غیر سازی (Otherization) کے رویے اور دیوبندی روایت | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۹) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
’’ترجمان القرآن‘‘ : چند نمایاں خصوصیات | مولانا وقار احمد | |
افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
مولانا سید محمد میاں دیوبندی، عظیم مورخ اور مفکر | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱) | محمد عمار خان ناصر | |
توہینِ رسالت کی سزا اور مولانا مودودی کا موقف | مراد علوی | |
مولانا ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی کی تصنیف ’’تخلیق عالم‘‘ | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی |
الاِھتدَاء یختصّ بما یتحرّاہ الانسان علی طریق الاختیار، امّا فی الامور الدّنیویۃ، او الاخرویۃ۔ قال تعالی: وھُوَ الَّذِی جَعَلَ لکُمُ النُّجُومَ لِتَھتَدُوا بھا (الانعام/۹۷) (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: المفردات فی غریب القرآن)
(۱) قُل یَا اَیُّہَا النَّاسُ قَد جَاءکُمُ الحَقُّ مِن رَّبِّکُم فَمَنِ اھتَدَی فاِنَّمَا یَہتَدِی لِنَفسِہِ وَمَن ضَلَّ فاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیہَا۔ (یونس: ۱٠۸)
(۲) مَّنِ اہتَدَی فاِنَّمَا یَہتَدی لِنَفسِہِ وَمَن ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیہَا۔ (الاسراء:۱۵)
(۳) وَانِّی لَغَفَّار لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اہتَدَی۔ (طہ: ۸۲)
(۴) وَان اتلُوَ القُرآنَ فَمَنِ اہتَدَی فَانَّمَا یَہتَدِی لِنَفسِہِ۔ (النمل: ۹۲)
(۵) انَّا اَنزَلنَا عَلَیکَ الکِتَابَ لِلنَّاسِ بِالحَقِّ فَمَنِ اہتَدَی فَلِنَفسِہِ۔ (الزمر: ۴۱)
(۶) فانَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیلِہِ وَہُوَ اَعلَمُ بِمَنِ اہتَدَی۔ (النجم: ۳٠)
(۷) وَیَزِیدُ اللَّہُ الَّذِینَ اہتَدَوا ہُدًی۔ (مریم: ۷۶)
(۸) وَالَّذِینَ اہتَدَوا زَادَہُم ہُدًی۔ (محمد: ۱۷)
(۹) وَان تَدعُہُم الَی الہُدَی فَلَن یَہتَدُوا اذاً اَبَداً۔ (الکہف: ۵۷)
(۱٠) وَرَاَوُا العَذَابَ لَو اَنَّہُم کَانُوا یَہتَدُونَ۔ (القصص: ۶۴)
(۱۱) وَقَالُوا یَا اَیُّہَا السَّاحِرُ ادعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِندَکَ انَّنَا لَمُہتَدُون۔ (الزخرف:۴۹)
(۱۲) قَالُوا ادعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّن لَّنَا مَا ہِیَ انَّ البَقَرَ تَشَابَہَ عَلَینَا وَانَّا ان شَاء اللَّہُ لَمُہتَدُون۔ (البقرة: ۷٠)
عرض کیا ، ’’کیا مولانا ابوالکلام تفسیرِ قرآن میں اسلاف کے پیرو اور اس عہد کے مجتہد ہیں؟“فرمایا: ’’بالکل، اللہ تعالیٰ نے قرآن فہمی کے باب میں انہیں خاص ملکہ عطا کیا ہے ، وہ زمانہ کی فکری تحریکوں کو بخوبی سمجھتے اور قرآن کو ہر زمانے کی پیچیدگیوں کا حل قرار دے کر انسانی معاشرے کو اس کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ۔ وہ قرآن کی ابدی دعوت پر نظامِ کائنات کی اساس رکھتے ہیں۔ ان پر بفضلِ ایزدی علم القرآن کے اس طرح کھلے ہیں کہ ان کے لیے کوئی سی راہ مسدود و منقطع نہیں۔ اُن کی آواز قرآن کی آواز ہے۔“راقم: ’’مولانا کے ترجمہ و تفسیر میں بڑی خوبی کیا ہے؟ اور کونسا پہلو ہے جو دوسرے تراجم اور تفاسیر کے مقابلے میں منفرد ہے؟“مولانا : ’’اُن کے ترجمہ و تفسیر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قرآن ہی کی زبان میں خطاب کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ان کے الفاظ الوہیت اور نبوت کا جامہ پہنے ہوئے ہیں اور یہ صرف اللہ کی دین ہے۔ دوسرے تراجم جو اب تک ہندوستان میں ہوئے ہیں، وہ قرآن کے الفاظ میں لغوی ترجمہ ہیں، ان میں قرآن کے شکوہ کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ۔ عربی الفاظ کا ترجمہ اردو الفاظ میں کیا گیا ہے ، مطالب کی طاقت و پہنائی اوجھل ہو گئی ہے۔ آزادؔ کی تفسیر محض مقامی و محض اسلامی نہیں، بین الاقوامی و بین الملی ہے۔ وہ الہیاتی زبان میں کائنات کو خطاب کرتے ہیں۔“ (ابو الکلام آزاد، ص ۴۸۲)
’’ترجمان القرآن کی ترتیب سے مقصود یہ تھا کہ قرآن کے عام مطالعہ و تعلیم کے لیے ایک درمیانی ضخامت کی کتاب مہیا ہو جائے، مجرد ترجمے سے وضاحت میں زیادہ، مطول تفاسیر سے مقدار میں کم۔ چنانچہ اس غرض سے یہ اسلوب اختیار کیا گیا کہ پہلے ترجمہ میں زیادہ سے زیادہ وضاحت کی کوشش کی جائے، پھر جابجا نوٹ بڑھا دیے جائیں۔ اس سے زیادہ بحث و تفصیل کو دخل نہ دیا جائے۔ باقی رہا اصول اور تفسیری مباحث کا معاملہ تو اس کے لیے دو الگ الگ کتابیں ’’مقدمہ“ اور ’’ البیان“ زیر ترتیب ہیں۔“ (ترجمان القرآن ، ابو الکلام آزاد ، جلد۳)
’’انتسابغالباً دسمبر ١٩١٨ کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا، عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آ رہا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو ایک شخص بکل اوڑھے کھڑا تھا۔آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ہاں جناب! میں بہت دور سے آیا ہوں۔کہاں سے؟سرحد پار سے۔یہاں کب پہنچے؟آج شام کو پہنچا۔ میں بہت غریب آدمی ہوں۔ قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا۔ وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے، انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرے سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟اس لیے کہ آپ سے قرآن کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھاکہ میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے۔ اس نے واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔مجھے اس کا نام یاد نہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔۱۲ ستمبر سنہ ۱۹۳۱ء، کلکتہ“
’’میں نے قرآن کریم کی جتنی تفاسیر پڑھی ہیں، ان میں ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تفاسیر سے بہتر کوئی تفسیر نہیں، ’’ترجمان القرآن ’’ کا مصنف قابل مبارک باد ہے کہ اس نے یورپی سامراج کے زمانے میں بڑی ہمت اور دلیری سے ابن تیمیہ اور ابن قیم کی اس صورت سے پیروی کی ہے جس طرح انہوں نے منگولی فاتحوں کی مزاحمت کے سلسلے میں کی تھی۔“ (ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ ، اخلاق حسین قاسمی، ص ۱۶)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی بھی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول اور ان لوگوں کی بھی اطاعت کرو جو تم میں سے صاحب اختیار ہوں۔ پھر اگر تمھارا کسی معاملے میں باہم تنازع ہو جائے تو اسے (فیصلے کے لیے) اللہ اور رسول کے پاس لے جاﺅ ، اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ طریقہ بہتر بھی ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا بھی۔“
”جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی اور جس نے منہ پھیرا تو ہم نے تمھیں ایسے لوگوں پر نگران بنا کر نہیں بھیجا۔“
”تم کہہ دو کہ مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس کو تبدیل کر دوں۔ میں تو بس اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔“
”اے نبی، تم کیوں اپنی بیویوں کی خوشنودی پانے کے لیے اس چیز کو حرام ٹھہراتے ہو جو اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہے؟ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“
”مکہ کو لوگوں نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا ہے، پس کسی آدمی کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، حلال نہیں کہ اس میں کسی کا خون بہائے یا کسی درخت کو کاٹے۔ اور اگر کوئی شخص اس بات سے رخصت نکالنا چاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں قتال کیا ہے تو اس سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی لیکن تمھیں اس کی اجازت نہیں دی۔ اور مجھے بھی اس میں قتال کرنے کی اجازت بس دن کے ایک مختصر سے حصے میں دی گئی، پھر اس کی حرمت اسی طرح دوبارہ قائم ہو گئی جیسے گزشتہ روز تھی۔ اور جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ یہ بات ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔“
”میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کر رہا، لیکن بخدا اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔“
”اے لوگو! مجھے اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ بس مجھے اس پودے کی بو پسند نہیں۔“
”میں تم میں سے کسی کو ایسی حالت میں نہ پاوں کہ وہ اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور میرا کوئی حکم اس تک پہنچے جس میں، میں نے کسی بات کا حکم دیا یا کسی بات سے منع کیا ہو اور وہ کہہ دے کہ ہم نہیں جانتے، ہمیں تو بس کتاب اللہ میں جو بات ملے گی، اسی کی پیروی کریں گے۔“
”آگاہ رہو کہ مجھے اللہ کی کتاب بھی دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی جیسی ایک اور چیز بھی (جس کی پیروی تم پر لازم ہے)۔ آگاہ رہو، قریب ہے کہ کوئی شخص خوب سیر ہو کر اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور تم سے کہے کہ بس اس قرآن کو اختیار کر لو اور اس میں تمھیں جو چیز حلال ملے، اسے حلال سمجھو اور جو حرام ملے، اسے حرام مانو۔ آگاہ رہو کہ تمھارے لیے گھریلو گدھے کا گوشت کھانا بھی حلال نہیں ہے اور کسی کچلی والے درندے کا بھی ، اور کسی معاہد کی گری ہوئی چیز اٹھانا بھی حلال نہیں، الا یہ کہ (وہ ایسی معمولی ہو کہ) اس کا مالک اس سے بے نیاز ہو۔“
”جب تک میں زندہ ہوں، میری اطاعت کرو، اور جب میں رخصت ہو جاوں تو اللہ کی کتاب کو لازم پکڑنا، اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام ماننا۔“
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے۔ آپ پر قرآن نازل ہوتا تھا اور آپ ہی اس کی مراد کو (سب سے بہتر) جانتے تھے، چنانچہ آپ جو بھی عمل کرتے، ہم بھی وہی کرتے تھے۔“
”تم میں سے ہر شخص جہنم پر وارد ہوگا۔ یہ تمہارے رب کا اٹل فیصلہ ہے۔“
”پھر ہم ان لوگوں کو نجات دیں گے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا اور ظالموں کو جہنم میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔“ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل اصحاب الشجرة، رقم ۲۴۹۶)
”ان سے آسان حساب لیا جائے گا۔“
”جس بات پر تم حیران ہوئے ہو، وہ میرے لیے بھی باعث حیرانی بنی تھی، چنانچہ میں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مہربانی ہے جو اس نے تم پر کی ہے، اس لیے اللہ کی دی ہوئی رخصت کو قبول کرو۔“
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کا حاصل یہ تھا کہ آپ نے آیت سے منافقین کے حق میں استغفار کا مباح ہونا سمجھا، جبکہ عمر نے اس میں آپ سے اختلاف کیا اور آیت سے استغفار کا ممنوع ہونا اخذ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ آپ نے یہ اختلاف کرنے پر سیدنا عمر پر کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن اپنے اجتہاد سے بھی رجوع نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان دونوں کو ان کے اجتہاد پر برقرار رکھا، کیونکہ نہ تو دونوں میں سے کسی کو عتاب کیا اور نہ یہ واضح کیا کہ کس کا اجتہاد غلط تھا اور کس کا صحیح۔ اس واقعے سے خوب واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات قرآن کی آیت کی مراد سمجھنے میں اجتہاد سے کام لیتے تھے اور آپ کے صحابہ آپ کی سمجھی ہوئی مراد سے اختلاف کرتے تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی وجہ سے ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ بھی انھیں اس پر برقرار رکھتے تھے۔ کیونکہ مذکورہ قصے میں اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر میں سے کسی پر بھی انکار نہیں کیا، بلکہ اپنا یہ ارشاد نازل کر دیا کہ ”(اے پیغمبر، ان میں سے جو کوئی بھی مرے، تم کبھی نہ تو اس کی نمازہ جنازہ ادا کرنا اور نہ (دعا کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا“۔ یہ ارشاد اس کا بھی محتمل ہے کہ اسے سابقہ تخییر کا ناسخ سمجھا جائے اور اس کا بھی احتمال رکھتا ہے کہ اسے ’استغفر لہم او لا تستغفر لہم‘ کی تفسیر قرار دیا جائے کہ اس سے مراد اختیار دینا نہیں، بلکہ کنایے کے اسلوب میں استغفار سے منع کرنا تھا۔“
”لوگ پاووں کے دھوئے بغیر نہیں رہتے، لیکن مجھے کتاب اللہ میں صرف مسح کرنے کا حکم ملتا ہے۔“
”اے سعد، ہم جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا تھا، لیکن کیا یہ سورہ مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے تھا یا بعد میں؟ کوئی شخص تمھیں یہ خبر نہیں دے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ مائدہ نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کیا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ میری یہ بات سن کر سیدنا عمر خاموش ہو گئے۔“
”اگر تم اپنی بیویوں کو ایسی حالت میں طلاق دینا چاہو کہ تم نے ان سے ہم بستری نہ کی ہو یا ان کے لیے مہر کی رقم مقرر نہ کی ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں، البتہ انھیں (بوقت رخصت) کچھ سامان دے دو۔ فراخی رکھنے والے پر اس کی استطاعت کے بقدر اور تنگ دست پر اس کی گنجائش کے مطابق۔ دستور کے مطابق سامان دینا چاہیے اور یہ اچھا برتاو¶ کرنے والوں پر لازم ہے۔ اور اگر تم ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے انھیں طلاق دے دو جب کہ تم نے ان کے مہر کی رقم مقرر کی ہوئی ہو تو پھر جو رقم تم نے طے کی ہے، اس کا نصف ادا کیا جائے۔“
”پھر تم ایک مقررہ مدت تک ان میں سے جس سے فائدہ اٹھاﺅ، انھیں ان کے مقررہ مہر ادا کر دو۔“
”میں نے اس کو اللہ کی کتاب کے مطابق کوڑے لگوائے اور رسول اللہ کی سنت کے مطابق رجم کیا ہے۔“
”کہہ دو کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے، اس میں، میں کسی کھانے والے کے لیے کسی چیز کو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا جانے والا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے یا گناہ کا کام، یعنی ایسا جانور ہو جسے ذبح کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ پھر جو مجبور ہو جائے، دراں حالیکہ نہ تو خواہش رکھنے والا ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا تو بے شک تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔“
”ابن عباس نے کہا کہ اہل جاہلیت بہت سی چیزیں کھاتے تھے اور بہت سی چیزوں سے گھن کھاتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ، اپنی کتاب نازل کی اور حلال اور حرام چیزوں کی وضاحت فرمائی۔ پس جن چیزوں کو اللہ نے حلال بتایا ہے، وہ حلال ہیں اور جن کو حرام کہا ہے، وہ حلال ہیں اور جن سے خاموشی اختیار کی ہے، ان پر کوئی مواخذہ نہیں (یعنی وہ مباح ہیں)۔ ابن عباس نے یہ آیت تلاوت کی: قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَی طَاعِمٍ يَطْعَمُہ۔“
’’ ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے، اس کا ذمہ نھیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کردینا، مسلمان کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقص ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں جن میں عقدِ ذمہ باقی نھیں رہتا: ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکل کر دشمنوں سے جاملے، دوسرے یہ کہ حکومت اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کر کے فتنہ و فساد برپا کرے۔‘‘ 1
’’جواب : یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اس میں آپ یا دوسرے حضرات جو رائے بھی رکھتے ہوں، رکھیں اور اپنے دلائل بیان کریں۔ دوسری طرف بھی علماء کا ایک بڑا گروہ ہے اور اس کے پاس بھی دلائل ہیں۔ اصل اختلاف اس بات میں نہیں ہے کہ جزیہ نہ دینا،یا سب نبی صلعم، یا ہتک مسلمات قانونی جرم مستلزم سزا ہیں یا نہیں، بلکہ اس امر میں ہے کہ یہ جرائم آیا قانون کے خلاف جرائم ہیں یا دستور مملکت کے خلاف۔ ایک جرم وہ ہے جو رعیت کا کوئی فرد کرے تو صرف مجرم ہوتا ہے۔ دوسرا جرم یہ ہے جس کا ارتکاب وہ کرے تو سرے سے رعیت ہونے ہی سے خارج ہو جاتا ہے۔ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ ذمی کے یہ جرائم پہلی نوعیت کے ہیں۔ بعض دوسرے علماء کے نزدیک ان کی نوعیت دوسری قسم کے جرائم کی سی ہے۔ یہ ایک دستوری بحث ہے جس میں دونوں طرف کافی دلائل ہیں۔‘‘ 2
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
’’تعزیرات میں ذمی اور مسلمان کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو بھی دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرائے یا مسلمان کا مال ذمی چرائے، دونوں صورتوں میں سارق کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ذمی کسی مسلمان عورت سے زنا کرے یا مسلمان کسی ذمی عورت سے زنا کرے، دونوں صورتوں میں سزا یکساں ہوگی۔‘‘ 4
’’ اس مضمون کو ٢٤ سالہ نوجوان صحافی کی ایک جذبہ انگیز تحریر سمجھنا چاہیے۔‘‘
انسانی شعور، ایمان اور قرآن مجید کا اسلوب استدلال | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۰) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
جدید سائنس کے مباحث اور علم الکلام | مولانا محمد رفیق شنواری | |
تبلیغی جماعت کا بحران | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۲) | محمد عمار خان ناصر | |
حضرت مولانا حمد اللہ آف ڈاگئیؒ | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
مدینۃ العلم قطر میں چھ دن ۔ (مدرسہ ڈسکورسز کے ونٹر انٹنسو ۲٠۱۹ء کی روداد) | ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی |
’’ترکیب منطقی کی بنیاد تجزیہ پر ہے۔ یہ اس طریقے کے خلاف ہے جس کے مطابق ذہن اور خطاب عام طور پر کام کرتا ہے۔ فطرت تمام امور کو مرکب صورت میں سامنے لاتی ہے اور نفس انسانی اسی مرکب صورت ہی میں ان کا احساس اور ادراک کرتا ہے۔ پھر وہ ان میں سے بعض امور کو اسی طرح سے لیتا ہے اور بعض کو دوسرے امور کے ساتھ ترکیب دے لیتا ہے۔ رہا تجزیہ تو یہ دوسری نگاہ میں (یعنی اگلے مرحلے پر) وجود میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل بھی کسی منطقی تجزیہ کے بغیر ہی معانی اخذ کرتی اور حق اور باطل میں امتیاز کرتی ہے۔ لیکن جب کوئی معاملہ گڈمڈ ہو جاتا ہے اور عقل دلائل میں کسی خلل کا احساس کرتی ہے تو اس وقت وہ منطق کے اصولوں کو استعمال کر کے کلام کے تجزیہ کی طرف مائل ہوتی ہے تاکہ بات کے مختلف اجزا پر غور کرے۔ یہ اسی طرح کا عمل ہوتا ہے جس کا استعمال ہم نظم میں علم عروض کی صورت میں کرتے ہیں۔ شاعر اگر عروض کی صنعت کا عالم بھی ہو تو وہ شعر کہتے وقت ان کو استعمال نہیں کرتا۔ یہی حال سامع کا بھی ہوتا ہے۔ وہ شعر سنتے وقت اس علم کو استعمال نہیں کرتا۔ اس کے استعمال کی نوبت اس وقت آتی ہے جب شعر میں کسی خلل کا احساس ہو یا ایک وزن دوسرے وزن میں گڈمڈ ہو رہا ہو۔ تب شعر کے اجزا کو الگ کر کے اس کو علم عروض کی کسوٹی پر پرکھ لیا جاتا ہے۔ ٹھیک یہی مصرف منطق کا بھی ہے۔ یہ حجت کو مختلف اجزا میں تقسیم کر کے یہ متعین کرتی ہے کہ کون سی چیز دلیل میں سے حذف ہو گئی ہے۔ اگر کوئی چیز زائد ہو تو منطق اس کو دور کر دیتی ہے۔ ..............
’’ہلاک ہو انسان، کیسا نا شکرا ہے۔ اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا فرمایا ہے؟ نطفہ سے اس کو پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اس کا تعین فرما دیا۔ پھر راہ اس کے لیے آسان فرما دی۔ پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں (دفن) کر دیا۔ پھر جب وہ چاہے گا، اسے (دوبارہ زندہ کر کے) کھڑا کرے گا۔ یقیناً اس (نافرمان انسان) نے وہ (حق) پورا نہ کیا جس کا اسے (اللہ نے) حکم دیا تھا۔“
شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحاً وَالَّذِی اوحَینَا اِلَیکَ وَمَا وَصَّینَا بِہِ ابرَاہِیمَ وَمُوسَی وَعِیسَی ان اَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیہِ۔ (الشوری: 13)
لولا قومک حدیثوا العھد بکفر۔۔۔الخ
(۱) وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیھِمُ الرِّجزُ قَالُوا یَا مُوسَی ادعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِندَکَ۔ (الاعراف: 134)
(۲) وَقَالُوا یَا اَیُّہَا السَّاحِرُ ادعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِندَکَ۔ (الزخرف: 49)
(ج: کَلِمۃ) بِحَذفِ الھَاءِ، تُذَکَّرُ وتُوَنَّثُ، یُقال: ھُوَ الکَلِم، وھِیَ الکَلِم۔ (تاج العروس)
الَیہِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالعَمَلُ الصَّالِحُ یَرفَعُہُ۔ (فاطر: 10)
(پروفیسر نضال قسوم (امیریکن یونیورسٹی، شارجہ) کے مقالہ Kalam’s Necessary Engagement with Modern Science سے مستفاد)
“خوارج کے مختلف فرقے ہیں، لیکن ان کے متفقہ اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ جتنا حکم قرآن نے بیان کیا ہے، اسے لے لیا جائے اور حدیث میں اس سے متعلق جو اضافے وارد ہوئے ہیں، انھیں مطلقاً رد کر دیا جائے۔”
“ہم بہت سی ایسی چیزیں بھی ترک کر دیتے ہیں جن کے متعلق اللہ کی کتاب میں حرمت کا حکم ہمیں نہیں ملتا۔ ابن عباس نے کہا کہ ہاں، ہم ایسے ہی کرتے ہیں (کیونکہ اللہ کے رسول کی بیان کردہ حرمت کا حکم بھی وہی ہے جو قرآن کا ہے، اور) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کا پھل بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے۔”
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ہمیں کسی بات کا علم نہیں تھا (یعنی ہم نے جو کچھ سیکھا، آپ سے ہی سیکھا)، اس لیے ہم تو ویسے ہی کرتے ہیں جیسے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا۔”
’’کیا تو حروری (یعنی خارجی) ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں ماہواری آتی تھی تو آپ نے ہمیں (بعد میں) نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے۔”
’’کیا تمھیں یہ ساری تفصیل کتاب اللہ میں ملتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو اصولی طور پر ذکر کیا ہے، جبکہ سنت ان کی تشریح وتفصیل کرتی ہے۔”
’’تمھیں کتاب اللہ میں پانچ نمازوں کا، اور ہر دو سو درہم میں پانچ درہم اور ہر چار دینار میں ایک دینار اور ہر بیس دینار میں نصف دینار زکوٰة لینے کا ذکر کہاں ملتا ہے؟ عمران بن حصین نے اس نوعیت کی اور باتوں کا بھی ذکر کیا (اور کہا کہ) جیسے ہم نے یہ احکام (سنت سے) لیے ہیں، اسی طرح تم بھی لو۔”
’’عنقریب کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو تمھارے ساتھ قرآن کی متشابہ آیات کی بنیاد پر بحث کریں گے۔ تم ان پر سنن کے ذریعے سے گرفت کرنا، کیونکہ سنن کو جاننے والے اللہ کی کتاب کا زیادہ علم رکھتے ہیں۔”
’’ان کے پاس جاؤ اور ان سے بحث کرو اور انھیں کتاب اور سنت کی طرف دعوت دو، لیکن ان کے سامنے قرآن کریم سے استدلال نہ کرنا، اس لیے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے، بلکہ ان کے ساتھ سنت کے حوالے سے گفتگو کرنا۔ عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا اے امیر المومنین، میں قرآن کریم کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں، یہ تو ہمارے گھروں میں اترا ہے۔ سیدنا علی نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن قرآن کریم احتمالات کا حامل ہے۔ تم ایک مطلب بیان کرو گے تو وہ دوسرا مطلب نکال لیں گے۔ تم ان کے ساتھ سنن کی بنیاد پر بحث کرنا، کیونکہ ان سے بھاگنے کی راہ انھیں نہیں مل سکے گی۔”
’’لوگوں کے ساتھ قرآن کی بنیاد پر بحث نہ کیا کرو کیونکہ اس میں تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے، بلکہ سنت سے استدلال کیا کرو۔”
’’ہماری دلیل بھی وہی ہے جو تم ان لوگوں کے خلاف پیش کرتے ہو جو احادیث کو سرے سے ہی رد کر دیتے ہیں اور قرآن کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی چیز کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹ دیتے ہیں کیونکہ اس پر بھی چوری کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ رجم کو نہیں مانتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زانی مرد اور عورت کو بس سو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا ہے۔ (تم ان کے خلاف جو دلیل دیتے ہو، وہی دلیل) ان کے خلاف بھی دیتے ہو جو بعض احادیث کو قبول کرتے ہیں (لیکن بعض کو نہیں کرتے)۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ موزوں پر مسح کرنا درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پا¶وں کو دھونے یا ان پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح کچھ اور اہل فقہ ہیں جو ہر اس جانور کا گوشت کھانے کو حلال سمجھتے ہیں جس کی حرمت قرآن مجید میں واردنہیں ہوئی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے پیغمبر، تم کہہ دو کہ میری طرف جو وحی کی گئی ہے، اس میں، میں کسی چیز کو کسی کھانے والے کے لیے حرام نہیں پاتا، سوائے اس کے کہ وہ مردار جانور ہو یا بہنے والا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو۔”
“ہم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ کے ساتھ (مدعی سے) قسم لے کر فیصلہ فرمایا ہے تو تم نے اس کو رد کر دیا اور کہا کہ جو لوگ یہ بات کہتے ہیں، ان کی بات قرآن کے خلاف ہے۔”
’’بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس آیت میں اس بات پر دلالت ہے، اور اللہ بہتر جانتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ اختیار دیا ہے کہ جس معاملے میں اللہ نے کتاب میں کوئی حکم نہ اتارا ہو، وہ اس میں اپنی طرف سے کوئی حکم دے سکتا ہے۔”
’’میرے والد کے پاس دیات کی مقدار پر مشتمل ایک تحریر ہے جو وحی کے ذریعے سے نازل ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت یا زکوٰة کی جو مقداریں مقرر فرمائیں، وہ وحی میں نازل ہوئی تھیں۔”
“اس حکم میں اور اس جیسے دیگر احکام میں یہ بھی ممکن ہے کہ سنت نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے (وحی پا کر) یہ واضح کیا ہو کہ عدت گزارنے کے آداب وشرائط کیا ہیں، جیسا کہ اس نے نماز، زکوٰة اور حج کے طریقے کی وضاحت کی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ کے دیے ہوئے اختیار سے) ایسے معاملے میں خود ایک طریقہ مقرر فرما دیا ہو جس میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا۔”
’’یہ کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے، اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف یعنی اس ہستی کے بتائے ہوئے راستے کی طرف لاﺅ جو غالب اور ستودہ صفات ہے۔”
’’اور ہم نے تمھاری طرف یاد دہانی کرانے والی کتاب نازل کی تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس کی وضاحت کرو جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ غور وفکر کریں۔”
’’اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو خوب کھول کر بیان کرنے والی ہے اور فرماں برداروں کے لیے ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے۔”
’’تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب الٰہی کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے، لیکن ہم نے اس کو نور بنایا جس کے ذریعے سے ہم اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں اور بے شک تم سیدھے راستے کی طرف (لوگوں کی) راہ نمائی کر رہے ہو۔”
’’اللہ کے دین کو ماننے والوں کو جس کسی مسئلے سے بھی سابقہ پیش آ سکتا ہے، اللہ کی کتاب میں اس کے متعلق راہ نمائی موجود ہے۔”
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکم اللہ کی وحی کے بغیر مقرر نہیں کیا۔ وحی کی ایک قسم وہ ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے اور ایک قسم وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جاتی تھی اور اس کی روشنی میں آپ احکام مقرر فرماتے تھے۔”
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح میں صرف چار تک عورتوں کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ ایک آدمی کے لیے بیک وقت چار سے زائد عورتوں سے نکاح حرام ہے۔”
مقدس شخصیات کی توہین اور جدید قانونی تصورات | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۱) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
اے خانہ بر انداز چمن ! کچھ تو ادھر بھی | محمد اظہار الحق | |
سنکیانگ کے مسلمانوں کا مسئلہ | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
مولانا سید واضح رشید ندویؒ | محمد عثمان فاروق | |
ہم نام و ہم لقب علماء | مفتی شاد محمد شاد | |
قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۳) | محمد عمار خان ناصر | |
قرآنی اُسلوب دعوت کی باز یافت | سید مطیع الرحمٰن مشہدی | |
عزیزم محمد عمار خان ناصر کا اعزاز | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی |
’’علاقائی عدالت نے مزید کہا ہے کہ کوئی بھی شخص جو کنونشن کے آرٹیکل ۱٠ کے تحت (آزادی اظہار سے متعلق) اپنے حقوق استعمال کرنا چاہتا ہو، اس پر فرائض اور ذمہ داریوں کی پابندی بھی لازم ہے، مثلا ایسے بیانات دینے سے گریز کرنا جو کسی معقول جواز کے بغیر دوسروں کے جذبات کو مجروح کرتے ہوں اور مفاد عامہ سے متعلق کسی بحث میں کوئی (مفید) حصہ نہ ڈالتے ہوں۔ آرٹیکل ۹ اور آرٹیکل ۱٠ میں دیے گئے حقوق کے مابین ایک توازن کو قائم رکھنا ضروری ہے۔ علاقائی عدالت نے ملاحظہ کیا کہ مدعی (یعنی ملزمہ) کے بیانات واقعاتی حقائق کو بیان نہیں کر رہے تھے بلکہ تحقیر پر مبنی اقداری حکم لگا رہے تھے جو جائز حدود سے متجاوز تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ملزمہ کی نیت مسئلے پر معروضی انداز میں غور کرنے کی نہیں بلکہ براہ راست محمد کی شخصیت کو مجروح کرنے کی تھی۔ عدالت نے کہا کہ نابالغ لڑکی کے ساتھ شادی کرنا اور طفل پرست ہونا ، ایک جیسے عمل نہیں ہیں اور صغر سنی کی شادیاں صرف اسلام میں نہیں تھیں، بلکہ یورپ کے حکمران خاندانوں میں بھی ان کا عام رواج رہا ہے۔ مزید برآں عدالت نے یہ دلیل بھی دی کہ کنونشن کے آرٹیکل ۹ میں آزادی مذہب کا جو حق بیان کیا گیا ہے، وہ ایک جمہوری معاشرے کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ وہ لوگ جو آزادی مذہب کے اصول کا حوالہ دیتے ہیں، یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ تنقید سے مستثنی ہیں اور اگر کوئی ان کے عقائد کی نفی کرے تو انھیں اس کو بھی گوارا کرنا ہوگا۔ تاہم جس انداز میں مذہبی خیالات کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے، وہ ریاست کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی دعوت دے سکتا ہے تاکہ وہ آرٹیکل ۹ کے تحت دیے گئے حقوق کے پرامن استعمال کو یقینی بنا سکے۔ ایسی چیزیں جو مذہبی عقیدت کا مرکز ہوں، انھیں اگر ایسے اشتعال انگیز انداز میں پیش کیا جائے جس سے اس مذہب کے پیروکاروں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں تو اسے بد نیتی کے ساتھ رواداری کی روح کو ، جو کہ جمہوری معاشرے کی اساسات میں سے ایک ہے، پامال کرنے والا عمل تصور کیا جا سکتا ہے ۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ ملزمہ کو جرم کا مرتکب قرار دے کر اس کی آزادی اظہار پر قدغن لگانے کا پورا جواز ہے اور اس کی بنیاد قانون میں موجود ہے بلکہ جمہوری معاشرے میں ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ آسٹریا میں مذہبی امن کو محفوظ رکھا جا سکے۔”
وَلَو یُعَجِّلُ اللّہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ استِعجَالَہُم بِالخَیرِ لَقُضِیَ الَییہِم اَجَلُہُم۔ (یونس: 11)
ویدع الانسان بالشر دعاءہ بالخیر۔ (سورة الاسراء: ۱۱)
(۱) انَّمَا مَثَلُ الحَیَاۃ الدُّنیَا کَمَاء اَنزَلنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاختَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الاَرضِ مِمَّا یَاکُلُ النَّاسُ وَالاَنعَامُ حَتَّیَ اذَا اَخَذَتِ الاَرضُ زُخرُفَہَا وَازَّیَّنَت وَظَنَّ اَہلُہَا اَنَّہُم قَادِرُونَ عَلَیَا اَتَاہَا اَمرُنَا لَیلاً اَو نَہَاراً فَجَعَلنَاہَا حَصِیداً کَاَن لَّم تَغنَ بِالاَمسِ کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَومٍ یَتَفَکَّرُونَ۔ (یونس: 24)
ھذا من التشبیہ المرکب، شبہت حال الدنیا فی سرعۃ تقضیھا وانقراض نعیمھا بعد الاقبال، بحال نبات الارض فی جفافہ وذھابہ حطاماً بعد ما التف ونکائف، وزین الارض بخضرتہ ورفیفہ فَاختَلَطَ بہِ فاشتبک بسببہ حتی خالط بعضہ بعضاً۔ (تفسیر الزمخشری)
(۲) وَاضرِب لَہُم مَّثَلَ الحَیَاۃ الدُّنیَا کَمَاء اَنزَلنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاختَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الاَرضِ فَاَصبَحَ ہَشِیماً تَذرُوہُ الرِّیَاحُ وَکَانَ اللَّہُ عَلَی کُلِّ شَیءٍ مُّقتَدِراً۔ (الکہف: 45)
(۳) مَثَلُہُم کَمَثَلِ الَّذِی استَوقَدَ نَاراً فَلَمَّا اَضَاءت مَا حَولَہُ ذَہَبَ اللّہُ بِنُورِہِم وَتَرَکَہُم فِی ظُلُمَاتٍ لاَّ یُبصِرُونَ۔ (البقرة: 17)
(۴) اَو کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِیہِ ظُلُمَات وَرَعد وَبَرق یَجعَلُونَ اَصابِعَہُم فِی آذَانِہِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ المَوتِ واللّہُ مُحِیط بِالکافِرِینَ۔ (البقرة: 19)
والصحیح الذی علیہ علماء البیان لا یتخطونہ: انّ التمثیلین جمیعا من جملۃ التمثیلات المرکبة دون المفرّقۃ، لا یتکلف الواحد واحد شیء یقدر شبھہ بہ، وھو القول الفحل والمذھب الجزل ... ومما ھو بین فی ھذا قول لبید:
لم یشبہ الناس بالدیار، وانما شبہ وجودھم فی الدنیا وسرعۃ زوالھم وفنائھم، بحلول اھل الدیار فیھا ووشک نھوضھم عنھا، وترکھا خلاء خاویۃ.
گُھٹ گُھٹ کے رہے میرِؔ سے جب مرتے جہاں میں
تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم!
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی آدمی بناتے ہیں
’’مدینہ میں رہنے والوں اور اس کے گرد بسنے والے دیہاتیوں کے لیے یہ روا نہیں تھا کہ وہ رسول اللہ کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہیں اور نہ یہ کہ انھیں پیغمبر سے زیادہ اپنی جانوں کو بچانے کی رغبت ہو۔“
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اہل عرب کو ان کی زبان میں ان اسالیب کے مطابق مخاطب کیا ہے جن کو وہ جانتے تھے۔ ان اسالیب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زبان کے استعمال میں وسعت ہے اور زبان کا یہ فطری طریقہ ہے کہ کسی چیز کا ذکر بظاہر عام الفاظ میں کیا جائے اور مراد بھی عام ہی ہو اور اس میں کلام کے ابتدائی حصے کو سمجھنے کے لیے آخری حصے کو دیکھنے کی ضرورت نہ ہو۔ زبان کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ کسی چیز کا ذکر بظاہر عام الفاظ میں کیا جائے اور مراد بھی عام ہو، لیکن اس میں سے کچھ افراد یا صورتیں مستثنیٰ ہوں جس کا پتہ اس دلیل سے چلے گا جس میں ان مخصوص افراد کا حکم بتایا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی زبان کا ایک اسلوب ہے کہ کسی چیز کا ذکر بظاہر عام الفاظ میں کیا جائے، لیکن اس سے مراد مخصوص افراد ہوں اور کلام کے سیاق سے ہی واضح ہو رہا ہو کہ اس کا ظاہری عموم مراد نہیں۔ یہ سب قرائن کلام کے آغاز میں یا درمیان میں یا آخر میں موجود ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ کلام کے آغاز ایک بات سے کیا جاتا ہے اور کلام کا پہلا حصہ اس کے آخری حصے کی وضاحت کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ کلام کا آخری حصہ، ابتدائی حصے کی مراد کو واضح کر رہا ہوتا ہے۔ کلام کرتے ہوئے آپ کسی بات کا ابلاغ، الفاظ میں وضاحت کیے بغیر، معنی ومفہوم کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں، جیسا کہ اشارے کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ پھر یہ سب اسالیب اہل عرب کے ہاں کلام کی بلند ترین صورت سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ان کا فہم ان میں سے اہل علم ہی کو حاصل ہوتا ہے، نہ کہ جاہلوں کو۔“
’’یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن، عربی زبان کے اسالیب میں کلام کرتا ہے جس میں بعض اوقات ظاہراً الفاظ عام ہوتے ہیں لیکن مراد خاص ہوتی ہے۔ چنانچہ دونوں آیتوں میں سے کسی نے دوسری کو منسوخ نہیں کیا، بلکہ ہر آیت اس حکم کو بیان کر رہی ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔“
’’چنانچہ ہر عالم پر واجب ہے کہ وہ اس میں شک نہ کرے کہ جب (ان مثالوں میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی حیثیت، اللہ کی کتاب کے ساتھ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے مقرر کردہ فرائض کو اجمالاً قرآن میں بیان کیا ہے جبکہ ان پر عمل کی کیفیت کو اپنے نبی کی زبان سے واضح کیا ہے اور اسی طرح نبی کی زبان سے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اللہ کی مراد عام ہے یا خاص، تو پھر رسول کی سنت کو کسی فرق کے بغیر ہر مسئلے میں یہی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ چنانچہ ان لوگوں کا یہ قول کہ سنت کو قرآن پر پرکھا جائے گا، اگر وہ اس کے ظاہر کے ساتھ موافق ہو تو ٹھیک ورنہ ہم قرآن کے ظاہر پر عمل کریں گے اور حدیث کو چھوڑ دیں گے، اس اصول سے ناواقفیت پر مبنی ہے جو میں نے بیان کیا ہے۔“
’’عرایا سے کسی مال دار یا فقیر کو منع نہیں کیا گیا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (مزابنہ سے ممانعت کا) حکم مجموعی لحاظ سے عموم کے اسلوب میں بیان فرمایا جس سے مراد (سب نہیں بلکہ) خاص صورتیں تھیں۔ اسی طرح جب آپ نے فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا، لیکن طواف کی دو رکعتیں دن اور رات کی تمام ساعات میں ادا کرنے کی اجازت دی اور بھول کر نماز قضا کر دینے والے کو کہا کہ جب بھی اسے یاد آئے، وہ نماز ادا کر لے تو اس سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ آپ نے جو عمومی ممانعت بیان کی تھی، وہ خاص تھی اور وہ یہ کہ ان اوقات میں آدمی نفل نماز نہ پڑھے۔ جو نمازیں (کسی وجہ سے) آدمی پر لازم ہوں، ان سے روکنا مقصود نہیں تھا۔ اسی طرح آپ نے یہ فرمایا کہ گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمے اور قسم کھانا مدعا علیہ کے ذمے ہے، لیکن پھر آپ نے قسامت کے طریقے پر فیصلہ کیا اور ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم لے کر بھی فیصلہ فرما دیا۔ یہاں قسامت کا طریقہ آپ کے اس حکم سے مستثنیٰ ہے (کہ مدعی کے ذمے گواہ پیش کرنا ہے)، کیونکہ قسامت میں تو مدعی گواہ پیش کرنے کے بجائے قسمیں کھاتا ہے اور اسی طرح قضاءبالیمین میں بھی مدعی ایک گواہ پیش کر کے (دوسرے کی جگہ) قسم کھاتا ہے اور یہ دونوں (قسم کھا کر) اپنا حق ثابت کر لیتے ہیں۔“
’’کہہ دو کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے، اس میں، میں کسی کھانے والے کے لیے کسی چیز کو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا جانے والا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے یا گناہ کا کام، یعنی ایسا جانور ہو جسے ذبح کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ پھر جو مجبور ہو جائے، دراں حالیکہ نہ تو خواہش رکھنے والا ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا تو بے شک تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔“
’’اور ان کے علاوہ جو بھی عورتیں ہیں، وہ تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں۔“
’’جیسی جگہ پر تم ٹھہرے ہو، اپنی گنجائش کے مطابق ان کو بھی ٹھہراﺅ اور انھیں تنگی میں ڈالنے کے لیے ان کو ضرر پہنچانے کی کوشش نہ کرو۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو جب تک بچے کو جنم نہ دے دیں، ان پر (اپنا مال بھی) خرچ کرو۔“
’’بتاﺅ کہ جب اللہ تعالیٰ نے زنا میں چار گواہوں کی گواہی پر فیصلے کا حکم دیا ہے اور سنت میں بھی یہی آیا ہے، جبکہ (قرض کے معاملے میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دو مرد گواہ مقرر کرو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہونی چاہئیں، تو (ان دونوں الگ الگ حکموں کے بارے میں) کیا اہل علم کا یہ موقف نہیں ہے کہ زنا میں چار اور باقی معاملات میں دو گواہوں پر فیصلہ کیا جائے گا اور یہ نہیں کہا کہ ان میں سے ایک حکم دوسرے کے خلاف ہے اور اس نے اسے منسوخ کر دیا ہے، بلکہ اہل علم نے ہر حکم کو اس دائرے میں واجب العمل مانا ہے جس میں وہ دیا گیا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔“
’’مخالف نے گواہ کے ساتھ قسم پر فیصلے کے طریقے کو جن دلائل کی وجہ سے رد کیا، ان میں سے ایک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دو مرد گواہ ہونے چاہئیں اور اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو اس آیت میں اس بات کی کوئی ممانعت نظر نہیں آتی کہ کسی بھی حال میں دو سے کم گواہوں پر فیصلہ نہ کیا جائے۔ اس نے کہا کہ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ اس میں اس پر دلالت موجود ہے کہ دو سے کم گواہوں پر فیصلہ جائز نہیں؟ میں نے کہا کہ کہو۔ اس نے کہا کہ میں یہی کہتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ یہ دو گواہ جن کا اللہ نے ذکر کیا ہے، کس قسم کے ہونے چاہئیں؟ اس نے کہا کہ عادل، آزاد اور مسلمان ہونے چاہئیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تم (بعض امور میں) اہل ذمہ کی گواہی کیوں قبول کرتے ہو اور اکیلی دایہ کی گواہی پر کیوں فیصلہ کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ اس لیے کہ سیدنا علی نے اس کو (یعنی دایہ کی گواہی کو) درست قرار دیا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ قرآن کے خلاف ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ جو شخص (کسی بھی صورت میں) دو سے کم گواہوں پر فیصلہ کرتا ہے، اس کی بات قرآن کے خلاف ہے۔“
نسل پرستانہ دہشت گردی اور مغربی معاشرے | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۲) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
”سورۃ البینۃ“ ۔ اصحابِ تشکیک کے لیے نسخہ شفاء | مولانا محمد عبد اللہ شارق | |
نیشنل جوڈیشل پالیسی پر پنجاب بار کونسل کا رد عمل | چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ | |
مغربی شخصیات کے قبولِ اسلام پر مسلم مغربی رویے: جورام کلاورین کے قبولِ اسلام کے تناظر میں | ڈاکٹر محمد شہباز منج | |
سود کے بارے میں سینٹ کا منظور کردہ بل | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
نفاذ اسلام میں دستوری اداروں کے کردار کا جائزہ | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
قرآن و سنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۴) | محمد عمار خان ناصر |
(نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعے کے تناظر میں سوشل میڈیا پر چند مختصر تبصرے لکھے گئے تھے جنھیں ایک مناسب ترتیب سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے)
(۱) وَکُنتُم عَن آیَاتِہِ تَستَکبِرُون۔ (الانعام: 93)
(۲) وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاستَکبَرُوا عَنہَا اولَئِکَ اَصحَابُ النَّار۔ (الاعراف: 36)
(۳) اِنَّ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاستَکبَرُوا عَنہَا لاَ تُفَتَّحُ لَہُم اَبوَابُ السَّمَاء۔ (الاعراف: 40)
(۴) ِانَّ الَّذِینَ عِندَ رَبِّکَ لاَ یَستَکبِرُونَ عَن عِبَادَتِہ۔ (الاعراف: 206)
(۵) وَمَن عِندَہُ لَا یَستَکبِرُونَ عَن عِبَادَتِہِ وَلَا یَستَحسِرُون۔ (الانبیاء: 19)
(۶) ِانَّ الَّذِینَ یَستَکبِرُونَ عَن عِبَادَتِی سَیَدخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ۔ (غافر: 60)
مَا اَغنَی عَنکُم جَمعُکُم وَمَا کُنتُم تَستَکبِرُون۔ (الاعراف: 48)
(۱) اَو کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِیہِ ظُلُمَات وَرَعد وَبَرق۔ (البقرة: 19)
(۲) وَیُسَبِّحُ الرَّعدُ بِحَمدِہِ۔ (الرعد: 13)
یعنی “مشرکین اور اہلِ کتاب میں سے جو مرتکبینِ کفر ہیں، یہ اپنی روش سے باز آنے والے نہ تھے یہاں تک کہ ان کے پاس کوئی بینہ (یعنی دلیلِ روشن اور حجتِ واضحہ) نہ آجائے، سو (یہ دلیل آچکی ہے) یہ اللہ کا رسول موجود ہے جو ان پاک صحیفوں کی تلاوت کرتا ہے جن میں نہایت مستقیم باتیں تحریر ہیں۔”
“وہمہ ایں فرقہ ہا در بدعاتِ قبیحہ ورسومِ فاسدہ وعقائدِ باطلہ قسمی منہمک وفرو رفتہ بودند کہ بہ پند ونصیحت ووعظ وارشاد واقامتِ دلائلِ عقلی وفہمانیدنِ قرائن وامارات اصلا صلاح پذیر نمی شدند وہمہ گفتند کہ بااوضاعِ قدیمہ خود را نمی گذرانیم تا حجتِ ظاہرہ ومعجزہ قاہرہ نہ بینیم وپیغمبرِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کہ نعتِ او را از کتب آسمانی بتواتر دریافتہ بودیم واز انبیائے پیشین شنیدہ مبعوث نشود، مارا بر حقیقتِ کار ما آگہی ندہد ما از وضع وآئینِ خود در نمی گذریم”(8)
“وایں حالتِ ایشاں مثل حالتِ فرقہ ہائے مختلف از امتِ پیغمبرِ ما است دریں زمانہ کہ طائفہ خود را صوفی قرار دادہ در بدعات منہمک گشتہ اند ۔۔۔ وبرخی خود را از علماء دانستہ بتزویر ومکر وحیلہ ہائے شرعی برمی آرند وروایاتِ نادرہ غریبہ مخالفِ اصول برائے طمعِ دنیا بمردم نشان میدہند ، ہمہ ایں طوائف را چند بادلہء عقلیہ ونقلیہ فہمانیدہ شود کہ بر جادہء مستقیمہ محمدی استوار شوند وبدعاتِ موروثہ خود را ترک نمایند اصلا ممکن نیست جواب ایں ہمہ طوائف ضالہ در مقابلہ وعظ ونصیحت ہمگی یک حرف است کہ ایں وضع وآئینِ قدیم خود را بدون دیدنِ حجتِ ظاہر وخروجِ حضرت امام مہدی علیہ السلام وبیانِ شافیء ایشاں ترک نمی کنیم پس مثل ایں حالت کہ قبل از بعثتِ پیغمبرِ ما صلی اللہ علیہ وسلم در عالم بود حکمتِ الہی تقاضا نمود کہ پیغمبرے بیاید کہ خودش حجتِ ظاہر باشد واز مرضِ جہالت ہمگناں را نجات بخشد” (9)
یعنی “اہلِ کتاب میں سے پہلے جو لوگ تفرق وتشتت کا شکار ہوکر گم راہ ہوئے، وہ “بینہ” آجانے کے بعد یعنی “بینہ” کی موجودگی میں ہی گم راہ ہوئے تھے، جبکہ انہیں ماسوائے اس کے کوئی حکم نہ دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اللہ کے لیے خالص کرلیں، اس کی طرف یکسو ویک رخ ہوجائیں، نماز صحیح صحیح پڑھیں، زکوۃ ادا کریں اور سیدھی سیدھی مستقیم باتوں والا دین (دین القیمہ) یہی ہے۔”
“اس مثال سے اور باتوں کے علاوہ اس مقام کی بھی وضاحت ہوتی ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دین اور اپنی کتاب کے حوالے سے دیا ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس معاملے میں اللہ عزوجل کا کوئی حکم ہو، اس میں سنت یہ راہ نمائی کرتی ہے کہ اللہ نے اپنے حکم سے خصوص کا ارادہ کیا ہے یا عموم کا اور (مثلاً مال کی وصولی کے حکم میں) کتنی مقدار اللہ کی مراد ہے۔ جب ایک مثال میں اللہ کی کتاب کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیثیت ہے تو ہر مثال میں اس کی یہی حیثیت ہونی چاہیے اور (یہ ماننا چاہیے کہ) آپ کی سنت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے حکم کی توضیح اور اللہ کے حکم کی اتباع ہوتی ہے۔”
“اگر سنت سے استدلال نہ کیا جائے اور ہم قرآن کے ظاہر پر فیصلہ کریں تو ہمیں ہر اس شخص کا ہاتھ کاٹنا ہوگا جس نے چوری کی ہو اور آزاد شادی شدہ زانی کو بھی سو کوڑنے لگانے پڑیں گے اور ذی القربیٰ کا حصہ ان سب لوگوں کو دینا ہوگا جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت داری ہے اور پھر یہ عرب کے کئی اور قبیلوں کو بھی شامل ہو جائے گا کیونکہ مختلف قبائل کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔ اسی طرح جو شخص میدان جنگ میں دشمن کو قتل کر کے اس کا سامان حاصل کر لے، اس سے بھی اس سامان کا پانچواں حصہ بیت المال کے لیے لینا ہوگا جیسے باقی سارے مال غنیمت سے لیا جاتا ہے۔”
“مخاطب نے کہا کہ کیا اس کو قرآن کی مخالفت شمار کیا جائے گا؟ میں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت کسی حال میں کتاب اللہ کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ اس نے کہا کہ پھر تمھارے نزدیک اس کا (یعنی آیت میں پاوؤں کو دھونے کے حکم کا) کیا مطلب ہوگا؟ میں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاوؤں کو دھونے کے حکم میں اللہ تعالیٰ کی مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے مکمل طہارت کی حالت میں پاوؤں پرموزے نہ پہنے ہوں۔ اس نے کہا کہ کیا ازروئے زبان اس طرح کلام کرنا درست ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں، ایسے ہی جیسے کوئی شخص پہلے سے باوضو ہو اور نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہ وضو کے حکم کا مخاطب نہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو اور بعض مواقع پر کئی نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دو، اور سنت نے اس پر دلالت کی کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہر ہر چور کا ہاتھ کاٹ دینا نہیں ہے۔”
“ہمارے اور تمھارے مابین یہ اصول مسلم ہے کہ جب احادیث باہم مختلف ہوں تو ان میں سے کسی کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیں گے، الا یہ کہ ترجیح کی کوئی وجہ موجود ہو، مثلاً ان میں سے ایک حدیث کتاب اللہ کے زیادہ مطابق ہو۔ جب وہ کتاب اللہ کے زیادہ مطابق ہوگی تو وہی حجت ہوگی۔”
“جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ تم اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے کر آؤ یا اسی کو بدل ڈالو۔ تم کہہ دو کہ مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس کو بدل ڈالوں۔ میں تو بس اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔”
“اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جہاں مجھے قرآن کا حکم ظاہراً عام ملے اور ایسی سنت بھی ملے جس کے بارے میں یہ احتمال بھی ہے کہ وہ قرآن کی وضاحت کر رہی ہے اور یہ بھی کہ وہ قرآن کے ظاہر کے خلاف ہے تو کیا اس سے مجھے یہ سمجھنا چاہیے کہ اس سنت کو قرآن نے منسوخ کر دیا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، یہ بات کوئی صاحب علم نہیں کہہ سکتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر اللہ کی نازل کردہ وحی کی اتباع کو فرض ٹھہرایا اور اس کے ہدایت ہونے کی گواہی دی ہے اور اپنے بندوں پر بھی اس کی پیروی کو لازم قرار دیا ہے، اور عربی زبان بھی، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا، مختلف معانی کا احتمال رکھتی ہے، مثلاً یہ کہ کتاب اللہ میں عام الفاظ نازل ہوئے ہوں لیکن مراد خاص ہو، یا الفاظ خاص اور مراد عام ہو، یا کتاب اللہ میں حکم اصولی اور اجمالی ہو جس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہو اور سنت کی حیثیت اللہ کی کتاب کے ساتھ یہ ہو، تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ سنت، کتاب اللہ کی مخالفت کرے۔ سنت ہمیشہ اللہ کی کتاب کے مطابق ہی ہوگی، چاہے اس میں اسی حکم کو بیان کیا جائے جو کتاب اللہ میں اترا ہے یا اللہ کی مراد کو واضح کیا جائے۔ بہرحال سنت، کتاب اللہ کے تابع ہی ہوتی ہے۔”
“میں نے کہا کہ ہم (عام معاملات زندگی میں بھی) کسی بات کے ثبوت کا فیصلہ قطعی اور شک سے پاک علم کی بنیاد پر بھی کرتے ہیں، سچی خبر کی بنیاد پر بھی اور قیاس کی بنیاد پر بھی۔ ہمارے نزدیک ثبوت کے ذرائع مختلف ہیں اور اگرچہ ہم ان سب کو فیصلے کی بنیاد بناتے ہیں، لیکن ان میں سے بعض ثبوت کے اعتبار سے بعض سے زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اس کی کوئی مثال دو۔ میں نے کہا کہ جیسے میں (بطور قاضی) ایک شخص کے خلاف اس کے اپنے اقرار کی بنیاد پر بھی فیصلہ کر سکتا ہوں، گواہ کی گواہی کی بنیاد پر بھی، ملزم کے قسم کھانے سے انکار کی بنیاد پر بھی اور مدعی کے قسم کھانے کی بنیاد پر بھی۔ اب ان میں سے ملزم کا اقرار، گواہ کی گواہی کے مقابلے میں، اور گواہی ملزم کے قسم کھانے سے انکار یا مدعی کے قسم کھانے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط بنیاد ہے۔ اور ہم اگرچہ ان سب بنیادوں پر ایک ہی طرح کا فیصلہ کرتے ہیں، لیکن ثبوت کے ذرائع درجے میں باہم متفاوت ہوتے ہیں۔”
“جس حکم کی نوعیت یہ ہو، اسی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ آیت کا سب سے واضح، عام اور غالب معنی ہے اور اگر آیت اس کے علاوہ کچھ اور معنوں کا احتمال رکھتی ہو تو بھی اسے اسی (واضح اور غالب) معنی پر محمول کرنا اہل علم پر لازم ہے، الا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس کے علاوہ دوسرے معنی پر، جس کا آیت احتمال رکھتی ہے، دلالت کرے اور یہ بتائے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ معنی ہے۔ شافعی کہتے ہیں کہ اللہ کی کتاب یا رسول اللہ کی سنت میں کسی حکم کو خصوص پر محمول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ اس کی دلیل ان دونوں میں یا کسی ایک میں نہ پائی جائے۔ اسی طرح آیت کے حکم کو خصوص پر محمول نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ خود آیت اس کا احتمال نہ رکھتی ہو کہ اس کی مراد خاص ہے۔ اگر آیت خصوص کا احتمال نہ رکھتی ہو تو غیر محتمل معنی پر آیت کو محمول نہیں کیا جائے گا۔”
“قرآن، جیسا کہ میں نے بیان کیا، عربی ہے اور اس کے احکام ظاہری معنی پر اور عموم پر محمول ہیں اور کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کے ظاہری معنی میں تاویل کرے یا عام حکم کو خاص قرار دے، جب تک کہ اس پر اللہ کی کتاب میں دلیل موجود نہ ہو۔ اگر کتاب اللہ میں دلیل نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس پر دلالت کرتی ہو کہ یہ حکم خاص ہے، عام نہیں یا اس کے ظاہری معنی کے علاوہ دوسرا معنی مراد ہے۔ یا پھر اکثر اہل علم کا اس پر اتفاق ہو جو سب کے سب کتاب اور سنت کی مراد سے ناواقف نہیں ہو سکتے۔ یہی حکم سنت میں وارد احکام کا ہے۔ اگر کسی حدیث کو ظاہری معنی سے ہٹا کر کسی دوسرے معنی پر محمول کرنا،جس کا وہ احتمال رکھتی ہو، جائز ہو تو اکثر احادیث متعدد معانی کا احتمال رکھتی ہیں۔ ایسی صورت میں جو شخص ان میں سے جو بھی معنی اختیار کرے گا، اس کے پاس دوسرے کے مقابلے میں، جس نے کوئی دوسرا معنی اختیار کیا ہے، کوئی دلیل نہیں ہوگی۔ لیکن حدیث کا صحیح مفہوم ایک ہی ہے، کیونکہ احادیث اپنے ظاہری معنی اور عموم پر ہی محمول ہیں، الا یہ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (کسی دوسری حدیث میں) یا اکثر اہل علم کی رائے سے اس کی وضاحت ہوتی ہو کہ وہ عام نہیں، بلکہ خاص ہے اور اس کا ظاہری معنی نہیں، بلکہ کوئی دوسرا معنی مراد ہے۔ اس میں یہ شرط ہے کہ اگر حدیث کو ظاہری معنی سے ہٹا کر جس معنی پر محمول کیا جائے، حدیث اس کا احتمال رکھتی ہو۔”
“اگر کسی مسئلے میں سنت تو نہ ہو اور قرآن (تخصیص کا) احتمال رکھتا ہو، اور ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا قول یا اہل علم کی اجماعی رائے مل جائے جو مختلف احتمالات میں سے ایک احتمال کو متعین کرتی ہو تو ہم کہیں گے کہ یہ لوگ اللہ کی کتاب کا زیادہ علم رکھتے ہیں اور ان کی بات اللہ نے چاہا تو کتاب اللہ کے خلاف نہیں۔ لیکن اگر کسی مسئلے میں سنت بھی نہ ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا قول اور اجماع بھی نہ ہو جو مختلف احتمالات میں سے ایک احتمال کو متعین کرتا ہو تو ایسا حکم اپنے ظاہری معنی اور اپنے عموم پر برقرار رہے گا اور اس میں کسی چیز کی تخصیص نہیں کی جائے گی۔ اور جس مسئلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا اختلاف ہو تو اس میں ہم وہ بات قبول کریں گے جو ظاہر قرآن کے زیادہ مطابق ہو۔”
جنسی ہراسانی، صنفی مساوات اور مذہبی اخلاقیات | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۳) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
قومیت بطور مذہب | ڈاکٹر عرفان شہزاد | |
بین المسالک ہم آہنگی کے حوالے سے ایک خوشگوار تبدیلی | محمد یونس قاسمی | |
دہشت گردی کے حوالہ سے عدالت عظمیٰ کا مستحسن فیصلہ | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
تعلیمی نظام کے حوالے سے چیف جسٹس کے ارشادات | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۵) | محمد عمار خان ناصر | |
مولانا مودودی کا تصورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (١) | مراد علوی |
ایمان والو، انصاف پر قائم رہو، اللہ کے لیے اُس کی گواہی دیتے ہوئے، اگرچہ یہ گواہی خود تمھاری ذات، تمھارے ماں باپ اور تمھارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے۔ امیر ہو یا غریب، اللہ ہی دونوں کا زیادہ حق دار ہے(کہ اُس کے قانون کی پابندی کی جائے)۔ اِس لیے تم خواہشوں کی پیروی نہ کرو کہ اِس کے نتیجے میں حق سے ہٹ جاؤ اور (یاد رکھو کہ) اگر (حق و انصاف کی بات کو) بگاڑنے یا (اُس سے) پہلو بچانے کی کوشش کرو گےتواُس کی سزا لازماً پاؤ گے، اِس لیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے خوب واقف ہے۔
"ابوموسیٰ اشعری کا بیان ہے کہ ایک شخص حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ کوئی مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لیے لڑتا ہے ،کوئی شہرت اور ناموری کے لیے لڑتا ہے،کوئی اپنی بہادری دکھانے کے لیے لڑتا ہے، فرمائیے کہ ان میں سے کس کی لڑائی اللہ کی راہ میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اللہ کی راہ میں لڑائی تو صرف اس کی ہے جو محض اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے میدان میں اترے۔ " (بخاری ،رقم 2810)"وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی دعوت دی، وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی خاطر قتال کیا اور وہ ہم میں سے نہیں وہ جو عصبیت کی حالت میں مرگیا۔" (ابوداوٴد، مشکوة/۴۱۸)"جو شخص اپنی قوم کی ناحق مدد کرتا ہے وہ اس اونٹ کے مانند ہے جو کنویں میں گرگیا اوراس کی دم پکڑ کر اس کو نکالا جائے۔"(ابوداوٴد ۲/۶۹۸، مشکوة/۴۱۸)
’’اسلام آباد (جنگ رپورٹر) عدالت عظمیٰ میں دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت پانے والے ایک ملزم صفتین کی اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دہشت گردی کی تعریف کے تعین کے لیے ۷ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے رہے ہیں، چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل بینچ نے بدھ کے روز ملزم صفتین کی اپیل کی سماعت کی تو فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ۱۹۹۷ء سے آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ کون سا کیس دہشت گردی کے زمرہ میں آتا ہے اور کون سا نہیں آتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان کی سربراہی میں دہشت گردی کی تعریف کے لیے سات رکنی لارجر بینچ بنایا جا رہا ہے جو کہ دہشت گردی کی تعریف کا تعین کرے گا۔‘‘
’’کسی بھی ایسے راوی کی روایت کو رد کرنا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کے خلاف روایت نقل کرتا ہو، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کرنا نہیں ہے اور نہ اس سے آپ کی تکذیب لازم آتی ہے۔ یہ تو اس شخص کی بات کو رد کرنا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے باطل بات کو نقل کرتا ہے۔ اس میں موردِ الزام وہ شخص ہے، نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘
’’روایات بڑھتی جا رہی ہیں اور ان میں ایسی غیر معروف روایات بھی سامنے آ رہی ہے جن سے نہ فقہا واقف ہیں اور نہ وہ کتاب اور سنت کے مطابق ہیں۔ اس لیے شاذ حدیثوں سے گریز کرو اور انھی حدیثوں کو اختیار کرو جو بہت سے راویوں سے منقول ہیں اور جنھیں فقہا جانتے ہیں اور جو کتاب اور سنت کے مطابق ہیں۔ اسی معیار پر روایات کو جانچو۔ جو بات قرآن کے خلاف ہو، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہو سکتی، چاہے کسی روایت میں ایسا بیان ہوا ہو۔ ۔۔۔ سو قرآن اور معلوم ومشہور سنت کو اپنا راہ نما بناؤ اور انھی کی پیروی کرو اور جو باتیں قرآن اور سنت میں واضح نہیں کی گئیں، انھیں قرآن وسنت پر قیاس کرو۔‘‘
’’میں اس وقت تک مسح علی الخفین کا قائل نہیں ہوا جب تک اس کے متعلق سورج سے زیادہ روشن روایات میرے علم میں نہیں آ گئیں۔ امام ابوحنیفہ سے ہی منقول ہے کہ جو شخص مسح علی الخفین کو درست نہیں سمجھتا، مجھے اس پر کفر کا خوف ہے۔‘‘
’’قرآن کے حکم میں سنت کے ذریعے سے تبدیلی کرنا صرف اسی صورت میں جائز ہے جب سنت اس طرح شہرت کے ساتھ وارد ہوئی ہو جیسے مسح علی الخفین میں وارد ہوئی ہے۔‘‘
’’اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خبر واحد روایت کی جائے اور ظاہری مفہوم کے لحاظ سے اس کا موضوع سنن اور احکام کا بیان ہو اور وہ کسی متفق علیہ سنت یا ظاہر قرآن کے خلاف ہو تو اگر تو حدیث کو کسی ایسے مفہوم پر محمول کیا جا سکے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو اسے اس کے بہترین محمل پر محمول کیا جائے گا جو سنن کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہو اور ظاہر قرآن کے بھی موافق ہو۔ لیکن اگر ایسے کسی مفہوم پر محمول کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی حدیث شاذ ہے۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ نے جن صہری اور نسبی رشتوں کا حرام ٹھیرایا ہے، ان آیات میں ان کی اصولی وضاحت کی گئی ہے (تاہم یہ تمام تفصیلات پر مشتمل نہیں)، کیونکہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پہنچا ہے کہ رضاع سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے ہوتے ہیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی عورت کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح نہ کیا جائے۔ آپ نے ابو قعیس کے واقعے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اسے اپنے پاس آنے دو، کیونکہ وہ تمھارا چچا لگتا ہے۔‘‘
’’کافر کی دیت مسلمان کی دیت کے نصف ہے۔‘‘
"میں ہمیشہ اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ مولانا مودودی کی کسی ایک تحریر کی بنیاد پر ان کے سلسلے میں کوئی بات نہ کہی جائے، ہم اس وقت تک ان پر کوئی حکم نہ لگائیں جب تک ان کی تمام تحریروں کو نہ دیکھ لیں۔ کیوں کہ جس بات وہ ایک جگہ مطلق انداز میں لکھتے ہیں، اسی بات کو دوسری جگہ کچھ شرطوں کے ساتھ مشروط کردیتے ہیں۔ جس بات کو وہ ایک جگہ عموم کے ساتھ لکھتے ہیں، اسی بات کو دوسری جگہ خاص کردیتے ہیں۔ جس بات کو وہ ایک خطاب میں مجمل طور پر کہتے ہیں، اسی بات کو وہ دوسری کتاب یا خطاب یا تحریر میں مفصل انداز میں بیان کرتے ہیں۔8
"انصاف پسند قاری کا فرض یہ کہ وہ مولانا مودودی کی تحریروں کو آپس میں ملا کر دیکھے، اور کسی ایک تحریر یا کسی ایک زمانے کی گفتگو پر اکتفا نہ کر بیٹھے کیوں کہ بہت سی کتابیں انھوں نے تقسیم ہند سے پہلے لکھی ہیں، جب کہ پاکستان کی اسلامی ریاست وجود میں نہیں آئی تھی۔ اور مولانا بھی ابھی پختگی کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ اس وقت علامہ مودودی کی ابھرتی ہوئی جوانی تھی، جو کہ جذبات کی شدت کا زمانہ ہوتا ہے۔" 9
''الجہاد فی الاسلام'' کے متعلق یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ یہ مولانا کے ابتدائی دور کی تصنیف ہے۔ چنانچہ مولانا نے خود ایک مقام پر یہ ذکر کیا ہے کہ ''الجہاد فی الاسلام'' میری ابتدائی دور کی تصنیف ہے اور بعد میں مجھے اس پر نظر ڈالنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک ہندو نے مولانا کو لکھا کہ آپ نے ''الجہاد فی الاسلام'' میں ہندو مذہب کے بارے میں ترجموں پر انحصار کیا ہے۔ مولانا جواب میں لکھتے ہیں:
"آپ کا یہ اعتراض صحیح ہے کہ میں نے سنسکرت زبان اور ہندوؤں کی مذہبی کتابوں سے براہِ راست واقفیت کے بغیر محض یورپین ترجموں کے اعتماد پر اپنی کتاب میں ویدوں سے کیوں بحث کی۔ لیکن آپ نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ ''الجہاد فی الاسلام'' بالکل میرے ابتدائی عہد کی تصنیف ہے جب مذاہب کے معاملے میں میرا رویہ پوری طرح پختہ نہیں ہوا تھا اور نہ وہ احتیا ط طبیعت میں پیدا ہوئی تھی جو تحقیق کے لیے ضروری ہے۔ اب اگر میں اس کتاب کو دوبارہ لکھوں گا تو ہر اس چیز کی جس براہِ راست واقفیت کا موقع مجھے نہیں ہے، از سرِ نو تحقیق کروں گا۔"13
یعنی کافروں کا زور نہ رہے کہ ایمان سے روک سکیں یا مذہب حق کو دھمکی دے سکیں۔ جیسا کہ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی کفار کو غلبہ ہوا، مسلمانوں کا ایمان اور مذہب خطرہ میں پڑ گیا۔ اسپین کی مثال دنیا کے سامنے ہے کہ کسی طرح قوت اور موقع ہاتھ آنے پر مسلمانوں کو تباہ کیا گیا یا مرتد بنا دیا گیا۔ بہرحال جہاد وقتال کا اولین مقصد یہ ہے کہ اہلِ اسلام مامون و مطمئن ہوکر خدا کی عبادت کرسکیں اور دولت ِایمان و توحید کفار کے ہاتھوں سے محفوظ ہو (چنانچہ فتنہ کی یہی تفسیر ابن عمر وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے کتب حدیث میں منقول ہے۔15 یہ جہاد کا آخری مقصد ہے کہ کفر کی شوکت نہ رہے۔ حکم اکیلے خدا کا چلے۔ دین حق سب ادیان پر غالب آجائے۔ (ليظہرہ علی الدين كلہ) 16 خواہ دوسرے باطل ادیان کی موجودگی میں جیسے خلفائے راشدین وغیرہم کے عہد میں ہوا، یا سب باطل مذاہب کو ختم کرکے، جیسے نزول مسیح کے وقت ہوگا۔ بہرحال یہ آیت اس کی واضح دلیل ہے کہ جہاد اور قتال خواہ ہجومی ہو یا دفاعی مسلمانوں کے حق میں اس وقت تک برابر مشروع ہے جب تک یہ دو مقاصد حاصل نہ ہوجائیں۔ اسی لیے حدیث میں آگیا۔ الجہاد ماض إلی يوم القيامۃ ( جہاد کے احکام و شرائط وغیرہ کی تفصیل کتب فقہ میں ملاحظہ کی جائے)۔"17
"انھوں (صلیبیوں) نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ مسلمانوں میں جہاد اس لیے مشروع کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو زبردستی بہ زورِ شمشیر مسلمان بنایا جائے کہ یا تو مسلمان ہوجاؤ ورنہ تمھیں ماردیں گے۔ اور یہ جہاد در حقیقت اسلام کو پھیلانے کے لیے ایک زبردستی کا ذریعہ ہے۔ اور اسی بات کو یہ کہہ کر تعبیر کیا گیا کہ " اسلام تلوار کے زور سے پھیلا'' ورنہ عقیدہ مان کر لوگ مسلمان نہیں ہوئے۔ بڑی شدومد سے یہ پروپیگنڈہ شروع کیا گیا۔ حالاں کہ اس پروپیگنڈے کی کوئی حقیقت نہیں، اس لیے کہ خود قرآن کریم کا ارشاد ہے: لا اكراہ فی الدين۔ دوسری جگہ فرمایا : فمن شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر جہاد کا منشا لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانا ہوتا تو پھر جزیہ ادا کرنے اور غلام بنانے کی شق کیوں ہوتی؟ کہ اگر مسلمان نہیں ہوتے تو جزیہ ادا کرنے کی شق خود ظاہر کررہی ہے کہ جہاد کے ذریعہ لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانا مقصود نہیں۔ اور مسلمانوں کی پوری تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ مسلمانوں نے کسی علاقے کو فتح کرنے بعد وہاں کے لوگوں کو زبردستی مسلمان بننے پر مجبور کیا ہو بلکہ ان کو ان کے دین پر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ان کو اسلام کی دعوت دی گئ، جو لوگ مسلمان ہوئے وہ اسی دعوت کے نتیجے میں مسلمان ہوئے اور جو مسلمان نہیں ہوئے ان کو بھی وہی حقوق دیے گئے جو ایک مسلمان کو دیے گئے۔ اس لیے یہ کہنا کہ تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلا، یا یہ کہنا کہ جہاد کا مقصد زبردستی لوگوں کو مسلمان بنانا ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔"19
"سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر جہاد کا مقصد کیا ہے؟ خوب سمجھ لیں جہاد کا مقصد یہ ہے کہ کفر کی شوکت کو توڑا جائے اور اسلام کی شوکت قائم کی جائے اور اللہ کا کلمہ بلند کیا جائے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات کو تو برداشت کرلیں گے کہ اگر تم اسلام نہیں لاتے ٹھیک ہے اسلام قبول نہ کرو، تم جانو اور تمھارا اللہ جانے۔ آخرت میں تم سزا بھگتنا۔ لیکن تم اپنے کفر اور ظلم کے قوانین کو اللہ کی زمین پر نافذ کرو اور اللہ کے بندوں کو اپنا غلام بناؤ اور ان کو اپنے ظلم اور ستم کا نشانہ بناؤ اور ان پر ایسے قوانین نافذ کرو جو اللہ کے قوانین کے خلاف ہیں اور کن قوانین کے ذریعہ فساد پھیلتا ہے۔ تو اس کی ہم تمہیں اجازت نہیں دیں گے۔ لہذا یا تو تم اسلام لے آؤ اور اگر اسلام نہیں لاتے تو پھر اپنے دین پر رہو لیکن جزیہ ادا کرو۔ اور یہ جزیہ ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری اور ہمارے قانون کی بالادستی تسلیم کرو۔ اس لیے جو قانون تم نے جاری کیا ہوا ہے وہ بندوں کو بندوں کا غلام بنانے والا قانون ہے۔ ہم ایسے قانون کو جاری نہیں رہنے دیں گے۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ ہوگا اور اللہ ہی کا کلمہ بلند ہوگا۔ یہ ہے جہاد کا مقصود۔"20
"آپ نےجہاد کے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے، اس کا حاصل میں یہ سمجھا ہوں کہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت اپنے ملک میں تبلیغ کی اجازت دے دے تو اس کے بعد اس سے جہاد کرنا جائز نہیں رہتا۔"22
"اگر یہی آپ کا مقصد ہے تو احقر کو اس سے اتفاق نہیں، تبلیغ اسلام کے راستے میں رکاوٹ صرف اسی کا نام نہیں کہ غیر مسلم حکومت تبلیغ پر قانونی پابندی عائد کردے، بلکہ کسی غیر مسلم حکومت کا مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ پر شوکت ہونا بہ ذات خود دین حق کی تبلیغ کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ آج دنیا میں ان کی شوکت اور دبدبہ قائم ہے، اس لیے اسی شوکت اور دبدبے کی وجہ سے ایک ایسی عالمگیر ذہنیت پیدا ہوگئ ہے جو قبول حق کے راستے میں تبلیغ پر قانونی پابندی لگانے سے زیادہ بڑی رکاوٹ ہے۔"23
لہذا کفار کی اس شوکت کی بنا پر جو نفسیاتی مرعوبیت لوگوں میں پیدا ہوگئی ہے، وہ ٹوٹے ، قبول حق کی راہ ہم وار ہوجائے، جب تک یہ شوکت و غلبہ باقی رہے گا، لوگوں کے دل اسی سے مرعوب رہیں گے، اور دین حق کو قبول کرنے کے لیے پوری طرح آمادہ نہ ہوسکیں گے۔ لہذا جہاد جاری رہے گا۔قرآن کریم کا ارشاد ہے:قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّہ وَرَسُولُہ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّی يُعْطُوا الْجِزْيَۃ عَن يَدٍ وَہمْ صَاغِرُونَ (توبہ: ٢٩)
یہاں قتال اس وقت تک جاری رکھنے کو کہا گیا ہے جب تک کفار '' چھوٹے'' یا '' ماتحت" ہوکر جزیہ ادا نہ کریں، اگر قتال کا مقصد صرف تبلیغ کی قانونی آزادی حاصل کرنا ہوتا تو یہ فرمایا جاتا کہ "جب تک وہ تبلیغ کی اجازت نہ دے دیں" لیکن جزیہ واجب کرنا اور اس کے ساتھ ان کے صغر (زیرِ دست، ذلیل) ہونے کا ذکر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مقصد ان کی شوکت کو توڑنا ہے، تاکہ کفر کے سیاسی غلبے سے ذہن و دل پر مرعوبیت کے جو پردے پڑ جاتے ہیں، وہ انھیں اور اس کے بعد اسلام کے محاسن پر لوگوں کو کھلے دل سے غور کرنے کا موقع ملے۔" 24
" دین کے معنی قہر و غلبہ کے ہیں، اس صورت میں تفسیر آیت کی یہ ہوگی کہ مسلمانوں کو کفار سے اس وقت تک قتال کرتے رہنا چاہیے جب تک کہ مسلمان ان کے مظالم سے محفوظ نہ ہوجائیں، اور دین اسلام کا غلبہ25 نہ ہوجائے کہ وہ غیروں کے مظالم سے مسلمانوں کی حفاظت کرسکے۔"26
خلاصہ اس تفسیر کا یہ ہے کہ مسلمانوں پر اعداء اسلام کے خلاف جہاد و قتال اس وقت تک واجب ہے جب تک کہ مسلمانوں پر ان کے مظالم کا فتنہ ختم نہ ہوجائے، اور اسلام کو سب ادیان پر غلبہ حاصل نہ ہوجائے ، اور یہ صورت صرف قریب قیامت میں ہوگی، اس لیے جہاد کا حکم قیامت تک جاری اور باقی رہے گا۔"27
حق جل شانہ کے اس ارشاد وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لا تَكُونَ فِتْنَۃ میں اسی قسم کا جہاد مراد ہے، یعنی اے مسلمانو! تم کافروں سے یہاں تک جہاد و قتال کرو کہ کفر کا فتنہ باقی نہ رہے، اور اللہ کے دین کو پورا غلبہ حاصل ہوجائے۔ اس آیت میں فتنہ سے کفر کی قوت اور غلبہ مراد ہے، جب کہ دوسری آیت میں ہے: لیظھرہ علی الدین کلہ، یعنی دین کو اتنا غلبہ اور قوت حاصل ہوجائے کہ کفر کی طاقت سے اس کے مغلوب ہونے کا احتمال باقی نہ رہے اور دین اسلام کا کفر کے فتنہ اور خطرہ سے بالکلیہ اطمینان حاصل ہوجائے۔''28
"جہاد کے حکم سے خدا وند قدوس کا یہ ارادہ نہیں کہ یک لخت کافروں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جائے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ اللہ کا دین دنیا میں حاکم بن کر رہے، اور مسلمان عزت کے ساتھ زندگی بسر کریں، اور امن و عافیت کے ساتھ خدا کی عبادت اور اطاعت کرسکیں، کافروں سے کوئی خطرہ نہ رہے کہ ان کے دین میں خلل انداز ہوسکی۔ اسلام اپنے دشمنوں کے نفس وجود کا دمشن نہیں،بلکہ ان کی ایسی شوکت و حشمت کا دشمن ہے کہ جو اسلام اور اہل اسلام کے لیے خطرے کا باعث ہو۔" 29
" احقر کی فہم ناقص کی حد تک جہاد کا مقصد صرف تبلیغ کی قانونی آزادی حاصل کرلینا نہیں نلکہ کفار کی شوکت توڑنا اور مسلمانوں کی شوکت قائم کرنا ہے، تاکہ ایک طرف کسی کو مسلمانوں پر بری نگاہ ڈالنے کی جرات نہ ہو، اور دوسری طرف کفار کی شوکت سے مرعوب انسان اس مرعوبیت سے آزاد ہوکرکھلے دل سے اسلام کے محاسن کو سمجھنے پر آمادہ ہوسکیں۔ یہ حقیقت کے اعتبار سے بلاشبہ "حفاظت اسلام" ہی کی غرض سے ہے، اس لیے بعض علما جنھوں نے جہاد کے لیے ''حفاظت '' کی تعبیر اختیار کی ہے اسی سیاق میں کی ہے، لیکن کفر کی شوکت کو توڑنا اور اسلام کی شوکت کو قائم کرنا اس "حفاظت'' کا بنیادی عنصر ہے، لہذا اس بنیادی عنصر کو اس سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ میرا خیال ہے کہ تمام اکابر علما نے جہاد کی غرض و غایت اسی کو قرار دیا ہے۔"31
"ان جملوں سے متشرح ہوتا ہے کہ صرف دفاعی جہاد جائز ہے، حالاں کہ جہاد کا اصل مقصد “اعلاءِ کلمۃ اللہ” ہے جس کا حاصل اسلام کا غلبہ قائم کرنا اور کفر کی شوکت کو توڑنا ہے، اس غرض کے لیے اقدامی جہاد بھی نہ صرف جائز بلکہ بسا اوقات واجب اور باعث اجر و ثواب ہے، قرآن و سنت کے علاوہ پوری تاریخِ اسلام اس قسم کے جہاد کے واقعات سے بھر پڑی ہے، غیر مسلموں کے اعتراضات سے مرعوب ہوکر خواہ مخواہ ان حقائق کا انکار یا ان میں معذرت آمیز تاویلیں کرنے سے ہمیں چنداں ضرورت نہیں، کسی فردِ واحد کو بلاشبہ کبھی بہ زورِ شمشیر مسلمان نہیں بنایا گیا اور نہ اس کی اجازت ہے، ورنہ جزیہ کا ادارہ بالکل بے معنیٰ ہوجاتا، لیکن اسلام کی شوکت قائم کرنے کے لیے تلوار اٹھائی گئی ہے، کوئی شخص کفر کی گمراہی پر قائم رہنا چاہتا ہے تو رہے، لیکن اللہ کی بنائی ہوئی دنیا میں حکم اسی کا چلنا چاہیے، اور ایک مسلمان اسی کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے باغیوں کی شوکت توڑنے کے یے جہاد کرتا ہے۔ ہم اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے ان لوگوں کے سامنے آخر کیوں شرمائیں جن کی پوری تاریخ ملک گیری کے لیے خون ریزیوں کی تاریخ ہے، اور جنھوں نے محض اپنی خواہشات کا جہنم بھرنے کے لیے کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔"32
[ علمائے کرام نے جزوی طور پر جہاد کی مشروعیت کے کئی اغراض و اہداف ذکر کیے ہیں۔ جن میں مختلف حالات کے مطابق چند مزید جزوی اہداف و اغراض کے اضافے کی گنجائش بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن جہاد کی مشروعیت کے لیے شرعی نصوص کی روشنی میں جو بنیادی اہداف و مقاصد معلوم ہوتے ہیں، وہ اعزاز اسلام، اعلائے کلمۃ اللہ اور کفر کی شان و شوکت کا توڑ ہے۔]
[در حقیقت جہاد کی مشروعیت لوگوں سے اسلام قبول کرانے کے لیے نہیں، بلکہ اس کی مشروعیت کا سبب زمین پر اللہ کے دین کا نفاذ اور کفر کی شان و شوکت کو توڑنا کے لیے ہے، اور یہی کفر کی شان و شوکت ہی زمین میں ظلم، فتنہ اور فساد کی جڑ اور بنیادی سبب ہے۔ اسی طرح یہی کفر کا دبدبہ قبول حق میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ اگر جہاد کی مشروعیت کا مقصد لوگوں کو قبول اسلام پر مجبور کرنا ہوتا، تو جنگ کے خاتمے کے لیے جزیہ کیوں جائز رکھا گیا؟ جزیہ کی مشروعیت سے صاف طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بنیادی غرض قبول اسلام پر مجبور کرنا نہیں۔ مزید یہ کہ پوری تاریخ کے اندر کبھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا جس میں کسی شہر کو فتح کرنے کے بعد مسلمانوں نے کسی کافر کو زبردستی اسلام قبول کروایا ہو۔ بلکہ ہمیشہ یہی طرز عمل رہا کہ وہاں کے کافروں کو ان کے اپنے دین پر مکمل آزادی کے ساتھ عمل کرنے دیا گیا ہے۔ اس کے بعد دلیل و حجت کی بنیاد پر اور کریمانہ اخلاق کے ساتھ ہی دین اسلام کی طرف دعوت کا مرحلہ آیا ہے، اور کافروں نے بغیر کسی زبردستی اور مجبوری کے محض اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اور اپنے بھر پور اطمینان کے بعد ہی اسلام کو قبول کیا ہے۔ جہاد کی مشروعیت کی اصل غرض یہی ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کا نام و نظام ہی غالب رہے، اور اپنی ذاتی فکر نظر کی بنیاد پر قوانین بنا کر انسانوں کو اپنے جبر و تحکم کے ساتھ محکوم و مظلوم رکھنے والوں، خدا کی شریعت کا انکار کرنے اور اپنی حکمرانی کے بل بوتے پر زمین میں ظلم اور فتنہ و فساد برپا کرنے والوں کی شان و شوکت ٹوٹ جائے۔]
اتمام حجت میں انبیاء کی دعوت کی اہمیت | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۴) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ(۱) | مولانا سمیع اللہ سعدی | |
اسلام میں میانہ روی اور اعتدال کی قدریں | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۶) | محمد عمار خان ناصر | |
مولانا مودودی کا تصّورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۲) | مراد علوی | |
“مولانا وحید الدین خان: افکار ونظریات” پر ایک تبصرہ | صدیق احمد شاہ |
علامہ محمد اقبال نے کہیں کسی سوال کے جواب میں کہا ہے کہ وہ خدا کو اس لیے مانتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ خدا موجود ہے۔ ہمارے محترم دوست طالب محسن صاحب نے کافی سال پہلے اس پر ماہنامہ ’’اشراق” لاہور میں شذرہ لکھا تھا کہ اقبال کا یہ استدلال درست نہیں، کیونکہ قرآن مجید نے وجود باری اور توحید وغیرہ پر آفاق وانفس کے دلائل سے استدلال کیا ہے۔ بظاہر اقبال کی بات منطقی طور پر بھی الٹ لگتی ہے، کیونکہ محمد رسول اللہ پر ایمان بذات خود، خدا پر ایمان کی فرع ہے اور اس کے بعد ہی اس کا مرحلہ آ سکتا ہے۔ شاید اقبال نے یہ بات کسی عقلی استدلال کے طور پر کہی بھی نہیں ہوگی، اور غالبا اس کی نوعیت ایک ذاتی تاثر کے اظہار کی ہے۔ تاہم ہمارے خیال میں اپنے محل میں اور اپنے درست سیاق میں بطور ایک عقلی استدلال کے بھی، اقبال کی بات کمزور نہیں ہے، بلکہ بہت مضبوط بات ہے۔
خدا کے وجود کو عقلی غور وفکر سے ماننا اور اس غور وفکر کا واجب ہونا ہمارے متکلمین کے ہاں بھی ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ علم کلام میں اس کو ’’وجوب النظر” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ معتزلہ اور ماتریدیہ عموما اس کے قائل ہیں کہ کم سے کم خدا کے وجود تک عقلی استدلال سے پہنچنا ہر فرد بشر پر واجب ہے اور وحی کی راہ نمائی نہ بھی ہو تو محض عقلی صلاحیت کی بنا پر انسان اس کا مکلف ہے اور اس تک نہ پہنچ پانے والا خدا کی نظر میں قصوروار ہے۔ لیکن حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مکتوب میں ماتریدیہ کے اس موقف پر نقد کیا ہے اور اسے عقل انسانی کی صلاحیت پر ضرورت سے زیادہ اعتماد اور اس کی محدودیتوں اور کمزوریوں سے صرف نظر کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ مجدد صاحب اس پر فلاسفہ کے طبقے کو بطور مثال پیش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے ذہین وفطین ہونے اور سنجیدگی سے امور کائنات میں غور وفکر کرنے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے باوجود تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں کہ کوئی فلسفی تنہا عقلی غور وفکر کے نتیجے میں خدا کی ویسی معرفت تک پہنچ سکا ہو جو انبیاء کے دین میں بیان کی جاتی ہے۔
ہماری رائے میں علمائے کلام کے اس مکتب فکر کی رائے زیادہ صائب ہے جو وجود باری اور توحید کے باب میں بھی اتمام حجت کی بنیاد پیغمبر کی دعوت ہی کو قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی ’’لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل” اور ’’وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا” کے الفاظ میں انبیاء کی دعوت ہی کو اس حوالے سے فیصلہ کن قرار دیا ہے۔
اس سے اس سوال کا جواب بھی ملتا ہے جو ایمان کے عقلی یا غیر عقلی ہونے کی بحث سے فوری طور پر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا فہم یہ ہے کہ خالصتا عقلی سطح پر ایمان یا الحاد مساوی امکانات کی حیثیت رکھتے ہیں اور شعور انسانی ایک خاص طرح کی کیفیت میں ایمان کی طرف بھی مائل ہو سکتا ہے اور الحاد کی طرف بھی۔ دونوں کے حق میں عقلی دلائل کا مرحلہ اس بنیادی رجحان کے بعد آتا ہے اور ہر رجحان اپنی تائید کے لیے ایسے عقلی دلائل پیش کر سکتا ہے جو خود اسے مطمئن کرتے اور بنیادی رجحان کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پھر یہ لازم نہیں آتا کہ الحاد کے رجحان کو اخلاقی اعتراض سے ماورا سمجھا جائے، یعنی اسے اخلاقی لحاظ سے کوئی قابل اعتراض رویہ نہ تصور کیا جائے؟ ہماری رائے میں اگر انبیاء کی دعوت سے صرف نظر کر لیا جائے تو انفس وآفاق کے دلائل کی حد تک یہ بات درست ہے۔ چونکہ یہ دلائل فی نفسہ فیصلہ کن نہیں ہو سکتے، اس لیے صرف ان کی بنیاد پر کوئی اخلاقی ججمنٹ بھی صادر نہیں کی جا سکتی۔
تاہم اس بحث میں انبیاء کے شامل ہونے کے بعد صورت حال یہ نہیں رہتی۔ یہ نکتہ مستقل تفصیل کا متقاضی ہے۔ مختصرا یہ کہ انبیاء خدا کے وجود اور توحید کو محض ایک عقلی امکانی مفروضے کے طور پر نہیں، بلکہ ایک دعوے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ایسے شواہد ودلائل کے ساتھ انسانی شعور کو متوجہ کرتے ہیں کہ انسان کے لیے غیر جانبداری کا امکان باقی نہیں رہتا۔ اسے یا تو ایمان کی طرف آنا پڑتا ہے اور یا نبی کی دعوت کے مدمقابل ایک پوزیشن لینی پڑتی ہے، یعنی نبی کی تکذیب کرنی پڑتی ہے اور یا کم سے کم اس سے اعراض اور بے اعتنائی کا رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور یوں سادہ عقلی قیاس آرائی سے آگے بڑھ کر وہ بنیاد فراہم ہوتی ہے جس پر انسان کو اس کے فیصلے کے لیے اخلاقی طور پر ماخوذ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ پس انسان جو، نبی کی دعوت کی غیر موجودگی کے مفروضہ ماحول میں، کسی اخلاقی ذمہ داری کے بغیر کوئی ایک یا دوسرا رجحان اختیار کرنے کے لیے آزاد تھا، نبی کی دعوت ماحول میں موجود ہونے کی صورت میں اپنے فیصلے کے لیے پوری طرح ذمہ دار ٹھہرتا ہے اور اعراض یا تکذیب، ہر دو صورتوں میں خدا کے سامنے اخلاقی بنیاد پر جواب دہ بن جاتا ہے۔ کسی کو شبہات لاحق ہونے یا بات کا مکمل ابلاغ نہ ہونے کی وجہ سے معذور سمجھے جانے کا امکان اپنی جگہ درست ہے جس کا فیصلہ خدا ہی کر سکتا ہے، لیکن ایک عمومی اصول کے طورپر صورت حال وہی بنتی ہے جس کی مختصرا وضاحت کی گئی۔
ہذا ما عندی واللہ اعلم
مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک یہ ایک مستقل جملہ ہے، اور بہ میں ضمیر کا مرجع گذشتہ نصیحت ہے یعنی وَاذکُرُوا نِعمَتَ اللّہِ عَلَیکُم وَمَا انزَلَ عَلَیکُم مِّنَ الکِتَابِ وَالحِکمَۃ۔ گویا پہلے ایک نصیحت کی اور پھر کہا: وہ تمہیں اس کی نصیحت کرتا ہے۔ اس لحاظ سے ترجمہ ہوگا:
“ اور اپنے اوپر اللہ کے فضل کو یاد رکھو اور اس کتاب وحکمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہارے لیے اتاری، وہ تمہیں اس کی نصیحت کرتا ہے”۔
اس اسلوب کی دوسری آیت سے بھی اس ترجمے کی تائید ہوتی ہے:
انَّ اللّہَ یَامُرُکُم اَن تُودُّوا الامَانَاتِ الَی اہلِہَا واذَا حَکَمتُم بَینَ النَّاسِ ان تَحکُمُوا بِالعَدلِ انَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہ۔ (النساء: 58)
“مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے ”۔ (سید مودودی)
اول الذکر آیت کی طرح یہاں بھی پہلے نصیحتیں کیں، اور اس کے بعد کہا اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے۔
ذیل کی آیت میں ”بہ“ کے بغیر یعظکم بالکل اسی اسلوب میں ہے، یعنی نصیحتوں کا بیان ہے، اس کے بعد یعظکم وہ تمہیں اس کی نصیحتیں کرتا ہے۔
انَّ اللّہَ یَامُرُ بِالعَدلِ وَالاحسَانِ وَایتَاء ذِی القُربَی وَیَنہَی عَنِ الفَحشَاء وَالمُنکَرِ وَالبَغیِ یَعِظُکُم لَعَلَّکُم تَذَکَّرُون (سورة النحل:90 )
لفظ وعظ کے اس استعمال کی قرآن مجید میں اور کئی نظیریں ہیں۔ سورہ مجادلہ کے آغاز میں ظہار کے احکام سنانے کے بعد فرمایا ذلکم توعظون بہ “ تمہیں اس کی نصیحت کی جاتی ہے۔ ” قرآن مجید میں دو مقامات پر ذلک یوعظ بہ “اس کی نصیحت کی جاتی ہے” اسی انداز سے کچھ احکام دینے کے بعد آیا ہے ۔
تعثوا باب ضرب سے ہے، اس کا مطلب ہے بہت زیادہ فساد برپا کرنا، امام زمخشری لکھتے ہیں:
والعثی: اشدّ الفساد، فقیل لہم: لا تتمادوا فی الفساد فی حال فسادکم لانہم کانوا متمادین فیہ.
تراجم پر نظر ڈالیں تو بہت سے مترجمین “پھرو” کا اضافہ کرتے ہیں، یہ اضافہ غیر ضروری ہے، اسی طرح صاحب تدبر نے “بڑھو”، “ابھرو” اور “پھیلو” جیسے اضافے کیے ہیں، وہ سب بھی لفظ کے مدلول پر غیر ضروری اضافہ ہیں۔
آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ کرتے ہوئے ایسی تعبیر تلاش کرنا چاہیے جس سے زیادہ فساد کرنے کا مفہوم پیدا ہوجائے جیسے: “اور زمین میں فساد نہ مچاو¶” اس جملے میں فساد نہ کرو سے زیادہ زور ہے۔
اس گفتگو کی روشنی میں درج ذیل ترجمے دیکھیں:
(۱) وَلاَ تَعثَوا فِی الارضِ مُفسِدِینَ۔ (البقرة: 60)
“اور نہ بڑھو زمین میں فساد مچانے والے بن کر”۔ (امین احسن اصلاحی)
“اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو”۔ (سید مودودی)
“اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو”۔ (احمد رضا خان)
“اور زمین میں فساد نہ مچاؤ ”۔(امانت اللہ اصلاحی)
(۲) وَلاَ تَعثَوا فِی الارضِ مُفسِدِین۔ (الاعراف: 74)
“اور ملک میں اودھم مچاتے نہ پھرو”۔ (امین احسن اصلاحی)
“اور زمین میں فساد برپا نہ کرو”۔ (سید مودودی)
“اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو”۔ (احمد رضا خان)
“اور زمین میں فساد نہ مچاؤ”۔(امانت اللہ اصلاحی)
(۳) وَلاَ تَعثَوا فِی الارضِ مُفسِدِین ۔ (ہود: 85)
“اور زمین میں فساد پھیلانے والے بن کر نہ ابھرو”۔ (امین احسن اصلاحی)
“اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو”۔ (سید مودودی)
“اور زمین میں فساد اور خرابی نہ مچاو”۔ (محمد جوناگڑھی)
(۴) وَلَا تَعثَوا فِی الارضِ مُفسِدِین۔ (الشعراء: 183)
“اور زمین میں مفسد بن کر نہ پھیلو”۔ (امین احسن اصلاحی)
“زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو”۔(سید مودودی)
“اور زمین میں فساد نہ مچاؤ ”۔(امانت اللہ اصلاحی)
(۵) وَلَا تَعثَوا فِی الارضِ مُفسِدِین۔ (العنکبوت: 36)
“اور زمین میں فساد مچانے والے بن کر نہ بڑھو”۔(امین احسن اصلاحی)
“اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو”۔ (محمد جوناگڑھی)
“اور ملک میں فساد نہ مچاؤ”۔(فتح محمد جالندھری)
انَّہُم عَنِ السَّمعِ لَمَعزُولُونَ۔ (الشعراء: 212)
“وہ سن گن لینے سے معزول کیے جاچکے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
“وہ تو اس (وحی) کے سننے سے بھی معزول کیے جا چکے ہیں”۔ (محمد حسین نجفی)
مذکورہ بالا دونوں ترجموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گویا وہ پہلے سنتے تھے، اور اب وہ معزول کردیے گئے ہیں، جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہمیشہ سے وہ سن گن لینے سے معزول ہی ہیں۔ درست ترجمہ ہوگا: “وہ سن گن لینے سے معزول ہیں۔” ( امانت اللہ اصلاحی)
اہل تشیع (خاص طور پر اثنا عشریہ )اسلامی تاریخ کا واحد گروہ ہے ،جنہوں نے اہل سنت کے مقابلے میں جداگانہ، ممتاز اور لاکھوں روایات پر مشتمل اپنا علم حدیث ترتیب دیا ہے ،جو بعض اعتبارات سے اہل سنت کے حدیثی ذخیرے سے بالکل الگ تھلگ ہے ، اہل تشیع نے احادیث ،موضوعات ، کتب کی ابواب بندی ،مضامین ،مفاہیم، اصطلاحات ،رواۃ ،اصول و قواعد سب اپنے ترتیب دیے۔اس مقالے میں اہل تشیع اور اہل سنت کے حدیثی ذخیرے کا ایک تقابلی جائزہ پیش کیا جائے گا ، اس جائزے کا مقصد فریقین کے حدیثی ذخیرے کے فروق و مشترکات کا تعارف ہے، یہ ایک علمی و تحقیقی سرگرمی ہے ، اس لئے اسے مناظرانہ پس منظر کی بجائے خالص تحقیقی نظر سے دیکھا جائے۔
اہل سنت اور اہل تشیع کے علم حدیث کا بنیادی فرق اصطلاحات و مفاہیم کا الگ الگ تصور ہے ، ان علیحدہ مفاہیم کی وجہ سے فریقین کا علم ِحدیث ایک دوسرے سے کلی طور پر مختلف ہوجاتا ہے ، ذیل میں چند اہم اساسی امور کے متعلق فریقین کا نظریہ بیان کیا جاتا ہے :
اہل سنت کے ہاں حدیث و سنت کا مصداق1 آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا قول ،عمل اور تقریر ہے ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں حدیث و سنت کا اطلاق آپ علیہ الصلاۃ و السلام کے اقوال ،افعال و تقریرات سمیت بارہ ائمہ معصومین کے اقوال ،افعال اور تقریرات پر بھی ہوتا ہے اور بارہ ائمہ کے اقوال و فرامین بھی تشریع کا مستقل ماخذ اور حدیث و سنت کا مصداق ہیں ،معروف شیعہ عالم حید رحب اللہ اپنی کتاب "نظریۃ السنۃ فی الفکر الامامی الشیعی "میں لکھتے ہیں :
یعنی علم حدیث و علم درایہ اور علوم دینیہ میں لفظ سنت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا معصوم (علیہ السلام ) کا قول، فعل اور تقریر ہے ۔
معروف شیعہ عالم شیخ رضا المظفر لکھتے ہیں :
یعنی شیعہ کے ہاں چونکہ ائمہ معصومین کے اقوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی طرح بندوں پر حجت اور واجب الاتباع ہیں ،اس لئے فقہائے امامیہ نے سنت کی اصطلاح میں توسیع کرتے ہوئے ائمہ معصومین کے اقوال،افعال اور تقریرات کو بھی سنت شمار کیا ہے ۔
سنت و حدیث کی اصطلاح کا یہ فرق بنیادی ترین اختلافی نکتہ ہے ،اسی نکتے پر دونوں حدیثی ذخیرے ممتاز اور ایک دوسرے سے سے بالکلیہ جدا ہوجاتے ہیں ، اہل سنت کے ہاں جب حدیث کا محور آپ علیہ السلام کی ذات ِگرامی ہے ،تو تمام حدیثی سرگرمیاں آپ علیہ السلام کے گرد گھومتی ہیں ،محدثین کی تالیفات کا بنیادی مقصد آپ علیہ السلام کے فرامین کی جمع و تدوین ہے،فقہاء و اصولیین کے حدیثی مستدلات کا منبع آپ علیہ السلام کی ذات اقدس ہے ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں حدیثی سرگرمی میں بارہ ائمہ معصومین کے اقوال بھی شامل ہیں اور ائمہ معصومین کے اقوال بوجہ ماخذ تشریع ہونے کے حفاظت و تدوین میں اسی اہتمام کی متقاضی ہیں ،جو اہتمام اقوال ِرسول علیہ السلام کی حفاظت میں کیا جاتا ہے ۔ اہتمام اور توجہ کی اس دوئی کی وجہ سے سنت کی جمع وتدوین اور اس کی حفاظت و نقل میں بہت سے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ،جس کا بیان آگے آئے گا ۔
مفاہیم و تصورات میں دوسرا بنیادی مسئلہ صحابہ کرام کی عدالت اور ان سے مروی روایات کا حکم ہے ،اہل سنت کے ہاں تمام وہ حضرات ،جن کی صحابیت ثابت ہے ،ان کی روایت قابل ِقبول ہے ،"الصحابۃ کلہم عدول" والا اصول اہل سنت کا متفقہ موقف ہے ،لہذا اہل سنت کے نزدیک صحابہ کے بعد رواۃ کی جانچ پڑتال ہوگی ،خود صحابہ میں اگرچہ درجات میں تفاضل ہے ،لیکن روایت کے اعتبار سے جملہ صحابہ عادل کے مقام پر فائز ہیں ،جبکہ اس کے بر خلاف اہل تشیع صحابہ کے ساتھ بھی بقیہ رواۃ جیسا معاملہ کرتے ہیں اور ان کے ہاں صحابہ میں بھی عادل ، فاسق ، منافق ،بدعتی اور دیگر اقسام موجود ہیں ،اس لئے اہل تشیع صرف عادل صحابہ کی روایات قبول کرتے ہیں اور عادل صحابہ سے مراد وہ صحابہ ہیں ،جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے رہے ،چنانچہ معروف شیعہ عالم احمد حسین یعقوب "نظریۃ عدالۃ الصحابہ " میں لکھتے ہیں :
اب سوال یہ ہے وہ کتنے صحابہ ہیں ،جن کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ موالات ثابت ہیں ،تو معروف شیعہ محدث شیخ جعفر سبحانی لکھتے ہیں :
یعنی ہم نے ان صحابہ کے حالات پر ایک کتاب لکھی ہے ،جو زمانہ نبوت اور اس کے بعد آخر وقت تک حضرت علی کے ساتھی رہے ،تو ان کی تعداد 250 تک جا پہنچی ۔
ویسے تو صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے زائد کتب تاریخ میں منقول ہے ،لیکن جن صحابہ کے احوال (خواہ قلیل ہو یا کثیر ) محفوظ ہیں،ان کی تعداد بارہ ہزار سے اوپر ہے ،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب "الاصابہ فی تمییز الصحابہ "جو احوال صحابہ میں مفصل کتاب شمار ہوتی ہے، اس میں 12446 تراجم مذکور ہیں6، اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنے صحابہ کرام سے روایات منقول ہیں ،تو اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ،امام ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں امام حاکم ابو عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ راویان ِحدیث صحابہ کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے۔7 لیکن اس پر خود اشکال وارد کر کے کہتے ہیں کہ مسند احمد ،جو موجود دواوین میں حدیث کی سب سے بڑی مسند ہے ،اس میں 987 صحابہ کی مروایات ہیں ،تو بقیہ کتب،جو مسند احمد سے کم حجم کی حامل ہیں ،ان میں اس سے بھی کم صحابہ کی مرویات ہونگی ؟اسی طرح امام ابن حزم نے راویان صحابہ کے اسماء اور ان کی مرویات پر ایک کتاب "اسماء الصحابہ و ما لکل واحد منھم من العدد "لکھی ہے جس میں 999 نام جمع کئے ہیں ،لیکن اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب مسند بقی بن مخلد میں مذکور رواۃ صحابہ کے نام پر مشتمل ہے ۔
الغرض رواۃ صحابہ کی تعداد قطعی طور پر تو کسی نے استیعاب کے ساتھ بیان نہیں کی ،لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق جمیع کتب حدیث کے رواۃ صحابہ کی تعداد دو ہزار کے قریب قریب بنتی ہے ،اگر اس میں مزید کمی کریں ،تو پندرہ سو کے لگ بھگ رواۃ صحابہ بنتے ہیں ،ان میں سے اہل تشیع کے ہاں صرف ڈھائی سو کی روایات قابل قبول ہیں، یوں اہل تشیع رواۃ صحابہ میں سے صرف پندرہ فیصد صحابہ کی روایات لیتے ہیں ،اور پچھتر فیصد رواۃ صحابہ کو غیر عادل قرار دے کر ان کی روایات رد کرتے ہیں ،جن میں مکثرین صحابہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عائشہ جیسی شخصیات بھی شامل ہیں ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت ِصحابہ کے نظریے کو نہ ماننے کی صورت میں کتنی احادیث کو رد کرنا پڑیں گی ،یہی وجہ ہے کہ شیعہ کتب احادیث میں مرفوع روایات انتہائی قلیل ہیں ہم نے کتب ِاربعہ کی پہلی جلدوں کا با الاستیعاب صفحہ بہ صفحہ جائزہ لیا اور مرفوع روایات کو الگ کیا ،تو تعداد کچھ یوں بنی :
یوں کتب اربعہ کی پہلی چار جلدوں کی کل روایات 5757 ہیں ،جن میں مرفوع روایات (قولی ،فعلی ) صرف 360 ہیں ،جو 5757 روایات کا تقریبا ساڑھے چھ فیصد بنتا ہے ،ان میں اگر مکررات کو نکال لیا جائے تو تعداد اس سے کہیں کم بنے گی ۔8
مرفوع روایات کی قلت کا اشکال عمومی طور پر اہل تشیع محققین یہ جواب دیتے ہیں کہ ائمہ معصومین کے اقوال بھی دراصل آپ علیہ السلام کے فرمودات ہیں کیونکہ کتب شیعہ میں مذکورہ سب روایات ہی مرفوع کے حکم میں ہیں،لیکن یہ جواب اصل سوال کو حل نہیں کرتا ،کیونکہ ائمہ معصومین کے فرمودات اس لئے مرفوع کے حکم میں ہیں کہ وہ خود اہل تشیع کے ہاں عصمت کے مقام پر فائز ہیں، منصوص من اللہ ہیں اور ان کے اقوال خود حجت ہیں ، تو بارہ ائمہ کے اقوال مرفوع کے حکم میں ہونے کے باوجود اقوال ِائمہ ہیں ،نا کہ اقوال ِرسول ،سوال یہ تھا کہ آپ علیہ السلام کے ارشادات ،فرامین اور آپ کی عملی زندگی سے متعلق کتب شیعہ میں مواد اتنا کم کیوں ہے ؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ ائمہ کے اقوال بے شک اہل تشیع کے اصولوں کے مطابق حجت اور تشریع کا ماخذ ہیں ،لیکن براہ راست آپ علیہ السلام کے اقوال و افعال کا حجم کتب شیعہ میں اقوال ِائمہ کی بنسبت آٹے میں نمک کے برابر کیوں ہے ؟ائمہ کے اقوال سے تو تشریع کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے ،لیکن ائمہ کے اقوال و فرامین سے آپ علیہ السلام کی حیات مبارکہ کی قولی و عملی زندگی کی تصویر سامنے نہیں آتی ،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ائمہ کے اقوال حکم و اطاعت میں اقوال رسول کی طرح ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ یہ بات بدیہی ہے کہ قول ِامام حکما قول ِرسول ہے نا کہ حقیقتا قول رسول ،سوال دوسرے نکتے سے متعلق ہے نا کہ پہلے نکتے سے ۔
الغرض اہل سنت و اہل تشیع کے علم حدیث کے مفاہیم و تصورات میں دوسرا بڑا فرق عدالت ِصحابہ کا مسئلہ ہے ،اوپر ذکرکردہ تفصیل سے اس مسئلے کے نتائج بخوبی واضح ہوتے ہیں ۔
مفاہیم و تصورات میں تیسرا بڑا مسئلہ زمانہ قبل از تدوین میں احادیث و روایات کی صورتحال کا تعین ہے ، پہلی صدی ہجری کے اختتام کے ساتھ ہی اہل سنت کے مجموعات ِحدیث منظر عام پر آنا شروع ہوئے ،امام مالک کی موطا، امام ابو یوسف و امام محمد کی کتاب الاثار اور دیگر مجموعات یکے بعد دیگرے مرتب ہونا شروع ہوئے ،ان مجموعات سے پہلے صحابہ و تابعین اور تبع تابعین نے اپنی ذاتی نسخے ترتیب دیئے تھے اور اپنے شیوخ سے سنی حدیثیں ان میں جمع کی تھیں ،ڈاکٹر مصطفی اعظمی رحمہ اللہ نے اپنی قابل قدر کتاب "دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ " میں صحابہ کے 52 صحائف و مجموعات ،کبار تابعین کے 53 مجموعات ِحدیث ،صغار تابعین کے 99 مجموعات اور تبع تابعین کے 252 مجموعات حدیث کی فہرست مرتب کی ہے ،یوں حدیث کی اولین تصنیفات سے پہلے 456 مجموعات حدیث اہل علم کے حلقوں میں رائج رہے ،اس کے علاوہ حرمین شریفین ، عراق ،شام ،مصر اور یمن میں حدیث کے معروف شیوخ کی درسگاہیں قائم تھیں ،جن میں ہزاروں طالبان ِعلم مختلف شیوخ سے روایات لیتے رہے ،محدث خطیب بغدادی نے اپنی کتاب "الرحلہ فی طلب الحدیث " میں ان اسفار و درسگاہوں کی تفصیل دی ہے، ان تفاصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کا ذخیرہ حدیث تدوین سے پہلے تحریری شکل میں بھی موجود تھا اور اکابر شیوخ کی مجالس ِحدیث کی صورت میں تعلیم و تعلم کی شکل میں بھی موجود تھا۔
اہل تشیع کا زمانہ تدوین تیسری صدی کا آخر اور چوتھی صدی ہجری کا شروع ہے ،کیونکہ شیعہ کتب ِحدیث کے اولین مصادر جیسے بصائر الدرجات (ابو الحسن الصفار قمی متوفی 290ھ) اور الکافی ( محمد بن یعقوب الکلینی متوفی 329 ھ) اسی دور کی تصانیف میں سے ہیں ،اب سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے کی تین صدیوں میں اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کی تحریری و تدریسی شکل کیا تھی؟جہاں تک تعلیم و تعلم کا تعلق ہے ،تو اہل سنت کی طرح اہل تشیع میں شیوخ الحدیث کی وسیع مجا لس درس اور درسگاہوں کی کوئی روایت نہیں رہی ہے ،کیونکہ یہ تین صدیاں اہل تشیع کے نزدیک "دور ِ تقیہ " میں آتی ہیں ،جن میں اہل تشیع علانیۃ اپنی احادیث کو نشر نہ کر سکتے تھے ،شیعہ رجال حدیث پر سب سے ضخیم کتاب لکھنے والے معروف عراقی شیعہ محدث امام خوئی لکھتے ہیں :
کہ ائمہ کے تلامذہ نے اگرچہ حدیث کی حفاظت اور اس کو ضیاع سے بچانے کے لئے ائمہ کے حکم کے مطابق اپنی پوری کوششیں صرف کیں ،لیکن وہ تقیہ کے زمانے میں تھے ،جس کی وجہ سے احادیث کو علانیہ نشر کرنے پر قدرت نہ رکھتے تھے ۔
امام خوئی کی اس بات پر الکافی و دیگر کتب کی روایات بھی دلالت کرتی ہیں ،چنانچہ الکافی میں امام جواد کی روایت ہے کہ ان سے ان کے ایک شاگرد محمد بن حسن نے پوچھا:
کہ میں نے امام جواد سے پو چھا کہ ہمارے مشائخ نے امام باقر و امام جعفر صادق سے روایات لیں ،جبکہ سخت تقیہ کا زمانہ تھا ، تو انہوں نے اپنی کتب چھپائیں اور انہیں سر عام روایت نہیں کیا ،جب وہ مشائخ مرگئے ،اب وہ کتب ہمارے پاس ہیں ،تو امام نے کہا کہ ان کتب کی روایات بیان کرو ،کیونکہ وہ سچی ہیں ۔
لہذا دور ِتدوین سے قبل اہل تشیع کا حدیثی ذخیرے اہل سنت کے حدیثی ذخیرے کی طرح کھلم کھلا تدریس،تعلیم ،مجالس حدیث اور درسگاہوں کی بھٹی سے نہیں گزرا۔
یہی وجہ ہے کہ شیعہ کی اولین کتاب الکافی ،جو اہل تشیع میں اسی مقام کی حامل ہے ،جو صحیح بخاری کو اہلسنت میں حاصل ہے ،الکافی کے مصنف محمد بن یعقوب الکلینی کی اولین زندگی کی تاریخ مجہول ہے ،چنانچہ معروف شیعہ محقق شیخ عبد الرسول عبد الحسن الغفار اپنی ضخیم کتاب "الکلینی و الکافی "میں لکھتے ہیں :
یعنی قدیم و جدید مصادر متفقہ طور پر کلینی کا سن ولادت ،مکان ولادت اور عمر کے ذکر سے خالی ہیں ،کیونکہ آپ کی زندگی کا اولین دور اور نشو ونما نامعلوم ہے ۔
سن ولادت کا معلوم نہ ہونا قابل تعجب نہیں ،کہ کئی کبار علماء کے سنین ولادت بوجوہ نا معلوم ہوتے ہیں ، لیکن جائے ولادت اور زندگی کی اولین نشو و نما کا نامعلوم ہونا حد درجہ باعث استعجاب ہے ،کہ اپنے دور کے سب سے بڑے محدث ،جنہوں نے سولہ ہزار شیعی روایات کو مدون کیا ،ان کی زندگی کی اولین تاریخ ہی نامعلوم ہے ۔
یہ معاملہ صرف شیخ کلینی تک محدود نہیں ہے ،بلکہ ان کے والد (جو اہل تشیع کے نزدیک اکابر علمائے شیعہ میں سے تھے ) ان کے احوال بھی غیر معلوم ہیں ،چنانچہ مصنف آگے جاکر لکھتے ہیں :
یعنی صرف شیخ کلینی کے ہی اولین احوال نامعلوم نہیں ہیں ،بلکہ ان کے والد یعقوب بن اسحاق ،جن کا مقبرہ آج کل مزار عام ہے ،ان کی سیرت کے بارے میں تاریخ ہمیں زیادہ تفصیلات نہیں بتاتی ۔
یہاں بجا طور پر سوال ہوتا ہے کہ جن کے والد و خاندان کے احوال نامعلوم ہیں ،اور خود ان کی ابتدائی زندگی پردہ خفا میں رہی ، ان کی لکھی ہوئی کتاب کا علمی و تحقیقی اعتبار سے کتنا وزن ہوگا ؟یہ قضیہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے، جبکہ اس کے برخلاف امام بخاری ،امام بخاری کے والد اسماعیل کے نہ صرف اپنے احوال روز ِروشن کی طرح معلوم ہیں ،بلکہ ان کے آباء و اجداد میں سے اولین اسلام لانے والے کے احوال بھی معلوم ہیں ۔
امام کلینی کی اولین زندگی ہی مجہول نہیں ،بلکہ ان کے اسفار علمیہ کابھی کوئی تذکرہ کتب تاریخ میں نہیں ملتا، چنانچہ شیخ عبد الحسن عبد الغفار شیخ کلینی کے اسفار کے بارے میں علمائے شیعہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
یعنی کلینی کب بغداد آئے ،کب اور کس شہر کی طرف اسفار کئے ،یہ سب امور پردہ خفا میں ہیں ۔
اس موقع پر ایک وضاحت کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اہل تشیع کے معاصر محققین الکلینی کو اپنے زمانے کے ایک معروف شیخ ثابت کرنے کے لئے اہل سنت کے کتب تراجم میں سے کلینی کے احوال نقل کر کے لکھتے ہیں کہ اگر شیخ کلینی اپنے زمانے کے ابتداء ہی سے ایک معروف شخصیت نہ ہوتی تو مخالف فرقہ کے اہل علم میں ان کی شہرت کیسے پہنچتی ؟لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ شیخ کلینی کا تذکرہ ان کے ہم عصر اہل سنت علماء کی کتب میں نہیں ملتا ،چنانچہ شیخ عبد الحسن الغفار لکھتے ہیں :
کہ کلینی کے بعض معاصرین جیسے خطیب بغدادی ،علامہ سمعانی ،یاقوت حموی اور ابن جوزی جیسے حضرات نے کلینی کا ترجمہ تحریر نہیں کیا ۔
اس لئے محقق مذکور کی رائے یہ ہے کہ کلینی اہل سنت کے علماء میں اسی وقت معروف ہوئے ،جب وہ اہل تشیع میں مشہور ہوئے ،لکھتے ہیں :
یہی وجہ ہے شیخ کلینی کا تذکرہ ہمیں چھٹی صدی ہجری کے ابن عساکر ،ساتویں صدی ہجری کے ابن اثیر اور آٹھویں صدی ہجری کے علامہ ذہبی کے ہاں ذرا تفصیل سے ملتا ہے۔
احوال کے خفا کا معاملہ صرف شیخ کلینی کے ساتھ خاص نہیں ہے ،بلکہ اولین دور کے شیعہ محدثین میں تقریبا سب کا یہی معاملہ ہے ،کہ ان کی علمی زندگی کی زیادہ تفاصیل نہیں ملتیں ،چنانچہ مرکز بحوث قم سے الکافی کا محقق شدہ نسخہ ،جو محققین کی ایک جماعت کی تحقیق کے ساتھ چھپا ہے ،اس کے ضخیم مقدمے میں کتاب کے محققین لکھتے ہیں :
یعنی شیعہ کے اکابر ین کی زندگیاں بوجوہ پردہ خفا میں ہیں ،اس راز کو کھولنے میں ابھی تک بحث و تحقیق کے دروازے بند ہیں ،کیونکہ ان زندگیوں پر دلالت کرنے والا مواد موجود نہیں ہے ،خصوصا پانچویں صدی میں شیعہ مکتبات کو جلانے کے بعد یہ مواد ختم ہوگیا ۔
وجہ جو بھی ہو ،کم از کم اتنی بات ثابت ہے کہ پانچویں صدی سے پہلے کے اکابر محدثین کے احوال پردہ خفا میں ہیں ،جن میں سر فہرست ا ولین اور سب سے معتمد مصد ر کے مصنف الکلینی کے احوال ہیں ۔
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ اہل تشیع کے ہاں حدیث کی تعلیم و تعلم ،حلقات درس ِحدیث اور مجالس حدیث کی اس روایت کا نام و نشاں نہیں ملتا ،جو اہل سنت کے قبل از مانہ تدوین کا خا صہ رہا ہے ،جس میں محدثین کے اسفار اور ان کی علمی درسگاہوں کا بالتفصیل تذکرہ موجود ہے ۔اسی وجہ سے اہل تشیع کے اکابر محدثین کی علمی نشو نما اور اسفار کے احوال نامعلوم ہیں کما مر ۔
(۱) یہاں سنت کا لفظ مستقل تشریعی ماخذ کے پس منظر میں بولا جارہا ہے ، ورنہ توسعا اہل سنت کے ہاں حدیث و اثر یا سنت کا اطلاق خلفائے راشدین کے اقوال پر بھی ہوجاتا ہے ۔لیکن یہ اطلاق محض مجازی اور قول الرسول کے تابع ہے ۔تشریع کا مستقل اور واجب الاتباع ماخذ سنت بمعنی قول ،فعل او تقریر الرسول ہی ہے ،فافہم
(۲) نظریۃ السنۃ فی الفکر الامامی الشیعی ،ص 24
(۳) اصول الفقہ للمظفر ،55/2
(۴) نظریۃ عدالۃ الصحابہ،ص77
(۵) کلیات فی علم الرجال ،ص494
(۶) ان میں سے اگر ان صحابہ کو نکال لیا جائے ،جن کی صحبت مختلف فیہا ہے ،تو تعداد اس سے کم بنتی ہے ۔
(۷) البدایہ و النھایہ ،دار ھجر للطباعہ و النشر ،قاہرہ ،360/8
(۸) مذکورہ تعداد مقالہ نگار نے خود ان کتب کی پہلی جلدوں کے تمام صفحات کا بالا ستیعاب جائزہ لینے کے بعد نکالی ہے ۔
(۹) الکافی ،1/53
(۱۰) الکلینی و الکافی ،ص123
(۱۱) الکلینی و الکافی ،ص 159،160
(۱۲) ایضآ ،ص 162
(۱۳) ایضآ ،ص165
(۱۴) ایضا،ص 164
(۱۵) الکافی ،31/1
(جاری)
(رابطۃ العالم الاسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام ’’قیم الوسطیۃ والاعتدال فی نصوص الکتاب والسنۃ‘‘ کے زیر عنوان ۲۲ تا ۲۴ رمضان ۱۴۴٠ھ کو مکہ مکرمہ میں منعقدہ کانفرنس کے لیے لکھا گیا)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علٰی جمیع الانبیاء والمرسلین خصوصاً علٰی سید الرسل و خاتم النبیین وعلٰی آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین اما بعد۔ فقد قال اللہ تبارک و تعالٰی فی کلامہ المجید اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا وھدی للعالمین فیہ اٰیات بینات مقام ابراہیم ومن دخلہ کان اٰمنا۔ صدق اللہ العظیم۔
قابل صد احترام صدر مجلس و الامین العام لرابطۃ العالم الاسلامی و عزت مآب علماء کرام، مشائخ عظام و راہنمایانِ ملت اسلامیہ ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میرے لیے یہ سعادت و برکت اور فخر و اعزاز کی بات ہے کہ عالم اسلام کے اس مؤقر و محترم فورم پر امت مسلمہ کے راہنماؤں کے ساتھ گفتگو کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ رابطہ عالم اسلامی ملت اسلامیہ کا ایک باوقار ادارہ ہے جو ملت اسلامیہ کی وحدت و اجتماعیت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ علمی و فکری راہنمائی کا مرکز بھی ہے، اور اس حوالہ سے پوری امت کی امیدوں کا محور ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فورم کو یہ ذمہ داری بطریق احسن ہمیشہ سرانجام دیتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
حضرات گرامی قدر! ہماری اس کانفرنس کا عنوان ہے ’’قیم الوسطیۃ والاعتدال فی نصوص الکتاب والسنۃ‘‘۔ اور اس میں ہم اس لیے جمع ہیں کہ امت مسلمہ بلکہ نسل انسانی کو اعتدال و توازن کی ان اقدار و روایات کی طرف توجہ دلائیں جن سے ہمیں رشد و ہدایت کے دو عظیم سرچشموں قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعارف کرایا ہے۔ اور جو رہتی دنیا تک نسل انسانی کے لیے راہنما ہونے کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں بھی نجات و فلاح کا ذریعہ ہیں۔
ہم اس وقت مکۃ المکرمۃ میں بیت اللہ المعظم کے جوار میں بیٹھے ہیں اس لیے میں نے گفتگو کا آغاز قرآن کریم کی اس آیت مقدسہ سے کیا ہے جس میں اللہ رب العزت نے بیت اللہ المعظم اور حرم شریف کے مقام و مرتبہ کا تذکرہ فرمایا ہے، اور اس آیت مبارکہ کے اہم نکات کو اپنی گزارشات کا عنوان بنانا چاہ رہا ہوں۔
(۱) یہ ’’اول بیت وضع للناس‘‘ ہے یعنی روئے زمین پر انسانی آبادی کا نقطۂ آغاز ہے۔ جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی کے مطابق نسل انسانی کے اختتام کا نقطہ بھی یہی ہوگا کہ اس پر ایک ظالم حکمران کے حملہ کے ساتھ ہی قیامت کا بگل بجا دیا جائے گا۔
(۲) ’’فیہ اٰیات بینات‘‘ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا مقام مبارک ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت و حاکمیت کی کھلی نشانیاں ہیں۔
(۳) اس میں ’’مقام ابراہیم‘‘ ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی فطرت سلیمہ، استقامت و عزیمت اور جہد و استقلال کی علامت ہے۔
(۴) ’’من دخلہ کان اٰمنا‘‘ کا مظہر ہے کہ امن و سلامتی کا ماحول دنیا کے سامنے پیش کر کے پوری نسل انسانی کو امن اور باہمی سلامتی کے ساتھ رہنے کی تلقین کر رہا ہے۔
(۵) اور یہ ’’مبارکاً وھدی‘‘ ہے کہ ہدایت و رشد کے ساتھ ساتھ برکات کا بھی سرچشمہ ہے۔
میرے خیال میں آج کی انسانی سوسائٹی کو انہی نکات کی طرف متوجہ کرنے اور اس فطری مرکزیت پر مجتمع کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
بزرگان محترم! اسلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اس کے سامنے جھک جانے کی دعوت دیتا ہے اور خالق و مالک کی ان ہدایات کے مطابق تمام انسانوں کو زندگی گزارنے کا پیغام دیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبروں نے وحی الٰہی اور اپنے اپنے اسوۂ حسنہ کی صورت میں پیش کیا۔ ان آسمانی تعلیمات کا آخری، مکمل، محفوظ اور جامع ذخیرہ ہمارے پاس قرآن کریم اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و اسوہ کی صورت میں موجود ہے۔ اور یہ اسلام کے اعجاز و تفوق کا زندہ ثبوت ہے کہ قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دنیا کے پاس آسمانی تعلیمات اور انبیاء کرام علیہم السلام کے اسوہ و سنت کا کوئی اور محفوظ و مستند ذخیرہ موجود نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی کو اگر آسمانی تعلیمات اور انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے اور اپنے مالک و خالق کو راضی کرنا ہے تو اس کے پاس قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اور ہم مسلمانوں کے لیے یہ اعزاز و افتخار کی بات ہے کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور بد اعمالیوں کے باوجود ہم نہ صرف اس سرچشمہ ہدایت کی طرف دعوت دینے والے ہیں بلکہ اس کی حفاظت، تعلیم و تدریس اور فروغ و اشاعت کی خدمات میں بھی بحمد اللہ تعالٰی کسی نہ کسی درجہ میں مصروف رہتے ہیں۔
اسلام نے نسل انسانی کو جس وسطیت، اعتدال اور توازن سے متعارف کرایا ہے وہ اعتقادی بھی ہے کہ ایک طرف ’’کالذین نسوا اللہ‘‘ اور دوسری طرف ’’رہبانیت‘‘ کے دو انتہاؤں کو رد کرتے ہوئے اس دین فطرت نے نسل انسانی کو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کا سبق دیا ہے۔ اور ’’ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاٰخرۃ حسنۃ‘‘ کے پیغام کے ساتھ دین و دنیا میں توازن و اعتدال کا راستہ دکھایا ہے۔
یہ اعتدال و توازن عمل اور عبادت میں بھی ہے کہ سینکڑوں مصنوعی خداؤں کی عبادت اور وحدہٗ لا شریک کی بندگی سے انکار کی دو انتہاؤں میں صرف اللہ تعالٰی کی بندگی اور عقیدۂ توحید کا درس دیا ہے۔
یہ اعتدال و وسطیت معاشرتی بھی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشرہ کی جاہلانہ رسوم و خرافات کا خاتمہ کر کے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ’’کل امر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘ کا تاریخی اعلان فرمایا اور جاہلانہ اقدار و روایات کے ذریعے پھیلنے والی باہمی نفرتوں اور عداوتوں کا خاتمہ کر کے ’’والف بین قلوبہم‘‘ کی نوید سنا دی۔
یہ اعتدال و وسطیت خاندانی نظام میں بھی ہے کہ زنا کی اباحیت، محارم سے نکاح کی شناعت اور عورت کو مجبور محض بنا لینے کی انتہاپسندانہ جاہلی روایات کو ختم کر کے نکاح، رشتوں اور خاندان کا ایک منظم اور باوقار نظام دیا جو آج بھی دنیا بھر کے لیے قابل رشک ہے۔
یہ اعتدال و وسطیت معیشت و اقتصاد میں بھی ہے کہ سوسائٹی میں دولت کی گردش کو ’’کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ اور ’’تؤخذ من اغنیاءھم وترد الیٰ فقراءھم‘‘ کے دو سنہری اصولوں کے دائرے میں محصور کیا۔ اور ’’بیت المال‘‘ کے ذریعے معاشرتی کفالت کا وہ نظام دیا جو رہتی دنیا تک ویلفیئر سوسائٹی اور رفاہی نظام کے لیے مثالی اور معیار رہے گا۔
یہ اعتدال سیاست و حکومت میں بھی ہے کہ انسان پر انسان کی حکمرانی کی نفی کرتے ہوئے حکومت و ریاست کو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کا پابند بنا کر قانون کی حکمرانی کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔
اور یہ اعتدال و وسطیت جنگ و امن کے ماحول میں بھی ہے کہ انسانوں کو باہمی شخصی، نسلی طبقاتی اور علاقائی مفادات کے لیے ایک دوسرے سے جنگ کرنے سے منع کر کے جنگ و جہاد کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے مخصوص کر دیا۔
غرضیکہ زندگی کے جس شعبہ میں بھی دیکھیں اسلامی تعلیمات انسانی عقل و خواہش کی کوکھ سے جنم لینے والی انتہاؤں کے درمیان اعتدال و توازن کا سبق دیتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔
معزز راہنمایان قوم! آج نسل انسانی بلکہ امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ ’’ان یتبعون الا الظن وما تہوی الانفس‘‘ کا دور دورہ ہے۔ اور ’’ولقد جاءھم من ربہم الہدٰی‘‘ کو انسانی پالیسیوں، معاملات، رویوں اور طرز معاشرت میں اس کا وہ صحیح مقام و حیثیت حاصل نہیں ہے جو نظام و معاملات کو صحیح رخ پر لانے کا واحد راستہ ہے۔
آج امت مسلمہ ہمہ نوع خلفشار و تشتت کا شکار ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے معاملات و امور کو قرآن و سنت اور خیر القرون کی اقدار و روایات کے دائرے میں رکھنے کی بجائے خود اپنی عقل و خواہش کے مطابق حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں انسانی سوسائٹی کی دیگر معاصر اقوام اور قوتیں اپنے وسائل اور قوت و طاقت کے باعث ہم پر غالب ہو جاتی ہیں اور ہم ’’مذبذبین بین ذٰلک‘‘ کی تصویر بنے رہتے ہیں۔
جہاد کے مقدس شرعی فریضہ کے حوالہ سے بھی ہمارے ساتھ یہی ہوا ہے کہ ایک عرصہ تک جہاد اور خلافت کی اصطلاحات کو ہمارے ماحول میں اجنبی بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ اس کے لیے بہت سے داعی حتٰی کہ مرزا غلام احمد قادیانی جیسے مدعیان نبوت بھی کھڑے کیے گئے، مگر جب اس کے ردعمل میں مختلف علاقوں میں استعماری غلبوں کے خاتمہ کے لیے جہاد کی تحریکات شروع ہوئیں تو امت مسلمہ میں وحدت و مرکزیت کا کوئی نظام و ماحول موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ مقدس عمل تشتت و افتراق کا عنوان بن کر رہ گیا ۔ہر گروہ نے ’’جہاد‘‘ کے اپنے اپنے اہداف اور اصول و قواعد وضع کر لیے اور اس کے تلخ نتائج کو ہمارے دشمنوں نے اسلام کی شناخت مسخ کرنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار بنا لیا۔ حالانکہ جہاد اسلام کا ایک مقدس فریضہ ہے جس کے حدود و قواعد قرآن و سنت میں واضح طور پر موجود ہیں۔ اور فقہاء اسلام نے اس کی دائرہ بندی اور درجہ بندی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ لیکن جب ان تمام اصول و قواعد اور احکامات و ہدایات کو نظر انداز کر کے قرن اول کے خوارج کی طرح ہر گروہ اپنی اپنی تعبیر و تشریح کو ہی حتمی قرار دے گا تو اس کا نتیجہ وہی ہوگا جس سے ہم آج دوچار ہیں، اور جس کے نتیجہ میں جہاد کے مقدس عنوان کو ہمارے لیے عزت و سربلندی کی بجائے کردارکشی کا عنوان بنا دیا گیا ہے۔
عزت مآب مشائخ عظام! آج ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم اس خلفشار اور تشتت کے ماحول سے امت کو نکالنے کے لیے اپنی اپنی خود ساختہ تعبیرات و تشریحات پر اصرار کو ترک کر کے اجتماعی مشاورت و تفاہم کے ماحول میں قرآن و سنت اور خیر القرون کے تعامل کی طرف واپس لوٹ جائیں، اس کے سوا کوئی اور راستہ عالم اسباب میں دکھائی نہیں دیتا۔
رابطہ عالم اسلامی اس سلسلہ میں صحیح سمت راہنمائی کا موجودہ حالات میں سب سے مؤثر فورم اور ادارہ ہے، میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت رابطہ کو اس ذمہ داری سے بخیر و خوبی عہدہ برآ ہونے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
ائمہ احناف کے رجحانات کو باقاعدہ ایک اصولی منہج کے طور پر متعین قواعد کی صورت میں منضبط کرنے کی کوشش کا آغاز امام محمد بن الحسن کے شاگرد عیسیٰ بن ابان سے شروع ہوتا ہے۔ عیسیٰ بن ابان کی اصولی فکر ابو الحسن کرخی سے ہوتی ہوئی چوتھی صدی میں ابوبکر الجصاص تک پہنچی اور جصاص کے قلم سے ہمیں حنفی اصول فقہ پر پہلی مرتب اور مفصل کتاب ملتی ہے۔ البتہ عیسیٰ بن ابان اور جصاص کے درمیان حنفی روایت میں ایک اور شخصیت جو اس حوالے سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے، امام ابو جعفر الطحاوی کی ہے جو ابوبکر الجصاص کے استاذ بھی تھے۔ اصولی مباحث پر امام طحاوی نے کوئی مستقل تصنیف تو سپرد قلم نہیں کی، لیکن ان کی تصانیف یعنی احکام القرآن، شرح معانی الآثار، شرح مشکل الآثار اور مختصر اختلاف العلماءمیں قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث سے جڑی ہوئی متعدد مثالوں پر کلام کیا گیا ہے جس سے ان کے اصولی رجحانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ امام طحاوی کے نقطہ نظر کا مطالعہ اس بحث میں اس لحاظ سے اہم ہے کہ اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں شافعی اور حنفی، دونوں روایتوں سے وابستگی کی وجہ سے ان کا اصولی منہج کئی اہم اعتبارات سے حنفی اصولیین کے منہج سے مختلف ہے اور خاص طور پر احادیث وآثار کی تعبیر وتشریح اور ان سے استنباط احکام میں ان کے طرز فکر کے اپنے خاص امتیازات ہیں۔ قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث میں بھی یہ امتیاز نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور یہاں امام طحاوی کے ہاں امام شافعی کی فکر اور حنفی اصولیین کے منہج، دونوں کے امتزاج یا جزوی طور پر دونوں کی طرف جھکاو کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ امام صاحب نے اپنے تخلیقی انداز فکر کی بدولت کئی اہم پہلووں سے اس بحث میں کچھ اضافے بھی کیے ہیں جو بحث کے اہم جوانب کی تنقیح میں بہت مددگار ہیں۔ اس تناظر میں آئندہ سطور میں امام طحاوی کی تصانیف کی روشنی میں اس بحث کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر کا ایک تجزیہ پیش کیا جائے گا۔
کتاب وسنت کے باہمی تعلق کے ضمن میں امام طحاوی کے ہاں ایک نمایاں رجحان یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ کی مراد کی تفسیر، اس کے عموم یا خصوص کی تعیین اور کتاب اللہ کے حکم پر زیادت کے حوالے سے روایات وآثار کو بنیادی اور فیصلہ کن حیثیت دیتے ہیں۔
کتاب اللہ کی تفسیر کے ضمن میں امام طحاوی کے ہاں یہ رجحان اتنا قوی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے علاوہ بعض مثالوں میں شان نزول کی روایات کی روشنی میں بھی آیت کو اس کے ظاہری مفہوم سے، جو اس کے الفاظ اور داخلی قرائن سے بالکل واضح ہو، صرف کرنے کو درست بلکہ ضروری تصور کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر لاَ تَقرَبُوا الصَّلاَۃ وَانتُم سُکَارَی (النساء۴: ۴۳) کے متعلق لکھتے ہیں کہ قرآن کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں الصلاة سے مراد نماز کے مقامات یعنی مساجد ہیں، کیونکہ اس کے بعد وَلاَ جُنُبا اِلاَّ عَابِرِی سَبِیلٍ اس کا واضح قرینہ ہے۔ ظاہر ہے، اس سے حالت جنابت میں نماز کے اندر سے گزرنا مراد نہیں، بلکہ مسجد کے اندر سے گزرنا ہی مراد ہے۔ تاہم آیت کی شان نزول کی روایات سے واضح ہوتا ہے کہ لاَ تَقرَبُوا الصَّلاَۃ سے نشے کی حالت میں مسجد کے اندر آنے کی نہیں، بلکہ نماز ادا کرنے کی ممانعت مراد ہے۔ امام طحاوی لکھتے ہیں کہ اگر یہ آثار نہ ہوتے تو آیت کا ظاہر اور واضح مفہوم یہی تھا کہ نشے کی حالت میں مسجدوں کے قریب نہ آﺅ۔ (احکام القرآن ۱/۱۱۶) (۱)
اسی طرح ثُمَّ اَفِیضُوا مِن حَیثُ افَاضَ النَّاسُ (البقرة ۱۹۹:۲) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ آیت کا ظاہری مفہوم تو یہی بنتا ہے کہ اس سے مراد مزدلفہ سے کوچ کرنا ہے، کیونکہ اس سے پہلے عرفات سے روانگی کا ذکر فَاذَا اَفَضتُم مِّن عَرَفَاتٍ (البقرة ۱۹۸:۲) سے ہو چکا ہے، تاہم اہل علم نے آیت کی شان نزول کی روشنی میں یہ قرار دیا ہے کہ ثُمَّ اَفِیضُوا میں بھی عرفات ہی سے نکلنا مراد ہے۔ شان نزول کی روایات کے مطابق قریش اور بنو خزاعہ کے لوگ عام حاجیوں کے ساتھ عرفات میں نہیں جاتے تھے، بلکہ مزدلفہ میں ہی ٹھہرے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انھی کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ بھی سب لوگوں کی طرح عرفات میں جائیں اور وہاں سے واپس روانہ ہوں۔ (احکام القرآن ۲/۱۷۲)
اس تناظر میں کتاب اللہ کے ظاہری عمومات کے حوالے سے بھی امام طحاوی کے ہاں ایک رجحان امام شافعی کے اصولی موقف سے ہم آہنگ ہے، اور وہ ایسی مثالوں میں عموم کے یقینی طور پر مراد ہونے کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ اس کی دلالت کو محتمل اور قابل تفسیر قرار دیتے اور اس حوالے سے سنت میں وارد تبیین کو فیصلہ کن حیثیت دیتے ہیں۔ چنانچہ آیت سرقہ سے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کا ظاہری عموم بالاجماع مراد نہیں، بلکہ مخصوص شرائط کے ساتھ چوری کرنے والے مراد ہیں جن کی وضاحت احادیث میں کی گئی ہے۔ لکھتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کے کیے کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے (لوگوں کے لیے) عبرت ہے۔ لیکن اہل علم کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہر ہر چوری کرنے والا نہیں، بلکہ چوری کرنے والے کچھ خاص افراد مراد ہیں جنھوں نے ایک متعین مقدار میں مال چرایا ہو۔“
ایک دوسری بحث میں اس نوعیت کی دو مزید مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”کتاب اللہ کے ظاہر میں ایسی کوئی دلیل نہیں جو وضو میں موزوں پر مسح کرنے سے مانع ہو، کیونکہ سورة المائدہ میں جو پاو¶ں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے، اس کے بارے میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ صورت ہو جب پاوں ننگے ہوں، نہ کہ جب وہ موزوں میں ملبوس ہوں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو،لیکن اس سے مراد ہر ہر چوری کرنے والا نہیں، بلکہ چوری کی کچھ خاص صورتیں مراد ہیں جن کی وضاحت سنت نے کی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ زناکرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد، دونوں کو سو سو کوڑے لگاو، لیکن اس سے مراد بھی ہر ہر زانی نہیں، بلکہ وہ زانی مراد ہیں جن کی وضاحت سنت نے کی ہے۔“
اسی اصول کا اطلاق کرتے ہوئے امام طحاوی لکھتے ہیں کہ قرآن میں نماز جمعہ کے لیے حاضر ہونے کا حکم بظاہر تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے دیا گیا ہے جس کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جمعہ کی نماز تمام مکلفین پر فرض ہے، لیکن سنت نے یہ واضح کیا ہے کہ اس سے مراد تمام نہیں بلکہ بعض مسلمان ہیں اور خواتین، غلام، مسافر ، اپاہج اور بیمار لوگ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ (احکام القرآن ۱/۱۴۷)
قرآن مجید میں نماز کے لیے قبلہ رخ ہونے کا حکم بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ چنانچہ وَحَیثُ مَا کُنتُم فَوَلُّوا وُجُوہَکُم شَطرَہُ (البقرة ۱۴۴:۲) کے عام الفاظ سے نماز میں قبلہ رخ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ سفر میں سواری پر نفل نماز ادا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہونے کا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔ اس سے واضح ہوا کہ سفر میں سواری پر نفل نماز ادا کرنے والا اس حکم کا مخاطب نہیں ہے۔ (احکام القرآن ۱/۱۶۳)
ظاہری او رمحتمل عموم سے آگے بڑھ کر اگر احادیث کتاب اللہ کے کسی ایسے حکم میں جس میں تصریحاً عموم کی وضاحت کی گئی ہو، کوئی تخصیص یا استثنا بیان کرتی ہوں تو امام طحاوی اس صورت میں بھی دونوں حکموں کی دلالت کو متعارض تصور کرنے کے بجائے دونوں کو ملا کر دیکھنے اور کتاب اللہ کی مراد کو احادیث کی بیان کردہ تخصیص واستثنا کی روشنی میں متعین کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں کھانے پینے کی اشیا میں صرف چار چیزیں حرام کی گئی ہیں، یعنی مردار، خون، خنزیر کا گوشت، اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور۔ (الانعام ۱۴۵:۶) آیت اپنی ظاہری دلالت کے لحاظ سے بالکل واضح ہے کہ ان چار کے علاوہ کھانے کی ہر چیز مباح ہے۔تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فہرست میں اضافہ کرتے ہوئے گھریلوگدھوں، چنگال والے پرندوں اور کچلی والے درندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الذبائح والصید، باب لحوم الحمر الانسیة، رقم ۵۵۲۷؛ صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح وما یوکل من الحیوان، رقم ۱۹۳۴)
امام طحاوی کے نزدیک احادیث میں بیان کی جانے والی حرمتوں کی نوعیت قرآن کی اباحت میں استثناءکی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا قرآن کے بیان کردہ دائرے میں توسیع کرتے ہوئے چند مزید چیزوں کو اس میں شامل فرما دیا۔ (مشکل الآثار ۹/۱٠۸) ان دونوں بیانات کو باہم متعارض تصور کرنے کے بجائے، قرآن کی مراد کو احادیث کی روشنی میں طے کرنا ضروری ہے۔ طحاوی لکھتے ہیں :
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کی حرمت بیان کی ہے، وہ آیت کی اباحت سے مستثنیٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کسی استثناءکے بغیر ایک عام حکم نازل کیا ہو، جبکہ اسی حکم سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ کوئی استثنا ثابت ہو تو اس کو اسی مفہوم پر (جو ہم نے بیان کیا ہے) محمول کرنا مناسب ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جن چیزوں کی ممانعت منقول ہے، انھیں آیت سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا نہ کہ ان کے خلاف، تاکہ نہ قرآن، سنت کے معارض ہو اور نہ سنت، قرآن کے۔”
مذکورہ مثال میں طحاوی کی توجیہ کا، حنفی وشافعی فقہاءکے عمومی رجحان سے اختلاف قابل توجہ ہے۔ فقہاءقرآن کی بیان کردہ اباحت اور احادیث میں وارد تحریم کو حرمتوں کی موقع بہ موقع یا تدریجی وضاحت پرمحمول کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں کھانے پینے کے معاملے میں اباحت اصلیہ کا اصول جاری تھا جس میں سے کچھ چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ کر کے حرام قرار دیا اور فرمایا کہ اس مرحلے پر ان کے علاوہ کوئی اور چیز حرام نہیں ہے۔ اس حکم کے نازل ہونے سے باقی اشیاءحسب سابق اباحت کے اصول پر قائم رہیں، لیکن مثبت طور پر ان کی حلت کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ ان کی حیثیت گویا مسکوت عنہ امر کی تھی۔ بعد میں احادیث کے ذریعے سے اباحت کے عمومی اصول میں چند مزید مستثنیات کو شامل کر دیا گیا اور چونکہ یہ مسکوت عنہ امر سے متعلق حکم کی وضاحت تھی، اس لیے اسے قرآن کے بیان کردہ حصر کے معارض یا منافی نہیں کہا جا سکتا۔ (جصاص، احکام القرآن، ۳/۱۹؛ ابن العربی، احکام القرآن، ۲/۲۹۱) گویا جمہور اہل علم سنت کی بیان کردہ حرمتوں کو قرآن کے حکم پر ایک اضافہ قرار دے کر قرآن کے ظاہری حصر کی دلالت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امام طحاوی کی توجیہ اس سے مختلف ہے اور وہ قرآن کے ظاہری حصر کا کوئی محل واضح کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کے بجائے وہ سنت کے بیانات کو ابتدا ہی سے حکم کا حصہ تصور کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ حرمتوں سے متعلق پورا حکم گویا یوں تھا کہ ان چار چیزوں کے علاوہ باقی تمام اشیاءمباح ہیں، البتہ اس اباحت سے فلاں اور فلاں چیزیں مستثنیٰ ہیں۔ بظاہر اس تاویل میں حکم کا دوسرا حصہ پہلے حصے کی عمومی اباحت کو بے معنی بنا دیتا ہے، لیکن امام طحاوی اس کو اہمیت نہیں دیتے۔ یوں اس مثال کو ان کے ہاں کتاب اللہ کی ظاہری دلالت کو احادیث وآثار کے تابع بنانے کے رجحان کی نمایاں ترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ (البتہ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسی مثال میں ایک دوسرے پہلو سے کتاب اللہ کے ظاہری عموم میں تاویل نہ کرنے کے رجحان کا بھی امام طحاوی کے ہاں اظہار ہوا ہے جس کی وضاحت آئندہ صفحات میں اپنے موقع پر کی جائے گی)۔
کتاب اللہ کے عموم میں تخصیص کے ساتھ کتاب اللہ کے حکم پر زیادت کی بحث میں بھی امام طحاوی اپنے اس رجحان کو برقرار رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں حرمات نکاح کے بیان میں رضاعی رشتوں میں سے ماں اور بہن کا ذکر کیا گیا ہے۔ (النساء۲۳:۴) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعمیم کرتے ہوئے دوسرے رضاعی رشتوں کو بھی نکاح کے لیے حرام قرار دیا ہے۔ ان روایات کو فقہاءکے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ تاہم سیدہ عائشہ کی نقل کردہ ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پلانے والی عورت کے شوہر کو بھی حرمت کے دائرے میں شمار فرمایا اور سیدہ عائشہ سے کہا کہ ان کی رضاعی والدہ کا شوہر ان کا چچا لگتا ہے، اس لیے وہ اس سے حجاب نہ کریں۔ (صحیح البخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ ان تبدوا شیئا او تخفوہ، رقم ۴۷۹۶)
جمہور فقہاءکی طرح حنفی فقہاءبھی اس روایت کی روشنی میں لبن الفحل کو موجب حرمت قرار دیتے ہیں، حالانکہ اس روایت کو قبول کرنا بظاہر حنفی فقہاءکے اصول کے خلاف ہے، کیونکہ ان کے نزدیک اگر حدیث کے راوی کا اپنا عمل حدیث کے خلاف ہو تو وہ اس بات کی دلیل تصور کیا جاتا ہے کہ راوی کے علم کے مطابق وہ حدیث منسوخ ہو چکی ہے۔ اس مثال میں بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فتویٰ مذکورہ روایت کے برعکس تھا اور وہ لبن الفحل کو موجب حرمت قرار نہیں دیتی تھیں۔ چنانچہ قاسم بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ ا م المومنین ایسے لڑکوں سے تو حجاب نہیں کرتی تھیں جنھیں ان کی بہنوں یا بھتیجیوں نے دودھ پلایا ہو، لیکن جن لڑکوں نے ام المومنین کے بھائیوں کی بیویوں کا دودھ پیا ہوتا، انھیں اپنے پاس آنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ (الموطا، کتاب الرضاع، رضاعة الصغیر، رقم ۱۲۸٠) یعنی وہ یہ سمجھتی تھیں کہ ان لڑکوں کے ان کے بھائی کی بیوی کا دودھ پینے سے وہ ان کے بھائی کے رضاعی بیٹے نہیں بن گئے اور نتیجتاً ام المومنین کے ساتھ بھی ان کا بھتیجے کا رشتہ قائم نہیں ہوا۔ تاہم اس مثال میں حنفی فقہاءنے حدیث کو قبول کرتے ہوئے سیدہ عائشہ کے عمل کی تاویل کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ امام طحاوی اس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ کے، اپنے بعض رشتہ داروں کو اپنے پاس آنے کی اجازت نہ دینے کی وجہ حرمت رضاعت کو ثابت نہ ماننا نہیں، بلکہ وہ کسی اور وجہ سے بھی کسی کو اپنے پاس آنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا حق رکھتی تھیں۔ اس لیے ان کے اس عمل کو ان کی روایت کردہ حدیث کے خلاف قرار دینا درست نہیں۔ (مختصر اختلاف العلماء۲/۳۱۹)
بعض مثالوں میں امام طحاوی صحابہ سے منقول آثار کی بنا پر بھی قرآن مجید کے حکم پر زیادت کو درست قرار دیتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ اگر آدمی سفر یا بیماری کی وجہ سے رمضان میں روزہ نہ رکھ سکے تو دوسرے دنوں میں ان کی قضا کر لے۔ (البقرة ۱۸۴:۲) یہاں روزوں کی قضا کے لیے مدت کی کوئی قید بیان نہیں کی گئی۔ تاہم بعض صحابہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص ایک رمضان میں چھوڑے ہوئے روزے استطاعت کے باوجود اگلے رمضان تک قضا نہ کرے تو اس کے بعد قضا کے ساتھ ساتھ اسے ہر روزے کے بدلے میں کفارے کے طور پر ایک مسکین کو کھانا بھی کھلانا پڑے گا۔ طحاوی لکھتے ہیں کہ یہ حکم نہ کتاب اللہ میں ہے، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں اور نہ قیاس سے اس کی تائید ہوتی ہے، بلکہ کتاب اللہ کے ظاہر کے لحاظ سے قضاءکے ساتھ کفارے کا اضافہ کرنے کی بھی گنجائش نہیں، لیکن چونکہ صحابہ کی ایک جماعت سے یہ منقول ہے اور کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا، جبکہ بظاہر معقول نہ ہونے کی وجہ سے یہ امکان بھی غالب ہے کہ انھوں نے یہ بات اجتہاداً نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر کہی ہوگی، اس لیے ہم اس مسئلے میں ائمہ احناف سے اختلاف کرتے ہوئے قضا کے ساتھ ساتھ کفارے کو بھی واجب قرار دیتے ہیں۔ (احکام القرآن ۱/۴۱۶؛ مختصر اختلاف العلماء۲/۲۲)
کتاب اللہ کے ظاہری عموم کے قطعی نہ ہونے اور محتمل الدلالة ہونے کے اصول کے تناظر میں امام طحاوی نے متعدد مسائل میں، جن میں احادیث میں کتاب اللہ کے حکم میں کوئی تخصیص یا استثناءبیان کیا گیا ہے، کتاب اللہ کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے احادیث کو نظر انداز کرنے کے موقف پر تنقید کی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
۱۔ طحاوی عبد اللہ ابن عباس کے اس استدلال کا ذکر کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موزوں پر مسح کرنے کا عمل سورہ مائدہ کے نازل ہونے یعنی قرآن میں وضو کے احکام بیان ہونے سے پہلے کا تھا جس سے ان کی مراد ظاہراً یہ تھی کہ قرآن نے اس رخصت کو منسوخ کر دیا ہے۔ طحاوی کہتے ہیں کہ اگر اس عمل کو آیت کے نزول سے مقدم فرض کیا جائے تو بھی قرآن کی آیت کو اس کا ناسخ قرار دینا درست نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت نازل ہونے کے بعد لوگوں سے یہ نہیں فرمایا کہ اب تم موزوں پر مسح نہ کیا کرو، کیونکہ اللہ نے پاو¶ں کو دھونے کا حکم نازل کر کے اس کو منسوخ کر دیا ہے۔ (شرح مشکل الآثار ۶/۲۸۹؛ احکام القرآن ۱/۱۱۱، ۱۱۲) طحاوی کی مراد یہ ہے کہ یہ دونوں حکم چونکہ الگ الگ حالتوں سے متعلق ہیں، اس لیے دونوں کا اپنا اپنا محل ہے اور دونوں اپنی اپنی جگہ برقرار رہ سکتے ہیں، اس لیے ان کے مابین کوئی ایسا تعارض نہیں کہ ایک کو لازماً دوسرے کے لیے ناسخ تسلیم کیا جائے اور اگر واقعی غسل کا حکم مسح کے لیے ناسخ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی باقاعدہ وضاحت فرمانی چاہیے تھی۔ جب آپ نے یہ وضاحت نہیں کی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سے جو رخصت موجود تھی، وہ اس کے بعد بھی برقرار رہی۔
۲۔ عبد اللہ بن عباس کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہا کو اجازت دی کہ وہ تلبیہ پڑھتے وقت یہ شرط لگا لیں کہ جہاں بیماری کی وجہ سے ان کے لیے حج کا سفر جاری رکھنا ممکن نہ ہوا، وہ اسی جگہ احرام سے آزاد ہو جائیں گی۔ (مسند احمد، مسند عبد اللہ بن عباس، رقم ۳۳٠۲) ائمہ احناف ایسی شرط لگانے کو غیر موثر سمجھتے ہیں، تاہم امام طحاوی نے اس مسئلے میں ائمہ احناف کے اجماعی موقف سے اختلاف کیا اور حج کا احرام باندھتے ہوئے شرط لگانے کو جائز قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ بات صحیح احادیث اور صحابہ کے آثار سے ثابت ہے، اس لیے اس کو چھوڑ کر کوئی دوسری رائے قائم کرنے کی گنجائش نہیں۔ یہاں طحاوی نے مذکورہ روایت کے، قرآن کے خلاف ہونے کا سوال بھی اٹھایا ہے۔ لکھتے ہیں:
“اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حج اور عمرہ کو مکمل کرنے کا حکم دیا ہے اور کسی عذر کی صورت میں حج سے روک دیے جانے والے کا حکم بھی باقاعدہ واضح کیا ہے (جس میں احرام کو فسخ کرنے کا کوئی ذکر نہیں)، اس لیے اس حکم کو خبر واحد کی وجہ سے ترک کرنا جائز نہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قرآن کا حکم ان لوگوں کے بارے میں ہے جنھوں نے احرام باندھتے وقت کوئی شرط نہ لگائی ہو۔ جس نے شرط عائد کی ہو تو اس کا حکم (حدیث کے مطابق) وہ ہے جو ہم نے بیان کیا ہے، چنانچہ (دونوں حکموں کا اپنا اپنا محل ہے اور) ایک حکم کو دوسرے کی وجہ سے رد نہیں کیا جا سکتا۔”
دلچسپ بات یہ ہے کہ امام شافعی نے مذکورہ حدیث کی صحت کے متعلق تردد ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر یہ حدیث ثابت ہوتی تو میں اسی کے مطابق رائے قائم کرتا۔ (الام، ۳ /۳۹۷) امام طحاوی لکھتے ہیں کہ امام شافعی اس حدیث کے کسی متصل طریق سے واقف نہیں تھے، اس لیے انھیں تردد تھا، لیکن اگر وہ ان طرق سے واقف ہوتے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے تو وہ بھی یہی رائے قائم کرتے۔ (مختصر اختلاف العلماء۲/۹۸)
۳۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک گھوڑے کا گوشت کھانے کو مکروہ قرار دیتے ہیں اور ان کا استدلال سورة النحل کی آیات سے ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے چوپایوں کا ذکر کرکے ان کے فوائد ومنافع میں ان کے گوشت کے استعمال کا ذکر کیاہے جبکہ اس کے مقابلے میں گھوڑوں ،خچروں اور گدھوں کے ذکر میں ان کا فائدہ یہ بتایا ہے کہ لِتَرکَبُوہَا وَزِینَۃ (النحل ۸:۱۶) “تاکہ تم ان پر سواری کرسکو اور ان سے زینت حاصل کرو” ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جانور گوشت کھانے کے لیے نہیں ہیں۔ یہ استدلال عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الاطعمة، رقم ۲۴۸٠۳، ۲۴۸٠۵) اور امام ابو حنیفہ نے بھی اپنی ایک روایت میں ابن عباس سے اسے نقل کیا ہے۔ (ابو یوسف، الآثار، رقم ۱٠۵۱) امام مالک سے بھی یہی استدلال منقول ہے۔ (ابو الولید الباجی، المنتقی، ۳/۱۳۲، ۱۳۳) تاہم امام ابویوسف اور امام محمد نے گھوڑے کے گوشت کی حلت سے متعلق مروی روایات کی روشنی میں اس موقف کو قبول نہیں کیا۔ (الشیبانی، الآثار، کتاب الاطعمة، رقم ۸۲۸)
امام طحاوی نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ اور امام مالکؒ اور ان کے مقابلے میں امام ابویوسف اور امام محمد کے موقف کا محاکمہ کرتے ہوئے موخر الذکر کی رائے سے اتفاق کیا ہے، چنانچہ آیت سے استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس میں گھوڑے کے ساتھ سواری اور زینت کے ذکر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مصرف نہیں ہو سکتا۔ طحاوی اس کو بعض دیگر آیات کی مثال سے واضح کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مابین اعتقادی ومذہبی اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وَلِذَلِکَ خَلَقَہُم (ہود ۱۱: ۱۱۹)، یعنی اللہ نے ان کو اسی لیے پیدا کیا ہے، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اختلاف کے علاوہ انسانوں کی تخلیق کا کوئی اور مقصد نہیں۔ اسی طرح وَمَا خَلَقتُ الجِنَّ والاِنسَ اِلَّا لِیَعبُدُونِ (الذاریات ۵۶:۵۱) سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عبادت کے علاوہ انسان کا اور کوئی مقصد نہیں۔ ان مثالوں کی روشنی میں گھوڑے کے ذکر میں لِتَرکَبُوہَا وَزِینَۃ کے الفاظ سے بھی یہ استدلال درست نہیں کہ اس کا گوشت کھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ (شرح مشکل الآثار ۸/۷۵)
۴۔ ذکاة الجنین (یعنی مادہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچے) سے متعلق روایات کے حوالے سے امام طحاوی لکھتے ہیں کہ یہ سنداً کمزور ہیں۔ اس بحث میں امام طحاوی نے امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے اختلاف کے حوالے سے اپنا موقف تصریحاً بیان نہیں کیا، تاہم اسلوب کلام سے ان کا رجحان یہی معلوم ہوتا ہے کہ، احادیث کے مطابق، جنین کی حلت کے لیے اس کی ماں کے ذبح کیے جانے کو کافی ہونا چاہیے۔ (مختصر اختلاف العلماء۳/۲۲۶ تا ۲۲۹)
مذکورہ رجحان کے مقابلے میں امام طحاوی کے ہاں ایک دوسرا اور بہت نمایاں رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ احادیث کی روشنی میں کتاب اللہ کے ظاہری مفہوم کی تاویل نہ کی جائے اور آیات کو احادیث میں وارد توضیح یا تفصیل پر محمول کرنے کے بجائے کتاب اللہ کے ظاہر کی دلالت کو علیٰ حالہ قائم رکھا جائے، جبکہ احادیث کو ایک الگ اور قرآن سے زائد حکم کا بیان قرار دیا جائے۔
مثال کے طور پر قرآن مجید میں نماز کے لیے اٹھتے ہوئے وضو کا حکم دیا گیا ہے۔ (المائدہ ۶:۵) اس حوالے سے فقہاءکے ہاں یہ بحث ہے کہ وضو کا حکم کیا ہر نماز کے لیے ہے، چاہے سابقہ وضو برقرار ہو یا نہ ہو، یا اس کا وجوب صرف حدث کی حالت میں ہے؟ طحاوی جمہور کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کا پہلے سے وضو نہ ہو، اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ اسی آیت میں آگے اللہ تعالیٰ نے حالت سفر میں بعض صورتوں میں تیمم کی رخصت دی ہے اور اس کے متعلق اجماع ہے کہ وہ ناپاکی کی صورت میں ہی فرض ہے، اس لیے مقیم ہونے کی حالت میں وضو کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے۔ (شرح معانی الآثار ۱/۴۵) تاہم اس کے ساتھ طحاوی اس امکان کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ کتاب اللہ میں تو، ظاہری الفاظ کے مطابق، ہر نماز کے لیے مستقل وضو کا حکم دیا گیا تھا، لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف کر کے صرف حالت حدث میں وضو کو واجب قرار دیا اور حکم میں یہ تبدیلی سنت کے ذریعے سے واضح کی گئی۔ (احکام القرآن ۱/۶۸، ۶۹)
لاَ یَمَسُّہُ الَّا المُطَہَّرُونَ (الواقعہ ۷۹:۵۶) کے حوالے سے طحاوی نے صحابہ سے دو تفسیریں نقل کی ہیں۔ ایک کے مطابق یہ نہی ہے اور اس میں وضو نہ ہونے کی حالت میں قرآن کو چھونے سے منع کیا گیا ہے، جبکہ دوسری تفسیر کے مطابق یہ خبر ہے جس میں فرشتوں کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اس کتاب کو ان جیسی پاکیزہ مخلوق ہی چھوتی ہے۔ طحاوی لکھتے ہیں کہ آیت میں چونکہ نہی کے بجائے خبر کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اس لیے دوسری تفسیر ہی درست ہے اور اس آیت سے مس مصحف کے لیے طہارت کی شرط اخذ کرنا درست نہیں۔ اس کے بجائے اس حکم کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے جس میں آپ نے عمرو بن حزم کو ہدایت فرمائی کہ وہ قرآن کو ناپاکی کی حالت میں نہ چھوئیں۔ (احکام القرآن ۱/۱۱۸)
قرآن مجید میں سفر کی حالت میں قصر نماز کی اجازت ان خِفتُم (اگر تمھیں خوف ہو) کی قید کے ساتھ بیان ہوئی ہے (النساء۱٠۱:۴)، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت امن میں بھی قصر نماز ادا کی۔ قرآن میں خوف کی قید کی توجیہ جمہور فقہاءکی طرف سے عموماً یہ کی گئی ہے کہ یہ اس رخصت کو حالت خوف تک محدود کرنے کے لیے نہیں ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے، اسے قبول کرو۔ امام شافعی کی توجیہ کا حاصل بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ (الام ۱٠/۵٠، ۵۱) تاہم اس تفسیر کے غیر متبادر ہونے کی وجہ سے امام طحاوی نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کی رائے یہ ہے کہ ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے یہ رخصت واقعتا اسی قید کے ساتھ دی تھی، لیکن بعد میں اپنے بندوں کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مطلقاً سفر میں نماز قصر کرنے کی اجازت دے دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا عمر سے فرمایا کہ حالت امن میں قصر کرنا اللہ کی طرف سے ایک صدقہ ہے، اسے قبول کرو۔ (تحفة الاخیار ۶/۳٠۴) گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یا مذکورہ ارشاد قرآن میں ان خفتم کی تفسیر نہیں ہے جو یہ واضح کرتی ہے کہ یہ قید اتفاقی ہے، بلکہ اس رخصت میں، اصل حکم کے بعد کی جانے والی توسیع کا بیان ہے۔
قرآن میں حج کے فرض ہونے کے لیے استطاعت سبیل کی شرط بیان کی گئی ہے۔ (آل عمران ۹۷:۳) بظاہر اس کا مفہوم یہی بنتا ہے کہ جس شخص کو مالی وسائل دستیاب ہوں اور وہ تندرستی کی حالت میں سفر کر سکتا ہو، اس پر حج فرض ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیمار اور بوڑھے شخص پر بھی، جو سواری پر نہ بیٹھ سکتا ہو، حج فرض ہے اور اگر وہ خود ادا نہ کر سکتا ہو تو اس کا نائب بن کر کوئی دوسرا اس کی طرف سے فرض ادا کر سکتا ہے۔ امام شافعی اس حدیث کو قرآن مجید کی تبیین قرار دیتے ہوئے اس کی روشنی میں استطاعت کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ آدمی یا تو خود سفر کر سکے اور یا کسی دوسرے کو اپنی طرف سے نیابتاً حج کے لیے بھیج سکے۔ (الام ۳/۳۰۲) گویا حدیث نے قرآن کی اصل مراد کو واضح کیا جو بظاہر اس کے الفاظ سے مفہوم نہیں ہو رہی تھی۔ امام طحاوی نے امام شافعی کی اس توجیہ سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کی رائے میں قرآن میں استَطَاعَ الَیہِ سَبِیلاً کا مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ سے واضح ہے، یعنی سفر کر کے بیت اللہ تک پہنچنے کی طاقت رکھنا۔ جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو اس میں جو بات کہی گئی ہے، وہ قرآن کی تبیین نہیں، بلکہ اس پر زائد ایک الگ حکم کا بیان ہے۔ لکھتے ہیں:
“جب ہم نے اپنی اس کتاب میں دلائل سے واضح کر دیا کہ حج کی راہ کا مطلب بیت اللہ تک پہنچنا ہے تو جو شخص (بیماری یا معذوری کی وجہ سے) حج کے لیے نہ پہنچ سکتا ہو، کتاب اللہ کی رو سے اس پر حج کا فریضہ عائد نہیں ہوتا، البتہ سنت کی رو سے ہوتا ہے، چنانچہ ایسے شخص پر کسی دوسرے کو اپنی طرف سے حج پر مامور کرنا ایسے ہی لازم ہوگا جیسے قدرت کی صورت میں خود حج کرنا لازم ہوتا۔ یوں کتاب اللہ سے حج کی فرضیت ان لوگوں کے لیے ثابت ہوتی ہے جو خود سفر کر کے پہنچ سکتے ہوں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ایسے معذوروں پر حج کی فرضیت ثابت ہوتی ہے جنھیں کوئی ایسا شخص میسر ہو جسے وہ اپنی طرف سے حج پر مامور کر سکیں۔”
اسی نوعیت کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن مجید میں صفا ومروہ کو اللہ کے شعائر قرار دیا گیا اور یہ کہا گیا ہے کہ حج یا عمرے کے لیے آنے والوں کے لیے ان کا طواف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (البقرة ۱۵۸:۲) آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صفا ومروہ کا طواف محض مباح ہے، یعنی اگر کوئی نہ بھی کرے تو کوئی حرج نہیں۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ حج یا عمرے میں طواف کے بعد صفا ومروہ کی سعی بھی باقاعدہ مناسک میں سے ہے۔ یوں ایک مطلوب ومامور بہ عمل کے متعلق قرآن مجید کا یہ اسلوب (فَلاَ جُنَاحَ عَلَیہِ اَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا) باعث اشکال بن جاتا ہے جو بعض تابعین نے بھی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے پیش کیا۔ (صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب ان الصفا والمروة من شعائر اللہ، رقم ۴۴۹۵)
امام طحاوی نے اس اشکال کو یوں حل کیا ہے کہ قرآن مجید میں نفی حرج کا پس منظر تو، روایات کے مطابق، صفا ومروہ سے متعلق اہل عرب کے ہاں پایا جانے والا ایک تصور تھا جس کی وجہ سے بعض صحابہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد صفا ومروہ کی سعی کو غیر مشروع سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ اس کے ازالے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ آیت نازل کی کہ صفا ومروہ خدا نخواستہ کوئی غیر اسلامی مقامات نہیں، بلکہ اللہ کے شعائر میں سے ہی ہیں، اس لیے ان کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ گویا آیت کا مقصود فقہی پہلو سے ان کے طواف کا حکم بیان کرنا نہیں، بلکہ دینی واعتقادی تناظر میں لوگوں کے ایک وہم کا ازالہ کرنا تھا۔ جہاں تک سعی کی فقہی وشرعی حیثیت کا تعلق ہے تو اس کا ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور آپ نے اللہ کی طرف سے صفا ومروہ کو شعائر اللہ قرار دیے جانے اور ان کے طواف میں کوئی مضائقہ نہ ہونے کی وضاحت کے بعد ایک مستقل تشریع کے طور پر انھیں مناسک حج کا ایک لازمی حصہ قرار دیا جس کو ترک کرنا کسی کے لیے جائز نہیں۔ (احکام القرآن ۲/۹۷)
قرآن مجید میں ہدی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے کعبہ تک پہنچنے کی شرط عائد کی گئی ہے (المائدہ ۵۹:۵) اور حالت احصار میں بھی ہدایت کی گئی ہے کہ اگر آدمی کے لیے خود حرم تک پہنچنا ناممکن ہو جائے تو بھی ہدی کے اپنے حلال ہونے کی جگہ پر پہنچنے یعنی اس کی قربانی تک وہ بال نہ منڈوائے۔ (البقرہ ۱۹۶:۲) تاہم حدیبیہ کے موقع پر روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں ہی جانوروں کو ذبح کر دیا جو بظاہر قرآن مجید کی مذکورہ ہدایت کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ امام شافعی نے روایت کی روشنی میں آیت کی تاویل یہ کی کہ یَبلُغَ الہَدیُ مَحِلَّہُ سے مراد یہ ہے کہ اگر حرم تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو پھر وہی جگہ جانور کی قربانی کی جگہ ہوگی جہاں آدمی کو روک دیا گیا ہو۔ امام طحاوی اس تاویل سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کی رائے یہ ہے کہ یَبلُغَ مَحِلَّہُ سے مراد حرم تک پہنچنا ہی ہے اور اسی کو دوسری جگہ ہَدیاً بَالِغَ الکَعبَةِ (المائدہ ۵۹:۵) اور ثُمَّ مَحِلُّہَا الَی البَیتِ العَتِیقِ (الحج ۳۳:۲۲) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ طحاوی روایات کی روشنی میں واضح کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں اس طرح ٹھہرے ہوئے تھے کہ آپ کا قیام تو حدود حرم سے باہر تھا، لیکن نماز آپ حدود حرم کے اندر جا کر ادا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے آپ کو بیت اللہ تک جانے سے تو روکا تھا، لیکن حدود حرم میں داخل ہونا ممکن تھا اور ایسی صورت میں یہ نہیں مانا جا سکتا کہ آپ نے حدود حرم میں قربانی ممکن ہونے کے باوجود اس سے باہر جانور ذبح کیے ہوں گے، بلکہ ناجیہ بن جندب اسلمی کی روایت میں تصریح ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ وہ ہدی کے اونٹ ان کے حوالے کر دیں، وہ ایسے راستوں سے ان کو حرم میں لے جا کر ذبح کر دیں گے کہ مشرکین انھیں پکڑ نہیں سکیں گے۔ چنانچہ آپ نے اونٹ ان کے سپرد کر دیے اور انھوں نے حرم میں لے جا کر انھیں ذبح کیا۔ (احکام القرآن ۲/۲۵۲، ۲۵۳؛ شرح معانی الآثار ۲ /۲۴۱، ۲۴۲؛ مختصر اختلاف العلماء۲/۱۹٠)
مذکورہ تمام مثالوں میں امام طحاوی کا یہ رجحان بہت واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ وہ کتاب اللہ کے الفاظ کی دلالت کو احادیث کے تابع کرتے ہوئے آیات کی مراد کو احادیث پر محمول کرنے (یعنی انھیں co-extensive قرار دینے) سے گریز کرتے ہیں اور اس کے بجائے کتاب اللہ کے مفہوم کو اس حد تک محدود رکھتے ہوئے جس پر خود اس کے الفاظ دلالت کرتے ہیں، احادیث کو ایک مستقل اور زائد حکم کے طور پر کتاب اللہ سے متعلق کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہی رجحان امام صاحب کے ہاں ایسی مثالوں میں بھی دکھائی دیتا ہے جن میں احادیث، کتاب اللہ کے ظاہری عموم میں تحدید وتخصیص پیدا کرتی ہیں۔
مثلاً قرآن مجید میں اہل ایمان کو حالت احرام میں خشکی کے جانوروں کا شکار کرنے سے منع کیا گیا ہے : وَحُرِّمَ عَلَیکُم صَیدُ البَرِّ مَا دُمتُم حُرُماً (المائدہ ۹۶:۵) آیت کے الفاظ بظاہر عام ہیں، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ جانوروں کو حدود حرم کے اندر اور باہر، کسی بھی جگہ قتل کرنا مباح ہے۔ امام شافعی نے اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ آیت اور حدیث میں دو بالکل الگ الگ حکموں کی وضاحت کی گئی ہے۔ آیت میں ان جانوروں کی حرمت بیان کرنا مقصود ہے جو احرام سے پہلے خوراک کے لیے حلال تھے، جبکہ ایسے جانور جو عام حالات میں بھی حرام ہیں، وہ آیت میں زیر بحث ہی نہیں، کیونکہ ان کی حرمت کے لیے سابقہ حکم ہی کافی تھا۔ (الام ۳/۴۶۴، ۴۶۵) امام شافعی کا مدعا یہ ہے کہ چونکہ حرام جانوروں، مثلاً درندوں کو ان کے حملے یا ضرر سے بچنے کے لیے قتل کرنے سے روکنا سرے سے آیت کی مراد ہی نہیں، اس لیے مذکورہ حدیث قرآن کے حکم میں کوئی تخصیص بیان نہیں کر رہی، بلکہ ایک مستقل حکم کی وضاحت کر رہی ہے۔
امام شافعی کی یہ توجیہ قرآن کے الفاظ کی حد تک بظاہر قوی معلوم ہوتی ہے، لیکن امام طحاوی کو اس پر اطمینان نہیں جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس توجیہ کے مطابق حالت احرام میں صرف حلال جانوروں کا شکار ممنوع قرار پاتا ہے، جبکہ دیگر موذی جانوروں کو ان کی طرف سے کسی خطرے کے بغیر بھی قتل کرنے کی اباحت ثابت ہوتی ہے، جبکہ احرام کی روح کا تقاضا یہ ہے کہ محرم سے کسی ناگزیر ضرورت اور مجبوری کے بغیر کسی جان دار کو نقصان نہ پہنچے۔ چنانچہ امام طحاوی، امام شافعی کی اس توجیہ کے مقابلے میں ایک دوسری تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں جس کی رو سے آیت کا مدعا ہر طرح کے جانوروں کے شکار کی ممانعت بیان کرنا ہے، چاہے وہ حلال ہوں اور ذبح کیے جاتے ہوں یا ان کا شکار کیا جاتا ہو یا وہ سرے سے حرام ہوں۔ طحاوی کہتے ہیں کہ حالت احرام میں تحریم کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اس سے پہلے مباح تھا، بلکہ جو چیز پہلے سے ممنوع ہو، کسی خاص حالت میں مزید تاکید کے طور پر اس کی حرمت دوبارہ بھی بیان کی جا سکتی ہے۔ (احکام القرآن ۲/۵۴، ۵۶) اس تفسیر کی روشنی میں امام طحاوی حدیث میں وارد اباحت کو قرآن کے عموم میں تخصیص قرار دیتے ہیں، البتہ ان کے نزدیک یہ اباحت صرف ان پانچ جانوروں تک محدود نہیں، بلکہ اس طرح کے دیگر جانوروں کو بھی قتل کرنا جائز ہوگا ۔ (شرح مشکل الآثار، ۹/۱۱٠، ۱۱۱، ۱۱۲) مراد یہ ہے کہ یہ تخصیص ایک علت پر مبنی ہے، یعنی کسی درندے کا حملہ آور ہونا یا اس سے ضرر پہنچنے کا خوف اسے قتل کرنے کو جائز بنا دیتا ہے۔ چنانچہ یہ اباحت صرف ان پانچ جانوروں تک محدود نہیں، بلکہ علت کی روشنی میں دیگر جانوروں کو بھی قتل کرنا جائز ہوگا جن سے ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
قرآن مجید میں غنیمت اور فے کے اموال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذوی القربیٰ کے حق کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ (الانفال ۴۱:۸؛ الحشر ۷:۵۹) اس حکم میں مختلف احتمالات موجود ہونے کی وجہ سے اہل علم کے مابین اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا ذوی القربی میں آپ کے قبیلے یعنی قریش کے سب خاندان شامل ہیں یا یہ صرف بعض مخصوص خاندانوں مثلاً بنو ہاشم او ربنو عبد المطلب تک محدود ہے۔ پھر یہ کہ آیا غنیمت اور فے میں یہ ان قرابت داروں کا کوئی لازم اور واجب شرعی حق تھا جس سے انھیں محروم رکھنے کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواختیار نہیں تھا یا اس کا تعلق آپ کی صواب دید سے تھا۔ اسی طرح یہ کہ ان کے حق دار ہونے کی وجہ آپ کے ساتھ ان کی قرابت تھی یا وہ بھی یتامی ومساکین اور مسافروں کی طرح حاجت اور فقر کی صورت میں ہی غنیمت یا فے میں سے کوئی حصہ وصول کرنے کا حق رکھتے تھے۔
امام شافعی نے اس حوالے سے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ذوی القربی کے الفاظ اگرچہ عام ہیں اور بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام قرابت دار اس کے تحت داخل ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کو خمس میں سے حصہ دیا۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ذوی القربیٰ سے تمام اقرباءنہیں، بلکہ بعض مراد ہیں۔ (الام ۱/۳۱)تاہم امام طحاوی اس سے اختلاف کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث، صحابہ کے آثار اور مختلف قیاسی دلائل کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ذوی القربی میں قریش کے سب خاندان شامل تھے اور غنیمت یا فے میں ان کا حق فقر یا حاجت کی وجہ سے نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت داری کی وجہ سے مقرر کیا گیا تھا، تاہم یہ کوئی لازم وواجب شرعی حق نہیں تھا، بلکہ حسب مصلحت انھیں اس میں سے کچھ دینا یا نہ دینا اور بعض خاندانوں کو دینا اور بعض کو نہ دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صواب دید پر منحصر تھا۔ امام طحاوی کا استدلال یہ ہے کہ ذوی القربیٰ کی تعبیر عام ہے اور اسے بعض خاندانوں تک محدود کرنے کی کوئی نقلی یا عقلی دلیل موجود نہیں، اس لیے اصولاً قریش کے تمام خاندان اس مد میں سے حصہ پانے کا حق رکھتے تھے۔ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کو حصہ دینے اور باقی خاندانوں مثلاً بنو امیہ اور بنو نوفل کو محروم رکھنے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ذوی القربی میں شامل نہیں تھے، بلکہ یہ تھی کہ آپ نے اپنے صواب دیدی اختیار کے تحت زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام میں بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کی طرف سے حاصل نصرت ومعاونت کی روشنی میں انھی کو ترجیح دینا مناسب خیال فرمایا۔ (شرح معانی الآثار ۳/۲۸۱ تا ۳۱۱)
قرآن مجید کی آیت قُل لاَّ اَجِدُ فِی مَا اُوحِیَ الَیَّ مُحَرَّماً عَلَی طَاعِمٍ یَطعَمُہُ میں حرام اشیاءکو صرف چار چیزوں یعنی مردار، خون، خنزیر کے گوشت، غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانور میں محصور قرار دیا گیا ہے۔ (الانعام ۱۴۵:۶) تاہم احادیث میں گھریلوگدھوں، چنگال والے پرندوں اور کچلی والے درندوں کی حرمت بھی وارد ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الذبائح والصید، باب لحوم الحمر الانسیة، رقم ۵۵۲۷؛ صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح وما یوکل من الحیوان، رقم ۱۹۳۴) امام شافعی نے اس تعارض کو اس طرح رفع کیا ہے کہ آیت کے الفاظ اگرچہ بظاہر عام ہیں، لیکن وہ ایک مخصوص تناظر میں وارد ہوئے ہیں، یعنی یہاں صرف وہ جانور زیر بحث ہیں جنھیں اہل عرب حلال سمجھتے تھے۔ امام شافعی اس کا پس منظر یوں واضح کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حرام اور حلال کے ضمن میں چیزوں کے پاکیزہ اور ناپاک ہونے کو معیار قرار دیا ہے۔ چونکہ حکم کے مخاطب اہل عرب ہیں، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں کو اہل عرب طیب سمجھتے ہیں، وہ حلال اور جن کو وہ خبیث سمجھتے ہیں، وہ حرام ہیں۔ البتہ بعض چیزوں کے معاملے میں وہ غلطی میں مبتلا تھے اور چار ایسی چیزوں کو بھی طیب سمجھتے تھے جو درحقیقت خبیث تھیں۔ قرآن مجید نے زیر بحث آیت میں دراصل اس کی اصلاح کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ یہ چار چیزیں طیبات میں داخل نہیں ہیں۔ (الام ۳/۶۲۷، ۶۲۸)
یہ توجیہ بظاہر اشکال کو رفع کر دیتی ہے، تاہم امام طحاوی اس پر مطمئن دکھائی نہیں دیتے اور اس کے بجائے آیت کو چار اشیاءکے علاوہ باقی چیزوں کی اباحت کے عمومی حکم کا بیان قرار دیتے ہوئے احادیث میں وارد محرمات کو اس اباحت میں استثناءکی حیثیت سے قبول کرتے ہیں۔ (شرح مشکل الآثار ۹/۱٠۸؛ شرح معانی الآثار ۴/۲۱٠) اس حوالے سے ان کی رائے کی وضاحت سابقہ سطو رمیں کی جا چکی ہے۔ اس ضمن میں امام شافعی کی توجیہ پر انھیں کیا اشکال ہے، اس کی کوئی وضاحت تو امام طحاوی نے نہیں کی، لیکن بہرحال ان کی رائے سے یہ رجحان بالکل واضح ہے کہ وہ کتاب اللہ کی ظاہری دلالت کو برقرار رکھتے ہوئے ہی کتاب وسنت کے باہمی تعلق کو متعین کرنا چاہتے ہیں۔
کتاب اللہ کے ظاہر کی دلالت کو اس کی مستقل حیثیت میں برقرار رکھنے اور اسے احادیث کے تابع نہ کرنے کے اسی رجحان کا اظہار امام طحاوی کے ہاں ان مثالوں میں بھی ہوتا ہے جہاں وہ کتاب اللہ کے ظاہر سے متعارض روایات کی ایسی توجیہ پر اصرارکرتے ہیں جس سے کتاب اللہ کی دلالت مجروح نہ ہو، جبکہ بعض صورتوں میں وہ ایسی روایات کو کلیتاً رد بھی کر دیتے ہیں۔ امام طحاوی کی آرا میں اس کی متعدد مثالیں پائی جاتی ہیں:
۱۔ فاطمہ بنت قیس کی روایت کے متعلق امام شافعی نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ اس کا مستند طریق وہ ہے جس میں مطلقہ ثلاثہ کے لیے دوران عدت میں صرف نفقہ کی نفی کی گئی ہے، اور یہ حکم قرآن مجید کے عین مطابق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورة الطلاق میں دوران عدت میں بیویوں کو گھر سے نہ نکالنے کی ہدایت تو سب عورتوں کے متعلق دی ہے اور یہ حکم عام ہے، لیکن نفقہ ادا کرنے کی پابندی صرف حاملہ عورتوں کے حوالے سے لازم کی ہے۔ جہاں تک آپ کے فاطمہ کو شوہر کا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ عدت گزارنے کا حکم دینے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فاطمہ زبان کی تیز تھیں اور ان کے سسرال والے ان کی زبان درازی سے تنگ تھے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑے اور بدمزگی سے بچنے کے لیے ازروئے مصلحت فاطمہ کو وہاں عدت گزارنے سے منع فرمایا، تاہم اصل قانون قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق یہی ہے کہ ایسی مطلقہ کو بھی دوران عدت میں رہائش مہیا کی جائے گی۔ (الام، ۶/۲۸٠، ۲۸۱)
امام طحاوی نے اس استدلال سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کی رائے میں اس توجیہ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ سیدنا عمر، سیدہ عائشہ اور دیگر فقہائے صحابہ وتابعین جنھوں نے فاطمہ کی روایت کو رد کیا، درحقیقت ان کی روایت کو سمجھ نہیں سکے، ورنہ وہ اس کا انکار نہ کرتے۔ ان حضرات کے انکار کا مطلب یہی بنتا ہے کہ فاطمہ کی روایت کا ظاہری مفہوم وہی تھا جو وہ خود سمجھ رہی تھیں، یعنی یہ کہ ایسی حالت میں عورت سرے سے نفقہ اور سکنی کی حق دار ہی نہیں، اور یہ بات بہرحال قرآن اور سنت کے خلاف ہے اور سیدنا عمر اور دیگر صحابہ کا اسے قبول نہ کرنے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ طحاوی لکھتے ہیں:
“فاطمہ نے اس روایت میں کتاب اللہ کے صریح حکم کی مخالفت کی ہے، کیونکہ اللہ کی کتاب نے ان عورتوں کو بھی رہائش کا حق دیا ہے جن سے رجوع کی گنجائش نہ ہو۔ فاطمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی بھی مخالفت کی ہے، کیونکہ سیدنا عمر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فاطمہ کی روایت کے خلاف حکم نقل کیا ہے۔ چنانچہ جس بنیاد پر سیدنا عمر نے فاطمہ کی روایت پر اعتراض کیا، وہ بالکل درست ہے اور فاطمہ کی روایت باطل ہے جس پر عمل کرنا اصلاً واجب نہیں ہے۔”
البتہ امام طحاوی اس امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ فاطمہ کی روایت کی ایک احتمالی توجیہ ایسی کی جا سکتی ہے جس سے قرآن کے ساتھ اس کا تعارض ختم ہو جائے۔ اس ضمن میں وہ امام شافعی ہی کی بیان کردہ توجیہ کو وسعت دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جس طرح اس بات کا امکان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو شوہر کے گھر میں رہائش نہ دلوانے کا فیصلہ اس کی تیز مزاجی اور زبان درازی کی وجہ سے فرمایا ہو، اسی طرح اسے نفقہ نہ دلوائے جانے کی وجہ بھی اسی چیز کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ یعنی چونکہ وہ ناشزہ تھی اور اپنے رویے کی وجہ سے اسے رہائش کی سہولت سے محروم کیا جا رہا تھا، اس لیے اسی اصول کے تحت اس کے شوہر کو اسے نفقہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سے بھی بری کیا جا سکتا تھا۔ یوں یہ پورا واقعہ ایک خاص استثنائی نوعیت کا حامل بن جاتا ہے جس سے مطلقہ ثلاثہ کے لیے نفقہ وسکنی کا عمومی شرعی حکم تو اخذ نہیں کیا جا سکتا، البتہ ایک تعزیری نوعیت کے فیصلے کے طور پر اس کی توجیہ کی جا سکتی ہے۔ (شرح معانی الآثار ۳/۷۱)
۲۔ قرآن مجید میں ’وَاُمَّھَاتُکُمُ اللاَّتِی اَرضَعنَکُم (النساء۲۳:۴) کے الفاظ میں بظاہر کسی تفصیل کے بغیر بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو اس پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ تاہم احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روایت کیا گیا ہے کہ ایک یا دو مرتبہ (عورت کا پستان) چوسنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب فی المصة والمصتان، رقم ۱۴۵٠)
امام طحاوی کے نزدیک اس روایت کی توجیہ یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق ابتدا میں قرآن مجید میں حرمت رضاعت کے لیے دس دفعہ دودھ پلائے جانے کی قید نازل کی گئی تھی، پھر بعد میں اسے منسوخ کر کے پانچ دفعہ دودھ پلائے جانے کو حرمت کی بنیاد قرار دیا گیا۔ (صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضعات، رقم ۳۵۹۷) امام طحاوی کی رائے میں اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ (چونکہ موجودہ قرآن میں ایسی کوئی قید مذکور نہیں، اس لیے) پانچ دفعہ کی قید بھی بعد میں منسوخ کر دی گئی اور مطلقاً کسی بھی مقدار میں بچے کو دودھ پلانے کو حرمت رضاعت ثابت ہونے کا موجب قرار دیا گیا۔ طحاوی اس قیاس کی تائید میں یہ نکتہ بھی پیش کرتے ہیں کہ لا تحرم المصة ولا المصتان کی روایت کے ایک راوی عروہ بن زبیر بھی ہیں، لیکن ان کا اپنا فتویٰ یہ تھا کہ بچے کے ایک قطرہ دودھ پینے سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ عروہ کا اپنی ہی نقل کردہ روایت کے خلاف فتویٰ دینا اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ان کے علم میں اس روایت کا منسوخ ہونا ثابت ہو چکا ہو۔ (شرح مشکل الآثار، ۱۱ /۴۸۵، ۴۸۶) ایک دوسری جگہ طحاوی نے سیدہ عائشہ کی روایت کے اس جملے کو کہ ’فتوفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہی فی ما یقرا من القرآن‘ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں پڑھے جاتے تھے) کو منکر قرار دیا ہے، کیونکہ اگر یہ بات درست ہو کہ کوئی آیت قرآن مجید کا حصہ ہے، لیکن موجودہ مصحف میں شامل نہیں تو کسی بھی حکم کے بارے میں یہ امکان ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ایسی آیت سے منسوخ ہو چکا ہے جو مصحف میں شامل نہیں۔ (مختصر اختلاف العلماء۲/۳۱۶، ۳۱۷)
۳۔ سورہ محمد میں اللہ تعالیٰ نے جنگی قیدیوں کے متعلق ہدایت دی ہے کہ فَامَّا مَنّاً بَعدُ وَامَّا فِدَاءً (محمد ۴:۴۷) یعنی گرفتار کرنے کے بعد یا تو انھیں احسان کے طور پر بلا معاوضہ چھوڑ دیا جائے اور یا ان سے رہائی کے عوض فدیہ وصول کیا جائے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ آیت اپنے ظاہر کے اعتبار سے قیدیوں کو قتل کرنے سے منع کرتی ہے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے کہ انھوں نے ایک جنگی قیدی کو اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے قتل کرنے سے انکار کر دیا۔ امام طحاوی اس آیت کی روشنی میں جمہور فقہاءکے موقف سے اختلاف کرتے ہیں جو قیدی کو قتل کرنے کے جواز کے قائل ہیں اور اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے استدلال کرتے ہیں کہ آپ نے، مثال کے طور پر، جنگ بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو قتل کر دیا تھا۔ طحاوی لکھتے ہیں کہ :
“اس کے متعلق یا تو یہ امکان ہے کہ یہ اجازت منسوخ ہو چکی ہے، اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا، اور یا یہ کہ منسوخ تو نہیں ہوئی، لیکن اس خاص واقعے تک محدود ہے۔”
طحاوی کی مراد یہ ہے کہ یہ عمل یا تو منسوخ ہو چکا ہے یا ایک خصوصی واقعہ ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص وجہ سے ان قیدیوں کو قتل کیا، لیکن یہ کوئی عمومی حکم نہیں ہے۔
۴۔ قضاءبالیمین مع الشاہد کی بحث میں امام طحاوی کا موقف، ائمہ احناف کی رائے کے مطابق، یہ ہے کہ اس ضمن میں ابن عباس کی روایت باعتبار سند قابل استدلال نہیں۔ نیز یہ ’البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر‘ کے عمومی اصول کے علاوہ قرآن مجید کی اس ہدایت کے بھی معارض ہے کہ فیصلہ کرنے کے لیے قاضی کو مدعی سے دو مرد گواہ یا ایک مرد اور دو عورتیں طلب کرنی چاہییں۔ (مختصر اختلاف العلماء۳/۲۴۲، ۲۴۳)
۵۔ بعض احادیث میں بیوی کو اپنے مال میں سے کسی کو تحفہ دینے کے لیے شوہر سے اجازت لینے کا پابند قرار دیا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، کتاب البیوع، ابواب الاجارة، رقم ۳۱۴۶)امام طحاوی فرماتے ہیں کہ قرآن مجید اور متعدد احادیث کی روشنی میں عاقل بالغ عورت کو اپنے مال پر مکمل مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں اور وہ اس میں کسی بھی قسم کے تصرف کے لیے شوہر سے اجازت لینے کی پابند نہیں ہے۔ اس لیے مذکورہ روایت ایک شاذ روایت ہے جس کی وجہ سے واضح آیات اور سنت ثابتہ کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں :
“کسی کے لیے کیسے روا ہو سکتا ہے کہ وہ قرآن مجید کی دو آیتوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متفقہ طور پر صحت کے ساتھ ثابت سنت کو ایک شاذ حدیث کی وجہ سے ترک کر دے جو ثابت ہی نہیں ہے؟”
امام طحاوی نے قرآن مجید کے ساتھ موافقت کے اصول کو متعارض روایات کے مابین ترجیح قائم کرنے کے لیے بھی برتا ہے۔ مثلا
۶۔ صلاة الخوف سے متعلق بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی امامت کرتے ہوئے دو رکعتیں جبکہ صحابہ کی دونوں جماعتوں نے آپ کے پیچھے صرف ایک ایک رکعت ادا کی۔ (سنن ابی داود، کتاب صلاة السفر، باب من قال یصلی بکل طائفة رکعة ولا یقضون، رقم ۱۲۴۶، ۱۲۴۷) چونکہ قرآن مجید کی رو سے حالت خوف میں نماز کو قصر کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور اس کے مطابق ہر شخص کے لیے دو دو رکعتیں ادا کرنا لازم ہے، اس لیے امام طحاوی لکھتے ہیں کہ جس حدیث کو کتاب اللہ کی نص رد کرتی ہو، اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ (شرح معانی الآثار، ۱/۳٠۹)
۷۔ صلاة الخوف ہی کی بعض روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نماز کی امامت کروائی کہ صحابہ کی ایک جماعت دشمن کے سامنے اور ایک آپ کے پیچھے کھڑی ہوگئی اور اور دونوں جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر تکبیر کہہ کر ابتدا ہی سے آپ کی اقتدا میں نماز میں شامل ہو گئیں، البتہ جو جماعت آپ کے پیچھے کھڑی تھی، وہ پہلی رکعت میں رکوع اور سجدے میں آپ کی اقتدا کرتی رہی، جبکہ دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی رہی۔ (سنن ابی داود، کتاب صلاة السفر، باب من قال یکبرون، رقم ۱۲۴٠) امام طحاوی لکھتے ہیں کہ یہ روایت قرآن مجید کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ طریقے کے مطابق دوسری جماعت کو شروع سے نہیں، بلکہ ایک رکعت ادا ہو جانے کے بعد امام کے ساتھ شریک ہونا چاہیے (النساء، ۴: ۱٠۲) جبکہ مذکورہ حدیث کے مطابق دونوں گروہ آغاز ہی سے جماعت میں شریک تھے۔ (شرح معانی الآثار، ۱/۳۱۵)
۸۔ اگر کوئی شخص حالت احرام میں ہو اور وہ کسی ایسے شخص کے شکار کیے ہوئے جانور کا گوشت کھانا چاہے جو محرم نہ ہو تو بعض احادیث میں اس کی ممانعت کی گئی ہے (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب تحریم الصید للمحرم، رقم ۱۱۹۳) جبکہ بعض میں اسے مباح قرار دیا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، کتاب المناسک، باب لحم الصید للمحرم، رقم ۱۸۵۱) امام طحاوی ان میں سے دوسری روایت کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قرآن مجید سے حالت احرام میں آدمی کے لیے جس چیز کی ممانعت معلوم ہوتی ہے، وہ جانور کو شکار کرنا ہی ہے نہ کہ شکار کا گوشت کھانا، (المائدہ ۵: ۹۵ ، ۹۶) اس لیے اگر کسی دوسرے شخص نے شکار کیا ہو تو محرم کے لیے اس کا گوشت کھانے کی ممانعت نہیں ہے۔ (شرح معانی الآثار ۲ /۱۷۵)
سابقہ صفحات میں کتاب وسنت کے باہمی تعلق کی بحث میں فقہ وحدیث کے جلیل القدر امام، ابوجعفر الطحاویؒ کے اصولی رجحانات کا جائزہ اور متعدد مثالوں کی روشنی میں ان کی توضیح پیش کی گئی ہے۔ اس بحث سے واضح ہوتا ہے کہ کتاب وسنت کے باہمی تعلق کے سوال کے حوالے سے امام شافعی اور حنفی اصولیین نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کے حق میں جو استدلال پیش کیا، امام طحاوی ان دونوں کے وزن کو محسوس کرتے تھے جس کا اظہار ان کے ہاں بہت سی مثالوں میں امام شافعی کے اصولی موقف کی طرف، جبکہ بہت سی دوسری مثالوں میں حنفی اصولیین کے موقف کی طرف جھکاؤ کی صورت میں ہوتا ہے۔
امام طحاوی کے ہاں ان دو متخالف رجحانات کی توجیہ دونوں زاویوں سے ممکن ہے۔ اس کی یہ تعبیر بھی کی جا سکتی ہے کہ وہ سنت کی تشریعی حجیت کے تناظر میں اصولی طور پر قرآن کی مراد کی تبیین میں احادیث کو فیصلہ کن حیثیت دینا چاہتے ہیں، چاہے اس کے ظاہری قرائن قرآن میں موجود ہوں یا نہ ہوں، لیکن بہت سی مثالوں میں جب آیات کی ظاہری دلالت اور متعلقہ احادیث کی دلالت کو دیکھتے ہیں تو دونوں کے ظاہری تفاوت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں پاتے۔ اس مشکل کے حل کے لیے وہ ترجیحاً یہ کوشش کرتے ہیں کہ آیات اور احادیث کے باہمی تعلق کی توجیہ اس طرح کی جائے کہ آیات کی ظاہری دلالت بھی برقرار رہے اور احادیث میں وارد زیادت وتخصیص کو بھی قرآن کے حکم میں تبدیلی یا نسخ کا مظہر قرار دیے بغیر اسے حکم کا حصہ بنایا جا سکے۔ یہاں تک ان کے زاویہ نظر پر امام شافعی کا رجحان غالب رہتا ہے۔ تاہم بعض مثالوں میں وہ تطبیق وتوجیہ کے مذکورہ طریقے کو موثر نہ پاتے ہوئے کتاب وسنت کے احکام کے باہمی تعلق کی توجیہ نسخ کے اصول پر کرنے کی گنجائش بھی باقی رکھتے ہیں اور بعض مثالوں میں کتاب اللہ کے معارض ہونے کی بنا پر اخبار آحاد کو بالکل رد کر دینے کا موقف بھی اختیار کر لیتے ہیں اور یوں اپنے اصولی منہج کے اختتام پر ان کا زاویہ نظر حنفی اصولیین کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
اس کے بالکل برعکس ان کے زاویہ نظر کی یہ توجیہ بھی بالکل ممکن ہے کہ وہ بنیادی اصول کے طور پر حنفی فقہاءکے اس موقف کو مبنی بر صواب سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید اپنی مراد کی وضاحت میں خود مستقل حیثیت رکھتا ہے اور سنت میں وارد کسی وضاحت کو قرآن کی تبیین قرار دینا اسی صورت میں درست ہے جب خود قرآن کا بیان فی نفسہ ذو الوجوہ اور محتمل ہو۔ اگر قرآن کا بیان بذات خود واضح ہو اور کسی پہلو سے محتاج وضاحت نہ ہو تو سنت میں وارد کسی بھی زیادت یا تخصیص کو، اگر وہ قابل اطمینان درجے میں ثابت ہو، قرآن کا بیان نہیں کہا جائے گا،بلکہ اسے نسخ اور تغییر کے اصول پر قبول کیا جائے گا۔ حنفی فقہاءکے موقف سے اس اصولی اتفاق کے بعد وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف حنفی فقہاءبہت سی مثالوں میں قرآن مجید کے ظاہری عموم کو بالکل قطعی سمجھ رہے ہیں، حالانکہ وہ اتنا قطعی نہیں اور دوسری طرف کئی مثالوں میں امام شافعی قرآن کے داخلی قرائن واشارات پر زیادہ توجہ دیے بغیر سادہ طور پر احادیث کو قرآن کا بیان قرار دینے کے اصول کا اطلاق کر رہے ہیں جس سے قرآن کی اپنی دلالت کی حیثیت ثانوی دکھائی دینے لگتی ہے، جبکہ ان مثالوں میں قرآن کی ظاہری دلالت میں اس گنجائش کو واضح کیا جا سکتا ہے جس سے احادیث میں وارد اضافے ظاہر قرآن کے منافی نہ رہیں۔ اس مرحلے پر ان کا جھکاؤ اصولی طور پر امام شافعی کے موقف کی طرف ہو جاتا ہے، تاہم ان کی اختیار کردہ پوزیشن میں حنفی اصولیین کے نقطہ نظر سے بھی کوئی اصولی اختلاف رونما نہیں ہوتا۔ البتہ اس سے اگلے مرحلے پر وہ بعض مثالوں میں قرآن کے بیان میں تخصیص کے داخلی قرائن کی وضاحت یا، متبادل امکان کے طور پر، سنت کے احکام کو قرآن کے ساتھ نسخ کے اصول پر متعلق کیے بغیر بالکل سادہ طور پر یہ قرار دیتے ہیں کہ قرآن کے ظاہری عموم سے اصل مراد وہی ہے جو سنت سے واضح ہوتی ہے۔ یوں ان کا اصولی موقف آخری نتیجے کے لحاظ سے امام شافعی کے نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
دونوں میں سے جو بھی تعبیر زیادہ درست ہو، یہ حقیقت بہرحال واضح ہوتی ہے کہ قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث اپنی نوعیت کے لحاظ سے اتنی سادہ نہیں ہے کہ کسی ایک رجحان کے مقابلے میں دوسرے رجحان کو فیصلہ کن اور قطعی انداز میں ترجیح دی جا سکے۔ دونوں زاویوں میں ایک منطقی وزن موجود ہے جو علمی وعقلی طور پر متاثر کرتا ہے اور بحث کو سنجیدگی اور گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرنے والے اکابر اہل علم دونوں کے وزن کو محسوس کرتے ہیں۔ اس بحث سے حنفی اصولیین کے زاویہ نظر کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے جنھوں نے امام شافعی کے، کتاب اللہ کے بیانات کو مطلقاً محتمل الدلالة قرار دے کر ان کی مراد کی تعیین میں احادیث کو فیصلہ کن حیثیت دینے کے موقف کے مقابلے میں قرآن کے بیانات کو، ان کی داخلی دلالت کے لحاظ سے محتمل الدلالة اور غیر محتمل الدلالة میں تقسیم کرنے اور کتاب اللہ کے ساتھ سنت کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے تبیین کے ساتھ ساتھ نسخ کے اصول کو بھی بروئے کار لانے کا موقف پیش کیا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کتاب اللہ کی دلالت کو اس کی مستقل حیثیت میں برقرار رکھا جائے اور کتاب وسنت کے باہمی تعلق کو متعین کرتے ہوئے ایسا اصولی موقف اختیار نہ کیا جائے جس میں کتاب اللہ کی ظاہری دلالت کی قدر وقیمت کو کم یا غیر اہم تصور کرنے کا پہلو مضمر ہو اور جس کا نتیجہ کتاب اللہ کی مراد متعین کرنے کے سوال کو سادگی کے ساتھ احادیث کے سپرد کر دینے کی صورت میں نکلتا ہو۔ حنفی اصولیین کے اس مضبوط علمی وعقلی موقف کے وزن کو محسوس کرتے ہوئے امام طحاو ی نے اصولی طور پر امام شافعی کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے بھی، اپنے دوسرے رجحان کے تحت بہت سی مثالوں میں کتاب وسنت کے تعلق کو زیادہ گہرے غور وخوض کے ساتھ اور اس نکتے کو ملحوظ رکھتے ہوئے متعین کرنے کی کوشش کی کہ کتاب اللہ کی ظاہری دلالت مجروح نہ ہو اور اس میں غیر متبادر تاویلات سے کام نہ لیا جائے۔ یہ اس بحث میں امام طحاوی کا بہت اہم حصہ (contribution) ہے جو بجا طورپر انھیں بڑے اصولی نظریہ سازوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔
(۱) غالباً طحاوی اس طرف متوجہ نہیں ہو سکے کہ آیت کو ظاہری مفہوم پر رکھتے ہوئے بھی شان نزول کی روایات کو درست مانا جا سکتا ہے، کیونکہ اگر نشے کی حالت میں سرے سے مسجد میں آنے ہی کی ممانعت کی گئی ہو تو اس سے نماز کی ممانعت بدرجہ اولیٰ ثابت ہوتی ہے۔
عمار خان ناصر صاحب نے ” جہاد ایک مطالعہ“ میں مولانا کی فکرِ جہاد کے بارے میں اگر چہ لکھا ہے کہ مولانا کی فکرِ جہاد میں ارتقا پایا جاتا ہے،1 لیکن آگے انھوں نے ” الجہاد فی الاسلام“ اور ” تفہیم القرآن“ کی تعبیرات کو تضاد اور پریشان خیالی سے موسوم کیا ہے۔2 مولانا نے ”الجہاد فی الاسلام“ میں ”مصلحانہ جہاد“ کے تصور کو جس اساس کھڑا کیا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو حکومتیں غیر الٰہی بنیادوں پر کھڑی ہیں، ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ اس نظریے اور مولانا کی بعد کی تحریروں میں عمار صاحب کو توافق اور یکسوئی نظر نہیں آرہی۔ مولانا کی تحریروں میں قانونی بحث موجود ہے، اس وجہ سے شوکت ِ کفر کو مولانا مودودی کا تخیل قرار دے کر ہدفِ تنقید بنا نا انصاف کے منافی ہے۔ علت القتال کی بحث عموماََتین آرا میں تقسیم کی جاتی ہے: شوکتِ کفر ، کفر، اور محاربہ ۔ موجودہ دور میں بیشتر لوگ مولانا کو مقدم الذکر رائے کا بانی باور کراتے ہیں۔ فقہ اسلامی میں داراالاسلام کا تصور مسلمانوں کی political theory اورpower theory کے طور پر موجود ہے لیکن اس کا دوسرا اہم پہلو قانونی ہے، جس کے بغیر دارالاسلام کا تصور ادھورا رہ جاتا ہے ۔ مزید برآں اگر قانونی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو الجھنوں کا نہ ختم ہونے والا باب کھل جاتا ہے۔ اس پر تفصیلی بحث اپنے مقام پر آرہی ہے، یہاں صرف یہ واضح کرنا ہے کہ نظری اور قانونی پہلوؤں کو الگ الگ رکھنا چاہیے۔ مولانا مودودی کے ہاں بھی جہاں غایت القتال شوکتِ کفر ہے، وہ نظری تناظر میں ہی ہے۔ علاوہ ازیں پچھلی بحث میں واضح کیا گیا تھا کہ بعض دوسرے علما میں کی بھی یہی رائے ہے۔ اس کی وجہ سے زیرِ نظر حصہ جناب جاوید احمد غامدی (پ: ١٩٥١ء) کی آرا پر مشتمل ہے۔ غامدی صاحب بھی ایک دور میں اسی نظریے کے حامل رہے ہیں۔ عمار صاحب نے اپنی فاضلانہ تحقیق میں غامدی صاحب کی رائے نقل کرتے ہوئے ان کی ابتدائی دور کی آرا کو بالکل نظر انداز کردیا، جب کہ مولانا مودودی کے ابتدائی دور کو پیشِ نظر رکھ کر آخر میں اس کو تضاد اور پریشان خیالی سے تعبیر کیا ہے۔ 3
چنانچہ ” جہاد ایک مطالعہ“ میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غامدی صاحب روزِ اول سے اسی فکر کے حامل ہیں۔ مولانا مودودی پر جو تحقیق کی گئی ہے ، اسی طرح غامدی صاحب پر ایک تحقیقی مطالعہ کی ضرورت ہے۔ یہ تحریر اس کا ایک کا آغاز سمجھا جائے، لیکن ایک مشکل در پیش ہے کہ غامدی صاحب کے دونوں ادوار کی آرا میں واضح تضادات کو ان کے ہاں فکر ی ارتقا سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس ” ارتقا“ کے اصول ابھی تک معلوم نہ ہوسکے کہ کس طرح فکر یکسر تبدیل ہوسکتی ہے4 ۔ مزید یہ کہ غامدی صاحب دونوں ادوار میں قطعیت کے ساتھ کہتے رہے ہیں کہ ” میں ہمیشہ سے یہی کہتا آرہا ہوں“۔5 فکر میں اتنی بڑی تبدیلی کے ہوتے ہوئے یہ اصرار فی الواقع پریشان خیالی ہے۔ تاہم ”اشراق“ کی پرانی فائلوں سے غامدی صاحب کے بعض اقتباسات پیش کیے جائیں گے، جس میں انھوں نے اسی فکر کا اظہار کیا ہے جو مولانا مودودی نے “الجہاد فی الاسلام“ میں پیش کی ہے۔ غامدی صاحب کے اس دور کی فکر اصلا مولانا مودودی ہی سے ماخوذ نظر آتی ہے۔6 زیرِ نظر تحریر میں ہمارے پیشِ نظر صرف غامدی صاحب کی فکرِ جہاد اورتصورِ غلبۂ دین ہیں، اس لیے بحث انہی مباحث تک محدود رکھی جائے گی۔
غامدی صاحب کے تصورِ غلبۂ دین اور بیسویں صدی کی اسلامی تحریکوں کے تصور میں سرِ مو فرق نہیں، البتہ نصوص سے استدلال اور بعض نصوص کی تعبیر اور تشریح میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن بنیاد ی نظریہ کے ساتھ متفق ہیں۔ یعنی غامدی صاحب کو دین غالب کرنے کی تعبیر سے کوئی اختلاف نہیں لیکن اپنی ہم عصر مسلم فکر کے ساتھ اس بات میں مختلف الخیال نظر آتے ہیں کہ غلبۂ دین کے لیے جن نصوص سے وہ استدلال کرتے ہیں، وہ درست نہیں۔ غامدی صاحب کے نزدیک اس کے برعکس غلبۂ دین کے لیے دوسری قرآنی آیتیں ہیں، جو غلبۂ دین کا قرآنی مستدل ہے۔ غامدی صاحب نے اس کا اظہار ڈاکٹر اسرار احمد (٢٠١٠ء-١٩٣٢ء) کے تصورِ غلبۂ دین پر نقد کرتے ہوئے کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
” غلبۂ دین کے معنی، قرآن مجید کی رو سے یہی ہیں کہ مسلمانوں کا سیاسی اقتدار دینِ خداوندی کی حاکمیت کو پورے شعور اور کامل ارادے کے ساتھ تسلیم کرلے۔ زندگی کے ہر شعبے میں قرآن و سنت کی بالادستی قائم ہوجائے۔ دین کے جو احکام اجتماعی زندگی میں نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ فی الواقع نافذ ہوں۔ قرآن و سنت کے خلاف ہر چیز کالعدم قرار پائے۔ نظامِ اجتماعی، اصول و فروع، ہر چیز میں نبیﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا تابع بن جائے اور مسلمان حکومت اس جہاد و قتال کے لیے تیار ہوجائے جس کی غایت قرآنِ مجید میں یہ بیان کی گئ ہے کہ وہ قومیں جو دینِ حق کو اختیار کرنے سے گریزاں اور فتنہ ور فساد کے درپے ہوں، انھیں منصبِ امامت سے معزول کردیا جائے، ان کی خود مختاری ختم ہوجائے اور وہ اسلام کے پیروکاروں کے زیرِ دست بن کر رہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین کے اس غلبہ کی جدوجہد، قرآن و سنت کی رو سے، ہر مسلمان پر اس کی استطاعت کے مطابق اور اس کی صلاحیت کے لحاظ سے بہرحال واجب ہے۔ اس حکم کا پہلا مرحلہ، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، خود مسلمان معاشرے میں دین کے نفاذ اور دوسرا مرحلہ دنیا کی قوموں پر اس کا سیاسی غلبہ کا ہے۔ پہلے مرحلے کا حکم سورۃ آلِ عمران میں بیان ہوا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
وَلْتَكُن مِنكُمْ أُمَۃ يَدْعُونَ إِلَی الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ (سورۃ آل عمران،آیت ١٠٤)
[اور تمہارے اندر ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے۔]
اس آیت میں جیسا کہ اس کے ترجمہ سے واضح ہے، مسلمانوں کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام کے لیے مقرر کریں کہ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائے، برائی سے روکے اور بھلائی کا حکم دے۔ آیت میں اس کے لیے 'امر' اور 'نھی' کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ اگر 'یدعون الی الخیر' پر معطوف نہ ہوتے تو عربیت کی رو سے ان کے معنی محض وعظ و نصیحت کے بھی ہوسکتے تھے۔ لیکن 'یدعون الی الخیر ' کے بعد 'امر بالمعروف' اور 'نھی عن المنکر' کا منشا یہی ہے کہ یہ کام اختیار و قوت کے ساتھ کیا جائے، جو ظاہر ہے، اس کے بغیر ممکن نہیں کہ یہ گروہ امت کی طرف سے سیاسی اقتدار کا حامل ہو۔ چنانچہ نبیﷺ کے بعد مسلمانوں نے اسی ارشاد کی تعمیل میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام قائم کیا۔ بعد میں جب یہ خلافت منہاجِ نبوت سے ہٹ گئ تو ہمارے علما و صلحا مسلسل اسے اس راستے پر لانے کی کوشش کرتے رہے۔ اس وقت دنیا کے دسیوں ممالک میں اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ان ممالک میں ان کی خلافت قائم ہے، لیکن بد قسمتی سے منہاجِ نبوت کہیں پر بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے، قرآنِ مجید کے اس حکم کی رو سے، ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ انفرادی یا اجتماعی مساعی کے ذریعے سے اسے اس راستے پر لانے کی جدوجہد کرے۔ دوسرے مرحلے کا حکم سورۃ توبہ میں آیا، قرآن کا ارشاد ہے:
قَاتِلُوا الذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللہ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرمُونَ مَا حَرمَ اللہ وَرَسُولُہ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَق مِنَ الذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتی يُعْطُوا الْجِزْيَۃ عَن يَدٍ وَھمْ صَاغِرُونَ (سورۃ توبہ،آیت ٢٩)
[لڑو ان اہلِ کتاب سے جو نہ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لاتے، نہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے، اسے حرام ٹھہراتے اور نہ دینِ حق کی پیروی کرتے ہیں۔ ان سے لڑو، یہاں تک کہ وہ مغلوب ہوکر جزیہ ادا کریں اور زیرِ دست بن کر رہیں۔]
یہ آیت اپنے مدعا میں بالکل صریح ہے۔ اس میں صاف بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ دینِ خداوندی کو اپنا دین بنانے اور اس کے قوانین کی بالادستی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ اس کا قطعا کوئی حق نہیں رکھتے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی زمامِ اقتدار ان کے ہاتھ میں ہو۔ اہلِ ایمان، اگر اقتدار کی طاقت اور جہاد کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اتمامِ حجت کے بعد ان کے خلاف جنگ کریں اور زمین کے ہر حصے میں ان کی خود مختاری و بالادستی ختم کرکے انھیں مجبور کردیں کہ وہ نظامِ صالح کے تابع بن کر زندگی بسر کریں۔ یہی آیت ہے، جس کے حکم کی پیروی میں نبیﷺ اور صحابہ کرام نے عرب کے اہلِ کتاب اور روم و ایران کی حکومتوں کے خلاف جہاد کیا اور دینِ خداوندی کو ان کے بحر و بر اور دشت و جبل پر غالب کردیا۔ اس کا حکم، لاریب، آج بھی باقی اور قیامت تک باقی رہے گا۔ مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ ہر وقت اس جہاد کے لیے تیار رہے اور اصحابِ امر جب اس کے لیے پکاریں تو زمین کے ذرے ذرے پر دینِ حق کی فرماں روائی قائم کرنے کے لیے نکل کھڑا ہو۔“7
یہ مقدمہ دراصل غامدی صاحب نے ڈاکٹر اسرار احمد کے طریقہ کار پر نقد کرتے ہوئے لکھا ہے۔ غامدی صاحب غلبۂ دین کے لیے مذکورہ دو آیات کو اساس قرار دیتے ہیں جب کہ ڈاکٹر اسرار صاحب دیگر آیات (سورۃ صف: ٩ ، سورۃ شوریٰ: ١٣) سے استدلال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جن آیات سے استدال کرتے ہیں، ان کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کے مشن کے ساتھ خاص تھیں، جب کہ سطورِ بالا میں مذکور ہوا کہ غامدی صاحب کے بیان کردہ استدلال کے مطابق یہ حکم قیامت تک باقی رہے گا۔ مذکورہ دو مراحل کو مزید واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” غلبۂ دین کا جو مفہوم ہم نے اوپر اس بحث کے ابتداء میں آلِ عمران آیت ١٠٤ اور توبہ ٢٩ کی رو سے بیان کیا ہے، اس میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ یہ کوئی مطلق حکم نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق مسلمانوں کی اس جماعت سے ہے جو اپنے دائرہ عمل میں سیاسی خود مختاری رکھتی ہو۔“8
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
”[دین کو غالب کرنے کا] فرض ہونا، بے شک قرآن و سنت کی صریح نصوص سے ثابت ہے۔ دین کی رو سے اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ انھیں اگر معاشرے میں سیاسی اقتدار حاصل ہو تو وہ نہ صرف یہ کہ ساری دنیا میں میں دینِ حق کو غالب رکھیں، بلکہ پوری دنیا میں اسے غالب کرنے کی جدوجہد کریں۔“ 9
یہاں پر اصل زور جہاد میں حکمران کی اجازت پر دیا جارہا ہے ، لیکن یہ واضح ہوچکا ہے کہ غامدی صاحب کو غلبۂ دین کے اس بنیادی تصور کے ساتھ اتفاق ہے۔مزید برآں غامدی صاحب کو صرف غلبۂ دین کو نصب العین بنانے سے اختلاف ہے۔ غلبۂ دین کی جدوجہد کو وہ فرض مانتے ہیں، اس کو نصب العین نہیں مانتے، لیکن یہ کوئی اتنا بڑا فرق نہیں ہے۔ غامدی صاحب پر ایک سوال میں یہ اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ آپ حکومت ِالہٰیہ کے قیام کو دین کا نصب العین نہیں سمجھتے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلامی حکومت قائم کرنا10 آپ نے نزدیک ضروری نہیں ہے۔ جواب میں لکھتے ہیں:
” آپ نے میرے موقف کو بالکل غلط سمجھا۔ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جدوجہد میرے نزدیک، مسلمان معاشرے کے ہر فرد پر واجب ہے اور ہر اسلامی حکومت کے لیے، میرے نزدیک، ضروری ہے کہ اگر اس کے پاس طاقت ہو تو ساری دنیا پر دین غالب کرنے کی سعی کرے۔11 میں نے صرف اس کے نصب العین ہونے کا انکار کیا ہے۔ واجاب اور نصب العین کا فرق ایسی چیز نہیں، جسے سمجھنے میں کسی کو دقت ہو۔“12
آگے فلسفہ ہجرت کو یو ں واضح کرتے ہیں:
” قرآن و حدیث کی رو سے ہجرت یہ ہے کہ مسلمان اس مقام کو چھوڑ کر جہاں اس کے لیے دین پر قائم رہنا جان جو کھوں کا کام بن گیا ہو، ایک ایسے مقام کی طرف منتقل ہوجائے جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیرا ہوسکے۔ اس حکم کی رو سے اہلِ ایمان کی جماعت کا اقتدار اگر کسی خطہ ارض میں قائم اور اس کی طرف جانے کی راہ کھلی ہو یا کسی علاقے میں آزاد مسلمان ریاست کا قیام ممکن ہو تو کافر حکومتوں کی عمل داری میں رہنا جائز نہیں ہے۔ کوئی شدید مجبوری اور کوئی غیر معمولی عذر مانع نہ ہو تو اس صورت میں اہلِ ایمان کے لیے اللہ کا حکم یہی ہے کہ وہ دارالکفر سے ہجرت کر جائیں۔“13
غامدی صاحب نے جہاد کو تین صورتوں میں جائز قرار دیا ہے: اولا، غیر مسلم حکومتوں کے خلاف، دفاع، انتقام، مسلمانوں کی حفاظت یا غلبۂ دین کی غرض سے، ثانیا، باغیوں کی سرکوبی کے لیے، اگر وہ مصالحت کے لیے تیار نہ ہو، ثالثاَ اس مسلمان حکمران کے خلاف جس نے کھلے کفر کا ارتکاب کیا ہو۔ یہاں غامدی صاحب صاحبِ اقتدار امیر کی سرپرستی میں جہاد پر بہت زور دیتے ہیں۔ اور ان کی یہ تاکید لوگوں کو انوکھی لگتی ہے، حالانکہ غامدی صاحب نے اسی مضمون میں ڈاکٹر اسرار صاحب پر تنقید کرتے ہوئے فقہاے کرام ہی کے حوالے پر یہ شرط بیان کی کہ ان کے ہاں جہاد امیر کی اطاعت میں ہی کیا جاسکتا ہے۔14
اوپر کے سطور میں غامدی صاحب نے کافر حکومتوں کے خلاف جہاد کو جائز قرار دے چکے ہیں۔ تاہم ان کی تحریروں سے واضح ہے کہ کافر حکومتوں سے مراد کیا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
” سوال: جو مسلمان یورپ، امریکہ اور دوسرے غیر مسلم ممالک میں مقیم ہیں ان کو اپنے دین کی حفاظت کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
جواب: اس سوال میں یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ مسلمان کے لیے بغیر کسی عذر کے دارالکفر میں رہنا جائز ہے، میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ دارالاسلام قائم ہو اور اس کی طرف ہجرت کی راہ کھلی ہو، تو قرآن مجید کی رو سے کسی مسلمان کے لیے دارالکفر میں رہنا جائز نہیں ہے۔ قرآن نے بالصراحت فرمایا ہے کہ اس طرح کے لوگوں کی سزا جہنم ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ نساء کی آیت ٩٧۔ دارالمسلمین کا حکم بھی، ہمارے نزدیک یہی ہے۔ چنانچہ ہم تو ان مسلمانوں سے یہی کہیں گے کہ وہ جلد سے جلد اپنے وطن واپس آئیں۔ جہاں وہ رہ رہے ہیں، وہاں ان کی زندگی کا ہر لمحہ معصیت ہے۔ جو دینی رہنما ہر دوسرے ماہ تبلیغی دورے کے لیے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں، ان کی بے خبری پر افسوس ہے کہ وہاں کے مسلمانوں کو اللہ کا یہ حکم بتانے کے بجائے انھیں دارالکفر میں اسلامی زندگی بسر کرنے کے آداب بتاتے ہیں۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مسلمان کے لیے غیر مسلم ممالک میں دین کی حفاظت، بالخصوص اپنی آئندہ نسل کے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ یہ بات اب وہ لوگ بھی مانتے ہیں جو پہلے اپنے قیام کو تبلیغی مشن قرار دیتے تھے۔“15
ان کے ہاں یہ بالکل واضح ہے کہ موجودہ دور میں غیر مسلم ممالک کی حیثیت دارالکفر ہی کی ہے۔ اور اس میں رہنا گناہ اور مستوجبِ جہنم ہے۔
یہ واضح کیا گیا کہ غامدی صاحب غلبۂ دین کے دو مراحل میں تقسیم کرتے ہیں: دین کا غلبہ مسلم معاشرے میں اور پر پوری دنیا میں ۔ غیر مسلم ممالک میں تبلیغِ دین کے حوالے سے غامدی صاحب کی رائے میں کافی شدت پائی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ پوری دنیا میں غلبۂ دین کا ذریعہ جہادہی کو قرار دیتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
” سوال: بعض لوگ غیر مسلموں کو دین کی تبلیغ کے لیے ان ممالک کا سفر کرتے ہیں، ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: میرے نزدیک یہ بھی درست نہیں ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ پہلے دارالمسلمین کو جو ان کا وطن ہے دارالاسلام بنانے کی جدوجہد کریں اور اس میں دینِ حق کا ہر شعبہ زندگی پر غالب کردیں۔ اس کے بعد صحابہ کرام کی طرح کفر کے خلاف جہاد کریں اور دنیا سے اس کا سیاسی غلبہ ختم کردیں۔ پھر دارالکفر میں رہنے والے غیر مسلموں کو اللہ کا دین پہنچائیں۔ وہ دیکھیں گے کہ ید خلون فی دین اللہ افواجا، کا منظر ایک مرتبہ پھر ان کی نگاہوں میں پھر جائے گا ان شاءاللہ۔ دین کی تبلیغ کا صحیح طریقہ یہی ہے۔ نبیﷺ اور صحابہ کرام نے اسے ہی اختیار کیا اور عرب و عجم پر دین کو غالب کردیا۔ ہم مسلمانوں کو اسی طریقے پر قائم رہنا چاہیے۔“16
جہاں مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہوجائے، پہلے مرحلے میں وہاں دین نافذ کریں اور اس کے بعد پوری میں اس کی تنفیذ کریں۔ اس شرط کے مطابق پاکستان کی اصولی حیثیت واضح کرنے کے لیےذیل میں ایک تحریر نقل کی جارہی ہے جس سے اور بھی مسائل کی تنقیح ہوجاتی ہے۔غلبۂ دین کے لیے خطہ زمین پر اقتدار کی شرط پاکستان سے پوری ہوجاتی ہے۔ اس کے اطلاقات اور نکلنے والے نتائج پر مزید غور کی ضرورت ہے۔ لکھتےہیں:
” پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا یا اسے بنانے والے یہاں ایک لادینی جمہوری ریاست قائم کرنا چاہتے تھے؟ ہم نہیں سمجھتے کہ اس بحث کے جاری رہنے سے اب کوئی فائدہ حاصل ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ان رہنماؤں کے شکر گزار ہوں جنھوں نے یہ ملک ہمیں لے کردیا۔ ١٩٤٧ء کے ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک خود مختار ریاست کا قیام خود اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کے مخالفوں کی سب کاوشوں کے باوجود مؤرخ کا قلم اسے ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتا رہے گا۔ رہی یہ بات کہ پھر اس ملک میں نفاذِ دین کا مطالبہ ہم کس بنا پر کریں گے؟ تو اس کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس کے لیے یہ مقدمہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ ملک چوں کہ اسلام کے نام پر بنا تھا، اس لیے یہاں اسلام نافذ ہونا چاہیے۔ ہمارا مقدمہ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ ہونا چاہیے کہ ہم چوں کہ مسلمان ہیں اور ہمیں اس ملک میں اللہ کی عنایت اس سیاسی خود مختاری حاصل ہے، اور چوں کہ دین کا قطعی حکم ہے کہ مسلمان اگر کسی سرزمین میں سیاسی طور پر خود مختار ہوں تو وہ وہاں اسلامی قانون نافذ کریں اور اپنی حیاتِ اجتماعی کے ہر شعبہ میں احکامِ دین کو بالاتر رکھیں، اس لیے یہاں اللہ کا دین نافذ ہونا چاہیے۔ اس ملک کے اربابِ اقتدار اور سیاسی زعما سے ہمارے مطالبے کی بنیاد درحقیقت یہ ہے۔ ہمارے اس مطالبے کے جواب میں ہمارے مخاطبین کے سامنے صرف تین راستے رہ جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے مسلمان ہونے کا انکار کردیں۔ دوسرا یہ کہ وہ قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ اسلام ان سے اس بات کا تقاضا نہیں کرتا۔ تیسرا یہ کہ وہ عملا اس تقاضے کو پورا کرنے سے گریز کرتے رہیں۔ پہلی صورت میں ان کی قیادت و سیادت، ان شاءاللہ، لمحوں میں ختم ہوجائے گی۔ دوسری صورت میں ان کی ہزیمت اور بے بسی کا تماشا، اگر اللہ نے چاہا، تو زمین و آسمان دیکھیں گے۔ تیسری صورت میں ہم انہیں بتائیں گے کہ وہ اس طرح، درحقیقت، کفر کا ارتکاب کررہے ہیں۔ ان کا اسلام قیامت میں قبول نہ کیا جائے گا۔ وہ اپنے آپ کو اس آگ سے بچانے کی کوشش کریں جو دلوں تک پہنچے گی اور جس میں مجرم ستونوں کے ساتھ بندھے ہوں گے۔ وہاں ان کا کوئی مدد گار نہ ہوگا۔ وہ اس سے نکلنا چاہیں گے، لیکن کوئی راہ نہ پائیں گے۔ وہ اس دن سے ڈریں، جس دن گریز کے سارے راستے بند اور فرار کی سب راہیں مسدود ہوجائیں گی اور قرآن اپنی اس حجت کے ساتھ ان کے سامنے آئے گا کہ:
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَہ فَأُوْلَئِكَ ھمُ الْكَافِرُونَ (سورۃ المائدہ، آیت 44)
[اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی کافر ہیں۔“] 17
پاکستان کی حیثیت کو مزید واضح کرتے ہیں، جس سے غلبۂ دین کی جدوجہد کے لیے بیا ن کی گئی شرط کا اطلاق مزید آسان ہوجاتا ہے کہ اگر کسی خطے پر مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہوجائے تو ان کا فرض ہے کہ ساری دنیا پر دین غالب کردیں۔ یہاں پر بھی ” شہادتِ حق“ کا اعادہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاستِ پاکستان میں سیاسی خود مختاری حاصل کرلینے کے بعد یہ بہ حیثیتِ قوم ہمارا فرض ہے کہ ہم یہاں اپنے نظام پر دینِ حق کی بالادستی قائم کریں۔ اس ملک میں ہر فیصلہ جو کیا جائے اور ہر حکم دیا جائے۔ اس کے بارے میں یہ بات پہلے طے ہونی چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں اور ہر وہ فیصلہ اور ہر وہ حکم جو ہمارے لیے قرآن و سنت میں بیان ہوا ہے، اسے یہاں بہرحال نافذ قرار پانا چاہیے۔ اس قوم کی معاشرت، اس کی سیاست، اس کا قانون، اس کی تہذیب، اس کی ثقافت غرض ہر چیز کو لازما ان اصول و ضوابط کا تابع ہونا چاہیے جو اس کے لیے اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اس کے رسول محمدﷺ کی سنت میں بیان ہوئے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو اس سرزمین میں اگر کبھی حاصل ہوگئی تو یہاں وہ انقلاب برپا ہوجائے گا، جسے اس زمانے میں بعض اہلِ علم نے ” اسلامی انقلاب“ کی اصطلاح سے تعبیر کیا ہے۔ یہ انقلاب اس ملک میں بھی برپا ہونا چاہیے اور اس کے بعد اس پوری امت میں بھی جسے ہم امتِ مسلمہ کہتے ہیں تاکہ شہادتِ حق کی جو ذمہ داری بہ حیثیت امت ہم پر عائد کی گئی ہے، وہ فی الواقع پوری ہوجائے اور قیامت کے دن یہ امت اپنے پرودگار کے حضور میں سرخ رو قرار پائے۔“18
” میزان“ کے سلسلہ میں ”دینِ حق“ کے عنوان سے مضمون میں مسلمانوں سے دین کے تقاضوں کو انفرادی اور اجتماعی کے مابین تقسیم کرتے ہیں۔ ثانی الذکر تقاضوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
”دوسری قسم کی تقاضے یہ ہیں: ١ التزامِ جماعت ٢ سمع و طاعت ٣ ہجرت ٤ جہاد۔ دین کے یہ تقاضے اہلِ ایمان کی اس حالت سے متعلق ہیں، جب انھیں کسی سر زمین میں سیاسی خود مختاری حاصل ہوجائے۔ اس صورت میں جو پہلا حکم انھیں دیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ منتشر بھیڑ کی صورت میں نہ رہیں، بلکہ ایک منظم جماعت کی حیثیت سے اپنی ریاست کا ایک باقاعدہ نطام قائم کریں جو انھیں ہمہ وقت معروف پر قائم رکھے اور منکر سے روکنے کی کوشش کرے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّۃ يَدْعُونَ إِلَی الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنكَر (سورۃ آل عمران، آیت 104)
[اور تمارے اندر ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو تمھیں خیر کی دعوت دے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے۔]
اس طرح کی حکومت اگر قائم ہوجائے تو اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے ساتھ وابستہ رہیں اور اس سے کسی حال میں الگ نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جسے اسلامی اصطلاح میں التزامِ جماعت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔“19
آخری تقاضے، جہاد، کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
” نبیﷺ کے بعد اب ہمارے لیے اس شہادت کا طریقہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان پہلے اپنی ریاست میں ایک نظامِ حق عملا قائم کریں تاکہ اس کے ذریعے سے یہ حقیقت دنیا کی ہر قوم پر واضح ہوجائے کہ اسلام کیا ہے اور وہ بنی آدم سے ان کی انفرادی ور اجتماعی زندگی میں کن باتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے عقائد و اعمال اور اس کی معاشرت و سیاست ہر چیز اس طرح لوگوں کے سامنے آجائے کہ وہ اسے آنکھوں سے دیکھ کر یہ معلوم کرلیں کہ اسلام کا باطن و ظاہر کیا ہے اور اسے یہ حق کیوں حاصل ہے کہ صرف وہی اس زمین پر دینِ حق قرار پائے۔ اس شہادت کے بعد اگر اہلِ کفر اس دین کو ماننے یا کم سے کم اس کی سیاسی بالادستی قبول کرلینے کے لیے تیار نہ ہوں تو حکم ہے کہ اہلِ ایمان اگر طاقت رکھتے ہوں تو ان کے خلاف جہاد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
قَاتِلُوا الذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللہ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرمُونَ مَا حَرمَ اللہ وَرَسُولُہ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَق مِنَ الذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتی يُعْطُوا الْجِزْيَۃ عَن يَدٍ وَھُمْ صَاغِرُونَ (سورۃ توبہ، آیت 29)
[لڑو ان اہلِ کتاب سے جو نہ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لاتے، نہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے، اسے حرام ٹھہراتے اور نہ دینِ حق کی پیروی کرتے ہیں۔ ان سے لڑو، یہاں تک کہ وہ مغلوب ہوکر جزیہ ادا کریں اور زیرِ دست بن کر رہیں۔]
رسول اللہﷺ کے بعد آپ کے صحابہ نے یہ ذمہ داری اسی طرح ادا کی اور دینِ خداوندی کو اس وقت متمدن دنیا کے ایک بڑے حصے پر غالب کردیا۔“ 20
اُس دور کے حالات کے مطابق غامدی صاحب کی پوزیشن واضح ہے۔ اس میں اور مولانا مودودی کی ”الجہاد فی الاسلام“میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آتا۔ تاہم یہ واضح کردیا گیا ہے کہ بعض حضرات کے خیال میں موجودہ دور میں شوکتِ کفر کو علت القتال قرار دینے کے بانی مولانا مودودی ہیں، ان میں غامدی صاحب کے تلامذہ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ یہ حضرات اپنے استاد گرامی کو مولانا مودودی کے ساتھ موازنہ میں پیش کرکے یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ کی فکر درست نہیں ہے، لیکن غامدی صاحب کو اس باب میں مکمل طور پر نظر انداز کردیتے ہیں کہ کبھی وہ بھی اس فکر کے حامل رہے ہیں۔ 21 ؎
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی
(۱) جہاد ایک مطالعہ، محمد عمار خان ناصر لاہور: المورد ادارہ علم و تحقیق، نومبر ۲۰۱۳ء ص ٣٣٤
(۲) ایضا، 392
(۳) عمار صاحب کے علاوہ غامدی صاحب کے دیگر تلامذہ بھی غامدی صاحب کو اس معاملے میں نظر انداز کرتے ہیں کہ پچھلے دور میں ان کی کیا رائے رہی ہے۔ مولانا مودودی کی فکر کا مجموعی قانونی تجزیہ کے بجائے چند تحریروں پر انحصار کرتے ہوئے رائے قائم کی جاتی ہے، جب کہ اپنے استاد گرامی کو اس سے مستثنی قرار دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آصف افتخار کا غیر مطبوعہ مقالہ دیکھیے:
نیز دیکھیے:
(۴) اگر غامدی صاحب "فکری ارتقا" کے اصول پیش کریں تو بہت ساری الجھنیں دور ہوجائیں گی۔ کسی صاحبِ علم کی آرا میں تبدیلی آنا انہونی بات نہیں ، لیکن جو تبدیلی غامدی صاحب کے یہاں پائی جاتی ہے، اس کواصولوں کے تحت واضح کرنا ضروری ہے۔
(۵) اس کےلیے کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے۔ غامدی صاحب کی تقریبا ہر گفتگو میں یہ بات ہوتی ہے۔ افغان جہاد کے بارے میں غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں کا موقف بالکل واضح تھا۔ دیکھیے: ماہنامہ ''اشراق'' لاہور، (مئی ١٩٨٦ء)، ص٣١-٣٢۔ جہادِ افغانستان میں جنرل ضیاءالحق کی پالیسی پر ان کی مدح میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں: ''اشراق''( ستمبر ١٩٨٨ء)، ص ٦-٨؛ خورشید احمد ندیم، آج کا افغانستان، ''اشراق'' (ستمبر ١٩٨٩ء)، ص ٧-١٠۔ اب غامدی صاحب اس کو فساد قرار دے کر کہتے ہیں کہ اس وقت افغان جہاد کے خلاف تنہا آواز میری تھی۔ اس میں پریشان خیالی یہ ہے کہ ایک جانب ان کے ہاں فکر میں اتنی بڑی تبدیلی کو ارتقا سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن اس کا اقرار کرنے کے بجائے بالعکس مسلسل اصرار کررہے ہیں کہ جہادِ افغانستان فساد تھا اور ''میری ہمیشہ سے یہ رائے رہی ہے"۔ سماء ٹی وی، غامدی کے ساتھ، ٢٨ فروری، ٢٠١٤، بہ حوالہ: نادر عقیل انصاری، صدر ضیاء الحق، افغان جہاد، اور غامدی صاحب کا ''بیانیہ، :مشمولہ سہ ماہی ''جی'' لاہور جولائی اکتوبر ٢٠١٣ء ص ١١٧؛ Islam, Jihad and Taliban، یوٹیوب پر دیکھیے، اس میں غامدی صاحب نے یہ جملہ کئی بار دہرایا ہے۔
(۶) تقریباََ چوبیس سال کی عمر ] ١٩٧٥ء میں [میں غامدی صاحب نے ڈاکٹر ممتاز احمدکو انٹرویو د یتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے تعبیرِ دین مولانا مودودی سے سیکھی نہیں ہے، لیکن مجھے اس سے اتفاق ہے۔ اگر وہ بعد میں مولانا سے الگ بھی ہوگئے لیکن شعور ی یا غیر شعوری طور پر مولانا مودودی کی فکر ہی کے زیرِ اثر رہے۔ لکھتے ہیں:
” مجھے مولانا مودودی کی تعبیرِ دین سے اتفاق ہے لیکن یہ تعبیرِ دین میں نے مولانا مودودی سے نہیں سیکھی بلکہ قرآن و حدیث کے آزادانہ مطالعہ سے براہِ راست حاصل کی ہے۔ بعد میں مولانا مودودی کی تصنیفات پڑھیں تو معلوم ہوا کہ مولانا بھی تو اسی طرح سمجھتے ہیں جیسا کہ میں نے سمجھا ہے۔ پھر جب ان میں بھی وہی بات دیکھی جو میں نے سمجھی تھی تو ان کے ساتھ شامل ہوگیا لیکن بعص مسائل پر مجھے مودودی صاحب سے اختلاف بھی ہے اگر چہ وہ بنیادی مسائل نہیں ہیں۔“
ممتاز احمد، دینی مدارس: روایت اور تجدید علما کی نظر میں (اسلام آباد: ایمل مطبوعات، ٢٠١٢ء) ص ٧٣
(۷) جاوید احمد غامدی، غلبہ دین کی جدّوجہدـــ اہم مباحث، ماہنامہ اشراق لاہور، ستمبر ١٩٨٥ء، ص ٨-٩
(۸) ایضا، ٢٣
(۹) اشراق، جنوری 1988، ص 55
(۱۰) یہ بات ذہن نشین کریں کہ غامدی صاحب جن چیزوں کو آج شریعت کہتے ہیں اس دور میں ایسا نہیں تھا، ان کی تحریروں سے واضح ہے کہ دین کے بارے میں ان کا نقطۂنظر شعوری یا غیر شعوری طور پر مولانا مودودی کے زیر اثر رہا۔
(۱۱) استطاعت کی یہ بحث مولانا مودودی نے بالکل اسی تناظر میں اٹھائی ہے۔ دیکھیے:
سیّد ابولاعلیٰ مودودی، الجہاد فی الاسلام لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، جون ١٩٩٦ء، ص ١٠٤
(۱۲) ماہنامہ "اشراق " لاہورجولائی ١٩٨٦ء، ص ١٤-٢٣
(۱۳) ماہنامہ "اشراق" لاہور ستمبر ١٩٨٥ء، ص ٢٩-٣٠
(۱۴) ایضا، ٣٢-٣٥
(۱۵) ماہنامہ "اشراق " لاہور جون ١٩٨٦ء، ص ٣٢
(۱۶) ماہنامہ اشراق، جون 1986، ص 32-33
(۱۷) جاوید احمد غامدی، اسلام اور پاکستان، مشمولہ ماہنامہ اشراق لاہور اکتوبر، ١٩٨٧ء، ص ٨-٩
(۱۸) ماہنامہ اشراق لاہور، دسمبر ١٩٨٨ء، ص ٤
(۱۹) جاوید احمد غامدی " حقیقتِ دین" ''مشمولہ اشراق، اکتوبر ١٩٨٨، ص ٣٠-٣١
(۲۰) ایضاََ ص، ٣٤-٣٥
(۲۱) ارتقا پر کیے گئے سوالات اپنی جگہ قائم ہیں، اگر غامدی صاحب ان کے جوابات پیش کریں تو ان کے لیے بھی کافی آسانی ہوجائے گی، لوگ "ارتقا" کو تضاد یا پریشان خیالی کا نام نہیں دیں گے۔
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کا شمار جدید مذہبی سکالرز میں ہوتا ہے۔ ان کی عمرکم ہے، لیکن فکری و علمی کینوس بہت وسیع ہے۔ ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کے پاس علم بھی ہے اور قاری بھی۔ بہت Prolificلکھاری ہیں، لکھتے ہیں تو خوب لکھتے ہیں۔ یہ خود بھی میرے ممد و حین میں سے ہیں اور ان کی کتابیں اور تحقیقی اور فکری مضامین ہمہ وقت میرے مطالعہ میں رہتی ہیں۔ جب بھی کسی موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں تو موضوع کی کھائیوں اور گہرائیوں کو آشکارا کرنے کا فن خوب سر انجام دیتے ہیں۔ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ چونکہ مولانا وحیدالدین خان کے افکار و نظریات پر ہے تو اس حوالے سے ڈاکٹر زبیر کی کتاب بھی زیرِ مطالعہ رہی ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں وحیدالدین خان کے افکار پر لکھی جانے والی کتابوں میں غالبایہ واحد کتاب ہے جس کی زبان علمی ہے اور مواد تحقیقی و فکری۔ ورنہ اب تک وحیدالدین خان کے بارے میں جو تنقیدی کتب منظر عام پر آئی ہیں، جس کی نمائندہ مثال محسن عثمانی ندوی کی "وحیدالدین خان علماءاور دانشوروں کی نظر میں" اور خالد متین کی "وحیدالدین خان: ایک اسلام دشمن شخصیت" جیسی کتابیں ہیں، ان میں آ پ کو جس چیز سے واسطہ پڑے گا، وہ تحقیق کم اور "ادبی گالیاں" زیادہ ہیں۔
تعصب، جماعتی عصبیت اور تنقیص کی جاری مار دھاڑ میں ڈاکٹر حافظ زبیر کی یہ کتاب علمی انتقاد اور تحقیقی ذوق کی ڈکار محسوس ہوتی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود کتاب میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو راقم کے نزدیک قابلِ گرفت ہیں۔ اور وہ مصنف ہی کیا جس کی تحریر میں مسئلے نہ ہوں۔ میری اس مختصر تحریر کا مقصدبھی وحید الدین خان پر ڈاکٹر زبیر کی علمی تنقید کا محاکمہ کرنا ہے۔ فی الحال میں اپنا مقدمہ اس کتاب کے ماحصل اور حاصل پر مرکوز رکھنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر زبیر کے اس کتاب کا اگر ماحصل دیکھا جائے تو وہ ایک ہی چیز بنتی ہے کہ وحیدالدین ایک خود پسند، برخود غلط اور اپنے زعم میں ایک یکتا شخصیت ہیں، ساتھ میں نفسیاتی عوارض کا بھی شکار ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
"بلکہ صحیح تر تجزیہ یہ ہے کہ اُن کے ساتھ کچھ نفسیاتی پرابلم ہیں جنہوں نے اُنہیں تخیلات کی اس دنیا تک پہنچایا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا میں نہیں بلکہ دنیا کی ہزار سالہ تاریخ میں ایک شمار کر رہے ہیں" (مولانا وحیدالدین خان: افکار و نظریات (لاہور: مکتبہ العالمین ۴۱۰۲) ۷۶۱۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مولانا وحید الدین خان کی تحریروں سے یہ چیزیں ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ ڈاکٹر زبیر صاحب کا دعویٰ ہے؟
اقلیم تجزیہ و تحلیل کے پُر خار راستوں کا میرے جیسا نا بلد مسافر کم سے کم اتنا ضرور کہہ سکتا ہے کہ مولانا وحیدالدین خان کو پڑھنے کے بعد میرا مطالعہ مجھے بالکل اس سمت کے مختلف لے گیا ہے جس سمت پر ڈاکٹر زبیر صاحب رواں ہیں، بلکہ مجھے تو یہ تک محسوس ہوتا ہے کہ وحیدالدین خان صاحب قربانی کا وہ بکرا ہے جس کی کوئی ماں نہیں جو اس کی خیر منا سکے ۔ وجہ یہ ہے کہ جب سکالر نہ کسی مخصوص مسلک سے تعلق رکھتا ہو اور نہ کسی مخصوص جماعت سے ، تو پھر وہی ہوتا ہے جو وحیدالدین کے ساتھ ہو رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بعض موضوعات بہت ادق ہوتے ہیں اس میں سیاق و سباق اور ربط و ترتیب کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وحیدالدین خان زیادہ لکھنے والے ہیں۔ ایک ہی موضوع پر اس کے خیالات اُس کے رسائل، کتابوں، آرٹیکلز اور ویب سائیٹ پر بکھرے ہوتے ہیں۔ اُن کے ہاں خیالات و افکار کی رنگا رنگی اور تنوع ہے اس کی فکری بنت اور ذہنی بیخ و بن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ کسی موضوع پر اُن کے چیدہ چیدہ اور بکھرے خیالات کو ایک مخصوص تسلسل و اتصال دیا جائے، اس کے بعد اُن کا اصل نقطہ نظر سامنے آجاتا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں ڈاکٹر زبیر صاحب کو یہی سہو ہوا ہے ۔ اس کتاب میں کئی غلطیاں ہیں، جہاں پر ڈاکٹر صاحب نے سیاق و سباق کا خیال نہیں رکھا۔ خان صاحب کی کئی ایسی تحریریں ہیں کہ اگر ڈاکٹر صاحب اس کو دریافت کر پاتے تو اُن کا نتیجہ مختلف ہوتا ۔ خان صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں:
"اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں امت مسلمہ کے احیاءکی تحریک باہمی سطح پر چل رہی ہے۔ اس میں امت کے تمام درد مند افراد شریک ہیں۔ میں نے اپنے مطالعے میں پایا کہ احیاءملت کی یہ تحریکیں ننانوے فیصد کی حد تک اسی پہلو پر چل رہی ہے جس کو آپ اسلام کا عملی پہلو کہہ رہے ہیں۔ آپ دیکھیں تو ان میں سے کوئی نماز اور روزہ اور حج جیسے اسلامی اعمال کا نظام قائم کرنے میں مصروف ہے۔ کسی نے اسلام کی سماجی پہلووں پر اپنی توجہ لگا رکھی ہے، کوئی اسلام کے سیاسی ڈھانچے کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ کوئی مسجد اور مدرسے کے نظام کو قائم کرنے میں مصروف ہے ، کوئی مسلمانوں کے خاندانی نظام کو اسلامی احکام پر تشکیل دینا چاہتا ہے۔ کوئی ملی مسائل، یا کمیونٹی ورک کے میدان میں محنت کر رہا ہے وغیرہ۔ لیکن میں نے اپنے تجربہ میں پایا کہ عصری اسلوب میں اسلام کی اسپرٹ کو جگانے کا کام کوئی نہیں کررہا ۔ اس لئے ہم نے اپنے آپ کو اس چھوٹے ہوئے کام میں لگا دیا ہے۔ گویا کہ ہمارا مشن احیاءملت کے مجموعی کام میں ایک تتمّہ (Supplement) کی حیثیت رکھتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہی چیز ممکن اور قابل عمل ہے۔ احیاءملت کا موجودہ کام جو عالمی سطح پر انجام پا رہا ہے۔ اس کی حیثیت ایک پراسس (Process) کی ہے، اس پر اسس میں ساری تحریکیں اور سارے اجزائے ملی شریک ہیں۔ ہمارا مشن بھی اس پراسس کا ایک حصہ ہے ، یہ پراسس گویا کہ ایک بلا اعلان تقسیم کار کا معاملہ ہے۔ اس پراسس کے مختلف اجزاءمیں کوئی ایک بھی ساری ملی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا اور نہ کر رہا ہے۔ ہر ایک کسی ایک پہلو سے ملت کی خدمت انجام دے رہا ہے، ہر ایک کو اپنی نیت اور اپنے اخلاص کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں انعام ملے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملت کے اندر تنقید نہیں ہونی چاہیئے، حقیقت یہ ہے کہ دوسری ضرورتوں کی طرح تنقید بھی ملت کی ایک ناگزیر پر ضرورت ہے، تنقید حدیث کے الفاظ میں (المومن مرآة المومن) ایک مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہے کے اصول کی تکمیل ہے علمی تنقید ہمیشہ ذہنی ارتقاءکا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر علمی تنقید کا طریقہ ختم کیا جائے تو اس کے نتیجے میں صرف یہی نہیں ہو گا کہ علمی تنقید باقی نہیں رہے گی، بلکہ ذہنی ارتقاءکا عمل رُک جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ذہنی جمود پید اہو جائے گا جو کسی گروہ کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔" (بحوالہ الرسالہ مارچ 2007، 142-3)۔
ذرا سریع الفہمی کے ساتھ دیکھا جائے تو جو شخص اپنے مشن کو امت کے احیائی پر اجیکٹ میں محض ایک تتّمہ (Supplement) سمجھتا ہو کیا یہ شخص اس خوش بینی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا کی ہزار سالہ تاریخ میں ایک ہی منفرد شخصیت کا حامل ہے؟ کیا یہ ایسا شخص بر خود غلط اور احساس برتری کا شکار ہو سکتا ہے جیسا کہ ڈاکٹر زبیر صاحب کا موقف ہے؟
ایک دوسری مثال لیجئے- یو ٹیوب پر خان صاحب کی ویڈیو موجود ہے جس میں بڑی وسیع الصدری کے ساتھ جاوید احمد غامدی کو اپنا استاد قرار دیتے ہیں اور اپنے آپ کو جاوید احمد غامدی کا شاگرد بتاتے ہیں۔ بھلا ہم عصری اور خصوصا ہمسری کے حسد سے ڈاکٹر زبیر بھی خوب واقف ہوں گے کہ یہ کس طرح سر چڑھ کے نہیں بلکہ قطب مینار چڑھ کے بولتا ہے، لیکن مولانا وحیدالدین خان حسد اور تعصب کے اس سیم و تھور کو گورکن کے حوالے کر کے اپنے ہی ہمعصر اور ہمسرکو اپنا استاد قرار دیتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کتاب کے اس ماحصل سے بصد احترام بہت اختلاف ہے۔ ذرا خان صاحب کے فکری اہرام کی کشادگی اور کھلا پن دیکھئے کہ ا پنے سب سے بڑے مبینہ مخالف مولانا ابوالحسن علی ندوی کی وفات پر اُن کو "صدی کی شخصیت" قرار دیتے ہیں۔ اور الرسالہ کے کئی صفحات اُن کی تعریف و توصیف میں سیا ہ کر دیتے ہیں (بحوالہ الرسالہ ، مارچ 23-24, 2000) ۔ میرے ناتواں فہم میں جو شخص اپنے مشن اور اپنی پوری فکری حاصل کو امت کے حق میں ایک تتّمہ سمجھتاہو، اپنے ساتھیوں اور علمی رفیق کو اپنا استاد سمجھتا ہو، اور جو اپنے علمی مخالف کو صدی کی شخصیت قرار دیتا ہو، اُس پر ایسے الفاظ کا اطلاق کچھ زیادہ جچتا نہیں جو ڈاکٹر زبیر صاحب نے اُن کے لئے استعمال کئے ہیں۔
جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے حوالے سے داعش کا استدلال | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۵) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۲) | مولانا سمیع اللہ سعدی | |
پرامن بقائے باہمی کے لیے اسلام کی تعلیمات | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
کیسا اسلام اور کون سی جمہوریت؟ | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۷) | محمد عمار خان ناصر | |
رشتوں كا معيار انتخاب اور سیرت پاک کی صحیح تصویر | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
مولانا مودودی کا تصورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۳) | مراد علوی |
دولت اسلامیہ (داعش) کے ترجمان جریدے ’دابق‘ کے ایک حالیہ شمارے میں جنگی قیدیوں کو غلام اور باندی بنانے کے حق میں لکھے جانے والے ایک مضمون میں یہ استدلال پیش کیا گیا ہے کہ جس چیز کا جواز اللہ کی شریعت سے ثابت ہے، اس کو انسان تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
اس طرز استدلال کے حوالے سے معاصر اہل علم کے ہاں مختلف زاویہ ہائے نگاہ دکھائی دیتے ہیں جن پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہوگا:
جدید دور میں جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی ممانعت سے اتفاق کرنے والے مسلم فقہاءعموماً اس پابندی کا جواز “معاہدے” کے اصول پر ثابت کرتے ہیں۔ اس موقف کی رو سے غلامی اصلاً اخلاقی جواز رکھتی ہے اور چونکہ یہ جواز شریعت سے ثابت ہے، اس لیے ابدی ہے۔ البتہ غلام بنانا چونکہ واجب نہیں، بلکہ مباح ہے اور مباحات میں مصلحت یا دیگر اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر قدغن لگائی جا سکتی ہے، اس لیے موجودہ دور میں بین الاقوامی معاہدے کے تحت اس پابندی کو قبول کرنا بھی شرعی طور پر درست ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کسی وقت بین الاقوامی معاہدات کا موجودہ نظام موثر نہ رہے تو اصولی اور اخلاقی طور پر جائز ہونے کی وجہ سے دوبارہ غلام لونڈی بنانا درست ہوگا، چاہے اس کے متعلق بین الاقوامی اخلاقی عرف اسے ناجائز سمجھنے کا ہی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے موجودہ معاہدات کو ان کی اخلاقی بنیاد سے اتفاق کی وجہ سے، یعنی غلامی کو شرف انسانی کے منافی مان کر اس پر پابندی کو قبول نہیں کیا، بلکہ صرف معاہدے کی پابندی کے اصول پر تسلیم کیا ہے۔ جب معاہدات غیر موثر ہو جائیں گے تو مسلمان بھی پابند نہیں رہیں گے۔
اس اصول کی رو سے اگر موجودہ معاہداتی نظام قائم ہوتے ہوئے کوئی مسلمان گروہ معاہدات کا حصہ نہ ہو اور وہ جنگی قیدیوں کو غلام بنانا چاہے تو اس پر کوئی اصولی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً داعش اور القاعدہ جیسے گروہ جو جدید بین الاقوامی قانون کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ انھوں نے معاہدات پر دستخط کیے ہیں، اگر وہ اس پابندی پر عمل نہ کریں تو شرعی طور پر ان پر کوئی اعتراض نہیں بنتا۔ اسی طرح عالم اسلام میں عمومی طور پر بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ موجودہ معاہداتی نظام میں غیر مشروط شمولیت کی موجودصورتحال پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اگر اس تناظر میں کوئی مسلمان حکومت غلامی پر پابندی کے معاہدے سے الگ ہونا چاہے تو مذکورہ موقف کی رو سے ایسا کرنا اس کے لیے اصولاً بالکل درست ہوگا۔
اس نقطہ نظر کی ترجمانی جناب ڈاکٹر مشتاق احمد نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں کی ہے۔ چنانچہ قیدیوں کو غلام بنانے سے متعلق داعش کے طرز عمل سے متعلق ایک استفسار کے جواب میں لکھتے ہیں کہ “جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جاسکتا ہے، اگر ایسا کرنا مسلمانوں کے مصلحت میں ہو اور اس سے کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ معاہدے کی پابندی مسلمانوں کے اسی گروہ پر لازم ہوگی جو معاہدے میں شامل ہو۔ یہ پابندی دوطرفہ ہوگی۔ چنانچہ اگر دوسرا فریق اس معاہدے کی پابندی نہ کرتا ہوتو مسلمانوں پر بھی اس معاہدے کی پابندی لازم نہیں ہوگی۔ اسی طرح معاہدے کی خلاف ورزی مسلمانوں کے کسی گروہ کی جانب سے ہو تو ذمہ داری اسی گروہ پر ہوگی اور دوسرے مسلمانوں سے اس سلسلے میں نہیں پوچھا جاسکتا۔ البتہ اگر عالمی طور پر مسلمان ایک سیاسی وحدت بن جائیں اور پھر اس سیاسی وحدت کی جانب سے معاہدہ ہو تو اس کی پابندی سب مسلمانوں پر لازم ہوگی، سوائے ان کے جو اس سیاسی وحدت سے الگ مستقل حیثیت رکھتے ہوں۔ غلام بناچکنے کے بعد ان غلاموں کو وہ سارے حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت نے ان کو دیے ہیں۔”
اس ضمن میں ایک دوسرا موقف یہ ہے کہ قیدیوں کو غلام بنانے کا قانون کوئی مطلوب یا مستحب شرعی حکم نہیں، بلکہ اس کی حیثیت ایک آپشن کی ہے جس پر عمل کرنے کے لیے کسی خاص دور کے عالمی اور بین الاقوامی عرف کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ چنانچہ والد گرامی مولانا زاہد الراشدی لکھتے ہیں کہ “اسلام نے غلام اور لونڈی بنانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس دور کے عالمی عرف کے مطابق اسے جنگی قیدیوں کے لیے ایک آپشن کے طور پر برقرار رکھتے ہوئے اس کی اصلاح اور بہتری کے لیے احکام وقوانین کا ایک پورا نظام فراہم کر دیا جیسا کہ آج کے عالمی عرف کے مطابق جنگی قیدیوں کے بارے میں جنیوا کنونشن کو عالم اسلام نے بھی قبول کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان وفلسطین سمیت جن مقامات پر جہاد کے عنوان سے جنگیں ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں، وہاں مجاہدین نے کسی قیدی کو غلام یا لونڈی کا درجہ نہیں دیا اور انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیے جانے والے مجاہدین نے بھی جنگی قیدیوں کے بارے میں عالمی عرف اور قوانین کا عملاً احترام کیا ہے۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر کسی دور میں یہ عالمی عرف بھی تبدیل ہو گیا اور پہلے کی طرح کے حالات دوبارہ پیدا ہو گئے تو اسلام کا یہ آپشن بطور آپشن کے باقی رہے گا اور اس سلسلے میں قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے احکام دوبارہ نافذ العمل ہو جائیں گے۔” (ماہنامہ الشریعہ، اکتوبر ۲٠٠۶ء)
اس بحث میں ایک تیسرے نقطہ نظر کی ترجمانی سید قطب شہید اور بعض دیگر اہل فکر نے کی ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ غلامی اسلام کے مطلوب اور لازمی احکام کا حصہ نہیں تھی، بلکہ اسے عالمی سطح پر جنگوں کی عمومی صورت حال اور جنگی قیدیوں کے حوالے سے تمام قوموں کے مشترکہ طرز عمل کے تناظر میں بامر مجبوری قانونی جواز دینا پڑا تھا، تاہم اسلام نے اپنی اخلاقی تعلیمات کے ذریعے سے اس کے ناپسندیدہ ہونے کو واضح کیا اور مختلف اخلاقی اور قانونی اقدامات کر کے تاریخی طور پر اس عمل کا آغاز کر دیا جس کے نتیجے میں کئی صدیوں کے بعد عالمی سطح پر انسانی ضمیر کا اس عمل کے مکروہ ہونے اور قانونی طور پر ناجائز ہونے پر متفق ہو جانا ممکن ہوا۔ سید قطب کے الفاظ میں “وقتی طور پر اسلام نے اس کے وجود کو برداشت کیا بھی تو محض اس لیے کہ اس کے سامنے اس کے سوا اور کوئی متبادل راہ موجود نہ تھی، کیونکہ اس کے قطعی انسداد کے لیے صرف مسلمانوں کی رضامندی ہی کافی نہ تھی، بلکہ غیر مسلموں کی حمایت اور تعاون بھی ضروری تھا۔ اسلام اس وقت تک غلامی کا قطعی انسداد نہیں کر سکتا تھا جب تک باقی دنیا بھی جنگی قیدیوں کو غلام بنانے سے اجتناب کرنے کا قطعی فیصلہ نہ کر لیتی۔ بعد میں جب اقوام عالم اس سلسلے میں ایک قطعی اور مشترک حل پر رضامند ہو گئیں تو اسلام نے اس کا خیر مقدم کیا، کیونکہ یہ فیصلہ اس کے نظام زیست کے اس بنیادی اور اٹل اصول کا عین منطقی نتیجہ تھا کہ آزادی اور مساوات تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے۔” (سید قطب، “اسلام اور جدید ذہن کے شبہات” ، اردو ترجمہ : محمد سلیم کیانی، ص ۴۹، ۵۹)
اس استدلال کے بعض پہلووں پر یقینا سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، بہرحال اس طرز استدلال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب غلامی کا خاتمہ خود اسلام کا مطلوب تھا اور عالم انسانیت کا موجودہ اتفاق اسلام کی مقرر کردہ ترجیحات سے ہم آہنگ ہے تو پھر داعش وغیرہ کا یہ استدلال درست نہیں ہو سکتا کہ چونکہ اسلام نے غلامی کو جواز دیا ہے، اس لیے انسانوں کے پاس اس جواز کو ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
بعض حضرات کو اس استدلال کو درست کرنے میں تامل محسوس ہوتا ہے کہ غلامی کی تحدید اسلام کی ترجیحات میں سے تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بات تاریخی طور پر درست نہیں، کیونکہ اسلامی شریعت میں جنگوں کی صورت میں قیدیوں کو غلام بنانے کی گنجائش برقرار رکھی گئی اور اسلامی تاریخ میں فتوحات کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر غلاموں کی تعداد میں اضافے کا عمل جاری رہا۔ البتہ بعد میں جب فتوحات کا سلسلہ محدود ہو گیا تو یقینا اس کے نتیجے میں غلاموں کی تعداد کم ہو گئی ہو، لیکن اسے اسلام یا اسلامی تہذیب کی “ترجیحات” کا نتیجہ نہیں کہا جا سکتا۔
ہماری رائے میں یہ تنقید درست نہیں ہے اور تاریخی صورت حال کی درست عکاسی نہیں کرتی۔ اسلامی شریعت میں غلام بنانے کے جواز کی صورتوں کی تحدید، غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرنے کی ترغیب، مختلف گناہوں کے کفارے کے طور پر غلاموں کو آزاد کرنے کی ہدایات، زکوٰة کے مصارف میں غلاموں کو آزاد کرنے کی ایک مستقل مد کے طور پر شمولیت اور حصول آزادی کے لیے مکاتبت وغیرہ جیسے قانونی طریقوں کی تشریع ایک معلوم ومعروف حقیقت ہے اور اس کی کوئی توجیہ اس کے علاوہ نہیں ہو سکتی کہ شریعت اس کی تحدید کرنا چاہتی ہے۔ یہ درست ہے کہ جنگوں کے نتیجے میں غلاموں کی تعداد میں اضافے کا راستہ مسدود نہیں کیا گیا جس کے اپنے تاریخی، عرفی اور قانونی اسباب تھے، لیکن یہ یک طرفہ عمل نہیں تھا، بلکہ اس کے بالکل متوازی غلاموں کی آزادی کا سماجی عمل بھی برابر جاری رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو تین صدیوں میں غلام باندیوں کا وجود، جو پہلے ہر ہر گھر کا حصہ ہوتا تھا، عام معاشرت میں بہت کم ہو کر عموماً شاہی خاندانوں، امراءاور اشرافیہ تک محدود ہوتا چلا گیا اور ایک مستقل معاشرتی طبقے کے طور پر ان کا وجود بتدریج ناپیدا ہوتا چلا گیا۔
اس تناظر میں خود قرآن مجید کی بعض ہدایات جو غلامی کے عمومی شیوع کے تناظر میں نازل ہوئی تھیں، بعد کے دور کے فقہاءکے لیے اشکال کا باعث بنیں۔ مثلا سورة النساءکی آیت ۲۵ میں اللہ تعالیٰ نے باندیوں سے نکاح کا آپشن اختیار کرنے کو ترجیحاً اس صورت کے ساتھ مخصوص کیا ہے جب آزاد عورت سے نکاح کے مالی وسائل آدمی کو میسر نہ ہوں اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ جس شخص کو گناہ میں مبتلا ہو جانے کا خدشہ ہو، وہی ایسا کرے، ورنہ صبر کرنا بہتر ہے۔ آیت میں اس ہدایت کی اخلاقی وجہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ باندیاں تربیت اور خاندانی حفاظت سے محروم ہونے کی وجہ سے کردار میں عفت جیسے وصف سے عموماً محروم ہوتی تھیں، جبکہ قرآن کی تلقین یہ ہے کہ انسان کو پاک دامن اور باکردار عورت سے ہی نکاح کرنا چاہیے۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے ممتاز متکلم اور فقیہ امام ابو منصور ماتریدی اپنی تفسیر ”تاویلات اھل السنة“ میں اس آیت کے تحت شافعی فقہاءکے موقف پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں جو باندی سے نکاح کو، آیت کے ظاہر کے مطابق، اس شرط سے مشروط کرتے ہیں کہ آزاد عورت سے نکاح کی مالی استطاعت انسان کو میسر نہ ہو۔ ماتریدی کہتے ہیں کہ نزول قرآن کے زمانے میں تو یہ پابندی برمحل ہو سکتی ہے جب باندیاں بکثرت اور عام دستیاب تھیں اور ان سے نکاح کے اخراجات بہت کم تھے، لیکن آج کے دور میں تو باندیاں بہت نادر ہو گئی ہیں اور جتنے خرچے میں آدمی ایک آزاد عورت سے بآسانی نکاح کر سکتا ہے، باندی کی فراہمی پر اس سے کہیں زیادہ خرچ اٹھ جاتا ہے۔
اسلامی معاشروں میں غلامی کے ادارے کے تدریجی خاتمے کے عمل کو سمجھنے کے لیے اوپر سے نیچے تک پوری تاریخ کا مطالعہ بھی اہم ہے، لیکن اگر نچلے دور کی صورت حال کو ہی دیکھ لیا جائے تو اسلامی معاشروں میں تاریخی عمل کا رخ بہت واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے جدید مغربی ڈسکورس کی ابتدا کے موقع پر پورے عالم اسلام میں کہیں بھی غلامی اس طرح معاشرے کا ناگزیر حصہ نہیں تھی کہ اس کے خاتمے کے لیے کوئی بڑی تحریک چلانی پڑی ہو یا حکومتوں کو غیر معمولی اقدامات کرنا پڑے ہوں۔ بیسویں صدی میں غلامی کے خاتمے کے بین الاقوامی معاہدات میں تمام مسلمان ممالک کسی تحفظ یا عملی الجھن کے بغیر آسانی سے شریک ہوتے گئے، کیونکہ کسی بیرونی دباو کے بغیر اپنے داخلی حرکیات کے تحت یہ معاشرے بہت پہلے سے اسی رخ پر سفر کرتے چلے آ رہے تھے۔ یوں دور جدید میں غلامی کے، غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہونے پر انسانی ضمیر کا عمومی اتفاق ہو چکا ہے جس کی پابندی فقہی وشرعی اصول کی رو سے بھی ضروری ہے اور اس کو تسلیم نہ کرنے کے لیے یہ استدلال کافی نہیں کہ مخصوص تاریخی حالات میں انسانی معاشروں کے عمومی رواج کے تناظر میں شریعت نے اس کو جائز قرار دیا تھا۔
یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدید بین الاقوامی عرف میں اگرچہ غلامی کو غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے، لیکن جس چیز کو شریعت میں اخلاقی طور پر جائز مانا گیا ہو، کیا اس کے متعلق انسانی سماج کے اخلاقی تصورات میں تبدیلی شریعت کے عطا کردہ اخلاقی جواز کو ختم کر سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں اس پہلو پر غور کرنا مناسب ہوگا کہ کیا شریعت نے غلامی کو اخلاقی جواز انسانی پرسپشنز سے ماورا ہو کر دیا یا اس بنیاد پر دیا کہ چونکہ انسان اسے اخلاقی طور پر جائز مان رہے ہیں، اس لیے یہ جائز ہے؟ دوسرے لفظوں میں، اگر شریعت میں غلامی کے اخلاقی جواز کی تنقیح مناط کی جائے تو کیا اس میں اس دور کے عالمی انسانی عرف اور انسانیت کے اجتماعی اخلاقی احساسات کا کوئی عمل دخل تھا یا نہیں؟ اگر تھا تو پھر کسی وقت اجتماعی اخلاقی شعور اسے غیر اخلاقی قرار دینے پر متفق ہو جائے تو اس اتفاق میں شریک ہونے کو حلال کو حرام کرنے کے زمرے میں شمار کرنا درست نہیں ہوگا بلکہ اس کی تکییف اس سے مختلف ہوگی۔
شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ نے انبیاءکی شریعتوں کے مختلف ہونے کا ایک بنیادی اصول یہ واضح کیا ہے کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو اس کی مالوف عادات اور اخلاقی تصورات سے بالکل ہٹے ہوئے احکام وقوانین کا پابند نہیں بناتا جنہیں قبول کرنا لوگوں کے لیے ذہنی طور پر ممکن نہ ہو۔ اس لیے ہر پیغمبر اپنی قوم کے رسوم ورواجات اور عادات ومالوفات کو ہی مادہ تشریع بناتے ہوئے ان میں صرف ضروری اصلاحات کرتا اور رسوم وقوانین کے پہلے سے موجود ڈھانچے کو ہی اپنی تائید اور مناسب اضافوں کے ساتھ بطور شریعت جاری کر دیتا ہے۔
جدید دور میں ساری دنیا کا نقشہ بدل دینے کے بعد مذہبی علمی روایت نے عمومی طور پر اس حقیقت واقعہ کو قبول کرتے ہوئے دینی تعبیرات اور فقہی احکام کو نئی صورت حال کے مطابق اور نئے ذہنی سانچے میں قابل قبول بنانے کا طریقہ اختیار کیا۔ تاہم بعض حلقوں کے لیے یہ ممکن نہ ہو سکا اور انھوں نے روح عصر کے خلاف لڑنے کا راستہ اختیار کر لیا۔ انھوں نے زبان حال سے یہ موقف اختیار کر لیا کہ یہ دنیا غلط بن گئی ہے، اس کو ٹھیک کر کے دوبارہ ویسی بنانے کی ضرورت ہے جس میں قدیم تعبیرات اور فقہی احکام قابل فہم اور قابل عمل بن سکیں۔ گویا فقہ اور قانون کا کام نہیں کہ صورت حال کے مطابق ہو، بلکہ صورت حال کی ذمہ داری ہے کہ فقہ اور قانون کے مطابق خود کو ڈھالے۔ یہ بات شریعت کے بیان کردہ مامورات اور واجبات کے دائرے میں تو اصولی طور پر درست ہے، لیکن مباحات اور اجتہادی امور کے دائرے میں اس کی پابندی تکلیف مالا یطاق کے زمرے میں آتی ہے جو اللہ تعالیٰ شرائع میں بھی نہیں دیتے، چہ جائیکہ اجتہادی دائرے میں اسے مقصود بنایا جائے ۔
درج ذیل دونوں آیتوں پر غور کریں،
قَاتِلُوہُم یُعَذِّبہُمُ اللَّہُ بِایدِیکُم وَیُخزِھِم وَیَنصُرکُم عَلَیھم وَیَشفِ صُدُورَ قَومٍ مُومِنِینَ۔ وَیُذہِب غَیظَ قُلُوبِہِم وَیَتُوبُ اللَّہُ عَلَی مَن یَشَاء وَاللَّہُ عَلِیم حَکِیم۔(التوبة: 14، 15)
قَاتِلُوھُم کے بعد جواب امر ہے، اور اس کے بعد چار جملے ہیں جو جواب امر پر معطوف ہیں، ان کی ہیئت ان کی اعرابی حالت پر واضح دلالت کررہی ہے۔ ان پانچ جملوں کے بعد ایک اور جملہ آتا ہے، وَیَتُوبُ اللَّہُ عَلَی مَن یَشَاء، اس کے ساتھ بھی واو لگا ہوا ہے، لیکن اس کی ہیئت ایسی نہیں ہے کہ اسے جواب امر مانا جائے۔ یہاں یتوب فعل مضارع اصلی ہے۔ جواب امر ہوتا تو یتب ہوتا، مزید برآں اس جملے میں اللہ کے نام کا ذکر ہے ، اس سے پہلے چار جملوں میں ضمیر کا استعمال ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایک مستقل جملہ ہے، اس لیے اس کا ترجمہ اس طرح ہونا چاہیے کہ یہ مستقل جملہ معلوم ہو۔ چونکہ یہ مستقل جملہ ہے، اس لیے اس کے فعل مضارع کا ترجمہ بنا قرینے کے مستقبل والا کرنا مناسب نہیں ہے۔ جملے کی ہیئت اور معنی کی وسعت دونوں کا تقاضا ہے کہ یتوب کا ترجمہ “مہربانی کرے گا“ کے بجائے “مہربانی کرتا ہے” کیا جائے۔جب فعل اپنی اصلی حالت میں ہے اور تمام زمانوں کا احاطہ کررہاہے تو اسے صرف مستقبل میں محدود کیوں کیا جائے؟
نیچے چھ ترجمے ذکر کیے گئے ہیں جن میں سے پہلے تینوں میں یہ غلطی موجود ہے، اور بعد کے تین ترجمے اس غلطی سے خالی ہیں۔
“ان سے لڑو، اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا، اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق بھی دے گا”۔(سید مودودی)
“ان سے (خوب) لڑو۔ خدا ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا اور ان کے دلوں سے غصہ دور کرے گا اور جس پر چاہے گا رحمت کرے گا”۔ (فتح محمد جالندھری)
“ان سے لڑو، اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ان کو تمھارے ہاتھوں سزا دے گا اور ان کو ذلیل (وخوار) کرے گا اور تم کو ان پر غالب کرے گا اور بہت سے (ایسے) مسلمانوں کے قلوب کو شفا دے گا اور ان کے قلوب کے غیظ (وغضب) کو دور کرے گا اور جس پر منظور ہوگا اللہ تعالی توجہ بھی فرمادے گا” (اشرف علی تھانوی)
“لڑو ان سے تاعذاب کرے اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں اور رسوا کرے اور تم کو ان پر غالب کرے اور ٹھنڈے کرے دل کتنے مسلمان لوگوں کے اور نکالے ان کے دل کی جلن اور اللہ توبہ دے گا جس کو چاہے گا” (شاہ عبدالقادر، اس میں زیر بحث غلطی تو نہیں ہے البتہ آخری جملے کا مستقبل کا ترجمہ زیادہ مناسب نہیں لگتاہے)
“ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل ورسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا اور ان کے دل کا غم وغصہ دور کرے گا، اور وہ جس کی طرف چاہتا ہے رحمت سے توجہ فرماتا ہے”۔ (محمد جوناگڑھی، ترجمہ درست ہے مگر اللہ کی جگہ وہ ضمیرذکر کرنا درست نہیں ہے)
“تو ان سے لڑو اللہ انہیں عذاب دے گا تمہارے ہاتھوں اور انہیں رسوا کرے گا اور تمہیں ان پر مدد دے گا اور ایمان والوں کا جی ٹھنڈا کرے گا،اور ان کے دلوں کی گھٹن دور فرمائے گا اور اللہ جس کی چاہے توبہ قبول فرمائے”۔ (احمد رضا خان)
درج ذیل ترجموں میں اول الذکرتین ترجموں میں ایسا لگتا ہے کہ آخری جملہ بھی جواب امر ہی ہے۔ جبکہ آخر الذکرتینوں ترجموں میں آخری جملے کا ترجمہ الگ طرح سے کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری جملہ جواب امر نہیں بلکہ اللہ کی مستقل سنت کا بیان ہے۔
درج ذیل دونوں انگریزی ترجموں میں اول الذکر ترجمے میں الفاظ کی بھرپور رعایت کی گئی ہے۔
توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ زیر نظر مقام پرجملے کے معطوف ہونے کا احساس ایسا غالب رہا کہ لوگوں نے ترجمے میں لفظ اللہ کی جگہ اس کی ضمیراستعمال کی۔ حالانکہ چار معطوف جملوں میں ضمیر ہے اور پانچویں مستقل جملے میں ضمیر کے بجائے اللہ کا لفظ مذکور ہے، ترجمے میں بھی اس کی رعایت ضروری تھی جو بعض مترجمین سے نہیں ہوسکی۔
یہ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے کہ تاب علی کا بہتر ترجمہ مہربانی اور رحمت کرنا ہے، نہ کہ توبہ کی توفیق دینا اور معاف کرنا۔
درج ذیل تینوں مقامات پر الکریم اور العظیم، العرش کی صفتیں ہیں، ان پر اعراب کی علامت وہی ہے جو العرش پر ہے، اور اسی لحاظ سے ان کا ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔
(1) رَبُّ العَرشِ الکَرِیمِ۔ (المومنون: 116)
“عزت والے عرش کا مالک”۔ (احمد رضا خان)
(2) رَبُّ العَرشِ العَظِیمِ۔ (النمل: 26)
“وہ بڑے عرش کا مالک ہے”۔ (احمد رضا خان)
(3) وَرَبُّ العَرشِ العَظِیمِ۔ (المومنون: 86)
“اور مالک بڑے عرش کا”۔(احمد رضا خان)
لیکن درج ذیل آیت میں المجید عرش کی صفت نہیں ہے، دونوں کی اعرابی حالت مختلف ہے، المجید حالت رفع میں ہے، اس لیے عرش کی صفت نہیں ہوسکتا ، بلکہ ذو العرش یعنی اللہ کی صفت ہے۔ لگتا ہے بعض مترجمین کو اول الذکر تینوں آیتوں سے یہ مغالطہ ہوگیا کہ یہاں بھی عرش کی صفت مذکورہے۔
ذُو العَرشِ المَجِیدُ۔ (البروج: 15)
“مالک تخت کا بڑی شان والا ” (شاہ عبدالقادر)
“عرش کا مالک ہے، بزرگ و برتر ہے”۔ (سید مودودی)
“عرش کا مالک بڑی شان والا”۔ (فتح محمد جالندھری)
“عرش کا مالک عظمت والاہے”۔ (محمد جوناگڑھی)
“عزت والے عرش کا مالک”۔ (احمد رضا خان)
“عرش بریں کا مالک ” (وحید الدین خان)
آخری دونوں ترجمے غلط ہیں۔
انگریزی تراجم میں بھی بہت سے ترجمے اسی غلطی کا شکار ہوئے، بلکہ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ سید مودودی کے ترجمہ کے انگریزی ترجمے میں بھی یہ غلطی آگئی۔
مذکورہ بالا انگریزی تراجم میں آخری ترجمہ درست ہے۔
فارسی ترجموں میں بھی یہ غلطی کثرت سے نظر آتی ہے۔ ذیل کے ترجمے ملاحظہ کریں:
“صاحب ارجمند عرش”۔ (بہرام پور، خرمشاہی، فولادوند)
“خداوند بزرگوار عرش”۔ (مجتبوی)
“صاحب عرش و دارای مجد و عظمت است”۔ (مکارم شیرازی)
“او خداوند عرش است گرامی قدر” (شاہ ولی اللہ)
آخری دونوں ترجمے درست ہیں۔
ترجمہ کی مذکورہ غلطی کے حق میں یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ایک قراءت المجید میں دال پر زیر کی بھی ہے، کیونکہ یہ تمام ترجمے امت میں رائج مصحف کو سامنے رکھ کر کیے گئے ہیں جس میں دال پر پیش کے ساتھ المجید ہے۔
قرآن مجید میں ضلال بعید کی تعبیر متعدد مقامات پر آئی ہے، اور سلسلے میں یہ تفصیل گزر چکی ہے کہ ضلال بعید کا ترجمہ“ دور کی گمراہی” درست نہیں ہے بلکہ “گمراہی میں دور نکل جانا” درست ترجمہ ہے۔ اسی طرح شقاق بعید کی تعبیر بھی قرآن مجید میں تین جگہ آئی ہے، اور اس کے مختلف طرح سے ترجمے کیے گئے ہیں، مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک اس کا صحیح ترجمہ مخالفت میں دور نکل جانا ہے۔ذیل کے ترجموں کو دیکھ کر اندازہ ہوگا کہ ایک ہی مترجم نے اس تعبیر کا الگ الگ مقام پر مختلف طرح سے ترجمہ کیا ہے۔
(1) وَانَّ الَّذِینَ اختَلَفُوا فِی الکِتَابِ لَفِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ۔ (البقرة: 176)
“اور جن لوگوں نے اس کتاب کے معاملے میں اختلاف کیا ہے وہ مخالفت میں بہت دور نکل گئے”۔ (امین احسن اصلاحی)
“وہ ضرور پرلے سرے کے جھگڑالو ہیں”۔ (احمد رضا خان)
“وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے”۔ (سید مودودی، دوسرے دونوں مقامات پر اس سے بہتر ترجمہ کیا ہے)
“وہ ضد میں (آکر نیکی سے) دور (ہوگئے) ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)
“یقینا دور کے خلاف میں ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)
(2) وَانَّ الظَّالِمِینَ لَفِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ۔ (الحج: 53)
“اور بے شک یہ ظالم اپنی مخاصمت میں بہت دور نکل گئے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی، یہ تلخیص میں ہے ، تدبر میں اس طرح ہے: بہت دور کے جھگڑے میں پڑچکے ہیں)
“بیشک ظالم لوگ گہری مخالفت میں ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)
“حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دور نکل گئے ہیں”۔ (سید مودودی)
“اور بیشک ستمگار دُھرکے (پرلے درجے کے) جھگڑالو ہیں”۔ (احمد رضا خان)
“بےشک ظالم پرلے درجے کی مخالفت میں ہیں” (فتح محمد جالندھری)
(3) مَن اَضَلُّ مِمَّن ھُوَ فِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ۔ (فصلت: 52)
“تو اس سے بڑھ کر گمراہ کون ٹھہرے گا جو ایک نہایت دور رس مخالفت میں جاپڑا”۔ (امین احسن اصلاحی)
“تو اُس شخص سے بڑھ کر بھٹکا ہوا اور کون ہوگا جو اِس کی مخالفت میں دور تک نکل گیا ہو؟” (سید مودودی)
“تو اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو دور کی ضد میں ہے”۔ (احمد رضا خان)
“تو اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو (حق کی) پرلے درجے کی مخالفت میں ہو”۔ (فتح محمد جالندھری)
“بس اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہوگا جو مخالفت میں (حق سے) دور چلا جائے”۔ (محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی تینوں آیتوں میں فی شقاق بعید کا ترجمہ کرتے ہیں : “مخالفت میں دور نکل گئے”
نُزُل کا لفظ قرآن مجید میں جنت کے لیے بھی آیا ہے اور جہنم کے لیے بھی آیا ہے۔لغت کی کتابوں میں یہ لفظ مطلق مہمانوں کے لیے پیش کردہ سامان ضیافت کے معنی میں ذکر کیا جاتا ہے، کلام عرب کے شواہد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ابو الشعر الضبی، موسی بن سحیم کہتا ہے:
وکنا اذا الجبار بالجیش ضافنا
جعلنا القنا والمرھفات لہ نزلا
مولانا امین احسن اصلاحی کا عام مترجمین سے جدا خیال یہ ہے کہ نزل اس پہلے سامان ضیافت کے لیے ہوتا ہے جو مہمان کی آمد پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس خیال کی تائید میں وہ کلام عرب سے کوئی تائید نہیں پیش کرتے ہیں۔ خود قرآن مجید میں اس لفظ کے استعمالات کو جمع کرکے دیکھیں تو اس خیال کی تردید ہوتی ہے، کیوں کہ جنت اور جہنم کو نزل کہا گیا ہے، اور ان دونوں کو ہمیشہ رہنے کی جگہ بھی بتایا گیا ہے، پھراسے پہلی میزبانی کیسے کہا جائے، اگر جنت یا جہنم کے بعد بھی کہیں اور جانا ہوتا تو جنت یا جہنم کو پہلی میزبانی کہا جاتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مولانا اصلاحی نے قرآن کے ایسے آٹھ مقامات میں سے اگر تین مقامات پر پہلی میزبانی ترجمہ کیا ہے تو پانچ مقامات پر صرف میزبانی ترجمہ کیا ہے۔
(1) لَکِنِ الَّذِینَ اتَّقَوا رَبَّہُم لَہُم جَنَّات تَجرِی مِن تَحتِہَا الانہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا نُزُلًا مِن عِندِ اللَّہِ وَمَا عِندَ اللَّہِ خَیر لِلابرَارِ ۔ (آل عمران: 198)
“البتہ وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن میں نہریں بہتی ہوں گی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کے لیے پہلی میزبانی ہوگی”۔ (امین احسن اصلاحی)
“لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ مہمانی ہے اللہ کی طرف سے اور نیک کاروں کے لیے جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہت ہی بہتر ہے”۔ (محمد جوناگڑھی)
(2) انَّا اَعتَدنَا جَہَنَّمَ لِلکَافِرِینَ نُزُلًا ۔ (الکہف: 102)
“ہم نے کافروں کے لیے جہنم بطور ضیافت تیار کر رکھی ہے”۔ (امین احسن اصلاحی، جہنم کی ضیافت زیادہ مناسب ہے)
(3) انَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَانَت لَہُم جَنَّاتُ الفِردَوسِ نُزُلًا۔ (الکہف: 107)
“بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے ان کے لیے فردوس کے باغوں کی ضیافت ہے”۔ (امین احسن اصلاحی)
(4) امَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَہُم جَنَّاتُ المَاوَی نُزُلًا بِمَا کَانُوا یَعمَلُونَ۔ (السجدة: 19)
“جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، ان کے لیے راحت کے باغ ہیں، جو ان کو ان کے اعمال کے صلہ میں، اولین سامان ضیافت کے طور پر، حاصل ہوں”۔ (امین احسن اصلاحی،الماوی کا ترجمہ راحت نہیں ہوگا،ٹھیرنے کے باغات درست ترجمہ ہے)
“جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لیے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وہ کرتے تھے”۔ (محمد جوناگڑھی، الماوی کا ترجمہ ہمیشگی کرنا درست نہیں ہے)
“جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کے لیے بسنے کے باغ ہیں، ان کے کاموں کے صلہ میں مہمانداری”۔ (احمد رضا خان)
(5) اَذَلِکَ خَیر نُزُلًا اَم شَجَرَةُ الزَّقُّومِ۔ (الصافات: 62)
“ضیافت کے لیے یہ بہتر ہے یا درخت زقوم؟ ”۔(امین احسن اصلاحی)
“ یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟ ”۔(سید مودودی، دونوں میں یہ دوسرا ترجمہ زیادہ فصیح ہے)
(6) نُزُلًا مِن غَفُورٍ رَحِیمٍ۔ (فصلت: 32)
“رب غفور رحیم کی طرف سے سامان ضیافت کے طور پر”۔ (امین احسن اصلاحی)
(7) ثُمَّ انَّکُم اَیُّہَا الضَّالُّونَ المُکَذِّبُونَ۔ لَآکِلُونَ مِن شَجَرٍ مِن زَقُّومٍ۔ فَمَالِئُونَ مِنہَا البُطُونَ۔ فَشَارِبُونَ عَلَیہِ مِنَ الحَمِیمِ۔ فَشَارِبُونَ شُربَ الہِیمِ۔ ہَذَا نُزُلُہُم یَومَ الدِّینِ۔ (الواقعة: 51 - 56)
“پھر تم لوگ، اے گمراہو اور جھٹلانے والو زقوم کے درخت میں سے کھاؤ گے اور اسی سے اپنے پیٹ بھروگے پھر اس پر کھولتا ہوا پانی تونسے ہوئے اونٹوں کی طرح پیو گے۔ یہ جزا کے دن ان کی پہلی ضیافت ہوگی۔” (امین احسن اصلاحی)
“جزا کے دن یہ ان کی ضیافت ہوگی۔” (فتح محمد جالندھری)
(8) فَنُزُل مِّن حَمِیمٍ۔ وَتَصلِیَةُ جَحِیمٍ۔ (الواقعة:94-93)
“تو اس کے لیے گرم پانی کی ضیافت اور جہنم کا داخلہ ہے” (امین احسن اصلاحی)
دوسری طرف قبل از تدوین اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کی تحریری شکل و صورت کا مسئلہ بھی (تقریری و تدریسی صورت کی طرح )خفا کے دبیز پردوں میں لپٹا ہے ،یہ سوال بجا طور پر پیدا ہوتا ہے کہ تین صدیوں تک ان ہزارہا روایات(صرف کتب اربعہ کی روایات چالیس ہزار سے زائد ہیں) کا مجموعہ کس طرح اور کس شکل میں محفوظ رہا ؟کتب ِاربعہ کے مصنفین نے جمع روایات میں کن ماخذ و مصادر پر اعتماد کیا ؟ اہل سنت میں صرف ایک صدی کے اندر ساڑھے چار سو مجموعات ِحدیث مرتب ہوتے ہیں ،تو اہل تشیع کے ہاں تین صدیوں میں کتنے مجموعے مرتب ہوئے ،جنہوں نے بنیادی مصادر کے لیے خام مال کا کردار ادا کیا ؟اس سوال کا اہل تشیع محققین نے دو طرح سے جواب دیا ہے ،جنہیں ہم تقریب ِفہم کے لیے "اجمالی جواب " اور "تفصیلی جواب "کا نام دیں گے۔
علمائے شیعہ کی ایک بڑی جماعت نے اس سوال کا اجمالی جواب یہ دیا ہے کہ کتب اربعہ سے پہلے حدیث کے چار سو متعمد نسخے رائج تھے ،جو ائمہ کے براہ راست تلامذہ نے بڑی جانفشانی اور محنت سے تیا ر کیے تھے ،ان چار سو مجموعوں کو "الاصول الاربعمائۃ"کا نام دیا گیا ،انہی چارسو اصولوں کو کتب ِاربعہ کے مصنفین نے ماخذ ومصدر بنایا اور ان کی مدد سے اپنی کتب میں ائمہ کی روایات کو مدون کیا ،دسویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم زین الدین عاملی المعروف بالشہید الثانی لکھتے ہیں:
امامیہ کے ہاں روایت کا معاملہ چار سو مصنفین کی لکھی ہوئی چار سو اصولوں پر جا ٹھرتا ہے ،انہی کتب پر امامیہ کا اعتماد تھا ،پھر مرور زمانہ سے ان اصولوں کا اکثر حصہ ختم ہوگیا اور ان کی تلخیص شیعہ محدثین کی ایک جماعت نے اپنی کتب میں کیں ،جن میں سے سب سے بہترین کتب الکافی ،تہذیب ،استبصار اور من لایحضرہ الفقیہ یعنی کتب اربعہ ہیں۔
شیعہ کتب کی سب سے وسیع ڈائریکٹری لکھنے والے محقق آغا بزرگ طہرانی اپنی کتاب "الذریعہ الی تصانیف الشیعہ "میں لکھتے ہیں:
یعنی سب کے سب موجود ہیں ،ان میں سے بعض اپنی اصلی ترتیب کے ساتھ بمع مواد کے موجود ہیں ،جبکہ باقی کا مواد بغیر کسی حرف کی زیادتی و کمی کے ان قدیم مجموعات ِحدیث کے ضمن میں موجود ہیں ،جن میں ان اصولوں کا مواد مرتب ،مبوب،منقح اور مہذب شدہ انداز میں جمع کیا گیا ہے۔
اصول اربعمائۃ کی تحقیق و استناد اور پس منظر سے متعلق چند باتیں پیش خدمت ہیں:
اصول اربعمائۃ کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے لفظ اصل کا پس منظر اور معنی و مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے ،شیخ طوسی و نجاشی نے کتب شیعہ کی فہارس تیار کیں ہیں ،ان فہارس میں تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے بعض رجال کے ساتھ "لہ کتاب" کا لفظ اور بعض کے ساتھ "لہ اصل"کا لفظ لکھا ہے ،چنانچہ ابراہیم بن عبد الحمید کے تذکرے میں لکھتے ہیں:
جبکہ اس ابراہیم بن محمد الاشعری کے تذکرے میں لکھتے ہیں:
شیخ طوسی و نجاشی نے اپنی کتب میں اصل و کتاب میں فرق یا مفاہیم بیان نہیں کئے ،اس لیے علمائے شیعہ نے اصل کے مختلف مفاہیم بیان کئے ،چند اقوال درج کئے جاتے ہیں:
محمد مہدی طباطبائی بحر العلوم اصل کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یعنی اصل محدثین اہل تشیع کی اصطلاح میں اس کتاب کو کہتے ہیں ،جو معتمد ہو اور دوسری کتاب سے منقول نہ ہو۔
مجمع الرجال کے مصنف لکھتے ہیں:
یعنی کہ اصل امام معصوم کی عبارات کے مجموعے کا نام ہے ،جبکہ کتاب امام معصوم کی عبارات کے ساتھ مصنف کے شرعی و عقلی استدلالات و استنباطات پر مشتمل ہوتی ہے۔
علامہ تستری قاموس الرجال میں لکھتے ہیں:
یعنی اصل محض روایات و آثار کی روایت کا نام ہے ،ان آثار پر صحت ،ضعف ،یقین کا حکم اور متعارض روایات میں تطبیق دیے بغیر ،
یہ تعریف پچھلی تعاریف کے برعکس ہے ،کیونکہ اس سے اصل کے مفہوم میں متعمد و غیر متعمد دونوں قسم کی کتب آگئیں۔
اس کے علاوہ بھی اصل کی متعدد تعریفیں کی گئیں ،ان کی تفصیل کے لیے محمد حسین جلالی کی کتاب "دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ "ص 7 تا 9 ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
ان سب تعاریف کے بارے میں معروف شیعہ محقق سید محسن الامین اپنی ضخیم کتاب "اعیان الشیعہ "میں لکھتے ہیں:
یہ سب تعریفات ظن و اندازوں پر مبنی ہیں۔
اسی طرح محقق جلالی نے بھی ان تعریفات کو ظن و تخمین قرار دینے پر سید محسن الامین کی موافقت کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
ان تعاریف سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سب تعاریف ظن پر مبنی ہیں ،بلکہ حق بات یہ ہے کہ اصل کا ایک خاص مفہوم بیان کرنا جدید اصطلاح ہے۔
لہذ طوسی و نجاشی نے جو لفظ اصل ذکر کیا ،اس کا واقعی مفہوم کیا ہے؟وہ کس قسم کی کتاب کو کہتے ہیں ؟اس کے بارے میں بعد کے علمائے شیعہ نے ظن و تخمین پر مختلف تعریفیں کی ہیں ،جن میں سے بعض ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔
اسی طرح محقق فاضل جبوری اپنے پی ایچ ڈی مقالے "تراجم الاصول الاربعمائۃ "میں اصل کی آٹھ کے قریب تعریفات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
یہ سب تعریفات اشکالات سے خالی نہیں ہیں ،کیونکہ ان میں اصل کے مفہوم کی باریک و منضبط تحدید نہیں کی گئی ہے۔
اصول اربعمائۃ کی اصطلاح کا تاریخی جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ اصطلاح چھٹی صدی ہجری یا علی الاقل پانچویں صدی ہجری (الکافی کی تصنیف کے تقریبا ڈھائی سو سال بعد )اور اس کے بعد کی پیداوار ہے، متقدمین اہل تشیع بشمول اصحاب کتب اربعہ و طوسی و نجاشی کے ہاں چار سو اصولوں کی اصطلاح کا کوئی تصور نہیں تھا، چار سو اصولوں کا سب سے پہلے ذکر ابن شہر آشوب مازندرانی (588ھ) نے اپنی کتاب "معالم العلماء "میں بیان کیا ہے ،چنانچہ لکھتے ہیں:
کہ امامیہ نے حضرت علی رضی اللہ کے زمانے سے لے کر امام عسکری تک چار سو کتب لکھی ہیں ،جنہیں اصول کہا جاتا ہے ،لہ اصل کا یہی مفہوم ہے۔
لیکن مازندرانی کے برعکس دیگر علماء نے ان چار سو اصولوں کو خاص امام جعفر صادق کے تلامذہ کی تصنیف قرار دیا ہے ،چنانچہ امام طبرسی اپنی کتاب اعلام الوراء باعلام الھدی میں لکھتے ہیں:
یعنی امام جعفر صادق سے چار ہزار معروف اشخاص نے روایات لی ہیں ،انہوں نے آپ کے جوابات کو چار سو کتب میں جمع کیا ہے ،جنہیں اصول کہا جاتا ہے ،یہ کتب آپ کے شاگردوں اور آپ کے صاحبزادے امام موسی کاظم کے شاگردوں نے روایت کی ہیں۔
یہی بات علامہ حلی اور شہید ثانی نے لکھی ہے۔12
یہاں پر بجا طور پر سوال پید اہوتا ہے کہ چار سو اصول ،جو شیعہ تراث حدیث کا بنیادی ماخذ و مصدر بنے ،ان کے زمانہ تدوین کے بارے میں علمائے شیعہ میں اتنا بڑا اختلاف کیسے اور کیوں پیدا ہوا کہ بعض اسے صرف امام جعفر صادق کے تلامذہ کی تصنیف قرار دیتے ہیں اور بعض حضرت علی کے زمانے سے لے کر امام عسکری کے ائمہ شیعہ کی تصنیف قرار دیتے ہیں ؟ شیعہ محقق حسین جلالی لکھتے ہیں:
یعنی ان اصولوں کی تالیف کے زمانے میں آراء کا شدید ترین اختلاف ہے۔
چار سو اصولوں کے زمانہ تدوین کی طرح ان کے مصنفین بھی پردہ خفا میں ہیں ،شیعہ کی موجود علمی تراث میں تلاش ،جستجو ، ضعیف و صحیح روایات و عبارات اور ثقہ و ضعیف رواۃ کو ملا کر ایک سو سے کچھ اوپر رواۃ کے بارے میں "لہ اصل " کا لفظ ملتا ہے ،چنانچہ شیخ طہرانی نے اپنی ضخیم کتاب "الذریعہ الی تصانیف الشیعہ " میں تلاش و جستجو کے بعد 117 اصولوں کا ذکر کیا ہے،14 محقق شیخ فاضل جبوری اپنے ضخیم مقالے "تراجم رواۃ الاصول الاربعمائہ " میں اس پر صرف پانچ کا اضافہ کر سکے ،باقی278 اصولوں کے مصنفین کا ضعف ،ثقاہت ،تعارف و احوال تو کجا نام ہی نا معلوم ہیں ،یعنی دو سو اٹھتر اصول ایسے ہیں ،جو صرف عالم ِخیال میں موجود ہیں ،ان کا زمانہ ،تدوین ، موضوع،مصنفین کے نام و تعارف میں سے کوئی بھی چیز معلوم نہیں ہے ،ان میں سے بھی شیخ طوسی و نجاشی، جنہوں نے لفظ اصل کو رواج دیا ،انہوں نے صرف 60 اصولوں کا ذکر کیا ہے ،جبکہ طوسی نے اپنی کتاب الفہرست کے مقدمے میں تصریح کی ہے کہ میں نے اپنے اصحاب کی اکثر تصانیف و اصولوں کا اس میں ذکر کیا ہے ، نیز یہ بات بھی کسی علمی لطیفے سے کم نہ ہوگی کہ طوسی کتب اربعہ میں سے دو کے مصنف ہیں ،اگر کتب اربعہ چار سو اصولوں سے ماخوذ ہیں ،تو یقینا شیخ طوسی کو ان کا خصوصی علم ہوگا ،لیکن شیخ طوسی کتب شیعہ کی فہارس مرتب کرتے وقت صرف 60 کا ذکر کرتے ہیں ،علمی دنیا میں اسے شاید کوئی بڑا عجوبہ ہوگا کہ جس نے بقول اہل تشیع محققین "چار سو اصولوں "سے کتاب تیار کی ،انہیں تو صرف ساٹھ کا علم ہوا ،جبکہ بعد میں آنے والے سب اصولوں کے بارے میں جان گئے۔
اگر اس جواب کو مان لیا جائے کہ کتب اربعہ چار سو اصولوں سے اخذ کی گئی ہیں ،تو اس سے کتب اربعہ کا استناد،صحت ،وثوق اور علمی وزن بڑھنے کی بجائے شدید گھٹ جاتا ہے کہ کتب اربعہ میں 278 ایسی کتب بھی ہیں ،جو تاریخی اعتبار سے محض فرضی ہیں ،ان کا زمانہ تدوین ،اخذ و نقل ،مصنفین میں سے کوئی بھی چیز معلوم نہیں ہے۔ شیعہ محقق حسین جلالی نے بجا طور پر لکھا ہے:
یعنی اگر اصول واقعی چار سو ہیں ،تو شیخ طوسی و نجاشی نے کیوں ذکر نہیں کئے ،جبکہ ان دونوں نے شیعہ کتب کا احاطہ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اگر چار سو سے کم ہیں ،تو چار سو کی تحدید کیوں اور کس بنا پر کی گئی؟
278 اصولوں کے محض فرضی ہونے (فرضی ہونے سے مراد یہ ہے کہ ان پر کوئی بھی تاریخی دلیل نہیں ہے ،خواہ مصنف کے نام کی صورت میں ہی ہو ) کے باوجود علمائے شیعہ ان اصول اربعمائہ کو کس طرح مشہور باور کراتے ہیں ،اس کا نمونہ شیخ علی النمازی کی کتاب "الاعلام الھادیۃ الرفیعہ فی اعتبار الکتب الاربعۃ المنیفہ " میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ،مصنف لکھتے ہیں:
ہم اصول اربعمائہ کی طرف کسی بھی سند کے محتاج نہیں ہیں ،کیونکہ ان اصولوں کو ثقہ ،اجل ،معروف و مشہور رواۃ نے لکھا ہے اور ان رواۃ کی طرف ان کتب کی نسبت بھی مشہور ہے۔
کیا شیخ نمازی یا کوئی بھی اہل تشیع محقق ان "ثقہ ،معروف ،اجل و مشہور "چار سو مصنفین کے صرف نام ہی مکمل کر کے دکھا سکتے ہیں ؟
یہ ساری بحث اس صورت میں ہے جب ہم اہل تشیع محققین کے بیان کردہ جملہ مفروضات کو من و عن قبول کریں ،لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ طوسی و نجاشی نے جو لہ اصل کا لفظ بولا ہے ،کیا وہ واقعی حدیث کی کتاب کے لیے بولا ہے؟ یہ بات محتاج ثبوت ہے ، اگر اصل کا لفظ حدیث کی کتاب کے لیے ہے ،تو شیخ طوسی و نجاشی نے جو "لہ کتاب "کا لفظ بولا ہے ،اس کا مصداق کیا ہوگا ؟ اس لیے محض کتاب یا اصل کہنے کو حدیثی مجموعے پر محمول کرنا قیاس و تخمین ہے،کیونکہ شیخ طوسی و نجاشی نے اپنے اسلاف کے جملہ تصنیفی ذخیرے کی فہرست مرتب کی ہے ،جس میں تفسیر، حدیث، فقہ ،سوانح اور دیگر اصناف شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں تفسیر ،حدیث ،فقہ،تاریخ جملہ قسم کی تصانیف کا ذکر ہے ،اس لیے کتب اربعہ سے پہلے کے حدیثی ذخیرے کو ثابت کرنے کے لیے حدیثی کتب و مجموعات کی تصریح کی ضرورت ہوگی ،محض اصل یا کتاب کا لفظ دیکھ کر اسے حدیثی کتاب قرار دینا تحکم اور دعوی بلا دلیل ہے ، اور تحقیقی میزان میں ظن ،تخمین اور احتمالات کی بنیاد پر کیے گئے دعاوی ثابت شمار نہیں ہوتے ۔،نیز کتب اربعہ کے مصنفین نے بھی اپنی کتب کے مقدمات یا کسی اور مقام پر اپنی کتب کو اصول اربعمائہ سے ماخوذ و منقول قرار نہیں دیا ،بلکہ کتب اربعہ کے مصنفین کی جملہ کتب میں ہمیں اصطلاح(الاصول الاربعمائۃ) کا نام و نشان نہیں ملتا۔
کتب ِ اربعہ سے پہلے حدیثی ذخیرے کو ثابت کرنے کے لیے معاصر شیعہ مصنفین نے ایک اور طریقہ اختیار کیا ہے ،جسے ہم نے آسانی کے لیے "تفصیلی جواب "کانام دیا ہے ،اہل تشیع کی تاریخ حدیث لکھنے والے معاصر مصنفین نے ہر امام کے دور میں حدیثی مجموعات کی ایک فہرست مرتب کرنے کی کوشش کی ہے ،ان کتب میں ڈاکٹر محمد مہدوی کی ضخیم کتاب " تدوین الحدیث عند الشیعۃ الامامیہ "محمد رضا المودب کی کتاب " تاریخ الحدیث "سید محمد علی الحلو کی کتاب "تاریخ الحدیث بین سلطۃ النص و نص السلطۃ "الحاج حسین الشاکری کی کتاب "تدوین الحدیث و تدوین الفقہ " علی شہرستانی کی "تاریخ الحدیث النبوی " جبکہ فارسی کتب میں ڈاکٹر مجید معارف کی "پژو ھشی در تاریخ حدیث شیعہ "مدیر کاظم کی "تاریخ حدیث "سید احمد میرخانی کی "سیر حدیث در اسلام "اہم کتب ہیں ،ان مصنفین نے اصول اربعمائۃ پر بحث کے ساتھ شیعہ حدیثی ذخیرے کے مختلف مراحل بیان کئے ہیں ،جن میں عمومی طور پر ہر امام کے دور کو ایک مرحلہ قرار دیا گیا ہے ،ان میں سے ایک دو کتب کو چھوڑ کر باقی سب کتب کا ہم نے تفصیلی جائزہ لیا ،تاکہ اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کی قبل از تدوین کی صورتحال سامنے آجائے ،ان کتب کے تفصیلی مطالعے سے جو نکات ہمارے سامنے آئے ،انہیں ترتیب وار پیش کیا جاتا ہے:
1۔ان سب کتب میں ایک مشترک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں صرف حدیثی مجموعوں کا ذکر نہیں ہے ،بلکہ مواد کی کثرت ظاہر کرنے کے لیے دیگر فنون کی کتب کا بھی ساتھ ذکر کیا گیا ہے ،مثلا محمد رضا المودب نے "الاثار الروائیہ الاخری فی القرن الاول"کا عنوان باندھ کر درجہ ذیل کتب کا ذکر کیا ہے:
1۔السنن والقضایا و الاحکام لابی رافع
2۔کتاب علی بن رافع
3۔نصاب زکاۃ الانعام الثلاثۃ لربیعۃ بن سلیمان
4۔کتاب الاصبغ بن نباتہ الذی روی عہد مالک الاشتر
5۔کتاب زید بن وہب المشتمل علی خطب علی
6۔کتاب ابی ذر الغفاری حول ما وقع بعد وفاۃ النبی ﷺ
7۔کتاب عبد اللہ بن الحر الجعفی
8۔کتاب نعمان بن سعید
9۔کتاب عبد اللہ بن بلال المشتمل علی روایات عن بلال
10۔کتاب سلمان الفارسی الذی روی حدیث الجاثلق
11۔کتاب میثم التمار فی تفسیر القرآن
12۔کتاب ابی مقدام من روایات علی بن الحسین
13۔کتاب بریر بن خضیر الہمدانی
14۔کتاب الحارث بن اعور الہمدانی من روایات الامام علی
15۔کتاب سلیم بن قیس فی شرح وقائع الاسلام
16۔کتاب محمد بن قیس البجلی
17۔کتاب یعلی بن مرۃ الثقفی 17
پہلی صدی ہجری میں مصنف نے تلاش و جستجو کے بعد سترہ کتب کا ذکر کیا ،ان کی درجہ بندی یوں کی جاسکتی ہے:
الف: چار کتب ایسی ہیں ،جو براہ راست حدیثی روایات کی بجائے دیگر موضوعات پر بھی مشتمل ہیں :1۔کتاب الاصبغ بن نباتہ الذی روی عہد مالک الاشتر 2۔ کتاب ابی ذر الغفاری حول ما بعد وفات النبی ﷺ 3۔کتاب میثم التمار فی تفسیر القران 4۔کتاب سلیم بن قیس فی شرح وقائع الاسلام
ب:ائمہ کی روایات پر صراحتا مشتمل صرف تین کتب ہیں :1۔کتاب زید بن وھب المشتمل علی خطب علی 2۔کتاب ابی مقدام من روایات من روایات علی بن الحسین 3۔کتاب الحارث بن اعور الہمدانی من رویات الامام علی
اگر ہم فقہ کی دو کتب "السنن ولقضایا و الاحکام لابی رافع" اور "کتاب زکاۃ الانعام الثلاثہ" کو بھی حدیثی کتب شمار کریں ،تو ان سترہ کتب میں صرف پانچ کتب حدیث کی ہیں۔
ج ۔بقیہ آٹھ کتب ایسی ہیں ،جن میں مطلقا کتاب کا ذکر ہے ،جس میں اس کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ حدیثی ذخیرہ ہے یا کسی اور فن کی کتاب ہے ؟ان کو حدیثی ذخیرہ کی فہرست میں شمار کرنا دعوی بلا دلیل ہے۔
یہی روش تاریخ حدیث کی بقیہ کتب میں بھی ہے ،یہاں تک کہ مصاحف کا بھی ذکر کیا گیا ہے 18،حدیثی ذخیرے کی فہارس مرتب کرنے والی کتب میں مصاحف کا ذکر کس قدر علمی و تحقیقی وزن رکھتا ہے ،اہل علم پر مخفی نہیں ہے۔
2۔ حدیث و غیر حدیث کے مجموعات کے باوجود تعداد انتہائی کم بنتی ہے ،مثلا محمد مہدوی نے جو ذخیرہ ذکر کیا ہے ، وہ کچھ یوں ہے:
الف:حضرت علی کے دور میں حدیث و غیر حدیث کو ملا کر تیرہ اشخاص کی تصانیف کا ذکر کیا ہے۔
ب:حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے دور میں کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا ،صرف ان کے اقوال ذکر کئے ،جو روایات کی کتابت کی ترغیب پر مشتمل ہیں۔
ج:امام زین العابدین کے دور میں حدیث و غیر حدیث کو ملا کر کل گیارہ مجموعات کا ذکر کیا۔
د:امام باقر کے دور میں حدیثی و غیر حدیثی کل سولہ مجموعات کا ذکر کیا۔
ر:امام جعفر صادق کے دور میں کل تیس مجموعات کا ذکر کیا۔
ذ:امام موسی کے دور میں تیرہ مجموعات کا ذکر کیا۔
س:امام رضا کے دور میں بائیس مجموعات کا ذکر کیا۔
ش:امام محمد ہادی کے دور میں کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا ،اور امام علی و امام حسن عسکری کے ادوار کو ملا کر کل پندرہ مجموعات کا ذکر کیا۔
یہ تقریبا کل ملا کر 133 مجموعات ہوگئے۔ حدیثی و غیر حدیثی مجموعات کو ملا کر یہ تعداد بنتی ہے ،محض حدیثی مجموعات اس سے کہیں کم بنتی ہیں ،یوں امام حسن عسکری (260ھ) تک ڈھائی سو سال میں اہل تشیع کے مجموعات حدیث سو تک بھی نہیں پہنچتے ،لیکن پھر کتب اربعہ کی صورت میں ایک صدی کے اندر چالیس ہزار سے زائد روایات منظر عام پر آجاتی ہیں۔
3۔ بعض کتب میں جیسے محمد رضا المودب کی تاریخ الحدیث اور سید احمد میرخانی کی کتب میں ہر مرحلے کے مجموعات کی تعداد سینکڑوں میں بتائی گئی ہے ،مثلا صرف امام رضا کے دور میں دو سو سے اوپر کتب کا ذکر کیا گیا ہے ،لیکن ان میں نام و مصنف کی تفاصیل نہیں دی گئی ،صرف یہ کہا گیا ہے کہ اس دور میں ان کتب سمیت دوسو افراد نے بھی کتب لکھی ہیں ،مثلا رضا المودب لکھتے ہیں:
آپ کے اسی شاگردوں نے حدیث کی کتب لکھی ہیں ،جن کی تعداد 207 تک پہنچتی ہے۔
اب یہ کتب کن کی تصانیف ہیں ؟کیا واقعی یہ حدیث کی کتب ہیں ،یا دیگر فنون و مطلق کتاب کے عنوان پر مشتمل کتب بھی اس میں شامل ہی،نیز یہ تعداد کہاں سے ثابت ہے ؟اس طرح کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔
دراصل تفصیلی فہارس مرتب کرنے والے معاصر اہل تشیع مصنفین نے دو مفروضات پر یہ عمارت کھڑی کی ہے:
1۔ ائمہ کا ہر شاگرد شیعی امامی ہے ،حالانکہ ائمہ سے خصوصا امام جعفر صادق سے بہت سے اہل سنت حضرات نے بھی استفادہ کیا۔
2۔ ائمہ کے تلامیذ کے ساتھ کتاب کے عنوان کا مطلب یہ ہے کہ وہ کتاب ضرور ائمہ سے منقول رویات و احادیث پر مشتمل ہوگی۔
کیا کسی کے شاگرد بننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عالم اب جو بھی کتاب ،جس موضوع پر بھی لکھے گا ،وہ اسی استاد کی روایات پر مشتمل متصور ہوگی؟امام شافعی نے امام محمد سے استفادہ کیا ،اب کیا امام شافعی کی ہر کتاب کو امام محمد کی روایات کا مجموعہ کہا جائے؟اور یہ کہا جائے کہ امام محمد کی روایات کو امام شافعی نے الام جیسی ضخیم کتاب میں جمع کیا ؟ اگر یہ نتیجہ غلط ہے اور یقینا غلط ہے تو محض ائمہ کے شاگردوں کے تذکرے میں لفظ "کتاب "دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ کتاب حدیث کی ہی ہے اور اس میں ائمہ کی ہی احادیث جمع ہوئی ہیں ،نتیجہ نکالنا بھی تحقیق کے میزان میں کوئی وزن نہیں رکھتا ۔جبکہ اس کے برخلاف ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب نے جو مجموعات حدیث کی فہرست دی ہے، وہ مختلف محدثین کی اپنے اساتذہ سے سنی ہوئی روایات پر مشتمل ہیں ،ان میں اس طرح کے غیر ثابت مفروضوں سے کام نہیں لیا گیا ،چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
1۔ذکوان ابو صالح السمان کی احادیث کا تذکرہ یوں کیا ہے :
2۔سالم ابن ابی الجعد کا مجموعہ حدیث یوں ذکر کیا :
3۔ شہر بن حوشب الاشعری کا مجموعہ یوں ذکر کیا :
اس طرح سے ڈاکٹر صاحب نے مختلف شیوخ اور ان کے تلامذہ کے مرتب کردہ 456 مجموعات ِ حدیث کی فہرست مرتب کی ہے ، الغرض اہل تشیع کی تفصیلی فہارس اولا تو انتہائی کم تعداد میں ہیں ،ثانیا انہیں بلا دلیل مجموعات ِحدیث اور ائمہ کی روایات پر مشتمل صحائف باور کرایا گیا ہے ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اہل تشیع کی کتب اربعہ سے پہلے حدیثی ذخیر ہ خواہ تحریری صورت ہو یا تقریری یعنی درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کی صورت ہو ،ا خفا کے دبیز پردوں میں مستور ہے ،اس کا تاریخی ثبوت دستیاب مواد کی مدد سے از حد مشکل ،بلکہ ناممکن ہے ۔
1. الذریعہ الی تصانیف الشیعہ 134/2
2. الفہرست ،ص35
3. ایضا ،ص36
4. الفوائد الرجالیہ ،ص367/2
5. مجمع الرجال ،9/1
6. مقدمہ قاموس الرجال ،ص 7
7. اعیان الشیعہ ،140/1
8. دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ ،ص8
9. تراجم رواۃ الاصول الاربعمائۃ ،ص15
10. معالم العلماء ،ص 39 (یہ بات مازندرانی نے شیخ مفید سے نقل کی ہے ،لیکن شیخ مفید کی کتب میں چار سو اصولوں کا کوئی ذکر نہیں ہے فافہم )
11. اعلام الوراء باعلام الھدی ص 166
12. المعتبر شرح المختصر للحلی ،26/1 ،ذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ للعاملی ،ص6
13. دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ ص22
14. الذریعہ 135-168/2
15. دراسۃ حول الاصول الاربعمائۃ ،ص 27
16. الاعلام الھادیۃ الرفیعہ فی اعتبار الکتب الاربعۃ المنیفہ،ص 108
17. تاریخ الحدیث ،ص 53
18. تدوین الحدیث عند الشیعۃ الامامیہ ،ص419 ( مصحف علی کا ذکر کیا گیا ہے )
19. تاریخ الحدیث ،ص71
20. دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ ،ص 147
21. ایضا ،ص148
22. ایضا،ص151
(جاری)
(جامعہ تہران کے کلیۃ الالہیات والمعارف الاسلامیۃ کے زیر اہتمام ۲۶ جون ۲٠۱۹ء کو منعقدہ الموتمر العالمی للقدرات الاستجراتیجیۃ لتعالیم الاسلامی فی تحقیق التعایش السلمی کے لیے لکھا گیا۔)
الحمد للہ رب العالمین و الصلوۃ و السلام علی سید المرسلین وعلی آلہ و اصحابہ واتباعہ اجمعین۔
میں سب سے پہلے جامعہ طہران کے کلیۃ الالہیات والمعارف الاسلامیۃ اور اس کے رئیس فضلیۃ الشیخ الدکتور مصطفی ذوالفقار طلب حفظہ اللہ تعالی کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ارباب ِ علم و دانش کی اس موقر محفل میں مجھے شرکت کا اعزاز بخشا اور عالم ِ اسلام کے سر کردہ علماء کرام اور دانش وران کے ارشادات سے مستفید ہونے کا موقع دیا ۔اللہ تعالی ٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں اور ہمارے اس مل بیٹھنے کو انسانی سوسائٹی ، عالمِ اسلام اور امت مسلمہ کے لیے خیر و برکت کا ذریعہ بنائیں،آمین یارب العالمین ۔
ہم اس وقت اس عنوان پر غور و خوض اور تبادلۂ خیال کے لیے جمع ہیں کہ امت مسلمہ کو پر امن معاشرت اور اجتماعی زندگی کے لیے اسلامی تعلیمات کے کن پہلوؤں پر زیادہ توجہ دینے اور کون سی حکمت عملی اور اقدار و روایات کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے علمی و فکری حلقوں بالخصوص جامعات کو کیا طریق ِ کار اختیار کرنا چاہیے ۔جہاں تک پر امن معاشرت اور سلامتی پر مبنی سوسائٹی کا تعلق ہے، یہ نہ صرف امت مسلمہ بلکہ پوری نسل ِ انسانی کی ہمیشہ سے ضرورت چلی آ رہی ہے اور جب تک اس زمین پر انسان آباد ہیں اس کی ضرورت رہے گی، لیکن اس کے لیے مختلف اقوام اور ادوار میں الگ الگ فلسفہ اور طریقِ کار رہا ہے اور آج بھی یہ اختلاف و تنوع انسانی سوسائٹی میں امن و سلامتی کے مجموعی اہتمام میں رکاوٹ ہے۔ظاہر ہے کہ اسی ماحول میں سے ہم نے اپنے لیے امن و سلامتی کا راستہ نکالنا ہے اور فساد و بدامنی کی موجودہ دلدل سے نکلنے کی صورتیں پیدا کرنی ہیں جو اہل ِ علم و دانش کے فطری و شرعی فرائض میں داخل ہے ۔
اسلام تو عبارت ہی سلامتی سے ہے اور اس کا مادہ "سلم " ہے۔سلم اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی کہ خود بھی سلامتی سے رہنا ہے اور دوسروں کو بھی سلامتی کے ساتھ رہنے کے مواقع فراہم کرنا ہے اور یہ بات کسی اصول و ضابطہ اور اجتماعی اخلاقیات و اقدار کی تشکیل و تعین کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسلام نے اس کا فطری راستہ بتایا ہے کہ نسلِ انسانی خود کو اپنے پیدا کرنے اور زندگی کے ہر قسم کے اسباب فراہم کرنے والی ذات کے حوالے کر دے اور اس کی ہدایات کی پابندی قبول کرے جو اس نے اپنے مقدس پیغمبروں صلوات اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ بھجوائی ہیں اور جن کی نشاندہی اللہ تعالی نے زمین پر حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو اتارتے وقت اس طرح کر دی تھی کہ :
جب کہ آسمانی تعلیمات کی پابندی قبول نہ کرنے والی اقوام و طبقات او رگروہوں نے باہمی امن و سلامتی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے عقل و خواہش کو بنیاد بنایا اور یہ طے کر لیا کہ انسانی سوسائٹی اپنے نفع و نقصان کو خود ہی بہتر سمجھتی ہے، اس لیے وہ اجتماعی سوچ اور تقاضوں کی بنیاد پر جو طے کر لے، وہی اس کے لیے امن و سلامتی کا راستہ ہے۔قرآن کریم نے اسے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ :
آج بھی فکری اور تہذیبی ماحول میں یہی کشمکش پوری نسل ِ انسانی کا احاطہ کیے ہوئےہےاور اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، اس لیے ہماری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ ہم نسل ِ انسانی کو اسلامی تعلیمات اور "وَلَقَدْ جَاءَھُم مِّن رَّبِّھِمُ الْھُدَى" کی طرف متوجہ کریں اور اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ انسانی سوسائٹی اگر سارے معاملات خود طے کرنے لگے گی تو افراد و طبقات اور اقوام و ممالک کے درمیان خواہشات و مفادات کا ہمہ گیر تنوع اسے کبھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچنے دے گا اور باہمی تصادم و کشمکش سے اسے نکلنا کبھی نصیب نہیں ہوگا ۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے معاملات طے کرنے کے لیے کسی بالاتر ذات و قوت کی طرف رجوع کرے اور وہ اللہ تعالی کی ذاتِ گرامی ہے جس کی ہدایات حضرات انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کی صورت میں اس کے پاس موجود ہیں ۔
اس اصولی گزارش کے ساتھ ساتھ گفتگو کو طوالت سے بچانے کے لیے موجودہ معروضی صورتِ حال میں چند معروضات تجاویز کی صورت میں اس موقر مؤتمر کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔اگر انہیں بھی غور وفکر کے دائرہ میں شامل کر لیا جائے تو اس عمل میں شرکت کے حوالہ سے مجھ جیسے طالب علم کا بھی کوئی حصہ پڑ جائے گا ۔
امید ہے کہ میری ان معروضات پر مؤتمر کے معزز شرکاء غور و خوض کی زحمت فرمائیں گے ۔اللہ تعالی مؤتمر کو کامیابی سے نوازیں ،منتظمین کو جزائے خیر سے نوازیں اور پورے عالم ِ اسلام کے لئےہمارے اس اجتماع کو بہتر رہنمائی اور خیر و برکت کا ذریعہ بنائیں ،آمین یا رب العالمین ۔
پاکستان کے قیام کے بعد اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست کے ارباب حل و عقد کو سب سے پہلا اور اہم مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اس کا دستور اور نظامِ حکومت کیا ہو گا اور حکمرانی کا حق کسے حاصل ہو گا؟
ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہلی منتخب دستور ساز اسمبلی نے ’’قرار داد مقاصد‘‘ کی صورت میں یہ اصول طے کر دیا کہ دستوری طور پر:
اس میں جہاں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کر کے عوام کی حاکمیت کے مغربی تصور کو مسترد کیا گیا ہے، وہاں حکمرانی کے حق کے لیے عوام کی مرضی کو بنیاد بنا کر طاقت کی حکومت اور خاندانی حکمرانی کے سسٹم کی بھی نفی کر دی گئی۔ اور اس طرح اسلام اور اس کے ساتھ جمہوریت کے اسلام ہی سے لیے ہوئے قابل قبول تصور کے دو اصولوں کو پاکستان کی دستوری اساس تسلیم کیا گیا۔ حکومتوں کے طرز عمل اور عملدرآمد کی صورتحال کے مختلف ہونے کے باوجود یہ قرارداد مقاصد اب تک نافذ ہونے والے تمام دستوروں کا حصہ چلی آرہی ہے۔ اور رائج الوقت دستور، جسے ۱۹۷۳ء کا دستور کہا جاتا ہے، اس کا بھی حصہ ہے اور اس کی روشنی میں اسلام کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دینے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے دائرے میں قانون سازی کا پابند کیا گیا ہے، جو آج کے دور میں کسی بھی اسلامی ریاست کی صحیح اور متوازن دستوری بنیاد ہو سکتی ہے۔
اس اصول اور دستور کے مطابق ملک اب تک انتخابات کے بہت سے مراحل سے گزر چکا ہے، بہت سی حکومتیں اس ذریعے اقتدار میں آچکی ہیں، درمیان میں مارشل لاء کے ادوار بھی آئے ہیں جسے طاقت کے بل پر حکمرانی کا حق استعمال کرنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، لیکن سات عشروں سے زیادہ عرصہ کے اس دورانیہ میں اسلام اور جمہوریت دونوں کے ساتھ جو نا انصافی اور ظلم روا رکھا گیا ہے وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ نوآبادیاتی دور کی یادگار اسٹیبلشمنٹ نے، جس میں بیوروکریسی، جاگیردار، صنعتکار اور فوجی حکمران سب ہی درجہ بدرجہ شامل چلے آ رہے ہیں، اپنی حکومتوں کے دور میں ملک کو اسلام کی بالادستی اور جمہوری حکمرانی سے بہرہ ور کرنے کی بجائے ہمیشہ اپنے طبقاتی مفادات اور عالمی قوتوں کے ایجنڈے کے لیے کام کرنے کو ترجیح دی ہے۔ جس کے نتیجے میں آج ملک نہ صرف معاشی طور پر تباہ حالی کا شکار ہے بلکہ اس کی سرحدوں کا احترام، قومی مختاری اور ملکی سالمیت بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔
اسلام کے ساتھ اکثر حکومتوں کا یہ طرز عمل رہا ہے کہ دستور میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کی واضح ممانعت کے باوجود قرآن و سنت کے منافی قوانین اور پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے، اور جمہوریت کے بارے میں ان کا یہ طرز عمل ہمارے سامنے ہے کہ اکثر مواقع پر انتخابات میں عوام نے ووٹ کے ذریعے جن حکومتی پالیسیوں کو واضح طور پر مسترد کیا، اس ووٹ کے ذریعے برسر اقتدار آنے والی حکومت نے انہی پالیسیوں کو مسلسل جاری رکھا، حتٰی کہ منتخب پارلیمنٹ کے بعض متفقہ فیصلوں کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ اس ملک میں اسلام اور جمہوریت کے دونوں نعرے صرف اور صرف دکھاوے اور اقتدار کے حصول و بقا کے لیے استعمال ہوتے ہیں جبکہ اصل پالیسیاں وہی جاری رہتی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ اور عالمی قوتوں کے درمیان طے پا جاتی ہیں۔
اس لیے ہمارے خیال میں عوام کے لیے سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ پاکستان کی اسلامی شناخت، قومی خودمختاری، سیاسی آزادی اور ملکی سالمیت کو ترجیح دیتے ہوئے ایسی قیادت کو سامنے لانے کی کوشش کریں جو ملک پر عالمی استعمار اور ملکی حکمران طبقات کے گٹھ جوڑ کے شکنجے کو ڈھیلا کر سکے، کیونکہ اس کے سوا پاکستان کے مستقبل کو محفوظ اور بہتر بنانے کا اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا، خدا کرے کہ ہم اس سمت صحیح پیشرفت کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔
امام شافعی کے موقف کی وضاحت میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ ان سے پہلے کتاب وسنت کے باہمی تعلق کی بحث میں جمہور اہل علم کے استدلال کا محوری نکتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع واطاعت کا مطلق اور حتمی ہونا تھا اور وہ قرآن اور حدیث میں کسی ظاہری مخالفت کی صورت میں حدیث کو قرآن کی تشریح میں فیصلہ کن حیثیت دینے کو اس اتباع واطاعت کے ایک تقاضے کے طور پر پیش کرتے تھے۔ امام شافعی نے اس بحث میں ایک نہایت اہم نکتے کا اضافہ کیا کہ قرآن میں اسلوب عموم میں بیان کیے جانے والے ہر حکم کا ہر ہر فرد اور ہر ہر صورت کو قطعی طور پر شامل ہونے کا مفروضہ ہی عربی زبان کے اسالیب کے لحاظ سے درست نہیں اور قرآن کا اسلوبِ عموم خود ایک قابل احتمال اور محتاج تفسیر چیز ہے، اس لیے کسی حدیث میں، ظاہر قرآن پر کسی اضافے یا کسی تخصیص وتقیید کو قرآن کے معارض سمجھنے کے بجائے اسے شارع کی طرف سے اصل حکم ہی کی تفصیل اور تشریح تصور کرنا ضروری ہے۔
اسلوب عموم کی نوعیت پر گفتگو کرتے ہوئے امام شافعی نے قرآن مجید کی بہت سی مثالوں کی روشنی میں یہ واضح کیا کہ عموم کا اسلوب بذات خود قطعی طور پر یہ طے نہیں کرتا کہ متکلم کی مراد عموم ہی ہے، بلکہ اس میں دونوں احتمال ہوتے ہیں اور متکلم کی مراد متعین کرنے کے لیے اضافی دلائل وقرائن کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ بعض جگہ عموم کے اسلوب سے فی الواقع عموم ہی مراد ہوتا ہے، یعنی الفاظ کی ظاہری دلالت جن مصداقات کو شامل ہے، وہ سب متکلم کی مراد ہوتے ہیں، بعض جگہ عموم کے اسلوب سے عموم مراد تو ہوتا ہے، لیکن قرائن ودلائل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس عموم سے فلاں اور فلاں صورتیں خارج ہیں، اور بعض مقامات پر عموم کے اسلوب سے سرے سے عموم مراد ہی نہیں ہوتا، بلکہ کچھ خاص مصداقات کا ذکر عموم کے الفاظ سے کر دیا جاتا ہے۔
اس بنیادی نکتے سے امام شافعی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب اسلوب عموم سے واقعتا عموم کا مراد ہونا قطعی نہیں، بلکہ اس کا تعین اضافی دلائل وقرائن کی روشنی میں کیا جا تا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے نمائندے اور ترجمان کی حیثیت سے قرآن کی مراد کی جو وضاحت فرمائی ہے، وہ مراد الٰہی کی تعیین میں حتمی اور فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے ۔ چنانچہ سنت میں تخصیص وارد ہونے کے بعد قرآن کے حکم کو اس کے ساتھ ملا کر سمجھا جائے گا اور دونوں کے مجموعے سے اللہ تعالیٰ کی مراد طے کی جائے گی، نہ کہ سنت کے حکم کو کتاب اللہ سے اختلاف پر محمول کر کے حدیث کو رد کر دینے یا منسوخ تصور کرنے کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔
یہ طرز استدلال اختیار کر کے امام شافعی نے بنیادی طور پر جمہور اہل علم کے موقف، جو اس وقت تک عموماً اطاعت رسول کے اعتقادی مقدمے پر مبنی تھا، دلالت کلام کے تناظر میں ایک علمی وعقلی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی اور بہت سی مثالوں میں سنت میں وارد تخصیصات کے لفظی یا عقلی قرائن کی نشان دہی خود قرآن مجید میں کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ سنت نے قرآن کے حکم میں تبدیلی نہیں کی، بلکہ اسی میں موجود اشارات، علل اور قرائن کی روشنی میں مراد الٰہی کی وضاحت کی ہے۔ اس حد تک امام شافعی کا استدلال بہت وزنی اور مضبوط معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ قبول کیے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں پاتے کہ جہاں بہت سی مثالوں میں تخصیص کی بنیاد خود قرآن میں واضح کی جا سکتی ہے، وہاں کم وبیش اتنی ہی مثالوں میں حکم کی تخصیص کا کوئی قرینہ بظاہر قرآن میں دکھائی نہیں دیتا، البتہ امام صاحب کے نزدیک چونکہ اصولی طور پر یہ بات طے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ ہی کی مراد کو واضح کرتے ہیں، اس لیے انھیں اصرار ہے کہ ایسی مثالوں کو بھی نسخ اور تغییر نہیں، بلکہ تبیین وتوضیح ہی تصور کرنا لازم ہے۔ یوں کم سے کم اس دوسری نوعیت کی مثالوں کی حد تک ان کا استدلال دلالت کلام کے نکتے سے ہٹ کر دوبارہ ایک طرح کی اعتقادی بنیاد پر استوار ہو جاتا ہے۔
مزید برآں امام صاحب اس الجھن کا بھی کوئی واضح جواب نہیں دیتے کہ کتاب اللہ کے جن احکام میں ظاہراً ایک سے زیادہ احتمالات نہیں پائے جاتے اور تخصیص کا بھی کوئی قرینہ موجود نہیں، ان میں اگر سنت، کتاب اللہ سے مختلف کوئی بات بیان کرے تو اسے اصل حکم میں ترمیم یا اضافہ سمجھنے کے بجائے اس کی تبیین ماننے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ قرآن کا جو حکم پہلے بالکل واضح اور غیر محتمل تھا، سنت کا بیان سامنے آنے کے بعد اب اسے محتمل اور محتاج بیان تصور کیا جائے گا۔ یعنی کسی حکم کے واضح اور غیر محتمل ہونے کا معیار خود اس کا اپنا اسلوب اور اس کی داخلی دلالت نہیں، بلکہ اس کا تعین کسی دوسری امکانی وضاحت کے وارد ہونے یا نہ ہونے پر منحصر ہے۔ ایسی کوئی ممکنہ وضاحت سامنے نہ آنے تک حکم کو عبوری طور پر واضح اور غیر محتمل مانا جا سکتا ہے، لیکن جیسے ہی کوئی وضاحت وارد ہوگی، یہ فرض کر لیا جائے گا کہ اصل حکم محتمل الدلالة اور غیر قطعی تھا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ امام شافعی باصرار یہ کہتے ہیں کہ اصل کلام کو اس تخصیص کے لیے قابل احتمال ہونا چاہیے جو بعد میں بیان کی گئی ہے، لیکن وہ یہ واضح نہیں کرتے کہ قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے تناظر میں اس قید کا عملی فائدہ کیا ہے، کیونکہ وہ کوئی ایسی مثال بیان نہیں کرتے جس میں سنت کی بیان کردہ تخصیص اصل کلام کے لیے قابل احتمال نہ ہو۔ ان کے فریم ورک میں قرآن کے بیان کا تخصیص کے لیے قابل احتمال ہونے یا نہ ہونے کا سوال سنت سے قطع نظر کرتے ہوئے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا، کیونکہ سنت میں وارد تخصیص ہی دراصل یہ طے کرتی ہے کہ قرآن کا بیان محتمل ہے یا نہیں۔ ایسی صور ت میں اصل کلام کے کسی تخصیص کے لیے قابل احتمال ہونے یا نہ ہونے کا نکتہ کیا فرق پیدا کرتا ہے، اس کی کوئی وضاحت امام شافعی نہیں کرتے۔
امام شافعی اس سوال سے بھی کوئی تعرض نہیں کرتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حکم کے مبنی بر خصوص ہونے کا علم کیسے ہوا؟ آیا اس کا علم آپ کو مستقل وحی کے ذریعے سے دیا گیا یا سابقہ حکم ہی میں اس کے دلائل وقرائن موجود تھے؟ اگر حکم کے خاص ہونے کے لسانی یا عقلی قرائن خود قرآن میں موجود تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی قرائن وشواہد سے یہ بات اخذ کی تو زبان کی ابانت وبلاغت یہ تقاضا کرتی ہے کہ تخصیص کے ان قرائن کا فہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص نہ ہو، بلکہ زبان کا معیاری اور عمدہ ذوق رکھنے والے اصحاب علم بھی ان قرائن کی مدد سے اسی نتیجے تک پہنچ سکیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام میں تو اس تخصیص کے قرائن نہیں رکھے تھے، لیکن حکم کے مبنی بر خصوص ہونے کی وضاحت کسی الگ وحی کے ذریعے سے کی گئی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلام کے مدعا و مفہوم کے ابلاغ کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ کیا قرآن کی زبان اس کی متحمل نہیں تھی کہ اس تخصیص کے قرائن یا اشارات کو اپنے اندر سمو سکتی؟ اس معروف اور مانوس طریقے کو چھوڑ کر ایک ایسا انداز اختیار کرنے کی حکمت کیا ہو سکتی ہے جو الجھن پیدا کرنے کا موجب ہو؟
امام شافعی کے استدلال کے یہ وہ خلا تھے جن کے پیش نظر ان کے بعد ان کے موقف سے اصولی اتفاق کرنے والے مکتب فکر، یعنی جمہور اصولیین میں اس حوالے سے دو مختلف رجحانات سامنے آئے۔ ان میں سے ایک رجحان کا نمائندہ پانچویں صدی ہجری کے ممتاز ظاہری فقیہ علامہ ابن حزم الاندلسی کو قرار دیا جا سکتا ہے، جبکہ دوسرے رجحان کی نمائندگی جمہور اصولیین کے مواقف میں ہوئی ہے۔ ان دونوں رجحانات میں امام شافعی کے پیش کردہ موقف اور استدلال میں بعض اہم تنقیحات اور اضافے شامل ہوئے ہیں جنھیں پیش نظر رکھنا بحث کے تاریخی ارتقا کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے۔
(جاری)
رشتوں کے انتخاب کا معیار کیا ہو؟ اس مسئلہ کی معاشرتی اہمیت ہمیشہ بہت زیادہ رہی ہے، اور اس دور میں تو یہ مسئلہ نہایت سنگین ہوگیا ہے، مادہ پرستی، ظاہر پسندی اور خود ساختہ مثالیت پسندی کے بے تحاشا بڑھتے ہوئے رجحانات نے پورے معاشرے کو اپنے چنگل میں لے لیا ہے، اس صورت حال میں ہر ايک پریشان ہے، اور ہرشخص ایک بے مقصد دوڑ میں شریک ہونے اور اپنی پوری زندگی کو بھاگتے اور ہانپتے ہوئے گزارنے کے لیے مجبور نظر آتا ہے۔
مادہ پرستی اور ظاہر پسندی کی اس دوڑ میں رشتوں کے رائج الوقت انتخابی معیارات کا اہم رول ہوتا ہے، اور ان معیارات کے حصول کے لیے عام طور سے لوگ خواہی نہ خواہی پریشان اور بدحواس رہتے ہیں۔
ایسی صورت میں بہت ضروری ہوجاتا ہے کہ رشتوں کے انتخاب کے تعلق سے وہ اعلی نبوی معیارات لوگوں کے سامنے لائے جائیں جن کو االلہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ كرام کے مثالی معاشرے میں فروغ دیا تھا۔ اور جن کی برکتوں کو اس زمانے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
یہ بھی ضروری ہے کہ سیرت کے لٹریچر میں اس سلسلے کی اگر کوئی نامناسب بات کسی طرف سے در آئی ہو اور سیرت پاک کی عظمت وشوكت کو متاثر کررہی ہو تو اس کی نشاندہی کی جائے، اور اس کے بارے میں صحيح موقف اختیار کیا جائے۔
اس بات پر تو ساری امت کا اتفاق ہونا چاہئے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک خاص مقصد افراد کے اندر اعلی اخلاق اور معاشرے میں بلند اقدار کا فروغ تھا۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا نمایاں رنگ یہی تھا، اور یہ رنگ آپ کی تعلیمات کو دنيا كي ساری تعلیمات کے مقابلے میں ایک زبردست امتیازعطا کرتا ہے۔
شادی بیاہ کے معاملات اور بطور خاص شریک حیات کے انتخاب کے تعلق سے بھی آپ کی تعلیمات اور ہدایات کا عمود اور محور یہی تھا۔
رشتوں کے تعلق سے آپ کی اصل توجہ اس پر مرکوز تھی کہ دینداری، صالحیت اور حسن اخلاق کو انتخاب میں ترجیح اول حاصل رہے، چنانچہ مردوں کے تعلق سے آپ کی عام ہدایت تھی، کہ اگر کوئی ایسا شخص پیش قدمی کرتا ہے جو دینداری اور اخلاق وکردار کے لحاظ سے اطمینان بخش ہے تو اس کی شادی کردو، ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پیدا ہوجائے گا۔
خواتین کے تعلق سے آپ کی عام ہدایت تھی کہ شادی کرتے ہوئے عام طور سےعورت کی مالداری، حسب ونسب، جمال اور دینداری کا خیال کیا جاتا ہے، تم اگر خوش بختی چاہتے ہو تو دیندار خاتون کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
آپ نے اس معیار کو دوسرے معیاروں پر ترجیح دینے کی مسلسل تربیت بھی کی، ذیل کی روایت سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
سہل کہتے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے رسول ﷺ کے پاس سے گزرا، آپ نے کہا تم لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ اس لائق ہے کہ رشتہ مانگے تو نکاح کردیا جائے، سفارش کرے تو سفارش مان لی جائے، اور بات کہے تو سنی جائے، آپ خاموش رہے۔ پھر ایک نادار مسلمان گزرا، آپ نے کہا اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ ایسا ہے کہ رشتہ مانگے تو نکاح نہ کیا جائے، سفارش کرے تو مانی نہ جائے، اور بات کہے تو سنی نہ جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: یہ اس جیسے زمین بھر لوگوں سے زیادہ بہتر ہے۔(صحیح بخاری)
ان عظیم تعلیمات کا اس وقت کے اسلامی معاشرے پر غیر معمولی اثر واقع ہوا، یقینی طور پر دینداری اور حسن اخلاق کی زبردست حوصلہ افزائی ہوئی، لوگوں پر بخوبی واضح ہوگیا کہ جس معاشرتی معیار کے لیے مسابقت ہونی چاہئے وہ بس یہی ہے، لوگ اپنے بچوں اور بچیوں کے رشتے کے سلسلے میں دینداری اور صالحیت کو سب سے زیادہ ترجیح دینے لگے، اور صالحیت ہی کو بچوں کی تربیت اور نشوونما میں اولیت کا درجہ حاصل ہوا، بچیوں کے والدین بھی اسی انمول گوہر سے ان کو آراستہ کرنے کی فکر کرتے، اور بچوں کے والدین بھی ان کی ایسی ہی اٹھان کے لیے کوشاں رہتے۔ تمام نوجوان مرد وخواتین پر یہ بات بخوبی واضح ہوگئی تھی کہ اب رشتوں کے انتخاب میں وزن دار چیز اگر ہے تو اخلاق وکردار کی دولت ہے۔ اور یہ نہیں ہے تو باقی سب کچھ بے وزن اور بے اعتبار ہے۔
ایک طرف لوگوں کی توجہ صالحیت اور دینداری پر مرکوز ہوگئی تھی، تو دوسری طرف ان دلفريب چیزوں کی طرف سے ان کی توجہ اور فکرمندی کم ہوگئی جو عارضی ہیں، دنیا کی اس عارضی زندگی تک محدود ہیں، اور ہر ایک کے حصے میں اس کے نصیب کے بقدر آتی ہیں۔
دیگر اوصاف ومعیارات کے مقابلے میں دینداری کا خصوصی امتیاز یہ ہے اسے آدمی اپنی پاک نیت، بلندارادہ، پیہم کوشش اور مسلسل توجہ سے حاصل کرتا ہے، جو حاصل کرلیتا ہے وہ تعریف وتحسین کا سزاوار ہوتا ہے، اور جو حاصل نہیں کرتا ہے وہ اپنی کوتاہی کے لیے خود قصور وار قرار پاتا ہے، اور اسی لیے مستحق ملامت بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں تعریف وملامت کے سلسلے میں بھی اصل معیار حسن سیرت وکردار ہے، اور آخرت میں جزا وسزا کے لیے بھی وہی حقیقی معیار ہے۔ اس لیے حکمت کا یہ عین تقاضا تھا کہ رشتوں کے انتخاب کے سلسلے میں بھی صالحیت کو تنہا معیار بنایا جائے۔
اگر کوئی مرد غریب اور تنگ حال ہے، یا اس کے اندر کوئی جسمانی خامی ہے، یا کسی خاص خاندان اور خاص علاقے میں پیدا ہوا ہے، یا کسب معاش کے لیے کسی مخصوص پیشے سے وابستہ ہوا ہے، یا اس کے حصے میں کوئی خاص رنگ اور زبان آئے ہیں، تو یہ سارے احوال انتخاب کے سلسلے میں رد وقبول کا معیار قرار نہیں دیے جاسکتے۔
اسی طرح کسی لڑکی میں کسی جسمانی عیب کا ہونا، یا اس کا خوب صورت نہ ہونا، یا بیوہ اور طلاق یافتہ ہوجانا اس کے نوشتہ قسمت کا حصہ تو ہوسکتا ہے، نوشتہ اعمال کا حصہ نہیں ہوتا ہے، اس لیے ایسی کسی چیز کو رد وقبول کی اخلاقی بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اگر کوئی فرد اپنے انفرادی فیصلے میں دینداری کے علاوہ بھی کسی پہلو کی رعایت کرتا ہے، تو وہ اس کی انفرادی پسند ہوسکتی ہے، اس فرد کے ذاتی حالات کا اس کے فیصلے میں دخل ہوسکتا ہے، اور ذاتی حالات کے پیش نظر اس کا خصوصی جواز بھی نکل سکتا ہے، لیکن معاشرے کو جو معیاری تعلیمات دی جائیں گی، ان میں ان اعتبارات کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے۔ اور اگر کسی نبی کی طرف سے رشتوں کے انتخاب کے بارے میں عمومی معیار صادر ہورہا ہو، تب تو اس میں صالحیت اور دینداری کے سوا کسی اور محرک کا دور دور تک گزر نہیں ہوسکتا ہے۔
افسوس اس بات پر ہے کہ امت مسلمہ میں رشتوں کے انتخاب ميں ان معیاروں کو زیادہ چرچا حاصل ہوگیا جو حقیقی نہیں تھے، اور ان کے مقابلے میں صالحیت کا حقیقی معیاربہت حد تک پس پشت چلاگیا، یا پھر غیر حقیقی معیاروں كي صف میں آکر بے وزن اور غیراہم ہوگیا۔
کسی درجے میں اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ اس حوالے سے سیرت کی بالکل صحیح اور خالص تصویر سامنے نہیں آسکی، بلکہ سیرت پاک کے تذکروں میں بہت سی ایسی چیزيں درآئی ہیں، جو سیرت پاک كي عظمت وشوكت سےكوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔
ایک عام آدمی جب سیرت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے سامنے کچھ عجیب وغریب سی تصویر آتی ہے، اور بے حد مشکل سوالات کا اسے سامنا هوتا هے، وہ دیکھتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ کنواری عورت سے شادی کرو، اور پھر وہ تلاش کرتا ہے کہ آخر بیوہ اور مطلقہ عورتوں کی شادی کے مشکل مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں آپ کی کیا تعلیمات ہیں، تو اسے حیرانی کے سوا كچھ ہاته نهيں آتا۔
وہ دیکھتا ہے کہ آپ لوگوں کو ابھار رہے ہیں کہ زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کرو، پھر وہ سوچتا ہے کہ بانجھ عورتوں کی شادی کے مشکل مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں آپ کی تعلیمات کیا ہیں، تو اسے حیرانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
وہ دیکھتا ہے کہ آپ لوگوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ شادی سے پہلے عورت کو دیکھ لو، اس میں کوئی عیب نہ ہو، پھر وہ جاننا چاہتا ہے کہ جو عورتیں کسی جسمانی عیب کا شکار ہیں، ان کی شادی کے سلسلے میں آپ کی تعلیمات کیا ہیں، تو اسے حیرانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
سیرت طیبہ کی یہ تصویر یقینا بڑی الجھنوں کي باعث اور گہری فکرمندی کي موجب ہے، اس میں سیرت پاک بر نکتہ چینی کرنے والوں کے لیے بڑا مسالہ موجود ہے۔
اس کے بالمقابل جب ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی زندگی اور شخصیت کو دیکھتے ہیں، تو بالکل مختلف تصویر سامنے آتی ہے، وہاں ہم کو نہ کنواری لڑکیوں کی تلاش ملتی ہے، نہ زیادہ بچے جننے والیوں کی جستجو نظر آتی ہے، نہ جسمانی لحاظ سے کسی کمی اور عیب سے گریز ملتا ہے، اور نہ حسن وجمال کی تلاش نظر آتی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی بیویاں کنواری تھیں؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی بیویاں بچے جننے والی تھیں؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن وجمال کی فراوانی پر کتنی توجہ دی تھی؟
پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خیر امت تیار کی تھی، اس میں رشتوں کے انتخاب کے تعلق سے کیا معیارات رائج تھے؟
کیا لوگ کنواری لڑکیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے، اور کیا وہ حسن وجمال کے متلاشی ہوا کرتے تھے؟
کیا اس معاشرے میں کوئی بیوہ یا مطلقہ اس وجہ سے ازدواجی رشتے کی نعمت سے محروم رہی کہ وہ کنواری نہیں رہی تھی؟
کیا کوئی خاتون اس وجہ سے بیاہی نہیں جاتی تھی کہ اس میں کوئی جسمانی عیب تھا؟
کیا اس زمانے میں بانجھ عورتوں کی شادیاں آسانی سے نہیں ہوا کرتی تھیں؟
واقعہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں کسی بھی خاتون کو اور کسی بھی مرد کو رشتے کے سلسلے میں نہ کسی پریشانی کا شکار ہونا پڑتا تھا، اور نہ کسی تاخیر سے دوچار ہونا پڑتا تھا، ہر عورت کو زوجیت کے سائے بان میں بروقت اور بڑی آسانی سے جگہ مل جایا کرتی تھی۔ یہ سیرت طیبہ اور تاریخ صحابہ کا زبردست امتیاز ہے، اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی ہے۔
درحقیقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، اور صحابہ کرام کا مثالی اور بابرکت معاشرہ ہمارے لیے باعث رشک وتقلید ہے، وہاں رشتوں کے انتخاب کے سلسلے میں صرف ایک ہی معتبر اور باوزن معیار تھا اور وہ تھا صالحیت، دینداری اور اعلی اخلاق وکردار، اور اس معیار نے رشتوں کے تعلق سے بے شمار معاشرتی مسائل کو جڑ سے ختم کردیا تھا۔
یہاں اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ ان روایتوں کے بارے میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہئے، جن میں دینداری صالحیت اور حسن اخلاق کے علاوہ بھی مختلف چیزوں کی رعایت کرنے کی تعلیم ملتی ہے؟
یہ سوال بہت اہم ہے اور بہت نازک بھی ہے، سیرت پاک کے شیدائیوں کو اس کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہئے، تاہم سیرت پاک کے خوشہ چینوں کے غور وفکر کے لیے بہت خاص بات یہ ہے کہ رشتوں کے معیار کے حوالے سے صالحیت اور دینداری کے علاوہ اوصاف کے بارے میں جو کچھ ہمیں روایتوں میں ملتا ہے، وہ صرف روایتوں میں ملتا ہے، نہ تو وہ نمایاں طور پر اللہ کے رسول کی زندگی میں ملتا ہے، اور نہ ہی صحابہ کرام کی سوسائٹی میں ملتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد کا مسلم معاشرہ غیر اسلامی معاشروں کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا، اور مسلم معاشرے میں بھی وہی معیارات رواج پاگئے جو غیر مسلم معاشروں میں رائج تھے، ان رواجوں کو جب بعض روایتوں کی تائید بھی حاصل ہوگئی تو ان کی جڑیں معاشرے میں اور گہری ہوگئیں، اور ان کو ختم کرنا بہت دشوار ہوگیا۔
اس مختصر مقالے میں ہر روایت پر بہت تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گنجائش تو نہیں ہے البتہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر اس طرح کی کچھ مشہور ومعروف روایتوں بر غور كرليا جائے.
اس روایت کا تعلق ایک واقعہ سے ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی جابر بن عبداللہ سے پوچھا کہ کیا تم نے شادی کرلی ہے، انہوں نے کہا ہاں، تو آپ نے پوچھا بکر سے یا ثیب سے؟ انہوں نے کہا ثیب سے، اس پر آپ نے کہا: تم نے بکر سے شادی کیوں نہ کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی؟؟ اس پر انہوں نے وضاحت کی کہ جنگ احد کے موقعہ پر ان کے والد شہید ہوگئے تھے، اور نو لڑکیاں چھوڑی تھیں، میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ ایک ناتجربہ کار الہڑ لڑکی کو ان کے ساتھ رہنے کے لیے لاؤں، اس لیے ایسی خاتون کو بیاہ کر لایا جو ان کے کام آسکے۔
یہ روایت مختلف تفصیلات کے ساتھ متعدد کتابوں میں مذکور ہے، اس کا ایک متن یہاں نقل کیا جارہا ہے:
جابر کہتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ نے مجھ سے کہا: کیا تم نے نکاح کرلیا، میں نے کہا ہاں، پوچھا: کنواری یا غیر کنواری؟ میں نے کہا غیر کنواری۔ کہا: کنواری سے کیوں شادی نہیں کی، تم اس کے ساتھ کھیلتے وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول میرے باپ احد کے موقع پر کام آگئے، اور نو لڑکیاں چھوڑیں، میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ ان میں ایک ان جیسی ناتجربہ کار لڑکی کا اضافہ کردوں، مناسب یہ لگا کہ ایک عورت لاؤں جو ان کے بالوں میں کنگھی کرے، اور ان کی نگہداشت کرے، آپ نے فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔ (مسند احمد)
امام مسلم اس روایت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ متعلقہ باب کا نام ہی باب استحباب نكاح البكر رکھ دیا، روایت کے تمام طرق کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کئی حصوں کے تعلق سے مختلف روایتوں میں شدید تعارض پایا جاتا ہے، شارحین حدیث نے اس کی شرح کرتے ہوئے متعدد اشکالات ذکر کئے ہیں، تاہم اس کا سب سے زیادہ توجہ طلب حصہ فھلا بكرا تلاعبھا وتلاعبك والا جملہ ہے، اس جملے کو مختلف راویوں نے مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے، ظاہر ہے کہ اللہ کے رسول نے ایک ہی واقعہ میں اور ایک ہی مجلس میں ایک ہی فرد سے یہ سارے الفاظ نہیں کہے ہوں گے، اس سے ابتدائی طور پر راویوں کا تصرف تو ثابت ہوجاتا ہے۔
وہ مختلف الفاظ حسب ذیل ہیں:
الفاظ کے اختلاف کا مسئلہ خود راویوں کے درمیان زیر بحث رہا، جیسا کہ ذیل کی روایت سے معلوم ہوتا ہے:
اس روایت میں ایک بڑا اشکال تو یہ ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ متضاد تفصیلات کے ساتھ وارد ہوا ہے، دوسرا اس سے زیادہ غور طلب پہلو یہ ہے کہ اس واقعہ میں اللہ کے رسول کی طرف منسوب الفاظ انبیائی شان سے کس قدر میل کھاتے ہیں۔
اس تعلق سے چند اشکالات یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:
یہ بات بھلا کیسے باور کی جاسکتی ہے، کہ ایک شخص نے کسی بیوہ یا مطلقہ عورت سے شادی کرلی ہو، اور تفصیلی روایتوں کے مطابق وہ ایک جنگی مہم سے لوٹتے ہوئے اپنی بیوی سے ملنے کے لیے بیتاب ہو، اور اللہ کے رسول اس کے شوق کو سرد کردینے اور اس کو افسوس سے دوچار کردینے والی بات کہیں، اور اس بات کے لیے ایسی تعبیر اختیار کریں کہ وہ اپنی موجودہ بیوی کی طرف رغبت کھودے، اور کنواری کی حسرت میں ہاتھ ملے۔
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ملاعبت ومضاحکت کا تعلق عورت کے کنوارپن سے ہے، یا اس کی طبیعت اور مزاج اور کسی قدر اس کی عمر سے ہے، ایک عورت جو شادی کے کچھ ہی عرصے بعد طلاق یافتہ یا بیوہ ہوجائے، کیا وہ ملاعبت اور مضاحکت کی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتی ہے؟؟ یہ بات کوئی ایسا شخص تو کہہ سکتا ہے جو شادی کے تجربے سے ابھی نہیں گزرا ہو، ایک تجربہ کار اور حکیم شخص ایسی بات کہہ ہی نہیں سکتا ہے۔
اللہ کے رسول کی ایک كے علاوه تمام بیویاں ثیب تھیں، ایسی صورت میں اس طرح کی تعلیمات خود ان ازواج مطہرات کی دل شکنی کا سبب ہوسکتی تھیں۔
پھر جب ایک شخص کی شادی ثيب كے ساتھ ہوچکی، تو اس طرح کی بات اس سے کہنے کا کیا فائدہ ہوسکتا تھا؟
یہاں یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ صحیح بخاری اور سنن نسائی کی بعض روایتوں میں یہ واقعہ اس جملے کے بغیر مذکور ہے، اگر ان روایتوں کو درست مان لیا جائے، اور زیر بحث جملے کو غیر محفوظ اضافہ مان لیا جائے تو یہ پورا واقعہ شان رسالت کے مطابق ہوجاتا ہے، یہ بات حسب ذیل دونوں روایتوں میں دیکھی جاسکتی ہے:
مذکورہ بالا روایت تو ایک خاص واقعہ کو بیان کرتی ہے، البتہ اس کے علاوہ ایک اور روایت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے عمومی ہدایت دی تھی کہ لوگ کنواری لڑکیوں سے شادی کریں، روایت میں کنواری لڑکیوں سے شادی کے فائدے بھی مذکور ہیں، یہ روایت مختلف طرق سے آئی ہے اور ان میں مختلف طرح کے فائدے وارد ہوئے ہیں۔ سند کے لحاظ سے روایت بمشکل حسن کے درجے تک پہونچ پاتی ہے، جب کہ متن کے الفاظ میں خاصا اختلاف ہے۔
ذیل میں اس روایت کے مختلف الفاظ ذکر کیے جارہے ہیں:
بعض روایتوں میں یہ قول کسی صحابی کی طرف منسوب کیا گیا ہے جیسے:
ان روایتوں کے سلسلے میں علامہ البانی کا يه تبصرہ دلچسپ ہے:
کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث ان تمام طرق کے مجموع کی بنا پر حسن ہے، کیونکہ بعض طرق زیادہ ضعیف نہیں ہیں۔
ان بیانات کو پڑھنے کے بعد ایک شخص کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا واقعی مذکورہ روایتوں میں کنواری عورت کی جو خصوصیات مذکور ہیں، ان کا تعلق کنوارپن سے ہے؟ اور کیا ایسا ہے کہ غیر کنواری ہونے یا شوہر سے محروم ہوجانے سے یہ اوصاف ختم ہوجاتے ہیں یا کم ہوجاتے ہیں؟؟
یا ایسا ہے کہ ان اوصاف کا تعلق عورت کے مزاج وطبیعت اور کسی حد تک اس کی عمر سے ہے؟
بعض لوگوں نے تو کنوارپن کی قصیدہ خوانی میں خیالات کی دنیا میں دور تک سیر کی ہے، البتہ اتنا کرم کیا ہے کہ اپنی دلچسپ دریافتوں کو اللہ کے رسول کی طرف منسوب نہیں کیا، اس کی ایک مثال درج ذیل ہے:
بانجھ خاتون سے شادی کی ممانعت بھی اسلامی لٹریچر میں بہت مشہور ہوئی ہے، سنن نسائی میں تو ایک باب کا عنوان ہی ہے كراهيۃ تزويج العقيم، جس کے تحت انہوں نے درج ذيل روایت ذکر کی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر پوچھا کہ میرے پیش نظر ایک عورت ہے جو حسب ونسب اور رتبے والی ہے، لیکن وہ بچے نہیں جنتی ہے، کیا میں اس سے شادی کرلوں، اس نے تین بار پوچھا آپ نے ہر بار منع فرمایا اور پھر کہا: زیادہ بچے جننے والی اور زیادہ محبت کرنے والی سے شادی کرو، کیونکہ میں تم کو دوسری امتوں سے زیادہ تعداد میں دیکھنا چاہتا ہوں۔
مصنف عبدالرزاق کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
ایک شخص نے کہا ایک اللہ کے نبی میری چچا زاد بہن ہے، وہ بانجھ ہے اور میں اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا اس سے نکاح مت کرو، مختلف مجلسوں میں اس نے دوسری اور تیسری بار پوچھا، اور ہر بار آپ یہی فرماتے رہے، اس سے نکاح مت کرو۔ پھر نبی ﷺ نے کہا: بچے نہیں جننے والی حسین وجمیل عورت سے شادی کرنے سے بہتر ہے کہ بچے جننے والی سیاہ فام عورت سے شادی کرلو۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گياره ازواج میں سےصرف حضرت خدیجہ اور حضرت ماریہ سے اولاد ہوئی تھی، دوسری طرف یہ بھی یاد رہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت زکریا کی بیویوں کے بانجھ ہونے کا ذکرصاف صاف قرآن مجید میں موجود ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کیا کسی عورت کا بانجھ ہونا ایسی بات ہے کہ شریعت میں اس سے نکاح کو مکروہ قرار دے دیا جائے۔
اس سلسلے میں بعض لوگوں نے ایک واقعہ حضرت عمر کی طرف منسوب کیا ہے، دل يہ قبول کرنے کو ہرگز تیار نہیں کہ حضرت عمر جیسی عظیم شخصیت سے اس طرح کے رویہ کا صدور ہوسکتا ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے شادی کی، پھر اپنی بیٹی حفصہ کے پاس گئے، انہوں نے خیر وبرکت کی دعا کی، اور کہا البتہ وہ عورت بانجھ ہے، انہوں نے کہا میں نے تو بس اولاد کے لیے شادی کی، پھر وہ حفصہ کے یہاں سے نکلے اور فورا اس کے پاس طلاق بھیج دی۔ اس وقت تک انہوں نے اس کے ساتھ ہم بستری نہیں کی تھی۔
ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتوں کے انتخاب میں نسب اور پیشے کا لحاظ بھی مطلوب ہے۔ روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عرب ایک دوسرے کے برابر ہیں، قبیلہ قبیلے کے اور آدمی آدمی کے برابر ہے۔ اور غیر عرب ایک دوسرے کے برابر ہیں، قبیلہ قبیلے کے اور آدمی آدمی کے۔ سوائے بنکر اور نائی کے۔
محققین نے اس روایت پر عام طور سے کلام کیا ہے، اس کے سلسلے میں علامہ البانی کا رجحان یہ ہے کہ اس روایت کو موضوع مانا جائے، ان کے الفاظ ہیں:
علامہ ابن قدامہ کا درج ذیل اقتباس کچھ غور طلب پہلو ہمارے سامنے لاتا ہے، وہ پیشے میں کفاءت کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ امام احمد سے اس بارے میں دو روایتیں منقول ہیں، ایک یہ کہ اس کا اعتبار شرط ہے، اور جب ان سے پوچھا گیا کہ اس سلسلے میں جو حدیث ہے اسے تو آپ ضعیف مانتے ہیں، پھر آپ کیسے اس میں مذکور بات کو اختیار کرتے ہیں، انہون نے کہا عمل اسی پر ہے، یعنی یہ روایت رواج کے مطابق ہے۔
امام احمد سے منسوب مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوا کہ اونچ نیچ کے جن جاہلانہ تصورات کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کرنے کی سعی کی تھی، وہ جلد ہی ایک معاشرتی عرف ورواج بن کر دوبارہ لوگوں پر مسلط ہوگئے، صرف سیاسی سطح پر خلافت ملوکیت میں تبدیل نہیں ہوئی، بلکہ معاشرتی سطح پر بھی زوال اور پستی سے امت دوچار ہوئی۔عہد رسالت میں جو مسلمہ ضابطے تھے، وہی بعد کے ادوار میں اجنبیت کا سامنا کرنے لگے، یہاں تک کہ فقہاء بھی معاشرتی زوال کے اس نئے عرف کا لحاظ کرنے پر مجبور ہوگئے۔
نسب اور پیشے میں کفاءت کے تعلق سے جو روایت ہے وہ تو نہایت ضعیف درجے کی ہے، اس کے برعکس ایک روایت ہے جس میں سب کے برابر ہونے کا ذکر ہے، وہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے حوالے سے معجم ابن الاعرابی میں مذکور ہے، اور مزاج شریعت کے عین مطابق ہے۔
روایت کے مطابق نبی ﷺ نے فرمایا:
لوگ ایک دوسرے کے کفو ہیں، عرب اور غیر عرب ایک دوسرے کے کفو ہیں، قبیلے قبیلے برابر اور آدمی آدمی برابر۔
کسی خاتون سے رشتہ کرتے وقت یہ اطمینان کرلینا بہتر بتایا جاتا ہے کہ اس کے اندر کوئی جسمانی کمی یا عیب نہ ہو، اس سلسلے میں ایک روایت ذکر کی جاتی ہے جس میں مذکور واقعہ سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ معمولی سے معمولی عیب کو بھی اپنے علم میں لاکر انتخاب کا فیصلہ کرنا چاہئے، اس واقعہ میں ایک بہت ہی معمولی عیب کے سلسلے میں ہوشیار کیا گیا ہے، یہ واقعہ تین طرح سے بیان کیا جاتا ہے، سند کے لحاظ سے تینوں روایتیں مضبوط بتائی جاتی ہیں، لیکن ان کے متن ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں، ہم یہاں تینوں طرح کے متن ذکر کریں گے:
پہلا متن: ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے پاس تھا، ایک آدمی آیا اور آپ کو بتایا کہ اس نے نے انصار کی ایک خاتون سے شادی کرلی ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے پوچھا، کیا تم نے اسے دیکھا؟ اس نے کہا نہیں، آپ نے کہا: جاؤ اور اسے دیکھو، کیوں کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے۔
دوسرا متن: ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں نے انصار کی ایک خاتون سے شادی کی ہے، نبی ﷺ نے پوچھا کیا تم نے اسے دیکھا؟ کیوں کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے، اس نے کہا میں دیکھ چکا ہوں۔
تیسرا متن: ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ایک عورت سے شادی کا ارادہ کیا، نبی ﷺ نے کہا، اسے دیکھ لو، کیوں کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے۔
پہلی اور دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے شخص نے شادی کرلی تھی، جبکہ تیسری روایت کہتی ہے کہ شادی کرنے کا ارادہ تھا، پہلی روایت بتاتی ہے کہ اس نے بغیر دیکھے شادی کی تھی، دوسری روایت بتاتی ہے کہ اس نے دیکھ کر شادی کی تھی۔ پہلی اور تیسری روایت میں ’’انظر الیھا‘‘ ہے، جبکہ دوسری روایت میں صرف ’’ھل نظرت الیھا‘‘ ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ تینوں روایتیں ایک ہی صحابی حضرت ابوہریرہ سے مروی ہیں۔
تینوں روایتوں میں جب اتنا زیادہ تضاد آمیز اختلاف ہو، تو یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ واقعہ محفوظ طریقے سے ہم تک نہیں پہونچا ہے۔ تینوں روایتوں کا اس پر اتفاق ضرور ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے، فإن في عيون الأنصار شيئا۔ روایت میں آنکھوں کی کس چیز کی طرف اشارہ ہے؟ اس کے بارے میں امام نووی کہتے ہیں: اس سے مراد آنکھوں کا چھوٹا ہونا، اور ایک قول کے مطابق اس میں نیلا پن ہونا ہے: الْمُرَادُ صِغَرٌ وَقِيلَ زُرْقَۃ۔ شرح النووي علی مسلم (9/210)
سوال یہ ہے کہ انصار کا اطلاق تو مدینے کے تمام خاندانوں پر ہوتا ہے، وہاں اوس اور خزرج دو بڑے قبیلے تھے، اور ان قبیلوں میں بہت سارے خاندان تھے، ایسے میں آنکھوں کا وہ عیب کسی ایک خاندان کی آنکھ میں تھا، یا انصار کی تمام خواتین میں وہ بات تھی؟ پھر کیا یہ انصار کے لیے دل شکنی کی بات نہیں تھی، کہ آپ مردوں کے اتنے زیادہ خیرخواہ ہوجائیں کہ مدینے کے تمام انصار کی خواتین کے سلسلے میں لوگوں کو متنبہ کردیں۔ اور ہر کوئی اس بارے میں محتاط ہوجائے؟ جبکہ دوسری طرف آپ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے قریش کی خواتین کی بھرپور تعریف کی تھی، ذیل کی روایت ملاحظہ ہو:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اونٹ پر سوار ہونے والی بہترین عورتیں قریش کی نیک عورتیں ہیں، چھوٹے بچے کو سب سے زیادہ دلار کرنے والیاں، اور شوہر کی چیزوں کی سب سے زیادہ نگہداشت کرنے والیاں۔
سوچیں، یہ کیسے باور کیا جائے کہ مکہ سے ہجرت کرکے آپ مدینہ میں انصار کے ساتھ رہ رہے ہوں، اور انصار کی خواتین کے عیب کو دوسروں کے سامنے ذکر فرمائیں، اور دوسری طرف قریش کی خواتین کی خوبیوں کے بیان میں دریادلی کا مظاہرہ کریں۔
اس سب کے علاوہ غور طلب امر یہ بھی ہے کہ اگر انصار کی خواتین کی آنکھ میں کچھ تھا، تو ان کی اس جسمانی خامی کے باوجود ان کی شادی کیسے آسانی سے ہو، اس کے سلسلے میں بھی تو آپ کو فکرمند ہونا تھا، اور اس کا بہتر انتظام کرنا تھا۔
یہاں یہ بات بھی غورطلب ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو شادی کے سیاق میں لڑکی کو دیکھنے کی ترغیب دیتے تھے تو اس کا مقصد کیا ہوتا تھا؟
بعض روایتوں کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کے اندر شادی کی رغبت بڑھے اور شادی کے لیے فیصلہ کرنے میں آسانی پیدا ہو، کیونکہ اللہ تعالی نے عام طور سے عورتوں کے اندر مردوں کے لیے جاذبیت کے بہت سارے پہلو رکھے ہیں، اور جب کوئی مرد کسی عورت کو دیکھتا ہے تو جاذبیت کا کوئی نہ کوئی پہلو اس کو متاثر کردیتا ہے، اور اس کے لیے شادی کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
سنن ابوداود کی درج ذیل روایت کو علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے، اس کے الفاظ اسی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بعض لوگوں کے اندر شادی کے سلسلے میں ایک خوف اور تردد کی کیفیت ہوتی ہے، اور ان کے خوف اور تردد کو دور کرنے کی یہ ایک مناسب شکل ہوسکتی ہے۔
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص خاتون کو پیغام دے، تو اگر وہ اس میں کچھ ایسا دیکھ سکے جس سے اس سے شادی کی رغبت بڑھ جائے، تو وہ ایسا ضرور کرے۔ جابر کہتے ہیں: میں نے ایک لڑکی کو پیغام دیا، پھر چھپ کر اسے دیکھنے لگا، تو اس میں ایسی چیز دیکھ لی جس سے اس سے شادی کرنے میں رغبت بڑھ گئی، تو میں نے اس سے شادی کرلی۔
تعلیمات نبوی کی رو سے شادی سے پہلے لڑکی کو دیکھنے کا مقصد لڑکی مں کیڑے نکالنا اور خوب صورتی کو یقینی بنانا نہیں ہے، نہ یہ تحقیق کرنا ہے کہ لڑکی کے اندر وہ کیا کمیاں ہیں، جن کی بنیاد پر اس کو رد کیا جائے، بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ اس کے اندر وہ کون سا پرکشش پہلو ہے جس کی بنیاد پر اس سے رشتہ کرنے کی ترغیب مل سکے۔ اس روایت کو سامنے رکھنے کے بعد خیال ہوتا ہے کہ ممکن ہے، اوپر کی روایت میں فإن في أعين الأنصار شيئا سے مراد بھی انصار کی آنکھوں کی کسی خوبی کی طرف اشارہ مقصود ہو، جسے دیکھ کر ان سے شادی کرنے کی رغبت بڑھ جائے۔خود روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے دیکھنے کے بعد بھی شادی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
اگر بات کچھ روایتوں تک محدود رہتی تو بھی غنیمت تھا، لیکن اس سے آگے فقہاء کے یہاں جاکر وہ شریعت کا ایک ضابطہ بنادی گئی، چانچہ مختلف مسالک کے فقہاء نے ان روایتوں میں مذکور جملہ امور کی رعایت کو شرعا مطلوب ومستحب قرار دیا، اور فقہ کی کتابوں میں یہ درج کیا گیا کہ مطلوب ومستحب یہ ہے کہ لڑکی دیندار ہو، کنواری ہو، زیادہ بچے جننے کے لیے معروف ہو، خوبصورت ہو، ذہین ہو، حسب ونسب والی ہو، اور اجنبی ہو قریبی رشتے دار نہ ہو۔ علامہ ابن قدامہ کی درج ذیل عبارت ملاحظہ ہو اس عبارت میں ہر جزئیہ کی دلیل اختصار کی غرض سے حذف کردی گئی ہے:
فقہاء کرام نے اس پر بھی توجہ دی کہ اگر ان مطلوبہ اوصاف میں تعارض ہو جائے تو ترجیحی ترتیب کیا ہونا چاہئے، اس سلسلے میں علامہ سلیمان بجیرمی لکھتے ہیں:
مذکورہ صفات میں تعارض کی صورت میں زیادہ مناسب ہے کہ دیندار کو مطلق ترجیح دی جائے، پھر عقل اور حسن اخلاق کو، پھر نسب کو، پھر کنوارے پن کو، پھر بچے جننے کو، پھر اس کے اجتہاد کے مطابق جس امر میں مصلحت زیادہ نمایاں ہو۔
امام احمد کی طرف اس سلسلے میں ایک عجيب بات منسوب ہے، علامہ منصور بہوتی لکھتے ہیں:
احمد نے کہا: جب آدمی عورت کو پیغام دے، تو سب سے پہلے اس کی خوب صورتی کے بارے میں معلوم کرے، تو اگر جمال کی تعریف سنے تو اس کی دینداری کے بارے میں پوچھے، تو اگر اس کی بھی تعریف ہو تو شادی کرلے، اور اگر تعریف نہ ہو تو اس کا رد کرنا دینداری کی خاطر ہوگا۔ اور وہ پہلے دینداری کے بارے میں نہ پوچھے، کیونکہ اس کی تعریف ہوگئی تو وہ خوب صورتی کے بارے میں پوچھے گا، اور تعریف نہیں ہونے کی صورت اگر رد کرے گا، تو وہ رد کرنا خوب صورتی کی خاطر ہوگا نہ کہ دینداری کی خاطر۔ (اور یہ گویا مناسب بات نہیں ہوگی)
حنفی فقیہ علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں:
نیک عورت اور حسب ونسب اور دینداری میں معروف عورت سے شادی کرے، کیونکہ نسل کا اثر آتا ہے، اور برے خاندان کی خوب صورت عورت سے بچے، اور کسی عورت سے اس کے حسب، اس کی شوکت، اس کے مال اور اس کے جمال کی خاطر شادی نہ کرے، اگر ایسا کیا تو ایسی شادی سے اس کی ذلت محتاجی اور ذلت ہی میں اضافہ ہوگا، اور اس عورت سے شادی کرے جو اخلاق ادب پرہیزگاری اور حسن میں اس سے بڑھ کر ہو، اور شوکت اور پیشہ اور حسب اور مال اور عمر اور قد میں اس سے کم تر ہو، یہ بے عزتی اور فتنے میں پڑنے سے بہتر ہے۔۔ اور وہ عورت منتخب کرے جس سے شادی کرنا اور اس کا خرچ اٹھانا آسان ہو۔ اور کنواری سے نکاح کرنا زیادہ اچھا ہے، اس حدیث کی بنا پر کہ : (کنواریوں سے شادی کرو، وہ شیریں دہن، پاکیزہ رحم، اور کم پر قناعت گزار ہونے میں آگے ہوتی ہیں)۔ اس سے شادی نہ کرے جو لمبی اور نحیف ہو، یا پستہ قد اور بدنما ہو، یا زیادہ خرچ کرنے والی ہو، یا بد اخلاق ہو، یا اولاد والی ہو، یا بوڑھی ہو، کیوں کہ حدیث ہے: (بچے جننے والی کالی بانجھ حسینہ سے بہتر ہے) اور آزاد عورت کی استطاعت رکھتے ہوئے لونڈی سے نکاح نہ کرے، اور ولی کی اجازت کے بنا آزاد سے شادی نہ کرے، کیوں کہ بعض لوگوں کے یہاں یہ جائز نہیں ہے، اور نہ زانیہ سے نکاح کرے۔
اگر کوئی فرد اپنے ذوق کی بنا پر کنواری کو غیر کنواری پر ترجیح دیتا ہے، یا اولاد کے شوق میں بانجھ کے مقابلے میں جننے والی کو پسند کرتا ہے، یا انتخاب میں رنگ اور اور شکل کے کسی خاص زاوئے کا لحاظ کرتا ہے، یا کسی خاص تعلق کی بنا پر کسی خاص خاندان یا قوم کی لڑکی کو اولیت دیتا ہے تو یہ کوئی ناپسندیدہ بات نہیں ہے، اور اس میں کوئی معاشرتی مضرت بھی نہیں ہے۔ تاہم اگر ان امور کا اشتہار شروع ہوجائے، اور وہ معاشرے میں انتخاب کے پسندیدہ پیمانے قرار دئے جانے لگیں، تو اس کے منفی اثرات معاشرے پر پڑیں گے، اور ان خواتین کی صریح حق تلفی ہوگی جن کے دامن نصیب ان اوصاف سے خالی رہ گئے، یا وہ دوسروں سے پیچھے رہ گئیں۔
لیکن مسلم معاشرے کے لیے سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس طرح کے اوصاف کو شریعت کا لباس حاصل ہوجائے، اور ان اوصاف کی رعایت کو شرعی طور پر مطلوب ومستحب قرار دے دیا جائے۔ ایسی صورت میں جو کسی بیوہ یا مطلقہ سے شادی کرے گا، اس کو یہ احساس ستائے گا کہ اس نے شرعا مستحب کام نہیں کیا۔ جس کے حصے میں کوئی ایسی عورت آجائے گی جس میں بچے جننے کے تعلق سے کوئی کمی ہو، تو وہ زندگی بھر اس کسک کو محسوس کرے گا کہ اس نے ایک مکروہ عمل کا ارتکاب کیا۔ اس کے علاوہ اگر معاشرے کے مصلحین یہ محسوس کریں کہ مثال کے طور پر معاشرے میں مطلقہ اور بیوہ عورتوں کی شادی کا مسئلہ سنگين هوتا جارہا ہو، اور وہ اس سلسلے میں کوئی تحریک چلانا چاہیں تو ان کو شرعی اداروں کی طرف سے کوئی مدد ملنے کے بجائے الٹا حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسلامی لٹریچر اور فقہی مراجع سے بھی انہیں مدد ملنے کے امکانات محدود نظر آتے ہیں۔
رشتوں کے انتخاب کا معیار کیا ہو، اس بارے میں قرآن مجید کی ایک آیت سے ہمیں بہت واضح اور فیصلہ کن رہنمائی ملتی ہے، سورہ تحریم میں اللہ تعالی ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اگر نبی تم کو طلاق دے دیں توبهت ممكن هي کہ اللہ تمہاری جگہ انہیں تم سے بہتر بیویاں عطا کردے، جو مسلمہ ہوں، مومنہ ہوں، قانتہ ہوں، تائبہ ہوں، عابدہ ہوں، سائحہ ہوں، اور غیر کنواری بھی ہوں اور کنواری بھی ہوں۔
مفسرین کو اس مقام پر سخت حیرانی ہوئی، کہ جب موجودہ بیویوں کی نعم البدل بیویوں کی بات کی جارہی ہے تو ثیبات کا ذکر کیوں کیا گیا، صرف کنواری کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا، مردوں کی رغبت تو کنواری عورت کی طرف زیادہ ہوتی ہے، اور کسی کا ثیب ہونا تو ایک عیب قرار پاتا ہے، اس حیرانی کو دور کرنے کے لیے امام رازی نے عجیب وغریب بات کہی:
ثیبات کو مدح کے مقام میں ذکر کیا گیا، حالانکہ ان کی طرف تو مردوں کی رغبت کم ہوتی ہے، ہم کہتے ہیں: ہوسکتا ہے کہ بعض ثیبات رسول پاک کے نزدیک بعض کنواریوں سے بہتر ہوں مال یا جمال یا نسب یا ان سب کے مجموعے میں خصوصی مقام رکھنے کی وجہ سے، اور اگر ایسا ہے تو ثیبات کو مدح کے مقام پر ذکر کرنے میں کوئی عیب کی بات نہیں ہے، کیوں کہ ہوسکتا ہے ثیبات سے مراد ویسی ثیبات ہوں جن کا ہم نے ذکر کیا۔
گویا امام صاحب کے لیے یہ ماننا ممکن نہیں تھا، کہ ثیب ہونا ایک خوبی بھی ہوسکتی ہے، یا کم از کم بکر کے درجے کی صفت تو ہوہی سکتی ہے۔
امام ابن کثیر نے اس مشكل کو دوسرے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
کچھ ثیبات اور کچھ کنواریاں ہوں گی کہ یہ نفس کے لیے زیادہ لذت بخش ہے، کیونکہ تنوع سے نفس کو فرحت حاصل ہوتی ہے۔
امام ابن عاشور نے آیت کی روح برقرار رکھتے ہوئے دونوں کی خوبیوں پر گفتگو کی ہے، اور واضح کیا ہے کہ دونوں کیفیتیں اپنی اپنی جگہ خوبی قرار پاسکتی ہیں، وہ رقم کرتے ہیں:
آیت مذکورہ سے یہ بات تو بہت واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ قابل ترجیح وانتخاب خاتون دراصل وہ ہے جو دینی اوصاف سے مالا مال ہو، اس کے علاوہ وہ ثیب ہو یا بکر ہو، دونوں ہی موزوں اور لائق انتخاب ہوتی ہیں، شریعت کی نظر میں بھی اور عقل وخرد کی رو سے بھی دونوں میں کسی کو کسی پر ترجیح اور فوقیت حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے اس آیت میں پہلے ثیبات کا تذکرہ کرکے بکر کو ثیب پر ترجیح دینے کا ایک ممکنہ راستہ بھی بند کردیا، ورنہ اگر ابکار پہلے ہوتا تو اس کے مقدم ہونے کو اس کی افضلیت پر محمول کیا جاسکتا تھا۔
سورہ احزاب کی آیت نمبر((36 کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ قرطبی بڑی قیمتی اور اہم حقیقت پر سے پردہ اٹھاتے ہیں:
اس آیت میں صریح دلیل ہے کہ حسب ونسب میں کفاءت معتبر نہیں ہے، بلکہ دین میں کفاءت معتبر ہے، برخلاف مالک شافعی مغیرہ اور سحنون کے۔ اس لیے کہ موالی نے قریش میں شادیاں کیں، زید نے زینب بنت جحش سے، مقداد بن أسود نے ضباعۃ بنت زبیر سے، ابوحذیفہ نے سالم کی شادی فاطمہ بنت ولید بن عقبہ سے کرادی، اور بلال نے عبد الرحمن بن عوف کی بہن سے شادی کی۔
یہی وہ بڑی تبدیلی ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کی اصلاحی جدوجہد کے نتیجے میں ظاہر ہوئی تھی۔ اس روشن تاریخی حقیقت کو بے غبار رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔
رشتوں کے معیار انتخاب کے تعلق سے اسلامی لٹریچر میں بہت ساری باتیں ملتی ہیں، فقہاء نے روایات وآثار کی روشنی میں قواعد وضوابط اور آداب ومندوبات پر بھی گفتگو کی ہے، اس باب میں متعدد روایات وآثار ہیں، جن میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا گیا ہے، تاہم اس بات پر ہمیں پورا اطمینان ہونا چاہئے کہ صالحیت اور دینداری کو معیار بنانے کا جن روایتوں میں تذکرہ ہے، وہی اس باب میں اصل الاصول کی حیثییت رکھتی ہیں، اور ان کے علاوہ جو روایتیں ہیں، وہ چونکہ اپنے مکمل سیاق کے ساتھ ہم تک نہیں پہونچی ہیں، اس لیے ان کے سلسلے میں توقف کرنا ہی محتاط رویہ ہے۔ ہم روایات کی تصحیح وتضعیف، اور ان کی توجیہ وتاویل سے متعلق جو رویہ بھی اختیار کریں، ہماری نظر سے یہ حقیقت اوجھل نہیں ہونا چاہئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پوری امت کے خیرخواہ اور ہمدرد تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی انسانوں سے ہمدردی کی تصویر تھی، اور آپ نے ایسے افراد تیار کئے تھے جو ذاتی مصالح سے زیادہ انسانی ہمدردی کے جذبے سے سرشار تھے، انسانی ہمدردی سیرت طیبہ کا بہت نمایاں امتیاز ہے۔ اس امتیاز پر کوئی آنچ نہیں آئے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
رشتوں کے انتخاب کا معیار ذکر کرتے ہوئے اخلاقی سطح پر دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
اول، معیار وہ ہو جو ہر کسی کے لیے قابل حصول ہو، اور اس کے حصول کی سعی کرنا اور اس کے لیے مسابقت کرنا مطلوب اور پسندیدہ بھی ہو۔
دوم، معیار ایسا ہو کہ اس کو طے کرنا، اس کو رواج دینا اور اس کا اشتہار کرنا پورے معاشرے کے لیے خیر وبرکت کا باعث ہو، اور اس میں سب کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کا تصور موجود ہو۔
ہمیں فخر ہے کہ ہم ایسے نبی کے امتی ہیں جس کی سیرت پاک میں ہمیں معیار انتخاب کے ان دونوں تقاضوں کا بھرپور خیال اور زبردست لحاظ نظر آتا ہے۔
مولانا مودودی کا نظریۂ جہاد بنیادی طور پر آپ کی سیاسی فکر سے ماخوذ ہے ۔ اس وجہ سے اس پر سیاسی فکر کا گہرا ثر ہے۔ بالخصوص آپ کا تصورِ ''مصلحانہ جنگ'' اسی سے وجود پذیر ہوا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ مولانا کی فکر کا جائزہ تاریخی اعتبار سے لیا جانا چاہیے، یعنی یہ کہ مولانا کی آرا میں میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی آئی ہے۔ زیرِ بحث موضوع میں ہمارے پیشِ نظر سب سے اہم تحریر مولانا کی کتاب''سود'' کا تیسرا ضمیمہ ہے جسے انھوں نے نومبر 1936ء میں لکھا تھا۔ اس میں مولانا نے جہاد کے حوالے سے اپنی قانونی پوزیشن کو واضح کیا ہے، لیکن اس کے بعد لکھی گئی تحریروں میں بعض جگہوں پر وہی موقف پایا جاتا ہے جو ''الجہاد فی الاسلام'' میں مذکور ہے۔ اس وجہ سےاب ہم مولانا کی فکر کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں : اولا، َ جہاد کی عقلی اور اخلاقی توجیہ، ثانیاَ، قانونی حیثیت۔ تاہم مولانا نے "الجہاد فی اسلام" اور اپنی تحریکی لٹریچر میں اصلاَ جہاد کی اخلاقی تشریح بیان کی ہے۔ 1 اس کے ساتھ ہی ساتھ بعض مقامات پر خالص قانونی تناظر میں بھی تعرض کیا ہے۔ ہماری فقہی روایت میں بھی دونوں زاویوں سے بحث موجود ہے ۔ مولانا نے عقلی زاویۂ نظر سے یہ تعبیر اختیار کی ہے کہ اخلاقی طور پر کفر کو دنیا پر حکومت کی قطعاَ اجازت نہیں ہے۔ مگر دوسری جانب انھوں نے اس موضوع سے قانونی پہلو سے بھی تعرض کیا ہے۔ چنانچہ دونوں کو اپنے در و بست میں دیکھنا چاہیے۔ اسی طرح فقہا کے ہاں جہاد کی اخلاقی توجیہ یہ ہے کہ جہاد کی غایت اعزاز دین اللہ اور دفع شر الکفر اور فتنہ ہیں، لیکن ان کے ہاں قانونی تناظر میں علت القتال کی بحث 2 نے پورے مسئلہ کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ 3 تاہم مولانا کے ڈسکورس میں قانونی نقطۂ نظر کے بجائے اس دوسرے نقطۂ نگاہ کا غلبہ ہے، اس لیے ان کے ہاں بعض ایسے مسائل در آئے ہیں جس کی وجہ سے آپ کا موقف سمجھنے میں بیشتر اوقات دقتیں پیش آتی ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، فقہا کے ہاں بھی یہ بحث اخلاقی اور قانونی دونوں تناظر میں موجود رہی ہے، اس لیے مولانا مودودی کی فکر کی طرح اس میں بھی بعض اہلِ علم ''ارتقا'' یا تضاد محسوس کرتے ہیں۔4 حالانکہ فقہی روایت میں کوئی تضاد پایا جاتا ہے اور نہ مولانا مودودی کے نظریہ میں، اصل مسئلہ دونوں پہلوؤں کو اپنے موقع و محل پر نہ دیکھنے کا ہے ۔ البتہ مولانا نے جہاں اخلاقی توجیہ بیان کی اس میں بعض ایسے مسائل موجود ہیں ، جن کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے۔ آگے "مصلحانہ جنگ" میں اس کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا جائے گا۔
اس ضمن میں سب سے اہم دستاویز"الجہاد فی الاسلام " ہے۔ اس کتاب میں مولانا نے علت القتال (jus ad bellum) میں قانونی پہلو سے بہت کم تعرض کیا ہے۔ علاوہ ازیں مولانا کا ایک اور مضمون بہت اہمیت کا حامل ہے،5 جو اب "جہاد فی سبیل اللہ" کے نام سے مطبوع ہے، اس میں بھی انھوں نے قانونی نقطۂ نظر کو زیادہ قابلِ اعتنا نہیں سمجھا ۔ مولانا نے جہاد کے وجہ جواز کے لیے مسلمانوں کو '' بین الاقوامی انقلابی جماعت (International Revolutionary Party)اور جہاد کو انقلابی جدوجہد(Revolutionary Struggle) کا نام دیا ہے۔ اس جماعت کا اصل مقصدِ وجود دنیا میں عالم گیر انقلاب برپا کرنا ہے۔ تاہم مولانا نے عقلی اور اخلاقی توجیہ تفصیل کے ساتھ ''الجہاد فی الاسلام'' میں بیان کی ہے۔ یہاں مولانا کے الفاظ میں اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
انسانی تمدن کی بنیاد جس قانون پر قائم ہے، اس کی سب سے پہلی دفعہ یہ ہے کہ انسان کی جان محترم ہے۔ انسان کے تمدنی حقوق میں اولیں حق زندہ رہنے کا حق ہے۔ دنیا کی جتنی شریعتیں اور مہذب قوانین ہیں، ان سب میں احترام نفس کا یہ اخلاقی اصول مانا گیا ہے۔دنیا کے سیاسی قوانین اس احترام حیات انسانی کو صرف سزا کے خوف اور قوت کے زور سے قائم کرتے ہیں، مگر اسلام نے اس کے ساتھ احترام ِ نفس کی اعلیٰ تعلیم بھی دی ہے۔ قرآن نے ناحق جان لینے کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ مگر یہ حرمت مطلق نہیں بلکہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہےکہ انسان دوسروں کے حقوق پر دست درازی نہ کرے ۔ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ کسی جان کو کسی حال میں قتل نہ کرو، اس کی حرمت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک وہ مقرر حدود سے تجاوز اور دوسروں کے مادی یا روحانی امن میں خلل برپا نہ کرے۔ اگر کسی نے ان حدود کو پامال کیا تو اس کی جان کی حرمت معطل کی جائے گی اور اس کے برپا کردہ فتنہ و فساد کو ہر صورت میں ختم کردیا جائے گا۔ قصاص کا قانون اسی سے وجود میں آیا ہے۔ا س کے بغیر دنیا میں امن کا قائم نہیں ہوسکتا نہ شر و فساد کی جڑ کٹ سکتی ہے۔ یہ قصاص کا قانون جس طرح افراد کے لیے ہے اسی طرح جماعتوں کے لیے بھی ہے جس طرح افراد سرکش ہوتے ہیں اسی طرح جماعتیں اور قومیں بھی سرکش ہوتی ہیں۔اس لیے جس طرح افراد کو قابو میں رکھنے کے لیے خون ریزی ناگزیر ہوتی ہے اسی طرح جماعتوں اور قوموں کی بڑھتی ہوئی بدکاری کو روکنے کے لیے بھی جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے۔ نوعیت کے اعتبار سے انفرادی اور اجتماعی فتنہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جماعتیں اور قومیں جب سرکشی پر آتی ہیں تو وہ غریب قوموں پر ڈاکے ڈالتے ہیں، ان کی تجارت پر قبضہ کرتے ہیں ان کی صنعتوں کو برباد کرتے ہیں۔ بعض ان میں ہوائے نفسانی کے بندے ہوتے ہیں تو وہ اپنے جیسے انسانوں کے خدا بن بیٹھتے ہیں، اپنی خواہشات پر کمزوروں کے حقوق برباد کرتے ہیں، عدل و انصاف کو مٹاکر ظلم و جفا کے عَلَم بلند کرتے ہیں، شریفوں اور نیکوکاروں کو دبا کر سفیہوں اور کمینوں کو سربلند کرتے ہیں۔ ان کے ناپاک اثر سے قوموں کے اخلاق تباہ ہوجاتے ہیں، فضائل کے چشمے سوکھ جاتے ہیں اور ان کی جگہ خیانت بدکاری بے حیائی سنگدلی بے انصافی اور بے شمار دوسرے مفاسد کے گندے نالے جاری ہوجاتےہیں۔ پھر ان میں سے بعض وہ ہیں جن پر جہانگیری و کشورستانی کا بھوت سوار ہوتا ہے تو وہ بے بس اور کمزور قوموں کی آزادیاں سلب کرتے ہیں، خدا کے بے گناہ بندوں کے خون بہاتے ہیں، اپنی خواہشِ اقتدار کو پورا کرنے کے لیے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور آزاد انسانوں کو اس غلامی کا طوق پہناتے ہیں جو تمام مفاسد کی جڑ ہے۔ ان شیطانی کاموں کے ساتھ جب اکراہ فی الدین بھی شامل ہوجاتا ہے اور ان ظالم جماعتوں میں سے کوئی جماعت اپنی اغراض کے لیے مذہب کواستعمال کرکے بندگانِ خدا کو مذہبی آزادی سے محروم کردیتی ہے تو ایسی حالت میں جنگ جائز ہی نہیں بلکہ فرض ہوجاتی ہے۔ اس اجتماعی فتنہ کو دور کرنے کے لیے شریعت نے دو صورتوں میں جنگ کو مشروع قرار دیا ہے: مدافعانہ جنگ اور مصلحانہ جنگ ۔ نیکی کے قیام کے لیے اپنی حفاظت بہت ضروری ہے، یہ حفاظت اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کے فتنوں سے کرنی ہے۔
یہاں تک مولانا کا موقف واضح ہوگیا، اس سے آگے وہ ''مصلحانہ جنگ'' کا تصور پیش کرتے ہیں جس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔ (اگلی قسط میں ''مصلحانہ جہاد '' کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا جائے گا۔)
(جاری)
مسلم معاشروں پر جدیدیت کے اثرات اور اہل فکر کا رد عمل | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۶) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۳) | مولانا سمیع اللہ سعدی | |
’’مدرسہ ڈسکورسز‘‘ کے بارے میں | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
مرابحہ مؤجلہ: اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز اور غیر سودی بینکوں میں رائج طریقہ کار | ڈاکٹر انعام اللہ | |
قرآن وسنت کا باہمی تعلق اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۸) | محمد عمار خان ناصر |
(وقتا فوقتا سوشل میڈیا پر لکھی گئی تحریروں سے منتخب اقتباسات)
’’جدیدیت‘‘ چند سیاسی، معاشی، سماجی اور فکری تبدیلیوں کا ایک جامع عنوان ہے جو مغربی تہذیب کے زیر اثر دنیا میں رونما ہوئیں۔ مسلم معاشروں کا جدیدیت سے پہلا اور براہ راست تعارف استعمار کے توسط سے ہوا۔ استعمار نے مسلم معاشروں کے اجتماعی شعور پر جو سب سے پہلا اور سب سے نمایاں تاثر مرتب کیا، وہ سیاسی طاقت اور آزادی سے محرومی کا تھا اور اس صورت حال کا مسلم شعور سے سب بنیادی نفسیاتی اور فکری مطالبہ یہ تھا کہ وہ اقتدار سے محرومی اور حاکمیت کی حالت سے محکومیت کی حالت میں منتقل ہونے کے حوالے سے اپنا رد عمل متعین کرے۔ اقتدار چھینے جانے پر مزاحمت کا جذبہ فطری اور عقلی بھی تھا اور دینی اساسات بھی رکھتا تھا، چنانچہ پورے عالم اسلام میں استعمار کے خلاف مزاحمتی تحریکیں پیدا ہوئیں ، مقدور بھر وسائل کے ساتھ استعمار کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی، لیکن جیسا کہ معلوم ہے، ہر جگہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شکست کے بعد فوری اور بظاہر حیرت انگیز منظر یہ دکھائی دیتا ہے کہ کم وبیش ہر جگہ جہاں مزاحمت کا علم دینی علماء نے بلند کیا تھا، وہاں بعد از شکست ہمیں ان کے موقف اور حکمت عملی میں ایک سو اسی ڈگری کی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں مثال کے طور پر صرف الجزائر میں امیر عبد القادر الجزائری، وسط ایشیا میں امام شامل اور ہندوستان میں علمائے دیوبند کی قبل از شکست اور بعد از شکست پوزیشنز کو سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ تاہم حکمت عملی کی سطح ؒپر مسلمان قیادت کی طرف سے حقیقت پسندی اور عملیت کی روش اختیار کیے جانے کے باوجود مسلم شعور اور اسلامی فکر میں سیاسی اقتدار کے زوال کا سوال ایک بنیادی مسئلے کے طور پر پوری قوت اور شدت کے ساتھ موجود ہے ۔
اقتدار سے محرومی کا صدمہ جھیلنا فرد کے لیے بھی جانکاہ ہوتا ہے اور قوموں کے لیے تو کئی گنا بڑھ کر۔ بنی اسرائیل ایک چھوٹی سی سلطنت سے محروم ہوئے تھے، لیکن اس حقیقت کو ذہنی طور پر قبول کرنے میں صدیاں لگ گئیں۔ ہم نے تو خیر ایک دنیا کھوئی ہے اور ابھی کل کی بات ہے۔ وقت تو لگے گا۔ لیکن بات یہ ہے کہ جب تبدیلی آ جائے تو مذہب کے نقطہ نظر سے ایسی صورت حال میں کرنے کے کام دو ہوتے ہیں:
ایک وہ جو سیدنا مسیح نے کیا، یعنی اقتدار اور سیادت کی محبت میں ڈوبی ہوئی قوم کو معرفت ربانی کا اصل پیغام سنانا اور عبدیت کے اس جوہر کو زندہ کرنے کی کوشش کرنا جس کا تعلق کسی فصل گل ولالہ سے نہیں۔ وہ ہر حالت میں انسانوں کو اپنے رب کے قریب کر دیتا ہے۔
دوسرا وہ جو مادی صورت حال کے بارے میں ذہنوں کو حقیقت پسند بنانے کے حوالے سے مثال کے طور ہمارے ہاں سید احمد خان نے کیا۔ اس کے انداز اور اسلوب سے اختلاف ہو سکتا ہے اور یہی کام ہمارے ہاں کافی مختلف انداز میں دیوبندی مکتبہ فکر کے بعض اکابر نے بھی کیا، لیکن مرکزی نکتہ ایک ہی ہے۔
ایسا نہیں کہ جدیدیت کی مزاحمت کے رویے کی دینی وأخلاقی یا نفسیاتی لحاظ سے کوئی اہمیت یا افادیت نہیں۔ بالکل ہے اور یہ رویہ بھی بہت قابل قدر ہے، تاہم ہر گزرنے والی آن کے ساتھ یہ تاریخ کا حصہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ جدیدیت سے نبرد آزما ہونے کے مواقع بھی پیدا کیے جا سکتے ہیں، اگرچہ اس کی عملی شرائط بظاہر دستیاب نظر نہیں آ رہیں، لیکن اس نبرد آزمائی کے وسائل بھی جدیدیت ہی سے لینے پڑیں گے۔ روایت سے اجزا لینا ممکن ہے، لیکن وہ اس وقت فریم ورک نہیں دے سکتی۔ اسلامزم کا سارا پراجیکٹ اسی فارمولے سے عبارت ہے، یعنی روایت سے مختلف اجزا لے کر ان کو ایک نئی ترتیب سے مرتب کرنا۔ اس کے علاوہ بھی روایت کی بازیابی کا کوئی بیانیہ میرے علم میں نہیں جو اس فارمولے پر انحصار نہ کرتا ہو۔
استعماری تجربے نے ہماری قومی نفسیات اور رویوں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں، ان کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لینے کی ابھی تک کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔ ان اثرات کو "شناخت کے بحران" کا جامع عنوان دیا جا سکتا ہے۔ اپنی تہذیبی شناخت ختم ہو جانے کے بعد استعمار زدہ معاشرے کرچیوں میں بکھر گئے ہیں اور ہر کرچی اپنی شناخت متعین کرنے کے وجودی سوال سے نبرد آزما ہے۔ مذہبی فرقہ واریت، روایت اور جدیدیت، مشرقیت اور مغربیت، اسلام پسندی اور سیکولرازم، قومیت پرستی اور پان اسلام ازم کے سارے تنازعات اسی بحران کے مختلف مظاہر ہیں۔ ستم یہ ہے کہ یہ ساری کرچیاں باہم اس طرح برسرپیکار ہیں جیسے ان کا اصل حریف ان کی مخالف کرچیاں ہوں، حالانکہ وہ بھی انھی کی طرح ستم زدہ اور شناخت کی تلاش میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اختلاف کو محض فکر ونظر کے اختلاف کے طور پر دیکھنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہا، کیونکہ بظاہر معمولی سے اختلاف کے ساتھ بھی شناخت کی تعیین کا تحت الشعوری احساس جڑا ہوا ہے جسے انسانی شعور زندگی اور موت کے مسئلے کی طرح دیکھتا ہے۔ یوں فکری اختلاف کم وبیش ذاتی اختلاف بن جاتا ہے اور اس جبر کو محسوس کیے بغیر بڑے بڑے سنجیدہ اہل فکر اسی زاویے سے اظہار اختلاف پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔
اس رویے کی ایک خاص شکل یہ بھی سامنے آئی کہ اسلامی تاریخ کی مختلف شخصیات کو ساری آفات وبلیات کا ذمہ دار ٹھہرا کر کسی طرح ان کا ذکر اپنی کتاب تاریخ سے محو کر دیا جائے یا کم سے کم لوگوں کو باور کرا دیا جائے کہ یہ یہ لوگ نہ ہوتے تو آج بھی ہم دنیا میں سرخ رو وسرفراز ہوتے۔ چنانچہ کسی نے محدثین کے طبقے کو ساری گمراہیوں کا ذمہ دار قرار دیا، کسی نے ’’فقہی جمود‘‘ کے عنوان سے فقہاء کو اور کسی نے کچھ دوسری وجوہ سے بعض دوسرے طبقات کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اساتذہ مغرب سے سن کر بعض سادہ دلوں نے تو سائنسی ترقی کے خاتمے کا واحد ذمہ دار امام غزالی کو متعین کر دیا، جیسے یہ ایک بندہ نہ ہوتا تو گلیلیو، نیوٹن اور آئن سٹائن مسلمانوں میں ہی پیدا ہوتے۔ جدیدیت کے خلاف سامنے آنے والے رد عمل میں یہی اسلوب بعض فکری حلقوں کی طرف سے برصغیر کی بعض محترم شخصیات نیز عالم اسلام کی کچھ معاصر شخصیات کے حوالے سے اختیار کیا گیا اور’’انہدام شخصیات‘‘ کی ایک مہم چلائی گئی، یہ سمجھے بغیر کہ تاریخ جن شخصیات کا کوئی مقام طے کرتی ہے، بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہے اور آسانی سے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی۔ سو آپ ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں اور دسیوں پراپیگنڈا مہمیں چلا لیں، سرسید، شبلی، اقبال وغیرہ تاریخ میں وہیں کھڑے رہیں گے جہاں انھیں تاریخ نے کھڑا کیا ہے۔ یوسف القرضاوی اور مولانا تقی عثمانی کا جو مقام عالم اسلام کی علمی دنیا مانتی ہے، وہی مانتی رہے گی۔ کیونکہ ایسی شخصیات سے اختلاف کیا جاتا ہے اور تاریخ اسے فراخ دلی سے قبول کرتی ہے، لیکن ’’انہدام شخصیات‘‘ کی کوششوں پر تاریخ ’’اونہہ ‘‘ کہنا بھی گوارا نہیں کرتی۔
ہمارے خیال میں امت مسلمہ کی ایک مربوط فکری تاریخ مرتب کرنا بہت ضروری ہے اور اس کے ضمن میں ایسے اہل علم ومفکرین کی contributions زیر بحث آنی چاہییں جنھوں نے درپیش سوالات ومباحث کے حوالے سے قابل توجہ یا قابل بحث نتائج فکر پیش کیے ہوں۔ اس کے بغیر محض انفرادی طو رپر کسی بھی صاحب فکر کی فکری کاوشوں کا نہ تو درست تناظر سمجھا جا سکتا ہے اور نہ یہی متعین کیا جا سکتا ہے کہ وہ روایت کے ساتھ کتنا وابستہ ہیں اور کتنا اس میں اضافہ کیا یا اس سے منحرف ہوئے ہیں۔
ہمارے ہاں تنقید کے دو تین عمومی مناہج رائج ہیں۔
ایک منہج مولویانہ ومفتیانہ ہے جس کا بنیادی محرک اور ہدف روایتی حلقے سے باہر علمی ودینی حوالے سے نتائج فکر پیش کرنے والی ہر اس شخصیت کو مجروح ثابت کرنا ہوتا ہے جو روایتی فکری حلقوں کا ’’متبادل‘‘ بننے کا خطرہ پیدا کر سکتی ہو۔ اس طبقے کے لیے کسی فکر کی علمی قدر وقیمت یا روایت کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کو سمجھنا یا اس سے استفادے کی محتاط اور محفوظ صورتوں پر غور کرنا سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ الا ما شاء اللہ
ایک دوسرا منہج نسبتاً فکری مزاج کا حامل ہے اور فکری واصولی حوالے سے نئے افکار کا جائزہ لینے کا رجحان رکھتا ہے، لیکن عموماً اس کے ہاں محرکات تنقید academic سے زیادہ ’’تحفظاتی‘‘ یا reactionary ہیں۔ اس کے ہاں کسی مخصوص فکری stream کو اصل اور مستند مان کر روایت کے باقی تمام رجحانات کو اس انداز سے deal کرنے کا رجحان نمایاں ہے جیسے وہ راست فکر سے دوری کے مختلف مظاہر ہیں۔ اس رجحان کے حامل بعض حلقوں کے نزدیک اسلامی روایت کے بعض ممتاز اہل فکر مثلاً شاطبی اور شاہ ولی اللہ بھی اصلاً کسی نہ کسی انداز میں ’’جدیدیت‘‘ سے ہی متاثر ہوئے تھے۔
ایک تیسرا منہج تنقید وہ ہے جس کا بنیادی مسلمہ یہ ہے کہ جدیدیت اپنی تمام تر شکلوں، مظاہر اور نتائج کے لحاظ سے قابل رد ہے ، سو صحیح اور غلط کا بنیادی معیار ’’جدیدیت‘‘ سے موافقت یا مخالفت ہے۔
ان میں سے ہر منہج تنقید اپنی اپنی بنائے استدلال رکھتا ہے اور دنیائے فکر میں ظاہر ہے کہ اس طرح کے تنوع اور رنگا رنگی سے ہی حسن پیدا ہوتا ہے۔ تاہم ان تینوں مناہج تنقید میں عموماً، الا ما شاء اللہ، توجہ ’’مسئلے‘‘ سے زیادہ ’’صاحب مسئلہ‘‘ پر مرکوز کی جاتی ہے۔ میرے نزدیک ان کے پہلو بہ پہلو ایک متبادل منہج کو وجود میں لانے کی ضرورت ہے جس میں حتی الامکان توجہ اور بحث کا مرکز ’’سوال‘‘ یا ’’مسئلہ‘‘ کو بنایا جائے اور کسی بھی نقطہ نظر کو روایت سے مربوط کرکے اور مسلم فکر کے اجتماعی ارتقا کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس منہج کا فائدہ یہ ہے کہ کسی بھی نقطہ نظر سے اختلاف کی پوری گنجائش کے باوجود اس کی فکری placement اور علمی اساسات کا فہم اور تجزیہ زیادہ بامعنی ہو جاتا ہے۔
ہمارے خیال کسی بھی معاصر فکر کا صحیح تجزیہ اس وقت تک نقد ونظر کی محکم اساسات پر استوار نہیں ہوسکتا جب تک کہ امت کی فکری تاریخ کا ارتقا اور مسائل ومباحث کا ربط بحیثیت مجموعی ہمارے سامنے نہ ہو۔ اس کے بعد ہی یہ سمجھنا صحیح معنوں میں ممکن ہوگا کہ دور جدیدیت میں پرانے یا نئے سوالات پر غور وفکر کرنے والے اہل فکر نے کیا راہیں اختیار کی ہیں، ان کے نتائج فکر کی کیا قدر وقیمت ہے اور ان میں استفادہ اور مزید ترقی کے امکانات کتنے ہیں۔
مولانا سید ابو الاعلی مودودی دور جدید کے ذہین ترین مذہبی علماء میں سے تھے جن کی فکر کے مختلف اور متنوع پہلوؤں میں سے اسلامی سیاست کا پہلو اتنا نمایاں ہو گیا کہ باقی سب پہلو بالکل دب کر رہ گئے۔ یہ المیہ صرف مولانا مودودی کے ساتھ خاص نہیں، شیخ احمد سرہندی کے بعد اب تک اس خطے میں پیدا ہونے والی غیر معمولی مذہبی شخصیات کی پوری کہکشاں کے متعلق بھی یہ بات سچ ہے۔ شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے سے لے کر عبد الحی لکھنوی، عبد العزیز پرہاروی، نواب صدیق حسن، بحر العلوم، سرسید، شبلی، عبد الحق حقانی، فراہی، انور شاہ کشمیری، اشرف علی تھانوی، احمد رضا خان بریلوی، محمد حسین بٹالوی، ثناءاللہ امرتسری، پیر مہر علی شاہ گولڑوی، سید سلیمان ندوی، مناظر احسن گیلانی، مولانا ایوب دہلوی، علامہ اقبال، مولانا اصلاحی، عبید اللہ سندھی میں سے ہر ایک کا مذہبی فکر میں اتنا اوریجنل اور منفرد کنٹری بیوشن ہے کہ اتنے محدود زمانی عرصے میں، سیاسی وتہذیبی حالات کی دگرگونی میں، علم وفکر کی ایسی گہرائی، تنوع اور جسارت (عربی مفہوم میں) کی مثال شاید عالم اسلام کا کوئی دوسرا خطہ پیش نہیں کر سکتا۔
سیاسی اقتدار کے زوال اور تہذیبی عظمت رفتہ کے غم نے، کیا مذہبی اور کیا غیر مذہبی، فکر ودانش کو ایسا لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ ہر طرف ماتم کی کیفیت ہے۔ فرسٹریشن کی نفسیاتی کیفیت نے علوم وافکار کی قدر پیمائی کے ایسے محدود رخ متعین اور ایسے سطحی معیارات وضع کر دیے ہیں کہ ہم علمی افکار کے حسن اور کمال کو ان کے اپنے دائرہ علمی کے تناظر میں appreciate کرنے کی صلاحیت سے بحیثیت مجموعی محروم ہو چکے ہیں۔ اور مدرسہ، یونیورسٹی، دینی تحریکات یا فکر سے منسوب کسی بھی ادارے کو اس صورت حال کا احساس تک نہیں۔ ان افکار کے مطالعہ کی اہمیت کا کچھ احساس اگر نظر آتا ہے تو مغربی جامعات میں مصروف فکر چند اساتذہ ومحققین کے ہاں آتا ہے، لیکن ظاہر ہے ان کی ترجیحات وتحدیدات عموما ان کے اپنے ماحول سے طے ہوتی ہیں۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ فکری خود اعتمادی اور خود شناسی کے بغیر کسی بھی نوعیت کی قومی بحالی کا خواب تشنہ تعبیر نہیں ہو سکتا، اور اس کا واحد راستہ اپنی روایت کے اہل فکر اور ان کے نتائج فکر کو اس طرح نچوڑنا ہے کہ ان میں چھپا کوئی علمی امکان حیطہ ادراک سے باہر نہ رہ جائے۔ فکری امور میں quick fixes کا رویہ دراصل عطائیانہ رجحان ہے جسے ہم طرح طرح کے تشہیری بینروں کے ساتھ اپنے ارد گرد ہر طرف پنپتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
’جدیدیت کے جواب میں مسلمان اہل فکر نے جو حکمت عملی اختیار کی، کئی پہلووں سے اس کی افادیت تسلیم کرتے ہوئے دو سوال بہرحال اٹھائے جا سکتے ہیں :
ایک،مزاحمت کے لیے اہداف اور ترجیحات کا غیر حقیقت پسندانہ تعین یا دوسرے لفظوں میں میدان جنگ میں محاذ کا غلط انتخاب۔ جب سرحد پر دشمن کی یلغار شروع ہوتی ہے تو دفاع میں سمجھ دار جرنیل کو یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ حملہ آور طاقت کا کہاں تک آگے بڑھ آنا ناگزیر ہے اور کہاں اس کے خلاف موثر مزاحمت کی جا سکتی ہے۔ اگر اس کے بجائے ایک ایک انچ کے دفاع کی حکمت عملی اپنائی جائے گی تو وہ محاذ بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے جہاں مناسب تیاری سے مزاحمت کامیاب ہو سکتی تھی۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے دریا کے کنارے واقع بستی سیلاب کے خطرے سے دوچار ہو اور سارے اندازے بتا رہے ہوں کہ پانی کا بستی میں داخل ہونا اور ایک خاص سطح تک پہنچ کر رہنا طے ہے۔ اس کے باوجود بستی والے اپنے گھروں کے سامان اور مواشی وغیرہ کو کسی محفوظ جگہ منتقل کرنے کے بجائے پانی کو روکنے کے لیے دریا کے کنارے پر کچی اینٹیں چننا شروع کر دیں۔
دوسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ جب بھی کسی سماجی اسٹرکچر میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو کئی مراحل سے گزر کر آتی ہے اور پہلے ہی دن حتمی طور پر یہ طے نہیں ہوتا کہ وہ مآل کار فلاں اور فلاں شکل اختیار کرے گی۔ اس تشکیلی مرحلے میں کئی عوامل مل کر اسے کوئی خاص رخ دیتے ہیں اور اس میں ان لوگوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے جو ہاتھ بڑھا کر جام ومینا اٹھا لینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ اس کے برخلاف اس مرحلے میں اس سے الگ تھلگ ہو کر یا کلی طور پر اس کے مزاحم بن کر کھڑے رہنے والے مثبت طور پر اس سارے عمل میں کوئی حصہ نہیں ڈال پاتے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نئے اسٹرکچر میں ان کا شمار پچھڑے ہووں اور پس ماندہ رہ جانے والوں میں ہو اور نئے ماحول سے شکایت اور گریز مستقل طو رپر ان کی نفسیات کا حصہ بن جائے۔
ان دونوں غلطیوں کا باعث لمحہ موجود کی اسیری ہے، جو ایک طرف تو یہ صلاحیت سلب کر لیتی ہے کہ حالات کے رخ سے اس حقیقت کا پیشگی ادراک کیا جائے کہ کچھ تبدیلیوں کا عملاً رونما ہو کر رہنا سلسلہ اسباب وعلل کی رو سے طے ہے اور دوسری طرف نئی آنے والی تبدیلیوں کے ناپسندیدہ نتائج سے خوف زدہ کر کے ان مواقع اور امکانات سے بھی توجہ ہٹا دیتی ہے جن سے ممکنہ حد تک تبدیلی کا رخ کسی بہتر سمت میں موڑا جا سکتا تھا۔
مسلم معاشروں میں جدیدیت کی penetration کا عمل ابھی جاری ہے۔ بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں اور بہت سی آنے والی ہیں۔ اگرہمارے اہل فکر سابقہ حکمت عملی کے مذکورہ پہلووں سے کچھ سیکھ کر آئندہ کی حکمت عملی وضع کریں تو شاید ہم بحیثیت مجموعی کچھ بہتر نتائج حاصل کر سکیں۔
سورة الفتح میں ایک بار فتحا مبینا اور دو بار فتحا قریبا آیا ہے، عام طور سے لوگوں نے اس فتح سے صلح حدیبیہ کو مراد لیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ تینوں جگہ فتح مکہ مراد ہے۔ فتحا قریبا کا مطلب وہ فتح نہیں ہے جو حاصل ہوگئی ہے، بلکہ وہ فتح ہے جو قریب ہے یعنی جلد ہی حاصل ہوگی۔ رہی صلح حدیبیہ تو وہ فتح نہیں بلکہ فتح مکہ کا پیش خیمہ تھی۔ اس وضاحت کی رو سے آیت نمبر (1)، آیت نمبر (18) اور آیت نمبر (27) تینوں آیتوں میں فتح مکہ کی بشارت دی گئی ہے۔
واثابھم فتحا قریبا (18) کا ایک ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:
“اور ان کو ایک لگے ہاتھ فتح دے دی” (اشرف علی تھانوی)
جب کہ دوسرا ترجمہ یہ ہے:
“اور ان کو فتح دی جو قریب ہے” (امانت اللہ اصلاحی)
دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے ترجمے کے مطابق صلح حدیبیہ ہی فتح ہے جو مل چکی ہے، دوسرے ترجمے کے مطابق فتح کی بشارت صلح حدیبیہ کے موقع پر مل گئی ہے، لیکن فتح جلد ہی ملنے والی ہے۔ یعنی صلح حدیبیہ فتح مکہ کا پیش خیمہ ہے، اور فتح مکہ اب قریب ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اہل ایمان کو سب سے زیادہ انتظار فتح مکہ کا تھا، باقی تو سب درمیانی مرحلے تھے۔
وَعَدَکُمُ اللَّہُ مَغَانِمَ کَثِیرَةً تَاخُذُونَہَا فَعَجَّلَ لَکُم ہَذِہِ وَکَفَّ اَیدِیَ النَّاسِ عَنکُم وَلِتَکُونَ آیَةً لِلمُومِنِینَ وَیَہدِیَکُم صِرَاطًا مُستَقِیمًا۔ وَاُخرَی لَم تَقدِرُوا عَلَیہَا قَد اَحَاطَ اللَّہُ بِہَا وَکَانَ اللَّہُ عَلَی کُلِّ شَیئٍ قَدِیرًا۔ (الفتح:20۔21)
آیت نمبر (20) میں فعجل لکم ھذہ کا ترجمہ کرتے ہوئے لوگوں نے ھذہ کا ترجمہ فتح یا غنیمت کیا ہے، جبکہ یہ دونوں باتیں مراد لینا درست نہیں ہے، فتح اس وقت تک ہوئی نہیں تھی، اور غنیمت کا بھی وعدہ ہوا تھا، ابھی ملی نہیں تھی۔ ھذہ کا ترجمہ تو “یہ” ہوگا، اور اس سے مراد صلح ہے۔ آیت نمبر (21) میں اخری کا ترجمہ بہت سے لوگوں نے غنیمتیں کیا ہے، یہ بھی درست نہیں ہے، اس کا ترجمہ “دوسری چیز” ہوگا اور اس سے مراد فتح مکہ ہے۔ کیونکہ جس سیاق میں اور جس اہتمام سے اس کا تذکرہ ہے اس سے فتح مکہ مراد لینا زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔
اس تمہیدی وضاحت کے بعد درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
“اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے، تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے۔ اِس کے علاوہ دوسری اور غنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے ” (سید مودودی)
“خدا نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا کہ تم ان کو حاصل کرو گے سو اس نے غنیمت کی تمہارے لئے جلدی فرمائی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے۔ غرض یہ تھی کہ یہ مومنوں کے لیے (خدا کی) قدرت کا نمونہ ہو اور وہ تم کو سیدھے رستے پر چلائے،اور اَور (غنیمتیں دیں) جن پر تم قدرت نہیں رکھتے تھے (اور) وہ خدا ہی کی قدرت میں تھیں۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے” (فتح محمد جالندھری)
“اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت ساری غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے پس یہ تو تمہیں جلدی ہی عطا فرما دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے، تاکہ مومنوں کے لئے یہ ایک نشانی ہو جائے اور (تاکہ) وہ تمہیں سیدھی راہ چلائے۔ اور تمہیں اور (غنیمتیں) بھی دے جن پر اب تک تم نے قابو نہیں پایا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے قابو میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے” (محمد جوناگڑھی)
“وعدہ کیا ہے بہت سی غنیمتوں کا کہ تم لو گے تو تمہیں یہ جلد عطا فرمادی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے اور اس لیے کہ ایمان والوں کے لیے نشانی ہو اور تمہیں سیدھی راہ دکھائے۔ اور ایک اور جو تمہارے بل (بس) کی نہ تھی وہ اللہ کے قبضہ میں ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔” (احمد رضا خان)
آخری ترجمے میں مذکورہ غلطیاں نہیں ہیں۔
شاہ عبدالقادر نے درج ذیل ترجمے میں آخری سے فتح مراد لیا ہے، اور یہ درست ہے۔
“اور ایک فتح اور جو تمہارے بس میں نہ آئی، وہ اللہ کے قابو میں ہے”
درج ذیل آیت میں اظفرکم علیھم کا ترجمہ عام طور سے فتح یاب کرنا اور غلبہ عطا کرنا کیا گیا ہے، اس سے آیت کا مفہوم سمجھنے میں کافی دشواری پیش آتی ہے، بعض لوگ اس غلبے سے ایک چھوٹی سی مہم کی طرف اشارہ مراد لیتے ہیں، اور بعض لوگ فتح مکہ مراد لیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی۔ لیکن ان دونوں ہی تاویلوں سے آیت کا مفہوم واضح ہوکر سامنے نہیں آتا ہے، اور آیت اپنے سیاق سے ہم آہنگ بھی نہیں لگتی ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں اظفرکم علیھم کا ترجمہ ہے انہیں تمہارے بس میں کردیا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے بس میں اور تمہاری زد میں تھے، اگر جنگ ہوتی تو دشمن بھاگ کھڑا ہوتا اور تمہاری فتح یقینی تھی، اس کے باوجود اللہ نے جنگ سے دونوں کو روک دیا۔ ظفر کا اصل مطلب ناخن ہے، اور جب شکاری پرندہ اپنے ناخنوں سے شکار کو گرفت میں لے لیتا ہے، تو اس کے لئے اس تعبیر کا استعمال ہوتا ہے۔ گویا اس لفظ میں گرفت میں لینا اور قابو میں کرلینا شامل ہے۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والظفر، الفوز۔ واصلہ من ظفر علیہ انشب ظفرہ فیہ۔ (المفردات، راغب اصفہانی)
اس مفہوم کو اختیار کرنے سے آیت پورے سیاق سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے، اور آیت کا مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے، کسی طرح کا تکلف نہیں رہ جاتا ہے۔ اس وضاحت کی رو سے ذیل کے ترجموں میں آخری ترجمہ درست ہے۔
وَھُوَ الَّذِی کَفَّ اَیدِیَہُم عَنکُم وَایدِیَکُم عَنہُم بِبَطنِ مَکَّةَ مِن بَعدِ ان اظفَرَکُم عَلَیہِم۔ (الفتح: 24)
“وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں اُن کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ اُن سے روک دیے، حالانکہ وہ اُن پر تمہیں غلبہ عطا کر چکا تھا ۔” (سید مودودی)
“اور وہی تو ہے جس نے تم کو ان (کافروں) پر فتحیاب کرنے کے بعد سرحد مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے۔” (فتح محمد جالندھری)
“وہی ہے جس نے خاص مکہ میں کافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک لیا اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دے دیا تھا” (محمد جوناگڑھی)
“اور وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے وادی مکہ میں بعد اس کے کہ تمہیں ان پر قابو دے دیا تھا ” (احمد رضا خان)
“اور وہ ایسا ہے کہ اس نے ان کے ہاتھ تم سے (یعنی تمہارے قتل سے ) اور تمہارے ہاتھ ان (کے قتل سے) عین مکہ (کے قریب) میں روک دئے بعد اس کے کہ تم کو ان پر قابو دے دیا تھا” (اشرف علی تھانوی)
آخری دونوں ترجموں میں اظفرکم علیھم کا مناسب ترجمہ کیا گیا ہے۔
ذیل کی آیت میں لم تعلموھم کا تعلق رجال سے ہے، یعنی مکہ میں موجود مومن مرد اور مومن عورتوں کو تم لوگ نہیں جانتے ہو۔ نہ کہ اَن تَطَئُوہُم سے۔ اور بغیر علم کا تعلق فتصیبکم سے ہے۔ اس لیے یہ ترجمہ کرنا کہ تم لاعلمی میں ان کو کچل دو گے، درست نہیں ہے۔ کچلنے کا عمل لاعلمی میں نہیں ہوگا، البتہ اس کچلنے کے عمل سے جو عار لاحق ہوگا وہ لاعلمی میں لاحق ہوگا، کیوں کہ اہل ایمان ان مومن مردوں اور مومن عورتوں سے واقف نہیں تھے جو دل میں ایمان لائے ہوئے تھے۔
حاصل کلام یہ ہے اَن تَطَئُوھُم یعنی کچلنے کے عمل کا تعلق لاعلمی سے نہیں ہے۔
اس روشنی میں ذیل میں درج ترجمے دیکھیں:
وَلَولَا رِجَال مُومِنُونَ وَنِسَاء مومِنَات لَم تَعلَمُوہُم اَن تَطَئُوہُم فَتُصِیبَکُم مِنہُم مَعَرَّۃ بِغَیرِ عِلمٍ لِیُدخِلَ اللَّہُ فِی رَحمَتِہِ مَن یَشَاء لَو تَزَیَّلُوا لَعَذَّبنَا الَّذِینَ کَفَرُوا مِنھُم عَذَابًا الِیمًا۔ (الفتح: 25)
“اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے ” (سید مودودی)
“اور اگر ایسے مومن مرد اور مومنہ عورتیں نہ ہوتے جن کو تم لاعلمی میں روند ڈالتے، پس ان کے باعث تم پر لاعلمی میں الزام آتا (تو ہم جنگ کی اجازت دے دیتے۔ لیکن اللہ نے یہ اجازت اس لئے نہ دی) کہ جن کو چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے۔ اور اگر وہ لوگ الگ ہوگئے ہوتے تو ہم ان لوگوں کو ان میں سے دردناک عذاب دیتے جنھوں نے کفر کیا” (امین احسن اصلاحی)
“اور اگر صاحبِ ایمان مرد اور باایمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم نہیں جانتے تھے اور نادانستگی میں انہیں بھی پامال کر ڈالنے کا خطرہ تھا اور اس طرح تمہیں لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچ جاتا تو تمہیں روکا بھی نہ جاتا - روکا اس لئے تاکہ خدا جسے چاہے اسے اپنی رحمت میں داخل کرلے کہ یہ لوگ الگ ہوجاتے تو ہم کفّار کو دردناک عذاب میں مبتلا کردیتے” (جوادی)
اوپر کے تینوں ترجموں میں مذکورہ غلطی پائی جاتی ہے۔ جب کہ ذیل کے ترجموں میں یہ غلطی نہیں ہے۔
“اور اگر ایسے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم جانتے نہ تھے کہ اگر تم ان کو پامال کر دیتے تو تم کو ان کی طرف سے بے خبری میں نقصان پہنچ جاتا۔ (تو بھی تمہارے ہاتھ سے فتح ہوجاتی مگر تاخیر) اس لئے (ہوئی) کہ خدا اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔ اور اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم دکھ دینے والا عذاب دیتے ” (فتح محمد جالندھری)
“اور اگر ایسے (بہت سے) مسلمان مرد اور (بہت سی) مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر نہ تھی یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بے خبری میں ضرر پہنچتا، (تو تمہیں لڑنے کی اجازت دے دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا) تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر یہ الگ الگ ہوتے تو ان میں جو کافر تھے ہم ان کو درد ناک سزا دیتے ” ۔(محمد جوناگڑھی)
“اور اگر یہ نہ ہوتا کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں جن کی تمہیں خبر نہیں کہیں تم انہیں روند ڈالو تو تمہیں ان کی طرف سے انجانی میں کوئی مکروہ پہنچے تو ہم تمہیں ان کی قتال کی اجازت دیتے ان کا یہ بچاؤ اس لیے ہے کہ اللہ اپنی رحمت میں داخل کرے جسے چاہے، اگر وہ جدا ہوجاتے تو ہم ضرور ان میں کے کافروں کو دردناک عذاب دیتے ۔” (احمد رضا خان)
مذکورہ بالا ترجموں میں لفظ معرۃ کا ترجمہ زیادہ تر نقصان، ضرر اور مکروہ کیا گیا ہے، معرۃ دراصل عرة سے ہے جس کے معنی خارش کے ہیں۔ لفظ کی اصل اور قرآن میں اس لفظ کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ معرۃ کا مطلب وہ ضرر یا نقصان ہے جو عزت کو داغ دار کرنے والا ہو۔
ماہر لغت علامہ جوہری لکھتے ہیں: وفلان عُرَّة وعَارور وعَارورة، ای قَذِر۔ وہو یّعُرُّ قومہ، ای یدخل علیہم مکروہاً یلطخہم بہ۔ (الصحاح) گویا اس لفظ کے اندر گندگی کا اور دامن کو داغ دار کرنے کا مفہوم ہے۔
اس لیے یہاں عار پہونچنے کا ترجمہ کرنا زیادہ مناسب ہے۔ زیر نظر آیت کا درج ذیل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
“اور اگر ایسے مومن مرد اور مومنہ عورتیں نہ ہوتے جن کو تم نہیں جانتے تھے، تم انہیں روند ڈالتے تو تم کو لاعلمی میں عار لاحق ہوجاتا ان کی وجہ سے، اللہ کو اپنی رحمت میں داخل کرنا تھا جسے وہ چاہے، اگر وہ لوگ الگ ہوتے تو ہم ان لوگوں کو دردناک عذاب دیتے جنھوں نے کفر کیا”۔ (امانت اللہ اصلاحی)
آیت (27) کا ترجمہ
لَقَد صَدَقَ اللَّہُ رَسُولَہُ الرُّویَا بِالحَقِّ لَتَدخُلُنَّ المَسجِدَ الحَرَامَ اِن شَاء اللَّہُ آمِنِینَ مُحَلِّقِینَ رُءوسَکُم وَمُقَصِّرِینَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَم تَعلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِکَ فَتحًا قَرِیبًا۔ (الفتح: 27)
اس آیت میں پہلا قابل غور مقام ہے:
لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق
اس کا ترجمہ حسب ذیل کیا گیا ہے:
“اللہ نے سچ دکھایا اپنے رسول کو خواب” (شاہ عبد القادر)
“تحقیق سچ دکھلایا اللہ نے رسول اپنے کو خواب ساتھ سچ کے” (شاہ رفیع الدین)
“فی الواقع اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تھا جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق تھا” (سید مودودی)
“بیشک اللہ نے سچ کردیا اپنے رسول کا سچا خواب ” (احمد رضا خان)
“بے شک خدا نے اپنے پیغمبر کو سچا (اور) صحیح خواب دکھایا” (فتح محمد جالندھری)
“اللہ نے اپنے رسول کو مبنی برحقیقت رو یا دکھائی” (امین احسن اصلاحی)
اس جملے میں صدق بھی ہے اور بالحق بھی ہے، عام طور سے ایساترجمہ نہیں کیا جاسکا، جس سے دونوں لفظوں کا حق ادا ہوسکے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں بالحق کا مطلب ہے خاص مقصد سے، قرآن کے اور بہت سے مقامات پر یہ لفظ اس مفہوم میں بہت واضح طور سے آیا ہے، جیسے:
مَا خَلَقنَا السَّمَاوَاتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَہُمَا اِلَّا بِالحَق۔ (الاحقاف: 3)
“ہم نے آسمانوں اور زمین کو نہیں پیدا کیا ہے مگر ایک خاص مقصد سے۔”
اس طرح زیر غور مقام کا ترجمہ ہوگا: “اللہ نے اپنے رسول کو ایک خاص مقصد سے سچا خواب دکھایا”۔ اس ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ صدق کا ترجمہ بھی ہوگیا اور بالحق کا ترجمہ بھی ہوگیا، دونوں کی الگ الگ معنویت بھی واضح ہوگئی، اور کسی قسم کا اشکال باقی نہیں رہا، اس طرح آیت کی بھرپور ترجمانی ہوگئی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جعل کا ترجمہ کیا ہو۔ عام طور سے لوگوں نے عطا کرنے اور نوازنے کا ترجمہ کیا گیا ہے، جعل کا مطلب رکھنا اور مقرر کردینا لفظ سے زیادہ قریب ہے۔
اس سلسلے میں غور طلب امر یہ ہے کہ اس خواب سے مراد مکہ میں کون سا داخلہ مراد ہے۔ اگر صلح حدیبیہ کے بعد والا عمرہ مراد لیا جائے تو اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمرے میں تو مسجد حرام میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے کے بعد گویا وہاں سے نکل کر بال کٹوائے جاتے ہیں، ناکہ سر منڈائے اور بال ترشوائے داخل ہوتے ہیں، ایسا تو حج میں ہوتا ہے، کہ حج کے بعد قربانی کرکے اور سر منڈواکر مسجد حرام میں طواف کے لیے داخل ہوتے ہیں۔ اس بنا پر مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ خواب کا یہ وعدہ حجة الوداع میں پورا ہوا۔
وہ مذکورہ جملے کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں: “اس سے پہلے ایک فتح رکھ دی جو قریب ہے” ۔ یعنی خواب کی تعبیر سامنے آنے سے پہلے یعنی حجة الوداع سے پہلے ہی فتح مکہ کا ہونا مقرر فرمادیا۔
درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:
“اس لیے وہ خواب پورا ہونے سے پہلے اُس نے یہ قریبی فتح تم کو عطا فرما دی” (سید مودودی، خواب پورا ہونے سے پہلے کیسے ؟)
“تو اس سے پہلے اس نے تمہیں ایک فتح قریب سے نوازا” (امین احسن اصلاحی)
“سو اس نے اس سے پہلے ہی جلد فتح کرادی ” (فتح محمد جالندھری)
“پھر اس سے پہلے لگتے ہاتھ ایک فتح دے دی” (اشرف علی تھانوی)
“پھر ٹھیرادی اس سے پرے ایک فتح نزدیک ” (شاہ عبدالقادر)
“تو اس سے پہلے ایک نزدیک آنے والی فتح رکھی” (احمد رضا خان)
آخری دونوں ترجمے مناسب ہیں۔دراصل فتح قریب سے صلح حدیبیہ مراد لینے کی وجہ سے لوگوں کو اس سیاق کی آیتوں کو سمجھنے میں دشواری ہوئی ہے۔
اہل تشیع اور اہل سنت کے حدیثی ذخیرے کا ایک بڑا فرق فریقین کے مجموعات ِحدیث میں مدون روایات کی تعداد کا مسئلہ ہے ، اس فرق سے متنوع سوالات جنم لیتے ہیں ،اولا فریقین کے مصادر ِحدیث میں موجود روایات کا ذکر کیا جاتا ہے ، ثانیا اس فرق سے پیدا شدہ بعض اہم نتائج کو سوالات کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے :
اہل سنت کے بنیادی مصادر حدیث صحاح ستہ اور مسند احمد و موطا ہیں ،ان آٹھ کتب کی مجموعی مرویات مکررات سمیت یوں ہیں:
تعداد مرویات بلا تکرار | تعداد مرویات مع التکرار | کتاب کا نام |
2362 | 7008 | بخاری |
2846 | 5362 | مسلم |
2515 | 5662 | نسائی |
3784 | 4590 | ابو داود |
3367 | 3891 | ترمذی |
3978 | 4332 | ابن ماجہ |
9339 | 26363 | مسند احمد |
745 | 2081 | موطا (بروایاتہ الثمانیہ) |
30604 | 62169 | مجموعہ روایات |
بخاری کے زوائد : 430
بخاری پر مسلم کے زوائد : 578
صحیحین پر ابو داود کے زوائد :1337
صحیحین و ابو داود پر ترمذی کے زوائد :561
صحیحین ابوداود و ترمذی پر نسائی کے زوائد :163
کتب خمسہ پر ابن ماجہ کے زوائد :184
صحاح ستہ پر موطا کے زوائد :138
صحاح ستہ و موطا پر مسند احمد کے زوائد :548
مجموعہ روایات :3939
نسخ و طبعات کے فروق کو شامل کرتے ہوئے ہم اس تعداد کو 4000 شمار کر سکتے ہیں ،یوں اہل سنت کی آٹھ کتب میں موجود بلا تکرار و مشترکات کے کل روایات تقریبا 4000 ہیں ،یہی چار ہزار روایات اسانید و تکرار کے ساٹھ باسٹھ ہزار مرویات میں ڈھل جاتی ہیں ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہلسنت کی ایک ایک حدیث کتنی کثیر طرق کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ صرف چار ہزار روایات کے طرق و رواۃ اتنے زیادہ ہیں ،جس سے چار ہزار روایات باسٹھ ہزار روایات میں تبدیل ہوگئی ہیں۔1
اہل تشیع کے اساسی مصادر بھی آٹھ ہیں ،جن میں چار کتب متقدمین اور چار کتب متاخرین کی ہیں ،معروف شیعہ عالم محمد صالح الحائری لکھتے ہیں :
و اما صحاح الامامیہ فھی ثمانیۃ ،اربعۃ منھا للمحمدین الثلاثۃ الاوائل ،و ثلاثۃ بعدھا للمحمدین الثلاثۃ الاواخر ،و ثامنھا لمحمد حسین المعاصر النوری 2
ان آٹھ کتب میں متقدمین کی چار کتب یہ ہیں :
1۔ الکافی ،ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی
2۔من لا یحضرہ الفقیہ ،ابن بابویہ القمی
3۔تہذیب الاحکام ،ابو جعفر الطوسی
4۔الاستبصار فیما اختلف فیہ من الاخبار ،ابو جعفر الطوسی
جبکہ متاخرین کی مرتب کردہ چار کتب یہ ہیں :
1۔بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی
2۔وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ ،محمد بن حسن حر عاملی
3۔الوافی ،محسن کاشانی
4۔مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ،محمد حسین نوری الطبرسی
ان کتب کی روایات مکررات سمیت کچھ یوں ہیں :
1۔ الکافی :16000
من لا یحضرہ الفقیہ :5963
تہذیب الاحکام :13590
الاستبصار :5511
مجموعہ روایات :41064
1۔بحار الانوار (شبکہ اہل المدینہ ):72000
2۔وسائل الشیعہ(موسسہ اہل البیت لاحیاء التراث ) :35844
3۔الوافی (مکتبہ امیر المومنین ، اصفہان )25703
4۔ مستدرک الوسائل (موسسہ اہل البیت ،بیروت )23129
مجموعہ روایات :156676
یوں آٹھ کتب کی مجموعی روایات مع مکررات: 41064+ 156676= 197740
اب ان میں کتب اربعہ متقدمہ کی کل روایات کو مکررات و مشترکات کے حذف کے ساتھ محسن کاشانی نے الوافی میں جمع کیا ،جس کی روایات 25703 ہیں ،اس طرح سے کتب اربعہ سے مکررات و مشترکات کو نکال کر کل روایات 25703 بنتی ہیں ،اب بحار الانوار اور وسائل الشیعہ میں کتب اربعہ کی جملہ روایات کو اگر فرض کیا جائے ،تو اہل تشیع کی احادیث بلا تکرار و مشترکات کچھ یوں بنتی ہیں :
کتب اربعہ کی مجموعی روایات بلا تکرار و مشترکات :25703
بحار الانوار کی روایات(کتب اربعہ کی روایات نکال کر ) :72000-25703= 46297
وسائل الشیعہ کی روایات (کتب اربعہ کی روایات نکال کر ):35844-25703= 10141
مستدرک الوسائل کی روایات:23129
مجموعی روایات بلا تکرار و مشترکا ت:105270
( یاد رہے ،مستدرک الوسائل سے کتب اربعہ کی روایات منفی نہ ہونگی ،کیونکہ یہ کتاب متقدمین کے جملہ ذخیرے سے الگ جو روایات بچی ہیں ،ان پر مشتمل ہے )
اس ساری تفصیل کا خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے :
اہل سنت کی آٹھ بنیادی کتب کی مجموعی روایات مع مکررات و مشترکات :62129(باسٹھ ہزار ایک سو انتیس)
اہل تشیع کی آٹھ بنیادی کتب کی مجموعی روایات مع مکررات و مشترکات :197740(ایک لاکھ ستانوے ہزار سات سو چالیس )
اہل سنت کی آٹھ مصادر کی بنیادی کتب کی مجموعی روایات بلا تکرار و مشترکات :4000(چار ہزار )
اہل تشیع کی آٹھ بنیادی کتب کی مجموعی روایات بلا تکرار و مشترکات :105270(ایک لاکھ پانچ ہزار دو سو ستر)
اہل سنت و اہل تشیع کی بنیادی کتب میں موجود روایات کی تعداد میں اس عظیم الشان فرق سے متعدد سوالات جنم لیتے ہیں :
1۔اہل سنت کا ذخیرہ مرویات تکرار کی بھٹی سے گزرا ہے ،چار ہزار روایات تعدد طرق و اسناد سے باسٹھ ہزار مرویات کی شکل میں ہم تک پہنچا ہے ،اس طرح سے ہر روایت اوسطا پندرہ بار سے زائد مختلف کتب میں مکرر آئی ہے ،جبکہ اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے میں تکرار تقریبا ناپید ہے ،کیونکہ ایک لاکھ ستانوے ہزار روایات میں سے مکررات نکال کر بقیہ ایک لاکھ پانچ ہزار بچتی ہیں ،یوں تکرار کا تناسب دو کو بھی نہیں پہنچتا ،اہل علم جانتے ہیں کہ تکرار و شواہد روایت کی قوت و استنادی حیثیت میں بنیادی عامل ہے ،خاص طور پر جب ایک روایت مختلف خطوں کے افراد و مصنفین ذکر کرتے ہیں ،تو اس سے وضع و کذب کا عنصر تقریبا ختم ہوجاتا ہے ،یہی صورتحال اہل سنت کے حدیثی ذخیرے میں ہے ،جبکہ اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ جب تکرار و شواہد سے خالی ہے ،تو یقینا اس میں کذب و وضع کا احتمال قوی تر ہوجاتا ہے ۔
2۔اہل سنت کی چار ہزار روایات قبل از تدوین تحریرو تقریر کی صورت میں محفوظ رہا ،تحریری ثبوت ڈاکٹر مصطفی اعظمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ میں دی ہے ،جن میں صرف ایک صدی کے اندر ساڑھے چار سو مجموعات ِحدیث مرتب ہوئے ،جبکہ تقریری ثبوت الرحلہ فی طلب الحدیث اور اسفار ِمحدثین کی کتب میں مذکور ہے کہ حجاز ،یمن ،بغداد ،بصرہ ،کوفہ اور شام کی علمی درسگاہوں میں یہ احادیث تعلیم و تعلم کی بھٹی سے گزریں ہیں ، جب صرف چار ہزار مرویات کی حفاظت کے لئے بڑے پیمانے پر جتن کئے گئے ،تو یقینا ایک لاکھ سے زائد روایات کو محفوظ کرنے کے لئے اس سے بڑی کاوشیں و کوششیں درکار ہونگی ،لیکن باعث صد تعجب ہے کہ اہل تشیع کی ایک لاکھ مرویات کی حفاظت کے لئے قبل از تدوین تحریری و تقریری کوششیں تقریبا عنقا ہیں ،تحریری ثبوت کے لئے الاصول الاربعمائہ کی اصطلاح مشہور کی گئی ،جس کے تاریخی استناد پر ہم بحث کر چکے ہیں ،کہ دو سو اٹھتر اصول کے مصنفین ہی نامعلوم ہیں ،چہ جائیکہ دیگر تفاصیل موجود ہوں ،جبکہ تقریری طور پر خود اہل تشیع محققین اور ائمہ کرام کی شہادتیں ہم پیش کر چکے ہیں کہ تقیہ کی وجہ سے ائمہ معصومین نے اہل تشیع کی مرویات کے لئے کھلم کھلا دروس اور تعلیمی مجالس کا انعقاد نہیں کیا ،یہاں بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک لاکھ مرویات کی حفاظت کے لئے جس بڑے پیمانے پر تحریری و تقریری کوششوں کی ضرورت تھی ،وہ ناپید کیوں ہیں ؟اور کوششوں کی عدم موجودگی سے ایک لاکھ روایات کا یہ ذخیرہ استناد و ثبوت کی کس درجہ بندی میں آتا ہے ؟ غیر جانبدار محققین پر یہ بات مخفی نہیں ۔
3۔اہل تشیع کے مصادر ِحدیث میں اکثر روایات امام جعفر صادق اور ان کے والد امام باقر کی ہیں ،معروف شیعہ محقق ڈاکٹر محمد حسین الصغیر اپنی کتاب "الامام جعفر الصادق زعیم مدرسۃ اہل البیت " میں لکھتے ہیں :
یعنی کتب اربعہ اور اس کے مستدرکات اور دیگر کتب ِحدیث عمومی طو رپر اہل بیت کی احادیث کا مصدر ہیں، لیکن اہل بیت میں سے خاص طور پر امام جعفر صادق اور ان کے والد امام باقر کی روایات کا ماخذ ہیں ۔
اگر ایک لاکھ روایات کا نصف حصہ بھی دونوں ائمہ کرام کا مان لیں (اگرچہ فی الواقع یہ تعداد دو تہائی تک پہنچتی ہے )تو پچاس ہزار روایات ہر دو حضرات کی بنیں گی ،یوں ہر ایک امام کی پچیس ہزار مرویات بنتی ہیں ،تو سوال یہ بنتا ہے کہ پچیس ہزار مرویات لینے کے لئے کتنے تلامذہ چاہیئے ،آپ علیہ السلام کی چار ہزار احادیث کو روایت کرنے والے رواۃ صحابہ کی تعداد ایک ہزار یا پندرہ سو تک پہنچتی ہے ،تو پچیس ہزار روایات کو لینے کے لئے کم از کم چھ ہزار تلامذہ کی ضرورت ہوگی ،لیکن امام باقر کے تلامذہ استقصا کے بعد 482 تک پہنچتے ہیں ،یہ تعداد معروف شیعہ عالم باقر قریشی نے اپنی ضخیم کتاب "حیاۃ الامام الباقر "کی دوسری جلد(ص 189 تا 383) میں ذکر کی ہے ،جبکہ امام جعفر صادق کے تلامذہ کی تعداد بقول ڈاکٹر محمد حسین الصغیر ساڑھے تین ہزار تک پہنچتی ہے،4 یہاں بجا طور پر سوال بنتا ہے کہ چار سو بیاسی حضرات نے پچیس ہزار روایات کیسے محفوظ کیں ؟جبکہ صرف چار ہزار مرویات کو ایک ہزار حضرات جان توڑ کوششوں کے بعد ہی محفوظ کر سکے ؟اس پر مستزاد یہ کہ آپ علیہ السلام نے پوری زندگی ابلاغ و تبلیغ پر مبنی تھی ،ہر لحظہ اور ہر گھڑی آپ اللہ کا پیغام صحابہ کرام تک پہنچاتے رہے ،تئیس سالہ دور ِنبوت کی بھر پور تبلیغی زندگی کے بعد بھی آپ کے ارشادات چار ہزار بنتے ہیں ،تو امامین کریمین نے کیسے پچاس ہزار ارشادات اپنی زندگی میں صادر کئے ؟اگر تئیس سال کی انتھک محنت و ابلاغ کے بعد بھی اقوال چار ہزار بنتے ہیں ،تو پچیس ہزار اقوال کے لئے کم از کم ایک سو اڑتیس (138) سال (تئیس کو چھ گنا کر کے )درکار ہیں ،جبکہ امام باقر کی عمر 57 سال اور امام جعفر صادق کی عمر شریف 65 یا 68 سال تھی ؟ان میں بھی بلوغ اور حصول تعلیم کا کم ترین عرصہ بیس سال نکال کے امام باقر کی زندگی 37 اور امام جعفر صادق کی 48 سال بچتی ہے ۔کیا ایک سو اڑتیس سال میں بولے جاسکنے والے کلمات محض 37 یا 48 سال میں کہنا عقلا ممکن ہے ؟
4۔ اہل سنت کے ہاں چونکہ ذخیرہ روایات کم ہیں ،اس لئے بنیادی کتب میں موجود روایات میں مکررات، شواہد ،مشترکات اور ایک روایت کے مختلف طرق و اسانید پر بے تحاشا کام ہوا ہے ،مثلا بخاری شریف کی روایات میں کتنی روایات مکرر ہیں ؟بخاری شریف میں کتنی ایسی روایات ہیں ،جو بقیہ ساتوں کتب میں نہیں ہیں ؟بخاری شریف کی روایت اگر دیگر کتب میں آئی ہے ،تو سند میں کتنے رواۃ کا اضافہ ہے؟متن میں کس قسم کی تبدیلیاں ہیں ؟اس روایت کے ہم معنی روایت اور کن کن کتب میں کس کس صحابی سے مروی ہے ؟الغرض ہر کتاب پر اس طرح کا تفصیلی کام موجود ہے ،جبکہ اہل تشیع کے ہاں اس قسم کا مواد معدوم ہے ،کیونکہ دو لاکھ کے قریب روایات کے انبار میں اس طرح کی چھان بین بے حد مشکل کام ہے ،اہل تشیع کی سب سے صحیح و مقبول ترین کتاب الکافی پر بھی اس طرح کا کام نہیں ہوا ،چہ جائیکہ بقیہ کتب پر ہوا ہو ،البتہ الکافی کی تازہ طبعات میں اس کی روایات کی دیگر کتب سے تخریج کی گئی ہے ،یہی وجہ ہے کہ کتب اربعہ میں مکرر و مشترک روایات کتنی ہیں ،اس پر کافی تلاش و جستجو کے بعد بھی کسی شیعہ محقق کی تحقیق نظر سے نہیں گزری ،معروف شیعہ محقق شیخ عبد الرسول عبد الحسن الغفار نے کافی کے تعارف پر ایک ضخیم کتاب "الکلینی و الکافی "لکھی ہے ،اس میں کافی کی روایات کی تعداد پر تو بحث ہے ،لیکن مکررات یا دیگر کتب میں مشترکات پر کوئی تحقیق موجود نہیں ہے ،حالانکہ یہ کتاب کافی کے تعارف پر سب سے تفصیلی کتاب شمار ہوتی ہے ،اس مضمون میں کتب اربعہ کی مکرر و مشترک روایات جاننے کے لئے کتب اربعہ کی روایات کو یکجا کرنے والے محسن کاشانی کی کتاب الوافی سے اندازہ لگایا گیا، بعد کے ادوار میں لکھنے جانی والی ضخیم کتب جیسے بحار و وسائل الشیعہ وغیرہ پر بھی اس قسم کا کوئی مواد موجود نہیں ہے ۔
اہل تشیع اور اہل سنت کے حدیثی مفاہیم و اصطلاحات کا ایک بڑا فرق زمانہ روایت کا فرق ہے ،زمانہ روایت سے مراد وہ زمانہ ہے ،جس میں محدثین اپنی سند کے ساتھ احادیث و روایات جمع کرتے ہیں ، زمانہ روایت کی لکھی گئی کتبِ احادیث عمومی طور پر اصلی مصادر و ماخذ شمار ہوتی ہیں ،بعد والے انہی مصادر پر اعتماد کرتے ہیں اور کسی حدیث کا حوالہ دیتے وقت عموما انہی کتب کے مصنفین کی تخریج کا حوالہ دیتے ہیں ، اہلسنت کے حدیثی ذخیرے میں زمانہ روایت ایک قول کے مطابق تیسری صدی ہجری اور دوسرے قول کے مطابق پانچویں صدی ہجری تک ہے۔ ڈاکٹر ضیاء الرحمان الاعظمی رواۃ کی تقسیم پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ترجمہ :حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے رواۃ کے طبقات کی جو تقسیم کی ہے ،وہ مناسب تقسیم ہے ،کیونکہ بعض اہل علم کے نزدیک تیسری صدی ہجری کے اختتا م پر زمانہ روایت ختم ہوجاتا ہے ،تیسری صدی ہجری صحاح ستہ اور دیگر جیسے بقی بن مخلد ،اسماعیل قاضی ،محمد بن اسماعیل ،امام بزار ،امام مروزی وغیرہ کا زمانہ ہے ،اسی وجہ سے علامہ ذہبی نے متقدمین و متاخیرین کے درمیان حد فاصل تیسری صدی ہجری کو قرار دیا ہے۔ البتہ صحیح بات یہ ہے کہ زمانہ روایت پانچویں صدی ہجری کے اختتام تک جاتا ہے ،کیونکہ امام بیہقی ،خطیب بغدادی ،ابن عبد البر اور بن حزم جیسے حفاظ حدیث کی تصانیف میں ایسی روایات ملتی ہیں ،جن کی تخریج انہی حضرات نے کی ہے ۔
اہل سنت میں پانچویں صدی ہجری کے بعد حدیث کی مستقل کتاب نہیں لکھی گئی ،بلکہ پانچویں صدی کے بعد پچھلی کتب کی شرح ،جمع ،تلخیص ،تخریج و غیرہ پر کام ہوا ہے ۔
اہل سنت کے برعکس اہل تشیع اس معاملے میں الگ زاویہ نظر کے حامل ہیں ،اہل تشیع کے ہاں زمانہ روایت کی کوئی تحدید نہیں ہے ،بلکہ اہل تشیع کے ہاں حدیث کی مستقل کتب زمانہ حال یعنی تیرہویں اور چودہویں صدی میں بھی لکھی گئیں ہیں ،چنانچہ مرزا حسین نوری طبرسی کی کتاب مستدرک الوسائل اہل تشیع کے آٹھ مصادر اصلیہ میں سے ایک اہم کتاب ہے اور اس کتاب کے مصنف علامہ طبرسی 1320ھ میں وفات پاگئے ، یعنی چودہویں صدی ہجری کے مصنف کی لکھی گئی کتاب بھی اصلی حدیثی مصادر میں شمار ہوتی ہے ،یا للعجب۔
اس کتاب کے بارے میں معروف شیعہ محقق آغا بزرگ طہرانی لکھتےہیں :
مستدرک الوسائل آخری زمانے میں لکھی گئی تین معتمد کتب(وافی ،وسائل الشیعہ ،بحار الانوار ) کے بعد چوتھی کتاب ہے ،جن پر اس زمانےمیں حدیث کے معاملے میں اعتماد کیا جاتا ہے ۔
مرزا حسین نوری طبرسی نے اس کتاب میں جتنی احادیث نقل کی ہیں ،کتاب کے خاتمے میں ان تمام مصادر تک اپنی سند ذکر کی ہیں ،یوں یہ کتاب مرزا نوری طبرسی کی سند و تخریج کے ساتھ حدیث کی مستقل کتاب ہے ،یہی وجہ ہے کہ اسے شیعہ کے آٹھ مصادر ِحدیث میں شمار کیا جاتا ہے ۔
اب یہاں بجا طو رپر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہلسنت کے ہاں تیسری یا پانچویں صدی ہجری میں زمانہ روایت و تخریج کا اختتام ہوتا ہے ،کیونکہ بعد ِزمانہ کے ساتھ سند کی تصحیح و اتصال کا احتمال کم سے کم ہوتا جاتا ہے ،بلکہ کثرت ِوسائط کی وجہ سے باجود اتصال ِ سند کے روایت میں ضعف کا عنصر قوی ہوجاتا ہے ،تو اہل تشیع کے ہاں جو کتاب ائمہ معصومین کے بارہ سو سال بعد لکھی گئی ہے ،اس کتاب میں موجود احادیث کی سند کی کیا وقعت ہوگی؟
نیز مولف کتاب علامہ طبرسی نے کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں :
ہم احادیث کے ایسے بڑے حصے پر مطلع ہوچکے ہیں ،جن کا ذکر کتاب الوسائل میں نہیں ہے ،نہ ہی وہ روایات اولین و آخرین شیعہ مصنفین کی کتب میں اکٹھی تھیں "
مصنف نے کتاب کے خاتمے میں ان کتب میں سے پینسٹھ اہم مصادر کا ذکر کیا ہے ،مولف کے بقول ان کتب تک رسائل پچھلے مصنفین کی نہ ہوسکی ہے ،میری دستر س میں یہ کتب آچکی ہیں ،اس لئے میں نے ان سے روایات لی ہیں ،تو سوال یہ ہے کہ ایسی کتب جو اتنی نایاب اور پردہ خفا میں تھیں ، جن تک ایک ہزار سالہ شیعہ محدثین کی رسائی نہ ہوسکی ، ان کتب تک صدیوں بعد صرف علامہ طبرسی کی رسائی ہوئی ،تو صدیوں تک پردہ خفا میں رہنے والی کتب کی استنادی ،ثبوتی ،خطی ،نسبت الی المصنف ،و حفاظت من الاخطاء و الاغلاط وغیرہ کا معیار کیا ہوگا ؟اہل علم و اہل تحقیق پر اس کا جواب مخفی نہیں ۔ اتنی غیر معروف مصنفین یا کتب سے جس کتاب میں احادیث نقل ہوئی ہیں ،وہ کتاب پھر بھی اصلی و معتمد مصادر میں شمار ہو ،جیسا کہ اوپر علامہ طہرانی کا قول گزر چکا ہے ،تو اس سے اہل تشیع کے حدیثی ذخیرے کی استنادی حیثیت اور صحت و ضعف کے معیارات کا پتا چلتا ہے ۔
1. احصائیۃ حدیثۃ تبین العلاقۃ بین الکتب التسعۃ و حجم التوافق فی الاحآدیث ،عبد اللہ بن مبارک ،المجلس الالوکہ
2. الوحدۃ الاسلامیہ بحوالہ علم الحدیث بین اصالۃ اہل السنہ و انتحال الشیعہ ،ص107
3. الامام جعفر الصادق زعیم مدرسۃ اہل البیت ،ص 386
4. ایضا ،ص 303
5. معجم مصطلحات الحدیث و لطائف الاسانید ،ضیاء الرحمان الاعظمی ،دار ابن حزم ،بیروت ،ص246
6. الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ طہرانی ،دار الاضواء ،بیروت ،ج21،ص7
7. مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ،مرزا حسین نوری طبرسی ،موسسہ ال البیت لاحیاء التراث ،قم،ج1،ص60
(جاری)
گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد کے ہال میں منعقد ہونے والا مدرسہ ڈسکورسز کا پروگرام اور اس میں میری شمولیت مختلف حلقوں میں زیر بحث ہے اور بعض دوستوں نے مجھ سے تقاضا کیا ہے کہ اس سلسلہ میں اپنے موقف اور طرز عمل کی وضاحت کروں۔ چنانچہ کچھ گزارشات پیش کر رہا ہوں، مگر اس سے پہلے اپنا ایک پرانا مضمون قارئین کے سامنے دوبارہ لانا چاہوں گا جو ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے اپریل ۱۹۹۲ء کے شمارہ میں ’’دینی مدارس کا نظام: خدمات، تقاضے اور ضروریات‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا، اس پر ایک نظر ڈال لیں، اس کے بعد میری معروضات پر غور فرمائیں۔
’’دینی مدارس کے موجودہ نظام کی بنیاد امدادِ باہمی اور عوامی تعاون کے ایک مسلسل عمل پر ہے جس کا آغاز ۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد اس جذبہ کے ساتھ ہوا تھا کہ اس معرکۂ حریت کو مکمل طور پر کچل کر فتح کی سرمستی سے دوچار ہوجانے والی فرنگی حکومت سیاسی، ثقافتی، نظریاتی اور تعلیمی محاذوں پر جو یلغار کرنے والی ہے اس سے مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ اور تہذیب و تعلیم کو بچانے کی کوئی اجتماعی صورت نکالی جائے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے دیوبند میں مدرسہ عربیہ (دارالعلوم دیوبند)، سہارنپور میں مظاہر العلوم اور مراد آباد میں مدرسہ شاہی کا آغاز ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور افغانستان کے طول و عرض میں ان مدارس کا جال بچھ گیا۔ ان مدارس کے لیے بنیادی اصول کے طور پر یہ بات طے کر لی گئی کہ ان کا نظام کسی قسم کی سرکاری یا نیم سرکاری امداد کے بغیر عام مسلمانوں کے چندہ کی بنیاد پر چلایا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انتہائی سادگی اور قناعت کے ساتھ ان مدارس نے برصغیر کے مسلمانوں کی بے پناہ دینی و علمی خدمات سرانجام دیں۔
ان مدارس کے منتظمین اور اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ایسے مردانِ باصفا کی تھی جو وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کا ارادہ کر لیتے تو دنیاوی زندگی کی سہولتیں اور آسائشیں بے دام غلام کی طرح ان کے دروازے پر قطار باندھے کھڑی نظر آتیں، لیکن غیور و جسور فقراء کے اس گروہ نے مسلمان کو مسلمان باقی رکھنے کے عظیم مشن کی خاطر نہ صرف ان آسائشوں اور سہولتوں کو تج دیا بلکہ اپنی ذاتی انا اور عزتِ نفس کی قیمت پر صدقات، زکوٰۃ و عشر اور ایک ایک دروازے سے ایک ایک روٹی مانگنے کے لیے اپنی ہتھیلیاں اور جھولیاں قوم کے سامنے پھیلا دیں۔ اور ہر قسم کے طعن و تشنیع اور تمسخر و استہزاء کا خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے انتہائی صبر و ثبات کے ساتھ ایک ایسے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جس نے برصغیر میں اسپین کی تاریخ دہرانے کی فرنگی خواہش اور سازش کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا۔ اور برطانوی حکمران بالآخر یہی حسرت دل میں لیے ۱۹۴۷ء میں یہاں سے بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور ہوگئے۔
دینی مدارس کی جدوجہد کے نتائج و ثمرات کے حوالہ سے اگر معاشرے میں ان مدارس کے اجتماعی کردار کا تجزیہ کیا جائے تو تمام تر خامیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود اس کی شکل کچھ اس طرح سامنے آتی ہے کہ:
- لارڈ میکالے نے مسلمانوں کی نئی نسل کو ذہنی لحاظ سے انگریز کا غلام بنانے اور نوآبادیاتی فرنگی نظام کے کل پرزوں کی شکل میں ڈھالنے کے لیے جس نظامِ تعلیم کی بنیاد رکھی تھی اس کے مقابلے میں دینی مدارس ایک مستحکم اور ناقابل شکست متوازی نظام تعلیم کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اور اس طرح فرنگی تعلیم و ثقافت سے محفوظ رہنے کی خواہش رکھنے والے غیور مسلمانوں کو ایک مضبوط نظریاتی اور تہذیبی حصار میسر آگیا۔
- جدید عقل پرستی کی بنیاد پر دینی عقائد و روایات سے انحراف، انکارِ ختم نبوت، انکارِ حدیث اور اس قسم کے دیگر اعتقادی اور مذہبی فتنوں نے سر اٹھایا تو یہ دینی مدارس پوری قوت کے ساتھ ان کے سامنے صف آرا ہوگئے اور ملت اسلامیہ کی راسخ الاعتقادی کا تحفظ کیا۔
- فرنگی تہذیب اور یورپی ثقافت کی طوفانی یلغار کا سامنا کرتے ہوئے دینی مسلم ثقافت کو ایک حد تک بچانے اور بطور نمونہ باقی رکھنے میں ان مدارس نے کامیابی حاصل کی۔
- قرآن و سنت کے علوم، عربی زبان اور دینی لٹریچر کو نہ صرف زمانہ کی دستبرد سے بچا کر رکھا بلکہ ملک میں ان علوم کے حاملین اور مستفیدین کی ایک بڑی تعداد پیدا کر کے اگلی نسلوں تک انہیں من و عن پہنچانے کا اہتمام کیا۔
- دینی مدارس کے اس نظام نے تحریک آزادی کو شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا حسین احمدؒ مدنی، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا عبد الرحیم پوپلزئیؒ، مولانا تاج محمودؒ امروٹی، مولانا خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، مولانا عبد القادر قصوریؒ اور صاحبزادہ سید فیض الحسن، جبکہ تحریک پاکستان کو علامہ شبیر احمدؒ عثمانی، مولانا ظفر احمدؒ عثمانی، مولانا اطہر علیؒ، مولانا عبد الحامدؒ بدایونی، اور مولانا محمد ابراہیمؒ سیالکوٹی جیسے بے باک، مخلص اور جری راہنماؤں کی صورت میں ایک مضبوط نظریاتی قیادت مہیا کی جن کے ایثار، قربانی اور جدوجہد نے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کو کامیابی کی منزل سے ہمکنار کیا۔
- اور اب افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں کمیونزم کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا جائزہ لے لیا جائے جس نے روسی افواج کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کرنے کے علاوہ وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں میں دینی بیداری کی لہر دوڑا دی ہے اور روسی استعمار کے آہنی پنجے کو ڈھیلا کر کے مشرقی یورپ پر کمیونزم کی گرفت کو کمزور کر دیا ہے۔ افغانستان کے غیور مسلمانوں کے اس عظیم جہاد کی قیادت کا ایک بڑا اور فیصلہ کن حصہ انہی دینی مدارس کا تربیت یافتہ ہے۔ اور اس طرح افغانستان کو روسی کمیونزم کے لیے ’’پانی پت‘‘ کا میدان بنا دینے کا کریڈٹ دینی مدارس کے اسی نظام کے حصہ میں آتا ہے۔
الغرض دینی مدارس کی یہ عظیم جدوجہد اور اس کے نتائج و ثمرات تاریخ کے صفحات پر اس قدر واضح اور روشن ہیں کہ کوئی ذی شعور اور منصف مزاج شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ فرنگی اقتدار کے تسلط، مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار اور صلیبی عقائد و تعلیم کی ترویج کے دور میں یہ مدارس ملی غیرت اور دینی حمیت کا عنوان بن کر سامنے آئے اور انہوں نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں سیاست، تعلیم، معاشرت، عقائد اور تہذیب و ثقافت کے محاذوں پر فرنگی سازشوں کا جرأت مندانہ مقابلہ کر کے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کو اسپین بننے سے بچا لیا ۔ اور یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آج اس خطہ زمین میں مذہب کے ساتھ وابستگی اور اسلام کے ساتھ وفاداری کے جن مظاہر نے کفر کی پوری دنیا کو لرزہ براندام کر رکھا ہے، عالم اسباب میں اس کا باعث صرف اور صرف یہ دینی مدارس ہیں۔ لیکن مناسب بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کے دوسرے رخ پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے اور ارباب فہم و دانش کی ان توقعات اور امیدوں کا مرثیہ بھی پڑھ لیا جائے جن کا خون ناحق ہمارے دینی مدارس کی اجتماعی قیادت کی گردن پر ہے۔
تفصیلات و فروعات تک گفتگو کا دائرہ وسیع کرنے کی بجائے ہم اپنی گزارشات کو صرف دو اصولی باتوں کے حوالے سے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے:
- جدید مغربی فلسفہ حیات کے اثرات سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمارے دینی مدارس کا کردار کیا ہے؟
- مسلم معاشرے میں نفاذ اسلام کے ناگزیر علمی و فکری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان دینی مدارس کا نظام کار اور حکمت عملی کیا ہے؟
ایک دور تھا جب یونانی فلسفہ نے عالم اسلام پر یلغار کی تھی اور عقائد و افکار کی دنیا میں بحث و تمحیص کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اگر اس وقت عالمِ اسلام کے تعلیمی مراکز اور اہلِ علم یونانی فلسفہ کی اس یلغار کو وقتی طوفان سمجھ کر نظرانداز کر دیتے اور اپنے کان اور منہ لپیٹ کر اس کے گزر جانے کا انتظار کرتے رہتے تو اسلامی علوم و عقائد کا پورا ڈھانچہ فلسفۂ یونان کی حشر سامانیوں کی نذر ہو جاتا۔ لیکن علمائے اسلام نے اس دور میں ایسا نہیں کیا بلکہ یونانی فلسفہ کے اس چیلنج کو قبول کر کے خود اس کی زبان میں اسلامی عقائد و افکار کو اس انداز سے پیش کیا کہ یونانی فلسفہ کے لیے پسپائی کے سوا کوئی چارۂ کار نہ رہا اور اس کے بپا کیے ہوئے فکری اور نظریاتی معرکوں کے تذکرے آج ابوالحسن اشعریؒ، ابو منصور ماتریدیؒ، رازیؒ، غزالیؒ، ابن رشدؒ اور ابن تیمیہؒ کی تصنیفات میں یادگار کے طور پر باقی رہ گئے ہیں۔
یورپ کے جدید فلسفۂ حیات کی یلغار بھی یونانی فلسفہ کے حملہ سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہ فلسفۂ حیات جس نے انقلابِ فرانس کے ساتھ اپنا وجود تسلیم کرایا اور پھر یورپ کے سائنسی و صنعتی انقلاب کے زیر سایہ اپنا دائرہ وسیع کرتے ہوئے آج دنیا کے اکثر و بیشتر حصہ کو لپیٹ میں لے چکا ہے، خود کو انسانی زندگی کے ایک ہمہ گیر فلسفہ کے طور پر پیش کرتا ہے اور انسان کی پیدائش کے مقصد سے لے کر انسانی معاشرت کے تقاضوں اور مابعد الطبعیات کی وسعتوں تک کو زیر بحث لاتا ہے۔ ڈارون، فرائیڈ، نطشے اور دیگر مغربی فلاسفروں اور سائنس دانوں کی گزشتہ دو صدیوں پر محیط فکری کاوشوں اور نظریاتی مباحث کا خلاصہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کلیسا کی بدکرداریوں اور مظالم کے ردعمل کے طور پر جنم لینے والے اس فلسفہ کو یورپ نے ایک مکمل فلسفۂ حیات کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے ذریعے وہ دنیا میں موجود اسلام سمیت تمام فلسفہ ہائے حیات کو مکمل شکست سے دوچار کر کے فنا کے گھاٹ اتارنے کے درپے ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے یورپ کی اس فکری یلغار کی ماہیت اور مقاصد کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور اسے محض اقتصادی اور سیاسی بالادستی کا جنون سمجھ کر اسی انداز میں اس کا سامنا کرتے رہے اور اس کی فکری اور اعتقادی پہلوؤں کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔ یونانی فلسفہ کے در آنے سے ہمارے ہاں عقائد کے نئے مباحث چھڑ گئے تھے جنہیں علمائے اسلام نے اپنے فکری اور علمی مباحث میں سمو دیا اور ہمارے عقائد کی بیشتر کتابیں ان مباحث سے بھرپور ہیں۔ حتیٰ کہ دینی مدارس کے نصاب میں آج کے طلبہ کو بھی عقائد کے حوالے سے انہی مباحث سے روشناس کرایا جاتا ہے جو یونانی فلسفہ کی پیداوار ہیں اور جن میں سے زیادہ تر کا آج کے نئے فکری اور اعتقادی تقاضوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن جو اعتقادی اور فکری و تہذیبی مباحث یورپ کے فلسفۂ حیات نے چھیڑے ہیں، نہ ہماری عقائد کی کتابوں میں ان کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہم طلبہ کو ان مباحث کی ہوا ہی لگنے دیتے ہیں۔
ڈارون کا نظریۂ ارتقا، انسان کے مقصدِ وجود میں کششِ جنسی کی محوری حیثیت کے بارے میں فرائیڈ کے تصورات، اجتماعی زندگی سے مذہب کی مکمل لاتعلقی اور غیر محدود فکری آزادی کا نعرہ آخر اعتقادی مباحث نہیں تو اور کیا ہیں؟ اور کیا انہی افکار و نظریات کا شکار ہو کر مسلمان کہلانے والوں کی ایک بڑی تعداد اسلام کے اجتماعی کردار سے منکر یا کم از کم مذبذب نہیں ہو چکی ہے؟ اس اعتقادی فتنہ کی روک تھام کے لیے ہمارے دینی مدارس کا کیا کردار ہے؟ ہمارے نصاب میں تفسیر، حدیث، فقہ اور عقائد کی کون سی کتاب میں یہ مباحث شامل ہیں اور ہم اپنے طلبہ کو ان مباحث سے روشناس کرانے اور انہیں ان کے جواب کی خاطر تیار کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
یہ وقت کا ایک اہم سوال اور دینی مدارس کی اجتماعی قیادت پر مسلم معاشرہ اور نئی نسل کا ایک قرض ہے جس کا سامنا کیے بغیر ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ فروعی اور جزوی مسائل ہمارے ہاں بنیادی اور کلیدی حیثیت اختیار کر گئے ہیں اور جو امور فکر و اعتقاد کی دنیا میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی ہماری نظر میں کوئی وقعت ہی باقی نہیں رہی۔ ہماری پسند و ناپسند اور وابستگی و لاتعلقی کا معیار جزوی مسائل اور گروہی تعصبات ہیں۔ ایک مثال بظاہر معمولی سی ہے لیکن اس سے ہماری فکری ترجیحات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے، وہ یہ کہ ہمارے ایک دوست نے جنہوں نے ہمارے دینی ماحول میں تربیت حاصل کی ہے گزشتہ دنوں ایک بڑے سیاسی لیڈر کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار یوں کیا کہ وہ بہت اچھا اور صحیح العقیدہ لیڈر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ میں برسیوں اور عرسوں میں شریک ہونے کا قائل نہیں ہوں۔ ان سے عرض کیا گیا کہ وہ سیاسی لیڈر تو سیکولر نظریات کا قائل ہے اور اجتماعی زندگی میں نفاذ اسلام کو ذہنی طور پر قبول نہیں کرتا۔ اس کے جواب میں ہمارے دوست کا کہنا یہ تھا کہ یہ تو سیاسی باتیں ہیں، اصل بات یہ ہے کہ وہ عرسوں اور برسیوں کا مخالف ہے اس لیے وہ ہمارے مسلک کا ہے اور صحیح العقیدہ ہے۔ یعنی اسلام کے اجتماعی زندگی میں نفاذ کا مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے اور عرسوں میں شریک ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ اعتقادی ہے۔ آخر یہ سوچ کہاں سے آئی ہے؟ کیا یہ ہمارے دینی مدارس کی غلط فکری ترجیحات کا ثمرہ نہیں ہے؟
اب آئیے دوسرے نکتہ کی طرف کہ نفاذ اسلام کے علمی و فکری تقاضوں کی تکمیل کے لیے ہمارے دینی مدارس کا کردار کیا ہے؟ جہاں تک نفاذ اسلام کی اہمیت کا تعلق ہے کوئی مسلمان اس سے انکار نہیں کر سکتا اور علمائے اہلِ سنت نے اسے اہم ترین فرائض میں شمار کیا ہے۔ بلکہ ابن حجر مکیؒ اور دیگر ائمہ نے اس کی تصریح کی ہے کہ نظام اسلام کے نفاذ کے لیے خلافت کا قیام ’’اہم الواجبات‘‘ ہے جسے حضرات صحابہ کرامؓ نے جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین پر ترجیح دی اور آنحضرتؐ کے جنازہ اور تدفین سے قبل حضرت ابوبکرؓ کا بطور خلیفہ انتخاب کیا۔ پھر برصغیر میں ہمارے اکابر کی جنگِ آزادی کا بنیادی مقصد بھی حصولِ آزادی کے بعد نظامِ اسلام کا غلبہ و نفاذ رہا ہے اور پاکستان کا قیام بھی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نعرہ پر شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی کے لیے عمل میں آیا۔ لیکن اسلام کو ایک اجتماعی نظام کے طور پر ہمارے دینی مدارس میں نہ پڑھایا جا رہا ہے اور نہ طلبہ کی اس انداز میں ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ وہ اسلام کا مطالعہ ایک نظام کے طور پر کریں۔ حالانکہ حدیث اور فقہ کی بیشتر کتابیں محدثین اور فقہاء نے اس انداز سے لکھی ہیں کہ ان میں اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کا الگ عنوان کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ عقائد، عبادات اور اخلاق کے علاوہ تجارت، خلافت، جہاد، دوسری اقوام سے تعلقات، صنعت، زمینداری، حدود و تعزیرات، نظامِ عمل، نظامِ عدالت، معاشرت اور دیگر اجتماعی شعبوں کے بارے میں حدیث اور فقہ کی کتابوں میں مفصل اور جامع ابواب موجود ہیں جن کے تحت محدثین اور فقہاء نے احکام و ہدایات کا بیش بہا ذخیرہ جمع کر دیا ہے۔ لیکن ان ابواب کی تعلیم میں ہمارے اساتذہ کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں ہمارے اساتذہ کے علم اور بیان کا سارا زور کتاب الطہارت اور صلوٰۃ کے جزوی مباحث میں صرف ہو جاتا ہے، جبکہ خلافت و امارت، تجارت و صنعت، جہاد، حدود و تعزیرات اور اجتماعی زندگی سے متعلق دیگر مباحث سے یوں کان لپیٹ کر گزر جاتے ہیں جیسے ان ابواب کا ہماری زندگی سے کوئی واسطہ نہ ہو یا جیسے ان ابواب کی احادیث اور فقہی جزئیات منسوخ ہو چکی ہوں اور اب صرف تبرک کے طور پر انہیں دیکھ لینا کافی ہو۔
حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اجتماعی زندگی سے متعلق ابواب کو زیادہ اہتمام سے پڑھایا جاتا۔ قانون، سیاست، خارجہ پالیسی، جنگ اور معاشرت کے مروجہ افکار و نظریات سے اسلامی تعلیمات کا تقابل کر کے اسلامی احکام کی برتری طلبہ کے ذہنوں میں بٹھائی جاتی اور انہیں اسلامی افکار و نظریات کے دفاع اور اس کی عملی ترویج کے لیے تیار کیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس اہم ترین دینی و قومی ضرورت سے مسلسل صرف نظر کیا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کی پچانوے فیصد اکثریت خود اسلامی نظام سے ناواقف اور جدید افکار و نظریات کو سمجھنے اور اسلامی احکام کے ساتھ ان کا تقابل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کے اعتراف میں کسی حجاب سے کام نہیں لینا چاہیے اور اس کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تلافی صورت نکالنی چاہیے۔
آج نفاذ اسلام کی راہ میں ایک بڑی عملی رکاوٹ یہ بھی ہے کہ اس نظام کو چلانے کے لیے رجال کار کا فقدان ہے۔ اسلامی نظام کو سمجھنے والے اور اسے چلانے کی صلاحیت سے بہرہ ور افراد کا تناسب ضرورت سے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اور یہ خلا آخر کس نے پر کرنا ہے؟ جس نظامِ تعلیم کو ہم لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم کہتے ہیں اس سے تو یہ توقع ہی عبث ہے کہ وہ اسلامی نظام کے لیے کل پرزے فراہم کرے گا۔ اور اگر دینی نظامِ تعلیم اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کردار ادا نہیں کر رہا تو اسلامی نظام کے لیے رجالِ کار کیا آسمان سے اتریں گے؟
دینی مدارس کے اجتماعی کردار کے منفی پہلوؤں کے بارے میں بہت کچھ کہنے کی گنجائش موجود ہے بلکہ بہت کچھ کہنے کی ضرورت ہے لیکن ہم صرف مذکورہ دو اصولی مباحث کے حوالے سے توجہ دلاتے ہوئے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام، دینی مدارس کی اجتماعی قیادت بالخصوص وفاق المدارس العربیہ، تنظیم المدارس اور وفاق المدارس السلفیہ کے ارباب حل و عقد سے گزارش کریں گے کہ وہ اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور یورپ کے لادینی فلسفۂ حیات کو فکری محاذ پر شکست دینے اور نفاذِ اسلام کے لیے رجال کار کی فراہمی کے حوالہ سے اپنے کردار کا ازسرنو تعین کریں۔ ورنہ وہ اپنی موجودہ کارکردگی اور کردار کے حوالہ سے نہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں گے اور نہ ہی مؤرخ کا قلم ہی ان کے اس طرز عمل کے بارے میں کسی رعایت اور نرمی سے کام لے گا۔‘‘
یہ معروضات ربع صدی قبل کی ہیں جنہیں اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے مختلف صورتوں میں مسلسل دہرا رہا ہوں مگر ابھی تک یہ ایک توجہ طلب سوال کا دائرہ کراس نہیں کر پائیں۔ جبکہ اس کے بارے میں جو عملی صورتیں ہو سکتی ہیں ان کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے:
ایک اسلامی ریاست کا مالی معاملات کا نظام اور خرید و فروخت کے طریقوں کے بارے میں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات عالیہ اور اپنی عملی زندگی کے ذریعے واضح تعلیمات امت کو دی ہیں۔ امت کے اعلیٰ ترین دماغوں، جنہیں فقہاء کرام کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، نے انہی تعلیمات نبوی کی بنیاد پر ایک بہترین ذخیرہ تیار کیا، جس سے ہر دور میں افراد امت رہنمائی لے رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک کڑی ’’بیع مؤجل‘‘کی وہ صورت ہے جسے اسلامی نظریاتی کونسل نے ۱۹۸۰ء کے عرصہ میں سود کی لعنت سے چھٹکارے کے متبادل طریقوں میں سے ایک طریقہ کے طورپر ذکر کیا اور ساتھ واضح کیا کہ اس کا تعلق ان متبادل طریقوں سے ہے جو ثانونی درجہ کے ہیں اور انہیں استثنائی حالات میں اختیار کیا جا سکتا ہے۔
اس تجویز کی ترقی یافتہ شکل آج جدید غیر سود بینکوں میں رائج ہے جیسے ’’مرابحہ مؤجلہ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ زیرنظر مقالہ میں کونسل کی تجویز کردہ صورت کی بنیادیں سیرت نبویؐ اور فقہی اقوال سے پیش کرنے کے بعد مرابحہ مؤجلہ سے اس کا ایک تقابل پیش کیا گیا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے آئینی فرائض منصبی کے تحت صدر پاکستان کے استفسار پر مالی معاملات سے سود کے خاتمہ کے لیے ۱۹۸۰ء میں ایک رپورٹ پیش کی، جس میں سود کی حرمت کو واضح دلائل کے ساتھ آشکار کیا گیا اور اس کے متبادل کے طورپر اسلامی طریقے تجویز کیے، ان میں سے کچھ طریقے ایسے تھے جن کا تعلق مثالی اسلامی نظام سے تھا، جبکہ سہولت کی خاطر کچھ ایسے طریقے بھی ذکر کیے گئے جو اگرچہ مثالی نہیں ہے لیکن ان کے ذریعے ربا کی حرمت سے چھٹکارا نصیب ہو جاتا ہے اور معاملہ جواز کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ انہی ثانوی طریقوں میں سے ایک طریقہ ’’بیع مؤجل‘‘ہے۔ اس کی جو صورت کونسل نے تجویز کی اس کا حاصل حسب ذیل ہے:
اس کی مثال دے کر بات اس طرح واضح کی کہ بینک کو کھاد کی ایک بوری پچاس روپے میں پڑی ہے تو وہ آگے ادھار پر پچپن کی فروخت کرے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کو اپنا ایجنٹ مقرر کر دے جو کسانوں کو یہ کھاد بینک کی طرف سے مہیا کرے، جب یہ مہیا کر چکے تو بینک اسے فی بوری کے حساب سے پچاس روپے ادا کر دے اور اپنے کلائنٹ سے ادھار پچپن روپے حاصل کر لے۔
مثال سے وضاحت کرنے کے بعد کونسل نے اس طریقہ کار کو مختلف مالی معاملات میں استعمال کرنے کی اجازت دی اور پھر اس کی شرائط کی تفصیل ذکر کی، اس کے لیے کونسل کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’اس کے لیے شرط ہے کہ خرید کردہ شے متعلقہ ادارے کے حوالے کیے جانے سے پہلے بینک کے قبضے میں آئے، تاہم اس شرط کی تکمیل کے لیے یہی کافی ہے کہ بینک نے جس ادارے سے مال خریدار ہو وہ اس مال کو بینک کے نام پر علیحدہ کر دے اور پھر اس شخص کو دے دے جسے بینک نے اس سلسلے میں مجاز و مختار قرار دیا ہو اور اس میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس کے لیے مال خریدا گیا ہو(2)۔‘‘
کونسل کی طرف سے بیع مؤجل کی تجویز کردہ صورت اور شرائط کا تجزیہ پیش کرنے کے لیے حسب ذیل امور پر بحث ضروری ہے:
۱- ادھار بیع کے بارے میں تعلیمات نبوی
۲- ادھار بیع کی صورت میں قیمت میں اضافہ کے بارے میں تعلیمات نبوی
۳- آگے فروخت کرنے سے قبل بینک کے قبضے کی شرط تعلیمات نبوی کی روشنی میں
۴- بینک کے ایجنٹ کا قبضہ یا خریدار ہی کو ایجنٹ مقرر کرنے کا حکم
ان امور پر بالترتیب تعلیمات نبوی سے استفادہ کر کے نتائج سامنے لانے سے معلوم ہو سکے گا کہ خرید و فروخت کی مذکورہ صورت سیرت نبوی کے کس قدر موافق ہے۔
ادھار خرید و فروخت کا معاملہ شریعت کے ان عمومی احکام میں داخل ہے جن کی اجازت ہے، اور اس کی اجازت دو آیات کریمہ اور متعدد احادیث نبوی سے اخذ کی جا سکتی ہے۔ آیات میں سے ایک آیت حسب ذیل ہے:
اس آیت کریمہ میں بیع یعنی خرید و فروخت کو حلال قرار دیا گیا ہے اور بیع مؤجل یعنی ادھار خرید و فروخت اسی زمرے میں داخل ہے لہٰذا یہ بھی حلال ہے۔
آیت کریمہ سے عموم ہی مراد ہے، مفسرین بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ آیت کریمہ میں عموم مراد ہے، البتہ کچھ بیوعات مستثنیٰ ہیں جن کی حرمت الگ نصوص میں وارد ہے، چنانچہ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
(یہ آیت کریمہ قرآن کریم کے عمومی احکام میں سے ہے، اس میں الف لام جنسی ہے عہدی نہیں ہے، کیونکہ اس سے ماقبل کوئی (مخصوص) بیع مذکور نہیں ہے کہ وہ ہی مراد ہو، جب ثابت ہوگیا کہ بیع عام ہے تو اس سے مذکورہ ربا وغیرہ کی صورتیں مخصوص ہوں گی جن کی ممانعت ہے، اسی طرح شراب، مردار اور حمل کے حمل وغیرہ کی بیع کا عقد کرنا ممنوع ہے جن کی ممانعت کا ثبوت سنت اور اجماع امت سے ہے)۔
علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس توجیہ کو پسندیدہ قرار دیا ہے کہ بیع کے لفظ میں عموم ہے اور اس میں تمام بیوعات کی حلت کا اشارہ ہے الا یہ کہ ان کی حرمت و ممانعت کا کوئی الگ سے حکم نہ آ جائے، چنانچہ اس توجیہ کے مخالف دوسرا قول ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں ‘‘والأول أصح’’ کہ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
اسی طرح دوسری آیت کریمہ ہے:
(اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طورپر مت کھاؤ لیکن اگر کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے ہو تو مضائقہ نہیں)
اس آیت کریمہ میں بھی تجارت کے بغیر باہم ایک دوسرے کے مال سے انتفاع کو ممنوع کیا گیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ تجارت کی جائز شکلیں اختیار کرنے کی اجازت ہے، اور ’’بیع مؤجل‘‘تجارت ہی کی ایک جائز صورت ہے لہٰذا اس کے جواز میں کو ئی تردد باقی نہیں رہتا۔
سیرت نبوی اور ذخیرہ احادیث کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صراحت کے ساتھ اس بیع کی اجازت ہے اور خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عملی طورپر یہ بیع کی ہے یعنی سیرت نبوی کے عملی نمونہ سے اس کی اجازت ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ محدثین کتب حدیث میں اس بیع کی اجازت و جواز کے لیے مستقل باب قائم کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب البیوع میں باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے ‘‘باب شراء الطعام إلی أجل’’ اور اس کے تحت حسب ذیل روایت ذکر کی ہے:
(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک یہودی سے ایک مدت تک (مہلت) کے لیے کھانا خریدا اور اپنی زرہ بطور رہن رکھی)۔
اسی طرح امام ترمذی رحمۃ اللہ نے ’’بیع مؤجل‘‘ کے جواز کا باب قائم کر کے اس کے تحت ایک سے زائد احادیث روایت کی ہیں(5)۔
ان روایات سے صراحتاً معلوم ہوگیا کہ تعلیمات نبوی سے بیع مؤجل کی نہ صرف اجازت معلوم ہوتی ہے بلکہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے اور یہ سیرت نبوی کا حصہ ہے۔ اسی لیے معروف تمام فقہاء کرام اس بیع کی اجازت کے قائل ہیں۔
کونسل کی طرف سے تجویز کردہ ‘‘بیع مؤجل’’ کی صورت میں جو مثال ذکر کی گئی ہے کہ اس میں ادھار دینے کی صورت میں قیمت میں اضافہ بھی ذکر کیا گیا ہے اس لیے تعلیمات نبوی سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ آیا اس اضافے کی گنجائش ہے یا نہیں؟ اور اس سلسلے میں نبوی تعلیمات سے فقہاء امت نے کیا معانی اخذ کیے ہیں اور ان میں راجح مؤقف کون سا ہےجس سے معاشرہ میں آسانی اور رائج عرف کے لیے راستہ ہموار ہوتا ہے چنانچہ اس سلسلے میں نبوی تعلیمات میں سے حسب ذیل روایت ہے:
(حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بیع میں دو عقد کرنے سے منع فرمایا ہے)
اس حدیث کی توضیح و تشریح میں شراح حدیث نے مختلف توجیہات و تفسیرات ذکر کی ہیں، ان میں سے ایک تفسیر جوکہ راجح ہے، زیربحث مسئلہ سے متعلق ہے کہ اس روایت میں نقد کے مقابلے میں ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت لینے کی بات مذکور ہے اور جمہور فقہاء و محدثین کی رائے میں یہ صورت اس وقت ممنوع ہے کہ جب بوقت عقد ادھار کے لیے الگ قیمت اور نقد کے لیے الگ قیمت ذکر کی جائے، لیکن کوئی ایک قیمت طے کیے بغیر عاقدین الگ ہو جائیں لیکن اگر کوئی ایک قیمت طے کر دیں تو پھر یہ صورت جائز ہے چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تفسیر حسب ذیل عبارت میں کی ہے۔
اس عبارت میں وہی تفصیل مذکور ہے جو پہلے ذکر کر دی گئی ہے، البتہ دیگر کچھ توضیحات کی بنیاد پر کچھ فقہاء کرام نے ادھا کی وجہ سے قیمت میں اضافہ کو جائز قرار نہیں دیا، ان فقہاء کرام میں امام علی زید العابدین وغیرہ حضرات شامل ہیں۔ چنانچہ ان کا مؤقف علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے حسب ذیل الفاظ میں ذکر کیا ہے:
جو تفسیر أحمد نے سماک کے حوالے سے اور امام شافعی نے ذکر کی ہے، اس میں ان حضرات کے لیے دلیل ہے جو ادھار کی وجہ سے کوئی چیز زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کو حرام قرار دیتے ہیں، یہ مذہب زین العابدین علی بن الحسین، ناصر و منصور باللہ، ھادویہ اور امام یحیی رحمھم اللہ کا ہے)۔
ان کامؤقف ذکر کرنے کے بعد جمہور فقہاء کا فہم اور مؤقف ذکر کیا ہے:
(شافعیہ، حنفیہ، زید بن علی، مؤید باللہ اور جمہور نے کہا ہے کہ یہ صورت جائز ہے کیونکہ جواز کے مقتضی دلائل بکثرت ہیں اور یہی ظاہر ہے)۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی توضیح اور علامہ شوکانی کی تصریح کے مطابق جمہور فقہاء جن میں فقہائے اربعہ شامل ہیں، بیع مؤجل کی وجہ سے قیمت میں اضافہ جائز ہے۔ دور جدید کے ایسے فقہی ماہرین جو جدید مالی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں، انہوں نے بھی ادھار بیع کی صورت میں قیمت میں اضافہ درست قرار دیا ہے لیکن ساتھ یہ واضح کیا ہے کہ بوقت عقد ان میں سے کسی ایک قیمت کا تعین ہو جانا چاہیے، اگر بوقت عقد دونوں قیمتیں ذکر کے معاملہ طے کیے بغیر ادھورا چھوڑ دیا گیا ہو تو یہ بیع بالاتفاق جائز نہیں ہوگی، یہی بات جناب مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:
(ظاہر یہی ہے کہ اگر بائع نے مختلف مدتوں کے بدلے الگ الگ ثمن ذکر کیے، پھر ان میں سے کسی ایک پر عقد پکا کر دیا تو یہ بھی جائز ہے، خلاصہ یہ ہے کہ بھاؤ تاؤ کرتے وقت تو یہ جائز ہے لیکن عقد بیع صرف اسی صورت میں جائز ہے کہ جب عاقدین کسی ایک متعین مدت اور متعین ثمن کو طے کر لیں، اگر عاقدین نے وہ (مدت اور ثمن) جن پر بیع ہوگی، طے نہ کیا تو بیع جائز نہیں ہے)۔
لہٰذا کونسل کی طرف سے تجویز کردہ بیع مؤجل میں نقد کے مقابلہ میں ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک تفسیر اور جمہور فقہاء کے قول کے موافق درست ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
کونسل نے اپنی تجویز کردہ بیع مؤجل کے لیے جن شرائط کا ذکر کیا ہے، اس میں یہ شرط رکھی ہے کہ بینک اپنے کلائنٹ کے ساتھ بیع مؤجل تب کر سکتا ہے کہ جب اس کے اپنے قبضہ میں آ جائے۔ قبضہ میں آنے کی اس شرط کے بارے میں نبوی تعلیمات کو دیکھنا ہے کہ وہ کیا ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سلسلے میں کیا ہدایات ارشاد فرمائی ہیں، چنانچہ ذخیرہ حدیث پر نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ حدیث میں کھانے پینے کی چیزوں میں قبضہ کرنے سے قبل آگے فروخت کرنا منع ہے، لیکن خود روایان حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عن ہم نے اس سے عموم مراد لیتے ہوئے تمام اشیاء میں قبضہ سے قبل آگے بیع کرنے کو ممنوع حکم میں شامل رکھا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں روایات اسی انداز سے موجود ہیں:
(حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے بھی کھانے کی کوئی چیز خریدی تو وہ اسے قبضہ کرنے سے قبل آگے فروخت نہ کرے۔ عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ہر چیز کھانے کی چیزوں کے حکم میں ہے)۔
یہی روایت دیگر کتب حدیث جیسا کہ صحیح بخاری اور جامع ترمذی میں اسی انداز اور اسی توضیح کے ساتھ مروی ہے اور یہی جمہور فقہاء کا مؤقف ہے۔ البتہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض أھل علم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کھانے کی امور میں ہی یہ سختی ملحوظ ہے اور بقیہ چیزوں میں اجازت ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
اس میں بعض اہل علم جیسا کہ امام أحمد اور امام اسحٰق رحمۃ اللہ علیہما کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ دیگر چیزوں میں قبل القبض بیع کی اجازت ہے، البتہ جمہور فقہاء و محدثین کےعہاں حضرت عبداللہ بن عباس کی وضاحت کے پیش نظر اس ممانعت کا تعلق تمام چیزوں کے ساتھ ہے کہ ہر چیز میں قبضہ سے قبل آگے فروخت کرنا ممنوع ہے۔
اس سلسلے میں فقہی مذاہب کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
امام عثمان البتی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں قبضہ شرط نہیں ہے، اس سے قبل بھی آگے بیع کرنا درست ہے، لیکن اس مؤقف کے بارے میں علامہ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ یہ درست نہیں ہے بلکہ اسے مردود کہا ہے اور لکھا ہے کہ شاید انہیں یہ روایت نہیں پہنچی۔
دوسرا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کی اشیاء چاہے ان کا تعلق مطعومات سے ہو، غیر مطعومات سے یا پھر منقولہ ہو یا غیر منقولہ جائیداد میں قبضہ سے قبل آگے فروخت کرنا درست نہیں ہے۔ یہ مؤقف امام شافعی، امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیھما و دیگر فقہاء کا ہے۔
تیسرا مؤقف وہ ہی ہے جو امام ترمذی کی عبارت میں امام احمد کے حوالے سے مذکور ہوا۔
چوتھا مؤقف یہ ہے کہ تمام منقولہ اشیاء میں قبضہ سے قبل آگے بیع کرنا درست نہیں ہے، البتہ ایسی غیر منقولہ جائیداد میں قبضہ سے قبل بھی آگے فروخت کرنا جائز ہے، جس کی ہلاکت کا اندیشہ نہ ہو، یہ مؤقف امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیھما کا ہے اور اسی کے مطابق خلاف عثمانیہ میں قانون سازی بھی ہوئی تھی مجلۃ الاأحکام العدلیہ میں ہے:
(دفعہ: ۳۵۲) مشتری مبیع کو قبضہ سے قبل آگے فروخت کر سکتا ہے، اگر مبیع زمین ہو، بصورت دیگر قبضہ سے قبل آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے’’۔
اس ساری تفصیل سے واضح ہوا کہ کونسل کی تجویز کردہ صورت میں ذکر کی گئی شرط ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے موافق ہے۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کونسل غیر منقولہ جائیداد کے بارے میں جو گنجائش موجود ہے، اس کی بھی تصریح کر دیتی تو زیادہ بہتر ہوتا جیسا کہ مجلۃ الأحکام العدلیہ میں بھی اس گنجائش کا تذکرہ موجود ہے۔
کونسل نے قبضہ کی شرط ذکر کرتے ہوئے یہ لکھا کہ ‘‘اس شرط کی تکمیل کے لیےیہی کافی ہے کہ بینک نے جس ادارے سے مال خریدا ہو وہ اس مال کو بینک کے نام پر علیحدہ کر دے اور پھر اس شخص کو دے دے جسے بینک نے اس سلسلے میں مجاز و مختار قرار دیا ہو اور اس میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس کے لیے مال خریدا گیا ہو’’۔
اس میں دو صورتیں بیان ہوئی ہیں، یہ دونوں الگ الگ قابل بحث ہیں: (۱)کسی وکیل کے ذریعے قبضہ (۲) اسی شخص کو قبضہ کا وکیل بنانا جس کے لیے مال خریدا گیا ہو۔
کسی تیسرے آدمی کو وکیل بنا کر قبضہ حاصل کرنے سے شرعاً بینک کا قبضہ شمار ہونا ایک بدیہی امر ہے، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ وکیل کا قبضہ مؤکل ہی کا قبضہ تصور ہوتا ہے جیسا کہ فقہ اسلامی کے ماہرین جابجا یہ اصول ذکر کیا کرتے ہیں: قبض الوکیل کقبض المؤکل’’(15)
لہٰذا اگر بینک اپنے خریدار کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو وکیل مقرر کرے اور وہ ہی قبضہ حاصل کر لے تو نہ صرف اس میں کوئی حرج کی بات نہیں بلکہ یہی بہتر طریقہ ہے۔ جدید غیر سودی بینکاری کے ماہرین بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خریدار کو وکیل مقرر کرنے کے بجائے ازخود یا اپنے کسی وکیل کے ذریعے خریداری کریں، چنانچہ جناب مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:
‘‘غیر سودی بینکوں کے شریعہ بورڈ بکثرت اپنے اپنے اداروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ جہاں تک ہو سکے براہ راست خریداری کریں، گاہک کو وکیل نہ بتائیں، اور اب رفتہ رفتہ یہ رجحان پیدا بھی ہوتا رہا ہے(16)۔
لہٰذا اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں ہے، البتہ دوسری صورت پر کچھ مزید بحث کی ضرورت ہے۔
کونسل چونکہ اختصار کے ساتھ متبادل صورتیں ذکر کر رہی تھی اس لیے اس نے صرف اتنا ہی درج کیا کہ جو شخص خرید رہا ہے، اس کے ذریعے بھی بینک قبضہ حاصل کر سکتا ہے، لیکن حقیقت اس میں مزید تفصیل ملحوظ رکھنا ضروری ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر بینک خریدار ہی کو وکیل مقرر کرتا ہے تو پھر اس کی طرف سے قبضہ ہو جانے کے بعد بیع کا الگ سے نیا معاہدہ کرنا ہوگا، اس سے قبل وکالت کا معاہدہ ہوگا۔ اس صورت میں دیگر تفصیلات کے ساتھ ایک اہم بحث یہ ہے کہ وکیل کا قبضہ قبضہ امانت ہوتا ہے اور خرید و فروخت میں قبضہ قبضہ ضمان ہوتا ہے اور قبضۂ امانت قبضہ ضمان کے لیے کافی نہیں ہوتا اس کے لیے الگ سے نیا قبضہ ضروری ہوتا ہے لہٰذا اس کی کوئی معقول و مناسب فقہی توجیہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ اصولی مسئلہ تو علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح واضح کیا ہے:
اس میں یہی واضح کیا گیا ہے کہ اگر مشتری کے پاس مبیع پہلے سے موجود ہے اور وہ قبضہ امانت کا ہے ‘جیسا کہ زیربحث صورت میں ہے’ تو یہ قبضہ شمار نہیں ہوگا۔
لیکن اگر بحیثیت وکیل قبضہ کرنے کے بعد نیا قبضہ نہ کیا گیا ہو۔ سابقہ قبضہ پر ہی اکتفا کر لیا گیا ہو تو شرعاً کافی ہوگا یا نہیں۔ اس کا جواب اس پر موقوف ہے کہ قبضہ کی حقیقت کیا ہے؟ فقہائے احناف کے ہاں اس کی جو حقیقت ہے وہ پیش نظر رکھی جائے تو اس کا جواب باآسانی معلوم ہوتا ہے، احناف کے ہاں قبضہ کی حقیقت کو علامہ کاسانی اس انداز سے واضح کرتے ہیں:
اس میں کہا گیا ہے کہ قبضہ کا مفہوم یہ ہے کہ بائع مبیع اور مشتری کے مابین اس انداز سے تخلیہ کر دے کہ مشتری کے لیے اس میں تصرف کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ اس تفسیر کو پیش نظر رکھا جائے تو وکیل کے طورپر قبضہ کرنے کے بعد بحیثیت خریدار حکمی و معنوی طورپر نیا قبضہ بصورت تخلیہ موجود ہے، لہٰذا یہ اشکال فقہاء احناف کی تشریح کے مطابق رفع ہو جاتا ہے، البتہ فقہائے شافعیہ کی قبضہ کی تفسیر پر یہ اشکال بدستور باقی رہتا ہے کیونکہ ان کے ہاں حکمی و معنوی قبضہ بصورت تخلیہ کافی نہیں ہوتا بلکہ حسی اور صوری قبضہ ضروری ہوتا ہے۔
کونسل کی طرف سے ذکر کردہ بیع مؤجل کی صورت اور پھر بینک کے قبضہ میں یہ تفصیل ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
بیع مؤجل کی اس صورت پر بینکوں میں عمل شروع کیا گیا لیکن اس کا حلیہ بگاڑ کر کیا گیا جس پر تحفظات کا اظہار کونسل نے ۱۹۸۴ء میں ہی ذکر کر دیا تھا چنانچہ یکم، ۲؍ جنوری ۱۹۸۴ء میں کونسل نے اس سلسلے میں حسب ذیل خدشات کا اظہار کیا:
’’ کونسل کی سفارش یہ تھی کہ بیع مؤجل کا طریقہ بڑی احتیاط کے ساتھ صرف استثنائی صورتوں میں استعمال کیا جانا چاہیے جہاں اس کے سوا چارہ نہ ہو لیکن ’’نفع نقصان میں شرکت‘‘کے لین دین میں اسے پالیسی کے ایک بنیادی عمل کی حیثیت سے اپنا لیا گیا ہے۔۔۔ اگر نفع نقصان میں شرکت کے لین دین میں سود کے بجائے مارک اپ کے طریقے کا وسیع پیمانے پر استعمال جاری رہا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سود کو حقیقی معنوں میں ختم کرنے کے بجائے صرف اس کا نام بدل دیا گیا ہے(19)۔‘‘
اسی خدشہ اور حلیہ بگاڑنے کا تذکرہ جناب مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی کیا جو کونسل کی رپورٹ کی تیاری میں بھی شامل تھے:
’’جب میں نے ان کے طریق کار کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو حلیہ بگاڑ کر نافذ کیا گیا ہے۔ اس میں مرابحہ یا بیع مؤجل کا نام تو ضرور تھا لیکن اس کا طریق کار محض فرضی اور صرف کاغذوں کی حد تک محدود تھا، اور حقیقت میں نقد رقم ہی کا تبادلہ ہوتا تھا جو سود ہی کی ایک شکل تھی‘‘ (20)
اس سے واضح ہوا کہ کونسل کی طرف سے ذکر کردہ تجویز فی نفسہٖ شرعی اصولوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ تھی لیکن عملی طورپر جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ درست نہیں تھا۔
اس کے بعد جدید غیر سودی یا اسلامی بینکوں کا آغاز ہوا، اس میں بھی بیع مؤجل کی سی صورت اختیار کی گئی اس کا نام مرابحہ مؤجلہ رکھا گیا۔
مرابحہ مؤجلہ بھی درحقیقت ایک بیع ہی ہے جس میں مدت کا ذکر ہوتا ہے لیکن بینک واضح طورپر خریدار کو اپنا متعین نفع بتاتا ہے، جس وجہ سے اس کو مرابحہ کہا جاتا ہے۔ اس عمل کی تفصیل متعدد کتب میں موجود ہے۔ زیرنظر مقالہ میں اس کی تفصیل ذکر کرنا پیش نظر نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب اسلامی بینکاری کی بنیادیں۔(21)
زیرنظر مقالہ میں بیع مؤجل، جو کونسل نے تجویز کی تھی، اس پر کچھ مزید کیے گئے اضافوں یا فرق کو واضح کرنا پیش نظر ہے، ان میں سے چند ایک فرق ہیں۔
مرابحہ مؤجلہ کرتے وقت جدید غیر سودی بینک مشتری سے ایک ماسٹر ایگریمنٹ کرتے ہیں جس میں آئندہ کے لیے کیے جانے والے عقود کی تفصیل ہوتی ہے، اور مشتری کی طرف سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ میں یہ عقد مرابحہ کروں گا۔ اس وعدہ میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ اگر مبیع نہ خریدی تو بینک کو جو حقیقی نقصان ہوگا اس کا مشتری ذمہ دار نہ ہوگا جبکہ کونسل نے ایسی کوئی تجویز ذکر نہیں کی، لیکن کونسل کی ذمہ کردہ صورت کے یہ منافی بھی نہیں ہے، انتظامی ضروریات کے پیش نظر ایسا معاہدہ یا وعدہ کیا جا سکتا ہے، البتہ اس میں فقہی لحاظ سے یہ بحث ہو سکتی ہے اور کی بھی گئی ہے کہ آیا ایسا وعدہ شرعاً لازم ہو سکتا ہے یا نہیں؟ دونوں نقطہ ہائے نظر اس میں موجود ہیں۔
دوسرا فرق یا اضافہ یہ ہے کہ بینک مشتری سے یہ وعدہ بھی لیتا ہے کہ اگر اس نے قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی تو ایک مخصوص مقدار کی رقم صدقہ کرے گا، جسے التزام بالتصدق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ مستقل معاملہ ہے، جو کونسل میں زیربحث نہیں آیا، اس کے جواز و عدم جواز پر بھی دونوں نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ جناب مفتی محمد تقی عثمانی نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے(22)۔
اور اس کے خلاف بھی تحریرات سامنے آئی ہیں جیسا کہ جامعۃ العلوم الإسلامیہ بنوری ٹاؤن کی طرف سے جاری کردہ کتاب میں لکھا گیا ہے (23)
یہی دو بنیادی فرق ہیں، ان کے علاوہ بھی مزید کچھ معمولی فرق نہیں، تاہم اتنی بات واضح ہے کہ کونسل کی طرف سے تجویز کردہ صورت ہی کی نئی اور ترقی یافتہ شکل مرابحہ مؤجلہ کی ہے جو آج کل جدید غیر سودی بینکوں میں رائج ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کونسل کی طرف سے تجویز کردہ بیع مؤجل کی صورت تعلیمات نبویؐ سے اخذ کردہ ہے، اس میں کوئی چیز خلاف شریعت نہیں ہے، اسی کی جدید شکل مرابحہ مؤجلہ ہے جو آج کل غیر سودی بینکوں میں رائج ہے۔
ایک اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ مالی معاملات کو سود سے پاک کرے اور ایسے قوانین ختم کرے جو سود کی بنیاد پر ہیں، ان قوانین کے خاتمہ کے لیے کونسل کی طرف سے پیش کردہ متبادل تجاویز اور بیع مؤجل کی تجویز مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔
8. اسلامی نظریاتی کونسل، رپورٹ بلاسود بینکاری، طبع سوم،ادارہ تحقیقات اسلامی، پریس، اسلام آباد ۲۰۰۲ء، ص: ۲۴
9. حوالہ بالا: ص: ۲۵
10. أبو عبداللہ محمد بن أحمد القرطبی، الجامع لأحکام القرآن، دار احیاء التراث العربی ۱۹۹۵ء۔: ۳/ ۳۵۶
11. محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح بخاری، ‘‘موسوعۃ الکتب الحدیث’’ باب شراء الطعام إلی أجل، دارالسلام للنشر و التوزیع، الطبعۃ الثالثہ ، ۲۰۰۰ء، حدیث: ۲۲۰۰
12. محمد بن عیسی الترمذی، جامع الترمذی، باب ما جاء فی الرخصۃ فی الشراء إلی أجل، مکتبہ حقانیہ، پشاور، ۱/ ۲۳۰
13. جامع الترمذی، باب ما جاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ، ۱/ ۲۳۳
14. حوالہ بالا: ۱/ ۲۳۳
15. محمد بن علی بن محمد الشوکانی، نیل الأوطار شرح منتقی الأخیار، باب بیعتین فی بیعۃ: ۵/ ۱۶۲
16. حوالہ بالا: ۵/ ۱۶۲
17. مفتی محمد تقی عثمانی، فقہ البیوع، مکتبہ معارف القرآن کراچی، ۲۰۱۵، ۱/ ۵۴۵
18. أبو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم از موسوعۃ الکتب الحدیث، باب بطلان البیع قبل القبض، دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، ۲۰۰۰ء حدیث: ۳۸۳۸
19. أبو عیسیٰ الترمذی الترمذی، جامع الترمذی،ؒ باب ما جاء فی کراھیۃ بیع الطعام حتی یستوفیہ، ۱/ ۲۴۲
20. المغنی لابن قدامہ: ۴/ ۲۲۰
21. مجلۃ الأحکام العدلیۃ، نور محمد کا رخانہ تجارت، کراچی: ۵۲
22. علی حیدر خواجہ أمین آفندی، دارالحکام فی شرح مجلۃ الأحکام، دارالحیل، بیروت ۱۹۹۱: ۱/ ۵۴۵
23. مفتی محمد تقی عثمانی، غیر سودی بینکاری :متعلقہ فقہی مسائل کی تحقیق اور اشکالات کا جائزہ، مکتبہ معارف القرآن کراچی، طبع دوم، ۲۰۰۹، ص: ۲۱۰
24. علاؤ الدین أبو بکر بن مسعود الکاسانی، بدائع الصنائع: ۵/ ۲۴۸
25. حوالہ بالا: ۵/ ۲۴۴
26. بلاسود بینکاری: ص ۱۴۵
27. غیر سودی بینکاری: متعلقہ فقہی مسائل کی تحقیق اور اشکالات کا جائزہ، ص ۳۶
28. اسلامی بینکاری کی بنیادیں، ص ۹۷ تا ۱۶۲
29. غیر سودی بینکاری ص: ۲۷۷
30. ملاحظہ ہو، مروجہ اسلامی بینکاری، ص: ۲۶۴- ۲۶۸
ابن حزم کے انداز فکر اور اصولی آرا کے بغور مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے قرآن کے عموم میں سنت کے ذریعے سے تخصیص یا زیادت کی توجیہ کے لیے دلالت کلام کے محتمل ہونے کے نکتے کو ناکافی اور غیرتشفی بخش پا کر استدلال کو دوبارہ کلیتاً اعتقادی مقدمے پر استوار کرنے اور یوں اس الجھن کو دور کرنے کی کوشش کی جو امام شافعی کے طرز استدلال میں پائی جاتی تھی۔ اس حوالے سے ابن حزم کے اصولی نقطۂ نظر کے اہم نکات حسب ذیل ہیں :
۱۔ قرآن اور سنت میں بیان کیے جانے والے تمام شرعی احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پر مبنی ہیں اور کوئی بھی حکم شرعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے بغیر مقرر نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی حکم شرعی کے بیان میں اجتہاد کے مجاز نہیں تھے، بلکہ کوئی سوال درپیش ہونے پر وحی کا ہی انتظار کیا کرتے تھے:
’’اگرکوئی شخص یہ کہے کہ کیا انبیا کے لیے اجتہاد کرنا روا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ انبیا کے لیے شریعت کا کوئی ایسا حکم اپنے اجتہاد سے وضع کرنا جائز ہے جس کے متعلق ان پر وحی نازل نہ ہوئی ہو تو یہ کفر عظیم ہے اور اس کے باطل ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی سے یہ اعلان کروانا کافی ہے کہ ’’میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’پیغمبر اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتا، یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔‘‘ مزید فرمایا کہ ’’اگر پیغمبر اپنی طرف سے کچھ باتیں گھڑ کر ہماری طرف منسوب کرنا چاہے تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑ لیں گے اور پھر اس کی شہ رگ کو کاٹ کر رکھ دیں گے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی بات کے متعلق سوال کیا جاتا تھا تو آپ وحی کا انتظار کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ’’اس کے متعلق مجھ پر کوئی چیز نازل نہیں کی گئی‘‘ جیسا کہ گدھوں کی زکوٰۃ سے متعلق سوال پر اور چچا اور بیوی کی موجودگی میں دو بیٹیوں کی وراثت کے مسئلے میں اور ان کے علاوہ بھی بہت سے واقعات میں آپ نے یہ بات فرمائی۔‘‘
۲۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ مکمل وحی کی حفاظت کا اہتمام کیا ہے، چاہے وہ قرآن کی صورت میں ہو یا حدیث کی صورت میں۔ قرآن مجید میں جس ’الذِّكْر‘ کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا ہے (الحجر ۱۵ : ۹)، ابن حزم کے نزدیک اس سے مراد صرف قرآن نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جانے والی ہر طرح کی وحی ہے اور قرآن کی طرح حدیث کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کا وعدہ ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی طرح تکوینی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو بھی مکمل طور پر محفوظ رکھنے اور حفاظت کے ساتھ امت تک منتقل کرنے کا اہتمام فرمایا ہے۔ ابن حزم لکھتے ہیں :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سب کا سب وحی ہے، اور وحی بالاتفاق ذکر ہے، اور ذکر قرآن کی نص کی رو سے محفوظ ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا کلام بھی اللہ کی طرف سے حفاظت کے بندوبست کی وجہ سے محفوظ ہے اور اللہ نے اس کی ضمانت دی ہے کہ اس میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی، کیونکہ جس چیز کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے، اس کے بارے میں یہ یقینی ہے کہ اس میں سے کچھ بھی ضائع نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آپ کی تمام احادیث نقل ہو کر ہم تک پہنچی ہیں۔‘‘
اسی وعدۂ حفاظت کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ شریعت کا کوئی حکم جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہو، کسی ایسے سند سے منقول نہیں ہو سکتا جس کے راویوں کے بیان پر حجت قائم نہ ہو سکتی ہو،کیونکہ ا س سے شریعت کا ایک مستند حکم ضائع ہو جائے گا۔ اسی اصول پر اگر کسی ثقہ راوی سے کسی حدیث کے بیان میں غلطی ہوئی ہو تو لازم ہے کہ تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس غلطی کی وضاحت کا بھی بندوبست کیا ہو، تاکہ امت ایک غیرمستند حکم کو شریعت کا حصہ سمجھنے کی غلطی میں مبتلا نہ ہو جائے (الاحکام ۱/۱۳۶)۔
۳۔ تمام شرعی نصوص وحی پر مبنی ہونے کی وجہ سے حکم کے اثبات اور اس کے متعلقات کی وضاحت میں یکساں درجے کی حامل ہیں اور ان میں کسی قسم کا امتیاز قائم کرنا درست نہیں۔ چنانچہ جیسے قرآن میں ایک ہی مسئلے سے متعلق مختلف مقامات پر بیان ہونے والی تفصیلات ایک جیسی اہمیت رکھتی ہیں، اسی طرح سنت میں وارد احکام کو اسی طرح کی حیثیت واہمیت دینا ضروری ہے جیسے وہ قرآن ہی میں وارد ہوئی ہوں، کیونکہ جب دونوں حکموں میں، وحی پر مبنی اور واجب الاتباع ہونے میں کسی بھی اعتبار سے کوئی فرق نہیں تو ان میں بیان ہونے والے احکام کے باہمی تعلق کو متعین کرتے ہوئے بھی کسی قسم کا فرق روا نہیں ہو سکتا۔ ان تمام احکام کی حیثیت ایک ہی مصدر، یعنی شارع کی طرف سے دیے جانے والے احکام کی ہے، چنانچہ جس طرح قرآن میں بیان ہونے والے مختلف احکام کو ایک مکمل مجموعے کا حصہ سمجھتے ہوئے ان کا باہمی تعلق متعین کیا جاتا ہے، اسی طرح سنت کے احکام کو بھی بالکل قرآن ہی کی سطح پر رکھتے ہوئے دونوں کے مجموعے کی روشنی میں حکم کی تعبیر کرنی چاہیے (الاحکام ۱/۹۸) ۔
۴۔ اپنے اسی نقطۂ نظر کے تسلسل میں ابن حزم قرآن مجید کی آیت ’وَاَنْزَلْنَا٘ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْھِمْ‘ (النحل ۱۶ : ۴۴) کی تشریح بھی جمہور اہل علم سے مختلف بیان کرتے ہیں۔ ابن حزم کا کہنا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جس تبیین کی نسبت کی گئی ہے، اس سے مراد صرف حدیث کے ذریعے سے قرآن کی وضاحت کرنا نہیں ہے، بلکہ قرآن کے کسی حکم کی وضاحت قرآن میں یا حدیث میں کرنے اور اسی طرح سنت کے کسی حکم کی وضاحت قرآن میں کرنے کی تمام صورتیں بھی شامل ہیں۔ گویا آیت کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل کی ہے، آپ وحی کے ذریعے سے ہی رہنمائی پا کر اس کی ضروری تفصیل وتوضیح لوگوں کے سامنے بیان کر دیتے ہیں۔ اس کی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قرآن کے کسی حکم کی وضاحت قرآن ہی میں نازل ہو اور آپ اسے لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قرآن کے علاوہ کسی وحی میں حکم کی تبیین کی جائے اور آپ اسے لوگوں کے سامنے بیان کر دیں۔ یہی معاملہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی حکم بیان فرمائیں اور اس کی توضیح وتبیین ہمیں قرآن سے مل جائے (الاحکام ۱/۸۱ - ۸۳)۔
۵۔ اس بنیادی رجحان کے تحت ابن حزم یہ اصولی ضابطہ بیان کرتے ہیں کہ کسی بھی شرعی حکم سے متعلق تمام نصوص کو، چاہے وہ قرآن میں وارد ہوں یا حدیث میں، ملا کر ان کے مجموعے سے حکم اخذ کیا جائے گا اور کسی خاص نص کو بنیادی اور اصل قرار دے کر یہ سوال نہیں اٹھایا جائے گا کہ اس کے علاوہ دیگر نصوص میں حکم کے جن اضافی پہلوؤں کا ذکر ہوا ہے، وہ غیر اہم یا ثانوی ہیں یا ان سے سابقہ حکم میں کوئی تبدیلی لازم آتی ہے، کیونکہ ایک ہی آیت یا حدیث میں تمام تر اجزا اور تفصیلات کے بیان کیے جانے کی توقع یا مطالبہ بالکل غیر معقول ہے (احکام الاحکام ۲/ ۳۴)۔
ابن حزم نصوص کے ظاہری تعارض کی صورت میں بعض کو بعض پر ترجیح دینے کو بھی درست نہیں سمجھتے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ کسی بھی آیت یا حدیث کو دوسری آیت یا حدیث کے مقابلے میں زیادہ اہم سمجھتے ہوئے ترجیح کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا، بلکہ تمام نصوص پر عمل کرتے ہوئے ان کے مابین تطبیق پیدا کی جائے گی۔ لکھتے ہیں :
’’جب دو حدیثیں یا دو آیتیں یا آیت اور حدیث کسی علم نہ رکھنے والے کو باہم متعارض دکھائی دیں تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ان سب آیتوں یا حدیثوں کو عمل میں لائے، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی دوسری سے زیادہ عمل میں لائے جانے کا حق نہیں رکھتی، اور نہ کوئی حدیث کسی دوسری حدیث سے زیادہ واجب الاتباع ہے، اور نہ کوئی آیت کسی دوسری آیت سے بڑھ کر اطاعت کیے جانے کے لائق ہے۔ یہ سب اللہ عز وجل کی طرف سے ہیں اور اطاعت اور عمل کے واجب ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں۔‘‘
اسی بنیاد پر ابن حزم اس طریقے کو درست نہیں سمجھتے کہ بعض روایات کو قرآن کی کسی آیت یا دوسری احادیث کے ساتھ موافقت کی وجہ سے دوسری روایات پر ترجیح دی جائے۔ لکھتے ہیں:
’’بعض اہل قیاس یہ کہتے ہیں کہ ہم دو متعارض حدیثوں میں سے اس حدیث کو قبول کریں گے جو کتاب اور سنت کے زیادہ موافق ہو۔ یہ بات باطل ہے، کیونکہ انھوں نے جس آیت کو ان دو حدیثوں کے مابین فیصلے کے لیے معیار بنایا ہے، وہ ان دو حدیثوں سے زیادہ اس کا حق نہیں رکھتی کہ اسے قبول کیا جائے۔ تمام نصوص اس لحاظ سے برابر ہیں کہ انھیں قبول کرنا اور ان کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ جب یہ بات یقینی طور پر درست ہے تو پھر ان میں سے بعض کو معیار بنانا اور بعض کو ان کی طرف لوٹانا کیونکر ہو سکتا ہے؟ اور ان میں سے بعض کو اصل اور بعض کو فرع یا بعض کو حاکم اور بعض کو محکوم فیہ بنانے کی کیا بنیاد ہے؟ جب تمام نصوص واجب الاتباع ہیں تو ایک کے ذریعے سے دوسری کی تائید کرنا درست نہیں ہو سکتا۔ یہ تو بس ذاتی پسند اور ناپسند کی بات ہوگی جو استحسان کی ایک صورت ہے جو کہ باطل ہے۔‘‘
۶۔ ابن حزم کے نزدیک مذکورہ ضابطے کی روشنی میں نصوص کی دلالت میں کسی بھی نوعیت کے تفاوت کی صورت میں آسانی کے ساتھ شارع کی مراد متعین کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ سنت کے ذریعے سے قرآن پر زیادت یا اس کی تخصیص یا نسخ جیسے سوالات کے حوالے سے وہ اپنا منہج اسی نکتے کی روشنی میں متعین کرتے ہیں اور تمام نصوص کے بالکل مساوی حیثیت کے حامل ہونے کے تناظر میں قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی مذکورہ تینوں صورتوں کو درست قرار دیتے ہیں۔
سنت کے ذریعے سے قرآن پر زیادت کی چند نمایاں مثالیں یہ ہیں :
ابن حزم کہتے ہیں کہ قرآن مجید نے بطور اصول تمام خبیث چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے، شکاری پرندوں اور درندوں کی حرمت کا جو حکم بیان فرمایا، وہ قرآن کے اسی اصول کا اطلاق اور اس کی تشریح ہے۔ ابن حزم ’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا‘ (الانعام ۶: ۱۴۵) میں بیان کردہ چیزوں کو بھی بعض خبائث کا بیان قرار دیتے ہیں اور اس سے ان چار کے علاوہ باقی چیزوں کی اباحت کا حکم اخذ کرنے کو درست نہیں سمجھتے۔ وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر تمام حرام چیزوں کا بیان اسی آیت میں کر دیا گیا ہے تو پھر پیشاب، پاخانہ اور شراب وغیرہ کو بھی حلال ماننا پڑے گا، کیونکہ آیت میں ان کی حرمت کا کوئی ذکر نہیں (احکام الاحکام ۲/ ۳۳- ۳۴، ۸۰- ۸۱)۔
اسی طرح قرآن مجید نے نکاح کے باب میں بعض محرمات کا ذکر کرنے کے بعد ’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘ (النساء ۴: ۲۴) کی جو تصریح کی ہے، اس سے بھی یہ اخذ کرنا کہ ان کے علاوہ تمام خواتین سے نکاح حلال ہے، ابن حزم کے نزدیک درست نہیں، بلکہ اس آیت کے ساتھ احادیث میں بیان کی جانے والی تمام حرمتوں کو شامل کرنا اور ان سب کے مجموعے سے شرعی حکم متعین کرنا ضروری ہے (احکام الاحکام ۲/۳۳- ۳۴، ۸۰- ۸۱)۔ لکھتے ہیں :
’’میں نے یہ مذہب رکھنے والے بعض حضرات سے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حرام خواتین کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ باقی خواتین تمھارے لیے حلال ہیں، لیکن پھر ابوہریرہ اور ابو سعید نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کے ساتھ اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح کرنے کو بھی حرام قرار دیا۔ اس نے کہا کہ یہ حدیث آیت کے خلاف نہیں ہے، بلکہ اسے آیت کے ساتھ شامل کیا جائے گا۔ میں نے اس سے کہا کہ پھر اس اصول کی روشنی میں کوئی ایسی حدیث سرے سے پائی ہی نہیں جا سکتی جو قرآن کے خلاف ہو، کیونکہ جو بھی حدیث وارد ہوگی، اسے قرآن کے ساتھ ملانا لازم ہوگا اور دونوں میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔‘‘
قرآن مجید میں رضاعت کے رشتے سے ماں اور بہن کو حرام قرار دیا گیا ہے، تاہم ابو القعیس کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ سے فرمایا کہ ان کی رضاعی والدہ کے شوہر کا بھائی ان کا چچا لگتا ہے، اس لیے اس سے حجاب کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ رضاعت سے صرف دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ حرمت کا رشتہ قائم نہیں ہوتا، بلکہ اس کا شوہر بھی بچے کا رضاعی باپ بن جاتاہے۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ یہ حدیث بھی قرآن سے زائد ایک حکم کا اثبات کر رہی ہے اور اسے قبول کرنا واجب ہے (المحلی ۱۰/۵)۔
رضاعت ہی کے مسئلے میں قرآن مجید کے بیان پر سنت نے یہ اضافہ کیا ہے کہ ایک یا دو دفعہ دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ کم سے کم پانچ دفعہ جس عورت نے بچے کو دودھ پلایا ہو، وہی اس کی رضاعی ماں شمار کی جائے گی (المحلی ۱۰/۱۶)۔
قرآن مجید میں تین طلاقوں کے بعد پہلے شوہر سے نکاح کی اجازت کو اس سے مشروط کیا گیا ہے کہ عورت کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو وہ پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ رفاعہ قرظی کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے بعد ہم بستری کی شرط بھی بیان کی جو قرآن سے زائد ایک حکم ہے۔ چنانچہ اسی اصول کے تحت مذکورہ آیت او رحدیث دونوں کو ملا کر حکم شرعی متعین ہوگا (احکام الاحکام ۷/ ۷۲)۔
زیادت ہی کی ایک مثال یہ ہے کہ کتاب اللہ میں زانی کو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ہے، جب کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے لگانے کے ساتھ ساتھ ایک سال کے لیے جلا وطن کرنے کا بھی حکم دیا اور فرمایا کہ میں نے یہ فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کیا ہے۔ کتاب اللہ سے مراد یہاں اللہ کی وحی ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب اللہ کے علاوہ الگ وحی سے یہ بتایا گیا کہ کوڑے لگانے کے ساتھ غیر شادی شدہ زانی کو جلا وطن بھی کیا جائے (المحلی ۱۱/۱۸۶)۔
زیادت کی بحث میں ابن حزم نصوص کے زمانی تقدم وتاخر کے سوال کو اہم نہیں سمجھتے، یعنی ان کے نقطۂ نظر سے اس تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ جس نص میں حکم میں زیادت وارد ہوئی ہے، وہ دوسری نص سے پہلے وارد ہوئی تھی یا بعد میں۔ دونوں میں سے جو بھی صورت ہو، ابن حزم کے نزدیک دونوں نصوص کو باہم ملا کر حکم شرعی متعین کرنا ضروری ہے۔ اسی بنیاد پر زانی کو کوڑے لگانے کے ساتھ جلاوطن کرنے کی مذکورہ مثال میں ابن حزم حنفی فقہا کے اس استدلال کو درست نہیں سمجھتے کہ چونکہ عبادہ بن صامت کی حدیث، جس میں جلاوطنی کی سزا بیان ہوئی ہے، سورۂ نورسے پہلے وارد ہوئی تھی، جب کہ سورۂ نورمیں جلاوطنی کا کوئی ذکر نہیں، اس لیے یہ سزا سورۂ نورکی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ اول تو حدیث عبادہ کے سورۂ نور سے مقدم یا موخر ہونے کی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں۔ تاہم اسے مقدم مانا جائے یا موخر، بہر صورت اس میں بیان کردہ سزا کو حکم کا حصہ ماننا لازم ہے۔ اگر حدیث عبادہ کو سورۂ نورسے مقدم سمجھا جائے تو آیت اور حدیث کی تطبیق یوں ہوگی کہ حدیث عبادہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے حکم کی وضاحت فرمائی، جب کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے ایک جزو کا ذکر کر کے مکمل حکم کے لیے حدیث عبادہ کی طرف refer کر دیا۔ اس سے یہ اخذ کرنا کہ جلاوطنی کا حکم منسوخ ہو گیا ہے، درست نہیں اور خود حنفی فقہا بھی اس آیت میں رجم کا ذکر نہ ہونے کے باوجود اسے بدستور برقرار مانتے ہیں۔ اور اگر حدیث عبادہ سورۂ نورکے بعد نازل ہوئی ہو تو اس میں بیان ہونے والی اضافی سزائیں زیادت کے اصول پر قرآن کے حکم کے ساتھ شامل ہو جائیں گی اور تمام نصوص کے مجموعے سے حکم شرعی متعین کیا جائے گا (المحلی ۱۱/۱۸۷)۔
۷۔ شرعی نصوص جس طرح دیگر نصوص میں بیان کردہ احکام میں اضافہ کر سکتی ہیں، اسی طرح تفسیر، استثنا یا تخصیص کے اصول پر بھی باہم متعلق ہو سکتی ہیں۔ تفسیر یہ ہے کہ ایک نص دوسری نص میں وارد حکم کی عملی کیفیت یا تفصیلات کی وضاحت کرے، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’آتوا الزكوٰة‘ کی تفسیر کرتے ہوئے مختلف احکام بیان فرمائے۔ استثنا یہ ہے کہ ایک عمومی حکم بیان کر کے کسی خاص صورت کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے، جیسے آپ نے اندازے سے کھجوروں کا باہمی مبادلہ کرنے سے منع کرتے ہوئے اس میں سے ایک خاص صورت، یعنی عرایا کو مستثنیٰ قرار دیا۔ تخصیص یہ ہے کہ ایک نص میں کوئی حکم عموم کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہو، اور دوسری نص میں کچھ افراد سے متعلق اس سے مختلف حکم بیان کر دیا جائے جس سے معلوم ہو جائے کہ ان خاص افراد کا حکم، عام ضابطے سے مختلف ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک آیت میں تمام مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت فرمائی، لیکن دوسری آیت میں اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کی اباحت ذکر کر کے واضح کر دیا کہ وہ مشرک عورتوں سے نکاح کے عمومی حکم کے دائرۂ اطلاق سے خارج ہیں (الاحکام فی اصول الاحکام ۱/۸۰)۔
مذکورہ اصولوں کے تحت شرعی احکام کے باہم متعلق ہونے میں قرآن، سنت اور اجماع میں کوئی فرق نہیں اور ان میں سے کسی بھی ماخذ سے ثابت حکم کسی بھی دوسرے ماخذ میں بیان ہونے والے حکم کے ساتھ تفسیر، استثنا یا تخصیص کے اصول پر متعلق ہو سکتا ہے۔ ابن حزم لکھتے ہیں :
’’ہم نے تفسیر، استثنا اور تخصیص کی صورت میں (ایک نص کے دوسری نص کی) وضاحت کرنے کے جو طریقے ذکر کیے ہیں، وہ کبھی قرآن کے ذریعے سے قرآن کی ہو سکتی ہے، کبھی حدیث کے ذریعے سے قرآن کی، کبھی اجماع کے ذریعے سے قرآن کی، کبھی قرآن کے ذریعے سے حدیث کی، کبھی حدیث کے ذریعے سے حدیث کی اور کبھی اجماع کے ذریعے سے حدیث کی۔‘‘
۸۔ ایک نص کے ذریعے سے دوسری نص کی تخصیص کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک نص میں کوئی حکم عام بیان ہوا ہو، جب کہ دوسری نص میں اس کی کچھ خاص صورتوں کا حکم اس سے مختلف بیان کیا جائے۔ اس صورت میں، مذکورہ اصولی ضابطے کی روشنی میں، لازم ہے کہ دونوں طرح کی نصوص پر عمل کیا جائے جس کا طریقہ یہ ہے کہ عام حکم سے ان صورتوں کو مستثنیٰ سمجھا جائے جن کا حکم دوسری نص میں مختلف بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً بیویوں کو انسان کے لیے حلال قرار دیا ہے، لیکن دوسری بہت سی آیات میں واضح کیا گیا ہے کہ دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا یا ماں کے بعد اس کی بیٹی سے نکاح کرنا یا کسی مشرک عورت سے نکاح کرنا حرام ہے۔ یہ قرآن سے قرآن کی تخصیص کی مثال ہے۔ اسی حکم میں چند تخصیصات حدیث اور اجماع میں بھی بیان ہوئی ہیں۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رضاعی رشتہ رکھنے والی تمام خواتین سے نکاح کو حرام ٹھیرایا، جب کہ اجماع سے یہ ثابت ہے کہ مردوں اور چوپایوں اور مشرک باندی سے جماع کو شریعت میں حرام تصور کیا گیا ہے (الاحکام ۱/۸۱)۔
قرآن اور حدیث میں ا س طرح کے تعلق کی چند مزید مثالیں یہ ہیں :
اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ یہ اصول بیان کیا ہے کہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے عمل کا ذمہ دار نہیں اور ہر انسان صرف اپنے ہی عمل کے لیے جواب دہ ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل خطا کی صورت میں عاقلہ، یعنی قاتل کی برادری کو مشترکہ طور پر دیت کی ادائیگی کا ذمہ دار قرار دیاہے (المحلی ۱۱/۴۶) ۔
اللہ تعالیٰ نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم علی الاطلاق بیان کیا ہے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک چوتھائی دینار سے کم مالیت کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ اسی طرح قرآن مجید نے رضاعی ماؤں کی حرمت کا حکم عموم کے اسلوب میں ذکر کیا ہے، جب کہ احادیث میں حرمت کے ثبوت کے لیے پانچ دفعہ دودھ پلانے کی ایک زائد قید بیان کی گئی ہے (احکام الاحکام ۲/ ۲۳) ۔
قرآن مجید میں اولاد کے، وارث بننے کا حکم عموم کے اسلوب میں بیان ہونا، جب کہ احادیث میں غلام کو وارث بننے کے لیے نااہل قرار دینا اور اسی طرح مسلمان اور کافر کے لیے ایک دوسرے کا وارث بننے کی ممانعت بھی اسی نوعیت کی مثالیں ہیں اور ان میں بھی احادیث میں بیان کردہ صورتوں کو قرآن کے عام حکم سے مستثنیٰ ماننا واجب ہے (احکام الاحکام ۳/ ۱۵۲)۔
ابن حزم کے نزدیک زیادت کی طرح، تخصیص کی بحث میں بھی ایک نص کے قرآن میں اور دوسری نص کے حدیث میں ہونے سے یا کسی کے زمانی لحاظ سے مقدم یا موخر ہونے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ ان میں سے کوئی بھی صورت ہو، کسی بھی نص کو ترک کیے بغیر دونوں پر عمل کرنا واجب ہے۔ لکھتے ہیں :
’’ہم نے دکھایا کہ ان مسائل میں خاص نص، عام نص کے حکم میں استثنا کرتی ہے، اور کبھی حرمت کے حکم سے کسی مباح چیز کو اور کبھی اباحت کے حکم سے کسی ممنوع چیز کو مستثنیٰ کر دیتی ہے۔ یہ تخصیص آیت، حدیث میں اور حدیث، آیت میں اور اسی طرح ایک آیت دوسری آیت میں اور ایک حدیث دوسری حدیث میں کر سکتی ہے۔ اس صورت میں اس تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں کہ کون سی نص پہلے وارد ہوئی اور کون سی بعد میں۔ چاہے عام نص پہلے وارد ہوئی ہو یا بعد میں، دونوں صورتیں یکسا ں ہیں اور ان میں سے کسی نص کو ترک نہیں کیا جائے گا، بلکہ دونوں پر عمل کیا جائے گا جیسا کہ ہم نے واضح کیا۔‘‘
ابن حزم یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ تخصیص کی یہ صورتیں ابتدا ہی سے اصل حکم سے مستثنیٰ ہوتی ہیں اور متکلم کے ارادے میں حکم کے دائرۂ اطلاق میں شامل نہیں ہوتیں، البتہ اس مراد کی وضاحت اسی نص میں کرنے کے بجاے اسی وقت میں ایک مستقل نص سے کی جاتی ہے۔ لکھتے ہیں :
’’پس جن آیات کا اور ان کی تبیین کرنے والی جن احادیث کا انھوں نے ذکر کیا، ان سب کو باہم ملایا جائے گا اور کسی کو بھی دوسرے سے جدا نہیں کیا جائے گا۔ یہ سب مل کر گویا ایک ہی آیت یا ایک ہی کلام کی حیثیت رکھتی ہیں اور کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ نص کے ایک حصے کو لے لے اور دوسرے حصے کو چھوڑ دے۔ یہ نصوص اگرچہ تلاوت میں الگ الگ ہیں، لیکن تلاوت حکم سے مختلف چیز ہے۔ یہ حکم کے اعتبار سے الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ آیات کے نازل ہونے کے ساتھ ہی ان کی وضاحت فرما دی تھی (جو احادیث میں منقول ہے)۔‘‘
مذکورہ اقتباس کا آخری جملہ ’بین النبی صلی اللہ علیہ وسلم ذلک مع ورود الآی معا‘ قابل توجہ ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حزم حنفی اصولیین کے اس استدلال سے متاثر ہیں کہ کسی نص میں مذکور حکم پر زیادت یا اس میں تخصیص کو ’بیان‘ قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ زمانی لحاظ سے اصل حکم کے مقارن ہو۔ بعض دیگر مثالوں سے بھی ابن حزم کا یہ رجحان واضح ہوتا ہے۔ مثلاً ’قُلْ هُوَ اَذًي فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِي الْمَحِيْضِ ‘ (البقرہ ۲: ۲۲۲)کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہاں دور رہنے سے مراد ہم بستری سے اجتناب ہے، نہ کہ بیوی سے بالکل الگ تھلگ ہو جانا۔ اس کی تائید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے ابن حزم لکھتے ہیں :
’’یہ آیت کی تفسیر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کے نزول کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی مراد کو واضح فرما دیا۔‘‘
۹۔ تخصیص کی دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ایک نص میں کوئی حکم عموم کے اسلوب میں بیان کیا جائے، اور دوسری نص میں کوئی دوسرا حکم اسی طرح عموم کے اسلوب میں بیان کیا جائے، یعنی دونوں نصوص دو مستقل اور باہم غیر متعلق احکام کو بیان کرتی ہوں، لیکن بعض صورتیں ایسی پائی جائیں جو دونوں حکموں کے دائرۂ اطلاق میں آ سکتی ہوں۔ ایسی صورت میں غور وفکر سے یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ اس خاص صورت میں شارع کی منشا مذکورہ دونوں عام احکام میں سے کس حکم کا اطلاق کرنا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سفر کی استطاعت رکھنے والوں پر بیت اللہ کے حج کو فرض قرار دیا ہے (النساء ۴: ۹۷ )۔ یہ ایک عام حکم ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ سفر کی استطاعت رکھنے والے ہر فرد پر، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، حج کرنا فرض ہو۔ اس کے مقابلے میں ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے لیے ایک الگ اور مستقل حکم یہ بیان فرمایا ہے کہ ان کے لیے اپنے شوہر یا کسی محرم کے بغیر سفر پر نکلنا جائز نہیں۔ ظاہری عموم کے لحاظ سے اس کا تقاضا یہ ہے کہ خواتین کے لیے کسی بھی سفر پر، چاہے وہ بیت اللہ کے حج کے لیے ہو، محرم کے بغیر نکلنا جائز نہیں۔ یہاں حل طلب سوال یہ ہے کہ آیا شارع کے نزدیک جو خواتین سفر کی استطاعت رکھتی ہیں، لیکن انھیں محرم کی رفاقت میسر نہیں، وہ آیت کی رو سے فرضیت حج کے حکم کی مخاطب ہیں یا حدیث کی رو سے سفر کی ممانعت کی؟ دوسرے لفظوں میں کیا فرضیت حج کے عام حکم سے محرم کے میسر نہ ہونے کی صورت مستثنیٰ ہے یا اس کے برعکس، محرم کے بغیر سفر کی ممانعت کے عام حکم سے حج کا سفر مستثنیٰ ہے؟
ابن حزم کے نزدیک یہ صورت نصوص کے مابین تطبیق کے حوالے سے اہل علم کو پیش آنے والی سب سے مشکل، دقیق اور غامض صورت ہوتی ہے (من ادق ما یمکن ان یعترض اھل العلم من تالیف النصوص واغمضہ واصعبہ)، کیونکہ دونوں نصوص میں تطبیق مذکورہ دونوں طریقوں سے ممکن ہے اور ان میں سے کسی طریقے کو بھی فی نفسہٖ دوسرے سے بہتر نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ ایسی صورت میں دلائل وقرائن پر مزید غور وفکر سے کسی ایک پہلو کو ترجیح دینا ضروری ہے اور مجتہدین اس میں اپنی اپنی ترجیحات قائم کر سکتے ہیں۔ ابن حزم کے نزدیک ایسی صورت میں مختلف مجتہدین کی ترجیحات میں خطا اور صواب کا تعین بہت مشکل ہے اور کسی بھی ترجیح کے متعلق یہ کہنا درست نہیں کہ وہ عند اللہ غلط ہے (احکام الاحکام ۲/ ۲۶- ۲۷۔ ۸/۱۴۷- ۱۴۸)۔
۱۰۔ ابن حزم کے منہج میں چونکہ ہر قسم کی نص کے بالکل مساوی ہونے اور تعیین حکم میں یکساں اہم ہونے کا تصور بنیادی ہے، اس لیے زیادت اور تخصیص کے مباحث میں ان کا موقف نتیجے کے لحاظ سے امام شافعی اور جمہور فقہا کے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود بناے استدلال کے لحاظ سے جوہری طور پر مختلف ہے۔ امام شافعی قرآن کو بیان احکام میں اصل اور سنت کو اس کی تبیین قرار دیتے ہوئے اسے گویا قرآن کی فرع اور اس پر مبنی توضیح وتشریح قرار دیتے ہیں اور اسی پہلو سے جہاں ممکن ہو، سنت میں وارد تخصیص وتبیین کی بنیاد قرآن میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ابن حزم کے زاویۂ نظر سے قرآن اور سنت کے احکام کا تعلق اصل اور فرع کے طور پر متعین کرنے اور ان کے باہمی تعلق کی تفہیم کے لیے دلالت کلام اور تخصیص کے قرائن وغیرہ کی بحث غیر ضروری ہے۔ اس نکتے کا اصل ثمرۂ اختلاف ان کے اور امام شافعی کے مابین نسخ کی بحث میں سامنے آتا ہے۔ چنانچہ وہ قرآن اور حدیث کے، شرعی حیثیت کے اعتبار سے بالکل یکساں ہونے کے تناظر میں سنت سے قرآن کے اور قرآن سے سنت کے نسخ کے جواز کے قائل ہیں اور ان کا استدلال وہی ہے کہ جب وحی ہونے میں قرآن اور حدیث میں کوئی فرق نہیں تو اثبات حکم میں بھی قرآن یا خبر متواتر یا خبر واحد میں کسی بھی لحاظ سے فرق کرنا درست نہیں۔
اس ضمن میں قرآن مجید کی آیت: ’قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اُبَدِّلَہ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْ ‘ (یونس ۱۰: ۱۵) سے امام شافعی کے استدلال پر ابن حزم نے بھی وہی تنقید کی ہے جو حنفی اصولیین کی طرف سے کی گئی ہے، یعنی اس آیت میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنی خواہش سے قرآن کے کسی حکم کو بدل دے۔ اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ اگر آپ کو قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعے سے کوئی حکم دیا جائے تو وہ بھی قرآن کے کسی حکم میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے کسی بھی حکم میں تبدیلی کا فیصلہ وحی ہی کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ وحی قرآن ہی کی صورت میں ہو؛ وہ سنت کی صورت میں بھی نازل کی جا سکتی ہے (احکام الاحکام ۴/۱۰۷- ۱۰۸) ۔
ابن حزم امام شافعی کے اس موقف پر بھی تنقید کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی حکم کے ذریعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت کو منسوخ کریں تو ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سابقہ سنت کے مقابلے میں نئی سنت بیان کریں جو سابقہ سنت کے لیے ناسخ ہو۔ ابن حزم کا اعتراض، جو انھوں نے شوافع میں سے ہی بعض اہل علم سے نقل کیا ہے، یہ ہے کہ اگر سنت میں تبدیلی کا اصل موجب اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نئے حکم پر عمل کیا ہے تو اصولی طو رپر نسخ کی نسبت اللہ کے حکم کی طرف کرنی چاہیے نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی طرف۔ یہ ایسے ہی ہوگا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سنت سے کسی سابقہ سنت کو منسوخ کریں اور لوگ اس نئی سنت پر عمل کرنے لگیں تو نسخ کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے کے بجاے یہ کہا جائے کہ لوگوں کے عمل نے آپ کی سنت کو منسوخ کر دیا ہے (احکام الاحکام ۴/۱۱۰- ۱۱۱) ۔
۱۱۔ سنت سے قرآن کے نسخ کی مثال کے طور پر ابن حزم رجم کی سزا کو پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں ابتداءً ا زانی عورتوں کو گھروں میں محبوس کرنے کی جو ہدایت دی گئی تھی، وہ بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی کے ذریعے سے، جس کا ذکر عبادہ بن صامت کی حدیث میں ہے، منسوخ کر دی گئی اور اس کی جگہ غیر شادی شدہ کے لیے کوڑوں اور جلا وطنی کی، جب کہ شادی شدہ کے لیے کوڑوں اور رجم کی سزا مقرر کر دی گئی۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ اس حکم کا ناسخ مذکورہ حدیث کے بجاے سورۂ نور کی آیت کو قرار دینا درست نہیں، کیونکہ حدیث میں ’خذوا عنی قد جعل اللہ لھن سبیلا‘ کے الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ سورۂ نساء کی عبوری ہدایت کے بعد دیا جانے والا پہلا حکم یہی ہے اور اس کا زمانۂ نزول سورۂ نور کی آیت سے پہلے ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں جس وحی کا حوالہ دیا ہے، وہ سورۂ نور ہی کی آیت ہے، کیونکہ سورۂ نور کی آیت میں وہ تفصیل موجود نہیں جو حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ ابن حزم اس راے کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ، بعض روایات کے مطابق، سورۂ نساء کے حکم کا ناسخ حدیث نہیں، بلکہ قرآن میں نازل ہونے والی ایک آیت تھی۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ اگر اس موقف کو قبول کیا جائے تو چونکہ محولہ آیت کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے، اس لیے نتیجے کے اعتبار سے اس سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ قرآن کے حکم کی تنسیخ وحی غیر متلو کے ذریعے سے کی جا سکتی ہے (احکام الاحکام ۴/۱۱۱- ۱۱۲) ۔
قرآن سے سنت کے حکم کے نسخ کی مثال صلح حدیبیہ ہے جسے سورۂ توبہ میں کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ حکم دیا گیا کہ کسی مشرک کے ساتھ صلح کا معاہدہ جائز نہیں، سواے اس کے کہ وہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے (احکام الاحکام ۴/۱۱۴)۔ اسی طرح روزے کے مہینے میں رات کے وقت کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے کی ممانعت کو، جو قرآن میں نازل نہیں ہوئی تھی، منسوخ کرتے ہوئے سورۂ بقرہ میں اس کو مباح قرار دیا گیا (احکام الاحکام ۷/۲۴)۔ ابن حزم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’انت ومالک لابیک‘ کو بھی قرآن میں احکام میراث سے منسوخ سمجھتے ہیں۔ گویا ان کی راے میں پہلے باپ کو مطلقاً بیٹے کے مال کا مالک قرار دیا گیا تھا، لیکن بعد میں بیٹے کے ترکے میں دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ باپ کا بھی ایک مخصوص حصہ مقرر کر کے اس کے مطلق اختیار کو ختم کر دیا گیا (المحلی ۱۱/۳۴۵)۔
قرآن کے حکم سے سنت کے نسخ کی مثالوں میں ابن حزم نے ان تمام واقعات کو بھی شمار کیا ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ گستاخی کرنے یا آپ کو نقصان پہنچانے والے مختلف کافروں کو معاف کر دیا اور ان کے خلاف داروگیر نہیں کی۔ مثلاً ایک موقع پر ایک یہودی عورت نے آپ کو کھانے میں زہر ملا کر دے دیا۔ ایک اور موقع پر ایک یہودی نے آپ پر جادو کیا جس کے اثرات آپ کے روز مرہ معمولات پر مرتب ہونے لگے۔ اسی طرح یہودیوں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ جب آپ کی مجلس میں آتے تو شرارت سے ’السلام علیک‘کے بجاے ’السام علیک‘ کے الفاظ کہہ کر آپ کو بددعا دیتے تھے۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ کافروں سے درگزر کرنے اور انھیں معاف کرنے کا یہ حکم سورۂ توبہ میں کفار سے جزیہ وصول کرنے اور انھیں ذلیل کر کے مسلمانوں کا محکوم بنانے کے حکم سے منسوخ ہو چکا ہے (المحلی ۱۱/۴۱۷)۔
۱۲۔ سنت سے قرآن اور قرآن سے سنت کے نسخ کے جواز کا قائل ہونے کے باوجود ابن حزم اس پر اصرار کرتے ہیں کہ دو حکموں میں نسخ کا تعلق قائم کرنا اسی صورت میں درست ہے جب ایسا کرنا ناگزیر ہو، یعنی دونوں کا باہمی تعارض ناقابل حل ہو اور یقینی دلائل کی روشنی میں ایک کو ناسخ مانے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔
مثال کے طور پر قرآن مجید میں زانی مرد اور عورت کو سو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابن حزم کے نزدیک یہ حکم تمام زانیوں کے لیے عام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں زانی کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی۔ اس کے علاوہ عبادہ بن صامت کی روایت میں بھی دونوں طرح کے زانیوں کی سزا میں سو کوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ امام شافعی ماعز اسلمی کے واقعے کی روشنی میں شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑوں کی سزا کو منسوخ سمجھتے ہیں۔ تاہم ابن حزم کو اس سے اتفاق نہیں۔ ان کی راے میں ماعزکے واقعے میں کوڑوں کا ذکر نہ ہونا اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ اسے واقعتاً کوڑے نہیں لگائے گئے تھے۔ گویا ابن حزم اسے عدم ذکر کی مثال سمجھتے ہیں جس سے عدم ثبوت اخذ نہیں کیا جا سکتا، جب کہ جس روایت میں کوڑے نہ لگائے جانے کی تصریح ہے، ابن حزم کے نزدیک وہ ساقط الاعتبار روایت ہے۔ برسبیل تنزل ابن حزم کہتے ہیں کہ اگر ماعز کو واقعتاً کوڑے نہ لگائے گئے ہوں تو پھر ممکن ہے کہ یہ واقعہ سورۂ نورکے نزول سے پہلے کا ہو، جب کہ اس کے بعد سورۂ نورمیں کسی فرق کے بغیر ہر زانی کو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ہو (احکام الاحکام ۲/ ۶۷- ۶۸)۔
رشتہ داروں کے حق میں وصیت کے مسئلے میں ابن حزم نے اس اصول کا انطباق یوں کیا ہے کہ یہ بات معلوم ہے کہ ابتداے اسلام میں والدین اور اقربا کے متعلق ترکے میں وصیت کرنا واجب نہیں تھا۔ پھر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین اور اقربا کے لیے وصیت کرنے کو فرض قرار دیا۔ اس کے بعد سورۂ نساء میں وراثت میں والدین اور بعض اقربا کے حصے مقرر کر دیے گئے، جب کہ آیت وصیت کے تحت ان کے حق میں ایک تہائی مال میں سے وصیت کرنے کا حکم بھی باقی رہا۔ ابن حزم، احکام میراث کو آیت وصیت کے لیے ناسخ نہیں سمجھتے اور ان کا کہنا ہے کہ ازروے میراث ترکے میں حصہ ملنے اور ازروے وصیت مال کا حق دار ہونے میں کوئی تضاد نہیں اور یہ دونوں بیک وقت قابل عمل ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس کے بعد جن اقربا (یعنی والدین، اولاد اور زوجین وغیرہ) کے باقاعدہ حصے شریعت میں طے کر دیے گئے ہیں، ان کے حق میں وصیت کی اجازت سنت کے ذریعے سے منسوخ کر دی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’لا وصیۃ لوارث‘ کے الفاظ سے اس کی وضاحت فرما دی۔ البتہ یہ تنسیخ چونکہ صرف وارث بننے والے اقربا کے حوالے سے ہے، اس لیے ایسے اقربا جن کا ترکے میں کوئی متعین حصہ مقرر نہیں کیا گیا، ان کے لیے وصیت کرنا سابقہ حکم کے تحت اب بھی فرض ہے اور اس میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا (احکام الاحکام ۴/۹۲، ۱۱۳- ۱۱۴) ۔
۱۳۔ کسی حکم کے نسخ کی تحقیق کا ایک اہم اصول ابن حزم کے نزدیک یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ اباحت اصلیہ کے معارض ہے یا اس کے مطابق۔ چنانچہ اگر نصوص میں دو متعارض احکام وارد ہوں اور ان میں سے ایک اباحت اصلیہ کے مطابق اور دوسرا اس کے خلاف ہو تو دوسرے حکم کا ناسخ ہونا یقینی ہے اور اس ضمن میں نصوص کے زمانی تقدم وتاخر کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ اس اصول کے اطلاق میں بھی ابن حزم، اپنے بنیادی تصور کے مطابق، آیت، حدیث مشہور اور خبر واحد کو ایک ہی درجے میں رکھتے ہوئے بعض مثالوں میں اخبار آحاد کو قرآن کے حکم کا ناسخ قرار دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر مختلف احادیث میں بیان ہوا ہے کہ دودھ چھڑوا دینے کے بعد، یعنی مدت رضاعت گزر جانے کے بعد بچے کو دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ تاہم ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ وہ حذیفہ کے منہ بولے بیٹے سالم کو، جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے تھے، دودھ پلا دیں اور ایسا کرنے سے سالم ان کا رضاعی بیٹا بن جائے گا اور اس سے غیر محرم کی طرح پردہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جمہور فقہا مذکورہ نصوص کی روشنی میں اس واقعے کو سالم کی خصوصیت پر محمول کرتے ہوئے رضاعت سے متعلق شریعت کا اصل حکم اسی کو قرار دیتے ہیں کہ وہ بچے کی دودھ پینے کی عمر میں، یعنی دو سال کے اندر پلایا گیا ہو، لیکن ابن حزم کی راے یہاں جمہور سے مختلف ہے اور وہ سالم کے واقعے کی روشنی میں بلوغت کی عمر میں دودھ پینے کو بھی حرمت رضاعت کے ثبوت کا موجب مانتے ہیں۔
اس بحث میں بعض اہل علم نے مدت رضاعت کی تحدید بیان کرنے والی احادیث کو سالم کے مذکورہ واقعہ کے لیے ناسخ قرار دیا ہے۔ ابن حزم اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ اگر نسخ کے اصول پر متعلقہ نصوص کی تشریح کی جائے تو مذکورہ احادیث نہیں، بلکہ سالم کا واقعہ ان احادیث کے لیے ناسخ ہے، کیونکہ اباحت اصلیہ کے معارض ہونے کے لحاظ سے یہ حکم سب سے آخری حکم بنتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اصولاً رضاعت، کسی قسم کی حرمت کا موجب نہیں ہو سکتی، لیکن شریعت نے اباحت اصلیہ کے اس حکم کو تبدیل کر کے رضاعت کو موجب حرمت قرار دیا اور رضاعت کی مدت دو سال مقرر کی۔ یوں اباحت اصلیہ کا دائرہ ایک درجے تک محدود کر دیا گیا۔ اگر اس مسئلے سے متعلق صرف یہی نصوص ہوتے تو حرمت رضاعت کو دو سال تک محدود قرار دینا ہی آخری حکم ہوتا۔ تاہم سالم کے واقعے میں بلوغت کی عمر میں دودھ پلانے سے حرمت رضاعت کا اثبات، اباحت اصلیہ کے دائرے کو مزید محدود کر دیتا ہے اور کسی بھی عمر میں دودھ پینے کو موجب حرمت قرار دیتا ہے۔ یوں اباحت اصلیہ کے خلاف ہونے کے پہلو سے یہی حکم زمانی ترتیب کے لحاظ سے آخری حکم بنتا ہے، اس لیے یہ مدت رضاعت کی تحدید کا ناسخ ہے (احکام الاحکام ۳/ ۱۳۳۔ ۴/۸۷- ۸۸۔ ۷/۱۱- ۱۲)۔
ابن حزم، جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا، ازروے میراث ترکے میں حصہ نہ پانے والے اقربا کے حق میں وصیت کی فرضیت کے علیٰ حالہ قائم ہونے کے قائل ہیں۔ تاہم عمران بن حصین کی ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ جب ایک شخص نے والدین واقربا کے متعلق وصیت کیے بغیر اپنے چھ غلاموں کو مرنے کے بعد آزاد قرار دے دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وصیت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے ایک تہائی تک محدود کر دیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین واقربا کے حق میں وصیت کرنا واجب نہیں۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ چونکہ یہ حدیث اباحت اصلیہ کے حکم کے مطابق ہے، اس لیے اسے قرآن میں وصیت کی فرضیت سے زمانی طور پر متقدم اور منسوخ تصور کیا جائے گا، الاّ یہ کہ کوئی واضح اور صریح دلیل مل جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ وصیت کی فرضیت نازل ہونے کے بعد کا واقعہ تھا (احکام الاحکام ۴/۸۶)۔
(جاری)
فقہ الحدیث میں احناف کا اصولی منہج | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۷) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ(۴) | مولانا سمیع اللہ سعدی | |
مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور معاصر دنیا کا فہم | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
مدرسہ ڈسکورسز کا فکری وتہذیبی جائزہ | محمد دین جوہر | |
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۹) | محمد عمار خان ناصر | |
مولانا مودودی کا تصّورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۴) | مراد علوی |
(زیر طبع کتاب کے دیباچے سے اقتباس)
حدیث وسنت سے متعلق اسلامی فقہی روایت میں جو مباحث پیدا ہوئے، ان کے تناظر میں کسی بھی فقیہ یا فقہی مکتب فکر کے زاویہ نظر کو سمجھنے کے لیے تین بنیادی سوالات پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے:
ایک یہ کہ سنت کی تشریعی حیثیت اور خاص طور پر اخبار آحاد سے متعلق اس کا موقف کیا ہے؟
دوسرا یہ کہ اس مکتب فکر میں اخبار آحاد کی تحقیق وتنقید کے لیے کون سے اصول اور معیارات برتے گئے ہیں؟
اور تیسرا یہ کہ حدیث سے احکام کے استنباط اور ان کی تعبیر وتشریح کے ضمن اس کا منہج کیا ہے اور یہ علمی سرگرمی اس کے ہاں کون سے اصولی تصورات اور کن علمی قواعد کی روشنی میں انجام دی جاتی ہے۔
میری سابقہ کتاب “فقہائے احناف اور فہم حدیث: اصولی مباحث” میں ان تینوں سوالات کے حوالے سے ایک بنیادی سطح پر حنفی اہل علم کے انداز فکر کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بحمد اللہ حنفی منہج کی خصوصیات اور خط وخال کے ابتدائی یا متوسط تعارف کے لیے کافی حد تک کفایت کرتی ہے۔ اسی وجہ سے خیال تھا اور مذکورہ کتاب کے دیباچے میں وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ اگلے مرحلے پر ان اصولوں کی روشنی میں فقہی روایت کے اہم اختلافی مباحث کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے گا تاکہ اطلاق وانطباق کی سطح پر بھی حنفی فقہاءکا انداز فکر منقح ہو کر سامنے آ سکے۔ یہ کام، جیسا کہ اسی دیباچے میں عرض کیا گیا، کافی حد تک کیا بھی جا چکا ہے اور اسے حتمی شکل دے کر ان شاءاللہ جلد شائع کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی موجود تھا کہ مذکورہ کتاب میں ایک تو کئی اہم اور بنیادی سوالات، مثلاً قرآن وسنت کے باہمی تعلق اور تعارض کی صور ت میں تطبیق یا ترجیح وغیرہ کے حوالے سے حنفی منہج پر سرے سے کلام ہی نہیں کیا جا سکا اور دوسرے یہ کہ جن اصول وقواعد کا ذکر ہوا ہے، وہ بہرحال تمہیدی اور ابتدائی نوعیت ہی کا ہے جن کی مزید تفصیل کی ضرورت ہے۔
اس تناظر میں جب شیخ زاید اسلامک سنٹر (جامعہ پنجاب، لاہور) میں پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے موضوع کے انتخاب کا مرحلہ پیش آیا تو قدرتی طور پر اسی عنوان کی طرف توجہ مبذول ہو گئی اور اساتذہ کے مشورے اور راہ نمائی سے “فقہ الحدیث میں ائمہ احناف کا اصولی منہج: اہم اختلافی مباحث کی روشنی میں تحقیقی مطالعہ” کا عنوان تحقیق کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ تین سال کے عرصے میں جناب پروفیسر ڈاکٹر ابو الوفا محمود کی نگرانی میں مقالہ کی تسوید مکمل ہوئی اور بحمد اللہ ۱۵/ فروری ۲٠۱۹ءکو زبانی امتحان کے بعد ۲۲/ فروری کو جامعہ پنجاب کی طرف سے مقالہ نگار کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دیے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔
زیر نظر کتاب میرے پی ایچ ڈی کے اسی مقالے کے بعض ابواب پر مشتمل ہے جس میں بعض فصول (مثلاً “پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی اختیار کی نوعیت” ، “تشریعی احکام اور امور عادیہ میں امتیاز” اور “حدیث کی تشریح میں صحابہ کے فہم کی حیثیت”) کا اضافہ کیا گیا ہے جو بعض وجوہ سے مقالے میں شامل نہیں کی جا سکی تھیں۔ کتابی صورت میں اشاعت کے لیے مسودے پر تفصیلی نظر ثانی کی گئی ہے اور حسب ضرورت مضامین کی ترتیب نو کے علاوہ ضروری حک واضافہ بھی کیا گیا ہے۔ طوالت نیز موضوعات کے کسی قدر مختلف ہونے کے باعث مقالے کے تمام مباحث کو یکجا شائع کرنا مناسب محسوس نہیں ہوا اور دیگر ابواب کو اپنے موضوع پر مستقل تصانیف کا حصہ بنانا زیادہ مفید معلوم ہوا جو ان شاءاللہ اپنے وقت پر منظر عام پر آجائیں گی۔
موضوع کے انتخاب اور اس کی تحدید وتعیین سے لے کر مقالہ کی تکمیل تک مقالہ نگار کو جن شخصیات اور اساتذہ کی راہ نمائی اور سرپرستی حاصل رہی، ان سب کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔ شیخ زاید اسلامک سنٹر لاہور کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر محمد اعجاز اور دیگر اساتذہ (ڈاکٹر محمد عبد اللہ، ڈاکٹر حافظ مفتی عبد الباسط، ڈاکٹر حافظ عبد القیوم اور ڈاکٹر اشتیاق احمد گوندل) نے اس موضوع کے انتخاب کے حوالے سے بھرپور حوصلہ افزائی کی، خاص طور پر ڈاکٹر حافظ محمد عبد اللہ صاحب نے موضوع کی تحدید وتعیین کے ضمن میں قیمتی راہ نمائی کی۔ مقالہ کے نگران جناب پروفیسر ڈاکٹر ابو الوفا محمود نے بڑی محبت اور توجہ سے مقالہ کے مندرجات کو ملاحظہ فرمایا اور اصلاحی تجاویز سے اس کی خامیوں کو کسی قدر کم کرنے میں مدد کی۔ والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے بطور خاص اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر پورے مسودے پر ناقدانہ نظر ڈالی اور قابل اصلاح امور کی طرف توجہ دلائی۔ مقالے کے ممتحنین جناب ڈاکٹر خالد عرفان ڈھلوں اور جناب ڈاکٹر محمد اکرم رانا نے مقالے کے علمی معیار پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے مصنف کی علمی حوصلہ افزائی بھی کی اور بعض اہم تجاویز سے بھی نوازا۔ میں ان سب حضرات کا تہہ دل سے ممنون اور ان کے علم وعمل میں برکت کے لیے دعا گو ہوں۔
میں نگران مقالہ جناب ڈاکٹر ابو الوفا محمود اور شیخ زاید اسلامک سنٹر کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر محمد اعجاز صاحب کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اس مقالے کی اشاعت کی اجازت عنایت کی۔ یہاں یہ وضاحت برمحل ہوگی کہ مقالہ کے مندرجات، معروف علمی اصول کے مطابق، مقالہ نگار کے ذاتی نتائج فکر پر مبنی ہیں۔ نگران مقالہ یا شیخ زاید اسلامک سنٹر کے ذمہ داران کا ان سے کلی اتفاق ضروری نہیں اور ان کی طرف سے مقالہ کی اشاعت کی اجازت علمی دنیا کے اسی معروف پر مبنی ہے۔
کتاب محل کے منتظم برادرم محمد فہد دلی شکریے کے حق دار ہیں کہ پورے مقالے کی تسوید کے دوران میں حسب سابق مسلسل اس کی تکمیل کے متعلق دریافت کرتے رہے اور اس کی اشاعت کی پرجوش خواہش کے اظہار سے مصنف کو بھی تحریک دیتے رہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کو جن کا اس کتاب کی تکمیل اور اشاعت میں کسی بھی درجے میں اور کسی بھی نوعیت کا کوئی حصہ ہے، اپنی شان کے مطابق بہترین اجر عطا فرمائے اور اسے مصنف کے لیے ذخیرہ آخرت بنا دے۔ آمین۔ مجھے امید ہے کہ اسلامی علمی روایت سے عموماً اور فقہ حنفی سے خصوصاً دلچسپی رکھنے والے اہل علم اس ناچیز کاوش کو کسی قدر فائدہ مند پائیں گے اور یہ، ان مباحث میں سنجیدہ دلچسپی کو کماً وکیفاً بڑھانے میں کچھ نہ کچھ کردار ادا سکے گی۔ وما توفیقی الا باللہ۔
قرآن مجید میں سورة المجادلة میں ایک جگہ ظہار کے بیان میں ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا آیا ہے، اور اسی سورت میں ایک دوسری جگہ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُھُوا عَنْہُ آیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ دونوں باتیں ایک ہی اسلوب کلام میں کہی گئی ہیں، اور اس کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی مانع نہ ہو تو دونوں کا ایک ہی طرح سے مفہوم سمجھا جائے۔
ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا کا مفہوم متعین کرنے میں مفسرین میں بہت زیادہ اختلاف ہوا ہے، جب کہ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُھُوْا عَنْہُ کا مفہوم متعین کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہوا ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ اول الذکر مقام کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین نہ تو دوسرے مقام کا حوالہ دیتے ہیں، اور نہ ہی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔
ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُھُوْا عَنْہُ کا مطلب اگر یہ ہے کہ جس بات سے روکا گیا تھا وہی بات دوبارہ کریں، تو ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا کا صاف مطلب ہے کہ جس بات کو وہ کہتے ہیں، یا کہتے رہے ہیں اسے دوبارہ کہیں۔
دور قدیم میں بعض لوگوں نے دوبارہ کہنے کا بالکل حرفی مفہوم اختیار کیا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اگر کسی نے ایک بار کہا تو اس پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا، اور یہ حکم ہمیشہ دوسری بار کہنے کی صورت میں ہی لاگو ہوگا۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے، اور نہ اس طرح کی تعلیم کی کوئی اور نظیر قرآن مجید میں ہے کہ ایک بار کرنے پر کچھ نہیں اور دوبارہ کرنے پر سزا یا کفارہ۔
دراصل اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اب تک اس حرکت کا ارتکاب کرتے رہے ہیں، اب وہ اللہ کی طرف سے ممانعت سن کر باز آجائیں، اور اگر اس ممانعت کے بعد بھی انہوں نے ظہار کی وہ بات کہی جو اب تک کہتے رہے ہیں، تو پھر ان پر یہ حکم لاگو ہوگا۔ گویا اس آیت کے نزول کے بعد جو بھی ظہار کا مرتکب ہوگا، وہ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا کے دائرے میں آجائے گا، اور اس پر مذکورہ کفارہ واجب ہوجائے گا۔ خواہ یہ کہنا پہلی بار ہو یا دوسری بار۔
مفسرین ومترجمین نے زیر نظر جملے کا مفہوم دو طرح سے بیان کیا ہے، ایک یہ کہ ظہار کرنے کے بعد اپنے ظہار سے رجوع کریں، اور دوسرے یہ کہ ظہار کرنے کے بعد اس کام کی طرف پلٹیں جسے انہوں نے ظہار کے ذریعہ خود پر حرام کیا ہے، یعنی بیوی سے تعلق۔ دونوں کا مقصود ایک ہے اور وہ یہ کہ ظہار کا کفارہ اس وقت لازم آتا ہے جب وہ ظہار کرنے کے بعد ظہار سے رجوع کرکے اپنی بیوی سے تعلق بحال کرنا چاہیں۔
اس مشہور رائے میں ایک اشکال تو لفظی ہے اور وہ یہ کہ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا کی ظاہری عبارت سے یہ مفہوم نہیں نکلتا ہے ، اور اس کے لیے پرتکلف تاویلیں کرنی پڑتی ہیں۔ مثلا یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں فعل ارادہ فعل کے معنی میں ہے، یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ یہاں لام عن کے معنی میں ہے، یا یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں لِمَا قَالُوا کا مطلب لما حرموا ہے۔
جب کہ اگر تاویل کا یہ بلا سبب تکلف نہ کیا جائے، تو مفہوم بہت آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے، یعنی ظہار والی بات کو دوبارہ کہنا۔ ظہار ایک قول ہے، اور یہاں اسی قول کو دوبارہ کہنے کی بات ہے۔
مشہور رائے میں ایک دوسرا معنوی اشکال بھی ہے اور وہ یہ کہ کفارہ تو اصل ظہار والی حرکت پر ہونا چاہیے، نہ کہ ظہار سے رجوع کرنے پر۔ اللہ تعالی نے ظہار سے رجوع کرنے کی مذمت نہیں کی ہے، بلکہ ظہار کرنے ہی کو منکر اور زور قرار دیا ہے، اور اس سے سختی سے منع فرمایا ہے۔اس لیے سزا توہر اس شخص کو ملنی چاہیے جس نے اپنی ماں والے رشتے کی بے حرمتی کی ، نہ کہ صرف اسے سزا ملے جو اس حرکت کو کرنے کے بعد اس سے توبہ کرے اور رجوع کرے۔
اس تمہیدی وضاحت کے بعد ظہار سے متعلق دونوں آیتوں کا معروف ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
الَّذِينَ يُظَاھِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِھِم مَّا ھُنَّ أُمَّھَاتِھِمْ ، إِنْ أُمَّھَاتُھُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَھُمْ ، وَإِنَّھُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ، وَإِنَّ اللَّـہَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ ۔ وَالَّذِينَ يُظَاھِرُونَ مِن نِّسَائِھِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَۃٍ مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا، ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِہ ، وَاللَّـہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (المجادلة: 2، 3)
’’ میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے، جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی اُس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی، تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا اِس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔” (سید مودودی)
زیر بحث مقام کے مزید ترجمے ملاحظہ ہوں:
“اور جو ماں کہہ بیٹھیں اپنی عورتوں کو پھر وہی کام چاہیں جس کو کہا ہے۔” (شاہ عبدالقادر)
“اور وہ جو اپنی بیبیوں کو اپنی ماں کی جگہ کہیں پھر وہی کرنا چاہیں جس پر اتنی بری بات کہہ چکے ۔” (احمد رضا خان)
“اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں پھر اپنے قول سے رجوع کرلیں ۔” (فتح محمد جالندھری)
“جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں۔” (محمد جوناگڑھی)
“اور جو لوگ اپنی بیبیوں سے ظہار کرتے ہیں پھر اپنی کہی ہوئی بات کی تلافی کرنا چاہتے ہیں۔” (اشرف علی تھانوی)
جب کہ مولانا امانت اللہ اصلاحی اس جملے کا حسب ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
“جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے رہے ہیں، پھر وہی بات کہیں۔”
یہ ترجمہ ویسا ہی ہے جیسا ترجمہ درج ذیل آیت کا کیا گیا ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِينَ نُھُوا عَنِ النَّجْوَی ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُھُوا عَنْہُ۔ (المجادلة: 8)
“کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہیں کانا پھوسی سے روک دیا گیا تھا وہ پھر بھی اس روکے ہوئے کام کو دوبارہ کرتے ہیں۔” (محمد جوناگڑھی)
“کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہیں بری مشورت سے منع فرمایا گیا تھا پھر وہی کرتے ہیں جس کی ممانعت ہوئی تھی ۔” (احمد رضا خان)
“کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا؟” (سید مودودی)
اس آیت کے علاوہ دو مقامات اور ہیں جہاں عاد لام کے صلے کے ساتھ آیا ہے، اور ان دونوں مقامات پر بھی کسی کام کوپھر سے کرنے کا مفہوم ہے۔
وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُھُوا عَنْہُ (الانعام: 28)
“اور اگر یہ لوٹائے جائیں گے تو وہی کریں گے جس سے روکے گئے۔” (امین احسن اصلاحی)
يَعِظُكُمُ اللَّـہُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِہ أَبَدًا (النور: 17)
“اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو ایسی بات تم سے پھر کبھی صادر نہ ہو۔” (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا حوالوں کے علاوہ مزید یہ بات بھی ہے کہ قرآن مجید میں فعل عاد کا استعمال مختلف صیغوں سے کئی مقامات پر ہوا ہے، اور کہیں بھی کسی کام سے رجوع کرنے کے مفہوم میں نہیں ہے۔
اس مفہوم کی رو سے ظہار کا کفارہ صرف ظہار کے بعد بیوی کی طرف پلٹنے سے واجب نہیں ہوتا ہے، بلکہ ظہار کرنے سے ہی کفارہ واجب ہوجاتا ہے، البتہ اس کی انجام دہی موخر نہیں کی جاسکتی ہے، اس کی انجام دہی جلد ضروری ہے، اس لیے شوہر اور بیوی کے باہمی تعلق سے پہلے اسے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ظہار کی وجہ سے شوہر اور بیوی علیحدہ نہیں ہوجاتے۔ یعنی اگر ظہار کے بعد شوہر مرگیا تو شوہر کے ترکے میں بیوی کا حصہ رہے گا۔
مزید برآں، اس مفہوم کی رو سے اگر ظہار کے بعد کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے، تو بھی ظہار کا کفارہ اس پر واجب رہے گا، اور وہ طلاق دے کر کفارے سے بری الذمہ نہیں ہوجائے گا۔
یہ وضاحت بھی مفید ہوگی کہ ظہار او ر ایلاءکا حکم اس معنی میں ایک ہے کہ ظہار کے بعد عورت ہمیشہ کے لیے معلق نہیں رہے گی، بلکہ اگر چار ماہ کے اندر شوہر نے رجوع نہیں کیا تو وہ اس سے از خود الگ ہوجائے گی۔
البتہ ظہار کی صورت میں شوہر پر وہ کفارہ لازم آئے گا، جو ایلاءکی صورت میں لازم نہیں آئے گا۔
ممکن ہے مفسرین نے یہ مفہوم اس لیے نہیں اختیار کیا ہو کہ کفارہ کے ساتھ من قبل ا#¿ن یتماسا کی شرط لگی ہوئی ہے،( جیسا کہ بعض مفسرین نے ذکر بھی کیا ہے) اور اس کا تعلق تو صرف رجوع کی صورت سے ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ کفارے کا وجوب تو ظہار ہی کی وجہ سے ہوجاتا ہے، مگر اس کی انجام دہی جلدی ہو، اور ایسا نہ ہو کہ کفارے کی انجام دہی کے بغیر ازدواجی زندگی معمول کے مطابق گزرنے لگے، اس کے لیے یہ شرط لگادی گئی ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ کفارہ رجوع کو مشکل بنانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ ظہار کے غلط طریقے پر روک لگانے کے لیے ہے۔
(جاری)
اہل تشیع و اہل سنت کے حدیثی ذخیرے کے فروق میں سے ایک بڑا فرق کتب ِحدیث کے مخطوطات و نسخ کی تعداد و قدامت کا فرق ہے ،اہل تشیع کے اکثر کتب ِحدیث کے قدیم معتمد نسخ معدوم ہیں ،اسی کمیابی کی وجہ سے ان میں بڑے پیمانے پر تحریفات بھی ہوئی ہیں ،ذیل میں اس حوالے سے چند جید اہل تشیع محققین و علماء کی آرا ذکر کی جاتی ہیں :
1۔معروف شیعہ پیشوا و معتبر عالم سید علی خامنائی اہل تشیع کے کتب رجال کے نسخ و مخطوطات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ترجمہ :اس فن کے بہت سے ماہرین نے یہ بات ذکر کی ہے کہ کتاب فہرست اور دیگر معتبر کتب رجالیہ جیسے کتاب کشی ،نجاشی ،برقی غضائری میں تحریف و تصحیف ہوچکی ہے ،اور حفاظت کے نقطہ نظر سے بعض سخت عوارض لاحق ہو چکے ہیں ،اور ہمارے زمانے تک ان کتب کا کوئی صحیح نسخہ نہیں پہنچ سکا ۔
2۔معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ ،جنہوں نے شیعہ علم حدیث پر بہترین کتب لکھی ہیں ، لکھتے ہیں :
ترجمہ:امامیہ کے ہاں کتب رجال ،تراجم ،فہارس کی بہت بڑی تعداد صفوی دور سے قبل پردہ خفا میں تھی ،اور صفوی دور میں حکومت ہونے،مالی وسائل ہونے اور امن و امان میں ہونے کی وجہ سے امامیہ کو موقع ملا کہ وہ اپنی کتب تراث کے بڑے اور کثیر نسخے لکھیں اور انہیں ترویج دے ۔
شیخ حیدر حب اللہ کی عبارت سے معلوم ہوا کہ شیعہ کتب تراث کے نسخوں کا اصل زمانہ صفوی دور (907ھ تا 11035ھ) تھا۔
یہی وجہ ہے کہ کتب اربعہ کے علاوہ بہت سی کتب شیعہ ایسی ہیں ،جن کا ظہور پہلی مرتبہ صفوی دور سلطنت میں ہوا ،اور شیعہ کی ضخیم کتب بحار الانوار ،وسائل الشیعہ وغیرہ صفوی سلطنت کے بعد کی پیداوار ہیں ،شیخ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں :
ترجمہ:ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ بہت سی ایسی کتب ،جن کے نسخے صفوی دور میں پردہ ظہور میں آئے ،ہم ایسا کوئی راستہ نہیں پاتے ،جو ہم تک پہنچے اس کتاب کے نسخوں کی تصحیح کر سکیں ،یہ کام مزید تحقیق و تدقیق کا محتاج ہے ،ان میں سے بعض کتب کا کوئی معتبر طریق ثابت نہیں ہے ۔
یہاں بجا طو رپر سوال پید اہوتا ہے کہ شیعہ کی آخری تین مراجع حدیث ،وسائل الشیعہ ،بحار الانوار اور مستدرک الوسائل کا بڑا حصہ انہی کتب پر مبنی ہیں ،جن کا ظہور صفوی دور میں ہوا ،تو یہ مراجع کیسے معتبر مراجع میں شامل ہیں ؟
3۔شیعہ کی معتبر ترین کتاب کافی کا بھی معتمد نسخہ وہی ہے ،جو صفوی دور میں لکھا گیا ، خاص طور پر وہ نسخہ جو صفوی دور کے معروف شیعہ محدث باقر مجلسی کے سامنے پڑھا گیا ،اس نسخے کے علاوہ صفوی دور کے دیگر مکمل مخطوطات کو سامنے رکھ کر کافی کی موجودہ طبعات تیار ہوئی ہیں ، ( صفوی دور میں عالم ِظہور میں آنے والے نسخوں کا حال ابھی حیدر حب اللہ کی زبانی آپ پڑھ چکے ہیں ) صفوی دور سے پہلے کافی کا مکمل اور تصحیح شدہ نسخہ موجود نہیں ہے، اگرچہ صفوی دور سے پہلے الکافی کے نامکمل مخطوطات ہیں ،معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ الکافی پر مخالفین کے اعتراضات کی وجو ہات میں سے ایک اہم وجہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ترجمہ :اس کتاب الکافی کا کوئی ایسا قدیم نسخہ نہیں ہے ،جو ساتویں صدی ہجری سے پہلے کا ہو ،یہاں تک کہ امامیہ کے ہاں الکافی کی سب سے آخری محقق و مصحح طبع دار الحدیث ایران کے محققین کا بھی یہی اعتراف ہے ،جنہوں نے الکافی کے نسخوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ،تو انہیں الکافی کا ساتویں صدی ہجری سے پہلے کا کوئی قدیم نسخہ نہ مل سکا ،اور ساتویں صدی ہجری کا نسخہ بھی نامکمل نسخہ ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ الکافی کی سب سے معروف اشاعت ،جو معروف محقق علی اکبر الغفاری کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے ،اس میں مخطوطات کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلا نسخہ یوں بیان کیا ہے :
مصنف نے تقریبا سات کے قریب مخطوطات ونسخ بیان کئے ہیں ،وہ سب دسویں صدی کے بعد یعنی صفوی دور کے نسخے و مخطوطات ہیں ۔
الکافی کی یہ سب سے پہلی محقق اشاعت ہے ، حال ہی میں قم ایران سے الکافی کی ایک محقق اشاعت سامنے آئی ہے ،جو بیس سے زیادہ محققین اور سو کے قریب مخطوطات کو سامنے رکھ کر تیار کی گئی ہے ،اس اشاعت میں بھی اصل اصیل علی اکبر غفاری کی اشاعت کو قرار دیا گیا ہے ،چنانچہ کتاب کے محققین لکھتے ہیں :
ترجمہ :ہم نے مرحوم غفاری کی تحقیق سے طبع شدہ متن کافی کو ایک نسخہ معتبرہ کے طور پر لیا ۔
اس کے برعکس اگر ہم صحیح بخاری کے نسخوں کو دیکھیں ،تو ان میں انتخاب مشکل ہوجاتا ہے کہ کس نسخہ کا ذکر کیا جائے ؟کیونکہ سب ہی اتقان و صحت میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے ہیں ،بطور ِمثال صرف ایک نسخے کا ذکر کرنا چاہوں گا ،کہ صحیح بخاری کا ایک معروف نسخہ حافظ یونینی کا نسخہ ہے ،یہ نسخہ چار جید محدثین ابو محمد الاصیلی ،ابو ذر الہروی ،ابو الوقت السجزی ،ابو القاسم ابن عساکر کے سامنے پڑھے گئے نسخہ جات کے ساتھ تقابل کر کے تیار کیا گیا ،یہ چاروں حضرات صحیح بخاری کے معروف رواۃ سے روایت کرنے والے ہیں ،مثلا ابو ذر الہروی نےصحیح بخاری کے تین براہ راست رواۃ المستملی ،الحموی اور الکھشمیھنی سے صحیح بخاری کو روایت کیا ہے 7۔یہ صرف ایک نسخہ ہے ،ورنہ صحیح بخاری کو صرف امام بخاری سے نوے ہزار سے زائد شاگردوں نے براہ راست پڑھا ہے ۔
معروف شیعہ محقق شیخ حیدر حب اللہ الکافی و دیگر کتب حدیث کے نسخ و مخطوطات کی کمیابی کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ترجمہ :فربری کے بقول امام بخاری سے بخاری شریف نوے ہزار شاگردوں نے براہ راست پڑھی ہے ،اور امام بخاری سے آخر میں سما ع کرنے والے حسین محاملی ہیں ،جبکہ اس زمانے میں اہل تشیع کی کل تعداد صحیح بخاری کا سماع کرنے والوں کے بمشکل برابر تھی ۔
وجہ جو بھی ہو ، اہلسنت و اہل تشیع کی کتب حدیث کے نسخہ جات و مخطوطات کا جب تقابل کیا جائے تو اہلسنت کی کتب کے نسخے و مخطوطات اہل تشیع کی تراث ِحدیث کے نسخہ جات و مخطوطات سے کئی درجے زیادہ نظر آتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شیعہ تراث ِحدیث کی استنادی حیثیت کو ثابت کرنے والے معروف شامی محقق حیدر حب اللہ نے شیعہ تراث حدیث میں تشکیک کی جن وجوہات پر بحث کی ہے ،ان میں نسخ و مخطوطات کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے۔9
اہل تشیع کی تراث حدیث کے مخطوطات و نسخ کی کمیابی چونکہ شیعہ ذخیرہ حدیث کو مشکوک بنانے کے لئے اہم ترین عامل ہے ،اس لئے بعض اہل تشیع اہل علم نے بجواب آن غزل صحیح بخاری کی قدیم مخطوطات کو زیر بحث لانے کی کوشش کی ،چنانچہ معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ لکھتے ہیں :
ترجمہ : اگر ہم صحیح بخاری کو دیکھیں ،جس کے ساتھ اہلسنت کی بڑی تعداد کا مسلسل علمی اشتغال رہا ، دنیا میں صحیح بخاری کے کامل ،ناقص ،مخطوطات 2327 کے قریب ہیں ، صرف مکتبۃ الملک عبد العزیز میں اس کتاب کے کامل ناقص 226 مخطوطات ہیں ،جو مختلف زمانوں کے ہیں ،اور ان پر مختلف مشاہیر کے دستخط ہیں ۔ہم یہ توقع رکھتے تھے کہ ہمیں مولف کا براہ راست مخطوطہ یا مولف نے جن تلامذہ پر کتاب کی املاء کرائی ،جیسے فربری ،ان کا براہ راست مخطوطہ مل جائے گا ،لیکن اس کتاب کا دنیا میں قدیم ترین نسخہ ،جو ایک مستشرق نے کیمبرج میں نشر کیا ،وہ امام بخاری کی وفات کے 115 سال بعد کا نسخہ ہے ،جو 370 میں امام مروزی نے فربری سے نقل کیا ،جبکہ باقی نسخوں کا مرجع چھٹی صدی ہجری کے ابو علی صدفی ،چھٹی صدی ہجری کے ابن سعادۃ اور بارہویں صدی ہجری کے ابن سالم المکی اور دیگر اہل علم کے کامل و ناقص مخطوطات ہیں ، جن میں اختلافات بھی ہیں ،اور نسخوں کا حال یہی ہوتا ہے ،لھذا اگر الکافی کا ساتویں صدی ہجری سے پہلے کوئی نسخہ نہیں ہے ،تو اسے اس کی استنادی حیثیت کو کوئی ضرور لاحق نہیں ہوتا ۔
شیعہ محقق نے صحیح بخاری کے نسخوں پر اعتراض کر کے الکافی کی مشکوک استنادی حیثیت کو ڈھانپنے کی کوشش کی ہے ،لیکن علمی میزان میں یہ اعتراض کوئی خاص وزن نہیں رکھتا ،ہم چند نکات کی شکل میں اس مغالطے کا جواب دیتے ہیں :
1۔اگر اس اعتراض کو جوں کا توں ما نا جائے ،تب بھی صحیح بخاری نسخ و مخطوطات کے حوالے سے الکافی سے کہیں زیادہ فائق نظر آتی ہے ،کیونکہ صحیح بخاری کا قدیم ترین نسخہ امام بخاری کی وفات کے صرف 115 سال بعد کا ہے ،اور یہ نسخہ بھی کسی غیر معروف ناسخ کا نہیں ،بلکہ ایک معروف محدث امام مروزی نے امام بخاری کے براہ راست شاگرد اور صحیح بخاری کی کتابت کے مرکزی راوی امام فربری سے نقل کیا ہے ،کیا شیعہ محققین الکافی کا کوئی ایسا نسخہ دکھا سکتے ہیں ، جو امام کلینی کے براہ راست شاگرد سے نقل کیا گیا ہو ؟یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ اما م کلینی کے چار سو سال بعد ساتویں صدی ہجری کا جو نسخہ ہے ،اس کی بھی کوئی سند نہیں ہے کہ ناسخ نے یہ نسخہ کس نسخے سے نقل کیا ،اور منقول عنہ نسخہ کس درجے کا تھا؟
2۔مخطوطات و نسخ کے محققین جانتے ہیں کہ کسی کتاب کی استنادی حیثیت کو قوی ثابت کرنے کے لئے اس کتاب کے مخطوطے کی قدامت زیادہ اہم عامل نہیں ،بلکہ مخطوطے کی سند ،مخطوطے کو لکھنے والا ،اور اس مخطوطے کو کہاں سے لیا گیا ہے ؟یہ عوامل زیادہ اہم ہوتے ہیں ،صحیح بخاری کے جو بھی اہم نسخے ہیں ،اس میں مذکورہ امور کی وضاحت بالتفصیل ہوتی ہے ،اوپر حافظ یونینی کے نسخے کے حوالے سے تفصیل آچکی ہے کہ کس طرح چار جید محدثین کے سامنے پڑھے گئے نسخہ جات سے نقل کیا گیا ،اور وہ محدثین براہ راست صحیح بخاری کی کتابت والے راویوں سے ناقل ہیں ،اسی طرح ابو علی الصدفی کے جس نسخے کا ذکر شیعہ محقق نے کیا ہے ،وہ بظاہر تو چھٹی صدی ہجری کا ہے ،لیکن اس پر جو عبارت لکھی ہے ،اس سے اس مخطوطے کی استنادی حیثیت خوب واضح ہوتی ہے ، اس مخطوطہ پر درجہ ذیل عبارت لکھی ہے:
ترجمہ :یہ نسخہ حسین بن محمد صدفی نے محمد بن علی بن محمود کے لکھے گئے نسخے سے نقل کیا ،جو ابو ذر پر پڑھا گیا تھا ،اور ا س نسخے پر ابو ذر کی کتابت بھی ہے ۔
یہ ابو ذر الھروی وہی محدث ہیں ،جنہوں نے صحیح بخاری کے تین معروف رواۃ ،المستملی ، الحموی اور الکھشمہینی سے براہ راست صحیح بخاری کو نقل کیا ہے ۔
اسی طرح جس نسخے کو شیعہ محقق امام بخاری کے 115 سال والا نسخہ کہہ کر بظاہر عدم ِ قدامت سے اس کی استنادی حیثیت کو مشکوک بنا رہے ہیں ،یہ نسخہ امام مروزی نے براہ راست صحیح بخاری کے کاتب و راوی امام فربری سے نقل کیا ہے ۔
الکافی پر بنیادی اعتراض اس کے مخطوطات کی قدامت کا نہیں ،بلکہ موجود نسخوں کی استنادی حیثیت ،موجود نسخوں کا ماخذ نسخہ اور ان ماخذ نسخوں کی مصنف یا مصنف کے براہ راست تلامذہ تک سند متصل جیسے امور کا فقدان ہے ۔
شاید مکمل و معتمد نسخہ جات کے فقدان کی وجہ ہے کہ الکافی کی موجودہ شروحات سب نویں صدی ہجری (دور صفوی )اور اس کے بعد کے ادورا کی ہیں ،یعنی ان ادوار کی ہیں ،جب الکافی کے مکمل نسخے منظر عام پر آنا شروع ہوئے ،الکافی کی کوئی ایسی شرح اب تک سامنے نہیں آئی ہے ،جو موجود ہو اور وہ ساتویں صدی ہجری سے پہلے لکھی گئی ہو۔چنانچہ الکافی کے معروف محقق شیخ عبد المحسن عبد الغفار نے اپنی تفصیلی کتاب "الکلینی و الکافی " میں الکافی کے ستر کے قریب شروح و حواشی کا ذکر کیا ہے ،ان میں سب سے قدیم ترین شرح (جس کا بھی وجود نہیں ،صرف فہارس کی کتب میں ہے )ساتویں صدی ہجری کے عالم نصیر الدین طوسی کی شرح ہے۔12 باقی سب شروحات و تعلیقات ساتویں صدی کے بعد کے ادوار کی ہیں ۔یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ الکافی کا قدیم ترین نامکمل نسخہ ساتویں صدی ہجری کا ہے اور اس کی اولین شرح بھی اسی زمانے کی ہے ۔
1. الاصول الاربعۃ فی علم الرجال ،علی خامنائی ،دار الثقلین ،بیروت ،ص50
2. المدخل الی موسعۃ الحدیث عند الامامیہ ،حیدر حب اللہ ،ص455
3. ایضا :ص461
4. ایضا :ص439
5. الکافی للکلینی ،تحقیق علی اکبر غفاری ،دار الکتب الاسلامیہ طہران ،ج1،ص44
6. الکافی للکلینی ،تحقیق قسم احیاء التراث ،قم ،ج1،ص120
7. دیکھیں : مقدمہ ،صحیح بخاری ،دار طوق النجاۃ ، بیروت
8. المدخل الی موسوعۃ الحدیث ،حیدر حب اللہ ،ص455
9. دیکھیے :المدخلی الی موسوعۃ الحدیث ،حیدر حب اللہ ،ص 453 تا 460
10. المدخل الی موسوعۃ الحدیث ،حیدر حب اللہ ،ص454
11. روایات و نسخ الجامع الصحیح ،محمد بن عبد الکریم بن عبید،دار امام الدعوۃ ،ریاض ،ص43
12. الکلینی و الکافی ،عبد المحسن عبد الغفار ،موسسۃ النشر الاسلامی ،قم ،ص443
(جاری)
( ۱۸ ۔اگست ۲۰۱۹ء کو پریس کلب ایبٹ آباد میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ پر منعقدہ سیمینار میں گفتگو)
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ سیمینار کے منتظمین کا شکر گزار ہوں کہ مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد میں منعقد ہونے والے اس پروگرام میں شرکت کا موقع فراہم کیا۔ مجھ سے پہلے فاضل مقررین نے حضرت سندھیؒ کی حیات و خدمات کے مختلف پہلوؤں پر اپنے اپنے ذوق کے مطابق اظہار خیال کیا ہے اور مجھے بھی چند معروضات آپ حضرات کے گوش گزار کرنی ہیں۔
مولانا سندھیؒ کا بنیادی تعارف یہ ہے کہ وہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کے قافلہ کے اہم ترین فرد تھے، شیخ کے معتمد تھے اور بہت سے معاملات میں ان کے ترجمان تھے، ان کے بارے میں گفتگو کے بیسیوں دائرے ہیں جن میں ایک پہلو پر کچھ عرض کروں گا کہ وہ جب کم و بیش ربع صدی کی جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹے تو انہوں نے اپنی جدوجہد اور تگ و تاز کے کچھ تجربات و مشاہدات بتائے، ان میں سے تین باتیں بطور خاص میری آج کی گفتگو کا عنوان ہوں گی۔
پہلی بات یہ کہ اس سفر میں انہیں بین الاقوامی ماحول اور نظاموں کے مطالعہ اور اقوام عالم کی باہمی کشمکش کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔ مولانا سندھیؒ نے افغانستان اور برطانیہ کی جنگ کا مشاہدہ کابل میں بیٹھ کر کیا، روس کے کمیونسٹ انقلاب کو ماسکو میں رہ کر دیکھا، ترک میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور جدید ترکی کے قیام کو استنبول میں رہ کر ملاحظہ کیا، اور برلن میں وقت گزار کر مغربی یورپ اور جرمنی کی کشمکش کا جائزہ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کہ وہ دنیا کی صورتحال کو ان قوموں کے درمیان رہ کر اور ان لوگوں سے براہ راست مل کر صحیح طور پر سمجھ پائے۔ میں اس حوالہ سے عرض کروں گا کہ بین الاقوامی نظام اور ماحول کو سمجھنے اور اس میں اپنے لیے راستہ نکالنے کے لیے دوسری قوموں کے اہل دانش کے ساتھ اسی طرح ملنے ملانے کی آج بھی ضرورت ہے اور یہ کام ’’لامساس‘‘ کے دائرے میں بند رہتے ہوئے نہیں ہو سکتا۔
میں اس سے قبل کا ایک حوالہ دینا چاہوں گا کہ یونانی فلسفہ کے فروغ کے دور میں جب اسلامی عقائد و احکام پر عقلی و فکری یلغار ہوئی اور شکوک و شبہات کا طوفان کھڑا کر دیا گیا تو اس کا مقابلہ کرنے والے امام ابوالحسن اشعریؒ، امام ابو منصور ماتریدیؒ اور دیگر ائمہ نے یونانی فلسفہ کو سیکھ کر بلکہ اس پر عبور اور گرفت حاصل کر کے اسی کی زبان میں شکوک و شبہات کا جواب دیتے ہوئے اسلامی عقائد و احکام کا تحفظ کیا تھا، اور انہیں یہ فلسفہ سیکھنے کے لیے انہی سے رجوع کرنا پڑا تھا ورنہ اپنے داخلی ماحول میں محدود رہ کر وہ یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔
اسی طرح مولانا سندھیؒ اور ان کے رفقاء کو اپنے دور کے عالمی نظام اور ماحول کو سمجھنے کے لیے انہی کے ماحول میں جانا پڑا اور سالہا سال وہاں رہ کر انہوں نے اس مقصد میں کامیابی حاصل کی۔ میں اس کے ثمرات میں سے صرف ایک کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ مولانا سندھیؒ کے دست راست مولانا محمد میاں انصاریؒ جو حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے نواسے اور جلاوطنی سمیت اکثر معاملات میں مولانا سندھیؒ کے سرگرم رفیق کار تھے، انہوں نے اپنے علمی مشاہدات و تجربات کے نچوڑ کو دو رسالوں میں سمیٹ دیا ہے۔ ایک رسالے کا نام ’’انواع الدول‘‘ ہے جس میں دنیا کے مختلف حکومتی نظاموں کا تعارف اور تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے، اور دوسرا رسالہ ’’دستور اساسی ملت‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں ایک اسلامی حکومت کے اصول و قوانین کو واضح کیا گیا ہے، یہ دونوں رسالے فارسی میں ہیں۔ اور انہی کے فرزند مولانا حامد الانصاری نے ’’اسلام کا نظام حکومت‘‘ کے نام سے جو ضخیم کتاب لکھی ہے وہ میرے خیال میں ان دو رسالوں کی آزادانہ تشریح کی حیثیت رکھتی ہے۔
حضرت شیخ الہندؒ کے تربیت یافتہ علماء کرام اور اس حلقہ کے ارباب فکر و دانش نے اس دور کے علمی و فکری تقاضوں اور چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے علم و فکر اور تحقیق و مطالعہ کے محاذ پر اور بھی بہت سے وقیع کام کیے تھے جس میں مذکورہ بالا کتاب کے علاوہ مولانا حفظ الرحمان سیوہارویؒ کی تصنیف ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘، مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ کی کتاب ’’اسلام اور غلامی‘‘ اور مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی ’’اسلامی معاشیات‘‘ کے ساتھ ساتھ نظام امن، نظام اخلاقیات، نظام معاشرت اور دیگر عنوانات پر مختلف بزرگوں کی متعدد تصنیفات شامل ہیں۔ مگر یہ علمی و فکری کام اب جاری دکھائی نہیں دیتا اور ہم بزرگوں کی عبارات نقل کر دینے کے سوا خود کوئی کام نہیں کر پا رہے، جبکہ علمی و فکری ہوم ورک کے بغیر کسی تحریک کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ میرے خیال میں شیخ الہندؒ اور ان کی جماعت کے حوالہ سے کام کی خواہش رکھنے والوں کو سب سے زیادہ اس کی فکر ہونی چاہیے اور آج کے دور کے، علمی، فکری اور تہذیبی چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیق و مطالعہ اور تصنیف و تالیف کا یہ سلسلہ بحال کرنا چاہیے ورنہ وہ محض نعرہ بازی کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے۔
بہرحال مولانا سندھیؒ کا یہ ارشاد ہم سب کے لیے قابل توجہ ہے کہ وہ عالمی ماحول، مختلف نظاموں اور بین الاقوامی کشمکش کو کابل، ماسکو، برلن، مکہ مکرمہ اور استنبول میں جا کر اور ان سب سے مکالمہ و مباحثہ کے بعد سمجھ پائے تھے، اس لیے ہمیں بھی آج ’’چھوئی موئی‘‘ کے ماحول سے نکل کر موافق و مخالف سب کے پاس جانا ہوگا اور سب سے مکالمہ و مباحثہ کا اہتمام کرنا ہوگا، ورنہ آج کے دور کی ضروریات کا صحیح طور پر ادراک ہمارے لیے مشکل ہو جائے گا، جبکہ عملی جدوجہد تو اس سے اگلے درجہ میں ہوتی ہے۔
مولانا سندھیؒ کی دوسری بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، ان کا یہ ارشاد ہے کہ وہ اس ماحول میں جا کر اور ان لوگوں میں وقت گزار کر اپنا ایمان و یقین محفوظ رکھنے میں اس لیے کامیاب ہو سکے تھے کہ ان کی اپنی علمی اور روحانی اساس مضبوط تھی۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ و حکمت سے گہری وابستگی، حضرت شیخ الہندؒ کے ساتھ تلمذ و رفاقت کے رشتہ اور بھرچونڈی شریف کی روحانی تربیت نے ان کے لیے حصار کا کام دیا اور وہ اپنے دینی ذوق و ماحول کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔
یہ بات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ عالمی تہذیبی و فکری کشمکش کو سمجھنے اور اس ماحول میں اسلام کے احکام و قوانین کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کے لیے جہاں مشترکہ ماحول میں جانا اور وسیع تر مکالمہ و مباحثہ ضروری ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسا کرنے والوں کی اپنی علمی، دینی اور روحانی اساس مضبوط ہو، کیونکہ کمزور دینی و روحانی تعلیم و تربیت رکھنے والے لوگ تو خود کو اس ماحول کے حوالے کر دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ ذمہ داری ہمارے دینی مدارس اور روحانی خانقاہوں کی ہے کہ وہ دینی تعلیم اور روحانی تربیت کے نظام کو اس حوالہ سے بھی دیکھیں اور اسے اتنا مضبوط بنائیں کہ ان کے پاس چند سال گزار کر کہیں بھی جانے والا شخص وہاں کے ماحول سے منفی اثرات نہ لے۔
حضرت سندھیؒ کی تیسری بات اس سے بھی زیادہ قابل توجہ ہے کہ میں سارے نظاموں اور عالمی کشمکش کے وسیع تر مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مستقبل میں دنیا کے پاس قرآن کریم کے فطری نظام کو اپنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن و سنت کے فطری احکام و قوانین سے دنیا کو متعارف کرانے کے لیے امام ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ و حکمت اور اسلوب کو اختیار کیا جائے جو قرآن فہمی کے لیے آج کے ماحول میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
اس حوالہ سے میں یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کا مطالعہ ہمیں آج کی سماجی ضروریات اور معاشرتی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے کرنا چاہیے، اور محض بزرگوں کی عبارات نقل کرتے چلے جانے کی بجائے ان کے اسلوب اور ان کے قائم کردہ اصولوں کو اختیار کر کے آج کے علمی ماحول اور سماجی تقاضوں کے دائرے میں علمی و تحقیقی کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اور یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ حضرت شیخ الہندؒ اور ان کی جماعت کی علمی و فکری جدوجہد کو بھی پوری صدی گزر چکی ہے اور ایک سو سال کے دوران رونما ہونے والے تغیرات اور جدید تقاضوں کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہمیں یہ کام انہی بزرگوں کے اسلوب کے مطابق آج کے ماحول میں کرنا ہوگا اور ان تغیرات اور تقاضوں کا لحاظ رکھنا ہوگا جو گزشتہ ایک صدی کے دوران رونما ہوئے ہیں۔
اس موقع پر میں ایک اور سوال کا بھی جائزہ لینا چاہتا ہوں جو حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے بعض تفردات کے حوالہ سے سامنے آتا ہے اور ان پر بحث و مباحثہ کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ جو شخص بھی علم و فکر اور تحقیق و مطالعہ کے وسیع ماحول میں جائے گا وہ دو چار نئی باتیں ضرور کرے گا، یہ فطری بات ہے، علم ایک سمندر ہے اور سمندر میں جتنی بار بھی غوطہ لگائیں گے کوئی نہ کوئی نئی چیز ضرور ہاتھ آئے گی۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسی نئی بات قابل قبول ہوگی اور کونسی رد کر دی جائے گی۔ یہ سوال مجھ سے ایک اور انداز میں کیا گیا تھا کہ تجدید اور تجدد میں کیا فرق ہے؟ کیونکہ نئی باتیں مجدد بھی کرتا ہے اور متجدد بھی کرتا ہے، دونوں میں حد فاصل کیا ہوگی؟ میں نے گزارش کی کہ تفردات تو تحقیق و مطالعہ کا فطری اور لازمی نتیجہ ہوتے ہیں ان سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، آپ اگر ماضی کے ارباب علم و دانش اور اصحاب فضل و کمال کے تفردات شمار کرنا چاہیں تو تھک جائیں گے مگر ان کا احاطہ نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے تجدید اور تجدد کے فرق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم ’’ارتقاء‘‘ کے مفہوم کو سمجھیں کیونکہ تجدید فقہی ارتقاء کا نام ہے۔
علم و فن کے کسی بھی شعبہ اور دائرہ میں آپ اب تک ہونے والے کام کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی بنیاد پر کام کو آگے بڑھائیں اور اسی کے تسلسل کو جاری رکھیں تو یہ ارتقاء کہلائے گا۔ لیکن اگر اب تک ہونے والے کام کی نفی کرتے ہوئے الٹی زقند لگا کر زیرو پوائنٹ پر واپس جا کھڑے ہوں گے تو یہ ارتقاء نہیں رجعت قہقرٰی ہوگی، کیونکہ ارتقاء آگے بڑھنے کو کہتے ہیں، ریورس گیئر لگا دینا ارتقاء نہیں ہوتا۔ اسی طرح فقہ و شریعت میں اب تک ہونے والے کام کو تسلیم کرتے ہوئے اور اس کا احترام کرتے ہوئے آج کی ضروریات کو سامنے رکھ کر آپ اس کے تسلسل کو آگے بڑھائیں تو یہ تجدید کا کام ہوگا، لیکن اگر ماضی کے کام کی نفی اور تحقیر کر کے زیرو پوائنٹ سے کام دوبارہ شروع کرنا چاہیں تو یہ تجدد ہوگا، اس فرق کو سامنے رکھ لیا جائے تو میرے خیال میں تجدید اور تجدد کے درمیان حد بندی کی جا سکتی ہے۔
بہرحال مجھے خوشی ہے کہ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے علمی و فکری کام اور حضرت شیخ الہندؒ کی جدوجہد کو سمجھنے کی ضرورت نوجوان علماء محسوس کر رہے ہیں جو آج کے دور کا ایک اہم علمی و فکری تقاضہ ہے، اللہ تعالٰی ان علماء کی جدوجہد کو ترقی و برکات اور ثمرات و قبولیت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
آج کل مدرسہ ڈسکورسز کا پھر سے چرچا ہے، اور مختلف رد عمل سامنے آئے ہیں۔ کچھ حلقوں میں اسے سازش بھی قرار دیا گیا ہے جو مضحکہ خیز ہے، اور صورتحال کا سامنا کرنے سے انکار ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی خطیر فنڈنگ کو موضوع بنا کر بھی کچھ غیرمفید نتائج اخذ کیے گئے۔ فنڈنگ کی بنیاد پر ڈسکورسز کے منتطمین کی نیتوں اور ’خفیہ‘ عزائم پر اشاروں کنایوں سے بات کی گئی۔ چند مذہبی لوگوں نے ’اظہار خیال کی آزادی‘ اور ’فکری مکالمے کی ضرورت‘ کے حوالے سے اپنی کشادہ قلبی اور بے دماغی بھی ارزانی فرمائی۔ ان غیراہم یا کم اہم پہلوؤں پر گفتگو سے مدرسہ ڈسکورسز کے تعلیمی اور علمی منصوبے کا اصل کام اور اس کے مضمرات اور عواقب زیر بحث نہ لائے جا سکے۔ جیسا ظاہر ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز ایک منصوبہ اور واقعہ ہے، اور اس کے مقاصد اور طریقۂ کار مشتہر ہے۔ عصر حاضر کے ’واقعات‘ کی تفہیم ہم جس سطح پر اور جس اسلوب میں سامنے لاتے ہیں، اس سے یہ اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ ہم جدید افکار و نظریات کو سمجھنے اور ان سے تعرض کرنے کی کیا استعداد رکھتے ہیں۔ واقعات کو سازشی تناظر اور افکار کو اخلاقی اسالیب میں زیربحث لانا ہماری فطرت ثانیہ بن چکی ہے، اور یہ دو ایسے پٹ بن گئے ہیں جن سے بابِ علم اب مستقل بند ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز کو خود اس کے اپنے بیان کردہ مقاصد کے حوالے سے زیربحث لاتے ہوئے بنیادی سوالات اٹھائے جائیں اور بیان کردہ موقف کو رد و قبول کی بنیاد بنایا جائے۔ اس کا سرکاری (آفیشل) بیانیہ اپنی منہج، کلام اور خاموشی میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز پر ناقدین کی زیادہ تر گفتگو نہ صرف بے سود ہے بلکہ اس کے مقاصد کی تفہیم میں مانع ہے۔ ذیل میں ہم مدرسہ ڈسکورسز کے اپنے بیان کردہ منصوبے کی حدود میں رہتے ہوئے گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے، اور جہاں ضروری ہوا اس پر کسی کام کے تبصرے کو بھی زیر بحث لائیں گے۔
گزارش ہے کہ شکست خوردہ تہذیبوں کا ملبہ لوٹ کا مال ہوتا ہے جس پر صلائے عام مستقل ہوتی ہے۔ ایسے میں پوپ کی طرف سے رواداری کا کوئی مطالباتی بیان ہو، یا سابق فرانسیسی صدر سارکوزی کی طرح کوئی مغربی سیاست دان یا ریاستی عہدیدار قرآن مجید کی تدوین نو کی بات کرے، یا غالب تہذیب کے فنکار و مصور ہماری شخصیات و شعائر کو کارٹونوں میں کھپا دیں، یا مغرب کے اہل دانش اس تمسخر کو ہمارا علم بنا دیں اور ہمارے خانہ ساز اہل علم و دانش اسے ہماری تہذیبی اور مذہبی تقدیر کے طور پر پیش کریں، تو اس پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ حیرت تو ان پسماندہ ذرائع تفہیم، فکری افلاس، اخلاقی مکاری اور بے حمیتی پر ہوتی ہے جو ایسے مواقع پر ہم سامنے لاتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہر پہلو سے دنیا کے حالات مسلمانوں کے لیے بہت مشکل ہو چکے ہیں۔ ان حالات کے روبرو تہذیبی مزاحمت تو ایک فراموش شدہ آدرش ہے، لیکن محض بات کرنا اور جہاں بات ہو رہی ہے وہاں اپنی بات رکھنا بھی شدید مشکل ہو گیا ہے۔ اس صورت حال کے لیے صرف مغرب کو الزام دینا درست نہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ مذہبی تناظر میں علمی اور فکری گفتگو حالات میں کسی طرح کی تبدیلی کا باعث نہیں بنتی، اور خود فکری سرگرمی کے جواز کے خاتمے اور مایوسی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ یہ امر فراموش کر دیا جاتا ہے کہ افکارِ تازہ سے جہان تازہ کی نمود ہے، اور تہذیبی مزاحمت کا پہلا قدم علمی اور فکری ہے۔ افکار، امید کو روشن رکھنے اور امکانِ عمل کو تلاش کرنے اور باقی رکھنے کا واحد اولین ذریعہ ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز کے اغراض و مقاصد اور اس کے علمی و تعلیمی موضوعات اس کے خود بیان کردہ سرنامے کے تحت آتے ہیں، اور جو Contending Modernities ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدرسہ ڈسکورسز کا منصوبہ گزشتہ دو سو سالہ استعماری تاریخ کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ اس کا شجرۂ نسب یا اس کی genealogy براہ راست استشراقی ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کے تحت میں کی جانے والی علمی سرگرمی کے مقاصد مشتہر ہیں اور ان میں سے زیادہ تر علمی اور تہذیبی نتائج حاصل شدہ ہیں۔ لیکن ان نتائج میں مسئلہ یہ ہے کہ ہر بار ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے اور اس کسر کو پورا کرنے کے لیے خطیر وسائل سے ایسے منصوبے بار بار سامنے لائے جاتے ہیں۔ مسلمان بھی بیچارے بلک بلک کر تھک گئے ہیں، نہ کوئی ان کی سنتا ہے، نہ وہ کسی کی سنتے ہیں، اور سن لیں تو سمجھ کچھ نہیں آتی، اس لیے نالی سے دوائی پلانے کے مدرسہ ڈسکورسز جیسے منصوبوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ چونکہ دوا کی ضرورت پر طبیب ومریض اور ’اہلیان‘ سب کا اتفاق ہے، اس لیے اب ٹھوس نتائج کی امید باندھی جا سکتی ہے۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جدیدیت کے وہ پہلو جو سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر فائدہ مند، ضروری اور ’عملی‘ ہیں، وہ بلا چون و چرا فوراً اپنا لیے جاتے ہیں، اور ان کی جواز سازی میں پورا دین بھی کھپائے بیٹھے ہیں۔ جدیدیت کے جن پہلوؤں کو ’غارت گر‘ ایمان سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ اس کے پیدا کردہ نظری اور فلسفیانہ علوم ہیں۔ ان سے بچاؤ کے لیے دولے شاہ کی آہنی تراکیب سے ہم تمام دماغی مسائل بھی حل کیے بیٹھے ہیں۔ لیکن نوٹرے ڈیم والے زیرک و مہرباں ایسے ہیں کہ انہیں یہ سب ’راز‘ معلوم ہیں، اور وہ علم کے ساتھ ساتھ ضروری اسباب لے کر اب ادھر ہی اٹھ آئے ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز کے منصوبے کا بنیادی نقطہ یا حقیقی دُھرا بطور ورلڈ ویو جدیدیت کے تہذیبی اور علمی مطالبات ہیں۔ جدیدیت کا بنیادی ترین مطالبہ یہ ہے کہ اسے انسانی شعور، تاریخ اور نیچر میں واحد معرف (definer) کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ مذہب اسی نوع کے مطالبے کو اپنے واحد حاملِ حق ہونے کی صورت میں سامنے لاتا ہے، اور اس دعوے کا بنیادی دائرہ انسانی شعور ہے۔ جدیدیت اور مذہب/مذاہب کے مابین کشمکش کا منبع یہی ناقابل تطبیق و ناقابل تسویہ موقف ہے۔ لیکن اگر مذہب اپنے واحد حاملِ حق ہونے کے دعوے سے دستبردار ہو جائے تو جدیدیت سے توافق اور تسویہ ممکن ہے۔ اسلام کے برعکس دنیا کے باقی تمام مذاہب جدیدیت کے روبرو اپنے اساسی موقف سے دستبردار ہو کر اس کے سائبان میں پناہ لے چکے ہیں۔ یہ مقصد عیسائی اور یہودی جدیدیت وغیرہ کے ذریعے حاصل کیا گیا، اور ان مذہبی جدیدیتوں نے استعمار و استشراق کا بھی خوب خوب ہاتھ بٹایا۔ لیکن اسلامی جدیدیت ابھی مکمل نہیں ہو سکی اور یہ ایک جاری منصوبہ ہے، اور اس پر کام کبھی رکتا نہیں ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز اسی منصوبے کی تکمیل کو ایک قدم آگے بڑھاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ورلڈ ویو اپنے سائبان تلے ایسی بڑی اور جامع تعبیرات کی گنجائش رکھتا ہے جو باہم متضاد، مخاصم اور متصادم ہوں جیسا کہ اسلامی ورلڈ ویو میں شیعہ سنی صورتحال ہے۔ جدیدیت ایک مکمل ورلڈ ویو ہے اور جو ایک تہذیب کا خالق بھی ہے۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری نظام اس ورلڈ ویو کے تحت میں پیدا ہونے والے باہم متضاد اور مخاصم مظاہر رہے ہیں۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری اپنے وجودی موقف میں ایک ہی ہیں، لیکن تہذیبی مظہر میں باہم متضاد و مخاصم ہیں۔ یعنی اشتراکیت اور سرمایہ داری باہم کل کی کل سے مخاصمت نہیں رکھتے، بلکہ کچھ اساسات پر اتفاق کے بعد تہذیبی مظاہر میں تضاد اور مخاصمت کو سامنے لاتے ہیں۔ عین اسی نکتے کو مدرسہ ڈسکورسز کے منصوبے اور اس کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نکتہ جو ہم پر منصوبہ بن کر مسلط ہوا ہے، Contending Modernities کا تصور ہے اور جو جناب ابراہیم موسیٰ کی زیر نگرانی بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ عیسائیت اور یہودیت کا جدیدیت سے اختلاف کل کا کل سے اختلاف تھا، اور مسیحی جدیدیت اور یہودی جدیدیت کی تشکیل کے بعد یہ کل کا کل سے اختلاف نہ رہا بلکہ جدیدیت کے سائبان تلے ان مذاہب کی حیثیت بھی حریف جدیدیتوں (Contending Modernities) کی ہو گئی۔ یہ مذاہب اپنے واحد حاملِ حق ہونے کے دعوے سے دستبردار ہونے اور جدیدیت کے بنیادی وجودی اور تہذیبی قضایا سے اتفاق کے بعد، اظہارِ اختلاف کو جدیدیت کی شرائط پر سامنے لاتے ہیں۔ ایک کلی ورلڈ ویو اگر ایک Contending Modernity پر فائز المرام ہو جائے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ کل یہ Consenting Modernity بن جائے گا، اور یہی جدیدیت کی فتح ہے۔ اسلام کے حوالے سے جدیدیت کو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے، جو علم اور مغربی سیاست میں معلوم ہیں۔
اگر جناب ابراہیم موسیٰ کی دردمندانہ ’مساعی علمیہ‘ سے اسلام بھی ایک Contending Modernity کا شرف حاصل کر لے تو اسلام کو بھی عیسائیت اور یہودیت کی طرح جدیدیت کا pet (پالتو) بنایا جا سکتا ہے، اور اس کے حاملِ حق ہونے کے دعوے سے رستگاری کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی ہینڈ بک اسلامی جدیدیت کے لیے جناب ابراہیم موسیٰ کی جن خدمات کا تذکرہ کرتی ہے، ان کا اول و آخر یہی مقصد ہے۔ استعماری جدیدیت کے سائبان تلے اسلامی جدیدیت کا سفر آقائے سرسید کی نگرانی اور رہنمائی میں شروع ہوا تھا اور مدرسہ ڈسکورسز ہماری شکستِ تہذیب کے سفر کا ایک اگلا پڑاؤ ہے۔ لیکن اس پڑاؤ سے منزل نظر آنا شروع ہو گئی ہے کیونکہ اب سائبان امریکی ہے اور علمی، ثقافتی اور تہذیبی وسائل بے پایاں ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز کی کبریت احمر یہی اسلامی جدیدیت ہے، اور جس کے حصول کو جناب ابراہیم موسیٰ نے خانہ زاد پیادوں اور سواروں کی بڑی تعداد کے تعاون سے زیادہ منظم اور نتیجہ خیز بنا دیا ہے۔ اسلامی جدیدیت کی تشکیل کے بعد اس کو بھی مسیحی اور یہودی جدیدیتوں کے پہلو بہ پہلو، اور مغربی جدیدیت کے سائبان تلے، حریف (Contending) جدیدیتوں میں شمولیت کا شرف حاصل ہو جائے گا۔ جدیدیت اور اسلام میں جو حق و باطل کا تضاد و اختلاف ہے، اس کا خاتمہ ایک قابلِ حصول مقصد کے طور پر یقینی ہو جائے گا۔ اس کا سادہ مذہبی مطلب یہ ہے کہ نعوذ باللہ حصرِ حق صرف ہدایت میں نہیں ہے، بلکہ ابوجہل کو ابوالحکم ماننے کے دلائل بھی یکساں مذہبی سچائی رکھتے ہیں۔ اس منصوبے کی تکمیل سے وہ خواب شاید پورا ہو جائے جو مغربی جدیدیت نے دو صدیاں قبل دیکھا تھا، اور جس کے حصول میں ہمارے کئی جدید اساطین بھی بدل و جاں معاون رہے ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز کی ہینڈ بک کے مطابق جناب ابراہیم موسیٰ کے ساتھ کچھ دیگر احباب بھی ڈاکٹر فضل الرحمٰن سے براہ راست شاگردانہ تعلق رکھتے ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز کے علمی ایجنڈے کو دیکھنے کے بعد یہ کہنا قرین انصاف ہے کہ اپنے استاد محترم کی طرح یہ پروفیسر صاحبان بھی عملاً مغربی جدیدیت کو اسلام کا واحد معرف (Sole Definer) بنانے کی تگ و دو میں زندگی کھپائے ہوئے ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز پاکستان میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی فاتحانہ آمدِ ثانی ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن کو اگر اسلامی جدیدیت کا “عالمِ اعظم” کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، کیونکہ وہ اسلامی جدیدیت کی تشکیل کے منصوبے کی سب سے بڑی علمی شخصیت ہیں۔ اسلامی جدیدیت کے علمبردار دیگر مفکرین کی حیثیت محض بےمغز کودکانِ جدیدیت کی ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز دراصل ڈاکٹر فضل الرحمٰن ہی کی پیش کردہ اسلامی جدیدیت کو مسلم معاشروں میں فروغ دینے اور واحد اسلامی معروف (norm) کے طور پر قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی پوری تعبیرِ دین اسلامی جدیدیت کا نہایت ریڈیکل منصوبہ ہے، اور مدرسہ ڈسکورسز جدید سیاسی، معاشی اور ادارہ جاتی وسائل سے مسلم معاشروں میں عین اسی اسلامی جدیدیت کی normalization کی عملی کاوش ہے۔ مغربی جدیدیت اپنے ’عملی پہلوؤں‘ میں ایک خودکار normalization کا طویل تاریخی پراسیث رہی ہے اور جو بےمثل عالمگیر کامیابی حاصل کر چکا ہے۔ عملی جدیدیت کے اس غیرمعمولی بہاؤ میں اسلامی جدیدیت کے فکری منصوبے کی کامیابی کے امکانات وقت کےساتھ قوی ہوتے جا رہے ہیں، اور مدرسہ ڈسکورسز کا اگر کوئی ’پیغام‘ ہے تو یہی ہے۔
اس میں یہ دیکھنا اہم ہے کہ جب ڈاکٹر فضل الرحمٰن اپنی زندگی میں اسلامی جدیدیت کا منصوبہ لے کر اس کے نفوذ و نفاذ کے لیے پاکستان تشریف لائے تھے تو مزاحمت کی نوعیت کیا تھی، اور اب کیا صورت حال ہے؟ اس سے کم از کم دو نتائج ضرور اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ روایت کو سربلند رکھنے اور مغربی جدیدیت کے زیر سایہ پیدا شدہ اسلامی جدیدیت کو چیلنج کرنے والی مذہبی قوتیں فی زمانہ قریب المرگ ہیں۔ گزشتہ صدیوں میں جدیدیت کے روبرو ہمارے علما نے جو جعلی علمی موقف اختیار کیے رکھے وہ اب گوالے کے ملاوٹی پانی کی طرح سیلاب کے ساتھ ہیں یا خس و خاشاک ہیں۔ فی الوقت ہمارے مذہبی علما کا اخلاقی دامن اور علمی ذہن دونوں خالی ہیں، اور انہیں آرام کا مشورہ دینا چاہیے اور دیندار نوجوانوں کو جانکاہ محنت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ اب مسلم ذہن اسلامی جدیدیت کو تقدیری سمجھ کر اس کے آگے سپرانداز ہو چکا ہے، اور ترکِ اسلام کے علمی اسالیب سے سمجھوتہ کر چکا ہے۔ روایتی مذہبی حلقوں کی طرف سے مدرسہ ڈسکورسز کے بارے میں جس طرح کے خیالات کا اظہار کیا گیا وہ نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ شرمناک ذہنی پسماندگی اور علمی فلاکت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اقبالؒ نے تو تہذیبی ’مے خانوں‘ کے بند ہونے کا نوحہ کیا تھا، اب ایسا لگتا ہے کہ ان ’مے خانوں‘ کی کوئی اینٹ بھی باقی نہیں رہی۔
وٹگنسٹائن کے منشورِ فکر کے تتبع میں مدرسہ ڈسکورسز کی طرف سے روایت کو متفرق، سب رنگ اور مکسر ریشوں سے بنی رسی قرار دینا اس وقت آسان ہو جاتا ہے جب یہ گردن پہ لپٹ چکی ہو اور اس سے گلو خلاصی کے لیے استعماری سرجری ضروری ہو گئی ہو۔ اللہ کی رسی ہاتھ سے چھوٹ جائے تو روایت ایناکونڈا (Anaconda) بن جاتی ہے، اور مدرسہ ڈسکورسز جیسے منصوبے اس سے رستگاری کے لیے SOS کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز بنیادی طور پر تاریخ کی شرائط پر ہدایت میں قطع و برید کا منصوبہ ہے۔ ’تاریخ کی شرائط‘ سے مراد تاریخیت Historicism ہے، اور یہ نظریہ سماجی سائنسز کی بنیاد پر نہ صرف اصالتِ دین کا قطعی مختلف ادراک رکھتا ہے، بلکہ عصر حاضر میں اس کی معنویت و اطلاق کو بھی جڑبنیاد میں تبدیل کر دیتا ہے۔ تاریخیت کو علمی اصول مان لینے کے بعد دین کو ماننا محض تکلف ہے۔ یاد رہے کہ تاریخیت کا مطلب تاریخ میں ہرلحظہ ظاہر ہونے والی تبدیلی نہیں ہے یا مطالعہ تاریخ میں دلچسپی نہیں ہے جس کی طرف مدرسہ ڈسکورسز کے کچھ شرکا نے اشارہ کیا ہے، بلکہ یہ ایک علمی اور تعبیری اصول ہے، جس کو دیکھنا ضروری ہے۔ بہت مختصراً عرض ہے کہ تاریخ کے بارے میں بست (closed) و کشاد (open) کے دو بنیادی موقف ہیں۔ مذہبی آدمی عقیدے کی بنا پر ماورا کا ایسا دھیان رکھتا ہے کہ وہ بستِ تاریخ کو قبول نہیں کر سکتا۔ مغرب میں مذہب کی ہزیمت کے بعد عینیت پسندی کے نظریات اور جدیدیت کے مہا بیانیوں نے کشادِ تاریخ کے تصورات کو زندہ رکھنے کی کوشش کی، لیکن بیسیوں صدی کے آغاز تک وہ متزلزل ہو گئے اور اسی صدی کے اواخر تک مابعد جدیدیت کی طرف سے کشادِ تاریخ کے تصور کو باقی رکھنا ممکن نہ رہا۔ مذہب/ وحی کے انکار کے بعد تاریخ اور معاشرے کے بارے میں grand theories کشادِ تاریخ کو باقی رکھنے کی ناکام کوششیں رہی ہیں۔ ایسی تاریخ کا تصور جو کسی جانب کوئی روزن نہیں رکھتی، خود مختار عقل اور اس کے حامل انسان کی فطری تقدیر ہے۔ تاریخیت historicism کے تمام تصورات post-metaphysical history کے ادراک سے پیدا ہوئے ہیں، اور جو اصلاً بستِ تاریخ ہے۔ بستِ تاریخ کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ سے ماورا کوئی آئیڈیا، حقیقت یا ہستی ایسی نہیں ہے جو تاریخ اور اس میں محبوس انسان سے متعلق ہو یا اس پر اثر انداز ہو سکتی ہو۔ اگر بستِ تاریخ کو قبول کر لیا جائے، تو انسان اور دنیا کو دیکھنے کا انداز بدیہی طور پر بدل جاتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ عینیت پسند نظریات اور جدیدیت کے مہا بیانیے بستِ تاریخ کے تسلط اور شعور کے انہدام کے روبرو مزاحمت کی غیرمعمولی داستان ہے جو مغربی انسان نے رقم کی ہے۔ مہا بیانیوں کا خاتمہ اصلاً بستِ تاریخ کی آمد کا اعلان ہے، یعنی post-metaphysical history کی آمد کا منظر ہے۔ بستِ تاریخ (history as closed entity) کا تصور غیر عقلی، ارادی اور وجودی ہے، اور فی زمانہ اسے ایک اصل الاصول کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ سادہ لفظوں میں اس کا مطلب انسانی شعور کا حتمی انہدام اور عمل کا کلی غلبہ ہے۔ انسانی شعور کے انہدام کے ساتھ ہی عینیت پسندی کے نظریات اور مہابیانیے سب غیر اہم ہو جاتے ہیں، اور مابعد جدیدیت اسی صورت حال کو ظاہر کرتی ہے۔ بستِ تاریخ کا تصور مذہبی عقیدے سے براہ راست متصادم اور historicism کی بنیاد ہے۔ اسلامی جدیدیت، historicism (تاریخیت) کو قبول کیے بغیر ممکن نہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز کے حاملین پر تاریخیت کے غلبے کی وجہ سے یہ بعید نہیں کہ چند سالوں تک “ابو الحکم کے اسلامی کارنامے” جیسے ماڈیولز (modules) بھی اسلامی جدیدیت کے بنیادی نصاب کے طور پر متعارف کرا دیے جائیں۔ العیاذ باللہ۔ یہ امر کہ ہیومن کنڈیشن یا احوالِ ہستی مستقل ہیں، اور تاریخ مسلسل بدل رہی ہے، دو مختلف چیزیں ہیں۔ انسانی معاشرے اور تاریخ میں تبدیلی کا انکار غیر انسانی ہے اور اس کے شعور پر مترتب اثرات سے انکار ہٹ دھرمی ہے۔ لیکن تاریخ کو انسانی ہستی کے اصل الاصول کے طور پر قبول یا تسلیم کرنا مذہبی عقیدے کی نفی ہے۔ اسلامی جدیدیت تاریخ کے بارے میں بنیادی ادراک کی تبدیلی کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ ہدایت راکب ایام ہے مرکب ایام نہیں۔ اگر تاریخ کو ہدایت کی تعبیر میں اصل الاصول کے طور پر تسلیم کر لیا جائے تو معاشرے سے مذہب کا خاتمہ ایک یقینی ہدف کے طور پر زیرعمل لایا جا سکتا ہے، اور جدیدیت کے انسانی زندگی کے واحد معرف بن جانے کے حقیقی امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ جناب ابراہیم موسیٰ اور دیگر متجددین تاریخ کی پیدا کردہ تبدیلیوں کو اصل الاصول قرار دے کر مذہب کے تعبیری مؤثرات میں مرکزی جگہ دے چکے ہیں، اگرچہ ہینڈبک میں اس کی سریں ابھی دھیمی ہیں۔
زیرِ جدیدیت انسانی تاریخ میں غیر معمولی علم کا ظہور اور غیر معمولی واقعاتی تبدیلیاں ایک بدیہی امر ہے۔ ان جدید مظاہر کی درست یا جائز تفہیم کی عدم فراہمی اور ہدایت سے ان کی نسبتوں میں فکری خلفشار کی وجہ سے ہمیں موجودہ صورتحال کا سامنا ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی ہینڈ بک میں دیے گئے سوالات اسلامی جدیدیت کی تہہ میں پوری قوت سے کارفرما تاریخیت زدہ شعور کے عکاس ہیں۔ یہ شعور مکمل طور پر کولونائزڈ (مستعمَر) ہے اور جدیدیت کے پیدا کردہ افکار و احوال اور اس کی پیداکردہ دنیا پر سوال اٹھانے کی کوئی انسانی استعداد، فکری صلاحیت اور اخلاقی حمیت نہیں رکھتا۔ مدرسہ ڈسکورسز میں سرمائے اور طاقت کی حرکیات چونکہ فیصلہ کن عامل کے طور پر داخل ہے، اس لیے سوالوں کی لوکال (locale) کٹہرا ہے اور ان کی نوعیت تفتیشی ہے۔ سوالات صرف اسلام پر، دینی روایت پر اور مسلم معاشروں کے بچے کچے اداروں پر اٹھائے جا سکتے ہیں اور ان کے جوابات صرف جدیدیت کے تناظر اور اس کے پیدا کردہ فکری وسائل میں رہتے ہوئے دیے جا سکتے ہیں۔ یعنی “اسلام کا محاسبہ اور یورپ سے درگزر” کوئی شاعرانہ بات نہیں، جدید مغربی جامعات کا علمی طریقہ کار اور مدرسہ ڈسکورسز کی اساسی منہج ہے۔ اسلامی جدیدیت، استشراق کی دروں کاری ہے، اور اس کے سوالات کی نوعیت علمی سے زیادہ ہمیشہ تفتیشی رہی ہے۔ سوالات کی تفتیشی نوعیت ہی کی وجہ سے apologetica پیدا ہوتی ہے، جو محکوموں کے علمی ڈسکورس کا نام ہے۔ apologetica سیاسی غلبے کی صورت حال میں، اس غلبے کی شرائط پر محکوم معاشرے کے علم کی تشکیل نو ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز اصلاً انہیں معذرت خواہانہ علوم کو ہمارے اصل علوم کے طور پر پیش کرنے کے نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ اس کام کے لیے ڈاکٹر فضل الرحمٰن سے بہتر بھلا کون آدمی ہو سکتا ہے؟ وہ اس پورے منصوبے کے patron saint ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز کی ہینڈبک میں سوالات کی تین فہرستیں دی گئی ہیں جن کو دیکھنا ضروری ہے۔ ان سوالات کی حیثیت ’امتحانی‘ تیاری کا منہج متعین کرنے جیسی ہے۔ ایک فہرست ’مرکزی‘ سوالات کی ہے، دوسری سائنسی سوالات کی ہے، اور بیچارے علم الکلام پر صرف ایک ہی سوال ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان سوالات کی اہمیت سے انکار نہیں، اور تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ وہی سوالات ہیں جو استعماری جدیدیت کی آمد کے بعد سے اسلامی روایت اور تہذیب پر مسلسل اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ ان سوالات کے اہم، بنیادی اور جواب طلب ہونے سے انکار ہٹ دھرمی ہو گی۔ لیکن ان سوالات کے تہذیبی سیاق و سباق کو منہا کرنا استشراقی تتبع میں مدرسہ ڈسکورسز کی بنیادی پالیسی ہے۔ ان سوالات کو دیکھ کر یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی حیثیت ٹانگے میں جتے گھوڑے کی آنکھوں پر چڑھے نیم کھوپوں جیسی ہے جو گھوڑے کے احاطۂ بصارت (field of vision) اور مقصدِ بصارت کو متعین کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گھوڑے کی بصارت کام نہیں کر رہی، اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی بصارت پورا کام کر رہی ہے۔ ان نیم کھوپوں کا مقصد یہ ہے کہ گھوڑے کی بصارت اس کے اپنے لیے نہیں بلکہ تانگے کے لیے کام کرے۔ مدرسہ ڈسکورسز کے شرکا کے تجرباتی مکشوفات پڑھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ محدد بصارت کیسے کام کرتی ہے، اور نوٹرے ڈیم والوں کی بصیرت کس قدر گہری ہے۔ ڈسکورس کا مطلب حریت شعور میں کی گئی علمی سرگرمی نہیں ہوتا۔ ڈسکورس کا مطلب طاقت اور سرمائے کی تحدیدات اور اہداف پر کی گئی علمی سرگرمی ہے۔ ڈسکورس اصلاً ایسے ہی مبحث اور مکالمے کا نام ہے جو سیاسی طاقت کی فوری ضروریات کے تحت، اسی کے معاشی وسائل سے، اسی کے طے کردہ یک طرفہ تفتیشی سوالات پر، اسی کی زیر نگاہ واقع ہوتا ہے اور شام کو رپورٹ داخل کرانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ جناب ابراہیم موسیٰ نے جو رپورٹ داخل کرائی ہے، وہ بہت حوصلہ افزا ہے۔ لیکن کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ جناب ابراہیم موسیٰ کے لیے رپورٹ داخل کرانا کیوں ضروری ہے؟ اس لیے کہ علم ’دفتری‘ کام بن جائے تو رپورٹ داخل کرانا ضروری ہوتا ہے۔ ’دفتر‘ جدید طاقت کی تشکیل ہی کا ایک نام ہے، اور ہر ’دفتری‘ چیز طاقت اور سرمائے کی حرکیات کا حصہ ہوتی ہے۔
مدرسہ ڈسکورسز کے سوالات جس تہذیبی interface پر اٹھائے گئے ہیں، اس پر دو امور پہلے سے طے شدہ ہیں۔ ایک یہ کہ سوالات کی نوعیت ایسی ہو جو مباحث یا ڈسکورسز میں ڈھلتے ہی طالب علم کی انفرادی، فکری اور تہذیبی صورت حال کی normalization کو ممکن بنا دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی تہذیب، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو متداول اور غالب فکری موقف رکھتی ہے، اس کو علمی طور پر نہ صرف مسلمانوں کے لیے قابل قبول بنا دیا جائے اور اسلام کی تعبیر میں بھی فیصلہ کن عامل کی حیثیت دے دی جائے، بلکہ مسلمان اسے واحد علم سمجھ کر اس کے فروغ کا کام بھی اپنے ذمہ لے لیں۔ دوم یہ کہ سوالات کی نوعیت ایسی ہو جس میں جدیدیت کی حیثیت normative ہو، اور وہ خود مرکزی تو خیر کیا، ضمنی سوالات کا موضوع بھی نہ ہو۔ چونکہ مقصود اسلامی جدیدیت کی تشکیل ہے، اس لیے جدیدیت کو علمی معروف اور حق کا معرف تسلیم کرنے کے بعد سوالات اسلام پر ہی اٹھائے جا سکتے ہیں۔ غلبے کا مطلب یہ ہے کہ جدیدیت، عمل میں مستحکم ہے لیکن غلبے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جدیدیت اپنے عملی استحکام کی طرح کوئی فکری استحکام بھی رکھتی ہے۔ جدیدیت اور اس کی پیدا کردہ تہذیب پر سوالات کو مدرسہ ڈسکورسز میں شامل نہ کرنا ایجنڈے کے تحت ہے۔ اس صورت حال کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے متجددین کے ہاتھوں میں اب کوئی کشکول بھی نہیں رہا تھا، اس لیے “مدرسہ ڈسکورسز” کا درآمد شدہ کشکول بھی ان کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا ہے۔
مدرسہ ڈسکورسز کے تہذیبی پس منظر کے حوالے سے ایک دو باتیں عرض کرنا ضروری ہے۔ گزارش ہے کہ ہمارے لیے اٹھارھویں صدی کایاکلپ کی صدی ہے جس میں زوال، تہذیبی خلفشار اور استعمار نے مسلم معاشروں کو اپنی گرفت میں لینا شروع کیا۔ یہ ایک طویل عمل تھا جس کے بیسیوں پہلوؤں کو دیکھنا ضروری ہے، لیکن اس میں تین پہلو زیادہ اہم ہیں:
(الف) مخاصمانہ بدلتے ہوئے حالات کے دباؤ میں دینی روایت اور ہدایت کی معنویت ازسر نو “سمجھنے” کا آغاز ہوا، اور اس میں داخلی اور خارجی دونوں طرح کے اہلِ علم شامل تھے۔ داخلی طور پر اس سرگرمی کے سب سے بڑے اور اولین نمائندے حضرت شاہ ولی اللہؒ ہیں۔ دین کو “سمجھنے” کی علمی سرگرمی کا فوری نتیجہ ہمارے ہاں حنفی وہابی کے شدید مناقشے کی صورت میں سامنے آیا، اور سنہ ۱۸۵۷۸ء کی جنگ آزادی کے بعد دین کو “سمجھنے” کا عمل مناقشے اور فرقہ واریت کا ایک مستقل سیلاب بن کر مسلم شعور اور معاشرے پر مسلط ہو گیا۔ انیسیویں صدی کے اوائل سے اہلِ استعمار بھی استشراق اور دیگر کئی عنوانات سے اس سرگرمی میں شریک ہو گئے۔ اس داخلی اور خارجی علمی سرگرمی کا بنیادی سوال یہ تھا کہ “اسلام کیا ہے؟” مسلم معاشرہ “سمجھنے” کے کام میں ایسا جتا کہ ہدایت کی بدیہی معلومیت اور اس کے دوٹوک مطالبات طاق نسیاں میں پڑے گرد ہو گئے۔ “سمجھنے” کے عمل نے دینی اور دنیوی طور پر ہمیں جہاں پہنچا دیا ہے اب تو ہمیں اس کی بھی کوئی “سمجھ” نہیں آتی۔ ہماری موجودہ صورت حال میں گزشتہ دو سو سالہ حاصلاتِ فہم کا براہ راست دخل ہے، اور یہ عجیب تر ہے کہ ہم شرمندہ ہونے کی بجائے ان پر فخر کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ “سمجھنے (understanding) ” کی سرگرمی میں فیصلہ کن عامل تاریخ ہوتی ہے، اور “سمجھنے” کے عمل میں ماورائے تاریخ کوئی عنصر باقی نہیں رہ سکتا۔ “سمجھنے” کی سرگرمی ایمانی محتویات کو historicize اور positivize کرنے اور انسانی شعور کی شرائطِ تاریخ پر تشکیل کا نام ہے۔ ہمارے ہاں “سمجھنے” کی سرگرمی زیادہ تر ایمانیات اور سیاسیات کے دو موضوعات پر مرتکز رہی ہے۔ داخلی اور خارجی طور پر “سمجھنے” کی اس سرگرمی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سوائے عبادات کے کسی بھی شعبے میں اسلام کی کوئی تہذیبی معنویت باقی نہیں رہی، اور یہ ایک ذاتی اور موضوعی (subjective) فہم کے طور پر یقیناً باقی ہے۔ انتشار کی اس صورت حال میں مدرسہ ڈسکورسز اسلام کی مغرب پسند کسری تفہیمات کو ایک تہذیبی معنویت دینے کا منصوبہ ہے۔
(ب) ہماری گزشتہ دو سو سالہ علمی تاریخ میں ایک سوال غیر حاضر ہے کہ جن داخلی اور خارجی تاریخی حالات میں “اسلام کیا ہے؟” کا سوال پیدا ہوا ہے، وہ کیا ہیں؟ داخلی حالات میں زوال کی “فہم” ضروری تھی، اور وہ “فہم” آج تک چند ایک تقدیری اور اخلاقی بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ زوال سے پیدا شدہ اختلالِ حواس میں ہم نے یہ بھی فرض کر لیا تھا کہ دین کا درست “فہم” کھو گیا ہے، اور اسی باعث دین سے وابستگی میں کمزوری در آئی ہے، اور دین سے کمزور وابستگی ہمارے زوال کا سبب ہے۔ “فہم دین” کے کارخانے ایسے چلے کہ اب ان کا خام مال ہی نایاب ہو گیا ہے۔ ہر چیز “فہم” کی چھاننی سے گزر کر دھول بن چکی۔ “فہم” کی گرم بازاری کے باوجود ہم یہ نہ “سمجھ” سکے کہ زوال کوئی مذہبی مسئلہ نہیں، بلکہ تہذیبی اور تاریخی مسئلہ ہے اور دنیا کی ہر تہذیب کو درپیش رہا ہے، اور اسے انہی شرائط پر دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
خارجی حالات میں اہم سوال یہ تھا کہ “جدیدیت اپنی فکر میں اور اپنے عمل میں کیا ہے؟” “جدید علوم” کے زیرعنوان کسی حد تک اس موضوع پر گفتگو کی کوشش ہوئی ہے، لیکن وہ محض مضحکہ خیز ہے، اور یہ صورت حال آج تک چلی آتی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اکبر الہ آبادیؒ نے “جدیدیت بطور استعماری کلچر” کو اور اقبالؒ نے “مغرب بطور تہذیبی فکر” کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور دونوں اصلاً جدیدیت ہی کے سوال کو ایڈریس کر رہے ہیں۔ لیکن دونوں نے ثقہ علمی روایت کی عدم موجودگی میں شاعری کو بطور ٹول استعمال کیا۔ افسوس کہ اپنی روایت کو “سمجھنے” کے عمل میں جو علوم پیدا ہوئے، وہ اس قدر ردی اور جعلی تھے کہ ان میں مدرسہ ڈسکورسز کی طرح کوئی نیوٹرل علمی سوال جگہ ہی نہیں پا سکتا تھا، اور سوالات صرف اسلام پر اٹھائے جا سکتے تھے۔ سیاسی غلامی میں پیدا ہونے والے ہمارے داخلی علوم جدیدیت کے کسی بھی نظری اور عملی پہلو پر سوالات کی ذرہ بھر گنجائش بھی پیدا نہ کر سکے۔ حیرت ہے کہ تاریخی تجربے کی بدیہیات بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ مدرسہ ڈسکورسز ہمارے تہذیبی انتشار کی اس صورت حال میں مغرب کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانےکا نیا عنوان ہے۔ مضمون وہی پرانا ہے۔
(ج) جدید علوم تاریخ کو صرف سلسلۂ واقعات کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ اس کی ایک نظری اور تعبیری معنویت کو سامنے لاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں گزشتہ دو سو سال میں تاریخ کی تبدیلی کا ادراک بدیہی اور چند ایک پست اور زیادہ تر غیرمتعلق اخلاقی قضایا تک محدود ہے۔ تاریخ کا بدیہی اور پست اخلاقی ادراک ہمارے مذہبی متون کی تعبیر میں اصول اول کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز اس صورت حال کو منضبط کرنے اور مذہبی متون کو جدید تاریخی مؤثرات کے تابع کر دینے کا منصوبہ ہے تاکہ ہدایت کی خودمختار حیثیت کو عملاً ختم کیا جا سکے۔
گزارش ہے کہ جدیدیت اور اسلام کے حوالے سے مندرجہ ذیل سوالات کو زیربحث لانا ضروری ہے:
۱۔ کیا اسلام اور جدیدیت اپنے اساسی بیانات میں باہم متفق ہیں؟ اگر ’’ہاں‘‘ تو اس اتفاق کی تفصیل کیا ہے؟ اور اگر ’’نہیں‘‘ تو تضاد اور تخالف کی نوعیت کیا ہے؟
۲۔ شعورِ انسانی، حیاتِ انسانی اور کائنات کے آغاز و انجام کے انتہائی اساسی موقف میں جدیدیت اور اسلام بالکل متضاد اور باہم یک نگر (mutually exclusive) موقف رکھتے ہیں۔ اسلامی جدیدیت کی تشکیل میں ان کو نظر انداز کرنے کے مقاصد کیا ہیں؟
۳۔ تہذیبوں اور معاشروں میں تعامل اور لین دین تاریخی معمول رہا ہے۔ لیکن کوئی تہذیب اپنے اساسی تصورات دوسری تہذیب سے مستعار نہیں لیتی۔ موجودہ صورت حال میں جدیدیت ایک عالمگیر تہذیب بن چکی ہے، اور روایتی تہذیبیں اپنی بچی کچی فکر اور ہیئتوں کے ساتھ جدیدیت کی بنائی ہوئی دنیا میں بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ جدیدیت کی عالمگیریت کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اب کوئی تہذیب اپنے اساسی اصولوں پر بھی باقی نہیں رہ سکتی۔ اس کی بڑی مثال جدید چین ہے جس کے اساسی تہذیبی اصول بھی جدیدیت سے حاصل ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے اسلام کو اپنی اساسِ تہذیب کے طور پر باقی رکھنا ہے یا جدیدیت کو اپنی مکمل تہذیبی اساس کے طور پر اختیار کرنا ہے؟ مدرسہ ڈسکورسز کے زیراہتمام اسلامی جدیدیت کا منصوبہ اسلام کو تہذیبی اساس کے طور پر ختم کرنے کا منصوبہ ہے۔ کیا ہم اسلام سے رستگاری (emancipation) کا شعوری فیصلہ کر چکے ہیں؟
۴۔ اس بات کا امکان ہے کہ متجددین مغربی جدیدیت کے ہمارے بیان کو نادرست سمجھتے ہوں اور یہ الزام رکھتے ہوں کہ ہم جدیدیت کی طرف غلط موقف منسوب کرتے ہیں۔ لیکن رستگاری (emancipation) اور عقلِ خود مختار مغربی جدیدیت کے لاینفک اجزا ہیں۔ ان دو تصورات کو اسلامی جدیدیت میں کن اصولوں کے تحت شامل کیا گیا ہے اور وہ اصول کیا ہیں؟
۵۔ جدیدیت اور تحریک تنویر کی رستگاری (emancipation) ارادی ہے، اور یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ یہ رستگاری کس چیز سے ہے۔ ارادی ہونے سے ظاہر ہے کہ یہ اپنے موقف کے علمی دلائل نہیں رکھتی، اور تمام علمی تشکیلات اور استدلالات اس بنیادی مفروضے تک پہنچاتے نہیں ہیں، اس سے پھوٹتے ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز کی اسلامی جدیدیت ان مبادیات کو problematize کرنے کے کیا فکری وسائل رکھتی ہے؟
۶۔ جدیدیت کی پوری نظری اور عملی تشکیل میں حق نامعلوم ہے، اور اعمال صالحہ غیرمطلوب ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز کی اسلامی جدیدیت کا فکری شجرہ نسب کیا ہے؟
۷۔ مدرسہ ڈسکورسز کے شرکا استعمار اور استشراق پر بھی کوئی موقف رکھتے ہیں یا نہیں، اور اس کے منابع کیا ہیں؟
۸۔ جیسا کہ معلوم و معروف ہے، مسیحی اور یہودی مذاہب کی نئی تشکیلات جدیدیت کی شرائط پر سامنے لائی گئی ہیں، اور عین وہی مقاصد اسلامی جدیدیت کے ذریعے حاصل کرنا مقصود ہے۔ اسلامی جدیدیت کی تشکیل پر روانہ ہونے سے پہلے، کیا مدرسہ ڈسکورسز کے شرکا ان مذہبی جدیدیتوں کے نتائج مسلمانوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں؟
۹۔ اگر مدرسہ ڈسکورسز ایک علمی سرگرمی ہے اور سیاسی منصوبہ نہیں ہے تو سوالات صرف اسلام پر ہی کیوں اٹھائے جا رہے ہیں؟ اور جدیدیت کو ایک norm کے طور پر کیوں متعارف کرایا جا رہا ہے؟ جدیدیت کو ایک historical norm سے ترفع دے کر ایک ontological norm کا درجہ دینا علمی دیانت کے منافی ہے۔
سوالات کی یہ فہرست ظاہر ہے کہ غیر حتمی ہے، اور مدرسہ ڈسکورسز کی اسلامی جدیدیت کی علمی منہج اور تہذیبی مقصد پر علمی ضرورت کے تحت مزید جائز سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
گزارش ہے کہ مذہب اور جدیدیت کے مابین مباحث میں علم الکلام کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے۔ کئی حلقوں میں جدید علم الکلام کی تشکیل کی ضرورت اور نئے کلامی منصوبوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ معتزلہ، اشاعرہ وغیرہ کے اکا دکا غیر سیاقی حوالے بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ متجددین اسلامی جدیدیت کی تشکیل، مذہب کو دی جانے والی رنگ برنگی تعبیری لگاموں اور مذہب کے محاصرے کے لیے نظری اور سائنسی علوم کی deployment کو بھی “جدید علم الکلام” قرار دیتے ہیں۔ اکثر مخلص اہل مذہب بھی اس شوق میں ہیں کہ موجودہ صورت حال میں ایک نئے علم الکلام کی ضرورت ہے، اور ان کی طرف سے جو نئی تعبیرات سامنے آتی ہیں وہ مسائل کو سمجھنے میں نہ صرف یہ کہ معاون نہیں ہوتیں بلکہ خلجان ذہنی میں اضافہ کرتی ہیں۔ “جدید” علم الکلام کی بات کرتے ہوئے ہمیں اپنی مطلق علمی زبوں حالی کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اگر کسی ٹھیٹھ علمی معیار پر مذہب کا دفاع کیا جائے تو تعلیم یافتہ مذہبی آدمی کو بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ بات مذہب کے خلاف ہو رہی ہے یا مذہب کے حق میں؟ ایسی صورت حال میں مدرسہ ڈسکورسز نے چند ایک بنیادی باتوں کے ارادی اغماض سے، اور علم الکلام کی مجرد ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے نہایت چالاکی سے اس تصور کو appropriate کیا ہے تاکہ داخلی وسائل کو بھی مذہب اور روایت کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ “جدید” علم الکلام کی بحث میں مندرجہ ذیل پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے:
(۱) کلاسیکل اور جدید علم الکلام کے تہذیبی پس منظر کو نظرانداز کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔ سیاسی طاقت کی حاضر و موجود صورتِ حال علمی سرگرمی پر لازماً اثرانداز ہوتی ہے۔ کلاسیکل علم الکلام دورِ عروج میں سامنے آنے والے ایک بڑے چیلنج کا جواب (response) تھا۔ دورِ زوال میں شکست خورہ معاشرہ جواب (response) کے امکانات سے خالی ہوتا ہے کیونکہ علم اور عمل کی صرف دو صورتیں، یعنی مداہنت یا مزاحمت ہی ممکن ہوتی ہیں۔ جدید علم الکلام دورِ زوال میں سامنے آنے والی مداہنت ہے، اور شکست کی علمی تشکیل ہے۔
(۲) جدید علم الکلام میں ’تاریخ‘ ایک تعبیری ترکیب ( hermeneutical device) ہے جس کا براہ راست مقصد مذہب اور روایت کو ادھیڑنا ہے، اور زمانی مؤثرات کے تابع کرنا ہے۔
(۳) کلاسیکل علم الکلام مذہب کی روایتی شناخت اور ساخت کو باقی رکھنے کی مستقل اور بھرپور کوشش تھی۔ کلاسیکل علم الکلام، یونانی فلسفیانہ علوم میں مذہب مخالف عناصر کا بہت گہرا تہذیبی شعور سامنے لایا تھا، مثلاً علم اور وحی کے مابین وحی کی اولیت و حاکمیت، عقل کے مواقف، شعور اور وجود کی فکری نسبتیں، عقیدے کو نظری بنانے کا رد اور اس کے جوابات (responses)، یونانی علوم کی تعبیری تزویرات کا رد، یونانی تہذیب اور اس کے فلسفیانہ علوم کو norm تسلیم کرنے سے انکار وغیرہ۔ جدید علم الکلام تہذیبی سطح پر علمی مکالمے کی بنیادی شرائط ہی سے ناواقف ہے، اور استعماری جدیدیت کے علمی معروفات کو مذہب پر لادتے چلے جانے کا نام ہے۔ مثلاً تاریخیت (historicism) ہی کو لیجیے۔ جدید علم الکلام اس پر کوئی سوال اٹھانے کی حمیت اور سکت نہیں رکھتا، بلکہ یہ اس کے معروفات کو تعبیری عجلت میں مذہب پر وارد کرنے کو ہی علمی سرگرمی خیال کرتا ہے۔
(۴) زوال تہذیبی ادراک کے دھندلانے اور اجتماعی عمل کے غیرنتیجہ خیز ہونے کی حالت ہے، یعنی زوال اجتماعی شعور اور اجتماعی عمل کی ایک خاص صورت حال کا نام ہے، اور جو ناگزیر طور پر شکست میں ظاہر ہوتی ہے۔ زوال بیک آن تاریخ کا سیاسی کھلونا بننے اور اپنے بنیادی متون کو تعبیری بازیچہ بنانے کی حالت ہے۔ ایسی تہذیبی فضا میں شعور ایک نابینا کی طرح غیر تہذیب سے عینیت کا راستہ ٹٹولتا ہے، اور اجتماعی عمل تطبیق کی ڈگمگاہٹ اختیار کرتا ہے۔ ہماری گزشتہ دو سو سالہ تاریخ کے یہ بنیادی مظاہر ہیں۔ جدید علم الکلام کی علمی منہج عینیت کی شرط پر تشکیل پائی ہے اور عملی منہج تطبیق کے اصول پر۔ مدرسہ ڈسکورسز اسی صورت حال کی formalization ہے۔ جدید علم الکلام کی کل رسومیات عینیت اور تطبیق ہے۔
(۵) ہمارے ہاں احیا اور نشاۃ الثانیہ وغیرہ کی تمام تر لغویات تہذیبی شکست کے عدم ادراک سے پیدا ہوئی ہیں۔ شکست کا تہذیبی ادراک مزاحمت پیدا کرتا ہے۔ دور زوال میں ہمارے ہاں تاریخ کا ادراک صرف “عروج کے کھو جانے” کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ “عروج چلا گیا”، ہم یہ نہیں کہتے کہ “شکست ہو گئی”۔ ہمارے ہاں “عروج کے خاتمے” کا معنی “تہذیبی شکست” نہیں ہے۔ اس کھوٹے ادراک سے ایک تہذیبی ناسٹیلجیا (nostalgia) پیدا ہوا جس نے ہمارے شعور و عمل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہم جلد ہی احیا و نشاۃ الثانیہ کی لغویات کے طومار میں ڈوب گئے۔ تہذیبی ناسٹیلجیا جمالیاتی تخیل کے اظہار کا جائز دائرہ ہے، لیکن یہ کسی علمی تشکیل کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ ہمارے متداول علوم کے جعلی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ وہ اس ناسٹیلجیا سے پیدا ہوئے ہیں، اور تاریخ کو دیکھنے کی آنکھوں سے ہی محروم ہیں۔ ہمارے اختلال کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہو سکتی کہ تہذیبی ناسٹیلجیا کے جمالیاتی مظاہر کو قابل مذمت سمجھتے ہیں، اور ان احوال میں پیداشدہ ہفواتِ علم پر فخر کرتے ہیں۔ شکست کا تہذیبی ادراک حمیتِ شعور اور مزاحمتِ عمل کو باقی رکھتا ہے۔ جدید علم الکلام اسی ناسٹیلجیا کا اظہار ہے اور علمی فریب کاری سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ شکست کا سامنا کرنے کا مذہبی اصول جہاد ہے، جسے علم اور عمل میں ایک ایسی تہذیبی مزاحمت کے طور پر سامنے لانے کی ضرورت ہے جس میں معاشرہ اور حکومت دونوں ایک ساتھ شریک ہوں۔
(۶) متجددین اور اسلامی جدیدیت کی منہجِ علم نے استشراق سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ دنیا کی کوئی علمی روایت داخلی تضادات سے خالی نہیں ہوتی، اور یہ کبھی اساسی نہیں ہوتے۔ یعنی جدلیات علم اور فکر میں جاری ہوتی ہے، ہدایت/اساسی ورلڈ ویو میں نہیں۔ تہذیب اور روایت کی داخلی جدلیات کا اصلی مقصود متفق علیہ ہدایت/ورلڈ ویو کو علم میں سامنے لانا ہوتا ہے۔ استشراق نے اسلامی تہذیب کی داخلی علمی اور نظری جدلیات کو ہدایت تک توسیع دینے کا کام کیا ہے، اور اسلامی جدیدیت نے اسی علمی اصول اور منہج کو اختیار کیا ہے۔ اسلامی جدیدیت نظری علم کی جدلیات کو ہدایت تک پھیلا کر اس میں نقب لگانے کا کام کرتی ہے، اور اس وقت بیسیوں اہل علم اسی کام میں جتے ہوئے ہیں۔ ”جدید علم الکلام“ استشراق کے بدترین چربے کے علاوہ کچھ نہیں۔
(۷) ہمارے نزدیک جدیدیت یا مغرب کی درست تفہیم ایک جائز اور ضروری تہذیبی مقصد ہے، اور اس میں جدیدیت یا مغرب کی ’حقیقت‘ اور ’واقعیت‘ دونوں شامل ہیں۔ یہ ایک علمی مقصد ہے جو عمل کے لیے یقینی مضمرات رکھتا ہے، اور شعور کی حریت کے بغیر ناقابل حصول ہے۔ اس علمی کوشش کے ذرائع و آلات (tools) معروف ہیں اور بآسانی دستیاب ہیں، اور جو فراہم نہیں ہیں انہیں تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں مغرب یا جدیدیت سے غلط باتیں منسوب کرنا حصولِ مقصد میں رکاوٹ اور نہایت قابل مذمت ہے۔ یہ اپروچ خود ہمارے لیے مہلک ہے، اور مغرب کے غلبے اور مذہب کے خاتمے کو ایک امر واقعہ بنا دیتی ہے۔
یہ واضح رہے کہ جدیدیت شعور میں ارادی ہے، اور عمل میں تقدیری ہے۔ اور جدیدیت کو دیکھنے کے مذہبی تناظر دو ہیں: ایمان اور عمل صالح۔ جدیدیت کے حق و باطل ہونے کا فیصلہ ایمانی تناظر سے مشروط ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جدیدیت اپنے کل اور جزو میں باطل ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایمانی تناظر میں جدیدیت کا اساسی ورلڈ ویو قطعی باطل ہے۔ اور جزو میں باطل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جدیدیت عمل کی ایک غیرمعمولی تقویم کی حامل ہے، لیکن وہ قطعی عمل صالح نہیں ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے احباب فوراً مغربی معاشرے میں خیر کے مظاہر کی ہچکیانہ دلیل لائیں گے۔ یہ محض التباس ہے کیونکہ وہ اس ’عمل خیر‘ کی وجودیات سے بےخبر ہیں۔ عصر حاضر میں عمل صالح کی بازیافت جدیدیت کے تقدیری پہلوؤں کی تنقیح کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے، اور اس پر گفتگو کا یہ محل نہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہم نے علم و عمل کا جو توشہ عصر حاضر کے سامنے پیش کیا ہے، وہ محض شرمناک ہے۔ اقبالؒ نے شاید ایسے ہی کسی لمحے کی برافروختگی میں فرمایا ہو گا:
زمانہ اپنے حوادث چھپا نہیں سکتا
تیرا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی
نوٹ: افسوس کہ بوجوہ مدرسہ ڈسکورسز کے کئی اہم پہلوؤں پر گفتگو نہ کر سکا۔ اس میں بہت اہم مدرسہ ڈسکورسز کی ہینڈ بک میں دیے گئے ’دیسی‘ اور ’غیردیسی‘ شرکا کے تاثرات کا تجزیہ ہے۔ دیانتدارانہ متنی تجزیہ اس میں آباد جہانِ معنی کو کھول سکتا ہے۔ یہ تاثرات علمی سرگرمی میں اکثر کارفرما dissonance of perceptions کو سمجھنے کا وقیع ذریعہ ہیں۔ پھر تاریخیت کو ایک تعبیری ترکیب (hermeneutical device) کے طور جس طرح مدرسہ ڈسکورسز میں سامنے لایا گیا ہے، اس کا تجزیہ وقت کی ضرورت ہے۔ ہمارے متجددین نہایت نادان اور ادرک کی ایک گانٹھ کے پنساری ہیں۔ اصل پنساری ڈاکٹر فضل الرحمٰن ہیں، اور وہ ہمارے متجددین کی مانند جعلساز نہیں ہیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے فکری منصوبے کے طور پر مدرسہ ڈسکورسز کا تجزیہ تفصیل سے ضروری ہے۔ مزید یہ کہ مدرسہ ڈسکورسز روایت کے جس تصور پر کھڑا ہے اس کا تجزیہ اپنی جگہ اہم ہے۔ مجھے امید ہے کہ اہل علم ان اہم علمی پہلوؤں کی طرف ضرور التفات فرمائیں گے۔و اللہ اعلم بالصواب
اس بحث میں قرآن مجید کے ظاہری عموم کی دلالت کے حوالے سے ابن حزم کے رجحان کو سمجھنا بھی بہت اہم ہے۔ امام طحاوی کے زاویۂ نگاہ پر گفتگو کرتے ہوئے ہم نے ان کا یہ رجحان واضح کیا ہے کہ وہ احادیث کی روشنی میں کتاب اللہ کے ظاہری مفہوم کی تاویل نہیں کرتے اور آیات کو احادیث میں وارد توضیح یا تفصیل پر محمول کرنے کے بجاے کتاب اللہ کے ظاہر کی دلالت کو علیٰ حالہ قائم رکھتے ہیں، جب کہ احادیث کو ایک الگ اور قرآن سے زائد حکم کا بیان قرار دیتے یا اگر ناگزیر ہو تو نسخ پر محمول کرتے ہیں۔ اس نوعیت کا رجحان ابن حزم کے ہاں بھی بہت نمایاں طورپر دکھائی دیتا ہے، چنانچہ وہ اصولاً یہ ماننے کے باوجود کہ کسی دوسری نص یا یقینی اجماع سے یہ واضح ہو جانے پر کہ نص کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے، اسے ترک کیا جا سکتا ہے، عملاًبہت سی مثالوں میں نص کے ظاہری مفہوم کے مراد ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور تاویل کے ذریعے سے اسے ظاہری مفہوم سے صرف کرنے یا اس کی غیر متبادر توجیہ کرنے کو درست نہیں سمجھتے، حالانکہ دوسری نص کی صورت میں اس کی بنیاد موجود ہوتی ہے۔ (احکام الاحکام ۳/۴۱)
اس رجحان کے تحت ابن حزم نے کئی اہم مثالوں میں قرآن کو اس کے ظاہری مفہوم سے صرف کر کے حدیث میں وارد حکم پر محمول کر نے کے نکتے پر امام شافعی اور جمہور فقہا سے اختلاف کیا ہے۔ مثلاً وہ امام شافعی اور بعض اصولیین کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں ’اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ ‘ (النور ۲۴ : ۲) سے مراد صرف غیر شادی شدہ زانی ہیں، اور الفاظ کے بظاہر عام ہونے کے باوجود ان کی حقیقی مراد حدیث سے واضح ہوتی ہے جس میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا بیان کی گئی ہے۔ ابن حزم اس راے پر سخت تنقید کرتے ہیں اور قرار دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں زانی کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی، اس لیے یہ حکم تمام زانیوں کے لیے عام ہے اور شادی شدہ زانی بھی کوڑوں کی سزا کے حق دار ہیں۔ (احکام الاحکام ۴/۱۱۲) جہاں تک شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا تعلق ہے تو وہ ایک الگ اور زائد حکم ہے جس کی وضاحت دوسری نص میں کی گئی ہے اور یوں ایسے زانی کا حکم، ابن حزم کے اصول کے مطابق، دونوں نصوص کو ملا کر متعین کیا جائے گا۔ گویا اس کی سزا کا ایک حصہ، جو ہر طرح کے زانیوں کی مشترک سزا ہے، قرآن نے بیان کیا ہے، جب کہ اس کے علاوہ رجم کی زائد سزا حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
اسی طرح وہ امام شافعی کی اس رائے سے متفق نہیں کہ قرآن مجید میں اگرچہ ’ذِي الْقُرْبٰي ‘ (الانفال ۸: ۴۱) کی تعبیر عام ہے، لیکن حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے مراد صرف بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب ہیں۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ ذی القربیٰ کے مفہوم میں یہ تخصیص قرآن کو اس کے ظاہر سے صرف کرنا ہے جو درست نہیں، اس لیے ذی القربیٰ سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت داری تھی اور آیت کے الفاظ اپنے ظاہری عموم کے لحاظ سے ان سب کو شامل ہیں (احکام الاحکام ۳/۱۲۸)۔
نص کے ظاہری مفہوم میں تاویل نہ کرنے کے اصول کے تحت ابن حزم آیت وضو کی تفسیر میں بھی جمہور فقہا سے اختلاف اور اس پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ جمہور فقہا ’وَاَرْجُلَكُمْ اِلَي الْكَعْبَيْنِ ‘ (المائدہ ۵ : ۶) کو قریبی عامل یعنی ’وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ ‘ کا معمول ماننے کے بجاے ’فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ ‘ سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ ابن حزم کے نزدیک یہ تاویل جملے کی ترکیب اور الفاظ کی ظاہری دلالت کے بالکل خلاف ہے، چنانچہ وہ سنت میں پاؤں کو دھونے کے حکم کو اس آیت کی تفسیر کے بجاے اس کا ناسخ قرار دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں :
’’سنت نے قرآن کے جو احکام منسوخ کیے ہیں، ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ اپنے سروں پر اور ٹخنوں تک اپنے پاؤں پر مسح کرو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ’اَرْجُلَكُمْ‘کو زیر کے ساتھ پڑھا جائے یا زبر کے ساتھ، دونوں صورتوں میں وہ بہرحال سر کا مسح کرنے کے حکم پر ہی معطوف ہو سکتا ہے، کیونکہ معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان ایک ایسا جملہ لانا جس سے معطوف علیہ کا تعلق نہ ہو، جائز نہیں، بلکہ بات کو الجھانے، تلبیس پیدا کرنے اور بھٹکانے کا طریقہ ہے نہ کہ بات کو واضح کرنے کا۔ تم ہرگز یوں نہیں کہہ سکتے کہ ’ضربت محمدا وزیدا ومررت بخالد وعمرا‘جب کہ تمھاری مراد یہ ہو کہ تم نے (محمد اور زید کے ساتھ) عمرو کو بھی مارا۔ چنانچہ جب سنت میں پاؤں کو دھونے کا حکم وارد ہوا تو معلوم ہو گیا کہ پاؤں پر مسح کرنے کا حکم منسوخ کر دیا گیا ہے۔‘‘
صفا ومروہ کی سعی کے وجوب کے شرعی ماخذ کی تعیین میں ابن حزم کا نقطۂ نظر امام طحاوی سے ہم آہنگ ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت ’فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِھِمَا‘ (البقرہ ۲: ۱۵۸) سے اس کا وجوب ثابت نہیں ہوتا اور الفاظ اس استدلال کے ہرگز متحمل نہیں ہیں۔ سعی کے وجوب کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے جو ابو موسیٰ اشعری نے روایت کی ہے اور اگر یہ حدیث نہ ہوتی تو حج یا عمرے میں سعی کو فرض قرار دینا ممکن نہ ہوتا (احکام الاحکام ۳/۳۸)۔
حالت امن میں نماز قصر کرنے کی رخصت کی توجیہ میں بھی ابن حزم کی راے امام طحاوی کی راے سے متفق ہے۔ چنانچہ وہ قرآن میں ’اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘ (النساء ۴ : ۱۰۱) کی قید کو اتفاقی قرار نہیں دیتے، بلکہ مقصود سمجھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں یہ رخصت واقعتاً اسی شرط کے ساتھ دی گئی تھی۔ تاہم بعد میں ایک مستقل حکم کے ذریعے سے، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے علاوہ نازل ہونے والی وحی میں بتایا گیا، اس شرط کو ختم کر کے رخصت کی توسیع ہر طرح کے سفر تک کر دی گئی۔ سیدنا عمر کو چونکہ اس نئے حکم کا علم نہیں تھا، اس لیے انھیں اشکال ہوا اور ان کے دریافت کرنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک صدقہ ہے، اسے قبول کرو (احکام الاحکام ۷/۱۹) ۔
حاملہ بیوہ کی عدت کے مسئلے میں بھی ابن حزم نے اسی رجحان کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ وہ جمہور فقہا کے اس استدلال سے اتفاق نہیں کرتے کہ سورۂ طلاق میں ’وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ ‘ (۶۵: ۴) کی آیت ہر طرح کی حاملہ کے لیے عام ہے اور اس نے سورۂ بقرہ (۲: ۲۳۴ ) میں بیوہ کے لیے بیان کی گئی چار ماہ دس دن کی عدت کو حاملہ کے حق میں منسوخ کر دیا ہے۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ سورۂ طلاق میں ابتدا سے آخر تک صرف مطلقہ خواتین کے احکام زیر بحث ہیں اور سورہ کی ابتدا میں ’اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ ‘ اور آیت ۶ میں ’اَسْكِنُوْھُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ ‘ کے علاوہ زیر بحث حکم سے بالکل متصل سابقہ جملے ’وَالّٰٓـِٔيْ يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَآئِكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ ‘ سے یہ بالکل واضح ہے، اس لیے اس آیت سے حاملہ کے لیے کوئی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
ابن حزم کے نزدیک حاملہ بیوہ کی عدت کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے جو آپ نے سبیعہ اسلمیہ کے واقعے میں فرمایا اور بچے کی پیدایش کو عدت کا خاتمہ قرار دیا ۔ (المحلی ۱۰/۲۹) گویا ابن حزم اسے قرآن سے زائد ایک مستقل حکم تصور کرتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے بتایا گیا۔
تاہم ابن حزم یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ بعض مثالوں میں اہل علم آیت کے ظاہر سے ایسا مفہوم مراد لے لیتے ہیں جو حقیقتاً مراد نہیں ہوتا اور اس غلط فہمی کی وجہ سے احادیث کو قرآن کے معارض سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں۔
مثلاً بعض فقہا نے ’وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْھَا وَزِيْنَۃ ‘ (النحل ۱۶: ۸) سے یہ اخذ کیا ہے کہ ان جانوروں پر صرف سواری جائز ہے اور ان کا گوشت حلال نہیں، جب کہ اس آیت میں سرے سے ان کے گوشت کے حلال ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعرض ہی نہیں کیا گیا، کیونکہ یہاں ان جانوروں کے کچھ خاص فوائد کے ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے کچھ دوسرے فوائد نہیں ہو سکتے جن کا ذکر کسی دوسری نص میں کیا گیا ہو (احکام الاحکام ۲/ ۲۴- ۲۵)۔
اسی طرح بعض فقہا قرآن مجید کی ان آیات کی بنیاد پر جن میں نکاح، طلاق یا مالی لین دین کے معاملے میں دو گواہ مقرر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، (البقرہ ۲: ۲۸۲۔ الطلاق ۶۵: ۲) اس روایت کو رد کر دیتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم پر فیصلہ کرنا بیان ہوا ہے، حالانکہ مذکورہ آیات میں اہل ایمان کو اپنے معاملات میں دو گواہ مقرر کرنے کا کہا گیا ہے، نہ کہ ان معاملات میں قاضی کے لیے فیصلہ کرنے کا کوئی طریقہ وضع کیا گیا ہے۔ گویا یہ آیات عدالت سے متعلق نہیں ہیں اور نہ ہی حاکم کو پابند کرتی ہیں کہ وہ لازماً دو گواہوں کی گواہی پر ہی فیصلہ کرے (احکام الاحکام ۸/۱۴۳)۔
قرآن مجید کی آیت ’وَاٰتُوْا حَقَّہ يَوْمَ حَصَادِہ ‘ (الانعام ۶: ۱۴۱) سے زکوٰۃ، یعنی عشر کے وجوب پر استدلال بھی ابن حزم کی راے میں اسی نوعیت کا ہے، کیونکہ اس آیت میں زکوٰۃ کا ذکر نہیں کیا گیا، بلکہ صدقہ و خیرات کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ عین فصل کی کٹائی کے دن تمام متعلقہ تفصیلات کو ملحوظ رکھتے ہوئے زکوٰۃ ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا اور دوسری دلیل یہ ہے کہ عشر کے احکام مدنی دور میں بیان کیے گئے تھے، جب کہ زیربحث آیت مکی ہے (احکام الاحکام ۸/۱۴۳)۔
ابن حزم قصاص کے قانون میں مسلمان اور غیر مسلم کے مابین مساوات کے حق میں قرآن مجید کی آیات ’النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ‘(المائدہ ۵: ۴۵) اور ’وَالْحُرُمٰتُ قِصَاص ‘(البقرہ ۲: ۱۹۴) سے استدلال کو درست نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان آیات میں مسلمانوں کے باہمی قصاص کا حکم بیان کیا گیا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ ’النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ‘ کی آیت میں قصاص کا حکم بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے قصاص کے معاف کر دینے کی ترغیب دی اور اسے گناہوں کا کفارہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح ’وَالْحُرُمٰتُ قِصَاص ‘ جس سلسلۂ بیان میں آئی ہے، اس میں بھی اہل ایمان ہی مخاطب ہیں، چنانچہ ان آیات کو عموم پر محمول کر کے ان سے غیر مسلم کے قصاص کا حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا (المحلی ۱۰ /۳۵۱)۔
مدت رضاعت کی تحدید کے مسئلے میں بھی ابن حزم نے یہ انداز استدلال اختیار کیا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں بچے کو دودھ پلانے کی مدت دو سال بیان کی گئی ہے (البقرہ ۲: ۲۳۳۔ لقمان ۳۱: ۱۴)۔ جمہور فقہا اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ وہی رضاعت موجب حرمت ہے جو بچے کی دودھ پینے کی عمر میں یعنی دو سال کے اندر ہو، اور اس کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں بیان ہوا ہے کہ دودھ چھڑوا دینے کے بعد، یعنی مدت رضاعت گزر جانے کے بعد بچے کو دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ ابن حزم لکھتے ہیں کہ پہلے ہماری راے بھی یہی تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے رضاعت کو موجب حرمت قرار دیا اور اس کے ساتھ ماؤں کو دو سال تک بچوں کو دودھ پلانے کی ترغیب دی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہی رضاعت حرمت کی موجب ہے جو اس مدت کے اندر ہو۔ تاہم غور کرنے سے واضح ہوا کہ جن نصوص میں اللہ تعالیٰ نے رضاعت کی مدت دو سال بیان کی ہے، وہاں مقصود حرمت رضاعت کا مسئلہ بیان کرنا نہیں، بلکہ ماؤں کو ترغیب دینا ہے کہ وہ دو سال تک بچوں کو دودھ پلانے کا اہتمام کریں۔ اس کا حرمت رضاعت کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں اور اسی لیے جہاں اللہ تعالیٰ نے حرمت رضاعت کا ذکر فرمایا ہے، وہاں دو سال کی قید مذکور نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم کسی زمانی قید کے ساتھ مقید نہیں (المحلی ۱۰/۲۲۔ احکام الاحکام ۳/ ۱۳۳۔ ۴/۸۷- ۸۸۔ ۷/۱۱- ۱۲)۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے جن میں دودھ چھڑانے کے بعد رضاعت کو غیر معتبر کہا گیا ہے تو ابن حزم کے نزدیک ان میں سے بعض احادیث سنداً ضعیف ہیں، جب کہ ایک حدیث یعنی ’انما الرضاعۃ من المجاعۃ‘ (دودھ پینا وہ معتبر ہے جو بھوک مٹانے کے لیے ہو) کے الفاظ سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا، کیونکہ بالغ مرد بھی اسی طرح دودھ پینے سے بھوک مٹا سکتا ہے جیسے بچہ مٹا سکتا ہے، اس لیے یہ حدیث اپنے عموم کے لحاظ سے اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بھی عمر میں پانچ دفعہ عورت کا دودھ پینے سے رضاعت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے (المحلی ۱۰/ ۲۳- ۲۴)۔
ابن حزم کا خود اپنا بیان کردہ اصول، جیسا کہ عرض کیا گیا، قرآن کی ظاہری دلالت کو برقرار رکھنے کا ہے اور بیان کردہ متعدد مثالوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امام شافعی کے اس رجحان سے اختلاف رکھتے ہیں کہ اگر احادیث میں قرآن کے ظاہری مفہوم سے مختلف کوئی بات بیان ہوئی ہو تو قرآن کی آیت کو بھی اسی مفہوم پر محمول کر لیا جائے جو حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ اس کے بجاے ابن حزم تطبیق کا ایسا طریقہ اختیا رکرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس میں قرآن کا ظاہری مفہوم اپنی جگہ برقرار رہے، جیسا کہ ’اَلزَّانِيَۃ وَالزَّانِيْ ‘،’ذِي الْقُرْبٰي‘، ’فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِھمَا ‘ اور ’اِنْ خِفْتُمْ‘کی مثالوں سے واضح ہے۔ تاہم بعض مثالوں میں ابن حزم کے ہاں ایسا زاویۂ نظر بھی دیکھنے کو ملتا ہے جو امام شافعی کے قریب تر ہے، یعنی قرآن کے الفاظ کی ایسی تفسیر کرنا جو اس کی ظاہری دلالت پر نہیں، بلکہ اصلاً احادیث پر مبنی ہے۔ اس کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں :
ابن حزم لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے ظاہر کے لحاظ سے جہاد خواتین پر بھی فرض ہے، کیونکہ وہ بھی قرآن کے جملہ احکام کی مخاطب ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ان پر فرض نہیں، بلکہ مستحب ہے (احکام الاحکام ۳/۸۱)۔
سورۂ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو پابند کیا ہے کہ وہ دوران عدت میں اپنی مطلقہ بیویوں کو سکنیٰ اور نفقہ مہیا کریں (الطلاق ۶۵ : ۶)۔ یہ حکم جس سلسلہ بیان میں آیا ہے، اس میں عموم کا اسلوب بظاہر کسی فرق کے بغیر عدت کے ان احکام کو ہر قسم کی بیویوں سے متعلق قرار دیتا ہے، چاہے انھیں طلاق رجعی دی گئی ہو یا طلاق مغلظہ۔ تاہم فاطمہ بنت قیس کے واقعے میں، جنھیں ان کے شوہر نے تیسری طلاق دے دی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نفقہ اور رہایش کا حق دار تسلیم نہیں کیا۔ ابن حزم یہاں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مذکورہ سلسلۂ بیان میں ذکر کیے گئے عدت کے احکام مطلقہ رجعیہ اور مبتوتہ دونوں کے لیے ہیں، تاہم فاطمہ بنت قیس کی حدیث اس کے معارض ہے۔ یہاں تعارض کی نوعیت ایسی نہیں کہ حدیث کے حکم کو آیت کے ساتھ ملا لیا جائے، کیونکہ دونوں بظاہر متضاد ہیں۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حدیث کو آیت کے لیے ناسخ قرار دیا جائے، تاہم ابن حزم اس صورت کو بھی یہاں قبول نہیں کرتے، کیونکہ ان کے خیال میں تطبیق کی ایک صورت ممکن ہے، اور وہ یہ کہ آیت کو صرف مطلقہ رجعیہ سے متعلق قرار دیا جائے۔ لکھتے ہیں :
’’اس بات سے خدا کی پناہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے خلاف فیصلہ کریں۔ حدیث یا تو قرآن کی ناسخ ہو سکتی ہے یا اس کے حکم کو قرآن کے ساتھ شامل کرنا ہوگا۔ یہ حکم آیت کے ساتھ شامل نہیں کیا جا سکتا اور کسی یقینی دلیل کے بغیر محض دعوے سے اسے نسخ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے یہ قول باطل ہے۔ اگر یہ حضرات کہیں کہ اللہ کی مراد صرف مطلقہ رجعیہ کا حکم بیان کرنا ہے تو ہم کہیں گے کہ تم بالکل درست کہتے ہو، ہمارا بھی یہی قول ہے اور ہماری دلیل فاطمہ بنت قیس کی حدیث ہے۔‘‘
اس مثال میں واضح طور پر ابن حزم آیت کے ظاہری عموم کو اس لیے مطلقہ رجعیہ تک محدود کر رہے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس کی روایت کا تقاضا یہی ہے۔ یہاں ابن حزم کا حدیث کو آیت کے لیے ناسخ قرار دینے سے گریز قابل فہم ہے، کیونکہ یقینی طو رپر معلوم نہیں کہ فاطمہ کا واقعہ مذکورہ آیت کے نزول سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔ یوں آیت اور حدیث میں تطبیق کی یہی صورت بچتی ہے کہ آیت کو صرف مطلقہ رجعیہ سے متعلق مانتے ہوئے مطلقہ مبتوتہ کے حکم کا ماخذ حدیث کو قرار دیا جائے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر یوم النحر کو مختلف لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ انھوں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوا لیا ہے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ کوئی تنگی نہیں۔ ابن حزم اس حدیث کی روشنی میں قرآن مجید کی ہدایت ’وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰي يَبْلُغَ الْھَدْيُ مَحِلَّہ‘ (البقرہ ۲: ۱۹۶) کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ یہاں جانور کے اپنی قربان گاہ تک پہنچنے کا مطلب اس کا ذبح ہو جانا نہیں، بلکہ ’مَحِلّ‘ یہاں ظرف زمان ہے اور مراد یہ ہے کہ جب تک جانور کی قربانی کا وقت نہ آ جائے، اپنے سر نہ منڈواؤ۔ گویا یوم النحر کے داخل ہونے سے ہی سر منڈوانا مباح ہو جاتا ہے، چاہے ابھی جانور کی قربانی نہ کی گئی ہو۔ (احکام الاحکام ۳/۳۷)
آیت حج میں ’وَلِلّٰہ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا‘ (آل عمران ۳: ۹۷) میں استطاعت کی تفسیر ابن حزم کے نزدیک یہ ہے کہ ہر وہ وسیلہ جس سے انسان حج ادا کر سکے، استطاعت میں داخل ہے۔ چنانچہ جس شخص کے پاس زاد سفر اور سواری نہ ہو، لیکن وہ جسمانی طور پر طاقت ور ہو، اس پر اور جو شخص اپاہج اور اندھا ہو، لیکن مال دار ہو اور کسی کو اپنی طرف سے حج پر بھیج سکتا ہو، اس پر یکساں حج فرض ہے اور آیت کے الفاظ کے عموم کے علاوہ بنو خثعم کی خاتون کے سوال کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (احکام الاحکام ۷/۴۰)۔ اس مثال میں ابن حزم نے امام شافعی ہی کی تفسیر کو قبول کیا ہے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ امام شافعی نیابتاً حج کی استطاعت کو آیت کے متبادر مفہوم کا حصہ نہیں سمجھتے، بلکہ اسے حدیث میں وارد تبیین کا نتیجہ تصور کرتے ہیں، جب کہ ابن حزم کے خیال میں آیت اپنی ظاہری دلالت ہی کے لحاظ سے استطاعت کی مذکورہ دونوں صورت کو شامل ہے اور حدیث محض اس ظاہری دلالت کی موید ہے۔
وراثت کی آیات میں ’مِنْۣ بَعْدِ وَصِيَّۃ يُّوْصِيْ بِھَا٘ اَوْ دَيْنٍ ‘ (النساء ۴: ۱۱) کی تفسیر ابن حزم نے یوں کی ہے کہ یہاں قرض سے مراد ہر قسم کا قرض ہے، چاہے وہ مالی قرض کی صورت میں ہو یا مرنے والے کے ذمے فرض عبادات کی صورت میں۔ یہاں ابن حزم کے پیش نظر بنیادی طور پر وہ حدیث ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرنے والے کی طرف سے حج کرنے یا روزہ رکھنے کو یہ فرما کر درست قرار دیا کہ اگر میت کی طرف سے بندوں کا قرض چکایا جا سکتا ہے تو اللہ کا قرض اس کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے (احکام الاحکام ۷/۱۰۵)۔
یہاں بھی ابن حزم آیت کی تفسیر کا طریقہ تو وہی اختیار کرتے ہیں جو امام شافعی کا ہے، لیکن اصولی طور پر امام شافعی کے انداز استدلال کو قبول نہیں کرتے، یعنی یہ نہیں کہتے کہ آیت کا ظاہری مفہوم تو یہ ہے، لیکن احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقی مراد یہ ہے۔ ابن حزم کو اصرار ہے کہ مذکورہ مثالوں میں انھوں نے آیات کا جو مفہوم بیان کیا ہے، وہی ان کا ظاہری مفہوم ہے اور کسی قسم کی تاویل پر مبنی نہیں ہے۔
آیت کو اس کے ظاہری مفہوم سے ہٹانے کی نسبتاً زیادہ دلچسپ مثال ابن حزم نے ’يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ‘ (النور ۲۴ : ۴) کی تفسیر میں پیش کی ہے۔ ابن حزم چونکہ شرعی احکام کے مبنی بر علت ہونے اور نتیجتاً قیاس کے ذریعے سے قابل تعدیہ ہونے کے قائل نہیں، اس لیے قذف کی سزا کے حوالے سے انھیں یہ الجھن درپیش ہے کہ قرآن نے اس کا ذکر صرف پاک دامن خواتین کے حوالے سے کیا ہے۔ اتفاق سے مرفوع احادیث میں بھی ایسا کوئی واقعہ روایت نہیں ہوا جس میں کسی مرد پر بدکاری کا الزام لگانے والے کو قذف کی سزا دی گئی ہو۔ چنانچہ ابن حزم کے اصول کے مطابق قذف کی سزا کا نفاذ صرف خواتین پر الزام کی صورت میں ہونا چاہیے اور چونکہ قیاس درست نہیں، اس لیے علت کی روشنی میں کسی مرد پر الزام لگائے جانے کی صورت میں یہ سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ یہ نتیجہ چونکہ بدیہی طور پر غیر معقول ہے، اس لیے ابن حزم لفظ کے ظاہری مفہوم میں اس طرح تاویل کرتے ہیں کہ اس حکم کے دائرۂ اطلاق میں مرد بھی شامل ہو جائیں، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ یہاں ’المحصنات‘ کا موصوف ’النساء‘ نہیں، بلکہ ’الفروج‘ ہے، کیونکہ اصل میں تو شرم گاہ ہی قابل حفاظت ہوتی ہے اور بدکاری کا الزام بھی شرم گاہ کے حوالے سے ہی عائد کیا جاتا ہے۔ یوں اگر ’المحصنات‘ سے مراد ’’پاک دامن عورتیں ‘‘ کے بجاے ’’پاک دامن شرم گاہیں ‘‘ ہو تو اس میں مرد بھی شامل ہو جاتے ہیں اور قیاس کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہاں بھی ابن حزم اس پرتکلف تاویل کے باوجود اصرار کرتے ہیں کہ انھوں نے آیت کا بالکل واضح اور ظاہر مفہوم مراد لیا ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تاویل نہیں کی (احکام الاحکام ۷/۸۷۔ المحلی ۱۱/۲۷۰)۔
قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث میں علامہ ابن حزم جمہور فقہا کے اس موقف سے پوری طرح متفق ہیں کہ قرآن کے ساتھ سنت میں وارد احکام کو غیر مشروط طور پر قبول کرنا لازم ہے اور ان دونوں مآخذ کا باہمی تعلق کسی بھی صور ت میں حقیقی تعارض سے عبارت نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس موقف کے حق میں امام شافعی نے قرآن اور سنت کی باہمی درجہ بندی کرنے اور قرآن کی مراد کو تبیین کے اصول پر سنت کی روشنی میں طے کرنے کا جو طرز استدلال اختیار کیا، ابن حزم اس پر مطمئن نہیں ہوئے، اور اس کے بجاے انھوں نے یہ نقطۂ نظر اختیار کیا کہ نصوص کے مابین کسی بھی حوالے سے درجہ بندی کرنا درست نہیں، بلکہ تمام شرعی نصوص کو وحی پر مبنی ہونے کی وجہ سے حکم کے اثبات اور اس کے متعلقات کی وضاحت میں یکساں درجہ دینا ضروری ہے۔ ابن حزم کا استدلال یہ ہے کہ جب ان تمام احکام کی حیثیت ایک ہی مصدر، یعنی شارع کی طرف سے دیے جانے والے احکام کی ہے تو پھر کسی بھی شرعی حکم سے متعلق وارد نصوص میں سے، چاہے وہ قرآن میں وارد ہوں یا حدیث میں، کسی خاص نص کو بنیادی اور اصل قرار دے کر یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا کہ اس کے علاوہ دیگر نصوص میں حکم کے جن اضافی پہلوؤں کا ذکر ہوا ہے، وہ غیر اہم یا ثانوی ہیں یا ان سے سابقہ حکم میں کوئی تبدیلی لازم آتی ہے۔ اس بنیاد پر ابن حزم سنت سے قرآن کے اور قرآن سے سنت کے نسخ کو بھی جائز قرار دیتے ہیں، کیونکہ نسخ بھی ایک شرعی حکم ہے اور جب وحی ہونے میں قرآن اور حدیث میں کوئی فرق نہیں تو کسی بھی حکم کے اثبات میں قرآن یا خبر متواتر یا خبر واحد میں کسی بھی لحاظ سے فرق کرنا درست نہیں۔
چونکہ ابن حزم قرآن اور سنت کے احکام کو ایک یک جان مجموعے کے طور پر دیکھتے اور ان کے باہمی تعلق کی تفہیم کے لیے دلالت کلام اور تخصیص کے قرائن وغیرہ کی بحث کو غیر ضروری سمجھتے ہیں، اس لیے کتاب اللہ کی آیات کے ظاہری مفہوم میں احادیث کی روشنی میں تاویل کے حوالے سے بھی ان کا رجحان بہت حد تک امام شافعی سے مختلف ہے اور وہ بیش تر صورتوں میں آیات کو احادیث میں وارد توضیح یا تفصیل پر محمول کرنے کے بجاے کتاب اللہ کے ظاہر کی دلالت کو علیٰ حالہ قائم رکھنے، جب کہ احادیث کو ایک الگ اور قرآن سے زائد حکم کا بیان قرار دینے کو ترجیح دیتے ہیں، البتہ بعض مثالوں میں ان کے ہاں قرآن کی آیت کا مفہوم الفاظ کی ظاہری دلالت کے بجاے احادیث کی روشنی میں متعین کرنے کا رجحان بھی ملتا ہے۔
ابن حزم کا یہ زاویۂ نظر اصول فقہ کی روایت میں کافی منفرد ہے اور انھوں نے جو منہج استدلال اختیار کیا ہے، وہ ان کی غیر معمولی ذہانت اور عبقریت کا عکاس ہے، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے منہج میں معاملے کو ضرورت سے زیادہ سادہ کر کے دیکھنے کا پہلو نمایاں ہے اور طرز استدلال میں بنیادی کم زوریاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا ‘ (الانعام ۶: ۱۴۵)میں وہ ظاہری حصر کے مراد ہونے پر یہ الزامی سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر اس آیت کو تمام حرام چیزوں کا بیان قرار دیا جائے تو پھر پیشاب، پاخانہ اور شراب وغیرہ کو بھی حلال ماننا پڑے گا، حالانکہ سیاق وسباق سے واضح ہے کہ یہاں صرف وہ جانور زیر بحث ہیں جن کا گوشت کھایا جا سکتا ہے۔
ااسی مثال میں، ابن حزم کے اصول کے مطابق نصوص کے زمانی تقدم یا تاخر کے سوال کو نظر انداز کر کے ان کو ایک ہی مجموعہ تصور کرنا چاہیے اور حکم کو یوں سمجھنا چاہیے کہ آیت میں مذکور چیزیں بھی حرام ہیں اور ان کے علاوہ احادیث میں جن جانوروں کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے، وہ بھی حرام ہیں۔ لیکن وہ اس سامنے کے سوال سے کوئی تعرض نہیں کرتے کہ اگر احادیث میں مذکور جانور بھی عین اسی وقت حرمت کا حصہ تھے تو پھر آیت میں حصر کا اسلوب کیوں اختیار کیا گیا اور اگر انھیں بعد میں حرمت کے دائرے میں شامل کیا گیا تو آیت میں مذکورہ حصر کے ساتھ اس اضافے کا کیا تعلق بنتا ہے؟
اس مشکل کاغیر شعوری احساس ابن حزم کو بھی ہے کہ نصوص کے باہمی تعلق میں زمانی تقدم یا تاخر کے سوال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ جب وہ ایک نص کے عموم میں دوسری نص سے تخصیص کی نوعیت واضح کرتے ہیں تو یہ بتاتے ہیں کہ تخصیص کی یہ صورتیں ابتدا ہی سے متکلم کے ارادے میں حکم کے دائرۂ اطلاق میں شامل نہیں ہوتیں، البتہ اس بات کی وضاحت اسی نص کے بجاے دوسری نص میں کی جاتی ہے۔ یہاں ابن حزم واضح طور پر حنفی اصولیین کے اس استدلال کا وزن قبول کرتے ہوئے کہ کسی نص میں مذکور حکم پر زیادت یا اس میں تخصیص کو ’بیان‘ قرار دینے کے لیے اس کا زمانی لحاظ سے اصل حکم کے مقارن ہونا ضروری ہے، یہ قرار دیتے ہیں کہ احادیث میں آیات کی جو تخصیصات وارد ہوئی ہیں، ان کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات کے نازل ہونے کے ساتھ ہی متصلاً فرما دی تھی۔
دونوں نصوص کے زمانی طور پر مقارن ہونے کی صورت میں بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ آخر حکم کا ایک حصہ وحی متلو میں اور دوسرا غیر متلو میں نازل کرنے میں کیا حکمت تھی؟ ابن حزم کو اس مفروضہ صورت کی ناموزونیت کا بھی احساس ہے، چنانچہ وہ زانی کی سزا کے بارے میں عبادہ بن صامت کی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں جس وحی کا حوالہ دیا ہے، وہ سورۂ نور کی آیت ہے، کیونکہ سورۂ نور کی آیت میں ان تفصیلات، یعنی شادی شدہ کو رجم کرنے اور غیر شادی شدہ کو جلا وطن کرنے کا ذکر موجود نہیں جو حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ اس مثال میں ابن حزم کے بیان کردہ اصول کے مطابق بآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم کا ایک حصہ قرآن میں اور دوسرا حصہ وحی غیر متلو میں نازل کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی روشنی میں پورا حکم عبادہ بن صامت کی حدیث میں لوگوں کے سامنے واضح فرما دیا، لیکن ابن حزم اس توجیہ کو قبول نہیں کرتے جس سے واضح ہے کہ ایک ہی وقت میں نازل ہونے والے حکم کے اجزا کو اس طرح تقسیم کرنے کی کوئی حکمت ان کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔
ان چند مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ تمام نصوص کو ایک ہی درجے کا حامل فرض کر کے اور ان کے باہمی تعلق میں زمانی تقدم وتاخر کے نکتے کو غیر اہم قرار دے کر ابن حزم جس الجھن سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ان کے منہج میں بھی جوں کی توں باقی رہتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کا زاویۂ نگاہ اصول فقہ کی مرکزی روایت میں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکا اور جمہور اصولیین نے، جیسا کہ ہم آیندہ بحث میں واضح کریں گے، امام شافعی کے طرز استدلال کی الجھنوں کو اس سے بہت مختلف انداز میں حل کرنے کو ترجیح دی جو ابن حزم نے اختیار کیا ہے۔
(جاری)
مولانا کے ڈسکورس میں"اصلی خدمت " کو اساس کی حیثیت حاصل ہے، یہ notion آپ کی پوری فکر کو محیط ہونے کے ساتھ آپ کی مجموعی فکر اور تعبیرِ دین کا ایک اہم رخ سامنے لاتا ہے۔ علاوہ ازیں"اصلی خدمت" کا ایک تفصیلی بیان ''خطبات'' میں بھی مذکور ہےجس میں انھوں نے تمام عبادات کو ''اصلی خدمت'' کے لیے تربیت قرار دیا ہے۔ مولانا کی نظر میں تمام عبادات کی علتِ غائی ''اصلی خدمت'' ہے جو اسی کتاب کے آخری حصے میں ''جہاد'' میں سمیٹ دیا گیا ہے۔2 جہاد کی تفصیلی بحث سے انھوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ جہاد دراصل انسان پر سے انسان کی حکومت ختم کرکے الٰہی حکومت کے قیام کے لیے کی جانے والی کوشش کا نام ہے اور عبادات اسی تیاری کے لئے ایک تربیتی کورس ہے۔مولانا نے عبادت کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں کہ عبادت صرف صوم و صلاۃ کا نام نہیں بلکہ کاروبارِ زندگی کے تمام اطراف و اکناف میں اللہ کی اطاعت کرنے کو عبادت کہتے ہیں۔ اللہ کو معبودِ برحق ماننے کا مطلب یہی ہے کہ انسان کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ احساسِ بندگی اور اللہ کی یاد سے خالی نہ ہو۔ بندگی کے اس معراج تک پہنچنے کے لیے زبردست تربیت کی ضرورت ہے اور اسلام عبادات کے ذریعہ اس تربیت کو ممکن بناتا ہے۔ ''عبادت کے غلط مفہوم'' کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"آپ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ باندھ کر قبلہ رو کھڑے ہونا، گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھکنا، زمین پر ہاتھ ٹیک کر سجدہ کرنا اور چند مقرر الفاظ زبان سے ادا کرنا، بس یہی چند افعال اور حرکات عبادت ہیں۔آپ سمجھتے ہیں کہ رمضان کی پہلی تاریخ سے شوال کا چاند نکلنے تک روزانہ صبح سے شام تک بُھوکے پیاسے رہنے کا نام عبادت ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ قرآن کے چند رکوع زبان سے پڑھ دینے کا نام عبادت ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ مکہ معظمہ جاکر کعبے کے گرد طواف کرنے کا نام عبادت ہے۔ غرض آپ نے چند افعال کی ظاہری شکلوں کا نام عبادت رکھ کر چھوڑا ہے، اور جب کوئی شخص ان شکلوں کے ساتھ ان افعال کو ادا کردیتا ہے تو آپ خیال کرتے ہیں کہ اس نے خدا کی عبادت کردی اور وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون کا مقصد پورا ہوگیا۔ اب وہ اپنی زندگی میں آزاد ہے کہ جو چاہے کرے۔"3
آگے ''عبادت ـــــ پوری زندگی میں بندگی'' کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں:
"لیکن اصلی حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جس عبادت کے لیے آپ کو پیدا کیا ہے اور جس کا آپ کو حکم دیا ہے وہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ وہ عبادت یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی ہر وقت ہر حال میں خدا کے قانون کی اطاعت کریں اور ہر اس قانون کی پابندی سے آزاد ہوجائیں جو قانون الہی کے خلاف ہو۔"4
"خطبات'' میں تمام عبادات کو اسی نظر سے دیکھا گیا ہے۔نماز ، روزہ ، زکاۃ اور حج کو ''اصلی خدمت'' کے لیے"ٹریننگ" اور ''تربیتی کورس'' قرار دیتے ہیں:
"پچھلے خطبوں میں باربار میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ نماز روزہ اور حج اور زکاۃ جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے، اور اسلام کا رکن قرار دیا ہے، یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجا پاٹ اور نذر و نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کردیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوجائے۔ بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں۔ "5
اس ''بڑے مقصد'' کومزید واضح کرتے ہیں:
"مختصر الفاظ میں تو صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مقصد انسان پر سے انسان کی حکومت مٹاکر خدائے واحد کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے اور جان توڑ کوشش کرنے کا نام جہاد ہے، اور نماز، روزہ، حج، زکواۃ سب کے سب اسی کام کی تیاری کے لیے ہیں۔"6
مولانا ''خطبات ''میں بھی جہاد کی اخلاقی توجیہ پیش کرتے ہیں، جس کی تفصیل اوپر بیان ہوچکی۔ اس میں انھوں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تمام برائیوں کی اصل جڑ حکومت ہے اور اسی سے تمام فساد پھیلتا ہے۔7 اصلاح کا پہلا قدم حکومت کی اصلاح سے رکھا جائے گا اور اصلاح تبھی ممکن ہے جب انسان پر سے انسان کی حکومت ختم کرکے اللہ کی حکومت قائم کی جائے۔ یہ ایک مشکل اور کھٹن راستہ ہے کیوں کہ حکومت حاصل ہونے سے انسان کے اندر لالچ خواہشاتِ نفسانی کے طوفان اٹھتے ہیں۔ اسی خود غرضی اور نفسانیت سے بچنے کے لیے عبادات ایک "تربیتی کورس" ہے۔8 تاہم مولانا کے ہاں ''اصلی خدمت'' اور '' اصلی عبادت'' دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔ اس لحاظ سے ''خطبات'' اور ''الجہاد فی الاسلام'' میں قائم کیے گئے مقدمہ (Thesis) میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ وہ بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ دنیا سے منکر ختم کرنے کے لیے تمام غیر الہٰی حکومتوں کو مٹا کر ''حکومت ِ الہٰیہ " قائم کر دی جائے۔ بہ ایں وجہ وہ "مصلحانہ جنگ'' کو ''مدافعانہ جنگ'' کا مصرف قرار دیتے ہیں۔ ''مصلحانہ جنگ'' پر انھوں نے ساری بحث نہی عن المنکر کے تنا ظر میں کی ہے لیکن دونوں مقامات پر مولانا کا اسلوبِ بیان rhetorical رہا ہے۔ جب خطبات پر بعض اعتراضات ہوئے، جن کا حاصل یہ تھا کہ مولانا کے ہاں عبادات مقصود بالذات نہیں ہیں اور آپ کی عبارتوں سے تکفیر لازم آتی ہے۔ لیکن اس بحث میں مولاناکےحوالےسےایک بہت ہی اہم بات بیشتر نظر انداز کی جاتی ہےکہ دین کے بارے میں ان کا مجموعی زاویۂ نگاہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ اس تاریخی حقیقت کو جان لینا بھی ضروری ہے جس کا سابقہ مسلمانوں کو نو آبادیاتی دور میں پیش آیا۔ اس دور میں دین کو ہر اجتماعی سرگرمی سے نکال دینے کے ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں میں اسلام کا اجتماعی پیغام کمزور کردیا گیا۔ یہ حملہ اس قدر زور دار اور موثر تھا کہ مسلمان اہل علم کا ایک بہت بڑا اور با اثر طبقہ قوم پرستی کی طرف چلا گیا جو یقیناََ ایک غیر اسلامی طرزِ فکر ہے۔ اس وجہ سے اسلام کا اجتماعی پیغام سامنے لانا آسان نہ تھا، اس لیے مولانا نے اپنی تمام توانائیاں دین کی پوری تصویر سامنے لانے میں صرف کردیں کیوں کہ کسی فکر کو ذہنوں میں دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اسی قسم کی غیر معمولی تاکید ناگزیر ہوتی ہے۔9
چناں چہ مولانا کی فکر کی ندرت دین کے تمام اجزا کو ملا ایک کلی تصویر بنانے میں ہے۔ اس وجہ سے وہ توحید کو نقطۂ آغاز سمجھ کر کائنات کی ہر شے کے اندر اس کے ظہور کو دین کا اصل مطالبہ سمجھتے ہیں۔ اس تعبیر کی رو سے عبادات کی حیثیت فروع کی نہیں بلکہ اس کلی تصویر ہی کا حصہ بنتی ہیں۔ مزید برآں مولانا دین کے کسی جز کو اپنی ذات میں اکیلا تصور نہیں کرتے بلکہ ہر جزو کو کلی تصویر کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔ مزید یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ مولانا کی یہی تعبیر قانونی تناظر (Legal Sence)میں نہیں ہے، جس سے یہ نتیجہ نکال لیا جائے کہ مولانا مرتکب گناہ کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں یا عبادات کو مقصود بالذات نہیں مانتے بلکہ یہ تمام باتیں نظری تناظر میں ہیں، جس کا مقصد صرف مسلمانوں پر نہایت تاکید کے ساتھ دین کا مطالبہ واضح کرنا ہے۔ جب مذکورہ دو اعتراضات کیے گئے تو مولانا نے لکھا:
"یہ کتاب فقہ یا علمِ کلام کے موضوع پر نہیں ہے۔ یہ فتوے کی زبان میں نہیں لکھی گئ ہے۔ اس میں مسئلہ زیرِ بحث یہ نہیں ہے کہ دائرۂ اسلام کی آخری سرحدیں کیا ہیں اور کن حالات میں ایک شخص مرتد یا خرج از ملت قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ تو نصیحت کی ایک کتاب ہے جس کا مقصد خدا کے بندوں کو فرماں براداری پر اکسانا، نا فرمانی سے روکنا اور اخلاص فی الطاعۃ کی تلقین کرنا ہے۔ کیا مفتی صاحبان یہ چاہتے تھے کہ میں اس طرح کی ایک کتاب میں مسلمانوں کو یہ یقین دلاتا کہ نماز، روزہ، حج، زکاۃ، سب زوائد ہیں تم ان اس کو چھوڑ کر بھی مسلمان رہ سکتے ہو؟ "10
ان اعتراضات میں ایک معروف اعتراض حج کی بحث میں ایک عبارت سے متعلق تھا۔ مولانا نے اس مزید وضاحت بیان کی ہے ۔زیرِ نظر عبارت پر اعتراض کیا گیا:
" جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج کو ٹالتے رہتے ہیں اور ہزاروں مصروفیتوں کے بہانے کرکر کے سال پر سال یو نہی گزارتے چلے جاتے ہیں ان کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ رہے وہ لوگ جن کو عمر بھر کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمہ ہے۔ دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں۔ کعبہ یورپ کو آتے جاتے ہیں حجاز کے ساحل سے بھی قریب گزرجاتے ہیں، جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے، اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا، وہ قطعا مسلمان نہیں ہیں، جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، اور قرآن سے جاہل ہے جو انہیں مسلمان سمجھتا ہے۔"11
اس عبارت پر یہ اعتراض ہوا کہ مولانا کا عقیدہ اہلِ سنت والجماعت کے خلاف ہے اور یہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے جو اعمال کو ایما ن کا جزو مقوم نہیں بلکہ جزومتمم مانتے ہیں۔ مولانا نے اس کا تفصیلی جواب دیا ہے:
"خطبات کی جن عبارات پر مولانا]سیدحسین احمد مدنی[ نے مجھے خارجی و معتزلی بنایا ہے، اُن پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ کتاب فقہ علمِ کلام کی کتاب نہیں ہے، نہ فتوے کی زبان میں لکھی گئ ہے، بلکہ یہ ایک وعظ و نصیحت کی کتاب ہے جس سے مقصود بندگانِ خدا کو فرماں برادرای پر اُکسانا اور نافرمانی سے روکنا ہے۔ اس میں بحث یہ نہیں ہے کہ اسلام کے آخری حدود کیا ہیں جن سے تجاوز کیے بغیر آدمی خارج از ملت قرار نہ پاسکتا ہو، بلکہ اس میں عام مسلمانوں کو دین کا اصل مقصد سمجھانے اور اخلاص فی الطاعت پر ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیا اس نوعیت کی کتاب میں مجھے عوام سے یہ کہنا چاہیے تھا کہ خواہ تم نماز، روزہ حج، زکاۃ ادا نہ کرو، پھر بھی تم مسلمان ہی رہوں گے۔"12
مولانا مودودی نے ''الجہاد فی اسلام ''کے مقدمے میں اگر چہ یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ جہاد کے متعلق اسلامی شریعت کے احکام قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی میں دیے گئے احکام بلا کم و کاست پیش کروں گا تاکہ کہ مذکورہ مصادر سے ماخوذ احکام بڑھانے اور گھٹانے سے اسلام کا اصلی منشا تبدیل نہ ہوجائے۔13 لیکن "مصلحانہ جنگ " میں کتب فقہیہ کے چند حوالوں کے علاوہ اس سے خاطر خواہ استفادہ نظر نہیں آتا۔ بالخصوص نہی عن المنکر کی بحث میں بھی یہی اسلوب نظر آتا ہے۔ "خطبات'' کے ضمن میں مذکور ہوا کہ وہاں مولانا خود یہ عذر پیش کررہے ہیں کہ میرا اسلوب بیان خطیبانہ ہے ۔ ''اصلی خدمت " کی بحث سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ''مصلحانہ جنگ'' اسی کی توسیع ہے اور دونوں کا اندازِ بیان خطیبانہ ہے۔ اس کے وہ قانونی نتائج نکالنا درست نہیں ہے جو اس باب میں مولانا سے اختلاف رکھنے والنے اخذ کرتے ہیں۔
مولانا نے ''مصلحانہ جنگ'' بنیادی طور پر نہی المنکر کے تصور پر بنا کیا ہے، جس کی انھوں نے ایک انوکھی تشریح بیان کی ہے۔ "اصلی خدمت'' کےلیے سورۃ آل عمران کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں :
’’ تم ایک بہترین امت ہو جسے لوگوں کی خدمت و ہدایت کے لیے برپا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور بدی کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ ’’
أخرجت سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اللہ کے دین کا پیغام آفاقی ہے، یہ کسی خاص خطے یا قومیت تک محدود نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔"خیر امت'' کے ذمہ یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ تمام انسانوں کو نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے ۔ علاوہ ازیں جبلی خواہشات کی رو سے انسان اور حیوان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ حیوان کی زندگی کا منتہائے کمال ان خواہشات کی تکمیل ہے اگر انسان کی زندگی کا مقصد بھی یہی بن جائے تو دونوں میں کوئی فرق باقی نہ رہے گا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے والی چیز مقصدِ حیات ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد ایک ''بلند نصب العین'' کا حصول ہے، نہ کہ بالذات ان خوہشات کا حصول ۔ یہ خواہشات اس بلند مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک لازمی وسیلہ ہے۔ بقائے حیات کے لیے کمانا نہایت ضروری ہے نہ کمائے تو فاقے سے مر جائے گا۔اسی طرح انسان دشمن سے حفاظت پر مجبور ہے اگر حفاظت نہ کرے تو مارا جائے گا۔ اسی طرح دفاع اپنی ذات میں مقصد نہیں ہے بلکہ بلند نصب العین حاصل کرنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسی کو انسانیت کا بلند اخلاقی معیار مانا گیا ہے کہ انسان اپنے خالق کی طرف سے عائد کے گئے فرائض کی بجا آور کرے۔ جس طرح انسان اپنے لیے ان فرائض کی تکمیل ایک اہم اور ضروری امرسمجھتا ہے، اسی طرح اس پر دوسروں کے بھی حقوق ہیں۔ جب افراد کے لیے انسانیت کا اعلیٰ معیار یہی ہے تو اجتماعیت کے لیے بھی یہ معیار کیوں نہ ہو۔ جب فرد کی زندگی کا مقصد تن پروری اور خواہشات کے حصول کے سوا کچھ نہ ہو تو اس کا حیوان کے ساتھ فرق مٹ جاتا ہے۔ اسی طرح ایسی انسانی جماعت حیوانوں سے کم نہیں جس کی زندگی اپنی اصلاح و فلاح اور ترقی و بہبود سے عبارت ہو۔ یہ امت وسط ہےجسے خالقِ کائنات نے ایک بڑے فریضے اور عالم گیر خدمت کے لیے مبعوث کیا ہے۔ اگر کسی فرد کو شیطانی قوتیں مادی اور روحانی طور پر تباہ کررہی ہوں تو انسانیت کے مذکورہ معیار کےمطابق "خیر امت'' کا فرض ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے تاکہ اپنے رب کی صحیح بندگی کر سکے۔ بعینہ یہی معیار اقوام کے لیے بھی ہے۔ اگر قوموں کی اخلاقی، مادی اور روحانی زندگی بردباد ہورہی ہو تو خالق کی طرف سے عائد کے گئے فرائض کی ادائیگی کے لیے ان کی حفاظت اہم فریضہ ہے۔
اس مقدمہ کو بڑھاتے ہوئے ایک اور آیت سے استدلال کرتے ہیں:
[یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں طاقت بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکواۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور بدی سے روکیں گے۔]
یہاں الناس کے بجائے الارض کا لفظ استعمال کیا اور مسلمانوں کو طاقت وقوت کا فائدہ یہ بتایا کہ وہ زمین میں خدا کی بندگی کو فروغ دیں گے، نیکی کا پرچار کریں گے اور بدی کو مٹائیں گے۔ اس سےبھی یہی بتانا مقصود ہے کہ مسلمانوں کا کام صرف عرب یا صرف عجم یا صرف ایشیا یا صرف مشرق کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام دنیا کے لیے ہے۔ انہیں زمین کے چپہ چپہ اور گوشہ گوشہ میں پہنچنا چاہیے، معمورہ ارضی کے ہر دشت و جبل اور بحر و بر میں نیکی کا جھنڈا لیے ہوئے بدی کے لشکروں کا تعاقب کرنا چاہیے، اور اگر دنیا کا کوئی ایک کونہ بھی ایسا باقی رہ گیا ہو جہاں منکر (یعنی برائی) موجود ہو تو وہاں پہنچ کر اس کو مٹانا اور معروف (نیکی) کو اس کی جگہ قائم کرنا چاہیے۔ اللہ کا کسی خاص ملک یا خاص نسل سے رشتہ نہیں ہے۔ وہ اپنی تمام مخلوق کا یکساں خالق ہے سب سے یکساں خالقیت کا تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے وہ کسی خاص ملک میں فتنہ و فساد پھیلنے کو برا نہیں سمجھتا بلکہ زمین میں خواہ کسی جگہ بھی فساد ہو اس کے لیے یکساں ناراضی کا موجب ہوتا ہے، چناچہ قرآن مجید میں فساد فی العرب یا فتنہ فی العجم کہیں نہیں آیا بلکہ ہر جگہ ارض کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، لفسدت الارض ، یسعون فی الارض فسادا، تکن فی الارض پس وہ اپنے لشکر حق یعنی امت مسلمہ کی خدمت کو قومیت و نسل کی حدود میں مقید نہیں کرتا بلکہ اس رحمت کو تمام روئے زمین کے بسنے والوں کے لیے عام ہے کرتا ہے۔"14
ان تصریحات سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ امت مسلمہ یہ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے ادا کرے گا۔ "خیر امت'' کے لقب سے نوازنے کا یہی مطلب ہے کہ یہ صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پوری انسانیت کی خدمت اس کی ذمہ داری ہے۔ انسانیت کے ساتھ اس سے بڑی کوئی ہمدردی نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی آدمی ایک برائی اپنے لیے پسند نہیں کرتا تو اسلام اسی کا متقاضی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے پسند نہ کرے۔ انسانیت سے ہمدردی کا لازمی نتیجہ ہے کہ امت دوسروں کو بدی سے بچانے کو اصل مقصد بنا دے۔یہاں بھی مولانا کا سارا زور ''نظام تمدن'' کو بدی سے پاک کرنے پر ہے ۔ اس بحث کو سمیٹے ہوئے لکھتے ہیں:
" پس امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی حقیقت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ فی نفسہ ایک اچھی چیز ہے اور وہ ہمدردی بنی نوع کا ایک پاکیزہ جذبہ ہے، بلکہ در حقیقت وہ نظامِ تمدن کو فساد سے محفوظ رکھنے کی ایک بہترین اور ناگزیر تدبیر ہے اور ایک خدمت ہے جو دنیا میں امن قائم کرنے، دنیا کو شریف انسانوں کی بستی کے قبال بنانے اور دنیا والوں کو حیوانیت کے درجہ سے انسانیت کاملہ کے درجہ تک پہنچانے کے لیے اللہ نے ایک بین الاقوامی گروہ کے سپرد کی ہے، اور یقینا انسانیت کی اس بڑی خدمت اور کوئی نہیں ہوسکتی۔"15
مولانا کی تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا اصل فریضہ اجتماعی فتنہ و فساد کو روکنا ہے۔ اور غیر مسلم دنیا اس میں مبتلا ہے، اب غیر مسلم دنیا کو معروف کی تلقین کے لیے دعوت و تبلیغ کا طریقہ بتایا لیکن منکر سے روکنے کی کوئی قید نہیں رکھی۔ چناں چہ لکھتے ہیں:
"اسلام نے غیر مسلم دنیا کو معروف کی تلقین کرنے کے لیے تو صرف دعوت و تبلیغ کا طریقہ بتایا ہے، لیکن منکر سے روکنے کے لیے اس کی قید نہیں رکھی بلکہ اس کی مختلف انواع کے لیے مختلف طریقے تجویز کیے ہیں۔ قلب و ذہن کی گندگی اور خیال و رائے کو ناپاکی کو دور کرنے کی ہداہت کی"16
مولانا نے برائی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: اولاََ ذہن و قلب کی گندگی، ثانیا فعل اور عمل کی برائی۔ مقدم الذکر کو دور کرنے کا طریقہ وعظ و تلقین ہے اور ثانی الذکر بہ زورِ طاقت و قوت مٹا دی جائے گی ۔ لکھتے ہیں:
"فعل و عمل کی برائی کو طاقت و قوت کے زور سے روکنے کا حکم دیا۔ چانچہ اوپر وہ حدیث گزرچکی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ولتَأْخُذُنَّ عَلَی يَدِ الظَّالِمِ، ولَتَأْطرُنَّہُ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا ''َ۔ تم پر لازم ہے کہ بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اس کو حق کی طرف موڑ دو۔ اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جن میں منکر کو روکنے کے لیے قوت کے استعمال کا حکم ہے۔"17
مولانا نے اگر چہ استطاعت پر بحث کی ہے لیکن کیا مسلمان غیر مسلم دنیا ــــ جو قانونی اعتبار سے مسلمانوں کی عمل داری سے باہر ہے ــــ میں ہونے والی گناہوں کو روکنے کے مکلف ہیں؟ تاہم نہی عن المنکر کی حد تک تو بات درست ہے لیکن کیا اس سے غیر مسلموں حکومتوں کو ختم کرنے کا جواز فراہم ہوسکتا ہے؟ آئندہ سطور میں اس کی توضیح کی جائے گی کہ یہ خیال درست نہیں ہے۔
مولانا کے نزدیک فعل و عمل کی برائی کو اللہ نے فتنہ و فساد سے تعبیر کیا ہے۔ نیز فعل و عمل کی برائی کی ہر قسم کو فتنہ و فساد کے تحت لاتے ہیں اور اس کا تلوار ہی حل پیش کرتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں:
"ان تمام آیات میں اسی منکر کو فتنہ اور فساد کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ تمام منکرات میں یہ فتنہ و فساد ہی ایک ایسی چیز ہے جس کا استیصال بغیر تلواز کے نہیں ہوسکتا۔"18
مولانا فتنہ پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ فتنہ کا اصل معنی آزمائش اور امتحان کے ہیں۔ اگر یہ اللہ کی جانب سے ہو تو برحق ہے کیوں کہ اللہ انسان کا خالق ہے اور وہ اپنے بندوں کا امتحان لینے کا پورا حق رکھتا ہے۔ لیکن اگر یہی آزمائش انسان کی طرف سے ہو تو ظلم اور زیادتی ہے کیوں کہ کسی انسان کےلئے دوسرے انسان کو آزمائش میں ڈالنا قطعاََ ناجائز ہے۔ کسی دوسرے انسان کو آزمائش میں ڈالنا دراصل اس کی آزادی سلب کرکے اپنی بندگی پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔ 19 بعد ازیں فتنہ کےسات اقسام ذکر کی ہیں، ان تمام قسموں کے تحت قرآن کی وہ آیتیں نقل کرتے ہیں جن میں فتنہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس سے قبل مولانا یہ واضح کرچکے ہیں کہ فعل اور عمل کی برائی کو قرآن نے فتنہ و فساد سے تعبیر کیا ہے۔
فتنہ کی مذکورہ تشریح کے مطابق ان تمام آیات کا فعل اور عمل کی برائی کے ساتھ کوئی تعلق نظر نہیں آتا بہ جز جبر و استبداد کے، اور نہ فتنہ کی مذکورہ بالا تعریف کے ساتھ وہ اعمال لگا کھاتے ہیں جو فتنہ اور فساد دونوں کے تحت مذکور ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی شریعت کی روشنی غیر مسلموں کا آپس میں دارالاسلام کے اندر بھی شراب پینے اور خنزیر کا گوشت کھانے اور ان کی خرید و فروخت کی اجازت ہے۔ بعض ذمی محرمات کے ساتھ نکاح کو جائز سمجھتے ہیں، جو نہایت قبیح عمل ہے لیکن دارالاسلام کے اندر میں مسلمانوں کا حاکم ان کو اس عمل سے نہیں روک سکتا۔ اس قسم کی دیگر عملی برائیاں بھی ہیں جن کو اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد نہیں روکا جاسکتا ۔ فتنہ اور فساد کے تحت انھوں نے جتنی قسمیں ذکر کی ہیں، اگر ان کو الگ الگ کرکے دیکھا جائے تو سب اسی قبیل کی برائیاں ہیں جس کا منبع اس تعبیر کی رو سے حکومت ہے۔ "مصلحانہ جنگ'' کی عمارت اٹھاتے ہوئے مولانا یہ ثابت کررہے تھے کہ اس کا مقصد انسانوں کو اخلاقی اور روحانی تباہیوں سے بچانا ہے۔ اگر حکومت کو مٹا کر بھی ایسی برائیاں جاری رکھی جا سکتی ہیں تو "مصلحانہ جنگ'' کا کیا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ تاہم مولانا نے فتنہ و فساد کو مٹانے کے لیے صرف جہاد اور قتال حل تجویز کیا ہے، اس حوالے سے جو پہلی آیت (سورۃ البقرہ، آیت 90) نقل کی گئی ہے ، اس کا تعلق اس جبر و اسبتداد سے ہے جو مکہ میں مسلمانوں پر مسلط تھا، مولانا نے اس کا ذکر اسی سیاق میں کیا ہے20 اور ''تفہیم القرآن'' میں بھی اس آیات کا یہی تناظر بیان کرتے ہیں۔
اب اگر ان تمام آیات کے سیاق پر غائر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اصل بحث مکہ کے حالات سے ہورہی ہے، اور فتنہ صد عن سبیل اللہ کے مفہوم میں مستعمل ہے۔ فتنہ کی ان قسموں پر ایک سرسری نگاہ ڈالییے:
یقیناََ یہ تمام اقسام فتنہ کی اقسام ہے ۔ لیکن فتنہ کی وہ تعریف محلِ نظر ہے جو مولانا نے کی ہے، جس کی رو سے تمام عملی برائیاں فتنہ ہے۔ اس کے برعکس ان اقسام سے فتنہ کی یہ تعریف متعین ہوتی ہے کہ کسی کو حق سے منع کرنا اوران پر ظلم وجبر مسلط کرنا فتنہ کہلاتا ہے۔ مولانا کے پیش کردہ مفہوم کو ہر عملی گمراہی تک پھیلانے کے وہ نتائج نہیں نکلتے جو ان کے پیشِ نظر ہیں۔ کیوں کہ رسول اللہﷺ اور ان کے ساتھیوں پر جاری ظلم کے متعلق قرآن میں 'فتنہ 'پر پہلی آیت سورۃ بقرہ میں بہ طور علت القتال نازل ہوئی ہے۔ قتال کے لیے وجۂ جواز فتنہ کی تعریف اسی آیت سے اخذ کی جائے گی ۔ ظاہر اس آیت میں فتنہ کے معنی مذہبی جبر کے ہیں۔ تاہم حکمِ جہاد کا نزول تدریجاََ ہوا ، جس مرحلے پر اللہ نے مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا، وہ اسی آیت میں تھا ۔ اس تدریجی عمل کو امام سرخسی نے یوں بیان کیا ہے:
رسول اللہ ﷺ کو آغازِ اسلام میں مشرکین سےاعراض کرنے کا حکم دیا گیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان سے درگز کیجیے۔ مزید فرمایا: اور مشرکین سے اعراض کریں۔ بعد ازاں نصیحت اور سلیقہ مندی سے دعوت دینے کا حکم نازل ہوا، ارشاد ہوا: اے نبیﷺ! اپنے رب کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے عمدہ اور بہترین طریقے سے مباحثہ کرو۔ پھر قتال کا حکم نازل ہوا بشرطیکہ ابتدا کفار کی جانب سے ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اجازت دی گئی ہے ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے؛ کیوں کہ وہ مظلوم ہیں۔ یہ اجازت ان کو دفاع کے لیے دی گئی۔ مزید فرمایا: اگر دشمن صلح کی طرح مائل ہوں تو تم بھی آمادہ ہوجاؤ۔ اس کے بعد لڑائی میں ابتدا کرنے کا حکم نازل ہوا۔ چنانچہ ارشاد ہوا: اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ مزید فرمایا: مشرکین کوجہاں پاؤ انھیں قتل کرو۔
فقہا اس آیت کو علت القتال پر قرآنی نص قرار دیتے ہیں۔ اصولین کے ہاں علت کے لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ وسیع اور مبہم (Equivocal) نہ ہو بلکہ واضح اور متعین (Definite) ہو کیوں کہ مقدم الذکر صورت میں وہ اپنا اصل کھو دیتی ہے۔ فتنہ کا یہ مفہوم تو صحیح ہے کہ اس کے معنی ظلم اور اسبتداد کے ہیں، یہ بات کسی حد تک منطقی ہے کہ بالواسطہ تمام برائیاں فتنہ کی ذیل میں آتی ہیں لیکن قتال کے لیے کسی بھی صورت میں وجۂ جواز نہیں بن سکتیں۔ قتال کے ضمن میں اصل بحث اس کی علت سے کی جاتی ہے اور قتال کے جواز کے لیے فتنہ کی غیر مبہم تعریف ناگزیز ہے بہ خلافِ ہر عملی برائی کو اس میں داخل کرنے کے۔ گزشتہ سطور میں فتنہ کی جو اقسام ذکر کی گئیں وہ تمام فقہا کی قانونی تعبیر ، صد عن سبیل اللہ، سے مطابقت رکھتی ہیں ، یہاں تک تو مولانا کی تشریح سے اتفاق ممکن ہے لیکن قتال کے جواز کے لیے ہر عملی برائی پر فتنہ کا اطلاق کرنا علی الاطلاق غلط ہے۔ بہرحال اقسامِ فتنہ کے تحت جو آیتیں مولانا نے نقل کی ہیں ،ا پنے وسیع مفہوم میں صد عن سبیل اللہ سے متعلق ہیں۔ مزید برآں ان تمام آیات کا تعلق ماقبلِ ہجرت زمانے کے مذہبی جبر کے ساتھ ہیں۔24 اس کی مجموعی تشریح سے واضح ہوتا ہے کہ فتنہ سے مراد وہ محاربہ تھا جو اہلِ مکہ کی جانب سے مسلمانوں پر ہو رہا تھا۔ قرآن میں اسی محاربے کو علت القتال قرار دیا گیا ہے۔ اگر تفہیم القرآن میں ان آیات کی تفسیر پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو اس میں بھی فتنہ اسی مفہوم میں مذکور ہے۔25
اس سے یہ تنقیح تو ہوگئی کہ مولانا کے ہاں بھی فتنہ مذہبی جبر کو کہتے ہیں۔ ''فتنہ کی تحقیق'' کے تحت انھوں نے اس کا یہ خلاصہ بیان کیا ہے کہ فتنہ' ظلم اور جبر کو کہتے ہیں جو persecution کا ہم معنی ہے لیکن آگے تمام ''عملی برائیوں'' کو بھی اس میں داخل کرتے ہیں۔ اگر ان تعریفوں میں سے کسی کو بھی اصل مان لیا جائے تو دونوں کا تصادم ہر صورت میں ضروری ٹھہرتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک تعبیر کو لیا جائے گا۔ اگر فتنہ مذہبی جبر ہے تو افعال کی برائیوں تک اس کی توسیع نہیں جاسکتی۔ قتال کی بحث میں فتنہ ایک خاص اصطلاح (Specific Term) ہے اور ہر عملی برائی پر اس کا اطلاق کرکے قتال کے لیے جواز ثابت کرنا درست نہیں ہے۔
1. الجہاد فی الاسلام، ص 85
2. تصور عبادت کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی عبادات پر ایک نظر (لاہور:ا سلامک پبلی کیشنز، 2002ء)
3. سید ابوالاعلیٰ مودودی، خطبات (لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، اگست، 1996ء) ص 135ـ36
4. ایضاََ، ص 136
5. ایضاََ، ص 307۔ مولانا تصورِ عبادت میں مذکورہ "تربیتی کورس" پر بہت زور یتے ہیں لیکن ''مصلحانہ جنگ'' کی تشریح کرتے ہوئے بعض بہت ہی کمزور دلائل کا سہارا لیا ہے۔ جس طرح یہاں بھی وہ انفرادی اصلاح کے لیے عبادات کو ''تربیتی کورس'' قرار دیتے ہیں لیکن "الجہاد فی الاسلام" میں اپنے تھیسس کو قوی بنانے کے لیے اس کی برعکس تعبیر پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں: " ]امر بالمعروف اور نہی عن المنکر[ میں خود نیک بننا اور بدی سے پرہیز کرنا مقدم رکھا گیا ہے اور نیک بنانا اور بدی سے روکنا موخر، جیسا کہ امر بالمعروف و نھی عن المنکر سے پہلے اقاموا الصلوٰۃ و اٰتوا الزکوٰۃ کا ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ نیک بنانے سے پہلے نیک بننا ضروری ہے۔ لیکن جس طرح اپنا پیٹ بھرنے سے دوسرے کا پیٹ بھرنا زیادہ افضل ہے اسی طرح فضیلت کے اعتبار سے نیکی کو پھیلانے اور بدی کو روکنے کا درجہ بھی نیک بننے اور بدی کو ترک کرنے سے زیادہ افضل ہے "۔ ( الجہاد فی الاسلام، ص 93)۔ مولانا نے ''تفہیم القرآن'' میں اسی رائے پر نقد کی ہے۔ دیکھیے: تفہیم القرآن، ج 5، ص 454۔ انفرادی اصلاح پر انھوں نے اپنی فکر سے وابستہ لوگوں کے لیے باقاعدہ لٹریچر بھی تیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے: ہدایات (لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، 2001ء)؛ تحریکِ اسلامی کامیابی کے شرائط(لاہور: ادارہ مطبوعاتِ طلبہ، 2001ء) ؛ تصوف اور تعمیرِ سیرت: مولانا مودودی کی تحریروں کی روشنی میں، مرتب: عاصم نعمانی (لاہور: اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، 1985ء)؛ تحریک اور کارکن، مرتب: خلیل احمد حامدی (لاہور: ادارہ معارفِ اسلامی، 2016ء(۔ تاہم یہاں صرف اس امر کی وضاحت مقصود ہے جس کی جانب پہلے اشارہ ہوچکا ہےکہ مولانا نے جہاد کی اخلاقی توجیہہ میں بعض کمزور دلائل کا سہارا لیا ہے۔
6. ایضاََ۔ عبادت کے تصور پر مولانا یہی بحث اپنی دوسری کتاب ''دینیات '' میں بھی کی ہے۔ جس تربیت سے "خطبات'' میں عبادات کا ذکر ہوچکا، وہی ''دینیات'' میں بھی مذکور ہے۔ البتہ ثانی الذکر کتاب میں عبادات کی غایت ''حمایت اسلام'' سے تعبیر کرتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: سید ابو الاعلیٰ مودودی، دینیات (لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، 2009ء)، ص 120-137
7. دیکھیے: خطبات، ص 308-10؛ سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست ( لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، 2013ء)، ص 92-93
8. خطبات، ص 307-18؛ تحریک اور کارکن، ص112-13ش
9. مولانا مودودی کی فکر کا یہ پہلو سیدنا مسیح علیہ السلام کی تعلیمات جیسا ہے۔جس وقت بنی اسرائیل کا اجتماع اخلاقی نظام بگاڑ میں حد سے تجاوز کرگیا اور ان کی زندگیوں سے دین کی اصل روح نکل گئ تو سیدنا مسیح علیہ السلام ان کو راہ راست پر لانے کے لیے ایسی باتیں ارشاد فرمائیں، جو بہ ظاہر شریعت موسوی کے خلاف لگتی ہیں۔ اس موضوع پر مسلسل بحثیں ہوتی رہی ہیں کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے شریعت موسوی کو منسوخ کیا ہے کہ نہیں۔ تاہم مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا بنیادی مقصد یہود کو راہ راست پر لانے کے لیے تھیں جن میں ایک غیر معمولی تاکید موجود تھی۔ یہاں اس بحث کو موضوع بنانے سے بات دور چلی جائے گی لیکن اتنا واضح کرنا مقصود ہے کہ مولانا مودودی اس وقت خاص حالات میں دین کا اجتماعی پیغام سامنے لارہے تھے اگر اس وجہ سے مولانا کے ڈسکورس میں دوسرے پہلوؤں کمزور پڑ گئے یا بہ ظاہر کمزور لگتے ہیں تو اب اس کو متواز ن بنانا از حد ضروری ہے ، جیسا کہ خود مولانا کی فکر ہی میں سے جناب خرم مراد اس دوسرے پہلو ، تہذیب نفس، پر بہت زیادہ زور دیتے رہے ہیں، انھیں اس کا ادراک بھی تھا کہ بعض چیزیں غیر متوازن ہیں۔
10. خطبات، ص 26
11. خطبات۔ 281
12. رسائل ومسائل، ج 2، ص 534
13. الجہاد فی اسلام، 14
14. الجہاد فی اسلام، ص 88ـ87
15. ایضاََ، ص99
16. ایضاََ، 102
17. ایضاََ، 103
18. ایضاََ، 105
19. الجہاد فی الاسلام، ص 106
20. الجہاد فی الاسلام، ص 55-56
21. اس کی ذیل میں مولانا مودودی نے دو آیتیں نقل کی ہیں، سورۃ نحل، آیت 110 اور سورۃ بقرہ، آیت 217، مولانا نے تفہیم القرآن میں دونوں کا سیاق واضح کیا ہے۔مقدم الذکر میں اشارہ مہاجرینِ حبشہ کی طرف ہے (تفہیم القرآن، 2، ص 576) ثانی الذکر بھی ان مظالم کے متعلق ہے جو مکہ میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے تھے۔ (تفہیم القرآن، ج 1، ص 165(۔ سورۃ بقرہ، آیت 217 میں قریش کے مظالم کا ذکر ہے۔ سورۃ یونس ،آیت 83 بھی فرعون جبر و اسبتداد سے متعلق ہے۔( تفہیم القرآن، ج 2، ص 301)۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت کا تعلق بھی قریش مکہ کے دس سالہ مظالم سے ہے۔ (تفہیم القرآن، ج2، ص 632-633)۔ باقی آیتیں بھی کم و بیش اسی سیاق میں بیان ہوئے ہیں۔
22. الجہاد فی الاسلام، ص 106-108
23. ابوبکر محمد بن احمد ابی سہل السرخسی، کتاب المبسوط ( بیروت: دار المعرفة للطباعة والنشر، ١٩٧٨ء)، ج ١٠، ص 2
24. سورۃ بقرہ، آیت 251 کا تناظر بھی یہی ہے کہ عمالقہ بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کرتے تھے۔ تفہم القرآن، ج 2 ص 191-19
25. تفہیم القرآن، ج 1، ص 149-151۔ سورۃ انفال آیت: 73 کا تعلق بھی انھی حالات کے ساتھ ہے۔ تفہیم القرآن، ج2، ص 163-64
لبرل ازم اور جمہوریت کی ناکامی کی بحث | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۸) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ: ایک تقابلی مطالعہ (۵) | مولانا سمیع اللہ سعدی | |
مدارس میں تحقیقاتی معیار پر سوالیہ نشان | مولانا نفیس الحسن | |
اسلامی فکر و تہذیبی روایت کے احیاء کی ضرورت | ڈاکٹر ابراہیم موسٰی | |
فرقہ وارانہ کشمکش اور اصول انسانیت | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
مولانا وحید الدین خان کا اسلوب تنقید اور خورشید احمد ندیم صاحب کے اعتراضات | صدیق احمد شاہ | |
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱٠) | محمد عمار خان ناصر | |
امام طحاوی کا مقدمہ احکام القرآن | مولانا محمد رفیق شنواری |
اسرائیلی مصنف یوول نوآہ حراری کی کتاب Twenty one Lessons for the 21st Century کا بنیادی موضوع فری مارکیٹ اکانومی اور لبرل ڈیموکریسی کو درپیش انتظامی واخلاقی چیلنجز کی وضاحت ہے۔ حراری کے خیال میں یہ نظام جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے قطعا ناکافی ہیں۔ اختتام تاریخ کا مرحلہ مزید موخر ہو گیا ہے اور انسانی تہذیب ایک بارپھر ’’اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو” جیسی صورت حال سے دوچار ہے۔
کتاب کے انٹروڈکشن میں، حراری نے اس کشمکش کا ذکر کیا ہے جس میں وہ اس تنقید کو سپرد قلم کرنے کے حوالے سے مبتلا رہے۔ حراری لکھتے ہیں:
’’بدقسمتی سے، موجودہ سیاسی فضا میں لبرل ازم اور جمہوریت کے متعلق کسی بھی تنقیدی فکر کے متعلق غالب امکان ہے کہ استبداد پسند عناصر اور مختلف غیر لبرل تحریکات اس تنقید کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کریں گی جن کا مفاد صرف اس میں ہے کہ لبرل ڈیموکریسی کو بے وقعت ثابت کیا جائے، جبکہ انسانیت کے مستقبل کے حوالے سے کسی کھلے مباحثہ میں شریک نہ ہوا جائے۔ یہ طبقے لبرل ڈیموکریسی کے مسائل کے بارے میں تو بہت خوشی سے بحث کرتے ہیں، لیکن خود اپنے نظریات پر کسی قسم کی تنقید کو گوارا کرنے کا حوصلہ بالکل نہیں رکھتے۔
بطور ایک مصنف کے، مجھے ایک مشکل انتخاب کرنا تھا۔ کیا مجھے اپنے خیالات کا اظہار کھل کر کر دینا چاہیے اور یہ خطرہ مول لینا چاہیے کہ میرے الفاظ کو سیاق وسباق سے کاٹ کر دن بدن قوت پاتے ہوئے استبداد پسند نظریات کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے؟ یا پھر یہ کہ میں خود پر سنسر عائد کروں؟ یہ تو غیر لبرل حکومتوں کی نشانی ہے کہ وہ آزادی اظہار کو اپنے حدود اقتدار سے باہر اور بھی مشکل بنا دیتی ہیں۔ اس طرح کی حکومتوں کی وسعت پذیری کی وجہ سے ہمارے لیے نوع انسانی کے مستقبل کے متعلق تنقیدی فکر سے کام لینا دن بدن زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔
اپنے احساسات وکیفیات کا کچھ جائزہ لینے کے بعد میں نے خود پر سنسر عائد کرنے کے مقابلے میں کھلی بحث کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لبرل ماڈل پر تنقید کے بغیر ہم نہ اس کی غلطیوں کی تصحیح کر سکتے ہیں اور نہ اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔” (21 Lessons, xiv, xv)
حراری کا یہ تبصرہ، اسلامی فکر کے وابستگان کے لیے بھی غور وفکر کا سامان مہیا کرتا ہے۔ انسانی تہذیب اور تمدن کے ارتقا کی تفہیم کے ضمن میں روایتی مسلم فکر کے پاس بنیادی حوالہ ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ کے تاریخی وعمرانی نظریات ہیں۔ یہ دونوں مفکرین سلطنتوں کے زمانے سے تعلق رکھتے تھے اور اسی تناظر میں بادشاہت اور سلطنت کو سیاسی واقتصادی بندوبست کا نقطہ عروج تصور کرتے تھے۔ ان کے لیے اختتام تاریخ خلافت تھی، جیسے فوکویاما وغیرہ مغربی مفکرین کے لیے لبرل ڈیموکریسی ہے۔ شاہ صاحب کے فریم ورک میں تمدن کا ارتقا چار مراحل سے عبارت ہے جسے وہ ارتفاقات سے تعبیر کرتے ہیں۔ چوتھا ارتفاق خلافت وامامت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور اس مرحلے میں آخری نبوت کا ظہور، شاہ صاحب کے فریم ورک میں، گویا خلافت کے سسٹم کو مذہبی لحاظ سے اختتام تاریخ بنا دیتا ہے۔
یہ فریم ورک، جیسا کہ ظاہر ہے، صنعتی انقلاب کے بعد کی تاریخی وتہذیبی تبدیلیوں کی تفہیم کے لیے اپنے اندر کوئی بنیاد نہیں رکھتے۔ مسلم تصور تہذیب میں ایمپائر (یعنی خلافت) اور اسلام کا کفر پر سیاسی غلبہ (یعنی دار الاسلام بمقابلہ دار الحرب) بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ کے فریم ورک انھی پر مبنی ہیں۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں مغربی اقوام کے عالمی تسلط نے دنیا کے سیاسی ومعاشی نظام کو جو صورت دی ہے، اس میں خلافت اور دار الاسلام کے کلاسیکی تصورات عملا غیر متعلق ہو گئے ہیں، تاہم روایتی مسلم فکر چونکہ عموما چوتھے ارتفاق کے بعد کسی پانچویں یا چھٹے ارتفاق کا تصور ہی نہیں رکھتی، (اس میں متحدہ ہندوستان کے قوم پرست مفکرین، خصوصا مولانا عبید اللہ سندھی ایک استثنا ہیں) اس لیے ان تبدیلیوں کی تفہیم بنیادی طورپر رد عمل، انکار اور تردید کے ذہنی رویے میں کی جاتی ہے اور گویا انھیں ارتقا کے اگلے مرحلے کے بجائے غلط سمت میں انحراف کے زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان سارے سسٹمز کی تشکیل، ترمیم وتغییر اور اصلاح کی پوری بحث میں مسلم فکر کا کوئی کردار نہیں، اور وہ صرف ایک شکست خوردہ حریف کے طور پر ان کی ان خرابیوں اور ناکامیوں کو گنوانے پر ہی مطمئن ہے جو خود اس کی اپنی تحقیق کا نتیجہ نہیں، بلکہ مغربی ڈسکورسز سے ہی مستعار ہے۔
حراری کا تبصرہ ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ کیا مروج سیاسی ومعاشی نظاموں کی خرابیوں اور کمزوریوں پر، جو بلاشبہ حقیقتا موجود ہیں، خوش ہونے سے آگے بڑھ کر کیا مسلم فکر ایک ایسی دنیا کی تشکیل میں کوئی تعمیری حصہ ڈال سکتی ہے جو چوتھے ارتفاق سے آگے بڑھ چکی ہے؟
بھارتی حکومت کی طرف سے ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام کے تناظر میں گزشتہ دنوں بعض ٹاک شوز میں غزوہ ہند پھر زیربحث رہا اور حسب معمول یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ پیشین گوئی گویا تاریخ میں ابھی تک تشنہ تعبیر ہے اور اسے حقیقت میں بدلنے کا وقت گویا آ پہنچا ہے۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ جب حدیث میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی تو مسلمان ابھی عرب کی حدود سے باہر نہیں نکلے تھے۔ اس وقت انھیں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ روم، فارس، مصر وغیرہ کے علاوہ مسلمان ’’ہند ” کے علاقے پر بھی حملہ کریں گے۔ اس وقت کی جغرافیائی اصطلاح کے لحاظ موجودہ افغانستان کا کچھ حصہ، پاکستان اور ہندوستان کا سارا علاقہ ’’ہند ” کہلاتا تھا۔ یہ پیشین گوئی تاریخ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں پوری ہو چکی ہے، چنانچہ علامہ ابن کثیر نے ’’البدایۃ والنہایۃ” (طبع دار ہجر، ۱۴۱۸ھ بتحقیق الدکتور عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی) کی نویں جلد میں ’’دلائل النبوۃ” کے تحت جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر متعدد پیشین گوئیوں کا ذکر کیا ہے جو تاریخ میں سچی ثابت ہوئیں اور یوں آپ کی نبوت کی دلیل ہیں، اسی طرح غزوۃ الہند کی حدیث کا بھی ذکر کیا اور اس کی صداقت کے طور پر سیدنا معاویہ کے دور میں ہندوستان کی طرف بھیجے جانے والے لشکر اور اس کے بعد خاص طور پر محمود غزنوی کے حملوں کا حوالہ دیا ہے۔
غزوۃ الہند سے متعلق مروی احادیث کا اسنادی جائزہ لیا جائے تو ان میں سے ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سندا صحیح ہے، جبکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث کے طرق کمزور ہیں۔ خاص طور پر ایک طریق جس میں ذکر ہے کہ ہندوستان سے کامیاب لوٹنے والا لشکر وہاں سے شام جائے گا اور اس کی ملاقات حضرت مسیح علیہ السلام سے ہوگی، محدثانہ معیار کے لحاظ سے بالکل ناقابل اعتبار ہے، کیونکہ اس میں حضرت ابو ہریرہ سے اس کو نقل کرنے والا ایک ’’شیخ ” مجہول ہے، یعنی اس کے نام اور اوصاف کا کچھ پتہ نہیں۔ بعض اہل علم نے اسی طریق کی روشنی میں یہ لکھا ہے کہ ’’اگر یہ حدیث صحیح ہو” (ان صح الحدیث بذالک) تو پھر یہ پیشین گوئی ابھی پوری نہیں ہوئی، بلکہ نزول مسیح کے زمانے میں پوری ہوگی۔ ہمارے ہاں بعض قصہ گو حضرات اس واہی روایت کی محدثانہ حیثیت اور ’’اگر صحیح ہو” کو نظر انداز کر کے اس پر ایک نئے جہادی بیانیے کی عمارت کھڑی کرنا چاہ رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں خیبر پختون خوا کی ایک ضلعی حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ہدایات میں اسکول کی طالبات کے لیے عبایا پہننے کو لازم قرار دیا گیا، لیکن عملی تنفیذ کے بغیر ہی عوامی رد عمل پر اس حکم کو واپس لے لیا گیا۔ اس پر حسب توقع وحسب معمول لبرل اور مذہبی حلقوں کے مابین سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث چھڑ گئی۔ لبرل حضرات نے اسے سماجی آزادیوں کے منافی اقدام قرار دیا اور حکومت کے لیے انفرادی آزادیوں میں مداخلت کو غیر جمہوری طریقہ قرار دیا، جبکہ مذہب پسند حلقوں کی طرف سے پردہ سے متعلق مروج فقہی تصورات کے تناظر میں اس کا خیر مقدم اور ہدایات کی منسوخی کو قابل افسوس قرار دیا گیا۔
اہل مذہب کا موقف بنیادی طور پر لبرل حضرات کے عمومی رویے کا ایک رد عمل تھا جو فرانس کی حکومت کی طرف سے حجاب پر پابندی کو تو بالکل درست سمجھتے ہیں، کیونکہ فرانسیسی معاشرے کو اپنا سیکولر تشخص محفوظ رکھنے کا حق ہے، لیکن کوئی مسلمان حکومت اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے عبایا وغیرہ کو لازم کرنا چاہے تو یہ ان کے نزدیک درست نہیں، کیونکہ یہ سماجی آزادیوں کے منافی ہے۔ یہ عمومی رویہ اس التباس کی قلعی کھول دیتا ہے کہ سیکولرزم یا لبرل ازم ایک ’’نیوٹرل ” پوزیشن رکھتے ہیں اور فرد کو مطلقا سماج کے جبر سے محفوظ رکھنے کی بات کرتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرزم اور لبرل ازم بذات خود اقداری تصورات ہیں اور لبرل اہل دانش اقداری بنیادوں پر ہی کسی اقدام کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
تاریخی لحاظ سے بھی سیکولرزم صرف ایک ’’انتظامی ” بندوبست نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے ہاں عموما سیکولر دانش ور سمجھتے یا باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ واضح طور پر ایک ’’اقداری ” مسئلہ ہے۔ سماجی اور سیاسی تصورات تاریخ میں مختلف تبدیلیوں سے گزرتے ہیں اور فکری بحث میں ان تبدیلیوں کے ساتھ رہنا لازم ہے۔ مغرب میں کلیسا اور ریاست کی علیحدگی کا آغاز یقینا ایک انتظامی بندوبست کے طور پر، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کی طویل باہمی قتل وغارت کے تناظر میں، ہوا تھا، لیکن مغرب میں تاریخ سترھویں صدی میں کھڑی نہیں ہے۔ مغربی فکر میں جوہری نوعیت کی تبدیلیاں روشن خیالی کی تحریک نے پیدا کی ہیں اور اس سے پہلے چار پانچ سو سال میں آنے والی تمام فکری، مذہبی، تمدنی اور سیاسی تبدیلیوں کو ایک نیا فکری قالب دیا ہے۔ مغربی سیاسی فکر میں سیکولرزم کی بحث اپنی موجودہ وضع میں ’’چرچ اور اسٹیٹ کی علیحدگی” کے سوال سے بہت آگے بڑھ چکی ہے اور مذہب کے بارے میں باقاعدہ ایک فکری پوزیشن پر مبنی ہے۔اس حوالے سے معاصر جرمن سوشیالوجسٹ ہیبرماس کے بعض نظریات کے حوالے سے جو رد وقدح اس وقت مغربی اکیڈمی میں ہو رہی ہے، وہ بہت قابل توجہ ہے۔ ہیبرماس نے نائن الیون کے بعد صورت حال کا نیا جائزہ لیتے ہوئے اپنے بعض پرانے خیالات پر نظر ثانی کی ہے اور public sphere میں، کئی طرح کی تحدیدات وشرائط کے ساتھ، مذہبی مواقف کی گنجائش تسلیم کرنے کی ضرورت واضح کی ہے۔ اس پر مغرب میں سیکولر فکر جو سوالات اٹھا رہی ہے، وہ ہمارے ہاں کے حضرات کے لیے بہت چشم کشا ہے۔
اس تناظر میں مذہبی طبقات نے عموما جو پوزیشن اختیار کی، وہ قابل فہم ہے اور جناب مولانا محمد تقی عثمانی جیسے صاحب علم کی طرف سے اس مسئلے پر ایک ’’عوامی ” انداز کی ٹویٹ کی بھی ہمارے ذہن میں یہی توجیہ آتی ہے۔ البتہ اس مسئلے کو خود دینی نظام فکر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جو اصل ہے۔ ضروری نہیں کہ لبرل حضرات اپنے تصورات کے تحت کسی بات پر تنقید کریں تو ان کے رد عمل میں اس بات کی تائید کرنا ہی دین کا تقاضا ہو۔ دینی فریم ورک میں چیزوں کو دیکھنے کا اپنا ایک مستقل طریقہ ہے، اسے ردعمل میں چھوڑ نہیں دینا چاہیے۔
ہمارے خیال میں اس انداز سے عبایا وغیرہ کو قانونا لازم قرار دینا بہت سے دینی اصولوں کی عدم رعایت پر مبنی اقدام تھا اور اسے واپس ہی لیا جانا چاہیے تھا۔ بعض اہل قلم نے اس کو یونیفارم وغیرہ پر قیاس کیا جس کی پابندی حکومت یا کوئی بھی ادارہ اپنے دائرے میں لازم کر سکتا ہے۔ لیکن یہ قیاس اس لیے درست نہیں کہ یونیفارم محض ایک انتظامی نوعیت کی پابندی ہے جس میں دینی پہلو شامل نہیں ہے اور اسی لیے اسے قبول کرنے میں کسی کو کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ عبایا کا تعلق ایک دینی وفقہی حکم سے بنتا ہے اور اس میں اجتہادی وثقافتی اختلافات کی رعایت خود دینی لحاظ سے ضروری ہے۔ ویسے بھی اس نوعیت کے مسائل میں عمومی معاشرتی قبولیت کا ماحول پیدا کیے بغیر محض قانونی اقدامات سے سماجی تشخص پیدا نہیں کیا جا سکتا اور ایسی کوششیں معکوس نتائج کا موجب بنتی ہیں۔
لعل عام طور سے توقع یعنی اچھی امید یا ناخواہی اندیشے کا مفہوم ادا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ البتہ کیا وہ تعلیل کے مفہوم میں بھی ہوتا ہے؟ اس امر میں اختلاف ہے ۔ ابن ھشام کے الفاظ ہیں: الثانی التعلیل اثبتہ جماعۃ منہم الاخفش والکسائی وحملوا علیہ (فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی) ومن لم یثبت ذلک یحملہ علی الرجاء ویصرفہ للمخاطبین ای اذھبا علی رجائکما. (مغنی اللبیب)
تاہم قرآن مجید کے بعض مواقع پر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں لعل تعلیل کے لیے ہی ہے، اور اگر تعلیل کے بجائے توقع کا ترجمہ کریں، تو بات غیر موزوں سی لگتی ہے، اور اس کی پرتکلف تاویل کرنی پڑتی ہے۔ ذیل کی کچھ مثالوں میں یہ بات دیکھی جاسکتی ہے۔
(۱) یُوسُفُ اَیُّہَا الصِّدِّیقُ اَفتِنَا فِی سَبعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَاکُلُہُنَّ سَبع عِجَاف وَسَبعِ سُنبُلَاتٍ خُضرٍ وَاُخَرَ یَابِسَاتٍ لَعَلِّی اَرجِعُ اِلَی النَّاسِ لَعَلَّہُم یَعلَمُونَ (یوسف: 46)
“اس نے جاکر کہا: یوسف، اے سراپا راستی مجھے اس خواب کا مطلب بتا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھارہی ہیں، اور سات بالیں ہری ہیں اور سات سوکھی، شاید کہ میں ان لوگوں کے پاس جاوں اور شاید کہ وہ جان لیں” ۔ (سید مودودی)
“شاید میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں شاید وہ آگاہ ہوں ”۔(احمد رضا خان)
“شاید میں لوگوں کے پاس باخبر واپس جاؤں تو شاید انہیں بھی علم ہوجائے”۔ (جوادی)
“کہ میں لے جاوو¿ں لوگوں پاس شاید ان کو معلوم ہو”۔ (شاہ عبدالقادر)
“توکہ پھر جاووں میں طرف لوگوں کے تو کہ وہ جانیں”۔ (شاہ رفیع الدین)
“تاکہ میں لوگوں کے پاس جاؤں تاکہ وہ بھی جانیں ”۔(امین احسن اصلاحی)
آخری دونوں ترجمے تعلیل کے اعتبار سے کیے گئے ہیں، اور وہی موزوں لگتے ہیں۔ یہاں شاید کے ترجمہ کا کوئی محل نہیں ہے۔ وہ شخص تو آیا ہی اسی لیے تھا کہ خواب کی تعبیر معلوم کرے اور لوگوں کو واپس جاکر بتائے، تاکہ وہ لوگ تعبیر جان لیں۔ یہاں دونوں ہی لعل تعلیل کے لیے ہیں، توقع اور شاید کا کوئی محل ہی نہیں ہے۔ مفسرین نے یہاں توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسے اپنی واپسی کا یقین نہیں تھا، لیکن یہ پرتکلف بات ہے۔
(۲) حَتَّی اذَا جَاء اَحَدَہُمُ المَوتُ قَالَ رَبِّ ارجِعُونِ۔ لَعَلِّی اَعمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکتُ۔ (المومنون: 99، 100)
“ (یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ ''اے میرے رب، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا ”۔(سید مودودی)
“یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے واپس پھر دیجئے، شاید اب میں کچھ بھلائی کماو¶ں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں”۔ (احمد رضا خان)
“ (یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا کہ اے پروردگار! مجھے پھر (دنیا میں) واپس بھیج دے، تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کیا کروں”۔ (فتح محمد جالندھری)
“یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے، کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک اعمال کر لوں”۔ (محمد جوناگڑھی)
آخری دونوں ترجمہ تعلیل کے اعتبار سے کیے گئے ہیں، یہاں بھی امید اور شاید کا محل نہیں ہے، کیونکہ جب کوئی اس دنیا میں واپسی کے لیے دعا کرے گا، تاکہ ملی ہوئی مہلت میں نیک اعمال کرے، تو وہ پختہ وعدے کی زبان استعمال کرے گا، نہ کہ توقع اور امید والے الفاظ استعمال کرے گا۔ شاید کا لفظ تو وعدے کو بے وزن کردیتا ہے۔
ایک دوسری بات یہ ہے کہ فِیمَا تَرَکتُ کا تعلق اَعمَلُ صَالِحًا سے ہے نہ کہ ارجِعُونِ سے ہے۔ یعنی جو میں نے چھوڑا ہے اس میں نیک عمل کروں، نہ یہ کہ مجھے وہاں (اس دنیا میں) لوٹادیں جو میں چھوڑ آیا ہوں۔
مذکورہ بالا تمام پہلووں کے اعتبار سے درج ذیل ترجمہ موزوں ہے:
“یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہوگی تو وہ کہے گا کہ اے رب مجھے پھر واپس بھیج کہ جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں نیکی کماو¶ں”۔ (امین احسن اصلاحی)
(۳) فَاصبِر عَلَی مَا یَقُولُونَ وَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّکَ قَبلَ طُلُوعِ الشَّمسِ وَقَبلَ غُرُوبِہَا وَمِن آنَاء اللَّیلِ فَسَبِّح وَاَطرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرضَی۔ (طہ: 130)
“پس اے محمد، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد وثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، شاید کہ تم راضی ہوجاو¶ ”۔(سید مودودی)
“اس امید پر کہ تم راضی ہو ”۔(احمد رضا خان)
“ بہت ممکن ہے کہ تو راضی ہو جائے”۔ (محمد جوناگڑھی)
“تاکہ تم خوش ہوجاؤ”۔ (فتح محمد جالندھری)
“تاکہ تم نہال ہوجاؤ”۔(امین احسن اصلاحی)
یہاں بھی توقع اور امید کے بجائے تعلیل کا محل ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے خوشی اور رضا کے حصول کا یقینی طریقہ بتایا گیا ہے۔
درج ذیل آیت کے ٹکڑے میں متکلم کی ضمیر نہیں ہے، صاحبین مضاف ہے سجن کی طرف ، یہ اضافت یا تو ظرف کے مفہوم میں ہے ، یا مفعول بہ کے مفہوم میں، ظرف کی صورت میں ترجمہ ہوگا : “جیل کے دونوںساتھیو”، اور مفعول بہ کی صورت میں ترجمہ ہوگا: “دونوںجیل والو”۔اردو زبان کا لحاظ کرکے ، جیل کے ساتھیو، یا جیل والو کہا جاسکتا ہے۔اس جملے میں لفظ “میرے ”تفسیری اضافہ تو ہوسکتا ہے ، جیسا کہ ہمیں اکثر تفاسیر میں ملتا ہے، لیکن عبارت میں یہ بات موجود نہیں ہے۔ عام طور سے مترجمین نے“میرے” کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔
(۱) یَا صَاحِبَیِ السِّجنِ۔ (یوسف: 39)
“اے میرے زنداں کے دونوں ساتھیو ”۔(امین احسن اصلاحی)
“اے میرے قید خانے کے ساتھیو! ”۔(محمد جوناگڑھی)
“اے میرے قیدخانہ کے دونوں ساتھیو! ”۔ (احمد رضا خان)
“اے قید خانہ کے میرے دونوں ساتھیو”۔ (محمد حسین نجفی)
“میرے جیل خانے کے رفیقو! ”۔ (فتح محمد جالندھری)
“اے دو یارو قید خانے کے” ۔(شاہ رفیع الدین)
“اے رفیقو بندی خانے کے” ۔(شاہ عبدالقادر)
“اے زنداں کے ساتھیو”۔ (سید مودودی)
(۲) یَا صَاحِبَیِ السِّجنِ۔ (یوسف: 41)
“اے میرے جیل کے دونوں ساتھیو ”۔(امین احسن اصلاحی)
“اے قید خانہ کے میرے دونوں ساتھیو! ”۔ (محمد حسین نجفی)
“اے میرے قیدخانے کے رفیقو! ”۔ (محمد جوناگڑھی)
“اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! ”۔ (احمد رضا خان)
“میرے جیل خانے کے رفیقو! ”۔(فتح محمد جالندھری)
“اے دو یارو قید خانے کے”۔ (شاہ رفیع الدین)
“اے رفیقو بندی خانے کے”۔ (شاہ عبدالقادر)
“اے زنداں کے ساتھیو”۔ (سید مودودی)
عربی کے انکار اور اردو کے انکار میں فرق ہوتا ہے۔ اردو کے انکار کے لیے قرآن مجید میں عام طور سے کفر اور جحود کی تعبیریں آئی ہیں۔
عربی میں انکار کا مطلب ہوتا ہے نہیں پہچاننا، انجان ہوجانا، انجان بن جانا، بیگانگی کا رویہ اختیار کرنا۔
راغب اصفہانی لکھتے ہیں: الانکَارُ: ضِدُّ العِرفَانِ۔ (المفردات فی غریب القرآن)
فیروزابادی لکھتے ہیں: وانکَرَہُ واستَنکَرَہُ وتَناکَرَہُ: جَہِلَہُ۔ (القاموس المحیط)
جوہری لکھتے ہیں: النُکِرة: ضد المعرفة. وقد نَکِرتُ الرجلَ بالکسر نُکراً ونُکوراً، واَنکَرتُہُ واستَنکَرتُہُ بمعنًی۔ (الصحاح تاج اللغة وصحاح العربیة)
قرآن مجید میں لفظ انکار کے مشتقات کئی جگہ استعمال ہوئے ہیں۔ جہاں نہیں پہچاننے کا مفہوم بالکل واضح اور متعین ہے وہاں تو سبھی لوگوں نے نہیں پہچاننے کا ترجمہ کیا ہے، لیکن جہاں انکار کرنے کا مفہوم بھی نکل سکتا ہے وہاں بہت سے لوگوں نے انکار کرنا اور منکر ہونا ترجمہ کردیا ہے۔ اس طرح کے مقامات پر انگریزی میں بھی deny اور reject ترجمہ کیا گیا ہے۔
کسی چیز کو نہیں پہچاننے سے اس کا انکار بطور نتیجہ سامنے آسکتا ہے، اس لیے کبھی کبھی اس پر بھی اس کا اطلاق ہوجاتا ہے۔ لیکن وہ اصل اطلاق نہیں ہے۔
درج ذیل دونوں آیتوں میں منکرون کاف پر زبر کے ساتھ مجہول استعمال ہوا ہے، اور دونوں جگہ انجانے لوگ مراد ہے۔
قَالَ اِنَّکُم قَوم مُنکَرُونَ۔ (الحجر: 62)
“اس نے کہا آپ لوگ تو اجنبی معلوم ہوتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
قَوم مُنکَرُونَ۔ (الذاریات: 25)
“ (اور دل میں کہا کہ) یہ تو اجنبی لوگ معلوم ہوتے ہیں لَم یَعرِفُوا رَسُولَہُم۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل آیت میں منکرون کاف پر زیر کے ساتھ معروف استعمال ہوا ہے، اور اس کا مفہوم نہیں پہچاننے والے کا ہے۔
وَجَاء اِخوَةُ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیہِ فَعَرَفَہُم وَہُم لَہُ مُنکِرُونَ۔ (یوسف: 58)
“اور یوسف کے بھائی (کنعان سے مصر میں غلّہ خریدنے کے لیے) آئے تو یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے” ۔(فتح محمد جالندھری)
اس کے علاوہ درج ذیل آیت میں منکرون کا لفظ آیا ہے ، اور اس سے قبل لَم یَعرِفُوا رَسُولَہُم آیا ہے، اس لیے کچھ لوگوں نے یہاں بھی لفظ کی اصل کے مطابق ترجمہ کیا ہے:
اَم لَم یَعرِفُوا رَسُولَہُم فَہُم لَہُ مُنکِرُونَ۔ (المومنون: 69)
“یا انہوں نے اپنے رسول کو نہ پہچانا تو وہ اسے بیگانہ سمجھ رہے ہیں”۔(احمد رضا خان)
“یا یہ اپنے رسول سے کبھی کے واقف نہ تھے کہ (اَن جانا آدمی ہونے کے باعث) اُس سے بدکتے ہیں؟” (سید مودودی)
“یا یہ اپنے پیغمبر کو جانتے پہنچانتے نہیں، اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے”۔ (فتح محمد جالندھری)
“یا انہوں نے اپنے پیغمبر کو پہچانا نہیں کہ اس کے منکر ہو رہے ہیں؟”(محمد جوناگڑھی)
“یا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانا نہیں اس وجہ سے اس کے منکر بنے ہوئے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)
پہلے دونوں ترجموں میں لفظ کا لحاظ موجود ہے۔اسی طرح دیگر انگریزی ترجموں کے مقابلے میں درج ذیل دونوں ترجمے لفظ کے مطابق ہیں:
البتہ لفظ انکار سے مشتق ہونے والے الفاظ ذیل کی آیتوں میں بھی آئے ہیں، البتہ یہاں ترجمہ کرتے ہوئے عام طور سے لوگوں نے انکار کرنا ترجمہ کردیا ہے۔اور اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہاں انکار کا ترجمہ کرنے میں کوئی معنوی رکاوٹ نہیں ہے۔ تاہم مناسب تو یہی ہے کہ لفظ کی اصل کا لحاظ کرتے ہوئے ترجمہ کیا جائے، اگر اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو۔
(۱) وَہَذَا ذِکر مُبَارَک اَنزَلنَاہُ اَفَاَنتُم لَہُ مُنکِرُونَ (لانبیاء: 50)
“اور اب یہ بابرکت ''ذکر'' ہم نے (تمہارے لیے) نازل کیا ہے پھر کیا تم اِس کو قبول کرنے سے انکاری ہو؟ ” (سید مودودی)
“اور یہ ہے برکت والا ذکر کہ ہم نے اتارا تو کیا تم اس کے منکر ہو”۔(احمد رضا خان)
موزوں ترجمہ ہوگا:
“اور اب یہ بابرکت ذکر ہم نے نازل کیا ہے پھر کیا تم اِس سے بیگانہ رہو گے؟” ۔
(۲) اِلَہُکُمِ الَہ وَاحِد فَالَّذِینَ لَا یُومِنُونَ بِالآخِرَةِ قُلُوبُہُم مُنکِرَة وَہُم مُستَکبِرُونَ۔ (النحل: 22)
“تمہارا معبود تو اکیلا خدا ہے۔ تو جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کر رہے ہیں اور وہ سرکش ہو رہے ہیں ”۔(فتح محمد جالندھری)
موزوں ترجمہ ہوگا:
“تمہارا معبود تو اکیلا خدا ہے۔ تو جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل بیگانہ بنے ہوئے ہیں اور وہ سرکش ہو رہے ہیں”۔
خاص اس مقام پر فارسی کے دو معروف ترجموں میں بھی لفظ کا حق ادا کیا گیا ہے:
“دلہائے اینہا ناشناسندہ اند”۔ (سعدی شیرازی)
“دل ایشاں ناشناس است ”۔(شاہ ولی اللہ )
(۳) یَعرِفُونَ نِعمَتَ اللَّہِ ثُمَّ یُنکِرُونَہَا وَاَکثَرُہُمُ الکَافِرُونَ۔ (النحل: 83)
“یہ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں، پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور اِن میں بیش تر لوگ ایسے ہیں جو حق ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں”۔ (سید مودودی)
“اللہ کی نعمت پہچانتے ہیں پھر اس سے منکر ہوتے ہیں اور ان میں اکثر کافر ہیں”۔(احمد رضا خان)
“یہ اللہ کی نعمتیں جانتے پہچانتے ہوئے بھی ان کے منکر ہو رہے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر ناشکرے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)
موزوں ترجمہ ہوگا:
“یہ اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں، پھر اس سے انجان بنتے ہیں، اور ان میں اکثر ناشکرے ہیں ”۔(امین احسن اصلاحی)
اس آیت میں انکار کا لفظ بھی آیا ہے اور کفر کا بھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں انکار کفر سے مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے۔
(۴) وَیُرِیکُم آیَاتِہِ فَاَیَّ آیَاتِ اللَّہِ تُنکِرُونَ۔ (غافر: 81)
“اللہ اپنی یہ نشانیاں تمہیں دکھا رہا ہے، آخر تم اُس کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے ”۔(سید مودودی)
“اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تو اللہ کی کون سی نشانی کا انکار کرو گے ”۔(احمد رضا خان)
“اللہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا جارہا ہے، پس تم اللہ کی کن کن نشانیوں کے منکر بنتے رہو گے” ۔(محمد جوناگڑھی)
موزوں ترجمہ ہوگا:
“اللہ اپنی یہ نشانیاں تمہیں دکھا رہا ہے، آخر تم اُس کی کن کن نشانیوں سے انجان بنے رہو گے” ۔
“اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے ، آخر تم اللہ کی کون سی نشانی کو نہیں پہچانتے”۔ (محمد فاروق خان)
(۵) وَالَّذِینَ آتَینَاھُمُ الکِتَابَ یَفرَحُونَ بِمَا اُنزِلَ ِلَیکَ وَمِنَ الاَحزَابِ مَن یُنکِرُ بَعضَہُ۔ (الرعد: 36)
“اے نبی، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اِس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے ”۔(سید مودودی)
“جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ تو جو کچھ آپ پر اتارا جاتا ہے اس سے خوش ہوتے ہیں اور دوسرے فرقے اس کی بعض باتوں کے منکر ہیں”۔(محمد جوناگڑھی)
موزوں ترجمہ ہوگا:
“اے نبی، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اِس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں سے انجان بن رہے ہیں ”۔
قَالَ نَکِّرُوا لَہَا عَرشَہَا۔ (النمل: 41)
“سلیمانؑ نے کہا انجان طریقے سے اس کا تخت اس کے سامنے رکھ دو”۔(سید مودودی)
“اس نے حکم دیا کہ اس کے تخت کی شکل بدل دو”۔(امین احسن اصلاحی)
“سلیمان نے کہا کہ ملکہ کے (امتحان عقل کے) لیے اس کے تخت کی صورت بدل دو”۔ (فتح محمد جالندھری)
“حکم دیا کہ اس کے تخت میں کچھ پھیر بدل کردو”۔ (محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی اس جملے کا عام ترجموں سے مختلف اس طرح ترجمہ کرتے ہیں:
“اس نے کہا: انجان بن کر اس کے تخت کا اس کے سامنے ذکر کرو۔”
ان کے نزدیک اس کے بعد فلما جاءت قیل اھکذا عرشک “پس جب وہ آئی تو اس سے سوال کیا گیا کہ کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے” دراصل نَکِّرُوا لَہَا عَرشَہَا والے حکم کی تعمیل ہے۔
(جاری)
اہل تشیع و اہلسنت کے حدیثی ذخیرے کا ایک بڑا فرق معیارات ِنقد حدیث کا فرق ہے ،اہلسنت کے ہاں مصطلح الحدیث کا ایک منظم و مرتب فن موجود ہے ،جس میں نقد حدیث کے تفصیلی قواعد مذکور ہیں ،حدیث کی اقسام ،راوی کی جرح و تعدیل کے ضوابط ،حدیث سے استدلال کی شرائط ،راویوں کی انواع و اقسام سے متعلق تفصیلات ذکر ہیں ،چنانچہ معروف محقق ڈاکٹر نور الدین عتر نے مصطلح الحدیث کے جملہ فنون کو چھ انواع میں تقسیم کیا ہے:
1۔علوم رواۃ الحدیث یعنی وہ ضوابط جن کا تعلق رواۃ حدیث سے ہیں۔
2۔ علوم روایۃ الحدیث ،یعنی وہ فنون و علوم جو حدیث کے تحمل ،ادا وغیرہ سے متعلق ہیں۔
3۔علوم الحدیث من حیث القبول او الرد یعنی وہ علوم و ضوابط جو حدیث کے قبول و رد سے تعلق رکھتے ہیں۔
4۔علوم المتن یعنی وہ ضوابط جو حدیث کے متن سے متعلق ہیں۔
5۔علوم السند یعنی فنون و ضوابط جن کا تعلق حدیث کی سند سے ہیں۔
6۔العلوم المشترکہ بین السند و المتن یعنی وہ فنون جن کا تعلق متن و سند دونوں کے ساتھ ہیں۔1
ان علوم و فنون اور قواعد و ضوابط کے انطباق میں تو علمائے اہلسنت کا اختلاف رہا ہے کہ کونسی احادیث علوم الحدیث کی رو سے کس قسم میں داخل ہیں ؟جس کی وجہ سے حدیث کے ضعف و صحت ،ارسال و اتصال ،موقوف و مرفوع ،راوی کی عدالت و جرح ،توثیق و تضعیف ،کسی کتاب یا محدث کے معتمد و غیر معتمد ہونے میں بڑے پیمانے پر اختلاف رہا ہے ،لیکن حدیث کو جانچنے کے پیمانے کم و بیش جملہ محدثین کے ہاں یکساں رہے ہیں ۔ ان قواعد و ضوابط پر اہلسنت کے ذخیرہ حدیث کی ایک ایک روایت کو پرکھا جاچکا ہے ،ہزاروں رواۃ کی جرح و تعدیل کے حوالے سے ضخیم کتب لکھی جاچکی ہیں۔2
اس کے برخلاف جب ہم اہل تشیع کے معیارات ِنقد حدیث کو دیکھتے ہیں ، تو ان پر معیار کا اطلاق مشکل ہوجاتا ہے ،حدیث و رواۃ کو پرکھنے سے اہل تشیع روزِاول سے آج تک دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہیں:
پہلا گروہ اخباریوں کا ہے ،جبکہ دوسرا گروہ اصولیوں کا ہے ،ہم نقد ِحدیث کے حوالے سے دونوں کا نقطہ نظر ذکر کرتے ہیں:
اہل تشیع کا اخباری طبقہ ،جن میں اہل تشیع کے نامی گرامی اہل علم آتے ہیں ،ان کے نزدیک حدیثی ذخیرے کو کسی بھی معیار پر پرکھنا جائز نہیں ہے ، سار ا حدیثی ذخیرہ نہ صرف یقینی طور پر صحیح ہے ،بلکہ بعض اخباریوں کے نزدیک سارا ذخیرہ متواتر ہے ،معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ اخباری نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ترجمہ: اخباریوں کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کتب اربعہ کی جملہ احادیث قطعی ہیں ،اور ان میں سے بعض اس سے بھی آگے کی طرف گئے ہیں ۔(یعنی انہوں نے تواتر کا قول اختیار کیا ہے )
اخباریوں کے نزدیک علوم مصطلح الحدیث سے احادیث کی جانچ پڑتا ل کرنا درست نہیں ہے ،کیونکہ یہ علوم اصلا اہلسنت کے علوم ہیں ،شیعی علوم نہیں ہیں ،حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:
ترجمہ: اخباریوں نے علم رجال ،جرح و تعدیل اور حدیث کو پرکھنے کے درایتی معیارات کو ترک کیا ہے ،کیونکہ اخباریوں کے نزدیک یہ علوم اہلسنت سے ماخوذ علوم ہیں ،شیعی علوم نہیں ہیں۔
اخباری مکتب کے نزدیک علوم مصطلح الحدیث پر اگر احادیث شیعہ کو پرکھیں گے ،تو اکثر یا سب کے سب احادیث ضعیف و موضوع نکلیں گی ،معروف اخباری عالم محمد بن حسن حر عاملی لکھتے ہیں:
ترجمہ : اصولی اصطلاح سے اکثر احادیث کا ضعف لازم آتا ہے ،جو معتبر مجمع علیہ کتب میں منقول ہیں ،کیونکہ بعض راوی ضعیف ،بعض مجہول اور بعض کی توثیق ثابت نہیں ہے ،تو ان احادیث کی تدوین نہ صرف عبث بلکہ حرام ہوگی ،اور ان احادیث کی صحت کی گواہی جھوٹ شمار ہوگی ،بلکہ اجماع ِشیعہ کا بطلان لازم آئے گا ،جن میں ائمہ معصومین بھی داخل ہیں ،یہ سارے لوازم باطل ہیں ،تو ملزوم یعنی اصولی اصطلاح سے احادیث کو پرکھنا بھی باطل ہوگا ۔بلکہ تحقیقی نگاہ سے دیکھیں ،تو ساری احادیث ِشیعہ کا ضعف لازم آئے گا ،کیونکہ صحیح کی تعریف یہ ہے کہ جو ایسے راوی سے مروی ہو ،جو عادل ہو ،امامی ہو ،جملہ طبقات میں ضابط ہو ،اور محدثین نے کسی راوی کی عدالت کی صراحت نہیں کی ہے ، محدثین نے صرف توثیق منقول ہے ،جو عدالت کو مستلزم نہیں۔
چونکہ شیعہ کتب حدیث کے نسخ و مخطوطات میں ناقابل ِحل اختلاف موجود ہے ،جیسا کہ ماقبل میں تفصیل سے گزر چکا ہے ،اس لئے یہ مسئلہ بھی اخباری مکتب کو کھٹکا ،لیکن اس کی توجیہ اخباری مکتب نے جو کی ہے ،وہ قارئین بھی سن لیں ،حر عاملی لکھتے ہیں:
ترجمہ : ایک کتاب کے معتمد نسخوں کا اختلاف قرآن پاک کی مختلف قراءتوں کے اختلاف کی طرح ہے ،جو توجیہ وہاں کی جاتی ہے ،وہی توجیہ یہاں کی جائے گی ۔
بلکہ شیعہ محدث کے نزدیک شیعہ کتب کے نسخوں و مخطوطات کا اختلاف قرآن پاک کی قراءتوں سے بھی بڑھ کر معتمد ہے ،چنانچہ لکھتے ہیں :
ترجمہ:اختلاف نسخ سے معنی تبدیل نہیں ہوتا ،بخلاف اختلاف قراءت کے ،کہ اختلاف ِقراءت سے معنی مختلف ہوجاتا ہے ،نیز اختلاف نسخ و اختلاف روایات سے تناقض لازم نہیں آتا ،کیونکہ وہ دو متعدد احادیث ہیں ،جو دو یا ایک مجلس میں تقیہ یا کسی اور وجہ سے ائمہ سے صار ہوئی ہیں ،جبکہ اختلاف قراءت اس طرح نہیں ہے (یعنی اختلاف روایات و اختلاف نسخ سے تو تناقض لازم نہیں آتا جبکہ اختلاف ِقراءت سے بسا اوقات تناقض لازم آتا ہے ۔معاذ اللہ )
ان عبارات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اخباری مکتب کے ہاں شیعہ ذخیرہ حدیث کی صحت و قطعیت کس درجہ کی ہے ؟اخباری مکتب فکر نے احادیث کے حوالے سے جو نقطہ نظر اختیار کیا ہے ،وہ انتہائی غیر علمی ،غیر تحقیقی اور اندھے اعتقاد پر مبنی ہے ،علم و تحقیق کے میدان میں اسے محض خواہش اور دعوی بلا دلیل کہا جاسکتا ہے ،کیونکہ اس نقطہ نظر کا مطلب یہ ہے کہ کتب اربعہ کی چالیس ہزار احادیث ،ان احادیث کو روایت کرنے والے ہزاروں راوی ،ان کتب کو نسلا بعد نسل لکھنے والے ہزاروں نساخ سب کے سب ہی غلطی ،تسامح اور ہر قسم کی بھول چوک سے مکمل طور پر معصوم اور پاک ہیں ،اس لئے ان کی روایتوں کو کسی بھی پیمانے پر پرکھنا ناجائز ہے ۔علم و تحقیق کے میدان میں کسی ایک فرد کا اس طرح کا دعوی مضحکہ خیز ہے لیکن اگر سینکڑوں سال سے ایک پورا طبقہ نسل در نسل اس طرح کا غیر منطقی دعوی کرے ،تو اس کے لئے مضحکہ خیز سے آگے کوئی تعبیر ہوگی ۔
اخباری مکتب فکر نے شیعہ حدیثی ذخیرے سے متعلق جو موقف اختیار کیا ہے ،چونکہ وہ نہایت غیر علمی ہے ،اس لئے اس کی شناعت کم کرنے کے لئے بعض شیعہ محققین نے اسی سے ملتے جلتے موقف کی نسبت اہلسنت کی طرف بھی کی ہے ،تاکہ بجواب آن غزل اہل سنت بھی اسی غیر منطقی دائرے میں آسکیں ،چناچہ شیخ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:
ترجمہ : ذخیرہ حدیث سے متعلق یقین کا موقف صرف امامی حلقوں کے ساتھ خاص نہیں ،بلکہ سنی حلقے میں اسی موقف کے حامل لوگ موجود ہیں ،چنانچہ بعض اہل سنت اسی قسم کے موقف کی طرف گئے ہیں کہ صحیح بخاری و مسلم کی ہر حدیث صحیح ہے ،اور واقع کے مطابق ہے ،نیز اہل سنت صحیحین کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہتے ہیں ۔
یہ بہت بڑا مغالطہ ہے ،جو شیعہ محقق نے کمال ہوشیاری سے مکتب اخباری کے غیر منطقی دعوے کے اثرات کو کم کرنے کے لئے اٹھایا ہے ،اس مغالطے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب شرح نخبۃ الفکر میں صحیح احادیث کے درجات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
ترجمہ :صحیح کے درجات میں صحیح کے مقتضی اوصاف میں فرق کی وجہ سے تفاوت ہے ،کیونکہ جب یہ صفات ،جن پر صحت کا مدار ہے ،جب غلبہ ظن کا فائدہ دیتی ہیں ، تو اس کا تقاضا ہے کہ ان امور تقویت کی وجہ سے بعض درجات بعض سے اوپر ہو ،لھذا جن احادیث کے رواۃ عدالت ،ضبط اور دیگر اوصاف صحت میں اعلی درجے کے ہوں ،تو وہ احادیث ان احادیث سے درجہ صحت میں اعلی درجہ پر فائز ہونگی ،جن کے رواۃ اس درجے کو نہیں پہنچتے ۔
اس کے بعد امام عسقلانی نے ان احادیث کی نشاندہی کی ہے ،جو اپنی رواۃ کی عدالت ،ضبط و دیگر اوصاف کی برتری کی وجہ سے دیگر احادیث سے صحت میں برتر ہیں ،ان میں سب سے اعلی درجہ صحیحین کا ہے ،کیونکہ صحیحین کے رواۃ کی عدالت ،ضبط ،اتصال وغیرہ بنسبت دیگر کتب کی رواۃ سے اعلی درجہ کی ہیں ،پھر خود صحیحین میں موازنہ کرتے ہوئے صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر درجہ ذیل وجوہ سے فوقیت دی ہے:
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر نے بقیہ کتب کی بنسبت صحیحین کی احادیث کی اولویت پھر صحیحین میں صحیح بخاری کے ارجح و اصح ہونے کی جو بات کی ہے ،وہ مکتب اخباری کی طرح محض اعتقاد اور دعوی بلا دلیل پر مبنی نہیں ہے ،بلکہ اس وجہ سے ہے کہ صحیحین کی احادیث مصطلح الحدیث کے قواعد و ضوابط پر پرکھنے کے بعد صحت میں بقیہ کتب سے فائق ثابت ہوئی ہیں ۔کسی کتاب کو محض اعتقادی بنیاد پر یقینی قرار دینا اور بات ہے ،جبکہ کسی کتاب کو قواعد و ضوابط پر پرکھنے کے بعد یقینی قرار دینا بالکل الگ بحث ہے ،چنانچہ حافظ بن حجر اس بحث کے اختتام پر کہتے ہیں:
ترجمہ: پس و ہ صفات ،جو حدیث کی صحت کے لئے معیار ہیں ،وہ صحیح بخاری میں بنسبت صحیح مسلم کے زیادہ اتم و اشد درجے میں پائی جاتی ہیں۔
خلاصہ یہ نکلا کہ اہلسنت کے ہاں صحیحین کی بقیہ کتب ِحدیث پر ارجحیت کا جو قول ہے ،وہ صحیحین کی احادیث میں شرائط ِصحت کے پائے جانے کی وجہ سے ہیں ،جبکہ اخباری مکتب نے کتب اربعہ کی صحت کا جو دعوی کیا ہے وہ کسی معیار پر پرکھنے ، شیعہ علوم الحدیث میں شرائط صحت پر جانچنے کے بغیر محض کتب اربعہ کے مصنفین سے حسن ظن و فرط اعتقاد کی بنیاد پر کیا ہے ۔ورنہ تو پیچھے حر عاملی کا قول گزر چکا ہے کہ اگر مصطلح الحدیث کے قواعد صحت پر کتب اربعہ کو پرکھا جائے ،تو اکثر یا تمام احادیث کو ضعیف کہنا پڑے گا ۔تحقیق کے بعد یقین کا قول اپنانا (جیسا کہ صحیحن کی احادیث کو قواعد پر پرکھنے کے بعد یقینی کہنا) اور بلا تحقیق یقین کا قول اختیار کرنے (جیسا کہ اخباری مکتب نے کتب اربعہ کے بارے میں کہا ہے) میں بعد المشرقین ہے ۔چنانچہ معروف شیعہ عالم مازندرانی شرح اصول کافی کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
ترجمہ :کافی کی اکثر احادیث باعتبار سند کے صحیح نہیں ہیں ،اس کے باوجود امام کلینی نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ،کیونکہ ان کے متون عقائد حقہ کے موافق ہونے کی بنا پر معتبر ہیں ،اور ان جیسی روایات میں اسناد کو نہیں دیکھا جاتا ۔
کیا علمائے اہلسنت نے صحیحین کے بارے میں اسی قسم کا دعوی کیا ہے ؟کہ اسناد صحیح نہ ہونے کے باوجود صحیحین کی احادیث صحیح شما رہونگی؟یا علمائے اہلسنت نے صحیحین کی ایک ایک حدیث اور ایک ایک راوی کو قواعد علوم الحدیث پر پرکھنے کے بعد ان کی صحت کا نظریہ اپنایا ہے؟
1. دیکھیے :منہج النقد فی علوم الحدیث ،نور الدین عتر،دار الفکر ،دمشق
2. اس موقع پر اس کی وضاحت ضروری ہے کہ فقہاء جب حدیث پر بحث کرتے ہیں ،تو اس کے قابل ِعمل ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے بحث کرتے ہیں،ورنہ حدیث کے جانچنے کے معیارات فقہاء کے ہاں بھی مصطلح الحدیث کے قواعدو ضوابط ہیں ،یہی وجہ ہے فقہاء و مجتہدین کے مباحث ِ نقد ِ حدیث میں مصطلح الحدیث کے قواعد کا استعمال ہی نظر آتا ہے ۔
3. نظریۃ السنہ فی الفکر الامامی الشیعی،التکون و الصیرورۃ ،حیدر حب اللہ ،الانتشار العربی ،بیروت ،ص 225
4. المدخل الی درایۃ الحدیث ،حیدر حب اللہ ،ص 470
5. وسائل الشیعہ ،محمد بن حسن حر عاملی ،موسسۃ آل البیت ،قم ،ج 30،ص259
6. ایضا :ج30،ص،273
7. ایضا:ج30،ص273
8. المدخل الی موسوعۃ الحدیث ،حیدر حب اللہ ،ص314
9. شرح نخبۃ الفکر ،ابن حجر عسقلانی ،ص72
10. دیکھیے :ایضا :ص75
11. ایضا:ص75
12. شرح اصول کافی ،صالح مازندرانی ،ج1،ص10
(جاری)
بات ہو رہی تھی جدید تحقیقاتی دور میں مدارس کے کردار کے حوالے سے، ایک ساتھی نے اپنے ایک استاد محترم کے کسی مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مضمون میں جدید فقہی ذخیرے میں کتابوں اور مقالات کی اس لمبی فہرست میں مدرسے کے کسی فاضل کی کوئی قابل ذکر کاوش نہیں ۔ سب عرب جامعات کے فضلاء اور ان کے پی ایچ ڈی یا ایم فل مقالات ہیں۔ ہمارے پاس میدان تحقیق میں چند گنے چنے نام ہیں جن کا صر ف ہم تذکرہ ہی کر سکتے ہیں۔ ان کے نہج پر چل کر تحقیق کےتقاضے پورے کرتے ہوئے کوئی قابل ذکر خدمت انجام دینا اب تک صرف ایک آرزو ہی ہے۔اس بات میں مبالغہ آرائی بھی ہو سکتی ہے لیکن علمی انحطاط کو دیکھ کر یہ بات کچھ مستبعد بھی نہیں۔
حقیقت حال تو یہ ہے کہ جو طالب علم بغیر بین السطور یا حاشیے کی مدد سے کتا ب حل کر سکتا تھا آج اس کو بغیر اردو شروحات کے کتاب کا حل کرنا محال تصور ہونے لگا ہے۔ بلکہ اب تو اردو شروحات کے مطالعے کی توفیق بھی چھن گئی ہے اور امتحان کی راتوں میں دس سالوں پر اکتفا ہونے لگا۔ جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ کتاب سے رہا سہا تعلق بھی ختم ہو گیا، اور انٹرنیٹ نے اس بے توفیقی اورکم ہمتی میں اور بھی اضافہ کر دیا۔ استاذ محترم مفتی رفیع عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث میں توقبض علم کا ذکر آیا ہے جبکہ دیکھنے میں آ رہا کہ علماء کی بہتات ہو گئی ہے۔ علماء طلبہ کی تعداد آئے روز بڑھ رہی ہے۔اور زمانہ بھی قرب قیامت کا ہے، تو پھر قبض علم ہوگا کیسے؟ استاجی فرمانے لگے کہ قبض علم کی یہی صورت ہوگیِ، علمی انحطاط، انحطاط اس درجے کا ہو جائے گا کہ عالم و جاہل کے درمیان بجز ظاہری علامات کے فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔ استادجی پھر ایک واقعہ سنانے لگے کہ ایک مرتبہ ہمارے والد صاحب کے ایک استادمولانا رسول خان صاحب دارالعلوم کراچی تشریف لائے تھے، انہوں نے طلبہ کے مجمعے میں تقریر کی، وہ اردو بھی ٹھیک طرح سے بول نہیں سکتے تھے لیکن چند لمحوں کی تقریر میں انہوں نے علم و حکمت کے ایسے دریا بہہ رہے تھے کہ ہم ششدر رہ گئے۔ والد ماجد رحمہ اللہ نے ہماری حالت کا اندازہ لگا کر پوچھا ؛ " کیسے رہے میرے استاد؟" استادجی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ ایک وہ حضرات تھے جو ہم سے کچھ پہلے گزر گئے، ہمارے اکابر، جو علمی استعداد ان کی تھی وہ ہماری ہر گز نہیں۔ اب رفتہ رفتہ اسی استعداد میں بھی کمی آ رہی ہے۔ اب تو طالب علم سے عبارت بھی ٹھیک طرح سے نہیں پڑھی جاتی۔ یہ ہے در اصل قبض علم۔
ہر استاد، ادارے کے ہر منتظم کو اس بات کی فکر ہے،اور اپنے بس کے مطابق طلبہ کی استعداد میں بہتری کیلئے اقدامات بھی کر رہے ہیں، لیکن موجودہ صورتحال میں یہ اقدامات نا کافی لگتے ہیں۔ تو پھر عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہم کونسے ایسے اقدامات کر سکتے ہیں کہ علوم دینیہ اور ان میں اچھی استعداد کی اولوی حیثیت بھی برقرار رہے، اکابر کی روایات پر حرف بھی نہ آئے اور ہم جدید تحقیقاتی دور میں ایک تحقیقی ذہنیت کی نمائندگی کرتے ہوئے سر اٹھانے کے قابل بھی ہو سکیں؟
پچھلے سال دارالعلوم زاہدان کے سادسہ کے ایک طالب علم کا مقالہ پڑھا۔ لگ نہیں رہا تھا کہ یہ کسی مدرسے کے ایک طالب علم کی کاوش ہے۔ ایم فل کا مقالہ لگ رہا تھا۔ غالبا کتاب النکاح میں جن فقہی قواعد کا صراحۃ یا ضمنا تذکرہ آگیا ہے ، انکی خارجی تطبیقات پر تھا۔ کئی ایسی کتابوں کا حوالہ دیا گیا تھا جن کا شاید سادسہ کا طالب علم نام بھی نہ جانتا ہو۔ جس ساتھی نے مقالہ دکھایا تھا، انہوں نے بتایا کہ دارالعلوم زاہدان کے ہر طالب علم نے اپنے تعلیمی درجے کے مستوی کے مطابق عربی زبان میں مقالہ لکھنا ہوتا ہے۔عشاء کا وقت جو عموما ہمارے مدارس میں تکرار کا وقت ہوتا ہے، وہاں کی نظم کے مطابق طلبہ نے لائبریری میں گزارنا ہوتا ہے۔ طالب علم جس کتاب کا، جس فن میں چاہے مطالعہ کر سکتا ہے۔ آخر میں مقالہ اپنے نگران استاذ سے منظور کروانا ہوتا ہے۔ہر درجے کا اپنا ایک مستوی ہوتا ہے اور اسی کے مطابق موضوع اور مقدار کی تعیین کر دی جاتی ہے۔ دارالعلوم زاہدان کے کئی ساتھی بڑے درجات کے لیے دارالعلوم کراچی آتے ہیں۔ ان کے مقالات پڑھنے کو ملے، ان سے گفتگو ہوئی۔ ان کے مطالعہ کی وسعت اور عربیت قابل رشک ہے۔ دارالعلوم کراچی میں دورے کے سال طالب علم نے لازمی طور پر 50 صفحے کا مقالہ لکھنا ہوتا ہے لیکن اساتذہ اپنی بے پناہ مصوفیات کی وجہ سے ہر طالب علم کا مقالہ پڑھ نہیں سکتے، طالب علم کے پاس مطالعے کے لیے اتنا وقت بھی نہیں ہوتا۔ کوئی نگران بھی نہیں ہوتا ۔ جس نے جو لکھ دیا اور جیسے لکھ دیا، مقررہ تاریخ کو بند کاپیاں دفتر میں پہنچا دی جاتی ہیں، پھر اللہ جانے ان مقالات کا کیا ہوتا ہے۔
ہمارے مدارس میں طلبہ کودرسی کتابوں کے مطالعے کے لیے اجتماعی نظم کے مطابق مطالعے کا اچھا خاصہ وقت دیا جاتا ہے۔ جس میں طلبہ کل کے درس کے لیے کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ معلومات اور مجہولات کی تمییز ہو جاتی ہے، کل کے سبق میں معلومات کا تکرار اور مجہولات معلومات میں بدل جاتے ہیں۔ طالب علم فن کی حد تک کتاب سے اچھی طرح واقفیت حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن خارج از کتاب تطبیق میں طالب علم بے بس ہو جاتا ہے۔بلکہ کبھی کبھی احساس کمتری کا شکار ہو جاتاہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر افتاد یہ ہوتی ہے کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ غیر نصابی کتاب کے علاوہ بھی کوئی ایسی کتاب ہو سکتی ہے جہاں سے اس کی بے بسی قدرے دور ہو سکتی ہے۔ اگر اسے کسی کتاب کا پتہ ہوتا ہے تو نا دانستہ طور پر وہ خود کو اس اہل نہیں سمجھتا کہ اس کتاب کو پڑھ سمجھ سکے۔ شامیہ یا بحر الرائق کو دورے تک کے طلبہ مفتی ہی کیساتھ خاص کتاب سمجھ کر دیکھنا گوارا نہیں کریں گے۔ایسی ذہنیت کے ساتھ تحقیقی مزاج کا پیدا ہونا ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہر مدرسے میں مکتبہ ہوتا تو ضرور ہے لیکن اکثر طور پر وہ صرف نمائش کی حد تک ہوتا ہے۔مکتبے میں مطالعے کے لیے طالب علم کو عموما وہ وقت عنایت ہوتا ہے جو آرام یا کھیل کود کا ہوتا ہے۔ اس بابت ارباب مدارس کے سامنے کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں۔ امید ہے کہ اپنے طویل تعلیمی و تربیتی تجربے کی بنیاد پر ان کو زیر غور لے آئیں گے۔ اور اگر گنجائش ہوئی تو کوئی مناسب اقدام بھی ضرور اٹھائیں گے۔
ہر طالب علم سے مقالہ لکھوانا اگر چہ مشکل ہے۔ مدارس میں آنے والے طلبہ ایک جیسی استعداد کے نہیں ہوتے۔ لیکن ان کو ان کی استعداد اور مستوی کے مطابق مطالعے اور اپنے مطالعے کا خلاصہ پیش کرنے کا مکلف بنایا جا سکتا ہے۔پہلے مرحلے میں وہ سناتے ہوئےجھجک بھی محسوس کرے گا۔ مطالعے میں دشواری پیش آنے کا شکوہ بھی کرے گا۔ لیکن مطالعے سے وہ کسی طرح مانوس ہو جائے تو پھر اس کو فن سے متعلق خارج از نصاب کتاب سے کوئی جگہ مطالعے کرنے کا مکلف بنا یا جائے۔ مثلا نحو میں تقدیم خبر کی بحث جب وہ ہدایۃ النحو میں اپنے مطالعے سے کسی قدر سمجھ جائے اور استاد کو اطمینان ہو، تو اس کو جدید قدیم نحو کی کتابوں میں سے کسی کتاب کا کہہ کر اس بحث کو مزید نکھار کر لکھنے اور اگر یہ صلاحیت نہ ہو تو کم از کم اپنے الفاظ میں خلاصہ سنانے کا مکلف بنایا جائے۔ قدوری کیساتھ اللباب اور الجوہرۃ النیرۃ ،کنز کیساتھ تبیین الحقائق اور البحر الرائق، شرح الوقایہ کیساتھ بدائع الصنائع، مبسوط للسرخسی اور بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ اور ہدایہ کے ساتھ فتح القدیر اور جدید مسائل پر لکھے گئے مقالات و رسائل سے طالب علم کی مناسبت ضرور ہونی چاہیے، کم سے کم کتاب کے انداز اور اسلوب اور مصنف کے مزاج سے اتنی واقفیت ہو کہ کل کو کسی مسئلے میں آسانی سے اس کتاب کی مراجعت کر سکتا ہو۔
فقہ کا ذکر بطور مثال ہوا۔ ہر فن میں استاذ طالب علم کے ذوق کو دیکھتے ہوئے متعلقہ کتابوں کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ طالب علم سے ان کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرایا جائے، بلکہ ہفتے میں ایک سوال ایسا پوچھا جائے جس کا جواب انہی کتابوں سے ملے یا ان کتابوں میں سے کسی کتاب سے کوئی بحث پڑھنے کو اور اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھنے کا کہا جائے ۔پھر دو سالوں میں طالب علم کے مستوی کی رعایت رکھتے ہوئے اسے ایک تحقیقی مقالہ لکھنے کا ادارے کی طرف سے مکلف بنایا جائے۔ مثلا ثانیہ کا طالب علم بیس صفحے، رابعہ کا تیس سے پینتیس سادسہ کا پچاس اور دورے کا ساٹھ صفحےپر مشتمل عربی مقالہ جس بھی فن میں لکھنا چاہیے، موضوع ادارے کی طرف سے مقرر اپنے نگران استاد سے منظور کرا کر لکھ لے۔ ساٹھ صفحات لکھ کر تحقیق کا کوئی معرکہ سر ہوسکے، مشکل ہے۔ لیکن جس طالب علم نے آٹھ سال پڑھنے کے بعد تحقیقی مقالہ لکھنے کا فن ٹھوکریں کھا کھا کے یونیورسٹی میں جا کر سیکھنا ہوتا ہے وہ مدرسےمیں ہی سیکھ جائےگا۔ مدرسے میں رہ کر وہ اس اہل ہوگا کہ کسی مجمع کے لیے کوئی تحقیقی مقالہ لکھ سکے یا کسی علمی مجلس میں شرکت کر سکے۔
اس کے لیے بنیادی ضرورت اس بات کی ہےکہ طالب علم کو تفریح اور آرام کے علاوہ کے اوقات میں کم از کم دو گھنٹے لائبریری میں بیٹھنے کا مکلف بنایا جائے اور اگر اس سے زیادہ کی اس کو ضرورت ہو تو ادارے کی طرف سے اس کا بھی انتظام کیا جائے۔مطالعہ میں اردو شروحات پر سخت پابندی لگائی جائے اور طالب علم کے مطالعے میں کسی طرح خلل پڑنے نہ پائے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال پر اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اگر ضرورت ہو تو آدھا گھنٹہ سے زیادہ کی اجازت نہ دی جائے، اور بھی کسی بڑے استاذ کے زیر نگرانی۔ جن اداروں نے طلبہ کو انٹرنیٹ کے استعمال کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے وہاں سرچ اور ریسرچ کے نام پر علم کا جنازہ نکل رہا ہے۔لائبریری میں ہر وہ کتاب مہیا ہو جس سے طالب علم اپنے مستوی کے مطابق استفادہ کر سکتا ہے۔ ہر وہ کتاب یا رسالہ جس سے اس کے وقت کا ضیاع ہوتا ہو جیسے اردو ڈائجسٹ، اخبار وغیرہ ہر گز نہ رکھے جائیں۔ مطالعے میں طالب علم کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔دارالعلوم کراچی جا کر جو پہلا احساس ہوا تھا وہ یہی تھا کہ مطالعے میں طالب علم پر کوئی قدغن نہ تھا۔ ایسے بھی طلبہ دیکھے جنہوں نے سادسہ تک بینکنک پر لکھی گئی شیخ الاسلام صاحب کی تقریبا سب کتابوں کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔ ایسے بھی ساتھی ملے جنہوں نے منفلوطی اور طنطاوی کی کئی کتابیں چاٹ ڈالی تھیں، جبکہ ہم نے ان کا صرف نام ہی سنا تھا۔جغرافیہ، طب، قانون کا مطالعہ کرنے والے ساتھی بھی ملے ۔
زمانہ طالب علمی ہی میں علمی مزاج تشکیل پاتا ہے۔ اگر ایک طالب علم درسی کتابوں کے علاوہ کوئی کتاب اٹھانے میں جھجکتا ہو، تو وہ انہی کتابوں میں محدود ہو کر رہ جاتا ہے جو اس نے پڑھی ہوئی ہیں۔حالانکہ ایسے بھی طلبہ ہوتے ہیں جو درسی کتابیں بغیر کسی شرح کی مدد سے امتحان کی راتوں میں حاشیےسمیت حل کر لیتے ہیں۔ایسے ایک طالب علم سے میں واقف ہوں جو مطالعہ امتحان کی راتوں پہ چھوڑ جاتا اور مطالعے کے مقررہ وقت میں خارجی مطالعہ یا پھر شاعری اور مقالہ نگاری میں وقت صرف کرتا تھا۔ ایسے طلبہ کی تعداد کسی بھی ادارے میں کوئی کم نہیں ہوتی۔ ان کو درسی کتابوں میں محدود رکھنا ان کی صلاحیتیں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ان کو مطالعہ میں تنوع اور وسعت پیدا کرنے کا موقع بہر صورت دینا چاہیے۔ایک کتاب میں کہیں پڑھا تھا کہ ذہن ایسی چیز ہے کہ جو ہر وقت مصروف عمل ہوتا ہے، یہاں تک کہ سوتے ہوئے بھی ذہن کسی نہ کسی درجے میں مصروف رہتا ہے۔ ذہن سستانے کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ ہے تفنن۔ اگر ایک کتاب پڑھتے ہوئے اکتاہٹ محسوس ہو تو دوسری کتاب دیکھی جائے۔ایسے طلبہ کی رہنمائی کی اور بھی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ کئی ایسے تشنہ مواضیع ہیں جن پر ابھی کام باقی ہے۔ کئی ایسے مباحث ہیں جن کو جدید اسلوب سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ غزو فکری اور تقابل ادیان جیسا اہم موضوع ہے، اصول حدیث، فقہی قواعد، تفسیر پر کئی پہلو سے کام ہو سکتا ہے، ترجمہ و تعریب کا فن نا گزیر ہے۔ ایسے طلبہ کی صلاحیتوں کو ان جیسے کئی عظیم کاموں میں لگایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اکابر سے مناسبت اور ان کےساتھ وابستگی جو اس زمانے کے فتنوں کے سامنے ایک ڈھال ہے، صرف عقیدت کی حد تک رہ گئی ہے۔ ان کے علمی کام سے واقفیت بھی سنی سنائی باتوں کی حد تک ہے۔ علماء دیوبند کی پہچان جو باہر دنیا میں علم حدیث کی مناسبت سے ہوئی تھی، آج ان کے نام لیوا حدیث کو صرف فقہی مباحث کی حد تک ہی جانتے ہیں۔ بہت ہی کم طلبہ ہوں گے جو کشمیری صاحب کا علمی مقام فیض الباری یا حضرت بنوری صاحب کی معارف السنن پڑھ کر جانتے ہوں۔ حضرت سہارنپوری کی بذل المجہود، حضرت شیخ الحدیث صاحب کی اوجز المسالک،اور حضرت الاستاذ شیخ الاسلام صاحب کا تکملہ فتح الملہم پڑھ کر روایت و درایت اور ان سے متعلقہ علوم میں ان کی امامت سے واقف ہوں۔ کشمیری صاحب کے متعلق علامہ کوثری صاحب نے فرمایا تھا کہ ابن ہمام کا کوئی ثانی ہے تو وہ علامہ کشمیری ہیں۔ علامہ ابو غدہ ان کو امام العصر لکھتے ہیں اور چھ بڑے فقہاء میں سے ان کا بڑا جامع تذکرہ کیا ہے۔ معارف السنن میں حضرت بنوری نے جس طرح اپنے استاذ کے علوم کو جمع کیا اگر اس کا کوئی ایک باب بھی مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہو جائے گا کہ حدیث نبوی کے مزاج سے علامہ کشمیری کتنی گہری واقفیت رکھتے تھے۔ فقہ، رجال اور اصول میں ان کی مجتہدانہ بصیرت تھی۔ ایک طالب علم اپنے ایسے اکابر سے علمی مناسبت پیدا نہ کر سکے تو اس کو کیا حق بنتا ہےکہ وہ آٹھ سال گزار کر انہی اکابر سے عقیدت کے نرے دعوے کرتا رہے۔
آخری بات کہ طالب علم کو تجزیوں اور تبصروں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے علمی اور تحقیقی مزاج میں پختہ تر کر دیا جائے۔البتہ فقہ السیرۃ ، تاریخ ، لغۃ الاعلام ، معاصر علوم جیسے طب وغیرہ کی اصطلاحات اور ان کا تعارف،جغرافیہ ، اور الغزو الفکری ثانوی حیثیت میں اس کو ضرور پڑھائے جائیں۔ عربی میں جتنی بھی جدید تحقیقات لکھی جاتی ہیں ان کی زبان ہماری روایتی کتابوں سے مختلف ہوتی ہے، جس کی وجہ سے طالب علم کو کافی دشواری ہوتی ہے۔ اسی طرح الحاد اورفتنوں کے ہرکارے مختف روپ دھارے پھیلے ہوئے ہیں۔ ان فتنوں کی سرکوبی اہل مدارس جو عظیم روایات کے امین ہیں، ہی بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ قائدانہ کردار اگر کسی نے خوش اسلوبی سے ادا کرنا ہے تو وہ یہی بوریاں نشین ہی ہو سکتے ہیں۔ مذکورہ مواد اس بابت کافی حد تک ممد ثابت ہو سکتا ہے۔
مدارس کےمحدود وسائل میں ان تجاویز پر عمل کرنا کوئی مشکل نہیں، نہ ہی ان میں کوئی ایسی بات ہے کہ اکابر اور روایات کے ٹوٹنے کا عذر پیش کر کے ٹالی جا سکے۔ ارباب مدارس کو سنجیدگی سے ان تجاویز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مدارس کے روشن علمی مستقبل کے لیے سنجیدہ کوشش ہی "علم اور اپنے اسلاف" سے اصل وفاداری ہے۔
(مدرسہ ڈسکورسز پاکستان کے زیر اہتمام ۱۸ جولائی ۲۰۱۹ء کو اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد میں’’علم الکلام کے جدید مباحث‘‘ کے عنوان پر منعقدہ سیمینار میں گفتگو)
میں سب سے پہلے مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس سال مدرسہ ڈسکورسز کا سمر انٹینسیو پروگرام (Summer Intensive ) پاکستان میں منعقد کیا ، اس سے بھی بڑھ کر ان کا شکریہ اس بات پر کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے بحیثیت استاد اور پاکستان میں لیڈ فیکلٹی کے طور پر نہایت اہم اور فعال کردار ادا کیا۔ان کے ساتھ میں ڈاکٹر ماہان مرزا صاحب کا بھی شکر گزار ہوں کہ جو اس پروگرام میں شروع دن سے میرے ساتھ ہیں اور اس کو چلانے میں اپنا بہت اہم کردار ادا کیا۔اگرچہ اس سال ڈاکٹر ماہان مرزا کی خدمات نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے انصاری انسٹیٹیوٹ نے حاصل کر لیں لیکن مجھے امید ہے کہ وہ آئندہ بھی اپنے وقیع علم اور وسیع تجربہ کی روشنی میں ہماری راہنمائی کرتے رہیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی میں ہندوستان میں مدرسہ ڈسکورسز کے استاد اور لیڈ فیکلٹی ڈاکٹر وارث مظہری کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ۔ میرا ان سے قریبی تعلق اس وقت سے ہے، جب میں نے اپنی کتاب "مدرسہ کیا ہے؟" (What is a Madrasa?)کی تحقیق کے سلسلے میں 2005 میں ہندستان کا دورہ کیا ۔ اس کتاب کا ترجمہ انھوں نے "دینی مدارس: عصری معنویت اور جدید تقاضے" کے عنوان سے کیا ہے جو ہندوپاک سے شائع ہوچکا ہے۔ اس موقع پر میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری جناب مولانا امین عثمانی صاحب کا بھی شکر یہ ادا کرنا چاہوں گاکہ ان کی باعظمت شخصیت نے ہی مجھے پاک و ہند میں نوجوان علماکی اگلی نسل کی رہنمائی پر ابھارا اور اس موضوع پر سنجیدگی سے سوچنے کے لئے آمادہ کیا۔ مجھے نہیں معلوم آپ میں سے کتنے لوگ مولانا عثمانی کو مکتوب نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ وہ اچھے مکتوب نگار ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ وہ نہایت پابندی کے ساتھ خط لکھنے کے عادی ہیں ۔ یہاں یہ اعتراف بجا ہے کہ ان کے متواتر خطوط نے ہی میرےضمیر کو جھنجھوڑا۔ انھوں نے ہمیشہ مجھے یہ یاد دلایا کہ دیوبند اور ندوہ جیسے عالمی اداروں سے عالمیت کی سند حاصل کرنے کے باوجود بھی طلبہ کو ہمیشہ اضافی کورس کرنےکی ضرورت رہتی ہے۔ انہوں نے مجھ پر پورے بھروسے اور اعتماد کا اظہار کیا کہ میں قدیم و جدید علو م کے امتزاج سے طلبہ مدارس کی جدید نسل کی رہنمائی کرسکتا ہوں اور روایت و جدت کا یہ دلچسپ امتزاج نہ صرف ہندستان بلکہ دیگر ممالک کے مسلمانوں کے لئے بھی بیحد سودمند ثابت ہوگا ۔
مولانا عثمانی کے ان خطوط سے الگ اور آزاد ہو کر ، میں خود بھی فکر اسلامی کی تشکیل وتجدید کے حوالے سے ہمیشہ فکرمند رہا ہوں۔ جنوبی افریقہ میں کئی سالوں کے قیام اور مسلم برادری اور تعلیمی ادارے کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ ہمارے بیشتر علما عہد جدید کے فکری چیلنجز سے کما حقہ واقف نہیں ہیں۔ اس دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے متنوع واقعات مجھے مسلسل پریشان کرتے رہے ہیں اور یقیناً آپ کو بھی پریشان کرتے رہے ہوں گے۔ نو سامراجی حملوں اور متعدد مقامات میں خانہ جنگیوں کے سبب مسلم دنیا کے بیشتر حصوں میں سیاسی انتشار کی صورتحال سے مسلم نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک اور دھندلا نظر آ رہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ہمارے علما کی بہت بڑی تعداد اس پیچیدہ دنیا کے سامنے مستقبل کے روشن امکانات پیش کرنے پر قادر نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان میں عزم و ارادے کا فقدان ہے بلکہ وہ ان سماجی حقیقتوں کو سمجھنے پر قادر اور ان سے نپٹنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔
امریکہ میں جب تک میرا قیام ڈیوک یونیورسٹی میں رہا، میں مولانا امین عثمانی صاحب کے مشوروں پر عمل نہیں کر سکا۔ جب میں یونی ورسٹی آف نوٹرے ڈیم پہنچا تبھی مدرسہ ڈسکورسز کے نام سے یہ پروگرام ممکن ہو سکا۔ ایک کیتھولک یونیورسٹی ہونے کی وجہ سے نوٹرے ڈیم یونیورسٹی مذہبی اور دینیاتی معاملوں میں بیحد دلچسپی لیتی ہے۔ امریکی یونیورسیٹیوں میں مذہبی علوم پر بحث و مباحثہ بہت حد تک قابل قبول ہے۔ لیکن دینیات (theology) پر یہ اعتراض وارد کیا جاتا ہے کہ وہ اقراری (confessional)ہے جو کسی کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی یونیورسٹی میں تفریق و انتشار کا باعث ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ ’دینیاتی جہاد‘ سے خائف ہیں۔ لیکن نوٹرے ڈیم میں دینیات پر گفتگو کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے میں اس جانب توجہ دلاتا رہا ہوں کہ اچھی دینیات کا مطلب کسی شخص کا معلومات کے وسیع دائرے میں شامل ہونا اور غیرعلمی سوچ پر مبنی مذہبی دعوؤں کے سلسلے میں تنقیدی رویہ اختیار کرنا ہے۔
مدرسہ ڈسکورسز کی شروعات کا مقصد اپنی اس علمی روایت کو دوبارہ زندہ کرنا ہے جس کے ہم سب نام لیوا اور جس کے دوبارہ احیاء کے خواہاں ہیں ۔ میں نہیں سمجھتا کہ مجھ میں اس کام کے لیے کوئی خاص صلاحیت ہے لیکن میں اس کام کو پورا کرنے کا عزم بہر حال رکھتا ہوں ۔ اس سلسلے میں مفتی صدر الدین آزردہ کا یہ شعر خوب ہے۔
کامل اس فرقہ زہاد میں ہوا نا کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے
اس پروگرام میں ہم سائنس اور علم کلام پر توجہ دیتے ہیں۔ سائنس ہمیں وجود اور موجودات کی فطرت اور حقیقت کی صورت سے واقف کراتی ہے۔ خلا میں ہوائی جہاز کیسے پروازکرتا ہے، سیل فون کے ذریعے آواز کی ترسیل کیوں کرممکن ہے اور کیسے مادہ کو توانائی میں بدل کر ایم آر آئی اسکین اور ایکس ریز کے استعمال کو ممکن بنایا جاتا ہے؟ اگر ہم ان حقائق کو نہ سمجھ سکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان حقائق کو نہ جاننا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ، انہیں جانے اور سمجھے بغیر بھی ہم اچھے مسلمان ہو سکتے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پھر کیسے ہم انسانی مساوات کے اس تصورکو سمجھ پائیں گے جو ان حقائق کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آیا ہے اور انہیں حقائق کی بنیاد پرپچھلے تین سو سالوں میں ہم ایک نئی دنیا(new cosmos)کے وارث ہوئے ہیں۔ یہ وہ درجہ وار دنیا(hierarchical cosmos)نہیں ہے جس کے ہم عادی تھے اور زمین جس کامرکز تھی، اس دنیا کو سمجھے بغیر جینیاتی انجینئرنگ (genetic engineering)اور مصنوعی انٹیلی جینس (artificial intelligence)سے متعلق کیسے ہم بامعنی فتویٰ یا رائے دے سکتے ہیں؟کیسے ہم میکانکی اور کیمیائی طریقہ علاج سے نپٹ سکتے ہیں؟ کیمیائی علاج اگرچہ کچھ نیا نہیں ، تاہم تجدیدی علاج (regenerative therapies) اور میڈیکل سائنس میں جینیات پر مبنی مداخلت (genetically-based interventions)میں دن بہ دن ترقی ہو رہی ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ اس وقت عام صورت اختیار کر لیں جب یہ طبی علاج معاشی عوامل کے اختلاط سے اپنے بامقصد استعمال کو آسان بنائے۔
(اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مختلف مسلم و غیر مسلم مفکرین کے اقتباسات کی روشنی میں علم کلام ، فلسفہ ، مابعد الطبیعات کے مطالعہ میں ان دونوں کی اہمیت ، خود مابعد الطبیعات کے مطالعہ کی اہمیت ، سائنس کے وجود و موجودات کی فطرت و ماہیت بیان کرنے میں کردار کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اسلامی علمی روایت کے بعض واقعات کی مدد سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ماضی میں مسلم دانشور جرات مند اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ انہیں اپنے گرد موجود علمی اور فلسفیانہ روایات کی مدد سے ایک نیا فکری نظام تیار کرنے میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں ہوا۔)
آج ہمیں موجودہ چیلنج کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنی روایت کی تجدید کریں اور ایک نئی تہذیب کی تعمیر کریں۔ کسی بھی تہذیب کی بنیاد انسانوں کی قوت، شخصیت، صلاحیت اوراخلاق پر ہوتی ہے نہ کہ بندوق اور اسلحہ کی قوت پر۔ ہماری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم اسلام کے ابتدائی اور درمیانی عہد میں ہونے والے تاریخی عمل میں واقع تنوع کا خالص تاریخی شعور نہیں رکھتے۔ ہم اس زمانے کے مسلم معاشرے میں متداول اختلاف آراء و نظریات سے بھی صحیح طور پر واقف نہیں ہیں۔ ماضی کے علمی تراث کے متعلق ہمارے دعووں میں حقیقت کا عنصر بہت تھوڑا ہے، بلکہ وہ زیادہ تر مفروضات پر مبنی ہیں۔
ایک مثال سے اس حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مغرب میں یونانی اور رومی علمی وراثت، مغرب کی تہذیب اور عیسائیت کی ترقی کے لئے ایک بنیادی عنصر تسلیم کی جاتی ہے۔ مغرب کی ہر چھوٹی بڑی یونیورسٹی اور کالج میں ،روم و یونان کی کلاسیکی ادبیات کی تعلیم کے لئے باقاعدہ ماہر اساتذہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یونانی و رومی روایت و تہذیب تو دور ، اسلامی ثقافت و تاریخ کی تعلیم کا اس پیمانے و معیار پر مہیا ہونا بھی نادر و نایاب ہی ہے۔ پوری مسلم دنیا میں ایسی مثال شاذ و نادر ہی ملے گی۔ہماری دوسری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہماری مذہبی اور دینیاتی فکر میں ادب و فنون کا فقدان ہے۔ اگر کبھی کوئی شعر یا نظم پڑھی جائے تو وہ صرف ’صرف و نحو‘ کے مسائل میں استشہاد کے لئے ہی پڑھی جاتی ہے، انسانی وجود ،معاشرہ اور فطر ت کے باب میں شاعری کو ہم غیرمستند ہی تصور کرتے ہیں۔ادب میں پوشیدہ معانی سے ہماری دوری نے وسعت و کشادہ ظرفی کے ساتھ سوچنے کی ہماری صلاحیت کو ختم کر دیا ہے۔ ہم میں وہ جمالیاتی شعور باقی نہیں رہا جو فن تعمیر اور فنون لطیفہ میں نظر آتا ہے۔ یہ تمام نشانیاں ایک ایسی تہذیب، ایک ایسی ثقافت اور ایک ایسی تاریخ کی ہیں جن کے معمار فکری طور پر دلسوز اور دل گداز ہوتے ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز میں ہماری کوشش رہتی ہے کہ ہم طلبہ کو اپنی تراث کے ان پہلووں سے واقف کرائیں اور ساتھ ہی ساتھ ان میں تاریخی اور فلسفیانہ شعور پیدا کریں۔ فلسفیانہ طرز استدلال کے فقدان نے اسلامی فکر کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میں یہاں موجود تمام حضرات کو دعوت دیتا ہوں کہ مدارس اسلامیہ کے فکری سرمایےکے احیا میں ہمارا ساتھ دیں۔ ہمارا مقصد ان مدارس کی عظمت رفتہ کو ایک بار پھر سے واپس لانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں اختلاف رائے کا احترام کرنا ہوگا، اور ایک ایسا ماحول تشکیل دینا ہوگا جہاں لوگ آزادی کے ساتھ بحث و مباحثہ اور غور و فکر کی روایت کو پروان چڑھاسکیں۔ اور جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ اجتہاد کی شکل میں تفکیر و تحقیق ہماری روایت کا حصہ رہے ہیں ۔ ایک نئی طرز کا غوروفکر ہی اس امت کے مستقبل کا ضامن ہوسکتاہے۔
وما علینا الا البلاغ
(ترتیب و تدوین : حافظ محمد رشید)
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد (IPS) نے ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی (ICRC) کے اشتراک سے ۲۷ و ۲۸ اگست ۲۰۱۹ء کو ’’اسلام اور اصول انسانیت‘‘ کے عنوان پر دو روزہ قومی کانفرنس کا اہتمام کیا جس کی مختلف نشستوں میں سرکردہ اصحاب فکر و دانش نے انسانیت اور انسانی حقوق کے حوالہ سے اسلامی تعلیمات و احکام کے متعدد پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ مجھے ۲۸ اگست کو کانفرنس کے تیسرے اجلاس میں معروضات پیش کرنے کے لیے کہا گیا جس کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کی جبکہ معاون صدر دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سہیل حسن تھے اور ان کے علاوہ اظہار خیال کرنے والوں میں مولانا محمد یاسین ظفر، ڈاکٹر شمس الحق حنیف، ڈاکٹر محمد اقبال خلیل، جناب خالد رحمان، ڈاکٹر عطاء الرحمان اور ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی شامل ہیں۔ میری گزارشات کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میری گفتگو کا عنوان ’’فرقہ وارانہ کشیدگی اور اصول انسانیت‘‘ ہے اور مجھے انسانی معاشرہ کی مختلف حوالوں سے تفریق کے متنوع دائروں میں انسانی اصول و اخلاق کی پاسداری کے تقاضوں پر کچھ گزارشات پیش کرنی ہیں۔ انسانی سماج میں تفریق کئی حوالوں سے ہمیشہ سے موجود چلی آرہی ہے۔ یہ نسل کے عنوان سے بھی ہے، رنگ اور زبان کے حوالہ سے بھی ہے، مذہب بھی اس کا ایک دائرہ ہے اور وطن، قومیت، علاقہ اور دیگر بہت سے امور اس کے اسباب میں شامل ہیں۔ مگر میں ان میں سے مذہب کے حوالہ سے پائی جانے والی تفریق کی بات کروں گا۔
مذہبی تفریق کا ایک دائرہ اسلام اور کفر کا ہے اور دوسرا دائرہ امت مسلمہ کے داخلی ماحول میں باہمی اختلافات کا ہے، ان میں سے ہر ایک کے بہت سے پہلو ہیں جن کا مختصر وقت میں تذکرہ تو کجا ان کی فہرست پیش کرنا بھی مشکل ہے، اس لیے ہر دائرہ کے دو بڑے پہلوؤں کا ذکر کروں گا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ اسلام اور کفر کا دائرہ سب سے نمایاں ہے ہے کہ انسانی معاشرہ میں مسلمانوں کے ساتھ مسیحی، یہودی، ہندو، بدھ مت، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور سب کے آپس میں معاملات چلتے رہتے ہیں۔ کافر قوموں کے ساتھ انسانی تعلقات اور اخلاقیات کے حوالہ سے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے چند واقعات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔
مذہبی تفریق کا دوسرا دائرہ وہ ہے جو امت کے داخلی ماحول میں پایا جاتا ہے اور اس کے بھی بہت سے پہلو ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو کافر کہہ دیتے ہیں اور گمراہ قرار دے دیتے ہیں جس کی بنیاد پر فرقہ واریت کا وسیع ماحول بن جاتا ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو کا موقع نہیں ہے اس لیے صرف ایک پہلو پر عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں جن لوگوں کو ان کے کلمہ پڑھنے کے باوجود قرآن کریم نے ’’وما ہم بمومنین‘‘ کہا اور ان کے بارے میں فرمایا کہ ’’واللہ یشہد انہم لکاذبون‘‘ اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ ایمان کے دعوے میں جھوٹے ہیں اور جن کو مدینہ منورہ میں ایک متوازی مرکز ’’مسجد ضرار‘‘ تعمیر کرنے کی کوشش پر قرآن کریم نے ’’کفرًا و تفریقاً بین المومنین وارصادًا لمن حارب اللہ ورسولہ‘‘ کا مصداق قرار دیا، ان کے بارے میں آنحضرتؐ کا معاشرتی طرز عمل یہ تھا کہ ان کا مرکز تو قائم نہیں ہونے دیا گیا بلکہ اسے گرا کر نذر آتش کر دیا گیا، لیکن ان کے ساتھ معاشرتی تفریق کا ماحول قائم نہیں ہونے دیا۔
میرا یک طالب علمانہ سا سوال ہے کہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں حضور نبی اکرمؐ سے فرمایا کہ ’’جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم‘‘ کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان کے ساتھ سختی کریں، آنحضرتؐ نے دس سالہ مدنی دور میں مختلف کافر قوموں کے ساتھ تو بعض روایات کے مطابق ستائیس جنگیں لڑی ہیں مگر منافقوں کے ساتھ ایک لڑائی بھی نہیں کی، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ نے اس آیت کریمہ پر عمل نہیں کیا؟ نعوذ باللہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ معاملہ یوں ہے کہ کافروں کے ساتھ تو آپ نے تلوار کا جہاد کیا مگر منافقین کے خلاف حکمت عملی کا جہاد کیا کہ نہ انہیں اپنے ملی معاملات میں دخل انداز ہونے دیا اور نہ ہی اپنے خلاف مدینہ منورہ میں کوئی محاذ قائم کرنے دیا۔ ایسے منافقین کا تناسب جنگ احد کے موقع پر ہزار میں تین سو تھا، مگر صرف آٹھ سال میں جناب نبی اکرمؐ کی وفات پر ان کی تعداد چند افراد تک محدود ہو کر رہ گئی تھی جن کے ناموں کا صرف حضرت حذیفہؓ کو علم تھا اور ان پر بھی پابندی تھی کہ وہ ان میں سے کسی کا نام ظاہر نہیں کریں گے، یہ جناب نبی اکرمؐ کی معاشرتی حکمت عملی اور تدبر کا شاہکار تھا۔
میں نے کلمہ پڑھنے والوں کے درمیان داخلی تفریق کا صرف ایک دائرہ بیان کیا ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے دائرے ہیں جن کے بارے میں فقہاء کرام نے مستقل احکام و قوانین بیان فرمائے ہیں ان میں سے کسی ایک سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام اور کفر کے دائرے مختلف حوالوں سے موجود ہیں مگر میری طالب علمانہ رائے ہے کہ معاشرتی تعلقات اور سماجی معاملات کی بنیاد انسانی اخلاقیات اور تقاضوں پر ہوتی ہے، ان دونوں امور کو اپنے اپنے دائرے میں رکھ کر ہی ہم معاملات کو صحیح رخ پر رکھ سکتے ہیں۔
یہاں مجھ سے میری گفتگو کے حوالہ سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا قادیانیوں کو بھی ان انسانی اصولوں اور اخلاقیات کے حوالہ سے گنجائش دی جا سکتی ہے؟ میری گزارش ہے کہ ہمارا قادیانیوں کے ساتھ تنازعہ ان کے معاشرتی اور شہری حقوق کے دائرہ میں نہیں ہے بلکہ ان کی طرف سے سماج اور معاشرہ کے متفقہ موقف کو مسترد کرنے کے باعث ہے، اس لیے ان کے ساتھ وہی معاملہ رکھا جا سکتا ہے جو پوری قوم اور سماج کے اتفاقی طرز عمل کی نفی کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر آج قادیانی جماعت سماج کی اجتماعیت کو قبول کر لے اور معاشرہ کے متفقہ موقف کو تسلیم کر لے تو جیسے باقی غیر مسلم سوسائٹیاں پاکستان میں باعزت شہری کے طور پر رہ رہی ہیں، قادیانیوں کا بھی یہ جائز حق ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پوری قوم اور سماج کے متوازی کھڑے رہنے کی بجائے قومی فیصلوں اور دستور کی بالادستی کو قبول کریں ، اس کے سوا یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، اللہ تعالٰی ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔
اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے حوالہ سے ایک خبر سوشل میڈیا میں مسلسل گردش کر رہی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ اگر وہ آئندہ الیکشن میں کامیاب ہوئے تو غرب اردن کے بعض علاقوں کو وہ باقاعدہ اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔
اسرائیل کی جو سرحدیں اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کے موقع پر طے کی تھیں، ان کے علاوہ اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے وہ بین الاقوامی دستاویزات میں متنازعہ سمجھے جاتے ہیں، اور غرب اردن کا وہ علاقہ بھی ان میں شامل ہے۔ چنانچہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے متنازعہ خطہ کو بھارت میں شامل کیے جانے کے اعلان پر عالمی قوتوں، بین الاقوامی اداروں اور حلقوں کے ڈھیلے ڈھالے ردعمل کو دیکھ کر اسرائیلی وزیراعظم کو بھی حوصلہ ہوا ہے اور انہوں نے یہ مبینہ اعلان کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں بحث کو بھی ہمارے ہاں وقفہ وقفہ سے زندہ رکھنے کی کوشش سوشل میڈیا پر دکھائی دے رہی ہے جس کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ شاید کسی وقت ’’داؤ لگ جائے‘‘۔
اس ضمن میں اب سے سولہ سال قبل ایک محترم دانشور کی طرف سے یہ سوال سامنے آیا تھا کہ اگر مسیحی ریاستوں کے ساتھ تعلقات درست ہیں تو یہودی بھی تو اہل کتاب ہیں، ان کی ریاست کو تسلیم نہ کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟ راقم الحروف نے اس پر چند گزارشات پیش کی تھیں جو ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کی ستمبر ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں شائع ہوئی تھیں، ان کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
مسیحی اور دیگر غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ خلافت اسلامیہ اور مسلم حکومتوں کے سفارتی تعلقات ابتدائے اسلام سے چلے آرہے ہیں اور ان سے کبھی اختلاف نہیں کیا گیا۔ البتہ دو ہزار سال بعد ازسرنو قائم ہونے والی یہودی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کے ساتھ سفارتی تعلقات اور اسے تسلیم کرنے کا معاملہ اس سے مختلف ہے اور اس کی الگ وجوہ و اسباب ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ تینوں رکاوٹیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے، عملی اور معروضی ہیں، ان کا کوئی باوقار اور قابل عمل حل نکال لیں اور بے شک اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر اسی طرح تسلیم کر لیں جس طرح ہم بہت سے مسیحی ممالک کو تسلیم کرتے آ رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس حوالے سے بات عملی مسائل اور معروضی حقائق پر ہونی چاہیے، نظری اور فکری مباحث میں الجھا کر اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے۔
خورشید احمد ندیم ایک معتدل مزاج اور فکری گہرائی رکھنے والے کالم نگار ہیں ۔اُن کی تحریر میں ایک مخصوص ٹھہراؤ اور رکھ رکھاؤ ہوتا ہے جسے میں ذاتی طور پر بہت پسند کرتا ہوں۔ ادبی خیال آفرینی سے اپنی تحریر کو مزین کرنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ اس وقت اُن کی کتاب "جنوبی ایشیا کے تناظر میں بیسویں صدی کا فہم اسلام" میرے سامنے ہے جس میں اُنہوں نے جنوبی ایشیا کے تناظر میں مختلف فکری شخصیتوں کے احوال اور واقعات کا تجزیہ پیش کیا ہے ۔ اسی کتاب میں ان کا ایک مضمون "مولانا وحید الدین کا اسلوب تنقید" شامل ہے اور میرے اس آرٹیکل کا مقصد اسی مضمون کا ایک تجزیاتی محاکمہ ہے ۔ اس پورے مضمون کا مرکزی نکتہ ایک ہی ہے کہ وحید الدین خان صاحب کا تنقیدی اسلوب بہت منفی اور غیر ایجابی ہے اور اُمت کے اکابر واصاغر اُن کی جادہ اعتدال سے ہٹی ہوئی تنقید کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اس بات کے اثبات کے لیے اُنہوں نے مولانا مودودی اور دیگر اکابرین کے نام دیے ہیں کہ کس طرح خان صاحب کی توہین آمیز تنقید سے ان شخصیات کی تخفیف ہورہی ہے۔ انہوں نے خصوصی طور پر مولانا مودودی کے حوالے سے مثال دے کر لکھا ہے کہ خان صاحب نے ان کی نیت پر حملہ کیا ہے جبکہ بعض صحابہ کرام اور صحابیات رضی اللہ عنہم پر بھی خان صاحب نے بڑے نامناسب انداز میں تنقید کی ہے۔
فی الحال راقم کا ارتکاز خورشید احمد ندیم صاحب کے اس دعویٰ کی گرہ کشائی پر رہے گا کہ خان صاحب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اُس مثال کی تجزیاتی تحلیل خان صاحب کے اپنے الفاظ میں کی جائے گی جو خورشید صاحب نے ثبوت کے طور پر پیش کی ہے ۔ (جہاں تک مولانا مودودی اور دیگر اکابرین پر تنقید کی بات ہے تو وہ سردست ہماری بحث سے خارج ہے)۔ خورشید صاحب لکھتے ہیں:
"حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہم کے عہد میں جو طرز عمل اختیار کیا، وہ مولانا کے تصور دین کے مطابق چونکہ درست نہیں تھا، اس لیے دیکھئے کہ وہ ان کا اور ان کی والدہ کا ذکر کیسے کرتے ہیں" (خورشید احمد ندیم، جنوبی ایشیا کے تناظر میں بیسوی صدی کا فہم اسلام، صفحہ 182)
پھر خان صاحب کا درج ذیل اقتباس نقل کرتے ہیں:
"میں اپنے قریبی رشتہ داروں میں ایک سے زیادہ ایسے افراد کو جانتا ہوں جو کہ کم عمری میں ماں کی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پوری زندگی بربادی کا نشان بن کر رہ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں کے روپ میں عورت کا رول انسانی زندگی میں بہت زیادہ ہے۔ عبداللہ بن زبیر کی ماں (اسماء) نے ان کو ایک بڑے اقدام پر اُبھارا چنانچہ ایک شخص جو اقدام کا ارادہ چھوڑ چکا تھا، وہ دوبارہ اقدام کے لئے آمادہ ہوگیا۔ شہنشاہ اکبر کی ماں (مریم مکانی) نے اکبر کو ملا عبدالنبی کے خلاف کار روائی سے روکا چنانچہ اکبر ان کے خلاف سخت کار روائی سے باز رہا وغیرہ وغیرہ ۔ راقم الحروف اگر بچپن میں ماں سے محروم ہوجاتا یا اگر مجھ کو ایسی ماں ملتی جو مجھے اپنے دشمنوں کے خلاف لڑنے جھگڑنے پر اُکساتی رہتی تو یقینی طور پر میری زندگی کا رُخ دوسرا ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایسے انجام سے بچایا اور مجھ کو اپنی صداقت کے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ "(وحید الدین خان ، خاتون اسلام ، صفحہ 204) (حوالہ مذکورہ بالا)
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے خورشید صاحب لکھتے ہیں:
"مولانا وحید الدین کے نزدیک صحابہ رضی اللہ عنہم پر تنقید کرنا جائز نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عبداللہ ابن زبیر پر تنقید نہیں ؟ کیا یہ حضرت اسماء بنت ابی بکر پر تنقید نہیں ؟ ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت اسماء کا ذکر اس اسلوب میں اور اس تقابل کے ساتھ ، کیا تنقید کا کوئی قابل تحسین اسلوب ہے؟"
راقم کا یہ ماننا ہے کہ حق کو پانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ تلاش ہے۔ میری احقاق حق کی سعی جس میں تلاش اور وجدان دونوں شامل ہیں، مجھے خورشید صاحب کے فکری حاصل کی بالکل متضاد پر سمت لے گئی ہے ۔ میں تقریبا ایک دہائی سے وحید الدین خان صاحب اور اُن کے ناقدین کے درمیان جاری فکری کشا کش سے حقیقت کشید کرنے کی سعی کر رہا ہوں۔ بہرحال اس بحث سے قطع نظر، دیکھتے ہیں کہ خود مولانا اپنے خلاف اس تنقید کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ مولانا صاحب کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے:
"پاکستانی ماہنامہ کے مذکورہ مضمون میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بلاشبہ غیر علمی بھی ہے اور غیر ذمہ دارانہ بھی ۔ یہ اعتراض راقم الحروف کی کتاب خاتون اسلام سے لیا گیا ہے۔ کوئی بھی شخص اس باب کو غیر جانبدارانہ انداز سے پڑھے گا تو یقیناً وہ جان لے گا کہ اس باب کا موضوع صحابہ یا صحابیہ کی روش پر تبصرہ نہیں ہے جس کی ایک مثال "خلافت و ملوکیت" نامی کتاب ہے ۔ میری کتاب کا موضوع اس کے برعکس صرف ایک مغربی پروپیگنڈے کا جواب ہے۔ میں نے اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے خانہ نشین عورت بھی بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے جس کو مغربی لوگ صرف غیر خانہ نشین خاتون کے لئے ممکن سمجھتے ہیں۔ اس نکتہ کو ثابت کرنے کے لئے میں نے کتاب میں تین خواتین کی مثالیں دی ہیں۔ حضرت اسماء، مریم زمانی، زیب النساء ۔ میری کتاب کی مذکورہ عبارت میں نعوذ باللہ کسی صحابی یا صحابیہ پر تنقید ہر گز نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ اس میں سادہ طور پر تین خواتین کا ،خاتون کی حیثیت سے رول بتایا گیا ہے۔ عبارت کے مدعا کے مطابق اس مثال میں مذکورہ خاتون کا صحابیہ ہونا ایک اتفاقی امر ہے۔ بلاغت کا مسلمہ اُصول ہے کہ تمثیل کے طریقہ میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ پیش نظر مثال کا متعلق پہلو ہی مقصود ہوتا ہے اور اس کے علاوہ دیگر پہلو وہاں غیر متعلق قرار پاتے ہیں۔
"In employing the method of anology it should always be possible to show that the resemblances noted bear relevance on the point to establish whereas the difference are irrelevant (1/337)"
خان صاحب اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
"مذکورہ تنقید میں دو واضح غلطیاں کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ناقد نے اس علمی نکتہ کو ملحوظ نہیں رکھا کہ اس مثال میں حضرت اسماء کا نام صحابیہ کی حیثیت سے مراد نہیں ہے بلکہ دوسری دو خواتین کی طرح ان کا نام بھی یہاں ایک خانہ نشین خاتون کی حیثیت کے مراد ہے ۔ دوسری بات یہ کہ میری کتاب میں ان خواتین کا نام تنقید کے مقصد سے نہیں لایا گیا بلکہ ان کے تعریفی کارنامہ کی حیثیت سے لایا گیا ہے۔ مذکورہ ناقد نے اپنے ایک ذہنی تخیل کو شامل کرکے غیر ضروری طور پر اس کو قابل اعتراض بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح اُنہوں نے ایک تعریفی حوالہ کو خلاف واقعہ طور پر تنقیدی حوالہ بنادیا ہے ۔" (الرسالہ ، اپریل 2002ء، صفحہ 40-39)
خورشید صاحب کا موجودہ تنقیدی مضمون ماہنامہ اشراق کے شمارہ ستمبر 2001ء میں بھی شائع ہوا تھا۔ خان صاحب "پاکستانی ماہنامہ" کا ذکر کر کے در اصل اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ خان صاحب کے ذاتی خیالات ہیں اور اس تنقید کا جواب ہے جو خورشید احمد ندیم نے صاحب پر کی ہے۔
کچھ ایسی قسم کی ہی تنقید کا مظاہرہ دیگر ناقدین نے بھی کیا ہے جس میں محسن عثمانی ندوی کی کتاب "وحید الدین خان: علماء اور دانشوروں کی نظر میں"، محمد متین خالد کی "وحید الدین خان: اسلام دشمن شخصیت" اور مولانا عتیق احمد قاسمی کی "فکر کی غلطی" خاص طور پر شامل ہیں۔ تا ہم ان تمام تنقیدی کتب میں ایک جوہری اور اساس فرق یہ پایا جاتا ہے کہ خورشید احمد ندیم صاحب کی زبان علمی ہے اور انھوں نے پوری کوشش کی ہے کہ غیر علمی یا غیر اخلاقی زبان کا استعمال نہ کیا جائے جو بدقسمتی سے دیگر کتابوں میں پایا جاتا ہے ۔
ایک دوسری جگہ پر خان صاحب صحابہ کرام پر تنقید کے حوالے سے اپنا مسلک یوں بیان کرتے ہیں:
"ایک صاحب نے کہا کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بالکل لغو بات ہے۔ صحابہ اور علماء کے درمیان کاما نہیں ہے، بلکہ فل سٹاپ ہے ۔ علماء پر تنقید کا ہر شخص کو حق حاصل ہے مگر صحابہ رضی اللہ عنہم پر تنقید کا کسی کو حق نہیں ۔ اصحاب رسول ﷺ کا معاملہ ایک مخصوص معاملہ ہے، اس لئے صحابہ رضی اللہ عنہم مطلق طور پر تنقید سے مستثنیٰ ہیں" (حکمت اسلام ، صفحہ 308)
پھر اسی بات کو بڑے جزم و وثوق کے ساتھ دہراتے ہوئے لکھتے ہیں:
"میں نے کبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید نہیں کی اور نہ بقید ہوش و حواس ایسا کر سکتا ہوں ۔" (حکمت اسلام ، صفحہ 308)
خورشید صاحب کی تنقید کے جواب میں خان صاحب کا جواب ملا حظہ کیجئے، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کے معاملے میں خان صاحب کا جزم اور ان کی فکری حساسیت بھی دیکھ لیجئے جو اُن کے الفاظ سے چھلک رہی ہے ۔
خورشید صاحب کو اس چیز پر بہت پریشانی ہے کہ خان صاحب نے مولانا مودودی سمیت دیگر ملی رہنماؤں پر جس اسلوب میں تنقید کی ہے، وہ ہر شخص کی دل آزاری کا باعث ہےہ جو ان سے محبت رکھتا ہے۔ خورشید صاحب اسی کتاب میں لکھتے ہیں:
"غور کیجئے تو یہ بات خود ان کے فلسفہ دین سے متصادم ہے۔ اگر جنوبی ایشیا کے مسلمان ان کے مدعو ہیں تو کیا ان پر یہ الزام نہیں تھا کہ وہ ان کو اپنی بات کا مخاطب بناتے وقت ان کے جذبات کو بیش نظر رکھے۔ آج اس خطے کا کون سا مسلمان ایسا ہے جو شاہ ولی اللہ شیخ احمد سر ہندی ،سید احمد شہید، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شبلی نعمانی، علامہ محمد اقبال، مولانا مودودی، ٹیپو سلطان، محمد علی جناح جیسی تمام شخصیات یا ان میں بہت سے لوگوں سے تعلق خاطر نہیں رکھتا یا ان کی فکر اور اخلاص کا مداح نہیں ہے؟ جب آپ ان سب پر ایسے اسلوب میں تنقید کریں گے جس سے ان کو جذبات کو ٹھیس پہنچے تو پھر یہ لوگ آپ کے مخاطب کیسے بن سکتے ہیں۔" (صفحہ نمبر 181)
خورشید صاحب مزید لکھتے ہیں:
"کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ مولانا وحید الدین کی تحریروں میں ایجابی پہلو غالب رہے " (صفحہ 83)
ہم دوبارہ خان صاحب کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ خورشید صاحب اس سارے مسئلے کو جس زاویے سے دیکھ رہے ہیں، خود خان صاحب اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ اُن سے اسی قسم کا ایک سوال ایک قاری نے کیا۔ یہ سوال و جواب ملاحظہ کیجئے:
" ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ مسلم اکابر کو ہدف تنقید کیوں بناتے ہیں؟ آپ اس کے بغیر بھی اپنی بات کہہ سکتے ہیں آپ جب مسلم اکابر کا نام لےکر ان کو ہدف تنقید بناتے ہیں تو اس سےقاری کے دل پر چوٹ لگتی ہے ، اس قسم کی تنقید کا فائدہ سمجھ میں نہیں آتا " (مولانا وحید الدین خان ،سوال و جواب، صٖفحہ ، 11)
خان صاحب اپنی رائے یوں بیان کرتے ہیں:
"آپ کی یہ شکایت در اصل غلط فہمی پر مبنی ہے۔ آپ اس قسم کی تحریروں کی بابت یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں کچھ شخصیتوں کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے ۔ حالانکہ اصل بات یہ نہیں ہے اصل یہ ہے کہ میرا مقصد 20 ویں صدی کے ایک انوکھے ظاہرہ (Phenomenon) کی توجیہ ہوتا ہے۔ اس ظاہرہ کے ساتھ چونکہ بہت سی شخصیتوں کے نام وابستہ ہیں، اس لئے ان کے نام حوالہ بھی ضمنا ان تحریروں میں آجاتا ہے۔ وہ انوکھا ظاہرہ یہ ہے کہ 20 وی صدی میں اسلام کے نام پر بہت بڑی بڑی کوششیں اور قربانیاں سامنے آئیں مگر ان کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ میں تاریخ اسلام کے اس انوکھے ظاہرہ کی توجیہ کرنا چاہتا ہوں ۔ اس میں ضمنی طور پر شخصیتوں کے نام بھی آجاتے ہیں۔ اس کا مقصد کسی شخصیت کو الزام دینا نہیں ہوتا بلکہ ایک تاریخی ظاہرہ کی توجیہ تلاش کرنا ہوتا ہے۔ آپ جیسے لوگ اگر اس فرق کو سامنے رکھ کر مطالعہ کریں تو آپ کو میری ان تحریروں سے کوئی شکایت نہ ہوگی" (سوال و جواب ، صفحہ 11)
خان صاحب کے درج بالا الفاظ سے ان کا زاویہ نظر کُھل کر سامنے آ جاتا ہے، بشرطیکہ پڑھنے والی آنکھ بے تعصب ہو۔ خان صاحب بسیار نویس مصنف ہیں۔ ایک ہی موضوع پر مختلف پہلوؤں سے آراء کا اظہار کرتے ہیں، مختلف زاویوں سے ایک ہی موضوع کی فکری و تجزیاتی تحلیل کرتے ہیں۔ جب تک کسی موضوع سے متعلق خان صاحب کے مختلف پہلوؤں، زاویوں اور Vintage Points کو نہ سمجھا جائے اور ان سب کو یکجا کرکے یک رنگی تصویر میں نہ ڈھالا جائے، اُس وقت تک ان کا پورا موقف واضح نہیں ہو سکتا۔
خورشید صاحب کے اس مضمون میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنھیں میں جاروبی بیانات (Sweeping Statement) پر محمول کرتا ہوں جس پر بہت کچھ کہنے اور لکھنے کی مزید ضرورت ہے۔ اختتام پر خان صاحب کے کچھ اور جملے بھی دیکھ لیجئے اور ان میں پنہاں خان صاحب کا پیغام بھی سمجھ لیجئے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
"میں نے کہا کہ گائے کی خوراک گھاس ہے اور شیر کی خوراک گوشت، یہی معاملہ انسانوں کا ہے انسانوں میں بھی مختلف قسم کے لوگ ہیں اور الرسالہ بہرحال ہر ایک کی غذا نہیں بن سکتا ۔ الرسالہ صرف سنجیدہ اور حقیقت پسند لوگوں کی غذا ہے اور ہمیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں اگر غیر سنجیدہ اور غیر حقیقت پسند لوگ الرسالہ میں اپنی غذا نہ پائیں۔" (ڈائری 84-1983، صفحہ 378)
امام شافعی کے موقف کا محوری نکتہ یہ تھا کہ سنت کا وظیفہ چونکہ قرآن مجید کی تبیین ہے اور اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی راہ نمائی میسر تھی، اس لیے مراد الٰہی کے فہم میں سنت میں وارد توضیحات نہ صرف حتمی اور فیصلہ کن ہیں، بلکہ قرآن اور سنت کی دلالت میں کسی ظاہری تفاوت کی صور ت میں انھیں قرآن کی تبیین ہی تصور کرنا ضروری ہے، یعنی انھیں اصل حکم میں تغییر یا اس کا نسخ نہیں مانا جائے گا، بلکہ قرآن کی ظاہری دلالت کو اسی مفہوم پر محمول کرنا ضروری ہوگا جو احادیث میں بیان کی گئی تفصیل وتوضیح سے ہم آہنگ ہو۔
حنفی اصولیین نے اس پر یہ تنقید کی کہ اس نقطہ نظر میں قرآن کے ظاہراً واضح اور غیر محتمل احکام میں اور محتمل وقابل تفصیل احکام میں فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا اور دونوں طرح کے احکام کو ایک ہی درجے میں رکھ کر، سنت میں وارد تخصیص کو ’بیان‘ شمار کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں قرآن کی اپنی دلالت ثانوی، غیر اہم اور مطلقاً خارجی توضیح وتشریح پر منحصر قرار پاتی ہے۔ چنانچہ حنفی اصولیین نے بیان کی مختلف صورتوں، تخصیص اور نسخ کا مفہوم اور ان کا باہمی امتیاز واضح کرنے پر بطور خاص توجہ دی اور اس اس بنیادی موقف کو محکم بنانے کی کوشش کی کہ خود قرآن کے اپنے متن کی داخلی قطعیت اور وضوح یا ظنیت واحتمال کو نظر انداز کرتے ہوئے مطلقاً ہر طرح کے عمومات کو ’محتمل البیان‘ قرار دینا درست نہیں اور یہ کہ احادیث میں وارد تمام تخصیصات کوبھی سادہ طور پر محض ’بیان‘ اور ’وضاحت‘ قرار دینا علمی وعقلی طور پر ایک کمزور بات ہے۔
امام طحاوی اور ابن حزم کے نقطہ نظر کے مطالعہ کے ضمن میں ہم نے دیکھا کہ قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث اپنی نوعیت کے لحاظ سے اتنی سادہ نہیں ہے کہ امام شافعی اور حنفی اصولیین میں سے کسی ایک کے رجحان کے مقابلے میں دوسرے رجحان کو فیصلہ کن اور قطعی انداز میں ترجیح دی جا سکے۔ دونوں زاویوں میں ایک منطقی وزن موجود ہے جو علمی وعقلی طور پر متاثر کرتا ہے اور بحث کو سنجیدگی اور گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرنے والے اکابر اہل علم دونوں کے وزن کو محسوس کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے امام طحاو ی اور ابن حزم، دونوں نے امام شافعی کے اصولی نقطہ نظر سے ہمدردی رکھتے ہوئے بھی، ان کے اس موقف کی کمزوری کو محسوس کیا کہ حدیث کو قرآن کا ’بیان‘ قرار دے کر قرآن کے ظاہری مفہوم کو ہر ہر مثال میں حدیث میں وارد حکم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے متعدد مثالوں میں امام شافعی کے اس زاویہ نظر سے اختلاف کیا اور اس کے بجائے قرآن کی ظاہری دلالت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مختلف توجیہ کے ذریعے سے حدیث کو قرآن کے ساتھ متعلق کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ابن حزم نے سنت کے ذریعے سے قرآن کے نسخ کے جواز کے حوالے سے احناف سے اتفاق کرتے ہوئے امام شافعی کے موقف پر سخت تنقید کی اور حنفی اصولیین کے اس استدلال کا وزن تسلیم کیا کہ نصوص کے باہمی تعلق میں زمانی تقدم یا تاخر کے سوال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور کسی نص میں مذکور حکم پر زیادت یا اس میں تخصیص کو ’بیان‘ قرار دینے کے لیے اس کا زمانی لحاظ سے اصل حکم کے مقارن ہونا ضروری ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ابن حزم کے ہاں اس الجھن کا بھی واضح احساس دکھائی دیتا ہے کہ دونوں نصوص کے زمانی طور پر مقارن ہونے کی صورت میں حکم کا ایک حصہ وحی متلو میں اور دوسرا غیر متلو میں نازل کرنے کی کوئی معقول توجیہ نہیں کی جا سکتی۔
دونوں طرف کے زاویہ نظر اور استدلال میں وزن محسوس کرنے کا یہی رجحان ہمیں بعض شافعی اہل علم کے ہاں بھی دکھائی دیتا ہے جس کی کچھ توضیح ان سطور میں پیش کی جا رہی ہے۔
احناف کا استدلال یہ تھا کہ قرآن کے جن بیانات کی اپنی دلالت قطعی اور حتمی نہیں، بلکہ وہ توضیح وتفصیل کا احتمال رکھتے ہیں، ان سے متعلق تو سنت میں وارد توضیح کو تبیین قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن جو احکام اپنے مفہوم اور دلالت میں بالکل واضح ہیں اور مزید کسی تشریح وتبیین کا احتمال نہیں رکھتے اور بظاہر کوئی ایسا قرینہ بھی موجود نہیں جو ان کے ظاہری مفہوم کے مراد نہ ہونے پر دلالت کرتا ہو تو ان سے متعلق سنت میں وارد تفصیلات کو علی الاطلاق تبیین نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی صورت میں ضروری ہوگا کہ متعلقہ احادیث کے، زمانی لحاظ سے قرآن میں نازل ہونے والے حکم کے مقارن ہونے یا نہ ہونے کی تحقیق کی جائے اور اگر دلائل وقرائن سے دونوں حکموں کا مقارن ہونا ثابت ہو جائے تو درست، ورنہ اسے لامحالہ “تغییر” اور “نسخ” قرار دیا جائے گا اورایسی احادیث کو اسی صورت میں قبول کیا جائے گا جب وہ شہرت واستفاضہ سے ثابت ہوں یا انھیں امت کے اہل علم کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہو۔ تبیین اور تغییر میں فرق کے لیے اصل حکم اور تخصیص کے مقارن ہونے کی بحث اس نکتے پر مبنی تھی کہ آیا تاخیر البیان من وقت الحاجة جائز ہے یا نہیں؟ حنفی اصولیین کا موقف یہ تھا کہ کلام میں اگر کوئی استثناءیا تخصیص متکلم کی مراد ہے تو اسے اصل کلام کے ساتھ ہی بیان ہونا چاہیے، کیونکہ پورا مدعا اس کے ساتھ ہی واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ مدعا کے کچھ حصے کی وضاحت کو موخر کر دینا عقلاً درست نہیں۔ اگر متکلم ایسا کرے تو موخر کلام کے ذریعے سے بیان کیے جانے والے استثناءیا تخصیص کی نوعیت بیان کی نہیں، بلکہ تغییر اور نسخ کی ہوگی۔
جمہور اصولیین نے اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کیا کہ کلام میں جو استثناءیا تخصیص متکلم کی مراد ہے، اسے وقت حاجت سے موخر کرنا تو درست نہیں، لیکن ضروری نہیں کہ اسے لازماً اصل کلام میں ہی بیان کیا جائے۔ اس کے بجائے اگر اس وضاحت کو اس وقت تک موخر کیا جائے جب حکم پر عمل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس میں عقلاً کوئی مانع نہیں۔ جمہور اصولیین نے کہا کہ بعض دفعہ حکمت کا تقاضا یہ ہو سکتا ہے کہ کسی حکم کو اصولی اور عمومی انداز میں ہی بیان کیا جائے اور متکلم کا مقصود ہی یہ ہو کہ سننے والے اسے صرف اصولی طور پر ذہن نشین کر لیں، کیونکہ اس سے متعلق تفصیلات کو پہلے مرحلے پربیان کرنا خلاف مصلحت ہو سکتا ہے۔ (الجوینی، البرہان، ص ۱۶۷)
ابن حزم لکھتے ہیں کہ شریعت میں اس کی کئی نمایاں مثالیں موجود ہیں کہ ایک وقت تک کسی حکم کے اصولی بیان پر اکتفا کی گئی اور پھر حسب مصلحت مناسب اوقات میں اس کی جزئیات وتفصیلات بیان کی جاتی رہیں۔ مثلاً شراب سے متعلق ابتداءاً قرآن میں ناپسندیدگی کے اشارات نازل کیے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اشارے کو سمجھیں اور جس کے پاس شراب ہو، وہ اسے بیچ دے۔ پھر جب وہ وقت آیا جس میں شراب سے کلی اجتناب کا حکم دینا مقصود تھا تو اصل حکم بیان کر دیا گیا۔ اسی طرح حج کی فرضیت کا حکم بہت پہلے نازل کر دیا گیا تھا، لیکن اس کے مناسک کی حتمی تفصیل وتوضیح کو موخر رکھا گیا تاآنکہ حجة الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وعمل سے اس کی وضاحت فرما دی۔ (الاحکام فی اصول الاحکام ۱/۸۹، ۹٠)
جمہور اصولیین نے یہ بھی کہا کہ ایک مسئلے کی جملہ تفصیلات کو ایک ہی نص میں بیان کرنا عقلاً لازم نہیں۔ حکم کے مختلف پہلوو¶ں اور جزئیات وتفصیلات کو حسب ضرورت مختلف مواقع پر بیان کیا جا سکتا ہے، اس لیے اگر متاخر اورمنفصل کلام کے ذریعے سے کسی حکم کی بعض قیود وشرائط یا استثناءوتخصیص کو واضح کیا جائے تو اس سے بیان کی حقیقت پر کوئی زد نہیں پڑتی اور اسے نسخ سے تعبیر کرنا غیر ضروری ہے۔ امام الحرمین الجوینی اس نوعیت کی تخصیصات کے حوالے سے سنت کے عمومی اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“ہم بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ ایسے احکام جن کا (قرآن میں) صرف اصولی طور پر ذکر کیا گیا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات پیش آنے پر ان کی تفصیلات بیان کیں، بہت سے ہیں۔ جو شخص اس کا انکار کرتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن میں کوئی ایسا حکم وارد نہیں ہوا جو (بظاہر) عموم کا مقتضی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے وارد ہونے کے فوراً بعد اس (میں موجود تخصیصات کی) وضاحت نہ کی ہو تو اس کا دعویٰ بہت ہی عجیب ہے اور وہ ایک بالکل جھوٹی اور بے بنیاد بات کہتا ہے۔ اس کی مثال کے طور پر ہم آیت سرقہ کا ذکر کر سکتے ہیں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال مسروقہ کی مقدار، حرز اور نصاب وغیرہ کی تفصیلات اس کے نزول کے متصل بعد ایک ہی مجلس میں بیان نہیں فرما دیں۔ آپ جتنی توجہ (احکام شرعیہ کو امت تک) منتقل کرنے پر دیتے تھے، اتنی توجہ ان کی (جزئیات وتفصیلات) وضاحت پر نہیں دیتے تھے، چہ جائیکہ فرضی تفصیلات کے درپے ہوں، بلکہ جب کوئی واقعہ پیش آتا جس میں آپ سے رجوع کیا جاتا تو آپ بقدر ضرورت اس کی مناسب وضاحت فرما دیتے تھے۔ اس کا انکار کرنے والا کوئی ضدی اور معاند ہی ہو سکتا ہے۔”
دوسرے مقام پر مزید مثالوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
“اللہ تعالیٰ نے (قسم کے کفارے میں) غلام کا اور اسی طرح (مسکینوں کو) کھانا کھلانے اور کپڑے پہنانے کا ذکر مطلقاً فرمایا ہے اور تفصیلات سے تعرض نہیں کیا، کیونکہ یہ حکم اللہ تعالیٰ نے ذکر ہی ایسے زاویے سے کیا ہے جس میں تفصیلات اور جزئیات کا بیان ضروری نہیں۔ یہی اسلوب اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’والسارق والسارقة‘ اور ’الزانیة والزانی‘ اور ’فاقتلوا المشرکین‘ میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ یہ آیات ایک اصولی حکم کے بیان کے لیے ہیں اور اصول کے واضح ہو جانے کے بعد تفصیلات کی وضاحت (اگلے مرحلے پر کیے جانے) میں کوئی رکاوٹ نہیں۔”
تاہم شافعی فقہاءاور اصولیین کے ہاں اس نکتے کا بھی گہرا ادراک دکھائی دیتا ہے کہ اصولی حکم کے بیان پر اکتفا اور جزوی تفصیلات سے عدم تعرض کے مذکورہ ضابطے کا اطلاق بعض مثالوں میں (جیسا کہ سرقہ کی مقدار، حرز اور نصاب وغیرہ کی بحث میں) اگرچہ بہت معقول اور موثر دکھائی دیتا ہے، لیکن بہت سی دیگر مثالوں کی توجیہ اس اصول کی روشنی میں نہیں کی جا سکتی۔ اس حوالے سے خاص طور پر حسب ذیل تین مثالوں کا مطالعہ مفید ہوگا:
۱۔ سورة النساءکی آیت ۴۲ میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے حرام خواتین کی ایک فہرست ذکر کرنے کے بعد آخر میں وَاحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاءَ ذَلِکُم سے باقی تمام خواتین کے ساتھ نکاح کی اباحت بیان فرمائی ہے، جبکہ احادیث میں جمع بین الاختین کے علاوہ پھوپھی اور خالہ کے ساتھ بھتیجی اور بھانجی کو بھی ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ امام شافعی نے یہاں یہ استدلال پیش کیا کہ کسی نص میں اگر کسی امر کی اباحت بیان کی گئی ہو تو وہ عقلاً اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے کہ شارع نے دوسری نصوص میں اس اباحت پر جو قدغنیں عائد کی ہیں، وہ بھی مراد ہیں اور انھیں ملحوظ رکھتے ہوئے ہی حکم کی تعبیر کی جائے گی۔ مثلاً زیر بحث اباحت چار بیویوں کی تحدید کے ساتھ مشروط ہے جو یہاں مذکور نہیں، بلکہ دوسری نصوص میں بیان کی گئی ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ حدیث میں پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو ایک آدمی کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنے کی جو ممانعت بیان کی گئی ہے، اس کی نوعیت بھی یہی ہے اور گویا وَاحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاءَ ذَلِکُم میں ہی اصولی طور پر یہ مضمر ہے کہ یہ صورت بھی محرمات نکاح میں داخل ہے ۔ (الام ۱/۸۸، ۱٠٠، ۶/۱۲، ۳۹٠)
اس استدلال میں بہت بنیادی نوعیت کی کمزوری پائی جاتی ہے۔ امام صاحب یہاں یہ نظر انداز کر رہے ہیں کہ کسی بھی نص میں حکم کے ایک خاص پہلو کا بیان اصلاً مقصود ہوتا ہے جسے علمائے اصول ’ما سیق لہ الکلام‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حکم کے کچھ دوسرے پہلو دیگر نصوص کا موضوع ہو سکتے ہیں، لیکن وہ خاص پہلو جس کا بیان کسی نص میں مقصود ہے، اسے مکمل اور غیر محتمل ہونا چاہیے، چاہے دوسرے پہلووں کا سرے سے ذکر ہی نہ کیا جائے۔ مثلاً زیربحث آیت کا اصل موضوع ان رشتوں کی وضاحت ہے جن کے ساتھ نکاح حرام ہے۔ آیت میں اس کی ایک پوری فہرست ذکر کر کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ان عورتوں کے علاوہ باقی سب عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں۔ اگر یہ فہرست مکمل نہیں اور اس قید کے ساتھ مقید ہے کہ ان کے علاوہ کچھ مزید رشتے بھی محرمات کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں جن کا ذکر دیگر نصوص میں تلاش کرنا چاہیے تو سرے سے وَاحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاءَ ذَلِکُم کی تصریح کی کوئی معنویت ہی نہیں باقی رہتی۔ امام صاحب نے اس اجازت کے چار بیویوں کی تحدید سے مشروط ہونے کی جو مثال پیش کی ہے، وہ بالکل غیر متعلق ہے، کیونکہ بیویوں کی تعداد ایک الگ اور مستقل مسئلہ ہے جو اس آیت میں سرے سے زیر بحث ہی نہیں۔ اس لیے اس کے یہاں مذکور نہ ہونے سے یہ اخذ کرنا منطقی طور پر درست نہیں کہ اسلوب کلام اپنی ظاہری دلالت کے لحاظ سے محرمات کی مذکورہ فہرست میں بھی کسی اضافے سے مانع نہیں۔
امام شافعی کا پیدا کردہ یہ خلط مبحث شافعی اصولیین پر مخفی نہیں رہ سکا، چنانچہ امام الکیا الہراسی کو اس بحث میں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ پھوپھی اور خالہ کے ساتھ بھتیجی اور بھانجی کو جمع کرنے کی حرمت اگر اس آیت سے موخر ہے تو اسے نسخ پر ہی محمول کرنا ممکن ہے، اسے تخصیص نہیں کہا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:
“جان لو کہ کتاب اللہ میں نصاً جس بات کی تحریم آئی ہے، وہ دو بہنوں کو ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنا ہے، تاہم متواتر احادیث میں پھوپھی اور خالہ کے ساتھ بھتیجی اور بھانجی کو بھی ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث میں کتاب اللہ کی آیت کے ساتھ متصلاً اس حرمت کو بیان کر دیا گیا ہو تو یہ تخصیص ہوگی، لیکن اگر احادیث اس آیت سے مقدم ہوں تو پھر ’واحل لکم ماوراءذلکم‘ کی اباحت اس سابقہ ممانعت پر مبنی ہوگی (یعنی یہ ممانعت اس اباحت سے مستثنیٰ سمجھی جائے گی)۔ اسی طرح اگر یہ احادیث اس آیت سے موخر ہوں تو پھر یہ نسخ ہوگا۔ اہل علم کا اخبار آحاد کے ذریعے سے کتاب اللہ کے نسخ میں کافی اختلاف ہے، لیکن درست بات یہ ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔”
۲۔ سورة النور میں زانی مرد اور عورت دونوں کو سو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔ (النور ۲:۲۴) امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہاں بظاہر اگرچہ عموم کا اسلوب ہے جو ہر طرح کے زانیوں کو شامل ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں سو کوڑوں کی سزا جن زانیوں کے لیے بیان کی گئی ہے، اس سے مراد صرف غیر شادی شدہ زانی ہیں۔ (الام ۱/۳٠، ۵۶)
اس مثال میں بھی امام شافعی کے طرز استدلال پر، ان کے اصولی نقطہ نظر سے ہمدردی یا اتفاق رکھنے والے بہت سے اہل علم نے اطمینان محسوس نہیں کیا۔ چنانچہ ابن حزم نے اس رائے پر سخت تنقید کی اور لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں زانی کے شادی شدہ یا غیر شادی ہونے کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی، اس لیے یہ حکم تمام زانیوں کے لیے عام ہے اور شادی شدہ زانی بھی کوڑوں کی سزا کے حق دار ہیں۔ (احکام الاحکام ۴/۱۱۲)
جلیل القدر شافعی فقیہ امام الکیا الہراسی نے بھی آیت نور کے دائرہ اطلاق کو غیر شادی شدہ تک محدود ماننے کی توجیہ پر سخت تنقید کی ہے۔ الہراسی لکھتے ہیں کہ کسی حکم کے ظاہری عموم میں بعض جزوی اور استثنائی صورتوں کو شامل نہ سمجھنا تو درست ہو سکتا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ نص دراصل انھی صورتوں سے تعرض کرتی ہے جو عموما ً پیش آتی ہیں، چنانچہ کسی استثنائی اور نادر صورت کا حکم اگر اس سے مختلف ہو تو اس کا ذکر نہ کرنے سے نص کی دلالت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن اگر کسی مسئلے کی عام الوقوع اور عمومی صورتیں ایک سے زیادہ اور مختلف ہوں اور ان میں سے صرف ایک صورت کا حکم بیان کرنا مقصود ہو تو پھر نص میں اس کی تصریح ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو اور حکم، کسی توضیح کے بغیر، عموم کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہو تو اس صورت میں عدم تعرض کی مذکورہ توجیہ کارگر نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ وہ صرف استثنائی اور نادر صورتوں سے متعلق درست ہو سکتی ہے۔ الہراسی لکھتے ہیں کہ زانی جیسے کنوارے ہو سکتے ہیں، اسی طرح شادی شدہ بھی ہو سکتے ہیں، بلکہ شادی شدہ لوگوں میں زنا کے ارتکاب کی مثالیں زیادہ پیش آتی ہیں، اس لیے یہ بات معقول نہیں ہو سکتی کہ الزانیۃ والزانی سے مراد تو صرف کنوارے زانی ہوں، لیکن حکم کو عموم کے اسلوب میں بیان کر دیا جائے۔ اس ساری بحث سے الکیا الہراسی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں لازماً ہر طرح کے زانی مراد ہیں اور اگر احادیث میں شادی شدہ زانی کے لیے اس سے مختلف کوئی حکم بیان ہوا ہے تو اسے تخصیص یعنی آیت کا بیان قرار دینا ممکن نہیں اور یہ کہ نسخ کے اصول کے علاوہ اس کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ (احکام القرآن، ۲/۲۹٠، ۲۹۱)
۳۔ قرآن مجید میں حرام جانوروں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حرمت کو صرف چار چیزوں یعنی مردار، دم مسفوح، خنزیر اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانور میں محصور قرار دیا گیا ہے۔ (البقرة ۱۷۳:۲؛ الانعام ۱۴۵) تاہم احادیث میں ان چار کے علاوہ بھی بہت سے جانوروں کی حرمت کا حکم بیان ہوا ہے۔
اس کی توجیہ میں فقہاءکے ایک گروہ کی طرف سے یہ استدلال پیش کیا گیا ہے کہ حدیث میں بیان ہونے والے احکام کو قرآن کے حکم کی تنسیخ یا اس میں ترمیم نہیں کہا جا سکتا، اس لیے کہ شریعت کے ورود سے قبل تمام اشیا اباحت اصلیہ کے اصول پر حلال تھیں۔ قرآن مجید نے ان میں سے چار چیزوں کو تو حرام قرار دیا ہے، لیکن باقی چیزوں کے بارے میں نفیاً یا اثباتاً کچھ نہیں فرمایا۔ گویا باقی اشیا مسکوت عنہ تھیں اور اباحت اصلیہ کے اصول پر ان سے استمتاع جائز تھا۔ پھر احادیث میں اسی اباحت اصلیہ کے دائرے میں آنے والے بعض جانوروں کو حرام قرار دیا گیا۔ چونکہ قرآن ان کے بارے میں خاموش تھا، اس لیے حدیث کے احکام کو قرآن کے حکم کی تنسیخ یا ترمیم نہیں کہا جا سکتا۔
امام رازی اس استدلال پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“جب ان دو آیتوں سے ثابت ہو گیا کہ حرام چیزیں صرف یہی چار ہیں تو یہ اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ ان کے علاوہ باقی چیزیں حلال ہیں، اس لیے چار کے علاوہ کسی پانچویں چیز کو حرام قرار دینا لازماً نسخ ہے۔”
اسی طرح بعض فقہاءنے حدیث میں وارد محرمات کو تخصیص کے اصول پر قرآن کے حکم کے ساتھ ملحق کرنے کی کوشش کی ہے۔ امام رازی نے اس استدلال کی کمزوری بھی واضح کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
“ہم کہتے ہیں کہ یہ تخصیص کی قبیل سے نہیں ہے بلکہ صریح نسخ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ“ نہایت موکد اسلوب میں یہ بیان کر رہا ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں، اس لیے یہ کہناکہ ایسا نہیں ہے (اور ان کے علاوہ اور چیزیں بھی حرام ہیں) ان دونوں آیتوں سے ثابت ہونے والے حکم کو رد کرنا ہے۔”
اس نوعیت کی مشکلات کے تناظر میں جمہور اصولیین، جن کی اکثریت فقہ شافعی کی طرف انتساب رکھتی ہے، نسخ کی بحث میں بتدریج اس نقطہ نظر سے متفق ہوتے چلے گئے کہ سنت کے ذریعے جیسے قرآن کے احکام کی تبیین وتخصیص کی جا سکتی ہے، اسی طرح حکم کا نسخ بھی ثابت ہو سکتا ہے اور یہ کہ تخصیص وزیادت کی تمام صورتوں کو تکلفاً تبیین پر محمول کرنے کے بجائے مسئلے کی نوعیت کے لحاظ سے بعض صورتوں کو نسخ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
امام الحرمین اس بحث کا محاکمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام شافعی نے تو حتمی طور پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سنت کے ذریعے سے قرآن کا حکم منسوخ نہیں کیا جا سکتا، لیکن متکلمین نے یہ قرار دیا ہے کہ اس میں کوئی مانع نہیں اور یہی بات واضح طور پر درست ہے۔ امام الحرمین کہتے ہیں کہ اصل نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے کسی حکم کو پیغمبر ازخود منسوخ نہیں کر سکتا اور نسخ کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے دوسرا حکم آئے، لیکن نئے حکم کا ابلاغ ضروری نہیں کہ قرآن ہی میں کیا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت کسی بھی صورت میں اس کا ابلاغ فرما سکتے ہیں۔ (البرہان ۲/۷۰۳۱) امام الحرمین کے بعد جمہور متکلمین کے طریقے پر لکھی گئی اصول فقہ کی امہات میں بالعموم یہی موقف اختیار کیا گیا ہے اور آمدی، غزالی، رازی اور زرکشی جیسے محققین نے بھی اسی کی تصویب کی ہے۔ (الاحکام فی اصول الاحکام ۳/۱۹۷-۱۸۵؛ المستصفی من علم الاصول ۲/۱٠۷، ۱٠۸؛ المحصول فی علم اصول الفقہ ۳/۴۵۳-۴۳۷؛ البحر المحیط ۴/۱٠۹، ۱۱٠)*
* زرکشی نے اس بحث میں تفصیل سے اس اختلاف کو بھی واضح کیا ہے جو امام شافعی کے موقف کی توضیح وتعیین کے حوالے سے شافعی فقہاءکے مابین پایا جاتا ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک امام شافعی فی الواقع سنت کے ذریعے سے قرآن کے نسخ کے جواز کے قائل نہیں، جبکہ دوسرے گروہ کے نزدیک امام شافعی کے نقطہ نظر کو اس کے درست سیاق وسباق میں سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ (دیکھیے البحر المحیط ۴/۱۱٠-۱۱۶)
امام ابو جعفر الطحاوی /مترجم: محمد رفیق شنواری
شریعت کے احکام کا ماخذ و مصدر قرآن و سنت ہیں۔ عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ قرآنِ کریم احکام کا سب سے اعلی و برتر اور تنہاماخذ ہے۔ پھر اس مفروضے کا تمام مسائل پر یکساں اطلاق کردیاجاتا ہے۔ حالانکہ فقہا اور اصولیین اس بارے میں مختلف رجحانات رکھتے ہیں۔ اور ہر ایک کے یہاں ایک مستقل موقف ، جو فروع اور احکامِ شریعت پر دور رس فقہی و قانونی اثرات مرتب کرتا ہے، پایاجاتاہے۔ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر گذشتہ کئی ماہ سے قارئین کی خدمت میں قرآن و سنت کے درمیان تعلق کے حوالے سے اس مؤقر جریدہ کے ایڈیٹر مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر ایک مکمل پروجیکٹ کے تیار کردہ نتائجِ فکر پیش کر رہے ہیں۔ ابھی تک کئی اقساط آ چکی ہیں،او رمکمل ہونے کے بعد مستقل کتابی صورت میں بھی ان شاء اللہ پیش کی جائیں گی۔ حنفی موقف کی بہترین ترجمانی اصول کی کتابوں کے علاوہ اور مختصر انداز میں امام طحاوی کی ’’احكام القرآن‘‘کے مقدمہ بھی میں کی گئی ہے۔ اس کی اہمیت، اختصٓر اور جامعیت کے پیش نظر راقم نے استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ، ڈائریکٹر شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے حکم کی تعمیل میں اس کا ترجمہ کیا ہے۔ امید ہے زیر بحث مسئلے پر غور وخوض کے دوران یہ شذرہ بھی معان ثابت ہو۔ (مترجم)
تمام تعریفیں اس خدا کےلیے جس نے ہمارے لیے اپنا برہان واضح کیا ، اپنا فرقان بیان کیا، اپنے نبی ﷺپرعربی مبین میں نازل کردہ کتاب قرآن کریم کے نور کی ہدایت نصیب کیاور اسی کو صراطِ مستقیم بتلایا، جس ذات نے اس کتاب کو دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل ہونے والی گذشتہ آسمانی کتب کےلیے نگہبان (معیار) قرار دیا۔
قرآن کے ساتھ ساتھ سنت کی اتباع بھی لازم ہے؛ قرآن سے استشہاد
اللہ تعالی نے نبی ﷺ پر اپنی نازل کردہ کتاب میں فرمایا ہے:
ترجمہ: ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے۔ جس کی کچھ آیتیں محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے ، اور کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔‘‘1
اس آیت کے اندر اللہ تعالی نے ہمیں یہ بات ارشادفرمائی ہے کہ اس کتاب کے اندر کچھ آیتیں محکم ہیں جن کو نزول کی حکمت کے ساتھ ساتھ تاویل کے ذریعے بھی محکم بنا دیا، اور انہی آیتوں پر اس کتاب کی اصل قائم ہے۔ اسی طرح اس کتاب کے اندر کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے متشابہ آیات کے پیچھے پڑنے والوں کی مذمت کی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
ترجمہ: ’’جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہےوہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریںاور ان آیتوں کی تاویلات تلاش کریں۔‘‘2
کیوں کہ متشابہ آیتوں کا حکم قرآن کریم کی اصل ،یعنی محکم آیتوں، سے معلوم ہوتا ہے۔ پھر زبانِ رسالت پر جاری ہونے والے کچھ احکام ایسے بھی ہیں جو قرآنِ کریم کی متشابہات کی توضیح و تبیین ہیں۔ ان کے بارے میں اللہ تعالی کا حکم یہ ہے کہ ان کو ایسے ہی قبول کیا جائے گا جیسے قرآنِ کریم قبول کو کرنے کا حکم ہے۔ چناں چہ فرمایا:
ترجمہ: ’’اور رسول جو کچھ تمہیں دے اس کو لے لواور جس چیز سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔‘‘3
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’اور ہم نے کسی رسول کو اس کے سوا کسی اور مقصد کےلیے نہیں بھیجا کہ اللہ کےحکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘4
ایک اور جگہ فرمایا:
ترجمہ: ’’اور جب بھی ہم نے کوئی رسول بھیجا، خود اس کی قوم کی زبان میں بھیجا ، تاکہ وہ ان کے سامنےحق کو اچھی طرح واضح کرے۔‘‘5
ان آیات کی روشنی میں ہم پرزبانِ رسالت سے ادا ہونے والے احکام کی اطاعت ایسی ہی واجب ہے جیسے اس زبانِ مبارک پر تلاوت کیا جانے والا قرآن تسلیم کرنا واجب ہے۔
1. نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’میں تم میں سے ہرگز کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ اپنے تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور اس کے پاس میرےاحکام میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا میں نے جن سے روکا ہے ، اور وہ کہے کہ میں یہ نہیں جانتا، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو پایا بس اسی کی پیروی کی ہے‘‘۔
2. عبیداللہ بن ابی رافع نےرسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ’’میں اس شخص کو جانتا ہوں جو اپنے تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے پاس میرا کوئی فیصلہ آئے گا جس میں مَیں نے کسی چیز کا حکم دیا ہوگا یا میں نے کسی چیز سے منع کیا ہوگا۔ وہ کہے گا کہ ہم اس کو نہیں جانتے، ہمارے پاس تو اللہ کی کتاب ہے اور اس کے اندر اس فیصلے کا ذکر نہیں‘‘۔
3. ایک دوسری سند کے ذریعے، الفاظ کے اختلاف کے ساتھ، ابورافع سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کچھ یوں منقول ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ ’’میں اس شخص کو جانتا ہوں جو اپنے تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے پاس میرا کوئی فیصلہ آئے گا جس میں میں نے کسی چیز کا حکم دیا ہوگا یا میں نے کسی چیز سے منع کیا ہوگا۔ وہ کہے گا کہ ہم جو چیز اللہ کی کتاب میں دیکھیں گے اس پر عمل کریں گے ورنہ نہیں‘‘۔
4. نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ ’’میں اس شخص کو جانتا ہوں جو اپنے تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے پاس میرا کوئی فیصلہ آئے گا ، جس میں یا تو میں نے کوئی حکم دیا ہوگا یا میں نے کسی چیز سے روگا ہوگا، اور وہ کہے گا کہ ہمارے اور آپ کے بیچ میں اللہ کی کتاب موجود ہے ۔ ہم اس کے اندر جس چیز کو حرام پائیں گے صرف اسی کو حرام سمجھیں گے ۔ خبردار! رسول اللہ ﷺ کی حرام کردہ اشیا ایسی ہی حرام ہیں جیسے خود اللہ جل شانہ کی حرام کردہ‘‘۔
5. مقدام بن معدی کرب کندی رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’سنو! مجھے کتاب بھی دی گئی ہے ، اور ایک اور چیز بھی جو اس کے قریب ہے۔ ایک آسودہ حال شخص اپنے تخت پر ٹیک لگائے کہے گا کہ ہمارے اور آپ کے بیچ میں یہ اللہ کی کتاب ہے، جو چیز اس کے اندر حرام ہے صرف اسی کو حرام اور جو اس چیز اس کے اندر حلال کی گئی ہے صرف اسی کو حلال سمجھیں گے۔ خبردار! ایسا نہیں ہے،تمہارے لیے نوکیلے درندے حلال نہیں ہیں اور نہ پالتو گدھے کا گوشت حلال ہے‘‘۔
ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہی تعلیم دی ہے کہ جس طرح ہم آپ سے قرآن کریم کو خدا کی کتاب کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں ، اسی طرح آپ کا ہر فیصلہ تسلیم کرنا ہوگا۔ خواہ وہ ہمیں کسی چیز کاحکم دینے کی صورت میں ہو،یا ہمیں کسی چیز سے روکنے کی صورت میں، اگرچہ وہ کتاب للہ کے اندر نہ ہو۔ ہمیں اسلام کے اندر کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں جو اسلام میں فرض تو تھی مگر قرآن کے اندر ان کا ذکر نہیں تھا۔ مثلا؛
اولا: ہجرت کی بنیاد پر میراث میں حصہ دار ہونا جواسلام کے اندر(کسی زمانے میں) تھا، بعد میں اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کرکے منسوخ کردیا کہ: ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُھم أَوْلَی بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّہ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُھَاجِرِينَ﴾ ترجمہ: ’’پیٹ کے رشتے دار دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے مقابلے میں ایک دوسرے پر (میراث کے معاملے میں زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘6۔ نیز اس بارے میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے، ان شاء اللہ اس کتاب میں اپنے مقام پرسند سمیت ذکر کریں گے؛
ثانیا: بیت المقدس کی جانب نماز پڑھنا، یہی رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا، جس کو بعد میں اللہ تعالی نے قرآن کے اندر منسوخ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ﴿قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْھِک فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَۃً تَرْضَاھَاۚ فَوَلِّ وَجْھكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوھَكُمْ شَطْرَہ﴾ ترجمہ: ’’ہم تمہارا چہرہ بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ چناں چہ ہم تمہارا رخ ضرور اس طرف پھیر دیں گے جو تمہیں پسند ہے، لو! اب اپنا رخ مسجد حرام کی سمت کرلو۔ اور(آئندہ) جہاں کہیں تم ہو اپنے چہروں کا رخ (نماز پڑھتے ہوئے ) اسی کی طرف رکھا کرو‘‘۔7
ہم (احادیث و آثارکی) مزید تفصیلات کا ذکر اسانید سمیت اس کتاب کے اندر آگے اپنے مقام پر کریں گے، ان شاء اللہ تعالی۔
ثالثا: واجب الادا قرضہ جات میں آزاد انسانوں کی خرید و فروخت کا رواج ، جس کے بارے میں بعد میں قرآنی آیت نازل ہوئی جس میں ارشاد فرمایا کہ:﴿وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃ إِلَی مَيْسَرَۃ﴾ ترجمہ: ’’ اگر کوئی تنگ دست(قرض دار) ہوتو اس کا ہاتھ کھلنے تک مہلت دینی ہے‘‘۔8
قرآن ِ کریم نے (کئی موقعوں پر) ان احکام کو منسوخ کردیا جن کا ذکر قرآن میں نہیں تھا، حالانکہ وہ مسلمانوں پر فرض تھے، اور ان کےلیے نئے احکام دئے۔ قرآن کریم کے اندرناسخ آیات کے نازل ہونے سے پہلےجومعاملات طے پائے تھے مثلا آزاد انسانوں کی خرید و فروخت یا رشتوں کے برعکس ہجرت کی اساس پر میراث میں حقدار ہونا وغیرہ، نئے احکام دیتے وقت قرآنِ کریم نے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ اگر ان آیات میں نازل شدہ احکام کا اطلاق پہلے سےوقوع پذیر ہونے والے معاملات پر بھی ضروری ہوتا تو ان تمام امور کا تصفیہ ان آیات کے مطابق ہی کیا گیا ہوتا۔ نیز ان تمام امور کے فیصلوں کو ان آیات کے احکام کے برعکس کبھی بھی نافذ نہیں ہونے دیا جاتا۔ (جب اس قسم کی آیات کے نزول کے بعد بھی پہلے سے طے شدہ امور اور فیصلوں کو اسی حال پہ رہنے دیا گیا تو) اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ ناسخ آیات کے نزول سے پہلے تک اللہ تعالی کے فرض (اور مرضی) کے مطابق ہی تھا۔ لہذا اسلام میں قرآنِ کریم کے نزول سے پہلے کے ان امور کو اسی حال پہ رہنے دیا جائے گا۔ پھر قرآنِ کریم کا اس کے برعکس احکام لے کر نازل ہونے کامقصد یہ نہیں ہوگا کہ قرآن ان فیصلوں کو توڑنا چاہتا ہے،بلکہ مقصد یہی ہوگا کہ ان امور کے بارے میں اب کے بعد پہلے کے احکام کو منسوخ ہوکر قرآن نئے احکام دے رہا ہے اور وہ بھی نزول سے پہلے تک کے امور سے کوئی تعرض کئے بغیر۔ اس کو مثال سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جیسے رسول اللہ ﷺ کی کسی حدیث (متواتر یا مشہور)کے ذریعے ہمیں معلوم ہو کہ قرآن کی فلاں آیت منسوخ ہے۔ اب اگر اس ناسخ حدیث کے حکم کا اطلاق اس سے پہلے قرآنی آیت میں مذکور حکم کے مطابق طے شدہ معاملات پر بھی ہونا ضروری قرار پائے تو اس ناسخ حدیث سے پہلے قرآن اس کے برعکس حکم نازل ہی نہ کرتا۔ اگر چہ اس مسئلے میں کچھ لوگوں کا اختلاف ہے جن کی رائے یہ ہے کہ قرآن کو صرف قرآن کے ذریعے ہی منسوخ قرار دیا جا سکتا ہے۔9ہماری رائے اس مسئلے میں وہی ہے جو ابھی ہم نے ذکر کی۔ اس کی ایک وجہ تو مخالف موقف کی کمزوریاں اور دوسری جانب خود قرآنِ کریم کے میں ہمارے موقف کی تائید میں دلائل ہیں۔
مثلا زنا کا ارتکاب کرنے والی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:
ترجمہ: ’’تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کریں، ان پر اپنے میں سے چار گواہ بنا لو۔ چناں چہ اگر وہ گواہی دیںتو ان عورتوں کو گھروں کے اندر روک رکھویہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کر لے جائے، یا اللہ تعالی ان کےلیے کوئی اور راستہ پیدا کردے۔‘‘10
اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’کہ لیجیے اللہ تعالی نے ان کےلیے راستہ پیدا کر لیا ۔ غیر شادی شدہ مرد اور خاتون کی زنا کی صورت میں سو کوڑے اور ایک سال تک کےلیے جلا وطنی، جب کہ شادی شدہ مرد اور خاتون کی زنا کی صورت میں سو کوڑے اور سنگسار کرکے مارڈالنا‘‘۔ اس کتاب میں ہی اپنے مقام پر اس حدیث کو سند سمیت ہم ذکر کریں گے، ان شاء اللہ۔ قرآن میں جس راستے کاذکر آیا ہے اس کا بیان بعد میں نازل ہونے والی قرآنی آیات میں نہیں بلکہ لسانِ رسالت ﷺ سے ہی آیا ہے۔ جس نے بدکاری کی مرتکب خواتین کے بارے میں سابقہ حکم کو منسوخ کردیا۔
اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس آیت میں مذکور راستے کا بیان تو سورہ نور میں آیا ہےجس میں ارشاد فرمایا کہ : ﴿الزَّانِيَۃ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃ جَلْدَۃ﴾ ترجمہ: ’’زناکار خاتون اور زناکار مرد دونوں سو کوڑے لگادو۔‘‘11 اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے جس حدیث کا حوالہ اوپر دیا ہے اس کا اس سے کوئی تضاد نہیں؛ کیوں اس میں ارشاد ہے کہ ’’ کہ لیجیے اللہ تعالی نے ان کےلیے راستہ پیدا کر لیا‘‘۔ یعنی وہ راستہ کیا ہے؛ اس حدیث کے اندر اس کا بیان ہے۔ حالانکہ قرآن میں اس راستے کا بیان نہیں آیا تھا۔ مزید یہ کہ یہاں دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو یہ حدیث رسالت مآب ﷺ نے سورہ نور کی آیت سے پہلے ارشا فرمائی ہوگی یا اس کے بعد۔ اگر یہ حدیث سورہ نور کے نازل ہونے سے پہلے آپ نے ارشاد فرمائی ہو(تو کوئی تضاد اس لیے نہیں ) کہ قرآن نے سورہ نور کے نزول سے وہی راستہ بتلادیا جو اس سے پہلے زبانِ رسالت پر اللہ تعالی نے حدیث کی صورت میں بھی جاری فرمایا تھا۔ اس کے بعد سورہ نور کی آیت بھی (مزید تائید) کےلیے اتری۔ اور اگر آپ کا فرمان سورہ نور کی آیت کے نزول کے بعد کا ہے تو بھی کوئی تضاد اس لیے نہیں کہ قرآنی آیت سے مراد صرف غیر شادی شدہ بدکار مرد اور عورتیں ہیں، جب کہ حدیث نے غیر شادی شدہ بدکار مردوں اور عورتوں کے قرآنی حکم کے ساتھ ساتھ شادی شدہ بدکار مردو اور عورتوں کا حکم بھی بیان کردیا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ سورہ نور کی آیت شادی شدہ و غیر شادی شدہ سب کےلیے ہو مگر شادی شدہ بدکار وں کا حکم بعد میں حدیث نبوی سے منسوخ ہوگیا ہو۔جس کی تفصیلات ہم نے کہیں اور ذکر کی ہیں۔ اس سے یہ بات بخوبی معلوم ہوئی کہ بدکار مردوں اور عورتوں کے بارے میں اللہ تعالی کا جو حکم رسالت مآب ﷺ کی حدیث میں مذکور ہوا اس نے تب تک کے احکامات منسوخ کردیے۔
اللہ تعالی نے اپنی کتاب کے اندر والدین اور رشتے داروں کےلیے وصیت فرض کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّۃ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ﴾ ترجمہ: ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑ کر جانے والا ہو تو جب اس کی موت کا وقت قریب آئے، وہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کےلیے وصیت کرے‘‘۔12 پھر یہ حکم نبی کریم ﷺ کی اس حدیث سے منسوخ ہوا جس میں ارشاد ہے کہ ’’وارث کےلیے وصیت جائز نہیں‘‘۔اگر کوئی یہ سوال اٹھائے کہ وصیت کا حکم حدیث سے نہیں بلکہ خود قرآن کی ایک دوسری آیت ،آیت مواریث، سے منسوخ ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آیت مواریث وصیت کے حکم کےلیے ناسخ نہیں؛ کیوں کہ آیت مواریث کے مطابق اگر کوئی وصیت یا قرض ہو تو اس کے بعد ہی میراث فرض ہے جب کہ خود قرآن کے مطابق والدین اورقریبی رشتہ داروں کےلیے وصیت ضروری ہے۔ [یعنی آیت وصیت نے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں وصیت فرض کردی اور آیت مواریث نے وصیت اور قرضوں کے بعد میراث کے احکام دیے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ]آیت مواریث کو والدین کے حق میں وصیت کے حکم کےلیے ناسخ قرار دینے پر کوئی قرینہ نہیں۔ کیوں کہ ایسا ممکن ہے کہ والدین کے حق میں دونوں آیتوں کی روشنی میں وصیت اور میراث ضروری ہو۔ ہمارے علم کے مطابق والدین کے حق میں وصیت کی فرضیت کاحکم حدیث نبوی ، کہ’’وارث کےلیے وصیت جائز نہیں‘‘،ہی سےمنسوخ ہوا۔ لہذا اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سنت بھی قرآ ن کو منسوخ کرسکتی ہے جیسا کہ قرآن سنت کےلیے ناسخ ہوسکتا ہے۔
اگر کوئی یہ سوال اٹھائے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا ہے کہ﴿قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَہ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي﴾ ترجمہ: ’’ان سے کہہ دو کہ مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اس میں اپنی طرف سے تبدیلی کر دوں‘‘۔13 یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ تبدیلئ احکام کا حق صرف اللہ تعالی کے پاس ہے اور اس کی صورت یہی ہے کہ قرآن ہی اپنا حکم منسوخ کرے (نہ یہ کہ حدیث قرآن کو منسوخ کردے)۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کون یہ کہتا ہے کہ قرآن کے حکم کو جس چیز نے منسوخ کردیا وہ اللہ تعالی کی جانب سے نہیں ہے، یا (زیادہ واضح لفظوں میں) سنت اللہ تعالی کی جانب سے نہیں۔ قرآن و سنت دونوں اللہ تعالی ہی کی جانب سے ہیں ، ان میں جس کا حکم جس سے چاہے منسوخ کرسکتا ہے۔
دوسرا یہ کہ قرآن کے اندر ایسی آیتیں پائی جاتی ہیں جن کا ظاہری مفہوم باطن یا معنوی مفہوم سے مختلف ہوتا ہے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم ظاہری مفہوم پر ہی عمل کریں، اگرچہ باطن اورمعنوی مفہوم اس سے مخالف کیوں نہ ہو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قرآنِ کریم اللہ تعالی کی جانب سے ہمیں خطاب ہے جس کا مقصد احکام کی تبیین و توضیح ہے (جس کا نتیجہ یہی ہے کہ قرآن نے ہر چیز واضح کرکے رکھ دی ہے اوراب ہمارے لیے ظاہر پر ہی عمل ضروری ہو گیا ہے۔ غور و فکرکر کے اس کے باطن یا کسی ایسے معنوی مفہوم تک پہنچنا جو اس کے ظاہر سے متصادم ہو، ضروری نہیں)۔ اگرچہ یہ مسئلہ بھی اختلافی ہے اور کئی لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کے باطن پر اس کے ظاہر کو ترجیح دینا درست نہیں۔ ہمارے پاس اپنے موقف کی کئی دلیلیں ہیں۔ ایک یہ کہ جب قرآن کی آیت ﴿كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ﴾ ترجمہ: اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک سفید دھاری سیاہ دھاری سے سے الگ ہو کر واضح ہو۔14 نازل ہوئی اور رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے تلاوت کی تو عدی بن حاتم طائی سمیت متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سفید اور سیاہ دو دھاریاں لیں اور آیت کے مفہوم کو انہی کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی۔ پھر اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے بھی کیا۔ آپ ﷺ نے ان پر نکیر نہیں فرمائی، نہ کوئی سختی سے پیش آ کر یہ فرمایا کہ جو مطلب آپ کوگوں نے آیت کی لی ہے وہ غلط ہے۔ بلکہ صرف یوں فرمایا کہ ’’آپ کا تکیہ تو بڑا وسیع ہے! اس کا مطلب رات کی سیاہی اور دن کا اجالا ہے‘‘۔ غورجائے تو بنی اکرم ﷺ نے قرآن کے ظاہری معنی کو مراد لینے پر کوئی عیب جوئی نہیں کی۔ اس سےمتعلق سندوں سمیت احادیث کا ذکر ان شاء اللہ اس کتاب کے اندر اپنے مقام پر آئے گا۔ نبی کریم ﷺ کی تفہیم سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معانی اخذ کرنے کے اسلوب کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو یہ حق پہنچتا تھا کہ جب تک خود قرآن کی نص کے نزول کی طرح دوسری نص کے ذریعے اس کی تاویل کے بارے میں ابھی تک تعلیم نہ دی گئی ہو تو وہ قرآن کے ظاہری معنی کو مراد لے سکتے ہیں۔ اور آیت کی تاویل کر کے باطنی و معنوی مفہوم کے مقابلے میں ظاہری مفہوم راجح ہے۔
اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب اللہ تعالی نے شراب کو حرام قرار دیا اور استعمال کیے گئے لفظ ’خمر‘ کا مفہوم اور اس کی جنس وغیرہ تفصیلات ابھی نہیں بتائی گئی تھی، تو ابوعبیدہبن جراح، ابوطلحہ، ابی بن کعب، سہیل بن بیضاء اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شراب بھی ضائع کردی اور بعض نے تو شراب کے برتن بھی توڑ ڈالے۔ اسی طرح بعض حضرات نے کھجور کا شیرہ بھی ضائع کردیا ، انہوں نے سمجھا کہ یہی تو وہ شراب ہے جس کی حرمت کا حکم آیا ہے یا کم از کم شراب کی ایک قسم ہے۔ شیرہ کو شراب سمجھنے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی رائے مختلف تھی۔ ان کے خیال میں شراب حرام تھی اورحرمت کے بعد مدینہ میں ناپید تھی۔ وہ شیرہ کو شراب سے ہٹ کر ایک اور چیز سجھتے تھے جو اس وقت مدینہ منورہ میں موجود تھی۔ عبداللہ بن عباس کے مطابق ’خمر‘ اور ’فضیخ/شیرہ‘ ایک ہی چیز تھی اور دونوں حرام تھے۔ سیدنا عمر فاروق کی رائے یہ تھی کہ کہ شراب حرام ہے اور پانچ چیزوں سے بنتی ہے۔ انگور، کھجور، شہد، گندم اور جو۔ قلب و دماغ لگا کر صحابہ کرام نے اس آیت کا جو مفہوم سمجھا اس سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے آیت کا ظاہری مفہوم لیا ہے، اور یہی ان کی ذمہ داری تھی ۔پھر نبی اکرم ﷺ نے آیت کا معنی اخذ کرنے پر نہ ان پر نکیر فرمائی اور نہ یہ فرمایا کہ جو چیزحرام کی گئی ہے واضح اور کسی دوسرے معنی کے احتمال سے بالکل عاری انداز و اسلوب میں اس کا مفہوم سمجھنے سے پہلےاپنے اموال ضائع کرنے میں کیوں جلدی سے کام لیا۔ہم اقوال و آثار کو اسانید سمیت اس کتاب کے اندر اپنے اپنے مقامات پر ان شاء اللہ ذکر کریں گے۔
ان نصوص کے ظاہری معانی مراد لینے سے لازم آتا ہے کہ ان آیتوں کا اطلاق بھی عام ہوگا۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ کتاب و سنت یا اجماع سے کسی دلیل کے بنا خاص کے مقابلے میں عام کو کوئی ترجیح حاصل نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں عام کو خاص پر ترجیح حاصل ہے؛ کیوں کہ ان آیات کو اگر دیکھا جائے تو عام یا دونوں طرح کے معنی مرادلینے کی گنجائش موجود تھی۔ اور نبی کریم ﷺ کی تفہیم و تعلیم سے قبل صحابہ کرام نے ظاہری معنی ہی مراد لیا، خاص معنی مراد لینے کی گنجائش صرف قرآنی آیت یا حدیثِ رسول ﷺ سے نص کی صورت میں ہی ممکن تھی آیات کا ظاہر خاص معنی پر دلالت نہیں کر رہا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا فرض یہی تھا کہ وہ ان آیات (کے ظاہری مفہوم کے مطابق) عام معنی ہی مراد لیں؛ الّا یہ کہ نص کی مدد سے معلوم ہو کہ خاص معنی مراد ہے۔
ہم نے یہ کتاب تالیف کی ہے جس سے ہمارا مقصد صرف اللہ تعالی کے احکام کی تشریح، فرائض و واجبات کا بیان، متشابہ آیات کی محکم آیات ، احادیثِ نبویہ، عربی لغت، خلفائے راشدین ودیگر صحابہ کرام کے آثار اور تابعین کے اقوال کی روشنی میں وضاحت ہے۔ حق تعالی کے دربار میں توفیق و امداد کےلیے دست بدعا ہیں۔
پاکستانی سیاست، ہیئت مقتدرہ اور تحریک انصاف | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۵۹) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ :ایک تقابلی مطالعہ (۶) | مولانا سمیع اللہ سعدی | |
فکرِاسلامی کی تشکیلِ جدید | خورشید احمد ندیم | |
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام علمی وتحقیقی سرگرمیاں | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۱) | محمد عمار خان ناصر | |
الشریعہ اکادمی کی ماہانہ فکری نشست | ڈاکٹر حافظ محمد رشید | |
’’مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت: ایک تعارف‘‘ | محمد سہیل قاسمی | |
پشاور ہائی کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ | ڈاکٹر محمد مشتاق احمد |
(گزشتہ دنوں میں ملکی سیاسی صورت حال کے حوالے سے جو مختلف شذرات سوشل میڈیا کے لیے لکھے گئے، وہ ایک مناسب ترتیب سے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں)
سیاست، مثالی تصور کے لحاظ سے، قومی زندگی کا رخ متعین کرنے اور اجتماعی قومی مفاد کو بڑھانے کے عمل میں کردار ادا کرنے کا نام ہے۔ تاہم اس کردار کی ادائیگی سے دلچسپی رکھنے والوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ بے غرضی اور للہیت کا مجسم نمونہ ہوں، قطعی طور پر غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے۔ انسانی نفسیات اور معاشرے کی ساخت کے لحاظ سے سیاسی کردار ادا کرنے کے داعیے کو طاقت اور طاقت سے وابستہ مفادات سے الگ کرنا یا الگ رکھتے ہوئے سمجھنا ناممکن ہے۔ یوں کسی بھی فرد یا جماعت یا طبقے کے متعلق یہ فرض کرنا کہ وہ صرف قومی مفاد کے جذبے سے متحرک ہے، احمقانہ بات ہوگی۔ پس سیاسی تجزیے اور سیاسی مواقف کی تائید وحمایت کے لیے یہ بنیاد سرے سے بے معنی ہے۔ مختلف طبقے اور جماعتیں اپنے موقف کی پیش کاری اس پہلو سے کر سکتی ہیں اور کرتی رہتی ہیں، لیکن سیاسی عمل کے معروضی تجزیے میں اس کو سنجیدگی سے لینے والے اہل قلم، جن کا ہمارے ہاں سیلاب آیا ہوا ہے، میری نظر میں سیاسی تجزیے کی سرے سے اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ لازما سیاسی تجزیے یا سیاسی تائید ومخالفت کی بنیاد یہی ہو سکتی ہے کہ کسی خاص صورت حال میں کس موقف کی تائید یا حمایت نتائج کے لحاظ سے (نہ کہ سیاسی کرداروں کے حسن عمل یا عزائم وغیرہ کے لحاظ سے) قومی زندگی کی بہتر تنظیم پیدا کر سکے گی۔ ظاہر ہے، اس تجزیے میں اختلاف رائے نہ صرف ممکن بلکہ ضروری ہے، اور اسی سے سیاسی عمل جمہوری اصولوں پر آگے بڑھتا ہے۔
موجودہ سیاسی منظرنامے میں بنیادی طور پر اقتدار کی کشمکش کے فریق تین طبقوں میں تقسیم ہیں اور شطرنج کی بساط پر تینوں کی پوزیشن کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
کشمکش کا سب سے طاقتور فریق عسکری ادارہ ہے اور بنیادی طور پر سیاسی کھیل کے اصول وضوابط اور شرائط وقیود وہی طے کرتا ہے۔ ملکی تاریخ کے ابتدائی زمانے سے ہی، معلوم اسباب وواقعات کی وجہ سے، اس ادارے کو قومی سیاسی عمل پر کنٹرول حاصل کرنے اور اسے اپنی ترجیحات کے مطابق آگے بڑھانے کے مواقع حاصل رہے ہیں اور قومی سیاست میں اس کا مسلسل کردار اس سوچ کا غماز ہے کہ قوم سازی کی اہلیت دراصل اسی کے پاس ہے۔ آئین سازی، انتخابات، جمہوری عمل اور داخلی وخارجی سطح پر پالیسی سازی اگر عسکری ادرے کے طے کردہ فریم ورک کے اندر اور اس کی self-understanding کو طوعا یا کرہا مانتے ہوئے ہو تو قابل قبول ہے، لیکن قوم سازی کا دعوی رکھنے والا کوئی دوسرا مرکز طاقت ناقابل برداشت ہے۔ یہ طرز فکر طاقت کی نفسیات اور مزاج کے عین مطابق ہے اور سیاسی طاقت کے اصولوں کے لحاظ سے اس پر کوئی خاص اعتراض وغیرہ نہیں بنتا۔ یہ طاقت کا کھیل ہے اور اس میں طاقت کے مقابلے میں جوابی طاقت ہی کسی بھی موقف کی عملی قدروقیمت متعین کرتی ہے۔
سیاسی عمل اور قوم سازی پر اپنے اختیار کو مستحکم رکھنے کے لیے عسکری ادارے کی حکمت عملی بنیادی طور پر دو نکاتی ہی رہی ہے۔ پہلا یہ کہ جب تک جمہوری سیاسی قوتوں کی باہمی تقسیم اور اختلافات کی manipulation ممکن ہو، اسی کو بروئے کار لایا جائے۔ دوسرا یہ کہ جہاں جمہوری سیاسی عمل کے نتیجے میں سیاسی قوتوں میں خود اختیاری کا شعور ایسی صورت اختیار کرنے لگے جو عسکری ادارے کے لیے قابل قبول نہ ہو تو معمول کے سیاسی عمل کو معطل کر کے فوجی اقتدار کے تحت کھیل کے ضوابط اور سیاسی مہروں کی پوزیشن وغیرہ ازسرنو متعین کر دی جائے۔
اس صورت حال سے ایک بنیادی نکتہ تو یہ سامنے آتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی عمل کے لیے ہموار زمین موجود نہیں۔ مثالی مفہوم میں ہموار زمین دنیا میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی، اس لیے ظاہر ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے ہاں ناہمواری نسبتا بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ جو جماعتیں اقتدار میں حصہ چاہتی ہیں، ان کے لیے ہیئت مقتدرہ کے ساتھ ایک مثبت مساوات قائم کرنا ناگزیر ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں، حصہ داری کا ہر معاملہ جو کسی اڑچھن کے بغیر آگے بڑھا ہے، اسی اصول پر ممکن ہوا ہے اور جہاں یہ مساوات قائم نہیں ہو سکی، وہاں سیاسی عمل کو انقطاع یا اکھاڑ پچھاڑ کا شکار ہونا پڑا ہے۔ جنرل مشرف کے دور کی حکومتیں (بشمول ایم ایم اے کی حکومت کے) پہلی صورت کی، جبکہ نوے کی دہائی میں نواز شریف اور بے نظیر کی اور اسی طرح ۲٠۱۳ء میں مسلم لیگ نون کی حکومتیں دوسری صورت کی مثالیں ہیں۔ لمبی چوڑی تفصیل اور تجزیے کے بغیر، صرف اس انجام کو دیکھ لینا اس حقیقت کے اثبات کے لیے کافی ہے جس سے، ملک کی سیاسی تاریخ میں قومی سطح پر ابھرنے والے تین بڑے سیاسی لیڈروں (بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف) کو دوچار ہونا پڑا ہے۔
ہیئت مقتدرہ کو سیاسی طاقت کے میدان جو برتری حاصل ہے، اس کی وجہ سے اس کے پاس آپشنز بھی زیادہ ہیں۔ وہ جہاں کسی حریف سیاسی طاقت کو، حسب موقع، manhandle کر سکتی ہے، وہاں سیاسی جدلیات سے ازخود ابھرنے والے سیاسی کرداروں کے ساتھ معاملہ بندی کے علاوہ نئے سیاسی کردار تخلیق بھی کر سکتی ہے۔ تینوں صورتوں میں نتیجہ بہرحال ایک ہی رہتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو، بھٹو کی پھانسی کے بعد مزاحمت کے ایک لمبے مرحلے سے گزر کر آخر جناب زرداری کی وساطت سے معاملہ بندی تک ہی پہنچنا پڑا۔ نواز شریف نے سیاسی کیریئر کا آغاز ہیئت مقتدرہ کی آشیرواد کے ساتھ کیا، لیکن بعد کے مراحل میں خود اختیاری کے شعور کی وجہ سے اسی انجام کے قریب قریب آ پہنچے ہیں جو اس سے پہلے بھٹو کے لیے طے کیا گیا تھا۔ تحریک انصاف اگر اقتدار میں حصہ دار بنی ہے تو طاہر ہے، اس کے لیے کوئی نیا template نہیں بنایا گیا، اس کے کردار کو بھی اسی چلے آنے والے پیٹرن کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔
کاروباری برادری کا، شکایات کے ازالے کے لیے آرمی چیف سے رجوع کرنا میری نظر میں سیاسی شعور کی بہتری اور حقیقت پسندی کی علامت ہے، چاہے جمہوریت پسندوں کے احساسات اس سے کتنے ہی مجروح ہوئے ہوں۔ موجودہ سیٹ اپ سرتاسر منافقت پر مبنی ہے، جس میں سب جانتے ہیں کہ اختیارات کا مرکز کہاں ہے اور پھر بھی توقعات اور مطالبات کا رخ سیاسی حکومتوں کی طرف رکھ کر جمہوریت کی لاج رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی طاقت کی یہ بالکل سادہ اور عام فہم اخلاقیات ہے کہ جس کے پاس فیصلے کرنے کا اختیار ہو، ذمہ داری اور جواب دہی بھی اسی کی ہونی چاہیے۔ ہم نے قومی طور پر ایک جمہوری خود فریبی اختیار کرتے ہوئے کم وبیش اس طرح کی تقسیم کار کی ہوئی ہے جیسی ایک معروف لطیفے میں دو بھائیوں نے کی تھی کہ آو مل کر گائے خریدتے ہیں اور تقسیم کار یوں ہوگی کہ گائے کا اگلا حصہ ایک بھائی کا ہوگا جو چارہ وغیرہ ڈالنے کا ذمہ دار ہوگا، اور پچھلا حصہ دوسرے بھائی کا جو دودھ دوہ لیا کرے گا۔
موجودہ سیٹ اپ میں گائے کا پچھلا حصہ ہیئت مقتدرہ کا ہے، اور ذمہ داری، جواب دہی، وسائل کی فراہمی، معیشت کا بندوبست، عوامی لعن طعن کا سامنا کرنا وغیرہ سیاسی حکومتوں کے سپرد ہے۔ اس قومی منافقت کو تسلیم کیے بغیر ہم مزید ستر سال بھی کولہو کے بیل کی طرح اسی طرح دائرے میں چکر لگاتے رہیں گے۔ سیاست دانوں میں تھوڑی سی اخلاقی جرات اور عقل مندی ہو تو انھیں ایسا سیاسی سیٹ اپ تجویز کرنا چاہیے جس میں ہیئت مقتدرہ قومی امور کے انتظام وانصرام میں جواب دہی میں بھی حصہ دار بنے۔ دودھ تو وہ دوہ رہی ہے، کچھ چارے کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری بھی اس پر ہو۔ یہ یک طرفہ محبت آخر کب تک چلے گی کہ
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو
ہیئت مقتدرہ کو قومی فیصلہ سازی اور نتیجتا جواب دہی میں باقاعدہ شریک کرنے کی بات الزامی نوعیت کی نہیں، ایک سنجیدہ بات ہے۔ قومی فیصلہ سازی کے چار بنیادی دائرے ایسے ہیں جن میں حتمی اور فیصلہ کن اختیار ہیئت مقتدرہ کو حاصل ہے اور وہ جو پالیسیاں طے کرتی ہے، ان کی پابندی سیاسی حکومتوں پر واجب ٹھہرتی ہے:
۱۔ داخلی قومی سلامتی سے متعلق مسائل۔ اس دائرے میں مثال کے طور پر دہشت گردی، وفاق گریز جماعتوں سے معاملہ اور گم شدہ افراد جیسے مسائل نمایاں ہیں۔
۲۔ خارجہ پالیسی کی ترجیحات
۳۔ سیاسی اقتدار میں حصہ داری کا مسئلہ
۴۔ اور قومی معاشی وسائل کی تنظیم
ان دائروں میں ہیئت مقتدرہ کو جواب دہی میں شریک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ سازی کے علانیہ میکنزم میں یہ بات واضح اور معلوم ہونی چاہیے کہ فیصلے کی اتھارٹی کون ہے، اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر پارلیمنٹ میں اور رائے عامہ کے سامنے اپنی طے کردہ پالیسیوں اور ترجیحات کی وضاحت، تائیدی استدلال پیش کرنے اور تنقید کا سامنا کرنے وغیرہ کی ذمہ داری بھی ہیئت مقتدرہ کے نمائندوں پر ہی ہونی چاہیے۔ جو فیصلے عوامی منتخب نمائندے کر ہی نہیں رہے، ان کی وضاحت، توجیہ اور دفاع وغیرہ کی ذمہ داری ان بے چاروں پر ڈال دینا سیاسی اخلاقیات کے قطعی منافی اور سرتاسر منافقت پر مبنی بندوبست ہے جو ہم نے قومی طور پر قبول کیا ہوا ہے۔
روف کلاسرا صاحب نے اپنے کالم میں حکومت کے خلاف موجودہ سیاسی فضا پیدا ہونے کے اسباب کے طور پر ناقص حکومتی کارکردگی اور قبل از اقتدار وبعد از اقتدار عمران خان کے رویوں کے فرق کا ذکر کیا ہے۔ ہماری رائے میں کارکردگی کے سوال کے حوالے سے فی الحال کوئی حتمی فیصلہ صادر کرنا منصفانہ نہیں ہوگا اور یہ نکتہ کم سے کم اس وقت اپوزیشن کے جارحانہ رویے کا اصل محرک بھی نہیں ہے۔ البتہ بعد از اقتدار رویوں کا نکتہ بہت اہم ہے اور میں اس تعلق سے عمران خان کو دو سنگین سیاسی ’’جرائم’’ کا مرتکب تصور کرتا ہوں جس پر ان کا بے رحم محاسبہ ہونا چاہیے۔
ایک یہ کہ انھوں نے حصول اقتدار کی منہ زور خواہش میں عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہوئے ایک ایسا سیاسی بیانیہ متعارف کروایا جس کی بنیاد سرتاسر نفرت پر اور مخالف سیاسی جماعتوں کو demonize کرنے پر ہے۔ خوش فہمی میں یا دانستہ انھوں نے امیدوں کا ایسا تاج محل کھڑا کیا جس کی تعمیر خود ان کے لیے بھی ممکن نہیں، اس لیے کہ مشکلات بہت پیچیدہ اور گہری ہیں جن کا کوئی سیدھا، صاف اور فوری حل دستیاب نہیں ہے۔ ان کی ساری اچھل کود کا نتیجہ تبدیلی کی توقع رکھنے والوں کی مایوسی میں اضافے اور قومی سطح پر سیاسی منافرت کو آسمان تک پہنچا دینے کے علاوہ ابھی تک کچھ نہیں ہے۔
عمران خان کا دوسرا جرم یہ ہے کہ اقتدار کی کشاکش میں حصہ دار بننے کے لیے انھوں نے اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری قوتوں کے مابین سیاسی طاقت کے توازن میں دانستہ اور پورے شعور کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے لے پالک کا کردار قبول کیا ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد خاص طور پر اس ہدف کی طرف پیش رفت کی کوشش کی ہے کہ سیاسی طاقت پر اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری کو مستحکم سے مستحکم تر کیا جائے، حریف سیاسی جماعتوں کے لیے سیاسی عمل کے امکانات محدود سے محدود کیے جائیں، اور عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے میں فعال یا کم سے کم خاموش شریک جرم کا کردار اختیار کیا جائے۔
حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات پر ابتدائی اتفاق پیدا ہونا خوش آئند ہے اور میرے خیال میں یہ خود تحریک انصاف کے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ سیاست اور اقتدار کے حوالے سے پختگی کی طرف بڑھے۔ اس سفر میں مذکورہ دونوں نکات کے حوالے سے خود تنقیدی کا رویہ اپنانا خود عمران خان کے لیے مفید ہوگا، اگر وہ پاکستانی سیاست میں کوئی دیرپا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
برادرم خاکوانی صاحب نے فرمایا ہے کہ ’’یہ پوزیشن لینے کا وقت ہے’’۔ ان کا کہنا ہے کہ منتخب حکومت کو پورا وقت ملنا چاہیے تاکہ عوام ان کا احتساب کر سکیں، ورنہ کوئی بھی حکومت ایک دو سال سے زیادہ کام نہیں کر سکے گی۔
اس پر ان سے عرض کیا ہے کہ کاش معروضی سیاسی صورت حال ایسی ہوتی کہ اس جمہوری اصول کی مطلق اور غیر مشروط طور پر تائید کی جا سکتی۔ بدقسمتی سے یہاں بنیادی سوال منتخب حکومت کے جمہوری حق سے زیادہ، سیاسی حرکیات کے بڑے فریم ورک سے متعلق ہے۔ تحریک انصاف کی، اقتدار میں شمولیت معمول کے حالات میں نہیں ہوئی، جیسا کہ خود خاکوانی صاحب نے بھی واضح کیا ہے۔ وہ ایک نیا فریق ہے جو اقتدار کی کشمکش میں شریک ہوا ہے اور اپنے بل بوتے پر نہیں ہوا، سب سے طاقتور فریق کی مدد سے ہوا ہے اور سیاسی طاقت کے پلڑے کو اس طرح ہیئت مقتدرہ کے حق میں جھکا کر ہوا ہے کہ خود تحریک انصاف کے لیے وہ جتنا بھی ضروری یا مفید ہو، مجموعی حیثیت سے اس عدم توازن کو ملکی سیاست کے لیے مثبت اور تعمیری نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے اپنی اپنی رائے اور ضمیر کے مطابق پوزیشن ضرور لینی چاہیے، لیکن یہ پوزیشن لازم نہیں کہ ایک ہی ہو اور حکومت کے حق میں ہو۔
مجھے بطور ایک سیاسی حکومت کے پی ٹی آئی سے ہمدردی ہے اور معمول کے سیاسی اختلاف کی صورت حال ہوتی تو میں بھی اسی کی تائید کرتا کہ اسے پانچ سال پورے کرنے اور اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملنا چاہیے۔ اب بھی میری خواہش یہی ہے، لیکن افسوس، اسے رجحان متعین کرنے کی واحد بنیاد قرار دینا بہت مشکل ہے۔ اللہ کرے کہ تحریک انصاف سیاسی پختگی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے سیاسی طریقے سے چیلنج سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب ہو سکے۔ لیکن اگر اسے صرف اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کے طور پر کردار ادا کرنا اور مخالف سیاسی طاقتوں کو میدان سے کلیتا خارج کر کے اسٹیبلشمنٹ کو مطلق العنان بنانا ہے تو معذرت کے ساتھ، اس کردار کی تائید یا حمایت نہیں کی جا سکتی۔
اپوزیشن (جو تدریجا متحدہ اپوزیشن بنتی جا رہی ہے) کے حقیقی عزائم اور اہداف کیا ہیں، مجھے کچھ اندازہ نہیں۔ ہو سکتا ہے، حکومت کو گرانا ہی طے ہوا ہو اور ممکن ہے، اس سے کم تر کوئی ہدف ہو۔ کافی حد تک اس کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ خود حکومت کیا رویہ اپناتی ہے۔ ذمہ دار حکومتی عہدیداروں کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کے فورا بعد وزیر اعظم نے ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دینا ضروری سمجھا۔ بہرحال، اگر اپوزیشن اور حکومت میں اس پر موافقت کی کوئی صورت نکل سکتی ہو کہ حکومت کو کام کرنے دیا جائے تو میری ناقص رائے میں سیاسی مک مکا کے علاوہ بھی (جو بظاہر موجودہ تناظر میں اصل مقصد نہیں لگتا) ایک سنجیدہ سیاسی ایجنڈا ایسا ہو سکتا ہے جو ٹیبل پر رکھا جا سکے۔ میری رائے میں اپوزیشن کو کم سے کم ان تین نکات کے حوالے سے ایک نئے میکنزم پر اصرار اور پھر اس کی نگرانی کرنی چاہیے۔
۱۔ میڈیا پر عائد کی گئی کھلی اور چھپی قدغنوں کا ازالہ
۲۔ حکومت کے سیاسی مخالفین پر قائم کیے گئے مقدمات کے غیر جانب دارانہ جائزے کے لیے کسی عدالتی کمیشن کا قیام اور اس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مقدمات کو جاری رکھنے یا ختم کرنے کا معاہدہ (کیونکہ نیب وغیرہ اپنا اعتماد کھو چکے ہیں)
۳۔ اہم قومی امور (مثلا پی ٹی ایم کے ساتھ معاملہ اور مدارس کی رجسٹریشن وغیرہ) میں فیصلہ سازی کی سیاسی حکومت کی طرف منتقلی
اپوزیشن کی طرف سے استعفے کا مطالبہ بارگیننگ پوزیشن کو مضبوط بنانے کی حد تک ٹھیک ہے، لیکن اس پر ڈیڈ لاک پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم مکرر عرض ہے کہ اس میں زیادہ ذمہ دارانہ رویہ اور لب ولہجہ اختیار کرنے کی ضرورت جتنی حکومت کو ہے، اتنی اپوزیشن کو نہیں ہے۔
قرآن مجید میں نذر کے مادے سے انذار منذر اور نذیر کا کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ انذار تبشیر کے ساتھ اور منذر مبشر کے ساتھ کئی مقامات پر آیا ہے۔ جب کہ نذیر کا ذکر کئی جگہ بشیر کے ساتھ ہوا ہے۔ انذار اور تبشیر میں قدر مشترک خبر دینا ہے، جس طرح تبشیر کا مطلب ایسی خبر دینا ہے جس میں خوشی موجود ہو، اسی طرح انذار کا مطلب بھی خبر دینا ہے، لیکن ایسی خبر جس میں ڈراوا موجود ہو۔ گویا دونوں الفاظ اصل میں خبر دینے کے لیے آتے ہیں، البتہ دونوں خبروں کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے۔
عربی لغت کی مستند ترین کتابوں کی تصریحات ملاحظہ ہوں:
ونَذَر القومُ بالعَدُوِّ ای عَلِموا بمسیرہم. (العین)
الاِنذَارُ: الاِبلَاغُ ; وَلَا یَکَادُ یَکُونُ اِلَّا فِی التَّخوِیفِ. (مقاییس اللغة)
وَالانذارُ: اخبار فیہ تخویف، کما انّ التّبشیر اخبار فیہ سرور. (المفردات فی غریب القرآن)
الانذار: الابلاغ، ولایکون الا فی التخویف. (الصحاح تاج اللغة وصحاح العربیة)
وانذَرَہُ بالاَمر اِنذاراً ونَذراً، ویُضَمُّ وبضمتینِ ونَذِیراً: اعلَمَہُ، وحَذَّرَہُ، وخَوَّفَہُ فی بلاغِہِ. (القاموس المحیط)
بہت سے اردو تراجم میں انذار کا ترجمہ ڈرانا کیا گیا ہے، انذار میں ڈرانے کا مفہوم موجود ہے، لیکن صرف ڈرانا نہیں، بلکہ ڈرانے والی خبر دینا ہے۔
ڈرانے اور خبردار کرنے میں فرق ہے، جس طرح خوش خبری دینے اور خوش کرنے میں فرق ہے۔ برے انجام سے خبردار کرنے کا دائرہ وسیع ہوتا ہے، جس میں برے انجام کے اسباب اور اس سے بچنے کے طریقوں کی خبر دینا بھی شامل ہوتا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں کہیں بھی تخویف کے لفظ کو (جس کا مطلب ڈرانا ہوتا ہے) رسولوں کی طرف منسوب نہیں کیا گیا ہے، خلاصہ یہ کہ انذار کا صحیح ترجمہ ڈرانا نہیں بلکہ خبردار کرنا ہے۔ ذیل میں قرآن مجید کی کچھ آیتوں کے ترجمے پیش کیے جائیں گے، جہاں انذار، منذر اور نذیر جیسے الفاظ کا استعمال ہوا ہے۔
(۱) إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَی قَوْمِہ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَھُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ۔ (نوح:1،2)
”تحقیق بھیجا ہم نے نوح کو طرف قوم اس کی کے یہ کہ ڈرا قوم اپنی کو پہلے اس سے کہ آوے ان کو عذاب درد دینے والا۔ کہا اے قوم میری تحقیق میں واسطے تمہارے ڈرانے والا ہوں ظاہر“۔ (شاہ رفیع الدین)
”ہم نے بھیجا نوح کو اس کی قوم کی طرف کہ ڈرا اپنی قوم کو اس سے پہلے کہ پہنچے ان پر دکھ والی آفت، بولا اے قوم میری میں تم کو ڈر سنانے والا ہوں کھول کر“۔ (شاہ عبدالقادر)
”ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا (اس ہدایت کے ساتھ) کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کر دے قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آئے، ا س نے کہا ''اے میری قوم کے لوگو، میں تمہارے لیے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا (پیغمبر) ہوں“۔ (سید مودودی)
(۲) فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاہٗ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِہ الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِہ قَوْمًا لُدًّا۔ (مریم:97)
”پس سوا اس کے نہیں کہ آسان کیا ہے ہم نے اس قرآن کو ساتھ زبان تیری کے تو کہ بشارت دے ساتھ اس کے پرہیزگاروں کواور ڈراوے ساتھ اس کے قوم جھگڑنے والوں کو“۔(شاہ رفیع الدین)
”سو ہم نے آسان کیا یہ قرآن تیری زبان میں اسی واسطے کہ خوشی سنادے تو ڈر والوں کو اور ڈرادے جھگڑالو لوگوں کو“۔ (شاہ عبدالقادر)
”تو ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں یونہی آسان فرمایا کہ تم اس سے ڈر والوں کو خوشخبری دو اور جھگڑالو لوگوں کو اس سے ڈر سناو“۔ (احمد رضا خان)
”پس ہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان میں اس لیے سہل وسازگار بنایا کہ تم خدا ترسوں کو بشارت پہنچادو اور جھگڑالو قوم کو آگاہی سنادو“۔ (امین احسن اصلاحی)
(۳) رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ۔ (النساء: 165)
”بھیجے ہم نے پیغمبر خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والے “۔(شاہ رفیع الدین)
”کتنے رسول خوشی اور ڈر سنانے والے“۔ (شاہ عبدالقادر)
”ہم نے انہیں رسول بنایا ہے، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے “۔(سید مودودی)
”اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والے اور ہوشیار کرنے والے بناکر بھیجا “۔(امین احسن اصلاحی)
(۴) فَبَعَثَ اللَّہُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ۔ (البقرة: 213)
”پس بھیجا اللہ نے پیغمبروں کو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”پھر بھیجے اللہ نے نبی خوشی اور ڈر سناتے“۔ (شاہ عبدالقادر)
”تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے“۔ (سید مودودی)
”تو اللہ نے اپنے انبیاءبھیجے جو خوش خبری سناتے اور خبردار کرتے ہوئے آئے تھے“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں حال کا ترجمہ اس طرح ہوگا: ”جنھوں نے آکر خوش خبری سنائی اور خبردار کیا“۔ امانت اللہ اصلاحی)
(۵) قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ۔ (الاعراف: 188)
”میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں“۔ (سید مودودی)
”میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں “۔(محمد جوناگڑھی)
(۶) وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْہ آَيَاتٌ مِنْ رَبِّہ قُلْ إِنَّمَا الْآَيَاتُ عِنْدَ اللَّہ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ۔ (العنکبوت: 50)
”اور میں تو بس ایک کھلا ڈرانے والا ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)
”میں تو صرف کھلم کھلا آگاہ کر دینے والا ہوں“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور میں صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر“۔ (سید مودودی)
(۷) لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاھمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّھمْ يَھتَدُونَ۔ (السجدة: 3)
”تاکہ آپ انہیں ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”تاکہ تو متنبہ کرے ایک ایسی قوم کو جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا “۔(سید مودودی)
”تاکہ تم ان لوگوں کو ہوشیار کردو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی ہوشیار کرنے والا نہیں آیا “۔(امین احسن اصلاحی)
(۸) وَأَنْذِرْھمْ يَوْمَ الْآَزِفَۃ۔ (غافر: 18)
”اور ڈرا ان کو دن قیامت سے“۔(شاہ رفیع الدین)
”اور خبر سنادے ان کو اس نزدیک آنے والے دن کی“۔ (شاہ عبدالقادر)
(۹) وَأَنْذِرْھمْ يَوْمَ الْحَسْرَۃ۔ (مریم: 39)
”اور ڈرا ان کو دن پچتانے کے سے “۔(شاہ رفیع الدین)
”اور ڈر سنادے ان کو اس پچتاوے کے دن کا“ ۔(شاہ عبدالقادر)
(۱٠) إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّھمْ بِالْغَيْبِ۔ (فاطر: 18)
”تم صرف انہی لوگوں کو متنبہ کر سکتے ہو جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں“۔ (سید مودودی)
”تمہارا ڈر سناتا انہیں کو کام دیتا ہے جو بے دیکھے اپنے رب! سے ڈرتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)
”تم انہی لوگوں کو نصیحت کرسکتے ہو جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”تو صرف ان ہی کو آگاہ کرسکتا ہے جو غائبانہ طور پر اپنے رب سے ڈرتے ہیں“ ۔(محمد جوناگڑھی)
(۱۱) إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ۔ (الاعراف: 188)
”میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں “۔(محمد جوناگڑھی)
”میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں“۔ (سید مودودی)
”میں تو مومنوں کو ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری)
(۲۱) ھذَا نَذِيرٌ مِنَ النُّذُرِ الْأُولَی۔ (النجم: 56)
”یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے“۔(سید مودودی)
”یہ (نبی) ڈرانے والے ہیں پہلے ڈرانے والوں میں سے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”یہ (محمدﷺ) بھی اگلے ڈر سنانے والوں میں سے ایک ڈر سنانے والے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
مذکورہ بالا ترجموں کو دیکھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شاہ رفیع الدین ایسی ہر جگہ ڈرانا ترجمہ کرتے ہیں، جب کہ ان کے علاوہ کسی بھی مترجم نے مختلف مقامات پر انذار اور اس کے مشتقات کا ترجمہ کرتے ہوئے ایک موقف نہیں اختیار کیا ہے۔ کہیں ڈرانا کیا ہے تو کہیں ڈر سنانا، آگاہ کرنا، خبردار کرنا، متنبہ کرنا،ہوشیار کرنا کیا ہے۔ جب وہ ڈر سنانا ترجمہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ لفظ کی رعایت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ڈر سنانا اگر کبھی اردو محاورہ رہا ہو تو اب نہیں رہا۔
لفظ کی مکمل رعایت کریں تو سب سے مناسب ترجمہ خبردار کرنا لگتا ہے۔
جزاہ کا مطلب ہوتا ہے بدلہ دینا، اور جزی عنہ کا مطلب ہوتا ہے کسی کے کام آنا، اس کی ضرورت پوری کردینا، یا اس کا بدل بن جانا یعنی سزا وغیرہ کے لیے دوسرے کی جگہ خود کو پیش کردینا۔ قرآن مجید میں یہ تعبیر تین مقامات پر آئی ہے، پہلے دو مقامات پر تو سب نے لفظ کی رعایت کرتے ہوئے مناسب ترجمہ کیا ہے۔البتہ تیسری آیت کے ترجمے میں کچھ لوگوں نے بدلہ دینا ترجمہ کردیا ہے۔ لگتا ہے کہ انہیں صرف اس مقام پر جزاہ اور جزی عنہ کے درمیان اشتباہ ہوگیا۔
(۱) وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا۔ (البقرة: 48)
”اور بچو اس دن سے کہ نہ کام آوے کوئی شخص کسی کے ایک ذرہ بھر“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور ڈرو اُس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا “۔(سید مودودی)
”اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان دوسرے کا بدلہ نہ ہوسکے گی “۔(احمد رضا خان)
(۲) وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا۔ (البقرة: 123)
”اور بچو اس دن سے کہ نا کام آوے کوئی شخص کسی شخص کے ایک ذرہ “۔(شاہ عبدالقادر)
”اور ڈرو اُس دن سے، جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا“۔ (سید مودودی)
”اور ڈرو اس دن سے کہ کوئی جان دوسرے کا بدلہ نہ ہوگی“۔ (احمد رضا خان)
(۳) وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِہ وَلَا مَوْلُودٌ ھُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِہ شَيْئًا۔ (لقمان: 33)
”اور ڈرو اس دن سے کہ کام نہ آوے کوئی باپ اپنے بیٹے کے بدلے، اور نہ کوئی بیٹا ہو جو کام آوے اپنے باپ کی جگہ کچھ “۔(شاہ عبدالقادر)
”اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ بچہ کے کام نہ آئے گا، اور نہ کوئی کامی (کاروباری) بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دے“۔ (احمد رضا خان، مولود کا عجیب ترجمہ کیا ہے)
”اور ڈرو اُس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہوگا “۔(سید مودودی)
”اور اس روز سے ڈرو جب نہ کوئی باپ اپنی اولاد کی طرف سے بدلہ دے گا، اور نہ کوئی اولاد ہی اپنے باپ کی طرف سے بدلہ دینے والی ہوگی“۔ (محمد فاروق خان)
اس تیسری آیت کے آخری دونوں ترجموں میں مذکورہ غلطی دیکھی جاسکتی ہے، جب کہ پہلی دونوں آیتوں کے ترجموں میں ان دونوںحضرات کے یہاں یہ غلطی نہیں ہے۔
تیسری آیت کے سلسلے میں اس وضاحت کا اعادہ مناسب ہوگا کہ والد کا صحیح ترجمہ صرف باپ نہیں بلکہ ماں باپ، اور مولود کا صحیح ترجمہ صرف بیٹا نہیں بلکہ اولاد ہے، جس میں بیٹا بیٹی دونوں شامل ہیں۔
(جاری)
اخباری شیعہ کا نقطہ نظر سامنے آنے کے بعد نقدحدیث کے اصولی منہج پر ایک نظر ڈالتے ہیں،اہل تشیع سے جب اخباری شیعہ کے غیر علمی ،غیر منطقی اور محض اعتقاد پر مبنی غیر عقلی موقف کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو سنجیدہ اہل تشیع اصولی منہج کا ذکر کرتے ہیں کہ اگر اخباری شیعہ نے حدیثی ذخیرے سے متعلق قطعیت کا قول اپنایا ہے،تو اصولیین نے کتب اربعہ سمیت جملہ حدیثی ذخیرے کو قواعد ِجرح و تعدیل پر پرکھنے کی روش اپنائی ہے، اور اس حوالے سے اپنی کتب رجال اور علم درایۃ کی کتب کا ذکر کرتے ہیں ،یوں اہلسنت کے علم مصطلح الحدیث کی طرح حدیث کو پرکھنے کا باقاعدہ فن پیش کرتے ہیں،لیکن اصولی منہج میں بھی بعض ایسے مہیب خلا موجود ہیں ،جن کی وجہ سے یہ منہج بعض جہات سے شیعہ ذخیرہ حدیث کو پرکھنے کے حوالے سے بے فائدہ بن جاتا ہے۔ ہم ان میں سے صرف ایک بات کا ذکر کرنا چاہیں گے اور اس سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ،اس کا ذکر کرتے ہیں ،دیگر امور ایک مستقل بحث میں ذکر کریں گے ۔
سب سے اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ حدیث کی تصحیح اور حدیث کو پرکھنے کے حوالے سے(یعنی اصولی منہج میں ( اہل تشیع کے قدماء محدثین)جن میں خاص طو رپر کتب اربعہ کے مصنفین شامل ہیں ( اور متاخرین(ساتویں صدی ہجری کے علامہ حلی و ابن طاووس (کے منہج میں اصولی و بنیادی فرق ہے ،ہم پہلے اس فرق پر شیعہ محققین کی عبارات ذکر کرتے ہیں ،پھر دونوں مناہج کے درمیان اصولی فرق سے پیدا شدہ نتائج و سوالات کا ذکر کریں گے :
معروف شیعہ محقق ومحدث جعفر سبحانی متاخرین کے منہج کا متقدمین کے منہج سے اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ترجمہ :معروف یہ ہے کہ یہ اصطلاحات ہمارے متقدمین کے درمیان معروف نہ تھیں ،بلکہ ساتویں صدی ہجری میں ظہور پذیر ہوئیں ،اس کی حقیقت حال ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں ،اب ضروری یہ ہے کہ ان اسباب کا ذکر کیا جائے ،جس کی وجہ سے ان اصطلاحات کے وضع کی ضرورت پیش آئی ،تو بہاء الدین عاملی نے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ اصطلاح ہمارے قدماء کے درمیان معروف نہ تھی ، ہر وہ آدمی جو قدماء کی کتب سے ممارست رکھتا ہو ،اس پر یہ بات ظاہر ہے ،بلکہ ان کے درمیان ہر اس حدیث کو صحیح کہا جاتا تھا ،جس کی تائید میں ایسے اسباب ہوتے تھے ،جن پر ان علماء کا اعتماد ہوتا ،یا اس حدیث کے ساتھ ایسی مویدات مل جاتیں ،جن کی وجہ سے اس پر وثوق اور اس کی طرف میلان ہوجاتا۔
شیعہ عالم حسن زین الدین عاملی متاخرین کے اصطلاح کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
ترجمہ :قدماء کو متاخرین کی اصطلاح کا علم بالکل نہیں تھا ،نہ ہی علامہ (ابن حلی) کے زمانے سے پہلے اس اصطلاح کا وجود تھا۔
محمد جواد کاظم لکھتے ہیں:
یعنی حدیث صحیح سے متعلق متاخرین کے نظریات قدماء سے مختلف ہیں ۔
شیعہ کے بنیادی مصادر ِحدیث کے مولفین اور دیگر قدما محدثین نے حدیث کی تصحیح کا جو طریقہ اختیار کیا تھا ،وہ قریب قریب اخباریوں کی طرح تھا ،کیونکہ اس میں اسناد ،رواۃ ،اتصال و ارسال ، قواعد ِجرح و تعدیل وغیرہ کی بجائے متن ِحدیث پر کسی بھی وجہ سے دلی اطمینان و میلان کو معیار بنایا جاتا تھا ،جبکہ متاخرین یعنی ابن طاووس و علامہ حلی نے احادیث کو پرکھنے کا جو منہج اپنایا تھا ،اس میں رجال و اسناد کی بحث مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ معروف محقق علامہ کلباسی لکھتے ہیں :
ترجمہ : قدماء کے نزدیک صحیح اس صرف روایت کا نام نہیں ہے ،جو امامی شیعہ سے مروی ہو ،بلکہ صحیح کا مطلب یہ ہے کہ جو کسی ا صل ماخوذ منہ میں کسی بھی طریقہ ثبوت سے ثابت ہو ۔
عبد النبی جزائری لکھتے ہیں :
ہمارے قدماء اصحاب کی عبارات اور ان کی کلام کی چھان بین سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک صحیح سے مراد وہ روایت ہے ،جس پر عمل ہو ،اس کے مضمون پر فتوی دیا گیا ہو یا وہ ایسے قرائن سے مزین ہو ،جو اس پر عمل کو واجب کرے۔
معروف شیعہ محقق عبد اللہ مامقانی لکھتے ہیں:
یقینا صحیح اور ضعیف کا لفظ قدماء میں بھی مستعمل تھا ،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ قدما ء صحیح حدیث کا اطلا ق ہر اس روایت پر کرتے تھے ،جو ایسے قرائن سے موید ہو ،جن کی وجہ سے وہ ان کے نزدیک معتمد بن جاتا۔
معروف شیعہ ویب سائٹ "مرکز الابحاث العقائدیہ"پر قدماء و متاخرین کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
امامیہ کے ہاں تصحیح و تضعیف کے دو مطلب ہیں ،پہلا مطلب متقدمین ،جیسے شیخ کلینی اور ان کے ہم عصر و ہم طبقہ محدثین کے ہاں ہے ،دوسرا مفہوم متاخرین یعنی علامہ حلی اور ان کے ہم طبق محدثین کے ہاں ہے ،متقدمین کے نزدیک صحیح کا مطلب حدیث کو قبول کرنا اور اس پر ایسے قرائن کی وجہ سے عمل کرنا ،جو اس کے صدور کی صحت پر دلالت کرے ،اور متقدمین رواۃ کی توثیق سے صرف نظر کرتے تھے ،جبکہ متاخرین رواۃ کی توثیق کے بغیر کسی روایت کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ کونسے قرائن ہیں ،جن کی بنیاد پر قدماء محدثین کسی حدیث کو صحیح قرار دیتے تھے ،تو معروف شیعہ محقق محمد بن حسین بہائی نے اپنی کتاب "مشرق الشمسین و اکسیر السعادتین " میں درجہ ذیل قرائن لکھے ہیں:
1۔حدیث کا اصول اربعمائۃ میں پایا جانا (اصول اربعمائۃ کی حقیقت و استنادی حیثیت و ثبوت پر ہم ماقبل میں مفصلا بحث کرچکے ہیں )۔
2۔حدیث کا ایک یا ایک سے زیادہ اصول میں مختلف اسناد کے ساتھ مذکور ہونا (یہ وجہ مستقل وجہ نہیں ،بلکہ پچھلی وجہ ہی کی توسیع ہے۔فافہم(
3۔حدیث کا ان حضرات کی کتب میں پایا جانا ،جن کی تصدیق پر اجماع ہے ،جیسے زرارۃ،محمد بن مسلم فضل بن یسار وغیرہ
4۔حدیث کا ان کتب میں سے کسی کتاب میں پایا جانا ،جو ائمہ معصومین پر پیش کئے جاچکے ہیں ،جیسے عبید اللہ حلبی کی کتاب ،جو امام صادق پر پیش کی جاچکی ہے ،یونس بن عبد الرحمان کی کتاب ،جو امام عسکری پر پیش کی جاچکی ہے ۔
5۔حدیث کا ان کتب میں پایا جانا ،جو سلف میں معروف تھیں خواہ اس کے مصنفین امامی شیعہ ہوں جیسے حریز بن عبد اللہ اور علی بن مھزیار کی کتب یا ان کے مصنفین امامی شیعہ نہ ہوں ،جیسےحفص بن غیا ث اور حسین بن عبد اللہ کی کتب 8
اسی قسم کے قرائن معروف شیعہ محقق محمد جواد کاظم نے اپنی کتاب"المنہج الغائی فی تصحیح الحدیث عند الامامیہ "میں ذکر کی ہیں ۔9
ان قرائن سے معلوم ہوا کہ اہل تشیع کے متقدمین اور بنیادی حدیثی ذخیرے (الکافی،من لا یحضرہ الفقیہ، الاستبصار اور تہذیب الاحکام ) کے مصنفین کے نزدیک حدیث کی صحت میں رجال ،اسناد ،قواعد ِجرح و تعدیل، اتصال و ارسال کی بجائے اصل بنیاد حدیث کا اصول اربعمائۃ یا ان سے پہلے علمائے شیعہ کی لکھی گئی کسی بھی کتاب میں پایا جا نا،اب ان کتب سے ائمہ معصومین تک حدیث میں کتنے رواۃ کا واسطہ آتا ہے ؟واسطے متصل ہیں یا منقطع ؟ یہ رواۃ قواعد جرح و تعدیل کے اعتبار سے کس معیار پر تھے ؟ان کتب کے مخطوطات کتب اربعہ کے مصنفین تک کیسے پہنچے ؟ ان سب علمی مباحث سے اہل تشیع کے قدماء نے صرف ِنظر کرتے ہوئے ایک ہی بنیاد کو معیار مانا کہ چونکہ یہ حدیث معتبر اصول و کتب میں منقول ہے ،اس لئے یہ حدیث کی صحت کے لئے مضبوط قرینہ ہے،یوں ان احادیث کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے مصادر میں انہیں جگہ دی ۔
اب سوال یہ ہے کہ قدماء کے نزدیک جو احادیث صحیح تھیں اور انہوں نے ان احادیث کو اپنی کتب خاص طور پر کتب اربعہ میں جگہ دی ،ان احادیث کا سندو رجال کے اعتبار سے کیا مقام ہے؟ یا دوسرے لفظوں میں قدماء کے منہج کے مطابق صحیح روایات کا متاخرین کے منہج کے مطابق صحت کا کیا مقام ہے ؟ تو اہل تشیع کے بقول اگر قدماء کی نظر میں صحیح احادیث کو متاخرین کی اصطلاح کے مطابق رجال و اسناد(یعنی متاخرین کے علم الدرایہ ) کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو کتب اربعہ کی اکثر احادیث ضعیف ثابت ہونگی۔
شیخ جعفر سبحانی لکھتے ہیں :
رئیس المحدثین ابن بابویہ قمی نے متقدمین کےعرف کے مطابق انہی احادیث کو صحیح سمجھا ،جن کی طرف دلی میلان ہو اور وہ کسی بھی وجہ سے معتمد ہوں ،اس لئے اپنی کتاب من لایحضرہ الفقیہ میں مذکور جملہ احادیث کو صحیح قرار دیا کہ انہوں نے یہ احادیث ان کتب سے لی ہیں ،جو معتمد و مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں ،لیکن من لا یحضرہ الفقیہ کی اکثر احادیث متاخرین کی اصطلاح کے مطابق صحیح کی درجہ بندی میں نہیں آتیں ، حسن موثق بلکہ ضعیف کی درجہ بندی میں آتی ہیں ۔
شیعہ محقق رضا ہمدانی شیعہ کتب اربعہ میں مذکور روایات کے رواۃ سے متعلق لکھتے ہیں :
ترجمہ :کوئی ایسی روایت بڑی مشکل سے ملے گی ،جس کے رواۃ کی عدالت تحقیقی طور پر ثابت ہو ۔۔۔اسی وجہ سے میرا طرز یہ ہے کہ رجال کے احوال سے متعلق چھان بین نہیں کرتا ،صرف مشائخ متقدمین کی زبان ان کو صحیح کہنے پر اکتفاء کرتا ہوں۔
ماقبل میں ہم معروف شیعہ محدث حر عاملی کا حوالہ دے چکے ہیں کہ علوم مصطلح الحدیث کے قواعد پر اگر کتب اربعہ کی روایات کو پرکھا جائے تو اکثر یا سب کی سب احادیث ضعیف ثابت ہونگی ۔
اسی وجہ سے اخباریوں نے متاخرین کے منہج کو "ہدم الدین "یعنی دین کی بنیادوں کو مٹا دینے اور گرادینے کے مترادف قرار دیا ،چنانچہ معروف اخباری شیعہ عالم محمد امین استرابادی لکھتے ہیں :
ترجمہ :خلاصہ یہ کہ دین کی تخریب دو موقعوں پر ہوئی ،ایک اس دن جب نبی پاک ﷺ کی وفات ہوئی (اور خلافت حضرت علی کی بجائے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ملی) دوسرا اس دن ،جب اہلسنت کی اصطلاحات اور ان کے قواعد اصولیہ کو ہمارے احکام و احادیث میں جاری کرنے کا عمل شروع ہوا۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جن اہل تشیع اہل علم نے متاخرین کے منہج کے مطابق الکافی کی صحیح و ضعیف احادیث کی تنقیح کی ہے ،تو الکافی کے دو ثلث ضعیف ثابت ہوئے ہیں ،معروف شیعہ عالم مرتضی عسکری اپنی کتاب "معالم المدرستین " میں لکھتے ہیں:
ترجمہ :کتب اربعہ میں زمانے کے اعتبار سے قدیم ترین کے کتاب ،زیادہ آہنگ کے ساتھ علمی حلقوں میں مذکور کتاب اور سب سے مشہور ترین کتاب الکافی ہے ،اور مدرسہ اہل بیت کے محدثین (شیعی محدثین (نے اس کتاب کی 16121 احادیث میں سے 9485 احادیث (یعنی دو ثلث ) کو ضعیف قرار دیا ہے۔
معاصر شیعہ محقق باقر بہبودی نے جب الکافی کی صحیح احادیث پر تحقیق کی تو ضعیف احادیث کی تعداد اس سے کہیں زیادہ نکلی ،چنانچہ مرتضی عسکری لکھتے ہیں:
’’ایک معاصر محقق محمد باقر بھبودی نے صحیح الکافی لکھی ہے ،اور انہوں نے 16121 احادیث میں سے صرف 4428 احادیث کو صحیح قرار دیا ،اور 11963 احادیث کو اپنے اجتہاد کے مطابق ضعیف قرار دیا۔
جب سب سے صحیح ،سب سے مشہور اور سب سے زیادہ مرجعیت کی حامل کتاب الکافی کے دو ثلث ضعیف احادیث پر مشتمل ہیں ،تو بقیہ کتب کا صحت و ضعف کے اعتبار سے کیا حال ہوگا ؟اہل علم پر مخفی نہیں ۔
1. اصول الحدیث و احکامہ فی درایۃ الحدیث ،جعفر سبحانی ،ص 43
2. زین الدین حسن عاملی ،منتقی الجمان،ج1،ص14،15
3. المنہج الغائی فی تصحیح الحدیث عند الامامیہ ،محمد جواد کاظم ،ص46
4. الرسائل الرجالیہ ،محمد بن محمد کلباسی ،ج1،ص250،
5. حاوی الاقوال ،عبد النبی جزائری ،ج1،ص100
6. مقباس الھدایہ ،عبد اللہ مامقانی ،ج1،ص139
7. http://www.aqaed.com/faq/3442
8. مشرق الشمسین و اکسیر السعادتین ، بہاء الدین محمد بن حسین عاملی ،مجمع البحوث الاسلامیہ ،مشہد ،ص26 تا 30
9. المنہج الغائی فی تصحیح الحدیث عند الامامیہ ،دار الرافدین ،بیروت ،ص 79 تا 84
10. ایضا:ص45
11. مصباح الفقیہ ،رضا ہمدانی ،ج1،ص12
12. الفوائد المدنیہ ،محمد امین استرابادی ،قم مقدسہ ،ص 368
13. معالم المدرستین ،مرتضی عسکری ،مرکز الطباعۃ والنشر للمجمع العالمی لاہل البیت ،ج3،ص343
14. ایضا :ج3،ص344
(جاری)
(یہ مضمون میرے کالموں کے مجموعے ”متبادل بیانیہ “ کے نئے ایڈیشن میں بطور مقدمہ شامل ہے۔مقصودیہ تھاکہ کالموں کی صورت میں لکھی گئی متفرق تحریوں میں موجودفکری وحدت اور نظم کو واضح کیا جائے۔تاہم اس تحریر کی اپنی منفرد حیثیت بھی ہے،اس لیے اس کی الگ سے اشاعت ومطالعہ،میرے نزدیک فائدے سے خالی نہیں۔)
فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید اب ناگزیر ہو چکی۔
یہ مقدمہ چند علمی، فکری اور تاریخی اساسات پرقائم ہے۔
قبائلی معاشرت سے انسان نے جس اجتماعی زندگی کا آغاز کیا تھا، ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی، اب وہ اکیسویںصدی میں داخل ہو چکی۔یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ کسی لمحے مصنوعی ذھانت،انسانی ذھانت کو چیلنج کر سکتی ہے۔کھیل دلچسپ مرحلے میں ہے جو حتمی بھی ہو سکتاہے۔انسان کی خطر پسند طبیعت نے اس چیلنج کو قبول کر لیا ہے۔ساتھ ہی انسان یہ بھی چاہتاہے کہ آخری فیصلے کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے۔درپیش چیلنج وجودی بھی ہے اور تہذیبی بھی۔مسلم معاشرے اس سفر میں ترقی یافتہ معاشروں کے ہم سفر دکھائی نہیں دیتے۔
یہ مرحلہ انسان کی علمی و فکری جد وجہد کا ایک پڑاؤہے۔ یوں اس کایہ سفر عمرِرائیگاں کا نوحہ نہیں ہے۔ انسان نے اس دوران میں بہت کچھ سیکھا۔تجربات کی ناکامیوں اورکامیابیوں نے اسے ایک راہ دکھائی۔ فکر و نظر کی دنیا میں ایک ہنگامہ ہمہ وقت جاری ہے۔نئے افکار وجود میں آتے اور ایک زمانے کی صورت گری کررہے ہیں۔اس کا تازہ ترین مظہر عالمگیریت ہے۔ یہ معیشت، سیاست، معاشرت، سب کو محیط ہے۔
ارتقا کے اس سفر میں انسان کو دیکھنے کے لیے دو آنکھیں میسر رہیں۔ ایک الہام اور دوسری ا انسانی عقل۔ یہ دو آنکھیں دو روایات کی صورت میں آگے بڑھیں۔ ایک کو ہم مذہبی روایت کہتے ہیں اور دوسری کو عقلی۔ ان دو روایات نے دو مختلف تصوراتِ زندگی (world views) کو جنم دیا۔ ایک روایت اس مقدمے پر کھڑی ہے کہ ہمیں راہنمائی کے لیے آسمان کی طرف دیکھنا ہے۔خدا کی طرف سے نازل ہونے والی ہدایت ہمارے لیے مشعل ِراہ ہے۔ دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ عقل ہی چراغِ راہ ہے۔ اسی کی روشنی میںطے ہو گا کہ ہمارا اگلا قدم کیا ہو گا۔ فلسفہ اور علم کی سطح پر دونوں نے اپنے اپنے دلائل مرتب کیے۔ کہنے کویہ دونوں ایک دوسرے سے بے نیاز ہیںلیکن عملا ً یہ بے نیازی ممکن نہیں ہو سکی۔
مذہبی روایت پر یہ حکم لگانا کہ وہ عقل و خرد سے بے گانہ ہو کر آگے بڑھتی رہی ہے،درست نہیں ہے۔ اسی طرح عقلی روایت کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے مذہبی روایت سے کوئی اثر قبول نہیںکیا۔ مذہب کی روایت کو اہلِ علم کے ایک طبقے نے عقل کے قائم کردہ معیارات سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی۔ اسی طرح عقل نے جس سماجی تجربے کو اساس مانا، اس کے اجزائے ترکیبی میں مذہب شامل رہا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ مذہب ہر دور کی ایک اہم سماجی حقیقت رہی ہے۔عقلی منہج سماجی تجربے کو موضوعی(subjective) مانتا ہے۔گویا اس کے مقدمات آفاقی نہیں ہیں۔دوسری طرف مذہبی روایت، الہامی ہدایت کو آفاقی مانتی ہے لیکن اس کی تفہیم کوموضوعی۔ اب اگردونوں میں کوئی فرق ہے تو بس اتنا کہ جہاں الہام اور عقل کے فیصلے میںتضاد محسوس ہوا، اہلِ مذہب نے الہام کو ترجیح دی اور غیر مذہبی روایت نے عقل کو۔
اس ارتقائی سفر میں ، انسان نے جو آر اختیار کیں،ان میں اس کے تجربات کی حیثیت بنیادی تھی اور یہ فطری ہے۔ الہام و عقل کی اس کشمکش میں، تاریخی حوالے سے آخری فیصلہ کن موڑ ،رسالت مآب سیدنا محمدﷺکی بعثت ہے۔ آپ کی تشریف آوری سے مذہب کی روایت حتمی صورت میں متشکل ہو گئی۔ ابتدا میںسر زمین عرب اس کا مرکزبنی۔ تدریجاً اس نے عالمگیر حیثیت اختیار کر لی۔
وہ علاقے جنہیں ہم جدید یورپ کہتے ہیں، ان کے پاس عقلی روایت موجود تھی اور ساتھ الہامی بھی۔ تاہم اس الہامی روایت نے خود کو اس مذہبی تجربے سے الگ رکھا جو عرب میں مشہود ہو چکا تھا۔یورپ کی الہامی ہدایت مسیحی تھی۔ سیدنا مسیحؑ کا تعلق اگرچہ سرزمینِ فلسطین سے تھا لیکن آپ سے منسوب مذہبی روایت کو عالمگیر حیثیت اُس وقت ملی جب سلطنتِ روم نے مسیحیت کو قبول کر لیا۔ یہ واقعہ حضرت مسیحؑ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد پیش آیا۔بائیبل آپ کا ورثہ ہے مگرمسیحیت اُن عقائد و افکار کا نام قرار پائی جسے سینٹ پال نے اپنی سند سے مسیحیت قرار دیا۔ مسیحیت نے کلیسا کے ایک ادارے کو جنم دیا، جس نے خدا اور بندے کے درمیان ایک واسطے کی حیثیت اختیار کر لی۔ مذہب کی یہ تفہیم خود مذہب کی روح سے ہم آہنگ نہیں تھی جوبندے اور خدا کے درمیان موجود حجابات اور واسطوںکو ختم کر دیتا ہے۔پیغمبر،خدا اور بندے کے مابین واسطہ نہیں، بلکہ راہِ حق کے مسافر کا راہنما ہے۔بائیبل اس باب میں پوری طرح واضح ہے۔
یورپ میں جب مذہب کے معاملات کلیسا کے ہاتھ میں مرتکزہو گئے اور بندے اور خدا کا براہ راست تعلق ختم ہو گیا تو الہام پر کلیسا کی حکمرانی قائم ہو گئی۔الہامی روایت انسان کی فکری حکمرانی کوقبول نہیں کرتی۔اس روایت میں پیغمبر اپنی شخصی حیثیت میں نہیں ،خدا کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کلام کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی شخصی وجاہت بھی مسلم ہوتی ہے۔ وہ لوگوں پر پوری دیانت سے یہ واضح کرتا ہے کہ یہ بات میں خدا کی طرف سے کہہ رہا ہوں اور یہ میں اپنی طرف سے ۔ تم اُس کے پابند ہو جو میں خدا کی طرف سے پیش کروں۔ یورپ میں جب اہلِ کلیسا نے اس روایت سے منحرف ہوتے ہوئے،اصرار کیا کہ مذہب کے نام پر انسان اپنے جیسے لوگوں کی حاکمیت کو تسلیم کر لیں تو انسانی فطرت نے اس سے ِابا کیا ۔ ایک بڑے طبقے نے بندے اور خدا کے مابین انسانی واسطے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
الہام کا متبادل ظاہر ہے انسانی عقل ہی ہو سکتی ہے۔عقل پر مبنی ایک علمی روایت ، یونان سے یورپی تجربے کا حصہ بنی جو افلاطون و ارسطو وغیرہ سے منسوب ہے۔ اب ایک طرف کلیسا کی حاکمیت کو چیلنج کرتے ہوئے ،خدا اور بندے کے براہِ راست تعلق کو زندہ کرنے کی بات کی جانے لگی اور دوسری طرف ،کم ازکم اجتماعی معاملات میں،الہام ہی کو ماخذ علم ماننے سے انکار کا علم بلند ہو گیا۔ اعلان کیا گیا کہ عقل جیسے چراغِ راہ کی موجودگی میں انسان کو کسی الہام کی حاجت نہیں۔ یورپ میں جاری یہ کشمکش اس اتفاقِ رائے پر منتج ہوئی کہ اگر کوئی مذہب کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو انفرادی زندگی میں وہ اس پر عمل کرنے میں پوری طرح آزاد اور خود مختار ہے۔ رہے سیاست و معاشرت کے معاملات تو انہیں انسانی عقل پر چھوڑ دیا جائے۔ کلیسا نے بھی اس مقدمے سے اتفاق کرلیا۔
کلیسا کی اس سرافگندگی کاایک سبب اور بھی تھا۔عقل کی حاکمیت قائم ہوئی توطبیعات، مابعد الطبیعات سے الگ ہوگئی۔انسان نے کائنات میں کارفرما قوانین کو دریافت کرنا شروع کیا۔انسان کے تجربی علم(Empirical Knowledge) نے جن حقائق کی طرف اس کی راہنمائی کی،وہ کلیسا کے قائم کردہ تصورات سے مختلف بلکہ ان سے متضاد تھے۔اب اہلِ مذہب نے سائنسی اندازِ نظر پر اپنی برتری کو جبر سے قائم کر نا چاہا۔جبر کی حاکمیت چو نکہ غیر فطری ہے،اس لیے اس معاملے میں مذہب کو شکست کا سامنا کرناپڑا۔ یہاں یورپ کی تاریخ کے ایک اور پہلو کوبھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔وہاں سیاسی قوت کی ایک تثلیث سامنے آئی جس میں کلیسا،بادشاہ اور جاگیردار شامل تھے۔اس میں حاکمیت کلیسا کے ہاتھ میں تھی جہاں سے بادشاہ کی تعیناتی کے فرمان جاری ہوتے تھے۔یوں معاشرہ بحیثیت مجموعی کلیسا کی گرفت میں تھا۔جب اس تثلیث کے خلاف عوامی اضطراب پیدا ہوا تو کلیسا اس کا اصل ہدف بن گیا۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس دوران میں،یورپ کے اہل مذہب نے اُس مذہبی تجربے سے استفادے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جو جزیرہ نمائے عرب میں ،کامیابی کے ساتھ انسانی زندگی کی صورت گری کرنے کے چند عشروں بعد ،یورپ کے دروازوں پر دستک دے چکا تھا۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ نے مسلم سلطنت کو ایک نئی ابھرتی ہوئی سیاسی قوت کے طور پر دیکھا اور اسلام کو ایک متحارب مذہبی قوت سمجھا ۔ یہ رویہ اسلام کی بطورمذہب تفہیم کے راستے میں حائل ہو گیا۔ یہی سبب ہے کہ یورپ کی مذہبی روایت کو یہودی و مسیحی تہذیبی ورثے (Judeo-Christian Civilization) تک محدود کردیا گیا اور یوں وہ دروازہ بند ہو گیا جواسلام کی شمولیت کے ساتھ، مذہبی روایت میں ایک تاریخی تسلسل کو برقرار رکھ سکتا تھا۔
دوسری طرف مسلم معاشرے میں،الہام کی بنیاد پرفروغ پانے والی علمی روایت نے دوسرے افکار کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کیے۔ اس کا ایک سبب فتوحات کاتسلسل اور اہل اسلام کے سیاسی تسلط کی توسیع بھی تھا۔ اس تاریخی عمل نے مسلمانوں کو یونان کی عقلی روایت سے بھی متعارف کرایا۔ یوں مسلم معاشرے میں ماخذِ علم کی بحث ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ یہ بحث دو دائروں میں آگے بڑھی۔ ایک دائرے میں الہام کو اصل الاصول مانا گیا اور عقل کو ایک ثانوی ماخذ کے طور پر قبول کیا گیا۔ دوسرے دائرے میں عقل اور وحی کو یکساں درجہ دیتے ہوئے ، وحی کو عقل کی روشنی میں سمجھا گیا۔ اب اس بحث میں جس ذہنی سطح کے لوگ شامل ہوئے، اس کا علمی معیار بھی اسی طرح متعین ہوا۔ معاملہ جب غزالی اور ابن رشد جیسی شخصیات کے مابین تھا تو اس کی علمی سطح بلند رہی۔ جب یہ کم درجے کے افراد کے ہاتھوں میں آئی تو ظاہر ہے اس کا معیار برقرار نہیں رہا۔
علومِ اسلامی کے باب میں جو روایت آگے بڑھی ، اس پر بھی ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے اثرات ہیں۔ تفسیر میں ایک طرف تفسیرِ ماثور کی روایت ہے اور دوسری طرف ہمیں کلامی تفاسیر بھی ملتی ہیں۔ یہی معاملہ علمِ حدیث اور اجتہاد و فقہ کے ساتھ بھی ہوا۔ علمِ حدیث میں روایت ہی نہیں، درایت کو بھی اہمیت ملی۔ فقہ میں جہاں اصحاب الحدیث سامنے آئے وہاں اصحاب الرائے نے ایک مستقل بالذات فقہی مکتب کو جنم دیا۔
اسی دوران میں مسلم سلطنت ایک بڑی سیاسی تبدیلی سے دوچار ہوئی۔ داخلی اور خارجی مسائل نے اس کی سیاسی وحدت کو منتشر کیا تو اس کے تمام سماجی ادارے زوال کا شکار ہوئے۔ اس کے نتیجے میں علمی روایت جمود کا شکار ہوئی۔مسلم سپین میں اگر چہ ہمیں زندگی کے آثار دکھائی دیتے ہیں لیکن ایک محدود وقت تک۔دوسری طرف سیاسی شکست و ریخت کا یہ عمل غیر مسلم دنیا میں بھی جاری تھا۔جب مسلم دنیا میں زوال آیا تو یورپ وغیرہ میں عروج ہوا۔ مسلم دنیا کا بڑا حصہ اہل مغرب کے سیاسی تسلط کی نذر ہو گیا۔ مغرب جس تہذیبی روایت کو لے کر آگے بڑھ رہا تھا، اس میں امورِ دنیا پر عقل کی حاکمیت کو تسلیم کیا جا چکا تھا اور مذہب کو انفرادی دائرے تک محدود کر دیا گیاتھا۔
بیسویں صدی میں انسانی تاریخ نے ایک اور کروٹ لی۔ دنیا سلطنتوں کے عہد سے نکل کر قومی ریاستوں کے دور میں داخل ہو گئی۔ سلطنتیں ٹوٹنا شروع ہوئیں تو ان کے زیر تسلط علاقے آزاد ہونے لگے۔ ان میں مسلم اکثریتی علاقے بھی شامل تھے۔ مسلم علاقوں میں اٹھنے والی آزادی کی تحریکیں دو فکری دھاروں کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ایک وہ جو قومیت کے مروجہ تصور کی حامی تھیں اور جغرافی یا نسلی اساس پر منظم تھیں۔ دوسری وہ جنہیں ہم اسلامی تحریکیں کہتے ہیں۔جنہوں نے قومیت کو اساس مانا انہوں نے سیکولر بنیادوں پر سیاسی تحریکیں اٹھائیں۔ اسلامی تحریکوں نے خود کو امتِ مسلمہ کے تصور کا نقیب بنایا اور امت کی نشاةِثانیہ کا عَلم بلند کیا۔ ان تحریکوں نے خود کو ماضی کے تسلسل میں پیش کیا اور یہ تاثر دیا کہ وہ اُس جنت گم گشتہ کی بازیافت چاہتے ہیں جو کبھی خلافت کے عنوان سے اس زمین پرآباد تھی۔
اس تصور کو عصری سیاسی حقائق سے ہم آہنگ بنانے کی ضرورت تھی۔ خلافت کا تصور ایک عالمگیر سلطنت کے تناظر میں پیدا ہوا اور جدید دور قومی ریاستوںکا دور تھا۔ ان تحریکوں نے خلافت کے تصور کو جدید قومی ریاست کا پیرہن دیتے ہوئے اسلامی ریاست کا تصور دیا۔ اِنہوں نے اگرچہ ایک عالمگیر ریاست ہی کو آخری منزل قرار دیا لیکن اس کا آغاز ایک قومی ریاست کی اسلامی تشکیل سے کیا۔ اسی دور میں چونکہ اشتراکیت بھی ایک عالمگیرنظریاتی ریاست ہی کا تصور پیش کر رہی تھی، اس لیے جو نظریاتی کشمکش برپا ہوئی وہ اسلامی تصور ِریاست اور اشتراکی تصور ریاست ہی میں ہوئی۔ مسلم دنیا میں بھی چونکہ اشتراکی تحریکیں کام کر رہی تھیں، اس لیے مسلمان معاشروں میں بھی ایک نظریاتی کشمکش برپا ہو گئی۔ اس نئی صورت حال نے مسلم دنیا میں ایک فکری انتشار کو جنم دیا۔ مسلمان جس نفسیاتی کیفیت میں زندہ تھے وہ عظمتِ رفتہ کے احساس سے عبارت تھی ۔ مشرقِ وسطیٰ سے برصغیر تک، کہیں خلافت عثمانیہ کا ماتم تھا اور کہیں مغل سلطنت کا۔ مسلمانوں کے قومی لٹریچر میں اسی کا رونا تھا اور مسلمانوں میں بیداری کے لیے شاندار ماضی کو مہمیز کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں اسلام مذہب سے زیادہ ایک سیاسی قوت کا حوالہ تھا جو اہل ِاسلام سے چھن گئی تھی۔ اسلامی تحریکوں کی فکری قیادت نے بھی جو تعبیر دین پیش کی ، اس میں بتایا گیا کہ اسلام مذہب نہیں، دین ہے اور دین سٹیٹ کے ہم معنی ہے۔ اس تصور کے مطابق اسلامی ریاست کا مقام اور اس کے لیے جد و جہد دینی فریضہ قرار پایا۔وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسلمان معاشرے کی غالب فکر بن گئی۔
مغرب میں تجربات کے بعد فی الجملہ فکری یک سوئی پیدا ہو گئی۔مذہب کو فرد تک محدود کر دینے کے بعد دنیاوی معاملات کو انسانی عقل پر چھوڑ دیا گیا اور اجتماعی دانش کے ہاتھ میں انسان کی باگ تھما دی گئی۔اس دانش نے سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کر لیا، جس کی اساس لبرل ازم پر تھی۔ اس میں انسان کو ایک آزاد فرد مان کر، اسے صرف ان حدود کا پابند بنایا گیا جن کا تعین انسانی عقل کرے گی۔ لبرل جمہوریت، کھلی منڈی کی معیشت وغیرہ اسی کے مظاہر ہیں۔ مسلم دنیا میں فکری یک سوئی پید ا نہ ہو سکی۔ مغرب نے مذہب کے سماجی کردار کو جس آسانی سے متعین کر دیا، مسلمان معاشرہ نہ کر سکا۔ اس کا ایک تاریخی سبب ہے جو بہت اہم ہے۔ مغرب میں جو مذہبی روایت موجود تھی ، اس کا آخری مظہر سیدنا مسیحؑ کی شخصیت ہے۔ سیدنا مسیحؑ کا ورثہ سیاسی اقتدار نہیں، اخلاقی تعلیمات تھیں۔ حضرت مسیحؑ کی حیثیت بنی اسرائیل کے مجدد کی ہے۔بنی اسرائیل کو سیاسی اقتدار تو مل گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ،مذہب کا جوہر ان سے کھو گیا تھا۔ یہ انسان کے اخلاقی وجود کے تزکیے کا پیغام تھا جو انسانوں کو ”خدا کی بادشاہی“ کا مستحق بناتا ہے۔ انبیاءکے بعد بنی اسرائیل کی قیادت جب علما اور فریسیوں کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے مذہب کے ظاہری لبادے پر اصرار کیا اور مذہب کے فقہی یا قانونی پہلو ہی کو بطور دین پیش کیا۔ بنی اسرائیل کو اب اس بات کی ضرورت تھی کہ کوئی انہیں مذہب کے جوہر کی طرف متوجہ کرے۔ سیدنا مسیحؑ اصلاً اسی لیے تشریف لائے ۔ حضرت مسیح ؑنے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف آئے ہیں۔ وہ تورات کو منسوخ کرنے نہیں آئے تھے بلکہ اسی کو برقرار رکھتے ہوئے ، جس میں قانونِ الٰہی اور شریعت کا بیان تھا، اخلاقی پہلو کو نمایاں کرنے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے جو دین میں اصلاً مطلوب ہے۔ انجیل جسے عہد نامہ جدید کہتے ہیں،اسی لیے تمام تر اخلاقی تعلیمات پر مبنی ہے۔ یہ معلوم ہے کہ سیدنا مسیحؑ کو یہود نے بزعم خویش جوانی میں مصلوب کر دیا اور اس وقت چندافرادہی ان پر ایمان لائے تھے۔ بعد کے ادوار میں سینٹ پال کو مسیحیت کا نمائندہ اور مجتہد مان لیا گیا اور انہوں نے شریعت کی پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ گویا مسیحیت کے ورثے میں وہ کچھ موجود ہی نہیں تھا، جو قانون یا نظمِ اجتماعی کا ماخذ بنتا۔ دوسرا یہ کہ مسیحی نفسیات میں مذہبی اعتبار سے کسی ”نشاةِثانیہ“ کا کوئی تصور بھی موجود نہیں تھا۔ یوں مذہب کو نجی زندگی تک محدود کرنا، مغرب کے لیے ایک بڑا مسئلہ نہیں بنا۔ مذہب ایک اخلاقی روایت کے طور پر ان کے پاس موجود تھا اور موجود رہا۔
اس فکری یک سوئی نے مغرب میں ایک علمی انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔کلیسا کے اثرات سے نکل کر،مغرب میں طبعی اور سماجی علوم میں ایک انقلابِ عظیم بر پا ہوا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کے بعد انسان نے کائنات کے ان اسرار ورموز کو جانا جو صدیوں سے پردہ اخفا میں تھے۔اس نے انسانی تہذیب کی کایا پلٹ دی اور سماجی علوم کی ایک نئی اور حیران کن دنیا وجود میں آئی۔یہ انقلاب اتنا ہمہ گیر ہے کہ اس کے اثرات سے بچنا کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔
مسلمان معاشروں میں یہ یک سوئی اس لیے پیدا نہیں ہو ئی کہ ان کے لیے مذہب اور اقتدار کو الگ کرنا ممکن نہ ہوسکا۔اس کی وجہ مسلمانوںکا تاریخی تجربہ ہے ۔وہ جس مذہبی ورثے کے حامل ہیں، اس میں دونوںیک جا ہیں۔ اﷲ کے آخری رسولﷺ حاکمِ وقت بھی تھے اور ان کا ورثہ محض مذہب نہیں، ایک ریاست بھی ہے۔ چونکہ یہ ریاست ان کی حیاتِ طیبہ میں وجود میں آ چکی تھی، اس لیے مذہب کی تعلیمات ریاست کے معاملات کو بھی محیط تھیں۔ مسلم نفسیات کے لیے یہ آسان نہیں ہے کہ وہ سیدنا محمدﷺ کی حیثیت بطور رسول اور بطور حکمران الگ کر سکے۔ گویا ریاست و سیاست کے معاملات دینی ورثے کا حصہ تھے اور تاریخی ورثے کا بھی۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذہب وسیاست کی یہ یک جائی،مسلمانوں میں فرقہ واریت کی بنیاد بن گئی۔مسلمانوں میں پہلا اختلاف رسالت مآبﷺ کی سیاسی جانشینی پر ہوا۔دوسرا بڑا اختلاف سیدنا عثمانؓ کے عہد میں ہو جب ان کے خلاف ایک بڑی شورش برپا ہوگئی۔تیسرااختلاف سیدنا عثمانؓ کی جانشینی کے مسئلے پر سامنے آیا۔ ان حادثات نے مسلمانوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا،جنہیں بعد میں اہل سنت الجماعت،شیعہ اور خوارج کہا گیا۔ ابتدا میں ان مسائل کوسیاسی ہی سمجھا گیا۔بعد کے ادوار میں، جب باقاعدہ گروہ وجود میں آئے توہر گروہ نے ،مسلم نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے،پنے سیاسی موقف کے حق میں ایک دینی استدلال اختیار کر لیا۔
سیاست چونکہ مسلمانوں کے مذہبی تجربے کا حصہ تھی،اس لیے ہر گروہ کو صدرِ اوّل سے ایسا مواد میسر آگیا جسے،اُس نے اپنے حق میں مذہبی استدلال کے طور پر پیش کیا۔مثال کے طورپر اللہ کے رسولﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں سیدنا ابوبکرصدیقؓ کو نماز کی امامت کے لیے کہا ۔اہلِ سنت والجماعت نے اسے خلافتِ ابوبکرؓ کے حق میں مذہبی دلیل بنا کر پیش کیا کیونکہ یہ ایک پیغمبر کا ارشاد تھا اور قولِ پیغمبرایک دینی حجت ہے۔دوسری طرف اہلِ تشیع نے اس روایت کو اختیار کر لیاکہ غدیر میں اللہ کے رسولﷺ نے سیدنا علیؓ کو ’مولیٰ‘ کہا اور یہ ان کی خلافت کے حق میں نصِ قطعی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی دنوں میں جب یہ اختلاف پیدا ہوا،کسی نے اپنے حق میں ان نصوص کو پیش نہیں کیا۔یہ واقعات اُس وقت دینی استدلال کی بنیاد بنے جب باقاعدہ فرقہ سازی ہوئی۔ اسی تاریخی تجربے کے زیرِ اثر،مسلم دنیامیں تفہیمِ دین اور علم کی جو روایت وجود میں آئی،وہ یہی سیاسی غلبے کی نفسیات ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار کھونے کے بعد،عظمتِ گم گشتہ کی بازیافت مسلمانوں کا اجتماعی نصب العین بن گیا۔ شاعروں نے اس کی بنیاد پر جذبات میں طوفان برپا کیا اور علما نے اس کے لیے عقلی اور فقہی استدلال پیش کیا۔
اس فکر کا ناگزیر نتیجہ یہ تھا کہ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل اہلِ اسلام کی سعی وجہد کا مرکزبن جائے۔ایسا ہی ہوا۔ اس نفسیات کے ساتھ دین کو سمجھا گیا۔ تاریخ کا تجزیہ کیا گیا اور غیر مسلم دنیا کے بارے میں رائے قائم کی گئی۔مثال کے طور پر ابتدا میں دنیا کو’ دارالاسلام‘ اور’ دارالحرب‘ میں تقسیم کیا گیا۔بیسویں صدی میں اسی تقسیم کو اسلام اور جاہلیت کے عنوانات کے ساتھ بیان کیا گیا۔خود مسلم سماج کے اندر سیاست اور قیادت کی تبدیلی دین کا مقصد قرار پائی۔ یہ تعبیر اختیار کی گئی کہ اسلام دراصل ایک ریاست کا نام ہے۔ اس ریاست کاقیام مقصدِ حیات ہے۔ اقامتِ دین سے یہی مراد ہے۔ یہ بات کہ دین اس کے علاوہ بھی کچھ ہے، پسِ منظر میں چلی گئی۔ مثال کے طور پراسلام کوئی علمی مقدمہ بھی ہے جسے دورِ حاضر کے معیارات پر پورا اترنا، یا پھر انہیں چیلنج کرنا ہے، غیر اہم ہوگئی۔ اسے وقت کا ضیاع یا استعمار کی چال سمجھا گیا۔سرسید احمد خان اور محمد عبدہ‘ سے دورِ جدید تک، جنہوں نے اس کی کوشش کی، ان کے کام کو اسی زاویہ سے دیکھا گیا۔
مسلمان معاشروں میں جب دین کا سیاسی غلبہ مطمحِ نظر ٹھہرا تو پھر باہمی اختلاف، فکرکے بجائے حکمتِ عملی کے باب میں ہوا۔ کسی نے سیاسی جدجہد کا راستہ اختیار کیا اور کسی نے مسلح جدوجہد کا۔ جن کے پاس دنیا کا اقتدار ہے، انہیں دشمن اور طاغوت سمجھا گیا۔ اس نفسیات نے مسلمانوں کو ایک مسلسل تصادم کی راہ پر ڈال دیا۔ مسلمان معاشرے فتنہ اور فساد سے بھر گئے۔ انتہا پسندی، ہیجان اورفرقہ واریت، جیسے عوارض نے مسلم سماج کو گھیر لیا۔
اس کا ردِ عمل بھی ہوا۔ ایک لبرل طبقہ سامنے آیا جس نے مذہب کے وجو دہی کو چیلنج کر دیا۔ اس کے نزدیک کم از کم اجتماعی دنیا سے مذہب کو الگ کرنا ناگزیر ہے۔اس طبقے کا خیال ہے کہ مذہب کا وجود ہی فتنے کا باعث ہے۔ اس سے نجات ضروری ہے۔اس کو اگر گوارا کیا جا سکتا ہے تومحض انفرادی سطح پر ۔ یوں مسلم معاشرہ ایک تقسیم کا شکار ہوگیا۔اہلِ مذہب بمقابلہ لبرل۔ یہ فرقہ واریت کی تشکیلِ جدید ہے۔سیاست کو دینی تجربے کا حصہ قراردینے کے نتیجے میں،ابتدا میں مسلم سماج، سنی،شیعہ اور خوارج میںمنقسم ہوااوراکیسویں صدی میں مذہبی اور لبرل میں۔یہ دلچسپ بات یہ کہ قدیم فرقہ بندی آج بھی موجود ہیں لیکن اس مسئلے پر لبرل طبقے کے مقابلے میں یہ فرقے یک جا ہیں۔
نصب العین کی سیاسی تشکیل کے کچھ اورنتائج بھی سامنے آئے۔ایک تو یہ کہ ایسا ہر کام بے معنی قرارپایا جس کا کوئی تعلق سیاسی غلبے سے نہیں تھا۔مثال کے طور پر سماجی علوم میں پیش رفت یا عصری مسائل پر اجتہادی بصیرت کے ساتھ غور۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں نے امتِ مسلمہ کی جس نشاةِثانیہ کا بیڑااٹھایا،انہوں نے ابتداءً اس مقصد کے لیے تجدید ِ دین کو ضروری قرار دیا۔ اسلامی تحریکوں کی ابتدائی قیادت کا نقطہ نظر یہی تھی کہ دین کی قدیم تفہیم،نئی مسلم ریاستوں کے قیام کے لیے زیادہ مفید نہیں۔اس لیے اسلامی فکر اور فقہ کی تشکیلِ جدید ناگزیر ہے۔اس ضمن میں علامہ اقبال اور مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کے علمی کام کو بطور حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے۔تدریجاً تجدیدِدین کا یہ کام پس منظر میں چلا گیا اور ساری توجہ سیاسی غلبے پر مرتکز ہوگئی۔اگر کبھی کسی نے اس کی اہمیت کو واضح کرنا چاہا تو اسے قبل ازوقت قرار دے دیا گیا۔اوّلیت اسلامی ریاست کے قیام کے لیے سیاسی جدو جہد کو دی گئی(۱)۔یوں مسلم معاشروں میں کوئی علمی روایت مستحکم نہیں ہو سکی۔
اگر اس باب میں کوئی قابلِ ذکر کام ہوا تو غیرمسلم دنیا میں۔مسلم معاشروں کا معاملہ تو یہ ہوا کہ ان لوگوں کے لیے آزادی کے ساتھ کام کرنا محال ہوگیا جنہوں نے تجدید کا عَلم بلند کرنا چاہا۔انہیں ہجرت کرنا پڑی یا انہوں نے اس کام سے رجوع کر لیا۔علمی ارتقا کی معاصر روایت سے مسلم معاشرے کاارتباط باقی نہیں رہا جو مسلم دنیا کا ورثہ تھا اور جس نے ایک دور میں مسلم روایتِ علم کو توانا بنایا تھا۔ماضی میں غیر مسلم علمی روایت سے یہ ربط دو مواقع پر بطورِ خاص سامنے آیا۔ایک اس وقت جب مسلمانوں کا واسطہ یونان کی فلسفیانہ روایت سے پڑا۔دوسرا موقع بیسویں صدی میں پیدا ہواجب مغرب نے مسلم علاقوں پر قبضہ کیا اور مسلمانوں کو سیاسی تسلط کے ساتھ ،غالب قوت کی علمی روایت کے اثرات کا بھی سامناتھا۔دونوں مواقع پر ارتباط کا عمل،علمی سطح پر اقلیت تک محدود ررہا۔یہ الگ بات کہ مسلم معاشروں کا تہذیبی وجود معاصر علم کے سماجی،سیاسی اور اقتصادی اثرات سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکا۔
آج مسلمان معاشروں کے سیاسی،سماجی اور معاشی ادارے ان ہی خطوط پرقائم ہیں جو مغرب کی علمی روایت کے زیرِ اثر قائم ہوئے۔جس بات کو مسلم معاشروں نے تاریخ کے جبر کے طور پر قبول کیا،وہ شعوری سطح پران کی روایت کا حصہ نہیں بن سکی۔یوں سوچ اور عمل میں ایک تضاد پیدا ہوا۔مسلم معاشروں کی فکری قیادت نے اس تضادکو ختم کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی اور خود فریبی کا شکار ہوئی۔ اس کا لازمی نتیجہ فکری انتشار کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ مثال کے طور پر خلافت اور جمہوریت کاتعلق۔اسلام میں فنونِ لطیفہ کی حیثیت۔صنفی اختلاط اوراسلام۔بنیادی انسانی حقوق اور اسلام۔ آج مسلم معاشرے میں موسیقی سنی جارہی ہے،تصاویرسے گریز ناممکن ہو چکا لیکن ان معاملات میں فکری یک سوئی موجودنہیں ہے۔مسلمان معاشرے اس طرح کے بہت سے تضادات کے ساتھ جی رہے ہیں۔
اس تضاد کے پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان معاشرے جدیدیت(Modernity)کے دور میں پوری طرح داخل ہونے سے پہلے ہی ،بعد از جدیدیت(Post Modernism)کے عہد میں داخل ہونے پر مجبور ہوگئے۔یہ تاریخ کا جبر اوراس کے سفر سے بچھڑناکا فطری نتیجہ ہے۔جب ترقی یافتہ معاشرے جدیدیت کے دور میںداخل ہوچکے تھے، مسلم معاشروں میں اس کے رد وقبولیت کی بحث جاری تھی ۔اس بحث کا نتیجہ فکری ابہام کی صورت میں سامنے آیا۔اس دروان میںترقی یافتی دنیا ارتقا کا ایک اور مرحلہ طے کر کے ما بعد از جدیدیت کے دور میں داخل ہو گئی۔یہ اس بات کا اعلان تھا کہ علم کی دنیا میں کچھ مطلق نہیں ہے۔’سچائی‘(Truth) سماجی تشکیل (Social Construct)کا نام ہے جو موضوعی ہے۔موضوعی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سچائی کی ایک سے زیادہ صورتیں ممکن ہیں۔ اسی کے ساتھ علم کوافادیت کے پہلو سے پرکھنے کی تحریک بھی اٹھی۔ عالمگیریت نے سرحدوں کو ختم کیا تو معلومات اور ٹیکنالوجی کا سیلاب دنیا بھر میں پھیل گیا۔مسلمان خود کو محفوظ نہ رکھ سکے۔وہ، جدیدیت کاتجربہ کیے بغیر ،مابعد ازجدیدیت کے دور میں داخل ہو نے پر مجبور ہوگئے۔
اس سارے معاملہ کا ایک عام آدمی کی نظر سے دیکھنابھی ضروری ہے جس کے لیے زندگی فکری سے زیادہ ایک عملی تجربہ ہے۔اسے معاشی مسائل کا سامنا ہے۔وہ بچوں کی تعلیم چاہتا ہے۔اسے پینے کے لیے صاف پانی چاہیے۔صحت کی سہولتیں اس کی ضرورت ہیں۔ اسے اپنے بڑھاپے کی فکر ہے۔اسے امتِ مسلمہ کا دکھ محسوس ہوتا ہے لیکن جو دکھ اس کے گھر بسیرا کیے ہوئے ہیں،وہ ان سے روزانہ آنکھیں چار کرنے پر مجبور ہے۔اسے ان مسائل کا حل چاہیے۔ اب زندگی کے اکثرمسائل اپنی نوعیت میں سیکولر ہیں۔ریاست سیکولر ہو یا اسلامی،عام آدمی کو دلچسپی اس سوال سے ہے کہ کون سی ریاست یہ مسائل حل کر نے پر قادر ہے۔ ساتھ ہی ٹیکنالوجی نے ہر آدمی کے ہاتھ میں سمارٹ فون دے دیا۔اب اس کی رسائی ساری دنیا سے ہے۔ٹیکنالوجی اس کے لیے محض فون نہیں ایک کلچر لے کر آئی۔عام آدمی غیر محسوس طور پر عالمی سماج کا فرد بن چکا ہے۔اس کی ایک مقامی تہذیبی شناخت ہے لیکن اس کے ساتھ اب وہ عالمی گاوں کا باسی بھی ہے۔فکری مسائل پر مستزاد عملی مسائل ہیں جو فوری حل چاہتے ہیں۔ کم و پیش تمام مسلم معاشروں کو اس وقت اسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ایک انتشارِ فکر ہے جو روز افزوں ہے۔عالمگیریت کے دور میں، مسلمان معاشروں کے لیے تنہائی میں جینا ممکن نہیں رہا۔معاشی اسباب سے ہونے والی نقلِ مکانی نے مسلمانوں پر سوچ کے نئے دروازے وا کیے ہیں۔ انہیں ترقی یافتہ دنیا میں رہنے اور وہاں جانے کے مواقع ملے ہیں۔ بدیہی طور پر ان میں سوچ پیدا ہوئی ہے کہ مسلم معاشرے ترقی یافتہ کیوں نہیں ہو سکتے۔ اس کے جلو میں اور بہت سے سوالات بھی چلے آتے ہیں۔مثال کے طور پر، کیامغرب کی اس ترقی کا سبب مذہب کو اجتماعی دنیا سے دیس نکالا دینا ہے؟ یہ سوال سامنے آتا ہے تومسلمانوں کی مذہبی حساسیت بروئے کارآتی ہے۔ ان کی نفسیاتی تشکیل چونکہ مذہبی ہے، اس لیے وہ مذہب سے دور بھی نہیں ہونا چاہتے۔ مذہب کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کے نام پر فتنہ اور فساد کیوں ہے؟
مسلم معاشرے کے داخل میں بھی یہ بحث جاری ہے۔ ایک فکری پراگندگی ہے جس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشرہ تیزی کے ساتھ دو دائروں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ مسلم معاشروں کی نفسیاتی ساخت مذہبی ہے لیکن مذہب کے نام پر جاری سرگرمیوں سے انہیں اطمینان نصیب نہیں ہو رہا۔دوسری طرف وہ مذہب سے قطع تعلق کے لیے بھی آمادہ نہیں، جس کی دعوت لبرل طبقہ دے رہا ہے۔ یہ فکری پراگندگی کئی عشروں سے موجود ہے مگر ۱۱/۹ کے بعد اس میں بہت شدت آگئی ہے۔ عالمی سطح پر برپا ہونے والے سیاسی واقعات نے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے۔
اس سارے خلفشار میں یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ مسلم معاشروں میں ایسے لوگ موجود ہیں، اگرچہ کم تعداد میں، جو مسلم معاشرت کے اس مخمصے کو محسوس کرتے اور اس کا حل بھی تلاش کر رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میںشیخ محمد غزالی، شیخ یوسف القرضاوی، راشد غنوشی، جنوب مشرقی ایشیا میں نور خالص مجید، برِصغیر پاک و ہند میں مولانا وحیدالدین خان اور جاوید احمد غامدی سمیت، بہت سی شخصیات ہیں جنہوں نے مسلم معاشرے کے اس فکری خلفشارکو موضوع بنایا اور انہیں ایک سمت دینے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا میں نہضة العلما، اور محمدیہ، تیونس میں النہضہ، ترکی میں اے کے پارٹی سمیت اجتماعی تجربات بھی ہو رہے ہیں، جو دورِ حاضر کے فکری و سماجی چیلنج کا اپنے تئیں حل پیش کر رہے ہیں۔ ہم ان سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس بات کا اعتراف، ہم پر لازم ہے کہ ان شخصیات اور جماعتوں نے غورو فکر کے نئے دروازے وا کیے ہیں۔
مسلم سماج اور تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر، میں جب ان مسائل پر غور کرتا ہوں تو میرے نزدیک فکر اور حکمتِ عملی، دونوں میدانوں میں، ہمیں تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔ فکر کے دائرے میں تشکیلِ نو سے میری مراد اس علمی روایت پر نظر ثانی ہے جس کے زیرِ اثر علومِ اسلامی مرتب ہوئے ہیں اور بعض اہلِ علم نے دین کو ایک وحدت کے طور پرسمجھا ہے۔یعنی جس کی روشنی میں علمِ تفسیر، علمِ حدیث، فقہ اور کلام کے ساتھ ساتھ ،دین کے اجتماعی نصب العین کا تعین کیا گیا ہے۔
فکری سطح پرپہلا کام، اسلام کو بطور مذہب اور تاریخ الگ کرناہے۔ بحیثیت مذہب، اسلام وہ آفاقی ہدایت ہے جس کی تذکیر سیدنا آدمؑ سے لے کر سیّدنا محمدﷺ تک، تمام انبیاءکرتے آئے ہیں۔ تاہم پیغمبروں کے سماجی حالات یکساں نہیں تھے۔ہرنبی کو اپنی زندگی میں مختلف تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک کا تجربہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اس زمین پر اقتدار عطا کردیا۔ایک تجربہ یہ ہے کہ چند حواری ہی میسر آ سکے۔ اقتدار دین کا لازمی مطالبہ نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو ہر پیغمبر کی زندگی میں یہ مرحلہ ضرور آتا یا وہ اس کے لیے لازماً جدوجہد کرتے۔ ہم جانتے ہیں کہ تاریخ کی شہادت یہ نہیں ہے۔اﷲ کے بہت سے پیغمبر دعوت ہی کے مرحلے میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ تاہم آخری رسول سیّدنا محمدﷺ کو اپنی زندگی میں سیاسی غلبہ حاصل ہوا۔ اس طرح آپ ﷺپیغمبر ہی نہیں حکمرانِ وقت بھی تھے اور آپ کا ورثہ دین ہی نہیں ایک ریاست بھی ہے۔ریاست کا قیام اگر مذہبی تعلیم کا لازمی حصہ نہیں ہے تو پھر آپﷺ کے اس ورثے کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟
اس سوال کو فہمِ دین کے باب میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔مسلم معاشروں میں اسلام اور سیکولرزم کی بحث کا تعلق بھی اسی سوال کے ساتھ ہے۔میرا کہنا یہ ہے کہ اس بات کو سمجھنے کے لیے مذہب اور تاریخ کو الگ کرنا ضروری ہے۔ ایک ریاست اگر آخری پیغمبرﷺ کے ورثے کا حصہ ہے تو یہ واقعہ تاریخی عوامل کے تحت ہوا۔ اس تاریخی عمل کو دو طرح سے سمجھنا چاہیے۔
اس کا ایک پہلو تو وہ ہے جسے مکتب فراہی نے پہلی بار صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔امام حمید الدین فراہی نے فہم قرآن کے جس مکتب کی بنیاد رکھی اور تدبر قرآن کے جو اصول متعارف کرائے، ان سے نبی اور رسول کے منصب کی ایک نئی تفہیم سامنے آئی ہے۔ مسلم علمی روایت میں نبی اور رسول کے فرق کو ہمیشہ تسلیم کیا گیا ہے، لیکن قرآنی نظائر کی بنیاد پر اس فرق کو جس طرح مکتبِ ِفراہی میں بیان کیا گیا ہے،اس کی نوعیت جداگانہ ہے۔یہ تفہیم رسالت مآب ﷺ کی قیادت میں قائم ہونے والے سیاسی غلبے کو ایک بالکل مختلف زاویے سے دیکھتی ہے۔ اس تفہیم کے مطابق ، رسول کی بعثت ایک غیرمعمولی تاریخی واقعہ ہے۔رسول اس زمین پر اﷲ کی عدالت بن کر مبعوث ہوتا ہے۔ رسول کی مخاطب قوم کے لیے اﷲ تعالیٰ کی عدالت، اس دنیا میں اُسی طرح لگادی جاتی ہے، جس طرح وہ پورے عالمِ انسانیت کے لیے قیامت کے دن لگائی جائے گی۔ رسول کی مخاطب قوم کے لیے جزا و سزا کا فیصلہ اِسی دنیا میں کر دیا جاتا ہے، جس طرح آخرت میں ساری انسانیت کے لیے کیا جائے گا۔ رسول کی مخاطب قوم اگراپنے رسول پر ایمان لے آتی ہے تو اسے اس دنیا کے اقتدار اور انعامات سے نوازا جاتا ہے جس طرح آخرت میں اہلِ ایمان کو نوازا جائے گا۔ اور اگر انکار کر دیتی ہے تو اس پر اسی طرح دنیا ہی میں عذاب نازل ہو جاتا ہے جس طرح آخرت میں منکرین کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا قانون اتمام حجت ہے، جو قرآن مجید میں بیان ہوا اور رسولوں کے ساتھ خاص ہے۔اس کے اپنے اصول و ضوابط ہیں جن کا عمومی شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ مثال کے طور پر رسول کی براہ راست قوم اگررسول پرایمان لانے سے انکار کر دے تو اس پرلازماً عذاب نازل ہوتا ہے لیکن کسی غیر رسول داعی،کی مخاطب قوم پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ چاہے تو انکار کر دے اور چاہے تو قبول کر ے۔ اس کی جزا و سزا کا معاملہ آخرت تک موخر کر دیا جاتا ہے۔اسی طرح نصرتِ الہی کا معاملہ ہے جو رسولوں کو بطورِ خاص حاصل ہوتی ہے۔
اس پہلو سے دیکھیں تو جزیرہ نما عرب پر رسول اﷲ ﷺکا سیاسی غلبہ ، ایک تاریخی واقعہ ہے۔ضروری ہے کہ اسے عمومی احکامِ دین سے الگ کر کے سمجھا جائے۔اس واقعے پر اس حوالے سے غور کیا جائے کہ یہ شریعت کا مستقل ماخذ نہیں بلکہ اﷲ کے ایک خصوصی قانون کا ظہور اورقیامت کے لیے ایک برہانِ قاطع ہے۔مسلم تاریخ میں جب دینی علوم وجود میں آئے اور فہمِ دین کی علمی روایت مستحکم ہوئی تواس تاریخی واقعے کو ’سنت‘ کا حصہ سمجھتے ہوئے،ایک مستقل ماخذ دین کے طور پر قبول کیا گیا۔بیسویں صدی میں دین کی جو تعبیر اختیار کی گئی، اس میں،اسی تفہیم کو آگے بڑھاتے ہوئے،یہ سمجھا گیا کہ ایک ریاست کا قیام دین کا مستقل حکم اور فریضہ ہے جیسے نماز اور روزہ ہیں۔ یوں ایک ایسی بات مقصدِ حیات قرار پائی جو دراصل دین کے مستقل مطالبات ہی میں شامل نہیں تھی۔
اس سے یہ اخذ کرنا بھی درست نہیں ہوگاکہ تفہیمِ دین کی مسلم روایت میں رسول اللہﷺ کے برپا کردہ سیاسی انقلاب کو،ہر پہلو سے ،عمومی شریعت کا حصہ سمجھا گیا۔بہت سے معاملات میں اس کے تاریخی پہلو کا ادراک کیا گیا۔جیسے ہمارے قدیم مفسرین نے سورہ توبہ میں مشرکین کے باب میں دی گئی ہدایات کو مشرکینِ مکہ کے ساتھ خاص قراردیا۔ان کے نزدیک،ان ہدایات یا احکام کاا طلاق دیگر مشرکین پرنہیں ہو سکتا۔اسی طرح سورہ توبہ میں جس غلبہ دین کا ذکر ہے،اسے شرعی اصول کے بجائے خبر اورجزیرہ نمائے عرب کے ساتھ خاص سمجھا گیا۔اس طرح کے کئی شواہد کے باوجود ،اس علمی روایت سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں ہوتی کہ مشرکینِ عرب اور دیگر مشرکین میں یہ فرق کیوں ہے اوراظہارِ دین کی آیات عرب کے ساتھ خاص کیوں ہیں۔مکتبِ فراہی میں پہلی بار یہ بات اس طرح مبرہن ہو کر سامنے آئی ہے کہ اس باب میں کوئی اشکال باقی نہیں رہا۔اس سے اسلام کی بطور دین آفاقیت اور بطورسلطنت ایک تاریخی واقعہ ہونے کا فرق بھی پوری طرح واضح ہو گیا ہے۔
اس تاریخی واقعہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔اس کاتعلق ختمِ نبوت کے ساتھ ہے۔انبیا میں نبی ﷺ کا ایک امتیازیہ بھی ہے کہ آپ اﷲ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔آپ دنیا سے رخصت ہوئے تو وحی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ اب قیامت تک آسمان سے کوئی ہدایت نازل نہیں ہوگی۔ خود قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے دین کے مکمل ہونے کا اعلان کردیا۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ آنے والے وقت کی تمام امکانی صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے دین کے باب میں عمومی ہدایات دے دی جائیں۔ ان میں شامل ایک امکان یہ بھی ہے کہ دین کے ماننے والوں کو اس زمین پر اقتدار مل جائے۔ رسالت مآبﷺ کو اقتدار دے کرگویا یہ بتا دیا گیا ہے کہ اس صورت میں اہلِ ایمان کی ذمہ داری کیا ہو گی۔یہ قانونِ اتمام ِحجت سے الگ عمومی شریعت کا بیان ہے۔اب شریعت کے ہر حکم کی طرح،سیاسی ہدایات کااطلاق ،سماجی حالات کے تحت ہوگا۔یہ ایسے ہی ہے کہ قرآن مجید میں زکوة کے احکامات دے دیے گئے۔ اس سے یہ لازم نہیں کہ ہر صاحبِ ایمان کو لازماً صاحبِ نصاب بھی ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ اسے مال و اسباب سے نواز دے تو پھر دین اس سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔پھر وسائل کی نوعیت کے ساتھ احکام بھی تبدیل ہوتے ہیں،جیسے زکوہ ہی کے معاملے میں بارانی اور چاہی زمینوں کا فرق ہے۔ریاست کے معاملات میں بھی شرعی احکام کا اطلاق کرتے وقت،اس نوعیت کے سب پہلو پیشِ نظر رہیں گے۔
میں جب اس تفہیم کو سامنے رکھتے ہوئے ، دین کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ اصلاً فرد سے متعلق اور اس کے تزکیے کے لیے آیا ہے۔ انسان لیکن انفرادی حیثیت میں نہیں جیتا، اسے ایک سماج کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سماج اس کے انفرادی کردار پر چونکہ اثر انداز ہوتا اور ایک فطری وجود رکھتا ہے، اس لیے دین اجتماعی طور پر سماج کو بھی مخاطب بناتا ہے۔انسان سے مذہب کا خطاب براہ راست اور سماج سے بالواسطہ ہے۔ریاست سے اس کا خطاب حسبِ ضرورت ہے۔
سماج انسانی زندگی کا ناگزیر حصہ ہے جبکہ ریاست تاریخی عوامل سے وجود میں آنے والا ادارہ ہے۔ہر سماج لازم نہیں ہر دور میں،جدید مفہوم میں، سیاسی تجسیم بھی رکھتا ہو۔پھر یہ کہ ریاست کی صورتیں بدلتی رہی ہیں لیکن سماج جوہری طور پر ایک ہی رہا ہے۔ انسان ریاست کے بغیر زندہ رہا ہے اور رہ سکتا ہے ، سماج کے بغیر نہیں۔ ریاست دراصل سماج کے سیاسی نظم کا نام ہے۔گویا سماج کا ذیلی ادارہ( By product ) ہے۔ مسلم معاشروں میں، بالخصوص بیسویں صدی میں، اسلام کو فرد کے مذہب کے طور پر پیش کیا گیا ہے یا ریاست کے دین کے طور پر۔ یہ بات کہ اسلام سماج کا دین ہے، پسِ منظر میں چلی گئی۔ آج ضرورت ہے کہ دین کو سماج کے تناظرمیں سمجھاجائے۔ جب ہم اسلام کو ریاست کے دین کے طور پر پیش کرتے ہیں تو دین ایک قانون کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست قانون سے قائم ہوتی اور قوتِ نافذہ رکھتی ہے۔اس کے بر خلاف جب ہم اسلام کو سماج کے حوالے سے سمجھتے ہیں تو وہ قانون سے زیادہ نظامِ اقدار سے وابستہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ سماج ایک نظامِ اقدار سے قائم ہوتا ہے اور اس کی تمام تر قوت اخلاقی ہوتی ہے۔
اسلام جب سماج سے متعلق ہوتا ہے تو وہ ایک توانا علمی اور تہذیبی قوت کے طور پر ظہورکرتا ہے۔ پھر یہ سماجی اداروں کی تشکیل میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔یہ فنونِ لطیفہ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ انسانی شاکلہ کومتاثر کرتا ہے۔ یہ پھر ایک تصورِ انسان پیش کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سماج جس نظامِ اقدار پر کھڑا ہوتا ہے، وہ اس کے تصورِ انسان سے وجود میں آتا ہے۔جب ہم اسلام کو ایک سماجی اور اخلاقی قوت سمجھتے ہوئے، روزمرہ کے سیاسی اور سماجی واقعات پر غور کرتے ہیں تو پھر ہماری سوچ کا زاویہ بدل جاتا ہے۔پھرہم ایک واقعے کے جو نتائج مرتب کرتے ہیں،وہ ان نتائج سے مختلف ہوتے ہیں جو اسلام کو ریاست سمجھنے والااخذ کرتا ہے۔
یہ تجزیہ اگر درست ہے تو پھر فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدیدناگزیر ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ فکری سطح پراسلام کو بطوردین اورعرب میں سیاسی غلبے کوبطورتاریخی واقعہ الگ الگ سمجھا جائے۔حکمتِ عملی کے باب میں ہماری توجہ کا مرکز اب ریاست کے بجائے فرد اور سماج ہو۔اگر ہم اپنے تصورِ حیات کو ان خطوط پر مرتب کریں تونہ صرف دین کے جوہر،فکرِ آخرت کی مرکزیت کو بر قرار رکھ سکتے ہیںبلکہ اس کے ساتھ اسلام کو ایک توانا تہذیبی قوت کے طور پر بھی پیش کر سکتے ہیں جو الہامی ہدایت کی روشنی میں نوعِ انسانی کو ایک متبادل بیانیہ فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ روز مرہ پیش آنے والے واقعات کو ایک نئے زاویہ نظر سے دیکھ جائے۔یہ ایک مسلسل عمل ہے جو استمرار کا متقاضی ہے۔جو اہلِ دانش اس سے اتفاق رکھتے ہیں،ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خطوط پر معاشرہ سازی کریں۔ میری خواہش اورکوشش ہے کہ مسلم سماج اس فکری تبدیلی کو قبول کرے۔
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزوپوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے
(۱) ۱۹۷٠ءمیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے ایک مضمون ”معاصر اسلامی فکر۔۔چند توجہ طلب مسائل“،مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے”ترجمان القرآن“ میں اشاعت کے لیے ارسال کیا۔مولانا اس پر آمادہ نہ ہوئے۔انہوں نے نجات اللہ صدیقی صاحب کے نام خط میں اس کی وجہ بیان کی۔مو لانا مودودی نے لکھا؛”آپ کا مقالہ میں نے دیکھ لیا ہے۔اس میں بہت سے ایسے مسائل چھیڑ دئے گئے ہیں ،جنہیں اس وقت پاکستان میں چھیڑدینا ہمارے لیے مزید مشکلات کا موجب ہوجائے گا۔اس لیے یہاں تو اس کی اشاعت ممکن نہیں ہے۔آپ چاہیں توہندوستان میں اسے شائع کردیں،کیونکہ وہاں اس کی حیثیت محض علمی بحث کی سی ہوگی“(”اسلام،معاشیات اور ادب۔۔۔خطوط کے آئینے میں“علی گڑھ،ایجوکیشنل بک ہاوس،اگست۲٠٠٠ء)
(۱۷۔ اکتوبر کو الشریعہ اکادمی کی ماہانہ فکری نشست میں گفتگو)
میرے بڑے بیٹے اور الشریعہ اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر نے ڈاکٹریٹ کی ہے اور پنجاب یونیورسٹی نے ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری ایوارڈ کر دی ہے ۔ یہ خوشی کا موقع ہے اور اس خوشی میں ہم نے آپ کو دعوت دی ہے اور چائے کا انتظام کیا ہے ۔ میں اس موقع پر تین حوالوں سے اپنی خوشی کا اظہار کرنا چاہوں گا تاکہ یہ ریکارڈ میں آ جائے ۔ پہلا ایک باپ کی حیثیت سے ۔ ایسے موقع پر باپ سے زیادہ خوشی کس کو ہوگی ۔ عمارخان عالم دین بھی ہے ، مدرس بھی ہے ، پی ایچ ڈی بھی ہوگیا ہے اور کام بھی کر رہا ہے ۔ اس لیے ایسے بیٹے پر ایک باپ سے زیادہ کس کو خوشی ہوگی ۔ اس لیے مجھے خوشی ہے اور بہت خوشی ہے ۔ میری خوشی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حافظ عمارخان نے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ میری مرضی کا تھا ۔ ہر پی ایچ ڈی کرنے والا اپنے مقالے کے لیے موضوع کا انتخاب کرتا ہے۔ جو لائن میں چاہتا تھا، اس نے اسی لائن پر کام کیا ہے ۔ میں اس کی تھوڑی سی تفصیل عرض کرنا چاہوں گا ۔
ہمارے والد بزرگوار حضرت مولانامحمد سرفراز خان صفدر ؒ کا بڑا علمی کام ہے ، چالیس سے زیادہ کتابیں ہیں، پوری دنیا میں لوگ ان سے استفادہ کر رہے ہیں اور یہ کتابیں بہت بڑا علمی ذخیرہ ہیں ۔ لیکن یہ علمی ذخیرہ ہمارے فقہی و کلامی مباحث کے حوالے سے ہے جن میں دیوبندی بریلوی اختلافات ہیں ، اہل حدیث دیوبندی اختلافات ہیں۔ یہ مباحث بھی ایک حد تک ہماری ضروریات میں سے ہیں ۔ اس حوالے سے وہ پوری دنیا میں متعارف ہیں کہ انہوں نے عقائد کی تعبیرات کے اختلافات اور فقہی اختلافات کے حوالے سے بڑی ضخیم کتابیں تحریر کی ہیں ۔ ان کتب کی ایک بہت بڑی خاصیت و خوبی تحریر کا اسلوب بیان اور علمی ثقاہت ہے ، ان کے اسلوب بیان اور علمی ثقاہت پر ان کے مخالفین نے بھی داد دی ہے ۔ الفضل ما شہدت بہ الاعداء۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے لکھا کہ میرے خلاف کتاب لکھی گئی ہے جس سے میں نے بھی استفادہ کیا ہے ۔ لیکن یہ تصانیف ان کلامی و مناظرانہ مباحث سے ہٹ کر بھی بہت بڑا علمی ذخیرہ ہیں ۔ میں ان کا بیٹا ہوں ، ان کا شاگرد بھی ہوں اور ان کی جگہ کام بھی کر رہا ہوں ، اس لیے میری یہ خواہش تھی کہ ان کے کام کو مناظرانہ ماحول سے ہٹ کر مثبت انداز میں بھی چھانٹی کر کے سامنے لایا جائے تاکہ وہ اہل علم جو مناظرہ کے مزاج کے نہیں ہیں وہ بھی اس سے استفادہ کر سکیں ۔ میں اس حوالے سے اپنے دیگر ساتھیوں اور حافظ عمار خان کو بھی کہتا رہا ہوں کہ دادا جی کی کتابوں پر کام کرو ۔ الحمدللہ میں اس بات پر بہت خوش ہوں کہ اس نے مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ کی کتابوں سے اصولی مواد کا انتخاب نہ صرف خود کیا ہے بلکہ الشریعہ اکادمی کے بھی چار پانچ ساتھیوں سے بھی یہ کام کروایا ہے ۔
الحمد للہ الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تقریبا چار پانچ ساتھی پی ایچ ڈی کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں ۔ آٹھ دس ایم فل مکمل کر چکے ہیں اور کچھ کر رہے ہیں ۔ میں مزاحا یہ کہا کرتا ہوں کہ اس اکادمی کا نام الشریعہ اکادمی کی بجائے ایم فل اکادمی رکھ دینا چاہیے ۔ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ؒ اور مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ کے کام کو اس انداز میں پیش کرنا جیسے میں نے وضاحت کی ، اس حوالے سے ایک کام اکادمی کے سابقہ ناظم مولانا وقار احمد نے ایم فل کی سطح پر کیا ۔ انہوں نے ایم فل انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی سے کیا اور ایم فل کا مقالہ عربی میں صوفی صاحب ؒ کی تفسیری خدمات پر لکھا ۔ ہماری اکادمی کے ساتھی حافظ محمد رشید نے " مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ کی تصانیف میں اصول فقہ کے مباحث " کے عنوان سے ایم فل کا مقالہ لکھا ۔ حضرت شیخ ؒ کی تصانیف کے علوم القرآن کے مباحث کے عنوان سے اکادمی کے سابقہ استاد مولانا عبد الغنی نے ایم فل کا مقالہ لکھا ہے اور اکادمی کے ہی ایک اور رفیق حافظ محمد عامر جاوید نے مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ کی تصانیف میں علم الکلام کے مباحث کے عنوان سے ایم فل کا مقالہ لکھا ۔خود عمار خان ناصر نے یہ کام کیا کہ مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے اپنی کتابوں میں اصول حدیث کیسے بیان کیے ہیں ، ان کو منتخب کیا ہے جو کتابی شکل میں چھپا بھی ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے بھی حدیث سے فقہاء احناف کے استدلال کے منہج کو عنوان بنایا ہے ، اس کی ایک کتاب اس سلسلے میں شائع ہو چکی ہے اور جو اس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، وہ شائع ہو رہا ہے اور بلاشبہ اس موضوع پر ایک وقیع مقالہ ہے ۔یہ سارے احباب عمار کی ٹیم ہیں اور وہی ان سب دوستوں سے یہ کام کروا رہا ہے ۔ ہماری طرف سے مولانا محمد سرفراز صاحب ؒ کے علمی کام میں یہ شرکت میرے لیے خوشی کا دوسرا پہلو ہے ۔ مجھے اس کی بھی خوشی ہے کہ حافظ عمار خان نے پی ایچ ڈی کر لی ہے ، اس بات کی بھی خوشی ہے کہ وہ میری خواہش کے مطابق ہی کام کر رہا ہے اور اس کی بھی خوشی ہے کہ وہ اپنی ٹیم سے بھی کام لے رہا ہے ۔
تیسری خوشی الشریعہ اکادمی کے حوالے سے ہے ۔الشریعہ اکادمی کے قیام کا مقصد بھی یہی تھا کہ علمی و فکری سطح پر کام کیا جائے ۔ یہ کام عام طور پر عام آدمی کو محسوس نہیں ہوتا ۔ الحمد للہ میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ روزانہ ملک کے کسی نہ کسی کونے سے ، کبھی کراچی ، کبھی ملتان اور کبھی کسی اور شہر سے کسی طالب یا طالبہ کا فون آتا ہے کہ ہم ایم فل یا پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ہمیں اپنے موضوع کے حوالے سے راہنمائی درکار ہے ۔ راہنمائی کیجئے یا کوئی استاد مہیا کر دیں ۔ میں خود بتا سکتا ہوں تو خود بتا دیتا ہوں، ورنہ انہیں میں سے کسی نہ کسی کے حوالے کر دیتا ہوں ۔ ابھی پرسوں ایک پی ایچ ڈی کا طالب علم آیا تھا تو میں نے مولانا فضل الہادی کے حوالے کر دیا کہ ان سے بات کرو ، تمہارا مسئلہ یہ ہی حل کریں گے ۔ بعد میں فائنل مشورہ مجھ سے کر لینا ۔ گویا اکادمی کے حوالے سے بھی میرے ذہن میں جو خاکہ تھا ، میں مطمئن ہوں کہ اسی رخ پر کام چل پڑا ہے ۔ میرا شروع سے یقین ہے کہ اگر کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ اسباب و وسائل بھی فراہم کر دیتا ہے ۔ جب اکادمی قائم کی تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کیا ہو گا ۔ اب الحمد للہ یہاں بھی کام ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک ایکڑ جگہ کوروٹانہ میں بھی دی ہے جہاں بلڈنگ بن کر کام شروع ہوچکا ہے ۔ الحمد للہ میں اب اس حوالے سے مطمئن ہوں کہ اگر میں چلا بھی گیا اور ہر شخص نے اپنے وقت پر چلے ہی جانا ہے ، تو میں اکادمی کے کام پر بھی اور حافظ عمار خان ناصر کے کام پر بھی مطمئن جاوں گا ۔ انشاء اللہ العزیز۔ آپ حضرات سے درخواست ہے کہ میرے لیے ، اکادمی کے لیے، اکادمی کے متعلقین و معاونین کے لیے اور حافظ عمار خان ناصر کے لیے دعا کریں ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ جزاکم اللہ خیرا ۔
(ترتیب وتدوین: حافظ محمد رشید)
اب تک کی بحث کی روشنی میں ہمارے سامنے سنت کی تشریعی حیثیت اور قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے علمائے اصول کے اتفاقات اور اختلافات کی ایک واضح تصویر آ چکی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ سنت کا ایک مستقل ماخذ تشریع ہونا فقہاءواصولیین کے ہاں ایک مسلم اصول ہے اور وہ ماخذ تشریع کو صرف قرآن تک محدود رکھنے کو ایمان بالرسالة کے منافی تصور کرتے ہیں۔ اس ساری بحث میں ایک بہت بنیادی مفروضہ جو جمہور علمائے اصول کے ہاں مسلم ہے، یہ ہے کہ شرعی احکام کا ماخذ بننے والے نصوص کو قطعی اور ظنی میں تقسیم کرنا لازم ہے، کیونکہ ایک مستقل ماخذ تشریع ہونے کے باوجود سنت کا بیشتر حصہ اخبار آحاد سے نقل ہوا ہے جو تاریخی ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہیں۔ جمہور اصولیین اور فقہاءنے اس کو ایک حقیقت واقعہ کے طور پر قبول کیا اوریہ قرار دیا کہ دین کے جزوی اور تفصیلی احکام کو ظنی الثبوت ماخذ یعنی اخبار آحاد سے اخذ کرنا درست ہے۔ البتہ اس ظنی ماخذ سے ثابت کوئی حکم کسی پہلو سے قطعی الثبوت حکم کے معارض ہو یا مثلاً اس کی تخصیص وتقیید یا اس پر زیادت کر رہا ہو تو اس کی قبولیت کی شرائط وقیود کے حوالے سے ان کے مابین بعض اختلافات پائے جاتے ہیں۔
جمہور فقہاءومحدثین کے نزدیک کسی حدیث کو ماخذ حکم بنانے اور اس پر عمل کرنے کے لیے محض اس کا سنداً صحیح ہونا کافی ہے اور دین کے دیگر اصولوں یعنی قرآن، سنت اور ان سے مستنبط اصول کلیہ پر اس کو پرکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ روایت جب سنداً ثابت ہو تو وہ بذات خود ایک اصل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے دوسرے اصولوں پر پرکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ (ابن حجر، فتح الباری ۴/۳۶۶) اس کے مقابلے میں فقہائے حنفیہ اور مالکیہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ خبر واحد کا حجت ہونا اس سے مشروط ہے کہ وہ اپنے سے قوی تر کسی دلیل کے ساتھ نہ ٹکراتی ہو۔ اگر خبر واحد قرآن کی نص، سنت مشہورہ یا امت کے اجماع میں سے کسی کے ساتھ ٹکراتی ہو تو معارضہ کے عام عقلی اصول کے مطابق خبر واحد کو رد کر دیا جائے گا یا اس کے ظاہری مفہوم کو چھوڑ کر مناسب تاویل کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔
اس جزوی اختلاف سے قطع نظر، خبر واحد کے معتبر ہونے کے باب میں جمہور اصولیین متفق الرائے ہیں اور اس کی عقلی وشرعی توجیہ کے حوالے سے ان کا عمومی استدلال یہی ہے کہ تکلیف شرعی کا مدار علی الاطلاق قطعی دلائل پر رکھنا ناممکن ہے اور اسی وجہ سے شارع نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ ظن کو بھی ایک درجے میں معتبر قرار دیا ہے۔ ابن حزم نے اس ضمن میں ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا اور تاریخی ثبوت کے اعتبار سے قرآن مجید اور اخبار آحاد کے مابین پائے جانے والے فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک مذہبی اور دینیاتی استدلال سے قطعی اور ظنی کی تقسیم کو غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ابن حزم نے کہا کہ قرآن مجید میں ’الذِّكر‘ کی حفاظت کا جو وعدہ کیا گیا ہے، اس سے مراد صرف قرآن نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جانے والی ہر طرح کی وحی ہے۔ دوسرے لفظوں میں قرآن کی طرح حدیث بھی اس وعدئہ حفاظت میں شامل ہے اور اللہ تعالیٰ نے تکوینی طور پر احادیث کو بھی مکمل طور پر محفوظ رکھنے اور حفاظت کے ساتھ امت تک منتقل کرنے کا اہتمام فرمایا ہے ۔ (الاحکام فی اصول الاحکام ۱/۹۸) اس وعدئہ حفاظت سے ابن حزم یہ اخذ کرتے ہیں کہ شریعت کا کوئی حکم جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہو، کسی ایسے سند سے منقول نہیں ہو سکتا جس کے راویوں کے بیان پر حجت قائم نہ ہو سکتی ہو،کیونکہ ا س سے شریعت کا ایک مستند حکم ضائع ہو جائے گا۔ اسی اصول پر اگر کسی ثقہ راوی سے کسی حدیث کے بیان میں غلطی ہوئی ہو تو لازم ہے کہ تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس غلطی کی وضاحت کا بھی بندوبست کیا ہو، تاکہ امت ایک غیر مستند حکم کو شریعت کا حصہ سمجھنے کی غلطی میں مبتلا نہ ہو جائے۔ (الاحکام ۱/۱۳۶)
اس پس منظر میں آٹھویں صدی ہجری میں غرناطہ کے جلیل القدر مالکی عالم امام ابو اسحاق الشاطبی نے اپنی کتاب ”الموافقات“ میں ایک مربوط عقلی نظام کے طور پر شریعت کی تفہیم کو موضوع بنایا تو قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے تناظر میں قطعیت اور ظنیت کا سوال ازسرنو اٹھایا اور ایک نئے زاویے سے اس بحث کے مختلف پہلووں کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ زیر نظر سطور میں ہم اس حوالے سے شاطبی کے اصولی نظریے کی وضاحت کریں گے۔
شاطبی کے نظریے میں تشریع کے مقاصد اور احکام شرعیہ میں ملحوظ انسانی مصالح کا تصور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاطبی اسی کی روشنی میں شریعت کی تفہیم ایک مربوط اور منضبط نظام کے طور پر کرتے اور شریعت میں قطعیت یا ظنیت کے سوال کو حل کرتے ہیں اور اسی فریم ورک میں قرآن وسنت کے باہمی تعلق کو بھی واضح کرتے ہیں۔ احکام شرعیہ کی بنیاد میں مخصوص مقاصد ومصالح کے کارفرما ہونے کے تصور کو ایک باقاعدہ نظریے کے طور پر پیش کرنے کی نسبت عموماً امام الحرمین الجوینی کی طرف کی جاتی ہے۔ الجوینی کے زیراثر شافعی روایت میں امام غزالی اور پھر عز الدین بن عبد السلام نے اس تصور کے مختلف پہلوؤ¶ں کو واضح کیا۔ دوسرے فقہی مکاتب فکر سے منتسب بعض اہل علم مثلاً شہاب الدین القرافی، نجم الدین الطوفی، ابن تیمیہ اور ابن القیم کے ہاں بھی اس بحث سے خصوصی اعتنا ملتا ہے۔ شاطبی اسی اصولی روایت سے منسلک ہیں اور ان کے ہاں تشریع کے تصور، مقاصد اور عمل تشریع کے بنیادی اصولوں کی توضیح جس طرح کی گئی ہے، اس کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ شارع کی تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاءکے ذریعے سے انسانوں کی راہ نمائی سے انسانوں ہی کی بھلائی او رمصلحت مقصود ہے۔ شارع کا مطالبہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان اپنی انفرادی واجتماعی زندگی میں ایسے اصولوں اور ضابطوں کی پابندی کریں جن سے ان مخصوص مصالح کی حفاظت ممکن ہو جو شارع کا مقصود ہیں۔ یہ مصالح حسب ذیل ہیں:
۱۔ دین، ۲۔ انسانی زندگی، ۳۔ نسل، ۴۔ مال، اور ۵۔ عقل
احکام شرعیہ کے استقرا سے واضح ہوتا ہے کہ تشریع کے پورے عمل میں انھی مخصوص انسانی مصالح کی حفاظت کو موضوع بنایا گیا ہے اور انھی پر بنی نوع انسان کی دنیوی واخروی فلاح کا مدار ہے۔
۲۔ شاطبی حفظ دین کو عبادات (ایمان، نماز، زکوٰة، روزہ اور حج) کے ساتھ، نفس اور عقل کی حفاظت کو عادات (خور ونوش، لباس اور رہائش وغیرہ) کے ساتھ اور حفظ نسل اور حفظ مال کو اور بعض پہلووں سے حفظ نفس اور حفظ عقل کو معاملات (بیع وشرا، نکاح، قصاص ودیت اور جنایات وغیرہ) کے ساتھ متعلق کرتے ہیں۔ شارع کی طرف سے دی گئی ہدایات تین مختلف سطحوں پر مذکورہ مصالح کی حفاظت کو موضوع بناتی ہیں۔ غزالی کی پیروی میں، شاطبی ان سطحوں کو ضروریات، حاجیات اور تحسینیات سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عبادات، عادات اور معاملات، تمام دائروں میں ان تینوں درجات کی حفاظت شریعت کا مقصود ہے۔
ضروریات کا درجہ ان مصالح کو محفوظ رکھنے کا وہ کم سے کم درجہ ہے جس کے بغیر انسانی زندگی صحیح ڈگر پر قائم نہیں رہ سکتی اور اس کا نتیجہ فساد، انتشار اور زندگی کے کلی خاتمے کی صورت میں نکلنا یقینی ہے۔ ان کی حفاظت جانب وجود اور جانب عدم، دونوں طرف سے ہونی چاہیے، یعنی ایسا بندوبست بھی ہونا چاہیے کہ یہ مصالح مثبت طور پر قائم رہیں اور ایسا انتظام بھی درکار ہے کہ ان مصالح میں خلل ڈالنے والے امور کا سدباب کیا جا سکے۔ شریعت میں بیان کیے گئے بنیادی فرائض اور ممنوعات مثلاً عبادات میں نماز اور زکوٰة، معاملات میں خرید وفروخت کی اباحت اور قتل، زنا اور چوری وغیرہ کی حرمت اس کی مثالیں ہیں۔ ضروریات کے ساتھ ملحق تکمیلی امور کی مثال کے طور پر شاطبی باجماعت نماز کا اہتمام کرنے، خرید وفروخت کے وقت گواہ مقرر کرنے، نشہ آور اشیاءکی معمولی مقدار سے بھی گریز کرنے، اجنبی عورت کو دیکھنے اور سود کی ممانعت وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔
حاجیات کے درجے میں مقصود یہ ہوتا ہے کہ مکلفین کے لیے احکام شریعت کی پابندی میں وسعت اور سہولت پیدا کی جائے اور انھیں مشقت اور تنگی میں پڑنے سے بچایا جائے۔ اس درجے میں وہ تمام رخصتیں آ جاتی ہیں جو شریعت میں کسی بھی دائرے میں اصل حکم سے لاحق ہونے والی مشقت کو دور کرنے کے لیے بیان کی گئی ہیں، مثلاً بیماری اور سفر میں روزہ ترک کرنے کی رخصت، جانو رکو ذبح کرنا ممکن نہ ہونے کی صورت میں شکار کی اجازت اور مالی لین دین کے دائرے میں مضاربت، مساقاة اور سلم کی اباحت اور دیت کی ادائیگی کو عاقلہ کی اجتماعی ذمہ داری قرار دینا وغیرہ۔ حاجیات کے ساتھ بھی کچھ تکمیلی احکام ملحق ہوتے ہیں جس کی مثال نکاح میں کفو کی رعایت کرنے اور سفر میں دو نمازوں کو جمع کرنے جیسی ہدایات ہیں جن کی رعایت نہ کرنے سے ضروریات تو متاثر نہیں ہوتیں، لیکن تخفیف اور تیسیر کے اصول پر زد پڑتی ہے۔
تحسینیات سے مراد یہ ہے کہ انسان محاسن عادات اور مکارم اخلاق کو اختیار کرے اور عقل سلیم جن چیزوں سے نفو رمحسوس کرتی ہے، ان سے اجتناب کرے۔ تحسینیات، اصل ضروری اور حاجی مصالح سے زائد ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا فقدان کسی ضروری یا حاجی مصلحت میں خلل انداز نہیں ہوتا اور ان کی نوعیت محض تحسین اور تزیین کی ہوتی ہے۔ شاطبی نے اس کی مثال کے طور پر عبادت کرتے ہوئے طہارت، ستر عورت اور زینت کا اہتمام کرنے، کھانے پینے کے آداب کا لحاظ رکھنے، غلام اور عورت کو حکمرانی کے منصب کے لیے نااہل قرار دینے اور جنگ میں عورتوں، بچوں اور راہبوں وغیرہ کے قتل سے ممانعت کا ذکر کیا ہے۔ ضروریات اور حاجیات کی طرح تحسینیات کے ساتھ بھی کچھ مکملات ملحق ہوتے ہیں اور اس کی مثال کے طور پر شاطبی پیشاب پاخانہ کے آداب اور قربانی کے لیے اچھے جانور کے انتخاب کا ذکر کرتے ہیں۔ (الموافقات ۲/۱۳-۹)
۳۔ یہ مصالح ناقابل تنسیخ ہیں اور ان مصالح کی رعایت وحفاظت صرف شریعت محمدی کا خاصہ نہیں، بلکہ یہ تمام شرائع میں مقصود رہی ہے، اگرچہ ان کی حفاظت کے لیے وضع کی جانے والے عملی صورت مختلف اوقات میں مختلف رہی ہے ۔ مختلف شرائع میں دیے گئے جن احکام میں نسخ واقع ہوا ہے، وہ بھی فروع اور جزئیات میں ہوا ہے، اصول وکلیات میں نہیں ہوا۔ تمام شرائع ضروریات، حاجیات اور تحسینیات کی رعایت اور حفاظت پر مبنی رہی ہیں، اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان میں سے کسی کلی مصلحت کو سرے سے منسوخ کر دیا گیا ہو۔ نسخ صرف اس پہلو سے واقع ہوا ہے کہ کسی مصلحت کی رعایت اور حفاظت کے ایک طریقے کو دوسرے طریقے سے تبدیل کر دیا گیا۔ (الموافقات ۲ /۲۳؛ ۳/۹۶، ۹۷)
تشریع کے عمل میں مصالح کی بنیادی اور مرکزی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے شاطبی لکھتے ہیں:
”تشریع سے شارع کا مقصد اخروی اور دنیوی مصالح کو اس طرح قائم کرنا ہے کہ (شریعت کے وضع کردہ) نظام میں کل یا جزءکسی بھی اعتبار سے خلل واقع نہ ہو۔ اس میں ضروریات، حاجیات اور تحسینیات سب برابر ہیں، کیونکہ اگر ان کی وضع اس طرح کی گئی ہو کہ نظام میں خلل کا واقع ہونا یا احکام کا خلل پذیر ہونا ممکن ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تشریع، مصالح کے لیے نہیں کی گئی، کیونکہ خلل ممکن ہونے کی صورت میں ان کو مصالح کے بجائے مفاسد کہنے کا بھی پورا جواز ہے۔ لیکن چونکہ شارع کا مقصود یہ ہے کہ احکام سے علی الاطلاق مصالح کی حفاظت کی جائے، اس لیے لازم ہے کہ ان کے مصالح ہونے کی نوعیت ابدی ہو اور تکلیف کی تمام انواع اور جملہ مکلفین اور تمام احوال کے لیے عام ہو، اور بحمد اللہ ہم نے شریعت کو اسی طرح پایا ہے۔“
شاطبی کے نزدیک شریعت کا قطعی ہونا تکلیف شرعی میں بنیادی نکتے کی حیثیت رکھتا ہے اور شارع کی طرف سے انسان کو ہدایت مہیا کرنا اور اسے اس کا مکلف ٹھہرانا قطعیت کے بغیر ناقابل فہم ہے۔ تاہم شاطبی کے سامنے سوال یہ ہے کہ جب شرعی نصوص اپنے ثبوت اور دلالت، دونوں اعتبارات سے قطعی اور ظنی میں منقسم ہیں اور خاص طور پر شریعت کے تفصیلی اور فروعی احکام کا ثبوت زیادہ تر اخبار آحاد کی صورت میں ظنی دلائل پر منحصر ہے تو پھر بحیثیت مجموعی شریعت کے قطعی ہونے کا دعویٰ کیونکر اور کس معنی میں کیا جا سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں شاطبی مقاصد ومصالح کے مذکورہ نظریے سے مدد لیتے ہیں۔ شاطبی کہتے ہیں کہ شریعت، کلیات واصول اور جزئیات وفروع پر مشتمل ہے اور ان میں سے کلیات، جو اصل اور اساس کی حیثیت رکھتے ہیں، قطعی جبکہ جزئیات وفروع ظنی ہیں۔ کلیات سے ان کی مراد وہی اجتماعی انسانی مصالح ہیں جن کی توضیح انھوں نے ضروریات، حاجیات اور تحسینیات کے عنوان سے کی ہے۔ شاطبی کا کہنا ہے کہ شریعت میں ظن کا تعلق صرف جزئیات وفروع سے ہے، جبکہ کسی کلی اصول کا ثبوت ظنی دلائل پر منحصر نہیں۔ شریعت کی تشکیل جن قواعد کلیہ کی روشنی میں کی گئی ہے، وہ باعتبار ثبوت بھی قطعی اور یقینی ہیں اور باعتبار دلالت بھی واضح اور محکم ہیں اور شریعت کا حجت ہونا دراصل انھی کے قطعی اور محکم ہونے پر منحصر ہے۔ ظن، شریعت کی جزئیات کو تو لاحق ہو سکتا ہے، لیکن اگر کلیات کا بھی ظن کے دائرے میں آنا ممکن مانا جائے تو اس سے خود شریعت معرض شک میں آ جاتی ہے جو اس کے محفوظ ہونے کے منافی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ضمانت دی ہے۔ (الموافقات ۱/۲۴) اسی طرح دلالت کے اعتبار سے فروع اور جزئیات میں تو تشابہ واقع ہو سکتا ہے، لیکن اصول وقواعد کے متشابہ اور غیر واضح ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ شریعت کا اکثر حصہ متشابہ ہو جائے اور یہ اس کے ’ہدایت‘ ہونے کے منافی ہے۔ (الموافقات ۳/۷۹)
شریعت کے کلیات کا قطعی ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟ اس سوال کے حوالے سے شاطبی کا منہج عام اصولیین سے مختلف ہے اور وہ اس کے لیے کسی قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نص سے انفرادی سطح پر استدلال کا طریقہ اختیار نہیں کرتے۔ شاطبی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کسی بھی انفرادی دلیل شرعی سے قطعیت مستفاد کرنا ناممکن ہے، کیونکہ انفرادی دلیل یا تو ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوگی جیسا کہ اخبار آحاد ہیں اور یا اگر وہ باعتبار ثبوت قطعی ہو تو بھی اس کی دلالت گوناگوں عوارض کی وجہ سے قطعی نہیں ہو سکتی۔ شاطبی نے اس ضمن میں معتزلی اور اشعری متکلمین کے اس معروف استدلال کا حوالہ دیا ہے جو وہ دلالت نصوص کی بحث میں پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
”معروف معنی کے لحاظ سے انفرادی دلائل میں قطعیت کا پایا جانا معدوم یا بے حد نادر ہے، کیونکہ انفرادی دلائل اگر اخبار آحاد ہوں تو ان سے قطعیت کا ثابت نہ ہونا واضح ہے، اور اگر انفرادی دلائل متواتر ہوں تو ان سے قطعیت کا اثبات بہت سے مقدمات پر موقوف ہے جو سب کے سب یا ان میں سے بیشتر ظنی ہیں اور ظنی مقدمات پر موقوف استدلال بھی لازماً ظنی ہوتا ہے۔ قطعی الثبوت دلیل سے قطعیت کا اثبات اس پر موقوف ہے کہ لغات اور نحوی مسائل نقل کیے جائیں، لفظ مشترک نہ ہو اور اس سے مجازی مفہوم مراد نہ ہو، لفظ اپنے اصل معنی سے کسی شرعی یا عرفی مفہوم کی طرف منتقل نہ ہوا ہو، کلام میں حذف اور اضمار نہ ہو، عموم کی تخصیص اور مطلق کی تقیید نہ ہوئی ہو، حکم منسوخ نہ ہو چکا ہو، کلام میں تقدیم وتاخیر نہ ہو اور اس کے معارض کوئی عقلی دلیل بھی موجود نہ ہو۔ ان تمام پہلووں کا لحاظ کرتے ہوئے کسی نص کی قطعی مراد طے کرنا، ناممکن ہے۔ جو حضرات اس کے قائل ہیں، انھوں نے اس نکتے کا سہارا لیا ہے کہ انفرادی دلائل فی نفسہ تو ظنی ہوتے ہیں، لیکن اگر ان کے ساتھ کچھ مشاہد یا منقول قرائن شامل ہو جائیں تو وہ یقین کا فائدہ دے سکتے ہیں، لیکن ایسی صورتیں بھی بالکل نادر یا ناپید ہیں۔“
اب اگر شرعی نصوص کی اکثریت ثبوت کے اعتبار سے بھی ظنی ہے اور انفرادی نصوص کی دلالت بھی، چاہے وہ قطعی الثبوت ہوں یا ظنی الثبوت، اپنی مراد پر قطعی نہیں ہو سکتی تو سوال یہ ہے کہ شریعت کے کلیات کی قطعیت کیسے ثابت ہوگی؟ شاطبی کا جواب یہ ہے کہ اس کا طریقہ شرعی دلائل کا استقرا ہے اور یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کی مدد سے جزئی اور انفرادی ادلہ کے مجموعے سے قطعیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ شریعت میں جتنے بھی احکام قطعی اور یقینی مانے جاتے ہیں، ان کا مدار کسی جزوی نص کی قطعی دلالت پر نہیں، بلکہ ان کی قطعیت شریعت میں وارد متعدد نصوص کی مجموعی دلالت سے ثابت ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر نماز کی فرضیت کے اثبات کے لیے صرف ’اقیموا الصلوۃ‘ کی نص کافی نہیں، کیونکہ انفرادی سطح پر اس نص کو مختلف مفاہیم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ نماز کا فرض ہونا درحقیقت ان تمام نصوص کے مجموعے سے مستفاد ہے جن میں مختلف پہلووں سے نماز کی تاکید وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ کہیں نماز ادا کرنے کی مدح وتوصیف کی گئی ہے، کہیں نماز ترک کرنے والوں کی مذمت وارد ہوئی ہے، کہیں مکلفین کو ہر ہر حالت میں نماز ادا کرنے کا پابند ٹھہرایا گیا ہے، اور کہیں تارکین نماز کے ساتھ قتال کی بات بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح انسانی جان کی حرمت کا قطعی ہونا کسی ایک آیت یا حدیث پر منحصر نہیں، بلکہ یہ بات اس باب میں وارد جملہ نصوص کی دلالت سے ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی نص میں انسان کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، کسی میں قاتل کو قصاص کا سزاوار قرار دیا گیا ہے، کہیں قتل کا ذکر شرک کے ساتھ کبیرہ گناہوں کے زمرے میں کیا گیا ہے، کہیں حالت اضطرار میں جان بچانے کے لیے حرام کو مباح قرار دیا گیا ہے، اور کہیں انسانی جان کی حرمت کا احترام نہ کرنے والوں کے خلاف قتال کی ہدایت کی گئی ہے۔
ان مثالوں کی روشنی میں شاطبی واضح کرتے ہیں کہ شریعت کے تمام قطعی احکام اور اصولی قواعد اسی طرح شرعی نصوص کے استقرا سے اخذ کیے گئے ہیں اور ثبوت کے پہلو سے ان کلی قواعد اور جزئی مسائل میں یہی چیز فارق ہے کہ فروعی احکام اور مسائل کا ماخذ جزئی نصوص ہوتے ہیں اور وہ ظنی الدلالۃ کے دائرے میں رہتے ہیں، جبکہ اصول اور کلیات متفرق ومتعدد نصوص کی مجموعی دلالت سے اخذ کیے جاتے ہیں اور استقرا کے اصول کے تحت ان میں قطعیت پیدا ہو جاتی ہے۔ (الموافقات ۱ /۳۱-۲۸)
شاطبی کے نظریے کے مطابق شریعت بطور ایک کلی نظام کے قطعیت سے متصف ہے، جبکہ ظن صرف جزئیات اور فروع کی سطح پر پایا جاتا ہے۔ اسی نکتے کی روشنی میں شاطبی یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں ’الذکر‘ کی حفاظت اور ’الدین‘ کی تکمیل سے متعلق جو بیانات وارد ہوئے ہیں، وہ بھی شریعت کے کلیات کے حوالے سے ہیں، کیونکہ استقرا سے واضح ہے کہ جزئیات کے متعلق یہ بات درست نہیں ہو سکتی۔ لکھتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“ میں جس حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے، اس سے مرا د دین کے کلی اور منصوص اصولوں کی حفاظت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”الیوم اکملت لکم دینکم“ سے بھی یہی مراد ہے، جزئی مسائل کی حفاظت مراد نہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو شریعت کاکوئی جزئی حکم حفاظت کے دائرے سے باہر نہ ہوتا (یعنی تمام اخبار آحاد صحت اور حفاظت سے منقول ہوتیں اور ان میں کسی غلطی کا امکان نہ ہوتا)، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم قطعی طور پر اس کے امکان کو جانتے ہیں جس کی تائید عملاً اس کے وقوع سے ہوتی ہے۔ (نص کو سمجھنے میں) خیالات مختلف ہوتے ہیں، جزئی نصوص میں کئی طرح کے احتمالات بھی در آتے ہیں اور اس میں غلطی کا واقع ہونا یقینی ہے، چنانچہ اخبار آحاد (کی روایت) میں اور مختلف آیات کا مفہو م سمجھنے میں (اہل علم سے) غلطیاں ہوئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذکر کی حفاظت سے مراد اس کے کلیات کی حفاظت ہے۔“
تاہم شاطبی یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ کلیات کے قطعی ہونے کی صورت میں جزئیات کے ظنی ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس سطح پر ظنی دلائل کی قبولیت سے شریعت کی اصولی اور کلی قطعیت مجروح نہیں ہوتی۔ چنانچہ شاطبی جمہور علمائے اصول کی موافقت میں جزوی اور فروعی مسائل کے دائرے میں اخبار آحاد کے حجت ہونے کے قائل ہیں اور یہ قرار دیتے ہیں کہ اخبار آحاد کو قبول کرنا کوئی رعایتی موقف نہیں، بلکہ بذات خود ایک کلی مصلحت پر مبنی ہے۔ اس مصلحت کی رو سے قطعیت کلیات ہی میں مطلوب ہے اور جزئیات میں یہ شرط عائد نہیں کی جا سکتی۔ کلیات اور جزئیات، دونوں میں قطعیت کی شرط عائد کرنا دونوں کا درجہ یکساں کر دینے کے مترادف ہے جو شارع کو مطلوب نہیں۔ شاطبی لکھتے ہیں :
”شارع نے بالاتفاق شریعت کو مصالح کی رعایت سے وضع کیا ہے اور سابقہ مباحث میں یہ بات طے ہو چکی ہے کہ جو مصالح معتبر ہیں، وہ کلیات ہیں نہ کہ جزئیات، کیونکہ انسانی زندگی کے معمول وعادت میں احکام اسی طرح جاری ہوتے ہیں، اور اگر جزئیات کے معتبر ہونے کا نسبتاً کمزور معیار قبول نہ کیا جائے تو ایسا کرنا درست نہیں ہو سکتا، بلکہ اگر ظن کو قبول نہ کیا جائے تو بعض کلیات بھی برقرار نہیں رہ سکتیں، مثلاً گواہی پر فیصلہ کرنا اور افراد کی خبر کو قبول کرنا، حالانکہ افراد سے غلطی اور بھول چوک ہو سکتی ہے۔ لیکن چونکہ عموماً وہ سچ ہی بیان کرتے ہیں، اس لیے کلیات کو محفوظ رکھنے کے لیے احکام کلیہ کا مدار غالب اور عمومی حالات پر رکھا گیا ہے۔ اگر جزئیات کے اعتبار میں بھی یہی شرط (یعنی یقینی ہونا) عائد کی جائے تو کلیات اور جزئیات میں کوئی فرق نہیں رہے گا اور یقینی معلومات کے علاوہ کسی بھی بنیاد پر فیصلہ کرنا ممتنع ہو جائے گا اور ظن کو کلیتاً ترک کر دینا مطلوب قرار پائے گا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔“
البتہ شاطبی کا زاویہ نظر اس پہلو سے جمہور اصولیین سے مختلف ہے کہ وہ فروع وجزئیات کے لیے اخبار آحاد کو علی الاطلاق ماخذ تسلیم نہیں کرتے، بلکہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اخبار آحاد میں بیان کردہ حکم کا کسی کلی اور قطعی شرعی اصول کے تحت اور اس کے ساتھ متعلق ہونا ضروری ہے یا نہیں۔ جیسا کہ واضح کیا گیا، اصولیین کا ایک گروہ اخبار آحاد کی قبولیت کو اس شرط سے مشروط کرتا ہے کہ وہ کسی قوی تر دلیل کے معارض نہ ہوں۔ شاطبی کا سوال اس سے مختلف ہے۔ وہ سوال کو اس صورت تک محدود تک نہیں رکھتے جب خبر واحد کسی قوی تر دلیل کے معارض ہو۔ ان کا سوال یہ ہے کہ تعارض کے بغیر بھی، کیا اصولی طور پر یہ متعین کرنا ضروری ہے یا نہیں کہ خبر واحد میں جو حکم بیان کیا گیا ہے، وہ شریعت کے کون سے قطعی اور کلی اصول کی فرع ہے؟
شاطبی کا جواب یہ ہے کہ ظنی دلیل اگر کسی اصل قطعی کی طرف راجع ہو تو اس کا قابل قبول ہونا واضح ہے اور اخبار آحاد کی اکثریت یہی نوعیت رکھتی ہے۔ چنانچہ اخبار آحاد میں یا تو قرآن میں مذکور کسی اصولی حکم کی تفصیل بیان کی جاتی ہے، جیسے طہارت صغریٰ وکبریٰ، نماز اور حج وغیرہ سے متعلق سنت میں وارد تفصیلی احکام، یا قرآن میں بیان کیے گئے کسی اصولی ضابطے کی فروع وجزئیات واضح کی جاتی ہیں، جیسے ’لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل‘ کی تفصیل کے طور پر سنت میں وارد خرید وفروخت کی مختلف صورتوں اور ربا وغیرہ کی ممانعت، اور یا شریعت کے احکام میں ملحوظ کسی قطعی اصول کی وضاحت کی جاتی ہے، جیسے مثلاً ’لا ضرر ولا ضرار‘ اور اس نوعیت کی دیگر اخبار آحاد۔ شاطبی کے نزدیک اس نوعیت کی تمام اخبار آحاد معتبر ہیں، لیکن اگر اخبار آحاد شریعت کے کسی قطعی اور اصولی حکم کی طرف راجع نہ ہوں تو انھیں علی الاطلاق قبول کرنا درست نہیں، بلکہ ان کے متعلق غور وفکر اور تحقیق کرنا واجب ہے۔ شاطبی لکھتے ہیں:
”اگر دلیل شرعی ظنی ہو تو یا تو وہ کسی اصل قطعی کی طرف راجع ہوگی یا نہیں۔ اگر اصل قطعی کی راجع ہو تو وہ بھی معتبر ہے، لیکن اگر راجع نہ ہو تو اس کے متعلق تحقیق اور غور وفکر کرنا واجب ہے اور اس کے مطلقاً قبول ہونے کی بات درست نہیں۔“
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
”ہر وہ مسئلہ جس میں علم کا حصول کامل ترین طریقے پر مطلوب ہو، اس میں قرآن میں اس کی اصل کی طرف متوجہ ہونا لازم ہے۔ اگر وہ قرآن میں بعینہ منصوص مل جائے یا اس کی نوع یا جنس کا وہاں ذکر ہو تو درست، ورنہ اس کے متعلق مختلف درجوں میں غور وفکر مطلوب ہوگا۔ .... البتہ اگر کسی مسئلے میں صرف عمل مقصود ہو تو اس میں آحاد کے ذریعے سے منقول سنت کی طرف رجوع بھی کافی ہوگا، جیسا کہ مجتہد کے قول کی طرف رجوع کافی ہوتا ہے حالانکہ وہ اس سے بھی کمزور ہے۔ البتہ اخبار آحاد کو کتاب اللہ میں ان کی اصل کی طرف لوٹایا جائے گا کیونکہ یہ کتاب اللہ کے بنیادی ماخذ اور اللہ کے دین کا مصدر ہونے کا تقاضا ہے، چنانچہ ایسے احکام کو صرف اخبار آحاد سے لینے پر اکتفا نہیں کی جا سکتی۔“
یہ شاطبی کا موقف ہے، تاہم وہ یہاں اجتہادی اختلاف کی گنجائش کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خبر واحد اگر کسی قطعی اصول کی طرف راجع نہ ہو، لیکن کسی قطعی اصول کے ساتھ متعارض بھی نہ ہو تو اس صورت کی یہ تعبیر بھی کی جا سکتی ہے کہ کسی اصل قطعی کے ساتھ تعلق نہ ہونا گویا اس کے اصول شرعیہ کے معارض ہونے کے ہم معنی ہے، اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی قطعی اصول کے ساتھ تعلق نہ ہونے کے باوجود وہ ایک ظنی دلیل کی حیثیت بہرحال رکھتی ہے اور کسی قطعی دلیل کے معارض نہ ہونے کی صورت میں ظنی دلیل بھی شریعت میں معتبر ہوتی ہے۔ (الموافقات ۳/۲۳)
بہرحال شاطبی کے نزدیک اخبار آحاد کا کسی اصل قطعی پر مبنی ہونا ضروری ہے اور ان کے زاویہ نظر سے اس شرط کے التزام سے گویا شریعت کے فروع وجزئیات کا باعتبار ثبوت ظنی ہونا شریعت کے بحیثیت مجموعی محفوظ ہونے کے منافی نہیں رہتا، کیونکہ یہ فروع وجزئیات کسی نہ کسی اصل قطعی سے پیدا ہوئی ہیں اور اس پر مبنی ہونے کی وجہ سے یہ بھی بالواسطہ قطعی ہیں۔ یوں شریعت بحیثیت مجموعی اپنے اصول کلیہ اور فروع، دونوں کے لحاظ سے محفوظ ہو جاتی ہے۔ شاطبی لکھتے ہیں:
”علم کی پہلی قسم اصل اور معتمد ہے اور اسی پر طلب علم کا مدار ہے اور علم میں پختگی رکھنے والوں کے مقاصد اسی کی طرف منتہی ہوتے ہیں، اور یہ وہ ہے جو خود قطعی ہو یا کسی اصل قطعی کی طرف راجع ہو۔ بابرکت شریعت محمدیہ اسی درجے کا علم ہے اور اسی لیے وہ اپنے اصول اور فروع، دونوں میں محفوظ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شریعت ان مقاصد کی حفاظت پر مبنی ہے جو دارین کی کامیابی کا ذریعہ ہیں، یعنی ضروریات، حاجیات اور تحسینیات اور ان کی تکمیل واتمام کرنے والے احکام۔ یہی شریعت کے اصول ہیں اور ان کے معتبر ہونے پر برہان قطعی قائم ہو چکی ہے، جبکہ تمام فروع انھی اصولوں پر مبنی ہیں۔“
یہ ساری بحث تو اس صورت میں ہے جب ظنی دلیل کسی اصل قطعی کے معارض نہ ہو۔ اگر ظنی دلیل اور اصل قطعی کے مابین تعارض بھی پایا جائے تو شاطبی کے نزدیک اس کی دو مزید صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ جو ظنی دلیل کسی قطعی دلیل کے معارض ہے، کیا وہ کسی دوسرے قطعی شرعی اصول کے تحت آتی ہے؟ اگر زیر بحث ظنی دلیل بذات خود کسی قطعی شرعی اصول کی فرع ہو تو اسے رد نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اس کی تائید میں خود شریعت کا ایک دوسرا قطعی اصول موجود ہے، اگرچہ اس صورت میں اجتہادی اختلاف کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ مثال کے طو رپر سیدہ عائشہ نے اسراءکے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے قول کو رد کر دیا کیونکہ قرآن مجید میں ہے کہ انسانی نگاہیں اللہ تعالیٰ کی ذات کو نہیں پا سکتیں، تاہم دیگر اہل علم نے اس کو اس بنیاد پر قبول کیا کہ خود شریعت کے دیگر قطعی دلائل سے آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت ثابت ہے اور اس کی روشنی میں دنیا میں بھی اس کا امکان ثابت ہوتا ہے۔ (الموافقات ۳/۹۱) یوں یہ ظنی اور قطعی دلیل کے تعارض کی نہیں، بلکہ دو قطعی دلیلوں کے تعارض کی صورت بن جاتی ہے۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اصل قطعی کے معارض ظنی دلیل بذات خود کسی دوسری اصل قطعی سے موید نہ ہو۔ ایسی صورت میں اسے رد کرنا واجب ہے۔ شاطبی اس کی مثال کے طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور امام مالک کی آرا کا حوالہ دیتے ہیں جنھوں نے بعض احادیث کو اس وجہ سے رد کر دیا کہ وہ قرآن مجید کی آیت أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃ وِزْرَ أُخْرَی وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور انسان کے کام وہی عمل آئے گا جو اس نے خود کیا ہو) کے خلاف ہیں۔ چنانچہ سیدہ عائشہ نے اس بنیاد پر سیدنا عمر کی روایت کردہ اس حدیث کو قبول نہیں کیا کہ مرنے والے پر اگر اس کے اہل خانہ آہ وبکا کریں تو اس کی وجہ سے مردے کو عذاب دیا جاتا ہے۔ اسی طرح امام مالک نے اسی قاعدے کے تحت اس حدیث کو قبول نہیں کیا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر مرنے والے کے ذمے روزے ہوں تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے روزے قضا کرنے چاہییں۔ (الموافقات ۳/۱۹، ۲۱) شاطبی کے نقطہ نظر سے یہ خبر واحد کے ایک انفرادی آیت کے ساتھ تعارض کی نہیں، بلکہ شریعت کے ایک قطعی اور کلی اصول کے ساتھ تعارض کی مثال ہے جو اس خاص آیت پر منحصر نہیں، بلکہ استقرا کے طریقے پر بے شمار شرعی دلائل سے ماخوذ ہے۔ (الموافقات ۲/۱۹۵)
اس بحث کا بنیادی نکتہ شاطبی نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ:
”ظنی دلیل اگر قطعی دلیل کے مخالف ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ اس کا اصل کے مخالف ہونا قطعی ہو ، اس صورت میں اس کو رد کرنا لازم ہے۔ دوسری یہ کہ اس کا اصل کے خلاف ہونا ظنی ہو، یاتو اس لیے کہ اصل کے ساتھ اس کی مخالفت ظنی ہے اور یا اس لیے کہ اصل کا قطعی ہونا متحقق نہیں ہوا۔ اس دوسری صورت میں مجتہدین کے لیے اختلاف کی گنجائش ہے، لیکن اصولی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ ظنی کا قطعی کے مخالف ہونا ظنی کو ساقط الاعتبار کر دیتا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔“
تشریعی اصولوں اور مقاصد ومصالح نیز دلائل شرعیہ کی قطعیت وظنیت کی اس بحث کے تناظر میں شاطبی نے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کو بھی موضوع بنایا ہے۔ شاطبی کتاب اور سنت کے باہمی تعلق کو اصل اور فرع کے طور پر متعین کرتے ہیں اور یہ قرار دیتے ہیں کہ تشریع میں اصل اور بنیادی کردار قرآن مجیدکا ہے جبکہ سنت، کتاب اللہ کے تابع اور اس پر مبنی ہے اور اس کا وظیفہ قرآن کی توضیح وتبیین اور اس کی تفریع وتفصیل ہے۔
یہ تصور اصولی طور پر جمہور علمائے اصول کا متفق علیہ تصور ہے۔ اس باب میں استثنائی موقف غالباً صرف ابن حزم کا ہے جو قرآن اور سنت، دونوں کو بالکل یکساں اور مساوی نوعیت کا ماخذ قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک دونوں میں فرق صرف اس ظاہری صورت کے لحاظ سے ہے جو وحی کے ابلاغ کے لیے اختیار کی گئی۔ قرآن کے اصل اور سنت کے تابع ہونے کے تصور کو واضح انداز میں سب سے پہلے امام شافعی نے پیش کیا اور اس کی توضیح یوں کی ہے کہ سنت میں قرآن سے زائد جو احکام وارد ہیں، وہ یا تو کتاب اللہ سے ہی مستنبط ہیں اور یا اگر مستقل وحی یا اجتہاد پر مبنی ہیں تو بھی کتاب اللہ ہی میں مذکور کسی اصولی اور بنیادی حکم کی تفصیلات وفروع بیان کرتے ہیں۔ جصاص اور دیگر اصولیین نے اس حوالے سے یہ نکتہ بھی شامل کیا کہ قرآن کے علاوہ جن دیگر مآخذ مثلاً سنت، اجماع اور قیاس وغیرہ سے شرعی احکام اخذ کیے جاتے ہیں، ان کا ماخذ ہونا بھی بنیادی طور پر قرآن مجید سے ثابت ہوا ہے۔ گویا قرآن نے بہت سے امور میں متعین اور جزئی احکام بیان کرنے کے علاوہ تشریع کے ان دیگر مآخذ اور اصولوں کی بھی تعیین کر دی ہے جن سے مزید احکام اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ (احکام القرآن ۳/۹۸۱، ۰۹۱)
شاطبی بھی اس بحث میں جمہور اصولیین سے اتفاق رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سنت میں جو بھی حکم بیان کیا جاتا ہے، وہ اصولاً قرآن ہی کے حکم میں مضمر ہوتا ہے، بلکہ شاطبی کو اصرار ہے کہ سنت میں کوئی حکم ایسا نہیں جو قرآن سے اس معنی میں زائد ہو کہ قرآن کا حکم کسی بھی مفہوم میں اس کو متضمن نہ ہو اور سنت ایک بالکل نئے اور مستقل بالذات حکم کے طور پر اس کا اثبات کرتی ہو۔ لکھتے ہیں:
”سنت اپنے معنی کے اعتبار سے کتاب کی طرف راجع ہے۔ وہ اس کے مجمل کی تفصیل کرتی، باعث اشتباہ امور کی وضاحت کرتی اور مختصر احکام کو کھولتی ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ قرآن کا بیان ہے اور اسی پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ ”وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم“ (اور نے تمھاری طرف یہ ذکر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس چیز کو کھول کر بیان کرو جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے)۔ پس تمھیں سنت میں کوئی بات ایسی نہیں ملے گی جس کے مفہوم پر قرآن میں اجمالی یا تفصیلی دلالت موجود نہ ہو۔ مزید یہ کہ ہر وہ دلیل جس سے قرآن کا، شریعت کا بنیادی ماخذ اور سرچشمہ ہونا معلوم ہوتا ہے، وہ بھی اس بات کی دلیل ہے۔ پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ہر بات کی وضاحت پر مشتمل قرار دیا ہے جس سے یہ لازم آتا ہے کہ سنت بھی اصولی طور پر قرآن ہی میں موجود ہو، کیونکہ اوامر ونواہی سب سے پہلے کتاب ہی میں آئے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”ما فرطنا فی الکتاب من شیئ“ (ہم نے کتاب میں کسی چیز کے بیان میں کوئی کسر نہیں چھوڑی) ۔ نیز فرمایا ہے کہ ”الیوم اکملت لکم دینکم“ (آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا ہے) اور اس سے مراد قرآن کے نزول کے ذریعے سے دین کی تکمیل کرنا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سنت قرآن ہی کے مضامین کی تشریح کرتی ہے اور یہی اس کے، قرآن کی طرف راجع ہونے کا مطلب ہے۔“
مزید لکھتے ہیں:
”معترض کا یہ کہنا کہ سنت کا قرآن سے زائد ہونا لازم ہے، مسلم ہے، لیکن اس زائد کی نوعیت کیا ایسی ہے جیسے شرح، مشروح پر زائد ہوتی ہے؟ کیونکہ شرح میں بہرحال ایسی توضیح ہوتی ہے جو مشروح میں نہیں ہوتی، ورنہ اسے شرح ہی نہ کہا جائے۔ یا زائد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سنت کوئی ایسی بات بیان کرتی ہے جو کتاب میں موجود ہی نہیں؟ ہمارا اختلاف اس دوسری بات میں ہے۔“
شاطبی نے اس نکتے کو جمہور اصولیین کی بہ نسبت کہیں زیادہ وسعت اور تحقیق وتدقیق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے فریم ورک میں سنت کے، کتاب اللہ پر مبنی اور اس کی طرف راجع ہونے کے جو پہلو نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں، ذیل میں ان کی کچھ تفصیل پیش کی جائے گی۔
(جاری)
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی ہفتہ وار یا ماہانہ فکری نشستوں میں استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی دام ظلہ عصر کی نماز کے بعد سے مغرب تک ایک پون گھنٹہ کسی متعین موضوع پر بیان فرماتے ہیں۔ اس سال دو نشستیں طے کی گئیں ۔ ایک ہفتہ وار نقشبندی اصلاحی نشست جو کہ الشریعہ اکادمی کے نئے کیمپس جامعہ طیبہ اسلامیہ ، باقر کوٹ کوروٹانہ میں بروز سوموار عصر تا مغرب منعقد ہوتی ہے اور دوسری ماہانہ نشست اکادمی کے مین کیمپس کنگنی والہ گوجرانوالہ میں ہر ماہ کی تیسری جمعرات کو منعقد کی جاتی ہے ۔ اس نشست کا موضوع " پاکستان کی دینی تحریکات کا تعارف " ہے۔ اس سے پہلے جن موضوعات پر فکری نشستیں ہوتی رہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
1۔ امام شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے کا علمی تعارف ، 2۔ برصغیر پاک و ہند کی دینی تحریکات کا تعارف ، 3۔اکابر علماء دیوبند کا علمی و فکری تعارف ، 4۔ تحریک پاکستان اور اس میں علماء کا کردار، 5۔ اصطلاحات تصوف و سلاسل تصوف کا تعارف ، 6۔ میرے اساتذہ و مشائخ (اس میں استاد گرامی نے اپنے سب اساتذہ کا بھرپور تعارف کروایا)، 7۔ پاکستان میں نفاذ اسلام کی آئینی جدوجہد
ان نشستوں میں شہر کے علماء و طلبہ کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے ، نشست کے آخر میں سوالات کے سیشن ہوتا ہے جس میں موضوع سے متعلقہ سوالات کو زیر بحث لایا جاتا ہے ۔
اس سال استاد گرامی کے لائق فرزند مولانا حافظ محمد عمار خان ناصر نے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی اور یونیورسٹی کی طرف سے ان کو ڈگری ایوارڈ کر دی گئی ۔ سترہ اکتوبر کی نشست اس حیثیت سے بھی خاص تھی کہ اس میں استاد گرامی نے مولانا عمار خان ناصر کو پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنے کی خوشی میں شہر بھر سے اپنے متعلقین کو اس خوشی میں شریک کرنے کے لیے چائے کی دعوت دی تھی ۔ شہر بھر سے تقریبا سو کے قریب احباب نے اس دعوت میں شرکت کی جن کی چائے و دیگر لوازمات سے تواضع کی گئی ۔
الشریعہ اکادمی کے قیام کے مقاصد میں ایک مقصد علماء و طلبہ کو ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا بھی تھا جس سے ان کو علمی میدان میں راہنمائی مل سکے ۔ اس مقصد کے لیے اکادمی میں ایک وقیع لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا وہیں علماء و طلبہ کو علمی راہنمائی کے لیے افراد بھی مہیا کیے گئے جن سے وہ اپنے موضوعات تحقیق پر گفتگو کر کے منہج تحقیق و مواد سے متعلقہ معلومات حاصل کر سکیں ۔ اس کے علاوہ مدارس کے قابل ، محنتی اور علمی میدان میں آگے بڑھنے کا جذبہ رکھنے والے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے یہ سہولت فراہم کی گئی کہ وہ کسی یونیورسٹی میں ایم فل و پی ایچ ڈی کے شعبہ میں داخلہ لیں تو ان کی رہائش اور دیگر اخراجات کے بندوبست میں حتی المقدور اکادمی کی طرف سے تعاون کیا جائے گا۔ اگرچہ یہ سلسلہ ابھی کافی محدود سطح پر ہے لیکن اس کے باوجود کافی طلبہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا چکے ہیں اور کچھ اٹھا رہے ہیں ۔ ملک بھر سے ایم فل و پی ایچ ڈی اسلامیات کے طلبہ استاد گرامی اور مولانا عمار خان ناصر سے اپنے تحقیقی موضوعات کے بارے مشاورت کرنے کے لیے رابطہ کرتے ہیں اور حتی الامکان، ان کی راہنمائی کی کوشش کی جاتی ہے ۔ الشریعہ اکادمی کے متعلقین میں سے بہت سے لوگ ایم فل و پی ایچ ڈی کی ڈگریاں مکمل کر چکے ہیں اور کچھ کے مقالات جاری ہیں ۔ ان میں سے چیدہ چیدہ احباب کے نام و موضوعات تحقیق حسب ذیل ہیں ۔
1۔ ڈاکٹر حافظ محمد سرور خان ، پی ایچ ڈی ۔ موضوع: اوجز المسالک الی مؤطا امام مالک ، مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ (اسلوب و خصائص )
2۔ مولانا وقار احمد ، پی ایچ ڈی ، موضوع : مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کے تفسیری افادات : تحقیقی مطالعہ (مقالہ جمع ہو چکا ہے )
3۔ مولانا عبد الغنی ، ایم فل ، موضوع: مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ کی تصانیف میں علوم القرآن کے مباحث
4۔ حافظ محمد رشید ، ایم فل ، موضوع: مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی تصانیف میں اصول فقہ کے مباحث
5۔ حافظ عامر جاوید ، ایم فل ، موضوع : مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی تصانیف میں علم الکلام کے مباحث
6۔ حافظ عثمان حیدر ، ایم فل ، موضوع : امام ابن تیمیہ ؒ کی عبادات سے متعلق منفرد فقہی آراء ۔ تحقیقی مطالعہ
7۔ حافظ محمد بلال، ایم فل ، موضوع : امیر عبد القادر الجزائری ؒ ۔ حیات و خدمات
8۔ محمد شہزاد حسین ، ایم فل موضوع : تکفیر کے اصول و ضوابط : امام غزالی ؒ کے افکار کی روشنی میں ۔
9۔ حافظ محمد طفیل کوہاٹی ، ایم فل ، موضوع : مذہبی شدت پسندی کے سد باب میں ممتاز علماء کرام کا کردار، خیبر پختونخواہ کے تناظر میں
10۔ مولانا محمد تہامی بشر، ایم فل ۔ موضوع : برصغیر میں مذہبی سیاسی جدوجہد: فکری اساسات کا تجزیاتی مطالعہ
11۔ حافظ محمد رشید ، پی ایچ ڈی ، موضوع : فقہ الحدیث میں مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ کا مقام و منہج۔ (زیر ترتیب)
12۔ مولانا وقاص احمد ، ایم فل ۔ موضوع : اسلامی تاریخ سے متعلق مولانا سندھی کے افکار (زیر ترتیب)
مصنف : پروفیسر سعود عالم قاسمی (شعبہ سنی دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)
مطالعہ مذاہب اورتقابل ادیان سماجی علوم میں مستقل ایک موضوع ہے ۔ دورحاضرمیں دینی ومذہبی جامعات کے ساتھ عصری تعلیم گاہوں اوریونیورسٹیز میں بھی تقابل ادیان پر توجہ مبذول کی گئی ۔ پچھلے چندصدیوںمیں مغربی ممالک میں دیگر علوم کی طرح اس فن میں بھی اختصاص حاصل کرنے کا رجحان بڑھا، جس میں میکس مولر کو تقابل ادیان کاباباآدم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ آکسفورڈ اورہارورڈ جیسے اداروں نے اس غلط فہمی کی تشہیر میں تعاون کیا۔ مغربی ممالک نے سائنسی علوم کے ساتھ ہر علوم وفنون کی ابتداءکا سہرااپنے ہی سر باندھنے کی ایک کوشش کی ، جس میں تقابل ادیان اور تاریخ مذاہب بھی ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس فن پہ سب سے پہلے مسلمانوں نے توجہ دی ۔مسلمانوں نے دوسرے مذاہب کامطالعہ دیانت داری سے کیا، پھر ان کے ماننے والوں سے مکالمے کیے اورحسب ضرورت مناظرے بھی کیے۔قرآن کریم نے سابقہ اقوام کے درست حالات وواقعات کو بیان کرکے اس علمی روایت کی ابتداءکی ۔
مذاہب عالم کے تعارف کے سلسلہ میں قرآن وسنت کی تعلیمات اورمسلمانوں کی خدمات کو علمی اورتجزیاتی پیرایہ میں پیش کرنے کی ضرورت تھی ۔ اس ضرورت کی تکمیل کیلئے اورتاریخی حوالوں و واقعات کی روشنی میں اپنی بات ثابت کرنے کیلئے اے ایم یو کے دینیات فیکلٹی کے سابق ڈین وسابق صدر شعبہ سنی دینیات پروفیسر سعود عالم قاسمی نے”مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت “کے نام سے مستقل ایک کتاب تالیف کی ۔
یہ کتاب ایک مقدمہ ، ایک پیش لفظ اوردس ابواب پر مشتمل ہے ۔ پروفیسر اشتیاق احمد ظلی ، ڈائرکٹر شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ نے فاضلانہ مقدمہ لکھاجبکہ پیش لفظ صاحب کتاب نے ، جس میں مطالعہ مذاہب کے محرکات ومناہج پر خصوصیت سے روشنی ڈالی ۔کتاب کے پہلے باب میں عہد نبوی اورعہد صحابہؓ میں مکالمہ بین المذاہب پر تفصیلا بحث ہے ۔ تہذیب وشائستگی اورباہمی احترام کو قرآن کریم کے بین المذاہب مکالمہ میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ، آپ لکھتے ہیں :
” قرآن پاک بین المذاہب مکالمہ میں تہذیب وشائستگی اورباہمی احترام کو غیرمعمولی اہمیت دیتاہے ۔۔۔۔ اسی لئے قرآن نے مومنوں کو ہدایت کی ہے:
ترجمہ : اوراہل کتاب سے بحث نہ کرومگر عمدہ طریقہ سے ، سوائے ان لوگوں کے جو ان میں ظالم ہیں اورکہوکہ ہم ایمان لائے اس کتاب پر جو ہماری طرف نازل ہوئی اورہمارااورتمہارامعبود ایک ہی ہے اورہم اسی کے فرماں بردار ہیں “ (ص: ۱۲)
اس باب میں دورنبوی اوردور صحابہ میں یہودیت وعیسائیت اورفارس سے آنے والے وفود سے ایک دوسرے کے درمیان مذہبی امور پر ہونے والے مکالمات کوذکر کیاگیا ، جس میں مشہور سردارمکہ عتبہ بن ربیعہ ، یہودی علمااورعیسائی وفد سے آپ ﷺ کی ہونے والی گفتگو کا بیان ہے ۔ اس کے بعد صحابہ کرام کے شاہان روم وفارس اورنجاشی بادشاہ کے مکالمات کا تذکرہ ہے ۔ ان مکالمات سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے مصنف نے دو قیمتی باتیں بیان کی ، وہ لکھتے ہیں :
” اول یہ کہ دین اسلام کے عقائد ، احکام اورتعلیمات کو سمجھنے کے ساتھ مسلمانوں نے معاصرمذاہب کی حقیقت اورتعلیم کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ۔ ان کی خوبیوں اورخامیوں پر نظر رکھی ۔۔۔۔۔۔۔ دوم یہ کہ مسلمانوں نے اپنے عقیدے اوراصول زندگی کا اظہاردوسروں کے سامنے نہایت معقولیت اورحکمت کے ساتھ کیا“ ( ص: ۵۴)
درج بالا دوباتوںمیں سے ایک بات سے دیگر مذاہب پر صحابہ کرام کی معلومات کاپتہ چلتا ہے ، جس سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ ہر دورمیں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو تاریخ مذاہب میں درک رکھتی ہو۔ اوردوسری بات سے مکالمہ بین المذاہب کے اصول بھی واضح ہوگئے ۔ کہ دیگر ادیان ومذاہب سے تقابل کا طریقہ کیسا ہو ۔ آج تحقیقی مقالات کی تحریر میں بنیادی شرط ” غیرجانب داری“ ہے ، جس کا سرادورصحابہ سے ہی ملتاہے ۔
دوسراباب مسلم سلاطین اوربین المذاہب مکالمہ ہے ، اس باب میں اموی اورعباسی عہد سلطنت میں مسلم اسکالرس کے دیگر مذاہب سے ہونے والے مکالموں کا بیان ہے ۔ جیسے امام ابوحنیفہ اوررومی سفیر، ابن حزم اورعیسائی جج ، ابن قیم کاایک یہودی عالم اورابن تیمیہ کاعیسائیوں سے ہونے والے مکالمات کی مکمل روداد کاتذکرہ ہے ۔ اس کے بعد ہندوستان میں مکالمہ بین المذاہب کی تاریخ کاتذکرہ ہے ، جس کی شروعات دورعباسی سے ہوتی ہے اس وقت بودھ مذہب کے پروہتوں نے بصرہ پہنچ کر مکالمہ کیا اورتشفی بخش جواب پاکر دین اسلام سے مشرف ہوئے ۔ مصنف نے اسی ضمن میں ایک واقعہ اکبر شاہ نجیب آبادی کی کتاب ’ آئینہ حقیقت نما‘کے حوالہ سے لکھی ہے کہ سندھ کے راجہ نے ہارون رشید سے ایک ایسے عالم کو بھیجنے کی درخواست کی جو پنڈتوں کے سوالوں کا جواب دے کر اسلام کی حقانیت ثابت کرسکے ، تو ہارون رشید نے ایک محدث کو بھیجا جو علم کلام سے ناواقف تھے، اس لئے وہ تشفی بخش جواب نہ دے سکے۔ چنانچہ ہارون رشید نے دوبارہ معمریا ابوخلدہ نامی ایک متکلم کو بھیجا ، جس کے علمی لیاقت کا اندازہ ہندوستانی پنڈتوں کو پہلے سے ہوگیا ، اس لئے اس عالم کو دربارپہنچنےسے پہلے ہی زہر دے کرمرواڈالا ( ص: ۵۵) ۔
مذکورہ واقعہ سے پتہ چلتاہے کہ پہلے آنے والا عالم محدث تھا، جبکہ علامہ شبلی نے ’علم الکلام‘ صفحہ اکتالیس پر اس واقعہ کو مرتضی زیدی کی کتاب ’ملل ونحل‘ کے حوالے سے اس طرح بیان کیاکہ ہارون رشید نے پہلے ایک فقیہ کو بھیجا ، پھرمشہور متکلم معمر بن عباد کوبھیجا ۔ یعنی علامہ شبلی کے مطابق پہلے آنے والا عالم فقیہ تھااوراس فقیہ کے بعد آنے والا متکلم کی بھی تعیین ہوگئی کہ معمر بن عباد تھا۔
ابوریحان البیرونی کے بارے میں مصنف نے لکھا کہ ہندوستان میں رہ کر ہندومذہب ،ہندوسماج ، سنسکرت زبان اورثقافت کا گہرامطالعہ کیا اوردوسرے مذاہب بالخصوص اسلام کے تعلق سے ہندووں کی دوری بلکہ دشمنی کے متعدد اسباب اپنی کتاب ’فی تحقیق ما للہند‘ میں لکھے۔ ابوریحان البیرونی کے بعد اکبر ، جہانگیر اورانگریز وں کے دورحکومت میں ہونے والے مباحثوں ومناظروں کا مفصل ذکرباب کے اخیر میں ماضی قریب کے عالمی سطح پہ مکالمہ بین المذاہب کے ایک بڑے اسکالر شیخ احمد دیدات کی خدمات کابھی تذکرہ ہے۔
تین ابواب کے بعد بقیہ سات ابواب میں اسلامی اسکالرز کے ان کتب پر تفصیلی تبصرہ ہے جو مطالعہ مذاہب سے متعلق ہیں۔ تیسرے باب میں البیرونی کی مشہور کتاب ’فی تحقیق ماللہند‘ ، چوتھے باب میں علامہ ابن حزم ظاہری اندلسی کی مشہورکتاب ’الفصل فی الملل والنحل‘ ، پانچویں باب میں عبدالکریم شہرستانی کی کتاب ’الملل والنحل‘ ، چھٹے باب میں علامہ ابن تیمیہ کی کتاب ’الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘ ، ساتویں باب میں علامہ ابن قیم کی کتاب ’ھدایة الحیاری فی اجوبة الیھود والنصاری‘ ، آٹھویں باب میں نامعلوم فارسی مصنف کی کتاب ’دبستان مذاہب‘، نویں باب میں سرسید احمد خاں کی کتاب ’تبیین الکلام فی تفسیر التوراة والانجیل‘ اوردسویں باب میں مولانا عنایت رسول چریاکوٹی کی کتاب ’بشری‘ کا مکمل تعارف ہے ۔
ان سات ابواب میں آپ کا طرز تحریریہ ہے کہ آپ سب سے پہلے صاحب کتاب کے مختصر حالات اورعلمی خدمات کو ذکر کرتے ہیں ، پھر کتاب لکھے جانے کا مقصد، اس کے مشمولات ،زبان ،انداز تحریر اورعوام پر اس کے اثرات کو بیا ن کرتے ہیں ۔ان میں اکثر کتابیں عیسائیت اوراسلام سے متعلق ہیں ۔
پروفیسر سعود عالم قاسمی صاحب کی اس کتاب میں ابتداءاسلام سے برطانوی عہد تک مطالعہ مذاہب کی جوروایت رہی ہے ، اس کا تذکرہ ہے ۔ بعد میں ملک وبیرون ملک انفرادی اورتعلیم گاہوں کی شکل میں مکالمہ بین المذاہب کا جو سلسلہ شروع ہوااس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ اتنی ہی باتوں سے مصنف کا مقصد( مطالعہ مذاہب کی ابتداءکی حقیقی تاریخ پیش کرنا) حاصل ہوگیا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جدید دورمیں مطالعہ مذاہب کی روایت کاذکرایک الگ موضوع ہے ،جس کیلئے مستقل ایک کتاب کی ضرورت ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ تقابل ادیان وتاریخ مذاہب پر ریسرچ وتحقیق کرنے والوں کیلئے اس کتاب کو رہنما کی حیثیت حاصل ہے ۔ اس کے ذریعہ ہم مطالعہ مذاہب کی صحیح اوردرست تاریخ سے واقف ہوکر مسلم مورخین اوراسکالرس کے علمی تحقیقات سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔اپنے موضوع پر اردومیں یہ واحد کتاب ہے جس نے علمی دنیامیں ایک نئے موضوع کا تعارف کرایا۔ ۳۰۳ صفحات کی یہ کتاب علم وتحقیق کے عظیم ادارہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ سے ۲٠۱۹ءمیں عمدہ کاغذ اوردیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع ہوئی ، جس کی قیمت ۳٠٠ روپیہ ہے۔اس کتاب کی علمی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ پروفیسر سعود عالم قاسمی صاحب کی یہ گرانقدر علمی تحقیق دارالمصنفین کے سلسلہ مطبوعات میں شامل ہے۔
اس مقدمے میں درخواست گزار کی جانب سے بنیادی طور پر یہ استدعا کی گئی تھی کہ عدالت 2018ء اور 2019ء میں نافذ کیے گئے ان دو قوانین کو دستور سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دے جن کے ذریعے سابقہ پاٹا (سوات، دیر چترال وغیرہ) اور فاٹا (وزیرستان، خیبر، کرم وغیرہ) میں پہلے سے رائج قوانین کے متعلق قرار دیا گیا کہ صوبہ خیبر پختونخوا سے انضمام کے بعد بھی ان علاقوں میں یہ قوانین نافذ رہیں گے۔ مزید یہ استدعا کی گئی تھی کہ ان قوانین کے تحت جو ذیلی قوانین ، ریگولیشنز اور قواعد وغیرہ وضع کیے گئے انھیں بھی کالعدم قرار دیا جائے۔ان ذیلی قوانین میں اہم ترین وہ ریگولیشنز تھے جنھوں نے "سول اتھارٹی کی مدد " کےلیے مسلح افواج کو بہت وسیع اختیارات دیے تھے اور جو ان علاقوں میں 2011ء سے نافذ تھے۔ اس کے علاوہ یہ خصوصی استدعا بھی کی گئی کہ مؤخر الذکر ریگولیشنز کے ذریعے ان علاقوں میں قائم کیے گئے مسلح افواج کے زیر کنٹرول قید خانوں (انٹرنمنٹ سینٹرز) کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور ان میں قید افراد کے مقدمات کی سماعت ان عدالتوں میں کی جائے جن کو ان مقدمات پر قانوناً اختیارِ سماعت حاصل ہے۔ نیز ہر ایسے قانون، قاعدے، ضابطے یا نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے جس کی رو سے ان علاقوں کے باشندوں کے ساتھ امتیاز پر مبنی سلوک کو جائز قرار دیا گیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کو اس دوران میں اندازہ ہوگیا تھا کہ عدالت ان قوانین کے خلاف فیصلہ دینے جارہی ہے تو اس نے جلدی میں 5 اگست 2019ء کو گورنر کے ذریعے ایک آرڈی نینس جاری کروایا جس کے تحت "سول اتھارٹی کی مدد" کے لیے مسلح افواج کے اختیارات کو پورے صوبے تک وسعت دے دی گئی، یعنی بجاے اس کے کہ اس ظالمانہ قانون کو ختم کردیا جاتا، انھوں نے اسے پورے صوبے پر نافذ کیا تاکہ عدالت سے کہا جائے کہ ہم ان علاقوں کے لوگوں سے امتیازی سلوک نہیں کررہے، اور ، بہ الفاظِ دیگر ، سب کے ساتھ ظلم کررہے ہیں! چنانچہ درخواست گزار نے ایک اور درخواست کے ذریعے اس آرڈی نینس کو بھی چیلنج کیا اور استدعا کی کہ اسے بھی کالعدم قرار دیا جائے۔
مزید پس منظر میں جائیں تو درخواست گزار کے بیٹے کو فورسز نے 2012ء میں تحویل میں لے لیا تھا اور اس کے بعد سے وہ مسلسل ان کی تحویل میں ہی ہے۔ درخواست گزار نے اس کی رہائی کےلیے مختلف مواقع پر دو درخواستیں دیں جن پر عدالت نے مناسب احکامات بھی جاری کیے لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں نکلا۔ چنانچہ اب کے درخواست گزار نے ان ریگولیشنز کو ہی چیلنج کرلیا جن کے تحت اس کے بیٹے کو تحویل میں لیا گیا تھا اور اس نے اپنے بیٹے کے علاوہ ان سب قیدیوں کی رہائی کی استدعا کی جن کو اسی طرح قید کیا گیا ہے۔
اس ساری کہانی میں چونکہ پچیسیوں دستوری ترمیم کا اہم کردار ہے جس کی رو سے پاٹا اور فاٹا کا صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کیا گیا ، اس لیے اس دستوری ترمیم کے چند پہلوؤں پر بھی گفتگو ضروری ہے۔
اس دستوری ترمیم کے ذریعے ، جو صدر کے دستخطوں کے بعد، 31 مئی 2018ء سے نافذ ہوئی ، دستور کی دفعہ 246 میں ترمیم کرکے پاٹا اور فاٹا کے علاقوں کو باقاعدہ طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنادیا گیا؛ نیز دستور کی دفعہ 247 کو ، جس کے تحت ان علاقوں میں خصوصی قوانین نافذ کیے گئے تھے، حذف کیا گیا ۔ گویا دستوری پوزیشن یہ ہوئی کہ پچیسویں دستوری ترمیم کے بعد ان علاقوں کو قانوناً وہی حیثیت حاصل ہوگئی جو صوبے کے دیگر علاقوں ، جیسے پشاور، مردان، صوابی، چارسدہ وغیرہ، کو حاصل ہے۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ترمیم کے مؤثر ہونے سے دو دن قبل ، 29 مئی 2018ء کو ، دستور کی دفعہ 247 کے تحت صدر کی جانب سے فاٹا میں عبوری قانونی نظام کےلیے خصوصی ریگولیشنز جاری کیے گئے ۔ اب سوال یہ تھا کہ جب دو دن بعد صدر نے پچیسویں دستوری ترمیم پر دستخط کیے اور دفعہ 247 ہی دستور سے حذف ہوگئی تو اس دفعہ کے تحت بنائے گئے ان ریگولیشنز کی کیا قانونی حیثیت باقی رہ گئی؟ ہمارے ایک نوجوان شاگرد رشید علی عظیم آفریدی نے پشاور ہائی کورٹ کے سامنے یہی سوال پیش کیا اور اس بنیاد پر ان ریگولیشنز کی دستوری و قانونی حیثیت کو چیلنج کیا۔ ہائی کورٹ نے پچھلے سال اس مقدمے کے فیصلے میں ان ریگولیشنز کے ایک بڑے حصے کو دستور سے متصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا۔ وفاقی حکومت اس کے خلاف اپیل میں سپریم کورٹ گئی جس نے جنوری 2019ء میں اپیل کا فیصلہ سنا تے ہوئے صوبائی حکومت کو بعض ہدایات جاری کیں اور ان پر عمل کےلیے چھے مہینے کا وقت دیا۔ اس دوران میں صوبائی ان ہدایات پر کیا عمل کرتی ، الٹا اس نے سابقہ فاٹا کےلیے سابقہ پاٹا کے طرز پر قانون بنایا جس کا ذکر شروع میں ہوچکا۔ پھر جب فاٹا اور پاٹا کےلیے ان قوانین کو ہائی کورٹ میں موجودہ مقدمے کے درخواست گزار نے ہمارے محبوب دوست بیرسٹر ڈاکٹر عدنان خان کے ذریعے چیلنج کیا تو حکومت نے مزید آگے جاکر گورنر کے ذریعے وہ آرڈی نینس بھی جاری کروایا جس کا ذکر اوپر گزر چکا۔ چنانچہ درخواست گزار کو اس آرڈی نینس کو بھی چیلنج کرنا پڑا۔
ہائی کورٹ کے سامنے ایک اہم سوال یہ تھا کہ جن ریگولیشنز کو وفاقی حکومت نے وضع کرکے قبائلی علاقوں میں نافذ کیا تھا، انھیں صوبے میں شامل علاقوں میں کیسے جاری رکھا جاسکتا ہے؟ یہ سوال پاکستانی دستور کی وفاقیت کے تناظر میں نہایت اہم ہے۔ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ مذکورہ ریگولیشنز کو مذکورہ صوبائی قوانین کے ذریعے تسلسل دینا قانونی لحاظ سے انتہائی غلط تھا۔
دوسرا اہم مسئلہ جس پر ہائی کورٹ نے بحث کی یہ تھا کہ سابقہ پاٹا کے لیے مذکورہ قانون جنوی 2019ء میں اور سابقہ فاٹا کےلیے مذکورہ قانون مئی 2019ء میں نافذ کیا گیا جبکہ پچیسیویں دستوری ترمیم کا نفاذ مئی 2018ء سے ہی ہوا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ مئی 2018ء سے جنوری 2019ء تک سابقہ پاٹا میں اور مئی 2019ء تک سابقہ فاٹا میں لوگوں کو فورسز اور ایجنسیوں نے کس قانون کے تحت قید کیا تھا ؟ اس قید اور دیگر فیصلوں کا قانونی جواز کیا تھا؟ ہائی کورٹ نے واضح کیا ہے کہ سرکاری وکیل کے پاس ان سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔
واضح رہے کہ یہ دونوں قوانین بھی حکومت نے تب منظور کیے جب لاپتہ افراد کے مقدمات میں یہ سوالات اٹھائے گئے تھے۔ پھر جب ان قوانین کو چیلنج کیا گیا اور چیلنج کیے جانے کا ایک سبب ان کا امتیازی ہونا بھی تھا تو حکومت اگست 2019ء میں وہ آرڈی نینس لے آئی جس کے ذریعے ان کھوکھلے قوانین کو پورے صوبے پر وسعت دی گئی! اس آرڈی نینس پر دیگر اعتراضات کے علاوہ ایک اہم اعتراض یہ اٹھا کہ اگر اس کا اجرا اس بنا پر ضروری تھا کہ مسئلہ پاکستان کے دفاع اور تحفظ کا تھا تو وفاقی فہرست میں شامل ہونے کی بنا پر اس مسئلے پر آرڈی نینس صدر کی جانب سے جاری ہونا چاہیے تھا، نہ کہ گورنر کی جانب سے۔ ہائی کورٹ نے یہ اعتراض تسلیم کیا اور قرار دیا کہ گورنر کے پاس یہ آرڈی نینس جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
سرکاری وکیل کی جانب سے بنیادی دلیل یہ تھی کہ ہائی کورٹ کو قانون کو کالعدم قرار دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہائی کورٹ نے اس ضمن میں دستور اور قانون کے بنیادی اصول واضح کرکے قرار دیا ہے کہ قانون کے متعلق عدالت کا بنیادی مفروضہ یہی ہوتا ہے کہ وہ دستور سے متصادم نہیں لیکن دو مواقع پر اس پر لازم ہے کہ وہ قانون کو کالعدم قرار دے:
ایک، اس وقت جب قانون بنانے والے ادارے کے پاس وہ قانون بنانے کا اختیار ہی نہ ہو؛ اور
دوم ، جب یہ دستور کی کسی شق ، بالخصوص جب دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق ، کی واضح خلاف ورزی ہوتی ہو۔
ہائی کورٹ نے تصریح کی کہ ان دونوں معیارات پر مذکورہ قوانین کالعدم ٹھہرتے ہیں کیونکہ ایک تو یہ قوانین وفاق کو بنانے چاہیے تھے نہ کہ صوبے کو اور دوسرے ان سے دستور میں مذکور تقریباً تمام حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
یہاں تک پہنچ کر ہائی کورٹ نے "سول اتھارٹی کی مدد" کےلیے فوج کو وسیع اختیارات دینے والے ریگولیشنز کا جائزہ لیا ہے ہم نے ان ریگولیشنز اور ان کے علاوہ "تحفظ پاکستان ایکٹ" کے متعلق بارہا مختلف فورمز پر یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ان نام نہاد قوانین کےلیے ہمیشہ سندِ جواز یہ پیش کیا جاتا رہا کہ کہ ملک میں رائج عام قوانین اور بالخصوص قانونِ شہادت کی موجودگی میں "دہشت گردوں" کو سزا نہیں دی جاسکتی اور یہ کہ اس کےلیے خصوصی قوانین کی ضرورت تھی لیکن جب یہ قوانین لائے گئےتو ان میں جرم کے متعلق شہادت یا ثبوت کے متعلق کچھ بھی نہیں تھا بلکہ سارا زور صرف اور صرف "تحویل " (custody) پر تھا اور ان قوانین کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ فورسز اور ایجنسیوں سے یہ نہ پوچھا جائے کہ کس کو کیوں اور کہاں قید رکھا گیا ہے ؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان قوانین کا جائزہ لیتے ہوئے ہائی کورٹ نے بھی سب سے پہلے یہی بات کہی ہے کہ ان میں "مقدمہ" (trial) کا کوئی تصور ہے ہی نہیں بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کو سالہاسال تک عدالت میں پیش کیے بغیر قید رکھا جائے۔ اس سے آگے ہائی کورٹ کے الفاظ انتہائی اہم ہیں اور اس لیے ہم انھیں جوں کا توں نقل کرنا پسند کریں گے:
(ہم نے لاپتہ افراد کے مقدمات میں دیکھا کہ یہ لوگ قیدیوں کو سالہا سال قید رکھتے ہیں اور اس بارے میں کبھی کوئی ریکارڈ فراہم نہیں کرتے۔ لاپتہ افراد کے مقدمات میں ، تقریباً 15 سے 20 فی صد مقدمات میں ایسا ہوتا ہے کہ قیدی اچانک عدالت کے سامنے نمودار ہوکر کہتا ہے کہ ایجنسیوں نے اسے اس شرط پر رہا کیا ہے کہ وہ کوئی معلومات نہیں دے گا۔ مقدمات کی کارروائی میں ان باتوں کو کسی حکم نامے میں ریکارڈ نہیں کیا جاتا صرف اس وجہ سے کہ ایجنسیوں کا کردار دنیا کے سامنے آشکارا نہ ہو۔ )
ہائی کورٹ نے اس زاویے سے ان قوانین پر شدید تنقید کی ہے اور انھیں نہ صرف دستور اور ضابطۂ فوجداری بلکہ آرمی ایکٹ کے بھی خلاف قرار دیا ہے اور کہا کہ ان نام نہاد انٹرنمنٹ سینٹرز میں قید لوگوں کو سالہا سال مقدمہ چلائے بغیر قید رکھا جاتا ہے ، انھیں نہ رشتہ داروں سے ملنے دیا جاتا ہے ، نہ ہی وکیل کرنے دیا جاتا ہے ، نہ ہی انھیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے خلاف الزام ہے کیا؟
اس کے بعد ہائی کورٹ نے اس امر کا جائزہ پیش کیا ہے کہ کیا واقعی یہاں افواج اس مقصد سے آئی ہیں کہ وہ سول اتھارٹی کی مدد کریں، جیسا کہ اس قانون کا عنوان بتاتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہائی کورٹ نے سب سے پہلے اس حقیقت کو ریکارڈ کیا ہے جو ہر جاننے والا جانتا ہے لیکن اس طرح ریکارڈ کا حصہ بنانے کی جرات ہر کوئی نہیں کرتا۔
ہائی کورٹ نے تصریح کی ہے کہ لاپتہ افراد کے مقدمے میں عدالت کے سامنے جواب دینے کی ذمہ داری ہوم سیکرٹری کی ہوتی ہے لیکن ہوم سیکرٹری بے چارہ خود نہیں جانتا کہ مذکور قیدی کہاں اور کس حال میں ہے؟ ! وہ اس معاملے میں چھے سات ایجنسیوں سے معلومات لینے کی کوشش کرتا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ انٹرنمنٹ سینٹرز سول انتظامیہ کے کنٹرول میں نہیں بلکہ فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ ہائی کورٹ نے مزید قرار دیا ہے کہ سول اتھارٹی کی مدد والے ریگولیشنز اور آرڈی نینس کی موجودگی میں بھی عدالت کے سامنے ان انٹرنمنٹ سینٹرز کی تفصیلات نہیں پیش کی جاتیں اور یوں فوج اور سول انتظامیہ دونوں بدنیتی کا بھی مظاہرہ کرتی ہیں اور دستور کی خلاف ورزی کی مرتکب بھی ہوتی ہیں ۔ آگے ہائی کورٹ نے ان علاقوں کے لوگوں کی حالتِ زار کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
(مختلف مقدمات میں اس عدالت کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ مذکور ریگولیشنز اور قانون کے تحفظ کا جامہ اوڑھ کر تمام سابقہ قبائلی علاقہ جات کے باشندوں کے ساتھ غیرانسانی اور غیردستوری سلوک کیا جاتا ہے، گویا وہ اس ملک کے شہری ہی نہ ہوں ۔ )
نہ صرف یہ بلکہ اس کے آگے کے الفاظ ایسے ہیں جو ان علاقوں کے رہنے والے بہت سے لوگ نجی محفلوں میں تو کہتے ہیں لیکن عدالتی فیصلے میں پہلی دفعہ وہ الفاظ ریکارڈ کا حصہ بن گئے ہیں۔ ہائی کورٹ کا کہنا ہے:
(مسلح افواج کا رویہ بالخصوص سابقہ قبائلی علاقوں میں فاتح کا سا ہوتا ہے۔ )
ہائی کورٹ نے مزید قرار دیا ہے کہ مذکورہ قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کے تحت تمام اختیارات فوج کو دیے گئے ہیں جبکہ کسی قانون کی رو سے فوج کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ سول لوگوں پر مقدمہ چلاسکے۔ یوں دیگر کئی پہلوؤں کے علاوہ اس پہلو سے بھی یہ قوانین ناجائز ٹھہرتے ہیں۔ ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ مسلح افواج کی ذمہ داری ملک کے بیرونی سرحدات کے تحفظ کے علاوہ یہ بھی ہے کہ جب ضرورت پڑے تو وہ دستور اور قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے سول اتھارٹی کی مدد کرے لیکن جس طرح ان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ غیرمعینہ مدت تک لوگوں کو قید رکھے، ان سے تفتیش کرے یا ان پر مقدمہ چلائے تو اس کی ملک کے قانونی نظام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہائی کورٹ نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ایسی کیا ایمرجنسی پیدا ہوگئی تھی کہ اس قانون کو ایک آرڈی نینس کے ذریعے جلدی میں پورے صوبے میں نافذ کیا گیا اور اس کو مقننہ کے سامنے پیش بھی نہیں کیا گیا، لیکن سرکاری وکیل سے خصوصاً یہ سوال پوچھنے کے باوجود وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکے۔
ہائی کورٹ نے اس بات کی بھی نشان دہی کی ہے کہ مذکورہ ریگولیشنز کا اجرا جون 2011ء میں کیا گیا لیکن انھیں مؤثر بہ ماضی کرکے فروری 2008ء سے نافذ کیا گیا اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 2008ء سے 2011ء تک ان کی قید میں لوگ موجود تھے جس کے لیے ان کے پاس کسی قسم کا قانونی اختیار نہیں تھا۔
ہائی کورٹ نے ایک اور اہم بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اب جبکہ یہ آرڈی نینس جاری کیا گیا ہے تو دو مہینے گزرنے کے باوجود اس آرڈی نینس کو کسی ویب سائٹ پر نہیں ڈالا گیا ، نہ ہی اس کی تشہیر کی گئی کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اس کے ذریعے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔
اس کے بعد ہائی کورٹ نے اس قانون پر بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تنقید کا بھی حوالہ دیا ہے اور یہ بھی قرار دیا ہے کہ یہ قوانین انسانی حقوق سے متعلق ان بین الاقوامی معاہدات کے بھی خلاف ہیں جن کی پاکستان نے توثیق کی ہے۔ ہم فیصلے کے اس حصے میں اختیار کیے گئے طرزِ استدلال پر تحفظات رکھتے ہیں لیکن فی الحال اس پر بحث کے بجاے فیصلے کے آخری حصے کی طرف جانا چاہیں گے جس میں عدالت نے ان قوانین کو کالعدم قرار دینے کے بعد حکومت کو بعض نہایت اہم احکامات جاری کیے ہیں۔
چنانچہ ہائی کورٹ نے ان قوانین کے خلاف درخواستیں قبول کرتے ہوئے ان تمام قوانین اور ان کے تحت بنائے گئے ذیلی قوانین، قواعد، ضوابط اور نوٹیفیکیشنز کو کالعدم قرار د یا اور اس کے بعد درج ذیل احکامات جاری کیے ہیں:
1۔ ہوم سیکرٹری کو حکم دیا گیا کہ وہ اس فیصلے کے موصول ہونے کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر تمام انٹرنمنٹ سینٹرز کو سب جیل قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کریں۔
2۔ آئی جی جیل خانہ جات کو حکم دیا گیا کہ وہ ان تمام انٹرنمنٹ سینٹرز کو سب جیل قرار دیے جانے کے بعد تین دن کے اندر ان کو اپنے کنٹرول میں لے لیں۔
3۔ آئی جی جیل خانہ جات کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ جن قیدیوں کے خلاف ابھی تک کوئی چارج نہیں لگایا گیا اور انھیں قید ہوئے 90 دن سے زائد ہوچکے ہیں، انھیں رہا کردیا جائےاور جن قیدیوں کے خلاف چارج لگایا گیا ہے انھیں قانون کے تحت اختیار رکھنے والی عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔
4۔ ہوم سیکرٹری اور آئی جی جیل خانہ جات کو یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ ان احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اگر کسی قیدی کی زندگی یا آزادی کے حق کو نقصان پہنچا تو اس کےلیے یہ دونوں ذمہ دار ہوں گے۔
5۔ ہوم سیکرٹری اور آئی جی جیل خانہ جات کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ تمام قیدیوں کی جامع فہرست تیار کرکے سات دنوں کے اندر اسے ان عدالتوں کے سامنے پیش کریں جہاں لاپتہ افراد کے مقدمات سنے جارہے ہیں۔
6۔ ہوم سیکرٹری اور آئی جی جیل خانہ جات کویہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ قیدیوں سے رشتہ داروں کی ملاقات کا بھی بندوبست کریں۔
ان احکامات سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ کےلیے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے وہاں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر ان احکامات پر عمل کےلیے زیادہ وقت دیا جائے گا تو اس دوران میں حکومت اپیل میں سپریم کورٹ جائے گی اور وہاں سے قانون کے تقاضے پورے کرنے کےلیے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ عدالت نے کم سے کم وقت دیا تاکہ حکم امتناعی کے حصول سے قبل ہی ان احکامات پر عمل لازم ہوجائے اور یوں اگر ان پر عمل نہ ہوتو ان افسران کے خلاف توہینِ عدالت کا امکان بھی ہوگا اور ان کے خلاف متاثرین کے پاس دیگر قانونی حقوق بھی میسر ہوں گے۔
اس فیصلے پر قومی سطح پر تفصیلی گفتگو اور مباحثے کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا ۔ ہم نے ٹھہرے پانیوں میں پتھر پھینک کر فرض کفائی ادا کرنے کی سعی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول کرلے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس وقار سیٹھ صاحب، مقدمے کے درخواست گزار جناب شبیر حسین گگیانی اور ان کے وکیل جناب بیرسٹر ڈاکٹر عدنان خان کو ان کی کاوشوں کا بہترین اجر دے ، اس فیصلے کو ان کے میزانِ حسنات میں قبول فرمائے، اور اسے ملک میں قانون کی حکمرانی کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔
پس نوشت: یہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ قبائلی علاقوں کا صوبے کے ساتھ انضمام درست فیصلہ تھا کیونکہ ، جیسا کہ سال بھر پہلے ہم نے لکھا تھا ، اس کی وجہ سے ہائی کورٹ کو ان علاقوں پر اختیارِ سماعت حاصل ہوگیا ہے اور اب یہ سرزمینِ بے آئین نہیں ہے۔
مسلم معاشروں سے متعلق فکری مباحث پر استشراقی اثرات | محمد عمار خان ناصر | |
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۶٠) | ڈاکٹر محی الدین غازی | |
اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ : ایک تقابلی مطالعہ (۷) | مولانا سمیع اللہ سعدی | |
نظریہ پاکستان اور قومی بیانیہ | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
عالم اسلام اور فتنہ تکفیر | مولانا ابوعمار زاہد الراشدی | |
قرآن وسنت کا باہمی تعلق ۔ اصولی مواقف کا ایک علمی جائزہ (۱۲) | محمد عمار خان ناصر | |
حریف جدیدیت کا فاؤسٹ اور تنقید کی گریچن | عاصم بخشی |
ہمارے ہاں کم وبیش تمام اہم فکری مباحث میں مغربی فکر وتہذیب اور جدیدیت کے پیدا کردہ سوالات، قابل فہم اسباب سے اور ناگزیر طور پر، گفتگو کا بنیادی حوالہ ہیں۔ اس پورے ڈسکورس میں ایک بنیادی مسئلہ ہے جس پر سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسئلے کی نوعیت بنیادی طور پر وہی ہے جس کی نشان دہی ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب ’’استشراق “ میں کی ہے، تاہم وہ مغربی علمی روایت کے تناظر میں ہے۔ ایڈورڈ سعید نے بتایا ہے کہ کس طرح استشراقی مطالعات میں مغربی تہذیب کو معیار مان کر دنیا کے باقی معاشروں کا مطالعہ کرنے کا زاویہ کارفرما ہے اور کیسے اس سارے علمی عمل کی تشکیل تہذیبی تعصبات کے تحت اور superiority کے ذہنی رویے کے زیر اثر ہوئی ہے۔ (حال ہی میں وائل حلاق نے خود ایڈورڈ سعید پر یہ دلچسپ تنقید کی ہے کہ انھوں نے غیر مغربی معاشروں اور روایتوں کی جو ایک ہمدردانہ تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، وہ بھی مغربی تہذیبی تصورات کو ہی normative ماننے پر مبنی ہے۔)
میرا احساس یہ ہے کہ جس رویے کی نشان دہی ایڈورڈ سعید نے استشراق کے حوالے سے کی ہے، ہمارے ہاں بھی وہ بدرجہ اتم موجود ہے اور زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدیدیت کے حامی اور ناقد، دونوں حلقوں کے طرز فکر میں یہ رویہ اتنی ہی گہرائی کے ساتھ سرایت کیے ہوئے ہے۔ مثلا سیاسیات میں سیکولرزم اور ادبی تنقید میں زبان سے متعلق جدید مباحث بنیادی طور پر مغربی فکر ومعاشرت کے مخصوص تاریخی تجربات سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے بہت سے اجزا یقینا مغرب کے مخصوص تاریخی تجربے سے ماورا بھی معنویت رکھتے ہیں، لیکن مجموعی حیثیت میں، ایک پیکج کے طور پر، ان کی معروضی تفہیم مغربی سیاق سے باہر نہیں ہو سکتی۔ لیکن ہمارے ہاں کے فکری مباحث میں اس فرق کو ملحوظ رکھنے بلکہ سمجھنے کی بھی کوئی خاص اہمیت محسوس نہیں کی جاتی اور غیر مغربی معاشروں کے اپنے خاص مزاج، تہذیبی پس منظر اور روایات کو ناقابل اعتنا گردانتے ہوئے مغربی فکری تصورات کو یوں منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے وہ انسانی تجربے اور تاریخ کی پیداوار نہیں، بلکہ اس سے ماورا کسی مصدر سے دریافت کیے گئے ہیں اور انسانی تجربے اور تاریخ پر حکم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جدیدیت کے ناقدین بھی غیر شعوری طور پر اسی طرز فکر کے زیر اثر دکھائی دیتے ہیں۔ مثلا مذہبی فکر میں تجدید یا توسیع کی کوششوں کو بنیادی طور پر ’’تحریک اصلاح مذہب“ کے پیراڈائم میں دیکھنا اسی کا ایک مظہر ہے جس میں اس پہلو سے کلیتا صرف نظر کر لیا جاتا ہے کہ خود اسلامی روایت میں بھی تجدید، اصلاح اور فکری توسیع کا ایک تسلسل موجود ہے اور یہ کہ مثال کے طور پر، مخصوص فقہی مذاہب کی پابندی نہ کرنے اور قرآن وسنت سے براہ استنباط کی روایت کو زندہ رکھنے کا عمل مستقل طور پر اسلامی روایت میں موجود رہا ہے۔ یوں یہاں نہ تو روایت کا کوئی monolithic تصور ہے اور نہ اس کے محافظ کے طور پر کلیسا کا کوئی ادارہ ہے جس کے خلاف ’’ریفرمیشن “ کے طریقے پر بغاوت کی ضرورت محسوس کی گئی ہو۔
جدیدیت اور سائنس نے مذہبی فکر پر یقینا گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، لیکن مذہبی رسپانس کی تفہیم کے لیے ’’ریفرمیشن “ کا پیراڈائم قطعی طور پر غیر متعلق اور ناکافی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید مذہبی تعبیرات یا قرآن وسنت کے براہ راست فہم کے ناقدین، خود یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام میں ’’اصلاح مذہب“ جیسی تحریکوں کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ یہاں کوئی چرچ موجود نہیں، لیکن پھر اگلی ہی سانس میں جدید تعبیرات کو ’’اصلاح مذہب“ سے تشبیہ دینے لگتے ہیں اور اس تضاد کو محسوس نہیں کرتے کہ جب اسلامی روایت میں وہ صورت حال ہی موجود نہیں جو ’’اصلاح مذہب“ کا جواز بن سکے تو پھر مذہبی تعبیر نو کا رجحان کیونکر مسلم معاشروں میں قبولیت عامہ حاصل کر رہا ہے؟ یہاں ایک دوسری تفہیم بعض ایسے حلقوں کی طرف سے ہمارے سامنے آتی ہے جو اس تضاد کو محسوس کرتے ہیں اور وہ اس ظاہرے کو ’’استعماری طاقت“ سے منسوب کرنے لگتے ہیں۔ یوں عدم تقلید اور تعبیر نو کے داعی تمام مفکرین استعمار کے ایجنٹ اور ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے قرار پاتے ہیں اور مرزا غلام احمد قادیانی، جمال الدین افغانی، محمد عبدہ اور شبلی وغیرہ، سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا استدلال کا منطقی تقاضا بن جاتا ہے۔ گویا اسلامی فکری روایت اب ایک ’’مردہ بدست زندہ“ ہے جس کی اپنی کوئی داخلی حرکیات نہیں ہیں اور اس کی ہر جنبش کو اسی طرح ماحول کے دباو کا اثر سمجھنا ضروری ہے جیسے نظریہ ارتقا میں حیاتیاتی آرگنزم کی ہر تبدیلی، ماحول کے تقاضوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔
وائل حلاق کا ذکر ہوا جنھوں نے اپنی تازہ کتاب Restating Orientalism: A Critique of Modern Knowledge میں ایڈورڈ سعید پر یہ تنقید کی ہے کہ وہ استشراق کے فکری مزاج کو پوری طرح سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور یہ کہ خود ایڈورڈ سعید کا کام بھی استشراقی مفروضات ہی پر مبنی اور اسی طرز فکر کا نمونہ ہے۔ حلاق کے اس دعوے کا جائزہ لینا یہاں میرا موضوع نہیں، لیکن میری رائے میں یہی تنقید خود حلاق پر بھی وارد ہوتی ہے اور ان کی سابقہ کتاب The Impossible State ایک بنیادی سطح پر مغربی ڈسکورسز ہی کو مسلمان معاشروں پر منطبق کر کے مخصوص نتائج اخذ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ حلاق اس کتاب میں ریاست کے دو ماڈلز کو ایک دوسرے کے مقابل دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ Paradigmatic Islamic Governance کی یہ اور یہ خصوصیات تھیں، جبکہ ماڈرن اسٹیٹ کی خصوصیات یہ اور یہ ہیں جو کلی طور پر معیاری اسلامی ریاست کی خصوصیات سے متصادم ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جدید ریاست کے ساتھ ’’اسلامی ریاست“ کا کوئی بامعنی تعلق بنانا، ناممکن ہے۔
حلاق کے اس استنتاج میں دو بنیادی مسئلے ہیں جن میں سے ایک، براہ راست استشراقی منہج مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ وہ ماڈرن اسٹیٹ کی خصوصیات متعین کرنے کے لیے مشل فوکو اور دریدا کی تنقیدی تھیوریز پر انحصار کرتے ہیں جنھوں نے ریاست کو، جیسا کہ وہ مغرب میں ارتقا پذیر ہوئی ہے، موضوع بنایا ہے۔ یہاں اس نکتے سے صرف نظر کر لیا جائے کہ یہ ایک پوسٹ ماڈرنسٹ تنقید ہے جو بہرحال ایک خاص مکتب فکر کی ترجمانی کرتی ہے اور اسے مغربی فکر کی کوئی uncontested self-understanding قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس تنقید کو فیس ویلیو پر درست مان لیا جائے تو بھی اس سے اسلامی ریاست کے ناممکن ہونے کا نتیجہ اخذ کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ یہ فرض کر لیا جائے کہ مسلم معاشروں میں بھی ریاست ارتقا پذیر ہو کر وہی صورت اختیار کر چکی ہے جو مغرب میں پائی جاتی ہے۔ حلاق دونوں معاشروں میں ریاست کی شکل وصورت اور واقعیت کے کھلے ہوئے فرق کو نظر انداز کر کے اور مغربی ریاست کو گویا جدید ریاست کی واحد معیاری صورت فرض کر کے یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ اسلامی ریاست کی خصوصیات اس میں کوئی جگہ نہیں پا سکتیں، اس لیے اسلامی ریاست اور جدید ریاست دو متضاد تصورات ہیں۔
ارسال کے ایک سے زیادہ معنی آتے ہیں، فیروزابادی لکھتے ہیں:
والارسالُ: التَّسلیطُ، والطلاقُ، والاِہمالُ، والتَّوجِیہُ۔ (القاموس المحیط)
راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
وقد یکون ذلک بالتّخلیۃ، وترک المنع۔ (المفردات فی غریب القرآن، ص: 353)
گویا ارسال کے معنی بھیجنے کے تو آتے ہی ہیں، آزاد کردینے، پابندی ہٹانے اور چھوڑ دینے کے بھی آتے ہیں۔
قرآن مجید میں یہ لفظ بھیجنے کے معنی میں تو بہت استعمال ہوا ہے، عام طور سے اس وقت اس کے ساتھ الی لگتا ہے، سیاق کلام سے بھی وہ مطلب واضح ہوتا ہے۔ تاہم بعض مقامات پر سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ بھیجنے کے بجائے پابندی ہٹانے اور چھوڑ دینے کا مفہوم اختیار کرنازیادہ مناسب ہے ۔ یہاں اسی حوالے سے کچھ آیتوں پر گفتگو کی جائے گی۔
ذیل کی آیتوں میں اس مطالبے کا ذکر ہے جو موسی علیہ السلام نے فرعون کے سامنے بنی اسرائیل کے تعلق سے کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ مطالبہ بنی اسرائیل کو کہیں بھیجنے کا نہیں تھا، بلکہ انہیں غلامی کے طوق سے آزاد کرنے، ان پر لگی پابندیوں کو ہٹانے، اور وہ جہاں جانا چاہیں جانے کی اجازت دینے کا تھا۔
ایک دوسرے مقام پر یہ بات دوسرے لفظوں میں کہی گئی ہے، وہاں: ان ادُّوا اِلَیَّ عِبَادَ اللَّہِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
وَلَقَدفَتَنَّا قَبلَہُم قَومَ فِرعَونَ وَجَاءہُم رَسُول کَرِیم ۔ ان ادُّوا اِلَیَّ عِبَادَ اللَّہِ اِنِّی لَکُم رَسُول امِین۔ (الدخان: 17، 18)
”ہم اِن سے پہلے فرعون کی قوم کو اِسی آزمائش میں ڈال چکے ہیں اُن کے پاس ایک نہایت شریف رسول آیا، اور اس نے کہا اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو، میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں“۔ (سید مودودی)
اس آیت میں بہت واضح طور پر موسی علیہ السلام کے مطالبے کو بیان کردیا ہے، کہ وہ بنی اسرائیل کو آزادی دینے کا تھا۔
اہل ترجمہ کے یہاں مذکورہ ذیل مقامات پر ملے جلے ترجمے ملتے ہیں۔ ایک ہی مترجم نے مختلف مقامات پر مختلف ترجمے کیے ہیں۔ بہرحال سیاق کلام صاف بتارہا ہے یہاں پر ارسال کا معنی آزادی دینے اور پابندی ہٹادینے کے ہیں، اس پر مزید یہ کہ ان مقامات پر الی نہیں ہے۔
فَارسِل مَعِیَ بَنِی اِسرَائِیلَ۔ (الاعراف: 105)
”پس بھیج دے ساتھ میرے بنی اسرائیل کو“۔ (شاہ رفیع الدین)
”لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے “۔(سید مودودی)
”سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے“ ۔(اشرف علی تھانوی)
”سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے “۔(محمد جوناگڑھی)
”تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ چھوڑ دے “۔(احمد رضا خان)
وَلَنُرسِلَنَّ مَعَکَ بَنِی اِسرَائِیلَ۔ (الاعراف: 134)
”اور البتہ بھیج دیں گے ہم ساتھ تیرے بنی اسرائیل کو“۔ (شاہ رفیع الدین)
”اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے“۔ (سید مودودی)
”اور ہم بنی اسرائیل کو بھی رہا کرکے آپ کے ہم راہ کردیں گے“۔ (اشرف علی تھانوی)
”اور بنی اسرائیل کو بھی تمہارے ساتھ جانے (کی اجازت) دیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)
فَارسِل مَعَنَا بَنِی اِسرَائِیلَ وَلَا تُعَذِّبہُم۔ (طہ: 47)
”سو بھیج دے ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو اور نہ ستا ان کو“۔ (شاہ عبدالقادر)
”تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے، ان کی سزائیں موقوف کر“۔ (محمد جوناگڑھی)
”بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے“۔ (سید مودودی)
”تو اولاد یعقوب کو ہمارے ساتھ چھوڑ دے اور انہیں تکلیف نہ دے “۔(احمد رضا خان)
ان ارسِل مَعَنَا بَنِی اِسرَائِیلَ۔ (الشعراء: 17)
”کہ بھیج دے ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو“۔ (شاہ عبدالقادر)
”کہ تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو روانہ کردے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے“۔ (سید مودودی)
”کہ تو ہما رے ساتھ بنی اسرائیل کو چھوڑ دے “۔(احمد رضا خان)
علاوہ ازیں درج ذیل آیت میں بھی ارسال بھیجنے کے معنی میں نہیں بلکہ پابندی اور رکاوٹ ہٹانے کے معنی میں ہے، کیوں کہ اس کے بالمقابل امساک یعنی روک لگانے کا ذکر ہے۔
مَا یَفتَحِ اللَّہُ لِلنَّاسِ مِن رَحمَۃ فَلَا مُمسِکَ لَہَا وَمَا یُمسِک فَلَا مُرسِلَ لَہُ مِن بَعدِہِ۔ (فاطر: 2)
”جو کچھ کھول دیوے اللہ واسطے لوگوں کے رحمت سے پس نہیں بند کرنے والا واسطے اس کے اور جو کچھ بند کر لیوے پس نہیں چھوڑ دینے والا واسطے اس کے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”اور جو روک رکھے تو کوئی نہیں اس کو بھیجنے والا“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں “۔(سید مودودی)
”اور جس کو روک دے اس کا کوئی بھیجنے والا نہیں ہے“۔ (جوادی)
”اور جو کچھ روک لے تو اس کی روک کے بعد اس کا کوئی چھوڑنے والا نہیں“۔ (احمد رضا خان)
ذرا کا ترجمہ بہت سے لوگ بہت سے مقامات پر پیدا کرنا کرتے ہیں، اور اسے خلق کا ہم معنی سمجھتے ہیں، بہت سی عربی تفسیروں سے بھی یہی خیال ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم اگر اس لفظ کا جائزہ لیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب صرف پیدا کردینا نہیں بلکہ پیدا کرکے بکھیردینا اور پھیلادینا ہے۔ ابن عطیہ لکھتے ہیں:
وذَرَا معناہ خلق وانشا وبث فی الارض۔ (المحرر الوجیز)
زمخشری لکھتے ہیں:
یَذرَوکُم یکثرکم، یقال: ذرا اللہ الخلق: بثہم وکثرہم. والذر، والذرو، والذرء: اخوات۔ (الکشاف)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
ذَرَاکُم خلقکم وبثکم بالتناسل۔ (الکشاف)
ابن عاشور لکھتے ہیں:
معنی: ذراانشا شیئا وکثرہ۔ (التحریر والتنویر)
ذرا مختلف ہے خلق سے، یہ حقیقت قرآن مجید میں دونوں لفظوں کے استعمال سے بھی ملتی ہے۔
قرآن مجید میں خلق کے ساتھ کہیں بھی فی الارض نہیں آیا ہے، جب کہ ذرا کے ساتھ زیادہ تر فی الارض آیا ہے۔ فی الارض درج ذیل تین مقامات پر بث کے ساتھ بھی آیا ہے:
وَمَا بَثَّ فِیہِمَا مِن دَابَّۃ۔ (الشوری: 29)
وَبَثَّ فِیہَا مِن کُلِّ دَابَّۃ۔ (البقرة: 164)
وَبَثَّ فِیہَا مِن کُلِّ دَابَّۃ۔ (لقمان: 10)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ خلق کے مقابلے میں ذرا زیادہ قریب بثّ سے ہے، اور بثّ کے معنی تو سب کے نزدیک پھیلانے کے ہوتے ہیں۔
بہرحال ،ذیل کے ترجموں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی مترجمین نے ملا جلا رویہ اختیار کیا ہے:
وَجَعَلُوا لِلَّہِ مِمَّا ذَرَا مِنَ الحَرثِ وَالانعَامِ نَصِیبًا۔ (الانعام: 136)
”اور کیا انہوں نے واسطے اللہ کے اس چیز سے کہ پیدا کیا ہے کھیتیوں سے اور جانوروں سے ایک حصہ“۔ (شاہ رفیع الدین)
”اور ٹھیراتے ہیں اللہ کا اس کے لیے پیدا کی کھیتی اور مواشی میں ایک حصہ“ ۔(شاہ عبدالقادر)
”اِن لوگوں نے اللہ کے لیے خود اُسی کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے“۔ (سید مودودی)
اس مقام پر سب نے پیدا کرنا ترجمہ کیا ہے، جب کہ لفظ کی رعایت کرتے ہوئے یہاں ذرا کا ترجمہ پھیلانا کیا جاسکتا ہے۔
”اِن لوگوں نے اللہ کے لیے خود اُسی کی پھیلائی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے“۔
قُل ہُوَ الَّذِی ذَرَاکُم فِی الارضِ وَاِلَیہِ تُحشَرُونَ۔ (الملک: 24)
”کہ وہ ہی ہے جن نے پھیلایا تم کو بیچ زمین کے اور طرف اسی کے اکٹھے کیے جاؤ گے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”تو کہ وہی ہے جس نے کہنڈایا تم کو زمین میں اور اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤگے “۔(شاہ عبدالقادر)
”اِن سے کہو، اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے “۔(سید مودودی)
سابقہ مقام کے برعکس یہاں سب نے پھیلانا یا اس سے قریب تر لفظ سے ترجمہ کیا ہے۔
جَعَلَ لَکُم مِن انفُسِکُم ازوَاجًا وَمِنَ الانعَامِ ازوَاجًا یَذرَوکُم فِیہِ (الشوری: 11)
”پھیلاتا ہے تم کو بیچ اسی کارخانے کے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”بکھیرتا ہے تم کو اسی طرح“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور اِس طریقہ سے وہ تمہاری نسلیں پھیلاتا ہے“ ۔(سید مودودی)
یہاں بھی سب لوگ پھیلانا یا اس سے قریب تر لفظ سے ترجمہ کرتے ہیں۔
جب کہ درج ذیل مقامات پر ملے جلے ترجمے ملتے ہیں، کبھی تو ایک ہی مترجم کے یہاں ایک جیسے دو مقامات پر الگ الگ ترجمے ملتے ہیں:
وَمَا ذَرَا لَکُم فِی الارضِ مُختَلِفًا الوَانُہُ۔ (النحل: 13)
”اور جو کچھ پھیلادیا ہے واسطے تمہارے بیچ زمین کے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”اور جو بکھیرا ہے تمہارے واسطے زمین میں“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور یہ جو بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا کر رکھی ہیں“۔ (سید مودودی)
”اور وہ جو تمہارے لیے زمین میں پیدا کیا رنگ برنگ “۔(احمد رضا خان)
”اور جو طرح طرح کے رنگوں کی چیزیں اس نے زمین میں پیدا کیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور بھی بہت سی چیزیں طرح طرح کے رنگ روپ کی اس نے تمہارے لیے زمین پر پھیلا رکھی ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
وَھُوَ الَّذِی ذَرَاکُم فِی الارضِ وَاِلَیہِ تُحشَرُونَ۔ (المومنون: 79)
”اور وہ ہے جس نے پھیلایا تم کو بیچ زمین کے اور طرف اسی کے اکھٹے کیے جاؤ گے “۔(شاہ رفیع الدین)
”اور اس نے تم کو بکھیر رکھا ہے زمین میں اور اسی کی طرف جمع ہوکر جاؤ گے“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں پیدا کیا اور اسی کی طرف تم جمع ہو کر جاؤ گے“۔ (فتح محمد جالندھری)
وَلَقَد ذَرَانَا لِجَہَنَّمَ کَثِیرًا مِنَ الجِنِّ وَالاِنسِ۔ (الاعراف: 179)
”اور البتہ تحقیق پیدا کیے ہم نے واسطے دوزخ کے بہت جنوں سے اور آدمیوں سے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”اور ہم نے پھیلا رکھے ہیں دوزخ کے واسطے بہت جن اور آدمی “۔(شاہ عبدالقادر)
”اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)
”اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے “۔(سید مودودی)
”اور بیشک ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیے بہت جن اور آدمی“۔ (احمد رضا خان)
”اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
دراصل ذرا کے اندر خلق سے زائد مفہوم پایا جاتا ہے، یعنی پیدا کرنا اور پھر زمین میں پھیل جانے کا نظم وانتظام کرنا۔زمین میں مخلوقات کا اللہ کے انتظام کے تحت پھیلنا اللہ کی قدرت کا ایک ایمان افروز مظہر ہے، جس پر غور کرنے کی طرف ذرا کا لفظ خصوصی طور سے متوجہ کرتا ہے۔ ترجمے میں اس کا اظہار کرنا ہی مناسب ہے۔
(جاری)
حدیث کو پرکھنے کے لئے اہل تشیع کے اصولی منہج میں ایک مہیب خلا کا ذکر ہوچکا ہے کہ متقدمین اہل تشیع نے حدیث کی تصحیح و تضعیف کا جو طرز اختیار کیا تھا ،جس میں رواۃ ،قواعد ِجرح و تعدیل ،سند کا اتصال و ارسال جیسے امور کی بجائے اپنے اسلاف سے منقول ذخیرہ اصل بنیاد تھا ،اور اسی منقول ذخیرے کو "صحیح "سمجھتے ہوئے اسے اپنی کتب میں نقل کیا ،(یہی طرز اہل تشیع کے اخباریوں کا تھا )جبکہ ساتویں صدی ہجری اور بعد کے اہل تشیع محدثین نے حدیث کی تصحیح و تضعیف کے سلسلے میں اہل سنت کے طرز کی پیروی اختیار کرتے ہوئے رواۃ اور ان کی جرح و تعدیل کو معیار قرار دیا ،لیکن اس جدید طرز پر اہل تشیع کی کتب اربعہ کا اکثر حصہ ضعیف ہوگیا ،جن میں خاص طور پر عقائد اور ائمہ کی عصمت و محیر العقول صلاحیتوں سے متعلق احادیث کا حصہ بھی ہے ،نقدِ حدیث کے اصولی منہج میں اہل تشیع کے متقدمین و متاخرین کے الگ الگ مناہج سے چند اہم سوال پیدا ہوتے ہیں:
پہلا سوال یہ ہے کہ اہل تشیع ان دو مناہج میں سے کس منہج کو حدیث کی تصحیح و تضعیف میں "اصل " مانتے ہیں ؟چونکہ اہل تشیع کے سنجیدہ علمی حلقوں سے سوشل میڈیا اور حقیقی دنیا میں واسطہ پڑتا رہتا ہے اور معروف شیعہ محققین کی کتب کا مطالعہ بھی وقتا فوقتا جاری رہتا ہے ،تو اس سلسلے میں اہل تشیع کا دوہرا معیار سامنے آتا ہے کہ جب کتب اربعہ یا دیگر کتب سے الزام کے طو رپر آپ اہل تشیع کے سامنے کوئی حدیث پیش کریں ،تو وہ فورا "متاخرین " کے منہج پر چلتے ہوئے اس حدیث کا ضعف ثابت کریں گے ،کیونکہ متاخرین کے طرز پر اہل تشیع کی اکثر احادیث ضعیف ہیں ،اس لئے بڑی آسانی سے اس کا ضعف ثابت ہوجاتا ہے ،لیکن جب اپنے مذہب کے مسائل و عقائد کے اثبات کا مرحلہ آتا ہے ،تو وہاں وہ متقدمین کے منہج پر چلتے ہوئے کسی بھی روایت سے بلا پرکھے بڑی آسانی سے استدلال کر جاتے ہیں ،یہاں "متاخرین " کے منہج کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ،اس دوہرے معیار کا بہترین نمونہ اہل تشیع کی ان کتب میں ملتا ہے ،جن میں شیعہ مصادر میں تحریف ِقرآن کی روایات پر رد کیا گیا ہے ،چنانچہ معاصر شیعہ محققین جیسے علامہ فتح اللہ محمدی نے اپنی کتاب "سلامۃ القرآن من التحریف" میں ،مشہور شیعہ مناظر و مولف سید مرتضی عسکری نے اپنی کتاب "القرآن فی روایات المدرستین" میں ،معروف شیعہ عالم محمد ہادی معرفہ نے "صیانۃ القرآن من التحریف" میں تحریف ِقرآن کی شیعی روایات پر "متاخرین" کے منہج کے مطابق سند و رواۃ کے اعتبار سے جرح کرتے ہوئے اکثر روایات کو ضعیف قرار دیا ،جن سے معروف شیعہ عالم مرزا حسین نوری طبرسی نے اپنی کتاب "فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب" میں تحریف َقرآن پر استدلال کیا تھا۔ لیکن یہی مصنفین پھر اسی قسم کی احادیث سے بلا نقد علی وجہ المتاخرین استدلال کرتے ہیں ، بطور ِنمونہ صرف ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا ،علامہ فتح اللہ محمدی نے اپنی ضخیم کتاب "سلامۃ القرآن میں التحریف" میں تحریف کی روایات پر صحت و ضعف کے اعتبار سے بحث کرتے ہوئے سید مرتضی عسکری کی درجہ ذیل عبارت اپنی تائید میں لائے ہیں :
یعنی تحریف کی 88 روایات تفسیر عیاشی سے ہیں ،اور تفسیر عیاشی کی روایات مرسل اور منقطع ہیں۔
لیکن جب مصحف الامام علی یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاص مصحف کے اثبات پر دلائل دیے ،تو استدلال تفسیر عیاشی کی درجہ ذیل روایت سے بھی کرتے ہیں:
بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تفسیر عیاشی میں تحریف کی 88 روایات سے اس وجہ سے تحریف ثابت نہیں ہوتی ،کہ اس تفسیر کی روایات مرسل و منقطع ہیں ،تو پھر ا سی کتاب کی ا یک روایت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مصحف خاص کو ثابت کرنے کے لئے استدلال کیونکر درست ہوگا ؟اور اس تفسیر کی روایات کو جب مرسل و منقطع کہہ کر رد کرچکے ، تو ان سے اپنے حق میں دوبارہ استدلال علم و تحقیق کی میزان میں کیسا درست ہوگا؟(ہمارا مقصد یہاں حضرت علی رضی اللہ کے مصحف کی تاریخی حیثیت پر بحث نہیں ،صرف اہل تشیع محققین کے دوہرے معیار کے لئے ایک مثال ذکر کی )
اس طرح سے بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ اہل تشیع متاخرین کے منہج کو اپنی روایات میں سے صحیح و ضعیف کی چھانٹی کرنے کی بجائے صرف اپنے مخالفین کا منہ بند رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جس شیعہ محقق نےمتاخرین کے منہج سے صحیح و ضعیف روایات کی چھانٹی کا کام لیا ،انہیں شیعہ حلقوں میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ،چنانچہ جب امام خمینی ،ابو القاسم خوئی جیسے اساطین علمائے شیعہ کے شاگرد محمد باقر بہبودی نے قواعد رجال و جرح و تعدیل کی روشنی میں الکافی کی صحیح احادیث کو الگ کیا ، اور تین جلدوں پر مشتمل صحیح الکافی لکھی ،تو ان پر شیعہ حلقوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ،یہ رد عمل صرف علمی نہیں تھا ،بلکہ معروف شیعہ عالم جعفر سبحانی کے بقول امام خمینی کے نائب شیخ حسین علی منتظری نے مصنف کو بلا کر بازار سے ان کی کتاب کے تمام نسخے تلف کرنے کا حکم دیا تھا۔2
اسی طرح معروف شیعہ محقق محمد آصف محسنی نے علامہ باقر مجلسی کی کتاب "بحار الانوار" میں سے جب معتبر روایات کی تنقیح کی ،تو بحار لانوار کی ایک سو دس جلدوں کی روایات صرف دو جلدوں میں سماگئیں ، یہ کتاب "مشرعۃ بحار الانوار" کے نام سے چھپ گئی ہے۔ تو ان پر بھی کڑی تنقیدات ہوئیں ،اور شیعہ ویب سائٹس پر انہیں "المنحرف البتری" کے القابات سے نوازا گیا۔3
کسی مسلک کے علماء کے درمیان علمی اختلافات ہوتے رہتے ہیں ،اور بسا اوقات وہ مناقشات شدت کے مرحلے میں بھی داخل ہوجاتے ہیں ،ان جیسے مناقشات سے اہلسنت کے حلقے بھی خالی نہیں ،لیکن باقر بھبودی و علامہ محسنی پر اہل تشیع کی طرف سے جو رد عمل سامنے آیا ،ان کے پیچھے دراصل یہ خوف چھپا تھا کہ اگر قواعد ِرجال پر شیعہ تراث حدیث میں سے صحیح احادیث کی چھانٹی کا عمل شروع ہوا ،تو شیعہ تراث ِحدیث پر اعتماد و یقین ہی اٹھ جائے گا اور اہل تشیع کو اپنے تراث کے اکثر حصے سے ہاتھ دھونا پڑے گا ،چنانچہ شیعہ محقق شیخ حیدر حب اللہ نے اپنی کتاب "نظریۃ السنۃ فی الفکر الامامی الشیعی" کے آخر میں باقر بہبودی اور آصف محسنی کے ساتھ اپنے مکالمے نقل کیے ہیں ،ان میں شیعہ حلقوں کی مخالفت کی وجہ یہی بتائی گئی ہے کہ اس سے شیعہ تراث حدیث ناقابل ِاعتماد بنتا ہے۔4 حالانکہ بہبودی اور آصف محسنی جیسے حضرات کا علمی جواب یہ بنتا تھا کہ شیعہ حوزات اور شیعہ علماء ان حضرات کی تحقیقات کو رجال کی کسوٹی پر کھتے اور اپنی تراث ِحدیث کی صحت کو قواعد ِرجال کی روشنی میں ثابت کرتے اور ان حضرات کی تنقیدات کا جواب دیتے ،جیسا کہ اہل سنت کے حنفی حلقوں نے معروف محدث علامہ ناصر الدین البانی کی السلسلۃ الضعیفہ و دیگر کتب کا دیا ،کہ علامہ البانی نے جن روایات کو قواعد رجال کی روشنی میں ضعیف کا موضوع قرار دیا تھا ،اہلسنت علماء نے ان میں سے بہت سی روایات کو قواعد رجال کی روشنی میں صحیح ثابت کیا ،لیکن یہ صورتحال شیعہ تراث میں جاری نہیں ہوسکتی، کیونکہ شیعہ اہل علم بھی جانتے ہیں کہ قواعد ِرجال کی روشنی میں ہماری کتب کی صورتحال یہی بنتی ہے ، کہ اکثر حصہ ضعیف ہے ،یہ بات بارہا اخباری شیعہ کہہ چکے ہیں کہ اگر قواعد رجال پر ہم اپنی تراث کو پرکھیں گے ،تو اکثر ضعیف ثابت ہوگا ،اس لئے باقر بہبودی و محسنی جیسے حضرات کا علمی رد کرنے کی بجائے انہیں دیگر طریقوں سے زباں بندی اور ان کی کتب کو غائب کرنے کی کوشش کی گئی۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شیعہ تراث ِحدیث کے بنیادی مصنفین (اصحاب کتب اربعہ ) نے اپنی کتب کے مقدمات میں یہ تصریح کر دی تھی کہ ہم نے ان کتب میں شیعہ کی معتبر روایات جمع کیں ، اور انہوں نے احادیث کی تصحیح و تضعیف کا ایک منہج بھی بنایا تھا ،تو کئی صدیوں بعد اہل تشیع متاخرین نے علم الدرایہ کے نام سے ایک الگ منہج کیوں اختیار کیا ؟
اس سوال کا جواب اہل تشیع کے اخباری علماء کے ہاں یہ ملتا ہے کہ جب شیعہ اہل علم اہلسنت کے ساتھ مناظرے کرتے تھے ،تو اہل سنت انہیں حدیث کو پرکھنے کے معیارات اور قواعد ِجرح و تعدیل کہ نہ ہونے کے طعنے دیتے تھے،اس لیے علامہ ابن حلی و ابن طاووس نے "تعییر العامہ"یعنی اہلسنت کے عار دلانے کی وجہ سے علم الدرایہ کا علم ترتیب دیا ،چنانچہ معروف اخباری شیعہ حر عاملی سند و رجال کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یعنی سند کے ذکر کا ایک فائدہ اہلسنت کے عار دلانے کو ختم کرنا ہے ،کہ اہلسنت شیعہ کو کہتے ہیں کہ ان کی حدیث میں عنعنہ (حدیث کو رواۃ سے نقل کرنا ) نہیں ہے ،بلکہ ان کے قدماء کی کتب سے منقول ہیں۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
یعنی یہ اصطلاح جدید اہلسنت کے اعتقاد و اصطلاحات کے موافق ہے ،بلکہ ان کی کتب سے ماخوذ ہے ،جیسا کہ تتبع سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے۔
جبکہ اصولی شیعہ اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں کہ بعد ِزمانہ سے ہماری اصل کتب و اصول مٹ گئیں ،جن میں یہ احادیث تھیں ، اب ہمارے پاس اپنی احادیث کو پرکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ،اس لئے ذخیرہ حدیث سے ضعیف و موضوع روایات کی چھانٹی کے لئے ان اصطلاحات کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی ،چنانچہ شیخ حیدر حب اللہ متاخرین کاادفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
شیخ حسن اور شیخ بھائی نے متاخرین کی طرف سے عذر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صحتِ حدیث کے قرائن متاخرین کے زمانے میں ضائع ہوگئے ،اور روایات کے بارے میں یقین کے شواہد مٹ گئے ،اس لئے علامہ (حلی) اور ان کے بعد آنے والے اس طریقے (سند و رجال ) پر چلے تاکہ نصوص میں (صحیح و ضعیف ) کی تمیز کی جاسکے اور قرائن کی بنیاد پر نصوص کی معرفت کا راستہ بند ہونے کے بعد ان کے ساتھ تعامل کے ذرائع کو منضبط کیا جاسکے۔
لیکن یہ وجہ محلِ نظر ہے ،اس لئے شیخ حیدر حب اللہ نے بھی "وھذ ا لتبریر غیر صحیح" کہہ کر اس کو رد کر دیا ،نیز اخباریوں نے اس پر ایک مضبوط اعتراض یہ کیا ہے کہ جب متقدمین نے قرائن کی بنیاد پر صحیح احادیث کی چھانٹی کر کے کتب اربعہ تیار کیں ،تو ان کا اعتماد اور اپنی کتب میں ان کی روایت خود حدیث کے صحیح ہونے کا مضبوط قرینہ ہے ،چنانچہ شیخ حر عاملی لکھتے ہیں :
ترجمہ :متقدمین کا ان روایات کو روایت کرنا اور ان کی صحت کی گواہی دینا خود ایک ایک کافی قرینہ ہے ،کیونکہ اب خبر واحد اپنے راوی کی ثقاہت و جلالت ِشان کی وجہ سے محفوف بالقرینہ ہوگئی ،نیز متقدمین کا اعترافِ قرائن بھی ایک قرینہ صحت ہے۔
خلاصہ یہ نکلا تو متاخرین نے احادیث کو پرکھنے کا جو نیا منہج ایجاد کیا ،جو قدمائے شیعہ کے منہج کے خلاف تھا ،اس کے ایجاد کی کوئی واضح وجہ علمائے اصول نہیں دے سکے ،اور اخباریوں کا اعتراض وزنی تھا کہ یہ طریقہ محض اہل سنت کی اتباع میں اپنا یا گیا اور ان کی کتب سے ماخوذ ہے
تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل تشیع متاخرین نے علم الدرایہ کے نام سے جو علم تیار کیا ،جو تعریفات و حدود طے کیں ،ان کا ماخذ کیا تھا؟متقدمین اہل تشیع کی کتب تو اس کا ماخذ نہیں تھیں ،کیونکہ حدیث کو پرکھنے کا منہج قدماء کا بالکل الگ تھا،لا محالہ یہی صورت بنتی ہے کہ متاخرین نے اہل سنت کے علم مصطلح الحدیث میں کچھ تبدیلیاں کر کے علم الدرایہ کے نام سے ایک فن ایجاد کیا ،جیسا کہ اخباری شیعہ کہتے ہیں۔ (اگر ماخذ کےحوالے سے تیسری کوئی صورت بنتی ہے ، تو اہل تشیع محققین ضرور مطلع فرمائیں )تو اس کے برخلاف اہل سنت کا علم المصطلح الحدیث اولین مراجع ِحدیث لکھنے والوں کے زمانے سے ہی ایک مربوط شکل اختیار کر گیا تھا ،چنانچہ امام مسلم نے اپنی کتاب کے مقدمے میں ،امام ترمذی نے اپنی کتب علل صغیر میں ،امام ابو داود و امام نسائی نے اپنی سنن میں رواۃ و روایات کے تبصروں میں ،امام طحاوی کی مشکل الاثار میں مباحث تعارض ،امام شافعی کی الرسالہ ،الغرض قدمائے اہل سنت کی کتب میں مصطلح الحدیث کے مباحث بکثرت موجود ہیں ،انہی مباحث کو بعد میں الرامھرمزی نے اپنی کتاب المحدث الفاصل میں جمع کیا ،جو تدوین کے اعتبار سے علم مصطلح الحدیث کی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے۔
چوتھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متاخرین نے علم الدرایہ کے نام سے حدیث کو پرکھنے کا جو علم ایجاد کیا ،اس کا علمی فائدہ کیا مرتب ہوا؟ علم مصطلح الحدیث سے بنیادی طور پر تین کام لئے جاتے ہیں :
1۔علم مصطلح الحدیث کی روشنی میں مجموعات حدیث مرتب کرنا ،یہ کام تو اہل تشیع نے نہیں لیا ،کیونکہ اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ پہلے ہی قدماء مرتب کر چکے تھے۔
2۔ مرتب شدہ مجموعاتِ حدیث کو پرکھنے اور ان میں صحیح و ضعیف روایات کی چھانٹی کاکام ،یہ کام بھی اہل تشیع کے حلقوں میں شجر ِ ممنوعہ ہے ،کیونکہ باقر بھبودی اور آصف محسنی جیسے حضرات نے جب علم الدرایہ کی مدد سے کتب حدیث میں صحیح و ضعیف روایات کی چھانٹی کی ،تو انہیں اہل تشیع کے روایتی حلقوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ،جیسا کہ ما قبل میں اس پر بحث ہوچکی ہے۔
3۔ فقہی روایات میں قابلِ عمل روایات کی چھان بین ،تاکہ فقہ کے دلائل و مستدلات کا ذخیرہ تیار کیا جاسکے ،یہ کام بھی اہل تشیع کے علماء پہلے کر چکے تھے، کیونکہ کتب اربعہ کے مصنفین نے حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ کو بھی مرتب کر دیا تھا ،اور فقہی مستدلات جمع کئے تھے
جب علم الدرایہ کو کسی میدان میں استعمال میں نہیں لا یاگیا ،تو اس کو مرتب کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟َیہاں بجا طور پر اخباری مکتب کی بات درست ثابت ہوتی ہے کہ علامہ حلی و ابن طاووس نے علم الدرایہ کا فن اہل سنت مناظرین کے اس اعتراض کے جواب میں مرتب کیا ،کہ اہل تشیع کے ہاں حدیث کو پرکھنے کا کوئی فن نہیں ہے۔
جبکہ اس کے برخلاف اگر اہل سنت کے علم مصلح الحدیث کو دیکھا جائے تو اس کی مدد سے مجموعاتِ حدیث بھی مرتب ہوئے (جیسا کہ اصحاب صحاح ستہ نے جمع کئے، اصحاب صحاح ِ ستہ میں سے ہر محدث نے اپنی خاص شرائط کے تحت کتاب تیار کی ،جیسا کہ شروط الائمہ الستہ کی کتب اور خود صحاح ستہ کے مقدمات اور اصحاب ِ صحا ح ستہ کے تبصروں سے واضح ہے ) اس فن کی مدد سے مجموعاتِ حدیث میں صحیح و ضعیف روایات کی چھانٹی اور کتب حدیث کی درجہ بندی بھی کی گئی ،جیسا کہ صحاح ستہ کی درجہ بندی اسی بنیاد پر کی گئی ،چنانچہ صحت میں صحیحین کو فائق قرار دیا گیا ،اس کے بعد نسائی ،پھر ابو داود، اس کے بعد جامع ترمذی اور آخر میں سنن ابن ماجہ کو قرار دیا گیا ہے ۔اور اسی فن کی مدد سے کتب حدیث سے موضوع احادیث کو الگ کیا گیا ،اسی فن کی مدد سے رواۃ کی درجہ بندی بھی کی گئی ،فقہی مستدلات بھی الگ ہوئے ، اسی فن کی مدد سے تفسیری روایات کی درجہ بندی بھی کی گئی ،الغرض تفسیر ،حدیث اور فقہ سب میادین میں اس سے کام لیا گیا ،یوں علم مصلح الحدیث کا فن بھر پور تطبیق سے گزرا اور علوم ِاسلامیہ میں اس کو خوب استعمال کیا گیا ،بلکہ تاریخی واقعات میں بھی اس سے کام لیا گیا ۔جبکہ اہل تشیع کا علم الدرایہ محض تعریفات اور خالی قواعد تک محدود ہے ،اس کی تطبیق اور اس کی مدد سے حدیثی ،تفسیری ،فقہی اور تاریخی تراث کی درجہ بندی اہل تشیع کے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے ،اگر کوئی اس کی مدد سے درجہ بندی کرتا ہے ،تو اہل تشیع کے روایتی حلقے اسے تراث کا دشمن اور مخالف گردانتے ہیں ،کما مر
اہل تشیع کی علم الدرایہ کی کتب اگر دیکھیں ،تو حدیث و رواۃ کی اقسام و انواع بیان کرتے ہوئے اکثر مثالیں اہل سنت کی روایات سے دی گئیں ہیں ،اس سے بجا طور پر اخباری مکتب کے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہے کہ اصولیین نے علم الدرایہ اہل سنت کی کتب سے اخذ کیا ہے ،نیز اس سے یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ اہل تشیع کے کتب ِ اربعہ کی روایات پر علم الدرایہ کی تطبیق نہ ہونے کے برابر ہے ، اس لئے حدیث کی اقسام سمجھانے کے لئے بھی مثالیں اہل سنت سے اخذ کرنی پڑیں ،ہم یہاں معروف معاصر شیعہ محقق جعفر سبحانی کی کتاب "اصول الحدیث و احکامہ فی علم الدرایہ" سے چند مقامات کی ایک فہرست پیش کرتے ہیں ،جن میں اہل سنت کی روایات کو مثالوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے :
1۔حدیث قدسی کی مثال دیتے ہوئے شیخ جعفر سبحانی لکھتے ہیں :
2۔تواتر لفظی کی مثال میں معروف حدیث "انما الاعمال بالنیات" پیش کی ہے ۔10
3۔ اضطراب فی السند کی مثال میں ابو داود کی حدیث "اذا صلی احدکم فلیجعل تلقاء وجھہ شیئا" پیش کی ہے اور حاشیہ میں ابو داود کا حوالہ بھی دیا ہے ۔11
4۔ حدیث مفرد کی مثال میں اہلسنت مراجع کی معروف حدیث "نحن معاشر الانبیاء لا نورث،ما ترکناہ صدقۃ" پیش کی ہے ۔12
5۔ غرابت فی ابتداء السند کی مثال میں "انما الاعمال بالنیات" پیش کی ہے ،کہ یہ ابتداء میں حضرت عمر سے مروی ہے ۔13
6۔ تصحیف فی المتن کی مثال میں معروف حدیث "من صام رمضان و اتبعہ ستا من شوال" پیش کی ہے ۔(یہی مثال کتب اہلسنت میں بھی ہے
7۔تدلیس فی الشیوخ کی مثال میں سفیان بن عیینہ کی روایات پیش کی ہیں ۔14(یہی سفیان بن عیینہ اہل سنت کی کتب مصطلح الحدیث میں تدلیس کی مثال میں پیش کئے جاتے ہیں )
8۔ موضوع حدیث کی مثال میں وہ مشہور روایت پیش کی ہے ،جو اہل سنت کی مصطلح الحدیث میں بالعموم نقل کی گئی ہے "لا سبق الا فی خف او حافر او نصل او جناح"15
9۔وجادہ کے معتبر ہونے کے لئے تدریب الراوی میں منقول حدیث نقل کی ہے ۔اور حاشیہ میں تدریب الراوی کا حوالہ دیا ہے ۔16
10۔کتبِ حدیث کی اقسام ،جامع،سنن ۔مسند ،معجم ،مستخرج ،مستدرک کے لئے کتب اہل سنت کی مثالیں دی ہیں ،اور اسی ترتیب سے دی ہیں ،جس کا ذکر اہل سنت کی کتب مصطلح الحدیث میں مذکور ہے ،جیسا کہ جامع کے لئے بخاری و ترمذی ،سنن کے لئے ابوداود و نسائی وغیرہ ،مسند کے لئے مسند امام احمد بن حنبل ،معجم کے لئے طبرانی کی معاجم ثلاثہ ،مستخرج کے لئے مستخرج ابی عوانہ اور مستدرک کے لئے مستدرک حاکم ۔17
11۔حافظ الحدیث کی تعریف مکمل طور پر تدریب الراوی سے لفظ بہ لفظ نقل کی ہے اور حاشیہ میں تدریب کا حوالہ دیا ہے ۔18
یہ چند مقامات ایک سرسری نظر ڈالنے سے ملے ،ہم نے اہل تشیع کے معاصر مصنف کی کتاب سے یہ فہرست پیش کی ہے ، جس کے سامنے علم الدرایہ کا پورا شیعی ذخیرہ تھا ، اگر متقدمین اہل تشیع کی کتب عِلم الدرایہ کا اس حیثیت جائزہ لیا جائے تو کتب اہل سنت سے امثلہ اس سے زیادہ تعداد میں ملیں گی۔
اس موقع پر بجا طور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل تشیع اور اہل سنت کا علم ِحدیث جب اول تا آخر ایک دوسرے کے مباین ہے (جیسا کہ اس سلسلے میں اس کی بہت سی وجوہات آپ پڑھ چکے ہیں ) تو اہل تشیع محققین نے علم الدرایہ میں امثلہ کے بیان کے لئے اہل سنت کی روایات و عبارات سے کیوں کام لیا؟ اس طرز کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ علم الدرایہ کے مصنفین کو کتب ِاربعہ کی روایات سے اس کی مثالیں نہیں مل سکیں یا علم الدرایہ کو کتب ِاربعہ پر منطبق نہ کرنے کی وجہ سے امثلہ کے لئے کتب ِ اہل سنت کی طرف رجوع کرنا پڑا؟ ہر دو صورتوں سے یہ بات بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ متاخرین اہل تشیع کا مرتب کردہ علم الدرایہ تطبیقی اعتبار سے ایک ناقص فن ہے، یہاں تک کہ امثلہ میں اہل سنت کے علم مصطلح الحدیث کا محتاج ہے۔
(جاری)
(’’نظریہ پاکستان اور قومی بیانیہ” کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا)
نحمدہ تبارک وتعالی ٰ ونصلی ونسلم علی ٰ رسولہ الکریم وعلی ٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین
۱۹۴۷ء میں اسلامی نظریہ اور مسلم تہذیب وثقافت کے تحفظ وفروغ کے عنوان سے جنوبی ایشیا میں ’’پاکستان” کے نام سے ایک نئی مملکت وجود میں آئی تو یہ تاریخی اعتبار سے ایک اعجوبہ سے کم نہیں تھی کہ اس خطے میں مسلم اقتدار کے خاتمہ کو ایک صدی گزر چکی تھی، جبکہ مغرب میں اسلام کے نام پر صدیوں سے چلی آنے والی خلافت عثمانیہ ربع صدی قبل اپنے وجود اور تشخص سے محروم ہو گئی تھی اور اقتدار اور حکومت وریاست کے حوالے سے مذہب کے کردار کی نفی اور خاتمہ کے دور نے ’’انقلاب فرانس” کے بعد ڈیڑھ صدی گزار لی تھی۔ اس ماحول میں اسلامی تہذیب کی بقا کے عنوان اور حکومت وریاست کے دائروں میں قرآن وسنت کی عمل داری کے عزم کے ساتھ ’’پاکستان ”دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا اور اس کی مغرب کی تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والی قیادت نے اسلام اور مسلم امہ کی ترقی واستحکام کا نعرہ لگایا تو یہ بات آسانی کے ساتھ ہضم ہونے والی نہیں تھی اور بہت سے حلقو کو ابھی تک ہضم نہیں ہو رہی، مگر پاکستان نہ صرف وجود میں آیا بلکہ اس کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ’’قرارداد مقاصد” منظور کر کے اس نئے ملک کے نظریاتی تشخص اور اسلامی تعارف کو ہمیشہ کے لیے اس کا جزو لا ینفک بنا دیا اور پھر دستور پاکستان میں اسے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان” قرار دے کر اور ریاستی وحکومتی معاملات میں ’’قرآن وسنت” کی بالادستی کو اس کی اساس کی حیثیت دے کر لامذہبیت کی طرف اس کی واپسی کے تمام دروازے بند کر دیے جس پر بہت سے عالمی حلقے مسلسل پیچ وتاب کھا رہے ہیں، مگر پاکستان کے عوام کی اسلام کے ساتھ بے لچک محبت وعقیدت اور دینی قیادتوں کی مسلسل بیداری کے باعث پاکستان کے اس تعارف وتشخص کو مجروح کرنے کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہو رہا، البتہ پاکستان کے داخلی ماحول میں اسلامی احکام وقوانین کے عملی نفاذ کو روکنے اور ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان” کی حیثیت سے اس کی عملی پیش رفت میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا کام بدستور جاری ہے اور یہ کشمکش ہر سطح پر بپا ہے جس میں ایک طرف پاکستان کے عوام اور ان کی نظریاتی قیادتیں ہیں اور دوسری طرف نوآبادیاتی دور سے ورثے میں ملنے والا سسٹم اور اس کے عالمی سرپرست ہیں جو اس گھسے پٹے نظام کو اس کی تمام تر خرابیوں اور ناکامیوں کے باوجود ہر صورت میں ملک پر مسلط رکھنے کے درپے ہیں کیونکہ اس کے سوا انھیں پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ بننے سے روکنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔
جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے، وہ متعدد بار اپنے اس فیصلے کا جمہوری انداز میں اعلان کر چکے ہیں کہ وہ نوآبادیاتی نظام سے خلاصی چاہتے ہیں اور قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے اصولوں کے دائرے میں اپنے ملک کو ایک اسلامی، جمہوری اور رفاہی ریاست کی حیثیت دینا چاہتے ہیں، مگر ان کا یہ سیاسی، جمہوری اور عوامی فیصلہ تسلیم نہیں کیا جا رہا اور اسے سبوتاژ کرنے کی کارروائیاں کسی تعطل کے بغیر جاری ہیں۔ اس کشمکش کے بیسیوں فکری، علمی، تہذیبی، سیاسی اور عملی پہلو ہیں جن پر بحث وتمحیص کا میدان گذشتہ سات عشروں سے گرم ہے اور دن بدن اس کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
راقم الحروف ۱۹۶۲ء کے دوران پاکستان کو اسلامی، جمہوری اور رفاہی ریاست کی منزل سے ہم کنار کرنے کی جدوجہد میں ایک شعوری کارکن کے طور پر شریک ہوا تھا اور اب تک بحمد اللہ تعالی ٰ اس کا حصہ ہوں اور اپنی بساط کی حد تک عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ علمی اور فکری محاذ پر بھی متحرک ہوں اور اس محنت وسعی کے مختلف پہلووں پر مسلسل لکھتا آ رہا ہوں جو مختلف رسائل وجرائد اور اخبارات میں بحمد اللہ تعالی ٰ ہزاروں کی تعداد میں بکھرے ہوئے مضامین کی صورت میں ریکارڈ کا حصہ ہیں اور اس پر مختلف علمی ودینی راہ نماوں اور اہل دانش کی طرف سے تحسین اور حوصلہ افزائی یقینا میرے لیے اعزاز کی بات ہے اور وہ بلاشبہ میرا توشہ آخرت ہے۔
آج کی ضروریات اور تقاضوں کے حوالے سے ان مضامین کا ایک جامع انتخاب میرے فرزند عزیز ڈاکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ اور رفیق محترم مولانا محمد یونس قاسمی نے بڑی عرق ریزی اور حسن اسلوب کے ساتھ مرتب کیا ہے جو ’’نظریہ پاکستان اور قومی بیانیہ” کے عنوان سے زیر نظر کتاب کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔ میں خود ایک عرصے سے اس کی ضرورت محسوس کر رہا تھا، مگر مصروفیات کے ہجوم میں اس کی کوئی عملی صورت نہیں بن رہی تھی، اس لیے یہ میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے اور میں اس پر دونوں عزیزوں کے شکریے کے ساتھ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی ٰ ان کی اس کاوش کو قبولیت سے نوازیں اور اسے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان” کی نظریاتی وتہذیبی شناخت کے تحفظ اور اسے صحیح معنوں میں ’’اسلامی جمہوریہ” بنانے کی جدوجہد میں پیش رفت کا ذریعہ بنا دیں۔ آمین یا رب العالمین
(’’کلمہ گو کی تکفیر۔ اصول وضوابط، اسباب وموانع’’ کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا)
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی ٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین
باہمی تکفیر اور قتال کا مسئلہ ہمارے دور کا ایک ایسا حساس اور سنگین مسئلہ بن گیا ہے کہ امت مسلمہ کی وحدت پارہ پارہ ہونے کے ساتھ ساتھ فکری وذہنی انتشار وخلفشار کا سبب اور اسلام دشمن قوتوں کے لیے مسلمانوں کے معاملات میں دخل اندازی کا ذریعہ بھی ثابت ہو رہا ہے۔ اس کا ایک پہلو تو علمی اور فقہی ہے اور دوسرا سماجی ومعاشرتی ہے۔ علمی وفقہی دائرہ تو زیادہ پیچیدہ نہیں ہے کہ جمہور فقہائے امت رحمہم اللہ تعالی ٰ نے اس سلسلے میں مختلف ادوار میں جو راہ نمائی کی ہے، وہ محفوظ ہے اور امت مسلمہ کی راہ نمائی کے لیے کافی ہے، جبکہ اس حوالے سے سب سے زیادہ اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ تکفیر کا مسئلہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں ہی خوارج کی صورت میں سامنے آ گیا تھا اور اس پر جمہور صحابہ کرام وتابعین عظام رضی اللہ عنہم کا مجموعی طرز عمل ہماری راہ نمائی کر رہا ہے جو اپنے استناد وثقاہت کے معاملے میں کسی اور دلیل کا محتاج نہیں ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت اور تعلیم وتربیت سے مسلسل بہرہ ور طبقہ سے بڑھ کر کوئی گروہ دلیل اور حجت کا درجہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
البتہ سماجی اور معاشرتی دائرے میں یہ مسئلہ ضرور سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے کہ یہ ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جسے مسلمانوں کو خود مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی ایک بڑی سہولت اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔ میں اس سلسلے میں مثال کے طور پر الجزائر کا ذکر کرنا چاہوں گا جہاں عباس مدنی کے اسلامک سالویشن فرنٹ نے ۸٠ فی صد ووٹ لے کر الجزائر کی حکومت ونظام سنبھالنے کا استحقاق حاصل کر لیا تھا، مگر وہاں عالمی طاقتوں کی سرپرستی اور پشت پناہی کے ساتھ عسکری مداخلت سے ایسا ماحول پیدا کر دیا جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ باہمی تکفیر اور قتال کے عنوان سے مبینہ طور پر ایک لاکھ سے زیادہ الجزائری مسلمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ایک عوامی اسلامی قوت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔ مجھے اس دور میں لندن میں قیام کے دوران الجزائر کے مسلح اسلامی گروہوں میں سے چند ایک ذمہ دار افراد کے ساتھ ملاقات وگفتگو کا موقع ملا۔ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسی ٰ منصوری کی رفاقت میں متعدد بار کوششوں کے باوجود اس مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی کہ ان حضرات کو آپس میں کسی ملاقات میں بٹھا کر گفتگو ہی کرا دی جائے۔
یہ صورت حال عالم اسلام کے دیگر حصوں میں بھی پائی جاتی ہے اور پوری ملت اسلامیہ کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے، حالانکہ تکفیر اور معاشرتی مقاطعہ وتصادم دو الگ الگ مسئلے ہیں۔ مثلا مدینہ منورہ کے جن منافقین کے بارے میں قرآن کریم نے صراحتا ’’وماھم بمومنین’’ کہا اور ان کے عقیدہ وایمان کے حوالے سے واضح طور پر فرمایا ہے کہ ’’واللہ یشھد انھم لکاذبون’’، انھیں مقاطعہ اور قتل وقتال کا سامنا نہیں کرنا پڑا، بلکہ بعض نمایاں افراد کے قتل کی اجازت طلب کرنے پر بھی بارگاہ رسالت سے اس کی اجازت نہیں ملی۔ اسی طرح مسجد ضرار تعمیر کرنے والے افراد کا جن کے نام بھی حافظ ابن کثیر کی روایت کے مطابق معلوم ومتعین تھے، قرآن کریم نے ’’کفرا وتفریقا بین المومنین وارصادا لمن حارب اللہ ورسولہ’’ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے، مگر ان کے ساتھ قتال کی نوعیت کا کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور صرف ان کے تعمیر کردہ مرکز کو گرانے اور نذر آتش کر دینے پر اکتفا کیا گیا۔ اسی لیے میری طالب علمانہ رائے میں تکفیر ایک مستقل مسئلہ ہے جبکہ کسی بھی حوالے سے اس کی زد میں آنے والے افراد اور گروہوں کے ساتھ معاشرتی طرز عمل کا مسئلہ اپنا مستقل دائرہ رکھتا ہے جس کا سماجی ومعاشرتی عوامل واسباب اور نتائج وعواقب کے حوالے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
بہرحال تکفیر وقتال کی اس نئی عالمگیر رو نے ذہنوں میں جو شکوک وشبہات پیدا کر دیے ہیں، ان کا قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں جائزہ لینے کے لیے مختلف اہل علم نے قلم اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں جمہور اہل سنت کے موقف کو دلائل کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کی ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انھی علمی مساعی میں فضیلۃ الدکتور شریف حاتم العونی حفظہ اللہ تعالی ٰ کی زیر نظر تصنیف بھی ہے جس میں انھوں نے خالصتا علمی انداز میں اہل شہادتین کی تکفیر کے اسباب اور موانع کا جائزہ لیا ہے اور قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ سلف صالحین رحمہم اللہ تعالی ٰ کی تصریحات کی روشنی میں امت کی راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ مفتی محمد بلال ابراہیم بربری صاحب نے بڑی محنت اور توجہ کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ مکمل کیا ہے اور الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ ، کتاب محل لاہور کے اشتراک کے ساتھ اس کی اشاعت کی خدمت سرانجام دے رہی ہے۔ اللہ تعالی ٰ فاضل مصنف اور مترجم کی اس محنت کو قبولیت سے نوازیں اور امت مسلمہ کی راہ نمائی کا ذریعہ بنائیں۔ آمین یا رب العالمین
شاطبی کہتے ہیں کہ تشریع میں مصالح شرعیہ کے جو تین مراتب، یعنی ضروریات، حاجیات اور تحسینیات ملحوظ ہوتے ہیں، ان تینوں کا بنیادی ڈھانچا قرآن مجید نے وضع کیا ہے، جب کہ سنت انھی کے حوالے سے کتاب اللہ کے احکام کی توضیح وتفصیل اور ان پر تفریع کرتی ہے اور سنت میں کوئی حکم اس دائرے سے باہر وارد نہیں ہوا۔ اس لحاظ سے کتاب اللہ کی حیثیت تشریع میں اصل کی ہے اور سنت اپنی تمام تر تفصیلات میں کتاب اللہ کی طرف راجع ہے۔
مثال کے طور پر ضروریات خمسہ میں سے دین کی حفاظت شریعت کا سب سے پہلا مقصد ہے۔ اس ضمن میں اسلام، ایمان اور احسان کے اصول کتاب اللہ میں اور ان کی تفصیل وتوضیح سنت میں وارد ہوئی ہے۔ اس مقصد کی تکمیل دین کی طرف دعوت دینے، معاندین سے جہاد کرنے اور دین میں واقع ہونے والے خلل کی اصلاح سے ہوتی ہے۔ ان تینوں مکملات کی اصل بھی قرآن میں موجود ہے، جب کہ کامل توضیح وتفصیل سنت میں ملتی ہے۔ جان کی حفاظت دوسرا مقصد ہے۔ اس کے لیے تناسل اور نکاح کی مشروعیت، انسانی زندگی کی بقا کے لیے خور ونوش اور دیگر تمدنی ضروریات کا اصولی ذکر قرآن میں اور تفصیلات کی وضاحت سنت میں کی گئی ہے۔ اس ضمن میں تکمیلی احکام کے طور پر زنا کی حرمت، نکاح اورطلاق کے اصول وضوابط، خور ونوش میں ذبیحہ اور شکار کے احکام اور حدود اور قصاص کی مشروعیت جیسے اصولی احکام قرآن مجید نے بیان کیے ہیں اور سنت نے ان کی تفصیلات واضح کی ہیں۔ یہی کیفیت مال، عقل، نسل ونسب اور آبرو وغیرہ کی حفاظت سے متعلق شرعی احکام میں بھی پائی جاتی ہے۔
ضروریات کے بعد حاجیات کا درجہ آتا ہے جس میں مقصود احکام شرعیہ کی پابندی میں توسع اور آسانی پیدا کرنا اور مشقت اور حرج کو رفع کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ حفظ دین کے باب میں حصول طہارت میں رخصتوں کا بیان، تیمم اور نماز قصر کرنے کی مشروعیت، دو نمازوں کو جمع کرنے اور سفر اور بیماری کی حالت میں روزہ چھوڑ دینے کی اجازت اور اسی طرح دیگر تمام عبادات کے حوالے سے بیان کی جانے والی رخصتیں اسی اصول کی مثالیں ہیں ۔ یہی نوعیت حفظ نفس کے دائرے میں اضطرار کی کیفیت میں مردار کا گوشت کھانے کی اجازت اور سدھائے ہوئے جانور کے ذریعے سے کیے جانے والے شکار کو حلال قرار دینے کی ہے۔ حفظ مال کے ضمن میں لین دین میں غرر یسیر کو جائز قرار دینا اور بیع سلم، قرض، شفعہ، مضاربت اور مساقاۃ جیسے معاملات کو روا قرار دینا بھی اسی اصول تیسیر پر مبنی ہے۔ ضروریات کی طرح حاجیات کے باب میں بھی قرآن کو اصل کی حیثیت حاصل ہے اور قرآن نے تیسیر اور رفع حرج کو شریعت کے بنیادی اصول قرار دینے کے علاوہ بہت سے معاملات میں اطلاقی سطح پر بھی رخصت اور تیسیر کے احکام بیان کیے ہیں، جب کہ سنت میں اس اصول کو تمام احکام شرعیہ کے دائرے میں اطلاق وانطباق کی سطح پر واضح کیا گیا ہے۔
شرعی مصالح کی رعایت کا تیسرا اور سب سے اعلیٰ درجہ تحسینیات کا ہے جس میں کسی بھی کام کو بہترین اور اعلیٰ ترین طریقے پر انجام دینا مقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ لباس میں زینت اختیار کرنا، انفاق کے لیے پاکیزہ ترین مال کو منتخب کرنا، روزے کی حالت میں بے جا مشقت اختیار کرنے سے بچنا، بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، مال کو کمانے اور خرچ کرنے میں غیر معمولی احتیاط سے کام لینا اور شراب وغیرہ کا استعمال مقصود نہ ہو تو بھی اس سے دور رہنا، یہ تمام تحسینیات کی مثالیں ہیں۔ اس درجے کی اصل بھی کتاب اللہ میں پائی جاتی ہے اور سنت نے اس کی تفصیلات کو شرح وبسط کے ساتھ واضح کیا ہے (الموافقات ۴/ ۲۳- ۲۷)۔
شاطبی کے الفاظ میں اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ:
’’قرآن مجید نے دنیا وآخرت کے ان مصالح کو بھی واضح کیا ہے جن کو حاصل کرنا مطلوب ہے اور ان مفاسد کو بھی جن کو دور کرنا مقصود ہے۔ یہ بات گزر چکی ہے کہ مصالح تین اقسام سے خارج نہیں ہیں۔ ایک قسم ضروریات اور ان کی تکمیل کرنے والے امور کی، دوسری قسم حاجیات اور ان کی تکمیل کرنے والے امور کی اور تیسری قسم تحسینیات اور ان کی تکمیل کرنے والے امور کی ہے۔ ’’کتاب المقاصد‘‘ میں واضح کی گئی ان تین اقسام کے علاوہ کوئی اور قسم نہیں پائی جاتی۔ اب جب ہم سنت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان امور کی تاکید وتوثیق کے علاوہ کچھ نہیں کرتی۔ چنانچہ کتاب اللہ نے ان اقسام سے متعلق اصولی احکام وضع کیے ہیں جن کی حیثیت مرجع کی ہے اور سنت کتاب اللہ کے احکام پر تفریع کرتی اور ان کی شرح ووضاحت کرتی ہے۔ چنانچہ سنت میں تمھیں کوئی حکم ایسا نہیں ملے گا جو ان اقسام کی طرف راجع نہ ہو۔‘‘
قرآن کے ساتھ سنت کے تعلق کا دوسرا نمایاں پہلو قرآن کے مجمل اور قابل تفسیر احکام کی تبیین ہے۔ شاطبی کے ہاں ’بیان مجمل‘ کی اصطلاح عام اصولیین کے مقابلے میں زیادہ وسیع مفہوم رکھتی ہے۔ جمہور اصولیین ’مجمل‘ کی تعبیر قرآن کے ایسے الفاظ یا تعبیرات کے لیے استعمال کرتے ہیں جن سے متکلم کی مراد فی نفسہٖ واضح نہ ہو اور وہ خود متکلم کی طرف سے تشریح وتوضیح کا تقاضا کرتی ہوں۔ شاطبی کے ہاں بھی اس نوع کے لیے ’مجمل‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے (الموافقات ۳/ ۶۸)۔ اس کے علاوہ شاطبی ان تمام احکام کے لیے بھی ’مجمل‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جن کا بنیادی اور اصولی پہلو تو قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس سے متعلق ضروری تفصیلات، مثلاً عمل کی کیفیات، اسباب، شروط، موانع اور لواحق وغیرہ سے تعرض نہیں کیا گیا اور ان کی وضاحت کو سنت کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
شاطبی واضح کرتے ہیں کہ احکام شرعیہ کے بیان میں قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ وہ حکم کے بنیادی اور اصولی پہلو ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہے اور اس کی تفصیلات وجزئیات سے عموماً تعرض نہیں کرتا۔ اس خاص اسلوب کی وجہ سے قرآن مجید کی مراد کو سمجھنا بہت سی توضیح وتفصیل پر منحصر ہوتا ہے جو ہمیں سنت سے ملتی ہے۔ شاطبی اس ضمن میں ان تمام احکام کو شمار کرتے ہیں جن کا اصولی حکم تو قرآن میں وارد ہوا ہے، لیکن جزوی تفصیلات کی وضاحت سنت میں کی گئی ہے،مثلاً نمازوں کے اوقات اور ادائیگی کی کیفیات سے متعلق تفصیلات، زکوٰۃ کی مقادیر اور اوقات اور نصابات کی تعیین، روزے کے تفصیلی احکام، طہارت صغریٰ وکبریٰ کی مختلف تفصیلات، حج کا تفصیلی طریقہ، ذبائح، شکار اور حلال وحرام جانوروں کے احکام کی وضاحت، نکاح وطلاق، رجوع، ظہار اور لعان سے متعلق تفصیلات، خرید وفروخت کے احکام اور جنایات میں قصاص وغیرہ کے مسائل۔ شاطبی اس سے یہ اصول اخذ کرتے ہیں کہ سنت میں وارد توضیح وتبیین کو نظر انداز کر کے صرف قرآن سے احکام کا استنباط درست طریقہ نہیں، اس لیے کہ قرآن میں احکام کے صرف اصولی اور بنیادی پہلوؤں کے ذکر کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جو تفصیل وتبیین کا تقاضا کرتا ہے (الموافقات ۳/ ۲۹۳- ۲۹۵۔ ۴/ ۲۲)۔
شاطبی مزید کہتے ہیں کہ سنت میں وارد یہ توضیحات وتفصیلات چونکہ کتاب اللہ ہی کی مراد کو واضح کرتی ہیں، اس لیے ان کی نسبت قرآن کے بجاے سنت کی طرف کرنا بھی اصولاً درست نہیں۔ لکھتے ہیں:
’’سنت کی حیثیت کتاب اللہ کے احکام کی تفسیر اور تشریح کی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے: ’’لتبین للناس ما نزل الیھم‘‘۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما‘‘ کی یہ وضاحت کر دی گئی کہ ہاتھ کو گٹے سے کاٹا جائے گا اور مسروقہ مال کو نصاب کے مساوی یا اس سے زیادہ ہونا چاہیے جسے کسی محفوظ جگہ سے چرایا گیا ہو تو دراصل یہی آیت کی مراد ہے، اور اس کے متعلق یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ یہ احکام کتاب اللہ نے نہیں، بلکہ سنت نے ثابت کیے ہیں۔ پس سنت کے، کتاب اللہ پر حاکم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرتی ہے، اس لیے جب سنت قرآن کی مراد کو واضح کردے تو (اسے نظر انداز کر کے) کتاب اللہ کے مجمل اور محتمل بیان پر مدار نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘
سنت کے قرآن کے ساتھ تعلق کی ایک اور جہت کو واضح کرتے ہوئے شاطبی لکھتے ہیں کہ بعض صورتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ قرآن مجید کسی معاملے میں حلت اور حرمت کے دائرے میں آنے والی بالکل واضح صورتوں کا ذکر تو کر دیتا ہے، لیکن دونوں دائروں کے درمیان ایسی مشتبہ صورتوں کا حکم واضح نہیں کرتا جنھیں قیاساً حلت کے دائرے میں بھی شمار کیا جا سکتا ہے اور حرمت کے دائرے میں بھی۔ چنانچہ سنت اس نوعیت کے بہت سے مسائل میں یہ واضح کر دیتی ہے کہ مشتبہ فروع کا الحاق کس جانب ہونا چاہیے۔ شاطبی نے اس نکتے کو بہت سی مثالوں سے واضح کیا ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
۱۔ قرآن مجید نے خور ونوش کے باب میں طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام قرار دیا ہے۔ ان دونوں دائروں سے تعلق رکھنے والی بہت سی چیزوں کا ذکر قرآن میں موجود ہے، تاہم ان کے علاوہ بہت سی چیزوں کو طیبات یا خبائث کے ساتھ ملحق کرنا اشتباہ کا موجب ہو سکتا تھا، چنانچہ سنت میں ان مشتبہات میں سے بعض کا حکم واضح کرتے ہوئے انھیں خبائث کے زمرے میں شمار کیا گیا، جب کہ بعض دوسری چیزوں کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا شمار طیبات میں ہوتا ہے۔ پہلی صورت کی مثال درندوں، شکاری پرندوں، گدھے اور سیہی کی حرمت بیان کرنے والی، جب کہ دوسری صورت کی مثال گوہ، سرخاب اور خرگوش وغیرہ کی حلت کو بیان کرنے والی احادیث ہیں۔
۲۔ قرآن مجید نے جانور کے ذریعے سے شکار کرنے کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر شکاری جانور سدھایا ہوا ہو اور اس نے شکار کو اپنے مالک کے لیے پکڑا ہو، یعنی اس میں سے خود کچھ نہ کھایا ہو تو وہ حلال ہے۔ اب اگر جانور سدھایا ہوا تو ہو، لیکن وہ شکار کا گوشت کھالے تو دو اصولوں میں تعارض کی وجہ سے اس کی حلت یا حرمت میں اشتباہ پیدا ہو جاتا ہے۔ سدھایا ہوا ہونے کا مقتضی یہ بنتا ہے کہ ایسا شکار حلال سمجھا جائے، لیکن اس کے، شکار کا گوشت کھا لینے کو ملحوظ رکھا جائے تو جانور کو حرام ہونا چاہیے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اشتباہ کو دور کرتے ہوئے واضح فرما دیا کہ ایسے جانور کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔
۳۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام اور نکاح اور ملک یمین کے ذریعے سے عورت سے استمتاع کو حلال قرار دیا ہے، تاہم ایسے نکاح کا حکم بیان نہیں کیا جسے غیر مشروع طریقے سے روبہ عمل کیا گیا ہو۔ سنت میں ان میں سے بعض صورتوں کا حکم واضح کیا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، مثال کے طور پر، سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کر لینے والی عورت کے متعلق فرمایا کہ اس کے نکاح کا کوئی اعتبار نہیں۔
۴۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کے شکار کو حلال قرار دیا اور خشکی کے جانوروں میں سے مردار کو حرام قرار دیا ہے۔ پہلے حکم کے عموم کا تقاضا یہ ہے کہ سمندر کا مردار بھی حلال ہو، جب کہ دوسرے حکم پر قیاس کا مقتضی یہ ہے کہ اسے حرام سمجھا جائے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے مردار کا الحاق طیبات کے ساتھ کرتے ہوئے اسے حلال قرار دیا۔
۵۔ قرآن مجید میں مردار کو حرام اور ذبح کیے ہوئے جانور کو حلال قرار دیا ہے۔ اب اگر مادہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے بچہ نکل آئے تو اس کے متعلق قطعیت سے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اسے مردار شمار کیا جائے یا مذبوح، چنانچہ سنت میں اس کا حکم واضح کرتے ہوئے یہ قرار دیا گیا کہ اس کی ماں کا ذبح کیا جانا ہی اس کی حلت کے لیے کافی ہے اور اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے (الموافقات ۴/ ۲۸- ۳۲)۔
سنت میں قرآن کی تبیین وتفصیل کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ قرآن نے جو حکم بیان کیا ہے، اس کی علت اور مناط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی توسیع کر دی جائے اور وہی حکم ایسی صورتوں کے لیے بھی ثابت کیا جائے جن کا قرآن نے ذکر نہیں کیا۔ شاطبی نے اس نوعیت کی کئی مثالیں ذکر کی ہیں جن میں سے درج ذیل بطورخاص قابل توجہ ہیں:
۱۔ قرآن مجید میں ربا کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس سے مراد عہد جاہلیت میں رائج ربا ہے جس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ قرض لینے والا اگر مقررہ مدت میں قرض واپس نہ کر سکتا تو اسے مزید مہلت دے دی جاتی تھی اور اس مہلت کے عوض میں قرض کی رقم میں اضافہ کر دیا جاتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ’وربا الجاھلیۃ موضوع‘ (جاہلیت کے سود کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے) فرما کر قرآن کے حکم کے مطابق سود کی اس صورت کو ممنوع قرار دیا۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کے علاوہ سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک کے باہمی تبادلہ میں بھی کمی بیشی اور ادھار کو ممنوع قرار دیا اور فرمایا کہ جو شخص زیادہ مقدار دے گا یا مانگے گا، وہ ربا لینے یا دینے کا مرتکب ہوگا، البتہ اگر اصناف باہم مختلف ہوں تو ان کے تبادلے میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے بشرطیکہ سودا نقد ہو۔ فقہی اصطلاح میں اس کو ’ربا الفضل‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
امام شافعی اس حکم کا قرآن مجید میں ربا کے حکم سے کوئی تعلق متعین نہیں کرتے اور اسے خرید وفروخت اور تجارت سے متعلق دیگر بہت سے احکام کی طرح ایک مستقل حکم شمار کرتے ہیں جو احادیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ فقہاے احناف کے نقطۂ نظر سے ربا الفضل قرآن مجید میں حرام قرار دیے جانے والے ’الربا‘ کے مفہوم میں اس طرح شامل ہے کہ شارع نے اس کو ’الصلاۃ‘ اور ’الزکاۃ‘ کی طرح معروف مفہوم سے نکال کر ایک نئے مفہوم میں بطور شرعی اصطلاح کے استعمال کیا ہے۔ یعنی قرآن مجید میں یہ اصطلاحات ’مجمل‘ کے طور پر وارد ہوئی ہیں جن کی تبیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔
شاطبی ربا الفضل کی ممانعت کو نہ تو قرآن کے ’الربا‘ میں شامل سمجھتے ہیں اور نہ اس سے بالکل الگ ایک مستقل حکم تصور کرتے ہیں۔ ان کی راے میں حکم میں یہ توسیع قیاس کے اصول پر کی گئی ہے۔ چونکہ جاہلیت کے معروف ربا میں کسی عوض کے بغیر قرض کی اصل رقم میں اضافہ کیا جاتا تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر قیاس کرتے ہوئے ربا الفضل کو بھی ممنوع قرار دیا (الموافقات ۴/ ۳۳- ۳۴)۔
۲۔ قرآن میں ایک ہی آدمی کے کسی عورت اور اس کی بیٹی سے نکاح کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح دو بہنوں کو بہ یک وقت ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ احادیث میں دو بہنوں کے علاوہ پھوپھی اور بھتیجی، نیز خالہ اور بھانجی کے ساتھ بہ یک وقت نکاح کو بھی اسی دائرے میں شمار کیا گیا ہے۔ احناف کے نزدیک یہ زائد ممانعت، زمانی لحاظ سے مقرون ہونے کی صورت میں تخصیص کی، جب کہ مفصول ہونے کی صورت میں نسخ کی مثال ہے، جب کہ امام شافعی زمانی اتصال یا انفصال سے قطع نظر کرتے ہوئے، حدیث کی بیان کردہ حرمت کو قرآن کی بیان کردہ فہرست کا حصہ شمار کرتے ہیں۔
شاطبی کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں قیاس کے اصول پر قرآن کے حکم میں توسیع کی ہے، یعنی جو اخلاقی خرابی ماں اور بہن کو اور اسی طرح دو بہنوں کو ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے میں پائی جاتی ہے، وہی خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی سے بہ یک وقت نکاح کرنے میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علت کی بنیاد پر حکم کو توسیع دیتے ہوئے اس صورت سے بھی منع فرمایا ہے اور اس کی علت بھی یہ کہہ کر واضح فرمائی ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو قطع رحمی کے موجب بنو گے (الموافقات ۲/ ۲۹۳، ۳۱۰۔ ۳/ ۹۳- ۹۴۔ ۴/ ۳۵)۔
۳۔ قرآن مجید میں محرمات کے بیان میں صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن کا ذکر کیا گیا ہے، جب کہ احادیث میں دیگر رضاعی رشتوں کو بھی اسی زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔ احناف کے نزدیک یہ بھی نسخ کی مثال ہے، جب کہ امام شافعی اسے قرآن کے ایک محتمل حکم کی تبیین قرار دیتے ہیں۔
شاطبی کا نقطۂ نظر یہاں امام شافعی سے ہم آہنگ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قیاس کی رو سے یہ رشتہ رضاعی ماں کے باقی متعلقین سے بھی قائم ہو سکتا ہے، تاہم عام مجتہدین اس کو توسیع دینے میں اس پہلو سے تردد محسوس کر سکتے ہیں کہ ہو سکتا ہے، یہ ایک تعبدی حکم ہو اور اسے صرف ماں اور بہن تک محدود رکھنا شارع کی منشا ہو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ رضاعت کے رشتے سے نکاح کی حرمت نہ صرف رضاعی والدہ کے دیگر متعلقین تک متعدی ہوگی، بلکہ رضاعی والدہ کا شوہر بھی اس تعلق سے باپ کا درجہ حاصل کر لے گا (الموافقات ۴/ ۳۶)۔
۴۔ اللہ تعالیٰ نے مالی لین دین کے معاملات میں گواہ مقرر کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ دو مردوں کو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ مقرر کرنا چاہیے تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مقدمات میں ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ شوافع کے نزدیک یہ قرآن پر زیادت کی مثال ہے، جب کہ احناف اسے ظاہر قرآن کے معارض ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کرتے۔
شاطبی کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ قرآن کے معارض نہیں، بلکہ قرآن کے حکم پر قیاس کا نتیجہ ہے۔ قرآن کی ہدایت سے واضح ہوتا ہے کہ عورتوں کی گواہی مردوں کی بہ نسبت کم زور گواہی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کو ’ناقصات عقل‘ کہہ کر اس کم زوری کو واضح فرمایا ہے۔ اس ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی معاملات میں حسب ضرورت کم زور گواہی بھی قابل قبول ہے اور اس پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر قیاس کرتے ہوئے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم کو بنیاد بناتے ہوئے فیصلہ فرما دیا۔ اگرچہ مدعی کی قسم اثبات دعویٰ کا ایک کم زور ذریعہ ہے، لیکن چونکہ قرآن نے ایک دوسرے کم زور ذریعے سے، یعنی عورتوں کی گواہی کو قابل قبول قرار دیا ہے، اس لیے مدعی کی قسم کو بھی اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے، اگرچہ یہ قیاس کی ایک بہت لطیف اور مخفی صورت ہے (الموافقات ۴/ ۳۸)۔
امام شافعی نے بہت سی مثالوں میں یہ واضح کیا ہے کہ سنت میں قرآن سے زائد جو حکم بیان کیا گیا ہے، اس کا ماخذ قرآن مجید میں موجود ہے اور قرآن کے اشارات سے وہ حکم مستنبط کیا جا سکتا ہے۔ شاطبی نے بھی قرآن و سنت کے باہمی تعلق کے اس پہلو کو متعدد مثالوں سے واضح کیا ہے۔
شاطبی ذکر کرتے ہیں کہ بعض مثالوں میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن میں اپنے استنباط کا ماخذ واضح فرمایا ہے۔ مثلاً آپ نے عبد اللہ بن عمر کو، جنھوں نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی، ہدایت فرمائی کہ وہ رجوع کر لیں اور پھر بیوی کے پاک ہونے کے بعد حالت طہر میں اسے طلاق دیں۔ یہ ہدایت دیتے ہوئے آپ نے قرآن مجید کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ یہ طلاق کا وہ طریقہ ہے جو اللہ نے تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا ومروہ کی سعی میں صفا سے ابتدا کی اور قرآن مجید کی آیت ’اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ‘ پڑھ کر فرمایا کہ ہم وہاں سے شروع کرتے ہیں جس کا ذکر اللہ نے پہلے کیا ہے (الموافقات ۴/ ۴۰- ۴۱)۔ اسی کی ایک مثال کے طو رپر شاطبی مدینہ کو حرم قرار دینے کے حکم کا ذکر کرتے ہیں۔ احادیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا، میں اسی طرح مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں اور اس کے حدود میں جھاڑیوں کو کاٹنے اور جانور کے شکار کو ممنوع ٹھیراتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول کرتے ہوئے اس حکم کی توثیق فرما دی (الموافقات ۴/ ۳۷)۔
اس کے علاوہ شاطبی نے متعدد ایسی مثالیں بھی ذکر کی ہیں جن میں سنت میں وارد احکام قرآن کے اشارات سے یا قرآن کے حکم پر قیاس کر کے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ چند مثالیں یہ ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس کو ،جنھیں تین طلاقیں دے دی گئی تھیں، عدت میں اپنے شوہر کے گھر میں رہنے کا حق نہیں دیا، حالاں کہ ایسی عورت قرآن کی رو سے رہایش کی حق دار ہوتی ہے۔ شاطبی کہتے ہیں کہ اس کی وجہ روایت میں یہ بیان ہوئی ہے کہ فاطمہ زبان کی تیز تھیں اور اپنے سسرال والوں کے ساتھ زبان درازی کیا کرتی تھیں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’اِلَّا٘ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَيِّنَۃٍ‘ کے تحت (یا اس پر قیاس کرتے ہوئے) فاطمہ کو کسی دوسری جگہ عدت گزارنے کے لیے کہا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سبیعہ اسلمیہ کو، جو حاملہ ہونے کی حالت میں بیوہ ہو گئی تھیں اور شوہر کی وفات کے کچھ دن کے بعد ولادت سے فارغ ہو گئیں، اجازت دے دی کہ وہ نکاح کر سکتی ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھا کہ قرآن میں چار ماہ دس دن کی عدت کا حکم غیر حاملہ کے لیے ہے، جب کہ وضع حمل کے بعد عدت کے ختم ہو جانے کی ہدایت مطلقہ اور بیوہ، دونوں طرح کی خواتین کے لیے ہے (الموافقات ۴/ ۴۰- ۴۱)۔
حدیث میں قیدیوں کو چھڑانے کی ترغیب وتاکید بیان ہوئی ہے۔ شاطبی کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی اس ہدایت سے مستنبط ہے کہ ’وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ ‘ (اگر وہ تم سے دین کے معاملے میں مدد طلب کریں تو ان کی مدد کرنا تم پر لازم ہے)۔ گویا جب ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں کے، نصرت طلب کرنے پر ان کی مدد واجب ہے تو جو مسلمان کفار کے قیدی ہوں، ان کی نصرت بدرجہ اولیٰ واجب ہونی چاہیے۔
حدیث میں مسلمان کو کافر کے قصاص میں قتل نہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ شاطبی کہتے ہیں کہ بعض علما نے اس کا ماخذ قرآن مجید کی مختلف آیات کو قرار دیا ہے، مثلاً: ’وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا‘ (اللہ تعالیٰ ہرگز کافروں کے لیے مسلمانوں کے خلاف کوئی راہ پیدا نہیں کرے گا) اور ’لَا يَسْتَوِيْ٘ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ‘ (جہنم میں جانے والے اور جنت میں جانے والے برابر نہیں ہو سکتے)۔ شاطبی کہتے ہیں کہ مذکورہ نصوص کی براہ راست دلالت تو اس مسئلے پر واضح نہیں، البتہ قیاس کے طریقے پر یہ حکم قرآن سے اس طرح اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آزاد سے آزاد کا اور غلام سے غلام کا قصاص لینے کی بات فرمائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آزاد کو غلام کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ غلامی کفر کے آثار میں سے ہے، اس لیے اس سے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان سے کافر کا قصاص نہیں لیا جائے گا (الموافقات ۴/ ۴۳- ۴۴)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ یک وقت چار سے زائد عورتیں نکاح میں رکھنے کو ممنوع قرار دیا۔ شاطبی اس ممانعت کو قرآن مجید کے ارشاد ’ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَلَّا تَعُوْلُوْا ‘ (یہ اس کے زیادہ قرین ہے کہ تم نا انصافی کے مرتکب نہ ہو) سے مستنبط قرار دیتے اور سد ذریعہ کے اصول پر مبنی تصور کرتے ہیں (الموافقات ۲/ ۲۹۳، ۳۱۰)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی کی طرح، شاطبی بھی قرآن مجید میں ’مَثْنٰي وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ‘ کے اسلوب کی دلالت کو قطعی نہیں سمجھتے اور چار سے زائد بیویوں کی ممانعت کا اصل ماخذ حدیث کو تصور کرتے ہیں۔ البتہ بعض حضرات نے ’مَثْنٰي وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ‘ کے مجموعے سے نو خواتین سے نکاح کا جواز قرآن کی نص سے ثابت کرنے کی جو کوشش کی ہے، شاطبی اسے کلام عرب کے اسالیب سے ناواقفیت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں (الموافقات ۳/ ۳۱۴)۔
یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ احادیث کو قرآن سے مستنبط کرنے کے طریقے کو اصولاً درست سمجھتے ہوئے شاطبی کا موقف یہ ہے کہ سنت میں بیان ہونے والے ہر ہر حکم کا ماخذ لفظی قرائن یا اشارات کی مدد سے قرآن میں متعین کرنے کا رجحان درست نہیں۔ شاطبی کے نزدیک یہ ایک غیر ضروری کام ہے اور ہر ہر حکم کے بارے میں یہ دعویٰ کر کے اس کو قرآن سے ثابت کرنا ناممکن ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اس طریقے کو اختیار کرنے والا چاہتا ہے کہ سنت میں مذکور ہر حکم کا اشارہ لغوی دلالت کے لحاظ سے، نہ کہ کسی دوسری جہت سے، قرآن میں تلاش کرے یا وہ اسے قرآن میں منصوص نظر آجائے۔ لیکن قرآن نصاً یا اہل عرب کے استعمالات کے لحاظ سے اشارتاً یا اس طرح کے کسی دوسرے طریقے سے (سنت کے ہر حکم پر دلالت کی) غرض کو پورا نہیں کرتا۔ اس کی بالکل سامنے کی مثال نماز، حج، زکوٰۃ، حیض ونفاس، لقطہ، مضاربت، مساقاۃ، دیت اور قسامت اور اس طرح کے دیگر بے شمار احکام ہیں۔ چنانچہ اس کا دعویٰ کرنے والا اپنے دعوے کو پورا نہیں کر سکتا، الّا یہ کہ استدلال کے ایسے پرتکلف طریقے اختیار کرے جن کو نہ تو کلام عرب قبول کرتا ہے اور نہ اس سے سلف صالحین اور علم میں رسوخ رکھنے والے علما اتفاق کرتے ہیں۔‘‘
مذکورہ عبارت میں ’من حیث وضع اللغۃ لا من جھۃ أخری‘ کی قید سے شاطبی نے یہ واضح کیا ہے کہ سنت کے احکام کو لفظی قرائن واشارات کی بنیاد پر قرآن سے اخذ کرنے کا طریقہ ہر مثال میں اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ گویا شاطبی قرآن کے حکم کو اس معنی میں سنت میں وارد تفصیلات کو متضمن نہیں سمجھتے کہ زائد تفصیلات کے اشارات لفظی قرائن کی صورت میں قرآن میں موجود ہوں۔ ان کے نزدیک متضمن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تفصیلات بھی شارع کی مراد کا حصہ ہوتی ہیں، لیکن وہ انھیں تصریحاً اصل حکم کے ساتھ بیان نہیں کرتا، بلکہ حکم کا بنیادی حصہ بیان کر کے تفصیلات کی وضاحت کو سنت کے سپرد کر دیتا ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی رہنمائی میں یا اپنے اجتہاد سے ان تفصیلات کی وضاحت فرما دیتے ہیں ۔
سابقہ سطور میں نصوص کی دلالت کے قطعی یا ظنی ہونے کے حوالے سے شاطبی کا یہ نقطۂ نظر واضح کیا جا چکا ہے کہ ان کے نزدیک انفرادی نصوص کی دلالت قطعی نہیں ہو سکتی، کیونکہ نص کی قطعی مراد طے کرنے کے لیے متعدد اور متنوع احتمالات کی نفی کرنی پڑتی ہے اور یہ سارا عمل ظن پر مبنی ہوتا ہے۔ مذکورہ احتمالات کے ضمن میں شاطبی نے دلالت عموم کا بھی ذکر کیا ہے جس سے واضح ہے کہ وہ کسی نص میں عموم کے اسلوب کو اس بات کی یقینی دلیل نہیں سمجھتے کہ متکلم کی مراد حقیقتاً بھی عموم ہی ہے۔ یوں اسلوب عموم کی دلالت کے حوالے سے شاطبی کا موقف کلیتاً امام شافعی کے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ ہے اور وہ باقاعدہ ان کا حوالہ دے کر اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔
شاطبی کہتے ہیں کہ قرآن مجید عربی زبان میں اور اہل عرب کے مخصوص اسالیب کلام میں نازل ہوا ہے اور ان میں سے ایک خاص اسلوب یہ ہے کہ اہل عرب اسلوب عموم صرف ایک ہی محل میں نہیں، بلکہ مختلف مواقع میں استعمال کرتے ہیں۔ بعض مواقع میں عام کی ظاہری دلالت واقعتاً مراد ہوتی ہے، بعض مواقع پر من وجہ عموم اور من وجہ خصوص مراد ہوتا ہے اور بعض مقامات پر عام سے صرف خاص مراد ہوتا ہے۔ شاطبی ، امام شافعی کی عبارت کا تقریباً اعادہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ سب باتیں کلام کی ابتدا سے یا درمیان سے یا آخر سے معلوم ہو جاتی ہیں۔ اہل عرب بعض دفعہ کلام کرتے ہیں تو اس کا ابتدائی حصہ آخری حصے کی یا آخری حصہ ابتدائی حصے کی وضاحت کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کے کلام میں بات کی وضاحت کبھی معنی سے ہوتی ہے اور کبھی اشارے سے۔ وہ ایک چیز کے کئی نام رکھ دیتے ہیں اور بہت سی چیزوں کے لیے ایک ہی لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں ان کے ہاں معروف ہیں اور اس میں نہ ان کو اور نہ ان کے کلام سے واقفیت رکھنے والے کسی شخص کو کوئی تردد لاحق ہوتا ہے۔ اس مسئلے میں اس نکتے کی طرف امام شافعی نے اصول فقہ پر اپنے رسالے میں متوجہ کیا ہے اور ان کے بعد آنے والے بہت سے اہل علم نے اس نکتے کو اس طرح بیان نہیں کیا۔ پس اس پر دھیان رکھنا لازم ہے۔‘‘
اس کی توضیح کرتے ہوئے شاطبی لکھتے ہیں کہ الفاظ عموم کی ایک وضع لغوی ہوتی ہے اور ایک وضع استعمالی، اور ان دونوں کی دلالت میں فرق ہوتا ہے۔ وضع لغوی کے لحاظ سے الفاظ عموم کی ممکنہ دلالت ان تمام افراد کو محیط ہوتی ہے جن کے لیے وہ لفظ وضع کیا گیا ہے، لیکن اس لفظ کو جب کوئی متکلم اپنے کلام میں استعمال کرتا ہے تو موقع کلام کے لحاظ سے اس کی ایک نئی دلالت پیدا ہوتی ہے۔ اس نئی دلالت میں متکلم کی مراد بعض دفعہ وضع لغوی میں پائے جانے والے عموم کو برقرار رکھنا ہوتا ہے اور بعض دفعہ وہ عموم کے دائرے کو اپنے پیش نظر مقصد کے لحاظ سے کچھ مصداقات تک محدود کر دیتا ہے اور عموم سے اس کی مراد وہی خاص مصداقات ہوتے ہیں۔ یوں لفظ کی وضع لغوی سے مفہوم ہونے والے عموم کی جگہ ایک نیا اور محدود عموم لے لیتا ہے جو وضع استعمالی سے پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’جو شخص میرے گھر میں داخل ہو، میں اس کا اکرام کروں گا‘‘، اس جملے میں وضع لغوی کے لحاظ سے ہر داخل ہونے والا شخص مراد ہے، لیکن موقع کلام سے ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ متکلم خود اپنے آپ کو اس عموم میں داخل نہیں سمجھتا۔ اسی اسلوب کی روشنی میں قرآن مجید کی آیات ’اَللّٰہُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ‘ اور ’وَاللّٰہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ‘ میں کسی تردد کے بغیر واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کو مراد نہیں لے رہے، بلکہ مخلوقات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اسی طرح قوم عاد پر بھیجی جانے والی آندھی کے متعلق ’تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۣ بِاَمْرِ رَبِّہَا‘ سے مراد لفظی طور پر ہر ہر چیز نہیں، بلکہ وہ چیزیں مراد ہیں جن کو تیز ہوا توڑ پھوڑ سکتی ہے، چنانچہ کوئی بھی شخص اس کا مطلب یہ نہیں سمجھتا کہ آندھی نے زمین وآسمان اور پہاڑوں اور دریاؤں کو بھی تباہ وبرباد کر دیا (الموافقات ۳/ ۲۱۴- ۲۱۶)۔
اس استدلال کی روشنی میں شاطبی کا موقف یہ ہے کہ عام اپنی دلالت میں محتمل ہوتا ہے، اس لیے جیسے سنت میں قرآن کے مجمل احکام کی تفصیل قرآن کا بیان ہوتی ہے، اسی طرح مطلق کی تقیید اور عام کی تخصیص کی نوعیت بھی بیان مراد ہی کی ہوتی ہے اور قرآن کی مراد ان توضیحات کو نظر انداز کر کے متعین نہیں کی جا سکتی۔ لکھتے ہیں:
’’سنت، جیسا کہ واضح ہو چکا ہے، مجمل کی توضیح، مطلق کی تقیید اور عموم کی تخصیص کرتی ہے اور بہت سے قرآنی الفاظ کو لغت سے سمجھ میں آنے والے ان کے ظاہری مفہوم سے نکال دیتی ہے اور اس سے تمھیں معلوم ہو جاتا ہے کہ سنت نے جو بات واضح کی ہے، قرآن کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ کی مراد وہی ہے۔‘‘
شاطبی مزید واضح کرتے ہیں کہ عام اور اس کی تخصیص کرنے والی نص اور مطلق اور اس کی تقیید کرنے والی نص کو الگ الگ شمار کرنا درست نہیں اور مجتہد کے لیے لازم ہے کہ عام اور مطلق کی دلالت صرف ایک نص سے متعین کرنے کے بجاے نصوص میں ان کی تخصیص وتقیید کے دلائل بھی تلاش کرے۔ شاطبی لکھتے ہیں:
’’اسی لیے مجتہد صرف عام نص کو لے لینے پر اقتصار نہیں کر سکتا، اسے عام کے مخصص کی اور مطلق نص کی تقیید کرنے والے نصوص کی تحقیق کرنی پڑتی ہے، کیونکہ اصل مراد دونوں کو جمع کرنے سے ہی واضح ہوتی ہے، یعنی عام (تنہا نہیں، بلکہ) اپنے خاص کے ساتھ مل کر دلیل بنتا ہے۔‘‘
البتہ شاطبی دلالت عموم کے قطعی ہونے کی ایک صورت کو ممکن مانتے ہیں جو دلائل شرعیہ کے استقرا سے پیدا ہوتی ہے۔ شاطبی کہتے ہیں کہ کسی ایک نص میں صیغۂ عموم اختیار کیا گیا ہو تو اس کی دلالت قطعی نہیں ہوتی اور اس کے مخصصات کو تلاش کرنا مجتہد پر لازم ہے، لیکن اگر کوئی عمومی اصول شریعت کے مختلف نصوص میں بار بار اور تکرار کے ساتھ بیان ہوا ہو اور استقرا سے یہ واضح ہو رہا ہو کہ شریعت میں اسے ایک عام اور کلی قاعدے کے طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے تو ایسی صورت میں اس کو ظاہری عموم پر ہی محمول کیا جائے گا اور اس کے مخصصات تلاش کرنا ضروری نہیں ہوگا۔ شاطبی نے اس کی مثال کے طور پر ’لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰي‘، ’لا ضرر ولا ضرار‘، ’من سن سنۃ حسنۃ‘ اور ’من مات مسلمًا دخل الجنۃ‘ جیسے عمومات کو پیش کیا ہے۔ شاطبی کے الفاظ یہ ہیں:
’’ہر وہ اصل جس کی تاکید بار بار وارد ہوئی ہو اور (مختلف پہلوؤں سے) اسے موکد کیا گیا ہو اور کلام کے اسالیب سے اس کی تاکید واضح ہو رہی ہو تو اسے اس کے عموم پر ہی محمول کیا جائے گا۔ لیکن اگر عموم تکرار سے وارد نہ ہو اور نہ اسے بار بار موکد کیا گیا ہو اور نہ وہ بہت سے فقہی احکام میں پھیلا ہوا ہو تو محض صیغہ عموم سے استدلال محل نظر ہوگا اور اس (کو عموم پر محمول کرنے سے پہلے) اس کے معارض یا مخصص کی تحقیق ضروری ہوگی۔ ان دونوں قسموں میں فرق اس وجہ سے ہے کہ جس عموم میں تکرار اور تاکید پائی جائے اور وہ مختلف احکام میں پھیلا ہوا ہو تو اس کا ظاہر ان تمام قرائن کے شامل ہونے کی وجہ سے ایک قاطع نص بن جاتا ہے جس میں دوسرا احتمال باقی نہیں رہتا۔ اس کے برخلاف دوسری صورت میں احتمالات موجود رہتے ہیں، اس لیے اس کی قطعی مراد طے کرنے میں توقف ضروری ہے تاآنکہ اسے دیگر نصوص پر پیش کیا جائے اور اس کے معارض دلائل کی تحقیق کر لی جائے۔‘‘
شاطبی نے عمومات میں تخصیص کی ایک دوسری صورت پر بھی کلام کیا ہے جو اپنی نوعیت میں تبیین مراد کی مذکورہ صورت سے مختلف ہے۔ شاطبی کہتے ہیں کہ شریعت میں جو احکام کلیہ بیان کیے گئے ہیں، بعض دفعہ کسی دوسرے کلی شرعی اصول کی رعایت سے ان میں تخصیص اور استثنا قائم کرنا پڑتا ہے اور یہ اصل حکم کے عموم اورکلیت کے منافی نہیں ہوتا۔ گویا خاص صورتوں کو مخصوص اسباب کے تحت حکم کلی سے مستثنیٰ یا مخصوص قرار دینا بذات خود ایک تشریعی اصول ہے اور اس کے تحت مختلف شرعی احکام میں تخصیص اور استثنا کی مثالیں نصوص میں موجود ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے شوہروں کے لیے بیویوں کو دیا گیا مال واپس لینے کو ممنوع قرار دیا ہے، لیکن ایک خاص صورت میں اس کی اجازت دی ہے جسے فقہی اصطلاح میں ’خلع‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر بیوی بدکاری کی مرتکب ہوئی ہو تو اس صورت میں بھی اس کو دیا گیا مال واپس لینے کی گنجایش دی گئی ہے (الموافقات ۱/ ۲۴۱) ۔
شاطبی سنت میں وارد بعض تخصیصات کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بصیغۂ عموم مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچوں اور عورتوں کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تخصیص ایک دوسرے شرعی اصول پر مبنی ہے (الموافقات ۱/ ۲۴۱)۔ اسی طرح قرآن مجید میں اولاد کو ماں باپ کے ترکے میں حصہ دار قرار دیا ہے۔ یہ ایک عام اور کلی شرعی حکم ہے، لیکن حدیث میں مسلمان کے کافر کا وارث بننے کی ممانعت آئی ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے شرعی اصول پر یا ایک خاص مانع کی رعایت پر ہے۔ شاطبی کہتے ہیں کہ شریعت کے ایک کلی حکم میں کسی دوسری اصل شرعی یا کسی مانع کی وجہ سے تخصیص کی جائے تو اسے ’تعارض‘ سے تعبیر کرنا درست نہیں، کیونکہ ایسی تخصیصات خود کسی دوسرے شرعی اصول کی رعایت پر مبنی ہوتی ہیں (الموافقات ۱/ ۱۴۷)۔
قرآن کے ظاہری عموم میں تخصیص کرنے والی بعض احادیث کی توجیہ شاطبی نے سد ذریعہ کے اصول پر کی ہے جو شریعت کا ایک مستقل کلی اصول ہے اور اس لحاظ سے ان کا ذکر بھی یہاں مناسب ہے۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل کے بارے میں فرمایا کہ اسے وراثت میں حصہ نہیں ملے گا اور اس کی حکمت یہ ہے کہ وراثت میں جلد حصہ پانے کے لیے مورث کو قتل کرنے کا داعیہ ختم کر دیا جائے (الموافقات ۲/ ۲۹۳، ۳۱۰)۔ شاطبی کے نقطۂ نظر سے یہ ممانعت شریعت کے ایک مستقل اور کلی اصول، یعنی سد ذریعہ کی فرع ہے اور دو جزوی نصوص کے باہمی تعلق کی نہیں، بلکہ شریعت کے ایک کلی اصول کی روشنی میں دوسرے کلی حکم کی تحدید کی مثال ہے۔
شاطبی کے نزدیک نصوص میں اس طرح کی تقییدات اور تخصیصات اگرچہ ظاہری لحاظ سے دوسرے نصوص کے حکم کو تبدیل کر رہی ہوتی ہیں اور اس پہلو سے تخصیص وتقیید اور نسخ کے مابین ایک ظاہری مشابہت پائی جاتی ہے جس کی رعایت سے صحابہ وتابعین کے کلام میں ایسی صورتوں کے لیے ’نسخ‘ کی تعبیر بکثرت استعمال کی جاتی ہے، تاہم حقیقت کے اعتبار سے تخصیص وتقیید اور نسخ دو مختلف چیزیں ہیں۔ نسخ میں کسی حکم کی حقیقی مراد میں ترمیم یا تغییر کی جاتی ہے اور ناسخ ایک نیا اور مستقل حکم ہوتا ہے، جب کہ تخصیص وتقیید میں حکم کی حقیقی مراد کو واضح کیا جاتا ہے اور تخصیص یا تقیید کوئی نیا حکم بیان نہیں کرتی، بلکہ سابقہ حکم ہی کی مراد کو واضح کرتی ہے (الموافقات ۳/ ۸۹- ۹۶)۔
اصولیین کے ایک گروہ کے نزدیک نصوص میں عموم کے اسلوب سے صرف احتمالاً نہیں، بلکہ حقیقتاً عموم مراد ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی طرف سے ایک دلیل یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ بعض روایات سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ نے بعض آیات کو ظاہری عموم پر محمول کرتے ہوئے ان کا مفہوم متعین کیا، حالاں کہ آیات کے سیاق وسباق میں اس عموم کی تخصیص کے دلائل موجود تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ ظاہری عموم کو حقیقتاً شارع کی مراد سمجھتے تھے۔ مثلاً بعض صحابہ نے ’اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْ٘ا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ‘ (وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم کی آمیزش نہیں کی) کا مطلب یہ سمجھا کہ نجات کے لیے یہ شرط ہے کہ ایمان لانے کے بعد آدمی نے کسی قسم کا کوئی گناہ نہ کیا ہو، اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر واضح کیا کہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ اسی طرح قرآن میں ’اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ‘ (بے شک، تم اور جن کی تم پوجا کرتے ہو، جہنم کا ایندھن بننے والے ہو) کی آیت نازل ہوئی تو بعض کفار نے اعتراض کیا کہ اس کی رو سے تو فرشتے اور مسیح علیہ السلام بھی (نعوذ باللہ) جہنم میں جائیں گے، کیونکہ ان کی بھی عبادت کی جاتی ہے۔ اس پر قرآن مجید میں یہ وضاحت نازل کی گئی کہ اللہ کے نیک بندوں کو جہنم سے دور رکھا جائے گا۔
شاطبی اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ان مثالوں میں آیات کے سیاق وسباق میں تخصیص کے واضح دلائل موجود ہیں۔ مثلاً ’اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْ٘ا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ‘ کی آیت سورۂ انعام میں آئی ہے جس کا مرکزی مضمون ہی شرک کی تردید اور توحید کا اثبات ہے، اس لیے پوری سورہ کے نظم، نیز مذکورہ آیت کے بالکل قریبی سیاق وسباق، دونوں کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ تاہم بعض صحابہ جو حدیث الاسلام تھے اور دین وشریعت کے فہم میں ان کی حیثیت مبتدی کی تھی، وہ اس بات کو نہ سمجھ سکے اور ان کے اشکال پیش کرنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کا اصل مفہوم ان پر واضح فرما دیا۔ اسی طرح ’اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘ میں روے سخن قریش کی طرف ہے جو فرشتوں یا مسیح علیہ السلام کی نہیں، بلکہ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے، اس لیے خطاب کے رخ سے ہی واضح ہے کہ آیت میں ان کے بتوں کا جہنم رسید کیا جانا مراد ہے۔ گویا یہاں معترضین کا اعتراض کلام کے صحیح فہم پر نہیں، بلکہ کٹ حجتی پر مبنی تھا۔ اسی نوعیت کی ایک اور مثال یہ ہے کہ مروان بن الحکم کو قرآن مجید کی آیت ’يُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ‘ (وہ اس کو پسند کرتے ہیں کہ جو کام انھوں نے نہیں کیا، اس پر بھی ان کی تعریف کی جائے، پس تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ ایسے لوگ عذاب سے بچ جائیں گے) پر یہ اشکال ہوا کہ یہ کم زوری تو ہر انسان میں پائی جاتی ہے، اس لیے کسی کے لیے عذاب سے بچنے کا امکان نہیں۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے واضح کیا کہ یہ آیت یہود کے ایک گروہ سے متعلق نازل ہوئی تھی جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوالات کے جواب میں کتمان کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے غلط معلومات بیان کیں، لیکن ان کی خواہش یہ تھی کہ سوالات کا جواب دینے پر ان کی تعریف کی جائے۔ گویا اس بات کا ایک خاص سیاق ہے اور اس میں ایک عام انسانی کم زوری کا حکم بیان نہیں کیا گیا۔
شاطبی کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ کم فہمی یا عناد کی وجہ سے اگر بعض لوگوں نے بعض آیات کے سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے الفاظ کے ظاہری عموم کو حقیقی مراد پر محمول کیا تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عربی زبان یا قرآن مجید کے اسلوب میں بھی الفاظ کا ظاہری عموم حقیقتاً مراد ہوتا ہے (الموافقات ۳/ ۲۱۷- ۲۲۳)۔
بحث کی توضیح مزید کے لیے شاطبی نے یہاں فقہاے صحابہ کے استنباطات سے ذرا مختلف نوعیت کی چند مثالیں بھی پیش کیں اور ان کی وضاحت کی ہے۔ مثال کے طور پر سیدنا عمر اپنے لباس اور کھانے پینے میں بہت تقشف سے کام لیتے تھے اور اس کے لیے قرآن کی آیت ’اَذْھَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا‘ (تم نے اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیا کی زندگی میں ہی ختم کر دیں) کا حوالہ دیتے تھے، حالاں کہ سیاق کے لحاظ سے اس آیت میں اہل ایمان کے بجاے کفار کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اسی طرح سیدنا معاویہ نے ایک حدیث سنی جس میں قیامت کے دن ریاکاری کی نیت سے شہید ہونے، تعلیم وتعلم کرنے والے اور اعمال خیر میں انفاق کرنے والے افراد کو جہنم میں ڈالے جانے کا ذکر ہے تو اس پر قرآن کی آیت پڑھی ’مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَھَا‘ (جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا طلب گار ہو)، حالاں کہ سیاق وسباق کی رو سے یہ بھی کفار سے متعلق ہے۔
شاطبی واضح کرتے ہیں کہ اس نوعیت کی مثالوں میں سلف کااستدلال دراصل نص کے ظاہری عموم سے نہیں، بلکہ معنوی پہلو سے ہوتا ہے اور وہ نص کے سیاق وسباق میں موجود تخصیص کے دلائل کے باوجود معنوی پہلو سے اس کو عموم پر محمول کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً مذکورہ مثالوں میں صحابہ نے آیات میں بیان کی گئی وعید کو عموم معنوی پر محمول کرتے ہوئے یہ سمجھا کہ اسراف اور ریاکاری جیسے رویے جس طرح اہل کفر کے لیے موجب وبال ہیں، اسی طرح اہل ایمان کے لیے بھی ہیں۔ چنانچہ اس طرح کی مثالوں کا اسلوب عموم کی بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے (الموافقات ۳/ ۲۲۴- ۲۲۸)۔
قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے مذکورہ تمام پہلوؤں کے تناظر میں شاطبی یہ قرار دیتے ہیں کہ بطور ماخذ تشریع قرآن مجید، رتبے میں سنت سے مقدم ہے۔ اس فرق مراتب کا ایک پہلو تو معیار ثبوت سے متعلق ہے، یعنی قرآن قطعی الثبو ت ہے، جب کہ سنت ظنی الثبوت ہے اور اس میں قطعیت اگر پیدا ہوتی ہے تو وہ روایات کی مجموعی قوت سے پیدا ہوتی ہے، جب کہ انفرادی روایات فی نفسہٖ ظنی ہیں۔ اس کے مقابلے میں کتاب اللہ کی الگ الگ آیات بھی قطعی الثبوت ہیں اور اس لحاظ سے کتاب اللہ کو سنت پر تقدم حاصل ہے۔
قرآن کے مقدم ہونے کا دوسرا اور اس بحث میں زیادہ اہمیت رکھنے والا پہلو یہ ہے کہ سنت کا رتبہ بیان احکام میں بھی قرآن مجید سے متاخر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سنت یا تو کتاب اللہ کے احکام کی تبیین کرتی ہے اور یا اس سے زائد کچھ احکام بیان کرتی ہے۔ اگر وہ کتاب اللہ کی تبیین کرتی ہے تو شرح کا درجہ بدیہی طور پر اصل کے بعد ہوتا ہے، کیونکہ اگر اصل ہی نہ ہو تو شرح وبیان کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی، جب کہ اس کے برعکس شرح کی غیر موجودگی، اصل کی موجودگی پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اگر سنت، کتاب اللہ سے زائد کچھ احکام بیان کرتی ہے تو اس کا اعتبار اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب کتاب اللہ میں اس کا کوئی ذکر نہ ہو، یعنی سنت کسی مستقل حکم کا ماخذ تبھی بن سکتی ہے جب قرآن نے اس سے مطلقاً کوئی تعرض نہ کیا ہو۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ سنت کا رتبہ، قرآن سے متاخر ہے (الموافقات ۴/ ۸)۔
اپنے اس موقف پر شاطبی نے بعض ممکنہ اشکالات کا بھی ذکر کیا اور ان کا جواب دیا ہے۔ مثلاً ایک اشکال یہ ہے کہ محققین کے نزدیک اگر کتاب اللہ کا حکم محتمل ہو تو اس کی تبیین میں، اور اسی طرح قرآن کے ظاہری عمومات اور اطلاقات کی تخصیص وتقیید میں سنت فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح اگر کتاب وسنت میں باہم تعارض ہو تو بھی اہل اصول کا اس میں اختلاف ہے کہ قرآن کو ترجیح دی جائے گی یا سنت کو۔ چنانچہ کتاب اللہ کو علی الاطلاق، سنت پر مقدم قرار دینے کا موقف کیونکر درست ہو سکتا ہے؟
شاطبی کے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ صورتوں میں سنت کے فیصلہ کن ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کتاب اللہ کو چھوڑ کر سنت کو اس کے مقابلے میں مقدم کیا جاتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ سنت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ کتاب اللہ ہی کی مراد کی درست وضاحت کر رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سنت، کوئی الگ حکم بیان نہیں کرتی جو قرآن سے مختلف ہو اور اسے قرآن کے مقابلے میں ترجیح حاصل ہو، بلکہ درحقیقت وہ جو بات بیان کرتی ہے، وہ کتاب اللہ ہی کی مراد ہوتی ہے اور اسے کتاب اللہ کے بجاے سنت کی طرف منسوب کرنا بہ اعتبار حقیقت درست نہیں۔ چنانچہ جیسے کوئی مفسر یا عالم کسی آیت یا حدیث کی وضاحت کرتا ہے تو ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم فلاں مفسر کی بات پر عمل کر رہے ہیں، بلکہ یہی کہتے ہیں کہ ہم اللہ یا اس کے رسول کی بات پر عمل کر رہے ہیں، اسی طرح سنت میں کتاب اللہ کے احکام کی جو بھی وضاحت کی گئی ہے، وہ دراصل کتاب اللہ ہی کے مدعا و مفہوم کا بیان ہے۔ اس لیے کتاب وسنت کے تعلق کے اس پہلو کو سنت کے مقدم ہونے سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔
جہاں تک کتاب وسنت میں تعارض کا تعلق ہے تو شاطبی کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں خبر واحد تبھی قابل قبول ہو سکتی ہے جب اس کی بنیاد خود قرآن سے ثابت شدہ کسی قطعی اصول پر ہو۔ اگر خبر واحد کسی قطعی قاعدے پر مبنی نہ ہو تو قرآن کو اس پر مقدم رکھنا لازم ہے۔ گویا تعارض کی جس صورت میں سنت کو قرآن پر ترجیح دی جاسکتی ہے، وہاں تعارض دراصل کتاب اللہ اور خبر واحد کے مابین نہیں، بلکہ خود قرآن سے ثابت دو قطعی اصولوں کے مابین ہوتا ہے اور ان میں سے ایک اصول کو دوسرے اصول پر ترجیح دی جاتی ہے۔ چنانچہ اس صورت کو بھی قرآن پر سنت کو مقدم کرنے سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا (الموافقات ۴/ ۹- ۱۱)۔
شاطبی کی اس پوری بحث کا موازنہ جمہور اصولیین کے فریم ورک سے کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ شریعت کی تفہیم میں ان کے زاویۂ نظر سے مرکزی سوال شریعت کی قطعیت کو واضح کرنا اور ظنی الثبوت نیز ظنی الدلالۃ نصوص کے مقام اور کردار کی ایسی توجیہ کرنا ہے جس سے وہ بھی ایک طرح کی قطعیت کے دائرے میں آجائیں۔ شاطبی اس کے لیے شریعت کے جزئیات وفروع کے تقابل میں کلیات واصول پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور شرعی نصوص کے استقرا کی روشنی میں یہ واضح کرتے ہیں کہ شریعت کا ان کلیات پر مبنی ہونا بالکل قطعی ہے۔ جہاں تک جزئیات وفروع کا تعلق ہے تو وہ چونکہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے انفراداً ظن کے دائرے سے باہر نہیں جا سکتیں، اس لیے ان کا کسی اصل کلی سے متعلق ہونا ضروری ہے۔ یوں ایک جہت سے ظنی ہونے کے باوجود ایک دوسری جہت سے ان فروع کو بھی ایک نوعیت کی قطعیت حاصل ہو جاتی ہے۔ شاطبی قرآن اور سنت کے باہمی تعلق کے سوال کو بھی اس بنیادی مقدمے کی روشنی میں حل کرتے ہیں اور یہ قرار دیتے ہیں کہ شریعت کے کلیات کی تبیین وتوضیح میں بنیادی کردار قرآن مجید کا ہے، اس لیے شریعت کے اصل اور اساسی ماخذ کی حیثیت قرآن ہی کو حاصل ہے۔ سنت، قرآن کی فرع کے طور پر تشریع کے عمل میں شریک ہوتی ہے اور مختلف جہتوں سے قرآن کے وضع کردہ تشریعی ڈھانچے کی تکمیل کرتی اور اس کی جزئیات وفروع کو واضح کرتی ہے۔ جمہور اصولیین کی طرح شاطبی نے بھی مجملات کی توضیح، عمومات کی تخصیص اور علت کی بنیاد پر حکم کی توسیع جیسی بحثوں سے تعرض کیا اور سنت کے، قرآن کے ساتھ متعلق ہونے کی ان صورتوں پر کلام کیا ہے، تاہم ان کے اصولی فریم ورک میں یہ بحثیں ثانوی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کا مرکزی اور بنیادی سوال کلیات کی سطح پر شریعت کی قطعیت کو واضح کرنا اور ظنی نصوص سے ثابت ہونے والی فروع وجزئیات کے، ان کلیات کے ساتھ تعلق کو واضح کرنا ہے۔ اس لحاظ سے عملی نتائج میں کوئی خاص فرق نہ ہونے کے باوجود اصولی اور نظریاتی حیثیت سے شاطبی نے اس بحث کی تفہیم کا جو فریم ورک پیش کیا ہے، وہ اصول فقہ کی روایت میں بالکل منفرد حیثیت رکھتاہے۔
(جاری)
گوئٹے کا المیہ ناٹک فاؤسٹ1 یوں تو بہت سے دل گرفتہ مناظر کی بُنت سے تخلیق کیا گیا ہے، لیکن گریچن کا قصہ یقیناً اس کا سب سے الم ناک منظر ہے۔ گریچن ایک ایسا معصوم، مخلص اور دلچسپ کردار ہےجو ایک چھوٹی سی محفوظ اور بند مذہبی دنیا سے نمودار ہوتا ہے۔ یہ وہی ننھی سی دنیا ہے جس میں کبھی فاؤسٹ پلا بڑھا تھا لیکن وہ کب کا اسے کھو بیٹھا ہے۔اب وہ اس کا رخ محض ایک ایسے ناظر کی حیثیت سے کرتا ہے جسے اس پر تبصرہ و تنقید مقصود ہے۔ گریچن کی کہانی بنیادی طور پر لاحاصل محبت کے کرب کی کہانی ہے۔اس کا نسوانی حسن دراصل اس روایتی دنیا کا علامتی حسن ہے جس کی بچگانہ معصومیت فاؤسٹ کے لیے بہت جذباتی کشش رکھتی ہے۔وہ میفسٹو سے لیے گئے جواہرات کے تحفے گریچن پر نچھاور کرنا چاہتا ہے ۔اسے اپنی دنیا کی جانب کھینچنا چاہتا ہے۔گریچن کے اندر ایک کشمکش برپا ہے جس کا منبع ان تبدیلیوں کے امکانات ہیں جو اپنی ننھی سی روایتی دنیا کو چھوڑ کر فاؤسٹ کی نئی دنیا میں ہجرت سے عبارت ہیں۔وہ اپنی معصومیت اور سادہ لوحی پر ماتم کناں ہے۔اپنی داخلی بغاوت پراسے ایک جذباتی شرمساری کا سامنا ہے۔ اپنے دردناک انجام سے قبل آخری منظر میں گریچن ایک زنداں میں قید ہے۔ فاؤسٹ اسے اپنے ساتھ فرار پر آمادہ کرتا ہے تو وہ اسے اس کے سرد لہجے کی دہائی دیتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا۔یہ بات کافی حد تک سچ ہے کیوں کہ تجربہ وعمل کی اقلیم کا مسلسل مسافر ہونے کے ناطے فاؤسٹ کے لیے گریچن کو ساتھ گھسیٹتے رہنا ممکن نہیں۔گریچن وہیں پڑی پڑی بالآخر جان دے دیتی ہے۔
کیا مدرسہ ڈسکورسز کا فاؤسٹ اپنی روح کا سودا کر چکا ہے؟
اس منصوبے سے عملی تعلق نہ رکھنے کے باعث راقم اس منصوبے کے خدوخال اور اغراض ومقاصد کے بارے میں کوئی واضح اور حتمی رائے رکھنے سے قاصر ہے۔لہٰذا اس سوال کا جواب ان دستاویزات کی روشنی میں نظری طور پر ہی دیا جا سکتا ہے جو اس منصوبے سے منسلک دستی کتابچوں، بلاگز، مضامین اور عملی سرگرمیوں کی رپورتاژ کے ذریعے عوام کو دستیاب ہیں۔ ان معلومات کی روشنی میں دیکھا جائے توماہنامہ الشریعہ کے سابقہ شمارے میں قبلہ محمد دین جوہر صاحب کی تنقیدی کاوش اپنے اندر گریچن کی سی معصومانہ لیکن اذیت ناک خودمسماری رکھتی ہے۔ ایک ایسے یک رخی تنقیدی دھارے کا حصہ ہوتے ہوئے جو مسلسل تکرار کے باعث اب خود ایک مستقل صنف بننے کے قریب ہے، اس خودمسمار تنقیدی روایت کی سب سے دلچسپ جہت سماجی تھیوری میں’روایت‘،’تاریخیت‘ اور ’جدیدیت‘ جیسے مقولات کی دستیاب تعریفات میں سے پہلے تو من پسند چناؤ اور پھران چنیدہ تعریفات کو مقبول و معروف کہنے پر اصرار ہے۔ دراصل یہ ایک جانا مانا علتی سلسلہ ہے جس کے ذریعے چنیدہ تعریفات پھیل کر پہلے تو دوسری تمام تعریفات پر حاوی ہوتی ہیں او رپھر انہیں حاشیوں پر بھی جگہ دینے پر راضی نہیں ہوتیں۔یہ کم و بیش اسی قسم کا انتخابی تعصب (ٰselective bias) ہے جس کی معکوس صورت ہمیں کلاسیکی استشراقی منہجِ تنقید میں نظر آتی ہے۔ لہٰذا ہماری رائے میں جینیاتی اعتبار سے جوہر صاحب حریف جدیدیتوں کو جس استشراقی روایتِ فکر کا حصہ بتلا رہے ہیں ، طریقیاتی منہج میں خود اسی سے قریب تر ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ایک ایسی تنقیدی روایت کے علم بردار ہیں جو تنقید کے ضمن میں کسی نادیدہ جزیرے پر لنگر انداز ایک ’حریف جدیدیت‘ ہی ہے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر فضل الرحمٰن رحمہ اللہ ، ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر عمار ناصر وغیرہم خالص مذہبی روایتِ فکر یعنی ’آرتھوڈوکسی‘ کے جزیرے میں جنم لے کر ایک ایسی حریف جدیدیت کے امکانات برپا کرنے نکلے ہیں جو فکری خودمسماریت پسندی کے برعکس ہماری خالص مذہبی (یعنی آرتھوڈوکس) روایت سے قریب تر ہے۔غالباً ان متقابل علمی جینیات اور ان سے منسلک ذہنی میلانات کی بنیادی وجہ آخر الذکر تحقیقی حلقے کی روایتی مذہبی علمیات سے (کسی نہ کسی درجے میں مدرسی) وابستگی اور اوّل الذکر تنقیدی حلقے کی جدیدیت مخالف مابعدالجدید تنقیدی روایت (مثلاً فرینکفرٹ مکتب ِ فکر) سے ذہنی وابستگی ہے۔
گزارش یہ ہے کہ مطالعہ و تنقید قاری کی نفسیات میں برپا رہنے والا ایک مستقل واقعہ ہے۔ لیکن خودمسماری پر مائل مایوس تنقیدی ذہن میں یہ واقعہ ایک ایسی زمانی سرنگ میں قید ہو جاتا ہے جو لمحۂ موجود اور لمحۂ آئندہ کے امکانات پر نظر نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس لمحۂ گزشتہ کی ایک مخصوص مصنوعی تصویر ذہن کو اپنی مکمل گرفت میں رکھتی ہے۔نتیجتاً یہ خودمسمار تنقیدی ذہن خود اذیتی کے علاوہ تنقید سے کوئی ایسی لذت اٹھانے سے قاصر رہتا ہے جو تجربہ و عمل کے دنیا میں انقلاب کے امکانات رکھتی ہو۔ظاہر ہے کہ اگر گریچن کے زاویۂ نگاہ سے اُس کی محبت میں گرفتار فاؤسٹ اپنی روح کا سودا کر چکا ہے تو اس پر تنقید سے سینہ کوبی کے سوا کیا حاصل کیا جا سکتا ہے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ زنداں میں پڑی روتی سسکتی گریچن کو کیوں کر اپنی ننھی سی روایتی جنت چھوڑنے پر مائل کیا جا سکتا ہے جس کا وجود اب ذہنی بھی نہیں بلکہ صرف جذباتی خدوخال ہی رکھتا ہے؟ غالباً یہ ایک کارِ لاحاصل ہے۔ راقم گواپنی کم سوادی کے باعث خود کوحریف جدیدیتوں کے منصوبے کے خاطر خواہ دفاع، اور برادربزرگ جوہرصاحب سے مکالمے اور جواب تنقیدکا بھاری پتھر اٹھانے کے قابل نہیں سمجھتا، لیکن بہرحال اپنے جیسے طلبا اور محققین کو ان سماجی مقولات کی تعریفات میں حائل پیچیدگیوں سے مختصراً آگاہ کرنا ضروری ہے جو اس منصوبے پر ہونے والی مخصوص مقامی تنقیدوں کے زیرِ اثر انہیں مقبول و معروف اور طے شدہ امور سمجھتے ہیں۔
منہجِ فکر یا طریقیاتی تناظرمیں تصورات کی بحث اپنی اساس میں لسانیات ہی کی بحث سے جنم لیتی ہے۔جدیدیت جیسے غیرمقامی سیاسی و سماجی تصورات دوسری زبانوں اور دوسرے معاشروں تک پہنچتے پہنچتے اپنی اصل سماجی اشتقاقیات سے کٹ جاتے ہیں۔ یوں ترجمہ صرف لسانی اعتبار سے ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقلی نہیں بلکہ تہذیبی اور سماجی اعتبار سے بھی اپنی اصل سے ایک فاصلے پر ہٹ جانے کا مظہر ہوتا ہے۔تنقید کے وہ نابینا طریقیاتی منہج جو مقامی تہذیبوں میں ترجمے کے بعد غیرمقامی تصورات کی چنیدہ تعریفات کو ہدف بناتے ہیں دراصل اپنی تنقید کے لیے بھی انہیں غیرمقامی تہذیبوں کے علمیاتی ڈھانچوں آگے کشکول کھنکھناتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ تمام دستیاب تنقیدوں کا مبسوط احاطہ اور ان پر جاری مباحث کا فوری مطالعہ ممکن نہیں ہوتا، لہٰذا مخاطبین کو عمومی طور پر یہ باور کروایا جاتا ہے کہ یہ تعریفات علمِ سیاسیات یا علم سماجیات میں ’مشہورومعروف‘ اور ’معلوم‘ ہیں۔اس کے برعکس وہ طریقیاتی منہج جو مسلسل مطالعے اور متون کے معانی پر اٹل مہر لگا دینے کے معاملے میں قدرے تشکیک سے کام لیتے ہیں، سماجی تصورات کو لسانی تاریخ یعنی اصل مقامیت میں رکھ کر ان کے معانی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ معانی بعینہٖ اجنبی تہذیبوں میں کسی تاریخی حقیقت پر منطبق نہیں ہوتے لہٰذا ان تصورات کی قدرے بدلی ہوئی اور متبادل شکلیں سامنے آتی ہیں۔ لیکن عصرِ حاضر میں اصل متون اور ان کے تراجم تک آسان رسائی کے علاوہ ایسی معطیات (data trends) بھی موجود ہیں جن کے بنیاد پر مختلف الفاظ و تصورات کا معاشروں میں استعمال، ان میں واقع ہونے والی زمانی و مکانی تبدیلیوں اور اشتقاقی جنم او راموات کے تاریخی واقعات کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے2۔
مثال کے طور پر انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں انگریزی کی لغت میں داخل ہونے والے لفظ enlightenment کو لے لیجیے جو تصورِ جدیدیت یعنی modernity کی تاریخی اساس کے طور پر مقبول و معروف مانا جاتا ہے اور مخصوص روایتی حلقوں میں کافی بدنام ہے۔ ہمارے ہاں اس کا لغوی ترجمہ روشن خیالی اورخردافروزی وغیرہ کے طور پر کیا جاتا ہے۔انگریزی لغت میں اسی لفظ سے جڑا ایک مرکبِ توصیفی Age of Enlightenment بھی مستعمل ہے جسے سترہویں صدی کی سائنس اور عقلیت پسند تحریکوں، مذہب و کلیسا کی علیحدگی، فرد کی سیاسی و سماجی آزادی اور دیگر عمرانی تبدیلیوں کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اور متعلقہ بلکہ کم و بیش مترادف معنوں میں استعمال ہونے والا لفظ renaissance بھی ہے جس کے لیے اردو میں یوروپی نشاۃ الثانیہ، تنویری تحریک اور یوروپی عقلیت پسندی کی تحریک وغیرہ جیسے مرکبات مستعمل ہیں۔ اگر تین چار الفاظ و مرکبات کے اس مختصر سے تناظر میں ’حریف جدیدیتوں‘ کے تصور پر مقامی تنقیدوں کا مطالعہ کیا جائے تو مذکورہ بالا اور اسی قبیل کی دوسری تنقیدوں کی تہہ میں موجود ذہنی رویوں کی عمومی خاکہ بندی کی جا سکتی ہے۔
اولاً تو یہ تنقیدی مزاج اس حد تک غیررسمی اور خطیبانہ ہے کہ اپنے بدیہی مسلمات اور مفروضوں کو عیاں کرنے سے ایک قدم پیچھے رک جاتا ہے۔ہمیں یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ تنقید کا ہدف بنے تصورات سے شدید اختلاف کیا جا رہا ہے لیکن اس اختلاف کی ٹھوس علمی و تحقیقی بنیادوں تک رسائی ممکن نہیں ہوتی کہ مکالمے کو مزیدآگے بڑھایا جائے۔ثانیاً جیسا کہ پہلے ذکر ہوا یہاں تصورات کی کچھ تعریفات کو یوں محکم اور اساسی مانا جاتا ہے کہ اسی تناظر میں پیش کردہ حریف تحقیقی مطالعوں کو جواز تو کیا دینا،ان کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پر modernity، enlightenment اور renaissance جیسے الفاظ کے ساتھ جڑی تصوراتی پیچیدگیوں کو یا تو عمداً یاپھر باعثِ لاعلمی مکالمے سے حذف کر دیا جاتا ہے۔بحیثیت طالبِ علم ہم گمان ہی کر سکتے ہیں کہ قبلہ جوہر صاحب غالباً کلاسیکی فرینکفرٹ مکتبِ فکر اور اس کے بعد ہیبرماس جیسے مفکرین سے جدیدیت کی تعبیر وتعریف لے کر اس کی مدد سے بلادِ مشرق بالخصوص ایشیائی معاشروں میں برپا ہونے والی عقلیت پسندی، انفرادیت پسندی اور متاثر و متعلق مذہبی اصلاحی تحریکوں کو اپنی تنقید کا تختۂ مشق بنا رہے ہیں۔مانگے کی یہ تنقید چونکہ اپنے ساتھ یوروپ کی سماجی اشتقاقیات نہیں لا سکتی لہٰذا ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جسےصرف خطابت ہی سے پر کیا جا سکتا ہے۔ثالثاً اس قسم کے دعوے دہرانے کے باوجود کہ عقل ،وحی اور تاریخ کا دھارا تقدیر کے تابع ہے ،ان دعووں کی بنیادوں میں موجود زمانی و مکانی تصورات و تشکیلات کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔یوں یہ سوال بدستور تشنہ رہتا ہے کہ مسلم فکر کلاسیکی مابعدالطبیعیات میں پیدا ہونے والے پانچ سو سالہ انقلابات پر کیا رائے رکھتی ہے؟ یا کوئی رائے رکھتی بھی ہے یا نہیں! ان معاشروں میں پیدا ہونے والا فرد تجربہ و عمل کی دنیا میں وجود وشعور کو کس طرح ایک اکائی میں تبدیل کر سکتا ہے؟ کیا ہم ان معاشروں کو کسی بھی معنی میں ’جدید‘ معاشرے کہہ سکتے ہیں؟ اور اگر جواب ہاں میں ہے تو کیا حریف جدیدیت محض اس نئے فرد کی اپنے وجودی حال یعنی existential human condition سے مثبت علمیاتی یا تخلیقی سمجھوتے ہی کی ایک صورت نہیں؟
نتیجتاً اس تنقیدی صورتِ حال میں اس سوال پر مکالمہ ممکن نہیں رہتا کہ کیا ہم خالص مغربی تناظر سے ہٹ کر اپنے مخصوص تناظر میں متبادل، حریف یا غیرمغربی جدیدیت کی بابت کلام کر سکتے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ خود یہ مغربی تناظر بھی ایک اٹل اکائی نہیں بلکہ کم از کم تین صد سال پر پھیلا ہوا ایک مکالماتی منظر نامہ ہے۔ہمارا ماننا ہے اس منظر نامے پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالنے سے بھی الفاظ کے مشار الیہ تصورات کی پیچیدگیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔آئیے ہم مثال کے طور پراسی لفظ enlightenment کی سماجی اشتقاقیت کو کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ جب یہ لفظ سن ۱۸۶۵ء کے لگ بھگ جرمن لفظ Aufklärung کے ترجمے کے طور پر انگریزی لغت میں داخل ہوا تو کم و بیش ایک صدی کے سماجی و سیاسی مباحثے اور ان کا فلسفیانہ تناظر اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔اس کے فوراً بعد انیسویں صدی کے انگریزی پڑھنے والے اور تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد یعنی آج ہمارے دور کے اردو، فارسی اور عربی قارئین کے لیے یہ تناظر ایک گونہ مزید سطحیت (flatness) کا شکار یوں ہوا کہ جدیدیت جیسے تصورات پر ہونے والی تنقیدیں اور مختلف تعبیرات نے جن متون کو حوالے کے طور پر استعمال کیا وہ جرمن زبان میں ہونے کے باوجود ایک مخصوص تعبیری تحدید کا شکار ہوئے جو تسلسل سے جاری تھی۔ان متون میں ایک اہم مضمون کانٹ کا ہے جس کے جرمن عنوان میں استعمال ہونے والے لفظ Aufklärung کا ترجمہ Enlightenment کے طور پر کیا جاتا ہے3۔ کانٹ کا یہ مضمون جب دسمبر ۱۷۸۴ء میں برلن سے شائع ہونے والے مجلے Berlinische Monatsschrift میں شائع ہوا تو اس سے تین ماہ قبل یعنی ستمبر ۱۷۸۴ء میں کانٹ ہی کے ایک اور ہم عصر مفکر موسیٰ مینڈلسوہن کامضمون بالکل اسی عنوان کے ساتھ اسی مجلے میں شائع ہو چکا تھا4۔دونوں مضامین ایک ہی سوال یعنی’’Aufklärung کیا ہے؟‘‘ کا جواب پیش کرنے کی کوشش تھے۔یہ سوال ایک سال قبل یعنی اس سے پچھلے دسمبر جوہان فریڈرک زولنر نامی مذہبی عالم اور مصلح نے اسی مجلے میں شائع شدہ ایک مضمون میں ضمنی طور پر پسِ تحریر ایک حاشیے میں اٹھایا تھا۔ اور پیچھے چلیے توزولنر کی یہ تحریر ایک اور ایسے بے نامی مضمون کےجواب میں تھی جس کا بظاہر گمنام لکھاری بھی اسی مجلے کا مدیر جوہان ایرک بیسٹر تھا ۔ بیسٹر کا مختصرمضمون اس سوال پر بحث کرتا تھا کہ کیا شادی بیاہ کے موقعوں پر پادریوں کے ذریعے کلیسا کی نمائندگی ضروری ہے؟ زیرِ بحث مسئلہ یہ تھا کہ رجعت پسند یا سادہ لوح (un-enlightened) لوگ شادی بیاہ کے معاہدوں کو دوسرے تمام معاہدوں کی نسبت زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیوں کہ اول الذکر معاہدے کلیسائی اشیرباد کی وجہ سے مقدس مانے جاتےہیں۔بیسٹر کا استدلال تھا کہ شادی بیاہ کےمعاہدوں سے کلیسائی نمائندگی کی حاضری کی شرط کو ختم کر دینے سے تمام شہری معاہدے ایک جیسی اہمیت اختیار کر لیں گے۔
اس سے پہلے کہ تصورِ جدیدیت کے خلاف مذکورہ بالا مخصوص تنقیدی رجحان کے علم بردار دوست احباب فوراً ایرک بیسٹر کے استدلال میں ’’سیکولرائزیشن‘‘ کی بُو سونگھ لیں، سیاق و سباق کو کلیت میں سمجھنا ضروری ہے۔بیسٹر کے متن پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی نظر میں بنیادی مسئلہ شادی بیاہ کے معاہدوں سے مذہبی بے دخلی نہیں بلکہ اس کے برعکس تمام انفرادی و اجتماعی معاہدوں یعنی شہری ذمہ داری کو یکساں ’’مذہبی‘‘ اہمیت کا حامل سمجھنا تھا۔دوسرے لفظوں میں یہ شادی بیاہ کے معاہدوں سے کلیسائی بے دخلی نہیں بلکہ ایک نئی قسم کی’ ’شہری مذہبیت‘‘ کے امکانات کا جواز تھا، جہاں بیسٹر کے الفاظ میں ’’مذہبی عقیدہ اور شہری ذمہ داری ایک بندھن میں بندھ کر مناسب تال میل سے آگے بڑھیں‘‘۔یہ اور اس قسم کے دوسرے سماجی و سیاسی مسائل اس مخصوص ذہنی رجحان کا حصہ تھے جو اٹھارہویں صدی کی المانوی علمی معاشرت کی تشکیل کرتے تھے۔بیسٹر، زولنر ، مینڈلسوہن اور قریباً دو درجن متنوع فکری دھاروں سے تعلق رکھنے والے مفکرین اس ’بدھ وار سوسائٹی‘ کا حصہ تھے جو Berlinische Monatsschrift کے ذریعے اپنے اجلاسوں میں زیرِ بحث آنے والی آراء شائع کرتی تھی۔
قصہ مختصر،زولنر کے مضمون کے حاشیے میں اٹھائے گئے سوال کے جواب پر ’بدھ وار سوسائٹی‘ کے اندر ہی بہت سی آراء سامنے آئیں۔ کچھ مفکرین مثلاً جوہان کارل ولہلم موہسن نے Aufklärung کی تعریف پیش کرنے کی بجائے توہم پرستی اور دوسرے تعصبات کی بنیادوں کا کھوج لگانے کے رویے پر زور دیا جو بالواسطہ عوامی استدلال کے ضوابط کو ازسرِ نو سنوارنے میں مددگار ثابت ہوسکتا تھا ۔اس کا سوال تھا کہ ایسا کیوں ہے کہ برلن میں تو ایک ثقافتی روشن خیالی (یعنی Aufklärung ) فروغ پا چکی ہے لیکن مضافاتی علاقوں کے عوام اب تک استدلال کے پرانے رویوں پر قائم ہیں۔ موہسن نے دبے دبے الفاظ میں بادشاہی نظام کے تحت المانوی پالیسی اور افسرشاہی کو قانونی ، کلیسائی اور علمی دائروں میں ایک مخصوص روایتی ثقافت اور اس سے منسلک استدلالی ڈھانچوں کو قائم و دائم رکھنے کا ذمہ دار ٹھہرایا کیوں کہ اس کے ذریعے عوام کی سادہ لوحی کو استعمال کرنا آسان تھا۔المانوی علمی ثقافت کے اس مخصوص تناظر میں یہ جاننا اہم ہے کہ لسانی اعتبار سے روشن خیالی کے بنیادی معنی کا تعین توہم پرستی کے مقابل تھا جو روایتی یوروپی معاشرت کا اٹوٹ انگ تھی۔
یہی وہ نکتہ ہے جو کانٹ کے مشہور مضمون کی اولین عبارت میں پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے جس کی رو سے Aufklärung کا آدرش دراصل انسان کی اپنے پیروں میں خود اپنے ہاتھ سے باندھی گئی بھولپن کی زنجیروں کو توڑ دینا ہے۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ لسانی معطیات پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں Aufklärung ، Kultur اور Bildung جیسے جرمن الفاظ اٹھارہویں صدی کے بعد ایک نہایت بڑھوتری سے متون میں پھیلتے نظر آتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ Aufklärung کا سوال محض سیاسی یا سماجی میدان میں عملی منصوبہ بندی تک محدود نہیں رہتا بلکہ پھیلتے پھیلتے ثقافت (Kultur ) اور تہذیبی اصلاح (Bildung ) کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔ دوم، اس تناظر میں کانٹ کی عوامی اور ذاتی استدلال کی تقسیم ایک مخصوص سمجھوتے کی جانب اشارہ ہے جس کی رو سے مذہبی استدلال ایک عملی عقیدے نہ کہ نظری اعتقاد کا ایک مسئلہ ٹھہرتا ہے۔ظاہر ہے کہ کلیسائی نمائندہ اپنے اعتقاد یا من مرضی سے تو شادی بیاہ کی رسوم میں مہرِ کلیسا کے کر نہیں آن ٹپکتا بلکہ کلیسا کا تفویض کردہ ایک فریضہ نبھا رہا ہوتا ہے۔
روشن خیالی، خردافروزی یا تنویری تحریک کی المانوی جہت پر یہ مختصر سی بحث پیش کرنے کا مقصد محض سماجی لسانیات ، تاریخ اور سیاست سے جڑی ان پیچیدگیوں کی جانب اشارہ ہے جو جدیدیت جیسے تصورات سے وابستہ ہیں۔ چونکہ حریف جدیدیت کے منصوبے سے متعلق مقامی مکاتبِ فکر اپنی سماجی (لہٰذا علمی اور سیاسی) خاکہ بندیوں میں ’جدیدیت‘ کا لفظ استعمال کر رہے ہیں ، لہٰذا نہ صرف یہ ’غیرمقامی‘ تاریخی پیچیدگیاں بلکہ جدیدیت کے تصور پر ہونے والی تنقیدوں کے عصری دھارے بھی پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔یہاں پہلا سوال ایک بار پھر اس تناظر یا پیراڈائم کا ہے جس میں یہ دھارے جنم لیتے اور متعین اور سوچی سمجھی سمت میں اپنے بہاؤ کو جاری رکھتے ہیں۔یہ تناظر یقیناً المانوی تاریخ تک محدود نہیں بلکہ انگریزی ترجمے کے ذریعے انیسویں صدی کے وسط ہی سے ایک طرف تو Aufklärung کو Enlightenment اور Enlightenment کو ’جدیدیت‘ سے جوڑ چکا ہے، دوسری طرف یہ علمی منظرنامے کو دو ایسی شاخوں میں تقسیم کر دیتا ہے جو ایک دوجے کو کبھی کبھار کاٹتی تو ضرور ہیں لیکن اپنی ایک الگ شناخت برقرار رکھتی ہیں۔
ان میں پہلی شاخ سیاسیات کی ہے جہاں ’جدید‘ اور ’جدیدیت ‘ میں ایک واضح فرق ہے۔جدید وہ ہے جو اب قصۂ پارینہ ہے لیکن اس کی بازگشت پس منظر میں سنائی دیتی ہے۔یہ ایک زمانی سلسلہ ہے جو قدیم، وسطی، جدید اور عصری یعنی ان چار پڑاؤ میں مسلسل ڈھلتا رہتا ہے۔جدیدیت اس زمانی سلسلے کے آخری پڑاؤ یعنی عصرِ حاضر سے متعلق ایک ایسی نفسی و سماجی حالت ہے جو اپنے داخلی اور خارجی مظاہر میں پچھلے تین زمانی پڑاؤ کے مقابلے میں انوکھی ہے۔ان مظاہر کا ایک مجموعہ علمی رجحانات، ثقافتی و سماجی مسائل پر تنقیدی غوروفکر اور انفرادیت و اجتماعیت جیسی کشمکش پر ذہنی میلانات سے متعلق ہے، جب کہ دوسرا مجموعہ ان رجحانات سے متعلقہ قوانین، افسرشاہی ، تعلیم اورمعاشیات وغیرہ کے لیے قائم کردہ اداراتی ڈھانچوں سے تعلق رکھتا ہے۔
دوسری شاخ سماجیات و بشریات کی ہے جہاں جدید اور جدیدیت کو ایک دوسرے سے الگ کرنا نسبتاً مشکل ہے۔ اس تناظر میں جدیدیت کی کہانی کا بیانیہ ایک تہذیبی و تاریخی بیانیے کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور یہ کہانی اگر اسی طرح سنائی جائے تو بامعنی تسلیم کی جاتی ہے۔یہاں اٹھنے والے تمام سوال جیسے کہ ہم کون ہیں اور کن آدرشوں سے بندھے ہیں یا ہم کون نہیں ہیں اور کون سے آدرش ہمارے لیے کشش نہیں رکھتے، کسی نہ کسی مقامیت کو پیش قیاس کرتے ہیں یعنی ہمیں اپنی زمین اور اس زمین پر پیش آنے والے مخصوص حالات سے جوڑتے ہیں۔ گو یہ بیانیہ تاریخی خاکوں اور تشکیلات کی مدد سے بنُا جاتا ہے لیکن اس کی بنیادی حیثیت معالجاتی ہوتی ہے ۔ اب جدیدیت ایک ایسی یک طرفہ انسانی حالت بن جاتی ہے جو عصری مسائل کے حل کے لیے اپنی مظہری تعریف و تشکیل پر اصرار کرتی ہے۔ یوں زمانی سلسلے کے عصری پڑاؤ پر ’جدید ثقافت‘ ثقافتی مظاہر کے ایک ممتاز اور ممیز مجموعے کے ساتھ سامنے آتی ہے۔
ان دو شاخوں کو سامنے رکھنے سے تصورِجدیدیت اور اس پر ہونے والی تنقیدوں کی زمرہ بندی آسان ہو جاتی ہے5۔ مکرر عرض ہے کہ یہ زمرہ بندی نہ صرف علمی بلکہ نفسیاتی جہت بھی رکھتی ہے کیوں کہ مخصوص نفسیات انسانی ذہن کے سامنے موجود مخصوص استدلالی ڈھانچوں میں ترجیح و انتخاب پر ابھارتی ہیں۔چونکہ موضوع ان تنقیدوں کی زمرہ بندی نہیں لہٰذا طوالت سے بچتے ہوئے ان تنقیدوں کی کامیابی اور ناکامی کے امکانات کا مختصراً احاطہ کافی ہے۔
انیسویں صدی کے نصفِ آخر او ربیسویں صدی کے اوائل کے مفکرین اس نئی ثقافت کو کسی نہ کسی درجے پر ایک ایسی مستقل تبدیلی کا حصہ مانتے آئے جو استدلالی رویوں میں ایک مستقل تبدیلی کا نام ہے۔میکس ویبر کی بقول یہ فسوں ربائی (disenchantment) زمانی سلسلے کے تیسرے پڑاؤ یعنی ’دورِ جدید‘ سے ماقبل ایک ایسا عمل ہے جو ہمیشہ سے جاری ہے لیکن کبھی ختم نہیں ہوتا6۔ لیکن سائنسی انقلاب کے بعد بھی ایسے ثقافتی مظاہر ہمیشہ موجود رہے ہیں جو سماجی سائنسی اور ٹھوس ریاضیاتی تشکیلات سے ماورا ہیں۔ویبر کے نزدیک یہ عمل یک طرفہ ہے اور اس کی یہی یک سمتی کسی بھی جدیدیت مخالف منصوبے کی ناکامی کے امکانات پر مہر ثبت کرتی ہے۔ویبر سے ربع صدی قبل کارل مارکس کا تصورِ جدیدیت پیدوار ی اشیاء کی صارفیت کے گرد گھومتی ایک ایسی نئی ثقافت کی تشکیل ہے جو شے کے سماجی تصور اور شے کی پرستش کے سماجی مظہر سے جنم لیتی ہے۔مارکسی تناظر میں ثقافتِ جدید کا تنقیدی مطالعہ اس اہم نکتے پر منتج ہوتا ہے کہ سرمایہ داریت میں طاقت کا مرکز انسان کی جگہ غیرانسانی عوامل بن جاتے ہیں۔ جدید ثقافت کی ان دونوں خاکہ بندیوں کو سامنے رکھا جائے تو اہم ترین اور بنیادی سوال کسی تیسری متبادل خاکہ بندی کا نہیں بلکہ جدیدیت نامی ایک ثقافت کے خلاف ممکنہ ردّ عمل کا ٹھہرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک خالص مظہری درجے پر زمانۂ جدید میں انسانی حالت (لہٰذا ثقافت) میں قلبِ ماہیت کا واقعہ اتنا عظیم ہے کہ اس کے خلاف کوئی قابلِ التفات شہادت پیش نہیں کی جا سکتی۔یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ویبر اور مارکس دونوں ہی اس نئی ثقافت پر طاری پراسرار پردہ چاک کر کے اس کی اصل ماہیت جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ ویبر کے ہاں اس پراسرار مظہر کی تہہ میں مسلسل ارتقا سے گزرتا ایک مخصوص استدلالی ڈھانچہ کارفرما ہے جب کہ مارکس کے نزدیک جدیدیت ایک ایسا نظریہ ہے جو طاقت کے موجودہ ڈھانچوں کے لیے استدلالی کمک کا کام کرتا ہے۔اس تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں رہتا کہ ویبر کے نزدیک جدیدیت انفرادیت اور آزادی کا ایسا مظہر ہے جس کے خلاف کسی مخالف منصوبہ بندی کی گنجائش نہیں رہتی جب کہ مارکس کے ہاں مناسب ردّعمل نظریاتی تنقید ہے۔اڈورنو، ہوک ہائمر اور ان کے بعد ہیبرماس وغیرھم کا کام مارکس کی اسی نظریاتی تنقید کا تمام ممکنہ جہات میں پھیلاؤ ہے۔
یہ نہایت مختصر پس منظر حریف جدیدیت کی سمت میں سفر کرتے بہت سے متنوع منصوبوں کو ایک اکائی میں پرونے کے لیے ضروری ہے۔یوروپی جدیدیت پر خود بھی ایک تنقید ہوتے ہوئے حریف جدیدیت یہ مان کر ہی آگے بڑھتی ہے کہ جدیدیت سے فرار ممکن نہیں اور اس کے خاتمے کے متعلق تمام شکوک و شبہات اور پیشین گوئیاں زیادہ سے زیادہ کسی نظریاتی بند گلی میں جا کر ختم ہو جاتی ہیں۔ صرف یہ واقعہ کہ جدیدیت یوروپی تاریخ کا ایک واقعہ ہے اسے خالصتاً یوروپی نہیں بنا دیتا۔ یہ ایسے ثقافتی مظاہر اور استدلالی ڈھانچوں کا مجموعہ ہے جس کا غیرمغربی دنیا میں پھیلاؤ ایک طرف تو یوروپ اور امریکہ کے استعماری منصوبوں اور دوسری طرف مغرب اور دیارِ غیر مغرب کے باہمی اختلاط سے ممکن ہوا۔لیکن چوں کہ یہ پیچیدہ ثقافتی اختلاط خطی یا یک سمتی نہ تھے ،خود جدیدیت کی تہوں میں بھی ایک ثقافتی تکثیریت کی تلاش معقول ہے۔ لیکن اس پیش قیاسی مفروضے کے علاوہ حریف جدیدیت اوپر پیش کیے گئے دو شاخہ علمی تناظر میں جنم لینے والے دو اہم سوالوں کا ممکنہ جواب بھی ہے۔
اول یہ کہ مغربی جدیدیت کی اس دُبدھا کا کیا حل ہو جو عمرانی اور ثقافتی جدیدیت کی دو رخی تقسیم رکھتی ہے؟7 ان میں پہلی یعنی عمرانی جدیدیت ان مظاہر کا نام ہے جو ذہنی میلانات اور سماجی رویوں میں قلبِ ماہیت کی وجہ سےپیدا ہوتے ہیں مثلاً سائنسی شعور، ایک مخصوص غیر مذہبی استدلالی رویہ، نظریۂ ترقی، افادیت پسند عقلیت ، سماج کی ایک معاہداتی ساخت، منڈی کی سرمایہ دارنہ صنعتی معیشت، قومی ریاست کی افسر شاہی، قوانین کے منقسم دائرے، انسانی حرکت میں تیزی، شہری دائروں میں وسعت ، میڈیا کی صنعت اور انفرادیت پسندی وغیرہ۔یہ وہ بورژوائی جدیدیت8 ہے جس نے مغرب کے صنعتی انقلاب کے بعد ایک ایسے آدرش کی صورت اختیار کر لی جو ایک مثبت اور صحت مند سماج کی ضامن قدر کے طور پر باقی دنیا میں طاقت کے زور پر پھیلا۔اس بورژوا جدیدیت کے خلاف ایک ایسی باغی ثقافتی جدیدیت کا ظہور ہوا جس کا آغاز تو اٹھارہویں صدی کی رومانویت پسند تحریکوں سے ہوا لیکن بعد میں میڈیا ، ادب اور فنون ِ لطیفہ کے وجہ سے مکمل سماج میں نفوذ کر گئی۔ہم اسے ایک ایسی جمالیاتی جدیدیت کہہ سکتے ہیں جو بورژوائی جدیدیت سے بغاوت کے باوجود ثقافت میں اپنے نفوذ کے لیے بورژوائی جدیدیت کی تخلیق کردہ دنیا پر منحصر تھی9۔
دوم یہ کہ کیا کوئی مظہر خالصتاً جدید کہلایا جا سکتا ہے؟ یعنی کوئی ایسے متعین خدوخال موجود ہیں جن کی بنیاد پر جدید کو غیرجدید سے علیحدہ کیا جا سکے؟ اپنی اصل میں یہ سوال واپس اسی دبدھا کی طرف لوٹتا ہے جس کا ذکر اوپر ہوا۔ یہ وہ تیسرا رخ ہے جو رومانویت پسند زمانی نظریات سے برآمد ہوتا ہے اور جمالیاتی جدیدیت ہی کی ایک ایسی انوکھی جہت بن کر ابھرتا ہے جو روایت اور لمحۂ موجود میں ایک لاینحل جدلیاتی تضاد سے عبارت ہے۔ یہاں اہم مشاہدہ یہ ہے کہ لمحہ ٔ موجود یعنی حال کی کیفیت تعریفی اعتبار سے تو یقیناً نیاپن رکھتی ہے لیکن ہر ’نیا مظہر‘ بہت ہی جلد غائب ہو کر ایک تازہ متبادل کو اپنی جگہ دے دیتا ہے10۔ مارکس کے نظریاتی تنقیدی منہج سے کسی نہ کسی درجے میں منسلک مفکرین مثلاً ہیبرماس اس مسئلے کے حل کے لیے ’جدید‘ اور’ نئے پن‘ میں فرق کرتے ہیں۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ جوں کا توں رہتا ہے کہ کیا ہم ’نئے پن‘ کے خارج میں کوئی ’جدید‘ مظہر تلاش کر سکتے ہیں؟
یہ جدیدیت کے وہ دو اہم خاکے ہیں جو اپنے مخصوص خدوخال کے ساتھ خالصتاً مغربی ہیں۔عصرِ حاضر کے علمی پیراڈائم میں انہیں عمومی طور پر ویبر کی سماجی ثقافتی جدیدیت یا بادلئیر کی سماجی جمالیاتی جدیدیت کہا جا تا ہے۔اوّل الذکر خاکے میں جدیدیت ثقافت میں معنی کی کلیت کے حصے بخرے کر دیتی ہے۔ اس کے مثبت اثرات میں انسانی معاشرت کی تکنیکی عظمت، انفرادی و اجتماعی معاشی ترقی اور سیاسی حریت شامل ہیں جب کہ منفی اثرات میں اجنبیت کا وجودی حادثہ ، فرد کی یاسیت اور کسی قسم کی سرّی چھتر چھایا سے آزادی کے بعد تاریک لامعنویت کا ظہور ہے۔آخر الذکر خاکہ ان مسائل کے حل کی خاطر ثقافت کو جمالیاتی معنی عطا کرنے کی سعی پر مبنی ہے جہاں فرد تخلیقی تجربے سے مسرت پاتا ہے۔لیکن ظاہری جمالیات کی ایسی دنیا جو جمالیات اور اخلاقیات میں کسی ارفع ربط پر کوئی رائے نہ رکھتی ہو بہرحال فرد کو خودپسندی اور لذتیت کی دلدل میں بھی دھکیل سکتی ہے۔
جدیدیت کے مغربی پیراڈائم میں ہونے والی تمام تر تنقیدیں کسی نہ کسی صورت جدیدیت کی اس دو لخت نظریاتی صورتِ حال پر کوئی نہ کوئی رائے رکھتی ہیں۔مثال کے طور پر فرینکفرٹ مکتب ِ فکر میں ہیبرماس کے مطابق جدیدیت تاحال ایک ایسا نامکمل منصوبہ ہے جسے کوشش سے بچایا جا سکتا ہے11۔اڈورنو اور ہوک ہائیمر کی قنوطیت پسند تعبیرات12 کے برعکس ہیبرماس کے نزدیک ویبر کی استدلالی خاکہ بندی دراصل سرمایہ داریت کے تحت ہے اور ایک ایسا متبادل خاکہ ممکن ہے جو جدید دنیا میں کارفرما عقلیت و استدلال کو اس کا کھویا ہوا توازن واپس عطا کر دے۔دوسری طرف فوکو جیسے مفکرین استدلال کی جینیاتی خاکے بندی سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ استدلال صرف ثقافتی سیاق و سباق ہی میں نہیں بلکہ علمیات اور طاقت کے ایک ایسے پیچیدہ جال میں کارفرما ہوتا ہے جو( فوکو کے بقول) ہر سماج کی اپنی اقلیمِ حق ہے13۔فوکو کے نزدیک ویبر کا آلاتی استدلال عقلیتِ محض کی تحدید نہیں، بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ عقل و استدلال، علم اور سچائی کبھی طاقت کے زیرِ اثر بننے والی پیچیدہ باہمی نسبتوں سے آزاد نہیں ہوتے۔
ہم پر یہ مشاہداتی اور تجرباتی سطح پر واضح ہے کہ حریف جدیدیت کا عمومی منصوبہ نہ صرف غیرمغربی بلکہ خود مغرب کے اندر ہی کئی متنوع ثقافتوں کی طرف سے مظاہرِ جدیدیت کا وہ فہم ہے جو ہر مقامیت کے اپنے مخصوص ثقافتی خدوخال اور مقامی سماجی اور علمیاتی ڈھانچوں سے جنم لیتا ہے۔نہ جانے ہمارے محترم نقادوں کو یہ ماننے میں کیا مشاہداتی امر مانع ہے کہ حریف جدیدیت مذکورہ بالا وسیع پس منظر کو پیشِ نظر تو ضرور رکھتی ہے لیکن ایک مخصوص اجنبیت کا شکار نہیں ہوتی کیوں کہ وہ بالتعریف یوروپ مرکز یت کی نظریاتی گرفتار نہیں۔ محترم مقامی نقادوں سے اتفاق کرتے ہوئے حریف جدیدیت کا تصور تو خود یہ تسلیم کرتا ہے کہ جدیدیت بطور ثقافت مغرب سے غیرمغرب میں وارد ہوئی لیکن یہ اس تصور کی حد نہیں۔ بہرحال وہ ایک ایسا ’ڈسکورس‘ بھی ہے جو حال کے ساتھ اور حال ہی میں ہونے والے ایک مکالمے پر مبنی ہے۔ہماری رائے میں یہ وہ نیا فکری پیراڈائم ہے جو چارلس ٹیلر کے بقول کم سے کم ایک بدیہی مفروضے کو پیش قیاس کرتا ہے14۔ وہ مفروضہ یہ ہے کہ جدیدیت کی کوئی بھی خاکہ بندی غیرثقافتی نہیں بلکہ ثقافتی ہے۔یہ مفروضہ خودبخود جدیدیت کی ان ’غیرثقافتی‘ تعریفات اور منسلک منصوبوں کو مکالمے سے باہر دھکیل دیتا ہے جو خود کو ثقافتی طور پر ’غیرجانبدار‘ کہتی ہیں،اور اس غیرجانبداری کا اعلان کرتے ہوئے خارج سے وارد ہو کر ’روایتی‘ سماج کی قلبِ ماہیت کی کوشش کرتی ہیں۔یوں مقامی تہذیبوں کا مخصوص ثقافتی ، مذہبی اور لسانی حوالہ لازم ٹھہرتا ہے۔
بطور طالبعلم ہماری رائے ہے کہ حریف جدیدیت کے ’مقامی ‘ منصوبے پر ہونے والی تنقیدیں بھی اگربراہِ راست اس مقامی تناظر کی تشکیل کے امکانات یا متبادل تناظرات کی تشکیل کو اپنا موضوع بنائیں تو وہ اس نظری شکنجے سے نکل سکیں گی جس میں وہ فی الحال گرفتار نظر آتی ہیں۔ بحث کو آگے بڑھانے کے لیے حریف جدیدیت کے منصوبے اور اس پر ہونے والی تنقیدوں کو سماج کو تجربہ گاہ کے طور تصور کرنا لازمی ہے تاکہ نظری خاکوں کی تجرباتی تشکیل کی جا سکے اور مناسب وقت گزرنے کے بعد منصوبے کی کامیابی یا ناکامی اور متعلقہ تنقیدی مطالعوں کی معقولیت یا غیرمعقولیت کا فیصلہ کرنا ممکن ہو۔ اس کے لیے پہلے پڑاؤ پر یہ جاننا لازمی ہے کہ اوپر دیے گئے تنقیدی منظرنامے میں ہمارے ہاں کا مقامی انتقادِ فکر کن مکاتب کے ساتھ کس حد تک کھڑا ہے اور اس اتفاق یا اختلاف کی نظری بنیادیں اور ہماری مقامی ثقافتوں میں ان نظری بنیادوں کو تقویت پہنچاتے ٹھوس عملی شواہد کیا ہیں؟