں اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے رفقاء میں سے ہیں اور الشریعہ اکادمی کی تشکیل و ترقی میں ان کا اہم کردار ہے۔ 
حضرت مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ کے علمی افادات کے بارے میں ایک عرصہ سے میری خواہش تھی کہ انہیں محفوظ کرنے اور ان کی دوبارہ اشاعت کی کوئی صورت نکل آئے تو اس سے علماء و طلبہ کو بہت فائدہ ہوگا۔ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب نے اپنے دادا محترم رحمۃ اللہ علیہ کے فیوضات کو پھر سے منظر عام پر لانے کا عزم کیا ہے جو بلاشبہ ان کی سعادت مندی کی بات ہے۔ زیر نظر کتاب میں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں اور اب بارِ دیگر اس سے استفادہ کا موقع میاں صاحب کی مہربانی سے ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں اور اس سلسلۂ خیر کو تکمیل تک پہنچانے اور زیادہ سے زیادہ عام کرنے کے مواقع اور توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین

فروری ۲۰۱۸ء

انسانی شعور، ایمان اور قرآن مجید کا اسلوب استدلالمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۰)ڈاکٹر محی الدین غازی
جدید سائنس کے مباحث اور علم الکلاممولانا محمد رفیق شنواری
تبلیغی جماعت کا بحرانمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۲)محمد عمار خان ناصر
حضرت مولانا حمد اللہ آف ڈاگئیؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مدینۃ العلم قطر میں چھ دن ۔ (مدرسہ ڈسکورسز کے ونٹر انٹنسو ۲٠۱۹ء کی روداد)ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

انسانی شعور، ایمان اور قرآن مجید کا اسلوب استدلال

محمد عمار خان ناصر

ایمان والحاد اور فلسفہ ومذہب کی باہمی گفتگو میں عام طور پر ایمان کا تقابل عقل سے کیا جاتا ہے، اور یہ دونوں فریقوں کی جانب سے ہوتا ہے۔ تاہم ذرا غور سے واضح ہو جاتا ہے کہ عقل اور ایمان کے تقابل کا مفروضہ منطقی طور پر غلط ہے، اس لیے کہ یہ دونوں انسانی شعور کے دو الگ الگ مراتب سے تعلق رکھتے ہیں۔ الحاد یا ایمان کا تعلق انسانی شعور کے اولین مرتبے یعنی اپنی وجودی حالت کے تصور سے ہے، جبکہ عقل کی فعلیت اس کے بعد شروع ہوتی ہے اور سرتاسر وجودی مفروضات کے تابع ہوتی ہے۔ وجودی مفروضات کے لحاظ سے ایمان یا الحاد میں سے کوئی بھی پوزیشن عقلی سطح پر قابل توجیہ ہو سکتی ہے۔
مذہبی ایمان کا مفروضہ انسان کا وجودی لحاظ سے لاچار اور محتاج ہونا، جبکہ جدید تصور انسان کا وجودی مفروضہ انسان کا خود مختار اور ہر لحاظ سے خود کفیل ہونا ہے۔ جدید انسان کو انسانی معاملات میں دخل نہ دینے والے خدا سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن فعال ومرید اور مطالبات رکھنے والا خدا اسے قبول نہیں۔
انسان کے محتاج یا مختار ہونے میں سے کوئی بھی مفروضہ عقلی قضیہ نہیں، بلکہ ایک نفسی حالت کا بیان ہے۔ نفسی حالت، احوال وجود کے عمومی اور ان کے تعلق سے ہیومن کنڈیشن کے خصوصی مشاہدے سے بننے والے تاثر سے تشکیل پاتی ہے۔ اس نفسی حالت میں طاقت کا احساس، چاہے وہ علم کی ہو یا تصرف کی، غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
ماقبل جدید انسان کو چونکہ طبیعی کائنات کے قوانین سے متعلق زیادہ علم حاصل نہیں تھا، اس لیے انسان کا اپنے متعلق عمومی وجودی مفروضہ احتیاج اور انحصار تھا جو ایمان کے لیے زیادہ سازگار تھا۔ اس کے مقابل وجودی مفروضے، یعنی انسان کی خود مختاری کا امکان بھی یقینا موجود تھا اور الحاد کی پوزیشن بھی بہت قدیم ہے، لیکن یہ عمومی انسانی شعور کے لیے قابل قبول نہیں تھی۔ جدید انسان چونکہ احوال وجود کے علم اور ان میں تصرف کی بے پناہ طاقت سے لیس ہے، اس لیے خود مختاری کے وجودی مفروضے کو مختلف عقلی علوم کی مدد سے جدید تصور انسان پر غالب بنا دیے جانے کا امکان پوری طرح قابل فہم ہے۔
اس تجزیے سے واضح ہے کہ عقل کی فعلیت کے دائرے میں ایمان یا الحاد میں کسی کو بھی غیر عقلی کہنا غیر منطقی بات ہے۔ جدید تصور انسان میں انسانی فہم وشعور کو تاریخی ارتقا کے لحاظ سے ایمان اور عقل کے ادوار میں تقسیم کرنا محض ایک منطقی مغالطہ اور خود فریبی ہے، کیونکہ یہ دو مختلف مراتب سے تعلق رکھنے والی چیزوں کے مابین تقابل ہے۔ تقابل ایمان اور عقل کا نہیں، بلکہ انسان کے وجودی لحاظ سے محتاج ہونے یا خود مختار ہونے کے مفروضوں کے مابین بنتا ہے جو عقل سے مقدم ہیں۔ ایمان اور الحاد، دو عقلی پوزیشنیں ہیں جو ان میں ایک یا دوسرے وجودی مفروضے پر مبنی ہیں۔ اصل بحث اس سوال پر بنتی ہے کہ کون سا وجودی مفروضہ انسان کے شعوری وسائل، اس کی وجودی حالت اور اس کے نفسیاتی تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔

انسانی عقل اپنی فعلیت میں کچھ وجودی مفروضات کی محتاج ہوتی ہے، یہ فلسفہ علم کی ایک پیش پا افتادہ بات ہے۔ فلسفہ، سائنس اور مذہب، تینوں میں سلسلہ استدلال کسی ایسے مفروضے پر جا رک جاتا ہے جس کو انسان بس مانتا ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں دے سکتا اور اس پر شک بھی نہیں کر سکتا۔ یہ انسانی شعور کی بے چارگی اور محدودیت ہے جس سے اسے کسی بھی حال میں کوئی مفر نہیں۔ سارا استدلالی عمل اس بے دلیل ماننے کے تابع ہوتا ہے، اس سے ماورا ہو ہی نہیں سکتا:
Wittgenstein argued that questioning and doubting can only take place within a ‘frame of reference’, which he also terms a ‘world picture’ or even ‘mythology’, which is not itself questioned or doubted; that is a ‘system’ which is ‘the element in which arguments have their life’, which ‘stands fast’, and is the ‘substratum of all my enquiring and asserting’, the ‘hinge …. on which the questions we raise and our doubts depend. (Burn, Philosophies of History, page 11)
یہ پیش قیاسی مفروضات صرف عقل کی فعلیت کی بنیاد فراہم نہیں کرتے، بلکہ معلومات کی تنظیم اور ان کی باہمی نسبتوں کی تعیین میں پیش آنے والی مشکلات میں بھی عقل کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ گویا یہ منطق کی shortcomings کی بھی تلافی کرتے ہیں۔ استدلال کی صحت کو قبول کرنے کے لیے منطق کا سب سے بنیادی مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ تمام مقدمات باہم اس طرح مربوط ہوں جیسے کسی مشین کے مختلف پرزے ہوتے ہیں کہ ایک کی حرکت سے دوسرا اور پھر تیسرا پرزہ خود بخود حرکت میں آ جاتا ہے۔ اگر کوئی ایک مقدمہ بھی مابعد مقدمے کو مستلزم نہ ہو تو پورا استدلال بے کار ہو جاتا ہے۔ تاہم کسی بھی عقلی استدلال کے لیے، وجودی مفروضات کی معاونت کے بغیر اس کڑے منطقی معیار پر پورا اترنا ناممکن ہے۔ اس کے تین پہلو یہاں قابل ذکر ہیں۔
۱۔ دو مظاہر کو باہم مربوط کرنے کے کئی مختلف امکان ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ امکانات کو خارج از قیاس قرار دینا یعنی exclusion منطقی عمل کا بنیادی حصہ ہے اور یہ بیشتر حالات میں پیش قیاسی مفروضات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔
۲۔ مقدمات کے باہمی تلازم کے لیے قطعیت کے بجائے عموما probability سے کام چلانا پڑتا ہے اور غالب امکان کو فیصلے کی بنیاد بنانے کی جرات صرف پیش قیاسی مفروضات کی مدد سے ممکن ہوتی ہے۔
۳۔ کسی نظریے کے حق میں دستیاب شواہد میں کہیں خلا پایا جاتا ہو تو اس کو پر کرنے، یعنی gap filling کی ذمہ داری بھی پیش قیاسی مفروضات کی ہوتی ہے۔
حیاتیاتی ارتقا کی مروج تعبیر اس کی خوب صورت مثال ہے۔ اس میں ارتقا کی توضیح کے لیے ارادی تخلیق کے امکان کو خارج از قیاس سمجھنا بنیادی ہے۔ یعنی یہ پہلے سے طے ہے کہ ارتقا کی توضیح کے لیے خدا کا فعل ہونے کا امکان زیرغور نہیں لایا جائے گا۔ پھر انواع میں عمومی طور پر ارتقا پائے جانے سے یہ نتیجہ کہ ہر ہر نوع ارتقا کی پیداوار ہے، بدیہی طور پر قطعی نہیں بلکہ probable ہے، لیکن تخلیق کو خارج از قیاس سمجھنے کا پیش قیاسی مفروضہ اسے، ماہرین حیاتیات کی نظر میں، ایک سائنسی حقیقت قرار دینے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ ارتقا کے حق میں دستیاب شواہد میں جو خلا پایا جاتا ہے، اس کی تلافی بھی اسی پیش قیاسی مفروضے سے کی جاتی ہے۔ گویا اس پورے نظریے کو منطقی طور پر مدلل بنانا exclusion, probability and gap filling کے بغیر ممکن نہیں اور یہ سارے وظائف ایک وجودی اور پیش قیاسی مفروضہ انجام دے رہا ہے۔
یہاں نظریہ ارتقا کے متعلق کوئی رائے دینا مقصود نہیں، صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جس چیز کو عقلی استدلال کہا جاتا ہے، اس کی مکمل توضیح صرف منطق کے اصولوں سے نہیں ہوتی اور نہ منطق، پورے انسانی شعور کی توضیح کی استعداد ہی رکھتی ہے۔ عقل اپنی فعلیت کی ابتدا اور استمرار، دونوں کے لیے وجودی مفروضات کی محتاج ہوتی ہے اور وہی ایک زیادہ بنیادی سطح پر انسانی شعور کی حالت کو واضح کرتے ہیں۔

منطقی استدلال کی نوعیت اور اس کی یہ محدودیتیں پیش نظر رہیں تو  یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ قرآن مجید نے  اپنے طرز استدلال کو منطقی  اسلوب پر کیوں استوار نہیں کیا۔  امام حمید الدین فراہیؒ اس نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ترکیب منطقی کی بنیاد تجزیہ پر ہے۔ یہ اس طریقے کے خلاف ہے جس کے مطابق ذہن اور خطاب عام طور پر کام کرتا ہے۔ فطرت تمام امور کو مرکب صورت میں سامنے لاتی ہے اور نفس انسانی اسی مرکب صورت ہی میں ان کا احساس اور ادراک کرتا ہے۔ پھر وہ ان میں سے بعض امور کو اسی طرح سے لیتا ہے اور بعض کو دوسرے امور کے ساتھ ترکیب دے لیتا ہے۔ رہا تجزیہ تو یہ دوسری نگاہ میں (یعنی اگلے مرحلے پر) وجود میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل بھی کسی منطقی تجزیہ کے بغیر ہی معانی اخذ کرتی اور حق اور باطل میں امتیاز کرتی ہے۔ لیکن جب کوئی معاملہ گڈمڈ ہو جاتا ہے اور عقل دلائل میں کسی خلل کا احساس کرتی ہے تو اس وقت وہ منطق کے اصولوں کو استعمال کر کے کلام کے تجزیہ کی طرف مائل ہوتی ہے تاکہ بات کے مختلف اجزا پر غور کرے۔ یہ اسی طرح کا عمل ہوتا ہے جس کا استعمال ہم نظم میں علم عروض کی صورت میں کرتے ہیں۔ شاعر اگر عروض کی صنعت کا عالم بھی ہو تو وہ شعر کہتے وقت ان کو استعمال نہیں کرتا۔ یہی حال سامع کا بھی ہوتا ہے۔ وہ شعر سنتے وقت اس علم کو استعمال نہیں کرتا۔ اس کے استعمال کی نوبت اس وقت آتی ہے جب شعر میں کسی خلل کا احساس ہو یا ایک وزن دوسرے وزن میں گڈمڈ ہو رہا ہو۔ تب شعر کے اجزا کو الگ کر کے اس کو علم عروض کی کسوٹی پر پرکھ لیا جاتا ہے۔ ٹھیک یہی مصرف منطق کا بھی ہے۔ یہ حجت کو مختلف اجزا میں تقسیم کر کے یہ متعین کرتی ہے کہ کون سی چیز دلیل میں سے حذف ہو گئی ہے۔ اگر کوئی چیز زائد ہو تو منطق اس کو دور کر دیتی ہے۔ ..............
اس بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ترکیب منطقی خلاف فطرت ہے۔ یہ صنعت کلام کو سہل نہیں رہنے دیتی، اس لیے اس کے ماہر خود بھی اس کا لحاظ نہیں رکھ سکتے اور خطابیانہ انداز اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جب وہ لطیف مطالب پر کلام کر رہے ہوں جن کو تصور میں لانا لوگوں کے لیے مشکل ہو جیسے الٰہیات کے مسائل، یا بیان ایسے موضوع کا ہو جس کو قبول کرنا لوگوں کو مشکل نظر آتا ہے جیسے اخلاق اور شرائع کے مضامین یا ایک مسئلہ کے دلائل مختلف ہو رہے ہوں اور کوئی شخص ان کو گڈمڈ کرنے کی نیت رکھتا ہو تو وہ منطقی استدلال سے پہلو تہی کرتا ہے تاکہ اس کی دلیل کی کمزوری واضح نہ ہونے پائے۔ “(توضیحات فکر فراہی، از علامہ خالد مسعود، جلد دوم، ص ۶۴)
قرآن کا موضوع دعوت ایمان ہے، اور ایمان کا مخاطب عقل نہیں، بلکہ دل ہے جو جذبات واحساسات اور فطری تصورات کا مرکز ہے۔ اعتراف نعمت اور تشکر ان فطری احساسات میں سے ایک بنیادی احساس ہے۔ ایمان اسی سے پیدا ہوتا ہے۔ بالعموم ایمان سے گریز یا اس میں تردد کا رویہ پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ یہ فطری احساس کسی دوسری منفی کیفیت سے مغلوب نہ ہو جائے۔ تب عقل اس خاص کیفیت میں وہ دلائل ڈھونڈھنے لگتی ہے جو ناشکری اور عدم اعتراف کی اس کیفیت کو جواز فراہم کر سکیں۔ اس کیفیت کا علاج بھی بالعموم کسی عقلی بحث یا منطقی استدلال سے نہیں ہو سکتا، بلکہ بیشتر اوقات بحث ومباحثہ انا اور ضد کو مزید مستحکم کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔
قرآن کی نظر میں مذہب اور ایمان کی بحث، دینی معتقدات کے عقلی اثبات سے زیادہ نفس انسانی کو آلائشوں سے پاک کرنے کی بحث ہے۔ کسی ایمانی حقیقت کو سمجھنے میں ناکامی کی وجہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ نفس کسی ایسی کیفیت میں مبتلا ہے جو اسے اس حقیقت کی طرف متوجہ ہونے یا اسے قبول کرنے سے مانع ہے۔ یہ موانع عموماً‌ یہ ہوتے ہیں:
۱۔ اپنے علم اور مشاہدہ پر بے جا ناز
۲۔ تکبر، یعنی اپنی بڑائی کا جھوٹا احساس
۳۔ تعصب، یعنی گروہی یا طبقاتی وابستگی
۴۔ حب عاجلہ، یعنی دنیا کی وقتی اور عارضی آسائشوں کی محبت
۵۔ بغیا بینہم، یعنی گروہوں کی ایک دوسرے کے مقابلے میں تفوق اور سرکشی کی جبلت۔ 
دور جدید میں انسان کو اپنی ’’آزادی “ اور ’’مرکزیت “ کا جو واہمہ لاحق ہوا ہے، اس کا ازالہ منطقی استدلال کے بس کی بات نہیں۔  یہ شعور کی نہایت بنیادی سطح پر لاحق ہونے والا ایک عارضہ ہے جس کے علاج کے لیے  انسانی آزادی اور عظمت کے فلسفے کو قرآن مجید کے اسلوب میں  موضوع بنانے کی ضرورت ہے:
قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۔ مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ  ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنْشَرَهُ ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ (سورہ عبس، آیت ۱۷ تا ۲۳)
’’ہلاک ہو انسان، کیسا نا شکرا ہے۔ اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا فرمایا ہے؟ نطفہ سے اس کو پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اس کا تعین فرما دیا۔ پھر راہ اس کے لیے آسان فرما دی۔ پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں (دفن) کر دیا۔ پھر جب وہ چاہے گا، اسے (دوبارہ زندہ کر کے) کھڑا کرے گا۔ یقیناً اس (نافرمان انسان) نے وہ (حق) پورا نہ کیا جس کا اسے (اللہ نے) حکم دیا تھا۔“

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

ایک جملہ یا دو جملے؟

شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحاً وَالَّذِی اوحَینَا اِلَیکَ وَمَا وَصَّینَا بِہِ ابرَاہِیمَ وَمُوسَی وَعِیسَی ان اَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیہِ۔ (الشوری: 13)

اس آیت کا ترجمہ عام طور سے اس طرح کیا گیا ہے گویا کہ یہ ایک ہی جملہ ہے جس میں والذی اوحینا الیک معطوف ہے ما وصی بہ نوحا پر جو مفعول بہ ہے۔ اور ان اقیموا الدین بیان یا تفسیر ہے۔اس ترجمے میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ شرع لکم کہنے کے بعد والذی اوحینا الیک کہنے کی کیا ضرورت تھی، ذیل میں مذکور ترجمے ملاحظہ ہوں:
’’اسی نے تمہارے لیے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس (کے اختیار کرنے کا) نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے محمد) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔“ (فتح محمد جالندھری)
”اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمد) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسی اور عیسی کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں متفرق نہ ہو جاو ۔“ (سید مودودی)
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا، کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا ۔“ (محمد جونا گڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا اس سلسلے میں خیال یہ ہے کہ والذی اوحینا الیک سے دوسرا مستقل جملہ شروع ہوتا ہے۔ اس دوسرے جملے میں والذی اوحینا الیک مبتدا ہے، اس کے بعد جو ہے وہ اس پر معطوف ہے اور ان اقیموا الدین خبر ہے۔ ترجمہ دیکھیں:
’’اس نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کی ہدایت اس نے نوح کو فرمائی۔ اور تمہاری طرف جو وحی کی ہے اور جس کی وصیت ابراہیم اور موسی اور عیسی کو کی وہ یہ ہے کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ میں نہ پڑو۔“ (امانت اللہ اصلاحی)
اس طرح اس میں دو باتیں بتائی گئیں، ایک یہ کہ جو دین آپ کو دیا گیا ہے وہ وہی ہے جو نوح کو دیا گیا تھا، اور دوسرے یہ کہ دین کے تعلق سے جو ذمہ داری آپ پر عائد کی گئی ہے وہ وہی ہے جو ابراہیم اور موسی اور عیسی پر عائد کی گئی تھی۔
اسلوب کی باریکی یہ ہے کہ لفظ والذی قرآن مجید میں عام طور سے نئے جملے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں ما کے بجائے والذی لانے سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہ نیا جملہ ہے۔
اس مفہوم کے بعد وہ اشکالات دور ہوجاتے ہیں، جو آیت کو ایک جملہ ماننے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور ان تشریحات کی بھی ضرورت نہیں رہتی ہے جو ان دونوں جملوں کوایک جملہ مان کر کی جاتی ہیں۔
آیت مذکورہ کے ترجمے میں ایک امر اور توجہ طلب ہے وہ یہ کہ بہت سے مترجمین نے ”لا تتفرقوا فیہ“ کا ترجمہ’’پھوٹ نہ ڈالنا“ کیا ہے جو درست نہیں ہے، کیونکہ یہ فعل لازم ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ خود تفرقے میں نہ پڑو نہ یہ کہ پھوٹ نہ ڈالو۔ پھوٹ ڈالنے کے لیے باب تفعیل سے تفریق کا لفظ استعمال ہوتا ہے، یہاں بات تفعل سے تفرق کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب خود تفرقہ میں پڑجانا ہوتا ہے۔

"بما عھد عندک" کا ترجمہ

عہد کا لفظ عربی میں وعدے کے مفہوم کو ادا کرتا ہے، اس کے علاوہ لفظ عہد کسی چیز سے مسلسل تعلق کو بھی ظاہر کرتا ہے، شاعر کہتا ہے: 
فلیسَ کَعَھدِ الدارِ یا امَّ مالکٍ
ولکن احاطَت بالرِقابِ السَلاسِلُ
اسی طرح حدیث میں ہے: 

لولا قومک حدیثوا العھد بکفر۔۔۔الخ 

نیچے ذکر کی گئی دونوں آیتوں میں بما عھد عندک سے عام طور سے وعدہ اور عہد مراد لیا گیا، ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں وہ معمول مراد ہے ، جو اللہ تعالی کا حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ تھا، اور یہ معمول آخری عذاب سے پہلے آنے والی نشانیوں کے سلسلے میں خود فرعون کی قوم کے سامنے واضح طور سے آچکا تھا۔
مشہور مفہوم کے تعلق سے یہ بات غور طلب ہے کہ عذاب ٹالنے اور دعا قبول کرنے کا کوئی عہد اللہ نے حضرت موسی سے کیا ہو، اس کا ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے، اور نہ ایسے عہد کی حضرت موسی نے قوم فرعون کو خبر دی تھی۔ 
اس تمہید کے بعد دونوں آیتوں کے مذکورہ ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

(۱) وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیھِمُ الرِّجزُ قَالُوا یَا مُوسَی ادعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِندَکَ۔ (الاعراف: 134)

’’جب کبھی اُن پر بلا نازل ہو جاتی تو کہتے "اے موسیٰ، تجھے اپنے رب کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر۔“ (سید مودودی)
’’اور جب ان پر عذاب پڑتا کہتے اے موسیٰ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے۔“ (احمد رضا خان)
’’اور جب ان پر کوئی عذاب واقع ہوتا تو یوں کہتے کہ اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس بات کی دعا کر دیجئے! جس کا اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے۔“ (محمد جوناگڑھی)
مذکورہ بالا ان تینوں ترجموں میں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ ماضی استمراری کا ترجمہ کیا ہے، حالانکہ یہاں کلما نہیں بلکہ لما ہے، اور جملہ میں استمرار یعنی بار بار کا مفہوم نہیں ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’اور جب آیا ان پر عذاب تو درخواست کی کہ اے موسی تم اپنے رب سے اس معمول کے واسطے سے جو اس کا تمہارے ساتھ رہا ہے ، ہمارے لیے دعا کرو۔“ 

(۲) وَقَالُوا یَا اَیُّہَا السَّاحِرُ ادعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِندَکَ۔ (الزخرف: 49)

’’ہر عذاب کے موقع پر وہ کہتے، اے ساحر، اپنے رب کی طرف سے جو منصب تجھے حاصل ہے اُس کی بنا پر ہمارے لیے اُس سے دعا کر“۔ (سید مودودی، یہاں ’’ہر عذاب کے موقع پر وہ کہتے“ درست نہیں ہے، ہر عذاب کی بات نہیں ہے اور نہ ہی جملے میں استمرار کا مفہوم ہے۔ بلکہ ایک عذاب کی بات ہے)
’’اور بولے کہ اے جادوگر ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر کہ اس عہد کے سبب جو اس کا تیرے پاس ہے۔“ (احمد رضا خان)
’’اور انہوں نے کہا اے جادوگر! ہمارے لیے اپنے رب سے اس کی دعا کر جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کر رکھا ہے۔“ (محمد جوناگڑھی)
مذکورہ بالا دونوں آیتوں کے آخری ترجمے میں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ قوم فرعون کی طرف سے مطالبہ کسی ایسی بات کی دعاکرنا نہیں تھا جس کا عہد کیا گیا ہو، بلکہ عہد کے واسطے سے عذاب کو ہٹانے کی دعا کرنے کا مطالبہ تھا۔ یعنی ”جس کا عہد کیا تھا وہ دعا کریں“ یہ مراد نہیں ہے، مراد یہ ہے کہ جو عہد ہے اس عہد کے واسطے سے دعا کریں۔
 عہد سے مراد اللہ کا حضرت موسی سے کیا ہوا کوئی وعدہ ہے، یا اللہ کا حضرت موسی کے ساتھ معمول مرادہے؟ ، یہ بحث مذکورہ غلطی کے علاوہ ہے۔
مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’اور انہوں نے کہا اے ساحر تیرے رب کا تیرے ساتھ جو معمول ہے اس کے واسطے سے ہمارے لیے دعا کر۔“ 

"الکلم الطیب" کا ترجمہ

کلم کلمہ کی جمع ہے، اس لفظ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ جمع ہونے کی وجہ سے مونث تو استعمال ہوتا ہی ہے مذکر بھی استعمال ہوتا ہے۔ 

(ج: کَلِمۃ) بِحَذفِ الھَاءِ، تُذَکَّرُ وتُوَنَّثُ، یُقال: ھُوَ الکَلِم، وھِیَ الکَلِم۔ (تاج العروس)

اس لغوی وضاحت کی روشنی میں درج ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ کریں:

الَیہِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالعَمَلُ الصَّالِحُ یَرفَعُہُ۔ (فاطر: 10)

’’تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے۔“ (محمد جونا گڑھی)
’’اُس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔“ (سید مودودی، اس ترجمہ میں حصر اپنے محل سے ہٹ گیا ہے، قاعدے کی رو سے حصر کا مفہوم مبتدا موخر میں نہیں ہے بلکہ خبر مقدم میں ہے، صحیح ترجمہ یوں ہوگا: ”اسی کے یہاں اوپر چڑھتا ہے پاکیزہ قول“)
’’اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اسے بلند کرتا ہے۔“ (احمد رضا خان)
’’اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتے ہیں۔“ (فتح محمد جالندھری)
مذکورہ بالا ترجمے لفظ کے مطابق ہیں، البتہ درج ذیل ترجمہ درست نہیں ہے اس میں کلم کا ترجمہ کلمہ یعنی واحد کردیا گیا ہے:
’’اس کی طرف صعود کرتا ہے پاکیزہ کلمہ اور عمل صالح اس کلمہ کو سہارا دیتا ہے۔“ (امین احسن اصلاحی)
(جاری)

جدید سائنس کے مباحث اور علم الکلام

مولانا محمد رفیق شنواری

(پروفیسر نضال قسوم (امیریکن یونیورسٹی، شارجہ) کے مقالہ Kalam’s Necessary Engagement with Modern Science سے مستفاد)

خالص عقیدے سے متعلق قدیم مباحث پر مشتمل علم کلام سائنسی مباحث پر کیوں مشتمل ہو؟ سائنس کی تعریف پر غور و فکر کسی حد تک اس سوال کا جواب سمجھنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ سائنس کی تکنیکی اعتبار سے جو بھی تعریف کی جائے، ان میں پائے جانے والی فنی اور دقیق فروق سےہٹ کر بنیادی عناصر تقریبا سب میں یکساں پائے جاتے ہیں اور وہ ہیں اس علم کی معروضیت، آفاقیت ، تجربیت اور معیاریت کے دعوے۔ یعنی جدید علم جو معلومات فراہم کرتا ہے، وہ معروضی حقائق ہیں ، یہ علم مذہب اور کلچر وغیرہ تمام بندھنوں سے آزاد ہو کر ایک آفاقی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ علم نرے نظریات کا مجموعہ اور محض عقلی و فکری عیاشی نہیں بلکہ تجربے اور مشاہدے پر مبنی مطمئن کر دینے والا علم ہے۔ نیز یہ علم دیگر تمام علوم اوران کی صحت کے لیے کسوٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں اس بات کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ سائنس خود کو اس کائنات کے واقعات کی توجیہ اورنظام اسباب کی معرفت تک محدود رکھتی ہے، یعنی سائنس "کیسے " کا جواب تلاش کرنے کی محنت کا نام ہے۔ جہاں تک غایات یعنی اس پورے نظام کے مقصد اور رونما ہونے والے ہر واقعے کے پیچھے غرض و غایت (Teleological Considerations) کا تعلق ہے تو سائنس اس سے پہلو تہی کیے ہوئے ہے۔ یہ پورا نظام کیوں وجود میں آیا ، کیوں یہ تمام واقعات جنم لیتے ہیں اور آخر انجام اس پورے نظام کا کیا ہے ؟ ایسے سوالات سائنس کا موضوع نہیں ہیں۔ 

کیا سائنس اور مذہب کے درمیان تصادم ہے؟ 

کائنات اور اس دنیا میں آئے دن رونما ہونے والے واقعات کی توجیہ کے سلسلے میں بحث و تحقیق کے دوران اس علم کا طریقہ کار ان اسباب کی نشاندہی اور ان میں پائے جانے والے تعلق کی وضاحت ہے جوان واقعات کے رونما ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ سائنس اس دوران کسی بھی واقعے کا سبب بتانے یا توجیہ پیش کرنے میں خدا ، فرشتہ یا کسی بھی ہماری عقل کے دائرے سے باہر ذات کا حوالہ معتبر نہیں سمجھتی۔ سائنس کے اس ماورائے عقل (metaphysical)  ذات کے حوالے کے بغیر کائنات کے حوادث کی توجیہ اور اسباب معلوم کرنے کے طریقہ کار کو methodological naturalism کہا جاتا ہے۔ یہی طریقہ کار توحید پر مبنی نظریہ علم اور مشرکانہ تصورِ علم کے درمیان نکتۂ نزاع ہے۔ یہ طریقہ کار آخر جدید سائنس کی بنیادی خاصیت کیوں اور کیسے بنی ؟ فلسفۂ سائنس کے ماہرین کے مطابق اس کی وجہ Pragmatism ہے۔ یعنی اس علم نے کائنات اور اس میں رونما ہونے والے واقعات کی توجیہ پیش کرتے ہوئے عملی اطلاقات اور تجربات و مشاہدات کی مدد سے اپنے نظریات اور اعتقادات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ سائنس دانوں کی نظر میں اس کائنات کی ہر شے دوسری سے ایسے جڑی ہوئی ہے کہ ان کا یہ باہمی تعلق ہمیں کم سے کم چیزوں کا سہارا لے کر ان واقعات کی توجیہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اب ایسے میں کسی ماورائے عقل ذات (مثلا فرشتے یا خدا) کے حوالے کی ضرورت کیوں کر پیش آ سکتی ہے۔ ایسا حوالہ بظاہر کائنات کے بارے میں مزید معلومات کی فراہمی کے پراسس کو کم رفتار بلکہ غیر بار آور بنا دیتا ہے؛ کیوں کہ اس حوالے کے بعد تجسس اور مزید تحقیق کی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ 
حصولِ علم کے اس طریقہ کار کا مذہبی عقائد سے واضح تصادم پایا جاتا ہے بالخصوص اس رائے کے مطابق کہ نظامِ اسباب کے ہوتے ہوئے بھی خدائے تعالی براہ راست اس جہان میں بعض اوقات کچھ افعال کردیتے ہیں۔ مثلا معجزات ، سیلاب ، زلزلے ، لاوا پھٹ جانا، بظاہر اسباب کارآمد نہ دِکھتے ہوئے کسی بندے کی دعا قبول کرلینا ، یا اس کا برعکس کہ اسباب کی مساعدت کے باوجود کسی کام کا نہ ہو پانا، ادویات نہ ہونے کی صورت میں صحت دینا ، یا اس کے برعکس صورت وغیرہ ۔ ان تمام صورتوں میں مذہب کی تعلیم کا سارا استناد ما ورائے عقل ہستی پر ہے جب کہ سائنس اس سے مخالف سمت میں جا کر ایسی ماورائے عقل ذات کا حوالہ تسلیم کر کے خود کو مطمئن نہیں کر رہی۔ ایسے مسائل مذہب اور سائنس کے درمیان ٹکراؤ کے واضح مظاہر ہیں۔ لہذا نئی ایجادات کے استعمال کے فقہی جواز کی بنیاد پر اس اساسی اور عقائدی تضاد کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔ اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کائنات کے طبیعیاتی حقائق یا مشاہداتی مطالعے کے نتائج اور خدا کے وجود سے لے کرنظامِ کائنات کے اندر اس کے براہِ راست عمل دخل تک مذہبی اعتقادات کےدرمیان تضاد کے سوال پر غور و فکر کیا جائے۔ غور و فکرکا یہ عمل اپنے عقائد پر غیر متزلزل ایمان کے علاوہ سائنس ، فلسفہ اور دیگر کئی پہلوؤں سے منسلک ہونا ضروری ہے۔ اس دوران کائنات کے سائنسی مطالعے سے متعلق مواد Natural Theology سے ملے گا۔ Natural Theology ،آسان لفظوں میں ، کائنات کے مشاہدے ، علم و فہم اور عقل و تعلیل پر مبنی مطالعے کانام ہے۔ تھیولوجی کی یہ قسم Revealed Theology سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں غور و فکر کا سارا عمل صرف مذہبی معتقدات پر مبنی ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ نیچرل تھیولوجی میں خدا کے وجود کا اثبات معروضی حقائق یعنی کائنات، اسباب اور عقل کی مدد سے ہوتا ہے جب کہ ریویلڈ تھیولوجی کے اندر اس مدعا کو مذہبی بنیادوں پر ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ 
خدا کے وجود ، طاقت اور صفات پر ایک اہم دلیل جو نیچرل تھیولوجی سے دی جاتی ہے، وہ انگریزی لٹریچر میں Argument from Design یا Teleological Argument یا دیگر مختلف ناموں سے یاد کی جاتی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم مصنوع ہے اور ہر مصنوع کے لیے صانع کا ہونا ضروری ہے، لہذا اس عالم کا ایک صانع ہے جو کہ خدائے عز وجل ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات کائنات میں غور وفکر کی دعوت دیتی ہے۔ گویا یہ طرزِ استدلال ان تمام آیات کے موافق ہے۔ یہ دلیل فلاسفۂ یونان سے لے کر آج تک دی جاتی رہی ہے۔ اس دلیل کے حق اور نقد دونوں میں بہت کچھ بسط و تفصیل کے ساتھ لکھا جا چکا ہے۔ اس دلیل کے حق میں انگریزی زبان میں ایک مشہور کتاب ولیم پے لے کی Natural Theology or Evidence of the Existence and Attributes of the Deity Collected from the Appearances of Natureہے   جو انیسویں صدی کے اوائل میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب نے انیسویں صدی میں عیسائی دنیا میں اس دلیل کی مقبولیت میں کافی کردار ادا کیا تھا۔ چنانچہ اس وقت رائج سائنسی نظریات کو درست ماننے کے باوجود اس طرزِ استدلال کے مطابق خدا کے وجود پر دلائل و شواہد پر مشتمل “Bridgewater Treatises” کے نام سے آٹھ جلدوں کا ایک مجموعہ تیار کرایا گیا جو ۱۸۳۳ سے ۱۸۴۰ کے درمیان چھپ گیا تھااور حال ہی میں مشہور طباعتی ادارے کیمبرج یونیورسٹی پریس نے دوبارہ شائع کیا ہے۔ نیچرل تھیولوجی کی یہ کتاب انسان ، جانور اور کائنات کی دیگر اشیا کا مختلف پہلووں سے مطالعہ کر کے اس کائنات کے صانع کے وجود پر استشہاد و استدلال کرتی ہے۔ اس دلیل کا فلسفیانہ بنیادوں پر تنقیدی جائزہ ڈیوڈ ہیوم نے اپنی کتاب “Dialogue Concerning Nature” میں جب کہ سائنسی بنیاد پر ڈارون نے اپنے مشہور نظریۂ ارتقا میں لیا ہے۔ بہر حال یہ دلیل ، جو خدا کے وجود سے باغی سائنسی نظریات کا توڑ پیش کرنے معاون ہو سکتی ہے، ایک اہم بحث کے طور پر ہمیشہ سے ہمارے علم الکلام کے نصاب میں شامل رہی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری گفتگو اب تک اس بحث میں ہونے والی پیش رفت اور رائج تصورات سے ہی متعلق ہو۔ 
دوسراا ہم سوال ’قوانینِ فطرت‘ یا — خدا کو ماننے والوں کی تعبیر کے مطابق— ‘Laws of God’ یعنی ’اللہ کی سنتوں‘ سے متعلق ہے۔ ایک اشکال اس بارے میں یہ ہے کہ کیا یہ ’قوانینِ فطرت‘ ازلی و ابدی ہیں؟ یعنی کیا ہمیشہ سے ایسے قوانین موجود رہے ہیں جن کے مطابق یہ کارخانۂ عالم چل رہا ہے اور ہم صرف ان قوانین کو دریافت ہی کر نے کی کوشش میں لگے ہیں۔ یا ہم اس نظا م کو چلتے ہوئے دیکھ کر اپنے مشاہدے کی مدد سے کچھ قوانین تشکیل دے رہے ہیں جو ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ، مزید تحقیق کے نتیجے میں ، نئی شکل میں مرتب ہوں۔ کیا اس دنیا میں ایسی دوسری کوئی ہستی بھی ہے جن کے نزدیک اس کائنات اور نظام کی توجیہ کا عمل ہم سے مختلف ایک دوسرے طریقے سےیا بالکل ہمارے جیسے ہو رہا ہو؟ دوسرا سوال یہ کہ کیا یہ ’قوانینِ فطرت‘ یا ’اللہ کی سنتیں‘ زمان و مکان کے اعتبار سے متعین یعنی ناقابل منسوخ اور آفاقی ہیں، جن کا اطلاق ہر وقت اور ہر جگہ رد وبدل کی گنجائش کے بغیر ایک جیسا ہوتا رہا ہے اور ہوتے رہنا ضروری اور لازمی ہے؟ اسلامی نقطہ نظر سے ایک رائے تو یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیت ﴿وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا﴾(الأحزاب ۶۲) کے مطابق خدا کی سنتیں ناقابل تبدیلی ہیں؛ لہذا اس کائنات کا نظام ایسے قوانین کے ذریعے چلایا جا رہا ہے جو کبھی بھی تبدیلی کی گنجائش نہیں رکھتے، سائنسی تحقیقات کی روشنی میں ان قوانین کو صرف دریافت اور سمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں سے دروازہ ایک اور بحث کی طرف کھلتا ہے کہ کیا انسانی فہم اور علم معروضی ہے یعنی کائنات اور اس نظام کو اور ان قوانین کو انسان جیسے سمجھ رہا ہے، درحقیقت بھی ایسا ہی ہے؟ یا انسانی فہم و علم ایک اضافی حیثیت رکھتے ہیں جو ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں مزید تحقیق اور اصلاحات کے نتیجے میں بالکل ایک نئی اور مختلف صورت میں سامنے آئے۔ اس پر بھی سائنس دانوں اور فلاسفہ کی طویل بحثیں ہوئی ہیں۔ بہر حال ایسے کئی مسائل ہیں جو سائنس اور فلسفے کے مباحث سے جنم لے چکے ہیں اور مسلمان اہل علم سے ان کا جواب طلب کیا جا رہا ہے۔ ذیل میں کئی ایک ایسے سوالات یا مباحث کی نشاندہی کی جاتی ہے جن کو نصاب میں رائج علم الکلام کےنصاب میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ 

اولا: کائنات کی تخلیق کب اور کیسے ہوئی؟

پہلا اور اہم سوال اس کائنات کی تخلیق اور اس تخلیق کے طریقۂ کار اور ارتقائی مراحل سے متعلق ہے کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی ، تخلیق کے مراحل کب اور کیسے طے ہوتے رہے اور کائنات جب تخلیق ہوئی تو کیسے تھی اور اب کیا اس میں تبدیلی آ رہی ہے؟ اگر تبدیلی آ رہی ہے تو کیسے اور کن اسباب کے تحت تبدیلی کا یہ عمل انجام پاتا ہے؟  اس سوال کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خود قرآن کی کئی آیات اس بابت آئی ہیں۔ قرآن کریم اللہ تعالی کو مختلف ناموں خالق، فاطر، مصور وغیرہ سے یاد کر کے خدا کے وجود ، طاقت اور دیگر صفات کے اقرار کو ایمان کی اولین سیڑھی قرار دیتا ہے۔ امام بخاری نے آج سے سیکڑوں سے سال قبل اس موضوع سے متعلق صحیح اور مستند حدیثیں اکٹھی کرکے اپنی کتاب میں ”كتاب بدء الخلق“ کے عنوان سے بحث کی ہے۔ مسلمان اہل علم احداث ، ابداع ، خلق اور تکوین جیسی اصطلاحات کی مدد سے اپنا بیانیہ تشکیل اور اس کی تفصیل دیتے آ رہے ہیں۔ اس کے بالمقابل سائنسدان بگ بینگ کا نظریہ پیش کرتے ہیں  جس کے مطابق کائنات کی پیدائش ایک انتہائی کثیف اور آتشی حالت میں ایک زبردست دھماکے کے نتیجے میں ہوئی تھی، اور اب حالت یہ ہے کہ کائنات Dark energy کی بدولت روز بروز پھیلتی جا رہی ہے۔ کائنات کی تخلیق سے متعلق اس نظریے کا سارا دار ومدار انرجی اور نظامِ اسباب کے باہمی تفاعل پر ہےجس میں خدا کے وجود اور طاقت و قدرت کا بالکل بھی اعتراف نہیں۔ اس لحاظ سے یہ مسئلہ محض نیچرل سائنسز کی دنیا کی تفریح نہیں بلکہ ایمان کا جز بنتا ہے اور معاصر سائنسی نظریات مثلا بِگ بینگ تھیوری ، نظریۂ ارتقا وغیرہ کا تنقیدی جائزہ اور معقول جواب وقت کی اہم ضرورت بنتا ہے۔

ثانیا: نظریۂ تسخیر یا کائنات میں انسان کا مقام کیا ہے؟

اسلامی فلسفے کی ایک دلچسپ بحث اس کائنات کی معنویت اور اس نظام کو کھڑا کر نے کے پیچھے اغراض و مقاصد سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ امام غزالی نے ”الحكمة في مخلوقات الله“ میں اسی پہلو سے بحث کی ہے۔ امام غزالی نے اس کائنات کی توضیح کرنے کے بعد اس نظام کے اندر انسانی زندگی کے لیے پنہاں خوبیاں بتلائی ہے۔ اس کے مقدمے میں امام غزالی لکھتے ہیں: اگر اس کائنات پر غور کریں تو یہ ایک گھر کی مانند ہے۔ آسمان اس کی چھت ، زمین اس کا فرش ، سورج چاند ستارے اس میں لٹکائے گئے چراغوں کی طرح ہیں، اور انسان کو اس گھر کا ’مالک‘ بنایا گیا ہے   جہاں اس کی ضروریات کی ہر چیز مہیا کی گئی ہے۔ امام غزالی مزید یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس کائنات کے اندر اس کے بنانے والے کے وجود پر دلالت کرنے کے لیے واضح نشانیاں ہیں۔ جس خوب صورتی کے ساتھ اس کو ڈیزائن کیا گیا ہے اور جس کمال دقت سے اس کی ہر شے مرتب کی گئی ہے، یہ سب اس کے بنانے والے اور اس کمال ترتیب سے شکل و صورت دینے والے ایک ذات پر ہی دلالت کر رہے ہیں۔  قرآنی آیات کی تصریحات کے مطابق یہ کائنات پوری کی پوری محض انسان کے لیے ہی پیدا کی گئی ہے۔
امام غزالی کی یہ کتاب گویااسی نوع کی آیات کی ایک تفسیر ہے۔ ان آیات کے مطابق کائنات کو انسانوں کے لیے مسخر بنانے کا مطلب یہ ہے کہ کروڑوں کے حساب سے ستارے ، سیاروں میں کشش ثقل ، ان کے درمیان فاصلے، ہر سیارے کا اپنے مدار اور دائرے میں حرکت اور سورج اور زمین کے اندر کی گرمی ، انوع و اقسام کے گیسوں کا مختلف جگہوں پر مخصوص تناسب سے پایا جانا وغیرہ یہ سب انسانی زندگی کو ممکن بلکہ آسان بنانے کے لیے ہی کیا گیاہے۔ کائنات کی چھوٹی سی چھوٹی چیز سے لےکر بڑی سے بڑی چیز تک ہر شے کو اس کمال دقت و باریک بینی اور انسانی زندگی کے لیے اسی موجودہ حالت میں مفید ہونے کو دیکھ کر فزکس کے ایک مشہور عالم فریمن ڈائسن نے کہا تھا کہ کائنات یوں بنی ہے گویا یہ جانتی تھی کہ اس میں رہنے کے لیے ہم انسان آنے والے ہیں۔ اس کو Anthropic Principle یا Fine-tuned آئیڈیا کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی آیات تسخیر کے علاوہ وہ آیتیں بھی Fine-tuned آئیڈیا کے لیے بنیاد بن سکتی ہے جس میں اس دنیا کی مخلوقات کے لیے ’تقدیر‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مثلا ’’جس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اس کو ایک نپا تلا انداز عطا کیا ہے” (الفرقان ۲)، یا ”ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔ ” (الرعد: ۸) 
مذہبی حدود و قیود سے آزاد سائنس کئی سوالات سامنے رکھتی ہے۔ کیا واقعی ایسی کوئی ہستی موجود ہے جس نے اتنی بڑی اور روز بروز وسیع سے وسیع تر ہونے والی کائنات کوایک انسانی زندگی کی خاطر بنایا ہے، یا یہ سب کچھ “فطرت کے قوانین” کے تحت چل رہا ہے؟ کیا خدا ان قوانین سے ما ورا ہوکر بھی کائنات میں عمل دخل رکھتا ہے؟ اگر خدا موجود ہے تو کیا وہ قوانین فطرت کے ہاتھوں مجبور تھا کہ کائنات کو اسی انداز سے بنایا یا وہ اس سے مختلف صورت میں بھی بنانے پر قدرت رکھتا تھا؟ اس کے علاوہ کچھ سائنس دان یہ خیال رکھتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ کائنات صرف یہی ہو جس میں ہم بستے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی ایک دوسری بلکہ متعدد کائناتیں ہوں جہاں مرکزی و محوری شے انسان یا انسانی زندگی نہ ہو۔ اس کو “Idea of Multiverse” کہتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق ضروری نہیں کہ قوانین فطرت سے آزاد ایک ذات نے پوری کی پوری کائنات انسان کے لیے ہی مسخر کردی ،بلکہ یہ کائنات ، جس کا اب تک مشاہدہ کیا جا چکا ہے، قوانین فطرت کے تحت اپنے تئیں چل رہی ہے  جس کے ساتھ یہ امکان ہے کہ اس کے علاوہ بھی مزید کائناتیں ہوں جہاں کی ہر شے انسانی زندگی کی خاطر نہ سجی ہو۔ قرآن کریم یا Revealed Theology خدا کی ذات کے حوالے سے “موجود، حی ، قدیر ، علیم ، مالک، رب، کلمۂ کن”  وغیرہ اصطلاحات استعمال کر کے خدا کے وجود ، لامحدود قدرت، بے انتہا علم سے متعلق اپنا موقف واضح انداز میں دے رہی ہیں۔ 

ثالثا:  انسان اور نظریۂ ارتقا

نظریۂ ارتقا کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کی ابتدا ایک دوسرے مخلوق سے ہوئی تھی ، ارتقا اور مختلف تبدیلیوں کے عمل سے گذر تے ہوئے موجودہ ، اور ترقی یافتہ ، صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ نظریۂ ارتقا انیسویں صدی کے نصف اخیر میں متعارف ہوا تھا جب Charles Darwin نے ۱۸۵۹ میں اپنی کتاب On the Origins of Species لکھ کردنیا کے سامنے پیش کی۔ ارتقا کا یہ تصور بظاہر واضح طور پر قرآن کریم کی ان آیات سے متصادم ہے جن میں انسانی زندگی کی پیدائش اور ارتقا کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ قرآن کریم کی تفصیلات کے مطابق انسانی زندگی کی ابتدا حضرت آدم سے ہوئی۔ ابتدا میں انسانی قد موجوہ انسانوں کے قد سے لمبے تھے، اسی طرح اور بھی جسمانی تبدیلیاں شاید واقع ہوئی ہوں، مگر انسان کی ابتدا انسان سے ہی ہوئی ، کسی دوسری مخلوق سے نہیں۔ قرآن کریم کی اس قدر واضح تصریحات کے باوجود بھی عام ، بالخصوص تعلیم یافتہ ، لوگوں کا نظریۂ ارتقا سے متاثر ہونا  ’معاصر متکلم‘ کے لیے ہرگز ایک چیلنج سے کم نہیں۔ یہاں ہر گز یہ نہیں عرض کیا جا رہا کہ قرآنی عقیدے کی اساس نیچرل تھیولوجی یا بیا لوجی پر رکھنا ضروری ہے، بلکہ قرآنی عقیدے کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ انسانی زندگی سے متعلق یہ تفصیلات خود انسانوں کے خالق نے بتائی ہیں، جو اپنی صحت و استناد میں ہر گز نیچر اور کائنات سے متعلق تغیر پذیر انسانی تحقیق کی محتاج نہیں۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ نیچرل تھیولوجی کے مفروضات و مسلمات کی مدد سے ہی ’جینیاتی تبدیلیوں‘ پر مبنی اس تصورِ ارتقا کا تنقیدی جائزہ لیا جا ئے، جیسا کہ امام غزالی نے فلسفے کے اصول و مسلمات کی بنیادپر ہی فلسفیانہ معتقدات کا تنقیدی جائزہ لیا تھا۔
قرآن کے ظاہر کے مطابق صرف حضرت آدم کو اولین انسان ماننا، ان سے پہلے کسی انسان کا موجود نہ ہونا اور ’جینیاتی تبدیلی‘ کو صرف نوع کی سطح تک تسلیم کر کے جنس کی سطح پر مؤثر نہ ماننا یعنی ’جینیاتی تبدیلیوں‘ سے ایک نوع کے افراد مثلا انسانوں کے قد وغیرہ تو متاثر ہو سکتے ہیں، اس کو ایک جنس سے دوسری جنس مثلا جانور سے انسان یا اس کا عکس میں مؤثر ہونا تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ ان خیالات کو معاصر زبان میں Creationism Idea سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان تصورات کی بنیاد پر انسان کو کائنات کی ایک ممتاز مخلوق ، جس کی ابتدا کسی دوسری مخلوق سے نہیں ہوئی ، سمجھ کر اور اسی کو کائنات کا محور و مرکز ماننے کو Human Exceptionalism کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن نے واضح الفاظ میں انسان کو خدا کا ’خلیفہ‘ قرار دیا ہے۔ یہاں ’شیطان‘ کے حوالے سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ انسان کو اتنے بڑے مرتبے پر فائز کر کے اس پر ’شیطان‘ نامی مخلوق کو کیوں مسلط کر دیا گیا جس کے بہلاوے میں آکر انسان خداکی طرف سے عذاب کا نشانہ بن جاتا ہے؟ اس دنیا کو دار الامتحان بنانے میں آخر کار کیا حکمت تھی؟ اس جیسے اور بھی اعتراضات ہیں جو اہمیت کے اعتبار سے موجودہ علم الکلام کے نصاب کا حصہ ہونا ضروری ہےاور جدید ذہن وفکر کو عقل و نظر کی درست سمت پر ڈالتے ہوئے انجام کار و نتائج سے آگاہ کر کے ایسے دعاوی سے متاثر نہ ہونے دینا چاہیے جو  سرسری تجربے اور مشاہدے پرمبنی ہمیشہ بدلتے رہنے والے ہوں اور اس کی صحت کچھ ہی وقت بعد واضح ہونےوالی ہو۔ 

رابعا: معجزات کا مسئلہ 

معجزات کی فنی اعتبار سے جو بھی تعریف کی جائے، اس کی اساس میں یہ عنصر شامل ہے کہ یہ ایک ایسی سرگرمی ہے جس میں قوانین فطرت کی واضح خلاف ورزی پائی جاتی ہے اور سائنسی ذہن کا ماننا یہ ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ مثلا سائنس کا عام اصول یہ ہے کہ اگر آپ اپنے ہاتھ سے کچھ کنکریاں گرنے دیں گے تو کشش ثقل کے اصول کے مطابق ان کنکریوں نے زمین پر گرنا ہے، لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ   کسی نبی کے ہاتھ سے، معجزاتی طور پر، یہ کنکریاں زمین پر گرنے کی بجائے ہوا میں ہی معلق رہیں؟ مذہبی تعلیمات کے مطابق ایسا بالکل ممکن ہے جب کی سائنس اپنے اصولوں کی واضح خلاف ورزی دیکھ کر اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ قوانین فطرت اور معجزات کے مسئلے کو معاصر محققین نے اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا ہے۔ مثلا Zygon: Journal of Religion and Science کے عنوان سے شائع ہونے والے مجلے کا دسمبر ۲۰۰۴ کا شمارہ اسی مسئلے کے لیے مختص کیاگیا۔ (مقالات کی فہرست اور ملخصات کے لیے اس ویب سائٹ کو وزٹ کیجئے:
http://www.zygonjournal.org/issue2004_4.html)
 اس کے علاوہ بھی یورپ اور مغرب سے مشہور مجلات کے خصوصی شمارے شائع کیے گئے ہیں بلکہ مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ایسی کتابوں میں سائنسی مباحث کے مقابلے مذہب کا مقد مہ عیسائیت کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہوتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے سائنس اور معجزات کے مسئلے کو ابصار احمد بھی اپنے ایک مقالے میں زیر بحث لائے ہیں۔ ان کا یہ مقالہ پنجاب یونیورسٹی سے فلسفے کے مشہور مجلہ ’ الحکمت‘ کے ۲۰۰۳ کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس کی الیکٹرانک کاپی اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے:
http://pu.edu.pk/home/journal/11/v_23_2003.html
ان چار مسائل کے علاوہ بھی ایسے حساس موضوعات کا پایا جانا ممکن ہے جو براہ راست مذہبی عقائد سے متصادم ہوں۔ایسے مسائل عام تعلیم یافتہ آدمی کے ذہن کو، جو اگر اسلام کے اصولوں سے واقف نہ ہو ،  ضرور متاثر کر سکتے ہیں۔ اس تاثر کے عام ہونے اور ایک ناقابل تبدیل اصول کی صورت اختیار کرنے سے پہلے ہی ضروری ہے کہ اس کا تدارک کیا جائے اور علمی اور تحقیقی نوعیت کا مواد فراہم کر کے غور وفکر کے عمل کو جاری اور آسان بنایا جائے۔ 

تبلیغی جماعت کا بحران

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی شش ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران کچھ ایام کراچی میں گزارنے کا معمول ایک عرصہ سے چلا آرہا ہے۔ اس سال بھی گزشتہ ہفتہ چار پانچ روز کراچی میں رہ کر گیا ہوں جس میں میرا بڑا پوتا حافظ محمد طلال خان بھی ہمراہ تھا۔ اس سفر کی تفصیلات ابھی قلمبند نہیں کر سکا کہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے ارشاد پر دوبارہ کراچی حاضری ہوئی ہے۔
گزشتہ سفر میں حضرت مدظلہ کے بھانجے مولانا رشید اشرف سیفی کی وفات پر تعزیت کے لیے جامعہ دارالعلوم حاضری ہوئی تو حضرت نے فرمایا کہ اتوار کو تبلیغی جماعت کے موجودہ خلفشار کے حوالہ سے انہوں نے ایک اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں مجھے بھی شریک ہونا چاہیے۔ اس اجلاس کی دعوت اس سے قبل جامعۃ الرشید کے مولانا مفتی محمد کے ذریعہ موصول ہو چکی تھی اس لیے وعدہ کر لیا اور اجلاس میں شرکت کی سعادت حاصل ہوگئی۔ یہ اجلاس انتہائی ضرورت اور بروقت تھا جس سے نہ صرف ملک بھر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کو حوصلہ ملا ہے بلکہ پوری دنیا کے اہل دین کے لیے یہ خبر اطمینان کا باعث بنی ہے کہ دین کی عمومی دعوت کی اس عالمی محنت کو جو خطرات درپیش ہیں، ان کی طرف اہل علم کی سنجیدہ توجہ ہے اور وہ اسے مزید آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فکرمند ہیں۔
مجھے اس موقع پر برطانوی اخبار ’’دی انڈی پینڈنٹ‘‘ کی وہ معروف رپورٹ یاد آرہی ہے جس پر پہلے بھی اس کالم میں اظہار خیال کر چکا ہوں کہ اہل مغرب کے نزدیک آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کی دعوت اور وحی الٰہی پر مبنی علوم کی تدریس و تعلیم ان کے فلسفہ و تہذیب کی بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اسے وہ ’’شر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ دی انڈی پینڈنٹ نے جنوبی ایشیا کے دینی مدارس اور عمومی دینی ماحول کو اس ’’شر‘‘ کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ اس کے دو بڑے سرچشمے ہیں۔ ایک دارالعلوم دیوبند کا دارالحدیث اور دوسرا بستی نظام الدین کا تبلیغی مرکز۔ اس وقت سے ہمیں یہ بات کھٹک گئی تھی کہ عمومی دینی دعوت کا عالمی عمل و محنت اور قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس کا وسیع تر نیٹ ورک اب آئندہ اسلام مخالف قوتوں کا بڑا ہدف ہوں گے۔ چنانچہ دین کی دعوت اور تعلیم کے یہ دو بڑے دائرے اس وقت عالمی، علاقائی اور قومی سطح پر مسلسل سازشوں کے حصار میں ہیں اور سب سے زیادہ محنت اس بات پر ہو رہی ہے کہ یہ دونوں دائرے اپنے موجودہ کردار اور محنت سے محروم ہو جائیں۔ ایسی محنت کبھی سامنے سے نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کے لیے درپردہ سازشیں اور دام ہمرنگ زمین ہی سب سے مؤثر ہتھیار ہوا کرتے ہیں، اس لیے اس حوالہ سے انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
حضرت حاجی عبد الوہابؒ کی وفات کے موقع پر ہم نے عرض کیا تھا کہ بڑوں کی وفات کے بعد اس قسم کے جال پھیلانے کا موقع ایسے لوگوں کو عام طور پر مل جایا کرتا ہے، اس لیے خطرہ ہے کہ تبلیغ و دعوت کے اس ہمہ گیر عمل کو کسی امتحان اور آزمائش سے دوچار کر دیا جائے۔ اس کے بعد سے مختلف ملکوں بالخصوص بھارت اور بنگلہ دیش سے جو افسوسناک خبریں آرہی ہیں، وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔ مگر یہ بات بہرحال اطمینان کی ہے کہ پاکستان کا داخلی ماحول اس کشمکش سے ظاہری طور پر محفوظ ہے۔ اس تناظر میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم نے اس اجتماع کا اہتمام کر کے پوری امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس عمل میں پورے خلوص اور توجہ کے ساتھ شریک ہوں اور اپنا اپنا کردار ادا کریں، بالخصوص:
انتہائی مبارک و متوازن فیصلے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم اس عمل کو پورے اخلاص اور محنت کے ساتھ آگے بڑھا سکیں، آمین یا رب العالمین۔

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۲)

محمد عمار خان ناصر

منحرف گروہوں کے فکری رجحانات اور فقہائے صحابہ 

قرآن وسنت کے باہمی تعلق اور قرآن مجید کے عمومات سے استدلال کے ضمن میں بحث ومباحثہ کا دوسرا دائرہ وہ تھا جس میں فقہائے صحابہ کا سامنا بعض منحرف گروہوں کے اس فکری رجحان سے تھا کہ دینی احکام اور پابندیوں کا ماخذ قرآن مجید میں تلاش کرنے پر اصرار کیا جائے اور اصولاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل تشریعی حیثیت پر سوال نہ اٹھاتے ہوئے بھی عملاً احادیث میں منقول احکام وہدایات کو زیادہ اہم نہ سمجھا جائے۔ اس رجحان کی پیشین گوئی اور اس کے حوالے سے تنبیہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر فرمائی تھی، جیسا کہ ماسبق میں نقل کی گئی بعض احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ 
عہد صحابہ میں یہ انداز فکر خوارج اور بعض دیگر منحرف گروہوں کی طرف سے سامنے آیا۔ نصوص کے فہم اور ان سے استدلال کے ضمن میں خوارج کا بنیادی رجحان حرفیت، یعنی کلام کے بالکل ظاہری اور لفظی معنی پر اصرار سے عبارت تھا۔ اس رجحان کے تحت انھوں نے جنگ صفین میں حکمین کی تقرری کو قبول کرنے پر ’ان الحکم الا للہ‘ سے استدلال کرتے ہوئے سیدنا علی اور ان کے ساتھیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا (تاریخ الامم والملوک، ۱/۱۱٠۴، ۱۱٠۷، ۱۱۱۳) اور اسی نقطہ نظر کی توسیع کرتے ہوئے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے مسلمانوں کی تکفیر اور جہنم سے نکالے جانے کے امکان کو کلیتاً مسترد کرنے کا موقف اختیار کیا۔ (جصاص، احکام القرآن، ۲/۴۳۹؛ طرح التثریب، ۸/۲۷۸؛ شرح مشکل الآثار ۱۴/۳۴۶)
خوارج کے ہاں حرفیت کے رجحان کا ایک ظہور بہت سی ایسی احادیث کے انکار کی صورت میں بھی ہوا جو بظاہر قرآن مجید کی کسی آیت سے ٹکراتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ خوارج نے اس نوعیت کی احادیث کو رد کرنے کے لیے قرآن مجید کے ظاہر کو اپنا بنیادی مستدل قرار دیا۔ مثال کے طور پر وہ قیامت کے دن نیک لوگوں کی سفارش پر گناہ گاروں کو جہنم سے نکالے جانے کے متعلق احادیث کو یہ کہہ کر رد کرتے تھے کہ یہ قرآن مجید کے خلاف ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ دوزخی جب دوزخ سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو انہیں دوبارہ آگ میں دھکیل دیا جائے گا (الحج ۲۲:۲۲)۔ اسی طرح قرآن کریم میں مومنوں کو دعا سکھائی گئی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں کہ اے ہمارے رب! تو نے جس کو آگ میں داخل کیا تو اسے رسوا کر دیا اور ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (آل عمران ۱۹۳:۳) (مسلم، کتاب الایمان، باب باب ادنی اہل الجنۃ منزلة فیہا، رقم ۴۷۳) ان آیات سے خوارج یہ استدلال کرتے تھے کہ جس شخص کو بھی، چاہے وہ کافر ہو یا مومن، جہنم میں داخل کیا جائے گا، اسے کسی بھی حال میں اس سے نکلنا نصیب نہیں ہوگا۔ 
حرفیت ہی کے رجحان کے تحت خوارج نے بہت سے امور میں ایسے شرعی احکام کو قبول کرنے سے بھی انکار کیا جو مشہور ومعروف احادیث سے تو ثابت تھے، لیکن قرآن مجید میں مذکور نہیں تھے یا قرآن کے ظاہری حکم میں تحدید وتخصیص کا تقاضا کرتے تھے۔ ابن حجر نے اس ضمن میں خوارج کے رجحان کا بنیادی نکتہ یوں واضح کیا ہے:
ھم فرق کثیرۃ، لکن من اصولھم المتفق علیھا بینھم الاخذ بما دل علیہ القرآن ورد ما زاد علیہ من الحدیث مطلقا (فتح الباری، ۱/۳۹۶)
“خوارج کے مختلف فرقے ہیں، لیکن ان کے متفقہ اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ جتنا حکم قرآن نے بیان کیا ہے، اسے لے لیا جائے اور حدیث میں اس سے متعلق جو اضافے وارد ہوئے ہیں، انھیں مطلقاً رد کر دیا جائے۔”
اس رجحان کے حوالے سے خوارج کے مختلف گروہوں سے منقول بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ احادیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو ماہواری کی حالت میں فوت شدہ نمازوں کی قضا سے مستثنیٰ قرار دیا۔ خوارج اس استثناءکو نماز کی فرضیت اور فوت ہو جانے کی صورت میں نماز کی قضا کے حکم کے منافی سمجھتے تھے اور ماہواری سے پاک ہونے پر ان دنوں کی نمازوں کی قضا کو بھی خواتین پر لازم قرار دیتے تھے۔ (بخاری، کتاب الحیض، باب لا تقضی الحائض الصلاة، رقم ۳۱۷)
۲۔ مشہور ومعروف احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے مکمل وضو کے بعد موزے پہننے کی صورت میں وضو کی تجدید کرتے ہوئے پاﺅوں کو دھونے کے بجائے موزوں پر مسح فرمایا اور اس سے متعلق مختلف ہدایات دیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارة، باب المسح علی الخفین، رقم ۶۳۲-۶۲۲؛ باب التوقیت فی المسح علی الخفین، رقم ۶۴۱-۶۳۹) تاہم خوارج وضو میں موزوں پر مسح کرنے کے منکر تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ قرآن مجید میں وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے پاوں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے موزوں پر مسح کرنا قرآن کے حکم کے خلاف ہے۔ (نیل الاوطار، ۱/۲۲۴)
۳۔ تیسری طلاق کے بعد قرآن نے یہ پابندی عائد کی ہے کہ عورت اپنے پہلے شوہر کے نکاح میں نہیں رہ سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور اگر وہ بھی اسے طلاق دے دے تو پھر باہمی رضامندی سے وہ اور اس کا سابقہ شوہر دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ (البقرة ۲:۲۳٠) بظاہر الفاظ کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ دوسرے شوہر سے صرف عقد نکاح ہو جانا کافی ہے، تاہم ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک دوسرا شوہر بیوی سے ہم بستری نہ کر لے، وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔ (بخاری، کتاب الطلاق، باب اذا طلقہا ثلاثا ثم تزوجت بعد العدة زوجا غیرہ فلم یمسہا ، رقم ۵٠۳۱) خوارج کے بعض گروہ اس کو قبول نہیں کرتے تھے اور ان کا موقف یہ تھا کہ اگر دوسرا شوہر محض ایجاب وقبول کے بعد بھی عورت کو طلاق دے دے تو وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی۔ (ابن قدامہ، المغنی، ۷/۳۹۸) (۱)
۴۔ خوارج نے عموماً شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کرنے اور شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو قبول کرنے سے انکار کیا، کیونکہ قرآن مجید میں ایسا کوئی فرق نہیں کیا گیا اور زانی مرد وعورت کے لیے مطلقاً سو کوڑے کی سزا بیان کی ہے۔ (جصاص، احکام القرآن، ۲/۱٠۸، ۳/۲۶۳)
۵۔ اسی طرح انھوں نے پھوپھی اور بھتیجی یا خالہ اور بھانجی کو ایک آدمی کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنے کو جائز قرار دیا اور اس ضمن میں احادیث میں وارد ممانعت کو قبول نہیں کیا، کیونکہ قرآن مجید میں ظاہراً صرف دو بہنوں کو ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے کی پابندی بیان کی گئی ہے۔ (جصاص، احکام القرآن، ۲/۱۳۴، ۱۳۵)
۶۔ قرآن مجید میں چوری کا ارتکاب کرنے والے مرد اور عورت کا ہاتھ کاٹنے کی سزا بیان کی گئی ہے اور اس ضمن میں کوئی مزید قید یا تحدید بیان نہیں کی گئی۔ خوارج نے اس سے یہ اخذ کیا کہ ہاتھ کا لفظ چونکہ پورے بازو کے لیے بولا جاتا ہے، اس لیے چور کا ہاتھ کندھے کاٹ کر الگ کیا جائے گا۔ (جصاص، احکام القرآن، ۲/۴۲۱) اسی طرح انھوں نے اس پر اصرار کیا کہ ہاتھ کاٹنے کے لیے مسروقہ مال کی قیمت کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا اور معمولی سے معمولی چیز کی چوری پر بھی یہ سزا نافذ کی جائے گی۔ (طرح التثریب، ۸/۲۳،۲۴) یوں انھوں نے ان احادیث کو رد کر دیا جن میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چور کا ہاتھ گٹے سے کاٹا اور ہاتھ کاٹنے کے لیے یہ شرط بیان کی کہ چور نے اتنی مالیت کی چیز چرائی ہو جس کی قیمت کم سے کم ایک ڈھال کے برابر ہو۔ 
۷۔ قرآن مجید میں قتل خطا کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص غلطی سے کسی مومن کو قتل کر دے تو وہ مقتول کے ورثاءکو دیت کرے۔ (النساء۹۲:۴) ظاہراً دیت کی ادائیگی کی ذمہ داری قاتل پر ہی عائد ہوتی ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں قاتل کی عاقلہ یعنی قبیلے کو بھی شریک قرار دیا۔ خوارج قرآن کے ظاہری الفاظ کی بنا پر اس حدیث کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور دیت کی ادائیگی کی ذمہ داری سرتاسر قاتل پر ہی عائد کرتے تھے۔ (نیل الاوطار، ۷/۹۸)
۸۔ قرآن مجید میں والدین اور اولاد نیز میاں بیوی اور بہن بھائیوں کے ایک دوسرے کے وارث بننے کے احکام بیان کیے گئے ہیں اور بظاہر ان میں کوئی قید مذکور نہیں، (النساء۴:۱٠، ۱۱) تاہم احادیث اور صحابہ کے تعامل سے ثابت ہے کہ وارث اگر اپنے مورث کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو اسے وراثت سے حصہ نہیں دیا جائے گا۔ اس تخصیص کے، بظاہر قرآن کے عموم کے خلاف ہونے کی وجہ سے خوارج نے اسے قبول نہیں کیا اور ان کی رائے یہ تھی کہ عمداً مورث کو قتل کرنے والا بھی وراثت میں حصہ دار ہوگا۔ (المغنی، ۹/۱۵٠)

فقہائے صحابہ کا اسلوب استدلال

اخذ ہدایت میں قرآن کریم پر انحصار کرنے یا قرآن کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے احادیث کو ترک کر دینے کے اس رجحان کے مقابلے میں فقہائے صحابہ وتابعین کے موقف کا بنیادی اور اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ کتاب اللہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی واجب الاتباع ہے اور ہدایت کا ماخذ ہونے میں قرآن اور سنت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ 
علقمہ بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے جسم کو گدوانے والی، ابروؤں کو باریک کرنے والی اور دانتوں میں مصنوعی طور پر فاصلہ پیدا کرنے والی خواتین پر لعنت کی تو ام یعقوب نے اس پر تعجب ظاہر کیا۔ ابن مسعود نے کہا کہ جس پر اللہ کے رسول نے لعنت کی ہو، اور وہ بات اللہ کی کتاب میں بھی ہو، میں اس پر کیوں نہ لعنت کروں؟ ام یعقوب نے کہا کہ بخدا، میں نے پورا قرآن پڑھا ہے، لیکن یہ بات مجھے اس میں نہیں ملی۔ ابن مسعود نے کہا کہ اگر تم نے صحیح معنوں میں پڑھا ہوتا تو مل جاتا۔ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی: وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُم عَنہُ فَانتَہُوا (بخاری، کتاب اللباس، باب المتنمصات، رقم ۵۶۱۸)
ابو البختری الطائی کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سلم کے متعلق پوچھا اور کہا کہ 
انا ندع اشیاءلا نجد لھا فی کتاب اللہ عز وجل تحریما، قال انا نفعل ذلک، نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع النخل حتی یوکل (شرح معانی الآثار، کتاب البیوع، رقم ۳۶۴۵)
“ہم بہت سی ایسی چیزیں بھی ترک کر دیتے ہیں جن کے متعلق اللہ کی کتاب میں حرمت کا حکم ہمیں نہیں ملتا۔ ابن عباس نے کہا کہ ہاں، ہم ایسے ہی کرتے ہیں (کیونکہ اللہ کے رسول کی بیان کردہ حرمت کا حکم بھی وہی ہے جو قرآن کا ہے، اور) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کا پھل بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے۔”
عبد اللہ بن ابی بکر بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ ہمیں کتاب اللہ میں خوف کی حالت میں تو نماز قصر کرنے کا ذکر ملتا ہے، لیکن سفر میں نماز قصر کا ذکر نہیں ملتا؟ ابن عمر نے جواب میں فرمایا کہ
ان اللہ بعث الینا محمدا صلی اللہ علیہ وسلم ولا نعلم شیئا، فانما نفعل کما راینا محمدا صلی اللہ علیہ وسلم یفعل (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب تقصیر الصلاۃ فی السفر، رقم ۱٠۶۹)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ہمیں کسی بات کا علم نہیں تھا (یعنی ہم نے جو کچھ سیکھا، آپ سے ہی سیکھا)، اس لیے ہم تو ویسے ہی کرتے ہیں جیسے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا۔”
ایک خاتون نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا حائضہ کو ماہواری کے دنوں کی چھوٹی ہوئی نمازیں قضا کرنی چاہییں؟ سیدہ عائشہ نے کہا کہ:
احروریۃ انت؟ کنا نحیض مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلا یامرنا بہ (بخاری، کتاب الحیض، باب لا تقضی الحائض الصلاۃ، رقم ۳۱۷)
’’کیا تو حروری (یعنی خارجی) ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں ماہواری آتی تھی تو آپ نے ہمیں (بعد میں) نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے۔”
قرآن کے بیان کردہ احکام پر اکتفا کرنے اور احادیث میں وارد احکام کو نظر انداز کرنے کے زاویہ نظر کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے صحابہ وتابعین کے ہاں یہ استدلال بہت عام ملتا ہے کہ خوارج وغیرہ بھی سنت کو ماخذ استدلال مانے بغیر، صرف قرآن پر انحصار کرتے ہوئے بہت سے بنیادی دینی احکام حاصل نہیں کر سکتے۔
ابو نضرة بیان کرتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث بیان کی تو ایک شخص نے کہا کہ لوگو، اللہ کی کتاب کی بات بیان کیا کرو اور اس کے علاوہ کسی اور کی بات نہ بیان کیا کرو۔ عمران بن حصین نے اس سے کہا کہ تم ایک احمق آدمی ہو۔ کیا تمھیں کتاب اللہ میں یہ بات ملتی ہے کہ ظہر کی نماز کی چار رکعتیں ہیں جن میں جہری قراءت نہ کی جائے؟ پھر انھوں نے نمازوں کی رکعات اور زکوٰة کے نصابات کا ذکر کیا اور کہا کہ :
اتجد ھذا مفسرا فی کتاب اللہ؟ ان اللہ قد احکم ذلک والسنۃ تفسر ذلک (مسند عبد اللہ بن المبارک، رقم ۲۳۴۔ الشریعۃ للآجری، رقم ۹۶)
’’کیا تمھیں یہ ساری تفصیل کتاب اللہ میں ملتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو اصولی طور پر ذکر کیا ہے، جبکہ سنت ان کی تشریح وتفصیل کرتی ہے۔”
ایک دوسری روایت کے مطابق عمران بن حصین نے فرمایا:
من این تجدون فی کتاب اللہ الصلاۃ الخمس وفی کل مائتین خمسۃ دراھم وفی کل اربعین دینارا دینار وفی کل عشرین نصف دینار؟ اشیاء من ھذا عددھا، ولکن خذوا کما اخذنا (مسند البزار، باب اول حدیث عمران بن حصین، رقم ۳٠۲۱)
’’تمھیں کتاب اللہ میں پانچ نمازوں کا، اور ہر دو سو درہم میں پانچ درہم اور ہر چار دینار میں ایک دینار اور ہر بیس دینار میں نصف دینار زکوٰة لینے کا ذکر کہاں ملتا ہے؟ عمران بن حصین نے اس نوعیت کی اور باتوں کا بھی ذکر کیا (اور کہا کہ) جیسے ہم نے یہ احکام (سنت سے) لیے ہیں، اسی طرح تم بھی لو۔”
خوارج میں سے دو آدمی عمر بن عبد العزیز کے پاس آئے اور زانیوں کو رجم کرنے اور پھوپھی کے ساتھ بھتیجی یا خالہ کے ساتھ بھانجی کو ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے کی حرمت پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ باتیں قرآن مجید میں نہیں ہیں۔ عمر بن عبد العزیز نے ان سے کہا کہ اللہ نے تم پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ایک دن رات میں پانچ نمازیں۔ عمر بن عبد العزیز نے ان سے نمازوں کی رکعتوں کی تعداد پوچھی جو انھوں نے بتائی۔ انھوں نے زکوٰة کی مقدار اور نصابات سے متعلق دریافت کیا اور انھوں نے وہ بھی بتا دیے۔ عمر بن عبد العزیز نے پوچھا کہ یہ باتیں تمھیں کتاب اللہ میں کس جگہ ملتی ہیں؟ انھوں نے کہا کہ کتاب اللہ میں تو نہیں ملتیں۔ عمر بن عبد العزیز نے کہا کہ پھر تم نے یہ کیسے قبول کی ہیں؟ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے ہی کیا ہے اور آپ کے بعد مسلمانوں نے بھی۔ عمر بن عبد العزیز نے کہا کہ پھر جو باتیں تم پوچھ رہے ہو، ان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ (المغنی، ۹/۵۲۳)
جہاں تک قرآن مجید کے ظاہری عمومات سے استدلال کرنے کے رجحان کا تعلق ہے، جس کا ایک نتیجہ بعض صورتوں میں احادیث کو رد کرنے کی صورت میں نکلتا تھا، تو فقہائے صحابہ وتابعین نے اس کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے مختلف اسالیب اختیار کیے۔ 
مثال کے طور پر ایک اسلوب یہ تھا کہ جن آیات سے کوئی خاص نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے، ان کے سیاق وسباق اور داخلی دلالتوں یا دیگر آیات کی روشنی میں فہم کی غلطی کو واضح کیا جائے۔ 
طلق بن حبیب کہتے ہیں کہ میں شفاعت کے سخت ترین منکروں میں سے تھا۔ میری ملاقات جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے ان کے سامنے قرآن مجید کی وہ تمام آیات پڑھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اہل جہنم کے ہمیشہ کے لیے آگ میں ڈالے جانے کا ذکر کیا ہے۔ جابر بن عبد اللہ نے کہا کہ اگر میرے کانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نہ سنی ہو تو یہ بہرے ہو جائیں، آپ نے فرمایا کہ کچھ لوگ جہنم سے نکل آئیں گے۔ جابر نے کہا کہ جو آیات تم پڑھتے ہو، وہ ہم بھی پڑھتے ہیں، لیکن ان سے مراد مشرکین ہیں۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب ادنی اہل الجنة منزلة فیہا، رقم ۴۷۳؛ شرح مشکل الآثار ۱۴/۳۴۹)
خوارج کے ساتھ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مباحثے میں بھی اس اسلوب کی مثال ملتی ہے۔ خوارج کا کہنا تھا کہ اللہ کے علاوہ کسی کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں، اس لیے جنگ صفین میں علی، اپنے اور معاویہ کے مابین ابو موسیٰ اشعری اور عمرو بن العاص کو حکم تسلیم کر کے کفر کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ابن عباس نے ان کے سامنے قرآن مجید کی دوہدایات کا حوالہ پیش کیا جن میں فیصلے کے لیے انسانوں کو حکم بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ ابن عباس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حالت احرام میں جانور کو شکار کرنے والے کو حکم دیا ہے کہ وہ اس جیسا جانور کفارے کے طور پر قربان کرے اور اس کا فیصلہ مسلمانوں میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے مابین ناچاقی کی صورت میں دونوں خاندانوں میں سے ایک ایک حکم مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے جو دونوں کے مابین تصفیہ کروانے کی کوشش کریں۔ ابن عباس نے کہا کہ مذکورہ دو معاملات زیادہ اہم ہیں یا ہزاروں مسلمانوں کے خون کی زیادہ اہمیت ہے؟ اس لیے اگر مسلمانوں کی باہمی خونریزی سے بچنے کے لیے کسی کو حکم بنایا گیا ہے تو یہ ان الحکم الا للہ کے خلاف نہیں ہے۔ (نسائی، السنن الکبری، کتاب الخصائص، ذکر مناظرہ عبد اللہ بن عباس الحروریة، رقم ۷۳۴۶)
ایک اسلوب استدلال یہ تھا کہ اختیار کردہ انداز استدلال کے بعض ایسے منطقی نتائج کی طرف توجہ دلائی جائے جو خود مخاطب کو بھی تسلیم نہیں اور اس طرح یہ واضح کیا جائے کہ یہ انداز استدلال درست نہیں۔
مثال کے طور پر خوارج کا سیدنا علی پر یہ اعتراض تھا کہ انھوں نے جنگ صفین میں مدمقابل فریق کے فوجیوں کو قیدی کیوں نہیں بنایا؟ خوارج کا کہنا تھا کہ اگر ان کے خلاف لڑی جانے والی جنگ شرعاً جائز تھی تو جنگ کے احکام کے مطابق انھیں قیدی بنایا جانا چاہیے تھا۔ فقہائے صحابہ اپنی فقہی بصیرت کی بنا پر اس سے واقف تھے کہ جنگ میں قیدی وغیرہ بنانے کے عمومی احکام کفار کے ساتھ لڑائی کے تناظر میں دیے گئے ہیں، جبکہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی میں اللہ تعالیٰ کی منشا یہ نہیں ہے، کیونکہ کفار کے خلاف قتال اور شکست خوردہ کفار کی توہین وتذلیل ایک مطلوب امر ہے، جبکہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی سرے سے مطلوب ہی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، اس لیے جنگ میں ہارنے والے مسلمانوں پر قیدی بنانے جیسے احکام نافذ کرنا اللہ تعالیٰ کی منشا نہیں ہو سکتی۔ تاہم خوارج کے ظاہر پرست اور حرفیت پسند ذہن کو اس استدلال پر مطمئن کرنا مشکل تھا، چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انھیں ان کی غلطی اس طرح سمجھائی کہ یہ بتاو¶ کہ کیا جنگ جمل میں ام المومنین سیدہ عائشہ کو جنگ کے نتیجے میں قیدی بنانا اور ان پر باندی کے احکام جاری کرنا درست ہوتا؟ اگر تم کہو کہ ہاں تو قرآن مجید نے امہات المومنین کے بارے میں جو احکام دیے ہیں، یہ بات ان کے خلاف ہوگی اور اگر یہ کہو کہ نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قیدی بنانے کے احکام عمومی اور ہر لڑائی پر قابل اطلاق نہیں ہیں۔ (نسائی، السنن الکبری، کتاب الخصائص، ذکر مناظرہ عبد اللہ بن عباس الحروریة، رقم ۷۳۴۶)
ایک اور اسلوب یہ تھا کہ زیر بحث مسئلے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد یا عمل کے حوالے سے یہ واضح کیا جائے کہ قرآن سے جو مدعا سمجھا جا رہا ہے، وہ غلط ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیر وتشریح فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے بعض اکابر صحابہ کے ہاں سے یہ خاص انداز فکر ملتا ہے کہ وہ قرآن مجید کے متشابہ اور ذو الوجوہ بیانات سے گمراہ گروہوں کے استدلالات کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے جوابی استدلال قرآن کے بجائے سنت سے کرنے کو بہتر اور زیادہ موثر طریقہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ عمر بن الاشج روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر نے کہا کہ:
انہ سیاتی ناس یجادلونکم بشبھات القرآن، فخذوھم بالسنن فان اصحاب السنن اعلم بکتاب اللہ عزوجل (سنن الدارمی، المقدمۃ، باب التورع عن الجواب فی ما لیس فیہ کتاب ولا سنۃ، رقم ۱۲۱، ۱/۲۴۱)
’’عنقریب کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو تمھارے ساتھ قرآن کی متشابہ آیات کی بنیاد پر بحث کریں گے۔ تم ان پر سنن کے ذریعے سے گرفت کرنا، کیونکہ سنن کو جاننے والے اللہ کی کتاب کا زیادہ علم رکھتے ہیں۔”
یہی قول سیدنا علی سے بھی مروی ہے۔ (اللالکائی، شرح اصول اعتقاد اہل السنة والجماعة، رقم ۵۷۱)
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے جب عبد اللہ بن عباسؓ کو خوارج کے ساتھ گفتگو کے لیے بھیجا تو ان سے فرمایا:
اذھب الیہم فخاصمھم وادعھم الی الکتاب والسنۃ، ولا تحاجھم بالقرآن فانہ ذو وجوہ، ولکن خاصمھم بالسنۃ .... فقال ابن عباس یا امیر المومنین فانا اعلم بکتاب اللہ منھم، فی بیوتنا نزل، فقال علی: صدقت، ولکن القرآن حمال ذو وجوہ، تقول ویقولون، ولکن حاجہم بالسنن فانہم لن یجدوا عنہا محیصا (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۶/۳۳۹)
’’ان کے پاس جاؤ اور ان سے بحث کرو اور انھیں کتاب اور سنت کی طرف دعوت دو، لیکن ان کے سامنے قرآن کریم سے استدلال نہ کرنا، اس لیے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے، بلکہ ان کے ساتھ سنت کے حوالے سے گفتگو کرنا۔ عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا اے امیر المومنین، میں قرآن کریم کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں، یہ تو ہمارے گھروں میں اترا ہے۔ سیدنا علی نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن قرآن کریم احتمالات کا حامل ہے۔ تم ایک مطلب بیان کرو گے تو وہ دوسرا مطلب نکال لیں گے۔ تم ان کے ساتھ سنن کی بنیاد پر بحث کرنا، کیونکہ ان سے بھاگنے کی راہ انھیں نہیں مل سکے گی۔”
زبیر بن العوام سے بھی منقول ہے کہ انھوں نے عبد اللہ بن زبیر کو ہدایت کی کہ 
لا تجادل الناس بالقرآن، فانک لا تستطیعھم، ولکن علیک بالسنۃ (خطیب بغدادی، الفقیہ والمتفقہ ۱/۵۶۱)
’’لوگوں کے ساتھ قرآن کی بنیاد پر بحث نہ کیا کرو کیونکہ اس میں تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے، بلکہ سنت سے استدلال کیا کرو۔”

امام شافعیؒ کا نقطہ نظر

فکری ودینی پس منظر

امام محمد بن ادریس شافعی ؒ کی ولادت  ۱۵٠ہجری میں فلسطین کے شہر غزہ میں قریش کے خاندان میں ہوئی۔ یہ وہی سال ہے جس میں ان کے جلیل القدر پیش رَو امام ابوحنیفہ کا بغدادمیں انتقال ہوا۔ ان کے سلسلہ نسب کی نویں کڑی میں مطلب بن عبد مناف کا نام آتا ہے۔ یہ وہی عبد مناف ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد تھے۔ اس مناسبت سے امام شافعی کو ’الامام المطلبی‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ کم عمری میں ہی وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں منتقل ہو گئے اور یہاں انھیں عرب کے مشہور قبیلہ بنو ہذیل کے ساتھ میل جول اور اختلاط کے وسیع مواقع میسر آئے جس نے امام شافعی کو عربی زبان وادب اور بنو ہذیل کے اشعار میں کمال ومہارت پیدا کرنے میں غیر معمولی مدد دی۔
مکہ مکرمہ میں تحصیل علم کی ابتدا کرنے کے بعد ان تک امام مالک کا شہرہ پہنچا جو مدینہ منورہ میں علمی مرجع کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی تصنیف ’الموطا‘ اطراف واکناف میں غیر معمولی شہرت حاصل کر چکی تھی۔ امام شافعی نے اس کا نسخہ حاصل کر کے بغور مطالعہ کیا اور پھر امام مالک سے براہ راست استفادہ کے لیے مدینہ منورہ کی طرف رخت سفر باندھا۔ مدینہ میں انھوں نے امام مالک کے حلقہ تلمذ میں شمولیت اختیار کی اور ۹۷۱ءمیں امام مالک کی وفات تک ان کے حلقہ نشین رہے۔ 
۱۸۴ءمیں بغداد کے ایک سفر میں خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں امام شافعی کا تعارف، امام محمد بن الحسن الشیبانی سے ہوا اور یہیں سے وہ ان کے حلقہ شاگردی میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے طویل عرصے تک امام محمد کی مصاحبت اختیار کی، ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور علمی مسائل پر ان کے ساتھ ان گنت مکالمے اور مباحثے کیے۔ یوں انھیں اپنے دور کے دو بڑے فقہی مراکز، یعنی حجاز اور عراق کے علمی اصولوں اور انداز فکر کو براہ راست ان کے اعلیٰ ترین علمی نمائندوں سے سمجھنے کا موقع ملا اور اہل حجاز اور اہل عراق کی فقہ پر انھیں دسترس حاصل ہو گئی۔
۱۹۵ءمیں امام شافعی دوسری مرتبہ بغداد آئے تو ان کے مستفیدین کی طرف سے ان سے کتاب وسنت سے استدلال واستنباط کے اصول وضوابط سے متعلق ایک تصنیف سپرد قلم کیے جانے کی فرمائش ہوئی۔ چنانچہ معروف محدث عبد الرحمن بن مہدی کی گزارش پر امام شافعی نے کتاب الرسالہ کا پہلا مسودہ تصنیف کیا۔ عمر کے آخری حصے میں، ۱۹۹ھ میں امام شافعی بغداد سے مصر منتقل ہو گئے اور چھ سال تک تصنیف وتالیف اور تدریس سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد ۲٠۵ھ میں وفات پائی۔ اس عرصے میں انھوں نے کتاب الرسالہ کا نیا مسودہ تصنیف کرنے کے علاوہ اپنی فقہی تحقیقات اور مناظرات پر مبنی مبسوط کتاب ’’الام ”سپرد قلم کی۔ اس موقع پر انھوں نے اپنی بہت سی فقہی آراءپر بھی نظر ثانی کی اور نئے غور وفکر کی روشنی میں اپنی قدیم آرا سے رجوع کیا۔ فقہ شافعی میں امام صاحب کی ان دونوں طرح کی آرا کو قول قدیم اور قول جدید کے عنوان سے ذکر کیا جاتا ہے۔ 
اہل عراق اور اہل حجاز سے حصول علم کے اس طویل سفر میں امام شافعی اس نتیجے تک پہنچے کہ ان دونوں مکاتب کے منہج فکر اور آرا میں جہاں اخذ واستفادہ کے غیر معمولی مواقع اور علم وتفقہ کے شاندار مظاہر پائے جاتے ہیں، وہاں بہت سی آرا اور نتائج فکر قابل نقد بھی ہیں۔ ان نزاعی موضوعات کا تعلق زیادہ تر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایات واخبار کے رد وقبول سے تھا اور امام شافعی کے نقطہ نظر سے اہل عراق اور اہل حجاز، دونوں جہاں بہت سی ایسی روایات کو اپنے اجتہادات کی بنیاد بنا رہے تھے جن کا ثبوت علمی طور پر قابل اطمینان نہیں تھا، وہاں بہت سی صحیح اور ثابت شدہ احادیث کو بعض قیاسی وعقلی اصولوں کی بنیاد پر رد بھی کر رہے تھے۔ امام شافعی نے محسوس کیا کہ ان قابل نقد نتائج فکر کے پیچھے احادیث کے رد وقبول کے حوالے سے عراقی اور حجازی ائمہ کے کچھ اصولی رجحانات کارفرما ہیں اور ان کی غلطی واضح کرنے کے لیے علمی طور پر چند بنیادی اصولی مباحث سے تعرض کرنا ناگزیر ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے متعدد معاصر اہل علم کی جزوی فقہی آرا پر تنقیدی تحریریں لکھنے کے علاوہ مختلف اصولی مباحث کو بھی اپنا موضوع بنایا اور اصول فقہ کے بنیادی ترین اور اہم ترین مباحث کے حوالے سے اپنے نتائج فکر کو مختلف تصانیف میں بہت واضح اور منضبط انداز میں پیش کیا۔
مورخین میں اس حوالے سے بحث پائی جاتی ہے کہ کیا امام شافعیؒ کو علم اصول کا اولین واضع قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ امام شافعی سے پہلے فقہاءاپنے اجتہادات میں متعین اصول وضوابط کے بجائے شریعت کے عمومی مقاصد کے فہم اور نصوص کے اشارات پر انحصار کرتے تھے اور علمی سرگرمی کی نوعیت ایسی ہوتی تھی جیسے کوئی طبع موزوں رکھنے والا شاعر، علم عروض کے اصول وضوابط کو پیش نظر رکھے بغیر، اپنے طبعی ذوق کی مدد سے شعر گوئی کر لیتا ہے۔ (ابو زہرہ، الشافعی، حیاتہ وعصرہ، ص ۱۸۵) تاہم یہ بات کلی طور پر درست معلوم نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقہ واجتہاد کے باب میں اصولی نوعیت کے سوالات ومباحث کی روایت امام شافعی ؒ سے پہلے بھی موجود تھی اور امام شافعیؒ نے دراصل اپنے ماحول میں موجود مختلف اصولی مواقف کے تناظر میں ہی اپنی دینی وفقہی فکر کی تشکیل کی اور درپیش سوالات کے حوالے سے اپنا علمی نقطہ نظر پیش کیا تھا۔ اس لیے اگر علم اصول فقہ کے واضع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اصولی سوالات اٹھانے کا کام سب سے پہلے انھوں نے کیا تو یہ بات تاریخی طور پر درست نہیں، البتہ اصول فقہ سے متعلق مختلف مباحث کو مستقلاً موضوع بحث بنانے اور ان پر تصانیف کی ابتدا کے حوالے سے یقینا امام شافعی کو سبقت وفضیلت حاصل ہے اور مثال کے طور پر سنت کی نقل وروایت کی مختلف صورتوں، ان کی درجہ بندی، قبول روایت کے معیارات وضوابط، کتاب اور سنت کے باہمی تعلق، ناسخ ومنسوخ احادیث کی تعیین اور اس طرح کے دیگر سوالات پر مستقل اصولی بحث ہمیں سب سے پہلے امام شافعی کے ہاں ہی دکھائی دیتی ہے۔ 
ان سوالات کے حوالے سے مختلف اصولی نقطہ ہائے نظر یقینا موجود تھے اور فقہی مباحث کے ضمن میں متفرق اور منتشر انداز میں ان کا ذکر بھی اہل علم کی تصانیف میں کیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے حجازی روایت میں امام مالک کی الموطا اور عراقی روایت میں امام ابویوسف اور امام محمد بن الحسن الشیبانی کی تصانیف بطور خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ تاہم دستیاب تاریخی مواد کی حد تک امام شافعی سے پہلے اصول فقہ پر کسی مستقل اور باقاعدہ تصنیف کا وجود تاریخ میں نہیں ملتا۔ یوں ایک لحاظ سے اصول فقہ میں امام شافعی کی حیثیت وہی ہے جو فلسفے میں افلاطون کی ہے۔ ان مباحث کا آغاز ان سے پہلے ہو چکا تھا، لیکن انھیں مرتب کر کے پیش کرنے اور ان کا تجزیہ ومحاکمہ کرنے کی روایت کا آغاز امام شافعی سے ہوتا ہے۔ 
قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے ضمن میں امام صاحب نے اپنے موقف کی شرح وبسط کے ساتھ وضاحت الرسالہ میں کی ہے اور عموماً اس حوالے سے الرسالہ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جو بہت بنیادی اور مفصل ماخذ ہے، لیکن الرسالہ کے علاوہ امام صاحب کی دیگر تصانیف او رخاص طور پر کتاب الام کے مختلف مباحث کے ضمن میں بھی نے اس بحث سے متعلق اہم نکات بیان کیے گئے ہیں جنھیں پیش نظر رکھنا ان کے نقطہ نظر کے جامع فہم کے لیے ضروری ہے۔

قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث

امام شافعی کو قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے ضمن میں جس بنیادی سوال کا سامنا تھا، وہ یہ تھا کہ ان کے ماحول میں مختلف اہل علم اور مذہبی گروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی بعض ایسی احادیث کو جن کا استناد علمائے حدیث کے ہاں عموماً ثابت تھا، اس بنیاد پر قبول کرنے سے گریز کر رہے تھے کہ وہ قرآن کے ظاہری عموم کے خلاف ہیں۔ یہ رجحان، جیسا کہ ہم نے پچھلی فصل میں دیکھا، بعض فقہائے صحابہ سے بھی منقول تھا اور خوارج نے بھی اس اصول کو بہت سی احادیث کے رد کر دینے کے لیے بنیاد بنایا تھا، چنانچہ وہ مثال کے طور پر ہر قسم کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کے قائل اور رجم اور مسح علی الخفین کے جواز کے منکر تھے۔ اس کے علاوہ حجاز میں امام مالک جبکہ عراق میں امام ابوحنیفہ کا مکتب فکر بھی بعض احادیث کی عدم قبولیت کے حوالے سے اس بحث میں فریق تھا۔ ائمہ احناف نے اس اصول کے تحت قضاءبالیمین مع الشاہد کی روایات کو رد کر دیا تھا اور وہ بطور ایک علمی اصول یہ موقف رکھتے تھے کہ قرآن مجید کے ساتھ موافقت، حدیث کی قبولیت کی ایک بنیادی شرط ہے اور کسی ایسی روایت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست نہیں مانی جا سکتی جو قرآن مجید کے ساتھ ٹکراتی ہو۔ (العالم والمتعلم، ص ۲۵؛ ابو یوسف، الرد علی سیر الاوزاعی، ص ۳۱) 
امام مالک کے ہاں بھی بعض مثالوں میں یہ رجحان دکھائی دے رہا تھا۔ مثلاً روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضر کی حالت میں موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ثابت ہے۔ (سنن ابی داﺅد، کتاب الطہارة، باب التوقیت فی المسح، رقم ۱۵۷) لیکن امام مالکؒ، ایک روایت کے مطابق، ان کی صحت پر مطمئن نہیں تھے۔ چنانچہ ابن القاسم بیان کرتے ہیں کہ ان سے حضر میں موزوں پر مسح کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ “اس کے حق میں تو بس یہ حدیثیں ہی ہیں، کتاب اللہ کا حکم اس کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔”  (ابن عبد البر، اختلاف اقوال مالک واصحابہ، ۱/۶۶)
امام شافعی نے اس موضوع پر امام محمد بن الحسن الشیبانی کے ساتھ اپنے مناظرے کا احوال بیان کرتے ہوئے ان سبھی گروہوں کا حوالہ دیا ہے، چنانچہ مذکورہ مختلف مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
حجتنا حجتک علی من رد الاحادیث واستعمل ظاھر القرآن فقطع السارق فی کل شیء لان اسم السرقۃ یلزمہ، وابطل الرجم لان اللہ عزوجل یقول: الزَّانِیَۃ وَالزَّانِی فَاجلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنہُمَا مِائَۃ جَلدَۃ، وعلی من استعمل بعض الحدیث مع ھولاء وقال لا یمسح علی الخفین لان اللہ قید القدمین بغسل او مسح، وعلی آخرین من اھل الفقہ احلوا کل ذی روح لم ینزل تحریمہ فی القرآن لقول اللہ تبارک وتعالی: قُل لاَّ اَجِدُ فِی مَا اُوحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّماً عَلَی طَاعِمٍ یَطعَمُہُ الاَّ اَن یَکُونَ مَیتَۃ اَو دَماً مَّسفُوحاً اَو لَحمَ خِنزِیرٍ (الام ۱٠/۳۳)
’’ہماری دلیل بھی وہی ہے جو تم ان لوگوں کے خلاف پیش کرتے ہو جو احادیث کو سرے سے ہی رد کر دیتے ہیں اور قرآن کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی چیز کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹ دیتے ہیں کیونکہ اس پر بھی چوری کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ رجم کو نہیں مانتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زانی مرد اور عورت کو بس سو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا ہے۔ (تم ان کے خلاف جو دلیل دیتے ہو، وہی دلیل) ان کے خلاف بھی دیتے ہو جو بعض احادیث کو قبول کرتے ہیں (لیکن بعض کو نہیں کرتے)۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ موزوں پر مسح کرنا درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پا¶وں کو دھونے یا ان پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح کچھ اور اہل فقہ ہیں جو ہر اس جانور کا گوشت کھانے کو حلال سمجھتے ہیں جس کی حرمت قرآن مجید میں واردنہیں ہوئی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے پیغمبر، تم کہہ دو کہ میری طرف جو وحی کی گئی ہے، اس میں، میں کسی چیز کو کسی کھانے والے کے لیے حرام نہیں پاتا، سوائے اس کے کہ وہ مردار جانور ہو یا بہنے والا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو۔”
قلنا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضی بالیمین مع الشاھد فرددتھا .... ونسبت من قال بھا الی خلاف القرآن (الام ۱٠/۳۷، ۳۸)
“ہم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ کے ساتھ (مدعی سے) قسم لے کر فیصلہ فرمایا ہے تو تم نے اس کو رد کر دیا اور کہا کہ جو لوگ یہ بات کہتے ہیں، ان کی بات قرآن کے خلاف ہے۔”
اس نوعیت کی مثالوں میں روایات کو رد کرنے کا موقف اختیار کرنے والے حلقے اگرچہ مختلف مذہبی وکلامی پس منظر رکھتے تھے، تاہم روایات کو رد کرنے کی علمی بنیاد عموماً مشترک تھی، یعنی ان کا ظاہر قرآن کے خلاف ہونا۔ یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ خوارج سمیت مذکورہ مکاتب فکر میں سے کوئی بھی نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت کامنکر تھا اور نہ قرآن کے مدعا ومنشا کی توضیح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فہم کو حتمی تسلیم کرنے میں اسے کوئی تردد تھا۔ متعلقہ روایات کو رد کرنے کے لیے ان کے پاس علمی بنیاد یہ تھی یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کسی حدیث کا قرآن کے خلاف ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یا تو آپ کی طرف اس کی نسبت ہی درست نہیں، یا اس میں بیان کردہ حکم کو قرآن نے منسوخ کر دیا ہے یا کم سے کم یہ کہ قرآن کے قطعی الثبوت حکم میں ایک ظنی الثبوت حدیث کی بنیاد پر، جس میں غلطی کا پورا امکان ہے، ترمیم یا تبدیلی قبول کرنا علمی طور پر ایک غیر محتاط طریقہ ہے۔ اس کے مقابلے میں جمہور فقہاءومحدثین کا انداز فکر یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کے کسی حکم سے متعلق کوئی توضیح موجود ہونے کی صورت میں، اس سے صرف نظر کرتے ہوئے قرآن کی ہدایت کا مفہوم مستقلاً متعین کرنا ہی درست نہیں اور آپ کی بیان کردہ توضیح کو قرآن کی مراد کے طور پر قبول کرنا لازم ہے۔
یہ پس منظر تھا جس میں امام شافعی نے اسلامی روایت میں ایک نہایت بنیادی اور مہتم بالشان علمی بحث کی بنیاد رکھی اور قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی اساسات اور مختلف صورتوں کے حوالے سے اپنے گہرے غور وفکر کو ایک مرتب اور منظم اصولی نقطہ نظرکے طور پر پیش کیا۔ 
زیرنظر سطور میں اسی حوالے سے امام صاحب کے نتائج فکر کا ایک تجزیہ پیش کیا جائے گا۔

سنت میں وارد احکام کا ماخذ

بحث کی ابتدا میں قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں یہ بنیادی نکتہ واضح کیا جا چکا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اللہ کی کتاب کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مستقلاً مطاع کی حیثیت دی گئی تھی اور آپ کی طرف سے، قرآن مجید کے علاوہ بیان کردہ احکام وہدایات کی اتباع کو بھی کتاب الٰہی کی طرح لازم قرار دیا گیا تھا۔ امام شافعی نے بھی متعلقہ آیات واحادیث کی روشنی میں اس بنیادی اعتقادی مقدمے کی وضاحت کی ہے۔ البتہ اس حوالے سے انھوں نے ایک اہم یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی حکم بیان فرماتے تھے، وہ وہ براہ راست وحی پر مبنی ہوتا تھا یا بیان احکام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اجتہاد اور صواب دید کا بھی کوئی دخل تھا؟ دوسرے لفظوں میں کیا سنت محض وحی الٰہی کے ابلاغ کا ایک دوسرا اور متبادل طریقہ ہے اور وحی کے بغیر پیغمبر ازخود کوئی تشریع نہیں کر سکتا یا، اس کے برعکس، پیغمبر کو خداداد اجتہادی بصیرت سے بہرہ ور کر کے تشریع وتقنین کا مستقل اختیار عطا کیا گیا ہے؟
امام شافعیؒ نے اس ضمن میں تین آرا نقل کی ہیں: 
ایک رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب رسول اللہ کی اطاعت کو مسلمانوں پر فرض قرار دیا تو گویا آپ کو یہ اختیار عطا کر دیا کہ جہاں کتاب اللہ کی کوئی نص موجود نہ ہو، وہاں آپ مسلمانوں کے لیے احکام وضع کر سکتے ہیں۔ یوں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وضع احکام کا مستقل اختیار حاصل تھا جس کے تحت آپ نے قرآن سے زائد احکام مقرر فرمائے۔
امام شافعی نے اس رائے کے حق میں بعض اہل علم کا یہ استدلال بھی نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ کہلوایا ہے کہ پیغمبر کو اپنی طرف سے قرآن مجید میں کوئی تبدیلی کرنے کا اختیار نہیں۔ (یونس ۱۵:۱٠) اس کے مفہوم مخالف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی معاملے میں کوئی حکم نازل نہ کیا گیا ہو تو اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رائے سے کوئی حکم دے سکتے ہیں۔ امام شافعی لکھتے ہیں:
وقال بعض اھل العلم: فی ھذہ الآیۃ، واللہ اعلم، دلالۃ علی ان اللہ عزوجل جعل لرسولہ ان یقول من تلقاء نفسہ بتوفیقہ فی ما لم ینزل بہ کتابا، واللہ اعلم (الام، ۱/۴۴)
’’بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس آیت میں اس بات پر دلالت ہے، اور اللہ بہتر جانتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ اختیار دیا ہے کہ جس معاملے میں اللہ نے کتاب میں کوئی حکم نہ اتارا ہو، وہ اس میں اپنی طرف سے کوئی حکم دے سکتا ہے۔”
دوسری رائے یہ ہے کہ سنت میں اس نوعیت کے تمام احکام کی اصل خود قرآن میں موجود ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی بنیادی احکام کی تفصیل وتوسیع کی ہے۔ گویا یہ زائد پہلو اصل حکم کے اندر ہی شامل اور اس میں مضمر تھے ، جن کی وضاحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کروائی گئی۔ چنانچہ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی ان تفصیلات کی وضاحت فرمائی جو قرآن کے اجمالی حکم کا حصہ تھیں، اسی طرح خرید وفروخت کے ضمن میں بہت سے احکام بیان فرمائے جو کوئی الگ اور نئے احکام نہیں، بلکہ قرآن مجید ہی کی اصولی ہدایات: لاَ تَاکُلُوا اَموَالَکُم بَینَکُم بِالبَاطِلِ (البقرة ۲: ۱۸۸) اور وَاَحَلَّ اللّٰہُ البَیعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (البقرة ۲: ۲۷۵) پر مبنی اور انھی کی تفصیل وتوضیح ہیں۔
تیسری رائے یہ ہے کہ سنت میں بیان ہونے والے تمام احکام درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے القا کیے گئے ہیں اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی رائے یا اجتہاد کا کوئی دخل نہیں۔ مثلاً ابن طاوس کہتے ہیں کہ:
عند ابی کتاب من العقول نزل بہ الوحی، وما فرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من العقول او الصدقۃ فانما نزل بہ الوحی (الام ۱۱/۳)
’’میرے والد کے پاس دیات کی مقدار پر مشتمل ایک تحریر ہے جو وحی کے ذریعے سے نازل ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت یا زکوٰة کی جو مقداریں مقرر فرمائیں، وہ وحی میں نازل ہوئی تھیں۔”
امام شافعی کہتے ہیں کہ اس گروہ کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پیغمبر پر کتاب اور حکمت نازل کرنے کا ذکر کیا ہے (النساء۱۱۳:۴؛ الاحزاب ۳۴:۳۳) اور الحکمة سے مراد ایسی وحی ہے جو کتاب اللہ کے علاوہ آپ کی راہ نمائی کے لیے نازل کی جاتی تھی۔ مزید برآں بعض واقعات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی قضیہ پیش آنے کی صورت میں آپ وحی کا انتظار کرتے تھے اور وحی کے بغیر ازخود کوئی فیصلہ نہیں فرماتے تھے۔ اس کی مثال کے طور پر امام شافعی نے لعان کے حکم کو پیش کیا ہے۔ زنا کے جرم کے اثبات کے لیے چار گواہوں کی شرط قرآن مجید میں نازل ہوئی تو اس کے بعد عویمر عجلانی یہ سوال لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری کرتا ہوا پائے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ کیا وہ اسے اس حالت میں دیکھ کر چار گواہ ڈھونڈنے چلا جائے؟ اور اگر وہ اس کے بغیر اس کے خلاف دعویٰ کرتا ہے تو آپ الٹا شوہر پر قذف کی حد جاری کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ سوال کو ناپسند کیا اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے مابین لعان کی آیات نازل کیں تو عویمر کو بلا کر اسے بتایا کہ اللہ نے تمھارے متعلق یہ حکم دیا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اس واقعے سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آپ دیگر معاملات میں بھی کوئی فیصلہ کرنے کے لیے وحی کا انتظار کرتے اور اسی کی روشنی میں احکام شرعیہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے تھے۔ (الام ۱/۴۱، ۴۲، ۶/۳۲۹)
امام شافعی مذکورہ علمی اور دینی لحاظ سے مذکورہ تینوں امکانات کا جواز مانتے ہیں اور ایسے احکام کی نوعیت کی تعیین میں ان سب احتمالات کا امکان تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ بیوہ کے لیے زیب وزینت کی ممانعت کا ذکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واحتملت السنۃ فی ھذا الموضع ما احتملت فی غیرہ من ان تکون السنۃ بینت عن اللہ تعالیٰ کیف امساکھا کما بینت الصلاۃ والزکاۃ والحج، واحتملت ان یکون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سن فی ما لیس فیہ نص حکم اللہ عزوجل (الام ۱/۹۱)
“اس حکم میں اور اس جیسے دیگر احکام میں یہ بھی ممکن ہے کہ سنت نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے (وحی پا کر) یہ واضح کیا ہو کہ عدت گزارنے کے آداب وشرائط کیا ہیں، جیسا کہ اس نے نماز، زکوٰة اور حج کے طریقے کی وضاحت کی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ کے دیے ہوئے اختیار سے) ایسے معاملے میں خود ایک طریقہ مقرر فرما دیا ہو جس میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا۔”
تاہم امام شافعی کا ذاتی رجحان دوسری رائے کے حق میں معلوم ہوتا ہے۔ امام صاحب کا کہنا ہے کہ دین کے معاملے میں مسلمانوں کو جو بھی مشکل یا سوال پیش آ سکتا ہے، کتاب اللہ میں اصولی طورپر اس کے متعلق راہنمائی کا سامان موجود ہے۔ امام صاحب نے اس بات کی تائید میں قرآن مجید کی متعدد آیات کا حوالہ دیا ہے جن میں کتاب الٰہی کو ہدایت کے لیے کافی ووافی قرار دیا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کی تبیین اور وضاحت کریں۔ یہ آیات حسب ذیل ہیں:
کِتَاب اَنزَلنَاہُ الَیکَ لِتُخرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّورِ باذنِ رَبِّہِم الَی صِرَاطِ العَزِیزِ الحَمِیدِ (ابراہیم ۱:۱۴)
’’یہ کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے، اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف یعنی اس ہستی کے بتائے ہوئے راستے کی طرف لاﺅ جو غالب اور ستودہ صفات ہے۔”
وَاَنزَلنَا الَیکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ الَیہِم وَلَعَلَّہُم یَتَفَکَّرُونَ (النحل ۴۴:۱۶)
’’اور ہم نے تمھاری طرف یاد دہانی کرانے والی کتاب نازل کی تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس کی وضاحت کرو جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ غور وفکر کریں۔”
وَنَزَّلنَا عَلَیکَ الکِتَابَ تِبیَاناً لِّکُلِّ شَیئٍ وَہُدًی وَرَحمَۃ وَبُشرَی لِلمُسلِمِینَ (النحل ۸۹:۱۶) 
’’اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو خوب کھول کر بیان کرنے والی ہے اور فرماں برداروں کے لیے ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے۔”
مَا کُنتَ تَدرِی مَا الکِتَابُ وَلَا الایمَانُ وَلَکِن جَعَلنَاہُ نُوراً نَّہدِی بِہِ مَن نَّشَاء مِن عِبَادِنَا وَانَّکَ لَتَہدِی الَی صِرَاطٍ مُّستَقِیمٍ (الشوریٰ ۲۵:۲۴) 
’’تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب الٰہی کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے، لیکن ہم نے اس کو نور بنایا جس کے ذریعے سے ہم اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں اور بے شک تم سیدھے راستے کی طرف (لوگوں کی) راہ نمائی کر رہے ہو۔”
ان آیات سے امام صاحب یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ: 
فلیست تنزل باحد من اھل دین اللہ نازلۃ الا وفی کتاب اللہ جل ثناوہ الدلیل علی سبیل الھدی فیھا (الام ۱/۶)
’’اللہ کے دین کو ماننے والوں کو جس کسی مسئلے سے بھی سابقہ پیش آ سکتا ہے، اللہ کی کتاب میں اس کے متعلق راہ نمائی موجود ہے۔”
مزید فرماتے ہیں:
وما فرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیئا قط الا بوحی اللہ، فمن الوحی ما یتلی ومنہ ما یکون وحیا الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیستن بہ (الام ۹/۷٠)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکم اللہ کی وحی کے بغیر مقرر نہیں کیا۔ وحی کی ایک قسم وہ ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے اور ایک قسم وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جاتی تھی اور اس کی روشنی میں آپ احکام مقرر فرماتے تھے۔”

سنت کا وظیفہ: قرآن مجید کی تبیین 

امام شافعی کے نزدیک سنت کا بنیادی وظیفہ کتاب اللہ کی تبیین وتوضیح ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی وحی کی روشنی میں مستقل احکام بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن میں نازل کردہ احکام کی تشریح وتفصیل بھی کرتی ہے۔ یہ توضیحات اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہ نمائی پر مبنی ہوتی ہیں اور ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنی مراد کی وضاحت کی ہو۔
نوعیت کے اعتبار سے سنت کے ذریعے سے قرآن کی تبیین کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں:

قرآن کے مجمل احکام کی تبیین

سنت کے ذریعے سے قرآن کی تبیین کی سب سے بنیادی اور واضح ترین صورت قرآن کے مجمل احکام کی تفصیل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں دین کے بہت سے بنیادی فرائض سے متعلق اصولی حکم تو بیان کر دیا گیا ہے، لیکن ان کو عملاً بجا لانے کے لیے جن تفصیلات کی ضرورت ہے، وہ بیان نہیں کی گئیں، بلکہ ان کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے کی گئی ہے۔ اس کی معروف ترین مثالوں میں نماز اور زکوٰة کے احکام شامل ہیں۔ (الام ۱/۷) اسی طرح حج اور عمرہ کی ادائیگی کی پوری تفصیلات کا ذکر بھی ہمیں سنت میں ہی ملتا ہے۔ (الام ۱/۱۲)
چنانچہ آپ نے واضح فرمایا کہ فرض نمازوں کی تعداد پانچ ہے اور یہ کہ حضر میں ظہر، عصر اور عشاءکی رکعتیں چار، مغرب کی تین اور فجر کی دو ہیں۔ اسی طرح آپ نے ہر نماز میں قراءت کا طریقہ مقرر کیا اور مغرب، عشاءاور فجر میں جہری قراءت کو جبکہ ظہر اور عصر میں سری قراءت کو مشروع کیا۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ نماز میں داخل ہونے کا طریقہ اللہ اکبر کہنا اور نماز سے نکلنے کا طریقہ السلام علیکم کہنا ہے۔ نیز یہ کہ نماز میں تکبیر کے بعد قراءت کی جائے گی، پھر رکوع ہوگا اور رکوع کے بعد دو سجدے کیے جائیں گے۔ پھر آپ نے سفر کی حالت میں مسافر کو اختیار دیا کہ وہ تمام چہارگانہ نمازوں کی دو رکعتیں ادا کر سکتا ہے، جبکہ فجر اور مغرب کی رکعتیں اتنی ہی رہیں گی۔ آپ نے یہ ضابطہ بھی مقرر کیا کہ حالت خوف کے علاوہ ہر حالت میں سفر وحضر میں تمام نمازیں قبلہ رخ ہو کر ادا کی جائیں گی۔ اسی طرح آپ نے بتایا کہ نفل نماز باقی تمام تفصیلات وشرائط میں فرض نماز کی طرح ہے، البتہ اگر کوئی شخص سواری پر سوار ہو تو وہ نفل نماز اسی رخ پر ادا کر سکتا ہے جس طرف سواری آگے بڑھ رہی ہو۔ (الام ۱ /۷۵)
یہی معاملہ حج کا ہے۔ قرآن مجید میں ان لوگوں پر حج کو فرض قرار دیا گیا ہے جو سفر کی استطاعت رکھتے ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ سفر کی استطاعت سے مراد زاد راہ اور سواری کی دستیابی ہے۔ اسی طرح آپ نے حج کے مواقیت، تلبیہ کا طریقہ، محرم کے لیے سلے ہوئے لباس اور خوشبو کی ممانعت اور اس کے علاوہ عرفات ومزدلفہ میں ادا کیے جانے والے مناسک ، رمی، حلق اور طواف وغیرہ کی وضاحت فرمائی ہے۔ (الام ۱/۸۵، ۸۶)

محتمل احکام کی تفصیل

قرآن کے ساتھ سنت کے تعلق کی دوسری اہم جہت قرآن کے حکم میں موجود مختلف احتمالات میں سے کسی ایک احتمال کی تعیین ہے۔ امام شافعی نے درج ذیل مختلف مثالوں کی مدد سے اس جہت کو واضح کیا ہے:
وضو کی آیت میں بازووں کے ساتھ کہنیوں اور پاوں کے ساتھ ٹخنوں کا ذکر ہے۔ قرآن کے الفاظ اس کا بھی احتمال رکھتے ہیں کہ کہنیاں اور ٹخنے دھونے کے حکم میں شامل ہوں اور اس کا بھی کہ وہ اس سے خارج ہوں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے واضح فرمایا کہ وضو کرتے ہوئے ان دو اعضا کو بھی دھویا جائے گا۔ (الام ۱/۱۱، ۷٠، ۱٠/۱۵۹)
سورة المرمل میں نماز تہجد کی فرضیت سے متعلق سابقہ ہدایت میں تبدیلی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: فَاقرءُوا مَا تَیَسَّرَ مِنہُ (المزمل ۷۳ :۲٠)، یعنی اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکو، پڑھ لیا کرو۔ یہاں بظاہر یہ امکان بھی ہو سکتا ہے کہ نماز تہجد کی فرضیت کو ہی سرے سے منسوخ کر دیا گیا ہو اور یہ بھی کہ فرضیت برقرار ہو، لیکن اس کے متعین دورانیے کی پابندی کو ختم کر دیا گیا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرض نمازیں صرف پانچ ہیں اور اسی سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نماز تہجد کی فرضیت ہی فی نفسہ منسوخ کر دی گئی ہے۔ (الام، ۱/۴۸، ۴۹)
قرآن مجید میں حج کے فرض ہونے کے لیے سفر کی استطاعت کو شرط قرار دیا گیا ہے۔ (آل عمران ۹۷:۳) بظاہر استطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی خود سفر کر کے حج کے مناسک ادا کر سکتا ہو۔ تاہم ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو خثعم کی ایک خاتون سے، جس نے بتایا کہ اس کے والد پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، کہا کہ وہ اپنے والد کی طرف سے حج کر لے۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ استطاعت کی صورت صرف یہ نہیں ہے کہ آدمی خود سفر کر سکے، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی دوسرے کو اپنی طرف سے نیابتاً حج کے لیے بھیج سکے۔ چنانچہ اس دوسری صورت میں بھی حج فرض ہوگا، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت سے کہتے کہ تمھارا والد چونکہ خود سفر نہیں کر سکتا، اس لیے اس پر حج فرض نہیں ہے۔ (الام ۳/۳٠۲)
قرآن مجید میں بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو بچے کی ماں کا درجہ دیتے ہوئے اس کے ساتھ نکاح کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ماں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بچے کی رضاعی بہن کو بھی حرمت کے دائرے میں شمار کیا ہے۔ (النساء۴: ۳۲) امام شافعی لکھتے ہیں کہ یہاں ان دو رشتوں کا ذکر کرنے سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ رضاعت کے تعلق سے صرف ان دو رشتوں کی حرمت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ نسب کے مقابلے میں رضاعت، حرمت کا سبب ضعیف ہے، چنانچہ جیسے نسبی رشتوں میں سے صرف وہی حرام ہیں جو آیت میں مذکور ہیں، اسی طرح رضاعی رشتوں میں سے صرف ماں اور بہن کو ہی حرام ہونا چاہیے۔ دوسرا احتمال یہ ہو سکتا ہے کہ رضاعی بہن کو رضاعی ماں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے محرمات میں شامل کر کے اس طرف اشارہ مقصود ہو کہ ماں کے ساتھ رضاعی رشتہ اس تک محدود نہیں، بلکہ متعدی ہے۔ اس صورت میں رضاعی ماں کے رشتے سے وہ وہ تمام خواتین بھی حرام قرار پائیں گی جو نسبی رشتے سے ہوتی ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دوسرا احتمال اللہ تعالیٰ کی مراد ہے۔ آپ نے فرمایا کہ رضاعت کے تعلق سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسبی رشتے سے حرام ہیں۔ (الام، ۶/۶۳، ۶۸، ۳۸۷، ۳۳۸)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کی حرمتوں کے بیان میں بچے کو دودھ پلانے والی عورتوں کا ذکر وَاُمَّہَاتُکُمُ اللاَّتِی اَرضَعنَکُم (النساء۴: ۲۳) کے الفاظ سے کیا ہے۔ امام شافعی لکھتے ہیںکہ رضاع کا اطلاق ایک چسکی لگانے سے لے کر کئی بار دودھ پینے تک اور دو سال کی مدت پوری کرنے بلکہ اس کے بعد بھی دودھ پینے پر ہو سکتا ہے۔ اس لیے ان مختلف احتمالات میں سے کسی ایک کو متعین کرنے کے لیے مستقل دلیل کی ضرورت ہے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پینے سے کسی عورت اور بچے کے مابین حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ (الام ۶/۷۲، ۷۷)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم بیان کیا ہے کہ شوہر کی طرف سے بیوی کو تیسری طلاق دیے جانے کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی دوسرے خاوند کے ساتھ نکاح کر لے۔ اگر دوسرا خاوند بھی اسے طلاق دے دے تو پھر باہمی رضامندی سے وہ پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے۔ (البقرة ۲۳٠:۲) یہاں دوسرے شوہر کے ساتھ نکاح کے لیے حَتَّیَ تَنکِحَ زَوجاً غَیرَہُ کے الفاظ آئے ہیں جو دو معنوں کا احتمال رکھتے ہیں۔ ایک یہ کہ عورت دوسرے شوہر کے ساتھ عقد نکاح کر لے اور دوسرا یہ کہ دوسرا شوہر اس کے ساتھ میاں بیوی کا تعلق بھی قائم کرے، کیونکہ نکاح کا لفظ عقد نکاح اور ہم بستری دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قضیے میں ایک عورت کو، جسے اس کے پہلے شوہر نے تین طلاقیں دے دی تھیں، یہ کہا کہ جب تک دوسرا شوہر اس کے ساتھ ہم بستری نہ کر لے، وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی تو اس سے یہ واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہی ہے۔ (الام ۱/۶۶، ۶/۶۲۹)
قرآن مجید میں بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن (البقرة ۲: ۲۳۴)، طلاق یافتہ خواتین کی عدت تین ماہواریاں (البقرة ۲: ۲۲۸) اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل بیان کی گئی ہے۔ (الطلاق ۴:۶۵) اب اگر کوئی خاتون حاملہ ہو اور اس کے شوہر کی وفات ہو جائے تو یہ احتمال بھی ہے کہ اس پر بیوہ اور حاملہ کی دونوں عدتیں پوری کرنا لازم ہو جیسا کہ بعض اہل علم کا قول ہے، اور یہ احتمال بھی ہے کہ وہ صرف حاملہ کی عدت گزارے۔ اسی طرح اگر عورت حاملہ ہو اور اسے طلاق دے دی جائے تو اس کے لیے دونوں عدتیں گزارنا بھی مطلوب ہو سکتا ہے اور صرف وضع حمل بھی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سبیعہ بنت الحارث کے متعلق جو فیصلہ فرمایا، اس سے واضح ہو گیا کہ طلاق اور وفات کی صورت میں جن خواتین کی عدت بیان کی گئی ہے، اس سے مراد غیر حاملہ خواتین ہیں، جبکہ حاملہ خواتین کی عدت، چاہے انھیں طلاق دی گئی ہو یا وہ بیوہ ہو جائیں، یہی ہے کہ وہ بچے کو جنم دے دیں۔ (الام ۱/۸۷، ۲۶۵)
معاہدہ حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کو قرآن میں ہدایت کی گئی کہ ان کے نکاح میں جو مشرک عورتیں ہیں، وہ انھیں نکاح سے آزاد کر دیں اور اگر کوئی خاتون مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ آ جائے تو وہ اپنے مشرک شوہر کے لیے حلال نہیں رہے گی۔ (الممتحنہ ۶٠:۱٠) حکم میں یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں کے مابین نکاح، ایک فریق کے مسلمان ہوتے ہی کالعدم تصور کیا جائے اور یہ احتمال بھی ہے کہ کچھ عرصہ انتظار کرنے کے بعد نکاح کے فسخ ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایسے مقدمات میں علی الفور فسخ نکاح کا فیصلہ کرنے کے بجائے کچھ مدت تک دوسرے فریق کو یہ موقع دیا کہ وہ بھی اسلام قبول کر لے اور پھر اسلام قبول کرنے کے بعد دونوں کے سابقہ نکاح کو برقرار رکھا۔ (الام، ۶/۱۲٠، ۱۲۱)
قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو امت کی مائیں قرار دیا گیا ہے۔ (الاحزاب ۶:۳۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں ماں صرف اس معنی میں کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ نکاح کرنا امت کے لیے حلال نہیں، یہ مراد نہیں کہ ان کی بیٹیوں کے ساتھ نکاح کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جیسے اپنی صلبی ماو¶ں کی بیٹیوں سے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیوں کا نکاح بھی لوگوں سے کیا اور آپ کی ازواج کی بہنوں سے بھی لوگوں نے نکاح کیا۔ اسی طرح ازواج اور امت کے مابین وراثت کا تعلق بھی قائم نہیں کیا گیا۔ (الام، ۶/۳۶۴، ۳۶۵)
قرآن مجید میں ابتداءاً مرنے والے پر لازم کیا گیا تھا کہ وہ اپنے والدین اور اقرباءکے حق میں اور اسی طرح اپنی بیوہ کے لیے اپنے ترکے میں سے وصیت کر کے جائے۔ (البقرة ۲ :۱۸٠، ۲۴٠) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ترکے میں والدین، اولاد، بہن بھائی اور میاں بیوی کے حصوں کے متعلق اپنے احکام نازل فرمائے۔ (النساء۱۱:۴، ۱۲) وراثت سے متعلق احکام کے نزول کے بعد وصیت کی ہدایت کے متعلق دو احتمال سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ ترکے میں متعین حصے مقرر کیے جانے کے بعد وارثوں کے حق میں وصیت کی ہدایت منسوخ کر دی گئی ہو، اور دوسرا یہ کہ وصیت کا حکم بھی اپنی جگہ برقرار ہو اور ورثاءازروئے وصیت بھی ترکے میں سے حصہ لینے کے حق دار ہوں۔ ان دونوں احتمالات سے پہلے احتمال کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں متعین کر دیا گیا ہے، چنانچہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر یہ واضح فرمایا کہ وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔ (الام ۱/۵۹، ۶٠)
سورة المائدہ میں اللہ تعالیٰ نے حالت احرام میں شکار کرنے کو حرام قرار دیا ہے: وَحُرِّمَ عَلَیکُم صَیدُ البَرِّ مَا دُمتُم حُرُماً (المائدہ ۹۶:۵)۔ قرآن کے ظاہر کے لحاظ سے زیادہ واضح مفہوم یہ ہے کہ محرم کے لیے خود جانور کو شکار کرنا ممنوع ہے، (تاہم ایک احتمال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شکار کیے ہوئے جانور کو مطلقاً ممنوع قرار دیا گیا ہو)۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے یہ معلوم ہوا کہ محرم کے لیے خود شکار کرنے کے علاوہ ایسے جانور کا گوشت کھانا بھی ممنوع ہے جسے خاص طور اس کے لیے شکار کیا گیا ہو۔ پس قرآن کی ممانعت کو اسی مفہوم پر محمول کرنا درست ہے جو سنت سے واضح ہوتا ہے۔ (الام ۱٠/۲۴۴)
قرآن مجید میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ حج کے ارادے سے نکلنے والے اپنے ساتھ قربانی کے لیے جو جانور لے کر جائیں، انھیں بیت اللہ کے قریب یعنی حدود حرم میں لے جا کر ذبح کیا جائے: ثُمَّ مَحِلُّہَا الَی البَیتِ العَتِیقِ (الحج ۳۳:۲۲) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر دشمن کی طرف سے رکاوٹ پیش آنے کی وجہ سے آدمی حرم تک نہ پہنچ سکے اور راستے میں اسے روک دیا جائے تو وہ قربانی کا ایک جانور بھیج دے اور جب تک جانور اپنے حلال ہونے کی جگہ نہ پہنچ جائے، آدمی اپنا سر نہ منڈوائے۔ (البقرة ۱۹۶:۲) یہاں حَتَّی یَبلُغَ الہَدیُ مَحِلَّہُ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ احصار کی صورت میں بھی جانور کو حدود حرم میں ہی ذبح کرنا ضروری ہے، لیکن صلح حدیبیہ کے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تھا، بلکہ حدود حرم سے باہر جہاں آپ مقیم تھے، وہیں جانوروں کو ذبح کر دیا تھا۔ امام شافعی اس سے استدلال کرتے ہیں کہ احصار کی صورت میں یَبلُغَ مَحِلَّہُ سے مراد حرم میں پہنچنا نہیں، بلکہ جہاں بھی آدمی رک جائے، وہ جانور کو وہیں ذبح کر سکتا ہے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ عربی زبان کے اسالیب میں بڑی وسعت ہے، اس لیے یَبلُغَ مَحِلَّہُ کی تعبیر اسی مقام پر جانور کو ذبح کرنے پر بھی صادق آ سکتی ہے جہاں آدمی کو روکا گیا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ احتمال موکد ہو جاتا ہے۔ (الام ۳/۴٠٠، ۴٠۱) (۲)
سورہ نساءکی آیت ۳ میں ایک سے زائد خواتین سے نکاح کی ہدایت دیتے ہوئے چار تک کی تعداد کا ذکر کیا گیا ہے۔ امام شافعی کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قرآن کے بیان کو صریح اور ناطق نہیں سمجھتے، اور اسے چار کی تحدید پر محمول کرنے میں فیصلہ کن حیثیت حدیث کو دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
فدلت سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ان انتھاءاللہ عزوجل فی العدد بالنکاح الی اربع تحریم ان یجمع رجل بنکاح بین اکثر من اربع (الام ۶/۱۳۱)
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح میں صرف چار تک عورتوں کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ ایک آدمی کے لیے بیک وقت چار سے زائد عورتوں سے نکاح حرام ہے۔”
گویا اس مسئلے سے متعلق وارد احادیث سے حتمی طور پر یہ واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی مراد چار سے زائد عورتوں سے نکاح کی ممانعت ہے۔ (الام ۶/۳۷۷، ۳۸۷، ۱۱۳، ۱۳٠)

قرآن کے ظاہری عموم کی تخصیص

قرآن مجید کی تبیین کی ایک اہم صورت یہ ہے کہ قرآن میں کوئی حکم بظاہر عام بیان ہوا ہو، لیکن سنت میں یہ واضح کیا جائے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد بعض مخصوص افراد یا مخصوص صورتیں ہیں۔ 
مثلاً قرآن مجید میں مسلمانوں کے اموال سے زکوٰة وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے (التوبہ ۱٠۳:۹) جس سے بظاہر ہر مال کا قابل زکوٰة ہونا معلوم ہوتا ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی تفصیلات کے ذریعے سے واضح فرمایا کہ کون سے اموال میں زکوٰة عائد ہوگی اور کون سے اموال اس سے مستثنیٰ ہوں گے، کن صورتوں میں زکوٰة ساقط ہو جائے گی ، زکوٰة کی مقدار کیا ہوگی اور کتنی مدت کے بعد زکوٰة وصول کی جائے گی، وغیرہ۔ یوں سنت نے واضح کیا کہ زکوٰة ہر مال میں نہیں، بلکہ چند مخصوص اموال میں مخصوص شرائط کے ساتھ عائد ہوتی ہے۔ (الام ۱/ ۸۵-۸٠، ۳/۷)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وضو کرتے ہوئے پا¶وں کو دھونے کا حکم دیا ہے۔ (المائدہ ۶:۵) تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا اور یہ ہدایت دی کہ پورے وضو کی حالت میں جس آدمی نے پاووں پر موزے پہنے ہوں، وہ مسح کر سکتا ہے۔ یوں سنت سے یہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد سب وضو کرنے والے نہیں، بلکہ بعض ہیں،یعنی بعض حالتوں میں وضو کرنے والے پاوں کو دھوئیں گے اور بعض میں مسح کریں گے۔ (الام ۱/۲۹، ۳٠)
اللہ تعالیٰ نے چوری کرنے والے مرد اور عورت کی سزا یہ بیان کی ہے کہ ان کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ (المائدہ ۳۸:۵) بظاہر الفاظ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کسی بھی قسم کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ درخت سے پھل توڑ لینے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح اگر چوری کسی غیر محفوظ جگہ سے کی گئی ہو یا اس کی قیمت ایک چوتھائی دینار سے کم ہو تو بھی چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اس وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہر طرح کی چوری پر ہاتھ کاٹ دینا نہیں ہے۔ (الام، ۱/۳٠، ۷/۳۱۹)
اللہ تعالیٰ نے زنا کی سزا یہ بیان فرمائی ہے کہ زانی مرد اور عورت دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جائیں۔ (النور ۲۴:۲) بظاہر یہ حکم ہر طرح کے زانی کے لیے بیان ہوا ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ زانی کو کوڑے لگوانے کے بجائے سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے واضح ہو گیا کہ قرآن مجید میں سو کوڑوں کی سزا جن زانیوں کے لیے بیان کی گئی ہے، اس سے مراد غیر شادی شدہ زانی ہیں۔ (الام ۱/۳٠، ۵۶)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں سے خمس کا حقدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ذوی القربیٰ، یتامی ، مساکین ا ور مسافروں کو قرار دیا گیا ہے (الانفال ۱۴:۸) یہاں ذوی القربی کے الفاظ عام ہیں اور بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام قرابت دار اس کے تحت داخل ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف بنو ہاشم اور بنو المطلب کو خمس میں سے حصہ دیا۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ذوی القربیٰ سے تمام اقرباءنہیں، بلکہ بعض مراد ہیں۔ (الام ۱/۳۱)
قرآن مجید میں ترکے میں ورثاءکے حصے بیان کرتے ہوئے بظاہر عموم کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جس کی رو سے ظاہراً تمام والدین، بہن بھائی اور میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث بنتے ہیں۔ (النساء۴: ۱۱،۱٠) تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ایسے رشتہ دار ہیں جن کا دین ایک ہی ہو۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید یہ بھی واضح فرمایا کہ اگر وارث اپنے مورث کو قتل کر دے تو بھی اسے اس کی وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ (الام ۱/۲۹)

قرآن کے احکام کی تکمیل

سنت میں احکام وہدایات کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جو قرآن میں بیان ہونے والے احکام کی تکمیل کرتا ہے، یعنی ان کے ساتھ جڑے ہوئے چند مزید سوالات کی وضاحت کرتا ہے جن کا قرآن نے ذکر نہیں کیا۔ 
مثلاً قرآن میں وضو کا طریقہ تو بیان کیا گیا ہے، (المائدہ ۶:۵) لیکن رفع حاجت کے بعد استنجا اور جنابت کے بعد غسل کا طریقہ بیان نہیں کیا گیا۔ اسی طرح وضو میں اعضاءکو کتنی مرتبہ دھویا جائے، اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی۔ نیز جن چیزوں سے وضو اور غسل ٹوٹ جاتے ہیں، ان کی کوئی جامع فہرست قرآن میں مذکور نہیں۔ ان سب چیزوں کی وضاحت ہمیں سنت میں ملتی ہے۔ (الام ۱/۱۱)
قرآن مجید میں وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے چہرے، بازو¶وں اور پا¶وں کو دھونے اور سر پر مسح کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ (المائدہ ۶:۵) تاہم احادیث میں منہ دھوتے ہوئے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا بھی ذکر ہے۔ (الام ۲/۲۵۳، ۲۲۵)
قرآن مجید میں نماز کے اعمال میں رکوع اور سجود کا ذکر کیا گیا ہے (الحج ۲۲:۷۷) لیکن اس حالت میں پڑھے جانے والے مخصوص اذکار کا ذکر قرآن میں نہیں، بلکہ ان کی تفصیل ہمیں سنت میں ملتی ہے۔ (الام ۲/۲۵۳، ۲۲۵)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سفر میں دشمن سے خوف کی کیفیت میں مسلمانوں کو نماز، قصر کر کے پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ (النساء۱٠۱:۴) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رخصت سے ایسی کیفیت میں بھی فائدہ اٹھانے کی اجازت دی جب خوف کی کیفیت نہ ہو اور فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدقہ ہے جسے اہل ایمان کو قبول کرنا چاہیے۔ (الام، ۱٠/۵٠)
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے شوہر کی طرف سے بیوی پر بدکاری کا الزام عائد کیے جانے کی صورت میں دونوں کے مابین لعان کا حکم دیا ہے۔ (النور ۲۴: ۶- ۹) تاہم قرآن میں یہ ذکر نہیں کہ لعان کے بعد کیا معاملہ کیا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ضمن میں یہ واضح فرمایا کہ لعان ہو جانے کے بعد میاں بیوی میں تفریق کر دی جائے گی اور بچے کا نسب، عورت کے شوہر سے ثابت نہیں مانا جائے گا۔ (الام ۱/۶۴، ۶/۷۳۳)
قرآن مجید میں بیوہ کے لیے عدت کا حکم بیان کیا گیا ہے اور یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اس عرصے میں وہ نیا نکاح کرنے سے رکی رہے۔ (البقرة ۲: ۲۳۴) قرآن کے ظاہر سے اس پابندی کا مطلب اتنا ہی نکلتا ہے کہ عورت نیا نکاح نہ کرے اور اپنے گھر میں ٹھہری رہے۔ تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ رکے رہنے کے مفہوم میں کچھ اور پابندیاں بھی شامل ہوں جو عدت سے پہلے عائد نہیں ہوتی تھیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوہ کو زیب وزینت اور خوشبو وغیرہ لگانے سے بھی منع فرما دیا۔ (الام، ۱/۹۱، ۶/۵۸۳)

قرآن مجید سے استنباط 

امام شافعی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شارع کی حیثیت سے قرآن مجید کی ہدایات سے زائد جو احکام بیان فرمائے ہیں، وہ بھی درحقیقت قرآن مجید ہی کی فراہم کردہ رہنمائی پر مبنی ہیں، یعنی کتاب اللہ میں جو احکام نازل ہوئے ہیں، آپ نے ان کی تہہ تک پہنچ کر اور ان کی حکمت ومعنویت کو پا کر ان سے مزید جزئیات وفروع اخذ کی ہیں۔ اس ضمن میں امام شافعی نے سنت کے احکام کا ماخذ قرآن میں واضح کرنے کے لیے کئی لطیف استنباطات کا ذکر کیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وضو میں اعضاءکو دھونے کا حکم دیا ہے۔ (المائدہ ۶:۵) یہاں لفظ غسل کا کم سے کم مصداق ایک مرتبہ دھونا ہے اور اس کی فرضیت قرآن سے واضح ہے، جبکہ اس سے زیادہ مرتبہ دھونا محتمل ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر صرف ایک دفعہ اعضاءکو دھو کر واضح کر دیا کہ قرآن کے ظاہر کے مطابق ایک ہی مرتبہ دھونا فرض ہے، جبکہ دوسرے مواقع پر دو دو یا تین تین مرتبہ دھو کر واضح فرمایا کہ یہ واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے۔ (الام ۱/۱۱، ۶۹)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حالت خوف میں اجازت دی ہے کہ مسلمان سواری پر سوار ہو کر یا پیدل چلتے ہوئے، کسی بھی حالت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ (البقرة ۲: ۲۳۶) یہاں اللہ تعالیٰ نے قبلہ رخ ہونے کی پابندی بیان نہیں کی (اور عقلاً بھی سواری پر سوارہو کر استقبال قبلہ کا التزام ممکن نہیں)۔ یوں اس رخصت سے ہی واضح ہے کہ ایسی صورت میں قبلہ رخ ہونے کی پابندی ضروری نہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر حالت خوف میں سواری پر یا چلتے ہوئے نماز پڑھنے کی نوبت آ جائے تو ایسی صورت میں قبلہ رخ ہوتے ہوئے یا اس کے بغیر، دونوں حالتوں میں نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ (الام، ۱/۵۴)
مشرکین اہل عرب فقر یا عار کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل کر دیتے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا (الانعام ۱۵۱:۶) تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حالت جنگ میں مشرکین کے بچوں کو قتل کرنا ممنوع ہے، جبکہ کسی بھی جان کو ناحق قتل کرنے کی ممانعت کا مستقل اخلاقی اصول بھی قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔ (الام، ۷/۶)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے مہر کی مقدار طے کرنے کی نسبت شوہروں کی طرف کی ہے۔ (البقرة ۲: ۲۳۵، ۲۳۶) چونکہ مہر عورت کا حق ہے جو شوہر پر لازم ہوتا ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ اس کی مقدار طے کرنے میں عورت کی رضامندی بھی شامل ہونی چاہیے۔ یوں قرآن سے واضح ہے کہ مہر کی مقدار فریقین کی باہمی رضامندی سے طے کی جائے گی اور اس کی کوئی تحدید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں کی گئی۔ چنانچہ اس کی حیثیت وہی ہے جو بیع میں کسی چیز کی قیمت طے کرنے کی ہے، یعنی جیسے مبیع کی قیمت فریقین کی رضامندی سے طے کی جاتی ہے، اسی طرح مہر بھی میاں بیوی کے باہمی اتفاق سے کیا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی سنت میں اسی کی وضاحت فرمائی ہے کہ جس چیز پر دونوں اہل خانہ رضامند ہو جائیں، وہی مہر ہے۔ (الام، ۶/۱۵۳)
قرآن مجید میں بیویوں سے استمتاع کے حوالے سے فرمایا گیا ہے کہ: فَاتُوا حَرثَکُم اَنَّی شِئتُم (البقرة ۲: ۲۲۳)۔ امام شافعی لکھتے ہیں کہ یہ آیت بظاہر دو معنوں کی محتمل ہے۔ ایک یہ کہ بیوی سے کسی بھی طریقے سے استمتاع کرنا یعنی وطی فی الدبر (anal sex) بھی مباح ہے، اور دوسرا یہ کہ ایسی جگہ استمتاع مراد ہے جو کھیتی بن سکتی ہو، یعنی اس سے اولاد پیدا ہو سکتی ہو۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کے مابین اسی وجہ سے اختلاف ہے۔ بعض وطی فی الدبر کو حلال کہتے ہیں اور بعض حرام۔ تاہم احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی سے دبر میں استمتاع کو حرام قرار دیا۔ امام شافعی قرآن مجید سے اس کے حق میں دو شواہد پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حالت حیض میں خواتین سے الگ رہنے کی ہدایت کی ہے اور فرمایا ہے کہ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں، ان کے قریب نہ جاﺅ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی سے استمتاع صرف قبل میں کیا جا سکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بیوی کے لیے کھیتی کی تعبیر اختیار کی ہے اور اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ بیوی سے استمتاع اسی جگہ ہو سکتا ہے جہاں سے بچے کی پیدائش ہو سکتی ہو۔ (الام ۶/۲۴۲، ۲۴۴، ۴۴۳) 
مذکورہ آیت میں ہی حالت حیض میں بیوی کے پاس جانے کی ممانعت سے امام شافعی استدلال کرتے ہیں کہ شرم گاہ کے علاوہ جسم کے کسی دوسرے حصے سے استمتاع حرام نہیں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ شوہر کے لیے مافوق الازار بیوی سے استمتاع درست ہے۔ (الام، ۶/۲۴۳، ۴۴۲)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ایسے افراد کو جن کے نکاح میں چار سے زیادہ بیویاں تھیں، اسلام قبول کرنے پر یہ اختیار دیا کہ وہ اپنی بیویوں میں سے جن چار کو نکاح میں رکھنا چاہیں، ان کو رکھ کر باقی سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ (سنن ابی داود، کتاب الطلاق، باب من اسلم وعندہ نساءاکثر من اربع او اختان، رقم ۱۹۵۲) امام شافعی اس استنباط کے حق میں قرآن سے یہ استشہاد پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ربا کو ممنوع قرار دیتے ہوئے مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا (البقرة ۲: ۲۷۸) کو چھوڑ دینے کی ہدایت کی ہے، لیکن اس سے پہلے دور جاہلیت میں جو ربا لوگ لے چکے تھے، اس سے تعرض نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت کفر میں لوگوں نے جو خلاف شریعت اعمال کیے، ان سے شریعت میں صرف نظر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس حالت میں کیے گئے عقود کو معتبر مانا جائے گا اور شوہر کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی چار پسندیدہ بیویوں کو چن لے۔ (الام ۶/ ۱۳۲)
قرآن مجید میں اہل ایمان کو حالت احرام میں خشکی کے جانوروں کا شکار کرنے سے منع کیا گیا ہے : وَحُرِّمَ عَلَیکُم صَیدُ البَرِّ مَا دُمتُم حُرُماً (المائدہ ۹۶:۵) الفاظ سے واضح ہے کہ یہاں ان جانوروں کی حرمت بیان کرنا مقصود ہے جو احرام سے پہلے خوراک کے لیے حلال تھے، اور وہ جانور زیر بحث نہیں جو ویسے بھی حرام ہیں، کیونکہ ان کی حرمت کے لیے سابقہ حکم ہی کافی تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حرام جانوروں، مثلاً درندوں کو ان کے حملے یا ضرر سے بچنے کے لیے قتل کرنے سے روکنا آیت کی مراد نہیں ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بات واضح کی اور فرمایا کہ پانچ جانوروں کو حدود حرم کے اندر اور باہر، کسی بھی جگہ قتل کرنا مباح ہے۔ (الام ۳/۴۶۴، ۴۶۵) 
احادیث میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن پر شب خون مارنے یعنی رات کے وقت بے خبری میں حملہ کرنے کی اجازت دی اور جب یہ پوچھا گیا کہ اس کی زد میں ان کی عورتیں اور بچے بھی آئیں گے تو فرمایا کہ ان کا شمار بھی انھی میں ہوتا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر ان کو قصداً قتل نہ کیا جائے اور وہ بلا قصد حملے کی زد میں آ جائیں تو اس کی وجہ سے حملہ کرنے والوں کو کوئی گناہ نہیں ہوگا اور نہ کوئی کفارہ یا دیت لازم آئے گی۔ امام شافعی اس کے حق میں سورة النساءکی آیت سے استشہاد کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی مسلمان کے ہاتھ سے کوئی دوسرا مسلمان، جس کا تعلق کسی کافر غیر معاہد قوم سے ہو، بلا ارادہ قتل ہو جائے تو اس پر قاتل کو صرف کفارہ ادا کرنا ہوگا، یعنی دیت اس پر لازم نہیں ہوگی۔ (النساء۹۲:۴)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کی ایسی خواتین اور بچے جو نہ تو مومن ہیں اور نہ مسلمانوں کے ساتھ ان کا معاہدہ ہے، اگر لڑائی میں مارے جائیں تو بدرجہ اولیٰ اس پر گناہ، کفارہ، قصاص یا دیت لازم نہیں آئے گی۔ (الام، ۱/۱۳۵)

حواشی


(۱) یہ نقطہ نظر جلیل القدر تابعی سعید بن المسیب سے بھی منقول ہے، تاہم ابن کثیر نے اس کے ثبوت کو محل نظر قرار دیا ہے۔ (تفسیر القرآن العظیم، ۲/۳۵۶)
(۲) امام صاحب کی یہ توجیہ کمزور معلوم ہوتی ہے اور قرآن مجید کے الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تک ہدی اپنے حلال ہونے کی جگہ نہ پہنچ جائے، اپنے سرووں کو مت منڈواﺅ۔ (البقرة ۱۹۶:۲) اگر جانور کو اسی جگہ ذبح کرنا جائز ہو تو اس کے لیے اس کا انتظار کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ جانور اپنے محل تک پہنچ جائے۔ اس لیے درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ احصار کی کیفیت میں بھی قربانی کے جانور کو حرم تک پہنچانا ضروری ہے۔ البتہ اگر دشمن کی طرف سے رکاوٹ کی نوعیت ایسی ہو کہ قربانی کے جانور کو بھی بھیجنا ممکن نہ ہو تو پھر عذر کے اصول پر اسے حدود حرم کے باہر ذبح کرنا بھی جائز ہو سکتا ہے اور حدیبیہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی نوعیت بھی یہی تھی۔ قرآن مجید نے بھی سورة الفتح میں اس صورت حال کا ذکر اسی حوالے سے کیا ہے کہ وَصَدُّوکُم عَنِ المَسجِدِ الحَرَامِ وَالہَدیَ مَعکُوفاً اَن یَبلُغَ مَحِلَّہُ (الفتح ۲۵:۴۸) یعنی مشرکین نے مسلمانوں کو بھی روک دیا تھا اور قربانی کے جانوروں کو بھی حرم تک پہنچنے کی اجازت دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے تھے۔ گویا عذر اور مجبوری کی صورت میں تو ایسا کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر احصار کے باوجود جانور کو حرم تک بھیجنا ممکن ہو تو پھر قرآن کی ہدایت یہی ہے کہ اسے حدود حرم میں ہی ذبح کیا جائے۔ واللہ اعلم

حضرت مولانا حمد اللہ آف ڈاگئیؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

استاذ العلماء حضرت مولانا حمد اللہ صاحب آف ڈاگئی کی وفات حسرت آیات کی خبر مجھے کراچی کے سفر کے دوران ملی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ ہمارے ان پرانے بزرگوں میں ایک اہم شخصیت تھے جنہیں عوام کے ساتھ ساتھ اہل علم میں بھی مرجع اور راہنما کی حیثیت حاصل تھی اور بہت سے مشکل معاملات و مسائل میں ان سے رجوع کر کے اطمینان ہو جاتا تھا کہ متعلقہ مسئلہ و معاملہ کا صحیح رخ کیا ہے۔ مجھے ان کی خدمت میں ڈاگئی حاضری کی سعادت ہوئی اور مختلف علمی و دینی محافل میں ان کے ساتھ استفادہ اور دعاؤں کا تعلق رہا۔
ایک موقع پر جب جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمان گروپ میں تقسیم تھی، حضرت مرحوم کے ساتھ درخواستی گروپ کے ایک وفد میں بلوچستان کے چند روزہ دورے کی رفاقت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اسی موقع کی بات ہے کہ چمن میں سینکڑوں علماء کرام کے ایک اجتماع میں اسلامی معاشیات کے حوالہ سے ان کی وقیع علمی گفتگو سن کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ حضرت مولانا شمس الحق افغانیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے بعد وہ پہلی شخصیت ہیں جن سے اسلامی معاشیات کے موضوع پر اس قدر جاندار علمی گفتگو سننے کو ملی ہے۔ میں نے حضرتؒ سے اس کا تذکرہ بھی کیا کہ آپ کا عمومی تعارف تو اس سے مختلف مسائل کے حوالہ سے ہے مگر آپ تو ہماری لائن کے بزرگ ہیں اور ہمیں ایسے سرپرستوں کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے مسکرا کر اپنے ایک معاصر بزرگ کا نام لیا اور فرمایا کہ ان کی وجہ سے مجھے بعض مسائل میں الجھنا پڑا ورنہ میرا ذوق بھی یہی ہے۔
حضرت مولانا حمد اللہؒ نے سو سال سے زیادہ عمر پائی اور زندگی بھر درس و تدریس میں مصروف رہے۔ صوابی کے علاقہ میں پنج پیر، ڈاگئی اور شاہ منصور کے تین علمی مراکز دورۂ تفسیر قرآن کریم کے عنوان سے قرآن کریم کے علم و معارف کی تدریس و فروغ کے باب میں عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ حضرت مولانا حمد اللہ جانؒ کے اس علمی مرکز میں ہزاروں علماء کرام نے ان سے فیض حاصل کیا جو اب دنیا کے مختلف حصوں میں دینی خدمات میں مصروف ہیں اور حضرتؒ کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔ اللہ تعالٰی کا حضرت مرحوم کے درجات جنت میں بلند فرمائیں اور تمام تلامذہ، متعلقین اور اہل خاندان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مدینۃ العلم قطر میں چھ دن ۔ (مدرسہ ڈسکورسز کے ونٹر انٹنسو ۲٠۱۹ء کی روداد)

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

گزشتہ سال بھی مدرسہ ڈسکورسز کا ونٹرانٹینسِو (winter intensive) قطرمیں رکھا گیا تھا اور جامعہ حمدبن خلیفہ ہی نے اس کی میزبانی کی تھی، اس میں راقم شریک نہ تھا۔اب کی باربھی ہمارے انٹینسِوکی ضیافت جامعہ حمدبن خلیفہ نے قبول کی تاہم اِس بارپروگرام کی نوعیت تھوڑی مختلف یوں تھی کہ بجائے مختلف موضوعات پر باہرسے ماہرین کو بلانے کے، اس سال یہ نظم کیاگیاتھاکہ مدرسہ ڈسکورسز کے سال سوم (تحقیق ورسرچ)کے طلبہ اپنے اپنے رسرچ پیپیرزکی پرزینٹیشن دیں گے۔ان کے پیپرزیاان کے خلاصے تمام شرکاءکوپہلے ہی بھیج دیے گئے تھے تاکہ وہ ان کوپڑھ کر،سمجھ کر اور تیارہوکرآئیں اوران موضوعات پر بحث ومباحثہ کی محفل جمے ۔ اس سے تحقیق کاروںکوفیڈبیک ملے گااورشرکاءان پربحث وتحقیق کے نئے گوشوں سے آشنائی حاصل کرسکیں گے ۔
مدرسہ ڈسکورسزنوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں اسلامیات کے استاداور بین الاقوامی شہرت کے حامل معروف اسکالرپروفیسرابراہیم موسیٰ کی قیادت میں ایک تین سالہ آن لائن کورس ہے جومدارس کے فارغین کے لیے جاری کیاگیاہے۔ پہلے سال میں اسلامی علمی ورثہ سے منتخب متون پڑھائے جاتے ہیں، دوسرے سال میں سائنس لٹریسی پر فوکس کیاجاتاہے اورتیسرے سال کے طلبہ کسی ایک موضوع پر رسرچ کرتے ہیں۔سال میں دوبارسردی اورگرمی کی چھٹیوں میں اس کے ہفت روزہ یاپندر ہ روزہ تربیتی پروگرام ہوتے ہیں جوزیادہ تربیرون ملک رکھے جاتے ہیں۔ہمارایہ انٹینسوبھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھا۔ ہم لوگ مقامی ٹائم کے مطابق ۳ بجے دن میں دوحہ کے اپنے مستقرپہنچ گئے تھے ۔ ہماراقیام الفندق، الغرافہ (ہوٹل پریمئر ان ) میں تھاجوقطرایجوکیشن سٹی میں ہی واقع ہے۔
پروگرام کا نظم یوں تھاکہ مدرسہ ڈسکورسز کے چاروں لیڈفیکلٹی پروفیسرابراہیم موسی ٰ،مہان مرزا، مولانا عمارخان ناصر اور ڈاکٹروارث مظہری کے رسرچ گروپوںمیں سے ہرایک کوایک ایک دن دیاگیا۔پہلے چار مقالے پیش ہوتے۔ہرمقالہ پر خاصاڈسکشن ہوتا۔اس کے بعددوپہرکی نشستوں میں تمام شرکاءکوچارگروپوںمیں تقسیم کر دیا  جاتا اور صبح کے مباحثہ میں سامنے آئے سوالات پر مزیدتنقید،تنقیح اوربحث ہوتی ۔چاربجے تک پروگرام ختم ہو جاتا۔ اس کے بعدرات میں دوسرے دن کی ریڈنگ کی تیاری کی جاتی۔ سیمینارکی شکل یہ تھی کہ پہلے مقالہ نگار سلائڈ اور پروجیکٹرکی مددسے دس سے پندرہ منٹ میں اپنے پیپرکا خلاصہ بیان کرتااوراہم نکات شرکاءکے سامنے رکھتا۔ پھر تقریبا ۲٠ منٹ اس پر شرکاءسوال جواب کرتے اورکھلامباحثہ ہوتا۔ڈسکشن کی زبان اردواورانگریزی تھی۔شرکاءہندوپاکستان کے علاوہ نوٹرے ڈیم سے آئے تھے جوکل ملاکرپچاس  طلبہ وطالبات سے زایدتھے۔
سب سے پہلے مولاناعمارخان ناصر کے رسرچ گروپ نے پرزینٹیشن دی۔اس میں حافظ عبدالرحمان نے کلامی مسائل میں مختلف مکاتب فکر کے تاویل کے اصول ومناہج پرروشنی ڈالی ۔انہوں نے بتایاکہ تاویل کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ زبان کے معانی مختلف ہوتے ہیں۔ لفظ کا ایک معنی لفظی اورظاہری ہوتاہے اورایک معنوی ومجازی۔ پھرمتن خبریاانشادوطرح کاہوتاہے۔ انشاءیعنی احکام میں چونکہ عمل کا مطالبہ ہے، اس لےے اس میں تاویل جائز ہے، مگرخبرمیں تاویل جائز نہیں۔ یہ محدثین کا مسلک ہے ۔اس کے مقابلہ میں متکلمین کا مسلک تاویل کا ہے ،پھرمتکلمین کے کئی گروپ ہوجاتے ہیں مثلاً معتزلہ ،اشاعرہ ماتریدیہ وغیرہ ۔یہ توماضی کا قصہ ہوا،آج اِن کلامی مباحث سے ہمیں کیامددمل سکتی ہے، اصل سوال یہ ہے۔اس پر ابھی شایدحافظ صاحب آگے کام کریں گے ۔
زیدحسن کے مقالہ “شریعت وتمدن کا باہمی تعلق ،شاہ ولی اللہ کے افکارکی روشنی میں” میں یہ بات کہی گئی کہ شرائع کی اساس تمدن پر رکھی جاتی ہے۔ یہ شاہ ولی اللہ کا نظریہ ہے اوراس بات پر فوکس کرکے ان سے پہلے شایدکسی نے اس چیزکوبیان نہیں کیا۔شاہ صاحب اپنے فلسفیانہ ذہن سے خدا، انسان اورمعاشرہ ان تینوںکو دیکھتے ہیں اوراپنے نظریہ کی بنیادرکھتے ہیں۔شاہ صاحب کے مطابق انسان عام حیوانوںکی طرح کام نہیں کرتابلکہ کسی کام کے کرنے کے عام اصول رکھتاہے۔ مثلاًوہ مستقبل کے بارے میںسوچتا ہے، عام حیوان نہیں سوچتے ۔اس کے کام میں لطافت وحسن ہوتاہے ۔ ان سب کے مجموعہ کورائے کلی کہتے ہیں اوررائے کلی پر مبنی عملی اصولوںکوشاہ صاحب سنت راشدہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ شاہ صاحب کے نزدیک مذکورہ اصولوںکی حفاظت کے لیے اللہ نے شریعت نازل کی ہے۔دین وشریعت میں فرق عام وخاص کا ہے۔البتہ مابعدالطبیعا ت اورامورتعبدیہ ارتفاقات (تمدنی امور)سے الگ ہیں۔
شاہ صاحب کا ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ شریعتوںکی تشکیل انسانی عادا ت ومالوفات پر ہوتی ہے۔اب اس پر سوال اٹھتاہے کہ شریعت کولوگوں کے مزاج وطبیعت پر مبنی مان لیاجائے تواگرمزا ج وطبیعت بدل جائے توکیااحکام بدل جائیں گے ؟اگرایساہے توپھراسلام آخری شریعت کیسے ہوا؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اصول توشاہ صاحب نے یہ بنادیامگروہ خودبھی جزوی احکام کی تشریح روایتی طورپر (اسلام کوابدی مان کر)ہی کرتے ہیں۔ اس کی توجیہ کیاہے ؟
مولاناوقاراحمدنے حدودوتعزیرات کی ابدیت اوربدلتے حالات میں عملی صورتیں کے عنوان سے مولانا عبیداللہ سندھی کے افکارکا مطالعہ پیش کیا۔ مولاناسندھی نے روایت سے ہٹ کرلیکن روایت کے اندررہتے ہوئے کام  کیااورشاہ ولی اللہ کے فکرکی تشریح کی۔تجدیدکے حاملین میں وہ یوںمختلف ہیں کہ وہ حدیث کوردنہیں کرتے بلکہ اس کی نئی توجیہ پیش کرتے ہیں۔مولاناکی رائے یہ ہے کہ موطااہل مدینہ کا قانون ہے اوربخاری ومسلم وغیرہ اس کی شرحیں اوراس پر اضافے ہیں۔مولاناسندھی کا کہناہے کہ بنیادی قانون قرآن میں دے دیاگیاہے، تفصیلی قانون انسان خودمرتب کرے گا اوراس میں غلطیوں کا امکان ہے جس کواللہ معاف کردے گا۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حدودعادی مجرموں کے لیے ہیں۔ان میں حالات کی تبدیلی سے تبدیلی کی جاسکتی ہے اوراسی طرح زکوة کے نصابات میں بھی ۔مختلف سوال وجواب کی روشنی میں بظاہرایسامحسوس ہواکہ مولاناسندھی کے خیالات منضبط اصولوں پر مبنی نہیں ہیں۔لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ علما مصلحین کے طبقہ میں مولاناسندھی جیسے اوریجنل فکررکھنے والے اورزمانہ سے آگے دیکھنے والے مفکرین شاذونادرہیں۔المیہ یہ ہواکہ روایتی علمانے ان کی فکرکوبالکل مستردکردیا۔اب پاکستان میں ان پر کام ہورہاہے۔
مولانا عمار خان ناصر کے مقالہ“مسلم قومی ریاستوں میں غیرمسلموں کے آئینی حقوق” میں جوچنداہم باتیں سامنے آئیں، وہ یہ ہیں : غیرمسلموںکی حیثیت کے بارے میں مسلمان جوکچھ لکھ رہے ہیں، وہ زیادہ ترفقہی اسلو ب میں لکھتے ہیں۔ماڈل ہم جدیددورکا لیتے ہیں اور جزئیات فقہی نظائرسے لے لیتے ہیں۔حالانکہ سسٹم کوسسٹم کے سامنے رکھ کردیکھیں تو اسلامی نظام اورغیراسلامی نظام دونوںمیں(جزئیات کے اعتبارسے )کچھ مماثلت کے باوجودکلی طورپر بنیادی سطح کا اختلاف ہے۔ ذمہ کا معاہدہ اورشہریت یہ دونوں بالکل الگ الگ چیزیں ہیں، دونوں کو الگ رکھناچاہیے۔ فیملی لازاورحدودکے مسائل (روایتی فکرمیں )قطعی اصولوں پر مبنی بتائے جاتے ہیں۔ البتہ سیاسیات کے بارے میں بہت سے علمایہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسلام نے کسی ماڈل کا پابندنہیں کیا۔ کچھ ضروری اصول دے دیے ہیں، باقی سب چیزیں اجتہادی ہیں۔یعنی اس ضمن ہمیں جوماڈل ملاہے، اس کا ابدی ہونامطلوب نہیں۔ ایک اخلاقی سوال یہ بھی ابھرتاہے کہ چالیس فیصدمسلمان آج غیرمسلم ملکوںمیں رہتے ہیں۔ اگرمسلم ممالک میں غیرمسلموں کواہل الذمہ قراردیاجاتاہے تو آج مسلمان کس منہ سے سیکولرملکوںمیں اپنے لیے انسانی حقو ق طلب کریں گے؟ مقالہ سے ایک اہم نکتہ یہ نکل کرسامنے آیاکہ تاریخی طورپر غیرمسلموں کو مناصب دینے اوران سے کام لینے کے مسئلہ میں مسلمان حکمرانوں اورفقہاءکے مابین ایک کشمکش اور نزاع نظرآتی ہے۔مولاناعمارصاحب نے رائے دی کہ حکمرانوں کے تعامل کوبھی نظائر میں شمار کیا جانا چاہیے۔ راقم اس رائے سے کلی طورپر متفق ہے کیونکہ یہ عملی مسئلہ ہے اورعملی مسائل میں اہل حل وعقداورحکمران علماءکے مقابل کہیں زیادہ صائب الرائے واقع ہوئے ہیں۔فقہاءاورعلما فقہی جزئیات میں پھنس کرجاتے ہیں جبکہ ارباب حل وعقدعملی مسائل ومصالح کی بنیادپر فیصلہ کرتے ہیں۔جزئیات سے چمٹے رہنے کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلاہے کہ اسلام کی مبنی برنصوص سیاسی فکرمیں کوئی ارتقاءنہیں ہوااورماوردی وابن خلدون سے آگے بڑھ کرانسانی تجربات پر مبنی کوئی سیاسی فکرسامنے نہیں آسکی ہے۔
دوسرے دن پروفیسرماہان مرزاکے رسرچ گروپ نے میدان میں مورچہ لیا۔ اس کے سورماﺅںمیں شہزاد حسین نے نظریہ ارتقاءکے سلسلہ میں علماءدیوبندکاموقف بتایااوراس پرسخت تنقیدکی ۔اس سلسلہ میں انہوں نے فتاوی کی کتابوں سے جومواداستعمال کیا، وہ بڑاخام قسم کا تھا۔اس سلسلہ میں اصل کام مولاناوحیدالدین خاں کا ہے جن کی کتاب’ مذہب اورجدیدچیلنج،‘مذہب اورسائنس‘ اور’اظہاردین ‘میں سائنسی موضوعات پر وسیع مطالعہ کی روشنی میں اظہارخیال ملتاہے اورانہوں نے ریشنل بنیادوں پر ارتقاءکومستردکرنے کی کوشش کی ہے۔روایتی علما اورمفتیان نے سائنس کے بارے میں چندمفروضات سنی سنائی باتوں پر قائم کرلیے ہیں، اس لےے ان کی کتابوں یافتاوی میں اس کے بارے میں کوئی کام کی بات موجودنہیں ۔شہزاد حسین نے البتہ عالم عرب کے بارے میں بتایاکہ وہاں ارتقاءوغیرہ کے بارے میں اتناتوحش یابے خبری نہیں پائی جاتی جتنی برصغیرمیں پائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نے ارتقاءکے بارے میں مثبت رائے دی تھی اوراپنے خطبات بہاولپورمیں ایک جگہ بتایاہے کہ مسلم فلاسفراورصوفیاءکے ہاں یہ تصورکسی نہ کسی شکل میں پایاجاتاہے، اس کے لیے انہوں نے ابن مسکویہ کا حوالہ دیاہے۔
دوسرے انقلابی تحقیق کاروقاص احمدنے تاریخ عظیم The Big History کا تعارف کرایااوربتایاکہ کس طرح اس سے پورا ورلڈویو تبدیل ہوکررہ جاتا ہے اورمذہب کے سامنے کیساشدیدچیلنج پیداہوجاتاہے۔ ان کے مطابق تاریخ عظیم، ارتقاسے بھی آگے کی چیز ہے اوراس سے مذہب کی جڑبنیادہی ختم ہوکررہ جاتی ہے۔تاہم اس پر راقم کا سوال یہ ہے کہ تاریخ عظیم کی بنیاد Big Bang  تھیوری ہے ۔سائنس کے نزدیک کائنا ت کی پیداپش بگ بینگ کے ذریعہ تقریبا 13بلین سال پہلے ہوئی ۔اب سوال یہ ہے کہ یہ انفجارعظیم کس نے کیا، یہ کیوںکرہوا، یہ اسی وقت کیوں ہوا، اس سے پہلے یابعدمیں کیوں نہیں ہوا؟سائنس کہتی ہے کہ اندھے قوانین فطرت کے مطابق خودبخودہوا۔ مذہب کہے گاکہ خدانے کیا۔اسی طرح سائنس اس سوال کا جواب بھی نہیں دیتی کہ قوانین فطرت کس نے بنائے اوران کوکون حرکت دیتاہے؟سائنس کہے گی کہ یہ قوانین خودنیچرکے اندرسے برآمدہوئے، مذہب کہے گاکہ خدانے بنائے۔ اس لیے مجھے ایسالگتاہے کہ تاریخ عظیم وغیرہ سے متوحش یاخوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
محمد تہامی بشرعلوی نے اپنے معنی خیز پیپر“سائنسی دوراورمذہبی بیانیے” میں اب تک پیش کیے گئے مذہبی بیانیوں اوران پر واردہونے والے اشکالات کا جائزہ لیا۔ان کے مطابق مذہبی متون کی تعبیرمیں جومناہج اختیار کیے گئے، ان میں ایک یہ ہے کہ متن کوکثیرالمعانی جان کرلغت کے اشتقاقات کی بنیادپر معنی متعین کیاجائے ۔یہ منہج غلام احمدپرویزنے اختیارکیااوراس پر سب سے بڑااعتراض تویہی واردہوتاہے کہ اس میں بغیرکسی دلیل کے لغت کے واضح اورمتبادرمعنی کوچھوڑکرغیرمتبادرمعنی کی طرف جایاجاتاہے جس کی کوئی بنیادنہیں ہے۔دوسرامنہج سرسیدکا ہے کہ معنی تک رسائی  میں انسانی علم کا ارتقا تسلیم کیاجائے اورجس زمانہ میں رائج علم کے مطابق جو معنی فٹ بیٹھے، اس کوقبول کرلیاجائے ۔انسانی علم وتجربہ بڑھے گاتوواحددرست معنی بھی سمجھ میں آجائے گا۔یہ منہج پہلے سے بہترہے، مگراشکالات سے خالی نہیں۔اس میں فرض کیاجاتاہے کہ ورک آف گاڈاورورڈ آف گاڈ میں تضادنہیں ہوسکتا، اس لیے ورڈ آف گاڈکوورک آف گاڈ کے مطابق سمجھاجائے گا۔سوال یہ ہے کہ اس کے الٹ کیوں نہیں ہوسکتاکہ ورک آف گاڈکو ورڈ آف گاڈ کے مطابق سمجھاجائے جیساکہ روایتی علماءکہتے ہیں؟ 
ایک منہج یہ ہے کہ صریح عقل اورصریح نقل میں تعارض نہیں ہوگا۔ یہ مولاناتھانوی کا نقطہ نظرہے۔ انہوں نے اس کی چارصورتیں بیان کی ہیں۔البتہ آج تاریخ عظیم اورارتقاءکوتسلیم کرلینے کے بعدعقل ونقل میں تعارض پایاجا رہا ہے تو اس کوکیسے دورکیاجائے گا؟اس سوال کا کوئی جواب اس نقطہ نظرکے پاس نہیں ہے۔ایک بیانیہ یہ ہے کہ سائنس اورمذہب دونوںکا مقصداوردائرہ کارالگ الگ مان لیاجائے ۔یہ مولاناانورشاہ کشمیری کی رائے ہے۔ ایک بیانیہ ڈاکٹرفضل الرحمن کا ہے کہ سامعین کے شعورکی جوسطح تھی، اس کوسامنے رکھ کرایک بات مذہبی متن میں کہہ دی گئی ۔اس تعبیرکومان لینے کے نتیجہ میں کائنات کی تفہیم سائنس سے ہوگی، مذہب سے نہیں ہوگی ۔بلاشبہ فضل الرحمن کے ہاں جدیددورکا گہراادراک پایاجاتاہے مگریہ سارے بیانیے اشکالات سے خالی نہیں۔ ان پر غوروفکرکا سلسلہ جاری رہناچاہیے۔البتہ راقم کا رجحان ابھی تک مولاناانورشاہ کشمیری کی رائے کی طرف ہے، بلکہ کشمیری اورفضل الرحمن کی رایوںمیں مطابقت دی جاسکتی ہے۔
اگلی مقالہ نگارمریم مدثرکی غیرموجودگی میں سمیراربیعہ نے ان کامقالہ پیش کیاجس میں بتایا گیا تھا کہ علاج اور enhancement میں فرق یہ ہے کہ موخرالذکرمیں انسان کی صلاحیت کوفطری حدسے بڑھا دیا جاتا ہے۔ مثلاً اس کی نیند میں کمی لائی جاسکتی ہے، اس کی اغلاط کی شرح میں کمی آئے گی ،اس کے فہم میں اضافہ ہوگا، جنین کی بیماریوں کو ختم کیا جا  سکے گا، بولنے اور یاد رکھنے کی صلاحیتیں بڑھیں گی، نیوروسائنس میں اس سے کام لیاجاسکتاہے۔ مثلا 3 D پرنٹنگ ترکیب سے انسانی دماغ میں مطلوبہ تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ پہلے صحت ومرض کا تصوریہ تھاکہ اگر کوئی بیمارنہیں ہے تووہ صحت مند سمجھاجاتا تھا، مگر آج انسان صحت مندتب سمجھاجائے گا جب بیماربھی نہ ہواوروہ اپنے معاشر ہ میں فٹ ہوجائے اورخوش رہ سکے ۔مقالہ بڑامعلوماتی تھااوراس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ سائنس اور خصوصاً میڈیکل سائنس اب کس رخ پر جانے والی ہے اور اس سے انسان کے مستقبل پر کیا مثبت ومنفی اثرات پڑیں گے۔
پروفیسر مہان مرزا کا مقالہ Egalitarian Turn as Copernican Revolution: Theorizing Continuity and Change in Islamic Theology and Law کے موضوع پر تھا۔  اس اہم مقالہ میں کہاگیاکہ ہمیں اپنی روایت کومحبت کے ساتھ لینے کے ساتھ ہی اس پر تنقیدکا عمل بھی جاری رکھنا چاہیے۔ان کا سوال تھاکہ کیااسلامی قانون میں تبدیلی اورcontiniuty برابرجاری رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے بتایا  کہ ارسطوکے ورلڈویومیں نالج کی تشریح الگ تھی، آج اس کا تصوربالکل بدل چکاہے۔ماہان صاحب کے مقالہ کا خلاصہ یہ تھاکہ کسی قوم کی تھیولوجی موجودہ دورکی Cosmology کے مطابق ہی ہونی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ ارسطوکے ورلڈویوکے مطابق فقہاءنے معاشرت وغیرہ کے جواحکام مرتب کیے، ان کے جوجوازہم دیتے آئے ہیں، وہ اب کام نہیں کریں گے کیونکہ اب ورلڈویوتبدیل ہوچکاہے۔ انہوں نے بتایاکہ کیشا علی کے مطابق خود قرآن سے ایسے اصول مل سکتے ہیں جن سے جدیدیت کے مسائل حل کیے جاسکیں۔سائنس کے مفکر تھامس کہن ( Kuhn)کہتے ہیں کہ جب روایت سے مختلف آراءاتنی زیادہ ہوجائیں کہ ان کونظراندازکرنامشکل ہوجائے تو پھر بحران پیداہوجاتاہے اوربحران سے نکلنے کے لیے ایک کلی تبدیلی( paradigme shift)کی ضرورت ہوتی ہے۔
مہان صاحب کہتے ہیں کہ آج ہماری روایت بھی بحران سے گزررہی ہے، اس لیے پیراڈائم شفٹ کی ضرورت ہے۔تاہم اس پوزیشن پر سوال یہ بنتاہے کہ سائنسی حقائق اوردینی حقائق دونوں یکساں کیسے ہوسکتے ہیں اوردونوںمیں ایک ہی طرح کے tools کیسے استعمال کیے جاسکتے ہیں؟زیادہ صحیح پوزیشن یہ معلوم ہوتی ہے کہ سائنس کی بنیادپر مذہب کوثابت نہیں کیاجاسکتااورنصوص کی سائنٹیفک اصولوں پر تاویل سے مذہب اورسائنس دونوں کے ساتھ انصاف نہ ہوسکے گا۔کیونکہ جیساکہ غامدی صاحب کہتے ہیں، سائنسی حقائق مذہب کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔مذہب کا مسئلہ انسان کا تزکیہ نفس،آخرت کی تذکیراوراخلاق کی تطہیرہے۔ہاں، جب مذہب کوساری زندگی پر پھیلایا جاتا ہے جیساکہ دین کی سیاسی تعبیرکے حاملین کرتے ہیں تواس میں عقل کے کردار کی نفی ہوجاتی ہے اور لاینحل مسائل پیداہوتے ہیں۔
انٹینسِوکے تیسرے دن ڈاکٹروارث مظہری اوران کی ٹیم نے اپنے مقالے پیش کیے۔ وارث مظہری صاحب کے ریسرچ پیپرکا عنوان تھا: ’’قرآنی نصوص کی تاویل کا مسئلہ ابن رشدکے حوالہ سے“۔ انہوں نے تاویل کے قدیم مناہج سے یکسرمختلف جدید منہج کا جائزہ لیاجو آج کے ماڈرنسٹوں کا ہے۔اس کے نمائندہ نام ہیں: نصر حامد ابوزید،حسن حنفی،محمدشحرور وغیرہ۔یہ منہج اس کا قائل ہے کہ قرآن کی ازسرنوقراءت عہدجدیدکے ذہن کوسامنے رکھ کرکی جائے۔یہ منہج قدیم روایت کوپوری طرح مسترد کرتا ہے۔ ڈاکٹر وارث کا کہنا تھاکہ ماڈرنسٹوں کی یہ مستردکرنے والی فکرتوصحیح نہیں البتہ قدیم وجدیدکے درمیان ایک درمیانی منہج ابن رشدکا ہوسکتاہے۔ اس کے بعدانہوں نے ابن رشدکے منہج کا تفصیل سے جائزہ لیا۔راقم کا اس پر سوال یہ ہے کہ ابن رشدبنیادی طورپر ارسطوکے مقلداورشارح ہیں۔آج جبکہ ارسطوکا ورلڈویومستردہوچکاہے توہم ان کے منہج کوکس طرح follow کرسکتے یااس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟
محمدفرقان نے اپنے پیپرمیں احترام انسانی Human Dignity  کے تصورکا جائزہ لیا۔انہوں نے بتایاکہ تھامس اکویناس کے خیال میں گنا ہ کی وجہ سے انسان کا احترام جاتارہتاہے۔بدھ ازم میں احترام انسان ،حیوان اورشجروحجرسب کوحاصل ہے ۔اسلام میں امام شافعی اس کواسلام سے جوڑتے ہیں اورغیرمسلم کے لیے احترام نہیں مانتے، جبکہ آلوسی اورامام ابوحنیفہ اس کوعام رکھتے ہیں،ان کے ہاں یہ نیک وبدمسلمان غیرمسلم سبھی کوشامل ہے۔اسلامی تاریخ اورفقہ میں احترام انسانی کی خلاف ورزیوں کی جومثالیں ملتی ہیں، ان کے بارے میں تحقیق کا رکا کہنا تھا کہ یہ ہوئی ہیں اوران کا اعتراف کرناچاہیے، مگراس کا ذمہ داراسلام نہیں، خودمسلمان ہیں۔
غلام رسول دہلوی نے حنفی فقہ کے پس منظرمیں بلاسفیمی لایااہانت رسالت کے قانون (پاکستا ن )کا جائزہ لیا۔ حقیقت میں یہ بڑا حساس اورنازک ایشوہے جس کوپاکستان کے علما ،دائیں بازوکے دانشوروں اورسستی مذہبی صحافت نے ایک متشدد مسئلہ میں بدل دیاہے۔پاکستان کی بلااستثناءتمام مذہبی ودینی جماعتیں اورادارے کسی نہ کسی حیثیت میں اس حوالہ سے قوم کی صحیح تربیت کرنے میں بالکل ناکام رہے اوربہت سے تواس ایشوکواپنے مذموم سیاسی مقاصدکے لیے استعمال بھی کرتے رہے ۔انہوں نے یہ valid سوال اٹھایاکہ ہرہرجزئیے میں فقہ حنفی کا حوالہ دینے والے پاکستانی علما اس معاملہ میں اصل حنفی موقف سے روگردانی کرکے کیوں ابن تیمیہ ؒ کے موقف کواختیارکیے ہوئے ہیں؟ سوال اپنی جگہ درست ہے ،تاہم میرااحساس ہے کہ اس سلسلہ میں صرف فقہ حنفی یامقاصدشریعت کے حوالہ سے بات بننے والی نہیں بلکہ اس سلسلہ میں جتنی روایات آئی ہیں اورجوواقعات سیرت کی کتابوںمیں ملتے ہیں، ان کی تحقیق وتجزیہ درکارہے جوتحقیق کار نے نہیں کیا۔
 ریسرچ اسکالرمحمدعلی نے مشہوربریلوی عالم مولانااحمدرضاخاںبریلوی کا ایک اچھوتے زاویے سے مطالعہ پیش کیا۔ان کے پیپرکا حاصل یہ تھاکہ عشق رسول کا غلوآمیز تصورتوصوفیاءکے ہاںہمیشہ پایاگیا، مگروہ ان کاذاتی رجحان ہوتاتھا۔اس پر تنقیدبھی ہوتی تھی اوراس کے حامل بھی پائے جاتے تھے مگراس کومسلک بناکراس کا پرچار نہیں کیاجاتاتھا ۔مولانااحمدرضانے اس تصورکوفقہی اسلو ب میں ڈھال دیااوراب وہ دین وایمان کا اورعقیدہ کا مسئلہ بن گیا اور جو اس کونہ مانے، وہ کافرمتصورہوا۔
ونٹرانٹینسوکے پانچویں دن پروفیسرابراہیم موسیٰ کے گروپ نے اپنی جولانی طبع کا مظاہرہ کیا۔عادل عفان نے مختصراً ارتدادکی سزاپرنئے سرے سے غوروفکرکی ضرورت پر اپنے نتائج فکر پیش کیے۔ان کا خلاصہ تھاکہ قرآن کے مطابق ارتدادکی کوئی سزانہیں ہے۔تاہم بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ یہ توایشوسے نہایت ظاہری اور سرسری سا گزرناہوا۔معاملہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں متعددروایات ثابت ہیں۔اکثرفقہاءکا اس پر اجماع ہے۔یعنی دوسرے لفظوںمیں کہاجاسکتاہے کہ اس میں تعارض ادلہ ہوگیاہے، کیونکہ قرآن تواس معاملہ میں واضح ہے اور تبدیلی مذہب کی کوئی سزانہیں بتاتا ہے مگرآثاروروایات میں نیزفقہاءکے اقوال اسلام کوچھوڑکرکوئی اورعقیدہ قبول کرنے کی سزاقتل قراردیتے ہیں ۔اگرحدیث کوبھی دین کا اساسی مصدرماناجاتاہے تواب ان تمام روایات واحادیث کوبھی address کرناپڑے گاجن میں مرتدکی سزاقتل بتائی گئی ہے۔
محمدبلال نے شان نزول کی روایتوں کا سہارا لے کر فہم قرآن میں تاریخ کے تناظرکے کردارپربات کی۔ ڈاکٹرفضل الرحمن ،آمنہ ودود اور نصر حامد ابوزیدنے تاریخ کے تناظرکی بات کہی ہے، مگرشان نزول کی روایتوں سے شایداس پر استدلال کرناخلط مبحث ہوگا۔
اس کے بعدمنظرامام نے“اسلام اور انسانی حریت ”پر ترکی میں Young Turks کے مخصوص عہدکے پس منظرمیں بڑی خوبی سے گفتگوکی۔ گفتگوزیادہ ترتھیوریٹیکل رہی۔ تھیوری کی حدتک بات نبھ جاتی ہے اورہم اسلام کے اس ضمن میں فضائل بیان کرلے جاتے ہیں،  مگرمسئلہ اصلاً عملی ہے۔سوال یہ ہے کہ اسلام غلامی کوختم کرنے آیا تھا(جیساکہ دعوی کیاجاتاہے )توپوری مسلم تاریخ میں غلامی کیوں جاری رہی؟ فقہاءنے اس کے احکام کیوں مرتب کیے؟مسلمانوں کے ادوارحکومت میں غلاموں کے باقاعدہ بازارلگتے تھے۔ نوجوان باندیوں کے چہرے، سینے اور پستان کھول کھول کردیکھے جاتے تھے تویہ کس قسم کا انسانی احترام تھااورکیسی حریت تھی ؟ اس کے علاوہ تمام فقہا اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ مرتدکوقتل کیاجائے گااورو ہ اس معاملہ میں محارب وغیرمحارب کا کوئی فرق نہیں کرتے۔ پھر یہ کہنے کی کیاتک بنتی ہے کہ اسلام حریت فکراورحریت اعتقادکا محافظ ہے؟ بہرحال یہ مسائل نہایت  غوروفکر اور جرات وہمت کاتقاضاکرتے ہیں۔
آخرمیں میر کارواں پروفیسرابراہیم موسی ٰنے اپنا پیپر پیش کیاجس کا عنوان تھا: Being and Knowing in an age of Contingency ۔ یہ پیپرفلسفہ وکلام کا آمیزہ تھااورروح ،دل ودماغ کے بارے میں جدیدمیڈیکل تحقیقات اوران کے اطلاقات کے فکری وفقہی نتائج سے بحث کرتا تھا۔ انہوں نے ابن عربی کے حوالے سے کہاکہ انسان کا وجودبھی کہیں نہ کہیں Divinity سے وابستہ ہے اوردونوںکوالگ کرکے نہیں سمجھا جا سکتا۔ پیپرکا خلاصہ یہ تھا کہ وحی پر ایمان کی وجہ سے ہم کسی نہ کسی طرح تقلیدپرمجبورہیں مگرہماری تقلید تغیرپذیر ہونی چاہیے۔ہم یہ تحقیق وجستجو کریں کہ موجوددورمیں کس طرح اپنی تھیولوجی کوموجودہ دورکی علمیات کے مطابق بنائیں۔ ہمیں دینیات میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سوشل سائنسزنیزنیچرل سائنسزکے tools استعمال کرنے ہوں گے ۔
پروگرام کے تمام دنوںمیں چائے کے وقفوںمیں، کھانے کی میزپر اورچلتے پھرتے پروفیسرابراہیم موسیٰ شرکاء سے گھلے ملے رہتے ،ان کے سوال پوری توجہ سے سنتے اوران کی علمی رہنمائی کرتے ،بس میں بیٹھے ہیں اور علمی ضوفشانی کا سلسلہ جاری ہوگیا!  
چھٹادن کالج آف اسلامک اسٹڈیز کے اساتذہ سے استفادہ اورانٹرایکشن کے لیے اورشرکاءکے تاثرات کے لیے رکھاگیا۔ اس میں معاصرقرآنی اسٹڈیز کے ماہر پروفیسرجوزف لمبارڈ ،مذاہب کے تقابلی مطالعہ کے ماہرپاکستان کے ڈاکٹرمدثرعلی اورسری لنکا کے پروفیسردین محمدنے مختصراًخطاب کیااورشرکاءنے ان سے سوالات کیے۔ جوزف لمبارڈ نے جاپانی مفکرتوشیکوہیکو کے حوالے سے بتایاکہ قرآن کی اپنی خاص زبان ہے جس کی مثال دنیاکی کسی زبان میں نہیں۔ اس نے بعض الفاظ کومخصوص معانی دیے۔ مثال کے طورپر کفر جاہلی دورمیں اخفاء(چھپانے )کے معنی میں استعمال ہوتا تھا، مگرقرآن نے اس کوعدم ایمان باللہ کے معنی میں استعمال کیا۔ انہوں نے کہاکہ قدیم تفاسیرکے ساتھ ایک خاص مشکل یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی مکتب فکرکی وکالت میں لکھی گئی ہیں۔ڈاکٹرمدثرعلی نے مولانامناظراحسن گیلانی اوران کی کتاب الدین القیم پر روشنی ڈالی اوران کے تعلیمی نظریات سے آگا ہ کیا۔مولاناگیلانی کے مطابق تعلیم حصول معاش میں مددگارہونی چاہیے۔گیلانی نے اسلامی یونیورسٹی کا تخیل بھی پیش کیا تھا۔ پروفیسردین محمدنے ابن عربی کے حوالہ سے بتایاکہ ہماری روایت میں دینیات کے اندرخداکا تجربہ شخصی طورپر ہوتاتھا۔انہوں نے آیت کریمہ: افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فہو علی نور من ربہ (وہ شخص جس کے سینہ کو اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا، اسے اپنے رب کی طرف سے ایک نورحاصل ہے(زمر : ۲۲) کے حوالہ سے بتایاکہ ہماری روایت میں صوفی اس علی نور من ربہ کوبہت اہمیت دیتے ہیں۔
اس سیشن کے بعد ہندوپاک اورنوٹرے ڈیم کے تقریبا بیس  شرکاءنے مختصراً مدرسہ ڈسکورسز کے پروگرام کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کیے اورچاروں اساتذہ نے بھی مختصرکلمات اداکیے۔ اپنے اختتامی کلمات میں پروفیسرابراہیم موسیٰ نے کہاکہ مدرسہ ڈسکورسز میں سوالوں کا جواب نہیں دیاجاتا بلکہ ذہن کوسوال کرنے اورخودجواب ڈھونڈنے کے لائق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، کیونکہ سوال کوسمجھنازیادہ اہم ہے۔اگرہم انفرادی سوالوں کا جواب دے کر بات ختم کر دیں تو مقصد فوت ہوجائے گا۔زیادہ اہم یہ ہے کہ انفرادی سوالوں کا جواب نہیں بلکہ جوتہذیبی چیلنج درپیش ہے، اس کے جواب کی تیاری کی جائے۔ کیونکہ آج مغربی انٹیلیکچول روایت کے مقابلے میں کوئی انٹیلیکچول روایت سامنے نہیں آرہی ہے۔ ہماری روایت میں بہت تنوع اور Diversity رہی ہے اورمدرسہ ڈسکورسزاسی روایت کے احیاءکی ایک کوشش ہے۔

مارچ ۲۰۱۸ء

مقدس شخصیات کی توہین اور جدید قانونی تصوراتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۱)ڈاکٹر محی الدین غازی
اے خانہ بر انداز چمن ! کچھ تو ادھر بھیمحمد اظہار الحق
سنکیانگ کے مسلمانوں کا مسئلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا سید واضح رشید ندویؒمحمد عثمان فاروق
ہم نام و ہم لقب علماءمفتی شاد محمد شاد
قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۳)محمد عمار خان ناصر
قرآنی اُسلوب دعوت کی باز یافتسید مطیع الرحمٰن مشہدی
عزیزم محمد عمار خان ناصر کا اعزازمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مقدس شخصیات کی توہین اور جدید قانونی تصورات

محمد عمار خان ناصر

یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے   اپنے ایک حالیہ فیصلے میں آسٹریا کی عدالتوں میں  ۲٠۱٠ء سے ۲٠۱۴ء تک چلنے والے ایک مقدمے کے متعلق   یہ قرار دیا ہے کہ  آسٹروی عدالتوں نے  ملزم کو پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نفرت انگیز  القاب استعمال کرنے پر  جو سزا دی ہے،  وہ قانون کے مطابق ہے اور آزادی اظہار کے حق کے منافی نہیں ہے۔ ۲٠٠۹ء  میں ایک خاتون نے آسٹریا میں ایک  عمومی اجتماع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا حوالہ دیتے ہوئے  انھیں طفل پرست  قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ محمد  اخلاقی طور پر کوئی  رول ماڈل نہیں ہیں، جیسا کہ مسلمان  ایمان رکھتے ہیں۔  اجتماع میں موجود ایک خفیہ صحافی نے  اس کے خلاف ویانا کی علاقائی فوجداری عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا  جس نے متعدد سماعتوں کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ ملزمہ نے محمد پر  ایک بے بنیاد الزام عائد کر کے یہ تاثر  پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کوئی قابل احترام شخصیت نہیں ہیں  اور یوں وہ مسلمانوں کے  خلاف نفرت انگیزی  کے جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔  عدالت نے سزا کے طور پر ملزمہ کو جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔  اس فیصلے کے خلاف  ویانا کورٹ آف اپیل اور پھر اس کے بعد آسٹریا کی سپریم کورٹ میں  درخواست دائر کی گئی، تاہم دونوں عدالتوں نے  علاقائی عدالت کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے  سزا کو برقرار رکھا۔ آخری چارے کے طور پر   اس فیصلے کے خلاف یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس میں  اپیل دائر کی گئی  جس کا فیصلہ  عدالت کے آٹھ رکنی بنچ نے ۲ اکتوبر ۲٠۱۸ء کو کیا  اور متفقہ طور پر آسٹریا کی عدالتوں کو  انسانی حقوق کے اصولوں اور  جمہوری قوانین کے مطابق قرار دیا۔ یہ فیصلہ E.S. v. Austria  کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کا انگریزی متن عدالت کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
https://hudoc.echr.coe.int/eng#{%22itemid%22:[%22001-187188%22]}
یورپی عدالت کے اس فیصلے پر مغرب کے لبرل اور سیکولر حلقوں کی طرف سے سخت تنقید  سامنے آئی ہے   جو آزادی اظہار کے حق کو غیر محدود  سمجھتے ہیں  اور  ان کا کہنا ہے کہ  کسی شخص کی رائے کی آزادی کو پابندیوں میں جکڑنے کے بجائے  ان لوگوں کو جن کے مذہبی جذبات کو کسی تنقید سے یا طنز واستہزا سے ٹھیس پہنچتی ہے،  اپنا رویہ بدلنا چاہیے  اور  تنقید، طنز اور تضحیک وغیرہ کو  آزادی اظہار کی  ایک جائز صورت کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔  لبرل حلقوں کا یہ نقطہ نظر ، مغربی تاریخ کے تناظر میں، قرون وسطی میں کلیسا کے سرکاری موقف  کےمقابلے میں دوسری انتہا کی نمائندگی کرتا ہے۔  قرون وسطی میں  مسیحیت کو  یورپ  میں  سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل تھی اور  مسیحی عقائد وتعلیمات اور مقدس شخصیات پر تنقید کرنا، چہ جائیکہ ان کا مذاق اڑانا،  ریاست کے خلاف جرم سمجھا جاتا تھا۔  اس تناظر میں مسیحی مذہب کی توہین کے حوالے سے تعزیری قوانین مغربی قانونی روایت کا حصہ رہے ہیں، اور پیو ریسرچ سنٹر کی رپورٹ کے مطابق ۲٠۱۴ء تک    براعظم امریکا کے ۲۹ فیصد ممالک جبکہ یورپ کے ۱۶ فی صد ممالک میں  توہین مذہب کے خلاف قوانین  موجود تھے ، تاہم  بنیادی نوعیت کے سماجی وسیاسی تغیرات اور آزادی فکر کی تحریکوں کے نتیجے میں مغربی معاشروں میں  سیاست اور قانون کے دائرے میں  مذہب کا اثر  مسلسل کم  ہوتا  چلا آ رہا ہے اور اس کی جگہ سیکولر اقدار  نے قانون سازی اور ریاستی پالیسیوں میں  بنیادی اہمیت حاصل کر لی ہے۔  ان جدید اقدار میں آزادی اظہار ایک بنیادی قدر ہے  جسے   مذہبی  جذبات واحساسات کے مقابلےمیں  بالاتر قدر  سمجھا جاتا ہے اور  اس کے زیر اثر، مغربی ملکوں میں توہین مذہب پر سزا کے قوانین   کو ایک تدریج کے ساتھ کتاب قانون سے  حذف کیا جا رہا ہے۔  مثال کے طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکا میں وفاقی سطح پر ایسی کوئی قانون سازی موجود نہیں، لیکن  بہت سی امریکی ریاستوں کو چونکہ برطانوی کامن لاء ورثے میں ملا تھا، اس لیے بعض ریاستوں مثلا میساچوسٹس اور مشی گن میں  اب تک ایسے قوانین موجود ہیں۔ البتہ انھیں امریکی دستور کی پہلی ترمیم کے منافی  ہونے کے باعث، جس میں  آزادی اظہار  کو بنیادی انسانی حق قرار دیا گیا ہے،  عملا کالعدم سمجھا جاتا ہے اور امریکی سپریم کورٹ ۱۹۵۲ء میں  ایسے قوانین کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔  
یورپی ممالک میں  بلاسفیمی کے خلاف قانون کے خاتمے کا آغاز ۱۷۸۹ء میں فرانس سے ہوا ۔  فرانس کے بعض علاقوں میں  جو کچھ عرصے کے لیے جرمنی کا حصہ   بن گئے تھے، یہ قانون نافذ العمل تھا ، لیکن وہاں بھی ۲٠۱۶ء میں اس کو منسوخ کر دیا گیا۔  سویڈن میں  اسے ۱۹۷٠ء میں اور برطانیہ میں ۲٠٠۸ء میں منسوخ کیا گیا،  جبکہ انسانی حقوق کے علمبردار حلقوں کی طرف سے شدید تنقید اور دباو کے نتیجے میں  نیدر لینڈز، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، مالٹا اور ناروے نے بھی گزشتہ چار سال کے دوران میں   ایسے قوانین کو منسوخ کر دیا ہے۔ نیوزی لینڈ اور کینیڈا  میں ان قوانین کی تنسیخ کے حوالے سے بل پارلیمنٹ میں پیش کیے جا چکے ہیں۔  آئر لینڈ میں ، جہاں  چند ہی سال پہلے ۲٠٠۹ء میں کسی بھی مذہب کے خلاف بلاسفیمی کو جرم قرار دینے کے حوالے سے قانون  سازی کی گئی تھی، حال ہی میں    ایک عوامی ریفرنڈم کے نتیجے میں یہ قانون غیر موثر  قرار پا چکا ہے۔
البتہ بعض  یورپی ممالک میں  ابھی تک یہ قانون موجود ہے اور اس کے تحت  مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ مثلا حال ہی میں اسپین میں  ولی ٹولیڈو نامی  اداکار کو  خدا اور مقدسہ مریم کے بارے میں توہین  پر مبنی پوسٹ لکھنے پر گرفتار کیا گیا اور اس پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے جس پر پورے مغرب کے سیکولر حلقوں کی طرف سے شدید احتجاج  کیا گیا اور اسے اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ (دی گارڈین، ۱۲ و ۲٠ ستمبر ۲٠۱۸) اسپین کے علاوہ  جرمنی،  روس،  یونان اور پولینڈ وغیرہ میں بھی توہین مذہب کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ 
ان تعزیری قوانین  پر، آزادی اظہار کے حق کے منافی ہونے کے علاوہ ایک اہم اعتراض  یہ بھی ہے کہ یہ مذہبی امتیاز پر مبنی ہیں  اور خاص طور پر  مسیحی مذہب کو  تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخی طور پر توہین مذہب کے خلاف قوانین بنیادی طور پر مغربی معاشروں میں مسیحی مذہب کی حیثیت اور کردار کو محفوظ ومستحکم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے اور  مسیحی مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب، خاص طور پر اسلام ان کے دائرہ اطلاق میں شامل نہیں ہیں۔ چنانچہ ۹٠ء میں  جب مسلمانوں کی طرف سے سلمان رشدی کی کتاب  کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے  برطانوی عدالتوں سے رجوع کیا گیا تو   جواب یہ دیا گیا کہ یہ قوانین  صرف مسیحی مذہب  کو بلاسفیمی کے خلاف تحفظ دیتے ہیں، دوسرے کسی مذہب کو ایسا تحفظ دینا قانون  کا حصہ نہیں ہے۔  مقامی برطانوی عدالتوں کے ان فیصلوں کو جب یورپی کمیشن آن ہیومن رائٹس  میں  مذہبی امتیاز کے نکتے کی بنیاد پر چیلنج کیا گیا تو  کمیشن کا جواب بھی یہی تھا کہ چونکہ برطانوی قانون، برطانوی حکومت کو پابند نہیں کرتا کہ وہ تمام مذاہب کے  مقدس احساسات کا تحفظ کرے، اس لیے  برطانوی حکومت کا رشدی اور کتاب کے ناشر کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنا مذہبی امتیاز کے زمرے میں نہیں آتا۔  اس کے مقابلے میں، اسی عرصے میں  یورپی کمیشن   نے متعدد مقدمات میں مختلف مغربی حکومتوں کے ایسے فیصلوں  کو جائز اور درست قرار دیا جن میں  مسیحیوں کے مذہبی جذبات کو  مجروح کرنے والے اقدامات کے خلاف پابندی عائد کی گئی تھی۔
Peter G. Danchin, Islam in the Secular Nomos of the European Court of Human Rights, 32 Mich. J. Int'l L. 663 (2011). Available at: http://repository.law.umich.edu/mjil/vol32/iss4/2
ان اعتراضات کی بنیاد پر  مغرب کے سیکولر اور لبرل حلقوں کا، جو   معاشرتی اقدار اور حکومتی پالیسیوں  کی تشکیل میں  مذہبی عقائد  یا احساسات کا کسی درجے میں کوئی کردار قبول نہیں کرنا چاہتے،  یہ مطالبہ ہے کہ  مذہبی حساسیتوں  کو قابل تحفظ سمجھنے اور اس کے لیے  قانونی تحفظات فراہم کرنے کا زاویہ  نظر بالکل ترک کر دیا جائے اور کسی بھی انداز میں کسی بھی مذہب یا اس کی مقدس شخصیات پر  تنقید یا تضحیک کو   ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر  قبول کیا جائے۔   اس کے مقابلے میں مغربی حکومتوں، قانون ساز اداروں اور  عدالتوں کا  زاویہ نظر  یہ ہے کہ  کسی بھی مذہب کو  اعتراض یا تنقید  سے تحفظ  مانگنے کا حق نہیں  اور  آزادی اظہار  کو یقینی بنانے کے لیے  ضروری ہے کہ  ہر شخص کو  کسی بھی عقیدے یا نظریے پر، جسے وہ غلط سمجھتا ہے، تنقید یا اعتراض کرنے کا حق حاصل ہو،  تاہم  اس کے ساتھ  معاشرتی امن وامان کو برقرار رکھنا اور کسی بھی گروہ کو  نفرت  یا تحقیر کا نشانہ بننے سے  بچانا بھی  ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر قانونی نظام اپنے باشندوں کو نہ صرف جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، بلکہ ان کی عزت اور آبرو کا تحفظ بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے اور ہتک عزت اور ازالۂ حیثیت عرفی وغیرہ سے متعلق تادیبی سزائیں اسی اصول پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ راسخ العقیدہ اہل مذہب اپنے مذہبی شعائر ، شخصیات اور جذبات کو جان ومال اور آبرو سے زیادہ محترم سمجھتے ہیں اور ان میں سے کسی بھی چیز کی توہین لازماً مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور نتیجتاً اشتعال انگیزی کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ  کسی مذہبی عقیدے یا عمل پر  تنقید کرتے ہوئے   ایسا انداز اختیار کیا جائے  جس کا مقصد   کسی مذہبی  گروہ کو محض طعن وتشنیع  اور نفرت کا  نشانہ بنانا نہیں، بلکہ مفاد عامہ کو  بڑھانا اور  بحث ومباحثہ سے  درست تر  نتیجے تک پہنچنا ہو۔  چنانچہ اگر کوئی بھی تنقید  اس حد سے متجاوز ہو تو اسے ’جرم‘ قرار دے کر اس کے سدباب کے لیے سزا مقرر کرنا ہر لحاظ سے جمہوری اصولوں اور تصورات کے مطابق ہے۔ 
زیر بحث مقدمے میں بھی آسٹریا کی عدالتوں اور یورپی عدالت برائے انسانی حقوق  کے فیصلوں میں یہی  موقف اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ  یورپی عدالت کے فیصلے میں آسٹریا کی علاقائی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ
The Regional Court further stated that anyone who wished to exercise their rights under Article 10 of the Convention was subject to duties and responsibilities, such as refraining from making statements which hurt others without reason and therefore did not contribute to a debate of public interest. A balancing exercise between the rights under Article 9 on the one hand and those under Article 10 on the other needed to be carried out. The court considered that the applicant’s statements were not statements of fact, but derogatory value judgments which exceeded the permissible limits. It held that the applicant had not intended to approach the topic in an objective manner, but had directly aimed to degrade Muhammad. The court stated that child marriages were not the same as paedophilia, and were not only a phenomenon of Islam, but also used to be widespread among the European ruling dynasties. Furthermore, the court argued that freedom of religion as protected by Article 9 of the Convention was one of the foundations of a democratic society. Those who invoked their freedom of religion could not expect to be exempt from criticism, and even had to accept the negation of their beliefs. However, the manner in which religious views were attacked could invoke the State’s responsibility in order to guarantee the peaceful exercise of the rights under Article 9. Presenting objects of religious worship in a provocative way capable of hurting the feelings of the followers of that religion could be conceived as a malicious violation of the spirit of tolerance, which was one of the bases of a democratic society. The court concluded that the interference with the applicant’s freedom of expression in the form of a criminal conviction had been justified as it had been based in law and had been necessary in a democratic society, namely in order to protect religious peace in Austria.
’’علاقائی عدالت نے مزید کہا ہے کہ کوئی بھی شخص جو کنونشن کے آرٹیکل ۱٠ کے تحت (آزادی اظہار سے متعلق) اپنے حقوق استعمال کرنا چاہتا ہو،   اس پر فرائض اور ذمہ داریوں کی پابندی بھی لازم ہے، مثلا ایسے بیانات دینے سے گریز کرنا جو کسی معقول جواز کے بغیر دوسروں  کے جذبات کو مجروح کرتے ہوں اور مفاد عامہ سے متعلق کسی بحث میں کوئی  (مفید) حصہ نہ ڈالتے ہوں۔  آرٹیکل ۹ اور آرٹیکل ۱٠ میں  دیے گئے حقوق کے مابین ایک توازن کو قائم رکھنا  ضروری ہے۔  علاقائی  عدالت نے  ملاحظہ کیا کہ  مدعی (یعنی ملزمہ) کے بیانات واقعاتی حقائق کو بیان نہیں کر رہے تھے بلکہ  تحقیر  پر مبنی اقداری  حکم لگا رہے تھے جو   جائز حدود سے متجاوز تھا۔ عدالت نے  قرار دیا کہ ملزمہ کی نیت مسئلے پر معروضی انداز میں   غور کرنے کی نہیں بلکہ براہ راست محمد   کی شخصیت کو مجروح کرنے کی تھی۔  عدالت نے کہا کہ  نابالغ لڑکی کے ساتھ شادی کرنا اور طفل پرست ہونا ،  ایک جیسے عمل نہیں ہیں اور صغر سنی کی شادیاں صرف اسلام میں نہیں تھیں، بلکہ یورپ کے حکمران خاندانوں میں  بھی ان کا عام رواج رہا ہے۔  مزید برآں عدالت نے یہ دلیل بھی دی کہ  کنونشن کے آرٹیکل ۹ میں  آزادی مذہب کا جو حق بیان کیا گیا ہے،  وہ ایک جمہوری معاشرے کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔  وہ لوگ جو آزادی مذہب کے اصول کا حوالہ دیتے ہیں، یہ توقع نہیں رکھ سکتے  کہ  وہ تنقید سے مستثنی ہیں  اور اگر کوئی ان کے عقائد کی نفی کرے تو انھیں اس کو بھی گوارا کرنا ہوگا۔  تاہم جس انداز میں مذہبی خیالات کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے،  وہ  ریاست کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی دعوت دے سکتا ہے  تاکہ وہ آرٹیکل ۹ کے تحت دیے گئے حقوق   کے پرامن استعمال کو یقینی بنا سکے۔  ایسی چیزیں جو مذہبی عقیدت کا مرکز ہوں،  انھیں  اگر ایسے اشتعال انگیز انداز میں پیش کیا جائے جس سے اس مذہب کے پیروکاروں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں تو اسے بد نیتی کے ساتھ  رواداری کی روح کو  ،  جو کہ  جمہوری معاشرے کی اساسات میں سے ایک ہے، پامال کرنے والا عمل تصور کیا جا سکتا ہے ۔  عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ  ملزمہ کو جرم کا مرتکب قرار دے کر   اس کی آزادی اظہار پر قدغن لگانے کا پورا جواز ہے اور اس کی بنیاد قانون میں موجود ہے بلکہ جمہوری معاشرے میں  ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ آسٹریا میں  مذہبی امن کو  محفوظ رکھا جا سکے۔”
ہماری رائے میں عدالت نے ایک بہت اہم اصول کی وضاحت کی  ہے  جس کی،  گلوبلائزیشن کے  اس دور میں غیر معمولی عملی اہمیت ہے اور وہ عالم اسلام اور مغرب کے مابین ایک بنیادی تہذیبی واقداری اختلاف  میں مفاہمت کی بنیاد بن سکتا ہے۔  مغرب اور اسلام کے باہمی تعلقات کے تناظر میں اس بحث کا نقطہ آغاز سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات” بنی تھی جو ۱۹۸۸ء میں منظر عام پر آئی۔  اس کتاب کی اشاعت وتشہیر اور اس پر  سامنے آنے والے بین الاقوامی رد عمل  نے عالم اسلام اور مغرب کے باہمی تعلقات کی بحث میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا  جس کی اہمیت  اور اثرات کئی لحاظ سے  افغانستان میں سوویت افواج کے داخلے،  خلیج میں امریکی افواج کی آمد اور نائن الیون جیسے تہلکہ خیز سیاسی وعسکری واقعات سے  بڑھ کر ہیں۔  اس بحث  کا مرکزی نکتہ دو مختلف نظام ہائے اقدار اور سماجی آزادیوں کے دو متخالف تصورات  کا باہمی تصادم ہے،  اور یہ بحث اس فالٹ لائن  کو  نمایاں کرتی ہے جو  اقدار کی سطح پر مسلم معاشروں اور جدید مغربی  تہذیب کے مابین پائی جاتی ہے۔   اہم بات یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ ایک نئی صورت حال تھی جس سے دور جدید سے پہلے   ان دونوں تہذیبوں کو واسطہ  پیش نہیں آیا تھا۔
دور جدید سے پہلے قانون بین الاقوام کی نوعیت  بہت مختلف تھی  اور اس نوعیت کے واقعات  ریاستوں اور حکومتوں کے باہمی تعلقات پر   اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔   یہی وجہ ہے کہ اسلامی قانونی روایت میں یہ مسئلہ اس تناظر میں زیر بحث آتا ہے جب اسلامی ریاست میں مقیم کسی غیر مسلم نے اس فعل شنیع کا ارتکاب کیا ہو ۔ اگر مسلم ریاست کے دائرۂ اختیار سے باہر کسی فرد نے ایسا کیا ہو تو کلاسیکی اسلامی قانون اس صورت سے تصریحاً کوئی تعرض نہیں کرتا اور چونکہ فقہی دور میں رائج قانون بین الاقوام کے تصور کے تحت کسی محارب قوم کے قانونی دائرۂ اختیار میں رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات سے زیادہ سروکار نہیں رکھا جاتا تھا، اس لیے اس سے کوئی عملی مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا تھا، تاہم دنیا کے سیاسی وتہذیبی ارتقا اور قانون بین الاقوام میں پیدا ہونے والے تغیرات کے نتیجے میں اس صورت حال میں ایک جوہری تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اب دنیا کی کم وبیش تمام اقوام ایک بین الاقوامی معاہدے کی فریق اور اس کی پاس داری کی پابند ہیں اور اس کے نتیجے میں اقوام عالم ایک دوسرے سے جذبات واحساسات کے باہمی احترام کی توقع بھی رکھتی ہیں اور اگر ان کو پامال کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے اثرات براہ راست قانون بین الاقوام اور عالمی سیاست کے پورے ڈھانچے پرمرتب ہوتے ہیں۔ مزید برآں معاصر مغربی معاشروں میں مسلمانوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے  جس کے مذہبی جذبات  مسلم معاشروں میں مقیم مسلمانوں  سے کسی طرح کم نہیں، بلکہ مغرب کے اندر رہنے والی ایک کمیونٹی کے طور پر  وہ اس بحث کے بنیادی فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔  اس صورت حال میں توہین رسالت کی بحث نے، جو اس سے پہلے اسلامی قانون کی ایک داخلی بحث تھی، عالم اسلام اور مغرب کے مابین ایک نہایت حساس اور نازک نزاعی مسئلے کی صورت اختیار کر لی ہے۔
عالم اسلام کی مذہبی وسیاسی قیادت نے ،  مغربی معاشروں کی داخلی صورت حال سے براہ راست واقف نہ ہونے  نیز ٹھنڈے دل ودماغ سے معاملات کا جائزہ  نہ لینے کی وجہ سے  اس پر جو بالکل ابتدائی رد عمل  ظاہر کیا،  اس کی عالمی ترجمانی  آیت اللہ خمینی کے فتوے کی صورت میں  ہوئی  جس میں رشدی کو واجب القتل قرار دے کر  گویا  اس بات کو مسلمانوں پر فرض کفایہ قرار دیا گیا کہ  ان میں سے جس کو بھی موقع ملے، وہ سلمان رشدی کو قتل کر دے۔  یوں رشدی کی کتاب سے جو کشیدگی اور تناو پیدا ہوا تھا، اس فتوے نے اسے مزید بڑھا دیا  اور  عملا اس کا نتیجہ  عالم اسلام کی توقعات اور خواہشات کے برعکس نکلا۔ رشدی نے  یہ کتاب اپنی ذاتی حیثیت میں لکھی تھی  اور برطانوی حکومت  ابتداءا اس میں کسی بھی حوالے سے فریق نہیں تھی، لیکن  قتل کے فتوے نے  اسے ایک حکومتی اور سیاسی مسئلہ بنا دیا  اور حکومت برطانیہ نے  نہ صرف رشدی کو سرکاری  طور پر تحفظ فراہم کیا، بلکہ فتوے کے رد عمل میں  اسے مغرب کے لبرل حلقوں میں آزادی اظہار کے ہیرو کا درجہ حاصل ہو گیا۔  یوں بین الاقوامی قانون اور سیاسی حکمت عملی، دونوں  اعتبار سے  فتوائے قتل کی اپروچ  غلط اور ناکام ثابت ہوئی۔ 
اس کے بعد  اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے  ۱۹۹۸ء میں اس حوالے سے سیاسی وسفارتی  جدوجہد شروع کی  اور اسلامی قانونی ومذہبی تصورات کے پس منظر میں    اس کی  کوششوں کا  ہدف یہ رہا کہ  مذہبی مفہوم میں  بلاسفیمی  کو  ایک جرم قرار دلوایا جائے۔  مغربی معاشرے کے فکری ارتقا اور قانونی وسیاسی تصورات  کے موجودہ منظر کو سامنے رکھتے ہوئے  یہ قیاس کرنا مشکل نہیں تھا کہ ان کوششوں میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی، تاہم  او آئی سی کو اس نتیجے تک پہنچنے میں  کم وبیش پندرہ سال لگے اور بالآخر ۲٠۱۲ء میں   تنظیم کی طرف سے باقاعدہ  اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کا اعلان کیا گیا۔ 
رویٹرز کی رپورٹ (۱۵ ۔اکتوبر ۲٠۱۲ء  ) کے مطابق  او آئی سی کے سیکرٹری جنرل احسان الدین اوغلو نے  بتایا کہ او آئی سی کی طرف سے ۱۹۹۸ سے ۲٠۱۱ء تک  اس بات کی ان تھک کوشش کی جاتی رہی ہے کہ  اقوام متحدہ کی تائید سے عالمی سطح پر توہین مذہب پر قانونی پابندی عائد کی جائے، لیکن ہم اقوام متحدہ کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، کیونکہ مغربی حکومتوں کے ہاں ایک عجیب تصور ہے جو  دوسروں کے احساسات کو مجروح کرنے اور ان کی توہین کرنے  کو بھی  آزادی اظہار  میں شمار کرتا ہے اور وہ اس کے خلاف قانون سازی کو آزادی رائے کے خلاف سمجھتے ہیں۔ احسان الدین اوغلو نے کہا کہ اس لیے اب ہم نے یہ طے کیا ہے کہ اس عنوان سے عالمی قانون سازی کے لیے مزید  کوئی کوشش نہیں کریں گے،  اور اس کے بجائے مغربی ممالک سے اپیل کریں گے کہ ان کے ہاں  مقامی طور پر توہین مذہب یا نفرت انگیزی کے خلاف جو قوانین موجود ہیں، ان کو  استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو مجروح کرنے والے  اقدامات کا قانونی سد باب کریں۔   اوغلو نے کہا کہ  اس کے سدباب کے لیے مغربی ممالک میں مناسب قوانین  اور اقوام متحدہ کی  ہیومن رائٹس کونسل کی قراردادیں پہلے ہی موجود ہیں اور ان کو بس لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔
رویٹرز کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ  ۱۹۹۸ء کے بعد سے  او آئی سی  کی طرف سے  اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی مختلف کمیٹیوں اور جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں  ہر سال پیش کردہ قرادادوں کو  اکثریت کی تائید حاصل ہوتی رہی جن میں مذاہب  کو بدنام کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے  کی ضرورت پر زور دیا جاتا تھا، لیکن  مغربی حکومتوں کی طرف سے ایسی قراردادوں کو  آزادی اظہار کے لیے خطرہ قرار دیا گیا اور یوں   یورپی وامریکی ممالک کی مخالفت کی وجہ سے ۲٠۱٠ء تک ان کو حاصل تائید ۵٠ فی صد تک رہ گئی۔ 
(https://www.reuters.com/article/us-islam-blasphemy/wests-free-speech-stand-bars-blasphemy-ban-oic-idUSBRE89E18U20121015)
حاصل کلام یہ کہ  مذہبی قانونی روایتوں میں، چاہے وہ اسلام ہو یا مسیحیت،  توہین مذہب پر سزا کی بنیاد  تقدس کی پامالی کے مذہبی تصور پر تھی۔ جدید مغربی معاشروں میں  یہ تصور اپنی تاثیر کھو چکا ہے اور ہیومن ازم کے فلسفے کے زیر اثر اس کی جگہ آزادی رائے کے تقدس نے حاصل کر لی ہے۔ تاہم ہیومن ازم ہی کا فلسفہ ایک دوسرے اصول یعنی انسانی جذبات واحساسات کے احترام کو بھی تقدس دیتا ہے۔  یوں مذہبی تقدس کے تصور کے تحت نہ سہی، انسان دوستی کے تصور کے تحت آزادی اظہار کے ایسے اسالیب پر قدغن عائد کرنے کی فلسفیانہ وقانونی بنیاد موجود ہے   جو ایک ہی دنیا میں رہنے والے مختلف گروہوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے اور نتیجتا بدامنی اور فساد کو جنم دیتے ہوں۔  چنانچہ پچھلی تین دہائیوں پر محیط  اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ  تہذیبوں، معاشروں اور قانونی وسیاسی تصورات کے باہمی تعامل میں ، تصادم سے بچنے اور پرامن بقائے باہمی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے   مشترکات کو دریافت کرنا اور یہ سمجھنا  بہت ضروری ہوتا ہے کہ  ایک عالمی ماحول میں   قانونی ضابطے یک طرفہ طور پر کسی ایک تہذیبی  روایت یا قانونی نظام پر مبنی نہیں ہو سکتے۔  یہاں عملیت کا زاویہ نظر اختیار کرنا ناگزیر ہے  اور کوشش کا ہدف کسی ناگوار صورت حال کے مکمل خاتمے کے بجائے اسے کم سے کم   کرنے کو ہی بنایا جا سکتا ہے۔  

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

تعجیل اور استعجال میں فرق

وَلَو یُعَجِّلُ اللّہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ استِعجَالَہُم بِالخَیرِ لَقُضِیَ الَییہِم اَجَلُہُم۔ (یونس: 11)

’’اگر اللہ لوگوں کے لیے عذاب کے معاملے میں ویسی ہی سبقت کرنے والا ہوتا جس طرح وہ ان کے ساتھ رحمت میں سبقت کرتا ہے تو ان کی مدت تمام کردی گئی ہوتی”۔ (امین احسن اصلاحی)
آیت مذکورہ کے اس ترجمے میں صاحب تدبر نے تعجیل اور استعجال دونوں کا ایک ہی ترجمہ کردیا ہے۔ جبکہ قرآن مجید کے دیگر تمام مقامات پر انہوں نے دونوں کے درمیان فرق کا پورا لحاظ کیا ہے۔ قرآنی استعمالات کے مطابق تعجیل کا مطلب کام کو جلدی کرنا اور استعجال کا مطلب ہے کام کی جلدی کرنا، جلدی مچانا، اور کام جلد ہوجانے کی طلب کرنا۔ اس فرق کو سامنے رکھیں تو مذکورہ بالا ترجمہ درست نہیں رہ جاتا ہے۔
اس ترجمے کے غلط ہونے کی ایک اور بڑی وجہ ہے، اور وہ یہ کہ اس میں استعجالھم میں ھم ضمیر کو فاعل کی ضمیر ماننے کے بجائے مفعول کی ضمیر مانا گیا ہے، جبکہ قاعدہ یہ ہے کہ جس شخص سے جلدی کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے وہ استعجال کا مفعول بہ ہوتا ہے، یا جس چیز کا استعجال کیا جاتا ہے وہ مفعول بہ ہوتا ہے یا اس پر باءداخل ہوتا ہے جو مذکورہ بالا آیت میں الخیر پر داخل ہے۔ جیسے اتی امر اللہ فلا تستعجلوہ اور ویستعجلونک بالعذاب پہلی مثال میں مفعول بہ وہ ہے جس کی جلدی کی جارہی ہے اور دوسری مثال میں مفعول بہ وہ ہے جس سے جلدی کا مطالبہ کیا جارہا ہے، اور جس چیز کی جلدی کی جارہی ہے اس پر باءداخل ہے، الغرض جس کے سلسلے میں استعجال کیا جاتا ہے وہ مفعول بہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس پر لام داخل ہوتا ہے، یعنی یہ کہنے کے لیے کہ زید نے عمرو کے لیے خیر کی جلدی کی، استعجل زید عمروا الخیر یا بالخیر کہنا درست نہیں ہوگا ،اس کے بجائے استعجل زید لعمرو بالخیر کہا جائے گا۔ یہاں صاحب ترجمہ نے عام ترجموں سے ہٹ کر استعجال کو فاعل کے بجائے مفعول کی طرف مضاف مانتے ہوئے ترجمہ کیا ہے، تاہم یہ بات وہ ملحوظ نہیں رکھ سکے کہ استعجال کا فعل اس مفہوم کے ساتھ اپنے مفعول کی طرف مضاف ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ غرض صحیح توجیہ یہی ہے کہ استعجال کو فاعل کی ضمیر کی طرف مضاف مانا جائے، اور اس طرح درست ترجمہ وہی ہے جو عام طور سے لوگ کرتے ہیں، ازراہِ مثال کچھ ترجمے ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں: 
’’اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی”۔ (سید مودودی)
’’اور اگر اللہ لوگوں پر برائی ایسی جلد بھیجتا جیسی وہ بھلائی کی جلدی کرتے ہیں تو ان کا وعدہ پورا ہوچکا ہوتا”۔(احمد رضا خان)
’’اور اگر خدا لوگوں کی برائی میں جلدی کرتا جس طرح وہ طلب خیر میں جلدی کرتے ہیں۔ تو ان کی (عمر کی) میعاد پوری ہوچکی ہوتی”۔ (فتح محمد جالندھری)
مولانا امانت اللہ اصلاحی اس آیت کے معروف ترجمے میں ایک اور اہم اضافہ کرتے ہیں، ان کا تجویز کردہ ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’اگر اللہ لوگوں کے لیے عذاب کے معاملے میں ویسی ہی جلدی کرتا جس طرح یہ اس کے لیے جلدی مچاتے ہیں جیسے خیر کے لیے مچارہے ہوں تو ان کی مدت تمام کردی گئی ہوتی”۔ (امانت اللہ اصلاحی)
گویا اس میں ایک تشبیہ مضمر ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں ان کی خیر کے لیے جلدی مچانے کی بات نہیں ہے بلکہ اس جلدی کی بات ہے جو وہ لوگ شر یعنی عذاب کے لیے اس طرح کررہے ہیں جیسے کہ وہ خیر کے لیے جلدی کررہے ہوں، جسے ایک دوسرے مقام پر کہا گیا:

ویدع الانسان بالشر دعاءہ بالخیر۔ (سورة الاسراء: ۱۱)

تشبیہ مرکب کا ترجمہ

تشبیہ مرکب کو تشبیہ تمثیل بھی کہتے ہیں، اس میں مشبہ بہ کوئی ایک چیز نہیں بلکہ مذکور تمام چیزوں سے مل کر ایک مکمل صورت حال ہوتی ہے۔
 قرآن مجید میں اس تشبیہ کا استعمال کئی جگہ ہوا ہے، ایسے مقامات پر بعض لوگوں سے ترجمہ کرتے ہوئے کبھی کبھی تشبیہ مرکب کے بجائے تشبیہ بسیط کا ترجمہ ہوجاتا ہے۔ درج ذیل مثالوں سے بات واضح ہوجائے گی۔

(۱) انَّمَا مَثَلُ الحَیَاۃ الدُّنیَا کَمَاء اَنزَلنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاختَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الاَرضِ مِمَّا یَاکُلُ النَّاسُ وَالاَنعَامُ حَتَّیَ اذَا اَخَذَتِ الاَرضُ زُخرُفَہَا وَازَّیَّنَت وَظَنَّ اَہلُہَا اَنَّہُم قَادِرُونَ عَلَیَا اَتَاہَا اَمرُنَا لَیلاً اَو نَہَاراً فَجَعَلنَاہَا حَصِیداً کَاَن لَّم تَغنَ بِالاَمسِ کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَومٍ یَتَفَکَّرُونَ۔ (یونس: 24)

زمخشری اس تشبیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

ھذا من التشبیہ المرکب، شبہت حال الدنیا فی سرعۃ تقضیھا وانقراض نعیمھا بعد الاقبال، بحال نبات الارض فی جفافہ وذھابہ حطاماً بعد ما التف ونکائف، وزین الارض بخضرتہ ورفیفہ  فَاختَلَطَ بہِ فاشتبک بسببہ حتی خالط بعضہ بعضاً۔ (تفسیر الزمخشری)

آیت مذکورہ کے ترجمے ملاحظہ کریں؛
’’دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہو گئی، پھر عین اُس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں”۔ (سید مودودی)
’’پس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا۔۔۔” (محمد جوناگڑھی)
یہ دونوں ترجمے تشبیہ مرکب کے مطابق کیے گئے ہیں، جبکہ ذیل کے ترجموں میں یہ رعایت نہیں محسوس ہوتی ہے، اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دنیا کی زندگی کو پانی یا بارش سے تشبیہ دی گئی ہے، حالانکہ دنیا کی زندگی پانی سے مشابہ نہیں ہے بلکہ اس پوری مرحلہ وار صورت حال سے مشابہ ہے جس کے کئی مراحل ہیں، اور جس کا صرف پہلا ایک مرحلہ بارش کا ہونا ہے۔
’’دنیا کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا”۔ (احمد رضا خان)
’’دنیا کی زندگی کی مثال مینھ کی سی ہے کہ ہم نے اس کو آسمان سے برسایا”۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اس دنیا کی زندگی کی تمثیل یوں ہے جیسے بارش کہ ہم نے اسے آسمان سے برسایا۔” (امین احسن اصلاحی)
یہ تینوں ترجمے تشبیہ مرکب کی ترجمانی نہیں کرتے ہیں۔

(۲) وَاضرِب لَہُم مَّثَلَ الحَیَاۃ الدُّنیَا کَمَاء اَنزَلنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاختَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الاَرضِ فَاَصبَحَ ہَشِیماً تَذرُوہُ الرِّیَاحُ وَکَانَ اللَّہُ عَلَی کُلِّ شَیءٍ مُّقتَدِراً۔ (الکہف: 45)

’’اور اے نبی! اِنہیں حیات دنیا کی حقیقت اِس مثال سے سمجھاو کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پَود خوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے”۔ (سید مودودی)
’’اور ان کو اس دنیوی زندگی کی تمثیل سناو کہ اس کو یوں سمجھو کہ بارش ہو جس کو ہم نے آسمان سے اتارا، پس زمین کی نباتات اس سے خوب اپجیں، پھر وہ چورا ہوجائیں، جس کو ہوائیں اڑائے لیے پھریں”۔ (امین احسن اصلاحی) 
’’اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو (وہ ایسی ہے) جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے برسایا۔ تو اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی مل گئی۔ پھر وہ چورا چورا ہوگئی کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)
’’ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال (بھی) بیان کرو جیسے پانی جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں اس سے زمین کا سبزہ  ملا جلا (نکلا) ہے، پھر آخر کار وہ چورا چورا ہوجاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے لئے پھرتی ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)
مذکورہ بالا چار ترجموں میں پہلے دو ترجمے تشبیہ تمثیل کے مطابق ہیں، جبکہ بعد کے دونوں ترجموں میں تشبیہ تمثیل کی رعایت نہیں ہوسکی ہے۔ 

(۳) مَثَلُہُم کَمَثَلِ الَّذِی استَوقَدَ نَاراً فَلَمَّا اَضَاءت مَا حَولَہُ ذَہَبَ اللّہُ بِنُورِہِم وَتَرَکَہُم فِی ظُلُمَاتٍ لاَّ یُبصِرُونَ۔ (البقرة: 17)

’’اِن کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اُس نے سارے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے اِن کا نور بصارت سلب کر لیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا”۔ (سید مودودی)
’’ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے لوگوں کے لیے آگ جلائی۔ جب آگ نے اس کے ارد گرد کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کرلی اور ان کو ایسی تاریکی میں چھوڑ دیا جس میں ان کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے” ۔(امین احسن اصلاحی) ( اس ترجمہ میں ’’لوگوں کے لیے” زائد ہے، ’’ایسی تاریکی” کی جگہ بس تاریکیوں ہونا چاہیے، اور ’’سجھائی نہیں دیتا” ہونا چاہیے)
’’ان کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس نے (شبِ تاریک میں) آگ جلائی۔ جب آگ نے اس کے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو خدا نے ان کی روشنی زائل کر دی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے” ۔(فتح محمد جالندھری)
’’ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پس آس پاس کی چیزیں روشنی میں آئی ہی تھیں کہ اللہ ان کے نور کو لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا، جو نہیں دیکھتے”۔ (محمد جوناگڑھی)
مذکورہ بالا چاروں ترجموں میں پہلے دونوں میں تشبیہ مرکب کی رعایت ہے، جبکہ بعد والے دونوں ترجموں میں تشبیہ مرکب کی رعایت نہیں ہوسکی ہے۔

(۴) اَو کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِیہِ ظُلُمَات وَرَعد وَبَرق یَجعَلُونَ اَصابِعَہُم فِی آذَانِہِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ المَوتِ واللّہُ مُحِیط بِالکافِرِینَ۔ (البقرة: 19)

’’یا ایسی ہے جیسے آسمان سے بارش ہورہی ہو، اس میں تاریکی ہو، کڑک ہو، اور چمک ہو۔ یہ کڑکے کی وجہ سے موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونسے لے رہے ہوں”۔ (امین احسن اصلاحی، ا س ترجمے میں تاریکی کی جگہ تاریکیاں اور کڑک کی جگہ گرج ہونا چاہیے)
’’یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھو نسے لیتے ہیں”۔(سید مودودی)
’’یا ان کی مثال مینھ کی سی ہے کہ آسمان سے (برس رہا ہو اور) اس میں اندھیرے پر اندھیرا (چھا رہا) ہو اور (بادل) گرج (رہا) ہو اور بجلی (کوند رہی) ہو تو یہ کڑک سے (ڈر کر) موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں دے لیں” ۔(فتح محمد جالندھری)
’’یا آسمانی برسات کی طرح جس میں اندھیریاں اور گرج اور بجلی ہو، موت سے ڈر کر کڑاکے کی وجہ سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیتے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)
یہاں بھی بعد والے دونوں ترجموں میں تشبیہ مرکب کی رعایت نہیں ہوسکی۔
آخر الذکر دونوں تمثیلوں کے بارے میں زمخشری لکھتے ہیں:

والصحیح الذی علیہ علماء البیان لا یتخطونہ: انّ التمثیلین جمیعا من جملۃ التمثیلات المرکبة دون المفرّقۃ، لا یتکلف الواحد واحد شیء یقدر شبھہ بہ، وھو القول الفحل والمذھب الجزل ... ومما ھو بین فی ھذا قول لبید: 

وما النَّاسُ الّا کالدِّیَارِ واھلُھَا
بِھَا یَومَ حَلّوھَا وغَدواً بَلَاقِعُ

لم یشبہ الناس بالدیار، وانما شبہ وجودھم فی الدنیا وسرعۃ زوالھم وفنائھم، بحلول اھل الدیار فیھا ووشک نھوضھم عنھا، وترکھا خلاء خاویۃ.

(جاری)

اے خانہ بر انداز چمن ! کچھ تو ادھر بھی

محمد اظہار الحق

چار دن سے مولوی صاحب نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایک اور صاحب نمازیں پڑھا رہے تھے۔ پانچویں دن مؤذن صاحب سے پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ مولانا کہاں ہیں؟ کیا چُھٹی پر ہیں؟ مؤذن صاحب نے بتایا کہ اُن کا تبادلہ ایک اور مسجد میں ہو گیا ہے۔ یہاں اُن کی مدت  (Tenure)  پوری ہو چکی تھی! اُس دن جمعہ تھا۔ نئے مولوی صاحب ہی نے خطبہ دیا۔ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا چودہ سال سے ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی سے وابستہ ہیں اور کچھ دیگر مساجد میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں!
اس وقت ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی اور بحریہ، دونوں کی رہائشی آبادیوں میں یہی سسٹم کارفرما ہے۔ کسی مسجد میں چندہ لیا جاتا ہے نہ محلے والوں کی کمیٹی ہے، مولانا جس کے ماتحت ہوں۔ تنخواہ انتظامیہ دیتی ہے۔ معقول رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ ڈیفنس ہاوسنگ میں خطیب اور مؤذن کو تین وقت کا تیار پکا پکایا کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے بحریہ میں بھی کھانے کا یہی انتظام ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان دو رہائشی تنظیموں کے علاوہ بھی کچھ سیٹ اپ ایسے ہوں جہاں ایسا ہی یا اس سے ملتا جلتا انتظام چل رہا ہو!
آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر آپ کا بیٹا آٹھ دس سال لگا کر تعلیم سے فارغ ہوا ہو، امتحانات میں کامیابی حاصل کر چکا ہو، قرآن و حدیث اور فقہ پر اسے دسترس حاصل ہو اور پھر اسے روزگار ایسی جگہ ملے جہاں اس کا اور اس کے اہل و عیال کا انحصار محلے والوں کے چندے اور ملاقات و خیرات پر ہو؟ ایک مسجد کمیٹی ہو جس کے ارکان میں دو تین دکاندار ہوں، ایک دو افسر ٹائپ اشخاص ہوں، دو تین چٹے ان پڑھ ہوں، ایک دو جھگڑالو قسم کے بزرگ ہوں، یہ کمیٹی عملی طور پر آپ کے عالم فاضل صاحبزادے کی نگران ہو اور صاحبزادے کو ہر وقت یہ فکر لاحق ہو کہ ان میں سے کوئی ناراض نہ ہو جائے، تو کیا یہ بندوبست آپ کے لیے قابل قبول ہو گا؟
معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جو علمائے دین مساجد اور مدارس میں کام کر رہے ہیں، انہیں دو خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ اکثریت خدا ترس اشخاص پر مشتمل ہے جو سیاست میں پڑنا چاہتے ہیں نہ کسی کا محتاج ہونا پسند کرتے ہیں۔ یہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ اسباق کی تیاری کرتے ہیں۔ پڑھانے میں خلوص اور درد مندی کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ان حضرات کو یہ بندوبست قطعاً اچھا نہیں لگتا کہ وہ اپنی تنخواہ کے لیے اہل محلہ پر اور مسجد کمیٹی پر انحصار کریں۔ مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کی اکثریت بہت کم مشاہروں پر گزر بسر کر رہی ہے۔ قال اللہ اور قال الرسول کی صدائوں کو زندہ رکھنے والوں کی زیادہ تعداد تنگ دستی اور عُسرت کا سامنا کر رہی ہے۔ چٹائیوں پر بیٹھتے ہیں اور لوہے کی بنی چارپائیوں پر سوتے ہیں۔ پنشن ہے نہ ہی جی پی فنڈ، علاج معالجہ کی سہولیات ہیں نہ رہائش کا معقول بندوبست! سالہا سال اسی طرح گزر جاتے ہیں   ؎
گُھٹ گُھٹ کے رہے میرِؔ سے جب مرتے جہاں میں
تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم!
دوسری کیٹگری اُس قلیل تعداد کی ہے جو سیاست اور پی آر میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کچھ تو غیر معمولی صلاحیت کے مالک ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ قابل رشک تنظیمی قابلیت رکھتے ہیں۔ حکومت سے اور مخیر حضرات سے تعلقات پیدا کرنے اور نبھانے کا فن جانتے ہیں۔ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کا مستقبل بھی’’محفوظ‘‘ کر جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو او لیول اور اے لیول قسم کے انگریزی سکول کالج بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ کچھ جو بہت اوپر تک نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں، ہر سال یا سال میں ایک سے زیادہ بار امریکہ یورپ اور دوسرے ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ ان دوروں کو تنظیمی اور تبلیغی دورے کہا جاتا ہے۔ کچھ خوش قسمت ایسے ہیں جنہیں امریکہ کے ارباب اقتدار و اختیار مدعو کرتے ہیں اور دوران سفر ہر قسم کی سہولیات مہیا کرتے ہیں!
ہم ہرگز یہ نہیں کہنا چاہتے کہ مساجد سو فیصد ریاست کی تحویل میں آنی چاہئیں (اگر ایسا کرنا بھی ہو تو بتدریج کرنا چاہیے) مگر ہم یہ ضرور تجویز کریں گے کہ مساجد میں خدمات سرانجام دینے والے علمائے کرام سے حکومت یہ ضرور پوچھے کہ اگر ان کی مساجد کو حکومت کی تحویل میں لے لیا جائے، انہیں تنخواہ، پینشن، علاج معالجہ اور رہائش کی سہولیات دیگر سرکاری ملازموں کی طرح دی جائیں، جیسا کہ مسلح افواج میں ہو رہا ہے، تو کیا وہ اسے پسند کریں گے؟ یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں کہ اکثریت کی رائے اس انتظام کے حق میں ہو گی!
جن علمائے کرام کو قدرت نے تنظیمی اور سیاسی صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان کے لیے بھی میدان حاضر رہنا چاہیے۔ وہ مدارس اور تعلیمی ادارے ضرور چلاتے رہیں؛ تاہم حکومت کو یہ ضرور کرنا چاہیے کہ مدارس کے اساتذہ کے سکیل حقیقت پسندانہ بنوائے، منتظم اور مہتمم حضرات کو یا دوسرے الفاظ میں مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ سالانہ ترقی دیں گے، پنشن کا نظام وضع کریں گے، رہائش یا اس کے بدلے رہائشی الاونس دیں گے۔ اساتذہ اور ان کے اہل و عیال کے علاج کی ذمہ داری مدرسہ کی انتظامیہ پر ہو گی۔ ملازمت سے نکالے جانے کی صورت میں وہ ’’سروسز ٹربیونل‘‘ قسم کے کسی ادارے میں اپیل کرنے کا حق رکھیں گے! مدارس مالکان اگر اساتذہ کو یہ سب جائز حقوق دیتے ہیں تو ان مالکان کو پورا حق ہے کہ نجی شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور کرتے رہیں!
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مدارس میں پڑھانے والے علمائے کرام اور مساجد کے خطیب، امام اور مؤذن حضرات، عزت نفس رکھتے ہیں! انہیں دین کا علم سیکھنے اور سکھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ ایک قابل رشک ذمہ داری ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ مساجد اور مدارس کے وسیع و عریض نجی شعبے کو  Regulate  کرے۔ جو فرائض سرانجام دے رہے ہیں، ان کے حقوق بھی ادا کیے جائیں! عوام کی غالب اکثریت ان علمائے کرام کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتی ہے۔ ان علمائے کرام کا اور ان کے اہل و عیال کا حق ہے کہ وہ معاشی اعتبار سے اطمینان بخش زندگی گزاریں، ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور انہیں کمیٹیوں اور مقتدیوں کا مرہون احسان نہ ہونا پڑے۔
اگر مسلح افواج میں، ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اور بحریہ کی ملک گیر رہائشی بستیوں میں مساجد کا انتظام قابل رشک انداز میں چلایا جا سکتا ہے تو اس انتظام کا اطلاق بتدریج پورے ملک پر کیا جائے! 
مدارس میں تعلیم پانے والے لاکھوں طلبہ کے بھی حقوق ہیں جو کچھ حکومت نے ادا کرنے ہیں، کچھ مدارس کے مالکان نے اور کچھ معاشرے نے مگر یہ موضوع کسی آئندہ نشست میں۔

سنکیانگ کے مسلمانوں کا مسئلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

چین کا مغربی صوبہ سنکیانگ جس کی سرحد ہمارے ملک کے ساتھ لگتی ہے اور جو کسی زمانے میں کاشغر کہلاتا تھا، ہمارے پرانے مسلم لٹریچر میں اس کا ایک اسلامی خطہ کے طور پر کاشغر کے نام سے ذکر موجود ہے لیکن بعد میں اسے سنکیانگ کا نام دیا گیا ہے، میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق وہاں مسلمانوں کے ساتھ معاملات بہت پریشان کن اور اضطراب انگیز ہیں کہ وہ ریاستی جبر کا شکار ہیں، انہیں مذہبی آزادی بلکہ شہری آزادیاں بھی حاصل نہیں ہیں۔ ایک عرصہ سے ایسی رپورٹیں چل رہی تھیں مگر ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ چین کے خلاف پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے اور چین مخالف عناصر یہ خبریں پھیلا رہے ہیں، لیکن اب اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کی کمیٹی کی باقاعدہ رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً دس لاکھ مسلمان حراستی کیمپوں میں ہیں جو اپنے مذہبی اور شہری حقوق سے محروم ہیں اور ان کے ساتھ ریاستی جبر کا معاملہ کیا جا رہا ہے۔ اس پر ترکی کے وزیر خارجہ کا یہ احتجاج بھی سامنے آیا ہے کہ یہ صورتحال افسوسناک اور شرمناک ہے اور انہوں نے چین کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ریاستی جبر کو ختم کیا جائے اور وہاں کے دس لاکھ مسلمان جو حراستی کیمپوں میں ہیں انہیں آزاد کر کے ان کے انسانی حقوق بحال کیے جائیں۔ 
ہمارے ہاں یہ عمومی رجحان پایا جاتا ہے کہ جہاں ایسی بات سامنے آئے اسے مخالفانہ پراپیگنڈا کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نصف صدی قبل وسطی ایشیا کی ریاستوں میں سوویت یونین کے ریاستی جبر اور مذہبی و شہری حقوق کی پامالی پر جب آواز اٹھائی جاتی تھی تو بہت سے لوگ یہ کہہ دیتے تھے کہ یہ سوویت یونین کے خلاف امریکی پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے، حتٰی کہ خود میں یہ کہنے والوں میں شامل تھا کہ یہ سامراج کا پراپیگنڈا ہے اور وسطی ایشیا کے مسلمانوں پر کوئی ریاستی جبر نہیں ہو رہا۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ جب سوویت یونین کی چھتری وہاں سے ہٹی تو میں نے خود علماء کے ایک وفد کے ساتھ تاشقند، سمرقند، ازبکستان میں ریاستی، مذہبی اور انسانی جبر کے ایسے مظاہر دیکھے جو وہاں پون صدی تک جاری رہے۔ اس لیے یہ بات کہہ کر معاملہ کو نظر انداز کر دینا درست نہیں ہے کہ یہ مخالفانہ پراپیگنڈا ہے، بلکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ اور ترک وزیر خارجہ کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد یہ معاملہ واقعتاً انتہائی سنجیدگی اختیار کر گیا ہے۔ اور میں پاکستان کی حکومت سے، قومی اداروں سے، سیاسی پارٹیوں سے، مذہبی راہنماؤں سے، دانشوروں سے اور دنیا بھر کی مسلمان حکومتوں سے یہ درخواست کروں گا کہ اس معاملہ پر غور فرمائیں۔ میں اس پر دو تین حوالوں سے بات کرنا چاہوں گا۔ 
میں یہ چاہوں گا کہ ہمارے ادارے، سیاسی جماعتیں، مذہبی راہنما اور دانشور اِن حوالوں سے اس معاملہ پر غور کریں اور خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں کہ یہ نہ صرف ہماری شرعی بلکہ قومی ذمہ داری بھی ہے۔ 


پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ روز ایک قومی اخبار کے آخری صفحہ پر مختصر سی خبر نظر سے گزری کہ افغانستان کے سابق صدر پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ ۹۳ برس کی عمر میں کابل میں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس خبر نے ذہن میں ماضی کے بہت سے یادگار مناظر ایک ایک کر کے تازہ کر دیے اور دل سے بے ساختہ مجددی صاحب مرحوم کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا نکلی، اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
پروفیسر صاحب مرحوم کا تعلق کابل کے معروف روحانی خانوادہ سے تھا اور وہ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی بزرگ شخصیات میں سے تھے۔ سوویت یونین کے خلاف افغان عوام کے جہاد آزادی میں مجاہدین کے ایک مستقل گروہ کے سربراہ تھے اور جہاد افغانستان کے دوران ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل متحرک رہے۔ میری ان سے ذاتی نیازمندی تھی اور باہمی رابطہ و تعلق بھی رہا۔ وہ ایک بار ہماری دعوت پر گوجرانوالہ تشریف لائے، مرکزی جامع مسجد میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کیا اور ایک میڈیکل کلینک کا افتتاح کرنے کے علاوہ اپنے اعزاز میں دیے گئے بھرپور استقبالیہ میں جہاد افغانستان کے مقاصد اور مجاہدین کی سرگرمیوں کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو کی۔ 
یہ ایک بزرگ شخصیت کے طور پر پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ کا اعزاز تھا کہ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے جو عبوری حکومت متفقہ طور پر قائم ہوئی اس کا سربراہ انہیں چنا گیا اور انہوں نے صدر کی حیثیت سے افغانستان کا اقتدار سنبھالا۔ یہ عبوری حکومت چھ ماہ کے لیے ایک معاہدہ کے تحت قائم ہوئی تھی، اس دوران کچھ حضرات نے ان کے ذہن میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ ایک اسلامی ریاست کے امیر منتخب ہوگئے ہیں اس لیے انہیں اب اس منصب پر فائز رہنا چاہیے اور مدت گزرنے کے بعد اقتدار کسی اور کے حوالے نہیں کرنا چاہیے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان سے اپنے دوست اور بہی خواہ سرکردہ علماء کرام کو مشاورت کے لیے کابل بلایا جن میں راقم الحروف بھی شامل تھا، ایوان صدر میں ان کی زیر صدارت طویل مشاورتی اجلاس ہوا جس میں ان سے یہ کہا گیا کہ امیر زندگی بھر کے لیے ہوتا ہے اس لیے وہ خود کو چھ ماہ کی مدت تک محدود نہ رکھیں۔ جبکہ ہم چند دوستوں نے یہ عرض کیا کہ انہیں معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے اور مدت پوری ہوتے ہی اقتدار اس حکومت کے لیے چھوڑ دینا چاہیے جو باہمی اتفاق سے قائم ہو جائے۔ میں نے اس مجلس میں ان سے گزارش کی کہ ایک بزرگ اور محترم شخصیت کے طور پر ان کے لیے تاریخ میں یہ اعزاز کچھ کم نہیں ہے کہ سوویت یونین کی فوجوں کے انخلا کے بعد متفقہ آزاد حکومت کا سربراہ انہیں چنا گیا ہے اور انہیں اپنے اعزاز کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔ انہوں نے ہمارے اس مشورہ کو قبول فرمایا اور مدت گزرتے ہی اقتدار نئے فیصلے کے مطابق پروفیسر برہان الدین ربانیؒ کے حوالے کر دیا۔ 
پروفیسر صاحب مرحوم کی دعوت پر کابل کے اس دورہ میں دیگر بہت سے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی بھی شامل تھے اور ہم دونوں نے اس وقت کے وزیر دفاع احمد شاہ مسعود شہیدؒ کی فرمائش پر چند دن کابل میں رکنے کا پروگرام بنا لیا۔ اس دوران ہماری ملاقاتیں حرکت انقلاب اسلامی کے سربراہ مولانا محمد نبی محمدیؒ کے علاوہ مولانا نصر اللہ منصور شہیدؒ سے بھی رہیں جو میرے ذاتی دوستوں میں سے تھے۔ احمد شاہ مسعود مرحوم کا کہنا تھا کہ وہ حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے شاگرد ہیں اور اپنے استاذ زادہ مولانا فداء الرحمان درخواستی کی میزبانی کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ دورہ ہم نے پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ کی دعوت پر کیا تھا اور ان کے ساتھ ایک یادگار مشاورت ہوئی تھی۔ مجددی صاحب ایک باوقار اور محترم بزرگ تھے جن کے سب خیالات اور پالیسیوں سے اتفاق ضروری نہیں مگر افغانستان کی ایک بزرگ شخصیت کی وفات ہم سب کے لیے صدمہ کا باعث بنی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مولانا سید واضح رشید ندویؒ

محمد عثمان فاروق

۱۶ جنوری بروز بدھ کی صبح  مولانا سید واضح رشید ندوی اپنے رفیق اعلی ٰ سے جا ملے۔  مولانا واضح رشید ندوی ۱۹۳۲ میں تکیہ کلاں، رائے بریلی (اتر پردیش، ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدمحترم سید رشید حسنیؒ درویش منش انسان تھے اور والدہ محترمہ سیدہ امۃ العزیز، خدا ترس خاتون تھیں اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ سے بیعت تھیں۔ مولانا واضح، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کے حقیقی بھانجے تھے۔ آپ کو بچپن سے ہی مولانا علی میاں ندوی کے زیر تربیت رہنے اور کئی علمی ودعوتی سفروں میں رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔ 
آپ نے دینی تعلیم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے حاصل کی اور تقریبا بیس برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ گئے جہاں انگریزی زبان وادب میں گریجویشن کیا۔ یوں قدیم دینی روایتی نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید  نظام تعلیم کے مزاج، ماحول اور ترجیحات کودیکھنے کا موقع ملا۔
آپ نے عملی زندگی کا آغاز آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن دہلی میں براڈ کاسٹر اور مترجم کی حیثیت سے کیا۔ یہاں آپ کا کام مقامی وبین الاقوامی انگریزی اور عربی مجلات واخبارات کا ترجمہ ہوتا تھا۔ یہ آپ کی عملی زندگی کا ابتدائی مگر نہایت اہم دور تھا، کیونکہ اس سے آپ کو عالمی منظر نامے سے واقفیت حاصل ہوئی۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نمائندہ سیاسی وسماجی شخصیات کو دیکھنے سننے کا موقع ملا جس سے آپ کی سوچ کا کینوس مزید وسیع ہو گیا۔ ریڈیو اسٹیشن میں ملازمت کا یہ عرصہ تقریبا بیس سال کو محیط ہے۔ اس کے بعد آپ مولانا ابو الحسن علی ندوی کے ایما پر عربی زبان وادب کے استاد کی حیثیت سے اپنی مادر علمی ندوۃ العلماء لکھنو آ گئے اور آخر وقت تک یہیں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ عربی زبان وادب کے ماہر، کہنہ مشق صحافی، مشفق اور محنتی استاد تھے۔
مولانا ہمہ جہت شخصیت تھے، لیکن عربی زبان وادب اور صحافت سے آپ کو خاص شغف تھا اور عربی انشا پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ آپ کی تحریریں، بالخصوص عربی تحریریں علمیت وادبیت کا شاہکار ہیں۔ ندوہ کے فضلاء میں عربی نویسی اور انشاء پردازی کا ذوق اور ممارست پیدا کرنے میں آپ کا بہت حصہ ہے۔  آپ ندوہ سے جاری ہونے والے دو عربی مجلات ’’الرائد”اور ’’البعث الاسلامی” کے مدیر تھے۔
مولانا کی کتابوں، مضامین اور بیانات سے استفادہ کرنے کے بعد ان کے مزاج، فکر اور دینی دعوت کی بڑی جامع اور متوازن تصویر سامنے آتی ہے۔ مولانا ہماری دینی روایت کے نمائندہ تھے۔ ندوہ کے زریں اصول الجمع بین القدیم الصالح والجدید النافع کا مصداق تھے۔  ذہانت، وسعت مطالعہ اور وسیع تجربہ ومشاہدہ کے باوجود آپ کی گفتگو اور تحریروں میں ادعائیت کا نام ونشان نہیں ہے۔ مولانا نے گوشہ خمول میں رہ کر درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کی خدمات سرانجام دی ہیں۔
مولانا کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کی کتابوں اور مضامین میں جابجا سلف صالحین اور اکابر کی کتابوں سے اقتباسات ملتے ہیں۔ یوں پڑھنے والوں کو دینی علم کی روایت سے واقفیت حاصل ہوتی ہے اور اس پر اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ مفتی محمد شفیعؒ نے تفسیر معارف القرآن میں سورۃ الفاتحہ کی آیت صراط الذین انعمت علیھم کی تشریح میں بڑا ایمان افروز اور فکر انگیز نکتہ بیان کیا ہے کہ رشد وہدایت کے دو سلسلے ہیں۔ ایک کتاب اللہ اور دوسرا رجال اللہ (علماء وصالحین)۔  پھر مفتی صاحبؒ نے لسان العصر اکبر الہ آبادی کا شعر نقل کیا ہے
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی آدمی بناتے ہیں
مولانا واضح ندویؒ تصوف وسلوک (تزکیہ واحسان) کی روایت پر عامل اور کاربند تھے۔ اپنے برادر اکبر مولانا سید محمد رابع حسن ندویؒ (جو بحمد اللہ بقید حیات ہیں) سے بیعت تھے اور ان کے خلیفہ مجاز بھی تھے۔  مولانا نے تصوف کی صحیح تصویر پیش کی اور اس چشمہ صافی کو گدلا ہونے سے بچانے کے لیے جدوجہد کی۔ تصوف واہل تصوف کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات مولانا  کی عربی کتاب ادب اھل القلوب کا مطالعہ کریں۔
مولانا کی دینی دعوت وافکار میں تزکیہ نفس، تعلق مع اللہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ومحبت، فکر آخرت، عبدیت کاملہ اور حسن معاشرت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔  آپ امت مسلمہ کی زبوں حالی اور افتراق وانتشار پر بہت کڑھتے تھے اور وحدت فکر وعمل کی دعوت دیتے تھے۔  آپ کے نزدیک امت کے زوال کی بنیادی وجہ خدا کے دین سے بے اعتنائی اور باہمی افتراق وانتشار ہے۔ آپ کی دینی فکر میں مقاصد اور وسائل کے تعین کے فرق کو خوب ملحوظ رکھا گیا ہے۔ 
عالمی صحافت پر بھی مولانا کی بڑی گہری اور حکیمانہ نظر تھی۔ ایک بالغ نظر صحافی ہونے کے ناتے سے عالمی سیاسی، معاشی حالات اور رجحانات پر ناقدانہ نظر رکھتے تھے۔  غالب مغربی تہذیب وثقافت، سرمایہ دارانہ نظام، استعمار، استشراق، شدت پسند اسلامی تحریکات کی حکمت عملی، صہیونیت اور سامراج آپ کی صحافیانہ تحریروں کے مرکزی موضوعات تھے جنھیں پڑھ کر مولانا کی دینی بصیرت اور حکیمانہ تجزیہ وتحلیل کی صلاحیتیں سامنے آتی ہیں۔  مولانا اپنی تحریروں کے ذریعے سے اسلامی تہذیب کی بالادستی اور اسلامی نظام زندگی کی معقولیت، حقانیت اور حجیت کو بڑے دل نشیں اور عصری اسلوب میں پیش کرتے تھے۔ تفصیل کے لیے مولانا کی کتاب الی نظام عالمی جدید دیکھی جا سکتی ہے جو اصلا مولانا  کے مضامین کا مجموعہ ہے جو الرائد اور البعث الاسلامی میں شائع ہوتے رہے۔
مولانا کی دینی فکر کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے انتہا پسندی اور اباحیت پسندی کی دو انتہاوں کے مابین اعتدال کی راہ اپنائی اور تحریک  ندوہ کے راہ نما اصول التصلب فی الاصول والغایات والتوسع فی الفروع والآلات کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔ 
مولانا کی عربی کتابوں میں اعلام الادب العربی فی العصر الحدیث، مصادر الادب العربی، ادب الصحوۃ  الاسلامیۃ، ادب اھل القلوب، تاریخ الثقافۃ الاسلامیۃ، الدعوۃ الاسلامیۃ ومناھجھا فی الھند، الامام احمد بن عرفان الشھید، الشیخ ابو الحسن علی الندوی قائدا حکیما، المسحۃ الادبیۃ فی کتابات الشیخ ابی الحسن علی الندوی، حرکۃ التعلیم الاسلامی فی الھند وتطور المنھج، منھج علماء الھند فی التربیۃ الاسلامیۃ، لمحات من السیرۃ النبویۃ والادب النبوی، مختصر الشمائل النبوی، الرحلات الحجازیۃ، حرکۃ رسالۃ انسانیۃ ودورھا فی مکافحۃ الطائفیۃ والعنف اور من صناعۃ الموت الی صناعۃ القرارات جبکہ اردو کتابوں میں اسلام مکمل نظام زندگی، محسن انسانیت، نظام تعلیم: اندیشے، تقاضے اور حل، ندوۃ العلماء: ایک راہ نما تعلیمی مرکز اور تحریک دعوت واصلاح، مسئلہ فلسطین، سامراج اور  عالم اسلام، سلطان ٹیپو: ایک تاریخ ساز قائد شخصیت شامل ہیں۔
مولانا کے ویسے تو سیکڑوں شاگرد ہیں، لیکن راقم جن کی تحریروں سے ابھی تک استفادہ کر سکا ہے، ان میں ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، مولانا وثیق ندوی او رمولانا جعفر مسعود ندوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
مولانا کی نماز جنازہ مولانا سعید الرحمن اعظمی نے پڑھائی اور تدفین آبائی گاوں دائرہ شاہ علم اللہ، تکیہ کلاں، رائے بریلی میں ہوئی۔
اللہ تعالی مولانا کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور جنت میں اعلی ٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

ہم نام و ہم لقب علماء

مفتی شاد محمد شاد

علم الرجال اور تراجم پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں،جن میں مختلف علاقوں اور زمانوں کی شخصیات اور علماء کا مختصر اور تفصیلی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ان کے علاوہ دیگر کتابوں میں جب کسی شخصیت یا عالم کا تذکرہ کرنا مقصود ہوتا ہے تو مصنف عموما مکمل نام ذکر کرنے کے بجائے صرف کنیت،نسبت یا لقب لکھنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے،لیکن بسااوقات ایک  کنیت،نسبت یا لقب سے ایک سے زیادہ علماء وشخصیات مشہور ہوتی ہیں،بلکہ اس سے بڑھ کر ایک نام سے بھی کئی شخصیات مشہور ہیں، تو ایسی صورتحال میں اگر مصنف محض کنیت،یا نسبت یا لقب ذکر کرتا ہے تو قاری کو تشویش ہوجاتی ہے کہ اس سے کونسی شخصیت مراد ہے۔ہم نے اس مضمون میں  مختلف کتب سے ایسے ہی چند ہم نام وہم لقب علماء وشخصیات کا مختصر تعارف اور ان کے درمیان فرق کو واضح  کیا ہے۔اگرچہ ان علماء کے علاوہ دیگر بھی کئی شخصیات کے نام اس طرح متشابہ اور ایک جیسے ہوسکتے ہیں،لیکن زیادہ مشہور شخصیات یہی ہیں۔اس مضمون کے لیے زیادہ تر علامہ زرکلی ؒ کی "الاعلام" اور دیگر طبقات کی کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔

ابن عربی اور ابن اعرابی:

یہ دو الگ الگ کنیات ہیں،اور ہر کنیت کے ساتھ دو ،دو شخصیات مشہور ہیں:

ابن عربی:

1۔ابوبکر ابن عربی، محمد بن عبد اللہ المعافری،اشبیلی، مالکیؒ (468ھ، 543ھ)۔آپ قاضی اور حفاظ ِ حدیث میں سے تھے۔اشبیلیہ میں قاضی بھی رہے ۔آپ نے حدیث، فقہ،اصول،تفسیر،ادب اور تاریخ میں کئی کتابیں لکھی ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں "العواصم من القواصم" ، "عارضۃ الاحوذی فی شرح الترمذی" ، "احكام القرآن" ، "القبس فی شرح موطا ابن انس" ، "الانصاف فی مسائل الخلاف" ، "قانون التاويل" وغیرہ شامل ہیں۔
2۔محی الدین ابن عربی، ابوبکر،محمد بن علی بن عربی،حاتمی ،طائی،اندلسی (560ھ، 638ھ)آپ مرسیہ ، اندلس میں پیدا ہوئے اور پھر اشبیلیہ منتقل ہوئے۔آپ عظیم متکلم اور فلسفی تھے۔آپ کے بعض تفردات پر علماء نے سخت رد کیا ہے،بلکہ بعض علماء نے آپ پر کفر کا فتوی لگاکر مباح الدم قرار دیا تھا۔آپ نے چار سو سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ان میں سے چند مشہور یہ ہیں: "الفتوحات المكيۃ" ، "محاضرة الابرار ومسامرة الاخيار"، "مفاتيح الغيب" ، "انشاء الدوائر" وغیرہ۔

ابن الاعرابی:

1۔ابوعبد اللہ،محمد بن زیاد،المعروف بابن الاعرابی (150ھ،231ھ)مؤرخ،ادیب اور لغت کے بڑے عالم تھے۔آپ احول(بھینگے)تھے۔آپ کی مشہور کتابوں میں "تاريخ القبائل" ، "تفسير الامثال"  اور  "الفاضل" وغیرہ شامل ہیں۔
2۔ابوسعید ابن الاعرابی، احمد بن محمد بن زیادؒ (246ھ، 340ھ) آپ مشہور مؤرخ اور حدیث کے عالم تھے۔شیخ جنید بغدادیؒ کی صحبت میں بھی رہے ہیں اور حرم مکہ کے شیخ  بھی،اور مکہ میں ہی آپ کی وفات ہوئی ۔آپ کی کتابوں میں "المعجم" ، "طبقات النساك"، "الاخلاص ومعانی علم الباطن" وغیرہ شامل ہیں۔

ابن رشد: دادا ،اور پوتا:

ابن رشد کی کنیت سے دو شخصیات مشہور ہیں،ایک دادا ہے اور دوسرا اس کا پوتا،ذیل میں دونوں کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:
1۔ابو الولید، محمد بن احمد بن رشدؒ (450ھ، 520ھ)۔آپ کی پیدائش اور وفات قرطبہ  میں ہوئی۔ آپ فقہاء مالکیہ کے بڑے علماء میں سے تھے۔آپ کے پوتے بھی اسی کنیت سے مشہور ہے،اس لیے آپ کو ابن رشد الجد یا ابن رشد الاکبر  یا ابن رشد الفقیہ کے لقب کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ مالکیہ کی  کتابوں میں  جہاں "ابن رشد" لکھا جاتا ہے ،اس سے عموما یہی مراد ہوتے ہیں۔آپ کی کتابوں میں  "المقدمات الممہدات" ، "البیان والتحصیل" ، "مختصر شرح معانی الآثار للطحاوی"، "الفتاوی" ، "اختصار المبسوطۃ" اور  "المسائل"شامل ہیں۔
2۔ابو الولید، ابن رشد اندلسی،محمد بن احمدؒ (520ھ،595ھ)۔آپ بھی مالکی فقیہ اور عظیم فلسفی تھے۔آپ نے ارسطو کی کتابوں کو عربی میں منتقل کیا اور اس پر بہت کچھ اضافہ بھی کردیا۔آپ کو اپنے  دادا سے ممتاز کرنے کے لیے"الحفید" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ نے پچاس سے زائد کتابیں لکھیں۔ان میں سے چند مشہور یہ ہیں: "منہاج الأدلۃ" ، "تهافت التہافت" ، "بدايۃ المجتہد ونہايۃ المقتصد" ، "فصل المقال فيما بين الحكمۃ والشريعۃمن الاتصال" ، "فلسفۃ ابن رشد"  اور  "التحصيل" وغیرہ۔

ابن ابی شیبہ: تین شخصیات:

ابو شیبہ کے دو بیٹے بڑے علماء اور عظیم محدثین میں  شمار ہوتے ہیں،اور دونوں "ابن ابی شیبہ" کی کنیت سے مشہور ہیں۔ان کے علاوہ ابوشیبہ کے ایک پوتے بھی اسی کنیت سے مشہور ہیں۔تینوں کا مختصر تعارف ذیل میں دیا جاتا ہے:
1۔ابوبکر، عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہ، عبسی،کوفی (159ھ، 235ھ)۔آپ حافظ الحدیث تھے اور حدیث میں آپ نے کئی  کتابیں لکھی ہیں، مثلا "المسند"، "الایمان"، "الزکوۃ" وغیرہ، لیکن آپ کی سب سے مشہور کتاب "المصنف فی الاحاديث والآثار" ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ کے نام سے مشہور ہے۔
2۔ابوالحسن، عثمان بن محمد بن ابی شیبہ، عبسی،کوفی ؒ (156ھ، 239ھ)۔آپ ابوبکر بن ابی شیبہ کے بڑے  بھائی ہیں۔آپ بھی حافظ الحدیث  تھے۔محدثین نے آپ کو حدیث کے باب میں ثقہ اور مامون لکھا ہے۔آپ کی کتابوں میں  "المسند"  اور "التفسیر" شامل ہے۔
3۔ابوجعفر، محمد بن عثمان بن محمد بن ابی شیبہ، عبسی، کوفی ؒ (متوفی 297ھ)۔آپ ابوالحسن،عثمان بن محمد بن ابی شیبہ کے بیٹے اور ابوبکر بن  ابی شیبہ کے بھتیجے ہیں۔آپ علم الرجال اور تاریخ کے بڑے علماء میں سے تھے۔آپ کی کتابوں میں "التاریخ الکبیر" کا نام ملتا ہے اور بعض علماء نے "مسائل بن ابی شیبہ" کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

شیخین/شیخان: فقہ میں:

عموما کتابوں میں  اسماء کے بجائے "شیخین" یا "شیخان" کا لقب استعمال ہوتا ہے،حدیث سے متعلق کتابوں میں اس لقب سے امام بخاریؒ اور امام مسلم ؒ مراد ہوتے ہیں،جبکہ فقہی کتب میں ہر مسلک کی کتابوں میں یہ لقب الگ الگ شخصیات کے لیے استعمال ہوتا ہے:

فقہ حنفی:

فقہاء حنفیہ جب اپنی کتابوں میں یہ لقب استعمال کرتے ہیں تو اس سے امام ابوحنیفہ،نعمان بن ثابت(80ھ،150ھ)اور امام ابویوسف،یعقوب بن ابراہیم (113ھ، 182ھ)مراد ہوتے ہیں۔

فقہ مالکی:

مالکیہ کی کتابوں میں اس لقب سے  امام قیروانی،عبداللہ بن ابی زید(386ھ)اور امام ابن القابسی،علی بن محمد بن خلف (324ھ، 403ھ)مراد ہوتے ہیں۔
البتہ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ مالکیہ کی کتابوں میں اس لقب سے امام قیروانی اور ابوبکر الابہری،محمد بن عبداللہ بن محمد(289ھ 375ھ)کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔

فقہ شافعی:

فقہاء شافعیہ کی کتابوں میں یہ لقب شیخ رافعی،ابو القاسم،عبدالکریم بن محمد قزوینی (557ھ،623ھ) اور امام نووی،ابوزکریا،یحیٰ بن شرف بن مری،محی الدین (631ھ،676ھ) مراد ہوتے ہیں۔اگر "شیوخ" کا لقب استعمال کیا جائے تو ان دونوں حضرات کے ساتھ  شیخ ابونصر، تاج الدین سبکی، عبدالوہاب بن علی (727ھ، 771ھ)بھی شامل ہوجاتے ہیں۔

فقہ حنبلی:

فقہ حنبلی کی کتابوں میں اس لقب سے"المحرر" کے مصنف  شیخ مجد الدین،ابن تیمیہ،  عبد السلام بن عبداللہ (590ھ 652ھ) اور شیخ موفق الدین،ابن قدامہ عبد اللہ بن محمد المقدسی (541ھ620ھ)کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔

الفالی اور القالی:

یہ دو مختلف شخصیات کے الگ الگ القاب ہے۔پہلا لقب "فاء "کے ساتھ ہے اور دوسرا "قاف" کے ساتھ۔

الفالی:

اس سےقطب الدین،ابو الفتح، محمد بن مسعود بن محمود الفالی،الشقار،السیرافی(684ھ، 712ھ) مراد ہے۔آپ سیرافی کے لقب سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔بڑے مفسر اور نحو کے عالم گزرے ہیں۔علامہ اسفرائینی کی "اللباب فی علم الاعراب" کی شرح آپ نے لکھی ہے ،اس کے علاوہ  تفسیر"الکشاف" کی تلخیص بنام "تقریب التفسیر" بھی آپ کی لکھی ہوئی ہے۔

القالی:

یہ لقب ابو علی ، اسماعیل بن قاسم بن عیذون (288ھ، 356ھ)  کا ہے۔آپ لغت،شعر و ادب کے حافظ سمجھے جاتے تھے۔آپ بغداد میں پیدا ہوئےاور ابتدائی تعلیم کے بعدمغربی ممالک  کی طرف سفر کرکے قرطبہ میں انتقال کرگئے۔آپ کی کتابوں میں  شعر وادب میں "النوادر" جوامالی القالی کے نام سے مشہور ہے ،اور لغت میں "البارع" مشہور ہے۔

قاضی :مسالک اربعہ میں:

کئی علماء ایسے گزرے ہیں جن کو قاضی کا لقب دیا گیا،بلکہ مسالک اربعہ کی کتابوں میں ان  شخصیات کے نام کے بجائےصرف قاضی لکھ لیا جاتا ہے۔ایسے علماء جو اس لقب سے مشہور ہوئے ہیں،درج ذیل ہیں:
(1)۔حنفیہ کی کتابوں میں جب "قاضی" لکھا جاتا ہے تو اس سے امام ابویوسف رحمہ اللہ(113ھ،182ھ) مراد ہوتے ہیں۔آپ کا مکمل نام یعقوب بن ابراہیم بن حبیب انصاری،کوفی،بغدادی ہے۔
(2)۔مالکیہ کی کتابوں میں  لفظِ "قاضی" سے قاضی عبد الوہابؒ (362ھ، 422ھ)مراد ہوتے ہیں۔آپ کا مکمل نام ابو محمد،عبدالوہاب بن علی بن نصر ثعلبی بغدادی ہے۔
(3)۔شافعیہ کی کتابوں میں قاضی کے لقب سے قاضی شیخ المروذیؒ  (462ھ)مراد ہوتے ہیں۔آپ کا مکمل نام حسین بن محمد بن احمد المروذی ہے۔
(4)۔حنابلہ کی کتابوں میں اس لقب سے قاضی ابویعلی الفراء ؒ (380ھ، 458ھ) کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ آپ کا مکمل نام محمدبن حسین بن محمد بن خلف بن الفراء ہے۔

طبری لقب سے متصف  شخصیات:

"طبری"لقب سے کئی علماء متصف ہیں۔بعض علماء "طبرستان" نامی علاقے کی طرف منسوب ہے،جبکہ بعض علماء کی طرف یہ نسبت ان کےآباء واجداد میں سے کسی کے اس لقب سے متصف ہونے کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ان میں سے چند مشہور علماء درج ذیل ہیں:
(1)۔ابن جریر طبری (ولادت:224ھ، وفات:310ھ)اس لقب سے سب سے مشہور شخصیت یہی ہے۔آپ کا مکمل نام ابوجعفر، محمد بن جریر بن یزید طبری ہے۔مشہور مؤرخ ومفسر گزرے ہیں۔ طبرستان کے علاقے آمل میں پیدا ہوئے اور پھر بغداد منتقل ہوکر وہی پر وفات پائی۔آپ ثقہ مؤرخین میں سے ہیں۔ابن اثیر فرماتے ہیں کہ نقل تاریخ میں ابوجعفر اوثق تھے اور آپ کی تفسیر میں گہرا علم اور تحقیق نظر آتی ہے۔آپ کی مشہور کتابوں میں "اخبار الرسل والملوک" جو تاریخ طبری کے نام سے مشہور ہے،"جامع البیان فی تفسیر القرآن" جو تفسیر طبری کے نام سے مشہو رہے،"اختلاف الفقہاء"، "المسترشد"،"جزء فی الاعتقاد"، "القراءات"وغیرہ شامل ہے۔
 (2)۔ ابن قاسم طبری (ولادت:263ھ، وفات:350ھ)آپ کا نام ابو علی،حسین بن قاسم ہے۔آپ شافعی فقیہ تھے۔آپ کی پیدائش طبرستان میں ہوئی اور وفات بغداد میں ۔آپ ابن ابی ہریرۃ کے شاگرد رہے ہیں۔فقہ،اصول فقہ اور علم کلام میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ابن کثیر فرماتے ہیں کہ آپ نے سب سے پہلے علم خلاف میں کتاب لکھی ہے۔آپ کی کتابوں میں "المحرر"،"الایضاح" اور "العدۃ"شامل ہے۔
(3)۔ابو طیب طبری (ولادت:348ھ،وفات:450ھ )آپ کا نام طاہر بن عبد اللہ طبری ہے۔فقہاء شافعیہ میں سے تھے ۔طبرستان کے علاقے آمل میں پیدا ہوئے اور پھر بغداد آئے، وفات بھی وہی ہوئی۔کرخ کے علاقے میں قاضی بھی رہے ہیں۔ آپ کی کتابوں میں  فقہ شافعی کی "شرح مختصر المزنی" گیارہ جلدوں میں،"جواب فی السماع والغناء" اور فروع فقہ شافعی میں "التعلیقۃ الکبری"شامل ہے۔
(4)۔رضی الدین طبری۔(ولادت:636ھ،وفات:722ھ)آپ کا پورا نام ابو احمد ،ابراہیم بن محمد ہے۔اپنے زمانے میں مکہ کے بڑے شیوخ میں سے تھے اور شافعی تھے۔علامہ ذہبی ؒ نے لکھا ہے کہ آپ  پچاس سال سے زیادہ عرصہ تک حدیث پڑھاتے رہے ہیں۔آپ کی کتابوں میں "المنتخب فی علم الحدیث"،"تساعیات" اور "اختصار شرح السنۃ للبغوی"شامل ہے۔
(5)۔محب الدین طبری (ولادت:615ھ، وفات:694ھ)آپ کا نام ابو العباس،احمد بن عبد اللہ طبری ہے۔آپ حافظ الحدیث اور شافعی فقیہ تھے۔آپ کی پیدائش اور وفات مکہ میں ہوئی اور آپ شیخ الحرم رہے ہیں۔آپ کی کتابوں میں "السمط الثمین فی مناقب امھات المؤمنین"،"الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ"،"القری لقاصد ام القری"،"ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی" اور "الاحکام"شامل ہے۔
 (6)۔ابن المحب طبری (ولادت:1100ھ، وفات 1173ھ)آپ کا پورا نام محمد بن علی ابن المحب  ہے۔آپ حسینی شافعی تھے۔مؤرخ تھے اور "الجمال الاخیر"کے لقب سے متصف تھے۔پیدائش اور انتقال مکہ میں ہوئی۔آپ کی  کتابوں میں "عقود الجمان فی سلطنۃ آل عثمان"،"إتحاف فضلاء الزمن بتاريخ ولايۃ بنی الحسن"، "الحجۃ  الناهضۃ فی إبطال مذهب الرافضۃ"، "إمتاع البصر والقلب والسمع فی شرح المعلقات السبع" شامل ہے۔

سرخسی لقب سے متصف علماء:

اس لقب کے ساتھ کئی شخصیات متصف ہیں،ان میں سرفہرست صاحبِ مبسوط ہیں۔یہاں ایسے علماء کا مختصر تعارف مقصود ہے۔لیکن اس سے پہلے لفظ"سرخس"کے تلفظ کے بارے کچھ وضاحت مقصود ہے۔الجواہر المضیہ میں اس لفظ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ "سین" اور "راء"کے فتح اور "خا"کے سکون کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔یہی زیادہ مشہور ہے،البتہ بعض نے "راء"کے سکون اور "خا"کے فتح کے ساتھ بھی پڑھا ہے اور کہا ہے کہ یہ لفظ عربی میں منتقل ہوکر اسی طرح  استعمال ہوتا ہے،جبکہ  فارسی میں  "راء"پر فتح اور "خا"کے سکون کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔
(1)۔شمس الائمہ،قاضی ابوبکر سرخسی۔(متوفی483ھ)آپ کا پورا نام محمد بن احمد بن سہل ہے۔خراسان کے علاقے"سرخس" میں پیدا ہوئے ۔آپ کا شمار فقہاء حنفیہ کی عظیم شخصیات اور مجتہدین میں ہوتا ہے۔آپ کی سب سے مشہور کتاب "المبسوط" ہے جو تیس جلدوں پر مشتمل ہے،یہ کتاب آپ نے اوزجند کے جیل  سے شاگردوں کو املاء کروائی ہے۔دیگر کتابوں میں "شرح الجامع الکبیر" ، "شرح السیر الکبیر" ، "شرح مختصر الطحاوی"اور اصول فقہ میں "الاصول" شامل ہے۔
(2)۔ابو العباس ابن طیب سرخسی۔(متوفی 286ھ)آپ کا مکمل نام احمد بن محمد بن مروان بن طیب ہے۔آپ کو فلسفہ میں خاص مہارت حاصل تھی،اس کے علاوہ تاریخ،سیاست،ادب اور فنون کے بھی عالم تھے۔آپ کی پیدائش بھی "سرخس"میں ہوئی ۔آپ مشہور فلسفی کندی  کے شاگرد رہے ہیں اور خلیفہ عباسی معتضد باللہ کے استاد رہے ہیں۔آپ کتابوں میں "کتاب السیاسۃ"، "المدخل الی صناعۃ النجوم"، "کتاب الموسیقی"، "المسالک والممالک" ،"الجلساء والمجالسۃ" اور کتاب النفس، کتاب الشطرنج، وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے۔
(3)۔اسماعیل بن ابراہیم بن محمد سرخسی۔(متوفی 414ھ)۔آپ حافظ اسحاق القراب کے بھائی تھے۔فقیہ اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ مشہور قاری اور قراءات میں امام تھے۔آپ نے مناقب امام شافعیؒ میں ایک کتاب بھی لکھی ہے۔
(4)۔ابوبکر،عبدالرحمن بن محمد سرخسی۔(متوفی 439ھ) آپ حنفی فقیہ تھے۔آپ کی پیدائش بھی سرخس میں ہوئی اور بعد میں خوزستان منتقل ہوگئے۔بصرہ میں دو بار قاضی مقرر ہوئے ۔آپ کی کتابوں میں مشہور کتاب "تکملۃ التجرید للکرمانی" ہے۔
(5)۔عبید اللہ سرخسی۔(متوفی 241)آپ کا پورا نام عبید اللہ بن سعید بن یحیٰ ہے۔آپ حفاظِ حدیث میں سے تھے۔امام بخاریؒ نے بھی آپ سے روایات لی ہیں۔
(6)۔رضی الدین سرخسی (متوفی 571ھ)آپ کا نام محمد بن محمد ہے۔عظیم حنفی فقیہ تھے۔حلب میں رہتے تھے اور پھر دمشق منتقل ہوئے،وہیں پر وفات پائی۔آپ کی کتابوں میں "المحیط الرضوی" ، "المحیط" ،"الطریقۃ الرضویۃ"، "الوسیط" اور "الوجیز" شامل ہے۔

زیلعی: چارشخصیات کا لقب:

علماء میں کئی شخصیات "زیلعی"کے لقب سے منسوب ہیں۔درج ذیل چار  میں سے  پہلےدو علماء اس لقب سے زیادہ مشہور ہیں:
(1)۔فخرالدین زیلعی(متوفی743ھ)۔آپ کا پورا نام ابوعمرو،عثمان بن علی بن محجن البارعی ہے۔آپ زیلع کی طرف منسوب ہے جو آج کل صومالیہ میں واقع ہے۔عظیم فقیہ اور مفتی تھے۔705ہجری میں قاہرہ گئے اور وہی پر وفات بھی ہوئی۔آپ کی مشہور کتابوں میں چند یہ ہیں: تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ترکۃ الکلام علی احادیث الاحکام اور شرح الجامع الکبیر۔
(2)۔جمال الدین زیلعی(ولادت:وفات:762ھ)آپ کا مکمل نام ابومحمد،عبداللہ بن یوسف بن محمد ہے۔آپ فخرالدین زیلعی کے شاگرد ہیں۔آپ بھی فقیہ اور محدث تھے۔آپ کی مشہور کتابوں میں نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ  اور تخریج احادیث الکشاف شامل ہے۔
(3)۔زیلعی عقیلی (متوفی 707ھ)آپ کا نام احمد بن عمر ہے۔عقیل بن ابی طالب کی اولاد میں سے ہیں۔آپ فقیہ اور صوفی تھے۔آپ کا انتقال لُحیہ نامی علاقے میں ہوا۔آپ نے تصوف میں ایک کتاب بنام ثمرۃ الحقیقۃ ومرشد السالکین الی اوضح طریقۃ لکھی ہے۔
(4)۔زیلعی جبرتی (متوفی 1188ھ)ان کا نام حسین بن ابراہیم بن حسن جبرتی عقیلی حنفی ہے۔آپ فقیہ بھی تھے،لیکن علم فلکیات میں آپ زیادہ ماہر تھے۔آپ کے چند رسائل کا تذکرہ ملتا ہے جیسے حوض کے پانی سے متعلق ایک رسالہ " رفع الاشکال"اور اوقات ِ نماز سے متعلق ایک رسالہ "حقائق الدقائق" اور "العقد الثمین فیما یتعلق بالموازین"وغیرہ۔

ابن کثیر: دو شخصیات کی کنیت:

علامہ ابن کثیر ایک معروف شخصیت اور بڑے مفسر گزرے ہیں،لیکن یہ کنیت ان کے علاوہ ایک اور شخصیت کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ذیل میں دونوں کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:
(1)۔۔۔ابن کثیر المُقری۔(ولادت:45ھ، وفات:120ھ)آپ کا پورا نام ابومعبد عبداللہ بن کثیر بن عمرو ہے۔آپ کی نسبت کنانی،داری ،مکی ہے۔آپ کو "عطار"بھی کہاجاتا تھا،کیونکہ آپ عطر وخوشبو کا کاروبار کرتے تھے۔آپ کی پیدائش اور وفات مکہ میں ہوئی۔آپ بڑے عالم تھے اور سات مشہور قاریوں(قراء سبعہ)میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔
(2)۔۔۔ابن کثیر مفسر۔(ولادت:701ھ، وفات:774ھ)آپ کا پورا نام حافظ عماد الدین ،ابوالفداء،اسماعیل بن عمر بن کثیر،قرشی بصروی،دمشقی شافعی ہے۔آپ کی پیدائش شام میں ہوئی ،لیکن دو سال کی عمر میں والد کی وفات ہوئی اور آپ گھر والوں کے ساتھ دمشق منتقل ہوگئے اور وفات  بھی دمشق ہی میں ہوئی۔آپ حافظ الحدیث،مؤرخ اور عظیم مفسر ہیں۔آپ کی کتابوں میں چند مشہور یہ ہیں:تاریخ میں  "البدایہ والنہایہ"، تفسیر میں "تفسیر القرآن العظیم" جو تفسیر ابن کثیر کے نام سے مشہور ہے۔"طبقات الفقہاء الشافعیین"، "الاجتہاد فی طلب الجہاد"،  "جامع المسانید" ، "اختصار علوم الحدیث" ، "الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول" اور "التکمیل فی معرفۃ الثقات والضعفاء والمجاہیل"۔

ابن حجر:  دو شخصیات کی کنیت:

ابن حجر کی کنیت سے حدیث کا کوئی طالب علم ناواقف نہ ہوگا،لیکن اس کنیت سے دو بڑی شخصیات مشہور ہیں:
(1)۔حافظ ابن حجرعسقلانی شافعی۔(متوفی 852ھ)آپ کا اصل نام ابوالفضل  شہاب الدین احمدبن علی بن محمد کنانی ہے۔آپ کو حافظ الاسلام کا لقب بھی دیا گیا ہے۔ابن حجر آپ کے آباء واجداد میں کسی کا لقب تھا،اسی سے آپ بھی مشہور ہوگئے۔آپ کی پیدائش اور وفات قاہرہ  میں ہوئی۔آپ پہلے پہل تاریخ،عربی ادب واشعار میں مشغول تھے پھر علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اور اس میں ایسی مہارت حاصل کی کہ حافظ الحدیث کہلائے۔ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر "حافظ"کو مطلقا بولاجائے تو اس سے بالاجماع آپ ہی مراد ہوتے ہیں۔ آپ کئی بار مصر میں قاضی بنے۔علامہ سخاویؒ لکھتے ہیں کہ آپ کی تصنیفات ایک سو پچاس سے زائد ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں بخاری کی معرکۃ الآراء شرح"فتح الباری" ، "الدرر الكامنۃ فی اعيان المائۃالثامنۃ " ،   " لسان الميزان " ، " الاحكام لبيان ما فی القرآن من الاحكام"  ، " الكافی الشاف فی تخريج احاديث الكشاف" ، " تقريب التهذيب"  ، " الاصابۃ فی تمييز اسماء الصحابۃ" ،  " تہذيب التہذيب" ، " بلوغ المرام من ادلۃ الاحكام" ، " نزہۃ النظر فی توضيح نخبۃ الفكر" ، " التلخيص الحبير فی تخريج احاديث الرافعی الكبير" وغیرہ شامل ہے۔
(2)  ابن حجر سعدی ہیتمی۔(متوفی 974ھ) اصل نام شہاب الدین ابوالعباس احمد بن محمدانصاری ہے۔ شافعی ہیں اور آپ کا شمار بڑے فقہاء میں ہوتا ہے۔مصر کی ایک بستی ہیتم کی طرف آپ کی نسبت کی جاتی ہے جہاں پر آپ کی پیدائش ہوئی ۔آپ کی وفات مکہ میں ہوئی۔آپ کی مشہور کتابوں میں  " مبلغ الارب فی فضائل العرب" ، " الصواعق المحرقۃ على اهل البدع والضلال والزندقۃ" ،  " تحفۃ المحتاج لشرح المنهاج" ، " الخيرات الحسان فی مناقب ابی حنيفۃ النعمان" ، " الفتاوی الهيتميۃ" ، " الزواجر عن اقتراف الكبائر" وغیرہ شامل ہیں۔

ہیتمی اور ہیثمی:

بعض دوستوں کو"ہیتمی" اور "ہیثمی"میں شبہ ہوتا ہے،بعض اسے ایک سمجھتے ہیں اور بعض سمجھتے ہیں کہ ہیتمی کے بجائے ہیثمی ٹھیک نسبت ہے،لیکن یہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں۔
ہیتمی(تاءکے ساتھ)ابن حجر سعدی ہے،جن کا تذکرہ اوپر ہوچکا،اور ہیثمی (ثاء کے ساتھ)سےدو شخصیات مشہور ہیں:
(1)۔ نورالدین مصری ہیثمی۔آپ کا مکمل نام  ابوالحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان  ہے۔ ۔آپ کی ولادت 735ھ میں ہوئی  اور وفات  807ھ میں ہوئی۔آپ عظیم محدث تھے۔آپ کی تصانیف میں "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"، "ترتیب الثقات " ، "تقریب البغیۃ فی ترتیب احادیث الحلیۃ"،"مجمع البحرین فی زوائد المعجمین"، " المقصد العلى، فی زوائد ابی يعلى الموصلی " ، " زوائد ابن ماجۃ على الكتب الخمسۃ "، " موارد الظمآن الى زوائد ابن حبان"، " غايۃ المقصد فی زوائد احمد "۔
(2)۔محمد بن ہیثم ہیثمی(متوفی 351ھ)آپ فقیہ تھے اوریمن کے بادشاہ رہے ہیں۔یمن میں بنی الہیثم کی امارت آپ ہی سے شروع ہوئی تھی جو 85سال تک جاری رہی۔(الاعلام للزرکلی)

النسفی: تین شخصیات کا لقب:

نسفی تین بڑے علماء کا لقب ہے اور تینوں فقہاء حنفیہ میں سے ہیں:
(1)۔ابوالمعین نسفی حنفی، جن کا اصل نام میمون بن محمد بن محمد ہے۔(متوفی 508ھ )اصول دین اور علم کلام کے بڑے عالم تھے۔سمرقند اور بخارا میں رہے ہیں۔آپ کی کتابوں میں مشہور یہ ہیں: "بحر الکلام"،"تبصرۃ الادلہ"،"التمهيد لقواعد التوحيد" ،  " العمدة فی اصول الدين " ،  " العالم والمتعلم " ،  " ايضاح المحجۃ لكون العقل حجۃ " ،  " شرح الجامع الكبير للشيبانی "  ،  " مناهج الائمۃ " ۔
(2)۔ابوحفص،نجم الدین نسفی۔(متوفی 537ھ)آپ کا اصل نام عمربن محمد بن احمد ہے۔آپ فقہاء حنفیہ میں سے ہیں اور  تفسیر،عربی ادب اور تاریخ کے عالم تھے۔آپ کو "مفتی ثقلین"کہتے ہیں۔نسف میں پیدا ہوئے اور سمرقند میں وفات پائی۔کہتے ہیں کہ آپ نے تقریبا سو(100)کتابیں لکھی ہیں۔ان میں سے چند یہ ہیں: "الاكمل الاطوال"، " التيسير فی التفسير " ، " المواقيت " ، " تعداد شيوخ عمر " ، " الاشعار بالمختار من الاشعار " ، " نظم الجامع الصغير " ، " قيد الاوابد " ، " منظومۃ الخلافيات " ، " القند فی علماء سمرقند " ، " تاريخ بخارى " ، " طلبۃ الطلبۃ " ، " العقائد "۔
(3)۔ابوالبرکات،حافظ الدین نسفی۔آپ کا نام عبداللہ بن احمد بن محمود ہے۔(متوفی 710ھ)ازبکستان کے شہر نسف میں پیدا ہوئے۔تفسیر،فقہ اور اصول فقہ میں خاص مہارت رکھتے تھے۔تینوں شخصیات میں سب سے مشہور"نسفی"یہی ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں  تفسیر" مدارك التنزيل وحقائق التاويل  " ،  فقہ میں  "کنز الدقائق"   اصول فقہ میں "المنار"(نورالانوار کا متن) اور منار کی شرح"کشف الاسرار"، فروعات میں "الوافی"اور "الکافی" ،جبکہ  عقائد میں "عمدۃ العقائد"مشہور ہے۔ابوحفص نسفی کی کتاب "منظومۃ الخلاف"کی شرح بھی آپ نے "المصفی"کے نام سے لکھی ہے۔

کمال، ابن کمال اور اکمل:

یہ تین القاب ہیں جو فقہی کتب میں سامنے آتے ہیں۔بعض دوستوں کو ان میں شبہ ہوجاتا ہے کہ کس لقب سے کون سی شخصیت مراد ہیں۔یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ یہ تینوں الگ الگ شخصیات کے القاب ہیں:
(1)۔کمال: اس سے علامہ ابن الہمام مراد ہوتے ہیں۔جن کا اصل نام کمال الدین محمد بن عبدالواحد سیواسی اسکندری (متوفی 861ھ)ہے۔نویں صدی کے مشہور حنفی فقیہ ہیں اور فقہ واصول میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ان کی مشہور کتاب"فتح القدیر"ہے جو ہدایہ کی تفصیلی شرح ہےاور اصول فقہ میں ان کی معرکۃ الآراء کتاب "التحریر"ہے۔
(2)۔ابن کمال: اس سے قاضی شمس الدین احمد بن سلیمان بن کمال پاشاؒ (متوفی 940ھ)مراد ہوتے ہیں۔مشہور حنفی فقیہ اور محدث ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں طبقات الفقہاء، طبقات المجتہدین، الاصلاح والایضاح اور تغییر التنقیح(اصول فقہ کا متن)شامل ہے۔
(3)۔اکمل یا  الاکمل: اس سے علامہ اکمل الدین محمد بن محمدرومی بابرتیؒ (متوفی 786ھ)مراد ہوتے ہیں۔آٹھویں صدی کے بلند پایہ حنفی فقیہ ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں ہدایہ کی بہترین شرح "عنایہ"ہے،اس کے علاوہآپ کی چند کتابیں یہ ہیں: شرح مشارق الانوار، التقریر علی اصول البزدوی، شرح المنار اور الارشاد فی شرح فقہ الاکبر  وغیرہ۔

دو ابن نجیمؒ:

فقہاء حنفیہ میں "ابن نجیم" کے نام سے شاید ہی کوئی واقف نہ ہو،لیکن اس کنیت سے دو شخصیتیں مشہور ہیں،دونوں  بھائی ہیں اور ان کا شمار بڑے فقہاء میں  ہوتا ہے:
(1)۔علامہ زین الدین بن ابراہیم مصری رحمہ اللہ(متوفی 970ھ)۔مشہور فقیہ ہیں۔ابن نجیم مصری اور زین بن نجیم  کی کنیت سے مشہور ہیں۔ان کی کتابوں میں "البحر الرائق" مشہور ہے جو "کنز الدقائق"کی مفصل شرح ہے،البتہ اس کی تکمیل نہ کرسکے، انہوں نے "باب الاجارۃ الفاسدۃ"تک ہی لکھی تھی ۔اس کا تکملہ شیخ محمد بن حسین طوری نے لکھا ہے۔اس کے علاوہ آپ کی مشہور کتابو ں میں  الاشباہ والنظائر، فتاوی زینیہ، اور مجموعہ رسائل زینیہ وغیرہ شامل ہیں۔  جب مطلق ابن نجیم بولا جاتا ہے تو اس سے یہی مراد ہوتے ہیں۔
(2)۔علامہ عمر بن ابراہیم سراج الدین ابن نجیم مصری رحمہ اللہ(متوفی 1005)۔یہ زین الدین بن نجیم کے چھوٹے بھائی ہیں۔عمربن نجیم کے نام سے مشہور ہیں۔آپ نے کنز الدقائق کی ایک شرح لکھی ہے جس کا نام "النہر الفائق "ہے۔یہ بھی مکمل نہیں ہے،بلکہ انہوں نے کتاب القضاء تک ہی لکھی تھی۔ان کی فقہ میں ایک اور کتاب کا ذکر بھی ملتا ہے جس کا نام"اجابۃ السائل باختصار انفع الوسائل"ہے۔

قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۳)

محمد عمار خان ناصر

قرآن اور اخبار آحاد میں تعارض کی بحث

قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے اہم ترین سوال جس پر امام شافعی نے داد تحقیق دی ہے، بعض احادیث کے، بظاہر قرآن کے حکم سے متعارض یا اس سے متجاوز ہونے کا سوال ہے۔ اس ضمن میں عہد صحابہ وتابعین میں جو مختلف زاویہ ہائے نظر پائے جاتے تھے، ان کی وضاحت پچھلی فصل میں کی جا چکی ہے۔ جمہور فقہاءومحدثین ایسی صورت میں قرآن مجید کی مراد کی تعیین میں احادیث کو فیصلہ کن حیثیت دیتے تھے اور ظاہری تعارض کو، کسی قابل اعتماد روایت کو رد کرنے کی درست بنیاد تصور نہیں کرتے تھے۔ امام شافعی نے بھی اس بحث میں جمہور اہل علم کے موقف کی تائید کی، البتہ امام شافعی سے پہلے اہل علم کے استدلال کا محوری نکتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع واطاعت کا مطلق اور حتمی ہونا تھا اور وہ قرآن اور حدیث میں کسی ظاہری مخالفت کی صورت میں حدیث کو قرآن کی تشریح میں فیصلہ کن حیثیت دینے کو اس اتباع واطاعت کے ایک تقاضے کے طور پر پیش کرتے تھے۔ امام شافعی نے اس بحث کو جس رخ پر آگے بڑھایا، اس میں یہ نکتہ تو بدیہی طور پر موجود ہی تھا، لیکن انھوں نے اس میں ایک نہایت بنیادی پہلو کا اضافہ کر کے اسلامی روایت میں گویا تفسیر متن کے اصولوں (Hermeneutics) کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی ۔ 
امام شافعی نے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث میں جس نکتے کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اور جسے پورے زور استدلال کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کلام عرب میں اسلوب عموم کی نوعیت ہے۔ یہ نکتہ امام شافعی کے زیربحث تصور میں محوری حیثیت رکھتا ہے اور اسی پر ان کے اس بنیادی دعوے کا انحصار ہے کہ قرآن کے ساتھ سنت کا تعلق، محض تبیین ووضاحت تک محدود ہے اور وہ قرآن کے مدعا ومفہوم میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کرتی۔
امام شافعی کا اٹھایا ہوا سوال یہ تھا کہ اگر قرآن نے کوئی حکم کسی قسم کی قیود وشرائط کے بغیر عموم کے اسلوب میں بیان کیا ہو تو فہم کلام کے اصولوں کی رو سے یہ فرض کرنے کا جواز کس حد تک ہے کہ فی الواقع شارع کی مراد اس حکم کو، کسی قسم کے خصوص یا استثناءکے بغیر، ہر ہر فرد پر اور ہر ہر صورت میں واجب العمل قرار دینا ہے؟ اگر تو واقعی یہ فرض کرنا ممکن ہو کہ قرآن میں اسلوب عموم میں بیان کیے جانے والے ہر حکم کا ہر ہر فرد اور ہر ہر صورت کو شامل ہونا قطعی طور پر مراد ہے تو پھر کسی حدیث کے، ظاہر قرآن کے خلاف ہونے کی صورت میں اسے قبول کرنے کی نوعیت دو متعارض دلیلوں میں سے ایک کو ترجیح دینے کی ہوگی، لیکن اگر یہ فرض کرنے ہی کی معقول بنیاد موجود نہ ہو اور قرآن کا سلوب عموم خود ایک قابل احتمال اور محتاج تفسیر چیز ہو تو یہاں سرے سے کسی قسم کا تعارض پایا ہی نہیں جاتا جسے دور کرنے کی ضرورت ہو، چنانچہ متکلم کی طرف سے بیان کی جانے والی کوئی بھی تخصیص یا تقیید دراصل سابقہ حکم کی تفصیل اور تشریح ہی تصور کی جائے گی۔ 
امام شافعی کہتے ہیں کہ قرآن کے بیانات کے استقرا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں عموم کا اسلوب بذات خود قطعی طور پر یہ طے نہیں کرتا کہ متکلم کی مراد عموم ہی ہے، بلکہ اس میں دونوں احتمال ہوتے ہیں اور متکلم کی مراد متعین کرنے کے لیے اضافی دلائل وقرائن کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ بعض جگہ عموم کے اسلوب سے فی الواقع عموم ہی مراد ہوتا ہے، یعنی الفاظ کی ظاہری دلالت جن مصداقات کو شامل ہے، وہ سب متکلم کی مراد ہوتے ہیں، بعض جگہ عموم کے اسلوب سے عموم مراد تو ہوتا ہے، لیکن قرائن ودلائل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس عموم سے فلاں اور فلاں صورتیں خارج ہیں، اور بعض مقامات پر عموم کے اسلوب سے سرے سے عموم مراد ہی نہیں ہوتا، بلکہ کچھ خاص مصداقات کا ذکر عموم کے الفاظ سے کر دیا جاتا ہے۔
ان تینوں طرح کے مواقع کی مثالیں حسب ذیل ہیں:
پہلی نوعیت کی مثال خَالِقُ کُلِّ شَیئٍ فَاعبُدُوہُ (الانعام ۱٠۲:۶)، وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِی الاَرضِ الاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزقُہَا (ہود ۶:۱۱) اور یَا اَیُّہَا النَّاسُ انَّا خَلَقنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَاُنثَی وَجَعَلنَاکُم شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا (الحجرات ۱۳:۴۹) جیسی آیات ہیں۔ ان مثالوں میں عموم کے اسلوب سے حقیقتاً عموم ہی مراد ہے، کیونکہ عقلی ونقلی دلائل کی رو سے ہر چیز کا خدا کی مخلوق ہونا اور ہر جاندار کے رزق کا بندوبست اللہ کے ذمے ہونا قطعی طور پر واضح ہے۔ اسی طرح انسانوں کا مرد وعورت سے پیدا ہونا اور قبیلوں اور برادریوں میں تقسیم ہونا ہر دور اور ہر علاقے کے انسانوں کے حق میں درست ہے اور کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں جو یہ واضح کرے کہ فلاں یا فلاں مصداقات اس دلالت سے خارج ہیں۔ 
دوسری نوعیت (کہ عموم کے اسلوب سے عموم ہی مراد ہو، لیکن قرائن سے بعض صورتوں کا اس سے خارج ہونا بھی واضح ہو) کی ایک مثال یہ آیت ہے: 
مَا کَانَ لِاَہلِ المَدِینَۃِ وَمَن حَولَہُم مِّنَ الاَعرَابِ اَن یَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللّٰہِ وَلاَ یَرغَبُوا بِاَنفُسِہِم عَن نَّفسِہِ (التوبہ ۹:۱۲٠)
’’مدینہ میں رہنے والوں اور اس کے گرد بسنے والے دیہاتیوں کے لیے یہ روا نہیں تھا کہ وہ رسول اللہ کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہیں اور نہ یہ کہ انھیں پیغمبر سے زیادہ اپنی جانوں کو بچانے کی رغبت ہو۔“
یہاں عموم کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے، لیکن عقلی دلیل سے واضح ہے کہ اس حکم کے مخاطب تمام اہل مدینہ نہیں، بلکہ وہ عاقل وبالغ مرد ہیں جو جہاد کی طاقت رکھتے ہیں۔ اسی طرح حَتَّی اذَا اَتَیَا اَہلَ قَریَۃٍ استَطعَمَا اَہلَہَا (الکہف ۷۷:۱۸) اور رَبَّنَا اَخرِجنَا مِن ہَذِہِ القَریَۃِ الظَّالِمِ اَہلُہَا (النساء۷۵:۴) میں یہ واضح ہے کہ بستی کے سارے لوگ نہیں، بلکہ بعض لوگ مراد ہیں۔ یہی اصول انَّ اَکرَمَکُم عِندَ اللّٰہِ اَتقَاکُم (الحجرات ۱۳:۴۹) کے عموم کو بھی عاقل اوربالغ انسانوں تک محدود کرتا ہے۔ نماز اور روزہ کے احکام کے مخاطب بھی اسی اصول کی رو سے عاقل اور بالغ مرد اور عورتیں قرار پاتے ہیں، جبکہ بچے، پاگل اور ماہواری کے ایام میں خواتین اس کے مخاطب نہیں ہیں۔
تیسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ عموم کے اسلوب میں دراصل کچھ خاص افراد یا حالات کا ذکر کیا گیا ہو اور یہ تخصیص کلام کے سیاق وسباق سے واضح ہو۔ مثلاً: الَّذِینَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَد جَمَعُوا لَکُم فَاخشَوہُم (آل عمران ۱۷۳:۳) میں قرینے سے واضح ہے کہ اطلاع دینے والے الناس سے بھی چند لوگ مراد ہیں اور جن کے متعلق اطلاع دی گئی ہے، وہ بھی چند ہی لوگ تھے۔ اسی طرح ثُمَّ اَفِیضُوا مِن حَیثُ اَفَاضَ النَّاسُ (البقرة ۱۹۹:۲) میں بداہتاً واضح ہے کہ الناس سے سب لوگ نہیں، بلکہ صرف وہ لوگ مراد ہیں جو حج کے لیے جمع ہوئے ہوں۔ اسی کی ایک مثال وَقُودُہَا النَّاسُ وَالحِجَارَۃ (البقرة ۲: ۲۴) کی آیت ہے جس میں بالبداہت الناس سے بعض انسان مراد ہیں۔
مذکورہ تمام مثالوں میں عموم سے متعلق متکلم کا ارادہ خود کلام کے ساتھ جڑے ہوئے عقلی یا داخلی قرائن سے واضح ہے اور اس کے سمجھنے میں کسی صاحب فہم کو دقت نہیں ہو سکتی۔ امام شافعی لکھتے ہیں:
وانما خاطب اللہ بکتابہ العرب بلسانھا علی ما تعرف من معانیھا وکان مما تعرف من معانیھا اتساع لسانھا وان فطرتہ ان یخاطب بالشیءمنہ عاما ظاھرا یراد بہ العام الظاھر ویستغنی باول ھذا منہ عن آخرہ، وعاما ظاھرا یراد بہ العام ویدخلہ الخاص فیستدل علی ھذا ببعض ما خوطب بہ فیہ، وعاما ظاھرا یراد بہ الخاص وظاھرا یعرف فی سیاقہ انہ یراد بہ غیر ظاھرہ، وکل ھذا موجودہ علمہ فی اول الکلام او اوسطہ او آخرہ، ویبتدی الشیءمن کلامھا یبین اول لفظھا فیہ عن آخرہ، ویبتدی الشیءیبین آخر لفظھا فیہ عن اولہ، وتکلم بالشیءتعرفہ بالمعنی دون الایضاح باللفظ کما تعرف الاشارة، ثم یکون ھذا عندھا من اعلی کلامھا لانفراد اھل علمھا بہ دون اھل جھالتھا (الام ۱/۲۲)
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اہل عرب کو ان کی زبان میں ان اسالیب کے مطابق مخاطب کیا ہے جن کو وہ جانتے تھے۔ ان اسالیب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زبان کے استعمال میں وسعت ہے اور زبان کا یہ فطری طریقہ ہے کہ کسی چیز کا ذکر بظاہر عام الفاظ میں کیا جائے اور مراد بھی عام ہی ہو اور اس میں کلام کے ابتدائی حصے کو سمجھنے کے لیے آخری حصے کو دیکھنے کی ضرورت نہ ہو۔ زبان کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ کسی چیز کا ذکر بظاہر عام الفاظ میں کیا جائے اور مراد بھی عام ہو، لیکن اس میں سے کچھ افراد یا صورتیں مستثنیٰ ہوں جس کا پتہ اس دلیل سے چلے گا جس میں ان مخصوص افراد کا حکم بتایا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی زبان کا ایک اسلوب ہے کہ کسی چیز کا ذکر بظاہر عام الفاظ میں کیا جائے، لیکن اس سے مراد مخصوص افراد ہوں اور کلام کے سیاق سے ہی واضح ہو رہا ہو کہ اس کا ظاہری عموم مراد نہیں۔ یہ سب قرائن کلام کے آغاز میں یا درمیان میں یا آخر میں موجود ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ کلام کے آغاز ایک بات سے کیا جاتا ہے اور کلام کا پہلا حصہ اس کے آخری حصے کی وضاحت کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ کلام کا آخری حصہ، ابتدائی حصے کی مراد کو واضح کر رہا ہوتا ہے۔ کلام کرتے ہوئے آپ کسی بات کا ابلاغ، الفاظ میں وضاحت کیے بغیر، معنی ومفہوم کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں، جیسا کہ اشارے کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ پھر یہ سب اسالیب اہل عرب کے ہاں کلام کی بلند ترین صورت سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ان کا فہم ان میں سے اہل علم ہی کو حاصل ہوتا ہے، نہ کہ جاہلوں کو۔“
امام شافعی نے اسی اصول کے تحت شرعی احکام میں، بعض قیاسی ونقلی تخصیصات کی بھی وضاحت کی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں مردوں سے خطاب کر کے انھیں چار تک عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔ (النساء۴: ۳) امام شافعی کہتے ہیں کہ یہاں حکم کی نوعیت سے ہی واضح ہے کہ اس کے مخاطب آزاد مرد ہیں، نہ کہ غلام، اس لیے کہ یہاں ان سے خطاب کیا گیا ہے جو خود نکاح کر سکتے ہیں اور باندیوں کے مالک ہو سکتے ہیں، جبکہ غلام کے متعلق معلوم ہے کہ وہ نہ تو خود اپنا نکاح کر سکتا ہے اور نہ کسی باندی کا مالک ہو سکتا ہے۔ (الام، ۶/۳۷۹) گویا یہ اجازت چونکہ براہ راست اور اصلاً صرف آزاد مردوں کے لیے بیان کی گئی ہے، اس لیے اگر کسی دوسری دلیل سے غلاموں کے لیے منکوحہ عورتوں کی تعداد اس سے کم مقرر کی جائے تو وہ مذکورہ آیت کے خلاف نہیں ہوگا۔ 
اسی طرح قرآن مجید میں اہل ایمان کو خطاب کر کے حکم دیا گیا ہے کہ مقتولوں کا قصاص لینا ان پر فرض ہے۔ (البقرة ۲: ۱۷۸) یہاں ایک تو اہل ایمان کو مخاطب کرنے سے ہی واضح ہے کہ قصاص کا حکم اصلاً مسلمانوں کے لیے بیان کیا جا رہا ہے۔ پھر اسی حکم میں اللہ تعالیٰ نے مقتول کے وارث کی طرف سے قاتل کو قصاص معاف کرنے کا ذکر کرتے ہوئے ’فَمَن عُفِیَ لَہُ مِن اَخِیہِ شَیئ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو اہل ایمان کے باہمی رشتے کو بیان کرتے ہیں اور اس سے مزید واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین قصاص کا معاملہ زیر بحث نہیں۔ (الام ۷/۹۷) امام شافعی اس وضاحت سے گویا اس طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ احادیث میں اگر یہ کہا گیا ہے کہ مسلمان کو غیر مسلم کے قصاص میں قتل نہ کیا جائے تو اسے قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ یہ آیت سرے سے اس صورت سے بحث ہی نہیں کر رہی۔
یہ امام شافعی کے استدلال کا پہلا مقدمہ ہے، یعنی اسلوب عموم سے متکلم کی مراد ہمیشہ اور لازمی طور پر عموم نہیں ہوتی، بلکہ اس عموم کا مبنی بر خصوص ہونا بھی عین ممکن ہے جسے خود کلام کے اندر موجود قرائن سے سمجھا جا سکتا ہے۔ 
استدلال کا دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ اسلوب عموم میں ارادئہ تخصیص کی وضاحت اگر ازخود کلام کے داخلی قرائن سے واضح نہ ہو تو بھی متکلم یہ حق رکھتا ہے کہ وہ مستقل وضاحت کے ذریعے سے ارادہ تخصیص کو واضح کر دے۔ ایسی صورت میں بعض دفعہ متکلم یہ وضاحت اسی سیاق کلام میں کر دیتا ہے اور بعض دفعہ کسی دوسرے مقام پر اس کی وضاحت کی جاتی ہے۔ پہلی صورت کی مثال سورة النور میں قذف سے متعلق آیات ہیں۔ چنانچہ آیت ۴ میں اللہ تعالیٰ نے پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگانے والوں کو چار گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں ۸٠ کوڑے لگانے کی ہدایت کی ہے، تاہم اس سے اگلی آیت میں فرمایا ہے کہ اگر شوہر اپنی بیویوں پر بدکاری کا الزام لگائیں تو ان سے چار گواہ نہیں، بلکہ اپنے الزام کے سچا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا مطلوب ہے۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے دوسری آیت نے پہلی آیت کے حکم کو منسوخ نہیں کیا، بلکہ یہ واضح کیا ہے کہ ا س کے عموم سے شوہر خارج ہیں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے الگ حکم بیان فرمایا ہے۔ (الام ۱/۶۳، ۶۴)
امام شافعی لکھتے ہیں:
وفی ھذا الدلیل علی ما وصفت من ان القرآن عربی، یکون منہ ظاھرہ عاما وھو یراد بہ الخاص، لا ان واحدة من الآیتین نسخت الاخری، ولکن کل واحدة منھما علی ما حکم اللہ عزوجل بہ (الام ۱/۶۴)
’’یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن، عربی زبان کے اسالیب میں کلام کرتا ہے جس میں بعض اوقات ظاہراً الفاظ عام ہوتے ہیں لیکن مراد خاص ہوتی ہے۔ چنانچہ دونوں آیتوں میں سے کسی نے دوسری کو منسوخ نہیں کیا، بلکہ ہر آیت اس حکم کو بیان کر رہی ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔“
دوسری صورت کی مثال سورة النور میں ہی زنا کی سزا کا حکم ہے جہاں بظاہر الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی کے الفاظ عام ہیں، اور ان کی سزا یہ بیان کی گئی ہے کہ زانی مرد اور عورت دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جائیں۔ (النور ۲:۲۴) یہاں بظاہر عموم کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے، تاہم دوسری جگہ خود قرآن نے یہ واضح کیا ہے کہ اگر باندیاں زنا کی مرتکب ہوں تو ان کی سزا آزاد عورتوں سے نصف ہوگی۔ (النساء۲۵:۴) اس سے معلوم ہو گیا کہ سورہ نور میں اسلوب عموم میں جو حکم بیان کیا گیا ہے، اس میں عموم مراد نہیں، بلکہ وہ سزا صرف آزاد مرد اور عورت کے لیے ہے۔ یہ ہدایت بھی سورة النور کے حکم میں نسخ یا تبدیلی واقع نہیں کر رہی، بلکہ صرف متکلم کے ارادے کو واضح کر رہی ہے کہ الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی سے مراد آزاد مرد اور عورت ہیں۔ (الام ۱/۳٠، ۵۷)
اسی نوعیت کی ایک مثال وہ آیات ہیں جن میں جہاد کی فرضیت کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ (التوبہ ۳۹:۹ و ۴۱) یہ آیات بظاہر تمام مسلمانوں کو مخاطب کر رہی ہیں اور ان کا ظاہری مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ نماز، زکوٰة اور حج کی طرح تمام مسلمانوں پر جہاد کے لیے نکلنا فرض ہو۔ تاہم دوسری آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ یہ حکم فرض کفایہ کی نوعیت کا ہے اور سب مسلمانوں کے لیے نکلنا لازم نہیں۔ (النساء۹۵:۴، التوبہ ۱۲۲:۹)۔ (الام ۱/۱۶۷، ۱۶۸) یعنی ان دونوں طرح کی آیات کا باہمی تعلق بھی نسخ کا نہیں، بلکہ توضیح وتبیین کا ہے اور دوسرے مفہوم کی آیات پہلی آیات میں کوئی تبدیلی نہیں کر رہیں، بلکہ انھی میں مضمر مراد الٰہی کو بیان کر رہی ہیں۔
مذکورہ دو مقدمات کے بعد امام شافعی اپنے استدلال کے اصل اور اہم ترین مقدمے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جب یہ واضح ہو گیا کہ اسلوب عموم سے واقعتا عموم کا مراد ہونا قطعی نہیں، بلکہ اس کا تعین اضافی دلائل وقرائن کی روشنی میں کیا جا تا ہے اور خود متکلم بھی مستقل کلام کے ذریعے سے اس کی تخصیص کو واضح کر سکتا ہے تو اب یہ بات سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے کہ قرآن میں عموم کے اسلوب میں وارد بعض احکام کی تخصیص سنت کے ذریعے سے بھی واضح کی جا سکتی ہے۔ ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے نمائندے اور ترجمان کی حیثیت سے اور وحی وحکمت کی راہ نمائی سے بہرہ ور ہونے کی بنیاد پر قرآن کی مراد کی وضاحت فرماتے ہیں اور یہ وضاحت مراد الٰہی کی تعیین میں حتمی اور فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے ۔ بالفاظ دیگر امام شافعی کا کہنا یہ ہے کہ جس طرح دوسرے کئی دلائل وقرائن، مثلاً عقلی اقتضاءات اور سیاق وسباق وغیرہ، متکلم کی مراد کو واضح کرنے میں مدد دیتے ہیں، اسی طرح سنت بھی یہ بات طے کرنے میں مدد دیتی ہے کہ کہاں اسلوب عموم سے قرآن کی مراد واقعتا عموم ہے اور کہاں عموم کی دلالت سے بعض خاص صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ پس قرآن میں وارد حکم عام کو اسی وقت تک اس کے عموم پر سمجھا جائے گا جب تک اس سے متعلق سنت میں کوئی تخصیص بیان نہ ہوئی ہو۔ سنت میں تخصیص وارد ہونے کے بعد قرآن کے حکم کو اس کے ساتھ ملا کر سمجھا جائے گا اور دونوں کے مجموعے سے اللہ تعالیٰ کی مراد طے کی جائے گی۔ اس تخصیص کی نوعیت ایسی ہی ہوگی جیسے متکلم نے ایک مقام پر ایک حکم بیان کرنے کے بعد دوسرے مقام پر یہ واضح کیا ہو کہ فلاں صورت میں حکم یہ نہیں، بلکہ یہ ہوگا۔ اس صورت میں سنت کے حکم کو کتاب اللہ سے اختلاف پر محمول کر کے حدیث کو رد کر دینے یا منسوخ تصور کرنے کا طریقہ غلط اور غیر علمی طریقہ ہوگا۔ 
امام شافعی لکھتے ہیں:
فوجب علی کل عالم الا یشک ان سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قامت ھذا المقام مع کتاب اللہ تعالیٰ فی ان اللہ احکم فرضہ بکتابہ وبین کیف ما فرض علی لسان نبیہ وابان علی لسانہ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم ما اراد بہ العام والخاص کانت کذالک سنتہ فی کل موضع لا تختلف، وان قول من قال: تعرض السنۃ علی القرآن فان وافقت ظاھرہ والا استعملنا ظاھر القرآن وترکنا الحدیث جھل لما وصفت (الام، ۱٠/۳۲)
’’چنانچہ ہر عالم پر واجب ہے کہ وہ اس میں شک نہ کرے کہ جب (ان مثالوں میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی حیثیت، اللہ کی کتاب کے ساتھ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے مقرر کردہ فرائض کو اجمالاً قرآن میں بیان کیا ہے جبکہ ان پر عمل کی کیفیت کو اپنے نبی کی زبان سے واضح کیا ہے اور اسی طرح نبی کی زبان سے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اللہ کی مراد عام ہے یا خاص، تو پھر رسول کی سنت کو کسی فرق کے بغیر ہر مسئلے میں یہی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ چنانچہ ان لوگوں کا یہ قول کہ سنت کو قرآن پر پرکھا جائے گا، اگر وہ اس کے ظاہر کے ساتھ موافق ہو تو ٹھیک ورنہ ہم قرآن کے ظاہر پر عمل کریں گے اور حدیث کو چھوڑ دیں گے، اس اصول سے ناواقفیت پر مبنی ہے جو میں نے بیان کیا ہے۔“
’الرسالہ‘ میں عربی زبان میں اسلوب عموم کی نوعیت کی اصولی وضاحت کے ساتھ ساتھ ’الام‘ میں بعض متعلقہ مثالوں پر کلام کرتے ہوئے امام شافعی نے کلام میں تخصیص کے دو عقلی اصولوں کا بھی حوالہ دیا ہے جنھیں اگر اس استدلال میں شامل کر لیا جائے تو امام صاحب کا زاویہ نظر زیادہ وضاحت سے سمجھا جا سکتا ہے:
ایک یہ کہ کسی نص میں اگر کسی امر کی اباحت بیان کی گئی ہو تو وہ عقلاً اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے کہ شارع نے دوسری نصوص میں اس اباحت پر جو قدغنیں عائد کی ہیں، وہ اپنی جگہ برقرار ہیں اور انھیں ملحوظ رکھتے ہوئے ہی حکم اباحت کی تعبیر کی جائے گی۔ مثلاً سورة النساءمیں محرمات کی ایک فہرست ذکر کرنے کے بعد وَاُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذَلِکُم (النساء۴: ۴۲) کی اباحت بیان کی گئی ہے، تاہم یہ اباحت چار بیویوں کی تحدید کے ساتھ مشروط ہے جو دوسری نصوص میں بیان کی گئی ہے۔ امام شافعی اسی مضمر شرط کی روشنی میں اس ممانعت کی بھی توجیہ کرتے ہیں جو حدیث میں پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو ایک آدمی کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنے کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔ (الام ۱/۸۸، ۱٠٠، ۶/۱۲، ۳۹٠) ایک اور مثال الاَّ اَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُم (النساء۴:۹۲) کی اباحت ہے جو بظاہر باہمی رضامندی سے کی جانے والی ہر بیع کو مباح قرار دیتی ہے، لیکن یہ بھی درحقیقت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ ایسی کسی بیع کو شارع نے دیگر نصوص میں ممنوع قرار نہ دیا ہو۔ چنانچہ احادیث میں مختلف بیوع سے متعلق جو ممانعت وارد ہوئی ہے، وہ اسی شرط کی وجہ سے اصل اباحت کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے اندر مضمر ہے۔ (الام ۱/۷۳، ۷۴؛ ۴/۵)
دوسرا اصول جس کا امام صاحب نے ذکر کیا ہے، یہ ہے کہ جب متکلم کوئی عمومی حکم بیان کرے تو عقلی طور پر اس میں یہ قید شامل ہوتی ہے کہ وہ بعض خاص صورتوں کو، ان کی مخصوص نوعیت کی وجہ سے، اس عمومی حکم سے مستثنیٰ کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور ایسے کسی استثناءکا بیان، ابتداءاً ہی حکم کی قیود میں شامل ہونے کی وجہ سے، اصل عمومی حکم کے منافی نہیں سمجھا جائے گا بلکہ استثناءسامنے آنے کے بعد اسے اصل حکم کے ساتھ ملا کر مجموعی تعبیر کی جائے گی۔ نصوص میں متعدد مثالوں کی روشنی میں اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے امام شافعی لکھتے ہیں:
ان العرایا لیست مما نھی عنہ غنی ولا فقیر، ولکن کان کلامہ فیھا جملۃ عام المخرج یرید بہ الخاص، وکما نھی عن الصلاۃ بعد الصبح والعصر وکان عام المخرج، ولما اذان فی الصلاۃ للطواف فی ساعات اللیل والنھار وامر من نسی صلاۃ ان یصلیھا اذا ذکرھا فاستدللنا علی ان نھیہ ذلک العام انما ھو علی الخاص، والخاص ان یکون نھی عن ان یتطوع الرجل، فاما کل صلاۃ لزمتہ فلم ینہ عنھا، وکما قال البینۃ علی المدعی والیمین علی المدعی علیہ، وقضی بالقسامۃ وقضی بالیمین مع الشاھد، والقسامۃ استثناء مما اراد لان المدعی فی القسامۃ یحلف بلا بینۃ والمدعی مع الشاھد یحلف ویستوجبان حقوقھما (الام ۴/۱۱۵)
’’عرایا سے کسی مال دار یا فقیر کو منع نہیں کیا گیا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (مزابنہ سے ممانعت کا) حکم مجموعی لحاظ سے عموم کے اسلوب میں بیان فرمایا جس سے مراد (سب نہیں بلکہ) خاص صورتیں تھیں۔ اسی طرح جب آپ نے فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا، لیکن طواف کی دو رکعتیں دن اور رات کی تمام ساعات میں ادا کرنے کی اجازت دی اور بھول کر نماز قضا کر دینے والے کو کہا کہ جب بھی اسے یاد آئے، وہ نماز ادا کر لے تو اس سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ آپ نے جو عمومی ممانعت بیان کی تھی، وہ خاص تھی اور وہ یہ کہ ان اوقات میں آدمی نفل نماز نہ پڑھے۔ جو نمازیں (کسی وجہ سے) آدمی پر لازم ہوں، ان سے روکنا مقصود نہیں تھا۔ اسی طرح آپ نے یہ فرمایا کہ گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمے اور قسم کھانا مدعا علیہ کے ذمے ہے، لیکن پھر آپ نے قسامت کے طریقے پر فیصلہ کیا اور ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم لے کر بھی فیصلہ فرما دیا۔ یہاں قسامت کا طریقہ آپ کے اس حکم سے مستثنیٰ ہے (کہ مدعی کے ذمے گواہ پیش کرنا ہے)، کیونکہ قسامت میں تو مدعی گواہ پیش کرنے کے بجائے قسمیں کھاتا ہے اور اسی طرح قضاءبالیمین میں بھی مدعی ایک گواہ پیش کر کے (دوسرے کی جگہ) قسم کھاتا ہے اور یہ دونوں (قسم کھا کر) اپنا حق ثابت کر لیتے ہیں۔“
مذکورہ بحث کی روشنی میں امام شافعی کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ مفروضہ کہ کتاب الٰہی میں عموم کا ظاہری اسلوب لازماً حکم اور مراد کے عموم پر ہی دلالت کرتا ہے، درست نہیں، بلکہ کلام کی حقیقی مراد کو سمجھنے کے لیے اضافی قرائن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قرائن عقلی بھی ہو سکتے ہیں، کلام کا سیاق وسباق اور کلام کے اند رموجود اشارات بھی اور اسی موضوع سے متعلق خود متکلم کی طرف سے کسی دوسری جگہ کی گئی وضاحت بھی۔ کتاب اللہ کی مراد بیان کرنے کے معاملے میں چونکہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر کی یہ ذمہ داری مقرر کی گئی ہے اور اس کے لیے آپ کو وحی کی صورت میں اللہ کی راہ نمائی بھی حاصل ہے، اس لیے سنت میں اگر کتاب اللہ کے کسی عام حکم کا خصوص بیان کیا گیا ہو تو اس کی حیثیت بعینہ وہ ہے جو خود اللہ تعالیٰ کی اپنی وضاحت کی ہے۔ چنانچہ کسی قابل اعتماد حدیث کو کتاب اللہ کے ظاہری عموم کے خلاف ہونے کی بنا پر رد کرنا درست نہیں، بلکہ اسے خود اللہ کی طرف سے کی گئی تبیین اور وضاحت کے طور پر قبول کرنا اہل ایمان پر لازم ہے۔
یوں امام شافعی نے بحث میں دلالت کلام کے نہایت اہم سوال کا اضافہ کر کے نوعیت کے لحاظ سے جمہور اہل علم کے استدلال کو ایک اعتقادی مقدمے سے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع واطاعت کے نکتے کو بنیادی دلیل کی حیثیت حاصل تھی، ایک علمی وعقلی مقدمے میں تبدیل کر دیا جس میں کلام کے اسلوب عموم کی حقیقی مراد کے تعین کو اصل توجہ طلب علمی سوال کا درجہ حاصل تھا۔ امام صاحب کا یہ اضافہ ان کی غیر معمولی ذہانت کا مظہر تو تھا ہی، اس نے اسلامی علمیات میں ایک ایسی بحث کی بنیاد رکھ دی جو اس کے بعد سے آج تک علم اصول فقہ کی ایک مہتم بالشان اور اساسی بحث کا درجہ رکھتی ہے۔ 

سنت میں قرآن کی تخصیص کی مثالیں

مذکورہ بنیادی مقدمے کی روشنی میں امام شافعی نے ان تمام اہم مثالوں پر کلام کیا ہے جو قرآن میں وارد عام احکام کی سنت کے ذریعے سے تخصیص وتحدید کی بحث سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان مثالوں کو ہم دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک قسم ایسی مثالوں کی ہے جن میں امام شافعی سنت میں وارد تخصیصات کے لفظی یا عقلی قرائن خود قرآن مجید سے بیان کرتے ہیں اور یوں واضح کرتے ہیں کہ سنت نے قرآن کے حکم میں تبدیلی نہیں کی، بلکہ اسی میں موجود اشارات، علل اور قرائن کی روشنی میں مراد الٰہی کی وضاحت کی ہے۔ دوسری قسم کی مثالوں سے متعلق امام شافعی کا کہنا یہ ہے کہ ان میں حکم کی تخصیص کا کوئی قرینہ بظاہر قرآن میں دکھائی نہیں دیتا، تاہم چونکہ اصولی طور پر یہ بات طے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ ہی کی مراد کو واضح کرتے ہیں، اس لیے ان مثالوں کو بھی نسخ اور تغییر کی نہیں، بلکہ تبیین وتوضیح ہی کی مثالیں تسلیم کرنا لازم ہے۔
پہلی نوعیت کی مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حالت حیض میں خواتین سے دور رہنے کا حکم دیا ہے: وَلاَ تَقرَبُوہُنَّ حَتَّیَ یَطہُرنَ (البقرة ۲: ۲۲۲) امام شافعی اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ماہواری کی حالت میں خواتین نماز ادا نہیں کر سکتیں، کیونکہ نماز کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے وضو اور غسل کے ذریعے سے طہارت حاصل کرنے کو فرض قرار دیا ہے، جبکہ مذکورہ آیت کی رو سے ماہواری کی حالت میں خواتین کے لیے پاک ہونا ممکن نہیں۔ اس سے واضح ہو گیا کہ نماز کی فرضیت کا حکم ایسے لوگوں کے لیے ہو جو اگر وضو اور غسل کر کے پاک ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں، جبکہ حائضہ خواتین کا معاملہ یہ نہیں۔ پھر یہ کہ ماہواری چونکہ کوئی اختیاری چیز نہیں جس کی وجہ سے عورت ترک نماز کی وجہ سے گناہ گار ہو، اس لیے ماہواری کے ایام میں وہ نماز کی ادائیگی کی مکلف ہی نہیں، چنانچہ ان ایام کی نمازوں کی قضا بھی اس پر واجب نہیں۔ روزے کا معاملہ نماز سے مختلف ہے۔ شریعت میں انسان کو حالت سفر میں روزہ چھوڑ دینے اور رمضان کے بعد تک موخر کر دینے کی اجازت دی گئی ہے، جبکہ نماز کے معاملے میں ایسی رخصت نہیں دی گئی۔ مزید یہ کہ نماز ہر روز پانچ اوقات میں فرض کی گئی ہے، جبکہ روزہ صرف ایک مہینے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ گویا خود قرآن مجید کے احکام میں وہ بنیادیں موجود ہیں جن کی روشنی میں اور جن سے استنباط کر کے سنت میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ ایام حیض میں فوت شدہ نمازوں کی قضا تو خواتین کے ذمے نہیں، لیکن روزوں کی قضا لازم ہے۔ (الام ۱/۵٠، ۵۱، ۲/۱۳۱)
۲۔ قرآن مجید میں قصاص کا حکم بیان کرتے ہوئے بعض مقامات پر عموم کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے، مثلاً: اَنَّ النَّفسَ بِالنَّفسِ (المائدہ ۴۵:۵) اور وَمَن قُتِلَ مَظلُوماً فَقَد جَعَلنَا لِوَلِیِّہِ سُلطَاناً فَلاَ یُسرِف فِّی القَتلِ (بنی اسرائیل ۳۳:۱۷)۔ اس کا بظاہر یہ مطلب بنتا ہے کہ قصاص کے معاملے میں تمام انسانوں کا حکم یکساں ہے اور کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کرے تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ تاہم اس عموم کو خصوص پر محمول کرنے کا احتمال بھی موجود ہے، یعنی یہ کہ اس سے مراد ایسے دو آدمیوں کے مابین قصاص ہو جو مکافی· الدم ہوں یعنی جن کی جان یکساں حیثیت رکھتی ہو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دوسرا معنی ہی مرادہے، کیونکہ آپ نے فرمایا کہ مسلمان کو کسی کافر کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ (الام ۷/ ۶۱، ۶۲، ۲۵۹) 
امام شافعی اس تخصیص کے حق میں قرآن مجید سے یہ قیاسی استشہاد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ (۲۸:۹) میں اہل ذمہ پر ’جزیہ‘ عائد کرنے کا حکم دیا ہے جو ان کی محکومانہ حیثیت کی ایک علامت ہے اور اس کی رو سے وہ قانونی ومعاشرتی امور میں مسلمانوں کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تو اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن مسلمان خواتین کے لیے کسی کافر سے نکاح کو جائز قرار نہیں دیا۔ (الام ۹/۱۳۴) گویا شریعت کے احکام کا عمومی منشا یہی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں کے برابر اور ہم پلہ تصور نہ کیا جائے، اس لیے قصاص کے معاملے میں یہ تفریق روا رکھنا خود قرآن مجید کے منشا کے مطابق ہے۔
۳۔ خور ونوش میں حلت وحرمت کے احکام کے سیاق میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَی طَاعِمٍ يَطْعَمُہ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَۃً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّہ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُھلَّ لِغَيْرِ اللَّہ بِہ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - (الانعام ۱۴۵:۶) 
’’کہہ دو کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے، اس میں، میں کسی کھانے والے کے لیے کسی چیز کو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا جانے والا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے یا گناہ کا کام، یعنی ایسا جانور ہو جسے ذبح کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ پھر جو مجبور ہو جائے، دراں حالیکہ نہ تو خواہش رکھنے والا ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا تو بے شک تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔“
قرآن مجید کے اس بیان کے برعکس احادیث میں ان چار کے علاوہ بھی کئی جانوروں مثلاً گدھے اور درندوں وغیرہ کا شمار محرمات میں کیا گیا ہے۔ چونکہ قرآن میں تصریحاً یہ کہا گیا ہے کہ ان چار کے علاوہ کوئی چیز اللہ کی شریعت میں حرام نہیں، اس لیے بظاہر ان جانوروں کی تحریم آیت میں بیان ہونے والی عمومی اباحت کے منافی معلوم ہوتی ہے۔ 
اس اشکال کے جواب میں امام شافعی واضح کرتے ہیں کہ مذکورہ آیت کا تناظر عام نہیں بلکہ خاص ہے، یعنی اس میں دنیا کے تمام جانور اور اشیائے خور ونوش زیر بحث نہیں، بلکہ یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ خاص اشیاءسے متعلق سوال کیا گیا تھا جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ مراد یہ ہوئی کہ جن چیزوں سے متعلق پوچھا گیا ہے، ان میں سے ان چار کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں۔ (الام، ۱/۹٠، ۱۰۱) آیت کے مخصوص تناظر کے حوالے سے امام صاحب نے دوسری توجیہ یہ ذکر کی ہے کہ یہاں صرف وہ جانور زیر بحث ہیں جنھیں اہل عرب حلال سمجھتے تھے۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حرام اور حلال کے ضمن میں چیزوں کے پاکیزہ اور ناپاک ہونے کو معیار قرار دیا ہے۔ چونکہ حکم کے مخاطب اہل عرب ہیں، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں کو اہل عرب طیب سمجھتے ہیں، وہ حلال اور جن کو وہ خبیث سمجھتے ہیں، وہ حرام ہیں۔ البتہ بعض چیزوں کے معاملے میں وہ غلطی میں مبتلا تھے اور چار ایسی چیزوں کو بھی طیب سمجھتے تھے جو درحقیقت خبیث تھیں۔ قرآن مجید نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ یہ چار چیزیں دراصل طیبات میں داخل نہیں ہیں۔ (الام ۳/۶۲۷، ۶۲۸) 
گویا اس توجیہ کے مطابق قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا میں علی الاطلاق تمام جانور زیر بحث نہیں، بلکہ صرف ان جانوروں کی طرف اشارہ ہے جن کو اہل عرب حلال سمجھ کر ان کا گوشت کھاتے تھے۔ باقی رہے وہ جانور جن کو وہ پہلے ہی ناپاک اور خبیث تصور کرتے اور ان کا گوشت نہیں کھاتے تھے تو ان سے اس آیت میں کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ ان کی حرمت کا ذکر اجمالی طور پر وَیُحَرِّمُ عَلَیہِمُ الخَبَآئِثَ (الاعراف ۱۷۵:۷) میں کیا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے اور درندوں وغیرہ کی حرمت بیان کر کے اسی اجمالی حکم کی تفصیل فرمائی ہے اور یوں ان جانوروں کو حرام قرار دینا قرآن مجید کے خلاف نہیں، بلکہ اس کی تصریحات کے بالکل مطابق ہے۔ 
۴۔ سورہ نساءمیں اللہ تعالیٰ نے ان خواتین کی ایک فہرست ذکر کی ہے جن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے۔ اس فہرست میں ایک شق یہ بھی ہے کہ دو بہنوں کو بیک وقت ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنا ممنوع ہے۔ اس کے بعد فرمایا ہے:
وَاُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذَلِکُم (النساء۴: ۲۴) 
’’اور ان کے علاوہ جو بھی عورتیں ہیں، وہ تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں۔“
یہاں صرف دو بہنوں کو جمع کرنے کی حرمت پر اکتفا کرنے اور اس کے بعد وَاُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذَلِکُم کی تصریح کا مقتضا یہ بنتا ہے کہ دو بہنوں کے علاوہ کوئی بھی دو ایسی عورتیں جن کے ساتھ انفراداً نکاح کرنا جائز ہو، انھیں ایک آدمی اپنے نکاح میں جمع بھی کر سکتا ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بہنوں کے ساتھ ساتھ خالہ اور بھانجی کو اور اسی طرح پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت بیان فرمائی ہے۔ امام شافعی نے اس اشکال کے جواب میں قرآن مجید کے داخلی قرائن واشارات کی روشنی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ حدیث میں بیان کی جانے والی ممانعت، قرآن مجید کی دلالت کے خلاف نہیں۔ 
پہلے اشکال یعنی قرآن میں جمع کے حوالے سے صرف دو بہنوں کے ذکرپر اقتصار کیے جانے سے متعلق امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ان کے علاوہ اور کسی بھی دو خواتین کو جمع کرنا ممنوع نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت کسی مسئلے کی بعض جزئیات اپنی کتاب میں اور بعض دیگر جزئیات اپنے پیغمبر کی زبان سے بیان فرماتے ہیں۔ گویا پھوپھی اور بھتیجی یا خالہ اور بھانجی کو نکاح میں جمع کرنا قرآن میں مسکوت عنہ ہے، یعنی اس کا نفیاً یا اثباتاً کوئی ذکر نہیں اور حدیث میں وارد ممانعت ایک مسکوت عنہ امر کے بارے میں شریعت کے حکم کا بیان ہے۔ 
جہاں تک دوسرے اشکال یعنی وَاُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذَلِکُم کا تعلق ہے تو اس ضمن میں امام شافعی کا استدلال دو نکات پر مبنی ہے :
ایک یہ کہ اس جملے کا روئے سخن وَاَن تَجمَعُوا بَینَ الاُختَینِ کی طرف نہیں، بلکہ آیت میں مذکورہ باقی محرمات کی طرف ہے۔ اس فرق کی وجہ ان دونوں طرح کی حرمتوں میں نوعیت کا مختلف ہونا ہے۔ باقی تمام محرمات جیسے ماں، بہن، خالہ اور پھوپھی وغیرہ ہمیشہ او رہر حال میں حرام ہیں، جبکہ دو بہنوں میں سے کوئی بھی فی الاصل حرام نہیں، بلکہ انھیں صرف بیک وقت ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ وَاُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذَلِکُم کا تعلق ان محرمات سے ہے جو فی الاصل اور ابدی طور پر حرام ہیں اور اس جملے کا مدعا یہ ہے کہ مذکورہ خواتین کے علاوہ کوئی بھی خاتون ابدی اور مطلق حرمت کا حکم نہیں رکھتی۔ باقی رہا عارضی اور وقتی حرمت کا حکم جو دو بہنوں کے حوالے سے بیان ہوا ہے تو یہ جملہ اس سے کوئی تعرض نہیں کر رہا، چنانچہ اس سے اخذ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ دو بہنوں کے علاوہ باقی کوئی بھی رشتہ رکھنے والی خواتین کے ساتھ بیک وقت نکاح کو جائز قرار دیا جا رہا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وَاُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذَلِکُم  ایک اور بدیہی شرط کے ساتھ مشروط ہے، اور وہ یہ کہ ابدی محرمات کے علاوہ باقی عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے جب تک کہ شریعت میں بیان کردہ کسی دوسری پابندی کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ گویا یہ اباحت ان تمام پابندیوں کے ساتھ مشروط ہے جو قرآن وسنت میں اپنے اپنے مقامات پر بیان کی گئی ہیں اور ان سے قطع نظر کر کے مطلقاً ان سب عورتوں سے نکاح کی اجازت دینا یہاں مراد نہیں ہے۔ مثلاً شریعت میں چار سے زائد عورتوں سے نکاح کی ممانعت کی گئی ہے، اس لیے وَاُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذَلِکُم میں بیان کردہ اجازت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر قرآن نے تین طلاقوں کے بعد اسی عورت سے نکاح کو ممنوع قرار دیا ہے جب تک کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر لے۔ (البقرة ۲: ۲۳٠) یہی معاملہ لعان کی صورت میں میاں بیوی کے مابین تفریق کا ہے جس کے بعد وہ کبھی نکاح نہیں کر سکتے۔ چنانچہ جیسے یہ صورتیں وَاُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذَلِکُم کی اباحت سے مستثنیٰ ہیں، اسی طرح ایک پابندی حدیث میں یہ مذکور ہے کہ آدمی پھوپھی اور بھتیجی کو اور اسی طرح خالہ اور بھانجی کو اپنے نکاح میں جمع نہ کرے، چنانچہ زیر بحث اباحت میں یہ شرط بھی ملحوظ ہوگی۔ (الام ۱/۸۸، ۱٠٠، ۶/۱۲، ۳۹٠)
امام شافعی کے استدلال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ چونکہ یہ اباحت ابتداءاً ہی اس شرط کے ساتھ مشروط ہے، اس لیے اس سے پہلے یا اس کے بعد جن جن صورتوں کو بھی شارع نے اس اباحت سے مستثنیٰ کیا ہے، وہ اس کے معارض نہیں ہیں۔ 
۵۔ سورة الطلاق میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اگر اپنی بیویوں کو طلاق دیں تو فوراً انھیں ان کے گھروں سے نکال نہ دیں، بلکہ دوران عدت میں انھیں اپنی استطاعت کے مطابق رہائش مہیا کریں۔ (الطلاق ۱:۶۵، ۶) 
اسلوب سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عام ہدایت ہے اور عدت گزارنے والی تمام خواتین اس عرصے میں رہائش کی، اور چونکہ رہائش کے ساتھ نفقہ بھی عادتاً لازم ہوتا ہے، اس لیے اس کے ساتھ نفقہ کی بھی حق دار ہیں۔ تاہم فاطمہ بنت قیسؓ بیان کرتی ہیں کہ ان کے خاوند نے انہیں تین طلاقیں دے دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ عدت کے دوران میں ان کا نفقہ خاوند کے ذمے نہیں ہے۔ آپ نے فاطمہ سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر کے بجائے عبد اللہ بن ام مکتوم کے گھر میں عدت مکمل کریں۔ (ابو داود، کتاب الطلاق، باب فی نفقة المبتوتة، باب من انکر ذلک علی فاطمة، رقم ۲۲۹۱) فاطمہ بنت قیس کی یہ روایت فقہائے صحابہ وتابعین کے مابین خاصے اختلاف کا باعث رہی ہے۔ مثلاً سیدنا عمرؓ نے سورة الطلاق کی مذکورہ آیت کا حوالہ دیتے ہوئے اس روایت کو درست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ہم کتاب اللہ کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ایک عورت کی بات پر نہیں چھوڑ سکتے جس کو پتہ نہیں بات یاد بھی رہی یا نہیں۔ ایسی عورت کو رہائش بھی ملے گی اور نفقہ بھی۔ (مسلم، کتاب الطلاق، باب المطلقة البائن لا نفقة لہا، رقم ۳۷۱٠) یہی موقف صحابہ وتابعین کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ فاطمہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قرآن کے ظاہر کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے عین مطابق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورة الطلاق میں دوران عدت میں بیویوں کو گھر سے نہ نکالنے کی ہدایت تو سب عورتوں کے متعلق دی ہے اور یہ حکم عام ہے، لیکن نفقہ ادا کرنے کی پابندی صرف حاملہ عورتوں کے حوالے سے لازم کی ہے۔ پہلا حکم سورة کی ابتدا میں لَا تُخرِجُوہُنَّ مِن بُیُوتِہِنَّ کے الفاظ سے دیا گیا ہے۔ پھر اس کے بعد حاملہ اور غیر حاملہ، دونوں طرح کی خواتین کے لیے عدت کے احکام بیان فرمائے ہیں اور شوہروں کو پابند کیا ہے کہ وہ دونوں کو دوران عدت میں رہائش فراہم کریں، لیکن نفقہ کی ہدایت دیتے ہوئے صرف حاملہ عورتوں کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَسْكِنُوھُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوھُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْھِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْھِنَّ حَتَّی يَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوھُنَّ أُجُورَھُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہ أُخْرَىٰ (الطلاق ۶:۶۵)
’’جیسی جگہ پر تم ٹھہرے ہو، اپنی گنجائش کے مطابق ان کو بھی ٹھہراﺅ اور انھیں تنگی میں ڈالنے کے لیے ان کو ضرر پہنچانے کی کوشش نہ کرو۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو جب تک بچے کو جنم نہ دے دیں، ان پر (اپنا مال بھی) خرچ کرو۔“
یوں قرآن مجید کی دلالت اس پر واضح ہے کہ حاملہ مطلقہ کے علاوہ کوئی دوسری مطلقہ دوران عدت میں نفقہ کی حق دار نہیں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو نفقہ کا حق دار تسلیم نہ کرنا قرآن مجید کے عین مطابق ہے۔ البتہ آپ نے اس کو شوہر کا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ عدت گزارنے کا حکم اس لیے دیا کہ فاطمہ زبان کی تیز تھیں اور ان کے سسرال والے ان کی زبان درازی سے تنگ تھے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑے اور بدمزگی سے بچنے کے لیے ازروئے مصلحت فاطمہ کو وہاں عدت گزارنے سے منع فرمایا، تاہم اصل قانون قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق یہی ہے کہ ایسی مطلقہ کو بھی دوران عدت میں رہائش مہیا کی جائے گی۔ (الام، ۶/۲۸٠، ۲۸۱)
۶۔ روایات میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مقدمات میںایک گواہ اور قسم کی بنیاد پر مدعی کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ (صحیح مسلم، کتاب الاقضیة، باب القضاءبالیمین والشاہد، رقم ۱۷۱۲) فقہائے احناف نے اس روایت کو قرآن مجید کے اس حکم کے منافی قرار دیتے ہوئے قبول نہیں جس میں دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ (البقرہ ۲: ۲۸۲) احناف کے نزدیک آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عدالت کے لیے ضروری ہے کہ وہ دو مردوں یا ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی کی بنیاد پر فیصلہ کرے، جبکہ زیر بحث حدیث میں اس کے برخلاف ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے ایک قسم لے کر فیصلہ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ فقہائے احناف اس معاملے میں اپنی رائے کے درست ہونے پر ایسا اذعان رکھتے ہیں کہ امام محمد سے منقول ہے کہ انھوںنے کہا کہ اگرکوئی قاضی اس طریقے کے مطابق فیصلہ کرے تو اس کے فیصلے کو فسخ کر دیا جائے، کیونکہ یہ طریقہ قرآن مجید کے خلاف ہے۔ (الام، ۸/۱۵؛ ابن عبد البر، الاستذکار، ۲۲/۵۳) 
امام شافعی نے متعدد مقامات پر اس مسئلے پر کلام کیا ہے اور اس ضمن میں امام محمد بن الحسن کے ساتھ اپنے مجادلے کی روداد بھی نقل کی ہے۔ امام صاحب کا کہنا ہے کہ اس آیت میں شہادت کا کوئی ایسا نصاب بیان نہیں کیا گیا جس کی پابندی ہر ہر مقدمے میں ضروری ہو، بلکہ یہاں موضوع بحث قرض کے لین دین کا مسئلہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت کی ہے، جبکہ اس کے علاوہ دوسرے متنوع قسم کے معاملات میں کئی دوسرے طریقوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا جواز بھی قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ ان میں سے ہر طریقہ معاملے کی نوعیت کے لحاظ سے اپنی جگہ درست ہے اور کسی بھی آیت یا حدیث کو دوسری آیت یا حدیث کے خلاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امام شافعی لکھتے ہیں:
ارایت اذا حکم اللہ عز وجل فی الزنا باربعۃ شھود وجاءت بذلک السنۃ وقال اللہ عز وجل واستشھدوا شھیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتان اما صار اھل العلم الی اجازۃ اربعۃ فی الزنا واثنین فی غیر الزنا ولم یقولوا ان واحدا منھما نسخ الآخر ولا خالفہ وامضوا کل واحد منھما علی ما جاءفیہ، قال بلی (الام ۸/۲۷)
’’بتاﺅ کہ جب اللہ تعالیٰ نے زنا میں چار گواہوں کی گواہی پر فیصلے کا حکم دیا ہے اور سنت میں بھی یہی آیا ہے، جبکہ (قرض کے معاملے میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دو مرد گواہ مقرر کرو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہونی چاہئیں، تو (ان دونوں الگ الگ حکموں کے بارے میں) کیا اہل علم کا یہ موقف نہیں ہے کہ زنا میں چار اور باقی معاملات میں دو گواہوں پر فیصلہ کیا جائے گا اور یہ نہیں کہا کہ ان میں سے ایک حکم دوسرے کے خلاف ہے اور اس نے اسے منسوخ کر دیا ہے، بلکہ اہل علم نے ہر حکم کو اس دائرے میں واجب العمل مانا ہے جس میں وہ دیا گیا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔“
اسی بحث میں الزامی استدلال سے کام لیتے ہوئے امام شافعی لکھتے ہیں:
فکان مما رد بہ الیمین مع الشاھد ان قال قال اللہ تبارک وتعالی شھیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتان، فقلت لہ لست اعلم فی ھذہ الآیۃ تحریم ان یجوز اقل من شاھدین بحال، قال فان قلت فیھا دلالۃ علی الا یجوز اقل من شاھدین؟ قلت فقلہ، قال فقد قلتہ، قلت فمن الشاھدان اللذان امر اللہ جل ثناوہ بھما؟ قال عدلان حران مسلمان، فقلت فلم اجزت شھادۃ اھل الذمۃ؟ وقلت لم اجزت شھادة القابلة وحدھا؟ قال لان علیا اجازھا، قلت فخلاف ھی للقرآن؟ قال لا، قلت فقد زعمت ان من حکم باقل من شاھدین خالف القرآن (الام ۱٠/۲۹٠)
’’مخالف نے گواہ کے ساتھ قسم پر فیصلے کے طریقے کو جن دلائل کی وجہ سے رد کیا، ان میں سے ایک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دو مرد گواہ ہونے چاہئیں اور اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو اس آیت میں اس بات کی کوئی ممانعت نظر نہیں آتی کہ کسی بھی حال میں دو سے کم گواہوں پر فیصلہ نہ کیا جائے۔ اس نے کہا کہ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ اس میں اس پر دلالت موجود ہے کہ دو سے کم گواہوں پر فیصلہ جائز نہیں؟ میں نے کہا کہ کہو۔ اس نے کہا کہ میں یہی کہتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ یہ دو گواہ جن کا اللہ نے ذکر کیا ہے، کس قسم کے ہونے چاہئیں؟ اس نے کہا کہ عادل، آزاد اور مسلمان ہونے چاہئیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تم (بعض امور میں) اہل ذمہ کی گواہی کیوں قبول کرتے ہو اور اکیلی دایہ کی گواہی پر کیوں فیصلہ کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ اس لیے کہ سیدنا علی نے اس کو (یعنی دایہ کی گواہی کو) درست قرار دیا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ قرآن کے خلاف ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ جو شخص (کسی بھی صورت میں) دو سے کم گواہوں پر فیصلہ کرتا ہے، اس کی بات قرآن کے خلاف ہے۔“
مذکورہ مثالوں کے علاوہ بعض دیگر احادیث میں بیان ہونے والی تخصیصات بھی بظاہر قرآن کے عا م حکم کے معارض محسوس ہوتی ہیں۔ امام شافعی نے ان کا ذکر اس بحث کے تناظر میں تو نہیں کیا، لیکن ان کی توجیہ بھی اس انداز سے کی ہے کہ ان تخصیصات کا خود اصل حکم میں مضمر ہونا واضح ہو جاتا ہے۔ 
۷۔ مثال کے طور پر روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اپاہج شخص کو، جس نے بدکاری کی تھی اور معذور اور کمزور ہونے کی وجہ سے کوڑوں کی سزا کا متحمل نہیں تھا، اس طرح سزا دی کہ سو تنکے جمع کر کے ایک ہی دفعہ اس کے جسم پر مارنے کا حکم دیا۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ اور سنت سے یہ واضح ہے کہ کوڑے لگوانے سے مقصود انسان کی جان لینا نہیں ہے، بلکہ لوگوں کو حرام کاموں کے ارتکاب سے باز رکھنا ہے اور اس سے مجرم کا گناہ بخشے جانے کی توقع ہے۔ چونکہ معذور یا نہایت بیمار آدمی کو کوڑے لگانے سے اس کی جان جا سکتی ہے، اس لیے ایسے شخص کو کوڑے لگوانا شریعت کا مقصود نہیں ہو سکتا۔ (الام ۷/۳۴۴) گویا امام صاحب یہ واضح کر رہے ہیں کہ اس معاملے میں سزا کا عام طریقہ چھوڑ کر خصوصی طریقہ اختیار کرنا خود حکم کے مقصد اور شریعت کے عمومی مزاج کی رعایت سے ضروری تھا۔
۸۔ اسی طرح بعض احادیث میں کہا گیا ہے کہ دو مردار کھانا ہمارے لیے حلال ہے، ایک مچھلی اور دوسرا ٹڈی۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ دراصل حلال جانوروں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جن کے حلال ہونے کے لیے ان کو ذبح کرنا ضروری ہے اور دوسری وہ جنھیں ذبح کرنا ضروری نہیں۔ اس دوسری قسم کی مثال کے طور پر امام شافعی ٹڈی اور مچھلی کا ذکر کرتے ہیں۔ (الام ۳/۶٠۳، ۶۰۶) امام شافعی کی مراد یہ ہے کہ ذبح کرنے کی شرط ایسے جانوروں کے لیے ہے جن کے جسم میں خون ہوتا ہے اور اسے ذبح کے ذریعے سے بہا دیا جاتا ہے۔ چونکہ مچھلی اور ٹڈی میں خون ہی نہیں ہوتا جسے بہایا جا سکے، اس لیے ان کو ذبح کرنا بھی ضروری نہیں۔ گویا امام صاحب یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن میں جس مردار کو حرام کہا گیا ہے، وہ خون رکھنے والے جانور ہیں اور اس میں مچھلی اور ٹڈی سرے سے شامل ہی نہیں، بلکہ ان کا حکم اصولی طور پر ہی ایسے جانوروں سے مختلف ہے۔

قرآنی اُسلوب دعوت کی باز یافت

سید مطیع الرحمٰن مشہدی

 عزیز دوست محترم میاں انعام الرحمٰن  کو جب بھی بتا یا  کہ میں آج کل فلاں کتاب یا فلاں موضوع کا مطالعہ کر رہاہوں تو ایک بات وہ ہمیشہ دہراتے ہیں کہ جب کتاب یا مذکورہ مضمون کامطالعہ مکمل کرلیں تو اس کے حاصلِ مطالعہ پر ایک ڈیڑھ صفحہ ضرور  لکھ  دیا کریں کہ اس  سے نثر نگار ی شستہ ،رواں اور بہترین ہو گی ۔پھر  جب کبھی آپ اس کتاب یا موضوع پر برسوں بعد بھی کوئی تبصرہ یا کوئی تحقیقی کام کر نا چاہیں گے تو بجائے پوری کتاب پڑھنے کے  یہ ایک ڈیڑھ صفحہ  کفایت کرے گا ۔ آپ کے حاصل مطالعہ سے کئی اور لوگ بھی مستفید ہو ں گے ،کچھ عرصہ بعد اس طرح کے شذرات سے ایک کتاب بھی بن سکتی ہے  اور اس کے علاوہ کئی ایک  فوائد گنواتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں میاں صاحب نے اپنے دادا جان مفتی ابو احمد  عبد اللہ لدھیانوی ؒ   کی کتا ب’’ انسان ، مادہ پرستی اور اسلام“ مطالعہ اور پروف ریڈنگ کی غرض سے عنایت کی تو مذکورہ بالا نصیحت  دہراتے ہوئے اس بات کا اضافہ فرمایا کہ اس کتاب کا حاصل ِ مطالعہ کتاب میں شامل کیا جائے گا  ۔میں نے ہزار منت سماجت کی کہ  میں کہاں اور مفتی صاحب کی شخصیت کہاں ،نہیں مانے ۔ پھر فارسی زبان میں بھی گذارش کی کہ من آنم کہ من دانم ،مگر مسلسل اصرار فرمایا جسے ان کی محبت  اور ذرہ نوازی نہ کہیے تو کیا کہیے ۔سو مطالعہ کے دوران میں چند اہم پہلو جو مجھے محسوس ہو ئے، سپر د ِقلم کیے ہیں۔
یہ بات عموما دیکھنے میں آئی ہے کہ ہمارے ہا ں جب بھی مغربی تہذیب و تمدن پر نقد کیا جاتا ہے تو  ہمار ےنقاد  اپنی تنقید کا سارا مقدمہ مغرب سے متعلق سنی سنائی باتوں ، مشہور مفروضات اور چند غلط فہمیوں کی بنیاد پر قائم کرتے ہیں ۔ نہ ان کے پاس مستند ذرائع سے معلومات ہوتی ہیں اور نہ انہیں براہ ِراست مشاہدے کا موقع ملا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ ان کا استدلال جگہ جگہ اپنی کمزور ی ظاہر کرتا ہے۔ ایسی کمزور بنیادوں پر یقینا کوئی بلند وبالا عمارت قائم نہیں کی جاسکتی ۔ کتابِ ہذا میں دوران ِمطالعہ جہاں جہاں مغربی تہذیب و تمدن، نظریہ حیات اور دیگر مغربی  افکار  پر تنقید کا موقع آیا ، میں فورا چوکنا ہو گیا کہ یہاں مذکورہ بالا  مصنفین  کی طرح مفتی صاحب موصوف بھی مغربی معاشرے اور ممالک  سے متعلق بہت سارے مفروضات  او ر سنی سنائی باتوں  پر  اپنا مقدمہ قائم کریں گے اور اپنی نقد کی پوری عمار ت انہی Myths  پر کھڑی کریں گے۔ لیکن ہر دفعہ خوشگوار حیرت  ہوئی کہ  اس معاملے میں  بھی ان کی  معلومات  حقیقت  کے قریب، مبنی بر دیانت ،اور افراط و تفریط سے پاک ہیں ،حالانکہ یہ  ساٹھ سال قبل  کی تحریر ہے جبکہ معلومات  کے ذرائع آج کے ذرائع کے عشر ِ عشیر بھی نہ تھے ۔
فرقہ واریت اور مذہبی انتہاپسندی  کی ایک بنیادی وجہ مخالفین کے ساتھ بحث و مباحثہ،مثبت مکالمہ  اور علمی و فکری اختلاف  کےآداب سے نابلد ہونا ہے ۔ بد قسمتی سے مدارس کے طلبا کے ہاں اس کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔ مخالفین کی توہین ، غیر شائستہ اندازِ تخاطب ، مخالف کے مثبت پہلوؤں کو نہ صرف نظر  اندازکرنا بلکہ انہیں الٹا منفی بناکر پیش کرنا اور دیگر غیر علمی رویےمذہبی طبقات کی اکثریت  میں پائے جاتے ہیں  ۔ یہی وہ اسا لیب ہیں جو مخالف کو حق کے قریب لانے  کے بجائے  الٹا مانع بنتے ہیں ۔ مجھے آ ج تک یہ  معلوم نہیں ہو  سکا کہ مناظرین کے ہاں پائے جانے والے اسلوبِ مخاصمت کی اصل کیا ہے ۔ غیر مسلم تو ایک طرف رہے، خود مسلمانوں کے اپنے فر قوں اور مسالک کے مابین گفتگو اور بحث و تمحیص کا  جو رویہ پایا جاتاہے،نہایت غیر شائستہ اور ناگفتہ بہ ہے ۔مباحثے  و مناقشے  کا یہ انداز نہ قرآن نے اختیار کیا  ہے نہ پیغمبر انہ اسلوب ِ دعوت سے اسے کوئی نسبت ہے ۔اس کے برعکس مفتی صاحب ؒ کا اسلوب  ایسا عمدہ ،حکیمانہ ، مخلصانہ ،ہمدردانہ ، شائستہ ، دلکش  ، دانش افروز، قرآنی  اصول  وجادلھم بالتی ھی احسن کا عملی نمونہ اور  انبیاءکے دعوتی منہج کے عین مطابق ہے ۔مخالف کی مثبت باتوں اور نظریات و خیالات کو نہ صرف مد نظر رکھا گیا  ہے بلکہ اسے دعوتی مقاصد  کے لئے استعمال  بھی کیا گیا ہےجو  ایک داعی کی وسیع الظرفی اور وسعتِ قلبی   کے ساتھ ساتھ حکمت کا تقاضا بھی ہے میرے خیال میں مفتی صاحبؒ  کی یہ کتاب خصوصی طورپر  مدارس کے طلبا کے  نصاب میں شامل ہونی چاہیے تا کہ ان کے ہاں  مخالفین  کے ساتھ گفتگو اور مکالمے  کی ایک شائستہ اور قرآنی روایت  قائم ہوسکے ۔ 
مخالف کے دلائل کے مقابلے میں جب آپ مضبوط علمی پوزیشن میں ہوں تو  نہ چاہتے ہوئے بھی ایک طرح کی علمی رعونت زبا ن  وبیان میں دَ ر آتی ہے ۔ مخالف  کے دلائل کا ، یہاں تک کہ اس کی ذات کا تمسخر اڑانااور اس کی کج فہمی کا ڈھنڈوراپیٹنا،  اسی فکری تکبر کا شاخسانہ ہے ۔ ایک داعی کو  ہرگز  زیب نہیں دیتا کہ  وہ مخالف کے کمزور دلائل پر اس طرح جھپٹے جیسے شیر ہرن پر جھپٹتا ہے ،بلکہ الفاظ کے انتہائی محتا ط چناؤ اور  نہایت باوقار لہجے میں  مخالف کو کمتر اور کم علم ثا بت کیے بغیر  اس کے علمی استدلال کی کمزور ی کو واضح کرنا  ہی درست رویہ ہے ۔ اس پوری کتاب میں کہیں بھی، کسی در جے  میں بھی علمی رعونت  سے مغلوب ہوکر  مخالف کا تمسخر  نہیں اڑایا گیا اور نہ ہی تہذیب و شائستگی سے عاری کسی لفظ کا چنا ؤ کیا گیا ہے ۔
دعوتی لٹریچر میں عام طور پر اس بات کا خیال کم رکھا جاتا ہے کہ دلیل کس قدر مضبو ط بنیاد وں پر استوار ہے ۔ ضعیف  و کمزور روایات اور بے سند قصص  بلا ججھک بیان کر دیے جاتےہیں اور اس بارے میں نقطہ نظر یہ رکھا جاتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں اس قدر چھان پھٹک اور تحقیق وتفتیش  کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ میرے خیال میں یہ رویہ  کئی لحاظ سے درست نہیں ۔ اس سے تو یہ ثابت ہوتا  ہے کہ صحیح روایات اور مستند حکایات و قصص   اس قدر موجود  ہی نہیں کہ دعوت ِدین کے لئے کا فی و شافی ہوسکیں ۔ دوسرا  یہ کہ ایسی کمزور  اور ضعیف الاسناد  باتوں پر  جب آپ مخالفین  سے بات کریں گے تو ایک طرف یہ دلائل اس کے لئے متا ثر کن ثا بت نہیں ہوں گے اگر وقتی طور پر  مان بھی لیے گئے تو  جب کبھی انہیں ان دلائل کے بودے پن کا علم ہو گا تو آپ کی ساری بحث ہی مشکو ک ٹھہرے گی اور آپ کی ساری محنت غا رت جائے گی ۔مفتی صاحب ؒ نے یہ کتاب اگرچہ خالصتا دعوتی نقطہ نظر سے لکھی ہے لیکن ان کے ہاں اس بات کا پورا خیا ل رکھا گیا ہے کہ کوئی بات  بلا دلیل  اور بے اصل نہ ہو۔
ایک داعی کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ نہ  صرف اپنے  مخالف کی  علمی و عملی  کمزوریوں کا پورا  ادارک رکھتا ہو بلکہ خود اس طبقے کی جملہ کمزوریوں سے بھی با خبر  ہوجس کا وہ خود ایک فرد ہے ۔ مفتی صاحب ؒ کے ہاں اس بات کا بھی پورا اہتمام نظر آتا ہے ۔خود تنقیدی و خود نگری کا جرت مندانہ انداز   بھی کئی مواقع پر سامنے آتا  ہے ۔ اس معاملے میں  جہاں مسلمانوں  سے تفہیم ِ دین یا  اس کے اطلاقی پہلوؤں سے  ٖغلطیاں سر زد ہوئی ہیں، انہیں نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان کی پرزور مذمت بھی کرتے ہیں ۔یہ بات داعی کی دیانت و صیانت کے ساتھ ساتھ مخالفین کے ہاں ا س کی تنقیدکی وقعت اور بات میں وز ن بھی پیداکرتی ہے اور اس کے علمی مرتبے پر اعتماد پیداکرتی ہے  ۔ 
اس  کتاب میں  انسان ، مادہ پرستی اور اسلام کی مثلث کے تینوں زاویوں  کا علمی و عقلی  تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کا اسلوب ِ نگارش نہایت  فکر انگیز اور  مربوط،   اور نثر اس قدر شستہ اور رواں ہے کہ قاری  علمی و فکری غذ ا کے ساتھ ساتھ ادب و سخن کی چاشنی سے بھی محظوظ  ہو تا چلا جاتا ہے  ۔ یہ کتاب جدید مادیت پرستی کے پرشور دور میں انسان کی روحانی بازیافت کے ساتھ ساتھ قرآنی اسلوب ِ دعوت کی بازیافت  کی طرف بھی  ایک مثبت قدم ہے ۔ ایسے کئی قدم اٹھیں گے تو اس عظیم منزل کی راہ ہموار ہو گی اور نئی نسل ان راستوں پر آگے بڑھ سکے گی۔ الحاد اور مادہ پرستی کی جدید لہر  اس بات کی متقاضی ہے  کہ زیرِ نظر کتاب کا انگریزی ترجمہ  منظر عام پر لایا جائے تا کہ اس سے استفا دے کا دائرہ مزید وسیع ہو سکے ۔اللہ رب العزت مفتی صاحب کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے پوتے محترم میاں انعام الرحمٰن کے علم و عمل میں مزید ترقی و اضافہ فرمائے کہ ان کی کاوش و محنت  کی بدولت تقریبا چھ عشروں  کے بعد   اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن  منظر عام پر آسکا۔

عزیزم محمد عمار خان ناصر کا اعزاز

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۵ فروری ۲۰۱۹ء میرے لیے ذاتی اور خاندانی طور پر انتہائی خوشی کا دن تھا کہ اس روز میرے بڑے فرزند حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کر کے آخری زبانی امتحان (Viva voce) میں سرخروئی حاصل کی، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔عمار خان ناصر نے حفظ قرآن کریم اور درس نظامی کی تعلیم مدرسہ انوار العلوم اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے حاصل کی اور اپنے دادا محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے دورۂ حدیث میں بخاری شریف پڑھنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے انگلش میں ایم اے کیا، اس کے بعد جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تقریباً دس سال تک درس نظامی کی تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ 
عمار خان ناصر کو تحقیق و مطالعہ اور علمی جستجو کا ذوق خاندانی طور پر ورثہ میں ملا ہے اور حدیث و فقہ اس کے مطالعہ و تحقیق کی خصوصی جولانگاہ ہے، جبکہ اصول تفسیر، اصول حدیث اور اصول فقہ کو اس کی تحقیقی اور تدریسی محنت میں ترجیحی مضامین کی حیثیت حاصل ہے۔ پی ایچ ڈی کے لیے اس کے مقالہ کا عنوان بھی ’’فقہ الحدیث میں ائمہ احناف کا اصولی منہج‘‘ تھا جس پر گزشتہ روز زبانی امتحان کا اہتمام کیا گیا جس میں عمار ناصر نے منتخب اور سینئر اساتذہ کے سامنے اپنے مقالہ کا خلاصہ پیش کر کے ان کے سوالات کے جوابات دیے اور اس میں کامیابی حاصل کی۔ 
میں بھی اس محفل میں موجود تھا اور میں نے اپنے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے اس موقع پر کہا کہ میرے لیے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے خاندان میں علم و تحقیق اور مطالعہ و جستجو کا جو ذوق والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کے ذریعے شامل ہوا تھا، اس کا تسلسل تیسری نسل میں بھی جاری ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ عزیزم عمار خان کے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ان عظیم بزرگوں کی علمی و تحقیقی روایات کا امین بنائے اور اس خدمت کو جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

اپریل ۲۰۱۹ء

نسل پرستانہ دہشت گردی اور مغربی معاشرےمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۲)ڈاکٹر محی الدین غازی
”سورۃ البینۃ“ ۔ اصحابِ تشکیک کے لیے نسخہ شفاءمولانا محمد عبد اللہ شارق
نیشنل جوڈیشل پالیسی پر پنجاب بار کونسل کا رد عملچوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
مغربی شخصیات کے قبولِ اسلام پر مسلم مغربی رویے: جورام کلاورین کے قبولِ اسلام کے تناظر میںڈاکٹر محمد شہباز منج
سود کے بارے میں سینٹ کا منظور کردہ بلمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نفاذ اسلام میں دستوری اداروں کے کردار کا جائزہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۴)محمد عمار خان ناصر

نسل پرستانہ دہشت گردی اور مغربی معاشرے

محمد عمار خان ناصر

(نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعے کے تناظر میں سوشل میڈیا پر چند مختصر تبصرے لکھے گئے  تھے جنھیں ایک مناسب ترتیب سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے)

سفید فام قوموں میں نسل پرستی جڑ سے ختم نہیں ہوئی، اسے زنجیریں پہنائی گئی ہیں۔ مسیحیت کی انسان دوست تعلیمات پر مبنی طویل جدوجہد بھی نازی ازم جیسے فلسفوں کو ابھرنے سے نہیں روک سکیں۔ ہٹلر کوئی ملحد نہیں تھا، کٹڑ نسل پرست ہونے کے ساتھ مسیحی بھی تھا اور دونوں کے امتزاج سے اس نے یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا جواز تیار کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم دنیا میں بھی سامی دشمن رجحان مغرب ہی کی وساطت سے متعارف ہوا ہے، اس پر مطالعات موجود ہیں کہ بیسیویں صدی سے پہلے یہودیوں کو ایک نسل کے طور پر خطرہ سمجھنے کے کوئی قابل ذکر آثار اسلامی دنیا میں نہیں پائے جاتے تھے۔ جدید مغرب میں سے براعظم آسٹریلیا میں سفید نسل پرستی غالبا سب سے مضبوط ہے، لیکن یورپی ممالک اور امریکا میں بھی اس کی قابل لحاظ موجودگی ہے۔ اسلامو فوبیا کے مظہر کا منبع بنیادی طور یہی حلقے ہیں۔ امریکا میں اس کا حالیہ ظہور ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں ہوا ہے جو مقامی سفید فام آبادی کی طرف سے وسائل میں امیگرنٹس کی بڑھتی ہوئی شرکت پر ناراضی کا اظہار ہے۔ 
مذہب کے عنوان سے  کی جانے والی دہشت گردی اور نسل پرستانہ دہشت گردی، دونوں کو ایک ہی مظہر کا تنوع سمجھنا درست نہیں، اس سے تشخیص اور علاج میں بہت بنیادی غلطی پیدا ہو سکتی ہے۔ کمزور قوموں میں دہشت گردی کا مظہر، مغرب کی سیاسی طاقت اور جدیدیت کے خلاف رد عمل ہے، اور سفید فام قوموں میں، یہ نسلی احساس برتری کا اور اپنے وسائل میں غیروں کی شرکت پر غم وغصہ کا اظہار ہے۔ دونوں کی نوعیت، محرکات، قوت وتائید کے مصادر، بالکل الگ الگ ہیں۔ دونوں کا مقابلہ بھی ایک ہی عنوان سے نہیں ہو سکتا۔  یہ سوچ کسی ایک مذہب کی نہیں، بحیثیت مجموعی انسانیت کی دشمن ہے۔ اسے مذہبی تقسیم کا رنگ دینے سے، جو بلاشبہ اس میں ایک عنصر کے طور پر موجود ہے، اس کی مزاحمت کا اخلاقی مقدمہ اور سیاسی تائید، دونوں کمزور ہوں گے۔ اس پہلو کو ہر حال میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے کردار سے شاہ حبشہ نجاشی یاد آ گئے۔ اس سے پہلے جرمنی کی خاتون وزیر اعظم نے شامی مہاجرین کے لیے جس طرح دروازے کھولے، اس سے بھی یہی یاد تازہ ہوئی تھی۔ اللہ تعالی ٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔
’’نجاشی ” حبشہ کے بادشاہ کا لقب ہوتا تھا، یعنی یہ ان کا نام نہیں تھا۔ تاریخی معلومات کے مطابق عہد نبوی میں حبشہ میں دو نجاشی حکمران ہوئے۔ ایک وہ جنھوں نے مکی دور میں مہاجرین کو پناہ دی اور ایمان کو مخفی رکھتے ہوئے مسلمان بھی ہو گئے۔ ان کا نام اصحمہ بن الابجر تھا۔ انھوں نے ہی سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ، جو اس وقت حبشہ میں مہاجر تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح کروایا اور آپ کی طرف سے اپنی جیب سے چار ہزار درہم کا مہر ادا کیا تھا۔ ان کا انتقال عہد نبوی میں ہی ہو گیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں، بذریعہ وحی اطلاع ملنے پر ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی تھی۔ غالبا انھی کے دور میں کسی دوسرے مدعی اقتدار نے نجاشی پر حملہ کر کے حکومت چھیننے کی کوشش کی تو سیدنا زبیر اور دوسرے مسلمانوں نے نجاشی کی فوج میں شامل ہو کر اس کے خلاف جنگ کی اور ان کا دفاع کیا تھا۔
ان کے انتقال کے بعد ایک دوسرے نجاشی برسراقتدار آئے جن کا نام تاریخی مآخذ میں مذکور نہیں۔ ان کا برتاو بھی مسلمانوں کے ساتھ عادلانہ رہا، لیکن وہ مسلمان نہیں ہوئے۔ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مختلف بادشاہوں کو قبول اسلام کی دعوت کا خط لکھا، ان میں یہ نجاشی بھی شامل تھے جو اسلام نہیں لائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل حبشہ کے اسی حسن سلوک کے تناظر میں مسلمانوں کو ہدایت فرمائی تھی کہ وہ آپ کے بعد جب فتوحات کے لیے نکلیں تو اہل حبشہ کے خلاف کوئی اقدام نہ کریں، الا یہ کہ خود اہل حبشہ مسلمانوں کے لیے جنگ کی ابتدا کریں۔

نیوزی لینڈ میں حکومت اور سوسائٹی کے ردعمل سے یہ بھی یاد آیا کہ اسلامی تاریخ میں بعینہ اس طرح کا ذمہ دارانہ کردار مسلمان علماء وفقہاء ادا کیا کرتے تھے جس کی کچھ جھلک الشریعہ کے مئی ۲٠۱۷ء کے شمارے میں ’’اقلیتوں کے حقوق کے لیے علماء وفقہاء کا عملی کردار”کے عنوان سے  پیش کی گئی تھی۔ اے کاش، ہم اپنے ظلم وجبر کی آماج گاہ معاشروں میں اس کردار کا احیاء کر سکیں۔ 
ہمارے ہاں اقلیتوں کے مسائل دیگر کئی مسائل کی طرح مذہبی اور لبرل پالیٹکس میں شٹل کاک بنے ہوئے ہیں۔ اصل مسئلہ وہیں رہتا ہے، اور مذہبی اور لبرل سیاست کے لیے ایندھن فراہم کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر سندھ میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنائے جانے کی رپورٹس ایک عرصے سے گردش کر رہی ہیں۔ لبرلز ان رپورٹس کو فیس ویلیو پر لے کر اپنا کام چلاتے ہیں، اور اسلام پسند اپنی جگہ بیٹھے ہوئے انھیں پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں۔ دونوں میں سے کسی کو توفیق نہیں کہ واقعات کی تصدیق کے لیے کوئی اقدام کرے اور واقعی صورت حال کو سامنے لائے۔ قومی سطح پر جتنی مجرمانہ غفلت ہمارے ہاں اقلیتوں کے حوالے سے ہوئی ہے، اس کی کوئی نظیر نہیں۔ کم سے کم ایک تہائی آبادی مختصر ہو کر دو تین فیصد رہ گئی ہے اور وہ بھی دہشت کی فضا میں زندگی گزار رہی ہے۔ یہ پاور پالیٹکس کا ایشو نہیں ہے، ایک قومی اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری کا مسئلہ ہے۔ ہم اقوام متحدہ کے سامنے جواب دہ نہ بھی ہوں، روز قیامت کو خود اللہ کے پیغمبر جب اقلیتوں کی طرف سے مدعی بن کر کھڑے ہوں گے تو یہ سیادت وقیادت کس کام آئے گی؟

سچی بات ہے کہ انسانی رویوں میں اتنے واضح فرق کی اہمیت اور انسانی نفسیات پر اس کے اثرات کو جھٹلانے کے لیے یہ ’’اعتقادی ”قضیہ قطعا ناکافی ہے کہ عمل جتنا بھی اچھا ہو، ایمان کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایک خاص سیاق میں اور کئی قیود کے ساتھ یہ بات علم الکلام میں درست ہو سکتی ہے، لیکن انسانی سطح پر اخلاقی رویوں کے تقابل کی بحث میں یہ مقدمہ پیش کر کے ہم خدا کے تصور کو بھی مجروح کر رہے ہیں اور ایمان کو بھی مزید مشکل بنا رہے ہیں، اور اس کا نفسیاتی محرک صرف یہ ہے کہ ہم اپنی اجتماعی بدعملی پر خود کو شرمندگی سے بچا سکیں۔ یقین جانیے، ہمیں ڈرنا چاہیے کہ جس نام کے ’’ایمان ” پر ہم خود کو ’’خیر امت”باور کیے بیٹھے ہیں، اس کی اس ناقدری پر خدا نے یہ نعمت بھی دنیا کی طاقت ور اور انسانی اخلاقیات کے لحاظ سے ہم سے بہتر قوموں کو دے دینے کا فیصلہ کر لیا تو ہماری جگہ دنیا اور آخرت میں کہاں ہوگی؟
وان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم 

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

استکبر عن“ کا ترجمہ

لفظ استکبر کا اصل استعمال عن کے بغیر ہوتا ہے، اس کے ساتھ عن آنے سے اعراض کے مفہوم کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح دو مفہوم جمع ہوجاتے ہیں، ایک تکبر کرنا اور دوسرا اعراض کرنا۔ تکبر کرنے اور اعراض کرنے میں باہمی تعلق یہ ہے کہ تکبر کرنے کی وجہ سے انسان کسی چیز سے اعراض کرتا ہے، یعنی تکبر اعراض کا سبب ہوتا ہے۔ غرض استکبر عن کا مکمل ترجمہ وہ ہے جس میں یہ دونوں مفہوم ادا ہورہے ہوں۔اس کی روشنی میں جب ہم درج ذیل آیتوں کے ترجموں کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر ترجمے اس لفظ کا مکمل مفہوم ادا نہیں کررہے ہیں۔

(۱) وَکُنتُم عَن آیَاتِہِ تَستَکبِرُون۔ (الانعام: 93)

“ اور اُس کی آیات کے مقابلہ میں سرکشی دکھاتے تھے” (سید مودودی)
“اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے ” (احمد رضا خان)
“اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے” (فتح محمد جالندھری)
“اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے” (محمد جوناگڑھی)
“اور تم متکبرانہ اس کی آیات سے اعراض کرتے تھے” (امین احسن اصلاحی)
صرف آخری ترجمہ میں زیر نظر لفظ کامکمل ترجمہ کیا گیا۔

(۲) وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاستَکبَرُوا عَنہَا اولَئِکَ اَصحَابُ النَّار۔ (الاعراف: 36)

“اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہل دوزخ ہوں گے” (سید مودودی)
“اور جو لوگ ہمارے ان احکام کو جھٹلائیں اور ان سے تکبر کریں وہ لوگ دوزخ والے ہوں گے” (محمد جوناگڑھی)
“اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں اور ان کے مقابل تکبر کیا وہ دوزخی ہیں” (احمد رضا خاں)
“اور جو میری آیات کو جھٹلائیں گے اور تکبر کرکے ان سے اعراض کریں گے وہی دوزخ والے ہیں” (امین احسن اصلاحی)
صرف آخری ترجمہ میں استکبروا عنھا کا مکمل ترجمہ کیا گیا۔
ایک توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ آیت مذکورہ کے آخر حصے کا جن لوگوں نے ترجمہ“وہی دوزخ والے ”کیا ہے، درست نہیں کیا ہے، کیوں کہ یہاں اس حصر کے لئے کوئی علامت نہیں ہے، صحیح ترجمہ ووہ دوزخ والے ”ہے۔

(۳) اِنَّ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاستَکبَرُوا عَنہَا لاَ تُفَتَّحُ لَہُم اَبوَابُ السَّمَاء۔ (الاعراف: 40)

“وہ جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں اور ان کے مقابل تکبر کیا ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے” (احمد رضا خاں)
“یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے” (سید مودودی)
“جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی۔ ان کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے” (فتح محمد جالندھری)
“جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے” (محمد جوناگڑھی)
“بے شک جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور تکبر کر کے ان سے منھ موڑا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے” (امین احسن اصلاحی)
صرف آخری ترجمہ میں استکبروا عنھا کا مکمل ترجمہ کیا گیا۔

(۴)  ِانَّ الَّذِینَ عِندَ رَبِّکَ لاَ یَستَکبِرُونَ عَن عِبَادَتِہ۔ (الاعراف: 206)

“بیشک وہ جو تیرے رب کے پاس ہیں اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے” (احمد رضا خان)
“جو لوگ تمہارے پروردگار کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے گردن کشی نہیں کرتے” (فتح محمد جالندھری)
“یقیناً جو تیرے رب کے نزدیک ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے” (محمد جوناگڑھی)
“بے شک جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی بندگی کرنے سے نہیں اکڑتے” (امین احسن اصلاحی)
“جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آ کر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے” (سید مودودی)
آخر الذکر ترجمہ میں زیر نظرلفظ کا مکمل ترجمہ کیا گیا۔

(۵) وَمَن عِندَہُ لَا یَستَکبِرُونَ عَن عِبَادَتِہِ وَلَا یَستَحسِرُون۔ (الانبیاء: 19)

“اور جو اس کے نزدیک رہتے ہیں بڑائی نہیں کرتے اس کی عبادت سے، اور نہیں کرتے کاہلی” (شاہ عبدالقادر)
“اور اس کے پاس والے اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ تھکیں” (احمد رضا خان)
“اور جو (فرشتے) اُس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ کنیاتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں” (فتح محمد جالندھری)
“اور جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں” (محمد جوناگڑھی)
“اور جو اس کے پاس ہیں۔ وہ اس کی بندگی سے نہ سرتابی کرتے اور نہ تھکتے” (امین احسن اصلاحی)
“اور جو (فرشتے) اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں” (سید مودودی)
“اور جو اس کے پاس ہیں وہ نہ تو اپنے کو بڑا سمجھ کر اس کی عبادت سے منھ موڑتے ہیں ، اور نہ وہ تھکتے ہیں” (محمد فاروق خاں)
صرف آخر الذکر دو ترجموں میں زیر نظرلفظ کا مکمل ترجمہ کیا گیا۔
اس آیت کے آخر میں ولا یستحسرون آیا ہے- استحسار کا ترجمہ کچھ لوگوں نے تھکنا کیا ہے اور کچھ لوگوں نے اکتانا کیاہے، شاہ عبدالقادر نے ترجمہ کیا ہے: “اور نہیں کرتے کاہلی” ۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں: “وہ سست یا ڈھیلے نہیں پڑتے”

(۶) ِانَّ الَّذِینَ یَستَکبِرُونَ عَن عِبَادَتِی سَیَدخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ۔ (غافر: 60)

“بیشک وہ جو میری عبادت سے اونچے کھینچتے (تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر”  (احمد رضا خان)
“یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے” (محمد جوناگڑھی)
“جو لوگ میری بندگی سے سرتابی کررہے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں پڑیں گے”  (امین احسن اصلاحی)
“جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کنیاتے ہیں۔ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے”  (فتح محمد جالندھری، صرف اس ایک مقام پر اس طرح لفظ کی مکمل رعایت کے ساتھ ترجمہ کیا ہے)
“جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے”  (سید مودودی)
صرف آخر الذکر دونوں ترجموں میں زیر نظرلفظ کا مکمل ترجمہ کیا گیا۔
اس آیت کے آخر میں داخرین آیا ہے جو ترکیب نحوی کے لحاظ سے حال ہے، اور اس کا ترجمہ عام طور سے ذلیل ہوکرکیا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ وہ حال ہے جو فعل کی انجام دہی کے وقت نہیں بلکہ فعل کی انجام دہی کے بعد والے زمانے میں واقع ہوتا ہے، ۔اس کے مطابق ترجمہ ہوگا: “جہنم میں داخل ہوکر ذلیل وخوار ہورہے ہوں گے” ۔ قرآن مجید میں اس طرح کے حال کی متعدد مثالیں ہیں: جیسے: ولوا الی قومھم منذرین کا صحیح ترجمہ ہے“وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ کر انذار کرنے لگے” 
 ”استکبر عن“ کے سلسلے میں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ تین مرتبہ یہ تعبیر آیات کے سلسلے میں آئی ہے، اور تین ہی مرتبہ یہ تعبیر عبادت کے سلسلے میں آئی ہے۔ اس کے ساتھ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں  آیات کے سلسلے میں آیا ہے، وہاں صاحب تدبر نے ترجمہ کرتے ہوئے لفظ کی مکمل رعایت کی ہے، اور جہاں  ”استکبر عن“ عبادت کے سلسلے میں آیا ہے وہاں صاحب تفہیم نے ترجمہ کرتے ہوئے لفظ کی مکمل رعایت کی ہے۔
مذکورہ بالا تمام ترجموں میں دو حضرات (فتح محمد جالندھری، محمد فاروق خاں) نے صرف ایک ایک بار لفظ مذکور کا مکمل ترجمہ کیا، باقی پانچ مقامات پر انہوں نے بھی عام مترجمین کی راہ اپنائی۔

ماکنتم تستکبرون“ کا ترجمہ

قرآن مجید میں لفظ استکبار مختلف صیغوں کے ساتھ متعدد مقامات آیا ہے۔ اس کا ترجمہ ہر جگہ سب لوگوں نے گھمنڈ اور تکبر کیا ہے، صرف درج ذیل ایک مقام پر اس کا ترجمہ صاحب تفہیم نے عام لوگوں سے مختلف کردیا ہے:

مَا اَغنَی عَنکُم جَمعُکُم وَمَا کُنتُم تَستَکبِرُون۔ (الاعراف: 48)

“آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ ساز و سامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے” (سید مودودی)
اس ترجمہ میں ما کو مصدریہ ماننے کے بجائے موصولہ مانا گیا ہے۔ استکبر کا مفہوم تکبر کرنے کے بجائے بڑا سمجھنا لیا گیا ہے۔ لغت کے لحاظ سے اس ترجمہ کی گنجائش موجود ہے، بعض عربی تفسیروں میں بھی اس سے ملتی جلتی بات ملتی ہے۔ تاہم قرآن مجید میں اس مفہوم میں یہ لفظ کہیں اور استعمال نہیں ہوا ہے۔ اس لیے موزوں ترجمہ وہی لگتا ہے جو عام طور سے کیا گیا ہے، جیسے: 
“تمہیں کیا کام آیا تمہارا جتھا اور وہ جو تم غرور کرتے تھے ” (احمد رضا خان)
شاہ عبدالقادر کا ترجمہ ہے: “کیا کام آیا تم کو جمع کرنا اور جو تم تکبر کرتے تھے ” اس ترجمے میں جمعکم کا ترجمہ جمع کرنا کیا ہے۔ تفاسیر میں یہ مفہوم بھی ملتا ہے، گوکہ شاہ عبدالقادر کے بعد عام طورسے اس ترجمہ کو اختیار نہیں کیا گیا ہے، اور تمہاری جمعیت یا اس جیسا ترجمہ کیا گیا ہے، اور یہی زیادہ مناسب لگتا ہے ۔

رعد کا ترجمہ

رعد کا لفظ قرآن میں دو جگہ آیا ہے، موخر الذکر مقام پر تو تمام لوگوں نے اس کا ترجمہ گرج کیا ہے، لیکن اول الذکر مقام پر بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ کڑک کردیا ہے۔ لغت کی رو سے رعد کا صحیح ترجمہ گرج ہی ہے۔ جن لوگوں نے پہلے مقام پر اس کا ترجمہ کڑک کیا ہے انہوں نے بھی دوسرے مقام پر گرج ہی کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مقام پر ان سے لغزش ہوگئی۔ دونوں مقامات کے ترجمے ملاحظہ ہوں:

(۱) اَو کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِیہِ ظُلُمَات وَرَعد وَبَرق۔ (البقرة: 19)

“یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک چمک بھی ہے” (سید مودودی)
“یا ایسی ہے جیسے آسمان سے بارش ہورہی ہو۔ اس میں تاریکی ہو، کڑک اور چمک ہو” (امین احسن اصلاحی)
“یا جیسے آسمان سے اترتا پانی کہ ان میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک” (احمد رضا خان)
“یا آسمانی برسات کی طرح جس میں اندھیریاں اور گرج اور بجلی ہو” (محمد جوناگڑھی، صیب کا ترجمہ برسات درست نہیں ہے، بارش ہونا چاہئے)

(۲) وَیُسَبِّحُ الرَّعدُ بِحَمدِہِ۔ (الرعد: 13)

“بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے” (سید مودودی)
“اور بجلی کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے” (امین احسن اصلاحی)
“اور گر ج اسے سراہتی ہوئی اس کی پاکی بولتی ہے ” (احمد رضا خان)
“گرج اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے” (محمد جوناگڑھی،“تسبیح وتعریف کرتی ہے ”ترجمہ کرنا درست نہیں ہے، یہاں دو مستقل فعل نہیں ہیں، مستقل فعل یسبح ہے اور بحمدہ اس سے متعلق ہے، صحیح ترجمہ ہے “حمد کے ساتھ تعریف کرتی ہے”)۔
(جاری)

”سورۃ البینۃ“ ۔ اصحابِ تشکیک کے لیے نسخہ شفاء

مولانا محمد عبد اللہ شارق

“سورۃ البینہ” کی تفسیری مشکلات

متاخرین اہلِ تفسیر میں سے بعض حضرات کو “سورۃ البینہ” کی ابتدائی چند آیات کے ایک “منظم ومربوط معنی” کا تعین کرنے میں کچھ ابہامات اور اشکالات پیدا ہوئے ہیں اور علامہ آلوسی نے امام واحدی سے نقل کیا ہے کہ یہ مقام قرآن کے “اصعب” (نسبتا مشکل) مقامات میں سے ایک ہے (1)، نیز خود راقم کو بھی اس مقام پر کسی منظم، بے تکلف اوربے ساختہ مفہوم ومراد کا تعین کرنے اور اس کی سبق آموزی کو سمجھنے میں دقت پیش آتی رہی۔امام رازی سے لے کر اردو کے معاصر مفسرین تک بعض حضرات نے گو خود ابہامات کا اظہار کرنے والوں پر حیرت کا اظہار کیا اور  لکھا کہ یہاں کوئی ابہام نہیں ہے)2(، لیکن راقم کو اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تشفی جس کتاب سے حاصل ہوئی، وہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تفسیر “فتح العزیز” ہےجس میں کوئی نیا قول اختیار کرنے کی بجائے ماضی کے اہلِ علم کا ہی ایک قول اختیار کیا گیا اور مثال کے ذریعہ اس کی توضیح کا حق ادا کیا گیا جسے پڑھ کر بے اختیار علامہ انور شاہ کشمیری کا قول یاد آیا کہ اگر تفسیرِ عزیزی مکمل ہوجاتی تو سب تفاسیر سے بے نیاز کردیتی۔
قرآنی مشکلات کی نوعیت وحقیقت بہت دفعہ“آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل” کی طرح ہوتی ہے یعنی اپنے علم وتجربہ کی کمی کی وجہ سے آدمی ایک پہاڑ جیسے نکتہ کو فراموش کر رہا ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے ذہنی اختلال پیدا ہوتا ہے، پھر جیسے ہی وہ نکتہ سامنے آتا ہے، ساری الجھن دور ہوجاتی ہے۔ “سورۃ البینہ” کی ابتدائی آیات کا معاملہ بھی یہی ہے، ان میں سے سب سے پہلی آیت کا مفہوم سمجھنے میں عموما ابہام پیدا ہوتا ہے اور پھر وہی ابہام باقی آیات کے ربطِ معانی کو سمجھنے میں بھی مخل ہوتا ہے۔ ہم یہاں دیگر مفسرین کی توضیحات کے “مالہ وماعلیہ” کی طرف جانے کی بجائے ابہامات سے معری صرف اس مفہوم کی توضیح پر اکتفاء کریں گے جو تفسیرِ عزیز کی مدد سے سمجھ میں آیا ہے۔ واضح رہے کہ تفسیرِ عزیزی میں “سورۃ البینہ” کی توضیح کے ضمن میں جو قول اختیار کیا گیا ہے، وہ کوئی نیا قول نہیں، بلکہ صرف تعبیر میں تازہ اور سہل محسوس ہوتا ہے۔ نیز یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہاں جو کچھ عرض کیا گیا ہے، وہ سب کا سب تفسیرِ عزیزی سے ماخوذ نہیں، بلکہ تفسیرِ عزیزی کا کردار صرف یہ ہے کہ اس سے اس بنیادی ابہام کو دور کرنے میں مدد ملی ہے جو یہاں خلجان کا باعث بنتا ہے، باقی جو کچھ یہاں عرض کیا گیا ہے، وہ راقم کی طرف سے ہے۔

ایک حدیث

حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا کہ “مجھے اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے کہ تمہارے سامنے “سورۃ البینہ” پڑھوں، انہوں نے عرض کیا کہ کیا میرا نام لیا ہے؟ فرمایا: جی ہاں، یہ سن کر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اپنی اس عزت افزائی پر وفورِ جذبات کی وجہ سے رونے لگے۔” (3) آئیے اس عظیم الشان سورہ کے معانی ومفاہیم اور متعلقات پر کچھ غور کرتے ہیں۔

ابتدائی تین آیات

ارشاد ہے:
”لمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَھلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّی تَأْتِيَھمُ الْبَيِّنَۃ ° رَسُولٌ مِّنَ اللَّہِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَھرَةً ° فِيھا كُتُبٌ قَيِّمَۃ °“
یعنی “مشرکین اور اہلِ کتاب میں سے جو مرتکبینِ کفر ہیں، یہ اپنی روش سے باز آنے والے نہ تھے یہاں تک کہ ان کے پاس کوئی بینہ (یعنی دلیلِ روشن اور حجتِ واضحہ) نہ آجائے، سو (یہ دلیل آچکی ہے) یہ اللہ کا رسول موجود ہے جو ان پاک صحیفوں کی تلاوت کرتا ہے جن میں نہایت مستقیم باتیں تحریر ہیں۔”
مفسرین کی ایک جماعت کے مطابق اولین آیت کا مفہوم اور پسِ منظر یہ ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل ماضی قریب کے زمانہ میں اہلِ کتاب (یہود ونصاری) اور مشرکین کی کٹ حجتی اپنی اتنہاء کو پہنچ چکی تھی، نصیحت وموعظت کی باتیں ان کے لیے بے اثر ہوچکی تھیں اور کسی بھی مصلحانہ آواز کے جواب میں ان کی ایک ہی رٹ ہوتی تھی کہ جب تک حجتِ واضحہ اور کوئی رسول نہ آجائے ہم اپنی ڈگر سے باز آنے والے نہیں، نیز اپنے ضمیر کو بھی وہ یہی سمجھا کر مطمئن کر لیا کرتے تھے کہ چونکہ ہمارے پاس کوئی نبی موجود نہیں جو ہماری صحیح راہ نمائی کرے، اس لیے ہم کسی حکم کے مکلف اور پابند نہیں۔ سو اولین آیت میں اہلِ کفر کو اپنی اسی سابقہ کیفیت کی یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ کس طرح نبی کی غیر موجودگی کا بہانہ بناکر اپنی گم راہی کو جواز دیا کرتےتھے۔

بعثتِ محمدی سے قبل طالبین کے لیے سامانِ ہدایت موجود

واضح رہے کہ بعثتِ محمدی سے قبل اہلِ کتاب سب کے سب گم راہ نہیں ہوگئے تھے، بلکہ ان میں دینِ حنیف کی اتباع  کرنے والے اکادکا صالح نمونے موجود رہےجس کی تصریح قرآن میں بھی موجود ہے، جبکہ خود مشرکین میں بھی ایسی مثالیں اخیر دور تک موجود رہی تھیں، مثلا زید بن عمرو بن نفیل جن کے بارہ میں حضرت ابو بکر صدیق کی دختر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نقل کرتی ہیں کہ میں نے زید کو خود دیکھا کہ وہ کعبہ کی دیوار سے پشت لگا کر کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ “اے جماعتِ قریش! میرے سوا تم میں سے کوئی شخص دینِ ابراہیم پر نہیں”، یہ موحد تھے، خدا ترس تھے اور ان بچیوں کی کفالت اپنے ذمہ لے لیا کرتے تھے جنہیں ان کے باپ قتل کرنے کے درپے ہوتے، لیکن بلوغت کے بعد ان کے باپوں کو اجازت ہوتی کہ چاہیں تو اپنے پاس لے جائیں ورنہ یہیں رہنے دیں(4)، نیز بتوں کے نام پر جان ور ذبح کرنے پہ نکیر کرتے تھے اور خود ان کا گوشت کھانے سے پرہیز کرتے تھے،(5)، نیز بنو اسماعیل سے ظاہر ہونے والے نبی کے انتظار میں رہتے تھے۔(6)  تاہم یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل وفات پاگئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد از بعثت ان کے جنتی ہونے کی بشارت دی(7)۔ ان کے بیٹے سعید بن زید نے اسلام قبول کیا اور وہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔
ہم یہاں عرض یہ کرنا چاہ رہے ہیں کہ ان جیسے صالحین اخیر دور تک اہل کتاب میں بھی رہے اور مشرکین میں بھی، لیکن ان جیسوں کی مصلحانہ آوازیں اپنی قوم کے اندر کوئی خاص اثر نہیں رکھتی تھیں اور قوم کی طرف سے ان کے جواب میں مختلف حیلے بہانے بنائے جاتے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جب تک ان کے پاس حجتِ واضحہ اور دلیلِ روشن نہیں آجاتی یا وہ رسول نہیں آجاتا جس کا ذکر اہلِ کتاب کے ہاں  موجود ہے، ہم کسی صورت اپنی روش سے باز آنے والے نہیں۔ وہ یہ بھول رہے تھے کہ ہر دور میں ہر علاقہ کے اندر کسی رسول کا موجود ہونا اور اس کا ہر ہر آدمی کے دروازہ پر بار بار خود چل کے جانا ضروری نہیں، بلکہ انسان کے پاس کسی بھی طریقہ سے نبی کی دعوت کا پہنچ جانا، حق کا منکشف ہوجانا  اور اس حوالہ سے سوچنے کا داعیہ دل میں پیدا ہوجانا خود اس کو بھی ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ حق کے لیے پیش قدمی کرے۔ سو یہ دعوت اہلِ کتاب کے پاس بھی موجود تھی اور مشرکین کے اندر بھی آخر تک ایسے افراد موجود رہے جو یا تو بنی اسرائیل ہی کے انبیاء پر ایمان لے آکر اپنی اصلاح کرتے رہے جس کی ایک واضح مثال مکہ ہی میں موجود ورقہ بن نوفل ہیں جو صحیح العقیدہ مسیحی تھے یا پھر  اصل دینِ ابراہیمی کی پیروری کرکے اپنی اصلاح کرتے رہے جس کی واضح مثال زید بن عمرو بن نفیل ہیں۔  واضح رہے کہ بنی اسرائیل کے انبیاء صرف بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوتے تھے، اگر اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی  فرد نے انبیاءِ بنی اسرائیل کے زیرِ سایہ اپنی اصلاح کی تو یقینا یہ بھی جنتی ہے لیکن وہ اس کا مکلف نہیں، بلکہ زید بن عمرو بن نفیل جیسے لوگ بھی از روئے حدیث جنت ہی میں جائیں گے جنہوں نے دینِ ابراہیمی کے معلوم اجزاء کی پیروی کی۔

اہلِ کفر کی حیلہ سازی

یہ حیلہ سازی کہ ہم کسی حجتِ واضحہ اور رسول کو دیکھے بغیر ایمان نہ لائیں گے، اپنی نوعیت کی کوئی منفرد حیلہ سازی نہیں جو اس دور کے اہلِ کفر نے اختیار کی تھی، بلکہ موجودہ دور کے منحرفین میں بھی اس کی مثالیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“وہمہ ایں فرقہ ہا در بدعاتِ قبیحہ ورسومِ فاسدہ وعقائدِ باطلہ  قسمی منہمک  وفرو رفتہ بودند کہ بہ پند ونصیحت ووعظ وارشاد واقامتِ دلائلِ عقلی وفہمانیدنِ قرائن وامارات اصلا صلاح پذیر نمی شدند وہمہ گفتند  کہ بااوضاعِ قدیمہ خود را نمی گذرانیم تا حجتِ ظاہرہ ومعجزہ قاہرہ نہ بینیم وپیغمبرِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کہ نعتِ او را از کتب آسمانی بتواتر دریافتہ بودیم واز انبیائے پیشین شنیدہ مبعوث نشود، مارا بر حقیقتِ کار ما آگہی ندہد ما از وضع وآئینِ خود در نمی گذریم”(8)‬‬‬‬‬‬‬‬
یعنی “مشرکین اور اہلِ کتاب کے یہ مختلف گروہ  قبیح بدعات، رسومِ فاسدہ  اور عقائدِ باطلہ میں اس حد تک منہمک اور غرق تھے کہ وعظ ونصیحت ، عقلی دلائل اور قرائن شواہد سے بالکل نفع نہیں اٹھاتے تھے اور یہی کہتے تھے کہ ہم اپنی قدیم روش کو ہرگز نہ چھوڑیں گے یہاں تک کہ کوئی واضح اور مسکت دلیل ہم نہ دیکھ لیں اور وہ پیغمبرِ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم آکر ہمیں ہدایت کی راہ نہ بتائیں جن کی بشارت کتبِ آسمانی کے ذریعہ تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے اور انبیاء سابقین کے حوالہ سے ہم نے ان کے بارہ میں سنا۔”
نیز فرماتے ہیں:
“وایں حالتِ ایشاں مثل حالتِ فرقہ ہائے  مختلف از امتِ پیغمبرِ ما است دریں زمانہ کہ طائفہ خود را صوفی قرار دادہ در بدعات منہمک گشتہ اند ۔۔۔ وبرخی خود را  از علماء دانستہ  بتزویر ومکر وحیلہ ہائے شرعی برمی آرند وروایاتِ نادرہ غریبہ مخالفِ اصول برائے طمعِ دنیا بمردم نشان میدہند ، ہمہ ایں طوائف را چند بادلہء عقلیہ ونقلیہ فہمانیدہ شود کہ بر جادہء مستقیمہ محمدی استوار شوند وبدعاتِ موروثہ خود را ترک نمایند اصلا ممکن نیست جواب ایں ہمہ طوائف ضالہ در مقابلہ وعظ ونصیحت ہمگی یک حرف است کہ ایں وضع وآئینِ قدیم خود را بدون دیدنِ حجتِ ظاہر وخروجِ حضرت امام مہدی علیہ السلام وبیانِ شافیء ایشاں ترک نمی کنیم پس مثل ایں حالت کہ قبل از بعثتِ پیغمبرِ ما صلی اللہ علیہ وسلم در عالم بود حکمتِ الہی تقاضا نمود کہ پیغمبرے بیاید کہ خودش حجتِ ظاہر باشد واز مرضِ جہالت ہمگناں را نجات بخشد” (9)
یعنی  “ان گم راہ فرقوں کی حالت خود اس امت کے مختلف فرقوں کی طرح تھی جو اس زمانہ میں موجود ہیں کہ ایک جماعت خود کو صوفی قرار دے کر بدعات میں منہمک ہے یا کچھ لوگ جو خود کو علماء سمجھتےہیں، مکر وتلبیس  اور مختلف حیلوں کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں اور دنیا کے لالچ میں دین کی بنیادی تعلیمات کے برخلاف شاذ وعجیب وغریب قسم کی روایات لوگوں کو سناتے ہیں، یہ سب فرقے خواہ ان کو کتنا ہی دلائلِ عقلیہ ونقلیہ کے ساتھ سمجھایا جائےکہ راہِ محمدی پر مستقیم ہوجائیں اور اپنی موروثی بدعات کو ترک کردیں،  نہیں مانتے اور تمام تر وعظ ونصیحت کے جواب میں ان گم راہ فرقوں  کا جواب یہی ہوتا ہے کہ  اپنی پرانی طرز کو ہم نہ چھوڑیں گے یہاں تک کہ  کوئی بلیغ حجت دیکھ لیں اور امام مہدی علیہ السلام کا بیانِ شافی نہ سن لیں، پس اسی طرح کی حالت ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل بھی عالم میں تھی اور حکمتِ الہی نے تقاضا کیا کہ ایک ایسا پیغمبر آجائے  جو اپنے وجود میں آپ حجت ہو اور سب کو جہالت کے مرض سے نجات دے۔”
سو پہلی آیت میں جو کچھ مذکورہ ہے، وہ اہلِ کفر کے ایک بہانے کی حیثیت سے مذکور ہے اور ہماری ناقص سی نظر کے مطابق اس کی طرف اشارہ قرآنی لفظ ”مُنفَكِّينَ“ سے بھی ملتا ہےجو ”انفکاک“ سے ماخوذ ہے، ”انفکاک“ کے معنی کسی چپکی اور چمٹی ہوئی چیز کے جدا ہونے کے ہیں(10)، اس لفظ میں ایک لطیف سا اشارہ محسوس ہوتا ہے کہ اہلِ کفر کسی علمی جواز کی بناء پر کفر کو صحیح نہیں سمجھتے تھے، بلکہ محض اپنی عصبیت کی وجہ سے اس کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے اور اس سے جدا ہونے کے لیے تیار نہ تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی پارسائی اور حق کے لیے اپنی فکر مندی کا اظہار بھی کرتے تھے کہ اگر کوئی نبی آکر ہمیں سمجھائے تو ہم اپنی اس روش کو فورا چھوڑا دیں۔ پہلی آیت کے اس مفہوم وپسِ منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اب آئیے دوسری آیت کی طرف۔

رسول کی آمد،  بہانوں کا جواب!

دوسری آیت میں کفار کو جواب دیا گیا ہے کہ تم اب تک تو اپنے کفر کا بہانہ یہ پیش کیا کرتے تھے کہ ہمارے سامنے کوئی رسول موجود نہیں کہ اس کی بات سن کر دین کے نام پر بولی جانے والی مختلف بولیوں میں سے ہم صحیح بات کا انتخاب کرلیتے، مگر اب یہ بہانہ چلنے والا نہیں، تمہارا یہ عذر ختم ہوچکا ہے۔ یہ دیکھو، یہ خدا کا رسول تمہارے سامنے موجود ہے جو پاک آسمانی صحیفوں کی تلاوت کررہا  ہے، سو جو حجت تم مانگا کرتے تھے، وہ آچکی ہے۔
اس آیت میں جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں، قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کو بذاتِ خود ایک “بینہ“ یعنی دلیل وحجت کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل بنیادی دعوت چند ایسے عام فہم اور نیم بدیہی امور پر مشتمل ہےجن میں خود ہی دعوی اور خود ہی دلیل کی شان پائی جاتی ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ قرآن کے بعض جزوی مقامات پر گو انسان کو تفسیر میں قدرے مشکل پیش آئے، مگر قرآنی دعوت کے بنیادی اجزاء بالکل عام فہم ہیں اور ان کو ماننے کے لیے انسان کو عقلی بوکاٹے لڑانے سے زیادہ محض حقیقت پسند بننے اور اور تصدیقِ حق کا جذبہ خود میں ابھارنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ کی تیسری آیت میں  یہی نہایت اہم بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ نبی جن صحیفوں کو پڑھ کر سنا رہا ہے،ان صحیفوں کا پیغام چند نہایت سیدھی سیدھی اور مستقیم باتوں پر مشتمل ہے۔ یہ بات بطورِ خاص ان لوگوں کے سمجھنے کی ہے جن کی “مسئلہ تکفیر واتمامِ حجت” کے نام سے کی گئی گفتگو سے بعض اوقات دین کے ایک “پہیلی” ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ایک حجت ہے اور یہ حجت اس وقت تک کے لیے دنیا میں موجود ہے جب تک قرآن دنیا میں موجود ہے اور صاحبِ قرآن  صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثین دنیا میں موجود ہیں۔
نیز رسول کی آمد میں کس طرح حجیت کی ایک شان پائی جاتی ہے، اس کے لیے ایک اور پہلو پر غور کیجئے۔ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل انبیاءِ سابقین کی دعوت دنیا سے مٹ نہیں چکی تھی، بلکہ وہ موجود تھی اور اس کی پیروی کرنے والے عملی نمونے بھی موجود تھے، چنانچہ نمونہ کے طور صرف مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تھوڑا سا قبل زید بن عمرو بن نفیل اور ورقہ بن نوفل جیسے لوگ دیکھے جاسکتے ہیں۔ پس اس وقت انسانوں میں سے جو شخص ہدایت کی طلب کرتا، اسے بھی بفضلِ الہی مایوسی نہیں ہوتی تھی۔مگر ایک نئے رسول کا آنا اور ایک بے عیب ،بے ریب، مدلل ومکمل کتاب کے ساتھ آنا ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے، کیونکہ رسول آکر جس طرح آسمانی پیغام کے زمینی وجود میں ایک نئی روح پھونک دیتا ہے، وہ جس طرح طالبین کا انتظار نہیں کرتا اور نہ ہی دوسروں کو سمجھانے کی ایک محدود سی کوشش کرکے بیٹھ جاتا ہے، بلکہ ایک منظم انداز میں بھر پور قوت کے ساتھ اپنی دعوت کو اٹھاتا ہے، بے طلبوں میں طلب جگاتا ہے، خود چل پھر کر  لوگوں تک پیغامِ ہدایت پہنچاتا ہے اور پدرانہ شفقت کے ساتھ ترغیب وتحریص اور تدبیر وتنظیم کے ذریعہ ہدایت کا ایک عمومی ماحول قائم کرنے کی زبردست محنت کرتا ہے، اس راہ کی ہر مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے اور یہی کام اس کا مشن ومقصدِ زندگی ہوتا ہے، نیز جس طرح خصوصا صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں کو اس حوالہ سے خدا نے  بار آور کیا اور توحید وخداپرستی کے سورج کو سوانیزے پر لاکھڑا کیا، یہ سب کچھ اپنے وجود میں ایک مستقل حجت اور رحمت کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ بھی ایک وجہ ہے قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کو “بینہ” قرار دینے کی۔

ایک نحوی بحث

مفسرین عام طور پر یہاں نحوی اعتبار سے لفظِ “رسول” کو “البینہ“ کا “بدل” بناتے ہیں،  جبکہ ایک قول اسے بدل کی بجائے مبتداء محذوف کی خبر بنانے کا بھی ہے(11)،  لیکن دونوں کے حاصلِ معنی میں کوئی فرق نہیں۔ اگر اسے “ہذا محذوف”کی خبر بنائیں تو بات واضح ہے کہ اولین آیت میں ان کے اس بہانہ کا ذکر ہے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل اپنی گم راہی کو جواز دینے کے لیے اختیار کیا کرتے تھے اور باقی دونوں آیات میں بتایا گیا ہے کہ وہ بہانہ اب ایکساپئر ہوچکا ہے کیونکہ رسول کی آمد ہوچکی ہے۔ جبکہ اگر اس کو “بدل” بنائیں تو دوسری اور تیسری آیت تفسیر ہوگی کفار کے مطالبہ کی کہ وہ کس قسم کی “بینہ“ کا مطالبہ کیا کرتے تھے  اور  مفہوم ہوگا کہ “بینہ” سے ان کی مراد ایک ایسا رسول تھا جو آسمانی صحیفہ لے کر آئے اور دین کی باتوں کو سیدھے سیدھے انداز میں واضح کرے۔ اس صورت میں ابتدائی تینوں آیات کے اندر کفار کے “بہانہ“ کا ذکر ہے، جبکہ اس کا کوئی جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ہے کیونکہ یہ سب کو نظر آرہا ہے کہ جس رسول کا مطالبہ وہ کر رہے تھے، وہ آچکا ہے اور یہ بھی کہ رسول اللہ کی غیر موجودگی کا بہانہ بنانے والوں نے رسول اللہ کی آمد کے بعد عمومی طور پر اس کے ساتھ کیا سلوک اختیار کیا۔ سو “بدل” کی رو سے ان تینوں آیات میں بہانہ کا ذکر ہے اور بہانہ کو ذکر کرنے کا انداز ایسا ہے کہ وہ اہلِ کتاب اور مشرکین کو اپنے سابقہ قول کی یاد دلا کر دعوتِ فکر بھی دیتاہے اور ایک عام قاری کے سامنے ان کے انکار کی حقیقت کو بھی واضح کرتاہے، گویا  بہانہ کے ذکر میں بہانہ کا جواب ایک حسین طریقہ سے مضمر کر دیا گیا ہے۔

سبق آموزی کا پہلو

ہمارے لیے ان آیاتِ مبارکہ میں سبق آموزی کا پہلو یہ ہے کہ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو لوگ آج دین بے زار ہوئے بیٹھے ہیں یا اپنے اپنے آبائی مسالک سے چمٹ کر انہی پہ اکتفاء کیے بیٹھے ہیں اور حق کو تلاش کرنے  کے لیے ذرا بھی ہاتھ پیر ہلانے کو آمادہ نہیں، بلکہ یہ کہہ کر خود کو معذور ٹھہرا لیتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی نبی چونکہ نہیں اس لیے ہم اپنی اصلاح کیسے کریں، یا یہ کہتے ہیں کہ کاش محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے ہوتے تو ہم ان سے پوچھ سکتے کہ صحیح فرقہ کون سا ہے یا یہ کہتے ہیں کہ ہم دیکھیں گے کہ امام مہدی علیہ السلام کون سے فرقہ سے ظاہر ہوتے ہیں تاکہ صحیح فرقہ کی پہچان حاصل ہو تو یہ سب بہانے ہیں اور صحیح نہیں،  اگر ہم  واقعتا حق کی پیروی کے لیے فکر مند ہیں تو ہمیں چاہئے کہ قدم بڑھائیں،  پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم گو ہمارے سامنے نہیں،  مگر آپ کی دعوت، آپ کا قرآن اور آپ کے ورثاء دنیا میں موجود ہیں۔
خدا کے رسول جو خدا کی رحمت کا مظہر بن کر آتے ہیں، وہ جتنے وقت اور علاقے کے لیے مبعوث ہوتے ہیں، اس کے لیے ہدایت کا پورا سامان لے کر آتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اب سارا کام بس رسول نے ہی کرنا ہے اور اسی نے ہر آدمی کے دروازے پر پہنچ کر اس کی ہدایت کے لیے جان توڑ کوشش کرنی ہے، جبکہ جس کے دروازہ پر وہ نہ پہنچ سکے تو وہ معذور ہو، ایسا نہیں۔ جب ایک آدمی کے سامنے رسول کی دعوت بالواسطہ یا بلا واسطہ پہنچے اور اس حوالہ سے سوچنے ودریافت کرنے کا داعیہ بھی دل میں پیدا ہوجائے تو اس کے بعد آگے بڑھ کر کوشش کرنا خود اس آدمی کی ذمہ داری بھی ہے، ا س حوالہ سے صحابہ کی اور خود آج کے دور میں نومسلموں کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
رسولِ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ قیامت تک کے لیے نبی ہیں، اس لیے قیامت تک کے لیے حق کے زبردست نشان چھوڑ کر گئے ہیں، دنیا میں ان کے ورثاء موجود ہیں،قرآن وحدیث کی صورت میں ان کی دعوت کا خزینہ ہمارے پاس محفوظ ہے اور طالبینِ حق کی دستگیری کے لیے خدا بھی اپنی پوری پوری شانِ رحمت کے ساتھ موجود ہے، بس کمی ہے تو ہماری طرف سے۔ اگر ہم ہدایت کے طلب گار بنیں، خدا کی مدد کو پکاریں اور ہدایت کے لیے مشقت اٹھانے  وکوشش کرنے کو تیار ہوں تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ہدایت ضرور دے گا اور جب اللہ کسی چیز کا ارادہ کرلے تو کوئی رکاوٹ اس کے لیے رکاوٹ نہیں۔  خدا کو پکارنے والے اگر گندگی کے ڈھیر میں دبے پڑے ہوں تو تب بھی انہیں ہدایت ضرور ملتی ہے اور بعض اوقات ایسے عجیب راستوں سے ملتی ہے کہ سننے والا متحیر ہوجاتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: جب کوئی آدمی میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں ایک گز خود اس کی طرف بڑھ آتا ہوں، جب کوئی شخص ایک گز میری طرف بڑھتا ہے تو اڑھائی گز میں خود اس کی طرف بڑھ آتا ہوں اور جب کوئی میری طرف چل کر آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف آجاتا ہوں۔(12)
 ہمیں اپنی اصلاح کے لیے آئے دن ظاہر ہونے والے مختلف فرقوں کے ”مہدیوں” پر نظر رکھنے کی بجائے قرآن وحدیث پر نظر رکھنی چاہئے، نبی علیہ السلام کی اتباع کو آنکھوں کا سرمہ بنانا چاہئے اور آپ کے پیغامِ دعوت کو پورے شرحِ صدر سے قبول کرنا چاہئے، بس یہی حق ہے اور یہی صحیح فرقہ ہے، خواہ کوئی کچھ کہتا رہے۔ امام مہدی علیہ السلام اپنے وقت پر ظاہر ضرور ہوں گے، مگر ہدایت کے لیے قرآن وحدیث کافی شافی ہیں۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر موجودگی کے بہانے میں فرض کیجئے کہ اگر  کوئی جان تھی بھی تو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں دعوتِ دین کی ذمہ داری نبھاہنے والوں نےاس کے غبارے سے ہوا بالکل نکال دی جو خود آگے بڑھ کر عجز وانکسار کے ساتھ لوگوں تک پیغامِ دعوت پہنچانے اور  لوگوں کی ناقدری کے باوجود ان میں تعلق مع اللہ پیدا کرنے کی فکر وکوشش کرنے کے لیے ہردور میں سرگرم رہے۔ دین کی دعوت غیر مسلموں تک پہنچانا اور ان کی ہدایت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج پر فکر وکوشش کرنا امتِ محمدیہ کی ذمہ داری ہے، مگر بات پھر وہی کہ ساری ذمہ داری صرف داعی کی نہیں، بلکہ کچھ ذمہ داری مدعو کی بھی ہے۔  

چوتھی اور پانچویں آیت

اس کے بعد اگلی آیات کو دیکھئے:
”وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَةُ ° وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ° “
یعنی “اہلِ کتاب میں سے پہلے جو لوگ تفرق وتشتت کا شکار ہوکر گم راہ ہوئے، وہ “بینہ” آجانے کے بعد یعنی “بینہ” کی موجودگی میں ہی گم راہ ہوئے تھے، جبکہ  انہیں ماسوائے اس کے کوئی حکم نہ دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اللہ کے لیے خالص کرلیں، اس کی طرف یکسو ویک رخ ہوجائیں، نماز صحیح صحیح پڑھیں، زکوۃ ادا کریں اور سیدھی سیدھی مستقیم باتوں والا دین (دین القیمہ) یہی ہے۔”

آیتِ تفرق کی معنویت

مذکورہ دو آیتوں میں سے پہلی آیت کو لیجئے، اس میں ارشاد ہے کہ اہلِ کتاب کے پاس “بینہ” یعنی روشن دلائل اور واضح شواہد  پہلے بھی آچکے تھے اور فرقوں میں بٹ کر ان کا گم راہ ہونا “بینہ” کی موجودگی میں ہی تھا، مثلا یہودیت ومسیحیت کے اختلاف کو لے لیجئے،  کیا مسیح علیہ السلام کے پاس صداقت کے دلائل کی کوئی کمی تھی جو اہلِ کتاب ان پر ایمان لانے کے معاملہ میں تقسیم ہوئے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اسی طرح  یہود ونصاری کے داخلی اختلافات کو لے لیجئے، اگر یہ افتراق وتشتت کا شکار ہوکر گم راہ ہوئے تو کیا اس کا سبب یہی تھا کہ انبیاء ہی کی تعلیمات میں کوئی سقم رہ گیا تھا؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ یہ ارشاد یہاں پر دو لطیف اشارے اپنے اندر رکھتا ہے ، ایک اہلِ کتاب سے متعلق اور دوسرا غیر اہلِ کتاب کے متعلق، ان کو سمجھنے سے قبل ایک تمہید سمجھ لیجئے۔
اشکال کیا جاتا ہے کہ اولین آیت میں مشرکین واہلِ کتاب کا ذکر آیا تھا، جبکہ یہاں چوتھی آیت میں افتراق کے حوالہ سے صرف  اہلِ کتاب کا ذکر کیا گیا ہے، علماء اس کے مختلف جواب دیتے ہیں، راقم کی نظر میں اس کا نہایت سہل، بے تکلف اور واضح جواب یہ ہے کہ افتراق کا سوال وہیں پیدا ہوتا ہے جہاں ایک طبقہ اہلِ حق کا بھی موجود ہو اور یہ کیفیت اہلِ کتاب میں تو موجود تھی، مشرکین میں نہیں۔ یعنی اہلِ کتاب میں تو اہلِ کتاب کی حیثیت سے کچھ ایسے صالح نمونے موجود تھے جو قابلِ رشک اور قابلِ تقلید تھے چنانچہ یہی لوگ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد آپ پر ایمان بھی لائے، مثلا یہود میں سے عبد اللہ بن سلام وزید بن سعنہ جیسے نمایاں لوگ اور مسیحیوں میں سے ورقہ بن نوفل، نجران کے چند نمایاں لوگ  اور نجاشی (شاہِ حبشہ) وغیرہ۔ جبکہ مشرکین میں مشرک کی حیثیت سے کوئی صالح طبقہ موجود نہ تھا جو قابلِ اتباع ہوتا اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ارتکابِ شرک کے بعد کسی کی پارسائی کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ ہاں،  اگر کچھ لوگ ان میں دینِ ابراہیمی کے پیروکار تھے تو وہ خود کو مشرک کی بجائے حنیف وموحد کہتے تھے،مثلا زید بن عمرو بن نفیل وغیرہ، لہذا ان کی حیثیت مشرک کی نہیں تھی۔ سو مشرکین کا ذکر یہاں آیتِ افتراق میں نہ ہونا بالکل ظاہر سی بات ہے اور اس کا الگ سے کوئی جواب دینے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔
باقی رہی یہ بات کہ اہلِ کتاب کا افتراق کی صورت میں گم راہ ہونا اگر “بینہ“ آجانے کے بعد تھا تو مشرکین کا گم راہ ہونا کیا اس وجہ سے تھا کہ ان کے پاس “بینہ” نہیں آئے تھے؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں! مشرکینِ مکہ میں بے شک ایک عرصہ سے کوئی نبی نہیں آیا تھا، مگر وہ بھی بالکل اندھیرے میں نہ تھے، ان میں سے جو لوگ طالبِ حق اور طالبِ خیر تھے، ان کے لیے زید بن عمرو بن نفیل اور ورقہ بن نوفل جیسوں کی صورت میں بہتر نمونے آخر تک موجود رہے۔ زید بن عمرو بن نفیل جیسوں کی اتباع کرکے وہ اپنے آباء کے اصل دینِ حنیف کی اتباع کسی نہ کسی درجہ میں کرسکتے تھے اور خود کو شرک کی لعنت سے بچا سکتے تھے، جبکہ ورقہ بن نوفل  جیسوں کی صورت میں بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت مسیح علیہ السلام کے صالح پیروکار بھی ان کے درمیان موجود تھے۔ سو یہ سمجھنا کسی بھی طرح درست نہیں کہ مشرکین اگر گم راہ تھے تو اس وجہ سے تھے کہ اللہ نے ہی ان کو اندھیرے میں رکھا ہوا تھا، ایسا نہیں، ان میں جو طالبِ حق تھے، وہ اس وقت بھی دینِ حنیف پر مستقیم رہ کر دکھا رہے تھے۔
اب آئیے ان لطیف اشاروں کی طرف کہ  اہلِ کتاب کے تفرق کی یہ بات یہاں کیوں ذکر کی گئی ہے۔ بات یہ ہے کہ اہلِ کتاب اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود بہرحال مشرکین سے بہتر تھے اور اپنے علمی وکتابی حوالہ کی وجہ سے دوسری قومیں بھی ان پر نگاہ رکھتی تھیں۔ اب اسلام کی آمد کے بعد خدشہ تھا کہ کہیں لوگ اسلام کے بارہ میں اہلِ کتاب ہی کے رویہ کو نہ دیکھنے لگیں کہ وہ اس نو وارد دین کے بارہ میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں، سو آیتِ افتراق میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ یہ اہلِ کتاب معیارِ حق نہیں کہ اگر یہ کسی بات کو قبول کرلیں تو وہ حق ہو اور کسی بات کو مسترد کردیں تو وہ ضرور غلط ہو، ایسا ہر گز نہیں، اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اہلِ کتاب کے اندر ماضی میں افتراق برپا ہوا تو وہ بھی “بینہ” کی موجودگی میں تھا اور خواہش پرستی کا نتیجہ تھا، سو اگر اب یہ اہلِ کتاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے گریز کریں تو اس سے “بیناتِ محمدی” ساقط الاعتبار نہیں ہوجائیں گے، جیساکہ “بیناتِ سابقہ” سے ان کے اعراض نے ان بینات کو ساقط الاعتبار نہیں کردیا تھا۔ سو اسلام قبول کرنے سے پہلے انسانیت کو اہلِ کتاب کی طرف دیکھنے کی قطعا ضرورت نہیں کہ یہ اسلام کے بارہ میں کیا کہتے ہیں۔
نیز خود اہلِ کتاب ومشرکین کو اس آیت میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تم پہلے اپنی روش بدلنے کے لیے “بینہ”  یعنی دلیلِ روشن کا مطالبہ کیا کرتے تھے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب واقعی “بینہ” آجانے کے بعد تم حق کے حواری بن جاؤگے، بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ تم اب بھی بہانہ سازیوں میں مشغول رہو جیساکہ اہلِ کتاب نے“بینہ” کے موجود ہونے کے باوجود افتراق  کی شکل میں ضلالت وگم راہی کی نئی نئی صورتیں اختیار کر لی تھیں۔ سو جنہوں نے حق پر چلنا تھا، وہ رسولِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل بھی حق پر چل رہےتھے اور جن کا ارادہ حق کی پیروی کا نہیں، وہ پہلے بھی بہانہ سازیوں میں مشغول تھے اور “بینہ” آجانے کے بعد  بھی انہی میں مشغول رہیں گے، مگر ان کی بہانہ سازیوں سے “بینہ” کی قدر وقیمت میں کوئی کمی نہیں آجائے گی۔
ہمیں چاہئے کہ فرقہ وارانہ بحثوں سے بلند ہوجائیں، قرآن کو قرآن کی حیثیت سے اور نبوی دعوت کو نبوی دعوت کی حیثیت سے سینے سے لگائیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو آنکھوں کا سرمہ بنائیں،بس یہی صحیح فرقہ ہے۔ فرقے جو گم راہ ہوتے ہیں، وہ اپنی ہی من مانیوں کی وجہ سے گم راہ ہوتے ہیں جسے قرآن میں ایک جگہ“بغیا بینہم“ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، نہ کہ اس وجہ سے کہ صحیفہء آسمانی اور بیانِ پیغمبر میں کوئی سقم ہوتا ہے، ایسا نہ تو کبھی ہوا اور نہ ہی اب ہے۔ پیغمبروں کی دعوت ہمیشہ سے چند سیدھی سیدھی مستقیم باتوں پر  مشتمل رہی ہے جنہیں ماننے کے لیے عقلی پیچ وتاب کی کم اور حقیقت پسند بننے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

دین کا اجمالی خاکہ

ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر وہ  سیدھی سیدھی مستقیم باتیں کون سی ہیں جن کو اس سورہ میں کہیں “بَيِّنَۃ“ اور کہیں “قَيِّمَۃ “ کہا گیا ہے، جن کے اندر “آفتاب آمد دلیلِ آفتاب” کی شان پائی جاتی ہے، جن کے انکار کا  نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کوئی جواز تھا اور نہ ہی بعد میں، جن میں افتراق  وتشتت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور جو ان لوگوں کے لیے کوئی عذر نہیں چھوڑتیں جو اپنی بے دینی کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ہم اتنے سارے فرقوں میں سے کس فرقہ کی بات کو صحیح  مانیں۔  آیت نمبر پانچ  میں پھر انہی سوالات کا جواب دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ سیدھی سیدھی مستقیم باتوں والا دین کون سا ہے۔ اس آیت میں “سورۃ البینہ” کا علمی بیان اپنے عروج پر پہنچا ہوا نظر آتا ہے۔  اس آیت میں روئے سخن گو اہلِ  کتاب کی طرف ہے، مگر موجودہ دور میں ہم سب اس کے پورے پورے مخاطب ہیں۔
ارشاد ہے کہ “بینہ” کی موجودگی میں فرقہ واریت کا شکار ہوکر جادہء حق سے منحرف ہوجانے والے اہلِ کتاب کو کوئی بہت مشکل تعلیمات نہیں دی گئی تھیں جن کا سمجھنا ان کے لیے مشکل ہو اور اسی وجہ سے وہ فرقوں میں بٹ گئے ہوں، بلکہ انہیں چند صاف صاف مستقیم باتوں کا حکم دیا گیا تھا اور وہ یہ کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اس کے لیے خالص کرلیں، اس کی طرف یک سو ویک رخ ہوجائیں، نماز کو صحیح صحیح ادا کریں، مال کا صدقہ نکال کر اسے پاک کرتے رہیں اور یہی ہے مستقیم باتوں والا سیدھا سیدھا دین جسے آیت میں”دِينُ الْقَيِّمَۃ“  کہا گیا ہے۔
اس آیت میں جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں، دینِ انبیاء کے چند بنیادی ترین نکات کا ذکر کیا گیا ہے، یہ نکات سارے دین کی جان اور بنیاد ہیں، ان امور کی حفاظت کرکے کوئی آدمی نجاتِ اخروی  سے محروم نہیں رہ سکتا اور ان کو ضائع کرکے کسی آدمی کا دین سلامت رہ نہیں سکتا۔ ذرا سوچئے کہ جو آدمی اللہ کی عبادت کرے، اس عبادت کا رنگ اپنے اوپر طاری کرے، شکر وصبر، توکل وتبتل، رجوع وانابت، عجز وانکسار، خدا طلبی وخدا مستی جیسی عابدانہ صفات اپنے اندر پیدا کرے، نیز دین کو اللہ کے لیے خالص کرلے، یعنی اللہ کے حلال کو حلال اور اس کےحرام کو حرام سمجھے، اپنی طرف کی  آمیزشوں سے دین کو محفوظ رکھے، اللہ  کی رضاء کے لیے اس کے احکام پر عمل کرے اور  حنیف بن جائے یعنی اپنی قلبی وعملی زندگی کا محور ومدار خدا کی ذات کو بنا لے، کائنات کے ہر رنگ میں اس کے دستِ تصرف کو محسوس کرے، اسی کو کارسازِ حقیقی سمجھے اور اس کے غیر کو مجبور ومخلوق سمجھنے کا یقین دل میں جمائے، اسی کے نام میں لذت پائے، اسی کے نام میں راحت، فرحت اور سکینت پائے اور خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ کے یقین، اللہ کے دھیان اور اللہ کو راضی کرنے کے جذبہ سے نماز ادا کرے، نماز میں اپنے جسم کو تھکائے، نماز کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے اور اپنے مال کو اللہ کی رضا میں خرچ کرنے کے لیے تیار رہے تو اس کے ولی اللہ ہونے میں کیا کوئی شک ہے؟ کیا دین کے باقی احکام کی تعمیل میں یہ شخص کوئی کوتاہی کرسکتا ہے؟  یوں اس آیت میں اجمال کے ساتھ دین کے سارے خلاصہ کو سمودیا گیا ہے۔

سبق آموزی کا پہلو

ذرا سوچئے کہ اگر دین کی بعض فروعی جزئیات میں علماء کا اختلاف ہو، قرآن کے کسی بیان کی توضیح میں ان کے ہاں کوئی ضمنی سا اختلاف رائے پیدا ہوجائے، سائنس دان سیاروں اور ستاروں کا سفر ختم کرکے ابھی تک آسمان تک نہ پہنچے ہوں  یا کائنات کے طبیعی مشاہدات میں انسان کے ہاں تبدیلی آتی رہی ہو، یعنی بعض لوگ ماضی میں زمین کو ساکن کہتے ہوں اور اب متحرک کہنے لگے ہوں تو کیا ان اختلافات کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہم خدا کو پوجنا چھوڑ دیں، اس سے محبت نہ کریں، اس کے عظمت وجلال کا نقش اپنے دل میں نہ بٹھائیں، اس کی ذات سے بے خوف ہوکر اس کے باغی بن جائیں، نماز وزکوۃ ادا کرنے کی بجائے اس کی ذات کو للکارنا شروع کردیں؟ ذرا بتائیے کہ اس رویہ میں کیا معقولیت پائی جاتی ہے؟ آیت نمبر پانچ میں بتایا گیا ہے کہ اسلام لوگوں کو تعلق مع اللہ کے قرینے اور   غریب پروری کے سلیقے سکھانے آیا ہے اور یہی وہ سیدھی سیدھی باتیں ہیں جن کا لوگوں نے بتنگڑ بنا رکھا ہے، اسلام لوگوں سے یہ منوانے کے لیے ہرگز نہیں آیا کہ وہ زمین کو متحرک، ساکن، بیضوی یا چپٹی سمجھیں، اس پر لوگوں کے ساتھ مناظرے لڑیں اور اختلاف کرنے والوں کو دائرہء اسلام سے خارج قرار دیں، یہ محض خود ساختہ بات ہے، اسلام کے مطالبات وہی ہیں جو کہ ہیں، نہ کہ کچھ اور۔
نیز اگر کوئی شخص تعددِ ازواج، غلامی وقصاص اور حدود وتعزیرات جیسی اسلامی فروعات کو اپنی خود ساختہ کسوٹیوں پر تولتے رہنے کو علمی کمال سمجھتا ہے اور اسلامی دعوت کے بنیادی نکات پر بات نہیں کرتا، مبادا کہ انہیں ماننا پڑ جائے، تو ظاہر ہے کہ یہ اپنی ہدایت سے محرومی کا ذمہ دار خود ہے، نہ کہ کوئی اور۔ آئیے، اسلام کی دعوت کو سنئے، کسی الٹی سیدھی نیت کے ساتھ نہیں بلکہ طالبِ حق بن کر، پھر دیکھئے کہ ان میں سے کون سی بات ہے جسے ماننے میں تامل ہو۔ ضابطہ یہی ہے کہ اصولوں میں اختلاف کے ہوتے ہوئے فروعات میں جھگڑنے کا کوئی جواز نہیں، سو اسلامی دعوت کوسنئے اور اس کے حوالہ سے بات کیجئے، اگر آپ اس دعوت کو مان لیتے ہیں تو فروعات کے حوالہ سے آپ کا ذہن خود بخود صاف ہوجائے گا، لیکن اگر اس دعوت کو ماننے میں تامل ہے تو پھر  فروعات میں کس بات کا جھگڑا۔ ذرا سوچئے کہ اللہ  جس نے مجھے پیدا کیا اور سارا جہان پیدا کیا، اس کی عبادت کرنے میں، اس کی مان کر چلنے میں، اس کو سب سے بڑا سمجھنے، سمجھ کر اس کے مطابق اپنا رویہ درست کرنے اور اسی کو کائنات کے سارے امور واحوال کا متصرفِ حقیقی سمجھنے میں، نیز اس کی رضا میں کامیابی اور اس کی ناراضی میں ناکامی سمجھنے جیسے موٹے موٹے امور میں آخر کس بات کا اعتراض ہوسکتا ہے اور اس کے کسی رسول کی سچائی اگر روزِ روشن کی طرح مبرہن ہوجائے تو اس کی صداقت پر ایمان لے آکراس کی اتباع کرنے اور اس کی نقل میں اپنے اوپر خدا کا رنگ طاری کرنے کی کوشش ومحنت کرنےمیں آخر کس بات کا اعتراض ہے؟  ان بنیادی امور پر بات کرنے کی بجائے ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارنا  اور فروعات یا زوائد ہی میں الجھتے چلے جانا اپنے ہدایت کے سفر کو خود مشکل بنانے کے مترادف ہے۔
اسلام کے مذکورہ بنیادی دعوتی امور کا عقلی اثبات بھی قرآن میں مختلف جگہوں پر موجود ہے، مگر کبھی کبھی قرآن ان باتوں کو نیم بدیہی کی حیثیت سے بھی پیش کرتا ہے اور ایسی جگہ پر ان کے عقلی اثبات میں زیادہ مشغول نہیں ہوتا، یہاں اس مختصر سورۃ میں یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ان باتوں کو سیدھی سیدھی مستقیم باتیں بتلا کر ان کی اسی شان کر طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ باتیں گویا ایسی باتیں ہیں جنہیں ماننے کے لیے انسان کو عقلیات کی بساط بچھانے سے زیادہ سلیم الفطرت اور حقیقت پسند ہونے کی ضرورت ہے، گو ان کی مزید وضاحت کے لیے قرآنی صحائف اور رسول اللہ کے نائبین کی طرف رجوع کرنے کا اشارہ بھی آیت نمبر دو میں کردیا گیا ہے۔آخر میں ایک سادہ سا پیغام دے کر اس سورہ کو ختم کر دیا گیا ہے۔

سورہ کا اختتامی پیغام

“سورہ البینہ“ کی مذکورہ پانچ ابتدائی آیات میں جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں، معانی کا ایک دریا بند کر دیا گیا ہے اور”دِينُ الْقَيِّمَۃ“ کے بنیادی نکات کو بیان کرکے اس گفتگو کو مکمل بنا دیا گیا ہے۔  بعد کی تین آیات میں سادہ سا مضمون مذکور ہے کہ جو لوگ دینِ انبیاء کی اس سادہ سی دعوت کا انکار کریں اور خدا کے انکار یا اس سے بغاوت کی روش  پر مصر رہیں، وہ خواہ اہلِ کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے، یہ خدا کی رحمت سے محرومی کے ذمہ دار خود ہیں، سو یہ سب جہنم کی آگ میں جائیں گے، یعنی ایسی جگہ جائیں گے جہاں واقعی خدا کی کوئی رحمت نہیں ہوگی، پھر ہمیشہ وہاں رہیں گے اور یہ لوگ اپنی دنیاوی حیثیتوں میں خواہ کچھ بھی ہوں، لیکن چونکہ یہ خدا کی بے توقیری کے مرتکب ہوئے اور انکار وبغاوت کی ایسی جسارت کی جس کی مثال خدا کی مخلوق میں کہیں نظر نہیں آتی، لہذا خدا کی نظر میں  بدترینِ خلائق ہیں۔ جبکہ جو لوگ انبیاء کی دعوت پر ایمان لائیں گے، نیک اعمال کریں گے، انبیاء کی اتباع میں ان کی بتائی ہوئی راہ پر چل کر  خود پر خدا کا رنگ  اور عبدیت کی شان طاری کریں گے، خدا کا حق ماننے  اور امتحان کی گھاٹی میں بھی بندگی کا ڈھنگ اپنائے رکھنے کی وجہ سے یہ لوگ خدا کی نظر میں افضل ترین مخلوق ہیں، ان کی جزاء اپنے رب کے ہاں عدن کی وہ جنات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان کے اندر وہ ابد الآباد تک رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور یہ اپنے رب سے راضی ہوئے، یہ جزاءِ عالی شان اس شخص کے لیے ہے جس کے دل میں خدا کی عظمت وہیبت اور اس کے  خوف وخشیت کا نقش موجود  ہو اور وہ دنیا کی زندگی بے خوف ہوکر نہ جی رہا ہو۔

چند باتیں

آخر میں چند ضروری باتیں عرض ہیں:
ہدایت کے اصول متعین اور عام فہم ہونے کے باوجود خدا کا اصول کسی کو فورا پکڑنے کا نہیں ہے، بلکہ اس نے انسان کو بہت لمبی زندگی دی ہے جس میں اسے سوچنے اور سمجھنے کے ہزارہا مواقع ملتے ہیں۔ یہ خدا کی رحمت ہے کہ وہ بغاوت اور انکار جیسے رویوں پر بھی فورا گرفت نہیں فرماتا۔
ہدایت کی بنیادی باتیں بالکل سادہ اور عام فہم ہونے کے باوجود ، انسان کے باطن میں بعض اوقات کچھ نفسیاتی الجھنیں ہوتی ہیں جنہیں دور ہونے کے لیے بعض اوقات کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ ہدایت کی بنیادی باتوں پر فوکس کرتے ہوئے اگر آدمی چلتا رہے تو وقت آنے پر ذیلی الجھنیں بھی دور ہوجاتی ہیں، لیکن ضرورت ہے کہ بنیادی توجہ مرکزی باتوں  پر رہے۔
ہدایت کی بنیادیں متعین اور عام فہم ہونے کے باوجود انسان کو ہدایت سے ہم کنار ہونے کے لیے جراءتِ ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض اوقات اپنے گرد وپیش سے بھی نمٹنا پڑتا ہے، ان امتحانات میں اگر خدا نخواستہ کوئی آدمی کامیاب ہونے سے رہ جائے اور  ہدایت کو قبول نہ کرسکے تو اس کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ خود ہدایت کے اصولوں میں کوئی سقم ہے۔
ہدایت صرف اللہ پاک دیتے ہیں اور ان کے سوا کوئی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتا، بلکہ کسی اور کو  کچھ دینا تو درکنار خود اپنے آپ کو بھی کوئی کچھ نہیں دے سکتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر خطبات میں یہ بات شروع سے ہی بیان کردی جاتی تھی۔  اس لیے گم راہی سے حفاظت اور ہدایت کے حصول کی خاطر مطالعہ ومشاہدہ کو تیز کرنے کے ساتھ اپنے خالق رب کو بھی دل ہی دل میں پکارنے کی عادت بنانا چاہئے، ایسا کرنے والوں کو ہدایت ضرور ملتی ہے، اللہ اس کے لیے خود راہیں کھولتے ہیں اور ابلیس اپنا تمام تر زور لگا کر بھی اس شخص کو گم راہ نہیں کر سکتا۔ 
دعا ہے کہ اگر توضیح وتفصیل میں کوئی علمی خطاء ہوئی ہے یا کوئی بڑا بول نکل گیا ہے تو اللہ تعالی معاف فرمائیں اور اپنی رحمت کے صدقے راہِ ہدایت پر مستقیم فرمائیں۔ آمین! واللہ سبحانہ وتعالی اعلم!

حواشی

(۱) روح المعانی، علامہ آلوسی، جلد 15، صفحہ 592۔ ط: دار احیاء التراث العربی۔
(۲) مثلا دیکھئے: تفسیرِ ماجدی۔
(۳) اللؤلؤ والمرجان فی ما اتفق علیہ الشیخان، محمد فؤاد عبد الباقی، حدیث نمبر 1602۔ ط: دار المؤید، الریاض۔
(۴) صحیح البخاری، حدیث نمبر 3828۔
(۵) صحیح البخاری، حدیث نمبر 3826۔
(۶) فتح الباری، حافظ ابنِ حجر عسقلانی، جلد 7، صفحہ 181۔ ط: قدیمی کتب خانہ کراچی۔
(۷) رجال ونساء حول الرسول، شعبان احمد بن دیاب، صفحہ 143، ط: المکتب الثقافی، القاہرۃ ۔۔۔ بحوالہ ابنِ عساکر۔
(۸) فتح العزیز المعروف بہ تفسیر عزیزی، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ، پارہ عم، صفحہ 262۔ ط: مطبع گلزارِ محمدی لاہور (1308ھ)
(۹) حوالہ مذکور، صفحہ 263۔
(۱۰) دیکھئے: تفسیر الکشاف لجار اللہ الزمخشری۔
(۱۱) مثلا دیکھئے: تفسیر الزحیلی۔
(۱۲) اللؤلؤ والمرجان فی ما اتفق علیہ الشیخان، محمد فؤاد عبد الباقی، حدیث نمبر 1713۔ ط: دار المؤید، الریاض۔

نیشنل جوڈیشل پالیسی پر پنجاب بار کونسل کا رد عمل

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

پالیسی کے بارے میں کمیٹی کے ایک حالیہ اجلاس کے بعد دو فیصلے سامنے آئے ہیں- ایک قتل کیس کا چار دن میں فیصلہ اور دوسرے ۲۲- الف ب کی درخواستوں کی عدالتوں سے پولیس کے شکایت سیل منتقلی- پہلے فیصلے پر پنجاب بار کونسل کا ردِ عمل یہ آیا ہے کہ یہ دستور کے تحت منصفانہ فیئر ٹرائیل کے حق کی نفی ہے اور احتجاج کے طور پر جمعہ ہڑتال منائی جائے گی- 
نیشنل جوڈیشل پالیسی کی شروعات جسٹس افتخار محمد چوہدری نے فرمائیں- اس پر مفصل تبصرہ ہم حقیر سی کاوش “انصاف کرو گے ؟”میں کر چکے ہیں- بعد کی جاری کردہ پالیسی اقدامات پر بار کونسل کا ردِ عمل اوپر ذکر ہو چکا ہے- مزید کے طور پر کونسل کا جاری کردہ سرکلر درج ذیل ہے:
نیشنل جوڈیشل پالیسی 2009ء کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نئی جوڈیشل پالیسی قانون اور آئین سے متصادم ہے جس کے مطابق قتل کے مقدمہ کا 4دن میں فیصلہ آئین کے آرٹیکل 10-Aاور ضابطہ فوجداری میں خضر حیات کیس (PLD2005-LHR-470) اور یونس عباسی کیس (PLD2016-SC-581) کی موجودگی میں بلاترمیم ان قوانین کے خلاف کوئی پالیسی مرتب نہیں کی جاسکتی اور اسی طرح قانون جانشینی کی موجودگی میں ان کے خلاف کوئی نئی پالیسی نہیں بنائی جاسکتی۔ مزید یہ کہ مذکورہ نئی پالیسی بناتے وقت صوبائی بار کونسلز اور سینئر وکلاءکو اعتماد میں نہ لیا گیا اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی تجاویز لی گئیں۔ پالیسی مذکورہ بالا سے نہ صرف آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہوگی ، بلکہ وکلاءکا معاشی استحصال ہوگا اور سائیلان کے لیے انصاف کی حصول کو پیچیدہ ، مشکل اور ناممکن بنا دیا گیا ہے ۔ لہذا چیف جسٹس آف پاکستان سے گذارش ہے کہ موجودہ مرتب کردہ نئی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور از سر نو جائزہ لینے کے لیے سینئر وکلاء، بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز سے تجاویز طلب کی جائیں تاکہ بینچ اور بار کا رشتہ جڑار ہے اور انصاف کی فراہمی کا تسلسل بطریق احسن اور موثر انداز میں جاری رہے۔ پنجاب بار کونسل نئی جوڈیشل پالیسی کے نفاذ کی مکمل نفی کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ اس کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ 
بار کونسل کے سرکلر کے ایک ایک لفظ کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے مگر یہاں اس کی گنجائش نہیں- صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ الفاظ اور تراکیب کا گورکھ دھندا کے سوا کچھ اہمیت نہیں- اسے“قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا” بھی کہاجا سکتا ہے- بینچوں کا مطالبہ بے حد جائز ہے مگر ہائیکورٹ بار کے مفادات کے خلاف ہونے کی وجہ سے حل طلب چلا آرہا ہے اور شاید بڑا عرصہ یہی صورت حال رہے گی- تفصیل میں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ ہائیکورٹ میں پریکٹس کرنے والے ڈویژنل بار ز سے متعلقہ وکلا بھی عملی طور پر مطالبے کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ہی حمایت کرتے ہیں- متعلقہ عدالتی اور انتظامی حکام بظاہر ہائیکورٹ بار کے ہاتھوں یرغمال ہیں- ڈویژنز میں جا کر بنچوں کی صورت میں کام کرنے کی صورت میں ہائیکورٹ عملی صورت میں انصاف کی فراہمی کے چیلنج کو زیادہ شدت سے سامنا کرنے کا خوف لاحق ہے- لاہور کی طرح بڑے شہروں کی سہولیات قربان کر کے گوجرانوالہ،فیصل آباد اور ڈیرہ غازی جیسے شہروں میں رہ کر عدالت کرنے میں فروتری محسوس کی جاتی ہے۔ 
چلئے بنچوں کا مسئلہ تو سال ہا سال سے چل رہا ہے- چار دن میں قتل کی سماعت اور فیصلہ بھی کوئی نئی بات نہیں- جب سیشن جج ۲۲- الف اور ب کی درخواستوں کے اسیر ہو کر ناکارگی پر قانع نہیں ہوئے تھے تو کم و بیش قتل کے فیصلے چار دن ہی میں کئے جاتے تھے- سیشن سپردگی کے بعد باری پر کیس لگتا تھا- فرد جرم کے بعد ایک ہفتے کے لئے شہادت کے لئے کیس مقرر ہوتاتھا- پہلے روز رسمی گواہ اور دوسرے اور تیسرے دن چشم دید ، پھر بحث اور فیصلہ- سیشن جج سے التوا مانگنے کی روایت تھی اور نہ ہی ہڑتال منانے کو رواج حاصل ہوا تھا- بعد ازاں تو پیشی پریکٹس ہی اصل پریکٹس ہو گئی تو کام کئے بغیر ٹھگی کو وکالت کی معراج سمجھ لیا گیا- اس طرح اب چار دن کے بجائے چار سال میں بھی اگر قتل کیس طے ہو جائے تو اسے کارنامہ خیال کیا جائے گا- بار کونسل کا ادارہ مملکت کے ہر ادارے کی طرح اپنی مقصدیت اور افادیت کھو کر بربادی اور پستی کا شکار ہو چکا ہے- حالات کا رخ یہی رہا تو عدالتیں یا تو سپر انداز ہو کر انصاف کے عمل سے اور بھی پیچھے ہٹ جائیں گی یا فریقین کو سن کر فیصلے پر مجبور ہو جائیں گی- شہادت اور جرح کے مراحل کو مختصر کر کے سماعت کی تکمیل کرنا پڑے گی- وکلا ٹھگی پر گذر اوقات کر کے اپنی شاہینی پر ناز کرتے رہیں گے- ایک بڑے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر پر ہر روز کم و بیش دس ہزار افراد انصاف کے لئے آتے ہیں اور آئے دن ہڑتال کی خبر سن کرخیر سے ”انصاف“ حاصل کر کے گھر کو “لوٹ”جاتے ہیں-
۲۲-الف اور ب کی درخواستوں کی منتقلی کا فیصلہ اہم ہے- اس کے نتائج کیا ہوں گے، اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے- نئے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ سے اچھی امیدیں رکھی جا سکتی ہیں- ۲۲-الف اور ب کی درخواستوں کی سابقہ بھر مار پہلے بھی بلا جواز تھی- اس میں ماتحت اور اعلیٰ عدالتوں کا طرز عمل سخت غیر ذمہ دارانہ رہا-ضابطہ فوجداری کے تحت انچارج تھانہ قابل دست اندازی جرم کی اطلاع پر مقدمہ درج کرنے کا پابند ہے- وہ مقدمہ درج کرنے سے فرار اختیار کر کے قانون پر عمل سے اجتناب کرتا ہے- اس طرح تعزیرات پاکستان کی دفعہ۱۶۶کے تحت جرم کا ارتکاب کرنے کے علاوہ اپنے قواعدِ ملازمت کی تضحیک بھی کرتے ہے- عدالتیں ایس ایچ اوز کے اس طرز عمل پر اندرونی طور پر خوش رہتی ہیں- انہوں نے اندراج مقدمہ کے بارے میں واضح اور مہمل احکامات کو معمول بنائے رکھا- اس کے نتیجہ میں پولیس گردی میں شدت تو آنا تھی- اگر عدالتیں واقعتا انصاف چاہتیں تو ایک ہی راستہ تھا کہ مقدمہ درج نہ کرنے والے چند افسران کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت موثر کاروائی کروائی ہوتی تو پولیس اندراج مقدمہ کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتی اور عدالتوں میں ۲۲-الف اور ب کا بازار نہ لگتا- 
اب یہ بازار سی پی او کی سربراہی میں قائم شکایت میں سیل لگے گا یا نہیں لگے گا- چیف صاحب یہی چاہتے ہیں- اس طرح خبروں کے مطابق ساٹھ لاکھ کی پنڈینسی کا خاتمہ ہو گیا- 
عملی کیفیت یہ ہے کہ سی پی اوز پہلے ہی حکمرانوں کی الٹی سیدھی خدمت سے فارغ نہیں ہوتے- شکایت سیل میں گھس کر یا سیل سی پی او میں گھس کر کیا کر لے گا، وہی بات جیسے ایک بڑے لیڈر کہتے ہیں کہ “وہ کرپشن کے قریب گئے اور نہ کرپشن ان کے قریب آئی ہے- ”کھوسہ صاحب بتائیں گے یا نہیں، مہینے دو میں صورت حال واضح ہو جائے گی- کاش ایس ایچ اوز کو قانون کا پابند بنانے کی کوئی صورت پیدا کر لی جاتی اور سیل کو واسطہ بنائے بغیر ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۱۵۴ کو موثر طور پر نافذ کرنے کا اہتمام کر لیا جاتا تو بہتر ہوتا- 
چیف جسٹس صاحب کی زیر التوا کام نپٹانے کی عظیم شہرت تلے ایک درخواست ہم بھی پیش کر دیتے ہیں- کورٹ فیس سے متعلقہ قوانین کو وفاقی شرعی عدالت خلاف شریعت قرار دے چکی ہے- اس کے خلاف اپیل کم و بیش تین عشروں سے معرض التوا میں ہے- اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے کرنا ہے- اس التوا اور فیصلہ سے لاکھوں کروڑوں لوگ متاثرہوتے آرہے ہیں- بظاہر فیصلے میں کوئی بہت بڑے قانونی اور آئینی نکات اور پیچیدگیاں بھی نہیں ہیں- مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ یہ متواتر عمل دستور، قانون اور انصاف کے ہر تقاضے سے مجرمانہ فرار سے کسی طور کم نہیں- میری چیف صاحب سے استدعا ہے کہ اس اپیل کا فیصلہ فرصت نکال کر ارشاد فرمائیں-یہ بنیادی اہمیت کا فیصلہ ہے وگرنہ انصاف کے دعوں کی حقیقت وعدہِ محبوب کی طرح ہو گی اور عاشق کہرام بپا رہے گا۔
دنیا کی عدلیہ میں جو سچ کے ترجماں ہیں
امن و سلامتی کے وہ دیوتا کیوں چپ ہیں
انصاف کی دہائی ، دیتی ہے بے نوائی
روتی ہیں آرزوئیں ارمان جل رہا ہے

مغربی شخصیات کے قبولِ اسلام پر مسلم مغربی رویے: جورام کلاورین کے قبولِ اسلام کے تناظر میں

ڈاکٹر محمد شہباز منج

ہالینڈ کے معروف اسلام  مخالف  ڈچ سیاست دان  جورام جیرون وان کلاورین (Joram Jaron van Klaveren) نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس کے قبولِ اسلام پر الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بہت سی خبریں آ رہی ہیں۔ راقم کو کلاورین کے حوالے سے کچھ سٹدی کا موقع ملا تو اس پر کچھ لکھنے کا سوچا۔ اس دوران مغربی شخصیات کے قبولِ اسلام کے بارے میں  مسلم اور مغربی رویوں سے متعلق اپنے مشاہدے اور احساس کو شیئر کرنے کا بھی داعیہ پیدا ہوا۔ سو اہلِ علم و تحقیق کی خدمت میں کلاورین  کے قبولِ اسلام اور اس کے سابقہ و موجودہ نظریات و افکار سے متعلق کچھ سطور سپرد قلم کیں تو مذکورہ تناظر میں سامنے آنے والے مسلم اور مغربی رویے پر بھی مختصر تبصرہ شامل کر دیا:

کلاورین کون ہے؟

کلورین  محض ایک عام سا سیاست دان نہیں، ہالینڈ کی ایک  اہم اور نمایاں شخصیت ہے۔ اس نے وی یو یونی ورسٹی ایمسٹرڈیم (VU University Amsterdam) کے شعبۂ علوم مذاہب سے تعلیم حاصل کی۔ 2006ء سے 2009ء تک وہ  پیپلز پارٹی فار فریڈم اینڈ ڈیماکریسی یا وی وی ڈی(People's Party for Freedom and Democracy or Volkspartij voor Vrijheid en Democratie, VVD) کی طرف  سے المرے میونسپل کونسل (Muncipal Council of Almere) کا ممبررہا۔2010ء  کے عام انتخابات میں گیرٹ ولڈرز(Geert Wilders) کی پارٹی دی پارٹی فار فریڈم یا پی وی وی (The Party for Freedom Partij voor de Vrijheid, PVV)کی جانب سے ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یا ایوان ِنمائندگان(House of Representatives) کا رکن منتخب ہوا۔2011ء کے صوبائی انتخابات میں وہ سٹیٹس آف فلیوولینڈ(Flevoland) کا  رکن بنا۔مارچ 2014ء میں اس نے پارٹی فار فریڈم کو چھوڑ کر لوئیس بونٹس(Louis Bontes)سے مل کر  اپنی الگ پولیٹیکل پارٹی فار دی نیدر لینڈیا یا وی این ایل (For the Netheland or VoorNederland, VNL  ) کی بنیاد رکھی، تاہم 2017ءکے الیکشن میں ناکامی کے بعد اس نے سیاست چھوڑ دی۔
کلاورین کے قبول اسلام میں خبریت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ  ہالینڈ کے مشہور اسلام مخالف سیاست دان  اور فریڈم پارٹی کے لیڈر گیرٹ ولڈرز(جی ہاں وہی شخص جس نے  گذشتہ برس حضورﷺ کے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کیا تھا اور بعد میں مسلم ردعمل پر اسے کینسل  کرنے پر مجبور ہوا تھا) کا دست راست تھا اور اس کا ولی عہد (Crown Prince) کہلاتا تھا۔ کلورین اپنے لیڈر گیرٹ ولڈرز(Geert Wilders) کی طرح بڑھ چڑھ کر اسلام کی مخالفت کیا کرتا تھا۔اس تناظر کو دیکھتے ہوئے کلاورین کے قبولِ اسلام پر اقبال کے الفاظ میں کیا جا سکتا ہے کہ ع  پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کلاورین کا قبولِ اسلام اور اس  کا پس منظر 

 کلاورین کا قبولِ اسلام ، اس کے اپنے بیان کے مطابق اس کی  اسلام سے متعلق اُس تحقیق کا نتیجہ ہے ، جو اس نے اسلام مخالف کتاب لکھتے ہوئے کی۔امرِ واقعہ  یہ تھا کہ  کلورین  رسول اللہ ﷺ کو نعوذ باللہ  کروک (میں اس انگریزی لفظ  کا رادو ترجمہ نہیں کر رہا، اس کے ذریعے ہر قسم کی گندگی اور برائی حضورﷺ کی ذات پاک  سےمنسوب کی جاتی ہے۔)، اسلام کو کذب و افترا اورقرآن کو زہر قرار دیتا تھا؛ اسلام پر پابندی، قرآن کو پارلیمنٹ سے نکالنے ،مسجدوں کو بند کرنے اور مسلم خواتین کوحجاب  سے منع کرنے وغیرہ   ایسے مطالبات کیا کرتا تھا۔
ایک مسیحی کی حیثیت سے اپنے  مذکورہ نوعیت کے اسلام مخالف افکار و خیالات کو تقویت پہنچانے کے لیے اس نے اسلام پر ایک  تنقیدی کتاب لکھنا شروع کی۔اپنی تحقیق کے دوران اس پر ایسی چیزیں منکشف ہوئیں ، جنھوں نے اسلام سے متعلق اس کے نظریے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے  الفاظ ہیں:
 اس تحریر کے دوران میرا مسلسل ایسی چیزوں سے سابقہ پیش آتا رہا، جو اسلام سے متعلق میرے گذشتہ تصور کو غلط ثابت کرتی رہیں۔
(Pascal Davis, Dutch former far-right politician converts to Islam, Accessed February 6, 2019. https://www.euronews.com/2019/02/05/dutch-former-far-right-politician-converts-to-islam )
 اپنی کتاب De afvallige (The renegade: From Christianity to Islam in times of secularization and terror)  میں کلاورین نے  اپنے اس ذاتی اور مذہبی تجربے کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اس ارتقا کو نمایاں کیا ہے، جو اس مطالعے اور تحقیق کے دواران اس کے روایتی نظریات میں وقوع پذیر ہوا۔اپنے اس سفرِِ تحقیق میں اس نے جن سوالات کو ایڈریس کیا ہے، وہ کچھ اس طرح کے ہیں:
کیا خدا کا وجود ہے؟ کیا قرآن کا خدا وہی ہے ، جو بائبل کا خدا ہے؟ کیا اسلام کفار کو برداشت نہ کرنے کا درس دیتا ہے؟ کیا  اسلام عورتوں پر ظلم کو روا رکھتا ہے؟ ،جورام کلاورین  تک اسلام کا منفی تصور کیسے پہنچا؟ اس نمٹنے کے لیے اسے  کس کس نوعیت کی جذباتی اور معاشرتی کوششیں کرنا پڑیں؟ اس سفرِ تحقیق نے جورام کو کہاں پہنچایا؟
 ( See: Afvallige – Joram van Klaveren: Van christendom naar islam in tijden van secularisatie en terreur. Accessed February 6, 2019-02-06 https://kennishuys.com/product/afvallige-joram-klaveren/)

اسلام سے متعلق جدید  مغربی رویے پر کلاورین کے  کا ردعمل

قبول ِ اسلام کے بعد  کلاورین نے  اسلام سے متعلق مغرب کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں   لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی  اسلام کی غلط تصویر ہے، وہاں لوگ اسلام کے حوالےسے خوف ، پروپیگنڈے اور میڈیا کی گمراہ کن معلومات  کے زیر اثر ہیں۔ جیسا کہ قبل ازیں میرا خیال تھا، وہ لوگ  قرآن کو زہر اور  محمدﷺ کو (نعوذ باللہ ) جھوٹا اور دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ لیکن فی الوقع قرآن ایک مثالی روحانی زندگی کا منشور ہے، اور محمدﷺ انسانیت کی آزادی کے بانی ہیں۔ان خیالات کا اظہار Joram Van Klaver کے نام سے موجود اپنے فیس بک پیج پر انھوں نے ان الفاظ میں کیا ہے:
Still people of Europe and America have been suffering from not only phobia and propaganda but also misleading information of Media. They think Qur'an is a poison like how I used to think and Prophet Muhammad pbuh is a terrorist or lier like what I thought. But the reality is Qur’an is a manifesto for leading an ideal spiritual life while Prophet Muhammad pbuh was a pioneer of freedom for the humanity. (Joram Van Klaver, February 6, 2019)
کلاورین جرمن سیاست دان آرتھر ویگنر (Arthur Wagner) سے بہت متاثر ہیں، جو پہلے انھی کی طرح اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کرتے تھے، لیکن اب مسلمان ہو چکے ہیں،اپنے پیج پرویگنر کی تصویر لگا کر کلاورین نے لکھا ہے:
I was a highly influenced by this man Arthur Wagner from Germany who was a Protestant like me before converting to Islam. He converted in 2018 and changed his name to 'Ahmad'. He was an anti-Muslim and anti-Islam like me. But Allah changed both of our heart. (Joram Van Klaver, February 7, 2019)
میں جرمنی کے اس شخص آرتھر ویگنر  سے بہت متاثر ہوں ، جو اسلام لانے سے قبل میری طرح پروٹسٹنٹ تھا۔ اس نے 2018ء میں اسلام قبول کیا اور احمد نام اختیار کیا۔ وہ میری طرح اسلام اور مسلم مخالف تھا، لیکن اللہ نے ہم دونوں کے دل بدل دیے۔
مغرب میں اسلام متعلق عام  غلط فہمیوں  کو کیسے دور کیا جائے؟اس سلسلے میں   کلاورین نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ  وہ اب اسلام اور قرآن کو زیادہ گہرائی  سے پڑھیں گے اور اس کے روحانی پیغام کو لوگوں میں پھیلائیں گے:
Right now my plan is learn the Islam & Qur'an more deeply and spread the spiritual message of Almighty Lord among the people. (Joram Van Klaver, February 6, 2019)

مغربی شخصیات کے قبول ِاسلام پر اہلِ مغرب کا رویہ

میرے فہم اور مشاہدے کے مطابق کسی مغربی شخصیت کے قبول اسلام  پرعمومی طور پر دو طرح کے مغربی رویے سامنے آتے ہیں؛ ایک  کومثبت  رویہ قرار دیا جا سکتاہے اور دوسرے کو منفی :
پہلا رویہ  ہے کہ موجودہ ا اہلِ مغرب کے یہاں غیر جانب دار انہ  علمی تحقیق اور اس کے نتائج کے مطابق اپنے رائے قائم کرنے اور اس کا اظہار کرنے  کے حوالے سے جو توسع اور کھلا پن ہے، وہ مسلم مشرق ، بالخصوص عرب اور برصغیر پاک و ہند میں دکھائی نہیں دیتا ۔ یہاں اور تو اور روایتی مسلم  فکر سے ہٹ کر بات کرنے پر لوگوں کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔محقق کو بہت دفعہ  اپنی تحقیق کو شائع کرنے ہی کے حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے مطابق اپنے رویے کی استواری  تو دور کی بات ہے۔کچھ فطری سی معاشرتی مشکلات تو ظاہر ہے مذہب کی تبدیلی سے ہر جگہ  پیش آتی ہی ہیں ، لیکن مغرب میں  معاشرتی اور مذہبی سطح پرکوئی سخت قسم کا جبر بہر حال دکھائی نہیں دیتا۔ آدمی کھلے عام اپنے قبول ِاسلام کا اعلان کرتا ہے؛ معاشرہ اس کو قبول کرتا ہے ؛ میڈیا اس کی خواہش کے احترام میں اس پر خبریں نشر کرتا ہے۔ 
دوسرا رویہ  اسلام قبول کرنے والی مغربی شخصیت سے متعلق مغرب کے انکار اور اس معاملے میں  شکوک و شبہات کے اظہار سے عبارت ہے۔ راقم کی تحقیق کے مطابق اہم شخصیات کے قبولِ اسلام پر مغرب میں ایک  روایت  سی  ہے کہ وہاں یا تو اس بات کا  انکار ہی کر دیا جاتا ہے کہ متعلقہ شخص  نے اسلام قبول کر لیا ہے،  یا پھر اس پر شکوک و شبہات ظاہر کیے جاتے اور اسلام قبول کرنے والے کی نیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ آج سے برسوں پہلے فرنچ میڈیکل ڈاکٹر اور سائنس دان اور دی بائبل دی قرآن اینڈ سائنس(The Bible, the Quran and Science) ایسی شہرہ آفاق کتاب کے مصنف موریس بکائی  کے قبولِ اسلام سے متعلق مغربی آرا کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی اس طرح کی چیزیں میری نظر سے گزری تھیں۔ ان میں کہا گیا تھا کہ بکائی نے محض شہرت اور اپنی مذکورہ کتاب کی مسلمانوں میں وسیع پیمانے پر اشاعت  کی غرض سے قبولِ اسلام کا دعوی کیا ہے، ورنہ فی الوقع وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ 
بکائی کے بارے میں شہرت اور کتاب بیچنے کی غرض سے اسلام کی حمایت کے نظریے کے ساتھ یہ دلیل  بھی  دی گئی  کہ اس کی کتابوں میں اسلام کی بعض باتوں کی حمایت ہوسکتی ہے، لیکن اس نے کہیں بھی یہ الفاظ نہیں کہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ حالانکہ اس نے کئی مقامات پر اس کا اقرار کیا کہ وہ   دل کی گہرائی سے جناب رسول اکرمﷺ کو اللہ کے رسول اور قرآن کو وحیِ الہی سمجھتا ہے۔نام ور محقق ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم نے بھی اس کے قبولِ اسلام کی تصدیق کی تھی ۔بعض جگہ بکائی  نے البتہ یہ ضرور کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ اسے ایک   اکیڈیمشن کے طور پر ٹریٹ کیا جائے نہ کہ ایک تھیالوجین کے طور پر۔مثلاً ایک انٹرویو میں اس نے کہا:
میں اس حقیقت کو واضح  کر دینا چاہتا ہوں کہ بہت ابتدا میں ، جب کہ میں نے لفظ بسم اللہ سیکھا تھا، میں قائل ہو گیا تھا کہ  خدا بے  مثل اور تمام قوتوں کا مالک ہے ، اور جب خدا نے مجھے مطالعۂ قرآن کی توفیق دی ،  تومیری روح پکار اٹھی کہ قرآن خدا کا کلام ہے، جو اس   کے آخری پیغمبر محمد ﷺ پر نازل ہوا۔ اپنی کتاب" قرآن ، بائبل اور سائنس " میں میں نے ان حقائق کا ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کو عالمِ عیسائیت میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کتاب میں میں نے  تمام مسائل کو علمی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے نہ کہ ایمان  و اسلام کے نقطۂ نظر سے، جو کہ  میرا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے دنیا ایک اکڈیمشن کی حیثیت سے دیکھے نہ کہ ایک تھیالوجین کی حیثیت سے۔
http://www.islamicbulletin.org/newsletters/issue_6/embraced.aspx 
اس طرح کی بات سے اس کا عدمِ اسلام اخذ کرنا اس لیے زیادتی ہے کہ اسلام کے دل سے قائل  بہت سے مغربی اکیڈیمشنز اس طرح کی بات اسی بنا پر کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی گروپ سے خود کو منسوب کر لیں تو لوگ سمجھیں گے ان کے نظریات و افکار واقعی تحقیق  کا نتیجہ نہیں  بلکہ محض  اپنے قبول کردہ مذہب یا عقیدے کے حق میں تعصب پر مبنی فکر و خیالات ہیں۔یہ بات ایسی شخصیات کے قبولِ اسلام کا انکار کرنے والے مغربی حلقوں  یا ان بعض راسخ العقیدہ مسلمانوں کے لیے بھی عجیب یا غیر مقبول ہو سکتی ہے کہ جب وہ کھل کر یہ نہیں کَہ رہا کہ I am a Muslimتو اس کے اسلام کا اعتبار کیوں کر کیا جا سکتا ہے؟ مگر مغربی ماحول میں عیسائیت وغیرہ مذاہب سے اسلام کی طرف آنے والے عالمی سطح کے بڑے بڑے محققین کی پوزیشن سمجھنے والے اہلِ علم کے نزدیک یہ بات ایک مقبول عذر ہے اور قطعاً غیر مناسب نہیں، نہ ہی اس سے  متعلقہ شخصیت کے اقرار باللسان میں کوئی  حرج واقع ہوتا ہے۔مغربی ماحول میں ایک اکڈیمشن کے ذاتی سطح پر قبولِ اسلام لیکن  اپنی تحقیق کے وزن کے کم ہوجانے کے احساس سے کسی روایتی طریقِ اظہار ِاسلام سے گریز کے  تناظر  میں موریس بکائی کا حسبِ ذیل بیان بالکل قابلِ فہم ہے:
جہاں تک میرے ایمان کا تعلق ہے، خدا آدمی کے دل کو بہتر جانتا ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اگر میں اپنی پہچان اپنے عقیدے سے کراؤں ، تو لوگ میری باتوں اور اعمال پر کہیں گے کہ یہ فلاں فلاں باتیں فلاں فلاں گروپ سے تعلق کی بنا پر کَہ یا کر رہا ہے۔ میں اپنے لوگوں اور ماحول کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں ، اور ان کی ذہنیت مجھ سے پوشیدہ نہیں۔میں ان کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میرے تمام بیانات سائنسی علمی پر مبنی ہیں نہ کسی مذہبی عقیدے پر۔
(See: The Islamic Bulletin, referred above.)
مغربی میڈیا میں کلورین کے قبول اسلام پر بھی  شک کا اظہار کیا گیاہے کہ اس نے فلاں فلاں مقاصد کے پیش نظر اسلام قبول کیا ہے۔تاہم کلاورین کا معاملہ  بکائی وغیرہ ایسے اکڈیمیشنز سے مختلف دکھائی دیتا  ہے۔اس  نے میڈیا پر اپنے انٹرویوز میں قبولِ اسلام کا نہ صرف باقاعدہ  اعلان کیا ہے۔(مثلا دیکھیےڈچ اخبار de Volkskrant  کی  4 فروری 2019ء کی اشاعت اور یوٹیوب پر اس کے مختلف ویڈیو انٹرویوز) بلکہ ایسے شکوک کا اظہار کرنے والوں کے مسکت جوابات بھی دیے ہیں۔ اپنے فیس بک پیج پر6 جنوری کے ایک سٹیٹس میں اپنے مسلمان ہونے کو واضح کرتے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے  کلاورین نے لکھا:
میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے حق اور شاندار مذہب اسلام  کی راہ دکھائی۔ میں صاحب عزت و عظمت رسولِ خدا محمد بن عبداللہ ﷺ سے متعلق اپنے گذشتہ تبصروں پر شرمندہ ہوں۔اب میں اپنے آپ کو  اسلام اور  پیغمبرِ خدا کے پیغامِ عالی شان کی تبلیغ کے لیے وقف کروں گا۔ 
(Joram Van Klaver, February 6, 2019. )
ایک شخص جوئی لا (Joey Law)نے جب اس پر مختلف مادی و جنسی خواہشات کے لیے قبولِ اسلام کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ :
جورام  تمھارے قبولِ اسلام کا سبب یہ دکھائی دیتا ہے کہ تمھاری کوئی مسلم گرل فرینڈ ہو گی!تم کسی کم عمر لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو گے! تم چار بیویوں کے  خواہش مند ہو گے! کوئی مسلم بزنس ،مسلم سپورٹر چاہتے ہو گے! سعودی بادشاہ سے کوئی انعام ملا ہوگا! یا کسی دہشت گردنے دھمکی دی ہوگی!
(See: Joram Van Klaver, February 12, 2019. )
تو جورام کلاورین نے اپنے پیج پر جوئی لا کے یہ  خیالات نقل  کرنے کے بعد لکھا:
انتہا پسندوں کے عام خیالات ملاحظہ کیجیے! حالانکہ میرا قبولِ اسلام  فقط میری تحقیق اور مطالعۂ قرآن کا نتیجہ ہے۔ اس کے پیچھے میرا کوئی بھی مادی مقصد نہیں ۔ میں روحانیت کی تلاش میں تھا، اور مجھے وہ اسلام میں مل گئی۔ اس سے واضح ہے کہ اہلِ مغرب کی کیسے ذہن سازی کی جاتی ہے اور پروپیگنڈہ اور چرچ ان کو کیسے گمراہ کرتے ہیں! شرم کا مقام ہے ایسے لوگوں کے لیے! نوٹ فرما لیجیے کہ میں سعودی عرب صرف مذہبی مقصد کے لیے گیا تھا، اسلامی حج کوئی اچنبھے کی بات نہیں! میں الحمد للہ مسلمان ہوں، میرا ایمان ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ، اور محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ مجھے چار شادیوں کی کوئی خواہش نہیں ۔  مسلمانوں کو دہشت گردکہا جاتا ہے ،حالانکہ وہ خود دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ ایسے لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔ اسلام تو  امن ، رواداری ، بھائی چارے اور محبت کا پیغام ہے۔
(Joram Van Klaver, February 12, 2019)
بہر حال مغربی شخصیات کے قبولِ اسلام کے خواہ مخواہ انکار یا اس ضمن میں شکوک و شبہات  اور اسلام قبول کرنے والوں کی نیت پر شک کے اظہار کا مغربی رویہ ہر گز مناسب رویہ نہیں کہا جا سکتا۔ اگربالفرض  مان بھی لیا جائے کہ  کہیں واقعی کسی کے قبولِ اسلام کے پیچھے مادی مقاصد ہوں گے ،تو بھی  ایسا رویہ کسی بھی مذہبی نقطۂ نظر سے قابلِ تعریف نہیں ۔ ایمان کے معاملے میں ظاہر ہی کو دیکھنا چاہیے، اور اسی کے مطابق لوگوں کو ٹریٹ کیا جانا چاہیے۔مادی مقاصد ہی پر بات کرنی ہو تو اہلِ مغرب کو چاہیے کہ اسلام کے حوالے سے ایسے الزامات سے پہلے مسیحیت کی مشنری سرگرمیوں کی تاریخ بھی دیکھ لیں کہ کس وسیع پیمانے پر لوگوں کو مادی لالچ دے دے کر عیسائیت میں داخل کیا گیا! 
جیسا کہ جورام کلارین کے اوپر درج الفاظ سے واضح ہے، مذکورہ نوعیت کے مغربی شکوک شبہات فی الواقع پروپیگنڈے کی قبیل سے ہیں، جن کے ذریعے اہلِ مغرب کو اسلام کے حوالے سے گمراہ کیا جاتا ہے۔ راقم کے خیال میں بادی النظر میں اس پروپیگنڈے  کا مقصد کسی معروف مغربی شخصیت کے قبولِ اسلام سے مغربی لوگوں میں قبولِ اسلام کی متوقع تحریک کو روکنا  اور اسے ایک مشکوک سا عمل دکھا کر رفتہ رفتہ اس سے توجہ ہٹانا دکھائی دیتا ہے۔

مغربی شخصیات کے قبول ِ اسلام پر اہلِ اسلام کا رویہ 

جہاں تک مغربی شخصیات کے قبولِ اسلام سے متعلق اہلِ اسلام کے رویے کا تعلق ہے ،تو ان کے یہاں ایک رویہ  اس طرح کی خبر پر خوشی کا اظہار اور اپنے مسلمان ہونے پر  ذرا اطمینان بلکہ فخر  ہے، جو کافی حد تک فطری ہے ۔ لیکن اس میں جو چیز سبق حاصل کرنے والی ہوتی ہے، اس کو یہ اکثر نظر انداز کر جاتے ہیں، کہ بھائی ہم اس نعمتِ ایمان کی کیا قدر کر رہے ہیں، جو پروردگار نے  ہمیں ورثے میں عطا کردی ہے! نیز یہ کہ ہمیں اپنے اعمال اور رویوں کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ وہ نومسلم جس کی اسلام میں آمد پر وہ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں ،بے چارہ  ہمارے اعمال سے مایوس  ہی نہ ہوجائے، اور کہیں یہ نہ سوچنے لگے کہ کس  قوم کے مذہب میں آگیا ہوں!
اہلِ اسلام کا جو منفی رویہ اس ضمن میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ  نومسلم کے بارے میں یہ تجسس ہے کہ اس کا تعلق کس فرقے کے ساتھ ہو سکتا ہے !اور پھر اس کو اپنے اپنے فرقے کی طرف دعوت دینا۔ یہ نہایت ہی گھناؤنا اور خطرناک رویہ ہے ، جس کے تباہ کن نتائج محسوس و مشاہد ہیں؛ کئی  نو مسلم مسلمانوں کی اس فرقہ وارانہ رسہ کشی سے تنگ آ کر اپنے پرانے مذہب میں واپس جا چکے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ دل کھلا رکھیں اور نو مسلم کا رجحان جدھر بھی ہو، سب مسالک اسے عزت دیں اور اون کریں۔
کلاورین اور اس نوع کی جدید تعلیم یافتہ مغربی شخصیات کے قبولِ اسلام کے تناظر میں یہاں میں  اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ  اسلام کو ، ہمیں کم ازکم فی زمانہ ،اپنی  سطحیت سے بچا کر  اس کی داخلی سچائی اور تعلیمات کی معقولیت کے حوالے کر دینا چاہیے۔ جو اس کو غیر جانب داری سے پڑھے گا خود بخود اس کی طرف کھنچے گا۔ لوگوں کو اس سے دور کرنے اور رکھنے  میں ہمارے  آج کل کے  اہلِ مذہب کا کردار نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔ اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ مغرب میں  عام آدمی اسلام کو مسلمانوں کے رویوں ہی کی عینک سے دیکھتا ہے، اور عمومی نقطۂ نظر سے یہ بات غلط بھی نہیں ، کہ   وہ دیکھتا ہے کہ اگر اسلام ایسا ہی اچھا اور معقول مذہب ہے ، تو اکثر و بیشتر مسلمان  حتی کہ معروف معنی میں مذہبی لوگ بھی اتنے ناکارہ اور غیر معقول کیوں ہیں؟ کس چیز نے ان کو اسلام کی اچھی اور معقول تعلیمات پر عمل کر کے کامیابی کے حصول سے روک رکھا ہے؟ لہذا اسلام کی تبلیغ کا واحد بہترین آپشن اپنے عمل اور رویوں کی حقیقی اسلامائزیشن ہے۔ تاہم جب تک متعد بہ مسلمان  عملیت کے اس پہلو کی طرف نہیں آ جاتے ،ان کو چاہیے کہ کم ازکم  اسلامی تعلیمات کو صحیح صحیح اور معقول انداز سے پیش کریں اور باقی کام خود اسلام اور صاحبِ اسلام کے حوالے کر دیں۔ اہلِ اسلام کو وہ سبق  کبھی نہیں بھلانا چاہیے، جو اللہ نے اپنی آخری کتاب میں اپنے آخری نبی کو دیا تھا کہ: إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ۔ لَّسْتَ عَلَيْھم بِمُصَيْطِرٍ۔ (الغاشیہ:21-22)" آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں،ان پر داروغے نہیں۔"، یعنی آپ کا کام اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے ، منوانا نہیں۔ ماننے میں وہ آزاد ہیں: فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الکھف: 29)" جو چاہے ایمان لائے، اور جو چاہے انکار کرے۔"اسلام مسلمانوں  خواہش کے مطابق نہیں ، اللہ کی اسکیم کے مطابق پھیلے گا: إِنَّكَ لَا تَھدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّہ يَھدِي مَن يَشَاءُ۔ (القصص: 56)

سود کے بارے میں سینٹ کا منظور کردہ بل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سینٹ آف پاکستان نے گزشتہ روز جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینٹر جناب سراج الحق کا پیش کردہ ایک مسودہ قانون منظور کر لیا ہے جس کے تحت اسلام آباد کی حدود میں سود کے نجی کاروبار کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق سینٹ نے وفاقی دارالحکومت میں نجی طور پر ہر قسم کے لین دین کے حوالے سے سودی کاروبار پر پابندی کے قانون کی منظوری دے دی ہے۔ 
بل کے محرک جناب سراج الحق نے اس موقع پر اپنی گفتگو میں کہا کہ سود بہت بڑی لعنت ہے اور اس نے خاندانوں کے خاندان سودی قرضوں میں جکڑ رکھے ہیں، میں نے کوشش کی ہے کہ نجی قرضوں کے لین دین کی صورت میں سود پر پابندی لگائی جائے، مگر ہمیں اس ملک میں سود کے مکمل خاتمہ کی طرف بڑھنا ہوگا، اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ جبکہ منظور ہونے والے مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ قرآن و سنت میں وضع کردہ اسلامی احکامات واضح طور پر قرضوں پر سود لاگو کرنے کے مخالف ہیں اور سود کا خاتمہ نہ کرنے والوں کے خلاف اعلان جنگ کی ہدایات دیتے ہیں۔ قانون کے مطابق کوئی بھی قرض فراہم کرنے والا کسی فرد یا افراد کو گروپ کی صورت میں سود کی غرض سے قرضہ یا ایڈوانس لون فراہم نہیں کرے گا اور نہ ہی دارالحکومت اسلام آباد میں سود پر مبنی کاروبار کرے گا۔ جو کوئی ان احکامات کی خلاف ورزی کرے گا اسے تین سے دس سال تک قید یا دس لاکھ روپے تک جرمانہ کی سزا دی جائے گی اور اس سلسلہ میں معاونت کرنے والا بھی سزا کا مستحق ہوگا۔ 
ہمارے خیال میں سینٹ آف پاکستان کے اس فیصلہ نے ان حلقوں کو خوشی کے اظہار کا ایک موقع فراہم کیا ہے جو طویل عرصہ سے پاکستان کے معاشی نظام و قوانین کو سود کی نحوست سے پاک کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں، اور اس سے قیام پاکستان کے اصل مقصد کی طرف پیشرفت ہوئی ہے جس کی ایک جھلک بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے اس خطاب میں دیکھی جا سکتی ہے جو انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر کیا تھا اور اس میں کہا تھا کہ وہ پاکستان کے معاشی نظام کو مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر استوار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اسی لیے دستور پاکستان نے سود سے پاک معیشت کو پاکستان کی معاشی منزل قرار دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت دے رکھی ہے کہ وہ قومی معیشت کو جلد از جلد سودی اصول و قوانین سے نجات دلائے۔ 
سود کے خاتمہ کی جدوجہد کی داستان بہت طویل ہے جو پارلیمنٹ اور عدالت عظمٰی کے ساتھ ساتھ عوامی محاذ پر بھی قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل جاری ہے۔ مگر ہر سطح پر واضح فیصلوں اور اعلانات کے باوجود ابھی تک سودی قوانین و نظام سے چھٹکارے کی کوئی عملی صورت سامنے نہیں آرہی اور سودی نظام و قوانین کے خاتمہ کی ہر جدوجہد کو بین الاقوامی اور قومی ماحول میں ناقابل عبور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ عدالت عظمٰی نے ایک موقع پر واضح طور پر تمام سودی قوانین کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے کر ان کے خاتمہ کی ہدایت کی تھی جس پر عملدرآمد کرنے کی بجائے اسے نظرثانی کے چکر میں ڈال دیا گیا اور سالہا سال گزر جانے کے باوجود وہ اب بھی وفاقی شرعی عدالت کی بھول بھلیوں میں گم ہے۔ 
اس پس منظر میں سینٹ آف پاکستان کا منظور کردہ یہ قانون جو اگرچہ صرف نجی قرضوں کے حوالہ سے ہے اور وفاقی دارالحکومت کے دائرہ میں محدود ہے، مگر سودی نظام کے خاتمہ کی طرف عملی سفر کا آغاز محسوس ہوتا ہے اور یہ امید نظر آنے لگی ہے کہ اگر ارکان پارلیمنٹ اسی جذبہ کے تحت آگے بڑھتے رہے تو ملک کو سودی نظام کی لعنت و نحوست سے پاک کرنے کی مرحلہ وار کوئی نہ کوئی صورت شاید نکل آئے۔ 
ان گزارشات کے ساتھ میں تحریک انسداد سود پاکستان کی طرف سے جناب سراج الحق اور سینٹ آف پاکستان کے تمام ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں مبارکباد دیتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو اس مہم میں کامیابی سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

نفاذ اسلام میں دستوری اداروں کے کردار کا جائزہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

فروری کے آخری عشرہ کے دوران بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ شریعہ اکادمی کے تحت ایک اہم کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس میں پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد اور اقدامات کا مرحلہ وار جائزہ لیا گیا اور کانفرنس کی طرف سے اس سلسلہ میں سفارشات پیش کی گئیں۔ شریعہ اکادمی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد اور ان کے رفقاء اس وقیع علمی و تحقیقی کاوش پر شکریہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ملک میں اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کے حوالہ سے علمی و فکری سطح پر ایک سنجیدہ کام دیکھنے میں آیا، خدا کرے کہ متعلقہ ادارے اس کانفرنس کی سفارشات پر عملدرآمد میں بھی اسی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، آمین یا رب العالمین۔ کانفرنس کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ اور سفارشات درج ذیل ہیں:
شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے تعاون سے سہ روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد ۲۶ تا ۲۸ فروری ۲۰۱۹ء علامہ اقبال آڈیٹوریم فیصل مسجد کیمپس میں ہوا۔ کانفرنس میں اعلٰی عدلیہ اور دستوری اداروں سے وابستہ افراد کی شرکت ایک نمایاں وصف رہا۔ عزت مآب جسٹس جواد ایس خواجہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے افتتاحی تقریب کی صدارت فرمائی، جبکہ عزت مآب جسٹس قاضی فائز عیسٰی جج سپریم کورٹ آف پاکستان، عزت مآب جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان جج فیڈرل شریعت کورٹ، جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، اور علامہ زاہد الراشدی نے مختلف مجالس کی صدارت کر کے فاضلانہ صدارتی خطبے ارشاد فرمائے۔ مقالہ جات، علمی گفتگو اور سوالات و جوابات کی روشنی میں کانفرنس درج ذیل سفارشات پیش کرتی ہے۔ 
  1. قیام پاکستان کے بعد آئینی اور ادارہ جاتی سطح پر قوانین کو اسلامیانے کی قابل قدر کاوشیں ہوئی ہیں جنہیں یہ کانفرنس خراج تحسین پیش کرتی ہے اور اس تاثر کی نفی کرتی ہے کہ اس ضمن میں ہمارا دامن خالی ہے۔
  2. کانفرنس میں پارلیمنٹ، اسلامی نظریاتی کونسل، عدلیہ بالخصوص وفاقی شرعی عدالت، بین الاقوامی یونیورسٹی، ادارہ تحقیقات اسلامی اور شریعہ اکیڈمی کی اسلامائزیشن کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی، جس سے ہمیں یہ جائزہ لینے کا موقع ملا کہ اسلامی نقطہ نظر سے قانون سازی کے اس عمل میں ہم کیا حاصل کر سکے ہیں اور کیا کچھ کرنا باقی ہے۔
  3. ان اداروں کی کاوشوں کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ۲۸۸۰ قوانین اور وفاقی شرعی عدالت تقریباً ۱۸۰۰ قوانین کا جائزہ لے چکی ہے، جبکہ شریعہ اکیڈمی طویل دورانیے کے ساٹھ کورسز عدلیہ کے ارکان کے لیے اور اتنے ہی تربیتی کورسز وکلاء کے لیے منعقد کر چکی ہے۔
  4. بلاشبہ پاکستان میں قوانین کو اسلامیانے میں تمام آئینی اداروں کا کردار ہے، بالخصوص عدلیہ اور اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار ناقابل فراموش ہے، لیکن ان اداروں میں باہم ہم آہنگی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کانفرنس ان کاوشوں کو باہم مربوط کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے اور اس مقصد کے لیے ایک رابطہ کمیٹی کے قیام کی سفارش کرتی ہے۔
  5. مقالہ نگار حضرات نے دستوری اداروں، بالخصوص وفاقی شرعی عدالت میں قوانین کے اسلامیانے کے عمل کے طریق کار، منہج اور اسلوب (اپروچز) پر تفصیلی روشنی ڈالی اور اس کے مثبت و منفی پہلووں کا ناقدانہ جائزہ بھی لیا اور اس بات پر زور دیا کہ قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے طریق کار کو مزید بہتر اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
  6. کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ریاست کا آئینی اور دستوری لحاظ سے یہ فرض ہے کہ وہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالے جیسا کہ قرارداد مقاصد اور دیگر دفعات میں مذکور ہے۔
  7. کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اسلامی قوانین محض سزاؤں کا نام نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر سماجی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی تبدیلی کا عنوان ہے۔ اس لیے ان دیگر شعبوں کو بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی قوانین کا موثر نفاذ ہو سکے۔
  8. ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری اور سستا انصاف فراہم کرے، جبکہ موجودہ قوانین اور نظام عدل فوری انصاف کی فراہمی میں سست روی کا شکار ہے جس کا اعتراف عدلیہ سے وابستہ افراد بھی کرتے ہیں۔ اس لیے متبادل راستہ اسلامی قوانین کا ہی ہے جن کی مدد سے فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہے۔
  9. قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے عمل میں عدلیہ کی توجہ زیادہ تر اس پہلو پر رہی ہے کہ ان قوانین میں کونسے امور اسلامی احکام سے متصادم ہیں، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالتیں قوانین کی تعبیر و تشریح کا عمل بھی اسلامی اصولوں کی روشنی میں کریں۔
  10. کانفرنس نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ قوانین کو اسلامیانے کے عمل میں چند اہم رکاوٹیں رہی ہیں۔ مثلاً بین الاقوامی معاہدات، قرآن و سنت کی تعلیمات سے عدم آگہی، نظام تعلیم بالخصوص قانون کی تعلیم میں اسلامی تعلیمات کی کمی، انتظامیہ کی عدم استعداد وغیرہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ اور دیگر اداروں سے وابستہ افراد کی اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تربیت کی جائے۔

قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۴)

محمد عمار خان ناصر

اب دوسری قسم سے تعلق رکھنے والی بعض مثالیں ملاحظہ کیجیے:
۹۔ قرآن مجید میں مال کی زکوٰة کا ذکر اسلوب عموم میں کیا گیا ہے: خذ من اموالھم صدقۃ (التوبہ ۱٠۳:۹)۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی تفصیلات کے ذریعے سے واضح فرمایا کہ کون سے اموال میں زکوٰة عائد ہوگی اور کون سے اموال اس سے مستثنیٰ ہوں گے، کن صورتوں میں زکوٰة ساقط ہو جائے گی ، زکوٰة کی مقدار کیا ہوگی اور کتنی مدت کے بعد زکوٰة وصول کی جائے گی، وغیرہ۔ گویا آپ نے بتایا کہ زکوٰة ہر مال میں نہیں، بلکہ چند مخصوص اموال میں مخصوص شرائط کے ساتھ عائد ہوتی ہے۔ امام شافعی لکھتے ہیں کہ اگر سنت کی دلالت نہ ہوتی تو ظاہر قرآن سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ تمام اموال یکساں حیثیت رکھتے ہیں اور ان سب میں زکوٰة عائد ہوتی ہے۔ (الام ۱/ ۸۵-۸٠، ۳/۷)
امام شافعی اس سے یہ اہم نکتہ اخذ کرتے ہیں کہ جب اس مثال میں سب کے نزدیک یہ مسلم ہے کہ قرآن کے حکم کے عموم یا خصوص کی تعیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کی روشنی میں کی جائے گی تو پھر اصولی طور پر ایسی ہر مثال کو اسی تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ لکھتے ہیں:
وکان فی ما ابان من ھذا مع غیرہ ابانۃ الموضع الذی وضع اللہ بہ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم من دینہ وکتابہ، والدلیل علی ان سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ما للہ عزوجل فیہ حکم، والدلیل علی ما اراد اللہ تبارک وتعالیٰ بحکمہ اخاصا اراد ام عاما وکم قدر ما اراد منہ، واذا کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھذا الموضع من کتاب اللہ عزوجل ودینہ فی موضع کان کذلک فی کل موضع، وسنتہ لا تکون الا بالابانۃ عن اللہ تبارک وتعالیٰ واتباع امرہ (الام ۳/۷)
“اس مثال سے اور باتوں کے علاوہ اس مقام کی بھی وضاحت ہوتی ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دین اور اپنی کتاب کے حوالے سے دیا ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس معاملے میں اللہ عزوجل کا کوئی حکم ہو، اس میں سنت یہ راہ نمائی کرتی ہے کہ اللہ نے اپنے حکم سے خصوص کا ارادہ کیا ہے یا عموم کا اور (مثلاً مال کی وصولی کے حکم میں) کتنی مقدار اللہ کی مراد ہے۔ جب ایک مثال میں اللہ کی کتاب کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیثیت ہے تو ہر مثال میں اس کی یہی حیثیت ہونی چاہیے اور (یہ ماننا چاہیے کہ) آپ کی سنت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے حکم کی توضیح اور اللہ کے حکم کی اتباع ہوتی ہے۔”
۱٠۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وامسحوا برووسکم وارجلکم الی الکعبین (المائدہ ۶:۵) کے الفاظ میں پاوں کا حکم بیان کیا ہے۔ یہاں اسلوب عموم کی نوعیت کے لحاظ سے، یہ احتمال بھی ہے کہ ہر طرح کے وضو کرنے والے پاوؤں کو دھونے یا مسح کرنے کے پابند ہوں (۱) اور یہ بھی احتمال ہے کہ سب نہیں، بلکہ بعض وضو کرنے والے مراد ہوں۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا اور یہ ہدایت دی کہ پورے وضو کی حالت میں جس آدمی نے پاووں پر موزے پہنے ہوں، وہ مسح کر سکتا ہے تو اس سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد سب وضو کرنے والے نہیں، بلکہ بعض ہیں ،یعنی بعض حالتوں میں وضو کرنے والے پاوں کو دھوئیں گے اور بعض میں مسح کریں گے۔ (الام ۱/۲۹، ۳٠)
۱۱۔ اللہ تعالیٰ نے چوری کرنے والے مرد اور عورت کی سزا صیغہ عموم کے ساتھ یہ بیان کی ہے کہ ان کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ (المائدہ ۵: ۳۸) یہاں اسلوب عموم کی رو سے ہر قسم کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹنا ثابت ہوتا ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ درخت سے پھل توڑ لینے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح اگر چوری کسی غیر محفوظ جگہ سے کی گئی ہو یا اس کی قیمت ایک چوتھائی دینار سے کم ہو تو بھی چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اس وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہر طرح کی چوری پر ہاتھ کاٹ دینا نہیں ہے۔ (الام، ۱/۳٠، ۷/۳۱۹)
۱۲۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کی سزا یہ بیان فرمائی ہے کہ زانی مرد اور عورت دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جائیں۔ (النور ۲:۲۴) یہاں بظاہر عموم کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شادی شدہ زانی کو کوڑے لگوانے کے بجائے سنگسار کرنے کا حکم دیا تو اس سے یہ واضح ہو گیا کہ قرآن مجید میں سو کوڑوں کی سزا جن زانیوں کے لیے بیان کی گئی ہے، اس سے مراد غیر شادی شدہ زانی ہیں۔ (الام ۱/۳٠، ۵۶)
اسی طرح احادیث میں کنوارے زانی کے لیے قرآن کی بیان کردہ سزا کے ساتھ ایک سال کے لیے علاقہ بدر کیے جانے کی سزا بھی بیان کی گئی ہے۔ امام شافعی ان روایات کی بنیاد پر کوڑوں کے ساتھ جلاوطنی کو بھی زنا کی شرعی حد کا حصہ شمار کرتے ہیں۔ (الام ۷/۳۳۷، ۳۳۸) اس حوالے سے ان کا اصولی استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت کسی حکم کے بعض حصے قرآن میں بیان کر دیتا ہے اور بعض حصے اپنے پیغمبر کے ذریعے سے واضح فرماتا ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ اللہ ہی کا حکم ہے جسے قبول کرنا ضروری ہے۔ (الام ۱/۸۸، ۱٠٠، ۶/۱۲، ۳۹٠)
۱۳۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں سے خمس کا حقدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ذوی القربیٰ، یتامی ، مساکین ا ور مسافروں کو قرار دیا گیا ہے (الانفال ۴۱:۹) یہاں ذوی القربی کے الفاظ عام ہیں اور بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام قرابت دار اس کے تحت داخل ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف بنو ہاشم اور بنو المطلب کو خمس میں سے حصہ دیا۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ذوی القربیٰ سے تمام اقرباءنہیں، بلکہ بعض مراد ہیں۔ (الام ۱/۳۱)
۱۴۔ اسی طرح قرآن مجید میں مال غنیمت کے خمس کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی مال کو اسلوب عموم میں مجاہدین کا مشترک حق قرار دیا ہے (الانفال ۴۱:۹) ، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت اقدام میں دشمن کو قتل کر کے اس سے چھینے ہوئے مال کو خاص طور پر قاتل کا حق قرار دیا جس سے واضح ہو گیا کہ قرآن کی مراد پورا مال غنیمت نہیں، بلکہ وہ مال ہے جو مذکورہ صورت سے ہٹ کر دشمن سے چھینا گیا ہو۔ (الام ۱/۳۲)
۱۵۔ قرآن مجید میں ترکے میں ورثاءکے حصے بیان کرتے ہوئے بظاہر عموم کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جس کی رو سے ظاہراً تمام والدین، بہن بھائی اور میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث بنتے ہیں۔ (النسا ء ۴: ۱٠،۱۱) تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ایسے رشتہ دار ہیں جن کا دین ایک ہی ہو اور مرنے والا اور اس کے ورثا دار الاسلام کے باشندے ہوں۔ اسی طرح دونوں کا آزاد ہونا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔ اسی طرح سنت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غلام کو ملکیت کا حق حاصل نہیں ہوتا اور اس کا مال دراصل اس کے مالک ہی کی ملکیت ہوتا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ نہ تو غلام کسی کا وارث بن سکتا ہے اور نہ کوئی اس کا وارث بن سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید یہ بھی واضح فرمایا کہ اگر وارث اپنے مورث کو قتل کر دے تو بھی اسے اس کی وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ (الام ۱/۲۹)
۱۶۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسلمانوں کو آپس میں باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال نہیں کھانا چاہیے، جب تک کہ وہ باہمی رضامندی پر مبنی تجارت نہ ہو۔ (النساء۲۹:۴) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے واحل اللہ البیع (البقرة ۲: ۲۷۵) فرمایا جس سے بظاہر بیع کی ساری صورتیں جائز قرار پاتی ہیں۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید وفروخت کے بعض ایسے طریقوں کو بھی ممنوع قرار دیا جن پر فریقین رضامند ہوتے ہیں اور ان میں نہ تو غرر پایا جاتا ہے اور نہ بائع اور مشتری میں سے کوئی، کسی بات سے ناواقف ہوتا ہے، مثلاً سونے کے ساتھ سونے کے تبادلے میں کمی بیشی یا سونے اور چاندی کے باہمی تبادلے میں ادھار سے کام لینا۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کی تمام صورتوں کو حلال قرار نہیں دیا بلکہ وہ صورتیں اس جواز سے خارج ہیں جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے۔ (الام ۱/۷۳، ۷۴؛ ۴/۵) (۲)
مذکورہ دوسری قسم کی مثالوں میں امام شافعی کے موقف کا محوری نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے کچھ بیانات ایسے ہو سکتے ہیں جو بظاہر عام ہوں اور ان کے خصوص کا کوئی لفظی یا عقلی قرینہ بظاہر قرآن کے حکم میں موجود نہ ہو، اور اگر صرف ظاہر قرآن پر اعتبار کیا جائے تو ان میں کسی قسم کی تخصیص کی گنجائش دکھائی نہ دیتی ہو، لیکن سنت میں اس بات کی وضاحت کی جائے کہ ان کا ظاہری عموم مراد نہیں، بلکہ وہ خصوص پر محمول ہیں۔ امام صاحب لکھتے ہیں:
ولولا الاستدلال بالسنۃ وحکمنا بالظاھر قطعنا من لزمہ اسم سرقۃ، وضربنا مائۃ کل من زنی حرا ثیبا، واعطینا سھم ذی القربی کل من بینہ وبین النبی قرابۃ ثم خلص ذلک الی طوائف من العرب لان لہ فیھم وشایج ارحام، وخمسنا السلب لانہ من المغنم مع ما سواہ من الغنیمۃ (الام ۱/۳۲)
“اگر سنت سے استدلال نہ کیا جائے اور ہم قرآن کے ظاہر پر فیصلہ کریں تو ہمیں ہر اس شخص کا ہاتھ کاٹنا ہوگا جس نے چوری کی ہو اور آزاد شادی شدہ زانی کو بھی سو کوڑنے لگانے پڑیں گے اور ذی القربیٰ کا حصہ ان سب لوگوں کو دینا ہوگا جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت داری ہے اور پھر یہ عرب کے کئی اور قبیلوں کو بھی شامل ہو جائے گا کیونکہ مختلف قبائل کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔ اسی طرح جو شخص میدان جنگ میں دشمن کو قتل کر کے اس کا سامان حاصل کر لے، اس سے بھی اس سامان کا پانچواں حصہ بیت المال کے لیے لینا ہوگا جیسے باقی سارے مال غنیمت سے لیا جاتا ہے۔”
تاہم امام شافعی کو اصرار ہے کہ چونکہ عام الفاظ استعمال کر کے خاص صورتیں مراد لینا عربی زبان کا معروف اور مسلم اسلوب ہے اور قرآن کے یہ تمام بیانات اپنی اصل میں تخصیص کا احتمال رکھتے ہیں، اس لیے سنت میں وارد تخصیصات کو قرآن کے خلاف نہیں کہا جا سکتا اور نہ سنت، قرآن کے خلاف ہو سکتی ہے۔ لکھتے ہیں:
قال: افیعد ھذا خلافا للقرآن؟ قلت: لا تخالف سنۃ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ بحال، قال: فما معنی ھذا عندک؟ قلت: معناہ ان یکون قصد بفرض امساس القدمین الماء من لا خفی علیہ لبسھما کامل الطھارة، قال: او یجوز ھذا فی اللسان؟ قلت: نعم، کما جاز ان یقوم الی الصلاۃ من ھو علی وضوئ، فلا یکون المراد بالوضوئ، استدلالا بان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی صلاتین وصلوات بوضوء واحد، وقال اللہ عزوجل: ”والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما جزاء بما کسبا نکالا من اللہ، واللہ عزیز حکیم“، فدلت السنۃ علی ان اللہ عزوجل لم یرد بالقطع کل السارقین (الام ۱/۲۵۳)
“مخاطب نے کہا کہ کیا اس کو قرآن کی مخالفت شمار کیا جائے گا؟ میں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت کسی حال میں کتاب اللہ کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ اس نے کہا کہ پھر تمھارے نزدیک اس کا (یعنی آیت میں پاوؤں کو دھونے کے حکم کا) کیا مطلب ہوگا؟ میں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاوؤں کو دھونے کے حکم میں اللہ تعالیٰ کی مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے مکمل طہارت کی حالت میں پاوؤں پرموزے نہ پہنے ہوں۔ اس نے کہا کہ کیا ازروئے زبان اس طرح کلام کرنا درست ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں، ایسے ہی جیسے کوئی شخص پہلے سے باوضو ہو اور نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہ وضو کے حکم کا مخاطب نہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو اور بعض مواقع پر کئی نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دو، اور سنت نے اس پر دلالت کی کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہر ہر چور کا ہاتھ کاٹ دینا نہیں ہے۔”

متعارض روایات میں سے اوفق بالقرآن کو ترجیح

امام شافعی کے نقطہ نظر کے مطابق صحیح اور مستند اخبار آحاد اور قرآن مجید کے مابین تعارض ممکن نہیں اور ظاہری تعارض کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توضیح کو مراد الٰہی قرار دینا لازم ہے۔ البتہ اگر کسی ایک معاملے سے مختلف اخبار آحاد میں تعارض ہو تو ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کے لیے قرآن مجید کے ساتھ موافقت کا اصول امام شافعی کو بھی تسلیم ہے۔ فرماتے ہیں:
ان اصل ما نبنی نحن وانتم علیہ ان الاحادیث اذا اختلفت لم نذھب الی احد منھا دون غیرہ الا .... ان یکون احد الحدیثین اشبہ بکتاب اللہ، فاذا کان اشبہ کتاب اللہ تبارک وتعالیٰ کانت فیہ الحجۃ (الام ۱/۱۲۷)
“ہمارے اور تمھارے مابین یہ اصول مسلم ہے کہ جب احادیث باہم مختلف ہوں تو ان میں سے کسی کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیں گے، الا یہ کہ ترجیح کی کوئی وجہ موجود ہو، مثلاً ان میں سے ایک حدیث کتاب اللہ کے زیادہ مطابق ہو۔ جب وہ کتاب اللہ کے زیادہ مطابق ہوگی تو وہی حجت ہوگی۔”
اس اصول کا استعمال امام شافعی کے ہاں درج ذیل مثالوں میں ملتا ہے:
روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، نماز فجر ادا کرنے کے مختلف اوقات کا ذکر ملتا ہے۔ بعض کے مطابق آپ اندھیرے کی حالت میں نماز ادا فرما لیتے تھے، جبکہ بعض میں روشنی میں ادا کرنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ اندھیرے میں نماز ادا کرنے کی روایت کتاب اللہ کے زیادہ مطابق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نمازوں کی محافظت کا حکم دیا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ نماز کا وقت داخل ہونے پر جلد سے جلد نماز ادا کر لی جائے۔ (الام ۱/۱۲۷)
روایات میں صلاة الخوف مختلف طریقوں سے ادا کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ امام شافعی ان میں سے اس روایت کو ترجیح دیتے ہیں جس میں ذکر ہے کہ ایک فریق نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک رکعت ادا کرنے کے بعد آپ کے سلام پھیرنے سے پہلے اپنی باقی ماندہ نماز پوری کر لی اور پھر دشمن کے مقابلے میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس عرصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے فریق کے انتظار میں کھڑے رہے اور اس کے آنے پر دوسری رکعت ادا فرمائی۔ امام شافعی لکھتے ہیں کہ مختلف روایات میں سے یہ روایت کتاب اللہ کے ظاہر کے زیادہ مطابق ہے، اس لیے ہم نے اس کو اختیار کیا ہے۔ (الام ۲/۴۴٠؛ ۱٠/۱۷۶)
بعض روایات میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نمازی کے آگے سے کتے، گدھے اور عورت کا گزرنا نماز کو توڑ دیتا ہے، جبکہ دیگر بہت سی احادیث سے اس کے برعکس یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ مذکورہ روایت ان سب احادیث کے بھی خلاف ہے جو سنداً بھی اس سے زیادہ صحیح ہیں اور ظاہر قرآن کے بھی مطابق ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: لا تزر وازرة وزر اخریٰ، یعنی کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدمی کا عمل دوسرے آدمی کے عمل کو باطل نہیں کر سکتا، چنانچہ ایک انسان کا نماز کی حالت میں دوسرے انسان کے آگے سے گزرنا اس کی نماز کو باطل نہیں کرتا۔ (الام ۱٠/۱۲۶، ۱۲۷)
فاطمہ بنت قیسؓ بیان کرتی ہیں کہ ان کے خاوند نے، جو کہیں سفر پر گئے ہوئے تھیں، انہیں تیسری طلاق بھیج دی تو ان کے سسرال والوں نے عدت کے دوران میں انھیں اپنے ہاں رہائش اور نفقہ دینے سے انکار کر دیا۔ فاطمہ اپنا مقدمہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں تو آپ نے ان کے سسرال والوں کی توثیق کی اور فرمایا کہ فاطمہ کا نفقہ ان کے ذمے نہیں ہے۔ پھر آپ نے فاطمہ کو عدت گزارنے کے لیے عبد اللہ بن ام مکتوم کے گھر میں رہائش کرنے کی ہدایت فرمائی۔ (ابو داود، کتاب الطلاق، باب فی نفقة المبتوتة، باب من انکر ذلک علی فاطمة، رقم ۲۲۹۱) اس روایت کے بعض طرق میں ہے کہ آپ نے فاطمہ سے کہا کہ تم نہ نفقے کی حق دار ہو اور نہ رہائش کی، جبکہ بعض طرق میں صرف نفقہ نہ ملنے کا ذکر ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ مطلقہ مبتوتہ کو دوران عدت میں رہائش سے محروم کرنے کی بات قرآن مجید کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورة الطلاق میں دوران عدت میں بیویوں کو گھر سے نہ نکالنے کی ہدایت دی ہے اور یہ حکم عام ہے، اس لیے درست روایت وہی ہے جس میں ایسی مطلقہ کے لیے صرف نفقہ کے حق کی نفی کی گئی ہے۔ البتہ مذکورہ واقعہ میں فاطمہ کو آپ اس وجہ سے اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ عدت گزارنے کا حکم اس لیے دیا کہ فاطمہ زبان کی تیز تھیں اور ان کے سسرال والے ان کی زبان درازی سے تنگ تھے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑے اور بدمزگی سے بچنے کے لیے ازروئے مصلحت فاطمہ کو وہاں عدت گزارنے سے منع فرمایا، تاہم اصل قانون قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق یہی ہے کہ ایسی مطلقہ کو بھی دوران عدت میں رہائش مہیا کی جائے گی۔ (الام، ۶/۲۸۱)
امام شافعی نے عبد اللہ بن عمر کی روایت ذکر کی ہے جس میں وہ سیدنا عمر سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت پر نوحہ کرنے کی وجہ سے اس کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ نے یہ بات سنی تو کہا کہ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم کرے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیتے ہیں، بلکہ یہ کہا کہ کافر کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کومزید عذاب دیتے ہیں۔ پھر سیدہ عائشہ نے کہا کہ تمھیں قرآن کافی ہے اور یہ آیت پڑھی: لا تزر وازرة وزر اخری۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ کی روایت کتاب اللہ اور سنت کے مطابق ہونے کی وجہ سے زیادہ درست معلوم ہوتی ہے، کیونکہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں کہا گیا ہے کہ ہر انسان اپنے ہی عمل کا بدلہ پائے گا اور کوئی جان کسی دوسرے جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ (الام ۰۱/۸۱۲)

قرآن اور سنت میں نسخ کا تعلق

امام شافعی کا موقف یہ ہے کہ سنت، کتاب اللہ کے احکام کو منسوخ نہیں کر سکتی، بلکہ وہ کتاب اللہ کے تابع ہے اور اس کا وظیفہ صرف یہ ہے کہ کلام الٰہی کی مراد کی تفصیل وتشریح کرے۔ امام شافعی نے اس کے لیے درج ذیل آیت سے استدلال کیا ہے:
قَالَ الَّـذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَـآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْـرِ ھذَآ اَوْ بَدِّلْـہ ۚ قُلْ مَا يَكُـوْنُ لِی اَنْ اُبَدِّلَـہ مِنْ تِلْـقَآءِ نَفْسِی ۖ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓی اِلَی ۖ اِنِّـی اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّی عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْـمٍ (یونس ۱۵:۱٠) 
“جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ تم اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے کر آؤ یا اسی کو بدل ڈالو۔ تم کہہ دو کہ مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس کو بدل ڈالوں۔ میں تو بس اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔”
اسی طرح یَمحُو اللّٰہُ مَا یَشَاءُ وَیُثبِتُ (الرعد ۳۹:۱۳)، مَا نَنسَخ مِن آیَۃ او نُنسِہَا نَاتِ بِخَیرٍ مِّنہَا او مِثلِہَا (البقرة ۱٠۶:۲ ) اور وَِذَا بَدَّلنَا آیَۃ مَّکَانَ آیَۃ (النحل ۱٠۱:۱۶) جیسی آیات بھی اسی مدعا کو واضح کرتی ہیں کہ قرآن مجید میں بیان ہونے والے کسی حکم کو قرآن ہی کی کوئی دوسری آیت منسوخ یا تبدیل کر سکتی ہے۔
امام صاحب کا کہنا ہے کہ سنت سے واضح ہونے والے خصوص کو نسخ یا تبدیلی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ہر حال میں قرآن کے حکم کی وضاحت اور اس کی تبیین ہی ہوگی۔ لکھتے ہیں:
فان قال قائل: حیث وجدت القرآن ظاھرا عاما ووجدت سنۃ تحتمل ان تبین عن القرآن وتحتمل ان تکون بخلاف ظاھرہ علمت ان السنۃ منسوخۃ بالقرآن؟ قلت لہ: لا یقول ھذا عالم، فاذا کان اللہ عزوجل فرض علی نبیہ اتباع ما انزل الیہ وشھد لہ بالھدی وفرض علی الناس طاعتہ وکان اللسان کما وصفت قبل ھذا محتملا للمعانی وان یکون کتاب اللہ ینزل عاما یراد بہ الخاص وخاصا یراد بہ العام وفرضا جملۃ بینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقامت السنۃ مع کتاب اللہ ھذا المقام، لم تکن السنۃ لتخالف کتاب اللہ ولا تکون السنۃ الا تبعا لکتاب اللہ بمثل تنزیلہ او مبینۃ معنی ما اراد اللہ تعالیٰ، فھی بکل حال متبعۃ کتاب اللہ (الام ۱/۹۷)
“اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جہاں مجھے قرآن کا حکم ظاہراً عام ملے اور ایسی سنت بھی ملے جس کے بارے میں یہ احتمال بھی ہے کہ وہ قرآن کی وضاحت کر رہی ہے اور یہ بھی کہ وہ قرآن کے ظاہر کے خلاف ہے تو کیا اس سے مجھے یہ سمجھنا چاہیے کہ اس سنت کو قرآن نے منسوخ کر دیا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، یہ بات کوئی صاحب علم نہیں کہہ سکتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر اللہ کی نازل کردہ وحی کی اتباع کو فرض ٹھہرایا اور اس کے ہدایت ہونے کی گواہی دی ہے اور اپنے بندوں پر بھی اس کی پیروی کو لازم قرار دیا ہے، اور عربی زبان بھی، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا، مختلف معانی کا احتمال رکھتی ہے، مثلاً یہ کہ کتاب اللہ میں عام الفاظ نازل ہوئے ہوں لیکن مراد خاص ہو، یا الفاظ خاص اور مراد عام ہو، یا کتاب اللہ میں حکم اصولی اور اجمالی ہو جس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہو اور سنت کی حیثیت اللہ کی کتاب کے ساتھ یہ ہو، تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ سنت، کتاب اللہ کی مخالفت کرے۔ سنت ہمیشہ اللہ کی کتاب کے مطابق ہی ہوگی، چاہے اس میں اسی حکم کو بیان کیا جائے جو کتاب اللہ میں اترا ہے یا اللہ کی مراد کو واضح کیا جائے۔ بہرحال سنت، کتاب اللہ کے تابع ہی ہوتی ہے۔”
امام شافعی کا کہنا ہے کہ سنت میں بیان ہونے والے کسی حکم کو بھی کوئی دوسری سنت ہی منسوخ کر سکتی ہے، اور اگر کسی معاملے میں اللہ تعالیٰ نے سنت کے کسی حکم کو منسوخ کیا ہو تو اس کی بنیاد پر سنت ہی میں ناسخ حکم کی وضاحت کا وارد ہونا ضروری ہے۔ امام شافعی اس کی اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ایسا کرنا استنباط احکام میں الجھن پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا تھا۔ مثلاً اگر منسوخ حکم قرآن میں اور ناسخ سنت میں ہو، یا اس کے برعکس سنت کے کسی حکم کا ناسخ حکم قرآن میں آ جائے تو یہ طے کرنا مشکل ہوگا کہ ان میں سے مقدم کون سا ہے اور موخر کون سا، یعنی ان میں سے کسی کو بھی ناسخ اور دوسرے کو منسوخ تصور کرنا ممکن ہوگا۔ مثلاً سنت میں بیع کی جن صورتوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، ان کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سب بیانات واحل اللہ البیع وَحَرَّمَ الرِّبَا (البقرة ۲۷۵:۲) کے نازل ہونے سے پہلے کے ہیں اور اس آیت نے ان سب کو منسوخ کر دیا۔ اسی طرح شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کا حکم پہلے دور کا ہے جسے قرآن میں الزَّانِیَۃ وَالزَّانِیۃ (النور ۲: ۲۴) کے نزول نے منسوخ کر دیا۔ اسی طریقے سے موزوں پر مسح کرنے کا عمل قرآن میں آیت وضو کے نازل ہونے سے پہلے کا تھا جو اس کے بعد منسوخ قرار پایا اور سنت میں چوری کی جن جن صورتوں کو قطع ید سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، مثلاً حرز کے بغیر پڑے ہوئے مال کی چوری یا چوتھائی دینار سے کم مالیت کی چوری وغیرہ، وہ سب استثناءات وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃ فَاقطَعُوا ایدِیَہُمَا (المائدہ ۳۸:۵) کے نزول سے منسوخ ہو چکے ہیں۔ الغرض ایسی تمام احادیث کو رد کر دینا ممکن ہوگا جن میں بیان ہونے والا حکم کسی بھی پہلو سے قرآن کے ظاہر سے مختلف ہے یا حکم کے کچھ ایسے پہلووں کو بیان کرتا ہے جو قرآن سے زائد ہیں۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ قرآن میں وارد کسی حکم کا نسخ بھی قرآن کی آیت ہی کے ذریعے سے کیا جائے اور اسی طرح سنت کے کسی حکم کی تنسیخ بھی سنت ہی کے ذریعے سے کی جائے۔ (الام ۱ /۴۶، ۴۷)
امام شافعی نے اس کی مثال یہ ذکر کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کی حالت میں نماز کا طریقہ یہ اختیار فرمایا تھا کہ اگر وقت پر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو اسے عذر کی بنا پر موخر کر دیا جائے اور بعد میں قضا کر لیا جائے۔ چنانچہ غزوہ خندق کے موقع پر آپ نے ظہر اور عصر کی نمازوں کو مغرب کے بعد باجماعت قضا کیا۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حالت خوف میں نماز کی ادائیگی کا طریقہ نازل کیا اور نماز کو وقت سے موخر کرنے کے طریقے کو منسوخ کر دیا۔ یہ حکم نازل ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض غزوات میں قرآن کے طریقے کے مطابق صلاة الخوف ادا کر کے اپنی سنت کے ذریعے سے بھی سابقہ طریقے کے منسوخ ہونے کو واضح کر دیا تاکہ لوگوں پر حجت قائم ہو جائے اور ان پر واضح ہو جائے کہ وہ ایک سنت کو چھوڑ کر ایک دوسری سنت ہی کو اختیار کر رہے ہیں۔ (الام ۱/۷۹)

قطعی اور ظنی دلائل کا تقابل

کتاب الام کے آخر میں ’کتاب جماع العلم‘ کے زیر عنوان امام شافعی نے اس بحث کے بعض مزید اور بہت اہم پہلووں پر کلام کیا ہے۔ امام صاحب نے یہاں احادیث کی قبولیت یا عدم قبولیت، اجماع کی حقیقت اور قیاس کی حجیت وغیرہ مباحث کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے گروہوں کے ساتھ ہونے والی بحثوں کی روداد بیان کی ہے۔ ان میں سے ایک اہم بحث قطعیت اور ظنیت کے حوالے سے کتاب اللہ اور احادیث کے باہمی تقابل سے متعلق ہے۔
معترض کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ کے جو احکام نازل کیے گئے ہیں، وہ قطعی ہیں اور اگر کوئی شخص ان میں سے ایک حرف کے ثبوت میں بھی شک کرے تو اسے مرتد سمجھ کر توبہ کے لیے کہا جاتا ہے اور اگر توبہ نہ کرے تو اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اب ایسے قطعی حکم کے عام یا خاص ہونے یا فرض یا مباح ہونے کا فیصلہ احادیث کی بنیاد پر کیونکر کیا جا سکتا ہے جبکہ ان کا ثبوت یقینی نہیں اور ان کو نقل کرنے والے راویوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں کے متعلق علمائے حدیث کے مابین اکثر بحث ہوتی رہتی ہے۔ مزید یہ کہ کسی روایت کو درست سمجھ کر قبول کرنے والے، اس کا انکار کرنے والے کو کبھی یہ نہیں کہتے کہ وہ توبہ کرے، بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہتے ہیں کہ اس کی رائے غلط ہے۔ جب کتاب اللہ اور احادیث کے درمیان ثبوت کے لحاظ سے اتنا بنیادی فرق ہے تو پھر احادیث کو کتاب اللہ کے درجے میں رکھتے ہوئے ان کی بنیاد پر کتاب اللہ کے کسی حکم کے عموم وخصوص یا درجے کو طے کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ (الام ۹/۵، ۶)
اس اشکال کے جواب میں امام شافعی نے درج ذیل نکات بیان کیے ہیں:
۱۔ یہ اعتراض صرف قرآن کے عام احکامات کی تخصیص تک محدود نہیں، بلکہ قرآن کے مجمل احکام کی تفصیل وتشریح پر بھی وارد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نماز، زکوٰة اور حج کے بارے میں قرآن مجید میں جو اصولی اور اجمالی حکم دیا ہے، اس کی تفصیل وتبیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل سے کی گئی ہے اور اس کا علم ہم تک نقل العامة اور خبر الخاصة، دونوں طریقوں سے پہنچا ہے۔ گویا نماز کے پورے احکام بھی اخبار آحاد کو قبول کیے بغیر نہیں جانے جا سکتے۔ یہی معاملہ حج اور زکوٰة کا ہے۔ جب کتاب اللہ کے مجمل احکام کی بہت سی تفصیلات کا علم اخبار آحاد پر منحصر ہے اور وہ قابل قبول ہیں تو اسی اصول پر کتاب اللہ کے عام احکام سے اللہ کی مراد کو جاننے کے لیے بھی اخبار آحاد کو قبول کرنا درست ہونا چاہیے، کیونکہ یہ بھی حکم الٰہی کی توضیح وتبیین ہی کا ایک پہلو ہے۔ (الام ۹/۷، ۸)
۲۔ بعض مثالوں میں کتاب اللہ کے ناسخ اور منسوخ احکام کا حتمی تعین بھی اخبار آحاد کو قبول کیے بغیر نہیں کیا جا سکتا ۔ مثلاً سورة البقرة میں والدین اور اقرباءکے لیے وصیت کرنے کو لازم قرار دیا گیا ہے، (البقرة۲  :۱۸٠) جبکہ سورة النساءمیں انھی رشتہ داروں کے لیے اللہ تعالیٰ نے ترکے میں متعین حصے بھی بیان کیے ہیں۔ (النساء۴  :۱٠، ۱۱) قرآن مجید میں ایسی کوئی فیصلہ کن دلیل موجود نہیں جو یہ بتائے کہ ان میں سے منسوخ حکم کون سا ہے اور ناسخ کون سا۔ چنانچہ یہ قیاس کرنا بھی ممکن ہے کہ وصیت کے حکم کو متعین حصے مقرر کرنے کے حکم نے منسوخ کر دیا ہے اور اس کے برعکس یہ بھی فرض کیا جا سکتا ہے کہ وصیت کے حکم نے متعین حصوں کے حکم کو منسوخ کر دیا ہے۔ اس کا حتمی تعین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ہوتا ہے، جو خبر واحد ہے، کہ ہر حق دار کا حصہ طے ہو جانے کے بعد اب وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔ (الام ۹/۱٠، ۱۱)
دوسرے مقام پر امام شافعی نے اس کی ایک دوسری مثال ذکر کی ہے۔ وہ یہ کہ سورة المزمل کے آغاز میں نماز تہجد کو فرض قرار دیا گیا ہے، لیکن آخری آیت کی رو سے کچھ عرصے کے بعد اس حکم میں تبدیلی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکو، پڑھ لیا کرو۔ (المزمل ۲٠: ۷۳) اس رخصت کو نماز تہجد کی فرضیت کے سرے سے منسوخ ہونے پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے اور اس پر بھی کہ فرضیت تو برقرار ہے، لیکن اس کے متعین دورانیے کی پابندی منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس کی وضاحت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ہوتیہے، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ فرض نمازیں صرف پانچ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز تہجد کی فرضیت منسوخ کر دی گئی ہے۔ (الام، ۱/۴۸، ۴۹)
۳۔ عام قانونی معاملا ت میں بھی ہم اس اصول پر عمل کرتے ہوئے ایک یقینی حکم میں کسی ایسی بنیاد پر تبدیلی کو قبول کر لیتے ہیں جو یقینی نہیں ہوتی اور اس میں غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال کسی آدمی کو قصاص میں قتل کرنا ہے۔ کوئی شخص جس پر یہ الزام لگایا جائے کہ اس نے کسی کو قتل کر کے اس کے مال پر قبضہ کر لیا ہے، اس سے پہلے اس کی جان اور مال دونوں کو قطعی اور یقینی حرمت حاصل ہوتی ہے، لیکن اگر قاضی کے سامنے دو عادل گواہ یہ گواہی دے دیں کہ اس نے قتل کیا ہے تو اس کی بنیاد پر اسے قصاص میں قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے، حالانکہ ان گواہوں کی گواہی کے یقینی طور پر درست ہونے کی کوئی ضمانت موجود نہیں اور ان کا جھوٹ بولنا یا گواہی میں غلطی کا مرتکب ہونا بھی عین ممکن ہے۔ (الام ۹/۱۳)
اس پوری بحث کا خلاصہ امام صاحب کے نزدیک یہ ہے کہ کسی چیز کے ثبوت کے ذرائع مختلف ہو سکتے ہیں اور ان میں قطعیت یا ظنیت کے اعتبار سے درجے کا واضح فرق ہو سکتا ہے، لیکن اگر کوئی ذریعہ فی نفسہ ایک قابل وثوق ذریعہ ہے تو اس پر فیصلے کا مدار رکھنا اور اسی نوعیت کا نتیجہ مرتب کرنا جو کسی قطعی اور یقینی ذریعے سے ثابت چیز پر رکھا جاتا ہے، علمی وعقلی طور پر بالکل درست ہے۔ لکھتے ہیں:
قلت: انما نعطی من وجہ الاحاطۃ او من جھۃ الخبر الصادق وجھۃ القیاس، واسبابھا عندنا مختلفۃ، وان اعطینا بھا کلھا فبعضھا اثبت من بعض، قال ومثل ماذا؟ قلت: اعطائی من الرجل باقرارہ وبالبینۃ وابائہ الیمین وحلف صاحبہ، والاقرار اقوی من البینۃ والبینۃ اقوی من اباء الیمین ویمین صاحبہ، ونحن وان اعطینا بھا عطاء واحدا فاسبابھا مختلفۃ (الام ۹/۶، ۷)
“میں نے کہا کہ ہم (عام معاملات زندگی میں بھی) کسی بات کے ثبوت کا فیصلہ قطعی اور شک سے پاک علم کی بنیاد پر بھی کرتے ہیں، سچی خبر کی بنیاد پر بھی اور قیاس کی بنیاد پر بھی۔ ہمارے نزدیک ثبوت کے ذرائع مختلف ہیں اور اگرچہ ہم ان سب کو فیصلے کی بنیاد بناتے ہیں، لیکن ان میں سے بعض ثبوت کے اعتبار سے بعض سے زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اس کی کوئی مثال دو۔ میں نے کہا کہ جیسے میں (بطور قاضی) ایک شخص کے خلاف اس کے اپنے اقرار کی بنیاد پر بھی فیصلہ کر سکتا ہوں، گواہ کی گواہی کی بنیاد پر بھی، ملزم کے قسم کھانے سے انکار کی بنیاد پر بھی اور مدعی کے قسم کھانے کی بنیاد پر بھی۔ اب ان میں سے ملزم کا اقرار، گواہ کی گواہی کے مقابلے میں، اور گواہی ملزم کے قسم کھانے سے انکار یا مدعی کے قسم کھانے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط بنیاد ہے۔ اور ہم اگرچہ ان سب بنیادوں پر ایک ہی طرح کا فیصلہ کرتے ہیں، لیکن ثبوت کے ذرائع درجے میں باہم متفاوت ہوتے ہیں۔”

ظاہر قرآن میں جواز تخصیص کی بنیادیں

قرآن کے ظاہری عموم میں سنت کی بیان کردہ تخصیصات کو نسخ اور تغییر کے بجائے توضیح مراد اور تبیین پر محمول کرنے کے لیے امام شافعی نے جو استدلال پیش کیا، اس کا بنیادی مقدمہ یہ تھا کہ عربی زبان کے اسالیب کے لحاظ سے عموم کا اسلوب بجائے خود ایک ایسا اسلوب ہے جو متعدد احتمالات رکھتا ہے اور جب تک قرائن سے یہ واضح نہ ہو کہ متکلم کی مراد کیا ہے، الفاظ کے عموم سے حتمی طور پر یہ سمجھنا کہ عموم مراد بھی ہے، درست نہیں۔ امام صاحب نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سنت میں وارد تخصیصات کی نوعیت بھی قرآن کی مراد کی توضیح وتبیین ہی کی ہے اور انھیں تبدیلی یا نسخ سمجھنا درست نہیں۔ تاہم اس نتیجے کو مانتے ہی ایک دوسرا سوال یہ سامنے آجاتا ہے کہ اگر کلام کا عموم اپنی دلالت میں قطعی نہیں اور ہر کلام تخصیص کا محتمل ہوتا ہے تو پھر کلام کے عموم سے استدلال کی اصولی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا وہ کوئی معنویت اور اہمیت نہیں رکھتا اور کسی بھی بنیاد پر حکم میں تخصیص پیداکی جا سکتی ہے؟
یہ سوال امام شافعی کے پیش نظر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ ان کے لیے قابل قبول نہیں، چنانچہ وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ کلام کے ظاہری عموم میں خصوص کا احتمال اسی وقت قابل توجہ ہوگا جب اس کے حق میں خود قرآن یا سنت میں دلیل موجود ہو۔ اگر خود قرآن کے اندر یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں تخصیص کا کوئی قرینہ نہ ہو تو ایسے عموم کو محض امکانی احتمال کی بنیاد پر ظاہر سے صرف کرنا درست نہیں ہوگا، کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کلام سرے سے اپنی دلالت سے ہی محروم ہو جائے گا۔ 
لکھتے ہیں:
وما کان ھکذا فھو الذی یقول لہ اظھر المعانی واعمھا واغلبھا والذی لو احتملت الآیۃ معانی سواہ کان ھو المعنی الذی یلزم اھل العلم القول بہ، الا ان تاتی سنۃ النبی علیہ الصلاۃ والسلام تدل علی معنی غیرہ مما تحتملہ الآیۃ فیقول ھذا معنی ما اراد اللہ تبارک وتعالی۔ قال الشافعی رحمۃ اللہ علیہ: ولا یقال بخاص فی کتاب اللہ تعالیٰ ولا سنۃ الا بدلالۃ فیھما او فی واحد منھما، ولا یقال بخاص حتی تکون الآیۃ تحتمل ان یکون ارید بھا ذلک الخاص، فاما ما لم تکن محتملۃ لہ فلا یقال فیھا بما لا تحتملہ الآیۃ (الام ۱/۸۹)
“جس حکم کی نوعیت یہ ہو، اسی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ آیت کا سب سے واضح، عام اور غالب معنی ہے اور اگر آیت اس کے علاوہ کچھ اور معنوں کا احتمال رکھتی ہو تو بھی اسے اسی (واضح اور غالب) معنی پر محمول کرنا اہل علم پر لازم ہے، الا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس کے علاوہ دوسرے معنی پر، جس کا آیت احتمال رکھتی ہے، دلالت کرے اور یہ بتائے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ معنی ہے۔ شافعی کہتے ہیں کہ اللہ کی کتاب یا رسول اللہ کی سنت میں کسی حکم کو خصوص پر محمول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ اس کی دلیل ان دونوں میں یا کسی ایک میں نہ پائی جائے۔ اسی طرح آیت کے حکم کو خصوص پر محمول نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ خود آیت اس کا احتمال نہ رکھتی ہو کہ اس کی مراد خاص ہے۔ اگر آیت خصوص کا احتمال نہ رکھتی ہو تو غیر محتمل معنی پر آیت کو محمول نہیں کیا جائے گا۔”
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
القرآن عربی کما وصفت والاحکام فیہ علی ظاھرھا وعمومھا، لیس لاحد ان یحیل منھا ظاھرا الی باطن ولا عاما الی خاص الا بدلالۃ من کتاب اللہ، فان لم تکن فسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تدل علی انہ خاص دون عام او باطن دون ظاھر، او اجماع من عامۃ العلماءالذین لا یجھلون کلھم کتابا ولا سنۃ، وھکذا السنۃ۔ ولو جاز فی الحدیث ان یحال شیء منہ علی ظاھرہ الی معنی باطن یحتملہ کان اکثر الحدیث یحتمل عددا من المعانی، ولا یکون لاحد ذھب الی معنی منھا حجۃ علی احد ذھب الی معنی غیرہ، ولکن الحق فیھا واحد لانھا علی ظاھرھا وعمومھا، الا بدلالۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او قول عامۃ اھل العلم بانھا علی خاص دون عام وباطن دون ظاھر، اذا کانت اذا صرفت الیہ عن ظاھرھا محتملۃ للدخول فی معناہ (الام ۱٠/۲۱، ۲۲)
“قرآن، جیسا کہ میں نے بیان کیا، عربی ہے اور اس کے احکام ظاہری معنی پر اور عموم پر محمول ہیں اور کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کے ظاہری معنی میں تاویل کرے یا عام حکم کو خاص قرار دے، جب تک کہ اس پر اللہ کی کتاب میں دلیل موجود نہ ہو۔ اگر کتاب اللہ میں دلیل نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس پر دلالت کرتی ہو کہ یہ حکم خاص ہے، عام نہیں یا اس کے ظاہری معنی کے علاوہ دوسرا معنی مراد ہے۔ یا پھر اکثر اہل علم کا اس پر اتفاق ہو جو سب کے سب کتاب اور سنت کی مراد سے ناواقف نہیں ہو سکتے۔ یہی حکم سنت میں وارد احکام کا ہے۔ اگر کسی حدیث کو ظاہری معنی سے ہٹا کر کسی دوسرے معنی پر محمول کرنا،جس کا وہ احتمال رکھتی ہو، جائز ہو تو اکثر احادیث متعدد معانی کا احتمال رکھتی ہیں۔ ایسی صورت میں جو شخص ان میں سے جو بھی معنی اختیار کرے گا، اس کے پاس دوسرے کے مقابلے میں، جس نے کوئی دوسرا معنی اختیار کیا ہے، کوئی دلیل نہیں ہوگی۔ لیکن حدیث کا صحیح مفہوم ایک ہی ہے، کیونکہ احادیث اپنے ظاہری معنی اور عموم پر ہی محمول ہیں، الا یہ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (کسی دوسری حدیث میں) یا اکثر اہل علم کی رائے سے اس کی وضاحت ہوتی ہو کہ وہ عام نہیں، بلکہ خاص ہے اور اس کا ظاہری معنی نہیں، بلکہ کوئی دوسرا معنی مراد ہے۔ اس میں یہ شرط ہے کہ اگر حدیث کو ظاہری معنی سے ہٹا کر جس معنی پر محمول کیا جائے، حدیث اس کا احتمال رکھتی ہو۔”
ایک اور بحث میں لکھتے ہیں:
قال الشافعی : فاذا لم تکن سنۃ وکان القرآن محتملا فوجدنا قول اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم واجماع اھل العلم یدل علی بعض المعانی دون بعض قلنا: ھم اعلم بکتاب اللہ عزوجل وقولھم غیر مخالف ان شاءاللہ کتاب اللہ، وما لم یکن فیہ سنۃ ولا قول اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا اجماع یدل منہ علی ما وصفت من بعض المعانی دون بعض فھو علی ظھورہ وعمومہ لا یخص منہ شیء دون شیئ، وما اختلف فیہ بعض اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم اخذنا منہ باشبھہ بظاھر القرآن (الام ۸/۵۵)
“اگر کسی مسئلے میں سنت تو نہ ہو اور قرآن (تخصیص کا) احتمال رکھتا ہو، اور ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا قول یا اہل علم کی اجماعی رائے مل جائے جو مختلف احتمالات میں سے ایک احتمال کو متعین کرتی ہو تو ہم کہیں گے کہ یہ لوگ اللہ کی کتاب کا زیادہ علم رکھتے ہیں اور ان کی بات اللہ نے چاہا تو کتاب اللہ کے خلاف نہیں۔ لیکن اگر کسی مسئلے میں سنت بھی نہ ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا قول اور اجماع بھی نہ ہو جو مختلف احتمالات میں سے ایک احتمال کو متعین کرتا ہو تو ایسا حکم اپنے ظاہری معنی اور اپنے عموم پر برقرار رہے گا اور اس میں کسی چیز کی تخصیص نہیں کی جائے گی۔ اور جس مسئلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا اختلاف ہو تو اس میں ہم وہ بات قبول کریں گے جو ظاہر قرآن کے زیادہ مطابق ہو۔”
مذکورہ اقتباسات اوران کے علاوہ متعلقہ مثالوں میں امام شافعی کی توجیہات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے نقطہ نظر سے آیت یا حدیث کے ظاہری عموم میں تخصیص کی درج ذیل بنیادیں متعین کی جا سکتی ہیں:
۱۔ قرآن مجید یا حدیث میں حکم کے سیاق سے مخاطب کی تحدید واضح ہو۔
مثلاً یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی (البقرة ۲: ۱۷۸) میں ابتدائے خطاب ہی سے واضح ہے کہ اس کے مخاطب مسلمان ہیں، چنانچہ اسے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے مابین قصاص کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
۲۔ حکم کے داخلی قرائن، جو لفظی بھی ہو سکتے ہیں اور عقلی بھی، اس کے دائرہ اطلاق کی تحدید کو واضح کر رہے ہوں۔ 
مثلاً وَحُرِّمَ عَلَیکم صید البر ما دمتم حُرُماً (المائدہ ۹۶:۵) کے الفاظ سے واضح ہے کہ یہاں ان جانوروں کی حرمت بیان کرنا مقصود ہے جو احرام سے پہلے خوراک کے لیے حلال تھے، اور وہ جانور زیر بحث نہیں جو ویسے بھی حرام ہیں، کیونکہ ان کی حرمت کے لیے سابقہ حکم ہی کافی تھا۔ (الام ۳/۴۶۴، ۴۶۵) چونکہ درندوں اور دیگر موذی جانوروں کو قتل کرنے سے روکنا آیت کی مراد نہیں ہے، اس لیے حدیث میں پانچ موذی جانوروںکو حدود حرم کے اندر اور باہر قتل کرنے کی جو اباحت بیان کی گئی ہے، اس سے قرآن کی ممانعت میں کوئی استثناءیا تخصیص بھی واقع نہیں ہوتی۔ 
اسی طرح قرآن مجید میں چار عورتوں سے نکاح کے جواز (النساء۴: ۳) کے مخاطب آزاد مرد ہیں نہ کہ غلام، کیونکہ اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا اختیار آزاد مردوں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی دوسری دلیل سے غلام کے لیے بیویوں کی تحدید چار سے کم ثابت ہو تو اسے قرآن کی تخصیص نہیں کہا جا سکتا۔
۳۔ نصوص میں مذکور دیگر احکام پر قیاس سے واضح ہو رہا ہو کہ کسی حکم میں عموم سے خصوص مراد ہے۔ 
اس کی مثال غلام اور باندی کی طلاق اور عدت کے مسائل ہیں۔ قرآن مجید میں مردوں کے لیے تین تک طلاقوں کا اختیار بیان کیا، (البقرة ۲: ۲۲۸، ۲۲۹) جبکہ عورتوں کو تین قروء(البقرة ۲: ۲۲۷) یا تین مہینوں تک (الطلاق ۶۵:۴) عدت گزارنے کی ہدایت کی ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ احکام اس کا بھی احتمال رکھتے ہیں کہ ان سے مراد عموم ہو اور آزاد مردوں اور عورتوں کے ساتھ غلاموں اور باندیوں کے لیے بھی یہی حکم ہو، اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کا اطلاق صرف آزاد مرد وعورت پر مقصود ہو۔ اب ہم نے بعض دیگر احکام میں دیکھا کہ شریعت نے آزاد اور غلام میں فرق کیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے غلاموں کے لیے زنا کی سزا آزاد مرد وعورت سے نصف مقرر کی ہے۔ (النساء۴: ۲۵) اسی طرح بعض اجماعی مسائل سے بھی یہ فرق ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً غلاموں کی گواہی قابل قبول نہیں اور وہ ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے وراثت کے حق دار بھی نہیں۔ اسی طرح اس پر اجماع ہے کہ شادی شدہ غلام کو بدکاری کرنے پر سنگسار نہیں کیا جائے گا۔ 
ان تمام دلائل پر قیاس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ باندی کے لیے طلاق اور عدت کے احکام بھی آزاد عورت سے مختلف ہونے چاہییں۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باندی کے لیے استبراءرحم کا طریقہ ایک ماہواری گزارنے کو قرار دیا ہے (جو اس لحاظ سے آزاد عورت سے مختلف ہے کہ امام شافعی کے نزدیک آزاد عورت کی عدت ماہواری کے لحاظ سے نہیں، بلکہ طہر کے لحاظ سے ہوتی ہے) ، اس لیے مذکورہ احکام پر قیاس کرتے ہوئے اہل علم کا اجماع ہے کہ باندی کی طلاقوں کی تعداد اور عدت کا دورانیہ بھی آزاد عورت سے نصف یعنی دو طلاقیں اور دو ماہواریاں ہے۔ (الام ۶/۵۵٠، ۵۵۱) 
۳۔ ایک ہی مسئلے سے متعلق وارد مختلف احکام، جو قرآن میں بھی ہو سکتے ہیں اور سنت میں بھی، باہم ایک دوسرے کے ظاہری عموم کی تخصیص کر رہے ہوں۔ 
مثلاً زانی کے لیے سو کوڑوں کی سزا کو آزاد مردوں اور عورتوں کے ساتھ مخصوص کرنے کی دلیل قرآن مجید میں ہی موجودہے، جبکہ شادی شدہ زانی کے لیے کوڑوں کے بجائے رجم کی سزا سنت میں بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح ’النفس بالنفس‘ (المائدہ ۴۵:۵) میں قصاص کا حکم بظاہر عام ہے، تاہم حدیث کی رو سے مسلمان سے غیر مسلم کا قصاص نہیں لیا جا سکتا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ’النفس بالنفس‘  سے مراد ایسے دو افراد کے مابین قصاص ہے جن کی جانیں حرمت کے اعتبار سے مساوی ہوں۔
۴۔ صحابہ کے اقوال سے ظاہری عموم کو خصوص پر محمول کرنا ثابت ہو یا اہل علم کا اجماعی فہم یہ بتاتا ہو کہ قرآن کا ظاہری معنی یا ظاہری عموم مراد نہیں۔ 
مثال کے طور پر قرآن مجید کے حکم: وان کن اولات حمل فانفقوا علیھم حتی یضعن حملھن (الطلاق ۶:۶۵) کی دلالت اس پر واضح ہے کہ حاملہ مطلقہ کے علاوہ کوئی دوسری مطلقہ دوران عدت میں نفقہ کی حق دار نہیں۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے مطابق فاطمہ کو، جنھیں ان کے شوہر نے تین طلاقیں دے دی تھیں، نفقہ کا حق دار تسلیم نہیں کیا۔ یہی حکم ایسی مطلقہ کا بھی ہونا چاہیے جسے رجعی طلاق دی گئی ہو، تاہم اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ مطلقہ رجعیہ کا شوہر دوران عدت میں اسے نفقہ دینے کا پابند ہے۔ اگر یہاں مطلقہ رجعیہ کو نفقہ دیے جانے پر اہل علم کا اجماع نہ ہو تو قرآن کے ظاہر کی رو سے وہ نفقے کی حق دا رنہیں بنتی۔ (الام، ۶/۲۸٠)
اسی طرح قصاص کی آیت میں الحر بالحر والعبد بالعبد والانثی بالانثی (البقرة ۲: ۱۷۸) کے الفاظ کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ عورت کو عورت ہی کے بدلے میں قتل کیا جائے، یعنی اگر عورت کسی مرد کو یا مرد کسی عورت کو قتل کر دے تو ان کے مابین قصاص نہیں ہوگا۔ تاہم چونکہ امت کے اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ عورت کو مرد کے اور مرد کو عورت کے قصاص میں قتل کیا جائے گا، اس لیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کا یہ ظاہری معنی مراد نہیں۔ امام شافعی نے شان نزول کی روایات کی روشنی میں آیت کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں عورت کو عورت کے بدلے میں قتل کرنے کی تخصیص اس واقعاتی تناظر میں کی گئی ہے جس میں یہ آیت نازل ہوئی تھی، کیونکہ عرب کے بعض قبائل خود کو دوسروں سے افضل تصور کرتے تھے اور اگر کسی دوسرے قبیلے کی عورت ان کے کسی فرد کو قتل کر دیتی تو وہ بدلے میں اس عورت کے بجائے اسی قبیلے کے کسی مرد کو قتل کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے افضلیت کے اس تصور کی نفی کی ہے اور فرمایا ہے کہ جس عورت نے قتل کیا ہے، اسی عورت کو قتل کیا جائے گا۔ (الام ۷/۱۶٠، ۱۶۱)
تاہم صحابہ یا دیگر اہل علم کے مابین اختلاف کی صورت میں امام شافعی صحابی کی رائے کی بنیاد پر حدیث کی تخصیص کے جواز کے قائل نہیں۔ چنانچہ معاذ بن جبل اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کی رائے یہ تھی کہ حدیث میں مسلمان کے، کافر کا وارث بننے کی جو ممانعت آئی ہے، وہ صرف مشرکین سے متعلق ہے، جبکہ اہل کتاب کی وراثت مسلمان کو مل سکتی ہے۔ امام شافعی اس مسئلے میں اور ایسی تمام مثالوں میں متعلقہ آیات واحادیث کو ان کے عموم پر برقرار رکھتے ہیں اور بعض صحابہ کی رائے کی وجہ سے ان کی تخصیص کو درست نہیں سمجھتے۔ (الام ۷/۴۲۴؛ ۹/۱۳۶)
۵۔ اگر حدیث کو نقل کرنے والا راوی یہ تصریح کرے کہ اس حکم کا تعلق فلاں مخصوص صورت سے ہے تو امام شافعی، حدیث کی حد تک، اسے جواز تخصیص کا ایک قرینہ تسلیم کرتے ہیں۔ (الام ۱٠/۴٠) مثلاً قضاءبالیمین مع الشاہد کی روایت میں حدیث کے ایک راوی، عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ مالی امور سے متعلق مقدمے میں فرمایا تھا۔ چونکہ فیصلے کا اصل طریقہ دو گواہ ہی ہے، جبکہ قضاءبالیمین مع الشاہد کی نوعیت استثنائی حکم کی ہے، اس لیے اسے اسی نوعیت کے مقدمے میں اختیار کیا جائے گا جس میں آپ نے اختیار فرمایا۔ (الام ۸/۱۶)

خلاصہ مباحث

کتاب وسنت کے باہمی تعلق کو امام شافعی نے جس طرح متعین کیا ہے، اس کے بنیادی نکات یہ ہیں:
۱۔ بیان احکام میں کتاب اللہ کو اصل کی حیثیت حاصل ہے اور سنت کا وظیفہ قرآن کے احکام کی تفصیل وتوضیح اور ان سے مزید احکام کا استنباط ہے۔ 
۲۔ سنت میں بیان ہونے والے ایسے احکام جو قرآن سے زائد ہیں، یا تو وحی کے ذریعے سے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو بتائے گئے اور یا کتاب اللہ سے ہی مستنبط ہیں۔
۳۔ قرآن مجید میں عموم کے اسلوب میں بیان کیے جانے والے احکام کی نوعیتیں مختلف ہیں۔ بعض جگہ یقینا عموم مراد ہوتا ہے، لیکن بہت سے مقامات پر سیاق وسباق اور عقلی قرائن سے واضح ہو رہا ہوتا ہے کہ فلاں اور فلاں صورتیں عموم کے تحت داخل نہیں۔ اسی طرح بعض جگہ قرائن اور دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ دراصل کچھ مخصوص افراد کا ذکر عموم کے الفاظ سے کیا گیا ہے۔ 
۴۔ چونکہ عموم کا اسلوب ارادئہ عموم میں قطعی نہیں، بلکہ محتمل ہوتا ہے، اس لیے جب خود متکلم کی طرف سے کسی مستند دلیل سے کلام کی تخصیص ثابت ہو جائے تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عموم، متکلم کی مراد نہیں تھا۔ چنانچہ ایسی تخصیص کو مراد ِ متکلم میں تبدیلی یا تغییر نہیں کہا جائے گا، بلکہ اس کی نوعیت متکلم کی مراد کی وضاحت کی ہوگی۔یوں سنت میں وارد تمام تخصیصات قرآن کی مراد کی وضاحت اور بیان ہی کا درجہ رکھتی ہیں۔ 
۵۔ کتاب اللہ اور سنت،دونوں کا منبع ایک ہی چیز یعنی وحی الٰہی ہے، اس لیے اطاعت واتباع کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ جیسے قرآن میں الفاظ عموم میں بیان ہونے والے حکم میں تخصیص کی وضاحت قرآن مجید کی کوئی دوسری آیت کر سکتی ہے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کوئی حدیث بھی کر سکتی ہے۔ 
۶۔ عموم پر مبنی اصل حکم کا قطعیت سے ثابت ہونا اور تخصیص کا کسی ظنی دلیل یعنی خبر واحد سے ثابت ہونا درست ہے، اس لیے کہ انسان کو عملی زندگی میں قطع ویقین کے ساتھ ساتھ ظن غالب کا بھی مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ ظنی درجے میں ہی سہی، کسی حدیث کی صحت ثابت ہو جائے تو اس کے ذریعے سے قرآن کے عام حکم کی تخصیص کرنا جائز ہے۔
۷۔ سنت کے ذریعے سے قرآن کے حکم کی، اور اسی طرح قرآن کے ذریعے سے سنت کے کسی حکم کی تنسیخ نہیں کی جا سکتی۔ یہ ضروری ہے کہ کتاب اللہ میں وارد حکم کا ناسخ بھی کتاب اللہ میں ہی ہو اور سنت کے کسی حکم کا ناسخ بھی سنت میں ہی بیان ہوا ہو۔
۸۔ ارادہ عموم کے خلاف کوئی دلیل یا قرینہ نہ ہونے کی صورت میں اسے اپنے ظاہری عموم پر برقرار رکھنا ضروری ہے، چنانچہ خود قرآن یا حدیث میں جب تک کسی حکم کی تخصیص کی دلیل موجود نہ ہو، محض رائے سے کسی منصوص حکم کی تخصیص نہیں کی جا سکتی۔

حواشی

(۱) امام شافعی کہتے ہیں کہ ہم وارجلکم کو نصب کے ساتھ ہی پڑھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پاوؤں کا حکم بھی وہی ہے جو چہرے اور بازوؤں کا ہے۔ تاہم امام شافعی کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس امکان کو بھی مدنظر رکھتے ہیں کہ اَرجُلَکُم کا تعلق وَامسَحُوا کے ساتھ ہو۔ یوں پاوؤں کا حکم غسل بھی ہو سکتا ہے اور مسح بھی۔ (الام ۱/۲۹، ۳٠)
(۲) یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ امام شافعی ربا الفضل یعنی ہم جنس چیزوں کے باہمی تبادلے میں کمی بیشی اور ادھار کی ممانعت کو قرآن مجید میں ممنوع ’الربا‘ میں داخل یا اس کی توسیع تصور نہیں کرتے۔ یعنی یہ ممانعت ان کے فہم کے مطابق نہ الربا کے براہ راست مصداق میں شامل ہے اور نہ اس کی قیاسی توسیع کا نتیجہ ہے۔ قرآن کے الربا کو وہ قرض ہی سے متعلق سمجھتے ہیں، جبکہ سنت میں مذکور ربا الفضل ان کے نزدیک بیع کی مختلف ممنوعہ صورتوں میں سے ایک صورت ہے جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے۔ 

مئی ۲۰۱۹ء

جنسی ہراسانی، صنفی مساوات اور مذہبی اخلاقیاتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۳)ڈاکٹر محی الدین غازی
قومیت بطور مذہبڈاکٹر عرفان شہزاد
بین المسالک ہم آہنگی کے حوالے سے ایک خوشگوار تبدیلیمحمد یونس قاسمی
دہشت گردی کے حوالہ سے عدالت عظمیٰ کا مستحسن فیصلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تعلیمی نظام کے حوالے سے چیف جسٹس کے ارشاداتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۵)محمد عمار خان ناصر
مولانا مودودی کا تصورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (١)مراد علوی

جنسی ہراسانی، صنفی مساوات اور مذہبی اخلاقیات

محمد عمار خان ناصر

’’خواتین کو گڈ مارننگ کے مسیج بھیجنا ہراسمنٹ ہے”، یہ بات ہمارے کلچر میں درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کسی خاتون سے بلا ضرورت بے تکلف ہونے کی خواہش کا آئینہ دار ہے جس میں مستور جنسی کشش کے پیغام کا خاتون محسوس کر لیتی ہے اور یوں یہ ایک ابتدائی نوعیت کی ’’ہراسمنٹ ” بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے، اس میں تعلق کی نوعیت اور دیگر فوارق کے شامل ہونے سے صورت حال مختلف بھی ہو سکتی ہے، لیکن اپنے اصل سیاق وسباق میں یہ شکایت درست ہے۔
البتہ یہ بات جو ہمارے ہاں صرف حقوق نسواں کے پہلو سے کہی جا رہی ہے، مذہبی اخلاقیات میں وہی بات حیا اور طہارت نفس کے پہلو سے کہی جاتی ہے اور خواتین کسی طرز عمل کو ’’ہراسمنٹ ” نہ بھی سمجھیں، لیکن اخلاقی طہارت کے پہلو سے وہ قابل اعتراض ہو تو دینی اخلاقیات اس سے بھی منع کرتی ہے۔ فقہاء اسی پہلو سے سلام کرنے میں نوجوان اور عمر رسیدہ خاتون کا فرق واضح کرتے ہیں۔ جان پہچان اور کسی ضرورت کے بغیر نوجوان خاتون کو سلام کرنا اظہار بے تکلفی کی ایک صورت ہو سکتی ہے جو پسندیدہ نہیں۔ دینی اخلاقیات میں دوسری بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ خواتین بھی اپنے طرز عمل میں ایسا رویہ اختیار کریں کہ اس سے ’’بے تکلفی” کی خواہش رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ ان کا لب ولہجہ ایسا نرم نہیں ہونا چاہیے کہ دل میں کوئی بری خواہش بیدار ہو، اور لباس اور زیب وزینت میں modesty اپنانی چاہیے تاکہ ان کا ظاہری سراپا ’’ہراسمنٹ ” کی دعوت نہ دیتا ہو۔ اسی نکتے کے پیش نظر مذہبی اخلاقیات میں، مثال کے طور پر، اجتماعی عبادت وغیرہ میں خواتین کو کردار نہیں دیا گیا، بلکہ اسے مردوں کے لیے خاص رکھا گیا ہے۔ اس کی حکمت حیا اور عبادت کے تقدس کے پہلو سے تو ہے ہی، غور کیا جائے تو ’’ہراسمنٹ ” کے اصول پر بھی اس کی معنویت پوری طرح سمجھی جا سکتی ہے۔ فرض کریں، ایک خاتون نماز کی امامت یا جمعے کے خطبے کے لیے مردوں کے آگے کھڑی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عبادت کے جذبے کے ساتھ جنسی کشش کے احساسات اس میں شامل نہ ہوں؟ اور اگر گڈ مارننگ کے پیغام سے ایک خاتون ہراسمنٹ محسوس کرتی ہے تو پیچھے صف میں کھڑے نمازیوں یا سامنے بیٹھے ہوئے سامعین خطبہ کی نگاہوں سے اسے یہ پیغام نہیں ملے گا؟
’’ہراسمنٹ ” کی بحث سے یہ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ انسانی معاشرے میں عموما خواتین کیوں less empowered رہی ہیں۔ مرد وزن کی مطلق مساوات کے علم بردار مفکرین حیران ہیں کہ (ان کی تعبیر کے مطابق) حیاتیاتی اعتبار سے یا ذہنی وجسمانی صلاحیتوں کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہ ہونے کے باوجود ایسا کیونکر ہوا کہ سماجی آزادیوں اور اختیارات کے پہلو سے عمومی طور پر انسانی معاشروں میں مردوں کو ترجیحی پوزیشن حاصل ہو گئی اور خواتین کو کئی حوالوں سے برابر کا مقام نہ مل سکا۔ یہ حضرات اس سامنے کی حقیقت کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں کہ عورت حیاتیاتی اعتبار سے مرد کے لیے جنسی کشش کا مرکز اور اس کی جبلی جنسی جارحیت کا ہدف ہے۔ جس طرح مرد کے لاکھوں سپرم نسوانی بیضے کو بارآور کرنے کے لیے باہم حریف ہوتے ہیں، اسی طرح جنسی کشش ثقل کے قانون کے تحت، جو ہرگز کوئی سماجی تشکیل  نہیں بلکہ ایک حیاتیاتی جبر ہے، معاشرتی تعامل میں بھی مرد کا رویہ جنسی جارحیت کا مظہر ہوتا ہے، وہ جبلی طور پر خواتین تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں اور خواتین کو اس کے مقابلے میں ’’حفاظت ” کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
روایتی انسانی معاشروں اور مذہبی اخلاقیات میں اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے اختلاط مرد وزن پر مختلف قدغنیں عائد کی گئیں جن کا ایک نتیجہ سماجی ذمہ داریوں میں ناگزیر امتیاز کی صورت میں نکلا، اگرچہ انسانی مزاجوں میں عدم توازن کی عمومی خصوصیت کے تحت اس امتیاز نے بہت ناروا شکلیں بھی اختیار کرلیں۔ دور جدید میں انسانی سماج کے ارتقا اور اس کی تشکیل وتنظیم کے اصولوں میں بہت سی تبدیلیوں کی وجہ سے مردوں اور عورتوں کے سماجی حقوق واختیارات میں پائے جانے والی خلیج کو کم کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں جن سے یقینا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن اس کی بنیاد ضروری اور فطری امتیازات کی نفی اور مطلق مساوات کے فلسفے کو بنانا غیر فطری بھی ہے  اور اس نے خواتین کی نفسیات اور پورے سماجی وسیاسی نظام  کو بھی  ناقابل تحمل  دبا و  کا شکار بنا دیا ہے۔  فیمنزم کے فلسفے نے  اپنی انتہائی صورت میں ایک  ایسی شکل اختیار کر لی ہے  جس میں  شکایت، نفرت اور احتجاج کا  روئے سخن  انسانی فکر اور معاشرتی نظاموں سے بھی آگے بڑھ کر  خود فطرت  کی طرف ہو چکا ہے۔  نسوانی آزادی کے اس nihilistic تصور  میں مرد اور عورت کے رشتے میں کوئی مثبت  پہلو باقی ہی نہیں رہا، وہ صرف  جبر، استحصال اور  subjugation کا استعارہ بن گیا ہے، کیونکہ  معاشرتی نظاموں میں مساوات کو جتنی بھی اہمیت دے دی جائے،   مرد اور عورت کے جنسی رشتے میں  ، جو  دونوں صنفوں میں  خود شناسی کا بہت بنیادی حوالہ ہے،  یہ مساوات پیدا کرنا ممکن ہی نہیں۔  اس احساس کےزیر اثر پہلے صرف  سماج میں عدم مساوات مسئلہ تھی، پھر خاندان کا ادارہ اسی فتوے کی زد میں آیا اور اب   ٹیکنالوجی کی مدد سے  صنفین میں جنسی تعلق سے بھی خلاصی حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے    اور مصنوعی مشینی سیکس پارٹنرز  تیار کیے جا رہے ہیں تاکہ  خواتین کو جنسی عمل میں   مردوں کی طرف سے dominance کی اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ صورت حال ہمیں متوجہ کرتی ہے کہ ہم انسانی معاشرے کی بہتری کے لیے  تاریخی جدلیات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فلسفوں اور افکار  سے محتاط استفادے کے ساتھ ساتھ اللہ کے پیغمبروں کے طریق اصلاح کو  اپنا بنیادی راہ نما بنائیں۔  اللہ کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب معاشرے کے تین پسے ہوئے اور مظلوم طبقوں  یعنی غلام لونڈیوں، عورتوں اور یتامی ومساکین کو اٹھایا اور انھیں ان کے حقوق دلوائے، لیکن اس طرح نہیں کہ غلاموں کو آقاوں کے خلاف، عورتوں کو مردوں کے خلاف اور فقرا کو اصحاب ثروت کے خلاف بھڑکا کر ایک دوسرے کا مد مقابل بنا دیا ہو۔ یہ طریقہ کوتاہ نظر طبقاتی لیڈروں کا ہوتا ہے جن کے جوش وخروش میں ذاتی محرومیوں کا غصہ شامل ہوتا ہے۔  اللہ کا نبی کسی ایک طبقے کا نہیں، پوری انسانیت کا نبی ہوتا ہے۔ اسے آقا کی فلاح سے بھی اتنی ہی غرض ہے جتنی غلام کی، مردوں کی کامیابی بھی اتنی ہی عزیز ہے جتنی عورتوں کی اور مال داروں کا حسن انجام بھی اتنا ہی محبوب ہے جتنا فقراء ومساکین کا۔ کیونکہ نبی اس پروردگار کا انتخاب ہوتا ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے اور اپنی ساری مخلوق کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دینا چاہتا ہے۔  

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۶۱) کلا بمعنی ألا

لغت میں کلا کا مشہور مفہوم تو شدید نفی اور زجر وردع کا ہے، اردو میں اس کے لیے ہرگز نہیں اور نہیں نہیں کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے۔ عام طور سے اس سے پہلے ایسی کوئی بات سیاق کلام میں موجود ہوتی ہے جس کی شدت کے ساتھ نفی کی جاتی ہے۔ تاہم قرآن مجید میں بہت سے مواقع ایسے ہیں جہاں موقع کلام’’ ہرگز نہیں‘‘ کے بجائے کسی دیگر مفہوم کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ سیاق کلام میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی ہے جس کی نفی کرنے کا محل ہو۔ اس دیگر مفہوم کے بارے میں بعض ائمہ نحو کا خیال ہے کہ حقا یعنی بیشک کا مفہوم ہے، بعض کا خیال ہے کہ ای ونعم یعنی ہاں ہاں کا مفہوم ہے، اور بعض کا خیال ہے کہ ألا یعنی سنو اور آگاہ ہوجاؤ کا مفہوم ہے۔ ابن ہشام نے مغنی اللبیب میں دلائل کے ساتھ اس آخری مفہوم کو ترجیح دی ہے، ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ مفہوم اکثر جگہ موزوں ہوجاتا ہے۔ (لأنہ اکثر اطرادا)۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی بھی اسی کے قائل ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اردو مترجمین قرآن کے یہاں مذکورہ بالا تمام مفہوم ملتے ہیں۔ البتہ مشہور مترجمین میں شاہ عبدالقادر ، شاہ رفیع الدین ،اشرف علی تھانوی ، سید مودودی اور امین احسن اصلاحی وغیرہ ایسی تمام جگہوں پر کلا کا ترجمہ’’ہرگز نہیں ‘‘ یا ’’کوئی نہیں‘‘ کرتے ہیں، اور چونکہ متعدد مقامات پر سیاق میں ایسی کوئی بات مذکور نہیں ہے جس کی نفی کی جائے اس لیے ایسی کسی بات کو محذوف مان لیا جاتاہے اور تفسیر میں اس کی وضاحت کردی جاتی ہے، اس وضاحت میں بھی بسا اوقات تکلف ظاہر ہوتا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کلا کا ترجمہ سنو یا آگاہ ہوجاؤ کیا جائے تو کلام کا مفہوم بالکل واضح اور بے تکلف رہتا ہے، اور کسی بات کو محذوف ماننے کی ضرورت بھی نہیں رہتی ہے۔ کچھ مثالیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔
کَلَّا إِنَّ کِتَابَ الفُجَّارِ لَفِیْ سِجِّیْنٍ۔ (المطفّفین: 7)
’’ہرگز نہیں، یقیناًبد کاروں کا نامہ اعمال قید خانے کے دفتر میں ہے‘‘ (سید مودودی)
’’بیشک کافروں کی لکھت سب سے نیچی جگہ سجین میں ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’سن رکھو کہ بدکارروں کے اعمال سجّین میں ہیں‘‘ (فتح محمد جالندھری)
کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ۔ کَلَّا إِنَّہُمْ عَن رَّبِّہِمْ یَوْمَئذٍ لَّمَحْجُوبُونَ۔ (المطفّفین: 14، 15)
’’ہرگز نہیں، بلکہ دراصل اِن لوگوں کے دلوں پر اِن کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے. ہرگز نہیں، بالیقین اُس روز یہ اپنے رب کی دید سے محروم رکھے جائیں گے‘‘ (سید مودودی)
’’کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے ان کی کمائیوں نے۔ ہاں ہاں بیشک وہ اس دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہیں‘‘ (احمد رضا خان)
’’دیکھو یہ جو (اعمال بد) کرتے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے۔ بیشک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار (کے دیدار) سے اوٹ میں ہوں گے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
کَلَّا إِنَّ کِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِیْ عِلِّیِّیْن۔ (المطفّفین: 18)
’’ہرگز نہیں، بیشک نیک آدمیوں کا نامہ اعمال بلند پایہ لوگوں کے دفتر میں ہے‘‘ (سید مودودی)
’’ہاں ہاں بیشک نیکوں کی لکھت سب سے اونچا محل علیین میں ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’(یہ بھی) سن رکھو کہ نیکوکاروں کے اعمال علیین میں ہیں‘‘ (فتح محمد جالندھری)
کَلَّا إِذَا دُکَّتِ الْأَرْضُ دَکّاً دَکّاً۔ (الفجر: 21)
’’ہرگز نہیں، جب زمین پے در پے کوٹ کوٹ کر ریگ زار بنا دی جائے گی‘‘ (سید مودودی)
’’ہاں ہاں جب زمین ٹکرا کر پاش پاش کردی جائے‘‘ (احمد رضا خان)
’’یقیناً جس وقت زمین کوٹ کوٹ کر برابر کر دی جائے گی‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’یاد رکھو کہ جب زمین کو ریزہ ریزہ کردیا جائے گا‘‘ (ذیشان جوادی)
کَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَیَطْغَی۔ (العلق: 6)
’’ہرگز نہیں، انسان سرکشی کرتا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’ہاں ہاں بیشک آدمی سرکشی کرتا ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
کَلَّا لَئن لَّمْ یَنتَہِ لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِیَۃِ۔ (العلق: 15)
’’ہرگز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے‘‘ (سید مودودی)
’’ہاں ہاں اگر باز نہ آیا تو ضرور ہم پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں گے‘‘ (احمد رضا خان)
’’یقیناً اگر یہ باز نہ رہا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’دیکھو اگر وہ باز نہ آئے گا تو ہم (اس کی) پیشانی کے بال پکڑ گھسیٹیں گے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
کَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب۔ (العلق: 19)
’’ہرگز نہیں، اْس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو‘‘ (سید مودودی)
’’ہاں ہاں، اس کی نہ سنو اور سجدہ کرو اور ہم سے قریب ہوجاؤ‘‘ (احمد رضا خان)
’’دیکھو اس کا کہا نہ ماننا اور قربِ (خدا) حاصل کرتے رہنا‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
کَلَّا إِنَّہُ تَذْکِرَۃٌ۔ (المدثر: 54)
’’ہرگز نہیں، یہ تو ایک نصیحت ہے‘‘ (سید مودودی)
’’ہاں ہاں بیشک وہ نصیحت ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’کچھ شک نہیں کہ یہ نصیحت ہے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
کَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَۃَ۔ (القیامۃ: 20)
’’ہرگز نہیں، اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت رکھتے ہو‘‘ (سید مودودی)
’’کوئی نہیں بلکہ اے کافرو! تم پاؤں تلے کی (دنیاوی فائدے کو) عزیز دوست رکھتے ہو‘‘ (احمد رضا خان)
’’مگر (لوگو) تم دنیا کو دوست رکھتے ہو‘‘ (فتح محمد جالندھری)
کَلَّا إِذَا بَلَغَتْ التَّرَاقِیَ۔ (القیامۃ: 26)
’’ہرگز نہیں، جب جان حلق تک پہنچ جائے گی‘‘ (سید مودودی)
’’ہاں ہاں جب جان گلے کو پہنچ جائے گی‘‘ (احمد رضا خان)
’’دیکھو جب جان گلے تک پہنچ جائے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
’’ہوشیار جب جان گردن تک پہنچ جائے گی‘‘ (ذیشان جوادی)
اس سلسلے میں ایک مددگار پہلو یہ ہے کہ جب ہم قرآن مجید میں ألا کے استعمالات دیکھتے ہیں تو وہ بالکل ویسے ہی مقامات ہیں جہاں کلا بمعنی ألا استعمال ہوا ہے۔ اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کلا اور ألا جگہ جگہ بالکل ایک مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔
وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ۔ أَلا إِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِن لاَّ یَشْعُرُونَ۔ وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ آمِنُواْ کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَہَاء أَلا إِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَاء وَلَکِن لاَّ یَعْلَمُونَ ( البقرۃ: 11 ۔ 13)
’’اور جب کہئے ان کو فساد نہ ڈالو ملک میں، کہیں ہمارا کام تو سنوار ہے،سن رکھو وہی ہیں بگاڑنے والے، پر نہیں سمجھتے۔ اور جب کہئے ان کو ایمان میں آؤ، جس طرح ایمان میں آئے سب لوگ، کہیں کیا ہم اس طرح مسلمان ہوئے ہیں بیوقوف، سنتا ہے، وہی ہیں بے وقوف، پر نہیں جانتے‘‘(شاہ عبدالقادر)
أَلَا إِنَّہُمْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّن لِّقَاء رَبِّہِمْ أَلَا إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطٌ (فصلت: 54)
’’آگاہ رہو، یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں۔ سن رکھو وہ ہر چیز پر محیط ہے‘‘ (سید مودودی)
یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللَّہُ جَمِیْعاً فَیَحْلِفُونَ لَہُ کَمَا یَحْلِفُونَ لَکُمْ وَیَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ عَلَی شَیْءٍ أَلَا إِنَّہُمْ ہُمُ الْکَاذِبُونَ (المجادلۃ: 18)
’’جس روز اللہ ان سب کو اٹھائے گا، وہ اس کے سامنے بھی اسی طرح قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے کھاتے ہیں، اور اپنے نزدیک یہ سمجھیں گے کہ اس سے ان کا کچھ کام بن جائے گا۔ خوب جان لو ، وہ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں‘‘ (سید مودودی)
(جاری)

قومیت بطور مذہب

ڈاکٹر عرفان شہزاد

زیر نظر مضمون کارلٹن جے ایچ ہیز (Carlton J H Hayes, 1882-1964)  کے آرٹیکل، Nationalism as a Religion کے ماڈل  کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے۔ کارلٹن  ایک امریکی مورخ تھا۔ ایک وقت میں وہ  تصورقومیت کا حامی رہا،پھر اس کے خیالات اس بارے میں مکمل طور پر تبدیل ہو گئے۔ اپنے دور میں قومیت کے نام پر برپا ہونے والی دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریاں بھی اس کے سامنے تھیں۔ اس نے قومیت کے تصور میں موجود منفیت اور مقامیت کا ادراک کیا اور اس کے نہایت شان دار تجزیے پیش کیے۔ اس نے قومیت کو تاریخِ انسانی کی بدترین برائیوں میں سے ایک شمار کیا۔

قومیت کا تعارف:

اپنے خاندان اور قبیلے کے ساتھ تعلق اور عصبیت کا احساس قدیم اور فطری احساس ہے۔ لیکن یہ تصور کہ ایک خاص جغرافیہ میں رہایش پذیر انسانوں کا گروہ ایک قوم ہے، ان پر حقِ حکم رانی ان کے ہم قوم کو ہی حاصل ہےاور یہ ایک مقدس تصور ہے، جس کی خاطر  انسانی جان سمیت کوئی بھی قربانی دی اور لی جا سکتی ہے اور دوسروں انسانوں کی جان و مال کو پامال کیا جا سکتا ہے، یہ قومیت اور قومی ریاست کا عقیدہ ہے، جس پر ایمان لانا ایک وفادار شہری کے لیے لازم تصور کیا گیا ہے۔ مغرب سے در آمد ہونے والا قومیت کا یہ سیاسی تصور ہے۔

مضمون کا متن:

انسان مذہب چھوڑ سکتا ہے لیکن مذہبی حس اس کو نہیں چھوڑتی۔ یہ مذہبی حس اعتقادات اور مقدسات کی طالب ہے جن کے لیے آدمی اپنی جان اور مال ، اولاد سب قربان کر سکے۔ مذہبی اعتقادات نہ ملیں تو آدمی اپنے جیسے انسانوں کے وضع کردہ نظریات اور فلسفوں کے ساتھ ایسے ہی اعتقادات اور جذباتیت وابستہ کر لیتا ہے۔ مسیحیت نے یورپ میں آ کر قدیم مذہب کو تو بدلا لیکن قدیم مذہبی تصورات، اعتقادات اور ان سے  متعلق مقدس  سمجھی جانے والی رسوم  و رواج اور آداب کو اس نے اپنے اندر سمو لیا۔ اگلے مرحلے میں کیتھولسزم پر پروٹسٹنٹ ازم کے ذریعے سے اعتراضات اور اصلاحات کا دروازہ تو کھلا، لیکن فرد کی  مذہبی حس میں کوئی تبدیل نہ آئی۔ یہ مذہبی حس اب پروٹسٹین ازم میں منتقل ہوگئی اور وہی جذباتی وابستگیوں کے مظاہرے یہاں بھی دیکھنے کو ملے۔
اٹھارہویں صدی کے یورپ میں تشکیک کا دور دورہ ہو گیا۔ لوگوں نے مذہب کو چیلنج کر دیا۔ مسیحیت کے عقائد کو عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھ کر رد کیا جانے لگا، مذہب کے ساتھ وابستہ اعتقادات اور عقیدتیں ماند پڑنے لگیں، لیکن اس کےمظاہر فرد سے پھر بھی جدا نہ ہوئے۔ یہ عقیدتیں اب تصورِ فطرت، سائنس، عقل اور انسانیت سے متعلق انسانی فلسفوں کی پجاری اور فدائی بن گئیں۔ مذہب کا رنگ ہلکا تو ہو رہا تھا مگر مذہبی عقیدتوں کی عادت اب بھی گہری تھی جس نے اپنی تسکین کے لیے انسان ساختہ فلسفیانہ خداؤں کے ساتھ وابستگی پیدا کر لی تھی۔ ان کی تبلیغ اور دفاع میں وہی جذباتیت پائی گئی جو مذہب کے لیے پائی جاتی تھی۔ یہی وہ دور تھا جب فرد کی مذہبی حس، ریاست کے ساتھ بھی وابستہ ہوگئی۔ مذہبی عقیدوں اور عقیدتوں کا مذہب سے منتقل ہو کر انسان کے وضع کردہ فلسفوں کے ساتھ وابستہ ہو جانے کا یہ رجحان اٹھارہیویں صدی کی خصوصیت ہے۔ انسان ساختہ خدا حسّی تھے جن کی پوجا کرنے اور ان کی خاطر قربانیاں دینے کا نقد اور مادی فائدہ ملتا نظر آتا تھا، اپنے لیے نہیں تواپنوں کے لیے۔ 
انقلابِ فرانس نے قومیت کو مذہب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایبے رینل (Abbe Raynal) کہتا ہےکہ ریاست، مذہب کے لیے نہیں ہے، بلکہ مذہب، ریاست کے لیے ہے۔ (غور کیجیے تو یہ ڈاکٹرائین مولانا مودودی کے فلسفہءِ سیاست و حکومت کا بھی ہے۔ ان کے نزدیک بھی دین کا مطمحِ نظر ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ گویا ان کے ہاں بھی دین، ریاست کے قیام کا ذریعہ ہے۔ انیسویں صدی میں قومیت کا جو صور پھونکا گیا مولانا مودودی کے ہاں وہ مذہب کے اسلوب میں ملتا ہے۔) فرانس میں کیتھولزم اور نیشلزم کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔سول کانسٹیٹیوشن آف کلرجی (1790) پاس ہوا جس کے مطابق وہی پادری گرجے میں اپنے مذہبی فرائض انجام دے سکتا تھا جو ریاست کے آئین کو تسلیم کرے۔ اس کا انکار کرنے والوں پر جبر کیا گیا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ۔ قومیت کے نام پر جبر نے قومیت کو ایک مکمل مذہبی روپ دے دیا جہاں ایک فرد کو قومیت کے اس تصور کی بنا پر دوسرے انسانوں پر جبر  کرنےاور اس کی جان لینے کا  حق اوراختیارحاصل ہو گیا۔ 1791 میں فرانس کا آئین منظور ہوا، جس نے اسے نہیں مانا اسے آئین کا منکرقرار دے  دیاگیا۔ آئین کے منظور ہونے کے بعد آئین کے صحیفے کو ہاتھ میں پکڑ کر سر اور سینے پر رکھ کر ایک جلوس نکالا  گیاجو آئین کی تقدیس میں سرجھکائے، ادب و احترام سے آہستہ آہستہ سے چل رہا تھا جب کہ راستے میں کھڑے دیگر افسران نے آئین کے احترام میں اپنےسروں سے ٹوپیاں اتار لیں۔ یہ مسیحی مذہبی رسوم تھیں جو اب آئین کی تقدیس کے ساتھ وابستہ کر دی گئی تھیں۔
 مذہب کے ساتھ وابستہ دیگر مذہبی مظاہر، جیسے بتسمہ دینا یا اسلام میں کلمہ شہادت ادا کرنے کے طرز پر قومیت سے وفادار رہنے کا حلف آ گیا، اسی بنا پر کسی دوسری قومیت میں داخل کرنے کے لیے پہلے فرد سے وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے؛ پھر مذہب سے انحراف  کرنے کی جسارت کو ارتداد قرار دینے کے اصول پرقومیت سے انحراف  کرنےکوغداری قرار دیا گیا، جس کی سزا، ارتداد کی سزا کی طرح موت مقرر کی گئی؛ بچے کے پیدا ہوتے ہی جیسے اس کے مذہب کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور اس کا باقاعدہ اندراج کرایا جاتا ہے؛ اسی طرز پر اس کی قومیت کا فیصلہ بھی پیدایش کے ساتھ ہی کر دیا جاتا ہے اور اس کا بھی اندراج کرایا جاتا ہے، چرچ اور مسجد جیسی مذہبی عمارات کے طرز پر قومی عمارتوں کی یادگاریں وجود میں لائی گئیں؛ مذہبی مظاہر کی طرح قومیت کے اظہار کے مظاہر مقرر کیے گئے،مثلاً، قومی جھنڈا اور قومی دن کی علامات مقرر کی گئیں؛ قومی مظاہر کی تقدیس کے اظہار کے لیے مذہب کی طرز پر مخصوص آداب اور اوقات بھی وضع کیے گئے، مثلا قومی ترانہ بجتے وقت یا جھنڈا بلند کرتے وقت باادب کھڑا ہونا، سلیوٹ کرنا، سینے پر ہاتھ رکھنا؛ مذہبی تہواروں کی طرح قومی دن منانے کی رسم کی طرح بھی ڈالی گئی؛ مذہب کی مقدس ہستیوں، رسولوں اور انبیا اور مذہبی بزرگوں  کی طرح قومی ہیرو ز کی تقدیس اور احترام فرد پر واجب قرار دے گیا گیا جن پر تنقید بھی توہین قرار پائی؛ خدا کی حمد کی جگہ قومی ترانے اور حج جیسی مرکزی مذہبی رسم کے طرز پر قومی اجتماعات اور ان کے لیے مخصوص دن مقرر کیے گئے؛ مذہبی شعار کی بے حرمتی کے تصور کی بنیاد پر قومی شعار کی بے حرمتی بھی توہین کی طرح  سخت قابل سزا جرم قرار پایا؛ مذہبی خطبات کی جگہ قومی خطبات  نے لے لی جو سیاسی اور فوجی زعما دیتے اور مذہبی خطبا کی طرح ہی عقل و منطق سے ہٹ کر محض جذبات کی اپیل کر کےلوگوں کا خون گرماتے ہیں۔ یوں قومیت اپنے تمام تر اعتقادات اور رسوم کے ساتھ ایک مکمل مذہب بن گئی۔
پوری ریاست قومیت کے خدا کی عبادت گاہ ہے، مسجد جس میں غیر قوم کے لوگ  مسلمانوں کی کی اجازت کے بنا داخل نہیں ہو سکتے، اسی طرح دوسری قوم کے لوگ دوسرے قومی خدا کے پیروکار ہیں، جو کسی دوسرے ملک ان لوگوں کی اجازت کے بنا اس میں داخل نہیں ہو سکتے۔ یہ دوسری قومیت کے لوگ غیر ہیں جن کو اپنے قومی خدا کے چرنوں میں قربان کرنا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ 
قومیت کا مذہب نہ صرف عقیدت اور ایمان بلکہ عقل و تصورات کو بھی اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ عقلِ عیار اس کے لیے تاویلات گھڑتی ہے ایسے ہی جیسے  مذہبی متکلمین مذہب کا دفاع کرنے کے لیے عقلی دلائل تلاشتے اور تراشتے ہیں۔
قومیت کے خدا کے ساتھ لوگ ایک رفاقت اور سرشاری محسوس کرتے ہیں، اسے اپنا محافظ سمجھتے ہیں اس کو داتا اور رحم کرنے والا سمجھتے ہیں، اس کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو ناراض کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ہمارے ہاں "دھرتی ماں" اور" ریاست ہو گی ماں کے جیسی" جیسے تصورات اسی کا نتیجہ ہیں۔ ریاست کو مونث خدا سمجھنے کے  پیچھے وجہ یہ ہے کہ  برصغیر میں  خدا کے تصور میں دیویوں کا تصور قدیم سے موجود رہا ہے۔ قومی ریاست کی کی سرحدوں کی ابدیت کا تصور بھی  مذہب قومیت کے اسی تصور کا ایک خاصہ ہے۔
مزید یہ کہ مذہبی کتاب کی جگہ آئین نے لے لی۔ تقدیس میں اس کا درجہ وہی ہے جو قرآن یا بائبل کا ہے۔ اس میں قومیت کی تعریف اور تعیین درج کر دی جاتی ہے اور اس کے معیار پر افراد کو  ریاست کا کافر یا مومن تصور کیا جاتا ہے۔ آئین کے فہم میں باہم اختلاف بھی ہو جاتا ہے، ایسے ہی جیسے قران مجید یا بائبل کے متن کے فہم میں ہو جاتا ہے، لیکن اس کی تقدیس اٹل اور متفقہ ہی سمجھی جاتی ہے۔ قومت کی خاطر جان دینا اتنا ہی مقدس فرض باور کرایا جاتا ہے جتنا مذہب کی خاطر اور مرنے والے کو شہادت کا نام بھی مذہب سے ہی لے کر  دیا گیا ہے۔
قومیت کے بت کی تقدیس کو قائم رکھنے کے لیے قوم کی تاریخ کو بھی تقدس کا لبادہ پہنایا جاتا ہے۔ قومی کوتاہیوں کو منہا کر کے تاریخ ایسے انداز میں پڑھائی جاتی ہے  کہ وہ معصوم ہستیو ں کی تاریخ کی طرح خطا سے پاک مقدس تاریخ بن جاتی ہے، جس پر ایمان لانا لازم ہوتا ہے اور اس پر سوال اٹھانا کفر کی طرح غداری سمجھا جاتا ہے۔ نیز، عوامی شہرت رکھنے والی غیر مستند مذہبی روایات کی طرح ہی قومی روحانی غیر مستند روایات بھی گھڑی جاتی ہیں جنھیں عوام میں پھیلایا جاتا ہے بلکہ خواب و مکاشفات کی پوری دیو مالا اس کے لیے مرتب کی جاتی ہے۔
سکولوں کالجوں کی نصاب سازی بھی تصور قومیت کے نقطہ نظر سے کی جاتی ہے کہ کوئی ایسے حقائق اس میں شامل نہ ہو جو قومیت کے مذہب یا اپنی قومیت کی تقدیس پر فرد کے ایمان کو متزلزل کر دے۔ قومی حق حکم رانی کے قیام اور اس کی بقا کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے، اس کی بنیاد پر اپنی جان دینے اور دوسروں کی جان لینے کو قومی بیانیے کے طور پر بچپن سے ہی بچوں کے اذہان میں ڈالا جاتا ہے اور اس طرح ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔ میڈیا اور صحافت کو اس کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ قومیت کے خلاف کچھ نہیں لکھ سکتے ورنہ سزا اور جرمانہ کا سامنا کر پڑتا ہے۔
قومیت کے مذہب کا یہ کارنامہ ہے کہ بغیر کسی ما بعد الطبیعیاتی تصور اور اخرت میں ابدی انعامات کے حصول  کی یقین دہانی کے یہ فرد کو اپنی جان محض قومی تفاخر کے اظہار کے لیے قربان کر دینے پر راضی کر لیتی ہے۔ یہاں، اسلام کا نقطہ نظر پیش کرنا برمحل معلوم ہوتا ہے۔ قومیت اعلی آفاقی اخلاقیات سے عاری ہے جو  درحقیقت عصبیت کی ہی شکل ہے۔قومیت، عصبیت کی طرح حق و ناحق نہیں دیکھتی ، بلکہ ہر حال میں اپنی قوم کا ساتھ دینے کو فرض قرار دیتی ہے۔ دین نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّـهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ( سورۃ النساء، 4:135)
ایمان والو، انصاف پر قائم رہو، اللہ کے لیے اُس کی گواہی دیتے ہوئے، اگرچہ یہ گواہی خود تمھاری ذات، تمھارے ماں باپ اور تمھارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے۔ امیر ہو یا غریب، اللہ ہی دونوں کا زیادہ حق دار ہے(کہ اُس کے قانون کی پابندی کی جائے)۔ اِس لیے  تم خواہشوں کی پیروی نہ کرو کہ اِس کے نتیجے میں حق سے ہٹ جاؤ اور (یاد رکھو کہ) اگر (حق و انصاف کی بات کو) بگاڑنے یا (اُس سے) پہلو بچانے کی کوشش کرو گےتواُس کی سزا لازماً پاؤ گے، اِس لیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے خوب واقف ہے۔
رسول اللہﷺ کے ارشادات اس سلسلے میں یہ ہیں:
 "ابوموسیٰ اشعری کا بیان ہے کہ ایک شخص حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ کوئی مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لیے لڑتا ہے ،کوئی شہرت اور ناموری کے لیے لڑتا ہے،کوئی اپنی بہادری دکھانے کے لیے لڑتا ہے، فرمائیے کہ ان میں سے کس کی لڑائی اللہ کی راہ میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اللہ کی راہ میں لڑائی تو صرف اس کی ہے جو محض اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے میدان میں اترے۔ " (بخاری ،رقم 2810) 
"وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی دعوت دی، وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی خاطر قتال کیا اور وہ ہم میں سے نہیں وہ جو عصبیت کی حالت میں مرگیا۔" (ابوداوٴد، مشکوة/۴۱۸)
"جو شخص اپنی قوم کی ناحق مدد کرتا ہے وہ اس اونٹ کے مانند ہے جو کنویں میں گرگیا اوراس کی دم پکڑ کر اس کو نکالا جائے۔"(ابوداوٴد ۲/۶۹۸، مشکوة/۴۱۸)
اس تصور قومیت کی تشکیل کے بعد سے لوگ میدان جنگ میں قومیت کے بت پر مسلسل قربان ہو رہے ہیں اور دوسرے انسانوں کومحض اس وجہ سے نفرت یا حقارت سے دیکھتے ہیں کہ وہ ان کے ہم قوم نہیں ہیں۔محض اس بنا پر اپنے ملک کی کم معیاری یا غیر معیاری اشیا ااور ادویات خرید لیتے ہیں کہ اس سے ان کی قومیت کا اظہار ہوتا ہے۔
قومیت ایک ایسا مذہب ہے کہ الہامی مذاہب کو ماننے والوں کے درمیان یا ایک الہامی مذہب کے مختلف فرقوں کے درمیان اگر نفرت اور چپقلش بھی پائی جاتی ہوتو قومیت کے مذہب میں آ کر وہ سب متحد ہو جاتے ہیں۔اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ قومیت اپنی نہایت میں اپنے اندر آفاقیت نہیں رکھتا۔ یہ انسانوں کو تقسیم کرنے اور انسانوں کے درمیان، تفاخر، نفرت اور حقارت کا بیانیہ ہے۔
قومیت بطور مذہب کشادہ دلی یا عدل کا کوئی تصور پیدا نہیں کرتی۔ یہ مغرورہے، متواضع نہیں۔ یہ انسانی اہداف کو عالم گیر نہیں ہونے دیتی۔ یہ کہتی ہے کہ دنیا میں بس یہود یا یونانی ہونے چاہیں، فرق صرف یہ ہے کہ یہ  مختلف قسم کے یہودی اور یونانی اب ہرجگہ موجود ہیں۔ قومی ریاست قبائلی عصبیت کا دوسرا نام ہے جس میں خود غرضی، خاص طرح کی جہالت اور جابر قسم کا عدم برداشت اور جنگی رجحان پایا جاتا ہے۔ قومیت امن نہیں جنگ کی خوگر ہے اور ہم اس سے آگے دیکھنے کی تجویز آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔

بین المسالک ہم آہنگی کے حوالے سے ایک خوشگوار تبدیلی

محمد یونس قاسمی

ماہ اپریل کے دوسرے عشرے میں امام حرم مکی الشیخ عبداللہ عواد الجہنی نے پاکستان کا دورہ کیا اور صدر ، وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتوں کے علاوہ پیغام اسلام کانفرنس سمیت بعض دیگر کانفرنسوں سے خطاب کیا اورملک بھر کے مختلف علماء سے ملاقاتیں بھی کی۔ امام حرم نے۱۲   اپریل کو فیصل مسجد اسلام آباد میں خطبہ جمعہ دیا اور نماز جمعہ کی امامت کروائی ۔ نماز جمعہ کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام قائد اعظم آڈیٹوریم میں ’’نوجوانان امت اور عصر حاضر کے چیلنجز ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کیا۔ امام حرم نے کہا کہ’’ نوجوان کسی بھی معاشرے کی قوت ہوتے ہیں۔ معاشرے کی کایا پلٹ سکتے ہیں۔ نوجوان اپنی قدر ومنزلت پہچانیں۔ انہیں دین کے نام پر ورغلایا جاتا ہے۔ نوجوان گمراہ لوگوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔ دینی مسائل میں علماء حق سے رہنمائی حاصل کریں۔‘‘ اس تقریب میں امام حرم کے علاوہ وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نورالحق قادری، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، سینٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کےریکٹر وصدراور سعودی سفیر نے شرکت کی اور موضوع پر خیالات کا اظہار کیا۔ اس کانفرنس کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں مکتب تشیع کے بڑے عالم اور امام خمینی ٹرسٹ کے چیئرمین علامہ افتخار حسین نقوی بھی موجود تھے۔
۱۳ ۔اپریل کو اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں سعودی سفارت خانے کے زیر اہتمام ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں سعودی سفیر نواف سعید المالکی نے پاکستان کے چند منتخب علماء کرام کی امام حرم کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ اس تقریب میں مختلف مسالک و مکاتب فکر کے جید علماء اور مذہبی وسیاسی جماعتوں کے قائدین شریک تھے۔ علماء کرام سے امام حرم کی ساری گفتگو بھائی چارے کے قیام، امن و امان کے ساتھ رہنے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور فرقہ واریت سے بچنے جیسی نصیحتوں پر مشتمل تھی۔ خطبہ استقبالیہ کے طور پر سعودی سفیر نواف سعید المالکی نے تقریب کے آغاز میں جو گفتگو کی، وہ بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ سعودی سفیر نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ایک روزقبل بلوچستان میں ہزارہ قبیلہ کے ساتھ ہونے والے سانحہ پر پاکستانی علماء اور عوام سے اظہار تعزیت کیا اوراس غم کو اپنا غم قرار دیا۔سعودی سفیر نے کہا کہ مملکت سعودی عرب کسی قسم کی فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتی، ہم کسی ایسی تنظیم کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے جو فرقہ واریت یا فرقہ وارانہ تشدد پر یقین رکھتی ہے۔سعودی سفیر نےسورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱٠۳ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قرآن وسنت ہمیں تفرقہ سے بچنے کاپیغام دیتے ہیں ، بطور مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن وسنت میں وارد احکامات کی لازماً پیروی کریں۔ سعودی سفیر نے مزید کہا کہ دہشت گردی سے بچنے کے لیے ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم سب بلاتفریق مسلک ومذہب دہشت گردی کے خلاف جمع ہوجائیں۔
اسی دوران میں  ۱٠ اپریل کو او آئی سی کے زیر اہتمام سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والی دہشت گردی اور دفاع سے متعلق ایک کانفرنس میں پاکستان کے معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر طاہر القادری نے شرکت کی۔ ڈاکٹر قادری نے اپنے خطاب میں قرار دیا کہ انتہاپسندی کی ابتدا اسلامی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں تنگ ذہنیت کا مظاہرہ کرنے سے ہوتی ہے۔ تنگ نظری کے خاتمے کے لیے ضروری ہےکہ نوجوان نسل کے ذہنوں کو پہلے مرحلے ہی پر آگاہی فراہم کریں اور منفی عناصر کا خیال بھی ان کے ذہن تک نہ پہنچنے دیں، بصورتِ دیگر مایوسی جب مضبوطی سے نظریاتی عوامل کے ساتھ مل جائے تو یہ کمزور دماغوں پر گہرائی تک اثر انداز ہوتی ہے۔
انسانوں کے آپس میں تعلقات ، معاہدات اور آپس میں ملنے جلنے کا نام سماج ہے، اس کی تشکیل انسانیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس میں پہلا درجہ انسانیت کو حاصل ہے جس میں انسان کی نسل ، علاقے اور زبان کو فوقیت نہیں دی جاتی بلکہ اس میں معاشرتی حقوق یکساں متعین کیے جاتے ہیں۔ دوسرا درجہ انسان کی آزادی کا ہے یعنی صالح سماج وہ ہوتا ہے جوہر انسان کو مکمل آزادی دیتا ہو، اس میں ایک معاشی نظام موجود ہو جس میں انصاف کو فوقیت حاصل اور معاشرے کے تمام افراد کی ضروریات پوری ہوتی ہوں۔ فرقہ واریت اس انسانی سماج کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔فرقہ وارانہ تصورات سے نسلی، لسانی، علاقائی ، مسلکی اور مذہبی فسادات پھوٹتے ہیں۔ اس سے نفرت کے جراثیم نشوونما پاتے ہیں جس کے نتیجے میں قتل وغارت گری کو فروغ ملتا ہے۔ پاکستان اس کی بہترین مثال ہے۔ یہاں نفرتوں کو فروغ دینے سے گذشتہ تیس سال میں جو کچھ ہوا، وہ ہمارے سامنے ہے۔ معاشرے کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو خوف کا شکار نہ ہو، یا جسے لسانی، علاقائی، نسلی، مسلکی یا مذہبی تشدد کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔اس ماحول میں سعودی سفیر کی مذکورہ گفتگو، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں امام حرم کے اعزاز میں ہونے والے پروگرام میں شیعہ عالم کی شرکت اور سعودی عرب میں ڈاکٹر طاہر القادری کا خطاب، یہ سب واقعات میرے لیے خوشگوار حیرت کاباعث ہیں۔ میں اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے ہمیشہ یہ دیکھاکہ یہاں سنی قتل ہوتے تو شیعہ خاموش تماشائی بنے رہتے اور شیعہ قتل ہوتے تو سنی خاموش تماشائی بنے رہتے تھے۔ بریلوی مکتب فکر کے لوگ تہہ تیغ ہوتے تو دیوبندی خاموش رہتے اور دیوبندی،اہل حدیث کسی فساد کا شکار ہوتے تو بریلویوں کو سانپ سونگھ جاتا ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک الم ناک صورت حال تھی۔ میرے اور میرے ہم عصر نوجوانوں کے لیے یہ بڑی تبدیلی ہے کہ آج ایک ایسے سنی ملک کے سفیر نے جس پر ہمیشہ یہ الزام رہا کہ وہ شیعہ مخالف لابیوں کو تقویت بخشتا ہے، ہزارہ قبیلہ کے قتل عام کی مذمت کی اور ان کے ساتھ اظہار تعزیت کیا۔ علامہ افتخار حسین نقوی جیسے لوگ اب وہ ایسے پروگراموں کا باقاعدہ حصہ بنتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک بڑی اور خوشگوار تبدیلی ہے۔ 
میرے جیسے نوجوانوں نے جس ماحول میں اپنا لڑکپن(طالب علمی کا دور)گذارا ہے، وہاں ہمیشہ کافر کافر اور جہاد وقتال کی باتیں ہوتی تھیں۔ ہم نے کبھی کسی مخالف کا احترام کرنے اور کسی مخالف کی بات کو برداشت کرنے کی بات نہیں سنی بلکہ اس نوجوان کی حوصلہ افزائی اور اس کا اعزازواکرام کیاجاتا تھا جو اپنے کسی مخالف کے ساتھ گالم گلوچ کرکے یا بدتمیزی کرکے آتا تھا۔ میری اور میرے جیسے بہت سارے نوجوانوں کی خوش نصیبی کہ ہمیں کچھ اچھے اساتذہ اور کچھ ایسے مہربان دوست ملے جنہوں نے ہمیں اس معاملے میں اچھے برے کی تمیز سکھائی اور اس دنیا میں رہنے کے سنہری اصولوں سے واقفیت دلوائی۔ اللہ انہیں سلامت رکھے اور ہمیشہ خوشیوں اور عزتوں سے نوازے۔ ہماری زندگیوں میں پہلی مرتبہ یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ پاکستان کے شیعہ سنی ایک دوسرے کو کافر کہے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ ہم نوجوانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے کو باقی رکھنے کوشش کریں اور ہر اس کوشش کاحصہ بنیں جو فرقہ واریت ، تکفیر اور من مرضی کے جہاد کو روکنے کی اور معاشرے کو پرامن بنانے، انسانی حقوق اور مساوات کو فروغ دینے کی کوشش ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ سماج اور معاشرت کے جدید تصورات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم انسانی حقوق، مساوات اور اجتماعیت کے جدید تصورات سے آگاہ نہیں ہیں، ان جدیدتصورات سے عدم واقفیت بھی ہمارے لیے مسائل پیدا کررہی ہے۔
اس وقت پاکستان میں پیغام پاکستان کا بہت چرچا ہے۔پیغام پاکستان بنیادی طور پر نجی جہاد، تکفیر اور فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے ایک قومی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جس پر عملدرآمد کے لیے ریاست کے عسکری ادارے کمربستہ ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوکہ اس کے نفاذ کے لیے حکومتی سطح پر کوششوں کا آغاز ہو اور اس کی بنیاد پر پرائیویٹ جہاد اور کسی بھی مسلمان یا مسلم فرقے کی تکفیر کے عمل کو روکنے کے لیے قانون سازی کا اہتمام ہو۔ اس دستاویز کی پشت پر عسکری طاقتوں کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ واریت کم ضرور ہوئی ہے، تکفیر کے نعرے بظاہر بند ہوئے ہیں اور فرقہ واریت کی بنیاد پر تقسیم علماء کی باہمی ملاقاتوں اور مل بیٹھنے کا آغاز ہوا ہے، مگر اس سلسلے کو دوام چاہیے۔ یہ سلسلہ اگر بلاتعطل چلتا رہا تو یہ فرقے ختم تو نہیں ہوں گے، لیکن ایک دوسرے کو برداشت ضرور کرنے لگیں گے۔

دہشت گردی کے حوالہ سے عدالت عظمیٰ کا مستحسن فیصلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ جنگ ملتان میں ۲۱، مارچ ۲۰۱۹ء کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے۔ 
’’اسلام آباد (جنگ رپورٹر) عدالت عظمیٰ میں دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت پانے والے ایک ملزم صفتین کی اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دہشت گردی کی تعریف کے تعین کے لیے ۷ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے رہے ہیں، چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل بینچ نے بدھ کے روز ملزم صفتین کی اپیل کی سماعت کی تو فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ۱۹۹۷ء سے آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ کون سا کیس دہشت گردی کے زمرہ میں آتا ہے اور کون سا نہیں آتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان کی سربراہی میں دہشت گردی کی تعریف کے لیے سات رکنی لارجر بینچ بنایا جا رہا ہے جو کہ دہشت گردی کی تعریف کا تعین کرے گا۔‘‘ 
یہ خبر بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم صحیح طور پر یہ اندازہ کر سکیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے عالمی اور قومی سطح پر گزشتہ دو عشروں سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کی اخلاقی اور قانونی اساس کیا ہے؟ اور اس کے جواز کی حیثیت کیا ہے؟
جب عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجایا گیا تھا اور تین درجن کے لگ بھگ ممالک یہ ڈھول بجاتے ہوئے میدان جنگ میں کود پڑے تھے تو یہ سوال عالمی سطح پر اٹھایا گیا تھا کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی تعریف طے کر لی جائے تا کہ غیر متعلقہ اور بے گناہ افراد و طبقات اس کاشکار نہ ہوں کیونکہ بین الاقوامی برادری مظلوم اقوام کی آزادی کا حق تسلیم کرتی آرہی ہیں اور معاندانہ ریاستی جبر کے خلاف جائز حد تک مزاحمت کے حق کو بھی روا رکھا جاتا ہے جبکہ مبینہ دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ میں اس کا کوئی فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا اور یہ اتھارٹی صرف حملہ آور قوتوں کے لیے مخصوص کر دی گئی ہے کہ وہ جس فرد، طبقہ یا قوم کو چاہیں دہشت گرد قررا دے کر اس پر چڑھ دوڑیں اور اسے اپنا موقف، پوزیشن اور استحقاق بیان کرنے کے لیے کسی سطح پر کوئی فورم میسر نہ آسکے، اس کی سادہ سی مثال فلسطینی عوام کی بے بسی کی صورت میں پیش کی جا سکتی ہے کہ ایک طرف اسرائیل اقوام متحدہ کے فیصلوں، عالمی رائے عامہ اور فلسطینی عوام کے مسلمہ حقوق کے علی الرغم اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کو مسلسل آگے بڑھا رہا ہے اور کسی بات کی سرے سے کوئی پروا نہیں کر رہا جبکہ دوسری طرف فلسطینی عوام کی حریت کی جد و جہد کو بتدریج دہشت گردی کے لیبل سے معنون کر کے کارنر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے انسانی حقوق، قوموں کی آزادی اور ممالک کی خود مختاری کے علمبردار کم و بیش سبھی حلقوں کی بھرپور سپورٹ حاصل دکھائی دیتی ہے اور یہ سب کچھ ایسی ڈپلومیسی کا کرشمہ ہے کہ دہشت گردی کی کوئی تعریف اور حدود طے کیے بغیر اس کے خلاف جنگ کا بازار گرم کر دیا گیا ہے، چنانچہ جس طاقت ور ملک کا جی چاہتا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پرچم بلند کر کے کسی بھی لشکر کشی پر اتر آتا ہے۔ 
ہمارے ہاں کا قومی منظر بھی اس سے مختلف نہیں ہے اور اس کا صحیح طور پر ادراک کرنے کے لیے اب سے چار عشرے قبل کے قوی اخبارات اور آج کے قومی اخبارات پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے کہ ان دنوں جن لوگوں، جماعتوں اور شخصیات کو جہاد آزادی کا علمبردار قررا دیا جاتا تھا، ا ن کی بڑی بڑی خبریں اور انٹرویوز نمایاں طور پر شائع ہوتے تھے، انہیں ملک کے مختلف حصوں میں استقبالیے دیے جاتے تھے حتیٰ کہ سرکاری حلقوں میں بھی ان کی پذیرائی کا لیول کچھ کم نہ تھا ، اب انہی لوگوں کو کن القاب سے یاد کیا جاتا ہے اور کون کون سے خطابات دے کر ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔
۱۸۵۷ء کے بعد جب برطانوی استعمار نے اس خطہ کو اپنی باقاعدہ نو آبادی بنایا تو اس وقت ایک عوامی اصطلاح ’’وہابی‘‘ کے نام سے متعارف کرائی گئی تھی جو کسی کو قابل نفرت اور گردن زدنی ثابت کرنے کے لیے کافی سمجھی جاتی تھی اور برطانوی پالیسی سازوں نے اسے اپنے مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال کیا تھا، اب اسی طرح کی ایک اصطلاح’’ دہشت گردی‘‘ کے نام سے عام کر دی گئی ہے جس کے تحت جس طاقت ور کا جس کمزور کے خلاف بس چلتا ہے وہ اس کا پرچم اٹھا کر کاروائی کر گزرتا ہے جبکہ متاثر ہونے والوں کو شنوائی یا داد رسی کا کوئی فورم میسر نہیں آتا ، اگر اٹھا کر غائب کر دیے جانے والے سینکڑوں افراد کو اس کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جائے تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہوگی، اس پس منظر میں عدالت عظمیٰ کو اگر اس کا خیال آرہا ہے کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی تعریف طے کر دینی چاہئے تو ظاہر ہے کہ اس کا خیر مقدم ہی کیا جائے گا۔
بادشاہتوں کے دور میں اس قسم کی باتوں کی طرف بادشاہوں کو توجہ دلانے سے قبل ’’جان کی امان پاؤں تو عرض کروں‘‘ کی تمہید ضروری سمجھی جاتی تھی اور کسی حد تک مؤثر بھی رہتی تھی مگر اب یہ بھی محض تکلف بن کر رہ گئی ہے مگر ہمیں بہرحال خوشی ہوئی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان دہشت گردی کی تعریف کرنے کے موڈ میں آگئے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں میں کچھ نہ کچھ توازن کا باعث تو بہرحال بن ہی جائے گی۔
ہم چیف جسٹس آف پاکستان کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اس کی تکمیل کا جلد از جلد اہتمام کر کے قوم کو دہشت گردی کی اس دھند سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

تعلیمی نظام کے حوالے سے چیف جسٹس کے ارشادات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

چیف جسٹس آف پاکستان محترم جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافہ کے بارے میں کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ۷۰ سال ہو گئے ہیں لیکن وطن عزیز میں تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی، ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، پاکستان میں تعلیم، تعلیم اور صرف تعلیم کے حوالہ سے آگاہی کی مہم چلائی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے پرائیویٹ اسکولوں کے معاملہ کو سن لیں اس کے بعد معاملہ حکومت کے ساتھ ہوگا۔ سرسید احمد خان کو بھی یقین تھا کہ پڑھو گے نہیں تو پیچھے رہ جاؤ گے، ہمیں تعلیم پر توجہ دینی چاہیے، تعلیم ترقی دیتی ہے اور دفاع کرتی ہے، تعلیم نہیں تو کچھ بھی نہیں، اگر اب بھی تعلیم کی طرف توجہ نہ دی گئی تو ہم مزید پیچھے رہ جائیں گے۔
چیف جسٹس محترم کے یہ ارشادات ہر باشعور پاکستانی کی طرح ہمارے بھی دل کی آواز ہیں اور ہم ان سے حرف بہ حرف متفق ہیں لیکن یہ باتیں پہلی بار نہیں کہی گئیں۔ آپ ۷۰ برسوں کے دوران عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ بلکہ کسی بھی مقتدر طبقہ کی شخصیات کے ارشادات کو قومی پریس کے ریکارڈ سے جمع کرنے کی زحمت کریں تو ایسے فرمودات بلامبالغہ سینکڑوں کی تعداد میں قوم سن اور پڑھ چکی ہے۔ مگر معاملہ جوں کا توں ہے اور ہم کولہو کے بیل کی طرح گھوم پھر کر اسی زیروپوائنٹ پر آکر کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو کھڑے تھے۔ بلکہ بعض حوالوں سے تو ہم وہاں سے بہت پیچھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور اس کی وجہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ 
ہمارے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آزادی اور پاکستان کے حصول کے بعد سے قومی سطح پر عملاً یہ طے کر رکھا ہے کہ نوآبادیاتی دور کے سسٹم میں سے کسی شعبہ کو بھی نہیں چھیڑا جائے گا بلکہ ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک نوآبادیاتی حکمران جو کچھ کرتے رہے ہیں اسی کے تسلسل کو جاری رکھا جائے گا۔ اور ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ آزادی، اسلام اور پاکستان کے عنوان کو صرف ٹائٹل تک محدود رہنے دیا جائے اور ان میں سے کسی ٹائٹل کو ملک کی عمومی پالیسیوں میں کسی جگہ ’’دخل اندازی‘‘ کا موقع نہ دیا جائے۔ اگر چیف جسٹس محترم ’’جان کی امان پاؤں‘‘ کی درخواست کو سماعت کے لیے ہی منظور کر لیں تو ہم یہ عرض کرنے کی جسارت کریں گے کہ خود عدلیہ کے حوالہ سے دیکھ لیں نوآبادیاتی نظام سے ایک اسلامی رفاہی ریاست کے عدالتی نظام کی طرف ہم نے کون سی پیش رفت کی ہے۔ ہمارا قانون وہی ہے، ماحول وہی ہے، طریق کار وہی ہے، حتٰی کہ مزاج و نفسیات میں بھی کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے تحریک پاکستان کے دوران اور قیام پاکستان کے بعد اپنے اعلانات میں فرمایا تھا کہ ہم پاکستان میں اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کریں گے، اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرتی زندگی کا ڈھانچہ تشکیل دیں گے اور قرآن و سنت کے احکام کی عملداری کا اہتمام کریں گے۔ پھر قرارداد مقاصد اور دستور پاکستان نے قائد اعظمؒ کے ان ارشادات کو ریاستی پالیسی اور دستوری گارنٹی کا درجہ دے دیا، مگر دیگر قومی شعبوں کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں بھی کسی سطح کے جج صاحبان کے لیے اسلامی تعلیمات اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو ان کے تعلیمی نظام کا حصہ بنانے کی اب تک زحمت گوارا نہیں کی گئی، اور اس طرز عمل کو بھی ستر سال ہی گزرے ہیں۔ 
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک سیمینار کے دوران راقم الحروف نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا پاکستان میں جج صاحبان کو قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی باقاعدہ تعلیم دینا ضروری نہیں ہے؟ اگر مروجہ قانون کے تحت فیصلے کرنے کے لیے قانون کی باقاعدہ تعلیم ضروری ہے تو قرآن و سنت اور شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کی تعلیم کیوں ضروری نہیں ہے؟ اور اگر یہ ضروری ہے تو قانونی تعلیم کے نصاب ونظام میں اس کو شامل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ صرف عدلیہ کی بات نہیں، باقی قومی شعبوں کا بھی یہی حال ہے۔ معیشت کے دائرہ میں قائد اعظمؒ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ وہ پاکستان کے معاشی نظام کو مغرب کے اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر استوار دیکھنا چاہتے ہیں، مگر ہم ابھی تک نوآبادیاتی دور کی معاشی پالیسیوں پر کھڑے ہیں اور کسی اصولی اور جوہری تبدیل کے لیے خود کو تیار نہیں کر پا رہے۔ 
میں تو اہل دین اور دینی مدارس سے یہ بھی عرض کرتا رہتا ہوں کہ ہم بھی نوآبادیاتی دور کی تحفظاتی پالیسیوں اور نفسیات پر جمے ہوئے ہیں اور آزادی کے مقاصد کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی ضروریات ابھی تک ہمارے ایجنڈے اور اہداف کا حصہ نہیں بن سکے۔ اس لیے ہم چیف جسٹس محترم سے بصد ادب عرض کریں گے کہ بات صرف پرائیویٹ اسکولوں یا سرکاری اسکولوں کی نہیں بلکہ پورے ریاستی تعلیمی نظام کی ہے۔ اس کے لیے ہمیں نوآبادیاتی دور کے ماحول، نفسیات اور مرعوبیت سے نکلنا ہوگا اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے صریح ارشادات کو بنیاد بنا کر پورے ریاستی ڈھانچہ اور ہر قومی شعبہ کے سسٹم پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ہم برطانوی غلامی اور عالمی استعمار کے ماحول سے بھی نہ نکلنا چاہیں اور اسلام، آزادی اور پاکستان جیسی نعمتوں کے ثمرات سے بہرہ ور ہونے کے خواب بھی دیکھیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اللہ ہم سب کو ہدایت دے، آمین یا رب العالمین۔

قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۵)

محمد عمار خان ناصر

حنفی اصولیین کا موقف

قرآن وسنت کے باہمی تعلق اور اس کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے ائمہ احناف کے نظریے پر خود ان کی زبانی کوئی تفصیلی بحث دستیاب ذخیرے میں امام ابوبکر الجصاص کی ’’الفصول فی الاصول‘‘ اور ’’احکام القرآن‘‘ سے پہلے نہیں ملتی۔ ائمہ احناف سے اس موضوع پر حنفی مآخذ میں جو کچھ منقول ہے، ان کی نوعیت متفرق اقوال یا مختصر تبصروں کی ہے جن سے ان کا پورا اصولی تصور اور اس کا استدلال واضح نہیں ہوتا۔ تاہم تاریخی اہمیت کے پہلو سے ان کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ابو مقاتل حفص بن سلم السمرقندی نے امام ابو حنیفہ کا یہ قول روایت کیا ہے کہ:
فرد کل رجل یحدث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بخلاف القرآن لیس ردا علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا تکذیبا لہ، ولکن رد علی من یحدث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالباطل، والتھمۃ دخلت علیہ لیس علی نبی اللہ علیہ السلام (’العالم والمتعلم، ص ۲۵)
’’کسی بھی ایسے راوی کی روایت کو رد کرنا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کے خلاف روایت نقل کرتا ہو، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کرنا نہیں ہے اور نہ اس سے آپ کی تکذیب لازم آتی ہے۔ یہ تو اس شخص کی بات کو رد کرنا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے باطل بات کو نقل کرتا ہے۔ اس میں موردِ الزام وہ شخص ہے، نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘
امام ابو یوسف لکھتے ہیں:
والروایۃ تزداد کثرۃ ویخرج منھا ما لا یعرف ولا یعرفہ اھل الفقہ ولا یوافق الکتاب ولا السنۃ، فایاک وشاذ الحدیث، وعلیک بما علیہ الجماعۃ من الحدیث وما یعرفہ الفقھاء وما یوافق الکتاب والسنۃ، فقس الاشیاء علی ذلک، فما خالف القرآن فلیس عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وان جاء ت بہ الروایۃ ۔۔۔ فاجعل القرآن والسنۃ المعروفۃ لک اماما قائدا واتبع ذالک وقس علیہ ما یرد علیک مما لم یوضح لک فی القرآن والسنۃ (الرد علی سیر الاوزاعی، ص ۳۱)
’’روایات بڑھتی جا رہی ہیں اور ان میں ایسی غیر معروف روایات بھی سامنے آ رہی ہے جن سے نہ فقہا واقف ہیں اور نہ وہ کتاب اور سنت کے مطابق ہیں۔ اس لیے شاذ حدیثوں سے گریز کرو اور انھی حدیثوں کو اختیار کرو جو بہت سے راویوں سے منقول ہیں اور جنھیں فقہا جانتے ہیں اور جو کتاب اور سنت کے مطابق ہیں۔ اسی معیار پر روایات کو جانچو۔ جو بات قرآن کے خلاف ہو، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہو سکتی، چاہے کسی روایت میں ایسا بیان ہوا ہو۔ ۔۔۔ سو قرآن اور معلوم ومشہور سنت کو اپنا راہ نما بناؤ اور انھی کی پیروی کرو اور جو باتیں قرآن اور سنت میں واضح نہیں کی گئیں، انھیں قرآن وسنت پر قیاس کرو۔‘‘
امام ابوحنیفہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ:
ما قلت بالمسح علی الخفین حتی وردت فیہ آثار اضوا من الشمس وعنہ: اخاف الکفر علی من لم یر المسح علی الخفین (ملا علی القاری، فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ ۱/۱۲۱)
’’میں اس وقت تک مسح علی الخفین کا قائل نہیں ہوا جب تک اس کے متعلق سورج سے زیادہ روشن روایات میرے علم میں نہیں آ گئیں۔ امام ابوحنیفہ سے ہی منقول ہے کہ جو شخص مسح علی الخفین کو درست نہیں سمجھتا، مجھے اس پر کفر کا خوف ہے۔‘‘
اسی طرح امام ابویوسف کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ:
انما یجوز نسخ القرآن بالسنۃ اذا وردت کورود المسح علی الخفین فی الاستفاضۃ (جصاص، احکام القرآن، ۲/۳۴۸)
’’قرآن کے حکم میں سنت کے ذریعے سے تبدیلی کرنا صرف اسی صورت میں جائز ہے جب سنت اس طرح شہرت کے ساتھ وارد ہوئی ہو جیسے مسح علی الخفین میں وارد ہوئی ہے۔‘‘
ان بیانات سے اصولی طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ ائمہ احناف شاذ اور غریب احادیث کو قرآن اور سنت پر جانچنے کے قائل تھے اور مشہور ومستفیض احادیث کے علاوہ نادر اور غریب احادیث کی بنا پر قرآن کے ظاہری حکم میں ترمیم وتغییر کو درست نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ امام عیسیٰ بن ابان سے اس ضمن میں ائمہ احناف کی ترجمانی یوں منقول ہے:
واما اذا روی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث خاص، وکان ظاھر معناہ بیان السنن والاحکام، اوکان ینقض سنۃ مجمعا علیھا او یخالف شیئا من ظاھر القرآن، فکان للحدیث وجہ ومعنی یحمل علیہ لا یخالف ذلک، حمل معناہ علی احسن وجوھہ واشبھہ بالسنن واوفقہ لظاھر القرآن، فان لم یکن معنی یحمل ذلک فھو شاذ (الفصول فی الاصول ۱/۱۵۶)
’’اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خبر واحد روایت کی جائے اور ظاہری مفہوم کے لحاظ سے اس کا موضوع سنن اور احکام کا بیان ہو اور وہ کسی متفق علیہ سنت یا ظاہر قرآن کے خلاف ہو تو اگر تو حدیث کو کسی ایسے مفہوم پر محمول کیا جا سکے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو اسے اس کے بہترین محمل پر محمول کیا جائے گا جو سنن کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہو اور ظاہر قرآن کے بھی موافق ہو۔ لیکن اگر ایسے کسی مفہوم پر محمول کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی حدیث شاذ ہے۔‘‘
تاہم اس مواد سے متعین طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مثال کے طور پر مسح علی الخفین کو وہ کس مفہوم میں نسخ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ آیا وہ اسے قرآن کی مراد میں تغییر سمجھتے اور اس پہلو سے سنت کے مشہور ومستفیض ہونے کی شرط عائد کرتے ہیں یا اسے قرآن کی مراد ہی کی وضاحت تصور کرتے ہوئے صرف احتیاط کے پہلو سے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کے ظاہری مفہوم کو غریب اور نادر احادیث کی بنیاد پر ترک نہ کیا جائے۔ 
امام محمد بن الحسن الشیبانی نے محرمات نکاح کی بحث میں قرآن مجید کی آیات کے ظاہری مفہوم پر سنت اور اجماع سے ثابت زیادات اور تخصیصات کا جس اسلوب میں ذکر کیا ہے، اس سے بھی مذکورہ نکتے پر زیادہ روشنی نہیں پڑتی، اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ ان زیادات وتخصیصات کو قرآن کی مراد کی وضاحت اور تبیین ہی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مثا ل کے طور پر لکھتے ہیں:
فھذہ جملۃ فی تحریم ما نصہ اللہ تعالی من الصھر والنسب، لانہ بلغنا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال ’’یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب‘‘، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’لا تنکح المراۃ علی عمتھا ولا علی خالتھا‘‘، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی حدیث ابی قعیس لعائشۃ رضی اللہ عنھا ’’لیلج علیک، فانہ عمک‘‘ (الاصل ۴/۳۵۷)
’’اللہ تعالیٰ نے جن صہری اور نسبی رشتوں کا حرام ٹھیرایا ہے، ان آیات میں ان کی اصولی وضاحت کی گئی ہے (تاہم یہ تمام تفصیلات پر مشتمل نہیں)، کیونکہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پہنچا ہے کہ رضاع سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے ہوتے ہیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی عورت کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح نہ کیا جائے۔ آپ نے ابو قعیس کے واقعے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اسے اپنے پاس آنے دو، کیونکہ وہ تمھارا چچا لگتا ہے۔‘‘
امام صاحب نے اس بحث میں محرمات سے متعلق قرآن، سنت اور اجماع سے ثابت تمام جزئیات کو اس اسلوب میں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں رشتے کو حرام قرار دیا ہے، جبکہ سنت نے یا اجماع نے فلاں کو بھی اس کے دائرے میں شمار کیا ہے، یعنی وہ قرآن میں بیان کردہ حکم اور سنت یا اجماع سے ثابت اضافات کا باہمی تعلق متعین نہیں کرتے جس کی وجہ سے ایک اصولی سوال کے حوالے سے ان کے زاویہ نظر کی حتمی تعیین ممکن نہیں ہو پاتی۔
جہاں تک کسی خبر واحد کو قرآن سے متعارض ہونے کی بنا پر رد کرنے کا تعلق ہے تو ہمارے استقرا کی حد تک ائمہ احناف سے اس کی صرف ایک مثال منقول ہے۔ یہ قضاء بالیمین مع الشاہد کی روایت تھی جس کا رد یا قبول حجازی اور عراقی فقہاء کے مابین ایک اہم متنازع فیہ مسئلہ تھا۔ امام مالک، اہل مدینہ کے تعامل کی روشنی میں اس کے جواز کے قائل تھے، جبکہ فقہائے عراق اس طریقے کو فیصلے کا جائز طریقہ نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس پر امام محمد نے بھی الحجۃ علی اہل المدینۃ میں تفصیلی کلام کیا ہے اور امام شافعی نے بھی کتاب الام کے متعدد مقامات پر اس ضمن میں فقہائے عراق کے ساتھ اپنے علمی مجادلوں کی روداد نقل کی ہے۔ امام شافعی نے اس حوالے سے دو مسئلوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے جس میں عراقی فقہاء اپنے موقف کے حق میں زور دار اور تفصیلی استدلال پیش کرتے تھے۔ ان میں سے ایک دوران نماز میں سہواً کلام کرنے سے نماز کے باطل ہونے یا نہ ہونے کا اور دوسرا مدعی کے پیش کردہ ایک گواہ کے ساتھ اس سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ (الام، ۲/۲۸۲) اس پورے مواد سے، فقہائے عراق کے موقف کی تین بنیادی دلیلیں سامنے آتی ہیں:
ایک یہ کہ یہ طریقہ قرآن مجید کے بیان کردہ طریقے کے خلاف ہے، کیونکہ سورۃ البقرۃ کی آیت ؟ سے ثابت ہوتا ہے کہ عدالت کے لیے ضروری ہے کہ وہ دو مردوں یا ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی کی بنیاد پر فیصلہ کرے، جبکہ زیر بحث حدیث میں اس کے برخلاف ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے ایک قسم لے کر فیصلہ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ (الاصل، ۱۱/۵۰۵) امام شافعی لکھتے ہیں کہ عراقی فقہاء کے نزدیک اگرکوئی قاضی اس طریقے کے مطابق فیصلہ کرے تو اس کے فیصلے کو فسخ کر دیا جائے گا، کیونکہ یہ طریقہ قرآن مجید کے خلاف ہے۔ (الام، ۸/۱۵؛ ۱٠/۲۹٠) یہی بات ابن عبد البر نے امام محمد کا نام لے کر ذکر کی ہے۔ (ابن عبد البر، الاستذکار، ۲۲/۵۳)
دوسری یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کرنے کا ایک عمومی اور معروف اصول یہ بیان کیا ہے کہ مدعی سے گواہ طلب کیا جائے اور مدعا علیہ سے قسم لی جائے۔ چنانچہ امام محمد، امام ابوحنیفہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی حال میں مدعا علیہ کے بجائے مدعی سے حلف لینے کے قائل نہیں تھے، حتیٰ کہ اگر مدعا علیہ اس پر راضی ہو کہ مدعی کے قسم کھانے پر اس کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے، تب بھی ایسا کرنا درست نہیں ہوگا۔ امام ابوحنیفہ کا استدلال یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی کی ذمہ داری گواہ پیش کرنا اور مدعا علیہ کی ذمہ داری قسم کھانا بیان فرمائی ہے، اس لیے اس طریقے کے خلاف مدعی سے قسم نہیں لی جا سکتی۔ (الاصل ۱۲/۱۳۲)
تیسری یہ کہ قضاء بالیمین مع الشاہد کی روایت سنداً کمزور اور ناقابل اعتماد ہے۔ الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ میں امام محمد کی بحث بنیادی طور پر اسی نکتے پر مرکوز ہے۔
اس ایک مثال کے علاوہ ہمیں ائمہ احناف کی آرا میں کوئی ایسی انطباقی مثال نہیں ملتی جس میں انھوں نے خبر واحد کو قرآن سے متعارض ہونے کی بنا پر رد کیا ہو۔ 
حنفی ائمہ سے براہ راست منقول توضیحات کے علاوہ ان کے منہج کی تفہیم میں امام شافعی کے بیانات بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں جو کتاب الام کے مختلف مباحث میں ملتے ہیں۔ امام شافعی کا اصل مطمح نظر تو فقہائے احناف کے نظریے کے بنیادی نکات کو بیان کر کے ان پر نقد کرنا ہے، تاہم اس کے ضمن میں انھوں نے حنفی فقہاء کا منہج بھی متعین کیا ہے جس کی اپنی علمی قدر وقیمت ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے کتاب الام کی ’’کتاب الدعوی والبینات‘‘ میں الخلاف فی الیمین مع الشاھد کے زیر عنوان طویل بحث خاص طورپر اہم ہے جس میں امام شافعی نے قرآن کے ظاہری عموم سے استدلال کے حوالے سے حنفی فقہاء کے انداز فکر پر اپنا نقد بے شمار مثالوں اور تفصیلی تجزیے کے ساتھ پیش کیا ہے۔
فقہائے احناف پر امام شافعی کی تنقید کے مقدمات حسب ذیل ہیں:
۱۔ احناف اصولی طور پر یہ بات مانتے ہیں کہ سنت، اللہ تعالیٰ ہی کی مراد کو بیان کرتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی حکم ثابت ہو تو قرآن کی مراد اسی کی روشنی میں متعین کی جائے گی اور دونوں حکموں کو تعارض پر محمول نہیں کیا جائے گا۔
۲۔ احناف بہت سی مثالوں میں اس اصول کا عملی انطباق بھی کرتے ہیں، چنانچہ مسح علی الخفین، نصاب سرقہ، زنا کی سزا ، قاتل اور غیر مسلم کو وراثت سے محروم قرار دینے، قرض کی ادائیگی کو وصیت سے مقدم کرنے، حق وصیت کو ایک تہائی تک محدود کرنے، کچلی والے درندوں کے گوشت کی حرمت اور اس جیسے دیگر کئی مسائل میں وہ سنت سے ثابت احکام کو واجب الاتباع قرار دیتے ہیں، اگرچہ وہ بظاہر قرآن کے عموم کے خلاف ہیں۔ (الام ۸/  ۵۲)
۳۔ احناف نے بعض مثالوں میں ایسی احادیث سے بھی قرآن کے ظاہر کی تخصیص کو قبول کیا ہے جنھیں صحت کے ساتھ صرف ایک صحابی نے نقل کیا ہے، جیسے پھوپھی اور بھتیجی سے بیک وقت نکاح کی ممانعت کے راوی صرف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکوٰۃ واجب نہ ہونے کی روایت صرف ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے۔ (الام ۳/۷۶، ۸/۴۸) 
۴۔ بعض مثالوں میں مختلف فیہ احادیث کو بھی احناف نے جواز تخصیص کی بنیاد مانا ہے، جیسے وارث کے حق میں وصیت کے عدم جواز کی روایت جو علمائے حدیث کے نزدیک سنداً ثابت نہیں۔ (الام ۸/۴۹) اسی طرح احناف ایسی صورت میں جب شوہر محدود فی القذف ہو اور اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے، دونوں کے مابین لعان کے قائل نہیں، جبکہ اس ضمن میں عمرو بن شعیب کی نقل کردہ حدیث کمزور اور ناقابل استدلال ہے۔ (الام ۸/۶۲)
۵۔ بعض مثالوں میں احناف نے حدیث کے بغیر، بعض صحابہ کے قول کی بنا پر ظاہر قرآن میں تخصیص کو قبول کیا ہے۔ مثلاً قرآن میں بیوی سے ہم بستری سے پہلے اسے طلاق دینے کی صورت میں اسے نصف مہر کی ادائیگی لازم قرار دی گئی ہے، لیکن احناف سیدنا عمر کے قول کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ خلوت صحیحہ کی صورت میں ہم بستری کے بغیر بھی پورا مہر ادا کرنا لازم ہوگا۔ (الام، ۸/۵٠) اسی طرح حالت احرام میں قرآن نے عمداً جانور کا شکار کرنے پر کفارے کی ادائیگی لازم کی ہے، لیکن احناف عمر اور عبد الرحمن کے آثار کی روشنی میں غلطی سے جانور کو قتل کرنے والے پر بھی کفارہ لازم قرار دیتے ہیں۔ (الام ۸/۵۳)
اس تمام مواد سے، جیسا کہ عرض کیا گیا، اس بحث میں ائمہ احناف کا بنیادی اور اصولی رجحان اور ان کے منہج کے خط وخال کافی حد تک واضح ہو جاتے ہیں، تاہم ایک مفصل ومنضبط اصولی نظریے کی وضاحت اور بہت سے اہم اصولی سوالات کی تنقیح کی ضرورت باقی رہتی ہے جس کی پہلی باقاعدہ کوشش ہمیں امام ابوبکر الجصاص کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ ذیل میں ہم جصاص کی توضیحات کی روشنی میں حنفی فقہاء کے اصولی موقف اور امام شافعی کے ساتھ اس کے اختلافی اور امتیازی نکات کی وضاحت کریں گے۔

کتاب اللہ کی تبیین

امام شافعی نے سنت میں کتاب اللہ کی تبیین کی جو مختلف صورتیں ذکر کی ہیں، ان میں قرآن کے مجمل احکام کی تفصیل، قرآن کے حکم میں موجود مختلف احتمالات میں سے کسی ایک احتمال کی تعیین اور کتاب اللہ کے عام احکام کی تخصیص شامل ہیں۔ حنفی اصولیین، ان میں سے پہلی دونوں صورتوں کے حوالے سے امام شافعی سے اتفاق رکھتے ہیں اور ایسے امور میں حدیث میں وارد توضیحات کو مراد الٰہی کی تعیین میں فیصلہ کن حیثیت دیتے ہیں۔ البتہ تیسری صورت یعنی عموم کی تخصیص کے ضمن میں ان کا نقطہ نظر امام شافعی سے مختلف ہے اور وہ اس صورت کو مزید ذیلی صورتوں میں تقسیم کرتے ہوئے مختلف حالتوں میں مختلف علمی اصولوں کی روشنی میں قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی توجیہ کرتے ہیں۔
امام ابوبکر الجصاصؒ نے سنت میں قرآن کے محتملات کی توضیح کی متعدد مثالیں ذکر کی ہیں۔ مثلاً وضو میں بازوؤں کو دھونے کا حکم بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں اِلَی الْمَرَافِقِ (المائدہ ۶:۵) کے الفاظ آئے ہیں جن سے قطعی طور پر یہ واضح نہیں ہوتا کہ کہنیاں دھونے کے حکم میں شامل ہیں یا نہیں۔ چنانچہ یہ تعبیر محتاج وضاحت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو کرنے کا طریقہ اس کے بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ (جصاص، شرح مختصر الطحاوی، ۱/۳۲۴، ۳۲۵) اسی طرح تیمم کی آیت میں اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ (النساء ۴: ۴۳) کے الفاظ باعتبار لغت یہ لفظ ہاتھ سے چھونے اور جماع کرنے کے دونوں معانی کو محتمل ہیں۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے اپنی ایک اہلیہ کو بوسہ دیا اور اس کے بعد وضو کیے بغیر نماز ادا فرما لی۔ یوں آپ نے اپنے عمل سے واضح کر دیا کہ آیت میں لٰمَسْتُم کا لفظ چھونے کے معنی میں نہیں، بلکہ ہم بستری کے معنی میں آیا ہے۔ (احکام القرآن، ۲/۳۷٠) 
کتاب اللہ میں کسی حکم کے مجملاً وارد ہونے کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حکم پر عمل کے لیے مقدار کی تعیین کی ضرورت پیش آئے، لیکن قرآن نے اس کی وضاحت نہ کی ہو۔ مثلاً اٰتُوا الزَّکٰوۃَ میں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ زکوٰۃ کی مقدار کیا ہے۔ اسی طرح وضو کے حکم میں بِرُءُ وْسِکُمْ (المائدہ ۶:۵) کے ساتھ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ سر کے کتنے حصے پر مسح کرنا مطلوب ہے۔ یوں یہ دونوں حکم مجمل ہیں اور توضیح کا تقاضا کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جو وضاحت کی، وہ مراد الٰہی کی تبیین کی حیثیت رکھتی ہے۔ (احکام القرآن، ۲/۳۴۳) 
جصاص کے مطابق کتاب اللہ میں مجمل احکام کی معروف ترین صورت وہ اصطلاحات ہیں جنھیں قرآن نے ان کے عام لغوی مفہوم سے نقل کر کے ایک بالکل نئے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ مثلاً صلاۃ کا لفظ عربی زبان میں دعاء کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، تاہم قرآن مجید میں اقامت صلاۃ کا حکم دیا گیا تو اس سے اس کا معروف لغوی معنی مراد نہیں تھا۔ اسی طرح زکاۃ کا لفظ عربی میں بڑھوتری کے لیے جبکہ صوم کا لفظ کسی چیز سے رکنے کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن قرآن میں زکاۃ کی ادائیگی اور صوم کے اہتمام سے مراد یہ لغوی معانی نہیں ہیں۔ (الفصول فی الاصول، ۱/۶۷، ۶۸ ) یہی معاملہ حج کے لفظ کا ہے جو لغت میں کسی جگہ قصد کا کرنے کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن شرعی اصطلاح میں اسے ایک مفہوم کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے جو اس کے عام لغوی مفہوم سے مختلف ہے۔ (احکام القرآن، ۱/۹۶) یوں یہ تمام الفاظ مجمل ہیں جو متکلم کی طرف سے اپنی مراد کی وضاحت کا تقاضا کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جو مفہوم واضح کیا، وہ ان کے بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔
مذکورہ دونوں قسم کے شرعی مفاہیم کے لیے اصولیین ’’الاسماء الشرعیۃ‘‘ اور ’’الاسماء اللغویۃ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یعنی اگر قرآن کے الفاظ سے وہی مفہوم مراد ہو جو لغت سے واضح ہوتا ہے تو احناف کے ہاں ایسے الفاظ کے لیے المعانی اللغویۃ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ البتہ اگر ایسے قرائن ودلائل موجود ہوں جو یہ بتاتے ہوں کہ شارع نے اس لفظ کے مفہوم ومعنی میں سادہ لغوی یا عرفی مفہوم کے مقابلے میں کوئی تبدیلی کی ہے اور اسے گویا ایک شرعی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے تو ایسے الفاظ کے لیے احناف ’’الاسماء الشرعیۃ‘‘ کی تعبیر استعمال کرتے اور انھیں ’’مجمل مفتقر الی البیان‘‘ کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔
اس بحث میں جصاص کا ایک اہم اضافہ الاسماء الشرعیۃ کی ایک ذیلی قسم کا بیان ہے۔ جصاص کا کہنا ہے کہ بعض دفعہ شارع، الفاظ کو ان کے لغوی مفہوم سے بالکل منقطع تو نہیں کرتا، تاہم ان کے اصل لغوی مفہوم کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے مفہوم میں کچھ ایسی مزید چیزیں شامل کر دیتا ہے جنھیں محض لغت کے علم کے ذریعے سے نہیں جانا جا سکتا۔ مثال کے طور پر ’ربا‘ کا لفظ لغت میں کسی چیز پر زیادتی کے مفہوم میں آتا ہے، لیکن شریعت میں اس سے مراد مالی لین دین میں ایک خاص نوعیت کی زیادتی ہے جس پر لفظ اپنے لغوی مفہوم کے لحاظ سے دلالت نہیں کرتا۔ مثلاً اہل عرب سونے کے ساتھ سونے اور چاندی کے ساتھ چاندی کے ادھار تبادلے کو ’ربا‘ نہیں سمجھتے تھے، جبکہ شریعت میں اسے ’ربا‘ قرار دیا گیا ہے۔ (احکام القرآن، ۱/۴۶۴، ۴۶۵) اسی طرح ’سرقہ‘ کا لغوی مفہوم اہل زبان کے نزدیک بالکل واضح ہے جو کسی مزید بیان کا محتاج نہیں۔ اب اگر آیت کے ظاہر پر عمل کیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جہاں بھی لغوی مفہوم کے لحاظ سے ’سرقہ‘ پایا جائے، وہاں ہاتھ کاٹنا لازم ہو، تاہم دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ قطع کا حکم صرف لغوی مفہوم پر مرتب نہیں کیا گیا، بلکہ اس کے ساتھ کچھ مزید قیود مثلاً حرز اور مقدار کا بھی اعتبار کیا گیا ہے۔ اس لیے مال مسروقہ کی مقدار کے پہلو سے یہ حکم مجمل ہے جو وضاحت اور بیان کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کا محض لغوی مفہوم مراد نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ احادیث میں مال مسروق کی قیمت ڈھال کے برابر ہونے کی قید لگائی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اس سے کم مقدار میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ جصاص لکھتے ہیں کہ اس کی وضاحت گویا آیت کا حصہ ہے اور آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ چو ر جب چوری کرے اور چوری شدہ مال کی قیمت ڈھال کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ (احکام القرآن، ۲/۴۱۵) 
اس اضافے کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے مذکورہ دونوں مثالوں یعنی ربا اور سرقہ کا تقابل امام شافعی کی توجیہ سے کرنا مناسب ہوگا۔ امام شافعی نے ان دونوں مثالوں کا ذکر اس صورت کے ضمن میں کیا ہے جب قرآن کا حکم عام ہو اور اس میں تخصیص کا بظاہر کوئی قرینہ موجود نہ ہو، لیکن سنت میں اس حکم کے حوالے سے کچھ تخصیصات وارد ہوئی ہوں۔ امام شافعی کے نزدیک ان تخصیصات کا کوئی ظاہری قرینہ قرآن میں موجود نہ ہونے کے باوجود انھیں اللہ تعالیٰ کی مراد کے طور پر قبول کرنا لازم ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مراد الٰہی کو سمجھنے اور اس کی وضاحت کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ (الام، ۱/۳٠، ۱/۷۳، ۷۴؛ ۴/۵؛ ۷/۳۱۹)
جصاص بھی ان تخصیصات کو قرآن کی تبیین قرار دیتے ہیں، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ امام شافعی کے نزدیک اصولی طور پر قرآن کا بیان واضح تھا اور مذکورہ تخصیصات سنت میں بیان نہ کی جاتیں تو قرآن کا ظاہری عموم ہی اللہ تعالیٰ کی مراد ہوتا، جبکہ جصاص کی توجیہ کے مطابق قرآن میں ربا اور سرقہ کا ظاہری لغوی مفہوم ابتداء ا ہی مراد نہیں تھا، بلکہ انھیں الاسماء الشرعیۃ کے طور پر ایک اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا گیا تھا جو محتاج وضاحت تھیں، اس لیے سنت میں وارد توضیحات کی نوعیت، قرآن کے عموم کے تخصیص کی نہیں، بلکہ مجمل کی تبیین کی ہے۔ 

زیادت اور تخصیص :تبیین یا نسخ؟

سنت کے ذریعے سے کتاب اللہ پر زیادت یا تخصیص سے متعلق امام شافعی کے موقف کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ سنت، کتاب اللہ کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی، اس لیے کہ پیغمبر کا منصب کتاب اللہ کی وضاحت ہے نہ کہ اس کے احکام میں ترمیم وتغییر کرنا۔ اس بنیادی موقف کی روشنی میں امام شافعی نے یہ قرار دیا ہے کہ سنت میں کتاب اللہ پر زیادت یا اس کی تخصیص کی تمام مثالیں، تبیین کی حیثیت رکھتی ہیں، چاہے تخصیص کا کوئی قرینہ قرآن کے حکم میں موجود ہو یا نہ ہو۔ چونکہ تخصیص وزیادت کی نوعیت تبیین کی ہے، اس لیے کتاب اللہ کی تخصیص کے لیے کسی حدیث کے صحیح ہونے کے علاوہ کوئی زائد شرط عائد کرنا درست نہیں۔
حنفی اصولیین نے ان تینوں نتائج فکر کے حوالے سے امام شافعی کے نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے متبادل موقف پیش کیا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

سنت کے ذریعے سے کتاب اللہ کا نسخ

امام شافعی کا موقف یہ ہے کہ سنت، کتاب اللہ کے احکام کو منسوخ نہیں کر سکتی، بلکہ وہ کتاب اللہ کے تابع ہے اور اس کا وظیفہ صرف یہ ہے کہ کلام الٰہی کی مراد کی تفصیل وتشریح کرے۔ امام صاحب نے سنت کے ذریعے سے قرآن کے نسخ کے خلاف بنیادی استدلال یہ پیش کیا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس مطالبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہ اس قرآن کو بدل دو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ تم ان سے یہ کہہ دو کہ مَا یَکُونُ لِیْ أَنْ أُبَدِّلَہُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِیْ، إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ (یونس ۱۵:۱٠) یعنی ’’مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس کو بدل ڈالوں۔ میں تو بس اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘
حنفی اصولیین نے امام شافعی کے اس موقف کو قبول نہیں کیا اور یہ قرار دیا کہ کتاب اور سنت، دونوں ایک دوسرے کے حکم کو منسوخ کر سکتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ قرآن اور سنت، دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پر مبنی ہونے کی وجہ سے واجب الاتباع ہیں۔ چنانچہ جس طرح قرآن کی کسی آیت کو کسی دوسری آیت کے ذریعے سے منسوخ کیا جا سکتا ہے، اسی طرح سنت کے ذریعے سے بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ بھی اسی طرح وحی اور واجب الاتباع ہے جیسے قرآن کی آیت ہے۔ البتہ احناف یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ سنت میں بیان ہونے والا حکم ایسا ہونا چاہیے جو ہم تک خبر واحد کے طریقے سے نہیں، بلکہ خبر مشہور یا متواتر کے طریقے سے پہنچا ہو۔ 
ابوبکر الجصاص، امام شافعی کے استدلال پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ استدلال فاسد ہے، کیونکہ سنت کے ذریعے سے قرآن کے حکم کی تنسیخ کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے قرآن میں تبدیلی کا حق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے کسی بھی حکم میں تبدیلی کا فیصلہ وحی ہی کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ وحی قرآن ہی کی صورت میں ہو، بلکہ وہ سنت کی صورت میں بھی نازل کی جا سکتی ہے۔ گویا مذکورہ آیت میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنی خواہش سے قرآن کے کسی حکم کو نہیں بدل سکتے۔ اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ اگر آپ کو قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعے سے کوئی حکم دیا جائے تو وہ بھی قرآن کے کسی حکم میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ (الفصول فی الاصول، ۲/۳۴۳۔۳۶۸)

اسلوب عموم کی اہمیت

اگر کلام میں بیان حکم کے لیے اسلوب عموم اختیار کیا گیا ہو اور بظاہر تخصیص کا کوئی قرینہ موجود نہ ہو تو زاویہ نگاہ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ امام شافعی اور حنفی اصولیین اس پر متفق ہیں کہ عموم کا یہ اسلوب کلام کی ایک مقصود دلالت ہے اور اس سے حکم کے عام ہونے پر استدلال کرنا درست ہے۔ البتہ اس نکتے کے بیان میں امام شافعی اور حنفی اصولیین کا انداز مختلف ہے۔ امام شافعی کا مدعا چونکہ حدیث سے غیر مشروط پر قرآن کے عموم کی تخصیص کا جواز ثابت کرنا ہے، اس لیے ان کا استدلال اس نکتے سے شروع ہوتا ہے کہ چونکہ عربی زبان کے اسالیب کے لحاظ سے عموم کا اسلوب بجائے خود ایک ایسا اسلوب ہے جو متعدد احتمالات رکھتا ہے، اس لیے الفاظ کے عموم سے حتمی طور پر یہ سمجھنا کہ عموم مراد بھی ہے، درست نہیں۔ امام صاحب اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ سنت میں وارد تخصیصات کی نوعیت بھی قرآن کی مراد کی توضیح وتبیین ہی کی ہے اور انھیں تبدیلی یا نسخ سمجھنا درست نہیں۔ اس کے بعد وہ یہ نکتہ ثانوی طور پر بیان کرتے ہیں کہ اسلوب عموم کے اپنی دلالت میں قطعی نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اسلوب عموم کی سرے سے کوئی معنویت اور اہمیت ہی نہیں اور کسی بھی بنیاد پر حکم میں تخصیص پیداکی جا سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے، اور اگر خود قرآن کے اندر یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں تخصیص کا کوئی قرینہ نہ ہو تو ایسے عموم کو محض امکانی احتمال کی بنیاد پر ظاہر سے صرف کرنا درست نہیں ہوگا۔ 
احناف چونکہ قرآن کے عموم کی تخصیص کو بعض شرائط سے مشروط کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ان کے استدلال میں نکات کی ترتیب الٹ جاتی ہے۔ ان کے نزدیک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عموم کا اسلوب ایک مستند اور واضح اسلوب ہے جسے حکم کا عموم بیان کرنے کے لیے استعمال کرنا زبان کے عام اسالیب کا بھی حصہ ہے، قرآن وسنت میں بھی اس اسلوب کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور فقہائے صحابہ کے استدلالات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ظاہری عموم کے اسلوب کو حکم کے عام ہونے کی دلیل تصور کرتے تھے۔ چنانچہ ظاہری عموم کو ہی متکلم کی مراد سمجھنا ضروری ہے، الا یہ کہ اس کے برخلاف قابل اعتماد نقلی یا عقلی قرائن موجود ہوں جو حکم کو ظاہری عموم سے صرف کرنے کا جواز بن سکتے ہوں۔

تخصیص کی دو صورتوں میں نوعیت کا فرق

سنت میں قرآن کے عموم کی تخصیص کی جو مثالیں ثابت ہیں، امام شافعی ان کی دو صورتیں تسلیم کرتے ہیں۔ ایک وہ جن میں حکم کی تخصیص کے قرائن خود قرآن مجید میں موجود ہوتے ہیں اور سنت انھی اشارات، علل اور قرائن کی روشنی میں مراد الٰہی کی وضاحت کرتی ہے، اور دوسری وہ جن میں حکم کی تخصیص کا کوئی قرینہ بظاہر قرآن میں دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم ان دو صورتوں میں سنت میں وارد توضیحات کی نوعیت سے متعلق ان کا کہنا یہ ہے کہ انھیں غیر مشروط طور پر کتاب اللہ کی تبیین پر محمول کرنا اور اسی حیثیت سے انھیں قبول کرنا لازم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے حکم میں تبدیلی یا ترمیم کرنا نہیں، بلکہ آپ اللہ تعالیٰ ہی کی مراد کو واضح کرتے ہیں، چنانچہ ان تخصیصات وزیادات کو بھی جن کا کوئی ظاہری قرینہ قرآن میں موجود نہیں، نسخ اور تغییر کے بجائے تبیین وتوضیح ہی کی مثال تسلیم کرنا لازم ہے۔
حنفی اصولیین امام شافعی کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے ان دونوں نوعیت کے احکام کا اصولی حکم الگ الگ متعین کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآن کے جو احکام بظاہر عام ہیں، لیکن عموم پر ان کی دلالت قطعی اور حتمی نہیں، بلکہ وہ توضیح وتفصیل کا احتمال رکھتے ہیں، ان سے متعلق سنت میں کسی دلیل مخصص کا وارد ہونا اس بات کی وضاحت ہوتا ہے کہ صیغہ عام سے تمام افراد نہیں، بلکہ بعض افراد مراد ہیں۔ گویا اس نوع کی تخصیص، نسخ کی نہیں، بلکہ بیان ہی کی قبیل سے ہے۔ (الفصول فی الاصول، ۱/۱۴۲، ۲/۲۲، ۲۷) 
مثلاً قرآن مجید میں غیر مسلم معاہدین کے ساتھ بر وقسط کا حکم دیا گیا ہے۔ (الممتحنہ ۸:۶٠) صدقہ وخیرات دینا بھی بر وقسط کی ایک صورت ہے، چنانچہ جصاص لکھتے ہیں کہ ظاہر کے لحاظ سے یہ آیت اہل ذمہ کو صدقات دیے جانے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ان صدقات (یعنی زکوٰۃ) کو مستثنیٰ کردیا ہے جن کی وصولی مسلمان حکمران کا اختیار ہے، چنانچہ زکوٰۃ غیر مسلموں کو نہیں دی جا سکتی۔ (احکام القرآن، ۱/۴۶۱) اسی طرح قرآن مجید میں مال غنیمت کے متعلق یہ عمومی ہدایت دی گئی ہے کہ اس کا پانچواں حصہ مخصوص مصارف کے لیے الگ کر کے باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کر دیے جائیں۔ (الانفال ۴۱:۸ ) اگر اس آیت کے ظاہری مفہوم کو دیکھا جائے تو جنگ کے نتیجے میں فتح ہونے والی اراضی کا حکم بھی یہی بنتا ہے کہ ان کا خمس نکال کر باقی زمینیں مجاہدین میں تقسیم کر دی جائیں، لیکن چونکہ متواتر روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر مفتوحہ زمینوں کو مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجائے سابقہ مالکوں کی ملکیت کو برقرار رکھا، اس لیے اس تخصیص کو آیت کے ساتھ ملا کر یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ حکمران کو مفتوحہ زمینوں کے متعلق مذکورہ دونوں اختیار حاصل ہیں۔ (شرح مختصر الطحاوی، ۷/۶۹) 
مذکورہ مثالوں میں چونکہ قرآن کے بیان کی دلالت قطعی اور صریح نہیں، اس لیے فقہائے احناف نے خبر واحد کے ذریعے سے اس کے ظاہری مفہوم کی تخصیص کو قبول کیا ہے۔
تاہم جو احکام اپنے مفہوم اور دلالت میں بالکل واضح ہیں اور مزید کسی تشریح وتبیین کا احتمال نہیں رکھتے اور بظاہر کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں جو اس پر دلالت کرتا ہو کہ یہاں عموم مراد نہیں تو ان سے متعلق سنت میں وارد تخصیص کو ’’تبیین‘‘ قرار دینے سے پہلے ایک مزید پہلو کا جائزہ لینا ہوگا اور وہ یہ ہے کہ کیا اس تخصیص کی وضاحت اصل حکم کے ساتھ ہی بیان کر دی گئی ہے یا زمانی وقفے کے بعد ایک مستقل حکم کی حیثیت سے بیان کی گئی ہے؟پہلی صورت میں اس کی حیثیت تبیین کی ہوگی، لیکن دوسری صورت میں اسے تبیین قرار دینا ممکن نہیں، اسے لامحالہ ’’تغییر‘‘ اور ’’نسخ‘‘ قرار دیا جائے گا۔
اپنے اس موقف کی توضیح میں حنفی اصولیین یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ کسی حکم میں شامل ضروری تخصیصات وتقییدات کی وضاحت اصل حکم کے ساتھ ضروری ہے، ورنہ یہ ماننا لازم آئے گا کہ شارع نے بیان اور وضاحت کو اس وقت سے موخر کر دیا جب اس کی ضرورت تھی اور یہ بات درست نہیں ہو سکتی۔ ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں کہ اگر قرآن کا بیان بذات خود واضح ہو اور کسی خارجی توضیح وتشریح کا محتاج نہ ہو، جبکہ روایت قرآن کے حکم کی تحدید یا اس میں کوئی اضافہ کر رہی ہو تو پھر اس امکان پر غور کیا جائے گا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ وضاحت آیت کے نزول کے موقع پر ہی فرما دی تھی؟ یعنی کیا حکم الٰہی کے ابلاغ کے ساتھ ہی آپ نے اس کی وضاحت بھی کر دی تھی جس سے سننے والوں کو معلوم ہو گیا کہ اصل حکم کے دائرۂ اطلاق میں فلاں اور فلاں صورتیں شامل نہیں؟ اگر یہ فرض کرنا ممکن ہو کہ دلیل مخصص، زمانی لحاظ سے حکم عموم کے مقارن ہے، یعنی شارع نے عین اسی وقت میں حکم کے خصوص کی وضاحت کر دی تھی تو یہ صورت ’’بیان‘‘ کے قبیل سے ہوگی، لیکن اگر آیت اپنے ظاہری عموم کے لحاظ سے لوگوں کو سنا دی گئی ہو اور لوگوں نے اس کے ظاہر سے حکم کا عام ہونا سمجھ لیا ہو اور پھر اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمایا ہو کہ فلاں اور فلاں صورتیں اس سے خارج ہیں تو اسے ’’بیان‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ احناف کا کہنا ہے کہ اگر حکم عموم بیان کرنے کے ساتھ متصلاً وضاحت نہ کی جائے، بلکہ اس کے ابلاغ اور استقرار کے کچھ عرصے کے بعد اس میں تخصیص کی جائے تو یہ بیان نہیں ہے، بلکہ اس طرح کی تمام تخصیصات، تقییدات اور زیادات کو نسخ کا عنوان دیا جائے گا، کیونکہ عقلاً یہ جائز نہیں کہ شارع کی مراد کسی حکم میں عموم کے بجائے خصوص ہو، لیکن وہ برسر موقع اس کی وضاحت کرنے کے بجائے لوگوں کو یہ سمجھنے دے کہ اس حکم سے عموم مراد ہے، حالانکہ وہ مراد نہ ہو۔ (احکام القرآن، ۲/۱۳۵)
جصاص نے تخصیص کی وضاحت کرنے والی حدیث کو زمانی لحاظ سے مقارن فرض کرنے کے لیے یہ شرط بھی بیان کی ہے کہ وہ شہرت واستفاضہ سے منقول ہو، کیونکہ خبر واحد سے منقول ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ تخصیص آیت کے ساتھ نہیں، بلکہ بعد میں کسی موقع پر بیان کی گئی۔
مثلاً قرآن مجید نے محرمات کی ایک فہرست بیان کی ہے جس میں جمع بین الاختین کا بھی ذکر ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مذکورہ حرمتوں کے علاوہ باقی تمام عورتوں سے نکاح تمھارے لیے حلال ٹھہرایا گیا ہے۔ (النساء ۴: ۳۲، ۴۲) تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فہرست میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی عورت کو اس کی بھتیجی یا بھانجی کے ساتھ بھی ایک آدمی کے نکاح میں جمع نہیں کیا جا سکتا۔ (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب لا تنکح المراۃ علیٰ عمتہا، رقم ۵۱٠۸)
جصاص لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وضاحت یا تو آیت کے ساتھ ہی فرما دی ہوگی اور یا پھر بعد میں کسی موقع پر۔ اگر آپ کا یہ ارشاد اسی موقع کا ہے جس پر آیت نازل ہوئی تھی تو اس کی حیثیت آیت کے بیان کی ہوگی۔ گویا حکم الٰہی کے ابلاغ کے ساتھ ہی آپ نے اس کی وضاحت بھی کر دی جس سے سننے والوں کو معلوم ہو گیا کہ وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ میں پھوپھی اور خالہ شامل نہیں۔ دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ آیت اپنے ظاہری عموم کے لحاظ سے لوگوں کو سنا دی گئی ہو اور لوگوں نے اس کے ظاہر سے جمع بین العمۃ والخالۃ کی حلت سمجھی ہو اور پھر اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمایا ہو کہ یہ ممنوع ہے۔ ایسی صورت میں یہ نسخ ہوگا۔ بہر دو صورت، یہ حدیث چونکہ متواتر ومستفیض ہے اور علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے، اس لیے اس کے ذریعے سے آیت کا نسخ یعنی جزوی تخصیص جائز ہے۔ (احکام القرآن، ۲/۱۳۵)

ظاہری عموم مراد نہ ہونے کی صورت میں تخصیص کا جواز

اگر شارع نے کوئی حکم عموم کے صیغے سے بیان کیا ہو ، لیکن قابل اعتماد دلائل وقرائن سے یہ واضح ہو جائے کہ اس کا ظاہری عموم متکلم کی مراد نہیں تو ایسے ظاہری عموم کی تخصیص بالاتفاق خبر واحد کے ذریعے سے کی جا سکتی ہے۔ فقہائے احناف کے نزدیک قابل اعتماد دلائل میں عقلی قرائن اور لفظ کے محتمل ہونے کے علاوہ ایک اہم دلیل یہ بھی ہے کہ ظاہری عموم کے مراد نہ ہونے پر علمائے سلف کا اتفاق ہو یا ان کے مابین اجتہادی اختلاف واقع ہوا ہو اور انھوں نے اس اختلاف پر کوئی نکیر نہ کر کے یہ واضح کر دیا ہو کہ زیر بحث نص میں عموم کا مراد ہونا قطعی نہیں۔ (الفصول فی الاصول، ۱/۷۴)
اس کی مثال قرآن کی وہ آیت ہے جس میں خورونوش میں حرمت کو چار چیزوں میں محصور قرار دیا گیا ہے۔ اس کا ظاہری مفہوم مراد نہ ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے، کیونکہ تمام فقہاء کے نزدیک کچھ ایسے جانور بھی حرام ہیں جن کا آیت میں ذکر نہیں، مثلاً شراب اور بندر کا گوشت وغیرہ۔ مزید یہ کہ اس آیت کے متعلق صحابہ کا باہمی اختلاف ہوا اور بعض نے اس سے ظاہری عموم سمجھا اور بعض نے خصوص، لیکن کسی نے دوسرے پرنکیر نہیں کی۔ چنانچہ ایسی آیت کی تخصیص خبر واحد سے کی جا سکتی ہے۔ (الفصول فی الاصول، ۱/۱۸۱، ۱۸۲)
اسی طرح قرآن مجید میں ماں باپ اور اولاد کے مطلقاً ایک دوسرے کے وارث بننے کا ذکر ہے (النساء ۴: ۱۱) جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں تخصیص کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان، کافر کا وارث نہیں بنے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب الفرائض، باب لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم، رقم ۶۷۶۴) نیز فرمایا کہ جو شخص (اپنے مورث کو) قتل کر دے، وہ بھی وراثت میں حصہ نہیں پائے گا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب القاتل لا یرث، رقم ۲۶۴۵) جصاص لکھتے ہیں کہ وراثت کی آیت کا عموم باتفاق فقہاء مراد نہیں، اس لیے اس کی تخصیص خبر واحد سے کرنا درست ہے۔ (احکام القرآن، ۲/۱٠۲) 
قرآن مجید میں چور کی سزا مطلقاً یہ بیان ہوئی ہے کہ اس کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں، (المائدہ ۳۸:۵ ) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک چوتھائی دینار سے کم مالیت کی چیز چرانے پر بھی چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ (صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب حد السرقۃ ونصابہا، رقم ۱۶۸۴) اسی طرح غیر محفوظ جگہ سے کی گئی چوری کو بھی قطع ید سے مستثنیٰ قرار دیا۔ (سنن ابی داود، کتاب الحدود، باب ما لا قطع فیہ، رقم ۴۳۹٠) نیز فرمایا کہ درختوں سے پھل وغیرہ اتارنے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الحدود، باب لا یقطع فی ثمر ولا کثر، رقم ۲۵۹۳) احناف کا کہنا ہے کہ یہاں قرآن کی آیت کا عموم مراد نہ ہونا سلف کے اتفاق سے ثابت ہے اور ایسی آیت کی تخصیص اخبار آحاد سے کی جا سکتی ہے۔ (الفصول فی الاصول، ۱/۱۸۵) 
اس بحث میں امام شافعی بھی علمائے سلف کے فہم کو بھی ایک دلیل کے طور پر قبول کرتے ہیں، تاہم وہ اسے ان کے اجماعی اور متفقہ فہم تک محدود رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحابہ کے اقوال سے ظاہری عموم کو خصوص پر محمول کرنا ثابت ہو یا اہل علم کا اجماعی فہم یہ بتاتا ہو کہ قرآن کا ظاہری معنی یا ظاہری عموم مراد نہیں تو اس تفسیر کو قبول کرنا لازم ہے۔ (الام، ۶/۲۸٠؛ ۷/۱۶٠، ۱۶۱) اہل علم کے مابین اختلاف کی صورت میں امام شافعی کے نزدیک قرآن کا ظاہری عموم ہی واجب الاتباع ہوتا ہے۔ (الام ۸/۵۵)
حنفی اصولیین کا یہ موقف بھی ہے کہ اگر یہ واضح ہو جائے کہ کسی حکم میں ظاہری عموم مراد نہیں، خاص طور پر جب اس میں ایک دفعہ کسی یقینی دلیل سے تخصیص ثابت ہو چکی ہو، تو پھر نہ صرف خبر واحد بلکہ قیاس کی بنیاد پر بھی اس کی مزید تخصیص کی جا سکتی ہے۔ امام شافعی کے ہاں بھی بعض ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں وہ نصوص میں مذکور دیگر احکام پر قیاس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن کے حکم میں عموم سے خصوص مراد ہے۔ مثلاً قرآن میں طلاق اور عدت کی آیات سے متعلق امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ احکام اس کا بھی احتمال رکھتے ہیں کہ ان سے مراد عموم ہو اور آزاد مردوں اور عورتوں کے ساتھ غلاموں اور باندیوں کے لیے بھی یہی حکم ہو، اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کا اطلاق صرف آزاد مرد وعورت پر مقصود ہو۔ چونکہ شریعت کے بہت سے دیگر احکام میں آزاد اور غلام میں فرق کیا گیا ہے، مثلاً غلاموں کی سزا آزاد مرد وعورت سے نصف مقرر کی گئی ہے، غلاموں کی گواہی قابل قبول نہیں اور وہ ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے وراثت کے حق دار بھی نہیں، نیز شادی شدہ غلام کو بدکاری کرنے پر سنگسار نہ کرنے پر بھی اجماع ہے، اس لیے ان تمام دلائل پر قیاس کرتے ہوئے اہل علم کا اجماع ہے کہ باندی کی طلاقوں کی تعداد اور عدت کا دورانیہ بھی آزاد عورت سے نصف یعنی دو طلاقیں اور دو ماہواریاں ہے۔ (الام ۶/۵۵٠، ۵۵۱)تاہم اس مثال میں جس حکم یعنی طلاقوں کی تعداد اور عدت کا دورانیہ نصف ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ صرف قیاسی دلیل پر مبنی نہیں بلکہ اس پر اجماع بھی ہے، اس لیے اس سے یہ اخذ کرنا مشکل ہے کہ امام شافعی محض قیاس کی بنیاد پر بھی عموم متحمل کی تخصیص کو جائز سمجھتے ہوں۔

اثبات نسخ کے لیے یقینی دلیل کی شرط

امام شافعی اور حنفی اصولیین کے مابین اختلاف کا ایک بنیادی اور اہم نکتہ یہ ہے کہ احناف کے نزدیک قطعی ذریعے سے ثابت حکم میں نسخ ثابت کرنے کے لیے ظنی دلیل کافی نہیں، بلکہ یقینی دلیل درکار ہے۔ چنانچہ امام شافعی ہر خبر واحد سے جو صحت کی شرائط پر پورا اترتی ہو، قرآن کے حکم میں تخصیص یا اس پر زیادت کے جواز کے قائل ہیں، جبکہ فقہائے احناف علی الاطلاق اس کے جواز کے قائل نہیں، بلکہ اس ضمن میں مخصوص شرائط عائد کرتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ایسے کسی بھی حکم کی تخصیص کے لیے ضروری ہے کہ جس حدیث کی بنیاد پر تخصیص کی جا رہی ہے، وہ خبر واحد نہیں، بلکہ مشہور ومستفیض حدیث ہو یا اگر خبر واحد ہو تو اسے فقہاء کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہو۔ (الفصول فی الاصول، ۱/۴۷) تخصیص وتقیید کی طرح احناف قرآن کے حکم میں کسی زیادت یعنی اضافے کو بھی ’’تغییر‘‘ اور جزوی نسخ کی ایک صورت قرار دیتے ہیں اور اخبار آحاد سے قرآن پر زیادت کے لیے وہی شرائط عائد کرتے ہیں جو تخصیص وتقیید کی صورت میں عائد کی جاتی ہیں۔ 
اس اصول کی روشنی میں فقہائے احناف نے بہت سی اخبار آحاد کی بنیاد پر قرآن کے حکم میں تخصیص وزیادت کو قبول کیا ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں مرنے والے کے لیے اپنے مال میں وصیت کرنے کا حق بیان کیا گیا ہے اور اس کی مقدار کے حوالے سے کوئی تحدید بیان نہیں کی گئی، ( النساء ۴: ۱۱) تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعے میں اس حق کو ترکے کے ایک تہائی تک محدود کر دیا۔ (صحیح البخاری، کتاب الوصایا، باب الوصیۃ بالثلث، رقم ۲۷۴۴) جصاص لکھتے ہیں کہ یہ روایت شہرت واستفاضہ کی بنا پر ہمارے نزدیک متواتر کے درجے میں ہے اور فقہاء کے ہاں بھی اسے تلقی بالقبول حاصل ہے اور ایسی روایت جو علم وعمل کے وجوب کے لحاظ سے قرآن کی آیات کے ہم پلہ ہو، اس کے ذریعے سے قرآن کے حکم کو منسوخ کرنا ہمارے نزدیک جائز ہے۔ (احکام القرآن، ۱/۱۶۵، ۱۶۶) 
اس کی ایک اور مثال قرآن مجید کا یہ بظاہر مطلق حکم ہے کہ میت کا ترکہ ورثا میں تقسیم کرنے سے پہلے اس کی وصیت پوری لازم ہے، (النساء ۴: ۱۱) تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہ وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔ (سنن ابی داود، کتاب الوصایا، باب ما جاء فی الوصیۃ للوارث، رقم ۲۸۷٠) جصاص لکھتے ہیں کہ فقہاء نے اس حدیث پر عمل کیا ہے اور اسے ان کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے اور جو اخبار آحاد فقہاء کے ہاں تلقی بالقبول حاصل کر لیں، وہ درجے اور قوت میں متواتر روایت کے برابر ہو جاتی ہیں، ا س لیے مذکورہ روایت کے ذریعے سے قرآن کی آیت کی تخصیص جائز ہے۔ (احکام القرآن، ۱/۳۷) 
قرآن مجید میں شوہر کے لیے بیوی کو طلاق دینے کا اختیار تین مرتبہ تک بیان کیا گیا ہے۔ (البقرۃ ۲: ۲۲۹، ۲۳٠) اسی طرح مطلقہ کے لیے تین ماہواریوں کی عدت لازم کی گئی ہے۔ (البقرۃ ۲: ۲۲۸) تاہم احادیث میں بیان ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باندی کی طلاق کو دو تک اور عدت کو دو ماہواریوں تک محدود قرار دیا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، باب فی طلاق الامۃ وعدتہا، رقم ۲٠۷۹) جصاص لکھتے ہیں کہ یہ روایت اگرچہ بطریق آحاد نقل ہوئی ہے، لیکن امت کے اہل علم نے اسے بالاتفاق قبول کیا ہے جس کی بدولت یہ متواتر کے درجے میں آ گئی ہے اور اس سے قرآن کے حکم کی تخصیص جائز ہے۔ (احکام القرآن، ۱/۳۸۶) 

قرآن اور اخبار آحاد کے مابین رفع تعارض کی صورتیں

اگر سنت میں وارد تخصیص یا زیادت کو کتاب اللہ کی تبیین قرار نہ دیا جا سکتا ہو اور مطلوبہ شرائط کے نہ پائے جانے کی وجہ سے حدیث سے کتاب اللہ کے حکم کو منسوخ کرنا بھی ممکن ہو تو خبر واحد کو قوی تر دلیل کے معارض ہونے کے اصول پر رد کرنے سے پہلے حنفی اہل علم رفع تعارض اور تطبیق کے دو امکانات کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

قرآن کی روشنی میں احادیث کی تاویل

قرآن اور حدیث کے ظاہری تعارض کی صورت میں تطبیق کی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ حدیث کو اس کے ظاہری مفہوم کے لحاظ سے قبول کرنے کے بجائے اس کی ایسی تاویل کی جائے جس سے وہ قرآن کے مطابق ہو جائے۔ 
مثلاً بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرماتے ہوئے سر پر رکھے ہوئے عمامہ کو کھولنے کے بجائے اس کے اوپر ہی مسح کر لیا۔ (صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب المسح علی الخفین، رقم ۲٠۵؛ سنن ابی داود، کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، رقم ۱۵٠) فقہائے احناف اور جمہور اہل علم کا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سر پر مسح کرنے کاحکم دیا ہے جبکہ پگڑی یا کپڑ ے پر مسح کرنے کو سر کامسح نہیں کہا جا سکتا، اس لیے سر کے بالوں کے جتنے حصے کا مسح فرض ہے، وہ بالوں پر ہی کرنا ضروری ہے اور اس کے خلاف کوئی روایت کتاب اللہ کے معارض ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کی جا سکتی، البتہ روایت کو اس پر محمول کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض کے بقدر سر پر مسح کرنے کے بعد پورے سر پر مسح کرنے کی سنت پگڑی یا کپڑے پر مسح کرکے اد ا فرما لی ہوگی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ۱/۱۹۳) 
متعدد واقعات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح میں مال کے علاوہ کچھ دوسری چیزوں مثلاً قرآن کی تعلیم دینے، خاتون کو آزاد کر دینے یا اس کی طرف سے بدل کتابت ادا کر دینے وغیرہ کو مہر وغیرہ مقرر کر دینا ثابت ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب تزویج المعسر الذی معہ القرآن والاسلام، رقم ۵٠۸۷؛ ایضاً، کتاب النکاح، باب من جعل عتق الامۃ صداقہا، رقم ۵٠۸۶؛ سنن ابی داود، کتاب العتق، باب فی بیع المکاتب اذا فسخت الکتابۃ، رقم ۳۹۳۱) فقہائے احناف کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں مہر کا ذکر کرتے ہوئے اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں (النساء ۴: ۲۴) جن کا تقاضا یہ ہے کہ مہر کے طور پر کوئی ایسی چیز ہی دی جا سکتی ہے جس کو ’’مال‘‘ کہا جا سکتا ہو۔ احناف اس کی روشنی میں مذکورہ روایت کی مختلف تاویلات کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ تعلیم قرآن کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ چونکہ تمھیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے، اس لیے میں (مہر کی رقم نہ ہونے کے باوجود) اس عورت کا نکاح تمھارے ساتھ کر رہا ہوں۔ رہا مہر کا معاملہ تو احناف کے نقطہ نظر کے مطابق اس کی ادائیگی استطاعت ہونے پر اس آدمی کے ذمے لازم رہی۔ (القدوری، التجرید، ۹/۴۶۳٠) اسی طرح ایک واقعے میں عورت نے اپنے آپ کو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کے لیے پیش کیا تھا اور اپنا معاملہ آپ کے سپرد کردیا تھا۔ چونکہ قرآن میں آپ کو مہر کے بغیر نکاح کرنے کی خصوصی اجازت دی گئی ہے، اس لیے آپ نے اس اختیار کے تحت اس کا نکاح بغیر مہر کے ایک دوسرے خواہش مند کے ساتھ دیا۔ (الطحاوی، شرح معانی الآثار، ۳/۱۸، ۱۹) بعض امہات المومنین کے آزاد کرنے کو ان کا مہر قرار دیے جانے کی توجیہ بھی احناف نے اسی تناظر میں کی ہے اور ان کی رائے میں امہات المومنین کو آزاد کرنے کو ان کا مہر قرار دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا۔ چونکہ آپ پر سرے سے مہر ادا کرنا ہی لازم نہیں تھا، اس لیے آپ جیسے بغیر مہر کے نکاح کر سکتے تھے، اسی طرح مہر میں کوئی ایسی چیز بھی دے سکتے تھے جو مال نہ ہو۔ (شرح معانی الآثار، ۳/۲٠، ۲۲) 
بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے سرپرست کی رضامندی کے بغیر ازخود اپنا نکاح نہیں کر سکتی اور اگر کوئی عورت ایسا کرے تو اس کا نکاح باطل ہوگا۔ (سنن الترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاء لا نکاح الا بولی، رقم ۱۱٠۱، ۱۱٠۲) 
حنفی فقہاء اس روایت کو ظاہر کے اعتبار سے قرآن مجید کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید نے نکاح کے احکام کا ذکر کرتے ہوئے علی العموم اس کی نسبت خود عورت کی طرف کی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نکاح کرنے کو اصلاً عورت کا حق سمجھتا ہے اور بالغ ہونے کے بعد عورت جیسے اپنے مال میں خود تصرف کرنے کا حق رکھتی ہے، اسی طرح اپنی ذات کے بارے میں بھی فیصلہ کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے۔ اس وجہ سے مذکورہ روایات کو ظاہری مفہوم کے لحاظ سے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ حنفی فقہاء زیربحث روایات کی ایک ممکنہ تاویل یہ بیان کرتے ہیں کہ ان میں باندیوں کا حکم بیان کیا گیا ہے، کیونکہ ان کے بارے میں خود قرآن مجید نے تصریح کی ہے کہ وہ اپنا نکاح اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتی اور اگر کوئی شخص کسی باندی سے نکاح کرنا چاہے تو اس کے مالک کی رضامندی ضروری ہے۔ (النساء ۴: ۲۵) یوں ان روایات کو آزاد خواتین کے بجائے باندیوں سے متعلق قرار دیا جائے تو وہ قرآن کے مطابق ہو جاتی ہیں۔ (احکام القرآن، ۱/۴٠٠، ۲/۵۳) 
اسی نوعیت کی ایک معروف مثال وہ حدیث ہے جس کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جانور کے پیٹ میں اگر بچہ ہو تو اس کی ماں کا ذبح کیا جانا بچے کے حلال ہونے کے لیے کافی ہے۔ (سنن ابی داود، کتاب الضحایا، باب ما جاء فی ذکاۃ الجنین، رقم ۲۸۲۸) یعنی جانور کےس پیٹ سے اگر بچہ نکل آئے تو اس کا گوشت کھانا جائز ہے اور اس کی ماں کا ذبح کر دیا جانا پیٹ میں موجود بچے کے لیے بھی ذبح کا حکم رکھتا ہے۔ تاہم فقہائے احناف کے نزدیک ایسے جانور کا حکم مردار کا ہے جو قرآن مجید کی رو سے حرام ہے۔ چنانچہ وہ زیر بحث حدیث کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ اس میں مادہ جانور کے ذبح کیے جانے کو اس کے پیٹ میں موجود بچے کی حلت کے لیے کافی قرار نہیں دیا گیا، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ بچے کوبھی اس کی ماں ہی طرح ذبح کرنا ضروری ہے۔ احناف کہتے ہیں کہ عربی زبان کی رو سے ’ذکاۃ الجنین ذکاۃ امہ‘ کے جملے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچے کے لیے اس کی ماں کا ذبح کیا جانا ہی کافی ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچے کو بھی اسی طرح ذبح کیا جائے جیسے اس کی ماں کو کیا گیا ہے۔ چونکہ قرآن کی نص کی رو سے ماں کے پیٹ سے مردہ نکلنے والا بچہ ’میتہ‘ ہے، اس لیے حدیث کو اس مفہوم پر محمول کیا جائے گا جو قرآن کے موافق ہو۔ (احکام القرآن، ۱/۱۱۲) 

احکام کی درجہ بندی کے لحاظ سے تطبیق 

اگر کتاب اللہ کا حکم فی نفسہ واضح ہو او رکسی تبیین وتوضیح کا محتاج نہ ہو، جبکہ احادیث میں بیان ہونے والی تفصیلات اس حکم کی تخصیص یا اس پر زیادت کی نوعیت رکھتی ہوں تو ایسی صورت میں حنفی منہج میں قرآن اور سنت کے مابین توفیق وتطبیق کا ایک طریقہ یہ ہے کہ فقہی درجے کے اعتبار سے قرآن کے حکم اور حدیث کے حکم میں فرق کر لیا جائے اور قرآن کے حکم کو بنیادی جبکہ حدیث میں بیان ہونے والے حکم کو اہمیت کے لحاظ سے ثانوی قرار دیا جائے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایسی مثالوں میں اگر کسی حکم کو قرآن مجید نے بنیادی طور پر موضوع بنایا ہو تو اس کا جتنا حصہ قرآن میں بیان کیا گیا ہے، وہ اصل اور بنیادی حکم ہوگا، جبکہ اس سے زائد کچھ چیزیں اگر احادیث میں بیان کی جائیں تو وہ اہمیت کے اعتبار سے ثانوی درجے کی ہوں گی، کیونکہ اگر انھیں بھی اسی درجے میں فرض اورلازم مانا جائے تو اس سے قرآن کے حکم کا، جسے اس نے باقاعدہ موضوع بنا کر بیان کیا ہے، ناقص اور نامکمل ہونا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں۔
اس حوالے سے بعض مثالوں میں امام شافعی اور حنفی فقہاء کے زاویہ نظر میں ایک دلچسپ مماثلت بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے چہرے، بازؤوں اور پاؤوں کو دھونے اور سر پر مسح کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ (المائدہ ۶:۵) تاہم احادیث میں منہ دھوتے ہوئے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا بھی ذکر ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں نماز کے اعمال میں رکوع اور سجود کا ذکر کیا گیا ہے (الحج ۷۷:۲۲) لیکن اس حالت میں پڑھے جانے والے مخصوص اذکار کا ذکر قرآن میں نہیں، بلکہ ان کی تفصیل ہمیں سنت میں ملتی ہے۔ امام شافعی اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے وضو کے طریقے میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا اور اسی طرح رکوع وسجود کے علاوہ کسی اور عمل کا ذکر نہیں کیا، اس لیے جو شخص بس منہ دھو لے اور رکوع وسجود کر لے، وہ وضو اور نماز کے فرض سے بری الذمہ ہو جائے گا، جبکہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا نیز رکوع وسجود میں اذکار پڑھنا ایک مستحب عمل ہوگا۔ (الام ۲/۲۵۳)
یہی طرز استدلال حنفی اصولیین کے ہاں بھی ملتا ہے۔ چنانچہ احادیث میں وضو کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنے، منہ دھوتے ہوئے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے، اعضا کو تین مرتبہ دھونے، ڈاڑھی کا خلال اور کانوں کا مسح کرنے کے اعمال میں سے کسی کو وضو کی صحت کے لیے شرط اور لازم نہیں سمجھتے، بلکہ انھیں مستحب کے درجے میں قبول کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر یہ بھی وضو کے لازمی اعمال ہوتے تو قرآن میں اعضا کے دھونے او رمسح کرنے کے ساتھ ان کا بھی اہتمام کے ساتھ ذکر کیا جاتا۔ (اصول البزدوی، ص ۱۴؛ اصول السرخسی، ۱/۱۴۳) امام محمد، امام ابوحنیفہ سے نقل کرتے ہیں کہ وضو میں سر کا مسح فرض ہے، کیونکہ یہ قرآن میں مذکور ہے، جبکہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنا فرض نہیں، کیونکہ ان کا ذکر قرآن میں نہیں کیا گیا۔ (الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ ، ۱/۱۸) 
تاہم اس اصول کے انطباق کے حوالے سے بعض مثالوں میں امام شافعی اور حنفی فقہاء کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ مثلاً احناف اسی اصول کی روشنی میں علاقہ بدر کرنے کو، جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت میں بیان ہوئی ہے، کنوارے زانی کی سزا کا لازمی حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی رائے میں قرآن نے جس سزا کے بیان پر اکتفا کی ہے، وہی اصل سزا ہے اور اس پر کوئی اضافہ کرنا قرآن کے نسخ کو مستلزم ہے جو خبر واحد سے نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ جلاوطنی کی سزا ایک تعزیری اور اختیاری سزا ہو سکتی ہے جس کے نفاذ یا عدم نفاذ کا مدار قاضی کی صواب دید پر ہے۔ (احکام القرآن، ۳/۲۵۵، ۲۵۶) امام شافعی کا موقف اس مثال میں مختلف ہے اور وہ کوڑوں کے ساتھ جلاوطنی کو بھی زنا کی شرعی حد کا حصہ شمار کرتے ہیں۔ (الام ۷/۳۳۷، ۳۳۸)
بعض مثالوں میں احناف، حدیث سے ثابت بعض زائد احکام کو، دلائل وقرائن کی روشنی میں مستحب سے بڑھ کر واجب کے درجے میں قبول کرتے ہیں جو احناف کے نزدیک فرض سے کم تر ایک درجہ ہے۔ 
مثال کے طور پر قرآن مجید میں نماز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ (المزمل ۷۳: ۲٠) لیکن احادیث میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فاتحہ کی قراء ت کے بغیر نماز کو نامکمل قرار دیا۔ (صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب وجوب القراء ۃ للامام والماموم فی الصلوات کلہا، رقم ۷۵۶) فقہائے احناف نے ان روایات کی بنیاد پر فاتحہ کو نماز کے فرائض میں شمار نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں نماز کے دوران میں کسی تعیین کے بغیر مطلقاً قرآن کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ قرآن مجید میں نماز کے دوران میں کسی تعیین کے بغیر مطلقاً قرآن کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ فاتحہ کی قراء ت کو فرض قرار دینا قرآن کی ہدایت کے نسخ کو مستلزم ہے جو خبر واحد سے نہیں ہو سکتا، اس لیے جمہور فقہائے احناف نے دونوں نصوص میں یوں تطبیق دی ہے کہ نماز میں قرآن مجید کے کسی بھی حصے کی قراء ت فرض ہے جس کے بغیر نماز سرے سے ادا ہی نہیں ہوگی، جبکہ فاتحہ کی قراء ت واجب ہے جو اگر سہواً چھوٹ جائے تو سجدۂ سہو سے اس کی تلافی ہو سکتی ہے۔ یہاں بھی احناف کا طرز استدلال یہی ہے کہ حکم یا حکم کا جتنا حصہ قطعی الثبوت نص سے ثابت ہے، اسے فرض کا جبکہ ظنی الثبوت نصوص سے ثابت حکم کو واجب کا درجہ دیا جائے گا۔ (السرخسی، المبسوط، ۱/۱۹؛ الکاسانی، بدائع الصنائع، ۱/۱۶٠) 
اسی کی ایک مثال رکوع وسجود کی حالت میں سکون واطمینان کا حکم ہے۔ احناف، سورۃالبقرۃ کی آیت ۴۳ : وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ کی روشنی میں نفس رکوع کو فرض مانتے ہیں جس کا ترک نماز کو باطل کر دیتا ہے، لیکن رکوع وسجود کی حالت میں اطمینان اور سکون کی ہدایت چونکہ حدیث سے ثابت ہے، اس لیے احناف اسے واجب کا درجہ دیتے ہیں جس کے ترک کرنے سے نماز کلیتاً باطل نہیں، بلکہ ناقص شمار ہوتی ہے۔ (احکام القرآن، ۱/۳۲) 
یہی معاملہ طواف کی حالت میں باوضو ہونے کاہے۔ قرآن مجید میں بیت اللہ کے طواف کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس حالت میں باوضو ہونے کی شرط قرآن میں مذکور نہیں، بلکہ احادیث سے ثابت ہے۔ چنانچہ احناف نے اسے طواف کے فرائض وارکان کے بجائے واجبات میں شمار کیا ہے۔ (بدائع الصنائع، ۲/۱۲۹) 

جوازِ تخصیص کی شرائط پر پورا نہ اترنے والی اخبار آحاد

حنفی اصولیین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآن کے جس حکم کا مفہوم واضح اور مراد بالکل روشن، ہو اور وہ کسی وضاحت کا محتاج نہ ہو، نیز اہل علم کے اتفاق سے اس حکم میں (کسی پہلو سے) تخصیص بھی ثابت نہ ہو (نیز یہ کہ قرآن اور حدیث کے بیان میں بظاہر کوئی توفیق وتطبیق بھی ممکن نہ ہو) تو ایسے حکم کی تخصیص خبر واحد یا قیاس کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی۔ ایسی صورت میں احناف قرآن سے متعارض اخبار آحاد کو ترک کر دیتے ہیں۔
فقہائے احناف نے اس اصول پر متعدد اخبار آحاد کو قبول نہیں کیا۔ اس کی معروف ترین مثالوں میں ایک تو قضاء بالیمین مع الشاہد کی روایت ہے جس کا ذکر بحث کی ابتدا میں امام محمد کے حوالے سے ہو چکا ہے۔ ایک اور مثال فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ جس عورت کو اس کے شوہر نے تین طلاقیں دے دی ہوں، اس کا نفقہ دورانِ عدت میں خاوند کے ذمے واجب نہیں۔ (سنن ابی داود، کتاب الطلاق، باب فی نفقۃ المبتوتۃ، رقم ۲۲۸۴) احناف کا موقف یہ ہے کہ یہ روایت قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف ہے جس میں شوہروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ طلاق کے بعد عدت کے دوران میں اپنی طاقت کے مطابق بیویوں پر خرچ کریں۔ (الطلاق ۶۵: ۶) نفقہ بھی چونکہ رہائش کے ساتھ لازم وملزوم ہے، اس لیے آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ دورانِ عدت میں بیوی کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہے، لہٰذا مذکورہ حدیث کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ (اصول السرخسی، ۱/ ۵۷۳) 
جن احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روایت کیا گیا ہے کہ ایک یا دو مرتبہ (عورت کا پستان) چوسنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی، (صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب فی المصۃ والمصتان، رقم ۱۴۵٠) احناف کے نقطہ نظر سے وہ بھی قرآن کے مطلق حکم کے خلاف ہیں، کیونکہ قرآن میں کسی تفصیل کے بغیر بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو اس پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ (النساء ۴: ۲۳) چنانچہ جصاص لکھتے ہیں کہ آیت کے حکم میں، جو معمولی مقدار میں دودھ پینے پر بھی حرمت ثابت ہونے کا مقتضی ہے، اخبار آحاد کی بنیاد پر تخصیص کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ ایک محکم آیت ہے جس کا معنی اور مراد بالکل واضح ہے اور اہل علم کے اتفاق سے اس میں کوئی تخصیص بھی ثابت نہیں۔ سو قرآن کا جو حکم اس نوعیت کا ہو، اس کی تخصیص خبر واحد یا قیاس کے ذریعے سے نہیں کی جا سکتی۔ (احکام القرآن، ۲/۱۲۴) 

متعارض روایات میں قرآن کی موافقت کی بنیاد پر ترجیح

مذکورہ اصول ہی کی روشنی میں فقہائے احناف متعارض روایات میں ترجیح کی بحث میں قرآن مجید کے ساتھ موافقت کے نکتے کو ایک بنیادی اصول کے طور ملحوظ رکھتے ہیں۔ اس ضمن کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ صلاۃ الخوف سے متعلق مروی بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ اس کی صرف ایک رکعت مشروع کی گئی ہے اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ذی قرد میں اس طرح صلاۃ الخوف ادا کی کہ ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی جس کے بعد وہ دشمن کے سامنے چلی گئی اور دوسری جماعت نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک رکعت ادا کی۔ یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں جبکہ صحابہ کی دونوں جماعتوں نے ایک ایک ایک رکعت ادا کی۔ (سنن ابی داود، کتاب صلاۃ السفر، باب من قال یصلی بکل طائفۃ رکعۃ ولا یقضون، رقم ۱۲۴۶، ۱۲۴۷) فقہائے احناف نے ان روایات کو قرآن مجید کے خلاف ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کیا، کیونکہ قرآن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جماعت کے ساتھ ساتھ ایک ایک رکعت ادا کرنے کی ہدایت کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صلاۃ الخوف کی دو رکعتیں ہیں۔ چنانچہ امام طحاوی لکھتے ہیں کہ جس حدیث کو کتاب اللہ کی نص رد کرتی ہو، اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ (شرح معانی الآثار، ۱/۳٠۹) 
۲۔ صلاۃ الخوف ہی کی بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دو جماعتوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے ایک جماعت دشمن کے سامنے اور ایک آپ کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ پھر آپ نے نماز شروع کی اور دونوں جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر تکبیر کہہ کر نماز میں شامل ہو گئیں، البتہ جو جماعت آپ کے پیچھے کھڑی تھی، اس نے رکوع اور سجدے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی، جبکہ دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی رہی۔ پھر