2018

جنوری ۲۰۱۸ء

خواتین کے نکاح میں سرپرست کا اختیار / سرسید احمد خان اور مذہبی علماءمحمد عمار خان ناصر
سرسید احمد خان اور مذہبی علماءمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۸)ڈاکٹر محی الدین غازی
دور جدید کا حدیثی ذخیرہ۔ ایک تعارفی جائزہ (۶)مولانا سمیع اللہ سعدی
دستور کی اسلامی دفعات اور ’’سیاسی اسلام‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بیت المقدس کو اسرائیلی دار الحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ظلماتِ وقت میں علم و آگہی کے چراغ (۲)پروفیسر غلام رسول عدیم
قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو خدا کا حکم سمجھنے کی غلطیڈاکٹر عرفان شہزاد
’’تذکار رفتگاں‘‘ ۔ اہل علم کے لیے ایک علمی سوغاتمولانا مفتی محمد اصغر

خواتین کے نکاح میں سرپرست کا اختیار / سرسید احمد خان اور مذہبی علماء

محمد عمار خان ناصر

خواتین کے نکاح کے ضمن میں سرپرست کے اختیار سے متعلق کتب حدیث میں منقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد ارشادات منقول ہیں جو اس معاملے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس حوالے سے عموماً جن روایات کا حوالہ دیا جاتا ہے، ان میں خاتون کے نکاح میں سرپرست کی رضامندی کو فیصلہ کن حیثیت دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سرپرست کے بغیر کیے گئے نکاح کی کوئی حیثیت نہیں۔ (ترمذی، رقم ۱۱۰۱) اسی طرح ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی عورت کا نکاح سرپرست نے نہ کرایا ہو، اس کا نکاح باطل ہے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ کہی۔ البتہ اگر خاوند نے اس سے ہم بستری کر لی تو اسے اس کا مہر ملے گا۔ (ترمذی، رقم ۱۱۰۲)
مذکورہ روایات کے الفاظ کا ظاہری عموم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کوئی بھی عورت اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر ازخود اپنا نکاح کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اور اگر وہ ایسا کرے گی تو اس کا نکاح باطل قرار پائے گا، تاہم اس مسئلے سے متعلق دیگر روایات واحادیث کو جمع کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ زیر بحث روایات کے الفاظ کا ظاہری عموم شارع کی مراد نہیں ہے، بلکہ یہ ان کنواری لڑکیوں سے متعلق ہے جو کسی معقول وجہ کے بغیر اپنے ولی کی رضامندی اور اجازت کو نظر انداز کر کے ازخود نکاح کر لیں۔ چنانچہ خود روایات ہی میں درج ذیل صورتوں کو مذکورہ حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے: 
ایک یہ کہ ازخود نکاح کرنے والی خاتون کنواری نہیں بلکہ شوہر دیدہ ہو۔ چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’شوہر دیدہ عورت اپنے نفس پر اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے، جبکہ کنواری لڑکی سے اس کا باپ اس کی ذات کے معاملے میں اجازت طلب کرے اور اس کا خاموش رہنا اس کی رضامندی کی دلیل ہے۔‘‘ (مسلم، رقم ۳۴۷۶)
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ قبیلہ بنو اسلم میں سبیعہ نامی ایک عورت نے اپنی خاوند کی وفات کے پندرہ دن بعد بچہ جنم دیا۔ اس طرح اس کی عدت مکمل ہوگئی تو دو آدمیوں نے ،جن میں سے ایک نوجوان اور دوسرا ادھیڑ عمر تھا ،اسے نکاح کا پیغام بھیجا۔ سبیعہ نوجوان کے ساتھ نکا ح کرنے کی طرف مائل ہوگئی تو ادھیڑ عمر آدمی نے اس سے کہا کہ ابھی تیر ی عدت مکمل نہیں ہوئی۔ اس وقت سبیعہ کے گھر والے موجود نہ تھے اور اس آدمی کو توقع تھی کہ جب اس کے گھر والے آجائیں گے تو وہ اس نوجوان کے مقابلے میں اس کو ترجیح دیں گے۔ اس پر سبیعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو صورت حال بتائی۔ آپ نے اس سے فرمایا:
’’تیری عدت پوری ہو چکی ہے، اب تو جس سے چاہتی ہے اس سے نکاح کرلے۔‘‘ (مالک، الموطا، رقم ۱۸۲۹۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۵۷۰۳)
دوسری یہ کہ کسی لڑکی کا سرپرست اس کا نکاح کرنے میں خود لڑکی کی رضامندی کو نظر انداز کر رہا ہو۔ چنانچہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کر دیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہاکہ میرے والد نے میری رضامندی کے بغیر ایک شخص سے میرا نکاح کر دیا ہے، جبکہ میرا ایک چچا زاد بھی میرے ساتھ نکاح کا خواہش مند تھا۔ آپ نے اس کے والد سے بلا کر پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کی خیر خواہی کرتے ہوئے ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
’’اس نکاح کی کوئی حیثیت نہیں۔ تم جاؤ اور جس سے چاہتی ہو، اس سے نکاح کر لو۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۵۹۵۳)
عبد اللہ بن بریدہ سے مرسلاً روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور کہا کہ میرے والد نے اپنے بھتیجے کی عزت افزائی کے لیے میرا نکاح اس کے ساتھ کر دیا ہے جبکہ مجھے یہ پسند نہیں۔ ام المومنین نے اس سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے تک یہیں بیٹھو اور آپ کو اس بات سے آگاہ کرو۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اس نے آپ کو یہ بات بتائی تو آپ نے اس کے والد کو بلایا۔ جب وہ آیا تو آپ نے اس لڑکی کو اپنا نکاح اپنی مرضی سے کرنے کا اختیار دے دیا۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۳۴۵۴)
تیسری یہ کہ کسی خاتون کا کوئی سرپرست ہی موجود نہ ہو جس کی وساطت سے وہ نکاح انجام دے سکے:
ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کی وفات کے بعد عدت پوری ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے ان کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس پر تردد کا اظہار کیا اور اس کی ایک وجہ یہ بیان کی کہ اس وقت میرے اولیا میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھارے اولیا میں سے کوئی موجود یا غائب شخص ایسا نہیں ہے جو اس نکاح کو ناپسند کرے گا۔ اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے نابالغ بیٹے عمر بن ابی سلمہ سے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرا نکاح کردو۔ چنانچہ عمر بن ابی سلمہ نے اپنی والدہ کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا۔ (سنن النسائی، رقم ۳۲۵۶)
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ یا رسول اللہ، میں اس لیے حاضر ہوئی ہوں کہ اپنے آپ کو آپ کی خدمت میں پیش کر دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نگاہ اٹھا کر اس کو غور سے دیکھا اور پھر اپنا سر جھکا لیا۔ جب اس خاتون نے دیکھا کہ آپ نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس پر ایک آپ کے صحابہ میں سے ایک آدمی اٹھا اور کہا کہ یا رسول اللہ، اگرآپ اس عورت سے نکاح نہیں کرنا چاہتے ہو تو میرا نکاح اس سے کر دیجئے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کا نکاح اس صحابی سے کر دیا۔ (بخاری ، رقم ۵۰۳۰)
مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ ولی کی اجازت اور وساطت کے بغیر کسی خاتون کے نکاح کو باطل قرار دینا کوئی مطلق اور عام حکم نہیں، بلکہ اس کا ایک خاص محل ہے اور یہ اس صورت سے متعلق ہے جب کسی کنواری خاتون نے اپنے سرپرست کی موجودگی میں سرکشی کرتے ہوئے اس کی رضامندی اور وساطت کے بغیر کسی سے نکاح کر لیا ہو۔ منشا ئے کلام دراصل خواتین کو سرکشی کرتے ہوئے اپنے اولیا کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے سے روکنا اور اس طرح کے کسی بھی قدم کو قانونی طور پر غیر موثر قرار دینا ہے، چنانچہ اس خاص محل سے ہٹ کر ہر طرح کی صورت حال میں اس حکم کا اطلاق کرنا درست نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر عورت کے اولیا موجود ہی نہ ہوں اور ان کے آنے تک نکاح کے معاملے کو معلق رکھنا مصلحت کے خلاف ہو یا اس بات کا اطمینان ہو کہ اولیا کو عورت کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا یا ولی موجود تو ہو لیکن اس کے رویے سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اس معاملے میں عورت کی رضامندی کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور اپنی مرضی یک طرفہ طور پر اس پر ٹھونسنا چاہتا ہے تو ان سب صورتوں میں عورت کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کا حق ہوگا اور اسے اس کا اذن شامل نہ ہونے کی بنیاد پر باطل قرار نہیں دیا جائے گا۔ حکم کا صحیح محل متعین ہونے کے بعد ان صورتوں کا اس کے دائرہ اطلاق میں شامل نہ ہونا نہ صرف عقل وقیاس کی رو سے واضح ہے، بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد فیصلوں سے بھی واضح ہوتا ہے۔
فقہائے احناف نے اس حکم کے دائرہ اطلاق میں ایک مزید قیاسی تخصیص کی ہے، چنانچہ وہ اسے اس صورت سے متعلق قرار دیتے ہیں جب عورت نے غیر کفو میں یعنی اپنی برادری یا اپنے ہم پلہ لوگوں کو چھوڑ کر خاندانی لحاظ سے کم تر لوگوں میں نکاح کر لیا ہو۔ اس صورت میں چونکہ خاندان کی عزت ووقار کا سوال ہوتاہے اور بہتر معاشرتی حیثیت رکھنے والے خاندانوں کے یہاں اپنی خواتین کا نکاح معاشرتی لحاظ سے کم تر خاندانوں میں کرنا معیوب سمجھا جاتاہے، اس لیے ولی کی اجازت اور منظوری کے بغیر یہ نکاح درست نہیں۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ ایک روایت کے مطابق غیر کفو میں نکاح کو ولی کی اجازت پر موقوف جبکہ دوسری روایت کے مطابق ایسے نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں۔ تاہم اگر یہ معاملہ نہ ہو اور عاقل وبالغ عورت نے خاندانی اعتبار سے ہم پلہ لوگوں میں نکاح کیا ہو جس پر اس کے سرپرست کے اعتراض کا کوئی معقول جواز نہ ہو تو ایسی صورت میں فقہائے احناف کے نزدیک محض اس بنیاد پر اس کے نکاح کو باطل قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس کا سرپرست اس نکاح پر رضامند نہیں تھا۔ 
احناف کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور عقل وقیاس کی رو سے نکاح کرنا اصلاً عورت کا حق ہے اور وہ بالغ ہونے کے بعد جیسے اپنے مال میں خود تصرف کرنے کا حق رکھتی ہے، اسی طرح اپنی ذات کے بارے میں بھی فیصلہ کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے، البتہ اسے فیصلے میں اپنے اولیا اور خاندان کے جذبات واحساسات کی بھی پاس داری کرنی چاہیے۔ چنانچہ اگر وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ نکاح کر لے جس کے ساتھ تعلق داری میں اس کے اہل خاندان عار محسوس کریں تو یقیناًیہ نکاح اس کے سرپرست کی رضامندی پر موقوف ہوگا اور اگر وہ اس پر اعتراض کرے تو نکاح فسخ قرار پائے گا، لیکن مطلقاً اور ہر حالت میں عورت کے حق نکاح کو سرپرست کی رضامندی پر منحصر اور موقوف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (الشیبانی، الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ، ۳/۵۱۲۔ الطحاوی، شرح معانی الآثار، ۲/۳۷۰) 
مزید برآں اس معاملے میں اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر بحث ارشادات بنیادی طور پر ایک قبائلی معاشرت کے پس منظر میں فرمائے گئے ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ خاندان اور سماج کی شیرازہ بندی قبائلی معاشرے میں مختلف اصولوں پر ہوتی ہے اور متمدن اور ترقی یافتہ معاشروں میں دوسرے اصولوں پر۔ ایک قبائلی معاشرہ اپنی ساخت کے لحاظ سے رشتے ناتوں کو جس طرح interdependent بناتا ہے، اس میں فرد کے حقوق اور اختیارات بہرحال زیادہ محدود اور خاندان اور سماج کی پسند ناپسند کے زیادہ زیر اثر ہوتے ہیں۔ سماجی تنظیم کے اصولوں کے تحت اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ قبائلی معاشرے میں خاندان ، قبیلہ اور سماج فرد کو ایک غیر قبائلی معاشرے کے مقابلے میں زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس بنا پر اس کا بھی بجا طور پر استحقاق رکھتے ہیں کہ فرد اپنے فیصلوں میں ان کی پسند اور نا پسند کو خاص طور پر ملحوظ رکھے۔ معاشرے کے ارتقا کے ساتھ ساتھ جوں جوں قبائلی نظم کمزور ہوتا جاتا ہے، فرد اور سماج میں اس کو تحفظ دینے والے گروہوں یعنی خاندان اور قبیلوں پر اس کا انحصار بھی کم ہوتا جاتا ہے اور نتیجتاً اسے اپنے فیصلوں کو اپنی صواب دید کی روشنی میں کرنے کی زیادہ آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ ا س بحث کی روشنی میں دیکھیے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ حکم کی تعبیر اس مخصوص سماجی صورت حال کے تناظر میں بھی کی جا سکتی ہے جس کے پیش نظر آپ نے یہ فیصلہ فرمایا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس حکم کا مقصد دراصل عورت اور اس کے سرپرست کے باہمی حقوق واختیارات کی حتمی وقطعی تعیین نہیں، بلکہ مخصوص زمان ومکان میں سماج کے ایک اہم ادارے یعنی خاندان کو انتشار اور انہدام سے بچانا ہے۔ 

سرسید احمد خان اور مذہبی علماء

سرسید احمد خان اور ان کے مذہبی وسیاسی افکار گزشتہ دنوں سوشل میڈیا میں زیر بحث رہے۔ سرسید کے ناقدین نے ان کی مذہبی تعبیرات اور برطانوی اقتدار سے متعلق ان کے جذبات وفاداری کو موضوع بنایا، جبکہ حامیوں نے اس کے جواب میں ’’ملائیت‘‘ کو بے نقط سنائیں۔ 
اس تناظر میں یہ مختصر وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ سرسید کی مذہبی تعبیرات کو اگرچہ راسخ العقیدہ علماء نے علمی سطح پر رد کیا (بلکہ سچ یہ ہے کہ انھیں سرسید کے علاوہ کسی نے قبول ہی نہیں کیا)، لیکن انھیں ’’ہوا‘‘ نہیں بنایا اور نہ ان کی بنا پر ان کے خلاف مذہبی فتوے بازی کی کوئی مہم ذمہ دار علماء کی طرف سے منظم کی گئی، بلکہ اکابر علماء نے سرسید کی اس کوشش کو ان کے خلوص کی بنا پر ہمدردانہ نظر سے دیکھا اور ان پر کوئی فتویٰ عائد کرنے سے گریز کیا۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادیؒ کے سامنے کسی نے سرسید کے مذہبی خیالات پر سخت الفاظ میں تبصرہ کیا تو مولانا نے کہا کہ ’’ان کی ظاہری تقریر کو نہ دیکھو، ان کے قلب کو دیکھو کہ کیسا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک موقع پر انھوں نے چند مولوی صاحبان کو مسجد میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ سرسید روایات صحیحہ کا انکار کرتا ہے، تواتر کا انکار کرتا ہے، کافر ہے وغیرہ وغیرہ، تو اپنے حجرے سے نکلے، مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ’’یہ لوگ اس بے چارے کو کافر بناتے ہیں، مگر اس کے قلب کو دیکھ کہ کیسا ہے۔‘‘ (’’کمالات رحمانی‘‘ از شاہ تجمل حسین بہاری، بحوالہ صدق جدید، ۵؍ مئی ۱۹۶۱ء)
اسی طرح کے خیالات مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تھے، چنانچہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب، مولانا کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’سرسید کا عقیدہ توحید اور رسالت کے متعلق جس درجہ کا بھی تھا، بلا وسوسہ اور نہایت پختہ تھا جیسا کہ ان کی بعض تصانیف سے مجھ کو ظاہر ہوا اور قرآن وحدیث کی جو توجیہات انھوں نے کیں، ان کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین کا اسلام پر کوئی اعتراض وارد نہ ہو۔ گو اس کے لیے انھوں نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ غلط تھا، اس لیے میں ان کو نادان دوست کہتا ہوں۔‘‘ (اشرف السوانح از خواجہ عزیز الحسن مجذوب، جلد اول، ص ۲۱۵)
اس کے علاوہ سرسید کے متعارف کردہ بہت سے نئے مذہبی مباحث سے علماء نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس پہلو پر اب بعض مطالعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت کے ممتاز محقق مولانا رضی الاسلام ندوی نے ’’سرسید کی تفسیر القرآن اور مابعد تفاسیر پر اس کے اثرات‘‘ کے زیر عنوان اپنے مقالے میں سرسید کی تفسیر قرآن کی تالیف کا فکری پس منظر واضح کیا ہے اور سرسید کے منہج تفسیر پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن اور بائبل کے بیانات کے تقابلی مطالعہ، اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کے رد اور غیبیات و معجزات کی عقلی توجیہ کو اس کی اہم خصوصیات میں شمار کیا ہے۔ مصنف نے یہ دلچسپ حقیقت بیان کی ہے کہ تفسیر قرآن کے ضمن میں ان تینوں پہلووں سے بعد کے مفسرین نے سرسید کے اثرات قبول کیے اور اردو تفاسیر میں نہ صرف قرآن اور بائبل کے تقابلی مطالعہ اور اسلام پر اعتراضات کا رد کرنے کی ریت قائم ہوئی، بلکہ غیبیات اور معجزات کی عقلی توجیہ کے باب میں بھی ’’اس تفسیر کے مابعد تفاسیر پر اثرات مرتب ہوئے اور اہل علم نے اس کے اسلوب اور انداز تحقیق کو اپنایا۔‘‘ (ص ۲۳) 
مصنف کے خیال میں اس طرز فکر کے بعض مثبت اثرات بھی ہیں، چنانچہ ’’قدیم مفسرین کی عجوبہ پسندی کا یہ حال تھا کہ وہ ایسے واقعات کو بھی جن کی مناسب عقلی توجیہ ممکن ہے، معجزات قرار دیتے تھے۔ ..... معجزات کے سلسلے میں سرسید کا نقطہ نظر تو قبولیت حاصل نہ کر سکا، لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ عجوبہ پسندی کی شدت میں کمی آئی اور بعض قرآنی واقعات پر اس حیثیت سے بھی غور ہونے لگا کہ ان کی عقلی توجیہ کر کے انھیں غیر معجزانہ واقعات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ اسے بھی تفسیر سرسید کا ایک قابل لحاظ اثر قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (ص ۲۴) اس نکتے کی وضاحت میں مصنف نے متعدد مثالیں بھی نقل کی ہیں۔ سرسید کی تفسیری خدمات کے حوالے سے مصنف کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ بعض پہلووں سے ’’یہ تفسیر سرسید کی مذہبی خدمات میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور یہ ان کا ایک قابل قدر علمی کارنامہ ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ جہاں ان کی غلطیوں اور لغزشوں پر بے لاگ تنقید کی جائے، وہیں ان کی وقیع تحقیقات کو سراہا جائے۔‘‘ (ص ۱۱) 
جہاں تک برطانوی اقتدار کے حوالے سے سرسید کی فکر کا تعلق ہے تو اس میں اور مذہبی علماء کی ایک بڑی تعداد کے زاویہ نظر میں بنیادی اشتراک دکھائی دیتا ہے، تاہم یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس پر ان شاء اللہ ہم آئندہ کسی نشست میں بات کریں گے۔

سرسید احمد خان اور مذہبی علماء

محمد عمار خان ناصر

سرسید احمد خان اور ان کے مذہبی وسیاسی افکار گزشتہ دنوں سوشل میڈیا میں زیر بحث رہے۔ سرسید کے ناقدین نے ان کی مذہبی تعبیرات اور برطانوی اقتدار سے متعلق ان کے جذبات وفاداری کو موضوع بنایا، جبکہ حامیوں نے اس کے جواب میں ’’ملائیت‘‘ کو بے نقط سنائیں۔ 
اس تناظر میں یہ مختصر وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ سرسید کی مذہبی تعبیرات کو اگرچہ راسخ العقیدہ علماء نے علمی سطح پر رد کیا (بلکہ سچ یہ ہے کہ انھیں سرسید کے علاوہ کسی نے قبول ہی نہیں کیا)، لیکن انھیں ’’ہوا‘‘ نہیں بنایا اور نہ ان کی بنا پر ان کے خلاف مذہبی فتوے بازی کی کوئی مہم ذمہ دار علماء کی طرف سے منظم کی گئی، بلکہ اکابر علماء نے سرسید کی اس کوشش کو ان کے خلوص کی بنا پر ہمدردانہ نظر سے دیکھا اور ان پر کوئی فتویٰ عائد کرنے سے گریز کیا۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادیؒ کے سامنے کسی نے سرسید کے مذہبی خیالات پر سخت الفاظ میں تبصرہ کیا تو مولانا نے کہا کہ ’’ان کی ظاہری تقریر کو نہ دیکھو، ان کے قلب کو دیکھو کہ کیسا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک موقع پر انھوں نے چند مولوی صاحبان کو مسجد میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ سرسید روایات صحیحہ کا انکار کرتا ہے، تواتر کا انکار کرتا ہے، کافر ہے وغیرہ وغیرہ، تو اپنے حجرے سے نکلے، مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ’’یہ لوگ اس بے چارے کو کافر بناتے ہیں، مگر اس کے قلب کو دیکھ کہ کیسا ہے۔‘‘ (’’کمالات رحمانی‘‘ از شاہ تجمل حسین بہاری، بحوالہ صدق جدید، ۵؍ مئی ۱۹۶۱ء)
اسی طرح کے خیالات مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تھے، چنانچہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب، مولانا کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’سرسید کا عقیدہ توحید اور رسالت کے متعلق جس درجہ کا بھی تھا، بلا وسوسہ اور نہایت پختہ تھا جیسا کہ ان کی بعض تصانیف سے مجھ کو ظاہر ہوا اور قرآن وحدیث کی جو توجیہات انھوں نے کیں، ان کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین کا اسلام پر کوئی اعتراض وارد نہ ہو۔ گو اس کے لیے انھوں نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ غلط تھا، اس لیے میں ان کو نادان دوست کہتا ہوں۔‘‘ (اشرف السوانح از خواجہ عزیز الحسن مجذوب، جلد اول، ص ۲۱۵)
اس کے علاوہ سرسید کے متعارف کردہ بہت سے نئے مذہبی مباحث سے علماء نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس پہلو پر اب بعض مطالعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت کے ممتاز محقق مولانا رضی الاسلام ندوی نے ’’سرسید کی تفسیر القرآن اور مابعد تفاسیر پر اس کے اثرات‘‘ کے زیر عنوان اپنے مقالے میں سرسید کی تفسیر قرآن کی تالیف کا فکری پس منظر واضح کیا ہے اور سرسید کے منہج تفسیر پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن اور بائبل کے بیانات کے تقابلی مطالعہ، اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کے رد اور غیبیات و معجزات کی عقلی توجیہ کو اس کی اہم خصوصیات میں شمار کیا ہے۔ مصنف نے یہ دلچسپ حقیقت بیان کی ہے کہ تفسیر قرآن کے ضمن میں ان تینوں پہلووں سے بعد کے مفسرین نے سرسید کے اثرات قبول کیے اور اردو تفاسیر میں نہ صرف قرآن اور بائبل کے تقابلی مطالعہ اور اسلام پر اعتراضات کا رد کرنے کی ریت قائم ہوئی، بلکہ غیبیات اور معجزات کی عقلی توجیہ کے باب میں بھی ’’اس تفسیر کے مابعد تفاسیر پر اثرات مرتب ہوئے اور اہل علم نے اس کے اسلوب اور انداز تحقیق کو اپنایا۔‘‘ (ص ۲۳) 
مصنف کے خیال میں اس طرز فکر کے بعض مثبت اثرات بھی ہیں، چنانچہ ’’قدیم مفسرین کی عجوبہ پسندی کا یہ حال تھا کہ وہ ایسے واقعات کو بھی جن کی مناسب عقلی توجیہ ممکن ہے، معجزات قرار دیتے تھے۔ ..... معجزات کے سلسلے میں سرسید کا نقطہ نظر تو قبولیت حاصل نہ کر سکا، لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ عجوبہ پسندی کی شدت میں کمی آئی اور بعض قرآنی واقعات پر اس حیثیت سے بھی غور ہونے لگا کہ ان کی عقلی توجیہ کر کے انھیں غیر معجزانہ واقعات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ اسے بھی تفسیر سرسید کا ایک قابل لحاظ اثر قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (ص ۲۴) اس نکتے کی وضاحت میں مصنف نے متعدد مثالیں بھی نقل کی ہیں۔ سرسید کی تفسیری خدمات کے حوالے سے مصنف کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ بعض پہلووں سے ’’یہ تفسیر سرسید کی مذہبی خدمات میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور یہ ان کا ایک قابل قدر علمی کارنامہ ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ جہاں ان کی غلطیوں اور لغزشوں پر بے لاگ تنقید کی جائے، وہیں ان کی وقیع تحقیقات کو سراہا جائے۔‘‘ (ص ۱۱) 
جہاں تک برطانوی اقتدار کے حوالے سے سرسید کی فکر کا تعلق ہے تو اس میں اور مذہبی علماء کی ایک بڑی تعداد کے زاویہ نظر میں بنیادی اشتراک دکھائی دیتا ہے، تاہم یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس پر ان شاء اللہ ہم آئندہ کسی نشست میں بات کریں گے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۲۹) نظر المغشی علیہ من الموت کا ترجمہ

مندرجہ ذیل دو قرآنی مقامات کے بعض ترجمے توجہ طلب ہیں:

(۱) رَأَیْْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْْہِ مِنَ الْمَوْتِ۔ (محمد: 20)

’’مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو ‘‘(سید مودودی، اس ترجمہ میں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ اذا کے ہوتے ہوئے ترجمہ ماضی کا کیا گیا ہے، حالانکہ اذا فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے اور اسے حال یا مستقبل کے مفہوم میں بدل دیتا ہے)
’’سو جس وقت کوئی صاف (مضمون) کی سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا بھی ذکر ہوتا ہے تو جن لوگو ں کے دلوں میں بیماری (نفاق) ہے آپ ان لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی بیہوشی طاری ہو‘‘ (احمد علی)
مذکورہ بالا ترجموں میں ایک توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ینظروں الیک نظر المغشي علیہ من الموت کا ترجمہ کیا گیا: ’’آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی بیہوشی طاری ہو‘‘ یہ عبارت کا صحیح اور واضح ترجمہ نہیں ہے، اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ دیکھنے والے کی یہ کیفیت ہے یا جسے وہ دیکھ رہے ہیں اس کی یہ کیفیت ہے، ترجمہ میں یہ بالکل واضح ہونا چاہئے کہ دیکھنے والوں کی یہ کیفیت بتائی جارہی ہے۔
اس پہلو سے مندرجہ ذیل ترجمے زیادہ مناسب ہیں، ان میں عبارت کا حق بھی ادا ہورہا ہے اور وضاحت کا تقاضا بھی پورا ہورہا ہے۔
’’پھر جب اتری ایک سورۃ جانچی ہوئی، اور ذکر ہوا اس میں لڑائی کا تو تو دیکھتا ہے جن کے دل میں روگ ہے تکتے ہیں تیری طرف جیسے تکتا ہے کوئی بے ہوش پڑا مرنے کے وقت‘‘(شاہ عبدالقادر، اس ترجمہ میں زیر بحث غلطی تو نہیں ہے لیکن وہ غلطی یہاں بھی موجود ہے جس کا اوپر کے ایک ترجمے میں ذکر کیا گیا ، اور وہ یہ کہ اذا کے ہوتے ہوئے ترجمہ ماضی کا کیا گیا، حالانکہ اذا فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے اور اسے حال یا مستقبل کے مفہوم میں بدل دیتا ہے)
’’پھر جب کوئی پختہ سورت اتاری گئی اور اس میں جہاد کا حکم فرمایا گیا تو تم دیکھو گے انہیں جن کے دلوں میں بیماری ہے کہ تمہاری طرف اس کا دیکھنا دیکھتے ہیں جس پر مْرونی چھائی ہو‘‘(احمد رضا خان،یہاں بھی وہ غلطی ہے)
’’پس جب اتاری جاوے گی سورت ثابت اور ذکر کیا جاوے بیچ اس کے لڑائی کا، دیکھے گا تو ان لوگوں کو ،بیچ دلوں ان کے بیماری ہے ،دیکھتے ہیں تیری طرف ،جیسا دیکھتا ہے وہ شخص کہ بیہوشی آئی ہو اوپر اس کے موت سے ‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو ‘‘(محمد جوناگڑھی)
آخر الذکر دونوں ترجموں میں زیر بحث دونوں غلطیاں نہیں ہیں۔

(۲) فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَیْْتَہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ تَدُورُ أَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشَی عَلَیْْہِ مِنَ الْمَوْت۔ (الاحزاب: 19)

اس آیت کے ترجموں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر لوگوں کے یہاں نظر المغشي علیہ من الموت کی طرح کالذي یغشی علیہ من الموت کے ترجمے میں بھی وہی خامی باقی رہ گئی، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’پھر جب آوے ڈر کا وقت تو تو دیکھے تکتے ہیں تیری طرف ٹکر ٹکر کرتی ہیں آنکھیں ان کی جیسے کسی پر آوے بیہوشی موت کی‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو‘‘ (سید مودودی)
’’پھر جب ڈر کا وقت آئے تم انہیں دیکھو گے تمہاری طرف یوں نظر کرتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھوم رہی ہیں جیسے کسی پر موت چھائی ہو ‘‘(احمد رضا خان)
’’پھر جب ڈر کا وقت آجائے تو تْو انھیں دیکھے گا کہ تیری طرف دیکھتے ہیں ان کی آنکھیں پھرتی ہیں جیسے کسی پر موت کی بے ہوشی آئے‘‘(احمد علی)
’’ پھر جب ڈر (کا وقت) آئے تو تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں (اور) اُن کی آنکھیں (اسی طرح) پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آرہی ہو‘‘(فتح محمدجالندھری)
مذکورہ ذیل ترجمہ مناسب ہے، اور اس میں یہ خامی نہیں ہے:
’’پھر جب خوف ودہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی انکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو‘‘(محمد جوناگڑھی)
دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ اوپر والی آیت کے ترجمہ میں بعض لوگوں نے اذا کے ہوتے ہوئے بھی پورے جملہ کا زمانہ ماضی سے ترجمہ کیا، لیکن انہی حضرات نے اس دوسری آیت میں اذاکی رعایت کی ہے، اوردرست طور سے حال یا مستقبل کا ترجمہ کیا ہے۔

(۱۳۰) مخلفون کا ترجمہ

مخلفون کا لفظ سورہ فتح میں تین بار آیا ہے، اور تینوں جگہ سب لوگوں نے ’’پیچھے رہ جانے والے‘‘ اور ’’پیچھے چھوڑ دیے جانے والے‘‘ ترجمہ کیا ہے۔

(۱) سَیَقُولُ لَکَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَہْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا۔ (الفتح: 11)

’’دیہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے وہ اب تجھ سے کہیں گے کہ ہم اپنے مال اور بال بچوں میں لگے رہ گئے پس آپ ہمارے لیے مغفرت طلب کیجئے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
’’اے نبیؐ، بدوی عربوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ ’’ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں‘‘۔(سید مودودی)

(۲) سَیَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَی مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوہَا ذَرُونَا نَتَّبِعْکُمْ۔ (الفتح: 15)

جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو۔ (سید مودودی)
جب تم لوگ غنیمتیں لینے چلو گے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ کہیں گے ہمیں بھی اجازت دیجیے کہ آپ کے ساتھ چلیں۔(فتح محمد جالندھری)

(۳) قُل لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَی قَوْمٍ أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُونَہُمْ أَوْ یُسْلِمُون۔ (الفتح: 16)

اِن پیچھے چھوڑے جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ "عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں تم کو ان سے جنگ کرنی ہوگی یا وہ مطیع ہو جائیں گے۔(سید مودودی)
جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہہ دو کہ تم ایک سخت جنگجو قوم کے (ساتھ لڑائی کے) لیے بلائے جاؤ گے ان سے تم (یا تو) جنگ کرتے رہو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے۔(فتح محمد جالندھری)
مخلفون کا لفظ ایک بار سورہ توبہ میں بھی آیا ہے وہاں صاحب تفہیم نے ایک مختلف ترجمہ کیا ہے، ذیل کی آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللّہِ وَکَرِہُواْ أَن یُجَاہِدُواْ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَقَالُواْ لاَ تَنفِرُواْ فِیْ الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ أَشَدُّ حَرّاً لَّوْ کَانُوا یَفْقَہُونَ۔ (التوبۃ: 81)

’’جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ’’اس سخت گرمی میں نہ نکلو‘‘ ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا‘‘۔(سید مودودی)
یہ ترجمہ لفظ کے موافق بھی نہیں ہے، اور حقیقت حال کے مطابق بھی نہیں ہے، کیونکہ اس ترجمہ سے صرف وہی لوگ مراد ہوتے ہیں جو اجازت لے کر رکے، حالانکہ آیت میں جو بات کہی جارہی ہے وہ ان تمام لوگوں کے بارے میں ہے جو پیچھے رہ گئے، خواہ وہ اجازت لے کر رہ گئے ہوں یا بغیر اجازت لیے رہ گئے ہوں، کسی بھی مہم کے موقعہ پر رکنے والے سب لوگ اجازت لے کر نہیں رکتے تھے، بہت سے یوں بھی رک جاتے تھے۔
مخلفون کا درست ترجمہ وہی ہے جو صاحب تفہیم نے مذکورہ بالا دوسرے مقامات پر کیا ہے یا دوسرے مترجمین نے خود اس مقام پر کیا ہے، جس کی ذیل میں مثالیں ہیں۔
’’پیچھے رہ جانے والے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا ناپسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اس گرمی میں مت نکلو۔ کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے، کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
’’جو لوگ (غزوہ تبوک میں) پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا (کی مرضی) کے خلاف بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے اور اس بات کو ناپسند کیا کہ خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور (اوروں سے بھی) کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا۔ (ان سے) کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش یہ (اس بات) کو سمجھتے‘‘۔(فتح محمدجالندھری)

(۱۳۱) وصلوات الرسول کا معطوف علیہ کیا ہے؟

وَمِنَ الأَعْرَابِ مَن یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللّہِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ سَیُدْخِلُہُمُ اللّہُ فِیْ رَحْمَتِہِ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔ (التوبۃ: 99)

اس آیت میں وصلوات الرسول کا عطف کس پر ہے، اس سلسلے میں مفسرین دو احتمال ذکر کرتے ہیں ایک یہ کہ قربات پر عطف ہے اور دوسرا یہ کہ ما ینفق پر عطف ہے۔ 
مشہور مفسر ابن عطیہ لکھتے ہیں:

ف صَلَواتِ علی ھذا عطف علی قُرُباتٍ، ویحتمل أن یکون عطفا علی ما ینفق، أی ویتخذ بالأعمال الصالحۃ وصلوات الرسول قربۃ، والأولی أبین. (المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز)

پہلی صورت کو ابن عطیہ ترجیح دیتے ہیں، اردو اور انگریزی مترجمین قرآن نے بھی پہلی صورت کو اختیار کیا ہے، بطور مثال یہاں کچھ ترجمے ذکر کیے جاتے ہیں:
’’اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے تقرب کا اور رسولؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں ہاں! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا، یقیناًاللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عنداللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کریں اسے اللہ کی نزدیکیوں اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھیں۔ (احمد رضا خان)
And of the dwellers of the desert is one who believeth in Allah and the Last Day, and taketh that which he expendeth as approaches unto Allah and the blessings of His apostle.(Daryabadi)
جبکہ مذکورہ ذیل دونوں ترجمے عام ترجموں سے مختلف ہیں اور اس بنیاد پر ہیں کہ وصلوات الرسول کا عطف ماینفق پر ہے:
اور ان دیہاتیوں میں وہ بھی ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو اور رسول کی دعاؤں کو حصول تقرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ (امین احسن اصلاحی)
And of the wandering Arabs there is he who believeth in Allah and the Last Day, and taketh that which he expendeth and also the prayers of the messenger as acceptable offerings in the sight of Allah.(Pickthall)
اول الذکر ترجموں کا مطلب یہ ہوگا کہ انفاق کا مقصود اللہ کا تقرب اور رسول کی دعائیں ہیں، جبکہ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہوگا کہ انفاق کا مقصود بھی اور رسول کی دعائیں لینے کا مقصود بھی اللہ کا تقرب ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی اس دوسرے ترجمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس جملے کے بعد أَلا إِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ آیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیش نظر صرف اللہ کے تقرب کی بات ہے کہ وہ کس طرح سے اور کن کن چیزوں سے حاصل ہو، انفاق کرنے سے بھی اور رسول کی دعا لینے سے بھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انفاق یا کسی بھی نیک عمل کا مقصود صرف رضائے الٰہی ہونا چاہئے، اخلاص کا یہی تقاضا ہے، اس عمل سے خوش ہو کر رسول دعائیں دیں یہ تو ٹھیک ہے، لیکن عمل کا مقصود یہ بن جائے کہ رسول دعائیں دیں یہ اخلاص کے منافی معلوم ہوتا ہے۔ 
اس مفہوم کی تائید جملے کی لفظی ترکیب سے بھی ہوتی ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اتخذ فعل کے دو مفعول آتے ہیں پہلا مفعول حقیقت میں مبتدأ کی جگہ پر ہوتا ہے اور دوسرا مفعول خبر کی جگہ پر ہوتا ہے، مبتدأ عام طور سے معرفہ ہوتا ہے اور خبر عام طور سے نکرہ ہوتی ہے، یہاں ما ینفق مفعول اول ہے اور مبتدأ کی جگہ پر ہے، قربات مفعول بہ ہے اور خبر کی جگہ پر ہے، سوال صلوات الرسول کا ہے کہ اسے مفعول اول پر عطف کریں یا مفعول ثانی پر عطف کریں، چونکہ صلوات الرسول معرفہ ہے اس لئے اسے مفعول اول یعنی ما ینفق پر عطف کرنا ہی اولی ہے۔ اسے مفعول ثانی کے بعد لانے کی حکمت یہ ہے کہ اصل بات تو قربات عند اللہ پر پوری ہوگئی ہے، اس کے بعد صلوات الرسول دراصل ما ینفق کے لازمہ کے طور پر آیا ہے، اور یہ بتانے کے لئے کہ قربات کا ایک اور وسیلہ یہ بھی ہے۔
(جاری)

دور جدید کا حدیثی ذخیرہ۔ ایک تعارفی جائزہ (۶)

مولانا سمیع اللہ سعدی

3۔ موسوعات الحدیث بحسب الافراد و الاشخاص

موسوعات کی تیسری قسم ان کتب کی ہے جن میں کسی خاص راوی (خاص طور پر صحابہ)کی مرویات کو جمع کیا گیا ہو، یا کسی خاص حدیث کے جملہ طرق کو اکٹھا کیا گیا ہو ۔یہ موسوعات زیادہ تر ایم فل اور پی ایچ ڈی مقالات کی صورت میں تیار ہوئے ہیں۔ اس سلسلے کی اہم کاوش یوسف ازبک کی قابل قدر تصنیف مسند علی بن ابی طالب ہے۔ یہ ضخیم موسوعہ دار المامون دمشق سے سات جلدوں میں چھپا ہے، اس کی تصنیف میں معروف سلفی عالم شیخ علی رضا نے بھی تعاون کیا ہے ۔اس کے علاوہ عبد العزیز بن عبد اللہ الحمیدی نے کتب حدیث میں حضرت ابن عباس کی تفسیری روایات کو تفسیر ابن عباس و مریاوتہ فی التفسیر من کتب السنۃ کے نام سے جمع کیا ہے، یہ کتاب دو جلدوں میں مرکز البحث العلمی مکہ مکرمہ سے چھپی ہے۔
کسی خاص حدیث کے جملہ طرق اور ان پر بحث کے سلسلے میں متعدد کتب منظر عام پرآئی ہیں ۔خلیل ابن ابراہیم نے حدیث الذبابۃ (وہ حدیث جس میں کھانے میں مکھی گرنے کا حکم بیان ہوا ہے ) پر ایک ضخیم کتاب الاصابۃ فی صحۃ حدیث الذبابۃ کے نام سے لکھی ہے جو دار القبلہ جدہ سے چھپی ہے۔ علی حسن عبد الحمید نے تنویر العینین فی طرق حدیث اسما ء فی کشف الوجہ و الکفین (دار عمار ،عمان )کے نام سے چہرہ اور کفین کے کشف کی معروف حدیث کے طرق جمع کیے ہیں۔ اس طرح کی کتب کثیر تعداد میں چھپی ہیں جو فہارسِ کتب پر مبنی معاجم میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ (ان معاجم کا ذکر مستقل عنوان کے ساتھ آرہا ہے۔) ذیل میں اہم کتب کی ایک فہرست پیش کی جاتی ہے :
1۔ مرویات ابن مسعود فی الکتب الستۃ وموطا مالک و مسند احمد، منصور بن عون العبدلی ،دار الشروق ،جدہ (مجلدین)
2۔ ابو ایوب الانصاری و مرویاتہ فی الکتب الستۃ ومسند الامام احمد، محمد عبد اللہ ،دار عالم الکتب ،ریاض 
3۔ مرویات الصحابی سلمۃ بن الاکوع فی الکتب الستۃ وموطا مالک ومسند احمد، حکمت بشیر یاسین ،دار المعرفہ ،جدہ 
4۔ ارشاد المربعین الی طرق حدیث الاربعین، احمد بن محمد صدیق غماری ،مطبعہ الشرق ،قاہرہ
5۔ الامنیۃ فی تخریج المسلسل بالاولیۃ،محمود بن محمد الحداد ،دار العاصمہ ،ریاض 
6۔ التعلقۃ الامینۃ فی طرق حدیث اللھم احیینی مسکینا، علی حسن عبد الحمید الحلبی ،مکتبہ المدینہ، مدینہ منورہ 
7۔ کشف اللثام عن طرق حدیث غربۃ الاسلام، عبد اللہ بن یوسف الجدیع ،مکتبہ الرشد ،ریاض 
8۔ جزء حدیث ابی حمید الساعدی فی صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و جزء حدیث المسیء صلاتہ، بتجمیع طرقہ و زیاداتہ، محمد عمر بازمول، دار الہجرہ، ریاض 
9۔ رفع المنار لطرق حدیث من سئل عن علم فکتمہ الجم یوم القیامہ بلجام من نار، احمد بن محمد صدیق غماری ،مکتبہ الامام بخاری ،مصر
10۔ امتاع مشیخۃ الاحمدیۃ بطرق حدیث فضل المرویات الاربعینیۃ، صالح بن عبد اللہ العصیمی ،دار اہل الحدیث ،ریاض 

4۔موسوعات علوم الحدیث و المصطلحات 

مصطلح الحدیث کے مباحث کو موسوعاتی شکل میں بیان کرنے کے سلسلے میں اہم کتب لکھی گئی ہیں، اس سلسلے کی سب سے اہم کتاب معروف مصنف و محقق سید عبد الماجد غوری کا تیا رکردہ ضخیم موسوعہ "موسوعۃ علوم الحدیث و فنونہ" ہے، یہ قابل قدر کاوش دار ابن کثیر بیروت سے تین جلدوں میں چھپی ہے۔ اس موسوعہ میں حروف تہجی کے اعتبار سے علوم الحدیث کے مباحث ذکر کیے گئے ہیں۔ اس کے شروع میں ایک جامع مقدمہ بھی ہے جس میں علم مصطلح الحدیث کی تاریخ و ارتقاء کو جامعیت و اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ڈا کٹر عبد الرحمان الخمیسی نے معجم علوم الحدیث النبوی کے نام سے ایک ضخیم معجم تیار کیا ہے، جو دار ابن حزم بیروت سے چھپا ہے ۔مصر کی وزارت اوقاف کے ذیلی ادارے مجلس الاعلی للشؤن الاسلامیہ نے بھی ایک ضخیم موسوعہ "موسوعۃ علوم الحدیث الشریف" کے نام سے تیار کیا ہے ،جو ایک ہزار صفحات کی ضخیم جلد میں اسی ادارے سے چھپا ہے ۔
ا ہم موسوعات و معاجم کی فہرست پیش خدمت ہے:
1۔ معجم مصطلحات الحدیث و لطائف الاسانید، محمد ضیاء الرحمان الاعظمی، اضواء السلف، ریاض 
2۔ معجم المصطلحات الحدیثیۃ، سلیمان مسلم الحرش، حسین اسماعیل الجمل ،مکتبہ العبیکان ،ریاض 
3۔ معجم مصطلحات الحدیثیۃ، نور الدین عتر ،مجمع اللغہ العربیہ ،دمشق
4۔ قاموس مصطلحات الحدیث النبوی، محمد صدیق المنشاوی ،دار الفضیلہ ،قاہرہ
5۔ معجم اصطلاحات الاحادیث النبویۃ، عبد المنان راسخ ،دار ابن حزم ،بیروت
6۔ مصطلحات الجرح والتعدیل المتعارضۃ، جمال اسطیری ،اضواء السلف ،ریاض 
7۔ الشرح و التعلیل لالفاظ الجرح و التعدیل، یوسف محمد صدیق ،مکتبہ ابن تیمیہ ،کویت 
8۔ معجم الفاظ الجرح و التعدیل، سید عبد الماجد غوری ،دار ابن کثیر ،دمشق
9۔ معجم المصطلحات الحدیثیۃ، سید عبد الماجد غوری ،دار ابن کثیر ،دمشق
10۔ معجم لسان المحدثین، محمد خلف سلامہ (5 مجلدات)

5۔ موسوعات کتبِ حدیث

پانچویں قسم ان موسوعات کی ہیں جو کتب حدیث کی ببلو گرافی پر مشتمل ہو، ان میں سے بعض موسوعاتِ عامہ ہیں جن میں مطبوعہ کتب حدیث کا بلا قید زمان و مکان اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے۔ ان میں سے سب سے اہم اور مفصل کتاب "دلیل مولفات الحدیث الشریف القدیمہ و الحدیثہ" ہے ،یہ اشاریہ تین مصنفین کی کاوش کا نتیجہ ہے، دار ابن حزم بیروت سے دو جلدوں میں چھپا ہے۔ اس کتاب کا تکملہ انہی تین مصنفین میں سے ایک نے "المعجم المصنف لمولفات الحدیث الشریف" کے نام سے تین ضخیم جلدوں میں لکھا ۔یوں یہ کتاب پانچ جلدوں پر مشتمل ہے ۔اس کتاب میں عالم عرب سے چھپی کتب حدیث کی جملہ انواع کا اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بعض موسوعات خاص زمانے، خاص کتب حدیث ،خاص مصنفین یا خاص خطوں سے متعلق کتبِ حدیث کی فہارس پر مشتمل ہیں۔ ذیل چند اہم موسوعاتِ عامہ و خاصہ کی فہرست دی جاتی ہے :
1۔ المعین علی کتب الاربعین من احادیث سید المرسلین، سہیل العود ،عالم الکتب ،بیروت
2۔ الرسالۃ المستطرفۃ لبیان مشھور کتب السنۃ المشرفۃ، محمد بن جعفر کتانی ،دار البشائر الا اسلامیہ،بیروت
3۔ الامالی المستظرفۃ علی الرسالۃ المستطرفۃ، احمد بن محمد صدیق الغماری ،دار البیارق ،عمان 
4۔ معجم ما طبع من کتب السنۃ، مصطفی عمار ،دار البخاری ،مدینہ منورہ 
5۔ تراث المغاربۃ فی الحدیث النبوی وعلومہ، محمد بن عبد اللہ التلیدی ،دار البشائر الاسلامیہ ، بیروت
6۔ اتحاف القاری بمعرفہ جھود واعمال العلماء علی صحیح البخاری، محمد عصام عرار الحسنی ، الیمامہ للطباعہ والنشر، دمشق
7۔ ببلوغرافیا لکتب الحدیث والسنۃ باللغۃ الانکلیزیۃ، صہیب بن عبد الغفار حسن ،مجمع الملک فہد للطباعہ ،مدینہ منورہ
8۔ المولفات الخاصۃ بالسنۃ النبویۃ باللغۃ الاردیۃ، ببلیو غرافیا ،احمد خان بن علی محمد ،مجمع الملک فہد ، مدینہ منورہ
9۔ المطبوعات الحجریۃ فی المغرب، فوزی عبد الرزاق ،دار النشر ،رباط
10۔ التصنیف فی السنۃ النبویہ و علومہا، خلدون الاحدب ،موسسہ الریان ،بیروت
مطبوعات کی مذکورہ فہارس کے علاوہ کتب حدیث کے مخطوطات کی فہرستیں بھی چھپی ہیں۔ ان میں سب سے مفصل الفھرس الشامل للتراث العربی المخطوط (الحدیث النبوی و علومہ و رجالہ) ہے ،یہ فہرس تین جلدوں پر مشتمل ہے۔موسسہ ال البیت عمان سے چھپی ہے۔اس کے علاوہ دنیا کے مشہور مکتبات کی اپنی فہارس مخطوطات چھپی ہیں،ان میں کتب حدیث کے مخطوطات کا اشاریہ بھی شامل ہوتا ہے۔

6۔ موسوعات الرواۃ و الرجال 

رواۃِ حدیث پر متنوع موسوعات و معاجم منظر عام پر آئی ہیں، بعض موسوعات اہم متونِ حدیث کے رجال کے تراجم پر مشتمل ہیں ، اس کی عمدہ مثال عبد الغفار بنداری اور سید کسروی حسن کا تیار کردہ موسوعہ معجم رجال الکتب التسعۃ ہے جس میں صحاح ستہ، موطا، مسند احمد اور مسند دارمی کے تراجمِ رواۃ بیان ہوئے ہیں ۔ یہ کتاب چار جلدوں میں دار الکتب العلمیہ بیروت سے چھپی ہے ۔بعض موسوعات راویوں کی اقسام (وحدان ،ضعاف ،ثقات ، مدلسین وغیرہ) کے اعتبار سے تیار ہوئی ہیں ،جیسے سید کسروی حسن نے ھدی القاصد الی اصحاب الحدیث الواحد کے نام سے ان تمام رواۃ کو جمع کیا ہے جو وحدان(جن سے صرف ایک راوی نے روایتیں لی ہوں) کہلاتے ہیں۔ یہ کتاب دار الکتب العلمیہ بیروت سے سات جلدوں میں چھپی ہے ۔بعض موسوعات اہم متون حدیث کے رجالِ زوائد پر مشتمل ہیں، جیسے یحییٰ بن عبد اللہ الشہری نے ابن حبان کے رجال زوائد کو زوائد رجال صحیح ابن حبان علی الکتب الستۃ کے نام سے ایک موسوعہ میں جمع کیا ہے ۔ یہ ضخیم کتاب چھ جلدوں میں مکتبہ الرشد ریاض سے چھپی ہے ۔ بعض موسوعات کتبِ رجال کی تلخیصات یا تذییلات(اضافہ جات ) کے قبیل سے ہیں ، جیسے الشریف حاتم بن عارف عونی نے ذیل لسان ا لمیزان کے نام سے لسان ا لمیزان پر ایک ذیل لکھا ہے ،یہ کتاب دار عالم الفوائد مکہ مکرمہ سے چھپی ہے ۔
بعض موسوعات مخصوص خطوں کے محدثین اور رواۃ کے تعارف پر مشتمل ہیں ، جیسے عبد العزیز بن عبد اللہ الزہرانی نے قبیلہ زہران و غامد کے رواۃ حدیث پر ایک مفصل معجم معجم رواۃ الحدیث الاماجد من علماء زھران وغامد تیار کیا ہے ۔یہ معجم آٹھ جلدوں میں مکتبہ نزار مکہ مکرمہ سے چھپا ہے ۔ بعض موسوعات محدثین و رواۃِ حدیث کے القابات کے اعتبار سے لکھے گئے ہیں،جیسے عبد الفتاح ابو غدہ نے امراء المومنین فی الحدیث کے نام سے ان رواۃ پر کتاب لکھی ہے جو تراجم میں امیر المومنین کے لقب سے معروف ہیں ۔یہ کتاب مکتب المطبوعات الاسلامیہ حلب سے چھپی ہے ۔بعض موسوعات خاص راویوں کے اوہام و مدرجات پر مشتمل ہیں ، جیسے شیخ سعید باشنفر نے ایک مفصل کتاب اوھام المحدثین الثقات کے نام سے لکھی ہے ۔یہ ضخیم کتاب گیارہ جلدوں میں دار ابن حزم بیروت سے چھپی ہے ۔بعض موسوعات کمپیوٹر سافٹ وئیرز کی شکل میں ہیں (جن کا ذکر مستقل عنوان کے تحت آرہا ہے)۔ الغرض رواۃِ حدیث پر ایک وسیع و ضخیم مکتبہ وجود میں آچکا ہے ۔ذیل میں اہم معاجم رواۃ کی فہرست دی جارہی ہے :
1۔ رجال تفسیر الطبری جرحا و تعدیلا، محمد صبحی حلاق ،دار ابن حزم ،بیروت 
2۔ قرۃ العین فی تلخیص رجال الصحیحین، محمد بن علی بن ادم الاثیوبی ،موسسہ الریان ،بیروت
3۔ معجم اسامی الرواۃ الذین ترجم لہم الالبانی جرحا و تعدیلا، احمد اسماعیل شکوکانی ، صالح عثمان اللحام ،دار ابن حزم بیروت (4مجلدات)
4۔ الاحتفال بمعرفۃ الرواۃ الثقات الذین لیسوا فی تہذیب الکمال، محمود سعید ممدوح ،دار البحوث للدراسات الاسلامیہ ،دبئی (4مجلدات)
5۔ التذییل علی کتاب تہذیب التہذیب، محمد بن طلعت ،اضواء السلف ،ریاض 
6۔ رجال الحاکم فی المستدرک، مقبل بن ہادی الوداعی ،دار الحرمین ،قاہرہ (مجلدین )
7۔ اسعاف القاری بمعجم شیوخ الامام البخاری، مجدی بن محمد بن عرفات ،مکتبہ ابن تیمیہ ،قاہرہ
8۔ معجم شیوخ الامام احمد بن حنبل فی المسند، عامر حسن صبری ،دار البشائر الاسلامیہ ، بیروت
9۔ خلاصۃ القول المفھم علی تراجم رجال جامع الامام مسلم، محمد امین بن عبد اللہ الاثیوبی ، مکتبہ جدہ (مجلدین )
10۔ تراجم الاحبار من رجال شرح معانی الاثار، محمد ایوب المظاہری ،مکتبہ اشاعت العلوم ، سہارنپور (4 مجلدات)
11۔ معجم المختلطین، محمد بن طلعت ،اضواء السلف ،ریاض 
12۔ طبقات النساء المحدثات من الطبقہ الاولی الی السادسۃ، عبد العزیز سید الاہل ،الناشر ، خاص
13۔ معجم من رمی بالتدلیس، ابو عمرو نادر بن وہبی 

7۔معاجم الاثبات و الاسانید 

موسوعات کی ساتویں قسم ان کتب کی ہیں جن میں معروف شیوخ نے اپنی اسانید، شیوخ اور مسموعات کی فہرست دی ہو۔ اس سلسلے میں سب سے مفصل معجم معروف محقق یوسف عبد الرحمان المرعشلی نے معجم المعاجم و المشیخات والفھارس والبرامج والاثبات کے نام سے لکھا ہے ۔اس معجم میں مصنف نے پہلی صدی ہجری سے لے کر عصر حاضر تک ان تمام شیوخ کی فہرست مرتب کی ہے جنہوں نے مشیخہ یا ثبت لکھا ہے ۔نیز ان کے اساتذہ کی بھی فہرست دی ہے ۔یہ ضخیم کتاب چار جلدوں میں مکتبہ الرشد ریاض سے چھپی ہے۔ اس کے علاوہ معروف محدث محمد عبد الحی الکتانی نے فھرس الفھارس والاثبات ومعجم المعاجم والمسلسلات کے نام سے ضخیم کتاب لکھی ہے جس میں شیوخ الحدیث کی مرتب کردہ اثبات و مسلسلات کا اشاریہ ترتیب دیا ہے ۔یہ کتاب دار الغرب الاسلامی بیروت سے دو جلدوں میں چھپی ہے ۔اسانید و مسلسلات کے سلسلے میں مکہ مکرمہ کے معروف محدث محمد یاسین فادانی کی خدمات سنہری حروف سے لکھنے کے لائق ہیں ۔موصوف نے دو درجن سے زائد کتب اسانید ،اثبات ،مشیخات اور مسلسلات پر لکھی ہیں ۔ اس کے علاوہ عالم عرب اور برصغیر کے اجل محدثین کی اثبات و اسانید پر مبنی کتب بھی شائع ہوئی ہیں ۔ ذیل میں اہم کتب کی فہرست دی جارہی ہے :
1۔ الیانع الجنی فی اسانید الشیخ عبد الغنی، محمد بن یحییٰ التیمی ، طبع حیدر آباد
2۔ تشنیف الاسماع بشیوخ الاجازۃ و السماع، محمد سعید ممدوح ،دار الشباب ،قاہرہ 
3۔ العناقید الغالیۃ من الاسانید العالیۃ، محمد عاشق الہی برنی ،مکتبہ الشیخ ،کراچی 
4۔ بلوغ امانی الابرار فی التعریف بشیوخ واسانید مسند الدیار الحلبیہ احمد بن محمد سردار الحلبی الشافعی، خالد عبد الکریم المکی ،دار القلم، حلب(مجلدین)
5۔ امداد الفتاح باسانید و مرویات الشیخ عبد الفتاح (ابو غدہ)، محمد بن عبد اللہ ال رشید ،مکتبہ الامام الشافعی ،ریاض 
6۔ نفحات الہند و الیمن باسانید الشیخ ابی الحسن (علی میاں ندوی )محمد اکرم ندوی ،مکتبہ الامام الشافعی 
7۔ فھرسۃ الشیوخ والاسانید للام السید علوی بن عباس بن عبد العزیز المالکی الحسنی، محمد بن علوی المالکی ،خاص 
8۔ فتح الجلیل فی ترجمۃ وثبت شیخ الحنابلہ عبد اللہ بن عبد العزیز العقیل، محمد زیاد عمر، دار البشائر الاسلامیہ ،بیروت
9۔ منح المنۃ فی سلسلۃ بعض کتب السنۃ، محمد عبد الحی الکتانی ،المطبعہ الماجدیہ ،مکہ مکرمہ
10۔ الازدیاد السنی علی الیانع الجنی، مفتی محمد شفیع ، مکتبہ دار العلوم ،کراچی 

8۔معاجم متفرقہ 

آٹھویں قسم ان معاجم و موسوعات کی ہے جومذکورہ بالا عنوانات کے تحت نہ آتے ہوں۔ کتبِ حدیث یا ائمہ حدیث کی مختلف جہات سے متعلق ہونے کی وجہ سے ان معاجم کی متعین درجہ بندی نہیں کی جاسکتی ، جیسے شوقی ابو خلیل نے صحاح ستہ میں مذکور اماکن و اقوام کے تعارف پر ایک مفصل اطلس تیار کیا ہے ،یہ کتاب "اطلس الحدیث النبوی من الکتب الستہ،اماکن و اقوام" کے نام سے دار الفکر دمشق سے چھپی ہے۔ محمد التونجی نے معجم اعلام متن الحدیث کے نام سے ان اسماء کو جمع کیا ہے جن کا ذکر کسی نہ کسی حدیث میں آیا ہے۔ یہ کتاب دار المعرفہ بیروت سے چھپی ہے ۔ اس کے علاوہ ولید الزبیری نے اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ مل کر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان تمام اقوال کو جمع کیا ہے جن میں حافظ ابن حجر نے اپنی مولفات میں کسی حدیث یا اثر پر حکم لگایا ہے اور اس پر کسی جہت سے کلام کیا ہے ۔یہ قابل قدر کاوش "موسوعۃ الحافظ ابن حجر العسقلانی الحدیثیۃ" کے نام سے سلسلہ اصدارات مجلہ الحکمہ لیڈز برطانیہ سے چھپی ہے ۔
حدیث،کتب حدیث اور ائمہ حدیث سے متعلق اہم معاجم و موسوعات کی فہرست پیش خدمت ہے :
1۔ معجم المصنفات الواردۃ فی فتح الباری، مشہور حسن ال سلمان ،رائد بن صبری ،دار الہجرہ ،ریاض 
2۔ معجم الامکنۃ الواردۃ ذکرھا فی صحیح البخاری، سعد بن جنیدل
3۔ غبطۃ القاری ببیان احالات فتح الباری،صفا الضوی، مکتبہ ابن تیمیہ ،قاہرہ 
4۔ معجم اعلام الحدیث النبوی من الصحیحین، محمد التونجی ،مرکز المخطوطات و التراث و الوثائق ، کویت
5۔ موسوعۃ اقوال الامام احمد بن حنبل فی رجال الحدیث و عللہ، محمود محمد خلیل و آخرون، عالم الکتب،بیروت (4مجلدات)
6۔ معجم مسانید کتب الحدیث، ابو الفداء سامی ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت
7۔ تراجعات الحافظ ابن حجر فی فتح الباری، مشہور حسن ال سلیمان ،مکتبہ الخراز ،جدہ

ساتویں جہت :فہارس و اطراف الحدیث

کتبِ حدیث کی فہارس اور اطراف پر کثرت سے کتب لکھی گئی ہیں ۔ایک کتاب کی متنوع فہارس منظر عام پر آئی ہیں جن میں اعلام،اماکن ،آیات ،ابواب و فصول اور خاص طور پر حروف تہجی کے اعتبار سے کتاب کی احادیث (جنہیں اطراف کہا جاتا ہے ) کی فہرستیں مرتب ہوئی ہیں ۔ اس کے ساتھ علم فہرست اور اشاریہ سازی کے اصول و ضوابط پر الگ سے کام ہوا ہے۔ معروف محقق یوسف عبد الرحمان المرعشلی نے علم فھرست الحدیث، نشاتہ، تطورہ واشھر ما دون فیہ کے نام سے ایک قابل قدر کتاب لکھی ہے جس میں فن فہرس حدیث کا آغاز و ارتقاء اور اس فن پر لکھی گئی اہم کتب کا تعارف کرا یا ہے۔
فہارس کتب حدیث کی ابتداء مستشرقین کی طرف سے ہوئی۔ خاص طور پر مستشرقین کی ایک جماعت نے نو بنیادی متون حدیث صحاح ستہ ،مسند دارمی ،موطا امام مالک اور مسند احمد کی فہارس حدیث پر مشتمل ایک مفصل معجم تیار کیا ہے ۔ یہ کتاب "المعجم المفھرس لالفاظ الحدیث النبوی" کے نام سے آٹھ ضخیم جلدوں میں مکتبہ بریل ہالینڈ سے چھپی ہے ۔ اس میں حروف تہجی کے اعتبار سے الفاظ حدیث کی فہرست دی گئی ہے۔ معروف مستشرق ای فنسنک نے مفتاح کنوز السنۃ کے نام سے ایک مختصر اشاریہ ترتیب دیا ہے۔ یہ اشاریہ حدیث کی چودہ کتب (صحاح ستہ،مسند دارمی ،موطا،مسند زید بن علی ،مسند طیالسی ،مسند احمد، طبقات ابن سعد ،سیرۃ ابن ہشام ،مغازی واقدی) کے اطراف پر مشتمل ہے ۔ اس کا عربی ترجمہ معروف محقق فواد عبد الباقی نے کیا ہے ۔
مستشرقین کے بعد اسلامی دنیا میں بھی کثرت سے فہارس پر کتب لکھی گئیں ۔ اطراف الحدیث پر معاصر سطح کی سب سے مفصل فہرست محقق محمد سعید بن بسیونی زغلول نے تیار کی ہے ۔ موصوف نے حدیث کی دو سو کتب کے اطراف کو موسوعۃ اطراف الحدیث النبوی کے نام سے جمع کیا ہے ۔ یہ موسوعہ عالم الکتاب بیروت سے پندرہ جلدوں میں چھپا ہے ۔ مفصل فہارس کے سلسلے میں شعیب الارناووط کی فہارس مسند احمد بھی قابل ذکر ہیں ۔ موصوف نے مسند احمد پر قابل قدر تحقیق مکمل کرنے کے بعد اس کی مفصل فہارس تیار کیں۔ یہ الفھارس العامۃ لمسند الامام احمد بن حنبل کے نام سے پانچ جلدوں پر مشتمل ہیں ۔ موسسہ الرسالہ کی تحقیق شعیب الارناوط کی طباعتِ مسند کی آخری پانچ جلدیں انہی فہارس کی ہیں ۔ اس کے علاوہ عبد الکریم غانم سے ضعیف و موضوع احادیث کا ایک اشاریہ ترتیب دیا ہے ،جو دو جلدوں میں مکتبہ العبیکان ریاض سے چھپا ہے۔
ذیل میں اہم کتب حدیث کی فہارس و اطراف پر مشتمل کتب کی فہرست دی جارہی ہے :
1۔ قرۃ العینین فی اطراف الصحیحین، فواد عبد الباقی ، المکتبہ التجاریہ ،مکہ مکرمہ (3مجلدات)
2۔ فہارس صحیح مسلم، فواد عبد الباقی، دار احیاء الکتب العربیہ ،بیروت
3۔ المرشد الی احادیث سنن الترمذی، صدقی البیک ،مطبعۃ الفجر ،حمص
4۔ فھارس جامع الاصول فی احادیث الرسول لابن الاثیر، عبد اللہ بن محمد الغنیمان، دار المامون للتراث، دمشق(مجلدین)
5۔ المعجم المفھرس لالفاظ الحدیث النبوی فی سنن دار قطنی، یوسف عبد الرحمان المرعشلی، دار المعرفہ ،بیروت
6۔ فھارس احادیث سنن الکبری للبیھقی، یوسف عبد الرحمان المرعشلی ،دار المعرفہ ،بیروت
7۔ فھارس سنن النسائی ، عبد الفتاح ابو غدہ ،مکتب المطبوعات الاسلامیہ ،حلب
8۔ فھرس احادیث وآثار للمستدرک علی الصحیحین، یوسف عبد الرحمان المرعشلی ،دار المعرفہ ، بیروت (مجلدین)
9۔ فھارس سنن ابن ماجہ، محمد سعید بن بسیونی زغلول ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت
10۔ فھارس شرح معانی الاثار، عبد الرحمان دمشقیہ ،سلیمان الحرش،دار طیبہ ،ریاض
11۔ المرشد الی کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، ندیم مرعشلی، اسامہ مرعشلی، موسسہ الرسالہ، بیروت (مجلدین )
12۔ فھرس احادیث وآثار مجمع الزوائد، محمد سلیم ابراہیم سمارہ ،عالم الکتب ،بیروت(4مجلدات)
13۔ فھارس احادیث و آثار سنن ابی داود، عبد الرحمان دمشقیہ ،دار طیبہ ،ریاض
14۔ فھارس احادیث و آثار نصب الرایۃ، عدنان علی شلاق ،عالم الکتب بیروت (مجلدین )
15۔ فھرس مصنفی عبد الرزاق و ابن ابی شیبۃ، ام عبد اللہ بن محروس ،دار طیبہ ،ریاض (مجلدین )
16۔ الجامع المفھرس لالفاظ صحیح مسلم، سعد المرصفی ،مجلس النشر العلمی ،جامعہ الکویت (4 مجلدات)
متونِ حدیث میں سے تقریباً ہر ایک کتاب کی متعدد فہارس تیار ہوئی ہیں ۔ مزید کتب کے لیے المعجم المصنف لمولفات الحدیث الشریف (ص947 تا 960 ج2) کی طرف رجوع کیا جائے۔

آٹھویں جہت :کتبِ حدیث کی تہذیب ،ترتیب اور اختصار

دورِ جدید کے حدیثی ذخیرے کی ایک جہت اہم متونِ حدیث کی ترتیبِ جدید ،تہذیب اور ان کا اختصار ہے۔ اختصار میں عموماً سلسلہ سند حذف کر کے(سوائے صحابی کے) صرف متونِ حدیث ذکر کیے جاتے ہیں۔ بعض اختصارات میں سلسلہ سند کے ساتھ مکررات بھی حذف کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں معروف شامی محقق مصطفی دیب البغا نے قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ موصوف نے صحاح ستہ کے اختصارات تیار کیے ہیں۔ اس کے علاوہ فیصل بن عبد العزیز ال مبارک نے نیل الاوطار کا دو جلدوں میں اختصار کیا ہے ۔ یہ اختصار بستان الاحبار مختصر نیل الاوطار کے نام سے مطبعہ سلفیہ قاہرہ سے چھپا ہے ۔ معروف سلفی محدث ناصر الدین البانی نے بھی کتب حدیث کے عمدہ اختصارات کیے ہیں جن میں خاص طور پر صحیح بخاری کا اختصار قابل ذکر ہے ۔یہ اختصار مختصر صحیح الامام البخاری کے نام سے مکتب المعارف ریاض سے چار جلدوں میں چھپا ہے۔
اہم متونِ حدیث کے مختصرات کی ایک فہرست پیش خدمت ہے :
1۔ فتح الالہ فی اختصار السنن الکبری للبیھقی، محمد ابن احمد الشنقیطی ،دار الفکر، بیروت (5 مجلدات)
2۔ مختصر الشمائل المحمدیۃ للترمذی، ناصر الدین البانی ،المکتبہ الاسلامیہ ،عمان
3۔ مختصر النھایۃ فی غریب الحدیث لابن الاثیر، صلاح الدین حفنی ،دار البحوث العلمیہ ،کویت
4۔ مختصر مسند الامام احمد، خالد عبد الرحمان العک، محمد ادریس اسلام ،دار الحکمہ ،دمشق
5۔ مختصر صحیح مسلم، محمد بن یاسین بن عبد اللہ ،المکتبہ التجاریہ ،مکہ مکرمہ (مجلدین )
6۔ مختصر صحیح البخاری مع شرحہ فتح الباری، خالد عبد الرحمان العک ،دار الحکمہ ،دمشق (مجلدین)
7۔ مختصر مصنف عبد الرزاق، مصطفی بن علی بن عوض ،دار الجیل ،بیروت (4 مجلدات)
8۔ مختصر عمدۃ الاحکام للمقدسی، محمود الارناووط ،موسسہ الریان ،بیروت
9۔ المحصل من مسند الامام احمد بن حنبل، عبد اللہ بن ابراہیم القرعاوی ،ریاض (3 مجلدات)
10۔ مختصر صحیح الامام مسلم بشرح النووی، خالد عبد الرحمان العک ،دار الالباب ،دمشق
اختصارات کے ساتھ متونِ حدیث کی ترتیبِ جدید اور تہذیب پر بھی متنوع کام ہوئے ہیں۔اطراف الحدیث کے ماہر محقق محمد سعید بن بسیونی زغلول کی سر براہی میں دو محققین نے امام مزی کی تحفۃ الاشراف کی تہذیب و ترتیب جدید مرتب کی ہے۔ یہ عمدہ تہذیب "تقریب تحفۃ الاشراف بمعرفہ الاطراف" کے نام سے موسسہ الکتب بیروت سے چھ جلدوں میں شائع ہوئی ہے ۔ اس کتاب میں تحفہ الاشراف میں مذکورہ اطراف کی اسناد حذف کی گئی ہیں،ہر حدیث کی تخریج کی گئی ہے،جملہ رواۃ خواہ صحابہ ہوں یا تابعین، ان کی مرویات کی تعداد بتائی گئی ہے۔ الغرض تحفۃ الااشراف کے مباحث کی نئے انداز میں تہذیب کی گئی ہے ۔
تہذیبات کے سلسلے میں اہم کام موطا امام مالک کی معروف شرح التمھید لابن عبد البر کی فقہی ابواب پر ترتیبِ جدید ہے ۔ محمد بن عبد الرحمان المغراوی نے فتح البر فی الترتیب الفقھی لتمھید ابن عبد البر کے نام سے التمہید کو فقہی ابواب کے مطابق مرتب کیا ہے ۔ یہ کتاب چودہ جلدوں میں ریاض سے چھپی ہے ۔ خالد محمود رباط نے امام طحاوی کی شرح مشکل الآثار کو نئے قالب میں ڈھالا ہے ۔ یہ کتاب تحفۃ الاخیار بترتیب شرح مشکل الآثار کے نام سے دار بلنسیہ ریاض سے دس جلدوں میں چھپی ہے ،اس میں مصنف نے شرح مشکل الاثار کی جدید تبویب کی ہے اور احادیث و آثار کی تخریج بھی کی ہے ۔ عبدہ علی کوشک نے مسند ابی یعلی کو "المقصد الاعلی فی تقریب احادیث الحافظ ابی یعلی" کے نام سے فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب تین جلدوں میں دار ابن حزم بیروت سے چھپی ہے ۔
کتبِ حدیث کی اہم تہذیبات پیش خدمت ہیں:
1۔ تھذیب جامع الترمذی، عبد اللہ عبد القادر تلیدی ،دار الفکر ،بیروت(3مجلدات)
2۔ تقریب بلوغ المرام للحافظ، فہد بن عبد الرحمان یحیی ،طارق بن محمد الخضر ،دار ابن جوزی ،دمام
3۔ الشھاب اللامع  بتھذیب کتاب الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع، ضیاء الدین بن رجب ،دار الفتح، متحدہ عرب امارات
4۔ تھذیب الترغیب والترھیب، عونی نعیم اشرف ،دار الجیل ،بیروت(مجلدین ) 
5۔ تقریب التقریب  (لابن حجر)، عائض بن عبد اللہ القرنی ،مکتبہ ابہا ،سعودی
6۔ تقریب التدریب، صلاح محمد عویضہ ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت
7۔ مھذب عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، علی حسن عبد الحمید حلبی ،المکتبہ الاسلامیہ ،عمان

نویں جہت :کتبِ تخریجات 

معاصر سطح پر تخریج ِ حدیث کے سلسلے میں وسیع پیمانے پر کام ہوا ہے ،علم التخریج اور اس کے اصولوں و ضوابط پر پورا مکتبہ وجود میں آچکا ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ اصولِ حدیث میں لفظ تخریج متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ معاصر اصطلاح میں خصوصیت کے ساتھ اس کے مفہوم میں دراسۃ الاسانید یعنی اسانید پر جرح و تعدیل کے اعتبار سے بحث کر کے حدیث کے درجے کا تعین کرنا بھی شامل ہوا ہے۔ یوں اس فن کی دقت اور اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ۔ اس لیے فن تخریج پر کثیر تعداد میں کتب لکھی گئی ہیں،ان کتب میں تفصیلی ہونے کے اعتبار سے عبد الموجود محمد عبد اللطیف کی کتاب کشف اللثام عن اسرار تخریج حدیثِ سید الانام قابل ذکر ہے ،یہ کتاب مکتبہ الازہر قاہرہ سے دو جلدوں میں چھپی ہے، فن تخریج اور اس کے اصولوں و ضوابط پر شاید سب سے ضخیم کتاب ہے۔
اس کے علاوہ تفصیلی کتب میں کمال علی الجمل کی کتاب کنز الدقائق فی بیان ما فی التخریج من دقائق (خاص ،قاہرہ)، معروف مصنف عداب محمود الحمش کی کتاب علم التخریج الحدیث و نقدہ، تاصیل و تطبیق (دار الفرقان، عمان)، دس مصنفین کی مشترکہ کاوش الواضح فی فن التخریج ودراسۃ الاسانید (الدار العالمیہ للنشر، عمان)، علی نائف بقاعی کی تخریج الحدیث الشریف (دار البشائر الاسلامیہ، بیروت) اور محمد عزت حسین کی ضخیم کتاب المغنی فی طرق تخریج الحدیث (خاص ،قاہرہ )اہم کتب ہیں ، جبکہ درسی حوالے سے معروف مدرس و مصنف محمود طحان کی مختصر و جامع کتاب اصول التخریج ودراسۃ الاسانید (المطبعہ العربیہ، حلب) قابل ذکر ہے۔
اس موضوع پر چند تفصیلی کتب کی فہرست پیش خدمت ہے:
1۔ طرق تخریج حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، عبد المہدی عبد الہادی ،جامعہ الازہر، مصر
2۔ تیسیر علم التخریج ، محمود عمر ہاشم ، مطبعہ الشروق ،مصر
3۔ التاصیل لاصول التخریج و قواعد الجرح و التعدیل، بکر بن عبد اللہ ابو زید ،دار العاصمہ ، ریاض
4۔ المغنی فی علم تخریج احادیث المصطفی، دلال محمو ابو سالم ،خاص ،مصر
5۔ مفتاح المتبدئین فی تخریج حدیث خاتم النبیین، رضا بن زکریا حمیدہ ،خاص قاہرہ
علم تخریج کے ساتھ علوم اسلامیہ کے مختلف گوشوں پر لکھی گئی کتب میں مذکور احادیث کی تخریج پر بے شمار کام ہوئے ہیں ۔ زیادہ تر کام ایم فل، پی ایچ ڈی مقالات کی صورت میں ہوئے ہیں۔ لغت ،نحو ،صرف ،بلاغت ،فقہ و اصول فقہ اور تفسیر پر لکھی گئی اہم کتب میں مذکور احادیث کی تخریج مع ان کی درجہ بندی پر کام ہوا ہے۔ چند اہم کام ملاحظہ ہوں :
احمد بن محمد الغماری نے بدایۃ المجتہد کی احادیث کی مفصل تخریج الھدایۃ فی تخریج احادیث البدایۃ کے نام سے کی ہے۔ یہ کتاب عالم الکتب بیروت سے آٹھ جلدوں میں چھپی ہے ۔ مروان کجک نے امام ابن تیمیہ کے مجموعہ فتاوی میں مذکور احادیث کی تخریج کی ہے ۔یہ قابل قدر کام تخریج احادیث مجموعۃ الفتاوی شیخ الاسلام تقی الدین احمد ابن تیمیہ الحرانی کے نام سے دار ابن حزم بیروت سے چھ جلدوں میں چھپا ہے ۔ مخیمر صالح نے ابونعیم کی معروف کتاب حلیۃ الاولیاء کی احادیث کی تخریج کی ہے ۔یہ کتاب کمال البغیۃ فی تخریج احادیث الحلیۃ کے نام سے جامعہ الیرموک اردن سے دو جلدوں میں چھپی ہے۔ 
ابن حجر عسقلانی کی بلوغ المرام احادیثِ احکام کے بنیادی مصادر میں شمار ہوتی ہے ، اس کتاب کی مفصل تخریج خالد بن ضیف اللہ الشلاحی نے کی ہے۔ یہ ضخیم کتاب التبیان فی تخریج وتبویب احادیث بلوغ المرام و بیان ما ورد فی الباب کے نام سے موسسہ الرسالہ بیروت سے آٹھ جلدوں میں چھپی ہے۔ ابن سنی کی عمل الیوم و اللیلۃ کتب اذکار میں اہم مقام کی حامل ہے ، اس کی تخریج معروف مصنف سلیم بن عید الہلالی نے عجالۃ الراغب المتمنی فی تخریج کتاب عمل الیوم و اللیلۃ لابن سنی کے نام سے کی ہے ،جو دار ابن حزم بیروت سے دو جلدوں میں چھپی ہے ۔ احمد بن محمد صدیق الغماری نے تصوف کی معروف کتاب عوارف المعارف کی احادیث کی تخریج غنیۃ العارف بتخریج احادیث عوارف المعارف کے نام سے کی ہے ۔یہ کتاب المکتبہ المکیہ مکہ مکرمہ سے دو جلدوں میں چھپی ہے۔
تخریج کے حوالے سے چند مزید اہم کتب کی فہرست پیش خدمت ہے :
1۔ ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل، ناصر الدین البانی ،المکتب الاسلامی ،بیروت (8 مجلدات)
2۔ تخریج االاحادیث الواردۃ فی مدونۃ الامام مالک بن انس، طاہر محمد دردیری، جامعہ ام القری، مکہ مکرمہ (3 مجلدات)
3۔ غوث المکدود بتخریج منتقی ابن الجارود، ابو اسحاق الحوینی ،حجازی بن محمد ،دار الکتاب العربی، بیروت (3 مجلدات)
4۔ الروض البسام بترتیب و تخریج فوائد التمام، دار البشائر الاسلامیہ ،بیروت (5مجلدات)
5۔ فتح الجلا ل فی تخریج احادیث الظلال (سید قطب)عبد المنعم ابراہیم ،محمد ابراہیم ،مکتبہ نزار ،مکہ مکرمہ (3 مجلدات)
6۔ التعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان، ناصر الدین البانی ،جدہ (12 مجلدات) صحیح ابن حبان کی احادیث کی تخریج ہے۔ 
7۔ الاحادیث والآثار الواردۃ فی تاریخ بغدادللخطیب البغدادی، علی بن عبد اللہ الجمعہ، جامعہ ام القری (6مجلدات)
کتب تخریجات علمی تحقیقات میں بڑی معاون ہیں، ان کتب کی مدد سے احادیث پر تحقیق اور درجہ بندی کا تعین آسان ہوجاتا ہے۔
(جاری)

دستور کی اسلامی دفعات اور ’’سیاسی اسلام‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ربع صدی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ گکھڑ میں حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر? کی مسجد میں دینی جلسہ تھا، اس دور کے ایک معروف خطیب بیان فرما رہے تھے، موضوعِ گفتگو دارالعلوم دیوبند کی خدمات و امتیازات تھا۔ جوشِ خطابت میں انہوں نے یہ فرما دیا کہ دارالعلوم دیوبند نے شاہ اسماعیل شہید جیسے سپوت پیدا کیے۔ جلسہ کے بعد دسترخوان پر ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ حضرت! دارالعلوم دیوبند کا آغاز 1866ء میں ہوا تھا جبکہ شاہ اسماعیل شہید اس سے تقریباً پینتیس سال قبل بالاکوٹ میں شہید ہوگئے تھے، آپ نے انہیں دارالعلوم دیوبند کے سپوتوں میں کیسے شامل کر لیا؟ فرمانے لگے کہ یہ بات میرے ذہن میں نہیں تھی آئندہ اس کا خیال رکھوں گا۔ بھلے آدمی تھے، انتقال کر گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ شاہ اسماعیل شہید اور ان کے رفقاء کی قربانیوں کے نتیجے میں دارالعلوم دیوبند وجود میں آیا مگر شہدائے بالاکوٹ کو دارالعلوم دیوبند کے ثمرات میں شامل کرنے والی بات درست نہیں ہے۔
ہمارے ہاں تاریخ سے بے خبری کے باعث اس قسم کی باتیں عام طور پر ہو جاتی ہیں جو لاعلمی کی وجہ سے ہوں تو زیادہ سے زیادہ جہالت کا عنوان پاتی ہیں، لیکن اگر ایسی باتیں باخبر ہوتے ہوئے بھی جان بوجھ کر کی جائیں تو اس کے لیے بے خبری اور جہالت کی بجائے دجل اور جاہلیت کا عنوان زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ آج کل ایک بات تواتر کے ساتھ کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے دستور میں اسلامی دفعات جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے شامل کی تھیں اور یہ ان کے دورِ آمریت کی یادگار ہیں۔ حالانکہ دستور کی بنیادی اسلامی دفعات ۱۹۷۳ء اور ۱۹۷۴ء میں منتخب پارلیمنٹ نے طے کی تھیں مثلاً (۱) ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا (۲) سرکاری مذہب اسلام ہوگا (۳) پارلیمنٹ قرآن و سنت کی پابند ہوگی (۴) قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہیں کی جا سکے گی اور (۵) قادیانیوں کا شمار غیر مسلم اقلیتوں میں ہوگا۔ جبکہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اس وقت فوج کی ہائی کمان کا حصہ بھی نہیں تھے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے مگر ہمارے ہاں چونکہ سیاست میں نکولو میکیاولی اور پراپیگنڈا اور لابنگ میں جوزف گوئبلز کے ذوق و اسلوب کی حکمرانی ہے اس لیے یہ سب کچھ کسی حجاب کے بغیر کہا اور دہرایا جا رہا ہے۔
اسی طرح ایک بات ’’سیاسی اسلام‘‘ کے عنوان سے بھی وضع کر لی گئی ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس کا پرچم سب سے پہلے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بلند کیا تھا، اس لیے یہ ان کی اختراع ہے۔ ’’سیاسی اسلام‘‘ کے تعارف کے لیے اس کے عناصر اربعہ کے طور پر جو باتیں آج کل بیان کی جا رہی ہیں وہ یہ ہیں کہ
آج کی دنیا میں ان امور کو ’’سیاسی اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور مغربی دانش و سیاست کا مسلسل یہ تقاضا ہے کہ ہم ان امور سے دست بردار ہو کر دین و مذہب کو عقیدہ و عبادت اور اخلاقیات کے دائرے میں ہی محدود سمجھ لیں۔ اس سلسلہ میں باقی تمام پہلوؤں سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اگر اس کا نام ’’سیاسی اسلام‘‘ ہے تو یہ مولانا مودودی کی ایجاد نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں ہمارے بہت پہلے کے ماضی میں پیوست ہیں۔ حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی اور حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی دخل اندازی بڑھتے دیکھ کر جو تاریخی فتویٰ صادر کیا تھا اس کی بنیاد دو بڑے نکات پر تھی:
اس وقت رسمی طور پر مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کی حکومت تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی بادشاہ کے نام پر وہ اقدامات کر رہی تھی جن کی بنیاد پر ہندوستان کے ’’دارالحرب‘‘ ہونے کا یہ فتویٰ صادر کیا گیا تھا۔ پھر اسی فتویٰ کی بنیاد پر سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے مسلح بغاوت اور جہاد کے نتیجے میں جو حکومت قائم کی تھی وہ امیر المومنین کی سربراہی میں اسلامی حکومت تھی۔ کم و بیش اسی دور میں بنگال میں حاجی شریعت اللہ کی ’’فرائضی تحریک‘‘ کا ٹائٹل بھی غیر ملکی تسلط کے خلاف مزاحمت اور نفاذِ شریعت تھا۔ جبکہ اس کے بعد برصغیر کے طول و عرض میں جو بیسیوں تحریکات اٹھیں وہ غیر ملکی تسلط سے نجات اور شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کے عنوان سے آگے بڑھیں۔ حتیٰ کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے خلافت عثمانیہ، جرمنی، جاپان اور افغانستان کی حکومتوں کے تعاون سے جس انقلاب کی منصوبہ بندی کی تھی اس کا ٹائٹل ’’حکومتِ الٰہیہ‘‘ تھا جس کا دستورِ اساسی بھی شائع ہو چکا تھا اور اس کے مسلح لشکر کا عنوان ’’جنود ربانیہ‘‘ تھا۔
اس لیے اگر کسی دانشور کو یہ ’’سیاسی اسلام‘‘ قبول نہیں ہے اور حکومت و سیاست اور غلبہ و بالادستی کے عنوان سے انہیں الرجی ہوتی ہے تو وہ انقلابِ فرانس کے بعد کی مسیحیت کی طرز پر اسلام کو جس لبادے میں چاہیں پیش کرتے رہیں مگر خدارا تاریخی حقائق کو مسخ نہ کریں اور تاریخ کی ترتیب تبدیل کرنے کی کوشش نہ فرمائیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جسے ’’سیاسی اسلام‘‘ کہہ کر پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ ماضی قریب کی تاریخ میں شاہ عبد العزیز دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید، حاجی شریعت اللہ، تیتومیر شہید، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، شیخ الہند مولانا محمود حسن، فقیر ایپی، حاجی صاحب ترنگ زئی، مولانا عبید اللہ سندھی او رپیر صاحب آف پگارا شہید کے پرچم تلے آگے بڑھتا رہا اور آج بھی انہی کے خوشہ چینوں نے اپنے ہاتھوں میں اس کا پرچم بحمد اللہ تعالیٰ تھام رکھا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اگر اس ’’سیاسی اسلام‘‘ کو اپنے اسلوب میں پیش کیا ہے تو ان کے اسلوب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مولانا مودودی کی بہت سی باتوں سے جمہور علماء اہل سنت کو اختلاف ہے اور ہم اس اختلاف میں جمہور علماء اہل سنت کے ساتھ ہیں لیکن جہاں نفاذِ اسلام کی جدوجہد میں مولانا مودودی کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا، وہاں ان سے اختلاف کی آڑ میں برصغیر کی دو سو سالہ تحریکِ آزادی کے نظریاتی اور دینی مقاصد کو نئی نسل کی نگاہوں سے اوجھل کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔

بیت المقدس کو اسرائیلی دار الحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امریکی صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اس مسئلہ پر عالم اسلام کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کے اب تک چلے آنے والے اجتماعی موقف کو بھی مسترد کر دیا ہے جس پر دنیائے اسلام اس کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ اس مذمت و احتجاج میں عالمی رائے عامہ کے سنجیدہ حلقے برابر کے شریک ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم او آئی سی اور عرب لیگ اس سلسلہ میں مذمت و احتجاج سے آگے بڑھ کر عملی طور پر کیا اقدامات کرتی ہے؟ مذمت و احتجاج کا سلسلہ تو ایک صدی سے جاری ہے، ضرورت عملی اقدامات کی ہے اور اس کے لیے پوری دنیا کی نظریں مسلمان حکمرانوں اور عرب حکومتوں پر ہیں۔ خدا کرے کہ وہ ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کے سحر سے نکل کر اس طرف کوئی عملی پیش رفت کر سکیں۔
اب سے چودہ برس قبل فلسطین کو اسرائیل میں تبدیل کرنے کے حوالہ سے برطانیہ کے کردار کا ہم نے مختصراً ایک مضمون میں ذکر کیا تھا جبکہ امریکہ اسی برطانوی کردار کے تسلسل کو آگے بڑھانے میں مصروفِ عمل ہے۔ یہ مضمون دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے جس سے بیت المقدس اور فلسطین کے بارے میں اسرائیل، امریکہ اور اس کے حواریوں کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ربع صدی کے دوران عالمی استعمار کی گرفت دنیا کے معاملات پر جس طرح مضبوط سے مضبوط تر ہوئی ہے اور وہ جس دیدہ دلیری اور بے فکری سے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جا رہے ہیں اور مسلم قیادت جس طرح خوابِ غفلت میں مدہوش دکھائی دے رہی ہے اس پر ہم اپنے جذبات و احساسات عالمِ تصور میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اس درخواست کی صورت میں ہی کر سکتے ہیں کہ
اے خاصہ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پر تری آکے عجب وقت پڑا ہے
’’روزنامہ نوائے وقت لاہور نے 5 مارچ 2003ء کو ایک اسرائیلی اخبار کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ اسرائیل کے وزیر دفاع جنرل موفاذ نے کہا ہے کہ چند روز تک عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا اور ہمارے راستے میں جو بھی رکاوٹ بنے گا اس کا حشر عراق جیسا ہی ہوگا۔ جنرل موفاذ نے خلافت عثمانیہ کا حوالہ بھی دیا ہے کہ عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید نے ہمیں فلسطین میں جگہ دینے سے انکار کیا تھا جس کی وجہ سے ہم نے نہ صرف ان کی حکومت ختم کر دی بلکہ عثمانی خلافت کا بستر ہی گول کر دیا۔ اب جو اسرائیل کی راہ میں مزاحم ہوگا اسے اسی انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔
اسرائیلی وزیر دفاع کے اس بیان سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے کہ عراق پر امریکی حملے کا منصوبہ در اصل صیہونی عزائم کی تکمیل کے لیے ہے اور اس عالمی پروگرام کا حصہ ہے جو عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ اور اسرائیلی سرحدوں کو وسیع اور مستحکم کرنے کے لیے گزشتہ ایک صدی سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اس میں امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادی مسلسل سرگرم عمل ہیں۔
آج سے ایک صدی قبل سلطان عبدالحمید (ثانی) خلافت عثمانیہ کے تاجدار تھے جن کا تذکرہ جنرل موفاذ نے اپنے مذکورہ بیان میں کیا ہے۔ خلافت عثمانیہ کا دار السلطنت استنبول ( قسطنطنیہ) تھا اور فلسطین، اردن، عراق، شام، مصر اور حجاز سمیت اکثر عرب علاقے ایک عرصہ سے خلافت عثمانیہ کے زیر نگین تھے۔ فلسطین خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا اور بیت المقدس کا شہر بھی عثمانی سلطنت کے اہم شہروں شمار ہوتا تھا۔ یہودی عالمی سطح پر فلسطین میں آباد ہونے اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ بیت المقدس پر قبضہ کر کے مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیرکرنے کا پروگرام بنا چکے تھے اور اس کے لیے مختلف حوالوں سے راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم کا وفد ان کے پاس آیا اور ان سے درخواست کی کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ چونکہ عثمانی سلطنت کے قانون کے مطابق یہودیوں کو فلسطین میں آنے کی اور بیت المقدس کی زیارت کی اجازت تو تھی مگر وہاں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز تک پورے فلسطین میں یہودیوں کی کوئی بستی نہیں تھی، یہودی دنیا کے مختلف ممالک میں بکھرے ہوئے تھے اور کسی ایک جگہ بھی ان کی ریاست یا مستقل شہر نہیں تھا۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے یہ درخواست منظور کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسرائیل، بیت المقدس اور فلسطین کے بارے میں یہودیوں کا عالمی منصوبہ ان کے علم میں آچکا تھا اس لیے ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس صورتحال میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دیتے۔
سلطان مرحوم کا کہنا ہے کہ دوسری بار یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا تو یہ پیشکش کی کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے لیے ایک بڑی یونیورسٹی بنانے کے لیے تیار ہیں جس میں دنیا بھر سے یہودی سائنس دانوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے یہودی سائنسدان خلافت عثمانیہ کا ہاتھ بٹائیں گے، اس کے لیے انہیں جگہ فراہم کی جائے اور مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے وفد کو جواب دیا کہ وہ یونیورسٹی کے لیے جگہ فراہم کرنے اور ہر ممکن سہولتیں دینے کو تیار ہیں بشرطیکہ یہ یونیورسٹی فلسطین کی بجائے کسی اور علاقہ میں قائم کی جائے۔ یونیورسٹی کے نام پر وہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن وفد نے یہ بات قبول نہ کی۔
سلطان عبدالحمید مرحوم نے لکھا ہے کہ تیسری بار پھر یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا اور یہ پیشکش کی کہ وہ جتنی رقم چاہیں انہیں دے دی جائے گی مگر وہ صرف یہودیوں کی ایک محدود تعداد کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دیں۔ سلطان مرحوم نے اس پر سخت غیظ و غضب کا اظہار کیا اور وفد کو ملاقات کے کمرے سے فوراً نکل جانے کی ہدایت کی نیز اپنے عملہ سے کہا کہ آئندہ اس وفد کو دوبارہ ان سے ملاقات کا وقت نہ دیا جائے۔
اس کے بعد ترکی میں خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک کی آبیاری کی گئی اور مختلف الزامات کے تحت عوام کو ان کے خلاف بھڑکا کر ان کی حکومت کو ختم کرا دیا گیا۔ چنانچہ حکومت کے خاتمہ کے بعد انہوں نے بقیہ زندگی نظر بندی کی حالت میں بسر کی اور اسی دوران مذکورہ یادداشتیں تحریر کیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں خلافت سے برطرنی کا پروانہ دینے کے لیے جو وفد آیا اس میں ترکی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر قرہ صو بھی شامل تھا جو اس سے قبل مذکورہ یہودی وفد میں بھی شریک تھا۔ اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ سلطان مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک اور ان کی برطرنی کی یہ ساری کارروائی یہودی سازشوں کا شاخسانہ تھی جس کی تصدیق اب تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع جنرل موفاذ نے بھی مذکورہ بیان میں کر دی۔
سلطان عبد الحمید مرحوم ایک باغیرت اور باخبر حکمران تھے جنہوں نے اپنی ہمت کی حد تک خلافت کا دفاع کیا اور یہودی سازشوں کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے لیکن ان کے بعد بننے والے عثمانی خلفاء کٹھ پتلی حکمران ثابت ہوئے جن کی آڑ میں مغربی ممالک اور یہودی اداروں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ایجنڈے کی تکمیل کی اور 1924ء میں خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ ترکوں نے عرب دنیا سے لاتعلقی اختیار کر کے ترک نیشنلزم کی بنیاد پر سیکولر حکومت قائم کرلی، جبکہ مکہ مکرمہ کے گورنر حسین شریف مکہ نے، جو اردن کے موجودہ حکمران شاہ عبد اللہ کے پردادا تھے، خلافت عثمانیہ کے خلاف مسلح بغاوت کر کے عرب خطہ کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ انہیں یہ چکمہ دیا گیا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ان کی خلافت عالم اسلام میں قائم ہو جائے گی مگر ان کے ایک بیٹے کو عراق اور دوسرے بیٹے کو اردن کا بادشاہ بنا کر ان کی عرب خلافت کا خواب سبو تاڑ کر دیا گیا۔ جبکہ حجاز مقدس پر آل سعود کے قبضہ کی راہ ہموار کر کے حسین شریف کو نظر بند کر دیا گیا جنہوں نے باقی زندگی اسی حالت میں گزاری۔
اس دوران فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر کے اپنا گورنر بٹھا دیا جس نے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ وہ فلسطین میں آکر جگہ خرید سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک سے منظم پروگرام کے تحت یہودیوں نے فلسطین میں آکر آباد ہونا شروع کیا۔ وہ فلسطین میں جگہ خریدتے تھے اور اس کی دوگنی چوگنی قیمت ادا کرتے تھے۔ فلسطینی عوام نے اس لالچ میں جگہیں فروخت کیں اور علماء کرام کے منع کرنے کے با وجود محض دگنی قیمت کی لالچ میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس وقت مفتی اعظم فلسطین الحاج سید امین الحسینی اور ان کی حمایت میں عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام نے فتویٰ صادر کیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر اسرائیلی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ ان کا اصل پروگرام ہے اس لیے یہودیوں کو فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ یہ فتویٰ دیگر بڑے علماء کرام کی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی جاری کیا جو ان کی کتاب ’’ بوادر النوادر‘‘ میں موجود ہے۔ مگر فلسطینیوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور دنیا کے مختلف اطراف سے آنے والے یہودی فلسطین میں بہت سی زمینیں خرید کر اپنی بستیاں بنانے اور آباد ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حتیٰ کہ 1945ء4 میں اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کے ایک حصے کا حقدار تسلیم کر کے ان کی ریاست کے حق کو جائز قرار دے دیا اور فلسطین میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو الگ الگ ریاستوں کے قیام کی منظوری دے دی جس کے بعد برطانوی گورنر نے اقتدار یہودی حکومت کے حوالہ کر دیا۔
یہ اس بیان کا مختصر سا پس منظر ہے جس میں اسرائیلی وزیر دفاع کے جنرل موفاذ نے خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کی معزولی اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ میں یہودی کردار کا ذکر کیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام کے دشمن کس قدر چوکنا، با خبر اور مستعد ہیں اور اس کے مقابلہ میں ہماری بے حسی، بے خبری اور نا عاقبت اندیشی کی سطح کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں،آمین یا رب العالمین۔‘‘
(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۱۷ مارچ ۲۰۰۳)

ظلماتِ وقت میں علم و آگہی کے چراغ (۲)

پروفیسر غلام رسول عدیم

مدرسہ نصرۃ العلوم 

چوک گھنٹہ گھرسے مغرب کی جانب مسجد نور سے ملحق مرسہ نصرۃالعلوم ضلع گوجرانوالہ کی عظیم دینی درس گاہ ہے ۔ ۱۳۷۱ء بمطابق۱۹۵۲ء کومدرسہ کی بنیاد رکھی گئی ۔مدرسہ کی سہ منزلہ عظیم لشان عمارت ۴۷کمروں پرمشتمل ہے ،جن میں ۱۹۰طلباء کی اقامتی گنجائش ہے۔ مدرسہ کے مہتمم حکیم صوفی عبدالحمیدسواتی (فاضل دارالعلوم دیوبند،فاضل دارالمبلغین لکھنؤ، مستندنظامیہ طبیہ کالج حیدرآباددکن )ایک عالم باعمل اور درویش صفت انسان ہیں۔ یوں تومدرسہ انجمنِ نصرۃ العلوم کے تحت چل رہاہے مگرمہتمم کی پرکشش شخصیت مدرسے کے جملہ انصرامی امور کامحورومرکزہے۔ وہ مسجدمیں خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں ۔ان کے سلسلہ درس قرآن میں کوئی ۲۰۰کی تعدادمیں ہرروزحاضری ہوتی ہے جو ساتھ ساتھ طبع بھی کیاجا رہاہے ۔چارجلدیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں ۔مدرسے کامسلک حنفی دیوبندی ہے۔
صدرمدرس کے فرائض شیخ الحدیث مولانامحمدسرفرازخاں صفدرؔ اداکرتے ہیں ۔مولاناموصوف عصر حاضر کے جیدعلماء حدیث میں شمارکیے جاتے ہیں۔ علوم حدیث خصوصاً"علم اسماء الرجال"پران کی گہری نظرہے ۔ وہ علوم دینیہ کے ایک ماہرعالم ،ایک محنتی استاد،ایک بلندپایہ مصنف اورایک ملنساراورشگفتہ طبع انسان ہیں۔ ان کی تصانیف اعلیٰ علمی حلقوں میں قدرکی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ وہ راہِ سنت ،راہِ ہدایت،صرف ایک اسلام(بجواب دواسلام از ڈاکٹر برق)، احسن الکلام (۲جلد)، الکلام الحاوی ، تبریدالنواظر، گلدستہ توحید، ازالۃالریب اور شوقِ حدیث کے علاوہ کوئی چاردرجن کے لگ بھگ کتابوں کے مصنف ہیں ۔ان کا انداز تحریر عامۃالناس کے لیے عام فہم اورخواص علماء کے لیے علمی استدلال سے مملوہوتاہے ۔ ان کی دینی بصیرت قابل اعتماد،تفہیمِ مسائل قابل قدر،تحقیقات علمی قابل داد اور زہدوتقوی قابل رشک ہیں۔ ان کے تبلیغی اورمناظراتی رسائل منطقی دلائل وبراہین کالاجواب شاہکارہیں۔ مدرسے کی تعطیلات کے دومہینے کے دوران میں وہ ترجمہ و تفسیر کاخصوصی درس دیتے ہیں جس میں منتہی طلباء کے علاوہ جدیدتعلیم یافتہ اصحاب بھی شامل ہوتے ہیں۔ باقاعدہ امتحان کے بعدامیدواروں کوسندات دی جاتی ہیں ۔
مدرسے میں درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ نصاب ۸سے۱۰سال تک ہے۔ طلباء کی مجموعی تعداد ۱۵۰ ہے۔ مسجدکاوسیع ہال اورصحن مختلف درجوں کی جماعتوں کی درس گاہ کاکام دیتاہے ۔
مدرسے کے دارالافتاء کی سرگرمی کارقابلِ ستائش ہے۔ مفتی محمدعیسیٰ گورمانی فرائض تدریس کے ساتھ ساتھ فتوے جاری کرتے ہیں۔ ان کاریکارڈ بھی رکھتے ہیں ان کی مددکے لیے مفتی عبدالشکوربطورنائب مفتی کام کرتے ہیں ۔کتب خانہ سہ منزلہ ہے ۔درسی کتابوں کے علاوہ کوئی چارہزار کے قریب دینی وادبی کتابیں نہایت قرینے سے سجائی گئی ہیں۔ مولانامحمداشرف ناظم کتب خانہ ہیں جونہایت محنتی ہیں۔ انتظامی امور مولانا حافظ عبدالقدوس قارن کے سپردہیں جو پورے مدرسے کے ناظم ہیں ۔
شروع میں یہ متروکہ جگہ تھی۔ مدرسہ کی بنیاد رکھتے وقت کسی کوسان گمان نہ تھاکہ ایک دن یہ درس گاہ اس قدر شان دار عمارت اورجاندارکام کاعمدہ نمونہ ہوگی۔ ہرسال کوئی بیس کے لگ بھگ طالب علم وفاق المدارس کا امتحان پاس کرکے دینی خدمت کے جذبے سے سرشارہوکریہاں سے فارغ ہوتے ہیں۔ مدرسے کاسالانہ بجٹ چھ لاکھ سے سات لاکھ روپے تک ہے ۔حسابات کی باقاعدہ پڑتال کے لیے ایک محتسب مقرر ہے۔ مدرسہ حکومت سے کسی قسم کی استعانت نہیں کرتا۔
اساتذہ کرام کے اسماء گرامی یہ ہیں:
شیخ الحدیث مولانامحمدسرفرازخاں صفدرؔ (صدر مدرس)، مولانا صوفی عبدالحمیدسواتی (مہتمم )، مولاناحافظ عبدالقدوس قارن، مولاناعبدالقیوم، مولانا عبدالمہیمن، مولاناسید غازی شاہ، مولانا مفتی محمدعیسیٰ گورمانی، مولانا محمد یوسف، مولانا فاروق احمدکھٹانہ ،مولانامحمداشرف صابر، مولانا عبدالشکور، مولانا حافظ رشیدالحق عابد۔
مدرسہ وفاق المدارس سے وابستہ ہے ۔فاضلین میں چندکے اسماء گرامی یہ ہیں :
حافظ محمودالحسن (آزادکشمیر)،مولاناقاری محمدسلیمان( جہلمی)، مفتی محمدعیسیٰ گورمانی (مفتی مدرسہ)، مولانا عبدالرحیم (سرگودھا)، مولاناعبدالقیوم( مدرس مدرسہ)، مولانازاہدالراشد ی( مدرس انوارالعلوم)۔ مدرسہ وفاق المدارس سے وابستہ ہے۔
اس دینی مدرسے کے شیخ الحدیث اورصدرمدرس مولانامحمدسرفرازخاں صفدرؔ کااجمالی تعارف درج ذیل ہے۔
صحیح تاریخ ولادت تومعلوم نہیں، البتہ سال ولادت ۱۹۱۴ء مولدومنشاچیڑاں ڈھکی داخلی کڑمنگ بالاتحصیل مانسہرہ (ضلع ہزارہ)حال ضلع مانسہرہ۔ والدگرامی کانا م نوراحمدخاں بن گل احمد خاں۔ 
شیخ سعدی نے کہاتھا:
تمتع زہرگوشۂ یافتم
زہر خرمنے خوشۂ یافتم
کچھ یہی حال مولاناموصوف کابھی ہے۔ ابتدائی تعلیم قریبی موضع بٹل اورشیرپورسے حاصل کی بعدازاں مانسہرہ میں بغرض تعلیم چلے آئے ۔یہاں ان دنوں مرحوم مولاناغلام غوث ہزاروی مدرس تھے ۔۱۹۳۴ء میں لاہور آئے۔ پھروڈالہ سندھواں ضلع سیالکوٹ میں مولانامحمداسحاق سے فیض اٹھایا۔۱۹۳۷ء میں انّہی ضلع گجرات سے مولاناولی اللہ سے اکتساب کیا۔ملتان میں مدرسہ مفتی عبدالکریم میں پڑھتے رہے۔ جہانیاں منڈی میں مدرسہ رحمانیہ میں مولاناغلام محمد لدھیانوی اورمولاناعبدالخالق سے پڑھاپھرمدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں مولانا عبدالقدیراورمفتی عبدالواحد سے استفادہ کیا۔اصول فقہ ،فقہ،تفسیر،اصول حدیث،منطق،صرف ،نحو حتی کہ حدیث میں بھی منتہی ہونے کے باوجوداس حدیث کے مصداق کہ اثنان لایشبعان طالب علم وطالبِ مال (دوآدمی کبھی سیرنہیں ہوتے علم کاچاہنے والااورمال کا چاہنے والا۔
اپنے برادرخورد صوفی عبدالحمیدسواتی کوہمراہ لے کردیوبندکے لیے رخت سفرباندھا۔
چلی ہے لے کے وطن کے نگارخانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
۱۹۴۱ء میں دیوبندگئے ،اپنے وقت کے جیداساتذہ سے فیض اٹھایا۔ان کے اساتذہ میں وہ جگمگاتے نام آتے ہیں جوعلم ودانش کے آفتاب وماہتاب تھے ان میں چنداہم یہ ہیں:
دیوبندسے واپسی پرگوجرانوالہ میں مدرسہ انوارالعلوم میں فرائض تدریس سنبھالے ،ساتھ ہی گکھڑ میں بھی درس و تدریس کا آغازکردیا۔۱۹۵۶ء میں مولاناصوفی عبدالحمید(موصوف کے برادرخورد)کے زیرِاہتمام چلنے والے مدرسے نصرۃالعلوم میں بطورِصدرمدرس اورشیخ الحدیث آپ کی خدمات لے لی گئیں ۔سالہاسال تک ٹیچرز ٹریننگ سکول گکھڑمیں بعدازنمازعصرسلسلہ درس قرآن جاری رہامگرآج کل بوجوہ موقوف ہے۔ مولانا کی ذات گرامی اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ۔وہ دورحاضرمیں اساتذۃ علوم حدیث میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔علمِ رجال پرخصوصی طور پر ان کی نگاہ گہری ہے ۔آپ کادرس قرآن ہویادرسِ حدیث یوں محسوس ہوتا ہے کہ علم و حکمت ،دینی بصیرت اوررموزو غوامض کاایک ٹھاٹھیں مارتاہواسمندرہے جس کے سامنے خیالات فاسدہ اورعقائدباطلہ خس وخاشاک کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں ۔ایک مینارۂ نورہے کہ جہالت و نافہمی کی تاریکیاں کافور ہوتی چلی جاتی ہیں ۔کلام میں نہ خشونت ہے نہ تیزگفتاری ،ٹھہرٹھہرکربات کرتے ہیں جو سامع کے ذہن کواپیل کرتی ہوئی دل تک اترجاتی ہے ۔شب ور وزقرآن وحدیث کی تعلیم کی دھن ہے ۔لکھتے ہیں تو قلم موتی رولتاہے۔ادق اورگنجلک علمی مسائل کونہایت شگفتہ پیرائے میں واضح کردیتے ہیں ۔آپ ماضی بعیدکے کثیرالتصانیف بزرگوں کی زندہ نشانی ہیں ۔اندازتحریرمیں ادبی رعنائی بھی ہے اوراستدلال کازور بھی، جامعیت بھی ہے اوردلآویزی بھی ،برجستہ اوربرمحل استشہادکے استعمال سے وہ مشکل سے مشکل عبارت میں بھی رنگینی پیداکرلیتے ہیں۔ مناظرانہ اورمجادلانہ تحریروں کے جواب میں ان کاقلم دودھاری تلواربن جاتاہے تاہم ثقاہت اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ ان کی تحریرکی سب سے بڑی خصوصیت عالمانہ شان ہے جس میں رکاکت و ابتذال نام کی کوئی چیزنہیں ہوتی۔ بعض تحریریں پڑھ کریوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک گلیشیربلندی سے یوں آ رہا ہے کہ ہرشے کواپنے ساتھ بہائے لیے جاتاہے ۔
مکر،مفر،مقبل ،مدبر معاً
کجلمودصخر حطہ السیل من عل
( امرؤ القیس)
موصوف کی تعلیمی وتصنیفی زندگی سے ہٹ کرنجی اورشخصی زندگی کاجائزہ کیاجائے تومعلوم ہوگاوہ علم وعمل اورزہدو تقوی میں قرنِ اول کے بزرگوں کی سچی تصویرہیں ۔کئی جسمانی عوارض اٹھائے لیے پھرنے کے باوجود یہ گوہرشبِ چراغ شب وروز ایک اورصرف ایک ہی دھن میں مگن ہے کہ ارتیاب آگیں ماحول نورِیقیں سے جگمگا اٹھے ،ایمان وایقاں کے اجالے پھیلیں ،توحیدورسالت کاغلغلہ بلندہو۔ وہ ضعف پیری میں مبتلاضرورہے مگر اس کے پرعزم شیب پرہزارشباب قربان۔سنِ ستربرس سے متجاوزہے مگررعنائی خیال اوربرنائی ذوق حدیث میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔

جامعہ مدینۃ الاسلام 

جنرل بس سٹینڈکے قریب ماڈل ٹاؤن میں جامعہ مدینۃالاسلام واقع ہے مدرسے کامسلک حنفی بریلوی ہے ۔ علامہ سعیداحمدمجددی مہتمم مدرسہ اورخطیب جامع مسجدنقشبندیہ ہیں۔ مدرسے کاقیام ۶اکتوبر۱۹۷۸ء کو عمل میں آیا۔ اس لحاظ سے شہرکے کئی قدیم مدارس کی نسبت یہ مدرسہ اپنے ایام طفلی میں ہے ۔دومدرس کتابوں کی تعلیم کے لیے ہیں اوردو اساتذہ شعبۂ حفظ وناظرہ میں فرائض تدریس انجام دیتے ہیں۔ طلباء کی تعداد۲۰۰کے لگ بھگ ہے ۔۱۵۰مقامی اور۵۰ بیرونی۔ مدرسہ اقامتی ادارہ ہے ۔کتب خانے میں ایک ہزارکتابیں ہیں۔ عمارتِ جامعہ دس کمروں پرمشتمل ہے ۔ دوسری منزل کاپروگرام بھی پیش نظرہے ۔مدرسہ انجمن نقشبندیہ مجددیہ کے زیراہتمام چل رہاہے۔ دوسرے دینی مدارس کی طرح یہ جامعہ بھی اہل خیرکے تعاون سے کام کررہی ہے۔ ۱۹۸۲ء میں سالانہ بجٹ ۱۰۵۵۲۵روپے تھا۔ تعمیرکے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ جامعہ کانصاب وہی ہے جو جامعہ غوثیہ بھیرہ میں زیرتدریس ہے ۔
مدرسے کوپاکستان کے مایہ نازعالم دین اورمشہورماہرتعلیم جسٹس پیرکرم شاہ کی اعزازی سرپرستی اوررہنمائی ہے۔ علامہ سعید احمدمجددی راجوری (مقبوضہ کشمیر)کے ایک علمی ودینی خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ جامعہ انوارالعلوم ملتان سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ دورہ قرآن کی سندشیخ القرآن علامہ عبدالغفورہزاروی جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیرآبادسے حاصل کی۔ ان کی تبلیغی وتدریسی سرگرمیاں اس امرکاپتہ دیتی ہیں کہ وہ خلوص ودیانت سے سرگرم عمل رہے تووہ دن دور نہیں جب یہ مدرسہ شہرکے صف اول کے مدارس کے ہم پلہ ہوسکے گا۔وہ دارالعلوم نقشبندیہ قبرستان کے بھی ناظم اعلیٰ ہیں وہ حضرت خواجہ صوفی محمدعلی نقشبندی سے بیعت ہیں ۔
وہ مجلس تعلیمات مجددیہ کے زیراہتمام لٹریچربھی شائع کرتے ہیں ۔اہم تالیفات یہ ہیں : سرمایہ ملت کا نگہبان، درس طریقت ،آداب الحرمین ،اسلام میں عیدمیلادالنبی ﷺکی حیثیت اورشجرہ خواجگان نقشبندیہ۔ 
چونکہ مدرسہ درس میں ترمیم وتنسیخ کاقائل ہے اس لیے یہاں جدیدذہن تیارکرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ میٹرک سے بی۔اے تک آرٹس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ،ادیب عربی، عالم عربی اورفاضل عربی بھی نصاب میں شامل ہیں۔ یوں یہ ادارہ قدیم وجدیدکاحسین امتزاج ہے۔تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کوخطابت کی بھی مشق کرائی جاتی ہے۔ مذاکرات ،مضمون نویسی ،اورحسن قرأت کے مقابلے کرواکرانعامات بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔ سالانہ امتحان کے پرچے بھیرہ سے آتے ہیں اورجانچے بھی وہیں جاتے ہیں اوروہیں سے نتیجے کا اعلان ہوتاہے ۔
کوشش کی جاتی ہے کہ طلباء کو تصوف وطریقت کی چاشنی سے لذت یاب کیاجائے ۔علم کے ساتھ ساتھ عمل پر بھی زور دیاجاتاہے ۔مدرسے کا اصول یہ ہے کہ صاحب کردارعلماء ہی معاشرے میں انقلاب پیداکرسکتے ہیں۔ مختلف مذہبی تہواروں مثلاًعیدمیلادالنبی،یوم عاشورہ،معراج النبی،عیدین اوراکابرمسلک کے ایام منا کر اسلامی تعلیمات کا پرچار کیا جاتا ہے۔ اولیائے عظام کوخراج عقیدت پیش کیاجاتاہے ۔
اساتذہ کرام کے اسمائے گرمی یہ ہیں :مولاناسعیداحمدمجددی مہتمم وصدرمدرس،مولانانوازظفرایم اے ، مولانا نورالحسن تنویرچشتی بی اے،قاری محمدافضل مجددی۔

مدرسہ فاروقیہ رضویہ تعلیم القرآن

محلہ فاروق گنج کی ملک سٹریٹ میں مسلک بریلوی کی نہایت شانداردرس گاہ ہے مدرسے کاقیام کوئی بیس سال قبل ہوا۔ بانیوں میں مولاناعبداللطیف قادری اورمولانا محمدعبداللہ بٹ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ اگرچہ وسعت میں توجگہ اتنی نہیں تاہم گنجائش میں اتنی کم بھی نہیں۔ عمارت ۱۵کمروں پرمشتمل ہے جس میں تدریسی کمرے بھی ہیں اور اقامتی بھی۔ سالانہ بجٹ کوئی ۶۰،۶۵ہزارتک ہے ۔دورہ حدیث تک تعلیم دی جاتی ہے مگرسندکے لیے طلباء کو انوارالعلوم ملتان یاجامعہ رضویہ مظہرالعلوم فیصل آبادجاکرمنتہی ہوناپڑتا ہے ۔بیرونی طلباء کی تعدادپچاس ہے اوراساتذہ کی تعدادپانچ ہے ۔
مولاناغلام فریدصدرمدرس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ مولاناموصوف علم حدیث میں گہری بصیرت رکھتے ہیں اوربڑی جانکاہی سے تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان کے خلوص اورلگن کانتیجہ ہے کہ تشنگانِ علم اس غیرمعروف سی جگہ سے علم وحکمت کے قیمتی موتیوں سے جھولیاں بھربھرکرجاتے اورمعاشرے میں دعوت و اردات کافریضہ انجام دیتے ہیں۔ درس نظامی میں ترمیم وتنسیخ مدرسے کے مسلک کے منافی ہے ،لہٰذاکوشش یہ کی جاتی ہے کہ تمام و کمال کتب درس نظامی پڑھائی جائیں ۔فتوے کا ریکارڈنہیں رکھاجاتاتاہم فرضِ افتاء شیخ الحدیث مولاناغلام فریدہی اداکرتے ہیں ۔ آپ علمی بصیرتوں کامرقع اورفکری عظمتوں کی تصویرہیں۔ قحط الرجال کے اس دورمیں آپ کاوجودغنیمت ہے ۔اس علاقے کے لیے آپ وجہ رحمت بھی ہیں اوروجہ ناز بھی ۔ آپ کاسوانحی خاکہ درج ذیل ہے :
آپ کے والدمحترم کانام الحاج مولاناعبدالجلیل ہے۔ آپ ۱۱ ؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کوموضع جھاڑ مضافات تربیلا (ہزارہ) میں پیداہوئے۔ مشہورپٹھان قوم عیسیٰ خیل کے مورث اعلیٰ عیسیٰ خان آپ کے جداعلیٰ تھے ۔آپ کے خاندان کے ایک اور بزرگ عبدالرشیدخان قندھارکے حاکم اعلیٰ ہوگزرے ہیں ۔ آپ علمی اورروحانی خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ آپ کے والداورآپ کے جدامجدکے حقیقی بھائی امیرمحمودمبلغ دین بھی تھے اورعلاقہ کے لیے مرکز رشدوہدایت بھی۔
جناب مولاناغلام فریدنے ابتدائی تعلیم بعض مساجد سے حاصل کی پھروالدماجدکی وساطت سے ہزارہ ڈویژن کے روحانی و علمی مرکزدارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ میں داخل ہوئے۔مولاناقاضی حبیب الرحمٰن اور مولانا قاضی غلام محمودسے علمی استفادہ کیا۔مولاناحافظ محمدیوسف بھی آپ کے اساتذہ میں رہے ہیں ۔چارسال بعد جامعہ رضویہ مظہراسلام فیصل آبادمیں داخلہ لیا۔دوسال بعدجامعہ نعیمیہ لاہورآگئے جہاں سے آپ نے مولانا مفتی محمدحسین نعیمی سے اکتسابِ علم کیا۔ درس نظامی کی آخری کتب آپ نے یہیں سے پڑھیں ۔بخاری شریف کادرس بھی یہیں ختم کیا۔مفتی عزیزاحمدبدایونی سے بھی کچھ اسباق پڑھے۔۱۹۵۹ء میں جامعہ نعیمیہ سے دستارِ فضیلت اورفراغت حاصل کی ۔
آپ نے تدریسی زندگی کاآغازجامعہ گنج بخش لاہور سے کیا۔یہاں آپ نے ابتدائی اورمتوسط کتب پڑھائیں۔ دو سال جامعہ امینیہ گوجرانوالہ میں اوردو سال دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پورمیں مسندتدریس پر فائز رہے ۔ ۱۹۶۶ء میں علامہ احمدسعید کاظمی کے ارشادپرمدرسہ جامع العلوم خانیوال میں صدر مدرس کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دینے شروع کیے ۔ دوسال جامعہ فضل العلوم ڈسکہ میں مدرس رہے اوراب عرصہ بارہ سال سے جامعہ فاروقیہ رضویہ تعلیم القرآن گوجرانوالہ میں بطور صدرمدرس علوم اسلامیہ کی تدریس میں مصروف ہیں ۔ آپ ایک مصروف زندگی گزاررہے ہیں۔ شب وروز دین اسلام کی تبلیغ واشاعت میں گزرتے ہیں اور اس سرزمین پرآپ کے بہت احسانات ہیں ۔کتنے ہی دل ہیں جو آپ کے طفیل نورہدایت سے منورہوئے اور کتنے ہی ذہن ہیں جنہیں آپ کی مروت وعلمیت نے نکتہ داں بنایا۔
آپ صاحبِ قرطاس وقلم بھی ہیں آپ نے گوناگوں علمی وتدریسی مصروفیات کے باوجود بہت سی دینی اور علمی کتب تصنیف فرمائی ہیں جن میں سے درج ذیل خاص طور سے قابل ذکرہیں :
اثباتِ علم الغیب بجواب ازالۃالغیب ، مفتاح الجنۃ بجواب راہ سنت ،صداقتِ میلاد،حاضرو ناظراورعلم غیب ملاعلی قاری کی نظرمیں،اثبات الدعاء بعدالجنازۃ ، رسالہ علم الغیب ملاعلی قاری۔ 
علوم قرآن و حدیث پرآپ کودسترس حاصل ہے۔ اس شہرہی کے نہیں بلکہ دوردرازکے علاقوں کے متلاشیانِ حق و صداقت نگاہوں سے دیکھاجاتاہے ۔آپ مدرسہ سے ملحقہ جامع مسجد میں فرائض خطابت بھی انجام دیتے۔ آپ کو علامہ سیداحمدسدسے شاہ کاظمی مدظلہ سے شرفِ تلمذ توتھاہی بعدمیں آپ نے انہی کے دستِ حق پرست پربیعت کرلی ۔ حضرت کاظمی نے آپ کوسلسلہ چشت میں بیعت کی اجازت بھی عطا فرمائی۔ آپ کو۱۹۷۶ء میں حج حرمین الشریفین کی زیارت کاشرف حاصل ہوا۔آپ کے برادراصغر مولانا محمد شریف ہزاروی بھی معروف خطیب ،عالم نکتہ داں اورجامعہ فاروقیہ میں آپ کی سربراہی میں فرائض تدریس انجام دے رہے ہیں ۔مولاناغلام فریدہزاروی سے اب تک ہزاروں تلامذہ فیوض علمی حاصل کرکے وطن عزیز کے اطراف و اکناف میں رشدو ہدایت کی روشنی پھیلارہے ہیں۔ آپ کے معروف تلامذہ میں مندرجہ ذیل علماء خاص طور سے قابل ذکرہیں:
مولاناسیدبشیرحسین شاہ، مولاناخالدحسن مجددی،مولاناسعیداحمدمجددی ،مولاناگل احمد عتیق، مولانا صداقت علی،مولاناقاضی محمدیوسف،مولاناحافظ محمدعلی ،مولاناقاری عبدالرزاق ،مولانامحمدحنیف اختر ، مولانا محمد صدیق ہزاروی۔ (حالات ماخوذ ازتعارف علمائے اہل سنت، مرتبہ مولانامحمدصدیق ہزاروی )

جامعہ صدیقیہ مجاہدپورہ

محلہ مجاہدپورہ میں جامعہ صدیقیہ مسلک حنفی دیوبندی کااہم مدرسہ ہے ۔ مدرسے کا قیام ۱۹۶۰ء میں عمل میں آیا۔ مدرسے کانصاب خالصتاًدرس نطامی ہے اس میں ترمیم وتنسیخ کومذموم خیال کیاجاتاہے ۔مدرسے کے مہتمم اور صدر مدرس قاضی شمس الدین ،فاضل ومدرس دارالعلوم دیوبند ہیں۔ مولاناموصوف ایک منجھے ہوئے عالم اور ایک عظیم سکالرہیں ۔ ان کارجحان طبع تحقیق و تدقیق کامتقاضی ہے۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے دارالعلوم دیوبندجیسے عظیم ادارے میں بحیثیتِ استاد کام کرچکے ہیں ۔ان کی عربی و اردوتصانیف اس بات کی گواہی دیتی ہیں ،ان کاعلمی مرتبہ عصرحاضرکے بلندپایہ علمائے دین میں نمایاں و ممتازہے ۔کم وبیش اکسٹھ سال سے قرآن و حدیث کی شمع کوروشن رکھے ہوئے ہیں ۔سادگی کامرقع ،نمود و نمائش سے بے نیاز اور فقروغناء کوایک پیکر دلآویز۔
آپ ۱۹۰۱ء میں مقام پٹری ڈاکخانہ ناڑہ ،تحصیل پنڈی گھیب ،ضلع اٹک میں پیداہوئے ۔آباء و اجدادعلم دین کے مشتاق تھے ۔ آپ کے دادااوروالدبھی اپنے وقت کے معروف عالم تھے گو وہ بعض خانگی امورکی بناء پر درس نظامی کی تکمیل نہ کرسکے مگروالدنے اپنے بیٹوں کوعلم دین کی تحصیل کے لیے وقف کر دیا۔ مولانا نور محمد، مولانا بدرالدین اورمولانامحمدرفیق ،قاضی صاحب کے تینوں بھائی عالم باعمل تھے اورتینوں بھائیوں کاانتقال ہو چکا ہے۔ مولائے کریم ان سب کواپنے جوارِرحمت میں جگہ دے۔
مولاناقاضی شمس الدین صاحب کی زندگی محنت ،خلوص اورسعی بلیغ کی ایک قابل تقلیدمثال ہے ۔ آپ نے ناظرہ قرآن ناڑہ ضلع اٹک میں پڑھا۔۱۹۱۲ء میں جامعہ نعمانیہ لاہورمیں تعلیم حاصل کی ۔ ۱۹۱۳ء میں انّھی تحصیل پھالیہ ضلع گجرات میں مولاناغلام رسول مرحوم سے درس نظامی کی تکمیل کی ۔ ۱۹۲۲ء میں دارالعلوم دیوبند میں مولاناانورشاہ کشمیریؒ ، مولانارسول خاں اورمولاناشبیراحمدعثمانی سے دورہ حدیث پڑھا۔۱۹۲۳ء کے آخر میں مدرسہ انوارالعلوم مسجد شیرانوالہ گوجرانوالہ میں آگئے اورایک سال تک تدریس کے فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں۱۹برس تک پنڈی گھیب ضلع اٹک میں مصروفِ تدریس رہے ۔۱۹۴۲ء میں دیوبندکے اساتذہ کے اصرار پر وہاں تشریف لے گئے اورتشنگانِ علم و معرفت کوسیراب کرتے رہے ۔وہاں انہوں نے وہ کتابیں پڑھائیں جو فی الواقع ان کے فنون میں ماہر ہونے کی دلیل تھیں۔ دیوبندسے واپسی پرفیصل آبادمیں مدرسہ اشاعتِ علوم میں بطورِصدرمدرس کام کرتے رہے۔۱۹۴۶ء میں گوجرانوالہ کے مدرسہ انوارالعلوم اور نصرۃالعلوم میں صدرمدرس رہے ۔۱۹۶۰ء میں جامعہ صدیقیہ کی بنیادڈالی جو اب تک انتہائی کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے ۔
مولاناموصوف کوحضرت مولاناحسین علی واں بھچراں سے قلبی عقیدت ہے ۔وہیں سے آپ نے سلوک و معرفت کی منزلیں طے کیں اورکم و بیش چوبیس سال تک ان سے کسبِ فیض کرتے رہے ۔وہیں سے تفسیرِ قرآن، مثنوی مولانا روم، مسلم شریف،دارالمحارف ورسراجی پڑھی۔ مولاناکی پوری زندگی درس و تدریس اور قرطاس وقلم سے متعلق رہی ۔وہ بہت سی علمی ودینی کتابوں کے مصنف ہیں، چندایک کے نا مدرج ذیل ہیں:۔
اردو:تفسیرتیسرالقرآن،غایۃالمامون،شرح عبدالرسول ،القول الجلی فی حیاۃالنبیﷺ، الشھاب الثاقب۔
عربی :تفسیرانوارالتبیان فی اسرارالقرآن،الہام الباری فی حل مشکلات البخاری،کشف الودودشرح سنن ابی داؤد،التعلیق الفصیح شرح مشکوٰۃالمصابیح،الہام الملہم شرح صحیح مسلم۔
جہاں تک قاضی صاحب کے تلامذہ کاتعلق ہے ان کی فہرست خاصی طویل ہے۔ چندنام درج کیے جاتے ہیں، جن سے خود صاحب موصوف کی علمی وجاہت ،دینی عظمت اور فکری رفعت کااندازہ ہوتاہے: مولانا نصیر احمد سابق شیخ الحدیث و مدرس دارالعلوم دیوبند،شیخ غازی احمدسابق پرنسپل بوچھال کلاں ،مولاناعبدالرحیم پروفیسرڈھاکہ یونیورسٹی ، مولانامفتی عبدالواحدگوجرانوالہ ،قاضی عصمت اللہ ،مولاناعلی محمد حقانی (لاڑکانہ)، مولانا عبدالرؤف مہتمم مدرسہ مفتاح العلوم حیدرآباد،مولاناسرفرازخاں صفدر(گوجرانوالہ)اورمولاناعبدالحکیم (راولپنڈی ) قاضی شمس الدین کے چند ایسے تلامذہ ہیں جن پرفکرکی بلندیاں عمل کی لطافتیں اورعلم کی نظافتیں نازکرتی ہیں ۔
مدرسے کا علمی معیار نہایت اعلیٰ ہے اوردور درازکے علاقوں سے طلباء تحصیل علم کے لیے آتے ہیں۔ دورہ حدیث میں تخصص کے درجے تک تعلیمی معیار رکھاگیاہے۔ اب تک ۴۵۴طلباء فارغ التحصیل ہوکرگئے ہیں۔ فاضلین میں درج ذیل نام خاص اہمیت کے حامل ہیں :
مولاناعبدالمجیدندیم،مولاناضیاء اللہ شاہ بخاری،مولاناخالدرشید،مولانااحمدسعیدملتانی،مولاناعلی محمدحقانی مدرسہ اشاعت الاسلام لاڑکانہ، مولاناقاضی عصمت اللہ مدرسہ محمدیہ قلعہ دیدارسنگھ۔
زیادہ ترطلباء بیرونی ہیں۔ اس وقت ۲۷طلباء زیرِتعلیم ہیں۔ نئی عمارت ۲کنال ۹مرلے میں زیرتعمیر پر ۱۰۰طلباء کی اقامتی گنجائش ہو گی۔
اساتذہ کرام درج ذیل ہیں :مولانامفتی سیدبدیع الزمان بخاری ،مولاناقاضی عطاء اللہ ،مولاناقاضی ثناء اللہ، مولاناحافظ نذیراحمد،مولاناعبدالرحمن۔ افتاء کے فرائض،مفتی سیدبدیع الزمان بخاری انجام دیتے ہیں۔ سالانہ بجٹ ستا سی ہزاروپے کے لگ بھگ ہے ۔درس نظامی اپنی اصلی شکل میں پڑھایاجاتاہے۔

مدرسہ نعمانیہ 

نعمانیہ روڈ محلہ اسلام آباد میں حنفی بریلوی مسلک کاایک شاندارمدرسہ ہے۔ کوئی ۱۶سال پہلے ۱۹۶۷ء میں مدرسے کی بنیادرکھی گئی۔ اس وقت یہ مدرسہ ابتداءً اقبال گنج میں قائم ہوا بعدازاں مدینہ مسجدگوبندگڑھ میں تدریس کاکام شروع ہوا تو ۱۵طالب علم زیرتعلیم تھے ۔
مولانامحمدعبداللہ جوایک درویش صفت عالمِ دین ہیں ،اس مدرسے کے موسس ومہتمم ہیں۔ آغازِکارمیں حفظِ قرآن سے کام شروع کیاگیا ۔ ۱۹۶۸ء تک صرف حفظ کاہی اہتمام تھابعدمیں تدریسِ کتب کابھی انتظام کر لیا گیا۔مدرسے کا نصاب درس نظامی ہے مگرتنظیم المدارس کے نصاب کے مطابق تدریس ہوتی ہے۔ صرف و نحو اور فقہ کے علاوہ تاریخی شعور بھی بیدارکیاجاتاہے تاہم تاریخ پرمکمل انحصارنہیں کیاجاتا۔مدرسے کاسالانہ بجٹ تقریباً۳۵ ہزارروپے ہے ۔ مدرسے کی انصرامی ذمہ داریوں کا بارانجمن نعمانیہ فیض العلوم کے سر ہے۔ صدر انجمن شیخ حاجی محمدشفیع صاحب ہیں۔ 
مدرسے کے فاضلین میں چنداہم نام یہ ہیں:مولاناخالدحسین مجددی ، مولاناگل احمدجامعہ رضویہ فیصل آباد، مولاناطالب حسین سول لائینز، مولاناسلطان العارفین (پی ڈی پی)، مولاناہدایت اللہ (مظفرآباد)۔ اساتذہ کی کمی کا شدت سے احساس ہوتاہے ۔

جامعہ جعفریہ 

بائی پاس قلعہ چندسے جانب لاہوجی ٹی روڈ میں ۳ ایکڑ۳ مر لے میں پاکستان کی اثناعشری شیعہ مکتب فکرکی عظیم جامعہ ہے۔جامعہ کی تاسیس۱۹۷۹ء میں ہوئی۔ مفتی جعفرحسین مجتہداس کے بانی تھے۔ مفتی مرحوم جو ۱۹۸۳ء میں راہی ملک عدم ہوئے۔ ملتِ جعفریہ کے بلندپایہ اورمجتہدتھے ۔ملت جعفریہ ان کی دینی بصیرت پر پورا عتمادرکھتی تھی۔ حق یہ ہے کہ وہ علم ودانش کے جرعہ کش ہی نہیں خم بدوش بلانوش بھی تھے۔ تادم زیست انہوں نے کتاب وقلم سے رشتہ قائم رکھا۔وہ ایک خوددار،صلح کیش اوردرویش منش عالم دین تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حنفی دیوبندی مکاتب میں حاصل کی۔ پھر لکھنؤاورایران سے تکمیل علوم کی ۔یوں وہ سعدی کے اس شعر کا پور امصداق تھے۔
تمتع زہرگوشۂ یافتم 
زہرخرمنے خوشۂ یافتم
ان کی تحریریں ان کے وسیع المعلومات اورعمیق المطالعہ ہونے پرگواہ ہیں۔ نہج البلاغۃکااردوترجمہ ان کی ادبی صلاحیتوں کابھی پتہ دیتاہے۔ ان کے عربی و فارسی اشعارسے ان کاشعری ذوق بھی نکھرکرسامنے آتاہے۔
؂خدابخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں 
مدرسے کا نصاب درس نظامی ہے مگراصولِ فقہ میں دوسرے مسالک سے کلی اختلاف ہے۔حدیث میں بھی یہاں صحاح ستہ کی بجائے کتبَ اربعہ لائقِ اعتمادخیال کی جاتی ہیں۔ کتب اربعہ یہ ہیں: الکافی للکلینی،استبصار، تہذیب الاحکام ، من لایحضرہ الفقیہ۔
فقہ میں تبصرۃالمتعلمین،شرائع السلام ،شرح لمعہ اورمکاسب قابل قدرکتابیں ہیں ۔اصول فقہ میں منتہی طلباء اصول فقہ ، رسائل اورکفایۃالاصول پڑھتے ہیں ۔مستقل اساتذہ صرف دوہیں، موقت و زائدتین۔طلبہ بالفعل بیس۔پروگرام کے مطابق ۲۰۰طلباء کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ سردست بیس لاکھ کے خرچ سے بنائی ہوئی عمارت ۲۶کمروں پرمشتمل ہے تاہم منصوبہ ۱۰۰کمروں کاہے جس پردوکروڑروپے خرچ آئے گا۔
ملحقہ جعفریہ کالونی ادار ے کے اساتذہ اورطلبہ کی رہائش کے لیے مخصوص ہوگی۔امتحان کااپنانظام ہو گا جو مجتہدینِ ایران کے زیرِنظرہوگا۔سہم امام (خمس )عطیہ جات مدرسے کے وسائل اخراجات ہیں۔ دوسرے دینی مدارس کی طرح طلبہ کے قیام و طعام کابندوبست جامعہ کے ذمے ہے۔جامعہ کاکتب خانہ نہایت شاندارہے جس میں تین ہزارسے زائدکتب ہیں ،چندقلمی نسخے بھی ہیں ۔اس وقت تخصص کے لیے نجف و قم میں جاتے ہیں تاہم منصوبہ یہ ہے کہ یہیں درسِ اجتہادیادرس خارج بھی دیاجائے ۔مفتی مرحوم کی وفات کے ساتھ جامعہ کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے ۔
اس ادارے کے پرنسپل جناب علامہ حسین بخش ہمارے شہرکے ایک معروف عالم دین ہیں جن کی زندگی درس و تدریس کے لیے وقف ہے ۔ جیساکہ اوپرلکھاجاچکاہے کہ مفتی جعفرحسین نے جامعہ جعفریہ کے نام سے جس علمی ادارے کا آغازکیاتھا۔ ان کے بعدعلامہ حسین بخش کی زیرنگرانی ادارہ ایک بہارآفرین مستقبل کی جانب بڑی تیزی سے رواں دواں ہے۔ علامہ موصوف کاشمار ان علمی شخصیات میں کیاجاسکتاہے جواپنی ذاتی استعداد، پیہم محنت اورفکری ریاضت کی بنا پربلندیوں کی طرف لپکتے ہیں بلکہ خود بلندیاں ان کااستقبال کرتی ہیں۔
آپ کے والدگرامی کانام ملک اللہ بخش ہے سن پیدائش۱۹۲۰ء اورمقامِ پیدائش جاڑاضلع ڈیرہ اسماعیل خان ہے ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد علامہ سیدباقرشاہ مرحوم کی صحبت میں رہے۔ ان کے بعدمولاناسیدمحمدیارشاہ اور مفتی جعفرحسین سے علمی ودینی استفادہ کیا۔ایک عرصہ دیگرمکاتب فکرکے دینی مدارس میں بھی زیرتعلیم رہے جن میں جامع مسجد شیرانوالہ باغ کامدرسہ قابل ذکرہے اوربالخصوص مولاناعبدالقدیر جووہاں درس دیاکرتے تھے معقولات کی تمام کتابیں انّھی شریف ضلع گجرات میں مولاناولی اللہ سے پڑھیں۔۱۹۵۲ء میں نجف اشرف میں تشریف لے گئے اوروہیں سے فقہی اوراصولی تعلیم حاصل کی۔۱۹۵۵ء میں واپس آئے۔ جامعہ علمیہ باب النجف جاڑاضلع میانوالی کی بنیادرکھی جو اب تک جاری ہے ۔نجف اشرف میں جن علمی شخصیات سے کسبِ فیض کیا، ان میں سے چندکے نام درج ذیل ہیں:
سیدابوالقاسم خوئی،سیدعبداللہ شیرازی ،سیدمحسن الحکیم ،مرزاحسن یزدی ،مرزامحمدباقر رنجانی ،سیدحسین حمامی،سید حسن بجنوری۔
علامہ حسین بخش کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے چندنام یوں ہیں :
مولانامحمدحسین ڈھکو،ملک اعجازحسین ،سیدصفدرحسین نجفی،مولاناغلام حسین نجفی ،سیدکرامت علی شاہ، مولاناغلام حسن، کاظم حسین اثیر،سیدامدادحسین شیرازی ،وزیرحیدر۔
آپ کی علمی کتابیں درج ذیل ہیں :تفسیرقرِ آن چودہ جلدوں میں ،لمعۃالانوار،اصحاب الیمین ،المجالس المرضیہ ، امامت وملوکیت ،اسلامی سیاست ،معیار شرافت ،اسلامی فکر،انوارشرافت ،انوارشریعت ، نمازامامیہ، احبابِ رسول ﷺ۔ (سوانحی معلومات آغاقربان علی ایڈووکیٹ نے فراہم کیں) 

مدرسہ فیض القرآن

گل روڈ پرواقع مدرسہ حنفی دیوبندی مسلک کاہے۔ ابھی ابتدائے کارہے تاہم مولاناحافظ احسان الحق کی شبانہ روزکوششوں سے مدرسہ پھیلنے پھولنے کے خاصے امکانات نظرآتے ہیں۔ مولاناموصوف یکہ و تنہا ۳۰ طلباء کوموقوف علیہ کے درجے تک تعلیم دیتے ہیں۔ یہ ان کابہت بڑاایثارہے ۔

مدرسہ احیاء العلوم 

نوشہرہ روڈ پرواقع مدرسہ احیاء العلوم حنفی دیوبندی مسلک کااہم مدرسہ ہے۔ اپنی وسعت کے لحاظ سے شہرکے بڑے بڑے دینی مدارس میں شمارکیاجاسکتاہے۔ مولاناامان اللہ خاں دینی جذبے سے سرشاراہل خیرکے تعاون سے سرگرم عمل ہیں۔ مولانامحمدواصل خاں اورحافظ حبیب اللہ تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔

مدرسہ تفہیم القرآن

محلہ توحیدگنج میں قاری حافظ محمداسلم (نابینا)کے زیراہتمام مسلک حنفی دیوبندی کااہم مدرسہ ہے۔

مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث 

نوشہرہ روڈ پرمدرسہ تعلیم القرآن والحدیث مولاناعبدالعزیز راشدی کی زیرنگرانی خدمت دین کا فریضہ انجام دے رہاہے ۔

جامعہ عثمانیہ فیروز والا روڈ

جامع مسجد عثمانیہ سے ملحق فیروزوالاروڈپرجامعہ عثمانیہ حنفی دیوبندی مسلک کی ایک درس گاہ ہے۔ صاحبزادہ محمدداؤدیہاں کے مہتمم ہیں ۔مدرسہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ عصرحاضرکے تقاضوں کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے اسلام کے معاشی نظام پرزوردیاجاتاہے تاکہ معاشرے کے معاشی مسائل کاحل تلا ش کیا جا سکے اورنسلِ نوکوآگاہ کیاجاسکے کہ اسلام تمدن انسانی کے ہرپہلومیں رہنمااصول پیش کرتاہے ۔

جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیر آباد

جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیرآبادمیں حنفی بریلوی کی سب سے بڑی درس گاہ ہے۔مولانامحمدعبدالغفور ہزاروی نے ۱۹۴۰ ء میں اس کی بنیاد رکھی۔مولاناہزاروی اپنے دورکے ایک جیدعالم دین اورفن حدیث میں گہری بصیرت رکھنے والے مدرس تھے۔ وہ ایک شعلہ بارخطیب ،علم و حکمت کے بحر زخاراورنہایت قوی حافظے کے مدرسِ حدیث تھے۔ ان کی وفات پرعلمی حلقوں میں ایک بہت بڑاخلامحسوس کیاگیا۔ مولانا کی سیاسی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کے ہراول دستے کے عظیم سپاہی تھے۔ مفتی عبدالشکورجوآج کل جامعہ کے مہتمم ہیں انہی کے خلف الرشید ہیں ۔نصاب درس نظامی ہے۔حفظ وتجویدکابندوبست بھی ہے۔ جہاں ۳۸ بیرونی اور۴۰ مقامی طلباء ہیں ۔درس نظامی میں ۱۰طلباء ہیں۔ مدرسے کی تعطیلات کے دوران دورہ تفسیرہوتاہے جس میں ۴۰،۵۰منتہی طالب علم شریک ہوتے ہیں ۔سالانہ بجٹ کوئی اسی ہزارروپے ہے۔ مفتی صاحب خود ہی فتوی جاری کرتے ہیں مگررجسٹرنہیں، تنظیم المدارس سے وابستگی نہیں۔ عمارت پانچ کمروں پرمشتمل ہے ۔ کتب خانے میں دوسوکے لگ بھگ کتابیں ہیں مزیدتوسیع کاعزم ہے ۔طلباء کے قیام وطعام کابندوبست مدرسے کے ذمے ہے جواہل خیراورحکومت کے زکوٰۃ فنڈ سے پوراہوتاہے ۔

ممتاز المدارس وزیر آباد

جی ٹی روڈ پرواقع مسلک شیعہ اثناعشریہ کاوزیرآبادمیں سب سے بڑامدرسہ ہے ۔مدرسے کی تاسیس جون ۱۹۷۸ء میں ہوئی۔ مہتمم سیدمحمدسبطین نقوی فاضل قم (ایران )ہیں۔ علامہ موصوف ایک فاضل نوجوان اور باعمل انسان ہیں دیگراساتذہ کے اسماء گرامی یہ ہیں :مولانا اخترعباس،حافظ سید منظور حسین، مولانا محمد اصغر یزدانی۔ 
طلباء کی تعداد۲۳ہے۔ نصاب آٹھ سال کاہے ۔مدرسے کایک شاندارہال ہے۔ جہاں تقاریب کا اہتمام کیاجاتاہے ۔گاہِ گاہِ ایران کے مشاہیرعلماء بھی یہاں آکرخطاب فرماتے ہیں۔ مثلاًجنوری۱۹۸۳ء میں حسن طاہری خرم آبادی تشریف لائے ۔دارالاقامہ کے نوکمرے ہیں ۔ امتحان زبانی و تحریری دونوں طرح سے ہوتا ہے ۔فتویٰ جاری کیا جاتاہے مگررجسٹرنہیں ۔سالانہ بجٹ کم وبیش ۵۰ہزارہے ۔اصول فقہ اورفلسفہ میں تخصیص کی جاتی ہے ایک مختصر مگر نہایت شاندارکتب خانہ تدریسی ودرسی ضروریات کوپوراکرتاہے ۔

مدرسہ محمد یہ قلعہ دیدار سنگھ

یہ مدرسہ موضع قلعہ دیدارسنگھ میں شیخ الحدیث قاضی نورمحمدفاضل دارالعلوم دیوبند نے ۱۹۲۳ء میں قائم کیا۔ یوں یہ ضلع کانہایت قدیم مدرسہ ہے۔مرحوم۴۰ برس تک خدمت دین کرکے اس جہان فانی سے ۱۹۶۲ء میں رخصت ہوگئے۔ وہ ایک سادہ طبع عالم باعمل تھے ۔علم ودانش کے موتی رولتے اورتقوی وپرہیزمیں سرمست رہتے ۔ ان کے بعدان کے خلف الرشیدقاضی عصمت اللہ نے مدرسے کابار اپنے ذمے لیا۔مدرسے کامسلک حنفی دیوبندی ہے۔ اولیائے عظام کے سلاسل اربعہ میں نقشبندی مجددی کی پیروکاری کی جاتی ہے ۔ درس نظامی کی تدریس ہوتی ہے ۔دورہ حدیث تک تکمیل ہوتی ہے۔ مدرسہ دور افتادہ علاقے میں علم و اخلاق کی شمع فروزاں ہے ۔

دارالعلوم سلطانیہ رضویہ گکھڑ

گکھڑمیں جی ٹی روڈ پرجانب مشرق واقع ہے ۔اگست۱۹۶۸ء میں مدرسہ کی تاسیس عمل میں آئی۔ حافظ محمد حمیداختراس کے بانی ہیں ،جو سراج العلوم گوجرانوالہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ مشائخ میں قادری ،سروری سلطانی سلسلے کے پیرو کارہیں۔ حفظ وکتابت کاشعبہ بھی ہے۔ ۳۵،۴۰کے درمیا ن طلبہ کی تعدادہوتی ہے۔ اساتذہ کی تعدادتین ہے۔ مولاناموصوف عرصہ درازسے ایک دینی پرچہ بھی جاری کرتے ہیں جس میں تصوف کا رنگ غالب ہے۔ سالانہ بجٹ کوئی ۲۰ہزارکے لگ بھگ ہے ۔

جامعہ عربیہ ہمدانیہ کامونکے

کامونکے میں سب سے پرانامدرسہ ہے جو۱۹۴۴ء کے لگ بھگ قائم ہوا۔ مسلک حنفی دیوبندی ہے۔ حافظ عبدالشکور فاضل دارالعلوم دیوبند نے مدرسہ کی بنیاد ڈالی۔ وہ ایک زمانے تک علم وحکمت کی روشنی پھیلاتے رہے۔ وہ اپنی وفات فروری۱۹۸۱ء تک اس کے مہتمم اور صدرمدرس رہے۔ وہ صدربلدیہ کامونکے، کونسلر اور حزبِ اختلاف کے لیڈربھی رہے۔ ان کی شخصیت نہایت متوازن اورعلمی حیثیت مسلم تھی۔تازیست وہ مسجد کے خطیب بھی رہے ۔اس وقت درس نظامی نہیں پڑھا یاجاتا۔اس وقت تین مدرسین ہیں۔ حافظ احمددین (صدرمدرس)،حافظ عبدالرحمن، حافظ محمدسلیمان۔ مولاناعبدالرؤف فاروقی خطابت کے فرائض نجام دیتے ہیں۔ مدرسے نے حافظ مفتی محمدامین فاضل جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ مبعوث سعودیہ (مچاکوسٹ کینیا)جیسے فاضلین پیداکیے ہیں ۔بجٹ ۷۵ہزارروپے سالانہ ہے ۔
مدرسہ اسلامیہ جامع مسجدحیدری کامونکے
کامونکے میں حنفی بریلوی مسلک کانہایت اہم مدرسہ ہے ۔جنوری ۱۹۷۴ء میں قائم ہوا۔الحاج لطیف احمد چشتی مدرسے کے بانی ہیں۔ چشتی صاحب موصوف کامونکے کی اہم سیاسی وسماجی شخصیت سے متعارف ہیں۔ 
اساتذہ کے اسمائے گرامی یہ ہیں:حاجی نواب دین،حافظ محمدناصر،حافظ شیرمحمد، حافظ محمد اشرف، مولانا رب نواز ۔ مدرسہ پندرہ کمروں پرمشتمل ہے۔ دارالاقامہ کے چارکمرے ہیں ۔درس نظامی میں دس طالب علم ہیں، باقی حفظ وتجویدو قرأت اورناظرہ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔فتوی جاری نہیں کیاجاتا۔لائبریری کوئی ایک ہزارکتب پرمشتمل ہے ۔ مدرسہ تنظیم المدارس سے منسلک ہے ۔

مدرسہ حنفیہ رضویہ اکرم العلوم کامونکے

مدرسہ جی ٹی روڈ سے جانب مغرب واقع ہے۔ مدرسہ کاافتتاح۱۹۷۸ء میں ہوا۔مولانامحمداکرم رضوی فاضل مدرسہ سراج العلوم (گوجرانوالہ) اس مدرسے کے بانی اورمہتمم ہیں۔ عمارت چارکمروں پرمشتمل ہے اور طلبہ کی تعدادکوئی ۱۵۰ہے۔ درس نظامی سردست نہیں پڑھا یاجاتا۔ مولاناابوداؤدمحمدصادق مدرسے کے اعزازی نگران ہیں۔ مولانامحمداکرم ایک شعلہ نواخطیب اورباعمل نوجوان ہیں ۔

دارالعلوم حبیبیہ رضویہ کامونکے

منڈیالہ روڈ حنفی بریلوی مسلک کامدرسہ ہے جس میں شعبہ حفظ وتجویدمیں ۷۰طالب علم ہیں ۔مولانامفتی حبیب اللہ مدرسے کے بانی اورمہتمم ہیں۔ مفتی صاحب ایک متقی اورعالم باعمل انسان ہیں ۔درس نظامی کے طلباء کی تعدادساٹھ ہے۔ ۱۲اساتذہ فرائض تعلیم اداکررہے ہیں ۔

جامعہ ریاض المدینہ( زیرتکمیل )

جامعہ ریاض المدینۃایک ایسی عظیم الشان دینی درس گا ہ ہے جوابھی تعمیرکے مراحل سے گزررہی ہے۔جی ٹی روڈ پرپانچ ایکڑرقبہ پرتعمیرہونے والااہل سنت وجماعت کایہ مرکزی دارالعلوم علوم قدیمہ و جدیدہ کا مرکز ہو گا۔ انجمن مرکزی دارالعلوم کے شائع کردہ پروگرام کے مطابق اس دارالعلوم میں میٹرک سے لے کرایم اے ایم ایس سی اورحفظ قرآن سے لے کرمکمل درس نظامی تک تعلیم دی جائے گی۔ اس کے علاوہ فنی اورپیشہ وارانہ تعلیم کااہتمام بھی کیاجائیگا۔علوم دینی کے تحصیل کے ساتھ ساتھ علوم دنیوی کی تحصیل کا انتظام اس خاطر کیا جا رہا ہے کہ جو علماء یہاں سے فارغ التحصیل ہوکرنکلیں وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسرکرنے کے لیے روزگارکے معقول ذرائع تلاش کرسکیں۔ علوم دینی و دنیوی کے امتزاج سے جوعلماء یہاں سے فارغ ہوں گے وہ عہدحاضرکے جدید علمی وفکری تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہوں گے اورخدمتِ ملک ودین کے لیے بھی نمایاں کردار ادا کرسکیں گے۔ اس طور وطن عزیزمیں اسلام کی ترویج وتبلیغ کی رفتارتیزسے تیزترہوجائے گی۔
اس زیرتکمیل درس گاہ میں مجوزہ نقشے کے مطابق جوعمارات ابھررہی ہیں ان میں مہتم بالشان مسجد، لائبریری ، دفاترانتظامیہ،علوم دینی کے لیے آٹھ بلاک ،علوم دنیوی کے لیے دوبلاک ،۴۰۰طلباء کی رہائش کے لیے دو منزلہ ہوسٹل، شعبہ تصنیف و تالیف،ایک بڑاہال،اورشعبہ تبلیغ خاص طورسے قابل ذکرہیں۔ مختلف بلاکوں کے درمیان خوب صورت لان اس درس گاہ کی خوب صورت اورتزئین میں اضافے کاموجب بنیں گے ۔
اس کے سرپرست اعلیٰ الحاج محمداسلم بٹ میئرمیونسپل کارپوریشن ہیں جبکہ انجمن انتظامیہ کے صدرحاجی معراج دین ہیں۔ انجمن مرکزی دارالعلوم باقاعدہ طورپررجسٹرڈہے اورشہرکے تمام جیدعلماء اس دارالعلوم کی سرپرستی کررہے ہیں ۔ جسٹس پیرمحمدکرم شاہ آف بھیرہ شریف مسلسل انتظامیہ کواپنے عملی وفکری تعاون سے نوازرہے ہیں ۔

دارالعلوم تحفظ ختم نبوت کنگنی والا

یہ مجوزہ دارالعلوم چارکنال کے رقبے پرجی ٹی روڈ سے مغرب کی جانب آبادی کے کچھ اندرجانے والی شاہراہ پرواقع ہے۔دارالعلوم کی عمارت زیرتعمیرہے ملحقہ مسجدکی تکمیل ہوچکی ہے ۔مسجد سے ملحق چارکمرے ہیں۔ ساتھ ہی ۲۲ عدد دکانوں پرمشتمل ایک مارکیٹ ہو گی تاکہ مدرسے کے مصارف کا بندوبست ہو سکے۔ یہاں درس نظامی کی تعلیم دی جائے گی مگرخصوصی مطالعہ سرور کائنات کی ختم المرسلینی کے پہلوکاہو گا۔یوں یہ دارالعلوم پورے علاقے میں اپنی نوعیت کاواحدادارہ ہو گاجوختم نبوت کے تخصص کے ساتھ تعلیم دے گا۔ 
ادارہ کی سرپرستی مولاناخان محمدصاحب کندیاں نے قبول فرمائی ہے ۔دارالعلوم کے لیے جگہ موضع کھیالی کے ایک زمیندارحاجی محمدیوسف علی قریشی نے وقف کی۔ اس کاسنگ بنیادبھی مرحوم نے خودہی رکھا۔حافظ نذیراحمدبالفعل مدرسے کے مہتمم ہیں ۔اس وقت قرأت وناظرہ وحفظ کاسلسلہ جاری ہے اورطلبہ کی تعداد۱۰۰کے لگ بھگ ہے۔مرحوم حاجی یوسف علی قریشی ہاشمی نہایت درددل رکھنے والے اورسرورکونین ﷺ کی ختم المرسلینی پرجان تک نچھاورکرنے والے انسان تھے۔ موصوف سیدعطاء اللہ شاہ بخاری ،چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین اورماسٹرتاج الدین انصاری اوردوسرے زعماء احراراورشمع ختم نبوت کے پروانوں کے محبوب نظرتھے ۔
ان مدارس کے علاوہ بھی سینکڑوں مدارس ہیں جوعلم وعمل کے مینارہ ہائے نورہیں ۔طوالت کے پیش نظر ان مدارس کے منتظمین سے معذرت کے ساتھ ہم چندایک کے محض نام گنوانے پراکتفاء کرتے ہیں:
یہ ہے ایک اجمالی تذکرہ گوجرانوالہ کے دینی مدارس کا۔ان دینی مدارس کاوجود رشدوہدایت کاایک ایسا سرچشمہ ہے جہاں سے نوربھی ملتاہے اورسروربھی ،حضوری کی نعمتیں بھی عطاہوتی ہیں اورشعور کی رفعتیں بھی۔ اسلام اگرباقی ہے توانہی بوریہ نشینوں کے دم سے اوردین تمام ترمخالفانہ یورشوں کے باوجود اگرزندہ و تابندہ ہے توانہی فقیروں کے طفیل ،جوعلم دین کی تحصیل کوایک معاشی وسیلہ نہیں بلکہ فرض اورمقصد سمجھتے ہیں ۔یہی وہ اربابِ ہمت ہیں جن کے نزدیک علم بازارکی جنس نہیں بلکہ انسانیت کاجوہر،کردارکاحسن اورفرض کی پکارہے ۔ یہ لوگ تاریخ اسلامی کی تاباں روایات کے امین ہیں۔ تاریخ جانتی ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کاذریعہ معیشت بزازی تھا، علم نہیں ۔امام معروف کرخی پاپوش سازتھے مگراپنے علم سے فکرو نظرکی گرہیں کھولتے چلے جاتے تھے۔ان عظمتوں نے علم کوعلم کے لیے حاصل کیا،دنیاکے لیے نہیں ۔وہ علمِ دین جوصرف معیشت کاذریعہ بن جائے اور فرض نہ رہے جنس کاسب سے زیادہ وقیع نہیں ہواکرتا۔
مولاناابوالکلام آزاد اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں :عربی تعلیم کوآج کوئی نہیں پوچھتاحتی کہ روٹی بھی اس کے ذریعے نہیں مل سکتی ۔ عربی مدارس کے طلباء اس کسمپرسی میں عربی تعلیم ہی کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردیتے ہیں۔ یہ جذبہ بجزعلم پرستی اوررضائے الٰہی کے اورکوئی دنیوی غرض نہیں رکھتااور اس لیے دنیابھرمیں علم کوعلم کے لیے اگرپڑھنے والی جماعت ہے توعربی مدارس کی جماعت ہے ۔
ان مدارس کے بارے میں علامہ اقبال کی آرزو یہ ہے:
’’اگرہندوستان کے مسلمان ا ن مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے توبالکل اس طرح جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سوسال کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈراورالحمراء اور باب الاخوتین کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اوراسلامی تہذیب کے آثارکاکوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرے ،تاج محل اوردلی کے لال قلعے کے سوامسلمانوں کی آٹھ سوبرس کی حکومت اوران کی تہذیب کاکوئی نشان نہیں ملے گا‘‘۔

قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو خدا کا حکم سمجھنے کی غلطی

ڈاکٹر عرفان شہزاد

اسلام کے سیاسی غلبے کو دینی فریضہ قرار دینے کے حق میں یہ استدلال ایک بنیادی استدلال کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام سے فتح و نصرت کے وعدے کیے تھے جو ان کے حق میں پورے ہوئے۔ یہی وعدے دیگر اہل ایمان کے لے بھی عام ہیں۔مسلمان اگر پورے جذبہ ایمانی سے اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشش کریں گے تو یہ وعدے ان کے حق میں بھی اسی طرح پورے ہوں گے جیسے یہ صحابہ کے لیے پورے ہوئے تھے۔ اس استدلال کے بھروسے پر مسلم تاریخ میں بے شمار مسلح اور غیر مسلح سیاسی تحاریک برپا کی گئیں جن کا انجام تاریخ کے صفحات میں رقم ہے۔ زیر نظر مضمون میں اس استدلال کا تجزیہ زبان و بیان کے معروف اسالیب کی روشنی میں ،تاریخی اور معروضی حقائق کے حوالے کیا گیا ہے۔
یہاں دو نکات قابل غور ہیں:
پہلا یہ کہ زبان کا معلوم و معروف اسلوب ہے کہ وعدہ، حکم نہیں ہوتا، یعنی جب کسی سے کوئی وعدہ کیا جاتا ہے تو یہ نہیں سمجھا جاتا کہ کوئی حکم دیا جا رہا ہے۔ مثلاً میں اپنے بیٹے سے کہوں کہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھانے پر اسے کوئی انعام دوں گا تو اس کا مطلب بس یہی ہے کہ اس کی کارکردگی اچھی ہوئی تو میں اپنا وعدہ پورا کروں گا۔ اس سے یہ کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا کہ اس انعام کا حصول میرے بیٹے کے لیے فرض ہو گیا ہے یا میرے لیے اپنا وعدہ ہر حال میں پورا کرنا فرض ہو گیا ہے۔ یہ ایک عام فہم بات ہے۔ کوئی صحیح الفہم شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا۔
دوسرا یہ ہے کہ وعدہ اگر خاص کسی شخص یا اشخاص سے کیا جائے تو وہی اس کا مخاطب اور مصداق ہوتے ہیں، دیگر لوگ اس سے مراد نہیں ہوتے۔ جیسے مذکورہ بالا مثال میں میرے وعدے کا مخاطب میرا بیٹا ہے۔ اس وعدے کا مصداق بھی وہی ہے، کوئی دوسرا نہیں ہے، حتی کہ اس کے علاوہ میری دوسری اولاد بھی اس وعدے کا مصداق نہیں بن سکتی تاوقتیکہ ان کو بھی اس میں شامل کرنے کا اعلان میں خود نہ کروں، یا وعدے کی نوعیت ہی عام ہو جیسے میں اپنے بچوں سے کہوں کہ جو بھی اچھی کارکردگی دکھائے گا، اسے انعام ملے گا۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ سب اس میں شامل ہوں گے۔ لیکن وعدہ خاص الفاظ میں ہے تو عام ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بھی ایک معروف بات ہے۔ اس کا انکار بھی ممکن نہیں۔
ان دونوں اصولوں کی روشنی میں قرآن مجید میں صحابہ سے متعلق خدا کے وعدوں کو دیکھتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ خدا نے صحابہ کے ساتھ جو وعدے کیے، وہ صرف وعدے ہیں، حکم نہیں۔ اگر کوئی ان کو حکم سمجھتا ہے تو اس کے لیے دلیل درکار ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ خدا کے یہ وعدے صحابہ کے حق میں بعینہ پورے ہوئے کیونکہ وہی ان کے مخاطب تھے، لیکن یہ وعدے دیگر مسلمانوں کے لیے تھے نہ ان کے حق میں پورے ہوئے، کیونکہ وہ ان کے مخاطب ہی نہیں تھے۔ ان خاص وعدوں کو اگر کوئی عام سمجھتا ہے تو اس کے لیے بھی دلیل لانی پڑے گی۔
یہاں قرآن مجید سے خدا کے دو وعدے پیش کیے جاتے ہیں۔ ہم ان کا تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا ان وعدوں کو حکم اور پھر اس حکم کو عام سمجھا جانا درست ہو سکتا ہے۔
خدا نے صحابہ سے بحیثیت جماعت وعدہ کیا کہ ان کے صالحین کو اس دنیا ہی میں غلبہ و حکومت عطا کرے گا:
وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (3:139)
’’اور (جو نقصان تمھیں پہنچا ہے، اْس سے) بے حوصلہ نہ ہو اور غم نہ کرو، اگر تم مومن ہو تو غلبہ بالآخر تمھیں ہی حاصل ہو گا۔‘‘
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُون (24:55)
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے ہیں، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو وہ اِس سرزمین میں ضرور اسی طرح اقتدار عطا فرمائے گا، جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو اس نے عطا فرمایا تھا اور ان کے لیے ان کے دین کو پوری طرح قائم کر دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے اور ان کے اِس خوف کی حالت کے بعد اِسے ضرورامن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھیرائیں گے۔ اور جو اِس کے بعد بھی منکر ہوں تو وہی نافرمان ہیں۔‘‘
خدا کا ایک وعدہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں سے تھا کہ اگر وہ خدا کی راہ میں ہجرت کریں گے تو خدا کی طرف سے بحیثیت جماعت اس دنیا ہی میں امن و خوش حالی پائیں گے۔ یہ وعدہ پہلے وعدے ہی کا ابتدائیہ ہے، تاہم یہ الگ سے بھی کیا گیا ہے، اس لیے بوجوہ اسے یہاں الگ وعدہ شمار کیا گیا ہے:
وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوا فِی اللّٰہِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّءَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَلَأَجْرُ الآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ (16:41)
’’جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہے، اِس کے بعد کہ ان پر ظلم ڈھائے گئے ، ہم ان کو دنیا میں بھی لازماً اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو کہیں بڑھ کر ہے۔ اے کاش، یہ منکرین جانتے۔‘‘
وَمَن یُہَاجِرْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الأَرْضِ مُرَاغَماً کَثِیْراً وَسَعَۃً (4:100)
’’(یہ لوگ گھروں سے نکلیں اور مطمئن رہیں کہ) جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا، وہ زمین میں پناہ کے لیے بڑے ٹھکانے اور بڑی گنجایش پائے گا۔‘‘
ہم جانتے ہیں کہ صحابہ سے کیے گئے یہ دونوں وعدے صحابہ کے حق میں پورے ہوئے۔ انھوں نے ہجرت کے نتیجے میں امن و خوش حالی بھی پائی اور اپنے مخالفین کے ساتھ ہونے والی جنگوں کے نتیجے میں غلبہ و حکومت بھی۔
زبان و عقل کے عام اور معروف فہم کے مطابق، خدا کے یہ وعدے حکم نہیں ہو سکتے، دوسرے یہ کہ یہ وعدے عام نہیں ہو سکتے، لیکن مسلمانوں نے دونوں مغالطے اختیار کیے: انھوں نے ان وعدوں کو حکم بھی سمجھا اوراس مزعومہ حکم کو عام بھی سمجھا۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے حصول غلبہ و حکومت کو اپنے لیے دینی فریضہ اور اس کے وقوع کو خدائی وعدہ قرار دے دیا۔ پھر اس بھروسے پر انھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں حصول اقتدار کے لیے مسلح اور غیر مسلح سیاسی تحریکیں برپا کیں جو کم و بیش تمام کی تمام ناکامی سے دو چار ہوئیں۔ اس قسم کی تحریکوں اور ان کی ناکامیوں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ قرآن مجید میں بڑی وضاحت سے یہ بیان آیا ہے کہ خدا اپنے اصول کبھی نہیں بدلتا۔ اگر یہ وعدے عام مسلمانوں کے لیے بھی ہوتے تو کامیابی ان کو بھی نصیب ہوتی۔ چونکہ یہ وعدے عام مسلمانوں کے لیے تھے ہی نہیں ، اس لیے ان کے لیے پورے بھی نہیں ہوئے۔ خدا نے اپنااصول نہیں بدلا۔
بالکل اسی طرح، جب کبھی مسلمانوں کی کسی جماعت کو کسی علاقے سے ہجرت کرنا پڑ جاتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ساری زندگی مہاجر کیمپوں میں کسمپرسی کے عالم میں گزار دیتے ہیں، مگر بحیثیت جماعت امن و خوش حالی کا منہ نہیں دیکھ پاتے۔ یہاں افراد کی انفرادی حیثیت نہیں، بلکہ جماعتی حیثیت مد نظر ہے۔ چنانچہ جس ملک میں بھی یہ جا کر رہ پاتے ہیں، دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے ہی رہ پاتے ہیں۔ ہجرت کے بعد امن و خوش حالی کے خدائی وعدے بھی اگر عام ہوتے تو ان کے حق میں بھی پورے ہوتے نظر آتے۔ چنانچہ تاریخی اور معروضی حقائق بھی اس فہم کے خلاف کھڑے ہیں کہ صحابہ سے کیے جانے والے لازمی فتح و نصرت اور لازمی امن و خوش حالی کے وعدے عام ہیں۔ 
یہاں تاویل کرنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ غلبہ و حکومت کے وعدے اعلی ایمان کے ساتھ مشروط ہیں۔ چونکہ صحابہ جیسا ایمان اب تک دستیاب نہ ہو سکا، اس لیے یہ وعدے عام مسلمانوں کے حق میں کبھی پورے ہو کر نہ دیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات ماضی و حال میں برپا ہونے والی تمام مسلح و غیر مسلح سیاسی تحاریک کے لیے علی الاطلاق کہی جا سکتی ہے، حالانکہ ان میں سے بعض بلکہ اکثر کے تذکرے ان کے رہنماؤں اور ان میں شامل افراد کے اعلیٰ کردار اور ایمان افروز واقعات سے بھرے پڑے ہیں؟سوچنے کی بات یہ ہے کہ اپنے جان و مال قربان کر دینے سے بڑھ کر ایمان و نیت کے خالص پن کا اور کیا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے اور مسلم عسکری تنظمیں یہ قربانیاں آج بھی پیش کر رہی ہیں؟ تاہم،حقیقت یہ ہے کہ غلبہ و حکومت انھیں میسر نہ آئے۔
بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ ان تمام لوگوں میں سے کوئی بھی پورے ایمان والے نہ ہو سکے تو ہجرت پر مجبور کر دیے جانے والے مسلمانوں کی مظلومیت میں تو عموماً کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ ہجرت کے بعد امن و خوش حالی کے وعدے اگر عام ہوتے تو بحیثیت جماعت عام مسلم مظلوم مہاجرین کے حق میں تو لازماً پورے ہونے چاہیے تھے، مگر وہ بھی نہیں ہوتے؟اور اگر ہجرت کے بعد کے وعدے عام نہیں ہیں، تو غلبہ و حکومت والے وعدے کیونکر عام ہو سکتے ہیں؟ 
ان سوالوں کا جواب اس کے سوا اور کیا ہے کہ غلبہ و حکومت اور امن و خوش حالی کے یہ وعدے عام نہیں تھے۔عام مسلمان ان وعدوں کا مخاطب ہیں نہ مصداق۔
بعض حضرات خدا کے ان وعدوں میں موجود غلبہ و حکومت کی بشارتوں کو اخلاقی فتح قرار دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ خدا کے ان وعدوں کی رو سے صحابہ کو کیا صرف اخلاقی فتح ملی تھی؟ان سے وعدہ دنیوی سیاسی غلبے و حکومت کا تھا، انھیں وہی ملا۔ اب دیگر لوگوں کے لیے یہ وعدہ اگر صرف اخلاقی فتح تک محدود ہو گیا ہے تو اس تخصیص کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر یہ تخصیص مان بھی لی جائے تو پھر مسلمانوں کو مسلح و غیر مسلح سیاسی تحاریک برپا کرنے کی بجائے اخلاق کے میدان میں ہی فتح حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؛ یا پھر یہ مان لیا جائے کہ اس اخلاقی فتح کا یہ فہم غلبہ و حکومت کے حصول میں کوشاں گزشتہ اور موجودہ تحاریک کے سربراہان کو بھی نہ تھا اور نہ ہے۔ وہ اسے سیاسی فتح ہی سمجھتے رہے، مگر ناکامی کے بعد قرآن کے وعدوں کا عمومی مصداق اور ان تحریکوں کی شکست دونوں کا محل درست کرنے کے لیے اسے اخلاقی فتح قرار دینے کی کوشش کی گئی۔
یہاں اس سوال کو بھی لے لینا چاہیے کہ صحابہ ہی کے ساتھ یہ وعدے کیوں کیے گئے اور انھی کے حق میں کیوں پورے ہوئے؟ یہ وعدے عام نہیں تھے تو قرآن میں قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ان کے تذکرے کا مقصد کیا ہے؟
اختصار سے بیان کیا جائے تو اس سب کا مقصد مسلمانوں کو وہ سرگزشت سنانا ہے جس میں خدائی مدد سے جزیرہ عرب میں ایک غیر معمولی واقعہ برپا کیا گیا تاکہ وہ ایک نشانِ حق بن کر قیامت تک کے انسانوں کے لیے تذکیر اور دعوت ایمان کا سامان بن جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح دیگر رسولوں کی سرگزشت ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں جن میں ہم خدا کی خاص نصرت کے واقعات عبرت اور تذکیر کے لیے پڑھتے ہیں، جیسے موسیٰ علیہ السلام کا قصہ جس میں موسیٰ علیہ السلام خدا کی خاص مدد سے اپنے دشمنوں پر اپنے عصا، عبور بحر اور دیگر معجزات کے ذریعے غالب آئے۔ ان کو پڑھتے وقت ہم یہ نہیں سمجھتے کہ موسیٰ علیہ السلام کی طرح ہم بھی کسی فرعون سے جا ٹکرائیں تو خدا کی مدد اسی طرح نازل ہو گی جس طرح موسیٰ کے لیے اتری تھی۔ ہم اسے خدا کا ایک خاص نشانِ حق سمجھ کر پڑھتے ہیں۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ خدا کے رسولوں کا اسی دنیا میں اپنے مخالفین پر غالب آ جانا خدا کا ایک خاص قانون ہے:
کَتَبَ اللّٰہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِیْ إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (58:21)
’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔‘‘
چنانچہ ہر رسول کے مخالفین خدائی عذاب کے نتیجے میں بالآخر مغلوب ہوئے۔ 
قرآن مجید کی درج ذیل آیت بھی اسی تناظر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبے کا خدائی فیصلہ سناتی ہے:
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (9:33)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ (اِس سرزمین کے) تمام ادیان پر اس کو غالب کر دے، خواہ مشرکین اِسے کتنا ہی نا پسند کریں۔‘‘
یہ غلبہ خدا کے مذکورہ قانون کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ظاہر ہو کر رہا۔اس سے دیگر مسلمانوں کے لیے سیاسی غلبے کے حصول کی ہدایت یا حکم کا کوئی قرینہ نہیں نکلتا۔ آیت میں موجود الدین کلہ (تمام ادیان) کے الفاظ سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ’’تمام ادیان‘‘ وہ ادیان تھے جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے غالب آنا تھا، یعنی جزیرہ عرب میں پائے جانے والے ادیان۔ یہ تخصیص اس لیے کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دین کاغالب ہونا بیان کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ آیت میں موجود المشرکین کا الف لام عہد کا ہے جو تمام مشرکین نہیں بلکہ عرب کے مشرکین کو بیان کر رہا ہے۔ اس غلبے کے خاص ہونے کا یہ ایک مزید واضح قرینہ ہے۔
دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ذریت ابراہیم کو ان کے ایمان و عمل کے مطلوبہ معیار پر پورا اترنے کی صورت میں اسی دنیا میں غلبے کا وعدہ اور ایمان و عمل میں غیر مطلوب طرز عمل اختیار کرنے پر اسی دنیا میں ذلت و رسوائی کی وعید سنائی ہے:
چنانچہ پہلے مرحلے میں ذریت ابراہیم کی ایک شاخ، بنی اسرائیل اس امتحان کے لیے چنے گئے تھے:
یَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَوْفُوا بِعَہْدِیْ أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ (سورۃ البقرہ، 2:40)
’’اے بنی اسرائیل، میری اْس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی تھی اور میرے عہد کو پورا کرو ، میں تمھارے عہد کو پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔‘‘
یہ وعدہ یہی تھا کہ خدا کے فضل و سرفرازی کی جو نعمت وہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے گنوا چکے ہیں، انھیں دوبارہ مل سکتی ہے اگر وہ اپنی روش بدل کر دوبارہ خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اختیار کر لیتے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں ذریت ابراہیم کی دوسری شاخ، بنی اسماعیل چنے گئے:
أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمُ اللّٰہُ مِن فَضْلِہِ فَقَدْ آتَیْْنَا آلَ إِبْرَاہِیْمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَآتَیْْنَاہُم مُّلْکاً عَظِیْماً (4:54)
’’کیا یہ لوگوں سے اللہ کی اس عنایت پر حسد کر رہے ہیں جو اس نے ان پر کی ہے؟ (یہی بات ہے تو سن لیں کہ) ہم نے تو اولاد ابراہیم (کی اِس شاخ یعنی بنی اسماعیل) کو اپنی شریعت اور اپنی حکمت بخش دی اور انھیں ایک عظیم بادشاہی عطا فرما دی ہے۔‘‘
پھر انہی مسلمانوں سے گزشتہ سنت الٰہی کے مطابق وعدہ کیا گیا:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوَا إِن تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوا یَرُدُّوکُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (آل عمران، 3:149)
’’ایمان والو، اگر اِن منکروں کی بات مانو گے تو یہ تمھیں الٹا پھیر کر رہیں گے اور تم نامراد ہو جاؤ گے۔‘‘
وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (3:139)
’’اور (جو نقصان تمھیں پہنچا ، اس سے) بے حوصلہ نہ ہو اور غم نہ کرو، اگر تم مومن ہو تو غلبہ بالآخر تمھیں ہی حاصل ہوگا۔‘‘
ان کی ہجرت کے بعد امن و خوش حالی بھی اسی وعدے کی فرع تھی۔ 
اس خصوصی اہتمام کی وجہ دین کے لیے انسانی محافظین کا چناؤ، ان کے ذریعے سے بعد از رسالت دنیا میں تبلیغِ دین اور عام لوگوں کے لیے خدا کی زندہ نشانی قائم کرنا تھا کہ کس طرح ذریت ابراہیم اپنے ایمان و عمل کی درستی اور بگاڑ کی بنیاد پر بار بار عروج و زوال کے ادوار سے گزرتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی ساڑھے تین ہزار سالہ تاریخ اور بنی اسماعیل کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں خدا کے اس فیصلے کی داستانیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ صحابہ نے دشمنان اسلام کے خلاف جو قتال کیا، وہ غلبہ و حکومت کے لیے نہیں، بلکہ خدا کے نافرمانوں کو اتمام حجت کے بعد خدا کے حکم سے آخری سزا دینے کے لیے اور مظلوم مسلمانوں کو ان کے پنجہ ظلم سے چھڑانے کے لیے کیا تھا:
قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِأَیْْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنصُرْکُمْ عَلَیْْہِمْ وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ (سورہ التوبہ 9:14)
’’ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کو سزا دے گا اور اْنھیں ذلیل و خوار کرے گا اور تمھیں ان پر غلبہ عطا فرمائے گا اور مومنوں کے ایک گروہ کے کلیجے (اِس سے) ٹھنڈے کرے گا۔‘‘
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً (4:75)
’’(ایمان والو)، تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کر رہے ہیں کہ پروردگار، ہمیں ظالموں کی اِس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر دے اور اپنے پاس سے حامی اور مددگار پیدا کر دے۔‘‘
مسلمانوں کے غلبہ و حکومت کا ذکر ان مہمات کے نتیجے اور خدا کی طرف سے انعام کے طور پر کیا گیا ہے۔ ذریت ابراہیم کے علاوہ، خدا نے اپنے ذمے یہ لیا ہے نہ اس پر لازم ہے کہ مسلمانوں کے دیگر گروہوں کے لیے بھی یہی قانون لاگو کرے۔ ان وعدوں کو حکم اور پھر حکم کو اپنے لیے عام سمجھنا مسلمانوں کی اپنی غلط فہمی ہے۔ خدا ان کی غلط فہمی کا ذمہ دار نہیں، اور نہ وہ ان کی غلط فہمی کی وجہ سے اپنے اصول بدلنے والا ہے۔
اپنے حقوق کے لیے اگر سیاسی جدوجہد کرنا مسلمانوں کے حالات کا تقاضا ہو تو وہ اسے انسانی سماج کی ایک ضرورت سمجھ کر اختیارکر سکتے ہیں، نہ کہ کوئی دینی فریضہ سمجھ کر۔ نیز یہ بھی ذہن میں رہے کہ ان کی کاوشوں کی وجہ سے خدا پر ان کی فتح و نصرت کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ خدا کی حکمت کا تقاضا ہوگا تو وہ مدد کر بھی سکتا ہے، مگر یہ نہ اس کا وعدہ ہے نہ کوئی عام قانون۔
سماجی حقیقت یہ ہے کہ آج کے کثیر القومی اور کثیر المذاہب جمہوری سماجوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی، وہاں ان کو اپنی حکومت تشکیل دینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آنی چاہیے جہاں وہ اسلام کے مسلم اجتماعیت سے متعلق احکامات مسلم کمیونٹی پر لاگو کریں۔ اور جہاں وہ اقلیت میں ہوں، وہاں انھیں ایک مفید، صالح اور دوستانہ اقلیت بننے سے کوئی چیز مانع نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم،ان کے صالح طرز عمل کے باجودبطور اقلیت انھیں اپنے سماج کے نظام یا سماجی رویوں کی وجہ سے کسی ناانصافی یا زیادتی سے پالا پڑتا ہے تو اس کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش، جس کی اجازت سماج اور قانون انھیں دیتا ہے،انھیں کرنی چاہیے۔ ناانصافی اور زیادتی کی ایسی صورت حال تو مسلم اکثریت کے سماج میں مسلمانوں کے مختلف مسلکی یا لسانی گروہوں کو بھی درپیش رہتی ہے۔جاننا چاہیے کہ یہ مذہبی سے زیادہ انسانی رویوں کا مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہتھیار اٹھا لینا نہیں، سماجی رویوں کی اصلاح کی کوششیں کرنا ہے۔تاہم، معاملہ اگر مسلم کمیونٹی کی برداشت سے باہر ہو جائے تو انھیں وہاں سے ہجرت کر جانی چاہیے۔ ہجرت بھی ممکن نہ ہو تو بیرونی ریاستی طاقتوں اور اداروں کو مدد کے لیے بلایا جانا چاہیے، نہ کہ خود ہتھیار اٹھا کر اپنے لیے مزید خرابی کے اسباب پیدا کرنا چاہئیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عہد رسالت میں مسلمانوں میں سے جو لوگ ہجرت نہ کر پائے تھے اور کفار کے ظلم کا شکار تھے تومدینہ کی اسلامی ریاست کو ان کی مدد کے لیے ابھارا گیا لیکن جہاد کے احکام نازل ہو جانے کے باوجود ان محکوم و مظلوم مسلمانوں کو ہتھیار اٹھا لینے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا بلکہ یہ ہدایت دی گئی کہ خدا سے دعا کریں کہ وہ کسی طاقت کو ان کی مدد کے لیے بھیجے۔ (دیکھیے مذکورہ بالا آیت 4:75) نوبت البتہ اگر یہاں تک پہنچ جائے کہ مسلمانوں کی طرف سے پر امن رہتے ہوئے بھی ان کے مخالفین کی طرف سے ان کی جان، عزت اور آبرو بھی محفوظ نہ رہیں تو ذاتی دفاع کے فطری حق کے لیے لڑ پڑنا، ہتھیار اٹھا لینا ناگزیر تقاضا بن جاتا ہے۔
دور جدید میں دنیا کے کثیر القومی اور کثیر المذاہب سماجوں میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کے پیچھے بڑی وجہ مسلمانوں کی اپنے دین کی بنیاد پر دیگر کمیونٹیز پر غالب آنے کی نفسیات ہے۔ مسلمان اگر اس نفسیات سے باہر آ جائیں توبقائے باہمی کے اصول پر دنیا کے ساتھ آگے بڑ ھ سکتے ہیں۔ دنیا بھی ان پر بھروسہ کرے گی اور جن مشکلات کا سامنا انھیں اب ہے، ان میں سے اکثر کا خاتمہ ہو جائے گا۔ المیہ مگر یہ ہے کہ مسلمانوں نے دین کے نام پر غلبے کے حصول کے لیے جن مشکلات کا راستہ اپنے لیے چنا ہے، وہ ان کے دین کا تقاضا ہی نہیں ہے۔ جن وعدوں کے بھروسے پر یہ سب کیا جا رہا ہے، وہ وعدے ان کے لیے ہیں ہی نہیں۔
دین کا اصل مقصد تزکیہ نفس ہے۔ مسلمانوں سے ان کے دین کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان جہاں بھی رہے، اپنی انفرادی اور سماجی حیثیت کے مطابق ایمان و عمل کے بہترین معیار کے حصول میں کوشاں رہے۔ پھر وہ چاہے باپ ہو یا بیٹا، معلم ہو یا شاگرد، حاکم ہو یا محکوم ہر حال میں خدا کے حکم کا پابند ہو کر رہے۔ مسلمان جتنا جلد ان حقائق کو باور کر لیں، اتنا ہی ان کے لیے بہتر ہے تاکہ ان کی توانائیاں غیر ضروری ترک تازیوں میں ضائع ہونے کی بجائے مثبت مقاصد کے لیے استعمال ہو سکیں۔

’’تذکار رفتگاں‘‘ ۔ اہل علم کے لیے ایک علمی سوغات

مولانا مفتی محمد اصغر

اس وقت مولانا زاہد الراشدی صاحب کی تازہ تصنیف ’’تذکار رفتگاں‘‘ ہمارے سامنے ہے۔ کتاب کیا ہے، پڑھ کر ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس پایے کی کتاب ہے اور اس میں کتنا قیمتی تاریخی علمی مواد موجود ہے۔ یہ کتاب تقریباً نصف صدی سے زائد کے اکابر علماء، زعماء، مشائخ، قائدین، سربراہان مملکت اور قومی وبین الاقوامی شخصیات کے حالات زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب میں اس فانی دنیا سے رخصت ہو جانے والے اکابر اہل علم کی وفات پر ہلکے پھلکے انداز میں مولانا نے اپنے قلبی تاثرات وجذبات کا اظہار پیش کیا ہے۔ 
مولانا کو اللہ رب العزت نے گوناگوں صفات وکمالات سے نوازا ہے۔ علم وعمل، درس وتدریس، تقریر وتحریر، خطابت وصحافت، فقہ واجتہاد، تواضع وانکسار جیسی صفات سے مالا مال فرمایا ہے۔ مولانا کا قلم عجب قلم ہے، آپ کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ آپ کو مشکل سے مشکل بات آسان پیرایے میں بیان کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل نکالنے میں مولانا اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ غبی اور کم علم بھی آپ کی تحریر کو شوق سے پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ اہل علم کا ایک بڑا طبقہ آپ کے قلم کا گر ویدہ ہے۔ آپ کے قلم سے نکلی شستہ تحریر محبت کا پیغام دیتی، مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑتی اور پست ہمت لوگوں کو باہمت بنا دیتی ہے۔ آپ کی تحریر بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لاتی، فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوؤں کو وحدت آشناکرتی اور گم کردہ راہوں کو نشان منزل عطا کرتی ہے۔ 
مولانا کو نصف صدی سے زیادہ تک امت کے اساطین علم اور اکابر اہل علم کی سرپرستی میں دینی خدمات کا موقع ملا ہے، حافظ الحدیث مولانا عبد اللہ درخواستی، مفتی محمود صاحب، مولانا عبید اللہ انور، مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہم اللہ جیسی عظیم ہستیوں سے حصول علم اور کسب فیض کا موقع میسر آیا ہے۔ اللہ رب العزت مولانا کو اور زیادہ صحت وعافیت سے نوازیں اور ان کی قومی، ملکی، دینی، ملی خدمات کے دائرے کو وسیع فرمائیں۔
زیر نظر کتاب کو چار مرکزی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے: اساتذہ واکابر، قومی وبین الاقوامی شخصیات، رفقاء واحباب، اور مختصر تعزیتی شذرات۔ تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اہل علم و قلم، اصحاب علم و دانش، صاحب ثروت شخصیات کا تذکرہ عقیدت و محبت کے ساتھ بڑے والہانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے، بالخصوص چند عظیم شخصیات کا تذکرہ تو بڑی چاہت و محبت اور تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ حضرت مفتی محمود صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر لگ بھگ پچپن صفحات میں اظہار خیال کیا گیا ہے، مرکز ی جامع مسجد گوجرانوالہ کے سابق خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب کو چودہ صفحوں میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، مولانا عبیداللہ انور اور مولانا عبداللہ درخواستی کا تذکرہ بھی محبت و عقیدت کے ساتھ بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، لیکن سب سے زیادہ قلبی جذبات و تاثرات کا اظہار مولانا صوفی عبدالحمید سواتی اور شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے تذکرہ میں ہوا ہے۔ اول الذکر مولانا کے عم محترم اور ثانی الذکر مولانا کے والد محترم ہیں، ان دونوں کا تذکرہ مولانا نے بڑی چاہت اور محبت میں ڈوب کر کیا ہے۔ 
مولانا اپنے والد محترم کے تذکرہ میں مضمون کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں:
’’حضرت مولانا سرفراز خان صفدر میرے والد گرامی تھے، استاد محترم تھے، شیخ ومربی تھے، اور ہمارے درمیان دوستی اور بے تکلفی کا وہ رشتہ موجود تھا جو ہر باپ اور اس کے بڑے بیٹے کے درمیان ہوتا ہے۔‘‘
اس کے بعد مولانا نے اپنے والد گرامی کے خانگی حالات، بچوں کی تعلیم وتربیت کا انداز، تدریسی اور تحریکی زندگی، تصنیفی اور تالیفی خدمات اور روزمرہ کے معمولات کو سپرد قلم کیا ہے جو ہم سب کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’حضرت والد صاحب کی صحت میں شب و روز کا نظام کچھ اس طرح ہوتا تھا کہ سحری کے وقت اٹھ کر بلاناغہ غسل کرتے تھے اور تہجد کی نماز ادا کرتے تھے۔ اس وقت ہماری والدہ مرحومہ بھی بیدار ہو کر تہجد پڑھتی تھیں اور ناشتہ تیار کرتی تھیں۔ اذان فجر کے فوراً بعد والد محترم ناشتہ کرتے تھے جو عام طور پر پراٹھے اور چائے پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے بعد مسجد میں چلے جاتے تھے، ساتھ ہی والدہ مرحومہ بھی مسجد میں چلی جاتی تھیں، اس لیے کہ فجر کی نماز اور درس میں خواتین بھی باقاعدہ شریک ہوا کرتی تھیں اور خواتین کے لیے مسجد میں الگ انتظام موجود تھا۔ نماز فجر پڑھانے کے فوراً بعد حضرت والد محترم درس دیتے تھے جو تین دن قرآن پاک اور تین دن حدیث پاک کا ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ گوجرانوالہ میں مدرسہ نصرت العلوم میں پڑھانے کے لیے چلے جاتے تھے جہاں سے دوپہر سے کچھ پہلے واپسی ہوتی تھی۔ کھانا کھا کر اور اخبار پڑھ کر سو جاتے تھے۔ ظہر تک آرام ہوتا تھا، ظہر سے عصر تک اپنی چارپائی پر بیٹھے لکھنے اور پڑھنے کا کام کرتے رہتے تھے اور اسی دوران بچیاں مختلف اسباق کی تعلیم حاصل کرتی رہتی تھیں۔ عصر کی نماز کے بعد قرآن کی منزل پڑھتے تھے جو عام طور پر روزانہ ایک پارہ ہوتا تھا۔ اس کے بعد گھر کے چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ جس زمانے میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی، لیمپ اور لالٹین کے شیشے صاف کرنا، چارپائی کی ڈھیلی ادوائن کو کسنا، پیڑھی وغیرہ اگر قابل مرمت ہو تو اسے ٹھیک کرنا اور اسی طرح کے دیگر چھوٹے چھوٹے کام کرنا ان کے معمولات میں شامل تھا۔ نماز مغرب کے بعد کھانا کھاتے اور مطالعہ کرتے تھے، عشاء کے بعد سردیوں میں مطالعہ کرتے اور گرمیوں میں جلد سونے کی کوشش کرتے تھے۔‘‘
حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا مفتی محمود صاحب صرف ایک سیاستدان نہیں تھے بلکہ دینی علوم کے معتبر استاد، بیدار مغز مفتی، فقیہ النفس عالم، حق گو خطیب، شب زندہ دار عارف باللہ بھی تھے، اس لیے ان کی ان متنوع اور گو نا گوں حیثیتوں میں سے سیاستدان اور سیاسی قائد کی حیثیت کو الگ کرنا اور اس کے امتیازات و تخصصات کو جداگانہ طور پر پیش کرنا ایک مشکل اور دشوار امر ہے، اور یہ شاید ان کے ساتھ نا انصافی بھی ہو کہ ان کو صرف سیاسی قائد کے طور پر سامنے لایا جائے۔ مولانا مفتی محمود صاحب ایک مفتی اور فقیہ کی حیثیت سے اسلامی احکام کی تعبیر و تشریح، ترجمانی اور دفاع کی ذمہ داری سے تدبیر اور بصیرت کے ساتھ عہدہ برآ ہوتے تھے۔ 
افتاء اور تفقہ میں ابتدائے اسلام سے دو الگ الگ ذوق پائے جاتے ہیں۔ ایک ذوق سختی اور تشدد کا ہے کہ مسئلہ بیان کرنے اور فتویٰ دینے میں کوئی لچک نہ دی جائے، دوسرا ذوق رخصت اور لچک کا ہے کہ مسئلہ پوچھنے والے کو شرعی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر ممکن سہولت اور لچک فراہم کی جائے اور اسے مشکل اور الجھن سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، حضرت مفتی محمود صاحب کا ذوق نرمی اور سہولت کا تھا اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ کوئی شخص مسئلہ پوچھنے کے لیے آیا ہے تو اس بات کو غنیمت سمجھو کہ وہ دین کے دائرے میں رہنا چاہتا ہے، اس لیے اسے جتنی سہولت فراہم کر سکتے ہو، اس کے لیے پوری کوشش کرو اور اصول کے دائرے کو قائم رکھتے ہوئے فروع و جزئیات میں زیادہ سختی نہ کرو، امت کے اجتماعی مسائل و مشکلات کے حوالے سے ان کا ذوق یہی تھا اور ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کسی بھی مسئلہ میں شرعی اصول اور قواعد کی حدودمیں رہتے ہوئے نرمی اور سہولت کا راستہ اختیار کیا جائے اور مسئلہ کو الجھانے اور ڈیڈلاک کی کیفیت پیدا کرنے کی بجائے مسئلہ کے حل اورسلجھاؤ کی کوئی صورت نکالی جائے۔ مفتی صاحب کو قدرت نے اسلامی احکام و مسائل کی حکیمانہ تشریح اور دفاع کا بھی خصوصی ذوق عطا کیا تھا اور وہ اسلامی قوانین پر اعتراضات کے جواب میں پورے اعتماد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے منطق و استدلال کا ایسا حصار قائم کر دیتے تھے کہ کسی بڑے سے بڑے مخالف کے لیے بھی ان کے دلائل کا سامنا مشکل ہو جاتا تھا۔‘‘
جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوری کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’مولانا عبداللہ رائے پوری کی ذاتی زندگی انتہائی سادگی اور کفایت شعاری سے عبارت تھی، وہ جامعہ رشیدیہ سے اپنی تنخواہ وصول کرتے وقت مہینہ میں کی ہوئی چھٹیوں کا حساب کر کے اتنے دنوں کی تنخواہ وضع کروا لیتے تھے۔ درسگاہ میں پڑھائی کے وقت کے علاوہ جو وقت گزارتے، اس کا حساب کر کے اتنا بجلی کا بل مدرسہ میں جمع کروا دیتے۔ حضرت کے لیے جامعہ رشیدیہ میں ایک کمرہ الگ مخصوص کیا گیا تھا مگر وہ آخر وقت تک جامعہ کو اس کا کرایہ ادا کرتے رہے۔ حضرت مدرسہ کے شیخ الحدیث ہو نے کے باوجود مدرسہ کے لیٹر پیڈ اور قلم دوات کو فتویٰ نویسی کے علاوہ کسی کام کی لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ مدرسہ کی سالانہ تعطیلات کی تنخواہ بھی وصول نہیں کرتے تھے۔ دوسرے مدارس کے سالانہ اجتماعات اور امتحانات وغیرہ کے لیے جاتے تو ان سے سفر کے اخراجات سے زائد رقم وصول نہ کرتے تھے۔‘‘
مولانا زاہد الراشدی صاحب کا اصلاح و ارشاد اور بیعت کا تعلق مولانا عبیداللہ انور صاحب سے تھا، ان کا تذکرہ بھی مولانا نے بڑی محبت سے کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’مولانا عبید اللہ انور میرے شیخ تھے، میرا ان کے ساتھ اصل تعلق سلسلہ قادریہ میں بیعت کا تھا۔ میں نے چند بزرگ ایسے دیکھے ہیں جن کا مستقل معمول تھا کہ وہ رات کو نہیں سوتے تھے۔ ایک مولانا عبیداللہ انور، دوسرے مولانا سید حامد میاں۔ ان کا معمول تھا کہ ساری رات نماز، مطالعہ، ذکر میں گزارتے تھے۔ مطالعہ بہت کرتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں وسعت مطالعہ کے اعتبار سے تین چار آدمی دیکھے ہیں کہ وہ ہر موضوع پر طویل کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے تھے۔ ایک والد محترم مولانا سرفراز خان صفدر مطالعہ و تحقیق کے آدمی تھے۔ دوسرے امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کے بڑے بیٹے حضرت مولانا سید ابوذر شاہ بخاری۔ تیسرے مولانا عبیداللہ انور۔ چوتھے حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب بڑے کتاب دوست آدمی تھے۔ 
ابتدا میں جب میں لکھتا تھا تو ’’زاہد گکھڑوی‘‘ کے نام سے لکھتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت فرمانے لگے کہ زاہد صاحب! یہ گکھڑوی بڑا ثقیل لفظ ہے، کہتے ہوئے بڑ ا زور لگانا پڑتا ہے۔ کوئی سادہ سا لفظ ساتھ رکھیں۔ میں نے کہا حضرت! گکھڑ سے تعلق ہے، اس لیے یہ اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتا ہوں۔ فرمانے لگے کہ سلسلہ کی نسبت کرو۔ ہمارا سلسلہ کہلاتا ہے، عالیہ قادریہ راشدیہ۔ عالیہ حضرت علیؓ کے حوالے سے، قادریہ حضرت شنخ عبدالقادر جیلانی کے حوالہ سے، اور راشدیہ حضرت شاہ محمد راشد سندھی کے حوالہ سے۔ اس وقت مولانا سعید الرحمان علوی میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے کہا، علوی تو یہ بیٹھے ہیں اور قادری بھی بہت ہیں، اب میں راشدی ہو جاؤں؟ فرمایا: ہاں، ہو جاؤ، چنانچہ اس دن سے میں ’’زاہد راشدی‘‘ ہوں۔‘‘
غرض مولانا نے تین سو کے لگ بھگ اکابر علماء، مشائخ عظام، احباب ورفقاء، قومی وبین الاقوامی شخصیات کا تذکرہ بڑے ہی دل نشیں انداز میں کیا ہے۔ چند ایک کے نام حسب ذیل ہیں: قائد احرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مولانا مفتی محمد حسن، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا قاری محمد طیب، الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا خواجہ خان محمد، مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف، مولانا سلیم اللہ خان، شاہ فیصل بن عبدالعزیز، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمد ضیاء الحق شہید، ڈاکٹر محمد حمیداللہ، نوابزادہ نصراللہ خان، نواب محمد اکبر خان بگٹی، صدر صدام حسین، ملا محمد عمر مجاہد، اسامہ بن لادن، مولانا شاہ احمدنورانی، قاضی حسین احمد، علامہ احسان الٰہی ظہیر، مولانا حق نواز جھنگوی، حکیم محمد سعید، مولانا محمد ضیاء القاسمی، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی، مولانا محمد اعظم طارق، علامہ علی شیر حیدری، مجید نظامی اور جنرل حمید گل۔
کتاب بہترین کاغذ، خوبصورت ٹائٹل کےِ ساتھ تقریباً آٹھ سو صفحات کے لگ بھگ شائع ہوئی ہے۔ شائقین علم وادب کے لیے بہترین تحفہ ہے۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کی اشاعت خاص کے طور پر منظر عام پر آیا ہے۔ امید ہے کہ اگلا ایڈیشن مزید اضافوں کے ساتھ اس سے بہتر انداز میں شائع ہو گا، ان شاء اللہ۔

فروری ۲۰۱۸ء

احمدیوں کی مذہبی اور آئینی حیثیت کی بحثمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۹)ڈاکٹر محی الدین غازی
دورِ جدید کا حدیثی ذخیرہ : ایک تعارفی جائزہ (۷)مولانا سمیع اللہ سعدی
تصوف و سلوک اور ماضی قریب کے اجتہاداتسراج الدین امجد
’’پیغام پاکستان‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
فقہاء اور مکتب فراہی کے تصورِ قطعی الدلالۃ کا فرقعدنان اعجاز
مدرسہ ڈسکورسز کیا ہے؟محمد عرفان ندیم
مدرسہ ڈِسکورسز کا وِنٹر اِنٹنسو ۔ میرے تاثراتسید مطیع الرحمٰن
الشریعہ اکادمی میں اسلامی تاریخ پر کوئز مقابلہمولانا محفوظ الرحمٰن

احمدیوں کی مذہبی اور آئینی حیثیت کی بحث

محمد عمار خان ناصر

احمدیوں کی تکفیر اور ختم نبوت سے متعلق امت مسلمہ کے اجماعی عقیدے کے تحفظ کے ضمن میں ہمارے ہاں کی جانے والی قانون سازی گزشتہ دنوں بعض مبینہ قانونی ترمیمات کے تناظر میں ایک بار پھر زیر بحث آئی۔ اس پس منظر میں والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں بعض توجہ طلب سوالات دینی حلقوں کے غور وفکر کے لیے اٹھائے۔ ان میں سے ایک نکتہ یہ ہے کہ:
’’چوتھی بات اس مسئلہ کے حوالہ سے ان حلقوں کے بارے میں کرنا چاہتا ہوں جو ۱۹۴۷ء کے بعد سے مسلسل مسئلہ ختم نبوت کے دستوری اور قانونی معاملات کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ بین الاقوامی ادارے ہوں، عالمی سیکولر لابیاں ہوں یا ملک کے اندر قادیانیت نواز حلقے ہوں، جب یہ ان کے علم میں ہے اور انہیں اس بات کا پوری طرح اندازہ ہے کہ وہ اس مسئلہ پر پاکستان کی رائے عامہ، سول سوسائٹی اور منتخب اداروں میں سے کسی کا کھلے بندوں سامنا نہیں کر سکتے اور ہر بار انہیں درپردہ سازشوں کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے تو وہ پاکستانی قوم کے اجتماعی فیصلے کو تسلیم کرنے اور زمینی حقائق کا اعتراف کر لینے سے مسلسل کیوں انکاری ہیں؟ یہ انصاف، جمہوریت، اصول پرستی اور حقیقت پسندی کی کون سی قسم ہے کہ پاکستانی قوم نے اجتماعی طور پر ایک فیصلہ کیا ہے اور وہ اس پر قائم رہنا چاہتی ہے تو اسے اس سے ہٹانے کے لیے دباؤ، سازش اور درپردہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اپنے اجماعی عقیدہ اور موقف سے ہٹنے پر بلاوجہ مجبور کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ان بین الاقوامی اور اندرون ملک حلقوں کو ان کی اس غلط روی بلکہ دھاندلی کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔‘‘ (روزنامہ اسلام، ۸ نومبر ۲۰۱۷ء)
آئندہ سطور میں ہم اس سوال کے بعض پہلوؤں کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کرنا چاہیں گے۔
یہ بات درست ہے کہ مغربی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے پاکستان میں اسلامی قانون سازی کے ضمن میں کیے جانے والے اقدامات کو ختم کرنے کے لیے دباؤ موجود ہے اور اس کے لیے علانیہ اور پس پردہ کوششوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ احمدی کمیونٹی اپنا مقدمہ بین الاقوامی فورمز پر مسلسل پیش کر کے عالمی سطح پر عمومی ہمدردی حاصل کر چکی ہے اور اپنے خلاف امتیازی قوانین کے خاتمے کے لیے پاکستانی حکومت پر مختلف اطراف سے دباؤ کو بڑھانے کے لیے بھی کوشاں رہتی ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک اس صورت حال کو سادہ طور پر ’’پاکستانی قوم کے اجتماعی فیصلے کو تسلیم نہ کرنے‘‘ اور ’’اپنے اجماعی عقیدہ اور موقف سے ہٹنے پر بلا وجہ مجبور کرنے‘‘ سے تعبیر کرنے سے پہلے ذرا توقف کر کے معاملے کے چند بنیادی پہلووں پر غور کر لینے اور بالخصوص زاویہ نظر کے اس اختلاف کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو احمدیوں کے حوالے سے ہمارے مذہبی موقف اور اس کی مخالفت کرنے والے بین الاقوامی اور قومی حلقوں کے مابین پایا جاتا ہے۔
احمدیوں سے متعلق مذہبی موقف کا ایک نکتہ تو یہ ہے کہ احمدی، امت مسلمہ کے نزدیک مسلمہ اور متفقہ مفہوم کے اعتبار سے اسلام کے ایک بنیادی عقیدے یعنی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے اور اس وجہ سے امت مسلمہ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اعتقادی اور قانونی لحاظ سے انھیں مسلمانوں کا حصہ شمار نہیں کیا جائے گا۔ اسلام کے اعتقادی نظام کا تحفظ نہ صرف مسلمانوں کا اجتماعی دینی فریضہ ہے، بلکہ سیکولر اخلاقی معیارات کے لحاظ سے بھی یہ مسلمانوں کا گروہی حق بنتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے کسی ایسے گروہ کو اپنا حصہ شمار نہ کریں جو شناخت کے کسی بنیادی اور اساسی جزو کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ تاہم اصل پیچیدگی اس نکتے کو تسلیم کر لینے کے بعد سامنے آتی ہے۔
مسلمانوں کی روایتی مذہبی تعبیرات کی رو سے اگر مسلمانوں میں سے کوئی فرد یا گروہ اپنے کسی عقیدے یا عمل کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج شمار کیا جائے تو اس کا قانونی حکم یہ ہے کہ توبہ کا موقع دیے جانے کے باوجود اگر وہ اپنے عقیدہ وعمل پر قائم رہے تو اسے قتل کر دیا جائے۔ اس تعبیر کی رو سے احمدیوں کا، اور خاص طور پر ان کی پہلی نسل کا، شرعی حکم یہ بنتا تھا کہ انھیں ارتداد کی پاداش میں قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ علماء نے نظری طور پر احمدیوں کی تکفیر کے ساتھ ساتھ ان کا یہ قانونی حکم بھی واضح کیا، تاہم چونکہ یہ صورت حال اس وقت پیش آئی تھی جب برصغیر میں اسلامی اقتدار قائم نہیں تھا، اس لیے مذکورہ قانون پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا تھا۔ اس پس منظر میں علامہ محمد اقبال نے، جو اس صورت حال کو روایتی فقہی تعبیرات کے بجائے جدید سیاسی وقانونی تصورات کے تناظر میں دیکھ رہے تھے، یہ تجویز کیا کہ احمدیوں کو مرتد اور گردن زدنی قرار دینے کے بجائے ایک غیر مسلم اقلیت کا درجہ دے دیا جائے اور مسلمان ان کے ساتھ عملاً وہی برتاؤ کریں جو دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ روایتی علما اگرچہ اپنی تحریروں میں عموماً احمدیوں کے متعلق روایتی فقہی موقف کا ہی اعادہ کرتے رہے، تاہم پاکستان بننے کے بعد جب اس ضمن میں عملی قانون سازی کا موقع آیا تو تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کی ایک مجلس نے اتفاق رائے سے علامہ اقبال کے تجویز کردہ حل کو قبول کر لیا اور یہ مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت کا درجہ دیا جائے۔
والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے موقف کی اس تبدیلی کو علماء کے اجتہادی زاویہ نظر کی ایک نمایاں مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اس تاریخی حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب علمائے کرام کو نئی ریاست کی دستوری حیثیت کا تعین کرنے کے لیے فیصلہ کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے ماضی کی روایات سے بے لچک طور پر بندھے رہنے کے بجائے وقت کے تقاضوں اور علامہ اقبال کی فکر کا ساتھ دیا ۔۔۔ عقیدۂ ختم نبوت کے منکر قادیانیوں کو مرتد کا درجہ دے کر فقہی احکام کے مطابق گردن زدنی قرار دینے کے بجائے علامہ اقبال کی تجویز کی روشنی میں غیر مسلم اقلیت کی حیثیت دے کر ان کے جان ومال کے تحفظ کے حق کو تسلیم کرنا بھی ملک کے علما کا ایک ایسا اجتہادی فیصلہ ہے جس کے پیچھے علامہ محمد اقبال کی فکر کارفرما دکھائی دیتی ہے۔‘‘ 
(عصر حاضر میں اجتہاد، شائع کردہ: الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ، فروری ۲۰۰۸ء، ص ۳۸) 
یہاں یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ مذہبی علماء نے علامہ محمد اقبال کی تجویز کو نتیجے کے اعتبار سے تو قبول کر لیا، یعنی یہ کہ احمدیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا، تاہم وہ اقبال کی رائے کی اصل بنیاد پر یا تو غور نہیں کر سکے اور یا اسے قبول کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوا۔ اقبال کی رائے، جیسا کہ عرض کیا گیا، ایک جمہوری ریاست میں حق شہریت کے جدید تصورات پر مبنی تھی جس کی رو سے ریاست کے تمام باشندوں کو یکساں شہری وسیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں اور ریاست کسی گروہ کے ساتھ مذہبی جبر کا اختیار نہیں رکھتی۔ یہ تصور، ظاہر ہے کہ دار الاسلام کے کلاسیکی فقہی تصور سے بالکل مختلف ہے جس میں نہ صرف یہ کہ ریاست کو ارتداد پر سزا دینے کا حق حاصل تھا، بلکہ ریاست کے غیر مسلم باشندے بھی شہری وسیاسی حقوق کے اعتبار سے مساوی درجے کے شہری تسلیم نہیں کیے جاتے تھے، اگرچہ ریاست مخصوص شرائط کی پابندی کے ساتھ ان کے جان ومال اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ذمہ دار سمجھی جاتی تھی۔ فقہی اصطلاح میں اسی وجہ سے انھیں ’’اہل ذمہ‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ مزید برآں اسلامی قانون کی رو سے اسلام سے ارتداد اختیار کرنے والے فرد یا گروہ کے بارے میں ریاست کو یہ اختیار بھی حاصل نہیں تھا کہ وہ انھیں ’’اہل ذمہ‘‘ کا درجہ دے کر دوسرے غیر مسلموں کی طرح ان کے جان ومال اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضامن بن جائے۔
اب ہوا یہ کہ احمدیوں کے حوالے سے اقبال کی تجویز کو علماء نے ظاہری نتیجے کے لحاظ سے تو قبول کیا، لیکن معاملے کے مختلف پہلوؤں کو بنیادی طور پر روایتی فقہی زاویے سے ہی دیکھتے رہے اور اس ثنویت یا دو ذہنی کا اظہار علماء کے موقف میں مختلف پہلووں سے ہونے لگا۔ مثلاً متعدد ذمہ دار مذہبی علماء اور اداروں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ یہ کہا گیا کہ قادیانیوں کے بارے میں پارلیمنٹ کا فیصلہ موجودہ حالات کے اعتبار سے وہ کم سے کم اقدام ہے جو ممکن تھا، لیکن ان کا اصل حکم یہی ہے کہ جب بھی حالات سازگار ہوں، ان پر زندقہ وارتداد کے احکام جاری کیے جائیں۔ پھر جن علماء نے پارلیمنٹ کے فیصلے کو ایک حتمی فیصلے کے طور پر قبول کیا، انھوں نے بھی احمدیوں کے لیے غیر مسلم اقلیت کے حقوق تسلیم کرنے کو ایسی شرائط کے ساتھ مشروط کر دیا جو شہریت کے جدید تصور کے بجائے ذمہ کے روایتی فقہی تصور سے پیدا ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۷ء میں قومی اسمبلی کے فیصلے کے بعد مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے اس کے شرعی نتائج واضح کرتے ہوئے لکھا:
’’مرزائیوں کی حیثیت قبل ازیں کفار محاربین کی تھی اور قومی اسمبلی کے فیصلہ کے بعد اس کی حیثیت پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کی ہے جن کو ذمی کہا جاتا ہے (بشرطیکہ وہ بھی پاکستان میں بحیثیت غیر مسلم کے رہنا قبول کر لیں، اس لیے کہ عقد ذمہ دو طرفہ معاہدہ ہے)۔ اور کسی ذمی کے جان ومال پر ہاتھ ڈالنا اتنا سنگین جرم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں ایسے شخص کے خلاف نالش کریں گے۔ اس بنا پر تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کی جان ومال کی حفاظت کریں۔ مجلس عمل نے مرزائیوں سے سوشل بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا جو مسلمانوں کے دائرہ اختیار کی چیز تھی، لیکن جن مرزائیوں نے قومی اسمبلی کا فیصلہ تسلیم کر کے اپنے غیر مسلم شہری ہونے کا اقرار کر لیا ہو، اب ان سے سوشل بائیکاٹ نہیں ہوگا۔ اور جو مرزائی اس فیصلہ کو قبول نہ کر رہے ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مسلمانوں سے ترک محاربت پر آمادہ نہیں۔‘‘ (احتساب قادیانیت، شائع کردہ مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان، جلد ۱۶، ص ۳۳۳)
یہاں ’’محاربین‘‘ اور ’’ذمی‘‘ کی اصطلاحات کے استعمال سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا کے ذہن میں گفتگو کا تناظر ایک جمہوری ریاست نہیں، بلکہ دار الاسلام کا فقہی تصور ہے، اس لیے کہ جمہوری ریاست کے باشندوں کو نہ تو عقیدہ ومذہب کے اختلاف کی وجہ سے محارب کہا جا سکتا ہے اور نہ غیر مسلم شہریوں کو ذمی۔ پاکستان کے آئین کی رو سے احمدیوں کے شہری وسیاسی حقوق سے بہرہ ور ہونے یا نہ ہونے کا تعین ان کے مسلمان یا غیر مسلم ہونے پر سرے سے منحصر ہی نہیں تھا، کیونکہ انھیں یہ تمام حقوق اس فیصلے سے پہلے بھی حاصل تھے اور اس کے بعد بھی۔ 
پھر ’’ذمی‘‘ کی حیثیت سے ان کے جان ومال کے تحفظ کو اس سے مشروط کرنا کہ وہ خود کو غیر مسلم تسلیم کر لیں، بدیہی وجوہ سے ناقابل فہم ہے۔ آئین شہریت کی شرائط میں اسے شمار نہیں کرتا کہ کوئی شخص نظری طور پر من کل الوجوہ آئین کے تمام اجزا کو تسلیم کرے۔ شہریت کا تعلق عملاً آئین اور قانون کی پابندی کرنے اور ملک وقوم کے مفاد کے ساتھ وفاداری سے ہے اور کسی مخصوص سیاسی نظریے یا مذہبی عقیدے کو غداری کے ہم معنی نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی آئین کے مخالف اور سیکولر ریاست کے حامی گروہ موجود ہیں اور پوری طرح شہری وسیاسی حقوق سے بہرہ مند ہیں۔ اسی طرح جمہوریت کو غلط سمجھنے اور اس پر تنقید کرنے والے مذہبی گروہ بھی یہاں پائے جاتے ہیں اور ان کے لیے بھی وہ تمام شہری وسیاسی حقوق تسلیم کیے جاتے ہیں جو باقی شہریوں کو حاصل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ غیر مسلم اقلیت تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انھیں اپنے عقیدے پر رہتے ہوئے شہری حقوق حاصل ہوں گے۔ احمدی اپنے عقیدے کے مطابق خود کو مسلمان تصور کرتے ہیں۔ امت مسلمہ ان کا یہ دعویٰ قبول نہیں کرتی، یہ تو درست ہے، لیکن احمدیوں سے یہ مطالبہ کہ وہ بھی خود کو مسلمان نہ سمجھیں، دراصل اس بات کا مطالبہ ہے کہ وہ اپنا عقیدہ چھوڑ دیں، تبھی انھیں اقلیت کے حقوق حاصل ہوں گے۔ 
(اس حوالے سے مذہبی طبقوں کی عمومی نفسیات نامعقولیت کی جن حدوں کو چھو رہی ہے، اس کا اندازہ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ایک درخواست سے کیا جا سکتا ہے جو ایک مذہبی تنظیم کے ذمہ داران کی طرف سے احمدیوں کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے لیے پولیس کو دی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ فلاں اور فلاں احمدیوں نے ضلعی انتظامیہ کے نام درخواست کے شروع میں بسم اللہ اور حضرت محمد کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہے جو کہ اسلامی شعائر ہیں اور ان کا استعمال صرف مسلمان کر سکتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور قانون کی خلاف ورزی پر مذکورہ درخواست دہندگان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون)
شہریت کے تصور کے حوالے سے زیر بحث الجھاؤ کا دوسرا بنیادی اظہار اس مطالبے میں ہوتا ہے کہ احمدیوں کے لیے کلیدی مناصب پر تقرر کو ممنوع قرار دیا جائے۔ یہ مذہبی علماء کا ایک بنیادی مطالبہ رہا ہے اور پارلیمنٹ میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد سے لے کر اب تک اس کا اعادہ کیا جاتا اور اس کی قانونی عدم تنفیذ کی وجہ سے غیر مسلم قرار دیے جانے کے فیصلے کو بھی ادھورا قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی بدیہی طور پر وہی الجھاؤ کار فرما ہے، کیونکہ یہ مطالبہ دار الاسلام کے اہل ذمہ کے بارے میں تو کیا جا سکتا ہے، لیکن جمہوری قومی ریاست کے تناظر میں اس کا کوئی آئینی جواز نہیں بنتا۔ آئین، چند ایک استثناءات کے ساتھ، شہری وسیاسی حقوق میں مذہب کی بنیاد پر کوئی تمیز نہیں کرتا اور احمدیوں کے لیے اس امتیاز کا مطالبہ دراصل آئین میں دی گئی عدم امتیاز کی ضمانت کو رد کرنا ہے۔ 
الجھاؤ کا اس سے بھی بڑھ کر اظہار علماء کے اس عمومی فتوے میں ہوتا ہے جس کی رو سے احمدیوں کے سماجی اور معاشی مقاطعہ کو مسلمانوں کی دینی ذمہ داری قرار دیا جاتا اور کسی بھی سطح پر احمدیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کو عقیدہ ختم نبوت پر ایمان کے منافی گردانا جاتا ہے۔ اس ضمن میں جو شرعی و فقہی استدلال پیش کیا جاتا ہے، وہ تمام تر شہریت کے اسی فقہی تصور پر مبنی ہے جس میں ان معاملات کو عقیدہ اور مذہب کی روشنی میں طے کیا جاتا ہے۔ یہاں ہمارے پیش نظر اس نوعیت کا ایک مفصل فتویٰ ہے جو مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی مرحوم کے قلم سے ہے اور ’’فتاویٰ بینات‘‘ کی پہلی جلد میں شامل ہے۔ مولانا نے اس فتوے میں احمدیوں کے مقاطعہ کے تفصیلی و شرعی دلائل پیش کرنے کے بعد جو نتائج اخذ کیے ہیں، ان میں سے چند اہم نتائج یہ ہیں:
کفار محاربین سے دوستانہ تعلقات ناجائز اور حرام ہیں۔ جو شخص ان سے ایسے روابط رکھے، وہ گمراہ، ظالم اور مستحق عذاب الیم ہے۔
جو کافر مسلمانوں کے دین کا مذاق اڑاتے ہوں، ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات، نشست و برخاست وغیرہ بھی حرام ہے۔
جو کافر مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں، ان کے محلے میں ان کے ساتھ رہنا بھی ناجائز ہے۔
مرتد کو سخت سے سخت سزا دینا ضروری ہے۔ اس کی کوئی انسانی حرمت نہیں، یہاں تک کہ اگر پیاس سے جاں بلب ہو کر تڑپ رہا ہو، تب بھی اسے پانی نہ پلایا جائے۔
اقتصادی اور معاشرتی مقاطعہ کے علاوہ مرتدین، موذیوں اور مفسدوں کو یہ سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں: قتل کرنا، شہر بدر کرنا، ان کے گھروں کو ویران کرنا، ان پر ہجوم (یعنی حملہ) کرنا وغیرہ۔
اگر محارب کافروں اور مفسدوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ان کی عورتیں اور بچے بھی تبعاً اس کی زد میں آ جائیں تو اس کی پروا نہیں کی جائے گی، ہاں اصالتاً عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا جائز نہیں۔
ان لوگوں کے خلاف مذکورہ بالا اقدامات کرنا دراصل اسلامی حکومت کا فرض ہے، لیکن اگر حکومت اس میں کوتاہی کرے تو خود مسلمان بھی ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جو ان کے دائر ہ اختیار کے اندر ہوں اور ظاہر ہے کہ عوام کے اختیار میں مکمل مقاطعہ ہی ایک ایسا اقدام ہے جو موثر بھی ہے اور پرامن بھی۔ (ص ۲۳۹، ۲۴۰)
استدلال کے دروبست سے واضح ہے کہ صاحب فتویٰ احمدیوں کی قانونی حیثیت محارب کے فقہی تصور کے تحت متعین کر رہے ہیں۔ اس سوال سے قطع نظر کر لیا جائے کہ فقہی لحاظ سے یہاں محارب کی تعریف صادق آتی ہے یا نہیں، لیکن یہ سامنے کی بات ہے کہ جمہوری ریاست کے تناظر میں یہ بحث نہ صرف بالکل غیر متعلق ہے، بلکہ کسی گروہ کے مقاطعہ کی عمومی دعوت دینا اور اس کی مہم چلانا ریاست کی دی ہوئی اس ضمانت کی نفی ہے کہ کسی شہری کے ساتھ اس کے عقیدے کی وجہ سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ریاست نہ صرف خود اس اصول کی پابند ہے، بلکہ اس کی بھی ذمہ دار ہے کہ کسی گروہ کو کسی دوسرے گرو ہ کے خلاف نفرت کا ایسا ماحول پیدا کرنے کی اجازت نہ دے جس سے اس کے مسلمہ شہری یا سیاسی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ 
اس تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس معاملے میں اصل الجھاؤ کہاں ہے اور اس کا فکری منبع کیا ہے۔ مذہبی علماء اصولاً اس مسئلے کو روایتی فقہی احکام کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور اقبال کے تجویز کردہ حل کو اس کی پوری قانونی بنیاد اور تمام مضمرات کے ساتھ نہیں، بلکہ صرف ظاہری نتیجے کے لحاظ سے قبول کرتے ہیں۔ اسی سے ایک طرف علماء کے مطالبات اور فتووں اور دوسری طرف آئین کی دی گئی ضمانتوں کے درمیان وہ تمام تضادات پیدا ہوتے ہیں جن کا سابقہ سطور میں ذکر کیا گیا۔ احمدیوں کو مظلوم اور مذہبی امتیاز کا شکار قرار دینے اور اس بنیاد پر ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے بین الاقوامی اور قومی حلقوں کے سامنے بنیادی طور پر معاملے کا یہ پہلو ہوتا ہے اور احمدی حضرات بھی جب اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں تو انھی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے خود کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے فیصلے کو اس کے ساتھ نتھی کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جدید دنیا میں ریاست اور شہریت کے معروف اور مسلم تصورات کی رو سے ان کے موقف میں وزن محسوس کیا جاتا ہے، جبکہ مذہبی علماء اس پہلو کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے اپنے تئیں یہ تصور قائم کر لیتے ہیں کہ امت مسلمہ کو اس کے اجماعی عقیدے سے ہٹانے کے لیے ناروا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ یہ یقیناً معاملے کا ایک پہلو ہو سکتا ہے، لیکن اسے صرف اسی ایک پہلو سے دیکھنا ہمارے خیال میں معاملے کی پیچیدگی سے نظریں چرانے کے ہم معنی ہوگا۔
یہ بات کہ اس معاملے میں مذہبی حلقوں میں ذہنی اور فکری سطح پر ایک الجھاؤ موجود ہے، اس کا احساس بعض ذمہ دار علماء کو بھی ہے۔ چنانچہ والد گرامی مولانا زاہد الراشدی لکھتے ہیں:
’’کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں یہ روایت سی بن گئی ہے کہ ہم کسی اجتماعی مسئلے پر دینی اور شرعی حوالے سے ایک قدم اٹھا لیتے ہیں، فیصلہ کر لیتے ہیں، لیکن اس پر آزادانہ علمی بحث نہ ہونے کی وجہ سے اس فیصلے کی علمی توجیہ سامنے نہیں آتی اور دلائل کا پہلو اوجھل رہتا ہے جس سے کنفیوڑن پیدا ہوتی ہے اور فیصلہ ہو جانے اور اس پر عمل درآمد ہو جانے کے باوجود علمی دنیا میں وہ فیصلہ بدستور معلق رہتا ہے۔ ۔۔۔ قادیانیوں کے بارے میں ہم نے اجتماعی طور پر فقہی احکام کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ انھیں غیر مسلم اقلیت کے طور پر ملک میں رہنے کا حق دیا جائے گا اور ان کے جان ومال کے تحفظ کی حکومت ذمہ دار ہوگی۔ یہ فیصلہ جو تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے متفقہ طور پر کیا ہے اور ملک میں نافذ العمل ہے، ہمارے روایتی فقہی موقف سے ہٹ کر ہے۔ میں اس فیصلے کی مخالفت نہیں کر رہا، بلکہ اس کے حق میں ہوں اور اس کو قانونی اور دستوری درجہ دلوانے کے لیے عملی جدوجہد کرنے والوں میں شامل ہوں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی علمی توجیہ کیا ہے اور ایسا کرنا شرعی طور پر کیا حیثیت رکھتا ہے؟ ہمارے خیال میں اس پر علمی مباحثہ ضروری ہے اور نہ صرف علما و طلبہ بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقات کے سامنے بھی اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ تبدیلی کیوں آئی ہے اور اس کا شرعی جواز کیا ہے؟‘‘ (کلمہ حق، ماہنامہ الشریعہ، مئی ؍جون ۲۰۰۹)
غالباً اسی تناظر میں کچھ عرصہ قبل اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی یہ نکتہ زیر بحث آیا تھا کہ احمدیوں کی شرعی حیثیت کے مسئلے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے، تاہم اس پر کونسل کے ارکان میں ایک تنازع پیدا ہو گیا اور غالباً یہ سوال سنجیدگی کے ساتھ زیر بحث نہیں لایا جا سکا۔ بہرحال یہ بات باعث اطمینان ہے کہ مذہبی مطالبات میں پائے جانے والے الجھاؤ اور عملی مضمرات کا اب فکری سطح پر ادراک کیا جا رہا ہے اور دینی سیاسی موضوعات پر لکھنے والے کئی راسخ العقیدہ اہل دانش کی تحریروں میں اس پر نظر ثانی کی ضرورت کو اجاگر کیا جانے لگا ہے۔ چنانچہ حالیہ بحث کے دوران میں ملک کے معروف صحافی اور دانش ور جناب عامر ہاشم خاکوانی نے اس موضوع پر سوشل میڈیا میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا جسے، بعض پہلوؤں سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود، بحیثیت مجموعی ایک متوازن اور معتدل موقف کہا جا سکتا ہے۔ عامر ہاشم خاکوانی لکھتے ہیں:
’’تین چار باتیں الگ الگ ہیں۔ پہلا یہ کہ قادیانی غیر مسلم ہیں چونکہ وہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ ایسا بنیادی نکتہ ہے جسے نہ ماننے والا دائرہ اسلام میں رہ ہی نہیں سکتا۔ اس لئے قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کے حوالے سے کسی دوسری رائے کی گنجائش ہی نہیں۔ 
دوسرا یہ کہ پاکستانی آئین کے تحت قادیانی غیر مسلم قرار بھی پا چکے ہیں۔ یہ بھی واضح امر ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں۔ یہ طے شدہ امر ہے، اسے قطعی طور پر ری اوپن نہیں کرنا چاہیے۔ ہم قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کی آئینی ترمیم میں ایک نقطے کی تبدیلی کے بھی حق میں نہیں۔ قانون توہین رسالت بھی اپنے اصول میں ایسی ہی حتمیت کا حامل ہے۔ اس کے پروسیجر میں کوئی تبدیلی صرف علمائے دین کی مشاورت سے ہوسکتی ہے، اس کا بہترین فورم اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔ اکابر علما کے مشورے اور منظوری سے کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔ 
تیسرا معاملہ قادیانی کے ساتھ تعلق کا ہے۔ یہ ہر ایک کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے، کوئی داعیانہ تعلق بنانا چاہتا ہے اور بطور غیر مسلم ان تک دعوت پہنچانا چاہتا ہے، ان کے فکری مغالطے اور گمراہی کو دور کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے، اسے کسی مولوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں (اللہ اور اس کا رسول اس کی نیت جانتا ہے، اسے اجر اپنی نیت اور عمل پر ملے گا، کسی مولوی صاحب کے سرٹیفکیٹ کی بنا پر نہیں)۔ کوئی فاصلہ رکھنا چاہتا ہے تو رکھے، یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے، مگر اسے اپنی رائے کو دوسروں پر تھوپنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
چوتھا معاملہ ہے قادیانیوں کے بطور غیر مسلم سرکاری ملازمتوں کا۔ آئینی طور پر وہ پاکستانی ہیں، دوسرے پاکستانیوں کی طرح ان کا مساوی حق ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا ممکن نہیں کہ کسی مذہب، نسل کی بنیاد پر کسی کو باقاعدہ قانون بنا کر روکا جائے۔ ایسا کرنا خطرناک بھی ہے کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کی طرح اس کا بائیکاٹ ہوجائے گا، سماجی مقاطعہ۔ سرکاری اداروں میں ملازمتیں قادیانی بھی لے سکیں گے دوسروں کی طرح۔ ہاں جو اہم یا حساس محکمے ہیں، جہاں کسی قسم کا خطرہ ریاست کو محسوس ہوگا تو وہاں پر غیر تحریری، غیر رسمی طور پر ایسا کیا جاتا ہے۔ 
امریکی قانون کے تحت کسی مسلمان کو امریکی صدر بننے سے نہیں روکا جا سکتا یا سی آئی کا چیف بننے یا جج یا کسی اور اہم حساس محکمے میں ٹاپ پوزیشن لینے سے نہیں روکا جا سکتا۔ وہاں صرف یہ پابندی ہے کہ پیدائشی امریکی ہو۔ مسلمان بھی بن سکتا ہے اگر وہ پیدائشی امریکی ہو تو۔ لیکن کبھی کوئی مسلمان امریکی صدر بنے گا نہ سی آئی کا چیف یا کسی اور اہم حساس امریکی محکمے کی ٹاپ پوزیشن میں آ سکے گا۔ ایسا مگر غیر تحریری، غیر رسمی طور پر سلیقے سے کیا جاتا ہے۔ کوئی احمق امریکی ہی مطالبہ کرے گا کہ نہیں، مسلمان کے لئے باقاعدہ قانونی پابندی لگائی جائے۔ اس کی اس بات پر اس کا مذاق اڑایا جائے گا، کیونکہ ایسا ہوتا نہیں۔ یہ صرف پاکستان ہے جہاں ایسے غبی العقل لوگ موجود ہیں جو ایسے معاملات کی پیچیدگی اور حساسیت کو نہیں سمجھتے۔ جہاں جہاں روکا جانا مقصود ہے، بے فکر رہیں ، وہاں ایسا ہو رہا ہے۔ ایسا ہونے دیں، احمقانہ مطالبات اور تقریروں سے مسائل پیدا نہ کریں۔
نوٹ: یہ بھی یاد رکھیں کہ جس طرح ہر یہودی صہیونی نہیں، ہر ہندو بی جے پی والا نہیں، اسی طرح ضروری نہیں کہ ہر قادیانی پاکستان یا اسلام کے خلاف دن رات سازشیں کرنے میں لگا ہو۔ عالمی قادیانیت تحریک کے حوالے سے مجھے بھی تحفظات ہیں۔ کچھ لوگ ہوسکتے ہیں جنہیں پاکستان کھٹکتا ہو، مگر عام آدمی ہر جگہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے چونکہ کسی خاص مذہب کے گھر میں پیدا ہو گئے، اس لیے وہ مذہب اختیار کر لیا۔ دعوت کا کام اچھے طریقے سے ہو تو ان شاء اللہ ایک بڑی تعداد حق کی طرف لوٹ سکتی ہے۔ یہ گنجائش باقی رکھنی چاہیے۔‘‘
امید کرنی چاہیے کہ اہل فکر کی توجہ کے نتیجے میں اس طرح کے موضوعات پر عمومی بحث و مباحثہ کی راہ کھلے گی اور اس نوعیت کے حساس مسائل پر اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم بہتر مستقبل کی طرف پیش رفت کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۳۲) بل قالوا کا ترجمہ

بَلْ قَالُواْ أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ہُوَ شَاعِرٌ فَلْیَأْتِنَا بِآیَۃٍ کَمَا أُرْسِلَ الأَوَّلُون۔ (الانبیاء: 5)

اس آیت میں بَلْ کے بعد قَالُواْ آیا ہے، الفاظ کی ترتیب کے لحاظ سے ترجمہ ہوگا: بلکہ انہوں نے کہا۔
عام طور سے مترجمین نے یہی ترجمہ کیا ہے، لیکن ایک ترجمہ اس سے مختلف بھی ملتا ہے،مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’اتنا ہی نہیں بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ یہ قرآن پراگندہ خوابوں کا مجموعہ ہے بلکہ اس نے از خود اسے گھڑ لیا ہے بلکہ یہ شاعر ہے، ورنہ ہمارے سامنے یہ کوئی ایسی نشانی لاتے جیسے کہ اگلے پیغمبر بھیجے گئے تھے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’بلکہ (ظالم) کہنے لگے کہ (یہ قرآن) پریشان (باتیں ہیں جو) خواب (میں دیکھ لی) ہیں۔ (نہیں) بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے (نہیں) بلکہ (یہ شعر ہے جو اس) شاعر (کا نتیجہ طبع) ہے۔ تو جیسے پہلے (پیغمبر نشانیاں دے کر) بھیجے گئے تھے (اسی طرح) یہ بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لائے‘‘۔ (فتح محمدجالندھری)
وہ کہتے ہیں ’’بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں، بلکہ یہ اِس کی مَن گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے‘‘۔(سید مودودی)
آخری ترجمہ محل نظر ہے، اگر اس طرح ہوتا کہ قالوا بل اضغاث احلام تب تو یہ ترجمہ درست ہوتا، لیکن آیت میں بل قالوا اضغاث احلام ہے، تفاسیر میں اس طرح کا قول ذکر کیا گیا ہے لیکن محققین نے اسے کمزور قرار دیا ہے۔
امام آلوسی لکھتے ہیں:

وجوز أن تکون الأولی من کلامھم وھی ابطالیۃ أیضا متعلقۃ بقولھم ھو سحر المدلول علیہ بأفتأتون السحر، ورد بأنہ انما یصح لو کان النظم الکریم قالوا بل الخ لیفید حکایۃ اضرابھم، وکونہ من القلب وأصلہ قالوا بل لا یخفی ما فیہ، وقد أجیب أیضا بأنہ اضراب فی قولھم المحکی بالقول المقدر قبل قولہ تعالی: ھَلْ ھذا الخ أو الذی تضمنہ النجوی وأعید القول للفاصل أو لکونہ غیر مصرح بہ ولا یخفی ما فیہ أیضا. (روح المعانی.)

قرآن میں کچھ دوسرے مقامات پر بھی یہ الفاظ آئے ہیں، وہاں سب نے ترتیب کے مطابق ترجمہ کیا ہے، جیسے:

بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُون۔ (المومنون: 81)

مگر یہ لوگ وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے پیش رَو کہہ چکے ہیں (سید مودودی)

بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَی أُمَّۃٍ وَإِنَّا عَلَی آثَارِہِم مُّہْتَدُون۔ (الزخرف: 22)

نہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم اُنہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ (سید مودودی)

(۱۳۳) إِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً کا ترجمہ

یہ جملہ قرآن مجید میں دو مقامات پر آیا ہے، اور اس کے دو طرح کے ترجمے ملتے ہیں، مثالیں ملاحظہ ہوں:

إِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُون۔ (الانبیاء: 92)

یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امّت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔ (سید مودودی)
بیشک تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو میری عبادت کرو۔ (احمد رضا خان)
یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو۔ (فتح محمدجالندھری)
مذکورہ بالا ترجمے عربی ترکیب کے لحاظ سے محل نظر ہیں، جبکہ ذیل کے ترجمے عربی قاعدے کے مطابق ہیں:
یہ لوگ ہیں تمہارے دین کے سب ایک دین پر اور میں ہوں رب تمہارا سو میری بندگی کرو۔ (شاہ عبدالقادر)
یہ ہے امت تمہاری امت ایک اور میں ہوں پروردگار تمہارا پس عبادت کرو میری۔ (شاہ رفیع الدین)
یہ تمہاری امت ہے جو حقیقت میں ایک ہی امت ہے، اور میں تم سب کا پروردگار ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو۔(محمدجوناگڑھی)
یہ لوگ تمہارے گروہ کے ہیں جو ایک ہی گروہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں پھر میری ہی عبادت کرو۔(احمد علی)

وَإِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُون۔ (المومنون: 52)

اور تحقیق یہ امت تمہاری امت ایک ہے اور میں ہوں پروردگار تمہارا پس ڈرو مجھ سے۔ (شاہ رفیع الدین)
اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو۔(سید مودودی)
اور بیشک یہ تمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو مجھ سے ڈرو۔(احمد رضا خان)
مذکورہ بالا ترجمے عربی ترکیب کے لحاظ سے محل نظر ہیں، جبکہ ذیل کا ترجمہ عربی قاعدے کے مطابق ہیں:
اور یہ لوگ ہیں تمہارے دین کے سب ایک دین پر اور میں ہوں تمہارا رب سو مجھ سے ڈرتے رہو۔ (شاہ عبدالقادر)
زیر نظر جملے میں ھذہ، ان کا اسم ہے اور امتکم خبر ہے، اس کے بعد امۃ واحدۃ حال ہے۔
علامہ ابن عاشور کے الفاظ ہیں: 

وَ (اُمَّۃً واحِدَۃً) حَالٌ مِنْ اُمَّتکُمْ مُؤَکِّدَۃٌ لِمَا اَفَادَتہْ الاِشَارَۃُ الَّتی ھی الْعَامِلُ فی صَاحِبِ الحَالِ. (التحریر والتنویر)

علامہ آلوسی لکھتے ہیں: 

وقولہ تعالی: اُمَّۃً واحِدَۃً نصب علی الحال من اُمَّۃً. ( روح المعانی)

جملے کی اس ترکیب کے لحاظ سے ترجمہ یوں ہوگا: بے شک یہ تمہاری امت ہے، ایک امت۔
لیکن بہت سے لوگوں نے ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ بے شک تمہاری یہ امت ایک امت ہے۔ یہ ترجمہ اس وقت درست ہوتا جبکہ ھذہ امتکم ان کا اسم ہو اور امۃ واحدۃ خبر ہو۔ جبکہ ایسا نہیں ہے امۃ واحدۃ منصوب ہے، وہ ان کی خبر نہیں بن سکتا ہے۔
ترجمہ کے اس فرق کا اثر یقیناً مفہوم پر بھی پڑتا ہے، نحوی ترکیب کے لحاظ سے جو درست ترجمہ ہے اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ جس امت یا طریقہ کا تذکرہ ہوا ہے وہی تمہاری امت یا تمہارا طریقہ ہے، پھر مزید یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ وہ ایک ہی امت یا طریقہ ہے۔ جبکہ دوسرے ترجمہ کے لحاظ سے امت کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ ایک امت ہے، بلاشبہ پہلے ترجمہ میں جو معنویت ہے وہ دوسرے ترجمہ میں نہیں آتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جب الفاظ اور قواعد کی پابندی کے ساتھ ترجمہ کیا جائے تبھی عبارت کا حقیقی مفہوم سامنے آتا ہے، ورنہ کچھ نہ کچھ کسر رہ جاتی ہے۔

(۱۳۴) وزع اور أوزع میں فرق

عربی لغات کے مطابق وزع کے معنی روکنے کے ہیں، اور أوزع کے معنی ترغیب دینے کے ہیں، فیروزابادی لکھتے ہیں:

وزَعتُہ، کوَضَعَ: کفَفتُہ، فاتَّزَعَ ھو: کَفَّ. وأوزَعَہُ بالشیءِ: أغراہُ۔ القاموس المحیط

والوازِعُ: الکَلبُ، والزاجِرُ، ومَن یُدَبِّرُ أُمورَ الجَیشِ، ویَرُدُّ مَن شَذَّ منھم۔ القاموس المحیط 

قرآن مجید میں دو مقامات پر أوزعنی آیا ہے، جو أوزع سے فعل امر ہے، اور اس کا ترجمہ مترجمین نے عام طور سے توفیق دینا کیا ہے، البتہ کچھ ترجموں میں اس سے ہٹ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۱) فَتَبَسَّمَ ضَاحِکاً مِّن قَوْلِہَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاہُ۔ (النمل:۱۹)

’’تو وہ اس کی بات سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ اے پروردگار! مجھے توفیق عطا فرما کہ جو احسان تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں ان کا شکر کروں اور ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہوجائے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’سلیمانؑ اس کی بات پر مسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور بولا ’’اے میرے رب، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے‘‘ (سید مودودی)
’’پس وہ اس کی بات سے خوش ہوکر مسکرایا اور دعا کی اے میرے رب مجھے سنبھالے رکھ کہ میں بھی اس فضل کا شکر گزار رہوں جو تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمایا اور میں ایسے نیک کام کروں جو تجھے پسند ہوں‘‘ (امین احسن اصلاحی)

(۲) حَتَّی إِذَا بَلَغَ أَشُدَّہُ وَبَلَغَ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاہ۔ (احقاف:۱۵)

’’یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں ان کا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
’’یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا’’اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں، اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو‘‘(سید مودودی، یہاں ماضی کا ترجمہ مناسب نہیں ہے، چونکہ اذا آیا ہے اس لئے حال کا ترجمہ مناسب ہے جیسا کہ دیگر مترجمین نے کیا ہے)
’’یہاں تک کہ جب وہ پہنچ جاتا ہے اپنی پختگی کو اور پہنچ جاتا ہے چالیس سال کی عمر کو، وہ دعا کرتا ہے اے رب مجھے سنبھال کہ میں تیرے اس فضل کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمایا اور وہ نیک عمل کروں جو تجھے پسند ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
صاحب تدبر نے دونوں مقامات پر ’’مجھے سنبھال‘‘ ترجمہ کیا ہے، جبکہ صاحب تفہیم نے پہلے مقام پر ’’مجھے قابو میں رکھ‘‘ اور دوسرے مقام پر عام ترجمے کے مطابق ’’مجھے توفیق دے‘‘ ترجمہ کیا ہے، دونوں حضرات کی تشریحات سے لگتا ہے کہ انہوں نے أوزع کے بجائے وزع کے معنی کو ملحوظ رکھا ہے۔ جبکہ أوزع باب افعال سے ہے، اور اس میں سلب ماخذ کا مفہوم ہے، یعنی ایزاع کا معنی وزع کے برعکس ہے، وزع کے معنی روکنے کے ہیں تو أوزع کے معنی رکاوٹ دور کرنے اور آگے بڑھنے کی ترغیب دینے کے ہیں۔غرض یہ کہ دونوں مقامات پر قابو میں رکھنے اور سنبھالنے کے بجائے توفیق دینے کا ترجمہ درست ہوگا۔معنوی لحاظ سے بھی شکر ادا کرنے کے لئے قابو میں رکھنا کہنے کی مناسبت ظاہر نہیں ہوتی ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی یہاں (ترضاہ) کے ترجمہ کے حوالے سے ایک نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں وہ یہ کہ خوش ہونا اور راضی ہونا عمل کرنے والے سے متعلق ہوتا ہے، جب کہ پسند آنا یہ پسند ہونا یا پسند کرنا خود عمل سے متعلق ہوتا ہے، یہاں چونکہ عمل کے حوالے سے بات آئی ہے اور ضمیر عمل کی طرف لوٹ رہی ہے اس لئے پسند آنا یہ پسند ہونا یا پسند کرنامناسب ترجمہ ہے۔
(جاری)

دورِ جدید کا حدیثی ذخیرہ : ایک تعارفی جائزہ (۷)

مولانا سمیع اللہ سعدی

دسویں جہت : مناہجِ محدثین

دورِ جدید کے حدیثی ذخیرے کی ایک اہم جہت محدثین کے مناہج ،اسالیب اور ان کے طرزِ تصنیف و تالیف کے تعارف و تجزیہ پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل مباحث شامل ہوتے ہیں :
1۔محدثین کے مناہجِ تحمل روایت و ادائے روایت کیا تھے ؟
2۔محدثین کا حفظ احادیث کا منہج کیا تھا ؟
3۔روایات کی توثیق میں محدثین کے مناہج کیا تھے؟
4۔کتابت حدیث کے کون سے مناہج محدثین کے ہاں رائج تھے؟
5۔محدثین کے حلقہ دروس کا انداز کیا تھا؟
6۔محدثین کے تصنیفی مناہج و اسالیب کیا تھے؟
7۔راوی کی توثیق یا تضعیف میں محدثین کے کیا مناہج تھے؟
ان تمام موضوعات پر فرداً فرداً تفصیلی تصانیف منظر عام پر آئی ہیں ،اس کے علاوہ متونِ حدیث میں سے کسی بھی متن کا منہج ،اسلوب اور اس کی خصوصیات کا جائزہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ اہم متونِ حدیث میں سے تقریبا ہر کتاب کے منہج و اسلوب پر ضخیم کتب شائع ہوچکی ہیں ۔یوں منہج محدثین ایک مستقل فن بن گیا ہے جس میں عمومی و خصوصی دونوں انداز میں محدثین کے مناہج کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔اس سلسلے کی ایک مفصل کتاب "دراسات فی مناھج المحدثین، دراسۃ تحلیلیۃ لمناھج اشھر المحدثین من العھد النبوی الی وقتنا الحاضر‘‘ ہے جو محمود محمد احمد ہاشم کی تصنیف ہے،مکتب مہیب للطباعہ ،مصر سے چھپی ہے ۔اس کے علاوہ دو مصنفین عزت علی عطیہ، یحییٰ اسماعیل کی مشترکہ ضخیم تصنیف "اعلام المحدثین ومناھجھم فی الروایۃ والآداب والدرایۃ" ایک اہم کتاب ہے ،جو مکتبہ مدینہ منورہ مصر سے چھپی ہے ۔مناہج محدثین پر اہم کتب کی فہرست پیشِ خدمت ہے :
1۔ دراسات فی مناھج المحدثین، اسماعیل عبد الواحد مخلوف ،مصر 
2۔ الواضح فی مناھج المحدثین، یاسر شمالی ،دار مکتبہ الحامد ،عمان 
3۔ فی رحاب السنۃ،ا لکتب الصحاح الستہ، محمد بن محمد ابو شہبہ ،مجمع البحوث الاسلامیہ ،قاہرہ
4۔ ارشاد السالک الی مناھج السنن المخمسۃ وموطا مالک، ا نو ر عبد الفتاح العطافی ،دار ابوالفضل للطباعہ ،مصر
5۔ الصناعۃ الحدیثیۃ فی السنن الکبری للاما م البیھقی ، نجم عبد الرحمان خلف ،دار الوفاء،مصر
6۔ الامام مسلم ومنھجہ فی الصحیح ، محمد عبد الرحمان طوالبہ ،دار عمان ،عمان 
7۔ منھج الامام البخاری فی تصحیح الاحادیث وتعلیلھا من خلال الجامع الصحیح، ابوبکر کافی ،دار بن حزم ،بیروت
8۔ منھج ابن ابی شبیہ فی المصنف، صالح عبد الوھاب القفی ،الفاروق الحدیثہ للطباعہ و النشر،قاہرہ
9۔ الامام الترمذی و منھجہ فی کتابہ الجامع، عداب محمو دالحمش ،دار الفتح ،عمان (3مجلدات)
10۔ الصناعۃ الحدیثیۃ فی کتاب شرح معانی الاثار لابی جعفر احمد بن محمد الطحاوی، خالد بن محمد الشرمان ،مکتبہ الرشد ،ریاض 

گیارھویں جہت: ردود و مناقشات 

دورِجدید میں حدیث و سنت کے حوالے سے مسلم مفکرین و علماء میں نت نئے نظریات اور جدید بیانیے سامنے آئے ہیں، جنہیں انکارِ حدیث تو نہیں کہا جاسکتا ،لیکن ان سب میں قدرِ مشترک سنت کے حوالے سے روایتی اسلوب سے الگ راہ اپنانے کی کوشش ہے۔ ان کوششوں کا مقصد عصر حاضر میں حدیث و سنت کو درپیش نئے چیلنجز کے جوابات دینا ہے، ان میں بعض اسالیب خالص رویتی علماء کی طرف سے ذخیرہ حدیث کی از سر نو تنقیح کی صورت میں سامنے آئے ہیں ۔یہ سب نظریات اور بیانیے تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ یوں سنت و حدیث کے حوالے سے تنقیدات و تنیقحات کا ایک وسیع مکتبہ وجود میں آچکا ہے۔ یاد رہے یہ ردود و مناقشات اور تعقبات ان تنقیدات کے علاوہ ہیں جو مستشرقین اور منکرینِ حدیث کی طرف سے حدیث پر وارد کیے گئے ہیں۔ ان کا ذکر اس سلسلے کی پہلی جہت دفاعِ حدیث میں ہوچکا ہے۔ یہاں ان ردود کا تذکرہ مقصود ہے جو حدیث و سنت کو حجت ماننے والوں کے درمیان حدیث و سنت کے مختلف پہلوؤں پر مختلف علمی آراء کی شکل میں سامنے آئے ہیں ۔ ان ردو د کے کچھ مرکزی محور ہیں ۔ذیل میں ردود و تعقبات کے اہم محاور کا ذکر کیا جاتا ہے :

پہلا محور :

حدیث و سنت پر ردود کا ایک بڑا حصہ عصر حاضر کے معروف سلفی محدث ناصر الدین البانی اور ان کی تائیدو مخالفت میں لکھا جانے والا ذخیرہ ہے ۔ علامہ البانی نے احادیث و رواۃ اور کتب و متون کی صحت و ضعف پر نظر ثانی کی، اور اس پورے عمل میں متقدمین کے منہج، اسلوب اور ان کی آراء سے بڑے پیمانے پر اختلاف کیا ۔ یوں از سر نو ضعیف و موضوع احادیث پر السلسلۃ الضعیفۃ اور صحیح احادیث پر السلسلۃ الصحیحۃ کے نام سے ضخیم موسوعات تیار کیے ۔ اس کے علاوہ صحاح ستہ میں سے سنن اربعہ کے صحیح و ضعیف دو الگ الگ نسخے تیار کیے۔ علامہ البانی اور ان کی تحقیقات پر اعتماد کرنے والے ایک مستقل مکتب کی صورت اختیار کر چکے ہیں ۔علامہ البانی کا یہ اسلوب زیادہ تر سلفی و اہل حدیث طبقے میں پروان چڑھا ۔ مکتبِ البانی کی موافقت و مخالفت پر اہم کتب کا ذکر کیا جاتا ہے :
1: علامہ البانی پر مفصل ردود لکھنے والوں میں مصر کے معروف شافعی عالم محمود سعید ممدوح قابل ذکر ہیں۔ موصوف نے چھ جلدوں پر مشتمل "التعریف باوھام من قسم السنن الی صحیح وضعیف" لکھی ہے ۔ یہ علامہ البانی پر اپنی نوعیت کی مفصل تنقید ہے جس میں علامہ البانی کی تصحیحات و تضعیفات کا تعقب کیا گیا ہے۔ یہ کتاب دار البحوث الاسلامیہ دبئی سے چھپی ہے ۔ اس کتاب کا جواب مکتب البانی کی طرف سے طارق بن عوض اللہ نے تین جلدوں میں "ردع الجانی المعتدی علی الالبانی" کے نام سے لکھا ہے ۔یہ کتاب دار المحجہ ابو ظہبی سے چھپی ہے ۔محمود سعید ممدوح نے "تنبیہ المسلم الی تعدی الالبانی علی صحیح مسلم"، "وصول التھانی باثبات سنیۃ السبحۃ والرد علی الالبانی" کے علاوہ سلفی مکتب کے مواقفِ حدیث کے رد میں گرانقدر کتب لکھی ہیں۔
2: علامہ البانی پر دوسری مفصل اور افراط پر مبنی تنقیدات معروف اردنی عالم حسن بن علی سقاف نے کی ہیں۔ موصوف وہابی و سلفی فکر کے رد میں غالی نظریات کے حامی ہیں۔ آپ نے علامہ البانی کی تصحیحات پر ایک مفصل کتاب "تناقضات الالبانی الواضحات فی ما وقع لہ فی تصحیح الاحادیث و تضعیفھا من اخطاء و غلطات" کے نام سے لکھی ہے ۔ یہ کتاب تین جلدوں میں دار الامام النووی اردن سے چھپی ہے ۔ اس کے علاوہ "قاموس شتائم الالبانی: الشماطیط فی بیان ما یھذی بہ الالبانی فی مقدماتہ من تخبطات وتخلیط" بھی علامہ البانی کے رد میں لکھی ہیں ۔ موصوف کے بعض نظریات سلفیت کے رد میں خود اہل سنت والجماعت کے منہج سے منحرف ہیں ۔ 
موصوف کے رد میں مکتب سلفیت کی طرف سے درجہ ذیل کتب لکھی گئی ہیں :
1۔ افتراآت السقاف الاثیم علی الالبانی شیخ المحدثین، خالد العنبری 
2۔ الانوار الکاشفۃ لتناقضات الخساف الزائفۃ وکشف ما فیھا من الزیغ والتحریف والمجازفۃ، علی حسن حلبی ،دار الاصالہ، بیروت
3۔ الکشاف عن ضلالات حسن السقاف، سلیمان علوان ،دار المنار،مصر
4۔ الایقاف علی اباطیل قاموس شتائم السقاف، حسن حلبی ،دار الاصالہ ،بیروت
اس کے علاوہ بھی حسن سقاف اور وہابی و سلفی مکتب میں ردود و تعقبات لکھی گئی ہیں۔
3: علامہ البانی پر ایک اہم رد برصغیر سے معروف محدث و محقق حبیب الرحمان اعظمی رحمہ اللہ نے "الالبانی، شذوذہ و اخطاءہ" کے نام سے لکھا ہے ۔یہ کتاب اگرچہ مختصر ہے ،لیکن ہندوستانی مصنفین کی عمومی عادت کی طرح عمق و قوتِ تنقید کی حامل ہے ،اس لیے اس کے جواب میں مکتب سلفی کے دومشہور مصنفین کو کمر بستہ ہونا پڑا اور سلیم بن عید الہلالی و حسن حلبی نے دو جلدوں میں اس کتاب کا جواب "الرد العلمی علی حبیب الرحمان الاعظمی" کے نام سے لکھا جو المکتبہ الاسلامیہ عمان سے چھپا ہے۔
علامہ البانی پر اہم ردود و تعقبات کی فہرست پیش خدمت ہے :
1۔ التنبیھات علی رسالۃ الالبانی فی الصلاۃ، حمود بن عبد اللہ التوجری ،مطابع القصیم ،ریاض 
2۔ تفنید بعض اباطیل ناصر الالبانی، احمد عبد الغفور عطار،دار ثقیف ،طائف
3۔ جزء فیہ الرد علی الالبانی، عبد اللہ بن محمد الصدیق الغماری ،دار الجنان ،بیروت
4۔ تنبیہ القاری لتقویۃ ما ضعفہ الالبانی، و تنبیہ القاری لتضعیف ما قواہ الالبانی ،عبد اللہ بن محمد الدرویش ،دار العلیان، بریدہ
5۔ نظرات فی السلسلۃ الصحیحۃ، مصطفی العدوی ، خالد الموذن،مکتبہ الطرفین ،طائف
6۔ حوار مع الشیخ الالبانی فی مناقشۃ لحدیث عرباض بن ساریہ ، حسان عبد المنان ،مکتبہ المنہج العلمی ،بیروت
7۔ الاعلام فیما خفی علی الامام، تعقبات حدیثیۃ علی الشیخ محمد ناصر الدین الالبانی، فہد بن عبد اللہ السنید ،مکتبہ السنہ ، قاہرہ
8۔ کشف المعلول مما سمی بسلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، صلاح الدین بن احمد الادلبی 
9۔ لقطات مما وھم فیہ الالبانی من تخریجات وتعلیقات، علی عبد الباسط فرید ،اختانون للنشر والتوزیع ،قاہرہ 
10۔ النصیحۃ فی تھذیب السلسلۃ الصحیحۃ، عبد الفتاح محمود سرور ،مکتبہ السنہ ،قاہرہ
11۔ نظرات فی کتاب حجۃ النبی للالبانی، سعید بن عبد القادر ،دار طیبہ ،ریاض 
12۔ بیان اوھام الالبانی فی تحقیقہ لکتاب فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اسعد سالم تیم
13۔ تصحیح الاخطاء و اوہام لمحدث الشام، عمار المصری
14۔ التعقب المتوانی علی السلسلۃ الضعیفۃ والصحیحۃ للالبانی، ابو محمد الالفی 

دوسرا محور :

معروف مصری عالم اور کثیر کتب کے مصنف شیخ محمدالغزالی نے ایک کتاب "السنۃ النبویۃ بین اھل الفقہ واھل الحدیث" لکھی جس میں انہوں نے چودہ بڑے موضوعات کی احادیث پر نظر ثانی اور نئی تحقیق پیش کی۔ یہ کتاب بھی حدیثی ردود و مناقشات کا بڑا محور بنی رہی ۔ اس کتاب کی تائید و مخالفت میں متعدد کتب لکھی گئیں ۔ ذیل میں اس حوالے سے اہم کتب کی فہرست پیش کی جاتی ہے :
1۔ براء ۃ اھل الفقہ واھل الحدیث من اوھام محمد الغزالی، مصطفی سلامہ ،مکتبہ ابن حجر ،مکہ مکرمہ 
2۔ وقفات مع کتاب السنۃ بین اھل الفقہ و اھل الحدیث ،سلمان بن فہد عودہ ،مکہ مکرمہ
3۔ نقد کتاب السنۃ النبویۃ بین اھل الفقہ واھل الحدیث للشیخ محمد الغزالی، جمال سلطان ،دار الصفا ،قاہرہ
4۔ کشف موقف الغزالی من السنۃ واھلھا ونقد بعض آراءہ، ربیع بن ہادی المدخلی ،مکتبہ ابن القیم ، مدینہ منورہ
5۔ الشیخ محمد الغزالی بین النقد العاتب و المدح الشامت، محمد جلال کشک ،مکتبہ التراث الاسلامی ،قاہرہ
6۔ الغزالی فی مجلس الانصاف، عائض بن عبد اللہ القرنی ،دار الرایہ ،ریاض
7۔ اعانۃ المتعالی لرد کید الغزالی، عبد الکریم بن صالح الحمید ،دار الرایہ ،ریاض
8۔ المعیار لعلم الغزالی فی کتابہ السنۃ النبویۃ، صالح بن عبد العزیز ال شیخ ،مکتبہ الحسن ،عمان 
9۔ جنایۃ الشیخ محمد الغزالی علی الحدیث واھلہ، اشرف بن عبد المقصود ،مکتبہ الامام البخاری، مصر
10۔ دفع شبھات عن الشیخ محمد الغزالی، احمد حجازی السقا، مکتبہ الکلیات الازہریہ ،قاہرہ
11۔ الغزالی و السنۃ النبویۃ بین اھل الفقہ واھل الحدیث، نظرات وملاحظات، منذر ابو شعر، دار البشائر، دمشق

تیسرا محور :

برصغیر میں حنفی و اہل حدیث حضرات کے درمیان حدیثی ردود او رتعقبات کا ایک وسیع ذخیرہ مرتب ہوا ہے جس کا ایک بڑا حصہ فریقین کے درمیان اختلافی مسائل کو حدیث کی روشنی میں واضح کرنا ہے ۔فاتحہ خلف الامام، آمین بالجہر، رفع یدین، مسح علی الخفین، وضع الید فی الصلاۃ، طلا ق ثلاثہ سمیت دیگر اہم مسائل پر فریقین نے ایک دوسرے کے جواب میں تفصیلی کتب لکھی ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امامِ اہل سنت مولانا سر فراز خان صفدر صاحب نے فاتحہ خلف الامام کے مسئلے پر دو جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب "احسن الکلام فی ترک القراء ۃ خلف الامام" لکھی، جس کا جواب معروف اہل حدیث عالم مولانا ارشاد الحق اثری نے "توضیح الکلام فی وجوب القراء ۃ خلف الامام " میں لکھا جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے ۔ ان جیسی کتب میں حدیث و اصول حدیث سے متعلق عمدہ مباحث و نکات ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے مسائل پر بیسیوں کتب دونوں اطراف سے لکھی گئی ہیں ۔ اس جیسی کتب کے علاوہ اس محور میں درج ذیل کاوشیں قابل ذکر ہیں :
1۔علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ طبقہ احناف میں ایک وسیع النظر محدث شمار ہوتے ہیں۔ آپ نے حنفیت کے استحکام اور مستدلا تِ حنفیہ پر بہترین تحقیقات کی ہیں۔ اہل حدیث مکتب کی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ کی کتب پر مناقشات کیے گئے ہیں ،آپ کے درس بخاری پر مشتمل بخاری شریف کی عربی شرح "فیض الباری "پر دو اہل حدیث مصنفین حافظ محمد گوندلوی اور حافظ عبد المنان نو ر پوری نے "ارشاد القاری الی نقد فیض الباری "کے نام سے چا رجلدوں میں ایک مفصل تنقید لکھی ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ بعض مقامات پر مضبوط گرفت کی ہے۔ نیز ان حضرات کا اسلوب بھی علمی و تحقیقی ہے۔ اسی طرح علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے درس بخاری پر مشتمل اردو شرح "انوار الباری" پر ہندوستان کے معروف اہل حدیث عالم محمد رئیس ندوی نے "اللمحات الیٰ ما فی انوار الباری من الظلمات" کے نام سے چار جلدوں میں ایک تنقیدی کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ندوی صاحب کا نقد،لہجہ اور اسلوب ایک محقق کی بجائے متشددانہ مناظر کا طرز لیے ہوئے ہے۔
2۔معروف حنفی عالم محمد ظہیر احسن نیموی نے مستدلاتِ حنفیہ پر مشتمل ایک کتاب "آثار السنن" کے نام سے لکھی جس کا جواب معروف اہل حدیث عالم عبد الرحمن مبارکپوری نے "ابکار المنن فی تنقید آثار السنن" کے نام سے دیا ۔ اس کا جواب الجواب علامہ نیموی کے صاحبزادے محمد عبد الرشید نے "القول الحسن فی الرد علیٰ ابکار المنن " کے نام سے لکھا۔
3۔ترمذی شریف کے مشہور اہل حدیث شارح عبد الرحمان مبارکپوری نے اپنی مفصل شرح "تحفۃ الاحوذی " میں جگہ جگہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی تقریرِ ترمذی "العرف الشذی "پر نقد کیا ہے جس کا جواب علامہ کشمیری کے شاگرد حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ نے اپنی عمدہ شرح "معارف السنن" میں دیا ہے۔
4۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فقہ کے جملہ ابواب میں حنفیہ کے مستدلات احادیث کو جمع کرنے کا ایک وسیع منصوبہ تیار کیا ۔ یہ منصوبہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے حکیم الامت کی سر پرستی میں اعلا ء السنن کے نام سے بیس جلدوں میں پورا کیا۔ اعلا ء السنن حنفی نقطہ نظر سے حدیثی ذخیرے کی ایک عمدہ کتاب ہے ۔ اس کتاب پر ایک مختصر نقد معروف اہل حدیث عالم مولانا ارشاد الحق اثری نے "اعلاء السنن فی المیزان " کے نام سے لکھا ہے۔
5۔علامہ ظفر احمد عثمانی نے اعلاء السنن کے دو ضخیم مقدمے لکھے ۔ اس میں ایک مقدمہ "قواعد فی علوم الحدیث " کے نام سے چھپا ہے جس میں حدیث کی صحت و ضعف اور رواۃ کی توثیق و تضعیف کے اصول فقہاء خاص طور پر حنفی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر مرتب کیے۔ اس پر تنقیدی تبصرہ اہل حدیث عالم مولانا بدیع الدین راشدی نے "نقض قواعد فی علوم الحدیث"کے نام سے لکھا ہے۔
6۔عالم عرب میں حنفیت کے دفاع و استحکام کے حوالے سے شیخ زاہد الکوثری اور آپ کے رفقاء،تلامذہ و منتسبین کی کوششیں قابل قدر ہیں ،جبکہ اس کے بالمقابل سلفی حضرات نے جوابی ردود لکھی ہیں۔ ذیل میں اس حوالے (حدیثی حوالے )سے فریقین کی اہم کتب کی فہرست دی جاتی ہے :
1۔ النکت الطریفۃ فی التحدث عن ردود ابن ابی شیبۃ علی ابی حنیفۃ،  شیخ زاہد الکوثری، المکتبہ الازہریہ ،قاہرہ
2۔ فقہ اھل العراق وحدیثھم، ایضاً
3۔ اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الفقھاء، محمود عوامہ 
4۔ بیان تلبیس المفتری محمد زاہد الکوثری، احمد بن محمد الصدیق الغماری ،دار الصمیعی ،ریاض 

چوتھا محور :

عالم اسلام کا جدت پسند طبقہ حدیث کے بارے میں خاص نقطہ نظر رکھتا ہے ۔ برصغیر میں متجددین کے سرخیل سر سید احمد خان ہوں یا عالم عرب کے مفتی محمد عبدہ کا مکتب فکر، مصری متجدد ادباء و مفکرین ہوں یا پاکستان میں ڈاکٹر فضل الرحمان، جاوید احمد غامدی، سب حضرات حدیث کے بارے میں الگ الگ مواقف رکھنے کے باوجود اس وصف میں مشترک ہیں کہ ان کے مواقف اسلاف کے نقطہ نظر (خواہ محدثین کا موقف ہو یا فقہاء کا )سے مختلف ہے۔ اس کے علاوہ بعض روایت پسند طبقات، جن کا جھکاؤ تفسیر و قرآنیات(جیسے مکتبِ فراہی ) کی طرف کچھ زیادہ رہا، حدیث کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بھی بعض حوالوں سے ایک الگ موقف شمار ہوتا ہے ۔ ان سب حضرات کے موقفِ حدیث پر ردود و مناقشات کا ایک وسیع ذخیرہ مرتب ہوچکا ہے ۔ ذیل میں اس حوالے سے اہم عربی و اردو کتب کی فہرست دی جاتی ہے :
1۔ موقف المدرسۃ العقلیۃ من السنۃ النبویۃ، الامین الصادق الامین ، جامعہ ام القری ،مکہ مکرمہ(مجلدین )
2۔ موقف المدرسۃ العقلیۃ من الحدیث النبوی، دراسۃ تطبیقیۃ علی تفسیر المنار ،شفیق شقیر ،المکتب الاسلامی، بیروت
3۔ ریاض الجنۃ فی الرد علی المدرسۃ العقلیۃ ومنکری السنۃ، سید بن حسین العفانی ،دار عفانی، قاہرہ
4۔ الرد القویم علی المجرم الاثیم، حمود بن وعبد اللہ التویجری
5۔ مع بعض الکتاب فی بیان حکم اعفاء اللحیۃ و خبر الآحاد، عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ،دار الافتاء، ریاض 
6۔ الشناعۃ علی من رد احادیث الشفاعۃ، عبد الکریم بن صالح ،ریاض 
7۔ الاعتداء ات الاثیمۃ علی السنۃ النبویۃ القویمۃ، کریمہ احمد محمود،المجلس الاعلی للشون الاسلامیہ ، قاہرہ 
8۔ انکارِ حدیث کا نیا رروپ ،(اصلاحی تدبر حدیث کا جائزہ )غازی عزیر مبارکپوری (مجلدین )
9۔ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث ،تنقیدی جائزہ ،محمد اسماعیل سلفی 
10۔ سید ابو الاعلیٰ کا مخصوص نظریہ حدیث ،عبد اللہ روپڑی
11۔ اصول و مبادی پر تحقیقی نظر ،ابو عمرو محمد یوسف
12۔ جاوید احمد غامدی اور انکار سنت ،مولانا محمد رفیق چودھری
13۔ نقد فراہی ،محمد رضی الاسلام ندوی 
14۔ دورِ حاضر کے تجدد پسندوں کے افکار ،مولانا یوسف لدھیانوی 
15۔ فکر غامدی کا تحقیقی جائزہ ،ڈاکٹر حافظ محمد زبیر 

پانچواں محور:

حدیثی ردود و مناقشات کا پانچواں محور حدیثی تراث میں اخطاء،اغلاط ،تصحیفات اور ان کتب کی مختلف اشاعتوں میں غلطیوں کی نشاندہی ہے۔ اس باب میں مخطوطات کے محققین نے ایک دوسرے پر تعقبات کیے ہیں۔ ذیل میں اس حوالے سے اہم کاوشوں کی فہرست دی جاتی ہے :
1۔ تنبیھات علیٰ تحریفات وتصحیفات فی کتاب مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ، عاصم بن عبد اللہ القریوتی ،دار ہجرہ، الریاض 
2۔ التراجم الساقطۃ من الکامل فی معرفۃ ضعفاء المحدثین وعلل الحدیث لابن عدی، عبد المحسن الحسینی ،مکتبہ ابن تیمیہ ، قاہرہ
3۔ النقد لما وقع فی اسانید صحیح ابن خزیمۃ من التصحیف و السقط، عبد العزیز بن عبد الرحمان العثیم ،دار سلطان ،جدہ 
4۔ تصحیح الاغلاط الکتابیۃ الواقعہ فی النسخ الطحاویۃ، محمد ایوب المظاہری ،المکتبہ الیحیویہ ، سہارنپور
5۔ نصوص ساقطۃ من طبعات اسماء الثقات لابن شاھین، سعد الہاشمی ،مکتبہ الدار ،مدینہ منورہ
6۔ التصحیفات والتحریفات الواقعۃ فی طبعۃ کتاب المعین فی طبقات المحدثین، عواد الخلف ،دار یلاف ،کویت

بارہویں جہت : فقہی مکاتب اور حدیث و سنت 

معاصر سطح پر ائمہ اربعہ کے نظریہ سنت اور حدیث سے احکام کے اخذو ترک کے اصولوں پر قابل قدر کام ہوا ہے، خاص طور پر احناف چونکہ قدیم زمانے سے ترک حدیث کے الزام کا مورد رہے ہیں، اس لیے حنفیہ کے قواعد و اصول حدیث پر کافی کام ہوا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام مولانا عبد المجید ترکمانی کا لکھا ہوا مقالہ "دراسات فی اصول الحدیث علی منھج الحنفیۃ" ہے جو معروف محدث و محقق ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی کی زیرِ سرپرستی لکھا گیا ہے۔ چھ سو صفحات کی ضخیم کتاب میں حنفیہ کے اصول الحدیث پر بڑی مفید و مفصل بحث کی گئی ہے، جبکہ اردو میں اس حوالے سے امام اہل سنت کے پوتے اور مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ کے قابل قدر صاحبزادے مولانا عمار خان ناصر صاحب کی کتاب "فقہائے احناف اور فہم حدیث،اصولی مباحث" قابل ذکر کتاب ہے۔ اس کتاب میں ان درایتی اصولوں کی وضاحت کی گئی ہے جو مکتب حنفی میں احادیث کے اخذ و ترک کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صہیب عباس کی مفصل کتاب "منھج الاصولیین الحنفیۃ فی الاستدلال بالسنۃ النبویۃ" (مکتبہ الرشد ریاض)، کیلانی محمد خلیفہ کا مقالہ "منھج الحنفیۃ فی نقد الحدیث بین النظریۃ والتطبیق" (دار السلام للطباعۃ و النشر، قاہرہ) اور ادارہ تحقیقاتِ اسلامی (اسلام آباد ) کے محقق مبشر حسین صاحب کی کتاب "احادیثِ احکام اور فقہائے عراق "اہم کاوشیں ہیں ۔ ذیل میں اس حوالے سے چند اہم کتب کی فہرست دی جاتی ہے:
1۔ منھج الامام ابی حنیفۃ فی توثیق السنۃ، محمد امین الاسلام ،الجامعہ الاسلامیہ ،مدینہ منورہ
2۔ اصول الحدیث عند الامام ابی حنیفۃ، احمد یوسف ابو حلیبہ ،کلیہ اصول الدین ،غزہ (محقق مذکور نے اسی طرز پر اصول الحدیث عند الامام مالک ،اصول الحدیث عند الامام احمد مختصر مقالات لکھے ہیں ،جو مجلہ الجامعہ الاسلامیہ (مدینہ منورہ) میں چھپے ہیں )
3۔ اختلافات المحدثین والفقھاء فی الحکم علی الحدیث، عبد اللہ شعبان علی ،دار الحدیث ، قاہرہ
4۔ مختلف الحدیث بین المحدثین والاصولیین الفقھاء، دراسۃ حدیثیۃ اصولییۃ فقھیۃ تحلیلیۃ، اسامہ بن عبد اللہ خیاط ،دار الفضیلہ ،ریاض
5۔ علل الاصولیین فی رد متن الحدیث و الاعتذار عنہ، بلال فیصل البغدادی ،دار المحدثین ، قاہرہ 
6۔ منھج الاستدلال بالسنۃ عند المالکیۃ، حسین حیان ،دار البحوث ،متحدہ عرب امارات
7۔ تقویۃ الحدیث الضعیف بین الفقھاء والمحدثین، محمد بن عمر باز مول 
8۔ مباحث نقد متن خبر الواحد عند الاصولیین، عبد المعز حریز ،کلیۃ الشریعہ و الدراسات الاسلامیہ، جامعہ قطر 
9۔ اثر اختلاف الاسانید والمتون فی اختلاف الفقھاء، ماہر یاسین فحل ،دار الکتب العلمیہ، بیروت
10۔ حدیث الآحاد عند الاصولیین، ابو عاصم البرکاتی ،دار الصفا و المروہ ،مصر

تیرہویں جہت :ایم فل و پی ایچ ڈی مقالات 

دورِ جدید کے حدیثی ذخیرے کی ایک اہم جہت حدیث و علومِ حدیث پر مقالات (theses) پر مشتمل ہے۔ عالمِ اسلام کی مختلف جامعات نے حدیث و علومِ حدیث پر ہزاروں طلبا کو ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تفویض کی ہیں،ان تینوں ڈگریوں کے لیے مقالہ کا لکھنا ضروری ہے۔ یوں حدیث و علومِ حدیث کے بے شمار موضوعات پر عمدہ تحقیقی مقالات تیار ہوئے ہیں ۔ یہ مقالات عموماً درج ذیل انواع پر مشتمل ہوتے ہیں :
1۔کسی قدیم کتاب کی از سر نو تحقیق و تعلیق 2۔کسی محدث کی خدماتِ حدیث کا تذکرہ
3۔کسی کتاب کے منہج و اسلوب ، مباحث اور اس کی مختلف جہات کا جائزہ و تجزیہ 
4۔مصادرِ حدیث و علوم حدیث کی تاریخ و ارتقاء 5۔کسی بھی دو کتب یا محدثین کا مقارنہ ،موازنہ او رتقابل 
6۔کسی خطے یا صدی میں ہونے والے حدیثی ذخیرے کا تعارف اور اس کی تاریخ
7۔کسی بھی موضوع پر احادیث و روایات کی جمع و ترتیب
8۔کسی حدیث کے مختلف طرق اور کسی محدث کی مرویات کا محاکمہ و جائزہ
9۔علوم الحدیث کے مختلف فنون و انواع پر مفصل متنوع تحقیقات 
10۔اہم کتب میں مذکور احادیث و روایات کی تخریج 
11۔کسی کتاب کے رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے جائزہ
12۔حدیث پر مستشرقین و مغرب زدہ دانشوروں کے مناقشات و اعتراضات کے جوابات 
13۔حدیث کی مختلف اقسام و انواع کی متونِ حدیث سے جمع و تدوین
14۔حدیث و علومِ حدیث پر مختلف اقسام و انواع کے فہارس کی تیاری 
15۔کتابیات اور مختلف قسم کے معاجم و موسوعات کی تیاری
ان مقالات کی فہرستیں متعلقہ جامعات کی ویب سائٹس پر موجود ہیں، اس کے علاوہ فہارس و معاجمِ کتب سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ عربی میں اس کے لیے درج ذیل کتب اور آن لائن لائبریریز کی طرف رجوع کیا جائے :
1۔ دلیل مؤلفات الحدیث الشریف المطبوعۃ القدیمۃ والحدیثۃ، محی الدین عطیہ، صلاح الدین حفنی، محمد خیر رمضان، دار ابن حزم بیروت (مجلدین)
2۔ التصنیف فی السنۃ النبویۃ وعلومھا، خلدون الاحدب، موسسہ الریان ،بیروت(مجلدین)
3۔ المعجم المصنف لمولفات الحدیث الشریف، محمد خیر رمضان ،مکتبہ الرشد ،ریاض (3 مجلدات)
ان تین ویب سائٹس پر خصوصیت کے ساتھ مقالات و رسائل موجود ہیں :
1۔ملتقی اہل الحدیث 
http://www.ahlalhdeeth.com/vb
2۔جامع الکتب المصورۃ
http://kt-b.com/?page_id2363806
3۔جامع البحوث العلمیہ 
http://b7oth.com
جبکہ اردو میں ولی خان یونیورسٹی مردان کے پروفیسر ڈاکٹر سعید الرحمان کی حال ہی میں چھپی قابل قدر کاوش تحقیقاتِ اسلامیات (العلم پبلی کیشنز ،پشاور) اہم کتاب ہے جس میں پاکستان بھر کے جامعات میں علوم اسلامیہ کے مختلف گوشوں پر لکھے گئے اردو مقالات کی فہرست دی گئی ہے۔ اس کتاب میں ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب مقالات کی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں حدیث و علوم حدیث پر لکھے گئے مقالات بھی شامل ہیں۔

چودھویں جہت: جرائد و رسائل کے خاص نمبر اور کانفرنسز و سیمینارز 

دورِ جدید کے حدیثی ذخیرے میں حدیث و علومِ حدیث پر تحقیقی مضامین (research articles) اہم حیثیت کے حامل ہیں ۔ ان مضامین میں کسی خاص موضوع پر اختصار کے ساتھ تحقیقی انداز میں بحث ہوتی ہے ۔ ان مضامین و مقالات کی تعداد بلا شبہ ہزاروں تعداد میں ہے۔ اس کے ساتھ حدیث و علوم حدیث پر رسائل کے خاص نمبر بھی قابلِ ذکر ہیں جن میں موضوع سے متعلق مختلف اہل علم کے تحقیقی مقالات یکجا ہوتے ہیں ۔ حدیث کے حوالے سے اردو رسائل کے اہم خاص نمبر کا ذکر کیا جاتا ہے :
1۔ ہفت روزہ الاعتصام (لاہور ) حجیتِ حدیث نمبر (1956)
2۔ ماہنامہ الاحسن (کراچی )ختم بخاری نمبر ( رجب ،شعبان 1426ھ)
3۔ماہنامہ الصدیق (ملتان ) کتابتِ حدیث نمبر ( جمادی الاولیٰ 1378ھ)
4۔ماہنامہ الصدیق (ملتان )عظمتِ حدیث نمبر (جمادی الثانیۃ 1378ھ )
5۔ماہنامہ محدث (لاہور )فتنہ انکارِ حدیث نمبر (اگست 2002)
6۔سہ ماہی فکر و نظر (اسلام آباد )برصغیر میں مطالعہ حدیث (2005)
اس کے علاوہ بعض رسائل میں خصوصیت کے ساتھ حدیثی مباحث ہوتے ہیں ۔ اس کی مثال خیر پور سے ڈاکٹر سید عزیز الرحمان صاحب کی زیرِ ادارت نکلنے والا سہ ماہی رسالہ "تحقیقاتِ حدیث "(جامعہ خیر العلوم خیر پور ٹامیوالی )ہے جس میں خصوصیت کے ساتھ حدیث و علوم حدیث پر تفصیلی مقالات کی اشاعت ہوتی ہے ۔
عمومی رسائل میں بھی حدیث و علوم حدیث کی مختلف جہات پر اہم مقالات شائع ہوتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان سے منظور شدہ بیس بڑے تحقیقی مجلات میں حدیث و علوم حدیث پر ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے چار سو کے قریب تحقیقی مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں سے بعض مضامین مستقل کتابچے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح برصغیر کے معروف تحقیقی مجلے ’’معارف‘‘ میں ایک صدی میں حدیث و علوم حدیث پر ۸۰ کے قریب تحقیقی مضامین شائع ہوئے ہیں۔ عالم عرب کی جامعات سے علوم اسلامیہ کے مختلف شعبہ جات کی طرف سے تحقیقی مجلات شائع ہوتے ہیں ،ان میں بھی حدیث و علوم حدیث پر اہم مواد شامل ہوتا ہے۔
اسی طرح حدیث و علوم حدیث کی مختلف جہات پر ورکشاپس و سیمینارز بھی دورِ جدید کے حدیثی ذخیرے کی ایک اہم جہت ہے۔ 2007 میں شیخ ابو الحسن علی ندوی سینٹر (انڈیا) کی طرف سے "ہندوستان اور علم حدیث " کے موضوع پر ایک اہم سیمینار منعقد ہوا۔ اس سیمینار کے مقالات اسی نام سے دو ضخیم جلدوں میں چھپے ہیں۔ ادارہ تحقیقات اسلامی (اسلام آباد ) کی طرف سے منعقدہ سیمینار "برصغیر میں مطالعہ حدیث (2003)" میں بھی اہم مقالات پیش کیے گئے۔
عالم عرب میں بھی حدیث و سنت پر اہم سیمینارز منعقد ہوتے رہتے ہیں ،ان میں سے اہم سیمینارز کی تفصیلات شبکۃ ضیاء للموتمرات و الدرسات (http:/diae.net//)ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہیں۔

پندرہویں جہت :ویب سائٹس اور سافٹ وئیرز

دورِ جدید میں احادیث کی کمپیوٹرائزیشن پر عمدہ کام ہوا ہے ۔ مفید سافٹ وئیرز کے ساتھ حدیثی تحقیقات پر مشتمل اہم ویب سائٹس بنائی گئی ہیں۔ ان ویب پیجز اور سافٹ وئیرز نے حدیث پر تحقیقی کام کو بہت حد تک آسان بنا دیا ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے اہم سافٹ وئیرز اور ویب سائٹس کی نشاندہی کی جاتی ہے :

سافٹ وئیرز:

جوامع الکلم 

حدیث کی کمپیوٹرائزیشن پر دورِ جدید کا سب سے ممتاز کام جوامع الکلم سافٹ وئیر کی شکل میں ہوا ہے۔ اس سافٹ وئیر کے تعارف کے لیے مستقل مضمون درکار ہے ۔ ذیل میں اس کی اہم خصوصیات کا ذکر کیا جاتا ہے :
1۔یہ سافٹ وئیر تیس سال کی مدت میں ساڑھے تین سو محققین کی محنت کا نتیجہ ہے۔
2 : اس میں حدیث سے متعلق چودہ سو مصادر شامل ہیں جن میں ساڑھے پانچ سوکے قریب مخطوطات ہیں۔
3:سافٹ وئیر میں ستر ہزار راویوں کے مکمل حالات درج ہیں، کسی بھی راوی کے محض نام کی سرچنگ سے جملہ کوائف سامنے آ جاتے ہیں۔
4:سافٹ وئیرز میں جتنے متون حدیث ہیں، ان میں سے کسی بھی حدیث کی سند کے کسی بھی راوی پر محض کلک کرنے سے اس کے حالات سامنے آجاتے ہیں۔
5: حدیث کی سرچنگ صحت و ضعف کے اعتبار سے، قولی و فعلی ہونے کے اعتبار سے، قدسی و غیر قدسی کے اعتبار سے، رفع و وقف کے لحاظ سے، راوی کے اعتبار سے، صحابی کے اعتبار سے، موضوع کے اعتبار سے کی جا سکتی ہے۔
6:کسی بھی حدیث کی جملہ کتب حدیث سے تخریج ،رواۃ کی حیثیت ،حدیث کے شواہد و متابعات ،حدیث کی مرسل و موصول اسناد ،حدیث کے مختلف طرق و اسناد کے گرافس ، حدیث کے مکررات ،الغرض ایک حدیث پر کئی اعتبار سے تحقیق کی جاسکتی ہے۔
7:سافٹ وئیرز میں موجود اسناد کی تعداد سات لاکھ ہے۔
یہ سافٹ وئیر ،اس کا مکمل تعارف اور اس کو ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کرنے کا طریقہ اس لنک پر دستیاب ہے۔
http://gk.islamweb.net:8080

2۔ موسوعۃ الحدیث الشریف 

یہ سافٹ وئیر حدیث کی نو کتب (صحاح ستہ موطا امام مالک مسند احمد و سنن دارمی ) کی روایات اور ان کتب کی اہم شروح پر مشتمل ہے ۔ اس سافٹ وئیر کا تازہ ترین ورژن اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے :
http://www.islamspirit.com/islamspirit_ency_002.php
3۔ الموسوعۃ الذھبیۃ للحدیث النبوی وعلومہ
یہ سافٹ وئیر اردن کے معروف ادارے مرکز التراث لابحاث الحاسب الآلی نے بنایا ہے ،اس سافٹ وئیر میں چھ سو کے قریب مجلدات کا مواد شامل ہے ۔ سافٹ وئیر میں دو لاکھ کے قریب احادیث اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب راویوں کا تذکرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ مصطلح الحدیث کی ایک سو اٹھائیس کتب بھی شامل ہیں۔ حدیث اور رواۃ کو تلاش کرنے کی متعدد سہولیات شامل کی گئی ہیں۔ 

4۔ المکتبۃ الالفیۃ للسنۃ النبویہ 

یہ سافٹ وئیر بھی اسی ادارے کا تشکیل کردہ ہے جس میں ساڑھے تین ہزار جلدوں کا مواد شامل ہے۔

5۔ موسوعۃ التخریج و الاطراف الکبری 

یہ سافٹ وئیر بھی اردن کے مذکورہ ادارے کا تشکیل کردہ ہے جس میں تین لاکھ حدیثی نصوص کی تخریج اصلی مصادر سے کی گئی ہے۔

6۔ موسوعۃ رواۃ الحدیث 

معروف ویب سائٹ موقع الاسلام نے اسے تیار کیا ہے، اس میں تراجم و رجال کی تقریباً ۸۰ کتب کا مواد جمع کیا گیا ہے ،متنوع اسالیبِ تلاش کی سہولیات اس میں شامل ہے۔اس لنک سے ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے :
http://www.islamspirit.com/islamspirit_ency_036.php

7۔ موسوعۃ الاجزاء الحدیثیۃ

یہ موسوعہ بھی روح الاسلام ویب سائٹ کا تیار کردہ ہے جس میں پانچ سو کے قریب مختلف موضوعات پر حدیثی اجزاء و رسائل کو جمع کیا گیا ہے ۔ اس کا ڈاؤن لوڈنگ لنک حسب ذیل ہے :
http://www.islamspirit.com/islamspirit_ency_028.php

8۔ موسوعۃ علوم الحدیث 

اس موسوعہ کی تیاری بھی موقع روح الاسلام کے حصے میں آئی ہے ،اس میں علوم الحدیث پر دو سے زائد کتب کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ لنک پیشِ خدمت ہے :
http://www.islamspirit.com/islamspirit_ency_019.php

9۔ موسوعۃ شروح الحدیث 

اس سافٹ وئیر میں سو سے زائد شروح حدیث کو جمع کیا گیا ہے ،جس میں تلاش کی متنوع سہولیات بھی شامل ہیں۔
http://www.islamspirit.com/islamspirit_ency_004.php

10۔ ایزی قرآن و حدیث 

اردو داں طبقے میں زیادہ معروف ہے ،اس میں علمائے برصغیر کے لکھے ہوئے قرآن پاک کے چھبیس اردو تراجم و تفاسیر، تیرہ انگلش تراجم و تفاسیر اور حدیث کی گیارہ بنیادی کتب (صحاح ستہ ،موطا ،مسند احمد ،مشکاۃ، سنن دارمی ،شمائل ترمذی ) کو عربی متن، اردو و انگلش تراجم اور موضوعاتی ترتیب کی اضافی خصوصیت کے ساتھ جمع کیا گیا ہے۔معروف ویب سائٹ kitabosunnat.com پر دستیاب ہے۔

ویب سائٹس:

اردو اور عربی کی ہر اہم اسلامی ویب سائٹ پر حدیث و علوم حدیث سے متعلق وسیع مواد ہوتا ہے ،البتہ خصوصیت کے ساتھ علم حدیث کے لیے درج ذیل ویب سائٹس قابل ذکر ہیں :

1۔ جامع الحدیث 

http://www.sonnaonline.com
جامع الحدیث، جوامع الکلم سافٹ وئیر کی طرز پر ایک آن لائن سرچ ایبل حدیثی لائبریری ہے جس میں تیس ہزار عنوانات کے تحت پانچ لاکھ احادیث کا مجموعہ ہے ، جو حدیث کے چار سو مصادر سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں رواۃ حدیث کے احوال آن لائن سرچ اور اقوال جرح و تعدیل کے ساتھ دستیاب ہیں۔ نیز ہر راوی کی کتنی احادیث کس کس کتاب میں ہیں ، اس کی تفصیلات بھی درج ہیں۔الغرض سیکڑوں مراجع حدیث سے تلاش کی متنوع سہولیات کے ساتھ آن لائن استفادہ کے لیے جامع الحدیث سب سے بڑی ویب سائٹ ہے۔ لنک یہ ہے :

2۔ شبکۃ السنۃ و علومہا 

http://www.alssunnah.org/ar
حدیث سے متعلق کتب، ویڈیوز، بیانات اور خبروں کی ایک اہم ویب سائٹ ہے۔

3۔ جامع السنۃ و شروحہا 

http://hadithportal.com
اس ویب سائٹ پر حدیث کی جملہ اہم کتب اور ان کی شروح آن لائن دستیاب ہیں۔لنک یہ ہے :

4۔ موسوعۃ صحیح البخاری 

http://www.bukhari-pedia.net
اس ویب سائٹ پر صحیح بخاری سے متعلقہ مواد دستیاب ہے۔ بخاری شریف کی شروح، حواشی، مختصرات، مستخرجات، رجال، مقدمات اور صحیح بخاری پر معاصر دراسات کا قابل قدر ذخیرہ جمع کیا گیا ہے۔


مصادر و مراجع 

اس پورے سلسلے کے لیے درج ذیل مراجع سے استفادہ کیا گیا ہے :

عربی کتب:

1۔ دلیل مولفات الحدیث الشریف المطبوعۃ، محی الدین عطیہ و آخرون ،دار ابن حزم ،بیروت 
2۔ المعجم المصنف لمولفات الحدیث الشریف ،محمد خیر رمضان ،مکتبہ الرشد ،ریاض 
3۔ التصنیف فی السنۃ النبویۃ وعلومھا، خلدو ن الاحدب ،موسسہ الریان ،بیروت 
4۔ جھود مخلصۃ فی خدمۃ السنۃ المطھرۃ، عبد الرحمان عبد الجبار ،ادارۃ البحوث الاسلامیہ ،بنارس 
5۔ جھود المعاصرین فی خدمۃ السنۃ المشرفۃ، محمد عبد اللہ اب وصعیلیک ،دار القلم ،دمشق
6۔ معجم ما طبع من کتب السنۃ، مصطفی عمار ،دار البخاری ،مدینہ منورہ
7۔ المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث، سید عبد الماجد غوری 
8۔ جھود محدثی شبہ القارۃ الھندیۃ فی خدمۃ کتب السنۃ المشھورۃ فی القرن الرابع العشر، سہیل حسن 

اردو کتب:

1۔قافلہ حدیث ،محمد اسحاق بھٹی 
2۔برصغیر پاک و ہند میں علم حدیث ،عبد الرشید عراقی 
3۔علم حدیث اور پاکستان میں اس کی خدمت ،ڈاکٹر سعد صدیقی 
4۔علم حدیث میں براعظم پاک وہند کا حصہ ،ڈاکٹر محمد اسحاق
5۔مرآۃ التصانیف ،حافظ محمد عبد الستار قادری ،جامعہ نظامیہ لاہور
6۔پاک وہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث ،ارشاد الحق اثری ، فیصل آباد
7۔ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ،ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ،مکتبہ نذیریہ 
8۔اصول حدیث میں علمائے برصغیر کی خدمات ،تاج الدین ازہری (یہ اصلاً ایک ریسرچ آرٹیکل ہے )
9۔تذکرہ اکابر اہل سنت ،عبد الحکیم اشرف قادری 
10۔برصغیر میں مطالعہ حدیث (اشاعت خصوصی فکر و نظر 2005)
11۔ماہانہ رسائل کے خصوصی شمارے، (بشکریہ ضیاء اللہ کھوکھر ، عبد المجید کھوکھر میموریل لائبریری، گوجرانوالہ)

ویب سائٹس:

1۔ المکتبۃ الوقفیہ
http://waqfeya.com
2۔ملتقی اہل الحدیث 
http://www.ahlalhdeeth.com/vb
3۔مکتبہ الالوکہ 
http://majles.alukah.net
4۔مکتبۃ المشکاۃ
http://www.almeshkat.net/library
5۔جامع الکتب المصورہ 
http://kt-b.com
6۔جامع الرسائل العلمیہ 
http://b7oth.com
7۔مکتبہ صید الفوائد
http://www.saaid.net
8۔مدونہ محمد الترکی 
http://m-alturki.blogspot.com
9۔اسلامک ریسرچ انڈیکس 
http://iri.aiou.edu.pk/indexing
10۔دلیل السلطان للمواقع العربیہ 
http://www.sultan.org/a
11۔کتاب و سنت 
http://kitabosunnat.com
12۔مصورات عبد الرحمان الجندی
http://www.moswarat.com
13۔شبکۃ ضیاء للموتمرات
http://diae.net
14۔موقع روح الاسلام 
http://www.islamspirit.com
15۔المکتبۃ الشاملہ الحدیثہ 
https://al-maktaba.org
16۔البرامج المجانیہ 
http://www.bramjfreee.com
17۔ ریختہ 
https://www.rekhta.org
18۔الملتقی الفقہی
http://www.feqhweb.com/vb
19۔مسجد صلاح الدین 
http://masjidsalahudin.com
20۔طوبی ریسرچ لائبریری 
http://toobaa-elibrary.blogspot.com/p/blog-page.html
21۔شبکۃ الدفاع عن السنہ 
http://www.dd-sunnah.net/forum

تصوف و سلوک اور ماضی قریب کے اجتہادات

سراج الدین امجد

دور حاضر میں تصوف و سلوک کی طرف شعوری رجحان اور عمومی ذوق خوش آئند ہے گو اس کی وجوہات گوناگوں ہیں۔ کچھ کے نزدیک تصوف انسان دوستی اور لبرل اقدار کا ہم نوا مذہب کا ایک جمالیاتی رخ ہے۔ کچھ لوگ اسے طالبانی خارجیت اور داعشی بربریت کا تریاق سمجھتے ہیں۔ کہیں روایتی تصوف کے علمبردار مشہور خانوادوں کے خوش فکر نوجوان نئے اسالیب میں اشغالِ تصوف کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں تو کہیں تصوف فی الواقع روایت دینی کی پر کیف و جمال افروز فکری و نظری جولانگاہ کا حامل ہے۔ تاہم یہ المیہ بھی کچھ کم نہیں کہ بالعموم مروجہ سلوک میں چند رسوم کی بجاآوری ہی طرز ادا ٹھہری ہے یا پھر بعض اذہانِ رسا کی خوش اعتقادی پر مبنی حرف و صوت کی کارگزاری کشش کا سامان پیدا کر رہی ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں پروفیسر احمد رفیق اختر، سید سرفراز شاہ صاحب ، بابا جی عرفان الحق اورعبد اللہ بھٹی صاحب وغیرہ موخر الذکر اسلوبِ تصوف کی عمدہ مثالیں ہیں۔ 
دورِ جدید کے ذہن کے لیے، جو تشکیک و ارتیاب کے ایمان شکن مظاہر سے نبرد آزما ہے، لاریب انٹلکچول تصوف کی قد رو قیمت بھی کچھ کم نہیں ۔ تاہم چمنستانِ تصوف کے سنجیدہ طبع اور سلیم الفطرت ریزہ چینوں کو عجمی تصوف کی خرابیوں کو ہمہ وقت پیش نظر رکھنا چاہیے۔ نیز یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ عملی تصوف فی الاصل تزکیہ نفس اور اصلاحِ باطن کا میدان ہے، باقی چیزیں ثانوی ہیں۔ اس باب میں اتباعِ شریعت اور استقامت ہی مدار نجات اور فوزِ عظیم ہے، لہٰذا آج بھی متبعِ سنت بزرگوں کی تعلیمات اور افکارِ عالیہ میں بڑا فیض ہے، لہٰذا اسی کی تلاش اور جستجو کرنی چاہیے۔ سردست موضوع سخن چونکہ بر صغیر پاک و ہند کے صوفیہ کرام کی اجتہادی کاوشوں کے ایک اجمالی جائزہ سے متعلق ہے، لہٰذا اسی تناظر میں بات کی جائے گی۔
امامِ ربانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ تصوف و سلوک کی وضاحت میں مکتوب نمبر ۱۳ دفتر اول حصہ اول بنام شیخ نظام الدین تھانیسری (یہ بزرگ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے بڑے مشائخ میں سے تھے جیساکہ حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے شجرہ سے ظاہر ہوتا ہے ) میں فرماتے ہیں : ’’تامعرفت اجمالی تفصیلی گردد واستدلال کشفی شود ‘‘، یعنی جن چیزوں کو اجمالاً جانتا ہے، ان کو تفصیلی جان لے اور جن باتوں کو بحث و استدلال سے سمجھتا ہے، ان کو کشف سے جان لے۔ تو گویا ان کے نزدیک یہ سلوک کا خلاصہ ہوا۔ ویسے بھی سلوک و احسان آیہ کریمہ ’’یزکیھم‘‘ کی تعبیر اور ’’حدیث احسان‘‘ کی تفصیل ہی ہے۔ تاہم اصل مسئلہ دور جدید میں اس کے حصول کا ہے۔سچ پوچھیے تو اس حوالے سے روایتی تصوف کے ہاں اب کچھ نہیں رہا ، الا ماشاء اللہ۔ فقط مجددانہ ایقان اور مجتہدانہ بصیرت کے حامل شیوخ ہی اس تشنہ کامی کا مداوا کرسکتے ہیں۔ اب اگر اس تناظر میں بات آگے بڑھائیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تصوف و سلوک میں اجتہادی کاوشیں بالعموم کم نظر آتی ہیں۔ گزشتہ دو تین صدیوں میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ اور حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ جیسی شخصیات ہی ملتی ہیں جنہوں نے مجتہدانہ بصیرت سے دامن تصوف کو مالامال کیا۔ اسی طرح ماضی قریب میں بھی چند شخصیات ہی ایسی نظر آتی ہیں جنہوں نے اچھوتے افکار اور اجتہادی آراء سے منتسبینِ تصوف کے لیے کشش کا بڑا سامان پیدا کیا۔ 
فی الحال اس حوالے سے بحث کو بیسویں صدی تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ دور آخر میں مشائخ دیوبند خصوصاً حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب (متوفی ۱۹۴۳ء) کا تصوف پر وقیع کام ہے۔امورِ تصوف و سلوک پر لکھنے کے علاوہ وہ سالہا سال خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں مسترشدین کی باقاعدہ تربیت کرتے رہے۔ یہ تربیت کس درجہ کی تھی، اس طرز و اسلوب اورنظم خانقاہ کی معرفت کے لیے مولانا عبد الماجد دریابادی کی کتاب "حکیم الامت" کا مطالعہ بصیرت افروز ہوگا۔ مزید تھانوی صاحب کی اپنی کتب مثلاً التکشف عن مہمات التصوف،بوادر النوادر، تجدید تصوف و سلوک ( مرتبہ عبد الباری ندوی) وغیرہ تصوف سے متعلق بہت سے شکوک و شبہات کے ازالہ کے لیے کافی ہیں۔ نیز ان کے سیکڑوں مواعظ بھی سالکین راہ کے لیے کم مفید نہیں۔ تھانوی صاحب چشتی صابری سلسلہ سے تعلق کے باوجود سلوک و احسان کے باب میں شریعت پر استقامت کو ہی اصل اور مقصود جانتے ہیں اور لطائف و واردات کو غیر مقصود سمجھتے ہیں جبکہ مجددی سلوک میں کشف و مشاہدہ کی بہر طور اپنی اہمیت ہے، بلکہ ان مشائخ کے نزدیک عبادات و طاعات کے ثمرہ کے طور پر حاصل ہونے والے احوال اور کیفیات ہی تو روحانی حالت کی صحیح تمیز اور کشوف کا باعث ہوا کرتی ہیں۔ سر دست تھانوی صاحب کی آراء پر تبصرہ یا محاکمہ مقصود نہیں بلکہ حالت باطنی اور واردات کی کسی درجہ میں ہی سہی، اہمیت دکھلانا پیش نظر ہے 
اس حوالے سے بحث کو آگے بڑھایا جائے تو پچھلی صدی میں تھانوی صاحب کے علاوہ تین شخصیات کے ہاں اجتہادی رنگ نظر آتا ہے۔ ایک سلسلہ اویسیہ کے مولانا اللہ یار خان ؒ چکڑالوی ( فاضل مدرسہ امینیہ دہلی ) جنہوں نے تصوف پر اپنی وقیع تصنیف ’’ دلائل السلوک‘‘ میں کشف و مشاہدہ کی اہمیت اور روحی فیض کی افادیت پر کتاب و سنت اور اقوال فقہاء سے مربوط استدلال فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اور باقاعدہ بیعت و تربیت سے بہت سے لوگوں کی راہنمائی کی۔ یوں پڑھے لکھے حلقوں میں سلوک و احسان کی طلب پیدا ہوئی اور بے شمار لوگوں کو ذاکر شاغل بنایا، اگرچہ بعد میں اس درجہ کا کام اور لوگ سامنے نہ آسکے جتنا شروع میں سمجھا گیا۔ 
دوسری شخصیت حضرت خواجہ محمد عمر بیر بلوی (متوفی ۱۹۶۸ ء) کی ہے۔ یہ پنجاب کے ضلع سرگودھا کی ایک مشہور نقشبندی مجددی خانقاہ بیر بل شریف کے سجادہ نشین تھے۔ آپ نے بھی مدرسہ امینیہ دہلی سے علوم دینیہ کی تکمیل کی۔ بعد میں خانقاہ بیر بل شریف کے سجادہ نشین بنے۔ منصب سجادگی اور حلقہ مریدین کے باوصف روحانی کمی کا خیال دامن گیر رہتا، تا آنکہ سلوک و احسان اپنے دور کے نہایت سریع التاثیر اور قوی النسبت نقشبندی بزرگ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری سے سیکھا اور خلافت پائی۔ حضرت بیربلوی صاحبِ مشاہدہ ،وسیع المطالعہ اور بہت زیرک انسان تھے۔ ایک تو آپ نے مروجہ سلوک اور تفصیلی اسباق و مراقبات کے حوالے سے تقلیدی روش ترک کی، بلکہ تعلق باللہ کے لیے متقدمین کی روش پر تلاوت قرآن، احکام شریعت کی پابندی اور صحبت و معیتِ صادقہ سے باطنی رذائل کے دور کرنے پر زور دیا ہے۔ آپ کے افکار عالیہ ’’انقلاب الحقیقت‘‘، ’’قرآنی حقائق‘‘ اور دیگر کتب میں بکھرے پڑے ہیں تاہم نہ صرف مربوط سلوکی تربیتی نظام کے متقاضی ہیں بلکہ ایسی شخصیت کے متلاشی ہیں جو اپنے پیشرووں کے افکار اپنے مشاہدہ باطنی اور کشفی بصیرت سے مزید نکھار سکے اور آج کے مصروف انسان کے لیے سلوک و تربیت کا ایک جامع نظام وضع کر سکے۔ 
تیسری بڑی شخصیت سلسلہ قادریہ کے بزرگ حضرت فقیر نور محمد سروری قادری ( متوفی ۱۹۶۰ء) کی ہے جنہوں نے نہ صرف سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کی تعلیمات کو از سر نو مرتب کر کے پیش کیا بلکہ اپنی معرکۃ الآرا تصنیف موسوم بہ ’’عرفان‘‘ میں دورِ حاضر کے معروف بلکہ مغربی دنیا تک میں مقبول روحیت و سِرّیت، سپرچولزم اورحاضراتِ ارواح کے تصورات کا بھی ناقدانہ جائزہ پیش کیا اور بتایا کہ کیسے عالم غرب ابھی ناسوت کی تنگنائیوں میں بھٹک رہا ہے۔ مزید یہ کہ آپ نے اولیا ء کرام کے مزارات سے حصولِ فیض کے لیے ’’دعوتِ قبور‘‘ ایسے بیش قیمت اور سریع التاثیر عمل کو بڑی صراحت سے پیش کیا۔ اصلاً یہ ایصالِ ثواب کی ہی ایک شکل تھی، لیکن سلطان باہو کی تعلیمات کی روشنی میں بڑی عمدگی سے اسے فیض قبور کا وسیلہ بنا دیا۔ اس حوالے سے حضرت کی فکر مولانا اللہ یار خان کی پیشرو اور نقشِ اولیں محسوس ہوتی ہے۔ 
آج کے دور میں دیوبندی حلقوں میں حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی کے مریدین اور سنیوں میں سیفی سلسلہ (مسترشدین اخوندزادہ پیر سیف الرحمن ارچی) کے لوگ سب کے سامنے ہیں۔تھوڑا بہت اثر بھی ہے، اتباع شریعت کا رنگ ڈھنگ بھی ہے اور انٹلیکچول تصوف کے منتسبین کی نسبت اتباعِ سنت اور شریعت غرا کی پیروی میں ممتاز ہیں، تاہم سلوک و احسان کا مطلوب انسان ابھی بھی نظر نہیں آتا۔ کچھ لوگوں نے چند انفرادی کاوشیں کی ہیں جیسے کچھ مشائخِ نقشبند یہ مجددیہ نے ذکر قلبی اور ذکر خفی کے برعکس ذکر جہر بھی شروع کیا لیکن نہ تو اس حوالے سے وجوہ ترجیح کی عمدہ تنقیح پیش کرسکے نہ ہی اپنے مسترشدین پر اس کے اثرات کا معروضی جائزہ لیا گیا۔ اسی طرح خود مجددی سلوک کے اسباق اور ان پر عمل پیرا لوگوں کے احوال دیکھ کر تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسا سلوک ہے کہ اسباق بھی طے ہیں، مراقبات بھی ہو چکے تاہم نفس کی شر انگیزیاں ہیں کہ جوں کی توں برقرار ہیں۔ ساری فکر دنیا کی ہے، آخرت ابھی تک ترجیح نہیں بن سکی۔ 
اس میں ذرا شک نہیں کہ دور حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کرسلوک پر چلانا ہی اصل ہمت کا کام ہے جو واقعتا کسی تجدیدی شان کے بزرگ کی کرشمہ سازیوں کا منتظر ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ سلوک و احسان کے تفصیلی اسباق و اشغال مخصوص صاحبان استعداد کے لیے ہی ہیں، ورنہ اکثریت کے لیے متقدمین کے طرز پر اخلاقی تربیت اور شریعت کے احکام پر کاربند ہونا ہی نجات کے لیے کافی ہوگا۔ یہی فکر علمائے دیوبند کے ہاں بھی ہے بلکہ مولانا منظور نعمانی جیسے جید عالم اور حضرت رائے پوری کے خلیفہ نے اپنے ایک خوش ذوق دوست کو کہا تھا: ’’مولانا ! عوام کی فلاح تو شیخ ابن تیمیہ کی پیروی میں ہے، گو خواص کی منفعت شیخ عبد الحق محدث دہلوی ایسے بزرگوں کی طرز میں ہو۔‘‘ نیز مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے بھی ایک جگہ لکھا کہ’’انجام کار رستگاری کے واسطے آقاو مولا جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرشد جاننا بس ہے ۔‘‘پس یہ نتیجہ اخذ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ عوام کو مبادیاتِ شریعت میں خوب پختہ کیا جائے، پھر ان میں جو عمدہ ذوق کے لوگ ہوں اور سلوک و احسان کے لیے فطری ملکہ رکھتے ہوں، انہیں ذوقی مناسبت دیکھتے ہوئے کسی کامل شیخ سے تعلق استوار کرکے سلوک کو آگے بڑھانا چاہیے۔ جب تک کسی کو کامل شیخ نہیں ملتا توتزکیہ نفس کے لیے امام غزالی کی کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ ایک راہنما اور راہبر سے کم نہیں ۔ یا پھر مکتوبات مجددی کا کوئی اچھا سا انتخاب دیکھ لیا جائے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ کی ’’ ہمعات‘‘، ’’الطاف القدس‘‘ اور ’’انفاس العارفین‘‘ بہت عمدہ ہیں۔نیز متذکر ہ بالا کتب مثلاً ’’ دلائل السلوک‘‘، ’’تجدید تصوف و سلوک‘‘، ’’ انقلاب الحقیقت‘‘ اور ’’عرفان‘‘ بھی قابل مطالعہ، مرشد روحانی کا عکس اور عملی سلو ک و تصوف کے لیے بڑی راہنما ہیں۔ 

’’پیغام پاکستان‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۶ جنوری کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے اجراء کی تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور اکابرین امت کے ارشادات سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ کتاب ’’پیغام پاکستان‘‘ معروضی حالات میں اسلام، ریاست اور قوم کے حوالہ سے ایک اجتماعی قومی موقف کا اظہار ہے جو وقت کی اہم ضرورت تھا اور اس کے لیے جن اداروں، شخصیات اور حلقوں نے محنت کی ہے وہ تبریک و تشکر کے مستحق ہیں۔
ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تیار کردہ تمام مکاتب فکر کے متفقہ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ میں بنیادی اور اصولی باتیں تو وہی ہیں جن کا گزشتہ دو عشروں سے مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے اور کم و بیش تمام طبقات اور حلقے ان پر متفق چلے آرہے ہیں۔ اس کا ذکر مذکورہ تقریب میں مولانا فضل الرحمان اور مولانا مفتی منیب الرحمان نے اپنے خطابات کے دوران تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے کہ اسلامی ریاست کے خلاف عسکری محاذ آرائی، نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جنگ، پرامن شہریوں کا قتل، دستور کی بالادستی کو چیلنج اور خودکش حملوں کے ناجائز ہونے کے بارے میں دینی حلقے اور ان کی قیادتیں اس افسوسناک عمل کے آغاز سے ہی لگاتار اپنے دوٹوک موقف کا اعلان کر رہی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود وسیع تر دائرے میں اعلیٰ ترین سطح پر ریاستی اداروں کے اشتراکِ عمل کے ساتھ صدرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین کی قیادت میں اس نئے اور اجتماعی اظہار نے اسے متفقہ قومی موقف کی حیثیت دے دی ہے اور آج کے قومی اور عالمی حالات میں اس کی اہمیت و افادیت کو دوچند کر دیا ہے جس سے دنیا کو پاکستانی قوم کی طرف سے ایک واضح اور دوٹوک پیغام ملا ہے۔
البتہ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ میں بظاہر ایک نئی بات فرقہ واریت کے حوالہ سے ضرور سامنے آئی ہے کہ کسی فرد یا طبقہ کی تکفیر اور اسے دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے عمل کو ریاست و عدالت کے دائرہ اختیار میں محصور قرار دیا گیا ہے جو مختلف حلقوں کی وسیع تر باہمی تکفیری مہم اور اس میں مسلسل اضافے کے باعث ضروری ہوگیا تھا اور اس کا سنجیدہ حلقوں میں خیرمقدم کیا جائے گا۔ ویسے عملاً پہلے بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بارے میں تمام مکاتب فکر کے اجماعی فیصلے اور فتوے کے عملی نفاذ کے لیے پارلیمنٹ اور عدالتِ عظمیٰ کو ذریعہ بنایا گیا تھا اور انہی کے فیصلوں کو اس حوالہ سے بنیادی اور کلیدی مقام حاصل ہے۔ جبکہ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے ذریعے اس روایت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ کسی طبقہ یا فرد کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ اور عدالتِ عظمیٰ ہی مجاز ادارے ہیں اور تکفیری رجحانات سے معاشرہ میں پھیلنے والی انارکی کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ ناگزیر ہے اور اسی سے فرقہ واریت کے عفریت کو قابو میں لایا جا سکتا ہے۔
’’پیغامِ پاکستان‘‘ کی تیاری اور ترتیب و تدوین کے دوران ہمیں کسی مرحلہ میں شریک ہونے کا موقع نہیں ملا، ورنہ اسے زیادہ مؤثر اور جامع بنانے کے لیے ایک دو تجویزیں ہمارے ذہن میں بھی تھیں جن کا اظہار اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے آئندہ کسی مرحلہ میں ان کی طرف توجہ مبذول ہو جائے۔
ایک یہ کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی مسلم ریاست کی جائز اور مسلمہ حکومت ہی جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز ہے اور اس کے بغیر کسی شخص یا گروہ کو اس کا حق حاصل نہیں ہے لیکن کسی بھی اجتماعی فتویٰ میں عام طور پر مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ فتویٰ بار بار جاری کیے جانے اور درست ہونے کے باوجود اس سوال کے حوالہ سے تشنہ چلا آرہا ہے کہ اگر کسی مسلم ریاست میں غیر ملکی اور غیر مسلم طاقتوں کی مداخلت سے اس کا ریاستی ڈھانچہ اور حکومتی نظام ہی ’’ہیک‘‘ ہو جائے اور خود وہ حکومت غیر مسلم اور غیر ملکی مداخلت کے ہاتھوں کٹھ پتلی کی حیثیت اختیار کر لے تو پھر اس تسلط اور استعلاء کے خلاف مزاحمت اور جہاد کا اعلان کس کی ذمہ داری قرار پائے گا اور اس کی مجاز اتھارٹی کون سی ہوگی؟ مثلاً جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی کے مغل بادشاہ کو بے اختیار کر کے اسی کے نام پر مالیاتی، انتظامی اور عدالتی نظام کو اپنے کنٹرول میں لینے کا اعلان کیا تھا تو حکومتی اتھارٹی اس طرح ’’ہیک‘‘ ہو جانے پر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اس خطہ کو ’’دارالحرب‘‘ قرار دے کر جہاد کا اعلان کر دیا تھا اور اس اعلان کو دینی و علمی طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اب خدانخواستہ ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو کسی کو مزاحمت اور جہاد کے اعلان کا اختیار حاصل ہوگا یا سارے معاملات کو ’’سرِ تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے‘‘ کہہ کر قبول کر لیا جائے گا؟
دوسری گزارش یہ ہے کہ نفاذِ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانے کو بجا طور پر شرعاً حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ شریعت کے نفاذ میں کوتاہی برتنے اور اسے نظرانداز کرتے چلے جانے والوں کے اس عمل کی شرعی حیثیت بھی اس ’’قومی فتوے‘‘ میں واضح ہونی چاہیے تھی۔ کیونکہ صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ متعلقہ افراد اور اداروں کو نفاذ اسلام کے اقدامات کرنے چاہئیں بلکہ اس بات کا تعین بھی ضروری ہے کہ جو ادارے اور طبقات شرعی و دستوری دونوں حوالوں سے نفاذِ اسلام میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے ان کی حیثیت کیا ہے اور کیا ان پر بھی کسی فتوے کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟
مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مولانا فضل الرحمان، مولانا مفتی منیب الرحمان، پروفیسر ساجد میر، مولانا عبد المالک، علامہ ریاض حسین نجفی اور دیگر اکابرین نے اپنے خطابات میں اس طرف توجہ دلائی ہے لیکن ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کا متن اس کے بارے میں خاموش ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا عبد المالک کا یہ کہنا بھی قابل توجہ ہے کہ بغاوت کرنے والوں کے خلاف کاروائی اور آپریشن ضروری ہے مگر ان کو اپنے موقف سے رجوع کرنے اور محاذ آرائی سے دستبردار ہونے کا موقع بھی دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں حوالہ دیا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے باغیوں کے خلاف کاروائی کے لیے فوجیں بھیجی تھیں تو پہلی ہدایت یہ تھی کہ انہیں اسلامی ریاست کے سامنے سپرانداز ہونے اور توبہ کرنے کی دعوت دیں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر پوری قوت کے ساتھ ان کے خلاف کاروائی کریں۔
بہرحال اب تک جو ہوا سو ہوا، کوئی بھی انسانی عمل کتنا ہی جامع اور مکمل ہو اس میں کوئی نہ کوئی کمی بہرحال رہ جاتی ہے اس لیے ان باتوں کو مستقبل پر چھوڑتے ہوئے ہم ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اس کی مکمل حمایت و تائید کے ساتھ ہرممکن عمل و تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔

جنرل باجوہ اپنے آبائی شہر کے باسیوں کے درمیان

آرمی چیف محترم جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ اتوار کو گوجرانوالہ کینٹ میں اپنے آبائی شہر گکھڑ کے چند سرکردہ شہریوں کے ساتھ محفل جمائی۔ گکھڑ سے تعلق اور اس سے بڑھ کر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر? کا فرزند ہونے کے حوالہ سے مجھے بھی شریک محفل کیا گیا اور جنرل صاحب محترم نے عزت افزائی سے نوازا ، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ جنرل صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور ان کے بے ساختہ پن اور بے تکلفانہ انداز نے بہت متاثر کیا۔ انہوں نے بچپن کی بہت سی یادیں تازہ کیں اور گکھڑ کے پرانے بزرگوں کا محبت و احترام کے ساتھ ذکر کیا جس میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا عقیدت سے بھرپور تذکرہ بھی شامل ہے۔
محفل میں شریک کم و بیش سبھی احباب نے جنرل صاحب کی شخصیت و مقام کو اپنے شہر اور علاقہ کے لیے باعث افتخار قرار دیا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ انہوں نے اپنے آبائی شہر کے حضرات سے ملاقات اور علاقہ کے مسائل معلوم کرنے کے لیے اس نشست کا اہتمام کیا ہے۔ اس محفل کے توسط سے مجھے بھی بعض پرانے دوستوں اور بزرگوں سے ملاقات کا موقع مل گیا، مثلاً گکھڑ کے ایک پرانے بزرگ ریٹائرڈ کرنل نسیم صاحب بڑے تپاک سے ملے اور بتایا کہ انہوں نے میری والدہ مرحومہ و مغفورہ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ایک دوست حارث منظور بٹ گرمجوشی سے ملے اور کہا کہ آپ سے تئیس سال بعد ملاقات ہو رہی ہے، اس سے قبل امریکہ کے شہر اٹلانٹک سٹی میں ملاقات ہوئی تھی وغیر ذلک۔ غرضیکہ یہ محفل جنرل باجوہ صاحب محترم سے ملاقات کے ساتھ ساتھ بعض پرانے دوستوں کی باہمی ملاقات کا ذریعہ بھی بن گئی۔
گکھڑ میں اسٹیڈیم کے قیام کی بات ہوئی تو جنرل صاحب نے بتایا کہ ایک بڑے اسٹیڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بن چکا ہے جس کا بہت جلد آغاز کیا جا رہا ہے۔ ٹریفک کے رش اور ہسپتال کی توسیع کے ساتھ ساتھ وزیرآباد کی کٹلری کی صنعت اور کار ڈیلر حضرات کے مسائل پر بھی گفتگو ہوئی اور جنرل صاحب نے مسائل کے حل کے لیے پوری توجہ کا وعدہ کیا۔ مجھے یہ انداز اچھا لگا کہ با اثر لوگ اگر اپنے اپنے علاقہ کے مسائل کے حل میں ترجیحات طے کرتے وقت عوام کی رائے بھی سن لیا کریں تو اس سے کام کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔ بعض قومی مسائل بھی زیربحث آئے۔ ایک دوست نے کرپشن کی طرف توجہ دلائی تو جنرل صاحب موصوف نے خوبصورت بات کہی کہ اس کا حل تو آپ لوگوں کے پاس ہے کہ آپ الیکشن میں کرپٹ لوگوں کو منتخب نہ کریں۔ ملک کی سیاسی صورتحال پر ایک دوست نے گفتگو کرنا چاہی تو جنرل صاحب نے کہا کہ وہ اس حوالہ سے صرف ایک ہی بات کریں گے کہ آپ حضرات اپنے نمائندوں کا صحیح انتخاب کریں کیونکہ نظام تو منتخب لوگوں نے ہی چلانا ہے، آپ جس طرح کے لوگ منتخب کر کے بھیجیں گے، ملکی نظام انہی کے مطابق چلے گا۔ جنرل صاحب نے یہ بھی کہا کہ اگر انتخابات کے موقع پر عوام کی ترجیحات میں برادری ازم، تھانہ کچہری اور گلی محلہ کے مسائل کی بجائے اہلیت و دیانت اور قومی سوچ و جذبہ کو اولیت حاصل ہو جائے تو صورتحال بدل سکتی ہے، لیکن اس کے لیے مسلسل انتخابات کا منعقد ہوتے رہنا ضروری ہے۔
جنرل باجوہ نے دہشت گردی کے خاتمہ اور مذہبی فرقہ واریت پر کنٹرول کی بات تفصیل کے ساتھ کی، انہوں نے کہا کہ تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ ہمارے بیشتر مسائل کی وجہ تعلیم کی کمی اور تعلیمی نصاب کی یک رخی ہے۔ جن حضرات کے پاس دینی تعلیم ہے، وہ عصری تعلیم سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ملکی نظام میں آگے نہیں بڑھ سکتے اور جو لوگ عصری تعلیم سے بہرہ ور ہیں، وہ دینی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت میں کمزور ہیں۔ ان دونوں کو اکٹھا کرنا ہوگا، دینی تعلیم کے ساتھ ضروری عصری تعلیم کو شامل کرنا ہوگا اور عصری تعلیم کے ساتھ ضروری دینی تعلیم کا اہتمام کرنا پڑے گا، اس کے بغیر ہم اپنے نظام کو صحیح نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں دین کا علم بھی حاصل کرنا چاہیے اور جب ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے ’’ذلک الکتاب لا ریب فیہ‘‘ پڑھتے ہیں تو ہمیں اس کا ترجمہ و مفہوم بھی معلوم ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سازش کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا بھر میں مسلمان کو مسلمان سے لڑایا جا رہا ہے جس سے فائدہ صرف دشمن کو ہوتا ہے، اس سازش کو سمجھ کر اسے ناکام بنانے کی فکر کرنی چاہیے۔
اس موقع پر متعدد حضرات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میں نے عرض کیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سرگرمیوں اور رجحانات کو میں بڑی توجہ سے دیکھ رہا ہوں اور مجھے ان کی یہ بات اچھی لگی ہے کہ وہ ملکی اور قومی معاملات میں توازن اور اعتدال کے رخ کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بیلنس کی بات کرتے ہیں جس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کے بارے میں جنرل صاحب کی تشویش اور بے چینی کو درست قرار دیتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرقہ کے اعتدال پسند راہ نماؤں کی بات توجہ سے سنی جائے۔ ایسے لوگ ہر فرقہ میں موجود ہیں، کسی بھی فرقہ کے سب لوگ انتہا پسند اور شدت پسند نہیں ہوتے بلکہ اس قسم کے لوگ ہر مکتب فکر میں بہت کم ہوتے ہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اعتدال و توازن کی بات کرنے والوں کو توجہ کے ساتھ سنا جائے اور انہیں فرقہ وارانہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔
گکھڑ کی باجوہ فیملی سے میں ایک عرصہ سے متعارف ہوں بلکہ میرا بچپن اور نوجوانی انہی کے ماحول میں گزرے ہیں مگر جنرل صاحب کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی جو خوشگوار ماحول میں ہوئی، دعا ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کے لیے جن اچھے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں ان کے مطابق تادیر ملک و قوم کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

حکیم مختار احمد الحسینی ؒ اور قاری محمد رزین نقشبندیؒ کا انتقال

گزشتہ دنوں حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمی قدس اللہ سرہ العزیز کے برادر خورد اور میرے پرانے بزرگ دوست مولانا حکیم مختار احمد الحسینی کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ایک دور میں متحرک فکری اور نظریاتی راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور ان کے ساتھ میری پرجوش رفاقت رہی ہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ جامعہ نصرۃ العلوم میں بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا نام آج کے نوجوان علماء اور کارکنوں کے لیے اجنبی ہوگا مگر جن حضرات نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات سے قبل اور بعد کے فکری اور نظریاتی معرکے اور محاذ آرائیاں دیکھی ہیں، وہ ان سے یقیناًناواقف نہیں ہیں۔ یہ ۱۹۶۷ء ، ۱۹۶۸ء کے لگ بھگ کا قصہ ہے کہ مولانا حکیم مختار احمد الحسینی نے اپنے برادر بزرگ مولانا حافظ خالد محمود کے ہمراہ لاہور میں ایک فکری اور نظریاتی مورچہ جمایا اور کافی عرصہ جمعیۃ علماء اسلام اور جماعت اسلامی کی باہمی معرکہ آرائی کا سرگرم کردار رہے۔
اس دور میں جماعت اسلامی کے ساتھ محاذ آرائی کے دو مورچے تھے۔ ایک یہ کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی بعض اعتقادی اور فقہی تعبیرات سے جمہور علماء اہل سنت کو اختلاف تھا اور دونوں طرف سے تنقید و جواب کا ماحول پوری شدت کے ساتھ گرم تھا جس میں حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ اور حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ پیش پیش تھے، جبکہ سیاسی و فکری تقسیم میں جماعت اسلامی اس وقت دائیں بازو کی جماعت شمار ہوتی تھی بلکہ دائیں بازو کی فکری قیادت کر رہی تھی۔ اس کے برعکس جمعیۃ علماء اسلام اپنے روایتی سامراج دشمن مزاج اور استعمار مخالف ایجنڈے کے باعث بائیں بازو کے قریب سمجھی جاتی تھی اور ڈاکٹر احمد حسین کمال کی فکری راہنمائی میں حکیم مختار احمد الحسینی اور دوسرے حضرات ’’عوامی فکری محاذ‘‘ کے نام سے اس کے لیے سرگرم تھے اور میں بھی اس وقت اس محاذ کا متحرک کردار تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فکری محاذ آرائی ٹھنڈی پڑتی گئی حتیٰ کہ جہادِ افغانستان کے دوران دائیں بازو اور بائیں بازو کی یہ تقسیم ہی تحلیل ہو کر رہ گئی۔ اگر اس دور کی اس فکری اور نظریاتی معرکہ آرائی کی تاریخ مرتب کی جا سکے تو اس میں نئی نسل کے لیے راہنمائی کا بہت سامان موجود ہے۔ حکیم مختار احمد الحسینی اس نظریاتی اور فکری جنگ کا متحرک کردار تھے۔ میں نے ان کے فرزندان گرامی سے تعزیت کے دوران عرض کیا کہ اگر ان کے کاغذات اور یادداشتوں تک رسائی میسر آجائے تو اس حوالے سے کچھ خدمت میں بھی سر انجام دے سکتا ہوں۔
حکیم صاحب مرحوم کے ساتھ ہماری رشتہ داری بھی ہے کہ ان کے بھتیجے اور حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کے فرزند مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ میرے بہنوئی تھے اور ان کی جگہ اب جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے مہتمم مولانا قاری ابوبکر صدیق میرے عزیز بھانجے ہیں۔ جہلم میں برادرم مولانا قاری صہیب احمد اور عزیزان قاری ابوبکر صدیق، حافظ محمد عمر فاروق اور حافظ محمد عمیر سے تعزیت کے بعد قاری ابوبکر صدیق کے ہمراہ حکیم صاحب مرحوم کے فرزندان گرامی کے پاس حاضری ہوئی جو سوہاوہ سے چکوال جاتے ہوئے سرگ ڈھن میں حکیم صاحب کے ڈیرہ اور مطب سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان سے تعزیت و دعا کے ساتھ بہت سی پرانی یادیں تازہ کیں اور پھر ہم راولپنڈی روانہ ہوگئے۔
جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر میں جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے امیر مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمان سے ان کی والدہ محترمہ کی وفات پر تعزیت کی۔ ڈاکٹر صاحب کے والد محترم حضرت مولانا قاری سعید الرحمان جمعیۃ علماء اسلام کے بزرگ راہنماؤں میں سے تھے اور میرے محترم اور بزرگ دوست تھے۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے انہیں نقشبندی سلسلہ میں خلافت عطا کی تھی اور وہ ہمارے ساتھ پاکستان شریعت کونسل کی سرگرمیوں میں شریک رہتے تھے۔ اس موقع پر تحریک خدام اہل سنت پاکستان کے امیر حضرت مولانا قاضی ظہور الحسین اظہر بھی جامعہ اسلامیہ میں مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی کے ہمراہ تشریف لے آئے اور ہم اس تعزیت و دعا میں اکٹھے شریک ہوئے۔ مولانا قاضی ظہور الحسین اظہر بھی میرے بزرگ ساتھیوں میں سے ہیں اور ہم نے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کئی سال اکٹھے گزارے ہیں۔
وہاں سے ہم حضرت مولانا قاری محمد زرین نقشبندیؒ کی تعزیت کے لیے ان کے گھر حاضر ہوئے جن کا چند روز قبل انتقال ہوا ہے۔ وہ مجاہد ہزارہ حضرت مولانا عبد الحکیم ہزاروی کے داماد تھے اور جامعہ فرقانیہ راولپنڈی میں طویل عرصہ ان کے ساتھ رفیق کار رہے ہیں، خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف سے تعلق تھا اور اپنی تعلیمی و انتظامی سرگرمیوں میں مگن ذاکر و شاغل بزرگ تھے۔ حضرت مولانا عبد الحکیم ہزاروی بھی ۱۹۷۰ء کے انتخابی معرکہ کا اہم عنوان رہے ہیں۔ وہ اپنے علاقہ کے سب سے بڑے خان اور سردار کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور ۱۹۷۳ء کے دستور کی تدوین اور ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں پارلیمانی محاذ پر انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا۔ درخواستی گروپ اور ہزاروی گروپ میں جمعیۃ علماء اسلام کی تقسیم سے قبل وہ جمعیۃ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھے اور قومی اسمبلی کے بعد سینٹ کے ممبر بھی منتخب ہوئے تھے۔
اللہ تعالیٰ مرحومین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

فقہاء اور مکتب فراہی کے تصورِ قطعی الدلالۃ کا فرق

عدنان اعجاز

محترم زاہد صدیق مغل صاحب کی مذکورہ بالا عنوان کی حامل تحریر نظر سے گزری (الشریعہ، اکتوبر ۲۰۱۶ء)۔ مکتب فراہی کے تصورِ قطعی الدلالہ کے فقہا کے تصور سے تقابل کے ذریعے زاہد صاحب نے اس میں یہ باور کرانے کی سعی فرمائی ہے کہ ’’فراہی و اصلاحی صاحبان کا نظریہ قطعی الدلالہ نہ صرف مبہم ہے بلکہ ظنی کی ایک قسم ہونے کے ساتھ ساتھ سبجیکٹو (subjective) بھی ہے۔‘‘ میری نظر میں ایسی تحاریر موضوع سے متعلق الجھنوں کو رفع کرنے کے لیے اچھی بنیاد فراہم کرتی ہیں، اس لیے ایسے مواقع ضائع نہیں ہونے دینے چاہئیں۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے دیے گئے اہم دلائل ان الفاظ میں بیان کیے جا سکتے ہیں:
1۔ فقہا چونکہ وضوح و خفا کے اعتبار سے آیات کو آٹھ مدارج میں تقسیم کرتے ہیں، اس لیے جن اقسام کو وہ قطعی الدلالۃ کہتے ہیں، وہ واقعی 'definite in meaning' ہوتی بھی ہیں، اور نتیجتاً وہ ان میں سے زیادہ واضح کے مفاہیم میں تاویل کرنے والوں پر گمراہی کا حکم بھی لگا سکتے ہیں اور لگاتے ہیں۔ جبکہ مکتب فراہی جب سب کو قطعی کہہ دیتا ہے تو ایک تو یہ واضح نہیں کرتا کہ ان مدارج میں سے کس درجے کا وضوح مراد لیتا ہے، اور اسی طرح یہ بھی بیان نہیں کرتا کہ اس قطعی مفہوم کے انکار کرنے والے کو وہ گمراہ کہے گا کہ نہیں، اور دونوں صورتوں میں کیوں کا جواب بھی نہیں دیتا۔
2۔ ان کے یہاں جس طرح لفظ قطعی کے معنی میں ابہام ہے، اسی طرح لفظ دلالت کے مفہوم میں بھی ہے۔ وہ یہ واضح نہیں کرتے کہ یہ قطعیت عبارۃ النص، دلالۃ النص، اشارۃ النص یا اقتضاء النص میں سے کس قسم کی ہے۔
3۔ مکتب فراہی جب کلام کو قطعی ماننے کے باوجود یہ کہتا ہے کہ ممکن ہے کہ اس کے معنی دو مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوں تو پھر درحقیقت وہ قطعی ہی کو ظنی کر دیتا ہے، پس پورا تصورِ قطعیت ہی سبجیکٹو ہو جاتا ہے۔ جبکہ فقہا کا طریقہ کار کلام کو حتی الامکان آبجیکٹو (objective) قطعیت سے متصف دکھاتا ہے، کیونکہ انہیں حکم اخذ کرنے کے لیے جو عموم و استحکام درکار ہوتا ہے، وہ اسی طریقے سے حاصل ہو سکتا ہے۔
4۔ مکتب فراہی کے منتسبین کلام کو عنداللہ قطعی مانتے ہیں نہ کہ عندالناس۔ تو اس اعتبار سے تو یہ کوئی فرق ہی نہیں کیونکہ فقہاء بھی عندالناس ہی کی بات کرتے ہیں۔
5۔ پھر یہ بھی واضح نہیں کہ عندالناس سارا کلام ظنی ہے یا قطعیت کا کوئی دائرہ ہے؟ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مفسر کے سمجھے ہوئے معنی کو ہم قطعی نہیں کہتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کلام کے معنی سبجیکٹو ہیں، گویا عندالناس قطعیت کا کوئی دائرہ موجود نہیں۔
6۔ قرآن عنداللہ میزان اور فرقان ہے یا عندالناس؟ جب عندالناس معنی کو آپ قطعی نہیں مانتے تو پھر فرقان و میزان ہونے کا کیا مطلب؟
یہ اور اس سے ملتے جلتے سوالات ہمارے روایتی مذہبی علم سے متاثر و وابستہ اور اہل علم بھی کرتے ہیں، اس لیے ان سے تعرض عمومی اعتبار سے ہی مناسب رہے گا۔ ان کے جوابات ویسے تو بہت سادہ اور سیدھے ہیں، پر یہ سوالات کچھ ایسی بنیادی غلط فہمیوں سے پیدا ہوئے ہیں جن کی درستی اگر ایک دفعہ پہلے ہو گئی تو ان سوالات سے تعرض کا مختصر ترین راستہ بھی وا ہو جائے گا، اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے یہ بھی جان لیں گے کہ کیسے اس طرح کے ابہامات محض دو مختلف مباحث کو آپس میں گڈ مڈ کرنے سے پیدا ہو جاتے ہیں اور جو یہاں ہو گئے ہیں۔
تاہم، اس سے پہلے کہ میں نفس مسئلہ کی طرف بڑھوں، ایک اور نکتے کی طرف توجہ دلانا بھی شاید اہم ہے۔ اس نکتے کا بہترین بیان اداروں پر تحقیق کرنے والے محققین پیٹر ایم بلاؤ کے ریفرنس سے یوں نقل کرتے ہیں: ’’اداروں کے ممبران (رفتہ رفتہ) دنیا کو انہی مخصوص تصورات کی بنیاد پر دیکھنے لگتے ہیں جو ان اداروں کی لغت میں منعکس ہوتے ہیں۔ پس جو درجہ بندیاں اور تقسیم کی اسکیمیں اس ادارے میں مستعمل ہوتی ہیں، وہی حقیقی دِکھنے لگتی ہیں، اور اس ادارے کے ممبران کی نظر میں محض اصطلاحات کی بجائے دنیا کی صفات بن جاتی ہیں۔‘‘
میری نظر میں ہمارے فقہا کی طرف سے علم الفقہ میں ان کے زاویہ نظر سے الفاظ کی پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لیے کی گئی درجہ بندیاں بھی اسی لیے ہمارے بعض اہل علم کے لیے اصطلاحات سے آگے بڑھ کر 'دنیا کی صفات' بن گئی ہیں۔

چند بنیادی باتیں

سب سے پہلی اور ضروری بات اس بحث کی تاریخ ہے جس کی طرف زاہد صاحب نے بھی اشارہ کیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں سوفسطائی نظریات کی یلغار ہوئی اور عقلی مقدمات کے جواب میں ہمارے فقہا نے جب قرآن و حدیث سے استدلال پیش فرمایا تو ان کے جواب میں یہ کہا گیا کہ بھئی زبان تو ظنی الدلالہ ہوتی ہے، اس لیے عقلی برہانیات کے مقابل میں ان سے استدلال سرے سے درست ہی نہیں۔ اس مقدمے کو ہمارے بھی کچھ اہل علم نے قبول کر لیا۔ امام رازی اور کچھ دوسرے بزرگوں نے بھی جب اسی مقدمے کی تائید کی تو ہمارے جلیل القدر فقہا نے اس کا جواب یہ دیا کہ زبان بالکل متواترات پر مبنی اور قطعیت کا فائدہ دینے کے قابل ہوتی ہے، اس لیے یہ مقدمہ ہی درست نہیں۔ اس معاملے کو ابن قیم، شاہ اسمٰعیل شہید، التوضیح والتلویح کے مصنفین وغیرہ نے موضوعِ بحث بنایا اور یونانی فلسفے سے متاثر اس مقدمے کو منہدم کر دیا۔ چنانچہ ائمہ فقہ و حدیث ایک مسلمہ قاعدے کی حیثیت سے اس حقیقت کو بیان کرتے رہے کہ ’ماثبت بالکتاب قطعی موجب للعلم والعمل‘۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جہاں فقہا نے یہ بحث کی ہو گی، مثلاً ابن قیم یا شاہ اسمٰعیل وغیرہ نے، وہاں انہوں نے کلام کو قطعیت اور ظنیت کے اعتبار سے آٹھ مدارج میں تقسیم کر کے یہ بتایا ہو گا کہ کیسے بس جب محکم یا مفسر الفاظ آئیں، تبھی قطعیت حاصل ہو سکتی ہے؟ جی نہیں! ایسا کچھ بھی نہیں۔ حنفی ہوں یا سلفی ہوں، اس موضوع پر جب بحث ہوئی تو بس قطعی اور ظنی ہی پر ہوئی۔ یہ حضرات یقیناًان فقہی مدارجِ وضوح و خفا سے آگاہ ہوں گے، پر اس کلامی بحث کا آخر اس فقہی تقسیم سے تعلق کیا تھا جو وہ اسے اس میں گڈ مڈ کر دیتے!
اور دلچسپ بات دیکھیے۔ اس بحث میں جب قطعی اور ظنی کی تعریف ہمارے اصولیین نے فرمائی تو وہ کیا تھی؟ غامدی صاحب نے اس پر بڑی سیر حاصل بحث اپنے قطعی و ظنی کی سیریز کے مضامین میں باحوالہ کر دی ہے۔ مثلاً استاذ مخلوف نے’’الموافقات‘‘ پر اپنی تعلیقات میں قطعی کی تعریف کو یوں لکھا ہے: 
یستعمل القطع فی دلالۃ الالفاظ فیاتی علی نوعین: اولھما الجزم الحاصل من النص القاطع، وھو ما لایتطرقہ احتمال اصلًا... ثانیھما العلم الحاصل من الدلیل الذی لم یقم بازاء احتمال یستند الی اصل یعتد بہ، و لایضرہ الاحتمالات المستندۃ الی وجوہ ضعیفۃ او نادرۃ (الموافقات، الشاطبی ۱/۳۱) 
’’یہ لفظ جب دلالت الفاظ کے باب میں استعمال کیا جاتا ہے تو دو صورتوں کے لیے آتا ہے: ایک اس جزم کے لیے جو نص قطعی سے حاصل ہوتاہے، یعنی وہ نص جس میں سرے سے احتمال کی گنجایش نہ ہو... دوسرے اس علم کے لیے جو اس دلیل سے حاصل ہوتا ہے جس کے مقابل میں کوئی ایسا احتمال نہ ہو جس کی بنا قابل لحاظ سمجھی جائے۔ نادر اور کمزور وجوہ پر مبنی احتمالات اْس پر اثرانداز نہیں ہوتے۔‘‘ 
پھر اس کے بالکل مقابل اصولیین ظن کا لفظ شمار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اِس میں احتمال کی نفی ممکن نہیں ہوتی، صرف ایک احتمال کو ترجیح دی جا سکتی ہے۔ پس مکتب فراہی جب اس بحث کے پس منظر میں یہ کہتا ہے کہ قرآن قطعی الدلالۃ ہی ہے، تو ظاہر سی بات ہے، وہ اوپر بیان کیے گئے انہی دو معانی میں سے ایک میں کہتا ہے، یعنی یا تو سرے سے اس میں احتمال ہی نہیں ہوتا، اور اگر ہو تو قابل لحاظ نہیں ہوتا، کیونکہ اسے غور و تفحص سے رفع کیا جا سکتا ہے۔
اس خلط مبحث کو مثال سے یوں سمجھیے کہ ہم آج کسی ایسے شخص سے بحث کر رہے ہوں جو یہ کہتا ہو کہ یار یہ مذاہب و ادیان تو بس لوگوں کی اپنی اختراعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان میں یہ بھی جانا نہیں جا سکتا کہ ان کی اصلی صورت کیا تھی، اس میں کون سے وہ احکامات تھے جو ان کے بانیوں کے پیش نظر تھے اور کون سے وہ جو بعد کی صدیوں میں لوگوں نے ان میں اضافی داخل کر دیے، اور ہم اسے یہ بتا رہے ہوں کہ اسلام میں ایسا نہیں ہے بھائی۔ ہم تحقیق سے یہ قطعی طور پر جان لیتے ہیں کہ کون سا حکم ثابت ہے اور کون سا نہی، اور اسی اثنا میں ہماری فقہ سے واقف ایک شخص وہاں آ کر ہم سے پوچھے کہ بھئی ہماری فقہ میں واجب تو دراصل دلیل ظنی سے ثابت ہوتا ہے، اس میں آپ قطعیت کہاں سے تلاش کر لیتے ہیں ۔۔۔ تو بتائیے! کیا یہ سوال اس بحث سے متعلق ہو گا؟
ایک اور دلچسپ بات نوٹ کیجیے۔ ہمارے جلیل القدر فقہا نے یہ جو آٹھ مدارجِ وضوح و خفا کا حوالہ دیا جا رہا ہے، اور زاہد صاحب نے بھی دیا ہے، ان میں تقسیم کی کس پہلو سے ہے؟ کیا وہ اسی متکلمین والی بحث میں اپنا حصہ ڈالنا چاہ رہے تھے؟ ارے نہیں! وہ اس پہلو سے بحث کر ہی نہیں رہے۔ وہ تو استنباطِ احکام کے لیے تقسیم فرما رہے تھے۔ انہیں اس مذکورہ بالا بحث سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسی لیے انہوں نے کہیں یہ بھی نہیں کہا کہ ہم قرآنِ مجید کی آیات کی قطعی و ظنی تقسیم کرنے جارہے ہیں۔ وہ تو بس احکام اخذ کرنے کی غرض سے جو دقتیں انہیں مدعا تک رسائی میں پیش آتی ہیں، انہیں اپنی وضع کردہ اصطلاحات میں ایک معیاری طریقے سے بیان کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس کے برعکس، غامدی صاحب یا مکتب فراہی ان فقہاء کے زاویے سے بحث کر ہی نہیں رہے۔ انہوں نے کہاں یہ فرمایا ہے کہ ہم فقہا کے اِن آٹھ مدارج کے مقابل میں یہ دو مدارج دے رہے ہیں؟ ان کی بحث بھی بالکل ایک مختلف پہلو سے ہے، اور اسی پہلو سے ہے جس سے متکلمین سے بحث ہو رہی تھی۔ اس میں نہ مکتب فراہی پہلا ہے اور نہ ہی منفرد، اسی اسلاف کی بحث کو آگے بڑھا رہا ہے۔
بایں ہمہ ایک انتہائی بنیادی فرق اور دیکھیے۔ ہمارے فقہا جب استنباطِ احکام کے لیے وضوح و خفا میں تقسیم کرتے ہیں تو وہ دراصل 'الفاظ'کے مدارج طے کر رہے ہوتے ہیں، نہ کہ 'کلام' کے، جبکہ زبان کی قطعی و ظنی الدلالۃ والی بحث جن حضرات نے بھی تاریخ میں کی ہے، اور جو مکتب فراہی کر رہا ہے، وہ 'کلام' کی بحث ہے۔ الفاظ کی تحقیق کے حساب سے کوئی نئے مدارج دینا ان کے پیش نظر ہی نہیں۔ تاہم، اگر وہ الفاظ کی مشکلات کے زاویے سے بحث کریں تو یہ عین ممکن ہے کہ فقہا کے بیان کردہ بہت سے مدارج خود بھی اختیار کر لیں، یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے پندرہ اور مدارج بھی اس میں شامل کر لیں، اور یہ بھی پوری طرح ممکن ہے کہ اس طرح کی کوئی تقسیم بھی اختیار نہ کریں، کیونکہ یہ محض فنی اصطلاحات ہیں، جو ایک خاص اپروچ کے باعث وضع کی گئی ہیں، نہ شرعی ہیں اور نہ ضروری۔ اور اس اپروچ کے علاوہ اور بھی اپروچیں کلام کو دیکھنے کی ہو سکتی ہیں جن سے اصطلاحات بھی یقیناًفرق ہو جائیں گی۔ لیکن ظاہر ہے، یہ بحث تو فی الحال انہوں نے کی نہیں۔
ایک آخری بات بھی دیکھیے۔ فقہا نے جو الفاظ کی یہ تقسیم کی ہے، یہ 'لغوی' اعتبار سے ایک 'initial'پوزیشن کے لحاظ سے ہے۔ اس لیے جب کلام میں رکھ کر کسی لفظ میں سے وہ احتمالات ختم کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو اسے قطعی کی کیٹیگری میں بھی لے آتے ہیں۔ پس اس بحث کو اگر مکتب فراہی کی تقسیم سے 'intersect' کرانا ہی ہو تو چاہے کسی لفظ کو فقہا 'initially' کسی بھی درجے میں پلیس کر رہے ہوں، مکتب فراہی زبان و بیان کے اصولوں اور کلام کے قرائن سے احتمالات ختم کر کے اس کی 'final' پوزیشن آپ کو قطعی کی کیٹگری میں لا کر ہی دکھائے گا۔ اس لیے جو مطالبہ ہونا چاہیے، وہ احتمالات کی نفی کا ہونا چاہیے۔ یہ ہر جگہ قطعی اور ظنی کی بحث کو بیچ میں لے آنا عجیب 'frustration' کا مظہر لگنا شروع ہو گیا ہے۔
ان نکات کا حاصل یہ کہ یہ دونوں بحثیں بہت مختلف ہیں۔ نہ تو براہِ مہربانی ان میں خلطِ مبحث پیدا کریں، اور نہ ہی ایک بحث کے قطعی و ظنی کو اٹھا کر دوسرے میں وضع کردہ اصطلاحات پر محمول کر کے وضاحت طلب کیجیے۔ آپ خود بھی شکوک میں مبتلا ہوں گے اور دوسروں کو بھی کریں گے۔ تاہم، اگر قرآن کے کسی مقام پر یہ بحث کرنی ہو کہ کلام کا منشا سمجھ نہیں آ پا رہا، یا محتمل الوجوہ ہو گیا ہے، یا یہ کہ زیادہ سے زیادہ بس کسی ایک احتمال کی ترجیح ممکن رہ گئی ہے، تو وہاں پر مکتب فراہی سے اگر ان کے اصولوں کے تحت کوئی گفتگو کرنی ہے تو کسی کلام (نہ کہ لفظ) کو ظنی قرار دینے کے لیے نقیض کا احتمال ثابت کیجیے، ورنہ اصولیین کے معیارات کے مطابق اس کلام کی تاویلات میں اس سے کمتر درجے کے اختلافات کسی طور قطعیت کو مانع نہیں قرار دیے جا سکتے۔
اب آئیے سوالات کی طرف اوپر دی گئی ترتیب کے لحاظ سے نکتہ بہ نکتہ:
1۔ تمہید سے یہ واضح ہو چکا ہو گا کہ مکتب فراہی کیوں فقہا کے سے مدارج اختیار نہیں کرتا۔ اس کے پیش نظر 'کلام' کی جو قطعیت ہے، وہ یا تو بادنیٰ تامل حاصل ہو جاتی ہے، یا غور و خوض سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی احتمالِ نقیض تھا بھی تو وہ کیوں ناقابلِ اعتنا تھا۔ تو جب پورا قرآن قطعی الدلالہ ہی ہے تو کسی رائے کو گمراہی کہنے کے لیے جو چیز درکار ہوتی ہے، وہ کسی خاص درجے کا وضوح نہیں بلکہ مضمون کی نوعیت ہوتی ہے۔ یعنی اگر کوئی غلط تاویل کسی عقیدہ و عمل کی ضلالت سے عبارت ہو گی، تبھی گمراہی قرار پا سکے گی۔ جیسے کوئی خاتم النبیین سے بہت بلند پائے کا نبی مراد لے گا یا فاقطعوا ایدیھما سے غربت کے نظام کا خاتمہ مراد لے گا وغیرہ، تو ہی اسے گمراہی سے تعبیر کیا جا سکے گا، اور خود غامدی صاحب نے بھی کیا اور لکھا ہے، نہ کہ اگر کوئی ملکہ بلقیس کے عرش کی تحویل کے متعلق کوئی مختلف رائے رکھے گا تو وہ رائے گمراہی قرار پائے گی۔ اس دوسری طرح کے معاملات میں 'درست' اور 'غلط' کی تقسیم تک محدود رہنا بھلا کیوں کفایت نہ کرے گا!
ویسے میں قارئین سے کہوں گا کہ کبھی اس رائے کے حاملین سے درخواست کیجیے گا کہ ان 'definite in meaning' آیات کی، یا مثلاً محکم الفاظ کی، پورے قرآن سے ایک فہرست مرتب کر دیں تا کہ قارئین یہ جان سکیں کہ اس تقسیم کے مطابق قرآنِ مجید جیسی ضخیم کتاب سے بس کتنی آیات اور کتنے الفاظ قطعی کی کیٹگری میں جگہ بنا پاتے ہیں اور کتنے ظنی۔ میرے خیال سے قارئین کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہو گی کہ شاید پورے قرآن سے بس اعداد کے نام، جیسے ثلاثہ اربعہ، یا لوگوں جگہوں وغیرہ کے نام کی قسم کے گنتی بھر الفاظ ہو ں گے جو اس موضوعہ معیار کے مطابق 'subjectivity' کے دائرے سے باہر، یعنی قطعی بن پائیں گے۔ پس فقہا کی ان تعبیرات کا کلام پر اطلاق واقعی اہمیت کا حامل ہوتا اگر ان کے نتیجے میں قرآنِ مجید کے اکثر حصے سے متعلق کوئی ایسی معنی خیز حدبندی ہو جاتی کہ ہم خود دیکھ لیتے کہ جس طرح ہم روزمرہ کلام کے اکثر حصے سے قطعیت کے عادی ہوتے ہیں، اسی طرح بس قرآن کے وہ کون سے چند مقامات ہیں جن کی قطعیت 'objective' نہیں ہو پائی۔ حالانکہ یہاں تو معاملہ بالکل برعکس ہے۔
2۔ تمہید کے بعد یہ اعتراض بھی غیر متعلق ہو جانا چاہیے۔ تاہم، انہی اصطلاحات میں رہتے ہوئے اگر سمجھانے کی کوشش کی جائے تو بھی بات بہت سادہ ہے۔ مکتب فراہی اصلاً دلالۃ النص ہی کے تعین پر اکتفا کرے گا، کیونکہ متکلم کا سیدھا سادہ منشا اخذ کرنا ہی وہ بنیادی چیز ہے جو قطعیت سے متعلق ہے۔ اس کے بعد اگر کسی مسئلے میں استنباط کی نوبت آئے تو پھر اضافی طور پر کسی نص کے اشارات و اقتضاء ات زیر بحث آ سکتے ہیں۔ اس طرح کے اعتراضات اس لیے بھی پیدا ہوتے ہیں کہ عموماً اس بنیادی پیراڈائم کے فرق کو اہل علم پوری طرح باور نہیں کرتے، یعنی یہ کہ مکتب فراہی اللہ کے کسی موضوع سے متعلق احکامات کو بس دین یا بالفاظِ دیگر پاکیزگی کے زاویے سے دیکھے گا، جبکہ ہمارے فقہا اس موضوع سے متعلق پورا قانون انہی احکامات سے اخذ کرنے کا قصد کرتے ہیں، اسی لیے مکتب فراہی میں دلالت تک محدود رہنا ہی عام ہے۔
3۔ مکتب فراہی مذکورہ امکان اس لیے مانتا ہے کہ وہ انسانوں میں غلطی کا امکان مانتا ہے، نہ کہ کلام میں احتمال کا، کہ قطعیت ہی سبجیکٹو ہو جائے۔ انسانوں میں سے غلطی کا امکان اگر ختم ہو جائے تو پھر یقیناًمکتب فراہی اس امکان سے بھی انکار کر دے گا۔یہ بالکل سادہ سی حقیقت کا اظہار ہے۔ پر آئیے اسے ایک اور زاویے سے بھی دیکھ لیتے ہیں۔
کوئی کلام جو بالکل چھوٹے بچوں کے لیے معصوم سے جملوں میں نہ ترتیب دیا گیا ہو، بڑوں کے لیے مرتب کیا گیا ہو، ادبی ذوق رکھنے والوں کو متاثر کرنا بھی اس کے مقاصد تشکیل میں سے ہو، زندگی کے اہم معاملات پر گویا ہو، اپنے فہم کے لیے قارئین سے غور و خوض کا طلبگار تو ہوتا ہی ہے۔ تو جب غور و خوض کسی کلام کے عوامل فہم میں سے ہو تو اس امکان کو بھلا کون رد کر سکتا ہے کہ کوئی شخص غور و تفکر کا حق نہیں بھی ادا کرے گا؟ یعنی یہ تو منطقی ہے کہ اگر کوئی قلت تدبر یا قلت فہم کا مظاہرہ کرے گا تو ممکن ہے، کلام کا مدعا متکلم کے منشا کے علاوہ کچھ اور متعین کرنے پر اکتفا کر بیٹھے۔ پر کیا ایسا کرنے سے کلام ظنی ہو جایا کرتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اس لیے یہ تو کوئی لائق التفات رائے نہیں۔ پر یہ قطعی ہی کو ظنی کر دینے والی بات پر ذرا مزید غور کر لیتے ہیں۔ یعنی اصول یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جب بھی کبھی کسی حقیقت کے متعلق اگر سب لوگ ایک ہی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں تو بجائے اس کے کہ یہ دیکھا جائے کہ کیا جس محقق نے اختلاف کیا ہے، اس نے تحقیق کا حق ادا کیا ہے کہ نہیں، یہ اس بات کا اشاریہ شمار کر لینا چاہیے کہ حقیقت ہی دراصل قطعی نہیں؟ ما لکم کیف تحکمون! اگر کسی شے کے قطعی ہونے کے لیے سب محققین کا اتفاق ضروری ہوتا تو پھر نہ اللہ کا ایک ہونا قطعی ہے اور نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول اللہ ہونا۔ آپ کی کسی انتہائی سادہ لکھی ہوئی عبارت سے آپ کا اسکول میں پڑھنے والا بیٹا بیٹی غلط مدعا اخذ کر لے تو عبارت کا ظنی ہو جانا لازم؟انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر روز بحث ہو رہی ہوتی ہے کہ اس کا مدعا اِس نے ٹھیک سمجھا ہے یا اس نے۔ ایک وکیل پورے رسوخ سے ایک رائے کا حامی ہوتا ہے اور دوسرا دوسری۔ پر کوئی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ دو وکیل مختلف رائے رکھ رہے ہیں، اس لیے لازماً قانون ہی ظنی الدلالۃ ہو گیا ہے۔ آہ! یہ اعزاز قرآنِ مجید ہی کے حصے میں آنا تھا۔
میرا ہمدردانہ مشورہ ہو گا کہ 'subjectivity' اور 'objectivity' طے کرنے کے لیے 'headcount' کا طریقہ ترک کر دیں، ورنہ دنیا میں کچھ بھی قطعی نہیں بچے گا۔ اور جو بچے گا وہ بس بے سود و بچگانہ ہی ہو گا۔ الغرض، کلام کے مدعا میں اختلاف کرنا تحقیق کا بھی نقص ہوتا ہے، نہ کہ ہمیشہ کلام کا۔
4۔ یہ عنداللہ اور عندالناس کی تقسیم بھی ناقابل فہم ہے، اور معلوم نہیں کی کس نے ہے۔ کم سے کم فراہی، اصلاحی اور غامدی صاحب نے تو نہیں۔ یہ تقسیم ہی مضحکہ خیز ہے۔ قطعیت، کلام کی صفت ہوتی ہے۔
5۔ پس یہ سوال بھی پھر نہیں رہتا، کیونکہ سارا ہی کلام قطعی ہے۔ تاہم، فہم قطعی نہیں ہوتا، یہ بھی بڑی سادہ حقیقت کا اظہار ہے۔ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ چونکہ انسان کے فہم میں غلطی کا امکان بہر حال ماننا پڑتا ہے، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی محقق نے جو سمجھا ہے، وہ غلطی سے لازماً پاک ہی ہے۔ اس سے سبجیکٹوٹی پر استدلال کیسے درست ہو گیا؟ اگر غلطی کا امکان مان لینے سے موضوعیت آ جاتی ہے تو پھر دنیا کی ہر حقیقت سبجیکٹو ہی ہے۔ ایسا ظاہر ہے کہ نہیں ہے!
6۔ یہاں بھی وہی عندا للہ اور عندالناس کی مغالطہ انگیز اصطلاحات۔ تاہم، امید ہے کہ یہ واضح ہو چکا ہو گا کہ اس تقسیم کا مکتب فراہی سے کوئی تعلق نہیں۔ پس میزان اور فرقان اس کلامِ پاک کی اپنی صفات ہیں۔ اور اگر فہم میں غلطی کے امکان کو مان لینے سے اس کی یہ صفات مجروح ہوتی ہیں تو بتایا جائے کہ کیسے؟
اختتام سے پہلے میں ایک معصوم سا سوال کرنا چاہوں گا۔ یہ سوال یقیناًاور لوگوں کے ذہنوں میں بھی پیدا ہوتا ہو گا، اس لیے پوچھ رہا ہوں۔ چونکہ نقد کرنے والے حضرات اہل علم یہ رائے تو رکھتے نہیں کہ کلام بس ظنی الدلالۃ ہی ہو سکتا ہے۔ وہ تو یہ مانتے ہیں کہ کلام قطعی بھی ہوتا ہے اور ظنی بھی، اسی لیے قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے متعلق مصر ہیں کہ اس کا کچھ حصہ قطعی ہے اور کچھ ظنی۔ اس لیے ان سے بس اب یہ سوال پوچھنا ہے کہ انہوں نے یہ جو انتہائی دلیری دکھا کر مالک ارض و سما کے کلام کو ظنی کہنے کی جرات کی ہے، وہ اس کی وجہ کیا بتاتے ہیں؟ کیونکہ منطقی اعتبار سے اس کی وجہ بس انہی میں سے ایک ہو سکتی ہے:
1۔ (معاذاللہ) اللہ تعالیٰ کو قطعی کلام کرنا نہیں آتا تھا، یا وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ کلام لوگوں کے لیے ظنی ہو جائے گا۔
2۔ انسانی زبان و بیان کی کمزوری کے سبب جس حصے کو اللہ تعالیٰ نے ظنی بنایا، وہ درحقیقت قطعی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
3۔ اللہ تعالی نے ارادتاً کچھ حصے کو اس لیے ظنی رہنے دیا:
ا۔ تا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت کر کے اسے قطعی بنا سکیں۔
ب۔ تاکہ نبی بھی اسے ظنی چھوڑ جائیں اور امت کی آزمائش ہو سکے۔
ان میں سے جو نکتہ وہ اختیار کریں گے، پھر اس سے تعرض کر لیں گے۔ اور پہلا نکتہ محض منطقی طور پر درج کیا ہے، ظاہر ہے کوئی مؤمن تو یہ اعتقاد رکھ نہیں سکتا۔ پر مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ سارے راستے ادھر ہی لیِڈ کرتے ہیں، بس لوگوں نے اس بارے غور نہیں کیا۔
جہاں تک مکتب فراہی کی بات ہے، ہم اپنے رب کے کلام کے متعلق یہ جسارت کبھی تصور نہیں کر سکتے کہ اس کے کسی حصے کو بھی ظنی کہہ بیٹھیں۔ ہم ہر نقص اور کمزوری بلاخوفِ تردید انسانوں کی ہی جانب تسلیم کرتے ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز کیا ہے؟

محمد عرفان ندیم

یہ آئیڈیا ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کا تھا اور اسے عملی جامہ ڈاکٹر ماہان مرزا نے پہنچایا ۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر ماہان مرزا دونوں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں اور امریکی ریاست انڈیانا کی یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم سے منسلک ہیں۔
ڈاکٹر ابرہیم موسیٰ کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے۔ ان کے آبا ؤ اجداد انڈیا کے شہر گجرات سے ہجرت کر کے جنوبی افریقہ چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کا بچپن جنوبی افریقہ ہی میں گزرا ۔یہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے جب انہیں اسلامک اسٹڈیز کے مضمون میں دلچسپی پیدا ہوئی ۔ ایک دن کسی کلاس فیلو نے کلاس میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ اسلام ایک غلط اور جھوٹا مذہب ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا تجسس بڑھا تو یہ امام مسجد کے پاس پہنچ گئے ۔ یہاں تشفی نہ ہوئی تو پہلے تبلیغی جماعت اور پھر مختلف اسکالرز سے ملے، لیکن تشنگی ابھی باقی تھی۔ چنانچہ انہوں نے خود دینی علوم حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا ۔ یہ دینی علوم حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دینی مدارس میں آنا چاہتے ،تھے لیکن گھروالوں کا اصرار تھا کہ انہیں انڈیا جانا چاہیے۔ چنانچہ یہ ندوۃ العلماء لکھنو پہنچ گئے ، یہاں کچھ عرصے تک تعلیم حاصل کی اور پھر دار العلوم دیوبند چلے گئے ۔ وہاں مختلف اساتذہ سے استفادہ کیااور قاری محمد طیب کی محفلوں میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ۔ تقریباً چھ سال تک انہوں نے مدارس میں رہ کر رسمی دینی تعلیم حاصل کی،کچھ عرصہ کے لیے کراچی بھی تشریف لائے اور اس طرح ان کی دینی تعلیم کا ایک مرحلہ مکمل ہوا ۔ 
تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہ دوبارہ جنوبی افریقہ چلے گئے ،یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا، جرنلز م میں ماسٹر کیا اور صحافت کو بطور پیشہ جائن کر لیا ۔کچھ عرصہ تک جنوبی افریقہ میں ہی صحافت کرتے رہے اور ساتھ پی ایچ ڈی بھی مکمل کر لی ۔ اس کے بعد یہ امریکہ منتقل ہوئے اور مختلف اداروں سے ہوتے ہوئے یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم پہنچ گئے ۔ یہ گزشتہ بیس سالوں سے امریکہ میں ہیں اور امریکہ میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسروں میں ان کا نام ٹاپ پر ہے ۔ یہ ان چند گنے چنے اسکالرز میں سے ہیں جو مغرب میں رہ کر اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کر رہے ہیں ۔ یہ امریکہ میں دینی مدارس کے وکیل سمجھے جاتے ہیں اور یہ مختلف فورمز پر دینی مدارس کا دفا ع کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ خود بھی اپنے آپ کو مدارس کا ایڈووکیٹ کہتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔
چونکہ یہ خود دینی مدارس سے گزر کر گئے ہیں، اس لیے انہوں نے 2015میں دینی مدارس کے حوالے سے ایک کتاب لکھی جس میں مدارس کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت اور افادیت پر بھی بات کی ۔ مغرب میں اس کتاب کو خوب پزیرائی ملی اور وہاں کے دانشوروں اور سول سوسائٹی کے دینی مدارس کے بارے میں جو تحفظات اور خدشات تھے، وہ کافی حد تک کم ہوئے ۔کچھ عرصہ پہلے انڈیا کے ڈاکٹر وارث مظہری نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا اور اب پاکستان میں یہ ترجمہ الشریعہ اکادمی اور اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے اشتراک سے شائع ہوا ہے۔ 21 دسمبر کو اسلام آباد میں اس کتاب کی تقریب رونمائی تھی جس میں ڈاکٹر ابرہیم موسیٰ اور ڈاکٹر ماہان مرزا دونوں تشریف لائے تھے۔ یہ دونوں حضرات تین دن کے دورے پر پاکستان آئے تھے ، اسلام آباد میں تقریب رونمائی کے بعد مختلف یونیورسٹیز میں لیکچرز، سیمینارز اور پینل ڈسکشن ہوئی اور 24دسمبر کو یہ قطر کے لیے روانہ ہوگئے۔ 
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کو مدرسہ ڈسکورس کا خیال کیسے آیا، اس کی طرف آنے سے پہلے میں ڈاکٹر ماہان مرزا کی طرف جانا چاہتا ہوں ۔ 
ڈاکٹر ماہان مرز ا کا تعلق اسلام آباد پاکستان سے ہے۔ یہ کافی عرصہ پہلے امریکہ منتقل ہو ئے ، بی ایس میکینکل انجینئرنگ میں کیا اور اس کے بعد یہ اسلامک اسٹڈیز کی طرف آ گئے۔ یہ ییل یونیورسٹی امریکہ سے پی ایچ ڈی ہیں ، کچھ عرصہ تک کیلی فورنیا کے زیتونہ کالج سے منسلک رہے اور آج کل یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں پروفیسر آف پریکٹس ہیں ۔ اس کے ساتھ یہ مدرسہ ڈسکورس کورس کے بھی ڈائریکٹر ہیں اور بڑی مہارت اور دانشمندی سے اس کو ر س کو چلا رہے ہیں ۔
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ جس یونیورسٹی سے وابستہ ہیں، بنیادی طور پر یہ کیتھولک یونیورسٹی ہے ۔ یہاں ڈاکٹر صاحب کا رابطہ جان ٹیمپلٹن فاؤنڈیشن سے ہوا۔ یہ فاؤنڈیشن سائنس اور مذہب کے باہمی تصادم اور مذہب اور سیکولرزم کے مسائل کو افہام وتفہیم سے حل کرنے پر کام کر رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو کچھ اسکالرشپس کی آفر ہوئی تو انہوں نے مدرسہ ڈسکورس کورس کا آئیڈیا پیش کر دیا۔ آئیڈیا یہ تھا کہ انڈیا کے مدارس کے وہ فارغ التحصیل طلباء جو گریجویٹ ہیں اور عربی اور انگلش پر مناسب عبور رکھتے ہیں، انہیں آن لائن کورس شروع کروایا جائے جس میں انہیں جدید علم الکلام کے حوالے سے مناسب تربیت دی جائے اور جدید سائنس نے مذہب کے حوالے سے جو چیلنجز اور سوالات کھڑے کیے ہیں، انہیں رسپانڈ کیا جائے ۔ مزید یہ کہ عقائد کے علاوہ فروعی مسائل میں امکانی حد تک ایسی تعبیر پیش کی جائے جو موجودہ زمانے میں قابل قبول ہو۔
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اپنی مصروفیات کی بنا پر اس پرو جیکٹ کو وقت نہیں دے پائے، چنانچہ انہوں نے اپنے کولیگ ڈاکٹر ماہان مرزا کو ہائر کر لیا ۔ ڈاکٹر ماہان مرزا کا تعلق پاکستان سے تھا، لہٰذا انہوں نے پاکستانی اسٹوڈنٹس کو بھی اس کورس میں شا مل کرنے کا ارادہ کر لیا ۔ اس سال فروری 2017میں اس کورس کا پہلا سمسٹر شروع ہوا اور انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں سے ٹیسٹ اور انٹر ویو کے بعد پندرہ پندرہ اسٹوڈنٹس کو منتخب کیا گیا ۔ ہفتے میں ایک مقررہ دن پر کلاس ہوتی ہے۔ تمام اسٹوڈنٹس مقررہ وقت پر آن لائن ہو جاتے ہیں ، ٹیکسٹ کو پڑھا جاتا ہے ،ڈسکشن ہوتی ہے، سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور تشنہ سوالوں کے ساتھ کلاس ختم ہو جاتی ہے ۔ کلاس میں جو ٹیکسٹ پڑھنا ہوتا ہے، ایک ہفتہ پہلے اسٹوڈنٹس کو بھیج دیا جاتا ہے جسے وہ پڑھ کر کلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ اسٹوڈنٹس کو مناسب لیپ ٹاپ اور نیٹ پیکچ بھی دیا گیا ہے تاکہ تعلیم کا یہ عمل کسی تعطل کے بغیر جاری رہے۔
انڈیا میں لیڈ فیکلٹی کے فرائض ڈاکٹر وارث مظہری صاحب سرانجام دے رہے ہیں۔ ٹیسٹ و انٹر ویو سے لے کر کورس کے بعض حصوں کی تدریس ان کی ذمہ داری ہے ۔ یہ دار العلوم دیوبندسے فارغ التحصیل ہیں اور ترجمان دار العلوم کے مدیر بھی رہ چکے ہیں، علی گڑھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں اور اسی یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں۔ پاکستان میں یہ ذمہ داری الشریعہ کے مدیر حافظ عمار خان ناصر صاحب سرا نجام دے رہے ہیں۔
عمار خان ناصر نامور اسلامی اسکالر مولانا زاہد الراشدی کے صاحبزادے اور مولانا سرفرازخان صفدر کے پوتے ہیں۔ پاکستان کے علمی حلقوں خصوصاً روایتی مذہبی حلقوں میں اپنی بعض انفرادی آرا اور روایت سے ہٹ کر چلنے کی وجہ سے متنازع حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ روایتی مذہبی حلقہ ان کے دینی اور خاندانی پس منظر کی وجہ سے ان سے یہ توقع نہیں رکھتا، لہٰذا تحفظات اور خدشات کی وسیع خلیج جانبین میں حائل ہوگئی ہے۔مجھے ذاتی طور پر عمار خان صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے، یونیورسٹی سطح پر ا ن سے تلمذ کی نسبت بھی رہی ہے۔ تحفظات کے باوجود میرا خیال ہے کہ ان کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ میرا ماننا یہ بھی ہے کہ محترم موصوف کو بھی معاملات کی نزاکت کا احساس ہونا چاہیے۔ ایک تو ان کا دینی و خاندانی پس منظراور دوسری طرف اگر وہ روایت کو روندنا چاہتے ہیں تو سر پر اپنے بڑوں اور بزرگوں کا سایہ بھی چاہیے۔ بڑوں کے زیر سایہ اور ان کو اعتماد میں لے کر جو کام کیا جائے گا، اس کے نتائج اور فوائد و ثمرات اس سے کہیں زیاد ہ اور دیر پا ہوں گے جو وہ انفرادی طور پر حاصل کر پا رہے ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز کیوں ضروری تھا اور اس کی اہمیت و افادیت کیا ہے؟ اس سے پہلے آپ یہ واقعہ سن لیں۔ 
یہ دونوں پی ایچ ڈی کی اسٹوڈنٹ تھیں اور امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں ۔ ان کا آبائی تعلق لاہور سے تھا اور ا ن دنوں یہ لاہور آئی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک میرے دوست ناصر باجوہ کی صاحبزادی تھیں۔ ناصر باجوہ پاکستان میں انٹر نیشنل میڈیا کا بڑا نام ہیں، یہ وائس آف جرمنی سے وابستہ ہیں اور کئی پاکستانی چینلز میں بھی کام کر رہے ہیں۔ ایک دن ان کا فون آیا کہ میری بیٹی اور اس کی چند دوستوں کا ایک گروپ ہے ،یہ سب سائنس کی سٹوڈنٹس ہیں ، ان کے ذہن میں اسلام کے بارے میں چند سوالات ہیں اور وہ اپنے سوالات کلیئر کرنا چاہتی ہیں ۔ 
اس سلسلے میں انہیں کسی اسکالر کی تلاش تھی ، مولانا طارق جمیل صاحب سے رابطہ کیا گیا تو وہ ملک سے باہر تھے ۔ ایک دو اور مولانا حضرات سے بات ہوئی تو انہوں نے معذرت کر لی۔ بالآخر لاہور کی ایک یونیورسٹی کے اسلامیات کے پروفیسر سے بات ہو گئی۔ وہ گھر تشریف لائے، اسٹوڈنٹس نے سوالا ت شروع کر دیے۔ یہ پی ایچ ڈی لیول کی اسٹوڈنٹ تھیں۔ اس سے آپ ان کے سوالات کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ ان کے سوالات کچھ اس طرح کے تھے کہ ہم خدا کو کیوں مانیں جبکہ جدید سائنس یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ کائنات کا نظام چند متعین قوانین کے تحت چل رہا ہے اور اس میں خدا کا کوئی کر دار نہیں۔ اگر مذہب کو ماننا ہی ہے تو دنیا میں مختلف مذاہب کیوں ہیں؟ ان سب مذاہب کو ملا کر ایک انٹر نیشنل مذہب کیوں تشکیل نہیں دیا جا سکتا؟ ہمیں عبادت کا حکم کیوں دیا گیا ہے، ہمارے نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے سے اللہ کو کیا فائدہ ہوتا ہے اور اگر ہم نہیں کرتے تو اللہ کو کیا نقصان ہے؟ اگر اللہ رحمان اور رحیم ہے تو اپنے بندوں کو جہنم میں کیوں ڈالے گا؟ اللہ نے قرآن میں زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے بارے میں جو حقائق بیان کیے ہیں، جدید سائنس نے انہیں غلط ثابت کر دیا ہے، ایسا کیوں کیا ؟ پروفیسر صاحب نے اپنے علم اور فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہے اور محفل ختم ہو گئی ۔ 
یہ ایک مثال ہے، ورنہ ہماری نوجوان نسل میں سے اکثر اس طرح کے سوالات سے دو چار ہیں اور ان سوالات نے ان کے ذہنوں میں طوفان برپا کر رکھا ہے ، یہ سوالات کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟ اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے ۔ دنیا کی گزشتہ تین چار سو سالہ تاریخ میں سیکڑوں نئے علوم و فنون متعارف ہوئے اور یہ سارے علوم مغرب نے متعارف کروائے ہیں۔ آج بھی مغربی یونیورسٹیوں میں پانچ پانچ سو ماسٹر ز ڈگری پروگرام چل رہے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں کوئی یونیورسٹی بمشکل ہی سو پروگرام آفر کر رہی ہو گی۔ یہ سارے علوم وفنون نیچرل سائنسز اور سوشل سائنسز پر مشتمل ہیں اور یہ مغرب کے راستے سے ہم تک پہنچے ہیں۔ مغربی فکر کا خدا،کائنات ، سماج اور انسان کے بارے میں اپنا ایک نقطہ نظر ہے اور یہ سارے علوم اسی خاص نقطہ نظر اور تناظر میں پروان چڑھے ہیں۔ اب ہمارے نوجوان جب یہ علوم وفنون یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں تو اس کا ٹکراؤ ان کے ایمان اور عقیدے سے ہوتا ہے اور یہیں سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ اب سوالات تو اٹھ رہے ہیں، لیکن انہیں رسپانڈ نہیں کیا جا رہا اوراس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے، اس کا شاید ہمیں ابھی احساس نہیں ہو پا رہا۔
یہ سوالات ماضی میں بھی تھے، لیکن تب صورتحال مختلف تھی۔ ایک تو ان سوالات کی نوعیت مختلف تھی، دوسرا انہیں رسپانڈ کرنے کے لیے پورا علم الکلام موجود تھا۔ علم الکلام کیا تھا اور یہ کیسے وجود میں آیا؟ یہ حقیقت بھی دلچسپ ہے۔ آسان لفظوں میں آپ علم الکلام کو فلسفے کی اسلامی شاخ کا نام دے سکتے ہیں۔ ابتدائی صدیوں میں دین اسلام جب جزیرۂ عرب سے نکل کر عجم میں پھیلا تو اس کا سامنا وہاں کے مقامی مذاہب اور فلسفوں سے ہوا۔ یہ دور یونانی فلسفے کے عروج کا دور تھا۔ایک طرف یونانی فلسفہ اور دوسری طرف ہندو متھا لوجی نے اسلام کے سامنے خدا، کائنات ،سماج اور انسان کے بارے میں بہت سارے سوالات کھڑے کر دیے تھے ۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کے اندر بھی کچھ ایسے گروہ پیدا ہو گئے تھے جنہوں نے کائنات ، خدا ، قرآن ، معجزات ، بندے اور خدا کے تعلق اور مرتکب کبیرہ کے بارے میں بحث کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ لوگ اہل سنت سے ہٹ کر ایک الگ روش پر چل نکلے اور معتزلہ کہلائے۔ اسلامی علمی روایت میں سب سے پہلے انہی لوگوں نے عقلیت کا نعرہ لگایا اور عقلی بنیادوں پر احکام و مسائل کی تشریح کرنے کی کوشش کی۔
ان سے پہلے فقہی مسائل میں بحث و مباحثہ ہوتا تھا، لیکن عقائد پر بات نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے عقائد پر بھی بات شروع کر دی اور یوں اہل سنت کو یونانی فلسفے ، ہندو متھالوجی کے ساتھ معتزلہ کی کلامی مباحث کا بھی جواب دینا پڑا۔ ان سارے چیلنجز اور سوالات کو رسپانڈ کرنے کے لیے جو علمی روایت قائم ہوئی، اسے علم الکلام کا نام دیا گیا اور اس فن کے ماہرین متکلمین کہلائے ۔ اہل سنت کی طرف سے اشاعرہ اور ماتریدیہ نے اس میدان کو سنبھالا اور اپنے وقت اور زمانے کے سوالات اور چیلنجز کو بہترین طریقے سے رسپانڈ کیا ۔ 
گزشتہ تین چار صدیوں سے مسلمانوں پر جو علمی و سیاسی زوال آیا، اس کے اثرات علم الکلام پر بھی پڑے ۔ اگرچہ برصغیر ، ایران اور مصر میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے طور پر علم الکلام کو زندہ رکھنے کی کوشش کی اور اپنے دور کے سوالات کا جواب دیا، لیکن یہ انفراد ی کوششیں ذیادہ دیر تک نہ چل سکیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جدید سائنس اور فلسفے نے سوالات کی نوعیت بدل ڈالی ہے۔ اکیسویں صدی میں جدید سائنس اپنی معراج پر کھڑی ہے، انسانی فہم وشعور ارتقاء کی منازل طے کرتا ہوا بہت آگے جا چکا ہے۔ جدید سائنس نے قدیم متھالوجی اور ایمان و عقیدے کے باب میں بہت سارے نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور سوشل اور نیچرل سائنسز کے دائرے میں سوالات کا ایک طوفان ہے جو مسلسل بلند ہوتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے اور نوجوان نسل اس طوفان میں غرق ہو رہی ہے، لیکن اسے کہیں سے ریلیف نہیں مل رہا ۔
اس وقت جو سوالات پیدا ہو رہے ہیں، وہ دو طرح کے ہیں۔ ایک ، وہ سوالات جو غیر مسلموں کی طرف سے سامنے آ رہے ہیں۔ اس میں مستشرقین سے لے کر جدید سائنس اور جدید مغربی فکر و فلسفہ شامل ہیں۔ دوسرے، وہ سوالات جو خود مسلمانوں کے اپنے ذہنوں میں پرورش پا رہے ہیں اور ان کے ذہنوں میں الجھاؤ اور وسوسے پیدا کر رہے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک سائنس کا اسٹوڈنٹ یا ایک عام مسلمان جب ان سوالا ت کو لے کر اپنے محلے کی مسجدیا امام کے پاس جاتا ہے تو اسے تسلی بخش جواب نہیں ملتا اور اس کی تشنگی بر قرار رہتی ہے۔ ہمارے علماء ،قراء حضرات اور ائمہ مساجد کے ایمان و تقویٰ میں کو ئی شک نہیں۔ ان کی علمی پختگی ، دینی تصلب اور خشیت الٰہی میں کسی کو شبہ نہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان سوالات کا جواب نہیں دے پا رہے۔ ہمارے مدارس میں آج جو فلسفہ اور علم الکلام پڑھایا جا رہا ہے، وہ وہی ہے جو قدیم یونانی فلسفے اور معتزلہ کے سوالات کو رسپانڈ کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ بلاشبہ یہ اپنے دور کا بہترین علم الکلام تھا، لیکن آج اس سے کام نہیں چلے گا ۔ہمیںآگے بڑھ کر جدید سائنس، انسانی شعور کے ارتقاء، نئے علوم وفنون اور جدید مغربی فکر و فلسفے کو مد نظر رکھ کرنئی تھیا لوجی یا نیا علم الکلام ڈویلپ کرنا پڑے گا۔ 
ہم اس وقت اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق انسان نے اس زمین پر پہلا قدم دس ہزار سال پہلے رکھا تھا، ان میں سے پہلے پانچ ہزار سالوں کے بارے میں انسانی علم خاموش ہے ۔ اگر کچھ بیان کیا جاتا ہے تو وہ محض ظن و تخمین ہے ۔ آخری پانچ ہزار سالوں کی تاریخ کسی نہ کسی حد تک ہمارے پاس محفوظ حالت میں موجود ہے ۔ ان پانچ ہزار سالوں میں دنیا میں تقریباً بائیس نامور تہذیبوں نے جنم لیا ، اسلامی تہذیب بھی ان میں سے ایک ہے ۔ان میں سے ہر تہذیب ماقبل تہذیب سے اپنے تجربات ومشاہدات کی بنیاد پر ارتقاء اور فہم وشعور کی اگلی منزل پر کھڑی ہوتی تھی۔ اسلامی تہذیب نے انسانی فہم و شعور کوجومہمیز دی، پہلی تہذیبوں میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔شاید پہلی تمام تہذیبوں نے مل کرانسانی فہم و شعور کووہ عروج نہیں بخشا جواکیلے اسلامی تہذیب نے انسان کو عطا کیا۔
اسلامی تہذیب نے تسخیر کائنات کا نظریہ پیش کر کے آزادانہ غور فکر اور تجربات و مشاہدات کا راستہ ہموار کیا ۔ اس سے قبل جن چیزوں کو مقدس مان کر ان کی پوجا کی جاتی تھی، اسلامی تہذیب نے اس پر غور و فکر شروع کر دیا اور یہی عمل بعد میں جدید سائنس کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ ارتقاء اور انسانی فہم و شعور کوآگے بڑھنے سے روکا نہیں جا سکتا، لہٰذا ہمیںآگے بڑھ کر اس کا حل نکالنا پڑے گا۔ آج سے چودہ سو سال پہلے انسانی شعور جس جگہ پر کھڑا تھا، آج ترقی کرتا ہوا بہت آگے نکل چکا ہے۔ سائنس نے کائنات کے ان گنت راز افشاں کر دیے ہیں اور اکیسویں صدی کی مغربی تہذیب اور مغربی فکر و فلسفے نے آدھی دنیا فتح کر لی ہے۔ اب مسئلہ یہ پیدا ہو رہا ہے کہ اسلامی شریعت جو اس وقت کے انسانی فہم کو بنیاد بنا کر نازل ہوئی تھی، موجودہ دور میں ان کی تفہیم کے حوالے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ جدید علوم، جدید سائنس اورجدید مغربی فکر و فلسفہ ان کے بالکل مخالف پوزیشن پر کھڑا ہے اور ان پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے ۔ یہ حملے اس قدر شدید اور خطرناک ہیں کہ ہمارے بعض مسلمان بھائی ان کی زد میں آ کر ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ماضی میں یہ حملے یونانی فلسفے اور مقامی مذاہب اور متھالوجی کی طرف سے ہوتے تھے، لیکن ایک تو اسلامی تہذیب غالب تھی اور دوسرا انہیں رسپانڈ کرنے کے لیے پورا علم الکلام موجود تھا۔ لیکن آج ہمارا مسئلہ تھوڑا مختلف ہے ۔ ہمارے سامنے جو محاذ ہے، اس میں جدید علوم ، جدید سائنس اور جدید مغربی فکر مورچہ زن ہے لیکن ہم آج بھی یونانی فلسفے اور قدیم متھالوجی کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں ۔ اب یہ جو خلیج پیدا ہو رہا ہے، اس کا حل کیا ہے اور ہم اس خلیج کو کیسے پر کر سکتے ہیں؟ اس کے لیے ہمارے پاس دو آپشن ہیں ۔ ایک، ہم نیو تھیا لوجی یا علم الکلام کے نام سے ایک کورس ڈیزائن کریں اور اسے اپنی یونیورسٹیوں میں پڑھانا شروع کر دیں ۔ میرے خیال میں یہ آپشن ممکن نہیں کیونکہ نئے علم الکلام کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے قدیم کلامی مباحث اور دینی نصوص پر گہرا عبور ہونا ضروری ہے، اس کے لیے عربی سے مناسب حد تک واقفیت بھی لازمی شرط ہے اور ہمارا یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ ان تمام چیزوں سے ادنیٰ واقفیت بھی نہیں رکھتا ۔ اسے کلامی مباحث سے بھی واقفیت نہیں اور اسے عربی کے معرب اور مبنی کا بھی نہیں پتا، لہٰذا ہم یہ آپشن استعمال نہیں کر سکتے ۔ اگر کرتے بھی ہیں تو اس سے نتئج حاصل نہیں کر سکتے ۔ 
ہمارے پاس دوسرا آپشن دینی مدارس ہیں۔ دینی مدارس میں پہلے ہی علم الکلام کے نام سے ایک سبجیکٹ داخل نصاب ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ وہی علم الکلام ہے جو قدیم یونانی فلسفے، مقامی مذاہب اور معتزلہ کو رسپانڈ کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔جدید علوم وفنون، جدید سائنس اور جدید مغربی فکر و فلسفہ کیا کہہ رہے ہیں اور کون سے سوالات کھڑے کر رہے ہیں، اس حوالے سے مباحث اس میں شامل نہیں ۔ صرف تھوڑی سے ترمیم و اضافہ سے اس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ مدارس کے ذمہ داران ایک کمیٹی تشکیل دیں، یہ کمیٹی مسائل کا جائزہ لے ، اس کے لیے ایک کورس مرتب کرے اوراسے نصاب کا حصہ بنادے ۔ مدارس کے طلباء جو قدیم کلامی مباحث سے بھی واقف ہیں ، دینی نصوص پر بھی انہیں عبور حاصل ہے اور عربی سے بھی انہیں شناسائی ہے ،یہ طلباء محض تھوڑی سی محنت سے اس قابل ہو سکیں گے کہ اس خلیج کو پر کر سکیں ۔
اس سے بھی زیادہ بہتر صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے ہاں مدارس میں کئی قسم کے تخصصات چل رہے ہیں ،ان میں ایک تخصص جدید مغربی فکر و فلسفے کے نام سے شروع کر دیا جائے۔ اس میں ان طلباء کی ترجیح دی جائے جو درس نظامی کے ساتھ انگلش پر بھی مناسب حد تک عبور رکھتے ہوں تاکہ وہ اصل ماخذات سے اس فکر اور فلسفے کو سمجھ کر اس کو رسپانڈ کر سکیں ۔ یہ کام آج نہیں تو کل بہر حال ارباب مدارس کو کرنا ہو گا اور یہ ان کی دینی و ملی ذمہ داری ہے ۔ 
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر ماہان مرزانے مدرسہ ڈسکورس شروع کر کے فرض کفایہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں اس چیز کا احساس کیسے ہوا؟ اس کی وجہ ان کا وہ ماحول اور سوسائٹی ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر نئی چیز کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح کی فضا اس کورس کے بارے میں بھی کچھ حلقوں میں پائی جاتی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں چیزوں کو وسیع تر تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ دار العلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے پڑھے ہوئے ہیں، لیکن اپنے بعض افکار کی وجہ سے مین اسٹریم میں قابل قبول نہیں۔ اس کی وجہ شاید ان کا وہ پس منظر اور تناظر ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں۔ تناظر کے بدلنے سے دیکھنے کا زاویہ بھی بدل جاتا ہے۔ وہ مغرب میں جس سوسائٹی اور معاشرے میں رہ رہے ہیں، ان کی تفہیم اور ہماری تفہیم میں فرق کا آجانا ایک لازمی امر ہے اور ہمیں اس بات کو کھلے دل سے قبو ل کرنا چاہیے۔ ہاں، اگر یہ تفہیم بنیادی عقائد اور متعین نصوص کے باب میں ہوتو الگ بات ہے ۔ 
جہاں تک میں ڈاکٹر صاحب کو جانتا ہوں، ان کی نیت میں کوئی شک نہیں ، وہ خود مدارس کے پڑھے ہوئے ہیں اور ان کاماننا ہے کہ یہ خلیج صرف مدارس کے طلباء ہی پر کر سکتے ہیں، اس لیے انہوں نے مدارس کے طلباء سے ہی اس کورس کا آغاز کیا۔ البتہ کورس میں شریک بعض دوست شعوری یا غیر شعوری طور پر مدارس اور ارباب مدارس کے بارے میں غیر متوازن رویہ رکھتے ہیں۔ شاید یہ طرز عمل ٹھیک نہیں ۔ محض تنقیدبرائے تنقید کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ، آپ مثبت سوچ اور مثبت رویے کے ساتھ اپنے حصے کا چراغ جلائیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ آپ کو جس چیز کا احساس ہو چکا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ اس کا احساس ہمارے بڑوں کو بھی ہونا چاہئے تو احسن طریقے سے اپنی بات کو ان تک پہنچانے کی کوشش کریں، قطع نظر اس کے کہ کوئی آپ کی بات سنتا ہے یا نہیں۔کیونکہ ہر نئی بات کہنے والے کو اسی طرح کے طرز عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اور اگر آپ بجائے اپنی بات کو ان تک پہنچانے کے الٹا ان اداروں اور ان افراد پر تنقید شروع کر دیں گے تو اس سے بجائے فائدے کے الٹا نقصان ہو گا اور کورس کے منتظمین کے جو نیک مقاصد ہیں، وہ بھی ہدف تنقید بن جائیں گے اور اس ساری تگ و دو کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔اگر آپ یہ مثبت طرز عمل اختیار کرتے ہیں تو یہ تنقید برائے تنقید سے کہیں زیادہ سود مند ثابت ہو گا۔ 

مدرسہ ڈِسکورسز کا وِنٹر اِنٹنسو ۔ میرے تاثرات

سید مطیع الرحمٰن

مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے سمسٹر کے بعد نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کی جانب سے حمد بن خلیفہ یونیورسٹی دوحہ (قطر) میں ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔ یہ ورکشاپ 25 دسمبر تا 30 دسمبر 2017ء تک جاری رہی۔ 
قطر میں ایک پورا علاقہ ایجو کیشن سٹی کے نام سے موسوم ہے جہاں یونیورسٹیز ، کالجز ،لائبریریز قریب قریب واقع ہیں۔ حمد بن خلیفہ یونیورسٹی بھی اسی علاقے میں ہے۔ یہ یونیورسٹی 2007ء میں قائم کی گئی۔غالباً یہ وہی یونیورسٹی ہے جس کے نظام و نصاب کے لیے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی خدمات لی گئی تھیں۔ہماری ورکشاپ کے دنوں میں یہاں تعطیلات تھیں۔ نہایت خوبصورت کلاس رومز ، اعلیٰ درجے کی سہولیات سے مزین آڈیٹوریم ، لائبریری،شاندار مسجد ، اور بہت ہی بااخلاق اور معاون عملہ موجود تھا۔
ورکشا پ کی ترتیب کچھ یوں تھی کہ پہلاڈیڑھ گھنٹے کا سیشن لیکچر پر مشتمل ہوتا۔ پھر پندرہ منٹ کی بریک کے بعد لیکچر کابقیہ حصہ اور سوال وجواب کی نشست ہوتی۔ اس کے بعد نماز اور دوپہر کا کھانا۔ دوپہر کے کھانے کے لئے بہترین ہوٹلز کا انتخاب کیا گیا، ڈشز اتنی ہوتیں کہ ہر کسی کو اس کی پسند کی ڈش مل جاتی۔ ہوٹل سے دوبارہ یونیورسٹی واپسی ہوتی، پھر ڈسکشن روم میں طلبہ کے چھ یا سات گروپ تشکیل دے دیے جاتے اور انہیں اس دن کے لیکچرکے بنیادی اور اہم نکات پر گفتگوکرنے اور سوالات تیار کرنے کا کام سونپاجاتا۔ اساتذہ اس گروپ ڈسکشن میں خود بھی طلبہ کے ساتھ بیٹھتے اور ان کی گفتگو کو سنتے۔ تما م طلبہ اپنے اپنے نکات، گروپ میں ڈسکس کرتے اور سوالات تیارکرتے جس کا جواب وہی استاذ دیتے جن کا اس دن لیکچر ہوتا۔ گروپس روزانہ کی بنیاد پر نئے بنائے جاتے تاکہ تمام طلبہ کا ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ و مباحثہ ہو سکے اور ایک دوسرے سے خیالات کا تبادلہ زیادہ مفید انداز میں ہو سکے۔ یہ سیشن بھی ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ڈسکشن کے دوران میں مختلف طلبہ کی مختلف آراء نے ذہن کو کئی نئی وسعتوں سے روشناس کرایا اور کئی نئے زوایہ ہائے فکر سامنے آئے۔ اساتذہ باری باری تمام گروپس کے سوالات کے جوابات دیتے۔ اس کے بعد دو گھنٹے کے لیے ہوٹل میں آرام کے لیے لے جایا جاتا۔ شام کے بعد اگلے دن کے لیکچر کی تیاری کے لیے دیے گئے مواد کو پڑھنے اور اس پر غور خوض کاسیشن ہوتا۔ اساتذہ اس ٹاسک میں بھی طلبہ کی ہر طرح کی معاونت کرتے۔اس سیشن کے بعدرات کے کھانے کے لیے کوچ کیا جاتا اور اس کے بعد تقریباً رات آٹھ بجے آرام کے لیے ہوٹل پہنچ جاتے۔
علمی و فکری دنیا میں خلوص اور علمی دیانت دو نہایت جلیل القدر اقدار ہیں جن کے بغیر صراطِ مستقیم پر دو قدم بھی چلنا محال ہے۔ تمام اساتذہ میں ان اقدار کو بدرجہ اتم موجود پایا۔ ان کا ہاں روایت پر بھی گہری نظر موجود ہے اور جدید مباحث و نظریات پر بھی پوری بصیرت۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسہ ڈسکور سز کے ایک سمسٹر کے بعد، اسلامی روایت کے بارے میں خود کو فکری طورپر اعتماد کی فضا میں محسوس کر رہا ہوں۔ ایمان کو شعوری اور فکری طور پر بھی قلب و ذہن میں جاگزیں ہوتا محسوس کر سکتا ہوں۔ اپنی روایت میں جب غزالی، ابن تیمیہ، ابن رشد، ابن حزم اوررازی جیسے عبقر یوں کی منتخب تحریریں نظر سے گزریں تو اسلامی روایت کو نہایت مضبوط فکری بنیادوں پر استوار پایا۔
ڈاکٹر ماہان مرزا جو اس پورے پروگرام کی جان ہیں، نہایت ہی زندہ دل ، خوش مزاج اور خوش دل انسان ہیں۔ پوری تندہی اور چستی سے ہر گام ہمارے ساتھ رہے۔ ہماری حس مزاح کو بھی گدگداتے رہے اور ہمیں ہوٹل ، یونیورسٹی اور دیگر مقررہ جگہوں پر وقت پر پہنچنے کا پابند بھی کرتے رہے۔ سیشنز کے اختتام پر بسوں کی طرف کوچ کرنے کے لیے ان کا نعرہ ’’اِلیَ البَسَّین‘‘ ابھی بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔ الوداعی ڈنر میں ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ نے سر ماہان کے لیے ایک جملے میں ہم سب کی دلی ترجمانی کردی: ?Who can do without Mahan۔ ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا،پھر اس جملے پر سر ماہان کے ایک تبصرے نے پوری محفل کو کشت زعفران بنادیا۔
ایک نہایت قیمتی پہلو اس ورکشا پ کا یہ تھا کہ سیشن کے درمیان چائے اور کافی بریک میں،آڈیٹوریم سے ہوٹل تک ، ڈسکشن روم سے مسجد تک، یہاں تک کہ کھانے کے دوران میں بھی اساتذہ سے کسی بھی موضوع پر سوال کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔ اساتذہ نہایت توجہ سے سوال سنتے اور پوری تفصیل سے جواب دیتے۔ اچھے سوالات کو بعض دفعہ اساتذہ لیکچر یا ڈسکشن سیشن میں تمام طلبہ کے سامنے دہراتے،سراہتے اور اس کے جوابات کی مختلف جہتیں سامنے لاتے۔
میرے نزدیک اس پوری ورکشاپ میں جو مباحث بنیادی اہمیت کے حامل تھے، ان میں مرکزی بحث جدید لسانی مباحث کی تھی اور اسی کے تناظر میں دورِ جدید کی فکری تحدیات کو دیکھا گیا۔ گزشتہ نصف صدی سے ساختیات،پس ساختیات اور مابعد ساختیات کے نظریات و مباحث نے متن کی تفہیم کے نئے نئے زاویے اور نئی نئی جہات متعارف کروائی ہیں جس سے مذہبی متون کے لیے نئی تحدیات سامنے آئی ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر توشی ہیکو ازوتسو کی منتخب تحریر اور پروفیسر ابراہیم موسی کے مضامین زیر بحث آئے جن میں دینی متون کے حوالے سے روایت اور جدید لسانی زاویہ نظر کو بیا ن کیا گیا ہے۔ اسی طر ح سر عمار ناصر نے الفاظ کے حقیقی اور مجازی معانی اور ان کی تعیین کے اصول و قواعد پر سیر حاصل گفتگو فرمائی اور اس پہلو پر خوب روشنی ڈالی کہ زبان اور اہل زبان کے ہاں عمومی طورپر یہ اصول طے شدہ ہوتے ہیں کہ کس مقام پر لفظ کامجازی معنی مراد لیا جا سکتا ہے اور کہاں حقیقی۔ سر وارث مظہری نے بھی اسی پہلو کو زیرِ بحث لاتے ہوئے امام غزالی اورامام ابن تیمیہ کے اصولِ تاویل کو موضوعِ بنایا، خاص طور پر امام غزالی کی "اصول التاویل" کی روشنی میں اہل تاویل کے پانچ گروہوں اور ان کے اصولِ تاویل کا مطالعہ پیش فرمایا۔ اردن سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر رنا دجانی کے ہاں بھی الفاظِ قرآنی کی تاویل کا ایک اطلاق ڈاورن کے نظریہ ارتقا ء اور تخلیقِ آدم کے قرآنی بیانات کے ضمن میں سامنے آیا۔ 
اس ساری گفتگو سے یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ جدید علم اور قدیم متن کے مابین بنیادی مسائل میں اہم ترین مسئلہ متن کی تاویل کے امکانات اور اس کی حدود کا تعین کرنا ہے۔ تاویل کی حدود اور قرآنی الفاظ کے ممکنہ معانی اور اس معانی میں سے جدید دور کے تناظر میں چناؤ اور بقول پروفیسر توشی ہیکو ان الفاظ کے ساخت اور بناوٹ میں شامل اس دور کی ثقافت اور نظریہ کائنات کے بنیادی اجزا ء کا مطالعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وہ بنیاد ی مسئلہ ہے جو اس پوری ورکشا پ کے علمی مکالمے کا محور بنا رہا۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے چند اہم باتیں اگر ملحوظ رکھی جائیں تو اس بحث کے حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے:
ایک بنیادی اصول یہ مدنظر رکھنا ہوگا کہ تاویل کے حوالے سے کوئی بھی ایک اصول ہر ہر آیت پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں مختلف آیات کو مختلف گر وپس میں تقسیم کیاجا ئے اور تمام گرو پس پر الگ اصولِ تطبیق لاگو کرنے کی کوشش کی جائے۔
الفاظ اور ان کے اندر معانی اور اس کی مختلف تعبیرات کے حوالے سے تمدن عر ب،عر ب کا نظریہ حیات و کائنات اور جاہلی شاعری کو مدنظر رکھا جائے۔ بہت سی آیاتِ قرآنی جن کی تفہیم آج محلِ نظر ہے، وہ عرب کے مشرکین کے ہاں بھی اعتراض کی وجہ نہیں بنیں۔
ہماری علمی میراث اور روایت میں موجود اس مسئلہ سے متعلق علمی و فکری مباحث کو خام مال کی طرح لے کر نئی عمارت کھڑی کی جائے۔نہ اپنی روایت سے بے اعتنائی کا رویہ درست ہے اور نہ ہی اسی کے گر د طواف کر نے کا۔ختمِ نبوت کو اقبال اپنے خطبات میں رحمتِ خداوندی قرار دیتے ہیں۔ تاویل کی وسعت کے حوالے سے ہمیں ختم نبوت کی حکمتوں کو سمجھنا ہوگا کہ آخر کیوں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقت میں وحی کا سلسلہ ختم دیا اور چند ہزار فقروں تک محدود کر دیا۔
مذہبی متن اور انسانی ذہن کے مابین تعلق محض تعقلی نہیں، وجدانی بھی ہے۔ ان وجدانی دوائر و جہات کو بھی کھو جنے کی ضرورت ہے جس کے بارے میں واضح اشارے امام غزالی کے ہاں بھی ملتے ہیں۔
تاویل کرتے ہوئے قرآنی احکام کی بنیادی روح کو متاثر نہ کیا جائے۔ یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ قرآنی احکام کی روح بڑی نمایاں اور ظاہرہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ آیاتِ قرآنیہ کی روح نہایت پوشیدہ اور کوئی چیستان ہو جس کی تفہیم جو ئے شیر لانے کے مترادف ہو، بلکہ اس کے علل و مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے متن کی شرح کی نئی جہات متعین کی جائیں۔
ورکشا پ کے اختتام پر الوداعی ڈنر کے موقع پر تمام اساتذہ نے باری باری اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اور نہایت محبت بھرے جذباتی انداز میں طلبہ کو رخصت فرمایا۔اس موقع پر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کی آنکھوں میں مچلتے آنسو صاف دکھائی دے رہے تھے۔اللہ ان تمام اساتذہ کی مساعیِ جمیلہ و عظیمہ اور اخلاص کو قبول فرمائے۔

الشریعہ اکادمی میں اسلامی تاریخ پر کوئز مقابلہ

مولانا محفوظ الرحمٰن

تاریخ کا علم نسل انسانی کی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ تاریخ سے سابقہ اقوام کی سرگزشت معلوم ہوسکتی ہے۔ قرآن کریم نے بھی سابقہ اقوام کے قصوں کوبڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرکے آنے والے لوگوں کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ بنایا ہے۔ ہماری اسلامی تاریخ کا ایک تابناک دورتھاجس سے واقفیت اور اطلاع نئی نسل کو بہتر راستے پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ہماری تاریخ میں ایک دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کاہے جس کوسیرت طیبہ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے بعدخلفاء راشدین کا دور ہے اور پھر خلافت بنوامیہ اورخلافت بنوعباس اور اس کے بعد خلافت عثمانیہ بڑے طمطراق والی خلافتیں گزری ہیں۔ 
سیرت وتاریخ کی اسی اہمیت کے پیش نظر الشریعہ اکادمی میں گزشتہ چند سال سے سیرت اور تاریخ کے موضوع پر کوئز مقابلے منعقد کیے جا رہے ہیں۔ سیرت نبوی کے علاوہ خلفاء اربعہ، حضرت معاویہ، حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرات حسنین کریمین کی زندگیوں پر مقابلے منعقد کیے جا چکے ہیں۔ امسال کوئز مقابلہ کے لیے خلافت بنوامیہ اور خلافت عباسیہ کا موضوع منتخب کیا گیا۔ 
مقابلے کا انعقاد دو مرحلوں میں کیا گیا جس میں شہر کے مختلف مدارس سے طلبہ نے شرکت کی۔ ہرٹیم تین تین شرکاء پرمشتمل تھی۔ مدرسہ ابوایوب انصاری کی ایک ٹیم جبکہ جامعہ حقانیہ، جامعہ مدینۃالعلم، جامعہ دارالعلوم گوجرانوالہ اور الشریعہ اکادمی سے دو دو ٹیمیں شریک ہوئیں۔ مقابلہ کاپہلاسیشن ۱۱ جنوری کو مکمل ہوا جس میں کامیاب ہوکر فائنل مرحلے میں پہنچنے والی آٹھ ٹیموں نے ۱۸ جنوری کو مقابلے کے آخری راؤنڈ میں حصہ لیا۔ مقابلہ ہر لحاظ سے دلچسپ رہا۔ طلبہ کی ان تھک جدوجہداورانتہائی لگن سے کی ہوئی تیاری قابل دادتھی جس میں ہرخلیفہ کی زندگی، کارنامے اور دیگر تاریخی امور زیر بحث لائے گئے۔
مقابلہ میں الشریعہ اکادمی کی ٹیموں نے اول اور سوم جبکہ جامعہ حقانیہ کے طلباء نے دوسری پوزیشن حاصل کرکے میدان جیتا۔ کانٹے دارمقابلہ میں سوالات کے جوابات اتنے بھرپورتھے کہ تقریباًتین دفعہ دو دو ٹیمیں برابر رہیں جن سے مزید سوالات کرکے ایک کوکامیاب قرار دیا جاتا رہا۔ سوالات تیار کرنے اور میزبانی کی ذمہ داری الشریعہ اکادمی کے استاذ مولاناعبدالغنی محمدی نے بخوبی سرانجام دی، جبکہ اکادمی کے دیگراساتذہ اورعملہ نے پروگرام کی کامیابی کے لیے بھرپور محنت کی۔ 
شرکاء کوقیمتی انعامات اورشیلڈز سے نوازاگیا۔ انعامات کی تقریب میں اول آنے والی ٹیم کو۹۰۰۰ روپے مع قیمتی کتب، دوم آنے والی ٹیم کو ۶۰۰۰ روپے مع قیمتی کتب اورسوم آنے والی ٹیم کو۴۵۰۰روپے مع قیمتی کتب دی گئیں۔ انعامات الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹرحضرت مولانا زاہدالراشدی دام مجدہ نے اپنے دست مبارک سے دیے۔ بعد ازاں مولانا زاہد الراشدی مدظلہ نے مختصر گفتگو فرمائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ علماء کرام سب سے زیادہ فن تاریخ میں کمزور شمار ہوتے ہیں، چنانچہ فن تاریخ سے واقفیت کی غرض سے چندسالوں سے اس مقابلے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ الحمد للہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ پورے ذوق سے جاری ہے۔ تاریخ کی اہمیت بیان کرنے کے بعد استاذمحترم مدظلہ نے طلبہ کو دعاؤں سے نوازا۔ طلبہ کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے لیے شہر بھر کے مدارس سے اساتذہ کرام کی ایک بڑی تعداد بھی اس موقع پر موجودتھی۔ اختتامی دعا جامعہ مدینۃ العلم کے بانی ومہتمم مولاناریاض جھنگوی صاحب نے کروائی اور یہ پررونق مجلس حاضرین کے عشائیے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ 

مارچ ۲۰۱۸ء

اسلامی شریعت اور حلالہ / ایک سوال نامہ اور اس کے مختصر جواباتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۰)ڈاکٹر محی الدین غازی
درک ’’درِ ادراک‘‘پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک
دینی مدارس میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائجمولانا مفتی محمد زاہد
موجودہ دور میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تکفیر کی اتھارٹی، علماء یا حکومت؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’پیغام پاکستان‘‘ : پس منظر اور پیش منظرمولانا حافظ عبد الغنی محمدی
تین طلاقوں کا مسئلہڈاکٹر مختار احمد
قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو سمجھنے میں غلطیمحمد ندیم پشاوری
مدرسہ ڈسکورسز : سفر قطر کے احوال و تاثراتمولانا محمد رفیق شنواری
’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘ڈاکٹر عرفان شہزاد

اسلامی شریعت اور حلالہ / ایک سوال نامہ اور اس کے مختصر جوابات

محمد عمار خان ناصر

ہمارے معاشرے میں دین وشریعت کے غلط اور مبنی بر جہالت فہم کے جو مختلف مظاہر پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک، حلالہ کی رسم ہے۔ مروجہ رسم کے مطابق حلالہ کا تصور یہ ہے کہ اگر شوہر، بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اب ان کے اکٹھا رہنے کے جواز کے لیے شرط ہے کہ عورت، عارضی طور پر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے، اس سے جسمانی تعلق قائم کرے اور پھر طلاق لے کر پہلے شوہر کے پاس واپس آ جائے۔ یعنی اس میں دو تین چیزیں پہلے سے طے ہیں: ایک یہ کہ یہ دوسرا نکاح وقتی اور عارضی مدت کی نیت سے ہوگا۔ دوسرا یہ کہ اس کا مقصد ہی پہلے شوہر کے لیے عورت کو حلال کرنا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ اس سارے عمل میں عورت کی مرضی کی کوئی اہمیت نہیں، اسے بس ایک بتایا گیا پروسیجر پورا کر کے بہرحال پہلے شوہر کے پاس واپس آنا ہے۔
اسلامی شریعت میں حلالہ کے اس تصور کی کوئی بنیاد نہیں۔ شریعت میں جو قانون دیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر شوہر دو دفعہ بیوی کو طلاق دینے کے بعد رجوع کر چکا ہو اور پھر تیسری مرتبہ بیوی کو طلاق دے دے تو اب وہ رجوع نہیں کر سکتا اور تیسری طلاق کے بعد وہ دونوں، میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ عورت اب کسی دوسرے مرد سے ہی نکاح کرے گی اور یہ نکاح ہرگز عارضی تعلق کی نیت سے اور پہلے شوہر کے لیے عورت کو حلال کرنے کے ارادے سے نہیں ہوگا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نیت سے نکاح کرنے والے اور پہلے شوہر، جس کے لیے نکاح کیا جا رہا ہے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور عارضی نکاح کرنے والے کو کرایے کے سانڈ سے تشبیہ دی ہے۔ اس طرح کا مقدمہ سامنے آنے پر سیدنا عمر نے دوسرے شوہر کو سخت زجر وتوبیخ کی اور اسے پابند کیا کہ اب وہ اس نکاح کو قائم رکھے۔ نیز یہ کہ اگر اس نے پہلے شوہر کے لیے عورت کو حلال کرنے کی غرض سے اسے طلاق دی تو اسے بدکاری کی پاداش میں سنگسار کیا جائے گا۔ جمہور فقہائے اسلام حلالہ کی نیت سے کیے گئے نکاح کو منعقد ہی نہیں مانتے اور نہ اس کی بنیاد پر عورت کو پہلے شوہر کے لیے حلال قرار دیتے ہیں۔ صرف حنفی فقہاء نے ایک فقہی نکتے کی بنیاد پر اس طریقے کو اصولاً واخلاقاً ناجائز قرار دیتے ہوئے صرف قانونی اثرات کی حد تک معتبر تسلیم کیا ہے۔ 
اس تفصیل سے واضح ہے کہ شریعت میں دراصل، عورت کو پہلے شوہر کے لیے حلال کرنے کا کوئی طریقہ تجویز نہیں کیا گیا، بلکہ تیسری طلاق کے بعد دونوں کے اکٹھے رہنے پر پابندی عائد کی ہے اور عورت سے کہا ہے کہ اب وہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ ہی زندگی گزارے۔ البتہ اگر کسی وجہ سے اتفاقاً دوسرے شوہر سے بھی علیحدگی ہو جائے اور عورت اپنی آزادانہ مرضی سے دوبارہ پہلے شوہر کے نکاح میں جانا چاہے اور دونوں کو یہ اطمینان ہو کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے رشتہ نکاح کو نباہ سکیں گے تو ایسی صورت میں شریعت انھیں دوبارہ نکاح کی اجازت دیتی ہے۔ اس طریقے کا، جیسا کہ واضح ہے، حلالہ کے مروجہ طریقے سے کوئی تعلق نہیں جو سر تا سر جہالت اور حرام حیلوں پر مبنی طریقہ ہے۔ اس میں شوہر کی غلطی کی سزا بیوی کو دی جاتی ہے جو غیر منصفانہ بھی ہے اور عورت کی تذلیل بھی۔ 
البتہ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ تیسری طلاق کے بعد شریعت میں مرد اور عورت کو اکٹھا رہنے سے کیوں روکا گیا ہے؟ اس کی حکمت عموماً یہ بتائی جاتی ہے کہ اس پابندی کے ذریعے سے، شوہر سے بیوی کو اذیت پہنچانے کا ایک ہتھیار چھین لیا گیا ہے، کیونکہ اگر شوہر کو طلاق دینے کے بعد عدت کے اندر بیوی سے رجوع کر لینے کا لا محدود اختیار حاصل ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ نہ تو اپنی ناپسندیدہ بیوی کو مکمل حقوق کے ساتھ نکاح میں رکھے گا اور نہ اسے بندھن سے آزاد کرے گا تاکہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کر لے۔ گویا زمانہ جاہلیت کے غیر اخلاقی طرز عمل کے تناظر میں شریعت میں شوہر پر یہ پابندی عائد کر دی گئی کہ وہ طلاق کے بعد رجوع کا حق صرف دو مرتبہ استعمال کر سکتا ہے، تیسری مرتبہ طلاق دینے پر اسے یہ حق حاصل نہیں ہوگا۔
یہ حکمت جزوی طور پر درست معلوم ہوتی ہے، لیکن اس سے حکم کی مکمل توجیہ نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ حکم کے مطابق پابندی صرف شوہر کے رجوع کرنے پرنہیں، بلکہ میاں بیوی کے اکٹھا رہنے پر عائد کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خود عورت بھی بدستور اس شوہر کے نکاح میں رہنے پر راضی ہو، تب بھی اس کی گنجائش نہیں اور عورت کو بہرحال کسی دوسرے آدمی سے ہی نکاح کرنا پڑے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پابندی صرف عورت کو ضرر سے بچانے کے لیے نہیں لگائی گئی، بلکہ اس میں کوئی دوسرا پہلو بھی ہے۔ ہماری رائے میں اس پابندی سے رشتہ نکاح کے تقدس کے حوالے سے شریعت کی مخصوص حساسیت کا اظہار ہوتا ہے۔ شریعت کی نظر میں یہ رشتہ محض مادی یعنی جسمانی وسماجی ضروریات کے پہلو سے اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ اسے ایک خاص طرح کا روحانی تقدس بھی حاصل ہے جو یہ تقاضا کرتا ہے کہ انسان اس رشتے کو معمولی سمجھتے ہوئے غیر سنجیدہ اور لا ابالی قسم کا رویہ اختیار نہ کرے۔ انسانی نفسیات میں اس حساسیت کو زندہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس رشتے کو قائم کرنے اور اسے ختم کرنے کے ضمن میں اس نوعیت کی کچھ پابندیاں عائد کی جائیں۔ شریعت کا منشا یہ ہے کہ نکاح کا رشتہ خوب سوچ سمجھ کر قائم کیا جائے اور ہمیشہ قائم رکھے جانے کے عزم کے ساتھ وجود میں لایا جائے۔ اگر کسی وجہ سے نباہ نہ ہو سکے تو اسے ختم کرنے کا فیصلہ بھی پوری طرح سوچ سمجھ کر اور اسی صورت میں کیا جائے جب موافقت اور ہم آہنگی کے امکانات بالکل ختم ہو جائیں۔ یہاں تک کہ طلاق دینے کا فیصلہ کیا جائے تو بھی ایک مخصوص مدت کے اندر فیصلے پر نظر ثانی کی گنجائش باقی رکھی گئی ہے، تاہم مذکورہ زاویہ نظر سے شریعت کی منشا یہ ہے کہ نظر ثانی کی گنجائش لامحدود نہیں، بلکہ محدود اور کچھ شرائط کے ساتھ مشروط ہو تاکہ طلاق کے حوالے سے غیر سنجیدگی اور لابالی پن کی نفسیات پیدا نہ ہو سکے۔
اسی نوعیت کی حساسیت ہمیں ظہار کے قانون میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ قبل از اسلام کی عرب معاشرت میں اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہہ دیتا کہ تم مجھ پر میری ماں کی طرح حرام ہو تو اسے حتمی اور ابدی حرمت کا مستوجب سمجھا جاتا تھا۔ اسلامی شریعت میں ابتداءً اسی قانون کو برقرار رکھا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ نکاح میں اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو شریعت بھی سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس تشبیہ کے بعد مرد اور عورت، میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہ رہیں۔تاہم ایک خاص واقعہ رونما ہونے پر اللہ تعالیٰ نے اس قانون میں آسانی پیدا کرتے ہوئے ترمیم کر دی اور سورۃ المجادلہ میں فرمایا کہ بیوی کو ماں سے تشبیہ دینے کے بعد ، دونوں کے بطور میاں بیوی رہنے کی گنجائش تو ہے، لیکن اس کے لیے شوہر کو، بالترتیب، ایک غلام آزاد کرنے یا دو مہینے کے مسلسل روزے رکھنے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ غور کیا جائے تو تیسری طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش باقی نہ رکھنے کے قانون میں بھی اسی نوعیت کی حکمت دکھائی دیتی ہے۔ 
اس بحث سے ان فقہاء کے نقطہ نظر کا وزن بھی واضح ہوتا ہے جو تیسری طلاق کے بعد رجوع کے عدم امکان کی پابندی کو اس صورت سے متعلق قرار دیتے ہیں جب شوہر نے الگ الگ موقعوں پر صورت حال کا بغور جائزہ لے کر بیوی کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا ہو۔ اگر اس طرح کے دو فیصلوں کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دی گئی ہو تو شریعت کی عائد کردہ زیر بحث پابندی کی حکمت پوری طرح برقراررہتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر کسی شخص نے وقتی جذبات کے زیر اثر نادانی میں بیک وقت تینوں طلاقیں دے دی ہوں تو قانون کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے رجوع کی گنجائش باقی رکھی جائے اور بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے عددکو بنیاد بنانے کے بجائے اس نکتے کو زیادہ اہمیت دی جائے کہ اس نے طلاق کا حق بہرحال ایک ہی موقع پر استعمال کیا ہے۔ علامہ ابن رشد المالکیؒ اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یوں لگتا ہے کہ جمہور فقہاء نے سد ذریعہ کے طور پر (یعنی تاکہ لوگ طلاق کے معاملے میں جری نہ ہو جائیں)، تین طلاقوں کے معاملے میں سختی کا طریقہ اختیار کیا (اور بیک وقت تین طلاقوں کو نافذ قرار دے دیا) ہے، لیکن اس سے وہ شرعی رخصت اور وہ آسانی جو شریعت کا مقصود ہے، فوت ہو جاتی ہے، یعنی جس کا ذکر اللہ تعالی ٰنے یوں کیا ہے کہ ہو سکتا ہے، اللہ اس کے بعد (موافقت اور مصالحت کی) کوئی راہ پیدا کر دے۔‘‘ (بدایۃ المجتہد ج ۲، ص ۶۲)


ایک سوال نامہ اور اس کے مختصر جوابات

1۔ پاکستان میں مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ابھرنے والی سیاسی قوتوں خاص طور پر بریلوی مسلک سے وابستہ ’’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘‘ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب : ایسی تحریکیں اپنے مسلکی فکر کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان سے عوامی سطح پر پائے جانے والے مذہبی جذبات ورجحانات کا اندازہ ہوتا ہے۔
2۔ پاکستان کی سیاست میں اس نئی مذہبی سیاسی قوت کی آمد کے معاشرتی اور سیاسی محرکات و وجوہات کیا ہیں؟
جواب : بریلوی مسلک کی پیروی پاکستانی عوام کی اکثریت کرتی ہے، تاہم کچھ عرصے سے مذہبی سیاست میں اس طبقے کی نمائندگی کوئی موثر شخصیت یا جماعت نہیں کر رہی۔ تحریک لبیک اسی احساس محرومی کا اظہار اور اس خلا کو پر کرنے کی کوشش ہے۔
3۔ ختم نبوت، توہین رسالت وغیرہ کے عنوان سے قائم مذہبی سیاسی جماعتیں اور ان کے شدت پسندی بیانیے کے حوالے سے ریاست کا کیا رسپانس ہونا چاہیے؟
جواب : ریاست کو آئین میں طے کردہ حدود کے مطابق ایسی تحریکوں کے جائز مطالبات کو وزن دینا چاہیے اور حدود سے متجاوز مطالبات کی، حکمت عملی اور فراست کے ساتھ مزاحمت کرنی چاہیے۔
4۔ مذکورہ بالا مقاصد کے تحت سیاسی میدان میں قدم رکھنے والی مذہبی سیاسی جماعت کس طرح آنے والے انتخابات کے ذریعے پاکستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟
جواب : پاکستانی سیاست میں مذہبی جماعتوں کی حیثیت پریشر گروپس کی ہے جو مذہبی حساسیت رکھنے والے ایشوز میں تو ایک موثر کردار ادا کر سکتی ہیں، لیکن انتخابی سیاست کے عمومی نتائج پر کوئی خاص اثر مرتب نہیں کر سکتیں، الا یہ کہ وقتی حالات اور ماحول سے ایسی کوئی فضا بن جائے، جیسے نائن الیون کے بعد متحدہ مجلس عمل کو ملی۔
5۔ آپ دیوبندی سیاسی جماعتوں اوربریلوی مسلک کی نئی ابھرتی ہوئی جماعت جیسے تحریک لبیک یا رسول اللہ کے تقابل کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں؟
جواب : ان دونوں طبقوں کی constituencies الگ الگ ہیں، اس لیے میرے خیال میں بظاہر براہ راست ٹکراو کا کوئی خاص امکان نہیں۔ البتہ اگر بریلوی مسلک کی نمائندہ جماعتوں کو سیاسی میدان میں ایک خاص سطح پر accommodate نہ کیا گیا تو وہ زیادہ شدت کے ساتھ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا راستہ اختیار کریں گی۔ اس لیے دوسری مذہبی سیاسی قوتوں اور خاص طور پر دیوبندی قیادت کو چاہیے کہ انھیں سیاسی میدان میں انگیج کر کے مذہبی سیاست کے مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کریں۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۳۵) فھم یوزعون کا ترجمہ

یوزعون کا لفظ قرآن مجید میں تین مقامات پر آیا ہے، یہ فعل مضارع ہے، لفظی لحاظ سے اس کا ماضی وزع بھی ہوسکتا ہے اور أوزع بھی ہوسکتا ہے، گو کہ معنوی پہلو سے وزع ہی درست لگتا ہے جس کے معنی روکنے کے ہیں، اور لشکر کو قابو میں رکھنے کے بھی ہیں، جبکہ أوزع کے معنی ترغیب وتوفیق دینے کے ہیں ، اہل لغت کے مطابق ایزاع توزیع کے ہم معنی ہوکرتقسیم کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے،بہرحال یہ مفہوم اگر ہو بھی تو استعمال میں رائج نہیں ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تینوں مقامات پر اس لفظ کے مختلف ترجمے کئے گئے ہیں:

(۱) وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُودُہُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوزَعُونَ۔ (النمل:۱۷)

’’سلیمانؑ کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے‘‘ (سید مودودی)
’’اور جمع کیے گئے سلیمان کے لیے اس کے لشکر جنوں اور آدمیوں اور پرندوں سے تو وہ روکے جاتے تھے‘‘(احمد رضا خان)
’’اور سلیمان کے لیے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اور قسم وار کیے جاتے تھے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’سلیمان کے سامنے ان کے تمام لشکر جنات اور انسان اور پرند میں سے جمع کیے گئے (ہر ہر قسم کی) الگ الگ درجہ بندی کردی گئی‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور سلیمان کے جائزے کے لیے ان کا سارا لشکر، جنوں انسانوں اور پرندوں میں سے، اکٹھا کیا گیا اور ان کی درجہ بندی کی جارہی تھی ‘‘(امین احسن اصلاحی، یہاں جائزے کے لیے نہیں بلکہ مہم پر نکلنے کے لیے مراد ہے، کیونکہ اس کے فورا بعد ایک مہم پر نکلنے کا تذکرہ ہے)
’’اور سلیمان کے لیے اکٹھا کردیے گئے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر، تو وہ پوری طرح منظم تھے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)

(۲) وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِن کُلِّ أُمَّۃٍ فَوْجاً مِّمَّن یُکَذِّبُ بِآیَاتِنَا فَہُمْ یُوزَعُون۔ (النمل:۸۳)

’’اور ذرا تصور کرو اُس دن کا جب ہم ہر امت میں سے ایک فوج کی فوج اُن لوگوں کی گھیر لائیں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے، پھر ان کو (ان کی اقسام کے لحاظ سے درجہ بدرجہ) مرتب کیا جائے گا‘‘(سید مودودی)
’’اور جس دن اٹھائیں گے ہم ہر گروہ میں سے ایک فوج جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتی ہے تو ان کے اگلے روکے جائیں گے کہ پچھلے ان سے آملیں‘‘ (احمد رضا خان)
’’اور جس روز ہم ہر اُمت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے تو اُن کی جماعت بندی کی جائے گی‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کے گروہ کو جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے گھیر گھار کرلائیں گے، پھر وہ سب کے سب الگ کر دیے جائیں گے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکٹھا کریں گے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے تھے، پس وہ پوری طرح منظم ہوں گے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)

(۳) وَیَوْمَ یُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللّٰہِ إِلَی النَّارِ فَہُمْ یُوزَعُون۔ (فصلت: ۱۹)

’’اور ذرا اُس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے، اُن کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا‘‘(سید مودودی)
’’اور جس دن اللہ کے دشمن آگ کی طرف ہانکے جائیں گے تو ان کے اگلوں کو روکیں گے‘‘(احمد رضا خان)
’’اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کرلیے جائیں گے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف لائے جائیں گے اور ان (سب) کو جمع کر دیا جائے گا‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے، پس وہ پوری طرح منظم ہوں گے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
مذکورہ ترجموں پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک ہی لفظ اور ایک ہی اسلوب (فھم یوزعون) کا بعض مترجم تینوں مقامات پر الگ الگ ترجمہ کرتے ہیں، مثال کے طور پر صاحب تفہیم نے پہلے مقام پر قابو میں رکھنا، دوسرے مقام پر اقسام کے لحاظ سے درجہ بدرجہ مرتب کرنا اور تیسرے مقام پر روکنا ترجمہ کیا ہے۔
موخر الذکر دونوں آیتوں کا بہت سے لوگوں نے روکنے کا ترجمہ کیا ہے، وزع کے معنی روکنا ہوتے ہیں مگر وہ روکنا چلتے ہوئے شخص کو روکنا نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی کام سے کسی کوباز رکھنا ہوتا ہے۔اسی کو قابو میں رکھنا کہتے ہیں۔
لشکر کے ساتھ جب یہ لفظ آتا ہے تو اس کا مفہوم لشکر کو منظم اور ڈسپلن میں رکھنا ہوتا ہے۔ اوریہی مفہوم مذکورہ بالا تینوں مقامات پر زیادہ بہتر طریقے سے فٹ ہوتا ہے۔

(۱۳۶) غنم کا ترجمہ

غنم کا لفظ قرآن مجید میں تین جگہ آیا ہے، اس لفظ کے اندر بھیڑ اور بکری دونوں شامل ہوتے ہیں، (الغنم) القطیع من المعز والضأن. المعجم الوسیط (۲؍۶۶۴)
صرف بھیڑ کے لیے ضأن اور صرف بکری کے لیے معز آتا ہے، قرآن مجید میں مذکورہ ذیل ایک مقام پر دونوں ایک ساتھ استعمال ہوئے:

ثَمَانِیَۃَ أَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَیْْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْْنِ۔ (الانعام: ۱۴۳)

(یہ بڑے چھوٹے چارپائے) آٹھ قسم کے (ہیں) دو (دو) بھیڑوں میں سے اور دو (دو)بکریوں میں سے (یعنی ایک ایک نر اور اور ایک ایک مادہ)۔(فتح محمدجالندھری)
ہشت جفت آفریدہ است: از گوسفند دو جفت و از بز دو جفت. (خرمدل)
Eight pairs: Of the sheep twain, and of the goats twain. (Pickthall)
(Take) eight (head of cattle) in (four) pairs: of sheep a pair, and of goats a pair; (Yusuf Ali)
اس آیت کے ترجمے میں ایک غلطی عام طور سے ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ثمانیۃ أزواج کا ترجمہ آٹھ جوڑے یا آٹھ قسمیں کیا گیا ہے، حالانکہ قسمیں یا جوڑے چار ہیں، البتہ ان چار قسموں کے افراد یا چار جوڑوں کی جوڑیاں آٹھ ہیں۔ اس پہلو سے اوپر درج کئے گئے ترجمے تصحیح طلب معلوم ہوتے ہیں۔ آٹھ قسم، ہشت جفت، Eight pairsلفظ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتے۔
اس آیت کے ترجموں کو یہاں ذکر کرنے سے سے یہ واضح کرنا بھی مقصود ہے کہ عربی کے ان دونوں الفاظ یعنی ضأن اور معز کے مختلف زبانوں میں متبادل الفاظ کیا ہیں۔ ان دونوں الفاظ کے مقابلے میں غنم کا لفظ چونکہ ضأن اور معز یعنی بھیڑ اور بکری دونوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے اس کا ترجمہ صرف بھیڑ یا صرف بکری کرنے سے لفظ غنم کا حق ادا نہیں ہوتا ہے۔ 
مندرجہ ذیل تینوں آیتوں کے ترجموں کا اس پہلو سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

(۱) وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُواْ حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ شُحُومَہُمَا إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُہُورُہُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْم۔ (الانعام: ۱۴۶)

’’اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے اور گایوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کر دی تھی سوا اس کے جو ان کی پیٹھ پر لگی ہو یا اوجھڑی میں ہو یا ہڈی میں ملی ہو‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’(این چیزھائی بود کہ بر شما حرام کردہ ایم) و بر یھودیان ھر (حیوان) ناخنداری (یعنی: درندگان کہ دارای پنجہ ھای قوی، و پرندگان شکاری کہ از چنگال نیرومند برخوردارند) حرام کردہ بودیم، و از گاو و گوسفند (تنھا) پیہ ھا و چربیھای آنھا را بر آنان حرام نمودہ بودیم، مگر پیہ ھا و چربیھائی کہ بر پشت اینھا یا در اندرونہ (و لابلای احشاء و امعاء) قرار دارد و یا پیہ ھا و چربیھائی کہ آمیزہ ی استخوان گردیدہ است‘‘(خرمدل)
Unto those who are Jews We forbade every animal with claws. And of the oxen and the sheep forbade We unto them the fat thereof save that upon the backs or the entrails, or that which is mixed with the bone. (Pickthall)
For those who followed the Jewish Law, We forbade every (animal) with undivided hoof, and We forbade them that fat of the ox and the sheep, except what adheres to their backs or their entrails, or is mixed up with a bone. (Yusuf Ali)

(۲) وَدَاوُدَ وَسُلَیْْمَانَ إِذْ یَحْکُمَانِ فِیْ الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَکُنَّا لِحُکْمِہِمْ شَاہِدِیْن۔ (الانبیاء:۷۸)

’’اور داؤد اور سلیمان (کا حال بھی سن لو کہ) جب وہ ایک کھیتی کا مقدمہ فیصلہ کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چر گئی (اور اسے روند گئی) تھیں اور ہم ان کے فیصلے کے وقت موجود تھے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’(و یاد کن) داود و سلیمان را، ھنگامی کہ دربارہ ی کشتزاری کہ گوسفندان مردمانی، شبانگاھان در آن چریدہ و تباھش کردہ بودند، داوری می کردند، و ما شاھد داوری آنان بودیم‘‘(خرمدل)
And remember David and Solomon, when they gave judgment in the matter of the field into which the sheep of certain people had strayed by night: We did witness their judgment. (Yusuf Ali)
And David and Solomon, when they gave judgment concerning the field, when people's sheep had strayed and browsed therein by night; and We were witnesses to their judgment.(Pickthall)

(۳) قَالَ ہِیَ عَصَایَ أَتَوَکَّأُ عَلَیْْہَا وَأَہُشُّ بِہَا عَلَی غَنَمِی۔ (طہ:۱۸)

’’انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے۔ اس پر میں سہارا لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’پاسخ داد کہ این عصای من است و بر آن تکیہ می کنم و با آن گوسفندانم را می رانم و برای آنھا برگ می ریزم‘‘ (خرمدل)
He said: This is my staff whereon I lean, and wherewith I bear down branches for my sheep, (Pickthall)
He said, "It is my rod: on it I lean; with it I beat down fodder for my flocks;" (Yusuf Ali)
مذکورہ بالا ترجموں کو دیکھنے پر ایک بڑی اہم اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ تمام اردو مترجمین غنم کا ترجمہ بھیڑ نہیں کرکے بکری کرتے ہیں، اور تقریباً تمام انگریزی مترجمین اس کا ترجمہ Sheep کرتے ہیں جس کے معنی بھیڑ کے ہیں، اور تمام فارسی مترجمین اس کا ترجمہ گو اسفند کرتے ہیں، جو بھیڑ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یہ دیکھ کر ذہن اس طرف جاتا ہے کہ ہندوستان میں بھیڑ کے مقابلے میں بکری کا رواج زیادہ ہے، اس لیے ترجمہ کرتے وقت اس کا اثر زیادہ رہا، جبکہ دوسرے علاقوں میں بھیڑ کا رواج ترجمہ پر اثر انداز رہا۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ مذکورہ تینوں مقامات پر غنم کا ترجمہ مویشی یا ریوڑ یا’’بھیڑ بکری‘‘ ہونا چاہیے، تاکہ لفظ میں موجود معنی کی وسعت میں کوئی کمی واقع نہیں ہو۔غنم ترجمہ کرتے وقت بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر کرنے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ قرآن مجید میں (جیسا کہ اوپر گزرا) ایک مقام پر صراحت کے ساتھ بھیڑ اور بکری دونوں کا خصوصیت کے ساتھ الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔

(۱۳۷) اولیاء کا ترجمہ

أولیاء کا لفظ ولی کی جمع ہے، جس کا اصل مطلب دوست ہے، فیروزآبادی لکھتے ہیں: 

الوَلْیُ: القُرْبُ والدُّنُوُّ، المَطَرُ بَعْدَ المَطَرِ، وُلِیَتِ الأرضُ، بالضم۔ والوَلِیُّ: الاسمُ منہ، والمحبُّ، والصدیقُ والنصیرُ۔ القاموس المحیط

بعض مقامات پر اس کا ترجمہ لوگوں نے معبود اور کارساز وغیرہ بھی کیا ہے، لیکن کبھی محل کلام خود تقاضا کرتا ہے کہ اس لفظ کا ترجمہ دوست کیا جائے، کوئی اور ترجمہ وہاں مناسب نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے ذیل کی آیتوں کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

(۱) وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ فَیَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہَؤُلَاءِ أَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ۔ قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنبَغِیْ لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَاءَ وَلَکِن مَّتَّعْتَہُمْ وَآبَاءَ ہُمْ حَتَّی نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوا قَوْماً بُوراً۔ (الفرقان:۱۷،۱۸)

’’اور وہ وہی دن ہو گا جبکہ (تمہارا رب) اِن لوگوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے اُن معبودوں کو بھی بُلا لے گا جنہیں آج یہ اللہ کو چھوڑ کر پوج رہے ہیں، پھر وہ اُن سے پوچھے گا ’’کیا تم نے میرے اِن بندوں کر گمراہ کیا تھا؟ یا یہ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے؟‘‘وہ عرض کریں گے ’’پاک ہے آپ کی ذات، ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولا بنائیں مگر آپ نے اِن کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامانِ زندگی دیا حتیٰ کہ یہ سبق بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے‘‘(سید مودودی)

قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنبَغِیْ لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَاءَ 

کے مزید ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’وہ کہیں گے کہ پاک ہے تیری ذات ہمیں یہ حق نہیں تھا کہ ہم تجھے چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مولا بنائیں‘‘ (محمد حسین نجفی)
’’وہ عرض کریں گے پاکی ہے تجھ کو ہمیں سزاوار (حق) نہ تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو مولیٰ بنائیں‘‘ (احمد رضا خان)
’’کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ کب لائق تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو کارساز بناتے‘‘ (احمد علی)
’’وہ کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ بات شایان نہ تھی کہ تیرے سوا اوروں کو دوست بناتے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ذات ہے خود ہمیں ہی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا اوروں کو اپنا کارساز بناتے‘‘(محمد جوناگڑھی)

(۲) وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ یَقُولُ لِلْمَلَائِکَۃِ أَہَؤُلَاءِ إِیَّاکُمْ کَانُوا یَعْبُدُونَ۔ قَالُوا سُبْحَانَکَ أَنتَ وَلِیُّنَا مِن دُونِہِم بَلْ کَانُوا یَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَکْثَرُہُم بِہِم مُّؤْمِنُون۔ (سبا: ۴۰، ۴۱)

’’اور جس دن وہ لوگوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے کہے گا (پوچھے گا) کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے؟وہ کہیں گے پاک ہے تیری ذات! تو ہمارا آقا ہے نہ کہ وہ (ہمارا تعلق تجھ سے ہے نہ کہ ان سے) بلکہ یہ تو جنات کی عبادت کیا کرتے تھے ان کی اکثریت انہی پر ایمان و اعتقاد رکھتی تھی‘‘(محمد حسین نجفی)

قَالُوا سُبْحَانَکَ أَنتَ وَلِیُّنَا مِن دُونِہِم کے مزید ترجمے حسب ذیل ہیں:

’’تو وہ جواب دیں گے کہ ’’پاک ہے آپ کی ذات، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ اِن لوگوں سے‘‘۔ (سید مودودی)
’’وہ عرض کریں گے پاکی ہے تجھ کو تو ہمارا دوست ہے نہ وہ‘‘ (احمد رضا خان)
’’وہ کہیں گے تو پاک ہے تو ہی ہمارا دوست ہے۔ نہ یہ‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے ان کے بالمقابل تو ہمارا کارساز ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب سوال ان سے کیا جائے گا جن کو لوگ معبود مانتے تھے، تو وہ جواب میں یہ کیوں کہیں گے کہ ہم نے تیرے سوا کسی کو مولا یا سرپرست یا کارساز نہیں بنایا۔ مولی یا سرپرست یا کارساز تو انہیں معبود بنانے والوں نے بنایا تھا، اس سلسلے میں صفائی تو معبود بنانے والوں کو پیش کرنی ہوگی، یہاں تو جن کو معبود بنایا گیا انہوں نے اپنی طرف سے یہ وضاحت پیش کی ہے کہ ہم نے ان سے کوئی دوستی نہیں کی جس کی وجہ سے ہم پر انہیں اس طرح کی کوئی شہ دینے کا کوئی الزام آئے۔
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اکثر حضرات نے دوسری آیت میں ولی کا ترجمہ دوست کیا ہے، لیکن انہیں لوگوں نے پہلی آیت میں اولیاء کا ترجمہ دوست کرنے کے بجائے مولی اور کارساز کیا۔
غرض لفظ کا تقاضا بھی یہی ہے، اور پورے کلام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دونوں مقامات پر دوست ترجمہ کیا جائے۔

(۱۳۸) کلمات کا ترجمہ

مذکورہ ذیل دونوں آیتوں میں کلمات کا لفظ آیا ہے، صاحب تدبر نے اس کا ترجمہ نشانیاں کیا ہے، بعض نے اس سے صفتیں مراد لیا ہے، بعض نے باتیں ترجمہ کیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ لفظ آلاء کی طرح کلمات کا ترجمہ’’ کرشمے ‘‘کرنا زیادہ مناسب ہے۔

(۲) وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَۃٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِن بَعْدِہِ سَبْعَۃُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (لقمان: ۲۷)

’’روئے زمین کے (تمام) درختوں کے اگر قلمیں ہو جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے، بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور باحکمت ہے‘‘ (محمدجوناگڑھی، یہاں تمام سمندروں کے بجائے سمندر ہونا چاہئے)
’’اور اگر زمین میں جتنے پیڑ ہیں سب قلمیں ہوجائیں اور سمندر اس کی سیاہی ہو اس کے پیچھے سات سمندر اور تو اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی بیشک اللہ عزت و حکمت والا ہے‘‘(احمد رضا خان)
’’اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں اور سمندر (کا تمام پانی) سیاہی ہو (اور) اس کے بعد سات سمندر اور (سیاہی ہو جائیں) تو خدا کی باتیں (یعنی اس کی صفتیں) ختم نہ ہوں۔ بیشک خدا غالب حکمت والا ہے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر سات سمندروں کے ساتھ (روشنائی بن جائیں) جب بھی اللہ کی نشانیاں قلم بند نہیں ہوسکتیں۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی) 

(۲) قُل لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَداً۔ (الکہف:۱۰۹)

’’کہہ دو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے (لکھنے کے) لئے سیاہی ہو تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہوجائے اگرچہ ہم ویسا ہی اور (سمندر) اس کی مدد کو لائیں‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو وہ بھی میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا، گو ہم اسی جیسا اور بھی اس کی مدد میں لے آئیں‘‘ (محمدجوناگڑھی)
’’اے محمدؐ، کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے‘‘(سید مودودی)
’’کہہ دو اگر میرے رب کی نشانیوں کو قلم بند کرنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے تو میرے رب کی نشانیوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجائے گا اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملادیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
دوسری آیت میں (لو کان) آیا ہے ، اس کے لحاظ سے ترجمہ ماضی کا ہونا چاہئے ، نہ کہ مستقبل کا جیسا کہ عام طور سے مترجمین نے کیا ہے، درست ترجمہ یوں ہوگا:کہہ دو اگر میرے رب کی نشانیوں کو قلم بند کرنے کے لیے سمندر روشنائی بن جاتا تو میرے رب کی نشانیوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجاتا اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملادیتے۔
(جاری)

درک ’’درِ ادراک‘‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

مسیحیت ، ہندو مت ، بدھ مت، اور دیگر مذاہب کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے ترک دنیا اور رہبانیت کے تیشے سے انسانی جسم کو صرف اس لیے گھائل کر دیا تاکہ انسانی روح کو بیدار کیا جا سکے، لیکن اس غیر طبعی تعلیم اور جان سوزی کے نتیجے میں روح کی شمع بھی گل ہو کر رہ گئی۔ اہل کلیسا نے خانقاہوں میں بسیرا کر لیا، ہندؤوں او ر بدھوں نے جنگلوں کا رخ کر لیا۔ مسیحیت کی غیر فطری تعلیمات کے ردِ عمل میں پروان چڑھنے والے مغربی فکرو فلسفہ میں یورپ کے ارباب فکر ودانش نے مادہ پرستی کی رو میں بہتے ہوئے نہ صرف روح کے ہر تقاضے کو نظر انداز کر دیا بلکہ روح ہی کا انکار کر دیا اور اس عالم رنگ وبو کو ہی انسانیت کا منتہا قرار دیا ۔ جسم کی تو خوب پرورش کی ،لیکن روح کو کچل کر رکھ دیا۔ نتیجہ کے طور پر وہ انسان تیار ہوا جوان اخلاقی اقدار ہی سے عاری ہے جو اس کا طرۂ امتیاز ہے ۔مغرب کی اخلاقی اقدار کسی روحانی محرک سے محروم ہیں۔اخلاقی قدروں کی ترویج میں بھی مارکیٹنگ کی نفسیات کار فرما ہے ۔"Eathical guide book for call girl"جیسی کتابوں کا سر عام فروخت کے لیے پیش کیا جانامغرب کے اخلاقی بحران اور دیوالیہ پن کا نکتہ کمال ہے۔سچ تو یہ ہے کہ مذاہبِ عالم کے زوال کے بعد مغربی تہذیب بھی اپنے زوال کی منازل طے کر رہی ہے، اور اس زوال کی سب سے بڑی وجہ ’’فطرت‘‘ کے نام پرفطرت سے بغاوت ہے۔ بقول اقبال 
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
مغربی تہذیب کا سب سے تباہ کن پہلو یہ ہے کہ اس نے روح اور بدن میں افتراق پیدا کر دیا ہے، حالانکہ انسان کی شخصیت روح اور بدن کی تالیف اور امتزاج سے عبارت ہے۔ ایساکوئی مذہب اور کوئی نظریہ کامیاب نہیں ہو سکتا جو روح اور بدن میں سے ایک کو ابھارے اور دوسرے کو کچل دے۔ مغربی تہذیب نے گذشتہ کئی صدیوں میں فکری ارتقاء کا کٹھن سفر طے کیا ہے،مسلسل فکری ارتقاء اور تجربات کے نتیجے میں اس کے ہاں کئی تصورات اور نظریات اب مسلمہ عقائد کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔اہلِ مغرب اب ان نظریات پرکوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ مغرب نے سماجی ،معاشرتی اور اخلاقی حوالے سے جو تجربات کیے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کے ہاںیہ سوچ پختہ ہو رہی ہے کہ انسانیت اپنے سماجی ارتقاء کی آخری سیڑھی پر قدم رکھ چکی ہے ۔مغرب میں "The End of History"کے عنوان سے لکھی جانے والی کتب اسی سوچ کی مظہر ہیں ۔اس اندازِ فکر پر یہ سوال بہرحال موجود ہے کہ پھر انسان مسلسل روحانی اور اخلاقی بحران کا شکار کیوں ہے؟کمی کہاں پر ہے ؟
اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے آزادئ اظہارِ رائے، انسانی جان کی حرمت، انسانی مساوات، سماجی انصاف، حقوقِ نسواں، مذہبی آزادی، عدلِ اجتماعی اور امن عالم جیسے تصورات کو مذہبی اور روحانی بنیادیں فراہم کیں۔ مذاہب عالم اور جدید مغربی فکر و فلسفہ کے مقابل ا سلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے روح اور جسم ددنوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھا ہے۔ مذاہبِ عالم میں شاید اسلام ہی واحد دین ہے جس نے خالصتاً روحانی غلطیوں پر بھی مالی جرمانے کی سزا عائد کی ہے۔ حکم ہے کہ اگر رمضان کا روزہ ٹوٹ جائے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔قسم ٹوٹنے کی صورت میں تین مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے ۔اپنی بیوی سےِ ظہار کی صورت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے ۔حتی کہ قتل جیسے سنگین معاملے میں مقتول کے ورثاء ضرورت مند ہوں تو وہ دیت پر صلح کر سکتے ہیں ۔ گویا اسلام کی نظر میں ضرورت مندوں کی داد رسی سے ہی روحانی سکون حاصل ہوسکتا ہے ۔ اسلام کے نظامِ عبادت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ،روزہ، زکوٰۃ اور حج کا بنیادی فلسفہ عدل اجتماعی کا قیام ہی ہے ۔ 
دینِ اسلام پر اس انداز سے غور کرنے سے ا للہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں انسان کی معاشی ، سماجی اور معاشرتی زندگی اور حقوق کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ 
اعلانِ نبوت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی زندگی لوگوں کے لیے آپؐ کی نبوت و رسالت کی دلیل ٹھہری ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی قرآن وسنت اور اسوۂ رسول ؐ سے یہی أ خذکیا کہ وہی شخص اللہ تعالیٰ کی نظر میں معتبر ہے جو اس کے بندو ں سے اپنے معاملات ٹھیک رکھتا ہے ۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمرؓ (م ۲۳ھ) نے ایک شخص کے حال کی تحقیق کے لیے گواہ طلب کیے تو ایک آدمی نے گواہی دی کہ موصوف ایک شریف آدمی ہیں ۔حضرت عمر فارقؓ نے اس سے بڑا اہم سوال کیاکہ کیاآپ اس کے پڑوسی ہیں ؟ اس نے عرض کی کہ نہیں ۔پھر پوچھا کہ کیا آپ نے اس کے ساتھ کبھی لین دین کیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ پھر فرمایا کہ کبھی اس کے ساتھ سفر کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ نہیں ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا :تم نے اسے رکوع وسجود اور ذکر اذکار میں مشغول دیکھا ہو گا ؟ اس کہا جی ہاں۔اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا : تم اسے نہیں جانتے اورپھر حضرت عمرؓ نے اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکسی ایسے شخص کو بلاؤ جو تمہیں جانتا ہو ۔گویا حضرت عمرؓ کی نظر میں کسی انسان کی اصل پہچان عبادت و ریاضت سے نہیں بلکہ اس کے سماجی رویے سے ہوتی ہے۔
امام محمد بن حسن الشیبانی(م ۲۸۵ھ) فقہ حنفی کے مدونِ اول تھے ان سے کسی نے سوال کیا کہ آپؒ نے زہد اور رِقاق کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی کہ لوگ اس کو پڑھتے اور ان کے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ۔آپؒ نے فرمایا کہ میں نے کتاب البیوع لکھ دی ہے ۔یعنی جو شخص کتاب البیوع میں حلال و حرام کے احکام پر مسلسل عمل کرے گا اس میں تدین ضرور پیدا ہوگا ۔دنیا دار العمل ہے اورعمل کا ’’معیاری اظہار ‘‘ حلال و حرام کی تمیز اور مثبت سر گرمیوں سے ہوتا ہے ۔
اسلام کی نظر میں سماجی زندگی کی اس اہمیت کے پس منظر میں ہمارے قابلِ قدر تلمیذ محمد تہا می بشر علوی کی تحریروں کا زیر نظر مجموعہ ’’درِ ادراک ‘‘ ایک قابلِ قدر کاوش ہے ۔یہ تصنیف کل تین حصوں پر مشتمل ہے، جبکہ زیرتبصرہ حصہ کتاب کے آخری دوحصے ہیں۔فاضل محقق نے اپنی ان تحریروں میں سماجی رویوں کی تشکیل میں اسلام کے کردار کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے۔ موصوف نے داعیانہ اسلوب اور پورے دردِ دل کے ساتھ مختلف طبقات میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کی ہے اور ان خرابیوں کے اسباب و وجوہ کا تجزیہ کرنے کے بعد حل بھی تجویز کیا ہے ۔
ہمیں نہایت تاسف سے اعتراف کرنا چاہیے کہ آج علماء کرام عمل کے معیاری اظہار کے فروغ کے بجائے تبلیغ محض کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔دین کی بجائے مسلک کی تبلیغ روز افزوں ہے ،نادان لوگوں نے اپنے اپنے مسلک کو ہی کل دین سمجھ لیا ہے ۔دینداری کے بجائے فنِ دین داری کا خوب دور دورہ ہے ۔ ظاہری وضع قطع اورعبادت کے نام پرچند عادات اورمرنے جینے کی مخصوص رسموں کے علاوہ دین کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ اور جس مسلک کی دین کے نام سے تبلیغ کی جارہی ہے اس کا غالب حصہ بھی ما بعد الطبعیاتی مباحث سے متعلق ہے۔نور وبشر ،علم غیب ،حاضرو ناظر ،محرم،میلاد اور گیارہویں کی مجالس کے جواز اور عدم جواز کی بحثیں ہی زندہ موضوعات ہیں ۔عام لوگوں میں یہ سوچ پختہ ہو رہی ہے کہ مذہب کا ریاست، سیاست اورمعاشرت وغیرہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لوگ بجا طور پر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دین کا چونکہ دنیوی امور سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اس کے حقیقی فوائدو ثمرات کے لئے فوت ہو نا ضروری ہے۔ معاشرتی اصلاح اور سماجی رویوں کی تشکیل میں اسلام کے کردار کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔علماء کرام لوگوں کے سماجی اور نفسیاتی مسائل اور عرف سے بڑی حد تک نابلد ہیں ۔مذہبی طبقے میں دعوت و تبلیغ کی جگہ فتویٰ بازی سکہ رائج الوقت ہے ،فتویٰ بازی میں عرف اور سماجی رویوں کامطالعہ کرنے کی بجائے محض فتاویٰ جات کی قدیم کتب سے استفادہ کافی سمجھا جاتا ہے ۔ معاشرتی اصلاح اب مذہبی طبقے کی ترجیحات میں آخری درجے میں ہے۔ فاضل محقق نے دینی مدارس کے موجودہ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے خوب لکھا ہے: 
’’ایک وقت تھا جب مدرسے تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے ۔پھر المیہ یہ ہوا کہ اب یہ مسلک پرستوں کے تحریکی ادارے بن کر رہ گئے ہیں ۔یہاں ’’میں اور میرا مسلک ‘‘ عین حق اور میں اور میرے مسلک کے سوا مکمل باطل کا نفسیاتی شاکلہ تیار ہوتا ہے۔‘‘ 
اقبال سے انتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑتاہے: 
گلا توگھونٹ دیا ’’اہلِ مدرسہ‘‘ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ
عام طور پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ"THE SOCIAL CONTRACT"کا مصنف مشہور فرانسیسی مفکر اور دانشور ژاں ژاک روسو(م ۱۷۷۸ء) انسانی تاریخ کا پہلا شخص ہے جس نے انسانی ضروریات اور احتیاجات کو اس کا ’’حق‘‘ ثابت کیا ہے۔ ہماری بد نصیبی ملاحظہ کیجئے کہ مغرب کی طرف سے آنے والی کوئی انسانی قدر جب شہرتِ دوام حاصل کرنے لگتی ہے توہم اسے قرآن و حدیث سے ثابت کرنے بیٹھ جاتے ہیں ۔اگرچہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے وہ اس کو جہاں بھی پائے حاصل کر لے،لیکن اگروہ جواہر پارہ براہِ راست ہمارے علمی خزانے کا حصہ ہو اور ہم اپنی کور چشمی کی وجہ سے اس کو دیکھ ہی نہ پارہے ہوں تو اس پرماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے ۔ اب بھلا کون ہماری اس بات پرغور کرے گا کہ انسانی تاریخ میں روسو نہیں بلکہ اسلام نے سب سے پہلے انسانی ضروریات کو انسان کا ’’حق‘‘ ثابت کیا ہے۔ سورۃ الذاریات میں ہے:
وَفِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاءِلِ وَالْمَحْرُومِ (۵۱/۱۹)
ترجمہ : اور ان مالوں میں سائل اور محروم لوگوں کا’’ حق ‘‘ہے۔ 
یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی اور اس وقت تک زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی تھی ۔مطلب یہ کہ زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے ہی مسلمانوں کی تربیت اس ماحول میں ہو رہی ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر بھی ان پر دوسرے مسلمانوں کی ضروریات کو پورا کرنا بطور ’’حق‘‘ لازم ہے ۔قرآن و سنت میں زکوٰۃ اورصدقہ جیسے الفاظ’’ فریضہ‘‘ اور’’ حق‘‘ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ کسی چیز کو خیرات کے طور پر مانگنے اور حق کے طور پر طلب کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ،لیکن ہماری غلط دینی تعبیرات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام لوگوں کا تو کیا کہنا پڑھے لکھے لوگ بھی زکوٰۃ اورصدقہ کو خیرات کے ہم معنی ہی سمجھتے ہیں ۔ فقیہ شہر کا فتویٰ یہ ہے کہ فرض تو قرض کی طرح ہے جنت کا ٹکٹ تو صرف اس کے لیے کنفرم ہو گا جو ’خیرات‘ بانٹتا ہے۔اس تبلیغ کا نتیجہ یہ ہے کہ آج باوسائل اور مقتدر طبقہ مزدور اور غریب کے لازمی حق کو نظر اندازکرکے صدقہ و خیرات کے نام پر اس کا استیصال رہا ہے ۔مقتدر طبقات کی نظر میں مزدور اور غریب کو اس کا حق دینے کی بجائے خیرات دینا پسندیدہ عمل ہے تاکہ اس کی گردن ہمیشہ اپنے مالک کے سامنے جھکی رہے اور وہ انہیں اپنا آقاو مولیٰ سمجھتا رہے ۔زیر نظر کتاب میں اس معاشرتی کجی کی ان الفاظ میں نشاندہی کی گئی ہے :
’’پاکستان دنیا کا کم ترین مزدوری دینے والا ملک ہے ،اور پاکستان ہی دنیا کا سب سے زیادہ خیرات کرنے والا ملک بھی ہے ۔ہمارے معاشرے کا یہ تضاد ایک بہت بڑی کجی کا اظہار ہے ۔ہم نے مزدور کے استحصال کو ایک معاشرتی قدر بنادیا ہے ۔ہم پہلے ان کو کم مزدوری دے کر محتاج بناتے ہیں ، پھر ان کی محتاجیوں سے مزید محتاجیاں جنم لیتی ہیں ،اور پھر ہم صدقہ و خیرات سے ان محتاجوں کی مدد کرکے ان کو اپنا احسان مند بھی بنالیتے ہیں اور اس احسان مندی سے ایک طرف ہم اپنا کاروبار چمکاتے ہیں اور دوسری طرف ان کی دعاؤں سے جنت کے محل تعمیر کرالیتے ہیں۔‘‘ 
ایک غیر ہنرمند مزدور کے خاندان کو ماہانہ تقریباً36,000سے40,000ہزار درکار ہیں جبکہ حکومت نے کمال مہربانی سے مزدور کی کم ازکم اجرت 13سے14ہزار روپے مقرر کی ہے ۔جبکہ مزدوروں کا ایک طبقہ اس سے بھی کم ماہانہ تنخواہ پا رہا ہے۔ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ مذہب سے گہری عقیدت رکھنے والا سرمایہ داربھی مزدور کو اس کا حق دینے کی بجائے خیرات دینا ہی پسند کرتا ہے ۔کسی کی عزت نفس کا لحاظ، اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں کتنے رتبے کا کام ہے، کاش یہ بات ہم پر کھل جائے تو یقین کیجئے معاشرے کا مزاج ہی تبدیل ہو جائے ۔لوگ خیرات بھی رات کے اندھیرے میں دینا پسند کریں گے ۔ 
دنیا کے تمام مذاہب نے مختلف طبقات کے حقوق کی نشاندہی اپنے اپنے اسلوب میں کی ہے ،بالخصوص جدید مغربی معاشرے میں بنیادی انسانی حقوق کی تحریک کا منظم ظہور ہواہے ۔مغرب بجا طور پر انسانی حقوق کی جدید تحریکوں کا بانی ہے، لیکن محض حقوق کے مطالبات سے معاشرے میں ٹکراوکی نفسیات جنم لیتی ہیں سماجی سطح پر اس حوالے سے اسلام کا اسلوب بہترین ہے کہ حقوق کے شعور کے ساتھ اصل زور فرائض کی ادائیگی پر دیا جائے ۔ جب ہر طبقہ اپنے فرائض کو ادا کرنے لگے تو کسی طبقے کے حقوق پامال نہیں ہوں گے ۔ بظاہر یہ بات معمولی نظر آتی ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے یہ طرزِ عمل دور رس نتائج کا حامل ہے۔ مغرب میں اس طرزِ فکر کی ایک بڑی مثال حقوقِ نسواں کی جدید تحریک ہے جس نے عورت کو بھڑکا کر مرد کا مدمقابل بنا دیا ہے ۔جس کے نتیجے میں مغرب میں خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے ۔ عورتوں کا اپنے حقوق سے آگاہ ہونا بے شک ضروری سہی لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ عورت کے حوالے سے مرد پر بحیثیت باپ،بھائی اور شوہرجو فرائض عائد ہوتے ہیں ان کا شعور اتنے تسلسل سے اجاگر کیا جائے کہ حقوقِ نسواں کی کسی تحریک کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔اس حوالے سے ہمارے فاضل تلمیذ نے آج کے معروضی حالات کے تناظر میں معاشرتی اصلاح کے لیے زیر نظر کتاب میں عورت کے حقوق اور مرد کے فرائض کے حوالے سے اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے ۔تفصیل کے لیے :’’نکاح کے بعد‘‘،’’بیوی پر پابندیاں‘‘،’’ شادی کا فیصلہ‘‘،’’رفیقِ حیات کا فیصلہ کیسے ہو؟‘‘،کے عنوانا ت ملاحظہ فرمائیں ۔
کسی معاشرے کی طاقت اس کا اتحاد اور یکجہتی ہے ،اسلام کی برکت سے جب عربوں میں اتحادو یگانگت کا ظہور ہوا تواللہ تعالیٰ نے اس اتحاد کا اپنے خصوصی فضل کے طور پر تذکرہ فرمایا اسی اتحادکی بدولت وہ موقع پیدا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقی معنوں میں ’خاک کے ذروں کو ہمدوش ثریا کردیا ‘لیکن پھر ’اپنی ملت کو اقوام مغرب پر قیاس نہ کرنے والوں ‘ نے اس سبق کو بھلادیا تو اللہ نے بھی ان کو بھلادیا۔خاک مدینہ و نجف کو اپنی آنکھوں کا سرمابنانے والی قوم فرقہ بندی کے عفریت کی نظر ہو گئی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ فرقہ وارایت کا جن بے قابوہو چکا ہے۔ مسئلہ صرف مذہبی تعصبات تک محدود نہیں رہا بلکہ ہمارے سماج میں فرقہ وارایت کا ظہور کئی شکلوں میں ہورہا ہے ۔اس وقت مسلم معاشرے کا اتحادذات برادری، مسلکی،فقہی،لسانی ، جغرافیائی اورنسلی تعصّبات کے طوفان میں بری طرح گھر چکا ہے ۔ جس طبقے کے ذمے ان تعصبات کے خلاف سر پر کفن باندھ کر میدان کارزار میں نکلنا تھا اس کی نظر میں سرے سے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ ہمارے مذہبی طبقے میں تو یہ موضوع سماجی مسئلے کے طورکم ہی زیر بحث آتا ہے ۔اس تناظر میں فاضل مصنف نے اتحادو یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے والے منفی سماجی رویوں کو پوری قوت سے اجاگر کیا ہے ۔موصوف نے ’’قبیلہ پرستی‘‘،’’تعصبات اور قبیلہ پرستی خدااوررسول ؐ کی نظر میں‘‘، ’’قبیلے سے باہر شادیاں‘‘،’’بزرگوں کے طور طریقے‘‘، ’’اب ایسا نہیں چلے گا‘‘،جیسے عنوانات کے تحت آج کے ایک زندہ مسئلے کو موضوع بحث بنایا ہے ۔ 
کتاب کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ فاضل محقق بلدئ فکر کے ساتھ زبان و بیان پر بھی گہری گرفت رکھتے ہیں۔ بعض جملے اتنے شاندار ہیں کہ گویا دریا کوزے میں بند کر دیا گیا ہو اس نوعیت کے جملے بجا طور پر ان کو’’ اقوالِ زریں ‘‘ میں شمار کرنے کے لائق ہیں ۔چند جملے ملاحظہ ہوں : 
(ہمارا علاج قیمتی باتوں میں نہیں ،ضروری باتوں میں ہے ۔)
(انسانی تعمیر سے دلچسپی میں مبتلاء احباب کو علیم سے زیادہ حکیم ہونا ضروری ہے ۔)
(لوگ اس خیال پر جمے بیٹھے ہیں کہ تبدیلی حکمران بدلنے سے آئے گی حقیقت مگر یہ ہے کہ حکومت ہمارے بدلنے سے بدلے گی ۔)
(مدرسوں میں بندگی کو چھوتا ہواادب ایک طرف طلبہ کے مزاج میں پستی پیدا کر رہا ہوتاہے اور دوسری طرف اساتذہ میں غرور بڑھا رہا ہوتا ہے ۔)
(قربانی کسی ’’صاحبِ نصاب ‘‘کے’’عمل ‘‘کے طور نہیں بلکہ اپنے ’’وفا شعاروں ‘‘ کی ’’ادا‘‘کے طور پر ہی محبوب ہے۔)
اس وقت زیر نظر کتاب پر تفصیلی تبصرہ مقصود نہیں ہے تاہم مختلف مضامین پر نظر ڈالنے سے کتاب کی اس خصوصیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ’’درِ ادراک‘‘ ایک طرف ہمارے ہاں منفی سماجی رویوں کا بیان ہے تو دوسری طرف اصلاح معاشرہ کی کوششوں اور طریق کار پر ایک شاندار استدراک بھی ہے ۔توقع ہے کہ کتاب اپنے اسلوبِ بیان اور مصنف کے گہرے سماجی مطالعے اور تنقیدی نظر کی وجہ سے قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی۔ 

دینی مدارس میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائج

مولانا مفتی محمد زاہد

(۱۴ نومبر ۲۰۱۷ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ اور اقبال انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (IIRD) کے اشتراک سے ’’دینی مدارس میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائج‘‘ کے عنوان پر منعقدہ سیمینار میں گفتگو۔)

بعدالحمدوالصلوٰۃ۔میں سب سے پہلے تو مخدوم و مکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب، جناب مولانا عمارخان ناصر صاحب، الشریعہ اکادمی کے ذمہ داران اور ادارہ اقبال برائے مکالمہ و تحقیق کے ذمہ دارحضرات کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس محفل میں حاضری کا اور اپنی گزارشات پیش کرنے کا موقع عنایت فرمایا۔ میں انتہائی مختصر وقت میں چند موٹی موٹی باتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کروں گا۔ 
دینی مدارس میں عصری تعلیم کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ یا کیا ہونا چاہیے؟ 
اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز تویہ ہے کہ اس زمانے میں بچے کی سوشلائیزیشن یعنی بچے کو اپنی سوسائٹی کا، اپنے سماج کا حصہ بنانا کہ بچے کو اپنے معاشرے کی اقدار، معروف و منکر اور رہن سہن کا علم ہو، یہ مقصود ہوتا ہے۔اس طرح کے کام عموماً بچے کو والدین سکھایاکرتے تھے، لیکن آج کے دورمیں بچے کی سوشلائیزیشن کا عمل بھی تعلیمی اداروں ہی کے ذریعے سے ہوتاہے ۔ دینی مدارس میں ابتدائی عصری تعلیم کاایک مقصد یہ ہوسکتاہے اوردوسری طرف یہ بھی مقصد ہونا چاہیے کہ ہمارے جتنے بھی بچے ہیں اور بڑے ہوکرجس لائن میں بھی وہ جانے والے ہیں، چاہے وہ عالم دین بننے والے ہوں، انجینئر بننے والے ہوں یا ڈاکٹربننے والے ہوں، ان کی جو ابتدائی سوشلائیزیشن ہو رہی ہے، وہ تقریباً یکساں ہو۔ اگرہمارا بچہ شروع میں اسکول کی تعلیم سے بالکلیہ ناواقف ہوگاتوا س بات کاامکان موجود رہے گاکہ وہ اپنے آپ کو سوسائٹی کامکمل طور پرحصہ نہ سمجھ سکے۔ 
دوسری طرف بھی اس چیزکی ضرورت ہے کہ اسکول میں دینی بنیادی تعلیم، قرآن کی تعلیم کولازمی حصہ بنایاجائے۔ کہنے کی حدتک تویہ حصہ ہے، لیکن اس کو فعال اور متحرک بنانے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں مختلف تجربات مختلف جگہوں پرہوئے ہیں۔ مثلاً بہت ساری جگہوں پرحفظ کے ساتھ ساتھ ایک آدھ گھنٹہ نکال کربچے کو اسکول کی تعلیم دے دی جاتی ہے اورتھوڑے وقت میں بچہ بہت کچھ کور کر لیتا ہے۔ ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اصلاً تو بچہ اسکول جا رہا ہوتا ہے، لیکن پارٹ ٹائم قرآن کریم حفظ کررہاہوتاہے ۔ اس کی مثالیں بلکہ کامیاب مثالیں موجود ہیں۔
عام طور پر اس طرح کی چیزوں میں سب سے بڑاسوال یہ اٹھتاہے کہ حفظ کی تعلیم کے ساتھ اگر دوسری چیز اٹیچ ہوگی یادوسری تعلیم کے ساتھ حفظ اٹیچ ہوگا توحفظ کمزوررہے گا، لیکن حفظ کے کمزوررہنے یانہ رہنے کادارومدار اس چیز پر ہوتا ہے کہ حافظ بننے کے بعد اس نے قرآن مجید کی طرف توجہ کتنی دی ہے ۔ اگرکچا پکا یا درمیانہ سا یاد ہے لیکن زندگی بھر خاص طور پررمضان میں اگروہ قرآن کی طرف متوجہ رہتاہے تواس کاحفظ ٹھیک ہوتاہے۔ ایک تیسراتجربہ ہے، ہمارے ہاں بھی اس پرعمل ہورہاہے، اوربھی کئی جگہ پر اس پرعمل ہورہاہے۔ وہ یہ کہ وہ بچہ داخل کیاجائے جوپرائمری پاس ہویعنی ابتدا میں بچہ ناظرہ پڑھنے کے لیے مسجد میں بے شک جائے، لیکن حفظ کے لیے مدرسے میں قاری صاحب کے حوالے کرنے کی بجائے وہ روٹین میں اسکول ہی جائے، ابتدا میں ہم نے رعایت رکھی تھی کہ اساتذہ کے بچوں کوہم ابتدا ہی سے حفظ میں داخل کرلیتے تھے اورایک استادان بچوں کے لیے مقرر کر دیا تھا، لیکن وہ تجربہ بھی اتناکامیاب نہیں ہوا۔ اب ہم اپنے اساتذہ کوبھی کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کوپرائمری تک اسکول میں پڑھاؤ۔
اس کے مختلف اسباب ہیں جن میں سے ایک تویہ کہ قاری صاحب کی درس گاہ میں جو جلال کاغلبہ ہوتاہے، چھوٹے بچے کے لیے وہ ماحول شایداتنازیادہ سازگار نہ ہو۔ دوسرے ماحول میں وقت گزارکرآئے گاتوبہت سی چیزیں سیکھا ہوا ہو گا اور ان پر محنت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ دوسرایہ کہ اتنے چھوٹے بچے کی لرننگ کی رفتار سست ہوتی ہے ، اس کی سست رفتاری کو اپنے یا قاری صاحب کے ذمہ ڈالنے کی بجائے ابتدائی تعلیم اسکول میں عام ماحول میں ہی ہو تو بہتر ہے۔ بچہ پانچویں پڑھ چکاہو گاتواس کوحروف کی شناخت ہوچکی ہوتی ہے، سمجھ دارہوچکاہوتا ہے، وہ اڑھائی تین سالوں میں حفظ مکمل کر سکتا ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں ہیں بلکہ ایک سال میں حفظ کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ کرتے ہیں اوربہت ساری جگہوں پریہ ہو رہا ہے کہ چھٹی، ساتویں، آٹھویں کے مشکل مضامین تھوڑے تھوڑے کر کے ساتھ پڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ بچہ جب حفظ سے فارغ ہوتاہے توتھوڑی سی ٹیوشن پڑھ کر مڈل کاامتحان دے لیتاہے۔ اس کے بعد پھرا س کے لیے آگے راستہ کھلاہوتاہے۔
اس سے اوپرکی تعلیم میں کئی مقاصد پیش نظر ہوتے ہیں۔ ایک تویہ کہ عصری تعلیم کی ایسی سندموجود ہو جو سرکاری طور پر مسلمہ ہو۔ اس سے دینی مدرسے کے فارغ التحصیل کے لیے یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے راستے کھل جائیں گے اور الحمدللہ جب سے یہ راستے کھلے ہیں، اس کے بہت سارے اچھے فوائداورثمرات نظر آئے ہیں۔ دوسری چیز یہ پیش نظرہوتی ہے کہ ہمارے مدارس اور مساجدمیں شاید افرادکے کھپانے کی اتنی گنجائش نہیں ہے جتنی بڑی تعداد دینی مدارس سے الحمدللہ فارغ ہورہی ہے۔ جوفارغ التحصیل ،ہیں ان کے لیے روزگار کے مواقع ہونے چاہئیں تو اس حوالے سے بھی عصری تعلیم کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ یہ تعلیم روزگار میں کتنی کارگر ہے، یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن بہرحال یہ سوچ ذہن میں ہوتی ضرورہے۔ 
اس سلسلے میں ایک مستقل مجلس الشریعہ اکادمی میں ہو چکی ہے کہ فضلائے کرام کے معاشی مسائل کا حل کیا ہو؟ اس سلسلے میں، میں یہ عرض کروں گایہ صرف ہماری تعلیم ہی کامسئلہ نہیں ہے، ہماری جومین اسٹریم ایجوکیشن ہے، اس میں بھی یہ مسئلہ ہے کہ صرف نوکری کرنا سکھلایا جاتا ہے، اس کے علاوہ بچے کو اور کچھ نہیں سکھایاجاتا، حالانکہ تھوڑاسابزنس مائنڈ بنانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ایک فارغ التحصیل عالم نے کسی اور لائن میں جانا ہی ہے تو اگر وہ کچھ بزنس مائنڈڈ ہوگا تو بجائے اس کے کہ وہ کسی سے روزگار مانگے، وہ روزگار دینے والا بن جائے گا۔ اس کے علاوہ عصری تعلیم سے متعلق کچھ خالص دینی مقاصد بھی ہوتے ہیں اور یہ جتنی بھی بحثیں ہیں، اصل مقصدضرورہمارے پیش نظر رہنا چاہیے۔ اصل مقصود وہ متبحر، عمیق علم رکھنے والے، رسوخ فی العلم رکھنے والے علماء پیداکرناہے جوہرزمانے کے مطابق لوگوں کواللہ کی طرف، اللہ کے رسول کی طرف بلاسکیں اوردینی امورمیں لوگوں کی رہنمائی کرسکیں۔ یہ ایک مستقل مقصد ہے اوراس کے لیے الگ انداز سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ محض کوئی سندیاڈگری حاصل کر لینا شاید اس کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس دورکے جو چیلنجز ہیں، کچھ کلامی نوعیت کے ہیں، کچھ فقہی اورقانونی نوعیت کے ہیں، سماجی اور معاشرتی نوعیت کے ہیں، معاشی نوعیت کے ہیں، دعوتی نوعیت کے ہیں۔ ہرایک کوسامنے رکھ کراس کے حساب سے الگ سے تعلیم کابندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔
ابتدائی تعلیم کے بعد بہت سارے مدارس ایسے ہیں جن میں اولیٰ کے سال کو دو حصوں میں تقسیم کرکے باقاعدہ میٹرک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ کافی حد تک اچھااور کامیاب تجربہ ہے، لیکن میری معلومات کی حد تک اس میں دوتین مسائل پیش آرہے ہیں۔ ایک مسئلہ تووہی ہے جس کا حضرت مولانا مفتی حامد حسن صاحب نے ذکرفرمایاتھاکہ ایک استاد رکھا تواس کے نتیجے میں طلباء چلے گئے۔ اپنااستاد ہوتویہ مسئلہ ذراکم ہوجاتاہے۔ یہ مسئلہ اس وجہ سے ہے کہ گھر والے بچے کویہ سوچ کر مدرسے میں بھیجتے ہیں کہ یہ کوئی زیادہ صلاحیت رکھنے والابچہ نہیں ہے، لیکن یہاں چونکہ وہ چوبیس گھنٹے ہماری نگرانی میں ہوتاہے، محنت کرتاہے، پڑھتا ہے، اس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے تووہ میٹرک میں بہت اچھے نمبرلے لیتا ہے اور بعض اوقات والدین کی توقعات سے بہت بڑھ کرنمبرلے لیتاہے تووالدین کاذہن دوسری طرف چلناشروع ہو جاتا ہے کہ اچھا! ہمیں تواب پتہ چلا کہ ہمارابچہ ذہین ہے۔ اگریہ ذہین ہے تواسے ایف ایس سی کرانی چاہیے، اس کوکسی اورطرف لگاناچاہیے۔ اگرچہ یہ بچہ ابتداء میں مدرسے میں پڑھ کرکسی اورطرف بھی چلا گیا تو دین کی جوبنیاد اس کے اندرپڑ گئی ہے، وہ ان شاء اللہ اس کے ساتھ رہے گی، لیکن پھربھی ہم نے اس پرمحنت کی ہے، ہمارے ہی کام آئے اورآخرتک ہمارے پاس ہی پڑھے، یہ ہماراایک مقصد ہوسکتاہے۔ تواس میں اگرہمارے اپنے اساتذہ ہوں، وہ ترغیب سے کام لیں تواس مسئلے کوحل کیاجاسکتاہے۔
دوسرے ایک چیزمحسو س کی گئی ہے، ہماراپناذاتی تجربہ بھی ہے کہ آپ اولیٰ میں عربی زبان کے قواعد پڑھاتے ہیں یا اسے دوسالوں میں تقسیم کردیتے ہیں، اگرچہ دورانیہ اتناہی ہوتاہے، لیکن اس کے باوجود قواعدمیں، صرف ونحومیں کچھ نہ کچھ کمی ضرور رہ جاتی ہے۔ یہ قابل غورہے اور اس کاحل ہونا چاہیے۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ دارالعلوم دیوبندمیں تعلیمی سال کا اختتام شعبان کے آخرمیں ہوتاتھا۔ پچیس شعبان کے لگ بھگ امتحان ہوتے تھے۔ دینی مدارس میں تعلیمی سال چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ شعبان کاپہلاہفتہ امتحان کاہوتاتھا، اب رجب کے آخری ہفتہ بلکہ آخری عشرہ کی طرف آنے لگ گئے ہیں، اوردوسری طرف بعض مدارس میں تعلیم کاآغاز بھی ذرادیر سے ہوتا ہے۔ تو تعلیمی سال کودوبارہ بڑھانے کی طرف توجہ دیں تواس مسئلے کوحل کیاجاسکتاہے۔ ہم نے ایک تجربہ یہ بھی کیاکہ اولیٰ میں جومیٹرک والے طلبہ ہیں، ان کوہم رمضان سے ایک دو دن پہلے چھٹی دیں، لیکن باقی مدرسے میں چھٹی ہوچکی ہوتی ہے۔ چند ایک کوجب رکھتے ہیں تووہ ایک نیاماحول محسوس کرتے ہیں، اس میں ان کا دل پوری طرح لگانا، ان کوپڑھائی پر لگانا بھی اچھاخاصاکام ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم جس لیول پربھی ہو، ایک اہم مسئلہ تاریخوں کاclash ہوتاہے، انہی تاریخوں میں بورڈ کے امتحان ہورہے ہوتے ہیں، انہی تاریخوں میں وفاق کے امتحان ہو رہے ہوتے ہیں ۔ قمری وشمسی حساب کی وجہ سے بعض اوقات تاریخیں تقریباً اکٹھی ہو جاتی ہیں۔
میٹرک کے بعدمیرے علم کے مطابق تین ماڈلز چل رہے ہیں۔ ایک یہ کہ میٹرک کر کے طالب علم دورہ حدیث تک اب اپنے آپ کوروک کررکھے، اس دوران مزیدکسی اورطرف توجہ نہ دے۔ بہت ساری جگہوں پریہ ماڈل روبہ عمل ہے اور اس کے اپنے فوائد، اثرات اور نتائج ہیں۔ دوسراماڈل ہے کہ عصری تعلیم کوباقاعدہ اپنے نظام کاحصہ بنا لیا جائے، وہاڑی میں جامعہ خالدبن ولیدمیں، جامعۃ الرشید میں،اسلام آبادکے اندر مولانافیض الرحمٰن عثمانی کے ہاں، جامعہ حنفیہ بورے والا میں ایسا ہی ہے اور اس طرح کی کئی اور مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ تیسراماڈل یہ ہے کہ ادارہ اپنی طرف سے کوئی اس طرح کاانتظام نہیں کرتا، لیکن طلبہ کومشروط طور پراجازت دے دیتاہے۔ مثلاًہمارے ہاں جامعہ امدادیہ میں گذشتہ سال کی حاضریوں کا ریکارڈ دیکھاجاتاہے، گزشتہ تعلیمی سال میں امتحانات میں نمبروں کی ایک مخصوص حدمتعین کی جاتی ہے تاکہ پتہ چلے کہ اس تعلیم میں توجہ کیسی ہے اورایک یہ کہ چھٹی جوملے گی، وہ صرف امتحان دینے کی ملے گی، تیاری کا زیادہ حصہ شعبان رمضان کی یادیگر چھٹیوں میں مکمل کرناہوگا۔ 
لیکن ان تینوں ماڈلز میں بھی مسائل ومشکلات ہیں۔ ممانعت والے میں یہ ہے کہ دورہ حدیث کے بعد اس گیپ کو اگر طالب علم کور کرنا چاہے توسال زیادہ لگتے ہیں اور کسی جگہ سیٹل ہونے میں وقت زیادہ لگ جاتا ہے۔ عمرکا مسئلہ بھی اس میں آ جاتا ہے۔ اپنے طورپرتیاری کے ماڈل میں ایک مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ بچے چھٹیوں کے دوران اپنے گھروں میں کسی استادسے تیاری کر رہے ہوتے ہیں یا تعلیم کے ساتھ ہی عصرکے بعد یاکسی اوروقت اپنے طورپرکسی کے پاس جاکرتیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ دوقسم کی تیاریوں میں یکسانیت بعض اوقات نہیں ہوتی، اس سے تیاری کے سلسلے میں طالب علم کے ذہن پر اضافی بوجھ پڑتاہے۔ دوسرایہ کہ ایک بالکل مختلف ماحول میں کچھ دیر کے لیے طالب علم کو جانا پڑتا ہے ۔اصل ضرورت اس چیز کی ہے کہ بحیثیت مجموعی پورے سسٹم اورپورے نظام پرطویل اوروسیع پیمانے پرمشاورت ہواوروسیع غور وفکرہو۔
اس کی دوجہتیں ہیں۔ ایک تومدارس، وفاق ہائے مدارس، تنظیمات ہائے مدارس کی سطح پر۔ اگرہم اپنی پہلی ٹرمنالوجی کودیکھیں تو دینیات اور درسیات کے الگ الگ حصے ہوتے تھے۔ جس طرح آج کل عصری تعلیم کے بارے میں یہ ہے کہ یہ تدین کے حوالے سے برے اثرات پیداکرے گی، بعینہ یہی تحفظات پہلے بزرگوں کے ملفوظات میں درسیات، مثلاً منطق وفلسفہ کے متعلق ملتے ہیں، کیونکہ یہ اس دورکے عصری علوم تھے ۔ مثلاً حضرت مولانا خیر محمد صاحب کے بارے میں حضرت والدصاحب سے سناکہ ان کاذوق یہ تھاکہ مشکوٰۃ اوردورہ حدیث سے پہلے جودرسیات پڑھنی ہیں، شمس بازغہ اورملاصدرا وغیرہ، پڑھ لو، تاکہ اس کے اوپرجوتہہ لگے، وہ علم حدیث کی لگے اورجوبرے اثرات ہوسکتے ہیں، ان کاحدیث کے ذریعے سے ازالہ ہوجائے۔ وہ تحفظات وہاں بھی تھے جو آج عصری علوم میں ہیں، لیکن ان چیزوں کو نظام کا حصہ بنایا گیا۔ جوچیزیں ہم لے کرچل رہے ہیں، ان میں جوغیرضروری چیزیں ہوں، ان میں کمی کرکے ان کی جگہ پر ضروری چیزوں کو شامل کر لیں۔ بہرحال ہم عملی طور پر دوالگ الگ نظام ہائے تعلیم کی پیوندکاری کررہے ہوتے ہیں، بلکہ ہم کیاکررہے ہوتے ہیں، طالب علم اپنے طور پر کر رہا ہوتا ہے جس سے وہ ایک عجیب ساملغوبہ سا بن جاتا ہے۔ اگرمدارس ازخوداس پر جامع مشاورت کرکے ایک جامع نظام بنالیں تواس سے طلباء کے لیے آسانی بھی ہو جائے گی اورنتائج بھی بہترسامنے آنے کی توقع ہے ۔
اس مشاورت کادوسرا پہلو سرکاری سطح پر ہے، کیونکہ بہت سارے مقاصد اس چیزپرمنحصرہیں کہ جو سندبھی ہمارے بچے کے پاس ہے، وہ سرکاری طورپرتسلیم شدہ ہو۔ مدارس کی اسنادکا اعتراف کیسے کرناہے؟ کن بنیادوں پر کرنا ہے؟ اس کے لیے فی الحال میری ناقص معلومات کے مطابق کوئی قانون موجودنہیں ہے، چندایک نوٹیفکیشنز ہیں اور بس۔ ایک جامع قانون سازی کی ضرورت ہے اوراس قانون سازی کے پیچھے جتنے بھی اسٹیک ہولڈرزہیں، وفاق ہوں، مدارس ہوں، مدارس کے فضلاء ہوں، جہاں ان فضلاء نے کھپنا ہوتا ہے، وہ لوگ ہوں، جہاں ان فضلاء نے داخلہ لینا ہوتا ہے، وہ ادارے ہوں یا سوسائٹی کے سرکردہ لوگ ہوں، پہلے تو اس پروسیع مباحثہ ہوناچاہیے اور اس کے بعدضرورت کے مطابق ایک جامع قانون سازی کی جانی چاہیے۔خاص طور پردوبڑے اہم مسئلے آئندہ آرہے ہیں اور وہ ہمارے لیے مسائل پیداکریں گے ۔ ایک تویہ کہ اب تک گریجویشن دوسالہ ہے، دوسال میں بی اے ہو جاتی ہے ، لیکن ممکن ہے کہ پوری دنیا کے ٹرینڈ کے مطابق چارسالہ گریجویشن ہو جائے۔ اس سے یہ اپنے طور پر چلنے والاسلسلہ نبھانابہت مشکل ہو جائے گا۔ اس کے لیے ایک پورے سسٹم کی اور وسیع اور گہرے غوروخوض کی ضرورت ہے۔ دوسرامسئلہ یہ کہ یونیورسٹی لیول کی تعلیم میں پرائیویٹ تعلیم کا تصور اگر ختم ہو گیا توبھی مسائل پیدا ہوں گے۔ آنے والے وقت میں ہمارا جنرل تعلیمی رجحان اور دنیاکا رجحان کس طرف جارہا ہو گا، ہماری ملک کی عمومی تعلیم کدھرجارہی ہوگی، اس کاصحیح اندازہ لگاکربروقت سوچناہماری ذمہ داری ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے اس بیٹھنے کی برکت سے مزیدراہیں کھولیں۔ آمین

موجودہ دور میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۴ جنوری ۲۰۱۸ء کو مجلس صوت الاسلام کلفٹن کراچی میں علماء کرام کی ایک نشست سے خطاب کا خلاصہ۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج ہماری گفتگو کا عنوان ہے کہ ایک مسلمان ریاست میں غیر مسلموں کے کیا حقوق و مسائل ہیں اور کسی غیر مسلم ریاست میں رہنے والے مسلمانوں کے معاملات کی نوعیت کیا ہے؟ ہمارے ہاں جب پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور برما سمیت یہ خطہ، جو برصغیر کہلاتا ہے، متحد تھا اور مسلمانوں کی حکمرانی تھی تو اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں فقہی بحث و مباحثہ اس قسم کے عنوانات سے ہوتا تھا کہ یہاں رہنے والے ذمی ہیں یا معاہد ہیں، اور یہاں کی زمینیں عشری ہیں یا خراجی ہیں۔ اس علاقہ میں اسلام مجاہدین کی جنگوں کے ذریعے بھی آیا ہے، صوفیاء کرام کی دعوت و اصلاح کی محنت سے بھی آیا ہے اور تاجروں کی آمد ورفت بھی فروغِ اسلام کا ذریعہ بنی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جہاد کے ذریعے مغلوب ہونے والے لوگوں اور علاقوں کی حیثیت از خود مسلمان ہوجانے والے لوگوں اور علاقوں سے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے اس حوالہ سے یہاں ہمارے فقہی مباحث کا ایک وسیع دائرہ ماضی کے علمی ذخیرہ میں ملتا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ مدنی دور میں ہمیں اس سلسلہ میں مختلف صورتیں دکھائی دیتی ہیں:
چنانچہ دورِ نبوی کی انہی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مسلمان ریاست کا حصہ بننے والے خطوں اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں فقہاء کرام نے الگ الگ فقہی ابواب و احکام مرتب فرمائے اور متحدہ ہندوستان پر مسلمانوں کے اقتدار کے دور میں بھی بحث و مباحثہ کا یہ تنوع موجود رہا جس کی ایک مثال یہاں کی زمین کے عشری یا خراجی ہونے کی بحث میں ملتی ہے۔ لیکن جب برصغیر پر انگریزوں کا اقتدار قائم ہوجانے کے بعد دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا انتظامی و مالیاتی کنٹرول قائم ہونے پر حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی اور حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا اور اہل علم کے عمومی حلقوں میں اس فتویٰ کو قبول کر لیا گیا جس کے نتیجے میں فرنگی اقتدار کے خلاف مسلح جنگوں کا وسیع سلسلہ شروع ہوگیا تو میری طالب علمانہ رائے میں یہ سارے فقہی مباحث ماضی کا حصہ بن گئے تھے اور اس پورے خطہ کی شرعی حیثیت یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ اس سے قبل اس علاقہ میں مسلمان غالب اور غیر مسلم مغلوب تھے جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری قائم ہونے کے بعد یہ پہلے کے غالب و مغلوب دونوں مغلوب ہوگئے تھے اور دونوں نے مل کر اس نئے غلبہ کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اب ان کے درمیان غالب اور مغلوب کا تعلق نہیں رہا تھا بلکہ مستقبل کے معاملات میں یہ باہمی شریک کار بن گئے تھے اور اس طرح ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا جسے شرعی اور فقہی حوالہ سے نئی صورتحال کے طو رپر دیکھنا ضروری ہے۔ یہ میری طالب علمانہ رائے ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ جنگ آزادی اور اس کے بعد کے معاملات کے حوالہ سے اس خطہ کے مسلم اور غیر مسلم دونوں باہمی معاہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے باہمی معاملات کو ان معاہدات کے دائرہ میں دیکھنا ہوگا جو حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے فتویٰ کے بعد جنگ آزادی میں یہاں کی مسلم اور غیر مسلم اقوام کے درمیان باہمی اشتراک عمل کی صورت میں وجود میں آئے تھے او یہ عملی اور خاموش معاہدات ہی آئندہ کے سارے معاملات کی بنیاد بنتے ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان بننے کے بعد اس ریاست کے تمام غیر مسلم طبقوں کی حیثیت معاہدین کی بنتی ہے اور ان پر ذمی کا اطلاق درست معلوم نہیں ہوتا اس لیے کہ جنگ آزادی اور تحریک پاکستان میں یہ سب باہم شریک کار تھے جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد ’’دستور پاکستان‘‘ کی صورت میں ہمارے درمیان ایک سماجی معاہدہ تشکیل پا چکا ہے۔ اس لیے جو غیر مسلم حلقے پاکستان کے شہری کے طور پر دستور پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی پابندی کا عہد کرتے ہیں، وہ ہمارے معاہدین ہیں اور ان کے ساتھ دستور میں ہمارے جو معاملات طے پائے ہیں، ان کی پابندی کرنا اور دستور کے مطابق وطن عزیز کے غیر مسلم باشندوں کو ان کے حقوق ادا کرنا بلکہ ان کی پاسداری کرنا ہماری قومی اور شرعی ذمہ داری قرار پاتی ہے۔ البتہ قادیانیوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے، اس لیے کہ وہ اس دستوری معاہدہ کو تسلیم نہیں کر رہے اور اس سے مسلسل انکاری ہیں۔ چنانچہ جب تک وہ ملک کی دیگر غیر مسلم آبادیوں کی طرح دستور پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے اور اس پر عملدرآمد کی ضمانت نہیں دیتے، انہیں دوسری غیر مسلم آبادیوں کی طرح برابر کے حقوق نہیں دیے جا سکتے۔
یہ تو ایک مسلم ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں کی بات ہے جس کے بارے میں پاکستان کے تناظر میں ہم نے چند گزارشات پیش کی ہیں۔ اب ہم مسئلہ کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں کہ غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو وہاں کس طرح رہنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ہم اپنی معروضات کو درج ذیل دائروں میں پیش کریں گے:

تکفیر کی اتھارٹی، علماء یا حکومت؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک سوال ان دنوں کم و بیش ہر جگہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے ذریعے کفر کے فتوے کی اتھارٹی اب حکومت و عدالت کو منتقل ہوگئی ہے؟ اور اگر ایسا ہوگیا ہے تو مفتیان کرام کا اس میں کیا کردار باقی رہ گیا ہے؟
اس سلسلہ میں اپنا ذاتی نقطہ نظر پیش کر رہا ہوں جسے من و عن قبول کرنا ضروری نہیں ہے البتہ اس کے بارے میں اہل علم و دانش سے سنجیدہ توجہ اور غور و خوض کی درخواست ضرور کروں گا۔ یہ سوال اس سے قبل ہمارے سامنے اس وقت بھی آیا تھا جب بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی میں یہ تحریک پیش کی گئی تھی کہ بنگلہ دیش میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ وہاں کے قادیانی حلقوں نے بڑے شد و مد کے ساتھ یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا کسی کو مسلمان یا کافر قرار دینا اسمبلیوں کا کام ہوتا ہے یا یہ ذمہ داری اہل علم و فتویٰ کی ہے؟ بنگلہ دیش کے بعض علماء کرام نے سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی سے اس سلسلہ میں رجوع کر کے راہنمائی طلب کی تھی جس پر مولانا چنیوٹی نے بہت سے دیگر علماء کرام کے علاوہ مجھ سے بھی مشورہ کیا تھا اور میری اس گزارش سے اتفاق کیا تھا کہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کی شرعی حیثیت تو علماء کرام نے واضح کر دی ہے اور سب اہل علم کا اس سے اتفاق ہے، مگر اسے عملی قانون کا حصہ بنانے اور اس کے معاشرتی اطلاق و تنفیذ کے لیے پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا جا رہا ہے، کیونکہ کسی معاملہ کے سوسائٹی پر اطلاق اور اس کی عملی تنفیذ کی اتھارٹی بہرحال حکومت وقت کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم نے جب پاکستان کی حکومت اور پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا تو وہ مطالبہ یہ نہیں تھا کہ پارلیمنٹ قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فتویٰ صادر کرے، بلکہ یہ تھا کہ چونکہ اس گروہ کو پوری امت مسلمہ غیر مسلم قرار دے چکی ہے، اس لیے قانون و دستور میں بھی ان کی یہ حیثیت تسلیم کی جائے۔
میرے خیال میں وہی سوال اب مذکورہ صورت میں ہمارے سامنے آگیا ہے کہ کفر و اسلام کی بحث تو اہل علم و افتاء کا کام ہوتا ہے، اس میں حکومت یا پارلیمنٹ کو اتھارٹی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ میری طالب علمانہ رائے میں کسی فرد یا گروہ کے کفر یا اسلام کو واضح کرنا تو بہرحال اہل علم و فتویٰ ہی کی ذمہ داری بنتی ہے مگر اس کی عملی تطبیق اور معاشرتی اطلاق کی اتھارٹی عدالت، پارلیمنٹ یا حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد ان کے بارے میں اس اجتماعی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے عدالت، حکومت اور پارلیمنٹ سے رجوع کیا تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل اس مقصد کے لیے ریاست بہاولپور کی عدالت کے سامنے حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیری، حضرت علامہ غلام محمد گھوٹوی اور دیگر اکابر علماء کرام کا پیش ہونا اور اس سے فیصلہ طلب کرنا اسی مقصد کے لیے تھا، جبکہ اسی ناگزیر ضرورت کے تحت قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ حکومت وقت سے کیا گیا تھا جو ۱۹۴۷ء میں ایک دستوری بل کی صورت میں منتخب پارلیمنٹ کے سامنے رکھا گیا تھا اور اس کے بعد یہ معاملہ وفاقی شرعی عدالت اور عدالت عظمیٰ کے سامنے بھی پیش ہوا تھا۔ یہ سارے مراحل اس امر کی توثیق کرتے ہیں کہ کسی فتویٰ کا عملی اطلاق اور اس کی معاشرتی تنفیذ حکومت و عدالت ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی قانونی یا دستوری مسئلہ پر حکومتی رائے وہ ہوتی ہے جو اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل یا ڈسٹرکٹ اٹارنی پیش کرتے ہیں، لیکن اسے قانونی فیصلے کی حیثیت متعلقہ عدالت کے حکم سے حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ باقاعدہ قانونی صورت اختیار کرتی ہے۔ ایک حد تک اس معاملہ کو اس فقہی قاعدہ کی صورت میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی کیس میں قاضی کا فیصلہ قانونی تقاضے تو پورے کر لیتا ہے جبکہ حقیقتاً وہ درست نہیں ہوتا حتیٰ کہ اس میں حلال و حرام کے معاملات بھی گڑبڑ ہو جاتے ہیں، تو ایسی بعض صورتوں میں فقہاء کرام یہ کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ قضاء میں تو نافذ ہو جائے گا مگر دیانتاً نافذ نہیں ہوگا۔ دیانت اور قضا کے درمیان جو یہ فرق کیا جاتا ہے اس سے اتنی بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی مسئلہ کے عملی نفاذ و اطلاق کی صورت اس کی علمی و دینی حیثیت سے مختلف ہو سکتی ہے اور اس کا فقہی طور پر بھی اعتراف کیا جاتا ہے۔
میری یہ گزارشات ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کی توضیح یا دفاع کے حوالہ سے نہیں بلکہ اس سے پیدا ہونے والے ایک سوال کے بارے میں فقہی صورتحال کے ایک پہلو کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہیں کہ کسی فرد، طبقہ یا گروہ کے مسلمان یا کافر ہونے کی بحث و فیصلہ تو اصولی طور پر اہل علم و فقہ کا کام ہے مگر اس کی معاشرتی تنفیذ اور قانونی اطلاق متعلقہ اور مسلمہ اداروں کے ذریعے ہی قابل عمل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جب ہم کسی مسئلہ کی شرعی پوزیشن کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اس کے عملی اطلاق اور معاشرتی تنفیذ کے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے بہرحال کنفیوڑن پیدا ہوتا ہے، جبکہ ان دونوں معاملات کو الگ الگ رکھا جائے تو اس قسم کی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے۔

’’پیغام پاکستان‘‘ : پس منظر اور پیش منظر

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

دہشت گردی کے خلاف علماء کرام نے ’’ پیغام پاکستان‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں ایک متفقہ فتویٰ صادرکیا ہے جس پر 1800 سے زائد علماء کے دستخط ہیں۔اس کتا بچے کو ادارہ تحقیقا ت اسلامی نے شائع کیا ہے۔ اس کا قومی بیانیے کے حوالے سے اجراء صدر پاکستان کی سربراہی میں علماء کرام اور حکومتی نمائندہ شخصیات کی موجود گی میں اسلام آباد میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ہوا۔ اس فتویٰ میں دہشت گردی، خونریزی، خود کش حملوں اور ریاست کے خلا ف مسلح جدو جہد کو، خواہ وہ کسی نام یا مقصد سے ہو، حرام قرارد یا گیا ہے اور ان چیزوں سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے علماء کرام کی تجاویز ہیں۔ اس فتویٰ کی اہمیت کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کو تمام مسالک کے علماء ومفتیان کرام کی ایک بڑی تعداد نے نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے اور پھر ریاست نے اس کو قومی بیانیہ قرار دے دیا ہے۔ 
پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے نا درست خارجہ پالیسیوں یا کچھ عناصر کے بے لگام ہونے کی وجہ سے بد امنی اور انتشار کی کیفیت تھی۔ مشر ف حکومت کے بعد دہشت گردی اور بد امنی میں مزید اضافہ ہوا۔دہشت گردی ، بدامنی اور انتشار کی اس کیفیت نے ملک عزیز کی سلامتی کوداؤپر لگا رکھا تھا، پاکستان کی معیشت ہچکولے کھار ہی تھی، بہت سی قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا تھا۔ ملک میں داخلی سطح پر جو کیفیت تھی سو تھی، عالمی طور پر پاکستان کا امیج خراب ہو چکا تھا، اور ہمارے ہمسایے ہمیں آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ انھی حالات میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ یہ واقعہ آرمی پبلک اسکو ل میں ڈیڑ ھ سو کے قریب بچوں، اساتذہ اور یگر عملے کی شہادت کا تھا۔ ننھی اور معصوم کلیوں کی شہادت کے درد کو پوری قوم نے محسوس کیا اور اس المناک حادثہ نے پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف ایک صف میں لا کھڑا کیا۔ دہشت گر دی کا مقابلہ کرنے اور اس کو شکست دینے کے لیے پوری قوم مضبوط و آہنی عز م کے ساتھ متحد ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ در حقیقت ملک عزیز کو درپیش چیلجز سے نمٹنے کے لیے ایسے ہی اتفاق و اتحاد کی ضرورت تھی۔ 
اس واقعہ کے بعددہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے ریاست نے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا، دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے مختلف آپریشن کیے گئے، بینکوں میں اکاؤنٹس کی چھان بین کی گئی، سموں اور شناختی کارڈز کی رجسٹریشن کا نظام سخت کر دیا گیا، میڈیا و سوشل میڈیا کی کڑی نگرانی کی گئی، اور انسداد دہشت گردی کے ادارہ نیکٹا کو مضبوط کیاگیا۔ ان تمام عملی کاموں کے ساتھ دہشت گردوں کا نظری سطح پر بھی مقابلہ کیا گیا۔ اس ضمن میں علماء کرام کی خدمات نہایت وقیع ہیں۔ علماء کرام نے دہشت گردی کے خلاف فتاویٰ اور بیانیے صادر کیے، دہشتگردوں کا نظری سہارا ختم کرنے کے لیے ان آیات، احادیث اور عبارات کے جواب دیے جن کو وہ استعمال کر رہے تھے، ان نصوص کی درست تعبیرات و محل کو امت کے سامنے واضح کیا۔ دہشت گر دی کے خلاف جنگ میں امن پسند علماء کرام کو اپنے فتاویٰ کی بھاری قیمت چکا نا پڑی۔ اس جنگ میں بہت سے ممتاز علماء کرام کی شہادتیں ہوئیں۔ ان علماء کرام کی انفرادی کوششوں کے بعد اب یہ اجتما عی اور متفقہ فتویٰ بھی آچکا ہے جس کو قومی بیانیہ قرار دینا اور اس حوالے سے مزید کوششیں کرنا نہایت خوش آئند اقدام ہے۔ 
ہمارے ہاں مخصوص حالات اور خاص پس منظر میں کی جانے والی کوششیں صرف ان حالات سے نمٹنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ بلاشبہ عام طور پر کوئی بھی کوشش مخصوص حالات اور خاص پس منظر میں ہی شروع کی جاتی ہے، لیکن اس کو ایسی مستقل بنیادوں پر استوار کرنا کہ دوبارہ اس قسم کے حالات سے دوچار نہ ہونے پڑے، یہی اصل دانشمندی ہوتی ہے۔ دہشت گر دی کے خلاف ہماری جو کوششیں ہیں، انہیں بھی مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم وقتی امن کی بجائے مستقل اور پائیدا ر امن قائم کرسکیں اور نسل نو کو آگے بڑھنے کے اچھے مواقع فراہم کرسکیں۔ 
اس ضمن میں کیا کیا جاسکتاہے، اس حوالے سے مختلف اہل علم اور صاحب قلم حضرات آرا دے رہے ہیں۔ میں بھی چند آرا دینا چاہوں گا۔ 

فرقہ واریت کا خاتمہ

دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے مختلف نوعیت کی محنت درکارہے۔ ایک کوشش فرقہ واریت کو ختم کرنے کی ہے۔ فرقہ واریت سے مراد کسی بھی سطح پر ایسی گروہ بندی یا فرقہ بندی ہے جو دیگر گروہوں کے خلاف منفی جذبات کی تعمیر میں مصروف ہو اور شدت پسندی کو ابھار رہی ہو۔ ایسی گروہ بندی مذہبی، لسانی، صوبائی یا کسی بھی لحاظ سے ہو، اس کا قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمیں ایک قوم بننا ہے جس کی امنگیں، خواہشیں، ترجیحات اور مفادات یکساں ہوں۔ تبھی ہم ترقی کر سکتے ہیں اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ 
جو فرقے اور جماعتیں بن چکی ہیں، ان کو ختم کرنا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن رواداری، احترام اوربرداشت کے ذریعے ہم پر امن ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔ فرقہ واریت میں چند چیزیں ایسی ہیں جن کو اگر ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو فرقہ واریت کی شد ت کم ہو سکتی ہے:
1۔ مختلف فرقوں کی کتابوں اور لٹریچر میں ایک دوسرے کے خلاف سخت فتاو یٰ اور غیر مہذب اور اخلا ق سے عاری الفاظ موجود ہیں۔ ان فتاویٰ پر شاید ان مسالک کو دل و جان سے حرز جان بنانے والے لوگ بھی نہ عمل کر پاتے ہوں، کیونکہ معاشرتی طور پر ایک دوسرے سے اتنا کٹ جانا کہ آدمی معاشرتی افعال خرید و فروخت، شراکت، تعلق داری اور دیگر معاملات میں صرف اپنے مسلک تک محدود ہو کر رہے، یہ عملی طور پر بہت مشکل کام ہے۔ اس قسم کے شدت پسندی پر مبنی فتاویٰ اگر چہ عملی اور معاشرتی زندگی میں ناقابل عمل ہیں، لیکن نظری طور پر یہی فتاویٰ کسی بھی مسلک میں شدت پسندی اور دوسروں سے بغض و عداوت پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ نہ صرف موقع پرست علماء کے لیے بہتر ین ہتھیار ثابت ہوتے ہیں بلکہ جادہ اعتدال پر گامزن اور امن باہمی کی کوششیں کرنے والے علماء کے لیے بھی بہت بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اب اس قسم کے عمر رسید ہ و سن یاس کو پہنچے ہوئے فتاویٰ کو ختم کر کے ان پر نظری تکیہ رکھنے والوں کا سہارا بھی ختم کیا جائے۔ اس زمرے میں کون سے فتاویٰ آتے ہیں، اس میں ہر مسلک کے معتدل و جید علماء و مفتیان کرام کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ اگر تمام مسالک کے معتدل علماء اس قسم کے فتاویٰ کو ختم کرنے میں متفق و متحد ہوجائیں تو راکھ میں دبی اس چنگاری سے جو کسی بھی وقت ہلاکت خیز آگ کا روپ دھار سکتی ہے، ہم بچ سکتے ہیں۔ 
2۔ مولانا مودودیٰ کی کتابوں میں مقد س شخصیات کے حوالے سے بعض ایسی باتیں تھیں جو بظاہر نظر دیکھنے سے خلاف ادب معلوم ہوتی ہیں اور دینی حمیت رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے مقد س شخصیات کے بار ے میں ہمارے جذبات ایسے ہی ہونے چاہییں، لیکن ان جذبات کو اگرہم دائرہ قانون میں لے آئیں تو شاید اس قسم کے مسائل زیادہ احسن طریقے سے حل ہو سکیں گے۔ مولانا مودودی کی کتابوں سے قاضی حسین احمد صاحب نے اس قسم کا مواد ہٹا دیا۔ قاضی صاحب عبقری شخصیت کے مالک تھے، ان کے دیگر سیاسی و مذہبی کارناموں کے ساتھ یہ بہت بڑا کا رنامہ تھا۔ جماعت کے اندر سے بہت سے لوگوں نے اس کی سخت مخالفت کی، لیکن قاضی صاحب اپنی جرا ت رندانہ کے باعث یہ کام کر گزرے۔ 
قاضی حسین احمد کے ایسا کرنے کافائدہ یہ ہوا کہ مولانا مودودی کی شخصیت اصل روپ کے ساتھ نکھر کر سامنے آگئی۔ ان کی چند باتوں کو لے کر مخالفین نے ان کی شخصیت کے بہت سے مفید پہلوؤں کو چھپادیا تھا۔ قاضی حسین احمد نے ایسے لوگوں کے لیے وہ راہ مسدود کر دی اور مولانا مودودی کو بحیثیت بے مثل مفکر لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔ اب جس شخص نے مولانا مودودی کے حوالے سے بات کرنی ہے، وہ کوئی فکری بات ہی کرے گا۔ طعن و تشنیع یا لایعنی و غیر مفید ابحاث کا سلسلہ ختم ہو چکاہے، اگر چہ بعض لوگ اب بھی گڑے مردے اکھاڑنے میں لگے رہتے ہیں۔ 
ایسے ہی اگر ہر مسلک کی نمائندہ شخصیات اپنے اکابر کی ایسی باتوں کو ختم کرنے کی طرف توجہ دیں تو ہم بجا طور پر ایک اچھی روایت کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ ایسی عبارات کی نشاندہی کوئی مشکل کام نہیں۔ ان پر باقاعدہ مختلف مسالک کے علماء کی کتابیں اور مناظرے موجود ہیں ۔ اپنے مسلک کی کسی بڑی اور عقیدتوں کی مرکز شخصیت کی تصانیف سے اس قسم کا مواد ہٹانا یقیناًبہت مشکل ہے۔ شاید اس کو ناممکن بھی کہا جا سکے۔ اس سے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، مسلکی طور پر لوگوں کا یقین و اعتبار اٹھنے کا خطرہ ہوتا ہے، لیکن جتنا یہ پر امن بقائے باہمی اور شدت پسند ی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے، اتنا ہی علمی ترقی اور مکالماتی ماحول میں مفید ابحاث پر گفت و شنید کے لیے بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں مکالماتی ماحول اٹھ چکا ہے۔ اس کی جگہ جدل و مناظرہ نے لے لی ہے جس کا اختتام کسی فائدے کی بجائے باہمی رقابتوں میں اضافے، ماحول میں کشیدگی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر ہوتا ہے۔ مفید علمی ابحاث کا مکالمہ ایک عرصہ ہوا شاید ختم ہی ہو چکا ہے اوران حالات میں علمی ترقی ایک خواب اور سراب ہی ہو سکتی ہے۔
3۔ ہمارے ہاں طویل عرصہ سے چلنے والے مسلکی اختلافات دشمنی اور رقابت کا روپ دھار چکے ہیں جن میں ایک دوسرے سے شدید نفرت و عداوت پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کا پیدا ہوجانا بھی لازمی اور یقینی امر ہے۔ ہم کسی کا نقطہ نظر اس سے معلوم کر نے کی بجائے خود ہی طے کر کے اس پر فرضی قضیوں کی پوری عمارت تیار کر لیتے ہیں، ایسے میں غلط فہمیوں کا پیدا ہونا اور بھی لازمی اور یقنیی ہوجا تا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ان غلط فہمیوں میں خیانت کا بھی دخل ہو ، لیکن ابتدائی طور پر کی گئی خیانت بعد میں ذہن میں رچ بس کر فکر کا ایسا حصہ بن جاتی ہے جس پر انسان ازسر نو غور نہیں کرتا اور ایسے خیالا ت ایک دوسرے کے بارے میں نسل در نسل چلتے رہتے ہیں۔ یہ غلط فہمیاں سیاسی، معاشرتی اور مذہبی ہر طرح کے مسائل میں ہو سکتی ہیں۔سب سے زیادہ غلط فہمیاں دوسروں کی عبارات و نظریات کی تفہیم میں ہوتی ہیں۔ ہر مسلک والے لازماً خود پر ہونے والی تنقید میں یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کے موقف پر دیانتدارانہ غور و فکر نہیں کیا گیا بلکہ اس سے من مانے معانی اخذ کر کے خیانت کا ارتکا ب کیا گیا ہے۔ یہ صرف آج کے دور میں ہی ایسا نہیں بلکہ ابتدائی ازمنہ سے ہی ہم مختلف مسالک کی آویز ش میں ایسی بہت سی مثالیں تلاش کر سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مکالماتی ماحول پیداکیا جائے جس میں مختلف مسالک کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آسکیں اور باہم غلط فہمیاں دور کرسکیں۔ اس مکالماتی ماحول میں بازاری علماء اور پیشہ ور مناظرین جن کی روزی روٹی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کسی بھی طرح غلط ثابت کرنے سے وابستہ ہو، ان کو دور رکھ کر سنجیدہ اور امن کی چاہت رکھنے والے علماء کو موقع دیا جائے۔
4۔ ایسی تحریروں، تقریروں، جلسے جلوسوں اور مناظروں پر پابندی عائد کی جائے جن سے باہمی نفرت میں اضافہ اور ماحول میں کشید گی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے علماء و مناظرین کی ذہنی اور اخلاقی سطح کو بہتر بنانے کے لیے مختلف تربیتی کورسز اور ورکشاپس کااہتمام کیا جائے۔ ان علماء کی توجہ جدید مسائل اور اسلام کی آفاقیت کو در پیش چیلنجز کی طرف مبذول کروائی جائے تاکہ ان کی صلاحیتیں کسی اچھے مصرف میں استعمال ہو سکیں۔ دور جدید میں اسلام کو کس قسم کے چیلنجز اور مسائل کا سامنا ہے اور مسلم امہ کے مسائل کیا ہیں ؟ مسالک سے ماوراء مذاہب کی رقابت موجودہ دور میں کس موڑ پر پہنچ چکی ہے ؟ اور پھر اس سے بھی آگے مذہب کو لا دینیت اور دہریت کی موجودہ جن شکلوں سے سابقہ ہے، اس کا ادراک علماء امت کو ہونا چاہیے ۔ اس کے لیے ٹیم ورک کی ضرورت ہے اور ایسے افراد کو پیدا کرنا ضروری ہے جو علماء کی ان خطوط پر تربیت کر سکیں۔ 

پرائیویٹ جہادی گروپوں کا خاتمہ

علماء کرام کے موجودہ قومی بیانیہ کی حیثیت اختیار کرجانے والے فتویٰ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جہاد صرف ریاست کا حق ہے، ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کسی کو اجازت نہیں اور ریاست کی اجازت کے بغیر کوئی جہاد نہیں کر سکتا۔ اس بات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور اس فتویٰ کے بعد اس قسم کے تمام فتاویٰ جن سے دہشت گردوں کی پشت پناہی یا نظریات کو تقویت ملتی ہو، ختم کرنا بھی ضروری ہے۔ ایسے افراد یا جماعتیں جو اس کام میں ملوث رہی ہیں، ان کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد اگر سیاست میں حصہ لیتے ہیں یا فلاحی کام کر تے ہیں تو ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ تاہم لوگوں کو پرائیویٹ جہاد کے لیے تیار کرنے والوں، یا ایسے لوگوں کی کسی بھی قسم کی اعانت کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہونی چاہیے اور جن جماعتوں کو کا لعدم قرار دیا جا چکا ہے، ان کو کسی دوسرے نام سے وہی کام کرنے کی اجازت بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کا نظری سہارا ختم کریں تا کہ جن نصوص کی بنیادپر وہ خود غلط فہمی کا شکار ہیں یا لوگوں کو تیار کر تے ہیں، ان سے وہ استدلال نہ کرسکیں اور درست راستے کی طرف آسکیں۔ 

دیگر ممالک اور عالمی پالیسیوں پر نظررکھنا

ہمارے ملک میں دہشت گردی کی بڑی وجہ دوسرے ملکوں کی مداخلت بھی ہے۔ دوسرے ملکوں کے وہ لوگ جو اپنے مفادات کے لیے کسی خاص مسلک کی پشت پناہی کر رہے ہیں، اس کو جس حد تک ہو سکے روکا جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایران پاکستان میں شیعہ گروپوں کی سب سے زیادہ امداد کرتاہے۔ اب ایران ہو، سعودیہ یا کوئی اور ملک، یہ لوگ مذہبی نام پر مختلف مسالک یا تنظیموں کی مدد کرتے ہیں اور ان سے سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آج بھی ایران یا سعودیہ کے مختلف محاذوں پر باقاعدہ سپاہی کا کام کررہے ہیں اور اس کا محرک صرف مذہبی عقیدت ہے اور یہ سب ریاست سے ماوراء ہو رہا ہے۔ ایسے عناصر اور ان کے سر کردہ لوگوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ 
اسی طرح عالمی طور پر دہشت گردی نے ایک کاروبار کی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ امریکہ یا مختلف ملک باقاعدہ تنظیموں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس کو کاروبار سمجھتے ہیں۔ جانے انجانے میں ان کی آلہ کار بننے والی شدت پسند تنظیموں اور جماعتوں پر بھی کڑی نظررکھی جائے۔ یورپی اور مغربی ممالک پاکستان کی نظریا تی سرحدوں کو متاثر کرنے کے لیے جس قدر سرمایہ کاری کرتے ہیں، اس کا ادراک و احساس بھی ضروری ہے۔ 
علماء کرام کے متفقہ فتوے میں یہ بات بھی موجود ہے جسے قوم کو اچھی طرح ذہن نشین کروانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے نام پر آئین کو پرے پھینک کر اور جغرافیائی سرحدوں کو نظر انداز کرکے کسی دوسرے ملک میں لشکر کشی کا حصہ بننا بھی خلافِ اسلام ہے اور عہد شکنی کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستانی شہری پر لازم ہے کہ وہ دستور میں کیے گئے عمرانی معاہدے کی پابندی دیں اور کسی بیرون ملک گروہ کی مدد کے نام پر اس میثاق کی خلاف ورزی نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوگا۔

ریاستی پالیسیاں

سب سے زیادہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ریاست کی پالیسیاں بالکل صاف شفاف اور ملکی و عالمی قوانین و معاہدات کے مطابق ہوں۔ عالم اسلام میں مختلف مسلم ممالک میں جو ظلم و زیادتی کے واقعات ہیں، ہمیں ان کی سیاسی و سفارتی سطح پر مذمت کرنی چاہیے، تاہم دنیا بھر میں کسی بھی جگہ بشمول افغانستان، کشمیر، فلسطین وغیرہ، ہمیں نہ صرف ریاستی سطح پر مسلح جدو جہد کی پشت پناہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمارے ملک کے ایسے لوگ یا تنظیمیں جو ان جگہوں پر مسلح جدوجہد میں مصروف عمل ہیں، ان کے خلا ف سخت تادیبی کاروائی عمل میں لانی چاہیے، اور شدت پسندی کے رویے پر بنی کسی بھی تنظیم کی حوصلہ شکنی کر نی چاہیے، نہ کہ حوصلہ افزائی۔ 

سماجی اور معاشرتی اصلاحات

دہشتگر دی کے خاتمے اور پر امن معاشرے کے قیام کے لیے مذہبی، معاشی، معاشرتی، قانونی اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں عدل وانصاف بہت ضروری ہے۔ معاشرے میں کچھ طبقات کے حقوق کو مسلسل نظر انداز کرنے سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان کا اچھی طرح ادراک بہت ضروری ہے۔ وہ افراد اور گروہ جو مایوسی اور محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ اپنے ادنی مفادات کے لیے کسی بھی حدتک جا سکتے ہیں، اس لیے ہمیں انہیں حقوق دے کر ان کا احساس محرومی ختم کر نا چاہیے۔ ہمارے ملک میں مذہبی، معاشی، معاشرتی، قانونی، لسانی اور صوبائی سطحوں پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے اندر نہ صرف احساس مایوسی اور محرومی پنپ رہا ہے بلکہ ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کر رہا ہے جس کے پھٹنے سے جونقصان ہو گا، اس کی قیمت ہمیں نسل در نسل چکانی پڑے گی، اس لیے ہمیں نہ صرف ان لوگوں کی شکایات کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سننا ہوگا بلکہ ان کو مساوی حقو ق بھی مہیاکرنا ہوں گے۔ حقوق سے محرومی کے معاملے میں مذہبی اقلیتوں اور چھوٹے و پسماندہ صوبوں اور علاقوں کے لوگوں کا لحاظ خاص طور پر ضروری ہے۔ 
اسی طرح دہشت گردی ، بدامنی اور جرائم کے بنیا دی اسباب یعنی غربت جہا لت اور کر پشن کے خاتمے کے لیے موثر اور سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روایتی کھیلوں، ثقافتی میلوں، موسیقی، ڈرامے اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے باضابطہ پالیسیاں مرتب کی جائیں تاکہ فرسٹریشن سے پاک ایک اچھا اور صحت مند معاشرہ قائم ہو سکے۔

تین طلاقوں کا مسئلہ

ڈاکٹر مختار احمد

جناب محترم مفتی شبیراحمد صاحب کی ہدایت پراس ناچیز نے جناب ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کا مضمون "یکبارگی تین طلاقوں کے نفاذ کا مسئلہ" مطالعہ کیا، لیکن افسوس مجھے شدید مایوسی ہوئی کہ انہوں نے تین طلاقوں کو تین ہی قرار دینے کی کچھ خودساختہ علتیں بیان کی ہیں۔ان علتوں کو طلاق کے مسئلے سے منسلک کرنے کے لیے انہوں نے قرآن وسنت سے کوئی دلیل نہیں دی، بلکہ "عرب معاشرے اور سماج" کی کچھ خصوصیات کو اپنی دانست میں تین طلاقوں کے اکھٹے نفاذ کی علت قرار دے دیا ہے اورپھرخود ہی نتیجہ نکالتے ہوئے فرمایا ہے کہ چونکہ آج ہمارے "معاشرے" میں یہ علتیں موجود نہیں ہیں، اس لیے تین طلاقوں کو تین نہیں بلکہ ایک طلاق قرار دینا چاہیے۔ حالانکہ اگر ان علتوں کوتسلیم کرلیاجائے تو پھر سرے سے طلاق کے تصور ہی کو ختم کرنا پڑے گا۔ کجا ایک ، دو اور تین طلاقوں کی بحث میں انسان الجھے!
۱۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ "عرب معاشرے" میں عورت کو مہر کی ادائیگی نکاح کے قبل یا پھرفوراً بعد کی جاتی تھی اور اس پر عورت کا قطعی حق تسلیم کیاجاتا تھا، جبکہ آج کل عورت کو مہر کی ادائیگی نہیں کی جاتی یا مہر کی مقدار بہت تھوڑی مقرر کی جاتی ہے۔
مہر کی ادائیگی اور اس کی ملکیت تو عورت کا قطعی حق اب بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس نے آکریہ حق تین طلاقوں کوایک سے بدلنے کے عوض سلب کر لیا ہے؟ مہر کے تقرر اور ادائیگی کا تعلق نکاح سے ہے، نہ کہ طلاق سے۔ نکاح کے منعقد ہونے کے لیے مہر مقرر کرنا شرط ہے جس کے بغیر نکاح ہی درست نہیں ہوتا، کجا کہ طلاق کا سوال پیدا ہو سکے۔ اگر عورت کو حق مہر سے محروم رکھا جاتا ہے تو اس کی حق تلفی کو روکنے کے لیے مرد کو ریاستی طاقت یا عدالت کے ذریعے حق مہر اداکرنے پر مجبور کیاجائے۔ طلاق کا قانون چھیڑنے کی کوئی سبیل نہیں۔
۲۔ دوسری علت ڈاکٹر صاحب نے یہ بیان فرمائی ہے کہ عرب معاشرے میں طلاق کے بعد بچوں کی ذمہ داری مرد پر ہی عائد ہوتی تھی، آج کل عورت پر سارا بار ڈال دیا جاتا ہے۔ بچوں کی پرورش کی ذمہ داری طلاق سے پہلے بھی اور بعد میں بھی مرد پرہی عائد ہوتی ہے۔ شریعت کا یہ حکم بھی منسوخ کرنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا۔ بچوں کی ذمہ داری عورت پر ڈالنے کے بدلے میں مرد کی دی گئی تین طلاقوں کو ایک تصور کرلینا دین میں خودساختہ قطع وبرید سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ بہانے بازیاں دراصل شریعت اسلامی کے متعلق پھیلائی گئی سیکولر اور لبرلز طبقات کی ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ ہے جس سے بعض مسلمان مفکرین غیر ارادی طور متاثر ہوئے ہیں۔
۳۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق عرب معاشرے کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مطلقہ اور بیوہ سے شادی کرنا نہ صرف معیوب تصورنہیں کیاجاتا تھا بلکہ مستحسن امر گرداناجاتا تھا۔ یہ خصوصیت تو درحقیقت عرب معاشرے کی اسلامائزیشن کا اثرتھا۔ اسلام نے اس ٹمٹماتے رویے کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کی طرف اور زیادہ مؤثر انداز سے ترغیب دی، لیکن اس کا طلاق کے منعقد ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ 
یہ ہمارے آج کے معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے کہ طلاق کوعورت کے لیے (اور بعض علاقوں میں مرد کے لیے بھی) ایک گالی بناکررکھ دیا گیا ہے۔ طلاق یافتہ عورت کو طلاق ہونے کاواحدسبب اس کی مبینہ" بدکرداری" ہی کو سمجھاجاتا ہے۔ چنانچہ اس سے شادی کرنا پورے معاشرے کی توپوں کا رخ اپنی طرف کرانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یہ معاشرے کی جاہلانہ سوچ ہے۔ لڑکی کی منگنی ٹوٹنے یااس کوطلاق ہوجانے کومحض بدکرداری کی عینک سے دیکھ کراس کو ہمیشہ کے لیے اچھوت قراردینا معاشرے میں علم اور سمجھ بوجھ کے عنقا ہونے کی علامت ہے، نہ کہ طلاق کے قانون میں خرابی کی دلیل۔شریعت مرد کو طلاق کی مطلق اجازت دیتا ہے۔ طلاق کی بہت سی دیگر وجوہات بھی ہیں جو ضروری نہیں کہ عورت کی بدکرداری پر ہی دلالت کرتی ہوں۔ معاشرے کی اس جہالت کو دور کرنے کی بجائے طلاق کے منعقد ہونے یا نہ ہونے کو اس خودساختہ علت پر موقوف ٹھہرایاجارہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
۴۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کا یہ فرمانا کہ " عرب معاشرے میں اکٹھے تین طلاقوں کو نافذ کرنے کا نقصان مرد کوہوتا تھا، اس لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مرد کو سزا دینے کے لیے اسے نافذ کیا، اور ساتھ میں اکٹھے تین طلاق دینے والے مرد کو تعزیری سزا بھی دیتے تھے'' بھی میرے ناقص خیال میں ناواقفیت پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرد کو تعزیری سزا دینے کے حضرت عمر کے فیصلے کو تو باقی رکھنا چاہتے ہیں، البتہ تین طلاقوں کو تین ہی نافذکرنے کے حضرت عمر کے اسی فیصلے کے دوسرے پہلو کو ختم کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا معصیت ہے اور اس معصیت کا ارتکاب نہ صرف مرد کے لیے رجوع کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتا بلکہ عورت کو بھی مرد کی رنجش اور ناراضگی دور کرنے کے مواقع سے محروم کردیتا ہے، تبھی حضرت عمر نے اس کے لیے تعزیری سزائیں دیں۔ اگر تین طلاقیں بیک وقت واقع ہی نہ ہوتیں تو یہ ایک لغو فعل ہوتا۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص پر غضبناک ہوتے جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ساتھ دی تھیں اور نہ حضرت عمر تعزیری درے لگواتے۔ قرآن اور احادیث رسول کی روشنی میں ایک اچھے مسلمان کی علامت یہ ہے کہ وہ لغوباتوں سے تعرض نہیں کرتے۔
ڈاکٹر صاحب نے معاشرے کی جاہلانہ رسوم ورواج اور ان کے نتیجے میں عورت پرمرتب ہونے والی زیادتیوں کا ذمہ دار سراسر تین طلاقوں کے یکبار گی انعقاد کو قرار دے کر ثابت کیا ہے کہ انہیں کچھ بھی ایسا چاہیے جس سے ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دیا جاسکے۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگر ان کی رائے کو اپناتے ہوئے مرد تین مختلف اوقات میں طلاق دے کر عورت کو گھر سے نکالے گا تو پھر کیا اس کو مہر کی ادائیگی فرشتے اتر کریں گے؟ کیا اس صورت میں بچوں کی ذمہ داریاں مرد اٹھانے پر رضاکارانہ تیار ہو جائے گا؟ کیا اس صورت میں مہر کے کم ہوتے ہوئے بھی عورت مالدار ہوجائے گی؟ کیا پھر طلاق یافتہ عورتوں کو بدکردارسمجھنے کا رجحان جڑ سے اکھڑ جائے گا؟ اور ان سے شادی کرنے میں کوئی امرمانع نہیں رہے گا؟ میرے خیال میں تو جو عورت اس طرح طلاقیں لے کر گھرسے نکلے گی، وہ زیادہ ذلت ورسوائی کا سامنا کرے گی۔ اگر معاشرے کی اصلاح کی بجائے طلاق کے قوانین کا "اصلاح" کے نام پر اس طرح حلیہ بگاڑا جاتا رہا تو ایسی صورت میں طلاق یافتہ عورت سے نکاح کرنا تو درکنار، کوئی ترس کھاکر اس کو بھیک بھی نہیں دے گا۔
اب ذرا اس پر نظر ڈالتے ہیں کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واقعی ڈاکٹر صاحب کے بیان کردہ انہی معاشرتی علل کے تحت تین طلاقوں کو تین نافذ کیا تھا یا اس کی دلیل "شرعی" ہے؟
مستند احادیث کے مطابق اکٹھی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں جسے فقہی اصطلاح میں طلاق مغلظہ کہاجاتا ہے۔ مستند اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود تین طلاقوں کو نافذ کیا ہے، لیکن طلاق دینے والے کو اللہ کی نافرمانی کا مرتکب بھی قراردیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کی والدہ کو ہزار طلاقیں دیں۔ انہوں نے جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا:
بانت منہ بثلٰث فی معصیۃ اللہ تعالیٰ، وبقی تسع ماءۃ وسبع وتسعون ظلماً وعدواناً؛ ان شاء اللہ عذبہ وان شاء غفرلہ
’’تین طلاقوں سے تو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہوگئی،اور باقی نو سو ستانوے طلاقیں ظلم اور عدوان کے طورپر باقی رہ گئی ہیں جن پر اللہ چاہے تو اسے (یعنی تیرے باپ کو) عذاب دے اور چاہے تو معاف کردے۔‘‘
البتہ ایک حدیث میں، جس سے انتہائی کمزور طرز استدلال کے ذریعے یکبار دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ذکر ہے کہ ایک شخص نے آکر عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیتے وقت محض تاکید کی خاطر لفظ "طلاق" کو تین بار دہرایا تھا حالانکہ میری نیت ایک ہی طلاق دینے کی تھی۔ آپ نے اس سے دوبارہ پوچھا کہ کیا واقعی تم نے ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی؟ اس نے اقرار کیا۔ تب آپ نے اسے ایک طلاق قراردیا۔ تین طلاقوں کو ایک ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے اس حدیث کا سہارا لیتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث بھی تین طلاقوں کو تین ثابت کرنے میں صریح ہے، کیونکہ اس میں نیت ایک طلاق کی ہونے کی تصریح ہے۔لہٰذا اس کو تین کی نیت سے دی گئی طلاقوں کو ایک قرار دینے کی دلیل کس طرح بنایاجاسکتا ہے؟
اس واقعے کو بنیاد بناکر لوگ کثرت سے تین طلاق دینے کے بعد یہی عذر تراشنے لگے کہ ان کی نیت فقط ایک ہی طلاق کی تھی جس پر حضرت عمرنے اپنے دورخلافت میں لوگوں کے اس قسم کے دعووں پر اعتماد کرنے سے انکارکرنے کا اعلان کیا کہ آئندہ ایسا کوئی عذر قبول نہیں کیاجائے گا اور تین طلاقیں تین ہی سمجھی جائیں گی۔ عہد نبوی میں کسی ضعیف الایمان شخص کو بھی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ کوئی بیان خلاف واقعہ دے سکے کیونکہ یہ خوف تھا کہ کہیں اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آشکارا نہ کردے۔ (غالباً حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ عہد نبوی میں ہم اپنی بیویوں کے ساتھ بھی دل کھول کر بے تکلفی کرنے سے ڈرتے تھے، مبادا ہمارے بارے میں وحی نازل نہ ہو جائے)۔ لیکن عہد رسالت کے بعد یہ اندیشہ نہیں رہا تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام پر کسی ایک صحابی نے بھی اعتراض نہیں کیا، حالانکہ ان کے دور میں اگرایک بدو کو بھی شبہ ہوتا کہ کسی معاملے میں امیر المومنین سے خلاف سنت یا خلاف انصاف فعل سرزد ہورہا ہے تو وہ فوراًبلاخوف اور براہ راست انہیں ٹوک سکتا تھا۔
لہٰذا اگر تین طلاقوں کی یکبارگی نفاذ کے سلسلے میں وہ قرآن مجید یا سنت رسول کی منشاء کے خلاف کوئی قانون وضع کر رہے ہوتے توجماعت صحابہ میں ان کی بھرپور مخالفت کی جاتی۔ اور یہ کوئی ایسا غیرمعمولی اقدام نہ تھا جس پر کبار صحابہ میں سے کوئی بھی نوٹس نہ لیتا۔ نہ صرف ان کے دور میں کسی نے ا س کے خلاف رائے نہیں دی بلکہ ان کے بعد حضرات عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے ادوار خلافت میں بھی اکٹھی دی گئی تین طلاقوں کو تین قراردینے پر اتفاق رہا۔ بعد کے ادوار میں بھی بشمول ائمہ اربعہ متفقہ مسلک یہی بن کر سامنے آیا۔ آج بھی پوری دنیا کے اندر علمائے دین کی عظیم اور غالب اکثریت اسی قول کو راجح مانتی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو اصل مسئلہ طلاق کا نہیں، بلکہ طلاق کے بعد دونوں خاندانوں میں بالخصوص اور معاشرے کے رویوں میں بالعموم افراط وتفریط پر مبنی رویوں کا ہے جسے دعوت، تعلیم وتربیت اور تزکیہ نفوس کے ذریعے دور کرنا ایک صبرآزما اور محنت طلب کام ہے۔اگر اصلاح ، آگاہی اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کا مطلوبِ شریعت کلچر پیدا کیا گیا تو پھر نہ بچوں کی پرورش کا بہانہ بنا کر "حلالہ" جیسے ملعون افعال کا ارتکا ب کرنے کی "ضرورت" باقی رہے گی اور نہ ہی عورت کو طلاق کے بعد دوسری یا تیسری شادی میں کوئی مشکل پیش آئے گی۔ لیکن ہمارے دانشور حضرات بنیادی کام سے جان چھڑا کر شارٹ کٹ کے چکروں میں پڑگئے ہیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ اس طرح کی کچھ ملمع کاریاں کرکے وہ کچھ معاشرتی مسائل کوڈھانپ سکیں گے اوراسلام کے چہرے پر جمی"گرد" کو صاف کرکے سیکولر اورلبرل طبقات کی طعنہ زنی سے بچ جائیں گے، حالانکہ یہ انداز فکر سراسر غیر علمی ہونے کے ساتھ ساتھ عملاً ناممکن بھی ہے۔

قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو سمجھنے میں غلطی

محمد ندیم پشاوری

اسلام کے دشمنوں نے مختلف زمانوں میں اسلام کو ناقص بنانے اور اس کے اجزاء میں کتر بیونت پیدا کرنے اور پیوند کاری کی کوششیں کی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ناکام ہوتے رہے ہیں کیونکہ دین کی حفاظت کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیشہ اہل علم پیدا فرمائے جو دین کو اس کی مکمل شکل میں باقی رکھنے کے لئے جدوجہد کرتے رہے کیونکہ اسلام مکمل اور آخری دین کی صورت میں آیا ہے اور اس کو قیامت تک اسی طرح مکمل طریقہ سے باقی رہنا ہے۔ اس وقت بھی دین کو اس کی مکمل شکل سے ہٹا کر پیش کرنے کی کوششیں وقتاً فوقتاً ہوتی نظر آتی ہیں اور بعض اوقات غلط فہمی، کم علمی یا کسی شخصیت کی حاضر جوابی اور عقلی استدلالات سے متاثر ہو کر بعض اہل علم اور اہل قلم حضرات بھی غلط نظریات، افکار اور رجحانات کا شکار ہوجاتے ہیں اور اُن غلط افکار، نظریات و رجحانات کی ترویج کے لیے کبھی کبھار زبان کے ساتھ ساتھ قلم کی مدد بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ پچھلے مہینے ایسے ہی ایک صاحب قلم محترمی و مکرمی جناب اکٹر عرفان شہزاد صاحب کا مضمون ماہنامہ الشریعہ کے جنوری کے شمارے میں پڑھنے کا اتفاق ہوا جس پر چند تحفظات پیش کرنا مقصود ہے۔ 
محترم موصوف کے مضمون ’’قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو خدا کا حکم سمجھنے کی غلطی‘‘ کو بار بار پڑھنے سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اور جہاں تک موصوف کے موقف کو سمجھا گیا ہے، اس کو دو نکات میں مختصرا یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئے گئے تمام یا اکثر (جن کا مضمون میں تذکرہ کیا گیا ہے)وعدے عمومی حیثیت کے نہیں ہیں بلکہ مخصوص ہیں۔ ان کا مصداق نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) تھے جو مجموعی طور پر امت مسلمہ کو شامل نہیں ہیں۔ 
اس موقف کو اختیار کرنے کے لیے جس نظریے کا سہارا لیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے:
۲۔ مسلمانوں کا اسلام کے سیاسی غلبے کے لیے جدوجہد کرنا حالات کا تقاضا تو ہو سکتا ہے، انسانی سماج کی ضرورت تو ہو سکتی ہے لیکن اس جدوجہد کو دینی فریضہ سمجھ کر سر انجام دینا مسلمانوں کی غلط فہمی اور قرآن مجید میں خدا کے وعدوں سے نا واقفیت ہے۔مسلمانوں کے لیے اس جدوجہد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت، فتح و کامرانی حکمت کا تقاضا تو ہو سکتا ہے لیکن شرط، ذمہ داری یا کوئی عام قانون نہیں۔
موصوف کے مضمون کا تنقیدی جائزہ پیش کرنے سے قبل اس بنیادی غلط فہمی کا ازالہ ناگزیر ہے جو موصوف کے مذکورہ بالا نظریے کی پشت پر کارفرما دکھائی دیتا ہے اور وہ بنیادی غلط فہمی ’’دین اور سیاست و ریاست کے رشتے‘‘ سے ناواقفیت ہے جس کے نتیجے میں اجتماعی جدوجہد وجود میں آتی ہے۔دین و سیاست کا رشتہ بے حد نازک ہے اور اس رشتہ کو بیان کرنا پل صراط پر چلنے سے زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ کسی ایک پہلو پر ضرورت سے کم یا ضرورت سے زیادہ بات کرنا آسمانی دین کی غلط تشریح تک پہنچا دیتا ہے۔ اسلام کے سیاسی غلبے کو اگر نظر انداز کیا جائے تو موجودہ سیاسی کشمکش اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی استعماری سازشیں بے معنی ہیں کیونکہ حزب اختلاف اسلام کو ہر شخص کی انفرادی زندگی کے طور پر قبول کرنے کا برملا اعتراف کر چکے ہیں۔ 
امریکہ کے مشہور مصنف جے ویلیم فیڈرر اپنی کتاب What Every American Needs to know about the Qur'an میں اسلام کو ایک دہشت گرد اور خونخوار مذہب کے طور پر پیش کرنے کے باوجود انفرادی طور پر اسلام کے مستقبل کے بارے میں رقمطراز ہیں: 
We say to Muslim believers there is a noble future for Islam as a personal faith, not a political doctrine.
ترجمہ: ’’ہم مسلمانوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی غلبے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انفرادی طور پر اسلام کا مستقبل خوش آئند ہے۔‘‘
یہی وہ موقف ہے جس کے بارے میں مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی نے اپنی وفات سے دو سال قبل اپریل 1997ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء کے شعبہ ’’دعوت و تربیت‘‘ کی زیر نگرانی قائم ’’المعہد العالی للدعوۃ والفکر الاسلامی‘‘ کے زیر اہتمام ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اہل مغرب اسلام کو بحیثیت عالمگیر دعوت ، سیاسی قوت اور مذہبی آزادی کے اتنا کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ محدود رقبہ میں اور خاص نسل اور قومیتوں کے دائرہ کے اندر ہی نافذ اور کارفرما رہے، لیکن عالمی پیمانے پر اس کا وجود اور نفوذ ختم ہو جائے۔‘‘
حضرت عمر کے دور میں ربعی بن عامر سردارانِ فارس کے دربار میں سفیر بن کر گئے تھے اور اپنی تقریر میں اسلام کی تعریف کے دوران اسلام اور سیاست کے نازک رشتے اور حساس تعلق کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں:
فَقَالوا لَہ مَا جَاءَ بِکم؟ فَقَالَ، اَللہ اِبتَعَثنَا لِنخرِجَ مَن شَاءَ مِن عِبَادَۃِ العِبَادِ اِلیَ عِبَادَۃ اللہِ وَمِن ضَیقِ الدّْنیَا اِلَی وسعَتِھَا وَمِن جَوَرِ الاَدیَانِ اِلَی عَدلِ الاِسلَامِ فَاَرسَلنَا بِدِینِہِ اِلَی خَلقِہِ لِنَدعوھم الیہِ (البدایۃ و النہایۃ /الجزء السابع/غزوۃ القادسیۃ) 
’’اہل دربار نے پوچھا کہ تم لوگ یہاں کس لئے آئے ہو ؟ربعی بن عامر نے جواب دیا: اللہ نے ہمیں اس لئے بھیجا ہے تاکہ وہ جسے چاہے اسے بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کرے، دنیا کی تنگی سے آخرت کی وسعت کی طرف، مذاہب کے ظلم سے اسلام کے عدل کی طرف لائیں۔ پس اللہ نے ہم کو اپنے دین کے ساتھ اپنی مخلوق کی طرف بھیجا ہے تاکہ ہم لوگوں کو اس طرف بلائیں‘‘۔ 
اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مِن عِبَادَۃِ العِبَادِ اِلیَ عِبَادَۃ اللہِ سے مطلق العنان اور استبدادی نظام حکومت و سیاست سے نجات دلانا مراد ہے، وَمِن ضَیقِ الدّْنیَا اِلَی وسعَتِھَا میں اسلام کی جہاں گیری اور وسعت و آفاقیت کا ذکر ہے اور وَمِن جَوَرِ الاَدیَانِ اِلَی عَدلِ الاِسلَامِ سے اسلام کے عادلانہ قوانین کی طرف اشارہ ہے؟
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
’’دین میں سیاست اور روحانیت دونوں کی اہمیت ہے۔ سیاست اور سلطنت کو نظر انداز کر دینا یا اسلامی معاشرہ میں اسلام کے معاشی، سیاسی اور اجتماعی قوانین کے نفاذ کی کوششوں کا تمسخر اور استہزاء غلط تصور دین کا حامل ہونا ہے اور اس کج فکری و مسلمانوں کے ذہنوں تک پھیلانا ایک محرف دین کی طرف مسلمانوں کو بلانے کے مرادف ہے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں :
’’جب کبھی دین و سیاست میں جدائی ہوتی ہے دو، گروہ معرض وجود میں آتے ہیں۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو دین دار تو ہوتے ہیں، لیکن قوتِ حرب، و جاہ و مال سے، جس کا دین خداوندی ضرورت مند ہوتا ہے، دین کی تکمیل نہیں کر سکتے۔ دوسرا گروہ ایسے امراء و حکام پر مشتمل ہوتا ہے جو مال اور حربی قوت کو بروئے کار تو لاتے ہیں، لیکن اس سے ان کا مقصد دین کی اقامت نہیں ہوتا۔ دونوں گروہ اسلام کے لیے بے کار ہیں‘‘۔ (السیاسۃ الشرعیۃ)
علامہ سید سلیمان ندوی اس موضوع پر رقم طراز ہیں:
’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت حکومت و سلطنت اور دنیا کی سیاست ہے، یہاں تک کہ کتاب و نبوت کی دولت کے بعد اس کا درجہ ہے‘‘۔ (سیرۃ النبی جلد ۷ صفحہ ۵)
مزید فرماتے ہیں : 
’’اسلام دین و دنیا اور جنت ارضی و جنت سماوی اور آسمانی بادشاہت اور زمین کی خلافت دونوں کی دعوت کو لے کر اول ہی روز سے پیدا ہوا ہے۔ اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دو نہیں، ایک ہی شہنشاہ علی الاطلاق ہے جس کے حدود حکومت میں نہ کوئی قیصر ہے نہ کوئی کسریٰ۔ اس کا حکم عرش سے فرش تک اور آسمان سے زمین تک جاری ہے۔ وہی آسمان پر حکمراں ہے، وہی زمین پر فرماں روا ہے‘‘۔ (سیرۃ النبی جلد ۷ ص ۷)
یہی اسلام کی انفرادیت ہے کہ یہ تسبیح و مناجات کے ساتھ سیاسی شوکت اور اجتماعی قوت کا ضامن ہے اور اسی لئے اقبال نے کہا ہے:
وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگ و حشیش
جس نبوت میں نہ ہو قوت و شوکت کا پیام
اقبال کا یہ شعر محض ایک شعر نہیں بلکہ قرآن کریم کی چند آیتوں کا پرتو ہے:
وَلِلّٰہِ العِزَّۃ وَلِرَسُولِہِ وَلِلمُومِنِینَ (المنافقون ۸)
’’اور اللہ ہی کے لئے غلطہ و عزت اور اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے‘‘ (المنافقون: ۸)
وَلَا تَھِنُوا وَلَا تَحزَنُوا وَاَنتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُمْ مُّومِنِینَ (آل عمران : ۱۳۹)
’’ہراساں اور غم زدہ مت ہو، تم ہی سربلند ہو گے اگر تم صاحب ایمان ہو۔‘‘
مولاناابو الکلام آزاد فرماتے ہیں:
’’اسلام کا قانونِ شرعی یہ ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کا ایک خلیفہ و امام ہونا چاہیے۔ خلیفہ سے مقصود ایسا خود مختار مسلمان سربراہ اور صاحب حکومت و مملکت ہے جو مسلمانوں اور ان کی آبادیوں کی حفاظت اور شریعت کے اجراء و نفاذ کی پوری قدرت رکھتا ہو اور دشمنوں سے مقابلہ کے لیے پوری طرح طاقتور ہو۔‘‘ [تحریک خلافت از قاضی محمد عدیل عباسی، ص ۵۱]
اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ غلبہ اسلام کی راہ میں خون شہادت کا ایک قطرہ بھی مومن کے معاصی کے دفتر کو دھو دیتا ہے اور قرآن مجید میں موجود وہ تمام وہ وعدے، جن کو سمجھنے میں ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب سے غلطی سرزد ہوئی ہے، متوجہ ہوتے ہیں۔
امید قوی ہے کہ قارئین کو اس نازک رشتے اور تعلق کا احساس ہو گیا ہو گا کیونکہ اسلام کی تاریخ سلطنت و مذہب کے اشتراک کی تاریخ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں مکی و مدنی دونوں زندگیاں جمع کر دی گئی تھیں۔ آپ کی ذاتِ مبارک میں امامت و نبوت دونوں کو اس طرح بہم کر دیا گیا تھا، اسی لیے تو علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں کہ ’’اسلام اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ناخن کو گوشت سے علیحدہ کرنا ہے‘‘۔ ان شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی عقل سلیم کے لیے اس بات کو قبول کرنا ممکن نہیں کہ ’’دین کے سیاسی غلبے کے لیے جدوجہد کرنا دینی فریضہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ یہ الفاظ مخصوص ذہنی تراش خراش کے بعد ہی زبان اور قلم سے ادا ہو سکتے ہیں کہ ’’دین اسلام کو غالب کرنے اور سیاسی طور پر نافذ کرنے کے لیے اجتماعی کوشش دین کا ایک اضافی جزو ہے اور اس قسم کی جدوجہد پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت مسلمہ کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں کیا گیا اور نہ یہ جدوجہد اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کو مشروط ہے۔‘‘

دلائل و استدلالات کا جائزہ

اقتباس: ’’قرآن میں سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں کئے گئے وعدے صحابہ کرام کے حق میں تھے جو پورے ہوئے، عام مسلمان ان وعدوں کا مخاطب ہیں نہ مصداق۔‘‘
تبصرہ: ہر خاص و عام جانتا ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا محکم پیغام قیامت تک تمام انسانوں کے لیے نور ہدایت ہے جس کے اولین مخاطب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) تھے اور اِن ذوات فاضلہ کے بعد قیامت تک آنے والا ہر انسان اس پیغام کے ایک ایک حرف کا مخاطب ہے۔ قرآن مجید کی عمومیت ہی اِس کا اعجاز ہے۔ مثلاً کسی شخص کے بالغ ہونے یا غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے کے بعد ’’اَقِیمُوا الصَّلٰوۃ‘‘ کا حکم دونوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ صاحب نصاب ہونے کی صورت میں ’’اٰتُوا الزَّکٰوۃ‘‘ پر عمل کرنا لازم ہے۔ ماہ رمضان میں ’’اَتِمُّوا الصِّیَامَ‘‘ کے حکم کا بجا لانا فرض ہے۔ حج کی فرضیت کے بعد ’’اَتِمُّوا الحَجَّ‘‘ بیت اللہ کی زیارت اور مخصوص احکام کی بجا آوری کا تقاضا کرتا ہے۔ اِن احکامات پر عمل کرنے کے بعدمسلمانوں کو اِن احکامات کی بجا آوری پر انعام و اکرام اللہ تعالیٰ ہی کی شایان شان ہے۔ 
کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ مسلمانوں کو نماز پڑھنے کا تو حکم ہے، لیکن تنھی عن الفحشاء والمنکر اْن کے لیے نہیں ہے؟ رمضان کے مہینے میں مشقتوں اور تکلیفوں کو برداشت کر کے لمبے لمبے روزے رکھنے کے تو مسلمان پابند ہیں، لیکن لعلکم تتقون اور وانا اجزی بہ صرف پیغمبر اور صحابہ کرام کے لیے تھے؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صاحب استطاعت ہونے کے بعد مسلمانوں پر مناسک حج کی بجا آوری لازمی ہے لیکن رجع کیوم ولدتہ امہ سے ان کا اکرام نہیں کیا جائے گا؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صدقات و خیرات کے ذریعے مسلمانوں پر غریبوں کی مدد کرنا ایمان کا تقاضا ہے، لیکن کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ (البقرۃ: ۲۶۱) تو آپ اور صحابہ کرام کے لیے خاص تھے؟ اگر اِن احکامات کی تعمیل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا اور بدلے کے تمام وعدے مسلمانوں کے لیے ہیں اور روگردانی کی صورت میں تمام وعیدات مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو پھر کون سے قاعدوں اور قوانین کے تحت مسلمانوں کی اسلام کے سیاسی غلبے کے لیے سیاسی جدوجہد کے وعدوں کو قرون اولیٰ کے ساتھ مخصوص کیا جا رہا ہے؟
قرآن کی کسی بھی آیت کے مفہوم کی تخصیص یا تو قرآن کی دوسری آیت کے ذریعے ممکن ہے یا پھر خبر متواتر اور مشہور کے ذریعے تخصیص کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف خالص عقلی استدلالات کے ذریعے تخصیص کرنا مسلمانوں کو غلط پٹڑی پر گامزن کرنا ہے۔ کل کو اگر کوئی شخص نبوت کا اعلان کرے اور دعوی کرے کہ قرآن پچھلی نسلوں کے لیے تھا اور موجودہ امت کے لیے مجھ پر وحی بھیجی جا رہی ہے تو موصوف اپنے پیش کردہ اصول کی روشنی میں قرآن کی صداقت کو کیسے ثابت کریں گے؟
اقتباس: ’’زبان کا معروف اسلوب ہے کہ وعدہ اگر خاص کسی شخص یا اشخاص سے یا جائے تو وہی اس کا مخاطب اور مصداق ہوتے ہیں۔۔۔۔۔اس کا انکار ممکن نہیں۔‘‘
اگر کوئی شخص کسی بچے سے کہے کہ ’’امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھانے پر اسے انعام ملے گا‘‘ تو اِس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ بچے کو محنت کی ترغیب دی جا رہی ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل ہونے پر اس شخص کی طرف سے بچے کو انعام دینا لازمی ہو گا، لیکن اگر نہیں دے گا تو جھوٹا ہو گا۔ ہم اللہ تعالیٰ کے غلام ہیں اگر احکام کی بجا آوری پر ہمیں جزا نہ بھی ملے اور اللہ کی تائید و نصرت شامل حال نہ ہو تو اعتراض نہیں کیا جا سکتا، لیکن جو ذات اپنے بارے میں ومن اصدق من اللہ قیلا کا اقرار کرے، جس کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہو، اور جو احکام کی بجا آوری کے سلسلے میں بار بار وعدوں کی یاد دہانی کرے تو اس کے لیے جزا اور بدلہ نہ دینا اس کے شایان شان نہیں۔ 
دوسری بات یہ کہ مخلوق اور خالق کے درمیان کسی بھی قسم کی مماثلت کا تصورنہیں کیا جا سکتا، چہ جائیکہ اپنے وعدوں کو خدا کے وعدوں پر قیاس کیا جائے۔ اس قسم کے استدلالات مشرکین مکہ بھی کیا کرتے تھے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’فَلَا تَضرِبُوا لِلہِ الاَمثَال‘‘۔
تیسری بات یہ کہ اگر کوئی شخص کسی بچے کو ’’مکتوب ‘‘ پیش کرے جس میں یہ وعدہ کیا گیا ہو کہ’’اچھی کارکردگی پر اسے انعام دیا جائے گا‘‘، بچہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور وہ شخص اپنے وعدے کے مطابق بچے کو انعام سے نوازتا ہے۔ اس کے بعد وہی ’’مکتوب‘‘ دوسرے بچے کو پکڑاتا ہے اور دوسرا بچہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر انعام کا مطالبہ کرتا ہے تو اس شخص کے لیے یہ کہنا کس طرح صحیح اور ممکن ہو سکتا ہے کہ اِس ’’مکتوب‘‘ میں لکھا گیا وعدہ تو پہلے بچے کے لیے تھا، آپ کے لیے نہیں ہے، لہٰذا آپ انعام کے مستحق نہیں ٹھہرتے؟
موصوف نے اِس عقلی استدلال کے ضمن میں چار آیتیں پیش کی ہیں: 
وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ [سورۃ آل عمران: ۱۳۹]
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ، وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا، یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْءًا، وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ [سورۃ النور: ۵۵]
وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّءَنَّھُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ [سورۃ النحل: ۴۱]
وَمَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً [سورۃ النساء: ۱۰۰]
پہلی آیت میں مخاطب کے صیغوں کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے جس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اِن آیتوں کے مصداق صرف آپ اور صحابہ کرام ہیں اور دیگر مسلمان اِس کے مصداق ہیں نہ مخاطب۔ دوسری آیت میں خطاب کے صیغے بھی مفقود ہیں، جبکہ تیسری اور چوتھی آیت میں تو خطاب عموم کے صیغوں سے کیا گیا ہے، لیکن موصوف کو اِس میں بھی تخصیص کا مفہوم دکھائی دے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔
اقتباس: ’’قرآن مجید میں بڑی وضاحت سے یہ بات آئی ہے کہ خدا اپنے اصول کبھی نہیں بدلتا۔ اگر یہ وعدے عام مسلمانوں کے لیے بھی ہوتے تو کامیابی ان کو بھی نصیب ہوتی۔ چونکہ یہ وعدے مسلمانوں کے لیے تھے ہی نہیں، اس لیے ان کے حق میں پورے نہیں ہوئے۔ خدا نے اپنا اصول نہیں بدلا۔‘‘
یہ وعدے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ خاص ہیں، اس کے لئے مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق دلیل پیش کرنا لازمی ہے۔ عقل کی بنیاد پر کسی آیت کو ایک زمانے کے ساتھ مخصوص کر دینا نا انصافی بھی ہے اور قرآن کریم کی غلط تشریح بھی ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ وعدے مسلمانوں کے حق میں کبھی پورے نہیں ہوئے تو نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ ہمیں فقط محنت، کوشش اور جدوجہد کا مکلف کیا گیا ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی ہجرت کے بعد ملک خدادا د پاکستان جو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے، درجہ بالا آیت کی عملی تشریح ہے۔یقیناًاللہ تعالیٰ اپنے اصول کبھی نہیں بدلتا اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ جو بھی ہمارے راستے میں کوشش کریں گے، ہماری تائید و نصرت اور امداد ان کے ساتھ ضرور شامل حال ہوگی۔ چنانچہ ارشاد ہے: 
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ (العنکبوت ۶۹) 
اس آیت میں شک کی گنجائش ہے نہ تاویل کی کیونکہ لَنَھْدِیَنَّھُمْ میں تاکیدات کے مجموعہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی یقین دہانی کرتا ہے۔اس کے علاوہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِن فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (النحل ۹۷) میں بھی تاکیدات کو جمع کر کے ’’عام مسلمانوں‘‘ سے وعدے کو یقینی بنایا گیا ہے۔
اقتباس: ’’یہ بات ذہنی میں رہنی چاہیے کہ صحابہ نے دشمنان اسلام کے خلاف جو قتال کیا، وہ غلبہ و حکومت کے لیے نہیں تھا بلکہ خدا کے نافرمانوں کو اتمام حجت کے بعد خدا کے آخری سزا دینے کے لیے اور مظلوم مسلمانوں کو ان کے پنجہ ظلم سے چھڑانے کے لیے تھا۔‘‘
مظلوم مسلمانوں کا مدد کے لیے پکارنے پر لبیک کہنا ہمیشہ سے مسلمانوں کا دینی فریضہ رہا ہے اور یہی غلبہ و حکومت کی بنیاد ہے۔ اگر صرف مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا ہی مقصود تھا تو آپ کو حیات میں اور آپ کے رخصت ہونے کے بعد صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) اور ان کے رفقاء کبھی سو سال تک ریاست و حکومت کو برقرار رکھنے کی کوشش نہ کرتے بلکہ کبھی کبھار مشاجرات تک بھی نوبت پہنچ چکی تھی۔
اقتباس: ’’مسلمانوں نے دین کے نام پر غلبے کے حصول کے لیے جن مشکلات کا راستہ اپنے لیے چنا ہے ، وہ ان کے دین کا تقاضا ہی نہیں ہے کیونکہ دین کا اصل مقصد تزکیہ نفس ہے۔‘‘
اسلام ایک جامع دین ہے اور اس کے جامع ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت و ریاست کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ میں مرکزی حیثیت یقیناًخدا کے ساتھ لگاؤ اور تعلق کو حاصل ہے اور وہ اصلاً مطلوب ہے، لیکن خدا کے ساتھ تعلق کی استواری اور پھر اس کے بعد خدا کے عادلانہ قوانین کے نفاذ کے لیے اختیار اور طاقت کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ اس کے لیے بھی سعی و کاوش ایک دینی ضروت ہے۔ نہ حکومت کے بغیر زمین میں فتنہ و فساد کو دفع کیا جا سکتا ہے اور نہ اللہ کے بندوں کے درمیان عدل و انصاف اور امن و امان کا قیام ممکن ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انسان خلیفۃ اللہ ہے اور اس کا مقصد زندگی عبادت ہے۔ عبادت کے صرف داخلی تقاضوں کو پورا کرنا اور تسبیح و مناجات میں مشغولیت کو کافی سمجھ لینا ، ملت کے اجتماعی مسائل سے روگردانی اور عبادت کے خارجی تقاضوں کو جن کا تعلق خاکدان ارضی پر احکام الہٰی کے نفاذ سے اور غلبہ اسلام سے ہے، بالکلیہ نظر انداز کر دینا اور ان کو اہمیت نہ دینا اور اس میدان میں کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی یا تحقیر کرنا دین کے متوازن تصور کے خلاف ہے۔ عبادت کے داخلی تقاضے جوہر اور اصل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسلامی حکومت کا قیام اور دین کے قوانین عدل کا نفاذ اس کے لئے وسیلے کا درجہ رکھتے ہیں، اس لئے وہ بھی مطلوب ہیں۔ وسیلے اور مقصد کے اس فرق کو آشکارا کرنے کے لیے قرآن کریم کا ارشاد ہے: 
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ (سورۃ الحج: ۴۱)
’’وسیلے‘‘ اور ’’مقصد‘‘ کے اِس فرق پر مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندوی نے اپنی کتاب ’’ارکان اربعہ‘‘ میں یوں روشنی ڈالی ہے:
’’انسان کی حیثیت یہ ہے کہ وہ اس زمین میں اللہ کا خلیفہ ہے۔ چونکہ وہ اللہ کا خلیفہ ہے، اس لئے اس کے اندر ذوق علم، شوق جستجو اور زمی کے خزینوں اور دفینوں سے فائدہ اٹھانے اور ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی صلاحیت بخشی گئی اور تعلیم اسماء کا امتیاز اسے عطا کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں انسان مسلسل رکوع و سجود اور مسلسل تسبیح و ذکر کا پابند نہیں۔ اگر وہ اس کی کوشش کرے گا تو اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کی حیثیت سے اپنی ناکامی کا ثبوت فراہم کرے گا۔‘‘
اس موضوع پر سید سلیمان ندویؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سیرۃ النبی‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:
’’اسلام کے سارے دفتر میں ایک حرف بھی ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ قیام سلطنت اس دعوت کا اصل مقصد تھا اور عقائد و ایمان، شرائع و احکام اس کے لیے بمنزلہ تمہید تھے بلکہ جو کچھ ثابت ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ شرائع اور حقوق و فرائض ہی اصل مطلوب تھے اور ایک حکومت صالحہ کا قیام ان کے لیے وجہ اطمینان اور سکون خاطر کا باعث ہے تاکہ وہ احکام الہٰی کی تعمیل بآسانی کر سکیں۔ اس لیے وہ بھی عرضاً مطلوب ہے۔‘‘ (سیرۃ النبی جلد ۷ ص ۶)
قرآن میں سلطنت کے ملنے کو عزت اور سلطنت کے چھن جانے کو ذلت قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہے: 
قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ، وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ، بِیَدِکَ الْخَیْرُ، اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر (آل عمران ۲۶)
’’اے اللہ، حکومتوں کے مالک، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے۔ تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے اور تیرے ہی قبضے میں ہر قسم کا خیر ہے۔‘‘
اس آیت میں عزت و ذلت سے مراد سلطنت کا ملنا اور سلطنت کا چھن جانا ہے۔ بلاغت کی اصطلاح میں اسے لف و نشر مرتب کہتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات میں نبوت و ہدایت کے بعد حکومت و سلطنت کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: 
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ، فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا (النساء: ۵۴) 
’’یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے فضل پر لوگوں (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام) سے حسد کرتے ہیں حالانکہ ہم نے ابراہیم کی اولاد کو بھی حکمت اور عظیم بادشاہت عطا کی تھی۔‘‘
خلاصہ بحث یہ کہ دین میں حکومت کا قیام مقصود بالذات نہیں ہے۔ جن لوگوں نے دین کی تشریح اس انداز میں کی ہے کہ تمام پیغمبروں کو خدائی فوجدار بنا کر بھیجا گیا تھا اور ان کا مشن یہ تھا کہ وہ دوسروں سے اقتدار کی کنجیاں چھین لیں، وہ تشریح کے معاملے میں عدم توازن کا شکار ہوئے ہیں۔ قرآن و سنت میں اس بات کی صراحت نہیں ملتی ہے۔ غور کیجئے تو اس میں حکمت کا پہلو ہے اور بندوں پر اللہ کی خاص شفقت نظر آتی ہے۔ اگر اس کی صراحت کر دی جاتی تو کسی ملک میں دو مسلمان بھی پائے جاتے تو حکومت کا قیام ان پر فرض ہو جاتا اور ان کے لیے یہ کام ضروری ہو جاتا، خواہ اس کے لیے ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔اسی طرح سے وہ لوگ بھی عدم توازن کا شکار ہوئے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجے گئے تھے، اس لیے مسلمانوں کے لیے حکومت قائم کرنے کی کوشش غیر مشروع ہے۔
قرآن کریم میں غلبہ و اقتدار کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی بڑی آرزو اور تمنا کے طور پر ذکر کیا گیا ہے:
وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا نَصْر مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْح قَرِیْب وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (الصف ۱۳)
’’اور ایک چیز دے گا جسے تم عزیز رکھتے ہو مدد اللہ کی اور فتح قریب۔ اور خوشی سنا دو ایمان والوں کو‘‘۔
نصوص سے اقتدار اور غلبہ کے حصول کے اشارے ملتے ہیں۔ سیرت طیبہ اور تاریخ سے ثابت ہے کہ اس کے لیے مواقع کو استعمال کیا گیا ہے اور اسی لئے علماء اور ائمہ کرام نے اس کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا ہے اور نظام عدل کے قیام اور مظالم کے سد باب کو ضرور قرار دیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ملت و مدن، دونوں قسم کے مصالح کی تدبیر و انتظام کے لئے ہوئی تھی اور چونکہ امام ان کا نائب اور ان کے امر کو نافذ کرنے والا ہوتا ہے، اس لئے یہ دونوں کام اس کے لئے ضروری ہیں اور نبی کی اطاعت کی طرف اس کی اطاعت بھی واجب ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں اور اپنی غلطی کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے کی صلاحیت عنایت فرمائے۔ آمین

مدرسہ ڈسکورسز : سفر قطر کے احوال و تاثرات

مولانا محمد رفیق شنواری

امریکہ کی ایک معروف کیتھولک یونیورسٹی، یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ صاحب نے پاک و ہند کے دینی مدارس کے فضلاء کے لیے " مدرسہ ڈسکورسز" کے عنوان سے ایک تین سالہ کورس متعارف کروایا ہے جو پچھلے سال شروع ہوا تھا اور آئندہ سال اختتام پذیر ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کی پیدائش ساؤتھ افریقہ میں ہوئی، دارلعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنو میں دینی تعلیم کی تکمیل کی۔ اس کے بعد لندن میں صحافت سے وابستہ رہے اور اس کے بعد امریکہ منتقل ہوگئے۔ امام غزالی کے فلسفہ لسانیات پر پی ایچ ڈی کی۔ ان کا پی ایچ ڈی کا کام تو اب تک غیر مطبو ع ہے، لیکن امام غزالی پر ان کی ایک اور کتاب Ghazali and the Poetics of Imagination زیور طبع سے آراستہ ہے جس نے ۲۰۰۵ء میں American Academy of Religion سے مذہبیات کی تاریخ میں بہترین کتاب کا ٹائٹل بھی حاصل کیا ہے۔ پروفیسر صاحب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ذیلی ادارے اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ سے شائع ہونے والی کتاب ’’دینی مدارس: عصری معنویت اور جدید تقاضے‘‘ کے مصنف بھی ہیں جو دراصل ان کی انگریزی تصنیف ?What is a Madrasa کا ترجمہ ہے۔ ترجمہ ہندوستانی فاضل محقق مولانا ڈاکٹر وارث مظہری نے کیا ہے۔ ابراہیم موسیٰ صاحب آج کل یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم (امریکہ)میں بطور پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 
پروفیسر ابراہیم موسیٰ فلسفہ لسانیات کے متخصص ہیں اور اس باب میں ابتدائی دینی تعلیم مدرسے سے لینے کی بدولت اسلامی علوم اور تراث کے ساتھ ان کا گہراتعلق واضح طور پر ان کے کام میں محسوس ہوتا ہے۔ ان کے سامنے یہ حقیقت واضح ہے کہ اسلامی علوم و فنون کے کسی بھی پہلو پر کام تراث کے ساتھ مضبوط تعلق اور کامل فہم کے بغیر بہر صورت ادھورا ہوگا۔ اسی طرح پروفیسر صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ مدارس کا نظام تعلیم کئی اعتبار سے قابل نقد و اصلاح ہونے کے باوجود طلبہ کا تراث کے ساتھ گہرے فہم اور مضبوط گرفت کا رشتہ استوار کر دیتا ہے۔ انہی باتوں کو سامنے رکھ کر انہوں نے یہ ضرورت محسوس کی کہ مدارس میں پروان چڑھنے والی تراث فہمی کی ان صلاحیتوں کے لیے مغرب کے جدید اسلوبِ تحقیق اور نقد و نظر کے نئے اور متعارف منہاج کے مطابق نشوونما کا موقع پیدا کیا جائے جو ممکن ہے مستقبل میں مغرب اور اسلام کے درمیان علمی وتہذیبی مکالمے کی بنیاد ثابت ہو۔ 
اس فکر کو عملی شکل دینے کے لیے " مدرسہ ڈسکورسز" کے عنوان سے یہ پروگرام متعارف کرایا گیا جس کومالی طور پر امریکہ کا ایک مشہور ادارہ جان ٹمپلٹن فاؤنڈیشن سپورٹ کر رہا ہے۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے میں پروفیسر صاحب کو نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے رفقائے کار، خاص طور پر ڈاکٹر ماہان مرزا کے علاوہ پاکستان سے مولانا عمار خان ناصر اور ہندوستان سے مولانا ڈاکٹر وارث مظہری کا تعاون بھی حاصل ہے۔ اس کورس کا دورانیہ تین سال رکھا گیا ہے جس کو چھ سمسٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہفتہ وار تدریسی سرگرمیاں آن لائن رکھی گئی ہیں اور استفادہ کو آسان بنانے کے لیے تدریس کے اوقات شام کے بعد رکھے گئے ہیں۔ نصاب کے طور پر علم کلام ، عقیدہ ، فلسفہ اور فلسفہ تاریخ کے اہم مباحث انتخاب کیا گیا ہے اور ان کی لیے کسی مخصوص کتاب کے بجائے مختلف مصنفین کی تحریریں منتخب کی گئی ہیں۔ 
اس کورس کا باقاعدہ آغاز پچھلے سال ہوا تھا۔ میں چونکہ اس سال شریک ہو سکا ہوں، اس لیے اپنے پہلے سمسٹر کے حوالے سے کچھ گذارشات پیش کروں گا۔ 
سمسٹر کے آغاز میں ہمارے سامنے عمومی سولات رکھے گئے۔ بعد میں ان سوالات کا تفصیلی تعارف، طلبہ کی طرف سے اشکالات و جوابات کا سلسلہ اور بحث کے سمٹنے تک جزوی سوالات بھی شامل ہوتے گئے۔ یوں پورے سمسٹر میں زیر بحث آنے والے تقریباً تمام موضوعات کا ایک جامع خاکہ شرکاء کے سامنے آگیا۔ ہر پہلو سے متعلق شہرہ آفاق اور نہایت معتبر اصحابِ قلم کی کتابو ں کے منتخبات کو تدریسی مواد کے طور پر رکھاگیا۔ تدریس کی ذمہ داری پاکستان سے مولانا عمار خان ناصر، ہندوستان سے مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب اور یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم سے ڈاکٹر ماہان مرزا صاحب نے اٹھائی، جبکہ وقتاً فوقتاً ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ بھی شریک گفتگو ہوتے رہے۔ 
کلاسز کا انتظام اس طور پر کیا گیا کہ ایک ہفتہ قبل ہمیں اگلی کلاس میں پڑھایا جانے والا مواد بھیج دیا جاتا اور کلاس کے مقررہ دن سے ایک یا دو دن پہلے پاکستانی طلبہ کے ساتھ مولانا عمار خان ناصر جبکہ ہندوستانی طلبہ کے ساتھ مولانا ڈاکٹر وارث مظہری ایک گھنٹے کی تیاری کی کلاس منعقد کرتے۔ اس میں ہر شریک اس مواد کو پڑھ کر کلاس میں شریک ہوتااور متن کی کسی مشکل کو سمجھنے کے لیے اپنا سوال استاد کے سامنے رکھ دیتا۔ کورس کی مرکزی کلاس شام سات بجے سے، درمیان میں عشاء کے لیے بیس پچیس منٹ کے وقفے کے ساتھ، رات دس بجے تک چلتی۔ یہ سب سے اہم اور بنیادی کلاس ہوتی جس میں پاک و ہند کے تمام شرکاء شریک ہوتے۔ اس کو دو یا تین حصوں میں تقسیم کر کے ہر استاد اپنا حصہ پڑھا دیتا اورآخر میں شرکا کے سولات کا جواب دیتا۔ مرکزی کلاس کے علاوہ طلبہ کی استعداد میں اضافہ کے لیے چند ذیلی سرگرمیاں بھی اس کورس کا حصہ ہیں۔ مثلاً شرکاء کو تین یا چار افراد پر مشتمل گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر گروپ، ہفتہ میں ایک دفعہ یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم کے کسی طالب علم کے ساتھ مخصوص موضوع پر انگریزی میں مکالمہ کرتا ہے۔ موضوع کا انتخاب اور متعلقہ مواد بذریعہ ای میل پہلے سے ارسال کر دیا جاتا ہے۔ ایک ہفتہ وار کلاس انگریزی زبان کے حوالے سے ہوتی ہے، جبکہ ایک کلاس تاریخ فلسفہ پر مبنی مشہور ناول Sophie's World کو گروپ کی شکل میں مشترکہ طور پر پڑھنے کے لیے منعقد کی جاتی ہے۔ 
پروگرام کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ونٹر اور سمر میں تمام شرکا کو ایک ہی جگہ جمع کیا جائے تاکہ براہِ راست مل بیٹھنے اور آپس میں بالمشافہہ گفتگوا ور ایک دوسرے کے ساتھ خیالات و آراء کے تبادلہ کا موقع ملے۔ چنانچہ دسمبر ۲۰۱۷ء کے آخری ہفتے میں کورس کے سالِ اول اور سالِ دوم میں شریک پاک وہند کے تمام طلبہ کو قطر کی حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کے کالج آف اسلامک اسٹڈیز کی دعوت پر قطر لے جانے کا پروگرام بنایا گیا۔ 

قطر میں ورکشاپ کے احوال

قطر جانے سے پہلے ونٹر انٹینسو کے لیے تدریسی مواد ہمیں بھیجا گیا اور وہاں کی مصروفیات کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی۔ کورس کے پاکستانی شرکاء لاہور ایئر پورٹ سے بذریعہ سری لنکن ائیر لائن ۲۴ دسمبر ۲۰۱۷ء بروز اتوار روانہ ہوئے۔ کولمبو ایئر پورٹ پر دو گھنٹے کے وقفے کے بعد دوحہ کی فلائیٹ لی اور رات بارہ بجے ہم دوحہ کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترے۔ دوحہ کا یہ خوب صورت ایئر پورٹ دنیا کا آٹھواں بڑا ائیر پورٹ مانا جاتا ہے۔ائیر پورٹ سے باہر ہوٹل کی بسیں انتظار میں کھڑی تھی جو ہمیں سیدھا ہوٹل لے گئیں۔ قطر میں ہم دوحہ کی حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کے کالج آف اسلامک اسٹڈیز کے مہمان رہے اور اسی کے آڈیٹوریم میں کلاسز کا انعقاد ہوتارہا۔ حمد بن خلیفہ یونیورسٹی دوحہ کے ایجوکیشن سٹی میں واقع ہے جس کا قیام ۲۰۱۰ء میں عمل میں لایا گیا۔ ہمارے قیام کا انتظام ایجوکیشن سٹی میں ہی ایک فور اسٹار ہوٹل میں کیا گیا جہاں سے کالج تک آنے جانے کے لیے گاڑیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ ایجوکیشن سٹی کو ’’نیشنل فاؤنڈیشن فار ایجوکیشن، سائنس اینڈ کمیونٹی ڈیویلپمنٹ‘‘ نامی تنظیم نے سنٹر فار ہائر ایجوکیشن کے طور پر تعمیر کیا ہے اور اب تک یہاں چھ امریکی جامعات کے کیمپسز کے علاوہ قطر نیشنل لائبریری (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) سمیت دیگر کئی تعلیمی ادارے قائم ہو چکے ہیں۔ 
قطر میں ہمارا قیام ایک ہفتہ رہا اور اس دوران کورس کے اساتذہ اور دیگر اہل علم و دانش کو سننے اوران سے براہ راست استفادہ کے مواقع میسر آئے۔ ۲۵ دسمبر بروز پیر سے باقاعدہ ورکشاپ کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر ماہان مرزا صاحب نے اس کورس کے اہداف اور اس پورے ہفتے کی سرگرمیوں اور طریقہ کار سے متعلق مفصل بریفنگ دی اور اس کے بعد ’’معاصر فکری تحدیات‘‘ کے موضوع پر محاضرہ پیش کیا جس میں مذہب اور سائنس کے درمیان تعلق کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ مستقبل کے کیا امکانات ہیں؟ مفکرین اس پہلو کو اپنے چشم تخیل سے کیسے دیکھ رہے ہیں؟ ان امور بھی پر ڈاکٹر صاحب نے مختلف اہل فکر و دانش کی تحریروں کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کی جس کی تکمیل سوالات و جوابات کے سیشن سے ہوئی۔ لنچ کے بعد ڈاکٹر ماہان مرزا کے لیکچر میں زیر بحث آنے والے موضوعات پر طلبہ کے درمیان گروپس کی شکل میں گفتگو ہوتی رہی۔ مغرب کے بعد اگلے دن کے مواد سے متعلق تیاری کی کلاس ہوئی۔ رات کو حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کی جانب سے عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں کالج آف اسلامک اسٹڈیز کے ڈین پروفیسر عماد شاہین اور چند پروفیسر حضرات نے اپنے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور پروگرام کے آئندہ مراحل پر بھی اپنی میزبانی کی پیش کش کی۔ 
اگلا دن یعنی ۲۶ دسمبر پروفیسر ابراہیم موسیٰ صاحب کے لیکچر کے لیے تھا۔ پروفیسر صاحب نے’’نص کی تعبیر و تشریح (Hermeneutics)، روایت اور تاریخ ‘‘پر گفتگو کی۔ لنچ کے بعد گروپس کی شکل میں مذاکرہ اور اگلی کلاس کی تیاری کے ساتھ یہ دن بھی اختتام پذیر ہوا۔ 
۲۷ دسمبر کو ڈاکٹر محمد خلیفہ نے ’’مذہب ، سائنس اور ترقی ‘‘ کے موضوع پر اور ڈاکٹر دین محمد نے ’’جدیدیت ، مذہب اور مختلف آرا‘‘ کے موضوعات پر بات کی۔ لنچ اور تیاری کے بعد سب شرکاء دوحہ کے ’’سوق واقف‘‘ دیکھنے کے لیے گئے۔ سوق واقف کوئی بہت پرانا شہر نہیں، لیکن دوحہ جیسے جدید شہر میں اپنے قدیم انداز، پرانے طرز تعمیر اور ہاتھ کی بنی اشیاء کی دکانوں کی کثرت کی وجہ سے یہ بازار سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ دوگھنٹے اس بازار میں گھومنے اور سیر وتفریح کے بعد ہم واپس ہوٹل پہنچے۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم یونیورسٹی گئے جہاں اگلے دن کی کلاس کی تیاری کی گئی اور پھریونیورسٹی کے ریستوران میں ڈنر پر اس دن کی مصروفیات بھی ختم ہوئیں۔ 
۲۸ دسمبر بروزِ جمعرات ڈاکٹر رناء دجانی نے (جن کا تعلق اردن سے ہے اور الجامعہ الہاشمیہ، اردن میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں) ’’مسلم دنیا میں ارتقا کی تدریس‘‘ سے متعلق تفصیلی لیکچر دیا۔ 
ظہر اور لنچ کے بعد دوحہ میں واقع میوزیم آف اسلامک آرٹ جانے کا پروگرام تھا۔ یہ میوزیم مصنوعی جزیرے پر کئی منزلہ انتہائی عالیشان بلڈنگ اور اس میں متنوع تاریخی اور نادر اشیا کے مجموعے کا نام ہے۔ میوزیم کی بلڈنگ کو اس طرز پر تعمیر کیا گیا ہے کہ دوحہ کی فلک بوس عمارتوں سے کسی بھی طرف سے دیکھنے والوں کو دور سے نظر آئے۔ ایک طرف وسیع و عریض سڑک اور باقی تینوں اطراف میں سمندر کا پانی۔ میوزیم کا ماحول بھی کافی خوبصورت اور پر فضا ہے۔ میوزیم کے اندردیگر نوادرات کے علاوہ اسلامی تہذیب کے اثرات و باقیات کو بھی اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ پانی کی طرح پیسہ خرچ کیے جانے کے باوجود ابھی یہ میوزیم تاریخ اور تہذیبوں کے آثار سے محبت رکھنے والوں کے لیے تسکین کا وہ سامان نہیں رکھتا جو ہمارے ملک پاکستان کیکئی میوزیمز میں پایا جاتا ہے۔ کاش ان کا خیال رکھنے اور سیاحوں کے لیے انھیں پرکشش بنانے پر توجہ دی جائے۔ میوزیم سے واپسی پر یہ دن بھی حسب معمول گروپس کی شکل میں اجتماعی مذاکرے اور اگلی کلاس کی تیاری کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ 
۲۹ دسمبر بروز جمعہ مولانا عمار خان ناصر اور مولانا ڈاکٹر وارث مظہری نے ’’مذہب اور نصوص کی تاویل‘‘ کے موضوعات پر تفصیلی بات کی۔ اس دن شرکاء میں سے کچھ اپنے دوست احباب سے ملاقات کے لیے گئے اور باقی شرکا کے لیے اساتذہ کے ساتھ دوحہ کے علاقے نیو سٹی کارنیش جانے کا پروگرام بنایا گیا۔ کارنیش بلند و بالا عمارتوں کے سائے میں ساحل سمندر کے سات کلومیٹر پر پھیلا خوب صورت اور پر فضا علاقہ ہے۔رات کو ان بلندو بالا عمارتوں سے پانیوں میں گرتی رنگا رنگ روشنیاں اورسمندر سے آنے والی ہلکی ہوائیں بہت خوب صورت نظارہ پیش کر رہی ہوتی ہیں۔ 
۳۰ دسمبر کو تمام شرکا کو کئی گروپس میں تقسیم کر کے ہر گروپ کو ایک یا دو اہم سوال طے کرنے اور پھر مؤثر انداز میں اس کا جواب پیش کرنے کی سرگرمی دی گئی۔ اس کی تیاری اور باہمی مشاورت کے لیے وقت بھی دیا گیا۔ تمام گروپس کی طرف سے اپنے منتخب کردہ سوال یا مشکل کی تفہیم کے لیے کافی دلچسپ انداز اختیار کیے گئے۔ تعلیمی تسلسل میں تمرین کا یہ پہلو قدرے مسرور کن بھی تھا۔ لنچ کے بعد ہمارا پروگرام دوحہ میں قائم قومی کتب جانے کا دورہ تھا۔ 

نیشنل قطر لائبریری کا دورہ

بطور نیشنل لائبریری اس کے قیام کا اعلان قطر فاؤنڈیشن کی چیئر پرسن ملکہ موزا بنت ناصر المسند کی طرف سے نومبر ۲۰۱۲ء میں قطر کے پچاسویں یاد گاری دن پر کیا گیا۔ تب سے اس لائبریری پر کام شروع ہے۔ اس کا افتتاح امیر قطر خود کریں گے جس کی تقریب میں کئی دیگر ممالک کے سربراہان کی شرکت بھی متوقع ہے۔ اس لائبریری میں اب تک پندرہ لاکھ کتابیں جمع کی گئی ہیں اور کل بیس لاکھ کتابوں کی گنجائش ہے۔ میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق تقریباً ہر کتاب پرحفاظت کی غرض سے پلاسٹک کور چڑھایا گیا ہے۔ اس لائبریری کا وزٹ کرانے کے لیے ہم سب شرکا کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور لائبریری کے مختلف حصوں کا الگ الگ نمائندے تفصیلی تعارف کراتے رہے۔ اس لائبریری کی خاص بات اس کا انوکھا طرزِ تعمیر اور خالص کتابی دنیا میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی تنصیب ہے۔ 
اس کی تعمیر کا انداز کچھ یوں ہے کہ بالکل درمیان میں تہہ خانے بنائے گئے ہیں جس میں مخطوطات اور قدیم نایاب کتابیں جمع کی گئی ہیں۔ تہہ خانوں کے ارد گرد چار سو سیڑھی نما فرش ہیں جن پر الماریاں رکھی گئی ہیں اور بیچ میں پڑھنے کے لیے کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ الماریوں میں جگہ جگہ کمپیوٹر اور آئی پیڈ نصب ہیں جن کے ذریعے کسی کتاب کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ لائبریری کے ممبرز کو کتاب دی بھی جاسکتی ہے۔ پڑھنے کے بعد کتاب عملہ کو بھی واپس کی جا سکتی ہے اور لائبریری کے اندر نصب سات ڈراپ سٹیشنز کے ذریعے بھی اپنی مقررہ جگہ پر واپس بھیجی جاسکتی ہے۔ کسی بھی ڈراپ سٹیشن میں کتاب ڈالی جائے تو تین منٹ کے اندر وہ اپنی الماری تک پہنچ جائے گی۔لائبریری کے اندر سیڑھی نما فرش، جہاں الماریاں رکھی گئی ہیں، کے نیچے لائبریری عملہ کے دفاتر، مختلف ہالز ، عملی کام کے لیے مخصوص کمرے وغیرہ تعمیر کیے گئے ہیں۔ مخطوطات کی سکیننگ اور کمپیوٹر میں انھیں محفوظ کرنے کے لیے نہایت جدید آلات نصب کیے گئے ہیں۔ لائبریری کے مختلف حصوں کے تفصیلی وزٹ کے بعد ہمیں ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں ایک خاتون نے اس لائبریری کے بارے میں مزید معلومات دیں۔ اس کے اہداف کیا ہیں اور اس کی رکنیت کے حصول کا طریقہ اورفوائد کیا ہیں، ان سب امور کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔
لائبریری کے وزٹ کے دوران مجھے ایک خیال بار بار آتا رہا کہ سادہ، پر سکون اور یکسوئی والے ماحول کی بہ نسبت ٹیکنالوجی سے بوجھل اور سہولیات سے لبریز اس ماحول میں کتاب کی طرف بھر پور توجہ کتنا آسان یا مشکل عمل ہوگا۔
ہفتے کا دن واپسی کی تیاریوں، وہاں کے پروفیسرز اور تمام اساتذہ کی اختتامی تقریروں میں گذرنے کے بعد اسی روز یعنی ۳۰ دسمبر بروز ہفتہ سری لنکن ایئر لائن کے ذریعے وطن عزیز کا رخ کیا اور ۳۱ دسمبر کو جب لاہور پہنچے تو سال ۲۰۱۷ء کا سورج اپنی الوداعی روشنیاں پاکستان اور بالخصوص اہل لاہور پر پوری فیاضی کے ساتھ بکھیر رہا تھا اور وہ نئے سال کی آمد اور استقبال کی تیاریوں میں مگن تھے۔ 

تاثرات

میکس پلانک فاؤنڈیشن کے بعد میرا کسی غیر ملکی ادارے کے ساتھ سفر اور تعلیمی دورے کا یہ دوسرا تجربہ تھا۔ دونوں میں جو چیز مجھے زیادہ عجیب لگی، وہ ان لوگوں کے ہاں وقت کی پابندی ہے۔ ان لوگوں کے لیے سب سے بیش قیمت چیز وقت ہے۔ ایک ایک لمحہ سوچ سوچ کر خرچ کرتے ہیں اور مقررہ وقت پر نہ صرف یہ کہ خود موجود رہتے ہیں بلکہ سب دوستوں کو نہایت خوش اخلاقی اور محبت سے بلا بلا کر نظام الاوقات کا پورا پورا خیال رکھنے کا پابند بناتے ہیں۔ 
دوسرا خاص پہلو، اس کورس کے دوران سلیبس کی ترتیب و تدوین، تدریسی انداز، اور عمل تعلم کو آسان سے آسان تر بنانے کے لیے اختیار کردہ حکمت عملی ہے۔ یہ شایداس کورس کی خصوصیت کے بجائے پورے مغرب کی روایت ہو۔ اولاً کسی بھی موضوع سے متعلق نہایت اہم سوالات کا تعین ہوتا ہے۔ پھر ان سولات کے جوابات کے لیے کسی ایک کتاب یا ایک مصنف کو ہمیشہ پڑھتے رہنے کے بجائے نہایت مستند تحریروں کاا نتخاب ہوتا ہے۔ ان منتخبات کو سمجھنے کے لیے الگ کلاس رکھی جاتی ہے، پھر استاد کے ساتھ پڑھنے اور تنقیدی جائزہ لینے اور اپنے سوالات پیش کرنے کے لیے الگ سیشن ہوتا ہے، اس کے بعد مزید غور و فکر کے لیے طلبہ کے آپس میں مل بیٹھنے اور مذاکرے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان تمام مراحل میں بالکل بھی متوجہ نہ رہنے والے کے دماغ کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور چپک جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پڑھانے کے انداز میں مسلسل تقریر اور محض لکھوانے کے بجائے مکالمہ اور طالب علم کو بولنے اور سوال پوچھنے کا موقع دینے کا اسلوب کافی مؤثر محسوس ہوتا ہے۔ تدریس کا یہ انداز اب رفتہ رفتہ پاکستان کی عصری جامعات میں بھی فروغ پا رہا ہے۔
حمد بن خلیفہ یونیورسٹی اور قطر کی نیشنل لائبریری کے ماحول سے اندازہ ہوا کہ قطر کے حکمران خاندان کے لیے عوام کو خوش رکھنا اور انھیں ہر طرح کی سہولت فراہم کرنا اولین ترجیح ہے، اسی لیے ہمیں بھی ہر جگہ عوام کے اندر اپنے حکمرانوں سے محبت کے اظہار کے مختلف انداز ملے۔ کاش پاکستان میں بھی حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایسا ہی باہمی محبت کا رشتہ اور اس کے مثبت ثمرات دیکھنے کو ملیں۔ 

’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘

ڈاکٹر عرفان شہزاد

ڈاکٹر محی الدین غازی انڈیا سے تعلق رکھنے والے، دینی علوم کے ماہر اور متوازن فکر کی حامل شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب وحدتِ امت کے ایک متحرک داعی ہیں۔
غازی صاحب کی کتاب "نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل"، ایک نہایت ہی اہم موضوع پر ایک چشم کشا کتاب ہے جس سے دین کے اندر علم کا ایک پورا پیرا ڈائم بدل جاتا ہے۔ پیش لفظ میں غازی صاحب لکھتے ہیں:
"راقم کے علم کی حد تک اس موضوع پر ایک مکمل کتاب کی صورت میں یہ ایک منفرد کوشش ہے۔"
غازی صاحب نے ایک نہایت اہم علمی حقیقت کی طرف رہنمائی کی ہے جو بوجوہ امت کے ذہن سے اوجھل ہو گئی، تاہم اس کا ادراک کسی نہ کسی درجے میں بڑے علمائے محققین کے ہاں مل جاتا ہے۔انھوں نے اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ دین اس امت کو تواتر عملی کی صورت میں منتقل ہوا ہے، جس میں اہم ترین عمل نماز ہے۔ جو عمل تواتر سے امت کو منتقل ہو ا ہو، اس میں کسی قسم کے شک و شبہ اور اختلاف کی گنجایش نہیں ہو سکتی۔ 
اس کی وضاحت میں غازی صاحب لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری امت نے نماز کا طریقہ سیکھ کر آگے پوری امت کو منتقل کیا، یہ سلسلہ بغیر کسی انقطاع کے مسلسل ہم تک چلا آتا ہے، اس لیے نماز میں کسی اختلاف کا کوئی سوال اٹھنا ہی نہیں چاہیے۔ نماز ایسا عمل تھا جو روزانہ دن میں پانچ بار ادا کیا جاتا تھا، اور آپ نے اسے مسلسل کئی برس صحابہ کی معیت میں کھلے عام کر کے دکھایا تھا۔ یہ نہایت آسان عمل تھا، اس کو یاد کر لینا اور دوسروں کو منتقل کرنا نہایت سہل ہے۔آج کے گئے گزرے دور میں بھی ہر مسلم گھرانہ اہتمام کے ساتھ اپنے بچوں کو نماز سکھاتا ہے تو کیا کسی دور میں اس کے اہتمام میں کسی کوتاہی کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لاکھ سے زائد صحابہ نے نماز سیکھی، اور اسے اپنی اولاد اور انھوں نے اپنی اولاد کو سکھایا اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اپنی تمام کیفیات اور تنوع کے ساتھ پوری امت میں تواتر کے ساتھ رائج ہوئی ہے۔ نماز کے وہ تمام طریقے جو تواترِ عملی کی صورت میں امت میں رائج ہیں، وہ در حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی زندہ سنتیں ہیں اور ان میں سے کسی بھی طریقے کو خلافِ سنت قرار دینا تواتر عملی سے تغافل اورسراسر غلط رویہ ہے۔
رہی یہ بات کہ نماز کے طریقوں میں اختلاف کیوں ہے، تو حقیقت اس کی یہ ہے کہ نماز کے کچھ اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ایک طرح ادا فرماتے تھے۔ ان اعمال میں پوری امت کا ہمیشہ اجماع رہا ہے کہ وہ ایسے ہی ہیں اور ان میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں، جیسے ایک رکعت میں رکوع ایک اور سجدے دو ہیں، فجر کی نماز دو رکعات اور مغرب کی تین رکعات ہیں وغیرہ، لیکن نماز کے بعض اعمال میں آپ نے تنوع اور گنجایش رکھی تھی، آپ انھیں ہمیشہ ایک ہی انداز سے ادا نہیں کرتے تھے۔ مثلاً قیام میں ہاتھ باندھنے کی جگہ، تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین، جلسہ استراحت، قنوت کا وقت اور طریقہ وغیرہ۔ ان میں آپ نے امت کو کسی ایک چیز کا پابند نہیں کیا تھا۔ چنانچہ صحابہ تنوع کے اس دائرے میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق کوئی ایک یا زائد طریقے اختیار کر لیتے تھے۔ صحابہ کے اپنائے ہوئے یہ مختلف طریقے مختلف علاقوں میں، جہاں جہاں وہ گئے، لوگوں میں پھیل گئے۔ یعنی یہ طریقے ان میں تواترِ عملی کے ذریعے سے رائج ہو گئے۔ پھر لوگ اپنے ہاں رائج نماز کے طریقوں سے مانوس ہوگئے اور دوسرے تنوعات کو اجنبی نظر سے دیکھنے لگے۔ پھر جب تدوین فقہ کا دور آیا تو فقہاء نے اپنے اپنے علاقوں میں رائج طریقوں کو اپنی فقہی کتب میں مدون کر دیا۔ پھر یوں ہوا کہ تواتر عملی سے حاصل ہونے والی نماز کو فقہا کی طرف منسوب کر دیا گیا۔ نماز حنفی، مالکی، شافعی کہلانے لگی، اور یہ تاثر قائم ہوتا چلا گیا کہ گویا نماز کا طریقہ ان کے ائمہ نے طے کر کے دیا تھا، حالانکہ لوگوں نے نماز فقہا سے نہیں سیکھی تھی، بلکہ فقہا نے اپنے دور کے لوگوں سے سیکھی تھی۔ انھوں نے تو بس ایک تواتر عملی کو اپنی کتب میں درج کیا تھا۔ ان کے بعد کے لوگ پھر یہ اصرار بھی کرنے لگے کہ ان کی نماز کا طریقہ ہی افضل اور مطابق سنت ہے۔ کچھ حضرات مزید آگے بڑھے اور دوسروں کے طریقہ ہائے نماز میں پائے جانے والے اختلاف کو باطل اور خلافِ سنت بھی قرار دینے لگے۔ یوں وحدت امت اور دینی ہم آہنگی کی ضامن نماز فرقہ واریت کی نذر ہوگئی۔
تواتر عملی کی اس زبردست دلیل کے سامنے نماز سے متعلق ہر اختلاف بے وقعت ٹھیرتا ہے۔ مگر افسوس کہ اس واضح اور ناقابل تردید دلیل کی طرف عموماً توجہ نہیں دی گئی۔ شروع کے دور میں امام مالک نے تواتر عملی کو بہت نمایاں کیا۔ انھوں نے عمل مدینہ پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی، لیکن بعد کے مالکی فقہا بھی یہ نظر انداز کر گئے کہ نماز سے متعلق یہ تواتر عمل پوری امت کو منتقل ہوا ہے نہ کہ صرف اہلِ مدینہ کو، اس لیے ایسے معاملات میں ان کی طرف سے دوسرے طریقہ ہائے نماز پر طعن بے اصل تھا۔ اذان اور اقامت کے کلمات میں تکرار کے اختلاف کی نوعیت بھی یہی تھی کہ یہ اصل میں تنوع کے اختلاف تھے، کوئی بھی طریقہ اپنایا جا سکتا ہے۔ مگر یہ بھی ہر گروہ کے مسلک کی پہچان بن جانے کے بعد بلا وجہ محل اختلاف بن گئے۔
غازی صاحب نے نماز کے ہر ہر عمل پر فقہا کے اختلافات نقل کر کے ان کے ہاں کے معتدل اور معروف فقہا کے اقوال بھی نقل کیے ہیں جن کے ہاں تواتر عملی کی اہمیت کسی نہ کسی درجے میں پائی جاتی تھی اور وہ اپنے مسلک کے عمومی رجحان کے برعکس تواتر عملی کی بنیاد پر اختلاف کو گنجایش دینے کی بات کرتے ہیں۔ بہر حال غازی صاحب کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے تواتر عملی کی دلیل کو بہت خوبی سے نمایاں کیا ہے۔
اس امت کی فقہی روایت کی تاریخ میں یہ ہوا کہ نماز کے اختلافات کو حل کرنے کے لیے تواتر عملی کی ناقابل تردید دلیل کو پیش نظر رکھنے کی بجائے، ہر گروہ اپنی اپنی نمازوں کے مختلف طریقوں کے ثبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب روایات سے استشہاد کرنے لگا۔ ایک گروہ نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے پاس اپنے طریقے کے ثبوت میں احادیث دوسرے سے زیادہ ہیں، تو دوسرے نے یہ دعویٰ کر دیا کہ اس کے پاس دوسرے گروہ کے طریقہ نماز کی منسوخی کی روایات موجود ہیں۔ 
محی الدین غازی صاحب نے یہ توجہ دلائی ہے کہ نماز کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات سے نماز نہیں سیکھی گئی، نماز تو امت نے ہر دور میں اپنے بڑوں کے عمل سے سیکھی ہے۔ ان روایات اور آثار میں البتہ نماز کے ان طریقوں میں سے بعض یا اکثر اعمال کا تذکرہ بھی آ گیا ہے، لیکن نماز کا انحصار روایات پر نہیں، عمل تواتر پر ہے۔
غازی صاحب نے اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ نماز کے بارے میں روایات پر انحصار کرنا یوں بھی غلط ہے کہ نماز کے بعض متفقہ اعمال کے بارے میں کوئی مستند روایت موجود نہیں۔ اس کے باوجود امت کو ان کا نماز کا حصہ ہونے پر کبھی کوئی شبہ نہیں ہوا۔ مثلاً خواتین کی نماز کا انداز مردوں کی نماز سے مختلف ہے، اس بارے میں روایات میں مردو عورت کی نماز کے اس اختلاف کی تفصیل موجود نہیں، لیکن امت ہمیشہ سے متفق رہی ہے کہ خواتین کی نماز کا انداز مردوں کی نماز سے مختلف ہے۔ اسی طرح رکوع و سجدے کی تسبیحات، تشہد اور درودکا بلا آواز پڑھنا، اسی طرح جہری نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعت میں بنا آواز قراء ت کے اجماعی عمل کے پیچھے کوئی مضبوط اور قابل اطمینان روایات موجود نہیں ہیں، لیکن ساری امت کا ان عمال پر اتفاق ہے۔ یہ کہنا کہ کسی فقیہ کو کچھ روایات نہیں پہنچی تھیں، اس لیے انھوں نے مسائل میں اختلاف کیا تو یہ بات کبھی کبھار پیش آنے والے مسائل کے بارے میں تو کہی جا سکتی ہے لیکن نماز جیسے متواتر عمل کے بارے میں کہنا غلط ہے۔
ایک اور اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غازی صاحب نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری نماز امت کو سکھائی ہے، اس میں یہ نہیں بتایا کہ اس میں کیا فرض ہے، کیا واجب اور کیا سنت۔ یہ تعیین فقہا نے کی جس میں اختلافات ہو گئے۔ یعنی، نماز کے وہ اعمال بھی جو سب کے نزدیک نماز کا حصہ تھے، ان کی حیثیت کہ وہ فرض، واجب یاسنت ہیں، اس تعیین میں فقہی اختلاف ہو گیا، جیسے قیام میں امام کے پیچھے مقتدی کو فاتحہ پڑھنی چاہیے یا خاموش رہنا چاہیے۔ اس میں بعض فقہاء کی طرف سے تشدد برتا گیا اور فاتحہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کی بنا پر ایک دوسرے کی نماز کو باطل تک قرار دے دیا گیا، حالانکہ اس کا حل یہ تھا کہ یہ کہا جاتا کہ اس بارے میں تواتر عمل موجود ہی نہیں ،جس کی بنیاد پر حق و باطل کا فیصلہ ہوتا۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ یہ بھی تنوع کا مسئلہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو کسی ایک طریقہ کا پابند نہیں کیا تھا، چنانچہ مقتدی اپنے مزاج و مذاق کے اعتبار سے کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔
اس بے جا تشدد نے امت کو تقسیم کر رکھا ہے۔کرنے کا کام یہ ہے کہ نماز کی کیفیت پر توجہ دی جائے جو بندے کو خدا سے اور فرد کو فرد سے جوڑنے کا ذریعہ ہے، نہ کہ نماز کے فقہی اختلافات کو ہوا دی جائے، جن کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔
آخر میں غازی صاحب نے تجویز پیش کی ہے کہ فقہ کے نصاب کی تدوین نو کی ضرورت ہے۔ لکھتے ہیں:
’’بلا شبہ، آج ضرورت ہے فقہ کی ایسی کتابوں کی تیاری کی، جن میں تمام شرعی دلیلوں کا احترام ہو، متواتر عملی سنت کا بھی لحاظ ہو، احادیث اور آثار کا بھی خیال ہو، اور پھر ساتھ ہی ساتھ ائمہ کرام کے اجتہاد و استنباط کا بھی احترام ہو۔ مدارس میں جب اس طرح کی کتابیں پڑھائی جائیں گی تو مثبت سوچ رکھنے والا اور پوری امت اور ساری شریعت سے محبت کرنے والا ذہن تیار ہوگا۔‘‘
راقم کے مطابق، صرف نماز ہی نہیں بلکہ پورے کا پورا دین، اپنی عملی صورت میں اس امت کو اجماع اور تواتر کے ذریعے سے منتقل ہوا ہے۔ چنانچہ اصلی اور بنیادی دین میں پوری امت میں حقیقتاً کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا اور اس کی اس حیثیت کے باوجود جو اعتراضات یا شبہات پیش کیے گئے ہیں، وہ لائق اعتنا نہیں ہیں۔ قرآن مجید، دین کی علمی اساس ہے جو اجماع و تواتر کے قطعی ذریعے سے امت کو منتقل ہوا ہے اور سنت متواترہ سارا عملی دین ہے جو اجماع اور تواتر عملی سے امت کو منتقل ہوا ہے۔ فروعات میں اختلافات ہیں، لیکن اصل دین میں کوئی بھی اختلاف نہیں۔ یہ دین روایات پر منحصر نہیں رہنے دیا گیا۔ روایات کی اپنی جگہ اہمیت ہے، لیکن ثبوت دین کا انحصار روایات پر نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر مسلمان کو یہ کتا ب ایک بار ضرور پڑھ لینی چاہیے۔ غازی صاحب سے میں یہ گزارش بھی کروں گا کہ کتاب اگرچہ پہلے ہی کم ضخامت کی ہے، تاہم اس کے بنیادی استدلال کو بغیر فقہی تفصیلات کے الگ سے مرتب کر کے بھی شائع کریں تاکہ ایک مختصرتر جامع ورژن بانداز راست عام قاری کو میسر آ سکے۔

مئی ۲۰۱۸ء

جنسی ہراسانی: مذہب کا اخلاقی و قانونی زاویہ نظرمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۲)ڈاکٹر محی الدین غازی
جدید ریاست میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید ۔ بنیادی خدوخال اور طریق کار (۱)مولانا سمیع اللہ سعدی
حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
غامدی صاحب اور اہلِ فتویٰمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۲)مولانا عبید اختر رحمانی
زوالِ امت میں غزالی کا کردار ۔ تاریخی حقائق کیا ہیں؟ (۲)مولانا محمد عبد اللہ شارق
مولانا مفتی تقی عثمانی کی “اسلام اینڈ پالیٹکس’’ کی تقریب رونمائیعظیم الرحمن عثمانی

جنسی ہراسانی: مذہب کا اخلاقی و قانونی زاویہ نظر

محمد عمار خان ناصر

معاشرتی زندگی  کے مختلف دائروں میں کام کرنے والی خواتین کو مردوں کی طرف سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جانا دور جدید کا ایک اہم سماجی مسئلہ ہے اور ہمارے ہاں بھی وقتاً‌ فوقتاً‌ یہ بحث موضوع گفتگو بنتی رہتی ہے۔ اس مسئلے کے کئی پہلو ہیں جن میں سے ہر پہلو مستقل تجزیے کا متقاضی ہے۔ اس کا تعلق انسان کی جنسی جبلت سے بھی ہے، انفرادی اخلاقیات سے بھی،  مرد وزن کے اختلاط کے ضمن میں سماجی روایت سے بھی، جدید معاشی نظم سے بھی اور قانون وریاست کی ذمہ داریوں سے بھی۔ 
بلوغت کی عمر میں مرد وزن کا جنسی طور پر  ایک دوسرے کے لیے باعث کشش ہونا ایک معلوم حقیقت ہے۔ افراد کی سطح پر یہ کشش ضروری نہیں کہ ہمیشہ دو طرفہ ہو۔ بسا اوقات یہ یک طرفہ ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں  جنس مخالف تک رسائی کے لیے مرد اور عورت باہم مختلف رویوں کا اظہار کرتے ہیں۔  عورت جنسی تعلق میں چونکہ فطرتاً‌ منفعل ہے اور اس کی سماجی تربیت میں بھی یہ شامل ہے کہ وہ جنسی رغبت کا اظہار نہ کرے، اس لیے اس کا اظہار رغبت عموماً‌ بالواسطہ یعنی اشارہ وکنایہ کی زبان میں ہوتا ہے اور اس میں جارحیت شامل نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس مرد حیاتیاتی اور معاشرتی، دونوں پہلووں سے غلبے کا مزاج رکھتا ہے، اس لیے اس کی طرف سے جنسی رغبت کا اظہار  اقدام اور جارحیت کا انداز لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ مرد وزن کے مابین معاشرتی تعامل میں  جہاں مرد کسی بھی لحاظ سے  اپنی خواہش کو عورت کی مرضی کے خلاف  اس پر مسلط کرنے کی طاقت رکھتا ہے، وہاں جنسی ہراسانی کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
گویا سادہ لفظوں میں جنسی ہراسانی کا مطلب یہ ہے کہ مرد، عورت کی کمزور پوزیشن یا کسی مجبوری یا خواہش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، جس کی تکمیل اس کے تعاون پر منحصر ہے، عورت کی مرضی کے برخلاف اس سے جنسی تلذذ حاصل کرے ۔ یہ چونکہ اخلاقیات کے کسی بھی تصور کے لحاظ سے ایک غلط طرز عمل ہے،  اس لیے کسی اختلاف کے بغیر دنیا کے ہر معاشرے میں اسے جرم تصور کیا جاتا اور اس کے سدباب کے لیے تدابیر کی جاتی ہیں۔ تاہم اس بنیادی اتفاق کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کی اخلاقی نوعیت  اور اس کی روک تھام کی حکمت عملی کے حوالے سے مذہب کے نقطہ نگاہ اور جدید لبرل تصور اخلاق میں بعض جوہری فرق پائے جاتے ہیں جن کی تنقیح ضروری ہے۔ 
مذہب کے نقطہ نظر سے اس مسئلے کا تجزیہ تین بنیادی اصولوں پر مبنی ہے:
ایک یہ کہ صنفی تعلق کے جواز کا مدار صرف باہمی رضامندی پر نہیں، بلکہ چند اخلاقی حدود وشرائط کی پابندی سے ہے جنھیں نظر انداز کر کے باہمی رضامندی سے قائم کیا جانے والا صنفی تعلق بھی مذہب کی نظر میں غیر اخلاقی ہے۔
دوسرا یہ کہ ناجائز صنفی تعلق کے سدباب کے لیے مرد وزن کے میل جول کو کچھ آداب کا پابند بنانا ضروری ہے جن کی رعایت دونوں صنفوں کے لیے واجب ہے۔
تیسرا یہ کہ  عورت کے ساتھ جبر، زبردستی یا اس کی مجبوری یا ضرورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا استحصال ایک مزید گناہ ہے جو مستقلاً‌ قابل مذمت وقابل تعزیر ہے۔
حاصل یہ کہ مذہب اس مسئلے کو بطور ایک فرد کے، عورت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ حیا اور پاک دامنی کی قدروں کے تناظر میں بھی دیکھتا ہے اور اس کے نقطہ نظر سے صرف جنسی ہراسانی مسئلہ نہیں، بلکہ دو اور چیزیں بھی قابل اعتراض ہیں: ایک، جنسی کشش پیدا کرنے کے مختلف طریقے استعمال کرنا، اور دوسرا، “فلرٹیشن’’ کرنا جو باہمی رضامندی سے ہوتی ہے۔چنانچہ مذہبی تصور اخلاق اس مسئلے کو ایک کل کے طور پر دیکھتے ہوئے ان تمام پہلووں کا موضوع بناتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ خواتین جنسی کشش پیدا کرنے کے طریقوں سے اجتناب کریں، مرد وعورت باہمی رضامندی سے بھی “فلرٹیشن’’ نہ کریں، اور مرد، عورت کی کمزور پوزیشن یا مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسے جنسی تلذذ کا ذریعہ نہ بنائے۔ انفرادی سطح پر اخلاقی تعلیم وتلقین کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے جب معاشرتی حدود وآداب متعین کیے جاتے ہیں تو  یہاں بھی مذہب یک طرفہ طور پر صرف مردوں کو “احترام خواتین’’ کا پابند نہیں کرتا، بلکہ خواتین کو بھی اخلاقی حدود وآداب کا پابند بناتا ہے جن کو نظر انداز کرنا جنسی جبلت کو اخلاقی حدود سے باہر نکلنے کا موقع دے سکتا ہے۔ اسی اصول کے تحت کسی جرم کی سرزدگی کی صورت میں جب قانون حرکت میں آتا ہے تو وہ بھی صرف ہراسانی پر نہیں، بلکہ باقی دونوں پہلووں کے حوالے سے بھی آتا ہے۔
اس کے برعکس انسانی حقوق کا عصری فلسفہ اس مسئلے کو بنیادی طور پر عورت کی انفرادیت اور آزادی کے حوالے سے دیکھتا ہے  اور اسی حد تک اس کے سدباب کو موضوع بناتا ہے جس حد تک اس کی زد بطور ایک فرد کے، عورت کی آزادی اور تحفظ پر پڑتی ہے۔ جہاں تک پاک دامنی اور عفت کی اقدار کا اور صنفین کے اختلاط کو حدود وآداب کا پابند بنانے کا تعلق ہے تو  لبرل فلسفہ معاشرت کو اس سے براہ راست کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں یہ چیزیں اس تصور معاشرت میں بنیادی قدر کا درجہ رکھنے والے تصور، حریت فرد کے منافی قرار پاتی ہیں۔  یوں اس تصور اخلاق میں جنسی ہراسانی کے مسئلے کو باقی دونوں پہلووں سے الگ کر کے دیکھا جاتا ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ عورت کو یہ حق ہے کہ وہ جیسا چاہے، لباس پہنے اور اپنے نسوانی حسن کی داد یا صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جو انداز چاہے، اختیار کرے، اور اس حوالے سے تلقین ونصیحت کے علاوہ کوئی  معاشرتی یا قانونی پابندی اس پر عائد نہیں کی جا سکتی۔  سماجی یا قانونی قدغنیں صرف وہاں شروع ہوں گی جہاں عورت کو جنسی ہراسانی جیسے رویے کا سامنا کرنا پڑے۔  یوں جنسی ہراسانی جیسے اخلاقی وسماجی مسائل میں جدید ذہن اسی بنیادی غلطی کا شکار ہے جو دوسرے کئی مسائل میں بھی ظاہر ہوتی ہے، یعنی مسئلے کے صرف اس پہلو کو موضوع بنانا جو کسی کی “آزادی’’ یا “حق’’ پر زد پڑنے سے متعلق ہو اور قانوناً‌ اس پر کوئی اقدام کیا جا سکے۔
ہمارے ہاں چونکہ ابھی روایتی معاشرتی قدریں بھی اپنا کچھ بچا کھچا وجود رکھتی ہیں اور  اباحت پسندی کی جدید تہذیبی قدریں تیزی سے، لیکن رفتہ رفتہ ہی ان کی جگہ لے رہی ہیں، اس لیے ہمارے اہل دانش جدید فلسفہ معاشرت کے تضادات اور تباہیوں کا ادراک پوری طرح نہیں کر پاتے۔ اس فلسفہ معاشرت میں  تمام اعلیٰ اخلاقی اصول، فرد کی آزادی اور حق تلذذ کے تابع مانے جاتے ہیں  اور معاشی سرگرمیوں کا اہم ترین مقصد فرد کو اس آزادی اور حق تلذذ سے متمتع ہونے کے مواقع اور ذرائع مہیا کرنا اور اس کی غیر محدود ترغیب پیدا کرتے رہنا ہے۔ اس فلسفے کی رو سے جنسی جذبات کو انگیخت کرنے اور اس کے علاوہ تشہیری مقصد کے لیے نسوانی حسن کو  سامان تجارت کے طور پر استعمال کرنے کے لیے پوری پوری صنعتوں کو منظم کرنا ایک بالکل جائز بلکہ مطلوب سرگرمی ہے، لیکن اس سارے بندوبست کے  ناگزیر نتیجے کے طور پر جب خواتین کو عدم تحفظ اور جنسی ہراسانی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی قانونی روک تھام کی کوشش کی جاتی ہے جو کبھی مطلوب سطح پر موثر نہیں ہو سکتی۔ 
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جنسی ہراسانی سے سابقہ صرف بے پردہ خواتین کو ہی پیش آتا ہے۔ مرد کے مزاج میں جنسی جارحیت اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ توجہ یہ دلانا مقصود ہے کہ حریت نسواں کے نام سے اس جارحیت کو انگیخت کرنے کے جن طریقوں کا جواز مانا جاتا، لیکن ان کے لازمی نتائج ومضمرات سے نظریں چرائی جاتی ہیں، وہ سادہ فکری اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ طرز فکر اس تضاد فکری بلکہ ایک لحاظ سے منافقانہ ذہنی رویے کا ایک مظہر ہے جسے جدید فلسفہ معاشرت کی خصوصیت  شمار کیا جا سکتا ہے۔
جنسی ہراسانی کا تعلق صرف مرد کی جارحیت سے نہیں ہے، اس کو تقویت دینے والے اسباب میں بنیادی کردار عورت سے متعلق اس عمومی ذہنی واخلاقی تصور کا ہے جو کسی معاشرے میں پایا جاتا ہے۔  اگر عمومی معاشرتی ماحول اور اس میں ذہنی واخلاقی تربیت کے ذرائع عورت کے متعلق احترام، ہمدردی اور تحفظ کا رویہ پیدا کریں گے (جس کے لیے مرد وزن کے اختلاط اور نسوانی حسن کی نمائش کے حدود وآداب کی اہمیت بنیادی ہے) تو اس کے نتائج اور ہوں گے، لیکن اس پہلو کو نظر انداز کیا جائے گا تو ایسے ماحول میں جنسی ہراسانی اور خواتین کے عدم تحفظ جیسے مسائل مستقل طور پر حل طلب رہیں گے۔  جدید فلسفہ حیات، معیشت کے دائرے میں سرمایہ داری اور معاشرتی اقدار کے دائرے میں فرد کی مطلق حریت جیسے تصورات پر اندھے ایمان کی وجہ سے معاملے کے اس پہلو سے نظریں چرانے پر مجبور ہے اور اسی وجہ سے اس طرح کے مسائل کے حل میں ناکام بھی ہے۔
معاشرتی برائیوں کے بارے میں یہ بات بھی درست ہے کہ ان کا کماحقہ سدباب محض قانونی بندوبست سے نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کی روک تھام کا میکنزم معاشرے کے روز مرہ کے چلن اور عمومی اخلاقی حساسیت میں ہونا چاہیے، اور قانون کی دخل اندازی کی نوبت انتہائی صورتوں میں ہی آنی چاہیے۔  اخلاقی حساسیت اور معاشرتی روایات کی مثال ان جسمانی اعضاء کی ہے جن کا وظیفہ بدن کی روز مرہ ضروریات کو پورا کرنا ہے، جبکہ قانون کو بیماری کی حالت میں استعمال کی جانے والی دوا کے مانندسمجھا جا سکتا ہے جسے مستقل طور پر غذا کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر کسی عضو کی ناقص کارکردگی کی تلافی کے لیے دوا کو غذا کے طور پر استعمال کیا جائے تو متعلقہ عضو رفتہ رفتہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور بدن مکمل طور پر دواوں کے رحم وکرم پر چلا جاتا ہے۔ بعینہ اسی طرح معاشرے کی اخلاقی صحت کو برقرار رکھنے یا اس کی حفاظت کی اصل ذمہ داری روز مرہ کے معاشرتی آداب اور رویوں پر عائد ہوتی ہے جنھیں معطل کر کے اگر ناہموار اور غیر صحت مند رویوں کی روک تھام کا سارا کام قانون سے لیا جانے لگے تو انسانی شخصیت، اجتماعی اور انفرادی، دونوں سطح پر اپنی شناخت کے نہایت بنیادی پہلووں  سے اجنبی  ہو جاتی ہے۔
مرد وزن کے اختلاط کے حوالے سے عمومی اخلاقی تربیت اور رویہ سازی میں اس  نکتے کو بنیادی اہمیت دی جانی چاہیے کہ مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین کے لیے عزت واحترام، ہمدردی اور ترحم کے جذبات بیدار کیے جائیں۔  جدید طرز معاشرت نے خواتین کو بھی معاشی ذمہ داریوں میں  شریک کر دیا ہے اور  انھیں اپنے خاندان کا سہارا بننے کے لیے کئی طرح کی پر مشقت معاشی سرگرمیوں میں  حصہ لینا پڑتا ہے۔ ایسے ماحول میں انھیں جنسی تلذذ کا ذریعہ تصور کرنے والی نفسیات  سے خواتین کی صورت حال کا یہ پہلو اوجھل ہوتا ہے اور وہ اس جبر کو محسوس کیے بغیر جس کا خواتین کو سامنا ہے، خود غرضی اور نفس پرستی کی کیفیت میں  انھیں صرف صنف مخالف کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ بار بار کی تذکیر سے لوگوں کی اخلاقی حس کو بیدار کرنے کا اہتمام کرنے اور خواتین کے حوالے سے کلچرل زاویہ نظر  کی تشکیل میں احترام، ترحم اور ہمدردی جیسے جذبات کو بنیادی عناصر کے طور پر شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں خواتین سے متعلق ایک عمومی غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے جو ذہنوں میں پائی جاتی ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے خواتین بھی زیبائش کے حوالے سے اخلاقی حدود وآداب کی پابند ہیں۔ عموماً‌ ہمارے ہاں مخلوط ماحول میں ان حدود وآداب کی پابندی نہیں کی جاتی، لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ مخلوط ماحول میں بن سنور کر آنے والی ہر خاتون، صنف مخالف کو “صلائے عام’’ دینا چاہتی ہے اور کسی بھی پیش قدمی کو اس کی طرف سے اہلا وسہلا ومرحباً‌ کہا جائے گا، محض غلط فہمی ہے۔ خواتین کے اس رویے میں بنیادی کردار ماحول کا ہوتا ہے اور خاص طور پر جہاں دوسری خواتین زیب وزینت کی نمائش کا پورا اہتمام کر رہی ہوں، وہاں اس temptation سے بچ پانا خواتین کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے بناو سنگھار کے اہتمام کا اصل محرک صنف محرک  کی توجہ پانے سے زیادہ اپنی ہم جولیوں میں پرکشش نظر آنا ہوتا ہے۔ سو اسے اسی نظر سے دیکھیں اور خواتین کی بات کو خواتین کے درمیان ہی رہنے دیں۔ 
مخلوط ماحول میں نگاہ اور دل کے خیالات کی حفاظت دور جدید کی آزمایشوں میں سے ایک بڑی آزمایش ہے اور اپنےاخلاق وکردار کی حفاظت کے حوالے سے غیر معمولی حساسیت رکھنے والے افراد ہی اس میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ بہرحال، طہارت اخلاق کی نیت اور ارادہ رکھنے والوں کے لیے اس ضمن میں دو تین چیزوں کا اہتمام ان شاء اللہ مفید ثابت ہوگا:
ایک تو یہ کہ حتی الامکان قصداً‌ صنف مخالف پر نظریں دوڑانے سے گریز کریں۔ ابتدا میں یہ مشکل ہوتا ہے، لیکن اگر ارادہ اور نیت پختہ ہو تو رفتہ رفتہ انسان بے نگاہی پر قابو پا سکتا ہے۔
دوسری یہ کہ جب بھی بلا ارادہ یا ارادتاً‌ غلط نگاہ پڑ جائے تو فوراً‌ استغفار سے خود کو یاد دہانی کرائیں کہ غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ اگر ایسے موقع پر “اللھم جنبنی الفواحش ما ظھر منھا وما بطن’’ (اے اللہ! مجھے بے حیائی کے کاموں سے دور رکھ، ظاہر بھی اور مخفی بھی) بھی پڑھ لیں تو ان شاء اللہ کچھ عرصے میں بہت افاقہ محسوس ہوگا۔
تیسری اہم چیز جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے کافی موثر رہتی ہے، یہ ہے کہ آپ اس معاملے کو اپنی عزت نفس کے حوالے سے دیکھیں۔ اگر آپ کسی ذمہ دار منصب پر ہیں، خاص طور پر استاذ کا منصب آپ کے پاس ہے تو قدرتی طور پر آپ کے لیے ماحول میں عزت واحترام پایا جاتا ہے۔ آپ عمر میں تھوڑا بڑے ہوں اور کچھ بال بھی سفید ہو چکے ہوں تو طلبہ وطالبات آپ کو اپنے باپ کی جگہ، نہیں تو ایک ہمدرد اور غم خوار بڑے بھائی کی جگہ ضرور رکھتے ہیں۔برے خیالات یا بد نگاہی میں مبتلا ہونے پر یہ تصور کیا کریں کہ اگر آپ کا احترام کرنے والوں کو، خاص طور پر آپ کے طلبہ وطالبات کو آپ کے ان خیالات وعزائم کا پتہ چلے تو وہ آپ کے لیے کتنی عزت دل میں رکھ پائیں گے؟ خود کو یاد دلائیں کہ اگر انھیں اپنے بھائی یا باپ کے “نیک خیالوں’’ یا “پاکیزہ نگاہوں’’ کا کچھ اندازہ ہو جائے تو وہ کیا محسوس کریں گے اور ان کے ایسا محسوس کرنے کا اثر خود آپ کی شخصیت پر کیا ہوگا؟ گویا کسی بھی ماحول کے ذمہ داران اور خاص طور پر اساتذہ خود کو اپنے منصب کے وقار اور اس کے ساتھ وابستہ عزت واحترام کی یاد دہانی کے ذریعے سے اس آزمائش کا بڑی حد تک کامیابی سے سامنا کر سکتے ہیں۔ 
جہاں تک نوجوانوں کا تعلق ہے جنھیں اس عمر میں عموماً‌ سیلف رسپکٹ سے زیادہ صنف مخالف کی توجہ مرغوب ہوتی ہے، تو ان کے لیے وہ طریقہ زیادہ موثر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کی اصلاح کے لیے اختیار فرمایا تھا۔ جو نوجوان اس آزمایش سے دوچار ہوں، انھیں چاہیے کہ ایسی کیفیت میں وہ اپنی ماں، بہن اور بیٹی کا تصور ذہن میں لایا کریں کہ اگر کوئی ان کی طرف بد نظر سے دیکھے تو انھیں کیسا محسوس ہوگا اور یہ کہ وہ جس کو بری نظر سے دیکھ رہے ہیں، وہ بھی کسی کی ماں، بہن اور بیٹی ہی ہے۔ 
ان چند امور کا اہتمام کرنے سے، ان شاء اللہ حسب استعداد وحسب توفیق افاقہ محسوس ہوگا۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۱) القول اور کلمۃ فیصلے کے معنی میں 

قرآن مجید میں القول کا لفظ ایک خاص اسلوب میں استعمال ہوا ہے، اس اسلوب کے لیے القول کے ساتھ تین مختلف افعال استعمال ہوئے ہیں، جیسے حق علیہ القول، اور وقع علیہ القول، اور سبق علیہ القول۔ القول کی طرح کلمة کا لفظ بھی اسی خاص اسلوب میں استعمال میں ہوتا ہے، جیسے حقت علیہ کلمۃ، اور سبقت کلمۃ۔
مترجمین قرآن کے یہاں ایسے مقامات کا ترجمہ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کو ان کا مفہوم متعین کرنے میں دشواری ہوئی ہے، اور وہ مختلف مقامات پر مختلف ترجمے کرتے ہیں، بسا اوقات ان ترجموں کو سمجھنا بھی دشوار ہوتا ہے، کہ ان کی مراد کیا ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی ان تمام مقامات پر ایک ہی ترجمہ تجویز کرتے ہیں، اور وہ ہے فیصلہ ہونا۔ اس ترجمہ کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسے ہر مقام پر بہت اچھی طرح موزوں ہوجاتا ہے، مزید یہ کہ اس ترجمہ سے پوری آیت کا مفہوم اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے۔ ذیل میں مثالوں کے ذریعہ سے یہ بات اور واضح ہوگی:

(۱) وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُہْلِكَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِيْہَا فَفَسَقُوا فِيہَا فَحَقَّ عَلَيْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِيرًا۔ (الاسراء: 16)

”جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں“ (سید مودودی)
”تو اس پر بات پوری ہوجاتی ہے“ (احمد رضا خان)
”تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہوجاتی ہے “(محمد جوناگڈھی)
”پس ان پر بات پوری ہوجاتی ہے “(امین احسن اصلاحی)
”پس اس کے سلسلے میں فیصلہ ہوجاتا ہے “(امانت اللہ اصلاحی)

(۲) وَيَوْمَ يُنَادِیْہِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ (62) قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْہِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا ھٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاھُمْ كَمَا غَوَيْنَا تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ۔ (القصص: 62 - 63)

”اور (بھول نہ جائیں یہ لوگ) اُس دن کو جب کہ وہ اِن کو پکارے گا اور پوچھے گا ''کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے؟'' یہ قول جن پر چسپاں ہو گا وہ کہیں گے اے ہمارے رب، بے شک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا، اِنہیں ہم نے اُسی طرح گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے ہم آپ کے سامنے برائت کا اظہار کرتے ہیں یہ ہماری تو بندگی نہیں کرتے تھے“ (سید مودودی)
”کہیں گے وہ جن پر بات ثابت ہوچکی“ (احمد رضا خان)
”(تو) جن لوگوں پر (عذاب کا) حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے“ (فتح محمدجالندھری)
جن کے خلاف فیصلہ ہوچکا ہوگا (امانت اللہ اصلاحی)

(۳) وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ ھُدَاہَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ۔ (السجدہ: 13)

”اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے۔ لیکن میری طرف سے یہ بات قرار پاچکی ہے کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھردوں گا (جالندھری)
مگر میری وہ بات پُوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی“ (سید مودودی)
”مگر میری بات قرار پاچکی “(احمد رضا خان)
”مگر میرا فیصلہ ہوچکا ہے “(امانت اللہ اصلاحی)

(۴) لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰی أَكْثَرِہِمْ فَہُمْ لَا يُؤْمِنُونَ۔ (یس: 7)

”بیشک ان میں اکثر پر بات ثابت ہوچکی ہے تو وہ ایمان نہ لائیں گے“ (احمد رضا خان)
”اِن میں سے اکثر لوگ فیصلہ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں “(سید مودودی)
”ان میں سے اکثر پر (خدا کی) بات پوری ہوچکی ہے“ (فتح محمدجالندھری)
”ان میں سے اکثر کے خلاف فیصلہ ہوچکا ہے“ (مطلب ان کے ایمان نہ لانے کا فیصلہ ہوچکا ہے، لہذا  
وہ ایمان نہیں لائیں گے، یعنی جو فیصلہ ہوچکا ہے اس کا نتیجہ بھی بیان کردیا) (امانت اللہ اصلاحی)

(۵) فَحَقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَا إِنَّا لَذَائِقُونَ۔ (الصافات: 31)

”آخرکار ہم اپنے رب کے اِس فرمان کے مستحق ہو گئے کہ ہم عذاب کا مزا چکھنے والے ہیں“ (سید مودودی)
”تو ثابت ہوگئی ہم پر ہمارے رب کی بات “(احمد رضا خان)
”سو ہمارے بارے میں ہمارے پروردگار کی بات پوری ہوگئی“ (فتح محمدجالندھری)
”ہمارے خلاف ہمارے رب کا فیصلہ صادر ہوگیا“ (امانت اللہ اصلاحی، آگے فیصلہ کا بیان نہیں بلکہ فیصلہ کے نتیجہ کا بیان ہے)

(۶) أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْہِ كَلِمَۃُ الْعَذَابِ أَفَأَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِي النَّارِ۔ (الزمر: 19)

”بھلا جس شخص پر عذاب کا حکم صادر ہوچکا۔ تو کیا تم (ایسے) دوزخی کو مخلصی دے سکو گے“ (فتح محمدجالندھری)
”جس پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہو“ (سید مودودی)
”جس پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی“ (احمد رضا خان)
”جس کے سلسلے میں عذاب کا فیصلہ ہوچکا “(امانت اللہ اصلاحی) (جو فیصلہ ان کے کرتوتوں کے نتیجے میں ابھی ہوا ہے وہ مراد ہے)

(۷) أُولَئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْہِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنَّہُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ۔ (الاحقاف:18)

”یہ وہ ہیں جن پر بات ثابت ہوچکی ان گروہوں میں جو ان سے پہلے گزرے جن اور آدمی“ (احمد رضا خان)
”یہ وہ لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہے“ (سید مودودی)
”وہ لوگ ہیں جن پر (اللہ کے عذاب کا) وعدہ صادق آگیا “(محمد جوناگڈھی)
”یہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی وعید پوری ہوئی“ (امین احسن اصلاحی)

(۸) كَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَی الَّذِينَ فَسَقُوا أَنَّہُمْ لَا يُؤْمِنُونَ۔ (یونس: 33)

”اسی طرح خدا کا ارشاد ان نافرمانوں کے حق میں ثابت ہو کر رہا کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے“(فتح محمدجالندھری)
”اس طرح نافرمانی اختیار کرنے والوں پر تمہارے رب کی بات صادق آ گئی“ (سید مودودی)
”یونہی ثابت ہوچکی ہے تیرے رب کی بات فاسقوں پر“ (احمد رضا خان)
”اس طرح نافرمانی کرنے والوں کے سلسلے میں تیرے رب کا فیصلہ صادر ہوگیا“ (امانت اللہ اصلاحی)

(۹) إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْہِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ (96) وَلَوْ جَاءَتْہُمْ كُلُّ آيَۃٍ حَتّیٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ۔ (یونس: 96، 97)

”بیشک وہ جن پر تیرے رب کی بات ٹھیک پڑچکی ہے ایمان نہ لائیں گےو اگرچہ سب نشانیاں ان کے پاس آئیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں “(احمد رضا خان)
”جن لوگوں پر تیرے رب کا قول راست آگیا ہے“ (سید مودودی)
”جن لوگوں کے بارے میں خدا کا حکم (عذاب) قرار پاچکا ہے“ (فتح محمدجالندھری)
”جن کے سلسلے میں تیرے رب کا فیصلہ ہوچکا ہے“ (امانت اللہ اصلاحی)

(۱۰) وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلیٰ جَہَنَّمَ زُمَرًا حَتّیٰ إِذَا جَائوہَا فُتِحَتْ أَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا بَلٰی وَلَكِنْ حَقَّتْ كَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْكَافِرِينَ۔ (الزمر: 71)

”اور کافر جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے گروہ گروہ یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن سے ملنے سے ڈراتے تھے، کہیں گے کیوں نہیں مگر عذاب کا قول کافروں پر ٹھیک اترا“(احمد رضا خان)
”مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر چپک گیا“ (سید مودودی)
”لیکن عذاب کا حکم کافروں پرثابت ہو گیا “(محمدجونا گڈھی)
”پر کافروں پر کلمہ عذاب پورا ہوکر رہا “(امین احسن اصلاحی)

(۱۱) وَكَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَی الَّذِينَ كَفَرُوا أنَّہُمْ أَصْحَابُ النَّارِ ۔ (غافر:6)

”اِسی طرح تیرے رب کا یہ فیصلہ بھی اُن سب لوگوں پر چسپاں ہو چکا ہے جو کفر کے مرتکب ہوئے ہیں کہ وہ واصل بجہنم ہونے والے ہیں“ (سید مودودی)
”اور یونہی تمہارے رب کی بات کافروں پر ثابت ہوچکی ہے کہ وہ دوزخی ہیں“ (احمد رضا خان)
”اور اسی طرح کافروں کے بارے میں بھی تمہارے پروردگار کی بات پوری ہوچکی ہے کہ وہ اہل دوزخ ہیں“
 (فتح محمدجالندھری)
”اور اسی طرح تیرے رب کی بات اب لوگوں پر پوری ہوچکی جنھوں نے کفر کیا ہے کہ یہ لوگ دوزخ میں پڑنے والے ہیں“ (امین احسن اصلاحی)
”اور اسی طرح تیرے رب کا فیصلہ ان لوگوں کے سلسلے میں ہوچکا جنھوں نے کفر کیا کہ وہ دوزخی ہیں“(امانت اللہ اصلاحی)

(۱۲) لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْكَافِرِينَ۔ (یس:70)

”تاکہ وہ ہر اُس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پر حجت قائم ہو جائے“ (سید مودودی)
”اور کافروں پر بات ثابت ہوجائے “(احمد رضا خان)
”اور کافروں پر بات پوری ہوجائے “(فتح محمدجالندھری)
”اور کافروں پر حجت ثابت ہو جائے“ (محمدجوناگڈھی)
”اور کافروں پر حجت تمام ہوجائے“ (امین احسن اصلاحی)
”اور کافروں کے سلسلے میں فیصلہ ہوجائے“ (امانت اللہ اصلاحی)

(۱۳) وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْہِمْ بِمَا ظَلَمُوا فَہُمْ لَا يَنْطِقُونَ۔ (النمل: 85)

”اور ان پر بات پوری ہوجائے گی بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے، پس وہ کچھ نہ بول سکیں گے“ (امین احسن اصلاحی)
”ان پر بات جم جائے گی“ (محمدجوناگڈھی)
”عذاب کا وعدہ ان پر پورا ہو جائے گا“ (سید مودودی)
”اور بات پڑچکی ان پر “ (احمد رضا خان)
”اور ان کے خلاف فیصلہ ہوگیا “(امانت اللہ اصلاحی)

(۱۴) وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْہِمْ أخْرَجْنَا لَہُمْ دَابَّۃً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُہُمْ أنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ۔ (النمل: 82)

”اور جب ان پر بات پوری ہوجائے گی تو ہم ان کے لئے زمین سے کوئی جانور نکال کھڑا کریں گے جو ان کو بتائے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے“ (امین احسن اصلاحی، کوئی جانور نہیں بلکہ ایک جانور کہنا درست ہے)
”اور جب بات ان پر آپڑے گی “(احمد رضا خان)
”اور جب ہماری بات پُوری ہونے کا وقت اُن پر آ پہنچے گا“ (سید مودودی)
”اور جب ان کا فیصلہ ہوجائے گا“ (امانت اللہ اصلاحی)

(۱۵) قُلْنَا احْمِلْ فِيہَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأھْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ۔ (ھود: 40)

”ہم نے اس کو کہا کہ ہر چیز میں سے نرو مادہ دونوں کو اور اپنے اہل وعیال کو، بجز ان کے جن پر حکم نافذ ہوچکا ہے، اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اس کشتی میں سوار کرلو“ (امین احسن اصلاحی)
”اور جن پر بات پڑچکی ہے ان کے سوا“ (احمد رضا خان)
”سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے“ (سید مودودی)
”جن کے خلاف فیصلہ ہوچکا ہے “(امانت اللہ اصلاحی)

(۱۶) فَاسْلُكْ فِيہَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأھْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْہِ الْقَوْلُ مِنْہُمْ۔ (المومنون: 27)

”تو اس میں ہر چیز کے جوڑے رکھ لو اور اپنے لوگوں کو بھی سوار کرالو، بجز ان کے جن کے بارے میں قول فیصل ہوچکا ہے“ (امین احسن اصلاحی)
”وہ جن پر بات پہلے پڑچکی “(احمد رضا خان)
”جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے “(سید مودودی)
حق القول اور وقع القول ہم معنی الفاظ ہیں، فیروزابادی کے الفاظ میں:

والاَمرُ یَحُقُّ ویَحِقُّ حَقَّۃً، بالفتح: وجَبَ ووَقَعَ بلا شَکٍ۔ (القاموس المحیط)

القول میں معنی کے لحاظ سے بڑی وسعت ہے، بات، وعدہ، حکم اور فیصلہ وغیرہ وہ سب مفہوم اس میں آسکتے ہیں، جن کا تعلق قول سے ہوتا ہے، ایسی صورت میں سیاق کلام کی مدد سے مناسب مفہوم کا تعین کیا جاتا ہے، مذکورہ بالا تمام آیتوں میں القول اور کلمة سے مراد اگر فیصلہ لیں، تو بات سیاق کلام کے مطابق ہوتی ہے، مفہوم بہت واضح ہوکر سامنے آتا ہے، اور کسی تاویل کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ اس صورت میں حق القول کا مطلب ہوگا فیصلہ ہوجانا۔ یہی مطلب وقع القول کا ہوگا، جبکہ سبق القول کا مطلب ہوگا پہلے سے فیصلہ ہوجانا۔
بعض حضرات مذکورہ بالا آیتوں میں قول اور کلمة سے مراد وہ بات لیتے ہیں جو اللہ تعالی نے ابلیس سے کہی تھی۔ لیکن وہ بات تمام مقامات پر فٹ نہیں ہوتی ہے۔ اس کے بجائے یہ بات زیادہ مناسب ہے کہ  نافرمانوں کی بدعملی کی پاداش میں اللہ کی طرف سے جو فیصلہ ہوتا ہے، وہ فیصلہ مراد ہے۔
(جاری)

جدید ریاست میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید ۔ بنیادی خدوخال اور طریق کار (۱)

مولانا سمیع اللہ سعدی

مسلم امت کا دور زوال  علوم  و فنون کا دور جمود ہے، زوال نے  علوم و فنون کے ارتقاء کا سفر روک دیا، ماضی کے ذخیرے کی تشریح، توضیح، تعلیق، اختصار اور تلخیص علمی حلقوں کا مشغلہ بن گیا ہے، فقہ اسلامی   علوم  و فنون  میں سب سے زیادہ زوال سے متاثر ہوئی، خاص طور پر ادارہ خلافت کے ٹوٹنے سے فقہ اسلامی کے  وہ شعبے یکسر منجمد ہوگئے، جن کا تعلق مسلم امت کے اجتماعی امور سے ہے، ریاستی امور، عدالتی قضایا، اقتصادی معاملات، بین الااقوامی  ایشوز  اور معاشرتی نظم و نسق سب سے زیادہ جمود کا شکار ہوئے، اور افتاء و استفتاء عبادات اور عائلی معاملات  میں منحصر ہو کر رہ گیا ہے۔ اس لئے  فقہ اسلامی کی تشکیل جدید اور احیا کی   ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ  رفتار زمانہ کی تیزی اور نت  نئی تبدیلیوں کے سیلا ب نے نوازل و حوادث کا  پہاڑ کھڑا کیا، عبادات سے لے کر معاملات تک، انفرادی امور سے لے کر اجتماعی امور تک نئے مسائل کثیر تعداد میں پیدا ہوئے ہیں، جن کا حل نکالنا فقہ اسلامی کی روشنی میں  وقت کی سب بڑی ضرورت بن گیا ہے۔ ان نوازل و حوادث کو اباحیت اور  جمود سے بچتے ہوئے  تیسیر اور احتیاط کی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے، اس کام کے لئے ایسے نبض شناس فقہا  چاہئے ، جو ایک طرف ماضی کے ذخیرے پر مکمل عبور رکھتے ہوں،دوسری طرف حال کی تبدیلیوں  اور   تقاضوں  کا کامل ادراک رکھتے  ہوں ۔ ماضی سے انحراف یا حال سے اعراض پر مبنی کوششیں جمود یا اباحیت پر منتج ہو ں گی ۔
اس مقالے میں اس حساس اور اہم ترین موضوع پر بحث کی جائے گی اور جدید ریاست میں  فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے رہنما خطوط واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ مقالہ میں حسب ذیل سوالات  زیر بحث لائے جائیں گے :
۱۔ جدید ریاست کیا ہے اور جدید ریاست سے جڑے تصورات  شریعت سے کتنے ہم آہنگ ہیں؟
۲۔ فقہ اسلامی کا کون سا حصہ تشکیل ِجدید کا متقاضی ہے اور کس قسم کے مسائل و احکام میں تشکیل ِجدید  وقت  کی ضرورت ہے؟
۳۔ تشکیل جدید کے بنیادی خدوخال کیا ہیں اور اس کے اساسی مراحل کون سے  ہیں ؟
۴۔  عالم  اسلام میں فقہ اسلامی کی تشکیل ِجدید کیا  کوششیں ہوئی ہیں اور ان کوششوں کے کیا اثرات مرتب ہوئے ؟
ان چار سوالات کو چار ابحاث میں بیان کیا جائے گا ۔

بحث اول : جدید ریاست اور اس کے  اجزائے ترکیبی 

فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے خدوخال طے کرنے  سے پہلے جدیدریاست کے اجزائے ترکیبی اور اس کی اسلامائزیشن  کا کام اہم ہے ، اگر ریاست غیر اسلامی بنیادوں پر کھڑی ہوگی ،تو تجدید و احیا کے کام میں متنوع رکاوٹوں سمیت ایسے عناصر  اثر انداز ہو  سکتے ہیں ،جس کی وجہ سے  تجدید کے حساس کام کا  تحریف و تغیر میں  تبدیل ہو نے کا امکان ہے ۔عالم اسلام میں وقتاً‌ فوقتا ً‌ تجدد پسندی کی  اٹھنے والی لہروں کے  پیچھے متنوع عوامل  میں سے  ایک یہ عامل بھی  کارفرما ہے ۔اس  مو قع پر ریاست کے جملہ اجزائے ترکیبی (یہاں اجزائے ترکیبی  سے مراد وہ امور و ہ تصورات  ہیں ،جو ریاست کے وجود ،تنظیم اور نظم و نسق سے متعلق ہیں ، ورنہ ٹھیٹھ سیاسی فلسفہ کی رو سے ریاست آبادی ،علاقہ ،حکومت اور اقتدار اعلی  صرف چار اجزا پر مشتمل ہوتی ہے )سے بحث کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ ان  پہلووں پر بات کی جائے گی ،جو شرعی نقطہ نظر سے قابل غور ہیں ،اور اسلامی تعلیمات سے قطعی طور پر ٹکراتی ہیں یا  شریعت کے  مقاصد کلیہ سے ہم آہنگ نہیں  ہیں ۔اس میں درجہ ذیل تصورات پر بحث ہوگی:
۱۔تصورریاست  (concept of state )
۲۔سیکولرازم (secularism)
۳۔ اقتداراعلی (sovereignty)   کاتصور
۴۔ تصورقومیت  (concept of nationalism )
۵۔آزادی ومساوات  (freedom and equality )
۶۔فلسفہ حقوق (philosophy of rights )

۱۔ تصور ریاست     (concept of state )

جدید سیاسی فلسفے میں ریاست کا تصور انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،جدیدپولیٹکل سائنس  میں ریاست کو مستقل بالذات عنصر مانا گیا ہے ،ریاست باقاعدہ ایک شخص قانونی ہوتا ہے ، اور یہ شخص قانونی  عام افراد کی طرح حقوق و فرائض کا مخاطب ہوتا ہے ،ریاست معاشرے ،حکومت اور قوم  سے الگ تھلگ  وجود رکھتا ہے، سارے افعال ریاست کی طرف منسوب ہوتے ہیں ،جو ریاست کی نیابت میں حکومت  سر انجام دیتی ہے۔ 1
ریاست کا یہ تصور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جانچنے کی ضرورت ہے ،کیا  فقہ السیاسہ کی روشنی میں یہ تصور درست ہے؟اس کا جائزہ لینا از حد ضروری ہے ،  فقہ اسلامی میں  خلیفہ و امام کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے  اور خلیفہ و ا مام کو ہی احکام کا مخاطب بنایا گیا ہے ، دار کی اصطلاح بھی آئی ہے ،جسے ہم کسی نہ کسی درجے میں ریاست کے قریب قریب مفہوم دے سکتے ہیں ،لیکن اس کی نوعیت بھی امام  وسلطان اور رہنے والے افراد  کے بدلنے سے بد ل جاتی ہے ،دار الاسلام ،دار الکفر،دار الامن اور دار الحرب  وغیرہ،ان سب اصطلاحات کا مدار عوام اور حکمرانوں پر ہے ،یہی وجہ ہے کہ دار الاسلام دار الکفر میں بد ل سکتا ہے اور اس کے برعکس بھی ،اس لئے دار کی اصطلاح کو کلی طور پر جدید تصورِ ریاست کے ہم معنی قرار دینا مشکل ہے۔
یہ بات باعثِ تعجب ہے کہ جدید مسلم مفکرین کے ہاں  جدید تصور ریاست اور اسلام کے تصور ریاست  پر کوئی  تفصیلی بحث نہیں ملتی ،بلکہ  اسلامی ریاست پر لکھنے والوں  کا مرکز توجہ نظام حکومت ہے ،البتہ مو لانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ  نے اسلام کی رو سے ریاست و حکومت کا حسب ذیل الفاظ میں فرق بیان کیا ہے:
’’خلافت کی اصطلاح اسلامی اصولوں پر قائم شدہ ریاست کے لئے استعما ل ہوئی ہے اور امامت یا امارت سے مراد وہ گورنمنٹ ہوتی ہے ،جو خلافت کے اداروں کی تنفیذ کرتی اور اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی ہے۔‘‘ 2
مولانا اصلاحی رحمہ اللہ  کا بیان کردہ فرق محلِ نظر ہے ۔خلافت و امامت کی اصطلاحات  مترادف ہیں۔ابن خلدون مقدمہ میں لکھتے ہیں:
واذ قد بینا حقیقہ ھذا المنصب وانہ نیابۃ عن  صاحب الشریعہ فی حفظ الدین وسیاسۃ الدنیا بہ تسمی خلافۃ و امامۃ والقائم بہ خلیفہ و امام۔ 3
ترجمہ: جب ہم اس منصب کی حقیقت بیان کر چکے  اور اس بات کا بیان بھی ہوچکا کہ یہ منصب دین کی حفاظت اور دنیاوی امور کی تدبیر میں    شارع کی نیا بت  کانام ہے ، تو اسے امامت و خلافت کہتے ہیں اور اس کو قائم کرنے والا خلیفہ و امام کہلاتا ہے۔
 جب جدید مسلم سیاسی فکر  میں جدید ریاست کی ماہیت  پر بحث نہیں ملتی تو اس کی مختلف تشریحات اور انواع پر بحث کجا ملے گی؟،جدید سیاسی فلسفے کی رو سے ریاست کی مختلف نقطہ ہائے نظر سے متنوع تشریحات ہیں مثلا  liberal-pluralist state (لبرل تکثیری ریاست ) social-democratic state (سماجی جمہوری ریاست ) Marxist analysis (ریاست کا مارکسی تجزیہ ) feminist analysis (ریاست کا تانیثی تجزیہ) self-serving state (خود مکتفی ریاست) وغیرہ 4، ان تمام  تشریحات سے ریاست کی متنوع اقسام  بنتی ہیں،اس لئے جدید ریاست کا گہرا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے   اور اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جدید ریاست اپنی ماہیت اور جدید تشریحات  کے اعتبار سے  اسلامی بن  بھی سکتی ہے  یا نہیں؟  اور اسے  اسلامی فقہی تصورات سے ہم آہنگ  کرنا  کیا ممکن  ہے؟

۲۔ سیکولرازم (secularism)

 سیکولرازم جدید ریاست کے مفہوم کا لازمی جزو ہے، یہ اصطلاح  انیسویں صدی میں جارج ہالی اوک(George Jacob holyoake) نے وضع کی تھی5، سیکولرازم  ریاست سے مذہب کی بے دخلی کا نام ہے ،اجتماعی امور سے مذہب کو نکال کر اسے محض ایک پرائیویٹ معاملہ بنانے کی تحریک ہے ،سماج سے مذہبی علامات ،تعلیمات اور شعائر کو الگ کر کے اسے خالص دنیاوی رنگ دینے کانام ہے ،انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں سیکولرازم کی درجہ ذیل تشریح کی گئی ہے:
A movement in society directed away from other worldliness  to life on earth. 6
ترجمہ :سماج میں اخرویت  سے رخ پھیر کر دنیویت پر توجہ دینے کی تحریک۔
عام طور پر اس کی شناعت کم کرنے کے لئے  اسے   مذہب  کے بارے میں ریاست کی  غیر جانبداری سے تعبیر کیا جاتا ہے ،لیکن یہ  درحقیقت الفاظ کا ہیر پھیر ہے ،ریاست  کا مذہب کے معاملے میں غیر جانبدار ہونا دراصل مذہب کو ریاستی امور سے نکالنے کا نام ہے ۔    سیکولرازم   معاصر فقہا کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ،کیونکہ آج نئے روپ اور نئی تعیبرات کے ساتھ سیکولر فکر اسلامی ممالک پر حملہ آور ہے ،خصوصا مسلم ممالک میں چلنے والی خارجیت و عسکریت کی حالیہ لہروں کے جواب میں بعض مسلم مفکرین7 کی جانب سے جو بیانیہ (narrative)سامنے آیا ہے ،وہ انجام ِکار کے اعتبار سے سیکولرازم  کی ایک" اسلامی توجیہ" ہے  ،اس کے علاوہ مسلم سماج میں ایسے دانشور اور صحافی موجود ہیں8 ، جو اپنے آ پ کو  علانیہ سیکولرازم کا علمبردار   کہتے ہیں  اور  باعثِ تعجب یہ کہ اسے اسلامی تعلیمات کے منافی بھی نہیں سمجھتے ،حالانکہ اسلامی تعلیمات   میں اجتماعی و انفرادی امور کی اس اعتبار سے کوئی تقسیم نہیں ہے ،کہ سماجی امور اور ریاستی معاملات الہی اوامر و نواہی سے  آزاد ہوں  گے،بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو فرد کی زندگی کی تشکیل کے ساتھ اجتماعی زندگی میں بھی مکمل رہنمائی کرتا ہے اور اسے احکام و فرائض کا پابند بناتا ہے ۔

۳۔ اقتدار اعلی ( sovereignty) کاتصور 

جدید سیاسی فلسفہ میں  اقتدا راعلی کا تصور کلیدی اہمیت رکھتا ہے ، حکومت  کی مختلف اقسام  اور ایک ریاست میں  مختلف سپریم ادارے اقتدار اعلی کے تصور میں تنوع کا نتیجہ ہے ،اندورنی (internal) و بیرونی  (external) اقتدار اعلی ہو   یا آئینی (legal) اور سیاسی (political) اقتدار اعلی ، فوری (immediate) اور حتمی (ultimate) اقتدار اعلی ہو ،یا عمومی (popular)، قا نونی (jure) اور حقیقی (actual) اقتدار اعلی ہو،9 ان تمام اقسام نے  متعدد سوالات کھڑے کئے  ہیں ،ان سوالات کا فقہ السیاسہ کی روشنی میں جائزہ لینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ،یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ جدید سیاسی فلسفوں کے برعکس  اسلامی تعلیمات کی رو سے مقتدر اعلی صر ف اور صرف اللہ کی ذات  اور اللہ و رسول کے دئیے ہوئے احکامات ہیں ،جسے دین اسلام سے تعبیر کیا جاتا ہے ،لیکن اس دین کو نافذ کرنے کے لئے کس قسم کے مقتدر اعلی کی ضرورت ہے جو حقیقی مقتدر اعلی  کے تابع ہوکر    سپریم اتھار  ٹی کی حیثیت رکھتا ہو؟ وہ مقتدر اعلی خلیفہ و امام ہوتا ہے یا اہل حل  و عقد، خواص ہوتے ہیں یا عوام؟ اگرچہ قدیم فقہی تصور کے مطابق خلیفہ و امام سپریم اتھارٹی ہے ، کیا جدید دور میں یہ تصور قابلِ عمل ہے؟ جدید اسلامی ریاست میں   ایک ہی  شخص اور ادارے میں  اختیارات مرتکز کرنا زیادہ مفید ہوگا یا جدید تجربات  سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اختیارات کی تقسیم مقاصدِ شریعت سے زیادہ ہم آہنگ ہوگا؟ مسلم مفکرین نے اقتدار اعلی کے تصور پر گفتگو کرتے ہوئے عموماً‌ حتمی و حقیقی اقتدار اعلی پر بحث کی ہے،اور  اقتدار اعلی کے جدید تصور کو بیک جنبشِ قلم اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے ،حالانکہ اس تصور کی تحلیل  اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

۴۔تصور قومیت 

قومیت   جدید سیاسی فلسفہ کا وہ نظریہ ہے ،جس سے عالم اسلام سب  سے زیادہ  متاثر ہوا  ،برصغیر میں "قوم وطن سے بنتی ہے یا مذہب سے  "کے  سوال پر لمبا عرصہ تک  بحث مباحثہ ہوتا رہا ،متحدہ  قومیت اور اسلامی قومیت  کے دو  الگ الگ نعرے ایجاد ہوئے ،اس کے علاوہ عالم عرب میں  عرب نیشنلزم  کی  لہر چلی ،جس  سے خلافت  کا ادارہ ٹو ٹ پوٹ کا شکار ہوا ،نیزمصر  وعراق میں  قدیم تہذیبوں  کے احیا کی صداوں کے پیچھےبھی یہی تصور کارفرما تھا ،بلکہ خود یورپ اس تصور سے شدید متاثر ہوا ،بیسیویں صدی کی دو عظیم جنگوں کے پیچھے بھی قومیت کا عنصر شامل تھا ،فلسفہ سیاسیات کے معاصر برطانوی مصنف Andrew Heywood  لکھتے ہیں :
Nationalism was therefore a powerful factor leading to war  in both 1914 and 1939. 10
 اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جدید ریاستیں سب کے سب  قومی ریاست (nation –state ) کے تصور پر کھڑی ہیں ،اور nationalism  ایک تسلیم شدہ نظریہ بن گیا ہے ۔
اسلامی حوالے سے لفظ قوم  مختلف معانی و مفاہیم رکھتا ہے ،ڈاکٹر مستفیض علوی صاحب نے  ایک مضمون میں قرآن پاک میں لفظ قوم کے مختلف استعمالات   جمع کئے ہیں ،ڈاکٹر صاحب  لکھتے ہیں :
"کتاب الہی میں اس کاذکر درجہ ذیل حوالوں سے آیا ہے :
۱۔کسی خاص طرز فکر و عمل رکھنے والے گروہ کے لیے جیسے ان فی ذلک لایات لقوم یومنون 11 
۲۔کسی نبی کی امت اور کسی بادشاہ کی رعایا کے لئے جیسے  من بعد قوم نوح 12، من قوم فرعون 13، اتذر موسی و قومہ14
۳۔کسی خاص علاقے میں رہنے والے گروہ کے لئے جیسے قالوا لا تخف انا ارسلنا الی قوم لوط 15
۴۔کسی خاص نسلی  اور نظریاتی پس منظر ،توارث اور تشخص کے حامل گروہ  کے لئے قوم کے ساتھ ملت کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے ،جیسے انی ترکت ملۃ قوم لا یومنون 16، ملۃ ابیکم ابراہیم 17
۵۔کسی عقیدے اور مسلک کے حامل گروہ  کے لئے قوم کے ساتھ امت کا لفظ بھی ساتھ آیا ہے ،جیسے  ومن  قوم موسی امۃ یھدون  بالحق وبہ یعدلون 18
تاہم امت کا لفظ ایک مقدس فریضہ  حیات کے ضمن میں  استعمال کیا گیا ہے ،جیسے کنتم خیر امۃ  19، ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر 20
معلوم  یہ ہوا  کہ  قرآن نے قوم کا لفظ یا تو ایسے انسانی گروہ کے لئے استعمال کیا ہے :
۱۔ جو ایک خاص  نقطہ نظر کا حامل ہو اور ایک خاص تہذیب یا کلچر رکھتا ہو ۔
۲۔ ایسی اجتماعیت کے لیے جو ایک  دستور اور  اقتدار و حکومت کے تحت ہو ،
۳۔ یا ایسی جامعت انسانی کے لئے  جو خاص علاقوے میں رہائش پذیر ہو ۔
اس کے ساتھ کسی ایسی قوم کے لئے جو ایک خاص نسلی توارث  اور نظریاتی تشخص کی حامل ہو ،قرآن نے ملت کا لفظ استعمال کیا ہے  اور ایسی ملت کو جو ایک اپنے سامنے ایک  فریضہ اور نظریاتی مقصدیت رکھتی ہو ، امت کے لفظ سے یاد کیا ہے۔" 21
    ڈاکٹر صاحب کی اس وقیع عبارت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے قوم کی بجائے ملت اور امت کا لفظ  استعما ل کرنا قرآنی تعبیرات سے ہم آہنگ ہے ،اس لئے اسلامی قومیت کا نعرہ  قرآنی تعبیرات کی رو سے محل نظر ہے۔
البتہ  کسی خاص نسل ،زبان یا کلچر کے اشتراک کی بنیاد پر ریاست بنانا   اسلامی  اصولوں  سے میل نہیں کھاتا ،مسلم سیاسی فقہ  میں  ریاستوں کی تقسیم نظریات کی بنیاد پر ہوئی ہے جیسے دار الاسلام ،دالحرب وغیرہ کے تصورات ،اس لئے  (nation-state)کے تصور پر از سر نو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔

۵۔ آزادی و مساوات (freedom and equality )

آزادی و مساوات جدید سیاسی فلسفے کے لازمی اجزا ہیں ،پولیٹکل سائنس کی چھوٹی کتاب  سے لیکر بڑی کتب تک اور بنیادی ماخذ سے لیکر ثانوی ماخذ تک سب میں آزادی و مساوات پر بحث ملتی ہے ،  معروف برطانوی مفکر برلن آزادی کے متعلق لکھتے ہیں:
The area within which a man can act unobstructed by others. 22
یعنی آزادی سے مراد   ایسا دائرہ جس میں  ایک فرد دوسروں کی مداخلت سے مکمل طور پر  آزاد ہو کر اپنے اعمال سر انجام دے سکے ، کسی  بھی دوسری طاقت کو اسے روکنے کا اختیار نہ ہو ۔ظاہر ہے کہ انسان جب خارجی مداخلت سے مکمل  آزاد ہوگا  تو  اپنے اعمال کا انتخاب بھی  خود کرے گا ،یوں  خیر و شر   طے کرنے کا پیمانہ اس کے ہاتھ میں آجائے گا اور ہر آدمی خیر و شر خود تخلیق کرے گا ۔آزادی کے اس تصور سے خیر و شر کے جملہ خارجی معیارات بشمول مذہب کے لایعنی ہوگئے ۔
اسی طرح مساوات کے بارے میں political ideas and movements  کے مصنفین لکھتے ہیں :
whatever the actual circumstancesall human beings are ‘equal’ by virtue of being human. 23
یعنی اصل حالات جو کچھ بھی ہوں، تمام انسان بحیثیت انسان ہونے کے مساوی ہیں،گویا انسان کے جملہ  وجوہِ تعارف اور نظریات و عقائد سے  صرف ِنظر کرتے ہوئے سب  انسان برابر ہونگے،حالانکہ   روئے زمین پر  عقائد ،خیالات،نظریات اور میلانات و رجحانات سے    مجرد  کوئی انسان موجود نہیں ہے ،انسان ہمیشہ   شناخت اور مخصوصی ذہنی میلانات  کے سانچے میں ہوتا ہے خواہ وہ جو بھی ہوں۔
آزادی ومساوات کا مذکورہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے مکمل منافی ہے۔ اسلام انسان کے بارے میں آزادی کی بجائے عبدیت اور نیابت الہی   کا تصور رکھتا ہے ،جبکہ  مساوات کی بجائے انسانوں  میں فرق ِمراتب کا قائل ہے  ،مومن  کافر ،برا اچھا ،عالم جاہل وغیرہ مراتب میں تقسیم کر کے ہر ایک کو الگ خانے میں رکھ کر اس  پر حکم لگاتا ہے ۔اس لئے جدید ریاست تشکیل دیتے وقت مغربی ساسی فلسفہ کے تصور آزادی و تصور مساوات کا محاکمہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

۶۔فلسفہ حقوق (Philosophy of rights)

جدید سیاسی فلسفے  میں  حقوق کا نظریہ بنیادی فلسفہ ہے ،حقوق کا  پورا  پیراڈائم جدیدیت (modernism) کا تشکیل کردہ ہے ،جس میں عقلی بنیادوں پر انسانوں کے حقوق طے کئے گئے ہیں ،ان میں بعض  بنیادی حقوق ہیں ،جسے جدید سیاسی فلسفے میں انسانی حقوق human rights یا فطری حقوق natural rights  کا نام دیا گیا ہے ،اور باقی ثانوی حقوق ہیں ، جیسے تعلیم کا  حق،آزادی اظہار رائے کا حق،سماجی حقوق،قانونی حقوق وغیرہ 24 ان میں خاص طور پر ا نسانی حقوق  عہدِ جدید کا مقدس عقیدہ ہے ،انسانی حقوق کی یہ عمارت  مذہب کے ملبے پر تعمیر کی گئی ہے ،معروف برطانوی  ماہر سیاسیات andrew heywood  لکھتے ہیں :
By the twentieth century, the decline of religious belief had led to the secularization of natural rights theories, which were reborn in the form of ‘human’ rights. Human rights are rights to which people are entitled by virtue of being human. 25
اسلامی بنیادوں پر جدید ریاست تشکیل کرتے وقت فلسفہ حقوق کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے ، خاص طور پرفلسفہ  حقوق کا  پس منظر   گہرے مطالعے کا متقاضی ہے ،بعض مسلم  مفکرین نے انسانی حقوق کو  اسلامی اصطلاح حقوق العباد کے مترادف مانا ہے ، جسے مغالطہ کہا جاسکتا ہے 26، اس مغالطے کی تفصیل مغربی فلسفے کے معروف ناقد ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب   کی زیر نگرانی  مرتب شدہ کتاب" سرمایہ دارانہ نظام ایک تنقیدی جائزہ "میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

جدید ریاست اور مسلم مفکرین 

انیسویں  صدی اور بیسویں صدی کے نصف اول میں مسلم مفکرین  کا مرغوب موضوع  ریاست و سیاست کے مباحث  تھے ،لیکن ان تمام مباحثوں میں  بنیادی طور پر دو نکات پر زیادہ زور تھا :
۱۔ اسلا م میں سیاست و ریاست کا مقام و مرتبہ 
۲۔اسلامی نظام خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ ومحاکمہ
پہلے نکتے سے  ریاست مقصود ہے یا موعود ، عبادات مقصود ہیں یا حاکمیت  الہی پر مشتمل ریاست کے قیام کے لئے وسیلہ   وغیرہ جیسی بحثوں نے جنم لیا ، بعض مسلم مفکرین 27 نے تو سرے سے ہی  اسلام کے نام پر سیاست اور اسلامی ریاست کا انکار کر دیا  اور  بعض   28 نے اسلامی ریاست کا صور کچھ اس زور سے  پھونکا کہ اسے اسلامی تعلیمات کا مقصود اعظم قرار دیا ،جبکہ دوسرے نکتے نے جمہوریت  سراسر کفر ہے  یا اس کی اسلامائزیشن ممکن ہے،جیسی ابحاث کو جنم دیا ،اور آج بھی ان آوازوں کی گونج  وقتا فوقتا سنائی دیتی ہے ۔اسے مسلم دنیا کا المیہ کہہ سکتے ہیں کہ مغربی سیاسی فلسفے سے جڑئے دیگر اہم تصورات ان ابحاث کے بوجھ تلے دبے رہے اور ان پر وہ  بحثیں نہ ہوسکیں ،جو  جدید دور  میں  مسلمانوں کا سیاسی رخ متعین کرنے کے لئے بے حدضروری تھیں ،آج عالم اسلام میں سیاسی حوالے سے افراط و تفریط  اسی اغماض کا نتیجہ ہے ،کہ  مسلم دنیا میں ایک طرف  خارجیت کی فکر زور پکڑ رہی ہے ،جس نے اسلامی ممالک میں کشت و خون کا بازار گرم  کر رکھا ہے ، دوسری طرف سیکولرازم و لبرلزم  کی  فکری لہر نے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے سحر  میں جکڑ ا ہوا ہے  اور باقاعدہ اپنے آپ کو لبرل و سیکولر کہلوانے والے گروہ پیدا ہوگئے ہیں ،جو جدید  مغربی سیاسی  فلسفے کے سامنے سر ِتسلیم خم ہیں ،اس لئے فقہ اسلامی کی  تشکیل جدید سے پہلے  جدید اسلامی ریاست کے خدوخال واضح کرنے کی ضرورت ہے اور مغربی سیاسی فلسفے کے   فکری  اور انتظامی اجزا  الگ  الگ کر کے خذ ما صفا و دع ما کدر پر عمل کرنا چاہئے اور مغرب سے در آمد شدہ پورے سیاسی ڈھانچےاور جدید سیاسی  تصورات   کا محاکمہ کرکے اس پر حکم لگانا چاہئے۔

حواشی

1. Andrew, hywood,political theory an introduction (new york 2004) P.75
2. اصلاحی ،امین احسن،اسلامی ریاست ، ص  ۱۶،دارالتذکیرلاہور ۲۰۰۴
3. ابن خلدون ،عبد الرحمن ،تاریخ ابن خلدون  ج۱،ص،۲۳۹،دار الفکر ۲۰۰۱
4. Kevin,Harrison and tony, boyd ,political ideas and movements(new York 2003) P.19
5. فرہاد ،شاہد ،ڈاکٹر ،سیکولرازم ایک تعارف ،ص ،۷۱،کتاب محل لاہور
6. بحوالہ ،فرہاد ،شاہد ،ڈاکٹر ،سیکولرازم ایک تعارف ، ص ۱۹
7. جاوید احمد غامدی صاحب کے حالیہ بیانیے کی طرف اشارہ ہے
8. سوشل میڈیا پر سینئر صحافی وجاہت مسعود صاحب کی زیر سرپرستی چلنے والا گروپ ہم سب مراد ہے
9. Heywood andrew ,political theory an introduction(new yark 2004) P .90,97
10. .heywood Andrew , political ideologies an introduction (3rd edition) P.127
11. الزمر:۵۲
12. الاعراف:۶۹
13. الاعراف:۱۲۷
14. الاعراف:۱۲۷
15. ھود:۷۰
16. یوسف:۳۷
17. الحج:۷۸
18. الاعراف:۱۵۹
19. آل عمران:۱۱۰
20. آل عمران:۱۰۴
21. علوی مستفیض ،ڈاکٹر،رائج الوقت سیاسی افکار کا تجزیہ ،فکر و نظر،شمارہ ۴،جلد ۴۵ ص ۷۰،۷۱
22. Belin, Isaiah ,tow concepts of liberty (oxford university press) P.3
23. Kevin,Harrison and tony , boyd ,political ideas and movements(new York 2003) P.119
24. Heywood , andrew ,political theory an introduction (new York 2004) P.185
25. Heywood,Andrew ,political theory an introduction (new york 2004) P.188
26. مودوی ،ابو الاعلی ،اسلامی ریاست ، ص ۵۷۰،اسلامک پبلیکیشنز ۲۰۰۰
27. جیسے مولانا وحید الدین خان صاحب
28. مولانا مودودی صاحب مراد ہیں
(جاری)

حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دارالعلوم (وقف) دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی علالت کے بارے میں کئی روز سے تشویشناک خبریں آرہی تھیں جبکہ گزشتہ روز کی خبروں نے اس تشویش میں مزید اضافہ کر دیا۔ اسی دوران خواب میں ان کی زیارت ہوئی، عمومی سی ملاقات تھی، میں نے عرض کیا کہ حضرت! دو چار روز کے لیے دیوبند میں حاضری کو جی چاہ رہا ہے مگر ویزے کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آرہی، میری طرف غور سے دیکھا اور فرمایا اچھا کچھ کرتے ہیں۔ خواب بس اتنا ہی ہے، اب خدا جانے پردۂ غیب میں کیا ہے، مگر یہ اطمینان ہے کہ خاندانِ قاسمی کی نسبت سے جو بھی ہوگا خیر کا باعث ہی ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ خاندانِ قاسمی کے چشم و چراغ اور اس عظیم خانوادہ کے ماتھے کا جھومر تھے، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ کے فرزند و جانشینؒ، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا حافظ محمد احمدؒ کے پوتے اور حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے پڑپوتے تھے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کے ساتھ میری نیازمندی اپنے شیخ و مرشد حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے وسیلہ سے تھی کہ ان بزرگوں کا باہمی قرب و تعلق مثالی تھا۔ حضرت قاری صاحبؒ جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو شیرانوالہ لاہور میں کوئی نہ کوئی مجلس ضرور جمتی اور میرا شمار اس دور میں شیرانوالہ کے حاضر باش شرکاء میں ہوا کرتا تھا، اس لیے متعدد بار ان برکات سے فیض یاب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت قاری صاحبؒ کے بعد حضرت مولانا قاری محمد سالم قاسمیؒ کے ساتھ بھی اسی تسلسل میں نیاز مندی کا تعلق رہا اور جب دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کے ساتھ میں بھی شریک تھا، ہم تینوں کا قیام حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کے مکان میں رہا اور چند روز تک ہم ان کی میزبانی کا حظ اٹھاتے رہے۔ ہمارے ساتھ گوجرانوالہ کے چند اور دوست مولانا مفتی محمد نعیم اللہ، قاری محمد یوسف عثمانی، جناب امان اللہ قادری، عبد المتین چوہان مرحوم اور دیگر حضرات کے علاوہ بزرگ اہل حدیث عالم دین مولانا حکیم محمودؒ بھی اسی مکان میں ہمارے ساتھ قیام پذیر تھے۔ اس دورے میں حضرت قاری صاحبؒ کی رہائش گاہ کا قیام اور حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کی دعوتیں اور مجالس میری زندگی کے یادگار لمحات میں سے ہیں۔
مولانا محمد سالم قاسمیؒ جب پاکستان تشریف لاتے تو میری کوشش ہوتی کہ کسی جگہ ان کی زیارت و ملاقات کی کوئی صورت بن جائے جس میں اکثر کامیاب ہو جاتا۔ ایک بار گوجرانوالہ تشریف لائے تو میرے گھر کو بھی رونق بخشی اور جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں میری رہائش گاہ پر ناشتہ کے لیے قدم رنجہ فرمایا۔ لاہور، راولپنڈی اور دیگر مقامات کی بعض ملاقاتیں ابھی تک ذہن کی اسکرین پر جھلملا رہی ہیں مگر ایک ملاقات بہت یادگار رہی۔ میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسٰی منصوری کے ساتھ بنگلہ دیش کے سفر پر تھا، سلہٹ میں ایک پرانے اور معروف بزرگ حضرت شاہ جلالؒ کا مزار ہے جو لوگوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز ہے، میں اسے سلہٹ کا داتا دربار کہا کرتا ہوں، ہم وہاں اپنے پروگرام کے تحت گئے تو معلوم ہوا کہ دربار کے ساتھ جو دینی درسگاہ ہے وہ ہمارے ہم مسلک دوستوں کے زیر انتظام ہے اور وہاں حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی قیام گاہ پر پہنچ گئے تاکہ زیارت و ملاقات کی سعادت حاصل ہو جائے۔ میزبانوں کو ایک پاکستانی مولوی کی کسی طے شدہ پروگرام کے بغیر ان سے ملاقات کرانے میں تردد تھا اور اس تردد کی وجہ بھی سمجھ آرہی تھی۔ میں نے ڈیوٹی پر موجود ایک صاحب کو اپنا نام لکھ کر دیا کہ حضرت کو صرف یہ نام بتا دیں اگر وہ اجازت دیں تو ملاقات کرا دیں۔ حضرت مولانا مرحوم نے نام پڑھا تو بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ یہ ادھر کہاں آگئے ہیں؟ بہرحال اذن باریابی مل گیا اور کچھ دیر محفل رہی۔ ایک بار جدہ کے سفر میں دوستوں نے بتایا کہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ تشریف لائے ہوئے ہیں اور قریب ہی ایک دوست کے ہاں قیام پذیر ہیں۔ حاضری پر خوشی کا اظہار فرمایا، مختلف مسائل پر باہمی گفتگو ہوئی اور دعاؤں سے نوازا۔ اسی طرح اور بھی بعض مقامات پر ملاقات و گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت مرحوم کے والد گرامی حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ اپنے دور کے بڑے خطباء میں شمار ہوتے تھے اور انہیں بجا طور پر خطیب اسلام کہا جاتا تھا۔ بلکہ میں نے ان کی پہلی زیارت اپنے طالب علمی کے دور میں ایک جلسہ میں ہی کی تھی جب لاہور کے انارکلی بازار میں بہت بڑا جلسہ تھا، والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ حضرت قاری صاحبؒ کی تقریر سننے کے لیے گوجرانوالہ سے لاہور تشریف لے گئے تو مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ میرا شاید کافیہ کا سال تھا اور میں نو عمر لڑکا ہی تھا مگر اس سفر کی بہت سی باتیں اور جلسہ کا منظر ابھی تک نگاہوں کے سامنے ہے۔ حضرت قاری صاحبؒ کی باتیں تو یاد نہیں مگر ان کا سراپا اب بھی نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی خطابت اپنے والد گرامیؒ کی خطابت کا رنگ رکھتی تھی اور انہیں خطیب الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا مگر میرا طالب علمانہ ذوق حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ کے لیے خطیب کی بجائے “متکلم اسلام” کے تعارف کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ متکلم کا اپنا دائرہ ہوتا ہے اور محدثین، فقہاء، مناظرین اور مفسرین کی طرح متکلمین بھی مستقل تعارف رکھتے ہیں۔ متکلم کا کام اپنے دور کی عقلیات کے دائرے اور ماحول میں اسلامی عقائد اور ان کی تعبیرات کی تشریح و توضیح کرنا ہوتا ہے اور ہر دور میں جلیل القدر متکلمین امت مسلمہ کی راہنمائی کرتے رہے ہیں۔ جب دیوبندی مکتب فکر کی ان دائروں میں تقسیم کی بات ہوتی ہے تو میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے سب سے بڑے متکلم حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ تھے، ان کے بعد شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے اس محاذ کو سنبھالا اور پھر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ ان دونوں کے ترجمان بن گئے۔ مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی خطابت و تدریس میں بھی اس کی بھرپور جھلک پائی جاتی تھی اور بسا اوقات ان کی گفتگو سنتے ہوئے ہم آنکھیں بند کر کے حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کی زیارت کا حظ اٹھا لیا کرتے تھے۔
دیوبندی متکلمین کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو ایک اور نام کا اضافہ کیے بغیر میری تسلی نہیں ہوتی اور وہ بزرگ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ ہیں جو اپنے دور میں پنجابی زبان کے سب سے بڑے متکلم اسلام تھے اور عقائد کی مشکل سے مشکل تعبیر کو آسان مثالوں اور سادہ اسلوب میں عام آدمی کو سمجھا دینے کا کمال رکھتے تھے۔ مجھ سے ایک بار پوچھا گیا کہ حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ اور حضرت مولانا لال حسین اخترؒ میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت قاضی صاحب چوٹی کے خطیب تھے، حضرت جالندھریؒ کمال کے متکلم تھے اور حضرت لال حسین اخترؒ میدانِ مناظرہ کے شاہسوار تھے۔ تینوں کا مشن ایک ہی تھا مگر دائرہ کار اور اسلوب الگ الگ تھا اور یہ تینوں اسلوب کسی بھی دینی تحریک کی لازمی ضروریات میں شمار ہوتے ہیں۔
بہرحال حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے خانوادہ کے ساتھ ساتھ ان کے اسلوب و ذوق کے بھی ایک اور نمائندہ بزرگ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں انہیں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ان کے تمام متعلقین کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

غامدی صاحب اور اہلِ فتویٰ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رجب کے دوران ملک بھر میں بیسیوں مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا اور دینی مدارس کے مختلف النوع اجتماعات میں شرکت کے علاوہ متعدد ارباب علم و دانش کے ساتھ بعض علمی و فکری مسائل پر تبادلہ خیالات کا موقع ملا، ان میں سے ایک اہم اور نازک مسئلہ جاوید احمد غامدی صاحب کے بارے میں بعض اہل علم کے فتویٰ کی بات بھی تھی جس کے بارے میں احباب نے میرا موقف معلوم کرنا چاہا۔ متعدد دوستوں کے ساتھ کی گئی متفرق گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ بے شمار رحمتیں نازل فرمائے حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جانؒ کی روح اور قبر پر جن سے طویل عرصہ تک جمعیة علماءاسلام کی سرگرمیوں میں رفاقت کا تعلق رہا ہے جب وہ لکی مروت میں تھے، پھر کراچی چلے گئے اور اس کے بعد لاہور تشریف لے آئے۔ ”شریعت بل“ کی تحریک اور نفاذ شریعت کی عمومی جدوجہد میں ہمارے درمیان مشاورت و معاونت کا سلسلہ دیر تک چلتا رہا۔ ایک بار انہوں نے دریافت فرمایا کہ کچھ دوستوں نے جاوید احمد غامدی صاحب کی بعض عبارات استفتا کی صورت میں بھجوائی ہیں اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ چونکہ بات مشورہ کی تھی اور مسئلہ علمی و فقہی تھا اس لیے دیانت داری کے ساتھ جو کچھ محسوس کیا وہ ان سے عرض کر دیا۔ اسے قارئین کے سامنے پیش کرنے سے قبل یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ غامدی صاحب کے بعض افکار و آرا پر میں نے متعدد مواقع پر نقد کیا ہے اور ان سے اختلاف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں میرے بعض مضامین کا مجموعہ ”ایک علمی و فکری مکالمہ“ کے عنوان سے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے کتابچہ کی صورت میں شائع کیا ہے اور ایک مختصر کتابچہ ”غامدی صاحب کا تصور حدیث و سنت“ کے عنوان سے الگ طور پر بھی شائع ہو چکا ہے۔جبکہ میری ویب سائیٹ zahidrashdi.org پر غامدی صاحب کے عنوان سے ایک درجن سے زائد مضامین موجود ہیں جو وہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود فتویٰ کے حوالہ سے مجھے تامل رہا ہے چنانچہ حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جانؒ سے میں نے عرض کیا کہ:
حضرت مفتی صاحبؒ نے میری اس گزارش کا جو کہ تحریری صورت میں تھی کوئی جواب نہیں دیا جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں میری بات سے اتفاق نہیں تھا۔ مگر میں اس موقف پر اب بھی قائم ہوں اس لیے کہ فتویٰ اگر افکار و نظریات کے حوالہ سے ہو تو اس کی نوعیت اور ہوتی ہے کہ ایسا نظریہ اور فکر رکھنے والے شخص کے بارے میں شرعی فتویٰ یہ ہے۔ لیکن اگر فتویٰ کسی متعین شخصیت کے بارے میں ہو جو موجود و زندہ ہے تو اس سے اس کا موقف پوچھے بغیر اور اسے اپنے بارے میں اشکالات و سوالات کی وضاحت کا موقع دیے بغیر محض معترضین و ناقدین کی منتخب اور نقل کردہ عبارات کی بنیاد پر کوئی شخصی فتویٰ صادر کر دینا فقہ و شریعت کے ایک سنجیدہ طالب علم کے طور پر میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ مجھے یہ بات اس لیے بھی سمجھ میں نہیں آرہی کہ خود ہم اس طرزعمل کا شکار چلے آرہے ہیں کہ ہمارے انتہائی محترم اکابر کی چند عبارات نقل کر کے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کیا گیا اور اس پر عرب و عجم کے بہت سے علماءکرام سے دستخط بھی کرا لیے گئے جبکہ ان بزرگوں سے نہ پہلے پوچھنے کی زحمت کی گئی اور نہ ہی بعد میں ان کی طرف سے کی جانے والی وضاحت کو قبول کیا گیا اور یہ سلسلہ ایک صدی سے مسلسل چل رہا ہے جو اب بھی جاری ہے۔ 
اس لیے میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ میں غامدی صاحب کے بعض افکار و نظریات سے اختلاف میں ان دوستوں کے ساتھ ہوں لیکن باقاعدہ شخصی فتویٰ کے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ چند سنجیدہ مفتی صاحبان مبینہ اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے غامدی صاحب کے متعلقہ لٹریچر کا مطالعہ کریں اور خود سوالات و اشکالات مرتب کر کے انہیں اور ان کے معتمد رفقاءکو بھجوا کر ایک معقول متعینہ مدت کے اندر جواب و وضاحت کا تقاضا کریں، اگر وہ جواب نہ دیں یا ان کے جوابات تسلی بخش نہ ہوں تو اس کے بعد باضابطہ فتویٰ اگر ضروری ہو تو صادر کر دیا جائے۔ 
جبکہ اس سے ہٹ کر میرا یہ ذوق بھی ہے جس کی بنیاد تجربہ و مشاہدہ پر ہے کہ ماضی قریب میں انکار حدیث کے عنوان سے دو بڑی شخصیات سامنے آئیں اور پڑھے لکھے لوگوں کے ایک بڑے حلقہ کو متاثر کیا۔ ایک چودھری غلام احمد پرویز اور دوسرے ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم تھے۔ عملی تجربہ و مشاہدہ یہ ہے کہ چودھری غلام احمد پرویز پر ملک بھر کے سرکردہ علماءکرام کے اتفاق سے کفر کا فتویٰ صادر کیا گیا جس سے مجھے بھی مکمل اتفاق ہے مگر اس سے ان کی واپسی کا دروازہ بند ہوگیا۔ جبکہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کے خلاف کوئی شخصی فتویٰ نہیں دیا گیا بلکہ ان کی کتابوں کا باقاعدہ جواب دیا گیا بالخصوص حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ اور میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے برق صاحب کے حدیث نبوی پر اعتراضات اور تنقید کا مدلل رد کیا اور حجیت حدیث کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔ اس کے ساتھ ہی اٹک کے حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ فاضل دیوبند نے برق صاحب کے ساتھ ذاتی ملاقاتوں اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا اور سالہا سال کی باہمی گفتگو کے بعد انہیں حجیت حدیث پر نہ صرف قائل کیا بلکہ ان سے سابقہ موقف سے رجوع کا اعلان کروایا اور ”تاریخ الحدیث“ کے عنوان سے ایک مستقل کتابچہ بھی تحریر کروایا جو شائع ہو چکا ہے۔ 
حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے خلیفہ مجاز تھے اور خود بھی ایک مفسر قرآن اور روحانی شیخ کی حیثیت سے علماءکرام کی ایک بڑی تعداد کا مرجع تھے۔ ابھی چند روز قبل ۱۵ ۔اپریل کو باغبان پورہ لاہور کی مسجد امن میں ختم قرآن کریم کی ایک تقریب میں حضرت قاضی صاحبؒ کے فرزند و جانشین حضرت مولانا قاضی ارشد الحسینیؒ اس طویل مکالمہ و مباحثہ کا تذکرہ کر رہے تھے جو حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کے درمیان چلتا رہا اور جس کے نتیجے میں برق صاحب مرحوم نے انکار حدیث سے رجوع کر کے حدیث نبوی کی حجیت و تاریخ پر کتابچہ لکھا اور شاید اسی وجہ سے پرویز صاحب کی طرح ملک میں برق صاحب کا کوئی حلقہ قائم نہ ہو سکا جبکہ پرویز صاحب کا حلقہ اب بھی قائم ہے اور مسلسل مصروف عمل ہے۔ 
چنانچہ میں ذاتی طور پر تو اس قسم کے کسی بھی معاملہ میں اس دوسرے راستے کو ترجیح دیتا ہوں لیکن عمومی مصلحت اور مفاد عامہ کی ضرورت کے تحت اہل علم کی طرف سے کسی فتویٰ کی ضرورت و اہمیت سے بھی مجھے انکار نہیں ہے بشرطیکہ وہ محض معترضین کی نقل کردہ عبارات کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ متعلقہ شخصیت کو وضاحت کا موقع دے کر فتویٰ کے مسلمہ اصولوں کے مطابق تحقیق و تجزیہ کی بنیاد پر ہو۔ یہ میری ذاتی رائے ہے ضروری نہیں کہ دیگر دوستوں کو بھی اس سے اتفاق ہو البتہ یہ ضرور توقع رکھتا ہوں کہ اس طالب علمانہ رائے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے گا۔ 

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۲)

مولانا عبید اختر رحمانی

حضرت شاہ ولی اللہ کے دلائل کا جائزہ 

حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنے نظریہ تخریج پر  الانصاف اورحجۃ اللہ میں تفصیل سے بحث کی ہے  ، اپنے موقف کی تائید کیلئے انہوں نے تین دلیلیں پیش کی ہیں،ہم ترتیب وار ان تینوں دلیلوں کا جائزہ لیتے ہیں
(۱) حضرت شاہ صاحب کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اہل کوفہ کو اپنے مشائخ اوراساتذہ سے خصوصی لگاؤ تھااور ان کی پوری توجہات کا مرکز کوفہ کے فقہااورمشائخ تھے اوراس ضمن میں انہوں نے حضرت مسروق اورامام ابوحنیفہ کا واقعہ پیش کیاہے۔
حضرت مسروقؒ نےایک مسئلہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ کر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قول کو اختیار کرلیاتھاتوان سے علقمہ نے کہا تھا کہ کیاکوئی اہل مدینہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی زیادہ صاحب علم ہے،اس پر مسروق نے کہاکہ ایسی بات نہیں ؛لیکن حضرت زید بن ثابت کو میں نے راسخین فی العلم میں سے پایاہے۔
دوسری مثال یہ ہے کہ جب امام ابوحنیفہ اورامام اوزاعی میں رفع یدین پر مناظرہ ہوا توامام ابوحنیفہ نے فرمایا : اگر حضرت عبداللہ بن عمر کو شرف صحابیت حاصل نہ ہوتی تومیں کہتاکہ علقمہ ابن عمر سے زیادہ فقیہ ہیں، ان مثالوں سے محض یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کو اپنے مشائخ اورمشائخ کے مشائخ سےدلی لگاؤتھااوران کے اقوال واجتہادات کے ساتھ خصوصی تعلق تھا؛لیکن یہ تو فطری چیز ہے،ہرشہر والے کو اپنے شہر اورملک کے عالم وشیخ سے محبت ہوتی ہے، اہل مدینہ کو فقہاء سبعہ اوران کے مشائخ حضرات صحابہ سےفطری لگاؤتھا،مکہ والوں کوحضرت عبداللہ بن عباس اوران کےشاگردوں سےخصوصی لگاؤتھا، اہل شام کوحضرت معاذ بن جبلؓ،حضرت معاویہؓ وغیرہ اوران کے شاگردوں سے خصوصی محبت تھی۔ یہ دونوں نقل کردہ اثر اس بات کو توبتاتی ہیں کہ اہل کوفہ کو اپنے مشائخ اوراساتذہ سے محبت تھی؛ لیکن اس سے نظریہ تخریج پر کوئی روشنی نہیں پڑتی اورنہ یہ نظریہ تخریج کے لیے دلیل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
(۲) حضرت شاہ ولی اللہ کی دوسری دلیل منطقی اور قیاسی ہے ،پہلی بات یہ کہ  اہل الرائے حضرات کو مسائل کاجواب بتانے اورفتویٰ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی ،دوسری بات یہ کہ اہل الرائے کے پاس احادیث وآثار کا وسیع ذخیرہ نہیں تھا، نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ایسے میں محض تخریج ہی ایک واحد طریقہ کار بچ جاتاہے ،جس سے وہ پیش آمدہ مسائل کا جواب دیتے تھے۔
گویا اس صغری کبریٰ کاملاپ نظریہ تخریج کا مولد ہے۔ صغریٰ یہ ہے کہ شہروں کی خاک چھان کر حدیث کی تلاش کرنہیں سکتےتھے،پیش آمدہ مسائل کا جواب دینے کیلئے حدیث کا سرمایہ کم تھااورکبریٰ یہ ہے کہ فقہ وفتاویٰ میں خاص دلچسپی ہے اور رائے بیان کرنے میں کوئی باک نہیں ہے نتیجہ نظریۂ تخریج کی صورت میں سامنے آگیا۔سردست ہم صرف حضرت شاہ صاحب کا موقف پیش کررہے ہیں،ہم آگے چل کر عرض کریں گے کہ یہ دونوں ہی صغری اورکبریٰ مشکوک بلکہ مخدوش ہیں لہذا جس صغری وکبریٰ کے ملانے پر نتیجہ کی بنیاد رکھی گئی، وہ بنیاد ہی غارت ہوجاتی ہے توظاہرہےاس صغریٰ وکبری سے حاصل شدہ نتیجہ کا انجام بھی بخیر نہیں ہوگا۔
ہم شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے صغری اورکبریٰ کا جائزہ لیتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ دلائل کی کسوٹی پر یہ صغریٰ اورکبریٰ کہاں تک پورے اترتے ہیں،حضرت شاہ ولی اللہ کا دعویٰ یہ رہاہے کہ اہل عراق کے پاس حدیث کا سرمایہ کم تھا،محدثین کی طرح مختلف شہروں اورملکوں میں گھوم گھوم کر احادیث کے جمع کرنے سے قاصر تھے،یہ دعویٰ صرف حضرت شاہ ولی اللہ کا ہی نہیں بلکہ ماضی کے کچھ علماء مثلاابن خلدون اورشہرستانی وغیرہ نے بھی یہ دعویٰ کیاہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عراق احادیث میں حجاز سےکسی اعتبار سے کم تر نہیں تھا۔

عراق احادیث کے معاملہ میں حجاز سے کمتر نہیں!

اولاًتویہ دعویٰ ہی صحیح نہیں ہے کہ اہل عراق کے پاس حدیث کا سرمایہ کم تھا،حقیقت یہ ہے کہ اگرکوئی شخص صرف تذکرۃ الحفاظ کھول کر بیٹھ جائے اور کوفی وبصری اوربغدادی محدثین کوتلاش کرے تواسے حیرت ہوگی کہ کوفہ وبصرہ کے محدثین حضرات کسی طرح مکہ اورمدینہ سے کم نہیں  ہیں، نہ معیار میں نہ مقدار میں،کون کہہ سکتاہے کہ علقمہ اوراسود سعید بن المسیب اوردیگرفقہاء سبعہ سےفروتر ہیں ؟کون کہہ سکتاہے کہ سفیان ثوری امام مالک سے کم ہیں؟ کون کہہ سکتاہے کہ سلیمان بن مہران معروف بہ اعمش زہری سے کم ہیں؟کون کہہ سکتاہے کہ شعبی کسی حجازی محدث سے کم درجہ ہیں؟کون کہہ سکتاہے کہ شعبہ کسی حجازی محدث سے کم تر ہیں ،کس کی یہ مجال ہے کہ یحیی بن سعید القطان کو امام مالک سے  فروتر قراردے،پھر اس کے بعد فوراًمتصل دیکھئے تو امام یحیی بن معین اورعلی بن مدینی ہیں ،احمد بن حنبل ہیں ،عبدالرحمن بن مہدی ہیں،حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال کی عراق میں حدیث کم تھی،ایک غلط خیال ہےجونقل درنقل ہوتاچلاآرہاہے؛ لیکن کسی نے اس پر رک کرغور کرنے سوچنے اورسمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ،مولانا سرفراز خاں صفدر صاحب نے اپنی بیش قیمت تصنیف مقام امام ابوحنیفہ میں اس پر اچھی بحث کی ہےاور محض تذکرۃ الحفاظ جو حافظ ذہبی کی تصنیف ہے،اس میں سے سو سےز ائد محدثین کوفہ کی نشاندہی کی ہے،جوسب کے سب حافظ حدیث اوربعضےامیرالمومنین فی الحدیث تھے،اگرآپ کوفہ کے ساتھ بصرہ اوربغداد کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیں توعراق کا علم حدیث میں رتبہ بے تحاشا بڑھ جاتاہے۔ (1)
اس مقالہ میں اس کی گنجائش نہیں کہ عراق میں علم حدیث کی جو گرم بازاری تھی،اس کا مفصل ذکر کیاجائے، اس پر علامہ زاہد الکوثری نے نصب الرایہ کے مقدمہ’’فقہ اہل العراق وحدیثھم’’ میں بہترین اورمحققانہ کلام کیاہے، اس کے علاوہ اس موضوع پر مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کی کتاب ’’مقام امام ابوحنیفہ ‘‘میں بھی بہترمواد موجود ہے،جس سے اس غلط خیال کی پورے طورپر تردید ہوجاتی ہے کہ کوفہ یاعراق میں علم حدیث کم تھا،جن حجازی ائمہ نے اس سلسلے میں کچھ طعن وتعریض کے کلمات کہے ہیں تو وہ معاصرانہ اورحریفانہ چشمک ورقابت کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کو کوفہ وعراق میں حدیث کم ہونے کی دلیل سمجھنا غلط ہے۔

امام ابوحنیفہ اورعلم حدیث 

امام ابوحنیفہ کی پیدائش 80ہجری میں ہوئی ہے جب کہ بعض روایات اس سے پہلے بھی کی ہیں، زاہد الکوثری نےمختلف قرائن کی بنیاد پر 80سے پہلے کی روایت کو تانیب الخطیب میں ترجیح دیاہے(تانیب الخطیب، ص42/44) جوں جوں عہد رسالت سے بعد ہوتاگیا،اسناد کے وسائط یعنی راوی سے لے کر رسول اللہ تک واسطے بڑھتے گئے ،حدیث کی سندیں اورطرق میں اضافہ ہوا،اس کےبرعکس رسول پاک ﷺ سے جس قدر قرب زمانی کم ہوا،وسائط کم ہوئے اور حدیث کے طرق کم ہوئے، اس طرح رسول پاک ﷺ سے جو جتنا قریب رہا،اس کیلئے احادیث کے اسناد اورطرق اتنے ہی کم اور وسائط اتنے ہی کم رہے جس کی وجہ سے اس کیلئے احادیث کے ذخیرہ پر حاوی ہونا اور روایتوں کو محفوظ کرنا زیادہ آسان تھا۔
امام ابوحنیفہ کا عہد رسالت سے بالکل قریب کا ہے، امام ابوحنیفہ کے اساتذہ میں زیادہ تر اوساط اورکبار تابعین ہیں،امام ابوحنیفہ سے رسول پاکﷺ تک راویوں کا واسطہ بہت کم ہےجس کی بناء پر سند مختصر اور احادیث کی تعداد بھی کم تھی، امام ابوحنیفہ کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں :وعني بطلب الآثار، وارتحل في ذلك(سير أعلام النبلاء،الناشر : مؤسسۃ الرسالۃ،6/392)اورآثار کی طلب میں توجہ کی اور اس سلسلے میں اسفار کیے،حافظ ذہبی مزید لکھتے ہیں کہ طلب حدیث میں امام ابوحنیفہ کی یہ جدوجہد ایک ہجری کے بعد دوسری ہجری کی ابتداء میں ہوئی (سیراعلام النبلاء،6/396) امام ابوحنیفہ اموی حکومت کے داروگیر کے باعث تقریباچھ سال تک کوفہ کو چھوڑ کر  مکہ میں رہے،اس دوران دنیا بھر سے آنے والے محدثین عظام سے وہ علم حدیث حاصل کرتے رہے،پھر آپ سال بہ سال حج کرتے تھے، روایتوں میں پچاس پچپن ،ساٹھ حج کا ذکر ملتاہے، حج کے ایام میں دنیابھرکے محدثین سے استفادہ کا موقع ملتارہا۔

علم حدیث میں امام صاحب کی عظمت شان کا اعتراف

امام ابودائود فرماتے ہیں: “اللہ شافعی پر رحم کرے  وہ امام تھے، اللہ مالک پر رحم کرے وہ امام تھے اللہ ابوحنیفہ پر رحم کرے وہ امام تھے”۔ظاہر سی بات ہے کہ جس طرح امام شافعی اورامام مالک کی امامت فقہ وحدیث دونوں میں ہے،اسی طرح امام ابوحنیفہ کوبھی ان کے ساتھ ملاکر امام ابوداؤد نے بتادیاکہ امام ابوحنیفہ بھی فقہ وحدیث کے امام ہیں۔(الانتقاء 1/32) حماد بن زید جو بڑے درجہ کے محدث ہیں اورجن کو حافظ ذہبی نے گراں قدر القاب سے یاد کیاہے ،ان کے بارے میں حافظ المغرب ابن عبدالبر لکھتے ہیں، “انہوں نے امام ابوحنیفہ سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں”(الانتقاء ص130)مشہور محدث مسعر بن کدام کہتے ہیں : “میں نے امام ابوحنیفہ کے ساتھ حدیث کی تحصیل کی لیکن وہ ہم پر غالب رہے اور زہد میں مشغول ہوئے تواس معاملہ میں بھی ہم پر غالب رہے اورہم نے ان کے ساتھ فقہ طلب کی تو تم دیکھ ہی رہے ہو کہ انہوں نے اس میں کیاکمال حاصل کیاہے” (مناقب الامام ابی حنیفہ وصاحبیہ ص43)
سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کا خاص امتیاز یہ تھاکہ آپ ہر قسم کی واہی تباہی احادیث کا ذخیرہ جمع کرنے کے فراق میں نہیں رہتے تھے ؛بلکہ آپ ان احادیث کو جمع کرتے تھے جو ثقہ روات سے مروی ہوں اور صحیح ہوں اور جو رسول اللہﷺ کاآخری عمل رہاہو (2)۔
حفاظ حدیث میں شمار
حافظ ذہبی نے آپ کو حفاظ حدیث میں شمار کیاہے (تذکرہ الحفاظ 1/126،دار الكتب العلميۃ بيروت) اور تذکرۃ الحفاظ کے بارے میں خود حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
ہذہ تذكرۃ بأسماء مُعَدِّلِي حَمَلَۃ العِلْمِ النبوي، ومن يُرْجَعُ إلی اجتہادہم في التوثيق والتضعيف، والتصحيح والتزييف ( مقدمہ تذکرہ الحفاظ)
ترجمہ :اس کتاب میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو عادل ،علم نبوت کے حامل اور احادیث وروات کی توثیق وتضعیف اورکھرے کھوٹے الگ کرنے میں جن کی جانب رجوع کیاجاتاہے۔
حافظ ذہبی نے ہی المعین فی طبقات المحدثین میں بھی آپ کا ذکر کیاہے،(دیکھئے مذکورہ کتاب ص51،مطبع دار الفرقان - عمان–الأردن) اس کتاب  کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
فَہَذِهِ مُقَدّمَۃ فِي ذكر أَسمَاء أَعْلَام حَملَۃ الْآثَار النَّبَوِيَّۃ تبصر الطَّالِب النبيہ وتذكر الْمُحدث الْمُفِيد بِمن يقبح بالطلبۃ أَن يجہلوہم وَلَيْسَ ہَذَا كتاب بالمستوعب للكبار بل لمن سَار ذكره فِي الأقطار والأعصار وَبِاللَّہِ أَعْتَصِم وَإِلَيْہِ أنيب (مقدمہ المعین فی طبقات المحدثین )
حافظ ذہبی کے ہم عصر اوراونچے درجہ کے محدث وفقیہ عبدالہادی مقدسی حنبلی نےبھی مختصرطبقات علماء الحدیث میں امام ابوحنیفہ کا ذکر خیر کیاہے۔(دیکھئے مختصرطبقات علماء الحدیث جلداول ،ترجمہ امام ابوحنیفہ)،اس کتاب کے بارے میں حافظ عبدالہادی لکھتے ہیں:
فہذا كتاب مختصر يشتمل علی جملۃ من الحفاظ من أصحاب النبي صلَّی اللہ عليہ وسلّم والتابعين ومن بعدہم، لا يسع من يشتغل بعلم الحديث الجہل بہم  (طبقات علماء الحديث (1/ 77)
مشہور محدث ابن ناصرالدین دمشقی شافعی نے بھی حفاظ حدیث پر لکھے گئے اپنے منظومہ ’’بدیعۃ البیان عن موت الاعیان‘‘ میں امام ابوحنیفہ کا ذکر کیاہے ،چنانچہ لکھتے ہیں :
بَعْدَہُمَا فَتَی جُرَيْجِ الدَّانِي ... مِثْلُ أَبِي حَنِيفَۃ النُّعْمَانِي۔ (بحوالہ مکانۃ الامام ابوحنیفہ فی الحدیث ،ص60)
جمال الدين يوسف بن حسن الصالحي الحنبلي جوابن مبرد کے نام سے مشہور ہیں،انہوں نے بھی امام ابوحنیفہ کا ذکر حفاظ حدیث میں کرتے ہوئے اپنی تصنیف “طبقات الحفاظ” میں ذکر کیاہے،جس سے شیخ عبداللطیف ہاشم سندی نے اپنی تصنیف ’’ذَبُّ ذُبَابَاتِ الدراسات، عن المذاهب الأربعۃ المتناسبات" میں نقل کیاہے۔ان کے علاوہ حافظ سیوطی نے طبقات الحفاظ میں اور محدث علامہ محمد بن رستم قباد بدخشی نے تراجم الحفاظ میں امام ابوحنیفہ کا ذکر کیاہے۔
امام ابوحنیفہ حافظ حدیث ہونے کے علاوہ جرح وتعدیل کے بھی امام تھے،اس کا بھی ذکر محدثین عظام امام ترمذی بلکہ ان سے قبل سے لے کر حافظ سخاوی اورمابعد تک کرتے آئے ہیں ۔(دیکھئے ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل للذہبی اور المتکلمون فی الرجال للسخاوی)
مولانا عبدالرشید نعمانی کی ایک بہترین تصنیف مکانۃ الامام ابوحنیفہ فی علم الحدیث ہے، اس میں مولانا نے بڑی محنت اور تحقیق وتفتیش سے ثابت کیاہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ کا علم حدیث میں کیامقام اورمرتبہ تھا اورکس طرح بعد کے لوگوں نے بھی علم حدیث میں ان کی اس عظمت کو تسلیم کیاہے، یہ بات دوسری ہے کہ انہوں نے روایت حدیث کو مرکز توجہ نہیں بنایا ،اس طرح علم حدیث میں ان کی مہارت اوررسوخ دنیا کے سامنے نہیں آسکی اورنہ دنیا نے ان کو اس حیثیت سے پہچانا جیسے امام بخاری فقیہ ہونے کے باوجود دنیا کے سامنے فقیہ کی حیثیت سے نہ آسکے اور نہ کسی فقیہ نے اپنی کتاب میں ان کو جگہ دی۔اسی طرح قاسم حارثی عبدہ نے بھی اپنے دکتوراہ کا موضوع مکانۃ الامام ابی حنیفہ بین المحدثین کو بنایاہے اوراس پر ایک سیرحاصل مقالہ لکھاہے جس سے واضح ہوتاہے کہ نہ صرف امام ابوحنیفہ کا علم حدیث میں بڑامقام تھا بلکہ محدثین کے درمیان بھی انتہائی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
اگرہم اس بات کو بالفرض تسلیم بھی کرلیں کہ اہل الرای حضرات یعنی امام ابوحنیفہ وغیرہ کے پاس حدیث کا سرمایہ نہیں تھا توبھی کوفہ جہاں عظیم محدثین کی ہمیشہ ایک بڑی تعداد رہی ہے ،کیامسائل کے حل میں وہ ان محدثین سے رجوع نہ کرتے ہوں گے ؟آج کے دورمیں بھی ایک معمولی محقق بھی جب کسی مسئلہ کی تحقیق کرتاہے تو کتابوں سے مدد لیتاہے، جوبڑے عالم اس موضوع کے جانکار ہوتے ہیں، ان کی رائے حاصل کرتاہے ،ان سے مزید مواد کے سلسلے میں استفسار کرتاہے توکیا خیرالقرون کے اس دور میں امام ابوحنیفہ کسی مسئلہ کے استنباط میں کوفہ میں موجود محدثین سے اس موضوع کے تعلق سے احادیث کے تعلق سے دریافت نہ کرتے ہوں گے؟
کوفہ کی علمی اورحدیثی عظمت اورامام ابوحنیفہ کی علم حدیث میں گہرائی اورگیرائی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے جن بنیادوں پر قصر تخریج کی عمارت اٹھائی ہے، اس کی کمزوریاں واضح کی جائیں۔

حدیث کی روایت نہ کرنا عدم علم کو مستلزم نہیں

دوسری بات یہ ہے کہ حدیث کی روایت نہ کرنا علیحدہ بات ہےاورحدیث سے واقف نہ ہونا دوسری بات ہے،حضرت ابوبکر وحضرت عمررضی اللہ عنہما کی روایتیں کم ہیں توکیااس کا یہ مطلب ہے کہ ان کو کم روایتیں معلوم تھیں؟اگرامام ابوحنیفہ کی روایت سے کتب صحاح خالی ہونے کا یہ مطلب لیاجائے کہ ان کے پاس حدیث کا سرمایہ نہیں تھا توکیا کتب فقہ میں امام بخاری کی آراء نہ نقل کیے جانے سے یہ مطلب نکالنا درست ہوگاکہ وہ فقیہ نہیں تھے؟ (3)
جس طرح امام بخاری کی آراء سے کتب فقہ وخلافیات کا خالی ہونا اس کو مستلزم نہیں کہ وہ فقیہ نہیں تھے،اسی طرح اہل الرائے حضرات کی روایتوں سے کتب حدیث کاخالی ہونااس کو مستلزم نہیں کہ وہ محدث نہیں تھے،یا ان کے پاس حدیث کا معتدبہ سرمایہ نہیں تھا؟؛بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں اہل الحدیث حضرات نے متعدد اہل الرای حضرت سے باوجود مستحق ہونے کے ان سے روایت نہیں لی ہے اور روایت نہ لینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ اہل الرای میں سے تھے ،حضرات محدثین کے اس ظلم وتعصب کی جانب  علامہ شام جمال الدین قاسمی (4)، امام یحیی بن معین (5) اور ابن عدالبر (6) وغیرہ نے بھی اشارات کیے ہیں،خود شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے الرفع والتکمیل (7) میں اس کے تعلق سے متعدد نقول بہم پہنچائے ہیں،جہاں محدثین نے کسی سے محض اس کے اہل الرایٔ ہونے کی وجہ سے روایت نہیں لی۔

محدثین کے پاس لاکھوں احادیث کی حقیقت

اکثر لوگوں کو اس بات سے غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ بخاری نے چھ لاکھ سات لاکھ احادیث سے انتخاب کرکے صحیح الجامع مرتب کی(تاریخ بغداد 2/9)امام مسلم نے مسلم شریف تین یاچار لاکھ احادیث سے انتخاب کرکے تالیف کی(طبقات الحنابلہ1/338،دار المعرفۃ - بيروت) ،ابودائود نے پانچ لاکھ احادیث سے سنن ابی دائود مرتب کی(مختصر تاریخ دمشق 10/109، دار الفكر دمشق - سوريا)یہ محدثین ملکوں اورشہروں میں گھومے توان کے پاس احادیث کا وسیع ذخیرہ ہوگیااور اہل الرائے کوفہ تک محدود رہے ،اس لئے ان کی معلومات کچھ ہزار حدیثوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
محدثین کا خاص طرز تھا کہ وہ دنیا بھر میں گھوم پھر کر ایک حدیث کے زیادہ سے زیادہ سند اورطرق تلاش کرتے تھے جیساکہ یحیی بن معین کہتے ہیں کہ اگر کوئی حدیث میرے پاس سو طرق سے نہ ہو تواس کی صحت معلوم نہیں ہوتی،لَوْ لَمْ نَكْتُبِ الْحَدِيثَ مِنْ مِائَۃِ وَجْہٍ مَا وَقَعْنَا عَلَی الصَّوَابِ (الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث ،2/595، مكتبۃ الرشد - الرياض) ابراہیم بن سعید جوہری کہتے ہیں اگرمیرے پاس کسی حدیث کی سوسند نہ ہوتواس حدیث کے معاملہ میں ،میں خود کو یتیم سمجھتاہوں،كل حَدِيث لم يكن عندي من مائۃ وجہ فأَنَا فِيہِ يتيم (تاریخ بغداد 6/618، دار الغرب الإسلامي –بيروت)
پھر جیسے جیسے حدیث کے روات اور شیوخ کا دائرہ وسیع ہوتاگیا، حدیث کے طرق اور سندوں میں اضافہ ہوتاگیا، مثلاحضرت عمر ؓسے ایک حدیث مروی ہے،ان سے اس حدیث کی روایت کرنے والے چارافراد ہیں، پھر ان چاروں سے اس حدیث کو سننے والے چالیس افراد ہیں، پھر ان چالیس افراد سے روایت سننے والے چارسو افراد ہیں اوران چارسو افراد سے اس روایت کو نقل کرنے والے چارہزار افراد ہیں، اب ایک شخص ان چارہزار افراد سے یہی ایک حدیث سنتاہے توچارہزار سندوں کی وجہ سے وہ ایک حدیث چار ہزار حدیث ہوجاتی ہے، مختصر یہ سمجھئے کہ جو حال آبادی میں اضافہ کا ہے، دوسے دس،دس سے سو ،سو سے ہزار،کچھ اسی طرح کا حال حدیث کی سند کاہے،تورسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے زمانہ جتنا دورہوتاجائے گا، راویوں کی تعداد اتنی ہی بڑھتی جائے گی، حدیث کے طرق اوراسناد میں اضافہ ہوتاجائے گا،اس کی واضح مثال انماالاعمال بالنیات والی حدیث ہے، اس کو حضورپاک سے نقل کرنے والے حضرت عمر ؓ ہیں، ان سے روایت کرنے والے ایک راوی ہیں اورپھر ان سے روایت کرنے والے بڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ محدثین نے اس ایک حدیث کی سات سوسندیں تلاش کی ہیں۔)فتح المغیث 1/28)
اب جن محدثین کے بارے میں ہم سنتے ہیں کہ ان کے پاس سات لاکھ، دس لاکھ اورپانچ لاکھ احادیث تھیں، تو اس کو اسی اضافہ سند پر قیاس کرناچاہئے اوراسی اعتبار سے دیگر محدثین کے پاس لاکھوں کی تعداد میں احادیث تھیں،ورنہ اگر نفس حدیث کی بات کی جائے توصحیح متصل مرفوع بلاتکرار احادیث کی تعدادصرف چارسے پانچ ہزارکے درمیان ہے،اس  سے زائد نہیں ہےجیساکہ اس کی صراحت حافظ ابن حجر نے کی ہے۔ ("النكت علی ابن الصلاح"، ص992)
واضح رہے کہ اس میں ذکر کردہ ثوری،شعبہ،امام احمد بن حنبل ،ابن مہدی،یحیی بن سعید القطان سب کے سب امیرالمومنین فی الحدیث ہیں، ان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ احادیث کے تقریباًتمام ذخیرہ پر ان کی نگاہ اورنظر ہے،ایسے میں ان کی یہ بات کتنی وزنی اور مستند ہے اس کا اندازہ کیاجاسکتاہے۔
یہ تو مرفوع متصل صحیح بلاتکرار حدیث کی تعداد ہوئی، اب اس میں احادیث احکام کی کیاتعداد ہے،ظاہر سی بات ہے کہ بہت ساری احادیث فضائل ،زہد اوردیگر ابواب میں مذکور ہیں،ایسے میں یہ بات ہرعاقل پر روشن ہے کہ احکام کی حدیث کی تعداد اس تعداد سے یقیناکم ہوگی۔حافظ بیہقی امام شافعی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ احادیث جن پر حلال وحرام کا مدار ہے ،ان کی تعداد پانچ سو ہے۔ (مناقب الشافعي" (1\915 تحقيق أحمد صقر)
اگرہم مان لیں کہ چلو پانچ سو نہیں حدیث حسن وغیرہ ملاکر دوہزار کے قریب حلال وحرام کی احادیث کی تعداد ہے توکیاان دوہزار احادیث کے حفظ وضبط سے بھی ائمہ احناف عاجز تھے؟امام ابویوسف کے بارے میں طبری نے لکھاہے کہ ان کا حافظہ اس غضب کاتھاکہ کسی محدث کے درس میں شریک ہوتے تھے اورسن کر ہی پچاس ساٹھ حدیثیں یاد کرلیتے تھے اورپھر اس کو بغیر کسی تغیر وتبدل کے دوہرادیتے تھے اور امام ابویوسف کثیر الحدیث تھے(الانتقاء  ص172)کیاایسوں کیلئے دوہزار تین ہزار حدیثیں یاد کرنابھی مشکل ہے؟ لہذا حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے اہل الرائے کے پاس احادیث کم ہونے کی وجہ سے تخریج کا جو نظریہ تراشاہے ،وہ درست معلوم نہیں پڑتا۔
درج بالا بحث سے یہ بات واضح ہے کہ احادیث کا سرمایہ یوں ہی کم ہے اورپھر جس قدر احکام میں احادیث کی ضرورت پڑتی ہے اس کا معتدبہ حصہ امام ابوحنیفہ کے پاس موجود تھا،پھر خود کوفہ میں علم حدیث کے امیرالمومنین ایک نہیں، کئی کئی موجود تھے، ان سے کسی بھی مسئلہ میں استفادہ کیاجاسکتاتھا،لہذا قلت حدیث کو تخریج کی بنیاد بنانا درست نہیں ہے۔
(۳) تیسری دلیل حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی یہ ہے کہ کتاب الآثار اورمصنف عبدالرزاق میں حضرت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ سے بڑی تعداد میں حضرت ابراہیم کے فتاویٰ منقول ہیں اورانہی کے مطابق امام ابوحنیفہ کی رائے بھی ہے ،اس سے واضح ہوتاہے کہ امام ابوحنیفہ ابراہیم نخعی کے قول پر تخریج کرتے تھے۔ (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف ص39)
بظاہر یہ دلیل سابقہ دونوں دلیلوں سے قوی نظرآتی ہےاورکتاب الآثار کے مطالعہ سے بھی پتہ چلتاہے کہ ابراہیم نخعی کےاجتہادی اقوال انہوں نے بکثرت بیان کئے ہیں اورزیادہ مقامات وہ ہیں،جہاں انہوں نے ابراہیم نخعی کے قول کے مطابق ہی اپنی رائےبنائی ہے؛لیکن یہ پوراسچ نہیں ہے۔
 اسی کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ کتاب الآثار میں ایسے مقامات بھی کم نہیں ہے جہاں امام ابوحنیفہ نے ابراہیم نخعی کی رائے سے اختلاف کیاہے اورابراہیم نخعی کی رائے کے مقابلہ میں مکی اورمدنی فقہائے کرام کی رائے کو پسند کیاہے،اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ کے نظریہ تخریج کے دلائل اور امام مالک

حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے احناف کو اہل الرائے میں سے قراردیاہے اوراہل الحدیث اوراہل الرائے کے درمیان فرق وامتیاز ‘‘تخریج’’ کو قراردیاہے،تخریج کے نظریہ کیلئے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے دلائل ماقبل کے صفحات میں گذرچکے،حضرت شاہ صاحب جن دلائل کی بنیاد پر احناف کو یاامام ابوحنیفہ کو اہل الرائے قراردیتے ہیں بعینہ انہی دلائل کی بنیاد پر تو امام مالک کوبھی اہل الرائے قراردیاجاسکتاہے؛لیکن حضرت شاہ ولی اللہ نے کہیں بھول کربھی امام مالک کو اہل الرائے میں شمار نہیں کیاہے۔
اگرائمہ احناف اپنے کوفہ کے علماء ومشائخ سے ازحد عقیدت رکھتے تھے تویہ یہ بات امام مالک کے یہاں بھی ہے،وہ بھی اپنے فقہاء ومشائخ سے بے انتہاعقیدت رکھتے ہیں، بالخصوص عبداللہ بن عمرؓ،سعید بن المسیب،نافع  اورفقہاء سبعہ وغیرہ ،اس کی انتہایہ ہے کہ عمل اہل مدینہ کے مقابل حدیث تک کو ترک کردیتے ہیں،جب کہ امام ابوحنیفہ سے اس طرح کانہ کوئی اصول منقول ہے اورنہ کوئی فرع ،جس میں انہوں نے حدیث رسول پر اپنے مشائخ یااپنے شہر کے علماء کو ترجیح دی ہو۔
اگرکتاب الآثار میں ابراہیم نخعی کے اقوال بکثرت ملتے ہیں اور وہی فقہ حنفی کا مسلک ومذہب قرارپاتاہے  تو امام مالک کی موطابھی فقہاء سبعہ، سعید بن المسیب اورنافع وغیرہ کے اقوال سے مملو اورپُرہے،حقیقت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ جتنا ابراہیم نخعی کے اقوال سے متاثر نہیں دکھائی دیتے،اس سے کہیں زیادہ امام مالک فقہاء سبعہ کے اقوال سے متاثر نظرآتے ہیں۔ 
اب رہ گئی آخری بات کہ امام مالک کے پاس روایات کا بہت زیادہ ذخیرہ تھا اورامام ابوحنیفہ کے پاس کم تھاتوبحمداللہ ہم اولاًاس کی حقیقت واضح کرتے چلے آئے ہیں کہ امام ابوحنیفہ سے عدم روایت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بڑے محدث نہیں تھے،پھر احکام کی روایات یوں بھی کم ہیں، اگر کتاب الآثار میں موجود روایات کو ہی امام ابوحنیفہ کا سرمایہ علم قراردینے پر تل جائے تواسی منطق میں اس کو تسلیم کرنا ہوگاکہ امام مالک کا سرمایہ علم بھی موطامیں موجود روایات تک ہی محدود ہے(جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایساسوچنے والا کوئی انتہائی متعصب یاانتہائی جاہل شخص ہی ہوگا)علاوہ ازیں کمی وبیشی ایک اضافی امر ہے، اگرہم  مان لیں کہ امام مالک سےا مام ابوحنیفہ علم حدیث میں کم تر تھے تو اسی طرح امام شافعی بھی علم حدیث میں امام احمد سے کم تر تھے؛ لیکن اس سے کیا امام شافعی کی شان فقاہت میں کوئی کمی آتی ہے؟اس موقعہ پر ضروری محسوس ہوتاہے کہ ہم حافظ ذہبی کا وہ محاکمہ نقل کریں جو انہوں نے امام ابوحنیفہ اورامام مالک  کے درمیان علم حدیث کے سلسلے میں کیاہے:
وعلی الإنصاف لو قال قائل: بل ھما سواء في عِلم الكتاب. والأول (أبو‏حنيفۃ) أعلم بالقياس. والثاني (مالك) أعلم بالسنۃ. وعندہ عِلمٌ جَمٌّ من أقوال كثيرٍ من الصحابۃ. كما أن الأول أعلمُ بأقاويل علي وابن مسعود ‏وطائفۃ ممن كان بالكوفۃ من أصحاب رسول اللہ فرضي اللہ عن الإمامين، فقد صِرنا في وقتٍ لا يقدِرُ الشخص علی النطق بالإنصاف. نسأل‏اللہ السلامۃ۔ (سير أعلام النبلاء (8\112)
اور اگر انصاف کی بات کی جائے توکہنے والا کہہ سکتاہے کہ دونوں (امام مالک اورامام ابوحنیفہ)کتاب اللہ کے علم میں برابر تھے اورا مام ابوحنیفہ قیاس میں امام مالک سے بڑھ کر تھے،اورامام مالک کو حدیث کا علم زیادہ تھااورامام مالک کے پاس بہت سارے صحابہ کے اقوال کا علم تھا،جیساکہ امام ابوحنیفہ کو حضرت علیؓ اورحضرت ابن مسعودؓ اورکوفہ میں بسنے والے صحابہ کرام کا زیادہ علم تھا،اللہ دونوں امام سے راضی ہو،ہم ایسے عہد میں جی رہے ہیں جب کسی شخص کے اندر انصاف کے ساتھ بات کرنے کا یارانہیں ہے،اللہ سے ہی سلامتی کے طلبگار ہیں۔
(حافظ ذہبی اپنے زمانہ کا شکوہ کررہے ہیں،اگروہ آج کے حالات دیکھتے اورمقبل الوادعی ،زبیر علی زئی اوران ہی جیسوں کی تصنیفات  وغیرہ پر ان کی نگاہ پڑتی تو نہ جانے وہ کیاکہتے؟)

حضرت ابراہیم نخعی کی مخالفت

حضرت شاہ ولی اللہ کاتیسرا دعویٰ یہ رہاہےکہ امام ابوحنیفہ بکثرت ابراہیم نخعی کی پیروی کرتے ہیں، اورشاذونادر ہی ان کے اقوال سے عدول کرتے ہیں، ہم ذیل میں کتاب الآثار سے کچھ ایسے آثار نقل کررہے ہیں جہاں امام ابوحنیفہ نے بصراحت ابراہیم نخعی کے اقوال سے عدول کیاہے اورایسے مقامات کم نہیں ہے، ہم نے مقالہ کی طوالت کے پیش نظر ان تمام مسائل کی نشاندہی نہیں کی ہے جہاں امام ابوحنیفہ کی راہ ابراہیم نخعی سے الگ ہوتی ہے، اگرسنجیدگی سے جائزہ لیاجائے تویہ بات واضح ہوجائے گی کہ  ابراہیم نخعی کے اقوال سے امام ابوحنیفہ کی مخالفت اس قدر کم نہیں ہے کہ وہ کسی درجہ میں قابل لحاظ ہی نہ ہو۔
سردست ہم صرف کتاب الآثار کی ورق گردانی کرتے ہیں؛ کیونکہ اس میں امام محمد نے اپنے اورامام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے قول کی وضاحت کردی ہے،جس سے تقابل بہت آسان ہوجاتاہے،اورکتاب الآثار کی ورق گردانی ہمیں بتاتی ہے کہ امام صاحب نے فقہائے کوفہ کے علاوہ مکہ اورمدینہ کے فقہاء سے بھی استفادہ کیاہے اور ان کی فقہی تفکیر میں صرف کوفہ نہیں بلکہ حجاز کا بھی اہم حصہ ہے،مقالہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتاکہ ہم کتاب الآثار کے وہ تمام  اقتباسات نقل کردیں ،جس میں فقہ نخعی سے عدول ہے ؛اختصار کے ساتھ کچھ مثالیں پیش ہیں ۔
۱۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سفر سے واپس آئے اوراس کا عورتیں بوسہ لیں ،تواگربوسہ لینے والی خواتین محارم ہیں تووضو نہیں ٹوٹتا،اگربوسہ لینے والی عورتیں غیرمحرم ہیں تو وضو ٹوٹ جائے  گاکیونکہ یہ بمنزلہ حدث کے ہیں۔ 
اس پر امام محمد کہتے ہیں:
وَہَذَا قَوْلُ إِبْرَاہيمَ، وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِہذَا وَلَا نَرَی فِي الْقُبْلَۃ وُضُوءًا عَلَی حَالٍ إِلَّا أَنْ يَمْذِيَ فَيَجِبُ عَلَيْہ لِلْمَذْيِ الْوُضُوءُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (الامام محمد بن الحسن الشيباني، دار النشر: دار الكتب العلميۃ، بيروت - لبنان1/34)
یہ ابراہیم کا قول ہے اور ہماری رائے اس کے برخلاف ہے،بوسہ لینے والی عورتیں چاہے محرم ہوں یاغیرمحرم ،کسی بھی حال میں روزہ نہیں ٹوٹتا،ہاں!یہ کہ بوسہ کے خیال سے مذی نکل آئے تو مذی نکلنے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے گااوریہی امام ابوحنیفہ کا بھی قول ہے۔
۲۔ مستحاضہ(جس عورت کو حیض کے بعد بھی خون آتارہے)کے بارے میں ابراہیم نخعی کی رائے ہے کہ ظہر کی نماز کا جب آخری وقت ہو تو وہ غسل کرے گی اورنماز پڑھے گی، پھر اسی غسل سے وہ عصر کی نماز پڑھے گی،پھر رکی رہے گی ،جب مغرب کاوقت بالکل آخری ہوگا تووہ غسل کرے گی اور اور مغرب اور عشاء کی نماز پڑھے گی،امام محمد فرماتے ہیں:
وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِہَذَا، وَلَكِنَّا نَأْخُذُ بِالْحَدِيثِ الْآخَرِ أَنَّہَا تَتَوَضَّأُ لِكُلِّ وَقْتِ صَلَاۃٍ وَتُصَلِّي فِي الْوَقْتِ الْآخَرَ، وَلَيْسَ عَلَيْہَا عِنْدَنَا إِلَّا غُسْلٌ [ص:89] وَاحِدٌ حَتَّی تَمْضِيَ أَيَّامُ إِقْرَائِہَا، وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق1/87)
ہم ابراہیم نخعی کی اس رائے کے قائل نہیں ہیں،بلکہ ہماری رائے اس حدیث کے مطابق ہے ،جس میں حکم دیاگیاہے کہ وہ ہرنماز کے وقت وضو کرے گی اور آخروقت میں نماز پڑھے گی،اور جب اس کا خون بند ہوجائے گا تو وہ غسل کرے گی اورنماز پڑھے گی اوریہی امام ابوحنیفہؓ کا بھی قول ہے۔
۳۔ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں،اگرکسی شخص نے عشاء کی نماز پڑھی اور وتر نہیں پڑھا ،یہاں تک کہ صبح ہوگئی تو وترپڑھنے کا وقت ختم ہوگیا، امام محمد فرماتے ہیں:
وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِہَذَا. يُوتِرُ عَلَی كُلِّ حَالٍ إِلَّا فِي سَاعَۃٍ تُكْرَهُ فِيہَا الصَّلَاۃُ حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ حَتَّی تَبْيَضَّ، أَوْ يَنْتَصِفَ النَّہَارُ حَتَّی تَزُولَ أَوْ عِنْدَ احْمِرَارِ الشَّمْسِ حَتَّی تَغِيبَ. وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق1/338)
ہم اس رائے کے قائل نہیں ہیں:وہ اس پورے دن مکروہ اوقات کے علاوہ میں وتر کی قضاء پڑھ سکتاہےاوریہی امام ابوحنیفہ کابھی قول ہے۔
۴۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں:جب کوئی مسجد میں اس حال میں داخل ہو کہ جماعت کھڑی ہوچکی ہو، اور لوگ رکوع میں ہوں توتیز چل کر رکوع میں شامل ہوجاناچاہئے۔
امام محمد ؒ فرماتے ہیں :
قَالَ مُحَمَّد: وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِہَذَا، وَلَكِنْ يَمْشِي عَلَی ھِينَۃِ حَتَّی يُدْرِكَ الصَّفَّ فَيُصَلِّيَ مَا أَدْرَكَ، وَيَقْضِيَ مَا فَاتَہُ (المصدرالسابق1/347)
ہماری رائے اس کے خلاف ہے،وہ آہستہ حسب سابق چلے ،یہاں تک کہ صف میں پہنچے ،جتنی نماز جماعت کے ساتھ ملے،اسے اداکرے اورجوچھوٹ گئی،اسے مکمل کرےاوریہی امام ابوحنیفہؓ کا بھی قول ہے۔
۵۔ جنازہ کے ساتھ چلنے میں ابراہیم نخعی کا طرزعمل یہ تھاکہ وہ جنازہ سے کافی آگے بڑھ جایاکرتے تھے ،ہاں !اتنی دور نہیں جایاکرتے تھے کہ نظروں سے اوجھل ہوجائیں۔
امام محمد فرماتے ہیں:
لَا نَرَی بِتَقَدُّمِ الْجَنَازَۃِ بَأْسًا إِذَا كَانَ قَرِيبًا مِنْہَا، وَالْمَشْيُ خَلْفَہَا أَفْضَلُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ۔
جنازہ کے آگے چلنے میں کوئی ہرج نہیں ہے ،جب کہ زیادہ دوری نہ ہو،لیکن جنازہ کے پیچھے چلناافضل ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ؓ کا بھی قول ہے۔
۶۔ ابراہیم نخعی سے ایسے پانی کے پینے اوروضو کے بارے میں سوال کیاگیا،جس میں بلی منہ ڈال چکی ہو،ابراہیم نخعی نے جواب دیاکہ بلی گھر میں گھومتی رہتی ہے ،اس کا بچاہواپانی پینے میں کوئی حرج نہیں ہے،پھر ان سے بلی کے منہ ڈالے پانی سے وضو کے بارے میں پوچھاگیاتوانہوں نے کہاکہ اس بارے میں اللہ نے رخصت دی ہے، نہ حکم دیاہے اورنہ منع کیاہے۔
امام محمد فرماتے ہیں کہ 
قَالَ أَبُوحَنِيفَۃ: غَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْہُ، وَإِنْ تَوَضَّأ مِنْہُ أَجْزَأهُ، قَالَ، وَكَذَلِكَ شُرْبُ غَيْرِهِ أَحَبُّ إِلَيَّ، وَإِنْ شَرِبَہُ فَلَا بَأْسَ بِہٖ، قَالَ مُحَمَّدٌ [ص:13]: وَبِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَۃَ نَأْخُذُ (المصدرالسابق 1/11)
امام ابوحنیفہ ؓ نے فرمایا:بلی نے جس پانی میں منہ ڈال دیاہو ،اگراس سے وضو کرلیاجائے تو وضو درست ہوجائے گالیکن بہتر یہ ہے کہ دوسراپانی استعمال کیاجائے،اسی طرح بلی کا بچاہواپانی پینا جائز ہے؛لیکن پسندیدہ یہ ہے کہ دوسرا پانی پیاجائے،امام محمد فرماتے ہیں :میری رائے وہی ہے جوامام ابوحنیفہ کی رائے ہے۔
۷۔ کپڑے میں شیرخوار بچے کا پیشاب لگ جائے توابراہیم نخعی کی رائے یہ ہے کہ اس پر سےپانی بہادیاجائے۔
امام محمد فرماتے ہیں:
قَالَ مُحَمَّد: وَأَعْجَبُ ذَلِكَ أَنْ تَغْسِلَہُ غَسْلًا. وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق 1/53)
مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ ایسے کپڑے کو باقاعدہ دھویاجائے اور یہی رائے امام ابوحنیفہ ؓ کی بھی ہے۔
۸۔ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ جوشخص ناخن تراشے یاپھر بال اکھاڑے یاکاٹے،توانگلیوں پر یاجہاں سے بال اکھاڑے گئے ہیں، وہاں پانی بہادے۔
امام محمد فرماتے ہیں:
وَسَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَۃَ يَقُولُ: «رُبَّمَا قَصَصْتُ أَظْفَارِي، وَأَخَذْتُ مِنْ شَعْرِي وَلَمْ أُصِبْہُ الْمَاءَ حَتَّی أُصَلِّيَ» قَالَ مُحَمَّد: وَبِہٖ نَأْخُذُ، (المصدرالسابق1/65)
میں نے امام ابوحنیفہ کو یہ کہتے ہوئے سناہے “بسااوقات میں نے ناخن تراشیا یاپھر بال اکھاڑے ،لیکن بغیر دھوئے اورپانی بہائے میں نے نماز پڑھی ہے’’،امام محمدفرماتے ہیں:میری بھی رائے یہی ہے۔
۹۔ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں:عورت کیلئے وضو کے دوران محض کنپٹیوں کا مسح کرنا کافی نہیں؛بلکہ اس کو ایسے ہی مسح کرنا ضروری ہے جیسے مرد مسح کرتے ہیں۔
امام محمد فرماتے ہیں:
وَأَمَّا نَحْنُ فَنَقُولُ: إِذَا مَسَحَتْ مَوْضِعَ الشَّعْرِ فَمَسَحَتْ مِنْ ذَلِكَ مِقْدَارَ ثَلَاثِ أَصَابِعَ أَجْزَأھا وَأَحَبُّ إِلَيْنَا أَنْ تَمْسَحَ كَمَا يَمْسَحَ الرَّجُلُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق 1/74)
ہماری رائے یہ ہے کہ جب کسی عورت نے اس طرح مسح کیاکہ سرپر تین انگلی کے برابر مسح ہوگیا تو بس کافی ہے ؛ہاں!زیادہ بہتر اورپسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ بھی ایسے ہی مسح کرے ،جیسے مرد مسح کرتے ہیں  اوریہی قول امام ابوحنیفہ ؓ کا بھی ہے۔
۱۰۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ موذن اگر دوران اذا ن کلام (بات چیت کرے)تومیں نہ اس کی اجازت دوں گا اورنہ منع کروں گا۔
امام محمدفرماتے ہیں:
وَأَمَّا نَحْنُ فَنَرَی أَنْ لَا يَفْعَلَ، وَإِنْ فَعَلَ لَمْ يَنْقُضْ ذَلِكَ أَذَانَہُ. وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق 1/100)
اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ موذن ایسانہ کرےاوراگر وہ ایساکرتاہے تو اس سے اذان فاسد نہیں ہوگی۔
۱۱۔ ابراہیم نخعی، علقمہ اور اسود سے روایت کرتے ہیں کہ ان کو ایک مرتبہ عبداللہ بن مسعودؓ نے نماز پڑھائی، تین آدمی تھے ،تینوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا،ایک کودائیں اورایک کوبائیں، اورنماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایاکہ جب تم تین آدمی ہو توایسے ہی کیاکرو،حضرت عبداللہ بن مسعود رکوع میں تطبیق فرماتے تھے(تطبیق یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو ملاکر دونوں گھنٹیوں کے درمیان رکھ لیاجائے)اور وہ نماز بغیر اذان اوراقامت کے پڑھی۔
امام محمد فرماتے ہیں:
وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ فِي الثَّلَاثَۃِ، وَلَكِنَّا نَقُولُ إِذَا كَانُوا ثَلَاثَۃً تَقَدَّمَہُمْ إِمَامُہُمْ، وَصَلَّی الْبَاقِيَانِ خَلْفَہُ، وَلَسْنَا نَأْخُذُ أَيْضًا بِقَوْلِہِ فِي التَّطْبِيقِ كَانَ يُطَبِّقُ بَيْنَ يَدَيْہِ إِذَا رَكَعَ، ثُمَّ يَجْعَلَہُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْہ، وَلَكِنَّا نَرَی أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ رَاحَتَيْہ عَلَی رُكْبَتَيْہ، وَيُفَرِّجَ بَيْنَ أَصَابِعِہ تَحْتَ الرُّكْبَتَيْنِ. وَأَمَّا صَلَاتُہُ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَۃٍ فَذَلِكَ يُجْزِئُ وَالْآذَانُ وَالْإِقَامَۃُ أَفْضَلُ. وَإِنْ أَقَامَ الصَّلَاۃ وَلَمْ يُؤَذِّنْ فَذَلِكَ أَفْضَلُ مِنَ التَّرْكِ لِلْإِقَامَۃ؛ لِأَنَّ الْقَوْمَ صَلَّوْا جَمَاعَۃ. وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق1/211)
ہم اس مسئلہ میں عبداللہ بن مسعودؒکے قول وفعل پر عمل نہیں کرتے،ہماری رائے یہ ہے کہ نماز پڑھنے میں اگر تین آدمی ہوں تو ایک آگے کھڑا ہو اوربقیہ دو اس کے پیچھے،اور تطبیق پربھی ہمارا عمل نہیں ہے، ہماری رائے یہ ہے کہ دونوں ہتھیلیاں دونوں گھٹنوں پر رکھی جائے، گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے میں انگلیاں ملاکر نہیں بلکہ کشادہ اورپھیلاکررکھی جائے ،جہاں تک بغیر اذان واقامت کے نماز پڑھنے کی بات ہے تو اس سے نماز ہوجاتی ہے ؛لیکن اذان واقامت کہنا افضل ہے ،اگراقامت کہی جائے لیکن اذان نہ دی گئی ہو تو وہ اذان واقامت دونوں نہ کہنے سے بہتر ہے اوریہی قول امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کابھی ہے۔
۱۲۔ ایک شخص نماز کے دوران اپنے عصو تناسل کے سرے پر کچھ تری پاتاہے تو وہ کیاکرتے،(شبہ یہ ہے کہ شاید یہ پیشاب کاقطرہ ہو)ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اگرمیرے ساتھ ایساہوتاہے تومیں وضو اورنماز دونوں کو دوہراتاہوں۔
امام محمدفرماتے ہیں:
وَأَمَّا نَحْنُ فَنَرَی أَنْ يَمْضِيَ عَلَی صَلَاتِہ، وَلَا يُعِيدَ، وَلَا يَضْرِبَ بِيَدَيْہ عَلَی الْأَرْضِ، وَلَا يَمْسَحَ بِوَجْھہ وَلَا يَدَيْہ حَتَّی يَسْتَيْقِنَ أَنَّ ذَلِكَ خَرَجَ مِنْہُ بَعْدَ الْوُضُوءِ، فَإِذَا اسْتَيْقَنَ ذَلِكَ أَعَادَ الْوُضُوءَ. وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدر السابق 1/412)
ہماری رائے یہ ہے کہ مصلی نمازپڑھتارہے ،اس کو نہ وضو دوبارہ دوہرانے کی ضرورت ہے ، ہاں!اگراس کو یقین ہوجائے کہ وہ قطرہ  وضو کے بعد نکلاہے تو وہ وضو کو دوہرالے،اوریہی امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
۱۳۔ حماد ،ابراہیم نخعی سے نقل کرتے ہیں کہ کسی عورت کے انتقال پر اس کا شوہر اس کو غسل دے سکتاہے۔ 
قَالَ أَبُو حَنِيفَۃ: أَكْرَهُ أَنْ يُغَسِّلَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہ قَالَ مُحَمَّد: وَبِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَۃ نَأْخُذُ، إِنَّ الرَّجُلَ لَا عِدَّۃَ عَلَيْہ؛ وَكَيْفَ يُغَسِّلُ امْرَأَتَہ، وَہُوَ يَحِلُّ لَہ أَنْ يَتَزَوَّجَ أُخْتَہَا؟ وَيَتَزَوَّجَ ابْنَتَہَا إِنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ بِأُمِّہَا؟ (المصدرالسابق2/36)
امام ابوحنیفہ ؓ فرماتے ہیں میں اسے مکروہ سمجھتاہوں کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دے، امام محمد فرماتے ہیں ،امام ابوحنیفہ کا قول ہی ہم اس مسئلہ میں اختیار کرتے ہیں،اوراس قول کی دلیل ہے کہ بیوی کے موت کے بعد مرد پر کوئی عدت نہیں ہے(جس سے خفیف سا رشتہ نکاح باقی رہنے کا وہم ہو)وہ اس کی بہن سے شادی کرسکتاہے،اوراگرہم بسترنہ ہوا ہوتو اس کے دوسرے شوہر کی بیٹی سے بھی شادی کرسکتاہے(یہ تمام باتیں بتاتی ہیں کہ شوہر اس میت بیوی کیلئے غیر اورنامحرم ہوچکاہے) 
۱۴۔ ابراہیم  کہتے ہیں کہ عورت نماز میں جیسے چاہے بیٹھ سکتی ہے۔
 امام محمد فرماتے ہیں :
أَحَبُّ إِلَيْنَا أَنْ تَجْمَعَ رِجْلَيْہَا فِي جَانِبٍ، وَلَا تَنْتَصِبَ انْتِصَابَ الرَّجُلِ (کتاب الاثارللامام محمد،ص:609]
ہمارے نزدیک بہتر یہ ہے کہ وہ مرد کی طرح نہ بیٹھے بلکہ وہ اپنے پاؤں کو ایک جانب نکال کو بیٹھے۔
(نوٹ:اس کے علاوہ مزید اس طرح کے مسائل ڈھونڈنے سے جہاں امام ابوحنیفہ ابراہیم نخعی کی مخالفت کرتے ہیں پچاس سے بھی زائد مثالیں محض کتاب الآثار سے مل جاتی ہیں۔ اگرابراہیم نخعی اورامام ابوحنیفہ کے اختلافات کو ازاول تاآخر کھنگالا جائے تویقیناًاس کی تعداد بہت بڑھ جائے گی اوراس میں مزید کئی گنااضافہ ہوجائے گا،اگرہم ابراہیم نخعی کے ساتھ اختلاف کرنے میں امام ابویوسف وامام محمد یاان مین سے کسی ایک کوبھی شامل کرلیں توان اختلافات کی مقدار مزیدبڑھ جائے گی۔)
ان تمام مثالوں میں یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ نہ صرف امام ابوحنیفہ بلکہ امام محمد بھی ابراہیم نخعی کے اجتہاد کے پابند نہیں ہیں؛ بلکہ وہ کھلے عام دلیل کی روشنی میں اوراپنے اجتہاد کی روشنی میں ان سےاختلاف کرتے ہیں ،جہاں ان سے اتفاق کرتے ہیں ،وہاں تخریج کی بنیاد پر نہیں اوران کے اقوال کو لازم سمجھ کر نہیں؛بلکہ ان مقامات میں دونوں کا اجتہاد ایک ہوجاتاہے،اجتہاد میں توافق کی بناء پر امام صاحب ابراہیم نخعی کے ہمنوا ہوتے ہیں نہ کہ ان کے قول کو لازم سمجھ کر۔
(جاری)

حواشی

29- اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ میں بیت اللہ ہے،مدینہ مھبط وحی اور رسول پاک کی قبرانور وہاں ہے اور وہیں سے سارے عالم مین اسلام پھیلا، صحابہ کرام کی بڑی تعداد وہاں محو خواب ہے،لیکن جس دور کی ہم بات کررہے ہیں یعنی امام مالک اورامام ابوحنیفہ کی، اس دور کے لحاظ سے اگر ہم دونوں جگہ کی علمی حیثیت کا جائزہ لیں تو پتہ چلتاہے کہ علم وحدیث کے میدان میں کوفہ یادوسرے لفظوں میں عراق مدینہ ومکہ سے کسی طورپیچھے نہیں تھا۔
30- سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ كَانَ أَبُو حَنِيفَۃَ شَدِيدَ الأَخْذِ لِلْعِلْمِ ذَابًّا عَنْ حَرَمِ اللَّہِ أَنْ تُسْتَحَلَّ يَأْخُذُ بِمَا صَحَّ عِنْدَہُ مِنَ الأَحَادِيثِ الَّتِي كَانَ يَحْمِلُہَا الثِّقَاتُ وَبِالآخَرِ مِنْ فِعْلِ رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ عَلَيْہِ وَسلم وَبِمَا أَدْرَكَ عَلَيْہِ عُلَمَاءَ الْكُوفَۃَ (الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثہ142)
31- واضح رہے کہ امام بخاری کے اخص الخواص شاگر امام ترمذی نے اپنی کتاب سنن میں دیگر فقہاء محدثین کی آراء نقل کرنے کا اہتمام تو کیاہے، مثلاًعبداللہ بن مبارک، احمد بن حنبل، یحیی بن سعید القطان ،اسحاق بن راہویہ وغیرذلک لیکن وہ کہیں پر بھی امام بخاری کی فقہی رائے کا اظہارنہیں کرتے۔
32- كالإمام أبي يوسف والإمام محمد بن الحسن فقد فقد لينہما أہل الحديث - كما تری في "ميزان الاعتدال " - ولعمري لم ينصفوہما وہما البحران الزاخران، وآثارہما تشہد بِسَعَۃِ عِلْمِہِمَا وَتَبَحُّرِہِمَا، بل بتقدُّمہما علی كثير من الحفاظ. وناہيك كتاب " الخراج" لأبي يوسف و "موطأ " الإمام محمد (الجرح والتعدیل،ص31)
33-  يَحْيَی بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ: «أَصْحَابُنَا يُفْرِطُونَ فِي أَبِي حَنِيفَۃ وَأَصْحَابِہ (جامع بیان العلم وفضله 2/1081)
34- قَالَ أَبُو عُمَرَ : وَأَمَّا سَائِرُ أہلِ الْحَدِيثِ فَہْمْ كَالأَعْدَاءِ لأَبِي حَنِيفَۃَ وَأَصْحَابِہ (الانتقاء ص :173)
35- دیکھئے :الرفع والتکمیل ص70تا77

زوالِ امت میں غزالی کا کردار ۔ تاریخی حقائق کیا ہیں؟ (۲)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

زوالِ امت میں غزالی کاکردار اور اصل حقائق

(تاریخِ اندلس کے چند دلچسپ اوراق)

ہم نے لکھا ہے کہ اندلس میں خلافتِ امویہ کے سقوط کے بعد جو دور شروع ہوا وہ طوائف الملوکی کا دور کہلاتا ہے، اس دور میں ریاست سات حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ضعف وافتراق اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ اس دور میں اندلس صلیبیوں کا باج گذار بنا ہوا تھا،  ڈیڑھ ڈیڑھ انچی ریاستوں کے امراء اہلِ صلیب کو باقاعدہ جزیہ دیتے تھے، پھر اسی پہ بس نہیں، مذکورہ  حصوں میں سے دو حصے یکے بعد دیگرے عیسائی ہتھیا کر لے گئے۔  اس وقت جس طرح مسلمان بے سمت، تفرق وتشتت کا شکار اور آپس میں گتھم گتھ تھے، اس کی بناء پر اندیشہ ہوچلا تھا کہ بقایا حصہ پر بھی عیسائی جلد قابض ہوجائیں گے، مگر صلیبیوں کی  پھرتیوں کو مزید تقریبا تین سو سال تک کے لیے بریک لگ گئی، جس کے ظاہری اسباب کچھ یوں تھے۔
تفرق، انحطاط اور اہلِ صلیب سے مغلوبیت کے اس زمانہ میں اندلس کے مسلمان اہلِ حل وعقد سر جوڑ کر بیٹھے۔ اس وقت اندلس کے پڑوس میں مراکش کے اندر امیر یوسف بن تاشفین کی حکومت تھی، یہ بغداد کی مرکزی خلافت کا ما تحت اور نہایت بارعب حکم ران تھا۔ اندلس کے علماء اور شرفاء نے قاضی قرطبہ عبد اللہ بن محمد بن ادہم کے ساتھ مل  بیٹھ کر اس سے متعلق مشاورت کی اور اس تجویز پر سب کا اتفاق ہوا کہ مراکش کے بوڑھے برگد امیر المسلمین یوسف بن تاشفین  کو خط لکھ کر اپنے احوال کی اطلاع کی جائے اور  اس سے اپنے لیے سہارا طلب کیا جائے۔ اہلِ فکر اور اہلِ دل کا یہ اجتماع قرطبہ میں ہوا جو اس وقت بنو عباد کی قلم رو میں تھا، طوائف الملوکی کے دور میں اندلس کی مختلف حکومتوں میں سے سب سے مضبوط اور بڑی حکومت بنوعباد کی تھی۔ لیکن صلیبیوں کے مقابلہ میں اس حکومت کی بھی نقاہت اور بے بسی کا یہ عالم تھا کہ جس وقت قرطبہ میں اہلِ درد کا اجتماع ہورہا تھا، اس وقت بنو عباد کا وارث المعتمد علی اللہ اس علاقہ کا تخت نشین تھا، لیکن وہ نصاری کا باج گذار تھا،  خود کو نصاری کے مقابلہ میں بے بس پاتا تھا اور جب صلیبیوں کی طرف سے اشبیلیہ کا محاصرہ کیا گیا تو اس کے پاس ان کے مقابلہ کی قوت نہیں تھی، خود اس کی اپنی ذاتی سیرت یہ تھی کہ شراب کا رسیا تھا، بعض چھوٹی چھوٹی اسلامی ریاستوں کے خلاف اس نے زور آزمائی میں صلیبیوں کا ساتھ دیا تھا، لیکن بہرحال مسلمان تھا اور اشبیلیہ کے محاصرہ کے بعد اس کی آنکھ قدرے کھل گئی تھی۔ یہ خود بھی یوسف بن تاشفین کو مدد کے لیے بلانا چاہتا تھا۔ چنانچہ جب قاضی عبداللہ نے شہر کے شرفاء کی رائے معتمد تک پہنچائی تو معتمد نے اس کی تصویب کی۔ بعض مشیروں نے اشارہ کیا کہ ممکن ہے، یوسف بن تاشفین یہاں آنے کےبعد واپس جانے کا نام نہ لے، اس پر معتمد کی رگِ اسلامی پھڑکی اور اس نے ایک تاریخ ساز جملہ کہا کہ رعی الغنم خیر من رعی الخنازیر یعنی امیر یوسف کا قیدی بن کر ریوڑ چرانا ہمارے لیےصلیبیوں کا قیدی بن کر خنزیر چرانے سے بہتر ہے۔  چنانچہ معتمد کی تصویب کےبعد پہلی بار امیر یوسف کے پاس سرکاری وفد گیا، امیر یوسف اس سے قبل بعض نجی وفود کے ذریعہ بھی اندلس کے حالات سنتے رہے تھے۔
امیر یوسف بن تاشفین مراکش کی اس اصلاحی تحریک کے ایک کارکن تھے جس کےبانی ایک نہایت خدا رسیدہ بزرگ شیخ عبد اللہ بن یسین تھے اور جن کی تحریک مرابطین کی تحریک کہلاتی تھی۔ امیر یوسف کی امارت کا قصہ یہ ہے کہ ان کے پیش رو شیخ ابو بکر بن عمر اللمتونی جو خود بھی مذکورہ اصلاحی اور دعوتی تحریک ہی کے ایک بزرگ کارکن تھے،  خدا نے ان کو دعوت وعبادت کا ایک خاص ذوق عطا فرمایا تھا، انہوں نے اپنے ماتحت علاقہ کی قلم رو یہ کہہ کر امیر یوسف بن تاشفین کے حوالہ کر دی تھی کہ امورِ ریاست کی نگہبانی میرے ذوق کے خلاف ہے، اس کو میری جگہ تم سنبھالو اور میں اپنی بقیہ زندگی اپنے ذوق کے میدان میں صرف کرنا چاہتا ہوں۔  امیر یوسف نے اپنے پیش رو کی امانت کو نہایت حسنِ تدبیر کے ساتھ سنبھالا۔ اندلس کے مسلمانوں نے جب ان کو پکارا تو انہوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور اندلس میں پہنچ کر صلیبیوں کے ساتھ ایک زبردست معرکہ لڑا جو معرکہء زلاقہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معرکہ میں نہایت گھمسان کا رن پڑا جس کی وجہ سے بعض مصنفین نے اسے حضرت عمر کے دور میں ہونے والے قادسیہ اور یرموک کے معرکوں پر قیاس کیا جاتا ہے۔ اس معرکہ میں   مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور بڑی تعداد میں غنیمتیں حاصل ہوئیں، مگر امیر یوسف نے ان غنیمتوں میں سے کوئی حصہ لینے کی بجائے وہ سب اہلِ اندلس کے حوالہ کیا، انہیں افتراق سے بچنے اور اور اتحاد سے رہنے کی تعلیم دی اور خود واپس مراکش چلے گئے۔
تاہم اندلس کےمسلمانوں میں زوال کے جو اسباب پیدا ہوچکے تھے، ان کے ہوتے ہوئے ممکن نہ تھا کہ وہ اس قدر تعلیم وتلقین سے سنبھل جاتے۔ چنانچہ امیر یوسف کی واپسی کے بعد اندلس دوبارہ اپنی پرانی روش پر آگیا،  طوائف الملوکی ویسے کی ویسے رہی،  نصاری کی چھیڑ چھاڑ پہلے سے زیادہ بڑھ گئی،  بلنسیہ پر ان کا قبضہ ہوگیا جو اب تک کی ان کی کامیابیوں میں سے ایک بڑی کامیابی تھی اور چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستوں کے امراء آپس ہی میں لڑتے رہے، امیر یوسف کی نصیحت کسی کو یاد نہ رہی۔ امیر یوسف کی طرف سے مختلف موقعوں پر بہرحال ان کے پاس امداد آتی رہی۔  ان میں سےبعض موقعوں پر امیر یوسف کو ان امراء کی اقتدار پرستی،  صلیبیوں سے در پردہ دوستی اور مسلمانوں کی اجتماعیت میں عین موقع پر چھرا گھونپنے کے بعض ایسے شدید تجربات ہوئے کہ  انہیں ان امراء سے خیر کی توقع نہ رہی۔ انہیں صاف نظر آرہا تھا کہ اندلس کو اگر ایک حکومت پر جمع نہ کیا گیا تو اس کا مستقبل تاریک ہے۔ ان کے پاس اس کی قوت موجود تھی کہ وہ چھوٹے چھوٹے امراء  کو بزور وجبر ایک طرف کرکے اندلس میں اجتماعیت پیدا کردیتے، مگر ظاہر ہے کہ اس صورت میں مسلم آبادیوں کے اندر خون خرابہ ہوتا اور امیر یوسف اس کی شرعی پوزیشن کے حوالہ سے اپنے اضطراب کو دور کرنے کے لیے کسی مستند علمی وفقہی حوالہ کے خواہش مند تھے،  نیز امیر یوسف اپنی تمام تر قوت کے باوجود خود کو خود مختار سمجھنے کی بجائے بغداد کی مرکزی خلافت کے ماتحت سمجھتے تھے،  اس لیے وہ اس اقدام سے قبل مرکز سے اجازت لینا بھی ضروری سمجھتے تھے۔
ان کی ان دونوں ضرورتوں کو ایک مالکی فقیہ ابو محمد العربی اور ان کے بیٹے ابو بکر (جو امام غزالی کے شاگرد تھے) نے پورا کیا۔ وہ بغداد گئے، وہاں ان دنوں امام غزالی رونق افروز تھے، ان سے ملاقات کی، اندلس کے احوال سنائے، وہاں کے حکم رانوں کی بے تدبیری، بد اندیشی اور نصرانیت نوازی  کو بے نقاب کیا اور امیر یوسف بن تاشفین کے لیے ان سے شرعی سند اور حوالہ کی استدعا کی۔ امام غزالی نے  بد اندیش حکم رانوں کےخلاف راست اقدام کے حق میں فتوی لکھ کر ان باپ بیٹے کو دیا، نیز یوسف بن تاشفین کے نام از خود ایک خط لکھ کر روانہ کیا جس میں ساری تفصیلات لکھیں کہ مجھے اندلس کے کیا کیا احوال پہنچے ہیں، نیز یہ کہ میں نے یوسف بن تاشفین کے لیے ایک فتوی لکھ کر  اپنے شاگردوں کے حوالہ کر دیا ہے،  نیز یہ کہ وہ کس طرح عالمِ اسلامی میں یوسف بن تاشفین کے حق میں فضا ہم وار کرنے کے لیے سر گرم ہیں اور یہ کہ وہ جلد ہی خلافت بغداد کے سرکاری اجازت نامہ کے ساتھ آپ کے پاس آپہنچیں گے۔  بعد ازاں فقیہ ابن العربی سال 493ھ  میں وفات پاگئے اور ان کے فرزند ابو بکر امام غزالی کا فتوی اور خلافتِ بغداد کا اجازت نامہ لے کر اسی سال اندلس میں  یوسف بن تاشفین کے پاس پہنچ گئے۔ تو یہ ہے زوالِ امت میں غزالی کے کردار کی حقیقت اور اندلس کی تاریخ کا ایک رشن ورق، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح امام غزالی اندلس کو صلیبیوں کی جھولی میں گرنے سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ 
امیر یوسف بن تاشفین کو اگر بروقت صحیح سمت راہ نمائی نہ دی جاتی اور انہیں راست اقدام کے لیے تیار نہ کیا جاتا  تو اندلس کا کلی سقوط ظاہری اسباب کے مطابق اپنے اصل وقت سے گویا تین سو سال قبل ہی ہوجاتا، جیساکہ ہاتھ سے نکلتے ہوئے اس کے مختلف علاقےاس کے  اشارے دے رہے تھے۔ تاہم امیر یوسف کے راست اقدام نے اندلس میں ایک مضبوط اور یک سو حکومت کی بنیاد رکھی جو خلافتِ امویہ کے سقوط کے بعد اندلس کی پہلی با معنی حکومت تھی۔ اس عہد میں وہ بہت سے علاقے صلیبیوں سے واپس لے لیے گئے جو ان کے قبضہ میں جاچکے تھے۔  لیکن ایک بڑا شہر طلیطلہ بدستور ان کے پاس رہا اور باوجود کوشش کے واپس نہ لیا جاسکا۔ (۱)
امیر یوسف کی وفات کے بعد ان کا بیٹا علی بن یوسف بن تاشفین تخت نشین ہوا اور ان دونوں باپ بیٹا کا دور حکومت اندلس میں مرابطین کا دورِ حکومت کہلاتا ہے۔ علی بن یوسف میں بہت سی اچھی صفات موجود تھیں، جہاد بھی ہوتا رہا اور علماء کا احترام بھی کیا جاتا تھا، مگر دوسری طرف ریاست میں  شرعی احکام کے حوالہ سے کافی کچھ تساہل بھی پایا جاتا تھا۔  شراب کی خرید وفروخت عام ہوتی تھی، سرکاری فوجی علانیہ لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے، شہریوں کی عزت وناموس کو تارتار کرتے، اور  علی بن یوسف کے خاندان میں ایک اور قبیح روایت یہ چلی آتی تھی کہ مرد نقاب پہنتے تھے، جبکہ عورتیں کھلے منہ پھرتی تھیں۔ اسی دور میں غزالی کی احیاء علوم الدین کو بھی اندلس میں جلایا گیا۔  مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کا اول وآخر ان کا دین ہے، انہوں نے جب اپنے دین سے بے وفائی کی تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں زوال سے نہ روک پائی اور  اسباب ووسائل کے باوجود یہ ناکام ہوکر رہے، جبکہ جب انہوں نے اپنے دین سے وفا کی، اس کے احکام کو نظروں کے سامنے رکھا اور  ظاہری اسباب ووسائل کی بجائے خدا کی ذات پر اعتماد کیا تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں زوال کا شکار نہیں کرسکی، بلکہ یہ آگے سے آگے بڑھتے رہے۔  علی بن یوسف کی بعض نیک خصلتوں کے باوجود جس طرح منکرات وبدعات اس دور میں پھل پھول رہے تھے، اگر اس  خرابی کے سامنے بند نہ باندھا جاتا تو ظاہر تھا کہ اندلس میں مسلمانوں کی قوت کو ایک بار پھر زوال کا شکار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ 
اس دور میں اندلس کے اندر محمد بن تومرت کی سربراہی میں ایک اور اصلاحی تحریک چلی، اس کا ابتدائی مقصد ریاست میں منکرات کی روک تھام ہی تھا، لیکن رفتہ رفتہ اس کے نتیجہ میں اندلس کے اندر ایک اور خاندان کی حکومت کی داغ بیل پڑی جو موحدین کی حکومت کہلائی۔ محمد بن تومرت کے بارہ میں مشہور یہ ہے کہ حکومت کے خلاف اپنی تحریک سے قبل  وہ بھی امام غزالی سے ملے تھے، ان سے اپنی تحریک کے حق میں مشاورت لی اور  انہی کی تائید سے اپنا کام شروع کیا تھا۔ علامہ ابنِ خلدون نے اس ملاقات اور مشاورت کی روایت نقل کی ہے اور اردو لٹریچر میں شبلی، سید ابو الحسن علی ندوی اور سید قاسم محمود وغیرہ کے ہاں اسی روایت کے اتباع میں اس کو غزالی کا شاگرد تسلیم کرتے ہوئے اس کی تحریکِ موحدین کو نہ صرف غزالی ہی کی ایماء کا نتیجہ کہا گیا ہے، بلکہ اس انقلاب کو ایک بروقت اور صحیح اسلامی انقلاب بتایا گیا ہے اور شبلی نے لکھا ہے کہ موحدین کی ریاست امام غزالی کی منشاء اور اسلامی اصولوں کے عین مطابق تھی۔ (۲)
تاہم علامہ ابنِ اثیر کی رائے میں محمد بن تومرت کی امام غزالی سے ملاقات نہیں ہوئی اور ماضی قریب کے بعض عرب محققین نے باقاعدہ اس موضوع پر داد تحقیق دی ہے کہ محمد بن تومرت کی امام غزالی سے تلمذ اور ملاقات کی بات غلط ہے۔ نیز عرب محققین میں بالعموم خود محمد بن تومرت کےحوالہ سے  بھی عموما کوئی مثبت رائے نہیں ملتی اور یہ سچ ہے کہ تاریخ میں اس کی تحریکِ اصلاح وجہاد کے بعض پہلو ایسے بیان ہوئے ہیں جو سخت ناگوار ہیں اور جن کے ہوتے ہوئے اس کی تحریک کی مجموعی تحسین کی گنجائش کم ہی نکلتی ہے۔ ابنِ تیمیہ کی بعض عبارات، ذہبی کی سیر اعلام النبلاء اور ابنِ حجر عسقلانی کی الدرر الکامنۃ کے مطابق وہ خود کو مہدی اور معصوم کہتا تھا، اپنے اس دعوی کی سچائی لوگوں کے دلوں میں مستحکم کرنے کے لیے اس نے کچھ عجیب وغریب حرکتیں بھی کی تھیں، نیز شیخ ابنِ تیمیہ کے مطابق وہ اعتزال کی طرف مائل تھا اور صفات سے متعلقہ مشہور اعتزالی موقف ہی کی بناء پر اس نے اپنی تحریک کا نام موحد رکھا ہوا تھا۔ تاہم بعض محققین کے مطابق ابنِ تومرت کے حوالہ سےمشرق کےمؤرخین نے انصاف سے کام نہیں لیا، وہ اتنا برا نہ تھا جتنا کہ کہا جاتا ہے۔ نیز سبکی نے طبقات الشافعیہ میں اس کا جو ذکر کیا ہے، اس سے اس کے کردار کا کوئی منفی پہلو سامنے نہیں آتا، ہاں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ اشعری تھا اور محض اشعری ہونا شاید کوئی اتنا بڑا "عیب" نہیں۔  مولانا ابو الحسن علی ندوی نے بھی اس کے بارہ میں سبکی کے کلمات بلانکیر نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے اور شبلی وابنِ خلدون کی عبارات سے اس کی توثیق مزید کی ہے۔ (۳)
یہاں ہمیں اس بحث میں نہیں جانا کہ محمد بن تومرت درحقیقت کیا تھا اور کیا نہیں؟ اور کیا امام غزالی سے فی الواقع اس کی ملاقات ہوئی تھی یا نہیں؟ نیز ہمیں یہاں اس بحث میں بھی اپنا کوئی محاکمہ پیش نہیں کرنا کہ محمد بن تومرت کتنا صحیح تھا اور کتنا غلط اور نہ ہی غزالی اور ابنِ تیمیہ کی سلفی اور اشعری فکر کا کوئی تقابل پیش کرنا ہے۔ ہمیں تو یہاں صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ امام غزالی پر زوالِ امت کا الزام کتنا غلط ہے اور امت کے زوال وانحطاط کے حوالہ سے ان کا کوئی کردار اگر تاریخ میں ملتا بھی ہے تو وہ مثبت ہے، نہ کہ منفی۔ ابن تومرت کے بارہ میں یہ پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ بعض محققین  سرے سے غزالی کے ساتھ اس کی ملاقات سے انکاری ہیں، جبکہ جو مصنفین اس ملاقات کا ذکر کرتے ہیں تو یہ وہی ہیں  جو ابنِ تومرت کے انقلاب کو ایک صحیح اسلامی انقلاب کہتے ہیں اور اسے امام غزالی  کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ شمار کرتے ہیں۔  اب ان دونوں میں سے کون سی بات صحیح ہے، اس  کے بارہ میں کوئی ٹھوس رائے دینا ممکن نہیں ہے۔
اگر محمد بن تومرت کے بارہ میں شبلی وغیرہ کی یہ رائے درست تسلیم کرلی جائے کہ وہ صحیح الفکر آدمی تھا، اس کی تحریک اندلس کے لیے مقتضائے حال کے مطابق تھی اور موحدین کی قائم کردہ حکومت بھی اسلامی اصولوں کے عین مطابق تھی تو انہی کے نزدیک ابنِ تومرت کی اس ساری کاوش کی بنیاد امام غزالی سے اس کی مشاورت تھی۔ پس اگر اس انقلاب کو  صحیح فرض کر لیا جائے جو تحریکِ موحدین نے برپا کیا تھا تو جو اس انقلاب کو صحیح کہتے ہیں، انہی کے بقول اس انقلاب کے خمیر میں غزالی کی مشاورت شامل تھی۔ تاہم ہمیں ذاتی طور پر اس کا ہرگز اصرار نہیں کہ ابنِ تومرت صحیح الفکر تھا اور اس کا انقلاب بھی صحیح بنیادوں پر قائم تھا، بلکہ  صورتِ حال ا س کے برعکس بھی ہوسکتی ہے، مگر اس صورت میں امام غزالی سے اس کی ملاقات کو تاریخی اعتبار سے ثابت کرنا بھی ایک مشکل کام ہوگا۔ کیونکہ جو مؤرخین ابنِ تومرت کے کردار سے متفق نہیں، انہیں اس کی امام غزالی کے ساتھ ملاقات سے بھی اتفاق نہیں، بلکہ ابنِ اثیر سے لے کر دکتور راغب السرجانی تک یہ تمام مؤرخین اور محققین  جو ابن تومرت کو بھٹکا ہوا سمجھتے ہیں، غزالی سے اس کی ملاقات  سے بھی سخت انکاری ہیں۔ (۴)
ہماری ذاتی رائے میں  ابنِ تومرت کے ہاتھوں تشکیل پانے والی موحدین کی حکومت میں یا ابنِ تومرت کی ذات میں خواہ کچھ عیب رہے ہوں، مگر موحدین کی حکومت سے بظاہر ایک بڑی خیر بھی برآمد ہوئی۔ مرابطین کے ہاتھوں مراکش اور اندلس کے باقی ماندہ علاقے جو ایک بار پھر ضعف کا شکار ہورہے تھے اور ان کے بارہ میں اندیشہ تھا کہ عیسائی اس کم زوری سے شہ پا کر کہیں ان پر بھی حملہ آور نہ ہوجائیں،  موحدین کی وجہ سے ایک بار پھر مضبوط ہاتھوں میں چلے گئےاور اس حکومت کی تشکیل میں کسی نہ کسی درجہ کے اندر غزالی کے بالواسطہ کردار کو بہرحال مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ امام غزالی کے شاگرد ابو بکر ابن العربی (جنہوں نے اپنے والد کے ساتھ اس سے قبل یوسف بن تاشفین کا اقتدار استوار کرنے میں کردار ادا کیا تھا) نے آگے بڑھ کر اس وقت عبد المومن کا اندلس کی طرف سے استقبال کیا تھا جب وہ اندلس پر حملہ آور تھا۔ عبد المومن موحدین کی حکومت کا پہلا تاج دار  اور ابنِ تومرت کا نہایت قریبی ساتھی تھا، اس کے مزاج میں اپنے پیش رو ابنِ تومرت کی طرح کچھ سختی تھی، مگر تاریخ سے ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ اس نے اپنی حکومت کی بنیاد ابنِ تومرت کی معصومیت کے عقیدہ پر، توحید کے مخصوص اعتزالی تصور پر  یا اس طرح کی اور گم راہیوں پر رکھی ہو، بلکہ اس کے برعکس یہ نظر آتا ہے کہ اس حوالہ سے سکوت کی پالیسی اختیار کرکے گویا اس نے ابنِ تومرت کے اثرات کومٹنے کا موقع دیا اور ان علماء کو عزت دی جو کسی بھی لحاظ سے ابنِ تومرت کی گم راہیوں سے متفق نہیں کہلائے جاسکتے، جبکہ اسی خاندان کے تیسرے یا چوتھے حکم ران تک  باقاعدہ ریاستی سطح پر ابنِ تومرت کی گم راہیوں سے براءت کا اعلانِ عام کردیا گیاv لیکن عرفِ عام میں ان کے لیے موحدین کا نام استعمال ہوتا رہا۔
سید قاسم محمود کے الفاظ میں صلاح الدین ایوبی کے ہم عصر عبد المومن نے جتنی بڑی حکومت قائم کی، اتنی بڑی حکومت شمالی افریقہ کے کسی مسلمان نے اب تک قائم نہیں کی تھی اور نہ اس کے بعد پھر اتنی بڑی حکومت قائم ہوئی۔ نیز عہدِ موحدین کا  تیسرا حکم ران یعقوب المنصور  سب سے زیادہ مشہور ہے، اس کو ارک کے میدان میں  عیسائی حکم ران الفانسو پر فتح حاصل ہوئی، وہ نہایت علم دوست تھا اور اس کے دور میں بے شمار رفاہی کام ہوئے۔ (۵) سبھی اتفاق کرتے ہیں کہ یہ نہایت مضبوط حکومت تھی، اس سے اندلس میں مسلمانوں کے قدموں کو مزید ثبات اور استحکام نصیب ہوا۔ اندلس پر اس خاندان کی حکومت تقریبا سوا صدی قائم رہی۔ بعد ازاں ایک بار پھر انحطاط شروع ہوا جو 1492ء میں مکمل سقوط پر منتج ہوا۔ یوں اندلس کا جو سقوط گیارہویں صدی میں اموی خلافت کے سقوط کے بعد شروع ہوا تھا  اور اندلس مسلسل صلیبیوں کی لپیٹ میں آتا جارہا تھا، ابن تاشفین، غزالی اور مرابطین وموحدین وغیرہ کی بر وقت مداخلت سے مکمل سقوط تک پہنچنے میں اسے تقریبا ساڑھے تین سو سال تک کی بریک لگ گئی۔
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ غزالی پر اس اعتراض کی قطعا کوئی حقیقت نہیں ہے کہ فلسفہ پر ان کی تنقید سے عالمِ اسلام اولا علمی اور بعد ازاں سیاسی زوال کا شکار ہوگیا جس کا یہ تسلسل ہے کہ آج عالمِ اسلام کو ذلت کے یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ غزالی نے اگر علمی وفکری سطح سے ہٹ کر عملی میدان میں کوئی بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار ادا کیا بھی تو وہ مسلمانوں کے وقار پر منتج ہوا، نہ کہ زوال پر۔ تاریخ میں اس کے برعکس اگر کوئی اور تصویر ملتی ہے، تو ہوائی باتیں کرنے کی بجائے اس کا ثبوت فراہم کیا جائے۔ 

غزالی اور ابنِ رشد کا تقابل؛ کیا کوئی جواز ہے؟

نیز کیا کوئی بتا سکتا ہے  کہ غزالی کے مقابلہ میں جس ابنِ رشد کو اپنا راہ نما بنانے کی تلقین دن رات مسلمانوں کو کی جاتی ہے، امت کے عروج وزوال کی کہانی میں اس نے کب اور کون سا تاریخ ساز مثبت کردار ادا کیا تھا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ ابن رشد موحدین ہی کا ایک درباری تھا، بلکہ عبد الواحد المراکشی (مصنف المعجب) کے بقول یہیں سے اس کی شہرت ہوئی اور جو کچھ ملا، یہیں سے ملا۔ ابنِ رشد سے قبل اندلس کے ایک اور مشہور فلسفی اابنِ طفیل کا عبد المومن کے دربار میں آنا جانا تھا، وہی ابنِ رشد کو دربار میں لایا،  عبدالمومن کے بعد خلیفہ ابو یعقوب کے دربار میں اسے بہت عزت ملی، وہ خلیفہ کا مشیرِ خاص بنا،  شاہی طبیب اور قرطبہ کا قاضی بنا،  بعد ازاں تیسرے خلیفہ یعقوب المنصورکے زمانہ میں اس کی عزت وتوقیر میں مزید اضافہ ہوا،  اس کے بعد عتابِ شاہی کا شکار ہوا۔ اب اس بارہ میں کچھ کہنا ممکن نہیں کہ اس کا سبب کیا تھا۔ بعض کے بقول خلیفہ کے بعض ہم نشینوں نے خلیفہ کو اس کے خلاف ورغلایا تھا،  جبکہ بعض کے بقول اس کا سبب اس کے دینی انحرافات تھے۔ خیر، ہمیں اس بحث میں نہیں جانا کہ ان میں سے کون سی بات درست ہے، لیکن اگر وہ واقعتا ان "اعلی خیالات" کا حامل تھا جو خود ملحدین یا متفلسفین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں  اور وہ واقعتا مسلمانوں کے لیے فکری انتشار اور خلفشار کا باعث بھی بن رہا تھا تو اس صورت میں اس پر نازل ہونے والے شاہی عتاب پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
ابنِ رشد  (الحفید) خصوصا فقہ میں وسعتِ نگاہ کے حوالہ سے اپنے ہم نام دادااحمد بن رشد القرطبی (الجد)  کا صحیح جانشین تھا اور اس کے علم سے انکار نہیں، اس کی کتاب "بدایۃ المجتہد" سے علمی حلقے شروع سے استفادہ کرتے آرہے ہیں، لیکن اپنے الہیاتی نظریات میں وہ فلسفہ ہی کے ایک منحرف دبستان کا پیروکار بھی تھا۔  اس لیے اس سے دینی انحرافات کی توقع کچھ غلط نہیں۔  اگر دعوی یہ ہے کہ ابنِ رشد کے موردِ عتاب بننے سے عالمِ اسلام کا زوال اور مسیحیت کی علمی اٹھان شروع  ہوئی تو ریکارڈ کی درستگی کے لیے عرض ہے کہ ابنِ رشد کی تکفیر خود اس کی زندگی میں مسیحیوں کی طرف سے بھی ہوئی تھی اور اندلس پر اپنے حملہ کے بعد صلیبیوں نے اس کی کتابوں کو بھی جلادیا تھا۔ ہاں البتہ ملحدین کے ہاں اسے قبولِ عام حاصل ہوا ہے تو کیا ہمیں ابنِ رشد کو راہ نما بنانے کا جو مشورہ دیا جاتا ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم مذہب کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکیں؟ کسی ایک فلسفی کے اپنے الہیاتی نظریات کی وجہ سے زیرِ عتاب آجانے سے کوئی ریاست یا معاشرہ علمی یا سیاسی زوال کا شکار نہیں ہوسکتے، نہ ہی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اہلِ فکر جینوئن اور مفید سائنسی علوم کے حوالہ سے بھی غور وفکر کرنا چھوڑ دیں۔ چنانچہ  کتاب پروری اور اور علمی ترقی موحدین کے دور میں بھی برابر جاری رہی۔ عبد المومن نے مراکش میں ایک بڑا کتب خانہ قائم کیا تھا جس میں چار لاکھ کتابیں تھیں۔ یعقوب کا دور ہر لحاظ سے ایک زبردست دور تھا، اس دور میں مسلمانوں کو صلیبیوں کے خلاف نہایت  اہم فتوحات  حاصل ہوئیں،  سڑکیں ، ہسپتال، سرائیں اور درس گاہیں تعمیر ہوئیں اور سید قاسم محمود کے بقول اس زمانہ میں اندلس میں بڑی زبردست سائنسی ترقی ہوئی اور ایسے ایسے مصنف اور سائنس دان پیدا ہوئے کہ جو بغداد اور نیشاپور  وغیرہ کے بڑے علماء سے کسی طرح کم نہ تھے۔ (۶) 
ابنِ رشد کی بعض علمی صلاحیتیں اپنی جگہ،  مگر اس تاریخ کو سامنے رکھیں اور ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ  کیا عروج وزوال کی کہانی میں غزالی اور ابنِ رشد کا تقابل کرنے اور دن رات اس کی مالا جپنے کا کوئی جواز ہے؟ کہاں تو غزالی جو حکومتوں پر اثر انداز ہوکر مسلمانوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہورہے ہیں اور کہاں ابنِ رشد جن کی کہانی درباری نوازشات سے فیض یاب ہوکر درباری عتاب پر ختم ہوتی ہے اور جن کی شخصیت اتنی الجھی ہوئی ہے کہ آج تک ان کی فکر کے اجزاء کے تعین پر ہی کوئی اتفاق نہ ہوسکا۔ ہمارا مقصود یہاں پر نہ تو ابنِ رشد کی تکفیر وتفسیق ہے اور نہ ہی اشعری فکر کا سلفی فکر کے ساتھ کوئی محاکمہ مقصود ہے، بلکہ ہمارا مقصود صرف یہ عرض کرنا ہے کہ امت کے عروج وزوال کی کہانی میں غزالی اور ابنِ رشد کا تقابل کسی بھی حوالہ سے معقول نہیں ہے۔
اگر مغرب کی ترقی اور امتِ مسلمہ کے زوال کا راز یہی ہے کہ مغرب نے ابنِ رشد کی تقلید کی ہے تو ذرا بتائیے ناں کہ ابنِ رشد کی وہ کون سی روشن فکر ہے جس نے مغرب کی نشاتِ ثانیہ میں کردار ادا کیا ہے اور اسے وقت کی "سپر پاور" پنا دیا ہے۔ لوگوں کو دینی انحرافات کی طرف مائل کرنے کے لیے ابنِ رشد کا نام بطور حوالہ مت استعمال کیجئے۔ اگر مغرب کی ترقی کاراز اس کا الحاد اور مذہبی تقدسات سے دستکش ہوجانا ہے تو ایسی ترقی ہمیں ہر گز نہیں چاہئے اور یہ سچ ہے کہ ہم اپنے دین کے ساتھ جیسے تیسے منسلک رہنے کی وجہ سے ہزار خرابیوں کے باوجود ترقی یافتہ مغرب سے کہیں بہتر اور کہیں اچھے حال میں ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی اپنے دین کی جیسی تیسی اتباع کی برکت سے اتنا کچھ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم الحاد کے راستہ سے سپر پاور یا بین الاقوامی چودھری بن کر بھی کبھی وہ سب کچھ حاصل نہیں کرسکتی۔ یہ سچ ہے کہ خواہ ہم مغلوب ہی کہلاتے ہیں، مگر ہم نے ایٹم بم جیسے ہتھیار بنانے میں مجرمانہ پہل نہ کرکے کوئی غلطی نہیں کی، ہم نے عام شہری آبادیوں پہ وہ بم گراکر اگر خود کو سپر پاور نہیں کہلوایا تو ہم اس پر آج بھی خوش ہیں، ہم نے جنگہائے عظیم  میں کوئی مؤثر کردار ادا نہ کرکے اور کروڑوں انسانوں کے جان ومال کے ساتھ کھلواڑ کرکے اچھا ہی کیا ہے، ہم نے آزادی نسواں کے نام پر صنفِ نازک کو نہیں ورغلایا تو اس پر اللہ کے حضور شکر بجا لاتے ہیں، ہم نے دنیا کو خاندانی نظام کی بربادی کا تحفہ نہیں دیا، اخلاق اور انسانیت کے نام پر ہم نے دنیا سے کوئی مکاری نہیں کی، خود کشی کے ریکارڈ قائم نہیں کیے اور نہ ہی ہم نے انسانیت کو ملحدانہ عقلیت کے نام پر ذہنی امراض کا شکار بنایا ہے۔ شکر ہے کہ ایسی ترقی کسی اور ہی کے حصہ میں آئی ہے اور ہم اپنی ہزار خرابیوں کے باوجود "ترقی یافتہ اقوام" سے آج بھی کہیں بہتر ہیں۔ الحمد للہ!

مشرقی اسلامی دنیا میں غزالی کا کردار

ہم نے گذشتہ سطور میں اندلس کے حوالہ سےغزالی کے کردار کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی ہے، مگر غزالی خود مشرق میں  تھے جہاں اس زمانہ میں سلجوقیوں کی حکومت تھی۔ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ مشرق میں غزالی کا جو کردار تھا، اس کے چند روشن اور مثبت پہلوؤں پر بھی یہاںروشنی ڈالیں۔
ایک بات جو نہایت اہم اور قابلِ توجہ ہے، وہ یہ  کہ امام غزالی نے اپنی علمی وجاہت کے زمانہ میں شاہانِ سلجوقی کو کئی تربیتی اور تنبیہی خطوط لکھے جن میں شاہ سنجر سلجوقی کے نام ان کے خطوط خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جو ان کے دور میں نائب امیر کے عہدے پر فائز تھا۔ شاہ سنجر سلجوقی نے چالیس سال حکومت کی، وہ اپنی کم زوریوں کے باوجود بہرحال ایک نہایت علم دوست اور ہنر پرور آدمی تھا۔ مسلم علم وفن اور حرفت وصنعت کے بلند پایہ مؤرخ سید قاسم محمود نے اس کے لیے نہایت غیر معمولی الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان کے الفاظ میں
"اس کے دربار میں ادب، شاعری اور سائنس وفلسفہ کا ویسا ہی چرچا رہتا تھا جیسا ہارون الرشید، مامون الرشید اور محمود غزنوی کے درباروں میں رہتا تھا۔ اس کے زمانہ میں خراسان دار العلم بن گیا تھا اور وہاں کے بڑے بڑے شہر مدرسوں، کتب خانوں، علماء اور اربابِ کمال سے بھر گئے ۔۔۔۔۔ سلجوقی دور میں علوم وفنون کی خوب سرپرستی کی گئی اور اسلامی دنیا علمی حیثیت سے اس عہد میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔" (۷)
ان سلجوقی حکم رانوں کے نام لکھے گئے اپنے مکاتیب میں غزالی نے ان کو کئی حوالوں سے تنبیہات فرمائیں، خصوصا بیت المال کےحوالہ سے بدعنوانیاں برتنے پر انہیں ٹوکا، لیکن اپنے ان خطوط میں انہوں نے ان کی علمی وفنی سرگرمیوں پر کوئی ایک بھی تنقیدی کلمہ نہیں کہا۔  اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غزالی کو  علمی وفنی ترقی کا دشمن گرداننا ان پر کتنا بڑا اتہام ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انہیں اس پر کوئی اعتراض ہوتا تو جب وہ اپنے مکاتیب میں ان پر نکیر کی ہمت کر ہی رہے تھے تو اس حوالہ سے ان کا قلم اور ان کے لب خاموش کیوں رہتے؟
تاہم جیساکہ ہم نے لکھا، مملکت کا محض تعلیمی وصنعتی سرگرمیوں سے آباد ہونا اس کی وجاہت اور استحکام کی ضمانت نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے بعض اور لوازمات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ سلجوقی حکم رانوں میں اپنی تمام تر علم پروریوں کے باوجود جب ان لوازمات کی کمی آئی تو ریاست غیر مستحکم ہوئی۔ غزالی کے دور میں اندلس کی طرح مشرق میں بھی اسلامی دنیاکی سرحدوں پر صلیبی حملہ آور تھے۔ ان کی زندگی میں بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ ہوچکا تھا۔  تاہم اس حوالہ سےمحض چند جذباتی کلمات لکھ دینے کی بجائے انہوں نے اپنے منصب کے مطابق نہایت حکیمانہ انداز میں مسلم معاشرہ کے داخلی امراض کی تشخیص وعلاج میں اپنی زندگی صرف کی اور اس حوالہ سے خود کو ایک دیرپا علاج کے لیے وقف کیا۔ وہ غالبا مشرق میں کسی ایسی پرجلال شخصیت کو نہیں دیکھ رہے تھے جو اس وقت صحیح معنوں میں  صلیبیوں کے مد مقابل آسکتی۔ مسلم معاشرہ میں اس وقت  وہ دینی روح نہایت کم زور ہوچکی تھی جو مسلمانوں کو  یک سوئی کے ساتھ صلیبیوں کے مقابلہ کے لیے کھڑا کرتی۔  عالمِ اسلام کے ایک بڑے حصہ پر باطنیوں کی خود مختار حکومت قائم تھی اور وہ اپنے بارہ میں کئی سو سال سے مستقل خلافت کے دعوے دار تھے جس کا مرکز مصر تھا۔  بغداد کی عباسی خلافت برائے نام باقی رہ گئی تھی اور در اصل وہ محکومی کے دور سے گذر رہی تھی۔ سلجوقیوں کی طاقت اور حکومت  ملک شاہ کے تین بیٹوں محمد، محمود اور برکیارق (سنجر اسی کا نائب تھا) میں منقسم ہوچکی تھی، خانہ جنگی کی وجہ سے  کئی علاقے خود ان کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے۔  ملک شاہ کے وزیر نظام الملک اور اس کے بیٹے فخر الملک نے جو تعلیمی نظام مملکت کے اطراف میں قائم کر رکھا تھا، اس میں روحانیت سے زیادہ مادیت کا غلبہ تھا، علم کا حصول عہدہ، عزت اور دولت کے لیے ہوتا تھا، اخلاص کی روح نہایت کم زور تھی۔ غزالی نے اسی خلاء سے اثر لے کر اس نظام سے کنارہ کشی اختیار کی تھی۔ جبکہ فلسفہ کے نام پر منحرف معقولی جو ظلمتیں پھیلارہے تھے، وہ ان سب پر مستزاد تھیں۔
غزالی کو خدا نے ایک سیال اور مؤثر قلم عطا کیا تھا۔  اپنی اصلاح کے لیے مجاہدے کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسلم معاشرہ کی اصلاح کے لیے نہایت وقیع اور عمدہ  تصنیفات تیار کیں، جن سے ایک بڑی مخلوق نے استفادہ کیا۔ وہ باوجود متکلم اور صوفی ہونے کے خود اہلِ تصوف اور اہلِ کلام پر نہایت ماہرانہ تنقید کرتے ہیں، ان کی وفاداری کا تمام تر محور دینِ اسلام ہے، وہ سلاطین پر تنقید کرتے ہیں، علماء کو فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے اکساتے ہیں، علم اور عمل کے حوالہ سے اہلِ اسلام کی حسیات کو بے دار کرتے ہیں، انہیں اللہ کے رنگ میں پھر سے نہا جانے کی دعوت دیتے ہیں، فلسفہ اور باطنیت پر نہایت نکتہ رس تنقیدات کرتے ہیں۔ ان کے اخلاص اور قلم کی برکت سے ایک بڑی مخلوق کو فائدہ ہوا۔ ان کی تنقید سے فلسفہ کا وہ دبستان جو کندی سے شروع ہوکر بنِ رشد اندلسی پر ختم ہوتا ہے اور جس کا مقصد دینِ اسلام کو فلسفہ کے چوکھٹے میں فٹ کرنا تھا، مشرق میں ایسا نیم جان ہوا کہ پھر سر نہ اٹھا سکا۔
نیز انہوں نے نظامی مدارس کے بالمقابل اپنے گھر کے ساتھ ایک خود انحصار خانقاہ اور مدرسہ کی بنیاد رکھی جس میں وہ کم زوریاں نہیں تھیں جو انہیں مملکت کے عمومی مدارس کی فضا میں محسوس ہوئی تھیں۔ محققین کے ایک طبقہ کے بقول یہ ایک مثال تھی جو غزالی نے قائم کی تھی، اس سے علم وعمل کے چراغ جلنا شروع ہوئے اور اصلاحی مدارس کی ایک نئی طرح قائم ہوئی۔ بقول ان محققین کے کچھ عرصہ بعد صلیبیوں کے سیلاب کے بالمقابل اتابک عماد الدین زنگی، نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کی جو نسل تیار ہوئی اورجس کے ذریعہ سے بیت المقدس کی کی بازیافت ہوئی، وہ غزالی جیسے بزرگوں کی اصلاحی مساعی کا نتیجہ تھی۔ اس سلسلہ میں دکتور ماجد عرسان الکیلانی کی کتاب "ھکذا ظہر جیل صلاح الدین وھکذا عادت القدس" مذکورہ موضوع کا متخصصانہ احاطہ کرتی ہے اور یہ بعض لوگوں کے اس سوال کا جواب ہے کہ مشرقی اسلامی دنیا جو غزالی کے زمانہ میں صلیبی حملوں کی زد میں تھی، غزالی نے اپنی کتابوں میں اس پہ کوئی تبصرہ کیوں نہیں کیا یا اس کے خلاف عملا جہاد میں حصہ کیوں نہیں لیا؟ ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگر مشرق میں بھی اس وقت یوسف بن تاشفین جیسا کوئی ذی حشمت اور طاقت ور آدمی دستیاب ہوتا تو غزالی ضرور اس کی پشت پناہی کرتے، غالباً‌ ایسا کوئی آدمی سامنے نہ ہونے کی وجہ سے ہی غزالی کی نباضی اور حکیمانہ تشخیص نے انہیں وہ اصلاحی منہج اختیار کرنے پر اکسایا جس کے نتیجہ میں چند سال بعد زنگی اور ایوبی کی نسل منظر پر آئی۔ (۸)
بعض عرب محققین کی طرح ہمارا بھی خیال ہے کہ مذکورہ کتاب میں صلاح الدین کے ظہور کا جوڑ جس طرح کلی طور پر غزالی کی اصلاحی مساعی سے قائم کیا گیا ہے، اس میں کچھ مبالغہ محسوس ہوتا ہے، لیکن اس میں شک نہیں کہ زنگی اور ایوبی صوفیاء کے قدردان تھے اور اس حوالہ سے تاریخ میں ایک سے زیادہ ثبوت موجود ہیں، لہذا اگر ان صف شکن مجاہدین کی تشکیل میں دکتور ماجد عرسان کیلانی کے بقول امام غزالی اور شیخ عبد القادر جیلانی رحمہما اللہ جیسے اس دور کے چوٹی کے صوفیاء کی برکات شامل رہی ہوں تو اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ امام غزالی اور شیخ جیلانی جیسے بزرگوں نے جس زمانہ میں مسلم معاشرہ کے اندر رجوع الی اللہ کا صور پھونکا تھا، اس زمانہ میں واقعی امت کو اس صور کی ضرورت تھی اور اسی وجہ سے ان دونوں بزرگوں کی اصلاحی مساعی امت کی تاریخ دعوت وعزیمت کا ایک عظیم باب سمجھی جاتی ہیں۔ نیز غزالی کے ظہور کے کچھ ہی عرصہ بعد زنگی اور ایوبی مجاہدین نے جس طرح مصر میں باطنیوں کی تقریبا تین سو سال سے قائم حکومت کا خاتمہ کیا تھا، وہ مسلم معاشرہ کے اس حوالہ سے تحرک اور بے داری کا پتہ دیتا ہے جس کا ایک بڑا سبب اس دور میں غزالی کی طرف سے باطنیوں پر کی گئی علمی تنقید رہی ہو تو اس میں بھی ہرگز کوئی عجیب بات نہیں۔ لہذا زنگی اور ایوبی جیسے مجاہدین کی تشکیل میں غزالی کا اگر براہِ راست کوئی کردار نہ بھی رہا ہو تو بالواسطہ اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔  
اگر عملی میدان میں بھی دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ غزالی کی نظر اس زمانہ میں مغرب کے یوسف بن تاشفین پر تھی اور اس سے انہیں نیک توقعات تھیں۔ ابنِ خلکان اور سبکی کی روایت کےمطابق انہوں نے اسکندریہ سےبراستہ سمندر بذاتِ خود اس کی طرف جانے کے لیے تیاری بھی کر رکھی تھی، مگر ابھی وہ اسکندریہ کے اندر ہی تھے کہ انہیں ابنِ تاشفین کی وفات کی خبر پہنچی جس کی وجہ سے انہوں نے جانے کا ارادہ موقوف کردیا۔ (۹) روایات کے مطابق ابنِ تاشفین نے 500ھ میں وفات پائی۔ یوں جب اندلس سے ان کی وفات کی خبر اسکندریہ میں غزالی کے پاس پہنچی تو یقینا یہ بھی 500ھ یا 501ھ کا سال ہوگا۔ بیت المقدس پر صلیببیوں کا قبضہ تقریبا 492ھ میں ہوا تھا اور یہ وہی سال ہے جب غزالی کی طرف سے ان کے شاگرد ابوبکر ابن العربی یوسف بن تاشفین کے نام ان کا خط لے کر جارہے تھےجس میں انہیں اندلس کو ایک یک سو حکومت پر جمع کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ اس وقت ممکن نہ تھا کہ ابنِ تاشفین کو مشرق آکر یہاں کے حالات سنبھالنے کی دعوت دی جاتی۔ 
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 500ھ کے پس وپیش زمانہ تک جب اندلس اور مغرب میں ابنِ تاشفین کے استحکام کی خبر غزالی کو پہنچی ہوگی تو یقنا مشرق میں ان کی قوت سے استفادہ کی غرض سے ہی وہ خود ان کے پاس بنفسِ نفیس چل کر جانے کا ارادہ رکھتے ہوں گے، مگر ابنِ تاشفین کو اجل نے آلیا اور یہ ارادہ پورا نہ ہوسکا۔یوں غزالی نے نہ صرف مشرق میں صلیبی حملوں کے زمانہ میں مسلمانوں کی عمومی اصلاح کے گراں قدر خدمات انجام دیں، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ 500ھ کے پس وپیش زمانہ میں ابنِ تاشفین کے پاس جانے کا ان کا ارادہ مشرق کے حکم رانوں سے کسی ہنگامی درست اقدام کی توقع نہ ہونے کی بناء پر  اور ابنِ تاشفین کو عملی جہاد کے لیے تیار کرنے کی غرض سے ہی ہوگا جو ابنِ تاشفین کے پاس نہ پہنچ پانے کی وجہ سے پورا نہ ہوپایا اور اس ارادہ کے تفصیلی نقوش بھی تاریخ میں مذکور ہونے رہ گئے۔

آخری بات

ہمارا مقصود یہاں قاری کو محض غزالی کی شخصیت کی طرف دعوت دینا نہیں ہے۔ اس قضیہ کے اندر ہماری دعوت اور ہمارا موقف دراصل یہ ہے کہ امت کا ماضی، حال اور مستقبل اسلام کے ساتھ وابستہ ہے، نہ کہ دینی انحرافات کے ساتھ۔ انہیں  اگر پھر سے اپنی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھنا ہےتو اس کے لیے انہیں اسلام کے ساتھ اپنے رشتہ کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا چاہئے اور اپنے پیکر کو اسلامی پیکر بنانا چاہئے۔دینی انحراف میں کامیابی کا کوئی راستہ نہیں۔ ہماری اصل تنقید دینی انحراف پر ہے، نہ کہ علم دوستی اورکتاب پروری کے رویہ پر۔ بلکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ اپنے دفاع کے حوالہ سے چوکنا رہنا  اور ضروری لوازمات کا انتظام کرنا تو خود ان کے دینی فرائض میں شامل ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو دنیا میں جو کچھ بھی عزت ملی تھی، وہ انہیں اپنے دین کے ساتھ عہدِ وفا نباہنے کی وجہ سے ملی تھی۔ وہ اسلام کے داعی تھے، قرآن ان کا دعوی اور قرآن ہی ان کی دلیل تھا، ان کے دلوں میں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کےلیے مرعوبیت وعقیدت کے ایسے جذبات تھے کہ ان کے لعابِ دہن کو اپنے چہروں پر ملنا وہ سعادت سمجھتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ اپنے انہی صفاتی خدوخال اور اسی ایمانی پیکر کے ساتھ دنیا میں بلند ہوئے تھے۔  روم وفارس اور یونان کے فلسفے، ان کی بھری ہوئی لائبریریاں اور ان کا علمی رعب ودبدبہ مدینہ کے خاک نشین مسلمانوں کے سامنے شکست کھا گیا تھا اور روم وفارس صرف سیاسی طور پر ہی ان کے ہاتھوںمغلوب نہ ہوئے تھے، بلکہ علمی، تہذیبی اور مذہبی اعتبار سے بھی وہ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے تھے۔ یہ ان کے فلسفوں کی، ان کے مذہب کی اور ان کے تہذیب وتمدن کی شکست تھی۔   حق یہ تھا کہ مسلمان سلاطین اپنے اس شان دار ماضی سےرشتہ نباہتے، جن آباء کے ہاتھوں یہ فتوحات حاصل ہوئی تھیں، ان آباء کے اسوہ کو سامنے رکھتے اور ان مفتوحہ علاقوں کے حوالہ سے ان کا جو اسوہ تھا، اسے اپنے لیے آئین ودستور کی حیثیت سے پیشِ نظر رکھتے۔ مگر ان سلاطین کی سرگرمیوں کے حوالہ سے مسلمانوں کے روایتی علمی ورثہ کا شروع سے عدمِ تحسین کا رویہ ہی اس بات کی کافی وافی شہادت ہے کہ یہ سرگرمیاں اسلامی آداب اور تقاضوں کی رعایت کے حوالہ سے کس سطح کی تھیں۔
ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ مفید انسانی علوم سے اسلام کو ، اہلِ اسلام کو اور علماءِ اسلام کو کبھی کوئی پرخاش نہیں رہی اور نہ ہی ان سے استفادہ کرنا کسی بھی درجہ میں ان کے ہاں کوئی قابلِ اشکال چیز تھا۔ عہدِ ملوکیت  میں علمی وعقلی سرگرمیوں کے نام پر جو کچھ ہوا، اگر وہ بھی اسی دائرہ میں رہتا یا زیادہ سے زیادہ کچھ مباح تفریحی مشاغل کی حد تک ہوتا تو حرج نہ تھا اور نہ ہی کسی کو اس پر اعتراض ہونا تھا، ہوا یہ کہ یہاں پر حلال وحرام کی تمیز تک مٹا دی گئی، انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے  مسلمانوں کو لغویات میں لگا دیا گیا، ان کے آپس کے درمیان اختلافات پھوٹ پڑے، نئے نئے فتنے اور فرقے وجود میں آئے اور اسلام کے مقتدایان کی تمام تر دہائیوں کے باوجود یہ سلسلہ پادشاہانِ اسلام کی سرپرستی میں روز افزوں رہا اور  خود اختلاف کرنے والے علماء کو بھی زبردستی ان معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظاہر ہے کہ اِس ساری صورتِ حال کو کوئی بھی واقفِ حال مسلمان نہ تو ماضی میں اور نہ ہی آج، بنظرِ تحسین دیکھ سکتا ہے۔
اسلامی اندلس جسے اموی خلافت کے سقوط کے بعد ہی اپنے وجود اور بقاء کے لالے پڑ گئے تھے اور طوائف الملوکی سے فائدہ اٹھاکر صلیبی اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے لپیٹتے جارہے تھے، پہلے مرابطین اور پھر موحدین کی حکومت کی وجہ سے اس کو سہارا ملا اورتقریبا تین سو سال تک یہ علاقہ مسلمانوں کے پاس باقی رہا۔ جبکہ موحدین کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ایک بار پھر سابقہ کیفیت پیدا ہوئی، اسلامی اندلس کی حدود سمٹتی چلی گئیں  اور بالآخر کہانی اندلس کے مکمل سقوط پر ختم ہوئی۔آپ جان چکے ہیں کہ تقریبا ساڑھے تین سوسال کا وہ سہارا جو اسلامی اندلس کو ملا ، اس میں غزالی کا کس قدر کلیدی حصہ شامل تھا۔ نیز خود مشرق میں دینی روح کی کم زوری کی وجہ سے اسلامی سرحدات پر جس طرح صلیبی حملہ آور تھے، اس کے تدارک کے لیے غزالی جیسے بزرگوں نے اسلامی بے داری کا جو صور پھونکا، اس کے کتنے خاطر خواہ نتائج نکلے۔ 

حواشی
۱۔ الغزالی، علامہ شبلی نعمانی، صفحہ 225، ط: اسلامی کتب خانہ لاہور
 ۲۔ تاریخ دعوت وعزیمت، جلد اول، صفحہ 191 – 193۔ ط: ۔ مجلس نشریاتِ اسلام، کراچی
۳۔  تفصیل کے لیے دیکھئے: قصۃ الاندلس، راغب السرجانی، صفحہ 537، 538۔
۴۔  دیکھئے: قصۃ الاندلس، راغب السرجانی، ص:581،
۵۔ مسلم سائنس، سید قاسم محمود، صفحہ 118، 119۔ ط: الفیصل لاہور
۶۔ مسلم سائنس، سید قاسم محمود، صفحہ 118، 119۔ ط: الفیصل لاہور
۷۔ مسلم سائنس، سید قاسم محمود، صفحہ 118، 119،
۸۔  مسلم سائنس، سید قاسم محمود، صفحہ 100،
۹۔  تفصیل کے لیے دیکھئے: ھکذا ظھر جیل صلاح الدین، دکتور ماجد عرسان الکیلانی، الباب الثالث، الفصل العاشر: دور مدرسۃ ابی حامد الغزالی فی الاصلاح والتجدید، ط: المعہد العالمی للفکر الاسلامی

مولانا مفتی تقی عثمانی کی “اسلام اینڈ پالیٹکس’’ کی تقریب رونمائی

عظیم الرحمن عثمانی

۱۷۔ اپریل ۲۰۱۸ء کو 'سو ایس یونیورسٹی آف لندن' میں ایک پروقار علمی نشست کا اہتمام ہوا جو اپنی حقیقت میں دو انگریزی کتابوں کی تقریب رونمائی تھی۔ پہلی کتاب اردن کے شہزادے اور پی ایچ ڈی اسکالر پرنس غازی بن محمد کی تصنیف تھی جو تدبر قرآن سے متعلق ہے اور دوسری کتاب "اسلام اینڈ پولیٹکس" (اسلام اور سیاست) محترم مفتی محمد تقی عثمانی کی تحریر کردہ تھی جو اسلام کے سیاسی نظام اور اس کے نفاذ کی بات کرتی ہے۔ یہ تقریب بہترین نظم کے ساتھ ایک خوبصورت یونیورسٹی کے کشادہ آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ سامعین میں غیر مسلم طالب علم بھی اچھی تعداد میں موجود تھے۔ 
کئی مراحل سے گزر کر مائیک مفتی تقی عثمانی صاحب کی جانب آیا اور انہوں نے بلیغ انداز میں اپنی کتاب کو بیان کیا۔ مفتی صاحب کی گفتگو کا مختصر خلاصہ حسب ذیل ہے:
سب سے پہلے انہوں نے بیان کیا کہ آج کس طرح ساری دنیا پر سیکولرزم کا غلبہ ہے۔ انہوں نے سیکولرزم کو تھیوکریسی کا ردعمل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ تھیوکریسی اپنی اصل میں غلط نہیں مگر اس کی عملی شکل جو دنیا کو دکھائی گئی، وہ غلط تھی۔ عیسائیت سمیت دیگر غیر اسلامی مذاہب میں سیاست کے لیے اسلام کی طرح واضح احکامات نہیں موجود ہیں، لہذا ان مذاہب نے خدا کی حکومت یعنی تھیوروکریسی کے نام پر مذہبی رہنماوں کی حکومت قائم کردی جنہوں نے حرام کو حلال بناکر اپنی طاقت قائم رکھنا چاہی۔ اس مسلسل ظلم سے بددل ہوکر مغربی عوام نے تھیوکریسی کا تختہ الٹا اور سیکولرزم کو مقابل پیش کیا جس کے تحت الہامی ہدایات کا ملکی قوانین سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اسلام اس نظریے کو مسترد کرتا ہے اور یہ اصول دیتا ہے کہ زمین اللہ کی ہے تو اس پر قانون بھی اللہ ہی کا نافذ ہوگا۔ مسلمانوں میں وہی شخص حکمران ہوسکتا ہے جو اس اصول کو تسلیم کرتا ہو۔ خلافت راشدہ اور اس کے بعد بھی کچھ صالح خلفاء کی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کتاب و سنت کا بہترین حکومتی اطلاق کرکے دکھایا۔ افسوس کہ مسلمانوں میں بھی بہت سے خلیفہ ایسے گزرے جنہوں نے اس نفاز میں ذاتی مفاد کو محبوب رکھا۔ خلیفہ کو خلیفہ کہتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ اپنی مرضی نہیں چلاتا بلکہ وہ 'سب آرڈینیٹ'ہوتا ہے، 'وائسرائے' ہوتا ہے جو پوری صلاحیت سے خدائی نظم کے نفاز کا قیام کرتا ہے۔ البتہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ آپ اسے خلیفہ کا ہی نام دیں۔ یہ آپ کی مرضی ہے کہ آج کے دور میں آپ اسے ملک کہیں، امیر کہیں یا پریذیڈینٹ۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ مغالطہ ہے کہ خلیفہ ایک ڈکٹیٹر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس خلیفہ قرانی اصول شوری بینھم یعنی مشورے کو اپناتا ہے۔
آج کے مسلمانوں نے اس ضمن میں دو مختلف انتہائیں اختیار کی ہیں۔ پہلا گروہ ان ماڈرنسٹ اہل علم کا ہے جو مغربی جمہوریت اور سیکولرزم کے داعی بن بیٹھے ہیں۔ حالانکہ جمہوریت یعنی ڈیموکریسی دراصل عوام کی حاکمیت کا نام ہے جو اس اصول کی نفی ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہوگی۔ اسلام میں قانون سازی کیلئے یا خلیفہ منتخب کرنے کیلئے صرف ووٹوں کا زیادہ ہونا کافی نہیں ہیں بلکہ ساتھ ہی کئی اور شرائط ہیں جن کا اس شخص میں موجود ہونا لازم ہے جو خلیفہ بنایا جائے گا۔ مسلمانوں میں دوسری انتہا ان گروہوں نے اپنائی ہے جو فقط خلافت ہی کے قیام و کوشش کو دین کا واحد مقصد سمجھ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ جس طرح تجارت کے قوانین و ہدایات اسلام کا حصہ ہیں ویسے ہی حکومت چلانے کے قوانین و احکامات بھی اسلام میں شامل ہیں۔ کسی ایک حصے کو پورا مدعا بنالینا درست نہیں۔ اس گروہ میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو اسی غلو کے تحت حج کو بھی عبادت کی بجائے ایک انٹرنیشنل میٹنگ برائے خلافت کہتے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے بہت سے انبیاء خلافت نہیں قائم کرپائے تو کیا وہ ناکام رہے؟ جواب میں وہ معاذ اللہ کہتے ہیں کہ وہ دین کے بنیادی مقصد کو قائم کرنے میں ناکام ہوئے۔ یہ دوسری انتہا ہے۔ انہوں نے سیاست کو اسلامی کرنے کی چاہ میں اسلام کو سیاسی بناڈالا۔ حدیث کے مطابق کوئی مسلمان خلیفہ بننے کی تگ و دو نہیں کرتا یا اس کی لالچ نہیں رکھتا جیسا کہ آج اس کے برعکس سیاسی رہنما کرسی کے لیے تحریکیں چلاتے ہیں۔ دور خلافت میں کچھ اہل دانش کا انتخاب ہوا کرتا تھا جو مل کر کسی اہل شخص کو حکومتی نظم کے لیے بطور خلیفہ نامزد یا مقرر کرتے تھے۔ آج کے دور میں ایسی مجلس کا قیام ممکن نہیں رہا۔ اپنی اس کتاب میں مفتی عثمانی صاحب نے اس کا حل پیش کیا ہے۔
انہوں نے خلافت سے متعلق غلط فہمیوں کا بھی جواب دیا جیسے انہوں نے ثابت کیا کہ خلافت میں غیر مسلم کو برابر کے شہری حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔ جزیہ ایک ٹیکس ہے جو غیر مسلم دیتے ہیں۔ اس کے مقابل زکاۃ ہے جو صرف مسلم ادا کرتے ہیں۔ جزیہ کی شرح ہمیشہ زکاۃ سے کم رکھی گئی ہے، لہذا جزیہ کو ظلم سمجھنا بلکل غلط ہے۔ آج خلافت کے قیام پر آپ جزیہ کا کوئی اور نام رکھ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ اسی طرح یہ بھی غلط فہمی ہے کہ خلافت غیر مسلم ممالک سے حالت جنگ میں رہتی ہے۔ انہوں نے مثالیں دے کر یہ واضح کیا کہ کس طرح خلافت دیگر ممالک سے عمومی طور پر امن معاہدہ کرکے رکھتی ہے۔ 
(نوٹ: تحریر راقم کی اپنی سمجھ اور یادداشت پر مبنی ہے، لہذا اس میں کمی بیشی کا امکان ہے۔ تفصیل کے لیے اس پروگرام کی ریکارڈنگ سنی جا سکتی ہے جو انٹر نیٹ پر بآسانی دستیاب ہے)

جون ۲۰۱۸ء

قومی ریاست اور جہاد: کیا کوئی نیا فکری پیراڈائم ممکن ہے؟محمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۳)ڈاکٹر محی الدین غازی
جدید ریاست میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید ۔ بنیادی خدوخال اور طریق کار (۲)مولانا سمیع اللہ سعدی
دھتکارے ہوئے بھارتی مسلمانوں کی داستانِ کرب ۔ ایک اور پاکستان؟پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان
قرآن مجید میں تحریف کا جاہلانہ مطالبہحافظ عاکف سعید
مذہبی انتہا پسندی کے محرکاتمولانا غازی عبد الرحمن قاسمی
مغربی ممالک کے مسلمانوں کے مسائل اور ذمہ داریاںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاریؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۳)مولانا عبید اختر رحمانی
الشریعہ اکادمی کی سالانہ کارکردگی رپورٹمولانا مفتی محمد عثمان

قومی ریاست اور جہاد: کیا کوئی نیا فکری پیراڈائم ممکن ہے؟

محمد عمار خان ناصر

جدید قومی ریاست کے بارے میں ایک بہت بنیادی احساس جو روایتی مذہبی اذہان میں بہت شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے، یہ ہے کہ اس تصور کو قبول کرنا درحقیقت جہاد کی تنسیخ کو تسلیم کر لینے کے مترادف ہےجو اسلامی تصور حکومت واقتدار کا ایک جزو لا ینفک ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں مسلمان ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے، چند ضروری شرائط کے ساتھ، ارد گرد کے علاقوں میں قائم غیر مسلم حکومتوں کے خلاف جنگ کر کے یا تو ان کا خاتمہ کر دے اور ان علاقوں کو مسلمان ریاست کا حصہ بنا لے  یا کم سے کم انھیں اپنا تابع اور باج گزار بننے پر مجبور کر دے۔ قومی ریاست کے جدید تصور میں، ظاہر ہے، اس کی گنجائش نہیں، کیونکہ  اپنی جغرافیائی حدود میں سیاسی خود مختاری  کو ہر قومی ریاست کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے اور کسی ریاست کو  یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی بنیاد پر  دوسری ریاست کی جغرافیائی حدود یا  انتظام کار میں مداخلت کرے ۔ یوں جہاد اور قومی ریاست میں گویا تباین کی نسبت پائی جاتی ہے۔
تاہم مذہبی فکر کو اس عملی حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ موجودہ عہد میں  معاشروں کی بقا سر تا سر قومی ریاست کے تصور پر منحصر ہے، اس لیے جہاں یہ سوال اہم ہے کہ قومی ریاست میں جہاد کا امکان باقی رہتا ہے یا نہیں، وہاں یہ سوال بھی اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے  کہ اگر قومی ریاست کے تصور کو کالعدم کر دیا جائے تو بحالات موجودہ معاشروں کی نفس بقا کیسے ممکن ہوگی۔ یہ معلوم ہے کہ دور جدید میں نہ صرف استعمار (یعنی طاقت کے زور پر بالادست قوموں کے کمزور قوموں پر مسلط ہونے کے عمل) کا خاتمہ قومی ریاست کے تصور کے تحت ہی ممکن ہوا ہے، بلکہ طاقتور قوموں کے باہمی جنگ وجدال اور خوں ریزی کا سلسلہ بھی اسی اصول کو قبول کر لینے کی بدولت ہی رکا ہوا ہے۔ مزید براں،  طاقتور قوموں کے جوار میں قائم چھوٹے چھوٹے ممالک بھی اگر ایک سطح پر انفرادیت اور خود ارادی سے بہرہ ور اور اپنے زور آور پڑوسیوں کی  براہ راست چیرہ دستی سے محفوظ ہیں تو اس کے پیچھے بھی قومی ریاست کے احترام کا ہی اصول کار فرما ہے۔چنانچہ خدا نخواستہ آج اگر اس اصول کے حوالے سے بین الاقوامی اتفاق رائے ختم ہو جائے تو ایک نئی جنگ عظیم کا شروع ہو جانا  ہفتوں یا دنوں کی نہیں، بلکہ لمحوں کی بات ہے اور اس سارے فساد میں خاص طور پر کمزور اور پس ماندہ قومیں  جس تباہی سے دوچار ہوں گی، اس کا بس تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔
گویا فکر اسلامی کو ایک مخمصے کا سامنا ہے۔ اگر قومی ریاست کے تصور کو قبول نہیں کیا جاتا  تو خود اس معاشرے کا قیام اور بقا ممکن نہیں جس نے جہاد کی ذمہ داری انجام دینی ہے، اور اگر کیا جاتا ہے تو  مسلمان ریاست کی ایک بنیادی ذمہ داری یعنی جہاد سے دستبرداری کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ روایتی مذہبی فکر میں اس مخمصے کا عمومی طور پر قابل قبول حل یہ ہے کہ قومی ریاست کے تصورکو بادل نخواستہ اور بامر مجبوری ایک وقتی وعارضی  صورت حال کے طور پر تو قبول کیا جائے، اور جب تک یہ عملی رکاوٹ موجود ہو، اس وقت تک  جہاد پر عمل کو بھی  مجبوراً‌ معطل رکھا جائے، لیکن اسے کوئی مستقل اور معیاری اصول نہ مانا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی مسلمان حکومتیں اس پوزیشن میں آ جائیں کہ قومی ریاست کے تصور کو چیلنج کر سکیں تو وہ ایسا ہی کریں اور طاقت وحوصلہ کے بل بوتے پر اسلام کی سیاسی بالادستی غیر مسلم قوموں پر قائم کرنے کے لیے جہاد کا آغاز کر دیں۔ 
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ نقطہ نظر فقہ اسلامی کے ایک خاص فہم اور  تعبیر پر مبنی ہے جس سے مختلف نقطہ نظر بھی موجود ہے۔ اس متوازی نقطہ نظر کے مطابق فقہ اسلامی میں غیر مسلم حکومتوں کے اصولی جواز کو تسلیم کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ لازماً‌ جنگ جاری رکھنے کو مسلمان ریاست کا مقصد یا فریضہ قرار نہیں دیا گیا۔ تاہم سردست ہم اس دوسرے نقطہ نظر پر بات نہیں کر رہے جس کی نوعیت دراصل دور جدید کے تناظر میں  فقہی ذخیرے کی تعبیر نو کی ہے۔ یہاں ہماری گفتگو فقہ اسلامی کی روایتی اور کلاسیکی تعبیر کےتناظر میں ہےجس کی رو سے مسلمان اور غیر مسلم ریاستوں کے مابین اصل تعلق جنگ ہی کا ہے۔ اس زاویہ نظر سے جدید قومی ریاست، جہاد کی ذمہ داری کی ادائیگی میں ایک مانع کا درجہ رکھتی ہے اور، جیسا کہ واضح کیا گیا ، اسے ایک وقتی اور عارضی کیفیت کے طور پر ہی قبول کیا جا سکتا ہے۔ 
تاہم یہ ایک فقہی اور قانونی انداز کا حل ہے جو ایک محدود دائرے میں قابل فہم ہے، لیکن صورت حال کی اصل پیچیدگی  کو موضوع نہیں بناتا۔اس پیچیدگی کے تین چار پہلو بہت بنیادی ہیں۔ ایک تو وہی جس کا اوپر ذکر کیا گیا، یعنی یہ کہ طاقت کے غیر معمولی عدم توازن کی موجودہ صورت حال میں  قومی ریاست کے تصور کی نفی کا نتیجہ عملاً‌ کس کے حق میں نکلے گا؟
دوسرا یہ کہ جدید دور میں قومی ریاست کے اصول سے انحراف کا تعلق طاقت اور استطاعت کی فراہمی یا عدم فراہمی سے ثانوی ، جبکہ قانونی واخلاقی جواز سے بنیادی ہے۔ اس اصول پر دنیا کے اجتماعی اخلاقی ضمیر کا اجماع ہو چکا ہے اور کوئی طاقت ور سے طاقت ور حکومت بھی اس کی خلاف ورزی کرے تو اخلاقی اور قانونی طور پر اس کا جواز تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جب تک اجتماعی انسانی شعور میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اور، مثال کے طور پر، ماقبل جدید ادوار کے سیاسی تصورات کے مطابق دوبارہ طاقت کو حق حکومت کی جائز  بنیاد نہیں مان لیا جاتا، ایسا کوئی بھی اقدام اجتماعی انسانی ضمیر کی نظروں میں غیر اخلاقی اور غیر قانونی رہے گا۔ یہ صورت حال دور قدیم سے جوہری طور پر مختلف ہے جب سلطنتوں اور ریاستوں کے لیے توسیع حدود کو  ایک جائز سیاسی حق تصور کیا جاتا تھا اور  تسلط کے بالفعل قائم ہو جانے کے بعد  غالب طاقت کو  وہاں کا قانونی حاکم تسلیم کر لیا جاتا تھا۔ اس اصول کو بین الاقوامی عرف کی حیثیت حاصل تھی ، چنانچہ طاقت کے استعمال کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلنے کے بعد قانونی واخلاقی جواز کا سوال  مستقل طور پر  سر نہیں اٹھاتا رہتا تھا۔ 
اس پہلو کو یہ کہہ کر جھٹکا نہیں جا سکتا کہ مسلمان اپنے اقدامات کےلیے دنیا سے سند جواز حاصل کرنے کے پابند نہیں، ان کے لیے خدا کی شریعت کا حکم ہی کافی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ  یہاں مسئلہ صرف ابتداءا سند جواز کی فراہمی کا نہیں، بلکہ عالمی اخلاقی عرف کے تناظر میں جواز کی مستقل sustainability کا ہے اور اس کے بارے میں یہ فرض کرنا کہ شریعت کو  اس سے مطلقاً‌ کوئی غرض نہیں یا یہ کہ وہ مسلمانوں کو    عالمی رائے عامہ کے سامنے مستقلاً‌ ایک اخلاقی ملزم سمجھے جانے کے امتحان میں ڈالنا چاہتی ہے، انتہائی سادہ فکری کا نتیجہ ہوگا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ صرف سیاسی طاقت ہر سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔ طاقت کے استعمال کو اخلاقی جواز درکار ہوتا ہے اور اس جواز کی بنیادیں انسانی ضمیر کی سطح پر  مشترک ہونی چاہییں۔ اخلاقی جواز کے دائرے میں جزوی اور محدود سطح کے اختلافات، جن کا اثر وقتی اور عارضی ہو،  کی تلافی تو طاقت سے کی جا سکتی ہے، لیکن طاقت کے زور پر اخلاقی نوعیت کے سوالات کو مستقلاً‌ ایڈریس نہیں کیا جا سکتا۔ 
تیسرا انتہائی اہم پہلو وہ تبدیلیاں ہیں جو دور جدید میں جنگ کی نوعیت اور اس کی تباہ کاری کی صلاحیت میں رونما ہو چکی ہیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، آج کی جنگ صرف میدان جنگ تک محدود نہیں رہی اور  معیشت واقتصاد پر اس کے عمومی اثرات کے علاوہ جنگی ہتھیار بھی مقاتل اور غیر مقاتل کی تفریق سے عاجز ہیں، بلکہ بہت سے ہتھیار تو بنائے ہی اس مقصد سے گئے ہیں کہ تباہی کا دائرہ صرف مقاتلین تک محدود نہ رہے۔ جنگ سے پھیلنے والی تباہی کا نشانہ سب سے زیادہ عام لوگ بنتے ہیں جو جنگ کا فیصلہ کرنے یا جنگی عمل کی انجام دہی میں شریک بھی نہیں ہوتے۔ جنگ کے بارے میں کلاسیکی اسلامی قانون کا تصور یہ ہے کہ یہ حسن لغیرہ ہے، یعنی انسانی خون بہانا اگرچہ فی نفسہ ایک قبیح چیز ہے، لیکن چونکہ اس پر قیام امن اور دفع فساد کا مقصد موقوف ہے، اس لیے ایک ذریعے کے طور پر اس میں بالواسطہ اخلاقی حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ دور جدید میں جنگ کی تباہ کاری کی نوعیت بدل جانے کے تناظر میں مذکورہ تصور کی معنویت بھی  بدیہی طور پر برقرار نہیں رہی ، اس لیے کہ حسن وقبح کی بحث میں  تناسب کا سوال بنیادی ہوتا ہے۔ ایک قبیح چیز اسی وقت تک حسن لغیرہ ہو سکتی ہے جب تک اس سے پیدا ہونے والا ضرر، اس سے حاصل ہونے والے فائدے کے مقابلے میں  کم ہو اور متوقع فائدے کے حصول کا امکان بھی غالب ہو۔ دور جدید کی جنگ میں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں،  صورت حال بالکل برعکس ہے۔
ایک اور نہایت اہم سوال یہ ہے کہ جہاد کے ذریعے سے اسلامی ریاست کے رقبے کی توسیع کی پالیسی قدیم دور میں دار الاسلام اور دار الحرب کی جس تقسیم پر مبنی تھی، بذات خود وہ تقسیم جدید دور میں کتنی بامعنی رہ گئی ہے؟ جدید دور میں کم سے کم دو بنیادی تبدیلیوں نے اس معاملے کی نوعیت کو بالکل بدل دیا ہے: ایک، بڑے پیمانے پر  انتقال آبادی اور دوسرے، شہری حقوق کا جدید سیاسی تصور۔ قدیم دور میں دنیا کے مسلمان، بنیادی طور پر اسلامی سلطنتوں کے حدود میں مقیم ہوتے تھے اور غیر مسلم حکومتوں کے دائرہ اختیار میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد کا تناسب نہ ہونے کے برابر تھا۔  جدید دور میں صورت حال بالکل مختلف ہے اور مختلف عوامل کے تحت مسلمانوں کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اب غیر مسلم ریاستوں میں سکونت پذیر ہو چکا ہے۔ پھر یہ کہ بیشتر ممالک میں ان مسلمانوں کی حیثیت اجنبی یا  دوسرے درجے کے شہری کی نہیں، بلکہ انھیں مساوی مدنی وسیاسی حقوق سے بہرہ ور تسلیم کیا گیا ہے اور اس حیثیت سے انھیں اپنی تعداد اور معاشی صورت حال کے لحاظ سے ان ممالک کی پالیسیوں اور فیصلوں کی تشکیل میں شامل ہونے کا موقع بھی حاصل ہے۔ گویا غیر مسلم ممالک کے بارے میں یہ تصور کہ وہ اصولی طور پر غیر مسلموں کے ملک ہیں، اب اس طرح بامعنی نہیں رہا  جیسا کہ ماضی میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دور جدید کے فقہاء  نے ایسی مسلمان کمیونٹیز کے مسائل واحکام پر گفتگو کے لیے فقہ الاقلیات کے عنوان سے ایک مستقل باب وضع کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے، جبکہ کلاسیکی فقہ میں  اس موضوع پر چند منتشر جزئیات سے زیادہ کوئی راہ نمائی نہیں ملتی۔ 
صورت حال کی یہ تبدیلی قانون بین الممالک کے اساسی تصورات اور عملی ڈھانچے پر بھی براہ راست اثرات مرتب کرتی ہے اور بدیہی طور پر اس فریم ورک میں  جہاد کے کلاسیکی تصور کو، جس میں فرض کردہ صورت واقعہ بالکل مختلف تھی، رو بہ عمل نہیں کیا جا سکتا۔ 
یہ تمام پہلو ایک گہرے اور بنیادی نوعیت کے اجتہادی زاویہ نظر کا تقاضا کرتے ہیں اور فکر اسلامی کو اس حوالے سے سب سے اہم سوال یہ درپیش ہے کہ کیا حالات کے جبر اور اصول ضرورت کے علاوہ ان نئے سیاسی واخلاقی  تصورات کے ساتھ تعامل کا کوئی علمیاتی اور اخلاقی زاویہ بھی ہو سکتا ہےجس میں ان تصورات کی داخلی قدر وقیمت یا عملی افادیت  کو فیصلے کی بنیاد بنایا جا سکے؟اگر ایسا ممکن ہے تو کیا یہ تصور جہاد کی تنسیخ کے ہم معنی ہوگا یا اس کی کوئی ایسی تعبیر  بھی کی جا سکتی ہے جو شریعت کی آفاقیت اور جامعیت کے اسلامی عقیدے سے ہم آہنگ ہو؟ اتنا بہرحال واضح ہے کہ سوالات فلسفیانہ اور اصولی نوعیت کے ہیں۔ جزوی وفقہی نوعیت کا انداز نظر ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۲) انتصر کا ترجمہ

انتصر کے لغت میں دو مفہوم ملتے ہیں: ایک انتقام لینا، اور دوسرا ظالم کا مقابلہ کرنا۔

وانتَصَرَ منہ: انتَقَمَ (القاموس المحیط) وانتصر الرجل اذا امتنع من ظالمہ، قال الازھری: یکون الانتصار من الظالم الانتصاف والانتقام، وانتصر منہ: انتقم۔ والانتصار: الانتقام (لسان العرب) وانتَصَرَ منہ: انتقم۔ (الصحاح)

جدید لغت المعجم الوسیط میں اس کی اچھی تفصیل ملتی ہے کہ جب یہ فعل من کے ساتھ ہو تو انتقام لینا، علی کے ساتھ ہو تو غلبہ حاصل کرنا اور بغیر صلے کے عام معنی ظالم کا مقابلہ کرنا اور اس کے ظلم کو روکنا ہوتا ہے۔

انتصر: امتنع من ظالمہ وعَلی خَصمہ استظھر وَمِنہ انتقم۔ (المعجم الوسیط)

انتصر کا قرآن مجید میں تین طرح استعمال ملتاہے:
کچھ مقامات پر اہل ایمان کے خاص وصف کے طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ اس حوالے سے کہ ظلم وتعدی کے سلسلے میں ان کا رویہ کیا ہوتا ہے، ایسے مقام پر بدلہ لینا اور انتقام لینا مناسب نہیں لگتا، کیونکہ بدلہ لینااور انتقام لینا جائز تو ہے لیکن کوئی قابل تعریف وصف نہیں ہے، کہ اس کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا جائے، بلکہ ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا مناسب مفہوم لگتا ہے، اور یہ واقعی ایک قابل قدر وصف ہے جس سے ظلم کی روک تھام ممکن ہوتی ہے۔ مثالیں حسب ذیل ہیں:

(۱) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُونَ۔ وَجَزَاء سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ۔ وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ۔ إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُوْلَئِكَ لَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ (الشوری: 39 - 42)

”اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں، برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اُس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا، اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں اُن کو ملامت نہیں کی جا سکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے“۔(سید مودودی)
”اور وہ کہ جب انہیں بغاوت پہنچے بدلہ لیتے ہیں“۔(احمد رضا خان)
”اور جب ان پر ظلم (و زیادتی) ہو تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں “۔(محمدجوناگڑھی)

(۲) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ۔ (الشعراء: 227)

”مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور بکثرت اللہ کی یاد کی اور بدلہ لیا بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا اور اب جاننا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے“۔(احمد رضا خان)
”بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا، اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں“۔ (سید مودودی)
”مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور خدا کو بہت یاد کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لیا اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں“۔ (فتح محمدجالندھری)
”سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا، جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں“۔ (محمدجوناگڑھی)
انتصر کچھ مقامات پر اللہ کے عذاب کے مقابلہ میں مجرموں کے بارے میں مذکورہوا ہے، وہاں بھی بدلہ اور انتقام کا محل نہیں ہے، ظاہر ہے کہ اللہ کا عذاب درپیش ہوتو بدلہ لینے اور انتقام لینے کا کیا محل ہے، ویسے بھی کسی کے ذہن میں اللہ سے بدلہ اور انتقام لینے کی بات بھی نہیں آتی ہے، دراصل یہ مقابلہ کرنے اور اپنا بچاو خود کرنے کا محل ہے، کہ جب اللہ کا عذاب سامنے آئے گا تو اس وقت نہ دوسرے مجرموں کی مدد کرسکتے ہیں، اور نہ وہ مجرم خود اپنا بچاو کرکے اللہ کے عذاب کے سامنے ٹھہر سکتے ہیں۔اس کی مثالیں حسب ذیل ہیں:

(۱) یُرسَلُ عَلَیکُمَا شُوَاظ مِّن نَّارٍ وَنُحَاس فَلَا تَنتَصِرَان۔ (الرحمن: 35)

”(بھاگنے کی کوشش کرو گے تو) تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا جس کا تم مقابلہ نہ کر سکو گے“۔(سید مودودی)
”تم پر چھوڑی جائے گی بے دھویں کی آگ کی لپٹ اور بے لپٹ کا کالا دھواں تو پھر بدلہ نہ لے سکو گے“۔ (احمد رضا خان)
”تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا تو پھر تم مقابلہ نہ کرسکو گے“۔ (فتح محمدجالندھری)
”تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم مقابلہ نہ کر سکو گے“۔ (محمدجوناگڑھی)

(۲) وَقِیلَ لَھم اَینَ مَا کُنتُم تَعبُدُونَ۔ مِن دُونِ اللَّہِ ھَل یَنصُرُونَکُم اَو یَنتَصِرُون۔ (الشعراء: 92، 93)

”اور ان سے پوچھا جائے گا کہ ''اب کہاں ہیں وہ جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کیا کرتے تھے؟کیا وہ تمہاری کچھ مدد کر رہے ہیں یا خود اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں؟“۔(سید مودودی)
”اللہ کے سوا، کیا وہ تمہاری مدد کریں گے یا بدلہ لیں گے“۔(احمد رضا خان)
”یعنی جن کو خدا کے سوا (پوجتے تھے) کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا خود بدلہ لے سکتے ہیں “۔(فتح محمدجالندھری)
”جو اللہ تعالیٰ کے سوا تھے، کیاوہ تمہاری مدد کرتے ہیں؟ یا کوئی بدلہ لے سکتے ہیں“۔(محمدجوناگڑھی)

(۳) اَم یَقُولُونَ نَحنُ جَمِیع مُّنتَصِر۔ سَیُہزَمُ الجَمعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ۔ (القمر: 44، 45)

”یا یہ کہتے ہیں کہ ہم غلبہ پانے والی جماعت ہیں عنقریب یہ جماعت شکست دی جائےگی اور پیٹھ دے کر بھاگے گی“۔(محمدجوناگڑھی)
”یا اِن لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ہم ایک مضبوط جتھا ہیں، اپنا بچاو  کر لیں گے؟“۔(سید مودودی)
”یا یہ کہتے ہیں کہ ہم سب مل کر بدلہ لے لیں گے“۔ (احمد رضا خان)
”کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت بڑی مضبوط ہے“۔ (فتح محمدجالندھری)

(۴) وَلَم تَکُن لَّہُ فِئَة یَنصُرُونَہُ مِن دُونِ اللَّہِ وَمَا کَانَ مُنتَصِرا۔ (الکہف: 43)

”اس کی حمایت میں کوئی جماعت نہ اٹھی کہ اللہ سے اس کا کوئی بچاو  کرتی اور نہ وہ خود ہی بدلہ لینے والا بن سکا“۔(محمدجوناگڑھی)
”نہ ہوا اللہ کو چھوڑ کر اس کے پاس کوئی جتھا کہ اس کی مدد کرتا، اور نہ کر سکا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ“۔ (سید مودودی)
”اور اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ کے سامنے اس کی مدد کرتی نہ وہ بدلہ لینے کے قابل تھا“۔(احمد رضا خان)
”(اس وقت) خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوئی اور نہ وہ بدلہ لے سکا“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۵) فَخَسَفنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الارضَ فَمَا کَانَ لَہُ مِن فِئَةٍ یَنصُرُونَہُ مِن دُونِ اللَّہِ وَمَا کَانَ مِنَ المُنتَصِرِینَ۔ (القصص: 81)

”(آخرکار) ہم نے اسے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئی نہ وہ خود اپنے بچانے والوں میں سے ہوسکا“۔ (محمدجوناگڑھی)
”(آخرکار) ہم نے اسے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئی نہ وہ خود اپنے بچانے والوں میں سے ہو سکا“۔(سید مودودی)
”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسایا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ سے بچانے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ بدلہ لے سکا“۔ (احمد رضا خان)
”پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی۔ اور نہ وہ بدلہ لے سکا“۔ (فتح محمدجالندھری)

(۶) فَمَا استَطَاعُوا مِن قِیَامٍ وَمَا کَانُوا مُنتَصِرِینَ۔ (الذاریات: 45)

”پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی۔ اور نہ وہ بدلہ لے سکا“۔(فتح محمدجالندھری)
”پس نہ تو وہ کھڑے ہو سکے اور نہ بدلہ لے سکے“۔ (محمدجوناگڑھی)
”تو وہ نہ کھڑے ہوسکے اور نہ وہ بدلہ لے سکتے تھے“۔(احمد رضا خان)
”پھر نہ اُن میں اٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچاو کر سکتے تھے“ ۔(سید مودودی)
انتصر بعض مقامات پر وہ اللہ کے لیے استعمال ہوا ہے، وہاں بدلہ لینے کا مفہوم بھی ہوسکتا ہے اور نمٹ لینے کا مفہوم بھی ہوسکتا ہے۔

(۱) وَلَو یَشَاءُ اللَّہُ لَانتَصَرَ مِنھُم۔ (محمد: 4)

”اللہ چاہتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا“۔(سید مودودی)
”اوراللہ چاہتا تو آپ ہی اُن سے بدلہ لیتا“۔ (احمد رضا خان)
”اور اگر خدا چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا“۔ (فتح محمدجالندھری)
”اور اللہ اگر چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا“۔ (محمدجوناگڑھی)

(۲) فَدَعَا رَبَّہُ اَنِّی مَغلُوب فَانتَصِر۔ (القمر: 10)

”پس اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بے بس ہوں تو میری مدد کر“۔ (محمدجوناگڑھی، اس ترجمے میں ایک تو ”میری“ زائد ہے، دوسرے انتصر کامطلب مدد کرنا نہیں ہوتا ہے۔)
”آخر کار اُس نے اپنے رب کو پکارا کہ ''میں مغلوب ہو چکا، اب تو اِن سے انتقام لے“۔ (سید مودودی)
”تو اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوں تو میرا بدلہ لے“۔ (احمد رضا خان)
”تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ (بار الٰہا) میں (ان کے مقابلے میں) کمزور ہوں تو (ان سے) بدلہ لے “۔ (فتح محمدجالندھری)
(جاری)

جدید ریاست میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید ۔ بنیادی خدوخال اور طریق کار (۲)

مولانا سمیع اللہ سعدی

بحث دوم : فقہ اسلامی  اور تشکیل جدید کا متقاضی حصہ 

فقہ اسلامی کی تشکیل جدید سے پہلے اس سوال کا جواب معلوم کرنا نہایت ضروری ہے کہ  فقہ اسلامی کے کس حصے کی تشکیل جدید وقت کی ضرورت ہے اور کس قسم کے مسائل   تجدید  کا تقاضا کرتے ہیں ؟تجدید کے بنیادی خدوخال طے کرنے سے پہلے اگر محل ِتجدید کا تعین نہیں ہوا تو قوی امکان  ہے کہ عمل تجدید تحریف یا تغییر میں تبدیل ہوجائے ۔اس نکتے پر بحث سے  کرنے سے پہلے فقہ اسلامی کے بنیادی شعبہ جات  اور فقہی مسائل  کی مختلف انواع کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ فقہ اسلامی اور معاصر قانون کے نامور ماہر ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب  رحمہ اللہ  نے فقہی موضوعات کو درجہ ذیل آٹھ قسموں میں تقسیم کیا ہے :
۱۔عبادات 
۲۔مناکحات 
۳۔معاملات
۴۔فقہ التعامل الاجتماعی (الحظروالاباحہ)
۵۔الاحکام السلطانیہ
۶۔ جنایات
۷۔ادب القاضی
۸۔ فقہ السیر1

فقہی مسائل کی انواع و اقسام 

کتب فقہ میں مذکور مسائل کی  استقرائی  طور درجہ ذیل انواع و اقسام ہیں :
۱۔ وہ مسائل جو منصوص ہیں اور قطعی و حتمی ہیں  ،یعنی اس کا مفہوم بھی واضح ہے اور اس کے معارض نصوص بھی نہیں ہیں ،جیسے بنیادی محرمات و محللات اسے ہم منصوص حتمی کا نام دیں گے ۔
۲۔ وہ مسائل جو منصوص تو ہیں ،لیکن مفہوم میں ایک سے زیادہ احتمالات ہونے کی وجہ سے یا معارض نصوص  کی وجہ سے ان میں مجتہدین کی مختلف آرا پائی جاتی ہیں  ،اسے منصوص غیر حتمی کہہ سکتے ہیں  ،نیز اسے مجتہد فیھا مسائل بھی کہتے ہیں ۔
۳۔وہ مسائل جو منصوص نہیں ہیں  ،بلکہ فقہا نے منصوص مسائل پر قیاس و استنباط  کے ذریعے  ان کا حکم  معلوم کیا ہے ،اسے آسانی کے لئے مسائل قیاسیہ کہیں گے ۔پھر مسائل قیاسیہ کی  آگے متعدد قسمیں ہیں :
الف۔ وہ مسائل  جن پر  چاروں  مکاتب  فقہیہ کا اتفاق ہے ،اسے مسائل قیاسیہ اجماعیہ کا نام دیں  گے۔
ب۔ وہ مسائل جن  پر مجتہدین اربعہ کا  تو اتفاق نہیں ہے ،لیکن ایک مذہب و مکتب میں وہ متفقہ ہیں ،اسے آسانی کے لئے مسائل قیاسیہ   اتفاقیہ کہہ سکتے ہیں 
ج۔ وہ مسائل جو ایک مسلک و مذہب میں بھی اختلافی ہیں ،اسے ہم مسائل قیاسیہ  خلافیہ کہیں گے ۔
د۔ وہ مسائل  جن کے حکم کی بنیادسدِ ذریعہ،عموم ِبلوی ، مصلحت یا عرف ہے ۔اسے ہم (تغلیبا)مسائل قیاسیہ  عرفیہ کہیں گے ۔
۴۔ وہ مسائل  جو قدیم فقہی ذخیرے میں مذکور نہیں ہیں ،بلکہ  نوازل و حوادث کے قبیل سے ہیں ۔
اس طرح سے مسائل فقہیہ کی درجہ ذیل انواع بنیں گی:
۱۔ منصوص حتمی 
۲۔منصوص غیر حتمی 
۳۔قیاسی 
۴۔ نوازل و حوادث
پھر قیاسی کی  درجہ ذیل چار قسمیں ہیں :
۱۔قیاسی اجماعی
۲۔قیاسی اتفاقی 
۳۔قیاسی خلافی 
۴۔قیاسی عرفی 
اب  فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے متقاضی حصے کے بنیادی خدوخال کچھ یوں بنتے ہیں :
۱۔ وہ مسائل جو نوازل و حوادث کے قبیل سے ہیں ،ان کا  فقہی اصولوں اور جزئیات کی روشنی میں حکم معلوم کرنا وقت کی سب بڑی ضرورت ہے اور فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے اہم تقاضا  ہے ۔ یہ ضرورت فقہ کے  تما م موضوعات و شعبہ جات میں ہے اور عبادات سے لے کر فقہ السیر تک نوازل و حوادث کا ڈھیر لگ گیا ہے ،جن کا فقہی حل   عصر حاضر کے نمایاں  چلینجز میں سے ہیں ۔
۲۔ وہ مسائل جو منصوص حتمی ہیں ،ان کو کسی صورت نہیں چھیڑا جائے گا ،ان میں تشکیل جدید دراصل تحریف و تغییر ہے ۔
۳۔وہ مسائل جو منصوص غیر حتمی ہیں ،ان میں حالات کے مطابق متعدد آرا میں انتخاب کیا جاسکتا ہے ، بشرطیکہ اس میں  فقہی طریقہ کار کی پوری پابندی ہو ،جو  کتب اصول میں افتا ءبمذہب الغیر یا  افتاء بقول المرجوح کے عنوان سے مذکور ہے ۔
۴۔مسائل اجماعیہ و اتفاقیہ  بھی منصوص حتمی کے قریب قریب ہیں ،اس لئے اس میں تبدیلی  کے لئے اجتہاد ِاجماعی درکار ہوگا ۔
۵۔مسائل قیاسیہ خلافیہ میں   حالات کے مطابق انتخاب  یا متعدد آرا کا جمع بھی تشکیلِ جدید کے زمرے میں آتا ہے ،معاصر سطح پر کاسموپولیٹن فقہ یا تلفیق بین المذاہب کی جو صدائیں بلند ہورہی ہیں ،اور اس کی موافقت و مخالفت میں بحث کا بازار گرم ہے 2، اس کا مصداق دراصل اسی قسم کے مسائل ہیں ۔
۶۔ مسائل قیاسیہ عرفیہ نوازل و حوادث کے بعد فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے بڑا تقاضا ہے ، معاصر سطح پر تشکیل جدید کی جو   آوازیں اٹھ رہی ہیں ،عمومی طور پر انہی دو اقسام کے مسائل مراد ہوتے ہیں، لہذا فقہ اسلامی کے ذخیرے میں جن مسائل کی بنیاد اس وقت کا عرف تھا ،یا  ان کا حکم سد ذریعہ یا کسی مصلحت کے طور پر  نکالا گیا تھا ، ان مسائل پر دوبارہ غور و فکر کر کے معاصر عرف کے مطابق اس کا نیا حکم معلوم کرنا چاہیے ، اسی طرح  مصلحت پر مبنی مسائل میں مصلحت  کی تبدیلی  کی صورت میں حکم تبدیل کرنا چاہئے یا سد ذریعہ والے احکامات میں ذرائع کی دوبارہ جانچ پڑتال کر کے  موجودہ حالات کے مطابق حکم نکالنا  چاہئے ۔

بحث سوم :تشکیل جدید کے بنیادی خدوخال اور اس کا  طریقہ کار

فقہ اسلامی کی تشکیل جدید  کن خطوط پر ہونی چاہئے ؟اس کے لئے کیا طریقہ کار اپنانا چاہیے اور تشکیل جدید کے بنیادی خدوخال کیا ہوں گے ؟یہ ایک طویل الذیل اور ذو ابعاد موضوع ہے ،    عمومی طور پر اس سے احکام فقہیہ کی تبدیلی  مراد ہوتی ہے ،حالانکہ تغییر و تبدیلی تشکیل جدید کا ایک جزو ہے جو بعض  مسائل میں   جاری ہوتی ہے  ،وہ بھی اصطلاحا تبدیلی کے زمرے میں نہیں آتا ،کیونکہ  عرف کے بدلنے ،مصلحت کی تبدیلی یا ذرائع  و علل کے تغییر سے  مسائل پر نیا حکم لگانا  فقہی اصطلاح میں تبدیلی نہیں کہلاتی ، درجہ ذیل میں تشکیل جدید کے چند مراحل بیان کئے جاتے ہیں :

۱۔تصنیف و تالیف میں تجدید 

فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے  اہم مرحلہ    فقہی کتب کے طرزِ تصنیف و تالیف میں تجدید ہے ،قدیم تراث بے پناہ اہمیت و مرکزیت رکھنے کے باوجود معاصر  اسلوب ِتصنیف سے ہم آہنگ نہیں ہے ،فقہی کتب کے طرز ِتالیف میں  درجہ ذیل تبدیلیاں  وقت کا تقاضا ہے :
۱۔قدیم فقہی تراث کا انداز جزئیات کے ضمن میں اصول و کلیات کی تفہیم ہے ،جبکہ معاصر ذہن    اصول و قواعد  کو جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے ،اس لئے جدید طرز کے مطابق ایسی کتب فقہیہ تصنیف ہونی چاہیں ،جن میں ابوابِ  فقہیہ  سے بحث اصولی انداز میں ہو ،اور ہر باب میں تعریفات ،تقاسیم ،انواع و اقسام مرتب انداز میں موجود ہو ،معاصر سطح پر معروف فقہیہ وہبہ الزحیلی کی الفقہ الاسلامی و ادلتہ  جدید منہج کی نمائندہ مثال ہے ۔
۲۔ قدیم تراث میں ابواب  و مسائل کی طے شدہ ترتیب ہے ،جو تقریباً‌ ہر فقہی کتاب میں یکساں  نظر آتی ہے ، جبکہ جدید ذہن فقہی تصورات کو بحیثیت مجموعی جاننے  کا  متمنی ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی باب سے ہو ، مثلاً‌ ضمان  کا فقہی تصور خواہ اس کا تعلق کتاب الغصب سے ہو ،لقطہ سے ہو ،کتاب البیوع سے ہو یادیگر ابواب فقہیہ سے،مال کا فقہی تصور ،فساد و بطلان کا فقہی تصور  وغیرہ ۔اس لئے ایسی کتب کی ضرورت ہے جو  فقہی  تصورات و نظریات پر مشتمل ہو اور اس مخصوص تصور کا پوری فقہ اسلامی  کی روشنی میں جائزہ لیا گیا اور اس کی وضاحت کی گئی ہو۔
۳۔قدیم  تراث میں عمومیت ہے  فقہ اسلامی کے جملہ ابواب  پر کتب فقہیہ مشتمل ہوتی ہیں ،جبکہ جدید دور تخصص و سپیشلائزیشن کا ہے ،اس لئے ہر باب پر تفصیلی کتب ہونی چاہیں ،اس پر اگرچہ کافی کام ہوا ہے، لیکن مزید بھی اس نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
۴۔قانون دان اور وکیل حضرات کے لئے فقہ اسلامی کی دفعہ وار تدوین و ترتیب وقت کا تقاضا ہے ،اس کی عمدہ مثال مجلہ الاحکام العدلیہ ہے ،نیز معاصر سطح پر مزید کام بھی ہوا ہے ،مزید بھی اس نہج پر کام فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا اہم مرحلہ ہے ۔
۵۔ مباحث فقہیہ  کو  الفبائی ترتیب پر  موسوعات و قوامیس کی صورت میں مرتب کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ عربی میں اس کی مثال الموسوعہ الفقہیہ جبکہ اردو میں  مولنا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی قاموس الفقہ اس کی بہترین مثالیں ہیں ،لیکن اس پر مزید تفصیلی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔معروف فقیہ جمال الدین عطیہ نے اپنی کتاب تجدید الفقہ الاسلامی میں ایک ضخیم  فقہی موسوعہ مرتب کرنے کے  کا تفصیلی نقشہ پیش کیا ہے3،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی یہ موضوع مزید کام کا متقاضی ہے ۔
۶۔قدیم تراث کی جدید طرز پر اشاعت بھی تشکیل جدید کا اہم تقاضا ہے ،یہ بات ایک حقیقت ہے کہ جدید اصول تحقیق و تدوین کے مطابق قدیم تراث کی اشاعت نے فقہ اسلامی سے استفادہ  بہت آسان بنا دیا ہے ،عالم عرب سے اگرچہ اہم مصادر فقہیہ محقق انداز میں چھپ چکی ہیں ،لیکن اب بھی دنیا بھر کے  مکتبات میں ہزاروں کتب  فقہیہ اشاعت کی منتظر ہیں ۔
۷۔نواز ل و حوادث  پر مشتمل فقہی کتب  کی تیاری تشکیل جدید کا اہم مرحلہ ہے ، اس پر عربی و اردو میں کچھ کام ہوا ہے ،لیکن وہ بالکل ابتدائی نوعیت کا کام ہے ،نیز وہ اکثر انفرادی کاوشیں ہیں ،جبکہ نواز ل کے فقہی حل کے لئے اجتماعی غور و فکر کی ضرورت ہے ۔
تصنیف و تالیف میں  تجدید کے چند اہم  پہلو بطور مثال کے ذکر کئے ،ورنہ تجدید کا یہ پہلو متنوع ابعاد کا حامل ہے  اور انفرادی کوششوں کی بجائے اجتماعی کاوشوں کا متقاضی ہے۔

۲۔ تعبیر و اصطلاح میں تجدید

فقہ اسلامی کی تجدید کا دوسرا اہم مرحلہ فقہی تعبیرات و اصطلاحات کو عصر حاضر کی قانونی مصطلحات ، مروج تعبیرات اور معاصر ذہن سے ہم آہنگ الفاظ کا جامہ پہنانا ہے ،اس کام کا مقصد جدید تعلیم یافتہ حضرات ، اور جدید قانونی نظا م و اصطلاحات کے ماہرین   کے لئے فقہ اسلامی  کو عام فہم بنانا ہے ،ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب رحمہ اللہ  محاضرات فقہ   کے ابتدائی تعارف میں  لکھتے ہیں :
"مزید برآں  کسی بھی علم وفن کی طرح   فقہ اور اصول فقہ کے کلیات کو بیان کرنے کا انداز اور اسلوب بھی ہرزمانے میں بدلتا رہتا ہے ،ایک زمانہ تھا مثلا ائمہ مجتہدین کا زمانہ ،جب ان کلیات کو خالص مذہبی عقائد اور تعلیمات کی زبان اور انداز میں بیان کیا جاتا تھا ۔چنانچہ امام شافعی اور امام محمد بن شیبانی اور ان جیسے دوسرے فقہا کی تحریروں میں شریعت کے کلیات بحث کرنے کا ایک خاص انداز پایا جاتا تھا ۔پھر جلد ہی ایک دور ایسا آیا جب فقہی اور اصولی مباحث منطق اور فلسفہ کے اسلوب میں بیان کیا جانے لگا ،اس اسلوب کا اعلی ترین نمونہ امام غزالی اور امام رازی کی تصنیفات میں نظر آتا ہے ،یہ اسلوب متقدمین  کے اسلوب سے بالکل مختلف ہے ،دور جدید میں مغرب کے تصورات اور مباحث نے فقہ اسلامی کے مباحث اور انداز گفتگو پر گہرا  اثر ڈالا ،آج عرب دنیا میں جو کتابیں لکھی جارہی ہیں ،ان میں خاصا بڑا حصہ ان کتابوں کا ہے جو مغربی قوانین کے اسلوب اور تصورات کے مطابق لکھی جارہی ہیں ،ان  حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو زبان میں بھی نئے اسلوب کے مطابق کتابیں   تیار کی جائیں تاکہ قانون دان حضرات اور وکالت پیشہ حضرات زادہ بہتر اور موثر انداز میں فقہ اسلامی کے موقف کو سمجھ سکیں4"

۳۔احکام کی نوعیت میں تجدید

فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے حساس مرحلہ احکام کی نوعیت میں تجدید ہے ،وہ فقہی احکام جو عرف ،مصلحت ،سد ذریعہ  ،عموم بلوی ،اور متنوع احوال و ظروف  پر مبنی ہیں ،ان میں آج کے حالات کے مطابق   اور موجودہ ظروف کے موافق حکم نکالنا موجودہ حالات کا  سب سے بڑا تقاضاہے ،لیکن اس عمل میں ماضی سے مکمل ربط اور حال کا کامل ادراک بیک وقت ہونا چاہئے  ،ورنہ تجدید تحریف میں بدل سکتی ہے ۔

۴۔ درس و تدریس میں تجدید 

درس و تدریس میں تجدید فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے ،نصاب اور طریقہ تدریس دونوں تجدید کے متقاضی ہیں ،اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قدیم طرز کے مدارس میں متاخرین کی کتب پر مکمل اعتماد ہے ،جن میں   احکام و اصول کی اصل روح سے زیادہ لفظی ابحاث پر زور ہے جبکہ جدید اداروں میں  تدریس کا سارا مواد جدید کتب ہیں  ،جن میں اکثر کتب  مرتب ہونے کے باوجود  اس فقہی عمق کی حامل نہیں ہیں ،جو فقہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے ،اس لئے درس و تدریس میں ہر فقہ کی   امہات الکتب کی طرف رجوع ہونا چاہئے ،نیز طریقہ تدریس میں بھی جدت وقت کا تقاضا ہے ،مناظرانہ و مباحثانہ طرز کی بجائے تقابلی جائزہ کو رواج دینا چاہئے  ۔

۵۔ شعبہ افتا ءمیں تجدید 

افتا ءفقہ اسلامی کے تطبیقی عمل کانام ہے ،جس کا ایک سرا کتاب اور دوسرا خارجی عمل ہے ،کتاب کے فہم میں خلل یا خارجی عمل کو سمجھنے میں نقص   سے   عمل فتوی  اپنی جاذبیت کھو بیٹھتا ہے ، اور وہ محض ایک موقف بن جاتا ہے ، جو جذبات ،میلانات  اور خواہشات و ترجیحات کے تابع ہوتا ہے ،بد قسمتی سے امت مسلمہ کے دور زوال میں عمل ِفتوی مناظرہ و مباحثہ کا مظہر بن گیا ہے ،  اس کے ساتھ جدت پسند حضرات اباحتِ کلی کے درپے ہیں ،جبکہ روایتی علما جمود پر عمل پیرا ہیں ،اس لئے شعبہ افتا میں  تجدیدی نوعیت کے کام وقت کی ضرورت ہیں ،منصب افتا ءکے لئے کڑی شرائط رکھنی چاہییں ،جس میں ایک طرف  تراث کا  گہرا مطالعہ شامل ہو اور دوسری طرف  موجودہ حالات و تغیرات کا مکمل احاطہ ہو ۔

۶۔طریقہ اجتہاد  میں تجدید 

اجتہاد کی تاریخ کا اگر تجزیہ کیا  جائے تو انفرادی اجتہاد کا غلبہ دکھائی دیتا ہے ،فقہ اسلامی کا اکثر حصہ انفراد ی کاوشوں کا نتیجہ ہے ،سوائے  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ  کے ،جنہوں نے اجتماعی اجتہاد کی ابتدائی شکل کی  داغ بیل ڈالی تھی ،فقہ اسلامی کو درپیش معاصر چلینجز  اجتماعی اجتہاد سے حل ہونگے ،اس لئے عملِ اجتہاد کو  فرد کی سرگرمی سے نکا ل کر اجتماعی سرگرمی بنانا چاہئے ،دور حاضر میں اجتماعی اجتہاد کے ادارے خوش آئند مستقبل کی نوید ہے ،مجمع الفقہ الاسلامی ،اسلامک فقہ اکیڈمی ،مجمع البحوث الاسلامیہ ،ھیئہ کبار العلما ،یورپی مجلس برائے افتا و تحقیق جیسے اداروں کی  منظور کردہ قرار دادیں طریقہ اجتہاد میں تجدید کی بہترین مثال ہے،اس کے علاوہ ریاستی سطح پر قوانین کو اسلامیانے کے لئے اجتماعی اجتہاد کے ادارے وقت کی ضرورت ہیں ،تاکہ اجتماعی اجتہاد سے کئے گئے فیصلے  قانونی حیثیت کے حامل ہو ں ،پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت اپیلٹ بینچ کو اس کی مثال میں پیش کر سکتے ہیں ۔
طریقہ اجتہاد میں تجدید کی دوسری سطح  مقاصدی اجتہاد کی وہ لہر ہے جو معاصر سطح پر اٹھی ہے ،مقاصدی اجتہاد وقت کی اہم ضرورت ہے اگر اسے  قواعد و ضوابط کا پابند کیا جائے ،اس سلسلے میں اہل علم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ افراط و تفریط سے ہٹ کر مقاصدی اجتہاد کے اصول ،حدود ،قیود اور طریقہ کار کو منضبط کریں ۔

۷۔امثلہ و جزئیات میں تجدید 

قدیم ذخیرہ  لاکھوں جزئیات و امثلہ سے عبارت ہے ،لیکن  اکثر جزئیات اس وقت کے تمدن اور  احوال  پر مبنی ہیں ،ان  قدیم جزئیات کا  طلبا کے ذہن پر غیر شعوری طور  پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ فقہ اسلامی کو  ایک زندہ جاوید فن کے طو ر پر نہیں دیکھتے  اور انہیں فقہ اسلامی قدیم  مقدسات کے قبیل  سے لگتی ہے ،دوسرا  نقصان یہ ہوتا ہے کہ قدیم جزئیات کے نواز ل پر  انطباق  کے لئے جس فقہی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ مفقود ہونے کی وجہ سے انطباق  کما حقہ نہیں ہوپاتا ،جس کی وجہ سے عمل  فتوی بھی  متاثر ہوتا ہے ،اس لئے فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا  اہم ترین مرحلہ ان جزئیات کو حال سے جوڑنا ہے تاکہ فقہ اسلامی میں رواں دواں زندگی کی جھلک محسوس ہو ،یہ نہایت مشکل اور تفصیلی کام ہے ،جو انفرادی سطح کی بجائے اجتماعی کوششوں کا متقاضی ہے۔
امثلہ کی تجدید کا دوسرا مرحلہ اصول فقہ میں  قواعد کی تفہیم کے لئے دی  گئی امثلہ میں تجدید ہے ،عمومی طور پر اصول فقہ کے ذخیرے میں چند مثالیں ہیں ،جو ہر اصولی کتاب کی زینت ہیں  ،اس سے اصول فقہ کا تطبیقی عمل شدید متاثر ہوا اور اصول فقہ ، فقہ اسلامی  کی رگوں میں دوڑتے خون کی بجائے   چند نظری قواعد پر مبنی علم کی صورت میں سامنے آیا ہے ،اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ کتب اصول میں  مروج  امثلہ میں کم و کیف دونوں اعتبار سے بہتری لائی جائے ۔

۸۔مکاتب فقہیہ کے تقابل و مقارنہ میں تجدید 

مکاتب فقہیہ کا تقابلی مطالعہ ہماری فقہی روایت کا حصہ رہا ہے ،ائمہ مجتہدین کے دور سے اس کی داغ بیل پڑ گئی تھی ،امام محمد کی الحجہ علی اہل المدینہ ،اما م ابویوسف کی الرد علی  سیر الاوزاعی  اور امام شافعی کی الرد علی محمد بن الحسن تقابلی مطالعے کے اولین نقوش ہیں ،ان کتب  کا  انداز عمومی طور پر مباحثانہ رہا ہے ،جس میں مخالف نقطہ نظر کا تخطئہ،مرجوحیت اور اس میں پائے جانے والی کمزوریوں کی نشاندہی  کی کوشش  ہوتی ،اور اپنے موقف کی تقویت اور اصابت کے دلائل دئے جاتے ،یہی منہج بعد میں تقابلی مطالعے کا امتیاز قرار پایا ،اور یوں   مختلف مکاتب میں بحث و مباحثہ کا بازار گرم رہا ، اس منہج کا سب سے بڑا فائدہ دلائل کی تنقیح اور ان میں پائے جانے والی  فنی خامیوں کا تعین کی شکل میں سامنے آیا  ، انہی مباحثوں کی بدولت ہر  فقہی  مکتب نے اپنے مستدلات کو از سر نو منضبط کیا اور اپنے مواقف کے لئے دلائل کا  ڈھیر لگا دیا ،جس سے  منصوص مسائل    پوری طرح مبرہن ہوئے، دور جدید میں اس منہج کی تشکیل جدید کی ضرورت ہے اور تقابلی مطالعے  کا یہ قدیم انداز  تبدیل کرنے کی ضرورت  ہے ،تقابلی مطالعہ میں اس بات کی کوشش ہو کہ   مختلف اقوال کا تقابل عصر حاضر کے تناظر میں کیا جائے کہ آج جدید دور میں امت مسلمہ کی آسانی اور  نوازل و حوادث کو حل کرنے کے لئے کونسا قول زیادہ مناسب ،احوط اور قابل عمل ہے ۔نیز مختلف  آرا کا  بلا امتیاز مسلک مختلف پہلووں سے جائزہ  ہو ،قوت دلیل کے اعتبار سے ،احوط ہونے کے اعتبار سے ،تیسیر کے اعتبار سے وغیرہ ،مبادا اس  سے تلفیق کی طرف دعوت دینا  مقصود نہیں ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ   افتا ءبمذہب الغیر کی ضرورت کے وقت ان جیسی کتب کی طرف رجوع ہو اور کسی مسئلہ میں مختلف فقہی اقوا ل کا تیسیر ،احتیاط  ،تشدید اور دیگر پہلووں سے موازنہ و تقابل    کرنا آسان ہو ۔

۹۔مطالعہ تراث  کے منہج میں تجدید

ہمارے ہاں مطالعہ تراث کے محدود مقاصد ہیں ،درس و تدریس ،افہام و تفہیم ،توضیح و تشریح اور تعلیق و اختصار ، دور جدید میں اس منہج میں خاص طور پر یہ چیز  شامل کرنے کی ضرورت ہے کہ  تہذیب و تنقیح کے اعتبار سے  تراث کا مطالعہ و تحقیق ہو  ،فقہی تراث  میں مختلف اسباب  کی بنا پر     ایسی چیزیں پروان  چڑھیں ،جو اپنی اصل کے اعتبار سے  جس نوعیت کی تھیں ،آگے جاکر اس کی وہ نوعیت برقرار نہ  رہ سکی ، اس کی کچھ مثالیں علامہ ابن  عابدین شامی نے عقود رسم المفتی میں دی ہیں ،نیز بعض مسلم  مانے جانے والے تصورات  پر بھی از سر نو  تحقیق کی ضرورت ہے ،اس کی سب سے بہترین مثال معاصر محقق سائد بکداش کا کتابچہ  تکوین المذہب الحنفی مع تاملات فی ضوابط المفتی بہ  ہے ،جس میں محقق نے صاحبین کے اقوال کو فقہ حنفی کا حصہ سمجھنے پر نقد کیا ہے اور مفتی بہ قول کے بعض ضوابط پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے ۔ اتفاق یا اختلاف سے قطع نظر  تراث کی تحقیق و تہذیب کی اچھی کاوش ہے۔ مطالعہ تراث کے اس منہج سے فقہی ورثہ میں نکھار آئے گا اور  حوادث زمانہ سے جمی گرد کی تہیں   اتریں گی ۔

۱۰۔مندرس مکاتب فقہیہ و مجتہدین کی آرا کی  تجدید 

تدوینِ فقہ کے دور میں عالم اسلام کے مختلف خطوں سے قا بل قدر مجتہدین اٹھے ،لیکن مختلف وجوہات و اسباب کی بنا پر چار کے علاوہ باقی مجتہدین کی  آرا حوادثِ زمانہ کی نذر ہوگئیں اور ان کے مستقل مقلدین  کا سلسلہ نہ چل سکا ،البتہ کتب میں ان کے اقوال اور ان کی فقہی ترجیحات بکھری پڑی ہیں ،دور جدید میں  ان مندرس مکاتب کے احیا کی ضرورت ہے ،تراث سے ان کی فقہی آرا ،ان کےپیش نظر اصول اور ان کی ترجیحات نکال کر انہیں ایک مرتب شکل دینے کی ضرورت ہے ۔فقہ اسلامی کی تشکیل جدید اور  نوازل فقہیہ کے حل میں ان اقوال و آرا سے بہت مدد مل سکتی ہے اور فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوسکتے ہیں ۔ معروف   شامی محقق رواس قلعہ جی کی کوششیں اس حوالے سے خشت اول کی حیثیت رکھتی ہیں  کہ انہوں نے فقہ السلف کے عنوان سے اٹھارہ کے قریب معجم تیار کئے ہیں ،جن میں سلف کے اقوال فقہیہ کو بالاستیعاب جمع کرنے کی کوشش کی ہے ،اب ان اقوال کی تہہ میں کار فرما اصول و قواعد  کی تخریج اور ائمہ اربعہ کے فقہی اصولوں سے اس کے تقابل کی ضرورت ہے ۔

بحث چہارم : فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کی معاصر کوششیں اور اس کے اثرات 

دور جدید فقہ اسلامی کے حوالے سے بیداری  و اٹھان کا دور ہے ،فقہ اسلامی کی مرحلہ وار  تا ریخ  لکھنے والے مصنفین نے  دور جدید کو فقہ اسلامی کا تجدیدی زمانہ  قرار دیا ہے 5، دور جدید میں فقہ اسلامی پر مختلف جہات سے کام ہوا ،نئے تصورات اور نئے طرز و اسلوب کی داغ بیل ڈالی گئی  اور فقہ اسلامی کو جدید ذہن اور جدید احوال و ظروف سے ہم آہنگ کرنے کے لئے  قابل قدر کوششیں ہوئیں ،ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
"بیسویں صدی کی آخرکی تین چوتھائیاں اور بالخصوص اس کا نصف ثانی فقہ اسلامی میں  ایک نئے دور کا آغاز ہے ،عرب دنیا میں اور غیر عرب مسلم دنیا میں عام طور پر فقہ اسلامی پر ایک نئے انداز سے کام کا وسیع پیمانہ پر آغاز ہوا ،ایسا کام جس کے مخاطبین مغربی تعلیم یافتہ لوگ اور مسلمانو ں میں  وہ لوگ تھے ،جو مغربی قوانین اور افکار سے مانوس یا متاثر ہیں6"
ذیل میں ان  کاوشوں کی اہم جہات کا ذکر کیا جاتا ہے :
۱۔ فقہ اسلامی کی تشکیل جدید  اور اس کے بنیادی خدوخال پر قابل قدر تصانیف منظر عام پر آئیں ،جن میں فقہ اسلامی کی تجدید کی صدا بلند کی گئی ،اس کا نقشہ کھینچا گیا ،اس کے اسباب و موانع پر بحث کی گئی  اور اس راہ میں حائل مشکلات و صعوبات کی نشاندہی کی گئی،ان تصانیف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ان سے فقہ اسلامی کی تجدیدکی فکر کو مہمیز ملی ،علمی حلقوں کی توجہ مبذول ہوئی  اور  اس موضوع پر مختلف فورمز اور کانفرنسوں میں مباحثے و مکالمے ہوئے ،ان تصانیف میں شیخ ازہر علی جاد الحق کی تصنیف الفقہ الاسلامی  مرونتہ و تطورہ ،معروف فقیہ شیخ مصطفی احمد زرقا کی المدخل المفقہی العام ،شیخ جما  ل الدین عطیہ  اور شیخ وھبہ الزحیلی کی مشترکہ تصنیف تجدید الفقہ الاسلامی ،الدکتور عبد الوہاب ابو سلیمان کی منہج البحث فی الفقہ الاسلامی خصائصہ و نقائصہ ،مشہور مصری مصنف محمد سلیم العواکی ضخیم کتاب الفقہ الاسلامی فی طریق التجدید ،ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی الفقہ الاسلامی بین الاصالہ و التجدید ،جزائر یونیورسٹی سے  حوریہ تاغلابت کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا ضخیم مقالہ الفقہ الاسلامی بین الاصالہ و التجدید،جما ل البنا کی نحو فقہ جدید ، ڈاکٹر حسن ترابی کی کتباور ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کی محاضرات فقہ و محاضرات شریعت کے بعض خطبات  قابل ذکر ہیں ۔عالم اسلام کے مختلف خطوں سے مسلم مفکرین کی جانب سے فقہ اسلامی کی تجدید کی یہ صدائیں بہت موثر ثابت ہوئیں ،اور اس فکری صدا پر  عمل کی مختلف صورتیں سامنے آئیں ۔
۲۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں فقہ اسلامی  پر تجدیدی کام ہوا ہے ،اور جدید طرز و اسلوب پر فقہ اصول فقہ اور فقہ و اصو ل فقہ کے تعارف و تاریخ  کی کتب لکھی گئیں ہیں ،تجدیدی تصانیف کی  اہم انواع کا تذکرہ کیا جاتا ہے :
  1. جدید قانونی طرز پر فقہ اسلامی کی تدوین نو  جیسے  مجلہ الاحکام العدلیہ ،شیخ احمد القاری کی مجلہ الاحکام الشریعہ  اور  محمد قدوری پاشا کی مرشد الحیران وغیرہ
  2. فقہی موسوعات و انسائیکلوپیڈیاز کی تیاری جیسےموسوعہ الفقہ الاسلامی  ، موسوعہ جمال عبد الناصر  فی الفقہ الاسلامی ،محمد  صدقی البورنو کی موسوعہ القواعد الفقہیہ وغیرہ
  3. فقہ و اصول فقہ کا مقارن مطالعہ جیسے وھبہ زحیلی کی الفقہ الاسلامی و ادلتہ ،ڈاکٹر عبد الکریم النملہ کی المہذہب فی اصول الفقہ المقارن
  4. مقاصد شریعت پر جدید انداز میں  تصانیف جیسے شیخ طاہر بن عاشور کی مقاصد الشریعہ الاسامیہ ،محمد سلیم العوا کی  مقاصد الشریعہ الاسلامیہ اور جما ل الدین عطیہ کی نحو تفعیل مقاصد الشریعہ وغیرہ
  5. فقہ اسلامی و مذاہب فقہیہ کی تاریخ و تعارف پر مبنی کتب جیسے شیخ خضری کی تاریخ التشریع الاسلامی، حجوی کی الفکر السامی وغیرہ
  6. معدوم فقہی مسالک و مجتہدین کے اوقوال فقہیہ کی جمع و تدوین نو جیسے محمد رواس قلعہ جی کے تیار کردہ معاجم
  7. عالم اسلام کی مختلف جامعات و یونیورسٹیوں سے جاری شدہ ماجستیر ،ایم فل و پی ایچ ڈی مقالات ،جو فقہ اسلامی کے مختلف پہلووں پر مشتمل ہیں  اور بلا شبہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۔
  8. فقہ اسلامی کے مختلف ابواب  پر تفصیلی و ضخیم تصانیف  جیسے شیخ ابوزہرہ مرحوم کی الاحوال الشخصیۃ، شیخ عبدالقادر عودہ کی التشریع الجنائی الاسلامی مقارنا بالقانون الوضعی  وغیرہ
  9. قدیم تراث کی تحقیق و تعلیق کے ساتھ اشاعت جدید جیسے الدکتور حسام الدین الفرفور کی نگرانی میں فتاوی شامی کی جدید اشاعت
  10. فقہی ویب سائٹس و سافٹ وئیر کی تیاری جیسے الشبکہ الفقہیہ وغیرہ7
۳۔فقہی مسائل پر اجتماعی غور و غوص کے ادارے وجود میں آئے  ہیں ،جن میں عالم اسلام کے ممتاز فقہا و قانون دان حضرات اہم مسائل پر مشترکہ غور و فکر اور بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور اجماعی یا اکثریتی فیصلے کئے جاتے ہیں ۔یہ ادارے ملکی و بین الاقوامی دونوں سطح پر وجود میں آئے ،پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل ، المرکز العالمی الاسلامی (بنوں )مجلس  تحقیق مسائٍل حاضرہ (کراچی ) ،انڈیا میں اسلامک فقہ اکیڈمی ،مجلس تحقیقات شرعیہ   اور ادارہ المباحث الفقہیہ ،مصر میں مجمع البحوث الاسلامیہ ،سعودی عرب میں ھیئہ کبار العلما ، کویت میں الادارہ العامہ للافتاء،یورپ میں یورپی  مجلس برائے افتا و تحقیق ،امریکہ میں فقہائے  شریعت اسمبلی، شمالی امریکی فقہ کونسل ،جبکہ عالم اسلام کی  مشترکہ فورمز میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت  مجمع الفقہ الاسلامی ،او آئی سی کے تحت مجمع الفقہ الاسلامی الدولی  اہم ادارے ہیں ۔ان اداروں سے سینکڑوں مسائل  پر فقہی فیصلے جاری ہوئے  ہیں ،انفرادی کاوشوں کی بنسبت یہ اجماعی کوششیں استناد ،قوت ،صحت اور ثقاہت  کے اعلی معیار پر ہیں  اور  عالم اسلام میں ان فیصلون کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
۴۔ دور جدید میں ریاستی سطح پر فقہ کو نافذ کرنے اور اسلامی ممالک کے دساتیر کو اسلامیانے کے عمل کا آغاز ہوا  اور مختلف اسلامی ممالک میں مختلف فقہی مکاتب کے نفاذ کی کوششیں ہوئیں ، یہ کوششیں اگرچہ زیادہ تر عائلی ،فوجداری اور بعض دیوانی  قوانین  میں ہوئیں ،لیکن بہر حال ان سے جدید  دور میں فقہ کے نفاذ اور جدید قوانین کی اسلامائزیشن کی راہیں ہموار ہوئیں ،پاکستان ،ہندوستان ،سعودی عرب ،مصر ،عراق اور شام میں یہ کوششیں بڑے پیمانے پر ہوئیں ، خاص طور پر پاکستان میں قرار داد مقاصد ،۱۹۷۳ کی اسلامی دفعات ،ضیا ءالحق  کے دور حکومت میں جاری کئے گئے آرڈیننس اور ریاستی سطح پر قوانین کو اسلامیانے کے عمل کو تیز تر بنانے کے لئے شریعت اپیلٹ بینچ اور اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام فقہ اسلامی کے نفاذ کے لئے  اہم سنگ میل ہیں ۔
۵۔دور جدید میں فقہ الاقلیات  معاصر فقہا کا خصوصی موضوع ہے ،یورپ و امریکہ میں مقیم مسلم اقلیتوں کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر خصوصی کام ہوا ہے  اور فقہ الاقلیات المسلمہ ایک ممتاز فقہی شعبہ بن گیا ہے ، جس کے اصول و فروع کے انضباط پر مستقل کام ہوا ہے ،اس حوالے سے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی  فی فقہ الاقلیات المسلمۃ، سید عبد المجید بکر کی الاقلیات المسلمۃ فی اوروبا، محمد یسری ابراہیم کا ضخیم مقالہ فقہ النوازل للاقلیات المسلمہ تاصیلا و تفعیلا، علی بن نایف کی الخلاصۃ فی فقہ الاقلیات، اشرف عبدالعاطی کی فقہ الاقلیات المسلمۃ بین النظریۃ والتطبیق اور شیخ عبد اللہ بن بیہ کی صناعۃ الفتوی و فقہ الاقلیات اہم کتب ہیں ،اس کے علاوہ یورپی مجلس  برائے افتا و تحقیق اور اسلامک فقہ اکیڈمی کی منظور کردہ قرار دادیں فقہ الاقلیات کے مختلف پہلووں پر  اہم فیصلے ہیں ۔
۶۔جدید معاشیات کی اسلامائزیشن اور بینکنگ سسٹم کو اسلامی قوانین سے ہم آہنگ بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر کام ہوا ہے ،خصوصا پچھلی تین چار دھائیوں سے  نوے فیصد فقہی کاوشیں مالیاتی نظام سے متعلق ہیں ،دور جدید میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے بڑا مظہر فقہ المعاملات المعاصرہ ہے ،اس فقہی پیراڈائم میں اگرچہ کافی چیزیں محل نظر ہیں  اور اس پر عالم اسلام کے مختلف خطوں سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے لیکن  یہ تنقیدیں   مزید نکھار اور  تنقیح و تہذیب  کا سبب ہیں ،جدید معاشی نظام کے اسلامیانے کا عمل اگر پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے تو فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے اہم اور بنیادی مرحلہ عبور ہوجائے گا ۔
۷۔فقہ السیر کے میدان میں قابل قدر تجدیدی کام ہوا ہے ،ڈاکٹرحمید اللہ ،علی علی المنصور ،صبحی محمصانی ،شیخ ابوزہرہ ،شیخ وھبہ الزحیلی اور ڈاکٹر محمود احمد غازی   سمیت  نامور فقہا نے اس میدان میں قابل  قدر کتب لکھی ہیں ،لیکن اکیسویں صدی  میں فقہ السیر کو نئے چلینجز کا سامنا ہے ،خاص طور پر جہاد ،بغاوت، ارتداد،مسلم حکمرانوں کے فسق و تکفیر   اور ان کی اطاعت یا معزولی کا مسئلہ  اور مسلم معاشروں میں خود کش حملوں جیسے مسائل کا فقہ السیر کے اصولوں کی روشنی میں جائزہ لینا  وقت کی اہم ترین ضرورت ہے 8،مسلم امہ  خارجیت  کے افراط اور تجدد پسندی کی تفریط کے درمیان پِس رہی ہے ،بین الاقوامی حالات کے اتار چڑھاو سے لگ رہا ہے کہ اگلی صدی میں مسلم مفکرین کو فقہ السیر پر خصوصی  توجہ دینا پڑے گی ۔
۸۔جدید دور میں مختلف فقہی مکاتب میں  قربتیں بڑ ھ گئی ہیں  اور خاص طور پر اجتماعی فقہی اداروں کے قیام نے مکاتب فقہیہ کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ،اور بقول ڈاکٹر غازی صاحب کہ دنیا ایک عالمی فقہ (کاسموپولیٹن  فقہ )کی طرف بڑھ رہی ہے ،جس میں چارو ں مکاتب سے اخذو استفادہ ہوگا ، البتہ اس  کے نتیجے میں  تلفیق بین المذاہب اور شواذ آرا  کے انتخاب کا رجحان پیدا ہورہا ہے ،جس سے ٹھیٹھ اور روایت پرست فقہا متفق نہیں ہیں ، اسلامی بینکاری کے جواز و عدم جواز پر مبنی  مباحثوں میں  خاص طور پر یہ دونوں رجحانات ممتاز طور پر سامنے آئے  ہیں ۔یہ دونوں رجحانات اپنے دلائل اور بنیادیں رکھتے ہیں  ،ان میں سے کس رجحان کو  قبو ل عام ملتا ہے ،اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا ۔

اختتامی بات

جدید دور میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے بنیادی خاکے اور اس کی مختصر تاریخ  سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ  جدید  تغیرات کے ساتھ چلنے کے لئے فقہ اسلامی کی مستحکم بنیادوں پر تشکیل جدید انتہائی اہم ترین کام ہے ،اس مضمون کا اختتام   فقہ اسلامی کی تشکیل جدید  کے سب سے بڑے داعی ،نامور قانون دان اور ممتاز فقیہ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب رحمہ اللہ کی ایک عبارت پر کرنا چاہوں گا ،جس سے فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کی اہمیت  و ضرورت واضح ہوتی ہے ،ڈاکٹر غازی صاحب رحمہ اللہ محاضرات فقہ کے آخری محاضرہ میں فرماتے ہیں :
"اگر دنیائے اسلام کا مستقبل خوشگوار ہے ،اگر د نیائے اسلام کی آئندہ زندگی کا نقشہ ان کی اپنی آرزووں اور تمناوں کی روشنی میں تشکیل پانا ہے ،اگر مسلم ممالک  کی آئندہ سیاسی زندگی خود مختار،آزاد اور باعزت  مستقبل پر مبنی ہے  اور یقینا ایسا ہی ہے تو ایسا صرف اور صرف ایک بنیاد پر ممکن ہے ،وہ یہ کہ مسلمان شریعت اسلامیہ کے بارے میں اپنے عمومی رویہ پر نظر ثانی کریں، دور جدید میں فقہ اسلامی کی فہم از سر نو حاصل کریں اور اس رشتہ گم گشتہ کو بازیاب کریں،جس سے ان کا تعلق گزشتہ کئی سو سال سے ٹوٹ گیا ہے یا کمزور پڑ گیا ہے ۔اس ساری صورتحال میں جو چیز ان کی زندگیوں کو نئی تشکیل عطا کر سکتی ہے ،وہ فقہ اسلامی کا نیا فہم ہے۔فقہ اسلامی کے نئے فہم سے ہر گز یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ نیا فہم ماضی کے فہم  سے مختلف ہوگا ،یا اکابر فقہا ئے اسلام کے فہم و بصیرت پر عدم اعتماد کا غماز ہوگا ،بالکل نہیں ۔بلکہ یہ فہم ماضی کے فہم ہی کا تسلسل ہوگا۔یہ فہم صدر اسلام کے ائمہ مجتہدین کے فہم کا تسلسل اور احیا ہوگا ۔ جس انداز سے اسلام کے ابتدائی چار پانچ سو سال میں فقہ اسلامی نے ان کی رہنمائی کی ،اسی انداز کی  رہنمائی فقہ اسلامی مسلمانوں  کے مستقبل کے لئے کر سکتی ہے اور ان شاء اللہ کرے گی ۔9"

حواشی

1. غازی ،ڈاکٹر محمود احمد ،اسلام کا قانون بین الممالک ، ص ۳۸، شریعہ اکیڈمی اسلام آباد  ۲۰۰۷۔
2. ڈاکٹر عمران احسن نیازی اور ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کا اس حوالے سے اختلاف معروف ہے۔
3. عطیہ ،جما ل الدین ،تجدید الفقہ الاسلامی ،ص ۷۵ ت ۱۴۰ دار الفکر بیروت ۲۰۰۰۔
4. غازی ،ڈاکٹر محمود احمد ،محاضرات فقہ ، ص۷،۸الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور ۲۰۰۵۔
5. القطان ،مناع ،تاریخ التشریع الاسلامی ، ص ۳۹۷،مکتبہ المعارف، ریاض۱۹۹۶۔
6. غازی ،ڈاکٹر محمود احمد ،محاضرات فقہ ، ص۵۳۳،الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور ۲۰۰۵۔
7. جدید دور کے فقہی ذخیرہ کے تفصیلی تعارف پر راقم الحروف کا مقالہ الشریعہ ج۲۶ شمارہ۵ اور ۶ میں شائع ہوچکا ہے۔
8. اردو میں اس حوالے سے اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صاحب کی کتاب" جہاد ،مزاحمت اور بغاوت اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں" اہم کتاب ہے۔
9. غازی ،ڈاکٹر محمود احمد ،محاضرات فقہ ،ص ۵۱۶،۵۱۵،الفیصل ناشران و تاجران کتب ۲۰۰۵۔

دھتکارے ہوئے بھارتی مسلمانوں کی داستانِ کرب ۔ ایک اور پاکستان؟

پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

شمس الرحمان فاروقی (۱۹۳۵ء) ادبی دنیا کا ایک مقتدر نام ہے۔ وہ شاعر، ادیب، نقاد اور سماجی دانشور ہیں۔ الٰہ آباد سے ایم اے انگریزی بھی کیا ہے اور انوکھے انداز میں تنقیدی کلیے وضع کیے ہیں۔ مختلف اعزازات سے انہیں نوازا گیا ہے۔ پاکستان آچکے ہیں اور کراچی کی ایک باوقار ادبی تقریب میں چبھتے ہوئے سوالوں کا جواب محتاط انداز میں دیا ہے جس کا انہوں نے اپنی تحریر یں ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے انڈین ایکسپریس کی ۵ اپریل کی اشاعت میں ایک بھرپور مضمون لکھا ہے۔ یہ ایک چشم کشا تحریر ہے اور پاکستانی دانشوروں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ۔ مضمون ۷۰ سالہ تجربات، مشاہدات کا نچوڑ ہے۔ ڈاکٹر صاحب روایتی طور پر جمعیۃ علماء ہند سے تعلق کے ناطے کانگریس کے وفادار ہیں۔ اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فاروقی بچپن ہی سے سیاسی منظر نامہ کو دیکھ اور سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے تقسیم ہند کو بھارتی مسلمانوں کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو ایک روایتی اپروچ ہے۔ لیکن ایک نقاد کی حیثیت سے انہوں نے اپنے مضمون میں جس توازن اور احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے وہ سامنے نظر آرہا ہے۔ کانگریس اور بھارتی قیادتوں کی تعریف اور توصیف کے پس پردہ وہ اپنے دل کی بات بھی کر گئے ہیں۔ مضمون کا عنوان ایک عالمانہ اور حساس ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ “تنہائی کا شکار اقلیتوں کی کرب ناک زندگی” ،اگرچہ یہ ترجمہ انگریزی عنوان کی مؤثر شکل نہیں ہے۔
اس مضمون میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ کئی مرتبہ مختلف انداز میں دہرائی گئی ہیں لیکن ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی کے قلم سے لکھی گئی باتیں پروپیگنڈا یا سیاست بازی کے زمرے میں نہیں آتیں۔ یہ ایک مفکرانہ اور معروضی اظہار حقیقت ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے واضح طور پر بتایا ہے کہ تقسیم کے بعد مسلم دشمنی میں اضافہ ہوا ہے اور اب بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ یہ بات ڈاکٹر صاحب کی گرفت میں نہیں آتی کہ ان ہی خدشات نے پاکستان کی تخلیق کی۔ کانگریس کی وزارتوں نے سیاسی، مالی، نظریاتی اور انتظامی اعتبار سے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس سے اکٹھا رہنے کے تمام امکانات ختم ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے موجودہ قیادتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے دبے لہجے میں یہ کہہ دیا ہے کہ موجودہ صورتحال اگر زیادہ دیر تک قائم رہی تو مسلمان اپنی شناخت سے محروم ہو جائیں گے۔ دراصل یہ کوئی نئی پالیسی نہیں۔ کانگریس کی حکومت ہو یا آر ایس ایس کی، مسلمانوں کے بارے میں ایک جیسی سوچ رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کانگریس نے اپنے نفاق سے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے اور بی جے پی کھل کر مسلمان دشمنی کا اظہار کر رہی ہے۔ امریکی پشت پناہی نے اسے اتنا منہ زور کر دیا ہے کہ وہ مصلحت اور اخفاء کو ضروری نہیں سمجھتی۔
یہ ان کوششوں کا عروج ہے جن کا آغاز بہت پہلے سے ہوا۔ ڈی پی دھرکی سرپرستی میں ایک کمیٹی (کمیشن) بنائی گئی اور اس کے ذمہ اسپین (ہسپانیہ) کے ثقافتی امور کا مطالعہ تھا۔ اصل میں وہ یہ تحقیق کرنا چاہتے تھے کہ اسپین میں مسلمانوں کو کیسے ختم کیا گیا حالانکہ وہاں پر بھی مسلمانوں نے ۶ سو سال حکومت کی تھی۔ سب سے بڑی کامیابی نصاب سازی کی شکل میں ہوئی، بھارت کے تعلیمی اداروں میں ایسا نصاب پڑھایا جا رہا ہے جس سے مسلمانوں کی حکومت کے اثرات ختم کیے جائیں۔ نصاب میں مسلمانوں کو غاصب اور استعماری حکمرانوں کا نام دیا گیا ہے، تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے، الٹی سیدھی توجیہیں دے کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ سب عمارتیں ہندوؤں نے بنائیں جن پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ جب طلباء مہا بھارت کے مقدس مقامات کے بارے میں پوچھتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ کچھ ملیچ (پلید)مسلمانوں کے قبضے میں ہیں جنہیں آزاد کرانا ضروری ہے۔
دراصل بھارت سے ہمارا جھگڑا پانی، سرحدوں اور تجارت کا ہی نہیں، بھارت نے اب تک پاکستان کے وجود کو قبول نہیں کیا۔ ان کا سیاسی نقشہ ہندوکش سے لے کر خلیج ملاکا تک پھیلا ہوا ہے۔ نتھورام گاڈسے کی راکھ ممبئی کے ایک مندر میں محفوظ ہے اور ہر سال اسے باہر نکال کر اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ اس راکھ کو اس دن گنگا میں بہایا جائے گا جب نتھو رام کا مشن مکمل ہو جائے گا۔ اور مشن کیا ہے؟ تقسیم ہند کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت کا قیام۔ ان کا تاریخی اور سیاسی فلسفہ داہریت سے جڑا ہوا ہے۔ اسلام وہ واحد دین/عقیدہ ہے جسے وہ ہضم نہیں کر سکے۔ یہ اس دین کی حقانیت کا ثبوت ہے۔
دوسری جانب ہم نے اپنے نصاب کی جو درگت بنائی ہے وہ اب کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ہم تحریک پاکستان کی توانائی کو اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل نہیں کر سکے۔ بھارت نے پاکستان دشمنی ہر طالب علم کے بستے تک پہنچا دی ہے۔ ڈاکٹر فاروقی نے اپنی کلاس روم کے ایک استاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم (جسے وہ جناح میاں کہتے ہیں) جب مشرقی پاکستان جائیں گے تو ان کا جہاز بھارت کے وسیع علاقے میں گم ہو جائے گا اور وہ اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ جب کلاس روم میں یہ پڑھایا جائے تو اس نسل سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کیونکہ قومیں نصاب سے بنتی ہیں۔ اب یہ مسئلہ بیس کروڑ مسلمانوں کا ہے جنہیں کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی سیاست میں مسلمانوں کے لیے کسی خیر کی گنجائش نہیں۔ اب بھارتی مسلمانوں کے مسائل کا پائیدار حل ایک اور پاکستان ہے۔ یہ نعرہ مسلمانوں کو ایک احساس سمت مہیا کرے گا اور ان کی قوت کو ایک نقطہ ماسکہ فراہم کرے گا۔ ظاہر ہے بھارتی قیادتوں کا ردعمل سفاکانہ ہوگا لیکن قومی اور دینی شناخت کو بچانے کے لیے ایک نسل تو وقف کرنی ہوگی۔ ’’فاش میگویم جہاں برہم زنم‘‘ اگر یہ نعرہ لگ گیا تو کلمہ طیبہ اس کو توانائی بخشے گا۔ پاکستان کی تخلیق میں بھی ایسا ہی ہوا۔
کانگریس نے تین مراحل میں بابری مسجد کو اجاڑا۔ ۱۹۴۸ء میں مسجد میں بت سجائے گئے، اس کے بعد وہاں بتوں کی پرستش بھی شروع کی گئی اور اس کے بعد حملہ کر کے مسجد کو تباہ کر دیا گیا۔ اس وقت کے ایس پی (ضلعی پولیس چیف) آج کل پٹنہ کے ڈی جی پولیس ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑے ربط اور تسلسل کے ساتھ یہ معلومات فراہم کی ہیں۔ مضمون زیر نظر میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے لیے بطور مسلمان کوئی جگہ نہیں ہے۔ بھارت میں آکر رہنا ہے تو پھر گھر لوٹنا ہے یعنی ہندو بن کر رہنا ہے یا ہندونما مسلمان بن کر۔ صاحب دانش حضرات بھارتی جمہوریت کا ذکر بڑے فاخرانہ انداز میں کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ بھارت پر کن لوگوں کی حکومت رہی ہے۔ شرع میں نہرو ۱۷ سال تک وزیر اعظم رہے، وہ کشمیری پنڈت (سپرد) تھے جو سب سے اعلیٰ درجہ کے برہمن سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے بعد مسلسل برہمنوں کی حکومتیں رہیں اور ہیں۔ ہندو مت برہمن کو حکومت کا حقدار سمجھا جاتا ہے۔ جے پی نرائن نے پہلی مرتبہ برہمن رول کو مؤثر طریقہ سے چیلنج کیا تو ہنگامی حالت (Emergency) کے تحت بنیادی حقوق کو معطل کیا گیا۔ اسی طرح وی پی سنگھ کا حشر بھی عبرتناک تھا۔ ان حقائق کو ذرا گہری نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت ایک مذہبی حکومت (Theocracy) ہے جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے مذہب کو قبول کیا ہے ریاستی سطح پر (Theocracy) کو نہیں۔ تھامس ٹان بی نے اسلامی تاریخ کے اہم واقعات کی درجہ بندی (Ranking) کی ہے۔ سب سے پہلے ریاست مدینہ کا قیام اور اس کے بعد اس نے قیام پاکستان کو رکھا ہے۔ کیونکہ پاکستان عقیدتاً ایک Generic تصور ہے کسیBrand کا نام نہیں۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی وہاں ایک پاکستان بنے گا۔ اس کا نام مختلف ہو سکتا ہے لیکن وجہ وجود وہی ہوگی جو پاکستان کی تھی۔ اس کی مثال آج کا بوسنیا ہے، اس کا جغرافیہ بے ہنگم سہی لیکن مسلمان وہاں مذہبی طور پر آزاد ہیں، مسجدیں ہیں، مدارس ہیں، موانع پر کسی حد تک کنٹرول ہے اور نئی نسل کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ بھارت میں بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ وہاں کے وزراء کہتے پھرتے ہیں کہ یا رام زادے بنو یا حرام زادے۔ جس کا سلیس لفظوں میں طلب یہ ہے کہ غیر ہندو بالخصوص مسلمانوں کے لیے بھارت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
بنگلہ دیش کی تخلیق کے بعد پاکستان دشمنوں نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبونے کی کوشش کی اور کچھ لوگوں نے پاکستان کے اندر بھی اسی منطق کو دہرایا اور دہرا رہے ہیں۔ لیکن وہ واضح اور غیر مبہم حقیقت کو نفاقاً نظر انداز کر جاتے ہیں کہ پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعد بنگالیوں نے انڈین یونین میں شمولیت اختیار نہیں کی حالانکہ بنگال اور مشرقی بنگال میں بہت کچھ مشترک ہے۔ زبان ایک ہے، لباس اور خوراک بھی ایک جیسی ہے، ثقافتی اور روایتی اقدار بھی کسی حد تک مشترک ہیں۔ لیکن انہوں نے مغربی بنگال کے ساتھ اتحاد نہیں کیا اور ایک علیحدہ ملک بنایا۔ جس کا جواز صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کی شناخت ہندوانہ نہیں ہے۔ ہماری دشمنی اپنی جگہ، اس کے سیاسی و معاشی وجوہ تھے، نظریاتی نہیں۔ اگر بنگالی انڈین یونین میں شامل ہو جاتے تو دو قومی نظریے کو کچھ نقصان ضرور پہنچتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ڈاکٹر فاروقی نے اس طویل نوحہ کے بعد ایک معرکہ کا سوال پوچھا ہے۔ اور وہ یہ کہ کوئی یہ بتائے کہ آج کا عام بھارتی مسلمان پاکستان کو کیوں محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے پاکستان کو جانے والے رستے کیوں پرکشش نظر آتے ہیں؟ حالانکہ ان لوگوں کو پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کے نام تک نہیں آتے۔ وہ بات ادھوری چھوڑ گئے ہیں۔ اس لاعلمی کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کے عام مسلمان ہمارے لیڈروں سے نہیں بلکہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں کہ ایسے میں تو پاکستانی عوام اور بھارتی مسلمانوں کے انداز فکر میں کچھ مماثلت سی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب بین السطور بہت کچھ کہہ گئے ہیں جو مقام فکر ہے۔ آخر میں وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے لیے کانگریس ہی ایک آپشن ہے، اس کے نفاق کے باوجود وہ مسلمانوں کو ساتھ رکھنے کے لیے زبانی جمع خرچ تو کرتے ہیں جسے ڈاکٹر صاحب نے Lip Service کا نام دیا ہے۔ بات یہاں نہیں رکتی، کانگریس ہو یا کوئی اور ، مسلمانوں کا مستقبل غیر یقینی رہے گا۔ کے ایل گابا نے اپنی کتاب Passive Voices (مجہول آوازیں) میں بہت پہلے مسلمانوں کی حالت زار بمعہ اعداد و شمار بیان کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کانگریس کو پھر اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن بھارتی مسلمانوں کے مسائل اور تحفظِ شناخت کے لیے ایک اور پاکستان کی ضرورت ہے، اس میں جو مشکلات او رخطرات پیش آئیں گے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن قربانیوں کے بغیر اپنے دینی شناخت کا تحفظ ممکن نہیں، ورنہ گائے کو ذبح کرنا ایک سنگین جرم ہوگا اور مسلمان کو ذبح کرنا ایک قابل قبول ردعمل بات ہوگی جن کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے۔ ایک اور پاکستان، یہ نعرہ اب لگ جانا چاہیے۔

قرآن مجید میں تحریف کا جاہلانہ مطالبہ

حافظ عاکف سعید

فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی اور وہاں کے سابق وزیر اعظم کے علاوہ تین سوسیاستدانوں اور دانشوروں نے ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے ہیں جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ چونکہ قرآن مجید کے بعض حصے یہود مخالف تعلیمات پر مشتمل ہیں ، لہٰذا انہیں قرآن سے نکال دینا چاہیے۔یہ اعلامیہ فرانس کے روزنامہ Le parisien میں 21 اپریل کو شائع ہوا ہے۔فرانس کے سابق صدر اور وزیر اعظم سمیت ان تمام تین سو سیاستدانوں اور دانشوروں کو اس بات کا شاید علم نہیں کہ قرآن انجیل اور تورات کی طرح نہیں کہ جس میں اپنی مرضی کے مطابق جب چاہا، تحریف کردی۔ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے۔ اس کا اعلان قرآن مجید میں چودہ سو سال قبل کردیا گیا ہے ۔چنانچہ یہ امر واقعہ ہے کہ قرآن چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود اپنی اصل شکل میں موجود ہے اور اس میں زبر زیر تک کی تحریف اپنی سرتوڑ کوششوں کے باوجود بھی کوئی نہیں کرسکا۔
دشمنان اسلام قرآن مجید کے کروڑوں مصحفوں کو تلف بھی کردیں تو امت مسلمہ کے لاکھوں ہی نہیں کروڑوں حفاظ کے سینوں سے قرآن کو نہیں نکال سکتے۔ اس سے پہلے بھی قرآن کے نام پر بہت سی کوششیں کی گئی ہیں کہ اس کا کوئی نیا تحرئف شدہ ایڈیشن تیار کیا جائے ۔پچھلی دہائی میں بھی اس کی کوششیں ہوئیں اور یہود تو اس میں تحریف کرنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔بہرحال دشمنان خدا اپنی سی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تو ہمیں اس کے جواب میں کم ازکم یہ تو ضرور کرنا چاہیے کہ قرآن کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کریں۔ رمضان المبارک کے مہینے کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔

مذہبی انتہا پسندی کے محرکات

مولانا غازی عبد الرحمن قاسمی

امت مسلمہ جن مسائل سے دوچار ہے، ان میں ایک اہم مسئلہ مذہبی انتہا پسندی سے متعلق ہے جس کی وجہ سے امن عامہ کا بری طرح متاثر ہونا، عدم برداشت، رواداری کافقدان اور دیگر خوفناک مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔
شریعت اسلامیہ میں جو وسعت اوراعتدال پسندی کا تناسب ہے، اس کو نظر انداز کرتے ہوئے مذہبی تعلیمات اور معاملات کوایسی انتہا کی بھینٹ چڑھادینا جو روح شریعت سے متصادم ہو، مذہبی انتہا پسندی ہے۔ مثلاً ایسے مذہبی احکامات یا معاملات جو مباح یا مستحب ہیں، ان کو فرض یا واجب کے بالمقابل لے آنا اور اسی طرح مکروہ تنزیہی اور اس کے قریب ترین کاموں کو حرام اور مکروہ تحریمی کے دائرہ میں داخل کرنا،یا استحبابی اعمال کے ترک کرنے والے پر سخت تنقید کرنا اور بعض مذہبی معاملات جن میں بحث ومباحثہ کی گنجائش ہے اوروہ اجتہاد اور غورووفکر کے متقاضی ہیں، ان میں صرف اپنی رائے کو اقرب الی الصواب سمجھتے ہوئے دوسروں کی رائے کو مکمل طور پر باطل قرار دینا یا اختلاف رائے کی صورت میں مرنے ومارنے پر اتر آنا یا اس کی دھمکیاں دینا وغیرہ مذہبی انتہا پسندی ہے۔
مذہبی انتہا پسندی کے محرکات اور اسباب کا جب جائزہ لیا جاتاہے تو اس بارے میں متعدد جوہ سامنے آتی ہیں۔ 

فرقہ واریت

اس وقت مذہبی انتہا پسندی کی ایک بڑی وجہ فرقہ واریت ہے۔ ہر جماعت اپنی شناخت اور انفرادیت کے لیے دوسرے سے ممتاز ہونا چاہتی ہے اور خود کو متبع حق سمجھتے ہوئے دوسروں کو راہ راست سے دور سمجھتی ہے اور بسااوقات اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ دوسروں کی تکفیر کرناضروری سمجھا جاتاہے۔ فرقہ واریت کے اس رویے سے عدم برداشت اور انتہا پرستی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں،جبکہ قرآن وحدیث میں فرقہ پرستی کی کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام فرقہ واریت سے منع کرتا ہے۔ مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ خود کومسلمان کہلواتے ہیں، مگر قرآن وسنت کے بیان کردہ احکامات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت مسلمہ ان مسائل کے گرداب میں پھنس چکی ہے جو نقصان اورخسران کی طرف لے جا رہے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جب قرآن وسنت صریح الفاظ میں فرقہ واریت کی مذمت کرتے ہیں توپھر یہ صورت حال کیوں پیدا ہورہی ہے ؟اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان احکامات کی صحیح طریقے سے وضاحت اور اس حوالہ سے طلباءکی ذہن سازی نہیں ہورہی،وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ جو فرقہ ہمارا ہے یہی درست ہے اور باقی غلط ہیں۔جبکہ ان کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ جماعت طائفہ منصورہ میں شامل ہوگی جو قرآن وسنت کے مطابق عمل کرے، صرف باتوں تک خود کو محدود نہ رکھے۔

اپنے مسلک یاجماعت کو دوسروں سے افضل سمجھنا

انتہا پسندی کا دوسرا بڑا محرک اپنے مسلک اور جماعت کو دوسروں کے مسالک اور جماعتوں سے نہ صرف بہتر سمجھنا بلکہ زور وشور سے قول وفعل کے ذریعے اس کا پر چار بھی ہے، حالانکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا روز قیامت فیصلہ ہوگا کہ عنداللہ کون مقبول ہے۔
 حدیث میں ایک مسلمان اوریہودی کا واقعہ آتاہے کہ ایک مسلمان اور یہودی کی آپس میں بحث ہوگئی۔ مسلمان نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیاپر فضیلت دی ۔یہود ی نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو دنیا پر فضیلت دی۔ اس پر مسلمان نے یہود ی کے چہرے پر تھپڑ ماردیا ۔یہود ی نے سار ا ماجرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ اس پر آپ نے مسلمان سے صورت حال دریافت کی اور فرمایا:
لا تخیرونی علی موسی، فان الناس یصعقون یوم القیامة فاصعق معھم، فاکون اول من یفیق فاذا موسی باطش جانب العرش فلا ادری اکان فی من صعق فافاق قبلی او کان ممن استثنی اللہ (۱)
”مجھ کو موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو، اس لئے کہ لوگ قیامت کے دن بے ہوش ہو جائیں گے، میں بھی ان لوگوں کے ساتھ بے ہوش ہو جاوں گا۔ سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کا کونہ پکڑے ہوئے ہوں گے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ بے ہوش ہو کر مجھے سے پہلے ہوش میں آجائیں گے، یا اللہ تعالیٰ نے ان کو بے ہوشی سے مستثنیٰ کر دیا ہے۔“
امام بدر الدین عینی لکھتے ہیں: ”اور اس حدیث میں ایسی فضیلت بیان کرنے سے منع کیا گیا جو لڑائی جھگڑے کا باعث بنے جیسے کہ مسلمان نے یہودی کو طمانچہ مار دیا۔“(۲)
جب آپ کا اپنی بلندوبالاشان اوررفعت مکان کے باوجوداپنے آپ کو حضرت موسیٰ پر اور پیغمبروں کو ایک دوسرے پر فضیلت دینے سے منع کیا باوجود اس بات کہ آپ امام الانبیاءاور خاتم النبین ہیں تو پھرعصر حاضر میں ا س بات کی گنجائش کہاں نکل سکتی ہے کہ ہر جماعت صرف اپنے آپ کو متبع حق سمجھتے ہوئے دوسروں سے خود کو افضل وبرتر سمجھے اور ایسے افکار وخیالات پھیلائے جو انتہا پسندی کی طرف لے جارہے ہیں؟

مخالفت و موافقت میں انتہا کرنا

مذہبی انتہا پسندی کا ایک اہم سبب اپنے مدمقابل جماعتوں کی مخالفت یا موافقت میں انتہا کرناہے کہ ہروہ کام اور طریقہ اختیار کیا جائے جس سے دیگر مخالف جماعتوں اور گروہوں کی بھر پورمخالفت ہو یاکسی جماعت سے ایسی موافقت کا اظہار ہو کہ اس طرز عمل سے ان کی انفرادیت قائم ہو۔ یہ طرز عمل بسا اوقات اس انتہا تک لے جاتاہے جو دنگا فساد اورقتل وغارت کا موجب بنتے ہیں۔
احادیث مبارکہ میں ایک واقعہ بیان ہوا ہے جس میں اعتدال پسندی کا حکم اور انتہا پسندی سے دوری کا سبق ملتاہے۔اس کا اطلاق آج کی اس صورت حال پر کیا جاسکتاہے۔
یہود کا طرز عمل تھا کہ ماہواری کے ایام میں اپنی عورتوں سے الگ تھلگ رہتے،کھانا وپینا ،رہائش اور جملہ معاملات ترک کردیتے تھے۔ اور نصاریٰ ان ایام کی کچھ پروا نہ کرتے،اپنی بیویوں سے جماع کرتے تھے۔ اور زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی عادت بھی یہود کی طرح تھی۔(۳۲)صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کو جب اس مسئلہ کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو یہ آیات مبارکہ نازل ہوئیں:
وَیَسئَلُونَکَ عَن المَحِیضِ، قُل ھُوَ اَذًی فَاعتَزِلُوا النِّسَاء فِی المَحِیضِ (۳)
”آپ سے یہ لوگ حیض کے متعلق دریافت کرتے ہیں تو آپ ان کو بتا دیجئے کہ حیض ایک طرح کی گندگی ہے لہٰذا زمانہ حیض میں عورتوں سے دور رہو۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید وضاحت بیان فرمادی:
جامعوھن فی البیوت واصنعوا کل شیء غیر النکاح (۴)
 ”ان کے ساتھ گھروں میں رہو، ماہواری کے ایا م میں وطی کے علاوہ دیگر تمام معاملات کی اجازت ہے۔“
جب اس بات کا علم یہود کو ہوا توانہوں نے چہ مگوئیاں شروع کردیں کہ آپ ہر بات میں ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ یہ سن کر دو صحابیوں حضرت اسید بن حضیر اور حضرت عباد ابن بشر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بات سناکر کہا :” اے اللہ کے رسول ! یہودی ایسی ایسی باتیں کہہ رہے ہیں تو کیا ہم زمانہ حیض میں عورتوں کے ساتھ جماع نہ کر لیا کریں؟“ (۵)
ان دو صحابیوں کی اس بات کامقصود یہ تھا کہ ہم اپنی بیویوں کے ساتھ ان ایام میں جماع کیاکریں تاکہ ان یہودکی انتہائی مخالفت ہوجائے۔ یہ بات سن کر  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس متغیر ہو گیا۔وجہ ناراضی یہ تھی کہ کسی کی مخالفت میں اتنا نہ آگے بڑھ جاو کہ شریعت کی مخالفت اور معصیت کا ارتکاب لازم آئے۔ 
یہود ونصاریٰ نے اس مسئلہ میں جو شدت اور انتہا پسندی اختیار رکھی تھی، اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لیے درمیانی راستہ نکال دیا کہ وطی کے علاوہ باقی معاملات کی اجازت ہے۔ لہٰذا جہاں یہ معلوم ہوا کہ کسی کی مخالفت یا محبت میں اتنا آگے بڑھ جانا جو شریعت کے مقرر کردہ اصو ل وضوابط کے خلاف ہو، وہ ناجائز ہے، وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام میں انتہا پسند ی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس قسم کی روایات کی ایسی تشریح وتوضیح کی جائے کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے افراد شریعت کی اصل روح تک پہنچ سکیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیو ں کو ڈھالیں اور معاشرتی زندگی کے بہتربنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

رواداری کا فقدان

اس وقت رواداری بالکل مفقود ہے۔حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ عوام تو ایک طرف، خواص ایک دوسرے کو برداشت کرنا،اکٹھے بیٹھنا تو درکنار، دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ ظاہر ہے، جب اس قسم کا طرز عمل مذہبی پیشواوں اور طبقوں کی طر ف سے آئے گا تو عوام پر اس کے اثرات ویسے ہی مرتب ہوں گے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوا م وخواص میں سے رواداری کے جذبات ختم ہوگئے ہیں۔حالانکہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتلاتاہے کہ اسلام میں غیرمسلموں کے ساتھ بھی رواداری سے کام لینے کا کہا گیا ہے چہ جائیکہ مسلمانوں کے ایک دوسرے سے تعلقات عدم رواداری کی نذ ر ہوجائیں۔جب اسلام نے غیرمسلموں کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک برتنے کا حکم دیا ہے تو وہ کب اس بات کی اجازت دے سکتاہےکہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ رواداری سے نہ پیش آئیں۔
اس وقت فقہائے اربعہ کے پیروکار دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔آپ شروح حدیث ،تفسیر یا فقہ میں حنفی ومالکی،شافعی ،حنبلی اہل علم کی کتب کا مطالعہ کریں تو ان میں بہت سے دیگر فقہی مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے تفسیری یا فقہی اقوال ملیں گے، مثلاً حنفی مفسرین کے اقوال، مالکی وشافعی مفسرین کی کتب تفسیر میں ملیں گے اور اسی طرح ان کے اقوا ل حنفی مفسرین کی تفاسیر میں موجود ہیں۔ علیٰ ہذ االقیاس حنفی کتب فقہ میں دیگر فقہی مسالک کے اہل علم کے اقوال ہیں اور ان کی کتب میں حنفی علماءکے حوالے اور اقتباسات موجود ہیں۔ باوجود اس بات کہ وہ علماءمسلکاً امام ابو حنیفہ، امام مالک،امام شافعی ،امام احمد کی فقہ پر عمل کرنے والے ہیں۔مگر ان کی کتب میں دیگر مسالک کے اہل علم کے حوالے اور اقوال واقتباسات کا موجود ہونا رواداری کی بہت بڑی مثال ہے۔
علامہ ابن عبدالبر مالکی (م -463ھ)نے اپنی مشہور کتاب ”جامع بیان العلم “میں ایک خوبصورت بات لکھی ہے کہ ہمارے اکابر دوران تحقیق دیگر ہم عصر یا متقدم اہل علم کی تحقیق کے برعکس رائے قائم کرنے کے باوجود ایک دوسرے پر فتویٰ بازی نہیں کرتے تھے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
 ما برح المستفتون یستفتون فیحل ھذا ویحرم ھذا فلا یری المحرم ان المحلل ھلک لتحلیلہ ولا یری المحلل ان المحرم ھلک لتحریمہ (۶)
”مفتی حضرات ہمیشہ فتویٰ دیتے رہے۔ ان میں سے ایک حلال کا فتوی دیتا ہے اور دوسرا حرام کا فتویٰ دیتاہے۔ حرام کا فتویٰ دینے والا یہ نہیں کہتا کہ حلال کا فتویٰ دینے والا اس فتویٰ کی وجہ سے ہلاک ہوگیا اورنہ حلال کا فتویٰ دینے والا یہ کہتا ہے کہ حرام کا فتویٰ دینے والا اس فتوے کی وجہ سے ہلا ک ہوگیا۔“
امت مسلمہ میں جوا خوت وعصمت کے اثرات ملتے ہیں، اس کی بڑی وجہ روداری ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ علمی وتحقیقی اختلاف کے باوجودقطع تعلقی کو بیچ میں آنے نہیں دیا گیااور اختلاف رائے کو مخالفت میں تبدیل نہیں ہونے دیا۔ جبکہ آج ہم کسی بھی جماعت کی اچھی باتوں کا تسلیم کرناتو در کنار، ان کے وجود کو ہی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ رویہ اسلامی تعلیمات اور ہمارے اکابر کے طرز عمل کے خلاف ہے۔اگر ہم خود قرآن وسنت پر عمل کرنے والا مسلمان اور سابقہ علماءکے علمی ورثہ کا امین ثابت کرنا ہے تو اپنی اس روش کو تبدیل کرنا ہوگا۔ 

اہل علم کی طرف غلط اقوال کی نسبت

مذہبی انتہا پسندی کا ایک اور بڑا محرک دوسرو ں کی طرف غلط اقوال کی نسبت ہے۔جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ کی مخالفت کی بڑی وجہ ان کی طرف ایسے غلط اقوال کی نسبت تھی جس سے مقام رسالت میں بے ادبی اور تنقیص کا پہلو نکلتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آٹھویں صدی ہجری کے آخر میں ایک گروہ مخالفین کا اتنا غلو کرچکا تھا کہ انہوں نے یہ فتویٰ دے دیا تھا جو ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہے، وہ کافرہے۔اس کی تردید میں حافظ شمس الدین الشافعی ( م-842ھ)نے کتاب ”الرد الوافر علی من زعم ان من سمی ابن تیمیة شیخ الاسلام کافر“ لکھی جس میں ستاسی علماءکی ابن تیمیہ کے بارے میں عمدہ کلمات اور تاثرات جس پر حافظ ابن حجر اور امام عینی کی تقاریظ بھی ہیں۔شیخ اکبر محی الدین ابن العربی کی کتابوں میں بھی امام شعرانی کے بقول یہ عمل ہوا ہے۔ وہ اپنا واقعہ الاجوبة المرضیة میں بیان فرماتے ہیں کہ میری کتاب ”البحر المورود فی المواثیق والمعھود“ میں بعض حاسدوں نے ایسا کردیا اور جامع ازہر میں اس کی خوب تشہیر کی گئی۔ ایک فتنہ کھڑا ہوگیا۔ پھرمیں نے اصل نسخہ جید علماءکی تقریظات کے ساتھ بھیجا تو معاملہ ختم ہوا۔(۷)
اس لیے جب کسی صاحب علم کا ایسا قول ملے جو محل اشکال ہو تو اسی سے رجوع کرنا چاہیے۔ حدیث مبارکہ میں ایک واقعہ آتاہے۔حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ راوی ہیں کہ میری نظر میں مدینہ کے لوگوں میں نمازیوں میں سے کسی کا مکان مسجد سے اتنا دور نہ تھا جتنا کہ ایک شخص کا تھا، مگر اس کی جماعت ناغہ نہ ہوتی تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر تم ایک گدھا خرید لو جس پر گرمی کی شدت اور تاریکی کی بنا پر تم سوار ہو کر مسجد آسکو تو بہتر ہوگا۔ اس نے کہا مجھے یہ پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد سے متصل ہو۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچی۔ آپ نے اس سے پوچھا، تیرا اس قول سے کیا مقصد تھا؟ وہ بولا یارسول اللہ، میری غرض اس سے یہ تھی کہ مجھے مسجد میں آنے اور جانے کا ثواب ملے۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ نے تجھے وہ سب عطا فرمادیا جو تو نے اس سے چاہا۔(۸)
اس صحابی کا یہ کہنا کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد سے متصل ہو، بظاہر بہت سخت بات لگتی ہے مگر آپ نے اس پر کسی قسم کا ردعمل ظاہرکرنے سے پہلے اس کی مراد پوچھی۔ اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ اس حدیث سے جو پیغام مل رہاہے، اس پر عمل کریں۔ مذہبی شخصیات کے اقوال نقل کرتے وقت انتہائی احتیاط کی ضرور ت ہے اور محل نظر افکار کی اصل کتب سے مراجعت کرکے رائے قائم کی جائے اور اگر وہ شخصیت زندہ ہوتو اسی سے استفسا ر کیاجائے۔

اسلاف پرستی

اس وقت اسلاف پرستی اس قدر مذہبی طبقوں میں راسخ ہوچکی ہے کہ کسی بھی شخصیت پر جائز اور تعمیری تنقید کا سننا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ انبیاء کے بعدکوئی بھی شخص خطا سے معصوم نہیں ہے۔اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اس کی تحریر یا تقریر میں کبھی کوئی خطا یا لغز ش نہ ہوئی،اور اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو بتقاضائے بشریت یہ معبوب نہیں ہے۔مگر اس وقت جو صورتحال ہے، کسی بھی مسلک کے پیروکار سے اگرکہا جائے کہ اس مسئلہ میں آپ کے امام،استاد یا عالم کی فلاں تحقیق درست نہیں ہے یا اس پر یہ سوالات ہوتے ہیں اور اس کے مقابلے میں فلاں کی بات درست ہے تو وہ لوگ قطع نظر اس بات سے کہ ان کاتعلق کس جماعت سے ہے، شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں یا ایسی تاویلات کا سہارا لیں گے جس سے ان کے امام، شیخ، استاد کی بات کی تردید نہ ہوسکے، اگرچہ وہ تاویلیں فاسد ہوں۔اور یہ رویہ بھی صرف موجود ہ دور کا نہیں ہے بلکہ صدیوں پہلے یہ رویہ سامنے آیا اوراب پوری طرح اپنی بنیادوں پر کھڑاہے۔
شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام (م -660ھ)لکھتے ہیں :
”اور عجیب تر بات یہ ہے کہ بعض فقہائے مقلدین کو اپنے امام کی دلیل کے ایسے ضعف پر واقفیت ہو جاتی ہے کہ جس کی کمزوری کو دور کرنے کے لیے وہ کوئی راہ نہیں پاتے، اور وہ اس کے باوجود اس مسئلہ میں اسی کی تقلید کرتے ہیں اوران ائمہ کامذہب ترک کر دیتے ہیں جن کی تائید میں کتاب وسنت او ر صحیح قیاسات ہیں ،محض اس لیے کہ ان کو امام کی تقلید سے انحراف گوارا نہیں ،بلکہ کتاب وسنت کے ظاہر مطلب کو دور کرنے کے لیے وہ تدبیریں کرتے ہیں ،اور اپنے امام کے دفاع میں ہرطرح کی بعید اور بے بنیاد تاویلوں سے ان کو احتراز نہیں ہوتا۔“ (۹)
جب اندھی عقیدت وتقلید سے یہ حال ہو کہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ اس مسئلہ یا قول ورائے میں اس کے امام کی بات مرجوح اور دوسرے امام کی بات راجح اور حدیث کے زیادہ موافق ہے، تب بھی وہ اپنے امام کی بات کو رد کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تو پھر انتہا پسندی کی شدت میں کمی نہیں ہوسکے گی۔ جبکہ اگر ان ائمہ یا بزرگوں کی زندگی میں ان سے اختلاف رائے ہوتا تو وہ بھی ایسا نہ کرتے۔ عصر حاضر کے محققین میں یہ حوصلہ ہونا چاہیے کہ ان کی تحقیقات پر اگر کسی کو اعتراض ہوتو وہ اپنی تحقیقات پر نظر ثانی کریں۔ اگر اصلاح کی ضرورت ہو یا رجوع کرنے کی نوبت آئے تو ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے ،اگر اس جماعت کے کسی امام یا عالم کی کوئی اصلاح طلب بات ہو تو اسے تسلیم کرتے ہوئے قبول کرلیا جائے اور خوامخواہ کی بے جان وضاحتوں سے اجتناب کیا جائے۔اور تقلید کا انکار نہیں ہے ،مگراندھی تقلید سے بچنا بھی ضروری ہے۔

حوالہ جات 

1.  البخاری،محمد بن اسماعیل ،ابو عبداللہ ،الجامع الصحیح ،دار طوق النجاة، 1422ھ ،جلد3،صفحہ120
2.  العینی ،بدرالدین،محمود بن احمد ،عمدة القاری شرح صحیح البخاری،بیروت،داراحیاءالتراث العربی،س ن ،جلد 12، صفحہ 250
3.  البقرہ:222
4.  ابو داود،سلیمان بن الاشعث ،السجستانی ،السنن ،بیروت ،المکتبة العصریہ،س ن ،جلد1،صفحہ67
5.  ابو داود،السنن ،جلد1،صفحہ67
6.  ابن عبدالبر،یوسف بن عبداللہ،جامع بیان العلم وفضلہ،المملکة العربیہ السعودیہ،دار ابن الجوزی، 1414ھ، جلد 2، صفحہ 902
7. ندوی ،ابوالحسن علی ،سید ،تاریخ دعوت وعزیمت،لکھنو ،مجلس تحقیقات ونشریات اسلام، 2005ء،جلد2،صفحہ158
8. ابو داود،سلیمان بن اشعث السجستانی ،السنن ،بیروت ،المکتبة العصریة، س ن ،جلد1،صفحہ152
9. ابن عبدالسلام ،عزالدین عبدالعزیز،ابو محمد،قواعد الاحکام فی مصالح الانام،قاہرہ،مکتبة الکلیات الازھریہ، 1414ھ، جلد 2، صفحہ 159

مغربی ممالک کے مسلمانوں کے مسائل اور ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ، اسلام آباد کے زیر اہتمام شائع ہونے والے مجموعہ “دیار مغرب کے مسلمان: مسائل، ذمہ داریاں، لائحہ عمل” کا دیباچہ۔)

برطانیہ کا پہلا سفر میں نے ۱۹۸۵ءمیں اور امریکہ کا پہلا سفر ۱۹۸۷ءمیں کیا تھا۔ دونوں ممالک کے اس سفر کا ابتدائی داعیہ ”قادیانی مسئلہ“ تھا۔ ۱۹۸۴ءمیں صدر جنرل محمد ضیاءالحق مرحوم نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میں اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کی اصطلاحات کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے سے قادیانیوں کو روک دیا اور ان کے لیے اسلام کا نام اور مسلمانوں کے مذہبی شعائر واصطلاحات کے استعمال کو قانوناً جرم قرار دے دیا تو قادیانیوں نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز لندن کو بنا لیا اور وہاں ”اسلام آباد“ کے نام سے نیا مرکز بنا کر اپنی سرگرمیوں کو اسلام کے نام پر ہی جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔
اس سے پہلے قادیانیوں کا سالانہ جلسہ ربوہ (چناب نگر) میں ہوتا تھا اور اس کے مقابلے میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام مسلمانوں کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ میں ہوا کرتی تھی جس سے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماے کرام خطاب کرتے تھے۔ ۱۹۸۵ءمیں قادیانیوں نے سالانہ جلسہ لندن میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تو بعض علماے کرام کو خیال ہوا کہ اس موقع پر مسلمانوں کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس بھی لندن میں ہونی چاہیے۔ چنانچہ حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی، حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود اور حضرت مولانا محمد ضیاءالقاسمی نے انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے نام سے ایک فورم قائم کر کے لندن میں ختم نبوت کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا او راس کی تیاریاں شروع کر دیں۔ 
میں ایک دن اپنے ایک کام کے لیے لاہور شیرانوالہ گیٹ گیا تو وہاں یہ حضرات اس سلسلے میں صلاح مشورہ کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر مولانا محمد ضیاءالقاسمیؒ نے کہا کہ اچھا ہوا، تم بھی آ گئے ہو۔ ہم یہ مشورہ کر رہے ہیں اور چونکہ تم لکھنے پڑھنے کا کام اچھی طرح کر لیتے ہو اور وہاں تمھاری ضرورت بھی پڑے گی، اس لیے تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔ اس زمانے میں برطانیہ کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، صرف پاکستانی پاسپورٹ سفر کے لیے کافی ہوتا تھا اور لندن ایئر پورٹ پر مختصر انٹرویو کے بعد ویزا لگ جایا کرتا تھا۔ یہ حضرات جس تاریخ کو کانفرنس منعقد کرنے کا مشورہ کر رہے تھے، اس کے دو تین ہفتے بعد حج کا موقع آ رہا تھا، اس لیے میں نے کہا کہ اگر واپسی پر حج کی سہولت مل جائے تو میں ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا پروگرام بھی یہی ہے، اس لیے تم تیاری کرو۔ چنانچہ ہم نے پروگرام بنا لیا اور لندن کے لیے پہلا سفر میں نے حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی اور حضرت مولانا محمد ضیاءالقاسمی کی رفاقت میں ترکش ایئر لائنز سے کیا۔ راستے میں ہم ایک روز استنبول ٹھہرے اور لندن پہنچ کر ہم نے ختم نبوت کانفرنس کے لیے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ جمعیة علماے برطانیہ نے اس سلسلے میں بھرپور تعاون کیا اور انٹر نیشنل ختم نبوت مشن کے زیر اہتمام لندن کے ویمبلے کانفرنس سنٹر میں اگست ۱۹۸۵ءکے دوران عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔ بعد میں یہ انٹرنیشنل ختم نبوت مشن، مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان میں ضم ہو گیا اور دونوں کے اشتراک سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت تشکیل پائی، مگر معاملات زیادہ دیر تک اکٹھے نہ چل سکے تو انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے حضرات نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سے الگ ہو کر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے نام سے ایک نئی جماعت قائم کی جو اب تک مسلسل کام کر رہی ہے۔
میں ابتدا میں انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے ساتھ تھا اور اس کے لیے کام کرتا رہا، مگر مجلس تحفظ ختم نبوت میں اس کا انضمام میری سمجھ سے بالاتر تھا اور میرے ذہن میں نقشہ یہ تھا کہ مجلس تحفظ ختم نبوت حسب معمول پاکستان میں کام کرتی رہے، جبکہ عالمی سطح پر یہ کام انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے فورم سے ہو اور دونو ں آپس میں تعاون کا کوئی طریق کار طے کر لیں۔ میرے خیال میں ان دونوں کا آپس میں ایک جماعت کے طور پر کام کرنے کا پروگرام قابل عمل نہیں تھا، اس لیے میں نے کنارہ کشی میں عافیت سمجھی ، اسی لیے جب دوبارہ علیحدگی کے بعد انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تو حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے بار بار اصرار کے باوجود میں نے اس کے نظم کا حصہ بننے سے معذرت کر لی اور اب میری پوزیشن یہ ہے کہ تحفظ ختم نبوت کے مشن اور کاز کے لیے دونوں کا خادم ہوں اور ہر ممکن تعاون کی کوشش کرتا ہوں، مگر نظم میں کسی کا حصہ نہیں ہوں۔
بہرحال یہ پس منظر ہے میرے برطانیہ کے پہلے سفر کا جس کے بعد کم وبیش ہر سال برطانیہ جانے، ختم نبوت کانفرنس میں شریک ہونے اور اس کے لیے کچھ نہ کچھ خدمت سرانجام دینے کا معمول بن گیا جو ایک عرصہ تک جاری رہا کہ موسم گرما کے دو تین ماہ کے لیے میں برطانیہ چلا جاتا تھا، البتہ مدرسہ نصرة العلوم میں اسباق کی باقاعدہ ذمہ داری قبول کر نے کے بعد سے یہ معمول تبدیل ہو گیا ہے۔ اب صرف ششماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران دو اڑھائی ہفتے کے لیے برطانیہ جانے کا موقع مل جاتا ہے جبکہ سالانہ ختم نبوت کانفرنس میں شرکت اسی وجہ سے کئی برسوں سے نہیں ہو رہی۔
امریکہ کے پہلے سفر کا پس منظر بھی یہی تھا کہ ۱۹۸۷ءمیں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کے لیے امداد کی بحالی کی شرائط میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے اور انھیں اسلام کے نام پر سرگرمیاں جاری رکھنے سے روکنے کے لیے صدارتی آرڈیننس کو واپس لینے کی شرط بھی شامل کر دی اور قومی سطح پر قادیانی مسئلہ کے سلسلے میں عالمی دباو نے ¶ ایک نئی صورت اختیار کر گیا۔ اس پر حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری زید مجدہم نے ایک روز مجھ سے کہا کہ اگر ہم دونوں امریکہ کا سفر کریں اور قادیانیت کے سلسلے میں وہاں اپنے موقف کی وضاحت کے لیے محنت کریں تو یہ بہت مفید رہے گا۔ حضر ت میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے انگلش میں گفتگو کی اچھی صلاحیت سے نوازا ہے اور قادیانی مسئلہ کے مالہ وماعلیہ سے بحمد اللہ تعالیٰ مجھے کچھ نہ کچھ واقفیت حاصل ہے، اس لیے مجھے یہ جوڑ اچھا لگا اور میں نے آمادگی کا اظہار کر دیا۔ حضرت میاں صاحب نے ہی ویزا لگوایا اور سفر کے اخراجات برداشت کیے، لیکن جب ہم امریکہ پہنچے تو اس مشن کے لیے کوئی منظم کام نہ کر سکے اور مکی مسجد بروک لین نیو یارک میں کم وبیش ایک ہفتہ تک قادیانیت کے موضوع پر میرے روزانہ دروس کے علاوہ اس عنوان پر اور کچھ نہ کیا جا سکا، لیکن ویزا چونکہ پانچ سال کا لگ چکا تھا، اس لیے موسم گرما میں برطانیہ آمد کے موقع پر میرا کچھ دنوں کے لیے امریکہ حاضر ہونے کا معمول بھی بن گیا جو اب تک کسی نہ کسی طور پر جاری ہے۔
برطانیہ اور امریکہ کے لیے میرے اسفار کا آغاز قادیانی مسئلہ کے حوالے سے ہوا تھا اور کئی برس تک سرگرمیوں کا محور یہی مسئلہ رہا، مگر وہاں کے حالات، مسلمانوں کے مسائل ومشکلات اور مسلمانوں اورمغرب کی فکری وثقافتی کشمکش کے تناظر میں مشاہدات ومحسوسات اور تاثرات کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا رہا اور ملت اسلامیہ کے دیگر مسائل ومعاملات بھی تگ وتاز کے اہداف میں شامل ہوتے گئے، حتیٰ کہ گزشتہ صدی کے آخری عشرہ کے آغاز میں جب لندن میں حضرت مولانا محمد عیسیٰ منصوری زید مجدہم کی رفاقت سے ورلڈ اسلامک فورم کے قیام کا فیصلہ کیا تو جدوجہد اور سعی و محنت کے مقاصد کا افق اور زیادہ وسعت اختیار کر گیا۔ 
حضرت مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے ساتھ ملاقات اور رفاقت کا معاملہ بھی اچانک اور اتفاقاً ہوا۔ ہمارا پہلے سے کوئی باہمی تعارف نہیں تھا۔ میں ان دونوں اپٹن پارک میں سیلون روڈ کے اسلامک سنٹر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ آل گیٹ کے علاقے میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک جلسہ تھا جس میں مولانا منصوری اور راقم الحروف نے خطاب کیا۔ ہم دونوں نے پہلی بار ایک دوسرے کو دیکھا اور سنا اور دونوں کا ابتدائی تاثر یہ تھاکہ ہم ایک دوسرے کے کام کے آدمی ہیں۔ جلسہ کے اختتام پر میں نے مولانا منصوری کو اپنی قیام گاہ پر آنے کی دعوت دی۔ اگلے روز وہ تشریف لائے۔ کوئی گھنٹہ بھر مختلف مسائل پر گفتگو ہوئی اور ہم نے باہمی رفاقت کا رشتہ استوار کر لیا۔ اس کے بعد ورلڈ اسلامک فورم تشکیل پایا اور ہمارے ساتھ اور بھی دوست شامل ہوتے چلے گئے۔
امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ مجھے ایک موقع پر کینیڈا جانے کا بھی موقع ملا اور کچھ دن میں نے وہاں گزارے۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک میں سے کسی اور ملک میں جانے کا اب تک اتفاق نہیں ہوا او رکئی بار خواہش اور ارادے کے باوجود کسی اور مغربی ملک میں حاضری کی کوئی صورت نہیں بنی، البتہ ان تین مغربی ممالک میں گزشتہ تیئس سال کے دوران سینکڑوں اجتماعات سے خطاب، بیسیوں تعلیمی اداروں کے ساتھ مشاورت اور ہزاروں افراد سے ملاقاتوں کا موقع ملا اور مختلف حوالوں سے میں اپنے تاثرات ومشاہدات کو قلم بند بھی کرتا رہا جو متعدد جرائد واخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ان مضامین اور خطابات کا ایک منتخب مجموعہ عزیزان حافظ محمد عمار خان ناصر اور مولانا محمد یونس قاسمی نے زیر نظر کتاب کی صورت میں مرتب کر دیا ہے جو قارئین کے سامنے ہے۔
یہ مضامین وخطابات کسی ایک موضوع پرمرتب ومربوط انداز میں خیالات کی ترجمانی نہیں کرتے، بلکہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو درپیش مختلف النوع مسائل ومشکلات اور مغرب کے حوالے سے عالم اسلام کو درپیش چیلنجز کے بارے میں مختلف مواقع او رمقامات پر کی گئی گفتگو اور تحریر کیے گئے تاثرات واحساسات کا مجموعہ ہیں، اس لیے قارئین سے درخواست ہے کہ انھیں اسی پس منظرمیں دیکھا جائے اور ان کے اصل پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ تعالیٰ ہماری اس سعی کو قبولیت سے نوازیں اور دین وملت کے لیے کسی نہ کسی انداز میں مثبت اور موثر خدمت کا سلسلہ آخر دم تک جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

حضرت مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاریؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاریؒ گزشتہ ماہ انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کافی دنوں سے علالت میں اضافہ کی خبریں آرہی تھیں، اس دوران ایک موقع پر ملتان حاضری اور بیمار پرسی کا موقع بھی ملا اور ان کے فرزند گرامی مولانا سید عطاء اللہ شاہ ثالث سے وقتاً فوقتاً ان کے احوال کا علم ہوتا رہا مگر ہر آنے والے نے اپنے وقت پر اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے اور شاہ جی محترمؒ بھی ایک طویل متحرک زندگی گزار کر دار فانی سے رخصت ہوگئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاریؒ کے ساتھ میرا ربط و تعلق اس دور سے چلا آرہا ہے جب وہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل ہوئے تھے اور کچھ عرصہ انہوں نے جامعہ میں گزارا تھا۔ میرا بھی طالب علمی کا دور تھا اور حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمارا کچھ دوستوں کا ایک گپ شپ کا حلقہ بن گیا تھا جس میں مولانا سعید الرحمان علویؒ اور مولانا عزیز الرحمان خورشید بھی ہمارے ساتھ شریک تھے۔ کم و بیش روزانہ شام کو چائے کی محفل جمتی تھی اور ادبی، سیاسی، دینی اور سماجی نوعیت کے مختلف امور پر تبادلۂ خیالات ہوتا تھا اور خالص ’’احراریانہ ذوق و ماحول‘‘ کی اس پر لطف مجلس میں بعض دیگر دوست بھی شامل ہو جایا کرتے تھے۔ اس کے بعد ہمارے جماعتی راستے تو الگ الگ رہے مگر دینی تحریکات میں تھوڑی بہت رفاقت، اجتماعات میں مشترکہ شرکت اور وقتاً فوقتاً تبادلۂ خیالات کا سلسلہ چلتا رہا۔ بعض مسائل میں باہمی اختلاف ہو جاتا تھا اور ہم آپس میں گرمی سردی کا اظہار بھی کر لیا کرتے تھے مگر باہمی مودت و محبت اور احترام کا رشتہ بدستور قائم رہا۔
ایک موقع پر شاہ جی مرحوم نے انتہائی درد دل اور فکرمندی کے ساتھ دیوبندی مکتب فکر کے سب حلقوں اور جماعتوں کو ایک مشترکہ فورم پر جمع کرنے کے لیے اچھی خاصی محنت کی بلکہ دل و جگر کا خون جلایا اور ’’کل جماعتی مجلس عمل علماء اسلام پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک مشترکہ فورم تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے جس کا سربراہ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کو چنا گیا اور رابطہ سیکرٹری کی ذمہ داریاں مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاریؒ نے سنبھال لیں۔ نیلا گنبد لاہور میں بھرپور ملک گیر اجتماع ہوا جس میں دیوبندی مکتب فکر کے کم و بیش سبھی حلقے اور جماعتیں شریک تھیں، مجھے بھی اس کی ہائی کمان میں شاہ جی کے معاون کے طور پر تھوڑا بہت کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران انہوں نے ’’امریکہ مردہ باد‘‘ کے عنوان سے عوامی رابطہ کی مہم چلائی اور مختلف شہروں میں عوامی ریلیوں کا اہتمام کیا مگر یہ بات زیادہ دیر تک نہ چل سکی جس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ہمارا دینی حلقوں اور جماعتوں کا یہ مزاج تقریباً پختہ ہوگیا ہے کہ کسی دینی یا قومی مسئلہ پر انتہائی گرم جوشی کے ساتھ مہم کا آغاز کرتے ہیں مگر یہ گرم جوشی جلسہ و جلوس کی حد تک ہی رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال چند جلسوں اور جلوسوں کے بعد زیادہ عرصہ جاری نہیں رہ پاتی۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران مجھے درجن بھر ایسی مہمات کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے مگر دو تین تحریکوں کے سوا کسی مہم جوئی کو چند سالوں بلکہ زیادہ تر کو کچھ مہینوں سے آگے بڑھتے دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ شاہ جی مرحوم نے زندگی کے آخری چند برسوں میں اس مہم کا دوبارہ آغاز کیا اور مختلف دیوبندی جماعتوں کے قائدین کو ایک جگہ بٹھانے میں پھر کامیابی حاصل کی لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔ مگر اس کے ساتھ ہی شاہ جیؒ کی علالت بڑھتی چلی گئی اور وہ مستقل صاحب فراش ہوگئے۔
مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاریؒ کے ساتھ ہمارے ربط و تعلق کا ایک اور میدان بھی تھا۔ گوجرانوالہ کے شیرانوالہ باغ میں عیدین کی نماز کا اہتمام کافی عرصہ سے مجلس احرار اسلام کرتی آرہی ہے اور امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے فرزندان گرامی میں سے کوئی بزرگ ملتان سے تشریف لا کر شیرانوالہ باغ میں نماز عید پڑھاتے رہے ہیں۔ جبکہ شیرانوالہ باغ سے متصل مرکزی جامع مسجد کے خطیب کی حیثیت سے مجھے کم وبیش نصف صدی سے قبرستان کلاں مبارک شاہ روڈ کے ساتھ متصل گراؤنڈ میں نماز عید پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے۔ دونوں جگہوں میں خاصا فاصلہ ہے اس لیے عام طور پر کبھی کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوا البتہ بارش کی صورت میں ہم نماز عید مرکزی جامع مسجد میں پڑھتے ہیں اور دونوں اجتماعوں کے درمیان صرف ایک دیوار کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ ایسے موقع پر ہم باہمی مشورہ سے نماز عید کے وقت میں اتنا وقفہ رکھ لیتے ہیں کہ کوئی الجھن نہ پیدا ہو۔ مگر چند سال قبل عید کے موقع پر بارش کی وجہ سے شیرانوالہ باغ کی گراؤنڈ بھی قابل استعمال نہ رہی تو میں نے حضرت شاہ جیؒ کو پیغام بھجوایا کہ وہ جامع مسجد میں ہی نماز عید کا خطبہ ارشاد فرمائیں، ہم اکٹھے عید پڑھ لیں گے، انہیں اس پر حیرانی ہوئی مگر بہت خوش ہوئے اور تشریف لا کر خطبہ و نماز کی امامت فرمائی، اس کے بعد بھی چند بار ایسا ہو چکا ہے۔
شاہ جی مرحوم ہمارے قابل احترام بزرگ تھے اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے فرزند ہونے کے تعلق سے دیگر سب اہل خاندان کی طرح ہماری عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز بھی تھے۔ آج وہ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں لیکن ان کی یادیں تازہ رہیں گی اور دین حق کے لیے ان کی جدوجہد کا تسلسل بھی ان شاء اللہ العزیز قائم رہے گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور ان کے خاندان و متعلقین بالخصوص ان کے فرزند مولانا سید عطاء اللہ شاہ ثالث کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۳)

مولانا عبید اختر رحمانی

اب ہم ذیل میں چند وہ مثالیں ذکر کریں گے جن سے واضح ہوگاکہ امام صاحب نے نہ صرف ابراہیم نخعی کے قول کو ترک کیاہے بلکہ فقہاء کوفہ کو چھوڑ کر اس معاملہ مکی اورمدنی فقہ سے اورفقہاء سےا ستفادہ کیاہے۔
مُحَمَّد، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَۃ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاہيمَ أَنَّہ قَالَ فِي الرَّجُلِ يَجْلِسُ خَلْفَ الْإِمَامِ قَدْرَ التَّشَہُّدِ ثُمَّ يَنْصَرِفُ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ الْإِمَامُ، قَالَ: «لَايُجْزِئُہ» وَقَالَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: «إِذَا جَلَسَقَدْرَ التَّشَہّدِ أَجْزَأَہ» قَالَ أَبُو حَنِيفَۃ: قَوْلِي قَوْلُ عَطَاءٍ قَالَ مُحَمَّد: وَبِقَوْلِ عَطَاءٍ نَأْخُذُ نَحْنُ أَيْضًا    (کتاب الآثارللامام محمدؒ،ص:1/475)
جوشخص امام کے پیچھے تشہد کے بقدر بیٹھے(قعدہ اخیرہ میں)اور پھر امام کے سلام پھیرنے سے قبل چلاجائے ،ایسے شخص کے بارے میں ابراہیم کی رائے یہ ہے کہ اس کی نماز نہیں ہوئی اور عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ جب وہ امام کے پیچھے تشہد کے بقدر بیٹھ چکاتواس کی نماز ہوجائے گی ،امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں عطاکاقول میراقول ہے، امام محمد فرماتے ہیں کہ ہم بھی عطاء کے ہی قول کو اختیار کرتے ہیں۔
مُحَمَّد، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَۃ، عَنْ حَمَّاد، عَنْ إِبْرَاہيمَ، قَالَ: «إِذَا تَخَالَجَكَ أَمْرَانِ، فَظُنَّ أَنَّ أَقْرَبَہمَا إِلَی الْحَقِّ أَوْسَعُہمَا» مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّہ قَالَ: «يُعِيدُ مَرَّۃ» قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِہ نَأْخُذُ، وَہوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃ رَضِيَ اللَّہ عَنْہ (کتاب الآثارللامام محمدؒ،ص:463)
جب کسی کو نماز میں شک ہو کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تواس بارے میں عطابن ابی رباح کا قول یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ہوتونماز کو لوٹاناچاہئے،امام محمد فرماتے ہیں کہ مجھے یہی قول پسند ہے اوریہی قول امام ابوحنیفہؓ کا بھی ہے۔
مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَۃ، عَنْ عَبْدِ اللَّہ بْنِ سَعِيدِ بْنِ [ص:470] أَبِي ہنْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: إِنَّ فُلَانًا عَطَسَ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَشَمَّتَہ فُلَانٌ، قَالَ: «مُرْہ فَلَا يَعُودَنَّ»[ص:471] قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِہذَا نَأْخُذُ. الْخُطْبَۃُ بِمَنْزِلَۃ الصَّلَاۃ لَا يُشَمَّتُ فِيہا الْعَاطِسُ ، وَلَا يُرَدُّ فِيہا السَّلَامُ. وَہوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃ رَضِيَ اللَّہ عَنْہ (کتاب الآثارللامام محمدؒ،ص:472)
مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَۃ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاہيمَ، قَالَ: «يُرَدُّ السَّلَامُ وَيُشَمَّتُ الْعَاطِسُ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَۃ»  قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِہذَا، وَلَكِنَّا نَأْخُذُ بِقَوْلِ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ رَحِمَہ اللَّہ تَعَالَی (کتاب الآثارللامام محمدؒ،ص:469)
جب جمعہ کا خطبہ شروع ہو،ایسے میں اگرکوئی سلام کرے،یاکسی کو چھینک آجائے اس کا جواب دینے کے بارے میں سعید بن المسیب کی رائے یہ ہے کہ نہ سلام کا جواب دیاجائے اورنہ چھینک کا ،جب کہ ابراہیم نخعی کی رائے یہ ہے کہ سلام اورچھینک کا جواب دیاجائے،امام محمد فرماتے ہیں ہم ابراہیم نخعی کے قول کو اختیار نہیں کرتے ہیں، ہم اس مسئلہ میں سعید بن المسیب کا قول اختیار کرتے ہیں اوریہی قول امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کابھی ہے۔
کتاب الآثار حضرت شاہ ولی اللہ کے موقف کی دلیل نہیں، بلکہ ان کی بات کی تردید کرتی ہے اوراس بات کو بخوبی واضح کرتی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ نے اپنے قول اورمسلک میں کسی علاقائی حد بندی میں محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے ہرجگہ سے کسب فیض کیاہے، چاہے وہ کوفی فقہ ہو،مکی فقہ ہو یامدنی فقہ ہو اورحضرت شاہ ولی اللہ کا یہ کہناکہ’’ وہ ابراہیم کے اقوال سے باہر نہیں جاتے اوراگرابراہیم کے اقوال سے کہیں باہر نکلتے بھی ہیں تو فقہائے کوفہ کے اقوال سے باہر نہیں جاتے’’اس کی بہترین تردید خود کتاب الآثار کررہی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کایہ کلام کہ امام صاحب فقہ کوفی کے متبع ہیں، اس کی احسن طورپر تردید خود امام شافعی کی کتاب الام میں باب اختلاف علی وعبداللہ بن مسعود سے ہوتی ہے،جس میں امام شافعی نے ان مسائل کی نشاندہی کی ہے، جہاں احناف نے یاامام ابوحنیفہؓ نے حضرت علیؓ اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ رضی اللہ عنہ کے قول سے اختلاف کیاہےاوریہ باب خاصا طویل ہے،تعجب ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ امام شافعی کے ساتھ خصوصی شغف رکھتے ہیں(الانصاف فی بیان سبب الاختلاف،ص:۸۶) اوران کی کتابوں میں کتاب الام کا حوالہ بھی ملتاہے، ان کی نظر کیسے اس باب میں چوک گئی؟حضرت امام شافعی کا طرز عمل اس باب میں یہ ہے کہ وہ اولاًحضرت علیؓ یاحضرت عبداللہ بن مسعود کی فقہی رائے نقل کرتے ہیں اورپھر بتاتے ہیں کہ اس مسئلہ پر احناف کا عمل نہیں ہے،امام شافعی نے اس کا اہتمام کیاہے کہ ہراہم فقہی باب میں ان حضرات کی رائے نقل کرنے کے بعد یہ بتایاجائے کہ اس رائے پر احناف عمل نہیں کرتے ہیں(دیکھئے،کتاب الام للامام الشافعی ۷؍۱۷۲ تا۷؍۲۰۰) صرف نمونہ کے لحاظ سے ایک مثال ذکر کی جاتی ہے:
أَخْبَرَنَا ابْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ أَنَّ عَلِيًّا سُئِلَ عَنْ الْقُبْلَۃ لِلصَّائِمِ فَقَالَ: مَا يُرِيدُ إلَی خُلُوفِ فَمِہا وَلَيْسُوا يَقُولُونَ بِہذَا يَقُولُونَ: لَا بَأْسَ بِقُبْلَۃ الصَّائِمِ.(کتاب الام ۷؍۱۹۹)
عبیدبن عمیر کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ سے ایسے روزہ دار کے بارے میں پوچھاگیاجس نے اپنی بیوی کا بوسہ لیاہو، حضرت علی ؓ نے فرمایاکہ شاید وہ اپنے منہ کی بو کوبرقرارنہیں رکھناچاہتا،جب کہ احناف کا قول حضرت علی ؓ کے اس قول کے مطابق نہیں ہے ،وہ کہتے ہیں کہ روزہ دار کے بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
رواس قلعہ جی عالم عرب کے مشہور محقق ہیں اورانہوں نے اسلاف کی فقہ پر بڑامعتبر اوروقیع کام کیاہے، اورہرشخصیت کے فقہی آراء کا علاحدہ موسوعہ تیار کیاہے،ان کی اس پہلی کی اہل علم نے ستائش کی ہے ،ان کا ایک فقہی موسوعہ حضرت ابراہیم نخعی پر ہے، جس میں انہوں نے حضرت ابراہیم نخعی کے تمام اجتہادی آراء کو تفصیل کے ساتھ مزین کیاہے۔کتاب کے پہلے باب میں جہاں انہوں نے حضرت ابراہیم نخعی کی شخصیت اوران کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کی ہے، وہیں ایک باب انہوں  نے اس عنوان سے بھی قائم کیاہے کہ حضرت ابراہیم نخعی کی شخصیت کا فقہ حنفی پر کیااثر پڑاہے، اس باب میں انہوں نے پہلی بات تویہ کہی ہے کہ وہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تجزیہ سے بالکل متفق ہیں کہ ابراہیم نخعی کے اقوال ہی فقہ حنفی کا مصدر اورسرچشمہ ہیں اورانہی کےا قوال پر امام ابوحنیفہ اورصاحبین تخریج کرتے ہیں، اس دعویٰ کو انہوں نے یہ کہہ کر مؤکد کیاہے :
ولقد اخذت عینۃ مؤلفۃ من مائۃ مسألۃ فرعیۃ من فقہ ابراہیم النخعی، فوجدت أن أباحنیفۃ یوافقہ فی أربع وثمانین مسألۃویخالفہ فی ست عشرۃ مسألۃ ،نعم ان اباحنیفۃ اخذ فقہ ابراہیم النخعی ،ولکن اخذہ کان اخذ العالم المجتھد الواعی ،عن المجتھد الواعی (موسوعۃ فقہ ابراہیم النخعی ۱؍۱۵۰)
میں نے ابراہیم نخعی اورحنیفہ کے فروعی مسائل کا تقابلی جائزہ لیا تو پایا کہ سومسائل میں سے ۸۴مسائل میں دونوں متفق ہیں اور ۱۶مسائل میں دونوں میں اختلاف ہے ،ہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ امام ابوحنیفہ کاابراہیم نخعی کی فقہ کو اختیار کرنا اسی قبیل سے ہے جس قبیل سے ایک مجتہد دوسرے مجتہد کی رائے کو اختیار کرتاہے۔
اولاًتویہ رائے بذات خود قابل تنقید نظرآتی ہے ،کیونکہ محض کتاب الاثار کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ ابراہیم نخعی کے امام ابوحنیفہ کی مخالفت تقریباًپچاس سےز ائد ہے،ایسے میں ان کامحض سولہ کی تعداد بیان کرنا درست نہیں ہے،دوسری بات یہ ہے کہ ابراہیم نخعی کے مربی ،علمی سرپرست اورماموں حضرت علقمہ کے فقہی آراء پرعبدالرحمن یوسف اسماعیل ملاوی نے اپنے ایم اے کا مقالہ جامعہ ام القریٰ میں لکھاہے، اس میں انہوں نے حضرت علمقہ کے فقہی آراء اوراحناف کے فقہی آراء کا تقابلی مطالعہ کیاہے ،اس کاخلاصہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
وقد بلغت المسائل التی جمعتھا لعلقمۃ مائۃ وتسع مسائل تأثرالحنفیۃ فیہا فی احدی وثمانین مسألۃ ،وھذادلیل واضح علی تاثر الحنفیۃ بفقہ علقمۃ بن قیس النخعی(فقہ علقمہ بن قیس النخعی فی العبادات واثرہ فی الفقہ الحنفی۳)
اب سومیں سےچوراسی مسائل میں نخعی کی موافقت کی بناء پر نظریہ تخریج درست ٹھہرتاہے تواس کے بالمقابل ۱۰۹میں سے ۸۱مسائل میں موافقت کی بناء پر علقمہ کی تخریج کا نظریہ کیوں نہ تسلیم کیاجائے،بالخصوص جب کہ امام ابوحنیفہ نخعی سے زیادہ علقمہ کی فقاہت کے قائل ہیں، چنانچہ آپ کا ہی مناظر شاہ ولی اللہ نے نقل کیاہے  کہ آپ نے  فرمایا: اگرشرف صحبت کا پاس نہ ہوتا تومیں کہتاکہ علقمہ ابن عمر سے زیادہ فقیہ ہیں۔
اوراگرمحض موافقت ہی نظریہ تخریج کیلئے کافی ماناجائے تو حضرت عبداللہ بن مسعود اورحضرت عمرؓ کی فقہی آراء میں کافی موافقت ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ حضرت عمرؓ کاقول ملنے پر اپنی فقہی رائے ترک کردیتے تھے اوریہ فرماتے تھے کہ اگر سارے لوگ بھی کسی الگ وادی میں چلیں اور حضرت عمرؓ الگ وادی میں چلیں تو میں عمر کی وادی میں چلناپسند کروں گا یعنی ان کی رائے کی موافقت کروں گا،ان تاثرانہ اقوال اور فقہی آراء میں موافقت کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو حضرت عمرؓ کے قول پر تخریج کرنے والا کیوں نہ ماناجائے۔

نظریہ تخریج کی عدم وضاحت اورالجھن

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اہل الرائے اوراہل الحدیث کے درمیان جوہری فرق’’تخریج ‘‘کو قراردیا،لیکن تخریج کی بحث میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نظریہ میں کچھ الجھن سی محسوس ہوتی ہے،مثلا ماقبل میں آپ نے ملاحظہ کیاکہ انہوں نے اہل حدیث کے بالمقابل تخریج کواحناف یا اہل الرائے کا شعار وطرزعمل قراردیا اور اسی کو اہل حدیث اوراہل الرائے میں وجہ امتیاز بیان کیا،لیکن ایک جگہ حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ تخریج کا عمل محدثین کے بھی یہاں جاری ہے :
 وَكَانَ أہل التَّخْرِيج مِنْہم يخرجُون فِيمَا لَا يجدونہ مُصَرحًا، ويجتہدون فِي الْمَذْہب، وَكَانَ ہؤُلَاءِ ينسبون إِلَی مَذْہب أحدہم فَيُقَال: فلَان شَافِعِيّ، وَفُلَان حَنَفِيّ، حجۃ اللہ البالغۃ (1/ 261)
“اور اہل حدیث میں سے تخریج کرنے والے جب کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی صریح قول نہیں پاتے تھے تو وہ تخریج کرتے ہوئے اور یہ لوگ مجتہد فی المذہب کے درجہ پر تھے اوریہ لوگ کسی ایک جانب منسوب نہیں کئے جاتے تھے جیساکہ دوسروں کو حنفی شافعی کہاجاتاتھا”
مزید برآں حضرت شاہ ولی اللہ اسی مبحث میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ تخریج کا عمل ہرایک کے یہاں کثرت سے ہواہے(مراد اہل الرائے اوراہل الحدیث ہیں) - (الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف،ص 61) پھر حضرت شاہ ولی اللہ ہی اسی مبحث میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ تخریج کا عمل دوصدی کے بعد ہوا ہے،یعنی تیسری صدی میں ۔  (الإنصاف،ص68)
سوال یہ ہے کہ اگر تخریج کا ظہور دوسری صدی ہجری کے بعد تیسری صدی ہجری میں ہواہے اور وہ بھی تھوڑا بہت ،توپھر حضرت امام ابوحنیفہ اور صاحبین جن کا انتقال تیسری صدی ہجری سے قبل ہوچکاتھا، ان کو ابراہیم کےا قوال پر تخریج کرنے والابتانا کہاں تک درست ہوسکتاہے؟
حضرت شاہ ولی اللہ کے تخریج کے نظریہ میں اس الجھن کو دکتور عبدالمجید نے بھی محسوس کیا ہے،چنانچہ وہ حضرت شاہ ولی اللہ کے نظریہ تخریج کے داخلی الجھنوں اورموقف میں تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 اور ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محدث دہلوی پہلے  تخریج کا ایک زمانہ متعین کرتے ہیں اورپھر اس کو تمام زمانوں پر منطبق کردیتے ہیں یعنی سعید بن المسیب ،ابراہیم اورزہری،امام مالک سفیان اوربعد کے زمانہ وغیرہ کو۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تخریج کے بارے میں انہوں نے جس نظریہ کا اظہار کیاہے ،اس کا ظہور تقلید کے دور میں ہواہے، دوسری صدی ہجری تک وہ چیز تھی ہی نہیں، جیساکہ اس کا اعتراف محدث دہلوی نے بھی خود کیاہےچنانچہ وہ لکھتے ہیں:
جان لو! کہ چوتھی صدی ہجری سے قبل لوگ محض تقلید پر قانع نہیں تھے ابوطالب مکی نے قوت القلوب میں لکھاہے ،کتب اور مجموعات نئی چیزیں ہیں، اسی طرح لوگوں کی باتیں، کسی ایک کے قول پر فتویٰ دینا اور ہرچیز میں اسی کی جانب رجوع کرنا،کسی ایک شخص کے فقہی مذاہب سے آگاہی حاصل کرنا پہلی اوردوسری صدی ہجری میں نہیں تھا ،اورشاہ ولی اللہ خود بھی لکھتے ہیں کہ دوصدیوں کے بعد تخریج کا تھوڑا بہت ظہور ہوا۔
شاہ ولی اللہ باوجود یہ کہ اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ دو صدی کے بعد تخریج کا تھوڑا تھوڑا ظہور ہوا(امام ابوحنیفہ کا انتقال ۱۵۰ہجری میں ہوچکاتھا)محدث دہلوی زبردستی اوربتکلف اپنانظریہ قائم کرتےہیں اور رائ کا اطلاق محض احناف پر کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ کے متعلق ایساتاثر پیش کرتے ہیں کہ ان کی حیثیت محج ابراہیم نخعی کے مقلد اوران کےا قوال پر تخریج کرنے والے کی ہے ،مزید تعجب یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ کو اس کا بھی اعتراف ہے کہ تخریج محض احناف کے یہاں نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب اورمسالک میں بھی تخریج سے کام لیاگیاہے، چنانچہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: “ہرمذہب ومسلک میں تخریج بکثرت ہوئی”اور خود شاہ ولی اللہ اہل الحدیث کااصول بیان کرتے ہوئے لکھ چکے ہیں:”اور اہل حدیث میں سے تخریج کرنے والے جب کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی صریح قول نہیں پاتے تھے تو وہ تخریج کرتے ہوئے اور یہ لوگ مجتہد فی المذہب کے درجہ پر تھے اوریہ لوگ کسی ایک جانب منسوب نہیں کئے جاتے تھے جیساکہ دوسروں کو حنفی شافعی کہاجاتاتھا۔”محدث دہلوی کیلئے مناسب تھاکہ وہ اشارتاًیہ بیان کرتے کہ سنی مذاہب ومسالک کے درمیان کوئی جوہری اختلاف نہیں ہے، سب کے اصول ایک ہیں اور استنباط واجتہاد کے طریقہ میں بھی کوئی ایسااصولی اختلاف نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی کو گلے لگایاجائے اورکسی کو دھتکاراجائے ،اور ہرایک کے مسلک  میں کچھ چیزیں آسان اورکچھ چیزیں مشکل ہیں اورہرایک نے رفتار زمانہ کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے جس سے عوام الناس کا بھلاہوا.،محدث دہلوی کا امام ابوحنیفہ کو مخرجی میں شمار کرنا اور ان کو اسی وجہ سے اہل الرائے بتلاناایسی بات ہے جودلائل کے برعکس ہے۔”(الاتجاهات الفقهيۃ عند أصحاب الحديث في القرن الثالث الهجري، الناشر: مكتبة الخانجي، مصر.ص88-89)

نظریہ تخریج کے خلاف دلائل

حضرت شاہ صاحب کا دعویٰ ہے کہ امام ابوحنیفہ ابراہیم نخعی اور ان کے دیگرمعاصرین فقہاء کوفہ کے مذہب پر سختی سے چمٹے ہوئے تھے اوراس سے کبھی کبھار تجاوز کرتے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ابراہیم نخعی کے اجتہادی اقوال وفتاویٰ کو اپنے لئے حجت تسلیم کرتے تھے اورجب کسی مسئلہ میں ابراہیم کاکوئی قول مل جاتاتھاتواس سے تجاوز نہیں کرتے تھے ،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کایہ نظریہ کئی بنیادوں پر کمزور ہے،ہم ترتیب وار اس کو بیان کریں گے۔
۱ :اس نظریہ کے حق میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پاس حضرت امام ابوحنیفہ کا کوئی قول موجود نہیں ہے،امام ابوحنیفہ کے شاگردوں یاان کے شاگردوں کے شاگرد کابھی اس طرح کا کوئی قول موجود نہیں ہے جس سے ان کے نظریہ ٔتخریج کی تائید ہوتی ہو،یہ نظریہ تمام تر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کاذاتی استدلال بلکہ اجتہاد ہے،یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ہی ہیں، جو بعض اصول فقہ احناف پر یہ کہہ کر تنقید کرتے ہیں کہ یہ ائمہ احناف سے مروی نہیں ہیں، لہذا اس کی صداقت مشتبہ ہے بلکہ متاخرین نے ان کو وضع کیاہے(الانصاف،ص۹۱)لیکن وہ نظریہ جوتمام تر متقدمین ومتاخرین علماء سے ہٹ کرہواورمحض حضرت شاہ ولی اللہ کے ذہن رساکی دین ہو، اس کو کہاں تک معتبر مانااورسمجھاجائے، خود ان کے ہی اس قول کی روشنی میں ،یہ اہل علم کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے؟

امام ابوحنیفہ تابعی کی تقلید نہیں کرتے

۲ :ابراہیم نخعی تابعی تھے اور تابعی میں بھی محدثین نے انہیں کبار تابعین کے درجے میں نہیں بلکہ اوسط درجے کا تابعی قراردیاہے(محدثین میں سے بعض نے ان کو صغار درجہ کا تابعی بتایاہے)،ابراہیم نخعی خواہ اوسط درجے کے تابعی ہوں یاصغار درجے کے،یہ واضح ہے کہ جو مقام ومرتبہ علقمہ ،مسروق،ربیع بن خیثم اوراسود رضی اللہ عنہم کا ہے، وہ ابراہیم نخعی کا نہیں ہوسکتا،حضرت امام ابوحنیفہ کا اپناقول یہ ہے کہ وہ تابعی خواہ وہ کسی درجہ کا ہو،وہ تابعین حضرات کے احترام آراء کے باوجود ان کے قول پراکتفاء نہیں کریں گے،بلکہ ان کی ہی طرح قرآن وحدیث سے اجتہاد کریں گے۔
حَدثنَا يحيی قَالَ حَدثنَا عبيد بن أبي قُرَّۃ قَالَ سَمِعت يحيی بن ضريس يَقُول شہدت سُفْيَان وَأَتَاہ رجل فَقَالَ مَا تنقم علی أبي حنيفَۃ قَالَ وَمَالہ قَالَ سمعتہ يَقُول آخذ بِكِتَاب اللہ فَمَا لم أجد فبسنۃ رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَيْہ وَسلم فَإِن لم أجد فِي كتاب اللہ وَلَا سنۃ آخذ بقول أَصْحَابہ آخذ بقول من شِئْت مِنْہم وأدع قَول من شِئْت ولاأخرج من قَوْلہم إِلَی قَول غَيرہم فَإِذا مَا انْتہی الْأَمر أَو جَاءَ الْأَمر إِلَی إِبْرَاہيم وَالشعْبِيّ وَابْن سِيرِين وَالْحسن وَعَطَاء وَسَعِيد بن الْمسيب وَعدد رجَالًا فقوم اجتہدوا فأجتہد كَمَا اجتہدوا ۔(تاریخ ابن معین روایۃ الدوري 4/63)
ترجمہ:یحیی ضریس کہتے ہیں میں سفیان ثوری کی مجلس میں حاضر تھاکہ ایک شخص آیا(بعض روایات میں ذکر ہے کہ وہ شخص علم اورعبادت میں مشہور تھا)اس نے سفیان ثوری سے کہاکہ آپ ابوحنیفہ پر نکتہ چینی کیوں کرتے ہیں ،سفیان ثوری نے کہا،تم یہ بات کیوں پوچھ رہے ہو، اس شخص نے جواب دیاکہ میں نے ابوحنیفہ کو کہتے ہوئے سناہے کہ میں کسی مسئلہ میں سب سے پہلے اللہ کی کتاب سے دلیل اخذ کرتاہوں، اگراس میں نہ ملے تورسول اللہ کی احادیث میں ڈھونڈتاہوں،اگرکتاب وسنت میں نہ ملے تو پھرصحابہ کے اقوال میں سے کسی ایک کو اختیارکرلیتاہوں،ہاں جب معاملہ ابراہیم ،شعبی، ابن سیرین ،حسن عطاء وغیرہ تک پہنچتاہے (یعنی وہ مسئلہ نہ توکتاب وسنت میں ہے اورنہ کسی صحابی نے اس پر لب کشائی کی ہے اورحضرات تابعین نے اس بارے میں اجتہاد کیاہے)اورمزید چندنام گنائے جنہوں نے اجتہاد کیاہے،تومیں بھی ان کی طرح اجتہاد کرتاہوں۔
اس اقتباس سے یہ بھی پوری وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ شاہ ولی اللہ نے ماقبل میں جو یہ دعویٰ کیاہے کہ الزمھم بمذہب ابراہیم ،تو یہ درست نہیں ہے، حضرت امام ابوحنیفہ تو نہایت صراحت اور وضاحت کے ساتھ سعید بن المسیب اورابراہیم نخعی کانام لےکرکہہ رہے ہیں کہ وہ ان حضرات کی آراء اورفتاویٰ کے پابند نہیں ؛بلکہ جیسے انہوں نے قرآن وحدیث اوردیگر دلائل شرعیہ سےا جتہاد کیاہے، ویسے ہی وہ بھی اجتہاد کریں گے۔
ابراہیم نخعی تابعی اوران کے معاصرین تابعی ہیں، اور امام ابوحنیفہ نے متعدد مواقع پر اپنایہ مسلک صاف وصریح لفظوں میں بیان کیاہے کہ وہ تابعین کے اجتہاد وفتاویٰ کے پابند نہیں ہیں۔
أَبُو حَمْزَۃ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَۃ يَقُولُ إِذَا جَاءَنَا الْحَدِيثُ عَنْ رَسُولِ اللَّہ صلی اللہ عَلَيْہ وَسلم أَخَذْنَا بِہ وَإِذَا جَاءَنَا عَنِ الصَّحَابَۃ تَخَيَّرْنَا وَإِذَا جَاءَنَا عَنِ التَّابِعِينَ زَاحَمْنَاہمْ  (الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ للامام ابن عبدالبر ص144)
ابوحمزہ کہتے ہیں ،میں نے ابوحنیفہ کو کہتے ہوئے سناہے جب کسی مسئلہ میں رسول پاک کی حدیث آجائے تو ہم اس پر عمل کرتے ہیں اور جب صحابہ سے ایک مسئلہ میں متعدد اقوال منقول ہوں توان متعدد اقوال میں سے کسی ایک پر عمل کرتے ہیں اورجب تابعین کے اقوال  کی باری آتی ہے توہم ان سے مزاحمت کرتے ہیں(یعنی جس طرح انہوں نے اجتہاد کیاہے ،اسی طرح ہم بھی اجتہاد کرتے ہیں، ہم ان کے اجتہاد کے پابند نہیں  ہیں)
أَبُو عِصْمَۃ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَۃ يَقُولُ مَا جَاءَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّہ صلی اللہ عَلَيْہ وَسلم قَبِلْنَاہ عَلَی الرَّأْسِ وَالْعَيْنَيْنِ وَمَا جَاءَنَا عَنْ أَصْحَابِہ رَحِمَہمُ اللَّہ اخْتَرْنَا مِنْہ وَلَمْ نَخْرُجْ عَنْ قَوْلِہمْ وَمَا جَاءَنَا عَنِ التَّابِعِينَ فَہمْ رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَالٌ. (الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ للامام ابن عبدالبر ص144)
ابوعصمہ کہتے ہیں کہ جو کچھ رسول پاک سے منقول ہے وہ ہمارے سرآنکھوں پر اور جوکچھ صحابہ کرام سے منقول ہے تواس میں سے کسی ایک قول کو ہم اختیار کریں گے اورایسانہیں ہوگاکہ ہم کسی بھی صحابی کے قول کو اختیار نہ کریں اورجوکچھ تابعین سے منقول ہے تووہ بھی اجتہاد کے میدان کے مرد ہیں اورہم بھی میدان اجتہاد میں داد شجاعت دیتے ہیں۔
یہ معلوم حقیقت ہے کہ صاحب واقعہ کابیان اپنی نسبت سب سے زیادہ معتبر ہوتاہےلہذا حضرت امام صاحب کا یہ قول کہ وہ ابراہیم نخعی ،سعید بن المسیب اوردیگر تابعین کے فتاویٰ اوراجتہاد کوماننے کے پابند نہیں، بلکہ وہ ان کی طرح اجتہاد کرتے ہیں ،انتہائی معتبر  اوررمستند  ہے اوراس کے بالمقابل حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کا فرمان کہ وہ ابراہیم اوران کے ہمعصر فقہائے کوفہ سے چمٹے ہوئے تھے،امام ابوحنیفہ کے بیان کے بالمقابل قابل اعتبار نہیں رہ جاتا۔

اصول فقہ میں تابعی کی تقلید جائز نہیں ہے

۳: حیرت کی بات یہ ہے کہ شاہ صاحب اصول فقہ احناف سے اتنی ہی اچھی طرح واقف ہیں جتناکہ کسی مسلک کا کوئی متبحر عالم اپنے مسلک کے اصولوں سے ہوسکتاہے،اس کے باوجود ان سے اصول فقہ کا یہ متفقہ مسئلہ نظرانداز ہوگیا کہ احناف کے یہاں تابعین کے اقوال کی لازمی حیثیت نہیں ہے، صحابہ کے اقوال اگرکسی مسئلہ میں متفق ہوں تواس متفقہ رائے کی پابندی ضروری ہے، اگرمختلف ہوں توکسی ایک قول کو ترجیح دے کر اپنایاجائے ،لیکن ایساکرنا کہ کسی بھی صحابی کے قول کو اختیار نہ کیاجائے، یہ جائز نہیں، جہاں تک تابعین کی بات ہے تو تابعین کے قول کی پابندی ضروری نہیں ہے، احناف کی اصول فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ وضاحت کے ساتھ مذکور ہے،امام سرخسی اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
لَا خلاف أَن قَول التَّابِعِيّ لَا يكون حجَّۃ علی وَجہ يتْرك الْقيَاس بقولہ فقد روينَا عَن أبي حنيفَۃ أَنہ كَانَ يَقُول مَا جَاءَنَا عَن التَّابِعين زاحمناہم (اصول السرخسی2/114)
“اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تابعی کا قول اس طورپر حجت نہیں ہےکہ اس کی وجہ سے قیاس کو ترک کیاجائے، کیونکہ امام ابوحنیفہ سے منقول ہے ،جوکچھ تابعین سے منقول ہے ،ہم اس میں ان کی مزاحمت کریں گے۔ “
جب کہ علامہ علاء الدین بخاری تقلید تابعی کے مسئلہ پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ذَكَرَ الصَّدْرُ الشَّہيدُ حُسَامُ الدِّينِ - رَحِمَہ اللَّہ - فِي شَرْحِ أَدَبِ الْقَاضِي أَنَّ فِي تَقْلِيدِ التَّابِعِيِّ عَنْ أَبِي حَنِيفَۃ - رَحِمَہ اللَّہ - رِوَايَتَيْنِ إحْدَاہمَا أَنَّہ قَالَ: لَا أُقَلِّدُہمْ ہمْ رِجَالٌ اجْتَہدُوا وَنَحْنُ رِجَالٌ نَجْتَہدُ وَہوَ الظَّاہرُ مِنْ الْمَذْہبِ وَالثَّانِيَۃُ مَا ذُكِرَ فِي النَّوَادِرِ أَنَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَئِمَّۃ التَّابِعِينَ وَأَفْتَی فِي زَمَنِ الصَّحَابَۃ وَزَاحَمَہمْ فِي الْفَتْوَی وَسَوَّغُوا لَہ الِاجْتِہادَ فَأَنَا أُقَلِّدُہ.................... وَجْہ الظَّاہرِ أَنَّ قَوْلَ الصَّحَابِيِّ إنَّمَا جُعِلَ حُجَّۃ لِاحْتِمَالِ السَّمَاعِ وَلِفَضْلِ إصَابَتِہمْ فِي الرَّأْيِ بِبَرَكَۃ صُحْبَۃ النَّبِيِّ - عَلَيْہ السَّلَامُ - وَذَانِكَ مَفْقُودَانِ فِي حَقِّ التَّابِعِيِّ.وَإِنْ بَلَغَ الِاجْتِہادَ وَزَاحَمَہمْ فِي الْفَتْوَی وَلَا حُجَّۃ لَہمْ فِيمَا ذَكَرُوا مِنْ الْأَمْثِلَۃ؛ لِأَنَّ غَايَۃ ذَلِكَ أَنَّہمْ صَارُوا مِثْلَہمْ فِي الْفَتْوَی وَزَاحَمُوہمْ فِيہا وَأَنَّ الصَّحَابَۃ سَلَّمُوا لَہمْ الِاجْتِہادَ وَلَكِنَّ الْمَعَانِيَ الَّتِي بُنِيَ عَلَيْہا وُجُوبُ التَّقْلِيدِ مِنْ احْتِمَالِ السَّمَاعِ وَمُشَاہدَۃ أَحْوَالِ التَّنْزِيلِ وَبَرَكَۃ صُحْبَۃ الرَّسُولِ - عَلَيْہ السَّلَامُ - مَفْقُودَۃٌ فِي حَقِّہمْ أَصْلًا فَلَا يَجُوزُ تَقْلِيدُہمْ بِحَالٍ.
(كشف الأسرار شرح أصول البزدوي،المؤلف: عبد العزيز بن أحمد بن محمد، علاء الدين البخاري الحنفي (المتوفی: 730هـ)الناشر: دار الكتاب الإسلامي 3/226)
“صدرشہیدحسام الدین ؒ نے ادب القاضی کی شرح میں لکھاہے کہ تابعی کی تقلید کے بارے میں امام ابوحنیفہ سے دوروایتیں منقول ہیں پہلی تویہ ہے کہ میں ان کی تقلید نہیں کروں گا ،وہ بھی میدان اجتہاد کے مرد ہیں اور ہم بھی میدان اجتہاد کےمرد ہیں، اور ظاہر مذہب یہی ہے اوردوسری روایت وہ ہے جو نوادر میں منقول ہے  وہ ائمہ تابعین جودورصحابہ میں بھی فتویٰ دیاکرتے تھے اورصحابہ کرام کی آراء واجتہاد سے ٹکر لیتے تھے اور صحابہ کرام نے ان کو اجتہاد کی گنجائش دی تھی تومیں ان کی تقلید کروں گا..........ظاہر مذہب کی دلیل یہ ہے کہ صحابی کے قول کو تواس لئے حجت بنایاگیاہے کہ اس میں اس کا احتمال ہے کہ وہ جوکچھ اپنی رائے کے طورپر بیان کررہے ہیں ،ہوسکتاہے کہ انہوں نے اس بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد سناہواوریہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف صحبت سے ان کی رائے کے درست ہونے کا احتمال زیادہ ہےاوریہ دونوں باتیں تابعین کے حق میں مفقود ہیں اگرچہ وہ تابعی درجہ اجتہاد کو پہونچاہو اور صحابہ کرام کے فتاوی وآراء کی مخالفت ہی کیوں نہ کرتاہو،تابعین کے اقوال کے قابل تقلید ہونے کی سلسلے میں جو دلیلیں بیان کی گئیں وہ کسی بھی طورپرقابل تسلیم نہیں ہیں،کیوں کہ اس باب میں جو دلائل ذکر کئے گئے ہیں، ان کا مفاد بس اسی قدر ہے کہ وہ صاحبان اجتہاد تھے، انہوں نے صحابہ کرام کے اجتہاد وآراء کی مخالفت بھی کی ہےلیکن تقلید صحابی جس بنیاد پر قائم ہے یعنی اس قول کاحدیث رسول ہونے کا احتمال اورشرف صحبت کی برکت سے اجتہاد میں صواب کے پہلو کا راجح ہونا اوروحی کے نزول کا مشاہدہ وغیرہ تویہ سب امور تابعین کے حق میں کلیتاًمعدوم ہیں سوتابعین کی تقلید کسی بھی حال میں جائز نہیں۔”
مشہورحنفی اصولی محمد شمس الدین فناری لکھتے ہیں:
وأما التابعی فيقلد في روايۃ النوادر إن ظہر فتواہ في زمنہم كشريح ومسروق والنخعی والحسن البصري لتسليمہم مزاحمتہ إياہم إياہم فيكون كأحدہم كما خاصم علي رضي اللہ عنہ شريحًا فخالفہ في رد شہادۃ الحسن رضي اللہ عنہ لہ بالبنوۃ لا يقلد في ظاہر الروايۃ إذ ہم رجال ونحن رجال بخلاف صحبہ عليہ السلام لاحتمال السماع والإصابۃ ببركۃ صحبتہ والقرن المشہود لہ بالخيريۃ المطلقۃ وإن لم يظہر فلا. (فصول البدائع في أصول الشرائع، المؤلف: محمد بن حمزۃ بن محمد، شمس الدين الفناري (أو الفَنَري) الرومي (المتوفی: 834هـ)الناشر: دار الكتب العلميۃ، بيروت 2/439)
“نوادر کی روایت یہ ہے کہ ایساتابعی جس کااجتہاد دورصحابہ میں بھی مشہور ہوجیسے کہ شریح،مسروق ،نخعی ،حسن بصری توان کی تقلید کی جائے گی کیونکہ صحابہ کرام نے ان کو اجتہاد کا اہل سمجھااور اس کی اجازت دی کہ وہ ان کی آراء کی مخالفت کرسکیں توگویااس باب میں ایسے تابعی بھی صحابہ کرام کی طرح ہیں،جیساکہ حضرت علی نے شریح کے روبرو مقدمہ پیش کیاتوبیٹے کی شہادت قبول کرنے کے بارے میں شریح نے حضرت علیؓ کی مخالفت کی،اورظاہر روایت یہ ہے کہ تابعین کی تقلید نہیں کی جائے گی کیونکہ جس طرح انہوں نے اجتہاد کیاہے،اسی طرح دوسرے مجتہدین کو بھی اجتہاد کا حق حاصل ہے،برخلاف صحابہ کے ،کیونکہ ان کے بارے میں احتمال ہے کہ وہ جس قول کو رائے کے طورپر بیان کررہے ہوں،ہوسکتاہے کہ اس بارے میں انہوں نے زبان رسالت سے کچھ سناہو،شرف صحبت سے ان کی رائے کے صواب ہونے کا بھی احتمال زیادہ ہےاوروہ ایسے دور میں تھے جب ہرطرف بھلائی کا دور دورہ تھا اورجس کے مطلقا خیر ہونے کی زبان رسالت نے گواہی دی ہے۔”

مکی، مدنی اوربصرہ فقہاء ومحدثین کرام سے استفادہ

۴: امام صاحب نے یقیناًفقہائے کوفہ سےاستفادہ کیاہے، بالخصوص حماد کے واسطے سے ابراہیم نخعی کے اقوال وآراء سے مستفید ہوئے ہیں اورفقہ کوفی کے بانی حضرت عبداللہ بن مسعود کی فقہ سے استفادہ کیاہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ امام صاحب نے حضرت ابن عباس،حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہ کی فقہ سے بھی استفادہ کیاہے،چنانچہ ایک موقع پر جب عباسی خلیفہ منصور نے حضرت امام صاحب سے ان کے علم کا ماخذ دریافت کیا تو امام صاحب نے فرمایا:
عن حماد، عن إبراہيم، عن عُمَر بن الخطاب، وعلي بن أبي طالب، وعبد اللہ بن مسعود، وعبد اللہ بن عباس، قال: فقال أَبُو جعفر: بخ، بخ، استوثقت ما شئت يا أبا حنيفۃ الطيبين الطاہرين المباركين، صلوات اللہ عليہم۔(تاريخ بغداد،المؤلف: الخطيب البغدادي (المتوفی: 463هـ،15/444)
حماد سے ،ابراہیم سے، عمربن خطاب ؓ سے ،علی بن ابی طالبؓ سے،عبداللہ بن مسعودؓ سے اور عبداللہ بن عباس ؓ سے،یہ سن کر ابوجعفر نے کہا،بس بس 1۔
دخل أَبُو حنيفۃ يوما علی المنصور، وعندہ عيسى بن موسى، فقال للمنصور: ہذا عالم الدنيا اليوم، فقال لہ: يا نعمان عمن أخذت العلم؟ قال: عن أصحاب عُمَر، عن عُمَر، وعن أصحاب علي، عن علي، وعن أصحاب عبد اللہ، عن عبد اللہ، وما كان في وقت ابن عباس على وجہ الأرض أعلم منہ، قال: لقد استوثقت لنفسك۔ (المصدرالسابق)
“ربیع بن یونس کہتے ہیں امام ابوحنیفہ ایک مرتبہ منصور کے پاس گئے، اس وقت منصور کے پاس عیسیٰ بن موسیٰ بھی موجود تھے،توعیسی بن موسیٰ نے منصور سے کہاآج دنیا کے سب سے بڑے عالم یہ ہیں،یہ سن کر منصور نے امام ابوحنیفہ سے دریافت کیاکہ آپ نے کن حضرات سے علم حاصل کیاہے، امام ابوحنیفہ نے جواب دیا،حضرت عمر کے شاگردوں کے ذریعہ حضرت عمرؓ سے،حضرت علیؓ کے شاگردوں کے ذریعہ حضرت علیؓ سے اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں کے ذریعہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے اورحضرت ابن عباس کے عہد میں ان سے بڑاعالم دنیا میں کوئی نہیں تھا۔”
اس کے علاوہ کتاب الآثار امام ابویوسف اورامام محمد کے مطالعہ سے واضح ہوجاتاہے کہ امام ابوحنیفہ نے صرف کوفہ کے فقہاء اورکوفہ مین وارد صحابہ کرام سے استفادہ نہیں فرمایا بلکہ آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس ،حضرت عبداللہ بن عمر،حضرت عائشہ اور دیگر صحابہ کرام کے فقہی افکار وآراء سے بھی استفادہ کیاہے۔ 
۵: جس طرح امام صاحب نے عبداللہ بن مسعود کے ساتھ ساتھ حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر وغیرہم کے فقہ واجتہاد سے واقفیت حاصل کی، اسی طرح آپ نے مکہ مدینہ اور دیگر شہروں کے تابعین اوراکابر علماء ومجتہدین سے بھی کسب فیض کیاتھا؛لیکن یہ کہنا کہ مکہ ،مدینہ اوردیگر مقامات کے اکابر فقہاء وتابعین کا ان کی فقہی تفکیر اورتشکیل میں کوئی اثر نہیں ،انتہائی غیرفطری بلکہ غیرمعقول بات ہے،حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب نے بسااوقات اپنے غیرکوفی وغیرعراقی اساتذہ سے اپنے تاثر کابھی بڑے بلیغ لفظوں میں اظہار کیاہے،جس سے پتہ چلتاہے کہ آپ اپنے ان اساتذہ کی فقہ اورفکر سے کتنامتاثر تھے۔

حضرت عطاء سے تاثر کا اظہار

حضرت امام ابوحنیفہ نے حضرت حمادؒسے برسوں تک کس فیض کیا اوران کے آگے زانوئے تلمذتہہ کیا ،شاگردی کی یہ مدت کتنے عرصہ پر محیط تھی، اس بارے میں روایات مختلف ہیں، زیادہ سے زیادہ کی تعداد بیس سال ہے اور کم سے کم کی روایت دس سال ہے لیکن شیخ ابوزہرہ نے اٹھارہ سال کو راجح تسلیم کیا ہے۔(ابوحنیفہ حیاتہ وعصرہ ،آراؤہ وفقہہ، للشیخ ابوزہرہ ص26)اس کی وجہ یہ ہے کہ خود امام ابوحنیفہ کا ایک قول تاریخ بغداد میں ہے،جس میں انہوں نے حضرت حماد بن سلیمان سے اٹھارہ سال کے تلمذ کا اعتراف کیاہے،(تاریخ بغداد 13/334)اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ جتنے متاثر حضرت عطاء سے ہیں، اتنےحضرت حماد سے نہیں ہیں، اگر چہ وہ حماد کا ہرممکن احترام کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق کبھی ان کے مکان کی جانب اپناپاؤں نہیں پھیلایا۔(2) 
دعا میں اپنے والدین کے ساتھ حضرت حماد کیلئے دعائے مغفرت کیاکرتے تھے3(تاریخ بغداد 15/444) لیکن ان سب کے باوجود وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عطاء سے زیادہ افضل کسی شخص سے ملاقات نہیں کی4(الكامل في ضعفاء الرجال،المؤلف: أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ)الناشر: الكتب العلميۃ - بيروت-لبنان)
یہ حضرت عطاءؓ ابن ابی رباح مکی ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس کے شاگرد خصوصی ہیں،گویاان کا تعلق مکی فقہ سے ہے، حضرت ابوحنیفہ جب ابن ہبیرہ کے داروگیر سے کوفہ ترک کرکے مکہ میں رہنے لگے تھے(مناقب ابی حنیفہ للمکی1/23/24،بحوالہ ابوحنیفہ حیاتہ وعصرہ ،آراؤہ وفقہہ، للشیخ ابوزہرہ ص33)اسی دوران آپ نے حضرت عطاءؓ سے استفادہ کیا اور کتاب الآثار کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ بعض مقامات پر آپ نے ابراہیم نخعی کے قول کو  چھوڑ کر حضرت عطاء کے قول کو اختیار کیاہے( مثالیں آگے آئیں گی)

امام جعفرصادقؒ سے تاثر کا اظہار 

امام صاحب نےامام باقر اور امام جعفر صادق سےبھی استفادہ کیاہے5،اوران کے بارے میں بلند کلمات کہے ہیں، جس سے امام صاحب کے ان کی فقاہت سے تاثر کا اندازہ لگایاجاسکتاہے،شیخ ابوزہرہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
وکما کان لابی حنیفۃ اتصال علمی بالباقر ،کان لہ اتصال بابنہ جعفر الصادق، وقد کان فی سن ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہا، فقد ولدا فی سنۃ واحدۃ، ولکنہ مات قبل ابی حنیفۃ،فقد توفی سنۃ ۱۴۸، ای قبل ابی حنیفۃ بنحو سنتین ، وقد قال ابوحنیفۃ فیہ،واللہ مارأیت افقہ من جعفر بن محمد الصادق (ابوحنیفہ حیاتہ وعصرہ،آراؤہ الفقھیۃ‘‘ ص81)
“جیساکہ امام صاحب کا علمی استفادہ کا تعلق امام باقر سے تھا، اسی طرح امام جعفرصادق سے بھی تھا، امام جعفرصادق امام صاحب کے ہم عمر تھے، دونوں کی ولادت کا سال ایک ہی ہے،لیکن امام جعفرصادق کی وفات امام ابوحنیفہ سے دوسال قبل سنہ ۱۴۸ہجری میں ہوگئی تھی، امام ابوحنیفہ نے امام جعفرصادق کے بارے میں فرمایا: خدا کی قسم میں نے جعفر بن محمد الصادق سے بڑافقیہ کسی کو نہیں دیکھا۔ٍ”
یہ اقوال بتاتے ہیں کہ امام صاحب کی فقہی تشکیل اورتعمیر میں صرف کوفہ کے فقہاء نہیں بلکہ مکی اورمدنی فقہ کا بھی خاصااہم کردار رہاہے اوراس کا سب سے معتبر اور مستحکم ثبوت کتاب الآثار سے ہی ملتاہے ، جس میں وہ جابجا مکی اورمدنی فقہاء کی آراء سے استشہاد کرتے نظرآتے ہیں، تفصیل آگے آئے گی۔

امام صاحب کے علمی رحلات

یہ بات بلاشبہ قابل تسلیم ہے کہ امام صاحب نے محدثین کرام کی طرح شہروں کی خاک نہیں چھانی، لیکن اب ایسابھی نہیں ہے کہ رحلات علمیہ سے امام صاحب کی سوانح بالکل ہی خالی ہے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
وعنی بطلب الآثار ،وارتحل فی ذلک (سیراعلام النبلاء/392) امام صاحب نے آثار کی تحصیل پر توجہ مرکوز کی اوراس سلسلے میں اسفار کیے۔ ٓپ کی سیرت وسوانح سے پتہ چلتاہے کہ آپ بکثرت بصرہ جایاکرتے تھے،آپ کوبنوامیہ کے عراقی گورنر کے داروگیر کی وجہ سے مکہ میں چھ سال رہناپڑاتھا،مکہ میں قیام کے دوران دنیا بھر کے اہل علم سےاستفادہ کا موقع تھا،آپ بکثرت حج کرتے تھے، بعض حضرات نے توآپ کے حج کی تعداد ۵۵ بیان کی ہے۔ اگر اس تعداد کو مبالغہ خیال کیا جائے تو بھی اس قدر ماننے میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ اکثر حج فرماتے تھے۔ حج کے سلسلے میں مدینہ جاتے تھے، وہاں کے اہل علم سے استفادہ کا تعلق تھا، ہم عصر اہل علم سے بحث ومباحثہ ہواکرتاتھا۔اسی مدینہ کی زیارت اورامام مالک سے بحث ومباحثہ کانتیجہ اس مشہور تاثر کی صورت میں نمودار ہواہے جب امام مالک سے حضرت لیث بن سعدؓ نے دریافت کیاکہ آپ کیوں پسینہ پسینہ ہورہے ہیں، تو فرمایا:میں ابوحنیفہ کے ساتھ بحث ومباحثہ میں پسینہ پسینہ ہورہاہوں، مصری وہ واقعی فقیہ ہیں (6)۔

حواشی

1. اس روایت میں اصحاب یعنی شاگردوں کا ذکر چھوٹ گیاہے، یعنی حضرت عمر ؓکے شاگردوں کے ذریعہ حضرت عمر ؓسے اورحضرت ابن عباسؓ کے شاگردوں کے ذریعہ ان سے، الخ اس کی صراحت مابعد کی بھی روایت میں ہے اوراس پر شیخ زاہد الکوثری نے بھی تانیب الخطیب کی روایت میں تنبیہ فرمائی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے، تانیب الخطیب ص 29)
2. قال ما مددت رجلي نحو سكۃ حماد قط وكان بينہما مقدار سبع سكك، امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ کبھی میں نے حماد ؓ کی گلی کی جانب پاؤں نہیں پھیلایا، بعض روایات میں گلی کی جگہ گھر کا ذکر ہے۔ (الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیۃ۲؍۴۹۷) 
3. أبا حنيفۃ، يقول: ما صليت صلاۃ منذ مات حماد إلا استغفرت لہ مع والدي۔
4. أبا يَحْيی الحماني يَقُولُ: سَمعتُ أبا حنيفۃ يَقُولُ ما رأيت فيمن رأيت أفضل من عطاء۔
5. ابن تیمیہ نے امام جعفر صادق سے استفادہ کی تردید کی ہے لیکن ان کی تردید تاریخی حوالوں کی روشنی میں درست نہیں ہے، امام ابن تیمیہ تو امام شافعی کے امام محمد کے شاگرد ہونے کے بھی منکر ہیں اوراسی طرح اس کے بھی منکر ہیں کہ امام احمد بن حنبل امام شافعی کے شاگرد تھے۔
6. :ترتیب المدارك وتقريب المسالك،المؤلف: قاضي عياض بن موسى اليحصبي (المتوفى: 544هـ) الناشر: مطبعة فضالة - المحمدية، المغرب،۱؍۱۵۲۔

الشریعہ اکادمی کی سالانہ کارکردگی رپورٹ

مولانا مفتی محمد عثمان

الشریعہ اکادمی کا قیام آج سے ربع  صدی قبل مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب ،مدرسہ نصرۃ العلوم کے شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی صاحب کی نگرانی واہتمام میں عمل میں لایا گیا ۔اس کا بنیادی مقصد  دینی  حلقوں میں عصری تقاضوں کا شعور اجاگر کرنا اور باہمی رابطہ و تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ علمی و فکری  بیداری کی فضا قائم کرنا ہے ۔اس مقصد کے لیے تعلیم وتدریس،ابلاغ عامہ کے میسر ذرائع اور فکری و علمی مجالس کے ذریعے جدوجہد جاری ہے ۔ابتدائی چند سال اکادمی کی سر گرمیاں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جاری رہیں ۔بعد میں کھیالی گوجرانوالہ کے ایک بزرگ حاجی یوسف علی قریشی رحمہ اللہ نے ہاشمی کالونی کنگنی والہ میں ایک کنال اراضی الشریعہ اکادمی  کے لیے وقف کردی. جہاں مسجد خدیجۃ  الکبریؓ اور تعلیمی بلاک کی تعمیر کی گئی ۔تہہ خانہ اور اس کے اوپر ایک منزل تعمیر ہوچکی ہے ۔
الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہدالراشدی اور ڈپٹی ڈائریکٹر مولانا عمار خان ناصر ہیں جبکہ مولانا محمدعثمان جتوئی،مولانا طبیب الرحمن،مولانا عبدالوہاب،مولانا کامران،مولانا عبدالغنی،مولانا محفوظ الرحمٰن،قاری ابوبکر اور حافظ عبد الرحمن پر مشتمل اساتدہ ومنتظمین کی ٹیم ان کے ساتھ مصروف کار ہے۔ معاونین میں حاجی عثمان عمر ہاشمی، محمد معظم میر، محمد مبشر چیمہ، قیصرصاحب، طیب صاحب، یحییٰ میر، عاصم بٹ صاحب، ڈاکٹر محمد عمران، محمد  دلشاد، زبیر صاحب اور حاجی بشیر صاحب نمایاں ہیں ۔ 

اکادمی کے شعبہ جات

الشریعہ اکادمی میں درج ذیل شعبوں میں کام جاری ہے :

جامع مسجد خورشید ومدرسہ طیبہ کوروٹانہ

کوروٹانہ کے قریب شیخوپورہ روڈ کی طرف جانے والی سڑک پر کھیالی کے ایک مخیر دوست حاجی میاں ثناء اللہ جنجوعہ ایڈووکیٹ کے خاندان نے ایک ایکڑ زمین وقف کی  ہے جہاں الشریعہ اکادمی کے تحت جامع مسجد خورشید ومدرسہ طیبہ کوروٹانہ کی بنیاد رکھی گئی۔ ابتداءًحاجی محمد معظم میر کی نگرانی میں چند کمرے تعمیر کرکے قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا جو تاحال جاری ہے۔جبکہ تعلیمی پروگرام کی توسیع کے لیے جامع مسجد خورشید اور چند کمروں پر مشتمل تعلیمی بلاک تعمیر کر لیا گیا ہے اور انشاء اللہ رمضان کے بعد شروع ہونے والے تعلیمی سال سے وہاں با قاعدہ پڑھائی کا آغاز ہو جا ئے گا جبکہ منصوبے کے مطابق وہا ں ابھی بہت سا تعمیری کام باقی ہے ۔

علمی وفکری نشستیں/ سیمینار

اکادمی میں وقتا ًفوقتاً مختلف علمی و فکری موضوعات پر اہل علم کی نشستوں ،سیمینارز اور تربیتی ورک شاپس کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں معروف ارباب علم و فکر اظہار خیال فرماتے ہیں ۔سال رواں منعقد ہونے والی نشستوں کی تفصیل حسب ذیل ہے :

دورۂ تفسیر قرآن کریم

۶ شعبان المعظم ۱۴۳۹ھ مطابق۲۲ اپریل ۲۰۱۸ بروز اتوارسے سالانہ دورۂ تفسیر قرآن کریم و محاضرات قرآنی کا آغازکیا گیا جو ۲۷ شعبان بمطابق ۱۴ مئی تک جاری رہا۔ حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ نے  سورۃ فاتحہ ،البقرہ ،آل عمران،النساء اور آخری پارہ کی ، جبکہ مولانا فضل الہادی صاحب نے سورۃ الاعراف، الانفال، التوبہ، ارض القرآن ،جغرافیہ کے تحت آنے والی سورتوں کی تفسیر پڑھائی ۔ سورۂ یونس،رعد،ابراہیم ،النحل ،بنی اسرائیل اور الحج کی تدریس مولانا ظفر فیاض صاحب مدرس  جامعہ  نصرۃالعلوم  نے کی، جبکہ قرآن کریم کے باقی حصوں کی تدریس مولانا محمد یوسف، مولانا حافظ محمد رشید،مولانا عمار خان ناصر اور مولانا وقاراحمد نےکی ۔اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر محاضرات بھی ہوئے جن میں مولانا فضل الہادی  صاحب نے ”ارض القرآن“ کے موضوع پر،مولانا احسان الحق نے ”مشکلات القرآن “کے موضوع پر ،مولانا وقار احمدو مولانا اورنگزیب اعوان نے ”امام شاہ ولی اللہ ؒسےمولانا عبیداللہ سندھیؒ تک“  کے موضوع پر ،مولانا عبدالرشید نے ”اصول تحقیق“ کے موضوع پر ،مولانا محمد عثمان اور مولانا محمد سرور نے کیرئر کونسلنگ کے موضوع پر ،پروفیسر محمداکرم ورک صاحب نے”استشراق“ کے موضوع پر اور مولانا منیر احمد علوی صاحب نے”ختم نبوت و قادیانیت“ کے موضوع پر  لیکچر دیے ۔

جولائی ۲۰۱۸ء

سیکولرزم یا نظریاتی ریاست: بحث کو بند گلی سے نکالنے کی ضرورتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۴)ڈاکٹر محی الدین غازی
نئی زمینوں کی تلاشعاصم بخشی
ذرائع ابلاغ کی صورت حال پر عدالت عظمیٰ کا ازخود نوٹسمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی خدمات کا معاوضہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۴)مولانا عبید اختر رحمانی
درس نظامی: چند مباحثمحمد دین جوہر

سیکولرزم یا نظریاتی ریاست: بحث کو بند گلی سے نکالنے کی ضرورت

محمد عمار خان ناصر

مذہبی ریاست یا سیکولرزم کی بحث ہمارے ہاں کی بہت بنیادی اور اہم نظریاتی بحثوں میں سے ہے جس پر سنجیدہ گفتگو اور تجزیے کی ضرورت ہے، تاہم یہ حقیقت ہے کہ ابھی تک اس موضوع پر بامعنی اور نتیجہ خیز ”مکالمہ“ شروع نہیں ہو سکا۔ حقیقی مکالمے کے آغاز کی شرط اولین اس نکتے کو تسلیم کرنا ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں کے پاس اپنی بات کی قابل اعتنا فکری بنیادیں موجود ہیں جو مکالمے سے ایک دوسرے کو سمجھائی جا سکتی ہیں۔ اس بحث میں بھی دونوں فریقوں کے موقف کے کچھ پہلو اپنے داخلی میرٹ پر ایسے ہیں جن کا ابلاغ دوسرے فریق تک ہونا چاہیے اور جو مخالف موقف پر اثر انداز ہونے کی فکری صلاحیت بھی رکھتے ہیں، لیکن حقیقی مکالمہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ پہلو خط تنصیف کے اس پار پہنچ ہی نہیں پا رہے۔ 
سیکولرزم کے حامی دانش وروں میں سے دو تین نام ہی لیے جا سکتے ہیں جو اپنا مقدمہ سنجیدہ فکری بنیاد پر پیش کرتے ہیں، معروضیت کے ساتھ مخالف نقطہ نظر کو اس کی اپنی بنیادوں پر سمجھتے ہیں اور ان کے طرز استدلال میں طبقاتی کشاکش، حریفانہ رد عمل اور منطقی مغالطوں کے اثرات بھی کافی کم دکھائی دیتے ہیں، مثلاً ڈاکٹر مبارک علی، محمود مرزا، خالد احمد اور ممتاز حیدر۔ (موخر الذکر کی کتاب ”تہذیبی نرگسیت“ کا مطالعہ، اختلاف کی پوری گنجائش کے باوجود اہل مذہب اور لبرلز، دونوں کو کرنا چاہیے۔) تاہم اخبارات میں اس مکتب کی ”عوامی“ نمائندگی کرنے والے زیادہ تر حضرات کو فکری انتہا پسندی اور اسلوب اظہار، دونوں کے لحاظ سے اپنے مکتب فکر کے ”ملا“ ہی قرار دیا جا سکتا ہے جن کے طرز استدلال اور ذہنی اپروچ کے باعث یہ بحث نتیجے کے اعتبار سے ”خود کلامی“ سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ مکالمہ وہ ہوتا ہے جس میں بھلے طنز وتعریض ہو، لیکن استدلال کی جہت ایسی ہو کہ مخالف اس میں وزن محسوس کرے اور چاہے تسلیم نہ کرے، لیکن اس کے ہاں خاموش نظر ثانی کا عمل شروع ہو سکے۔ 
سنجیدہ مکالمہ شروع نہ ہو سکنے کی ایک بڑی وجہ اس بحث کو دیکھنے کا تناظر اور بحث کا بنیادی مفروضہ ہے جو اتفاق سے بحث کے دونوں فریقوں میں مشترک ہے۔ دونوں فریق بنیادی طور پر اس بحث کو تاریخی تناظر میں دیکھتے ہیں، یعنی یہ کہ نئی ریاست کی تشکیل میں قائدانہ کردار ادا کرنے والی تاریخی شخصیات یا طبقات کا زاویہ نظر کیا تھا،جبکہ دونوں طرف مسلم مفروضہ یہ ہے کہ ان تاریخی شخصیات یا طبقات کے زاویہ نظر سے ریاست کی نظریاتی حیثیت کا مسئلہ طے شدہ اور مسلمہ تھا جس سے بعد میں انحراف کی راہیں اختیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ 
حقیقت یہ ہے کہ مذہب کے ریاستی کردار کے حوالے سے تقسیم سے پہلے ہی بہت واضح فکری تقسیم موجود تھی اور ہر فریق نئی ریاست میں اپنے تصورات کے رو بہ عمل ہونے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ تقسیم کے بعد، اس کشمکش میں مذہبی قوتوں کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی، لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ مخالف فکری قوتیں اور ان کے افکار عملاً یا اصولاً کالعدم ہو گئے ہیں، بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک ہمارے ہاں کے سب سے بڑے مذہبی سیاسی مفکر مولانا مودودی نے خود بھی کیا تھا اور اسلامی جدوجہد کے کارکنان کو بھی بڑے واضح طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ مولانا نے لکھا کہ:
”ہم جس ملک اور جس آبادی میں بھی ایک قائم شدہ نظام کو تبدیل کر کے دوسرا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں گے، وہاں ایسا خلا ہم کو کبھی نہ ملے گا کہ ہم بس اطمینان سے ”براہ راست“ اپنے مقصود کی طرف بڑھتے چلے جائیں۔ لامحالہ اس ملک کی کوئی تاریخ ہوگی، اس آبادی کی مجموعی طور پر اور اس کے مختلف عناصر کی انفرادی طور پر کچھ روایات ہوں گی۔ کوئی ذہنی اور اخلاقی اور نفسیاتی فضا بھی وہاں موجود ہوگی۔ ہماری طرح کچھ دوسرے دماغ اور دست وپا بھی وہاں پائے جاتے ہوں گے جو کسی اور طرح سوچنے والے اور کسی اور راستے کی طرف اس ملک اور اس آبادی کو لے چلنے کی سعی کرنے والے ہوں گے .... ان حالات میں نہ تو اس امر کا کوئی امکان ہے کہ ہم کہیں اور سے پوری تیاری کر کے آئیں اور یکایک اس نظام کو بدل ڈالیں جو ملک کے ماضی اور حال میں اپنی گہری جڑیں رکھتا ہے، نہ یہ ممکن ہے کہ اسی ماحول میں رہ کر کشمکش کیے بغیر کہیں الگ بیٹھے ہوئے اتنی تیاری کر لیں کہ میدان مقابلہ میں اترتے ہی سیدھے منزل مقصود پر پہنچ جائیں اور نہ اس بات ہی کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ ہم اس کشمکش میں سے گزرتے ہوئے کسی طرح ”براہ راست“ اپنے مقصود تک جا پہنچیں۔ “ (”مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور ان کا طریق فکر“، مرتب: محمد ریاض درانی، جمعیة پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۱ء، ص ۱۱۶، ۱۱۷)
اسلامی ریاست کی جدوجہد کو تاریخی تناظر میں واضح کرتے ہوئے مولانا مودودی نے لکھا:
”واقعات کی دنیا میں ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں، وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مجالس قانون ساز کے قیام کی ابتداءانگریزوں کے دور حکومت میں ہوئی۔ اس نظام کو انھوں نے اپنے نظریات کے مطابق قومی، جمہوری، لادینی ریاست کے اصولوں پر قائم کیا۔ انھی اصولوں پر سالہا سال تک اس کا مسلسل ارتقا ہوتا رہا اور انھی اصولوں پر نہ صرف پوری ریاست کا نظام تعمیر ہوا، بلکہ نظام تعلیم نے ان کو پوری طرح اپنا لیا اور بحیثیت مجموعی سارے معاشرے نے ان کے ساتھ مطابقت پیدا کر لی۔ ان واقعات کی موجودگی میں جتنے کچھ ذرائع ہمارے (یعنی دینی نظام کے حامیوں کے) پاس تھے، ان کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا کہ کم از کم آئینی حیثیت سے اس عمارت کی اصل کافرانہ بنیاد (لادینیت) کو بدلوا کر اس کی جگہ وہ بنیاد رکھ دی گئی جس کی بنا پر آپ موجودہ دستور کو نیم دینی تسلیم کر رہے ہیں۔“ (ایضاً، ص ۱۲۱، ۱۲۲)
ان میں سے دوسرے اقتباس کو بطور خاص دیکھیں تو واضح ہوگا کہ ایک قائم شدہ نظام سے انحراف، لادینی عناصر نے نہیں کیا، کیونکہ اس نظام کے ساتھ تو معاشرے کے سارے عناصر نے مطابقت پیدا کر لی تھی۔ اصل میں اس طرز سیاست میں تبدیلی لانے کی جدوجہد دینی عناصر کر رہے تھے جس میں انھیں سخت مشکلات کا سامنا تھا۔ ایسی صورت میں اس اختلافی سیاسی بحث کو اس طرح دیکھنا جیسے مذہبی روایت میں مبتدعانہ افکار کو دیکھنا جاتا ہے، غیر حقیقی اور غیر واقعی انداز فکر ہے۔ 
اس انداز فکر کے زیر اثر بعض دفعہ مذہبی اہل دانش کی طرف سے اس طرح کے بیانات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ریاست کی نظریاتی حیثیت پر کسی کو سوال اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ ایک بنیادی اور اساسی معاملہ ہے جو طے شدہ ہے اور ایسے امور کو چھیڑنے کی اجازت کوئی ریاست یا معاشرہ نہیں دیتا۔ یہ بات ایک تو اس لحاظ سے درست نہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ یہاں اسلامی یا سیکولر ریاست کی بحث پہلے دن سے موجود ہے اور آئینی طور پر فیصلہ ہو جانے کے باوجود نظری طور پر اب تک یہ بحث جاری ہے اور نظری بحث کے علاوہ آئین کی تعبیر کے حوالے سے اعلیٰ عدالتوں میں یہ بحث موجود ہے کہ کیا شریعت کی بالادستی کی ضمانت دینے والی شقیں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں یا ان کی حیثیت آئین کی دوسری شقوں کے برابر ہے، یعنی تضاد کی صورت میں شریعت کو بالادست حیثیت حاصل نہیں ہوگی۔ 
دوسرے یہ کہ کسی بھی اجتماعی فیصلے کی قوت اسی میں مضمر ہوتی ہے کہ اس کی فکری ونظریاتی اساسات کا وزن لوگوں پر واضح رہے اور اس حوالے سے سوالات یا شبہات اٹھ رہے ہوں تو ان کا نظریاتی دلائل کے ساتھ ہی ازالہ کیا جائے۔ جو فیصلہ کیا گیا، اگر وہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہے تو سوالات سے نہیں گھبرانا چاہیے، بلکہ سوالات کو روکنے کی کوشش کرنا بسا اوقات منفی نتائج کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ جو سوالات واقعتاً ذہنوں میں موجود ہوں، انھیں کسی طرح کے قانونی یا معاشرتی دباو سے زیادہ دیر تک دبائے رکھنا ممکن بھی نہیں ہوتا اور ایسا کرنا حکمت اور دانش کے خلاف بھی ہوتا ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ فیصلے کا دفاع کھلے بحث ومباحثہ میں اس کے اپنے میرٹ کی روشنی میں کیا جائے اور سوالات کی کمزوری کو دلیل ہی کے میدان میں واضح کیا جائے۔
اب دوسری طرف ایک نظر ڈالیے:
لبرل حلقے کی طرف سے سیکولرزم کے حق میں مضبوط ترین دلیل قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر ہے جو بحث کے تاریخی تناظر کو فیصلہ کن سمجھنے کے ذہنی رویے کا اظہار ہے۔ تاہم لبرل مکتبہ فکر کو اس استدلال کی کمزوریوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً قائد اعظم گیارہ اگست کو دستور ساز اسمبلی کے سامنے اپنی تقریر میں جو کچھ کہہ رہے تھے (اس کی جو بھی تعبیر کی جائے، سردست اس سے بحث نہیں)، اس کی حیثیت راہ نما مشورے یا تجویز کی تھی یا دستور ساز اسمبلی کو ڈکٹیشن کی؟ اگر وہ ڈکٹیشن دے رہے تھے تو اپنے دائرہ اختیار سے صریحاً تجاوز فرما رہے تھے جو انھیں زیب نہیں دیتا تھا۔ اور اگر ان کے ارشادات کی حیثیت راہ نما مشورے کی تھی تو انھوں نے دیانت داری سے جو مشورہ بہتر سمجھا، دے دیا، لیکن دستور ساز ادارے نے بصد احترام اسے قبول نہیں کیا۔ خود قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے دوران میں دستور پاکستان کی نوعیت اور نظریاتی نہج کے حوالے سے بنیادی ذمہ داری دستور ساز اسمبلی کی بیان کی تھی اور یہ بات گیارہ اگست کی تقریر کے بھی بعد فروری ۱۹۴۸ءمیں امریکی عوام کے نام جاری کردہ ایک ریڈیو پیغام میں کہی گئی تھی جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بانی پاکستان اپنا کوئی نظریہ اسمبلی پر مسلط نہیں کر رہے تھے۔ انھوں نے فرمایا:
”پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اس کی حتمی شکل وصورت کیا ہوگی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہوگا جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوتے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انھی سے راہنمائی حاصل کی جائے گی۔ بہرحال پاکستان ایک تھیو کریٹ (مذہبی) ریاست نہیں ہوگی اور یہاں تمام اقلیتوں، ہندو، عیسائی، پارسی کو بحیثیت شہری وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہوں گے۔“ 
اقتباس سے واضح ہے کہ قائد اعظم کے ذہن میں کسی لا مذہبی یعنی سیکولر ریاست کا تصور نہیں، البتہ وہ ”مذہبی ریاست“ کے اس تصور کو قطعاً قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں شہریت دراصل کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کی ہوتی ہے، جبکہ مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا اور مساوی سیاسی حقوق کا حق دار نہیں سمجھا جاتا۔ 
اسی نوعیت کا ایک اور اعتراض یہ ہے کہ تحریک پاکستان میں شامل مذہبی طبقے سیاسی طور پر تو قائد اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کے قائل تھے، لیکن نئی ریاست کیسی ہونی چاہیے، اس کے متعلق قائد اعظم کے وژن کو قبول نہیں کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ آخر کس اصول کی رو سے اعتراض بنتا ہے؟ یہ سامنے کی بات ہے کہ تحریک پاکستان میں شامل مختلف طبقوں کے اپنے اپنے تصورات اور مقاصد تھے۔ تحریک میں شرکت صرف اس نکتے کے حوالے سے تھی کہ مسلمانوں کا ایک الگ ملک ہونا چاہیے۔ اگر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ قیام وطن کے بعد کے اہداف میں بھی سب کا اتفاق ہونا چاہیے تو یہی اعتراض پلٹ کر خود قائد اعظم پر بھی وارد ہوتا ہے۔ کیا انھیں نہیں معلوم تھا کہ مذہبی علماءومشائخ کس جذبے اور تصور کے تحت تحریک کا حصہ بنے ہیں؟ پھر بھی انھوں نے مشترک مقصد کے حصول کے لیے انھیں ساتھ رکھا اور ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا۔ بعض تجزیہ نگار ان کی اس حکمت عملی کی یہ تعبیر بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے حصول مقصد سے پہلے اپنی پوزیشن گول مول رکھی۔ علماءکے سامنے ان کی پسند کی باتیں کیں اور دوسری جگہوں پر اپنی پسند کی، لیکن ملک بن جانے کے بعد اپنا اصل تصور گیارہ اگست کی تقریر میں واضح کر دیا۔ اگر قائد اعظم  کے طرز سیاست کی یہ تعبیر درست ہے تو اخلاقی لحاظ سے ان کی حیثیت مذہبی طبقے سے بہتر نہیں، بلکہ کم تر ہی بنتی ہے، کیونکہ علماءتو شروع سے آخر تک اپنے موقف میں واضح تھے اور قیام وطن کے بعد بھی انھوں نے وہی بات کہی جو پہلے سے کہتے چلے آ رہے تھے۔ غالباً‌ انھی وجوہ سے ڈاکٹر مبارک علی نے ایک انٹرویو میں قائد اعظم کے زاویہ نظر پر ارتکاز کرنے والے اس رائج اور مقبول استدلال کی کمزوری تسلیم کی اور کہا کہ ہمیں سیکولر ریاست کے آپشن پر خود اس تصور ریاست کی افادیت نیز اپنے سابقہ تجربات کے حوالے سے غور کرنا چاہیے۔
بحث کے تاریخی پہلووں پر ارتکاز کے علاوہ فریقین کے انداز استدلال میں ’’جرح شخصیات’’ بھی ایک غالب عنصر کی حیثیت سے موجود رہا ہے جو منطقی مغالطے کی ایک صورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نفس دلیل کی کمزوری پر بات کرنے کے بجائے، دلیل یا موقف پیش کرنے والے کی نیت اور کردار وغیرہ کی خرابی نمایاں کی جائے اور اس سے یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ چونکہ کہنے والا ایسا اور ایسا ہے، اس لیے اس کی بات غلط ہے۔
مذہبی اور سیاسی اختلاف رائے میں اس مغالطے کا استعمال ہمارے ہاں ایک معمول کی بات رہی ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر قوم پرستوں اور مسلم لیگیوں نے ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر اس طرز استدلال کے نمونے پیش کیے۔ مسلم لیگیوں نے جمعیة علماءہند اور کانگریس کے زعماءکی کردار کشی اور تحقیر وتوہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جمعیة علماءکے حضرات نے یہی سلوک مسلم لیگی قیادت کے ساتھ کیا۔ پاکستان بن جانے کے بعد یہاں اہل مذہب اور لبرلز کی کشمکش شروع ہو گئی اور مذکورہ طرز استدلال نے اس بحث میں بھی نمایاں جگہ پائی۔ مثلاً بالکل ابتدائی دور میں ہی جن مذہبی شخصیات (مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا مودودی وغیرہ) نے سیکولر ریاست کے مقدمے کے خلاف آئینی جنگ جیتنے میں بنیادی کردار ادا کیا، وہ آج تک لبرلز کی نظر میں ناقابل معافی اور مطعون ہیں اور ان کی شخصیات یا جدوجہد کے مختلف پہلووں کو ہدف بنا کر یہ ثابت کیا جا تا ہے کہ چونکہ قرارداد مقاصد ان حضرات نے پیش کی تھی، اس لیے وہ غلط تھی۔ اتفاق سے مسلم لیگی قیادت، خاص طور پر قائد اعظم کے متعلق یہی طرز استدلال ان کے قوم پرست مخالفین اختیار کیا کرتے تھے۔ 
ان گزارشات کا حاصل یہ ہے کہ سیکولر ریاست کے مویدین اور مذہبی ریاست کے حامیوں، دونوں کو اپنے بیانیے کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ جیسے سیکولرسٹ اسی پرانے بیانیے کو نئی بوتل میں پیش کر کے نئی نسل کو زیادہ متاثر نہیں کر سکتے، اسی طرح مذہبی بیانیہ بھی اپنے مقدمات اور استدلال کو ازسرنو مرتب کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ سابقہ بیانیے سے تاریخی طور پر کلی انقطاع ظاہر ہے کہ ممکن نہیں، لیکن بحث کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کے ایک مرحلے کے ساتھ مقید بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ تحریک پاکستان کے مختلف کرداروں کا تصور اور عملی کردار کیا تھا، اس سوال کو بتدریج بحث کے “تاریخی“ گوشے تک محدود کر دینا ضروری ہے۔ آج کی نسل کو، سوالات کو ان کے اپنے میرٹ پر ڈسکس کرنے کی جرات کرنی ہوگی۔ دونوں طرف کے نوجوان ذہنوں کو بات اس سے آگے بڑھانی چاہیے جہاں تک ان کے بڑوں نے پہنچائی ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۳) اسلوب متعین کرنے کی ایک غلطی

درج ذیل آیت پر غور کریں:

وَإِنْ تَجْہرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّہ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَی۔ (طہ: 7)

اس آیت کا ترجمہ عام طور سے اس طرح کیا گیا ہے:
”تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تر بات بھی جانتا ہے“ (سید مودودی)
”اور اگر تو بات پکار کر کہے تو وہ تو بھید کو جانتا ہے اور اسے جو اس سے بھی زیادہ چھپا ہے“ (احمد رضا خان)
صاحب تدبر نے یہاں عام مترجمین سے مختلف ترجمہ کیا ہے۔
”خواہ تم علانیہ بات کہو (یا چپکے سے) وہ علانیہ اور پوشیدہ سب کو جانتا ہے“ (امین احسن اصلاحی)
صاحب تدبر نے یہاں وہ اسلوب مراد لیا ہے جس میں مقابل کو حذف کردیا جاتا ہے، لیکن السر کے ساتھ واخفی یہ بتارہا ہے کہ یہاں وہ اسلوب مراد نہیں ہے، بلکہ وہ اسلوب مراد ہے جس میں کلام میں درجہ درجہ قوت پیدا ہوتی جاتی ہے، کہ علانیہ بات تو کیا وہ تو پوشیدہ اور پھر پوشیدہ تر کو بھی جانتا ہے۔ اس لیے پہلے جملے میں چپکے سے اور دوسرے جملے میں علانیہ محذوف ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس ترجمہ میں دوسری غلطی یہ رہ گئی ہے کہ اخفی کا ترجمہ نہیں ہوسکا ہے، حالانکہ آیت کی تشریح کرتے ہوئے صاحب تدبر نے اخفی کا مفہوم بھی ذکر کیا ہے۔

(۱۴۴) فاذ لم تفعلوا کا ترجمہ

أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّہ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاۃ وَآتُوا الزَّكَاۃ وَأَطِيعُوا اللَّہ وَرَسُولَہ ۚ وَاللَّہ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔ (المجادلۃ: 13)

اس آیت میں اذ لم تفعلوا میں اذ برائے ظرف ہے، اور جملہ ظرفیہ ماضی کا مفہوم ادا کررہا ہے، حسب قواعد ترجمہ ہوگا ”جب تم نے نہیں کیا“۔
یہی ترجمہ عام طور سے مترجمین نے کیا ہے، جیسے:
”کیا تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے سے ڈر گئے؟ پس جب تم نے یہ نہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرما دیا تو اب (بخوبی) نمازوں کو قائم رکھو زکوٰة دیتے رہا کرو اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس (سب) سے اللہ (خوب) خبردار ہے“ (محمد جوناگڑھی)
البتہ درج ذیل ترجمہ ہمیں مختلف ملتا ہے:
”کیا تم ڈر گئے اس بات سے کہ تخلیہ میں گفتگو کرنے سے پہلے تمہیں صدقات دینے ہوں گے؟ اچھا، اگر تم ایسا نہ کرو اور اللہ نے تم کو اس سے معاف کر دیا تو نماز قائم کرتے رہو، زکوٰة دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے“(سید مودودی)
اس میں اذ لم تفعلوا کا ترجمہ کیا ہے،” اگر تم ایسا نہ کرو“، یہ ترجمہ کسی طرح درست نہیں ہے، غالب گمان یہ ہے کہ اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے دوسری آیت کے ان لم تفعلوا سے اشتباہ ہوگیا ہے، جو قرآن مجید میں دوسرے مقام پر آیا ہے۔

(۱۴۵) مریب کا ترجمہ

قرآن مجید میں چھ مقامات پر مریب کا لفظ شک کی صفت کے طور پر آیا ہے، (شک مریب) کا ترجمہ لوگوں نے مختلف طرح سے کیا ہے، اس تعبیر کا صحیح مفہوم وہ ہے جو علامہ زمخشری نے ذکر کیا ہے، 

مُرِیبٍ من ارابہ اذا اوقعہ فی الریبۃ وھی قلق النفس وانتفاء الطمانینۃ بالیقین. (تفسیر الزمخشری 2/ 407)

یعنی وہ شک جو الجھن اور پریشانی میں مبتلا کردے۔ تفسیر جلالین میں بھی اس کی تفسیر موقع فی الریبۃ ملتی ہے، یعنی الجھن اورخلجان میں ڈالنے والاشک۔
اس وضاحت کی روشنی میں ذیل کے ترجموں کو جائزہ لیا جاسکتا ہے:

(۱) وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْہ مُرِيبٍ۔ (ھود: 62)

”اس کے بارے میں ہم کو سخت شبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے“ (سید مودودی، یہ ترجمہ درست ہے)
”ہمیں تو اس دین میں حیران کن شک ہے جس کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے“ (محمدجوناگڑھی، ترجمہ درست ہے)
”اور بیشک جس بات کی طرف ہمیں بلاتے ہو ہم اس سے ایک بڑے دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں“ (احمد رضا خان، مریب دھوکہ ڈالنے والی چیز کو نہیں کہتے ہیں)
” اور جس بات کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو، اس میں ہمیں قوی شبہہ ہے“ (فتح محمدجالندھری، یہ ترجمہ درست نہیں ہے)

(۲) وَإِنَّہمْ لَفِي شَكٍّ مِنْہ مُرِيبٍ۔ (ھود: 110)

”یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں“(سید مودودی، یہ ترجمہ درست نہیں ہے، موصوف صفت کا ترجمہ ہونا چاہئے)
”اور وہ تو اس سے قوی شبہے میں (پڑے ہوئے) ہیں“ (فتح محمدجالندھری، یہ ترجمہ درست نہیں ہے، مریب وہ چیز نہیں ہے جو شبہ کو قوی بنادے، بلکہ وہ جو شبہ کو پریشان کن بنادے)
”انہیں تو اس میں سخت شبہہ ہے“ (محمدجوناگڑھی، یہ بھی درست نہیں ہے)
” اور بیشک وہ اس کی طرف سے دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں“ (احمد رضا خان، مریب دھوکہ ڈالنے والی چیز کو نہیں کہتے ہیں)

(۳) وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْہ مُرِيبٍ۔ (ابراہیم: 9)

”اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اُس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں“ (سید مودودی، خلجان آمیز نہیں بلکہ خلجان انگیز ہونا چاہئے)
”اور جس راہ کی طرف ہمیں بلاتے ہو اس میں ہمیں وہ شک ہے کہ بات کھلنے نہیں دیتا“(احمد رضا خان، یہ ترجمہ درست ہے)
”اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہم اس سے قوی شک میں ہیں“ (فتحح محمدجالندھری، یہ بھی درست نہیں ہے)
”اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے“ (محمدجوناگڑھی، یہ بھی درست نہیں ہے)

(۴) إِنَّہمْ كَانُوا فِي شَكٍّ مُرِيبٍ۔ (سبا: 54)

”وہ بھی (ان ہی کی طرح) شک وتردد میں (پڑے ہوئے) تھے“ (محمدجوناگڑھی، یہ درست نہیں ہے، محل عطف کا نہیں بلکہ موصوف صفت کا ہے)
”یہ بڑے گمراہ کن شک میں پڑے ہوئے تھے“ (سید مودودی، یہ بھی درست نہیں ہے، گمراہ کن مریب کا ترجمہ نہیں ہے)
”بیشک وہ دھوکا ڈالنے والے شک میں تھے“ (احمد رضا خان)
”وہ بھی الجھن میں ڈالنے والے شک میں پڑے ہوئے تھے“(فتح محمدجالندھری، یہ درست ترجمہ ہے)

(۵) وَإِنَّہمْ لَفِي شَكٍّ مِنْہ مُرِيبٍ۔ (فصلت: 45)

”اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اُس کی طرف سے سخت اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں“(سید مودودی، یہ درست ترجمہ ہے)
”اور بیشک وہ ضرور اس کی طرف سے ایک دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں“ (احمد رضا خان)
”اور یہ اس (قرآن) سے شک میں الجھ رہے ہیں“ (فتح محمدجالندھری، یہ بھی درست ترجمہ نہیں ہے)
”یہ لوگ تو اس کے بارے میں سخت بےچین کرنے والے شک میں ہیں“ (جوناگڑھی، یہ درست ترجمہ ہے)

(۶) وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِہمْ لَفِي شَكٍّ مِنْہ مُرِيبٍ۔ (الشوری: 14)

”اور جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب دی گئی ہے وہ بھی اس کی طرف سے الجھن والے شک میں پڑے ہوئے ہیں“(محمدجوناگڑھی، یہ درست ترجمہ ہے)
”اور حقیقت یہ ہے کہ اگلوں کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اُس کی طرف سے بڑے اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں“ (سید مودودی، یہ درست ترجمہ ہے)
”اور بیشک وہ جو ان کے بعد کتاب کے وارث ہوئے وہ اس سے ایک دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں“ (احمد رضا خان)
”اور جو لوگ ان کے بعد (خدا کی) کتاب کے وارث ہوئے وہ اس (کی طرف) سے شبہے کی الجھن میں (پھنسے ہوئے) ہیں“ (فتح محمدجالندھری، یہ درست ترجمہ نہیں ہے)
ان مذکورہ بالا چھ مقامات کے علاوہ ایک مقام پر لفظ مریب، شک کی صفت کے طور پر نہیں آیا ہے بلکہ جہنم میں جانے والے کافر کی صفت کے طور پر آیا ہے۔ اس کا ترجمہ کچھ لوگوں نے کیا ہے، شک میں پڑا ہوا، اور کچھ لوگوں نے کیا ہے شک کرنے والا، ان دونوں کے حق میں مفسرین کے اقوال بھی موجود ہیں، کچھ لوگوں نے ایک ساتھ دونوں ترجمے کردیے ہیں، یہ غلط ہے دونوں میں سے کوئی ایک ہی ترجمہ اختیار کرنا ہوگا۔

مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُرِيبٍ۔ (ق: 25)

”خیر کو روکنے والا اور حد سے تجاوز کرنے والا تھا، شک میں پڑا ہوا تھا“(سید مودودی)
”جو بھلائی سے بہت روکنے والا حد سے بڑھنے والا شک کرنے والا “(احمد رضا خان)
”جو مال میں بخل کرنے والا حد سے بڑھنے والا شبہے نکالنے والا تھا“ (فتح محمدجالندھری)
”جو نیکی سے روکنے والا ہے، حد سے بڑھ جانے والا ہے، شک کرنے اور ڈالنے والا ہے“ (طاہر القادری)
”جو نیکی و خیرات سے بڑا روکنے والا، حد سے بڑھنے والا اور شک کرنے والا اور دوسروں کو شک میں ڈالنے والا تھا“ (نجفی)
آخر کے دونوں ترجمہ درست نہیں ہیں، مریب کا کوئی ایک ترجمہ کرنا ہوگا ، ایک ہی لفظ کے دو ترجمے بیک وقت کرنا صحیح نہیں ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی اس آیت میں مریب کا ترجمہ عام لوگوں سے مختلف کرتے ہیں، ان کے نزدیک اوپر کی آیتوں میں تو مریب، شک کی صفت کے طور پر آیا ہے، یعنی الجھن میں ڈالنے والا شک، جب کہ یہاں یہ انسان کی صفت کے طور پر آیا ہے، اس لئے یہاں مریب متعدی نہیں بلکہ لازم مانا جائے گا، اور” شک میں پڑا ہوا“ کے بجائے ” الجھن اور خلجان میں پڑا ہوا“ ترجمہ کیا جائے گا۔ 
(جاری)

نئی زمینوں کی تلاش

عاصم بخشی

(فلسفہ سائنس، سماجیات اور چارلس پرس کے منتخب مقالات کے اردو ترجمہ ’’نئی زمینوں کی تلاش’’ کا پیش  لفظ)

مترجم کے تناظر سےترجمہ چاہے ادبی ہو یا تکنیکی دونوں صورتوں میں لازماًقرأتِ متن،  تفہیمِ متن اور شرحِ متن کی ایک سہ جہتی سرگرمی ہوتا ہے۔ پہلی جہت   ایک زبان کے طرزِ کلام کی دوسری زبان میں منتقلی،  دوسری جہت متن کی مخصوص معنوی  صورتوں کی  مترجم کے  پردۂ ذہن پر منتقلی اور تیسری جہت  مترجم  کی ان صورتوں میں ترجیح و انتخاب  سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن یہ تینوں جہتیں  ترجمے کے دوران  نہ صرف گڈ مڈ ہو جاتی ہیں بلکہ پس منظر میں اتنی مبہم ہو جاتی ہیں  کہ عام طور پر  مترجم اس قابل نہیں ہوتا کہ ترجمے کی کامیابی یا ناکامی  یا دوسرے لفظوں میں افادیت  یا غیر افادیت کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکے۔لہٰذا یہ فیصلہ حتمی طور پر صرف اور صرف قاری ہی کا حق ٹھہرتا ہے۔
دوسری  طرف کسی بھی قاری کے تناظر میں  یہ سوال عمومی طور پر اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ آخر وہ  اصل متن کی بجائے ترجمہ کیوں پڑھے؟ اس کی متعدد وجوہات ممکن ہیں جن میں اصل متون کا حصول،  اصل زبان سے خاطر خواہ واقفیت یا پھر سیدھے سادے دلچسپی  سے متعلقہ متغیرات  شامل ہیں۔ لیکن بالفرض اگر ان میں سے کوئی بھی  مسئلہ آڑے نہ آئے،  تو بھی  یہ سوال اپنی پیچیدگی اسی طرح برقرار رکھتا ہے۔مثال کے طور پر عین ممکن ہے کہ خاطر خواہ اردو  اور انگریزی جاننے والا ایک شوقین  قاری ہومر  کے قدیم یونانی متون کے انگریزی تراجم کےساتھ ساتھ محمد سلیم الرحمٰن صاحب کے شاندار اردو ترجمے  کا  لطف اٹھانا بھی ضروری سمجھے، لیکن ایسے قارئین شاید ہی ہوں گے جو  خاطر خواہ  انگریزی جاننے کے باوجود   کانٹ  کی ‘‘تنقیدِ عقلِ محض’’ کو  اردو میں پڑھنے کو ترجیح دیں۔ خواص کی بات علیحدہ ہے  کہ وہ یقیناً ڈاکٹر سید عابد  حسین  صاحب کی زبان سے فلسفیانہ اصطلاح سازی کے جواہر جمع کرنے کو ترجیح دیں گے۔قصہ مختصر  ترجمہ  بالخصوص دقیق متون کا  ترجمہ قاری اور مترجم کے دو تناظرات کی ایسی موضوعی جنگ ہے جس میں  یقیناً آخری اور حتمی فتح قاری کا مقدر ہے۔
اس  دلچسپ کشمکش میں  مترجم  بہرحال  اپنی عاجزی کااعتراف ہی کر سکتا ہے اور کسی بھی ایسی تخلیقی سرگرمی کی طرح  جہاں تخلیق فی نفسہٖ مقصود ِ  اول و آخر  ہو اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے۔ لہٰذا یہ تمہیدی کلمات  نہ صرف اس عاجزی کا اعتراف ہیں، بلکہ ایک قسم کی تنبیہ بھی ہیں کہ اگر آپ ان ادّق موضوعات اور فلسفیانہ گتھیوں کو انگریزی زبان میں سلجھانے  کے قابل ہیں اور    کم از کم اگر فلسفیانہ اور سائنسی ادب کی حد تک اردو زبان  کسی نہ کسی حیثیت میں آپ کی   دوسری ترجیح ہے تو شاید یہ تراجم آپ کے لیے نہیں ہیں۔ یہ مان لینے میں کوئی جھجک نہیں کہ یہ عاجز خود بھی  اس  سلسلے میں انگریزی ہی  کو ترجیح دینے کا ہی قائل ہے، لیکن  ساتھ ہی ساتھ  یہ بھی ماننا ہے کہ یہ مسائل نہ صرف اردو میں اٹھائے جا سکتے ہیں بلکہ اگر کثیر تعداد میں ہوں تو اردو زبان کو نئی زندگی بھی عطا کر سکتے ہیں ۔ کیا  زبان سے متعلق یہ ثقافتی خلا  پر ہونا ممکن ہے؟ مجھ جیسے فکری فقیر کی  رائے میں یہ  نہایت مشکل ضرور ہے لیکن ہرگز ناممکن نہیں۔ سویہ اس سلسلے میں بس  ایک اپنی سی کوشش  ہے جو درحقیقت   ترجمے سے زیادہ زبان اورفنِ  مطالعہ سیکھنے کی جستجو ہے۔جہاں تک اس ترجمے کی اشاعت کا تعلق ہے تو وہ  اس  عاجزانہ کوشش کا ایک ایسا  امکانی ماحصل ہے جو صرف اور صرف   ڈاکٹر ناصر عباس نیّر اور اردو سائنس بورڈ  کی مرہونِ منت ہے۔
لیکن   ان  داخلی مقاصد کے  ساتھ ساتھ اگر کچھ عمومی مقاصد متعین کرنا اہم ہو تو مضامین کا یہ انتخاب  ایک طرف تو  مترجم کے تناظر میں بنیادی طور پر زبان کی حدود اور ترجمے کے امکانات جانچنےاور دوسری طرف قاری کے تناظر میں  اس قسم کے تراجم کی افادیت جاننے کی کوشش ہے۔اس انتخاب  کی تشکیل کے  اوّلین مراحل میں خیال یہی تھا کہ  حتی الوسع کئی ممکنہ موضوعات  جیسے ادب، فلسفہ، سائنس، سماجیات، سیاسیات اور تاریخ وغیرہ میں تھیوری کی  ترمیم پسند  جہتوں   کو چھونے کی کوشش کی جائے۔ لیکن وقت کی قلت اور غیر معمولی موضوعی وسعت کے پیشِ نظر کچھ تحدیدی سمجھوتے لازم آئے جن میں اہم ترین یہ ہے کہ  اس انتخاب میں فلسفۂ سیاسیات ، ادبی تھیوری اور  خالص نظری فلسفے   سے متعلق مباحث شامل نہیں کیے گئے۔یہ انتخاب اب تمام ناگزیر ترجیحی سمجھوتوں کے ساتھ فلسفۂ سائنس،  تاریخِ سائنس،  فلسفۂ ذہن، سماجیات، مذہبی سماجیات اور بیسویں صدی کے ایک اہم  منطق دان اور سائنسی  فلسفی چارلس پرس  کے  چند نادر  مضامین پر مشتمل ہے۔یہ واقعہ بھی شاید کچھ حوالوں سے اہمیت کا حامل ہو کہ انتخاب میں شامل تمام مضامین کی اصل زبان انگریزی ہے، لہٰذا ترجمہ ایک سے زیادہ تہیں نہیں رکھتا اور قارئین اور مترجمین باآسانی اصل متون کی جانب رجوع کرتے ہوئے راقم کی کسی کوتاہی کی نشاندہی  کر سکتے ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ غیرمانوس اور ادق اصطلاحات کے انگریزی اصل متن کےاندر ہی الفاظ کے آگے کم از کم پہلی بار قوسین میں درج کر دیے جائیں۔ علاوہ ازیں بار بار استعمال ہونے والے کچھ الفاظ و اصطلاحات کے مختصر مطالب پر مشتمل ایک فرہنگ بھی آخر میں شامل کی گئی ہے۔
کتاب کو قارئین کی سہولت کے پیشِ نظر دو حصوں میں  تقسیم کیا گیا ہے۔ حصۂ اول میں شامل  ساتوں مضامین  اپنی انفرادی  حیثیت میں  ترمیم پسند تحقیقی سوالات اٹھاتےہیں۔ پہلا مضمون  انیسویں صدی کے امریکی فلسفی ایڈون برٹ کی  تاریخِ سائنس پر اہم ترین کتاب کا پہلا باب ہے۔ اس کتاب  میں برٹ کا بنیادی   نکتۂ تحقیق یہ ہے کہ  جدید سماجی   فکر  اور ثقافتی رجحانات   سائنسی تناظر کی مرہونِ منت ہیں اور  یہ سائنسی تناظر اپنی بنیادوں میں ایسے مابعد الطبیعیاتی مفروضے رکھتا ہے جو اب  اجتماعی یاداشت سے اس حد تک  فراموش ہو چکے ہیں کہ  جدید انسان  اب کوپرنیکس، ٹائیکو براہے، کیپلر، نیوٹن  اور گیلیلو وغیرہ کے انداز میں سوچنے کے قابل نہیں رہا۔ اس کے لیے ماضی میں ایک فکری جست درکار ہے  جو برٹ کی کتاب کا موضوع ہے۔ پہلا باب اس لحاظ سے نہایت اہم ہے کہ اس میں  ان  قدرے جدید سوالات کے اولین  تخم بھی ملتےہیں جو الیگزنڈر کوائر،  مائیکل پولانی، تھامس کوہن  یہاں تک کہ پال  فئیرابینڈ  وغیرہ نے بعد میں اٹھائے۔امید ہے کہ پہلا باب  شوقین مترجمین  کو برٹ کی مکمل کتاب کو ترجمہ کرنے کی  دعوتِ عام دیتا نظر آئے گا۔
یوجین  وگنر کا نام نظری اور اطلاقی طبیعیات میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھیں اساسی اصول ہائے مشاکلت کی دریافت اور اطلاق پر ۱۹۶۳ءکا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ زیرِ نظر مضمون ان  کی زندگی کے آخری اوائل کی  ایک ہلکی پھلکی سی فلسفیانہ سرگرمی   تھی جسے غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس مضمون میں وہ ریاضی  کی طبیعیاتی دائروں میں  اطلاقی سر گرمی سے لے کر ایک نیم معجزاتی سی  نوعیت پر کچھ ایسے سوالات اٹھاتے ہیں جو فیثاغورث کے زمانے سے لے کر  تاحال لاینحل ہیں۔کتاب میں شامل تیسرا مضمون  برطانوی  ماہرِ حیاتیات روپرٹ شیلڈریک  کا ایک اہم    مقالہ ہے۔ شیلڈریک  کم و بیش دو دہائیوں سے خالص سائنسی  دائروں میں یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ   کیا سائنس کا مادیت پسند رجحان ہی واحد بامعنی رجحان ہے؟ کیا  اس قسم کی سائنسی مفروضہ بندی   ممکن ہے جو مادیت پسندی  سے آگے بڑھ کر  تحقیق کی راہیں  ممکن بنا سکے؟   اسی قسم کا ایک اور ترمیم پسند رجحان جو فلسفۂ ذہن  سے تعلق رکھتا ہےآسٹریلوی فلسفی اور وقوفی سائنس دان  ڈیوڈ شالمرز  کا بنیادی  موضوعِ تحقیق ہے۔ ان کے مقالے نے  پہلی بار  فلسفۂ ذہن میں مشکل اور آسان مسائل کی تقسیم  وضع کی  جس کے مطابق مسئلۂ شعور  ‘‘مشکل مسئلہ’’ہے۔ کتاب میں شامل یہ پانچواں مضمون نہ صرف ان کا بلکہ شاید جدید فلسفۂ ذہن  کے حالیہ دور کا اہم ترین مقالہ ہے جس نے تحقیق کی کئی نئی راہیں متعارف کروائیں۔اگلے دو مضامین   فلسفۂ اخلاق کے چوٹی کے مفکر ایلسڈئیر میک اینٹائر کے دو مختصر مضامین ہیں ۔ پہلے مضمون میں وہ  خدا پرست فلسفیوں کو  بحث کا رخ مکمل طور پر موڑنے کی کچھ تجاویز دیتے ہیں اور دوسرے مضمون میں   یہ خاکہ بندی کرتے ہیں کہ اس کام کے لیے  تعلیمی نصاب کس قسم کا ہونا  چاہیے۔حصۂ اول میں شامل آخری مضمون پیٹر برگر  کی طویل  سماجیاتی تحقیق کا نچوڑ  سمجھا جا سکتا ہے جو  یہ دکھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے کہ سماجیاتی تحقیق اس وقت کس مقام پر کھڑی ہے اورمستقبل کے  امکانات  کیا ہیں۔ 
حصۂ دوم مکمل  طور پر چارلس پرس کے مضامین پر مشتمل ہے۔پرس کا کُل فلسفہ ہی   ایسی شش جہتی ندرت اور ترمیم پسندی کا حامل ہے جو بیک وقت طبیعی سائنس، فلسفۂ سائنس، مذہبی علوم، فلسفیانہ تھیوری، ریاضی و منطق اورادبی تنقید میں تازہ تحقیقی سوالات سے متعلق ہے۔ اس سلسلے  میں تھامس نائٹ کا پہلا مضمون پرس کی زندگی اور فلسفے کا ایک سیر حاصل نچوڑ ہے۔ چونکہ پرس کا تمام کام  بہت پھیلاؤ رکھتا ہے  لہٰذا  نائٹ کا مضمون  اس کا ایک مرتب خاکہ پیش کرنےکے لیے بہت اہم ہے۔ اگلے چاروں مضامین  پرس کے   اساسی کام کا ایک ایسا  محدود انتخاب ہیں جو مکرر اور مسلسل  تفہیم کا تقاضا کرتے ہیں۔پرس کا بقیہ ماندہ ضخیم کام کئی حوالوں سے  اس انتخاب میں شامل آخری تین مضامین سے   یوں جڑا ہے کہ پرس کا کوئی بھی شوقین قاری  یا سنجیدہ محقق  ان کی طرف باربار لوٹنے  کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔اس حوالے سے حصۂ دوم اردو میں پرس کو متعارف کروانے کی پہلی کوشش ہے۔ اس حصے میں شامل تراجم پر نظر ثانی اور حواشی کے لیے میں   اپنے رفیقِ تحقیق برادرم عاصم رضا کا ممنون ہوں  جنہوں نے مسودے کو بغور پڑھا  اور اہم حواشی  کی جانب اشارے کیے۔
حصۂ دوم میں  شامل مضامین کے لیے میں بالخصوص پروفیسر ڈاکٹر باسط بلال کوشل کا ممنون ہوں جنہوں نے کئی سال قبل مجھے چارلس پرس کی فکر  سے متعارف کروایا۔ڈاکٹر کوشل لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے شعبۂ سماجیات سے وابستہ ہیں اور ان کا حلقہ جان ٹمپلٹن فاؤنڈیشن کے ایک علمی منصوبے کے تحت مدارس اور جامعات کے ذہین طلبہ کے درمیان مکالمے کی فضا ہموار کرنے کے لئے مسلسل کوشاں ہے۔ یہ مکالمہ عظیم وسعت کے حامل ان سوالات کو وضع کرنے کی کوشش ہے جو فلسفے، سائنس اور مذہب کی مشترکہ میراث ہیں۔حصۂ اول میں شامل تین اورحصۂ دوم میں شامل پانچوں مضامین ڈاکٹر کوشل ہی کی ہدایت پراس مخصوص  حلقے میں بحث و تمحیص  کی خاطر اردو میں منتقل کیے گئے۔یہ مجموعہ یقیناً ان مضامین کی وسیع تر رسائی کو ممکن بنائے گا تاکہ  فلسفے، سائنس،  مذہب اور دیگر  اقالیمِ علم سے متعلق محققین اردو زبان میں ان سوالوں پر تنقید و تبصرہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔مکالمے کے ان امکانات پر غوروفکر کے لیے  جان ٹمپلٹن فاؤنڈیشن اور ڈاکٹر باسط کوشل خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
آخر میں ایک بار پھر ڈاکٹر ناصر عباس نیر صاحب کا شکریہ جن کی  ترغیب  و تحریک، حوصلہ افزائی اورعملی تعاون  کے باعث یہ مجموعہ  ممکن ہوا۔ امید ہے کہ اردو کے قارئین اور  خاص طور پر وہ محققین  جو  کسی نہ کسی درجے میں اردو  میں یہ مسائل اٹھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں  ان  سے  فائدہ اٹھا سکیں گے اوراس قسم کے مزید   تراجم کے لیے راہ ہموار ہو گی۔

ذرائع ابلاغ کی صورت حال پر عدالت عظمیٰ کا ازخود نوٹس

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے لوکل میڈیا اور کیبل چینلز میں غیر ملکی فلموں اور پروگراموں کی یلغار کا ازخود نوٹس لیا ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ ان دنوں اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ 
لوکل میڈیا، کیبل انڈسٹریز، سوشل میڈیا اور اس کے ساتھ ساتھ ریاستی میڈیا میں مختلف حوالوں سے اس وقت جو دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے اس نے ہر شریف اور محب وطن شہری کو پریشان کر رکھا ہے۔ اور اس یلغار کا دائرہ فکری، سیاسی، مذہبی، اخلاقی، تہذیبی او رثقافتی تمام دائروں تک پھیلا ہوا ہے جس کا مشترکہ مقصد یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ پاکستانی قوم کو تہذیبی خلفشار، فکری انارکی، سیاسی افراتفری اور مذہبی بے یقینی کی دلدل میں اس حد تک دھکیل دیا جائے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بارے میں عالمی اور علاقائی بالادست قوتوں کے عزائم اور ایجنڈے کی تکمیل میں کسی مزاحمت اور رکاوٹ کے قابل نہ رہے۔ اس لیے اصل ضرورت تو وسیع پیمانے پر ملک میں جاری و ساری حکومتی اور پرائیویٹ میڈیا پالیسیوں اور سرگرمیوں کا مکمل جائزہ لینے کی ہے جو ظاہر ہے کہ قیام پاکستان کے مقاصد اور دستور پاکستان کے نظریاتی و تہذیبی اہداف سے سنجیدہ دلچسپی رکھنے والی کوئی حکومت یا ریاستی ادارہ ہی کر سکتا ہے جس کا سردست کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ تاہم محدود اور جزوی دائرہ میں عدالت عظمیٰ کا یہ اقدام خوش آئند اور معاملات میں بہتری کا احساس پیدا کرنے کی ایک اچھی کوشش کے طور پر قابل تبریک و تحسین ہے اور ہم چیف جسٹس آف پاکستان کو اس سلسلہ میں مبارک باد اور ہدیہ تشکر پیش کرتے ہوئے اس سلسلہ میں کچھ گزارشات ان کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
زیر بحث کیس کا دائرہ تہذیبی و ثقافتی ہے جس کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ ریمارکس قومی پریس میں سامنے آئے ہیں کہ:
’’انڈین، ترکش اور دیگر پروگراموں کی بھرمار سے ملک کے اسلامی اور ثقافتی کلچر کو ایک سازش کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے۔‘‘
جبکہ چند معروف فنکاروں لیلیٰ زبیری، فریال گوہر، ایوب کھوسہ اور ثمینہ احمد کا یہ تبصرہ بھی اخبارات کی زینت بنا ہے جو انہوں نے کیس کی مذکورہ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے کہ:
’’پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کو بیرون ملک سے آنے والے بحران سے بچایا جائے، اس کی وجہ سے ہماری تہذیب و ثقافت تباہ ہو رہی ہے اور نوجوان نسل خراب ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے پروگراموں پر مناسب پابندی ضروری ہے۔‘‘
اس کیس میں ہماری دلچسپی اور اس میں کسی حد تک خوشی کے اظہار کا یہی پہلو ہے جس نے یہ چند سطور قلمبند کرنے پر ہمیں آمادہ کیا ہے کہ یہ بات بسا غنیمت ہے کہ عدالت عظمیٰ کو اسلامی تہذیب اور چند فنکاروں کو علاقائی تہذیب وثقافت کی تباہی اور نوجوان نسل کے خراب ہونے کا احساس تو ہے۔ اگرچہ “دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے” کے مصداق ماضی کے بہت سے تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اس موقع پر بھی یہ خدشہ بار بار ہمارے ذہن میں ابھر رہا ہے کہ اس ساری کاروائی کا مقصد فی الواقع اسلامی تہذیب و ثقافت کا بچاؤ اور نئی نسل کی خرابی کا سدباب ہی ہے؟ کہیں غیر ملکی میڈیا پروگراموں کی طرف سے ملکی میڈیا کو درپیش مقابلہ کی فضا تو اس کا اصل باعث نہیں؟ اور کیا اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت کو ہمیشہ کی طرح اب بھی ہمارے لیے “محفوظ شیلٹر” کا رول ادا کرنا ہے؟
جہاں تک اسلامی تہذیب و ثقافت کی تباہی اور نوجوان نسل کے خراب ہوجانے کی بات ہے اس حوالہ سے اس وقت جاری اور معروضی منظر میں کم از کم ہمیں تو ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں اور سرگرمیوں میں کوئی جوہری فرق دکھائی نہیں دے رہا۔ صرف اتنی بات ہے کہ دستور و قانون میں اس سلسلہ میں کچھ تحفظات اور پابندیاں مذکور ہیں جن پر عملدرآمد میں کوئی متعلقہ ادارہ کبھی سنجیدہ نہیں رہا اور ان کا تذکرہ صرف اس وقت سامنے آتا ہے جب کسی ادارہ کے طرز عمل یا کسی پالیسی سے متاثر ہونے والا کوئی فریق اپنے بچاؤ کے لیے کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو قوم کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دستور و قانون میں یہ بات بھی لکھی ہوئی ہے اور ہمارے ہاں اسلامی تہذیب و ثقافت کا کوئی تصور قانون کی فائلوں میں موجود ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ کے یہ ریمارکس کہیں پڑھے تھے کہ “ہم نے اسلام کا تحفظ کبھی نہیں کیا بلکہ اسلام ہی ہمیشہ ہمارا تحفظ کرتا ہے”۔ بدقسمتی سے اقبالؒ کے تصور پر قائم ہونے والے پاکستان میں بھی تحریک پاکستان سے لے کر اب تک ہماری قومی نفسیات و رجحانات کا رخ اور سطح یہی چلی آرہی ہے۔ ہم سب کے ہاتھ میں “اسلام” ایک چھتری کی صورت میں ہر وقت موجود رہتا ہے، جہاں کہیں دھوپ یا بارش کی وجہ سے اس کی ضرورت پڑتی ہے، ہم اسے اپنے سر پر تان لیتے ہیں اور جونہی وہ ضرورت ختم ہوجاتی ہے یا خود ہمارا موڈ اس دھوپ یا بارش کو انجوائے کرنے کا بن جاتا ہے تو وہ چھتری خودبخود سمٹ کر پھر سے ہمارے ہاتھ کی چھڑی بن کر رہ جاتی ہے۔ ہمارا ایک اور “طریق واردات” بھی ہے کہ اسلام اور اسلامی تہذیب کی کوئی بات ہمیں اختیار کرنا پڑ جائے تو ہم سرے سے اس کو ہی شک و نزاع کا موضوع بنا دیتے ہیں تاکہ “نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری”۔ عدالت عظمیٰ میں زیر بحث آنے والے بہت سے معاملات میں سے دو باتوں کا حوالہ اس سلسلہ میں مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ایک سود کی بات ہے جس کے بارے میں دستور پاکستان کی واضح ہدایت موجود ہے کہ سودی نظام کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔ جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے ایک تفصیلی فیصلہ میں دستور و قانون میں سودی نظام سے متعلقہ دفعات کی نشاندہی کر کے انہیں ختم کرنے اور ان کی جگہ اسلامی احکام و قوانین کو قانونی نظام کا حصہ بنانے کی نہ صرف ہدایت کر چکی ہے بلکہ متبادل نظام و قانون کا مکمل ڈھانچہ بھی عدالت عظمیٰ کی طرف سے پیش کیا جا چکا ہے۔ مگر ہم اس پر عمل کرنے کی بجائے عدالتی فورم پر ہی “سود” کی ازسرنو تعبیر و تشریح اور اس کے من چاہے اطلاقات کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس سے غرض نہیں رہی کہ امت نے شروع سے اب تک جس سود کو حرام سمجھا وہ کیا ہے اور سود کی جس تعریف و اطلاق سے امت کے جمہور اہل علم و فقہ نے ہمیشہ اتفاق کیا ہے اس کا دائرہ کیا ہے؟ ہم نے تو سرے سے سود ہی کو متنازعہ اور مشکوک بنا کر دستوری پابندی سے پیچھا چھڑانا ہے جو ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ کر رہے ہیں اور یہی ہمارے ریاستی اداروں اور حکمران طبقات کی طے شدہ پالیسی ہے۔
دوسرا مسئلہ اسی فحاشی اور عریانی کا ہے۔ جب ہمارے ایک محترم قومی راہنما قاضی حسین احمد مرحوم نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ فحاشی پر پابندی لگائی جائے تو خود “فحاشی” زیربحث موضوع بن گئی کہ فحاشی کہتے کس کو ہیں اور ہم نے فیتہ لے کر کرتے اور پاجامے ماپنے شروع کر دیے کہ یہ فحاشی شروع کہاں سے ہوتی ہے اور کہاں جا کر ختم ہوتی ہے۔ اس دور میں مجھ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ فحاشی کی تعریف کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم سے یہ بات پوچھ لیتے ہیں جس نے متعدد مقامات پر فحاشی کا ذکر کیا ہے، اس سے منع کیا ہے اور اسے قابل سزا جرم قرار دیا ہے۔ ان میں سے دو کو ہی دیکھ لیں۔ 
(۱)سورہ الاعراف کی آیت ۲۶ تا ۳۱ میں اللہ تعالیٰ نے “فحشاء” کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ لباس انسان کے لیے زینت بھی ہے اور یہ پردہ و ستر بھی ہے۔ شیطان نے تمہارے ماں باپ آدم و حوا علیہما السلام کو جنت سے نکلوانے کے لیے انہیں بے لباس کرنے کا حربہ استعمال کیا تھا اور وہ نسل انسانی کو جنت میں جانے سے روکنے کے لیے بھی لباس اتروانے کا حربہ ہی استعمال کر رہا ہے۔ یہ “فحشاء” ہے جس کا شیطان حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے تمہیں منع کرتا ہے۔ گویا لباس کا پردہ و ستر کی ضرورت سے کم ہونا قرآن کریم کے نزدیک فحاشی کہلاتا ہے۔ 
(۲) سورہ النور کی آیت ۱۱ تا ۲۶ میں اللہ تعالیٰ نے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر منافقین کی طرف سے لگائی گئی نعوذ باللہ بدکاری کی تہمت کا ذکر کیا ہے اور اسے “بہتان عظیم” قرار دے کر ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی پاکدامنی کی گواہی دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس تہمت کی تشہیر اور اس پر طرح طرح کے تبصروں اور کمنٹس کو “فحشاء” قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والوں کے لیے دنیا اور آخرت دونوں جگہ سزا بیان فرمائی ہے۔
میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم کے ان دو مقامات کو سامنے رکھتے ہوئے “فحاشی” کی تعریف و اطلاق کا قانونی دائرہ آسانی کے ساتھ متعین کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے اتنے لمبے مباحثہ کی آخر کیا ضرورت ہے؟ لیکن یہ ہمارا اجتماعی مزاج بن گیا ہے کہ قرآن و سنت کے کسی صریح حکم پر بھی عمل کرنے کی بجائے اس سے فرار کے راستے تلاش کرتے ہیں اور اس میں ہماری “مہارت” بلاشبہ کسی بڑے سے بڑے عالمی ایوارڈ کے معیار سے کم نہیں ہے۔ یہ ہماری چابکدستی نہیں تو اور کیا ہے کہ محبت اور عقیدت تو حضرت مجدد الف ثانیؒ سے رکھتے ہیں اور قصیدے بھی انہی کے پڑھتے ہیں لیکن راستہ ہم نے اکبر بادشاہ کے “دین الٰہی” کا اختیار کر رکھا ہے اور پوری قوم بلکہ امت مسلمہ کو اسی راستے پر گامزن کر دینے کے لیے ہماری ’’علم و دانش‘‘ کی صلاحیتیں مسلسل صرف ہو رہی ہیں۔
اسلامی تہذیب کے تحفظ کے جذبہ و احساس اور اس سلسلہ میں میڈیا کی سرگرمیوں کا ازخود نوٹس لینے پر ہم عدالت عظمیٰ بالخصوص چیف جسٹس جناب جسٹس نثار ثاقب کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان سے مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ اس موقع پر ملک کے ایک شہری اور مسلمان کے طور پر ہماری ان گزارشات پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے، جزاکم اللہ احسن الجزاء۔

دینی خدمات کا معاوضہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ دنوں کسی دوست نے واٹس ایپ پر جمعیۃ علماء ہند صوبہ دہلی کے صدر اور مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری دہلی کے مہتمم مولانا محمد مسلم قاسمی کے اس فتویٰ کا ایک صفحہ بھجوایا ہے جو ائمہ مساجد اور مدارس و مکاتب کے اساتذہ کی تنخواہوں کے بارے میں ہے اور اس پر کچھ دیگر حضرات کے دستخط بھی ہیں۔ اس کا ایک حصہ ملاحظہ فرما لیجئے:
’’کل قیامت کے دن یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ مسجد میں ماربل، اے سی، بہترین قالین اور عمدہ جھاڑ فانوس وغیرہ لگائے تھے یا نہیں؟ لیکن اگر اتنی کم تنخواہ دی جس سے روزمرہ کی عام ضروریات زندگی بھی پوری نہ ہو سکیں تو یہ ان کی حق تلفی ہے جس کا حساب یقینا اللہ کے ہاں دینا پڑے گا۔ مسجد و مدرسہ کی آمدنی کے سب سے زیادہ مستحق امام، مؤذن اور اساتذہ ہیں۔ یہ جتنے اچھے اور خوشحال رہیں گے مسجد اور مدرسوں کا نظام اتنا ہی اچھا چلے گا۔ صرف امام کی تنخواہ دے کر امام پر اذان کی بھی ذمہ داری ڈالنا اور جھاڑو وغیرہ دینے کے کام پر مامور کرنا یہ ان کی توہین ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حاملین قرآن (قرآن کا علم رکھنے والے) کی تعظیم کرو، بے شک جس نے ان کی عزت کی اس نے میری عزت کی (الجامع الصغیر ۱/۱۴)۔ تنخواہ اچھی دینا بھی ان کی عزت کرنے میں داخل ہے اور حدیث میں ہے کہ حاملین قرآن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے اور اس کو بڑھاوا دینے والے ہیں، جس نے ان کی تعظیم کی اس نے اللہ کی تعظیم کی اور جس نے ان کی توہین کی اس پر اللہ کی لعنت ہے (الجامع الصغیر ۱/۱۴۲)۔ تنخواہ کم ہونے اور ضروریات زندگی زیادہ ہونے کی وجہ سے امام اور اساتذہ ہو کر وہ کسی مالدار صاحب خیر سے سوال کرنے کی جرأت کر بیٹھتے ہیں اور بعض دفعہ سوال پورا نہ ہونے کی صورت میں سخت ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔ ایسے حالات میں تنخواہ نہ بڑھا کر انہیں پریشانی میں ڈالنا بھی ایک طرح کی توہین ہی ہے۔ لہٰذا امام اور اساتذہ کی تنخواہیں ان کے گھر کے خرچہ کے مطابق موازنہ کر کے مہنگائی کے ساتھ ساتھ بڑھاتے رہنا چاہیے۔ سال پورا ہونے کا انتظار یا تنخواہ بڑھانے کے معاملہ میں تنگ دلی سے کام لینا یا دیگر نامناسب شرط و قید لگانا صحیح نہیں۔ (مستفاد از فتاوٰی رحیمیہ قدیم ۵۳۵/۴)”
یہ فتویٰ ۱۷ اپریل ۲۰۱۸ء کو جاری کیا گیا ہے اور اس میں ہمارے دینی ماحول کے ایک ایسے پہلو کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور پورے جنوبی ایشیا کے عمومی ماحول میں دن بدن سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمارے ہاں یہ غلط تصور رواج پا گیا ہے کہ دینی خدمات کسی معاوضہ کے بغیر سرانجام دینی چاہئیں اور کسی دینی خدمت پر وظیفہ یا تنخواہ کا تقاضا کرنا ثواب اور اجر سے محرومی کا باعث بن جاتا ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خدمت ان کے سپرد کی اور اس کی انجام دہی کے بعد آنحضرتؐ نے انہیں کچھ حق الخدمت پیش کیا جو انہوں نے یہ کہہ کر قبول کرنے میں تامل کیا کہ میں نے تو یہ خدمت اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سرانجام دی ہے اور میری مالی حالت بہتر ہے مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جناب رسول اللہ نے ان کی یہ بات قبول نہیں کی اور فرمایا کہ ’’خذہ وتمولہ‘‘ اس کو وصول کرو اور اپنے مال میں شامل کرو، اس کے بعد اگر تمہاری مرضی ہو تو صدقہ کر دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دینی خدمت پر حق الخدمت ادا کرنا ضروری ہے، اسے وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سے دینی خدمت کا ثواب و اجر ختم نہیں ہو جاتا۔
اسی طرح یہ بات ہمارے ہاں معمول بن گئی ہے کہ دینی خدمات سرانجام دینے والوں کی تنخواہیں اور دیگر سہولتیں عام طور پر کم از کم معیار پر مقرر کی جاتی ہیں۔ کچھ خدا ترس اور معیاری دینی مدارس و مراکز اساتذہ اور ائمہ و حفاظ کو معقول مشاہرے دیتے ہیں اور سہولتیں بھی مہیا کرتے ہیں مگر ان کی تعداد اکثریت میں بہرحال نہیں ہے۔ جبکہ عمومی ماحول یہ ہے کہ جس شخص کو ہم امامت، اذان، تعلیم قرآن کریم، دینی تدریس اور اس نوعیت کی کوئی ذمہ داری سونپ رہے ہیں اور اس کے اوقات کار کو اس کام کے لیے مخصوص کر رہے ہیں اس کا وظیفہ مقرر کرتے وقت ہم اس بات کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے کہ اس سے اس کی اور اس کے کنبہ کی روزمرہ کی ضروریات اس علاقہ کے عرف کے مطابق باوقار طریقہ سے پوری ہو سکتی ہیں یا نہیں؟ ضروریات اور اخراجات کے تعین میں قرآن کریم نے “عرف” کو معیار قرار دیا ہے اور اس کی پابندی کا حکم دیا ہے۔ ’’متاعاً بالمعروف‘‘ کے ارشاد گرامی کے ساتھ ساتھ یتیم کے مال کی نگرانی اور انتظام کرنے والے کے لیے قرآن کریم میں ’’فلیأکل بالمعروف‘‘ فرمایا گیا ہے۔ جبکہ اس عرف کا دائرہ متعین کرتے وقت ہمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس ارشاد گرامی کو سامنے رکھنا ہوگا جو انہوں نے خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبرؓ کا بیت المال سے وظیفہ مقرر کرتے وقت صحابہ کرامؓ کی مشاورت کے دوران فرمایا تھا کہ جس سے وہ مدینہ منورہ کے ایک عام شہری کی طرح باعزت زندگی گزار سکیں اور اسی پر فیصلہ ہوگیا تھا۔ اس لیے مؤذن، امام، خطیب، مدرس، قاری اور دینی خدمت کے مختلف شعبوں کے رجال کار کا وظیفہ اور سہولتیں مقرر کرتے وقت یہ بات بہرحال ملحوظ رکھنا ہوگی کہ وہ جس علاقہ میں رہتے ہیں وہاں کے عمومی ماحول کے مطابق ان کے کنبہ کی ضروریات زندگی اس وظیفہ سے باعزت طور پر پوری ہو جائیں، ورنہ یہ نا انصافی اور حق تلفی شمار ہوگی۔
ایک اور بات بھی ہمارے ہاں کہہ دی جاتی ہے کہ جب ایک امام اور مدرس خود اس تنخواہ پر راضی ہے اور اسے قبول کر رہا ہے تو پھر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں تامل ہے اس لیے کہ ہمارے ہاں کسی شخص کو قاری اور عالم کے طور پر تعلیم و تربیت دینے کے دوران اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ وہ دینی خدمت کے سوا کوئی اور کام نہ کر سکے بلکہ اس کے کوئی متبادل ہنر یا ذریعۂ روزگار سیکھنے کی عام طور پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔جس کے نتیجے میں ایک عالم دین کوئی متبادل ذریعہ اختیار کرنے کی اول تو استعداد اور صلاحیت ہی نہیں رکھتا اور اگر کوئی شخص اپنی ذاتی محنت اور توجہ سے ایسا کر لیتا ہے تو اسے خود اپنے اساتذہ، ساتھیوں اور ماحول کی طرف سے تحقیر و استخفاف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ معاشرتی طور پر مجبور ہو جاتا ہے کہ دینی خدمت ہی کے دائرے میں رہے اور اسی کو معاش کا ذریعہ بنائے، چنانچہ اس مجبوری کے باعث وہ کم وظیفے پر راضی ہو جاتا ہے کہ چلو کچھ نہ ہونے سے تو یہ بہتر ہے۔ تو کیا اس کی یہ رضا شرعاً رضا شمار ہوگی ؟ صاحبِ ہدایہ نے حضرت امام ابوحنیفہؒ سے یہ اصول نقل کیا ہے کہ ’’لا رضاء مع الاضطرار‘‘ یعنی اضطرار اور مجبوری کی حالت کی رضا کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں آج کی مساجد و مدارس میں اس کیفیت کے ساتھ دینی خدمات سرانجام دینے والے زیادہ تر حضرات اس کا اولین مصداق ہیں جو مسلسل زیادتی اور حق تلفی کا شکار ہو رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور پہلو پر بھی غور فرما لیں کہ بعض حضرات سادگی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ فارغ اوقات میں کوئی اور کام بھی تو کر سکتے ہیں۔ اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہ بات زیادہ تر ان لوگوں کی طرف سے کی جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ علماء کرام کو دینی خدمات تو بلامعاوضہ سرانجام دینی چاہئیں اور فارغ اوقات میں متبادل ذریعہ اختیار کر کے روزگار کا بندوبست کرنا چاہیے۔ یہ حضرات آج کے اس مسلمہ بین الاقوامی ضابطے کو بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی شخص کی ڈیوٹی کے اوقات کار کا تعین ضروری ہے جو عام طو رپر یومیہ چھ یا آٹھ گھنٹے ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اس کے اوقات کا اس کی گھریلو ضروریات، آرام، بیوی بچوں اور تفریح وغیرہ کے لیے فارغ ہونا اس کا بنیادی انسانی حق ہے جو اس کی ضروریات زندگی میں شامل ہے۔ اوقات کار کے حوالہ سے آج کے مسلمہ قانون کو اگر سامنے رکھا جائے جس سے اسلام بھی انکار نہیں کرتا تو ہمارے اساتذہ، ائمہ اور دینی خدمت کے دیگر رجال کار پہلے ہی اس دائرہ سے زیادہ وقت دے رہے ہیں اس لیے اس سے ہٹ کر ان پر کسی مزید ڈیوٹی اور کام کی ذمہ داری ڈالنا ان کی حق تلفی اور ان کے ساتھ نا انصافی کی بات ہوگی۔
دہلی کے مولانا مفتی محمد مسلم قاسمی کے مذکورہ فتویٰ کو دیکھ کر یہ چند معروضات پیش کرنے کا موقع مل گیا ہے ورنہ یہ مسئلہ بہت زیادہ توجہ اور فکرمندی کا تقاضہ کرتا ہے جو اہل فتویٰ کی دینی ذمہ داری میں شامل ہے بلکہ اس طرف توجہ نہ دینے والے حضرات بھی میری طالب علمانہ رائے میں اس نا انصافی میں شریک ہی سمجھے جائیں گے۔ رمضان المبارک کے رخصت ہونے کے بعد شوال المکرم کے دوران ہمارے ہاں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے جس میں مدارس و مساجد کے سال بھر کے معاملات طے پاتے ہیں اس لیے دینی مدارس کے وفاقوں، دینی جماعتوں، افتاء و ارشاد کے بڑے مراکز اور مسلمہ علمی شخصیات سے گزارش ہے کہ وہ اس مسئلہ پر توجہ فرمائیں اور مساجد و مدارس کے شعبوں میں ان کے منتظمین کے لیے کچھ باقاعدہ اصول و ضوابط وضع کر کے ان کی راہنمائی کریں تاکہ وہ ان کی روشنی میں ائمہ، مدرسین، مؤذنین اور دینی خدمات کے دیگر رجال کار کے ساتھ مسلسل ہونے والی اس نا انصافی کی تلافی کے لیے کوئی معقول راستہ اختیار کر سکیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۴)

مولانا عبید اختر رحمانی

حضرت امام صاحب کے غیر کوفی اساتذہ کرام کی مختصر فہرست 1

مدنی اساتذہ کرام

عبدالرحمن بن ہرمز مدنی

آپ نے حضرت ابوہریرہ اورحضرت ابوسعید خدری اوردیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت کی ہے،آپ کو حافظ ذہبی نے الامام الحافظ ،الحجۃ کے گراں قدر القاب سے یاد کیاہے۔ (سير أعلام النبلاء،المؤلف: شمس الدين الذهبي (المتوفى : 748هـ) الناشر:مؤسسة الرسالة،5/69)

ہشام بن عروۃ بن الزبیر بن العوام الاسدی

آپ کو اپنے والد عروہ ،چچا زبیر،عبداللہ بن عثمان اور دیگر کبار تابعین سے روایت  کاشرف حاصل ہے،حافظ ذہبی نے آپ کاالامام الثقہ شیخ الاسلام کے باعظمت القاب سے ذکر کیاہے۔(سير أعلام النبلاء،المؤلف: شمس الدين الذهبي (المتوفى : 748هـ) الناشر:مؤسسة الرسالة،6/34)

ابن شہاب الزہری

آپ کی ولادت سنہ ۵۰ ہجری میں ہوئی اور بیس سے کچھ زائد عمر میں علم حاصل کرنا شروع کیا۔ حضرت ابن عمرؓ سے دو حدیثیں روایت کیں۔ ان کے علاوہ سہل بن سعد، انس بن مالک، محمود بن الربیع اور دیگر متعدد صحابہ کرام اور کبار تابعین سے روایت کا آپ کو شرف حاصل ہے، علم حدیث میں آپ کا بڑامقام ومرتبہ ہے،اورتقریباآپ کی جلالت علمی پر محدثین کا اتفاق ہے،حافظ ذہبی نے آپ کو احدالاعلام وحافظ زمانہ سے ملقب کیاہے۔(تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام،المؤلف: شمس الدين الذهبي، الناشر: دار الغرب الإسلامي 3/499)

نافع مولى ابن عمرؓ

 آپ اصلاًدیلم کے رہنے والے تھے، اسیر ہوکر حضرت عبداللہ بن عمرکے پاس پہنچے،آپ نے عبداللہ بن عمرؓ کے علاوہ ابوسعید الخدریؓ،مالک بن انس ودیگر صحابہ کرام وکبار تابعین سے روایت کی ہے،حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایات کے آپ مرکزی راوی ہیں، اورآپ ہی کے سلسلہ سند کو امام بخاری سلسلۃ الذہب واصح الاسناد قراردیاہے۔آپ کی علمی جلالت شان اور علم حدیث میں ثقاہت واتقان پر محدثین کرام کا اتفاق واجماع ہے۔.(وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان،المؤلف: ابن خلكان الإربلي (المتوفى: 681هـ)الناشر: دار صادر – 5/367)بيروت)

ربیعۃ الرای

آپ نے صغار صحابہ کرام اور کبا رتابعین سے حصول علم میں استفادہ کیاہے،آپ کے شاگردوں میں اساطین اہل علم کاشمار ہے،امام مالک نے فقہ میں آپ سے بطور خاص استفادہ کیاہے اورآپ کی فقاہت کی داد دیگر فقہاء ومحدثین نے بلند وبالا الفاظ میں دی ہے،صحابہ کرام کی موجودگی میں آپ فتویٰ دیاکرتے تھے،بعض حضرات نے توآپ کوحسن بصریؓ اور ابن سیرینؓ سے بھی زیادہ بڑافقیہ قراردیاہے،امام مالک فرمایاکرتے تھے کہ ربیعہ کی موت سے فقہ کی مٹھاس چلی گئی ،فقہ کے ساتھ حدیث میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی، ابن سعد نے نے آپ کو کثیرالحدیث قراردیاہے۔(تهذيب التهذيب، المؤلف: ابن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند3/258)
امام ابوحنیفہ کے متعلق بعض محدثین نے ایسے اقوال نقل کیے ہیں، جس سے پتہ چلتاہے کہ امام ابوحنیفہ ان کی باتوں کو نہایت غور سے سنتے تھے توبجائے اس کے کہ اس کو امام ابوحنیفہ کے حسن ادب اور علمی مجالس کے آداب نشست وبرخاست برتنے کے سلیقہ میں شمار کیاجائے ،بعض سوء فہم کے شکار افرادنےاس چیز کو امام ابوحنیفہ کے عیب وتنقیص میں شمار کیاہے(دیکھئے نشرالصحیفۃللوادعی:ص۳۹۱)،جیساکہ ایک روایت ہمیں ملتی ہے کہ امام ابوحنیفہ امام مالک کی مجلس میں اسی طرح بیٹھتے تھے جیسے بچے اپنی ماں کے سامنے باادب بیٹھتے ہیں(تذکرۃ الحفاظ ،الناشر: دار الكتب العلمية بيروت-لبنان۱؍۱۵۵)اس پر حافظ ذہبی نے لکھاہے:
’’ قلت: فہذا يدل علی حسن أدب أبي حنيفة وتواضعہ مع كونہ أسنّ من مالك بثلاث عشرة سنة.‘‘ (المصدرالسابق)
میں کہتاہوں(ذہبی)یہ امام ابوحنیفہ کے حسن ادب اور تواضع کی دلیل ہے،کیونکہ امام ابوحنیفہ امام مالک سے عمر میں تیرہ برس بڑے تھے2۔

محمد بن المنکدر

آپ نسب ونسبت کے اعتبار سے قریشی ،تمیمی اور مدنی ہیں،آپ کا شمار کبارتابعین ہیں، آپ کوجلیل القدر صحابہ کرام اورامہات المومنین سے روایت کا شرف حاصل ہے،آپ نے حضرت سلمان فارسی، ابورافع،اسماء بنت عمیس،ابوقتادہ سے مرسلاً روایت کی ہے،صحابہ کرام میں حضرت ابن عمر،حضرت جابر،حضرت ابوہریرہ،حضرت ابن عباس،حضرت عبداللہ بن زبیر،حضرت انس بن مالک، حضرت ابوامامہ،حضرت مسعود بن الحکم ،حضرت عبداللہ بن حنین اورصحابیات میں ام المومنین حضرت عائشہؓ ،امیمہ بنت رقیقہ سے روایت کا شرف حاصل ہے، اس کے علاوہ آپ نے کبار تابعین سے بھی روایت کی ہے جس میں سعید بن المسیب،عروہ بن زبیر اور عبدالرحمن بن یربوع اوراپنے والد منکدر ودیگر شامل ہیں،حافظ ذہبی نے آپ کو الإِمَامُ، الحَافِظُ، القُدْوَۃ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ کے گراں قدر القاب سے یاد کیاہے۔(سير أعلام النبلاء،المؤلف: شمس الدين الذهبي (المتوفى : 748هـ) الناشر:مؤسسة الرسالة،5/354)

عكْرِمَة مولى ابن عباس

آپ کا آبائی تعلق بربر قبیلہ سے ہے،مجاہدین کے ہاتھوں اسیر ہوئے، اورایک صاحب نے آپ کو حضرت عبداللہ بن عباس کو تحفے میں دیدیا،آپ کوحضرت عبداللہ بن عباس کے علوم کا وارث خیال کیاجاتاہے،بالخصوص تفسیر میں آپ کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے،آپ نے حضرت ابن عباسؓ کے علاوہ ام المومنین حضرت عائشہ،حضرت ابوہریرہ،حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت عبداللہ بن عمرو ودیگر کبار تابعین سے روایت کیاہے، حضرت علیؓ سے آپ نے مرسلاروایت کیاہے۔آپ کے شاگردوں مین اساطین فقہ وحدیث موجود ہیں،صحابہ کرام تک آپ سے استفادہ کرتے تھے، حضرت شعبی فرمایاکرتے تھے کہ اب روئے زمین پر عکرمہ سے زیادہ کتاب اللہ کا واقف کار کوئی دوسرا نہیں ہے،آپ کو حافظ ذہبی نے العلامة الحافظ، إمام المفسرين کے باوقعت الفاظ سے یاد کیاہے۔

یحیی بن سعید الانصاری

آپ نسباًانصاری ہیں، اولاًمدینہ کے قاضی رہے پھر منصور نے آپ کوقاضی القضاۃ مقرر کیا، آپ کو صغارصحابہ کرام اور اکابر تابعین عظام سے روایت کا شرف حاصل ہے،آپ کے شاگردوں میں علم حدیث وفقہ کےنامور افراد موجود ہیں۔فقہ کا عالم یہ ہے کہ ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ مدینہ میں یحیی بن سعید سے زیادہ فقیہ کوئی دوسرانہیں، اورحدیث میں بقول سفیان ثوری آپ زہری کے مد مقابل ہیں۔(تذكرة الحفاظ،المؤلف: شمس الدين الذهبي ،الناشر: دار الكتب العلمية بيروت-لبنان1/104)

ابو جعفر الباقر

آپ اہل بیت میں سے ہیں، آپ حضرت حسینؓ کے پوتے اور حضرت علیؓ وفاطمہؓ کے پرپوتے ہیں ،آپ جلیل القدر تابعی ہیں۔متعدد صحابہ کرام اور کبار تابعین سے آپ نے روایت کی ہے، اورآپ کے شاگردوں میں آفتاب علم وفضل کی کثیرتعداد موجود ہے۔آپ حدیث وفقہ دونوں میدان کے شہسوار تھے۔(البداية والنهاية،المؤلف: ابن كثير (المتوفى: 774هـ)الناشر: دار إحياء التراث العربي9/338)

مکی اساتذہ کرام

عطاء بن ابی رباح

(27 - 114 هـ = 647 - 732 م)

آپ حبشی غلام تھے، یمن کے جند نامی مقام میں پیداہوئے،اور حضرت ابن عباس کی خدمت میں رہ کر علم میں وہ مقام پیداکیاکہ حج کے دورمیں صرف انہی کا فتویٰ چلتاتھا،امام ابوحنیفہ کے ان سے تاثر کا ذکر ماقبل میں آچکاہے۔(الاعلامللزرکلی۴؍۲۳۵)

عمرو بن دِينار

(46 - 126 هـ = 666 - 743 م)
آپ کا نسب کے اعتبار سے فارسی ہیں، آپ کی پیدائش صنعااوروفات مکہ میں ہوئی ،اپنے عہد میں آپ مکہ کے مفتی اورمحدث تھے،شعبہ کہتے ہیں کہ میں آپ سے زیادہ حدیث میں کسی کو پختہ کار نہیں دیکھااور امام نسائی ثقہ اور ثبت کہتے ہیں۔(الاعلامللزرکلی۵؍۷۷)

نافذ المکی

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:آپ کی کنیت ابومعبد ہے،آپ حضرت ابن عباس کے غلام تھے، ا ثقہ ہین اور راویوں کے چوتھے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ کا انتقال ۱۰۴؍ہجریمیںہوا۔(تقریب۱؍۵۵۸)

محمد بن مسلم تدرس

آپ کی کنیت ابوالزبیر ہے،حافظ ذہبی نے آپ کو تاریخ الاسلام میں احد الاعلام اور سیر اعلام النبلاء میں الإمام، الحافظ، الصدوق کے گراں قدر القاب سے یاد کیاہے،آپ نے درج ذیل صحابہ کرام جابر بن عبد الله، وابن عباس، وابن عمر، وعبد الله بن عمرو، وأبي الطفيل، وابن الزبيررضی اللہ عنہم اجمعین ودیگر سے روایت کی ہےآپ کے شاگردوں میں کبار اہل علم جیسے عطاء بن ابی رباح ،زہری ودیگر ہیں۔
مکی اساتذہ میں امام ابوحنیفہ کے دیگر مشائخ درج ذیل ہیں۔
عبدالعزیز بن رفیع مکی
عبداللہ بن ابی نجیح المکی
عبداللہ بن عبدالرحمن
طلحہ بن نافع الواسطی
شیبہ بن مساور ،مسور المکی
حمید بن قیس المکی الاعراج الطویل
ابراہیم بن میسرہ الطائفی نزیل مکہ

بصرہ کے اساتذہ 

حسن بصریؒ

آپ کاعلمی مقام محتاج تعارف نہیں،مختلف علوم وفنون بشمول حدیث وفقہ اورتفسیر میں آپ کو امامت کا درجہ تھا، آپ کی زبان سے حکمت کے موتی جھڑتے تھے،امام غزالی فرماتے ہیں کہ آپ کاکلام انبیاء وصحابہ کے کلام کے مشابہ ہے۔(الاعلامللزرکلی۲؍۲۲۶)

قتادہ بن دعامہؒ

آپ کی کنیت ابوخطاب ہے،علم حدیث ،تفسیر ،عربی زبان وادب اورایام عرب میں آپ بڑے ماہر تھے،احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں،بصرہ میں حدیث کے آپ سب سے بڑے حافظ تھے،آپ کا انتقال واسط میں طاعون کی بیماری میں ہوا۔ (الاعلام للزرکلی۵؍۱۸۹) حافظ ابن حبان آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ اپنے عہد کے عالی مرتبت حدیث کے حافظ، مفسر قرآن اور فقیہ تھے۔ (مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار،/154)

ایوب سختیانیؒ

آپ نے حسن بصری ،ابن سیرین ودیگر کبار تابعین واہل علم سے استفادہ کیااورآپ کے شاگردوں میں شُعْبَۃ، ،حماد بن زید ،حماد بن سلمہ ،سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ ، ومَعْمَرٌ، وَمُعْتَمِرٌ، وابْنُ عُلَيَّةَ، وعَبْدُ الْوَارِثِ اوردیگر ساطین اہل علم ہیں۔آپ کے بارے میں شعبہ کہتے ہیں ،آپ اپنے دو رمیں فقہاء کے سردار تھے، ابن عیینہ کہتے ہیں کہ انہوں نے آپ جیساکسی کو نہیں دیکھا،ابن سعد آپ کو حدیث میں نہایت پختہ کار،مختلف علوم وفنون کے جامع ،وسیع علم کے حامل اورعادل وحجت مانتے ہیں۔امام مالک فرماتے ہیں میں نے تم لوگوں سے جن لوگوں کی تعریف وتوصیف کی ہے،ایوب ان سب میں سب سے فائق ہیں۔ (تاریخ الاسلام للذہبی۳؍۶۱۸)

شعبہ بن الحجاج الواسطی

حدیث وادب عربی میں آپ کا خاص مقام تھا، حدیث میں آپ کو امیر المومنین فی الحدیث کا گراں قدر خطاب دیاگیاہے، آپ نے ہی اولاعراق میں راویوں کی تفتیش اور چھان بین کی بناڈالی اورضعیف راویوں کی روایت سے اجتناب شروع کیا، امام احمد بن حنبل کہتے ہیں علم حدیث میں آپ تنہا ایک امت کے برابر ہیں،امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر آپ نہ ہوتے توعراق میں علم حدیث مٹ جاتا،اصمعی کہتے ہیں میں نے شعروادب میں آپ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ (الاعلام للزرکلی۳؍۱۶۴)
واضح رہے کہ شعبہ بن الحجاج امام ابوحنیفہ کے معاصر ہیں اور امام ابوحنیفہ سے آپ کو محبت تھی، چنانچہ آپ کو امام ابوحنیفہ کے انتقال کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا کہ ان کے ساتھ ہی کوفہ کی فقہ بھی چلی گئی (الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ 126)
ان کے علاوہ آپ کے مشائخ میں متعدد ایسے افراد کے نام آتے ہیں جو یمن وشام کے رہنے والے تھے،جیسے طائوس بن  کیسان اور معاصرین میں امام اوزاعی،مکحول ودیگر۔

اجتہاد مطلق کسی تابعی کے قول پر تخریج کاکام نہیں 

۷: تخریج کا جو نظریہ حضرت شاہ ولی نے پیش کیاہے ­––––امام صاحب  قواعد کلیہ اوراصول جاننے کے بعد ابراہیم نخعی اوران کے ہم عصر کوفی مشائخ کے اقوال پر تخریج کرکے پیش آمدہ مسائل کا جواب دیتے تھے ،پیش آمدہ مسائل کے سلسلہ میں احادیث کی کھوج کرید نہیں کرتے تھے––––وہ مجتہد مطلق جو ایک عظیم فقہی مسلک کا بانی ہو ،کی رفعت شان کے بالکل خلاف ہے، تمام کتب اصول فقہ اورتمام اصولیین اس بات پر متفق ہیں کہ مجتہد مطلق کا فریضہ ہے کہ وہ قرآن وحدیث اوراجماع سے مسائل کا استنباط کرے اور اگرقرآن وحدیث میں دلالت،اقتضاء،اشارہ وایماء وغیرہ کے طورپر بھی کوئی مسئلہ مذکور نہ ہو تواس  سلسلے میں قرآن وحدیث کی نظیروں کو سامنے رکھ کر قیاس کرے، یہی ایک مجتہد کی شان ہوتی ہے؛ لیکن حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نظریہ تخریج سے ایسامستفاد ہوتاہے کہ امام صاحب حافظ قرآن تو تھے ،پاس پڑوس سے جتنا اورجیساحدیث کا علم حاصل ہوگیا،اسی پر قانع اورشاکر تھے،اوربقیہ مسائل کے استنباط واستخراج میں اصل کام ابراہیم نخعی کے فتاوی واجتہاد کواپنانے اورانہی کے بیان کردہ مسائل پر دیگر مسائل کی تفریع تھی۔
 اگرحضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کانظریہ تسلیم کرلیاجائے تو پھر امام صاحب کی مجتہد مطلق کی حیثیت خطرہ میں پڑجاتی ہے اوران کی حیثیت بڑی حد تک صاحب تخریج تک سمٹ کر رہ جاتی ہے اورامت کا تقریباًاس پر اجماع ہے کہ امام صاحب مجتہد مطلق تھے، ادلہ اربعہ سے استنباط واجتہاد کرتے تھے،اوریہ واضح ہے کہ ادلہ اربعہ میں ابراہیم نخعی اوران کے ہمعصر کوفی فقہاء کا شمار نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ غیرجانبدار اور ایسے اہل علم حضرات نے جو تاریخ اور فقہ اسلامی پر گہری نگاہ رکھتے ہیں،انہوں نے اس نظریہ کو امام صاحب کی فقہی واجتہادی شان کے منافی بتایاہے، چنانچہ شیخ ابوزہرہ لکھتے ہیں:
ولقد کان فی مقابل ھولاء الذین افرطوا فی التعصب من ادعی ان اباحنیفۃ مکانہ فی الفقہ مکان المتبع لم یات بجدید الافی التخریج وسرعۃ التفریع وعین ھولاء صاحب ھذہ الطریقۃ التی اتبعہ فیھا ابوحنیفۃ وھو ابراہیم النخعی ومن ھولاء الدہلوی ،فقد جاء فی کتابہ حجۃ اللہ البالغۃ ما نصہ،"کان ابوحنیفہ الزمھہم بمذہب ابراہیم واقرانہ ........فقہاء الکوفۃ،وفی ھذاالنص کماتری حکم علیٰ ابی حنیفۃ بانہ لم یات بتفکیر فقہی جدید ،بل ھو متبع کل الاتباع ،ناقل کل النقل لابراہیم واقرانہ ،لایخرج عن آرائہم،الا فیما لایکون لھم اجتہاد فیہ ،وان خرج فالی اقوال علماء الکوفۃ،ولاشک ان فی ھذاالحکم ھضمالمکان ابی حنیفۃ فی الفقہ، لانہ یجعلہ مقلدا أو فی حکم المقلد المتبع۔ ( ابوحنیفہ حیاتہ وعصرہ وآراہ وفقھہ ص253-255)
اوراس کے بالمقابل وہ لوگ تھے جوتعصب میں حد سے تجاوز کرگئے،ان کا دعویٰ یہ ہےکہ امام ابوحنیفہ کا فقہ واجتہاد کا مقام متبع کا ہے،انہوں نے کئی نئی فکر پیش نہیں کی گئی اوران کی فقہ کا پورا سرمایہ تخریج اور تفریع میں سرعت ہے،اورجن حضرات نے ابوحنیفہ کو ابراہیم نخعی کا متبع قراردیاہے،ان میں ہی شاہ ولی اللہ دہلوی بھی ہیں، انہوں نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھاہے(..............یہاں وہی باتیں حضرت شاہ ولی اللہ کی نقل کی ہیں جس کو ہم پہلے نقل کرچکے ہیں)اورجیساکہ آپ دیکھ سکتے ہیں،اس تحریر میں واضح طورپر کہاگیاہےکہ امام ابوحنیفہ نے فقہ واجتہاد کے باب ومیدان میں کوئی نئی فکر اورنیافقہی سانچہ پیش نہیں کیا بلکہ وہ پورے طورپر متبع اورناقل ہیں، ابراہیم نخعی اوران کے معاصرین کے ،ان کی آراء سے تجاوز نہیں کرتے،ہاں کسی مسئلہ میں ان سے کوئی نقل مروی نہیں ہے تو اس میں اجتہاد کرتے ہیں،اگرابراہیم نخعی سے عدول کرتے بھی ہیں تو ان کا دائرہ صرف علماء کوفہ تک ہی محدود ہے،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ نظریہ امام ابوحنیفہ کے شان کے منافی ہے،کیونکہ اس نظریہ کا مفاد یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ مقلد اورمتبع ہیں۔

مداحین یامخالفین سے اس بارے میں کچھ بھی منقول نہ ہونا

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسی شخصیت جس کے مخالفین کی بڑی تعداد ہو اور جس کے حامیوں کا جم غفیر ہو،(جس کی ایک نمایاں مثال خود حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ہیں،جیساکہ ابن عبدالبر نے جامع بین العلم وفضلہ3 میں اور شیخ ابوزہرہ نے4 لکھاہے،ایسی شخصیت کے بارے میں کسی ایسے نظریہ کا اظہار جس کا سراغ نہ حامیوں کے یہاں ملتاہواورنہ مخالفین کے یہاں ،اسے قبول کرنا بہت مشکل کام ہے۔
اگرایسی کسی شخصیت کے بارے میں کسی ایسے نظریہ کا دعویٰ کیاجائے جس کا سراغ نہ حامیوں کے یہاں ملتاہے اورنہ مخالفین کے یہاں، تواس کیلئے بڑی مضبوط اورناقابل تردید دلیل نہیں بلکہ دلائل کی ضرورت ہوتی ہے،اورہم دیکھ چکے ہیں کہ تخریج کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ کی جودلیل ہیں وہ سبھی کی سبھی نہ صرف یہ کہ کمزور ہیں؛ بلکہ ان سے اس نظریہ تخریج کا بھی اظہار نہیں ہوتا جس کے وہ مدعی ہیں؛ بلکہ قوی دلائل ان کے موقف کےبرعکس ہیں۔

دلیل نہ کہ شخصیت

یوں تو ہرمجتہد مطلق کا فریضہ ہے کہ وہ دلیل کی پیروی کرے اور دلائل کی بنیاد پراجتہاد واستنباط کرے،لیکن اس میں بھی امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا خاص امتیاز ہے ،امام صاحب دلیل کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے تھے،اوران کا قول تھاکہ اگرکسی کے پاس ہماری بات سے اچھی بات ہے توہم اس کی بات قبول کرلیں گے:
ھذا الذی نحن فیہ رائ لا نجبر علیہ احدا، ولا نقول یجب علی احد قبولہ، فمن کان عندہ احسن منہ فلیات بہ، الحسن بن زیاد اللولوی قال قال ابو حنیفۃ علمنا ھذا رای وھو احسن ما قدرنا علیہ، ومن جاءنا باحسن منہ قبلناہ منہ (مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ،ص۳۴)
ہم اپنی رائے کے سلسلہ میں کسی پر زبردستی نہیں کرتی اور نہ کسی سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ اس کو تسلیم ہی کرے،اگرکسی کے پاس اس سے چھی رائے ہو تو وہ لے کر آئے،ایک دوسری روایت میں آپ نے فرمایا:ہمارا یہ علم رائے(فقہ وقیاس) ہےاوراس پر ہم اپنی بہترین کوشش کے بعد قادر ہوئے ہیں ،اگرکوئی اس سے اچھی رائے (فقہ واجتہاد)پیش کرتاہے توہم اس کی رائے قبول کرلیں  گے۔
ایسابھی ہواہے کہ بعض مرتبہ آپ نے اپنی رائے پیش کی لیکن آپ عمر اورعلم وفضل میں کم کسی دوسرے فرد نے اس رائے کی مخالفت کی تو حق کی وضاحت کے بعد آپ اپنی رائے سے فوراًدستبردار ہوگئے، آپ کی رائے تھی کہ اگر غلام دشمن سے لڑائی میں شریک نہیں ہے تواس کی امان باطل ہے ،لیکن جب زہیر بن معاویہ نے حضرت عمرؓ کے واقعہ سے استدلال کیا توآپ اپنی رائے ترک کرکے اس کے قائل ہوگئے۔5۔
حفص بن غیاث کی روایت ہے  کہ مسائل میں غوروفکر کرنے کے بعد ایک ہی دن میں تین چارپانچ بار اپنی رائے کو بدل دیتے تھے6اوراس سلسلے میں اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتے تھے کہ ان کی رائے کی اس تبدیلی کو سطحی نظروالے کیاسمجھیں گے،ابوعوانہ کی روایت ہے کہ وہ امام صاحب کے مسائل وآراء سے وہ اچھی طرح واقف ہوگئے تھے لیکن ایک طویل عرصہ کے بعد جب دوبارہ امام صاحب کے پاس واپس آئے تواس دوران امام صاحب کے خیالات وآراء بدل چکے تھے ،لہذا یہ دیکھ کر وہ امام صاحب سے برگشتہ ہوگئے7۔
امام صاحب نے ہی ایک مرتبہ حضرت امام ابویوسف سے فرمایاکہ میری ہر بات نہ لکھ لیاکرو ،کیونکہ خیالات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، ہوسکتاہے کہ جس بات کو تم نے لکھ لیاہو ،کل کلاں کو اس تعلق سے میرے خیالات بدل جائیں اور تم اس سے واقف نہ ہوسکو8۔

خلاصہ کلام

اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق تخریج کے جس نظریہ کا اظہار حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے فرمایاہے، وہ دلائل کی بنیاد پر کمزور اورمخدوش ہے،اوراس سے نہ صرف یہ کہ امام ابوحنیفہ کی بطور مجتہد مطلق شان میں کمی واقع ہوتی ہے ؛بلکہ تخریج کے ضمن میں خود حضرت شاہ صاحب کے نظریات میں الجھن سی محسوس ہوتی ہے،جس کی ماقبل میں نشاندہی کی گئی ہے،ایسے میں یہ ضروری ہے کہ اس موضوع اوراس پہلو پر مزید تحقیق کی جائے اوردلائل کی روشنی میں جس جانب قوت ہو،اس کو تسلیم کیاجائے۔
ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب۔

حواشی

1. امام صاحب کے مدنی ،مکی اوربصری اساتذہ میں سے محض چنداورمشہورحضرات  کا یہ تعارف ہے،وگرنہ امام صاحب  کے مشائخ کی تعداد اگرہزاروں نہیں تو سینکڑوں میں ضرور ہے۔ابوحفص الکبیر کی روایت ہے کہ امام صاحب کے مشائخ واساتذہ کی تعداد چارہزار ہے ،حافظ صالحی نے عقودالجمان میں آپ کے 334 مشائخ کا نام بنام شمار کرایا ہےاوراسی طرح آپ کے ۹۰۰ سے زائد شاگردوں کے نام لکھے ہیں۔ (دیکھئے عقود الجمان  ص86)
2. یہ روایت سند کے اعتبار سے تونہیں لیکن متن کے اعتبار سے مخدوش ہے ،وہ اس لئے کہ امام ابوحنیفہ کا جب انتقال ہوا ہے یعنی ۱۵۰ہجری میں ،اس وقت اشہب اس روایت کے راوی کی عمرپانچ سال تھی اور یہ متیقن نہیں کہ امام ابوحنیفہ کا یہ واقعہ ان کے انتقال سے کتناپہلے کاہے، اگرہم بالفرض مان ہی لیں کہ ان کے انتقال کے سال کا واقعہ ہے توبھی اتنی کم عمر کے بچے سے اس طرح کے واقعہ کایاد رکھنا بہت مستبعد ہے اور بالخصوص جب کہ اشہب مدینہ کے نہیں مصر کے رہنے والے تھے،ہاں جیساکہ شیخ زاہد الکوثری نے لکھاہے کہ ہوسکتاہے کہ اشہب نے یہ بات امام محمد بن الحسن الشیبانی کے بارے میں لکھی ہو اور بعد میں ناقلین ونساخ کی غلطی سے امام ابوحنیفہ کا نام آگیاہو۔
3. قَالَ أَبُو عُمَرَ رَحِمَہ اللَّہ: " الَّذِينَ رَوَوْا عَنْ أَبِي حَنِيفَۃ وَوَثَّقُوہ وَأَثْنَوْا عَلَيْہِ أَكْثَرَ مِنَ الَّذِينَ تَكَلَّمُوا فِيہ، وَالَّذِينَ تَكَلَّمُوا فِيہ مِنْ أَہلِ الْحَدِيثِ، أَكْثَرُ مَا عَابُوا عَلَيْہ الْإِغْرَاقَ فِي الرَّأْيِ وَالْقِيَاسِ وَالْإِرْجَاءَ وَكَانَ يُقَالُ: يُسْتَدَلُّ عَلَی نَبَاھۃ الرَّجُلِ مِنَ الْمَاضِينَ بِتَبَايُنِ النَّاسِ فِيہ قَالُوا: أَلَا تَرَی إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْہ السَّلَامُ، أَنَّہ قَدْ ھلَكَ فِيہ فَتَيَانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَمُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ،وَقَدْ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّہ يَہلِكُ فِيہ رَجُلَانِ مُحِبٌّ مُطْرٍ وَمُبْغِضٌ مُفْتَرٍ، وَہذِہ صِفَۃ أَہلِ النَّبَاھَۃ وَمَنْ بَلَغَ فِي الدِّينِ وَالْفَضْلِ الْغَايَۃ، وَاللَّہ أَعْلَمُ" [جامع بیان العلم وفضلہ ص:1085]
ابوعمرؒ کہتے ہیں کہ جن حضرات نے امام ابوحنیفه سے روایت كی ہے اوران كوثقہ قراردیاہے اوران كی تعریف كی ہے، ان كی تعداد ان سے زیاده ہے جنهوں نے ان پر كلام كیاہے،اورجن محدثین حضرات نے ان پر كلام كیاہے توان كے كلام كی وجه زیاده تریہ ہے كه امام ابوحنیفہ كا رائے اورقیاس سے اشتغال زیاده ہے اور وه ارجاء كے قائل ہیں،یہ بات کہی جاتی رہی ہےكہ فوت شده اشخاص كی عظمت كی دلیل ان كے بارے میں لوگوں كا مختلف الرائے ہونا ہے اوراس كی واضح مثال حضرت علی رضی الله عنه كی ذات گرامی ہے،ان كے بارے میں دوجماعت دوانتہاپسندانہ موقف كی قائل ہوگئیں، ایك انتہائی محبت كرنے والا اورایك ان سے انتہائی بغض ركهنے والا اورحدیث میں بهی حضرت علی رضی الله عنہ كے بارے میں فرمایاگیاہے کہ ان كے بارے میں دوجماعت ہلاک ہوں گی، ایك محبت میں غلو كرنے والا اور دوسرا نفرت میں حد سے تجاوز كرنے والا ،كسی كے بارے میں لوگوں كی رائے كا مختلف ہوناہی عظمت اوربلندیٔ مرتبت كی دلیل  ہے۔
4. جاء فی كتاب الخیرات الحسان مانصہ:’’ يُسْتَدَلُّ عَلَی نَبَاھَۃ الرَّجُلِ مِنَ الْمَاضِينَ بِتَبَايُنِ النَّاسِ فِيہ قَالُوا: أَلَا تَرَی إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْہ السَّلَامُ، أَنَّہ قَدْ ھَلَكَ فِيہ فَتَيَان مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَمُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ‘‘وان ہذہ الكلمة الصادقۃ تنطبق علیٰ ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ ،فقد تعصب لہ الناس حتی قاربوابہ منازل النبین المرسلین ،فزعموا أن التوراۃ بشرت بہ، وأن محمداً ﷺذكرہ باسمہ ،وبین أنہ سراج أمتہ،ونحلوہ من الصفات والمناقب ماعدوابہ رتبتہ وتجاوزوا معہ درجتہ وتعصب ناس علیہ فرموہ بالزندقۃ ،والخروج عن الجادۃ، وإفساد الدین ،وہجرالسنۃ بل مناقضتہا ،ثم الفتویٰ فی الدین بغیر حجۃ ولاسلطان مبین ،فتجاوزوافی طعہنم حدالنقد ولم تیجہوا إلیٰ آرائہ بالفحص والدراسۃ ،ولم یكتفوا بالتزییف لہا من غیرحجۃ ولادراسۃ ،بل عدوا عدواناشدیدا ،فطعنوا فی دینہ وشخصہ وإیمانہ (أبوحنیفه حیاته وعصره آراؤه الفقهیۃ،ص۷)
الخیرات الحسان میں یہ قول نقل ہواہےماضی کے افراد کی عظمت کی دلیل ان کے بارے میں لوگوں کا مختلف الرائے ہونا ہے ، اوراس قول کی صداقت کی واضح مثال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے ،جن کے بارے میں دوفریق دوانتہاپسندانہ موقف کے قائل ہوگئے،اوریہ بات بعینہ حضرت امام ابوحنیفہؓ پر صادق آتی ہے ،ان کے بارے میں ایک فریق نے محبت میں اس درجہ غلو کیاکہ ان کا مرتبہ نبیوں اوررسولوں تک پہنچادیا اور یہ کہاکہ تورات میں ان کی بشارت آئی ہے اورحضورپاکﷺ نے نام کے ساتھ ان کا ذکر کیاہے اوربتایاکہ آپ اس امت کے چراغ ہیں اورآپ کے ایسے صفات اورمناقب بیان کئے جس کے ذریعہ آپ کا مرتبہ کوحد سے زیادہ بڑھادیا،دوسرا فریق وہ ہے جنہوں نے آپ سے تعصب کو روا رکھااورآپ کے بارے میں ہرطرح کی گفتنی اورناگفتنی باتیں کہیں،مثلاًیہ کہ آپ زندیق تھے، راہ راست سے منحرف تھے،دین میں بگاڑ کیلئے کوشاں تھے،سنت کے تارک تھے بلکہ سنت کے مخالف تھے،دینی وشرعی امور میں فتویٰ بغیر کسی دلیل وحجت کے دیاکرتے تھے،انہوں نے تنقید میں حد سے تجاوز کرلیا،ابوحنیفہ کی آراء وافکار کا غیرجانبداری اورگہرائی سے جائزہ نہیں لیا بلکہ بغیر کسی دلیل کے آپ کے آراء وافکار کو کھوٹاقراردیا اوران سب کے ساتھ آپ کی ذات وشخصیت سے دشمنی میں حد سےگزرگئے،یہاں تک کہ ان کے نزدیک آپ کا دین وایمان اورشخصیت ہرچیز قابل تنقید ہے۔
5. (الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ الفقہاء:۱۴۰)
6. (تاريخ بغداد،پہلی طباعت:1422هـ - 2002 م،۱۵؍۵۴۴)
7. (المصدرالسابق) ان کی یہ برگشتگی اگرچہ  ذہنی افق کی تنگی کی وجہ سے تھی ورنہ یہ وہ بھی خیال کرسکتے تھے کہ اپنی رائے سے برسرعام رجوع بہت بڑا مجاہدہ اورنفس کشی ہے اور اس کا ظرف اچھے اچھوں میں نہیں ہوتا ،ہاں وہ جس کا جینا مرنا خدا کیلئے ہو،اوریہی حال کچھ امام شافعی کے قول قدیم اورقول جدید کاہے۔
8. (المصدرالسابق)

درس نظامی: چند مباحث

محمد دین جوہر

نوٹ: یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ درسِ نظامی پر ہماری اس گفتگو میں تعلیم اپنے نظری اور عملی پہلوؤں سے زیربحث ہے، اور مذہب پر گفتگو اس سے خارج ہے۔ آغاز ہی میں عرض کرنا چاہوں گا کہ درس نظامی کی عمومی حمایت اور اس کی بنیاد ”فرقہ ورانہ وابستگی“  یا کوئی ”سیاسی وفاداری“ ہے، اور اس کا تعلق کسی تعلیمی یا تہذیبی شعور سے نہیں ہے۔ یہ حمایت خاص تاریخی حالات میں ایک ضروری ردِ عمل کے طور پر سامنے آئی تھی۔ لیکن ”رد عمل“ کا مسئلہ یہ ہےکہ معترض فکر سے باخبر ہوتا ہے اور نہ اس سے مخاطب، اور مخالف قوت کے مساوی کوئی عمل سامنے نہیں لانے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔  ”رد عمل“ کا نتیجہ اپنی فکر اور عمل کی بتدریج کمزوری اور بالآخر خاتمہ ہے۔  اس کی بڑی وجہ ردعمل کا خودآگہی سے خالی ہونا ہے۔ رد کے برعکس، ردِ عمل کو فکری کمک بھی حاصل نہیں ہوتی اس لیے یہ بہت جلد ہانپ کر ختم ہو جاتا ہے، اور متبادل فکر اور عمل کے لیے راستہ صاف ہو جاتا ہے۔ درس نظامی پر گزشتہ دو سو سال میں ہونے والے اعتراضات اور ان سے جنم لینے والے شکوک و شبہات خود ان لوگوں میں مؤثر ہو گئے ہیں جو اس کے حامی یا وارث ہیں۔ اس لیے انہیں خود اب درسِ نظامی کے کسی ”مناسب بندوبست“ کی بہت جلدی ہے، اور اسے تجربات کہا جاتا ہے اور جن کا خام مال بچے ہیں۔ 
درس نظامی میں رد و بدل اعتراضات کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ وقت کے ساتھ داخلی طور پر درس نظامی میں تبدیلیاں لائی جاتی رہیں، اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے یہ اپنی اصل حالت میں ویسے بھی باقی نہیں رہا۔ یہ تبدیلیاں عموماً داخلی ”تقاضوں“ کا نتیجہ تھیں۔ یہ تبدیلیاں کیوں لائی گئیں، ان کے مقاصد کیا تھے، پس پردہ فکر کیا تھی، اور ان کا کیا نتیجہ سامنے آیا؟ منتشر معلومات کے علاوہ، تبدیلیوں پر کسی مربوط محاکمے سے میں واقف نہیں ہوں۔ لیکن ان تبدیلیوں سے درسِ نظامی داخلی طور پر بھی سنگین مسائل کا شکار ہو گیا، اور ”عصری تقاضوں“ کا دباؤ بھی کم نہ ہوا۔ درسِ نظامی کی افادیت اب چونکہ اپنے شعبے میں بھی ظاہر نہیں ہو رہی،  اس لیے مذہبی طبقات اس میں خود ہی تبدیلی یا ریڈیکل تبدیلی لا رہے ہیں، جس کی نوعیت تجرباتی ہے۔ اس کا بہت سادہ مطلب یہ ہے کہ معترضین ٹھیک ہی کہتے آئے ہیں اور اب مذہبی لوگوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ موجودہ ثقافتی، معاشی اور سیاسی دباؤ میں درسِ نظامی کا علی حالہٖ باقی رکھنا مفید نہیں۔ لیکن ان تبدیلیوں کا مطلب درس نظامی کا خاتمہ ہی ہے۔ 
اس سے کوئی بحث نہیں کہ درس نظامی ”عصری تقاضوں“ کے مطابق نہیں ہے، اور اس پر اعتراض اور تبدیلی کا مطالبہ بھی اسی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن آمد استعمار کے ساتھ عین یہی اعتراض خود اسلام پر بھی وارد ہوتا آیا ہے۔ سرسید اور متجددین کے بنا کردہ  ”جدید اسلام” کا بنیادی موقف یہی تھا کہ مذہب کو ”عصری تقاضوں” کے مطابق ہونا چاہیے، اور درس نظامی پر زیادہ تر اعتراضات بھی اسی حلقے سے سامنے آئے ہیں۔ گزارش ہے کہ درس نظامی پر گفتگو کا درست تناظر ”عصری تقاضوں“ کی بجائے بطور مسلمان ہماری چند ”مستقل ضروریات “ ہیں۔ مستقل ضروریات میں وقت کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ”عصری تقاضوں“ کا بیانیہ اب اس قدر مضبوط ہو گیا ہے کہ ان مستقل ضرورتوں پر بات کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔  دینی روایت، مستقل ضرورتوں اور عصری تقاضوں سے درس نظامی کا تعلق الگ الگ زیر بحث آنا چاہیے۔   
بطور مسلمان ہماری یہ ”مستقل ضروریات“ دینی بھی ہیں اور تہذیبی بھی۔ درس نظامی ضروری ابتدائی تعلیم، درکار تعلیمی انتطام اور مطلوبہ تدریس کی تین اہم شرائط پر ان کو بہ تمام و کمال پورا کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ لیکن ان مستقل ضروریات کا کوئی بیان چونکہ موجود نہیں ہے اس لیے درس نظامی کی گفتگو میں ہر قدم مداہنت کا ہے اور ہر گھڑی شکست کی ہے۔ چونکہ دین اب ہمارے سر کا تاج نہیں رہا بلکہ ہمارے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے، اس لیے ہم ”عصری تقاضوں“ کی آڑ میں اسے کاٹنے کے لیے بڑے بڑے پاپڑ بیل رہے ہیں۔ درس نظامی میں کی جانے والی تبدیلیاں انتہائی پست درجہ سکولوں کی پست ترین نقل اور نقالی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ آڑ، جان چھڑانے کے لیے ہوتی ہے، اور عصری تقاضے پورے کرنے کے لیے زندہ ذہن اور مضبوط ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔  
عرض ہے کہ تعلیم اور علم سے ”ہم عصریت“ کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ درس نظامی سے ہم عصریت یا عصری تقاضوں کا تعلق فی نفسہٖ نصاب کا مسئلہ نہیں ہے، اس کی praxis کا ہے۔ praxis سے ہماری مراد ایسے عمل کی ہے جو کسی قدر یا تصور کے تحقق کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ کوئی بھی praxis ہمعصریت سے خالی نہیں ہو سکتی۔ درس نظامی کے ساتھ جڑی ہوئی ہماری روایتی  praxis کی زبوں حالی سے ہمعصریت کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ ہماری مذہبی praxis کی کمزوری اور تہذیبی افکار سے انقطاع کا نتیجہ یہ نکلا کہ درس نظامی ”عصری تقاضوں“ کے مہلک دباؤ کا شکار ہو گیا، اور بہت جلد سرسید کی تعلیم کی طرح روزگار کا ذریعہ بن گیا۔ یہ عصری تقاضوں سے انہی کی شرائط پر ہم آہنگی ہے۔ تعلیم روزگار کے لیے بھی ہوتی ہے، لیکن مسلمانوں کا موقف یہ رہا ہے کہ صرف روزگار کے لیے نہیں ہوتی۔ اب ”عصری تقاضوں“ کی بات درس نظامی کی بنیاد پر روزگار کے امکانات کو بہتر بنانے کے لیے ہو رہی ہے یا استعماری قوتوں کے ڈسکورس کو تقویت دینے کے لیے اس کے خاتمے کی تجویز زیر غور ہے۔ روزگار کے امکانات بہتر بنانے کے لیے درس نظامی کو بدلنا بہت زیادہ مضرات رکھتا ہے۔ اگر ”عصری تقاضوں“ کا معروضی تجزیہ کیا جائے یا ان لوگوں ہی سے پوچھ لیا جائے جن کا اوڑھنا بچھونا ”عصری تقاضے“ ہی ہیں، تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ مدرسے کو ختم کر کے اس کی جگہ اسکول بنا دینا زیادہ انسانی اور دیانتدارانہ فیصلہ ہو گا۔ 
درس نظامی پر بہت باتیں ہو چکی ہیں اور شاید ناچیز کی گزارشات غیر ضروری بھی ہوں۔ لیکن ایک ناکس اور ناقص معلم کی حیثیت سے ایک ضروری امر کی طرف توجہ دلانے کی جسارت کروں گا۔ اگر اخلاص، تقویٰ، دینداری، للہیت، خیرخواہی، تقدس، عقیدت وغیرہ جیسی مذہبی شرائط کو درس نظامی کی بحث سے فی الوقت خارج کر دیا جائے تو کام کی بات ہو سکتی ہے۔ یہ مذہبی شرائط تو ہر مسلمان کے لیے لازم ہیں اور ان کا حصول ہم سب کے لیے ضروری۔ درس نظامی پر گفتگو میں یہ گوشوارہ ایک آڑ کا کام دیتا ہے، جبکہ بحث کا بنیادی ترین حوالہ تعلیمی ہے، اور باقی باتیں اس کے بعد ہونی چاہییں۔
اوریجنل درس نظامی کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ یہ ایک غیرمعمولی نصاب ہے، اور انسانی، دینی اور تہذیبی بصیرت کا شاہکار ہے۔ اس پر ضروری گفتگو کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا ہے۔ اس پر جو تحریریں میری نظر سے گزری ہیں وہ قطعی غیرمتعلق اور اکثر لغو ہیں۔ درس نظامی کے مقاصد کیا تھے، اس کا تعلیمی طریقۂ کار کیا تھا، حصول علم کے لیے اس کی تعلیمی شرائط کیا تھیں، اور کیوں متعین کی گئی تھیں، ایک مذہبی ذہن کی تشکیل کے لیے یہ کون کون سے وسائل بروئے کار لایا تھا، درس نظامی میں عصری تقاضوں کی تفہیم کیونکر ممکن تھی، اس کے پس پردہ متحرک ورلڈ ویو کیا تھا، اس کا اصول تعلیم اور نظریہ علم کیا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر کوئی گفتگو نہیں کرتا۔ ہم نے بحیثیت قوم اور معاشرہ چونکہ درس نظامی سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا ہے، اس لیے عصری تقاضوں کا فاتحانہ زمزمہ ہر وقت بجا کرتا ہے۔     
یہ سوال و جواب درس نظامی اور موجودہ صورت حال کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔  آپ نے سوالات جس ترتیب سے اٹھائے ہیں، جوابات بھی اسی ترتیب سے ہیں۔ میں سوالات کی ضروری ایڈٹنگ بھی نہیں کی اور انہیں ویسے ہی رہنے دیا ہے۔ جوابات میں ایک داخلی وحدت تو یقیناً موجود ہے، جبکہ ظاہری طور پر ان میں ترتیب کا فقدان محسوس ہو سکتا ہے۔ 
سوال: میرے محترم! عرض یہ ہے کہ ”مرحوم“ درس نظامی پر بہت سے اعتراضوں میں سے ایک یہ بهی ہے کہ اس میں نحو کی کتب جو داخلِ نصاب ہیں، جیسے ہدایۃ النحو، کافیہ اور   خاص کر شرح ملا جامی   وغیرہ، وہ ایسے ذہن کی غمازی کرتی ہیں جو بال کی کهال اتارنے کا بہت شوق رکهتا ہے  اور جو بہت ہی فضول ذہنی ورزش کا ذوق رکهتا ہے۔
جواب: گزارش ہے کہ اعتراض ایک عام چیز ہے اور کوئی بھی کر سکتا ہے۔ لیکن کسی بھی شعبے پر اس کے متعلقین اور ماہرین کی طرف سے آنے والا اعتراض مفید، ثقہ اور معتبر ہوتا ہے، اور اس کے جواب میں فکر اور عملی حکمت کے وسائل بروئے کار لانا پڑتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ معترض درس نظامی کے پیچھے کارفرما تصورِ تعلیم سے بے خبر ہے، بلکہ یہ کہ وہ کسی تصور تعلیم سے باخبر نہیں۔ ہر ظاہری کام پر تنقید، اس کے عملی اور نظری پہلوؤں کو شامل ہوتی ہے۔ درس نظامی کے تحت واقع ہونے والا تعلیمی عمل جامعاتی تھا جو عملی اور نظری پہلوؤں کو لیے ہوئے تھا۔  ایک وقت تھا کہ اس کے مقاصد جن کی حیثیت اب نظری ہے بدیہی تھے اور اسی تعلیمی عمل سے حاصل ہوتے تھے۔ تاریخی حالات کے بدلنے سے ان کا استحضار جاتا رہا، اور جب ان مقاصد کے مرتب اور مبسوط بیان کی ضرورت پڑی تو وہ فراہم نہ ہو سکا۔ ان مقاصد کا حصول اب بدیہی تجربے اور مشاہدے میں بھی نہیں ہے، اور ان کا کوئی نظری بیان بھی موجود نہیں ہے۔ درس نظامی کی نظری تغلیط بھی اب تک مکمل ہو چکی ہے، اور اب جو باقی ماندہ تعلیمی عمل ہے وہ ازخود مہمل نظر آنے لگا ہے۔  
 اگر لسانی مباحث کا تعلق اہم چیزوں مثلاً انسان کے اعتقادی حقائق یا بنیادی اقدار سے ہو تو بال کی کھال معمولی چیز ہے، اس میں تو بال کی کھال کے خلیے بھی ادھیڑنے پڑتے ہیں۔ ذہنی ادراک و اظہار کی صلاحیت اور اس میں کمال، جزیات اور تفصیل میں جائے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ یہ بات صرف درس نظامی کے حوالے سے نہیں کہی جا رہی، بلکہ علی الاطلاق ہے۔ تعلیم میں یہ ایک فطری اور لابدی امر ہے اور ہر طرح کی تعلیم میں ضروری طور پر شامل ہے۔  جدید سائنس آج  nano precision کے بغیر ناقابل تصور ہے، اور یہی حال اس کے نظری مباحث کا ہے۔ یہ صورت حال اس لیے ہے کہ جدید سائنسی تعلیم نے اپنے بنیادی قضایا کے تعاقب میں پہلے بال اکھیڑا، پھر اس کی کھال ادھیڑی، پھر کھال کی کھال اور جسدِ بال کو ادھیڑا، پھر خلیے کی کھال ادھیڑی، پھر خلیے کے اندر پرزے کھولے، پھر ان پرزوں میں مالیکیول کو کان سے پکڑ کر لا حاضر کیا، پھر ایٹم کی باری آئی، اور وہاں تک پہنچے جہاں اب ادھیڑنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ سکنات اور حرکات کا ایک پورا نظام اس عمل میں الگ سے ساتھ ساتھ ہے۔ یہ ہنر ہے، عیب نہیں کیونکہ سائنس شے مرکز ہے۔ اور ہماری روایت میں لفظ کی اہمیت بہت بنیادی ہے، اور اگر اس پر محنت ہونے لگے تو کیا یہ عیب بن جاتا ہے؟    
یہ درست ہے کہ ”بال کی کھال“ اتارنے کا کام مواعظ اور روزمرہ زندگی میں قطعی غیر ضروری بلکہ مضر ہے، لیکن تعلیم اور علم میں ضروری ہے۔ 
گزارش ہے کہ تعلیمی عمل کا مقصد اور فوکس بنیادی طور اجزا ہوتے ہیں، اور علم کلیات کے بغیر ناقابل تصور ہے۔ تعلیم میں حاصل شدہ جز، علم کے کل سے جڑ کر بامعنی ہو جاتا ہے۔ اگر طالب علم کے پاس جزیات کا علم نہ ہو تو وہ علم کی دہلیز پر رک جاتا ہے کیونکہ وہ کلیات کا علم حاصل کرنے کے لیے ضروری اور مطلوب استعداد سے ابھی بہرہ ور نہیں ہوتا۔ جس چیز کو معترض ”بال کی کھال“ کہہ رہا ہے وہ یہی جزیات کی تعلیم ہے۔ جو ذہن جز سے اوبھ گیا ہو، وہ کل کا سامنا نہیں کر سکتا۔  
انسانی ذہن کی فطری ترتیب اور مذہبی شخصیت کی تشکیل کے مطالبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، درس نظامی نے تعلیمی مقاصد کے حصول کے تمام وسائل  فراہم کیے تھے، لیکن ہم ان کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ درس نظامی کو ”جدید“ اور ”عصر حاضر“ کے مطابق بنانے کا جو منصوبہ ہے اس کی بنیاد جہالت اور بددیانتی ہے، اور کچھ نہیں ہے۔ اس منصوبے میں یہ کوشش داخل ہے کہ اہم اور بحث طلب امور کی طرف دھیان نہ جانے پائے۔ 
محولہ بالا اعتراض اس لیے لغو ہے کہ جز کی تو بات کرتا ہے اور اس جز کو معنی دینے والے کل کو فراموش کر دیتا ہے۔ اس کل کی فراموشگاری سے ہمارے اجزا بھی بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ کل کی فراموشگاری میں ”بال کی کھال“ ادھیڑنا بالکل معیوب ہے، لیکن کل اور جز کی متوازیت میں یہ امرِ مطلوب ہے۔ یہ تو کمال کی بات تھی، اور چونکہ عیب و ہنر کا شعور ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے، اس لیے ہمارے ہنر اگر کہیں باقی ہیں تو عیب ہی شمار ہوتے ہیں۔ یہ اسی تعلیم کا اثر تھا کہ آج سے سو دو سو سال پہلے جو کتابیں لکھی گئیں، وہ اپنے فنی کمال میں بھی حیرت انگیز تھیں۔ آج معجزہ ہائے ہنر اگر ظاہر نہیں ہوتے تو بلا سبب نہیں۔ 
سوال: جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ مثلاً ایک نحوی عبارت الكلمۃ لفظ وضع لمعنى مفرد پر بلا مبالغہ صوبہ پنجاب کے عام مدارس میں کئی دنوں تک سبق ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات ایک مکمل ہفتہ استاد کی تقاریر، اور اگر   صوبہ خیبر پختون خواہ یا بلوچستان اور بعض اور علاقوں میں بهی ایک ہفتہ سے زیادہ۔ 
جواب: یہ اعتراض نصاب پر نہیں، طریقۂ تدریس پر ہے اور اس کی نوعیت بنیادی طور پر ایک اخلاقی مسئلے کی ہے۔ درس نظامی سے جڑی ہوئی ہماری دینی اور تہذیبی praxis کے خاتمے سے یہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ درس نظامی تقویٰ، مکارم الاخلاق اور معاشرتی آداب کی رسومیات میں واقع ہونے والا تدریسی عمل تھا۔ 
 میں یہاں تقویٰ، مکارم الاخلاق اور معاشرتی رسومیات کا ذکر نہیں کرتا، لیکن یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ ناقص تدریس، بدانتظامی، تعلیمی عمل سے بے خبری اور جدید تعلیمی عمل کی پست ترین نقالی کس دینی ضرورت کو پورا کرتی ہے؟ حضرت نور محمد حقانیؒ اپنے نورانی قاعدے کے مینؤل کی پہلی تختی میں فرماتے ہیں:
جب تک اتنی مشق نہ ہو، آگے نہ پڑھائیں۔ ورنہ وہی مثل صادق آئے گی، آگا دوڑ پیچھا چوڑ۔ اگر کوشش اور محنت سے پڑھا نہیں سکتے تو ناحق بچوں کی عمر اور استعداد برباد نہ کریں۔ اس کا گناہ چوری اور رہزنی سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ مال و اسباب پھر بھی مل سکتا ہے، لیکن گزری ہوئی عمر واپس نہیں آ سکتی، اور بگڑی ہوئی استعداد درست نہیں ہوتی۔ صفحہ نمبر ۶، نورانی قاعدہ مع طریقۂ تعلیم، مؤلفہ حضرت  مولانا نور محمد حقانی رحمۃ اللہ علیہ، دار الفکر، اردو بازار، لاہور، پاکستان۔ 
اب ذرا اس قول کی روشنی میں درس نظامی کی تدریس کو دیکھنے کی کوشش کریں تو ذہن سن ہو جائے گا اور آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ 
اب یہی فقرہ لیجیے جو آپ نے لکھا ہے۔ عین اسی فقرے پر چند ایک سوالات اور ”مدرسین“ کی قطعی لاعلمی میرے مشاہدے میں ہے۔ ان کو تو خود پتہ نہیں ہوتا کہ اس فقرے کی مراد اور اس کے توسیعی امکانات کیا ہیں؟ تو اگر وہ سال بھر بھی ”پڑھاتے“ رہیں تو کیا فرق پڑے گا؟ یہیں سے لفظ و معنی کی بحث کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ لفظ اور معنی کی ایک نسبت کا بیان ہے۔ آپ نے آگے چل کر خود ہی کہا ہے کہ اس تدریس یا ایسی تدریس کے بعد طالب علم تو اپنی روایت میں عین اسی ڈسپلن کی کوئی کتاب پڑھنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اس سے ایک چیز مبرہن ہو گئی کہ اس اعتراض کا درس نظامی کے نصاب سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ عمل تدریس اور انتظام تدریس سے ہے۔ اور یہی وہ طریقۂِ تدریس ہے جس کی بدولت روایت بھی ہاتھ سے جاتی رہی اور جدیدیت کا شعور بھی پیدا نہ ہوا۔ 
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ درسِ نظامی کو جدید بنانے کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے، لیکن جدید تدریسیات (modern pedagogy) نے جو تعلیمی وسائل پیدا کیے ہیں اور جن کی حیثیت گھوڑے کی بجائے کار میں سفر کرنے جیسی ہے، ان کی بات کوئی نہیں کرتا۔ جدید تدریسیات کے نئے وسائل انتخاب کے بعد بخوبی درس نظامی کی تدریس میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ آپ کا ذکر کردہ مسئلہ بنیادی طور پر اخلاقی اور ضمناً پیشہ ورانہ ہے اور اسے کوئی بھی زیر بحث نہیں لانا چاہتا۔
درس نظامی پر جتنی بھی گفتگو ہوتی ہے اس میں واحد موضوع نصاب اور اس کی تبدیلی ہے۔ تبدیلی کی اس تجویز کو ”بہتری“، ”عصری ضرورت“ وغیرہ کے عنوان سے متعارف کرایا جاتا ہے۔ کچھ اس کے حامی ہیں اور کچھ مخالف۔ اس بحث میں ضروری پہلوؤں کا بیان کوئی جگہ نہیں لے پاتا، اور جو فوراً مذہبی رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ مدارس میں درس نظامی  کی جگہ اکسفرڈ کا نصاب لگا دیا جائے اور باقی چیزوں کو علی حالہٖ رہنے دیا جائے، یعنی تعلیمی انتظام، بچے کی عمر اور اس کی ذہنی نمو کے مسائل، طریقۂ تدریس، آموزش اور امتحان کے جاری طریقۂ کار کو نہ چھیڑا جائے تو کیا نتائج ہوں گے؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس سے کیا بہتری آئے گی اور کون سی چیز بہتر ہو گی؟ ہم اسی سوال کو الٹ دیتے ہیں کہ  کسی جدید اسکول کے نصاب کو چھیڑے بغیر اس کا تعلیمی انتظام، تدریس، آموزش اور امتحان وغیرہ مدارس کی طرز پر بنا دیا جائے تو کیا نتائج نکلیں گے؟ اس پر کوئی غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ درس نظامی پر ساری گفتگو میں دیانت داری اور انسانی ذمہ داری کا قطعی فقدان ہے۔    
سوال: چونکہ طالب علم پر برصغیر کی قدیم   تدریسی   روایت کے مطابق کتاب کے حل کرنے پر زیادہ زور لگایا جاتا ہے، اور بے ضرورت احتمالات کو نکال نکال کر زور لگایا جاتا ہے   جس سے مقصودِ اصلی یعنی کتاب کا حل کہیں اور ہی رہ جاتے ہیں، اور طالب علموں کو ذہنی کوفت الگ سے۔
جواب: بھائی صرف بستہ باقی ہے اور اب اسی کا بندوبست ہو رہا ہے۔ یہ بات محل نظر ہے کہ ہمارے ہاں ”برصغیر کی قدیم تدریسی روایت کے مطابق“ جیسی کوئی چیز موجود ہے۔ میں اس اعتراض کو درست نہیں سمجھتا۔ ایسی کوئی شے موجود نہیں ہے۔ 
لیکن اگر کچھ کہنا ضروری ہے تو عرض ہے کہ یہ اعتراض بھی تدریس پر ہی ہے۔ آج کل متن کی تدریس میں close reading خود ایک آرٹ ہے۔ ہم چونکہ اس سے بے خبر ہیں اس لیے اس طرح کے اعتراضات پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں مطالعہ متن کی روایت anaesthesia کی حالت میں جاری ہے۔ اسے اس حالت سے باہر لانے کی ضرورت ہے۔ متن کی تدریس روزمرہ تجہیز اور تکفین کا عمل بن گیا ہے، اور جو طویل عرصے سے جاری ہے۔ معترض مطالبہ کر رہا ہے کہ اس عمل کو پورا کرو، اور اب عملِ تجہیز و تکفین کرنے والے بھی تدفین کے قائل ہو گئے ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ متن تفہیم، تنمو اور تزئین کا مطالبہ رکھتا ہے کیونکہ یہ بات کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ 
درس نظامی کا اندازہ آج کل اس کے ”فارغ“ لوگوں کو دیکھ کر نہیں لگانا چاہیے۔ اس نصاب کو اس کی اپنی شرائط اور اس کے اپنے تناظر میں  سمجھ کر  کوئی critique سامنے  آنی چاہیے اور جدید نصاب سے اس کا موازنہ ہونا چاہیے۔ ہمیں نہ تنقید کا خوف ہے اور نہ موازنے پر اعتراض ہے۔ لیکن اعتراض موضوع سے متعلق ہونا چاہیے۔ ہاں، یہ اعتراض تو ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ ہم نے درسِ نظامی کو anaesthesia machine کیوں بنا دیا ہے؟ یہ کارنامہ ہم نے تدریس اور امتحان کی اخلاقی بنیادوں کو ختم کر کے سرانجام دیا ہے۔ 
یہاں ضمناً اس امر کی یاد دہانی ضروری ہے کہ سرسید نے جدید تعلیم سے کوئی تہذیبی مسئلہ حل نہیں کیا تھا، بلکہ ان کی آوردہ تعلیم سیاسی طاقت کی غلام گردشوں کا گردباد اور معاش مرکز تھی۔ جب محکوم مسلم معاشرے میں روٹی ہی مقصد تہذیب اور حاصل حیات بن گئی تو اس کا اثر مدارس پر بھی پڑا، اور وہاں بھی مقاصد اور طریقۂ کار میں تغیر آنے لگا۔ اس سے  ہمیں بحث نہیں کہ مدارس میں بہت خرابیاں ہیں، کیونکہ انسانی عمل نارسائی کا شکار رہتا ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ مدارس نے انتہائی محدود وسائل اور شدید تہذیبی اور ثقافتی دباؤ میں جس کام کو جاری رکھا وہ غیرمعمولی ہے۔ ہم مدارس سے perpetual sacrfice کا مطالبہ قطعی ناجائز سمجھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے نے جدید تعلیم پر جو وسائل خرچ کیے ہیں اور جو نتائج اس وقت سامنے ہیں، ان کا اگر مدارس سے موازنہ کیا جائے تو مدارس کی قربانیوں کا درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مدارس کی موجودہ صورت حال کی ذمہ داری صرف مدارس پر عائد نہیں کی جا سکتی، ہمارا پورا معاشرہ اس کا ذمہ دار ہے۔ 
سوال: اور حواشی پر زور اتنا زیادہ دیا جاتا ہے متن کا حل کہیں دور جا پڑتا ہے جیسے مثلاً اصول الفقہ کی ایک کتاب ہے التوضیح و التلویح، اس کتاب میں خود التنقیح تین کتب کا خلاصہ ہے اور پهر اس کی شرح جو مصنف نے خود کی ہے یعنی التوضیح، پهر اس پر علامہ تفتازانی کا حاشیہ  اور پھر مزید ایک اور حاشیہ آج کل کی درسی کتب کی زینت ہے اور اس پر بحث ایسی کہ التوضیح کا متن کئی دنوں بعد پڑهنا نصیب ہوتا ہے۔
جواب: یہ سوال بھی التباس کا شکار ہے اور اصلاً تدریسی انتظام (academic management)  کے ناکارہ پن اور اس کے مضر اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ مسائل ہماری تدریسی نارسائی سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس سے یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ تدریس اور تدریسی ترتیب میں سنگین مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ جدید تدریسیات میں نصابی کتاب سازی کا تدریس سے براہ راست تعلق ہے۔ تدریس میں تدریسی مواد، طریقۂ تدریس، بچے کی عمر کا تعین ازحد ضروری ہے۔ ”مذہبی، مذہبی“ کا غلغلہ اس قدر ہے کہ ایسی باتیں کوئی سننے کے لیے بھی تیار نہیں کیونکہ اس سے تدریسی کام کا طریقہ اور اس کی کوالٹی زیر بحث آتی ہے جس سے رد عمل پیدا ہوتا ہے۔ 
ایک اور بڑا مسئلہ تعلیم اور علم کے فرق کو نہ سمجھنے کی ضد سے پیدا ہوا ہے۔ درس نظامی دینی تعلیم کا نصاب نہیں ہے، دینی علوم کے حاصل کرنے کا نصاب ہے۔ دینی تعلیم ہر مسلمان کی ضرورت اور اس پر فرض ہے، لیکن دینی علوم ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور نہ ضرورت، اور نہ ہر مسلمان اس کی اہلیت رکھتا ہے۔ دینی تعلیم ہدایت کی تعلیم ہے جو عام ہے اور دینی علوم عام نہیں خاص ہیں۔ یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ مدرسہ تعلیم کی جگہ ہے اور جامعہ علم کا گھر ہے۔ ہم نے یہ فرق بالکل ہی مٹا دیا ہے۔ درس نظامی اصلاً یونی ورسٹی کے نصاب جیسا ہے جس کے لیے ابتدائی تعلیم کی شرائط لازمی اہمیت کی حامل ہیں۔ تمثیلاً عرض ہے کہ ہم یونی ورسٹی کا نصاب سکول کے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ میں اس امر کا براہ راست مشاہدہ رکھتا ہوں کہ جس طالب علم کی استعداد پنجم یا ششم کا عام نصاب پڑھنے کی بھی نہیں ہے، اسے یونی ورسٹی کا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ اس سے کون سا مقصد پورا ہوتا ہے؟ 
بطور ایک عام مقلد میری دینی تعلیم کی بنیادی ضروریات ”تعلیم الاسلام“ پڑھ کر پوری ہو جاتی ہیں، اور میں دین کے مطابق زندگی گزارنے کی استعداد پیدا کر لیتا ہوں۔ لیکن اگر کہا جائے کہ یہ دینی تعلیم، دینی علوم کی سیڑھی بھی بن گئی تو نہایت افسوسناک ہو گا۔ دینی تعلیم اور دینی علوم کے امتیاز کو باقی رکھنا درس نظامی پر گفتگو کے لیے ضروری ہے۔ دینی علوم کے حصول کے لیے دینی تعلیم قطعی غیرمتعلق چیز ہے۔  دینی تعلیم کا براہ راست تعلق عقائد، عبادات اور سنن مبارکہ سکھانے کرانے سے ہے اور یہ مقصد کئی طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ صرف و نحو، لفظ و معنی کی بحث، جزئی اور کلی کے مسائل، متون کی خواندگی کا اعلیٰ معیار، افکار کی پیچیدہ حرکیات دینی تعلیم میں قطعی عبث، غیر ضروری اور مضر ہیں، لیکن دینی علوم میں مثلاً اصول دین، اصول فقہ وغیرہ میں یہ شرطِ اول ہیں۔ 
مثلاً کلام الہی ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اور اگر اس میں لفظ و معنی کی بحث چھڑ جائے، اور فرض کیا کہ اس میں باطنی موقف غالب آ جائے تو کیا صورت حال پیدا ہو جائے گی؟ ابھی میں نے افلاطون اور ارسطو کا ذکر نہیں کیا۔ یہ بحث بالکل بھی دینی نہیں ہے، لیکن اس کے نتائج براہ راست دینی ہیں۔ تقویٰ ضروری چیز ہے لیکن اس بحث سے غیر متعلق ہے۔ ہم نے فرض کر لیا ہے کہ دنیا میں اب باطنی بھی نہیں رہے، اور افلاطون اور ارسطو بھی مر مرا گئے ہیں، علوم کی ضرورت بھی ختم ہو گئی ہے، اہل مغرب قرآن مجید کی غواصی سے سائنس بنا چکے ہیں، اور ان کا معاشرہ بھی قرآنی منشور کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے، لہذا اب ”عصری ضرورت“ کے مطابق تیسیر عمل میں لائی جانی چاہیے تاکہ ہمیں کوئی کام نہ کرنا پڑے۔
موقع کی مناسبت سے ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔ تعلیم میں سیکولر اور مذہبی کا فرق بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا ہماری دینی ضرورت ہے۔ دینی تعلیم مقصود بالذات ہے کیونکہ اس کے مشمولات دینی ہیں اور غیر مبدل ہیں۔ مثلاً عقائد، عبادات، مکارم الاخلاق وغیرہ کی تعلیم مقصود بالذات ہے، ورنہ ہمارے مسلمان ہونے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔ جبکہ نظری علوم مقصود بالذات نہیں ہوتے، محض ایک ذریعہ ہیں اور نہایت ضروری ذریعہ ہیں۔ تعلیم ہمیشہ مانعاتی (exclusionary) اصولوں پر قائم ہوتی ہے، اور علم ہمیشہ جامعاتی (inclusionary) اصولوں پر تشکیل پاتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کی تعلیم کی شرائط باقی مذہب و ملت کے لوگوں سے قطعی الگ ہوں گی، جبکہ حصول علم کے وسائل اور ذرائع باقی انسانیت کے ساتھ مشترک ہوں گے۔ تعلیم کا اصول عمومِ اشتراک نہیں ہے، جبکہ علم کی بنیادی شرط ہی عمومِ اشتراک ہے۔ دینی تعلیم میں ”عصری تقاضوں“ کا مسئلہ بصیرت اور احتیاط کا متقاضی ہے، اور علم میں لابدی ضرورت ہے۔
اگرچہ بات طویل ہو گئی لیکن ایک اور ضروری بات کا موقع یہی ہے۔ تعلیم میں تدریس اور تذکیر دونوں شامل ہیں۔ تدریس کی بنیاد تفہیم ہے، جبکہ تذکیر کی بنیاد حافظہ ہے۔ دینی تعلیم میں حافظے کو مرکزیت دی جاتی ہے، علوم کے لیے لازمی تعلیم میں تفہیم کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ تذکیر ہمارے لیے کس قدر اہم ہے۔ کلمے، نماز، دعائیں، اذکار وغیرہ اولاً سمجھنے کے لیے نہیں، یاد کرنے اور عمل کرنے کے لیے ہے۔ یہ بات ہم غیرمذہبی متون کے بارے میں نہیں کہہ سکتے۔ اس پر تفصیل سے پھر کسی موقع پر عرض کروں گا، لیکن ان کی بنیاد پر تعلیمی حکمت عملی اور ترتیب بنانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ 
سوال: علوم عقلی کا ذوق ایسا غالب کہ منطق کی تقریباً ١٥ کتب ہوتی ہیں، اور فلسفہ کی بهی تقریباًً کوئی ١٠ کے قریب کتب اور ان پر کم از کم تین حواشی مستزاد  کہ معاملہ ایک چیستاں کو حل کرنے سے کم نہیں۔ اور مزید یہ کہ اندازِ تدریس ایسا گنجلک کہ ایک متوسط کے لیے بہت ہی تنگی۔ اور یہ کہ علوم عقلی سے ایسے متاثر کہ اگر کوئی عقلی علوم میں کوئی خاص مہارت نہیں رکھتا اگرچہ فن حدیث سے خوب واقف تو بھی اس کی تدریس کم مشہور اور حلقہ تدریس بھی بہت کم۔ 
جواب: درس نظامی میں منطق اور فلسفہ کی کتابیں اس لیے شامل کی گئی تھیں کہ پورا تعلیمی عمل متوازن رہے، جو میں ابھی عرض کرتا ہوں۔ جدید تعلیم کے بنیادی مسئلے کا ذکر یہاں ضروری ہے اور وہ اس میں ”شے“ اور ”صورت“ کا غلبہ اور ان کا مقصودِ واحد ہو جانا ہے۔ جدید تعلیم صرف جز کی تعلیم ہے، یعنی مادی شے اور اس کی حرکیات معلوم کرنے تک محدود ہے۔ جدید تعلیم میں شے اور صورتِ شے تدریس اور عملی کام کا مقصود ہے۔ جدید تعلیم میں نصابی متن ہر لمحہ شے کے طواف میں ہے کیونکہ اس میں لفظ و معنی شے کی شرائط پر ہیں۔  پھر بلیک بورڈ پر شے کی تصویر ہر وقت کھنچتی ہے تاکہ ذہن کی طرح آنکھ صرف صورت ہی کو دیکھنے کا ذریعہ بن جائے۔ اور شے کی پیمائش و مقدار روزانہ بتائی، سکھائی اور پوچھی جاتی ہے۔ پھر لیبارٹری میں عمل کو شے سے متعلق اور اس کے تابع رکھنے کا پورا نظام موجود ہے۔ امتحان کا مطلب ہے کہ اگر ذہن میں شے کا استحضار ناقص رہا تو فیل اور اگر عمل شے کے تابع نہ ہوا تو بھی فیل۔ جدید تعلیم میں بیان اور پریکٹیکل کو متوازن رکھ کر صورت کی حاکمیت قائم کی جاتی ہے۔  
لیکن تعلیم کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ جزئی تک محدود رہے تو بچے میں اقدار اور حقائق کا شعور پیدا نہیں ہوتا اور ان کی قبولیت کی استعداد بھی باقی نہیں رکھی جا سکتی۔  اور اگر جزئی کے بغیر، تعلیمی عمل صرف کلیات میں محدود ہو جائے تو طالب علم زندگی کی واقعیت کے ادراک سے محروم رہتا ہے۔ پہلی صورت مذہب سے انسان کے ذہنی تضاد اور تخالف کو مکمل کر دیتی ہے، اور دوسری صورت دنیا سے عملی تضاد اور تخالف کو پورا کر دیتی ہے۔ جز اور کل کا باہم غیر متعلق اور ایک دوسرے کے بغیر شعور میکانکی ہوتا ہے۔ اس وقت مذہبی تعلیم دوسرے مسئلے کا شکار ہے اور  جدید تعلیم پہلے مسئلے کا۔ انسانی ذہن اور شخصیت کی تباہی اس وقت مکمل ہو جاتی ہے جب اسے ”کل“ کی تعلیم ”جز“ کی شرائط پر دی جائے، یا ”جز“ کی تعلیم ”کل“ کی شرائط پر دی جانے لگے۔ ”جدید مذہبی تعلیم“ میں کل تک رسائی چونکہ جز کے بغیر ہے، اس لیے یہ فرد اور معاشرے کے لیے سنگین خطرات رکھتی ہے۔ 
تفصیل کا یہ موقع نہیں لیکن یہ مختصر گزارش اس لیے ضروری تھی کہ ایمان کی کوئی علمی گفتگو کلیات پر منتہی ہوئے بغیر مکمل نہیں ہو پاتی اور عمل صالح پر کوئی کلام جزیات کے شعور کے بغیر بے معنی ہے۔ درس نظامی نے انسانی ذہن اور عمل میں کل اور جز کے مسئلے کو جس خوبی سے متوازن رکھا وہ حیرت انگیز ہے۔ موجودہ مسئلہ ہماری نادانی، کام چوری اور دنیا داری سے پیدا ہوا ہے، اس کا نصاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ درس نظامی کی ترتیب فطری طور پر جز سے کل کی طرف سفر ہے۔ ابتدائی درجے میں مجوزہ کتابیں بالکل بجا جز پر حد درجہ زور دیتی ہیں، اور اعلی درجے کی کتب طالب علم کو بجا طور پر کل سے نسبتیں پیدا کرنے کا اہل بناتی ہیں۔ لیکن دونوں سطحوں پر درس نظامی سخت محنت اور جگر کاوی کا لازمی مطالبہ رکھتا ہے۔        
سوال: اول ایسے علاقوں میں جہاں حدیث کی منتہی کتاب ہی مشکات ہی ہو  تو ایسے لوگ ہی کم پیدا ہوں گے جو حدیث وغیرہ میں ائمہ میں شمار کیے جائیں جیسا کہ عقلی علوم میں شمار کیے گئے۔ اور اگر مقاصد کو ہی نصاب بنانا درست نہیں تو مشکات کو رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور پھر مشکات کی بجائے صحاح ستہ زیادہ مناسب نہیں، جس کے نتیجے میں ہند میں حدیث کے ائمہ پیدا ہوئے۔
جواب: میں نے گزارش کی تھی کہ نصاب کی حیثیت ایک ذریعے کی ہے، یہ مقصود کبھی نہیں ہوتا اور نہ بن سکتا ہے۔ اسی تقدیر پر میں بنیادی دینی متون یعنی قرآن مجید یا حدیث شریف کو ”نصاب“ بنانا درست نہیں سمجھتا، بلکہ اسے مضر خیال کرتا ہوں۔ جب درس نظامی کا اصل مقصود ہی ان متون کی باریابی ہے، تو ان کو نصاب بنا دینا چہ معنی دارد؟ ذریعے کو مقصود سمجھنے کی غلطی ہی درس نظامی میں اولین تبدیلی کا باعث بنی تھی، اور اس کے نقصانات ہمارے سامنے ہیں۔ ہماری روایت میں متن صرف مفہوم کا carrier نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حضور رکھتا ہے، خیر و برکت کی نعمت لاتا ہے، قوائے روحانی کو مضبوطی اور صلابت عطا کرتا ہے اور شعور کو دنیاوی ریگزار نہیں بننے دیتا۔ تدریس میں صرف مفہموم زیربحث ہوتا ہے۔ متن سے متعلقہ دوسرے مقاصد تذکیر سے حاصل ہوتے ہیں۔ درس نظامی میں تدریس اور تذکیر کا لحاظ رکھا گیا تھا۔ ہمارے لیے اب تدریس اور تذکیر سب چیستاں بن گئے ہیں۔  
میرا خیال ہے کہ اگر تعلیم کے بنیادی مقاصد ہی پورے نہ ہو رہے ہوں تو کسی بھی شعبے میں منتہی ہونے کا سوال بے معنی ہے۔ یہاں تو مبتدیات کا حصول کبریت احمر بن گیا ہے، بڑی مہارتوں کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ باقی حدیث یا کسی اور شعبے میں ”ائمہ“ کا ظہور صرف نصاب سے متعلق نہیں ہوتا۔ اس میں متعلقہ معاشرے کے سیاسی اور معاشی اداروں، فرمانروئی کے اسالیب اور کلچر کی مجموعی حالت کو بہت بڑا دخل ہوتا ہے۔ ہماری گفتگو میں نصاب تک محدود رہنا مفید ہو گا۔ 
آپ کے سوال کی تقدیر پر ہمارے ہاں تو سائنس اور ہیومنیٹیز کے ائمہ کثیر تعداد میں پیدا ہونے چاہییں تھے۔ اور یہاں حالت یہ ہے کہ ”پروفیسر“ تو بن جاتے ہیں، اور اپنے مضمون کے بنیادی مباحث ہی کا پتہ نہیں ہوتا۔ طالب علمانہ ضرورتوں کے قضیے نمٹائے بغیر ائمہ سازی کے مسائل حل نہیں ہوتے۔  
سوال: اور عربی تو شریعت کو سمجھنے کا بنیادی آلہ ہے۔ پر ادھر عربی ادب کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ادب میں صرف مقامات ہے جو کسی خاص دور کی ادبی صنف کے متعلق ہے۔  اور جس سے صرف عربی الفاظ کی لغت کو ہی معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا جائے تو شاید مصنف مقامات پر ظلم ہے۔ نہ تو جدید عربی ادب سے مانوسیت اور نہ قدیم ادب سے واقفیت۔ اسی لیے تو قدیم درس نظامی میں  ایک دو کے علاوہ کوئی نمایاں ادیب ظاہر نہ ہو سکے، اور عربی تکلم کی مشق تو بالکل ہی نہیں۔
جواب: یہاں کئی سوالات خلط ملط ہو گئے ہیں۔ اس میں کسے کلام ہے کہ عربی دانی شرعی علوم کے حصول میں بنیادی شرط ہے۔ درس نظامی کا ایک مقصد کلاسیکل عربی کی تدریس اور اس میں مہارت تھا، اور اس میں یہ بہت کامیاب رہا۔ مقامات کے حوالے سے آپ نے جو بات کی ہے میں اس سے متفق ہوں۔ درس نظامی کو عربی تکلم کا ذریعہ خیال کرنا بے خبری ہے، اور تکلم کو دینی علوم میں اہمیت دینا بھی نادانی ہے۔ تکلم سماجی، ثقافتی اور معاشی ضرورت تو ہوتی ہے، علمی ضرورت بالکل نہیں ہے۔ 
میرا خیال ہے کہ جس زمانے میں درس نظامی کا آغاز ہوا، عربی ایک ثقافتی مظہر اور علمی روایت کے طور بھی موجود تھی، صرف نصاب تک محدود نہیں تھی۔ اب یہ صورت حال نہیں رہی۔ عربی ادب کی استعداد بڑھانے کے لیے نئی کتابوں کو متعارف کرانا ضرورت کے درست ادراک سے مشروط ہے جس کا امکان بہت کم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے درس نظامی کی زبوں حالی سے دھیان فوراً نئی کتابوں کی طرف کیوں جاتا ہے؟  مدارس کے جو اصل مسائل ہیں ان کو کوئی بھی زیربحث نہیں لاتا۔ تدریس اور دینی علوم کے مقاصد پر بات کرنا اب بھی شجر ممنوعہ ہے۔  
سوال: اور عقلی علم کے بعد تمام صلاحیتوں کا فقہ میں کھپنا۔ جس کا لازمی نتیجہ فقہ کی جزئیات تک میں تشدد  جو بعض اوقات انتہائی عجب کیفیت اختیار کر لیتا جیسے خواجہ نظام الدین اولیا کے ساتھ مناظرہ میں علما کا خواجہ صاحب کے اپنے موقف کو مضبوط کرنے کے لیے حدیث کے پیش کرنے پر یہ کہنا کہ ہمارے شہر میں فقہ پر عمل کیا جاتا ہے، فقہا کے اقوال کو پیش کیا جاتا ہے۔ اب جہاں حدیث کے فن کی یہ حالت کہ آخری کتاب ہی مشکات سے بڑھ کر کوئی نہ ہو تو دلائل میں تبادلہ فقہی اقوال سے بڑھ کر کس چیز میں ہونا ہے!
جواب: میرے خیال میں یہ سوال اہم ہے، لیکن موضوع زیربحث سے متعلق نہیں۔ یہ ایک دینی مسئلہ ہے اور اس کے لیے علما کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ 
سوال: مزید یہ کہ جب مقابلہ نئے فلسفے سے ہے تو قدیم فلسفے کو پڑھاتے ہوئے وقت کو گزارنا کون سا مناسب فعل ہے؟ آخر اب جدید فلسفہ کے مقابلے میں مثلاً زمانے کے قدیم ہونے یا عذابِ قبر کے ہونے یا اعمال کا جزوِ ایمان ہونے نہ ہونے سے کیا تعلق ہے؟ اب درس نظامی میں جو بھی عقیدے کی کتاب ہے قدیم فلسفے سے لبریز ہے۔ کم از کم ان کے ساتھ  جدید فلسفہ کے رد کے لیے بھی کوئی نہ کوئی انتظام ہونا چاہیے ناں؟
جواب: انتظام تو بھائی کافی سارے ہونے چاہییں، لیکن کرے کون؟ اس میں سوال یہ ہے کہ کیا اہلِ فلسفۂ جدید، قدیم فلسفے سے دستبردار ہو گئے ہیں؟ اور کیا آج بھی جدید فلسفہ یونانی فلسفے کے بغیر کوئی معنی رکھتا ہے؟ فلسفہ تو دور کی بات ہے جدید ادبی تھیوری پر بھی کوئی گفتگو یونانی فلسفے سے آگہی کے بغیر ممکن نہیں۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ ”مقابلے“ کی خام خیالی سے ہمیں باہر آنا چاہیے۔ ہمارے حالات اتنے ناگفتہ بہ ہیں کہ ہمیں نہ میدان کا پتہ معلوم ہے، نہ میدان میں اترنے کی ضروریات کا کوئی ادراک ہے، نہ اس بات کہ وہاں کیا گھمسان برپا ہے، نہ اس بات کا کہ ہم میدان کے اندر ہیں یا باہر۔ ہم تو آج کے میدانوں کے تماشائی جیسا شعور بھی نہیں رکھتے۔ مقابلے کی بات محض خودفریبی ہے۔ ہمیں یہ ادراک ہونا چاہیے کہ یہ مقابلہ کب کا ہمارے خلاف فیصل ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ ہماری نااہلی ہے، کوئی اور نہیں ہے۔ 
ایمان اور عمل صالح کے لیے مذہبی آدمی کو فلسفے یا مابعد الطبیعیاتی علوم کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔  لیکن مذہبی آدمی کو فلسفے سے اعتنا کی ضرورت دو وجوہات سے پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ دنیا ایسی چیزوں سے خالی نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے جو نہ صرف ”ایمان نما“ ہیں، بلکہ اکثر اوقات ایمان کی جگہ لے لیتی ہیں۔ ہر وقت موجود اس خطرے سے بچاؤ کے لیے عقیدے کا خود آگاہ اور خود نگر ہونا لازم ہے۔ نظری یا ”فلسفیانہ“ ہونے کا یہی مطلب ہے۔ دوسری وجہ زیادہ اہم ہے کہ قرنِ اول کے تدوینی دور میں روایت کے مختلف شعبوں میں اصول سازی کی ضرورت پیش آئی، جو ایک نظری سرگرمی ہے۔ اسی باعث اصول سازی فلسفیانہ طریقۂ کار سے جزوی مشابہت اور مماثلت رکھتی ہے۔ 
مختصراً یہ کہ ہماری دینی روایت میں مختلف علوم جس اصول پر قائم ہوئے ہیں، وہ ہدایت سے متصادم نہیں، بلکہ اس کے ضمن میں ہیں۔ جدید علوم میں اول اصولوں کی حیثیت اصولِ محض کی ہے۔ مثلاً فزکس کا اصل اصول بگ بینگ ہے، حیاتیات میں نظریۂ ارتقا ہے، اور نفسیات میں لاشعور ہے اور ان سب کی حیثیت اصولِ محض (pure principle/theory) کی ہے، اور ان میں سے کوئی بھی rational نہیں ہے۔ ان کے ضمن میں جو بھی علوم تشکیل دیے گئے ہیں ان کی کل معنویت انہی اصولوں سے اخذ ہوتی ہے، مثلاً بگ بینگ کا اصول یہ فرض کرتا ہے کہ مادہ یا کائنات خود بخود وجود میں آئی ہے۔ اب اس اصول پر قائم ہونے والا علم اور اس کے تحت واقع ہونے والی عقلی کارگزاری جو آخری نتیجہ اخذ کرتی ہے وہ بھی یہی ہوتا ہے کہ کائنات خود بخود وجود میں آئی ہے۔ کسی شعبہ علم میں اصولِ اول قائم کرنا انسانی شعور کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ عقل کی فعلیت کے ضروری ہے۔  اصولِ محض کی حیثیت دراصل ایک وجودی اصول کی ہے اور عقل اس سے آگے سفر نہیں کرتی اور نہ کر سکتی ہے۔ لیکن یہ اصولِ اول ضروری نہیں کہ اصولِ محض ہو۔ اصول محض عقیدے سے مشابہ اور متوازی ہے، اور عقل کا گھر بھی ہے اور منزل بھی۔ جدید علوم میں کسی بنیادی علمی ڈسپلن کا تصور اصولِ محض کے بغیر ممکن نہیں۔ اصول سازی کا عمل انسان کی وجودی اور علمی آٹونومی کا مظہر ہے۔ دینی روایت میں بھی اصول سازی ایک ضروری امر ہے لیکن اس میں ضروری امتیازات صرف اسی صورت میں باقی رکھے جا سکتے ہیں جب ہمیں نظری علوم سے بھی کوئی مضبوط نسبت پیدا ہو چکی ہو۔ 
اہم بات یہ ہے کہ ہماری تہذیبی روایت میں فلسفہ اپنی پورائی میں حملہ آور ہو کر شکست کھا چکا ہے۔ یہ بات ایک تاریخی واقعہ کے طور پر ظاہر ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب صرف ایک ہی ہے کہ اب دنیا میں ”مذہبی“ ہونے کا اسلامی کے علاوہ کوئی اور مطلب نہیں ہے کیونکہ فلسفہ اور اس کے متولد علوم براہ راست یا بالواسطہ باقی تہذیبوں کی غیرمادی اور مذہبی اساس کو ختم کر چکے ہیں۔  کیا ہم کسی کو یہ مطلب بتانے کی ضروری تیاری اور اس کے لیے مطلوبہ اعتماد رکھتے ہیں؟ دوسرا مسئلہ یہ ہوا ہے کہ فلسفے نے وجود کے سوال سے دستبردار ہو کر اسلامی تہذیب کی اس strategic کامیابی کو غیر اہم بنا دیا، اور ایک tactical brilliance کو کام میں لاتے ہوئے اس کامیابی کے نشانات بھی مٹا دیے۔ وجودی سوالات سے دستبرداری کے بعد جدید علم کے  ”حق کی دریافت“ جیسے دعوے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ لیکن اس بنیادی تبدیلی سے فلسفہ اور جدید علم، فطرت کے ان وسائل تک رسائی پانے میں کامیاب ہو گئے جو طاقت اور سرمائے کے حصول کا ذریعہ ہیں۔
 نظری سرگرمی یا فلسفیانہ علوم آج کی دنیا کو سمجھنے اور اس میں راستہ بنانے کے لیے ایک ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج کی دنیا میں اجتماعی زندگی کا ہر شعبہ نظام کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔ سیاسی، معاشی، تعلیمی، ابلاغیاتی، عسکری اور ٹیکنالوجی کے نظام وغیرہ  قائم ہونے کی وجہ سے علت و معلول کا بدیہی اور حسی سلسلہ ختم ہو گیا ہے، اور چیزوں اور واقعات کی باہمی نسبتیں اب نظری ہو گئی ہیں۔ نظری علم اور نظام جڑواں ہیں۔ ہمارے ہاں نظری بحث کا خاتمہ ہو گیا ہے  اور نظام کا شوق بہت بڑھ گیا ہے، اور یہ شوق بہت خطرناک ہے۔ ”اسلامی نظام“ کا شوق بھی اوروں کی کوئی چیز ”دیکھ“ کر پیدا ہوا ہے، کسی نظری شعور کا ثمر نہیں ہے۔ 
سوال: اور تفسیر میں بیضاوی جو کہ عقلی علوم سے لبالب اور ماثور تفسیری انداز سے بالکل مبرا۔
جواب: یہ دلچسپ بات ہے۔ جدید اثرات کے تحت ہم ماثورات کو بعینہٖ قبول کرنے کی استعداد نہیں رکھتے کیونکہ دینی اعتماد باقی نہیں رہا، اور بچگانہ تشریحات سے ان کو جدید اصول و قضایا سے ”تطابق“ دینے کا جوش بہت ہے۔ دوسری طرف عقلی علوم سے کوئی نسبت تو دور کی بات ہے، ان کا خاتمہ بالخیر ہو گیا ہے، بلکہ ان کے خلاف ماثورات سے دلائل بھی لاتے ہیں۔ یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے علمی وغیرہ نہیں ہے۔ 
سوال:  اور تمام فنون کی کتب جیسے کہ پہلے عرض کیا تین تین چار چار حواشی سے مزین جیسے عقائد میں امام نجم الدین نسفی کی العقائد اس پر تفتازانی کی شرح، اس پر امام خیالی کا نفیس حاشیہ، اس پر ملا عبد الحکیم کا حاشیہ اس پر ہر پڑھانے والے کی اپنی تشریح۔ متن کا فہم کہاں، حاشیے ہی یاد ہوں گے۔
جواب: اس سوال پر ذرا غور فرمائیں تو فوراً اندازہ ہو جائے گا کہ یہ پھر وہی تدریس اور انتظام تدریس کا مسئلہ ہے۔ اسی سے متعلقہ ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ کتاب سازی، متن کی پیشکاری اور تدریس کا ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہے۔ اس سے تعلیمی انتظام میں بہت آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ 
دیکھیں، مدرس کا کام سبق پڑھانا ہے، معلم کا کام تعلیم دینا ہے، اور عالم کا کام علم پروری ہے۔ مدرس ایک مضمون کے دو اسباق کی باہمی نسبتوں سے واقف ہوتا ہے، معلم دو الگ مضمونوں کی باہمی نسبتوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ اور عالم تمام مضامین کی باہمی نسبتوں کا عملی اور نظری سطح پر ادراک رکھتا ہے۔ اب ذرا مذہبی تعلیم کو اس سادہ اصول پر دیکھنے کی کوشش کریں۔ 
سوال: مزید یہ کہ ایک ہی فن کی کئی کتب کئی سال پڑھانے کے بعد اگر اسی فن کی کوئی منتہی کتاب دے دیں تو پریشانی، جیسے کافی عرصہ بلاغت میں مختصر المعانی پڑھانے والے کو شیخ عبد القاہر جرجانی کی دلائل الاعجاز دے دیں تو مسئلہ ہے کیونکہ اس کا کوئی حاشیہ اور شرح موجود نہیں۔ 
جواب: میں اس کا جواب اوپر عرض کر چکا ہوں۔ درس نظامی کا مقصد دینی تعلیم نہیں ہے، دینی علم ہے۔ یہ تو آپ نے بلاغت کی کتاب کا ذکر کیا۔ خاص دینی موضوعات پر اگر کوئی کتاب دے دی جائے تو اس کا حشر بھی یہی ہو گا۔  
سوال: اب اس دور میں اگر وہی بقول بعض نری عقلی عیاشی کو سبق میں لے آئیں  تو اب جدید افکار کے ماحول میں ڈوبے ہوئے کو یہ طریقہ تعلیم و تدریس پلے بھی پڑے گا؟
جواب: مجھے معلوم نہیں کہ ”عقلی عیاشی“ سے کیا مراد ہے، کیونکہ یہاں تو کسی کو عقلی غربت بھی حاصل نہیں۔ مجھے تو عقلی عیاشی کرتا ہوا کوئی آدمی اس معاشرے میں کبھی نظر نہیں آیا۔  
سوال: کیا جدید دور کے تقاضوں  اور جدیدیت سے متاثر ذہن کو مد نظر رکھتے ہوئے نظام تعلیم، تدریس اور نصاب میں تبدیلی نہیں لانی چاہیے؟
جواب: اصولاً تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ لیکن یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں جتنا کہ اس سوال میں ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس لیے یہ سوال نہیں، جواب ہے۔ مثلاً ”جدید دور کے تقاضے بدل گئے ہیں، جدیدیت کے غلبے سے ذہن متاثر ہیں، یعنی دین سے دور ہو رہے ہیں۔ اس کا سبب نیا نظام تعلیم، جدید تدریس اور نئے نصابات ہیں۔ درس نظامی ان کے مطابق نہیں وغیرہ، وغیرہ“۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اب صرف بستہ باقی ہے، اسی کا بندوبست ہو رہا ہے۔ آپ جس نظام تعلیم، تدریس اور نصاب کو بدلنے کی بات کر رہے ہیں وہ کہاں ہے اور کون سا ہے، اور اس کا بیان کیا ہے؟ 
تبدیلی ایک صورت حال سے دوسری صورت حال کی طرف ارادی پیشرفت کا نام ہے۔ اور اس پیشرفت کی سمت موجود اور مطلوب صورت حال کے مفصل نظری نقشے پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان تفصیلات اور ضروری ارادے کے بغیر عصری تقاضوں کا بلڈوزر سب کچھ ویسے ہی صاف کر دیتا ہے، اسے ہماری معاونت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ 
سوال: یہ ہے کہ درس نظامی میں اکثر بلکہ تقریباً تمام کتب متاخرین کی ہیں، متقدمین کی کوئی کتاب شامل نصاب نہیں۔ حالانکہ متقدمین کی کتب ان سے بہتر ہیں۔ علم و فضل ان کا مقدم، تہذیب اور صاحبِ شریعت کے دور سے زیادہ قربت، اس کے ساتھ علمی شعور، معنویت متاخرین کی بنسبت زیادہ اور اس کے ساتھ سادہ طرز بیان۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسے مشکل نہیں کہ بغیر شروح و حواشی کے حل نہ ہوں۔
جواب: یہاں درس نظامی ایک نصاب کے طور پر زیر بحث ہے۔ متقدمین کے زہد و تقویٰ اور عظمتِ کردار سے کسے انکار ہے؟ متقدمین کے نمونے اور فضائل ہماری پیروی اور محبت کے لیے ہیں، نصابی کتب کے انتخاب کا معیار بالکل نہیں ہیں۔ متاخرین کی کتب نصاب میں شامل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پوری دینی اور علمی روایت تک رسائی کے وسائل فراہم ہو جائیں، اور تاریخی سفر میں جو فنی پہلو علمی روایت کا لازمی حصہ بن جاتے ہیں، ان میں بھی ضروری تربیت ہو جائے۔ درس نظامی کا مقصد ہی متقدمین سے زندہ تعلق کو باقی رکھنا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ درس نظامی کی کتابیں متاخرین کی ہیں یا متقدمین کی، اس میں جس ضرورت کو سامنے رکھا گیا اور اس کے حصول کے جو ذرائع اختیار کیے گئے، وہ غیرمعمولی ہیں۔ ہر علمی روایت وقت کے ساتھ فطرتاً اور ضرورتاً ٹیکنیکل ہو جاتی ہے، اور یہ کوئی عیب نہیں خوبی ہے۔ متقدمین اور متاخرین میں اس طرح کے غیرضروری موازنے زیادہ مفید نہیں ہوتے۔   
سوال: یہ بات بھی کہ خود درس نظامی کے ساتھ ساتھ ہمارے پرانے نصاب میں ایک تو مشکل کتب، اس کے ساتھ انتہائی دقیق اور کئی جگہ تو بہت مختصر متون شامل کیے گئے۔ تو کیا نصاب میں آسان  مگر جامع کتب نہیں رکھی جا سکتیں؟ جس سے طلبا پر بوجھ بہت زیادہ نہ پڑے۔ اور اگر یوں کہا جائے کہ انتہائی دقیق کتب لکھ کر ان کی آسانی کے لیے  کتب حواشی سے بھر دی گئیں اور مزید اس کے لیے شروحات لکھ دی گئیں۔ تو کیا ایسی ہی کتب کیوں نہ لکھ دی گئیں تو اگرچہ بہت زیادہ نہیں تو درمیانی حد تک آسان کتب نصاب کے لیے لکھ دی جاتیں۔ اگر طالب علم سے دقت مطلوب تھی تو اتنا شروح و حواشی کی بھر مار چہ معنی دارد؟
جواب: جدید تعلیم اور علوم میں رہتے ہوئے اگر مشکل اور آسان کی حیثیت معلوم ہو جائے تو یہ بحث بھی فیصل ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آسان، آسان کا جو شور ہے وہ کسی اخلاقی، دینی یا علمی ضرورت سے پیدا نہیں ہوا، بلکہ ہمارے ذہن کی شکست کا اظہار ہے۔ زیادہ سخت لیکن درست تر بات یہ ہے کہ ایسے مطالبات ہمارے ذہن کے خاتمے کا اظہار ہیں۔ تیسیر کے مطالبات اس لحاظ سے درست ہیں کہ جب ذہن ہی ختم ہو گیا تو ذہن سے متعلق چیزوں کا باقی رکھنا کیا ضرور ہے؟ اس مطالبے کی ایک اور وجہ تعلیم اور علم کے امتیازات کو ارادی طور پر نظرانداز کرنا اور ان کے وجود ہی سے انکار کرنا ہے۔ تہذیبی ذہن کی نمو میں پیچیدگی ایک لازمی عنصر کے طور پر شامل ہوتی ہے۔ 
 تیسیر کے مسئلے کو درست پوزیشن پر کھڑے ہو کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کی درست تفہیم نہ ہونے کی خرابی اس قدر ہے کہ اب جہالت کو مذہبی تقدیس حاصل ہو چکی ہے۔ اس مسئلے کی بنیاد یہ قضیہ ہے کہ دین سادہ ہے۔ دین یقیناً سادہ اور آسان ہے۔ عقائد، احکام اور اقدار اپنے بیان میں بہت سادہ ہیں، فوراً معلوم ہو جاتے ہیں اور عمل میں لائے جا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں۔ لیکن امتداد وقت کے ساتھ ایک نئی اور ضروری چیز پیدا ہوئی جسے ”دینی علوم“ کہا جاتا ہے۔ اب بیان یہ ہو گا کہ دین یا دینی ہدایت سادہ ہے، لیکن ”دینی علوم“ پیچیدہ ہیں۔ دینی تعلیم کی بنیاد، طریقے اور مقصود، ہر مرحلے میں تیسیر اصول کے طور پر شامل ہو گی۔ لیکن ”دینی علوم“ سے تیسیر کا اصول لازماً خارج ہو گا، ورنہ ”دینی علوم“ کا قیام اور حصول ممکن نہیں۔  اصول کے بغیر علم کا تصور نہیں کیا جا سکتا، اور اصول سازی ایک نظری سرگرمی ہے جو تیسیر کا سایہ پڑتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارا یہ موقف رہا ہے کہ  دینی تعلیم بھی ضروری ہے اور ”دینی علوم“ بھی ضروری ہیں، لیکن ان کے تشکیلی اصول باہم یکسر مختلف اور بعض اوقات متضاد ہیں۔ 
اس میں بحث طلب بات صرف یہ رہ گئی ہے کہ ”دینی علوم“ سے کیا مراد ہے اور کیا وہ ضروری ہیں؟ اس سوال کا حل ہونا اب اشد ضروری ہے۔ اس میں بنیادی قضیہ یہ ہے کہ علم کی کوئی ایسی تعریف ممکن نہیں جو وحی اور فزکس، یا وحی اور عمرانیات، یا وحی اور اصول قانون کو بیک وقت شامل ہو۔ وحی لاریب ہے اور علم باریب ہے۔ جو آدمی اس بات کو نہیں سمجھتا، وہ یا تو نادان ہے، یا شیطان ہے۔ ہماری روایت میں منقول اور معقول کی تقسیم اسی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ چونکہ اب ہم اس تقسیم کے بنیادی قضایا کو سمجھنے کی استعداد سے محروم ہو چکے ہیں اس لیے تیسیری لغویات کا عروج ہو گیا ہے۔ 
ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ”دینی علوم“ نام کی کوئی شے نہیں جیسا کہ ہمارے ہاں یہ مفروضہ بہت عام اور قوی ہے۔ یہ فرض کر لینے کے بعد ہم کسی طور بھی یہ فرض نہیں کر سکتے کہ دنیا کے معاشروں میں بھی کسی قسم کے دیگر علوم موجود نہیں رہے۔ یہ مفروضہ ایک پاگل ہی کا ہو سکتا ہے کہ انسانی معاشرے علم سے خالی ہوتے ہیں۔ اب صرف ایک سوال باقی رہ گیا ہے کہ دینی عقائد، احکام اور اقدار ہیں اور ان کے چاروں طرف ہم عصر علوم ہیں، تو کیا صورت پیدا ہو گی؟ اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ دینی عقائد، احکام اور اقدار  کا صفایا ہے، جیسا کہ اس وقت یہ صورت حال تیزی سے سامنے آ رہی ہے۔ اور تیسیر کا مقصد صرف یہ ہے کہ ”دینی علوم“ کے حصول کا امکان ہی ختم کر دیا جائے۔    
تیسیر کا مطلب ہے لفظ کو حسیات اور بدیہیات تک محدود کر دینا۔ جدید عہد میں تعلیم کا مقصد ہے لفظ کو حسیات تک محدود کر دینا، اور جدید علم کا واحد مقصود ہے لفظ کو تجرید کی نوآبادی بنا دینا۔ تیسیر جدیدیت کا وہ اصلاحی ہرکارہ ہے جو اب ہمارے منبر و محراب تک آ پہنچا ہے۔ تیسیری فتوحات کے بعد دینی عمل کو کچھ دیر برقرار رکھا جا سکتا ہے، لیکن دینی ذہن کی تشکیل ناممکن ہے۔ اور دینی ذہن کے خاتمے کے ساتھ دینی عمل کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ انسانی ذہن کا فطری اسلوب کار اور عقلی فعلیت تجریدی (abstract) ہے۔ مغیبات کو تجریدات کا محیط بنا دینا دینی علم کا بڑا مسئلہ ہے، اور صرف اسلامی تہذیب ہی اس سے نبردآزما ہو سکی ہے۔ عقیدے کی شرائط پر تجریدات اور مغیبات کا باہمی تعامل انسانی ذہن کی اعلیٰ ترین فعلیت ہے، جہاں تیسیری ”ذہن“ کا گزر نہیں ہو سکتا۔ 
یہاں ضمناً ایک ضروری بات کا موقع پیدا ہو گیا ہے۔ معاشرے میں مظاہرِ خیر اور مظاہرِ علم، صرف مظاہر ہی ہیں، یعنی خیر عمل کی اوڑھنی ہے اور علم ذہن کی چادر ہے۔ خیر اور علم دونوں حق اور باطل سے نسبت پیدا کرنے کا یکساں میلان رکھتے ہیں، یعنی خیر اور علم میں حق اور باطل کی بجاآوری کی استعداد یکساں ہے۔ خیر اور علم کے حتمی تعینات حق اور باطل کے تناظر میں طے ہوتے ہیں، فی نفسہٖ ان میں رہتے ہوئے ممکن نہیں ہوتے۔ دینی علوم سے انکار اصلاً باطل ہی کی طرفداری کا موقف ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں باطل سے نسبت رکھنے والے علوم کا غلبہ ہو چکا ہو، دینی تعلیم کی سرگرمی محض خام خیالی ہے۔  
سوال: آخر درس نظامی ہی کی کیا ایسی خصوصیت ہے کہ زیادہ سے زیادہ عراق و عجم تک پر اس سے آگے جزیرة العرب کے ساتھ ساتھ مراکش کی القرویین کا، مراکش کے دوسرے علاقوں کے مدارس کا اور تیونس میں زیتونہ کا نصاب مختلف تھا۔ اگر وہاں علمائے ربانیین پیدا ہوئے اسی نصاب سے تو ہم برصغیر میں درس نظامی کی کیا تخصیص؟
جواب: یہ کون کہہ رہا ہے کہ ”علمائے ربانیین پیدا“ کرنے کے لیے درس نظامی ہی ضروری ہے؟  لیکن سوال یہ ہے کہ آیا درس نظامی ”علمائے ربانیین پیدا“ کرنے میں رکاوٹ ہے؟ اور کیا ”علمائے ربانیین“ صرف نصاب کی جمع تفریق سے پیدا ہوتے ہیں؟ ہمارے ہاں نصاب کی بحث پر زور صرف اس لیے ہے کہ نظری ادراک کا خاتمہ ہو گیا ہے، اور صرف حسی اور تیسیری ادراک باقی رہ گیا ہے۔ تسیری ادراک میں درس نظامی کا صرف بستہ ہی نظر آ سکتا ہے لیکن یہ سمجھ نہیں آ سکتا کہ یہ ہے کس لیے؟ علمائے ربانین کی اگر کوئی فہرست بنائی جائے تو ان کے اذہان کے حاصلات کا گوشوارہ بھی ساتھ لف ہونا چاہیے۔ ان علمائے ربانین کی تعقلاتی پہنائی، عرفانی علویت اور استدلالی کاٹ کو دیکھ لینا بھی مفید ہو سکتا ہے۔     
سوال: کیا نصاب اور نظام تعلیم کسی معاشرے یا قوم کے ذہن کی عکاسی، نمائندگی کرتا ہے؟ اور قوم کے ذہن نصاب کی نوعیت سے تبدیل ہوتے ہیں؟ کیا نظام تعلیم بدلتا رہتا ہے؟ اگر نظام نہیں بدلتا تو کیا نصاب ہی تبدیل ہوتا ہے؟ اگر نظام یا نصاب اس وجہ سے بدلتا رہا ہو کہ وقت کے مطابق کچھ نہ کچھ تبدیلی آنی چاہیے تو درس نظامی بھی اس تسلسل کا حصہ تو ضرور بن سکتا ہے؟ 
جواب: یہ بھی عمومی سوالات ہیں، اور اپنی جگہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کروں گا کہ وقت کے ساتھ انسان کی بہت سی ضروریات اور ان کو پورا کرنے کے اسالیب تبدیل ہو جایا کرتے ہیں۔ یعنی تبدیلی مستقبل کی کوکھ سے برآمد ہوتی ہے۔ اس میں کافر و مسلم کی کوئی تفریق نہیں؛ دونوں کے مشاہدے اور تجربے میں ہے۔ لیکن وقت اور تبدیلی کے بارے میں ہمارے اور جدیدیت کے تصورات میں بہت فرق ہے۔ ہم اس تبدیلی میں کچھ ایسی چیزوں کو مستقل رکھنا چاہتے ہیں جن کا تعلق ماضی سے ہے۔ اور جدیدیت کچھ ایسی چیزوں کو مستقل رکھنا چاہتی ہے جن کا تعلق مستقبل سے ہے۔ ہمارا آئیڈیل ماضی میں ہے اور جدیدیت کا مستقبل میں۔ اس لیے تبدیلی کی کوئی بات علی الاطلاق نہیں ہو سکتی، کیونکہ تبدیلی کا طریقۂ کار، سمت اور مقاصد ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔  
جدیدیت جس مستقبل پر یقین رکھتی ہے وہ زمانی نہیں ہے، بلکہ یوٹوپیائی اور فرجامی ہے۔ جدیدیت کی تقویم میں ماضی کوئی مستقل چیز نہیں ہے، اور انسان کی عصری ضرورت اور ارادے کے تابع ہے۔ ہمارا ماضی کا تصور جدیدیت کے تصورات سے قطعی مختلف بلکہ قطعی متضاد ہے۔ جدیدیت میں ماضی، مستقبل سے کہیں زیادہ ”بدلتا“ ہے۔ کیا ہم یہ پوزیشن لے سکتے ہیں؟ کیا ہمارے نزدیک مسلمان ہونے کی معنویت اور غایت تبدیل کی جا سکتی ہے؟ جدیدیت میں ماضی کسی حق کا محتویٰ نہیں ہے، اپنے اندر کوئی قدر نہیں رکھتا، اپنے اندر کوئی اتھارٹی نہیں رکھتا، اپنے اندر کوئی نمونہ نہیں رکھتا۔ ماضی کی زیادہ سے زیادہ یہ حیثیت ضرور ہے کہ اس کی ”کھدائی“ اور ”ادھڑائی“ کر کے اس کے ملبے سے ایسی چیزیں نکالی جائیں جو علم جدید کا استدلالی ایندھن بن سکیں۔ تو کیا ہم یہ پوزیشن لے سکتے ہیں؟ ہمارے لیے ماضی اس سے بالکل مختلف ہے، اور یہی ادراک درسِ نظامی کی تشکیل میں کارفرما تھا، اور وہ ادراک ہے ماضی پر ہم عصر دنیا کو اثرانداز نہ ہونے دینا۔ 
آپ نے نظام کی بات کی جو ہمارے خیال میں بہت اہم ہے۔  جدید نظام کی تشکیل اصولِ تنظیم پر ہوتی ہے، اور ٹیکنالوجی ہر نظام کا جزو لاینفک ہے۔ اصول/تھیوری اور نظام کی بحث توام ہے۔ اور یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ اصول اور نظام دونوں تاریخی اور انسان کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں، اور دونوں کچھ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ مقاصد کی تبدیلی سے اصول اور نظام دونوں بدل جاتے ہیں، اور جدید معاشروں میں اصول اور نظریے کی ادھڑائی بنائی روز ہوتی ہے۔ اصولِ تنظیم طاقت اور سرمائے کا اصول ہے، کوئی اخلاقی یا مذہبی یا روحانی چیز نہیں ہے۔ ہماری خوش فہمی کے برعکس، نظام ہاتھ میں پکڑ کر یا آنکھوں سے دیکھنے کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ ذہن سے ”دکھائی“ دیتا ہے۔  آج کی دنیا میں طاقت اور سرمائے کا حصول تنظیم اور نظام کے بغیر ناقابل تصور ہے، اور نظام کا مقصدِ قیام بھی مقداری اہداف کا حصول ہوتا ہے۔ تعلیم میں بھی نظام کچھ مقداری اہداف ہی کو حاصل کر پاتا ہے، جبکہ ہمارے اہداف صرف مقداری نہیں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نظام کی بحث سے پہلے کوئی نظری تناظر بہم کیا جائے۔ 
سوال: کیا مدارس میں جدید سکول کی تعلیم کا انتظام مناسب ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر اب بہت سے دینی مدارس ایسا کر رہے ہیں تو نتیجتاً کیا ہو سکتا ہے؟
جواب: میرا خیال ہے کہ یہ سوال اہم ہے۔ درس نظامی پر تمام گفتگو چونکہ سیاسی اور فرقہ ورانہ تناظر میں ہوتی ہے، اس لیے تعلیمی تناظر بالکل غائب ہے۔  ایسے اہم سوالات اسی باعث زیر بحث نہیں آ پاتے۔ درس نظامی کو ”مذہبی تعلیم“ کہنا بھی کئی لحاظ سے محل نظر ہے۔ اس کی حیثیت humanities کے اعلی اور معیاری نصاب سے بہت مشابہ ہے، اور یہی وہ اعتراض تھا جس کی وجہ سے بنیادی مذہبی متون کو اس میں متعارف کرایا گیا۔ درس نظامی اصلاً دینی علوم تک رسائی کا  نصاب ہے۔ 
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، درس نظامی کی تجہیز اور تکفین تو ہو چکی ہے۔ اب اس کی تدفین جدید تعلیم کے وسیع و عریض نظام کی گود میں ہونے لگی ہے۔ جدید تعلیم کی گود توسیعی مزاج ہے، اور اب مدارس بھی اس میں گرا چاہتے ہیں۔ اس گود میں درس نظامی سسکتی میت کے طور پر اور جدید تعلیم کی فتح کی ٹرافی کے طور پر آئندہ نسلوں کے فخر ومباہات کا ذریعہ رہے گا۔ اس عظیم کامیابی پر میکالے کی روح کے احوال کیا ہوں گے، یہ تو کوئی صاحب کشف ہی بتا سکتا ہے۔ درس نظامی کے وارث اس کا گلا گھونٹ کر اگر اپنے گھر آنگن ہی میں دفن کر دیتے تو زیادہ عزت کی بات تھی۔ جدید تعلیم کا اونٹ بدو کے خیمے میں داخل ہو چکا ہے۔ اور اب درس نظامی کی فکر چھوڑ کر بدو کو اپنی ہی فکر کرنی چاہیے۔ 
سوال: نصاب اور نظام میں کیا فرق ہے اور کیا فرق رکھنا چاہیے؟ اصل میں پچھلی کئی دہائیوں سے جب تعلیم پر بات ہوتی ہے تو نصاب کی تبدیلی کی طرف تگ و دو ہوتی ہے اور اس کی گواہ ہمارے درمیان لکھی گئی کتب ہیں، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نصاب کی بات ہی دراصل نظام کی بات ہے۔
جواب: یہ پھر عمومی لیکن اہم سوالات ہیں، اور ان کو فی الوقت مؤخر کر دینے میں کوئی حرج نہیں۔ عرض ہے کہ نظام اور سسٹم وغیرہ کی بحث کو یہاں چھیڑنا مفید نہیں ہو گا، اور موضوع بدل جائے گا۔ صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ  نظری علوم اور سسٹم کی بحث توام ہے، اور ایک کے بغیر دوسرے کو زیر بحث لانا کچھ مفید نہیں۔ جیسے ہمارے ہاں ایمان اور عمل صالحہ کا تناظر ہے، یہ تناظر بھی اس سے مشابہ ہے۔ مزید یہ کہ جدید سسٹم اور اعمال صالحہ کی بحث نوعاً ایک ہے، اور ہمارے خیال میں ازحد اہمیت کی حامل ہے۔ 
میرا مشورہ یہ ہے کہ گھبرائے بغیر اس طرح کے سوالات کے ساتھ تادیر دوستانہ رہنا سیکھیں۔ ابھی سوالات کو منکشف ہونے دیں۔ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ سوال کیا ہوتا ہے۔ کچھ سوالات انسانی شعور کی ضرورتوں کے عکاس ہوتے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ وہ پیاسا ہے کہ سرشار؟ کچھ سوالات ذہن کی حرکت اور اس کی سمتِ حرکت سے پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ سوالات شرارت، نفرت، تعصب اور ایجنڈے کا غلاف ہوتے ہیں۔ ایک بات یادر رکھنے کی ہے کہ دنیا میں جواب سب سے زیادہ رسوا ہوتے ہیں، سچا سوال ہمیشہ سرخرو رہتا ہے کیونکہ وہ خالص نیت کا جڑواں ہے۔ سچے سوال کے دیکھنے کو کائنات بھی ٹھہر جاتی ہے۔ پھر یہ کہ سوال صرف ذہنی نہیں ہوتے، اور اگر وہ انسان کی اصلِ وجود سے پھوٹ نکلیں تو کاسۂِ کلام کے محتاج نہیں رہتے۔ یہ عین وہ لمحہ ہے جب خالق کائنات بھی متوجہ ہو جاتا ہے۔ سوال ناقص رہ جائیں تو جواب بھی ادھورے اور بیکار ہوتے ہیں۔ ہم تاریخ کی اندھیری رات میں بے نسب جوابوں کے نرغے میں آئے ہوئے تہذیبی پناہ گزیں ہیں۔ سوال کی نمو کے وقت سب سے بڑا خطرہ نفسی شب خون کا ہوتا ہے۔ اگر یہ کامیاب ہو جائے تو انسان شعور کی آٹونومی سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ سوالات انسانی شعور کی آٹونومی کا پہلا زینہ ہے، جیسے مکارم الاخلاق انسان کی اخلاقی آٹونومی کا مظہر ہے۔ انسان رہنا اسی پیہم جدوجہد کا نام ہے۔  
سوال: کیا جیسے متقدمین کے ہاں تمام علوم کے  حلقے لگا کرتے تھے اور کسی کتاب کو چھوڑ کر استاد کی تقریر کو ضبط کر لیا جاتا جسے امالی کہا جاتا اور کتب کی بجائے فنون کی تعلیم ہوتی زیادہ سود مند نہیں؟ کیا جب مستقل طور پر مدارس کی عمارت بنائی گئی جیسے مدرسہ نظامیہ نیشاپور و بغداد تو علما نے اسے برا جانا کہ اب علم کے لیے سیاحت اور سفر کی صعوبتیں اور مجاہدے اور علمی اسفار بہت کم بلکہ ختم ہونے کی حد تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن ہم استاد کو چھوڑ کر آہستہ آہستہ ادارہ کے فضلا کہلانے لگے۔ پر اس کے نتائج بھی خوبصورت ہی نکلے۔ تو اب اگر مدارس کو ایک جدت دے دی جائے تو کیا نامناسب ہے؟
جواب: اس سوال میں جو بنیادی insight ہے میں اس سے متفق ہوں۔ اصل میں استاد اور شاگرد کا تہذیبی تعلق ہی ہمارا پورا نصاب تھا۔ استاد کی نارسائی سے کتاب کا سہارا لینا پڑا۔ ”کتاب یاد ہونے“ اور کسی علم پر دسترس ہونے میں مکمل فرق ہے۔ تعلیمی خرابی کی تمام ذمہ داری صرف نصاب پر یا استاد پر نہیں ڈالی جا سکتی، اور تعلیمی عمل کے دیگر پہلوؤں کا تجزیہ بھی درکار ہے۔ مزید یہ کہ تعلیم میں معاشرتی اور ریاستی ذمہ داری پر گفتگو لازمی طور پر شامل ہونی چاہیے۔ 
سوال: کیا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ  جدید مفید علوم حاصل کریں جو اس دور میں بہت ضروری  ہیں، پر اثرات سے بچنے کے لیے ان جدید علوم کا اپنا نصاب مرتب کر لیں؟
جواب: میں نے کوشش کی ہے کہ جدید تعلیم یا جدید علوم پر اشد اور پس منظری ضرورت کے علاوہ کوئی بات نہ کروں، تاکہ توجہ ایک ہی موضوع پر مرکوز رہے۔ بہت اختصار کے ساتھ عرض ہے کہ سائنس کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ زمان و مکاں کے فریم ورک میں رہتے ہوئے شے (object) کو اس کی ساخت اور میکانکس کے تمام پہلوؤں میں مکمل طور پر define کر دینا۔ جدید سائنس نے شے کو اس کے تمام مظاہر میں مکمل طور پر define کر دیا ہے۔ جدید علم، جدید انسان کے جبڑوں اور پنجوں کی طرح ہے جس سے وہ شے کے ”چھتے“ سے چمٹا ہوا ہے۔ اس ”چھتے“ سے وہ سرمائے اور طاقت کا ”شہد“ برآمد کرتا ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر، جدید تعلیم شے (object) سے بچے کی ذہنی اور نفسی نسبتوں کو ابتدائی سطح پر مکمل کر دینے کا نام ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جدید عہد میں سرمائے اور طاقت تک رسائی کا واحد ذریعہ جدید تعلیم ہے کیونکہ جدید سرمایہ اور طاقت دنیا کی منتہائی تجلیل ہے۔ اچھے برے کی بحث میں پڑے بغیر سوال یہ ہے کہ کیا یہ دین کا مقصود ہو سکتا ہے؟ آج کی دنیا میں سرمایہ اور طاقت شرائط بقا ہیں، لیکن دین کا مقصود نہیں ہیں۔ جدید تعلیم اور درس نظامی کی غایات میں ۱۸۰ درجے کا فرق ہے۔ دین، دینی علوم اور دینی مرادات کی کوئی چھوٹی سی پگڈنڈی بھی جدید تعلیم سے ہو کر نہیں گزرتی۔ ہم تو کوئی پرانی چیز بھی سنبھال نہیں سکے، جدید نصاب مرتب کرنے کی صلاحیت کہاں سے لائیں گے؟ نقالی ہم بہت کرتے ہیں، لیکن وہ بھی اتنی پست ہوتی ہے کہ خدا پناہ!
دوسرا اہم تر سوال یہ ہے کہ “مفید” سے کیا مراد ہے؟ درس نظامی کی بحث میں یہ سب سے زیادہ مسئلہ انگیز لفظ ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ آج کے دور میں فزکس انسانوں کی ضروریات کو کہیں زیادہ پورا کرتی ہے۔ قرآن شریف کی ٹیوشن پانچ سو روپے ماہانہ اور فزکس دس ہزار ماہانہ ہے۔ یہ تو معاشی فائدے کی بات ہوئی، جو بدیہی ہے۔ سماجی اور اخلاقی فائدے کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔ فزکس پڑھانے والے سے وقت لینا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ تعلیمی ضرورت اور کلچر میں وہ معاشرے کے لیے زیادہ ”مفید“ لہذا مصروف ہے۔ تاریخ اور معاشرے نے مذہبی تعلیم یافتہ کو ایک stereotype بنا کر غیر اہم کر دیا ہے، جبکہ جدید ٹیچر عین اسی معاشرے اور تاریخ کے طاقتور مؤثرات میں سے ایک ہے۔ ہمارے لیے ”مفید“ ہونا حق و باطل کے تناظر میں کوئی معنی رکھتا ہے، جو اولاً شعوری اور ذہنی ہے۔ مذہبی تعلیم یافتہ تاریخی اور معاشرتی قوتوں کا شکار ہے اور ”ذہن“ فی نفسہٖ کے خلاف ایک گہرا رد عمل رکھتا ہے۔ ایسی صورت حال میں مفید کا معنی معلوم ہونا اور اس کو طے کرنا ضروری ہے تاکہ صحیح مرادات تک پہنچا جا سکے۔
سوال: کیا اس وقت امت کو جس نصاب و نظام کی ضرورت ہے وہ جدید اور قدیم کا امتزاج کہلائے؟
جواب: مجھے تو ابھی امتزاج کا مفہوم معلوم نہیں ہو سکا، اور جب تک میں اپنی کم علمی کا علاج نہیں کر لیتا اس کا جواب بھی نہیں دے سکتا۔ اتنا ڈر ضرور ہے کہ کہیں یہ کوئی ”حسین امتزاج“ ہی نہ ہو جو سرکس میں بہت نظر آتا ہے۔ 
سوال: آخر اس وقت کون سے اور کیسے نظام کی ضرورت ہے؟ اس نظام کے عناصر کیا ہوں گے؟
جواب: اگر درسِ نظامی کو تعلیم کے فکری تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے، اور اس میں حکمتِ نظری اور حکمتِ عملی دونوں کو پیش نظر رکھا جائے تو ایسے نظام کی ضرورت اور اس کے خدو خال ازخود واضح ہو جائیں گے۔     
سوال: کیا جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کسی حد تک کامیاب ہوئی؟ ان کا نظام کیسا تھا؟
جواب: یہ ایک short-lived لیکن زبردست کوشش تھی اور اپنے تمام بنیادی اہداف میں کامیاب رہی۔ میری ناقص رائے میں ہمارے عہد زوال اور دور غلامی کا یہ واحد ادارہ ہے جس نے بہت وقیع کام کیا ہے، اور اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں اہم ترین اردو کا ذریعہ تعلیم ہونا ہے، یعنی سائنس اور دیگر تمام علوم میں ذریعہ تعلیم اردو ہی تھی۔ اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ کارنامہ ”زبان کا مسئلہ“ حل ہونے کے بعد ممکن ہوا۔ 
سوال: اب ہمیں اپنا تعلیمی نظام نئے اور جدید طرز میں قدیم کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کرنا ہے یا قدیم کو اسی انداز میں پیش کرنا ہے یا ہجرت الی الخیر القرون کی ضرورت  ہے۔ ہماری تاریخ میں انداز تعلیم متنوع قسم کے رہے، آخر ندوہ اور جامعہ ملیہ، مدرسہ الہیات کانپور  نے کون سا کام نہیں کیا جو ہمیں کرنا چاہیے؟ دیوبند ایک اہم وقت کا ایک اہم تقاضا ضرور تھا ہمیشہ تھامنے کے لیے نہیں تھا۔ اب ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ ان تینوں کے ذریعے جس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی اس کمی کو پورا کرنے کی مکمل یقین دہانی دے۔ مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا میرا خیال نہیں ہمیں دیوبند کے نظام کو چھوڑنے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے  کہ مدارس کی تاسیس کے جو دو مقاصد ہو سکتے ہیں کہ علوم دینیہ کا احیا اور بقا اور دوسرا اسلام کا تہذیبی رنگ  وہ ذمہ داری تو اس نے پوری کی۔ اور مزید یہ کہ  اس وقت مذہب کو بچانے کی جو جیسی کیسی معیار کی کھیپ نکل رہی ہے پھر بھی اپنے اخلاص کے اعتبار سے  نابغہ روزگار ہیں۔
جواب: میرا خیال ہے کہ تعلیم پر اس انداز ہی پر گفتگو ہوتی آئی ہے، اور اس کا جو فائدہ ہوا وہ معلوم ہے۔ ایک ضروری بات یہاں عرض کرنا چاہوں گا کہ استعمار نے ایک نئی چیز متعارف کرائی تھی جو پہلے ہمارے معاشروں میں نہیں تھی، اور جسے Public Instruction (تعلیم عامہ) کہا جاتا ہے، یعنی ہندوستانی معاشرے میں ”تعلیم“ تو تھی، ”تعلیم عامہ“ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ہمارے ہاں تعلیم پر جو گفتگو ہوتی آئی ہے اس میں آپ نے اس کا ذکر بھی کبھی نہ سنا ہو گا کہ کس بلا کا نام ہے۔ اس کا سادہ مطلب ہے تعلیم کو جدید ریاست کی سیاسی اور معاشی ترجیحات کے تابع اور سپرد کر دینا۔ یہ موضوع بہت تفصیل کا تقاضا کرتا ہے جو یہاں ممکن نہیں۔ دہلی پر انگریزوں کے قبضے کے فوراً بعد ایک مدرسے ہی کو دہلی عربی کالج یا قدیم دہلی کالج بنایا گیا تھا۔ یہی معاملہ ہندوؤں کے اداروں کے ساتھ بھی پیش آیا۔ استعماری قبضے کے بعد ان اداروں میں جو مسائل سامنے آنا شروع ہوئے، وہ بنیادی طور پر ”تعلیم“ اور ”تعلیم عامہ“ کی باہم آویزش سے پیدا ہوئے تھے۔ چند دہائیوں بعد لارڈ میکالے نے اپنے منٹ سے عین انہی مسائل کو ”حل“ کیا تھا۔ لارڈ میکالے کا مطلب یہ تھا کہ اگر ریاست پیسہ دے گی، تو تعلیم مکمل طور پر ریاست کی ترجیحات پر طے ہو گی، یہانتک کہ علم کا معنی، تعلیمی طریقۂ کار اور اس کے مشمولات، اور تعلیم کے مقاصد بھی ریاست ہی طے کرے گی۔ لارڈ میکالے کے مطابق جو علم کوڑی کا بھی نہیں اس کو ان ”اداروں“ میں کیوں جگہ دی جائے، اور ریاست اپنے معاشی وسائل ان پر کیوں خرچ کرے؟ اپنی تعلیمی پالیسی کو جواز دینے کے لیے استعماری ریاست کے اس نمائندے نے مقامی علوم کی تحقیر، تنقیص اور تذلیل سے ان کو delegitmize کر دیا، یعنی ان علوم کا تعین یا رد کسی علمی طریقۂ کار پر مبنی نہیں تھا بلکہ ایک استعماری فرمان تھا۔ میکالے کی بنیادی دلیل معاشی اور سائنسی تھی۔ اس کی یہ دلیل مقامی لوگوں نے بہ جبر و اکراہ تسلیم کر لی، اور آج تک اسی پر کاربند ہیں۔ لیکن وہ ابھی تک اس کی معنویت کو نہیں سمجھ سکے۔ میکالے کی معاشی اور سائنسی دلیل آج کل ”عصری تقاضوں“ کے نقاب میں ظاہر ہوتی ہے۔  ہم تو نہ جانے کب کے گھگھیائے ہوئے ہیں، اس لیے کرتے وہی کچھ ہیں جو میکالے چاہتا تھا کہ ہم کریں۔ 
ماضی میں تعلیم کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں اور امرا و رؤسا کی ذمہ داری صرف معاشی تھی۔ اس کے علاوہ وہ تعلیمی عمل میں کسی بھی سطح پر کوئی دخل اندازی نہیں کرتے تھے۔  
میکالے کے بعد تعلیم عامہ کے اثرات ہمارے مذہبی مدارس پر بھی بہت گہرے مرتب ہوئے، اور ان کا طریقۂ کار بھی تعلیم عامہ کے ماڈل پر بتدریج ڈھلنے لگا اور جس میں سیاست بازی اور فرقہ پرستی جزو لاینفک کے طور پر شامل رہی۔ میکالے نے ہمارے علوم کو کئی اور دلائل سے بھی رد کیا۔ ہم نے اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے علوم کو عملاً ناکارہ اور ردی ثابت کرنے میں بھرپور تعاون کیا ہے۔ 
میں سیاست کو ضروری سمجھتا ہوں، لیکن تعلیم کو سیاست اور فرقہ ورانہ سیاست کا ایندھن بنانا درست خیال نہیں کرتا۔ آپ نے اوپر جو ماڈل پیش کیے ہیں، مجھے تو ان کی افادیت سے انکار نہیں لیکن اب تو تجربے سے بھی پتہ چل گیا کہ وہ ہمارے مسئلے کا حل نہیں۔ درس نظامی، دینی تعلیم اور روایتی علوم کے تلازمات جاننے کے لیے فرنگی محل زیادہ بہتر مثال ہے، جہاں بیسیوں صدی تک ہماری علمی روایت کے کئی اجزا اپنی اصلی حالت میں باقی رہے۔
یہاں ڈرتے ڈرے ایک اہم سوال ضرور اٹھانا چاہوں گا۔ یہ بات متفق علیہ ہے کہ سرسید کی تعلیم ہماری دینی اور تہذیبی روایت میں انقطاع عظیم کی نشاندہی کرتی ہے۔ لیکن سنہ ۱۸۵۷ء کے بعد کیا ہمارے مدارس اور ان کی تعلیم کسی دینی اور تہذیبی روایت کا تسلسل ہے؟  اپنے مشمولات میں اس تعلیم کا سرسید کی تعلیم سے مختلف ہونا تو بدیہی ہے۔ لیکن میری رائے میں تہذیبی روایت کے انقطاع میں دونوں مماثل اور مساوی ہیں۔ اس انقطاع کی نوعیت میں فرق ہے۔  درس نظامی کا کسی بھی productive حالت میں زندہ نہ رہنا اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ درس نظامی رد و بدل کے بعد تبرک کے طور پر مدارس میں رائج ہوا تھا، اور چونکہ اب یہ تبرک سنبھالنا بھی مشکل ہے، اس لیے ”عصری تقاضوں“ کے والہانہ استقبال کی تیاریاں مکمل ہیں۔ 
آپ نے جن اداروں کا ذکر کیا، ان کی تاسیس، نمو اور ارتقا کو علمی روایت اور تعلیمی تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو بہت دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔  ہماری تعلیمی زبوں حالی اور علمی نسل کشی (genocide) سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی اگر ہم نصف اٹھارھویں صدی کے بعد کے حالات کو نظرانداز کر دیں۔ جنگ آزادی کے بعد جو کچھ سامنے آیا وہ تو محض ثمرات تھے، اور اب وہ بھی اپنے امکانات پورے کر چکے ہیں۔ 
اس دراز نفسی کا مقصد صرف ایک نکتے کی طرف توجہ دلانا ہے کہ درس نظامی کا نصاب ہمارے دینی علوم اور طویل تہذیبی روایت کے تسلسل کا نمائندہ تھا، جبکہ سنہ ۱۸۵۷ء کے بعد ہماری مذہبی تعلیم اور مذہبی علوم انقطاع عظیم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مابعد جنگِ آزادی ہمارے مذہبی علوم میں کارفرما تصور علم اس سے قطعی مختلف ہے جس پر ہماری طویل علمی روایت کی نمو ہوئی ہے۔ اس طرح جنگ آزادی کے بعد ہمارے مذہبی علوم میں اور درس نظامی میں ایک بہت ہی گہری عدم مطابقت موجود رہی ہے۔ یعنی مابعد جنگ آزادی ہمارے مذہبی علوم اور درس نظامی کا ایک ساتھ موجود رہنا تقریباً ناممکن تھا۔ اور موجودہ صورت حال اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ اہل علم واقف ہیں کہ وہ ٹیکنیکل اور علمی وسائل جو درس نظامی سے فراہم ہوتے ہیں وہ مابعد جنگ آزادی ہمارے مذہبی علوم کی پیداوار اور تشکیل میں کہیں کارفرما نظر نہیں آتے، کیونکہ یہ علوم ایک نئی منہج اور تصور علم سے پیدا ہوئے جو درس نظامی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ ناچیز کی رائے میں درس نظامی کے فراہم کردہ علمی اور فنی وسائل طریقۂ کار کی معمولی تبدیلی کے ساتھ عصر حاضر کے علوم سے روبروئی کی بھی مکمل استعداد رکھتے تھے، جبکہ مابعد جنگ آزادی پیدا ہونے والے علوم اس استعداد سے پیدائشی طور پر خالی تھے۔  
سوال: یہ چند نکات پر مشتمل ایک فہرست ہے جس میں اشارتاً بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نصاب کیسا ہونا چاہیے۔ یہ اسلاف کی کتب سے اکٹھا کیا گیا مواد ہے۔
١۔ نصاب میں ایسی کتب داخل کی جائیں کہ ان کے مصنفین و مولفین علم و عمل کے اعتبار سے مسلم ہوں، تقوی کے اعتبار سے شہرت رکھتے ہوں۔
٢۔ کتابیں مختصر ہوں پر جامع ہوں جس سے ٹھوس استعداد بنے۔
٣۔ نہ ہی سہل و سلیس کتب رکھی جائیں کہ طلبا خود ہی مطالعہ سے حل کر سکیں اور استاد کی مدد ہی درکار نہ رہے۔
٤۔ جدید فلسفہ اور سائنس اور تاریخ وغیرہ کی کتب داخل نصاب کی جائیں تو شرط یہ ہے کہ اس کی تعلیم دین کی تعلیم کے تابع ہو۔ اور اگر جدید، کافر فلاسفہ کی کتب ہوں تو تنقیدی انداز میں پڑھایا جائے جیسے پہلے فلاسفہ کی کتب میں شروح و حواشی کے انداز کا طریقہ رہا ہے، اور ایسی اشیا پڑھانے والے بھی اسلامی رنگ میں رنگے ہوں۔ 
جواب: اگر درس نظامی کی بہتری کے لیے ایسی ہی تجویزیں آتی رہیں، تو آخر میں نصاب الف بے پے اور ایک دو تین رہ جائے گا کیونکہ بچوں کو ابتدا میں حروف تہجی اور اعداد کا سیکھنا بھی  بہت مشکل ہوتا ہے۔ آسانی اسی میں ہے ایک متفقہ فیصلے سے تعلیم کو کھیل کود اور علم کو جرم قرار دے دیا جائےاور تعلیمِ شے کو مقصود حیات بنا لیا جائے۔ شے کے ”علم“ میں سہولت یہ ہے کہ لفظ کے بغیر بھی حاصل ہو جاتا ہے، اور ان پڑھ مستری تو آپ نے دیکھے ہی ہوں گے جو اپنے کام میں منتہی ہوتے ہیں۔ مستری ”عصری ضرورت“ کو سب سے بہتر پورا کرتا ہے۔ اور اگر وہ نہ ہو تو پورا ”عصر“ ہی ٹھپ ہو جائے۔ شے کی تعلیم اور ”علم“ میں دل بھی بہت لگتا ہے، آدمی مصروف بھی رہتا ہے اور روٹی کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ ہم یہ کیا نصاب وغیرہ کی بحثوں میں الجھ گئے ہیں؟ کوئی بیوقوف ہی ہو گا جو مذہب، مذہبی تعلیم اور دینی علوم کو ”عصری ضرورت“ سمجھتا ہو گا۔ یہ تو مسلمانوں کی مستقل ضروریات کا مسئلہ ہے اور ان کو پورا کرنے کے لیے ہم نے پست ترین نمونوں کا انتخاب کیا ہے۔ نصاب اور تعلیم کے بارے میں ایسی باتیں کرنے سے بہتر ہے آدمی کوئی وظیفہ کر لے یا خاموش رہے کیونکہ دونوں ثواب کے کام ہیں۔ 
ایک دفعہ ایک مہتمم سے ملاقات ہوئی، اور ناچیز نے جدیدیت اور جدید تعلیم کے بارے میں کچھ گزارش کرنے کی کوشش کی تو معاملہ انتہائی سنگین ہو گیا اور جو الزامات مجھے سننے پڑے، ان میں ایک یہ تھا کہ آپ جدیدیت کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ مدارس دنیا کی نعمتوں سے بہرہ مند نہ ہو سکیں، اور خود جدید اداروں میں کام کر کے اچھی تنخواہیں لیتے رہیں۔ آپ کو خوف ہے کہ وہ بھی جدید ہو کر اچھی تنخواہیں لینے لگیں گے اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ اب کوئی کیا بات کرے؟ تعلیم اور تنخواہ کے ”حسین امتزاج“ سے یہی کچھ برآمد ہوتا ہے۔ 
سوال: کیا یہ جو وفاق بنا کر اپنے مسالک کے مدارس کو جوڑ دیا گیا ہے اور ان تمام وفاقوں کو بھی آپس میں جوڑ دیا گیا ہے۔ اس کا کیا فائدہ ہے اور آپ کو اس میں کوئی نقصان بھی نظر آتا ہے۔ امتحانی نظام کسی بھی نظام تعلیم میں کیا حثیت رکھتا ہے اور اس کے فوائد اور ممکنہ نقصان ہیں؟ ہمارے ایک محترم جو کہ ایک صاحب علم آدمی ہیں فرماتے ہیں کہ وفاق کا بننا ایک طرح سے ہماری تہذیبی شکست ہے۔ کیا یہ بات درست ہے معلوم ہوتی ہے آپ کو؟
جواب: آپ کے محترم نے جو کہا سچ کہا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں تعلیم تو تھی، تعلیم عامہ نہیں تھی۔ ہماری شکست کے بعد جو کچھ بچ رہا، ہم نے اسے استعماری تعلیم عامہ کے ماڈل پر ڈھالنے کی بہت بھونڈی کوشش کی اور اس میں ایک بات کا سختی سے خیال رکھا کہ اہلیت، ذہانت اور محنت کا گزر بھی اس میں نہ ہو۔ اس کی جگہ ہم نے خالی تقدیس، لایعنی تجلیل اور مسموم فرقہ واریت کو اعلی مقاصد کے طور پر متعارف کرایا۔ ہم نے جو کیا، اس کے نتائج پا لیے۔ اب بھی اگر وہی کچھ کرنا ہے تو نتائج مختلف کیسے ہوں گے؟

اگست ۲۰۱۸ء

قرب قیامت میں غلبہ اسلام کی پیشین گوئی ۔ علامہ انور شاہ کشمیری کا نقطہ نظرمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۵)ڈاکٹر محی الدین غازی
افغان طالبان کا موقف اور خادم الحرمین کی خواہشمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پروفیسر فواد سیزگینؒڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
انسانی خدا ۔ مستقبل کی ایک مختصر تاریخسید راشد رشاد بخاری
چند جدید عائلی مسائل ۔ فقہی تراث کا تجزیاتی مطالعہمولانا محمد رفیق شنواری
توہین رسالت حدود سے متعلق ہے یا تعزیرات سے؟مولانا مفتی محمد اصغر
نیپال ۔ چند مشاہدات اور تاثراتمولانا حافظ عبد الغنی محمدی

قرب قیامت میں غلبہ اسلام کی پیشین گوئی ۔ علامہ انور شاہ کشمیری کا نقطہ نظر

محمد عمار خان ناصر

کتب حدیث میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے نزول ثانی سے متعلق بعض روایا ت میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ جب وہ تشریف لائیں گے تو صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے اور جزیہ کو موقوف کر دیں گے۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسی بن مریم علیہما السلام، رقم ۳۲۹۰) وہ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور ان کے زمانے میں اللہ تعالیٰ اسلام کے علاوہ ساری ملتوں کا خاتمہ کر دیں گے۔ (سنن ابی داود، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال، رقم ۳۸۲۶)
شارحین حدیث نے عموماً‌ اس پیشین گوئی کی تشریح یہ کی ہے کہ نزول مسیح  کے موقع پر کفر کا خاتمہ اور اسلام کا بول بالا ہو جائے گا اور  اسلام کا غلبہ پوری دنیا پر قائم ہو جائے گا۔ تاہم ماضی قریب کے نامور محدث علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس رائے سے اختلاف ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روایات میں اس موقع پر اسلام کے غالب آنے کا جو ذکر ہوا ہے، اس سے مراد پوری روے زمین نہیں، بلکہ شام اور اس کے گرد ونواح کا مخصوص علاقہ ہے جہاں سیدنا مسیح  کا نزول ہوگا اور جو اس وقت اہل اسلام اور اہل کفر کے مابین کشمکش اور جنگ وجدال کا مرکز ہوگا۔ 
شاہ صاحب کی یہ رائے قرب قیامت سے متعلق قرآن وحدیث میں وارد مختلف پیشین گوئیوں کے مجموعی فہم پر مبنی ہے اور  انھوں نے نزول مسیح کے بعد غلبہ اسلام کی پیشگوئی کو تمام متعلقہ پیشگوئیوں کے  مجموعی تناظر میں  دیکھتے ہوئے ان کی مذکورہ تعبیر پیش کی ہے۔ ان پیشگوئیوں کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر کی وضاحت ان کی تصانیف، خاص طور پر فیض الباری میں متفرق مقامات پر موجود ہے۔ ان سطور میں شاہ صاحب کی تحریروں کی روشنی میں اس کے بنیادی پہلووں کو مختصراً‌ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
۱ ۔ علامہ انور شاہؒ کے نقطہ نظر  میں ایک بنیادی نکتہ اللہ تعالیٰ کی اس تکوینی سنت کا فہم اور ادراک ہے کہ وہ دنیا میں کسی بھی قوم کو ابدی طور پر غلبہ وسیادت عطا نہیں کرتا۔  اس کی طرف سے قوموں کے عروج وزوال کے ضابطے مقرر ہیں جن کے تحت  قوموں کو ایک مخصوص مدت تک اقتدار اور طاقت دے کر آزمایا جاتا ہے اور مدت مکمل ہونے پر اللہ کے قانون کے مطابق اقتدار ان سے لے کر کسی دوسری قوم کو دے دیا جاتا ہے۔ شاہ صاحب امت مسلمہ کے غلبہ اور اقتدار کو بھی اسی تکوینی سنت کے تحت دیکھتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
“اس امت کے غلبے کا عرصہ، جیسا کہ شیخ اکبر، مجدد الف ثانی، شاہ عبد العزیز اور تفسیر مظہری کے مصنف قاضی ثناء اللہ نے کہا ہے، ایک ہزار سال تھا۔ اس کی تائید ابن ماجہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ ’’میری امت کو آدھا دن ملے گا۔ اگر اس کے بعد وہ مستقیم رہے تو دن کا باقی حصہ بھی مستقیم رہیں گے، ورنہ ہلاک ہونے والوں کی طرح ہلاک ہو جائیں گے۔’’ شارحین کا اتفاق ہے کہ یہاں دن سے مراد آخرت کا دن ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے کہ ’’بے شک تیرے رب کے ہاں ایک ان تمھارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔’’ تاریخ بھی اسی کی گواہی دیتی ہے کہ فتنہ تاتار کی صورت میں عظیم مصیبت ہم پر پانچ سو سال کے بعد نازل ہوئی جس سے دین کی عمارت متزلزل ہو کر رہ گئی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان پر ہم سے جو وعدہ کیا تھا، اسے پورا کیا اور  ایک ہزار سال کی مدت پوری ہو گئی۔ اس مدت میں اسلام مشرق ومغرب میں دنیا کے سارے ادیان پر غالب تھا اور یہی زمانہ امت محمدیہ کے غلبے کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد اللہ نے ہم پر اہل یورپ کو مسلط کر دیا  اور اب اسلام کے میناروں اور منبروں کا حال وہاں پہنچ چکا ہے جو تم دیکھ رہے ہو۔’’ (فیض الباری ج ۲، ص ۱۶۳)
۲ ۔ شاہ صاحب کے نقطہ نظر کی دوسری اہم بنیاد یاجوج وماجوج کے خروج سے متعلق پیشین گوئیوں کا ان کا مخصوص فہم ہے جس کے مطابق ان پیشین گوئیوں میں  کسی ایک متعین واقعے کا نہیں، بلکہ ایک طویل عرصے کو محیط سلسلہ واقعات کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ کہ تاریخ میں یاجوج وماجوج کے خروج کا آغاز کئی صدیاں پہلے ہو چکا ہے اور ہم اس وقت اسی دور میں جی رہے ہیں۔ 
قرآن مجید میں یاجوج وماجوج کے خروج کا ذکر دو مقامات پر کیا گیا ہے: ایک سورۃ الکہف میں ذو القرنین کے واقعے کے ضمن میں، جہاں کہا گیا ہے کہ یاجوج وماجوج کو ایک سد کے پیچھے محبوس کر دینے کے بعد ذو القرنین نے کہا کہ جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس بند کو ریزہ ریزہ کر دے گا۔ (سورۃ الکہف، آیت ۹۸) دوسرا مقام سورۃ الانبیاء کی آیت ۹۶ ہے جہاں یاجوج وماجوج کے خروج کو  قرب قیامت کی نشانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
علامہ انور شاہ کہتے ہیں کہ  ان دونوں آیتوں میں یاجوج وماجوج کے خروج کے ابتدائی اور انتہائی مراحل کا ذکر ہے۔ پہلا مرحلہ سد ذو القرنین کے ٹوٹنے کا ہے جس کے بعد یاجوج وماجوج کے، اپنے علاقے سے باہر نکلنے کا  عمل شروع ہو جائے گا۔ سورۃ الکہف میں اسی کا ذکر ہے۔ پھر جب یاجوج وماجوج کے خروج کا یہ سلسلہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا دنیا کی تباہی اور فساد کے آخری مرحلے میں داخل ہوگا تو  وہ بالکل قیامت کا قریبی زمانہ ہوگا جس کا ذکر سورۃ الانبیاء میں کیا گیا ہے۔ (فیض الباری، ج ۴، ص ۳۵۸) گویا یاجوج وماجوج کے، دنیا کی قوموں پر تاخت وتاراج  کا واقعہ  صرف ایک مرتبہ نہیں، بلکہ بار بار رونما ہونا ہے اور یہ واقعات کے ایک پورے سلسلے کا بیان ہے جس کا آغاز ہو چکا ہے اور  جو قیامت کے بالکل قریبی زمانے میں اپنی حتمی صورت میں مکمل ہوگا۔ انھی میں سے ایک خروج سیدنا مسیح کے نزول کے بعد بھی ہوگا  اور یاجوج وماجوج کے اس گروہ کو احادیث کے مطابق سیدنا مسیح کی بددعا کی وجہ سے ہلاک کر دیا جائے گا۔ (فیض الباری ج ۴، ص ۱۹۷)
شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ ترکی نسل، اہل روس اور اہل برطانیہ یاجوج ماجوج کی اولاد ہیں  اور  دنیا میں فساد اور تباہی پھیلانے کے لیے ان کے خروج کا آغاز منگولوں کے حملوں کی صورت میں ہو چکا ہے۔ شاہ صاحب  تیمور لنگ، چنگیز خان اور ہلاکو کی تباہ کاریوں کو (اور اسی طرح مغربی اقوام کی استعماری چیرہ دستیوں کو) اسی پیشین گوئی کا ایک مصداق قرار دیتے ہیں۔ (فیض الباری ج ۴، ص ۱۹۷)
جہاں تک قرآن مجید میں  مذکور اس ’’سد” کا تعلق ہے جو یاجوج وماجوج کو روکنے کے لیے ذو القرنین نے بنایا تھا تو اس کے بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں  بیان ہوا ہے کہ یاجوج وماجوج اس “سد”کے پیچھے قید ہیں اور روزانہ اس کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ناکام رہتے ہیں، یہاں تک کہ قیامت کے قریب وہ آخر کار اسے توڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور  وہی ان کے خروج کا زمانہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسیٰ بن مریم وخروج یاجوج وماجوج، رقم ۴۱۱۲) شاہ صاحب نے اس روایت کو بخاری کی صحیح روایت کے منافی قرار دیا ہے جس میں ذکر ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  اپنے زمانے میں بند کے، انگوٹھے اور انگلی کے حلقے کے برابر ٹوٹ جانے کی اطلاع دی۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب یاجوج وماجوج، رقم ۶۷۵۳) مزید یہ کہ اس روایت کو علامہ ابن کثیر نے معلل قرار دیا ہے اور یہ رجحان ظاہر کیا ہے کہ یہ دراصل اسرائیلیات میں سے ہے جسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کعب الاحبار سے نقل کیا اور راویوں نے غلطی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا۔ (فیض الباری، ج ۴، ص ۳۵۵)
۳۔ شاہ صاحب کی زیر بحث رائے کی تیسری اہم بنیاد نزول مسیح سے متعلق احادیث کا سیاق وسباق اور ماحول ہے۔ ان احادیث میں مذکور تمام تفصیلات وجزئیات  پورے کرہ ارضی کا احاطہ نہیں کرتیں، بلکہ  ایک مخصوص زمینی خطے کی نشان دہی کرتی ہیں جن میں یہ واقعات رونما ہوں گے۔ شاہ صاحب اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ ان روایات میں اسلام کے غلبے اور دیگر ادیان کے خاتمے کی جو بات ذکر کی گئی ہے، اس کا تعلق بھی  اسی مخصوص جغرافیائی  خطے سے ہے اور اسے پورے روئے زمین سے متعلق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فرماتے ہیں:
“یہ جو زبانوں پر مشہور ہے کہ عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں دین پورے روئے زمین پر پھیل جائے گا، یہ بات احادیث میں بیان نہیں ہوئی۔ احادیث میں  صرف یہ کہا گیا ہے کہ وہ شرعی مسئلے کے طور پر یہودیت اور نصرانیت کو  (یعنی ان کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر قائم رہنے کی) اجازت نہیں دیں گے۔ چنانچہ جو اسلام قبول کرے گا، وہ اپنی جان کو بچا لے گا اور جو انکار کرے گا، اسے قتل کر دیا جائے گا، اور یہ قانون ان علاقوں میں نافذ ہوگا جہاں اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام جہاد کریں گے۔ احادیث کا حاصل یہ ہے کہ آج تو تین ادیان جاری ہیں، لیکن جب عیسیٰ علیہ اللسام نازل ہوں گے تو صرف اسلام قبول کیا جائے گا اور اس وقت سارا دین اللہ ہی کا ہو جائے گا۔ چنانچہ یہ شرعی حکم کا بیان ہے نہ کہ خارج میں رونما ہونے والے کسی واقعہ کا (یعنی یہ پیشین گوئی نہیں ہے کہ عملاً‌ یہودیت اور نصرانیت کا خاتمہ ہو جائے گا)، اس لیے یہ ممکن ہے کہ (اس کے بعد بھی) کفر اور اہل کفر باقی رہیں، البتہ اگر عیسیٰ علیہ السلام ان تک پہنچ گئے تو وہ ان سے صرف دین اسلام قبول کریں گے، نہ کہ جزیہ، جیسا کہ آج کیا جاتا ہے۔ احادیث سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ یہ غلبہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے، شام اور اس کے گرد ونواح کے علاقے میں ہوگا جہاں عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے۔ یاجوج وماجوج کا فساد بھی اسی علاقے میں برپا ہوگا اور جزیرہ طبریہ بھی شام ہی کی طرف واقع ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ہمیں کسی حدیث میں یہ نہیں ملا کہ عیسیٰ علیہ السلام دجال کی طرح پوری زمین میں گھومیں گے، اس لیے ان کے لیے جس غلبے کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ صرف اسی علاقے میں ہوگا جہاں وہ نازل ہوں گے۔ باقی ساری دنیا کے حال کا ان میں کوئی ذکر نہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کا کیا احوال ہوگا۔” (فیض الباری ج ۳، ص ۴۰۰)
ایک حدیث میں بیان ہوا  ہے کہ “قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ تمہاری یہود کے ساتھ  جنگ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ پتھر جس کے پیچھے یہودی ہوگا، پکارے گا کہ اے مسلمان، یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، اس کو قتل کر دو۔” (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب قتال الیہود، رقم ۲۷۹۷)
علامہ انور شاہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ یہاں انھی یہودیوں کا ذکر  ہے جن کے ساتھ جنگ کے لیے سیدنا مسیح علیہ السلام نازل ہوں گے، نہ کہ ساری دنیا کے یہودی، اور یہ وہ یہودی ہوں گے جو دجال کے پیروکار ہوں گے۔ (فیض الباری، ج ۴، ص ۱۹۷)
زیر بحث پیشین گوئی کی تفسیر میں شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے ہاں بھی یہی رجحان دکھائی دیتا ہے، چنانچہ انھوں نے لکھا ہے: 
”امام مہدی کی پیدائش اور آمد سے پہلے دنیا میں جو ظلم وجور ہوگا، اللہ کے فضل وکرم سے اقتدار میں آنے کے بعد زیر اثر علاقہ میں وہ عدل وانصاف قائم کریں گے اور نا انصافی کو نیست ونابود کر دیں گے۔” (ارشاد الشیعہ، ص ۱۹۵) 
”دجال لعین کے قتل کے بعد جس علاقہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اقتدار ہوگا، وہاں بغیر اسلام کے اورکوئی مذہب باقی نہ رہے گا۔” (ایضاً، ص ۲۰۱)
۴۔ مذکورہ قرائن وشواہد کے علاوہ بعض دیگر  نصوص سے بھی شاہ صاحب کی زیر بحث رائے کی تائید ہوتی ہے۔ مثال کے طو رپر صحیح مسلم میں مروی ہے کہ ایک موقع پر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی مجلس میں مستورد قرشی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا کہ "قیامت سے پہلے رومی لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔" (عہد نبوی کے عرف میں روم سے مراد سفید فام مغربی اقوام ہوتی تھیں)۔ عمرو بن العاص نے سنا تو چونکے اور پوچھا کہ ”دیکھو! کیا کہہ رہے ہو؟“ مستورد قرشی نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ عمرو بن العاص نے فرمایا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر ان رومیوں میں چار خصلتیں موجود ہوں گی (جن کی وجہ سے وہ دنیا کی باقی قوموں  پر غالب ہوں گے):
پہلی یہ کہ وہ فتنے اور آزمایش کے وقت دوسروں سے زیادہ تحمل او ربردباری کا مظاہرہ کریں گے۔
دوسری یہ کہ وہ مصیبت گزر جانے کے بعد سنبھلنے میں دوسرے لوگوں سے زیادہ تیز ہوں گے۔
تیسری یہ کہ وہ شکست کے بعد دوبارہ جلدی حملہ آور ہونے والے ہوں گے۔
چوتھی یہ کہ وہ اپنے یتیموں، مسکینوں اور کمزوروں کی دیکھ بھال میں بہترین لوگ ہوں گے۔ 
اور ان میں ایک پانچویں خصلت بھی ہوگی جو اچھی اور خوب ہوگی کہ وہ لوگوں کو حکمرانوں کے مظالم سے روکنے میں سب سے بڑھ کر ہوں گے۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب تقوم الساعۃ والروم اکثر الناس، رقم ۵۲۸۹)
مذکورہ تمام قرائن وشواہد بے حد قابل غور ہیں  اور ان سے قرب قیامت کے زمانے کی صورت حال پر مذہبی تناظر میں غور وفکر کے لیے کئی اہم زاویے سامنے آتے ہیں۔ 

اہل کتاب کے لٹریچر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر

قرآن مجید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اثبات میں ایک نمایاں دلیل یہ ذکر کی ہے کہ آپ کی بعثت کا ذکر تورات وانجیل میں موجود ہے اور اہل کتاب کے علماء آپ کی تشریف آوری سے نہ صرف واقف ہیں، بلکہ اس کے منتظر بھی تھے اور وہ آپ کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔  
قرآن مجید کے ان بیانات کے تناظر میں تورات وانجیل اور  انبیاء کے صحائف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق پیشین گوئیوں کی نشان دہی اور  قرائن ودلائل کی روشنی میں آپ پر ان پیشین گوئیوں کا انطباق  ابتدا سے ہی مسلمان متکلمین کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔  اس ضمن میں علامہ دور متوسط میں ابن حزم اور امام ابن القیم  کی تحقیقات،جبکہ برصغیر میں برطانوی اقتدار کے دور میں  مولانا رحمت اللہ کیرانوی (اظہار الحق)، مولانا ابو منصور دہلوی (نوید جاوید)، مولانا شبلی نعمانی (سیرت النبی)،مولانا حمید الدین فراہی (من ہو الذبیح) اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی (میثاق النبیین) وغیرہ کی کاوشیں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔  ماضی قریب میں مولانا بشیر احمد الحسینی  اور جناب عبد الستار غوری نے بائبل کی بعض پیشیین گوئیوں پر مفصل اور تحقیقی کتابیں لکھی ہیں، جبکہ مولانا عبد الماجد دریابادی، مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا سید ابو الاعلی ٰ مودودی کی تفاسیر میں بھی متعلقہ مقامات پر  قیمتی مواد ملتا ہے۔
راقم الحروف کو بائبل اور یہودیت ومسیحیت کے مطالعہ سے نوعمری سے ہی اشتغال رہا ہے۔ اس وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق پیشین گوئیوں پر لکھے جانے والے لٹریچر سے بھی دلچسپی رہی اور اب بھی ہے۔ میرا احساس یہ ہے کہ قرآن مجید میں تورات وانجیل کی جن پیشین گوئیوں کے حوالے سے یہود ونصاریٰ پر اتمام حجت کیا گیا، اس میں اصل موثر چیز اہل کتاب کے ہاں چلی آنے والی صدری روایات اور وہ انتظار تھا جو اس زمانے میں بہت عام تھا۔جہاں تک صحائف کے متن کا تعلق ہے تو کتاب استثناء کی پیشین گوئی کے علاوہ، جس میں بہت واضح قرائن ہیں، باقی پیشین گوئیاں ایسی صراحت کے ساتھ موجود نہیں یا نہیں رہنے دی گئیں کہ کسی رد وکد کے بغیر انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر منطبق کیا جا سکے۔ اس ضمن میں متعلقہ بیانات کے تاریخی ولسانی تجزیے کے حوالے سے ہمارے مرحوم بزرگ عبد الستار غوری صاحب کی کاوشیں شاید اس ضمن کی latest research کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن ان کے مطالعہ کے بعد بھی میرا یہ تاثر قائم ہے۔ یوں موجودہ تناظر میں یہ ایک اکیڈمک یا مناظرانہ نوعیت کی بحث ہو سکتی ہے، لیکن دعوت یا اتمام حجت کے پہلو سے عموماً‌ اس کی کوئی خاص افادیت مجھے دکھائی نہیں دیتی۔
البتہ اسلامی ذخیرے میں اس موضوع سے متعلق چند مزید پہلووں کا ذکر ملتا ہے جس پر میرے خیال میں داد تحقیق دینے کا امکان اور ضرورت موجود ہے۔  ان میں سے ایک پہلو تو وہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی یہ کہ علمائے اہل کتاب سینہ بسینہ چلی آنے والی روایات کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے منتظر تھے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کے ابتدائی اور متوسط عہد کے اہل علم کے ہاں اس بات کا ایک عمومی تذکرہ ملتا ہے کہ اہل کتاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا نبی تو تسلیم کرتے ہیں، لیکن آپ کی بعثت کو اہل عرب کے لیے خاص قرار دے کو خود کو آپ پر ایمان لانے کا مکلف نہیں سمجھتے۔ ان دونوں حوالوں سے اہل کتاب، خاص طور پر یہود کے مذہبی لٹریچر میں  ایسے شواہد وبیانات کی نشان دہی  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اثبات کی ایک نہایت بنیادی تاریخی دلیل  کو مزید محکم اور مضبوط بنا سکتی ہے۔
حال ہی میں راقم الحروف کو ایک ویب سائٹ پر اس نوعیت کی بعض تحقیقات دیکھنے کا موقع ملا جن سے مذکورہ احساس کو مزید تقویت ملتی ہے۔  http://old-criticism.blogspot.com کے نام سے قائم ویب سائٹ میں ’’النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی التراث الیہودی’’ کے زیر عنوان چار اقساط میں ایک تحریر شائع کی گئی ہے جس میں یہود کے مذہبی ذخیرے سے اس مضمون کے بعض اہم شواہد کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ربی شمعون بن یوحائی کا شمار دوسری صدی عیسوی کے اکابر یہودی علماء میں سے ہوتا ہے۔ ان کی ولادت ۸٠ء میں جبکہ وفات ۱۶٠ء میں ہوئی۔ انھوں نے اپنی ایک تحریر میں دنیا کے خاتمے کے قریب رونما ہونے والے چند نمایاں واقعات کا ذکر کیا ہے اور اس ضمن میں لکھا ہے کہ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ وہ بنی اسماعیل میں ایک نبی مبعوث کرے اور اس سرزمین پر انھیں  غلبہ اور اقتدار عطا کرے۔ ربی شمعون نے اس حوالے سے یسعیاہ نبی اور زکریاہ نبی کے صحائف سے بھی استشہاد کیا ہے۔
اسی طرح گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی میں یمن کے ایک بڑے یہودی عالم نتنائیل الفیومی نے اپنے ایک رسالے میں لکھا ہے کہ اللہ تعالی ٰ جیسے تورات کے نازل کرنے سے پہلے مختلف قوموں میں انبیاء کو مبعوث کرتا رہا ہے، اسی طرح تورات کے نازل ہونے کے بعد بھی ایسے لوگوں میں نبی بھیج سکتا ہے جن کے پاس دین نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالی ٰ نے اہل عرب میں، جن کی طرف سے اس سے پہلے کوئی نبی نہیں بھیجا گیا تھا، ان کی ضرورت کے پیش نظر محمد کو بھیجا  تاکہ وہ ان کی صحیح راستے کی طرف راہ نمائی کرے۔
مطالعہ مذاہب سے دلچسپی رکھنے والے محققین اس  حوالے سے یہودی تراث تک براہ راست رسائی اور استفادہ کی صلاحیت  پیدا کر سکیں تو ہمیں امید ہے کہ اس نوعیت کے بہت سے شواہد اور  بیانات جمع کیے جا سکتے ہیں۔ 

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۶) من دون اللہ کا ایک ترجمہ

لفظ ’’دون‘‘ عربی کے ان الفاظ میں سے ہے جن کے متعدد معانی ہوتے ہیں، اور سیاق وسباق کی روشنی میں مناسب ترین معنی اختیار کیا جاتا ہے۔ دون کا ایک معنی ’’سوا‘‘ ہوتا ہے، مندرجہ ذیل آیتوں میں مِن دُونِ اللّہ کاترجمہ کرتے ہوئے دون کا یہی معنی زیادہ تر مترجمین نے اختیار کیا ہے، البتہ  کچھ مترجمین نے ’’سوا‘‘ کے بجائے ’’چھوڑ کر‘‘ ترجمہ کیا۔ اول الذکر تعبیر زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس میں وسعت زیادہ ہے، اس میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو اللہ کو معبود مانتے ہیں، اور اللہ کے سوا دوسرے معبود بھی بناتے ہیں، اور وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو اللہ کو معبود نہیں مانتے اور اللہ کو چھوڑ کر دوسرے معبود بناتے ہیں۔ جبکہ دوسری تعبیر میں صرف وہی لوگ آتے ہیں جو اللہ کو معبود نہ مان کر دوسروں کو معبود مانتے ہیں۔ اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل آیتوں کے ترجموں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔دون کے اس استعمال کی قرآن مجید میں بہت زیادہ مثالیں ہیں، کچھ آیتیں ذیل میں ذکر کی گئی ہیں۔

(۱) قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً۔ (المائدۃ:76)

’’کہو کہ تم خدا کے سوا ایسی چیز کی کیوں پرستش کرتے ہو جس کو تمہارے نفع اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’ان سے کہیئے! کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان‘‘ (نجفی)
’’آپ ان سے کہئے کہ کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے لئے نفع اور نقصان کے مالک بھی نہیں ہیں‘‘(جوادی)
’’اِن سے کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا‘‘ (سید مودودی)

(۲) قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَنفَعُنَا وَلاَ یَضُرُّنَا۔ (الأنعام: 71)

’’کہو۔ کیا ہم خدا کے سوا ایسی چیز کو پکاریں جو نہ ہمارا بھلا کرسکے نہ برا‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’ان سے پو چھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان‘‘(سید مودودی)
’’آپ کہہ دیجئے کہ ہم خدا کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں اور نہ نقصان‘‘ (جوادی)
’’کہیے! کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان‘‘(نجفی)

(۳) وَالَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ لاَ یَخْلُقُونَ شَیْْئاً وَہُمْ یُخْلَقُون۔ (النحل: 20)

’’اور جن لوگوں کو یہ خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی تو نہیں بناسکتے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں‘‘(سید مودودی)
’’اور اس کے علاوہ جنہیں یہ مشرکین پکارتے ہیں وہ خود ہی مخلوق ہیں‘‘(جوادی)
’’اور اللہ کو چھوڑ کر جن کو یہ (مشرک) لوگ پکارتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے‘‘ (نجفی)

(۴) وَیَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَہُمْ رِزْقاً مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ شَیْْئاً۔ (النحل: 73)

’’اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جو ان کو آسمانوں اور  زمین میں روزی دینے کا ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے ‘‘(فتح محمدجالندھری، من کا ترجمہ ’’سے‘‘ ہونا چاہئے، یہاں من کا ترجمہ’’ میں‘‘ کردیا گیا ہے۔)
’’اور اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پوجتے ہیں جن کے ہاتھ میں نہ آسمانوں سے انہیں کچھ بھی رزق دینا ہے نہ زمین سے‘‘(سید مودودی)
’’اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ آسمان و زمین میں کسی رزق کے مالک ہیں‘‘(جوادی)
’’اور یہ اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کی عبادت (پرستش) کرتے ہیں جو ان کو آسمان و زمین سے روزی پہنچانے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے‘‘ (نجفی)

(۵) وَأَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ۔ (مریم: 48)

’’اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ خدا کے سوا پکارا کرتے ہیں ان سے کنارہ کرتا ہوں ‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں‘‘ (سید مودودی)
’’اور آپ کو آپ کے معبودوں سمیت چھوڑ کر الگ ہوجاؤں گا ‘‘(جوادی، اس میں من دون اللہ کا ترجمہ چھوٹ گیا ہے)
’’اور میں آپ لوگوں سے اور ان سے جنہیں آپ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کنارہ کرتا ہوں‘‘ (نجفی)

(۶) وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّہِ آلِہَۃً لِّیَکُونُوا لَہُمْ عِزّا۔ (مریم: 81)

’’اور ان لوگوں نے خدا کے سوا اور معبود بنالئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے (موجب عزت و) مدد ہوں‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اِن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ خدا بنا رکھے ہیں تاکہ وہ اِن کے پشتیبان ہوں‘‘ (سید مودودی)
’’اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر بہت سے خدا بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کیلئے عزت و قوت کا باعث ہوں‘‘ (نجفی)
’’اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسرے خدا اختیار کرلئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے باعث عزّت بنیں ‘‘(جوادی)

(۷) إِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ۔ (الانبیاء: 98)

’’تم اور جن کی تم خدا کے سوا عبادت کرتے ہو دوزخ کا ایندھن ہوں گے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’بے شک تم اور تمہارے وہ معبُود جنہیں تم پوجتے ہو، جہنّم کا ایندھن ہیں‘‘ (سید مودودی، یہاں بھی من دون اللہ کا ترجمہ چھوٹ گیا ہے)
’’بیشک تم اور وہ چیزیں جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے جہنم کا ایندھن ہیں‘‘ (محمد حسین نجفی)
’’یاد رکھو کہ تم لوگ خود اور جن چیزوں کی تم پرستش کررہے ہو سب کو جہنمّ کا ایندھن بنایا جائے گا‘‘(جوادی)

(۸) إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَہ۔ (الحج: 73)

’’جن لوگوں کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں‘‘(جالندھری)
’’جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مِل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے‘‘(سید مودودی)
’’یہ لوگ جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر آواز دیتے ہو یہ سب مل بھی جائیں تو ایک مکھی نہیں پیدا کرسکتے ہیں ‘‘ (جوادی)
’’اللہ کو چھوڑ کر تم جن معبودوں کو پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ اگرچہ وہ سب کے سب اس کام کے لئے اکٹھے ہو جائیں‘‘ (محمد حسین نجفی)

(۹) وَإِذْ قَالَ اللّہُ یَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِیْ وَأُمِّیَ إِلَہَیْْنِ مِن دُونِ اللّہِ۔ (المائدۃ: 116)

’’غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ ''اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟''(سید مودودی)
’’اور جب اللہ نے کہا کہ اے عیسٰی بن مریم کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کو مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو ‘‘(جوادی)
’’وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے عیسیٰ بن مریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو‘‘ (نجفی)
آخر الذکر دونوں مترجمین نے یہاں بھی ’’چھوڑ کر‘‘ ترجمہ کیا ہے، جو عیسائیوں کی حد تک تو بالکل خلاف واقعہ ہے۔ عیسی علیہ السلام کے بعد عیسائیوں نے اللہ کو چھوڑ کر انہیں اور ان کی ماں کو معبود نہیں بنایا، بلکہ اللہ کے ساتھ ان دونوں کو عبادت میں شریک کیا۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ صاحب تفہیم ایسے ہر مقام پر چھوڑ کر ترجمہ کرتے ہیں، لیکن اس مقام پر انہوں نے اپنے عام طریق سے ہٹ کر معروف ترجمہ اختیارکیا، صحیح بات یہ ہے کہ یہی ترجمہ ایسے باقی تمام مقامات پر بھی زیادہ مناسب ہے۔

(۱۴۷) من دون اللہ کا ایک اور ترجمہ

(۱) وَلَمْ تَکُن لَّہُ فِئۃٌ یَنصُرُونَہُ مِن دُونِ اللَّہِ وَمَا کَانَ مُنتَصِراً۔ (الکہف: 43)

’’نہ ہوا اللہ کو چھوڑ کر اس کے پاس کوئی جتھا کہ اس کی مدد کرتا، اور نہ کر سکا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ‘‘(سید مودودی)
’’(اس وقت) خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوئی اور نہ وہ بدلہ لے سکا ‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اس کی حمایت میں کوئی جماعت نہ اٹھی کہ اللہ سے اس کا کوئی بچاؤ کرتی اور نہ وہ خود ہی بدلہ لینے والا بن سکا ‘‘(محمدجوناگڑھی)
’’اب اس کے پاس کوئی ایسا گروہ بھی نہیں تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتا اور نہ ہی وہ غالب اور بدلہ لینے کے قابل تھا‘‘ (نجفی)

(۲) فَمَا کَانَ لَہُ مِن فِئَۃٍ یَنصُرُونَہُ مِن دُونِ اللَّہِ۔ (القصص: 81)

’’پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کو آتا‘‘ (سید مودودی)
’’تو خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی ‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اور نہ کوئی گروہ خدا کے علاوہ بچانے والا پیدا ہوا ‘‘(جوادی)
’’اور اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئی ‘‘ (محمدجوناگڑھی)
’’سو نہ اس کے حامیوں کی کوئی جماعت تھی جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتی ‘‘(نجفی)

(۳) مِمَّا خَطِیْئَاتِہِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَاراً فَلَمْ یَجِدُوا لَہُم مِّن دُونِ اللَّہِ أَنصَاراً۔ (نوح: 25)

’’(آخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب پہلے غرقاب کردیئے گئے پھر آگ میں ڈال دیئے گئے۔ تو انہوں نے خدا کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہ پایا‘‘(فتح محمدجالندھری، لفظ ’’پہلے ‘‘ زائد ہے ، آیت میں اس کے لئے کوئی لفظ نہیں ہے۔)
’’اپنی خطاؤں کی بنا پر ہی وہ غرق کیے گئے اور آگ میں جھونک دیے گئے، پھر انہوں نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا‘‘ (سید مودودی)
’’اپنی کیسی خطاؤں پر ڈبوئے گئے پھر آگ میں داخل کیے گئے تو انہوں نے اللہ کے مقابل اپنا کوئی مددگار نہ پایا‘‘ (احمد رضا خان، لفظ ’’کیسے ‘‘ یہاں بے محل ہے)
’’یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے ڈبو دیئے گئے اور جہنم میں پہنچا دیئے گئے اور اللہ کے سوا اپنا کوئی مددگار انہوں نے نہ پایا‘‘ (محمدجوناگڑھی)
’’یہ سب اپنی غلطیوں کی بنا پر غرق کئے گئے ہیں اور پھر جہنمّ میں داخل کردیئے گئے ہیں اور خدا کے علاوہ انہیں کوئی مددگار نہیں ملا ہے‘‘ (جوادی)

(۴) أَمَّنْ ہَذَا الَّذِیْ ہُوَ جُندٌ لَّکُمْ یَنصُرُکُم مِّن دُونِ الرَّحْمَن۔ (الملک: 20)

’’بتاؤ، آخر وہ کونسا لشکر تمہارے پاس ہے جو رحمان کے مقابلے میں تمہاری مدد کر سکتا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’بھلا ایسا کون ہے جو تمہاری فوج ہو کر خدا کے سوا تمہاری مدد کرسکے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’سوائے اللہ کے تمہارا وہ کون سا لشکر ہے جو تمہاری مدد کرسکے‘‘ (محمدجوناگڑھی)
درج بالا آیتوں کے ترجموں پر نظر ڈالیں تو چار طرح کے ترجمے سامنے آتے ہیں، ’’چھوڑ کر‘‘،’’علاوہ‘‘ ، ’’سوا‘‘ اور ’’مقابلے میں‘‘۔
بعض مترجمین جس طرح دوسرے مقامات پر سوا ترجمہ کرتے ہیں، یہاں بھی وہی ترجمہ کرتے ہیں، حالانکہ یہاں اس کا محل نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی اورنے مدد کی یا اللہ کے سوا کسی اور نے مدد نہیں کی، یہاں اللہ کے عذاب کا ذکر ہے، اللہ کی طرف سے مدد ہونے کی یا اللہ کے مددگار بننے کی بات نہیں ہے، ان آیتوں کا مدعا یہ ہے کہ اللہ کا عذاب آجانے پر اس عذاب سے بچانے والا اور اس عذاب کا مقابلہ کرنے والا کوئی مددگار نہیں ہوا۔
بعض مترجمین نے دوسرے مقامات کی طرح یہاں بھی ’’چھوڑ کر‘‘ ترجمہ کیا ہے، یہ ترجمہ بھی سیاق کے لحاظ سے موزوں نہیں ہے۔ اسی طرح ’’علاوہ‘‘ بھی برمحل نہیں ہے۔
مذکورہ تمام آیتوں میں دون کا ترجمہ کرنے کے لئے درست لفظ ’’مقابلے میں‘‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ ہیں۔ کیونکہ ان آیتوں کا واضح مفہوم یہی ہے کہ اللہ کے عذاب کے مقابلے میں نہ وہ خود ڈٹ سکے، اور نہ کوئی ان کا مددگار ہوسکا۔
دیکھنے کی چیز یہ بھی ہے کہ بعض مترجمین ان یکساں اسلوب والی آیتوں کا الگ الگ ترجمہ کرتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان آیتوں کا ترجمہ کرتے وقت کسی ایک تعبیر کی طرف ان کا ذہن یکسو نہیں ہوسکا تھا، اور ان مختلف تعبیروں کے درمیان پایا جانے والا فرق ان کے سامنے کبھی رہا اور کبھی نہیں رہ سکا۔ 
(جاری)

افغان طالبان کا موقف اور خادم الحرمین کی خواہش

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۶ جولائی کے ایک قومی اخبار نے مکہ مکرمہ میں او آئی سی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی مسلم علماء کانفرنس اور دانشوروں کی حالیہ کانفرنس کے حوالہ سے خادم الحرمین شریفین شاہ سلیمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ تعالیٰ کا ایک بیان شائع کیا ہے جس میں انہوں نے افغانستان میں جلد از جلد امن کے قیام کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے افغان حکومت اور طالبان سے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالیں اور فرمایا ہے کہ افغانستان میں جلد از جلد امن کا قیام سعودی عرب کی ترجیحات میں شامل ہے۔ سعودی عرب کے محترم فرمانروا کے ارشادات کی روشنی میں ہم ان کی خدمت میں کچھ مؤدبانہ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
عزت مآب شاہ سلیمان بن عبد العزیز عالم اسلام کی محترم ترین شخصیت ہیں اور ان کے نام کے ساتھ خادم الحرمین شریفین کا عنوان دیکھتے ہی ہر مسلمان کا سرِ نیاز خودبخود جھک جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ افغانستان میں امن کی خواہش ان سے زیادہ کسے ہو سکتی ہے یا کسے ہونی چاہیے؟ مگر ہم بڑے ادب و احترام کے ساتھ ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ازراہ کرم اس سلسلہ میں ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ کے موقف پر بھی ایک نظر ڈالنے کی زحمت فرمائی جائے تو مسئلہ کا حل جلد از جلد نکالنے میں سہولت حاصل ہو سکتی ہے۔ 
افغان طالبان کا موقف یہ ہے کہ ان کی جنگ افغانستان کے کسی طبقہ سے نہیں بلکہ وہ امریکی اتحاد کی افغانستان میں داخل ہونے والی فوجوں کے خلاف اپنے وطن کی آزادی، خودمختاری اور اسلامی تشخص کے لیے اسی طرح لڑ رہے ہیں جس طرح انہوں نے سوویت یونین کے عسکری تسلط کے خلاف جنگ ’’جہاد افغانستان‘‘ کے عنوان سے لڑی تھی اور دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب نے بھی انہیں سپورٹ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ کابل کی موجودہ حکومت کا اپنا کوئی مستقل وجود نہیں ہے بلکہ وہ بیرونی عسکری قوت کے سہارے قائم ہے اور تمام تر عسکری و مالی امداد کے باوجود اسے افغانستان کے تیس فیصد رقبہ سے زیادہ پر کنٹرول حاصل نہیں ہے۔ اس لیے وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن کابل کی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ وہ اصل فریق یعنی امریکہ کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور ان مذاکرات کی پہلی شرط افغانستان سے امریکی اتحاد کی فوجوں کا انخلا ہوگا۔
جبکہ دوسری طرف امریکی حکومت کا موقف اس حوالہ سے کیا ہے؟ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل چند باتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ اسی سال مارچ کے دوران افغانستان میں امریکی فوجوں کے سربراہ جنرل نیکلسن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم طالبان پر مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں اور اس کے لیے مختلف ممالک میں علماء کرام کی کانفرنسیں منعقد کرنے کا اہتمام کر رہے ہیں تاکہ طالبان پر مذہبی حوالہ سے بھی دباؤ ڈالا جا سکے۔ اس کے بعد جون کے دوران امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے بھی امریکی سینٹ کی خارجہ امور سے متعلقہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے یہی بات کہی تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ طالبان میں ’’درست قیادت‘‘ کی شناخت کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جسے مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔ جبکہ ابھی ماہ رواں کی ۹ تاریخ کو امریکی وزیرخارجہ نے کابل کے ہنگامی دورہ کے موقع پر یہ فرمایا ہے کہ امریکہ طالبان سے مذاکرات کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے لیکن طالبان امریکی انخلا کا انتظار چھوڑ دیں۔ 
اس تناظر میں مسلم حکمرانوں کو اپنے دباؤ کا رخ صرف طالبان کی طرف رکھنے کی بجائے دوسرے فریق یعنی امریکی اتحاد سے بھی بات کرنا ہوگی کہ وہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا کے بارے میں ہٹ دھرمی چھوڑ کر اصل فریقین کے درمیان بامقصد اور باوقار مذاکرات کی صورت نکالے ورنہ خالی پانی بلوہتے رہنے سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ امریکہ بہادر کو یہ بات یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اس نے ویتنام کی جنگ میں ۱۹۶۱ء سے ۱۹۷۵ء تک پینتالیس ہزار سے زیادہ امریکی شہریوں کی جانوں کی قربانی کے بعد وہاں کے جنگجوؤں ’’ویت کانگ‘‘ سے براہ راست مذاکرات فوجوں کے انخلا کی شرط پر ہی کیے تھے۔ اور فوجیں نکالنے کے بعد ۱۹۹۷ء میں ویتنام کو جنگی نقصانات کی تلافی کے لیے ۱۴۶ ملین ڈالر کی رقم بھی فراہم کی تھی۔ افغانستان کی یہ جنگ اس سے مختلف نہیں ہے اور اس کے لیے کوئی یکطرفہ الگ معیار قائم کر کے امن قائم نہیں کیا جا سکے گا۔
امریکی قیادت کو ایک اور بات بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ غیر ملکی فوجوں کی موجودگی پر اصرار کے ماحول میں کیے جانے والے معاہدات دیرپا نہیں ہوتے جس کی واضح مثال اب سے ایک صدی قبل ترکی کے ساتھ طے پانے والا ’’معاہدہ لوزان‘‘ ہے جس میں ترکی سے (۱) خلافت کے خاتمہ (۲) شریعت کی منسوخی (۳) اور ترکی سے باہر خلافت کے زیر حکومت رہنے والے علاقوں سے دستبرداری کی شرائط غیر ملکی فوجوں کے زیر سایہ لکھوائی گئی تھیں۔ مگر ترک عوام نے اسے قبول نہ کرتے ہوئے صرف تین عشروں کے وقفہ سے اسلامی اقدار و روایات کی طرف واپسی کا سفر عدنان میندریس شہیدؒ کے دور میں شروع کر دیا تھا جو اب تک نہ صرف جاری ہے بلکہ مسلسل پیشرفت کر رہا ہے اور حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد ترکی اس حوالہ سے ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ تاریخ کے طالب علم کے طور پر ہماری شروع سے یہ رائے رہی ہے کہ یہ معاہدہ جبری تھا اور ’’گن پوائنٹ‘‘ پر کرایا گیا تھا مگر اب ترکی کے صدر حافظ رجب طیب اردگان نے بھی گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ ’’معاہدہ لوزان‘‘ ترک قوم کی رائے لیے بغیر جبرًا مسلط کیا گیا تھا۔
ہم عزت مآب شاہ سلیمان بن عبد العزیز کی خدمت میں بصد ادب و احترام یہ گزارش کریں گے کہ وہ امریکہ بہادر سے بھی بات کریں اور عالم اسلام کے دیگر حکمرانوں کو ساتھ لے کر معروضی حقائق اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے افغانستان میں قیام امن کی طرف سنجیدہ پیشرفت کریں۔ ہم جیسے خدام ان کے لیے دعاگو ہوں گے اور جہاں تک ہمارے بس میں ہوا تعاون و خدمت سے بھی گریز نہیں کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ شاہ سلیمان مسلم دنیا کے لیے بزرگ باپ کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے ڈرتے ڈرتے ہم ان کی خدمت میں اپنی اس عرضداشت کے ساتھ ایک اور بات کا اضافہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ کیا اب ’’معاہدہ لوزان‘‘ کی طرح مشرق وسطیٰ میں مغربی طاقتوں کے ساتھ ایک صدی قبل کیے جانے والے دیگر معاہدات پر بھی نظرثانی کی ضرورت نہیں ہے؟ ہمارے خیال میں یہ امت کی اہم ترین ضرورت ہے مگر یہ درخواست ہم خادم الحرمین الشریفین کے سوا اور کس سے کر سکتے ہیں؟

پاکستان شریعت کونسل پنجاب   کی مجلس عاملہ کا اجلاس

پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی صوبائی مجلس عاملہ کا اجلاس 18جولائی 2018 کو مسجد صدیقیہ سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ ااجلاس میں طے پایا کہ مولانا قاری جمیل الرحمن اختر اور مولانا مفتی محمد نعمان پسروری  مولانا عبدالمالک،  مولانا قاری عبیداللہ عمر اور  قاری محمد عثمان رمضان ان پر مشتمل وفد مختلف شہروں کا دورہ کرکے علماۓکرام امیدواروں اور ووٹروں کو توجہ دلانے کی کوشش کرے گا کہ الیکشن کے موقع پر ملک میں  نفاذِ اسلام، تحفظ ناموس رسالت،  تحفظ ختم نبوت، سودی نظام کے خاتمے  اور فحاشی کی روک تھام کے اجتماعی دینی تقاضوں کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات کو مستقبل کے لیے بہتر قیادت کے چناؤ کا ذریعہ بنایا جاسکے ۔
اجلاس میں ختم نبوت کے سلسلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا اور نگران حکومت سے کہا گیا کہ وہ اس معاملے میں عوامی جذبات کے منافی کسی اقدام سے گریز کرے اور دستور کے تقاضوں کا احترام کرے ۔
اجلاس میں مندرجہ ذیل حضرات نے شرکت کی :مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا قاری عبداللہ، مفتی محمد زرولی، مولانا فلم الفاروقی، مولانا محمود الرشید، مولانامحمدعثمان رمضان، مولانا مفتی محمد نعمان، مفتی غفران اللہ، مولانا قاری گلزار احمد آزاد، حافظ عبدالرحمن معاویہ، قاری نثار احمد۔

پروفیسر فواد سیزگینؒ

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

(گزشتہ دنوں عالم اسلام کے ممتاز محقق اور دانشور پروفیسر فواد سیزگین انتقال کر گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے مختصر حالات زندگی اور علمی خدمات کے تعارف پر مبنی یہ تحریر، جو ان کی حیات میں ماہنامہ ’’افکار ملی’’ دہلی میں شائع ہوئی تھی، مذکورہ مجلہ کے شکریے کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے۔)

بیسویں صدی مسلمانوں کے سیاسی و علمی عروج و زوال کی صدی رہی ہے۔ اس صدی کے پہلے نصف میں مسلمانانِ عالم جہاں علمی و تحقیقی اور سیاسی و معاشی زوال کی انتہا کو پہنچ رہے تھے، وہیں اس صدی کے نصف ثانی میں انہوں نے علمی و تحقیقی میدان میں عروج وارتقاء کی ایک دوسری داستان لکھی۔ چنانچہ جہاں بہت سارے مسلم ممالک نے استعمار کے چنگل سے نجات پائی، وہیں فکر و تحقیق کے میدان میں بہت سے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے علم و تحقیق، تصنیف وتالیف اور بحث و ریسرچ کی ان تابندہ روایات کو پھر سے زندہ کیاجو کبھی اسلاف کا طرۂ امتیاز ہوا کرتی تھیں۔ ان بڑی اورعظیم محقق شخصیات میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ(پیرس) کے علاوہ پروفیسرفوادسیزگین وغیرہ جیسی شخصیات بھی ہیں جن کو علوم اسلامیہ کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے پر فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اگلی سطور میں انہی ڈاکٹر فواد سیزگین (ترکی) کا مختصر تعارف کرانا مقصود ہے۔ البتہ ان کے گھریلو حالات راقم کو تلاش کے باوجود نہیں مل سکے۔ بڑی عنایت ہوگی اگر کوئی قاری اس سلسلے میں مزید معلومات فراہم کرسکے۔ فواد سیزگین (Fuat Sezgin) چوبیس اکتوبر1924ء کو ترکی کے مقام بطلس میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے علاقہ میں پانے کے بعد استنبول آگئے، جہاں انہوں نے جامعہ استنبول میں داخلہ لیا اور 1947ء میں اس کی فیکلٹی آف آرٹس سے گریجویشن کیا، یہیں سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور عربی زبان و ادبیات میں 1954ء میں اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا، جس کے نگراں جامعہ استنبول میں اسلامی علوم اور عربی ادبیات کے ماہر ایک جرمن مستشرق پروفیسرہیلمٹ رٹر (Hellmut Ritter) تھے۔ رٹر اپنے اس شاگرد پر بہت شفقت کرتے تھے۔ ان کے مشورے سے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے فواد سیزگین نے بخاری کے مصادرکا موضوع منتخب کیا۔ مصادر بخاری پر اپنے تحقیقی کام میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ امام بخاریؒ نے مکتوبہ و مدونہ مصادر و مراجع پر اعتمادکیا ہے نہ کہ صرف زبانی روایات اور مراجع پر، جیسا کے مشہور عام ہے۔ پی ایچ ڈی کے بعد فواد سیزگین اسی یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوگئے۔ ان سے قریبی زمانہ میں ایک اور مشہور جرمن مستشرق کارل بروکلمن نے عربی اور اسلامی ادبیات پر تاریخ آداب اللغۃ العربیہ کے نام سے ایک مبسوط کام کیا تھا۔ گرچہ کارل بروکلمن ترکی آتے جاتے رہتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی اور مسلمان علما سے اُن کا کبھی انٹرایکشن یا تبادلہ خیال نہیں ہوا، کیونکہ ان کی کتاب یوں تو بہت تحقیقی، مستند اور جامع سمجھی جاتی ہے مگر اس میں صرف یورپی مصادر و مراجع سے کام لیا گیا ہے اور مسلمان علما کی کتابوں کا کوئی ذکر اذکار نہیں ہے۔ اس خلا کے باعث وہ ناتمام کتاب ہے اور اس خلاء کو پُر کرنے کی یورپی اسکالروں نے کئی کوششیں کی ہیں۔ چنانچہ 1950ء میں اس کتاب کی تکمیل اور کمیوںکی تلافی کا کام کئی محققین کی ایک ٹیم نے مل کرکیا اور اس منصوبے کو UNESCO نے فنڈ فراہم کیا۔ نیز برل پبلشنگ نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری لی۔ اس طرح یہ کام پہلے سے بہتر تو ہوگیا مگر ابھی بہت کچھ اصلاح کی ضرورت باقی تھی۔ کارل بروکلمن کی اس کتاب کا مطالعہ بالاستیعاب جب فواد سیزگین نے کیا تو اس کے نقائص اُن پر اچھی طرح واضح ہوگئے اور انہوں نے تلافی مافات کے لیے کمرکس لی۔ ان کی مشہور عالم کتاب تاریخ التراث العربی (عربوںکی میراث علمی کی تاریخ) اسی طرح منصۂ شہود پر آئی۔ یہ کتابی سلسلہ ابھی جاری ہے، اس کی پندرہ جلدیں طبع ہوچکی ہیں اور دو پر وہ کام کررہے ہیں۔ پوری کتاب سترہ جلدوں میں آئے گی۔ 
فواد سیزگین مطالعہ وتحقیق کے آدمی ہیں اور اسی کے لیے وقف ہیں۔ اپنے استادوں میں انہوں نے پرفیسر رٹرکا اثر سب سے زیادہ قبول کیا ہے جنہوں نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ اگر ’’وہ واقعی اسکالر بننا چاہتے ہیں تو ان کو سترہ گھنٹے یومیہ پڑھنا چاہیے‘‘۔ انہوں نے استادکی اس بات کو گرہ سے باندھ لیا اورآج تک اس پر عمل پیرا ہیں اورآج بیاسی سال کی عمر میں بھی وہ چودہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ رٹرسے ملاقات کو وہ اپنی زندگی کا اہم موڑ مانتے ہیں اور اسے The time when I was born again (ایسا لمحہ جب میں دوبارہ پیدا ہوا) کہاکرتے ہیں۔ ایک دن انہوں نے رٹر سے معلوم کیاکہ کیا عربوں اور مسلمانوںکی تاریخ میں ریاضیات کے میدان میں کوئی بڑا نام نہیں ہے؟ رٹرکو حالانکہ یہی پڑھایا گیا تھا کہ مسلمان اورعرب ایک جاہل قوم ہیں اورانسانی تاریخ میں ان کا کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ مگر رٹر ایک منصف مزاج آدمی تھے، انہوں نے فواد سیزگین کو بتایاکہ ایک نہیں کئی بڑے نام ہیں۔ بس پھرکیا تھا، ان کے دل کو یہ بات لگ گئی اور انہوں نے اس موضوع پر مطالعہ وتحقیق شروع کردی، جس کا نتیجہ ان کی کتاب Natural Sciences in Islam ہے۔ یہ کتاب پانچ جلدوں میں ہے اور اس میں انہوں نے سائنسی علوم میں مسلمانوں اور عربوں کے کارناموں کو نہایت مستند مصادر و مراجع کی بنیاد پر بیان کیا ے۔ جرمنی میں مستقل قیام پذیر ہونے سے پہلے بھی ریسرچ و تحقیق کے لیے انہوں نے جرمنی کا سفر کیا تھا۔
فواد سیزگین ترکی کی جامعہ استنبول میں پڑھا رہے تھے کہ 27 مئی 1960ء کو ملک میں فوجی بغاوت ہوگئی اور نئی حکومت نے بغیر کسی سبب کے یونیورسٹی کے 147 پروفیسروں کو برخواست کردیا۔ اگرچہ ان کے دو چھوٹے بھائیوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا، مگر سیزگین نے اس کے باوجود یونیورسٹی میں اپنے فرائض انجام دینے جاری رکھے۔ ایک دن وہ صبح صبح یونیورسٹی جارہے تھے کہ ہاکر نے ان کو اخبار پکڑا دیا جس میں یہ خبر تھی کہ نئی حکومت نے یونیورسٹی کے 147پروفیسروںکو برخواست کردیا ہے۔ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں: ’’میں ترکی چھوڑنا نہیں چاہتا تھا مگر اس کے علاوہ میرے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا‘‘۔ وہ یہ خبر پڑھ کر سلیمانیہ لائبریری گئے اور وہاں بیٹھ کر امریکہ اور یورپ میں اپنے دوستوںکو خطوط لکھے کہ نئے حالات میں ترکی میں رہ کر ان کے لیے کام کرنا ممکن نہیں رہا، کیا وہ ان کو کوئی موقع دیں گے؟ ایک ماہ کے اندر اندر کئی جگہوں سے مثبت جواب آئے۔ انہوں نے جرمنی کی فرینکفرٹ یونیورسٹی جانا پسند کیا جہاں وہ اس سے پہلے بھی کئی بار جاچکے تھے۔ جس دن ان کو روانہ ہونا تھا اس کے بارے میں وہ بہت جذباتی ہوگئے، لکھتے ہیں: ’’ترکی سے اپنی روانگی کی شام میں ’’گلاتا برج کے قراقوے‘‘ (استنبول کا ساحلی علاقہ)کی جانب گیا۔ میں 15۔20منٹ تک ’’اوسکدار‘‘(استنبول کی ایک گنجان آباد میونسپلٹی) کو دیکھتا رہا۔ یہ رات بڑی خوبصورت تھی مگر میرے آنسو بہہ رہے تھے، میں ناراض نہیں مگر غم زدہ ضرورتھا۔‘‘
اس کے بعد وہ جرمنی چلے گئے اور1962ء سے فرینکفرٹ یونیورسٹی میں وزٹنگ لیکچرارکی حیثیت سے کام شروع کردیا۔1965ء میں انہوں نے عرب سائنس کی تاریخ پر پھر پی ایچ ڈی کی اور اسی سال اپنی وہ مشہورکتاب لکھنی شروع کی جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ یہ کتاب انہوں نے جرمن میں لکھی جس کا نام ہے: “Geschechte des arabischen shehrefttrms” اس کتاب کا موضوع اسلامی علوم کی تاریخ ہے جس کا انگریزی نام ہے :”History of Arabi-Islamic sciences and technology in the Islamic world” اردو میں اسے اسلامی عربی سائنسی وٹیکنالوجی کے علوم کی تاریخ کہیں گے۔ اس کا عربی ترجمہ ہوچکا ہے اور متداول ہے۔ اور اسی کی بنیاد پر ان کو فیصل ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس کی پہلی جلد میں عربی و اسلامی علوم ہیں جن میں مذہبی علوم بھی شامل ہیں۔ 1970ء میں اس کی دوسری جلد شائع ہوئی جس میں طبی علوم سے بحث کی گئی ہے۔1971میں تیسری جلدآئی جس میں علم کیمیا، کیمسٹری جیسے علوم ہیں، چوتھی جلد 1974ء میں آئی جس میں ریاضی ہندسہ اور ہیئت فلکیات، علم نجوم وغیرہ علوم کا ذکر ہے۔ 1978ء میں اس کی وہ جلد منظرعام پر آئی جس میں شاعری، عروض، نحو و صرف اور بلاغت اور دوسرے لغوی علوم کا تذکرہ ہے۔ یہ کتابی سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اس کتاب کی اہمیت اور استناد کا مرتبہ یہ کہ پاکستان کے ایک بڑے اسکالر اور دانشور ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کہا تھا کہ ’’یہ کتاب اس قابل ہے کہ اس کے براہِ راست مطالعہ کے لیے جرمن زبان سیکھ لی جائے۔‘‘ (ملاحظہ ہو، ماہنامہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیاد ڈاکٹر محمود احمد غازی۔ جنوری فروری 2011ء)
پروفیسر فواد سیزگین اب دنیاکے ایک بڑے تحقیقی ادارے Institute of Historical Arab-Islamic Sciences at John wolfgang Goethe University Frankfurt Germany کے بانی و صدر ہیں اور اسی یونیورسٹی میں Natural Sciences میں پروفیسر آف ایمرٹس۔ یہ ادارہ عرب مسلم تاریخی کلچر پر ریسرچ و تحقیق کرتا ہے۔ سیزگین کہتے ہیں کہ مسلم سائنس کا دورِ عروج آٹھویں صدی عیسوی سے سولہوی صدی تک رہا ہے۔ یورپی اسکالر آج سیزگین کو Conqueror of a missing treasure (مخفی خزانہ کا فاتح) کہتے ہیں، کیونکہ انہوں نے مغرب کے قرون مظلمہ (یعنی اسلامی دور) کے تصور کو غلط ثابت کردیا ہے اور بتایا ہے کہ آج کی ترقی یافتہ سائنس دراصل مسلمانوں اور عربوں کی ہی ریسرچ و تحقیق کا ثمرہ ہے۔ اور قرون وسطیٰ کے جن ادوارکو مغرب والے تاریک دورکہتے رہے ہیں وہ اسلامی سائنس کا عہد ہے اور اس کو تاریک دور قرار دینا جہالت اور تعصب ہے۔ اب وہ ایک اورکتاب پر کام کررہے ہیں جو پانچ جلدوں میں ہوگی اور مسلم تاریخ کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرے گی۔
پروفیسر سیزگین روانی سے عربی، ترکی، انگریزی اور جرمن بولتے ہیں، البتہ ان کی تحریری زبان جرمن ہے۔ آغاز میں وہ ترکی میں پڑھاتے تھے مگر جرمنی جانے کے بعد جلد ہی انہوں نے جرمن پر عبور حاصل کرلیا۔ انہوں نے اسلامی ٹیکنالوجی اور سائنس پر ایک میوزیم بھی بنایا ہے جس میں مسلم سائنس کے نادر نمونے، نقشے، خریطے، جدولیں اور سائنسی آلات و اصطرلاب وغیرہ جمع کیے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جرمنی اور ترکی، نیز مغرب میں مختلف جگہوں پر مسلم سائنس کی نمائش بھی لگا چکے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک ترکی مؤرخ زکی ولیدی طوغان کے ساتھ مل کر انہوں نے ترکی میں بھی Islamic Science Research Institute قائم کیا ہے۔ انہوں نے مسلم نقشہ نویسوں پر بھی کام کیا ہے اورساتویں صدی میں عرب اسلامی علوم اور ان کے یونانی مصادر پر بھی ان کی گہری نظر ہے اور اس موضوع پر وہ جرمن و ترکش میں سینکڑوں مقالات تحریرکرچکے ہیں۔
فواد سیزگین جرمنی کے معروف مجلہ Journal for the History of Arab-Islamic Sciencesکے ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق عرب سیاح اور ملاح 1420ء میں ہی امریکہ پہنچ چکے تھے۔ مختلف نقشوں اور جغرافیائی خریطوں اورآثار قدیمہ کے نمونوں کے مطالعہ سے انہوں نے یہ بات ثابت کی ہے۔ ان کو 1978ء میں علوم اسلامیہ کی خدمت کے سلسلے میں عالم اسلام کا باوقار انعام فیصل ایوارڈ دیاگیا۔ ان کے ساتھ ایوارڈ پانے والوں میں مولانا مودودیؒ بھی تھے جنہیں اسی سال اسلامی خدمات کے لیے یہ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ فیصل ایوارڈ کے علاوہ ان کو جرمنی کا مشہور انعام The great medal for distinguished sciences of the federal republic of Germany بھی دیاگیا۔ وہ ترکی اکیڈمی برائے علوم، مجمع اللغۃ العربیہ، دمشق، قاہرہ اور بغدادکے ممبر ہیں، جن کا ممبر ہونا ایک اعزاز کی بات ہے۔ اس کے علاوہ اکیڈمی آف سائنس مراکش کے رکن ہیں۔ اس طرح پروفیسر فواد سیزگین اسلامی و عربی علوم کے میدان میں ایک منارۂ نور ہیں اور اسلاف کی علمی روایتوں کے امین، جن کے چراغ سے کتنے ہی چراغ جلیں گے اورجن کی تابانی سے کتنے ہی نقوش روشن ہوں گے۔ 

انسانی خدا ۔ مستقبل کی ایک مختصر تاریخ

سید راشد رشاد بخاری

آج کل ایک بہت دلچسپ کتاب زیرمطالعہ ہے جو زمین پر زندگی کے بارے میں سوچنے کے کچھ نئے رخ سامنے لارہی ہے۔ اسرائیلی ماہر تاریخ و سماجیات یووال نوح ہراری کی کتاب ’ہومو ڈیوس کی کتاب (انسانی خدا ۔۔ مستقبل کی ایک مختصر تاریخ) اپنی پہلی اشاعت کے بعد سے اب تک لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئی ہے اور اس کی وجہ اس کتاب میں پیش کیے گئے انسانوں کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں غیر روایتی اور غیرمعمولی تصورات ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان خیالات کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ تو بالکل سامنے کی بات تھی، اس طرف ہمارا دھیان کیوں نہیں گیا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے2011 میں وہ ایک کتاب بعنوان ’سیپینز ۔۔۔ انسانوں کی مختصر تاریخ‘ لکھ چکے ہیں جسے اس دوسری کتاب کا مقدمہ کہا جاسکتا ہے۔ مستقبل کی ممکنہ تاریخ کے موضوع پر پیشین گوئی کرتی ہوئی دوسری کتاب کا آغاز اس سوال سے ہوتا ہے کہ اصل میں انسان کا مستقبل کا ایجنڈا ہے کیا؟
مصنف کا کہنا ہے کہ صدیوں سے تین بڑے مسائل انسان کے ایجنڈے میں سرفہرست رہے ہیں اور ان تینوں مسائل کا تعلق اس کی بقا سے ہے، یعنی قحط ، وبا اور جنگ۔ دوسرے لفظوں میں بھوک، بیماری اور آپس کا جنگ و جدل۔ یہ وہ تین آفات ہیں جو ہمیشہ سے لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کا خاتمہ کرتی آئی ہیں۔ یہ وہ آفات ہیں جنہوں نے پورے پورے خطوں سے انسانی زندگی کا صفایا کیا ہے، انسانوں کی پوری نسلوں کو ملیا میٹ کیا ہے اور یہ مسائل ہمیشہ انسانیت کا سب سے بڑا چیلنج رہے ہیں۔ لیکن تیسرے ہزاریے کے آغاز تک انسان ان تینوں آفات پر قابو پانے میں کامیاب ہوچکا ہے اور اب وہ بقائے دوام کے ایجنڈے پر گامزن ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ اب لوگ بھوک سے زیادہ نہیں مرتے بلکہ زیادہ کھانے سے مر جاتے ہیں۔ زیادہ لوگ بیماریوں سے نہیں بلکہ بڑھاپے سے مرتے ہیں۔ اب لوگ جنگوں، دہشت گردوں اور مجرموں کے ہاتھوں مجموعی طور پر اتنے نہیں مرتے جتنے لوگ خود کشیاں کر کے مر جاتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں ایک عام انسان کو قحط ، وبا یا القاعدہ کے حملے میں مرنے سے زیادہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں وہ میکڈونلڈ کے ریستوران میں بسیار خوری سے نہ مر جائے۔ اگرچہ اب بھی عالمی راہنماؤں اور ماہرین معیشت و سیاست کے ایجنڈوں کا غالب حصہ اقتصادی بحرانوں اور دنیا میں جاری جنگی تنازعات سے نمٹنا ہے لیکن تاریخ کے کائناتی پیمانے پر دیکھا جائے تو اب انسان اپنی نظریں اٹھا کر نئے افق تلاش کر سکتا ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ اب جب کہ ہم نے قحط ، وبا اور جنگ پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے تو ہماری اگلی منزل کیا ہوگی؟ اکیسویں صدی میں ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال کیا ہے؟ ایک ایسی دنیا میں جہاں صحت ، خوشحالی اور امن کی منزل حاصل کی جا چکی ہے۔(یا جب ہم اس منزل کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں ، جس کی تفصیل کسی آئندہ مضمون میں پیش کی جائے گی) تو کیا چیز ہے جو ہماری توجہ اور ذہانتوں کا امتحان لے گی؟ بائیو ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں یہ سوال اور بھی اہم اور فوری جواب طلب ہے کہ ہم نے جو طاقت حاصل کر لی ہے اس کا ہم کریں گے کیا؟
سچی بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جو افراتفری ، مسابقت ، جنگی تنازعات ، غربت اور بھوک ہمیں نظر آتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ کہ ہم نے قحط ، بیماری اور جنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے ایک بہت بڑی جسارت معلوم ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ دعویٰ بے وقوفی کی حد تک سادگی اور دنیا کو درپیش ان بڑے بڑے مسائل سے آنکھیں چرانے کے مترادف محسوس ہوگا۔ مطلب کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ابھی بھی دنیا میں اربوں لوگ روزانہ دو ڈالر سے کم پر یا اس سے بھی نیچے کی غربت کی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کیا اس سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ مثلاً افریقہ میں ایڈز کی وبا نے انسانوں کی زندگیوں کو بے انتہا تکلیف اور معدومیت کے خطرے سے دوچار کر رکھا ہے؟ کیا شام اور عراق میں ہونے والی جنگیں قصے کہانی کی بات ہے؟ دہشت گردی وہ آسیب ہے جس سے ہم انفرادی طور پر اپنے گھر، دفتر، سکول، مسجد ، بازار ہر جگہ خوف زدہ ہیں اور قومی اور عالمی سطح پر جس کے سدباب کی کوئی تدبیر عالمی طاقتوں اور انسانی مشاہیر کو نہیں سوجھ رہی اور دنیا کی ہر حکومت اس کے مقابلے کے لیے حکمت عملیاں اور موزوں پالیسیاں بنانے میں مصروف ہے اور پھر بھی ناکام ہے۔ کیا یہ ایک ایسی دیومالائی کہانی ہے جو ہم اپنی دادی اماں سے سنتے سنتے سو گئے ہیں اور پریوں کے ایک ایسے دیس میں پہنچ گئے ہیں جہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور حسن و لطافت کی دیویاں ہمیں پنکھا جھل رہی ہیں؟ کیا اس بات میں کوئی منطق ہے کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی انسانوں کی تذلیل ، اور ان کی جان ، مال، عزت و آبرو کو درپیش خطروں سے آنکھیں چراتے ہوئے قحط ، بیماری اور جنگ پر قابو پالینے کا دعویٰ کریں اور اپنی ان بے مثال انسانی کامیابیوں پر جشن منائیں؟
مصنف کا خیال ہے کہ ان سوالوں کا جواب موجود ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اوائل اکیسویں صدی کی دنیا پر ایک گہری نظر ڈالنی ہوگی اور پھر ہم آنے والی دہائیوں میں انسانوں کے ممکنہ مستقبل کا جائزہ لے سکیں گے۔

کیا ہم نے قحط پر قابو پالیا ہے؟

صرف چند صدیاں قبل دنیا میں قحط ایک بہت بڑی آفت تھی۔1694میں فرانس کے شہر بیواس میں ایک فرانسیسی افسر نے اس وقت فرانس میں جاری قحط کے اثرات اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں لکھا کہ اس پورے ضلعے میں لاتعداد لوگ اتنے غریب ہیں جنہیں مسلسل بھوک نے لاغر اور ضرورتوں نے مرنے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ ان کے پاس نہ کوئی کام ہے نہ وہ کوئی خوراک خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اور شدید بھوک مٹانے کے لیے وہ بلیوں اور کوڑے کے ڈھیروں سے اٹھا کر مرے ہوئے گھوڑوں کا گندا گوشت کھا رہے ہیں۔  یا وہ پودوں کی سوکھی جڑیں ابال کرجسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔صرف ایک شہر میں نہیں پورے فرانس میں یہی صورت حال تھی۔ 1692 سے 1694 کے درمیان تقریبا اٹھائیس لاکھ فرانسیسی (پوری آبادی کا 15 فیصد) بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگئے۔ اگلے سال 1695 میں ایسٹونیا میں قحط پڑ گیا اور آبادی کا پانچواں حصہ (25 فیصد) ہلاک ہوگیا۔ اس سے اگلے سال 1696 میں فن لینڈ کی باری آگئی جہاں ایک چوتھائی سے ایک تہائی لوگ قحط سے مر گئے۔ 1695 سے 1698 کے درمیاں سکاٹ لینڈ میں بدتریٍن قحط سے کچھ اضلاع میں بیس فیصد کے قریب لوگ ہلاک ہوئے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ ایک وقت کا کھانا چھوٹ جائے تو کیا محسوس ہوتا ہے، یا رمضان میں ایک دن کے روزے کے بعد شام تک کیا حالت ہوجاتی ہے۔ یا چند دن صرف سبزی کے سوپ پر گزارا کرنا پڑے تو طبیعیت پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔ لیکن اس بات کا اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اگر کئی روز تک مسلسل کچھ کھانے کو نہ ملے اور یہ بھی پتہ نہ ہو کہ کھانے کا اگلا نوالہ کب تک دستیاب ہو سکے گا تو کیا حالت ہوتی ہے اور کس طرح جان لبوں پر آتی ہے۔ ہم سے پہلے گزرنے والی نسلوں کو اس کا اچھی طرح اندازہ تھا۔
گذشتہ سو سالوں میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے اور اتنی معاشی اور سیاسی پیش رفت ہو چکی ہے کہ دنیا میں اس طرح کی قحط کی صورت حال پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔ ابھی بھی دنیا کے بعض خطوں میں وقتاً فوقتاً بھوک اور قحط جو تباہی لاتی ہے وہ استثنائی ہے اور اس کی وجہ کسی قدرتی آفت سے زیادہ انسانی سیاست ہے۔ اب جو قحط موجود ہیں وہ قدرتی نہیں بلکہ سیاسی ہیں۔ اگر شام، سوڈان اور صومالیہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ سیاستدان ایسا چاہتے ہیں۔
فرانس میں آج بھی غربت اور بھوک ہے۔ لاکھوں لوگ غذا کی کمی کا شکار ہیں جنہیں دو وقت کا مکمل کھانا ملنے کا یقین نہیں ہوتا۔ لیکن اب اکیسویں صدی کے فرانس میں اور 1694 کے فرانس میں بہت فرق ہے۔ اب لوگ اس وجہ سے نہیں مرتے کہ انہیں ہفتوں تک کچھ کھانے کو نہ ملا ہو۔ اور بھی کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔ آج کی عالمی طاقت اور سب سے زیادہ آبادی کے ملک چین کی مثال لے لیں۔ ہزار سالوں تک قحط نے زرد بادشاہتوں سے لے کر سرخ کمیونسٹوں تک چین کی ہرحکومت کا پیچھا کیا ہے۔ کچھ دہائیاں پہلے تک چین کا نام خوراک کی کمی کے مترادف تھا۔ 1958 میں چئرمین ماؤ زے تنگ نے چین میں صنعتی ترقی کے لیے ’دی گریٹ لیپ فارورڈ‘ کے نام سے پانچ سالہ منصوبہ بنایا تھا جس نے چینیوں کو پانچ ہزار خاندانوں کی چھوٹی آبادیوں یا کمیونیٹیوں میں تقسیم کر کے صنعتی ترقی کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگا دیا۔ نتیجے میں زراعت نظر انداز ہوگئی اور چین نے اگرچہ صنعتی پیداوار میں کسی حد تک لیکن غیر معیاری اضافہ کیا تو دوسری طرف فصلیں نہ ہونے کے باعث غذا کی شدید کمی کا شکار ہوگیا۔ کچھ رپورٹس کے مطابق صرف 1960 کے ایک سال میں دو کروڑ سے زیادہ چینی بھوک، خوراک کی کمی اور اس سے متعلقہ بیماریوں سے مر گئے۔
1974میں پہلی ورلڈ فوڈ کانفرنس روم میں منعقد ہوئی تو دنیا کے سامنے خوراک کی کمی کے خوفناک منظر نامے پیش کیے گئے۔ پیشین گوئی کی گئی کہ چین کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ایک ارب لوگوں کو خوراک مہیا کر سکے۔ ایک بڑی تباہی ان کی منتظر تھی۔ لیکن درحقیقت یہی وہ وقت تھا جب چین تاریخ کے سب سے بڑے اقتصادی معجزے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ 1974 کے بعد سے کروڑوں چینیوں کو غربت کے گہرے کنویں سے نکال لیا گیا ہے۔ اگرچے ابھی بھی یہاں کروڑوں لوگ خوراک کی کمی اور غربت کا شکار ہیں لیکن معلوم تاریخ میں پہلی بار چین کو قحط سے آزاد خطہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بہت سے ملکوں میں بسیار خوری، بھوک اور قحط سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ اٹھارویں صدی میں فرانس کی آخری ملکہ نے فاقوں سے مرتے عوام کو سمجھایا تھا کہ اگر انہیں روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کھا لیا کریں۔ آج زیادہ تر غریب لوگوں نے ان کی اس نصیحت کو پلے باندھ رکھا ہے۔ آج جب بیورلے ہل پر رہنے والے دنیا کے امراء سلاد، چٹنی اور سوپ پر گزارہ کرتے ہیں، چھوٹی آبادیوں اور کچی بستیوں میں رہنے والے غریب کیک، برگر اور پزے اڑاتے پھرتے ہیں۔ 2014 میں 850 ملین لوگ دنیا میں خوراک کی کمی کا شکار تھے جبکہ ان کے مقابلے میں دو ارب سے زیادہ لوگ موٹاپے، یعنی وزن کی زیادتی کا شکار تھے۔ اندازہ ہے کہ 2030 تک دنیا کی آدھی آبادی موٹاپے کے آزار میں مبتلا ہوجائے گی۔ 2010 میں قحط اور غذا کی قلت سے لگ بھگ ایک ملین (دس لاکھ) لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ اسی سال موٹاپے سے مرنے والوں کی تعداد تین ملین (تیس لاکھ) تھی۔

وباؤں کا عذاب!

قحط کے بعد انسانوں کے دوسرے سب سے بڑا دشمن وبائی امراض تھے ،جو کسی ایک علاقے میں پھیلتے تو انسانوں کی نسلوں کی نسلیں تباہ کردیتے۔ وہ گنجان آباد شہر جہاں تاجروں اور سیاحوں کی بہتات ہو ،وہ اگر ایک طرف انسانی تہذیب و ثقافت کا مرکز بن جاتے تو دوسری طرف جان لیوا وبائی امراض کی آماج گاہ ہوتے۔ کسی وباء کا شکار ہوجانے کا خوف اکثر لوگوں کو رہتا۔ چودھویں صدی کی تیسری دہائی میں بلیک ڈیتھ کے نام سے مشہور ہونے والی وبا سے دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ قریب بیس سال کے عرصے میں یہ وبا ایشیا سے یورپ، شمالی افریقہ سے لے کر بحرالکاہل کے ساحلوں تک پہنچ چکی تھی۔ اس وباء سے 75 ملین سے لے کر دو سو ملین (بیس کروڑ) لوگ تک ہلاک ہوگئے۔ انگلستان میں دس میں سے چار لوگ اس کا شکار ہوئےاور وہاں کی آبادی ساڑھے تین ملین سے کم ہو کر سوا دو ملین رہ گئی۔ فلورنس کے ایک لاکھ شہریوں میں سے پچاس ہزار مارے گئے۔ حکام اس کا حل ڈھونڈنے میں مکمل ناکام ہوچکے تھے اور بڑے بڑے دعائیہ اجتماعات میں خدا سے اس عذاب سے نجات کی دعائیں کی جاتیں۔
جدید دور کے آنے تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ معمولی مکھی، مچھر اور پانی کے ایک قطرے سے اتنی بڑی اور خوفناک بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ اس سے پہلے تک اسے وہ زیادہ سے زیادہ بری آب و ہوا کو ذمہ دار ٹھہراتے یا اس کا الزام جنوں، بھوتوں اور دیوتاؤں کی ناراضی کو دیتے، بلکہ ایسی وباؤں سے غیر مرئی مخلوقات پر ان کا ایمان اور پختہ ہوجاتا۔ پھر بلیک ڈیتھ ہی واحد وبا نہیں جو انسانوں پر عذاب بن کر نازل ہوئی۔
مارچ1520 میں کیوبا کے ساحل سے ایک سپینی بحری جہاز میکسیکو پہنچا اور اپنے ساتھ چیچک کے وائرس کے شکار ایک فوجی کو بھی لایا جسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس کے جسم کے کروڑوں خلیوں میں سے کسی ایک میں ایک ایسا وائرس چھپا ہے جو کسی بڑے سے بڑے ہتھیار سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ میکسیکو پہنچ کر چیچک نے اس کے پورے جسم کو ڈھانپ لیا۔ اسے جس مقامی خاندان کے گھر میں علاج کے لیے لے جایا گیا ،وہ بھی اس کا شکار ہوگیا اور پھر ان سے ان کے پڑوسی تک پہنچا اور یوں وہ پوری آبادی میں پھیل گیا۔ صرف دس دن میں آس پاس کی پوری آبادی قبرستان میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اور پھر گاؤں گاؤں، قریہ قریہ پھیلتی اس بیماری نے پورے میکسیکو اور اس کے باہر تک کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لوگوں میں اس کے ساتھ عجیب و غریب افواہیں اور ضعیف الاعتقادی پھیل گئی کہ بدی کے تین خدا راتوں کو مختلف علاقوں میں پرواز کرکے جاتے ہیں اور وہاں یہ عذاب نازل کردیتے ہیں۔ مختلف فرقوں کے پیروکار ایک دوسرے کے خداؤں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے۔ جادو ٹونے، عملیات اور عبادات پر زور دیا جاتا۔ لاشیں گلیوں اور سڑکوں پر بکھری ہوتیں اور کوئی انہیں دفنانے کی ہمت نہ کرتا۔ آخر حکام نے حکم دیا کہ آس پاس کے مکانوں کو ان لاشوں پر گرا دیا جائے۔ کچھ علاقوں میں نصف سے زیادہ آبادی اس کا شکار ہوئی۔ مارچ 1520میں جب یہ جہاز میکسیکو پہنچا تھا میکسیکو کی آبادی22 ملین تھی۔ دسمبر تک یہ آبادی کم ہو کر صرف14 ملین رہ گئی۔ چیچک تو صرف ایک وبا تھی لیکن اس کے بعد پے در پے بخار، خسرہ وغیرہ کئی اور وبائیں یہاں پھوٹیں اور1580 تک یہاں کی آبادی صرف دو ملین رہ چکی تھی۔
دو صدیوں بعد برطانوی سیاح کیپٹن جیمز کک جب18 جنوری 1778 کو ہوائی کے جزیرے پر پہنچا تو وہاں کی آبادی 5 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ وہاں کے لوگ اس وقت تک یورپ اور امریکہ سے دور اپنے جزیرے پر الگ تھلگ رہتے تھے اور یورپی اور امریکی بیماریوں سے بھی ناواقف تھے۔ تاہم جب کیپٹن کک اور اس کے آدمی وہاں پہنچے تو اپنے ساتھ بخار، ٹی بی اور سوزاک جیسی بیماریاں بھی لائے۔ پھر مزید یورپی سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا اور یہاں کے لوگوں کو ٹائیفائڈ اور چیچک سے متعارف کرا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1853 تک ہوائی کے جزیرے پر زندہ بچ جانے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے کم ہو کر ستر ہزار ہوگئی۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ایک اور جان لیوا وباء ’اسپینش فلو‘ کے نام سے پھیلی تھی۔ چند ماہ میں دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی یعنی قریب نصف ارب لوگ اس کے وائرس کا شکار ہوئے (بیمار ہوئے)۔ انڈیا کی پانچ فیصد آبادی (15 ملین لوگ) ہلاک ہوگئے۔ کسی جزیرے کے پندرہ فیصد، کسی کے بیس فیصد اور کسی کا پانچواں حصہ ختم ہوگیا۔ کل ملا کر ایک سال میں پچاس ملین سے ایک سو ملین تک لوگ اس وبا سے ہلاک ہوئے۔ یاد رہے کہ مقابلتاً1914 سے 1918 تک جاری رہنے والی پہلی جنگ عظیم میں چالیس ملین لوگ مارے گئے تھے۔
ان بڑی اور عالمی سطح پر تباہی پھیلانے والی وباؤں کے علاوہ بے شمار چھوٹی بڑی وبائیں مختلف علاقوں میں پھیلتی رہتیں جن سے لاکھوں لوگ ہر سال ہلاک ہوجاتے۔ گذشتہ صدی میں آبادی میں اضافے اور سفر کی سہولیات کی وجہ سے بھی وباؤں کا ایک سے دوسری جگہ جلدی سے پہنچ جانے کا خطرہ مزید بڑھ گیا۔ تاہم گذشتہ چند دہائیوں سے وباؤں کے اثرات اورپھیلنے کی رفتارمیں ڈرامائی کمی آچکی ہے۔ سب سے بڑھ کر بچوں کی اموات کی شرح اس وقت تاریخ میں سب سے کم ہے۔ اب یہ شرح دنیا میں پانچ فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے اور ترقی یافتہ ملکوں میں یہ شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ معجزہ بیسویں صدی میں ہونے والی طبی دریافتوں، ویکسین، اینٹی بایوٹک، اور بہترین طبی سہولیات کی فراہمی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
مثال کے طور پر1979میں عالمی ادارہ صحت نے چیچک کے خلاف جنگ جیت لینے کا اعلان کیا۔ یہ وہ پہلی خطرناک وبا تھی، جس کا زمین سے خاتمہ ممکن ہوا۔1967 تک بھی پندرہ ملین لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے جن میں سے دو ملین ہلاک ہوگئے تھے۔ لیکن 2014میں چیچک کا کوئی ایک بھی مریض سامنے نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عالمی ادارے نے لوگوں کو چیچک کی ویکسین لگانا بند کردی۔ ابھی بھی ہر چند سال بعد کوئی نئی وبا پھوٹتی ہے جیسے 2002 میں سارس،2005 مین برڈ فلو،2009 مین سوائن فلو، 2014 میں ایبولا۔ لیکن جدید میڈیکل سائنس نے یہی ممکن بنایا کہ ان وباؤں کو پہلے کی طرح بے قابو ہونے سے روکا جاسکا۔ حتی کہ ایڈز جیسے موذی مرض کے علاج کے سلسلے میں بھی قابل لحاظ پیش رفت ہوچکی ہے۔

کیا جنگوں کا خاتمہ ممکن ہے؟

ایک اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا سے جنگوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ تاریخ کے تمام ادوار میں جنگ ایک لازمی اور امن ایک عارضی حقیقت تھی۔ بین الاقوامی تعلقات میں جنگل کا قانون رائج تھا، جس کے مطابق دو ملکوں کے درمیان حالت امن میں بھی جنگ کا آپشن ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ مثلا 1913میں اگرچہ فرانس اور جرمنی میں امن تھا لیکن 1914 میں سب جانتے تھے کہ ان میں کسی بھی وقت جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ سیاستدانوں، جرنیلوں، تاجروں اور عام لوگوں کی طرف سے مستقبل کی کسی بھی منصوبہ بندی کا مطلب جنگ کی منصوبہ بندی تھا۔ پتھر کے زمانے سے انجن اور بھاپ کے زمانے تک، قطب شمالی سے صحارا تک زمین پر ہر شخص ہر وقت اس خدشے کا شکار رہتا تھا کہ نہ جانے کس وقت ان کا پڑوسی ملک ان پر حملہ کردے، ان کی فوج کو شکست دے دے اور ان کے لوگوں کا قتل عام کر کے ان کی زمین پر قبضہ جما لے۔
بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں جنگل کا یہ قانون اگرچہ ختم نہیں ہوسکا لیکن کمزور ضرور پڑ گیا۔ اکثر خطوں میں جنگ کا امکان کم ہوگیا۔ قدیم زرعی معاشروں میں پندرہ فیصد لوگ جنگوں اور انسانی کشت و خون سے ہلاک ہوتے تھے، بیسویں صدی میں انسانی تشدد اور جنگ سے مرنے والوں کی تعداد پانچ فیصد رہ گئی اور اکیسویں صدی کے آغاز میں صرف ایک فیصد لوگ جنگ و جدل کا نشانہ بنے۔2012 میں پوری دنیا میں مرنے والے لوگوں کی کل تعداد ۵۶ (چھپن) ملین تھی۔ ان میں سے چھ لاکھ بیس ہزار افراد انسانی تشدد سے ہلاک ہوئے جبکہ ایک لاکھ بیس ہزار لوگ جنگوں میں مارے گئے اور پانچ لاکھ لوگ جرائم کا شکار ہوئے۔ اس کے مقابلے میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد آٹھ لاکھ تھی اور پندرہ لاکھ لوگ ذیابیطس (شوگر) کی بیماری کے ہاتھوں جان سے گئے۔ اس وقت شوگر بارودی ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہوچکی ہے۔
بہت سے لوگ اس لیے بھی جنگ کو ناقبل تصور سمجھنے لگے ہیں کہ نیوکلیر ہتھیاروں کے بعد یہ ایک اجتماعی خودکشی کے مترادف ہو سکتا ہے۔ اسی خوف نے طاقت ور قوموں کو تنازعات کے حل کے متبادل اور پرامن راستوں کی طرف مائل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت مادی اشیا سے زیادہ علم کی بنیاد پر استوار ہورہی ہے۔ اس سے قبل دولت کمانے کے ذرائع مادی اثاثوں ،مثلا سونے کی کانوں، گندم کے کھیتوں اور تیل کے کنوؤں پر مبنی ہوتے تھے۔ آج دولت کے حصول کا بنیادی ذریعہ علم بن چکا ہے۔ آپ تیل کے کنویں پر جنگ کے ذریعے قبضہ کر سکتے ہیں لیکن آپ اس طریقے سے علم حاصل نہیں کرسکتے۔ دولت اور وسائل کے حصول کے لیے علم بنیادی ذریعہ قرار پانے سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ جنگ کی منافع خیزی میں کمی آئی ہے۔ اب جنگیں انہی خطوں تک محدود ہورہی ہیں مثلاً مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا وغیرہ جہاں معیشت ابھی تک مادی وسائل کے پرانے ذریعوں پر انحصار کر رہی ہے۔ ایک مثال دیکھیے۔ موبائل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ کی مینوفیکچرنگ کے لیے کولٹن نامی سیاہی مائل دھات کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا میں کولٹن کے80 فیصد ذخائر کانگو میں ہیں۔ کانگو کے پڑوسی ملک روانڈا نے 1998 میں کولٹن دھات لوٹنے کے لیے کانگو پر حملہ کردیا۔ روانڈا نے اس لوٹی گئی کولٹن سے 240 ملین ڈالر سالانہ کمائے۔ روانڈا جیسے غریب ملک کے لیے یہ ایک بڑی رقم تھی۔ دوسری طرف چین کو اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ وہ کیلیفورنیا کی سلیکان ویلی پر جنگ کے ذریعے قبضہ کرلیتا جو دنیا میں موبائل اور لیپ ٹاپ تیکنالوجی کا گڑھ ہے۔ اگر بالفرض وہ ایسا کربھی لیتا تو وہاں لوٹنے کے لیے کوئی مائنز نہیں تھیں۔ اس کے بجائے چین نے ایپل اور مائکروسافٹ جیسی وہاں کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کر کے، ان کا سافٹ ویر خرید کر اور مینوفیکچرنگ کے ٹھیکوں سے اربوں ڈالر کما لیے۔ روانڈا نے کانگو کی کولٹن لوٹ کر جتنی رقم ایک سال میں بنائی چین نے اتنی رقم تعاون پر مبنی پرامن معیشت کے ذریعے ایک دن میں کمالی۔
مطلب یہ کہ لفظ “امن” کا ایک نیا مفہوم سامنے آیا ہے۔ پہلے زمانے میں امن کا مطلب تھا عارضی طور پر جنگ کا نہ ہونا۔ آج ہم اسے جنگ کے خدشے کو معدوم کرنے کے مترادف کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ 1913 میں جب لوگ کہتے تھے کہ فرانس اور جرمنی میں امن ہے تو ان کا مطلب ہوتا تھا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان عارضی طور پر جنگ رکی ہوئی ہے۔ کسی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ اگلے سال کیا ہونے والا ہے۔ جب آج ہم کہتے ہیں کہ فرانس اور جرمنی میں امن قائم ہے تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں آنے والے ممکنہ حالات میں ان دونوں کے درمیان جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔یہ نیا حاصل ہونے والا امن محض کسی تخیل کی پیداوار نہیں ہے۔ طاقت کی بھوکی حکومتیں اور لالچی کارپوریشنیز بھی اب امن پر بھروسہ کرتی ہیں۔ جب مہنگی کاروں کی کمپنی مرسڈیز مشرقی یورپ میں اپنی کاروں کی فروخت کی حکمت عملی بناتی ہے تو وہ اس امکان کو مسترد کردیتی ہے کہ اب کبھی جرمنی پولینڈ پر حملہ کرسکتا ہے۔ جو کمپنی فلپائن سے کم اجرت لینے والے مزدور بلاتی ہے تو اس کو یہ خدشہ نہیں ہوتا کہ اگلے سال انڈونیشیا فلپائن پر چڑھ دوڑے گا۔ اب بجٹ اجلاس میں برازیل کا وزیر دفاع میز پر مکہ مار کر یہ مطالبہ نہیں کرسکتا کہ یوراگوئے کو فتح کرنے کے لیے انہیں پانچ ارب ڈالر دیے جائیں۔ یقینا ًابھی دنیا میں ایسے ممالک ہیں جہاں کے وزیر دفاع اور فوج کے جرنیل ایسے مطالبے کرتے ہیں، اور جہاں ابھی نیا امن حاصل نہیں ہوسکا، لیکن یہ اب استثنائی مثالیں ہیں۔
(بشکریہ  www.tajziat.com)

چند جدید عائلی مسائل ۔ فقہی تراث کا تجزیاتی مطالعہ

مولانا محمد رفیق شنواری

ہم نے مدرسہ ڈسکورسز کی کلاس میں  “جرم  زنا” کی ماہیت اور تعریف نیز بنیاد فراہم کرنے والے مفروضوں کا تجزیہ کرنا تھا جس کے لیے ڈاکٹر سعدیہ یعقوب صاحبہ نے امام سرخسی کی کتاب المبسوط کے کچھ صفحات (جلد نہم ص ۵۴-۵۵) کا انتخاب کیا تھا۔ پہلے ہم نے اس بنیادی سوال کا تعین کیا جس کا امام سرخسی ان صفحات میں جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیوں کہ تراث جس مقصد کے لیے پڑھائی جا رہی ہے ، اگر وہ مقصدی سوال سامنے نہ ہو تو سمجھنے کے جتن کا کیا معنی؟ اس کے بعد اس منتخب حصے کو کئی مناسب حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ یہ حصہ محض کئی مسائل کی تصویر اور تکییف پر مشتمل تھا ، جس سے ہمیں مسئلہ زیر بحث میں حنفی اور شافعی نقطہ ہائے نظر کا اس قدر دل چسپ تقابلی انداز میں پتہ چلا کہ اس اختلاف کے اسباب معلوم کرنے کا ایک فطری تجسس محسوس ہوا۔ اس کے بعد اگلا حصہ اسی اختلاف کے اسباب سمجھنے اور جزوی دلائل پر نظر ڈالنے کا تھا۔ اس کے بعد والا حصہ اس بحث کے لیے بنیادی کردار فراہم کرنے والے فقہی اصول یا بنیادی مفروضوں کی نشاندہی سے متعلق تھا۔ اور اخیر میں بنیادی اصول یا مفروضوں ، جن پر حنفی یا شافعی نقطہ نظر کھڑا ہے ، کی دریافت اور پھر ان پر قائم جزئیات کی regulation کے بعد اس بحث کے نئے مسائل پر انطباق اور توسیع کا کام تھا ، جس کے لیے اس نشست کا آخری حصہ مقرر تھا۔ اب ہم آتے ہیں ان تمام نشستوں میں سامنے آنے والی بحث کی تلخیص کی جانب ، جو اس طریقہ کار کا ایک عملی تجربہ رہا۔
۱۔ بنیادی سوال کا تعین: خاندانی نظام اور اس میں میاں بیوی کے حقوق اور ذمہ داریوں سے متعلق تحریکِ فیمینیزم کے نتیجے میں بعض فقہی احکام سےمتعلق تبدیلی یا عملی طور پر سستی اور ذہول کے رجحانات پیدا ہورہے ہیں۔ بالخصوص مغربی دنیا میں ، قدیم فقہ اور جدید مباحث کے تقابلی اور تنقیدی مطالعے کی روشنی میں ان رجحانات کا جائزہ لینا تھا ، کہ کس حد تک قابل قبول یا ناقابل قبول ہو سکتے ہیں اور ان کی بنیاد کیا ہوگی؟ اس مقصد کیلئے اولا میاں بیوی کے تعلقات کی بنیاد ، بالخصوص جنسی تعقات کی فقہی و قانونی ماہیت ،سمجھنا تھا۔ اسی طرح ان تعلقات کی Nature کا ادراک کرنے اورپورے عائلی نظام کے مزاج کی تفہیم کے بعد نئے مسائل پر غور و فکر کا عمل آسان ہو سکتا ہے۔ میاں بیوی کے جنسی تعلقات کی ماہیت کی تحقیق زیادہ جامعیت کے ساتھ سمجھنے میں امام سرخسی کی کتاب المبسوط کے حدود کے مسائل میں آنے والی ایک بحث ، جو جنسی تعلق کے اندر مرد عورت کے کردار کا تعین کرتی ہے ، سے ملتی تھی اس لئے اس حصے کو منتخب کیا گیا۔ اس دوران مرکزی توجہ قدیم فقہ میں بیوی کو ادا ہونے والے مہر  کے بدلے میں خاوند کو اس پر حاصل ہونے والے تصورِ” ملکیت” پر اور زنا کا جرم سرزد ہونے کے دوران عورت کی جانب سے مرد کو ملنے والے “تمکین” کے تصور پر رہی ، کہ ان کے مفاہیم اور اطلاقات کیا ہیں؟
۲۔ متعلقہ فقہی جزئیات کی تکییف: اس دوران توجہ سرخسی کی گفتگو کے ترجمے کے بجائے اس کے ذکر کردہ فروعی مسائل کو اصولی اور تقعیدی (قاعدہ کی شکل دینا) صورت دینے پر رہی۔ ایسے بنیادی مسائل کچھ یوں تھے:
1- اگر “اہلیت” رکھنے والا مرد “اہلیت” رکھنے والی خاتون کو زنا کے ارتکاب پر مجبور کرے ۔ تومرد کو سزا ہوگی ، اور عورت کو سزا نہیں
2- اگر “اہلیت” رکھنے والا مرد “اہلیت” نہ رکھنے والی خاتون کو زنا کے ارتکاب پر مجبور کرے ۔ مرد کو سزا ہوگی ، اور عورت کو سزا نہیں
3- اگر “غیر مکلف” مرد ” مکلف” عورت کو زنا پر مجبور کرے (مثلا پاگل مرد کسی خاتون سے زبردستی زنا کرے)۔ مرد و عورت دونوں کو سزا نہیں ہوگی۔
4- اگر “مکلف” خاتون کسی “غیر مکلف” مرد سے زنا کا ارتکاب کرے (مثلا بچے یا پاگل مرد سے) ۔ مرد کو سزا نہیں ہوگی اورعورت کو بھی مرد کے فعلِ زنا کے “نامکمل” ہونے کی وجہ سے سزا نہیں ہوگی۔
۳۔ فروعی مسائل کی تعلیل: یہاں فقہی مسائل میں بنیادی اور اصولی کردار ادا کرنے والی اصطلاحات پر توجہ رہی مثلا: اہلیت ، تملیک اور مرد کے فعل کا تام یا مکمل ہونا۔ حد کی سزا صرف مکلف پر ہی نافذ ہوگی۔ نیززنا کا جرم تب مستوجب حد ہوگا جب مرد کا فعل مکمل ہو۔ اس کے علاوہ خاتون پر تب حد جاری ہوگی جب اس کی جانب سے جرم زنا کے دورا ن تمکین بھی پائی جائےاور وہ خود مرد کو اپنا آپ اس عمل کیلئے پیش بھی کرے۔ اگر ایسا نہ ہو اور اس کے ساتھ یہ فعل زبردستی کیا جائے تو سمجھا جائے گا کہ اس خاتون کی جانب سے تمکین کا عنصر نہیں پایا گیا لہذا وہ مستوجبِ حد نہیں۔
پہلی صورت میں مرد کو سزا اس لئے ہو رہی ہے کہ اس کے اندر تکلیف یعنی شرعی احکام کی تنفیذ کیلئے “اہلیت” پائی جاتی ہے ، اور اس کی طرف سے جرمِ سزا کا صدور بھِی مکمل طور پر ہوا ہے۔ اور خاتون کو سزا اس لئے نہیں ہوگی کہ جرمِ سزا کو خاتون کے حق میں مستوجب حد قرار دینے کیلئے اس کی جانب سے “تمکین” یعنی مرد کیلئے خود کواس عمل ِ زنا کیلئے پیش کرنا ، بوجہ اکراہ نہیں پایا جاتا۔ مختصرا یہ کہ جرمِ زنا تب مستوجب حد ہوتا ہے جب دونوں مکلف بھِی ہو اور عورت کی جانب سے تمکین کا عنصر بھی پایا جائے۔ اور یہاں مرد میں اہلیت تو ہے مگر عورت کے اندر تمکین نہیں اس لئے مرد کو سزا ہوگی اورعورت کو نہیں۔
دوسری صورت میں مرد کو سزا ہوگی کیوں کہ وہ مکلف بھی ہے اور اور اس کا جرمِ زنا مکمل بھی ہے۔ مگر خاتون کو سزا نہیں ہوگی کیوں کہ اس کے اندر اہلیت نہیں پائی جاتی۔ خاتون کا غیر مکلف یا بچی ہونے کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فعلِ زنا کا محل نہیں لہذا مرد کا فعل تام/مکمل نہیں اور وہ بھی مستوجبِ سزا نہیں۔
تیسری صورت میں مرد کو اس لئے سزا نہیں ہوگی کہ وہ غیر مکلف ہے۔ اور عورت کو اس لئے سزا نہیں ہوگی کہ اس کی جانب سے تمکین کا عنصر نہیں پایا جاتا۔
آخری صورت میں مرد و عورت میں سے کسی کو سزا نہیں ہوگی۔ کیوں کہ مرد غیر مکلف ہے۔ اور عورت کو اس لئے سزا نہیں ہوگی کہ غیر مکلف ہونے کی بنیاد پر جب مرد کا فعلِ زنا نا مکمل ہوا تو اس کی اتباع میں خاتون کا فعل بھی نامکمل ہے اور نامکمل جرم پر حد جاری نہیں ہوتی۔
۴۔ متعلقہ اصولوں/مفروضات کی تفہیم و تشریح : یہاں چوتھا جزئیہ احناف اور شافعیہ کے درمیان مختلف فیہ ہےکہ شافعیہ کے یہاں خاتون کو سزا ہوگی۔ ان کے یہاں اصول یہ ہے کہ مرد و عورت دونوں کا فعل ایک دوسرے پر موقوف یا ایک کا فعل دوسرے کیلئے تابع نہیں۔ بلکہ ہر ایک کے فعل کو مستقل حیثیت سے دیکھا جائے گا ۔ یہاں عورت کا فعل اپنی تمام شرائط رکھتا ہے تو خاتون کو سزا ہوگی اگرچہ مرد پر غیر مکلف ہونے کی وجہ سے سزا کا نفاذ نہیں ہورہا۔ اس کے برعکس احناف کا اصول یہ ہے کہ زنا کے اندر عورت کو صرف “تمکین” کی بنیاد پر سزا نہیں دی جاتی،بلکہ مرد کا “اہل” ہونا بھی ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ احناف کے یہاں زنا کے اندر مرد کا فعل اصل ہے اور خاتون محض اس فعل کا محل ہے ؛ لہذا اگر اصل یعنی مرد کو سزا نہیں ہو رہی تو عورت پر بھی حد نافذ نہیں ہوگی۔ جب کہ شافعیہ کے یہاں عورت کو سزا ہونے کی ایک بنیادی شرط یعنی “تمکین” پائی جاتی ہے توسزا ہوگی ۔ تیسری بات یہ کہ شافعیہ آیت قرآنیہ کاحوالہ دیتے ہیں کہ کہ جس میں مرد اور عورت کودونوں مستقل طور ہر زنا کرنے والا/ والی کہا گیا ہے۔ لہذا دونوں کا فعل مستقل اور ایک دوسرے کیلئے تابع نہیں۔ تو اس بنیاد پر جس کافعل اپنی تما شرائط کے ساتھ متحقق ہو تو اس کو سزاہوگی ، اگرچہ دوسرے کو کسی بھی شرط کے نہ ہونے کی وجہ سے سزا نہ ہو رہی ہو۔
بعض اہل علم نے قرآن کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے حنفی پوزیشن کو شافعی موقف کے مقابلے میں مرجوح قرار دیا ہے۔ مگر ہماری دانستِ ناتواں کے مطابق حنفی موقف دیگر مقامات میں اختیار کئے گئے موقف کے ساتھ ہم آہنگ اور متکامل ہے۔ عقدِ نکاح کے بعد میاں بیوی کو ایک دوسرے کے جسم پر حاصل ہونے ؎والے افعال کا جو جواز ثابت ہو جاتا ہے اس کی توجیہ حنفی فقہ کے اعتبار سے یہ ہے کہ مرد مہر کی ادائیگی کے بعد عورت کے جسم سے جنسی فوائد(استمتاع) کا بایں طور مالک ہوجاتا ہے کہ وہ فوائد یا استمتاع تب تک اسی مرد کیلئے خاص ہوں گے جب تک عقد نکاح قائم ہوں۔ جب کہ شافعیہ کے یہاں مہر کی ادائیگی کے بعد مرد عورت کے جسم کا مالک بن جاتا ہے۔ (اور شاید اسی لئے ان کے یہاں عقدِ نکاح لفظِ بیع کے ساتھ بھی منعقد ہو جاتا ہے)۔ اب جرمِ زنا کی تکییف کے وقت اختیار کئے گئے موقف اور یہاں کے موقف کا تقابل کیا جائے تو حنفی پوزیشن میں تکامل کا عنصر پایا جاتا ہے۔ کیوں کہ وہاں ان کا موقف یہ تھا کہ مرد کا فعل “اصل” ہے۔ تو “اصل” ہونے کا تقاضا یہی ہے کہ بوقتِ نکاح جائز تعلق کیلئے “مالک” بھِی بنے۔ تو جیسا کہ ملاحظہ کیا گیا کہ ایک ہی “تعلق” کی دو جائز و ناجائز صورتوں میں اختیار کئے جانے والے دونوں موقف میں ایک گونہ یکسانیت اور تکامل کا پہلو محسوس ہوتا ہے۔ جب کہ شافعیہ کے دونوں مسائل میں اختیار کئے گئے موقف میں اگرچہ تضاد محسوس نہیں ہوتا مگر ہم آہنگی یا تکامل کا عنصر بھی نہیں پایا جاتا۔ کیوں کہ زنا کے مسئلے میں ان کا کہنا ہے کہ مرد و عورت میں ہر دو کا فعل مستقل اور ایک دوسرے کے فعل پر موقوف یا تابع نہیں۔ مگر نکاح کے وقت مرد اس کا مالک بن جاتا ہے۔ اب اگر ایک جانب -ناجائز تعلق- میں ایک چیز از خود مستقل طور پر اپنا وجود اور احکام کے بنا کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تو اسی فعل کی جائز صورت یعنی نکاح کے وقت اس کو مملوک بنانے کا کیا فلسفہ ہوسکتا ہے۔ ہم دوبارہ عرض کریں کہ یہاں اس قسم کا تکامل قطعیت کے ساتھ ایک موقف کو درست اور دوسرے کو غلط قرار دینے کیلئے اگر بنیاد نہیں تو legal reasoning کیلئے ایک وجہ ترجیح ضرور ہو سکتی ہے۔
۵۔ جدید مسائل کی نشاندہی: پہلی بحث کے دوران حنفی و شافعی ہر دو مواقف کے کئی اور اصولوں کی بات بھِی آ گئی تھی ۔ مثلا احناف کا زنا کے اندر مرد کے فعل کواصل اور عورت کے فعل کو تابع قرار دے کر حد کے نفاذ کو مزید مشکل بنا دینے کی پوزیشن کی بنیاد اسی مفروضے پر ہے کہ احناف امکان کی حد تک حدود سزاؤں کے نفاذ کو روکنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد اس مشہور کلیے پر ہے کہ “إدرءو الحدود بالشبهات”. اس پوری بحث کو کلاسیکی فقہ کی روشنی میں دیکھنے کے بعد ہمارے سامنے ایک سوال یہ آتا ہے کہ عورت پر بچے کو دودھ پلانا لازم نہیں ۔ مرد اس کیلئے باقاعدہ رقم کی ادائیگی کر کے کسی دایا کا بندوبست بھی کرسکتا ہے ، یا اگر بیوی رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کرے تب بھی درست ہے ۔ اس سے بظاہر یہی ذہن میں آتا ہے کہ عورت اپنے جسم کے کسی حصے کو بیچ سکتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح مہر کو وصول کر کے اپنے خاوند کو اپنے جسم سے اسمتاع کا مالک بنا دیا ۔ اب مغربی دنیا میں باقاعدہ Milk Banks بنے ہوئے ہیں جہاں خواتین اپنے سینوں سے دودھ نکال کر مختلف کمپنیوں کو بیچ دیتی ہیں اور وہ کمپنیاں آگے خریداروں کو بیچ دیتی ہیں۔ تو باقاعدہ ان کمپنیوں کا قیام شرعا کیسا ہے نیز رضاعت وغیرہ مسائل کے حوالے سے کیا ممکنہ اقدامات کئے جا سکتے ہیں؟ دوسرا سوال جو تحریک فیمینیزم اور مغربی دنیا سے زیادہ متعلق تھا جہاں خواتین کے حقوق کی خاطر کچھ شرعی و فقہی احکام سے رو گردانی کی جاتی ہے۔ کہ کلاسیکی فقہ میں جو مرد کے خاتون کے جسم یا اس کے جسم سے حاصل ہونے والے جنسی فوائد کا مالک بنتا ہے تو اس ملکیت کے تصور کی معنویت کیا ہے ، بالخصوص اس دنیا میں جہاں مرد اور عورت کی برابری کی بات نہایت زور و شور سے کی جاتی ہے ۔ کیا ہم ملکیت کے اس تصور کو کسی دوسرے مناسب اصطلاح سے تبدیل کر سکتے ہیں؟ یا یہ اصطلاح ناقابل تبدیلی ہے اور اصل ضرورت اس کی درست تفہیم و تشریح کی ہے۔ اس سوال پر کھل کر گفتگو کی گئی اور ہر شریکِ کورس کو مکمل اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیا گیا۔

توہین رسالت حدود سے متعلق ہے یا تعزیرات سے؟

مولانا مفتی محمد اصغر

توہین رسالت  کا جرم حدود سے متعلق  ہے یا تعزیرات سے ؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل  حدود  اور تعزیرات  کی تعریف  معلوم  ہونی چاہیے کہ حدود  سے کیا مراد ہے اور تعزیرات  سے کیا مراد ہے ؟ فقہاء  کرام جب  لفظ حد کا استعمال کرتے ہیں تو اس کا مصداق کیا ہوتاہے ؟ اسی طرح   جب تعزیر  کا لفظ  بولا جاتا ہے تواس  کا مصداق کیا  ہوتاہے،۔ ان سب سوالوں کا جواب حد اور تعزیرکی تعریف معلوم ہونے سے بخوبی سمجھ آسکتاہے ۔
ملک العلماء علامہ   کاسانی ؒحد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں  
عقوبۃ مقدرۃ واجبۃ حقا اللہ تعالي 1
ایسی مقررہ سزا جس کا نفاذ اللہ تعالی کے حق کے طور پر واجب ہے ۔
فقہ حنفی کے معروف محقق علامہ زین الدین  ابن نجیم  مصری حد کی تعریف  کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
الحد عقوبۃ مقدرۃ للہ، بيان لمعناہ شرعا فخرج التعزير لعدم التقدير 2
 حد وہ سزاہے  جو اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ ہے یہ اس کے شرعی معنی  کی وضاحت  ہے پس  اس سے  تعزیر  نکل گئی   کیوں کہ  وہ اللہ تعالی  کی طرف سے  طے شدہ نہیں ہوتی  ۔
 ان عبارتوں سےیہ بات  واضح  ہوگئی  کہ حداس سزا  کو کہتے ہیں جو شارع  کی طرف سے  حق اللہ  کے طورپر  مقررشدہ ہو اور جو سزا شارع  کی طرف سے مقررشدہ نہ ہو وہ حد نہیں فقہاء اس کو تعزیر سے تعبیر کرتے ہیں ۔  چنانچہ علامہ   سرخسی حد اور تعزیر کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
الحد:اسم لعقوبۃ مقدرۃ  تجب  حقا للہ تعالي  ولہذا  لايسمي  بہ التعزير  لانہ غير  مقدر 3
حد اس سزا  کا نام ہے جو مقرر شدہ ہو اللہ تعالی   کے حق  کے طورپر واجب  ہو اس وجہ سے اسکو تعزیر  نہیں کہا جائے گا  کیوں کہ  وہ مقر رشدہ  سزا نہیں  ہوتی ۔
  کسی بھی سزا کے حد ہونے کے لئے  ضروری  ہے کہ وہ اللہ  تعالی  کی طرف سے  مقرر شدہ  ہو اور جو سزائیں  اللہ تعالی  کی طرف سے مقررشدہ  ہیں وہ یا تو قرآن  کریم  میں بیان ہوئی ہیں یا رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ میں۔ حد کی سزا کا ثبوت  قرآن کریم  یا حدیث رسول سے ضروری ہے لیکن تعزیری سزا کے لئے  اس کا ثبوت قرآن یا حدیث سے ضروری نہیں کیوں کہ  وہ شارع  کی طرف سے  مقرر شدہ  نہیں ہوتی۔   حد کی سزا کا تعلق حق اللہ سے ہے  اس لئے  حد کی سزا قیاس و رائے  سے نہیں بلکہ منجانب اللہ   نص کے ذریعے  سے مقرر شدہ  ہوتی  ہے جس میں  کمی وبیشی  کا اختیار  کسی بھی  ریاست  کے پاس نہیں ہوتا  چنانچہ  امام سرخسی  فرماتے ہیں ۔
الحد بالقيا س  لايثبت  4
’’حد قیاس  کے ذریعے  ثابت نہیں  ہوتی بلکہ  اس کے ثبوت کے لئے نص   صریح  کا پایا جانا ضروری  ہے ،،
حد کی  سزا شبہ سے بھی ساقط ہو جاتی ہے اور اس کے اثبات  کے لئے بھی  صرف  دو طریقے  ہی مقر  ہیں اس کے علاوہ  کسی تیسرے طریقے  سے اس جرم  کوثابت  نہیں کیا جاسکتا  مجرم  یا تو عدالت  کے روبرو  آزادانہ  اقرار جرم کرے  یا اس کے خلاف  شہادت  موجودہو ۔
چنانچہ علامہ کاسانی فرماتے ہیں۔
الحدود كلہا تظہر بالبينۃ والاقرار لكن عندا ستجماع شرائطہا 5
تمام حدود  گواہوں اور اقرار سے ثابت  ہوتي ہیں  لیکن  اسی وقت جب  اس کی تمام شرائط پوری  ہوں ۔
حد اور تعزیری سزا کے  بارے میں  ضروری گفتگو کے بعد اب ہم آتے ہیں توہین رسالت کی سزا  کی طرف کہ آیا وہ حد ہے یا تعزیری سزا ہے، اس سلسلہ میں جب قرآن کریم احادیث مبارکہ اور فقہاء کرام کے اقوال  کا مطالعہ کیا جاتاہے تو ہمارے  سامنےیہ  بات واضح  ہوجاتی  ہے کہ  توہین رسالت  کی سزا ایک اعتبار سے حدہے  جب کہ مجرم  توہین رسالت  کے ارتکاب  سے قبل مسلمان  ہو اور  اگر مجرم توہین رسالت کے ارتکاب سے پہلے ہی کافرہو تو پھر اس وقت یہ سزا ایک   تعزیرہے جس کو فقہاء سیاسۃ  سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔اب آئیے  اس اجمال  کی تفصیل کی طرف۔
اسلامی ریاست  میں اگر  کوئی مسلمان  شخص دیدہ  ودانستہ  نبی اقدس  ﷺپر سب وشتم  کرتاہے  اورپھر  اپنے اس فعل  پر ڈٹ جاتاہے ،توبہ نہیں کرتا تو اس کی سزا قتل ہے کیوں کہ توہین رسالت  کے ارتکاب سے وہ مرتد ہوگیا  ہے اور مرتد  اگر توبہ  نہ کرے  تو اس  کی سزا بھی  قتل ہے  ،اس لئے  شاتم رسول  اگر توبہ  نہ کرے تو اس  کی سزا بھی قتل ہے اور یہ سزا اسلامی  ریاست اپنے ملکی قانون کے مطابق  دے سکتی  ہے اسلامی ریاست  کے کسی فردکو یہ سزا  دینے کا اختیار  نہیں ہے ۔
فقہاء کرام  نے اسی صورت کے بارے میں قرا ر  دیا ہےکہ  شاتم رسول کی سزا  بطور حد قتل   ہے اور اس پر امت  کا اجماع  بھی نقل  کیاہے  ۔
چنانچہ قاضی عیاض مالکی  لکھتے ہیں:
أجمعت الأمۃ على قتل متنقصہ من المسلمين وسابہ" 6 
نبی اقدس  ﷺکی توہین  وتنقیص  کرنے والے  مسلمان  کے قتل  پر امت  کا اجماع  ہے۔
 علامہ شامی نے محمد بن سحنون   مالکی  کی عبارت  پیش  کی ہے  جس سے اس  مسئلہ پر امت  کا اجماع  بیان کیا گیا ہے  :
"أجمع العلماء على أن شاتم النبي صلى اللہ عليہ وسلم المتنقص لہ كافر والوعيد جار عليہ بعذاب اللہ لہ وحكمہ عند الأمۃ القتل ومن شك في كفرہ وعذابہ كفر". قال الخطابي: "لا أعلم أحدا من المسلمين اختلف في وجوب قتلہاذاکان مسلما 7  
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ نبی اقدس ﷺ کی توہین وتنقیص   کرنے والا کافر  ہے اور اس پر  اللہ کے عذاب   کی وعید آئی ہے   امت کے ہاں اس کی سزا قتل ہے ،جو شخص  بھی اس کے کفر وعذاب  میں شک کرے وہ خود کافرہے  ابو سلیمان خطابی  فرماتے ہیں مسلمان  توہین رسالت  کے مرتکب  کے وجوب قتل پر  اہل اسلام  میں سے کسی کا  اختلاف  میرے علم میں نہیں ہے۔
اور اگر کوئی شخص وقتی طورپر  نادانستہ  توہین رسالت کا  مرتکب  ہوتاہے اوربعد میں توبہ کرلیتاہے تو اس کی سزا  کے بارے میں  فقہاء  کے درمیان  اختلاف  رائے  واقع ہواہے ، جمہور فقہاء کی رائے یہ ہےکہ  اس جرم کی سزا ہرحال میں یہ ہےکہ  مجرم  کو قتل  کردیا جائے  جب کہ  فقہاء  احناف   کی رائے  یہ ہےکہ  اس کی سزا  کو حکومت  وقت کی  صواب دید  پر چھوڑ دیا جائے ،اگر حکومت  وقت مناسب  سمجھے  تو اس کو  قتل کی سزا بھی  دے سکتی  ہے اور اگر مصلحت  قتل سے کم تر سزا  دینے میں  ہوتوموت سے کم تر تعزیری سزا پر اکتفاء  بھی کیا  جاسکتاہے  اصل مقصد  یہ ہےکہ  اسلامی  ریاست  میں پیغمبر  اسلام کی عزت وناموس  محفوظ  ہو اور  جو شخص  بھی آپ  کی ناموس  پر حملہ  کرنا چاہتاہے اس کو اس فعل سے باز رکھنے کے لئے جو سزا بھی  موثر ہو وہ نافذ کی جائے  تاکہ اس جرم کا خاتمہ ہو ۔
اس سلسلے میں جمہور فقہاء کی راے یہ ہے کہ توہین رسالت کے ارتکاب  سے لوگوں کو باز رکھنے  کے لئے قتل  سے کم تر سزا ناکافی  ہے اس سے  اس جرم کا خاتمہ نہیں ہوگا اس  لئے  قتل کی سزا  ضروری  ہے جب کہ فقہاء  واحناف  کا رجحان  یہ ہےکہ  عام حالات  میں اس جرم  پر قتل  کی سزا  کے بجائے  ایسی تعزیری سزا دینی چاہیے  کہ جو مجرم  کو آئندہ  اس جرم سے  باز رکھنے   میں موثر ہو  اور وہ کوئی بھی سزا  ہوسکتی ہے  حتی کہ قتل کی سزا بھی ہو سکتی  ہے ،بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت سزا  مثلاًسولی پر لٹکانابھی ہوسکتاہے۔
فقہاء کرام  کے مابین  اس امر میں تو اختلاف پایا جاتاہے  کہ توہین رسالت  کی سزا  قتل ہے  یا قتل  سے کم تر کوئی سزا  ہے ؟جس کی  تفصیل  بھی گزری  ہے لیکن اس امر میں  کوئی اختلاف  نہیں کہ یہ ایک تعزیر ی سزا  ہے جو بعض صورتوں میں قتل اور بعض صورتوں میں قتل سے کم تر سزا  کی صورت میں دی جاتی  ہے البتہ مشہور  یہ کردیا گیا ہےکہ  فقہاء  کے درمیا ن  یہ اختلاف  توہین رسالت  کی سزا کے حد ہونے یا نہ ہونے  میں ہے لیکن  اختلاف  کی یہ تعبیر  کسی طورپر بھی درست نہیں ۔
توہین رسالت  کی سزا  کے بارے میں فقہاء کے درمیان جو اختلاف  ہے عام طورپر  اس کی تعبیر  یوں کردی  جاتی ہے کہ جمہور  فقہاء  کے نزدیک  توہین رسالت  کی سزا حد یعنی  شریعت  کی طرف سے  مقر شدہ  سزاہے  اس کی تبدیلی  کا کسی  کوکوئی   اختیار نہیں اور فقہاء  احناف  کے نزدیک  یہ ایک تعزیری  اور صواب دید ی سزاہے جس کی  تبدیلی   کی گنجائش  بہرحال موجود ہے  ۔
فقہاء  کے اقوال  کا بغور مطالعہ  کیا جائے  تو یہ بات  واضح  ہوجاتی ہے کہ یہ تعبیر  بالکل  غلط  ہے بلکہ  فقہاء  کے اختلاف  کی نوعیت  کو نہ سمجھنے   کا نتیجہ  ہے  ۔
ہماری ناقص   رائے  یہ ہےکہ  توہین  رسالت  کی سزا  جمہور  صحابہ  وتابعین  فقہاء  کرام  اور تمام  محدثین  کے نزدیک   ایک تعزیری  سزاہے   یہی  وجہ  ہے توہین رسالت   کی سزا  میں صحابہ وتابعین  فقہاء  کے اقوال   مختلف  ہیں دور صحابہ  میں توہین رسالت  کی سزا  کے بارے میں اہل علم کے مابین   مشاورت  ہوتی  تھی ،  اس سزا   کے تعین   کے بارے میں   اجتہادات  کیے جاتے تھے اور پھر   اجتہادی   فیصلے   کی روشنی   میں توہین  رسالت  کے مجرموں  کو مختلف  سزائیں  جاری کی جاتی    تھیں، حالانکہ  جوسزا  شریعت  کی طرف سے  مقررشدہ  لازمی  سزا کے  طورپر  طے ہوتی  ہے اس میں  اہل علم  کا اختلاف  نہیں ہوتا اور نہ اس میں  اجتہاد کی گنجائش ہوتی ہے ۔
یہاں توہین رسالت  کی سزا کے بارےمیں فقہاء  کے درمیان  ہونے والے  اختلاف  کی صحیح   تعبیر   یہ ہے کہ جمہور  فقہاء  کے نزدیک  اس کی سزا  قتل  ہے ،قتل  سے کم سزا  دینا اس  قبیح  جرم کو روکنے میں غیر موثر ہے ،دور نبوی  اور دور صحابہ   وتابعین میں توہین رسالت کے مجرموں   کے ساتھ  روا رکھے  جانے والے  سلوک  اور شریعت کے عمومی مزاج کا تقاضا یہ ہےکہ  توہین رسالت  کے جرم کی شناعت  اور سنگینی  کو دیکھتے  ہوئے مجرم کو سزاے موت  دی جائے  ۔جب کہ  احناف  کے نزدیک   اس جرم پر   موت  کی  سزا کے ساتھ  ساتھ دیگر  متبادل   سزاؤں  کی    گنجائش   بھی  شرعی اصولوں  کے مطابق  موجود ہے   دور نبوی  میں توہین  رسالت کے مجرموں کے  ساتھ  جہاں آپ ﷺنے  قتل کے فیصلے فرمائے  وہیں  آپ نے  اس طرح  کے مجرموں  کو معاف  بھی کیا ۔ دور صحابہ  وتابعین  میں بھی  یہی صورت حال  ہمیں نظر آتی  ہے کہ توہین رسالت کے مجرموں  کوسزائے  موت سے بھی دو چار  کیا گیا اور موت سے کم  تر ہلکی  سزاؤں  پر اکتفاء  بھی کیا گیا ۔اس  سے شریعت  کا جو عمومی  مزاج ظاہر  ہوتاہے  وہ یہی  ہے کہ جرم  کی نوعیت  ،اس کے  اثرات  اور حالات  کو دیکھ  کرمجرم  کے ساتھ کاروائی  کی جائے ، اگر حالات کا تقاضا  مجرم کو سزائے موت دینے   کا ہوتو  سزائے  موت دی  جائے  اور اگر حالات  کا تقاضا   سزائے موت  سے کم تر  ہلکی سزا  دینے کا  ہو تو پھر  ہلکی سزا  پر اکتفاء کیا جائے، جن فقہاء  نے توہین رسالت کی سزا کو حد  تسلیم  کیاہے اس  کا مطلب  یہ نہیں کہ  یہ سزا  شریعت  کی طرف سے   مقرر شدہ  ہے اللہ اور  اس کے رسول  نے یہی سزا   متعین  کردی ہے اور اب اس میں  تغیر وتبدل  کی کوئی گنجائش  نہیں بلکہ  اس کا مطلب صرف اور صرف  یہ ہے کہ توہین رسالت  کے جرم کی سنگینی  اور آئیندہ  اس جرم  کی روک تھام کے لئے  یہی سزا ان کے نزدیک   موثر ہے  اور ان کے فہم کے مطابق شریعت کا  عمومی مزاج  بھی یہی ہے اس میں کسی فقیہ  کے فہم کا نتیجہ  دوسرے فقیہ  کے فہم  کے نتیجے  سے مختلف ہوسکتاہے  اس لئے  بعض دیگر   فقہاء   نے اس کو حد شرعی  تسلیم  کرنے سے انکار کیا ہے اور اس  کو ایک  تعزیر ی سزا  قرار دیا ہے جس میں تغیر وتبدل  کا ہرزمانے میں امکان  موجودرہاہے  یہی بات  مولانا  محمدعمار خان ناصر  نے اپنے مقالے   میں بیان  کی ہے ،چنانچہ  وہ لکھتے ہیں  :
’’ایک فقیہ  اور مجتہد  کا کسی  سزا کو اس لئے  لازم قرار دینا  کہ وہ شریعت  کی طرف سے مقرر  کی گئی ہے،بالکل اور بات ہے  اور اس کا کسی سزا پر اس لئے  اصرار کرنا کہ اس کے فہم    کے مطابق  عدل وانصاف  کے عمومی  تقاضوں  اور شرعی  وفقہی   اصولوں  کی رو سے وہی اس کی  قرار واقعی   سزا بنتی ہے  ایک بالکل  دوسری  بات ہے اور  اہل علم  ان دونوں  باتوں  کے فرق  کوبخوبی  سمجھتے  ہیں ، ائمہ  احناف  اور دوسرے  فقہاء    کے اختلاف  کا محور ی نکتہ  پہلی بات  نہیں ،  بلکہ دوسری بات ہے ، جمہور  فقہاء  کے استدلال  کا بغور جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ ان کے ہاں توہین رسالت پر سزائے موت کے باب میں روایات وآثار کا حوالہ دراصل قانونی نظائر کی حیثیت سے تائیدی طورپر دیاجاتاہے نہ کہ اس  سزا کو حد شرعی ثابت کرنےکے لئے  اصل ماخذ  کےطورپر   جمہور  فقہاء  کے موقف  کی اصل قانونی   اساس یہی نکتہ ہے جو  صاف بتاتاہے  کہ وہ اس سزاکو  استدلال  اور استنباط پر مبنی سمجھتے ہیں نہ کہ شریعت  کی طرف سے  مقر ر کردہ  کوئی حد۔’’ 8
اب آتے ہیں دلائل  کی طرف کہ آیا قرآن وحدیث ،ائمہ مجتہدین اور فقہاء کرام کے اقوال وآثار میں اس سزا کو حد  تسلیم  کیا گیا  ہے یا نہیں  ؟  اس سلسلے میں جب  ہم قرآن کریم  کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں  صاف طورپر  یہ بات ملتی ہے  کہ اللہ تعالی   نے اپنے پیغمبر حضرت محمد ﷺ  کی عزت وعظمت ،آپ کی تعظیم وتوقیر آپ کے حقوق  کی ادائیگی   ،آپ کے آداب و احترام  کی رعایت  اور آپ کو ادنی تکلیف  دینے سے اجتناب پر بہت  زیادہ  زور دیاہے  اورآپ کی شان میں توہین  وتنقیص  پر سزائے موت  کو حد شرعی  کے طورپر بیان نہیں کیا ،  جس سے اتنی  بات تو واضح  ہوئی کہ توہین  رسالت کی سزا قرآن  میں صراحتا بیان نہیں ہوئی البتہ  فقہائے  نے بعض آیات  سے استباطی طورپر  سزائے موت کو  توہین رسالت  کی حد شرعی قرار دیا ہے ۔
یہی حال  احادیث مبارکہ کا ہے نبی اقدس ﷺ کے دور میں توہین رسالت کے متعدد  واقعات پیش آئے جن میں   آپ ﷺنے مجرموں کے ساتھ    ایک جیسا سلوک نہیں فرمایا  ،کسی کو قتل  کرادیا ، کسی کومعاف کردیا  ،کسی کے  اسلام قبول کرنے  کو معافی  کی شرط قراردیا ،کعب بن اشرف  ،ابو رافع یہودی  کو آپ نے اپنے حکم سے قتل کرادیا  اور قتل کرنے والوں سے خوشی  کا  اظہار  بھی کیا ۔ عبد اللہ بن خطل  کا قتل ،  نابینا صحابی کا  گستاخ  لونڈی  کوقتل کرنا   اور عصماء بنت مروان کا قتل یہ چند  مثالیں  ہیں ،جن سے معلو م  ہوتاہے کہ  نبی اقدس ﷺنے اپنی توہین   کرنے والوں  کو قتل کرادیا  ، یا صحابہ  نے توہین رسالت  کے جرم  میں ان کو قتل  کردیا۔
اسی طرح توہین  رسالت کے کچھ واقعات  آپ  کی زندگی  میں ایسے بھی پیش آئے کہ آپ نے ان مجرموں  کوکیفر  کردار تک پہنچانے کی بجائے ان کو معاف  کردیا جن میں عبد اللہ  بن ابی سرح ،کعب بن زہیر  عکرمہ  بن ابی جہل  اور انس بن زنیم  الدئلی  اور رئیس المنافقین  عبد اللہ بن ابی شامل  ہیں ، ان مجرموں  نے آپ کی   توہین وتنقیص  کا ارتکاب  کیا عبد اللہ بن ابی کے علاوہ باقی سب  نے بعد میں  توبہ کی اور اسلام قبول کیا   آپ ﷺ نے ان کی توبہ  کو قبول کیا  اور معاف  کردیا ۔
ان روایات  وآثار سے توہین رسالت  کے مجرموں  کے ساتھ  آپ  کا ردعمل   مختلف  نظرآتاہے ،سخت سے سخت سزا   دینے کا بھی نمونہ  اور بالکل  معاف کردینے   کانمونہ بھی واضح طورپر نظر آرہا  ہے جس سے امت کے لئے ایک طرف  کے نمونے  کو توہین  رسالت کی حتمی  اور مقرر شدہ سزا  حد شرعی  کے طورپر  بیان کرنا اور دوسرے نمونے کوبالکل  نظر انداز   کرنا  کسی طورپر بھی درست  نہیں   امت  کے لئے نبی  محترم ﷺ  کے دونوں   نمونے  اپنے اپنے  زمانے  کے اعتبار سے قابل   حجت  اور قابل عمل  ہیں ۔
دور نبوی  ﷺ  کے بعد حضرا ت صحابہ   کرام  کے دور  میں بھی  نبی اقدس ﷺ کے یہ  دونوں  طرزعمل  جاری  رہے ہیں   صحابہ کرام کے دور  میں بھی  توہین  رسالت  کے متعدد  واقعات  پیش آئے  جن  میں حضرات  صحابہ کرام نے تمام مجرموں  کو ایک ہی سزا دینے کی  بجائے  جرم  کی نوعیت   معاشرے  پر پڑنے والے  اس کے اثرات ، اور مجرم کی حالت  وکیفیت  کو دیکھ کر  اس کی سزا کے لئے مختلف   فیصلے  فرمائے  اور مجرموں   کو مختلف   سزائیں  دیکر اس  جرم کا  خاتمہ  کیا ۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے  حضرت سیدنا  صدیق اکبر ؓ کے فیصلوں  کو بیان کیا جاتاہے۔ امام ابوداؤد  ؒنے اپنی  سنن  کے اندر یہ  روایت  بیان کی   ہے کہ حضرت  ابو برزہ  اسلمی  کی موجودگی    میں حضرت  ابو بکر صدیق  ؓ  کسی شخص  پر انتہائی  ناراض   ہوئے ، ابو برزہ  نے حضرت ابو بکر  سے اس  شخص کو قتل  کرنے کی اجازت  طلب کی تو آپ ؓ  نے فرمایا  : نبی اقدس  ﷺ  کےبعد کسی  کی بھی توہین پر قتل  کی سزا  جائزنہیں  اس  روایت  میں آپ  ؓ نے  نبی اقدس  کی توہین  کی سزا  موت بیان فرمائی  ہے تاہم  اس سزا  کی بنیاد  واساس  کیا ہے  ؟  اس سے سلسلہ  میں قاضی  علاوالدین  صاحب کنز العمال  نے حضرت ابوبکر  کی توضیح  کو ان الفاظ میں بیان  کیاہے :
ان حد الانبیاء لیس  یشبہ الحدود  فمن تعاطي   ذلك  من مسلم  فہو  مرتد  او معاہد  فہو محارب  غادر 9
’انبیاء  کی توہین  کی سزا  عام سزا ؤں کی طرح  نہیں ہے  اگر کوئی مسلمان  اس کا ارتکاب  کرتاہے  تو وہ مرتد  ہے اور اگر  کوئی غیر مسلم ذمی   اس کا ارتکاب  کرتاہے تووہ  محارب  اور بد عہد ہے ۔’’
اس طرح حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت   میں یمامہ  کے والی   حضرت  مہاجربن  امیہ کا فیصلہ   ملاحظہ  فرمائیے   ،ان کی خدمت میں  ایک گانا گانے والی عورت  کوپیش کیا گیا  جس نے نبی  اقدس ؓ   کی شان  میں گستاخی   کی تھی ،جرم ثابت  ہونے پر  حضرت  مہاجر  نے اجتہاد  کرتے ہوئے  یہ فیصلہ  کیا  کہ اس کا ایک   ہاتھ اور دو  دانت نکلوا  دیے ،بعد میں  امیرالمؤمنین   حضرت ابو بکر صدیق  ؓ کو اطلاع   دی گئی  تو آپ  ؓ نے فرمایا   اگر مہاجر  نے اس خاتون  کو پہلے  سزا  نہ دی ہوتی    تو میں اس شاتم  کو قتل  کی سزا دینا ۔ امام ابن جریر طبری  نے یہ واقعہ  بیان کیا ہے۔ 10
اس واقعہ  سے واضح  ہورہاہے کہ دور صحابہ  میں توہین رسالت  کی سزا  شرعی  طورپر کوئی متعین  ومقرر شدہ  سزا نہیں  تھی بلکہ  اس سلسلہ  میں صحابہ   اپنے اپنے  اجتہاد  سےاس کی سزا  متعین  کرتے تھے  ظاہر  ہے  جو سزا  حد شرعی  کے طورپر   مقرر  ہو تو  اس میں اجتہاد نہیں ہوتا ۔اجتہاد  ہمیشہ غیر منصوص  مسائل میں ہوتاہے  پھر حضرت ابوبکر   ؓنے بھی  اس خاتون  کو قتل  کی سزا نہیں دی   ۔اگرتوہین   رسالت   کی سزا قتل  شریعت  کی طرف سے  مقرر شدہ حد شرعی     کے طورپر  طے ہوتی تو حضرت ابو بکر  صدیق  ضرور اس شاتمہ کو قتل  کی سزا  دیتے  اور شرعی حد اس پر نافذ   فرماتے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس کا فیصلہ  بھی یہی  ہے کہ توہین رسالت  کی سزا  کوئی متعین  ومقر ر شدہ نہیں ،بلکہ  مجرم  اور اس  کے جرم کو دیکھ کر اس کی سزا متعین  کی جا سکتی  ہے ۔ چنانچہ  زادالمعاد  میں ان کا اثر منقول ہے :
ايما مسلم  سب اللہ  ورسولہ   او سب  احدا من  الانبياء  وفقد   كذب برسول   اللہ   وہي ردۃ  يستاب  فان رجع   والا  قتل  وايما  معاہد عائد  فسب اللہ  او سب  احدا  من الانبياء اور جہد  لہ فقد  نقض  العہد  فاقتلوہ، 11
جو مسلمان بھی اللہ  اور اس کے  رسول   کو یا کسی  بھی نبی  کوبر ا بھلا کہے ،  وہ رسول  اللہ ﷺ   کی تکذیب    کرتا  اور ارتداد  کا ارتکاب  کرتاہے ،  اس سے  توبہ کے لئے   کہا جائے  گا  ، اگر وہ  رجوع  کرے تو ٹھیک  ورنہ  اسے قتل  کردیا جائے  اور جو غیر مسلم  معاہد عناد کا اظہار کرتے ہوے اللہ  یا اس کے کسی  نبی کو برا بھلا  کہے اورا  علانیہ  ایسا کرے  وہ اپنا عہد  توڑدیتاہے  ، اس لئے  اس کو قتل کردو۔
ان روایات سےمعلوم  ہوا کہ  دور صحابہ  میں توہین رسالت  کی سزا کوئی متعین  ومقر رشدہ نہیں تھی ، مسلمان  اگر توہین رسالت  کا ارتکاب   کرتا تھا  تو صحابہ   اسے  مرتد قرار دیتے تھے  اور اس پر ارتداد  کی سزا جاری  کرتے تھے  اور اگر کوئی غیر مسلم اس جرم  کا ارتکاب  کرتا تھا   تواس کو نقض  عہد کی وجہ  سے قتل  کی سزا  جاری کرتے  تھے ۔ یہ  اس  طرح کے  دیگر  کئی واقعات ہیں ، جن  سے معلوم  ہوتاہے  کہ صحابہ  کرام توہین رسالت  کی سزا  کو حد شرعی  نہیں سمجھتے  تھے  تب ہی   تو اس جرم  پر مختلف  سزائیں  جاری کرتے تھے  ۔
صحابہ  وتابعین  کے بعد فقہاء  اربعہ کے اقوال  وآثار  کا جائز ہ لیا جائے  تو یہ بات  واضح  ہوجاتی   ہے کہ ان  کے مابین   توہین  رسالت  کی سزا  کے بارے میں  تو اختلاف   موجود   ہےکہ    جمہور  فقہاء  کے نزدیک  توہین  رسالت  کی سزا  از روئے شرع قتل  ہے  جبکہ  فقہائے  احناف   کے نزدیک   جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے   قتل سے کم تر  سزا بھی دی جا سکتی   ہے لیکن  اس سزا کی حیثیت   میں کوئی   اختلاف  نہیں ۔
فقہاء اربعہ  کی  امہات  کتب  کا جائزہ لیا جائے  تو یہ بات واضح ہوتی ہے  کہ تمام  فقہاء  کے نزدیک  اس سزا کی حیثیت  تعزیری  سزا کی ہے  ،صحابہ کی طرح فقہاء  اربعہ بھی  توہین رسالت کی  سزا کو حدشرعی  نہیں سمجھتے  تھے ۔
ہمارے اس دعوے کی دلیل  ان کا اپنی  کتابوں   میں توہین رسالت  کی سزا کوبطور حد شرعی  کے بیان نہ کرنا ہے ،کیوں کہ  عقل وقیاس  کا تقاضا   یہ ہےکہ جو سزائیں  حدود میں داخل ہیں   اور شریعت   کی طرف سے  مقررشدہ  ہیں جب کوئی فقیہ  اور عالم  ان سزاؤں   کو اپنی   کتاب  میں بیان  کرے یا شرعی  احکام  کا کوئی  مجموعہ   مرتب کرے  تو اس میں  ان سزاؤں  کا ذکر  کرنا ضروری  ہے اگر ان سزاؤں   میں  سے کسی سزا کا ذکر  نہیں کرتا  تو اس کا مطلب اس کے سوا  اور کیا ہو سکتاہے  کہ اس کے نزدیک  وہ سزا  حد شرعی  نہیں ،  اس لئے سزاؤں  کے حوالے سے شرعی  قانون کی تفصیل  وضاحت  بیان کرتے ہوئے  تعزیری  اور اجتہادی  واستنباطی  سزا تو نظر  انداز  کی جا سکتی  ہے لیکن  حد شرعی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا  ، اس منطقی  اور سادہ  سے اصول  کو پیش نظر رکھتے  ہوئے فقہاء  اربعہ  کی امہات کتب کا جائزہ لیا جائے  تو ہمارے  دعوےکی تصدیق  ہو جائے گی ۔

فقہ مالکی

 امام مالک ؒ نے اپنی کتاب  الموطاء میں توہین رسالت کی سزا کے بارے میں کوئی حدیث  ذکر نہیں کی  اسی  طرح المدونۃ الکبری میں بھی   اس سلسلہ میں کوئی حکم ذکر نہیں کیا  حالانکہ  المدونۃالکبری  میں بے شمار فقہی مسائل ذکر کیے گئے ہیں اس سے ثابت ہواکہ  امام ما لک  کے نزدیک  توہین رسالت کی سزا  حدود میں  شامل نہیں اگر ان کے نزدیک یہ سزا  حد میں داخل ہوتی تو وہ  ضرور  اس کو اپنی  کتابوں میں بیان کرتے ۔

فقہ شافعی

 امام شافعی ؒ   نے اپنی  کتاب الام  میں براہ راست  توہین رسالت کی سزا  بیان نہیں کی  تاہم  یہ ضرور  قرار دیا  ہے کہ اہل ذمہ کے ساتھ جب  کوئی معاہدہ  کیا جائے  تو یہ بات  ضرور شرط کے طورپر  طے کی جائے  کہ وہ نبی اقدس ﷺ اور شعائر اسلام کے بارےمیں کوئی  توہین آمیز  رویہ نہیں اپنائیں گے  ورنہ  ان کا عقد ذمہ توٹ جائیگا اور ان کی جان  ومال مباح قرار پائے گا۔
چنانچہ امام شافعی ؒ  لکھتے ہیں۔
 وعلي ان لايذكرو  رسول اللہ  _ الا بما  ہواہلہ  ولا يطعنوا  في دين الاسلام  ولا يعيبو  من حكمہ  شيا فان  فعلوا  فلا ذمۃ  لہم  12
اہل ذمہ  سے اس شرط پر معاہدہ  کیا جائے گا کہ وہ نبی  اقدس ﷺ کا تذکرہ اسی احترام سے لیں گے جس کے وہ اہل  ہیں اور دین اسلام  میں عیب جوئی اور طعنہ زنی نہیں کریں گے  پھر اگر انہوں  نے ایسا کیا تو ان  کے عقد  ذمہ کو توڑ دیا جاے گا۔
اور اگر  معاہدہ  کی شرائط  میں توہین رسالت نہ کرنے کی شرط طے نہ کی گئی ہو پھر  وہ اس کا ارتکاب کرلیں تو کیا ان کو قتل کی سزا جاری کی جائے گی یا نہیں ؟ اس مسئلہ میں فقہاء شافعیہ  کے مابین اختلاف پایا جاتاہے قول مشہور یہ ہےکہ  قتل کی سزا پھر بھی جاےگی  لیکن بعض فقہائے شافعیہ کے رائے  یہ ہےکہ  اس صورت میں قتل  کی سزا نہیں دی جائے گی  ۔ ابو اسحاق شیرازی    کا موقف     بھی یہی  ہے جو فقہ شافعی  کے نامور عالم ہیں 
اسی طرح  مشہور شافعی  امام عبد الوھاب شعرانی کا موقف کہ توہین  رسالت کی سزا  حد شرعی  نہیں بلکہ  ایک تعزیری سزاہے۔
قال العلماء  وفيہ دليل  علي ان من  توجہ عليہ تعزير  لحق اللہ  تعالي  جاز للامام تركہ 13
علماء نے فرمایا ہے کہ توہین رسالت کے یہ تمام  واقعات  اس بات پر دلیل ہیں کہ شاتم  رسول  کی سزا  تعزیری  سزاہے  جسے حالات کے پیش نظر  معاف  بھی کیا جاسکتاہے ۔

فقہ حنبلی

امام احمد بن حنبل  کے بیانات سے بھی یہی ثابت ہوتاہےکہ وہ توہین رسالت  کی سزا  کو حد شرعی نہیں سمجھتے بلکہ  اسے ایک اجتہادی  واستنباطی  سزا قرار دیتے ہیں ،چنانچہ  ان کے شاگرد حنبل کا بیان ہے۔
 سمعت  ابا عبد اللہ  یقول  كل من  نقض العہد واحدث  في الاسلام حدثا  مثل ہذا  رأيت  عليہ القتل  ليس علي ہذا  اعطوا العہد  والذمۃ  14
میں نے امام احمد بن حنبل  کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو ذمی  بھی معاہدہ  توڑ دے  اور اسلام  کے بارے میں اس طرح  کے کسی جرم کا مرتکب  ہو ، میری رائے  میں اس کی  سزا قتل ہے کیوں کہ  ان کے ساتھ معاہدہ  اس بات پر نہیں کیا گیا  تھا۔
امام احمد کے اس اثر سے  واضح طورپر سمجھ آرہا ہے  کہ وہ توہین رسالت کی سزا  کو حد شرعی  نہیں سمجھتے   بلکہ   ذمی کے لئے قتل کی سزا  کے اس لئے قائل ہیں کہ توہین رسالت کی  وجہ سے  ان سے جو معاہدہ طے تھا  اس کی خلاف ورزی کی گئی  ہے۔

فقہ حنفی

 امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا تو موقف ہی یہ ہےکہ توہین رسالت کی سزا حد شرعی  نہیں بلکہ سراسر  تعزیری  سزاہے  جس کی کوئی  حد مقرر  نہیں اس سلسلہ  میں فقہ حنفی  کے دو معتبر  حوالے پیش کیے جاتے ہیں۔
امام طحاوی  لکھتے ہیں:
ومن كان  ذلك منہ من الكفار  ذوي  العہود  لم يكن  بذلك  خارجا من عہدہ وامر ان لا يعاودہ  فان  عاودہ ادب عليہ  ولم يقتل  15
اگر کوئی اذمی غیر مسلم  توہین  رسالت کا مرتکب  ہوتو اس سے عقد ذمہ  نہیں ٹوٹے گا اس سے کہا جائے گا  کہ وہ  دوبارہ  ایسی غلطی  نہ کرے  پھر اگر ایسا کرے  تو اسے تعزیری  سزا دی جائے گی ،لیکن قتل نہیں  کیا جائے گا۔
علامہ ابن عابدین شامی  فرماتے ہیں۔
ان الساب  اذاكان  كافرا  لايقتل  عندنا  الا اذا  رآہ الامام  16
اگر توہین سالت کا ارتکاب  کرنے والا کافر  ذمی ہوتو  ہمارے نزدیک  اسے قتل نہیں  کیا جائے گا  البتہ امام اگر  اس   کا قتل مناسب سمجھے تو ایسا کرسکتاہے۔
فقہاء کرام کی آرا کے بعد  ائمہ  محدثین  کی آرا  کا جائزہ  پیش کیا جاتاہے۔
یہ بات  تو اہل علم جانتے ہیں کہ  فقہی مذاہب  کی تدوین  وترتیب   میں فقہاء  کا الگ منہج  ہے اور محدثین  عظام کا  بھی الگ منہج  فکر ہے  ،محدثین کے ہاں  احادیث  کی جمع وترتیب  میں الگ الگ رجحانات  ہیں ،ایک رجحان  احادیث سے  فقہی  احکام  کے استنباط واستخراج  کاہےجس کی ایک مستقل   علمی  روایت   محدثین   کے ہاں دور اول سے چلی آرہی ہے  اس کے اپنے  فوائد وخصائص  ہیں۔
محدثین  کا طریقہ ہےکہ وہ عام طورپر اپنے فقہی ذوق   اور رجحان  کی وضاحت  کسی بھی موضوع  سے متعلق احادیث  کے انتخاب  اور ان پرکوئی  عنوان  قائم کرنے کے ذریعے سے کرتے ہیں  ، باب کا عنوان اور اس میں درج  حدیث  سے پتہ چل جاتا ہےکہ  اس بارے میں  صاحب کتا ب  کا فقہی  مذہب کیا ہے ۔اس زاویہ  نگاہ سے  زیربحث  مسئلہ    توہین  رسالت  کی سزا حد شرعی  ہے یا تعزیری  ہے  ؟ میں  محدثین  کا ذوق  اور ان کا موقف  معلوم کیا جائے   تو صاف دکھائی  دیتاہے کہ وہ اس کو  حد شرعی  نہیں سمجھتے ، کیوں کہ اگر ان کے نزدیک  یہ سزا حد شرعی  ہے توپھر ان کے فقہی  ابواب پر مرتب ہونے والے مجموعہ ہائے  حدیث میں   یہ سزا بیان کیوں نہیں ہوئی ، باقی تمام  شرعی سزا  ئیں  جو حدود سے متعلقہ ہیں وہ بیان  کی گئی  ہیں اگر  توہین رسالت  کی سزا  بھی حدود  میں داخل  ہوتی  تو اسے   ان سزاؤں کے ساتھ  ضرور بیان  کیا جاتا ،لیکن  ایسا نہیں  ہوا۔
فقہی  ابواب  وعنوانات  کےتحت  مرتب ہونے والے  تمام متداول   کتابوں کو آپ دیکھ  لیں ان میں حدود تعزیرات  کے ابواب  بھی قائم  کیے گئے  ہیں لیکن  ان میں توہین  رسالت کی سزا  کا کوئی ذکرنہیں محدثین کے اس طرز  اور اسلوب  سے یہی واضح  ہوتا ہے کہ  تو ہین رسالت کی سزا ان کے نزدیک  حد شرعی  نہیں۔
اس موضوع پر  مولانا عمار خان ناصر   نے جو تحقیق  پیش کی ہے، اس کا اختصار  انہی کے شکریہ  کےساتھ یہاں  پیش کیا جاتاہے۔
احادیث کی کتابوں  میں صحاح ستہ کو  بڑا مقام حاصل  ہے اس لئےاس سلسلہ میں  اپنے جائزے کا آغاز  بھی صحاح ستہ  سے کیا جارہاہے  ۔صحاح ستہ   کی چھ  میں سے تین  کتابوں   صحیح مسلم ، سنن  ترمذی   اور سنن  ابن ماجہ  کے متعلقہ  ابواب  میں توہین رسالت  کی سزا سے  متعلق  نہ کوئی  حدیث ذکر کی گئی  ہے اور نہ ہی عنوان  قائم کیا گیا ہے۔
سنن نسائی  اور سنن ابو داؤد میں توہین  رسالت سے  متعلق  ابواب بھی قائم  کیے گئے  ہیں اور اس  کے تحت  احادیث  بھی ذکر کی گئ ہیں جن میں  ایسے مجرموں  کو قتل  کیے جانے  کا ذکر  ہے لیکن  اس سے قطعی  طورپر  یہ مفہوم نہیں ہوتا  کہ وہ  اس سزا کو شرعی  حد بھی  سمجھتے ہیں کیوں کہ  انہی کتابوں  میں دوسرے مقامات  پر بعض  دوسرے  جرائم  پر قتل  کی سزا  کا ذکر کیا گیا ہے جو یقینا تعزیرات  کے دائرے  میں آتی  ہیں مثلا  ہم جنس  پرستی  کی سزا قتل   یا سنگسار  بیان کی گئی ہے جسے کوئی بھی حدود میں شامل نہیں سمجھتا۔
صحیح بخاری  میں امام  بخاری ؒ  نے توہین رسالت  کی سزا  کے متعلق   بعض روایات    ذک رکی   ہیں مثلا  کتاب  المغازی   میں کعب  بن اشرف  اور ابورافع   کے قتل  کی روایات  منقول    ہیں   لیکن کتا ب  الجزیہ  اور کتا ب       الحدود  جہاں یہ  روایات  امام بخاری  کے اسلوب  کے مطابق  درج ہونی چاہیے  تھیں  وہاں ان  میں سے کوئی  واقعہ نقل نہیں کیا گیا  اور نہ اس سزا  کا کوئی  ذکر کیا گیا ہے۔
امام بخاری کے اس اسلوب اور طرز سے یہی معلو م ہوتاہے  کہ ان کے نزدیک  یہ سزا شرعی  حد نہیں  اس کی تائید  امام بخاری  کی ایک اور بات سے بھی  ہوتی   ہے وہ یہ ہے کہ امام  صاحب نے  کتاب  استتابۃ المرتدین  والمعاندین  وقتالھم  میں ایک باب  اس عنوان سے ذکر کیا  ہے: باب  اذا عرض الذمی   وغیرہ  بسب النبی  ﷺولم یصرح  (اگر کوئی ذمی   یا کوئی دوسرا  شخص  کنائے  کے انداز میں نبی اقدس ﷺ  کی توہین  کرے لیکن  صراحتا  نہ کرے )  کا عنوان  قائم کرکے یہ مشہور روایت  ذکر کی ہے  کہ ایک یہودی  نے نبی اقدس ﷺ  کو سلام کرتے ہوئے السام علیک  (تم پر موت آجائے )  کے الفاظ  کہے  تو صحابہ  نے کہاکہ کیا   ہم اسے قتل  نہ کردیں  ؟  آپ نے فرمایا  کہ نہیں بلکہ  جب اہل کتا ب  تمہیں  سلام کریں  تو تم صرف  وعلیکم  کہہ دیا کرو۔
امام بخاری  کے اس اسلوب  سےشارحین  بخاری   شریف نے  بھی یہی نتیجہ  اخذ کیا ہے  کہ امام  صاحب توہین رسالت کی سزا  کے سلسلہ میں حنفی  مذہب   کے زیادہ  قریب ہیں اور حنفی   مذہب   میں توہین  رسالت کی سزا  حدود میں داخل نہیں  ۔ چنانچہ  ابن  المنیر  لکھتے ہیں:
 كان البخاري  كان علي  مذہب  الكوفين  في ہذہ  المسالۃ وہوان الذمي  اذا سب  يعزر ولايقتل  17
گویا امام بخاری    اس مسئلے  میں اہل کوفہ  کے مذہب  پر ہیں  اور وہ یہ ہے کہ  اگر ذمی  توہین رسالت  کا ارتکاب کرے تو اسے تعزیری  سزا دی  جائے  گی اور قتل نہیں  کیا جائے۔
صحاح ستہ  کے علاوہ  دیگر  احادیث  کی کتابوں  کی صورت حال  بھی یہی  ہے امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب  المصنف  کی کتاب الحدود   اور کتاب السیر میں   توہین رسالت کی سزا  کے بارے میں   کوئی روایت  نقل نہیں کی   اگرچہ  بعض  دیگر  مواقع پر اس سلسلہ  کی ایک آدھ  روایت  ذکر کی ہے  جس میں ایک یہودی  عورت کو نبی  اقدس ﷺ کی توہین  کی وجہ سے قتل  کرنے کا ذکرہے  تاہم  اس سے یہ ثابت  نہیں ہوتا  کہ وہ اسے حد شرعی   سمجھتے  ہیں۔
اما م دارمی  نے بھی اپنی  سنن  کی کتاب الحدود  اور کتاب السیر  میں اس  سے متعلق کوئی روایت  ذکر نہیں کی  ہے۔
امام ابو عوانہ  نے اپنی   مسند کی کتاب  الحدود  اور کتاب  السیر   میں اس سے متعلق  کوئی حدیث  ذکر نہیں کی  امام ابن حبان   نے اپنی  صحیح  میں توہین رسالت  سے متعلق  نہ کوئی   عنوان قائم کیا ہے اور نہ  ہی کوئی  روایت   بیان کی  ہے   حالانکہ  ابن  خطل  وغیرہ  کے قتل کے واقعات  اس کتاب  میں دوسرے مقامات  پر منقول ہیں ،امام ابومحمد ابن الحارودنے احادیث احکام پر مشتمل  مجموعہ  المنتقی  میں اس سے متعلق  نہ کئی حدیث ذکر کی ہے اور نہ ہی  اس سے متعلق  کوئی حکم  بیان کیا ہے۔
 امام دار قطنی  نے اپنی سنن  میں کتاب الحدود  والدیات  میں  ابن عباس ؓ  کی روایت   اگرچہ نقل کی ہے  جس میں توہین  کرنے  والی ایک  عورت  کے قتل  کا واقعہ   بیان ہوا  ہے تاہم  اس سے یہ ثابت  نہیں ہوتا کہ  وہ اسے ردت  کی سزا  سمجھتے  ہیں یا حد شرعی   کی ،ظاہر  ان کے اسلوب  سےیہی مفہوم  ہوتاہے کہ وہ خاتون  مسلمان تھی  اور توہین کرنے کی وجہ سے مرتدہ ہوگئی  اور قتل  کی سزا  اسے ارتداد  کی وجہ سے  دی گئی   گویا  کہ امام  دارقطنی  نے صراحتا  غیر مسلم  کی سزا  اپنی کتاب  میں بیان نہیں کی۔
امام بیہقی  نے السنن الکبری  کی کتا ب الحدود  میں اس مسئلے  کا کوئی  ذکر نہیں کیا   البتہ  دوسرے  مقامات  پر توہین رسالت کی سزاکےواقعات    بیان کے ہیں  مثلا کتاب الجزیہ  کے ’’باب يشرط عليہم  ان لا يذكرو ا رسول اللہ الا  بماہوا ہلہ،، کے عنوان کے تحت  دوروایات  ذکرکی   ہیں ایک میں  توہین رسالت کی وجہ سے  ایک   یہودیہ عورت  کو قتل  کرنے کا ذکر ہے جب کہ  دوسری روایت  میں حضرت  غرفہ  بن حارث کندی  کا واقعہ  بیان ہواہے  کہ انہوں نے توہین رسالت کی بنیاد پر ایک نصرانی شخص  کی ناک توڑ دی تھی  اس واقعہ   سے صاف  پتہ  چلتا  ہےکہ توہین  کے مرتکب  نصرانی  کو قتل  نہیں کیا گیا  تھا بلکہ  صرف ناک توڑنے کی  سزا دی گئی  تھی  ۔امام بیہقی   کا اس روایت   کو یہاں  ذکرکرنا اس بات کی  دلیل ہےکہ  ان کے نزدیک  توہین رسالت  کی سزا  قتل  ضروری نہیں  بلکہ قتل  سے ہلکی سزا بھی دی جاسکتی  ہے اور یہ کہ قتل کی سزا  کوئی حد شرعی  نہیں۔ 
امام عبد الحق  الاشبیلی   نے صحیحین   کی احادیث کو  خاص انداز میں جمع  کیا ہے جس کا  نام ’’الجمع  بین الصحیحین‘‘ ہے اس کتاب  میں بھی توہین رسالت  کی سزا  یا اس سے متعلق   کوئی روایت  ذکر نہیں کی گئی۔
امام  زین الدین  عراقی   نے اپنی کتاب’’طرح التثریب  فی شرح التقریب  ،،میں  بھی   اس مسئلے  سے کوئی تعرض نہیں  کیا۔
ماضی قریب  کے عظیم محدث  علامہ احمد عبد الرحمان  الساعاتی  نے امام احمد بن حنبل  کی مرویات کو موضوعاتی   تبویب  کے اندازسے   الفتح  الربانی  کے نام سے مرتب کیا  ہے احادیث  کا بہت زیادہ   ذخیرہ  اس کتاب  میں مرتب  ہوگیاہے  لیکن اس میں توہین رسالت  کی سزاسے متعلق  کوئی روایت    بیان نہیں ہوئی  اور نہ اس سے متعلق کوئی حکم  بیان کیا گیا  ہے۔
مذکورہ  تفصیل سے اندازہ لگایا جاسکتاہے  کہ محدثین  کے ہاں بھی توہین  رسالت کا جرم  حدود سے  متعلق نہیں بلکہ تعزیرات سے متعلق ہے  اس حوالے سے فقہاء  احناف  صحابہ وتابعین  ائمہ  مجتہدین  اور محدثین  عظام کے موقف  میں کوئی   فرق نہیں  ۔قریب قریب  سب میں اتفاق  پایا جاتاہے ،کہ توہین رسالت  کاجرم  حدود سے متعلق  نہیں بلکہ  تعزیرات  سے متعلق ہے ۔

حوالہ جات

۱۔ بدائع الصنائع فی ترتیب  الشرائع ج۹ص۱۷۷
۲۔ البحرالرائق ج۵ص۲
۳۔ المبسوط ج۹،ص۳۶
۴۔  المبسوط ج۹ص۱۱۰
۵۔ بدائع الصنائع  ج۹ص۲۲۹
۶۔ الصارم المسلول   ص۳
۷۔   نفس المصدر ص۴
۸۔  براہین ص۴۵۶
۹۔  کنزالعمال کتاب الحدود ،ذیل الحدود ، رقم ۱۳۹۹۲
۱٠۔ نفس المصدر
۱۱۔ زادالمعاد فی ہدی  خیر العباد ،ج ۵ص۵۵
۱۲۔ کتاب االام ،ج۴ص۲۱۸
۱۳۔ کشف الغمہ ج۲ص۱۸۹
۱۴۔ الصارم المسلول ص۱۶
۱۵۔ مختصر الطحاوی ص۲۶۲
۱۶۔ تنبیہ الولاۃ والحکام ص ۳۸
۱۷۔ المتواری علی ابواب البخاری ج۱ص۳۴۶

نیپال ۔ چند مشاہدات اور تاثرات

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

نیپال میں دوسری مرتبہ تعلیمی سفر کا موقع ملا ۔ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی  کے پروفیسر اور ندوۃ العلماء کے فاضل ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ  کی نگرانی میں شروع کیے گئے "مدرسہ ڈسکورسز "  میں پاکستان اور انڈیا سے  پچاس کے قریب لوگ شریک ہیں ۔ ان دونوں گروپوں کو  سمر اور ونٹر انٹینسو میں   تعلیمی ورکشاپ کے لیے اکٹھا کیا جاتاہے ۔ پچھلے سال سمر انٹینسونیپا ل  کے دار الحکومت کھٹمنڈو میں تھا، ونٹر انٹینسو قطر میں تھا  اور اس سال سمر انٹینسو  نیپال کے پہاڑی علاقے میں  ایک پرفضا  مقام پر ہے ۔ یہ علاقہ  دھلی خیل ہے  جو کہ کھٹمنڈو سے تقریبا تیس کلو میٹر دور پہاڑی مقام  ہے ۔ ان ورکشاپس میں مختلف ممالک سے ارباب عقل و دانش آتے ہیں اور شریک لوگوں سے  اپنے متعلقہ موضوعات  پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں ، گفتگو میں سوال و جواب اور افہام و تفہیم پر خاص زور دیاجاتاہے ۔ ان دوگروپوں کے ساتھ کچھ طلباء نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے بھی ہوتے ہیں اور اس سال کچھ طلباء افریقہ سے بھی ہیں جن میں بعض مدرسہ گریجوٹس ہیں اور بعض اسلامک اسٹڈیز یا سوشل سائنسز کے شعبہ سے متعلق ہیں ۔ یہ مختلف جگہوں اور بیک گراؤنڈ سے آئے ہوئے لوگ مختلف سنجیدہ ایشوز پر آپس میں ڈسکشن بھی کرتے ہیں جس کے لیے کچھ ٹائم تو باقاعدہ مختص کیا جاتا ہے جس میں کسی خاص موضوع پر گفتگو کی جاتی ہے اور نتائج فکر دیگر ساتھیوں سے شیئر کیے جاتے ہیں ۔ 
ان موضوعات میں   اکثر موجودہ ہونے والی اہم تبدیلیاں ، ان کے اثرات اور ان سے جنم لینے والے سوال ہوتے ہوتے ہیں ، جن پر مختلف مذاہب ، ذہنوں ، علاقوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ  جب گفتگو کرتے ہیں تو ایک ہی بات کے بہت سے پہلو سامنے آجاتے ہیں ۔ گروپوں میں بیٹھنے یا کمروں میں  رہائش  کے دوران اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ایک ہی علاقے اور پس منظر  کے لوگ اکٹھے نہ  ہوجائیں جس سے بجا طور پر دوسروں کو قریب سے ان کی زبانی سمجھنے کا موقع ملتاہے ۔ ایک ہفتہ یا دوہفتے اکٹھا رہنے سے  نئے تعلقات اور دوست بنتے ہیں اور دومختلف پس منظر رکھنے والوں کو باہم آشنائی ہوتی ہے اور ثقافتی ، تہذیبی ، مذہبی افکار  کا تبادلہ ہوتاہے ۔
نیپال جنوبی ایشیا میں پہاڑی ملک ہے جس کی شمالی سرحد پر چین اور باقی اطراف پر بھارت واقع ہے جبکہ اس کا کچھ حصہ جو کہ ستائیس کلو میٹر ہے بنگلہ دیش سے ملتاہے اوربھوٹان کو انڈیا کا کچھ حصہ اس سے جدا کر دیتاہے  ۔ سلسلہ کوہ ہمالیہ اس کے شمالی اور مغربی حصہ میں سے گزرتا ہے اور دنیا کا عظیم ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ اس کی سرحدوں میں پایا جاتا ہے ، جبکہ دنیا کی دیگر دس بڑی پہاڑی چوٹیاں   بھی یہاں ہیں ، اس کے علاوہ پہاڑوں ، وادیوں ، جھیلوں اور قدرتی خوبصورت مناظرکے بہت سے مقامات نیپال میں  ہیں لیکن اس کے ساتھ سمندر نہیں لگتا ہے جس کے لیے اس کو انڈیا کی ضرورت پڑتی ہے ۔ قدرتی حسین مناظر کے علاوہ نیپال میں بہت سے تاریخی مقامات ہیں  ۔ 2015ء میں آنے والے سخت زلزلے نے نیپال کو کئی طرح سے متاثر کیا ، اس زلزلے کی تباہی میں بہت سی تاریخی عمارتیں بھی آئیں تاہم اقوام متحدہ  کے ذیلی اداروں اور دنیا کی دیگر تنظیموں اور حکومتی کوششوں سے ان کو بحال کرنے کا کام بہت تیز ی سے جاری ہے ۔ 
ان تاریخی عمارتوں میں زیادہ شہرت کا باعث بدھوں کی محبت کے مراکز ہیں ۔ گو یہاں کا اکثریتی مذہب ہندومت ہے، تاہم بانی بدھ مت گوتم بدھ کی جائے پیدائش کی وجہ سے بدھوں کے ہاں اس ملک کو خاص اہمیت حاصل ہے   ، اس ملک میں ان کے اسٹوپا اور دیگرتاریخی چیزیں ہیں ۔ بدھ مت کے بڑے ترین اسٹوپوں میں سے ایک بودھا ناتھ یہاں واقع ہے ۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے سٹوپا میں شمار ہوتا ہے جہاں روزانہ ہزاروں اور سالانہ لاکھوں بدھسٹ اس کی زیارت اور طواف کے لیے آتے ہیں، لوگ ہاتھوں میں تسبیح لیے منتر پڑھتے ہوئے حسب توفیق (طاق عدد یعنی تین ، پانچ، سات، نو وغیرہ)طواف کرتے ہیں۔ تسبیح اور طواف کا تصور ہمارے ہاں بھی پایاجاتاہے    ۔ اس اسٹوپا میں بہت سے بیرل ہیں جن کو گھمانے سے خیر و برکت حاصل ہوتی ہےاورمنتروں کا ورد ہوتارہتاہے ۔ اس اسٹوپا کے اوپر دو آنکھیں بنی ہیں  جن کے بارے میں بدھوں کا خیال ہے کہ یہ رحمت اور حکمت کی آنکھیں ہیں ۔ اس کے اردگر د لوگوں کو عبادت کرتے ہوئے دیکھا جو کھڑے ہوتے ہیں اور سیدھا لیٹ جاتے ہیں اور پھر فورا کھڑے ہوجاتے ہیں ، یہاں بہت سے لوگ مستقلا مقیم ہوتے ہیں اور گیان دھیان میں مصروف رہتے  ہیں ، گیان دھیان کے تصورات اور ہمارے صوفیاء کے مراقبوں اور چلوں میں فرق کرنا بہت مشکل ہے ۔ یہاں چاروں طرف پانچ رنگوں پر مبنی دعائیے جھنڈے خیر و برکت کے لیے لگے ہوئے ہیں جس طرح کے ہمارے درباروں پر مختلف رنگوں کے جھنڈے لگے ہوتے ہیں ۔ان جھنڈوں  پر سنسکرت ، تبت اور دیگر زبانوں میں بدھ مذہب کے دعائیہ کلمات لکھے گئے ہیں۔ 
اس کے آس پاس میں بہت سے بدھسٹ موناسٹریز یعنی دینی مدارس قائم ہیں جہاں ایک دو میں خود جا کر ان کا طریقہ تعلیم  اور رہائشی لوگوں کو دیکھا، ان رہائشی لوگوں میں  جو کہ رہبانیت اختیارکیے ہوتے ہیں بہت سی زمانی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ۔ ایک دور تھا جب یہ پڑھتے نہیں تھے لیکن اب یہ ان جگہوں پر رہتے ہوئے عصرتی تعلیم حاصل کرتے ہیں ، ان کے پاس موبائل اور رابطہ دنیا کی دیگر تمام سہولیات پائی جاتی ہیں  ۔  اس کے علاوہ نیپال میں بے شمار مندر اور ہندو مت کی تاریخی عمارتیں بھی ہیں ۔ ایک اہم ہندو مندر پشو پتی ناتھ میں ہمیں جانے کا اتفاق ہوا وہاں دیگر رسومات کے ساتھ چتا " میت " کو جلتے ہوئے دیکھا ۔ میت کو جلتے ہوئے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس میں  نہ صرف میت کی توہین ہے بلکہ تعفن اور بدبو سے زندہ لوگوں کو  بھی کافی پریشانی جھیلنی پڑتی ہے مزید برآں یہ بیماریوں  کا بھی باعث ہے ۔ اس مندر کے ساتھ ہی دریائے بھاگ متی بہتاہے جس میں چتا کی راکھ کو پھینک دیا جاتاہے  ۔ 
پشو پتی ناتھ مندر کے علاوہ ہمیں کالی جی کے مندر میں جانے کا اتفاق ہوا کالی جی کا تعلق ہندوؤں کے تباہی کے دیوتا شیوجی کے ساتھ ہے اس لیے کالی جی کو بھی تباہی کی دیوتا سمجھا جاتاہے ۔ ان کا مندر تقریبا ہزار سیڑھیاں چڑھنے کے بعد کافی بلندی پر واقع ہے اس بلندی سے دھلی خیل اور گردو نواح کے علاقوں کا نظارہ بہت خوبصورت نظر آتا ہے ۔ اس دربارمیں کالی جی کا مجسمہ نصب ہے ۔ اس دربار میں ایک سادھو سے ہماری ملاقات ہوئی جو کہ نارنجی کپڑے اوڑھے ہوئے تھا اس کے مخصوص اسٹائل کے ساتھ ہم نے اس کے ساتھ فوٹمیں بنوائیں ۔ سادھو جی دوسرے ممالک کی کرنسی جمع کرنے کے کافی شوقین تھے سو ہم نے بھی اپنے ملک کی کرنسی بطور یاد ان کو تھمادی ۔کالی جی کے مندرکے راستے میں بدھا کا ایک بہت بڑا مجسمہ نصب تھا جس میں ان کو گیان دھیان کے مخصوص انداز میں دکھا یا گیا تھا ہم نے بھی اس مخصوص انداز کو کاپی کرنے کی کوشش کی تاکہ کچھ گیان دھیان ہمیں بھی نصیب ہو سکے ۔ اس سفرمیں اہم کام یہ ہو ا کہ ہم نے جنگل کا راستہ اختیار کیا اور ساتھ میں جنگل کی سیر کرتے ہوئے اوپر جانے لگے لیکن  اچانک بارش شروع ہوگئی، نیپال میں بارشیں ویسے ہی زیادہ ہوتی ہیں اور پھر یہ خالص پہاڑی علاقہ تھا جہاں کسی بھی وقت بارش شروع ہوجاتی ہے اس لیے چھتری ساتھ رکھنا ضروری ہوتاہے ، چھتری ساتھ نہ رکھنے کی وجہ سے ہم نے ٹھنڈے موسم  ،  تیز بارش  اور جنگل میں ہو کے عالم کو خوب انجوائے کیا۔  
اس کے علاوہ ہم شیو جی کے مندر میں گئے جو کہ ہندؤوں کا تباہی کو دیوتا اور تین  بڑے خداؤں براہمہ ، وشنو اور شیوا میں سے ہے ۔ یہاں شیوجی کا دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ نصب ہے  جس کی بلندی 143 فٹ ہے  ہم نے اس مجسمہ کے سایہ میں اور دیگر اکابرین ہند کےساتھ فوٹمیں لیں ۔ اس کے علاوہ بھی کئی مندروں پر گئے ، مندروں اور درباروں کی دنیا میں کوئی خاص فرق نظر نہ آیا ۔ جس طرح درباروں میں کچھ دن مخصوص ہوتے ہیں ، کچھ اوقات مخصوص ہوتے ہیں لوگ وہاں روحانیت کی تسکین کے لیے جاتے ہیں ، کوئی دربار میں پیسے ڈال دیتا ہے اور کوئی لنگر تقسیم کر دیتاہے ۔ آنے والے کوکوئی نہیں روکتا باباجی سب کے مشترکہ ہوتے ہیں کوئی بھی وہاں رہے ، کھائے پیے ، لنگر، نیاز اور نذرانہ سبھی کا ہوتاہے ، کچھ یہی صورتحال یہاں مندروں میں تھی ۔ تیل کے دیے ، اگر بتیاں  جلانے والے ،  ان مندروں کے لیے جانور قربان کرنے والے اور لنگر ، نیاز تقسیم کرنے والے بے شمار تھے ۔ ماتھا ٹیکنا ، چومنا اور جھکنا یہ بھی مشترک سی چیز تھی ۔ ایک اور چیز جو مجھے درباروں اور مندروں میں مشترک نظرآئی ، ایک دربار میں ہم گئے تو وہاں بہت سے لوگوں نے اپنی ضروریات اور حاجتوں کو پورا کرنے کے لیے تالے لگائے ہوئے تھے ۔طریقہ یہ ہے لوگ کوئی منت مانگ کر  تالا باند ھ دیتے ہیں اور پوراہونے پر کھول دیتے ہیں ، یہی چیز ہمیں کالی جی اور دیگر بزرگوں کے مندروں میں بھی نظر آئی ۔ البتہ یہاں تالوں کے ساتھ گھنٹیاں باندھنے کا چلن بھی ہے ۔  ایک ہندو سے بات چیت پر معلوم ہوا کہ ہندو مت زیادہ خالص شکل میں نیپال میں پائی جاتی ہے ، ہندو مت کی زبان  سنسکرت ، رسم الخط اور دیگر رسوم انڈیا سے زیادہ مضبوطی سے یہاں رائج ہیں کیونکہ یہ ایسا  اکثریتی ہندو ملک ہے  کہ اس کی ستر سے اسی فیصد تک کی آبادی ہندو ہے اور یہاں مزاحم کوئی نہیں ہے جبکہ انڈیا میں دیگر مزاحم قوتوں کی وجہ سے سیکولرازم ہندومت پر غلبہ پاچکا ہے ۔
یہاں  بھی سیاسی طور پر ہندو مت کی بجائے اب سیکولرازم نافذ ہے ، 2008  وہ سال تھا جب سیکولر ازم کو نافذ کیا گیا ، اس کے علاوہ ان کی سیاست میں چینی رہنما  ماؤزے تنگ کے سوشلسٹ حامیوں نے ایک لمبہ عرصہ تک گوریلاجنگ کے بعد اب نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے ۔ سیکولرازم کے اثرات کافی گہرے ہیں یہاں کے لوگوں کے    طور طریقوں میں بھی کافی آزادی نظر آتی ہے ،خاص طور پر عورتیں بہت آزاد اور فعال نظرآتی ہیں لیکن اس کے باوجود اکثریتی آبادی کے ہندو ہونے کی وجہ سے ہندو رسومات ابھی تک معاشرے میں بہت پختہ ہیں ۔
 نیپال میں تقریبا  5فیصد مسلم بھی ہیں   ، یہاں تقریباً 600 سال پہلے  اسلام داخل ہو چکا تھا  ، اسلام کی آمد ہندوستان ، کشمیر اور تبت تین راستوں سے ہوئی ۔ شاید اسی وجہ سے اس ملک میں تین مختلف ثقافث کے مسلمان ملتے ہیں سب نیپالی مسلمان ہوکر بھی الگ الگ زبان ،  کھانے پہننے کا طریقہ سب الگ ہے ، سب کا مشغلہ الگ پایا جاتا ہے بسا اوقات یہ فرق تلخی کا سبب بنتا ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ صوفیاء کرام کے ہاتھوں یہاں اسلام پہنچا   یہاں اسلام کی کوششیں کرنے والے ایک بزرگ شاہ غیاث الدین کا مزار شاہی محل کے بالکل سامنے کچھ 100میٹر کے فاصلے پر پایا جانا ہے اور وہیں انہیں کی تاسیس کردہ کشمیری مسجد  بھی ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی نیپالی جامع مسجد بھی ہے ، برصغیر میں موجودہ مسلم مسالک کے تناظر میں کشمیر ی مسجد بریلوی مسلک جبکہ نیپالی مسجد دیوبندکے پاس ہے ۔ یہ دو مسجدیں اور مسالک جہاں اسلام کے تنوع کی تصویر ہیں وہاں ان کے آپسی اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود بٹے ہوئے ہیں  ۔ ان دو نوں مسجدوں کے اختلافات وقتا فوقتا  ظاہر ہوتے رہتے ہیں ، عید کے چاند اور دیگر چیزوں پر ان دونوں مسجدوں کا کئی مرتبہ اختلاف ہو چکاہے ۔ یہاں دلچسپ چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ کشمیر ی مسجد میں جو بزرگوں کے دربار ہیں ان کو خوب اہتمام سے آراستہ کیا گیا ہے جیسا کہ بریلوی مسلک کا ذوق ہے جبکہ نیپالی جامع مسجد کے ساتھ بیگم بھوپال کا مقبرہ ہے (یہ وہی بیگم ہیں جن کے لیے مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے عورت کی حکمرانی جائز قرارد ی تھی کیونکہ خاندان کا کوئی مرد  نہیں تھا ، مسلمانوں کی حکمرانی کے لیے ضروری تھا کہ ان کو حکمران بنایاجائے ، ان کی شادی بعد ازاں نواب صدیق حسن خان سے ہوئی تھی اور یہ نیپال میں مدفون ہیں ) جس میں کوئی آراستگی اور اہتمام نظر نہیں آتا ۔ اس  لیے میرے خیال میں مقبرے بریلوی مسلک کے پاس ہی ہونےچاہییں۔نیپال میں مسلمان زراعت یا چھوٹی چھوٹی دکانوں سے اپنی روزی روٹی حاصل کرتے ہیں ان کے اقتصادی حالات کمزور ہیں ۔
نیپال کی دفتری زبان نیپالی ہے مگر یہاں 26 زبانیں بولی جاتی ہیں اور تمام زبانیں قومی زبانیں سمجھی جاتی ہیں ۔ نیپالی کے علاوہ یہاں کی اکثر آبادی ہندی زبان کو بآسانی سمجھتی ہے اس کی  ایک وجہ تو نیپال اور انڈیا کے ہندؤوں کے باہم گہرے سماجی اور تجارتی تعلقات ہیں اور دوسری حیران کن وجہ یہ سامنے آئی کہ انڈین فلموں اور گانوں کی وجہ سے یہاں کے لوگ ان کی زبان کو بآسانی سمجھتے ہیں ۔ فلم ، ڈرامہ اور گانے اپنے کلچر کی اشاعت کا کس قدر بڑا ذریعہ ہو سکتے ہیں اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ ہندی اور اردو چونکہ بولنے میں ایک جیسی ہیں اس وجہ سے  نیپال کے لوگوں سے گفت و شنید بآسانی ہو جاتی ہے ۔زبان کے حوالے سے ایک اور حیران کن چیز یہ سامنے آئی کہ لوگوں کے غریب اور علاقے کے پسماندہ ہونے کے باوجود ان کی تعلیم اچھی انگریزی میں ہوتی ہے اور ان کی انگریزی لینگویج ہم سے بدرجہا بہتر ہے عام لوگ بھی ہلکی پھلکی انگریز بول لیتے ہیں ۔
نیپال  کا شمار غریب ملکوں میں ہوتاہے ، اس کو بھارت کی کالونی کہاجائے تو بے جانہ ہوگا تاہم انڈیا  کے ان کے پانی پر ڈیم بنانے اور ان کو سیلاب میں مبتلا کرنے کی وجہ سے تعلقات کچھ کشیدہ ہیں ، اس کشیدگی میں سوشلسٹ پارٹی اور چائنہ سے تعلقات کا بھی کردار ہے ۔ تاہم ابھی تک دونوں ملکوں کے بہت سے لوگ روزانہ کی بنیاد پر آتے جاتے ہیں ، ویزہ اور پاسپورٹ کی کوئی پابندی نہیں ہے  ، تجارتی روابط بھی بہت مضبوط ہیں ، بہت سی جگہوں پر فوج مشترکہ ہے ۔
نیپال کے لوگوں کی کچھ خوبیاں جو ذاتی مشاہدے سے سامنے آئیں وہ انتہائی اہم اور قابل تقلید ہیں ۔ نیپال کے لوگ اعلیٰ اخلاقیات کے حامل ہیں ۔ ان کی گفتگو کا انداز انتہائی دھیما ، شائستہ اور محبت سے بھرپورہے ۔ ہم نیپال کے دار الحکومت میں بھی رہے اور دور دراز گاؤں دھلی خیل بھی رہے  کہیں بھی لوگ باہم لڑتے ، گالم گلوچ کرتے یہاں تک کہ باہم اونچی یا غیر مہذب طریقے سے گفتگو کرتے بھی نہیں دیکھے ۔ ان لوگوں سے کوئی بھی بات پوچھیں اس کا نہایت اچھی طرح جواب دیں گے ، راستہ درست  اور فکر مندی سے بتائیں گے ، کسی چیز کے خرید نے میں  آپ کی درست رہنمائی کریں گے ۔ کوئی بات پوچھیں اس کا درست اور مکمل جواب دیتے ہیں ۔ غرض ان میں خوش خلقی کے ساتھ دیانتداری کا عنصر نمایاں دکھائی دیا ۔  ان کی ایک اور اہم خوبی جس کا ہم اپنے معاشرے میں بہت زیادہ فقدان پاتے ہیں ، یہ لوگ اضافی اور فالتوچیزیں جو کوڑا کرکٹ کے ضمن میں آتی ہیں ان کو سڑکوں ، روڈوں یا گلیوں میں نہیں پھینکتے ہیں ان چیزوں کے حوالے سے ان کا نظم  خاصہ اچھا نظر آیا ، ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے اس کی سڑکیں اور گلیاں اچھی طرح تعمیر شدہ نہیں ہیں ، بلکہ بعض کی حالت توا نتہائی خستہ ہے لیکن اس کے باوجود سڑکوں پر اضافی پھینکی ہوئی چیزیں نظر نہیں آتی ہیں ، پان کی تھوکیں ،  بچی ہوئی سگریٹ اور اس قسم کی چیزیں  سڑکوں پر بالکل نظر نہیں آتی ہیں ۔ ایسی چیزوں کے استعمال کے لیے بھی بار بنے ہونے ہوئے ہیں ، لوگ ان کو وہیں استعمال کرتے ہیں ، ان کا استعمال عام نہیں ہے ۔
ا ن لوگوں میں محنت کاجذبہ بہت زیادہ ہے ، یہ لوگ عام طور پر خوش نظر آتے ہیں ، محنت و مشقت سے کام کرنے کے باوجود ان کے ہاں اطمینان کی کیفیت ہے۔ محنت کے عمومی چلن کے باوجود ملک کا غریب ہونا سمجھ میں نہیں آتا شاید اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ دنیا میں آج ترقی صنعت ، مشینری اور ٹیکنالوجی سے ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے ممالک جتنے بھی دیکھ  لیں وہ ان میں سے کسی ایک چیز میں امتیازی خصوصیت کے حامل ہوں گے ۔ ان کے مردوں کے ساتھ ان کی عورتیں بھی کاروبار زندگی میں پور ی طرح شریک ہیں   بلکہ یوں محسوس ہوتاہے کہ کاروبار حیات میں مرد کم اور عورتیں زیادہ ہیں کیونکہ دکانوں اور مارکیٹ میں جس قدر بھی ہمیں جانے کااتفاق ہوا ہمیں ہر جگہ عورتوں کی کثرت نظر آئی ۔لیکن ان کے مرد و عورت میں کشمکش نہیں ہے جس طرح کے ہمارے معاشرے میں یا دیگر روایت پسند  معاشروں میں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کے حوالے سے ہم بہت سی چیزوں میں کمپرومائز کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ جدید دنیا کے دل لبھانے والے نعروں نے عورت کو بہت سی سطحوں پر متاثر کیا ہے اس لیے ہمارے معاشرے میں کچھ  عورتیں جدید اقدار کو اپنانے کی کوشش میں ہیں جبکہ باقی اکثریت بھی کچھ عملی مسائل میں جو کہ عورتوں کے لیے مشکل کے باعث ہیں ان عورتوں  کی ہمنوا نظر آتی ہیں ۔ ہمارا  مذہبی روایتی طبقہ تو ان کے بالکل برعکس جانب کھڑا ہے  جبکہ اکثریت عملی مسائل کے حل کی چاہت رکھنے کے باوجود  مغربی معاشرتی اقدار کے بالکل بھی حامی نہیں ہیں ۔ اس لیے ایک تناؤ کی کیفیت ہے جبکہ ان معاشروں  نے یورپ کے نظام اور طرز فکر کو مکمل طور پر اپنالیا ہے   اور تمام لوگ ایک جہت میں سوچتے ہیں اس لیے ان کے ہاں تناؤ کی کیفیت ختم ہوچکی ہے ۔ ان لوگوں کا فیملی اسٹرکچر بھی مضوط ہے اور ہماری طرح ہی یہ لوگ فیملی میں ہی رہتے ہیں تاہم عورت  آزادی اور خود مختار ی میں مرد کی طرح ہے ۔ ایسے معاشروں کے عملی مسائل شایدمختلف ہوں، لیکن عورتوں کی ہراسمنٹ  کے کیسزکم  ہیں ۔ عورتوں کو دیکھتے رہنا اور گھر پہنچا کر آنا، یہ خرابیاں ان کے ہاں کم ہیں ۔  یہاں مرد و عورت اچھے  اور خوشگوار تعلقات  میں تعاون باہمی کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ۔
نیپال میں امن اور شانتی وہ انتہائی اہم چیز ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ نیپال  کے خوبصورت پہاڑی علاقوں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح یہاں نظر آتے ہیں ۔ امن و آشتی کایہ عالم ہے کہ اسکو ل و کالج اور کسی بھی سرکاری عمارت پر کوئی گارڈ نہیں ہے ۔ آپ جہاں چاہیں آئیں جائیں  کوئی بھی آپ سے کچھ نہیں پوچھے گا ۔ دہشتگردی سے ہٹ کر علاقائی طور پر بھی امن و امان ہے ، لڑائی جھگڑے وغیرہ نہیں دکھائی دیتے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہمیں دوسروں کی خوبیوں سے سیکھنا چاہیے ، ملک کے غریب اور سہولیات کے فقدان کے باوجود ان لوگوں کی خوبیاں قابل تقلید ہیں۔

ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۸ء

سانحہ کربلا اور اس کا درست تاریخی تناظرمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۶)ڈاکٹر محی الدین غازی
ناموس رسالت کا مسئلہ اور مغربمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
احمدی مسئلے پر تازہ بحث: نمایاں سوالات پر ایک نظرڈاکٹر محمد شہباز منج
قادیانی مسئلے میں مختلف بیانیےمحمد زاہد صدیق مغل
احمدیوں اور دیگر غیر مسلموں کے مابین فرق پر ایک مکالمہمحمد عمار خان ناصر
دہشت گرد تنظیموں کی فکری بنیادیں: نقائص و نتائجمولانا ضیاء الرحمٰن علیمی
مولانا جلال الدین حقانیؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا مجاہد الحسینی کی تصنیف ’’قرآنی معاشیات”مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مدرسہ ڈسکورسز کا سمر انٹینسِو ۔ ایک علمی ورکشاپ کا آنکھوں دیکھا احوالڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

سانحہ کربلا اور اس کا درست تاریخی تناظر

محمد عمار خان ناصر

سانحہ کربلا میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے موقف اور کردار سے متعلق بنیادی طور پر تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں:
پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیدنا حسین کو دین کی اساسات کے مٹا دیے جانے جیسی صورت حال کا سامنا تھا جو ان سے، ایک دینی فریضے کے طور پر، جہاد کا تقاضا کر رہی تھی۔ انھوں نے، اور صرف انھوں نے، عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس دینی تقاضے پر لبیک کہا اور اپنی اور اپنے خانوادے کی قربانی پیش کر دی۔ باقی تمام امت، بشمول اکابر صحابہ، پست ہمتی، رخصت اور مصلحت وغیرہ کے تحت ان کا ساتھ نہ دے سکی اور یوں ایک عظیم کوتاہی کی مرتکب ہوئی۔
یہ اصولاً اہل تشیع کا موقف ہے اور تعبیرات والفاظ کی کسی قدر احتیاط کے ساتھ ہمارے ہاں مولانا مودودی وغیرہ نے اسی کی ترجمانی کی ہے۔ چنانچہ مولانا سے منسوب ایک روایت کے مطابق ان سے پوچھا گیا کہ جب جمہور صحابہ نے خروج نہیں کیا تو سیدنا حسین نے کیوں کیا؟ مولانا نے فرمایا کہ یہ غلط سوال ہے۔ درست سوال یہ ہے کہ جب سیدنا حسین نے خروج کیا تو باقی صحابہ نے کیوں ان کا ساتھ نہیں دیا؟
ہمارے نزدیک یہ موقف واقعاتی اعتبار سے بھی غلط ہے اور اس میں جمہور صحابہ کے نقطہ نظر کی بھی بالکل غلط توجیہ کی گئی ہے، بلکہ سرے سے اس کو سمجھنے ہی کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ اہل تشیع کے تاریخی بیانیے میں تو بالکل فٹ بیٹھتا ہے، لیکن اہل سنت کے مجموعی موقف اور مزاج سے ہرگز مناسبت نہیں رکھتا۔
دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیدنا حسین نے خروج کا راستہ اختیار کر کے ایک غلط اقدام کیا جو دین وشریعت کی ہدایات کے برعکس تھا اور نتیجے کے اعتبار سے امت میں خوں ریزی، فساد اور تفرقے کو بڑھانے کا موجب بنا۔ اسی وجہ سے جمہور صحابہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ انھیں روکنے کی کوشش کی۔
اس موقف کے قائل بعض حضرات سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو اصولاً ان شرعی وعیدات کا محل قرار دیتے ہیں جو احادیث میں خروج کے حوالے سے بیان ہوئی ہیں اور صرف ان کی شخصیت اور نسبت کا لحاظ رکھتے ہوئے ایک “اجتہادی” گنجائش تسلیم کرتے ہیں، جبکہ بعض دوسرے حضرات کے ہاں اس پہلو کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔
ہمارے نزدیک یہ تجزیہ بھی اس دور کی تاریخی صورت حال کے یک رخے مطالعے پر مبنی ہے اور اس میں شرعی اصولوں کا بھی زیادہ گہرا فہم نہیں پایا جاتا۔ اس کا بنیادی مفروضہ یزید کے اقتدار کو بالکل برحق اور اختلاف ونزاع سے ماورا اور شرعی وسیاسی اعتبار سے گویا طے شدہ ماننا ہے، جبکہ سیدنا حسین کے موقف کی تکییف کرتے ہوئے صورت حال کی پیچیدگی اور پس منظر کے واقعات کو اس موقف میں کلی طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ فکری محرک کے لحاظ سے اس موقف میں اہل تشیع کےموقف کا رد عمل نمایاں ہے، اور جمہور صحابہ کے موقف کی بنیادوں کو پورا وزن دیتے ہوئے معاملے کے ان پہلووں کو وقعت نہیں دی گئی جو سیدنا حسین کے موقف اور اس کی بنیاد کی تفہیم میں مدد دیتے ہیں۔
تیسرے موقف کی وضاحت کے لیے، جو ہماری رائے میں مبنی بر اعتدال اور درست موقف ہے، ضروری ہے کہ اس معاملے کے تینوں فریقوں کی پوزیشن کو ان کے اپنے زاویہ نظر سے سمجھا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس کی بات میں کتنا وزن تھا اور اس پورے تناظر میں، سیدنا حسین کے اقدام کی تکییف کیا بنتی ہے ۔ یہ تین فریق حسب ذیل ہیں:
جمہور صحابہ وتابعین، جو بنو امیہ کے خلاف خروج کے حامی نہیں تھے،
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ، جنھوں نے خروج کا فیصلہ کیا،
اور بنو امیہ، جو اس وقت حکمران تھے۔
آئیے، اسی ترتیب سے ان تینوں کی پوزیشن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جمہور صحابہ وتابعین کا موقف

جمہور صحابہ وتابعین نے سیدنا حسین کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ انھیں اس سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ ان کی پوزیشن کسی خوف یا مداہنت یا مصلحت کوشی پر نہیں، بلکہ سیاسی صورت حال کے ایک بڑے واضح اور گہرے ادراک پر مبنی تھی۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ امت مسلمہ یعنی ’الجماعۃ’ کی سیاسی قیادت کے لیے قریش کے دو بڑے خاندانوں یعنی بنو ہاشم اور بنو امیہ میں جو کشمکش سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہوئی تھی، اس میں اس وقت تک (یعنی سیدنا معاویہ کی وفات کے بعد تک) کی پیش رفت میں سیاسی طاقت کا پلڑا بنو امیہ کے حق میں فیصلہ کن انداز میں جھک چکا ہے۔ الجماعۃ کی قیادت اور امت کی اجتماعی وحدت اور استحکام کے لیے حکمران طبقے میں جو سیاسی عصبیت اور انتظامی صلاحیت بنیادی شرط کی حیثیت رکھتی ہے، وہ بنو امیہ نہ صرف بہم پہنچا چکے ہیں بلکہ عملاً اس کا ثبوت بھی دے چکے ہیں اور سیدنا حسن کا، سیدنا معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو جانا اس پر آخری مہر تصدیق ثبت کر چکا ہے۔ یہاں سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کے طرز سیاست کا تقابل کسی بھی رنگ میں زیر بحث نہیں اور نہ دونوں کو میسر موافق یا مخالف عوامل کا تجزیہ مقصود ہے۔ مقصد اس واقعی صورت حال کی طرف متوجہ کرنا ہے جو اس سارے تاریخی عمل کے نتیجے میں بالفعل پیدا ہو چکی تھی۔ مزید  یہ کہ سیدنا عثمان کی شہادت کے بعد اٹھنے والے دور فتن کے اثرات ابھی تک مسلمان جماعت کے ذہنوں اور نفسیات میں تازہ تھے۔ ہماری رائے میں یہ دو بنیادی عوامل (یعنی بنو امیہ کو حاصل سیاسی عصبیت اور خروج کی صورت میں امت میں دوبارہ افتراق کا خوف) تھے جن کی روشنی میں جمہور صحابہ وتابعین نے ایک بڑا واضح اور دوٹوک سیاسی موقف اختیار کیا اور بنو امیہ کے طرز سیاست سے متعلق ہر قسم کے تحفظات کے باجود سیاسی اصولوں، شرعی مصالح اور امت کے اجتماعی مفاد کی بنیاد پر بنو امیہ کے اقتدار کو چیلنج کرنے کے فیصلے سے خود کو بالکل الگ رکھا۔

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا موقف

سیدنا حسین اس تنازع کے اہم ترین فریق ہیں اور دراصل انھی کا موقف ہے جس کی درست تفہیم کے لیے حد سے زیادہ احتیاط اور باریک ترین نزاکتوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن پر توجہ نہ دینے سے ان کے موقف کی تکییف میں عموماً افراط یا تفریط کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
اس ضمن میں سب سے اہم پہلو جسے کسی بھی وجہ سے، عموماً نظرانداز کیا جاتا ہے، یہ ہے کہ ان کے موقف کا باعث استخلاف یزید کے وقت یا سیدنا معاویہ کی وفات کے بعد پیدا ہونے والی، صورت حال کی کوئی تبدیلی (مثلاً یزید کا فسق وفجور یا غیرشرعی انداز حکومت وغیرہ) نہیں تھی، بلکہ وہ بہت پیچھے سے چلی آنے والی ایک غیر حل شدہ کشاکش کا تسلسل تھا۔ اس کا سبب وقتی نوعیت کی کسی وجہ کو قرار دینا تاریخی لحاظ سے بھی ان کے موقف کی غلط ترجمانی ہے اور ازروئے عقل ومنطق بھی، ان کے موقف کا وزن واضح کرنے کے بجائے اسے کمزور بناتا ہے، خاص طور پر اہل سنت کے زاویہ نظر سے جمہور صحابہ کی اس پہلو سے بے خبری یا بے توجہی فرض کرنا بہت مشکل ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں کی سیاسی قیادت کا داعیہ اور خواہش رکھنے والوں میں جہاں مہاجرین کے علاوہ انصار شامل تھے، وہاں خود مہاجرین میں اہل بیت بھی اپنے لیے سیاست واقتدار میں ایک خصوصی کردار اور استحقاق کا تصور رکھتے تھے۔ (سردست اس بحث سے صرف نظر کر لیجیے کہ وہ اسے شرعی طور پر کوئی منصوص حق سمجھتے تھے یا اس کی بنیاد اہلیت وصلاحیت، اسلام کے لیے قربانیوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت جیسے اوصاف پر تھی)۔ خلفائے ثلاثہ، اور خاص طور پر خلیفہ اول وثانی کے مقابلے میں، اہل بیت نے اپنا حق نہیں جتلایا، بلکہ ان کے شخصی احترام اور مقام ومرتبہ کے اعتراف کے ساتھ ہر اعتبار سے ان کی موافقت ومعاونت کا طریقہ اختیار کیا، لیکن سیدنا عثمان کے بعد امیر معاویہ کے مقابلے میں سیدنا علی کے سیاسی موقف میں اس کا بالکل واضح اظہار ملتا ہے، اور وہ خاص طور پر عہد نبوی میں اسلام اور کفر کی کشمکش میں بنو امیہ کے تاریخی کردار کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے مقابلے میں اپنے ’احق بالامر’ (یعنی حکومت کا زیادہ حق دار) ہونے کا بار بار حوالہ دیتے ہیں۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس کشمکش کے سارے مرحلے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اور گو سیدنا علی اور سیدنا حسن کی موجودگی میں وہ کوئی بنیادی کردار ادا نہیں کر سکتے تھے، لیکن بنو امیہ کے اقتدار سے متعلق ان کی بے لچک پوزیشن ہر ہر مرحلے پر تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے۔ یہاں تک کہ سیدنا معاویہ کے مقابلے میں خلافت سے دستبرداری کے فیصلے پر بھی انھوں نے سیدنا حسن کے سامنے سخت رد عمل  ظاہر کیا تھا اور سیدنا حسن نے اس فیصلے کو ان کی ناراضی مول لے کر بلکہ بڑے بھائی کی حیثیت سے انھیں سخت سست کہہ کر عملی جامہ پہنایا تھا۔
اس کے ساتھ اس مزید پیش رفت کو سامنے رکھیے جو استخلاف یزید کی صورت میں ہوئی۔ سیدنا حسن کے ساتھ معاہدہ صلح میں واضح طور پر فریقین میں یہ طے پایا تھا کہ سیدنا معاویہ کے حق میں دستبرداری صرف ان کی شخصیت تک اور ان کی زندگی تک محدود ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو ازسرنو یہ طے کرنے کا اختیار ہوگا کہ وہ کس کو اپنا حکمران بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم سیدنا معاویہ نے آخری عمر میں، یزید کو ولی عہد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا محرک پدری محبت کو مانا جائے، یا خاندانی اقتدار کا تسلسل قائم رکھنے کی خواہش کو یا امت کی وحدت کو محفوظ رکھنے کے جذبے کو یا ان تینوں کو، اہل بیت کے نقطہ نظر سے یہ بہرحال معاہدے سے انحراف تھا اور اس کے لیے پیدا کیے جانے والے سیاسی اتفاق رائے کو، امت کے مستند اتفاق رائے کے طور پر تسلیم کرنا ان کے لیے ناممکن تھا۔ چنانچہ چند دیگر سرکردہ افراد کے علاوہ سیدنا حسین نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور یزید کی بیعت نہیں کی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اس سارے عمل کے شرعی، اخلاقی یا قانونی جواز کو قبول نہیں کرتے تھے۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں ہمارے نزدیک سیدنا حسین کے اس طرز فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کا اظہار ان کے ہاں سیدنا معاویہ کی وفات کے بعد ہوتا ہے۔ ان کے زاویہ نظر سے ان کا سامنا ایک ایسی حکومت سے تھا جو سیاسی معاہدے سے انحراف کے بعد جبر کے زور پر قائم تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ حکومت واقتدار کی شرعی اخلاقیات کی بھی پابند نہیں تھی۔ مزید یہ کہ حکومت کی طرف سے سیدنا حسین پر مسلسل دباو ڈالا جا رہا تھا کہ وہ یزید کی بیعت کر لیں، ورنہ داروگیر کے لیے تیار رہیں۔ گویا انھیں اپنے سیاسی اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے پرسکون زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ اس سب کے ساتھ جب سیدنا حسین کو اہل کوفہ کی طرف سے مسلسل اور پراصرار دعوت ملنے لگی کہ وہ وہاں جا کر اپنی حکومت قائم کر لیں تو ان کا اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جانا عین فطری تھا۔ معلوم نہیں کہ حکومت کی طرف سے بیعت کا دباو نہ ڈالے جانے پر یا اہل کوفہ کی طرف سے دعوت نہ ملنے پر وہ کیا روش اختیار کرتے، لیکن تاریخی واقعہ یہی ہے کہ انھوں نے خروج کا فیصلہ اسی تناظر میں کیا۔ گویا حالات وواقعات کی عملی صورت نے ان کے برسوں سے چلے آنے والے سیاسی موقف کے ساتھ مل کر وہ ماحول پیدا کر دیا جس میں انھیں ایک طرح سے حالات کے جبر کے تحت یہ قدم اٹھانا پڑا اور اس کے نتیجے میں وہ سانحہ رونما ہو گیا جو آج تک امت کی فکر، نفسیات اور جذبات کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔

اموی حکومت کی پوزیشن

حکمران اموی خاندان اس بحث کا تیسرا بنیادی فریق ہے اور اس کی پوزیشن پر بات کیے بغیر، بات مکمل نہیں ہو سکتی۔ہمارے نزدیک زیر بحث صورت حال میں ان کی بنیادی غلطیاں دو ہیں: ایک، سیدنا حسین کی نسبت کے احترام کو ملحوظ نہ رکھنا، اور دوسرے، سیاسی لچک اور حکمت کو بالائے طاق رکھ دینا جو اس سے پہلے سیدنا معاویہ کے طرز حکومت کا طرہ امتیاز تصور کی جاتی تھی۔
حق حکومت سے متعلق اصولی ونظریاتی بحثوں اور اقتدار کی کشمکش میں گزشتہ تاریخی مراحل سے صرف نظر کر لیا جائے تو بطور ایک واقعی حقیقت کے، یہ بات ناقابل انکار ہے کہ بنو امیہ مضبوط سیاسی عصبیت کو منظم کر لینے کی بدولت اقتدار کی کشمکش میں سب سے طاقتور فریق بن چکے تھے اور سیدنا معاویہ نے اپنے طویل دور اقتدار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام ممکنہ مخالفین کو عملاً میدان سے باہر کر دیا تھا۔ یزید کی ولی عہدی کے لیے بھی سیاسی عملیت کے اصولوں کے تحت پورا جواز نکلتا ہے، بلکہ ابن خلدون جیسا مورخ اس سارے معاملے کو بجا طور پر سیاسی عصبیت کی تشکیل وحفاظت ہی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ مضبوط سیاسی عصبیت رکھنے والا حکمران طبقہ خود امت کی ضرورت تھا، اس لیے استخلاف یزید میں سیدنا معاویہ کی پدری محبت کو کارفرما مانتے ہوئے بھی اسے اجتماعی سیاسی مصلحت سے ہم آہنگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اتنے بڑے حجم کی سلطنت میں سیاسی استحکام کا تسلسل قائم رکھنے کی کوئی اور صورت اس تمدن میں، ملوکیت کے علاوہ متصور نہیں تھی اور خلافت سے ملوکیت کی طرف انتقال اصلاً کسی سیاسی انحراف کا ظہور نہیں تھا (جیسا کہ مولانا مودودی کا انتہائی کمزور اور خطیبانہ قسم کا تجزیہ ہے) بلکہ اس دور کی تمدنی وسیاسی حرکیات کا رو بہ عمل ہونا تھا اور جلد یا بدیر حالات کو اسی رخ پر جانا تھا۔ سیدنا حسن کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی پر بھی ایک تاویل بنو امیہ کے حق میں کی جا سکتی ہے کہ وہ اس معاہدے کو سیدنا حسن کی ذات تک محدود سمجھتے تھے، اور ان کی وفات کے بعد ایک فریق کے موجود نہ رہنے کی وجہ سے معاہدے کو کالعدم تصور کرتے تھے۔
ان سب باتوں کا اپنی جگہ  وزن ہے، لیکن یہ پہلو کسی حال میں نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں تھا کہ مدمقابل فریق کون ہے اور اس کی شخصی وجاہت اور خاندانی نسبت کس درجے کی ہے۔ سیدنا حسین کو بیعت کے لیے مجبور کرنے کی سیاسی طور پر کوئی ضرورت نہیں تھی، اور ان کی سرگرمیوں کو محدود کر دینا اور اہل کوفہ کے ساتھ روابط پر نظر رکھنا کافی تھا۔ یہ محض حکمران خاندان کی نفسیاتی کمزوری کا اظہار تھا کہ سیدنا حسین کی شخصیت سے خوف محسوس کیا گیا اور انھیں عدم تحفظ کا احساس دلا کر ایک طرح سے مجبور کر دیا گیا کہ وہ لازمی طور پر کسی غیر معمولی اقدام کے بارے میں سوچیں۔ پھر کوفے کی صورت حال واضح ہونے پر جب انھوں نے اپنے اقدام سے رجوع کا ارادہ کر لیا تو اب تو ایک فی صد بھی اس سخت گیر پالیسی کا جواز نہیں تھا جو موقع پر موجود کارپردازان نے اختیار کی اور سنگ دلی اور بے رحمی کے اس آخری درجے کا اظہار کر دیا جو انسانی تصور میں آ سکتی ہے۔ تف ہے ان بدبختوں کی نام نہاد طاقت پر، اور کروڑوں سلام خانوادہ نبوت کی ناتوانی پر جس نے اپنے سیاسی موقف میں جائز حد تک لچک دکھانے کے بعد شخصی وخاندانی تذلیل قبول نہیں کی اور اپنی آبرو پر اپنی جانیں قربان کر دینے کو ترجیح دی۔
اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی آلہ واھل بیتہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔


مذکورہ تحریر پر جناب ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب نے جو اضافہ کیا، وہ انھی کے الفاظ میں یہاں پیش کیا جا رہا ہے:
“ایک توضیح اور دو تحفظات کے ساتھ اتفاق ہے۔
توضیح یہ ہے کہ خلافت، ملوکیت اور جمہوریت کی بحث الگ تفصیل کی متقاضی ہے اور اس سیاق میں اس پر بحث غیر متعلق تفاصیل میں جانے کا خدشہ ہے۔
تحفظ یہ ہے کہ یزید سے ایک تیسری غلطی بھی ہوئی جو آپ کی ذکر کردہ دونوں غلطیوں پر بھاری تھی ۔ جس طرح کا وحشیانہ سلوک اس کی فوج نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا، وہ حکومت کے کسی عام مخالف ، حتی کہ باغی، کے ساتھ بھی ناجائز ہوتا (اور عام قواعد کی رو سے اسے سیاسۃ ظالمۃ ہی کہا جاتا) لیکن بالخصوص جب یہ سارا کچھ رسول اللہ ﷺ کے جگر گوشے اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہوا، تو یہ ظلم کی بدترین مثال بن گئی۔ یزید کی فوج یزید کی شہ کے بغیر اس حد تک نہیں جاسکتی تھی (ان السفیہ اذا لم یُنہَ مامور)، اور اگر گئی تو اس کے بعد اس کے خلاف جس طرح کی کارروائی ضروری تھی، اس کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا، بلکہ ان کو ایک طرح کی blanket immunity حاصل رہی۔ اسی لیے وہ ردعمل پیدا ہوا جس کے نتیجے میں یزید سمیت بعد کے خلفاے بنی امیہ کبھی چین سے بیٹھ نہیں سکے اور آج تک امت اس ظلم عظیم کے نتائج بھگت رہی ہے۔
یہیں سے دوسرے تحفظ پر بات آسان ہوجاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ نے ما شاء اللہ بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے جس سے تقریباً مکمل اتفاق کیا ہے، لیکن یہ تجزیہ ادھورا ہے جب تک اس کے نتیجے میں یہ ذکر نہ کیا جائے کہ کربلا میں جو کچھ ہوا، وہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ ظلم عظیم تھا اور اس ظلم کےلیے صرف مباشرین ہی تنہا ذمہ دار نہیں تھے بلکہ superior responsibility کے اصول کے تحت یزید بھی کلی طور پر ذمہ دار تھا۔
آپ شاید یہ کہیں کہ یہ تو قانونی مباحث ہیں اور صرف تاریخی تجزیہ کرنا چاہتے تھے، لیکن اس موضوع کا ہر تاریخی تجزیہ بالآخر قانونی نتائج پر ہی منتج ہوتا ہے اور یہاں بھی کمنٹس میں دیکھیے تو سبھی کو ان قانونی نتائج ہی کی فکر ہے۔و اللہ اعلم۔
اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین اجر دے۔ آمین”

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۹) کن فیکون کا ترجمہ

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں کہیں ’’کن فکان‘‘ نہیں آیا ہے، جبکہ آٹھ مقامات پر کن فیکون کی تعبیر آئی ہے۔ یہ تعبیر ایک بار زمانہ ماضی کے سلسلے میں آئی ہے، ایک بار زمانہ مستقبل کے سلسلے میں اور باقی مقامات پر ہر زمانے پر محیط عام اصول بتانے کے لیے آئی ہے۔
عام طور سے کن فیکون کا ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے:’’ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے‘‘ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ کن فیکون کا مناسب ترجمہ نہیں ہے، بلکہ دراصل ’’کن فکان‘‘ کا ترجمہ ہے۔ کن فیکون کا ترجمہ ہوگا ’’ہوجا تو وہ ہونے لگتی ہے یا ہورہی ہوتی ہے‘‘۔ترجمے کے باب میں یہ ان کا خاص تفرد معلوم ہوتا ہے، کیونکہ راقم السطور کو کسی اور کا ترجمہ اس طرح کا نہیں ملا۔ 
درحقیقت فکان کے مقابلے میں فیکون میں معنی کی بہت زیادہ وسعت ہے۔ کچھ امر ایسے ہیں جنہیں ایک بار ہوجانا نہیں بلکہ زمانہ دراز تک ہوتے رہنا ہے، جیسے سورج اور چاند کا گردش میں رہنا۔ کچھ امر ایسے ہیں جنہیں ایک متعین وقت کے بعد ہونا ہے، جیسے دعا کی قبولیت کا ایک عرصے کے بعد ظاہر ہونا۔ جب کہ کچھ امر ایسے ہیں جو حکم دیتے ہی وجود میں آجاتے ہیں۔ فیکون میں نفاذ امر کے ایسے تمام احوال کا احاطہ ہوجاتا ہے۔ یہ قرآنی اسلوب کی بلاغت ہے کہ ایسی تعبیر اختیار کی گئی جو تمام ابعاد پر دلالت کرے۔
ذیل میں ایسی آیتوں کے ترجمے پیش کیے جاتے ہیں۔

(۱) بَدِیْعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُون۔ (البقرۃ: ۱۱۷)

’’وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے‘‘(سید مودودی)
’’وہ زمین اور آسمانوں کا ابتداءً پیدا کرنے والا ہے، وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا، بس وہ وہیں ہوجاتا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’بس یہ حکم دیتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہونے لگتی ہے، یا ہورہی ہوتی ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)

(۲) قَالَ کَذَلِکِ اللّہُ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُونُ۔ (آل عمران: ۴۷)

’’فرمایا اللہ یوں ہی پیدا کرتا ہے جو چاہے جب، کسی کام کا حکم فرمائے تو اس سے یہی کہتا ہے کہ ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’جواب ملا، ’’ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہونے لگتا ہے، یا ہورہا ہوتا ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)

(۳) إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْْءٍ إِذَا أَرَدْنَاہُ أَن نَّقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ۔ (النحل: ۴٠)

’’جو چیز ہم چاہیں اس سے ہمارا فرمانا یہی ہوتا ہے کہ ہم کہیں ہوجا وہ فوراً ہوجاتی ہے‘‘ (احمد رضا خان)
(رہا اس کا امکان تو) ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں ’’ہو جا‘‘ اور بس وہ ہو جاتی ہے۔ (سید مودودی)
’’تو وہ ہونے لگتی ہے، یا ہورہی ہوتی ہے‘‘(امانت اللہ اصلاحی)

(۴) مَا کَانَ لِلَّہِ أَن یَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَہُ إِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُون۔ (مریم: ۳۵)

’’اللہ کو لائق نہیں کہ کسی کو اپنا بچہ ٹھہرائے پاکی ہے اس کو جب کسی کام کا حکم فرماتا ہے تو یونہی کہ اس سے فرماتا ہے ہوجاؤ وہ فوراً ہوجاتا ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد کا ہونا لائق نہیں، وہ تو بالکل پاک ذات ہے، وہ تو جب کسی کام کے سر انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتا ہے’’ (فتح محمد جالندھری)
’’تو وہ ہونے لگتا ہے، یا ہورہا ہوتا ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)

(۵) إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْْئاً أَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُون۔ (یس: ۸۲)

’’وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتی ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کو چاہے تو اس سے فرمائے ہو جا وہ فوراً ہوجاتی ہے۔(احمد رضا خان)
’’وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے‘‘ (سید مودودی)
اس آخر الذکر ترجمہ میں ایک اور خامی ہے، وہ یہ انما أمرہ کا ترجمہ کیا ہے’’اس کا کام بس یہ ہے‘‘ یہ ترجمہ لفظ کے لحاظ سے بھی اور شان خداوندی کے لحاظ سے بھی مناسب نہیں ہے، اس کے بجائے ہونا چاہئے ’’اسے بس یہ حکم دینا ہوتا ہے‘‘
’’تو وہ ہونے لگتی ہے، یا ہورہی ہوتی ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)

(۶) ہُوَ الَّذِیْ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ فَإِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُونُ۔ (غافر: ۶۸)

’’وہی ہے کہ جِلاتا ہے اور مارتا ہے پھر جب کوئی حکم فرماتا ہے تو اس سے یہی کہتا ہے کہ ہو جا جبھی وہ ہوجاتا ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’وہی ہے جو جلاتا ہے اور مار ڈالتا ہے، پھر جب وہ کسی کام کا کرنا مقرر کرتا ہے تو اسے صرف یہ کہتا ہے کہ ہو جا پس وہ ہو جاتا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’تو وہ ہونے لگتا ہے، یا ہورہا ہوتا ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)

(۷) إِنَّ مَثَلَ عِیْسَی عِندَ اللّہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَہُ کُن فَیَکُونُ۔ (آل عمران: ۵۹)

’’عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال ہو بہو آدم (علیہ السلام) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہو جا! پس وہ ہو گیا!‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ ماضی کی روداد ہے، اس کے پیش نظر پہلا ترجمہ اس لیے درست نہیں ہے کہ ماضی میں ہونے کا لحاظ نہیں کیا گیا اور جو ترجمہ ہر جگہ کیا وہی یہاں بھی کردیا۔ موخر الذکر دونوں ترجمے واضح طور سے فیکون کے بجائے فکان کے ہیں۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی حسب ذیل ترجمہ کرتے ہیں:
’’پھر اس سے کہا ہوجا تو وہ ہونے لگا، یا ہورہا تھا‘‘

(۸) وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ وَیَوْمَ یَقُولُ کُن فَیَکُونُ۔ (الانعام: ۷۳)

’’اور وہی ہے جس نے آسمان و زمین ٹھیک بنائے اور جس دن فنا ہوئی ہر چیز کو کہے گا ہو جا وہ فوراً ہوجائے گی‘‘ (احمد رضا خان)
’’وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو بر حق پیدا کیا ہے اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا‘‘۔(سید مودودی)
یہ آیت زمانہ مستقبل سے تعلق رکھتی ہے، اس کا ترجمہ مولانا امانت اللہ اصلاحی حسب ذیل کرتے ہیں: 
’’اور جس دن وہ کہے گا ہوجا تو وہ ہونے لگے گا، یا ہورہا ہوگا‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
مفسرین کا عام طور سے خیال یہ ہے کہ کن فیکون کی تعبیر یہ بتانے کے لئے آئی ہے کہ اللہ جسے ہونے کا حکم دیتا ہے وہ فورا ہوجاتا ہے۔ جب کہ فیکون کا انتخاب یہ بتاتا ہے کہ اس تعبیر کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے ہونے کے لئے اللہ کا حکم دینا کافی ہوتا ہے۔
(جاری)

ناموس رسالت کا مسئلہ اور مغرب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسلمانوں کا ایمانی جذبہ بالآخر رنگ لایا اور ہالینڈ (نیدرلینڈز) کی حکومت نے گستاخانہ خاکوں کے ان مجوزہ نمائشی مقابلوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا جو دس نومبر کو وہاں کی پارلیمنٹ میں منعقد کرائے جانے والے تھے۔ نیدرلینڈز پارلیمنٹ کے اپوزیشن لیڈر اور پارٹی فار فریڈم کے سربراہ گرٹ ولڈرز (Geert Wilders) کی طرف سے اس مجوزہ نمائش کی منسوخی کی اطلاع سے یہ وقتی مسئلہ تو ختم ہو گیا ہے جس پر اس کے خلاف احتجاجی مہم میں حصہ لینے والے تمام شخصیات، ادارے، حکومتیں اور جماعتیں مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مگر اصل مسئلہ ابھی باقی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو بین الاقوامی سطح پر جرم قرار دلوانے کے لیے قانون سازی ضروری ہے جو ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کے ماحول میں ہی ہوگی اور اس کے لیے اسلامی تعاون تنظیم (آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن) کو اساسی کردار ادا کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر ایوانِ بالا میں خطاب کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کو ناقابل برداشت قرار دیا اور معاملہ کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں مغربی ذہنیت کو جانتا ہوں، وہاں کے عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی، عوام کی بڑی تعداد کو اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے دلوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتنا پیار ہے، انہیں نہیں پتا کہ وہ ہمیں کس قدر تکلیف دیتے ہیں، اور وہ آزادیٔ اظہار کے نام پر اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دنیا کو بتانا چاہیے کہ جیسے ہولوکاسٹ سے ان کو تکلیف ہوتی ہے، گستاخانہ خاکوں سے وہ ہمیں اس سے کہیں زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ اس معاشرے میں فتنہ اور جذبات بھڑکانا بہت آسان ہے، مغرب میں وہ لوگ جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں، ان کے لیے یہ بہت آسان بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حکومت میں یہ کوشش کریں گے کہ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن) کو اس پر متفق کریں، اس چیز کا بار بار ہونا مجموعی طور پر مسلمانوں کی ناکامی ہے، گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر او آئی سی کو متحرک ہونا ہوگا اور اور اسے اس معاملے میں کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ یہ دنیا کی ناکامی ہے، مغرب میں لوگوں کو اس معاملہ کی حساسیت کا اندازہ نہیں، لہٰذا مسلم دنیا ایک چیز پر اکٹھی ہو اور پھر مغرب کو بتائیں کہ ایسی حرکتوں سے ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔
جہاں تک ایمانی جذبات کے اظہار کا تعلق ہے وہ تو بحمد اللہ تعالیٰ مسلسل بڑھ رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں ہالینڈ کے بعض ناعاقبت اندیشوں کی اس مذموم حرکت پر ناراضگی اور شدید غصے کی لہر ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔ مگر ہمارے خیال میں محض جذبات اور غم و غصہ کا اظہار کافی نہیں ہے بلکہ اصل فورم پر یہ جنگ لڑنے کی ضرورت ہے جس کا وزیر اعظم عمران خان نے تذکرہ کیا ہے، جبکہ ہم ایک عرصہ سے مسلسل گزارش کر رہے ہیں کہ (۱) ناموس رسالتؐ (۲) تحفظ ختم نبوت (۳) اور پاکستان کی اسلامی شناخت کے معاملات پر حقیقی معرکہ آرائی بین الاقوامی اداروں اور لابیوں میں ہو رہی ہے مگر وہاں ہمارا یعنی دینی حلقوں کا کوئی مورچہ موجود نہیں ہے۔ سیکولر حلقے اور منکرین ختم نبوت بین الاقوامی معاہدات کے ہتھیاروں کے ساتھ عالمی اداروں اور حلقوں میں دین، اہل دین اور پاکستان کے خلاف محاذ گرم کیے ہوئے ہیں مگر ہم سوشل میڈیا، مساجد اور سڑکوں پر اپنے جذبات کا اظہار کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا ہے۔ مجھے سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں اس مہم کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں ہے بلکہ میں خود اپنی استطاعت کے مطابق اس میں شریک رہتا ہوں لیکن بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کا وسیع تر اور مؤثر محاذ ہماری نمائندگی سے خالی ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔
ہمارے ہاں کی عمومی صورتحال یہ ہے کہ سیکولر حلقوں نے ابھی تک پاکستان کے دستور کو سنجیدگی سے نہیں لیا جبکہ دینی حلقوں کی بین الاقوامی معاہدات کے بارے میں یہی صورتحال ہے۔ حالانکہ بین الاقوامی معاہدات اور دستور پاکستان دونوں زندہ حقیقتیں ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ سیکولر حلقوں کا خیال ہے کہ دستور پاکستان محض ایک نمائشی اور کاغذی دستاویز ہے جسے پس پشت ڈال کر پاکستان میں وہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتے ہیں جبکہ دینی حلقوں کے نزدیک بین الاقوامی معاہدات کی کم و بیش یہی حیثیت ہے۔ دونوں کو اپنے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی اور زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا ورنہ قوم اسی طرح ذہنی اور فکری خلفشار کا شکار رہے گی اور دونوں طرف کے مہم جو گروہ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔
ہمارے نزدیک اس کا حل وہی ہے جو وزیراعظم عمران خان نے بتایا ہے بلکہ اس سے قبل ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد اقوام متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کے موقع پر، جبکہ وہ خود او آئی سی کے صدر تھے، یہ تجویز دے چکے ہیں کہ مسلم امہ کو متحد ہو کر اقوام متحدہ سے دو مسئلوں پر بات کرنا ہوگی۔ ایک یہ کہ بین الاقوامی معاہدات پر مسلم امہ کے دینی و تہذیبی تحفظات کے حوالہ سے نظرثانی کی ضرورت ہے اور دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کے پالیسی ساز ادارہ سلامتی کونسل میں مسلم امہ کی نمائندگی متوازن نہیں ہے اور وہ ویٹو پاور کی فیصلہ کن اتھارٹی کے دائرہ سے باہر ہے۔ مغربی دنیا اور عالم اسلام کے درمیان موجودہ بے اعتمادی بلکہ کشمکش کی بڑی وجہ یہی ہے اس لیے اقوام متحدہ کے ساتھ اجتماعی طور پر دوٹوک بات کرنا ان کے نزدیک ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت پاکستان کو اس سلسلہ میں ڈاکٹر مہاتیر محمد اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ بھی مشاورت کا اہتمام کرنا چاہیے، بلکہ مسلم دنیا کے ان مشترکہ مسائل کے حل کے لیے اگر سعودی عرب کے شاہ سلیمان، ترکی کے رجب اردگان، ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور ایران کے صدر حسن روحانی باہمی مشاورت کے ساتھ پیشرفت کریں تو وہ یقیناً بے نتیجہ نہیں ہوگی۔ خدا کرے کہ ایسا ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔

احمدی مسئلے پر تازہ بحث: نمایاں سوالات پر ایک نظر

ڈاکٹر محمد شہباز منج

عمران خان صاحب کی نئی حکومت میں  احمدی  ماہرِاقتصادیات عاطف میاں کے اقتصادی  مشاورتی کونسل کے مشیر مقرر کیے جانے اور پھر  مسلم مذہبی حلقوں کی طرف سے اس پر ردِّعمل کے نتیجے میں مذکورہ   عہدے سے ہٹائے جانے کے تناظر میں علمی حلقوں میں احمدی  مسئلے کے حوالے سے ایک دفعہ پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔اس بحث سے جڑے اہم سوال یہ ہیں:
  1. احمدیوں سے عام اقلیتوں سے مختلف رویہ اپنایا جانا چاہیے  یا عام اقلیتوں جیسا؟   اسی سوال سے جڑا ایک اور سوال یہ ہے کہ  اقلیت کی حیثیت سےاحمدیوں کو اہم اعلی عہدوں پر فائز کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ 
  2. حمدی خود کو غیر مسلم اقلیت نہ مان کر آئین سےبغاوت کر رہے ہیں یا نہیں؟ 
  3. آئینی اعتبار سے کسی کے مذہب کا فیصلہ  کیا بھی  جا سکتا  ہے یا نہیں؟
  4. کیا احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوا لینا کافی تھا یا  ان کے حوالے سے مزید سخت  آئینی اقدامات کی ضرورت ہے؟
ذیل میں ہم ہر سوال سے متعلق پائے جانے والے نمایاں نقطہ ہائے نظر (بشمول  عمومی مسلم و قادیانی موقف) کا خلاصہ عرض کرنے کے   بعد  ان پر اپنی کچھ گزارشات پیش کریں گے۔ ان سوالات پر اپنی گزارشات کے بعد ہم  ایک ایسے مسئلے پر مختصر گفتگو کریں  گے، جس کی طرف احمدی اور مسلمان دونوں ہی  بالعموم توجہ نہیں دیتے:
پہلے سوال سے متعلق صورت ِ حال یہ ہے کہ  پاکستانی  سماج اور علما  کی اکثریت اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں  کہ احمدیوں کے ساتھ عام اقلیتوں جیساسلوک روا رکھا جائے۔اس کا عمومی موقف یہ ہے کہ دیگر اقلیتیں خود کو غیر مسلم تسلیم کرتی ہیں ، جس کی بنا پر ان کے ساتھ رویے میں  سماج اور علما کی اس اکثریت کا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔مثلاً کسی ہندو کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے پر کبھی اس طرح کا ردعمل سامنے نہیں آیا، جیسا عاطف میاں کے اقتصادی مشاورتی کونسل کے مشیر بننے پر آیا! اس موقف کے حاملین کا خیال ہے کہ احمدی  غدار ِ دین و طن وآئین ہیں، ان سے عام اقلیتوں جیسا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے اسلام ، مسلمانوں
 اور پاکستانیوں کو پہلے بھی نقصان پہنچایا اور آیندہ بھی پہنچانے کا عزم  رکھتے ہیں؛ مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر کے  اسلام سے غداری کی؛ رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچائی  ،یہی کا م اس کے پیروکار اسے نبی مان کر کررہے ہیں؛وہ اپنے  ارادوں کی تکمیل کے لیے مختلف طریقوں سے اہم عہدوں پر فائز ہو کر احمدیت پھیلانے  کی کوشش میں مصروف ہیں۔وہ پاکستان میں وہی کردار حاصل کرنا چاہتے  ہیں، جو یہودیوں نے امریکہ میں حاصل کر رکھا ہے۔ اس طرح کے کوئی عزائم و جرائم دیگر اقلیتوں کے حوالے سے محسوس و مشاہد نہیں ،لہذا  دینی  و قومی ہر دو اعتبار سے احمدیوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں سے مختلف سلوک ہونا چاہیے۔ دوسری طرف بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ احمدی بھی چونکہ ایک اقلیت ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ عام اقلیتوں جیسا معاملہ ہونا چاہیے۔آئین اس حوالے سے اقلیتوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا کہ ان کا تعلق کس مذہب سے ہے!  وہ بس تمام اقلیتوں کے حقوق  اقلیتوں کے حقوق کی حیثیت سے متعین کرتا ہے۔ زیرِ بحث تناظر میں عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کونسل کا مشیر بنائے جانے میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہے۔چنانچہ اس حوالے سے مسلم مذہبی طبقوں کا ردِّعمل اور حکومت پر دباؤ بے جا ، غیر آئینی اور پاکستان میں مذہبی طبقوں کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی کوششوں کا عکاس ہے، جس سے عالمی برادری میں اقلیتوں سے سلوک کے ضمن میں  پاکستان کا پہلے سے خراب شدہ امیج اور خراب ہو گا۔ اس حوالے سے بعض لوگوں کی طرف سے یہ  دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ قادیانی خود کو غیر مسلم مانیں یا نہ مانیں انھیں اقلیت ہی سمجھا جانا چاہیے، کیوں کہ آئین نے انھیں اقلیت قرار دیا، اور آئین نے بطور خاص ان کو اقلیت قرار ہی اس لیے دیا کہ وہ خود کو مسلم کہتے ہیں ، ورنہ تو آئینی طور پر اقلیت قرار دینے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ آئین  نے باقی اقلیتوں کے بارے میں ایسا کچھ بھی قرار نہیں دیا۔
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے ، اس سے متعلق بھی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ احمدی خود کو غیر مسلم اقلیت نہ مان کر آئین سے بغاوت کر رہے ہیں۔ جب کوئی گروہ آئین کو نہیں مانتا، اور دھڑلے سے اس کے مخالف  پروپگنڈہ کرتا ہے، اسے کیسے ریاست اور آئین  کا وفادار قرار دیا جا سکتا ہے! دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ احمدی خود کو مسلمان ظاہر کر کے آئین سے بغاوت نہیں کر رہے، بلکہ آئین کی اس شق سے اختلاف کر رہے ہیں،  جو احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیتی ہے ،اور آئین کی کسی شق سے  اختلاف کرنا اور اس میں ترمیم کی کوشش کرنا بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا۔
تیسرے سوال سے  متعلق بھی اکثریت کی رائے مثبت ہے ۔ اس کا موقف ہے کہ اصولی اعتبار سے  ظاہر ی عقائد و اعمال کی روشنی میں اہلِ علم یہ طے کر سکتے ہیں کہ کوئی مخصوص شخص یا گروہ  دائرۂ  اسلام سے خارج ہو گیا ہے۔ احمدیوں سے متعلق  مسلم اہلِ علم نے محکم دلائل سے ثابت کیا تھا کہ  احمدی اسلام کے دائرے سے نکل چکے ہیں۔ جب کہ دوسرا موقف یہ ہے  کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے پیچھے کوئی مضبوط مذہبی بنیاد نہیں ہے،بات فقط اتنی ہے کہ بھٹو حکومت نے ملاؤں کے دباؤ میں آکر یہ اقدام کیا۔
آخر ی سوال کے حوالے سے مسلم مذہبی حلقوں کے  کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ  احمدیوں کو صرف غیر مسلم قرار دلوانا کافی نہیں تھا۔ یہ  اس وقت کے حالات میں ایک کمپرومائز تھا ، جس پر علما  زیادہ بڑے مفاسد سے بچنے کی حکمتِ عملی کے تحت رضا مند ہو گئے تھے۔ ان سے متعلق صحیح بات یہ ہے کہ یہ مرتد ہیں  ، انھیں توبہ کر کے اسلام میں واپس آنے کا کہا جائے  اور واپس نہ آئیں تو قتل کر دیا جائے۔ دوسری رائے جس میں مذکورہ سوال کے تناظر میں نرمی اختیار کی گئی ہے ، یہ ہے کہ انھیں آئینی طور پر دیگر اقلیتوں سے الگ قرار دلوا کر کلیدی عہدوں وغیرہ پر فائز نہ  کرنے  سے متعلق قانون سازی کی جائے ۔ 
اب آتے ہیں ان سوالات پر بحث کے ضمن میں ہمارے زاویۂ نظر کی طرف :
پہلے سوال سے متعلق ہماری گزارش یہ ہے کہ زمینی حقائق کے مطابق احمدیوں سے  کلیدی عہدوں کے حوالے سے عام اقلیتوں جیسا معاملہ روا رکھنا محال ہے۔یہ دلیل کہ آئین نے انھیں اقلیت قرار ہی اس لیے دیا  کہ وہ خود کو غیر مسلم نہیں مانتے، لہٰذا وہ خود کو جو بھی کہیں ، دوسری اقلیتوں جیسے ہی سمجھے جانے چاہییں ، الٹا اس نظریے کے حق میں جاتی ہے ، کہ ان سے دیگر اقلیتوں جیسا سلوک نہیں کیا جا سکتا، اور وہ اس طرح کہ قادیانیوں کا چونکہ معاملہ ہی دیگر اقلیتوں سے مختلف ہے ، اس لیے ان کو دیگر اقلیتوں کی طرح سمجھا بھی نہیں جانا چاہیے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے  کہ جس طرح انھیں غیر مسلم قرار دلوانے کا موجب یہ بنا کہ ان کے حوالے سے علما اور عوام کی اکثریت نے اس پر صاد کیا، اسی طرح آج علما اور عوام کی اکثریت کا فیصلہ  یہی ہے کہ انھیں اعلی عہدوں پر فائز نہ کیا جائے۔(بعض لوگ اس حوالے سے موقف اختیار کرتے ہیں کہ آپ علما اور عوام کی اکثریت کی بات کرتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ  آپ کے نزدیک شرعاً ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، یہ دلیل اس وجہ سے بے محل ہے کہ  جب ہم اس کو درست قرار دے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمارے نزدیک اس معاملے میں تقاضاے وقت کی رو سے شرعی و فقہی موقف یہی بنتا ہے، نہ یہ کہ محض علما کے دباؤ کی وجہ سے ایسا موقف اختیار کیا جانا ضروری ہے، اگر ہمارا نقطۂ نظر مختلف ہو تو اس کے اظہار  میں  ہمیں کوئی باک نہیں ہے) اپنے طور پر اس کو کوئی پسند کرے یا نہ کرے ، امر واقعہ یہی ہے کہ ان کے ساتھ عام اقلیتوں جیسا سلوک علما اور عوام کو سرِدست قبول نہیں، ہو سکتا ہے کل کلاں وہ اپنے رویوں سے علما اور عوام کو قائل کر لیں کہ ان سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے والا، تو ان کے حوالے سے موجودہ رویہ تبدیل ہو جائے۔(اور قادیانیوں کے مذہبی موقف کے تناظر میں  فی الواقع یہ امرِ محال ہے) اس معاملے کو اسی حساسیت کے تناظر میں دیکھنا پڑے  گا،جس تناظر میں تحریکِ ختم نبوت کے دوران ان کی مذہبی پوزیشن کو دیکھا گیا تھا۔ 
میرے خیال میں اس معاملے میں کوئی آئینی بندوبست کیے بغیر کوئی غیر سرکاری و غیر تحریری انتظام  ایسا ہو کہ قادیانیوں کو  جو  اعلی عہدہ دینے کے حوالے سے مذکورہ نوعیت کی حساسیت پائی جائے ، وہ انھیں سپرد نہ کیا جائے ، یہ چیز حکمرانوں ، عوام، اور سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ  خود قادیانیوں کے لیے بھی فائدے مند ہے، اور سوسائٹی کے امن کی ضامن ہے۔ اس ضمن  میں زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے کوئی فلسفہ بگھارنا ہر گز دانش مندی نہیں۔ایک اور اہم چیز یہ ہے کہ قادیانیوں کو کلیدی عہدے نہ دینے کے مخالفین  اپنے نقطۂ نظر کے حق میں دلائل دیتے ہوئے    ہمیشہ اسی بات کو سامنے رکھتے ہیں کہ مسلم مذہبی طبقے انتہا پسندی سے کام لے رہے ہیں؛ ایک اقلیت کو اس کے حقوق سے جبراً محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ  اس  معاملے میں( مسلم مذہبی طبقے کو انتہا پسند  قرار دیا جائے تو بھی )  فریقِ مخالف میں انتہا پسندی زیادہ  پائی جاتی ہے۔وہ (شناختی کارڈ وغیرہ کے خانے کے علاوہ )عملی طور پر یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ وہ اقلیت ہیں ، اور ان سے اقلیتوں جیسا سلوک روا  رکھا جائے۔ وہ مسلسل اس کوشش میں رہتے ہیں  کہ انھیں سوسائٹی میں اسی طرح قبول کیا جائے،  جیسے عام مسلمانوں کو کیا جاتا ہے،بلکہ احمدیت کے رہنماؤں کے بیانات پر جایا جائے، تو ان کے نزدیک صرف احمدی ہی مسلمان ہیں ، باقی مسلمان مرزا قادیانی کو نہ مان کر کافر ہیں یا  بعض ("تجدد پسندقادیانیوں") کی تاویل کے مطابق  فاسق و فاجر  ہیں۔ان کے رہنما باقاعدہ   مسلمانوں کو احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں  اور اس کوشش میں رہتے ہیں  کہ  کس طرح زیادہ سے زیادہ (بزعم خویش نام نہاد) مسلمانوں کو اپنے  "سچے " مذہب پر لا سکیں۔بیرون ممالک (بالخصوص یورپ اور امریکہ ) میں ان کی سرگرمیاں جس قدر  پھیلی ہوئی ہیں، ان سے ہر صاحب ِعلم واقف ہے۔ اس سلسلے میں ان کی کاوشوں کا اندازہ اسی سے کر لیجیے کہ (اطلاعات کے مطابق )عاطف میاں بھی  ان کے مبلغین کی تبلیغ ہی سے  دائرہ احمدیت میں داخل ہوئے تھے،اور اب وہ ان کے مذہبی پروپیگیٹر (Propagator)بھی ہیں۔مزید برآں ایک سادہ سے سادہ اور ان پڑھ  مسلمان بھی  دیگر مذاہب کے حوالے سے اس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ یہ مذہب ہمارے مذہب سے مختلف ہے،اور اس کو ماننا اپنے مذہب سے نکل جانا ہے، لیکن احمدیوں  کے حوالے سے بہت سے مسلمانوں (بطورخاص مغربی اور غیر مسلم ممالک میں موجود  مسلمانوں ) کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ غیر مسلم ہیں،  اور ان کے مذہب کو قبول کر کے وہ  دائرۂ اسلام سے نکل جائیں گے۔ قادیانی مبلغین انھیں یقین دلاتے ہیں کہ وہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ  سچ یہ ہے کہ حقیقی مسلمان ہیں ہی وہی ، باقی کافر یہ کم ازکم گمراہ اور فاسق و فاجر ہیں۔
دوسرے سوال سے متعلق ہماری رائے میں دوسرا موقف درست ہے، بشرطیکہ جمہوری طریقے سے آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر آئین کی متعلقہ شق سے اختلاف کیا جائے۔اگرچہ اس حوالے سے یہ بات بھی وزن رکھتی ہے  کہ ایک   شرعی و آئینی تقاضے پورے کر کے غیر مسلم  قرار دی گئی،  ایک اقلیت خود کو مسلمان ظاہر کر کے اس بات کی تبلیغ کا حق شرعاً اور اخلاقا ً نہیں رکھتی کہ وہ اپنے مسلم ہونے  کا ببانگِ دہل اعلان کرتے ہوئے ،لوگوں کو اپنے مذہب کی دعوت دے۔ تاہم  اصولی طور پر ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جیسے بہت سے اہلِ علم وفہم آئین کی کسی ایک شق یا کئی شقوں سے اختلاف کرتے ہیں ، احمدی بھی اپنے متعلق شق سے اختلاف کر سکتے ہیں۔آئین میں ترمیم ہوتی رہتی ہے اور یہ  اسی بنیاد پر ممکن ہوتی ہے کہ آئین کی کسی شق پر رائے عامہ ہموار ہو جاتی ہے کہ یہ مناسب نہیں ،اس میں ترمیم کرنی چاہیے۔سواحمدی بھی جمہوری و ائینی حدود کے اندر رہتے ہوئےاس  شق سے اختلاف کریں  اورہو سکے تو  رائے عامہ کو ہموار کر کےاسمبلی سے اس شق کو ختم  کرا لیں یا اس میں ترمیم کرا لیں۔( ختم ِنبوت سے متعلق اسلامی تعلیمات اتنی واضح ہیں کہ اس حوالے سے علما اور امت کا قادیانیوں کے مواقف کو تسلیم کر لینا محال ہے،تاہم ، جیسا کے اوپر واضح کیا گیا، انھیں اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے ،بشرطیکہ کے وہ آئین قانون کے دائرئے میں رہتے ہوئے اور جمہوری طریقے سے ایسا کریں ،مگر حقیقت اس معاملے میں اس کے برعکس ہے) احمدیوں کا یہ اعتراض بالکلیہ  بے بنیاد ہے کہ وہ کیا کریں! ان کو بات کہنے ہی نہیں دی جاتی !  آج سوشل میڈیا کا دور ہے ، ہر آدمی اپنی رائے کے اظہار میں آزاد ہے۔ہم سوشل میڈیا پر عام دیکھتے ہیں کہ احمد ی لوگ اپنے موقف کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ وہ اپنے مخالف لکھی جانے والی تحریروں پرسخت تنقید اور اپنا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔(اگر کسی کو یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر ان  کے مذہب کی تردید میں کوئی تحریر ڈال کر دیکھ لے،یہ اس کی "گوشمالی " کے لیے دوڑتے ہوئے آئیں گے) یہی نہیں بلکہ بہت دفعہ کئی مسلم اہلِ مذہب وصحافت بھی ایک خاص تناظر میں ان کے بعض مواقف کی حمایت میں بول رہے ہوتے ہیں۔ کیا عاطف میاں  کی تقرری کے دفاع میں  صرف قادیانیوں نے لکھا؟ ہر گز نہیں! بہت سے مسلمانوں نے بھی لکھا کہ انھیں اس عہدے پر برقرار رہنا چاہیے، اگرچہ اکثریت کی رائے اس کے خلاف تھی ، اور اکثریتی رائے پر ہی انھیں عہدے سے ہٹایا گیا۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ انھیں خود یا دیگر لوگوں کو ان کے موقف کے حق میں کچھ کہنے یا لکھنے کی آزادی نہیں۔سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں یہ  دعویٰ باطل ہی نہیں مضحکہ خیز بھی  ہے۔
  جہاں تک  تیسرے سوال کا تعلق ہے، ہماری رائے میں یہ بات درست ہے کہ  معتبر علما  اور رائے عامہ کسی   شخص یا گروہ کے  واضح عقائد و اعمال کی روشنی میں ان کے دائرہ اسلام سے خروج  کا فیصلہ کرے ، چاہے وہ خود  کو مسلما ن ہی کہتا ہو۔آں جناب ﷺ کے خاتم النبیّٖن ہونے کے حوالے سے کتاب وسنت کی نصوص اتنی واضح ہیں کہ کوئی دوسرا موقف اختیار ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ ختم ِنبوت کے ہر منکر یا اپنی نبوت کا دعویٰ کر کے اس کی طرف  دعوت دینے والے کو امت نے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ۔پھر اس معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ قادیانیوں کو علامہ اقبال کی تجویز پر علما نے اقلیت مان لیا، ورنہ عمومی فقہی رائے کی رو سے یہ ارتداد تھا، جس کی بنا پر انھیں توبہ کا کہا جاتا اور توبہ نہ کرنے پر قتل کیا جاتا۔  یہ شق احمدیوں کے لیے نقصان کی بجائے فائدے مند ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شق نہ ہوتی  تو ان کا جینا دوبھر ہوتا۔ پھر جب آئین نے ایک فیصلہ  کر دیا تو، جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا، اس کو آئینی اعتبار سے درست نہ ماننے والوں کے پاس  اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں کہ وہ اس کو آئینی  فریم ورک کے مطابق ہی ایڈریس کریں۔ ان کو  چاہیےکہ وہ آئینی و جمہوری  طریقے سے اپنے موقف کے حق میں رائے عامہ ہموار کر کے آئین میں ترمیم  کرا لیں۔آئین اور رائے عامہ ہی  کی  رو سے مذکورہ  فیصلہ معرضِ ظہور میں آیااور یہی یہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں  کہ کسی کے مذہب کا فیصلہ آئین  یا عوام کر سکتےہیں  یا نہیں، ابھی تک کی پوزیشن تو یہی ہے کہ اس کا فیصلہ عوام اور آئین کر سکتے ہیں۔اس موضوع پر طویل بحث مباحثہ اور مکالمہ ہوا تھا اور اسمبلی میں احمدیوں کو اپنے موقف   کو واضح کرنے کا پورا موقع دیا گیا تھا، مگر وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے کہ وہ  مسلمان ہی ہیں ، اور فلاں فلاں دلائل کی بنا پران کا موقف  ان کا موقف درست ہے۔یہ میدان ان کے لیے اب  بھی کھلا ہے ، وہ اپنا موقف منوا سکتے ہیں ، لیکن وہ جمہوری و آئینی راہ اختیار کرنے کی بجائے  دھاندلی کے درپے ہیں۔
آخری سوال سے متعلق  ہماری رائے یہ ہے کہ  احمدیوں کے کلیدی عہدوں پر فائز نہ ہو سکنے سے  متعلق آئینی ترمیم یا قانون سازی  غیر ضروری بھی ہے اور کم ازکم موجودہ عالمی تناظر میں خلافِ حکمت بھی ۔قادیانیوں سے متعلق جب   تک    مقبولِ عام تصور (Popular narrative) ویسا ہے ، جیسا ہمیں آج کل نظر آتا ہے، ان کا کلیدی عہدوں پر آنا ویسے ہی  محال ہے۔ مجھے ایک ایسے ملک میں جس کی 95 فی صد سے بھی زیادہ آبادی مسلمان ہو، یہ آئینی بندوبست  بھی غیر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ مثلاً اس ملک  کا وزیر اعظم مسلمان ہونا چاہیے۔ اس صورت حال میں ویسے ہی کسی غیر مسلم کے وزیر اعظم بننے کا امکان نہیں ہوتا۔ تاہم اگر اس نوعیت کی ائینی ترمیم کی بعض لوگ ضرورت محسوس کرتے ہوں، تو بھی ، ہماری گزارش اس ضمن میں یہی ہو گی ،کہ موجودہ حالات  میں یہ اقدام  مناسب نہیں ۔ جدید دنیا میں عالمِ اسلام ، مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کا بوجوہ ایک ایسا امیج بنا دیا گیا ہے  کہ ان کے یہاں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ (عالمی برادری کو سرِ دست یہ سمجھانا آسان نہیں کہ قادیانیوں کا معاملہ عام اقلیتوں سے مختلف ہے۔) نتیجتاً پاکستان کو عالمی سطح پر معاشی و سیاسی  نقصان کا اندیشہ  ہے۔
 مذکورہ سوالات کے مختصر جوابات کے بعد  مجھے یہاں اس سوال پر   بحث کرنا ہے، جو عمومی طور پر زیر بحث نہیں آتا۔ میں نے  "الشریعہ " اور دیگر مقامات پر شائع ہونے والے اپنے  ایک مضمون بعنوان"احمدی اور تصورِ ختم ِنبوت : ایک احمدی جوڑے سے گفت گو"میں اس تناظر کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی ۔یہ بڑا ہی بنیادی اور اہم سوال ہے ،جس کی طرف احمدی بھی  کوئی خاص توجہ نہیں دیتے اور مسلمان بھی۔ وہ یہ کے بھئی  احمدیوں کا مرزا قادیانی کے بارے میں  عقیدہ اصلاً  کیا ہے؟ وہ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں یا نہیں ؟ بظاہر یہ سوال عام سا ہے، لیکن اسی  کے درست جواب میں مسئلے کاحقیقی حل مضمر  ہے:
اگراحمدی مرزا قادیانی کو نبی   مانتے  ہیں تو انھیں اس پر اصرار کیوں ہے کہ وہ مسلمان ہیں ؟ کیا  وہ دنیا کے مذاہب   اور ان کی تاریخ و مزاج  سے واقف نہیں ہیں! ہر نبی کی امت الگ ہے،  اور وہ دوسروں سے اپنی  پہچان الگ ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ یہودی ، عیسائی ، سکھ، بدھ، ہندو وغیرہ سب مذہبی گروہ  نہ صرف اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، بلکہ کسی صورت دوسروں میں مدغم نہیں  ہونا چاہتے۔(اس حوالے سے احمدی دلیل دیتے ہیں کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ االسلام کے لیے معاون بنا  کر بھیجا گیا تھا، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت  سلیمان علیہ السلام  کا تعلق ایک ہی قوم و نسل سے تھا،لیکن یہ دلیل مرزا صاحب کے حوالے سے کام آنے والی نہیں ،اس ضمن میں واضح رہے کہ ایک تو اسلام سے پہلے کے مذاہب میں نبوت کا تصور اسلام سے کافی مختلف ہے،ان کے یہاں بھائی اور باپ بیٹے کی نبوت کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، یہاں نبوت کا وہ تصور ہے اور نہ ہی مرزا صاحب کا حضور ﷺ کی ذات ِ گرامی سے اس نوعیت کا رشتہ۔ان بزرگوں کو مدد درکار تھی، اور مددگاروں نے واقعی مدد کی،یہاں حال یہ ہے کہ مرزا صاحب نے اسلام اور مسلمانوں میں خلفشار میں مدد کی۔ یہ دلیل دینے والے  ذرا بتائیں تو حضورﷺ کی نبوت میں کون سی کمی رہ گئی تھی اور آپﷺ کو کس نوع کی مدد کی ضرورت تھی ، جس کے لئے مرزا صاحب کو بھیجے بغیر چارا  نہ تھا۔یوں بلاضرورت ، بلا تعلق اور بے سبب مرزا صاحب کو چودہ سو سال کے بعد حضورﷺ کے مددگار کے طور پر پیش کر کے ان کی "نبوت " کا جواز تراشنا مضحکہ خیز ہے۔لہذا انھیں مرزا کو الگ نبی ہی ماننا پڑے گا ، جیسا کہ ان کے "راسخ العقیدہ" پیروکاروں  کے عقائد وبیانات سے اس کی تصدیق ہوتی بھی ہے، جس  کا کچھ تذکرہ آگے چل کر ہو گا۔) پھر احمدیوں کا عجیب مسئلہ ہے کہ الگ نبی بھی مانتے ہیں اور خود کو مسلمان بھی کہلانے پر اصرار کیے ہوئے ہیں! ان کو تو خود اپنی الگ پہچان پر اصرار کرنا چاہیے تھا، چہ جائیکہ مسلمان  جدو جہد کر کے ان کو آئینی طور پر الگ پہچان دلواتے۔ مسلمانوں کا انھیں آئینی طور پر الگ گروہ قرار دلوانا ان پر کوئی ظلم و زیادتی نہیں، بلکہ  ان پر احسان ہے۔ جو کام ان کو اپنی کوشش سے خودکرنا چاہیے تھا ، وہ مسلمانوں نے اپنی کوشش سے انھیں کر دیا۔اگر پھر بھی  ان کا اصرار یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں ، تو اس اصرار کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں  کہ بقیہ سارے مسلمان  در حقیقت مسلمان نہیں (جیسا کہ مرزا قادیانی اور دیگر احمدی رہنماؤں کے غیر احمدیوں کے بارے میں بیانات اور تحریروں سے واضح ہے۔) اس صورت میں ہمت کر کے انھیں بقیہ سارے مسلمانوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دلوانا ہو گا ،اور اس کے لیے ان کے راستے میں کسی نے کوئی رکاوٹ  نہیں ڈالی ہوئی ۔ خود احمدی عقیدے کے مطابق  یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ  مسلمان اور احمدی ایک ہی گروہ شمار ہوں۔اگر وہ ایک ہی گروہ شمار ہونا چاہتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کسی نئے  مدعی ِ نبوت کےماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کو ماننے والا بھی مسلمان ہے، اور نہ ماننے والا بھی۔ مسلمانوں کی بات چھوڑیں ، خود احمدیوں سے پوچھ لیں ، انھیں یہ نظریہ قابلِ قبول ہے؟ سچ یہ ہے کہ انھیں خود یہ نظریہ قبول نہیں!
اور اگر  حقیقت یہ ہے کہ احمدیوں کے نزدیک مرزا قادیانی  نبی نہیں، تو پھر انھوں نے امت کو  فتنے میں کیوں ڈال رکھا ہے! اگر مرزا کو نبی مانے بغیر بھی کوئی آدمی یا گروہ مسلمان رہ سکتا ہے ،تومرزا قادیانی کو نبی ماننے کی ضرورت کیا ہے! کون  سی  ایسی دینی یا دنیوی مصلحت و مفاد ہے، جو آں جناب ﷺ کے ہوتے  ہوئے مرزا قادیانی کو نبی ماننے سے وابستہ ہے۔دینی مصالح اور مفادات تو الٹا مرزا کو نبی نہ ماننے سے وابستہ ہیں ۔مرزا کے دعویِٰ نبوت کے سبب امتِ مسلمہ ایک بہت بڑے بحران اور خلفشار کا شکار ہوئی ہے ۔ بنا بریں احمدیوں کو  چاہیے کہ وہ  مرزا کو نبی ماننے  نہ ماننے کے مخمصے سے نکل کر دائرۂاسلام میں واپس  آجائیں۔(یہاں میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مرزا قادیانی نے اگر جدید زمانے میں نبوت کا  جواز ہی بنانا تھا تو کچھ نیا تو پیش کرتے ، جو روایتی اسلام سے مختلف ہوتا، لیکن انھوں نے نزول ِ عیسی ٰ وغیرہ چند مختلف تعبیرات کو چھوڑ کر،سواے دعویِ نبوت  کے روایتی اسلام میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہیں کیا۔ اگر نئے زمانے کے حالات  میں دین کونیا بنانا ہی  اس "نبوت " کا جواز تھا، تو مرزا صاحب کی بجائے  سرسید احمد خاں اس کے زیادہ مستحق تھے کہ  انھوں نے  اسلام کو جدید زمانے کے مطابق ڈھالنے میں مرزا صاحب سے کہیں بڑھ کر نیا سوچا اور اسلام کی نئی تعبیرات پیش کیں۔)  راقم الحروف نے اپنے محولہ مضمون   میں ایک احمدی جوڑے سے گفت گو کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ مرزا قادیانی کے نبی ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے خود احمدیوں میں عجیب  تذبذب  ہے۔ان کے بہت سے لوگ اس بات کے قائل ہیں  کہ مرزا قادیانی نے خود کو کہیں   اس طرح نبی نہیں کہا، جیسے مسلمان عموماً سمجھتے  یا قرار دیتے ہیں !  بعض احمدی اس کا انکار کرتے ہیں ، لیکن اگر یہ حقیقت نہ ہوتی تو احمدیوں میں مرزا کے سٹیٹس کے حوالے سے اختلاف پیدا نہ ہوتا، لاہوری گروہ کا وجود احمدیوں کے اسی تذبذب  کا عکاس ہے،جس کا دعوی ٰ ہے کہ مرزا صاحب نبی نہیں بلکہ مجدد تھے۔یہ گروہ  ظاہر ہے کہ مرزا کی تحریروں اور بیانات ہی سے ان کے مجدد ہونے کا نظریہ اخذ کرتا ہے۔اگر مرزا صاحب کی تحریروں میں تاویل نہ ہو سکتی،  تو یہ گروہ اور اس کا مذکورہ دعویٰ سامنے آنا غیر ممکن تھا۔(میری یہ دلیل شائع ہوئی تو احمدیوں کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا گیا کہ لاہوری تو قادیانیوں کا محض چار پانچ فی صد ہیں۔ آپ اندازہ کریں کتنی بودی دلیل ہے؟ بندہ پوچھے کہ کم یا زیادہ کی تو بات ہی نہیں ہو رہی ، بات تو یہ ہو رہی ہے کہ قادیانیت میں سے ایک گروہ نے مرزا صاحب کے دعووں کی تعبیر یہ کی وہ  نبی نہیں بلکہ مجدد تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس گروہ نے مرزا کے دعووں کی مین سٹریم قادیانیت سے مختلف تعبیر کی یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ کی!  تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ ان کے دعووں میں یہ گنجائش موجود تھی، اس گروہ کو تھوڑا کَہ کر بے وقعت قرار دینا اس لیے بھی غلط ہے کہ اس میں قادیانیت کا سب سے ذہین  اور فاضل شخص محمد علی لاہوری بھی پایا جاتا ہے۔) میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ احمدیوں میں گو مگو کی یہ  کیفیت فی الواقع اس بنا پر پیدا ہوئی کہ خود مرزا صاحب اس معاملے میں کنفیوز تھے۔ احمدی جوڑے کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے جو الفاظ اپنے  مذکورہ مضمون میں عرض کیے تھے، یہاں ان کو بعینہٖ پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
دیکھیے:مرزا صاحب کا خود کو کھل کر نبی نہ کہنا یا اپنی نبوت کو حضورﷺ کی نبوت کے تابع قراردینا یا اپنی نبوت کی تعبیریں ظلی و بروزی نبوت وغیرہ سے کرنا، اور آپ  لوگوں کا کھل کر مرزا صاحب کو نبی نہ کہنا اور اس کی مختلف تعبیریں کرنا، اس حقیقت کا عکاس ہے کہ مرزا صاحب کو اس بات کا یقینی علم تھا کہ اسلام کے اندر نئی نبوت کی کوئی گنجایش نہیں ، اگر انھوں نے کھل کر خود کو نبی کہا، تو وہ مسلمان ہوکر نہیں رہ سکیں گے، اور نہ اس معاملے میں ان کو کوئی مقبولیت مل سکتی ہے۔یعنی وہ مسلمانوں میں ختم ِنبوت کے واضح سٹیٹس کو جانتے تھے، جبھی تو وہ اس کی تاویلیں کرتے تھے، اور جبھی آپ لوگ اس کی تاویلیں کر رہے ہیں! مزید یہ کہ  یہ جو بات کی گئی کہ خاتم النبیین  کے قرآنی الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے خاتم الاولیا یا خاتم المفسرین وغیرہ کے الفاظ ، تو اس سے ثابت تو یہ کیا جاتا ہے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی اور آپ ﷺ کے بعد بھی نبی آ سکتا ہے، جیسا کہ خاتم الاولیا یا خاتم المفسرین کے بعد بھی ولی یا مفسر ہو سکتے ہیں ، لیکن دوسری طرف  مرزاصاحب خود کو کھل کر نبی بھی نہیں کَہ رہے۔سوال یہ ہے کہ جب شرعاً نیا نبی آ سکتا ہے، تو اس میں شرمانے اور کان کو اِدھر اُدھر سے پکڑنے کی ضرورت کیا ہے!  بلا کسی تاویل اور خوف و جھجک کے مرزا صاحب کو بھی کہنا چاہیے تھا کہ وہ نبی ہیں اور آپ لوگوں یا ان کے پیروکاروں  کو بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہنا چاہیے  کہ وہ نبی ہیں! بہ الفاظِ دیگر مرزا صاحب اور ان کے پیروکاروں کا رویہ خود بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک خاتم النبیین کی مذکورہ تعبیر درست نہیں اوروہ جانتے ہیں کہ اسلام میں کسی نئے نبی کی کوئی گنجایش نہیں ، ورنہ نہ  مرزا صاحب اپنے سٹیٹس کو یوں  کنفیوز رکھتے اور نہ ان کے پیروکار ہمیشہ کے لیے کنفیوژن میں پڑے رہتے۔ (ماہنامہ "الشریعہ" فروری 2017ء)
جب راقم کا مذکورہ مضمون سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس اور رسائل میں شائع ہوا، تو متعدد احمدی حضرات نے نہ صرف اس پر کھل کرتنقید کی بلکہ مجھے جی بھر کر گالیاں بھی دیں ، نیز کئی طرح کے منفی خطابات سے "نوازا"۔(میرا محولہ مضمون ریکارڈ پر ہے، اور اس پر احمدی حضرات کی تنقیدیں اور کمنٹس بھی، میں نے کہیں بھی سخت اور ناشائستہ زبان استعمال نہیں کی۔اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ  "مظلومی " اور خود ترحمی میں اپنے اوپر ایک شائستہ تنقید پرجن لوگوں کا رویہ یہ ہے، انھیں اگر کھل کھیلنے کا موقع ملے، تو  سوسائٹی کا امن غارت کرنے میں کیسے کوئی کسر اٹھا رکھیں گے!) بعض حضرات (جن میں مغربی ممالک میں بسنے والے احمدی حضرات نمایاں تھے) نے اس موقف کا اظہار کیا کہ ہم اس معاملے میں بالکل کنفیوز نہیں ہیں،  بلکہ مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم کیوں اتنے ستم سہتے! کیوں خود کو اقلیت قرار دلواتے !وغیرہ وغیرہ۔ میرے خیال میں پکے احمدی یہی لوگ ہیں ، جو بلا کسی کنفیوژن کے مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں ۔اگر ان کے موقف  کو درست مان لیا جائے (اور اصلاً انھی کے موقف کو درست مانا جانا چاہیے) تو ہمارا موقف ان کے حوالے سے یہی ہو گا کہ  پھر ان کو الگ گروہ یا امت  کہلوانے میں کون سا امر مانع ہے! ان کی سچائی کا تو امتحان ہی یہ ہے کہ وہ خود کو ایک الگ امت سمجھیں ،اور اسی حیثیت  سےاپنی پہچان کروائیں۔ اس کے بعد بھی ان کا   مسلمان کہلوانے پر اصرار خود احمدیت سے غداری ہے۔

قادیانی مسئلے میں مختلف بیانیے

محمد زاہد صدیق مغل

حکومت کی طرف سے عاطف میاں  قادیانی کے بطور مشیر تقرر کولے کر قادیانی مسئلے پر ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے بحث ہوئی جس میں مختلف فکری رجحانات کے احباب نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس مختصر تحریر میں ان متعدد آراء کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں چار مواقف سامنے آئے ہیں اور چاروں سے الگ قسم کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ 

(۱) سیکولر بیانیہ: مسلم و قادیانیت کی مساوات

لبرل سیکولر فکر چونکہ فرد کی آزادی کے عقیدے پر ایمان کی دعوت دیتی ہےجس کے مطابق حقوق کا ماخذ انسان خود ہے، لہذا اس فکر کے مطابق ریاست کو حق نہیں کہ وہ آزادی کے سواء کسی دوسرے عقیدے کی بنیاد پر یا اس کے فروغ کے لئے افراد کی زندگیوں میں تصرف کرے۔ اس فکر کے مطابق ہیومن رائیٹس وہ قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے جو فرد کی جدوجہد آزادی (سرمایہ) کے فروغ کے لئے سب سے زیادہ مفید ہے۔ لہذا اس فکر کے حامل حضرات کے نزدیک کسی بھی ارادے، چاہے وہ ارادہ خدا کا ہو، فرد کا اور یا کسی گروہ کا (مثلا سو فیصد عوام کا) یہ حق نہیں کہ وہ ان حقوق کو معطل کرسکے۔ ہر ارادے پر لازم ہے کہ وہ تنویری مفکرین (enlightenment philosophers) کے وضع کردہ نظریات سے برآمد ہونے والے ان حقوق کی پابندی کرے، ان سے متصادم ہر ارادہ و رائے ظلم و قابل تنسیخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظریاتی فریم ورک کی رو سے کسی ریاست کا غیر ہیومن رائٹس فریم ورک کی بنیاد پر کسی شخص کو کافر قرار دے کر اسے چند ہیومن رائٹس سے محروم کرنا زیادتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق مسلمان و قادیانی ہونا چونکہ مساوی طور پر لغو بات ہے لہذا کسی بھی قانونی و انتظامی عہدے کے لیے ان کی بنیاد پر افراد کے مابین فرق کرنا ظلم ہے۔ چنانچہ پاکستان کے سیکولر طبقات قادیانی مسئلے کو اس بنیاد پر ایڈریس نہیں کرتے کہ انہیں قادیانیوں کے غیر مسلم قرار دئیے جانے سے کوئی علمی مسئلہ لاحق ہے یا وہ انہیں مسلمان قرار دینا چاہتے ہیں، ان کی فکر کی رو سے بھلے سب ہی مسلمان کافر ہوجائیں، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ کافر یا مسلمان ہونا مساوی طور پر لغو بات ہے۔ ان کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ ریاست نے کسی ایسی فکر کی بنیاد پر فیصلہ ہی کیوں کیا جو ان کی شریعت یعنی ہیومن رائٹس سے متصادم ہے؟ 
ان حضرات کے بیانئے پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ بیانیہ بعینہ اسی نوعیت کا ایک مذہبی بیانیہ ہے کہ "ریاست کو یہ حق نہیں کہ وہ اسلامی شریعت کے خلاف کوئی قانون وضع کرے، اس پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی پابندی کرے"۔ دوسری بات یہ کہ اسلام تو یہ مطالبہ اصولا اسی نظم اجتماعی سے کرتا ہے جو اس کے ماننے والوں کی رائے سے تعمیر ہوا ہو، اس کے برعکس شریعت ہیومن رائٹس والوں کے مطابق اس دنیا کے سب انسانوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی پابندی کریں، چاہے وہ اسے مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شریعت ہیومن رائٹس والوں کے نزدیک ہیومن رائٹس کی شریعت پر عمل نہ کرنے والی ریاست فاشسٹ ریاست ہوتی ہے! شاعر نے اسی کے لئے کہا تھا کہ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا نام خرد۔ اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بلکہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس ملک کے مذہبی سیکولر طبقات ان حضرات کی گفتگو پر "واہ واہ" کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
سیکولر فکر کی بنیادوں پر گفتگو کا یہ موقع نہیں، مختصرا یہ یاد رکھنا چاہئے :

(۲) ترجیحی بیانیہ: غیر مسلموں میں سے قادیانیوں کی اولیت

اس بیانیے کی رو سے کسی مسلمان کا نبوت کا اعلان کرنا اور دیگر کا اسے قبول کرنا کفر کو تو مستلزم ہے مگر اس کے قائل کے قتل کو مستلزم نہیں۔ لہذا ایسا دعوی کرنے والے لوگ اسی طرح کے کافر ہیں جیسے اہل کتاب وغیرہ۔ البتہ جس طرح اہل کتاب کو مشرکین کے مقابلے میں اس بنیاد پر ترجیح حاصل ہے کہ وہ تاریخ، عقائد و مسائل کے معاملے میں مسلمانوں سے قریب تر ہیں، اسی طرح قادیانیوںکو دیگر غیر مسلموں پر اخلاقی ترجیح حاصل ہوگی۔ اس بیانیے کے مطابق مختلف گروہوں کی ترتیب کچھ یوں ہے: مسلمان، قادیانی، اہل کتاب و دیگر غیر مسلم۔ چنانچہ اس سے یہ منطقی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ قانونی و انتظامی عہدوں کی تقسیم کے باب میں بھی اس ترتیب کو مد نظر رکھنا لازم ہے۔ البتہ یہ بیانیہ امت کی مجموعی علمی تاریخ کے ساتھ ہم آہنگ نہیں اور چند ایسے مفروضات (قانون اتمام حجت مع متعلقات) پر مبنی ہے جو ثابت شدہ نہیں۔ چونکہ یہ بیانیہ نفس مسئلہ کی درست تشخیص نہیں کرتا، لہذا اس سے برآمد شدہ نتائج اس مسئلے پر امت کی ترجمانی نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی بنیاد پر یہ سمجھنا ممکن ہے کہ آخر مسلمان اس مسئلے پر اس قدر حساسیت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔ اس بیانئے کے مطابق مسلمانوں کا یہ طرز عمل غیر عقلی و غیر شرعی ہے۔ 

(۳) عدم ترجیحی بیانیہ: غیر مسلموں کے مابین مساوات

یہ بیانیہ بھی ثانی الذکر بیانیے کی طرح اعلان نبوت کو قابل قتل جرم تصور نہیں کرتا، ہاں یہ کفر کو مستلزم ہے۔ البتہ اس خیال کےمطابق ثانی الذکر کے برعکس قادیانیوں کو دیگر غیر مسلموں پر ترجیح دینے کی ضرورت نہیں۔ اس تصور کے حامل افراد کے خیال میں مسلمانوں کو قادیانیوں کے ساتھ اسی طرز کا معاملہ کرنا چاہیے جو دیگر غیر مسلموں کے ساتھ مشروع ہے اور اس معاملے میں اس سے زیادہ حساسیت اعتدال سے ہٹ جانا ہے۔ یہ ایک عمومی نوعیت کا بیانیہ ہے جو عام لوگوں (یا چند اخباری کالم نویسوں وغیرہ) میں مشہور ہے۔ 

(۴) فقہی بیانیہ

اس بیانیے کے مطابق اعلان نبوت نہ صرف کفر کو مستلزم ہے بلکہ اس کا دعوی کرنے والے کے لیے موجب قتل بھی ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ میں اسی رائے کو معتبر سمجھا گیا ہے۔ کسی مسلمان کا اعلان نبوت کرنا اور دوسروں کا اسے قبول کرنا دراصل امت کے اندر امت کھڑی کرنے کے مترادف ہے ۔ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے اندر ایک متوازی امت کاچیلنج کبھی پیدا نہیں ہو سکا جسکی وجہ یہ تھی کہ کسی جھوٹے مدعی نبوت کو اتنی مہلت ہی نہ دی گئی کہ وہ کوئی متوازی امت کھڑی کرسکے، اس سے قبل ہی اسے ٹھکانے لگا دیا گیا۔ نجانے کیوں مسلمانوں نے مرزا قادیان کو یہ موقع دیا، مسئلے کی ابتداء یہاں سے ہوئی۔ یہ بات اگر واضح ہو تو دوسرے بیانئے کی غلطی از خود واضح ہوجاتی ہے جو دعوی نبوت کرنے والے کو دیگر غیر مسلموں کی طرح تصور کرتا ہے کیونکہ دیگر غیر مسلموں کے ساتھ قتال کی بنیاد ان کا غیر مسلم ہونا نہیں جبکہ دعوی نبوت کرنے والے اور اس کے ماننے والے مرتدین کے ساتھ اس کی بنیاد عین ان کا یہ دعوی کرنا ہے۔ لہذا اصل حکم کو معطل کرکے پھر انھیں کسی دوسرے غیر مسلم گروہ پر قیاس کرکے ان سے زیادہ رعایت دینا باطل قیاس ہے۔ 
قیام پاکستان کے بعد جب مسئلہ قادیانی اٹھا تو اس گروہ کی شرعی حیثیت متعین کرتے ہوئے ایک ایسی نسل کا معاملہ بھی شامل بحث ہوچکا تھا جو پیدائشی طور پر قادیانی تھی۔ ایسے لوگ جو پیدائشی طور پر قادیانی ہوں، چونکہ ان کا حکم عام کفار کی طرح ہوا کرتا ہے لہذا پوری بحث و تمحیص اور فریق مخالف کا مقدمہ سن چکنے اور اسے وضاحت کا پورا موقع دیے جانے کے بعد آئین پاکستان میں قادیانیوں کی اصولا یہی حیثیت متعین کی گئی کہ یہ لوگ دیگر غیر مسلموں کی طرح سمجھے جائیں گے۔ البتہ آئین پاکستان اس بارے میں خاموش ہے کہ اگر کوئی مسلمان اب قادیانیت کو اختیار کرے گا تو اس کا حکم کیا ہوگا؟ اس ابہام کو شاید مستقبل میں کبھی دور کرنے کی ضرورت آپہنچے۔ مگر یہاں یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ پاکستانی قانون کی یہ خاموشی صرف قادیانیوں کے معاملے میں نہیں ہے بلکہ ارتداد کے معاملے پر ہے، یعنی اگر کوئی مسلمان ہندو یا عیسائی بھی ہوجائے تو بھی پاکستانی قانون کی رو سے وہ واجب القتل نہیں ہوتا (ہاں اس کی زوجہ کو عدالت کے ذریعے فسخ نکاح کا حق میسر ہے۔(پاکستانی قانون میں ارتداد کی صرف ایک صورت پر قتل کی سزا ہے اور وہ ہے توہین رسالتﷺ۔ 
اس قانونی پوزیشن کو اختیار کئے جانے کا یہ منطقی تقاضا تھا کہ قادیانی پر نظر رکھی جائے کہ کہیں یہ مسلمانوں کا بھیس اختیار کرکے عوام کو دھوکہ تو نہیں دیتے، یعنی اس قانون کا یہ تقاضا تھا کہ یہ لوگ خود کو مسلمان نہ کہیں۔ لیکن چونکہ یہ لوگ اس سے باز نہیں آتے بلکہ الٹا نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور ان کے شعائر اختیار کرکے عوام الناس کو دھوکے و تلبیس کے ذریعے اپنے دین کی طرف مائل کرتے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ ہر طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے سازش کرتے ہیں لہذا 1984 پاکستان کے فوجداری قانون میں 298 بی اور سی کی شقیں شامل کی گئیں جن کی رو سے جو قادیانی خود کو مسلمان کہے نیز اس کی تبلیغ کرے اسے دھوکہ دہی کے جرم میں تین سال قید کی سزا دی جائےگی۔ پھر 1993 میں سپریم کورٹ نے یہ واضح کیا کہ یہ فوجداری سزائیں آئین میں دینا شدہ حقوق سے متصادم نہیں ہیں۔ جس طرح ہر معاشرے میں لوگ دھوکہ باز گروہوں سے خوب خبردار رہتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی اس دھوکہ باز گروہ سے خبردار رہتا ہے کیونکہ یہ اپنی دھوکہ دہی سے نہ صرف یہ کہ بازنہیں آتا بلکہ اس دھوکے ہی کے حق ہونے پر اصرار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی قادیانی کو کوئی انتظامی نوعیت ہی کا عہدہ دینے کا معاملہ درپیش ہو تو مسلمان اس پر سخت رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور انہیں ہر طرح سے معاشرتی اخراج کا شکار کرکے پینپنے کے مواقع نہیں دیتے۔ عاطف میاں کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہ پیدائشی نہیں بلکہ کنورٹڈ قادیانی ہے اور باقاعدہ اس کی تبلیغ کرتا ہے۔ ایسا شخص پاکستانی قانون کی رو سے سزا کا مستحق ہے نہ کہ کسی عہدے کا۔ اگر قادیانی چاہتے ہیں کہ انہیں ان کے آئینی حقوق میسر ہوں تو پہلے انہیں جرم کرنے سے باز آنا ہوگا۔
چنانچہ مسئلہ قادیانیت کو امت کے تاریخی، فقہی و سماجی پس منظر سے کاٹ کر اسے کوئی فوری واقعاتی معاملہ سمجھ کر تجزیہ کرنے سے یہ کبھی واضح نہیں ہوسکتا کہ مسلمانان پاکستان قادیانیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں۔ امت کا یہ مزاج نہیں کہ وہ ایک متوازی امت کو قبول کرلے۔ 

احمدیوں اور دیگر غیر مسلموں کے مابین فرق پر ایک مکالمہ

محمد عمار خان ناصر

احمدیوں کی مذہبی وشرعی حیثیت کے ضمن میں ایک سوال اہل علم اور خاص طور اہل فقہ وافتاء کی توجہ متقاضی ہے، اور وہ یہ کہ احمدیوں کو ہم نے ایک آئینی فیصلے کے تحت غیر مسلم تو قرار دے دیا ہے، تاہم یہ معلوم ہے کہ ان کی حیثیت مسلمانوں ہی کے (اور ان سے نکلنے یا نکالے جانے والے) ایک مذہبی فرقے کی ہے۔ ہم ایک بنیادی عقیدے میں اختلاف کی بنیاد پر ان پر مسلمانوں کے احکام جاری نہیں کرتے، لیکن مذاہب کی تقسیم کے عام اصول کے تحت، کم سے کم غیر مسلموں کے نقطہ نظر سے وہ مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ شمار ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ گروہ بھی اسلام کے ساتھ اپنی نسبت اور پیغمبر اسلام کا امتی ہونے کے دعوے سے دستبردار نہیں ہوا، بلکہ اپنی نئی نبوت کو اسی کا تسلسل شمار کرتا ہے۔
اس سے ایک فقہی سوال پیدا ہوتا ہے، جس کے سیاسی وعملی مضمرات بہت اہم ہیں، کہ مسلمانوں اور احمدیوں کے باہمی تعلق میں انھیں غیر مسلم شمار کرتے ہوئے، اگر کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو جائے جس میں احمدیوں اور دیگر غیر مسلموں کا تقابل ہو رہا ہو تو ہمارا زاویہ نظر کیا ہوگا؟ مثال کے طور پر کسی جگہ احمدیوں اور ہندووں یا کسی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں جنگ ہو رہی ہو اور مسلمانوں کو مذہبی ہمدردی کے اصول پر کسی کی تائید کرنی ہو تو انھیں کس کی تائید کرنی چاہیے؟ اسی طرح مثلا غیر مسلم ممالک میں کسی مسئلے میں احمدی کمیونٹی کو کسی مذہبی مشکل کا سامنا ہو تو کیا مسلمانوں کو ان کی سپورٹ کرنی چاہیے یا غیر جانب دار رہنا چاہیے؟ یا یہ کہ مسلمانوں کی کسی مشکل میں احمدی، مذہبی تعلق کے ناتے سے ان کو سپورٹ کرنا چاہیں تو انھیں اپنی صفوں میں شامل کرنا چاہیے یا نہیں؟
سوال پر فقہ وشریعت کے اصولوں اور نظائر کی روشنی میں غور کے ساتھ ساتھ دو جید علماء کے رجحان پر بھی اگر گفتگو ہو جائے تو تنقیح مسئلہ میں آسانی ہوگی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی علیہ الرحمہ نے جب مسلم لیگ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو جمعیۃ علماء ہند کے راہ نماوں کی طرف سے ان کے سامنے ایک اعتراض یہ پیش کیا گیا کہ مسلم لیگ میں تو قادیانی بھی شامل ہیں جو مرتد ہیں، اس لیے ایسی جماعت کو کیسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھا جا سکتا ہے؟
مولانا عثمانی نے اس کے جواب میں ایک تو یہ کہا کہ مسلم لیگ کی تشکیل میں ہم بنیادی طور پر شامل نہیں تھے، اور یہ پالیسی ہم سے پہلے بن چکی تھی۔ دوسرے یہ کہ مسلم لیگ میں قادیانیوں اور کمیونسٹوں وغیرہ کی تعداد اور اثر بہت کم ہے اور وہ فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتے۔ اس کے بعد انھوں نے قادیانیوں کی مذہبی حیثیت کے حوالے سے جو نکتہ اٹھایا ہے، وہ بہت اہم اور قابل توجہ ہے۔  مولانا فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی ٰ کی ہزاراں ہزار رحمت امام محمد بن الحسن الشیبانی پر کہ انھوں نے یہ مشکل میں ڈالنے والا مسئلہ پہلے سے صاف کر دیا اور تصریح کر دی کہ اہل حق مسلمان خوارج کے ساتھ ہو کر مشرکین سے لڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ جنگ دفع فتنہ کفر اور اظہار اسلام کے لیے ہوگی اور اس میں اعلاء کلمۃ اللہ اور اثبات اصل طریق ہے۔ (دیکھو شرح السیر الکبیر للسرخسی ج ۳ ص ۲۴۱)
اس سے شیعہ اور دوسرے فرق باطلہ کا قصہ تو صاف ہو گیا، کیونکہ کسی فرقے کے متعلق اتنی واضح اور اس قدر کثرت سے نصوص صریحہ موجود نہیں جس قدر خوارج کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، جن کے متعلق یہ ارشاد ہوا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’میں نے ان کو پایا تو عاد وثمود کی طرح ان کو تباہ کر دوں گا۔’’
اب رہ گیا کلمہ گو مرتدین کا معاملہ، ان کی تعداد لیگ میں لا یعبا بہ (کسی شمار میں نہیں) ہے جن کے غلبہ کی کوئی صورت نہیں اور خدا نکردہ آئندہ ایسا ہو تو اس وقت جو حکم ہوگا، اس پر عمل کیا جائے گا۔ اب الیکشن کے موقع پر اگر مرزا محمود وغیرہ نے بدون لیگ میں شرکت کے، لیگ کی تائید کا اعلان کر دیا تو یہ ان کا فعل ہے جو ہمارے لیے مضر نہیں اور لیگ کی کامیابی کو احمدیت کی کامیابی بتلانا اس کا سودائے خام ہے۔
ایک چیز اور بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہ مرتدین وملحدین اس طرح کے نہیں جو نفس کلمہ اسلام ہی سے اعلانیہ بیزار ہوں۔ وہ بھی بزعم خود مشرکین سے اسی نام پر لڑتے ہیں کہ مشرکین کے غلبہ وتسلط سے مسلم قوم کو بچایا جائے اور کلمہ اسلام کو ان کے مقابلے میں پست نہ ہونے دیا جائے اور مسلمانوں کے قومی وملی استقلال کی حفاظت ہو، گو حقیقۃ وباطنا وہ کلمہ اسلام سے بالکل دور جا پڑے ہوں، جیسا کہ بہت سے علماء نے خوارج کے متعلق بھی ظواہر احادیث کی شہادت کی بناء پر یہ حکم لگایا ہے۔ اس اعتبار سے جو علت خوارج اور مشرکین کے مسئلے میں اوپر بیان ہوئی، وہ یہاں بھی موجود ہے جو قدرے توسیع مسئلہ مبحوث عنہا میں پیدا کر دیتی ہے۔ شاید ۱۹۳۶ء میں ہمارے بعض اکابر علماء جمعیت نے شد ومد کے ساتھ مسلم لیگ میں شرکت کرتے وقت اس نکتے پر نظر کی ہو، ورنہ سر ظفر اللہ قادیانی کی رکنیت کے باوجود اس میں ایک لمحے کے لیے بھی کیسے شرکت گوارا کی!’’(خطبات عثمانی، مرتبہ پروفیسر انوار الحسن شیر کوٹی، صفحہ ۱۴۳، ۱۴۴، نذر سنز لاہور، اشاعت اول ۱۹۷۲)
اس پر حاشیے میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمہ نے جو مختصر نوٹ لکھا ہے، وہ بھی انتہائی اہم ہے۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
’’مرتدین کی اس قسم کو فقہا کی اصطلاح میں زنادقہ یا ملاحدہ یا باطنیہ وغیرہ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان کا ارتداد گو بعض حیثیات سے اشد ہو، لیکن اگر یہ لوگ کفار مجاہرین سے بزعم خود اعلاء کلمہ اسلام کے لیے قتال کریں تو ان کے مقابلے میں کفار مجاہرین کی اعانت گوارا نہیں کی جا سکتی۔’’ (صفحہ ۱۴۴)

جناب زاہد صدیق مغل کے ساتھ مکالمہ

زاہد صدیق مغل: آپ کے نزدیک قادیانی "مسلمانوں" کا ایک فرقہ ہے؟ یعنی یہ سمجھا جائے کہ مسیلمہ کذاب اور اس کا گروہ بھی مسلمانوں سے نکالا گیا ایک فرقہ تھا؟
عمار ناصر:   مسیلمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حق اقتدار کو چیلنج کر کے متوازی نبوت کا اعلان کیا تھا اور اسی پر جنگ چھیڑی تھی۔ وہ آپ کا امتی اور مطیع ہونے کا دعوی نہیں رکھتا تھا۔ مذہبی خطابت نے مسیلمہ کے واقعے سے استدلال کو اتنا عام کر دیا ہے کہ فہیم لوگ بھی اس کی نوعیت پر توجہ نہیں دے پاتے۔ دو جید علماء اگر قادیانیوں کے لیے مسیلمہ کے بجائے خوارج کے حکم سے استدلال کر رہے ہیں تو کوئی تو بات ہے۔ غور فرمانے کی ضرورت ہے۔
زاہد صدیق مغل: سوال یہ ہے کہ جھگڑے کی بنیاد اقتدار پر دعوے کا اعلان تھا یا اعلان نبوت؟
عمار ناصر:  دونوں۔ صرف اعلان نبوت ہوتا تو بھی ارتداد کا قانون جاری ہوتا۔ یہ زیر بحث نہیں۔ عرض یہ کیا جا رہا ہے کہ قادیانیوں کو مرتد قرار دینے کے باوجود مولانا عثمانی اور مفتی محمد شفیع انھیں دیگر کفار سے الگ دیکھ رہے ہیں اور اس کی وجہ ان کے دعوائے اسلام کو قرار دے رہے ہیں۔ اس کے جواب میں مسیلمہ کے واقعے سے استدلال نہیں بنتا۔ یہ سیاق بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بات مسلمانوں اور قادیانیوں کے باہمی معاملے کی نہیں، بلکہ قادیانیوں اور دیگر کفار کے تقابل کی ہو رہی ہے۔
زاہد صدیق مغل: اولا تو میں ان دونوں علماء کے اس بیان کی توجیہ بیان کرنے کا پابند نہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ بیان ایک ایسی سیاسی جدوجہد کے اخلاقی جواز کے لئے لکھا گیا تھا جس میں قادیانی وغیرہ بطور آلہ استعمال ہورہے تھے۔ تحریک پاکستان کی تاریخ میں شاید سکھوں نے بھی ساتھ دیا ہوگا اور اگر مولانا سے یہ سوال پوچھا جاتا تو وہ اس کے لئے بھی ایسی کوئی توجیہ بیان کردیتے کہ اگر کفار مسلمانوں کی مدد کررہے ہوں تو وہ لڑنے والوں سے اولی ہوں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک پاکستان میں شامل قادیانیوں سے متعلق ان علماء کو کوئی خوش فہمی ہو۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد ظفر اللہ خان کے رویے اور قادیانیوں کے فلسطین کے مسئلے میں خود کو مسلمانوں سے الگ کرنے سے شاید سب کی آنکھیں کھل گئیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اس مسئلے کو تاریخی عمل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کو یونہی کسی جذباتی رو میں بہہ کر کافر نہیں کہا گیا تھا بلکہ ہر طرح کی فکری و قانونی تسلی کی گئی تھی۔
عمار ناصر:  آپ توجیہ کے پابند نہیں، اس کی غلطی تو بتا سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو توجیہ آپ ان کے موقف کی کر رہے ہیں، وہ بنتی نہیں۔ مسلم لیگ کا ساتھ دینے کے جواز کے لیے پہلے دو نکتے کافی تھے۔ پھر بھی وہ ایک مذہبی وفقہی اصول کا حوالہ دے رہے ہیں۔ اور انھیں   کوئی غلط فہمی نہیں تھی۔ مولانا عثمانی قادیانیوں کے مرتد اور واجب القتل ہونے پر مستقل کتاب لکھ چکے تھے۔
زاہد صدیق مغل: حاشیہ خود بتا رہا ہے کہ یہ توجیہ سیاسی نوعیت کی ہے، ان کے الفاظ دیکھ لیجئے۔
عمار ناصر: صرف سیاسی نہیں، سیاست شرعیہ کے اصول پر مبنی ہے۔ مفتی صاحب کہہ رہے ہیں کہ کھلے کافروں کی مدد ان کے خلاف گوارا نہیں کی جا سکتی جو کسی گمراہی کا شکار ہو کر دائرہ اسلام سے باہر جا پڑے ہیں۔
 زاہد صدیق مغل: یہ ایک سٹریٹیجک چیز ہے۔ میرے حساب سے تو قادیانیوں کے معاملے میں اس کا برعکس ہی بہتر ہے۔ جنہیں ہم ختم نہ کرسکے، اگر کسی اور کے ہاتھوں یہ ہوجائے تو کیا ہی خوب!
عمار ناصر:  بس یہ واضح موقف ہے۔ دیکھتے ہیں دیگر اہل علم کی کیا رائے بنتی ہے۔ اتنا تو بہرحال ماننا چاہیے کہ معاملہ ذو الوجہین ہے۔ مجھے ذاتی طور پر مولانا عثمانی کے زاویہ نظر میں بہت وزن دکھائی دیتا ہے۔ واللہ اعلم
زاہد صدیق مغل: ذو الوجہین نہیں ہے، بڑا سیدھا ہے۔ قادیانیوں کی اصل حیثیت تو خود مولانا نے لکھ دی کہ وہ واجب القتل ہیں۔ اس کے بعد دوسرا پہلو کیا رہا؟ ہر مسئلے میں قدم بقدم تنزیل ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اصولا الف صورت میں حکم کیا ہے، اگر الف ممکن نہ ہو تو ب میں کیا ہے وغیرہ۔ اب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ میں د کیفیت پر پوچھے جانے والے سوال کے جواب کو لے کر "اصل" مسئلے میں تین چار اور پانچ پہلو نکال لوں۔ تو آپ کو بھی اس مسئلے پر اسی منطقی ترتیب سے اپنی رائے دینی چاہیے کہ اصولا آپ کے نزدیک قادیانیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے، اس کے بعد پھر بالترتیب چلئے۔
عمار ناصر:  اس وضاحت کی اگرچہ ضرورت نہیں ، لیکن میں بیان کر دیتا ہوں۔
اولا، ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ان کے ساتھ معاملات میں غیر مسلموں کے احکام جاری ہوں گے۔
ثانیا، ان کے دعوائے اسلام کا فی الجملہ اثر باقی رہے گا جو اس صورت میں ظاہر ہوگا جب ان کا تقابل دوسرے غیر مسلم گروہوں سے کیا جائے۔
زاہد صدیق مغل: ان دو باتوں کے درمیان اس سوال کا جواب بھی دے دیجئے کہ آپ نے نزدیک "اصولا" وہ واجب القتل ہیں یا نہیں؟
عمار ناصر:  میں ارتداد کی سزا کو ایک تو اتمام حجت کے اصول سے متعلق سمجھتا ہوں جس کے تحقق میں عہد نبوت کے قرب اور بعد سے بہت جوہری فرق واقع ہوتا ہے۔ پھر جو گروہ یا افراد کھلے ارتداد کے بجائے کسی عقیدہ یا عمل کی وجہ سے خارج از اسلام شمار کیے جائیں، انھیں اتمام حجت والے اصول کی زیادہ رعایت ملنی چاہیے۔ پس ایسے گروہ میری رائے میں واجب القتل، بلکہ مباح القتل نہیں ہیں۔ ان پر دنیوی احکام میں غیر مسلموں کے احکام جاری کر کے آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے۔
زاہد صدیق مغل: تو اس رائے کے بعد پھر اس مسئلے میں ذوالوجہین کی بنیاد وہ قاعدہ نہیں جو آپ نے ان علماء کی تحریر سے نکال کر لگایا ہے بلکہ آپ کی یہ منفرد رائے ہے جس کے تحت آپ روایتی علماء کی تحریروں سے سپورٹنگ evidence اکٹھے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
عمار ناصر:  جی، یہ نکتہ الگ ہے۔ لیکن کفار مجاہرین اور اسلام سے خارج شمار کیے گئے گروہوں میں فرق کا نکتہ مشترک ہے۔
زاہد صدیق مغل: ممکن ہے یہ اشتراک ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اشتراک نفس مسئلہ کو حل کیسے کرتا ہے؟ نیز کیا اس وقت کسی ملک میں کہیں کوئی ایسی جنگ لگی ہوئی ہے جس میں قادیانی "اسلام کی سربلندی" کے لئے کفار سے لڑ رہے ہوں کہ ہمیں اس مسئلے سے استدلال کی ضرورت ہو؟
عمار ناصر:  اس وقت نہ ہو، یہ کوئی غیر ممکن مفروضہ تو نہیں۔ موجودہ بحث میں اس کا یہ اصولی پہلو واضح ہونا بھی بہت اہم ہے کہ کھلے کافروں اور گمراہ گروہوں کی حیثیت مختلف ہے۔  اور جنگ کی مثال تو صرف توضیح کے لیے ہے۔ عام سیاسی معاملات پر بھی اسی اصول کا اطلاق ہوگا، جیسا کہ ان علماء نے قیام پاکستان کی جدوجہد پر کیا ہے۔
زاہد صدیق مغل: قیام پاکستان کی جدوجہد کے لئے وضع کردہ علم کلام کو اسلامی کلام کا معیار بنا کر پیش کرنا درست نہیں۔
عمار ناصر:  اصل میں یہ کلاسیکی علم کلام ہی کا اصول ہے جس کا ان علماء نے انطباق کیا ہے۔
زاہد صدیق مغل: اس قسم کی ذیلی تقسیم تو ان کے درمیان بھی موجود ہے جنہیں آپ "کھلے کافر"کہہ رہے اور اس کا بیان تو قرآن میں بھی ہے جب صحابہ کو اہل کتاب کی شکست پر غم ہوا تھا۔ اس چیز کو "مخالف کا تبدیل ہوجانا" کہتے ہیں۔ لیکن میرا سوال پھر بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اس سے مسئلہ حل کیسے ہوا کیونکہ فی الوقت بحث قادیانی اور کھلے کافر کی نہیں بلکہ مسلمان اور قادیانی کی ہے۔ 
عمار ناصر:  مسلمان اور قادیانی کی بحث تو اپنی جگہ حل شدہ ہے۔ یہ پہلو تو معاملے کی مجموعی نوعیت کو واضح کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اور  جس کو آپ مخالف کا تبدیل ہونا کہہ رہے ہیں، وہ بھی اس اصول کے بغیر قابل فہم نہیں ہو سکتا۔ اگر اہل کتاب اور مجوس کے کفر کی نوعیت میں فرق نہ ہوتا تو مسلمان کیوں اہل کتاب سے ہمدردی محسوس کرتے؟ یہ "اصل میں اشتراک" کی رعایت کا اصول ہے۔ اگر مسلمان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے انکار کے باوجود سلسلہ انبیاء سے وابستگی کی وجہ سے ایسا کر سکتے ہیں تو نبوت محمدی سے نسبت کو ماننے والوں کے ساتھ کیوں نہیں کر سکتے؟
زاہد صدیق مغل: اس لئے کہ شارع نے موخر الذکر کےلئے قتل کی سزا لازم قرار دی ہے، اب میں خلاف نص اپنی طرف سے اسے کسی دوسرے گروہ پر قیاس کرکے ان کے لئے زیادہ رعایت کیسے نکال لوں؟
عمار ناصر:  لیکن قتال کا حکم تو اہل کتاب کے بارے میں بھی ہے، پھر بھی ان کے ساتھ ہم دوسروں کے تقابل میں ہمدردی رکھتے ہیں۔ سوال فریق ثانی کا ہے کہ وہ کون ہے۔ اگر مسلمان ہیں تو حکم الگ ہے، اگر دوسرے غیر مسلم ہیں تو الگ۔
زاہد صدیق مغل: اگر میں بات کو مختصر رکھتے ہوئے کہوں تو معاملہ یوں ہے کہ ہمارے حساب سے قادیانی مملکت پاکستان میں چپکے چپکے مسلمانوں کے خلاف واردات کی کوشش کرتے ہیں لہذا ایسی صورت میں ان پر اس قدر بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا جس قدر کسی عیسائی یا ہندو پر، کیونکہ اس کا کفر واضح ہے اور ہم اس سے ہوشیار ہیں جبکہ یہ چھپی ہوئی دشمنی کی صورت واردات کرتے ہیں۔ میرے حساب سے تو قادیانیوں کو "حقوق کے نام پر" ہر سطح پر پنپنے دینے کی رعایت دینا ان کے واجب القتل ہونے کے مقدمے ہی کے خلاف ہے۔
قادیانیوں کے ساتھ قتال کی بنیاد ہی یہ ہے کہ یہ "قادیانی" ہے۔ یہی فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر تو کوئی شخص اسلام کے باہر کسی نئے خدا کو تخلیق کرکے اس کی پوجا کرنا چاہتا ہے یا کسی کو نبی کہہ کر اس کی اتباع کرنا چاہتا ہے اور اپنے مذہب کا نام مثلا "چمچم یا گلاب جامن" رکھتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن کوئی شخص اسلام کے اندر سے اٹھ کر محمدﷺ کے بعد کسی کو نبی بنا کر اسے اسلام کا نمائندہ بتاتا ہے، تو یہ عام کفر نہیں بلکہ "اسلام کے متوازی" ایک امت کھڑی کرنے کا دعوی ہے۔ یہ شخص کسی بھی طرح قابل معافی نہیں۔
عمار ناصر:  شاید مواقف کی کافی اور مناسب تنقیح ہو گئی ہے۔ جو بات زیادہ درست ہے، اللہ ہمیں اس کا فہم اور اتباع نصیب فرمائے، آمین۔

دہشت گرد تنظیموں کی فکری بنیادیں: نقائص و نتائج

مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی

(دہشت گرد تنظیموں کی فکری بنیادیں: نقائص و نتائج ’’الحق المبین فی الرد علی من تلاعب بالدین‘‘ کے حوالے سے۔)

 جتنے بھی مسلم فرقے ہیں سب اپنا رشتہ قرآن و سنت سے جوڑتے ہیں اور سب کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کا عقیدہ و منہج قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ لیکن احقاق حق او ر ابطال باطل کی غرض سے اسلاف کے فراہم کردہ اصول و معیارپرایسے تمام فرقوں کے افکار و مفاہیم کا تجزیہ کرنا ایک دینی ذمے داری ہے اور علمی امانت داری بھی۔
 جامعہ ازہر عالم اسلام کی وہ عظیم دانش گاہ ہے جس نے دین و ملت کی خدمت میں اپنی زندگی کے پورے ایک ہزار سال گزارے ہیں۔اس نے ہر زمانے میں باطل افکار وخیالات کو اسلاف کے عطا کردہ اصولوں پر پرکھ کر گمراہ فرقوں کو آئینہ دکھایاہے اور قرآن وسنت سے ان کے گہرے رشتوں کے دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔اسی دانش کدے کے پروردہ شیخ اسامہ السید محمود ازہری (ولادت:۱۹۷۶ء) بھی ہیں، جن کا لائف ٹائم مشن ہی یہ ہے کہ ازہرکے علمی منہج کا احیا کیاجائے،اسلام کی صحیح، معتدل، متوازن اور پُرامن متوارث تفہیم کو عام کیاجائے اور ہر اس تفہیم کو مسترد کر دیاجائے جس میں دین اسلام کو ایک پُر تشدد، غیر معتدل اورناموس عقل و فطرت سے بر سر پیکار دین کے طور پر پیش کیاگیاہو۔
 شیخ موصوف کی کتاب ’’الحق المبین فی الرد علی من تلاعب بالدین‘‘ ایسی ہی ایک علمی وتجزیاتی کاوش ہے، جس میں اخوان المسلمین سے لے کر داعش تک دین کے نام پرجذبات کا استحصال کرنے والی دہشت و خوں ریزی کی سودا گر تنظیموں کو اسلاف کے رہنما اصول اور علمی معیار کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا گیا ہے اور دین اسلام جو اپنے نصوص و مفاہیم کے ساتھ متوارث و متواتر ہے ،اس کی عدالت میں ان کے افکار کامقدمہ رکھ کر انصاف کی فریاد کی گئی ہے۔ 
 اس کتاب میں اسلاف کے جن اصول ومعیار پران منحرف تنظیموں کے افکار کوپرکھاگیا ہے اس کے نمائندے کے طور پر ازہر کے اس علمی منہج کو پیش کیاگیاہے جس میں ہزار سالہ تجربہ اور ہزار ہا علمائے ربانیین کا توارث شامل ہے۔ 
مؤلف نے تشدد کی علم برداراُن جماعتوں کی فکری اساس کی تلاش و جستجو میں جن افکار کو محوری قراردیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
(۱)غیراللہ کی حاکمیت قبول کرنے کا مسئلہ (۲)جاہلیت کامفہوم(۳)دارالاسلام اور دارالکفر کا مفہوم (۴)فتح ونصرت کے وعدے صرف جہادیوں کے لیے (۵) جہاد کا مفہوم (۶)تمکین کا مفہوم (۷) وطن کا مفہوم (۸) اسلامی غلبے کے پروجیکٹ کا مفہوم۔ 
ان افکار کے صحیح و غلط پہلو اور پھر ان کے سنگین نتائج پر شریعت اسلامی اور منہج اسلاف یعنی منہج ازہری کی روشنی میں تفصیلی بحث کے بعد ان قواعدکا تذکرہ کیا گیا ہے جن کو بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے مذکورہ بالا عناوین کے صحیح و متوارث مفاہیم تک ان تحریکوں کی رسائی نہیں ہو سکی۔ 
آنے والی سطور میں درج بالاعناوین کے مفاہیم پر مؤلف کی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا جاتاہے:

[۱]حاکمیت

متشددجماعتوں کا نظریہ ہے کہ مسلمانوں نے ربانی نظام کی حاکمیت کو چھوڑ کردوسرے قوانین کی حاکمیت قبول کرلی ہے اور یہ شرک ہے۔ مؤلف کے مطابق یہ سب سے اساسی فکر ہے اور اسی پر دوسرے تمام غلط افکار کا دارومدار ہے۔اس فکر سے سید قطب اور ان کے بھائی کے یہاں شرک حاکمیت اور توحید حاکمیت کی فکر پیدا ہوئی اور پھر یہیں سے مومنانہ جہادی گروہ کی ضرورت اورپھر ان کے لیے نصرت و تمکین کے وعدۂ الٰہی کی فکرکاظہور ہوا اور اسی فکر کی بناپر عام مسلمانوں کی حالت کو جاہلیت کی حالت قرار دیا گیااور ان مسلمانوں کی تکفیرکی گئی ۔یہیں سے یہ فکر سامنے آئی کہ ان کے مزعومہ ،مومنانہ جہادی گروہ کو جاہلیت میں مبتلا مسلمانوں پر غلبہ ہوناچاہیے اور یہ خیال بھی عام ہوا کہ ایسے مسلمانوں سے ٹکراؤ ضروری ہے تاکہ خلافت الٰہیہ قائم کی جاسکے- حاکمیت کی فکر کہاں سے پیدا ہوئی اور پھر اس فکر سے دوسری فکری کج رویاں کیسے سامنے آئیں؟ اس حوالے سے مؤلف کا یہ کہنا ہے کہ اس طرح کے تمام افکار و خیالات کا سرچشمہ سید قطب کی کتاب ’’فی ظلال القرآن‘‘ ہے اور اُن کی جودوسری کتابیں ہیں، دراصل وہ فی ’’ظلال القرآن‘‘ میں مندرج افکار و خیالات کا ہی چربہ ہیں۔
ڈاکٹریوسف قرضاوی اپنے مذکرات میں لکھتے ہیں:موجودہ مسلمانوں کی تکفیر کی فکر صرف ’’معالم فی الطریق‘‘ میں نہیں ہے، بلکہ اس کی اصل ’’فی ظلال القرآن‘‘ اور’’ العدا لۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام‘‘ ہے۔ (ابن القریۃ والکتاب،ملامح وسیرۃ،۳/۶۹، دار الشروق، قاہرہ، ۲۰۰۸ء) 
سید قطب نے یہ فکر اصلاًابوالاعلیٰ مودود ی سے لے کر اس کو مزید ترقی دی اور اپنی زوربیانی سے اسے ایک مکمل نظریہ بنادیا اور پھر یہ نظریہ ایسا ناسور بن گیا جس سے تکفیر کا مواد رسنے لگا- ابوالاعلیٰ اور سید قطب نے اس فکر کی بنا قرآن کریم کی اس آیت کریمہ پر رکھی جس میں اللہ تعالی ٰکا ارشاد ہے: 
وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰئکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ۔ (المائدۃ:۴۴) (جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کو اپنا حاکم نہ بنائیں وہ کافر ہیں۔ )
اس آیت کریمہ سے سید قطب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر کوئی شخص شرعی احکام کا نفاذ نہیں کرتا تو وہ ان احکام کی حقانیت کا عقیدہ رکھنے والا ہی کیوں نہ ہو اور ان احکام کے عدم نفاذ کی وجہ کوئی عذر ہی کیوں نہ ہو، پھربھی وہ کافر ہے۔
اس فکر اور نظریے میں بڑی شدت اور بڑی تنگی ہے ،اس میں تکفیرکے لیے عجلت پسندی اور توسیع ہے ، اس فکر کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مسئلہ حاکمیت کو اصول ایمان سے سمجھ لیا گیا، اس طرح عقیدے کے باب میں ایک امر کا اضافہ ہوا اور پھر اس کے فقدان کی صورت میں مسلمانوں کی تکفیر کر دی گئی۔ یہی بعینہ خوارج کا مذہب ہے،جب کہ صحابہ کے زمانے سے لے کر بعد کے ادوار تک مسلم علما کا مذہب اس کے خلاف ہے اورمذکورہ بالاآیت کریمہ کی توجیہ و تفہیم میں متعدد اقوال ذکر کیے گئے ہیں ۔ان میں راجح ترین قول یہ ہے کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی حاکمیت کو اس طور پر قبول نہیں کیاکہ وہ وحی الٰہی ہے اور برحق ہے تو بلا شبہ یہ کفر ہے ،لیکن اگراس کا نفاذکسی وجہ سے مشکل ہو تو وہ شخص کافر نہیں ہے۔ امام رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
قال عکرمۃ : وقولہ تعالیٰ: ومن لم یحکم بما انزل اللہ إنما یتناول من انکر بقلبہ و جحد بلسانہ، اما من عرف بقلبہ کونہ حکم اللہ واقر بلسانہ کونہ حکم اللہ إلا انہ اتی بما یضادہ فھو حاکم بما انزل اللہ ولکنہ تارک لہ، فلا یلزم دخولہ تحت ھذہ الآیۃ وھذا ھوالجواب الصحیح۔(تفسیر کبیر، ۶/۳۵، دار الغد العربی، قاہرہ، ۱۴۱۲ھ) 
حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ کافر ہونے کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کے نازل کردہ احکام کی حاکمیت کی دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار نہ کریں، چناں چہ جو شخص حکم الٰہی کی دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرتاہو لیکن اس کا عمل اس کے بر خلاف ہو تو وہ احکام الٰہی کی حاکمیت قبول کرنے والا ہے اگرچہ ترک عمل میں گرفتار ہے ،ترک عمل کی بنا پر وہ اس کے حکم کے تحت یقیناًداخل نہیں ہوگا، یہی صحیح جواب ہے۔
آیت کریمہ کی یہی توضیح امام غزالی نے ’’المستصفی‘‘ میں اور امام ابن عطیہ اندلسی نے ’’المحرر الوجیز‘‘میں کی ہے۔ کلام ائمہ کی چھان بین سے معلوم ہوتاہے کہ ابن مسعود ،ابن عباس ،براء بن عازب ،حذیفہ بن الیمان، ابراہیم نخعی،سدی، ضحاک، ابو صالح، عکرمہ، قتادہ، عامر ، شعبی، عطاء، طاؤوس ، طبری، قرطبی، ابن جوزی، ابو حیان، ابن کثیر ، آلوسی، طاہر بن عاشور اور شیخ شعراوی جیسے تمام ائمہ اعلام نے آیت کریمہ کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ 
ان تمام ائمہ کے بالمقابل سید قطب ہیں، جنھوں نے بیک جنبش قلم ان تمام ائمہ کی تفہیم کوتحریف قرار دے دیا۔ اس فکر میں خوارج کے سوا ان کا کوئی پیش رو نہیں ہے، چناں چہ حضرت سعید بن جبیر سے آیت کریمہ ’’وَاُخَرُمُتَشٰبِھٰت‘‘ کے تحت مروی ہے کہ خوارج کے لیے آیت کریمہ ’’وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰئکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ‘‘ متشابہ ہوگئی ہے کیوں کہ وہ لوگ جب کسی امام کو غیر حق کے مطابق فیصلہ کرتے دیکھتے ہیں تو وہ اسے کافر قرار دے دیتے ہیں اور کفر کرنے والے کو رب کا مقابل وحریف قرر دے کرپوری اُمت کو مشرک قرار دے دیتے ہیں۔ 
سید قطب اس طرح کی فاش غلطی کا شکار اسی بنا پر ہوئے کہ انھوں نے فہم وحی کے سلسلے میں علمائے اسلام کے تجربے سے روگردانی کی اور ان کے مناہج فہم کی پیروی نہیں کی، بلکہ ملت اسلامیہ کے پورے فکری سرمایے کو جاہلی ثقافت قرار دے دیا اور فہم وحی کے سلسلے میں خود اپنے حس و حدس اور اپنے تصورات پر بھروسہ کیا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے علمائے اسلام کے استنباطات کی صحت کی گواہی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلَوْ رَدُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلٰی اُولِی الْاَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَسْتَنْبِطُوْنَہُ مِنْہُمْ.(النساء: ۸۳) 
ہرزمانے کے خوارج کا یہ طریقہ رہا ہے کہ انھوں نے مذکورہ بالا آیت کریمہ کی فاسد تاویل پر اصرار کیا اور علمائے اسلا م کی تاویل کو تحریف قرار دیا، چناں چہ اس سلسلے میں خطیب بغدادی نے ’’تاریخ بغداد‘‘ میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک خارجی کو مامون کے پاس لایا گیا، اس سے مامون نے کہا کہ تم نے ہماری مخالفت کیوں کی؟ اس نے جواب دیا کہ قرآن کریم کی آیت کی وجہ سے۔ مامون نے اس سے پوچھا: کیا تم کواس بات کا یقین ہے کہ یہ وحی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں! یقین ہے۔ مامون نے پوچھا: اس پر کیا دلیل ہے؟ اس نے کہا: اجماع امت ہے۔ مامون نے کہا کہ جب قرآن کے مُنزل ہونے کے سلسلے میں اجماع کو مانتے ہو تو پھر آیت کریمہ کی تاویل کے سلسلے میں جو ان کا اجماع ہے اس کو بھی مانو۔ (تاریخ بغداد، ۱۰ ؍ ۱۸۶، دار الفکر، بیروت، ۱۹۹۵ء) 
ان خوارج نے مسلمانوں پر کفر و شرک کی تہمت لگائی، جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو شرک کے خوف سے مامون قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: وَإِنِّی لَسْتُ اَخْشٰی عَلَیْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا، وَلٰکِنْ اَخْشٰی عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا اَنْ تَنَافَسُوہَا. (بخاری،باب غزوۃ احد،حدیث:۴۰۴۲) 
ابن عبدالبر نے تمہید میں فرمایا کہ جو امت محمدیہ پر ایسے اندیشے کا اظہار کرے جس کا ان کے نبی نے اظہار نہیں کیا تو یہ سراسر تشدد ہے۔ (۲؍۱۲۱)
اس گفتگو سے واضح ہو گیا کہ فہم قرآن میں ان لوگوں کی عقلیں انحراف و ضلالت کا شکار ہوگئیں اور اس کی وجہ یہ رہی کہ انہوں نے فہم وحی کے سلسلے میں اسلاف کرام کے منہج کی پیروی نہیں کی۔ 

تکفیری گروہ کی پہچان اور حدیث رسول اللہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس تکفیری منہج سے اپنی امت کو ڈرایاہے، چناں چہ حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
إن ما اتخوف علیکم رجل قرا القرآن حتی رئیت بھجتہ علیہ وکان ردئا للاسلام، غیّرہ إلی ما شاء اللہ، فانسلخ منہ و نبذہ وراء ظھرہ، و سعی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک، قال: قلت یانبی اللہ! ایھما اولی بالشرک المرمی او الرامی قال بل الرامی ۔(صحیح ابن حبان، ابن کثیر نے فرمایا کہ اس کی سند جید ہے)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: مجھے سب سے زیادہ اس شخص سے خوف ہے جو قرآن پڑھنے والا ہو گا، قرآن کا نور بھی اس کوحاصل ہوگا، اسلام کا حامی اور اس کا دفاع کرنے والا ہو گا ،مگر وہ قرآن کو بدل دے گا۔ایسا کر کے وہ قرآن سے جدا ہوجائے گا اور اسے پس پشت ڈال دے گا، اپنے پڑوسی پر تلوار اٹھائے گا ،اوراس پر شرک کی تہمت لگائے گا۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! ان دونوں میں شرک سے کون زیادہ قریب ہوگا؟ شرک کی تہمت جس پر لگائی گئی ہے وہ یا جس نے تہمت لگائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! بلکہ تہمت لگانے والا۔
اس حدیث کی روشنی میں تکفیری متشدد گروہ کی درج ذیل علامتیں سامنے آتی ہیں: 
یہ گروہ قرآن سے گہرا تعلق رکھنے والا اور اس کی خدمت کرنے والا ہوگا اور اس کی وجہ سے لوگوں کو ان سے حسن ظن ہوگا۔
اس کو قرآن کی نورانیت سے کچھ حصہ حاصل ہوگا، اس کی وجہ سے لوگوں کو اور زیادہ ان سے خوش گمانی ہوگی۔
دین کے لیے بڑا جوش وجذبہ رکھنے والا، اس کی حمایت اور دفاع کرنے والا ہوگا۔
(۴) ان سب کے باوجود اس کے اندر ایک عجیب وغریب تبدیلی رونما ہوگی جس کی وجہ سے لوگوں میں ایک اضطراب پیدا ہو جائے گا، وہ تبدیلی یہ ہوگی وہ قرآن کے متوارث معانی سے منحرف ہو کر جداگانہ باطل تاویل کرے گا؛ کیوں کہ وہ طرق استنباط سے ناواقف ہوگا۔ 
(۵) چناں چہ وہ اپنے پڑوسی کو کافرو مشرک قرار دے گا۔ 
(۶) صرف اسی پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ وہ اس کے خلاف قتال کے لیے ہتھیار اٹھائے گا اور خوں ریزی کرے گا۔ 

شدت مردود ہے

مذکورہ بالا حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین دار نظر آنے والے شخص کی دین کے نام پر جس شدت اور اس کی جن تباہ کاریوں پر خوف کا اظہار کیا ہے وہ بالکل بجا ہے؛ کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عام صورت حال میں شدت بالکل ہی پسند نہیں فرماتے تھے۔ حضرت معاذ بن جبل نے جوش عبادت میں اپنی امامت کے وقت فجر کی نماز میں طویل قراء ت شروع کردی، یہ صحابہ پر شاق گزرا جس کی وجہ سے لوگ جماعت سے دور رہنے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی سخت الفاظ میں تادیب فرمائی اور تین مرتبہ فرمایا: فتّان، فتّان، فتّان ۔ (یعنی کیاتم لوگوں کو آزمائش میں ڈال دینا چاہتے ہو) (بخاری،باب اذا طول الامام،حدیث:۷۰۱)
اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ عبادت میں تھوڑی شدت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس قدر فکرمند ہوگئے تو آپ کو اس تکفیری شخص کے فتنے سے کتنا زیادہ اپنی امت پر خوف محسوس ہوا ہوگا۔

بدعملی کی بنا پر تکفیر نہیں

ایسا دینی جوش جس میں بدعملی کی بنا پر تکفیر کی جائے، خصوصا امرا وحکام کے خلاف ہتھیار اٹھالیا جائے، یہ درست نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
کچھ ایسے امرا وحکام ہوں گے تم ان کو پہچان جاؤ گے اور ان پر انکار کروگے، جو ان کو پہچان لے وہ بری ہے اور جو ان پر انکار کرے وہ سلامتی میں ہے، سوائے اس شخص کے جو ان سے راضی ہو اور ان کی پیروی کرے، صحابہ نے عرض کیا: یارسو ل اللہ! ہم ان سے قتال نہیں کریں گے، آپ نے فرمایا کہ جب تک وہ نماز پڑھ رہے ہیں ان سے قتال نہیں کریں گے ۔ (مسلم،کتاب الامارۃ،باب وجوب الانکار علی الامراء) 
اس کے علاوہ امام باقلانی، ابن حزم، ابوالفتح قشیری، غزالی، ابن وزیر یمنی اور جمہور علمائے اسلام کا مذہب یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے تکفیر سے گریز کیا جائے اور جب تک اجماع نہ ہوجائے اس وقت تک تکفیر نہ کی جائے؛ کیوں کہ توحید کا اقرار کرنے والوں کے خون کو مباح قرار دینا خطا ہے، اور ایک ہزار کافر کو چھوڑنے کی خطا ایک مسلم کی خون ریزی کی غلطی سے چھوٹی ہے۔

حضرت ابن عباس کا خوارج سے مناظرہ اور اس کی عصری معنویت

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ تقریباً چھ ہزار خوارج اپنے ٹھکانے پر جمع تھے، میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے عرض کی کہ اے امیر المومنین! جلدی سے ظہر کی نماز ادا کرلیں تاکہ میں ان خوارج سے جاکر ملاقات کروں۔ حضرت علی نے فرمایا کہ مجھے تمہاری جان کا خوف ہے۔ میں نے کہا کہ بالکل خوف نہ کریں۔ چناں چہ میں خوب صورت ترین یمنی لباس پہن کر نکلا، ان کے پاس پہنچا۔ جب ان لوگوں نے مجھے دیکھا تو مجھے مرحبا کہا، پھر کہا: اے ابن عباس! یہ کیسا لباس ہے؟ میں نے کہا کہ تمھیں اس لباس پر کیا اعتراض ہے؟ میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر عمدہ ترین لباس دیکھے ہیں، پھر میں نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِینَۃَ اللَّہِ الَّتِی اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ۔ (الاعراف:۳۲) یعنی آپ فرمادیں کہ جو زینت اللہ نے اپنے بندوں کے لیے رکھی اسے کس نے حرام کردیا ہے!
دریافت کیا: کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں امیر المومنین، اصحاب رسول، مہاجرین وانصار کے پاس سے آرہا ہوں، لیکن ایسے لوگ تمہاری جماعت میں نظر نہیں آرہے ہیں، جب کہ انھی کی موجودگی میں قرآن کریم نازل ہوااور وہ قرآن کریم کے مفہوم کو تم سے زیادہ جاننے والے ہیں، ایسے لوگ تمہاری صف میں نہیں ہیں۔ تم لوگوں کو رسول اللہ کے ابن عم اور ان کے داماد سے کیا شکوہ ہے؟
یہ سن کر وہ لوگ کہنے لگے کہ ان سے بحث نہ کرو، ان لوگوں کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے: بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ۔ (زخرف:۵۸) بعض لوگوں نے کہا کہ ہمیں گفتگو کرنے میں کیا پریشانی ہے؟ ابن عباس رسول اللہ کے چچا زاد ہیں اور ہمیں کتاب اللہ کی دعوت بھی دے رہے ہیں۔ پھر خوارج نے کہا: حضرت علی سے ہمیں تین شکایتیں ہیں:
انھوں نے اللہ کے معاملے میں انسان کو حَکَم بنالیا۔
(۲) انھوں نے قتال کیا تو مخالفین کی عورتوں کو باندیاں نہیں بنایا اور غنیمت نہیں لوٹا، اگر ان سے قتال حلال تھا تو ان کی عورتوں کو باندی بنانا بھی حلال تھا اور اگر باندی بنانا حلال نہیں تھا تو گویا ان سے قتال بھی درست نہیں تھا۔
(۳) انھوں نے اپنے نام سے امیر المومنین کیوں ہٹادیا، اگر وہ امیر المومنین نہیں ہیں تو امیر المشرکین ہیں۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: میں نے ان سے کہا کہ کوئی اور شکایت؟ کہا: نہیں! میں نے ان سے کہا: اگر میں تمہارے یہ شکوے کتاب وسنت سے دور کردوں تو رجوع کرلو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ تب میں نے کہا کہ جہاں تک حکم بنانے کا معاملہ ہے تو اللہ نے خود فرمایا ہے: یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ (المائدہ:۹۵) (دو عادل لوگ حَکم بن جائیں) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوا حَکَمًا مِنْ اَہْلِہٖ وَحَکَمًا مِنْ اَہْلِہَا إِنْ یُرِیدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللَّہُ بَیْنَہُمَا. (النساء: ۳۵) (تمھیں آپس میں اختلاف کا خوف ہو تو ایک حکم مرد کی طرف سے اور ایک حکم عورت کی طرف سے بھیجو، اگر تم دونوں اصلاح چاہتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تم دونوں کے مابین اتفاق واتحاد قائم فرمادے گا) پھر میں نے کہا: بتاؤ میں کتاب اللہ سے باہر نکلا؟ جواب آیا: نہیں!
میں نے کہا کہ جہاں تک جنگ کے بعد عورتوں کو باندی بنانے کی بات ہے تو حضرت علی نے ام المومنین حضرت عائشہ سے جنگ کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاَزْوَاجُہُ اُمَّہَاتُہُمْ. (الاحزاب: ۶) (نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں) اگر تم ان کو اپنی ماں نہیں مانتے توکافر ہوجاؤ گے اور اگر ماں مانتے ہو تو ان کو باندی بنانا کیسے درست ہوگا؟ تم دو گمراہیوں میں گرفتار ہو، بتاؤ کیا میں قرآن کریم سے باہر ہوگیا؟ جواب آیا: نہیں!
میں نے کہا کہ جہاں تک اپنے نام سے امیر المومنین ہٹانے کی بات ہے تو تم کو معلوم نہیں ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نام سے لفظ ’’رسول اللہ‘‘ ہٹا دیا تھا، اس کی وجہ سے آپ کی رسالت ختم نہیں ہوئی تو علی کی امارت کیسے ختم ہوجائے گی؟ بتاؤ کیا میں سنت سے باہر نکلا؟ جواب آیا: نہیں!(مستدرک حاکم، ۴؍۲۰۲، دارالکتب العلمیہ،بیروت،۱۴۱۱ھ)
اس مناظرے کے کچھ اہم نکتوں پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت ابن عباس خود ان کے پاس گئے اور بطور سائل ان کے آنے کا انتظار نہیں کیا۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اہل حق میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں جو باطل افکار کے تجزیے میں پیش قدمی کرنے والے ہوں اور پھر یہ تجزیے ان تک پہنچائے بھی جائیں۔
(۲) آپ شاندار لباس پہن کرگئے۔ یہ ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور جذبہ سوال کو مہمیز کرنے کے لیے تھا۔ 
(۳) آپ نے گفتگو کی شروعات میں ہی اپنے منہج کی خوبی اور ان کے منہج کا نقص واضح کردیا کہ میرے پاس تو اصحاب رسول کی مختلف جماعتیں ہیں، لیکن ان کے ساتھ ایسی کوئی جماعت نہیں، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ ہی دین کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
(۴) سب سے پہلے آپ نے ان کے تمام اعتراضات کو سناتا کہ گفتگو میں آسانی ہو۔
(۵) وہاں بھی سب سے پہلا مسئلہ حاکمیت کا تھا اور آج بھی دہشت پسند جماعتوں کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔
(۶) وہ جس طرح کے دلائل سے قائل ہوسکتے تھے انھی کو ان کے سامنے پیش کیا۔
اللہ تعالیٰ ترجمان قرآن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے کہ انھوں نے آئندہ نسلوں کے لیے باطل گمراہ فرقوں سے گفتگو کے رہنما خطوط پیش فرمادیے ہیں اور آج اسی منہج کے مطابق مناقشے کی حاجت ہے۔

جاہلیت کا مفہوم

متشدد جماعتوں کا نظریہ ہے کہ موجودہ مسلم معاشرہ بھی عہد نبوی سے قبل والا جاہلی معاشرہ ہے اور اس معاشرے کے خاتمے اور نئے اسلامی (مزعومہ) معاشرے کی تشکیل کے لیے موجودہ جاہلی معاشرے اور ایسی حکومتوں سے ٹکر لینا، ان کے خلاف بغاوت کرنا اور ہتھیار اٹھانا ناگزیر ہے۔
موجودہ دور کی تکفیری جماعتوں تک یہ نظریہ بھی سید قطب کے ذریعے پہنچا ہے۔ انھوں نے اس نظریے پر بڑا زور دیا ہے اور اس کو اتنا دہرایا ہے کہ ان کی کتاب ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں یہ لفظ۱۷۴۰؍ مرتبہ آیا ہے۔ در اصل جاہلیت کے مفہوم کو سمجھنے میں سید قطب نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے یہ اعتقاد کہ اللہ تعالیٰ ہی بندوں کا حاکم ہے اور اسی کا حکم نافذ ہونا چاہیے اور پھر عملی طور پر اس کے نفاذ اور اس میں ہونے والی عملی کوتاہی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی اور نفاذ احکام کی کوتاہی کو عقیدے کا مسئلہ بنا کر ایسے لوگوں کی تکفیر کردی جب کہ اجرائے احکام کے لیے کچھ اسباب، شروط اور موانع ہیں جن کی بنا پر احکام کا نفاذ متاثر ہوسکتا ہے۔ 
اس طرح وہ اصول ایمان میں فروع کو داخل کرکے خوارج کی ڈگر پر چل پڑے، جنھوں نے عمل کو ایمان کا جز قرار دے دیا، اسے عقیدے کا مرتبہ عطا کردیا اور پھر گناہوں کی بنا پر لوگوں کی تکفیر کی۔
سید قطب کے اس خارجی منہج کی بنا پر بہت سے غلط مفاہیم سامنے آئے:

اعتقاد و فروع میں اختلاط

’’فی ظلال القرآن‘‘ میں انھوں نے ایک مقام پر لکھا کہ عقیدے کا دائرہ زندگی کے ہر گوشے کو محیط ہے، حاکمیت کا مسئلہ اپنے تمام فروع کے ساتھ عقیدے کا مسئلہ ہے، یوں ہی اخلاق کا تعلق بھی عقیدے سے ہے۔ (جلد: ۴، ص: ۲۱۱۴، دار الشروق، قاہرہ، ۱۴۳۴ھ)

اصول دین میں اضافہ

’’فی ظلال القرآن‘‘ میں انھوں نے اس بات کو بار بار دہرایا ہے کہ فقہ و عمل کا تعلق بھی عقیدے سے ہے۔ عمل کے ہر شعبے کا تعلق عقیدے سے ایسے ہی ہے جیسے خود اصول کا عقائد سے ہے، اور ان میں کسی سے بھی انحراف درحقیقت دین سے انحراف ہے بلکہ ایسے لوگ بت پرستوں کے برابر ہیں۔ (دیکھیے: جلد:۳ کے مختلف مقامات)

جاہلیت کا نظریہ

سید قطب کے نزدیک زمانہ جاہلیت کوئی گزرا ہوا زمانہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک منہج حیات ہے جو قبل اسلام سے تاہنوز جاری ہے، اس کا ماحصل یہ ہے کہ آج مسلمانان عالم اسلام کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی جاہلیت اولیٰ جس میں کفرو شرک سب شامل ہے، کی طرف پلٹ چکے ہیں، جب کہ عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اہل اسلام کبھی بھی کفر کی طرف نہیں پلٹیں گے اور ان کے طرز وعمل میں جو شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے اس کا تعلق معصیت و گناہ سے ہے کفر وارتداد سے نہیں ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماسبق کی ایک حدیث میں اس کی صراحت کردی ہے۔
سید قطب کا یہ موقف ہے کہ ملت اسلامیہ کفر وشرک اور زمانہ جاہلیت کی طرف پلٹ چکی ہے، ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں انہوں نے اس نظریے کا بار بار اعادہ کیا ہے۔ ان کے اس نظریے کا حاصل یہ ہے کہ دنیا سے دین اسلام ختم ہوچکا ہے اور اللہ کی روئے زمین پرصرف شرک وکفر پھیلا ہوا ہے، اس بات کا ذکر بھی انھوں نے ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں متعدد مقامات پر کیا ہے۔ (جلد:۲،ص: ۹۰۴۔ ۹۹۰، اور متعدد مقامات) 

دین ختم ہوچکا

جاہلیت کا غلط مفہوم ومعنی سمجھنے کی وجہ سے وہ اس نتیجے تک پہنچے کہ روئے زمین پر دین اسلام نام کی کوئی شئی باقی نہیں ہے، پوری امت مرتد ہوچکی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’فی ظلال القرآن‘‘، ’’العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام‘‘ اور ’’معالم فی الطریق‘‘ میں اس کی صراحت کی ہے۔ (جلد: ۲، ص:۱۰۱۷، اور دوسرے مقامات) 

دنیا سے ٹکراؤ ناگزیر

چوں کہ سید قطب یہ نظریہ قائم کرچکے تھے کہ امت اسلامیہ مرتد ہوچکی ہے تو اس سے انھوں نے ایک دوسرا نظریہ بنالیا کہ پوری دنیا کے لوگوں سے ٹکراؤ ناگزیر ہے؛ کیوں کہ ہر طرف جاہلی لیڈر شپ کا دور دورہ ہے اس کو کسی بھی طور پر قبول کرنا شرک ہے، لہٰذا الٰہ واحد کی ربوبیت و حاکمیت کے اعلان اور اس کے قیام کی جدو جہد کے لیے دنیا والوں سے ٹکراؤ حتمی ہے۔ (جلد:۲، ص:۱۰۶۱)

کافروں سے رواداری اور مسلمانوں سے قتال

بڑے تعجب کی بات ہے کہ سید قطب اختلاف ادیان رکھنے والوں سے تو عفو و در گذر کی بات کرتے ہیں، لیکن مسلمانو ں سے رواداری کو درست نہیں سمجھتے؛ کیوں کہ یہ مرتد ہیں اور مرتد کافر سے بھی بُرا ہے۔ (جلد: ۲، ص: ۷۳۲) 
یہی نظریہ داعش تک پہنچتے پہنچتے یہاں تک پہنچ گیا کہ کافر ہو یا مومن سب کی گردن مارنا ضروری ہے۔ 
یہ سارے مفاہیم دین کے متوارث مفاہیم کے مطابق سراسر غلط ہیں، بلکہ اس خیر امت پر تہمت اورخود اسلام اور پیغمبر اسلام کی دینی وتبلیغی کاوشوں کی تحقیر وتذلیل ہے۔ یہ دین آخری دین ہے اور یہ امت آخری امت ہے، شرک وکفر پر کبھی جمع نہیں ہوسکتی۔ 
دارالکفر اور دارالاسلام کا مفہوم:
قدیم مسلم فقہانے احکام شرعیہ کے اجرا اور اس کے استثنائی احکام کے لحاظ سے دنیا کودو حصوں میں تقسیم کیا:
(۱)دار الاسلام (۲) دار الکفر۔ 
اس تقسیم کا مقصد یہ تھا کہ ایک مسلمان مختلف علاقوں کا سفر کرے گا تو کن احوال میں اس پر عمومی احکام جاری ہوں گے اور کن احوال میں استثنائی احکام نافذ ہوں گے اس کا فیصلہ کیا جاسکے، غیر مسلم علاقوں میں خرید و فروخت، نکاح و میراث کے احکام کیا ہوں گے، اس کو متعین کیا جاسکے، اس تقسیم کا مطلوب یہ تھا کہ مختلف احوال میں زندگی کیسے گزاری جائے اس کے طرق و احکام کو تلاش کیا جاسکے، اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ دنیا کے ایک خطے کو دار الکفر کہہ کر ان سے جنگ وقتال اور خون ریزی کا بازار گرم کیا جائے، لیکن بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو مثبت پہلو سے جدا کر کے ایک منفی پہلو دے دیا گیا اور اس کی بنا پر یہ مسئلہ دنیامیں مسلمانوں اور انسانوں کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بن گیا اور لوگ مسلم فقہا اور خود مسلمانوں سے بدگمان ہوگئے۔ سید قطب اور ان سے متاثر افراد مثلا صالح سریہ ،شکری مصطفی، محمد عبد السلام فرج اور پھر داعش کے نزدیک یہ ایک جداگانہ اور خون ریز فکر بن کر رہ گئی ہے۔ 
سید قطب اپنی کتاب فی ’’ظلال القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اسلام کی نظر میں دنیا کی دو قسمیں ہیں : پہلا دار الاسلام اور دوسرا دار الحرب، تیسری کوئی قسم نہیں۔ دار الاسلام سے مراد وہ ملک اور وہ علاقہ ہے جہاں اسلامی احکام نافذ ہوں خواہ وہاں کے باشندے سارے مسلمان ہوں یا کچھ مسلمان اور کچھ ذمی، یا سب ذمی ہوں لیکن حکام مسلمان ہوں جنھوں نے وہاں شرعی احکام نافذ کر رکھا ہو، گویا دار الاسلام ہونے کا دار ومدار احکام شریعت کے نفاذ پر ہے۔ 
دار الحرب سے مراد وہ تمام ممالک اور علاقے ہیں جہاں اسلامی احکام نافذ نہ ہوں خواہ وہاں کے باشندے مسلمان ہوں یا کتابی یا کافر، گویا ہر وہ علاقہ دار الحرب ہے جہاں اسلامی احکام نافذ نہیں اگرچہ وہاں کے حکام وعوام مسلمان ہوں، چناں چہ جہاں اسلامی احکام نافذ ہوں گے وہاں کے لوگوں کا جان و مال محفوظ ہوگا لیکن جہاں ایسا نہیں ہوگا اُن کے جان و مال مباح ہوں گے، ان کے جان ومال کی اسلام کی نظر میں کوئی قیمت نہیں ہوگی، وہ احکام شریعت کو نافذ کرنے والے حاکم سے صلح و معاہدہ کریں ورنہ ان سے قتال کیا جائے گا۔ (فی ظلال القرآن، ۲؍۸۷۳) 
گویا سید قطب کے نزدیک دنیا کی تیسری کوئی حالت نہیں ہے، جس میں احکام شرعیہ کے عدم نفاذ کے باوجود ان سے جنگ و قتال کی صورت حال نہ پیدا ہو، بلکہ انسانی بنیادوں پر ایک معاہدے کے تحت امن و شانتی کی زندگی گزاری جائے، یوں ہی ان کی اس گفتگو سے اور ماسبق میں مذکور نظریات سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ موجودہ عہد کے عام مسلم ممالک ان کے نزدیک دار الکفر میں شامل ہیں؛ کیوں کہ جمہوری نظام قائم کر کے اور اسلامی احکام کو پس پشت ڈال کر وہ سب مرتد ہوگئے اور ان سب کا حکم زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا ہے۔
دار الاسلام اور دار الکفر کا یہ مفہوم جس میں مسلم ممالک اور خود مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی نوبت آجائے، احادیث رسول کے خلاف ہے۔ فرمان نبوی ہے:
ومن خرج علی امتی یضرب برھا وفاجرھا ولایتحاشی من مومنھا ولایفی لذی عہد عہدہ فلیس منی ولست منہ۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب الامر بلزوم الجماعۃ۔۔۔)
جو شخص میری امت کے خلاف کھڑا ہو کر ہرنیک و بد کی گردن زنی میں لگ جائے، مومنوں کوقتل کرنے سے گریز نہ کرے اور کسی عہد والے کا عہد نہ پورا کرے تو نہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ 
جب مومنوں کو قتل کرنے پر اتنی وعید ہے تو جو مومنوں کی تکفیر و تشریک میں لگ جائے، اس کے لیے کتنی وعیدیں ہوں گی؟
سید قطب اوراُن کے ہمنواوں نے ’’فی ظلال القرآن‘‘ اور ’’الفریضۃ الغائبۃ‘‘ جیسی دوسری مختلف کتابوں میں دار الاسلام، دار الکفر اور ان کے احکام کے حوالے سے انہی باتوں کا اعادہ کیا ہے جن کا ذکر گزر چکا ہے ۔ 
سید قطب کی اس فکر میں اور ہمارے اسلاف کے بتائے ہوئے اس مفہوم میں جس سے اسلام کے رافت و رحمت کاپہلو سامنے آتا ہے، جو فکر مقاصد شریعت پر مبنی ہے، دونوں میں ذرا سی بھی ہم آہنگی نہیں۔ 
فقہائے اسلام کی جانب سے پیش کی گئی دار الاسلام اور دار الکفر کی تعبیر کی حیثیت اُس زمانے کے لحاظ سے وہی ہے جو آج بین الاقوامی تعلقات کے قوانین کی ہے اور جس کے نتیجے میں آج انٹرنیشنل لا سامنے آیا ہے۔ امام محمد شیبانی کی ’’کتاب السیر الکبیر‘‘ کے مطالعے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ کتاب بین الاقوامی تعلقات کے اصول وضوابط کو بیان کرنے والی قانون کی پہلی کتاب ہے۔ قدیم فقہا سے استفادہ کرتے ہوئے اور دار الکفر اور دار الاسلام کی اصطلاح سے ان فقہاکی مراد کی گہرائی تک پہنچنے کے بعد ’’المعہد العالمی للفکر الاسلامی‘‘ نے ایک انسائیکلو پیڈیا شائع کیا ہے، جسے ’’موسوعۃ العلاقات الدولیۃ فی الاسلام‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ آج دار الاسلام اور دار الکفر کی اصطلاح میں ایک تکملے کی حاجت ہے اور ان دونوں اصطلاحوں کے علاوہ ایک اور اصطلاح دار العہد کے اضافے کی ضرورت ہے تاکہ دین اسلام کی آفاقیت و وسعت واضح ہو، لوگوں کو محاسن اسلام کا ادراک ہو اور ہدایت و اخلاق عام ہو۔ 

ابن تیمیہ کا ایک فتویٰ اور اس کا غلط استعمال

شیخ ابن تیمیہ نے اپنے عہد میں اس امکان پر غور وفکر کیا کہ دار الکفر اور دار الاسلام کی اصطلاح سے ہٹ کر ایک ایسے دارکا بھی امکان موجود ہے جسے دار مختلطہ یا دار مشتبہ کا نام دیا جائے اور جس پر نہ دار الاسلام کی تعریف صادق آتی ہو اور نہ دار الحرب کی مثلا کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں لوگ مسلمان ہوں لیکن حاکم غیر مسلم ہو مثلا تاتاری حکومت جو ملک شام پر مسلط ہوگئی تھی۔ 
 اس فتوے میں ایسے ممالک یا علاقے کے بارے میں یہ کہا گیا کہ:
یعامل فیھا المسلم بما یستحقّہ ویقاتل فیھا الخارج عن الشریعۃ بما یستحقہ.
ایسے ممالک میں مسلمانوں سے ان کے استحقاق کے مطابق معاملہ کیا جائے گا اور شریعت سے خارج لوگوں کے ساتھ قتال کیاجائے گا جس کے وہ مستحق ہیں۔ 
اس عبارت میں لفظ ’’یقاتل‘‘ سے جہادی تکفیری گروہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جو بھی خارج شریعت ہوخواہ دین کا انکار کرکے اور خواہ دین پر عمل سے دور رہ کر، دونوں سے قتال کیا جائے گا۔ محمد عبد السلام فرج نے اپنی کتاب ’’الفریضۃ الغائبۃ‘‘ میں اپنے اسی تکفیری دہشت گردانہ موقف کا اظہار کیا، اور پھر شیخ عطیہ صقر مصری نے اس کا عالمانہ رد لکھا، بعد میں علمائے زمانہ خود اس فتوی کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے اس فتوے کی اصل تلاش کرنے میں لگ گئے، تحقیق کے بعد پتا چلا کہ ابن مفلح جو مذہب حنبلی کے معتبر و ثقہ ناقل ہیں انھوں نے بھی اس فتویٰ کو نقل کیا ہے لیکن اس میں کلمہ ’’یقاتل‘‘ کے بجائے ’’یعامل‘‘ ہے اور ظاہر ہے کہ دونوں کے مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ یہ فتوی مجلہ ’’المنار‘‘ میں بھی کلمہ ’’یعامل‘‘ کے ساتھ شائع ہوا تھا۔ در اصل یہ تحریف پہلی بار ۱۳۲۷ھ میں فتاوی ابن تیمیہ کی پہلی طباعت میں ہوئی، جس کے محقق فرج اللہ کردی تھے، پھر عبد الرحمن القاسم نے بھی اسی طباعت کی تقلید کی اور پھر یہی فتوی مشہور و متداول ہو ا اور اسی نسخے کے انگریزی اور فرانسیسی زبان میں ترجمے بھی ہوئے، ایک بارپھر شیخ عبد اللہ بن بیہ نے مکتبہ ظاہریہ دمشق میں موجود اس فتوے کے مخطوطے تک رسائی حاصل کی اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی ’’یقاتل‘‘ کے بجائے اصل لفظ ’’یعامل‘‘ ہی ہے اور اس طرح تحریف کاروں کی تحریف کا پردہ فاش ہوا۔ 
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دار الکفر اور دار الاسلام کا وہ مفہوم نہیں، جو سید قطب اور ان کے ہم نواؤں نے سمجھا ہے بلکہ اس مفہوم کا تعلق دنیا کے مختلف خطوں سے رشتوں کی نوعیتوں کی وضاحت، ثقافتی تبادلے، علم و معرفت کے لین دین اور حیاتیاتی اختلاط وامتزاج سے ہے جس میں کبھی کبھی جنگیں بھی ہوتی ہیں، لیکن عمومی طور پر اس میں صرف جنگ کا معنی نہیں بلکہ اس کے ذریعے، تعارف وشناسائی اور استفادے کی راہ کھولی گئی ہے تاکہ لوگ اسلام کے پیغام کو سمجھ کر اسے اختیار کرسکیں۔ 

ربانی فتح و نصرت صرف جہادیوں کے لیے

مسئلہ حاکمیت کی بنا پر پوری سوسائٹی کی تکفیر و تشریک اور ان کو جاہلی قرار دینے سے ایک اور عجیب و غریب نظریہ سامنے آیا کہ سب لوگ کافر ہیں، صرف یہ جہادی گروہ ہی مومن ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی فتح و نصرت اور روئے زمین پر غلبہ و قدرت عطا کرنے کی بات کی ہے ان کا تعلق صرف جہادیوں سے ہے اور اس کے مخاطب وہی لوگ ہیں۔ اس نظریے کی بنا پر ان کے اندر اور سرکشی پیدا ہوگئی اور پھر اس کے نتیجے میں انھوں نے پورے زور وشور کے ساتھ پوری انسانیت خواہ مسلمان ہو یا کافر، کے خلاف ظلم وستم میں مصروف ہوگئے، شریعت اور اس کے مقاصد سے پوری طرح دور ہوگئے اور اس کو جہاد فی سبیل اللہ کا نام دے دیا گیا۔ سید قطب نے اس نظریے کا اعادہ بار بار ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں کیا ہے۔ (جلد: ۱، ص: ۲۵۲، اور متعدد مقامات) 

جہاد کا مفہوم

دہشت پسند جماعتوں کے نزدیک جہاد کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کے لوگ چوں کہ غیر اللہ کی حاکمیت قبول کرچکے ہیں، مسلمان پھر سے زمانۂ جاہلیت کی جانب پلٹ چکے ہیں، اس طرح لوگ کفر وشرک کے مرتکب ہوگئے ہیں اور ایک طویل زمانے سے دنیا میں دین مٹ چکا ہے، ہر طرف کفری قوانین اور مشرکانہ دساتیر رائج ہیں، اس لیے ان تحریکوں نے مسلم حکام کی معزولی پھر ان کے اور مسلمانوں کے بے رحمانہ کشت وخون کا سلسلہ شروع کیا اور اپنا ٹارگیٹ صرف یہ بنالیا کہ کسی بھی طرح جہاں بھی ممکن ہو حکومت کی کمان چھینی جائے، متبادل سیاسی ڈھانچہ تیار کیا جائے؛ کیوں کہ دنیا کے لوگوں سے ٹکراؤ ضروری ہوگیا ہے، اسی کو انھوں نے جہاد کا نام دے دیا۔ 
صحیح بات یہ ہے کہ جہاد مشروع صرف قتال میں محدود نہیں بلکہ در حقیقت اسلام میں جہاد ایک وسیع ترقی یافتہ عمل ہے، جس کے مختلف مراحل ہیں اور اس کے عمدہ انسانی مقاصد ہیں، اور قتال تو جہاد کی صرف ایک صورت ہے اور اس قتال کا بھی مقصد یہ ہے کہ جرائم پسند اور فسادی عناصر کو ختم کرکے امن و شانتی کو لوگوں کے مابین عام کیا جائے، ہدایت ربانی سے لوگوں کو آشنا کیا جائے اور لوگوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب زندگی سے ہم کنار کیا جائے، یہ مقصد نہیں کہ زندگی کا گلا دبا دیا جائے، پھر یہ جہاد بھی کسی حاکم کے زیر نگرانی اور گورننگ پاور کی ماتحتی میں انجام پائے گا، جس میں جہاد کرنے والوں پر یہ واجب ہوگا کہ وہ کسی درخت کو نہ کاٹیں، کسی بکری کو نہ ماریں، کسی راہب کو خوف زدہ نہ کریں وغیرہ، پھر اس جہاد کے بھی کچھ حدود وقوانین ہوں گے، اگر ان حدود وشروط کی رعایت نہیں ہوگی تو پھر یہ جہاد نہیں رہ جائے گا بلکہ ناانصافی، ظلم اور سرکشی میں تبدیل ہوجائے گا۔ 
دہشت گردوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے یہاں متعدد قسم کے مظالم پائے جاتے ہیں۔ قرآن وحدیث اور شریعت پر ظلم کہ انہوں نے پوری سوسائٹی کی تکفیر کردی، شریعت کی مختلف اصطلاحات، معانی ومفاہیم میں تحریف کی اور دین اسلام کو ظلم وبربریت اور شقاوت وقساوت کا دین بناکر رکھ دیا۔ 
جہاد کی اس تعبیر کا بھی ذکر سید قطب اور ان کے ہم نواؤں کے یہاں کھلے لفظوں میں ملتا ہے، صالح سریہ نے اپنی کتاب ’’الایمان‘‘ میں اپنے مزعومہ جہاد کو فرض عین قرار دیا ہے ۔ گویا جہاد کے مفہوم کے حوالے سے دنیا ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف تو جہاد کا متوارث اور وسیع شرعی مفہوم ہے اور دوسری طرف دہشت پسند تحریکوں کا اختراعی پُرتشدد مفہوم ہے اور دونوں مفاہیم کے کچھ بنیادی امتیازی نقطے یہ ہیں: 
(۱) علمائے امت کے مطابق جہاد مشروع کا مفہوم وسیع ہے یہ ایک عمدہ اور پُر نور عمل ہے جس کی متعدد صورتیں ہیں، چناں چہ جہاد قلب سے بھی ہوتا ہے، دعوت دین، اقامت حجت، بیان وتبیین، رائے وتدبیر کے ذریعے بھی جہاد ہوتا ہے، البتہ! کبھی ایسی ایمرجنسی کی صورت حال ہوتی ہے کہ جب شر وفساد کے خاتمے کے لیے قتال اور جنگ ناگزیر ہوتی ہے، ان کی تفصیلات کے لیے کتب فقہا کی جانب رجوع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دہشت پسندوں کے نزدیک جہاد کا مفہوم قتال میں محدود ہے۔ 
(۲)اہل حق کے نزدیک جہاد ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے، مقصود لذاتہٖ نہیں اور شریعت میں وسائل ان اعمال کو کہا جاتا ہے جن کا مقصود دوسرے کسی غرض کی تحصیل ہو، گویا جہاد کو ہمیشہ قتال سے جوڑکر دیکھنا ضروری نہیں بلکہ مقصود ان اغراض کی تکمیل ہے جو قتال کے پس پشت ہیں، اسی وجہ سے کبھی کبھی مقاصد کی تحصیل کے لیے قتال نہ کرنا ضروری ہوتا ہے، اسی لیے امام رملی فرماتے ہیں کہ جہاد کبھی تو صرف قلعے اور خندقیں بنوانے سے بھی ہوجاتا ہے اور کبھی قتال کی ضرورت پڑتی ہے ۔ (نہایۃ المحتاج، ج:۸، ص:۴۶) 
دہشت پسندوں کے نزدیک قتال مقصود لذاتہٖ ہے، چناں چہ قرضاوی نے ذکر کیا ہے کہ سید قطب نے جہاد کے حوالے سے سب سے تنگ اور پر تشدد رائے قائم کر رکھی ہے اور وہ رائے بڑے بڑے فقہا ودعاۃ کے موقف کے خلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں (ان کے ماننے والوں) کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری دنیا سے جنگ کرنے کے لیے تیار کریں۔ (ابن القریۃ والکتاب، جلد: ۳، ص:۵۹) 
(۳) علمائے حق کے مطابق جہاد کا سب سے بڑا مقصد ہدایت ہے؛ کیوں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو خیبر کی طرف بھیجا تو آپ نے ارشاد فرمایا: لان یھدی اللہ بک رجلا واحد اخیر من حمر النعم. (صحیح بخاری، باب فضل من اسلم علی یدیہ رجل) (اللہ تمہاری ذات سے کسی ایک انسان کو بھی ہدایت عطا فرمائے تو یہ سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے )
میدان جنگ میں بھیجتے وقت حضور علیہ السلام کے اس فرمان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قتال کا مقصود بھی ہدایت ہے، چناں چہ اگر یہ مقصود علم ومناظرہ اورازالہ شبہات کی کوششوں سے حاصل ہوجائے تو یہ افضل ہے اور اسی وجہ سے علما نے یہ فرمایا ہے کہ علما کے قلم کی روشنائی شہدا کے خون سے افضل ہے اور اگر یہ مقصود قتال کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل نہ ہو تو اس وقت تک قتال کریں گے، جب تک کہ ان اہداف میں سے کوئی ہدف نہ حاصل ہوجائے یا تو ان کی ہدایت ہوجائے اور یہی سب سے اعلی مرتبہ ہے یا ان کے مقابلے میں شہادت ہوجائے یہ پہلے والے سے کمتر درجہ ہے، لیکن یہ ایک عمدہ مقصد ہے اورا س کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اپنی سب سے عزیز چیز کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا ہے، لیکن یہ بھی مقصد حقیقی نہیں ہے بلکہ مقصود اعلائے کلمۃ الحق ہے ۔ امام عز الدین بن عبد السلام قواعد الاحکام (جلد: ،ص:۱۲۵)میں فرماتے ہیں کہ مقاصد کے سقوط کی صورت میں وسائل بھی ساقط ہوجاتے ہیں۔ دہشت پسندوں کے نزدیک ہدایت کی تحصیل میں جہاد وقتال کا کوئی کردار نہیں۔
(۴) علمائے حق کے مطابق جہاد ایک حکم شرعی ہے، صرف جوش اور جذباتیت کا نام نہیں ہے، لہٰذا یہ بھی احوال کے لحاظ سے کبھی واجب ہوگا کبھی مستحب اور کبھی حرام، یوں ہی کبھی صورتا تو جہاد صحیح ہوتا ہے لیکن حقیقتاً باطل ہوتا ہے؛ کیوں کہ وہ جہاد اپنے محل میں نہیں ہوتا اورا س میں شروط وضوابط کی پابندی نہیں ہوتی اور جب حدود وشروط کی پابندی نہیں ہوگی تو صورتا صحیح ہونے کے باوجود یہ سراسر ظلم وسرکشی ہوگا ۔ 
دہشت پسندوں کے نزدیک جہاد کا جو مفہوم ہے اس میں صرف ظلم وتعدی ہے اور دین ودانش کے خلاف ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگ دین اسلام سے بدظن ہوتے ہیں اور خود مسلمانوں میں دین بیزاری کا ماحول عام ہوجاتا ہے ۔ 
سید قطب اور ان کے ہم نواؤں کے مطابق جہاد پوری دنیا سے جنگ کا نام ہے یوں ہی وہ لوگ جہاد کے مسئلے میں اپنے زمانے کے جمہور علما پر ایک تو یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ لوگ احمق، غافل، کم علم اور کم فہم ہیں۔ دوسرا یہ کہ نفسیاتی اور اخلاقی طور پر یہ لوگ کمزور ہیں کیوں کہ ان کے اندر بزدلی اور موجودہ مغربی دنیا سے مرعوبیت پائی جاتی ہے ۔ (ابن القریۃ والکتاب، جلد:۳،ص:۶۱) 

’’تمکین فی الارض‘‘ کا مفہوم

اخوان اور ان سے نکلی ہوئی ہر تنظیم کی یہ محوری فکر ہے۔ تمکین کا مفہوم ان کے نزدیک یہ ہے کہ روئے زمین کفر وارتداد کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہے، اس لیے ان کے خلاف مسلح جد وجہد ضروری ہے، یوں ہی حکومت واقتدار پانے کے لیے مختلف قسم کی تدابیر، کوششوں اور اقدامات کی ضرورت ہے اور اقامت دین کا یہی واحد راستہ ہے۔ حکومت واقتدار کے حصول کی انہی کوششوں کو وہ تمکین فی الارض کی کوشش سے تعبیر کرتے ہیں۔ 
اس سلسلے میں ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا نقل کرتے ہوئے ارشاد فرما یا : رَبِّ اجْعَلْنِی عَلَی خَزَاءِنِ الْاَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیْمٌ. (یوسف: ۵۵) (اے مولی! مجھے زمین کے خزانوں کا مالک بنادے، میں حفاظت کرنے والا اور علم والا ہوں )
ان کے مطابق یہ آیت کریمہ بتاتی ہے کہ حکومت وامارت کے حصول اور قیام کی کوشش ہونی چاہیے۔ سید قطب نے اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ در اصل حضرت یوسف علیہ السلام ایک جاہلی معاشرے میں زندگی گزار رہے تھے، اس لیے انھوں نے امارت وحکومت کی کوشش کی اور چوں کہ آج ہمارے زمانے میں بھی یہی صورت حال ہے اس لیے آج بھی تمکین فی الارض (غلبہ واقتدار) کے حصول کے لیے جد وجہد کی ضرورت ہے ۔ 
(فی ظلال القرآن، ۴؍۲۰۱۳، العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام۔ ص: ۱۸۳، دار الشروق، قاہرہ، ۱۴۱۵ھ) 
ان کی یہ ساری گفتگو بڑی خطرناک ہے؛ کیوں کہ اس گفتگو سے انھوں نے گویا یہ اعلان کردیا کہ اب دین منقطع ہوچکا ہے، احکام شریعت کا کہیں وجود نہیں رہ گیا اور یہ امت کفر وشرک کی علم بردار ہوگئی ہے جب کہ دین محمدی قیامت تک کے لیے ہے اور یہ دین قیامت تک بالکلیہ کبھی ختم نہیں ہوگا یوں ہی یہ خیر امت ہے جو شر پر جمع نہیں ہوگی ۔ 
دوسری بات یہ کہ مسلمانوں نے مکے میں تیرہ سال تک بالکلیہ مختلف ماحول میں زندگی گزاری۔ حبشہ میں الگ صورت حال سے نبرد آزما ہوئے اور مدینے میں مختلف ادوار میں الگ الگ حالات رہے تو کیا مغلوبیت واقلیت کے زمانے میں وہ دین پر قائم نہیں تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ انہی مختلف احوال سے تو مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ کیسے مختلف احوال میں مسلم رہتے ہوئے اور دین وشریعت پر قائم رہتے ہوئے زندگی گزاری جائے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ جاہلی زمانے میں تھے، یہ ان کے مقام نبوت پر دست درازی ہے؛ کیوں کہ زمانہ جاہلیت تو کفر وشرک سے بھرا وہ زمانہ ہوتا ہے جس میں کوئی نبی نہ ہو، اس زمانے میں تو وہ خود بطور نبی موجود تھے۔ یوں ہی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا کہ انھوں نے امارت وحکومت کی طلب کی تویہ سراسر غلط ہے اور قرآن کے سیاق وسباق اور اس زمانے کے حالات کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے ۔
در اصل بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر علم کی صفت سے ذکر کیا ہے اور ہوا یہ کہ جب زراعت کی باریکیوں اور اقتصادی مسائل وبحران کے حل کے سلسلے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے علم کا اظہار مصری قوم جو خود بھی علم زراعت میں بہت ماہر تھی، کے سامنے قحط سالی کے دوران ہوا تو یوسف علیہ السلام کے پاس بار بار قاصد بھیجا گیا، لیکن آپ نہیں آئے یہاں تک کہ بادشاہ نے خود درخواست کی کہ آپ وزیر یا اقتصادی مشیر بن جائیں تو آپ نے اس کے اصرار پر یہ منصب قبول کرلیا، یہاں آپ نے خود سے امارت وحکومت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ آپ کو بہ اصرار یہ ذمے داری سونپی گئی۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں تمکین یااس کے مادے سے مشتق الفاظ مختلف مقامات پر مذکور ہیں، اور جن کو تمکین کی صفت حاصل ہوئی ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں تھے، لیکن ہر جگہ تمکین عطا کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی جانب کی گئی ہے، کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ انھوں نے تمکین خود سے حاصل کرلی۔ گویا تمکین فی الارض کا معاملہ محبت کی طرح ہے کہ کوئی بھی انسان خود سے محبت دلوں میں نہیں ڈال سکتا، محبوبیت ومقبولیت اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے، انسان صرف محبت کے اسباب ووسائل کو اختیار کرتا ہے۔ 
تمکین سے تعلق رکھنے والی آیات اور خصوصا سورۂ یوسف اور واقعۂ ذوالقرنین سے تمکین کا جو مفہوم سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو جدید معاشرتی و ثقافتی امور، تہذیب وتعمیر اور ماڈرن سائنسی علوم میں اتنا ترقی یافتہ بنائے کہ اس کی علمی تحقیقات سامنے آئیں جس کے نتیجے میں بے روز گاری ختم ہو، فقر ومفلسی کی شرح کم ہو، بے گھر اور بے سہارا مردو عورت اور بچے نظر نہ آئیں، ہر طرف خوش حالی ہو اور انسانی سماج کی ترقی ہو۔ تمکین کا وہ معنی نہیں جو دہشت پسند تنظیموں نے سمجھا کہ پوری دنیا کو کافر ومشرک جان کر کسی بھی طرح ان سے زمامِ حکومت چھین لی جائے اور اس مقصد کے لیے جتنی بھی خون ریزیاں ہوں سب کو روا سمجھا جائے بلکہ اسے جہاد کا نام دے کر تقدس کا جامہ پہنادیا جائے۔ یہ دین وشریعت پر ظلم اور قرآن کے معانی ومفاہیم میں تحریف ہے ۔ 

وطن کا مفہوم

(۱) دہشت پسند تنظیموں کا وطن کے حوالے سے یہ نظریہ ہے کہ وطن صرف ایک مشت خاک ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ 
وطن سے محبت کا جذبہ ایک بے وقعت انسانی جذبہ ہے جس کو دور کرنا ایسے ہی ضروری ہے جیسے گناہوں کی جانب میلانات کو، وطن اور اس سے محبت کی فکر جاہلی اور مردود ہے؛ کیوں کہ یہ خلافت اور امت کے نظریے کے خلاف ہے، وطن استعماری طاقتوں کے بنائے ہوئے جغرافیائی حدود کا نام ہے، اس لیے ہمیں اس سے کوئی محبت نہیں، وطن تو اس مقام کو کہتے ہیں جہاں انسان رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت کی ہے۔ (فی ظلال القرآن، ۳؍۱۴۴۱) 
(۲)حب الوطنی پر کوئی آیت یا حدیث رسول موجود نہیں ہے۔
(۳)جن احادیث میں مکہ مکرمہ سے حضور نے اپنی محبت کا اظہار فرمایا ہے یہ مکہ کی خصوصیت ہے، دوسرے وطن کو اس پر ہم قیاس نہیں کریں گے۔ 
سید قطب نے ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں متعدد مقامات پر وطن کے حوالے سے انہی مفاہیم کا اعادہ کیا ہے اور حب الوطنی کے تمام تصورات کو جاہلی قرار دیا ہے۔ (دیکھیے: ج:۲، ص:۷۰۸) 
یہ ساری باتیں جو سید قطب کی جانب سے کہی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ وطن کا جو تصور سید قطب نے پیش کیا ہے وہ مخدوش تصور ہے؛ کیوں کہ وطن صرف ایک مشت خاک کا نام نہیں، بلکہ وطن ایک قوم، تہذیب وتمدن، تاریخ، مسائل، سیاست، فکری رجحانات، تنظیمیں، جغرافیائی حدود اورا س میں پیدا ہونے والی عبقری شخصیات سے عبارت ہے ۔ 
وطن کی جانب قلب کے میلان کو گناہوں سے تشبیہ دینا طیب وخبیث کوباہم خلط ملط کرنے کے مترادف ہے؛ کیوں کہ وطن کی محبت ہر قلب سلیم میں موجود ہوتی ہے، جب کہ گناہوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے ۔ 
وطنیت ایسی کوئی فکر نہیں جو خلافت وامت کے نظریے کے بالمقابل ہو، بلکہ دین سے پورا تعلق برقرار رکھتے ہوئے کسی جغرافیائی علاقے سے نسبت کو اسلام نے مذموم نہیں قرار دیا ہے، ہاں! اگر یہ محبت دین وایمان پر غالب آجائے اور حق سے روک دے اور تعصب کا سبب بن جائے تب یہ مذموم ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن مکہ مکرمہ کی جانب اپنے اشتیاق کا اظہار فرمایا کرتے تھے ۔
وطن کو انگریزوں کے بنائے ہوئے جغرافیائی حدود سے تعبیر کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ہزاروں سال سے چلے آنے والے جغرافیائی حدود کانام ہے، وطن کی تعبیر انسان کی پسندیدہ جائے سکونت سے کرنا اور پھر یہ کہنا کہ اللہ تعالی نے اس کی مذمت کی ہے، یہ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ آیت کریمہ ’’وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا‘‘ (التوبۃ: ۲۴) میں رہائشی مکانات مراد ہیں اور ان سے ذاتی عیش وعشرت کی طرف اشارہ ہے، مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور جہاد فی سبیل اللہ یعنی خیر وسعادت کی نشر واشاعت اور سماجی فلاح وبہبود کی محبت ذاتی فلاح وبہبود پر غالب نہیں آنی چاہیے۔ 
ان دہشت پسند تنظیموں پر وطن کا مفہوم اس لیے واضح نہیں ہوسکا کہ فہم قرآن کے صحیح ذرائع و وسائل کا انھوں نے استعمال نہیں کیا، حب الوطنی کے اشارات قرآن کریم اور مفسرین کے کلام میں موجود ہیں، امام رازی، ملا علی قاری اور دوسرے بے شمار علما ومفسرین کے یہاں اس کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، یوں ہی احادیث نبویہ اور شارحین کے کلام میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپ جب سفر سے لوٹتے تو مدینہ کے در ودیوار کو بغور دیکھتے، اس حدیث کی شرح میں امام عسقلانی، عینی وغیرہم نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے حب الوطنی کی مشروعیت کا پتہ چلتا ہے، ان کے علاوہ دوسرے بہت سے محدثین وشارحین نے ایسی روایات اور مفاہیم ذکر کیے ہیں جن سے حب الوطنی کا درست ہونا معلوم ہوتا ہے ۔ 
ان کے علاوہ فقہا، اولیا، حکما، شعرا، ادبا، سب کے یہاں حب الوطنی کے جذبات کا اظہار ملتا ہے، یوں ہی حب الوطنی کے موضوع پر بہت سے علما نے کتابیں بھی لکھیں ہیں، جاحظ نے ’’حب الوطن‘‘ نامی کتاب لکھی، یوں ہی ابو حاتم سجستانی، سمعانی، ابوحیان توحیدی وغیرہم کی بالترتیب ’’الشوق الی الاوطان، النزوع الی الاوطان اور الحنین الی الاوطان‘‘ نامی کتابیں ہیں ۔ 

اسلامی غلبے کے پروجیکٹ کی حقیقت

بعض لوگوں نے اسلامی غلبے کے پروجیکٹ کے حوالے سے بڑا واویلا مچا رکھا ہے، جو اس کی حمایت کرتا ہے اس کو اللہ اور اس کے دین کا حامی سمجھا جاتا ہے اور جو اس کی مخالفت کرتا ہے اسے اللہ اور اس کے رسول کا دشمن قرار دیا جاتا ہے، لیکن کوئی بھی اس اسلامی پروجیکٹ کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش نہیں کرتا تاکہ اس کے تعلق سے وہ اپنی صحیح رائے قائم کرسکیں، خدمت دین متین میں ازہر کی ہزار سالہ تاریخ کی روشنی میں اسلامی غلبے کے پروگرام کے اہم خصائص یہ ہونے چاہیے:
(۱) اسلامی پروگرام میں موجودہ عہد کے ڈیپلومیٹک، ادارتی، سیاسی، اقتصادی، سماجی، فلسفیانہ اور سائنسی سوالات ومشکلات کا تفصیلی اور جزئی جواب موجود ہو۔ 
(۲) اس جواب کا مبدا نصوص شرع، اس کے مقاصد، اجماعات، احکام وتشریعات، اخلاق واقدار، اصولی وفقہی قواعد، سنن الٰہیہ اور اس کے آداب وفنون ہوں۔
(۳) اس کی صورت یہ ہو کہ پہلے علوم ومناہج اور اس کی تنظیرات کو وجود میں لایا جائے، پھر اس کے ایسے عملی پروگرام ہوں جو تنظیمات اور ادارے کی شکل میں تبدیل ہوجائیں ۔
(۴) اس اسلامی پروجیکٹ کا مقصود یہ ہو کہ علوم ومعارف اور خدمات کے ایسے عملی ادارے قائم ہوں، جن میں مقاصد شریعت کی روح دوڑ رہی ہو، جن کے ذریعے نفس، عقل، عزت، دین، مال، احترام انسانیت کے اقدار کی حفاظت اور اخلاقی اساس کی تعظیم ہو، عالمی افادے اور استفادے کے لیے دروازے کھلے ہوں، جس کے ذریعے بچوں، عورتوں کی اہمیت وقیمت واضح ہو، ماحولیات اور حقوق کائنات، انسان وحیوان، نباتات وجمادات کی حفاظت ہو اور ہر جگہ نوارانی وربانی تاثیرات موجود ہوں، اور بہر صورت انسان کا تعلق اپنے خالق ومالک سے مضبوط ہو، تہذیب ایسی ہو جس میں مسلم، عیسائی، یہودی، بدھشٹ، اشتراکیت پسند، سیکولر، لیبرل، دایاں محاذ، بایاں محاذ، ملحد وبے دین اور سارے مذاہب کے لیے وسعت ہو، اس میں کسی کو اس کے معاملات میں مجبور نہ کیا جائے بلکہ سب کے ساتھ اسلامی رحمت ورافت اورعدل وانصاف کا مظاہرہ ہو۔ 
(۵) اسلامی پروگرام کا محور ومقصد اخلاق، مکارم انسانیت، بلند اخلاقی اقدار، احترام انسانیت اور دنیا اور آخرت میں لوگوں کو سعادت مندی سے بہرہ مند کرنا ہو۔ 
ان مقاصد سے ہٹ کر جو بھی اسلامی پروگرام ترتیب دیا جائے گا وہ باطل وبے معنی ہوگا۔ اس طرح کے پروگرام تیار کرنا عام آدمی کا کام نہیں ہے بلکہ یہ مجتہدین فقہائے شریعت اور ماہرین دین کی ایک ٹیم کا کام ہے ۔
ان باتوں کو سامنے رکھے بغیر دہشت پسند تنظیموں کی جانب سے آج جس اسلامی پروگرام کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، جس میں تکفیر وتشریک، تہمت، قتل وغارت گری، انسانی اقدار کی پامالی اور مقاصد وآداب شریعت کی بے حرمتی کے علاوہ کچھ بھی نہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اس کے ذریعے تو لوگ اسلام سے بدگمان ہوکر اسلام سے دور ہی ہورہے ہیں ۔ 

دہشت پسندوں کے فکری نقائص کی بنیادیں

کسی بھی مسئلے پر تفکر وتدبر اور قرآن وسنت سے استفادے کے لیے درج ذیل مراحل سے گزرنا ضروری ہے اور ان ہی مراحل سے نہ گزرنے کی بنا پر یہ تحریکات غلط افکار کے دلدل میں پھنس گئیں۔ 
فکری استنباط کا جن علمی مراحل سے گزرنا ضروری ہے، وہ درج ذیل ہیں 
(۱) استنباط کے وقت مسئلے سے تعلق رکھنے والی تمام آیات واحادیث پیش نظر ہوں، صرف فقہی آیات پر نظر نہ ہو بلکہ قصص، اخبار سب پر نگاہ ہو۔ طوفی شرح مختصر الروضۃ (جلد: ۳، ص:۵۷۷) میں کہتے ہیں کہ احکام شرع جس طرح اوامر ونواہی سے مستنبط ہوتے ہیں اسی طرح قصص ومواعظ سے بھی ان کا استخراج ہوتا ہے، قرآن کی شاید ہی کوئی آیت ہو جس سے کوئی حکم مستنبط نہ ہوتا ہو، اور استنباط بھی علما کے قرائح واذہان اور روحانی فتوحات کے اختلاف سے مختلف ہوا کرتے ہیں۔ یوں ہی درجات استنباط بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔
(۲) شرعی نصوص کو صحیح طور پر سمجھ کر ایک دوسرے سے ربط جوڑا جائے تاکہ تقدیم وتاخیر، عام وخاص اور مطلق ومقید کے خصائص تک رسائی ہوسکے۔
(۳) دلالتوں کی مختلف جہات پر اچھی نظر، مدلولات کی صحیح معرفت، عربی زبان کی وسعتوں سے مکمل آگہی اور علوم عربیہ کا کامل ادراک ہو، تمام علمائے اصولیین نے ان مباحث کا ذکر اصول استنباط کے ذیل میں کیا ہے ۔
استنباط کے وقت پہلے سے کوئی نظریہ نہ بنا ہوا ہو اور قرآن کو اپنے اس سابقہ نظریے کے اثبات کے لیے آلہ نہ بنایا جائے، بلکہ قرآن جس نتیجے تک اصول استنباط کی روشنی میں لے جائے اس کو اختیار کیا جائے ۔
(۴) قرآن اور نصوص شریعت سے ایسے مفاہیم نہ مستنبط کیے جائیں، جو مقاصد شرع سے مزاحم اور مسلمات دین سے متصادم ہوں۔ 
(۵) سابقہ اسلامی میراث کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے اور ان سے استفادہ کیا جائے ۔
(۶) ان اصول ومناہج سے ہوشیار رہا جائے، جن کے بھنور میں سابقہ گمراہ جماعتیں پھنس چکی ہوں۔
ان کے علاوہ فکری استنباط کے وقت یہ باتیں بھی قابل توجہ ہیں :
(۱) معرفت وحی، اس کے مناہج فہم کا علم اور صورت حال کا صحیح ادراک، ان تینوں ارکان کے بغیر کبھی بھی صحیح فہم کی تکوین نہیں ہوسکتی۔
(۲)وہ فکریں اور وہ استنباطات جو نفسیاتی اور جذباتی دباؤ کے تحت وجود میں آتے ہیں ان میں عمیق تفکر اور صحیح مناہج کا فقدان ہوتا ہے، اس لیے حالت غضب میں فیصلے صادر کرنے کی احادیث کریمہ میں ممانعت آئی ہے ۔
(۳)مصالح ومفاسد کے باب میں اجتہاد کا حق صرف اس شخص کو ہے جس کو تفصیلی طور پر مقاصد شرع کی معرفت ہو ۔
(۴)مقاصد شریعت کی عدم معرفت اور سنن الٰہیہ سے بے خبری سے فہم میں خلل واقع ہوتا ہے ۔

فکری نقائص کے اثرات

بہت سی اسلامی اصطلاحوں کا صحیح مفہوم نہ سمجھ پانے کی وجہ سے پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام، امت مسلمہ اور مذہب اسلام پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے، چناں چہ حاکمیت کا غلط مفہوم سمجھنے اور سمجھانے کا اثر یہ ہوا کہ دوسرے وہ تمام افکار سامنے آئے جن کا تذکرہ مسئلہ حاکمیت کے بعد کیا گیا ہے، یوں ہی سید قطب کی اس فکر سے تمام دہشت پسند تنظیمیں نکلیں، اخوان، القاعدہ، التکفیر والہجرۃ اور اس جیسی دوسری تنظیمیں سامنے آئیں جس کی انتہا موجودہ عہد میں داعش پر ہوئی۔ صالح سریہ، شکری مصطفی، محمد عبد السلام فرج جیسے بے شمار افراد نکلے اور ان کے قلم سے اسی فکر کا نمائندہ لٹریچر بھی ظاہر ہوا۔
نظریۂ جاہلیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری دنیا سے دین کو منعدم قرار دے کر شریعت اسلامیہ کے قیام کے نام پرکشت وخون کا بازار گرم کردیا گیا، ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا گیا، مسلم حکام کے خلاف بغاوت کی گئی اور پوری دنیا کا عموما اور مسلم دنیا کا خصوصاً امن وامان غارت کردیا گیا ۔
یہ نظریہ قائم کرکے کہ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر مومنین کے غلبے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مستحق صرف یہی لوگ ہیں، سارے مسلمانوں کی تکفیر کردی گئی اور ان سے زمام مملکت چھیننے کی کوشش شروع ہوگئی، جہاد کے مفہوم کو قتال میں منحصر کرکے احادیث وقرآن کی تکذیب کی گئی، سارے علمائے شریعت کی مخالفت کی گئی اور پوری امت سے ہٹ کر ایسا نظریہ قائم کیا گیا جس سے انسانی جانوں کی پامالی اور ناقدری کی راہ ہموار ہوگئی اور نوجوانوں کا استحصال کرکے ان کے ذہن میں ہدایت ربانی، اخلاق نبوی، اسلامی عدل وانصاف اور رافت ورحمت کی عظمت کو راسخ کرنے کے بجائے قتل وخون کا زہر گھول دیا گیا۔نظریۂ تمکین کی آڑ میں جاہ وریاست کی طلب اور حصول اقتدار کی راہ ہموار کی گئی۔ قرآنی آیات کا غلط معنی پیش کرکے تحریف کے جرم کاا رتکاب کیا گیا، وطن کی غلط تعبیر وتشریح کرکے ایک پاکیزہ انسانی جذبے کی ناقدری کی گئی بلکہ اس کو سراپا معصیت بنادیا گیا، اس طرح انبیا، صحابہ اور ہزاروں ان علما کی بے عزتی کی گئی جن کے یہاں وطن کے حوالے سے محبت کے پاکیزہ احساسات پائے جاتے ہیں ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سید قطب کے عہد سے لے کر اب تک جتنی بھی دہشت پسند جماعتیں وجود میں آئی ہیں، سب کی فکری بنیادیں انہی بیان کردہ افکار وآرا پر ہیں، حیرت ہوتی ہے کہ ان میں آپس میں کس قدر فکری مماثلتیں پائی جاتی ہیں ۔
مقالہ نگار کے خیال میں مؤلف کتاب نے بڑی گہرائی سے سید قطب اور ان کے کوکھ سے پیدا ہونے والی تمام تنظیموں اور ان کے افکار کا مطالعہ کیا ہے اور بہت سلیقے سے علمی انداز میں ان پر تنقید کی ہے۔
مؤلف نے یوں تو اپنی کتاب میں عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے دہشت پسند افراد، ان کے لٹریچر اور ان کی تنظیموں کا تجزیہ کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا تجزیہ برصغیر ہند وپاک اور دنیا بھر کی دہشت پسند تنظیموں پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے اور یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس کتاب کو بنیاد بناکر پوری دنیا کی عموماً اور برصغیر ہندو پاک کی تمام بنام اسلام دہشت گرد تنظیموں کی خصوصا فکری تاریخ لکھی جاسکتی ہے اور ان کے دہشت گردانہ اقدامات کی روشنی میں ان کے افکار وخیالات کی عملی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
اللہ کریم امت مسلمہ کو صراط مستقیم پر قائم فرمائے اور افراط وتفریط اور تشدد وارہاب کی لعنت سے نکال کر ارشاد وہدایت اور دعوت وتبلیغ کے فریضے پر مامور فرمائے! آمین!

مولانا جلال الدین حقانیؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا جلال الدین حقانیؒ کی وفات کی خبر دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ میرے لیے بھی گہرے صدمہ کا باعث بنی ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون، اور اس کے ساتھ ہی جہادِ افغانستان کے مختلف مراحل نگاہوں کے سامنے گھوم گئے ہیں۔ مولانا جلال الدین حقانیؒ جہاد افغانستان کے ان معماروں میں سے تھے جنہوں نے انتہائی صبر و حوصلہ اور عزم و استقامت کے ساتھ نہ صرف افغان قوم کو سوویت یونین کی مسلح جارحیت کے خلاف صف آرا کیا بلکہ دنیا کے مختلف حصوں سے افغان جہاد میں شرکت کے لیے آنے والے نوجوانوں اور مجاہدین کی سرپرستی کی اور انہیں تربیت و حوصلہ کے ساتھ بہرہ ور کر کے عالم اسلام میں جذبۂ جہاد کی نئی روح پھونک دی۔ ان کا وہ دور ہمیں یاد ہے جب وہ انتہائی بے سروسامانی اور کسمپرسی کے عالم میں سوویت یونین کی مسلح فوجوں کے خلاف نبرد آزما تھے اور سوویت یونین کے مخالفین ابھی صرف تماشہ ہی دیکھ رہے تھے، انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ خدا مست لوگ آخر کس طرح دنیا کی ایک بڑی فوجی قوت کے خلاف اپنی مزاحمت کو جاری رکھ سکیں گے۔ مگر مولوی جلال الدین حقانی، پروفیسر صبغت اللہ مجددی، سید احمد گیلانی، مولوی محمد نبی محمدی ، مولوی محمد یونس خالص، مولوی ارسلان رحمانی، کمانڈر احمد شاہ مسعود، انجینئر حکمت یار رحمہم اللہ تعالٰی اور ان جیسے دیگر باہمت لوگوں نے صبر و استقامت اور ایثار و قربانی کی وہ روایات زندہ کر دیں جن کے تذکرے ہم اسلامی تاریخ کی کتابوں میں پڑھا کرتے تھے۔
سالہا سال تک یہ کیفیت رہی کہ پرانے ہتھیاروں اور خود ساختہ دیسی بموں کے ساتھ وہ روسی فوجوں کا مقابلہ کرتے رہے، بوتلوں میں خاص قسم کے محلول بھر کر انہیں بموں کے طور پر روسی ٹینکوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا اور گوریلا جنگ میں ان مجاہدین نے افغانستان کے دیہی علاقوں میں روسی افواج کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ شیرانوالہ لاہور میں ہمارے ایک بزرگ مولانا حمید الرحمان عباسیؒ کا مستقل کام یہ تھا کہ اصحابِ خیر کو توجہ دلا کر ان مجاہدین کے لیے خوراک اور دیگر ضروریات جمع کرتے رہتے اور جب ایک ٹرک کے لگ بھگ سامان جمع ہو جاتا تو خوست کے محاذ پر سپلائی کر دیا کرتے تھے، اسی طرح پاکستان کے بہت سے شہروں کے علماء اور مخیر حضرات مجاہدینِ افغانستان کی امداد کیا کرتے تھے۔ اس دور میں خوست کے محاذ پر جانے والے چند نوجوانوں نے ہمیں بتایا کہ کئی کئی روز تک سادہ روٹی گڑ اور پیاز کے ساتھ کھانے کو ملتی تھی اور فقر و فاقہ کے ماحول میں وہ مصروف جہاد رہتے تھے۔ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں یہ دیکھ کر بہت بعد میں اس طرف متوجہ ہوئیں کہ افغانستان کا ایک بڑا حصہ ان مجاہدین کے مختلف گروپوں کے زیر تسلط آگیا ہے اور روسی فوجوں کی پشت پناہی کے باوجود کابل حکومت کا کنٹرول چند بڑے شہروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ چنانچہ جب مغربی ملکوں کو ان مجاہدین کی مسلح مزاحمت کی سنجیدگی کا اندازہ ہوا تو وہ اس میں اپنا حصہ ڈالنے بلکہ ہمارے خیال میں اپنا ’’لچ‘‘ تلنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔ پھر اسلحہ، دولت اور وسائل کی ریل پیل ہوگئی اور اسی گہماگہمی میں امریکی کیمپ نے افغان جہاد کو ہائی جیک کر کے اپنے کھاتے میں ڈال لیا۔ ہم نے دونوں دور آنکھوں سے دیکھے ہیں، وہ دور بھی جب فقر و فاقہ اور خدا مستی کا ماحول تھا اور وہ دور بھی جب وسائل اور اسباب کی فراوانی تھی، دونوں میں بڑا فرق تھا مگر خدا شاہد ہے کہ جن حضرات نے اس فرق سے ذرہ بھر اثر نہیں لیا اور جن کے خلوص و جذبہ میں دولت و اسباب کی فراوانی کوئی تبدیلی نہ لا سکی ان میں مولانا جلال الدین حقانیؒ سرفہرست تھے۔
جہاد افغانستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جب تک اس کا رخ سوویت یونین کی طرف تھا اور یہ لوگ امریکہ بہادر کے عالمی حریف کے خلاف نبرد آزما تھے، وہ مجاہدین کہلاتے تھے، وائٹ ہاؤس ان کا خیرمقدم کرتا تھا اور امریکی کیمپ کے مسلم ممالک بھی ان کی راہوں میں دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھے۔ لیکن جونہی انہوں نے سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان کے دینی تشخص کی بحالی اور نظامِ شریعت کے نفاذ کو اپنی منزل قرار دیا تو وہ دہشت گرد قرار پائے اور ان کا سب سے بڑا جرم یہ بتایا گیا کہ وہ افغانستان کو ہر قسم کی غیر ملکی مداخلت سے پاک ایک خودمختار ریاست بنانے کی بات کر رہے ہیں، افغانستان کی قومی و تہذیبی روایات کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں اور اپنے ملک میں شریعت کے نظام کے نفاذ کی بات کر رہے ہیں۔ یہ تینوں باتیں آج کی دنیا میں کسی بھی مسلمان ملک کے لیے جرائم کا درجہ رکھتی ہیں، خود ہمارے ہاں پاکستان میں ان تینوں باتوں پر اصرار کرنے والے لوگ دہشت گرد یا کم از کم شدت پسند کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔
مولانا جلال الدین حقانیؒ کا یہ بھی ’’قصور‘‘ تھا کہ انہوں نے جس طرح افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی جارحیت کو افغانستان کی آزادی پر حملہ تصور کر کے اس کے خلاف مزاحمت کی اور روسی کمیونزم کے نفوذ کو افغانستان کے اسلامی تشخص اور تہذیبی شناخت کے منافی قرار دے کر اسے مسترد کر دیا، اسی طرح وہ افغانستان میں امریکی اتحاد کی افواج کی موجودگی اور مغربی فلسفہ و نظام کے تسلط کو بھی افغانستان کی آزادی اور خودمختاری کے خلاف سمجھتے تھے، اس لیے وہ سوویت یونین کی فوجوں کی طرح امریکی اتحاد کی فوجوں کے خلاف بھی صف آرا ہو گئے اور اپنے اس موقف پر آخر دم تک قائم رہے۔ انہوں نے امارت اسلامی افغانستان کا ساتھ دیا اور اس کے لیے مسلسل محنت کی، آج ان کی محنت اور جدوجہد کا ثمرہ ہے کہ امریکہ افغان طالبان سے مذاکرات کی میز پر آنے کا مطالبہ کر رہا ہے اور اس کے لیے ہر جتن کر رہا ہے مگر افغان طالبان جن کے پاس خود امریکی حلقوں کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان کے بیشتر علاقوں کا کنٹرول ہے، مذاکرات کی میز سجانے سے پہلے افغانستان سے امریکہ کے مکمل انخلا کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ افغانستان کی آج کی معروضی صورتحال اور زمینی حقائق اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ افغانستان کی مکمل خودمختاری، غیر ملکی مداخلت سے نجات اور نفاذ شریعت کی جنگ لڑنے والے اس جنگ کی طوالت سے خوفزدہ نہیں ہیں کیونکہ جنگیں ان لوگوں کی سرشت میں داخل ہیں، البتہ اس فیصلہ کن مرحلہ میں مولانا جلال الدین حقانیؒ ان سے جدا ہو گئے ہیں جو بلاشبہ بہت بڑا صدمہ ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور افغان قوم کو ان کے مشن اور جذبات کے مطابق مکمل خودمختاری سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
اس کے ساتھ ایک اور خبر ہمارے خاندان اور متعلقہ دینی حلقوں کے لیے صدمہ کا باعث بنی ہے کہ جمیعۃ علماء برطانیہ کے راہنما اور جامع مسجد برنلی مانچسٹر کے خطیب مولانا عزیز الحق ہزاروی گزشتہ روز راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ہماری بڑی ہمشیرہ کے داماد اور جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل تھے۔ قارئین سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ رب العزت مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور اہل خاندان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مولانا مجاہد الحسینی کی تصنیف ’’قرآنی معاشیات”

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معیشت انسانی سماج کی اہم ترین ضرورت اور علم وفکر کے بنیادی موضوعات میں سے ہے جس کے بارے میں انسانی معاشرت کی راہ نمائی اور ہدایت کے لیے بارگاہ ایزدی سے نازل ہونے والی آسمانی تعلیمات میں مسلسل راہ نمائی کی گئی ہے اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ارشادات وفرمودات کا یہ اہم حصہ رہا ہے۔ قرآن کریم نے حضرت شعیب علیہ السلام کے ارشادات میں اس بات کا بطور خاص ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کو توحید اور بندگی کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی ہدایت فرمائی کہ ماپ تول میں کمی نہ کرو اور اشیائے صرف کے معیار کو خراب نہ کرو، کیونکہ یہ بات سوسائٹی میں فساد کا ذریعہ بنتی ہے اور اس پر اس قوم کا یہ طنز بھی قرآن کریم نے ذکر کیا ہے کہ اے شعیب! کیا تمھاری نمازیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہم اپنے اموال میں اپنی مرضی کے ساتھ تصرف نہ کریں؟ یعنی یہ تصور اس قوم میں بھی موجود تھا کہ چونکہ مال ہمارا ہے، اس لیے ہم اس میں تصرف کے لیے کسی کی اجازت کے محتاج نہیں ہیں۔ چنانچہ ’’فری اکانومی” کا آج کا مروجہ فلسفہ بھی اپنے پس منظر میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی یہ بنیاد رکھتا ہے، جبکہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے ہر دور میں اپنی اپنی قوموں کو یہ بتایا ہے کہ مال ودولت اور اسباب معیشت اللہ تعالی ٰ کی طرف سے عطا کردہ ہیں جن میں تصرف اللہ تعالی ٰ کے احکام کے مطابق ہی درست ہوگا اور اس کا اللہ تعالی ٰ کی بارگاہ میں حساب بھی دینا ہوگا۔
قرآن کریم چونکہ اللہ تعالی ٰ کی نازل کردہ آخری، مکمل اور جامع کتاب ہے، اس لیے اس میں معیشت کے تمام ضروری پہلووں کے حوالے سے ہدایات موجود ہیں۔ حکمت وفلسفہ بھی ہے، اصول وضوابط بھی ہیں اور احکام وقوانین بھی ہیں جن کی بنیاد پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشرہ کو تمام ایسی جاہلی روایات واقدار سے پاک کیا جو اللہ تعالی ٰ کے احکام کی خلاف ورزی اور انسانی معاشرہ میں خرابی اور فساد کا باعث تھیں۔  اللہ تعالی ٰ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کم وبیش ربع صدی کی محنت اور جدوجہد کے ساتھ عرب معاشرہ میں جو سماجی انقلاب بپا کیا اور جس کے مثبت ثمرات سے نسل انسانی صدیوں تک فیض یاب ہوتی رہی ہے، اس کا بڑا حصہ معاشی اصلاحات پر مشتمل ہے اور آج بھی منصف مزاج انسانی دانش ان کی ضرورت وافادیت کا اعتراف کرنے پر خود کو مجبور پاتی ہے۔ چند سال قبل مسیحی دنیا کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی قائم کردہ ایک کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ دنیا کے معاشی نظام کو توازن اور انصاف کے ٹریک پر لانے کے لیے قرآن کریم کے بیان کردہ معاشی اصولوں کو اپنانا ضروری ہو گیا ہے، جبکہ برطانیہ، فرانس اور روس جیسے ممالک میں اسلام کے معاشی اصولوں کی انسانی سماج میں واپسی کی ضرورت پر سنجیدہ علمی حلقوں میں بحث وتمحیص کا آغاز ہو چکا ہے اور غیر سودی بینکاری کا رجحان بھی عالمی سطح پر بڑھ رہا ہے۔
اس پس منظر میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ قرآن کریم کے بیان کردہ معاشی اصول وقوانین کو آج کے حالات وضروریات کے تناظر میں ازسرنو سامنے لایا جائے کیونکہ اللہ تعالی ٰ کی اس آخری کتاب کے دائرہ کار میں آج کا دور بھی شامل ہے اور اس کے احکام وقوانین کا اطلاق آج بھی اسی طرح ہوتا ہے جیسا کہ چودہ سو برس قبل ہوا تھا اور جیسا کہ قیامت تک ہوتا رہے گا۔
ہمارے مخدوم ومحترم بزرگ حضرت مولانا مجاہد الحسینی دامت برکاتہم نے اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کی معاشی تعلیمات کو آسان اور عام فہم انداز میں زیر نظر کتاب کی صورت مرتب کیا ہے جو علماء کرام، مدرسین، خطباء اور دینی کارکنوں کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم یافتہ حضرات کےلیے بھی یکساں افادیت کی حامل ہے۔ حضرت مولانا محترم کے بارے میں اس تذکرہ کے بعد اور کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ وہ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کے ارشد تلامذہ میں سے ہے اور ان کا شمار شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری، امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور اس دور کے دیگر اکابر علماء کرام کے رفقاء میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ٰ ان کی اس کاوش کو قبولیت سے نوازیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین

مدرسہ ڈسکورسز کا سمر انٹینسِو ۔ ایک علمی ورکشاپ کا آنکھوں دیکھا احوال

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مدرسہ ڈسکورس کا یہ سمر انٹینسِو (intensive) اپنی نوعیت کا بڑا غیر معمولی پروگرام تھا۔ اس کا موضوع تھا:
Theology and contingency: Morals, History and Imagination
یعنی دینیات کو درپیش نئے مسائل : اخلاق، تاریخ اور تخییل کے حوالہ سے۔
اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ سے 9:40  پر روانہ ہو کر ہم ہندوستانی طلبہ تیس جون کی سہ پہر کو اپنی قیام گاہ ڈھولی خیل رزارٹ پہنچ گئے، پاکستانی طلبہ رات کو آئے جبکہ دوسری جگہوں سے طلبہ اور منتظمین پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔
سفر پر روانہ ہونے سے پہلے دماغ پر تھوڑا stress  تھا جس کی وجہ سے رات بھر نیند نہیں آئی تھی، راستہ کی تکان، الگ لہذا سہ پہر سے کمرے میں لیٹ کرسونے کی کوشش کی مگرنیندپھربھی نہیں آئی۔ رات کو۱۲بجے کے قریب دوپاکستانی ساتھی کمرے میں آگئے کچھ دیرتوان سے بات چیت ہوئی پھروہ سوگئے اورذراسی دیرمیں کمرہ ان کے خراٹوں سے گونجنے لگا۔کسی مشین کی آوازہویاخراٹے مجھے ان سے ایسی الرجی ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے نیندکے آنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔یوںیہ دوسری را ت بھی نہایت بے آرامی میں گزری ۔چاربجے مظفرنگرکے سلیم احمد کے ساتھ فجرکی نمازپڑھی اورپھرہم تین ساتھی میں،مفتی سعدمشتاق صاحب اورسلیم بھائی سیرکے لیے نکل کھڑے ہوئے پھرتوہفتہ بھریہی معمول رہاکہ سلیم بھائی کے ساتھ فجرکی نمازکے بعدصبوحی چائے پی جاتی جس میں کبھی کبھاردوسرے احباب بھی شریک ہوجاتے ۔خوش قسمتی سے مفتی سعدمشتاق صاحب طبیب ہیں ،ان سے نیندنہ آنے کا بتایاتو انہوں نے اپنابنایاہواایک تیل سرمیں لگانے کے لیے دیا۔اس کولگانے اورسرپر مالش کرنے سے واقعی تیسری رات نیندآگئی اورپھرورکشاپ کے آخری دن کوچھوڑکرٹھیک ٹھاک آتی رہی ۔
اس سمرکیمپ میں حسب روایت پروفیسرابراہیم موسیٰ (مدرسہ ڈسکورس کے بانی )اورپروفیسرماہان مرزا(لیڈفیکلٹی مدرسہ ڈسکورس) جدید دنیاکی جانب سے مذہبی فکرکودرپیش چیلنجوں کی تفہیم کرانے والے مختلف پیچیدہ اورمشکل سوال لے کرآئے جن کوپوری Intensity اورشدت کے ساتھ مسلم روایتی ذہن کے سامنے رکھنے میں ڈاکٹرسعدیہ یعقوب،پروفیسرجیرالڈمکینی ،ڈاکٹرمحمدیونس،پروفیسراطالیہ عمیر،پروفیسرجیسن اے اسپرنگ اورمولاناعمارخان ناصرنے مختلف اسلوب واندازمیں حصہ ڈالا۔ان حضرات نے اسلامک فیمنزم اور روایتی فقہی فکرکے حوالہ سے اسلام میں حقوقِ نسواں کی بحث ،بایوسائنس اورجدیدٹیکنالوجی کے پیداکردہ مسائل اورابراہیمی مذاہب ؛یہودیت ،مسیحیت اوراسلام کا موقف،آزادئ نسواں اوریہودی روایتی موقف کی تفہیم کرائی نیزاسلامی فلسفیانہ فکر(شعرانی اورملاصدراکے حوالہ سے)اورجدیدذہن کے اشکالات کا جائزہ لیا ۔پاکستان کے مولانا محمد عمار خاں ناصرنے بھی مسائل کی تفہیم میں وقتاًفوقتاًحصہ لیااوراخیرکے دودنوں میں جنوب ایشیاکی اسلامی فکر ،شاہ ولی اللہ اورانورشاہ کشمیری وغیرہم کے خیالات وافکارکے جائزہ پر مبنی انہیں کے ساتھ خاص رہے ۔ان کے ساتھ ہی ہندوستانی مدرسہ ڈسکورس کے استادو گائڈ مولاناڈاکٹروارث مظہری کوبھی لیکچردیناتھے مگربعض ضروری مجبوریوں کے تحت وہ ایک ہفتہ کی شمولیت کے بعدہندوستان واپس ہوگئے اس لیے ان سے استفادہ سے شرکاء محروم رہے۔
اس انٹینسِومیں تقریبا۲۵طلبہ پاکستان سے، ۱۹،انڈیاسے ،۵جنوبی افریقہ سے تھے جبکہ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی امریکہ سے سات طالبات شریک تھیں۔انٹینسِوکا شیڈول بہت ٹائٹ تھا۔صبح نوبجے سے لیکچرز شروع ہوتے توشام پانچ بجے تک چلتے ،بیچ نمازاورکھانے کا وقفہ ہوتا۔بعدمغرب کے Cosmos دکھائی جاتی اوراس کے بعدڈنر۔ساڑھے نوبجے رات کودوسرے دن کی ریڈنگ کی تیاری کی جاتی۔یادرہے کہ اس انٹینسِو کی تقریبا400صفحات پر مشتمل reading pack تمام شرکاء کوکوئی ایک ماہ پہلے سے فراہم کردیا گیا تھا جسے سب کوپڑھ کرآناتھا۔
طلبہ اورفیکلٹی کے قیام کا نظم ڈھولی خیل رزارٹ میں رکھاگیاتھاجوکاٹھمنڈوشہرسے ۴۰کلومیٹردورپہاڑی خطہ میں نہایت سرسبزوشاداب اورپُرفضامقام ہے ۔ نیپال پہاڑوں،وادیوں،جھرنوں اورقدرتی خوبصورت مناظرکے علاوہ ماؤنٹ ایورسٹ نیز دنیاکی کئی اوربڑی پہاڑی چوٹیوں کا دیس ہے، ڈھولی خیل بھی انہیں خاص مقاموں میں سے ایک ہے ۔دہلی کی شدیدگرمی سے پندرہ دن تک کے لیے راحت مل گئی بلکہ مجھے تویہاں قدرسے سردی سی محسوس ہوتی ۔روزانہ رات کوبارش شروع ہوکردن کے دوپہرتک ہوتی رہتی ۔موسم کے لحاظ سے سب لوگ گرم کپڑے وغیرہ لے کرآئے تھے۔قیام کا نظام بہتربنانے کی کوشش کی گئی تھی مگرایک ہی کمرہ میں تین تین طلبہ کورکھنامناسب نہ تھاکہ اکثرمزاجوں کی ناموافقت اذیت کا باعث بن جایاکرتی ہے۔ریفریشمنٹ اورکھانے کا انتظام بہت اچھاتھااورامریکن طرزطعام اورمشرقی کھانوں کا امتزاج تھا۔
یوں توپورے انٹینسِومیں زیادہ ترانگریزی ہی لیکچراورسوال وجواب کی زبان رہی تاہم اردومیں بھی سوال وجواب کی گنجائش تھی جس کا علی الفورانگریزی ترجمہ پروفیسرماہان مرزاورکبھی کبھارپروفیسرابراہیم موسی ٰ کر دیا کرتے۔ البتہ اخیرکے دودنوں میں مولاناعمارناصرکی گفتگواورسوال وجواب کی نششتوں میں اردوہی اظہارمافی الضمیرکا وسیلہ بنی رہی ۔
سمرانٹینسِوکے پہلے تین دن ولیم کالج میں مذہب کی اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹرسعدیہ یعقوب نے فقہی متون (امام سرخسی)قدیم فقہی فتاوی اورفیصلوں کا تذکر ہ کیااورتقابل میں بتایاکہ مغربی دنیامیں متحرک اسلامی فیمنزم کی نمائیندہ لکھنے والیاں کیشیاعلی ،آمنہ ودوداور حنا اعظم وغیرہ scriptural reasoning کوکس طرح برتتی ہیں یعنی وہ خواتین کے تعلق سے مذہبی متون کی ریڈنگ اورتشریح کیسے کرتی ہیں۔اسلامی فیمنزم کا موقف اصل میں یہ ہے کہ مسلم معاشرہ بنیادی طورپر پدرسری معاشرہ ہے جس میں اسلامی دینیات کے مراجع قرآن ،حدیث اورفقہی متون مردکوعورت پر ملکیت کا حق (تملیک )دیتے ہیں۔اس فیمنزم (جس کی ایک نمائندہ خودموصوفہ بھی تھیں)کا کہناہے کہ آج حالات بدل چکے ہیں اورنیشن اسٹیٹ کے اِس زمانہ میں جبکہ مردوعورت دونوں کماتے ہیں ہم معاشرتی طورپرزرعی دورکے اس معاشرہ کی طرح نہیں سوچ سکتے جس میں مردعورت پر ایک طرح کی ملکیت رکھتاتھا۔ان کے مطابق فقہاکا مردوعورت کے بارے میں بنیادی تصورارسطاطالیسی ہے کہ عورت صنف نازک،ناقص العقل اورمردصنف قوی ہے ۔آج یہ تصورہی بنیادی طورپر تبدیل ہوچکاہے اس لیے اس مفروضہ( Assumption) پر مبنی احکام پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔فقہ اسلامی کا غالب رجحان یہ ہے کہ عورت کا بنیادی وظیفہ شوہر کی جنسی خواہش کی تکمیل ہے اوربس ۔مگرپروگریسومسلمان ان فقہی تصورات سے بیزاری کا اظہارکرتے ہیں اوروہ ایسی نئی فقہ ڈیولپ کرنے کے حق میں ہیں جومردوعورت کے درمیان مساویانہ رویہ رکھے۔
یہاں تملیک سے خودفقہاء کیامرادلیتے ہیں اوراس تعبیرکی وہ خودکیاتشریح کرتے ہیں اس سے زیادہ بحث نہیں بلکہ مسلم معاشرہ عملاًنظریۂ تملیک کے نتیجہ میں جورویہ خواتین کے ساتھ روارکھتاآیاہے اصلاًوہی مرکزتوجہ بن گیاہے۔اس ضمن میں جدیدمسلم مصنفین مثلامولانامودودی وغیرہ جس طرح مردوعورت کی اس عدم مساوات کوJustify کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کوفیمنزم کے علمبرداربددیانتی  Apologeticاورفقہ کی غلط ترجمانی سے تعبیرکرتے ہیں۔اس پر بجاطورپر یہ سوال پیداہوتاہے کہ وللرجال علیہن درجۃ اورالرجال قوامون علی النساء جیسے قرآنی نصوص کی تفہیم پھرکس طرح ہوگی ؟فیمنزم والے کہتے ہیں کہ یہ دراصل قرآن کا کوئی ابدی حکم نہیں بلکہ نزول قرآن کے وقت انسانی معاشرے عورت کے بارے میں جوتصورات رکھتے تھے (خاص کرعرب پس منظرمیں )قرآن نے اس کوبس ویسے ہی بیان کردیاہے ۔آج ان نصوص کی نئی تفہیم درکارہے ۔یادپڑتاہے کہ معجزات کی بحث اورعیسی ٰبن مریم علیہ السلام کی پیدائش وموت وغیرہ بحثوں پر گفتگوکرتے ہوئے سرسیداحمدخان نے بھی اپنی تفسیرمیں جابجااِس طرف اشارے کیے ہیں۔
میرے کمرے کے ایک پاکستانی ساتھی بہت سوتے تھے۔ میں نے مزاحاًان کوکہاکہ اتناکیوں سوتے ہیں؟کہنے لگے کہ دنیامیں نیندسے زیادہ مرغوب چیز کوئی نہیں۔ اگر۱۲گھنٹے نہ سوؤں تومزہ نہیں آتا۔راقم کے منہ سے برجستہ نکل گیا، جب اتناہی سوناتھاتوپاکستان کیوں بنایاتھا!وہ بھی کہاں چوکنے والے تھے ۔بولے، پاکستان توبقول شخضے علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تھی۔ان کے بے ساختہ جواب پر قہقہہ پڑا۔راقم آج کل علی گڑھ میں برسرکار ہے، اس لیے تلمیح کاٹ دارتھی۔
اگلے دودن پروفیسرابراہیم موسیٰ اوران کے شاگرددکتورمحمدیونس کی گفتگوئیں رہیں جن کا موضوع امام عبدالوہاب شعرانی کی ارشادالطالبین اورملاصدراکا فلسفہ رہا۔شعرانی محی الدین ابن عربی کے شاگردہیں۔ان کی کتاب میں القلم الاعلی ،الواح المحووالاثبات ،اسبا ب الخیر،سعادت کا حصول حقیقیت محمدیہ جیسی پیچیدہ بحثوں پر بات ہوئی ۔شعرانی کا خیال ہے کہ القلم الاعلی جولکھدیتاہے اس میں کوئی تغیروتبدل نہیں ہوسکتامگراس کے علاوہ 360اقلام ہیں جوالواح المحووالاثبات میں لکھتے رہتے ہیں۔ان میں کمی زیادتی اورحذف واضافہ ممکن ہے۔وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کوسفرمعراج میں ان ہی اقلام کی آواز (صریف الاقلام یاصریرالاقلام )سنائی دی تھی۔ظاہرہے کہ یہ شعرانی کی imaginationہے۔تاہم میرے خیال میں شعرانی یہ جوکہتے ہیں کہ علم کا حتمی اورUltimate سورس اللہ تعالی ٰہے جودوذریعوں سے انسانوں کوعلم دیتاہے :وحی کے ذریعہ اوربذریعہ الہام والقاء ۔پہلے ذریعہ علم سے سیاست شرعیہ وجودمیں آتی ہے جبکہ الہام والقاء کے ذریعہ سیاست حکمیہ ۔سیاست حکمیہ پہلے ہوتی ہے سیاست شرعیہ اس میں اصلاح پیداکرتی ہے ۔اس سے یہ نتیجہ نکالاجاسکتاہے کہ انسانی تجربا ت ،تہذیبی اقداراورمبنی برعقل نظریات وآراء اورمحسوسات بھی خداہی کی طرف سے ہوتے ہیں لہذاسیکولرعلوم ونظریات سے بھی بایں طوراستفادہ کرناچاہیے کہ وہ بھی خداکی طرف سے ہیں۔شعرانی کایہ تصورعلم قدیم وجدیدکے قصہ کا خاتمہ کردیتاہے اوران کی باہمی معرکہ آرائی کوقصۂ کوتاہ قراردیتاہے ۔اس سے مذہب وسائنس یاعقل ونقل کے مابین تصادم کی ساری تھیوری بے معنی ہوکررہ جاتی ہے۔تصوف اورReasonسے ہم آمیزشعرانی کے خیالات آج مذہب وسائنس کے تصادم کی بحث میں کام دیتے ہیں اوران خیالات وافکارکوبھی معنی خیزبنا دیتے ہیں جوانسان نے اپنی عقل ،حس ،مشاہدہ اورتجربات سے اخذکیے ہیں۔بیسویں صدی کے سیاسی اسلام کے بعض علمبرداریاروایتی علما جس شدت سے سیکولرعلوم کی مخالفت کرتے رہے ہیں ان کے بالمقابل شعرانی کے یہ خیالات حیرت انگیز تھے۔شاہ ولی اللہ نے بھی حجۃ اللہ البالغہ میں مفہمون یااہل عقل ونظرکی اصطلاح استعمال کی ہے جس کا سب سے اعلی طبقہ وہ انبیاء کوقراردیتے ہیں۔اورفلاسفہ کوبھی مفہمون میں گردانتے ہیں۔شعرانی اورشاہ ولی اللہ ان خیالات سے استفادہ کرکے سائنس ومذہب یاعقل ونقل کے مابین مفروضہ کشمکش کے خاتمہ یاکم ازکم اس کی شدت میں کمی لانے کا کام کیاجاسکتاہے ۔
غالباًانٹینسِو کے چوتھے دن کی شام راقم نے اپنے ساتھی مفتی سعدمشتاق صاحب کوساتھ لیکرپاکستان کے ابھرتے نوجوان عالم و مفکر مولاناعمارخاں ناصرمدیرالشریعہ سے قریباً ایک گھنٹہ کی ملاقات کی اس ملاقات میں مختلف موضوعات زیربحث آئے اورعمارخاں صاحب سے بہت سے سوالات بھی ہم لوگوں نے کیے اوراستفادہ کیا۔
بایوسائنس ،نئی ٹیکنالوجی اوردینیات:بایوسائنس ،جینیٹک انجینرنگ اورنئی ٹیکنالوجی نے جوایجادات کی ہیں انہوں نے دینیاتی فکرکے لیے نئے چیلنج پیداکردیے ہیں۔آج ارتقاء کوایک سائنسی مسلمہ ماناجاتاہے ۔انسانی کلوننگ کے عمل کے ذریعہ جیتاجاگتامصنوعی انسان (Post human)یاNew Humanپیداکرنے کی طرف آج کی سائنس بڑھ رہی ہے۔مغرب میں کوشش ہورہی ہے کہ انسان کوابدی بنادیاجائے ۔اُسے موت نہ آئے یاوہ ہمیشہ جوان رہے، یاکم ازکم ا س کی زندگی کا دورانیہ بے حدطویل کردیاجائے ۔ ایسی دوائیں بنائی جارہی ہیں جن سے اس کے جذبا ت پر کنٹرول ہوجائے ۔مثلاوہ جب چاہے خوش ہوجائے ۔وہ ناراض نہ ہو،اُسے اشتعال نہ آئے نہ کوئی رنج وغم محسوس ہو،وہ کبھی نہ اکتائے کبھی تکان محسوس نہ کرے۔ایسے روبوٹ بنائے جارہے ہیں جن میں ارادہ وشعورانسان کی طرح ہو۔روبوٹک بیویوں کا تصورکبھی فکشن کی کتابوں میں ملتاتھا اب پوراہونے جارہاہے۔جینیٹک انجینرنگ کے ذریعہ اپنی مرضی کے انسان پیداکیے جانے کی بات ہورہی ہے۔جن کی ذہانت اورعقل وشعورڈرگس اورمشینوں کے تابع ہوں گے ۔سوچیے کیاہوگاجب آپ کا امام وخطیب کوئی روبوٹ ہوگا۔امامت اورمؤذنی،لیکچراورتعلیم کے اعمال روبوٹ انجام دیاکریں گے!!اس میں تعجب کی بات نہیں کہ جرمنی میں کئی سال سے روبوٹ چرچ میں پادری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔جاپان میں مرد ہ کی آخری رسومات ایک روبوٹک پروہت انجام دے رہاہے !! 
بایوسائنس سے پیداشدہ ان سوالوں اورچیلنجوں سے زیادہ سابقہ یہودی اورعیسائی دینیات کوپڑرہاہے۔مسلمان علما اوراہل فقہ بوجوہ ابھی اس سے دورہیں لیکن بہرحال یہ اشکالات ان کے سامنے بھی آئیں گے ۔یہودی اورعیسائی مذہبی روایات نے ان چیلنجوں کا سامناکس طرح کیااس کی ایک جھلک مورل تھیولوجی کے ماہر پروفیسرمکینی اورپروفیسرجیسن اسپرنگ کی گفتگوؤں میں دکھائی دی ۔پروفیسرجیرالڈمکینی پاکستان کے مشہوراسلامی اسکالرفضل الرحمان کے شاگردبھی رہے ہیں۔مغربی دنیامیں اسلام پر سب سے قابل اعتباراورسب سے زیادہ پڑھے جانے والے اسکالرفضل الرحمان ہیں جوصدرایوب کے زمانہ میں پاکستان میں ایک کلیدی عہدہ پرفائزکیے گئے تھے مگرقدامت پسندوں کی شدیدمخالفت کی وجہ سے پھروہ ملک چھوڑگئے اورامریکہ چلے گئے تھے وہیں ان کی وفات ہوئی ۔راقم نے ادھرفضل الرحمان کی کئی کتابیں پڑھی ہیں۔
پروفیسرمکینی نے سائنس وٹیکنالوجی کے ذریعہ آرہے ان چیلنجوں کی تین تقسمیں کیں۔
(۱) سائنسی عقلیت پسندی evidentialism جس میں ہرچیز کا محسوس ثبوت مانگاجاتاہے اورتجربہ وتصدیق کے تجزیہ کاحق بھی لوگوں کودیاجاتاہے ۔
(۲) انفرادیت پسندیIndividualism یعنی فردخوداپنی عقل کا استعمال کرکے معاشرتی حدودوقیودسے آزادہوخودفیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہووہ دوسروں پر انحصارنہ کرے۔وہ خوداپنی پسندناپسندکا معیارطے کرے۔
(۳) مذہبی تکثیریت 
مقررنے بتایاکہ بائبل کے علمانے اس چیلنج کے جواب میں تین طرح کے رویوں کوڈیولپ کیا: ۱۔معذرت خواہانہ رویہ کہ بائبل کوجدیددورکے مطابق سمجھاجائے اوراس کی تعبیرکی جائے۔ ۲:بائبل کا تاریخیت پر مبنی مطالعہ یعنی تاریخی شہادت اوردرایت کوکام میں لاتے ہوئے بائبل کے ان نصوص کومستردکردیاجائے جن کوتاریخ ثابت نہیں کرتی ،اوربقیہ نصوص کی درایت پر مبنی تعبیرکرنا۔ ۳:یہ موقف کہ بائبل کی کہانیاں اصل میں تمثیل واستعارہ کی زبان میں انسانی تجربات کا بیان ہیں اس لیے ان کوAs it isمانناچاہیے،اس میں تاریخی ثبوت ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ۔مؤخرالذکررویہ کی ترجمانی پروفیسرہنس فرائے اورپروفیسرمیکنٹائرکرتے ہیں۔
جدید سائنس سے قبل پوری دنیامیں انسان کے نیچرکا وہی تصوررائج تھاجوارسطونے دیاتھایہاں تک کہ مسلمان حکماء وفلاسفہ نے بھی اسی کی پیروی کی ۔اس لیے کہاجاتاہے کہ وحی کے مقابلہ میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑاآدمی ارسطوہے۔آج کا مسئلہ یہ ہے کہ بایوسائنس کے ذریعہ کیافطرت انسانی میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ؟اس بارے میں مذہبی مسلمہ روایت (کیتھولک ،اسلام اوریہودیت )یہ ہے کہ کائنات کا نیچرایک بار بنادیاگیاہے (ارسطواورسینٹ آگسٹائن یہی کہتے ہیں)اس لیے فطرت میں کوئی بھی تبدیلی تغییرخلق اللہ ہوگی ۔دوسراموقف یہ ہے کہ تخلیق کا کام مکمل نہیں ہوااوروہ جاری ہے اورانسان بھی اس میں حصہ لے رہاہے اس لیے کائنات کے نیچرکوتبدیل کیاجاسکتاہے اوراس پر تغییرخلق اللہ کی وعیدکا اطلاق نہ ہوگا۔(خیال رہے کہ بائبل کے بعض نصوص سے بھی اس کی تائیدہوتی ہے اورقرآن بھی اسی کا قائل ہے جس کواقبال نے یوں تعبیرکیاہے۔
؂ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں
لیکچرمیں یہ بات بھی سامنے آئی کہ نان ہیومن agents کے ذریعہ بھی انسانی فطرت تبدیلی کوقبول کرتی ہے تاہم اگرانسانی فطرت میں ایسی تبدیلی لادی جائے کہ تمییزخوب وناخوب کا معیارہی بدل جائے توکیاایساکرناچاہیے ؟اس سوال پر دینیات کے علما کو سوچناچاہیے۔
سمرکیمپ میں کھیل کی اورصحت سے متعلق سہولیات فراہم کی گئی تھیں بعض طلبہ کھیلتے بھی تھے مگرماحول اتنامسحورکن تھاکہ زیادہ ترشام میں گھومنے اورٹہلنے کوترجیح دیتے ۔پاکستانی احباب فوٹوکھینچنے کے بڑے شائق نظرآئے حالانکہ ہندوپاک میں تصویراورفوٹوکے معاملہ میں علما کے مابین جوازوعدم جواز کی بحث ابھی بھی چھڑی ہوئی ہے ،تاہم فوٹوکلچرکے جنون نے کیاعلماکیاغیرعلماسب کوبری طرح متاثر کرڈالا ہے ۔
پروفیسراطالیہ عمیر(اسرائیل )نے اپنے لیکچرمیں وضاحت کی کہ ابراہیمی مذاہب یہودیت ،مسیحیت اوراسلام کے درمیان مذاکرات کے کیاامکانات ہیں۔انہوں نے بتایاکہ امریکہ میں عرب ،مسلمان اوریہودی حقوق انسانی کے کارکنان کس طرح مل جل کرکام کرتے ہیں۔اورخوداسرائیل کے مظالم کے خلاف یہودی گروپ فلسطینیوں کے ساتھ مل کرکام کرتے ہیں۔اسرائیل کے خلاف مظاہرے کرتے ،لٹریچرتقسیم کرتے اوررائے عامہ کوبیدارکرتے ہیں۔یہودیوں،عربوں اورمسلمانوں کے مابین گہری ہوتی خلیج کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ تاریخ میں دونوں قوموں کے مابین خوش گوارتعلقات رہے ہیں اورموجودہ کشیدگی ایک نیاظاہرہ ہے جس کواسرائیل کے قیام اورصہیونی تحریک سے زیادہ بڑھاواملاہے۔انہوں نے تحریک استشراق کا ذکرکرتے ہوئے معروف عرب اسکالرایڈورڈ سعیدکی استشراق پر تنقیدکے حوالہ سے مستشرقین کے رجحانات اورمغربی استعمارکے لیے ان کی خدمات کا تذکرہ کیا۔
انٹینسِوکے آخری دودنوں میں مولاناعمارخاں ناصرنے اپنے مخصوص اسلو ب میں پورے sense of humor کوکام میں لاتے ہوئے شاطبی ،شاہ ولی اللہ اورشعرانی کی فکرکے حوالہ سے گفتگوکی جس کا عنوان تھاکہ انبیائی دعوت اورغیرانبیائی خطاب میں فرق ۔نئے مسائل کے جواب میں اس سلسلہ میں انہوں نے فکراسلامی کی دوپوزیشنوں کا ذکرکیا۔پہلی پوزیشن فقہاء کی ہے جواسلام کے لیگل فریم ورک میں رہ کرکام کرتے ہیں اوراس کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔دوسری پوزیشن Historicism والوں کی ہے جن کے نمائندہ کے طورپرمولانانے مولاناشاہ جعفرپھلواروی ندوی کی ایک کتاب مقام سنت کا حوالہ دیا۔مقام سنت میں ندوی صاحب نے اس خیال کا اظہارکیاہے کہ عبادات میں تعبدمطلوب ہے مگرمعاملات میں تعبداصل نہیں اس لیے اشکال بدل سکتی ہیں۔مولاناعمارخاں نے فرمایاکہ تاریخیت کی اس پوزیشن پرکئی اشکالا ت پیداہوتے ہیں جن کا جواب یہ لوگ لیگل فریم ورک میں نہیں دیتے۔یہ سوال بھی زیربحث آیاکہ موجودہ زمانہ تھیوری آف اجتہادکیاہوگی ؟عملی اصول پر مبنی علمیات کیاہیں؟شریعت اورمتغیرات کے مابین کیارشتہ ہے ؟ مولانا عمار خاں صاحب نے جہاداوراس کی نئی تفسیرات پر بحث کرتے ہوئے بتایاکہ جہادکی جدیدتشریحات نئے زمانہ اورجدیدذہن کوتوایڈریس کرتی ہیں مگروہ فقہاء اورکلاسیکل جہادکی تعبیرکا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیتیں مثال کے طورپرکہاجاتاہے کہ اسلام میں جہادصرف دفاعی ہے۔پھران مہموں کا کیاجوازہوگاجونبی اکرم ﷺ نے یاخلافت راشدہ کے عہدمیں روم وشام مصراورایران وعراق کے خلاف چھیڑی گئیں ان کوجہادِدفاع کس اصول کے تحت ثابت کیاجائے گا؟
ایک مسئلہ یہ زیربحث آیاکہ قرآن میں جوسائنسی معلومات ہیں وہ ضروری نہیں کہ Exact سمجھی جائیں بلکہ اس زمانہ کے ذہن کوسامنے رکھ کرقرآن نے اس انداز میں بات کہ دی کہ اس وقت کے مخاطب بات سمجھ جائیں۔اسی طرح خرق عادت جوامورہیں وہ شریعت کا موضوع نہیں بلکہ شریعت کا موضوع امورمعتادہ ہیں ۔شاہ ولی اللہ کہتے ہیں کہ تفصیلات میں عرب کلچرکوگرچہ لیڈنگ کرداردیاگیاہے مگریہ مطلوب نہیں کہ دوسرے معاشروں کے فروق ،اعراف ومالوفات کوختم کردیاجائے ۔
ایک سوال یہ اٹھاکہ اگرعلل واسباب اورمصالح وحکم کے حوالہ سے اصول ہی بدل جائیں توشریعت universal کیسے رہ پائے گی ؟یہ بھی پوچھاگیاکہ جب اس سے قبل کی شریعتیں مختلف رہی ہیں توآج شریعت اسلامیہ کوفائنل کیوں کہاجاتاہے؟ ایک سوال یہ آیاکہ اصل دین اوردین کے Contingent حصہ میں فرق کرنے کی وجہ وعلت کیاہے ؟ اقبال ؒ نے اپنے خطبات میں اس رائے کا اظہارکیاہے کہ روایت کا احترام کرتے ہوئے ہرنئی generation کوخداکی منشاء جاننے اوراس کے لیے کوشش کرنے کا حق ہے۔جہاداورغلبۂ دین اورآخری زمانہ کے بارے میں ظہورِمہدی ویاجوج وماجوج کے حوالہ سے مولاناعمارناصرصاحب نے علامہ انورشاہ کشمیری کی اس رائے کا ذکرکیاکہ اس سلسلہ کی احادیث سے جوکچھ معلوم ہوتاہے وہ پوری دنیاپر اسلام کا غلبہ نہیں بلکہ ملک شام اوراطراف کا علاقہ مرادہے۔اسی طرح یاجوج وماجوج کا خروج ایک لمبازمانی مرحلہ ہے۔آج ترک(مسلمان) اورمغربی قومیں یاجوج وماجوج کی اولادہیں اورہم انہیں کے زمانہ میں جی رہے ہیں۔
سمرانٹینسِومیں ۱۲جولائی کواسلامی فقہ اکیڈمی کے روح رواں مولاناامین عثمانی ندوی کا خطاب بھی ہواجس میں انہوں نے ہندوستان میں فقہ ،نئے مسائل اوراجتہادکے سلسلہ میں اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے کیے گئے اپنے تجربات سے شرکاء کوآگاہ کیا۔حالات کی نزاکت ،نئے مسائل اورتحدیات کا ذکرکیااورشرکاء کواکیسویN صدی کا عالم کیساہوناچاہیے اس پر غوروفکراورتیاری کے لیے مہمیز کیا۔ان کی گفتگوفکرانگیز،معلوماتی اورمؤثررہی۔
سمرانٹینسِوکا مقصدصرف متعینہ موضوعات پر شرکاء کولیکچرپلانانہ تھابلکہ مشرق کی عام روایت سے ہٹ کرہرلیکچرکے بعداورلیکچرکے دوران بھی طلبہ کوسوال وجواب کرنے کی بھرپورآزادی تھی۔ا س کے علاوہ روزانہ دوپہرکی نششت میں طلبہ کوایک متعین سوال دیاجاتا،بعدازاں شرکاء کے کئی گروپ بنادیے جاتے، ہرگروپ میں ہندوستانی پاکستانی جنوبی افریقہ اورنوٹرے ڈیم ہرجگہ کے طلبہ کورکھاجاتا۔گروپ اس سوال پرباہمی ڈسکشن کے بعدکسی رائے تک پہنچتایااختلافِ رائے بھی رہتاپھرہرگروپ سے ایک ایک نمائندہ انگریزی یااردومیں گروپ کی بات پیش کرتا۔پھراس کے بعدلیکچرراس پر تبصرہ کرتا۔ہرروزاس کا بھی التزام کیاجاتاکہ طلبہ اپناگروپ بدلتے رہیں تاکہ ہرطالب علم بحث ومباحثہ اوراظہارخیال کے اس عمل کاحصہ بن جائے۔نیز کھانے کی میز اورچائے کے وقفوں میں بھی گفتگواورسوال وجواب کا سلسلہ جاری رہتا۔کہیں طلبہ پروفیسرابراہیم موسیٰ کوگھیرے ہوتے کہیں وہ عمارناصرصاحب سے بحث کررہے ہوتے اورکہیں ڈاکٹرسعدیہ ،جیسون اسپرینگ اورمحمدیونس وغیرہم سے بات ہورہی ہوتی۔
صبح میں توباہرنکلنے کا موقع کم ملتاچونکہ صبح کے وقت اکثربارش ہورہی ہوتی۔مگرشام کوروزانہ بعض رفقاء کے ساتھ گھومنے کے لیے ضرورنکلتے ،جن میں مفتی سعدمشتاق توضرورہی ہوتے ۔کبھی پہاڑوں پر چڑھتے کبھی گہری کھاہیوں میں اترتے۔نہایت گہری کھائیوں اوراونچی چوٹیوں پرہرکہیں لوگوں نے گھربنارکھے ہیں۔ان میں سے کئی لوگوں سے ملاقات اوربات چیت بھی ہوئی ۔نیپال میں عام طورپر ہندی بولی اورسمجی جاتی ہے بعض نیپالی ہندوہونے کے باوجودانڈیاسے ناراض نظرآئے کیونکہ ان کے بقول انڈیاکی پالیسیاں بڑے بھائی والی فراخدلانہ نہیں بلکہ بنیاگردی پرمبنی ہیں۔بالمقابل انڈیاکے نیپالیوں کا جھکاؤچین اورجاپان کی طرف زیادہ ہے۔نیپالیوں میں مذہب کی طرف رجحان بہت کم ہے ،مندرتوچھوٹے بڑے بہت ہیں اوربعض تاریخی بھی ہیں مگراکثرغیرآبادہیں۔نیپال میں کئی سال پہلے جوزلزلہ آیاتھااس نے کاٹھمانڈواوراس کے مضافات کوزبردست نقصان پہنچایاتھا۔بعض تاریخی عمارات اورمنادرومحلات وغیرہ کوpreserve اورRehabilitate کرنے کا کام اب جاپان اورچین کی بعض تنظیمیں یونیسکوکے ساتھ مل کرکررہی ہیں۔نیپالی زبان ،لب ولہجہ اوررویہ میں بڑے نرم خواورنرم مزاج ہیں۔صحت اچھی ،قداکثرچھوٹااورناک چپٹی ہوتی ہے۔فی الحال مغرب زدگی بہت ہے اس لیے بے پردگی عام ہے۔غربت درودیوارسے ٹپکتی ہے کیونکہ ملک قدرتی وسائل سے تقریباتہی دست ہے اورزراعت بھی اس لیے نہیں ہے کہ پہاڑی ملک ہے۔لے دے کرکاٹھمانڈواوربعض دوسرے مقامات سیاحتی زمرہ میں آتے ہیں جوآمدن کا بڑاذریعہ ہیں ۔ کاٹھمانڈو اورمضافات میں گندگی نظرآئی ،روشنی اوربجلی کا معقول نظم نہیں تھاٹرانسپورٹ بھی اچھانہیں۔لیکن ایک چیز نیپال میں بہت خاص نظرآئی کہ کہیں مردوںیاعورتوں میں لڑائی جھگڑاتوتومیں حالت نہیں دکھائی دی نہ ہی کوئی آدمی کھلے میں کہیں پیشاب کرتاہواملا۔
انٹینسِوکے درمیان دوجمعے پڑے تھے ۔پہلاجمعہ کاٹھمنڈوکی جامع مسجدمیں پڑھاگیاجوایک بڑی اورکشادہ مسجدہے اس کے پا س ہی ایک کشمیری مسجدبھی ہے جس میں مزارات ہیں ان کوخاصاپررونق بناکررکھاگیاہے۔یہ بریلوی حضرات کے زیرانتظام ہے۔جامع مسجدجس میں ہم نے نماز پڑھی ا س کے امام ایک ندوی فاضل ہیں انہوں نے عربی خطبے سے پہلے ایک چھوڑدودوتقریریں اردومیں کیں،بات توعجیب سی لگی مگرحکمت شایدیہ تھی کہ بعدمیں آنے والے نمازی بھی اردوخطاب سے مستفیدہوسکیں۔نماز جمعہ کے بعدتاریخی منادراورعمارتیں دیکھی گئیں اورپھرشاپنگ کی گئی ۔ڈنرایک ہوٹل میں تھاجہاں سے قریبانوبجے رات کوڈھولی خیل رزارٹ کو واپسی ہوئی۔
کنواری دیوی :شہرکے شیومندرمیں ایک پرانی رسم یہ چلی آرہی ہے کہ کسی منتخب خاندان کی کمسن لڑکی کومندرکے لیے خاص کرلیاجاتاہے ،اُس سے کوئی مل نہیں سکتا،کوئی بات نہیں کرسکتا،والدین بھی سال میں ایک آدہ بارہی اس سے ملاقا ت کرسکتے ہیں۔اس کوتعلیم بھی وہیں دلائی جاتی ہے۔جیساکہ قدیم ہندمیں دیوداسی ہواکرتی تھیں۔مگرفرق یہ ہے کہ یہ کنواری دیوی بلوغت تک ہی دیوی رہتی ہے ،بالغ ہوتے ہی اس کا یہ منصب بھی ختم ہوجاتاہے اوراس کوسرکاری اخراجات پر بیرون ملک اعلی تعلیم کے لیے بھیج دیاجاتاہے اوراس کی جگہ کسی دوسری کم سن لڑکی کومنتخب کرلیاجاتاہے۔کنواری دیوی ہفتہ میں ایک دن ۴ بجے دن کوآنے والوں کوبالاخانہ سے ایک جھلک دکھلاتی ہے جس میں فوٹولیناممنوع ہوتاہے۔روزانہ اُسے دیکھنے کے لیے آنے والوں کا ہجوم ہوتاہے،وہ کھڑکی میں کھڑی ہوکرہجوم کی طرف جھانکتی اورپھرفوراً غائب ہوجاتی ہے۔جس دن دن ہم وہاں پہنچے تھے اس کے نظرآنے کا وقت ہواچاہتاتھا۔لوگ دم بخودتھے اچانک ایک چھوٹی سی لڑکی کنگورہ میں نمودارہوئی ،اُسے دیکھ کرلوگوں میں ہلاگلاہوااوروہ فوراًہی واپس ہوگئی۔ لوگوں کے ہجوم اوران کے اشتیاق کودیکھ کریقین ساآگیاکہ عام لوگوں کے لیے مذہب واقعی افیون ہی ہوتاہے جس کی بنیادپر ان سے کچھ بھی کروایاجاسکتاہے۔
دوسرے جمعہ کونماز کلاس ہال میں ہی پڑھی گئی ۔خطبہ اورامامت کے فرائض پروفیسرماہان مرزانے انجام دیے جوایک نہایت متحرک ،فعال اورپُرمزاح وشگفتہ انسان ہیں۔ان کی باڈی لنگنویج اورپُرمزاح اسلوب تقریرنہایت دل کش ہوتاہے ۔ساتھ ہی وہ گہرے روحانی آدمی بھی ہیں۔روزانہ شرکاء کوبڑی محبت سے Cosmos دکھاتے اورکلاسوں میں بھی اپنےinterventions سے رہنمائی کرتے رہتے ۔جمعہ کی نماز کے بعدسیرکے لیے کاٹھمنڈوشہرکی طرف نکلے ۔پہلے پشوپتی ناتھ مندرگئے جس کے Sanctum Sanctorum کے دروازے غیرہندوؤں کے لیے بندہیں۔باقی وسیع وعریض احاطہ میں گھوم پھرسکتے ہیں۔اس کے کنارے چھوٹی سی ندی بہتی ہے جس کا نام بھاگ متی ہے۔جگہ جگہ شمشان گھاٹ بنے ہوئے ہیں جن میں سے بعض پر لوگ چتاجلارہے تھے۔احاطہ میں چھوٹے چھوٹے بیسیوں مندروں کا سلسلہ دورتک چلاگیاہے ۔مین مندرکوچھوڑکربقیہ بوسیدہ اورغیرآراستہ ہے مگردیکھنے والوں کا تانتالگاہواتھا۔
وہاں سے نکل کربودھ استوپابودھاناتھ گئے جہاں پر ایک وسیع چبوترااورگنبدبناہواتھااس کے احاطہ کا بودھ بھکشواورشردھالورات دن طواف کرتے ہیں۔ساتھ ہی منتروں کا جاپ کرتے اورتسبیح پڑھتے جاتے ہیں۔ساتھ کے کمرے میں بڑے بڑے گول ڈمروبنے ہوئے تھے جن کولوگ گھماتے ہیںیہ بھی ان دعاکاایک حصہ ہے۔استوپادیکھنے کے بعدشاپنگ کی گئی اورمغرب بعداسی بودھ استوپاکے ایک ریستوراں میں ڈنرکا اہتمام تھا۔نوبجے رات کوواپسی ہوئی۔
ذہنوں میں مختلف نئے سوالوں کواٹھاتاہوااورازسرنوغوروفکرپر آمادہ کرتاہوا یہ انٹینسِو۱۵دن بعدخیروخوبی سے ختم ہوا۔آخری دن تما م شرکا ء کے تاثرات سنے گئے ۔جس میں پہلے انڈیاکی ٹیم نے اظہارخیال کیا،اس کے بعدپاک شرکاء نے پھرجنوبی افریقہ اورپھرنوٹرے ڈیم کی طالبات نے ۔آخری ڈنرمیں کلمات تشکراداکیے گئے اوراس کے بعدپروفیسرابراہیم موسیٰ کا الوداعی خطاب ہوا۔
سمرانٹینسِوکی کامیابی دراصل اسی میں مضمرتھی کہ اس نے ذہنوں کونئے انداز سے سوچنے پر مجبورکردیااورنئے نئے سوال مختلف حوالوں سے اٹھادیے۔نئے سوال اٹھانااوران پر غوروفکرکرناہی دراصل کسی قوم کے ارتقاء کا پہلاقدم ہوتاہے۔مدرسہ ڈسکورس اپنے طلبہ کوسوال کرنے ،نئے مباحث پر سوچنے اوران کا جواب ڈھونڈنے کا فن سکھارہاہے یہی اس کورس کی خوبصورتی اورکامیابی ہے۔

نومبر ۲۰۱۸ء

دینی مدارس کا نظام: بنیادی مخمصہمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۷)ڈاکٹر محی الدین غازی
سی پیک منصوبہ : قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
گلگت بلتستان: آئینی بحران اور سیاسی محرومیاںڈاکٹر محمد حسین
طلاق کا اسلامی تصور: اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز کے تناظر میںڈاکٹر محمد شہباز منج
قربانی سے پہلے بال اور ناخن نہ کاٹنا ۔ جناب جاوید احمد غامدی کے موقف پر بعض اشکالات کا جائزہمحمد حسن الیاس
مدرسہ ڈسکورسز کا سمر انٹنسوسید مطیع الرحمٰن

دینی مدارس کا نظام: بنیادی مخمصہ

محمد عمار خان ناصر

تحریک انصاف کی حکومت نے بعض دوسرے اہم قومی ایشوز  کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے حوالے سے یکساں نصاب تعلیم  کی ترویج  کا  سوال بھی اٹھایا ہے۔  مدارس کے نظام کی بہتری اور اصلاح کا مسئلہ ہماری سیاسی حکومتوں کے ہاں یہ بنیادی طور دو حوالوں سے زیر غور آتا ہے: ایک، مذہبی فرقہ واریت، شدت پسندانہ رجحانات اور  امن وامان کے  تعلق سے ،اور پچھلی دو تین دہائیوں سے ریاستی زاویہ نظر پر اس رجحان کا غلبہ بتدریج بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس کے ساتھ مکالمہ یا پالیسی سازی کا مرکز وزارت تعلیم کے بجائے عموما وزارت خارجہ ہوتی ہے، حالانکہ بنیادی طور پر مدارس، دینی تعلیم کے ادارے ہیں۔مدارس کے نظام کے حوالے سے ریاست کے سامنے دوسرا بڑا سوال دینی اسناد کی  سرکاری سطح پر قبولیت کا ہے، اور مدارس کے نصاب میں عصری مضامین کی شمولیت اور بعض دیگر   تعلیمی معیارات کے ساتھ ہم آہنگی کا سوال  اسی حوالے سے اٹھایا جاتا ہے۔ 
ان دونوں حوالوں سے  مختلف حکومتوں کی حکمت عملی اب تک بنیادی طور پر ایک ہی رہی ہے، اور وہ یہ کہ مختلف مذہبی مکاتب فکر  کے ساتھ وابستہ مدارس کے جو امتحانی بورڈ  بنے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ گفت وشنید کر کے  کارپردازان کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ مطلوبہ اصلاحات کو اپنے نظام کا حصہ بنائیں۔ جہاں تک مطلوبہ تبدیلی کے لیے مکالمہ، گفت وشنید اور مدارس کی قیادت کو اعتماد میں لینے کا تعلق ہے تو اس کی اہمیت ناقابل انکار ہے ، تاہم ایسی کوششوں کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے پاس اپنا ایک واضح  vision اور اس کے حق میں  مضبوط استدلال ہو  اور قوت استدلال کی بنیاد پر مکالمہ کے ذریعے سے  ارباب مدارس کو مطلوبہ اصلاحات  قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ چونکہ ایسا کوئی  vision حکومتوں کے پاس نہیں ہے، اور  بڑی حد تک سادہ فکری کے ساتھ  اس عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لیے   کم وبیش تین  دہائیوں سے  جاری اس سلسلہ جنبانی کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے۔
ہمارے نزدیک اس پوری بحث میں بعض بہت بنیادی ابہامات پائے جاتے ہیں جن کے حوالے سے  فکری وضوح پیدا ہوئے بغیر کوئی بامعنی عملی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔  ان سطور میں ہم مسئلے کے بعض  اہم پہلووں کے حوالے سے اپنے غور وفکر کے نتائج  مختصرا پیش کریں گے۔
مدارس کے موجودہ  نظام کی بنیادی الجھن کو سمجھنے کے لیے  یہ حقیقت پیش نظر  رہنی چاہیے کہ یہ نظام اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے ۱۸۵۷ء سے پہلے کے تعلیمی سیٹ اپ کا تسلسل نہیں، بلکہ برطانوی حکومت کے جاری کردہ پبلک ایجوکیشن سسٹم کے خطوط پر استوار کیا گیا نظام ہے۔ اس سے پہلے عام دینی تعلیم کی ضروریات گھروں میں یا محلے کے مکتبوں میں پوری کی جاتی تھیں، جبکہ فرنگی محل، خیرآباد، جون پور اور دہلی وغیرہ کے علمی مراکز صرف اعلی سطحی علوم کی تدریس کے لیے خاص تھے۔ ابتداءا دار العلوم دیوبند کا آغاز بھی اسی مقصد کے لیے ہوا تھا، لیکن بہت جلد اس میں عوامی دینی تعلیم کی ترجیحات شامل ہوتی گئیں جس پر مولانا نانوتوی وغیرہ کے تحفظات بھی منقول ہیں جو صرف چند منتخب اور ذی استعداد طلبہ کو محنت اور توجہ کا مرکز بنانے کے حق میں تھے۔
مدارس کی اس پالیسی میں بلاشبہ حالات کے جبر کا گہرا دخل تھا۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے کی طرح اب اختصاصی علوم سکھانے والے علمی مراکز کو نہ تو ریاست کی سرپرستی میسر تھی اور نہ ارباب ثروت کی۔ چنانچہ عوامی چندے پر انحصار کرنے والے کسی بھی نظام کے لیے عوامی perceptions، مزاج اور توقعات کی رعایت کرنا بلکہ انھیں بنیادی ترجیح دینا، ایک عملی مجبوری کا درجہ رکھتا تھا۔ تاہم یہ مجبوری کثیر الاولاد مجبوری ثابت ہوئی اور اس کے بطن سے کئی دوسری مجبوریاں جنم لیتی گئیں۔  ان میں سب سے اہم مجبوری یہ تھی کہ مرور زمانہ کے ساتھ اس نظام تعلیم کو broad-based  بنانے اور عوام کے ایک بڑے حصے کو اس سے متعلق کرنے کی کوشش میں اس نظام کی نوعیت بتدریج “آدھے تیتر اور آدھے بٹیر” کی بلکہ سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوتی چلی گئی اور اب یہ نظام تضادات کے ایک مجموعے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسے بظاہر عنوان تو دینی علوم کی تدریس کا دیا جاتا ہے اور مقصد مذہبی علماء ومتخصصین پیدا کرنا بتایا جاتا ہے، لیکن زیادہ سے زیادہ تعداد کو دینی ماحول سے وابستگی فراہم کرنے کے لیے علمی استعداد اور تدریسی مواد پر مسلسل کمپرومائز نے نصاب کو تسہیل، ترمیم اور تطہیر کے عمل سے گزار کر اس کی شکل وصورت بالکل بدل دی ہے۔ جو چند افراد اب بھی اس نظام سے پیدا ہو رہے ہیں، اس میں نظام کا کوئی کمال نہیں۔ وہ ان افراد کی اپنی ذاتی استعداد اور بعض اساتذہ کا فیض ہے اور کسی تردد کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ ایسے افراد اس نظام سے وابستہ نہ ہوتے تو بھی انھیں کسی علمی محرومی کا شکار نہ ہونا پڑتا۔
چونکہ اس نظام کے دینی تشخص کو محفوظ اورنمایاں رکھنا  اس کے بقا کی بنیادی شرط تھا، اس لیے  دوسری مجبوری یہ پیدا ہوئی کہ  عصری تعلیم کے ساتھ ایک فاصلہ قائم رکھا جائے اور مدارس کے تعلیمی مقاصد  کو خالص دینی  مضامین تک محدود  رکھا جائے۔  اس اصرار کا نتیجہ بہت بڑی تعداد میں فضلاء کی پیداوار کی صورت میں نکلا جن کی مجبوری یہ تھی کہ ان کے پاس دینی تعلیم کے شعبے کے علاوہ کسی دوسرے شعبے میں کام کرنے کی کوئی مہارت نہیں، چنانچہ ان کے لیے واحد میدان عمل یہی بچا کہ وہ مدارس کی تعداد میں اضافہ کرتے چلے جائیں۔ اسی نوعیت کی ایک مجبوری یہ بھی پیدا ہوئی کہ دینی تعلیم کے مختلف پراڈکٹس بنا کر ان کی مارکیٹنگ کی جائے اور اپنی بقا اور تسلسل کے مختلف راستے نکالے جائیں۔ اس کا ایک مظہر ہمارے ہاں پچھلی نصف صدی میں قرآن مجید کو حفظ کروانے کی روایت کو عوامی سطح پر حاصل ہونے والا وہ شیوع ہے کہ اس پر بعض دفعہ الامان والحفیظ کہنا پڑتا ہے۔
اس صورت حال میں المیہ یہ ہے کہ مدارس کے نظام کی اس بنیادی الجھن اور اس سے پیدا ہونے والے تضادات کا کوئی شعور اور ادراک ارباب مدارس کے ہاں نہیں پایا جاتا۔  چنانچہ ان حضرات سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ دینی علوم میں تخصص پیدا کرنے کے علاوہ عمومی تعلیم کے بعض دائروں کو بھی اپنے نظام کا حصہ بنائیں تو ان کا عمومی رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب انجینئرنگ اور قانون کی تعلیم کے اداروں سے علماء پیدا کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا تو مدارس سے ایسا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے۔ تاہم معمولی غور سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایک منطقی مغالطہ ہے۔ اگر تو صورت حال یہ ہو کہ مدارس کا نظام معاشرے کی ضروریات کے مطابق معیار اور تعداد کے اعتبار سے صرف دین کے ماہر علماء پیدا کر رہا ہو تو یقیناً‌ اس نظام سے اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا مطالبہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ صورت حال یہ نہیں ہے اور مدارس اپنی ترجیحات کے لحاظ سے سرے سے “دینی علماء” کے معیار اور تعداد کے سوال پر کوئی توجہ ہی نہیں دے رہے۔ انھوں نے معاشرے کے مالی وسائل کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اصل توجہ زیادہ سے زیادہ تعداد جمع کرنے پر مرکوز کر رکھی ہے اور اتنی بڑی تعداد کو کسی بھی اعتبار سے معاشرتی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی سرے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رکھی۔ مدارس سے رجوع کرنے والے طلبہ کی اکثریت صلاحیت اور استعداد کے لحاظ سے ’’عالم دین’’ بننے کی اہلیت نہیں رکھتی، جبکہ اس کے علاوہ کوئی دوسری مہارت ان میں پیدا کرنے کا مدارس کے نظام میں کوئی اہتمام نہیں جو کل کو معاشرے کے لیے کارآمد ہو سکے۔ اس طرح یہ نظام ایک طرف معاشرے کے وسائل اور دوسری طرف اپنے فارغ التحصیل طبقے، دونوں کے ساتھ صریح اور سنگین زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
اس ذہنی رویے کو نرم سے نرم لفظوں میں بھی  شتر مرغ جیسا رویہ کہا جا سکتا ہے۔ تقاضا کیا جائے کہ اتنی مقدار میں وسائل کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں فضلاء (جن میں سے بہت کم متخصص علماء بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کی تعلیم وتربیت ایسے خطوط پر کی جائے جس سے وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی کارآمد ہو سکیں تو ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم تو متخصصین پیدا کر رہے ہیں، ہم سے دوسرے شعبوں کی ضروریات پوری کرنے کا مطالبہ کیوں؟ لیکن داخلی طور پر تعلیمی معیار اور علمی سطح کا سوال اٹھایا جائے تو ہمیں زمینی حقائق یاد آ جاتے ہیں کہ اب طلبہ کا ذوق وشوق اور علمی استعداد وہ نہیں رہی، ہمتیں قاصر ہو گئی ہیں، ماحول کے بڑے منفی اثرات ہیں، وغیرہ وغیرہ۔  گویا ہم نہ تو اس نظام کو تخصص کی سطح تک محدود کرنے اور اس کے علمی وتعلیمی تقاضے پورے کرنے کے لیے آمادہ ہیں (اس نظام کے ساتھ وابستہ ہو جانے والی معاشی حرکیات نے اس امکان کو کم وبیش ختم کر دیا ہے) اور نہ یہ ذمہ داری لینا چاہتے ہیں کہ اگر عوام ہم پر اعتماد کر کے وسائل کا ایک معتد بہ حصہ ہمارے سپرد کر رہے ہیں تو ہم اس کا بدلہ معاشرے کو، عام تعلیم کی بعض ضروریات پورا کرنے کی صورت میں دے دیں جو اپنی جگہ دین ہی کی خدمت کا ایک کام ہوگا۔
ہمارے نزدیک اس بنیادی مخمصے سے پوری فکری اور اخلاقی جرات کے ساتھ نبرد آزما ہوئے بغیر  مدارس کے موجودہ نظام  میں بہتری اور اصلاح کی کوئی تجویز کارگر نہیں ہو سکتی۔  مدارس کو اخلاقی اور شرعی طور پر دو میں سے ایک کام کرنا لازم ہے۔ یا تو اپنے دائرے کو اتنا محدود کریں اور اسی کے لحاظ سے معاشرے سے وسائل بھی لیں جو واقعتاً‌ “دین کے جید علماء” تیار کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اور اگر وسائل میں سے حصہ کم کرنا نہیں چاہتے تو پھر معاشرے کی عمومی تعلیمی ضروریات میں سے بھی کچھ کو اپنے نظام کا حصہ بنائیں تاکہ ان وسائل کے استعمال کا جواز پیدا ہو اور بدلے میں معاشرے کو ایسے افراد مل سکیں جو دینی علوم کے ماہر نہ بھی ہوں، لیکن کچھ دوسری ایسی مہارتیں رکھتے ہوں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے۔
اگر درکار فکری اوراخلاقی جرات بہم پہنچانے کا اہتمام کر لیا جائے تو  اصلاح احوال کی عملی شکل زیادہ مشکل یا پیچیدہ نہیں ہے۔  اس حوالے سے سب سے بنیادی اور دوٹوک قدم یہ اٹھانے کی ضرورت ہے کہ مدرسے میں آنے والے ہر طالب علم کو، اس کی دلچسپی، صلاحیت اور رجحان طبع کا لحاظ کیے بغیر، آٹھ یا چھ سال کی دلدل میں پھینک دینے کا رجحان کلیتاً‌ ترک کر دیا جائے۔ اس رجحان کے تحت اس وقت مدارس سے فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کی اکثریت کے صرف کردہ آٹھ سال دینی تعلیم، مدارس کے نظام اور معاشرہ، کسی کے لیے بھی کوئی افادیت نہیں رکھتے اور اس کا تسلسل محض حصول ثواب، تبرک اور بزرگوں کی نسبت سے روا رکھا جا رہا ہے۔ 
دینی تعلیم میں مہارت اور اختصاص کے لیے صلاحیت اور استعداد نیز رجحان طبع کا ایک معیار مقرر کیا جائے اور انھی طلبہ کو اس میں آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے جو ایک “عالم دین” کے طور پر معاشرے میں کردار ادا کر سکیں۔ ان کے علاوہ مدارس سے رجوع کرنے والے عام طلبہ کے لیے مختلف سطحوں پر ان کی ضرورت اور صلاحیت کے لحاظ سے مختلف دورانیے کے متبادل نصابات تشکیل دیے جائیں جنھیں مکمل کرنے کے بعد دو سال، تین سال یا چار سال میں وہ سسٹم سے باہر جا سکیں۔ ایسے حضرات کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ہنر لازماً‌ سکھائے جائیں جو کل کو روزگار کے سلسلے میں ان کی مدد کریں، مثلاً‌ انگریزی زبان، ریاضی، کمپیوٹر آپریٹنگ، اداراتی انتظام وغیرہ۔ پنجاب حکومت کا ادارہ TEVTA اس حوالے سے یہ سہولت دے رہا ہے کہ مختلف تکنیکی ہنر سکھانے کے لیے دینی اداروں کے اندر سرکاری اخراجات سے سیٹ اپ قائم کیے جا سکتے ہیں اور مختلف اداروں میں یہ تجربہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ اگر مدارس سے رجوع کرنے والے تمام طلبہ کو “علماء” بنا کر فارغ التحصیل کرنے کے ہدف میں ترمیم کر لی جائے اور عام طلبہ کے لیے بھی اپنے سسٹم میں گنجائش پیدا کر لی جائے تو طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے ایک سال، دو سال یا تین سال کے دورانیے پر مبنی دینی تعلیم کے نصاب کے ساتھ مختلف تکنیکی ہنر شامل کر کے وسیع معاشرتی افادیت رکھنے والا ایک تعلیمی نظام آسانی سے قائم کیا جا سکتا ہے۔
یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ داعی کا معاشرے کی نظر میں محترم اور باوقار ہونا دعوت دین کے موثر ہونے کے لیے بہت اہم ہے اور ذریعہ معاش کا سوال اس مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جس معاشرے میں دین کو فکری غلبہ اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہو، وہاں معاشرہ اہل دین کی ضروریات کے بندوبست کو اپنا فریضہ اور ذریعہ سعادت تصور کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں حکمران اور ارباب ثروت ہمیشہ دراہم ودنانیر نیاز مندانہ اہل علم کی خدمت میں پیش کرتے رہے ہیں۔ تاہم جدید معاشرے میں دین اور اہل دین کی یہ حیثیت برقرار نہیں رہی اور لازم ہے کہ معاشرتی وقار کی بحالی کے لیے حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ وقت کے مروجہ معیارات کے مطابق ایسی صلاحیتیں اور اہلیتیں پیدا اور ایسے ہنر حاصل کیے جائیں جو باوقار روزگار کا ذریعہ تصور کیے جاتے ہوں۔ اہل دین معاشرے کو دینے والے ہوں اور جو کچھ وہ دیں، اس میں دوسری خدمات کے ساتھ ساتھ دعوت دین کی خدمت بھی شامل ہو۔
دینی تعلیم کا مروجہ نظام ایسی مہارتیں سکھاتا ہے جن کی، عموماً‌، معاشرے کی نگاہ میں کوئی خاص قدر نہیں۔ معاشرہ حصول ثواب کی غرض سے یا مذہب کے ساتھ ایک روایتی وابستگی کے زیر اثر اس کام کے لیے صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات وغیرہ تو دے دیتا ہے، لیکن اس عمومی تاثر اور احساس کے ساتھ کہ مذہبی طبقہ لوگوں کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے۔ کسی عالم کو قوت لا یموت سے زیادہ کچھ مل جائے تو معاشرے کو ہضم نہیں ہوتا، کیونکہ اس طبقے کا درجہ معاشرے نے یہی متعین کیا ہے۔ اس رویے پر معاشرے کو قصور وار ٹھہرانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ جواز۔ یہ فطری انسانی رویہ ہے۔ اہل دین اگر بحیثیت طبقہ اپنے لیے وقار اور احترام چاہتے ہیں، جو دعوت دین کے لیے بے حد ضروری ہے، تو انھیں خود اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لانا ہوگی۔

دینی مدارس میں عقلی علوم کی تعلیم

برصغیر میں اکبری عہد میں ملا فتح اللہ شیرازی کے زیراثر معقولات کی تعلیم کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس نے مقامی تعلیمی روایت پر گہرا اثر ڈالا، چنانچہ اس کے قریبی زمانے میں ملا قطب الدین اور ملا نظام الدین نے “درس نظامی” مرتب کیا تو اس میں یونانی فلسفہ، یونانی منطق اور علم الکلام کے علاوہ ریاضی اور ہیئت کے مضامین بطور خاص نصاب کا حصہ بنائے گئے۔ پورے نصاب پر معقولی رنگ بے حد غالب تھا اور معقولات کے عنوان سے کم وبیش ہر شعبہ علم میں ایسی اعلیٰ سطحی کتابیں شامل کی گئیں جن پر یونانی منطق کی اصطلاحات میں مباحث کی تنقیح کا رنگ کا غالب تھا۔ اس رجحان کے خلاف، شاہ ولی اللہ کی فکری مساعی کے زیر اثر، اصلاح نصاب کی ایک عمومی لہر پیدا ہوئی جس میں منطق وفلسفہ کے مضامین کی فی نفسہ اہمیت نیز ان کی تدریس کے لیے دقیق اور غامض متون کی افادیت پر سوالات اٹھائے گئے اور نتیجتاً نقلی علوم، بالخصوص ترجمہ وتفسیر، حدیث اور زبان وادب سے متعلق تدریسی مواد کا تناسب بڑھتا چلا گیا۔ نصاب میں مختلف مراحل پر ہونے والی تدریجی اصلاحات کے نتیجے میں موجودہ نصاب تعلیم میں معقولی علوم کا تناسب بہت کم ہو چکا ہے اور منطق، فلسفہ اور کلام کے مضامین سے متعلق نصاب سکڑتا ہوا چند مختصر کتابوں تک محدود ہو گیا ہے۔
اصلاح نصاب کی یہ تحریک اس زاویے سے یقینا مفید اور ضروری تھی کہ تشحیذ اذہان کے لیے دقیق اور غامض متون کے حل کی لفظی مشقیں دراصل نفس مضمون اور اس کے مباحث کی تفہیم کی قیمت پر ہوتی ہیں اور عبارتوں کو حل کر لینا ہی ساری تدریسی ریاضت کا منتہائے مقصود بن جاتا ہے۔ مزید یہ کہ کلی طور پر متن پر مبنی طریقہ تدریس میں پڑھنے والوں کا جو ذہنی سانچہ اور اس ذہنی سانچے میں کسی علم کا جو مجموعی تصور بنتا ہے، وہ بڑی حد تک جامد اور بے لچک ہو جاتا ہے جس میں فکری جدلیات اور کسی بھی علم کے دائرے میں فکر انسانی کے ارتقاءاور تغیرات کو سمجھنے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ تاہم ان خامیوں کے تناظر میں اصلاح نصاب کا جو رجحان پیدا ہوا، اس کا نتیجہ سرے سے عقلی علوم اور عقلی مباحث ہی کو نظر انداز کر دینے کی صورت میں نکلا، حالانکہ اصل ضرورت اس چیز کی تھی کہ طریقہ تدریس کو متوازن بنایا جائے اور دور قدیم کے عقلی مباحث کی جگہ ان علوم ومباحث کو شامل نصاب کیا جائے جو آج کی فکری دنیا میں زیر بحث ہیں اور فکر وذہن کے سانچے بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اسی طرح کسی خاص علم کے زیر عنوان چند مخصو ص متون یا نظریات پڑھا دینے کے بجائے یہ ضروری ہے کہ اس علم کے مجموعی ارتقائی سفر اور اس دائرے کے مختلف فکری رجحانات سے طلبہ کو روشناس کرایا جائے۔ مثال کے طور پر درس نظامی میں فلسفہ کے مباحث کی تعلیم وسیع تر تناظر میں دیے جانے کے بجائے ان چند مخصوص کتابوں مثلاً ہدایة الحکمة، میبذی، الشمس البازغہ اور ملا صدرا وغیرہ کا انتخاب کیا گیا جو اس دور میں مختلف وجوہ سے ایرانی درس گاہوں میں زیادہ مقبول تھیں۔ ان کتابوں کے مضامین یونانی فلسفے کے ان مباحث کے گرد گھومتے ہیں جن سے عباسی دور میں یونانی علوم کے عربی زبان میں ترجمہ کی وساطت سے مسلمان واقف ہوئے۔ ان چند مخصوص کتابوں پر انحصار اور فلسفے کی بنیادی ماہیت اور اس کی عمومی تاریخ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے ذہنوں میں عموماً فلسفہ کا جو تصور پایا جاتا ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ فلاسفہ یا حکماءنام کی کوئی ایک جماعت ہے جس کے کچھ مخصوص ومتعین نظریات ہیں جو ان کے ہاں عقائد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان نظریات کو “فلسفہ” کہا جاتا ہے۔
فلسفہ کا یہ تصور، ظاہر ہے کہ بے حد ناقص ہے، کیونکہ فلسفہ چند متعین اور طے شدہ نظریات کا نہیں، بلکہ عقلی بنیادوں پر غور وفکر کی ایک مسلسل روایت کا نام ہے جس میں بے شمار مختلف ومتنوع بلکہ متضاد رجحانات ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ خود مسلمانوں کی فکری روایت اس تنوع اور تغیر وارتقا کی ایک رنگا رنگ داستان ہے۔ عرب ابتداءًا یقینا اس طرح کی عقلی بحثوں سے یونانی علوم کے ترجمہ کی وساطت سے واقف ہوئے تھے، لیکن اس کے بعد ان تصورات ونظریات کی تنقیح، تشریح وتوضیح اور تردید واثبات کی ایک مستقل علمی روایت قائم ہو گئی جس میں اگر ایک طرف یونانی فلسفے کے ان تصورات کو اسلامی عقائد کے مطابق ڈھالنے اور انھیں اسلامی عقائد کی عقلی تفہیم کے لیے استعمال کرنے کا رجحان سامنے آیا تو دوسری طرف اس کے برعکس فلسفہ یونان کے اساسی تصورات پر نقد ومحاکمہ کا فکری رجحان بھی پیدا ہوا، چنانچہ دور متوسط میں غزالی اور بعد ازاں ابن تیمیہ وغیرہ نے یونانی منطق وفلسفہ پر جان دار تنقیدیں کیں اور ان عقلی معیارات کو چیلنج کیا جن کی بنیاد پر فلاسفہ کے خلافِ اسلام نظریات کی تائید کی کوشش کی جا رہی تھی۔
یونانیوں سے ورثے میں ملنے والے تصورات ومباحث کے علاوہ مسلمانوں میں ایسے جلیل القدر اہل فکر بھی پیدا ہوئے جنھوں نے نئے اور طبع زاد مباحث پر داد فکر دی اور مابعد الطبیعیات کے علاوہ انسانی نفسیات، علم اخلاق، عمرانیات، سیاسیات اور فلسفہ تاریخ جیسے موضوعات پر اپنے نتائج فکر پیش کیے۔ ان میں الکندی، الفارابی، ابن سینا، ابن باجہ، ابن طفیل، ابن رشد، ابن خلدون اور نصیر الدین طوسی وغیرہ کے نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ عقل اور شریعت کے باہمی تعلق جیسے دقیق سوالات پر علم کلام اور اصول فقہ میں معرکہ آرا بحثیں اٹھائی گئیں اور اس حوالے سے مختلف فکری رجحانات معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیرہ مکاتب فکر کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے آئے۔ مسلم صوفیہ نے اہم ترین فلسفیانہ مباحث کے حوالے سے ایک مستقل روایت کی بنیاد ڈالی جس کا بنیادی ماخذ کشف وعرفان اور روحانی سیر ومشاہدہ تھے۔
ان معروضات کا حاصل یہ ہے کہ دینی علوم کے نصاب میں عقلیات کو دوبارہ مناسب اہمیت دینے اور منتہی طلبہ کو کلاسیکی عقلی روایت کے ساتھ ساتھ معاصر فکری وفلسفیانہ بحثوں سے متعارف کروانے کی طرف سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

علوم دینیہ میں تخصص اور دور جدید کے عقلی مباحث

علوم دینیہ میں تخصص کی سطح پر جن عقلی مباحث کو بطور خاص جزو نصاب بنانے اور اعلیٰ اذہان کو ان مباحث کی تنقیح میں مشغول کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے خیال میں وہ حسب ذیل ہیں:
۱۔ فلسفہ علم (Epistemology) ، جس کے بنیادی سوالات اور مشکلات سے، اور ان کے حوالے سے مذہبی فکر کی ممکنہ پوزیشنز سے واقف ہونا ایک متخصص عالم دین کے لیے ناگزیر ہے۔ علم منطق کو اس کے ایک جزو کے طور پر پڑھانا چاہیے، کیونکہ یہ علم دراصل عقل انسانی ہی کے انداز کار  کو مختلف تصورات اور اصولوں کی صورت میں منظم انداز میں بیان کرتا ہے۔ علمیات کے بنیادی تصورات سے طلبہ کو شناسا کیے بغیر موجودہ صورت میں علم منطق کی تدریس بالکل بے فائدہ لفظی مشق کا درجہ رکھتی ہے۔
۲۔ فلسفہ مذہب (Philosophy of Religion) ، یعنی مذہب کے بنیادی تصورات اور ان پر پیدا ہونے والے سوالات کی عقلی تفہیم۔ بنیادی طور پر یہ علم الکلام کا حصہ ہے جسے ابن خلدون نے متاخرین کے علم کلام کا عنوان دیا ہے۔ متقدمین کا علم الکلام اصلاً‌ مسلمان فرقوں کے باہمی اختلافات سے بحث کرتا تھا۔ غزالی نے اس کا دائرہ وسیع کیا اور فلسفے کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات کو بھی کلام کا حصہ بنا دیا۔ فلسفہ مذہب اگرچہ بظاہر جدید علوم میں ایک نیا ڈسپلن ہے، لیکن اس کے دائرے میں آنے والے مباحث نئے نہیں ہیں۔ مختلف جگہوں پر بکھرے ہوئے ان مباحث کو یکجا کر کے “فلسفہ مذہب” کو ایک مستقل شعبہ علم کی حیثیت دے دی گئی ہے۔
۳۔ اصول تفسیر (Hermeneutics) ، یعنی مذہبی متون کی تعبیر وتشریح کے اصول وضوابط۔ یہ بھی بنیادی طور پر نیا علم نہیں ہے۔ اسلامی روایت میں اس کے مختلف مباحث اصول تفسیر، اصول الفقہ، علم البلاغۃ اور علم الکلام میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ تعبیر متن سے متعلق جملہ سوالات کے تناظر میں ان سب مباحث کو یکجا کر کے ایک مربوط ومنتظم علم کی صورت دے دی جائے اور جدید لسانی تصورات نے متن کی تعبیر کے حوالے سے جو نئے سوالات کھڑے کیے ہیں، ان کا بھی بغور جائزہ لیا جائے۔
۴۔ فلسفہ تاریخ (Philosophy of History) ، مغربی روایت میں اس شعبہ علم میں جن سوالات پر غور کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ تاریخ کے مذہبی تصور سے پیدا ہونے والے مباحث کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ کا کام اہم ہے، لیکن بہت سے دوسرے مصادر سے بھی استفادہ  کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید براں اسلامی فکری روایت کے ارتقا اور تغیرات کی تفہیم کا فریم ورک مہیا کرنا بھی اسی شعبہ علم کا وظیفہ بنتا ہے جس پر کافی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
۵۔ فلسفہ سائنس (Philosophy of Science) ،  سائنس کے دائرے میں نظریات وتصورات کیسے وضع کیے جاتے ہیں اور  ان میں تبدیلی وتغیر کی اساسات کیا ہوتی ہیں، اس کو علمی سطح پر سمجھنا بھی دینی علوم کے ایک متخصص کے لیے بہت اہم ہے۔ خاص طور پر یہ کہ سائنس ہمیں عالم طبیعی کے بارے میں جو عمومی تصور دیتی ہے، اس کا  ہمارے مذہبی تصورات سے کیا تعلق بنتا ہے اور سائنسی تصورات میں تبدیلی کے مذہبی عقائد وتصورات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
دینی علوم کےنصاب میں ان مباحث کی شمولیت اس مفروضے پر نہیں ہونی چاہیے کہ  ان میں ہمارے کلاسیکی علم کلام کی طرح پوزیشنز طے اور سوالات کے جوابات متعین ہو چکے ہیں جن سے طلبہ کو بس واقف ہونا چاہیے۔  علم کی دنیا میں سردست صورت حال یہ نہیں ہے۔ ان مباحث کی شمولیت دراصل اس مرحلے کی طرف بڑھنے کے لیے  اور مذہبی فکر کو اس discourse کا حصہ بنانے کی اسپرٹ  سے ہونی چاہیےجس کے نتیجے میں  علم جدید کے سوالات کے تناظر میں بھی اسی طرح ایک گہری علمی وعقلی روایت جڑ پکڑ سکے جیسی دور قدیم میں یونانی فلسفے کے سوالات ومباحث کے حوالے سے ہمارے متکلمین نے قائم کی تھی۔ ان مباحث سے اعتنا اور ایک اعلیٰ علمی وعقلی ڈسکورس کو وجود میں لانا  دینی لحاظ سے ایک فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔    اس عمل میں یقیناً‌ کئی طرح کے عقلی رجحانات سامنے آئیں گے اور کم وبیش اسی طرح کی ایک کلامی تقسیم پیدا ہوگی جیسی ہماری روایت میں  معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ اور سلفیہ کی صورت میں پیدا ہوئی۔ یہ تقسیم انسانی فکر کے رجحانات ومیلانات کے لحاظ سےآفاقی ہے اور ہر کلامی روایت میں ان کا ظہور ناگزیر ہے۔ ان میں سے ہر رجحان روایت کی مجموعی تشکیل میں ایک منفرد کردار ادا کرتا ہے،اس لیے ہر رجحان اپنی جگہ اہم اور ناگزیر ہے۔علم جدید کے چیلنج کا سامنا پوری فکری جرات کے ساتھ اس پر خطر راستے کا انتخاب کیے بغیر ممکن نہیں۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

بظاہر تفضیل مگر حقیقت میں مبالغہ

قرآن مجید میں جگہ جگہ اسم تفضیل جمع مذکرسالم کی طرف مضاف ہوکر آیا ہے، جیسے خیر الرازقین اور احسن الخالقین، ایسے تمام ہی مقامات پر تفضیل مقصود نہیں ہوتی ہے، بلکہ صفت میں مبالغہ اور کمال مقصود ہوتا ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ تفضیل کے مفہوم میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ دوسروں میں بھی وہ صفت موجود ہے، البتہ کسی میں دوسروں سے زیادہ ہے، جبکہ مبالغہ میں یہ لازم نہیں آتا ہے کہ دوسروں میں بھی وہ صفت موجود ہے، بلکہ کلام کا سارا زور موصوف پر ہوتا ہے، کہ یہ صفت موصوف میں اعلی درجے میں پائی جاتی ہے۔ خیر الرازقین کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رازق بہت سے ہیں اور اللہ سب سے بہتر رازق ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ رازق ہے اور رزق کی صفت اس کے اندر اعلی درجے میں ہے، بالفاظ دیگر وہ بہترین رازق ہے۔ احسن الخالقین کا مطلب بھی یہ ہے کہ وہ بہترین خالق ہے، نہ یہ کہ وہ خالقوں میں سب سے بہتر خالق ہے۔ ان دونوں الفاظ کے حوالے سے سابق میں گفتگو ہوچکی ہے۔
ذیل میں مزید کچھ الفاظ کے حوالے سے تراجم قرآن کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

(۱) وَاَنتَ ارحَمُ الرَّاحِمِینَ۔ (الانبیاء: 83)

“اور تو سب مہر والوں سے بڑھ کر مہر والا ہے” (احمد رضا خان)
“اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے” (جوادی)

(۲) فَاغفِر لَنَا وَارحَمنَا وَاَنتَ خَیرُ الرَّاحِمِین۔ (المومنون: 109)

“ہمیں معاف کر دے، ہم پر رحم کر، تُو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے”(سید مودودی)
“ہمارے گناہوں کو معاف کردے اور ہم پر رحم فرما کہ تو بہترین رحم کرنے والا ہے” (جوادی)

(۳) وَقُل رَّبِّ اغفِر وَارحَم وَاَنتَ خَیرُ الرَّاحِمِین۔ (المومنون: 118)

“اور پیغمبر علیہ السلام آپ کہئے کہ پروردگار میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم کر کہ تو بہترین رحم کرنے والا ہے” (جوادی)
“اے محمد، کہو، میرے رب درگزر فرما، اور رحم کر، اور تو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے” (سید مودودی)

(۴) وَاَدخِلنَا فِی رَحمَتِکَ وَاَنتَ اَرحَمُ الرَّاحِمِینَ۔ (الاعراف: 151)

“اور ہمیں اپنی رحمت کے اندر لے لے اور تو سب مہر والوں سے بڑھ کر مہر والا” (احمد رضا خان)
“اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے” (محمد جونا گڑھی)

(۵) یَغفِرُ اللہ لَکُم وَہُوَ اَرحَمُ الرَّاحِمِین۔ (یوسف: 92)

“اللہ تمہیں معاف کرے، اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے” (احمد رضا خان)
“خدا تم کو معاف کرے۔ اور وہ بہت رحم کرنے والا ہے” (فتح محمد جالندھری)

(۶) وَمَکَرُوا وَمَکَرَ اللہ وَ اللہ خَیرُ المَاکِرِینَ۔ (آل عمران: 54)

“پھر بنی اسرائیل (مسیح کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنے لگے جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے” (سید مودودی)
“اور وہ (یعنی یہود قتل عیسیٰ کے بارے میں ایک) چال چلے اور خدا بھی (عیسیٰ کو بچانے کے لیے) چال چلا اور خدا خوب چال چلنے والا ہے” (فتح محمد جالندھری)
“اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی (مکر) خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے” (محمد جوناگڑھی)

(۷) وَیَمکُرُونَ وَیَمکُرُ اللہ وَ اللہ خَیرُ المَاکِرِینَ۔ (الانفال: 30)

“وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے” (سید مودودی)
“اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر”(احمد رضا خان)

(۸) بَلِ اللہ مَولاَکُم وَہُوَ خَیرُ النَّاصِرِین۔ (آل عمران: 150)

“حقیقت یہ ہے کہ اللہ تمہارا حامی و مددگار ہے اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے” (سید مودودی)
“بلکہ اللہ ہی تمہارا مولی ہے اور وہی بہترین مددگار ہے” (محمد جوناگڑھی)
“بلکہ خدا تمہارا مددگار ہے اور وہ سب سے بہتر مددگار ہے” (فتح محمد جالندھری)

(۹) اِنِ الحُکمُ اِلاَّ لِلّہِ یَقُصُّ الحَقَّ وَہُوَ خَیرُ الفَاصِلِین۔ (الانعام: 57)

“فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے، وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے” (سید مودودی)
“حکم نہیں مگر اللہ کا وہ حق فرماتا ہے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا” (احمد رضا خان)

(۱٠) رَبَّنَا افتَح بَینَنَا وَبَینَ قَومِنَا بِالحَقِّ وَاَنتَ خَیرُ الفَاتِحِین۔ (الاعراف: 89)

“اے رب، ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے” (سید مودودی)
“اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر اور تیرا فیصلہ سب سے بہتر ہے” (احمد رضا خان)
“اے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے” (فتح محمد جالندھری)

(۱۱) اَنتَ وَلِیُّنَا فَاغفِر لَنَا وَارحَمنَا وَاَنتَ خَیرُ الغَافِرِین۔ (الاعراف: 155)

“ہمارے سر پرست تو آپ ہی ہیں پس ہمیں معاف کر دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے، آپ سب سے بڑھ کر معاف فرمانے والے ہیں” (سید مودودی)
“تو ہی تو ہمارا کارساز ہے پس ہم پر مغفرت اور رحمت فرما اور تو سب معافی دینے والوں سے زیادہ اچھا ہے” (محمد جوناگڑھی)
“تو ہمارا ولی ہے -ہمیں معاف کردے اورہم پر رحم فرما کہ تو بڑا بخشنے والا ہے” (جوادی)

(۱۲) وَاصبِر حَتَّیَ یَحکُمَ اللہ وَہُوَ خَیرُ الحَاکِمِینَ۔ (یونس: 109)

“اور صبر کرتے رہیں یہاں تک کہ خدا کوئی فیصلہ کردے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے” (جوادی)
“اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے، اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے” (سید مودودی)

(۱۳) اَو یَحکُمَ اللہ لِی وَھوَ خَیرُ الحَاکِمِین۔ (یوسف: 80)

“یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے” (سید مودودی)
“یا اللہ تعالیٰ میرے معاملے کا فیصلہ کر دے، وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے” (محمد جوناگڑھی)

(۱۴) فَاصبِرُوا حَتَّی یَحکُمَ اللہ بَینَنَا وَہُوَ خَیرُ الحَاکِمِینَ۔ (الاعراف: 87)

“تو ذرا ٹھہر جا! یہاں تک کہ ہمارے درمیان اللہ فیصلہ کیے دیتا ہے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے” (محمد جوناگڑھی)
“تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے” (سید مودودی)

(۱۵) وَِانَّ وَعدَکَ الحَقُّ وَاَنتَ اَحکَمُ الحَاکِمِین۔ (ہود: 45)

“اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے” (سید مودودی)
“اور تیرا وعدہ اہل کو بچانے کا برحق ہے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے” (جوادی)
“یقینا تیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے” (محمد جوناگڑھی)

(۱۶) اَلاَ تَرَونَ اَنِّی اُوفِی الکَیلَ وَاَنَا خَیرُ المُنزِلِین۔ (یوسف: 59)

“کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں پورا ناپ کر دیتا ہوں اور میں ہوں بھی بہترین میزبانی کرنے والوں میں” (محمد جوناگڑھی)
“دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں” (سید مودودی)
“کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں ناپ بھی پوری پوری دیتا ہوں اور مہمانداری بھی خوب کرتا ہوں” (فتح محمد جالندھری)
“کیا نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور میں سب سے بہتر مہمان نواز ہوں” (احمد رضا خان)
منزل کا صحیح ترجمہ میزبان ہے ، مہمان نواز ہونا اس کا لازم ہے۔

(۱۷) وَقُل رَّبِّ اَنزِلنِی مُنزَلاً مُّبَارَکاً وَاَنتَ خَیرُ المُنزِلِینَ۔ (المومنون: 29)

“اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے” (سید مودودی)
“اور عرض کر کہ اے میرے رب مجھے برکت والی جگہ اتار اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے” (احمد رضا خان)
“اور یہ کہنا کہ پروردگار ہم کو بابرکت منزل پر اتارنا کہ تو بہترین اتارنے والا ہے۔” (جوادی)
“اور کہنا کہ اے میرے رب! مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر ہے اتارنے والوں میں۔” (محمد جونا گڑھی)

(۱۸) رَبِّ لَا تَذَرنِی فَرداً وَاَنتَ خَیرُ الوَارِثِینَ۔ (الانبیاء: 89)

“اے پروردگار، مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے” (سید مودودی)
“پروردگار مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے” (فتح محمد جالندھری)
مذکورہ بالا تمام آیتوں میں سب سے زیادہ اور سب سے بہتر کے بجائے بہترین سے ترجمہ کرنا زیادہ مناسب ہے۔
(جاری)

سی پیک منصوبہ : قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بجٹ تجاویز پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ’’سی پیک معاہدات‘‘ کو قومی اسمبلی میں زیربحث لایا جائے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ یہ قرضے ہیں یا سرمایہ کاری ہے؟ اپنے خطاب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس طرح افغانستان سے مہاجر یہاں آئے تھے اب چینی گوادر میں بہت تعداد میں آئے ہوئے ہیں، بلوچستان کی معدنیات چین لے جا رہا ہے اور ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا کہ کتنا سونا اور دوسری معدنیات نکل رہی ہیں۔
چین ہمارا دوست ملک ہے جس نے ہر دور میں اور ہر نازک مرحلہ پر ہمارا بھرپور ساتھ دیا ہے جبکہ پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی ہمیشہ مثالی رہی ہے۔ اور اب سی پیک (China–Pakistan Economic Corridor) کا پروگرام اسی دوستی کی علامت اور اس کا عملی اظہار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا بلکہ پورے علاقے کی صورتحال یکسر بدل سکتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ سی پیک معاہدوں کے حوالہ سے سوالات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے کہ ان کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے جس کی مناسب صورت یہ ہے کہ سردار اختر مینگل کے مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے صورتحال کو واضح کیا جائے اور باہمی مشاورت کے ساتھ ان معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔ ویسے بھی قومی اسمبلی کا یہ حق ہے کہ قومی اور بین الاقوامی معاملات و معاہدات میں اسے پوری طرح اعتماد میں لیا جائے۔ اس کا مطلب چین کی دوستی اور خلوص پر کسی شک کا اظہار نہیں ہے بلکہ باہمی معاملات کو زیادہ شفاف اور اعتماد کے ماحول میں تکمیل تک پہنچانا ہے۔
گزشتہ روز ایک محفل میں اس بات کا تذکرہ ہوا تو ایک دوست نے کہا کہ ’’حسابِ دوستاں در دل‘‘ یعنی دوستوں کا حساب دل میں ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ درست بات ہے مگر بسا اوقات یہ صرف ایک حرف کے اضافہ سے ’’دردِ دل‘‘ بھی بن جایا کرتا ہے اور باہمی معاملات میں شکوک و شبہات کا پیدا ہو جانا دوستی کے لیے مشکلات پیدا کر دیا کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں کراچی کے معروف تجارتی جریدہ ہفت روزہ ’’شریعہ اینڈ بزنس‘‘ کے ستمبر ۲۰۱۲ء کے آخری شمارہ کا اداریہ بھی قابل توجہ ہے جسے ہم اس کالم کا حصہ بنا رہے ہیں:
’’کہانی بہت سادہ سی ہے۔ چین دنیا کا معاشی جن ہے۔ اس کے پاس ۳ ہزار ارب ڈالر سے زائد کے ریزرو پڑے ہیں۔ دنیا بھر میں اس کی ایکسپورٹ ہو رہی ہے اور وہ تیزی سے ڈالر سمیٹ رہا ہے۔ اس نے ۲۰۱۳ء میں پاکستان کو ۴۶ ارب ڈالر سے سی پیک منصوبہ شروع کرنے کی دعوت دی۔ اتنی بڑی دولت بیٹھے بٹھائے پاکستان میں آرہی تھی۔ اتنی دولت پاکستان میں آتی دیکھ کر ہر کسی کی آنکھیں پھیل گئیں۔ حکومتیں ریجھ گئیں، صوبے للچائی نظروں سے دیکھنے لگے۔ وفاق نے ایک کمیٹی بنائی اور بالا ہی بالا سی پیک کی تفصیلات طے کر لیں۔ اتنے میں میڈیا کو اس کی بھنک پڑ گئی۔ میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور صوبوں کو باور کروایا کہ تمہارے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ صوبوں نے ایک کورس میں اس ظلم و زیادتی کا نوحہ پڑھنا شروع کر دیا۔ حکومت گھبرا گئی۔ صوبوں سے بات کی تو ہر کسی کے مطالبات تھے۔ اسی ادھیڑبن میں چین نے کہا کہ ہم سی پیک کی سرمایہ کاری ۴۶ ارب ڈالر سے بڑھا دیں گے۔ ہمارے پاس ریزروز بہت ہیں۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ پاکستان میں موجود ریزروز صرف ۱۶ ارب ڈالر کے ہیں۔ چین کے پاس اتنے ریزروز ہیں کہ امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک ملا کر بھی اتنے ریزروز کے مالک نہیں ہیں۔ چین نے اشارہ دے دیا کہ ہم سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں، آپ تمام صوبوں کو اعتماد میں لیں۔ اس کے بعد حلوائی کی دکان میں ناناجی کی فاتحہ برپا ہوگئی۔ ہر صوبے نے اپنے مطالبات رکھے۔ روٹ یوں نہیں یوں ہوگا۔ فلاں فلاں مرکزی شہروں سے گزرے گا۔ وفاق اور صوبے مطمئن ہوگئے، اپنے اپنے حصے پر خوش ہوگئے۔ مگر اس کی شرائط و ضوابط اور اصول کیا ہوں گے؟ اس سے ہر کسی کی نظریں اوجھل ہوگئیں۔
چین اس ساری گیم کو دیکھتا رہا اور اپنی مرضی کی شرائط دیتا گیا۔ ہماری حکومت اور تمام صوبے اس دوران شرائط سے لاتعلق رہے۔ سی پیک پر کام شروع ہوگیا۔ چین نے ملک میں سرمایہ کاری شروع کر دی۔ اس دوران حکومت بدل گئی اور نئی حکومت نے آتے ہی یوں تعجب کا اظہار کیا گویا اسے آج تک کسی بات کا علم ہی نہ ہو۔ یہ تعجب غلط تھا یا نہیں، اس کا جواب تو تاریخ کے پاس امانت ہے۔ مگر ہمارے خیال میں چین سے ان شرائط پر بہت واضح بات کرنے کی ضرورت ہے۔ چین ہماری دوستی کا دعوٰی بھی کرتا ہے، ہم اس کی خاطر امریکہ سے لڑ جاتے ہیں۔ پاک چین دوستی شہد سے زیادہ میٹھی، ہمالیہ سے زیادہ بلند اور سمندر سے زیادہ گہری کا نعرہ بھی لگاتے ہیں۔ مگر چین جب سرمایہ کاری کرتا ہے تو بے تحاشا سود رکھتا ہے۔ شرائط ایسی کہ یقین نہیں آتا۔ خدا کرے یہ شرائط منظر عام پر آئیں تو پتہ چلے کہ اس وطن پر کتنا بڑا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
پھر چین برکس کے نام سے اتحاد بناتا ہے تو اس میں پاکستان کو نہیں بلکہ انڈیا کو شامل کر لیتا ہے۔ پھر اسی فورم سے پاکستان سے دہشت گردی ختم کرنے کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سی پیک پاکستان کی نہیں دراصل چین کی مجبوری ہے۔ اگر حکومت بھرپور غور و فکر کے بعد اس منصوبے کو آگے بڑھائے گی تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ پاک چین دوستی سمندر سے زیادہ گہری ضرور ہے مگر چین کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ دوستوں سے مفادات نہیں سمیٹے جاتے۔ ایک اعلٰی عہدیدار کے بقول امریکہ ہمیں سیدھی چھری سے ذبح کرتا تھا اور اب چین الٹی چھری پھیر رہا ہے۔ ان باتوں کے حقائق منظر عام پر آنے چاہئیں کہ اس کی شرح سود ۱۷ سے ۲۲ فیصد کے درمیان کیوں ہے؟ سی پیک منصوبوں سے ملنے والی بجلی پاکستانیوں کے لیے اس قدر کیوں مہنگی ہوگی؟ تھرمل، ہائیڈل اور سولر منصوبے ہمارے لیے اتنے مہنگے کیوں؟ خدانخواستہ چین ہمارے ساتھ وہ تو نہیں کرنے جا رہا جو اس نے زیمبیا اور سری لنکا کے ساتھ کیا؟ جاگتے رہنا بھائیو!‘‘
اس پس منظر میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے مطالبہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ان معاملات کو قومی اسمبلی میں زیر بحث لانا اہم ترین قومی ضرورت ہے جس کی طرف حکومت کو فوری توجہ کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ملک بھر کے ارباب دانش، علمی و فکری اداروں اور سیاسی و دینی راہنماؤں سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ ان تمام امور کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر رائے عامہ کی بروقت راہنمائی فرمائیں تاکہ سی پیک منصوبہ کو ملک و قوم کے لیے زیادہ سے زیادہ مؤثر، مفید اور محفوظ بنایا جا سکے۔

وزیر اعظم جناب عمران خان نے گزشتہ روز کوئٹہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ CPEC کا ازسرنو جائزہ لیا جا رہا ہے اور بلوچستان کو اس کا حق دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بات بلوچستان کے بعض سرکردہ حضرات کی طرف سے اس سلسلہ میں چند تحفظات کے اظہار کے پس منظر میں کہی جبکہ اس کے ساتھ حکومت پاکستان کے مشیر تجارت و صنعت جناب عبد الرزاق داؤد کا ایک روز قبل کا یہ بیان بھی قابل توجہ ہے کہ ہمیں عقل سے کام لینا ہوگا، یہ نہ ہو کہ سی پیک انڈسٹریل زون میں چینی آجائیں اور ہماری صنعتیں بند ہو جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی حکومت سی پیک کے معاملات کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اور اس پس منظر میں پاکستان میں عوامی جمہوریہ چین کے سفیر محترم کا یہ حالیہ بیان یقیناً اہمیت رکھتا ہے کہ سی پیک کے خلاف سازش ہو رہی ہے جس کا چین اور پاکستان کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔
سی پیک کے حوالے سے ہم گزشتہ سطور میں عرض کر چکے ہیں کہ اس کی اہمیت و ضرورت، افادیت و ثمرات اور نتائج و اثرات کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے تحفظات کے اظہار کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لیے اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر نہ صرف پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ ضروری ہوگیا ہے بلکہ ملک کے سیاسی، علمی، فکری، دینی اور سماجی دائروں میں بھی اس بحث و مباحثہ کی اہمیت و ضرورت کا احساس سامنے آرہا ہے جسے نظر انداز کرنے کی بجائے صحیح رخ پر اور مثبت انداز میں ڈیل کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس سلسلہ میں چند پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جن کو پیش نظر رکھنا اس عظیم منصوبے کی کامیابی اور تکمیل کے لیے ہمارے خیال میں ناگزیر تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ان استعماری قوتوں اور لابیوں کے لیے تو یہ منصوبہ سرے سے قابل قبول نہیں ہے جو اسے عالمی اور علاقائی صورتحال میں ’’پاورگیم‘‘ کے حوالے سے اور موجودہ معاشی و اقتصادی ترجیحات میں ’’گیم چینجر‘‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اسے کسی صورت میں کامیاب نہیں دیکھنا چاہتے۔ انہیں پاکستان اور چین کی باہمی اعتماد اور خلوص پر مبنی دوستی گوارا نہیں ہے اور وہ مستقبل میں اس دوستی کے متوقع عالمی کردار سے خائف ہیں۔ ان قوتوں اور لابیوں کے عزائم اور سرگرمیاں اس حوالہ سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور ان کا اضطراب ہر ممکن احتیاط اور کوشش کے باوجود کسی طرح چھپ نہیں پا رہا۔ لہٰذا ان کی چالوں سے ہوشیار رہنے اور اس منصوبے کو ان کی طرف سے پھیلائے جانے والے جالوں سے بچا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد بھی اگر معاشی اور سیاسی صورتحال عالمی اور علاقائی سطح پر جوں کی توں رہنی ہے اور اسے بالآخر موجودہ عالمی استعماری ’’فریم ورک‘‘ میں ہی فٹ ہو جانا ہے تو پھر اس کے لیے اب تک کی جانے والی محنت خود سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ اس منصوبے کا یہ اصولی، اساسی اور بنیادی پہلو ہمارے نزدیک سب سے زیادہ قابل توجہ ہے، اس لیے اہل علم و دانش کو اس کے لیے اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کے ہر ممکن استعمال کے لیے تیار رہنا چاہیے اور پورے حوصلہ، تدبر اور کاوش کے ساتھ اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے، اس کا رخ موڑ دینے یا اسے اس کے مقاصد کے حوالے سے غیر مؤثر کر دینے کی سازشوں کو ناکام بنا دینا چاہیے، کیونکہ خود پاکستان کی قومی خودمختاری، استحکام اور بہتر مستقبل کے لیے یہ ضروری ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ان تحفظات کا جائزہ لینا بھی اسی طرح ضروری ہے جو اس سلسلہ میں سامنے آرہے ہیں مگر ان کے لیے کسی محاذ آرائی، شوروغوغا اور کسی دوسرے کو دخل اندازی کی دعوت بلکہ موقع دینے کی بجائے عوامی جمہوریہ چین کی حکومت و قیادت کے ساتھ دوستانہ ماحول میں کھلے دل کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سوچ اور فکر کے ماحول میں کہ دوستوں میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، باہمی شکایات جنم لیتی ہیں اور تحفظات وجود میں آتے ہیں جن کا حل انہیں نظر انداز کر دینا نہیں بلکہ ان پر آپس میں گفتگو کرنا اور ایک دوسرے کی شکایات کو سمجھ کر پوری ہمدردی کے ساتھ انہیں دور کرنا ہوتا ہے۔ ہم کسی صورت بھی یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین کی قیادت اور ارباب فکر و دانش اپنے قدیمی اور باوفا دوست اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی مشکلات و مسائل پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، یا سمجھ میں آجانے کے بعد ان کو حل کرنے اور پاکستانی قوم کو مطمئن کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔
اگرچہ یہ تلخ تجربہ تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے بعد دنیا کی ایک بڑی قوت کے ساتھ دوستی کا عہد و پیمان کیا تھا اور اس کے لیے اپنا بہت کچھ قربان کر دیا تھا، مگر اپنے یکطرفہ مفادات کی تکمیل کے بعد دوستی کے دوسرے فریق پاکستان کو نہ صرف حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا بلکہ اس دوستی کو آقائی میں بدلنے کی اس حد تک کوشش کی گئی کہ پاکستان کے ایک سربراہ مملکت کو اس پر ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے عنوان سے اپنا احتجاج و اضطراب تاریخ میں ریکارڈ کرانا پڑا تھا ۔ ہمیں عوامی جمہوریہ چین سے ہرگز اس کی توقع نہیں ہے اور ہم اس کے ساتھ اب تک کی دوستی اور باہمی اعتماد کو مستقبل میں بھی اسی ماحول میں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اپنے ماضی قریب کو بھول جانا اور اس کی تلخ یادوں کو ذہنوں سے محو کر دینا بھی ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔
ان گزارشات کے بعد ہم ان چند تحفظات کا سردست صرف اجمالی تذکرہ کریں گے جو اس وقت ملک بھر میں مختلف سطحوں اور دائروں میں لوگوں کی زبانوں پر عام ہیں اور یہ چاہیں گے کہ ان کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔
الغرض اس منصوبہ کی تفصیلات کا سامنے آنا ضروری ہے تاکہ اس کے حوالے سے دونوں ممالک کی ذمہ داریاں معلوم ہو سکیں، اس کے نتائج و ثمرات کا اندازہ کیا جا سکے، اور ان شکوک و شبہات کا ازالہ بھی ہو سکے جو مختلف قومی و بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے سامنے آرہے ہیں۔ اس سلسلہ میں کچھ اور پہلو بھی ہیں جن پر ہم حسب موقع گزارشات پیش کرتے رہیں گے اور یہ چاہیں گے کہ ان امور پر کھلے بحث و مباحثہ کے ساتھ نہ صرف اپنی قومی سوچ کو واضح کیا جائے بلکہ ان کے بارے میں عوامی جمہوریہ چین کی قیادت و دانش کے ساتھ بھی باہمی اعتماد کے ماحول میں دوستانہ گفت و شنید کی جائے تاکہ سی پیک کے مخالفین کو ان مسائل و تحفظات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے اور ہم باہمی اعتماد کے ساتھ اس تاریخی بلکہ تاریخ ساز عمل کو تکمیل تک پہنچا سکیں۔

گلگت بلتستان: آئینی بحران اور سیاسی محرومیاں

ڈاکٹر محمد حسین

گلگت بلتستان کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیوں بدگمانیوں کا بنیادی سبب عام شہریوں خصوصا سکول کے طلبہ سے لے کر یونیورسٹیوں کے محققین و اساتذہ تک کو علاقے سے متعلق درست معلومات کی فراہمی نہ ہونا ہے کیونکہ آئین پاکستان سمیت کسی بھی سرکاری قانونی دستاویز، قومی نصاب سمیت دیگر لٹریچر میں گلگت بلتستان کا ذکر کہیں نہیں کیا جاتا۔ نیز قومی پالیسیوں اور ذرائع ابلاغ میں بھی گلگت بلتستان کے وسائل و مسائل، اور حقوق اور احوال پر بحث نہیں ہوتی۔  مقامی صحافت درکار تعلیمی اہلیت و عملی پختگی و مہارت کے علاوہ بہت سے ریاستی قدغنوں کی شکار ہے جبکہ علاقے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے سیاسی و سماجی کارکنوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عملی طور پر قومی اسمبلی، سینٹ، بین الصوبائی مفادات کونسل، این ایف سی ایوارڈ سمیت کسی بھی آئینی و اقتصادی فورم پر گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے۔ اس لیے گلگت بلتستان سے متعلق عوام و و خواص دونوں کی عمومی آگاہی کا معاملہ ناگفتہ بہ ہے۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان ہماری اسٹبلشمنٹ کی بے حسی، حکمرانوں کی بے حمیتی، جمہوریت پسند، ترقی پسند دانشور طبقات کی گلگت بلتستان سے متعلق کم علمی جبکہ قومی میڈیا پر کاروباری مفاد یا قومی مفاد کے چکر میں گلگت بلتستان جیسے اہم سرحدی و سٹریجک علاقے کی آواز نظر انداز ہوتی ہے۔
پاکستان کے شمال مشرق میں موجود قدرتی وسائل سے مالا علاقہ گلگت بلتستان ہے جس کی آبادی دو ملین سے زاید ہے جس میں سے ایک تہائی آبادی تعلیم اور روزگار کی خاطر کراچی، راولپنڈی اسلام آباد، لاہور اور کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں بستی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں علاقے کا کچھ حصہ (شقصم اور اقصائے چین) چین کو دیے جانے اور معاہدہ تاشقند کے تحت کچھ حصے بھارت کو دیے جانے نیز سن اکہتر اور اٹھانوے میں کچھ سرحدی علاقے بھارت کے قبضے میں چلے جانے کے باجود بھی گلگت بلتستان کا موجودہ رقبہ تقریباً خیبر پختونخوا کے برابر اور آزاد جموں کشمیر سے تقریباً چھ گنا بڑا یعنی تہتر ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے جس کا محض دو فیصد زرعی طور پر قابل کاشت ہے باقی بڑے بنجر میدانوں، جنگلات، جھیلوں، دریا، برفانی گلیشرز اور بلند پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ موجودہ گلگت بلتستان دس انتظامی اظلاع دیامر، استور، گلگت، ہنزہ، نگر، غذر، سکردو، شگر، گنگچھے اور کھرمنگ پر مشتمل ہے۔ گلگت صدر مقام اور سکردو سب سے بڑا شہر شمار ہوتے ہیں، ان دونوں شہروں میں‌ائیرپورٹس موجود ہیں جہاں‌اسلام آباد سے روزانہ پاکستان ائیرلائن کی پروازیں چلتی ہیں۔
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کے، دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 چوٹیوں کے علاوہ چھ ہزار میٹر بلندی کی پچاس برف پوش اور فلک شگاف چوٹیوں، ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش کے عظیم ترین پہاڑی سلسلوں، دنیا میں گلیشئرز کا دوسرا بڑا ذخیرہ، دنیا کی سب سے زیادہ بلندی پر موجود سب سے بڑا سرسبز میدان دیوسائی (پانچ ہزار مربع کلومیٹر کا سرسبز رقبہ)، سطح مرتفع پر پہاڑی سلسلوں کے درمیان دنیا کا سب سے بلند ترین ریتلے صحرا کولڈ ڈیزرٹ بھی اسی علاقے میں موجود ہے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ سیراب کرنے والے دریائے سندھ کا آبی ذخیرہ نیز درجنوں خوب صورت جھیلیں اور آبشاریں اور قدرتی گرم و ٹھنڈے چشمے اسی علاقے میں موجود ہیں۔ نادر آبی و جنگلی حیات کے علاوہ طرح طرح کے منفرد پھولوں، پھلوں اور قدرتی معدنیات اور قیمتی پتھروں کا ذخیرہ بھی یہاں پایا جاتا ہے۔ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں اور شفاف پانی کے فقدان کے تناظر میں‌یہ علاقہ دنیا کے بڑے آبی ذخائر میں سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ بلند پہاڑی ندیوں سے گرنے والے پانی سے براہ راست یا ڈیم بنا کر اس سے ہزاروں میگاواٹ نہایت سستی بجلی پیدا کرنے کی پوٹینشل موجود ہے اور ہزاروں مربع کلومیٹر کے بنجر میدانوں‌ کو قابل کاشت بنائے جا سکتے ہیں۔
مختلف پہاڑی وادیوں میں آباد گلگت بلتستان تاریخی و ثقافتی طور پر مختلف تہذیبوں، مذاہب، نسلوں اور زبانوں کا مرکز رہا ہے۔ اس میں اسلام سے قبل کے مذاہب بدھ مت اور بون مت کے تہذیبی آثار آج بھی محفوظ ہیں۔ آج بھی مختلف نسلی گروہ، زبانیں، اور متنوع ثقافتی روایات سے یہ علاقہ اپنی قدرتی خوبصورتی کو تہذیبی رنگوں سے رنگا رنگ کر رہا ہے۔ بلتی، شینا، بروشاسکی، واخی، کھوار سمیت ہندکو، کشمیری، پشتو زبانیں یہاں بولنے والے موجود ہیں۔ سو فیصد مسلم آبادی پر مشتمل اس علاقے میں‌ اہل تشیع، اہل سنت (دیوبندی و بریلوی و جماعت اسلامی، اہل حدیث، اسماعیلی اور نوربخشی مسالک سے وابستہ ہیں۔مختلف علاقوں‌اور اضلاع میں‌ عموما کسی ایک مسلک کی بھاری اکثریت ہے۔ تعلیمی اداروں کے فقدان کے باوجود شرح خواندگی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی شرح پاکستان کے دیگر علاقوں سے زیادہ بلند ہے، سماجی طور پر جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ جبکہ مذہبی ہم آہنگی اور امن کا گہوارہ یہ علاقہ پاکستان بھر کے لیے مثال ہے۔ ضیاء الحق دور میں‌ ریاستی ایما پر افغان مجاہدین کے ذریعے فرقہ وارانہ بنیادوں پر لشکر کشی میں‌ تین سو سے زاید لوگوں‌ کو مارے جانے کے بعد اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ملک میں‌ جاری فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردی سے متاثر ہونے کے باوجود عموما گلگت بلتستان میں شیعہ سنی، اہل حدیث، اسماعیلی اور نوربخشی سبھی بھائیوں کی طرح رہتے آ رہے ہیں۔ پاکستان کی بڑی قومی سیاسی جماعتیں یہاں کی مقامی سیاست میں حصہ لیتی ہیں جبکہ چند قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔ 

گلگت کے چند بنیادی مسائل 

گلگت بلتستان کے تقریباً عمومی طور پر معاشی لحاظ سے لوگ مڈل کلاس کے ہیں جن کا ذریعہ معاش زراعت، مال مویشی، یا ملازمت پیشہ ہے۔ جبکہ تجارت و سیاحت اور معدنیات سے جڑے پیشوں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ تعلیم، صحت، صنعت و تجارت اور سیاحت کے لیے انفراسٹرکچر کا شدید فقدان ہے۔ 2002 میں قراقرم یونی انٹرنیشنل ورسٹی بننے تک علاقے میں ایک بھی اعلیٰ تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ جبکہ ابھی بھی کوئی میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، لا، بزنس، مینیجمٹ سمیت کوئی بھی پروفیشنل ادارہ قائم نہیں ہے۔ معدنیات، کوہ پیمائی، سیاحت، تحقیق، زراعت اور معدنیات سمیت اہم شعبوں میں کوئی قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ 
آئینی طور پر یہ علاقہ مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا متنازعہ علاقہ شمار ہوتا ہے جس کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نگرانی میں‌ استصواب رائے کے ذریعے ہونا باقی ہے۔  یہ متنازعہ علاقہ جعرافیائی اعتبار سے اپنے اطراف میں چار ممالک (پاکستان، چین، انڈیا اور افغانستان جن میں سے تین ایٹمی طاقتیں ہیں)  کے درمیان گھرا ہوا ہے، جبکہ ترکمانستان کے راستے روس سے بھی قریب تر ہے۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت چین کا ون بیلٹ ون روٹ منصوبے کے تحت چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری  (سی پیک)  اسی متنازعہ خطے سے گزر رہا ہے۔راہداری کے ذریعے چائنہ کو پاکستان سے ملانے کے لیے پانچ سو کلومیٹر سے زائد کا راستہ گلگت بلتستان سے ہی گزر کر بن رہا ہے۔ سنگلاخ پہاڑی سلسلے میں سی پیک کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ مگر اس اہم منصوبے کے نہ کسی اہم بین الممالک اجلاس میں گلگت بلتستان کو سٹیک ہولڈر کے طور پر حیثیت دی گئی اور نہ ہی یہاں باقی صوبوں کی طرح یہاں منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں جو لوگوں کے احساس محرومی کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔ نیز دیامر بھاشا ڈیم بھی اسی علاقے میں‌ بنے گا۔
انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ بھی انتہائی سنگین ہے۔ قانون و انصاف کی فراہمی کے لیے موجود نظام جس چیف کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ اور سیشن کورٹ شامل ہیں بہت ہی ناقص، سست اور ریاستی جبر سے متاثر ہے اور علاقے میں عوام کے لیے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ قانون و انصاف کے کمزور نظام کے باعث علاقے میں میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر بلا معاوضہ پاکستان کے سول و عسکری اداروں کا قبضہ کرنا، آزادی اظہار پر قدغن لگاتےہوئے سیاسی مسائل وحقوق کے لیے آواز اٹھانے والے دسیوں سماجی کارکنوں کو جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کرنا س کی چند واضح مثالیں ہیں۔ ان مسائل پر مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی سربراہی میں ہونے والی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی طرف سے مرتب کردہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی کئی رپورٹوں میں تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ 
آئین کسی بھی ملک میں‌عوام اور ریاست کے درمیان حقوق و فرائض کا ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے۔  گلگت بلتستان ایک بے آئین سرزمین ہے جس پر وہ آئین و قانون نافذ ہے جس کی تشکیل میں‌اس کا کوئی کردار نہیں‌رہا ہے جس کے نفاذ کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں‌ہے، اس لیے یہ علاوہ ایک آئینی بحران کا شکار ہے۔  کورٹس کا بنیادی کام آئین کی تشریح کرتے ہوئے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے مگر آئین پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا  آئینی حصہ تسلیم ہی نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود گلگت بلتستان میں آئین پاکستان اور تعزیرات پاکستان اور پاکستانی قوانین کے مطابق ہی فیصلے کیے جاتے ہیں اور ان کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے قانون کا استعمال ہر اس شخص کے خلاف کیا جاتا ہے جو علاقے کے حقوق کی آواز اٹھائے چنانچہ بابا جان، حسنین رمل، افتخار احمد سمیت اہم سماجی کارکنوں پر گزشتہ کئی سالوں سے قید میں رکھا ہوا ہے۔ اور علاقے کے تقریبا ڈیڑھ سو نوجوان طلبہ، اساتذہ، صحافی، وکلا پر تقریبا ایک سال سے انسداد دہشت گردی کا دفعہ چار (شیڈول فورتھ) نافذ کیا ہوا ہے، مگر اس کے برعکس گلگت بلتستان کے مفلوج کورٹس کے فیصلوں کا اطلاق پاکستان کے شہریوں پر نہیں ہوتا جس کے کئی نظائر موجود ہیں۔
چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں پبلک سروس کمیشن نہ ہونے کے باعث کلیدی عہدوں کے لیے غیر مقامی اور نچلے گریڈ کی ملازمتوں کے لیے مقامی افراد کا کوٹہ مختص کرنے کے مسائل تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری سمیت تمام کلیدی عہدوں‌ پر وفاق براہ راست اپنے بیوروکریٹس تعینات کرتا ہے جس کی حیثیت و کردار مقامی حکومت میں‌ایک وائسرائے سے کم نہیں‌ ہوتی۔
سن اکہتر اور اٹھانوے کی جنگوں سے متاثر ہونے والے سرحدی مہاجرین کے لیے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے باعث سینکڑوں مہاجرین بے گھر ہو کر در بدر ہورہے ہیں۔ کراچی اور اسلام آباد کی کچی آبادیوں‌ میں‌ گلگت بلتستان کے ایسے سرحدی مہاجرین بڑی تعداد میں‌ مقیم ہیں۔ واہگہ بارڈر اور آزاد کشمیر بارڈر پر سرحد کی دونوں طرف تجارت بھی اور آمد و رفت بھی جاری ہے مگر بلتستان کے سرحدی علاقے شخما، چھوربٹ اور کھرمنگ بارڈر خاص طور پر صدیوں سے قائم روایتی تجارتی راستہ کھرمنگ کرگل روڈ مکمل طور پر تجارت و آمد و رفت کے لیے بند ہے جس کے باعث آزادی اور جنگوں کے دوران بچھڑنے والے خاندان کنٹرول لائن کی دونوں طرف بہت ہی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ 
داخلی خود مختاری اور مالیاتی نظام نہ ہونے کے باعث سوست بارڈر کے محصولات سمیت تمام اہم محاصل وفاق لے جاتا ہے جبکہ شاہراہ قراقرم، دریائے سندھ، دیامر بھاشا ڈیم اور سالانہ لاکھوں بین الاقوامی سیاحوں سے لیے جانے والے ریوینو سے گلگت بلتستان کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتا جبکہ متنازعہ علاقے ہونے کے باعث ان سب پر اولین حق علاقے کا ہی بنتا ہے اور ان سارے وسائل کی باقاعدہ رائلٹی علاقے کو ملنی چاہیے۔ 
حالیہ احتجاج کی شدت کی بنیادی وجہ یہی سب  عوامل ہیں جو علاقے کے احساس محرومی میں اضافہ کرنے اور لوگوں کے غم و غصہ کو بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ وفاق کو گلگت بلتستان کی داخلی خود مختاری کے لیے فوری طور پر سیاسی اصلاحات کے عمل کو تیز کر کے اس حساس سرحدی اور تزویراتی علاقے کو مستحکم کرنے میں ستر سال گزرنے کے باوجود مزید تاخیری حربوں سے کام نہیں لینا چاہیے، کیونکہ خظے کی تعمیر و ترقی کے لیے اہم ترین عنصر سمجھا جانے والی چین پاکستان اقتصادری راہداری مضبوط و مستحکم اور پُرامن گلگت بلتستان میں ہی مضمر ہے۔ ہر احتجاج اور تحریک کو سازش کے کھاتے میں ڈال کر پاکستان کے کسی بھی آئینی صوبے سے بڑھ کر اس کے لیے ہزاروں افراد کی قربانی دینے والے علاقے کی بے لوث محبت و وفاداری پر سوال اٹھانے کے بجائے بنیادی انسانی حقوق سے متعلق گلگت بلتستان کے سنجیدہ مسائل کو فوری حل کرے۔ پاکستان کو گلگت بلتستان کے صرف وسائل اور خوبصورتی سے دلچسپی رکھنے کے علاوہ یہاں بنیادی مسائل و حقوق پر توجہ دینی ہوگی۔

گلگت بلتستان میں آئینی بحران کس طرح ہے؟

بھارت اور پاکستان کے مابین متنازعہ کشمیر کے چار حصے ہیں۔ پہلا حصہ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر ہے جس کو بھارت کے آئین میں عبوری طور پر خصوصی صوبائی خودمختاری کا درجہ حاصل ہے جس کے تحت اسے راجہ سبھا اور لوک سبھا یعنی پارلیمنٹ اور سینٹ دونوں میں نمائندگی حاصل ہے جبکہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کے تحت ریاست کی متنازعہ حیثیت کو محفوط بھی رکھا گیا ہے۔ دوسرا حصہ پاکستان کے زیر انتظام خود مختار ریاست آزاد جموں و کشمیر ہے جسے داخلی خود مختاری حاصل ہے اور یہاں‌ بھی سٹیٹ سبجیٹ رول کے نفاذ کے ذریعے اس کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم اور محفوظ کیا گیا ہے۔ تیسرا حصہ شقصم اور اقصائے چین ہے جو چین کے قبضے میں‌ ہے جبکہ چوتھا اور سب سے محروم حصہ گلگت بلتستان ہے جسے نہ پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے اور نہ ہی داخلی خود مختاری بلکہ ایک غیر آئینی صوبے کا لولی پاپ دے کر علاقے کے بیس لاکھ عوام کو بے وقوف بنا کر رکھا گیا ہے۔ الغرض گلگت بلتستان ایسے تمام حقوق سے محروم ہے جو ایک متنازعہ علاقے (بھارتی زیرانتظام اور پاکستانی زیر انتظام جموں‌و کشمیر)کے لیے حاصل ہیں۔ جبکہ پاکستان ہی کے زیر انتظام آزاد جموں و کشمیر ریاست کو دفاع، خارجہ اور کرنسی کے علاوہ تقریباً تمام دیگر ریاستی امور میں داخلی خود مختاری حاصل ہے۔ ان کا اپنا آئین، جھنڈا، صدر، وزیر اعظم، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ، پبلک سروس کمیشن وغیرہ موجود اور فعال ہیں اسی طرح سٹیٹ سبجیکٹ رول کے تحت سرزمین کشمیر کا تحفظ کیا جاتا ہے اور کوئی بھی غیر مقامی وہاں زمینوں کی خرید و فروخت نہیں کر سکتا۔
اگرچہ آئین پاکستان میں گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کا بھی ذکر موجود نہیں ہے مگر اقوام متحدہ کے مسئلہ کشمیر کے مطابق گلگت بلتستان متنازعہ کشمیر کا حصہ ہے۔ پاکستان کے پاس موجود دو حصوں میں سے ایک حصے یعنی آزاد کشمیر کو خود مختاری دی گئی ہے لیکن گلگت بلتستان کو یہ خود مختاری حاصل نہیں ہے۔

گلگت بلتستان کے سیاسی حقوق کے حل کے لیے ممکنہ آپشنز

گلگت بلتستان کے سیاسی حقوق کے مستقل کے لیے ممکنہ طور پر کئی حل موجود ہیں۔

پانچواں صوبہ

 گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں آئینی صوبہ بنایا جائے۔ مگر اسے آئینی صوبہ بنانے کے لیے حکومت پاکستان کو اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر سے متعلق جمع قرارداد میں اپنے اصولی موقف میں تبدیلی اور پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم لانی ہوگی جس کے بعد علاقے میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جانا ہے۔ پاکستان نے یہ امید بھی لگا رکھی ہے کہ جب بھی مسئلہ کشمیر پر پیش رفت ہو اور پورے متنازعہ خطے میں استصواب رائے کیا جائے تو تقریبا تہتر ہزار مربع کلومیٹر رقبے کے بیس لاکھ باشندے یعنی گلگت بلتستان کا ووٹ مکمل طور پر پاکستان کے حق میں ہوگا جس سے مجموعی صورت حال پاکستان کے حق میں جائے گی۔ ایک بہانہ یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ پاکستان جی بی کو فی الحال آئینی صوبہ نہیں بنانا چاہتا تاکہ بھارت کشمیر پر اپنا موقف مضبوط نہ کر لے۔ بھارت سے کئی جنگیں لڑنے، ہزاروں جانیں دینے اور کھربوں ڈالر کے قومی وسائل خرچ کرنے کے بعد کشمیر کی قیمت پر شاید پاکستان گلگت بلتستان کو کبھی بھی مکمل آئینی صوبہ نہ بنائے، اس کے علاوہ کشمیری قیادت بھی اس کی شدید مخالفت کرتی ہے۔ چنانچہ آئینی صوبہ نہ بنانے کے عزم کا اظہار مختلف وفاقی وزراء سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور رہنماؤں نے متعدد بار کیا ہے۔
گلگت بلتستان میں موجودہ صوبائی شکل کسی طور پر آئینی صوبہ نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلی، گلگت بلتستان کونسل، وزیر اعلی اور گورنر خالصتاً نمائشی عنوانات ہیں۔ ان کے اختیارات دونوں ہی مقامی کونسلر سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے جس میں گلگت بلتستان کے نام کا کوئی صوبہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ کسی بھی آفیشل دستاویز، قومی نصاب سمیت دیگر لٹریچر میں گلگت بلتستان کا صوبے کے طور پر ذکر کہیں نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح عملی طور پر قومی اسمبلی، سینٹ بین الصوبائی مفادات کونسل، این ایف سی ایوارڈ سمیت کسی بھی آئینی فورم پر گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے۔ وفاق اپنے ایک وزیر اور اپنی بیوروکریسی کے ذریعے اس علاقے کو انتظامی طور پر کنٹرول کرتا ہے۔ چنانچہ گلگت بلتستان کے تمام کلیدی عہدوں پر وفاق ہی اپنے بندے بھیجتے ہیں۔ علاقے کے معاملات میں وزیر اعلیٰ سے زیادہ چیف سیکٹری کی حیثیت فیصلہ کن اور اہم ہوتی ہے جسے وفاق تعینات کرتا ہے۔

آزاد جموں و کشمیر طرز کی داخلی خود مختاری

 دوسرا حل داخلی خود مختاری دینے کا ہے۔ جی بی عوام زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے تصفیے تک اب کشمیر طرز کی خود مختار ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کو داخلی ریاست کا درجہ ملنے کی صورت میں یہاں آزاد کشمیر کی طرح کرنسی، خارجہ پالیسی، دفاع اور مواصلات وغیرہ کے معاملے میں پاکستان کے زیر انتظام ہو گا جبکہ دیگر معاملات میں گلگت بلتستان خود مختار ہوگا۔ سٹیٹ سبجیٹ رول کی بحالی کے ذریعے علاقے کی متنازعہ حیثیت کا تحفظ کیا جا سکے گا جس کی صورت میں گلگت بلتستان ریاست کے باشندے کا قانونی تعریف متعین ہوگی اور صرف وہی گلگت بلتستان میں‌ اراضی کی خریدو فروخت کر سکے گا۔  گلگت بلتستان کی مقامی قوم پرست سیاسی تنظیموں کا دیرینہ مطالبہ و موقف یہی رہا ہے جسے اب دیگر سیاسی جماعتوں‌ اور عوامی حلقوں میں بھی بڑی پذیرائی مل رہی ہے۔ 

آزاد جموں و کشمیر ریاست میں انضمام

تیسرا ممکنہ مگر علاقے کی عوام کے نزدیک انتہائی نا مطلوب آپشن یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کو موجودہ آزاد کشمیر ریاست میں ضم کیا جائے۔ کشمیری قیادت زیادہ تر اس حل کی حامی ہے مگر ستر سالوں سے کسی طرح تعامل نہ رہنے، جعرافیائی دوری اور وسائل و اختیارات میں غیر متوازن تقسیم نیز سب سے بڑھ کر گلگت بلتستان کے عوام کے اس آپشن کے لیے غیر آمادگی کے باعث یہ حل قابل عمل نہیں ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ

لہذا گلگت بلتستان کے بنیادی انسانی و سیاسی حقوق کے مسئلے پر حکومت پاکستان اسے مسئلہ کشمیر کے تصفیے تک آزاد کشمیر کی طرز پر داخلی خود مختاری دینے کے عزم کا اظہار کرے اور علاقے میں استصواب رائے (ریفرنڈم) کرانے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کو ریفرنڈم کی نگرانی کرنے کی درخواست کرے۔۔ اس حل میں مسئلہ کشمیر پر بھی فرق نہیں پڑتا اور علاقے کو اس کی خواہش کے عین مطابق سیاسی حقوق پر مبنی خود مختاری بھی حاصل ہو جائے گی۔ یہی آسان ترین اور ہر ایک کی جیت (win-win) حل ہے۔ پاکستان کے لیے بہتر یہی ہے کہ ستر سال سے پکتے ہوئے لاوے کو پھٹنے سے پہلے حل کرے۔ گلگت بلتستان میں سیاسی اصلاحات کی کمیٹیاں بناتے رہنا اور عوام کی مرضی کے بغیر ا ن پر کوئی بھی حکم نامے تھوپنا اب کسی طرح دانشمندی نہیں ہے۔ اس کی تازہ مثال وفاق میں‌ حکمران گزشتہ حکمران پارٹی مسلم لیگ نون کی جانب سے متعارف کردہ سیاسی اصلاحات بعنوان ’’گلگت بلتستان آرڈر ۲۰۱۸ کے نفاذ پر سامنے آنے والاگلگت بلتستان کا عوامی رد عمل ہے۔ 
اس پورے تناظر میں گلگت بلتستان کے باشعور جوانوں کی جانب سے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت و حقوق سے متعلق آگہی کے لیے پاکستان کے مختلف بڑے شہروں میں قومی سطح کے سیمیناروں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ لاہور، راولپنڈی، کراچی، سکردو اور گلگت میں‌ سیمیناروں کا انعقاد کیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کی مختلف سیاسی، مذہبی و سماجی تنظیموں کا ۲۰۱۳ سے مسلسل سرگرم عوامی اتحاد ’’گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی‘‘ اس آگہی مہم کو عوامی حلقوں تک پہنچا رہی ہے۔ 
مختلف تعلیمی، صحافتی، سیاسی، سماجی، مذہبی، قانونی، پالیسی ساز اور تحقیقاتی اداروں،تنظیموں اورانجمنوں سے وابستہ احباب سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ وہ بے آئین و بے آواز گلگت بلتستان کے لیے آواز اٹھانے میں گلگت بلتستان کے مہذب و باشعور جوانوں کا ساتھ دیں اور گلگت بلتستان کو آئینی بحران اور سیاسی و معاشی محرومیوں سے نکالنے کی جدو جہد میں اپنا حصہ ڈالیں۔

طلاق کا اسلامی تصور: اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز کے تناظر میں

ڈاکٹر محمد شہباز منج

اسلامی نظریاتی کونسل  کی طرف سے ، حال ہی میں اکٹھی تین طلاقوں پر سزا کی تایید کے حوالے سے طلاق کا مسئلہ ایک دفعہ پھر علمی حلقوں میں زیرِ بحث آیا ہے۔ طلاق کے بارے میں  افراط و تفریط پر مبنی رویے بالعموم اس بنا پر سامنے آتے ہیں کہ لوگ اسلام میں طلاق کی حیثیت و مشروعیت اور اس سے متعلق فقہا کے مواقف کو اچھی طرح نہیں سمجھتے۔ راقم نے کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر تفصیلی تحقیقی مطالعے کے دوران  کچھ نوٹس لیے تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے زیرِ نظر فیصلے پر اپنے تاثرات سے قبل ،حوالوں کی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان نوٹس کو  یہاں سادہ انداز سے اور اس ترتیب سے  پیش کر دیا جائے کہ  جہاں عام قارئین اسلام میں طلاق کے صحیح تصور اور اس سے متعلق فقہا کے مواقف سے آگاہ ہو سکیں،وہاں بعض اہم مسائل کے حوالے سے بنیادی فقہی مآخذ کی طرف  کیے گئے  اشارات کی روشنی میں محققین میں  زیرِ نظر موضوع سے متعلق   تفصیلی تحقیقی مطالعات   کی تحریک و تشویق پیدا ہو سکے۔

طلاق کی شرعی حیثیت

 اسلام نے معاہدۂ نکاح کو نہایت اہم اور مقدس ٹھہرایا ہے۔ اس کا اپنے ماننے والوں سے تقاضا ہے کہ شادی اور نکاح کے رشتے کو کھیل نہ سمجھا جائے، میاں بیوی حتی المقدور اس کو توڑنے سے احتراز کریں۔ میاں بیوی میں باہم اختلاف یا جھگڑا وغیرہ ہو جانا فطری سی بات ہے، لیکن اس کو جدائی پر منتج نہ ہونا چاہیے۔ اگر بات بات پر طلاق ہو گی تو دو افراد ہی نہیں کئی خاندانوں حتیٰ کہ پوری سو سائٹی پر اس کے نہایت مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ چناں چہ زوجین کے متعلقین کا فریضہ ٹھہرتا ہے کہ وہ ان میں کشیدگی کی صورت میں مل کر اصلاح کی کوشش کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ  ہے:
 وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُما(النساء 35:4)
“ اگر تمھیں ان دونوں میں کشیدگی کا خوف ہو، تو ایک حکم اس (مرد) کے اہل خانہ میں سے اور ایک حکم اس (عورت) کے اہل خانہ میں  سےمقر رکرو۔ (اور اصلاح کی کوشش کرو) اگر وہ اصلاح کے خواہش مند ہوں گے، تو اللہ ان میں موافقت پیدا کر دے گا۔”
اسلام عقدِ نکاح کو باقی رکھنے کا اس درجہ خواہاں ہے کہ بیوی ناپسند ہو تو بھی صبر کے ساتھ نباہ کا حکم دیتا ہے: 
فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شيئا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا (النساء19:4) 
“اگر تم انھیں (یعنی اپنی بیویوں کو) ناپسند بھی کرتے ہو (تو بھی ان سے برا سلوک نہ کرو) عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو، لیکن اللہ نے اس میں بڑی بھلائی رکھی ہو۔”
 اگر بیوی کو شوہر سے شکایت ہو تو اسے بھی صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ اپنے خاوند کے برے سلوک پر صبر کرنے والی بیوی فرعون کی بیوی آسیہ کا سا اجر پائے گی۔ تاہم اسلام اعتدال پسند دین ہے۔ وہ لوگوں کو مجبور و لاچار نہیں بناتا اور نہ ان پر ناقابلِ برداشت پابندیاں عائد کرتا ہے۔ بعض اوقات ایسی صورت ِحال پیدا ہو جاتی ہے کہ میاں بیوی کا عقدِ نکاح میں بندھے رہنا محال ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں اسلام نے اس بات کی گنجائش رکھی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو سکیں۔ طلاق کے جائز ہونے کا ثبوت متعدد آیات قرآنی (مثلاً البقرہ 227:2 تا 232 ) اور احادیثِ نبوی سے ملتا ہے۔ تاہم یہ باور کرانے کی سعی برابر کی گئی ہے کہ طلاق کو معمول اور مشغلہ نہ بنایا جائے اور اسے نہایت مجبوری کے عالم میں آخری حل اور چارۂ کار کے طورپر استعمال کیا جائے۔ حدیث نبوی ہے:
اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلَّاقُ (ابو داؤد، بیہقی،دارقطنی، مصنف ابن ابی شیبہ)
“اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔”
(بعض  لوگوں اس حدیث  کے ضعیف ہونے کا “فتویٰ” دے کر اسلام میں طلاق کی ناپسندیدگی  کے تصور کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی خدمت میں ہماری  گزارش ہے کہ اس حدیث کو ایک طرف رکھ دیا جائے،  تو بھی اسلام میں طلاق کا  حلال  چیزوں میں سے ناپسندیدہ ہونا واضح ہے۔میاں بیوی میں اصلاح کی کوشش اور میاں  کو ناپسندیدگی کے باوجود  بیوی سے نباہ کی ترغیب سے متعلق اوپر درج آیات اس حقیقت کو عیاں کر رہی ہیں کہ شریعت طلاق کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو  میاں بیوی کے رشتے کو ٹوٹنے سے بچانے کی ترغیب کیوں دی جاتی!)

طلاق سے متعلق الفاظ اور ان کے اثرات

 فقہِ اسلامی کی رو سےطلاق شوہر کی طرف سے صریح الفاظِ طلاق کی ادائی سے بھی ہو جاتی ہے، اور غیر صریح یا کنایہ کے الفاظ سے بھی۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو صریح الفاظ سے طلاق دے گا ،یعنی لفظ طلاق یا اس کے مشتقات استعمال کرے گا ،تو چاہے اس کی نیت طلاق کی ہو یا نہ ہو، طلاق واقع ہو جائے گی۔ مثلاً اگر وہ کہتا ہے: اَنْتِ طَالِق، “تجھے طلاق ہے”  تو آدمی کی نیت کا اعتبار نہ ہو گا، اور طلاق پڑ جائے گی۔ اگر وہ صریح الفاظ سے طلاق نہ دے، بلکہ کنایہ کرے ،یعنی ایسے الفاظ استعمال کرے، جس کے طلاق کے علاوہ اور معنی بھی ہو سکتے ہیں ، مثلاً یوں کہے: تو جدا ہے، تو آزاد ہے، تو شوہر کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ اگر اس کی نیت طلاق کی تھی ،تو طلاق ہوجائے گی ورنہ نہیں۔ شیعہ فقہا کے نزدیک البتہ صرف صریح الفاظ ہی سے طلاق واقع ہو سکتی ہے۔

اقسامِ طلاق

 طلاق کو مختلف تناظر میں مختلف قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سنت و بدعت ہونے کے اعتبار سے یہ طلاقِ احسن، طلاقِ حسن اور طلاقِ بدعت میں منقسم ہے اور اثرات کے اعتبار سے طلاقِ رجعی، طلاقِ بائن اور طلاقِ مغلظہ میں۔ ان سب اقسام کی ضروری وضاحت درجِ ذیل ہے:

طلاقِ احسن

طلاقِ احسن طلاق کا سب سے پسندیدہ اور بہترین انداز ہے۔ اس میں خاوند اپنی بیوی کو طہر (حیض سے پاک ہونے) کی حالت میں جب کہ اس نے ابھی بیوی سے مباشرت نہ کی ہو، لفظِ طلاق کی ایک ہی دفعہ ادائی سے طلاق دیتا ہے اور عدت کے دوران اس سے مباشرت نہیں کرتا۔

طلاقِ حسن

طلاقِ حسن طلاقِ احسن سے کم پسندیدہ طریقِ طلاق ہے۔ اس میں خاوند اپنی بیوی کو تین طہر تک ہر طہر میں ایک ایک طلاق دیتا ہے اور عدت کے دوران اس سے صنفی تعلق قائم نہیں کرتا۔

طلاقِ بدعت

طلاقِ بدعت خلافِ سنت اور ناپسندیدہ طلاق ہے۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں یا ایسے طہر میں، جس میں اس نے بیوی سے مباشرت کی ہو، یا حالتِ حمل میں، یا ایک ہی مرتبہ ایک سے زیادہ الفاظ سے طلاق دے، تو وہ طلاقِ بدعت ہو گی۔

طلاقِ رجعی

طلاق رجعی وہ ہے، جس میں مرد کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے یعنی اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ رجعی طلاق دو طلاقوں تک ہوتی ہے۔ یعنی پہلی طلاق کے بعد بھی مرد کو واپسی کا اختیار ہوتا، اور دوسری کے بعد بھی۔عدت کے دوران رجوع کا حق ان الفاظِ قرآنی سے واضح ہے:
 وَ بُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا (البقرہ 228:2) 
“اور ان کے خاوند اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں تو، اس دوران ان کو واپس لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔”
 رجوع صنفی تعلق ہی سے ہو گا یا الفاظ سے بھی ہو سکتا ہے؟ اس میں فقہا کا اختلاف ہے۔ “ہدایہ”سے احناف کی یہ رائے معلوم ہوتی ہے کہ رجوع الفاظ سے بھی ہو سکتا ہے لیکن “المجموع” میں شوافع (شافعی فقہا) سے منقول ہے کہ رجوع کے باب میں محض الفاظ اور رویہ معتبر نہیں۔ مالکیہ البتہ “المدونہ الکبری” کے مطابق نیت کے ساتھ رویے کا اعتبار کرتے ہیں۔

طلاقِ بائن

پہلی اور دوسری طلاق کے بعد اگر مرد رجوع نہ کرے، اور عدت گزر جائے تو طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے۔ اب اگر عورت چاہے تو وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے:
 وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ (البقرہ 232:2) 
“جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دے دو، اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں (اپنے دیگر) خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔”
 تاہم اگر میاں بیوی راضی ہوں تو تحلیل (یعنی حلالہ) کے بغیر ہی دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ اگر طلاق صریح الفاظ کی بجائے کنایہ کے الفاظ سے دی جائے، تو بھی طلاقِ بائن واقع ہو گی۔ اس صورت میں بھی مرد رجوع نہیں کر سکے گا ،البتہ باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہو سکے گا۔ اگر شوہر کنایہ کے الفاظ سے طلاق دے، لیکن بعد میں نیتِ طلاق کا انکار کرے اور معاملہ عدالت میں چلا جائے، تو عدالت آدمی کی نیت کی تحقیق کرکے فیصلہ سنائے گی۔ طلاقِ بائن کی صورت میں میاں بیوی میں مکمل علاحدگی نہیں ہوتی بلکہ واپسی کا موقع باقی ہوتا ہے۔ طلاقِ بائن کو طلاقِ بائن بینونہ صغری بھی کہا جاتا ہے۔

طلاقِ مغلّظہ

اگر دو کے بعد تیسری طلاق بھی دے دی ،تو یہ طلاقِ مغلظہ ہو جائے گی۔ اب نہ صرف یہ کہ خاوند بیوی سے رجوع نہیں کرسکتا بلکہ اس سے نکاح بھی نہیں کر سکتا، یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کر لے۔ ارشاد خاوندی ہے:
 فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ (البقرہ 230:2) 
“پھر اگر خاوند نے اسے (تیسری) طلاق دی ،تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی،یہاں تک کہ اس کے علاوہ (دوسرے) خاوند سے نکاح کرے۔”
 طلاق مغلظہ کوطلاقِ بائن بینونہ کبری بھی کہا جاتا ہے۔

حلالہ اور اس کی روا و ناروا صورتیں

اگر عورت کو تیسری طلاق بھی ہو جائے، تو اب وہ پہلے خاوند کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتی جب تک کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے اور اور وہ اسے طلاق نہ دے دے۔ دوسرا مرد عورت کو اپنے پاس رکھنے کے بعد اپنی آزاد مرضی سے، کسی وجہ سے طلاق دے دے ،اور عورت عدت گزار کر اپنی مرضی سے سابقہ خاوند سے نکاح کر لے، تو اسے شریعت میں حلالہ یا تحلیل کہاجاتا ہے۔ یہ حلالہ کی جائز صورت ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ (البقرہ 230:2)
“ پھر اگر وہ (دوسرا خاوند) اسے طلاق دے دے، تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ باہم رجوع کر لیں۔”
 لیکن کچھ لوگ یہ کرتے ہیں کہ طلاق ہو جانے کے بعد طے شدہ پروگرام کے تحت اپنی عورت کا دوسرے مرد سے نکاح کرتے ہیں، اور پھر اس سے طلاق لے کر خود سے نکاح کر لیتے ہیں۔ حلالہ کی یہ صورت ناجائز اور بہت بڑا گناہ ہے۔ احادیث میں اس عمل سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ کوئی صاحبِ عزت اور صاحبِ شرم و حیا عورت یا مرد اس دھندے میں ملوث نہیں ہو سکتا۔ ناجائز حلالے کی صورت میں نکاح درست ہوتا ہے یا نہیں؟ اس پر فقہا میں اختلاف ہے۔ “ہدایہ” اور “بدائع الصنائع” میں احناف کی یہ رائے ہے کہ نکاح منعقد تو ہو جاتا ہے، لیکن مکروہ ہوتا ہے۔ جب کہ “مغنی المحتاج” اور “الشرح الکبیر بمع حاشیہ الدسوقی” کے مطابق فقہاے مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔

ایک مجلس کی تین طلاقوں کی حیثیت

 گو ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دینا بدعت ہے، اور سب علما اس کے ناپسندیدہ ہونے پر متفق ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسا کر ڈالے کہ تینوں طلاقیں اکٹھی ہی دے دے، تو ان کی کیا حیثیت ہو گی؟ ایسی طلاق واقع ہو گی یا نہیں؟ اگر ہو گی تو طلاق رجعی ہو گی یا بائن یا مغلظہ؟ اس پر اہلِ علم میں بڑی بحث ہے۔ احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ چاروں مذاہبِ فقہ کی عام رائے ہے کہ ایسی طلاق بدعت ہونے کے باوجود واقع ہوجائے گی، نیز یہ طلاقِ مغلظہ ہو گی اور عورت پہلے خاوند کے لیے حلالے کے بغیر حرام ہو گی۔ لیکن ابن تیمیہ، ابن قیم اور بعض دیگر اہلِ علم ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ،اور خاوند کو دورانِ عدت رجوع کا حق دیتے ہیں، جب کہ شیعہ فقہا ایسی طلاق کو طلاق ہی شمار نہیں کرتے، کیونکہ شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہے۔

مطلقہ سے حسنِ سلوک

 اسلام، جو دشمنوں سے بھی خیر خواہی کا خواہاں ہے، اس بات کوکیسے گوارا کر سکتا تھا کہ طلاق دینے والا مرد اپنی مطلقہ بیوی سے بدسلوکی کرے۔ چناں چہ اس نے حکم دیاکہ طلاق دینے والے خاوند اپنی مطلقہ بیویوں سے بھلائی اور احسان کا رویہ اپنائیں۔ اگر انھیں کوئی تحفہ دیا تھا تو وہ واپس نہ لیں، (البقرہ 229:2) ان سے رجوع کرنا ہو تو نیک نیتی سے کریں اور عزت و اکرام سے اپنے پاس رکھیں، تکلیف دینے اور زیادتی کرنے کے لیے رجوع نہ کریں۔ اگر چھوڑنا ہو تو بھلے طریقے سے چھوڑ دیں، (البقرہ 231:2) مطلقہ عورتیں حاملہ ہوں تو بچے پیدا ہونے تک اور شیر خوار بچوں کی مائیں ہوں ،تو دودھ پلانے کے زمانے تک کا ان کا خرچ اٹھائیں اور حیثیت کے مطابق اپنی رہایش ایسی رہایش فراہم کریں۔ (الطلاق 6:65)

طلاق اور اس کا اسلامی طریقہ: ایک رحمت 

طلاق اور اس کا اسلامی طریقہ بنی نوع انسان بالخصوص خواتین کے لیے ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ اللہ کے اس انعام کا صحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے، جب آدمی دیگر مذاہب اور معاشروں کے نظام ہائے نکاح و طلاق سے اس کا تقابل کر کے دیکھے۔ دیگر مذاہب اورمعاشروں میں اس حوالے سے سخت افراط و تفریط ہے۔ کہیں نکاح کا بندھن ایک کھلونا بن کر رہ گیا ہے ،اور بات بات پر طلاق ہو جاتی ہے، اور کہیں میاں بیوی کا انتہائی مجبوری و ناگواری کے عالم میں بھی ایک دوسرے سے جدا ہونا محال ہے، یہاں تک کہ بعض جگہ خاوندکے مر جانے پر بھی عورت اس کی قید سے نہیں چھوٹتی ،یا اس کے ساتھ ہی مرنے پر مجبور ہوتی ہے، اور کہیں عورت کو بار بارطلاق دینے اور بار بار واپس لے لینے کا رواج نظر آتاہے۔ نیز مطلقہ عورتوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ جب کہ اسلام کا طریقِ طلاق نہایت احسن اور رحمت و رافت کے نوع بنوع پہلوؤں سے مملو ہے، نہ طلاق ایک مشغلہ ہے نہ غیر ممکن، نہ عورت کو خاوند کے ساتھ مرنا ہے نہ بے بسی سے اس کے ظلم سہنا۔ خاوند کو اسے رکھنا ہے تو عزت سے، چھوڑنا ہے تو وقار کے ساتھ۔

ایک مجلس کی  تین طلاقوں پر سزا اور اسلامی نظریاتی کونسل کا حالیہ فیصلہ

 گذشتہ رمضان المبارک میں معروف صحافی اور اینکر جناب سبوخ سید کی میزبانی میں ایک ٹی وی پروگرام میں مسئلہ طلاق ِ ثلاثہ زیربحث آیا۔ جانبین نے اپنا اپنا موقف بیان کیا۔ ایک طرف تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کا موقف اور دوسری طرف جامعہ اشرفیہ کے ایک مفتی صاحب اس پر مصر کی فقہا بیک وقت تین طلاقوں کے انعقاد کے قائل ہیں، لہذا نھیں تین شمار نہ کرنے کی رائے سے ہر گز اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔  مجھ سےرائے لی گئی تو میں نے عرض کیا:
“ائمۂ فقہ جو بیک وقت تین طلاقوں کے انعقاد کے قائل ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں۔بالفاظ دیگر فقہا تین طلاقیں ہونے کے قائل ہیں، دینے کے قائل نہیں۔ ایسی   طلاق کو طلاقِ بدعت قرار دینا فقہا کی اس پر ناپسندیدگی کا اظہار ہی تو ہے۔ لہذا طلاقِ بدعت کی حوصلہ شکنی کرنا فقہا کے موقف کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے!جانبین اپنی اپنی پوزیشن پر قائم رہتےہوئے ،ایسی طلاق کی حوصلہ شکنی کی تائید کر سکتے ہیں۔ سو اگر بیک وقت تین طلاقوں کے خلاف قانون سازی کی جائے تو فریقین کو قابل قبول ہوگی۔ اس رائے کو جانبین کے نمائندوں نے نہ صرف پسند کیا، بلکہ راقم کی  اس  رائے پر اتفاق ہوا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اگر اس سلسلے میں رول ادا کرے تو بہت مفید اقدام ہو گا۔”
اس سے چند دن قبل یہ خبر سنی اور27ستمبر 2018ءکے جنگ اخبار میں پڑھی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے اکٹھی تین طلاقوں پر سزا کے معاملے کی تایید کی گئ ہے ،تو بہت مسرت ہوئی۔ واقعہ یہ ہے کہ یہی موقف ہے، جو فریقین کو قابلِ قبول بھی ہے اور سوسائٹی کے بہت سے موجودہ خاندانی مسائل کے  حل  کےلئے اکسیر بھی۔ ہم اس فیصلے پر چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل محترم ڈاکٹر قبلہ ایاز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
بات کو ذرا کھولیں تو حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ  فقہا تین طلاقیں ہو جانے پر کہتے ہیں طلاق ہو جائے گی، یہ نہیں کہتے کہ طلاق یوں دینی چاہیے، یا یہ کوئی پسندیدہ طریقۂ طلاق ہے۔ بلکہ ان کے نزدیک بھی طلاق کا درست طریقہ یہی ہے کہ الگ الگ طلاق دی جائے اور سب سے اچھا طریقہ، جسے طلاقِ احسن سے تعبیر کیا جا تا ہے، یہ ہے  کہ ایک ہی طلاق دی جائےاور عدت گزرنے دی جائے۔اکٹھی تین طلاقیں ان کے نزدیک واقع ہو جاتی ہیں، لیکن یہ برا طریقۂ طلاق ہے، جس کو وہ طلاقِ بدعت سے تعبیر کرتے ہیں۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ  فقہا کی طرف سے کسی امر کے جواز کا یہی مطلب نہیں ہوتا کہ ایسا کرنا مطلوب ہے،بلکہ اس کا مطلب ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا،  بہت دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا امر واقع ہوجائے تو قانوناً موثر ہے، نہ کہ وہ ایسا کرنے کی تایید کر رہے ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر کسی فقیہ کا فتوی ٰ ہو کہ جانور کی بیٹ لگی ہو تو نماز ہو جائے گی ،اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بیٹ لگا کر نماز پڑھیں ۔بات فقط اتنی ہے کہ اگر مجبوری میں کہیں ایسا کرنا پڑ جائے، تو نماز ٹھیک ہو جائے گی ، لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔اب ذرا زیرِ بحث مسئلے کو دیکھیے۔ فقہا کا یہ کہنا کہ تین طلاقین بیک وقت دینے سے طلاق واقع ہو جائے گی ، اس کے علاوہ کیا معنی رکھتا ہے کہ طلاق منعقد ہو جائے گی! نہ یہ کہ وہ ایسے جذباتی اور احمقانہ فعل کی تایید کر رہے ہیں۔بلکہ  یہاں تو وہ خود اس کی مخالفت کر رہے، اور اسے طلاقِ بدعت قرار دے رہے ہیں۔اگر کہیں ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ لوگ نماز کے بارے میں اتنے بےپرواہ ہو جائیں کہ نماز ایسی عبادت سے متعلق طہارت و نفاست کو ملحوظ رکھنے  کی بجائے، بیٹوں وغیرہ ایسی چھوٹی نجاستوں کے ساتھ نماز پڑھنے لگیں، اور بعد کا کوئی فقیہ یا فقہی ادارہ ، بیٹ کے ساتھ نماز نہ ہونے کا فتویٰ دے یا کم ازکم ایسی نماز کو لوٹانے کا حکم دے ،تو یہ ان فقیہ کے موقف کی مخالفت کیسے ہو سکتی ہے! اس لیے کہ لوگ جو کرنے لگے ہیں یہ فقیہ کا مطلب ہی نہیں تھا۔ اسی طرح تین طلاقوں کے انعقاد کے فتوے سے ان کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ جاہل اور جذباتی  لوگ   اکٹھی تین تین طلاقین دیتے جائیں اور  چند منٹوں کے بعد حلالے کی شرم ناک صورتوں کی طرف لپک کر انسانیت کی تذلیل کا راستہ اختیار کریں۔ ایسا تو خال ہی ہوتا ہے کہ مطلقہ کہیں اور نکاح کر ے اوروہ دوسرا شخص  اتفاق سے کبھی اس کو طلاق دے دے اور وہ پہلے خاوند سے نکاح کر لے۔ جو ہو رہا ہے وہ یہی تماشا ہے ، جس میں مرد دیوسیت کی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی  بیوی کو ایک رات کے لیے دوسرے کے حوالے کر دیتا ہے، اور پھر اپنے نکاح میں لے آتا ہے۔(ازراہ تفنن کہے گئے اس جملے میں کیا تفقہ  ہے کہ حلالہ تو اس بے غیرت کا ہونا چاہیے ، جس کو نہ اپنے جذبات اور شخصیت پر کچھ کنٹرول حاصل ہے اور نہ  یہ پتہ  ہے کہ شریعت طلاق کے بارے میں فی الواقع کیا چاہتی ہے!) حوّا کی بیٹی کی اس سے بڑی تذلیل کیا ہو گی  کہ ایک احمق مرد کے احمقانہ فعل پر اس کی عزت نیلام ہو۔
بعض لوگ کہتے ہیں  کہ  فقہا یا علما اس نوع کے حلالے کی کب اجازت دیتے ہیں ! یہ حرام کاری تو لوگ خود کرتے ہیں! سوال یہ ہے کہ اس کا راستہ کیسے کھلتا ہے؟ اسی سبب سے نا کہ تین طلاقوں پر کوئی روک نہیں۔ لوگ یہ بیوقوفی کرتے ہیں اور کچھ نیم ملا  انھیں اس نوع  کے حلالے سے گزارنے کا نہ صرف  فتوی دیتے ہیں، بلکہ باقاعدہ(لاجسٹک)سپورٹ  فراہم کرتے ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طلاقِ ثلاثہ پر سزا کی بجائے انھیں قانوناً غیر موثر قرار دینا چاہیے۔ ہم سرِ دست اس  بات کے درست یا نادرست ہونے کی بحث میں نہیں  پڑنا چاہتے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ فقہا کی اکثریت اور ہمارے علما کی بھی  اکثریت تین طلاقوں کو غیر موثر ماننے کی شدید مخالفت کرے گی اور عملاً کچھ بھی حاصل نہ ہو سکے گا۔ زیرِ بحث رائے سے  اس اکثریت  کی اکثریت متفق ہو سکتی ہے۔ اسے تحفظات اسی پر ہیں کہ تین طلاقیں ہو جائیں، تو چونکہ فقہی اعتبار سے موثر ہوتی ہیں ، لہذا ان کو غیر موثر نہیں مانا جا سکتا، لیکن اگر تین واقع ہی نہ ہونے دی جائیں ، اوراس پر کوئی قانونی روک لگا دی جائے ،تو ان کے بعض لوگوں کو اگر کوئی اعتراض ہو گا تو فقط یہی کہ فقہ میں  اس پر پابندی کی روایت نہیں رہی، لیکن عموماً اور اصولاً وہ اس  پر اس لحاظ سے اتفاق کریں گے کہ طلاقِ بدعت کو وہ بھی پسند نہیں کرتے، اور اس کے سبب سوسائٹی بہت سی  نفسیاتی اور معاشرتی الجھنوں کا شکار ہوتی ہے۔
رہا یہ سوال کہ اس پر سزا کیوں رکھی جائے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ غلط کام ، جو سب کے نزدیک غلط ہے،اس سے روکنے  کا  طریقہ سزا ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سزا  بہت سخت سزا نہیں ہوگی ، لیکن  اس سے سوسائٹی  میں عام ہو ئے ہوئے طلاقِ ثلاثہ کے  فقہی ، قانونی، اخلاقی  ہر اعتبار سے  مکروہ اور اس کے نتیجے میں بروئے کار آنے والے حلالہ ایسے دیوثانہ  فعل کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

قربانی سے پہلے بال اور ناخن نہ کاٹنا ۔ جناب جاوید احمد غامدی کے موقف پر بعض اشکالات کا جائزہ

محمد حسن الیاس

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے مروی ایک روایت میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا ارادہ رکھنے والے غیر حاجیوں کو ذی الحجہ کی ابتدا سے بال اور ناخن نہ کاٹنے کی تلقین فرمائی ہے ۔روایت کے الفاظ ہیں :
اِذَا رَایتُم ہِلالَ ذِی الحِجَّةِ وَاَرَادَ اَحَدُکُم اَن یُضَحِّیَ فَلیُمسِک عَن شَعرِہِ وَاَظفَارِہِ (مسلم ،رقم ۱۹۷۷) 
“جب تم لوگ ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتاہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے۔”
استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی نے اِس روایت کو اپنی کتاب “میزان” میں قبول کیا ہے اور قربانی کا قانون بیان کرنے کے بعد لکھا ہے:
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے البتہ، اِس کے بارے میں چند باتوں کی وضاحت فرمائی ہے: 
اول یہ کہ قربانی کے مہینے میں قربانی کرنے والے نذر کی قدیم روایت کے مطابق قربانی سے پہلے نہ اپنے ناخن کاٹیں گے اور نہ بال کتروائیں گے۔” (ص ۴٠۸)
صاحب “میزان” کے اِس موقف پر اُنھی کے اصولوں کی روشنی میں بعض اصحاب علم نے درج ذیل سوالات اٹھائے ہیں:
اول، کسی ایسی خبر واحد کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے جو دین میں ایک نیااور مستقل حکم بیان کر رہی ہو؟
دوم،بال اور ناخن نہ کاٹنے کی پابندی حالت احرام میں مشروع ہے ،یہ روایت احرام کی بعض پابندیوں کو غیرحاجیوں تک کیوں پھیلا رہی ہے؟
سوم،روایت کے الفاظ اِس ہدایت کے وجوب کا تقاضا کر رہے ہیں ،پھرصاحب “میزان” نے اِسے لازمی ہدایت کے طور پر قبول کیوں نہیں کیا ؟
چہارم،صاحب “میزان” نے نذر کی جس قدیم روایت کا حوالہ دیا ہے ،اُس قدیم روایت میں ناخن تراشنے کا ذکرکیوں موجود نہیں ہے؟
پنجم،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تلقین صحابہ کے دورمیں شائع وذائع کیوں نظر نہیں آتی اور ایسے نادر عمل کو عبادات کے باب میں کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟
ششم، سیدنا عائشہ سے مروی ایک دوسری روایت میں یہ صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدی کے جانور حرم میں بھجوانے کے باوجود احرام کی کوئی پابندی اختیار نہیں کرتے تھے، جب کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت اِس کے برخلاف بعض پابندیاں عائد کر رہی ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو “میزان” میں اِس روایت کو قبول کرنے پر اٹھائے جاتے ہیں۔اِس آرٹیکل میں ہم کوشش کریں گے کہ ان سوالات کا استاذ مکرم جاوید احمدغامدی صاحب کے فہم دین کے اصولوں کی روشنی میں جائزہ لیں،اور “میزان” میں اِسے قبول کرنے کی وجوہات کو سمجھیں۔اِس لیے اِن سوالا ت پر غور و فکر سے پہلے ضروری ہے کہ اسلام میں عبادات سے متعلق صاحب “میزان” کے چند تصورات کو پیش نظر رکھا جائے۔
پہلا،یہ کہ ہر عبادت چند اعمال پر مشتمل ہوتی ہے۔ مثلاً نماز قیام ،رکوع اور سجدے سمیت کئی اعمال کا مجموعہ ہے۔یہ اعمال اپنی ذات یا واقعیت میں محض حرکات ہیں،یعنی ،قیام صرف کھڑا ہوجانا ہے۔انسان کھڑے ہونے کا یہ عمل زندگی میں کئی مواقع پر کرتا ہے،لیکن نماز میں قیام محض کھڑے ہوجانے کا نام نہیں، بلکہ یہ خدا کے سامنے فریادکناں بن کر حاضر ہونے کی علامت ہے۔یہ علامت اپنی حقیقت سے متعلق ہو کر ایک مقصد متعین کرتی ہے ۔نماز کے یہ سب اعمال انسان کے عملی وجود کی رعایت سے پرستش اوراطاعت کی علامات ہیں۔اِن علامات کووضع کرنے کا مقصد خدا کی یاددہانی اوراُس سے تعلق کے احساس کو زندہ رکھنا ہے۔ قرآن مجیدمیں نمازکے ا ِسی مقصد کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:
“ سو میری ہی بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو۔” (طٰہٰ ۲٠: ۱۴)
یہی معاملہ دیگر مراسم عبودیت کاہے۔وہ اپنے اجزا میں اگرچہ متعین حرکات ہیں، لیکن یہ اعمال کسی مقصد کی علامت کے طور پر وضع کیے گئے ہیں۔ 
دوسرا پہلو اِن عبادات کو ادا کرنے کی نوعیت کا ہے۔اسلام میں عبادات کی دو ہی نوعیتیں ہیں: پہلی، یہ کہ وہ اپنے حدود و شرائط کے ساتھ لازم کر دی گئی ہیں۔اوردوسری، یہ کہ اُن کی ادائیگی ہماری صواب دید پرہے۔ قرآن مجید نے اِس بات کی تصریح کردی ہے کہ تمام عبادات اپنے حدود وشرائط کی رعایت سے تطوعاً بھی ادا کی جا سکتی ہیں، یعنی نماز اگرچہ پانچ اوقات میں لازم ہے ،لیکن ہم اِن اوقات کے علاوہ اپنی خواہش سے کسی بھی وقت نفل نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ارشادفرمایاہے:
“ اور جس نے اپنے شوق سے نیکی کا کوئی کام کیا، اللہ اُسے قبول کرنے والا ہے ، اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔”  (البقرہ۲: ۱۵۸) 
عبادات، خواہ لازم ہوں یا نفل،اُنھیں تطوعا ًادا کرتے ہوئے اُن کے حدود و شرائط کا اہتمام ضروری ہے۔ مثلاً لازمی نمازوں میں جس طرح وضو کی پابندی ہے ،نفل نماز ادا کرتے وقت بھی یہ پابندی برقرار رہے گی۔اِسی طرح بعض عبادات جو مخصوص مقام اور اوقات میں مشروع ہیں،جیسے حج ،اُسے تطوعاً بھی صرف اُنھی اوقات اور مقامات پر ادا کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذ ا عبادات کے حوالے سے جودوسرا پہلو ذہن نشین رہنا چاہیے ،وہ یہ کہ تمام عبادات اپنے حدود و شرائط کی رعایت سے تطوعاً بھی ادا کی جا سکتی ہیں۔
عبادات کے حوالے سے جو تیسرا پہلو سامنے رہنا چاہیے ،وہ یہ ہے کہ تمام مراسم عبودیت جس طرح اعمال کے مجموعوں اور متعین ترتیب کے ساتھ دین میں جاری کیے گئے ہیں، اُسی طرح یہ اعمال اپنے اجزااور انفرادی حیثیت میں بھی عبادت ہی کے مشروع اعمال ہیں۔ مثلاً قیام، جس طرح رکوع اور سجدے کے ساتھ مل کر نماز میں عبادت کا عمل بنتا ہے، اُسی طرح وقوف عرفہ کے موقع پریہی قیام اپنی انفرادی حیثیت میں بھی پوری عبادت سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے نماز کے دوسرے اجزا کو انفرادی طور پر ادا کرنے پر فرمایا ہے:
“اُن کو جب خداے رحمن کی آیتیں سنائی جاتی تھیں تو سجدے میں گر پڑتے اور روتے جاتے تھے۔” (مریم ۱۹: ۵۸)  
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ نماز میںقیام اور رکوع کے بعد سجدے کیے، بلکہ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران بھی آپ سجدے کیا کرتے تھے۔اِسی طرح حج بہت سے اعمال کو ایک ترتیب سے ادا کرنے کی عبادت ہے۔طواف اِنھی اعمال میں سے ایک عمل ہے، لیکن جس طرح طواف، مناسک حج کا حصہ بن کر ایک عبادت ہے، اُسی طرح اپنی انفرادی حیثیت میں بھی عبادت کا مکمل عمل ہے۔ لہٰذا عبادات کے اعمال کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جس طرح اِنھیں دوسرے اعمال کے مجموعے میں ایک خاص ترتیب سے ادا کیا جاتا ہے، اُسی طرح یہ انفرادی حیثیت میں بھی عبادت ہی کے مشروع اعمال ہیں۔
عبادات کے اِ ن تینوں پہلوو ں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب ہم اصل سوالات پر غور کرتے ہیں۔پہلا سوال یہ تھا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ روایت دین میں ایک مستقل عمل اور نیا حکم بیان کر رہی ہے۔ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا ارادہ رکھنے والے لوگوں کو جس عمل کی تلقین فرمائی ہے ، عبادت کا وہ عمل اپنی ذات میں پہلے سے مشروع ہے۔ یہ مشروع عمل نہ صرف یہ کہ حج میں جاری ہے ،بلکہ حج میں بھی اصلاً نذر کی جس قدیم روایت سے اخذکیا گیا ہے، اُس کے شواہد بھی الہامی صحائف میں بکثرت موجود ہیں ۔اِن شواہدکے مطابق نذر کے اِن اعمال کا مقصد خود کو خدا کی رضا کے لیے اُس کے سپرد کردینا ہے۔قدیم الہامی تہذیب میں اِس مقصد کی علامت کے طور پر تین عبادات جاری تھیں: نذر کی پہلی عبادت ،خدا کے نا م پر جانور کو ذبح کرنا تھا۔ دوسری، اِس ذبیحے کو لے کر قربان گاہ کے پھیرے لگانااور تیسری، اپنا سر منڈوانا اور ناخن تراشنا تھا ۔عبادت کے یہ تینوں اعمال جس طرح ایک مجموعے کی صورت میں متعین ترتیب سے ادا کیے جاتے تھے، اُسی طرح اپنی انفرادی حیثیت میں بھی مشروع تھے۔ چنانچہ الہامی صحائف میں جہاں اِنھیں ایک ترتیب سے ادا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے،وہیں نذر کے یہ اجزا انفرادی طور پر ادا کرنے کی روایت کے طور پر بھی جاری تھے۔بائیبل میں نذر کے اِن منفرد اعمال کوایک مجموعے کی صورت میں ادا کرنے کی ہدایات اِس طرح نقل ہوئی ہیں:
“اور اس کی نذرات کی منت کے دنوں میں اس کے سر پر استرا نہ پھیرا جائے جب تک وہ مدت جس کے لیے وہ خداوند کا نذیر بنا ہے پوری نہ ہو تب تک وہ مقدس رہے اور اپنے سر کے بالوں کو بڑھنے دے۔”
“وہ اپنی نذرات کی مدت تک خداوند کے لیے مقدس ہے۔”
“اور اگر کوئی آدمی ناگہان اس کے پاس ہی مر جائے اور اس کی نذرات کے سر کوناپاک کردے تو وہ اپنے پاک ہونے کے د ن اپنا سر منڈوائے، یعنی ساتویں دن سرمنڈوائے۔”
“اور آٹھویں روز دو قمریا ں یا کبوتر کے دو بچے خیمہ اجتماع کے دروازہ پر کاہن کے پاس لائے۔”
“اور جب نذیر اپنی نذرات کے بال منڈوا چکے تو کاہن اس کے مینڈھے کا ابالا ہوا شانہ اور ایک بے خمیری روٹی میں سے اور ایک بے خمیری کلچہ لے کر اس نذیرکے ہاتھوں پر ان کو دھرے۔”
“اور کاہن ایک خطا کی قربانی کے لیے اور دوسرے کو سوختنی قربانی کے لیے گذرانے اور اس کے لیے کفارہ دے، کیونکہ وہ مردہ کے سبب سے گنہگار ٹھہرا ہے اور اس کے سر کو اسی دن مقدس کرے۔”
“پھر وہ نذیر خیمہ اجتماع کے دروازہ پر اپنی نذرات کے بال منڈوائے اور نذرات کے بالوں کواس آگ میں ڈال دے جو سلامتی کی قربانی کے نیچے ہو۔”
“پھر خداوند ان کو ہلانے کی قربانی کے طور پر خداوند کے حضور ہلائے۔ ہلانے کی قربانی کے سینہ اور اٹھانے کی قربانی کے شانہ کے ساتھ یہ بھی کاہن کے لیے مقدس ہیں اس کے بعد نذیر مے پی سکے گا۔” (گنتی۶)
گنتی کے چھٹے باب میں جس طرح نذر کی قدیم روایت کے تمام اجزا کو ایک مجموعے میں خاص ترتیب سے ادا کرنے کی ہدایات دی گئیں، اُسی طرح بائیبل کے دوسرے مقامات پر نذر کے ان اجزا پر انفرادی طور پر عمل کی روایت بھی نقل ہوئی ہے۔چنانچہ جانور کی قربانی کی صورت میں نذر کی صرف ایک عبادت ادا کرنے کے حوالے سے بائیبل میں ہے:
“اور ساتویں سبت کے دوسرے دن تک پچاس دن لینا۔تب تم خداوند کے لیے نذرکی نئی قربانی گرداننا۔” (احبار۲۳)
“اور اگر وہ منت کسی ایسے جانور کی ہے جس کی قربانی لوگ خداوند کے حضور چڑھایا کرتے ہیں تو جو جانور کوئی خداوند کی نذر کرے وہ پاک ٹھہرے گا۔” (احبار ۲۷)
“اور فرماں روا سوختنی قربانیاں اور نذر کی قربانیاں اور تپان عےدوں اور نئے چاند کے وقتو ں اور سبتو ں اور بنی اسرائیل کی تمام مقررہ عےدوں میں دے گا ۔اور خطا کی قربانی اور نذر کی قر بانی اور سوختنی قربانی اور سلامتی کی قربانیاں بنی اسرائیل کے کفارے کے لیے تیار کرے گا۔” (حزقی ایل ۴۵)
“تو اِن چیزوں کی نذر کی قربانی کاچڑھاوا خدا وند کے پاس لانا،وہ کاہن کو دیا جائے گا ،وہ اُسے مذبح کے پاس لائے۔” (احبار۲)
جانور کی قربانی کی طرح سر منڈوانا اور ناخن تراشنا بھی اپنی انفرادی حیثیت میں نذر کی عبادت کے طور پر مشروع عمل تھا۔ اِسے بائیبل میں بدن کی قربانی قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ مختلف کتابوں میں ہے:
“پَس اَے بھائِیو۔ مَیں خُدا کی رحمتیں یاد دِلا کر تُم سے اِلتماس کرتا ہُوں کہ اپنے بَدَن اَیسی قُربانی ہونے کے لِیے نذر کرو جو زِندہ اور پاک اور خُدا کو پسندِیدہ ہو۔ یہی تُمہاری معقُول عِبادت ہے۔” (رومیوں۱۲)
“اور اس وقت خداوند رب الافواج نے رونے اور ماتم کرنے اور سر منڈوانے اور ٹاٹ سے کمر باندھنے کا حکم دیا تھا۔” (یسعیاہ ۲۲)
“وہ تیری سبب سے سر منڈائیں گے اور ٹاٹ اوڑھیں گے۔وہ تیرے لیے دل شکستہ ہو کر روئیں گے اور جاں گداز نوحہ کریں گے۔”(واعظ ۲۷)
بائیبل کی درج بالا تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ قدیم الہامی روایت میں نذرکی یہ تینوں عبادات جس طرح ایک مجموعے کی صورت میں مخصوص ترتیب سے ادا کی جاتی تھیں، اُسی طرح اِنھیں انفرادی طور پر ادا کرنے کی روایت بھی جاری تھی۔ اِن تصریحات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر جانور کو ذبح کرنے کے ساتھ ، سر منڈوانے اور ناخن تراشنے کی دوسری عبادت پر ایک ساتھ عمل پیش نظر ہو تواِس صورت میں جانور کی قربانی تک سر کے بال اور ناخن بڑھنے دیے جائیں گے اور جانورکی قربانی کے بعد ہی نذر کی اِس دوسری روایت پر عمل کیا جائے گا اور سر منڈوایا اور ناخن تراشے جائیں گے۔
دین ابراہیمی کی روایت میں حج کے موقع پر نذر کی اِنھی تینوں عبادات کو جمع کردیا گیا ہے ۔چنانچہ مناسک حج میں جہاں جانور کی قربانی اور اُسے معبد کے پھیرے لگوانے کی علامت کے طور پر طواف اور سعی جاری ہے، وہیں قربانی سے پہلے بال اور ناخن نہ تراشنے اور جانور ذبح کرنے کے بعد ہی سر منڈوانے کی روایت بھی موجود ہے۔اِس عمل کی حقیقت اور فلسفہ کیا ہے؟ صاحب ”میزان“ نذر کے اِن اعمال کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ ہم اپنی جان کا نذرانہ قربانی کے جانوروں کو اُس کی علامت بنا کر بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں تو گویا اسلام و اخبات کی اُس ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس کا اظہار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی سے کیا تھا۔” (میزان ۴٠۶)
“اِس لحاظ سے دیکھیے تو قربانی پرستش کا منتہاے کمال ہے۔ اپنا اور اپنے جانور کامنہ قبلہ کی طرف کر کے ’بِسمِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ اَکبَرُ‘  کہہ کر ، ہم اپنے جانوروں کو قیام یا سجدے کی حالت میں اِس احساس کے ساتھ اپنے پروردگار کی نذر کر دیتے ہیں کہ یہ درحقیقت ہم اپنے آپ کو اُس کی نذر کر رہے ہیں۔” (میزان ۴۰۴)
“یہی نذر اسلام کی حقیقت ہے، اِس لیے کہ اسلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ سر اطاعت جھکا دیا جائے اور آدمی اپنی عزیز سے عزیز متاع، حتیٰ کہ اپنی جان بھی اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے۔ قربانی، اگر غور کیجیے تو اِسی حقیقت کی تصویر ہے۔” (میزان ۴۰۴)
“قربانی جان کا فدیہ ہے اور سر کے بال مونڈنا اِس بات کی علامت ہے کہ نذرپیش کردی گئی ہے اور اب بندہ اپنے خداوند کی اطاعت اور دائمی غلامی کی اِس علامت کے ساتھ اپنے گھر لوٹ سکتا ہے۔ یہ دین ابراہیمی کی ایک قدیم روایت ہے۔” (میزان ۳۷۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کی اِس قدیم روایت کے تمام اجزا کو جس طرح حج میں جاری کیا، اُسی طرح اِس عبادت کے ایک جز، یعنی جانور کی قربانی کو عید الاضحی میں جاری فرمایا ہے۔عید الاضحی میں جانور کی قربانی کی یہ سنت اجماع اور تواتر عملی سے منتقل ہوئی ہے اور پوری امت میں جاری ہے ۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حج میں جس طرح نذر کی تینوں روایات پر عمل کیا جاتا ہے،کیا عید الاضحی میں جانور کی قربانی کی عبادت اداکرتے ہوئے،نذرکی کوئی دوسری عبادت کی جاسکتی ہے؟ قرآن مجید نے اِس حوالے سے تمام عبادات کے بارے میں یہ بات تصریح کردی ہے کہ وہ اپنے حدود و شرائط کی رعایت سے تطوعاً بھی ادا کی جاسکتی ہیں۔ ہمارے نزدیک ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی اِس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی اِسی اجازت کے تحت حج میں جاری نذر کی اِس قدیم عبادت کو اپنے حدود و شرائط کے ساتھ تطوعاً ادا کرنے کی ترغیب دے ر ہے ہیں اورروایت میں قربانی تک بال اور ناخن نہ تراشنے کی تلقین، دونوں عبادات پر ایک ساتھ عمل کرنے کے آداب کا بیان ہے ۔حج میں چونکہ اِ ن آداب کا التزام احرام باندھنے کے بعد ہی شروع ہوجاتا ہے، جب کہ غیر حاجی کے لیے دین میں اِس کے لیے کوئی مخصوص دن مقرر نہیں کیا گیا،اِسی اجازت کو پیش نظر رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند کیا ہے کہ قربانی کے مہینے کی ابتدا ہی سے اِس پر عمل کیا جائے۔ذی الحجہ کی ابتدا سے یوم النحر تک عبادات کے اِن اوقات کی حکمت پراگر غور کیا جائے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تلقین حج میں شرکت سے محروم رہ جانے والے ایک بندہ مومن میں یہ نفسیاتی احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ حج میں موجود اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اِس عبادت کو ادا کرنے میں گویا شریک ہو گیا ہے۔
اِسی ضمن میں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر نذر کی روایت کے تحت قربانی کی سنت پر عمل ممکن نہ ہو تو کیا اِس صورت میں بھی نذر کی کوئی دوسری عبادت ادا کی جاسکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک دوسری روایت اِسے واضح کرتی ہے۔چنانچہ ایک موقع پر جب آپ سے کسی نے پوچھا کہ میرے پاس قربانی کے لیے جانور نہیں ہے،تو آپ نے فرمایا: جاو اپنے ناخن تراشو اور بال کتروا ،یہی مکمل قربانی سمجھی جائے گی۔ روایت کے الفاظ ہیں:
عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لرجل: ”امرت بیوم الاضحٰی عیدًا جعلہ اللّٰہ عز وجل لہذہ الامة“، فقال الرجل: ارایت ن لم اجد لا منیحة انثی افاضح بہا؟ قال: ”لا ولکن تاخذ من شعرک وتقلم اظفارک وتقص شاربک وتحلق عانتک فذلک تمام اضحیتک عند اللّٰہ عز وجل“(نسائی، رقم ۴۳۶۵)
“ عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی آدمی سے کہا: مجھے اضحی کے دن کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ اِسے بطور عید مناو¶ں، جسے اللہ عزوجل نے اِس امت کے لیے خاص کیا ہے۔ ایک آدمی نے پوچھا: میرے پاس تودودھ دینے والی ایک بکری ہے جو عاریتاً لی ہوئی ہے،کیا اُسی کی قربانی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ،بلکہ اپنے بال کاٹ لو، ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیرناف کی صفائی کر لو۔ اﷲکے ہاں تمھاری یہی کامل قربانی شمار ہوگی۔”
اِس روایت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ نذر کی قدیم روایت کے تمام اجزا اپنی ذات میں ایک مکمل عبادت ہیں۔اِن کی ادائیگی ایک دوسرے کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ حج میں جانور کی قربانی نفل اور اختیاری عبادت ہے ،جو ایک حاجی ترک بھی کر سکتا ہے،اِس کے باوجود سر کے بال منڈوانے کی اِس لازمی عبادت پر عمل کرتا ہے۔ لہٰذا جس طرح عید الاضحی میں جانور کی قربانی اپنے آپ کو خدا کی نذر کرنے کی ایک علامت ہے،اُسی طرح خدا کی غلامی قبول کرنے کی علامت کے طور پر سر منڈوا دینا قربانی کی دوسری عبادت ہے۔اگر غور کیا جائے تو قربانی کی یہی علامات ہیں جو انسان کو اطاعت اور سرافگند گی کی منتہا تک پہنچا دیتی ہیں ۔ قربانی کی اِس حقیقت کو قرآن مجید نے تقابل کے اسلوب میں نہایت بلیغ انداز میں بیان کیا ہے۔ارشاد ہوا ہے:
“کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ پروردگارعالم کے لیے ہے۔” (الانعام ۶: ۱۶۲)
صاحب “البیان” اِس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
“یہ نہایت خوب صورت تقابل ہے۔ بندہ مومن جیتا ہے تو روزوشب کی ہر کروٹ پر نماز میں ہوتا ہے اور مرتا ہے تو اِسی آرزو میں کہ جان و مال کی جس قربانی کے لیے وہ ہمیشہ تیار رہا، اُس کا پروردگار اُسے قبول کرلے۔ چنانچہ نماز کے مقابل میں زندگی اور قربانی کے مقابل میں موت ہے۔” (البیان ۲/ ۱۲۵)
یہی وجہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنے کی اِن عبادات کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے مناسک حج کا حصہ بنا دیا ہے۔اِن تمام پہلووں پر غور کرنے سے درج ذیل حقائق واضح ہوتے ہیں :
۱۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ روایت دین میں کوئی مستقل عمل نہیں بیان کر رہی، بلکہ نذر اور قربانی کی اُسی قدیم روایت کی ایک عبادت پر تطوعاً عمل کا بیان ہے جس عبادت کے تما م اجزا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج میں اور ایک جز کو عید الاضحی میں بطور سنت جاری فرما چکے ہیں۔
۲۔ جانور کی قربانی کی سنت اجماع اور تواترعملی سے منتقل ہوئی ہے۔قربانی سے پہلے بال اور ناخن نہ کاٹنے کی تلقین،نذر کی دونوں عبادتوں پرایک ساتھ عمل کے آداب کا بیان ہے جو حج اور قدیم الہامی روایت میں پہلے سے جاری تھے۔ 
۳۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ روایت نذر کی عبادات ادا کرنے کی تلقین اوراُن کے آداب کی یاددہانی پر مشتمل ہے ،کوئی نیا حکم ہر گز بیان نہیں کر رہی۔
“میزان” میں اِس روایت کو قبول کرنے پردوسرا سوال یہ اٹھایا گیا تھا کہ بال اور ناخن نہ کاٹنے کی پابندی حالت احرام میں مشروع ہے ،یہ روایت احرام کی بعض پابندیوں کو غیر حاجیوں تک کیوں پھیلا رہی ہے؟
اِس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اِس بات کا جائزہ لیں کہ حالت احرام میں موجود پابندیوں کی اصل حقیقت کیا ہے اور جن پابندیوں کی توسیع کی گئی ہے، اُن کی حکمت کیاہے؟
حالت احرام کی پابندیاں یہ ہیں:
۱۔ شکار کی ممانعت ۔
۲۔ زیب و زینت سے پرہیز۔
۳۔ زن و شو کے تعلقات سے اجتناب۔
۴۔ بال اور ناخن نہ کاٹنے کا التزام۔
اِن میں سے پہلی پابندی، یعنی شکار نہ کرنے کو قرآن مجید نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
“ایمان والو، احرام کی حالت میں شکار نہ مارو۔ (یہ ممنوع ہے)، اور (یاد رکھو کہ)تم میں سے جس نے جانتے بوجھتے اُسے مارا، اُس کا بدلہ تمھارے مواشی میں سے اُسی کے ہم پلہ کوئی جانور ہے، جیسا اُس نے مارا ہے، جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ یہ نیاز کی حیثیت سے کعبہ پہنچایا جائے گا، یا نہیں تو اِس گناہ کے کفارے میں مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا یا اِسی کے برابر روزے رکھنا ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کی سزا چکھے۔ اِس سے پہلے جو کچھ ہو چکا، اُسے اللہ نے معاف کر دیا ہے، لیکن اب اگر کسی نے اُسے دہرایا تو اللہ اُس سے بدلہ لے گا۔ اللہ زبردست ہے، وہ بدلہ لینے والا ہے۔” (المائدہ ۵: ۹۵)
صاحب “البیان”  اِس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
“یہ تنبیہ نہایت سخت ہے۔ ابتلا کے احکام چونکہ بندوں کی وفاداری کا امتحان ہوتے ہیں، اِس لیے اُن کی خلاف ورزی یا اُن سے بے پروائی کی سزا بھی نہایت سخت ہوتی ہے۔ خدا کے ماننے والوں کو اِس پر ہمیشہ متنبہ رہنا چاہیے۔” (البیان ۱/ ۶۷۹) 
اِس آیت سے صاف واضح ہے کہ شکار کی اِس پابندی کا تعلق اصلاً حالت احرام سے ہے ،اور اِس پابندی سے مقصود امتحان کا محل بھی حرم ہی کی سرزمین ہے۔
دوسری پابندی زیب و زینت سے پرہیز کی ہے ۔اِس کا تعلق بھی اصلاً احرام کی پابندیوں سے ہے۔ حالت احرام میں ایک انسان کا اپنا لباس ترک کر کے دو چادریں اوڑھ لینا اِسی زیب و زینت سے لاتعلقی کا اظہار ہے۔ قرآن مجید نے مناسک حج کو شعائر، یعنی علامت قرار دےا ہے ، ہم جانتے ہیں کہ ہر علامت اصلاً کسی حقیقت کا شعور قائم رکھنے کے لیے مقرر کی جاتی ہے۔ صاحب “میزان” کے نزدیک اِن علامات ِحج میں درحقیقت مومنین کی ابلیس کے خلاف ازل سے جاری جنگ کو ممثل کر دیا گیا ہے، اور احرام باندھنا بھی اِسی مشق کا حصہ ہے۔ وہ حج کے مناسک کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
“(حج میں) اللہ کے بندے اپنے پروردگار کی ندا پر دنیا کے مال ومتاع اوراُس کی لذتوں اورمصروفیتوں سے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ 
پھر ’لبیک لبیک‘ کہتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچتے اوربالکل مجاہدین کے طریقے پر ایک وادی میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔
اگلے دن ایک کھلے میدان میں پہنچ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے،اِس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا و مناجات کرتے اور اپنے امام کا خطبہ سنتے ہیں۔
تمثیل کے تقاضے سے نمازیں قصر اورجمع کرکے پڑھتے اور راستے میں مختصر پڑا¶و کرتے ہوئے دوبارہ اپنے ڈیروں پرپہنچ جاتے ہیں۔
پھر شیطان پرسنگ باری کرتے، اپنے جانوروں کی قربانی پیش کرکے اپنے آپ کو خداوند کی نذر کرتے، سرمنڈاتے اور نذر کے پھیروں کے لیے اصل معبد اورقربان گاہ میں حاضر ہوجاتے ہیں۔” (میزان ۳۷۴)
اِس کے بعد احرام کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“اِس لحاظ سے دیکھیے تو حج وعمرہ میں احرام اِس بات کی علامت ہے کہ بندہ مومن نے دنیا کی لذتوں، مصروفیتوں اور مرغوبات سے ہاتھ اٹھالیا ہے اور دو اَن سلی چادروں سے اپنا بدن ڈھانپ کر وہ برہنہ سر اور کسی حد تک برہنہ پا بالکل راہبوں کی صورت بنائے ہوئے اپنے پروردگار کے حضور میں پہنچنے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوا ہے۔” (میزان ۳۷۴)
اِس سے واضح ہوتا ہے کہ حج کے دوران زیب و زینت سے پرہیز جس طرح احرام کو لازم کرتا ہے،اُسی طرح حالت احرام میں خوشبو لگانایا کسی دوسری زینت سے بچنے کی پابندی بھی اِسی کا ناگزیر تقاضا ہے۔
تیسری پابندی زن و شو کے تعلقات سے اجتناب کی ہے، ہمارے نزدیک اِس پابندی کا تعلق حالت احرام میں اُس مقام مقدس پر حج ادا کرنے سے ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : 
“حج کے متعین مہینے ہیں ۔ سو اِن میں جو شخص بھی (احرام باندھ کر) حج کا ارادہ کر لے ، اُسے پھر حج کے اِس زمانے میں نہ کوئی شہوت کی بات کرنی ہے ، نہ خدا کی نافرمانی کی اور نہ لڑائی جھگڑے کی کوئی بات اُس سے سرزد ہونی چاہیے۔” (البقرہ ۲: ۱۹۷)
 گویا یہ پابندی اصلاً حج میں شرکت اوراِن مخصوص ایام میں اِس مقام مقدس میں مناسک حج ادا کرنے سے متعلق ہے۔یہی وجہ ہے کہ ۱٠ ذوالحجہ کو قربانی کے بعد سر منڈوا کر احرام کھول دیا جاتا ہے اور احرام کی سب پابندیاں اٹھ جاتی ہیں،لیکن اِس کے باجودزن و شو کے تعلقات اُس وقت قائم نہیں کیے جا سکتے، جب تک طواف افاضہ نہ ادا کر دیا جائے۔اِس پابندی کا تعلق محض حالت احرام سے ہوتا تو احرام اتارتے ہی اِس کی اجازت ہونی چاہیے تھی ،لیکن ہم جانتے ہیں کہ حج کی شریعت میں اِس کی اجازت نہیں ہے۔
چوتھی پابندی بال اور ناخن کاٹنے سے اجتناب کی ہے،ہمارے نزدیک اِس کا تعلق بھی محض احرام سے نہیں، بلکہ حالت احرام میں انجام دینے والی قربانی یا نذر کی اُس قدیم روایت سے ہے جسے مناسک حج کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ جس طرح حج میں طواف اور سعی نذر کی قدیم روایت کے تحت جانور کومعبد کے پھیرے لگوانے کی علامت ہیں،اِسی طرح حج میں قربانی کے بعدسر منڈوانا بھی بالکل اِسی روایت کے تحت ہے۔اِس پابندی کی ابتدا یقینا احرام باندھنے کے بعد ہوتی ہے ،لیکن اصلاً یہ نذر کی قدیم روایت کی علامات ہیں،جنھیں احرام میں اپنا لیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حج میں قربانی کے بعد ہی سر منڈوایا جاتا ہے۔
حالت احرام کی پابندیوں کی حقیقت جان لینے کے بعد اب اِس سوال پر غور کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی پابندیوںمیں سے صرف بال اور ناخن نہ کاٹنے کی تلقین کی ہے ،باقی پابندیاں کیوں نہیں بیان کیں؟ تواِس سوال کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کے موقع پر جانور کی قربانی کی صورت میں نذر کی ایک عبادت جاری کی ہے،بال اور ناخن نہ تراشنے کا تعلق محض احرام کی پابندیوں سے نہیں، بلکہ نذر کی قدیم عبادت سے ہے،اِسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کی قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص کو نذر کی ایک دوسری عبادت کے اہتمام کی تلقین کی ہے۔یہاں یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسک حج میں سے صرف نذر کی عبادات پرہی عمل کی تلقین کیوںکی؟ تواِس سوال پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور کی قربانی ،سر منڈوانے اور ناخن تراشنے اور تکبیرات تشریق کے علاوہ حج میں ادا کیے جانے والے تمام اعمال کا تعلق مقامات حج سے ہے،مثلاً طواف کا تعلق بیت اللہ سے ہے،اِسی طرح سعی کا تعلق صفا اور مروہ سے ہے،رمی کا تعلق جمرات اوروقوف کا تعلق عرفہ کے مقام سے ہے، جب کہ جانور کی قربانی،بال کتروانے اور ناخن تراشنے اور تکبیرات تشریق اپنے مقام سے مجرد ہوکر بھی اپنی حقیقت پوری طرح قائم رکھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی میں قربانی کی توسیع کی ، نذر کی عبادت سر منڈوانے اور ناخن تراشنے کی تلقین کی اور ایام تشریق میں غیر حاجیوں میں بھی تکبیرات تشریق ادا کرنے کی روایت کو جاری فرمایا۔
تیسرا سوال یہ پیش کیا گیا تھا کہ روایت کے الفاظ اِس ہدایت کو لازم قرار دینے کا تقاضا کر رہے ہیں،لیکن صاحب “میزان” نے اِسے لازمی ہدایت کے طور پر قبول نہیں کیا۔جو اہل علم اِسے لازمی ہدایت میں شمار کرتے ہیں، اُن کا استدلال یہ ہے کہ اِس روایت میں امر کا فعل نقل ہوا ہے اور صیغہ امر اصلاً وجوب کے لیے آتاہے۔ اُن کے نزدیک اِسے کسی اور معنی میں مراد لینے کے لیے قرینہ درکار ہوتا ہے ،جو یہاں مذکور نہیں، لہٰذااِس روایت میں بھی صیغہ امر کے ساتھ جو ہدا یت دی گئی ہے،وہ ایک لازمی ہدایت سمجھی جائے گی ۔ 
ہمارے نزدیک اُن کا یہ نقطہ نظر درست نہیں ہے، اِس لیے کہ کوئی مستقل دینی حکم قرآن و سنت کی محکم بنیاد کے سوا اخذ نہیں کیا جاسکتا۔دین کی تمام ہدایات قرآن و سنت کی صورت میں صحابہ کے اجماع اور قولی اور عملی تواتر کے قطعی اور بے شبہ ذرائع سے ہم تک پہنچی ہیں، جب کہ خبر واحد کا معاملہ یہ نہیں ہے۔تمام اخبار آحاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی باتوں کا تاریخی ریکارڈ ہیں، جسے لوگ ’روایت بالمعنٰی‘ کے اصول پر نقل کرتے ہیں،یعنی راویوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے کسی موقع کی کوئی بات پہنچی تو اُنھوں نے اِس کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں نقل کردیا۔ لہٰذا خبرواحد کے الفاظ سے کسی حکم کی فرضیت کا استدلال ہی نہیں کیاجاسکتا۔ مزید یہ کہ صیغہ امر سے فرضیت کا جو استدلال کیا جاتا ہے، وہ بھی محل نظر ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ صیغہ امر اصلاً وجوب کے لیے نہیں آتا۔ صیغہ امر وجوب، استحباب، اباحت، ندب، تہدید، تعجیز، احتقار، درخواست، تفویض، تعجب اور اِن کے علاوہ دیگر کئی معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے، صرف قرآن مجید میں دیکھ لیا جائے تو صیغہ امر اِن سب معنی میں استعمال ہوا۔ مثلاً ارشاد ہوا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا کُلُوا مِن طَیِبٰٓتِ مَا رَزَقنٰکُم وَاشکُرُوا لِلّٰہِ اِن کُنتُم اِیَّاہُ تَعبُدُونَ  (البقرہ۲: ۱۷۲) 
“ایمان والو، (یہ اگر اپنی اِن بدعتوں کو نہیں چھوڑتے تو اِنھیں اِن کے حال پر چھوڑو، اور) جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمھیں عطا فرمائی ہیں، اُنھیں (بغیر کسی تردد کے) کھاؤ اور اللہ ہی کے شکرگزار بنو، اگر تم اُسی کی پرستش کرنے والے ہو۔”
اِس آیت میں صیغہ امر محض اباحت کے لیے آیا ہے ، یعنی یہاں’کُلُوا‘ صیغہ امر کہہ کر ہر ایک پر طیبات کھانے کو لازم نہیں کردیا گیا، بلکہ اِس لفظ کے استعمال سے ایک غلط بات کی تردید کی گئی ہے ،اور وہ یہ ہے کہ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی جائز چیز کو دوسروں پر حرام قرار دے ،اللہ تعالیٰ نے جو طیبات پیدا کی ہیں،انھیں کھانا ہو تو بلاتردد کھایا جا سکتا ہے۔
لہٰذا یہ بات کہ امر اصلاً وجوب کے لیے آتا ہے، درست نہیں ہے۔ صیغہ امر کے معنی کی تعیین کلام کی لفظی صراحت، اُس کا سیاق، عقلی قرائن اور اسلوب ہی کرسکتا ہے۔مجرد فعل امر کو اصلاً کسی ایک معنی میں قرار دینا زبان اور بیان کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔ہر صیغہ امر کا معنی کسی کلام میں اُس مقام پر ہی طے کیا جا سکتا ہے، جہاں متکلم نے اُسے استعمال کیا ہے ۔
اب ہم غور کرتے ہیں کہ اِس روایت میں صیغہ امر کس معنی میں آیا ہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمل کے بارے میں صیغہ امر استعمال کیا ہے، وہ عمل حج میں ایک لازمی پابندی کے طور پر جاری ہے ،جسے امت نے اجماع اور تواتر عملی سے منتقل کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حج میں اِس کے وجوب پر کوئی اختلاف نہیں ہے،لیکن غیر حاجی کے لیے قربانی کی اِس عبادت کو قرآن و سنت نے لازم کیا ہے، نہ اِس روایت میں اِسے فرض قرار دینے کی لفظاً کوئی صراحت موجود ہے۔ لہٰذا یہاں صیغہ امروجوب کے معنی میں نہیں ہے۔اِس روایت میں شارع کا منشا بالکل واضح ہے کہ اگر کوئی قربانی کی عبادت ادا کرنا چاہتا ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ نذر کی ایک دوسری عبادت کا بھی اہتمام کرے۔ لہٰذا یہ ایک عبادت پر تطوعاً عمل کا بیان ہے۔چنانچہ صیغہ امر یہاں استحباب کے معنی میں ہے ۔اِسے وجوب کے معنی میں استعمال کرنے کی کوئی لفظی صراحت موجود نہیں ہے۔
بالکل یہی صورت ایک دوسری روایت میں بھی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عَن قَیسٍ، قَالَ: سَمِعتُ اَبَا مَسعُودٍ، یَقُولُ: قَالَ النَّبِیُّ صَّلَی اللّٰہُ عَلَیِہ وَسَلَّمَ: ” اِنَّ الشَّمسَ وَالقَمَرَ لاَ یَنکَسِفَانِ لِمَوتِ اَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، وَلٰکِنَّہُمَا آیَتَانِ مِن آیَاتِ اللّٰہِ، فاذَا رَاَیتُمُوہُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا“  (بخاری، رقم ۱٠۴۱) 
“ قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ اُنھوں نے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند میں گرہن کسی شخص کی موت سے نہیں لگتا ۔ یہ دونوں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں، اس لیے اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو۔”
 اِس روایت میں بھی فعل امر کے ساتھ چاند اور سورج گرہن کے وقت نماز ادا کرنے کا کہا گیا ہے۔اب یہاں فعل امر کو وجوب کے معنی میں مراد لینے کے لیے کلام میں کوئی لفظی صراحت موجود نہیں ہے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ شارع نے نماز کو صرف پانچ اوقات میں لازم قرار دیاہے ۔اِس کے علاوہ ہر نماز نفل ہے۔ لہٰذا یہاں بھی صیغہ امر استحباب ہی کے معنی میں ہوگا۔ 
ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی بعض دوسرے طرق میں صیغہ امر کے بجاے نفی موکد کا اسلوب نقل ہوا ہے، روایت کے الفاظ ہیں: ’فلا یاخذن شعرًا ولا یقلمن ظفرًا‘، (مسلم، رقم ۵۲۳۳) ہمارے نزدیک یہ اسلوب بھی استحباب ہی کے لیے ہے، تاہم تاکید کا یہ اسلوب اِس ہدایت کو استحباب موکد تک لے جاتا ہے،لیکن یہاں بھی اِس تلقین کو لازم قرار دینے کی لفظاً کوئی صراحت مذکور نہیں ہے۔
چوتھا سوال یہ تھا کہ صاحب “میزان” نے نذر کی جس قدیم روایت کا حوالہ دیا ہے ،اُن صحائف میں ناخن تراشنے کا ذکر کہیں موجود نہیں ہے۔ہمارے نزدیک اِس کی وجہ الہامی صحائف کا منفرد ادبی اسلوب ہے۔ کسی بھی ادبی کلام میں زیر بحث موضوع کے تمام اجزا کو منطقی ترتیب سے بیان کیا جاتا ہے، نہ ہر موقع پر جملہ حدود و شرائط ذکر کر کے کسی عمل کی مکمل تنقیح کی جاتی ہے، ایک ادبی کلام ہمیشہ اپنے مخاطبین کی رعایت سے رواں دواں اسلوب میں بات کرتا ہے اورکسی ہدایت کے تمام اجزا کو بیان کرنے کے بجاے ،بسا اوقات ایک جامع علامت کا حوالہ دے کر ہی پوری حقیقت بیان کر دی جاتی ہے۔بلاغت کی اصطلاح میں اِسے ’علی سبیل التغلیب‘ کا اسلوب کہا جاتا ہے ۔ الہامی صحائف میں بھی قانون و منطق کی کتابوں کی طرح قیود و شرائط اور حکم کی تحدید کا انداز نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک زندہ اور رواں ادبی کلام کی طرح گفتگو کرتے ہیں ،مثلاً دیکھیے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو جب صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ ادا کیے بغیر واپس لوٹنا پڑا تو اللہ تعالیٰ نے اُنھیں تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
“یقینا اللہ نے چاہا تو تم مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے،پورے امن کے ساتھ، اِس طرح کہ اپنے سر منڈوائیں گے اور بال کترواؤ گے، تمھیں کوئی اندیشہ نہیں ہو گا۔” (الفتح ۴۸: ۲۷)
اِس آیت میں صرف سر منڈوانے اور بال کتروانے کا ذکر ہے جو عمرے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا آخری فریضہ ہے، لیکن اِس ایک فریضے کو پورے عمرے کی ایک جامع تعبیر کے طور پر بیان کردیا گیا ہے ، جس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ عمرے کی جس عبادت کے لیے تم جا رہے ہو، اُس کے تمام مناسک پورے کرو گے،اُس کی تکمیل کے اِس منسک سمیت۔ اِس مقام پر عمرے کے تمام مناسک بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،اِس لیے کہ مخاطبین اُن سے بخوبی واقف تھے۔ لہٰذا متکلم نے محض آخری علامت کو بیان کرکے پوری حقیقت کی جانب توجہ مبذول کروا دی ہے۔
یہی اسلوب ایک دوسرے موقع پر بھی ہے، قرآن مجید نے جب یہ بتایا کہ اگر ہدی کے جانور لے کر عمرے کی نیت سے نکلے ہو، اور حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ حائل ہو جائے تو قربانی ہی اِس کا قائم مقام ہے، جب تک قربانی نہ کر دی جائے ،سر نہیں منڈوایا جائے گا، ارشاد ہوا ہے:
“اور حج و عمرہ (کی راہ اگر تمھارے لیے کھول دی جائے تو اُن کے تمام مناسک کے ساتھ اُن)کو اللہ ہی کے لیے پورا کرو، لیکن راستے میں گھر جا¶ تو ہدیے کی جو قربانی بھی میسر ہو، اُسے پیش کردو ، اور اپنے سر اُس وقت تک نہ مونڈو، جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔” (البقرہ ۲: ۱۹۶)
یہاں دیکھیے ،اصلاً مقصود یہ ہے کہ قربانی کر کے سر منڈوانے تک احرام کی پابندی ختم نہیں ہو گی ،لیکن احرام کی اِن سب پابندیوں کا ذکر نہیں کیا گیا، بلکہ صرف سر منڈوانے کا کہا گیا ،کیونکہ مخاطبین جانتے تھے کہ یہی وہ آخری عمل ہے جس کے بعد احرام کی تمام پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں،چنانچہ جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس ہدایت پر عمل کیا تو جانور ذبح کرتے ہی احرام کھول دیا۔
ہمارے نزدیک یہی وجہ ہے کہ الہامی صحائف نے نذر کی اِس عبادت میں ناخن تراشنے کا ذکر نہیں کیا، بلکہ اِسے سر منڈوانے کی ایک جامع تعبیر سے ادا کر دیا گیا ہے ،گویا ناخن تراشنے کی ہدایت اِس میں آپ سے آپ موجود ہے۔تاہم بائیبل کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو چونکہ خدا نے بطور قوم ایک ذمہ داری کے لیے منتخب کیا تھا، اِس لیے اُن میں اگر باہر سے کوئی لونڈی بھی شامل ہوتی تو پہلے وہ خود کو علامتاً خدا کی نذر کرتی، اور نذر کی جو علامات اُس موقع پر نقل ہوئی ہیں، اُن میں سر منڈوانے کے ساتھ ناخن تراشنے کا ذکر بھی صراحتاً مذکور ہے۔چنانچہ استثنا میں ہے:
“اور اُن اسیروں میں سے کسی خوبصورت عورت کو دیکھ کر تُو اُس پر فریفتہ ہو جائے اور اُس کو بیاہ لینا چاہے۔ تو تُو اُسے اپنے گھر لے آنا اور وہ اپنا سر منڈوائے اور اپنے ناخن ترشوائے۔” (کتاب استثنا ۲۱: ۱۱- ۱۲)
لہٰذا یہاں ناخن تراشنے کے صریح ذکر کے بعد سے یہ سوال مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے کہ قدیم الہامی صحائف میں سر منڈوانے کے ساتھ ناخن تراشنے کا ذکرکہیں موجودہی نہیں ہے۔
پانچواں سوال یہ تھا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تلقین دور صحابہ میں شائع و ذائع کیوں نظر نہیں آتی؟ ہمارے نزدیک، اِس سوال کا وہی درست جواب ہے جو ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے تابعی سعید بن مسیب نے دیاتھا ۔صحیح مسلم میں یہ جواب اِ س پس منظر میں نقل ہوا ہے کہ عید الاضحی سے پہلے بعض لوگوں نے بال کتروا لیے تو حمام والوں نے اُنھیں بتایا کہ سعید بن مسیب اِس سے منع کرتے ہیں۔ایک راوی کہتے ہیں کہ میں سعید بن مسیب سے ملا اور پوچھا کہ یہ لوگ جنھوں نے بال کٹوالیے ہیں ،وہ اِس عمل سے بے خبرکیوں ہیں؟ تو سعید بن مسیب نے اِس کے جواب میں کہا: ’قَد نُسِیَ وَتُرِکَ‘، یعنی بھلا دیا گیا، یوں ترک کر دیا گیا(مسلم ،رقم ۱۹۷۸)۔ اگر غور کیا جائے توسعید بن مسیب کا یہ جواب چند پہلووں کو واضح کرتا ہے:
۱۔ صحابہ کی معیت میں وقت گزارنے والے مدینے کے مشہور تابعی سعید بن مسیب کی نظر میں اِس عمل کے بارے میں پہلے لوگوں کا رویہ نہیں تھا،گویا صحابہ اِس عبادت سے پوری طرح واقف تھے ،اِس لیے کہ حج میں نذر کی یہی عبادت ہے جسے صحابہ نے اجماع اور تواتر عملی سے منتقل کیا ہے اور اُس میں کوئی اختلاف نہیں۔
۲۔ عیدالاضحی سے پہلے بال کتروانے پر حمام والوں کی تنبیہ بھی اِسی جانب اشارہ کرتی ہے کہ معاملہ یوں نہیں ہوا کہ اُس عہد کے تمام لوگ اِس عبادت پر تطوعاً عمل سے بے خبر تھے، بلکہ حمام جہاں لوگوں کے بالعموم بال تراشتے ہیں، وہاں کے لوگ بھی اِس سے بخوبی واقف ہیں۔
۳۔ سعید بن مسیب کا یہ کہنا کہ “بھلا دیا گیا اوریوں ترک کر دیا گیا”، بتاتا ہے کہ نذر کی یہ عبادت غیر حاجیوں کے لیے لازم نہیں تھی،بلکہ ایک مستحب عمل تھا، اِس لیے لوگوں کواُس درجے میں مستحضر نہیں رہا اور بعض لوگوں نے اِسے چھوڑ دیا۔
سعید بن مسیب کی اِس روایت پر غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک نفل عبادت پر تطوعاً عمل لوگوں کی نظر سے اوجھل بھی ہو سکتا ہے۔بالکل اِسی طرح کا معاملہ آج عمرے کی قربانی میں ہوا ہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حج کے مناسک میں قربانی کو شمار کیا ہے، اُسی طرح عمرے میں بھی قربانی کو جاری فرمایا ہے ،یہی وجہ ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر آپ عمرے کی نیت سے جا رہے تھے اور ہدی کے جانور آپ کے پاس تھے ،لیکن آج اگر جائزہ لیا جائے تو کم و بیش ساری امت اِسے نظر انداز اور فراموش کر کے ترک کر چکی ہے۔لہٰذا غور ہمیشہ اِس پہلو پر کرنا چاہیے کہ کسی روایت کے ترک ہونے کے اسباب کیا ہیں،نہ کہ بعض لوگوں کے نسیان اور ترک کو بنیادبنا کر کسی عمل کی نفی کر دی جائے ۔حج میں جہاںنذر کی اِ س عبادت کو لازم کردیا گیا ہے ،وہاں یہ بلا اختلاف ہر عہد میں پورے اہتمام سے جاری ہے،لیکن چونکہ غیر حاجی کے لیے یہ ایک مستحب عمل تھا ، اس لیے معاشرے میں اِس کا اہتمام اُس درجے میں نہیں تھا۔
آخری سوال سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک دوسری روایت کے بارے میں تھا۔وہ روایت کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب جو خود تو حج پر نہیں گئے، لیکن اپنے کسی ساتھی کے ہمراہ وہاں قربانی کے لیے جانور بھجوا دیا، اُنھیں یہ تردد لاحق ہوا کہ حج نہ کرنے کی صورت میں محض وہاں قربانی کرنے سے کیا احرام کی پابندیاں لازم ہو جائیں گی؟ اِس پر سیدہ عائشہ نے انھیں جواب دیا۔ روایت کے الفاظ ہیں:
عَن مَسرُوقٍ، اَنَّہُ اَتَی عَائِشَةَ، فَقَالَ لَہَا: یَا اُمَّ المُمِنِینَ، ِانَّ رَجُلاً یَبعَثُ بِالہَدی اِلَی الکَعبَةِ، وَیَجلِسُ فِی المِصرِ، فَیُوصِی اَن تُقَلَّدَ بَدَنَتُہُ، فَلاَ یَزَالُ مِن ذٰلِکَ الیَومِ مُحرِمًا حَتّٰی یَحِلَّ النَّاسُ قَالَ: فَسَمِعتُ تَصفِیقَہَا مِن وَرَاء الحِجَابِ، فَقَالَت: لَقَد کُنتُ اَفتِلُ قَلاَئِدَ ہَد¸یِ رَسُولِ اللّٰہِ صَّلَی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فَیَبعَثُ ہَدیَہُ اِلَی الکَعبَةِ، فَمَا یَحرُمُ عَلَیہِ مِمَّا حَلَّ لِلرِّجَالِ مِنَہ لِہِ، حَتّٰی یَرجِعَ النَّاسُ (بخاری، رقم ۵۲۴۶) 
“مسروق سے مروی ہے کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ ام الم¶منین، اگر کوئی شخص قربانی کا جانور کعبہ میں بھیج دے اور خود اپنے شہر میں مقیم ہو اور جس کے ذریعے سے بھیجے، اسے اس کی وصیت کر دے کہ اس کے جانور کے گلے میں (نشانی کے طور پر) ایک قلادہ پہنادیا جائے تو کیا اس دن سے وہ اس وقت تک کے لیے محرم ہو جائے گا  جب تک حاجی اپنا احرام نہ کھول لیں۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے پردے کے پیچھے ام المو¶منین کے اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر مارنے کی آواز سنی اور انھوں نے کہا: میں خودنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادے باندھتی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کعبہ بھیجتے تھے، لیکن لوگوں کے واپس ہونے تک آپ پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی تھی جو آپ کے گھر کے دوسرے لوگوں کے لیے حلال ہو ۔”
ہمارے نزدیک اِس روایت میں ایک اطلاقی سوال کا اجمالی جواب دیا گیا ہے۔ہدی کے جانور بھجوانے پر احرام کی پابندیاں اپنا لینے کی یہ غلط فہمی غالباً قرآن مجید کی اُس ہدایت سے پیدا ہوئی ہے جو حدیبیہ کے موقع پر عازمین عمرہ کودی گئی تھی کہ جب تک وہ قربانی نہ کر لی جائے، وہ سر نہیں منڈوا سکتے،یعنی وہ اپنا احرام نہیں کھولیں گے۔
سیدہ عائشہ نے اِسی غلط فہمی کا جواب دیا ہے کہ یہ پابندیاں صرف حالت احرام ہی میں ہوتی ہیں، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہدی کے جانور بھیجنے کے باوجود احرام کی پابندیاںاختیار نہیں کرتے تھے۔یہ اِس روایت کا پس منظر ہے۔اِسے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی نفی میں پیش کرنے سے پہلے چند پہلووں پر غور کرنا چاہیے:
۱۔ سوال کرنے والے نے عید الاضحی کی قربانی کے ساتھ نذر کی دوسری عبادت پر عمل کا سوال نہیں کیا ،بلکہ روایت میں زیر بحث مسئلہ ہدی کے جانوروں سے متعلق ہے ۔
۲۔ سیدہ کا جواب اِسی پس منظر میں ہے کہ احرام کی جملہ پابندیاں ہدی کا جانور بھیجنے والوں پر نہیں ہیں۔ 
۳۔ بال اور ناخن نہ کاٹنے کا اصلاً تعلق نذر کی قدیم روایت سے ہے،محض احرام کی پابندیوں سے نہیں ۔
۴۔ سیدہ عائشہ کی روایت میں قربانی کے موقع پر نذر کی ایک دوسری عبادت ادا کرنے کی نفی نہیں کی گئی ہے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو “میزان” میں قبول کرنے پر جو سوالات اٹھائے گئے تھے ،ہم نے استاذ مکرم جاوید احمد غامدی کے اصولوں کی روشنی میں اُن کا جائزہ لیا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ “میزان” میں جب کسی خبر واحد کو قبول کیا جاتا ہے تو اُس کے پس منظر میں کیا فکر کار فرما ہوتی ہے۔ صاحب “میزان” کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تلقین ایک مشروع عبادت پر تطوعاً عمل کا بیان ہے ۔اورقربانی سے پہلے بال اور ناخن نہ کاٹنا نذر کی قدیم عبادات کو جمع کرنے کے آداب کا تقاضا ہے جنھیں حج میں ایک سنت کی حیثیت سے جاری کردیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ روایت دین میں کوئی مستقل عمل بیان کر رہی ہے، نہ کوئی نیا حکم دے رہی ہے۔
ہمارے نزدیک یہی معاملہ “میزان” میں زیر بحث اُن بارہ سو سے زائد روایات کا ہے، جنھیں صاحب “میزان” نے قبول کیا ہے۔وہ تمام روایات بھی دین کے احکام کی تفہیم و تبیین پر مشتمل ہیں،اِس میں کسی قسم کا کوئی اضافہ یا کمی نہیں کر رہیں۔اِس بحث کو دقت نظر سے دیکھنے سے یہ پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کسی خبر واحد پر غور و فکر کا صحیح علمی طریقہ کیا ہے اور صاحب “میزان” کے ہاں اِس کے رد و قبول میں کس درجہ کا تفحص اور احتیاط ہے۔

مدرسہ ڈسکورسز کا سمر انٹنسو

سید مطیع الرحمٰن

مدرسہ ڈسکور سز کاسمر انٹنسو (جولائی 2018ء) نیپال میں منعقد کیا گیا ۔ یہ انٹنسو بھی گزشتہ وِنٹر انٹنسو(قطر) کی طرح علمی و فکری سر گرمیوں سے بھرپور رہا ۔ یکم جولائی تا 15 جولائی جاری رہنے والےاس پروگرام کے انعقا د کے لئے نیپال کا ایک نہایت پر فضا مقام دُلے خیل منتخب کیا گیا جو کھٹمنڈو سے تقریبا 30 کلو میٹر شما ل کی جانب واقع ہے ۔یہ نہایت حسین اور دلکش علاقہ ہے جہاں جولائی کے مہینے میں بھی گرمی کا احساس نہ ہوا۔
یہ ورکشاپ کئی لحاظ سے نہایت قیمتی تھی ۔ ایک پہلو اس کا علمی و فکری تھا جو سیمینا ر ہال کے اندرکی مختلف سرگرمیوں پر مشتمل تھا،جس میں اساتذہ کے لیکچر ز ، سوال و جواب کی نشستیں اور ڈسکشن گروپس وغیرہ شامل تھے۔دوسرا یہ کہ اس گر وپ میں کچھ امریکی اور ساؤتھ افریقی طلبہ و طالبات اور اسکالر بھی شامل تھے ، جن سے مختلف حوالوں سے گفت و شنید کے مواقع بھی میسر آتے رہے اور ان سے ان کے مذہب ، تہذیب ، سماج اور دیگر مختلف پہلوؤں سے گفتگو ہو تی رہی ۔تیسرا پہلو جو اسی قدر اہمیت کا حامل تھا، وہ ہوٹل سے باہر نیپالی سماج ، ان کے مذاہب ،ان کے رہن سہن اور ان کے طور اطوار اور روزمرہ زندگی کے مشاہدے سے متعلق تھا۔چوتھا یہ کہ ہر روز بعد از مغر ب تخلیق و ارتقا ئے کائنات سے متعلق نہایت اہم ڈاکیو مینٹری فلم Cosmos دکھائی جاتی تھی۔ 45 منٹ کےدورانیے پر مشتمل اس فلم میں کائنات کے آغاز ، حیاتِ انسانی کے ارتقا اور دیگر پہلووں سے متعلق جدید سائنسی نظریات نہایت دلچسپ انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ تخیلاتی طور پر ایک شخص ٹائم مشین کے ذریعے کائنات کی تخلیق کے مختلف مراحل میں کسی بھی دَور میں چلا جاتا ہے اور اس دور کی خصوصیات کو نمایاں کرتا  ہے۔پانچواں اور نہایت قیمتی پہلو جو ذاتی طورپر میرے لئے بڑاخاص تھا، وہ یہ کہ چند دوستوں نے ڈاکٹر ابراہیم موسی اور ڈاکٹر ماہان مر زا سےان کی ذاتی زندگی کے مختلف احوال وآثار اور ان کے علمی و فکری ارتقاء کے حوالےسے انٹر ویوز کا پروگرا م بنایا، جس میں خوش قسمتی سے میں بھی شامل تھا ۔(ان انٹرویوز کو ہمارے دوست مولانا وقار احمد صاحب تحریری شکل میں منتقل کررہے ہیں۔)
سیمینار ہال کے اندر کی علمی و فکری سر گرمیوں کا محور جن اہم موضوعات و مباحث کو بنایاگیا اور ان پر گفتگو کرنے کے لئے اعلیٰ ترین اساتذہ کو مدعو کیا گیا ،انہیں چار بنیاد ی موضوعات میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں پہلا موضوع "اسلامی قانون اور جنس ( ماضی کے نظائر اور معاصر تحدیات )" تھا ۔اس موضوع پر مختلف پہلوؤ ں سے روشنی ڈالنے کے لئے ولیم کالج امریکہ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ یعقوب کو مدعو کیا گیا۔ پہلے تین دن اسی موضوع کے لیے مختص تھے ۔ ڈاکٹر صاحبہ نےجنس اور  قانون کے حوالے سے قدیم انسانی تاریخ ، اسلامی فقہی تراث اور اسلامی قانون کو، جوزیادہ تر قدیم فقہی ذخیرے پر مشتمل ہے ، درپیش معاصر تحدیات نیز مختلف نسائی تحریکوں ( Feminist Movements) کی طرف سے مختلف اعتراضات کا جائزہ پیش کیا اور خصو صا مسلم خواتین سکالرز ،کیشا علی ،آمنہ ودوداورحنااعظم کی طرف سے اس کے مختلف جوابات (Responses) کا علمی وفکری تجزیہ پیش کیا۔ عصمت دری کے حوالے سے قانون سازی بطور خاص زیر بحث آئی اور مرحلہ وار قدیم مشرقی تہذیبوں ، موسوی اور ربّانی قوانین ، رومی اور مسیحی قانون سازی ، قبل از اسلام عرب رسوم و رواج ، اورپھر اسلام کی آمد کے بعد فقہ ِ اسلامی میں اس جرم سے متعلق قانون سازی اور اس کی بنیاد و ں پر نہایت سیر حاصل گفتگو کی  گئی۔ فقہ اسلامی کے حوالے سے خاص طورپر جو بات زیر ِ بحث آئی، و ہ یہ کہ فقہائے کرام نے جس دور میں قانون سازی کی اور فقہ اسلامی کی تشکیل  ہوئی ، اس وقت ان کے ہاں پہلے سے موجود بہت سے مفروضات ( Assumptions) تھے جو ان اصول و قوانین کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کررہے تھے۔ آج ہمیں اگر ان قوانین میں نامانوسیت اور اجنبیت محسوس ہوتی ہے اور دور جدید کے ساتھ عدم مطابقت دکھائی دیتی ہے تو  اس کی وجہ اس دور کا سماجی پس ِ منظر ہے جسے ہم مسلسل نظر انداز کرتے آرہے ہیں ۔ ڈاکٹر موصوفہ نے فرمایا کہ یہاں ہمیں ڈاکٹر فضل الرحمان کی ( Double Movement ) والا طریقہ اپنا نا پڑے گا ۔ یعنی پہلے ہم فقہا کے سماجی اور معاشرتی پس ِ منظر میں جھانکیں گے ، اور ان کے دور میں جا کر ان کی صنفی تفریق کی بنیاد پر کی گئی قانون سازی کی تفہیم حاصل کریں گے کہ انہوں نے اپنے دور کے حالات اور ماحول کو کس قدر اہمیت دیتے ہوئے اپنی سماجی فضا سے مطابقت رکھنے والے قوانین کی تشکیل کی ۔پھر ہم انہی اصولوں کی بنیاد پر دوبار واپس اپنے دور میں آئیں گے اور آج کے سماجی و معاشرتی طورو اطوار اور حالات و واقعات کے تناظر میں جدید سماجی ڈھانچے سے موافقت رکھنے والے قوانین کو مدون و مرتب کریں گے ۔
حنفی فقہ کی مشہور کتاب المبسوط کے ایک اقتباس پر بھی بحث کی گئی اور جنسی جرائم کے حوالے سے مختلف اصطلاحات اور قوانین کا جائزہ لیاگیا ۔تفصیلی مباحث سے قطع نظر ،ایک بات بڑی غیر معمولی تھی کہ ڈاکٹر صاحبہ نے وہی فقہی قوانین جو ہم نے کئی بار پڑھے اور سنے  تھے،اس قدر گہرے تجزیاتی انداز میں پیش کیے کہ شرکاء داد دیے بغیر نہ رہ سکے ۔میں نے تو دل میں تہیہ کر لیا کہ جو متون ہم نے نہایت سر سری انداز میں نظر سے گزار دیے تھے ،انہیں اسی قدر گہرے خو ض او رعمیق نظر سے دیکھوں گا ۔ میرے خیال میں اس طرح کے مطالعے کے بغیر نہ تو ہم اپنی فقہی تراث کی حقیقی تفہیم حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی نئی تحدیات سے نبر دآزما ہونے کےلئے کوئی ٹھوس بنیاد فراہم کر سکتے ہیں ۔
انٹنسو کا دوسرا اہم موضوع "اخلاقی تصورات کے نئے آفاق کے ذریعے اخلاقی تبدیلیوں کی نظریہ سازی " تھا۔اس موضوع پر تین اساتذہ نے گفتگو فرمائی جن میں پروفیسر جیرالڈ میکینی(Gerald Mackany) ، پروفیسر محمود یونس اور اس پروگرام کے روحِ رواں ڈاکٹر ابراہیم موسی شامل تھے ۔پر وفیسر جیرالڈ میکینی نے فطرت ِ انسانی اور بائیو ٹیکنالوجی کے موضوع پر نہایت اعلیٰ گفتگو فرمائی اور جدید بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی فطرت میں جوہری تبدیلیوں کے حوالے سے حالیہ پیش رفت اور مستقبل کے عزائم کے تناظر میں ،مسیحی مذہبی فکر کے چار نمائندہ مکاتب کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جو ایک طرف جدید حیاتیاتی سائنس کی تحدیات کے لئے مذہبی جواب تھا تو دوسری طرف ہمارے لئے غور وفکر کا سامان پیش کرتا تھا کہ مسیحیت کوہم سے قدرے پہلے ان مسائل کا سامنا کرنا پڑ ا ہے اور ان کی مذہبی روایت نے اس پر کیا رد عمل ظاہر کیا ہےاور اس کے کیا نتائج برآمد ہو ئے  ہیں۔
پروفیسرمحمود یونس نے، جو پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور ڈاکٹر ابراہیم موسی کی زیرِ نگرانی مقالہ لکھ رہے ہیں، فطرتِ انسانی کی فلسفیانہ تفہیم کے لیے ورکشاپ کے شرکا ء کے سامنے آٹھ مختلف سوالات رکھے ۔ خاص طورپر مذکورہ موضوع پر ملا صدراشیرازی کے فلسفے پر روشنی ڈالی ۔عالم خارج میں اشیاء کی نیچر اور نفس ِانسانی کی فطرت کا مطالعہ ملا صدرا کی توضیحات کی روشنی میں پیش کیا۔یوں فطرت ِ انسانی اور ماہیت ِ اشیاء کے حوالے سے ہماری تعقلی اور فلسفیانہ روایت کی ایک مختصر جھلک بھی ہمارے سامنے آگئی ۔
ڈاکٹر ابراہیم موسی کی گفتگو کا محور امام عبد الوہاب الشعرانی کی کتاب" ارشاد الطالبین" کے بعض صوفیانہ اور حکیمانہ مباحث تھے جن کی روشنی میں آپ نے دین کی تفہیم کے لیے لامحدود امکانات کو واضح فرمایا۔شعرانی ،ابن عربی جیسے فقید المثال صوفی کے شاگرد ہونے کے ناتے سے  چیزوں کو محدود قانونی وفقہی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ ان کے ہاں بقول ڈاکٹر صاحب ،ایک Sensibility  Poetic موجودہے،جس سے تدبر وتفکر کے امکانات (Contingencies) لامحدود ہوجاتے ہیں ۔اسی لئے ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ :
We  need to develop aesthetic sensibility.
ایک اور اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح کائنات کی ہر شے میں جمال موجودہے ،اسی طرح قرآن و سنت اور ہماری دینی روایت میں بھی یہ بدرجہ اتم موجودہے۔ جمالیاتی شعور و احساس کے بغیر کیسے ممکن ہے کہ ہم قرآن وسنت کو کماحقہ سمجھ سکیں اور اس کی وسعتوں اور ان میں موجود امکانات سے بھرپور انداز میں فائد اٹھاسکیں ۔مثلاََ الواح پر بات کرتے ہوئے شعرانی لکھتے ہیں کہ احکام کا تعلق الواح المحو و الاثبات سے ہے اور ان الواح پرلکھا ہوا مٹتا اور تبدیل ہوتا رہتا ہے اس لئے احکام قابل ِتغیر ہیں۔یوں شعرانی کی یہ بات ہمارے لئے احکام کے میدان میں نئے فکری آفاق کھول دیتی ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ تمثیلی بیانیہ میں گہرائی اور گیرائی زیادہ ہوتی ہے ،اور یہی اپروچ ہمیں شعرانی کے ہاں ملتی ہے ۔ مزید یہ کہ اس طرح کی اپروچ ہماری روایت میں اجنبی نہیں ہے ۔مثلاَ ناموس کو آنحضرت ﷺ نے جبرئیل قرار دیا لیکن بعد میں اسے خیر کے حوالے سے بھی دیکھا گیا۔اسی طرح شعرانی جبریل کے پروں کو ایک اور تناظر میں دیکھتے ہیں ۔آخر میں استاد ِمعظم نے اپنی بات کو یوں سمیٹا کہ ہم جہاں فقہ، تاریخ ، تفسیر و حدیث کی پوری روایت کا مطالعہ کرتے ہیں ،وہاں ہماری روایت کا ایک صفحہ یہ بھی ہے جو میں نے آپ کے سامنےشعرانی کی صورت میں پیش کیا ۔ آپ چاہیں تو اسے پھینک دیں ،لیکن اس تناظر میں مضمر نئی ممکنات Contingences بہر حال ہمارے لئے نئی فکری دنیائیں پیداکرسکتی ہیں۔
تیسرا بڑا موضوع "عالمگیر دنیا میں جنس ،مذہب اور قیامِ امن " تھا  جس کےلئے پروفیسر اطالیہ عمیر (Atalia Umair ) اور پروفیسر جیسن اسپرنگ (Jason Spring)کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ اس اہم موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر اطالیہ عمیر نے یہودی مذہبی لٹریچر میں عورتوں کے حوالے سے قوانین کی از سر ِ نو تشکیل کی ضرورت کو واضح کیا اور یہودی مذہبی قوانین پر ترقی پسند مفکرین خصوصا ترقی پسند خواتین کے اعتراضات اور یہودی قانون میں اس کے لئے مزید گنجائشوں پر غور کرنے کے امکانات کا جائزہ پیش کیا۔جنس اور مذہبی قوانین کے حوالے سے وہ  مسائل جو ڈاکٹر سعدیہ یعقوب نے اسلام کے حوالے سے پیش کیے ،کم و بیش اسی طرح کے مسائل یہودیت کے فقہی اور قانونی  ڈھانچے میں بھی پائے جاتے ہیں ۔
دوسری اہم بات جواس سیشن میں نمایاں طور پر سامنے آئی، وہ عالمی قیام ِ امن کے حوالے سے تھی،جس کے لئے کرنے کا بنیادی کام تمام مذاہب کے درمیان مفاہمت اور مثبت مکالمے کی فضا قائم کرناہے۔ مذہبی کشمکش اور منافرت کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم صرف اپنے مذہب کا مطالعہ کرتے ہیں جبکہ اس موضوع پر کسی دوسرے مذہب کا موقف نہ تو سننے کے لیے تیارہیں اور نہ اس پر آزادی سے غورو فکر کے عادی ہیں۔اس سلسلے میں چند وڈیوز بھی دکھائی گئیں جن میں مختلف مذاہب کے اسکالرز اور اہل علم آپس میں نہایت مثبت انداز میں اپنے اپنے مذہبی متون کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس میں تمام مذاہب کے نمائندوں کو دوسرے مذاہب کا موقف خود ان کی زبانی سننے کا موقع میسر آتا ہے۔اس مکالماتی فضا کو قائم کرنے او رقائم رکھنے کے لیے انہوں نے پانچ بنیاد ی اصول بھی بیان کیےجویہ ہیں :
1. We should develop the mutual understanding.
2. Try to release tension among the people.
3. Give  awareness of common goods and facilitate them.
4. We  can use the Methodology of Conflict Resolution Mechanisms.
5. By adopting moral values. 
چوتھا اور آخری موضوع "جنوبی ایشیا کی حالیہ مذہبی فکر میں کلامی تجدید کے راستے " تھا ۔ یہ موضوع استاد ِ محترم مولانا عمار ناصر صاحب اور محترم ڈاکٹر وارث مظہری ؔ کے حصے میں آیا ۔ڈاکٹر وارث اپنی بعض تدریسی مصروفیات کی وجہ سے ورکشا پ میں آخر تک شامل نہ رہ سکے ۔لہذا اس موضوع پر دودن استاد محترم عمارصاحب ہی نے گفتگو فرمائی ۔ 
اپنی گفتگو کے پہلے حصے میں استاد ِ گرامی قدر نے ورکشاپ کے پہلے دس دن کی پوری علمی و فکری روداد کو نہایت جامع انداز میں پیش کیا اور پھر اس موضوع کو اس کے ساتھ جوڑتےہوئے جنوبی ایشیا اور خاص طور پر بر صغیر پاک و ہند میں پچھلے دواڑھائی سو سال کی تجدیدی مساعی اور بیدار مغز مسلم علماو مفکرین اور اہل دانش کے چند کلامی و فکری تجدیدی کارناموں کو بحث کا موضوع بنا کر اس بات پر روشنی ڈالی کہ بر صغیر کی مذہبی روایت میں جو تبدیلیاں آئیں اوربڑے بڑے فکری سوالات سامنے آئے، ان کو اہل علم نے کیسے حل کیا۔مثلا جب ہم اس خطے یعنی بر صغیر میں سیاسی طور پر غالب تھے تو صورتحال اور تھی ،جب حکومت ختم ہو گئی تو اب نئے تصوراتِ سیاست سامنے آئے۔اب سوال یہ تھا کہ انہیں کیسے دیکھاجائے۔ ایک بڑا مسئلہ "جہاد " تھا جو کئی حوالوں سے موضوع بن گیا ۔مثلا  یہ اعتراض ہوا کہ اسلام زبردستی پر یقین رکھتا ہے ، تلوار کے ذریعے پھیلا ہے،محمد ﷺ ( معاذاللہ ) ایک تشدد پسند مذہبی  رہنما تھے، وغیرہ ۔اس کے جواب میں اسلام کے تصور جہاد کو واضح کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔نوآبادیاتی دور میں جہاد کی نوعیت پر بحث ہوئی کہ آیا اسلام میں جہاد اقدامی ہےیا دفاعی۔ پھر جب بیسویں صدی کے وسط میں مسلمان قومی ریاستیں قائم ہوناشروع ہوئیں تو اسی مسئلے کی نئی جہت سامنے آئی کہ ان مسلم ریاستوں کے غیر مسلم قوموں کے ساتھ تعلق کی نوعیت خصوصا جہاد کےتناظر میں کیا ہوگی۔اسی طرح جب نو آبادیاتی حکومت ختم ہوئی تو بر صغیر میں ایک اور بحث پیداہوئی کہ چونکہ اب مسلمان دوبارہ ماضی کی مسلم سلطنت بحال نہیں کرسکتے تو اب مستقبل کے لیے ان کا لائحہ عمل کیا ہو۔مذہبی فکر کے سامنے یہ ایک بڑا سوال یہ تھا جس کے جواب میں علماء دو نقطہ ہائے نظر سامنے آئے ۔ایک طبقے نے قومیت کے جدید تصور کو اپناتے ہوئے کہاکہ ہمیں متحدہ ہندوستا ن میں رہنا چاہیے جبکہ ایک طبقے کے نزدیک متحدہ قومیت کا تصوراسلامی اصولوں کے سراسر خلاف ٹھہرا۔اسی طرح دیگر متعدد مسائل پر شاہ ولی اللہ،مولانا حسین احمد مدنی ، سید انور شاہ کاشمیری ، عبید اللہ سندھی ، مناظر احسن گیلانی ، وحید الدین خان ، علامہ شبلی ، سر سید احمد خان اور جاوید احمد غامدی کی منتخب تحریرات کی روشنی میں برصغیر کی علمی و فکری روایت کو درپیش نئے چیلنچز اور ان کے ریسپانسز کاتجزیہ پیش کیا گیا۔
ورکشاپ میں چائے کے وقفوں ، کھانے کے دوران میں ، اور دیگر کئی مواقع پر اساتذہ ، نوٹرےڈیم یونیورسٹی کے طلبہ اور ساؤتھ افریقی مہمانوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کا موقع ملا۔ ایک سوال جو مجھ سےذاتی طور پر ساؤتھ افریقی مسلم سکالر زاور طلبہ نے بڑی دلچسپی سے پوچھا، وہ یہ تھا کہ آپ انگریزی لباس میں کلین شیو چہرے کے ساتھ پاکستان میں کیسے ایک اسلامی شعبے میں ایڈجسٹ ہو گئے ہیں۔کیا آپ کو شدید تنقید کا سامنا نہیں کر نا پڑتا؟ ان کے بقول ساؤتھ افریقہ کے ایک علاقے میں تواسے گوارا کر لیا جاتا ہے لیکن اسی ملک کے دوسرے علاقے میں جہاں زیادہ تر انڈین کمیونٹی کے علما ء ہیں ، یہ بالکل بھی قابل ِ قبول نہیں ۔میں نے بہرحال جواب کے مثبت پہلو کو ہی نمایاں کرنے کی پوری کوشش کی ۔ 
پروفیسر پروفیسرجیرالڈ مکینی (Gerald Mackeny) پاکستان کے نامورمسلم مفکر ڈاکٹر فضل الرحمان کے براہ راست شاگر د رہے ہیں ،لہذا ان سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے حوالے سے کافی دلچسپ گفتگو ہوئی۔ ایک دن جب میں پروفیسر موصوف کے ساتھ کھانے کے دوران میں گفتگو کر رہا تھا تو نوٹرے ڈیم کی ایک طالبہ بھی آگئی اور ہمارے ساتھ شریک ِ گفتگو ہو گئی ۔ بات چلتے چلتے واک (Walk)کر نے کی افادیت پر پہنچی تو پروفیسر مکینی مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا آپ واک کرتے ہیں ؟میں نے کہا کہ پہلے کر تا تھا، آج کل چھوڑی ہوئی ہے تو انہوں نے کہا کہ  You should walk . میں نے کہا، ان شاء اللہ تو اس پر ساتھ بیٹھی امریکی طالبہ قہقہہ لگا کر ہنسی اور کہا" ان شا ء اللہ "۔ میں نے سمجھا کہ شاید اسے ان شاء اللہ کے معنی معلوم نہیں۔ پوچھا تو کہنے لگی کہ جانتی ہو ں کہ اگر اللہ نے چاہا۔ خیر بات آگے بڑھ گئی ،مگر میں اس قہقہے کے بارے میں سوچتارہا جو مجھے کہہ رہا تھا کہ ایک کام جو آپ جب چاہیں کر سکتے ہیں، اس کے بارے میں بھی یہ کہنا کہ اگر اللہ چاہے تو ،یعنی اس کا م میں اللہ کی مر ضی کا کیا مطلب ؟ طالبہ کے اس قہقہے میں اس ا کا پورا Worldview جھلک رہاتھا ۔
ورکشاپ کا ایک غیرمعمولی پہلو نیپالی سماج اوران کے معاشرتی ماحول کا مشاہد ہ تھا ۔ ہر روز عصر کے بعد اتنا وقت میسر آجا تا کہ قریبی علاقوں، یہاں تک کہ گلی محلوں میں لوگوں سے ملاقات کا بھر پور مو قع ملا ۔ چند باتیں اس مشاہدے کی بھی ملاحظہ کیجئے ۔
نیپال کے ہندوانہ معاشرے میں صوفیانہ مساعی اور ان کے انداز ِ تبلیغ کی اہمیت و افا دیت کا پوری طر ح سے ادراک ہوا کہ اس طرح کے کثیر المذاہب معاشروں میں اس سے بہتر کوئی اور طریقہ یا اسلوب ِ دعوت نہیں ہو سکتا تھا۔ صو فیاکے ہاں اس قدر وسعتِ قلبی اور دیگر اہل مذاہب کے ساتھ غیر معمولی رواداری کی حکمت پوری طرح سمجھ میں آئی اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس طرح کے معاشروں میں صوفیانہ مزاج ، طر زِ تکلم اور عظیم اخلاق  ہی سے خدمت ِ اسلام کی جاسکتی ہے ۔ خاص طور پر معاصر دنیا میں اس کی افادیت اور بھی بڑھ چکی ہے ۔
نیپالی معاشرے میں عورتوں کے لباس کے حوالے سے بڑاتعجب ہوا کہ بظاہر یہ بھی ایک مذہبی معاشرہ ہے اور جگہ جگہ مذہبی شعائر اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں کے لوگ مذہب سے کس قدر متعلق ہیں، لیکن یہاں عورتوں کا لبا س وہی مغربی طرز کا ہے، یعنی جسم کے خدوخال کو پوری طرح نمایاں کرنے والا۔ ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ نیپال ہمارے ہی خطے  کا ملک ہے ،صدیوں سے مذہبی معاشرت رکھتا ہے، آخر کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے اس معاشرے نے یہ تبدیلی فورا قبول کر لی ؟ ایک جواب ذہن میں یہ آیا کہ شاید یہاں کے مذہبی رہنما اور نمائندے سوسائٹی میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکے ہیں اور اس تبدیلی کے آگے بند باندھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ لیکن پھر مزید غور کرنے سے یہ بات عیاں ہوئی کہ ہندو مذہب  کی Mythology میں ہی جسم کی عریانی موجود ہے اور جسم کے اعضا کی نمائش ان کی دیویوں کے مجسموں میں صاف دکھائی دیتی ہے۔ شاید مذہب کی فراہم کر دہ یہی بنیاد ہے جس نے اس معاشرے کو مغربی طرز کا نیم عریاں لبا س اپنانے میں کوئی رکا وٹ پیش نہیں آنے دی ۔
نیپال میں ہندو مت اور بد ھ مذہب کی عبادت گاہوں میں بھی جانے کا موقع ملا ۔بدھ ناتھ، بد ھ مت کی ایک بڑی عبادت گاہ ہے اور لوگ اس کے گرد اسی خشو ع خضوع سے طواف کر رہےتھے جیسے بیت اللہ میں مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اس میں خاص چیز ان کی عبادت کا طریقہ تھا جو کافی حد تک ہماری نماز سے ملتا جلتا تھا ۔ ہمارے ہاں اب کئی  لوگ عبادت کے صرف ظاہری پہلو کو لے کر، اس کی جسمانی افادیت پر زور دے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام فطری مذہب ہے اور سائنس بھی بتاتی ہے کہ اس طرح سے سجدہ اور رکو ع کر نے سے جسم کے فلاں فلاں اعضا تن درست رہتے ہیں اور فلاں فلاں بیماری سے حفاظت بھی ہوتی ہے ۔اگر عبادت، عبد و معبود کے تعلق سے ہٹا کر، ان ظاہری حرکات و سکنات کے افادی پہلوؤں کو ہی معیار بنانے کانام ہے تو معذرت کے ساتھ، مجھے بدھ مت کی عبادت میں افادیت کا یہ پہلو ہماری نماز سے کہیں زیادہ نظر آیا ۔ان کی عبادت کی بنائی ہوئی وڈیو جس کسی کو بھی دکھائی، اس کا پہلا تبصرہ یہی تھا کہ یہ اچھی ورزش ہے ۔
نیپال میں مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں اور بدھوں سے کافی کم ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہاں کے جتنے بھی مسلمان ہیں، ان کی اکثریت ہندوستانیوں کی ہے ۔ نیپال کے اصل باشندے بہت کم مسلمان ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر تحقیق کی جاسکتی ہے کہ مقامی آبادی کے اسلام کی طر ف بہت کم مائل ہونے میں کون کون سے عوامل کار فرما رہے ہیں ۔ یقینا  اس میں مختلف سماجی، تہذیبی، علاقائی، سیاسی ، ثقافتی ،جغرافیائی اور معاشی اسباب و علل کارفرمارہے ہوں گے جو تحقیق طلب ہیں ۔اس سے بھی دلچسپ سوال یہ ہے کہ مہاتما گوتم بد ھ کی جائے پیدائش ہونے کے باوجود یہاں خود بدھوں کی تعداد بھی بارہ پندرہ فیصد سے زیادہ کیوں نہیں ۔
نیپالی عوام کو خاص پر ٹریفک کے اصولوں کا پابندپایا اوراپنے پندرہ روزہ قیام کے دوران میں کسی بھی موٹر سائیکل سوار کو ہیلمٹ کے بغیر نہیں دیکھا ۔ایک دن کرنسی ایکسچینج کے سلسلے میں بنک جاناہوا تو وہاں گارڈ کے بیلٹ کے ساتھ لیدر کے کو ر میں پستول کی جگہ خنجر دیکھ کر کئی سوال اپنے جواب کے ساتھ ذہن میں درآئے۔
آخری دن جہاں دیگر پاکستانی اور ہندوستانی طلبا نے مدرسہ ڈسکور سز سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیا، وہاں مجھے بھی چند جملے کہنے کا موقع میسر آیا ۔ میں نے مختصر ا یہ کہا کہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے ایک جگہ مدارس کے طلبا اور ان کے نظام ِ تعلیم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ہمارے طلبا کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے کہ وہ مدرسے میں داخل ہوتے ہیں اور جب آٹھ دس سال کے بعد مدرسہ سے تحصیلِ علم کے بعد نکلتے ہیں تو باہر کی دنیا بالکل بدل چکی ہوتی ہے ۔سکہ رائج الوقت تبدیل ہوچکا ہوتا ہے ۔ زمانے کا اسلوب ذرا بھی ان کے اسلوب سے میل نہیں کھاتا ۔ اپنےدور کے مسائل سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں ۔میں نے کہا کہ میں اس مثال کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھتا ہوں ۔ میرے خیال میں بحیثیت امت ہمارا حال مدرسے کے طالب علم سے زیادہ مختلف نہیں۔زرعی دور کے آخری حصے خصو صا سو لہویں سے اٹھارویں صدی میں زوال پذیرہوکر امت ِ مسلمہ تحفظات کی چادر اوڑھ کر لمبی تان کر سو گئی اور جب ہم اٹھے تو صنعتی دور کی چکا چوند سے ہماری آنکھیں چندھیانے لگیں ۔ سما ج کا بنیادی ڈھانچہ بدل چکاتھا۔ علم و فکر کے نئے نئے زوایے متعارف ہو چکےتھے ۔خاندان کے نظام میں جوہری تبدیلیاں واقع ہو رہی تھیں۔معیشت ، معاشرت، سیاست غرض ہرشعبہ ِ زندگی کی صورت کیا سے کیا ہو چکی تھی ۔ہمارا سارا فقہی ذخیرہ زرعی دورمیں مدون و مرتب ہوا تھا، اور اس کا ایک بڑا حصہ جدید صنعتی دور سےغیر متعلق ہو چکاتھا ۔ چنانچہ کئی سو سال کے اس تغیر کو بر وقت نہ سمجھنے کی وجہ سے دانشِ عصر اور ہماری علمی روایت کے مابین کافی گہرا خلا پید اہو چکا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ مدرسہ ڈسکور سز اسی خلا کو پر کرنے کی ایک نہایت غیر معمولی کو شش ہے ۔یوں تو اس خلا کو پر کرنے کا احساس پوری دنیا میں مختلف علمی و فکری حلقوں میں موجود ہے اور اس سلسلے میں مختلف کوششیں بھی جاری ہیں، لیکن میرے خیال میں مدرسہ ڈسکورسز اپنے قبیل کی دیگر کاوشوں سے کئی لحاظ سے بہترہے ۔ چند پہلو ملاحظہ کیجئے:
پہلا یہ کہ اس بات کی ضرورت پر زور دیا گیا کہ مسلم روایت کے علمی وفکری ورثہ میں نہایت قیمتی اجزا ہیں جو نہ صرف اُس دور کے تناظرمیں مفکرین و مجتہدین کی علمی سطح سے واقفیت عطا کرتے ہیں بلکہ دور ِجدید کی تحدیات کے حوالے سے بھی نہایت ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہمیں یہ بھی سیکھنے کا موقع ملا کہ تراث کا صرف متن ہی اہمیت نہیں رکھتا، اس کے اردگرداور بین السطور بھی پوری ایک دنیا آبادہے ۔اس کے بر عکس دیگر تجددانہ مساعیا ت میں اور علمی و فکری شخصیات و تحریکا ت میں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا جس سے ہماری نئی نسل کے اذہا ن میں لاشعوری طورپر روایت کے بارے میں بد اعتمادی اور نہایت غیر محسوس طریقے سے سلف سے بدگمانی پیداہوتی جارہی ہے ۔
دوسر ا یہ کہ اس کورس کی وجہ سے اپنی تراث کے کئی اہم متون نظر سے گزرے جو مدارس کے نصاب میں شامل نہیں اور نہ ہی کبھی انہیں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ مزید یہ کہ ہر سمسٹر کے بعدکسی ملک کی تہذیب وتمدن کا براہ راست مشاہدہ موقع میسر آتا ہے جس سے نئے تہذیبی،دینی ، ثقافتی و سماجی مسائل اور چیلنجز کو براہ راست دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔
تیسری بات ا س باب میں نہایت اہم یہ ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز میں سوال تواُٹھائے جاتے ہیں لیکن ان کے طے شدہ جوابات نہیں دیے جاتے ،جس کے بارے میں کافی عرصہ غور و خوض کر تا رہاکہ آخر ایسا کیوں ہے کہ سوال تو ا ٹھایا جاتاہے، لیکن اس کا کوئی حتمی جواب نہیں دیا جاتا ۔بالآخر اس کی بنیاد ی وجہ یہ معلوم ہو ئی کہ اساتذہ ہم پر اپنا کوئی فکری ڈھانچہ مسلط نہیں کر نا چاہتے ،ان کی کوشش یہ ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ علمی و فکری آلات ( Tools) سے لیس کریں تاکہ ان سوالات کا جواب ہم بذات ِ خود تلاش کر سکیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑھ کر علمی دیانت کا مظہر اور نہیں ہو سکتا کہ کسی سوال کا حتمی جواب دے کر مزید پہلو ؤ ں پر سوچنےاو رسمجھنےکے دروازے بند نہ کر دیے جائیں۔
آخر میں پاکستانی طلبا کے کوآرڈینیٹر حافظ محمد رشید صاحب کا تذکرہ کیسے نہ کیاجائے جنہوں نے نہ صرف اپنے فرائض منصبی پوری د لجمعی کے ساتھ اد اکیے بلکہ نہایت خوبصورت انداز ِ تخاطب سے مختلف سر گرمیوں میں پاکستانی شرکا ء کو پابندی وقت اور دیگر انتظامی امور کی یاد دہانی کراتے رہے اور موقع بہ موقع اپنے ر س بھرے جملوں سے محظو ظ بھی کرتے رہے ۔
نہایت لائقِ تحسین ہیں تمام اساتذہ ، تمام منتظمین جنہوں نے اس ورکشاپ کا اہتما م و انتظام کیا اور جدید علمی و فکری موضوعات پر ایک نہایت غیر معمولی اور نئے فکری آفاق سے بھر پور نشستوں کا انعقاد کیا۔اللہ تعالیٰ سب کو بھرپور اجر سے نوازے اور ہمارے اسا تذہ کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے۔

دسمبر ۲۰۱۸ء

پاک بھارت تعلقات اور ہمارے ریاستی بیانیےمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۸)ڈاکٹر محی الدین غازی
حضرت حاجی عبد الوہابؒ کا انتقالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
آسیہ بی بی کی رہائی : سپریم کورٹ کے فیصلے کی اخلاقی و شرعی حیثیتڈاکٹر محمد شہباز منج
ہجرت رسول ﷺ کا بشریاتی مطالعہعاصم بخشی

پاک بھارت تعلقات اور ہمارے ریاستی بیانیے

محمد عمار خان ناصر

گزشتہ دنوں ایک  ٹاک شو میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے معروف کرکٹر شاہد آفریدی کے بعض تبصروں پر  سوشل میڈیا میں بحث ومباحثہ کا بازار گرم رہا۔  شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ کشمیر  کو بھارت یا پاکستان میں سے کسی کا بھی حصہ بنانےکے بجائے خود کشمیریوں کے حوالے کر دینا چاہیے۔  انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے  اپنے موجودہ صوبے نہیں سنبھالے جا رہے تو ایک اور صوبے کے انتظام وانصرام سے وہ کیسے عہدہ برآ ہوگا۔ 
شاہد آفریدی پر تنقید  کرنے والوں کی طرف سے مختلف نکتے پیش کیے گئے۔ مثلا یہ کہ یہ ایک بڑا حساس اور ٹیکنیکل مہارت کا متقاضی موضوع تھا جس کا وہ اہل نہیں تھا۔ مزید یہ کہ ایک عوامی شخصیت ہونے کی وجہ سے اس کی گفتگو سے کشمیر کے حوالے سے  ہمارے ریاستی موقف پر زد پڑی ہے  اور بھارت میں  اس کا حوالہ دے کر  اس سے بھارتی موقف   کی تائید اخذ کی گئی ہے۔  ان میں سے پہلا اعتراض تو  بظاہر  زیادہ وزن نہیں رکھتا، کیونکہ شاہد آفریدی کسی سفارتی یا آئینی فورم پر بات نہیں کر رہے تھے اور نہ ریاست کے سرکاری  ترجمان کی حیثیت سے اظہار خیال کر رہے تھے۔ ٹی  وی ٹاک شو  ایک طرح کی چوپال ہی ہوتی ہے جس میں لوگ اپنے اپنے انفرادی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔   جہاں تک دوسرے اعتراض کا تعلق ہے کہ اس گفتگو سے ہمارا قومی  یا ریاستی موقف کمزور ہوا ہے تو یہ ایک قابل توجہ بات ہے۔  البتہ ہمارے نزدیک اسے منفی انداز میں لینے کے بجائے  ریاستی اداروں کو ان تضادات کی طرف متوجہ ہونا  چاہیے جن کی وجہ سے ہمارے ریاستی  سیاسی بیانیے غیر مقبول ہو رہے ہیں اور ایک محب وطن عام آدمی میں ان کے متعلق اس طرح کے تاثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ 
مثال کے طور پر  کشمیر کے، پاکستان کی شہ رگ ہونے اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان” کو ہمارے قومی بیانیے کی حیثیت حاصل ہے، لیکن بین الاقوامی سطح پر ہمارا موقف یہ ہوتا ہے کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے تاکہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ حق خود ارادیت کا تصور اپنے حقیقی مفہوم میں تینوں آپشنز کو متضمن ہے، یعنی  کشمیری چاہیں تو پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں اور چاہیں تو خود مختار ریاست کی حیثیت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل پاکستان  کو یہ حق کیسے حاصل ہو جاتا  ہے کہ وہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے دے؟  فرض کریں، آج کشمیریوں کی سیاسی لیڈر شپ کا عمومی اتفاق رائے اس پر ہو جائے کہ وہ حق خود ارادیت ملنے پر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت کو ترجیح دیں گے تو کیا ہماری طرف سے ان کی سیاسی واخلاقی حمایت اسی سرگرمی سے جاری رہے گی جتنی کہ اب تک رہی ہے؟ سادہ لفظوں میں سوال یہ ہے کہ ہم قومی طور پر کشمیریوں کے غم میں گھل رہے ہیں یا اسے  بھارت کے ساتھ سیاسی مخاصمت میں بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں؟
اس طرح کے سوالات صرف کشمیر کے حوالے سے نہیں ہیں، بلکہ فاٹا، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے حوالے سے بھی ریاستی پالیسیاں سخت تنقید کی زد میں ہیں اور اس  طرز فکر کو قومی مفاد یا سیکیورٹی خدشات کے مصنوعی سہاروں کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے ہاں وفاق گریز سیاسی رجحانات کے حوالے سے اسٹیلبشمنٹ کی حکمت عملی ، سیاسی دانش سے بالکل عاری رہی ہے۔ اس کو ایک ہی سادہ حل نظر آتا ہے کہ ایسی آوازوں کو اٹھنے ہی نہ دیا جائے تاکہ یہ لگے کہ ایسی کوئی آواز موجود ہی نہیں۔ اس کے مقابلے میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کا سیاسی نظام بنانے والوں کی بصیرت کو دیکھیے جنھوں نے پچاس سے زیادہ ریاستوں کو پوری داخلی آزادی، حتی کہ فیڈریشن سے الگ ہونے تک کا آئینی اختیار دیتے ہوئے اس طرح وفاقی نظام کے ساتھ جوڑا ہوا ہے کہ کوئی ریاست جبر کے تحت نہیں بلکہ خود اپنے سیاسی واقتصادی مفاد کی وجہ سے الگ ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ وہاں مختلف ریاستوں میں فیڈریشن سے الگ ہونے کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں، ریاست کی خارجہ پالیسی پر زوردار تنقیدیں ہوتی رہتی ہیں، طاقت پر قابض مافیاز کے گٹھ جوڑ کو منکشف کیا جاتا رہتا ہے، لیکن سسٹم کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوتا، کیونکہ وہ حب الوطنی جیسی مصنوعی اور فرضی بنیادوں پر کھڑا نہیں کیا گیا۔ فیڈریشن کودیرپا بنیادوں پر مستحکم رکھنے کا ایک ہی اصول ہے کہ اکائیوں کو فیصلہ سازی میں پوری طرح شریک کیا جائے، وسائل میں انھیں ان کا پورا حصہ دیا جائے اور جبر اور دھونس سے ان پر فیصلے مسلط کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر اس کے لیے مشرقی پاکستان جیسے طور طریقے اختیار کیے گئے تو نتائج بھی اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔ مشرقی اور مغربی، دونوں سرحدوں پر مخالف قوتوں کے اتحاد نے، جس کے لیے زمین ہموار کرنے میں خود ہماری ریاستی پالیسیوں کا بنیادی دخل ہے، پاکستان کے لیے بے حد نازک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے شکایات اور تنقیدات کا منہ بند کرنے کی نہیں، انھیں ہمیشہ سے زیادہ توجہ سے سننے اور ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔
اس صورت حال میں سرحد کے دونوں طرف کے اہل دانش  کو ایک سخت اخلاقی آزمائش کا سامنا ہے۔  چند ماہ قبل الجزیرہ کے ٹاک شو اپ فرنٹ میں بھارت کے معروف دانش ور اور مورخ ششی تھرور اور پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے مابین ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا۔  ششی تھرور کی گفتگو کا وہ حصہ انتہائی تکلیف دہ تھا جس میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کو رد عمل کے اصول پر جواز مہیا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ششی تھرور کی شہرت برصغیر میں استعماری دور کے مطالعات کے ایک ماہر کی ہے اور یقینا انھوں نے اپنی تصانیف میں اٹھارہ سو ستاون کے بعد باغیوں کے خلاف انگریزی حکومت کے ظالمانہ اقدامات پر بھی گفتگو کی ہوگی۔ معلوم نہیں کہ آیا رد عمل کے اصول پر انھوں نے وہاں بھی استعماری جبر کو جواز فراہم کیا ہے یا نہیں۔ 
اسی نوعیت کی اخلاقی آزمائش کا سامنا سرحد کے اس پار کے اہل دانش کو بھی ہے۔ ہماری قطعی رائے ہے کہ فلسطین، کشمیر، اراکان، بلوچستان، گلگت بلتستان اور فاٹا جیسے مسائل، درجے کے فرق کے ساتھ، جدید سیاسی وریاستی نظام سے پیدا ہونے والی ایک ہی صورت حال کے مظاہر ہیں اور ان سب کے متعلق ایک ہی بنیادی اخلاقی موقف اختیار کرنا باضمیر اہل دانش کی ذمہ داری ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حدود میں واقع مذکورہ خطوں کے سیاسی حقوق کی آواز بھی اٹھائی جائے۔ ہماری وابستگی حق اور انصاف  کے ساتھ ہونی چاہیے، نہ کہ کسی نام نہاد ’’قومی مفاد” کے ساتھ۔ اس وقت دونوں اطراف کے باضمیر اہل دانش کا امتحان یہی ہے کہ وہ ریاستی بیانیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اخلاق اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہوں۔ انسانیت اور اخلاقیات، ریاستوں اور ان کے مفادات سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

ابن خلدون نے سائنس (یعنی طبیعی مظاہر کے قوانین کی دریافت) میں کسی ذہن کے بڑے یا چھوٹے ہونے کو شطرنج کی مثال سے واضح کیا ہے۔ شطرنج کے ایک کھلاڑی کا دوسرے کھلاڑی سے فرق اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک کسی بھی چال کے ان نتائج کو دیکھ پاتا ہے جو تین یا چار قدم تک ہو سکتے ہیں، جبکہ دوسرے کا ذہن ان نتائج کا تصور آٹھ یا دس قدم تک کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جس آدمی کا ذہن کسی بھی عمل کےزیادہ دور رس نتائج کو سمجھ سکتا ہے، اس کا فیصلہ اسباب کی دنیا میں اس سے بہتر ہوگا جو بس قریبی نتائج تک محدود رہتا ہے۔
یہ بات سیاست کے دائرے میں بھی درست ہے۔ ایک سیاسی لیڈر اور ایک سیاسی مدبر میں یہی فرق ہوتا ہے کہ سیاسی لیڈر فوری نوعیت کے معاملات کی طرف متوجہ رہتا ہے اور اقدامات کے قریبی نتائج واثرات پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھتا ہے، جبکہ سیاسی مدبر ایک بڑے کینوس پر صورت حال کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور اپنے فیصلوں اور پالیسیوں کا تعین دور رس اثرات اور مضمرات کی روشنی میں کرتا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ کی بدقسمتی ہے کہ ہندوستان میں گاندھی اور نہرو جبکہ قائد اعظم اور پھر ایک حد تک بھٹو کے بعد بڑا سیاسی ذہن رکھنے والی قیادت ہمیں نہیں ملی، لیکن مآل کار خطے کو ان الجھنوں سے نکالنا شطرنج کے بڑے اور زیادہ ذہین کھلاڑیوں ہی کے لیے ممکن ہوگا جو دو چار چالوں میں مات کھانے کا حوصلہ رکھتے ہوں اور یہ سمجھ سکتے ہوں کہ اس طرح کی مات کھانا، کھیل کو جیتنے کے لیے ضروری ہے۔
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے لے کر پاکستان کے قیام تک کے طویل تاریخی سفر میں مسلم ہندو تعلقات کے کئی اہم مرحلے طے ہوئے۔ عہد عثمانی سے لے کر محمد بن قاسم تک،یہاں آنے والے عرب حملہ آور عموماً‌ یہیں آباد ہو گئے اور مقامی آبادی کے ساتھ مخلوط ہو گئے۔ کافی عرصے کے بعد غوری اور غزنوی وغیرہ نے اپنی طاقت کے مراکز ہندوستان سے باہر رکھ کر یہاں حملے کرنے اور مال غنیمت جمع کرنے کی اسٹریٹجی اپنائی اور یوں اول وآخر اس خطے کی تاریخ کے لیے ’’اجنبی’’ بن گئے۔ سلطنت دہلی کے قیام کے بعد یہ اجنبیت تو دور ہوئی، لیکن مسلمان حکمرانوں نے حکمران اقلیت اور محکوم اکثریت کے مابین فاصلے قائم رکھے۔ مغلوں نے، خاص طور پر اکبر نے، ان فاصلوں کو کم سے کم کرنے کے لیے ایک قدم آگے بڑھایا، لیکن بحیثیت مجموعی، مسلمان مقتدر اقلیت کی نفسیات سے پوری طرح جان نہ چھڑا سکے۔ انگریزی دور اقتدار میں شاید پہلی مرتبہ مسلم راہ نماوں نے تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے محسوس کیا کہ اس خطے کی تقدیر ان دونوں قوموں کے باہمی تعلقات کو  ایک نئی بنیاد پر استوار کرنے سے وابستہ ہے، لیکن ظاہر ہے، وہ تاریخ کی تلخیوں کو محو نہیں کر سکتے تھے۔ قائد اعظم نے اس کا حل یہ سوچا (جو معروضی حالات کے علاوہ تاریخی تناظر میں مسلم نفسیات کے تقاضوں کا بھی ایک گہرا ادراک تھا) کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں خود مختار مسلم ریاستوں یا ریاست کا قیام تعلقات کو مثبت سیاسی رخ دینے  کے عمل کی ایک دیرپا اور مضبوط اساس فراہم کرے گا، جبکہ قوم پرست مسلمانوں  کا نقطہ نظر یہ تھا کہ تقسیم کے سنگین مضمرات ونتائج کا یہ خطہ متحمل نہیں اور متحدہ قومیت کی بنیاد پر ہندوستان کی ساری قوموں کا سیاسی لحاظ سے متحد رہنا نہ صرف ممکن بلکہ بہتر ہے۔  
اس استدلال کے اصولی وزن کو  مسلم لیگ کی قیادت بھی سمجھتی تھی، چنانچہ قائد اعظم کے سیاسی موقف میں لچک کے بہت نمایاں شواہد شروع سے آخر تک ملتے ہیں۔ ۱۹۲۷ء میں کانگریس کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں انھوں نے ’’تجاویز دہلی‘‘ پیش کیں جس میں اب تک کے اپنے بنیادی مطالبے یعنی جداگانہ انتخابات سے دست برداری اختیار کر لی۔ پھر نہرو رپورٹ سامنے آنے کے بعد ابتداء اً تین ترامیم پیش کر کے مفاہمت چاہی تو اس میں بھی جداگانہ انتخابات کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔ الگ وطن کا تصور اور مطالبہ سامنے آنے کے بعد سالہا سال تک قائد اعظم نے خود کو اس موقف سے بالکل الگ رکھا، حتی کہ ۱۹۴۰ء سے غالباً ایک آدھ سال قبل اقبال کے اس خیال کو ’’غیر عملی‘‘قرار دیا کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں  ایک مسلم ریاست قائم ہونی چاہیے، اور سب سے آخر میں کابینہ مشن پلان سے اتفاق کر کے تو لچک اور مفاہمت کی آخری انتہا تک چلے گئے۔ تاہم مسلم لیگ کی سیاسی پوزیشن کے تعین میں یہ نکتہ زیادہ فیصلہ کن ثابت ہوا  کہ کانگریسی لیڈروں کا رویہ مدبرانہ اور صلح جویانہ نہیں، بلکہ مسلم لیگی قیادت کو نیچا دکھانے کا تھا۔ خود کانگریس میں شریک علماء اس پالیسی کو بحیثیت مجموعی خطے کے مفاد میں سمجھتے ہوئے بھی کانگریسی قیادت کے رویے سے شاکی تھے، جیسا کہ گاندھی وغیرہ کے نام رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے غیر مطبوعہ خطوط سے واضح ہے۔   
اس سب کے باوجود قائد اعظم کا سیاسی  ویژن یہ تھا کہ تقسیم صرف ہندو مسلم نزاعات کے ایک عملی حل کے لیے ہوگی، جبکہ ریاستی سطح پر دونوں ملک مشترک دفاع وغیرہ کے معاہدے کر کے سیاسی اعتبار سے متحد اوریک جان ہو سکیں گے اور یہ وہ نکتہ ہے جس میں ایک بڑے کینوس پر  ان کی سوچ اور قوم پرست مسلمان لیڈر شپ کی سیاسی فکر میں ایک  اشتراک پیدا ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ قوم پرست قیادت نے اس خطے کی قوموں کے درمیان تعلقات کا جو نقشہ پیش کیا تھا، ’’متحدہ ہندوستان‘‘ اس کا صرف ایک جزو تھا جو ایک وقتی اور ہنگامی سیاسی سوال کا جواب تھا۔ اس محاذ پر اس تجویز کو قومی سطح پر پذیرائی نہیں ملی، لیکن اس محدود سوال سے ہٹ کر، تاریخی وتہذیبی تناظر میں قوم پرست قائدین نے  خطے کی تقدیر کے حوالے سے جو  سیاسی تصورات پیش کیے، وہ حقیقت پسندانہ تھے اور  وہی اس خطے کی ایک مثبت تقدیر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ۴۰ء کی دہائی میں وقتی سیاسی صورت حال سے متعلق عناصر کو الگ کر دیا جائے تو ابو الکلام، مولانا سندھی اور مولانا مدنی کی تحریریں آج بھی دونوں ملکوں کے سیاسی پالیسی سازوں کے لیے راہ نمائی کا ماخذ ہیں اور  موجودہ تناظر میں  ان کا ازسرنو سنجیدہ مطالعہ کیا جانا چاہیے۔
علاقائی امن اور ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات، اس خطے کی ضرورت ہیں۔ سیاست دانوں اور افواج اور انتہا پسند پریشر گروپس کی نہ سہی، عوام کی بہرحال ضرورت ہیں۔ انسانی قدریں بھی اسی کا تقاضا کرتی ہیں اور مسلمانوں کی مذہبی ودعوتی ذمہ داریاں بھی۔ تنازعات پرامن تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہوا کرتے ہیں، تاہم پر امن تعلقات کی طرف بڑھنے کو تنازعات کے پیشگی حل سے مشروط کرنا ایک غیر عملی سوچ ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت سے تنازع کو حل کرنے کا آپشن موجود نہیں تو پھر پہلے وہ سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں فریقین کے پاس سیاسی لین دین کی گنجائش اور لچک موجود ہو۔ پاکستان اور بھارت، طاقت کے راستے سے تنازعات کے حل کا آپشن بار بار آزما چکے ہیں اور اب یہ طریقہ واضح طور پر ’’نو آپشن” کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ مذاکرات اور سیاسی مکالمہ کے ذریعے سے حل تلاش کرنے کے لیے جس ماحول کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے موجودہ صورت حال میں وہ میسر نہیں۔ سو اس کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں کہ تنازعات کو اپنی جگہ تسلیم کرتے ہوئے وہ ماحول بنانے کی کوشش کی جائے جس میں خطے کی عمومی ذہنی فضا خود یہ تقاضا کرے کہ تنازعات کا تصفیہ کیا جائے (اور تقاضا نہ بھی کرے تو کم سے کم اس کی راہ میں حائل نہ ہو)۔ سازگار ماحول بنانے کے لیے ان دائروں میں باہمی تعلقات کو آگے بڑھانا ہوگا جس میں دونوں ملکوں کے مفادات مشترک ہیں۔ پون صدی سے جاری دائرے کے سفر سے اگر باہر نکلنا ہے تو یہ قدم اٹھانا ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی امید افزا پیش رفت کا خیر مقدم کرنا ہمارے نزدیک سیاسی فکر کی پختگی کی علامت ہے۔ 

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

بلاء کا ترجمہ

بلا یبلو، اور أبلی یبلی کابنیادی مطلب تو ہوتا ہے کسی کو آزمائش میں ڈالنا، صلہ اور باب فعل کے اختلاف سے آزمائش کی نوعیت بدلتی رہتی ہے، یہ آزمائش خیر سے بھی ہوتی ہے اور شر سے بھی ہوتی ہے۔فرمایا: (ونبلوکم بالشر والخیر)، یہیں سے اس کا ایک مطلب خیر سے نوازنا بھی ہے۔
ابن قتیبہ ادب الکاتب میں لکھتے ہیں:

بَلَوْتُہ أبلوہ '' بَلْواً '' إذا جرَّبتہ، وبَلاہ اللہ یَبْلوہ '' بَلاَءً '' إذا أصابہ بِبَلاءٍ، یقال: اللَّہمَّ لا تَبْلَنا إلا بالتي ھي أحسنُ، وأبلاہ اللہ یُبلیہ '' إبْلاءً حَسَناً '' إذا صنع بہ صنعاً جمیلاً، وقال زھیر: جَزَی اللہُ بالإحسانِ مَا فَعَلا بکمْ... فأَبْلاھُمَا خَیْرَ البَلاَءِ الَّذي یَبْلُو۔

قرآن مجید میں چھ مقامات پر لفظ بلاء آیا ہے، یہ چھ مقامات وہ ہیں جہاں کسی بڑی مصیبت یا آزمائش سے بچالیے جانے کا تذکرہ ہے۔ ان میں سے چار مقامات پر بنی اسرائیل کو فرعون اور آل فرعون کے ظلم سے نجات دلانے کے بعد اس کا ذکر ہے، اور ان چار میں سے تین مقامات کا تو بالکل ایک ہی مضمون ہے کہ آل فرعون سے نجات دی جو ان کے لڑکوں کو ذبح کردیتے تھے اور لڑکی کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ باقی ایک مقام پر ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے امتحان اور پھر اللہ کی طرف سے پروانہ کامیابی جاری ہونے کے بعد اس کا ذکرہے، اور ایک دوسرے مقام پر جنگ بدر میں اہل ایمان کی کامیابی کے بعد اس کا ذکر ہے۔ ان مقامات پر مترجمین کے مختلف ترجمے ملتے ہیں، بسا اوقات ایک ہی مترجم یکساں مقام پر الگ الگ ترجمہ کرتا ہے۔

 وَإِذْ نَجَّیْنَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُونَ أَبْنَاء کُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاء کُمْ وَفِیْ ذَلِکُم بَلاءٌ مِّن رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ۔ (البقرۃ: 49)

یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی‘‘ (سید مودودی)
’’اور اس میں مدد ہوئی تمہارے رب کی بڑی ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اور بیچ اس کے آزمائش تھی پروردگار تمہارے سے بڑی ‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی (یا بڑا انعام‘‘( (احمد رضا خان
’’اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی‘‘ (محمدجوناگڑھی)

وَإِذْ أَنجَیْنَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَونَ یَسُومُونَکُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ یُقَتِّلُونَ أَبْنَاء کُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاء کُمْ وَفِیْ ذَلِکُم بَلاء مِّن رَّبِّکُمْ عَظِیْم۔ (الاعراف: 141)

’’اور (اللہ فرماتا ہے) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرعون والوں سے تمہیں نجات دی جن کا حال یہ تھا کہ تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی‘‘(سید مودودی)
’’اوراس میں احسان ہے تمہارے رب کا بڑا‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اور بیچ اس کے آزمائش تھی پروردگار تمہارے کی طرف سے بڑی‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’اور اس میں رب کا بڑا فضل ہوا‘‘(احمد رضا خان)
’’اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزمائش تھی‘‘ (محمدجونا گڑھی)
’’اور اس میں تمہارے رب کا بڑا احسان تھا ‘‘(احمد علی)

وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ أَنجَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاء کُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاء کُمْ وَفِیْ ذَلِکُم بَلاء مِّن رَّبِّکُمْ عَظِیْم۔ (ابراہیم: 6)

’’یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا ''اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے اس نے تم کو فرعون والوں سے چھڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی ‘‘ (سید مودودی)
’’اور اس میں مدد ہوئی تمہارے رب کی بڑی ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اور بیچ اس کے آزمائش تھی پروردگار تمھارے کی طرف سے بڑی ‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اور اس میں تمہارے رب کا بڑا فضل ہوا‘‘ (احمد رضا خان)
’’اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی‘‘ (محمدجوناگڑھی)
اوپر کی تینوں آیتوں میں اگر بلاء کا ترجمہ آزمائش کریں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیٹوں کو ذبح کرنے کا عمل تو آل فرعون کی طرف سے تھا، پھر اسے اللہ اپنی طرف کیوں منسوب کرے گا، دوسری بات یہ ہے کہ اگر آل فرعون کا عمل اللہ کی طرف سے تھا، تو اس عمل سے نجات دینا اللہ کی نعمت کیسے شمار ہوگا۔ تیسری بات یہ ہے کہ تینوں آیتوں کا سیاق نعمت کا بیان ہے نہ کہ آزمائش کا بیان۔ خاص طور سے تیسری آیت تو صریح طور سے نعمت یاد دلانے کے مضمون پر مشتمل ہے۔ ان پہلووں کو سامنے رکھیں تو بلاء کا ترجمہ انعام زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔

فَلَمْ تَقْتُلُوہُمْ وَلَکِنَّ اللّہَ قَتَلَہُمْ وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلَکِنَّ اللّہَ رَمَی وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْہُ بَلاء حَسَناً إِنَّ اللّہَ سَمِیْعٌ عَلِیْم۔ (الانفال: 17)

’’پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اِس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقیناً اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’اور کیا چاہتا تھا ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اور تو کہ آزمائش کرے ایمان والوں کو ساتھ نعمت کے اپنی طرف سے آزمائش نیک‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’اور اس لیے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھا انعام عطا فرمائے‘‘ (احمد رضا خان)
’’اس سے یہ غرض تھی کہ مومنوں کو اپنے (احسانوں) سے اچھی طرح آزمالے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے‘‘ (محمدجوناگڑھی، یہاں محنت کا مفہوم نہیں ہے)
’’اور اپنی طرف سے اہل ایمان کے جوہر نمایاں کرے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے‘‘ (اشرف علی تھانوی، یہاں محنت کا مفہوم نہیں ہے)
أبلاہ اللہ بلاء حسنا تو بطور محاورہ اللہ کی طرف سے انعام واکرام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے بھی اکثر مترجمین نے یہاں اسی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ۔ مِن فِرْعَوْنَ إِنَّہُ کَانَ عَالِیْاً مِّنَ الْمُسْرِفِیْنَ۔ وَلَقَدِ اخْتَرْنَاہُمْ عَلَی عِلْمٍ عَلَی الْعَالَمِیْنَ۔ وَآتَیْنَاہُم مِّنَ الْآیَاتِ مَا فِیْہِ بَلَاء مُّبِیْنٌ۔ (الدخان: 30 ۔ 33)

’’اِس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے سخت ذلت کے عذاب فرعون سے نجات دی جو حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اونچے درجے کا آدمی تھا اور اُن کی حالت جانتے ہوئے، اُن کو دنیا کی دوسری قوموں پر ترجیح دی اور اُنہیں ایسی نشانیاں دکھائیں جن میں صریح آزمائش تھی‘‘ (سید مودودی)
’’ہم نے انہیں وہ نشانیاں عطا فرمائیں جن میں صریح انعام تھا ‘‘(احمد رضا خان)
’’اور ہم نے انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی ‘‘(محمدجوناگڑھی)
’’اور ان کو ایسی نشانیاں دیں جن میں کھلا ہوا انعام تھا‘‘ (امین احسن اصلاحی، اکثر جگہوں پر آنجناب نے آزمائش ترجمہ کیا ہے)
’’اور ہم نے ان کو ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح انعام تھا‘‘ (اشرف علی تھانوی، اکثر مقامات پر آنجناب نے آزمائش اور امتحان کیا ہے)
اس مقام پر کئی مترجمین نے انعام ترجمہ کیا ہے، بلکہ بعض وہ لوگ جو ہر مقام پر آزمائش کا ترجمہ کرتے ہیں، انہوں نے یہاں انعام ترجمہ کیا ہے۔ آیت کا سیاق بھی یہاں بہت واضح دلالت کررہا ہے کہ بلاء کا ترجمہ انعام ہونا چاہئے۔

فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ۔ وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُ۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ۔ إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاء الْمُبِیْنُ۔ (الصافات: 103 ۔ 106)

’’آخر کو جب اِن دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا اور ہم نے ندا دی کہ ''اے ابراہیم ؑ تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں یقیناًیہ ایک کھلی آزمائش تھی'' (سید مودودی)
’’بے شک یہی ہے صریح جانچنا ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’تحقیق یہ بات وہی ہے آزمائش ظاہر‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’بیشک یہ روشن جانچ تھی‘‘ (احمد رضا خان)
’’درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا‘‘ (محمدجوناگڑھی)
سورہ دخان میں بہت سے لوگوں نے بلاء مبین کا ترجمہ صریح انعام کیا ہے، مگر اسی طرح کی تعبیر البلاء المبین کا ترجمہ یہاں سبھی لوگوں نے صریح آزمائش کیا ہے۔ حالانکہ سیاق یہاں بھی تقاضا کررہا ہے کہ انعام ترجمہ کیا جائے۔
مذکورہ بالا تمام مقامات پر ایک بات مشترک ہے کہ بلاء کا لفظ نجات مل جانے اور سرخ روئی حاصل ہوجانے کے بعد آیا ہے۔ جس سے یہ بات اور روشن ہوجاتی ہے کہ لفظ بلاء ان سبھی مقامات پر انعام اورنوازش کے معنی میں ہے۔
تراجم کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ تقریبا ہر مترجم نے اگر کہیں آزمائش ترجمہ کیا ہے تو اسی مترجم نے دوسرے مقام پر انعام ترجمہ کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں وہ کوئی ایک حتمی موقف نہیں رکھتے تھے۔
(جاری)

حضرت حاجی عبد الوہابؒ کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت حاجی عبد الوہابؒ کی وفات کا صدمہ دنیا بھر میں محسوس کیا گیا اور اصحاب خیر و برکت میں سے ایک اور بزرگ ہم سے رخصت ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ حاجی صاحب محترم دعوت و تبلیغ کی محنت کے سینئر ترین بزرگ تھے جنہوں نے حضرت مولانا محمد الیاس دہلویؒ، حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا سہارنپوریؒ اور حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ جیسے بزرگوں کی معیت و رفاقت کی سعادت حاصل کی اور زندگی بھر اسی کام میں مصروف رہے۔ وہ حقیقی معنوں میں فنا فی التبلیغ تھے اور دعوت و تبلیغ کے تقاضوں، نزاکتوں اور اتار چڑھاؤ کو نہ صرف بخوبی سمجھتے تھے بلکہ کئی مشکل مراحل میں ان کی راہنمائی اور دعائیں مشکلات کے حل میں بروقت کام آ جاتی تھیں۔ دین یا دنیا کا کوئی کام اس قدر وسعت اور قبولیت حاصل کر لے تو اسی حساب سے مشکلات اور الجھنوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جو کہ فطری بات ہے، البتہ حضرت حاجی صاحبؒ کی موجودگی ہمارے جیسے کارکنوں کے لیے اطمینان کا باعث ہوتی تھی کہ بات ایک حد سے آگے نہیں بڑھ پائے گی۔
حضرت عمر فاروقؓ نے ایک بار حضرت حذیفہ بن الیمانؓ سے پوچھا تھا کہ امت میں رونما ہونے والے اجتماعی فتنوں کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو تو ہمیں بھی بتاؤ۔ حضرت حذیفہؓ نے بے ساختہ جواب دیا کہ آپ کے ہوتے ہوئے ایسے کسی فتنہ کا ہمیں ڈر نہیں ہے۔ مجھے آج کے حالات کے تناظر میں حضرت عمرؓ کے خلوص و دبدبہ کے اس پہلو کی ایک جھلک حضرت حاجی عبد الوہابؒ میں دکھائی دیتی تھی اس لیے جب حاجی صاحبؒ کی وفات کی خبر سنی تو جو دعائیں زبان پر جاری ہوئیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بڑوں کے فوت ہو جانے پر جماعتوں، حلقوں اور اداروں میں جو مسائل کھڑے ہو جایا کرتے ہیں اللہ تعالٰی دعوت و تبلیغ کے اس عالمگیر عمل و محنت کو ان سے محفوظ رکھیں، آمین یا رب العالمین۔
میری ایک عرصہ سے حاجی صاحبؒ سے نیازمندی تھی اور ہمیشہ ان کی شفقتوں اور دعاؤں سے مستفید ہوتا تھا، اس کی ایک وجہ تو والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ ان کی عقیدت و محبت تھی جس کا مختلف مواقع پر عملی اظہار میں نے دیکھا ہے، ان کی وجہ سے مجھے بھی محبت سے نوازتے تھے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ہمارے مخدوم حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کا شمار بھی جماعت کے بزرگوں میں ہوتا تھا اور مجھے ایک عشرہ سے زیادہ عرصہ تک مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ان کی خدمت کا شرف حاصل رہا ہے۔ وہ حاجی صاحب محترم کے ساتھیوں اور دوستوں میں سے تھے اور ان کے درمیان تعلق و محبت کے کئی مراحل کا میں شاہد ہوں۔
میرا ایک عرصہ سے تبلیغی جماعت کے ساتھ سال کے دوران ایک سہ روزہ لگانے کا معمول ہے اور یاد پڑتا ہے کہ شاید پہلا سہ روزہ میں نے ۱۹۶۳ء کے دوران گکھڑ کے قریب گاؤں کوٹ نورا میں لگایا تھا۔ ایک مرتبہ سہ روزہ کی تشکیل کے لیے رائے ونڈ حاضری ہوئی تو حضرت حاجی صاحبؒ نے ملاقات پر بے حد خوشی کا اظہار فرمایا اور جماعتی ساتھیوں سے کہا کہ اسے سہ روزہ کے لیے مرکز میں رکھو چنانچہ میں نے وہ دو تین روز مرکز میں ہی گزارے۔ کچھ عرصہ قبل گوجرانوالہ کے تبلیغی مرکز کی مسجد کے سنگ بنیاد کے لیے تشریف لائے تو میں بھی حاضر تھا، بہت خوش ہوئے اور دعاؤں سے نوازا۔ حاجی صاحب محترمؒ خود تو دعوت و تبلیغ ہی کے لیے وقف تھے اور ان کا ایک ایک لمحہ اسی کے لیے گزرتا تھا مگر ملک کی عمومی دینی صورتحال پر ان کی گہری نظر ہوتی تھی، وہ حالات کے اتار چڑھاؤ اور دینی جدوجہد کی ضروریات سے آگاہ رہتے تھے اور مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ دینی مدارس کی حوصلہ افزائی اور علماء کرام کی قدردانی کا خاص ذوق رکھتے تھے اور وقتاً فوقتاً اس سلسلہ میں ساتھیوں کو ہدایات دیتے رہتے تھے۔
یہ اللہ تعالٰی کی بے نیازی اور حکمت کا ایک پہلو ہے کہ جس روز رائے ونڈ میں حضرت حاجی عبد الوہابؒ کے جنازہ اور تدفین کی تیاری ہو رہی تھی اسی روز ہمارے ایک ساتھی مولانا عبد الوہاب کا واہنڈو میں نکاح تھا۔ ان کے والد محترم بتاتے ہیں کہ وہ اپنی شادی سے قبل ہی تبلیغ سے وابستہ ہوگئے تھے جس کی برکت سے نہ صرف ان کا خاندان بلکہ رشتہ داروں کا پورا ماحول دینی اعمال کے دائرہ میں آگیا۔ انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کے نام پر اور دوسرے بیٹے کا نام حاجی عبد الوہابؒ کے نام پر رکھا، جبکہ آٹھ بیٹوں کو دین کی تعلیم دلائی۔ مولوی عبد الوہاب جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل اور الشریعہ اکادمی میں درس نظامی کے استاذ ہیں، ان کا نکاح واہنڈو میں والد گرامیؒ کے ایک مرید خاص بھائی سردار صاحب کی بیٹی سے ہوا اور برادر عزیز مولانا عبد الحق خان بشیر نے نکاح پڑھایا۔ میں آج اس عجیب اتفاق کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ حضرت حاجی عبد الوہابؒ تو رات ہم سے رخصت ہوگئے مگر ان کے نام پر جس بچے کا نام رکھا گیا اور انہی کی دعوت و تلقین کے باعث جسے عالم دین بنایا گیا وہ عبد الوہاب آج نئی زندگی کا آغاز کر رہا ہے۔ اللہ تعالٰی حضرت حاجی صاحبؒ کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام سے نوازیں اور دعوت و تبلیغ کی عالمی محنت کو ان کے خلوص اور راہنمائی کے دائرے میں مسلسل ترقیات و ثمرات عطا فرمائیں، آمین ثم آمین۔

حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۳ نومبر منگل کو جامعہ فاروقیہ سیالکوٹ میں حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی یاد میں تعزیتی سیمینار کا اہتمام تھا جس میں مولانا شہیدؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے علاوہ عمومی دینی جدوجہد کی صورتحال بھی گفتگو کا موضوع بنی اور کم و بیش اسی رائے کا اظہار کیا گیا جس کا گوجرانوالہ کے حوالہ سے سطور بالا میں ذکر ہوا ہے۔ اس تعزیتی سیمینار میں جمعیۃ علماء اسلام (س) سیالکوٹ کے امیر حافظ احمد مصدق قاسمی، جماعت اسلامی کے راہنما جناب عبد القدیر راہی اور اہل حدیث راہنما مفتی کفایت اللہ شاکر کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ اہل حق کے جری نمائندہ اور اکابر کی روایات کے امین تھے جن کی المناک شہادت سے ہر باشعور مسلمان دکھی اور غمزدہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نئی نسل کے لیے مولانا سمیع الحقؒ کی جدوجہد اور خدمات کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان علماء کرام اور دینی کارکن ان سے راہنمائی حاصل کر سکیں۔ اس محفل میں چند پہلوؤں کی طرف مختصرًا اشارہ کروں گا۔
اللہ تعالٰی مولانا سمیع الحق شہیدؒ کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور ان کے ورثاء و متوسلین کو ان کا مشن جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

آسیہ بی بی کی رہائی : سپریم کورٹ کے فیصلے کی اخلاقی و شرعی حیثیت

ڈاکٹر محمد شہباز منج

توہینِ رسالت کے مقدمے میں آسیہ  بی بی کیس میں  ملزمہ کو شک کا فائدہ دے کر رہا کرنے کے حوالے سے  سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے  کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر سخت بحرانی و  ہیجانی کیفیت پیدا ہو ئی۔ متعدد مذہبی جماعتوں کی طرف سے  فیصلے کے خلاف شدید ردعمل آیا ہے۔ان کا عمومی موقف  یہ ہے کہ یہ فیصلہ  اسلام مخالف مغربی طاقتوں  کے دباؤ میں  آ کر کیا گیا ہے؛ یہ طاقتیں   اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی توہین کے معاملے  کو لائیٹ سی چیز بنا دینے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، لہٰذا حضورﷺ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ایسے فیصلےکے خلاف باہر نکل کر اہلِ اقتدار ،ملکی اداروں ،  عدالتوں اور مغربی طاقتوں کو باور کرایا جائے کہ اس طرح کے فیصلے اسلام دشمنی کا شاخسانہ ہیں اور اہلِ اسلام  ان کو کسی صورت قبول نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف  اس فیصلے کو درست سمجھنے والوں اور بہت سے ماہرینِ قانون و شریعت   کا موقف ہے کہ  عدالت نے میسر قرائن و شواہد کی روشنی میں درست    فیصلہ کیا؛ عدالت کے نزدیک   ملزمہ پر توہینِ رسالت   کا مقدمہ ثابت نہیں ہوا، لہذااسے سزاے موت دینے کا کوئی جواز نہیں۔ان سطور میں ہم اس طرح کے واقعات میں مغربی دباؤ سے متعلق مسلم رویے  کی وضاحت کے بعد یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں اسلامی اصولوں کا لحاظ رکھا گیا ہے یا نہیں؟ ججوں کا فیصلہ کسی دباؤ یا مفادات کے تحت سامنے آتا دکھائی دیتا ہے یہ عدل و انصاف کے شرعی اصولوں کی پاس داری کے تحت؟

مغرب کی اسلام دشمنی اور زیرِ نظر کیس میں  مسلمانوں سے مطلوب رویہ

مغرب اور اسلام کے نظریۂ حیات میں  فرق و تفاوت عیاں و بیاں ہے۔ اس فرق وتفاوت کے نتیجے میں  مغرب  اور اسلام دونوں میں  اپنے  اپنے تصورِ زندگی اور نظریات و تہذیب کے حوالے سے حساسیت بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے، جو تاریخی طور پر بھی اور لمحۂ موجود میں بھی  باہمی  تناؤ اور کشمکش    کی صورت میں  دیکھی جا سکتی ہے۔( مغرب اسلام  تاریخی مخالفت و مخاصمت  کےتناظر سے متعلق  تفصیلی بحث کا  یہاں موقع نہیں ۔اس حوالے سے راقم کے کئی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔اس  موضوع سے دل چسپی رکھنے والے احباب کے لیے،میری کتاب"فکرِ استشراق اور عالم اسلام میں اس کا اثرو نفوذ" میں  بھی کافی مواد موجود ہے۔) جب بھی کوئی ایسا  نمایاں مسئلہ پیش آتا ہے ، جس کا کوئی  تعلق دونوں کی اس تاریخی و تہذیبی کشمکش سے بن رہا ہوتا ہے، تو فریقین آمنے سامنے آ جاتے  اور ایک دوسرے  کو نیچا دکھانے اور اپنی اپنی  برتری ثابت کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔مخاصمت اور تناؤ کی بنا پر غلط فہمیاں بڑھتی ہیں اورہر فریق یہ سمجھنے لگتا ہے کہ دوسرا اس کے مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔
یہ بات درست مان لینے کے باوجود کہ مغربی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں پر اپنا تہذیبی ، فکری اور سیاسی تسلط چاہتی ہیں،  نیز یہ کہ   یہودو نصاریٰ نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کی ہے؛ آج کا مغرب بھی مسلمانوں سے دشمنی و مخاصمت کے جذبات سے مملوہے (واضح رہے کہ میں نے خود اپنی مذکورہ بالا کتاب میں  ، مغرب اسلام تاریخی مخاصمت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مسلمانوں  اور اہلِ مغرب کے مواقف بیان کر نے کے ساتھ ساتھ  مسلمانوں کے  موقف کو موکد کیا ہے، اور یہودو نصاریٰ اور اہلِ مغرب کے موجودہ اسلام اور مسلم مخالف رویوں کو دلائل سے نمایاں کیا ہے)،مسلمانوں کواپنے مذہب سے  یہ اجازت حاصل نہیں ہو جاتی کہ  وہ کسی ایسے  شخص کے معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیں ،جس سے مغرب کا مفاد وابستہ ہو یا وابستہ ہونے کا شک ہو۔قرآن کا بیان واضح ہے:
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا ھوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ (المائدہ 5: 8)
کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر آمادہ نہ کرے کے انصاف نہ کرو، انصاف کرو، یہ تقوے سے قریب تر ہے۔
چناں چہ آسیہ مسیح کے کیس میں ، اسلام کے نقطۂ  نظر سے ، یہ دیکھے بغیر کہ کون  آسیہ کو بچانے کے درپے ہے؟  سب سے پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ  مقدمہ فی الواقع کیا ہے؟اس حوالے سے اسلام اور شریعت و قانون کے تقاضے کیا ہیں؟ بہ الفاظِ دیگر  مغرب  کی اسلام سے دشمنی و مخاصمت اپنی جگہ لیکن آسیہ کیس  کو مسلمان  شریعت و قانون کے مطابق فیصل کرنے کے مذہبی لحاظ سے پابند ہیں۔

واقعے کا خلاصہ اور آسیہ کا بیان

سپریم کورٹ کے زیرِ نظر فیصلے کی اصولی ، اخلاقی اور شرعی حیثیت جانچنے کی بحث سے  قبل مقدمے کا تعارف ، شکایت گزار کے الزام اور اپیل گزار کے بیان  خلاصتاً سامنے رہنا ضروری ہیں۔لہٰذا ہم آگے بڑھنے سے پہلے واقعے کا خلاصہ اور آسیہ بی بی کا بیان  دیکھتے ہیں:
زیرنظر مقدمے کی ابتدا ا پولیس اسٹیشن ننکانہ صاحب میں ،ایف آئی آر نمبر326مورخہ 19-06-2009 کو زیردفعہ-C 295تعزیرات پاکستان مجریہ 1860ء کے تحت ہوئی۔یہ مقدمہ قاری محمد سلام (PW.1)، جو کہ مقامی مسجد کا امام ہے، کے ایما پر درج کیا گیا۔اپیل گزار مسماۃ آسیہ بی بی ، جو گاؤں کے عیسائی طبقے سے تعلق رکھتی ہے،  پر الزام لگایا گیا کہ  اس نے مورخہ 14-06-2009 کوکچھ دیگر مسلمان ساتھی خواتین کے سامنے  محمد ادریس (PW.1) کے کھیت سے، جو موضع اٹاں والی تھانہ ننکانہ صاحب کی حدود میں واقع ہے، فالسہ(بیری کی ایک قسم جسے گریویا ایشیا ٹیکا بھی کہا جاتاہے) چنتے ہوئے ، حضرت محمدﷺاور قرآن کریم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔(کریمینل اپیل نمبر (–L of 2015 39) ، مسماۃ آسیہ بی بی بنام ریاست پاکستان وغیرہ ،فیصلہ چیف  جسٹس میاں ثاقب نثار، پیرا نمبر16، تاییدی رائے جسٹس آصف سعید کھوسہ ، پیرا نمبر2) الزام یہ تھا کہ اپیل گزار نے کچھ ایسی باتیں کہیں جیسے (نعوذ باللہ) حضرت محمدﷺاپنی وفات سے قبل شدید علیل ہو کر بستر سے لگ گئے تھے اور آپﷺ کے ذہنِ مبارک اور کانِ مبارک میں کیڑے پیدا ہو گئے تھے، آپ ﷺنے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے نکاح اُن کی دولت کے حصول کے لیے کیا تھا اور دولت حاصل کر کے آپﷺ نے انھیں چھوڑ دیا تھا۔  الزام کے مطابق اُسی موقع پر اپیل گزار نے یہ الفاظ بھی کہے کہ قرآن کریم خدا کی  کتاب نہ ہے ،بلکہ خود ساختہ کتاب ہے۔(جسٹس آصف سعید کھوسہ ، پیرا نمبر2)  مذکورہ گواہان استغاثہ نے وقوعہ کے متعلق شکایت گزار قاری محمد سلام کو مطلع کیا، جس نے مورخہ19-06-2009کو اپیل گزار کو ایک عوامی اجتماع میں طلب کیا اور وقوعے کے متعلق معلومات حاصل کیں، جہاں پر اپیل گزار نے اپنے جرم کا اقرار کیا۔ اس کے بعد قاری محمد سلام نے پولیس کے پاس ایک درخواست دائر کی جس کی بنا پر مذکورہ ایف آئی آر کا اندراج ہوا۔( چیف  جسٹس، پیرا نمبر16)
فریقین کے فاضل وکلا کو سننے اور مقدمے کے ریکارڈ کو ان کی معاونت سے جائزہ لینے کے بعد میں نے مشاہدہ کیا کہ استغاثہ نے اپیل گزار کے خلاف اپنا مقدمہ ثابت کرنے کے لئے سات گواہان کو پیش کیا۔ قاری محمد سلام /شکایت گزار ابتدائی اختیار سماعت کی عدالت کے روبرو بطور (PW.1) پیش ہوا اور اس نے وقوعہ کا تین خواتین کے ذریعے پتہ چلنے، مورخہ 09-06-2009 کو ایک عوامی اجتماع (جرگے) کے انعقاد اور اپیل گزار کے مبینہ طور پر اپنے گناہ کا اعتراف کرنے اور معافی کی درخواست گزار ہونے اور پھر اس کی جانب سے مورخہ 19-06-2009کو ایک ایف آئی آر درج کروانے کے متعلق بیان دیا۔ معافیہ بی بی (PW.2) نے وقوعہ مورخہ 14-06-2009 کو فالسے کے کھیت میں پیش آنے، اس کی جانب سے شکایت گزار کو وقوعہ کی اطلاع دینے، مورخہ 19-06-2009 کو عوامی اجتماع (جرگے) کے انعقاد، وہاں اپیل گزار کے مبینہ طور پر اقبالِ جرم کرنے اور معافی مانگنے کے متعلق بیان دیا۔ اسماء بی بی (PW.3) نے بھی تقریباً انھی حالات وواقعات کو دہرایا، جن کے متعلق بیان معافیہ بی بی (PW.2) نے دیا تھا۔ محمد افضل (PW.4) نے بھی قاری محمد سلام /شکایت گزار، معافیہ بی بی (PW.2) اور اسماء بی بی (PW.3) کی جانب سے اپیل گزار کے ہاتھوں مبینہ توہینِ رسالت کی اطلاع ملنے اور مورخہ 19-06-2009 کو عوامی اجتماع (جرگہ) کے انعقاد ، جہاں اپیل گزار نے مبینہ طور پر اپنے جرم کا اعتراف کیا اور معافی کی درخواست گزار ہوئی، کے متعلق بیان دیا۔ محمد رضوان سب انسپکٹر (PW.5) نے تھانے میں روایتی ایف آئی آر کا اندراج کیا۔ محمد امین بخاری (ایس پی) انویسٹی گیشن بطور گواہِ استغاثہ (PW.6) پیش ہوئے اور بیان دیا کہ مقدمے کی تفتیش انھوں نے کی ہے، محمد ارشد سب انسپکٹر (PW.7) اس مقدمے میں ابتدائی تفتیشی افسر تھا اور اس نے 19-06-2009 کو جاے وقوعہ کا دورہ کرنے، گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے، اپیل گزار کو گرفتار کرنے، مجسٹریٹ سے اس کا عدالتی ریمانڈ کروانے اور اس کو جوڈیشل لاک اپ بھیجنے کے متعلق بیان دیا۔ مقدمے کے متعلق ابتدائی عدالت ِ سماعت میں کچھ دستاویزات بھی استغاثہ کی جانب سے پیش کی گئیں۔ ابتدائی عدالت ِ سماعت نے محمد ادریس کو بطور عدالتی گواہ (CW.1) سمن بھیجا اور اس کا بیان ریکارڈ کیا، جس نے بیان کیا کہ وہ فالسے کے کھیت کا جہاں وقوعہ رو پذیر ہوا کا مالک ہے۔اس نے یہ بھی بتایا کہ اپیل گزار نے اس کے سامنے مورخہ 14-06-2009 کو اپنے جرم کا اعتراف کیا، اس نے شکایت گزار کو واقعہ کی اطلاع دینے، عوامی اجتماع (جرگے) کے 19-06-2009 کو انعقاد اور افسرِ تفتیش کے سامنے گناہ کے ارتکاب کے اقبال کے متلق بیان دیا۔ اپیل گزار نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے اور اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ یہ مقدمہ اس کے خلاف کیوں  درج کیا گیا اور استغاثہ کے گواہان اس کے خلاف بیان کیوں دے رہے ہیں؟ یہ بیان دیا:" میں ایک شادی شدہ خاتون اور دو بچوں کی ماں ہوں میرا خاوند ایک غریب مزدور ہے ،میں محمد ادریس کے کھیتوں میں دیگر کئی خواتین کے ہمراہ روزانہ کی اجرت کے عوض فالسے چننے جایا کرتی تھی ،مبینہ وقوعہ کے روز میں دیگر کئی خواتین کے ہمراہ کھیتوں میں کام کررہی تھی  کہ مسماۃ معافیہ اور مسماۃ اسماء بی بی(گواہان استغاثہ) کے ساتھ پانی بھر کے لانے پر جھگڑا ہوگیا ،جو میں نے ان کو پیش کرنا چاہا، لیکن انھوں نے یہ کَہ کر منع کردیا چونکہ میں عیسائی ہوں اس لئے وہ کبھی بھی میرے ہاتھ سے پانی نہیں پئیں گی۔ اس بات پر میرے اور استغاثہ کی گواہان خواتین کے درمیان جھگڑا ہوا اور کچھ سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا، اور اس کے بعد استغاثہ کی گواہان قاری سلام / شکایت گزار تک اس کی بیوی کے ذریعے پہنچیں ، جو ان دونوں خواتین کو قرآن پڑھاتی تھی۔ ان استغاثہ کے گواہان نے قاری سلام سے مل کر سازش کے تحت میرے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ گھڑا۔ میں نے پولیس کو کہا کہ میں بائیبل پر حلف اٹھانے کو تیار ہوں کہ میں نے کبھی حضرت محمدﷺکے متعلق توہین آمیز الفاظ بیان نہیں کہے۔ میں قرآن اور اللہ کے پیغمبرﷺ کے لیے  دل میں عزت اور احترام رکھتی ہوں، لیکن چونکہ پولیس بھی شکایت گزار سے ملی ہوئی تھی اس لئے پولیس نے مجھے اس مقدمے میں غلط طور پر پھنسایا۔ استغاثہ کی گواہان سگی بہنیں ہیں اور اس مقدمے میں مجھے بدنیتی سے پھنسانے میں دلچسپی رکھتی ہیں، کیونکہ ان دونوں کو میرے ساتھ جھگڑے اور سخت الفاظ کے تبادلے کی وجہ سے بے عزتی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ قاری سلام / شکایت گزار بھی مقدمے میں اپنا مفاد رکھتا ہے ،کیونکہ یہ دونوں خواتین اس کی زوجہ سے قرآن پڑھتی رہی تھیں۔ میرے آباؤاجداد اس گاؤں میں قیامِ پاکستان سے رہائش پذیر ہیں، میں بھی تقریباً چالیس برس کی ہوں۔ وقوعے سے پہلے ہمارے خلاف کبھی بھی اس قسم کی کوئی شکایت نہیں کی گئی۔ میں عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں اور گاؤں میں رہتی ہوں ،لہٰذا اسلامی تعلیمات سے نابلد ہونے کی وجہ سے میں کیسے اللہ کے نبیﷺ اور الہامی کتاب یعنی قرآن پاک کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے ہوئے بے ادبی کی مرتکب ہوسکتی ہوں! استغاثہ کا گواہ ادریس بھی ایسا گواہ ہے، جو مقدمے میں اپنا مفادرکھتا ہے۔ کیونکہ اس کا متذکرہ بالا خواتین سے قریبی تعلق ہے۔(جسٹس کھوسہ، پیرا نمبر7)

کیس کے مختلف پہلوؤں پر  بحث و نظر

اب ہم  فیصلےکے اہم نکات کواصول واخلاق اور شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ پہلے ہم ان پہلوؤں  کو لیتے ہیں ، جو ہمارے نزدیک  اصولاً، اخلاقاً اور شرعاً مضبوط بنیادیں رکھتے ہیں، بعد میں ہم ان ضمنی اور ذیلی پہلوؤں کی نشان دہی بھی کریں گے ، جو ہمارے  نزدیک کمزور ہیں،  آخر میں نتیجۂ بحث پیش کیا جائے گا:

مضبوط  اخلاقی و شرعی بنیادوں پر مبنی پہلو

جہان تک سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے  کے شرعی  وقانونی ضوابط کے موافق یا مخالف ہونے کا سوال  ہے، تو راقم نے اس فیصلے کے تفصیلی اور عمیق مطالعے سے یہ رائے قائم کی ہے کہ اس میں  بعض ضمنی و ذیلی کمزور پہلوؤں کو چھوڑ کر بحیثیتِ مجموعی اس میں  شرعی و قانونی ضوابط  کواصولی  طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے،  ان  اصول وضوابط  سے  انحراف  نظر نہیں آتا۔ اس دعوے کے دلائل میں فیصلے سے بہت سے نکات پیش کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہاں ہم چند اہم نکات  پیش کرتے ہیں:

الزام  مدعی کو ثابت کرنا ہوتا ہے

یہ شریعتِ اسلامیہ کا مسلّمہ اصول ہے کہ جو شخص الزام لگائے اسے اپنے الزام کو ثابت بھی کرنا ہوتا ہے۔ اگر محض دعوے پر مدعا علیہ  کے خلاف فیصلہ دے دیا جائے تو معاشرتی نظم تباہ  ہو جائے گا، اور سوسائٹی میں نا انصافی کا دور دورہ ہوگا۔ نبی کریمﷺ کا ارشادِ مبارک ہے:
 لو يُعطی الناس بدعواہم ، لادّعَی ناسٌ دماءَ رجالٍ وأموالہم . ولكن اليمينَ علی المدّعَی عليہ (صحیح مسلم،حدیث  نمبر 1711)
اگر لوگوں کو محض ان کے دعوے کے مطابق دے دیا جائے تو لوگ لوگوں کے مال و خون  کے درپے ہو جائیں گے۔ لیکن قسم مدعا علیہ پر ہے۔
ایک دوسری جگہ یہی بات ان الفاظ  میں روایت ہوئی ہے:
عن ابن عباسٍ رضي اللہ عنہما: أن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قال: لو يعطی الناس  بدعواھم لادعی رجالٌ أموال قومٍ ودماءہم، لكن البينۃ علی المدعی واليمين علی من أنكر (البیہقی،10/252؛البلوغ، 1408؛ الفتح۔5/283)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر لوگوں کو ان کے دعوؤں پر دیا جانے لگے، تو کچھ لوگ لوگوں کے اموال اور خونوں پر دعوے کرنے لگیں، لیکن دلیل مدعی کے ذمے ہے اور قسم انکار کرنے والے پر۔
اس حدیث  کی دینی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ محدثین نے اس حدیث کو شرعی قواعد میں سے ایک عظیم قاعدہ  ،اسلامی اصولِ احکام  اوربابِ قضا کی اصل، اور جھگڑوں اور تنازعات میں  میں عظیم ترین مرجع قرار دیا ہے۔(دیکھیے :الفتوحات الربانیہ علی الاذکار النواویۃ ،7/349؛ شرح مسلم للنووی،4/12؛ شرح الاربعین لابن دقیق العید،99؛ الالمام باحادیث الاحکام،351۔) 
اب زیر نظر مقدمے کو دیکھیے ، جج صاحبان نے اس  شرعی و قانونی  ضابطے کو پورے طور پر پیش نظر رکھا ہے۔ پورے کیس میں ان کا  یہ احساس برابر دکھائی دیتا ہے کہ دعویٰ کسی کے خون پر ہے اور محض مدعی کے دعوے کی بنیاد پر  کوئی بے گناہ موت کے گھاٹ نہ اتر جائے۔فیصلے میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار لکھتے ہیں: 
It is a well settled principle of law that one who makes an assertion has to prove it. Thus, the onus rests on the prosecution to prove guilt of the accused beyond reasonable doubt throughout the trial. Presumption of innocence remains throughout the case until such time the prosecution on the evidence satisfies the Court beyond reasonable doubt that the accused is guilty of the offense alleged against him. There cannot be a fair trial, which is itself the primary purpose of criminal jurisprudence, if the judges have not been able to clearly elucidate the rudimentary concept of standard of proof that prosecution must meet in order to obtain a conviction. Two concepts i.e., “proof beyond reasonable doubt” and “presumption of innocence” are so closely linked together that the same must be presented as one unit. If the presumption of innocence is a golden thread to criminal jurisprudence, then proof beyond reasonable doubt is silver, and these two threads are forever intertwined in the fabric of criminal justice system…Where there is any doubt in the prosecution story, benefit should be given to the accused, which is quite consistent with the safe administration of criminal justice. Further, suspicion howsoever grave or strong can never be a proper substitute for the standard of proof required in a criminal case, i.e. beyond reasonable doubt. In the presence of enmity between the accused and the complainant/witnesses, usually a strict standard of proof is applied for determining the innocence or guilt of the accused.
یہ قانون کا ایک مسلّمہ اصول ہے کہ جو شخص کوئی کلیم کرتا ہے اس کو ثابت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پس یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام کارروائی میں ملزم کے ارتکابِ جرم کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرے۔۔۔شفاف سماعتِ مقدمہ جو کہ از خود فوجداری اصولِ قانون کا بنیادی جُز ہے اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک منصفین خود واضح طور پر اُس معیار ثبوت کے بنیادی نظریے کی توجیہ نہ کریں گے، جس پر کار بند ہونا استغاثہ کے لئے سزا کے احکامات حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ دو نظریات یعنی "شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ثابت کرنا" اور "قیاسِ بے گناہی "ایک دوسرے سے اس قدر منسلک ہیں کہ ان کو ایک ہی سمجھا جا سکتاہے۔ اگر "قیاس بے گناہی " فوجداری اصول قانون کی طلائی کڑی(اصول) ہے ،تو "شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ثابت کرنا" نقرئی کڑی(اصول) ہے، اور یہ دونوں کڑیاں ہمیشہ سے ہی فوجداری نظام انصاف کے بنیادی ڈھانچے کا اہم حصہ رہی ہیں… جہاں کہیں بھی استغاثہ کی کہانی میں کوئی جھول ہوتاہے اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہیے جو کہ فوجداری انصاف کی محفوظ فراہمی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ مزید برآں شبہ جس قدر بھی مضبوط اور زیادہ ہو کسی طور پر بھی فوجداری مقدمے میں ضروری بارِ ثبوت کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ملزم اور گواہان/شکایت گزار کے مابین عناد کی موجودگی میں عام طور پر گناہ یا بے گناہی کو ثابت کرنے کے اعلیٰ ترین معیارِ ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ (مسماۃ آسیہ بی بی بنام ریاست پاکستان وغیرہ ، فیصلہ میاں ثاقب نثار، چیف جسٹس، پیرانمبر 48)

ثبوتِ جرم اور گواہوں کی سچائی

اصولِ شریعت  وقانون کی رو سے ثبوت ِ جرم کے لیے  گواہوں کا سچا  ہونا ضروری ہے۔ گواہ کو چاہیے کہ جو واقعہ جس طرح پیش آیا ہو ، اسے فطری طریقۂ اظہار کے مطابق اسی طرح بیان کرے ، اس میں کسی چیز کو قصدا ًچھپانا جرم ہے ۔ قرآن  ِحکیم کا ارشاد ہے:
وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْہا فَإِنَّہ آثِمٌ قَلْبُہ (البقرہ2: 283)
اور گواہی کو مت چھپاؤ، جو کوئی اسے چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہو گا۔
  واضح رہے کہ گواہی دیتے ہوئے کسی واقعے کی تفصیل میں کمی بیشی اور چیز ہے ، لیکن کسی واقعے میں  خاص اہمیت کے حامل کسی جزئیے کو قصداً چھپانا بالکل دوسری چیز ہے۔جج کسی ایسے شخص کی گواہی پر شریعت و قانون کے نقطۂ نظر سے اعتبار نہیں کر سکتا،جو جان بوجھ کر واقعے سے متعلق خاص اہمیت کی بات کو جان بو جھ کر گول کرتا ہے، خصوصاً جب کہ  ایسے مشکوک گواہ کی گواہی پر کسی شخص کو موت کی سزا سنائی جانی ہو۔ آسیہ کیس میں گواہ خواتین  واضح طور پر ایک نہایت اہم متعلقہ واقعے  کو چھپانے کی مرتکب ہوئی ہیں۔ بنا بریں وہ متعلقہ معاملے میں  شرعی اعتبار سے قابلِ قبول گواہ کی شرط پر پورا نہیں اترتیں۔مذکورہ فیصلے میں فاضل جج صاحبان نےاس  بات کو بھی خصوصی اہمیت دی ہے۔ جسٹس آصف  سعید کھوسہ نے فیصلے پر اپنی تاییدی رائے کے پیرانمبر9 میں  لکھا ہے:
Muhammad Amin Bukhari, SP (Investigation) (PW6) as well as the owner of the relevant field of Falsa namely Muhammad Idrees (CW1) had categorically stated before the trial court that the derogatory words were uttered by the appellant when there was a religious discussion between the appellant and her Muslim co-workers in the field of Falsa after Mafia Bibi (PW2), Asma Bibi (PW3) and other Muslim co-workers had stated that they would not drink water from the hands of the appellant who was a Christian by faith. According to the said witnesses it was on the basis of the said stance of the appellant’s Muslim co-workers that a “quarrel” had taken place and during the said quarrel the appellant had uttered the derogatory words against the Holy Prophet Muhammad (Peace Be Upon Him) and the Holy Qur’an. This shows that, according to the prosecution itself, the appellant had uttered the derogatory words attributed to her after the appellant’s religion was insulted and her religious sensibilities had been injured by her Muslim co-workers including Mafia Bibi (PW2) and Asma Bibi (PW3). It is unfortunate that in the FIR lodged by Qari Muhammad Salaam complainant (PW1) and in their statements made before the police under section 161, Cr.P.C. no mention was made by Qari Muhammad Salaam complainant (PW1), Mafia Bibi (PW2) and Asma Bibi (PW3) regarding any such verbal exchange or quarrel. It is also disturbing to note that both Mafia Bibi (PW2) and Asma Bibi (PW3) had completely suppressed this factual aspect of the case in their examinations-in-chief before the trial court and when it was suggested to them by the defence during their cross examination they simply denied any such verbal exchange and the ensuing quarrel. It is, thus, obvious that both Mafia Bibi (PW2) and Asma Bibi (PW3) had no regard for the truth and they were capable of deposing falsely and also that the said semi-literate young sisters had a reason to level allegations against the appellant which could be untrue. 
سینئر افسرِ تفتیش محمد امین بخاری، سپرنٹنڈنٹ پولیس (انویسٹی گیشن) (PW6)نے، اور فالسے کے متعلقہ کھیت کے مالک محمد ادریس (CW1)نے واضح طور پر ابتدائی سماعت کی عدالت کے روبرو بیان دیا کہ اپیل گزار نے توہین آمیز الفاظ اپیل گزار اور اس کی مسلمان ساتھی خواتین ،جو اس کے ساتھ فالسے کے کھیت میں کام کرتی تھیں، کے مابین کسی مذہبی بحث کے دوران کہے، جب معافیہ بی بی (PW2)اور اسماء بی بی (PW3)اور دیگر مسلمان خواتین نے کہا کہ وہ اپیل گزار کے ہاتھ سے پانی نہیں پییں گی ،کیونکہ وہ عیسائی فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ان گواہان کے مطابق اپیل گزار کی مسلمان ساتھیوں کے اس موقف پراِن کے درمیان جھگڑا ہوا اور مذکورہ لڑائی کے دوران اپیل گزار نے حضرت محمدﷺ اور قرآن کریم کی شان میں گستاخانہ الفاظ کا استعمال کیا ۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ خود استغاثہ کے مطابق، اپیل گزار نے وہ الفاظ جن کا اُس پر الزام لگایا جا رہاہے ،اپنے مذہب کی توہین اور اپنی ساتھی خواتین بشمول معافیہ بی بی(PW2)اور اسماء بی بی (PW3)کی جانب سے اپنے مذہبی احساسات مجروح ہونے کے بعد کہے۔ بدقسمتی سے قاری محمد سلام/شکایت گزار (PW1) کی جانب سے ایف آئی آر کا اندراج کرواتے ہوئے اورضابطۂ فوجداری کی دفعہ 161کے تحت اپنابیان ریکارڈ کرواتے ہوئے قاری محمد سلام/شکایت گزار(PW1)، مسماۃ معافیہ بی بی (PW2)اور اسماء بی بی(PW3)نے کہیں بھی سخت جملوں کے تبادلے اور لڑائی کا تذکرہ نہیں کیا۔ یہ مشاہدہ بھی افسوسناک ہے کہ مسماۃ معافیہ بی بی (PW2) اور اسماء بی بی (PW3)نے مقدمے کے اس حقیقی عنصر کو ابتدائی عدالت سماعت کے روبرو دورانِ جرح مکمل طور پر چھپایا اور جب وکیلِ صفائی نے دوران جرح ان سے اس ضمن میں سوال تجویز کیا، تو انھوں نے کسی قسم کے سخت الفاظ کے تبادلے اور اس کے بعد میں ہونے والے جھگڑے سے انکار کیا۔ پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں خواتین معافیہ بی بی (PW2) اور اسماء بی بی (PW3) کو سچائی کا کوئی پاس نہیں اور وہ جھوٹا بیان دے سکتی ہیں اور ان دونوں نوجوان نیم خواندہ خواتین کے پاس اپیل گزار کے خلاف جھوٹا الزام عائد کرنے کی وجہ  موجودتھی۔ 
آسیہ اور اس کی مسلمان ساتھیوں معافیہ اور اسماء کے درمیان جھگڑا ہی تو اس سارے وقوعے کی بنیاد تھا، اس کے ذکر کیے بغیرواقعے کی حقیقی نوعیت کا کھلنا محال تھا، لیکن  معافیہ اور اسما نے  نہ صرف اس کا ذکر کرنے سے گریز کیا  بلکہ اس کا انکار کیا۔اب یا تووہ  خود جانتی تھیں کہ اس واقعے کے تذکرے سے ان کا کیس کمزور ہوگا، یہ  ان کے وکلا نے ان کو پڑھایا ہو گا کہ اس کے ذکر سے کیس کمزور ہوگا، لہذا تم نے اس کاذکر بھی نہیں کرنا اور اگر پوچھا جائے تو اس کا انکار بھی کرنا ہے! جو بھی صورت ہو  جج کے لیے شک کرنے کی معقول وجہ ہے کہ جن  خواتین نے اتنے اہم واقعے کو جان بوجھ کر چھپایا وہ  ملزمہ پر الزام کے حوالے سے بھی جھوٹ بول سکتی ہیں! خواتین تو رہیں ایک طرف خود شکایت گزار قاری صاحب نے بھی ایف آئی آر کا اندراج کرواتے ہوئے اورضابطۂ فوجداری کی دفعہ 161کے تحت اپنابیان ریکارڈ کرواتے ہوئے، متعلقہ خواتین کے درمیان کسی جھگڑے یا سخت جملوں کے تبادلے کا ذکر نہیں کیا۔ جس سے واضح ہے کہ ان تینوں لوگوں نے وقوعے کی ایک نہایت اہم کڑی کو چھپایا۔
جسٹس کھوسہ نے اپنی رائے کے پیرا نمبر 10 میں  فالسے کے کھیت کے مالک محمد امین کے بہ طور گواہ شامل ہونے کو بھی مشکوک قرار دیا ہے، اوراس کی بھی معقول وجہ ہے، اگر محمد امین کے سامنے فالسےکے کھیت میں  ملزمہ نے اعتراف جرم کر کے معافی مانگی تھی  تو یہ بھی نہایت  اہم واقعہ تھا، جس کو ذکر شکایت گزار قاری محمد سلام  اور معافیہ بی بی واسما بی بی کو اپنے بیانات میں کرنا چاہیے تھا، لیکن انھوں نے کہیں اس کا ذکر نہیں کیاکہ ملزمہ نے کھیت کے مالک کے سامنے بھی اقرارِ جرم کیا تھا۔ اس کا بیان ایف آئی آر کے اندراج کے 15 دن بعد اور وقوعے  کے20 دن بعد ایس پی انویسٹی گیشن  کے روبرو سامنے آتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ  اس کو اس کیس میں بعد ازاں شامل کیا گیا۔ 
گواہوں کی جانب سے جھگڑے کی بات چھپانے کو نمایاں کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے فیصلے میں  لکھا ہے کہ  اسما بی بی (PW.3) نے پانی پلانے کے معاملے پر کسی  جھگڑے کا انکار کیا ، لیکن  کھیت کے مالک محمد ادریس (CW.1)نے اپنے بیانِ ابتدائی میں قبول کیا کہ اپیل گزار اور چشم دید گواہان کے مابین جھگڑا ہوا تھا۔(چیف جسٹس ، پیرانمبر47)
گواہوں کی گواہی کے حوالے سے جج صاحبان  کے شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کے نظریے کی تایید فیصلے میں موجود اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ  اس ضمن میں انھوں نے ایک سے زیادہ مقامات  پر ان آیاتِ قرآنی کا حوالہ دیا ہے، جو مسلمانوں  کو جھوٹی گواہی سے احتراز  اور ہر صورت میں سچی گواہی  دینے کی تلقین کرتی  ہیں۔  مثلاً جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی رائے کے پیرا نمبر 20 میں میں واضح کیا ہے کہ مقدمہ ہذا میں ہر واقعاتی زاویے کے متعلق استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ شہادتوں میں واضح اور یقینی تضادات، جن کا میں نے متذکرہ بالا سطور میں مشاہدہ کیا، سے یہ افسوس ناک اور ناقابلِ انکار تاثر قائم ہوتا ہے کہ ان تمام افراد جن کے ذمے شہادتیں اکٹھی کرنا اور تفتیش کرنے کا کام تھا، نے ملی بھگت سے یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ سچ نہیں بولیں گے، یا کم از کم مکمل سچائی کو باہر نہیں آنے دیں گے۔ یہ امر مساوی طور پر پریشان کن ہے کہ ذیلی عدالتیں متذکرہ تضادات اور خالصتاً جھوٹ پر دھیان دینے میں ناکام رہیں۔تمام متعلقہ افراد یقیناً اچھی طرح کام کرسکتے تھے، اگر انھوں نے اللہ تبارک تعالیٰ کے ان حکام پر جو قرآن کریم میں درج ہیں ،دھیان دیا ہوتا کہ "اے ایمان والو! خدا کے لئے انصاف کی گواہی دینے کے لئے کھڑے ہو جایا کرو ،اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمھارے سب اعمال سے خبردار ہے۔" (سورۃ المائدہ آیت8) "اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمھارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیرخواہ ہے، تو تم خواہش ِنفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدہ شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) خدا تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔ (سورۃ النساء آیت 135 )
جسٹس کھوسہ نے جرگہ اور عوامی اجتماع سے متعلق حقائق کے معاملے میں  بھی متعلقہ لوگوں کی  سچائی کو باریک بینی سے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔پیرا نمبر 14میں ان کا کہنا ہے کہ مقدمہ ہذاکی ایک اور مبینہ پیش رفت عوامی اجتماع (جرگہ) کا انعقاد ہے جو 19-06-2009 کو منعقد ہوا ، جس میں اپیل گزار کو بلایا گیا اور بیانات کے مطابق اس نے وہاں اعتراف جرم کیا اور معافی کی خواست گار ہوئی۔ مجھے لگتا ہے کہ عوامی اجتماع (جرگہ) اور وہاں جو کچھ بھی ہوا کے متعلق استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ شہادت نہ صرف سوچی سمجھی بلکہ محض اختراع کو سانچے میں ڈھالنے کی کوشش ہے۔ مذکورہ عوامی اجتماع مورخہ 19-06-2009 کو دوپہر کے وقت منعقد ہوا اور اپیل گزار کے خلاف قاری محمد سلام / شکایت گزار (PW.1) کی جانب سے مبینہ توہین رسالت کے جرم کے متعلق ایف آئی آر مقامی تھانے میں اسی روز مورخہ 19-06-2009 کو شام 05:45 پر درج کی گئی ،لیکن یہ مشاہدہ انتہائی حیران کن ہے کہ ایف آئی آر میں عوامی اجتماع جو اسی دن ہوا اور اس اجتماع میں اپیل گزار کو بلانے اور اس کی جانب سے مجمع کے سامنے اقبال ِجرم کرنے اور معافی مانگنے کا تذکرہ نہیں۔ واقعہ کی تفصیل جو ایف آئی آر میں درج ہے، اس کے مطابق مورخہ 19-06-2009کو قاری محمد سلام شکایت گزار (PW.1)، محمد افضل (PW.4) اور مختار احمد نے اسماء بی بی (PW.3) وغیرہ کو بلایا اور جب اپیل گزار سے مورخہ 14-06-2009 کو وقوع پذیر واقعہ کے متعلق پوچھا تو اس نے اعتراف کیا اور معافی مانگی۔ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ابتدائی تفتیشی آفیسر محمد ارشد سب انسپکٹر (PW.7) نے اس ہی دن معافیہ بی بی (PW.2)، اسماء بی بی (PW.3) اور محمدافضل (PW.4) کے بیانات ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت ریکارڈ کیے، اور مذکورہ بیان میں یہ گواہان اس عوامی اجتماع کے انعقاد جو اسی دن ہوا تھا، اس اجتماع میں اپیل گزار کو پیش کرنے، اپیل گزار کی جانب سے اعتراف جرم کرنے اور معافی مانگنے کے متعلق کچھ بھی بتانے سے قاصر رہے۔ اس ضمن میں پیرا نمبر 17 میں جسٹس کھوسہ نے لکھا کہ شکایت گزار کی جرح کے دوران وکیلِ صفائی نے سوال تجویز کیا کہ اس نے درخواست (Exhibit-PA)مہدی حسن اے ایس آئی کو چندر کوٹ نہر کے پل پر دی تھانے میں نہیں، لیکن شکایت گزار نے مذکورہ تجویز سے مکمل طور پر انکار کیا اور قرار دیا کہ یہ تجویز کیا جانا کہ درخواست (Exhibit-PA)اس نے تھانے میں پیش نہیں کی تھی، سراسر غلط ہے۔ شکایت گزار نے یہاں جھوٹ بولا ہے کیونکہ مذکورہ درخواست (Exhibit-PA)کے آخر میں مہدی حسن اے ایس آئی نے اندراج کر رکھا تھا کہ شکایت گزار نے یہ درخواست اس کو 5بج کر 45منٹ پر مورخہ 19-06-2009 کو پل نہر چندر کوٹ پر دی۔ شکایت گزارکے اس جھوٹ کا بھانڈہ مہدی حسن اے ایس آئی پھوڑ سکتا تھا، لیکن اس کو نامعلوم وجوہات کی بناء پر استغاثہ کے روبرو پیش نہیں کیا۔یہ انتہائی عجیب اور عام حالات سے ہٹ کر ہے کہ قاری محمد سلام شکایت گزار (PW.1) جس نے یہ فوجداری مقدمہ شروع کیا کو یہ یاد نہیں کہ درخواست (Exhibit-PA)برائے اندراج ایف آئی آر کس نے تحریر کی اور اس کو یہ بھی پتہ نہیں کہ مذکورہ درخواست ایف آئی آر کے اندراج کے لئے کہاں اور کس کے روبرو پیش کی گئی۔ پس یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پردے کے پیچھے کچھ او رچل رہا تھا اور زیرِ نظر فوجداری مقدمے کو آگے بڑھانے والے عناصر کوئی اور تھے, جو کبھی سامنے نہیں آئے۔ اس کے علاوہ زیرِ نظر مقدمے میں ایف آئی آر قاری محمد سلام شکایت گزار (PW.1) نے درج کروائی جو مورخہ14-06-2009  کو فالسے کے کھیت میں وقوع پذیر ہونے والے واقعہ کے وقت وہاں موجود نہ تھا اور جس نے خود وہ توہین آمیز الفاظ نہیں سنے، جو اپیل گزار سے منسوب کئے گئے ہیں۔ اس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آرسے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ کس خاتون ساتھی سے مخاطب ہوتے ہوئے اپیل گزار نے توہین آمیز الفاظ کہے۔ اچھی خاصی تاخیر اور باقاعدہ غور و فکر اور صلاح  مشورہ کے بعد درج کی جانے والی ایف آئی آر اپنی ساکھ /اہمیت کھو دیتی ہے اور موجودہ مقدمے میں ایف آئی آر پانچ یوم کی بلاجواز تاخیر کے بعد درج ہوئی اور شکایت گزار نے خود قبول کیا کہ اس نے اور گاؤں کے لوگوں نے معاملے کے متعلق "تفتیش" ’"مشاورت" کی اور "معاملے کا گہرائی سے جائزہ لیا۔" پش شکایت گزار اور اس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر قابلِ اعتبار نہیں ہے۔

پولیس کا مشکوک کردار

شرعی ضابطے کی رو سے عدالت کے سامنے حقائق پیش کرنے والے اہل کاروں  کاسچا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے ، جتنا گواہوں کا، اس لیے کہ وہ چاہیں تو گواہی میں کمی بیشی کر سکتے ہیں۔ فاضل جج صاحبان نے پولیس کے کردار کو بھی خوب خوب جانچا اور اس میں موجود بدیہی تضادات کی نشان دہی کی ہے۔ جسٹس کھوسہ کے پیرا نمبر 18 میں  کہا گیا ہے کہ مقدمہ ہٰذا میں ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پولیس کی جانب سے کی گئی تفتیش میں بھی بہت سے عوامل سے مرضی کے مطابق صرفِ نظر کیا گیا۔ قاری محمد سلام (PW.1) نے ابتدائی عدالتِ سماعت کے روبرو قبول کیا کہ توہینِ رسالت کے جرم کے ارتکاب کے لیے ایف آئی آر کے اندراج کے لئے ڈسٹرکٹ کو آرڈنیشن آفیسر یا ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے کوئی اجازت نہیں لی گئی۔ مقدمہ ہٰذا کی ابتدائی تحقیق و تفتیش پولیس کے سب انسپکٹر یعنی محمد ارشد سب انسپکٹر (PW.7) نے کی جو کہ ضابطۂ فوجداری کی دفعہ -A 156 کی خلاف ورزی ہے ،جس کے مطابق اس طرح کے مقدمات کی تفتیش پولیس سپرنٹنڈنٹ سے کم درجےکا شخص نہیں کر سکتا۔ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد محمد ارشد سب انسپکٹر (PW.7) کو مقدمے کی تفتیش سونپی گئی اور وہی جائے وقوعہ پر پہنچا، گواہان کے بیانات ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 161کے تحت ریکارڈ کیے گئے، اور اپیل گزار کو اس ہی دن مورخہ 19-06-2009 کوگرفتار کیا۔ محمد امین بخاری، سپرنٹنڈنٹ پولیس (انوسٹی گیشن) ابتدائی عدالتِ سماعت کی عدالت کے روبرو بطور (PW.6) پیش ہوا اور اس نے بیان کیا کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس / ریجنل پولیس آفیسر رینج شیخوپورہ  کی جانب سے مقدمے کی تفتیش مورخہ24-06-2009 کواس کے سپرد کئے جانے کے بعد مقدمہ ہٰذا کی باقی تفتیش اس نے مکمل کی۔ (PW.6) کا بیان حقیقتاً غلط ہے کیونکہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس / ریجنل پولیس آفیسر رینج شیخوپورہ کا متعلقہ خط مورخہ26-06-2009 کو بھیجا گیا جو خود (PW.6)کے بیان سے واضح ہے۔مذکورہ آفیسر نے کبھی بھی جائے وقوعہ کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی گواہان کے بیانات خود ریکارڈ کیے۔ یہاں تک کہ حالات جن میں اپیل گزار کو گرفتار کیا گیا مقدمہ ہٰذا کے تناظر میں انتہائی مشکوک ہیں۔ محمد ارشد سب انسپکٹر (PW.7) نے ابتدائی عدالتِ سماعت کو بیان دیاکہ اس نے اپیل گزار کو مورخہ19-06-2009  کو اس کے گھر سے گرفتار کیا۔ محمد ادریس (CW.1) نے اس بابت تاہم ایک دوسری کہانی سنائی ،جس کے مطابق مذہبی رہنما جو عوامی اجتماع میں موجود تھے، نے اپیل گزار کو پولیس کے حوالے کیا اور اپیل گزار کو حاجی علی احمد کے ڈیرے سے گرفتار کیا گیا، جہاں عوامی اجتماع منعقد کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے بیانات کے اس تغیر کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے متعلقہ پولیس آفیسرکے کردار کو مشکوک ٹھرایا ہے ،جیسا کہ اس(PW.7)نے اپنی جرح کے دوران بیان دیا کہ ملزم کو اس نے دو ساتھی خواتین کانسٹیبل کی مدد سے جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں گرفتار کیا اور اسے جوڈیشل لاک اپ میں بھیج دیا۔ پھر جرح کے دوران یہ بیان کیا گیا کہ اس نے ملزمہ کو19-06-2009 کو اس کے گھر جو دیہات"اٹاں والی" میں واقع ہے، تقریباً شام کے چار پانچ بجے کے قریب گرفتار کیا تاہم بعدازاں ایک اور موقع پر اس نے کہا کہ وہ دیہات اٹاں والی تقریباً 7بجے کے قریب پہنچا اور وہاں ایک گھنٹے تک رکا۔(چیف جسٹس، پیرا نمبر 40) 

یہ  توہین ہمارے یہاں  کےعیسائیوں کے یہاں غیر مشاہد ہے

حقیقت یہ ہے کہ اس کیس کے مطالعے سے  قبل ہی   جب میں  ننکانہ کے گاؤں "اٹاں والی" کی آسیہ مسیح کو تصور میں لاتا تو  میرے دماغ  کی سکرین پر گوجرانوالہ میں واقعے اپنے  گاؤں"چانگانوالی"کی لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی ،کھیتوں میں مزدوری کرنے والی، سادہ اور اَن پڑھ عیسائی خواتین اور اس مسیحی برادری   کے چہرے گھومنے لگتے، جو ہمارے گھر کے آس پاس اور بالکل سامنے رہتی آ رہی ہے۔(یہ سارے  لوگ اب تقریباً تلاشِ روزگار کے حوالے سے کراچی وغیرہ شہروں میں جا چکے ہیں ،ایک نوجوان جس کا نام لاذر مسیح اور جس کی بیوی کا نام ریٹا ہے، اب  بھی کی قدیم سادگی ،پسماندگی اور نا خواندگی کی ان یادوں کو تازہ رکھے ہوئے  ہے، اور گاؤں میں ہمارے گھر کے مقابل رہایش پذیر ہے۔) ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ان کی کسی خاتون ، بڑھے بوڑھے  وغیرہ نے اسلام کے شعائر کی کبھی توہین کی ہو، یا حضورﷺ اور قرآن و اسلام کے بارے میں گستاخانہ الفاظ کہے ہوں، یا کسی مذہبی معاملے میں ان عیسائیوں اور مسلمانوں میں کوئی جھگڑا ہوا ہو ۔ان بے چاروں  کوتو اپنے مذہب کی انتہائی بنیادوں باتوں کا بھی علم نہیں  چہ جائیکہ انھیں حضور نبی اکرمﷺ، آپ کی ازواجِ مطہرات اور قرآن کے بارے میں کوئی علم ہو(خواہ اعتراض ہی کے لیے  ہو)۔ حد یہ ہے کہ یہ لوگ تو بہت سے سارے امور میں دانستہ یا نا دانستہ مسلمانوں کی تقلید کرتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ اور قرآن سے مسلمانوں ہی کی طرح اظہارِ محبت  دانستہ یا دانستہ ان میں بھی ہم عام دیکھا کرتے تھے۔ان کی خواتین مرغے ذبح کرانے ہمارے پاس آتیں ۔ ان کا کوئی بزرگ فوت ہو جاتا تو وہ مسلمانوں ہی کی طرح قل ، دسویں چالیسویں کا اعلان کرتے۔ بابا عنایت مسیح ، جو ہم سے بہت پیار کرتا تھا، فوت ہوا تو گھر والوں نے مسلمانوں کی رسم کے مطابق گھر میں پُھوڑی بچھا لی۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ایک حاجی صاحب اس  پُھوڑی پر فاتحہ کے لیے گئے اور بعض لوگوں کے  نشانۂ تنقید بنے کہ تم ایک غیر مسلم کے لیے دعاے مغفرت کرنے گئے تھے؟ ان بے چاروں نے کبھی اس پر بھی اعتراض نہیں کیا کہ مسلمان ان کے برتن کو کیوں ہاتھ نہیں لگاتے یا اپنے  برتن میں ان کو کیوں کھانا نہیں دیتے۔مجھے یاد ہے میری دادی   اور  امی صبح صبح دودھ رِڑکتیں اور بہت زیادہ لسی بناتیں  تو روازانہ سویرےسویرے گاؤں سے لسی لینے والی خواتین کا تانتنا بندھ جاتا، وہ مسلمان خواتیں کے برتن ہاتھ میں پکڑ کر چاٹی کے ساتھ لگا کر انھیں لسی انڈیل کر دیتیں ، لیکن لشمی سَین (لشمی نام کی عیسائی خاتون) اور سَیدو سَین وغیرہ  اپنے برتن دور ہی رکھ دیتیں اور میری دادی یا امی ان کا حصہ اپنے برتن میں ڈال کر ان کے برتن میں یوں انڈیلتیں کہ اپنا برتن سَین کے برتن سے ٹچ نہ کرے۔ ان بے چاریوں نے کبھی یہ اعتراض بھی نہ کیا کہ ہمیں یوں اچھوت اور قابلِ نفرت کیوں سمجھا جاتا ہے!  انھوں نے گویا تسلیم کر لیا ہوا تھا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں ان کا سٹیٹس یہی ہے۔
اس سارے سینیریو میں، سچی بات یہ ہے کہ  مجھے وہ بات ہضم نہیں ہوتی تھی ،جو آسیہ مسیح کی طرف  منسوب کی جا رہی تھی۔میرے خیال میں وہ اپنے پس منظر او رحالات و ماحول کے لحاظ سے  توہین کے ایسے الفاظ نہیں بول سکتی تھی ، جو اس کی طرف منسوب کیے جا رہے تھے۔مقدمے ، سپریم کورٹ کے آسیہ کی رہائی سے متعلق فیصلے، اور  آسیہ کے اپنے بیان  کے مطالعے سے قبل میں سوچتا تھا کہ شاید ان میں میرے اس احساس کو بھی کہیں ایڈریس کیا گیا ہوگا یا نہیں ، لیکن مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ یہ احساس آسیہ کے بیان اور سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کے بیان میں بھی واضح طور پر موجود تھا۔ جسٹس کھوسہ  نے اس تناظر کو  آسیہ کے حق میں استعمال کیا اور آسیہ کے مذکورہ بالا بیان کو حوالہ دیتے ہوئے باور کرایا کہ مذہبی معاملے میں عام مسلمانوں کے ساتھ  آسیہ اور اس کے خاندان کے قیام پاکستان سے لے  کر غیر متنازعہ رویے کے تناظر میں اس پر لگائے گئے الزام میں شک کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔(دیکھیے : جسٹس کھوسہ، پیرا نمبر22)

دوسرے کے مذہب کی توہین بھی جرم ہے

اسلام کے نقطۂ نظر سے  دوسرے مذاہب اور ان کی محترم شخصیات کی توہین بھی بہت بڑا جرم ہے۔مسلمانوں کو  اس حوالے سے  ، اپنے دین کی تبلیغ اور دوسروں کے غلط اور باطل نقطۂ ہائے نظر کی تردید و تغلیط  کے معاملے میں بھی حکمت اور احتیاط کو ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ادْعُ إِلَی سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃ وَالْمَوْعِظَۃ الْحَسَنَۃ وَجَادِلْہم بِالَّتِي ھيَ أَحْسَنُ (النحل 16: 125)
اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعے بلاؤ اور ان سے بہترین انداز سے مباحثہ کرو۔
اس ضمن میں اسلام نے دوسروں کے باطل معبودوں کو بھی گالیاں دینے سے منع کیا ہے کہ یوں جواب میں وہ تمھارے سچے معبود کو گالیاں  دیں گے اور فساد پھیلے گا:
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہ فَيَسُبُّوا اللَّہ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام6: 108)
جن کو یہ لوگ اللہ کے علاوہ پکارتے ہیں ، انھیں گالی مت دو، ورنہ وہ دشمنی کی بنا پر نادانی میں اللہ کو گالی دیں گے۔ 
لہذا توہین کے کیس میں اس پہلو کر ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کہیں ملزم کے مذہب یا محترم شخصیات کی توہین کر کے اسے اشتعال تو نہیں دلایا گیا تھا! زیرِ نظر کیس میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ مسلمان خواتین نے آسیہ کو مذہبی حوالے سے مشتعل کیا ہو، جس کے جواب میں اس نے کوئی نا زیبا کلمہ کَہ دیا ہو، اس صورت میں سارے قضیے کی بنیادی وجہ وہ مسلم خواتین قرار پاتی ہیں ،جن  کی طرف سے قرآن کے اس فرمان کی خلاف ورزی کی گئی ہے کہ دوسروں کے مذہب اور معبود کی توہین نہ کرو، ورنہ نتیجہ تمھارے دین و مذہب کی توہین کی صورت میں برآمد ہوگا۔ زیرِ نظر فیصلے میں فاضل جج صاحبان نے اس تناظر کو بھی خوب خوب ملحوظ رکھا ہے اور اس ضمن میں اسلام کے متعلقہ اصولوں کا حوالہ بھی یا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے پیرا نمبر 23 میں واضح کیا ہے کہ  محمد ادریس (CW.1) اور محمد امین بخاری ایس پی انوسٹی گیشن (PW.6) نے ابتدائی عدالتِ سماعت کے روبرو جو بیان دیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مبینہ توہین رسالت کا ارتکاب عیسائی اپیل گزار نے اپنی مسلمان ساتھی خواتین کے ہاتھوں اپنے مذہب کی توہین اور اپنے مذہبی جذبات مجروح ہونے کے بعد کیا ،کیونکہ وہ یسوح مسیح پر یقین رکھتی تھی اور حضرت عیسیٰ کی پیروکار تھی۔ قرآن کریم کے مطابق ایک مسلمان کا عقیدہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا، جب تک وہ نبی کریمﷺ کی ذات پاک اور اللہ کے دیگر پیغمبروں، جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام (ابن مریم) بھی شامل ہیں،  اور تمام الہامی کتب بشمول بائیبل (Bible) پر یقین نہ رکھے۔ اس تناظر میں اپیل گزار کےمذہب کی مسلمان ساتھی خواتین کی جانب سے توہین بھی مذہب کی توہین سے کم نہیں ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ جو تمام مخلوق کا خالق ہے، جانتا ہے کہ ایک انسان کے مذہب یا مذہبی جذبات کی توہین کرنا مشتعل کرنے کے مترادف ہے اور اس وجہ سے قرآن کریم میں حکم دیا گیا کہ:" جن  کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بے ادبی سے ،بے سمجھے برا(نہ)کَہ بیٹھیں۔"(سورۃ الانعام آیت108)۔اگر اپیل گزار کے خلاف لگائے گئے الزامات کو درست مان لیاجائے تب بھی اپیل گزار کا بیان کردہ عمل اس سے مختلف نہیں تھا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کی ہے۔

عیسائیوں سے حضورﷺ کے معاہدے کی خلاف ورزی

سپریم کورٹ کی جانب سے متعلقہ کیس میں اسلامی اصولوں کو سامنے رکھنے  کے حوالے سے ایک اور اہم مثال سیرت طیبہ سے حضورﷺ کے عیسائیوں سے کیے گئے معاہدے کا تذکرہ اور اس سے متعلقہ کیس میں شرعی رہنمائی  کا حصول بھی ہے۔پیرا نمبر  24 اور 25کے مطابق جسٹس کھوسہ کا کہنا ہے کہ استغاثہ کی جانب سے دی گئی شہادتوں میں موجود سنگین تضادات کے تناظر میں یہ یکساں طورپر معقول محسوس ہوتا ہے کہ اپیل گزار اور اس کی مسلم ساتھی خواتین کے مابین جائے وقوعہ پر ایک جھگڑا ہوا، جس میں اپیل گزارنے کسی قسم کے توہین آمیز الفاظ نہیں کہے۔مسلم خواتین نے جھگڑے کی اطلاع دیگر افراد کو دی ،جنھوں نے پانچ دن کےطویل عرصے اس پر غور وفکر اور منصوبہ بندی کی اور اپیل گزار کے خلاف توہین رسالتﷺ کا جھوٹا الزام لگانے کا فیصلہ کیا۔اگر ایسا تھا تو مقدمہ ہٰذا کی مسلمان گواہان نے ہمار ے پیارے نبیﷺ کے عیسائی مذہب کے پیروکاروں سے کیےگئے میثاق کی خلاف ورزی کی۔ جان اے مورو نے اپنی کتاب"پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ کے دنیا کے عیسائی مسلمانوں سے کئے گئے معاہدات"( شائع شدہ اینجلکیو پریس01/09/2013) میں ایسے بہت سے معاہدات، جو پیغمبر خدا حضرت محمدﷺ نے عیسائی مذہب کے پیروکاروں سے کیے، کا تذکرہ اور اندراج کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک معاہدہ جبل سینا کے راہبان سے حضرت محمدﷺ کا میثاق کہلاتا ہے۔ 628 ءہجری کے قریب سینٹ کیتھرین کےخانقاہ جو دنیا کی قدیم ترین خانقاہ ہے ،اور مصر کے جبل سینا کے دامن میں واقع ہے، کا ایک وفد نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور اپنے تحفظ کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی اوران کوایک میثاق حقوق عطا کیاگیا۔ مذکورہ میثاقِ حقوق جس کو سینٹ کیتھرین سے عہد بھی کہاجاتا ہے، عربی زبان سے انگریزی زبان میں ڈاکٹر اے ظہور اورڈاکٹر زیڈ حق نے اس طرح ترجمہ کیا :"یہ محمدﷺابن عبداللہ کی جانب سے دور ونزدیک بسنے والے ان افرادجنھوں نے عیسائی مذہب اختیار کیا، کے لیے پیغام(معاہدے کی صورت) ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں،میرے پیروکاران کا دفاع کریں گے کیونکہ عیسائی میرے شہری ہیں اور خدا کی قسم میں ہر اس عمل کے خلاف ہوں جو انھیں ناخوش کرے گا۔ ان پر کوئی پابندی نہیں، نہ ہی ان کے منصفین کو اپنے عہدوں سے ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کے راہبان کو ان کی خانقاہوں سے الگ کیا جائے گا۔ کسی کو بھی ان کے گھروں کو تباہ کرنے ،نقصان پہنچانے اور وہاں سے کچھ اٹھاکر مسلمانوں کے گھر لے جانے کی اجازت نہ ہوگی۔ جو کوئی ان میں سے کچھ لے کر جائے گا وہ اللہ سے معاہدہ شکنی کرے گا ،اور اس کے پیغمبرﷺ کی  نافرمانی کرے گا ۔ در حقیقت وہ میرے دوست ہیں اور ہر وہ شخص جو ان سے نفرت کرتا ہے، سے تحفظ کے لئے ان کے ہمراہ میرا میثاق ہے ۔ کوئی بھی ان کو نقل مکانی پر مجبور نہیں کرے گا اور نہ ہی ان پر جنگ لڑنے کے لئے دباؤ ڈالے گا۔ مسلمان ان کے لئے لڑیں گے۔ اگر کوئی عیسائی خاتون کسی مسلمان سے شادی کرتی ہے تو ایسا اس (خاتون) کی مرضی کے بغیر نہیں ہونا چاہیے، اور اس کو عباد ت کے لئے چرچ جانے سے نہیں روکا جائے گا ۔ ان کے چرچ (عبادت گاہوں) کی عزت کی جائے گی۔ ان کو نہ تو کبھی عبادت گاہوں کی مرمت سے ر وکا جائے گا اور نہ ہی ان کے مقدس معاہدوں سے قوم(مسلمانان) میں سے کوئی بھی قیامت کے دن تک اس میثاق روگردانی  کرے گا۔"یہ عہد دائمی اور عالمگیر ہے اور محض سینٹ کیتھرین تک محدود نہیں ہے ۔ مذکورہ میثاق کے تحت پیغمبرِ خدا کی جانب سے دئیے گئے حقوق حتمی ہیں اور نبی کریم ﷺ نے قرار دیا ہے کہ تمام عیسائی آپﷺ ؐ کے رفقاء میں سے ہیں اور آپﷺ نے عیسائیوں کے ساتھ ناروا سلوک کو اللہ کےمیثاق سے روگردانی قرار دیا ۔ یہ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ میثاق میں عیسائیوں پر استحقاق کے حصول کے لئے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی اور یہ ہی کافی ہے کہ وہ عیسائی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کو اپنے عقائد میں ردوبدل کی ضرورت نہیں ،نہ ہی کوئی قیمت ادا کرنی ہے اور نہ ہی ان پر کوئی ذمہ داری ہے ۔ یہ میثاق حقوق کے متعلق ہے بغیر فرائض کے یہ واضح طور پر حقِ جاییداد، آزادیِ مذہب، آزادیِ عمل اور شخصی حقوق کو تحفظ دیتا ہے ۔لیکن  بدقسمتی سے زیر نظر مقدمے میں ناموس رسالت کے مقدس نظریے کو استعمال کرتے ہو۔ پیغمبر خدا حضرت محمد ﷺ کے متذکرہ عہد کی پاسداری نہ کی گئی۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ فالسے کے کھیت میں ہونے والے جھگڑے کے بعد دروغ گوئی کی دعوتِ عام ہوئی اور شکایت کنندہ فریق، جس کی قیادت قاری محمد سلام شکایت گزار کررہا تھا نے قرآن کریم میں درج اللہ تبارک تعالیٰ کے درج  ان احکام کو فراموش کر دیا ،جو ہر انصاف  کرنے اور ہر حال میں سچی گواہی دینے کی تلقین کرتے ہیں، خواہ وہ گواہی اپنے یا اپنے رشتہ داروں ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔

ماوراے عدالت اقرار اور پھر اس پر معافی مانگنا بھی شک کو جنم دیتا ہے

ایک بات جس کو راقم الحروف نے کیس کے مطالعے کے دوران بار بار محسوس کیا  وہ   استغاثہ کا اس بات پر زور ہے کہ ملزمہ نے  فلاں جگہ مجمعے میں اور فلاں شخص کے روبرو جرم کا اقرار کیا اور معافی کی خواست گار ہوئی۔ملزمہ کہتی ہے کہ اقرار دباؤ سے کروایا گیا۔ لوگ اس میں دباؤ کے عنصر کا انکار کرتے ہیں، لیکن راقم کے نزدیک اس سے دباؤ ہی نہیں   لالچ کے ذریعے اقرار کا عنصر بھی نمایاں نظر آتا ہے۔اقرار کے ساتھ ساتھ ہر جگہ معافی کا خواست گار ہونا واضح کر رہا ہے کہ اس بے چاری کو لالچ دیا جا رہا تھا کہ اقرار کر کے معافی مانگ لو، قضیے سے چھوٹ جاؤ گی۔ اس میں شک تو جب نہ ہوتا جب وہ صرف اعترافِ جرم کرتی، لیکن وہ تو ساتھ ساتھ  معافی بھی مانگ رہی ہے۔ظاہر ہے اسے اعتراف کے بعد معافی مانگنے سے چھوٹنے کا لالچ دیا گیا ہے ۔اور ایسے سادہ لوگوں کا اس طرح کے ٹریپ میں آ جانا عام بات ہے۔اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوگا کہ اس سے مقصد فی الواقع اسے  چھوڑنا نہیں پھنساناتھا۔آپس میں گویا  یہ طے تھا کہ یہ اقرار تو کرے،معافی کس نے دینی ہے!سچی بات یہ کہ یہ اقرار تبھی معتبر تھا، جب وہ معافی کے بغیر کرتی ۔ پھر جس طرح اسے سیکڑوں لوگو ں کے مجمع میں لایا گیا وہ اس کے اقرار کے ہیجانی کیفیت میں وجود میں آنے کو واضح کرتا ہے۔ 
معزز جج صاحبان نے اس مبینہ اقرار کے اس جھول کا بھی صحیح صحیح ادراک کیا ہے۔ فیصلے کے مطابق مبینہ ماورائے عدالت اقبالِ جرم آزادانہ نہ تھا بلکہ زبردستی اور دباؤ کے تحت حاصل کیا گیا تھا ،کیونکہ شکایت گزار نے اپیل گزار کو زبردستی عوامی مجمعے کے سامنے کھڑا کیا جوکہ اسے مارنے کے درپہ تھے۔ (چیف جسٹس ، پیرا نمبر 24 ) اپیل گزار کو سیکڑوں لوگوں کے مجمع میں لایا گیا، وہ اس وقت تنہا تھی۔ صورتِ حال ہیجان انگیز تھی اور ماحول خطرناک تھا۔ اپیل گزار نے اپنے آپ کو غیرمحفوظ اور خوف زدہ پایا اور مبینہ ماورائے عدالت بیان دے دیا۔ گو یہ بیان اپیل گزار کی جانب سے عوامی اجتماع کے روبرو دیا گیا ،لیکن اس کو رضاکارانہ طور پر دیا گیا بیان تصور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کو سزا، بطور خاص سزائے موت کی بنیاد گردانا جاسکتا ہے۔( چیف جسٹس، پیرا نمبر 44 )مزید براں قانونِ شہادت آرڈر مجریہ1984ء کے تحت ملزم کی جانب سے کیا گیا اقبال فوجداری کارروائی میں اس صورت میں غیرمتعلق ہوتا ہے ،جب عدالت کے علم میں یہ امر آئے کہ یہ اقبال ملزم سے کسی دھمکی، دباؤ یا فرد جرم کے متعلق کسی رعایت کے وعدے کے بعد حاصل کیا گیا ہے، یا کسی بااختیار شخص سے کارروائی کروانے کے لئے یا عدالت کی رائے قائم کرنے کے لئے تاکہ ملزم شخص کو یہ مناسب لگے کہ اعتراف کرنے کے بعد وہ اپنے خلاف جاری کارروائی میں کسی سنگین قسم کی مصیبت سے بچ جائے گا۔(چیف جسٹس، پیرا نمبر43)پھر  ماوراے عدالت اقرارِ جرم  کوئی معتبر شہادت بھی  نہیں ہوتی ۔عدالت نے مسلسل قرار دیا ہے کہ ماورائے عدالت اقبال جرم ضعیف قسم کی شہادت ہوتی ہے ،اور ایسے اقبالِ جرم پر انحصار کرتے ہوئے حد درجے احتیاط لازم ہے۔ چونکہ اس کو آسانی سے گھڑا جا سکتا ہے، اس لئے اسے ہمیشہ شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ عمومی طور پر قدرتی حالات و واقعات، انسانی رویوں، طرزِعمل اور ممکنات کو مدنظر رکھتے ہوئے ماورائے عدالت اقبال کی قانونی اہمیت قدرے ناقص ہوتی ہے۔ اگر یہ اولین درجے پر سچ محسوس ہو، تو اس کو فرد جرم کی تائید کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس کو دیگر ناقابلِ مواخذہ گواہی سے مزید تقویت ملتی ہو۔ اگر دیگر شہادتوں میں یہ خواص نہ ہوں تو اس پر توجہ نہیں دی جانی چاہیے۔ اس ضمن میں ان مقدمات کا حوالہ دیا جانا ضروری ہے۔ناصر جاوید بنام ریاست (SCMR 1144 2016)، عظیم خان اور دیگر بنام مجاہد خان اور دیگران (2016 SCMR 274)، عمران عرف ڈلی بنا ریاست (2015 SCMR 155)، حامد ندیم بنام ریاست (2011 SCMR 1233)، محمد اسلم بنام صابر حسین (2009 SCMR 985)، ساجد ممتاز اور دیگران بنام بشارت اور دیگران 2006 SCMR 231))، محمد اسلم بنام صابر حسین (2009 SCMR 985)، ضیاء الرحمن بنام ریاست (2008 SCMR 528) اور سرفراز خان بنام ریاست اور دو دیگران (1996 SCMR 188)۔(چیف جسٹس، پیرا نمر 42)

مبلغ یہاں  یوں کھیتوں میں کام نہیں کرتے!

مقدمے  میں  ،جسٹس کھوسہ ، پیرا نمبر 4میں، موجود استغاثے کو جو الزام راقم الحروف  کو کسی طرح ہضم نہیں ہو سکا  ، وہ ملزمہ کے مبلغہ  ہونے کا الزام ہے۔اس ملک میں ہمارے کتنے مولوی اور ان کی بیویاں کھیتوں میں کام کرتی ہیں؟ عیسائیوں کے ہاں تو اپنے پادریوں اور مبلغین کی اور زیادہ عزت کی جاتی اور ان کے معاش کا بندوبست کیا جاتا ہے۔میں اپنے گاؤں کے عیسائیوں کی مذہبی و معاشرتی حالت کا خاکہ اوپر پیش کر چکا ہوں، ہمارےگاؤں میں جو پادری صاحب آتے تھے وہ اچھے کھاتے پیتے تھے اور سوائے مذہبی تہواروں پرعیسائیوں کی مذہبی رسومات  کی ادائی میں رہنمائی کے وہ اور کوئی کام نہیں کرتے تھے۔آسیہ بی بی اگر عیسائی مذہب کی مبلغہ ہوتی تو کبھی بھی یوں کھیتوں میں مزدوری نہ کرتی پھرتی! 

کسی بے گناہ کو سزا نہ ہوجائے 

فیصلے میں اس شرعی و اخلاقی اصول کی پوری پوری پاس داری نظر آتی ہے کہ  کسی بے گناہ کو سزا نہ ہوجائے۔ شریعت کے مطابق قاضی یا حاکم کا غلطی سے ملزم کو بری کر دینا، غلطی سے سزا دینے سے بہتر ہے۔حضورﷺ کا فرمان ہے:
ادرؤا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنْ كَانَ لَہ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِيلَہ فَإِنَّ الْإِمَامَ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعَفْوِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعُقُوبَۃ (ترمذی،3570)
جہاں تک ممکن ہو مسلمانوں سے  حدود دفع کرو،اگر اس کے لیے کوئی راستہ ہو تو اس کی راہ چھوڑ دو، بلاشبہ امام کا معاف کرنے میں غطی کرنا ، اس سے بہتر ہے کہ سزا دینے میں غلطی کرے۔
اس حدیث پر مولانا احمد یار خاں نعیمی کا  ایک حاشیہ دیکھیے:" حاکم مقدمہ سننے کے بعد خطاءً ملزم کو سزا نہ دے ،اسے شک کی بنا پر چھوڑ دے حالانکہ وہ سزا کے لائق تھا، یہ اس سے بہتر ہے کہ بے قصور کو سزا دے دے ،کیونکہ سزا نہ دینے کی صورت میں اﷲ کی معافی کی امید ہے کہ مجرم توبہ کرکے نیک بن جائے مگر بے قصور کو سزا دینے میں ظلم بھی ہے اور آئندہ استغفار کی امید بھی نہیں، مثلًا محصن زانی کو حاکم کہے کہ شاید تو نے بوسہ لے لیا ہوگا یا چھو لیا ہوگا وغیرہ اور ملزم کہے جی ہاں میں نے یہی کیا تھا اور رجم سے بچ جائے ،تو اگرچہ رجم کے لائق تھا مگر حاکم گنہگار نہیں اور مجرم کے توبہ کی امید ہے، لیکن اگر اسے بغیر تحقیق رجم کردیا گیا اور واقعہ میں وہ رجم کے لائق نہ تھا تو اب تلافی کیسے ہوسکے گی، اب بھی حکومتیں قتل کی سزا میں بڑی تحقیق کرتی ہیں، کبھی شک کا فائدہ دے کر بری کردیتی ہیں،یہ ہی توجیہ قوی ہے۔(مرقات واشعہ) " (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ،5/252-253)
حدود کو ٹالنے کے ضمن میں حضورﷺ کے مذکورہ بالا فرمان کے علاوہ بھی متعدد فرامین مروی ہیں ۔مثلاً ایک اور حدیث میں ہے:ادفعواالحدود ماوجدتم لھا مدفعاً (ابن ماجہ ، الحدود2545)" جہاں تک ہو سکے حدود کو ساقط کرو۔" یہ فرامین  اس حقیقت کو عیاں کر رہے ہیں کہ شریعت لوگوں کو سزا دینے میں نہیں ، بلکہ سزا سے بچانے میں دل چسپی رکھتی ہے۔ماعز اسلمی پر زنا کی حد جاری کرنے کے واقعہ  سے واضح ہے کہ  حضور ﷺ نے کوشش کی کہ وہ اپنی جرم کے اقرار سے مکر جائیں ، جب وہ کسی طرح نہ مکرے تو آپ نے حد جاری کی۔اسی طرح حد زنا کے اجرا سے متعلق ایک اور حدیث میں بیان ہوا ہے کہ  حضور ﷺ اقرار کرنے والے سے اپنا منہ پھیرتے رہے کہ وہ دور ہو جائے ، لیکن وہ بار بار سامنے آکر اقرار کرتا رہا، تو بالآخر آپﷺ نے حد لاگو کی۔
صحابہ کرام بھی اس حوالے سے واضح ذہن رکھتے تھے کہ شبہات کی بنا پر حد ود کو ٹالا جائے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ شبہات کی موجودگی میں حدود قائم کرنے کی نسبت میرے لیے یہ زیادہ بہتر ہے کہ شبہات کے بنا پر حدود کے نفاذ کو ساقط کردوں۔(احکام الحکام،4/ ۱۵۷) 
زیرِ نظر کیس میں جج صاحبان کی طرف سے   اس اسلامی و اخلاقی اصول کے مطابق مقدمے کی تحقیق کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے خونِ ناحق کی شناعت کے حوالے سے  قرآنی ارشادات  کا حوالہ بھی دیا ہے۔مثلاً  چیف جسٹس صاحب نے پیرا نمبر14 میں  لکھا ہے کہ قرآن کریم بنی نوع انسان کے ساتھ محبت اور شفقت کا سلوک روا رکھتے ہوئے، آپس میں آمن و آشتی سے رہنے کا درس دیتا ہے۔ یہ کتاب اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ رہنمائی کے اصولوں کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے، جس کے ذریعے ہمیں علم کی دولت سے نوازا گیا، جوکہ حتمی کتاب ہے۔ اس میں کسی طور ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ قرآن کریم اللہ کے احکامات کا مخزن ہے ،جو زندگی گزارنے کے رہنما اصول مہیا کرتا ہے اور ہمیں نظریۂ  برداشت کی تعلیم دیتا ہے، لیکن یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب تک کوئی آئین میں مروجہ شفاف طریقۂ  سماعت کے بعد گناہ گار ثابت نہیں ہو جاتا ہر شخص کو، بلاامتیاز ذات پات، مذہب و نسل کے، معصوم اور بے گناہ تصور کیا جائے گا۔ قرآن پاک میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ" اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق قتل کرے گا) یعنی بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے، اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا ،اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا، اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر ﷺروشن دلیلیں لا چکے ہیں ،پھر اس کے بعد بھی ان سے بہت سے لوگ ملک میں حدِ اعتدال سے نکل جاتے ہیں۔ (المائدہ5 : 32)

توہین کے جھوٹے الزامات کی مثالیں موجود ہیں

بعض لوگ نادانی نے میں یہ کہتے پائے جاتے ہیں  کہ کوئی مسلمان کسی پر توہین کا جھوٹا الزام کیسے لگا سکتا ہے؟ لیکن یہ دعوی ٰ ظاہر ہے کہ بے دلیل ،ناقابلِ فہم  اور بعید از قیاس ہے۔یہ دعوی ٰ وہی کر سکتا ہے ، جس کو نہ تو  انسانوں کی نفسیات کا کوئی علم ہو، نہ پاکستانی سماج میں لوگوں کے  معاشرتی و سماجی تعصبات  سے آگاہی ہو اور نہ عدالتی فیصلوں اور نظائر سے واقفیت۔ عدالت نے آسیہ بی بی کیس میں  اس تصور کو بھی بہ دلائل وعدالتی نظائر  باطل ثابت کیا ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ کسی کو بھی حضرت محمدﷺ کی توہین کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی جرم کو سزا کے بغیر چھوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن بعض اوقات کچھ مذموم مقاصد کے حصول کے لیے قانون کو انفرادی طور پر غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئے توہینِ رسالت کا جھوٹا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ حقائق کے مطابق1990ء سے تقریباً62افراد توہین رسالت کے الزام کی بناپر قانون کے مطابق اپنے مقدمے کی سماعت سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ نام ور شخصیات جنھوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ توہین رسالت کا قانون چند افراد کے ہاتھوں غلط استعمال ہو رہا ہے، خطرناک نتائج کا سامنا کر چکے ہیں۔ اس قانون کے غلط استعمال کی ایک حالیہ مثال مشعال خان کا قتل ہے، جو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کا طالب علم تھا ،جس کو اپریل2017ء میں یونیورسٹی کے احاطے میں ایک مشتعل ہجوم نے صرف اس الزام پر قتل کر دیا کہ اس نے کوئی توہین آمیز مواد آن لائن پوسٹ کیا ہے۔(چیف جسٹس ، پیرا نمبر 12)یہاں ایوب مسیح کے مقدمے کا حوالہ دیا جانا بھی مناسب ہے، جس پر توہین کا الزام اس کے ہمسائے محمد اکرم نے لگایا تھا۔ مبینہ وقوعہ14اکتوبر1996ء کو پیش آیا۔ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا، لیکن گرفتاری کے باوجود علاقے میں عیسائیوں کے گھر جلا دیے گئے ،اور تمام عیسائی آبادی جو 14گھرانوں پر مشتمل تھی، کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ملزم ایوب کو سیشن کورٹ کے احاطے میں گولی مار کر زخمی کیا گیا ،اور بعدازاں جیل میں اس پر دوبارہ حملہ کیا گیا۔ مقدمے کی سماعت ختم ہونے پر ایوب کو مجرم قرار دے کر موت کی سزا سنائی گئی۔ عدالت عالیہ نے سزا کی توثیق کی، تاہم عدالت ہذا میں اپیل کی سماعت کے دوران یہ واضح ہوا کہ دراصل شکایت کنندہ اس  پلاٹ پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، جس پر ایوب اور اس کا والد رہائش پذیر تھے، اور یوں ایوب کو مذکورہ مقدمے میں پھنسا کر وہ اس کے سات مرلے کے پلاٹ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا، لہٰذا مذکورہ اپیل عدالت ہذا نے منظور کر لی تھی اور سزا کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔(چیف جسٹس، پیرانمبر 13)
توہینِ رسالت کے بہت سے الزامات  میں حقیقت کی بجائے مفادات کی دخل اندازی کا اندازہ اس نوع کے الزامات و مقدمات کے اعداد و شمار سے متعلق مختلف اخباری رپورٹوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے، مثال کے طور 2 نومبر 2018ء کے روزنامہ جنگ راولپنڈی کے  پہلے صفحے پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 1986ء (جب قانون ِ توہینِ رسالت بنا)سے لے کر 2018ء تک توہینِ رسالت کے 1335 مقدمات درج کیے گئے، جس میں 633 مسلمانوں کے خلاف، 494 احمدیوں کے خلاف اور 21 ہندؤں کے خلاف  تھے، ان میں سے 62 افراد ماوراے عدالت مارے گئے۔

سب کو حضور ﷺ سے پیار ہے ، جج بھی ناموسِ رسالت کے پاسبان ہیں

یہ بات بہت ہی عجیب ہے کہ بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ ان کے علاوہ سارے لوگ  خدا نخواستہ گستاخ ہیں ، یا حضورﷺ سے کم محبت رکھتے ہیں، حضورﷺ کی ذات تو وہ ذات ہے جس سے مسلمان تو کیا بے شمار غیر مسلم بھی والہانہ محبت رکھتے ہیں۔کنور مہندر سنگھ بیدی سحر  کا شعر ہے:
عشق ہو جائے کسی سے  کوئی چاراتو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
میرا احساس ہے کہ کوئی مسلمان جج کیا کتنا بھی گیا گزرا ہو وہ توہینِ رسالت ثابت ہونے پر کسی ملزم کو بری نہیں کر سکتا، اس لیے کہ وہ بھی حضورﷺ سے ایسے ہی محبت رکھتا ہے ، جیسے کوئی دوسرا مسلمان ۔ اس کو بھی معلوم ہے  کہ حضور ﷺ سے سب سے بڑھ کر محبت کیے بغیر وہ مومن ہی نہیں رہ سکتے۔حضورﷺ کااحترام اور عزت وناموس  ججوں کو بھی اسی طرح عزیز ہے ، جس طرح کسی بھی دوسرے مسلمان کو۔اگرچہ کسی مسلمان جج  کی جانب سے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں، لیکن صورتِ حال کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے زیرِ نظر مقدمے کے  فاضل جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں اس امر کا تذکرہ بہ طورِ خاص کیا ہے۔اور حضور ﷺ کے عزت و احترام اور آپ ﷺ کی محبت ، عظمت اور  عزت و احترام کے حوالے سے بہت سی آیات ِقرآنی کا حوالہ دیا  ہے۔چیف جسٹس نے فیصلے کے پیرا نمبر 3سے 8 تک مسلسل وہ آیات  درج کی ہیں جو حضورﷺ کی محبت کے جزوِ ایمان ہونے   اورآپ ﷺ کی  پیروی و اطاعت کی تعلیم پر مبنی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نےحفاظتِ ناموسِ رسالت کے ضمن میں ریاست اور مقتدر حلقوں کی  قومی  وبین الاقوامی  سطح پر کی جانے والی کوششوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
چیف جسٹس صاحب نے پیرا نمبر 11 میں لکھا ہے:تمام عالم امت مسلمہ، حضرت محمدﷺ کی ذاتِ اقدس سے گہری عقیدت اور لگاؤرکھتی ہے، یہاں تک کہ اپنے والدین، اولاد اور اپنی زندگیوں سے زیادہ محبوب رکھتی ہے۔ کسی کو بھی حضرت محمدﷺ کی ناموس پر حرف لانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، نہ ہی توہین رسالت کے مرتکب شخص کو سزا دیے بغیر چھوڑا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کوشش کی ہے کہ توہین رسالت کے واقعات میں کمی واقع ہو۔ مثال کے طور پر مارچ2009ء میں ہماری حکومت نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے روبرو جنیوا میں ایک قرارداد پیش کی، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ کی توہین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف متصور کیا جائے، جس کے تحت اقوام عالم سے مذاہب کی توہین کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد مورخہ26-03-2009کو بے پناہ تحفظات کے باوجود منظور کر لیا گیا۔ یوں ہماری حکومت بین الاقوامی سطح پر آزادیِ اظہار کی بنیاد پر مذہب اور عقیدوں کی توہین کی کوششوں کی حدود متعین کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ عوامی رابطے کی ویب سائٹ "فیس بک" کو بند کر دیا گیا، کیونکہ اس نے ایک ایسا صفحہ ترتیب دیا اور اس کی تشہیر کی گئی جس کو "یوم خاکہ نویسی محمد (نوذباللہ) برائے خاص و عام" کا نام دیا گیا تھا۔یہ پابندی اس وقت اٹھا ئی گئی جب فیس بک انتظامیہ نے متذکرہ صفحہ تک رسائی ممنوع کر دی۔ جون2010ء میں تقریباً 17ویب سائٹوں کو اس بناپر بند کیا گیا کہ ان پر ایسا مواد موجود تھا ،جو مسلم امہ کی دل آزاری کا باعث اور توہین آمیز تھا۔ اس وقت سے مقتدر ادارے ان ویب سائٹوں پر موجود مواد کی نگرانی کر رہے ہیں، جن میں گوگل، یاہو، یوٹیوب، ایمزون، ایم ایس این، ہاٹ میل اور بنگ اور عوامی رابطے کی ویب سائٹس شامل ہیں، جوکہ بین الاقوامی سطح پر مستعمل ہیں اور عوام پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہیں۔

شرعی سزا ریاست ہی کا اختیار ہے

شخصی یا نج کی سطح  پر سزا کا نفاذ غیر مہذب یا قبائلی  معاشروں کا رویہ رہا ہے، جہاں کوئی سیاسی  نظم  یا تنازعات کے حل کے لیے کوئی غیر جانب دار مجاز اتھارٹی موجود نہ ہوتی تھی۔ ایسے معاشروں میں ، ظاہر ہے کہ  مجرم پر سزا کے نفاذ میں انصاف کا رویہ اپنانا نا ممکن ہوتا تھا۔سزا مقتول یا متاثر شخص کے ورثا کی طاقت پر منحصر ہوتی تھی۔ طاقت نہ ہوتی تو مجرم آزاد پھرتا، کوئی اس کو پوچھ نہ سکتا۔ اور طاقت ہوتی تو جب تک متاثر فریق کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوتا، قاتل اور اس کے خاندان و قبیلے کو سزا دینے کا سلسلہ چلتا رہتا۔ا یک شخص کے قتل کے بدلے میں قبیلے کے قبیلے بھی مارے جا سکتے تھے۔ عرب قبائل میں ایک ایک قتل کے  انتقام میں صدیوں جنگیں رہنا اور  ان گنت لوگوں کا مارا جانا معروف و معلوم ہے۔ یہ حقیقت محتاجِ دلیل نہیں کہ متاثر شخص خود سزا دینے میں کبھی بھی انصاف ملحوظ نہیں رکھ سکتا۔ یہ فطری سی بات ہے ،اور انسانی نفسیات پر ذرا سا غور اس میں کوئی شبہ نہیں رہنے دیتا۔میرا بھائی یا بیٹا  مارا جائے تو میرا کلیجہ  مخالف کے سارے لوگوں کو قتل کر کے  بھی   ٹھنڈا نہ ہو گا۔ یعنی مظلوم بدلے کے وقت ہمیشہ ظالم بن جاتا ہے۔ذاتی و قبائلی سطح پر سزا اور بدلے کی صورت میں ظلم و نا انصافی سے احتراز کے عدم امکان  نے انسانوں کو قائل کیا کہ کوئی غیر جانب دار اتھارٹی ہونی چاہیے ، جو  متنازع معاملے میں غیر جانب دار رہ کر فیصلہ کر سکے، وہ مظلوم کی داد رسی بھی کرے، لیکن ظالم سے انتقام لینے میں بھی حد سے تجاوز نہ کرے۔ ریاست اور نظمِ اجتماعی  کا وجود بنیادی طور پر اسی تصورِ انصاف اور ظلم و عدوان سے بچاؤ کی انسانی خواہش کا نتیجہ ہے۔ حضورﷺ نے بھی نظمِ اجتماعی کے ذریعے اس ظلم و عدوان کے خاتمے کی کوشش کی ، جو قبل ازیں عرب سوسائٹی کو اپنے شکنجے میں جھکڑے ہوئے تھا۔ آپ ﷺ نے اپنے عمل اور فرامین کے ذریعے اس امر کو یقینی بنانے میں کوئی دقیقہ فراگزاشت نہ کیا کہ کوئی بھی متاثر شخص کسی ملزم سے اپنے طور پر نمٹ سکتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی حد یا شرعی سزا نافذ کر سکتا ہے۔ ایسا کرنے والا شریعت و قانون کی نظر میں اسی طرح مجرم ہے ، جیسے  وہ شخص جس کو یہ سزا دے رہا ہے۔ اس ضمن میں یہاں، زیرِ بحث حقیقت کو نمایاں کرتی چندروایات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے:
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرب میں مسلمانوں کی حکومت سے قبل ہر شخص بدلہ خودلے  لیا کرتا تھا۔جب ہجرت مدینہ کے بعد  مسلم حکومت قائم ہو گی  تو اس نوع کی کارروائی ممنوع قرار پائی اور طے پایا کہ حکمران کے بغیر ہی بدلہ لینے ولا گناہ گار ہوگا۔ یہ رویت کچھ اس طرح ہے: 
عن ابن عباس في قولہ (فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليہ بمثل ما اعتدى عليكم) وقولہ (ولمن انتصر بعد ظلمہ فأولئك ما عليہم من سبيل) وقولہ (وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ) وقولہ (وجزاء سيئۃ سيئۃ مثلہا) فہذا ونحوہ نزل بمكۃ والمسلمون يومئذ قليل ليس لہم سلطان يقہر المشركين وكان المشركون يتعاطونہم بالشتم والأذى فامر اللہ المسلمين من يجازى منہم ان يجازوا بمثل الذي أتی إليہ أو يصبروا ويعفوا فہوا مثل فلما ھاجر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم إلی المدينۃ وأعز اللہ سلطانہ أمر المسلمين ان ينتہوا في مظالمہم إلی سلطانہم ولا يعدو بعضہم علی بعض كأھل الجاھليۃ فقال (ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لوليہ سلطانا فلا يسرف في القتل انہ كان منصورا) يقول ينصره السلطان حتی ينصفہ  من ظالمہ ومن انتصر لنفسہ دون السلطان فھو عاص مسرف قد عمل بحميۃ الجاھليۃ ولم يرض بحكم اللہ (البیہقی، السنن الکبریٰ،8/108، رقم :16080) 
ماواراے عدالت  شخصی سطح پر سزا کے حوالے سے لوگ عام طور پر یہ استدلال پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ  اس طرح ملزم کے چھوٹ جانے کا امکان ہوتا ہے۔ لیکن  اگر اس دلیل کو  ماوراے عدالت  سزا کا جواز بنا لیا جائے تو عدالت  کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا، کیوں کہ متاثر فریق کو تو ہمیشہ (بہ طورِ خاص جب کسی معاملے میں اس کے جذبات کو زیادہ ٹھیس پہنچی ہو) یہ وہم لا حق ہوتا ہے کہ معلوم نہیں ملزم کو عدالت سے سزا ملے یا نہ  ملے! اور یہ حقیقت  بھی ہے کہ عدالت سے کسی نہ کسی طرح ملزم کے سزا سے بچ  جانے کا چانس ہر وقت موجود ہوتا ہے (بالخصوص ان مقدمات میں جس میں  ثبوتِ جرم پر ملزم کو موت کی سزا ملنا ہو، کہ اس میں شریعت اور قانون اس وقت تک سزا دینے کے حق میں نہیں ہیں ، جب تک ملزم کا جرم  اظہر من الشمس نہ ہو)۔بنا بریں  اس کی اجازت کسی طرح نہیں دی جا سکتی۔اور یہ کوئی انہونی یا نئی بات نہیں، مسلم تراث میں اس کا واضح اظہار  دکھائی دیتا ہے۔مثلاً ابن شہاب زہری سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی آدمی اپنے بھائی کے قاتل پر قابو پا لے، تو اس خوف کے سبب، کہ حکمران تک پہنچنے  سے پہلے وہ کہیں اس کے ہاتھ سے نکل جائے، وہ قاتل کو خود قتل کر سکتا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: سنت یہ چلی آرہی ہے کہ امام کے علاوہ کوئی  کسی کی جان نہ لے۔روایت کے الفاظ یہ ہیں: 
عن ابن شہاب أنہ قال في رجل قدر علی قاتل أخيہ أعليہ حرج فيما بينہ وبين اللہ ان خاف ان يفوتہ قبل ان يبلغ بہ إلی الامام ان ھو قتلہ قال ابن شہاب مضت السنۃ ان لا يغتصب فيقتل النفوس دون الامام، (البیہقی، السنن الکبری،8/107، رقم:16078)
مزید برآں اہلِ علم  کے یہاں یہ بات بھی مسلم ہے  کہ ملزموں کی  سزا کے معاملے میں شریعت کا خطاب ہی اہل ِ حل و عقد سے ہے نہ کہ عام لوگوں یا متاثر فریقوں سے۔صاحب احکام القرآن نے غلام اور آزاد پر سزا کے نفاذ سے متعلق  مجاز اتھارٹیز کے حوالے سے علما کا اختلاف ذکر کرنے کے بعد چوری کی سزا ( قطعِ ید) اور زنا کی سزا (سو کوڑے)سے متعلق آیات کا حوالہ دے کر ان میں اللہ تعالیٰ کے  اندازِ خطاب   کوہر نوع کے مجرموں کی  سزا کے لیے  فی الواقع حکمرانوں ہی کے مجاز اتھارٹی ہونے پر دلیل بناتے ہوئے لکھا ہے:
وقد علم من قرع سمعہ ہذا الخطاب من اہل العلم ان المخاطبین بذلک ہم الائمۃ دون عامۃ الناس فکان تقدیرہ فلیقطع الائمۃ والحکام ایدیہما ولیجلدہما الائمۃ والحکام  ولما  ثبت باتفاق الجمیع ان المامورین باقامۃ ہذہ الحدود علی الاحرار ہم الائمۃ ولم تفرق ھذہ الآیات بین المحدودین من الاحرار والعبید وجب ان یکون فیھم جمیعاً .(الجصاص ،احکام القرآن، تحقیق: محمدا لصادق قمحاوی ،5/131) 
اس خطاب کو جو بھی سنتا ہے، جان لیتا ہے کہ اس کے مخاطب عام لوگ نہیں ، امام اور حکمران ہیں ۔گویا تقدیرِ کلام یہ ہے کہ ان دونوں کے ہاتھ امام اور حکام کاٹیں اور امام اور حکام ان کو کوڑے لگائیں۔ اور جب سب کے نزدیک آزاد لوگوں پر آئمہ ہی کے ذریعے ان حدود کا نفاذ ثابت ہو گیا ،اور یہ آیات زیرِ نظر حوالے سے آزاد اور غلام میں کوئی فرق نہیں کرتیں ، تو لازم ہوا کہ سب کے لیے یہی حکم ہے (یعنی ہر ایک کو سزا حاکم ہی دے)۔
سو ماورائے عدالت سزا کا تصور نہ قانون کے مطابق ہے اور نہ شرعی اصولوں سے میل کھاتا ہے ۔ اگر اس کی اجازت دے دی جائے تو  معاشرہ جنگل کے قانون کا نقشہ پیش کرنے لگے۔توہینِ رسالت کے معاملے میں بھی یہ ریاست و عدالت ہی کا اختیار ہے کہ وہ جرم ثابت ہونے پر ملزم کو سزا دے۔ ہمارے وہ مذہبی حلقے جو توہین رسالت پر ماوراے عدالت قتل کو جائز سمجھتے ہیں، وہ شرعی تعلیمات کے ساتھ ساتھ  توہینِ رسالت پر سزاے موت سے متعلق قانون 295-C  کی بھی مخالفت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔وہ اس طرح کہ  اگر ماورائے عدالت قتل جائز ہو جائے تو مذکورہ قانون کی ضرورت ہی نہیں رہتی ، جہاں کہیں توہین ہوئی   سننے دیکھنے والے  شخص نے ملزم کا قصہ پاک کردیا۔ اس طرح تو فوری انصاف مل جاتا ہے، قانون میں تو معاملہ لٹکتا بھی ہے اور ملزم کے شک سے فائدہ پا جانے کا امکان بھی ہوتا ہے۔لیکن اس کو کوئی بھی معقول شخص درست قرار نہیں دے سکتا کہ اس سے آئین و قانون کے تقاضوں کی پامالی  کے ساتھ ساتھ ، ملزم سے نا انصافی کے بھی قوی امکانات ہیں ۔ بنا بریں  شریعت کے اصولوں کے تحت صفائی پیش کیے یا عدالتی کاروائی سے گزارے بغیر نہ کسی کو مجرم ٹھرایا جا سکتا ہے اور نہ سزاے موت دی جا سکتی ہے۔ آدمی کی دینی حمیت  اور غیرت اس کے  ماوراے عدالت اقدام کی دلیل نہیں بن سکتی ، کیوں کہ  وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  سے زیادہ غیرت مند نہیں ہو سکتا۔ جب اللہ  اور اس کا رسول ﷺبندے سے زیادہ غیر مند ہونے کے باوجودملزم کو دفاع کا موقع دیے بغیر سزا دینا نہیں چاہتے، تو کسی آدمی کے لیے یہ کیوں کر روا ہو سکتا ہے!اس حوالے سے اختصار کے پیش نظر  بخاری کی حسب ذیل روایت پر غور مفید رہے گا:
مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ حضرت  سعد بن عبادہ نے کہا کہ   میں اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو دیکھوں تو سیدھی تلوار کے وارسے اس کو قتل کر دوں(یعنی میری غیرت گوارا نہ کرے گی کہ چار گواہوں کی گواہی تک برداشت کروں) ۔ حضرت سعد کے یہ جذبات حضورﷺ تک پہنچے تو آپ نے فرمایا:
تعجبون من غیرۃ سعد واللہ لانا اغیر منہ واللہ اغیر منی ومن اجل غیرۃ اللہ حرم الفواحش ما ظہر منہا وما بطن ولا احد احب الیہ العذر من اللہ.(بخاری،کتاب التوحید ،حدیث:7483)
 تم سعدکی غیرت پر تعجب کرتے ہو! وااللہ! میں ان  سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔ اس نے اپنی غیرت ہی کی وجہ سے بے حیائی کے ظاہر و پوشیدہ امور سے منع کیا ہے، لیکن اللہ سے زیادہ کسی کو عذر خواہی پسند نہیں۔
اب دیکھیے حضورﷺ اچھی طرح  جانتے تھے کہ زیرِ بحث امر غیرت کا معاملہ ہے اور  اس طرح کے معاملے میں واقعی  آدمی کے جذبات نہایت شدید ہوتے ہیں! لیکن چونکہ اس پر خود سے سزا دینا شریعت کے منشا کے بھی  ہر گز موافق نہیں تھا، لہٰذا آپﷺ  نے  اس پر کوئی اور دلیل دینے کی بجائے  یہ فرما کر کہ  میں سعد سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے، اور اتنا غیرت مند کہ اس نے نہ صرف بے حیائی کے ظاہر کاموں سے منع کیا ہے بلکہ چھپے ہوئے کاموں سے بھی روکا ہے، اس بات کو انتہائی موکد کیا کہ  سب سے بڑھ کر صاحب ِغیرت  ہونے کے باوجود  اللہ کو یہی بات پسند ہے کہ ملزم کو اپنی بات کہے اوراپنا  کوئی عذر پیش کیے بغیر سزا نہ دی جائے۔ گویا واضح فرما گیا کہ   ملزم کتنا ہی قابلِ نفرت ہو، جذبات کتنے ہی شدید ہوں ! غصہ کتنا ہی زیادہ ہو! انتقام کی آگ کتنی ہی بھڑک رہی ہو!بے قابو نہیں ہونا! آپے سے باہر نہیں ہونا! ملزم کو بذریعہ  امام و حاکم ہی سزا دلوانی ہے! خود سزا نہیں دی جا سکتی۔جب اللہ اس قدر غیرت کے باوجود، جس کا تصور بھی تم نہیں کر سکتے، ملزم کو اپنی صفائی کا موقع دیے بغیر سزا نہیں دینا چاہتا، تو وہ کسی بندے کے لیے، جس کی غیرت اللہ کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی ،  اس  فعل کی کیسے اجازت دے سکتا ہے! ایک روایت میں  اسی تناظر میں واضح کیا گیا ہے کہ صورت حال کیسی ہی کیوں نہ ہو اللہ گواہوں اور شرعی طریقے  اور پروسیجرکے بغیر کسی کو سزا دینے کا اختیار ہر گز قبول نہیں کرتا۔ایک روایت کے مطابق:
عن الزھری:قال سال رجل النبیﷺفقال:رجل یجد مع امراتہ رجلا ایقتلہ؟ فقال النبی :لا الا بالبینۃ۔۔۔یابی اللہ الا بالبینۃ "(مصنف عبدالرزاق، 9/434، حدیث :17917)
حضرت زہری سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے  سوال کیا کہ ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو دیکھے تو کیا اسے قتل کر ڈالے؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا: نہیں ، گواہی کے بغیر نہیں ۔۔۔اللہ تعالیٰ کو گواہی کے بغیر سزا  دینے کا اختیار قبول نہیں ۔" 
غیر ت کی بنا پر اقدامِ قتل کے حوالے سے  حضرت سعد والی حدیث کے مضمون  ایسی   بہت سی روایات مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہیں ، سب میں یہ بات مشترک ہے کہ جب حضورﷺ سے سوال کیا گیا کہ آدمی  اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو دیکھ کر گواہ جمع کرنے تو نہیں نکل کھڑا ہو گا! اس کی غیرت کیسے یہ گوارا کر سکتی ہے کہ  وہ اسے چھوڑ دے! لیکن رسول اللہﷺ نے زور دے کر فرمایا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا، جس سے ثابت ہوتا کہ شریعت اور شارع کا منشا یہ ہے کہ قانون کو کسی صورت اپنے ہاتھ میں نہ لیا جائے۔محدثین وشارحین حدیث نے بھی ان روایات  کی شروح میں پورے اذعان کے ساتھ اس امر کی وضاحت کی ہے کہ شریعت کسی صورت   بھی قانون کو عام لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہتی۔موطا کے شارح امام ابن عبدالبر نے  "التمہید لما فی الموطا من المعانی والاسانید"  کے اکیسویں جز میں  "حدیث خامس لسہیل" کے تحت اس نوع کی متعدد احادیث و آثار کا ذکر کیا  ہے  اور  قال ابو عمر(ابن عبد البر) کے ذریعے وضاحت کی ہے کہ  یہ ممانعت انسانی جان کی حرمت کے پیش نظر کی گئی ہے کہ کہیں  لوگ سزا کا شرعی طریقہ اختیار کیے بغیر ہی لوگوں کے قتل  اورامام و حاکم کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کا راستہ اختیار نہ کر لیں۔سہیل بن ابی صالح کی اپنے والد سے اور ان کی سعد بن عبادہ سے وہ روایت جس میں حضرت سعد کہتے ہیں: 
یارسول اللہ ! ارائیت لو رائیت رجلا مع امراتی لاترکہ حتی ادعوا اربعۃ من الشھداء؟ فقال رسول اللہ ﷺ :نعم، فقال  والذی انزل علیک الکتب اذا لاعجلتہ بالسیف! فقال رسول اللہﷺ:ان سعدا لغیور وانی لاغیر منہ وان اللہ لاغیر منا۔ (التمہید،21/255) 
یا رسول اللہ! اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو اسے چھوڑ دوں یہاں تک کہ چار گواہ لاؤں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! حضرت سعد نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے ، میں تو تلوار سے اس کا کام تمام کر دوں ، تو حضور نے فرمایا: سعد بے شبہ غیرت مند ہے ، لیکن میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ ہم سب سے زیادہ غیرت مند ہے۔
 نقل کر نے کے بعد امام ابن عبد البر نے  لکھا ہے: 
قال ابو عمر: یرید۔ واللہ اعلم۔ ان الغیرہ لا تبیح للغیور ما حرم علیہ ، وانہ یلزمہ مع غیرتہ ا لانقیاد لحکم اللہ  ورسولہ، وان لایتعدی حدودہ،فاللہ و رسولہ اغیر؛ولا خلاف۔(التمہید، 21/256)
ابو عمر(ابن عبد البر) کہتا ہے کہ غیرت غیرت مند کے لیے وہ چیزیں حلال نہیں کر دیتی ، جو اس پر حرام ہیں ۔ سو آدمی پر اپنی غیرت کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر سر تسلیم خم کرنا بھی ضروری ہے، اسے چاہیے کہ وہ اس کی حدوں کو نہ توڑے، اللہ اور اس کا رسول زیادہ غیور ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
اسی بحث میں  ایک دل چسپ امر یہ بھی ہے   کہ کسی  فعل  کے جائز یا ناجائز ہونے  سے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے شریعت  میں اس بات کی بھی غیر معمولی اہمیت نمایاں ہوتی ہے کہ اس فعل کے نتائج کیا ہوں گے ! فرض کریں کسی خاص صورت حال میں   بادی النظر میں ایک فعل درست ہی معلوم ہوتا ہو، لیکن  اس سے  ایک غلط  روایت پڑ جانے کا اندیشہ تو وہ شرعاً ممنوع ہو گا۔ایک روایت میں ہے کہ غیرت کے مذکورہ تناظر سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے حضورﷺ نے یہ فرمانے کے لیے کہ اس معاملے میں تلوار ہی کی گواہی کافی ہے، ابھی صرف کفی  بالسیف شا ہی فرمایا تھا یعنی شاہداً    کا لفظ مکمل نہیں کیا تھا کہ فرمایا : نہیں ، یوں تونشے والے اور غیرت کے جذبے سے مغلوب لوگوں کے لیے روایت بن جائے گی۔روایت کے الفاظ ہیں: عن الحسن فی الرجل یجد مع امراتہ رجلاً؛قال : قال رسول اللہ ﷺ۔: کفی بالسیف شا۔یرید ان یقول شاھداً۔فلم یتم الکلمۃ۔قال: اذا تتابع فیہ السکران والغیران (التمہید،21/257؛ مصنف عبدالرزاق،17918)
اس طرح کے اور بہت سے شواہد احادیث و آثار سے پیش کیے جا سکتے ہیں ، جو اس  دعوے کے لیے نہایت قوی دلائل ہیں کہ شریعت اسلامیہ  گواہوں ، عدالتی کاروائی اور ملزم کو صفائی کا موقع دیے بغیر اورذاتی و نج کی سطح پر سزا دینے کا اختیار ہر گز  کسی کو نہیں دیتی ۔ اس کے نزدیک یہ  امام و حاکم اور عدالت ہی کا اختیار ہے کہ وہ اپنے پروسیجر کے تحت جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزا دے۔ (ملزمِ توہینِ  رسالت  کے ماوارے عدالت قتل  کے خلافِ شریعت ہونے سے متعلق راقم کا  ممتاز قادری کیس کے حوالے سے "الشریعہ" میں شائع شدہ مضمون بھی قابل ِ مطالعہ ہے۔)
 توہینِ رسالت کے مقدمات کے حوالے سے چونکہ ہمارے لوگ ان حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں،  اس لیے ان کی طرف توجہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ زیرِ نظر فیصلے میں  معزز جج صاحبان نے اس پہلو کو  نظر انداز نہیں کیا اور لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ آئین اور قانون میں مروجہ احکام کے تحت یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ ملک میں توہین رسالت  کا کوئی واقعہ روپذیر نہ ہو۔ ایسے کسی جرم کے ارتکاب کی صورت میں صرف ریاست کو اختیار ہے کہ وہ قانون کی مشینری کو حرکت میں لائے اور ملزم کو بااختیار عدالت کے روبروپیش کر کے اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔یہ افراد یا گروہ کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ کوئی جرم مذکورہ دفعہ کے تحت سرزد ہواہے کہ نہیں۔ یہ  عدالت کی ذمہ داری ہے کہ مقدمے کی مکمل سماعت اور مصدقہ شہادتوں کو پرکھنے کے بعد اس قسم کا فیصلہ کرے۔ کوئی اور متوازی اتھارٹی کسی بھی قسم کے حالات میں کسی فرد یا گروہ کو نہیں دی جا سکتی۔ اسی وجہ سے عدالت ہذا نے قرار دیا ہے کہ توہین کا ارتکاب انتہائی نازیبا اور غیراخلاقی عمل ہے اور عدم برداشت کو جنم دیتا ہے، لیکن دوسری طرف قابل سزا قرار دینے سے پہلے، توہین کے ارتکاب کے متعلق ایک جھوٹے الزام کو بھی پوری طرح سے پرکھا جانا ضروری ہے۔اگر ہمارا مذہب اسلام، توہین کے مرتکب شخص کے لئے سخت سزا تجویز کرتا ہے، تو اسلام اس شخص کے خلاف بھی اتنا ہی سخت ہے جو جرم کے ارتکاب کے متعلق جھوٹا الزام لگائے۔ لہٰذا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی معصوم شخص کو جھوٹے الزام کی بنا پر تفتیش اور سماعت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔(چیف جسٹس،پیرا نمبر 15)

عمر قید وغیرہ کا آپشن توہینِ رسالت کے قانون میں نہیں اس پر عمل ممکن نہ تھا

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ  مذکورہ کیس میں آسیہ بی بی کو اگر سزائے موت نہیں دی جا سکتی تھی ،تو عمر قیدیا اس طرح  کی کوئی اور  سزا سنا دی جاتی ۔ یہ رائے دینے والے کیس کی نزاکت کے پیش نظربظاہر نیک نیتی سے  ایک متبادل راستہ تجویز کر رہے ہیں کہ یوں لوگوں کے جذبات نہ بھڑکتے  اور پھانسی اور رہائی کی درمیانی راہ نکل آتی ۔ لیکن جج قانون سے ماورا اقدام تجویز نہیں کر سکتے ۔ اگر 295-C میں اس طرح کا آپشن ہوتا تو ہی  کوئی اور  سزا دی جا سکتی تھی، لیکن بد قسمتی سے یہ آپشن  ختم کرا دیا گیا تھا۔ ججوں نے اس حوالے سے اپنی  مجبوری  کا تذکرہ بھی اس فیصلے میں کیا ہے۔ان کے مطابق  295-Cمیں اصلاً سزائے موت یا عمر قید اورجرمانے  کی سزا رکھی گئی تھی۔ اس شق کی موثریت وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے مقدمہ محمد اسماعیل قریشی بنام پاکستان بذریعہ سیکرٹری قانون اور پارلیمانی امور (PLD 1991 FSC 10) میں جانچی گئی تھی، جہاں عدالت نے قرار دیا کہ مذکورہ دفعہ  اس حد تک اسلام کے بنیادی اصولوں سے منافی ہے کہ یہ عمر قید کی سزا بھی تجویز کرتی ہے، جو ایک طرح سے سزائے موت کے متبادل ہوتی ہے ،اور یہ قرار دیا گیا کہ توہینِ رسالت کی سزا موت ہی ہونی چاہیے۔ یہ بھی قرار دیا گیا کہ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر30 اپریل1991ء سے قبل قانون میں ترمیم نہیں کرتا تواس دفعہ کو مذکورہ فیصلے کی روشنی میں ترمیم شدہ تصور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ایک اپیل عدالت ِعظمیٰ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں دائر کی گئی، جو عدم پیرویِ استغاثہ کی وجہ سے خارج ہو گئی۔(چیف جسٹس، پیرا نمبر10)اب اس معاملے میں دو سزائیں رہ گئی ہیں :سزاے موت اور جرمانہ۔ جرم ثابت ہونے پر عدالت دونوں سزائیں دینے کی پابند ہے۔جرم ثابت ہونے پر سزاے موت اور جرمانہ ہو گا،  اور ثابت نہ ہونے پر کسی کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔
اس حوالے سے ہماری گزارش ہے کہ اگر دینی حلقوں کے لوگ  یہ سمجھتے ہیں کی 295-Cمیں سزائے موت کے علاوہ  ، عمر قید اورجرمانے کا آپشن بھی ہونا چاہیے، تو اسے اس قانون میں ترمیم کروانی چاہیے۔ زیر نظر فیصلے کے نتیجے میں پیش آنے والی بحرانی کیفیت کو دیکھ کر ،تو سچ یہ ہے کہ  ایسی ترمیم ضروری معلوم ہوتی ہے۔

شک کا فائدہ نہ کہ باعزت بری

قانون کی زبان میں ایک "باعزت بری " کرنا ہوتا ہے اور ایک "شک کا فائدہ" دے کر بری کرنا۔ باعزت بری کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملزم بے گناہ ثابت ہوا،لیکن شک کا فائدہ دے کر بری کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے ملزم کے گناہ گار ہونے کے ثبوت  قانونی معیار کے مطابق مہیا نہیں ہو سکے اور جج کو اس بات کا یقین نہیں ہو سکا کہ ملزم واقعی گناہ گار ہے۔زیرِ نظر فیصلے میں ملزمہ کو بے گناہ  قرار نہیں دیا گیا، بلکہ شک کا فائدہ دے کر بری کیا گیا ہے۔چیف جسٹس صاحب نے  پیرا نمبر 41 میں لکھا ہے:
All these contradictions are sufficient to cast a shadow of doubt on the prosecution’s version of facts, which itself entitles the appellant to the right of benefit of the doubt. It is a well settled principle of law that for the accused to be afforded this right of the benefit of the doubt, it is not necessary that there should be many circumstances creating uncertainty. If a single circumstance creates reasonable doubt in a prudent mind about the apprehension of guilt of an accused, then he/she shall be entitled to such benefit not as a matter of grace and concession, but as of right. Reference in this regard may be made to the cases of Tariq Pervaiz Vs. The State (1995 SCMR 1345) and Ayub Criminal Appeal No.39-L of 2015 -: 29 :- Masih vs The State (PLD 2002 SC 1048). Thus, it is held that the appellant is entitled to the benefit of the doubt as a right.
یہ تمام متضاد بیانات استغاثہ کی جانب سے بتائے گئے حقائق کی صداقت پر شبہات پیدا کرتے ہیں ،جس سے اپیل گزار شک کے فائدے کی حق دار بن جاتی ہے۔ یہ قانون ایک مستند اصول ہے کہ کسی بھی شک کی صورت میں ملزم کو شک کا فائدہ دیا جانا چاہیے، جس سلسلے میں یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ بہت سے ایسے حالات ہوں جو بے یقینی پیدا کر رہے ہوں، بلکہ اگر کوئی ایک امر ایسا ہو جو عاقل دماغ میں ملزم کے جرم کے متعلق معقول شبہ پیدا کرتا ہو، تب بھی وہ اس کا فائدہ لینے کا حق دار ہو گا، کسی رعایت کی صورت میں نہیں بلکہ ایک حق کی صورت میں، اس ضمن میں مقدمات طارق پرویز بنام ریاست (  SCMR 1345 1995 )اور ایوب مسیح بنام ریاست (PLD 2002 SC 1048) کا حوالہ دینا مناسب ہو گا۔ پس یہ ثابت ہے کہ اپیل گزار شک کے فائدے  بہ طورِ حق حق دارہے۔
سوشل میڈیا پر بعض حضرات، بلکہ علما کی طرف سے فیصلے پر نقد کے ضمن میں کہا گیا  ہے کہ  ججوں نے آسیہ کو معصوم قرار دیا، اور اس پر یہ اعتراض جڑا  گیا ہے کہ معصوم تو انبیا ہوتے ہیں اور   ججوں کی حماقت دیکھیے کہ   وہ عام لوگوں بلکہ ایک عیسائی  عورت اور وہ بھی توہینِ رسالت کی ملزم کو معصوم قرار دے رہے ہیں۔ یہ دالائل سن کر انتہائی دکھ ہوا، ججوں اور فیصلے سے اختلاف اپنی جگہ  لیکن علمی و تحقیقی  دیانت اور اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔جانے لوگ اپنے مخالف فریق پر نقد میں ان ساری اخلاقیات کو پامال کیوں کر جاتے ہیں ، جن کے علمبردار بن کر کھڑے ہوتے ہیں !
اب اس اعتراض کی حقیقت دیکھیے ، دو میں سے ایک بات لازمی ہے ، یہ توان حضرات کو قانونی و عدالتی اور کلامی و شرعی معصوم و بے گناہ میں فرق کا علم نہیں یا جان بوجھ کر اسے چھپا رہے ہیں! ججوں نے جہاں کہیں معصوم و بے گناہ کا لفظ استعمال کیا ہے  اس کا مطلب فقط کسی خاص کیس میں بے گناہ  ثابت ہونے والا شخص ہے ،یا وہ شخص جس پر کوئی الزام نہ ہو، یہ نہیں کہ وہ شرعی طور پر انبیا کی طرح معصوم ہے۔ ان  معنی میں جج خود بھی خود کو معصوم نہیں کہتےچہ جائیکہ کسی ملزم یا آسیہ بی بی کو معصوم کہیں۔ پھر انھوں نے جہاں کہیں یہ لفظ استعمال کیا ہے ، عمومی لحاظ سے کیا ہے، مثلاً چیف جسٹس نے ایک جگہ قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا:" جب تک کوئی آئین میں مروجہ شفاف طریقۂ سماعت کے بعد گناہ گار ثابت نہیں ہو جاتا ہر شخص کو، بلاامتیاز ذات پات، مذہب و نسل کے، معصوم اور بے گناہ تصور کیا جائے گا۔"(چیف جسٹس ، پیرا نمبر 14)اب اس سے یہ مطلب لینا کہ چیف جسٹس نے آسیہ کو معصوم قرار دیا اور  وہ بھی شرعی و کلامی معنی میں  یا  توانتہا درجے کی بد دیانتی ہے یا پھر حماقت۔

کمزور پہلو

گو، ہمارے نقطۂ نظر سے، زیرِ نظر فیصلہ مجموعی طور پر شرعی و اخلاقی لحاظ سے درست اور قابلِ تحسین ہے، تاہم فیصلے کو سٹڈی کرتے ہوئے راقم کو اس میں کچھ پہلو کمزور محسوس ہوئے ۔سومحققانہ دیانت داری کا تقاضا ہے کہ ان پہلوؤں  کو بیان کرنے کے ساتھ  ساتھ ،جو مجھے شرعی و اخلاقی اصولوں کے موافق لگے  ، ان پہلوؤں کو بھی نمایاں کروں جومجھے  کمزور دکھائی دیے۔ یہ نکات مختصرا درجِ ذیل ہیں:

آیف آئی آر میں تاخیر پر شک 

چیف جسٹس صاحب نے  ایف آئی آر میں  پانچ دن کی تاخیر کو بھی شک کا سبب قرار دیا ہے، حالانکہ متعلقہ لوگوں کے دیہاتی پس منظر، ہمارے یہاں کی پولیس کے عمومی رویے   اور مقدمے کی نوعیت کے تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے پانچ دن کی تاخیر مقدمے  کو کمزور نہیں کرتی ، خصوصاً جب کہ چیف جسٹس صاحب نے خود لکھا کہ  "شکایت گزار کے فاضل وکیل نے   عدالت ہٰذا کے مقدمات زربہادر بنام ریاست (1978SCMR136)اور شیراز اصغر بنام ریاست (1995SCMR 1369)کا حوالہ دیتے ہوئے زور دیا کہ FIRکے اندراج میں ہونے والی تاخیر تمام مقدمات میں مہلک نہیں ہوتی ،کیونکہ یہ مصدقہ اور قابلِ اعتبار آنکھوں دیکھی اور واقعاتی شہادت کو ساکت یا ضائع نہیں کرتی۔"(چیف جسٹس، پیرا نمبر29) اور پھر شکایت گزار کے وکیل کی اس دلیل کو تسلیم بھی کیا کہ انھیں "مذکورہ دلیل سے کوئی اختلاف نہ ہے۔"( چیف جسٹس، پیرا نمبر29)۔ آیف آئی آر کی تاخیر میں کمزوری سے صرفِ نظر اس پہلو سے بھی ضروری تھا کہ پیرا نمبر23 کی رو سے چیف جسٹس صاحب نے  شکایت گزار کے فاضل وکیل کی  اس گزارش سے  سے صرف ِنظر کیا تھا کہ چونکہ اپیل گزار(آسیہ بی بی ) کی اپیل سپریم کورٹ میں گیارہ دن کی تاخیر سے ہو رہی ہے، لہٰذا اسے رد کیا جانا چاہیے۔اگر اپیل گزار کو رعایت دی گئی  اور اس کی طرف سے تاخیر کو نظر انداز کیا گیا، تو یہاں بھی ایف آئی آر کی تاخیر کو نظر انداز کرنا بنتا تھا۔ میری ناقص رائے میں  چیف جسٹس صاحب کو فیصلے کے حق میں اس تاخیر کے معاملے کو استعمال کرنے کی ضرورت نہ تھی۔

اجتماع  کے مقام اور اس میں  موجود افراد کی تعداد کے بیان میں تضاد

محترم چیف جسٹس نے  مقدمے کے جھول کا ذکر کرتے ہوئے   اس تضاد کو بھی موضوع بنایا ہے جو گواہان میں مجمعے  کے مقام اور اس میں موجود افراد کی تعداد کے حوالے سے تھا۔اس حوالے سے انھوں نے لکھا ہےکہ   اولاًجرح کے دوران معافیہ بی بی (PW.2) نے نے بتایا کہ عوامی اجتماع میں تقریباً 1000سے زائد لوگ موجود تھے، لیکن اس کے سابقہ بیان میں یہ نہیں بتایاگیا تھا۔ثانیاً جرح کے دوران اس نے کہاکہ عوامی اجتماع اس کے والد کے گھر پر ہوا تھا، جب کہ یہ بات بھی اُس کے سابقہ بیان کا حصہ نہ تھی۔ثالثاً دورانِ جرح اس نے بیان دیا کہ بہت سے علما عوامی اجتماع کاحصہ تھے، لیکن یہ بات بھی اس کے سابقہ بیان میں شامل نہ تھی۔ اسی طرح اسماء بی بی (PW.3)بھی اپنے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے دیئے گئے بیان سے انحراف کرتی رہی۔  جرح کے دوران اس نے کہا  کہ عوامی اجتماع اُس کے پڑوسی رانا رزاق کے گھر میں ہوا، لیکن اس بات کا ذکر اُس کے سابقہ بیان میں نہ تھا۔ثانیاً جرح کے دوران اُس نے کہاکہ عوامی اجتماع میں 2000سے زائد لوگ شریک تھے، لیکن اس بات کا تذکرہ اس کے سابقہ بیان میں نہ تھا۔(دیکھیے ، چیف جسٹس، پیرا نمبر30)اسی نوع کے تضادات و اختلافات کا تذکرہ  چیف جسٹس صاحب نے پیرا نمبر 33 اور 34 میں بھی  مختلف حوالوں سے کیا ہے۔ 
ہمارے خیال میں مجمعے کے مقام اور اس میں موجود افراد کی تعداد میں اس نوع کا اختلاف عمومی طور فطری ہوتا ہے ، اسے  جھوٹ یا دھوکہ دہی پر مبنی  قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے کہ اس طرح کے ایشو پر مجمعے بے ہنگم جمع ہو جاتے ہیں ، اور ایک سے دوسرے گھر یا ڈیرے پر منتقل بھی ہوتے رہتے ہیں ۔گویا یہ ایک  نہیں کئی طرح کے ، کئی مواقع  اور کئی مقامات پر ہونے والے اجتماعات بن جاتے ہیں، لیکن ان کو ایک ہی اجتماع کے تناظر میں دیکھ لیا جاتا ہے، کیوں کہ وہ مقام و نوعیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے نہایت متصل اور قرب کے حامل ہوتے ہیں۔ایسے اجتماعات میں متعین طور پر سارے افراد یا اہم  اورنمایاں افراد کے نام اور شناخت بتانابھی  ممکن نہیں  ہوتا۔مجمعے کی نفسیات کے تحت لوگ  خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں، سوافراد کی تعداد کا بھی اندازہ ہی ہوتا ہے، متعین نمبرز کوئی بھی نہیں بتا سکتا۔اس طرح کے اجتماع میں مجمعے کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے  تعداد میں مبالغہ  فطری سی چیز ہے۔ یہ بتانے کے لیے  کہ  فلاں جگہ بہت سے لوگ جمع تھے، لوگ عموماً کَہ جاتے ہیں کہ سیکڑوں یا ہزاروں لوگ تھے ۔ چاہے لوگ  ڈیڑھ دوسو یا کم و بیش ہوں ۔ راقم کو اس ضمن میں دیہاتی پنچائیتوں اور  مقدمات کے ضمن میں لوگوں کے مختلف مقامات پر جمع ہو کر بات چیت کرنےاور  معاملے کی تَہ تک پہنچنے کے لیے  سوچ وبچار کرنے (جسے ہماری مقامی  دیہاتی زبان میں" گویڑ لگانا "کہا جاتا ہے)سے متعلق ذاتی تجربات ہیں۔ میرے نزدیک  دیہاتی پس منظر کے اس طرح کے  کسی مقدمے میں ایسا اختلاف و تضاد  اجتماع کے عدم وقوع کی دلیل نہیں بن سکتا۔ رہی بات ایک موقعے پر مجمعے کی تعداد کے تذکرے اور دوسرے موقعے پر اس کا عدم ذکر تو یہ بھی فطری ہو سکتا ہے، ممکن ہے ایک موقعے پر گواہ نے محسوس کیا ہو کہ  اس کا ذکر غیر ضروری ہے اور دوسرے موقعے  پر اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اس کا تذکرہ کر دیا ہو۔

اجتماع  کے وقت اور دورانیے اور گرفتاری کے وقت  کے بیان میں تضاد

ایک دلیل اجتماع کے وقت اور دورانیے سے متعلق تضاد و اختلاف کی  دی گئی ہے، جس کے مطابق"(PW.2) نے کہاکہ یہ جمعہ کے روز بارہ بجے منعقد ہوا اور اس کا دورانیہ 15سے 20منٹ تک تھا۔ (PW.3) نے بیان دیا کہ عوامی اجتماع بارہ بجے دوپہر کومنعقد ہوا اور پندرہ منٹ تک جاری رہا۔ (PW.4) نے بیان دیا کہ گیارہ سے بارہ بجے دوپہر منعقد کیاگیا اور دو سے ڈھائی گھنٹے جاری رہا۔
کسی وقوعے کے وقت کے صحیح صحیح  بیان  میں تضاد  کے حوالے سے ایک اور دلیل ، جو اوپر ذکر ہو چکی ہے ، آسیہ بی بی کے گرفتار کرنے والے پولیس آفیسر سے متعلق ہے کہ ایک موقعے پر اس نے بیان دیا کہ اس نے ملزمہ کو "اٹاں والی" سے شام چاربجے کے قریب گرفتار کیا اور بعدازاں ایک اور موقع پر اس نے کہا کہ وہ دیہات اٹاں والی تقریباً 7بجے کے قریب پہنچا اور وہاں ایک گھنٹے تک رکا۔(چیف جسٹس، پیرا نمبر 40) 
 اجتماع کے وقت  ومقام اور ان میں موجود افراد اور گرفتاری کے وقت کے چار یا سات بجے شام ہونے سے متعلق تضاد والی دلیل، ہمارے خیال میں متذکرہ بالا پوائنٹ والی دلیل  سے بھی زیادہ کمزور ہے۔اجتماع  اور گرفتاری کے وقت اور دورانیے کے ضمن میں مذکورہ تضاد و اختلاف بالکل فطری ہے۔ ایسے موقعے پر لوگ  گھڑیاں سامنے رکھ کے نوٹ بک میں ٹائم نوٹ نہیں کر رہے ہوتے کہ  عین منٹ اور گھنٹے گن کر بتائیں!

آسیہ کے معنی  گناہ گار نہیں

جسٹس کھوسہ صاحب نے  اپنی رائے کے پیرا نمبر 25 میں میں لکھا ہے:
It is ironical that in the Arabic language the appellant’s name Asia means ‘sinful’ but in the circumstances of the present case she appears to be a person, in the words of Shakespeare’s King Leare, “more sinned against than sinning”.
یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ عربی زبان میں  آسیہ  کے معنی گناہ گار ہیں لیکن زیرِ نظر مقدمے میں اس کا کردار شیکسپیئر کے ناول کنگ لیئر( King Leare) کے الفاظ میں "گناہ کرنے سے زیادہ گناہ کا شکار" جیسا ہے۔
فیصلے کے آخر میں اس رومانوی  بیان کی کوئی ضروت نہ تھی  کہ خواہ مخواہ  شیکسپئیر کے ناول کا حوالہ دینے کے لیے  آسیہ کو عاصیہ بنا دیا جاتا، اس کو تو کوئی ستم ظریف الٹ بھی استعمال کر سکتا ہے کہ آسیہ  مولویوں سے زیادہ مضبوط ہے ، کہ اتنے کرائسز اور مخالفت کے باوجود مقدمہ جیت کر دکھانے میں کامیاب رہی۔(واضح رہے عاصیہ کے معنی گناہ گار ہیں اور آسیہ کے معنی  مضبوط)اس غلطی کے بارے میں  کھوسہ صاحب کی طرف سے یہ عذر پیش کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے   انگریزی میں لکھے ہوئے نام آسیہ کو عاصیہ سمجھ لیا،لیکن ہم نے تو آج تک   اردو میں اس  کو آسیہ ہی دیکھا ہے۔جج صاحبان  کو کبھی کبھی اردو بھی دیکھ لینی چاہیے۔اور ہاں! چونکہ "تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں"،  ہم یہ بھی عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ شیکسپئیر کی ٹریجڈی کے ہجےKing Leareنہیں King Learہیں۔

نتیجہ بحث

ہمارے نزدیک زیرِ نظر فیصلہ  بحیثیت مجموعی  ایک درست فیصلہ ہے، جو اخلاقی ، اصولی اور شرعی معیارات کے مطابق ہے۔ اس میں بعض کمزوریاں موجود ہیں، جن میں سے اہم کی ہم نے اوپر نشان دہی بھی کردی ہے، لیکن یہ کمزوریاں فیصلے کی مجموعی اور عمومی  کریڈیبلٹی کو متاثر نہیں کرتیں۔کمزوریوں کے ضمن میں جن نکات کی نشان دہی کی گئی  ہے،ان کو نکال بھی دیا جائے تو فیصلے کی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ہماری رائے میں ان چیزوں کو فیصلے میں فاضل جج صاحبان نے تاییدی شواہد کے طور  پر استعمال کیاہے ، فیصلہ بنیادی طور پر ان پر منحصر نہیں، اور ایسا ہونا مختلف مواقف کے اظہار میں عام مشاہد ہے۔اہل علم و تحقیق جب  کوئی مجموعی موقف اختیار کرتے ہیں  تو بعض اوقات  ان نکات کو بھی ذکر کر دیتے ہیں ، جو اگرچہ اتنے معیاری نہیں ہوتے  ،لیکن مجموعی موقف کے تاییدی دلائل کا مسالہ بن رہے ہوتے ہیں۔
متعلقہ ججوں سے جس کو جو بھی اختلاف ہو، راقم کو یہ فیصلہ ہر گز بد نیتی  یا کسی پریشر پر مبنی دکھائی نہیں دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پریشر ہی تو اس میں قبول نہیں کیا گیا، اس لیے کہ اس مقدمے میں باہر کا پریشر اندر کے پریشر کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔یہود ونصاریٰ یا امریکہ و یورپ کے  کی طرف سے ان کے  جس حشر کا مفروضہ گھڑا جا سکتا تھا ، وہ اس حشر کا عشر عشیر بھی نہیں  ہو سکتا تھا،جوتحریک لبیک اور ان کے ہم خیال دیگر احتجاجیوں کی طرف سے سامنے  دکھائی دے رہا تھا۔ ججوں کی نظر میں تھا  کہ جلاؤ گھراؤ کی ہولناک اور تباہ کن  ملک گیر تحریک کے ساتھ ساتھ  ان کی  اپنی جان بھی جا سکتی ہے۔ لیکن انھوں نے اس پریشر کو جھٹک کر وہی فیصلہ کیا، جسے دیانت داری سے درست سمجھا۔مجھے تو یوں لگتا ہے  کہ ججوں کا دھیان کسی پریشر کی بجائے  انصاف کو ہر حال میں یقینی بنانے سے متعلق  دنیاے قانون و انصاف  کے اس  معروف قول  کی طرف تھا، جس میں کہا گیا ہے کہ انصاف ہونا چاہیے خواہ آسمان گر پڑے ( Let Justice be done though the heavens fall)۔اور سچی بات یہ ہے کہ یہ  فیصلہ  ان چند فیصلوں میں شمار کیا جا سکتا ہے، جن پر واقعتاً آسمان گرنے  کا خدشہ تھا۔

ہجرت رسول ﷺ کا بشریاتی مطالعہ

عاصم بخشی

(میاں انعام الرحمٰن کی کتاب ’’سفر ِجمال‘‘ پر ایک تبصرہ)

کیا اسلام کا ایک خالص معروضی مطالعہ ممکن ہے1؟ یعنی   ویسی ہی معروضیت جو مغربی درس گاہی نظام یعنی ’اکیڈمی‘ میں  یہودیت اور عیسائیت کا  وہ مطالعہ ممکن بناتی  ہے جس کی رو سے ان دونوں کی تعریف ایسے  ’مذاہب‘ کے طور پر کی جاتی ہے جن کے ماننے والے خود کو یہودی یا عیسائی کہتے ہیں۔درس گاہی تناظر کی اس  تنصیب   کے بعد  مذہب اور کلچر ایک ہی سکّے کے دو  رخ بن جاتے ہیں۔ یہودیت یا عیسائیت کے معنی کم وبیش یہودی  اور عیسائی ثقافت واقدار اور عقائد و اعمال کا مجموعہ ٹھہرتے ہیں۔ دوسری طرف روایتی  مطالعۂ اسلام  تاحال ’ریلیجن‘ اور’ کلچر‘ کی لاینحل  دبدھا کا شکار ہے۔ غیرمقامی روایتِ علم سے وارد ہونے والی ان دونوں     اصطلاحات کو من وعن تسلیم کرتے ہوئے انہیں سماجی محاورے میں خاطرخواہ جگہ  تودی جا چکی ہے، لیکن  ساتھ ہی ساتھ دینِ اسلام اور مسلم ثقافت کے درمیان  صحت و استناد کے سوال پرمسلسل کھینچا تانی جاری ہے۔ کھینچا تانی کا  اوّل میدان روایتی اسلام اور غیرمقلد  اور آزاد منش مصلح  و  متجددین  کے درمیان تعبیراتی کشمکش اور  زمانی ومکانی استناد پر اجارہ داری کی خواہش ہے۔دوم، متقابل روایتی مظاہر  کے درمیان  وہ  تعبیراتی کشمکش ہے جس میں  اپنے تئیں ماضی  کے ایک’ مستند‘ دور  سے سند لانا لازم مانا جاتا ہے۔یہ دونوں میدان مل کر عصری روایتی تناظر کی تشکیل کرتے ہیں۔ روایتی تناظر  کے برعکس بشریاتی  تناظر  اس سوال کو منفی کشمکش نہیں  بلکہ ایک ایسی   اضافیت پسند تکثیریت کے طور پر دیکھتا ہے جو   مطالعہ ٔ  اسلام  کی   نئی خاکہ بندیوں کے ذریعے  مکالمے اورفہم کے امکانات میں بڑھوتی کا باعث بنتی ہے۔
مطالعۂ اسلام کی مغربی علمی روایت میں پچھلی نصف صدی کے دوران اٹھایا جانے والا سب سے اہم سوال  یہی ہے کہ ’اسلام‘ نامی  اصطلاح کو  بشریاتی تناظر میں  پرکھنے کے کیا امکانات ہیں2؟یہ سوال   یوں پیدا ہوا کہ’ مذہب‘اور’ ثقافت‘  جیسی  سماجیاتی اصطلاحات کے برعکس ’اسلام‘ کی  اصطلاح بشریاتی تناظر کے قیام سے قبل نہ صرف  اپنا ایک محکم وجود رکھتی ہے بلکہ نوعِ انسانی کی کئی معاشروں  کو  ان کی یکساں شناخت بھی  عطا کرتی ہے۔اسلامی عقیدے  کے  مشمولات کا تعین کرنے والی  اہم ترین دستاویز  یعنی قرآن کریم نے نہ صرف اس اصطلاح کا من وعن استعمال کیا  بلکہ  اسے ایک نیم بشریاتی  تناظر میں نوعِ انسانی  کی  اس  معنویت پسندفطری حالت  سے بھی تعبیر کیا جس  کی رُو سے انفس و آفاق ، انسان کے اندر اور باہر موجود دونوں جہان ایک ہی واحد و یکتا ،  اول و آخر، حیّ و قیوم ذاتِ مطلق کے آگے ہمہ دم سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔ یہ سوال کہ’ کیا اسلام ایک مذہب ہے؟‘ ایک  نہایت پیچیدہ  بلکہ شاید  تاحال قریب قریب  ناممکن خاکہ بندی کو دعوت دیتا ہے۔ایک طرف تو   قرآن کریم اسلام  کو توحید پرست ابراہیمی روایت کے تسلسل کے طور پر متعارف کرواتا ہے لیکن دوسری طرف اسی ابراہیمی روایت کی دوسری ممیز شاخوں یعنی یہودیت اور عیسائیت  سے ایک امتیازی شناخت پر بھی اصرار کرتا ہے3۔جب تک ہم بشریاتی تناظر قائم نہیں کرتے یہ الجھن کچھ خاص نمایاں نہیں ہوتی لیکن  سماجیاتی میدان میں اترتے ہی  ہمارے سامنے باربار آن کھڑی ہوتی ہے۔
فی الحال مسئلہ درست سوالوں کی خاکہ بندی  یعنی  تصورِ اسلام کی بشریاتی وضاحت کا ہے۔ کلاسیکی اسلامی روایت سے جڑا ادب   اس خاکہ بندی  سے دامن بچا کر گزرتا ہے تو اسلام کو ’مذہب‘ کی بجائے ایک اور قرآنی اصطلاح ’دین‘ کی صورت میں متعارف کروا دیتا ہے جو رائج  بشریاتی  تناظر کے لیے  اتنی معنی خیز نہیں  بلکہ کافی حد تک  اجنبی ہے۔ یہ بھی ایک  حقیقت ہے کہ علم و ادب میں  رائج  لاطینی الاصل انگریزی اصطلاح  ’ریلیجن‘یعنی ’مذہب‘ سے قبل بھی  ابراہیمی  روایتوں سے منسلک انسان مختلف آفاقی  نظام ہائے اعتقادات سے خود کو منسلک کرتے  اور  ایک دوسرے کو اہلِ یہود، یسوع مسیح کے پیروکار،نصرانی  وغیرہ کی شناختوں سے جانتے تھے۔اسی طرح  ’کلچر‘ یعنی ’ثقافت‘ اور’سویلائزیشن‘یعنی’تہذیب‘ کی اصطلاحوں سے قبل بھی انسان کئی ثقافتی مظاہر سے منسلک تھا اور خود کو تہذیب یافتہ مہذب  مخلوق مانتا تھا۔ لیکن دراصل ان دونوں  اور اس قسم کی کچھ دوسری اصطلاحات نے علم و ادب کا وہ مخصوص تناظر قائم کیا جس میں  ’مذہب‘ یا’ثقافت‘نامی مقولات کے تحت نوعِ انسانی  کی وہ  تغیراتی خاکہ بندی  ممکن ہو سکی جس نے   انسانی سماج کو اس کی کلیت میں  سمجھنے  اور اس پرنفسیاتی، سیاسی اور معاشی اعتبارات سے بامعنی تبصرہ کرنے کے کئی منفرد امکانات پیدا کیے۔اسی مخصوص تناظر اور اس سے متعلقہ مقولات کو عرفِ خاص میں   بشریاتی ڈھانچہ  کہا جاتا ہے جوعلمِ بشریات کے اصولوں کے مطابق  فرد اور معاشرے کی خاکہ بندی ممکن بناتا ہے۔
 واقعہ یہ ہے کہ نوعِ انسانی  کے ایک چنیدہ بشرِ  واحد کے شعورو لاشعور پر  منطبق ہونے والی ملفوظ  ابراہیمی روایت   اور اس سے جڑی  نفسیاتی واردات کے طور پر اسلام  کا کوئی بھی  تعریفی خاکہ دراصل ایک  خالص بشریاتی واقعہ بن کر ابھرتا ہے۔ لفظ ’اسلام‘ کے تمام متنوع  اور متقابل و متطابق معنویاتی گروہ  اپنی تعریفات کے لیے  محمد رسول اللہ ﷺ کی قلبی واردات، ان  کی ثقافت و تہذیب سے جڑے تاریخی واقعات اور ان واقعات سے منسلک تعبیری و تشریحی مفروضوں کے محتاج ہیں جواسلامی روایت کے اساسی  متون یعنی قرآن و حدیث اور اولین معاشرتی مظاہر   کو محفوظ کرنے والے آثارواخبارکے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چاہے روایتی ہوں یا تجدید پسند، اسلام کی تمام تر  تعریفات خود کو اضافی نہیں بلکہ معیاری گردانتی ہیں۔ یہ تعریفات جہاں خود ایک آفاقی کسوٹی پر پورا اترنے کا دعویٰ کرتی ہیں وہیں کچھ دوسری متقابل   تعریفات اور ان سے  جڑے اعمال کے مجموعوں کو غیرمعیاری بھی  مانتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کیا ہے کا سوال خود بخود   ایک معکوس سوال یعنی’ کیا اسلام نہیں ہے؟‘ کو بھی ابھارتا ہے۔چونکہ یہ تمام متقابل روایات  انسانی لاشعور وشعور میں اپنی محکم جگہ بنا کر مختلف ثقافتی مظاہر  کے ذریعے  مسلسل ترویج پاتی ہیں لہٰذا ان دونوں سوالوں  پر جوابی ردّعمل اور  پیش مفروضے خود بخود بشریاتی  تناظر میں نئی خاکہ بندیوں کو  دعوت دیتے ہیں۔
یہ وہ ناگزیر خاکہ ہے جسے توشہ دان میں رکھے بغیر’’سفرِ جمال‘‘4  پر کمر نہیں باندھی جا سکتی ۔’’سفرِ جمال‘‘ایک ایسی  منفرد ترین بشریاتی خاکہ بندی ہے جو روایتی اسلوبِ سیرت نگاری   سے علیحدہ ایک راہ نکالنے کے باعث اہلِ علم کے  علاوہ عام قارئین کو بھی بالعموم مذہبِ اسلام کے الہامی متون اور بالخصوص سیرت النبیﷺ کے  بشریاتی مطالعے کی دعوت دیتی ہے۔مطالعے کے غالب معنوی متغیرات دو مختلف  لیکن  ساتھ ہی ساتھ باہم گنجلک دھاروں    میں تقسیم ہیں ۔ سفروہجرت اور عزم ومزاحمت   کے یہ  دونوں  دھارے یوں تو  سیرتِ طیبہ کی ایک ہی لڑی میں پروئے ہیں لیکن تجزیے کی خاطر انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا ضروری ہے۔پہلا دھارا واقعاتی ہے، دوسرا نفسیاتی، دونوں  کے ملاپ سے ایک اساطیری جہت تشکیل پاتی ہے۔میاں انعام الرحمٰن کا مرکزِموضوع ہجرت ہے۔لیکن ان کا حتمی پڑاؤ واقعۂ ہجرت کی تاریخی نہیں بلکہ  اس کی وہ اساطیری اہمیت  ہے جو اسلامی تہذیب  کے ہر گزرتے لمحۂ موجود کو مسلسل معنویت عطا کرتی ہے۔ پھریہ معنویت بھی عمومی سیرت نگاری کی طرح  حضورﷺ  کی ذات طیبہ  کی تمام تاریخی جہات  سے  ایک نفسیاتی تسکین یا سیاسی و سماجی عملی جدوجہد کے لیے  واقعاتی مال مسالے کے حصول تک محدود  نہیں  بلکہ  ایک ناگزیر اصولی خاکہ فراہم کرنے  سے عبارت ہے جو اپنے آخری درجے  میں اوجِ  ارتقائے حیات  یعنی اولین بشرِ کامل آدم  علیہ السلام سے  لے کرآخری انسانِ کامل یعنی  محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات  کو ایک ہی  تہذیبی کڑی میں پرو دیتی ہے۔
’’سفرِ جمال‘‘ کے  علمی پس منظر اور  تحقیقی  مفروضوں    کی خاطرخواہ  دریافت کی خاطراس موقع پر قارئین کے سامنے بشریاتی تناظر میں اسلام  کی تعریف کا ایک نہایت مختصر ساعمومی خاکہ رکھ دینا مناسب ہو گا۔اوپر ذکر کردہ پس منظر سے اتنا تو واضح ہے کہ  روایتی  تناظر  کے برعکس بشریاتی تناظر آفاق سے نفسِ انسانی  اور عملِ انسانی کی جانب عمودی اتار کی بجائے انسانی نفسیاتی  و اعمال   کے افقی پھیلاؤ کو اپنی  بحث کا  موضوع بناتا ہے۔ نظامِ عقائد اور مبادیات  دین کے الہامی  مباحث  انسانی ترجیحات کو متعین کرنے والے متغیرات کے طور پر  بحث میں لائے جاتے ہیں۔ یہاں الٰہیات و فقہ کے عظیم علمی  مسائل، نصوص  پر بحث ،  سند  اور اس کے اطلاق میں علتی  نسبتیں نہیں بلکہ  کسی بیمار شخص پر دم درود پڑھنے،   شادی بیاہ  یا قربانی کی  اسلامی ثقافتی رسومات اور آفاقی استناد و صحت کے  حصول کی خاطر فرد اور معاشرے کی نفسیات  بحث کا مرکز  ہیں۔ساٹھ کی دہائی سے قبل   روایتی تناظر کو قبول کرتے ہوئے مغرب میں   استشراقی  علمی روایت کے تحت ہی اسلام کا تجزیہ مروج رہا  ۔ تجزیاتی ڈھانچہ ایسا تھا کہ  ایک جانب تو تاریخیت5 اور دوسری جانب  بائبل   کے ضمن میں وضع کیے جانے والے تاریخی   انتقاد6 کے اصول و مبادیات کا اطلاق  قرآن و حدیث  پر بھی ہوتا رہا۔اوّل الذکر کو مقامی    ثقافت سے جنم لینے والے  نفسیاتی یا شعری الہام  اور آخر الذکر کو   تاریخی دستاویز  کے طورپر تجزیے کے سپرد کیا جاتا رہا۔اس تجزیاتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی  ساٹھ کی دہائی میں  آئی جب  بین الثقافتی   مثلاً جاوا اور  مراکش کی مسلم ثقافتوں کے درمیان موازنے اور تقابل کے ذریعے ایک نئی روایت آغاز ہوا7۔تجزیے کے میدان میں یہ ایک لمبی جست تھی کیوں کہ  روایتی تناظر کے برعکس اسلام اب   معاشرتی رجحانات کا وہ نتھرا ہوا مجموعہ نہیں تھا جو  کل مظاہر کے مجموعے میں سے ثقافت کو منفی کر دینے کے بعد بقیہ بچتا ہے بلکہ ثقافت سے گنجلک کوئی  پیچیدہ   مظہری ملغوبہ تھا۔کم و بیش ڈیڑھ دہائی اسی سمت میں سفر جاری رہا۔ پھر   اسّی کی دہائی کے وسط میں   ایک نئے بشریاتی تناظر  کے  تصور پر  بحث کا آغاز ہوا جہاں  کسی بھی معاشرے میں مطالعۂ اسلام  کو ثقافت سے نمودار ہوتے ہوئے دیکھنے کی بجائے ان   طاقت ور شخصیتوں اور اداروں کو تجزیے کا بنیادی موضوع بنانے کی ترغیب دی گئی  جو اسلام کے سوال پر حتمی اختیار کا منبع ہیں8۔اس حقیقت کو بشریاتی تناظر میں زیادہ دلچسپ مان  لیاگیا کہ اختیارات کے یہ شخصی یا غیرشخصی مراکز  ہی دراصل فیصلہ کرتے ہیں  کہ  کیا اسلام ہے اور کیا نہیں اور نتیجتاً ایک ایسی استدلالی روایت کی تشکیل کرتے ہیں جسے معاشرے کی غالب اکثریت کا اعتماد  حاصل ہو جاتا ہے۔نوّے کی دہائی میں گلوبلازیشن اور بین الاقوامی مواصلاتی انقلاب  کے بعد ان دونوں بظاہر متضاد تجزیاتی ڈھانچوں نے مل کر ایک تیسرے بشریاتی پیراڈائم9 کو جنم دیا جس میں  سیاسی رجحانات اور طاقت واختیار کی کشمکش کو فیصلہ کن تجزیاتی اساس مانا گیا۔اب اولین ڈھانچے سے  توتاریخی یاداشت کا اصول لیا گیا اور دوسرے متبادل ڈھانچے سے  سیاسی و ثقافتی قوت  کے رجحانات کو اصولی تسلیم کیا گیا۔تیسری دنیا یعنی  جنوبی ایشیا اور  افریقہ کے مسلمانوں  کے یوروپی اسلام کے علمبرداروں سے علمی مراسم قائم ہوئے تو اسلام کے پسِ استعمار اور نوآبادیاتی  تنقید پر مبنی مطالعے بھی سامنے آئے۔اگلی تین دہائیاں انہی رجحانات کا تسلسل ہیں جو  مطالعۂ اسلام کی خاطر  قائم کیے گئے مفروضوں کو بشریاتی میدان میں  ثقافتی تجربہ گاہوں میں جانچنے کے بعد مختلف نتائج پر پہنچتی  ہیں10۔ 
بغور دیکھیے تو یہ لازماً ایک ایسا استخراجی ڈھانچہ ہے جہاں مطالعۂ اسلام  کا  نظریاتی تناظر پیش قیاس کرنے کے بعد ہی تھیوری سے  عملی تجزیے کی جانب پیش قدمی ممکن ہوتی ہے۔اس طرح مطالعۂ اسلام لازماً دو خانوں میں بٹ جاتا ہے جن میں سے ایک اسلام  تو خالص نظری  جب کہ  دوسرا اسلام  عملی یا تجزیاتی بن کر ابھرتا ہے۔اسلام کے ان دونوں مطالعات کو ایک  جوڑ کر ایک ساتھ پیچیدگی سے نمٹنا وہ چیلنج ہے جو اب اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا  تیزی سے رائج ہوتا بشریاتی تناظر 11 ہے۔
اس پس منظر میں انعام الرحمٰن میاں کی کاوش   کو غالب مسلم ثقافت سے جنم لینے والی ایک ایسی جدید کاوش کہا جا سکتا ہے جو اختیاراتی  قوت کے مراکز یعنی  تعبیرات و تفاسیرِ قرآن اور’مستند‘  اخبار وآثار   سے کسی نہ کسی درجے میں جڑے رہنے کے باوجود ایک یکسر تازہ   منہجِ تحقیق  کے ساتھ مطالعۂ نو کی دعوت ہے۔ غالب مغربی بشریاتی تناظر  کی روایت سے یکسر باہر، یہ ایک  ایسی تجدیدی کوشش ہے جو استدلالی روایت  کی بازیافت پر کمر کستے ہوئے تجزیے کی خاطر کُل کو اجزاء میں تقسیم  بھی کرتی ہے اور اجزاء کو واپس  کُل میں ڈھالنے کی پیچیدگیوں سے تھک کر کارتیزی جزئیت کے آگے ہتھیار بھی نہیں ڈالتی ۔اگر بشریاتی تناظر میں ثقافت و  استناد  کے کسی نظریاتی کُل کو  میاں انعام الرحمٰن کا  پیش قیاسی  بدیہی مسلمہ مان لیا جائے تو اس تھیوری کی جانچ پڑتال کے لیے ان کا ’فیلڈ ورک‘ ہجرتِ رسولﷺ کا میدان اور اولین نبوی معاشرے کی نفسیات میں عزم و مزاحمت کے  رجحانات ہیں۔ 
یہ سمجھوتہ ضرور ہے کہ پابندیٔ اختصار اور اسلوبی تقاضوں کے باعث  ’’سفرِجمال‘‘ کا یکسر تازہ منہجِ تحقیق  بدقسمتی سے پس منظر میں رہتا ہے لیکن بہت سے  تازہ سوالات ضرور سامنے آتے ہیں۔شوقین محقق قاری کے لیے سیرتِ طیبہ سے متعلق یہ نئے سوالات پیاس کا شدید احساس ابھارتے ہیں۔غارحرا میں  نفسی ہجرت، صبر، عزم و استقلال  اور پھر اس عزم کےشخصی اظہار کا  ماضی کے جانب سفر کرتے ہوئے آدمؑ کے گم گشتہ عزم کی بازیافت بن جانا،  مستقبل میں آگے کو بڑھتے ہوئے ابدیت تک   نفسی ترغیبات کے خلاف  ڈٹ جانے کی یہ مکمل تصویر ایک ایسا اساطیری  منظرنامہ  ہےجو سیرتِ طیبہ اور  روایتی  مطالعۂ اسلام میں  ایک  تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔اگر میاں انعام الرحمٰن کے منہجِ تحقیق کو مزید توسیع دی جائے تو  ہجرت ہی کی طرح دوسرے  چھوٹے چھوٹے موضوعات کو بشریاتی فیلڈورک کے طور پر   تحقیقی مفروضوں کی جانچ پڑتال اور ردّ وقبول کے لیے  استعمال کیا جا سکتا ہے۔
’’سفرِ جمال‘‘ سے واپس لوٹ کر ہمیں یہ نئے سوالات اٹھانے کی بھی  ضرورت ہے کہ کیا  روایتی مسلم ذہن کو مطالعۂ اسلام کے دوران  مذہبی اساطیر کی واقعاتی حیثیت  پر غیرضروری حساسیت ترک نہیں کر دینی چاہیے؟  الہامی متون  پر واقعاتی  تناظر میں اس  حساس لغویت پسندی  کے باعث مطالعۂ اسلام کا   کوئی بھی  قاری  سفر کے اولین پڑاؤ ہی سے واقعے اور قدر کی ایک ایسی دوئی میں پھنس جاتا ہے جہاں واقعے کی اساطیری حیثیت دم توڑ دیتی ہے۔لیکن میاں انعام الرحمٰن کے ہاں ہمیں  متونِ اسلام میں ماقبل تاریخی واقعات  کی اساطیری حیثیت پر  یہ سادہ لوح  زمانی و مکانی سمجھوتہ نہیں ملتا۔ معلوم و معروف تاریخ میں ہجرتِ نبوی ﷺ ہو یا  ماقبل  تاریخ میں  پیش آیاواقعۂ آدم و ابلیس، موسیٰ علیہ السلام کی بھول چوک  کو جنم دیتی  نفسیاتی بے خبری ہو یا ہجرت کے مسئلے پر ایک جری طبیعت کے دیہاتی کا رسول اکرمﷺ سے  سخت سوال، ہمیں  ہرہر موقع پر  الہامی متون سے استدلالی روایت کے استخراج کے ساتھ ساتھ اساطیری استعارے   کی یاددہانی بھی ملتی ہے۔ذہن  کا یہی شعری منطقہ، الہامی متون اور اخباروآثار کی قرأت کا یہی نفسیاتی پہلو بدلنے سے کسی بھی  محقق قاری کے سامنے اطلاقی امکانات  کا ایک لامحدود میدان کھل جاتا ہے۔  
مذہبی بشریات کے  تحقیقی سیاق وسباق میں  میاں انعام الرحمٰن کی ندرتِ فکر اور جہانِ خیال کی وسعت  کا اندازہ  اس دو چارصفحات کے  نہایت  مختصر مضمون سے کیا جا سکتا ہے جو ’’ بعثتِ نبوی ﷺ کے عصری مکاشفے‘‘ کے عنوان سے ’’سفرِ جمال‘‘ کا اختتامی باب ہے۔یہاں ہمیں زرعی دور اور  ریگستانی ثقافت میں بعثتِ نبوی ﷺ کا واقعہ ، پدرسری  خاندانی نظام، زمین سے وابستگی اور آسمان سے شکستگی  جیسے وہ بشریاتی اشارے ملتے ہیں جو  اپنی گرہیں کھولے جانے کے لیے ایک مستقل مضمون کے محتاج ہیں۔اپنے طے شدہ اسلوب سے وفادار رہتے ہوئے میاں انعام الرحمٰن یہاں بھی  اپنے سوچے سمجھے نتائج پر اصرار نہیں کرتے بلکہ کسی منجھے ہوئے محقق کی طرح ان کا موضوع مزید بحث اور مکالمے کی راہ ہموار کرنے کے لیے  اپنے مفروضوں کو عیاں کرنا ہے تاکہ قاری انہیں آسانی سے ردّو قبول کر  سکے۔ میاں انعام الرحمٰن کے اشاروں سے تحریک پاتے ہوئے اگر ہم ان کے مفروضوں سے کلّی اتفاق کریں تو  سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا  ان اشاروں کے نتیجے میں مشرق و مغرب اور مغربی جدیدیت  بالمقابل دانشِ قدیم کی  جاری بحث کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت تو نہیں؟ آخر بشریاتی کینوس پر اس  عظیم الشان واقعے کی کیا اہمیت ہے کہ ابراہیمی مذاہب کا آغاز  اور اختتام ہی لیونت  یعنی  مشرقی بحیرۂ روم کے علاقوں میں ہوا؟12  دوسری طرف اگر ہم فاضل مصنف کے اطلاقی نتائج سے ذرا اختلاف کریں تو  برصغیر پاک و ہند کو عصری معاشرت نہیں بلکہ بعثتِ  رسول ﷺ کے زمانے کے ہندچینی  فلسفۂ الٰہیات  و بشریات  کے تناظر میں دیکھنا غالباً  زیادہ معقول ہو گا۔دراصل مشرقِ بعید اور ہندچینی ثقافتوں میں  تو   مکتوبہ اعتقادات پر  مکمل اطاعت شعاری کے ساتھ ایمان لانے کے نفسیاتی رجحانات نہیں تھے، نہ ہی یہ اطاعت شعاری  نیکی اور فسق کی کسوٹی تھی۔ہماری آج کی بحث کے تناظر میں وہاں کا فطری مذہب کلچر  میں زیادہ گندھا ہوا تھا بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اسی سے پھوٹتا تھا۔ان حالات میں انسانی ’سائیکی‘ کس حد تک  ان ’جدید‘ مذاہب کے نظام ہائے اعتقادات  کو قبولیت بخش سکتی تھی جن کا ظہور اس زمانے میں مشرقِ قریب کی  جدید تہذیبوں سے ہوا؟13   کیا یہ جدیدیت سے اسی قسم کاذہنی و  نفسیاتی  بُعد نہیں جو آج خود کو روایتی کہنے والا مسلم ذہن محسوس کرتا ہے؟  بحث کا ایک علیحدہ  اور مستقل میدان  یہ بھی ہے کہ روایت کی عصری تعریف کیا ہے اور  زمانی و مکانی عوامل کے ساتھ جدیدیت کا نفوذ کیا کوئی ایسی قلبِ ماہیت ہے جس کا ٹھوس احساس بھی ممکن ہو؟
’’سفرِ جمال‘‘  کی بشریاتی خاکہ بندی  کا آخری اہم  مشاہدہ پانی ہے۔میاں انعام الرحمٰن نے اس جانب  چند اختتامی الفاظ میں آب زم زم کی اساطیری حیثیت اور ریگستانی معاشرت کی جانب اشا رے کیے ہیں۔ یہ دونوں اشارے کم از کم اس زاویے سے اہم ترین ہیں  کہ مطالعۂ  اسلام کے روایتی اہلِ علم  شاید تاحال اس موضوع کی خاطرخواہ اہمیت   کا اندازہ نہیں کر سکے14۔ پانی  کی کمی کا یہ  بظاہر سادہ سا نکتہ  اپنی توسیع کے ساتھ  بڑھتی ہوئی بین الاقوامی ماحولیاتی  حساسیت سے جڑا ہوا ہے۔ مذہبی تناظر میں توحیدپرست مذاہب   پر ساٹھ ہی کی دہائی سے یہ  تنقید کی جاتی رہی ہے کہ  جدید سرمایہ دارانہ نظام کے علم بردار ہونے کے باعث  وہ اس قدیم فسوں کاری میں خاتمے کا باعث بنے ہیں جہاں انسان نہ صرف خود کو بلکہ حقیقتِ مطلق کو بھی کائنات کا اٹوٹ انگ مانتا تھا۔اس تنقید کے مطابق توحیدپرست مذاہب نے شخصی خدا کے  تصور کے بعد اس اساطیری سحر کو توڑ دیا جو   زندگی، موت ، جنم ، کفن دفن، زرخیزی ، قحط اور دوسرے ان گنت مظاہر فطرت کو  سری کیفیت عطا کرتا تھا۔ عرشِ معلیٰ پر موجود شخصی خدا کے تصور نے   ایک طرف تو اس ہمہ اوستی   پر تنقید کی اور دوسری طرف علت و معلول  کے  ایک پیچیدہ  دائروی  نظام کو خطی نظام سے تبدیل کر دیا۔ یہ ایک ایسا خالص مذہبی تناظر ہے  جس میں انسان اور ماحول کے درمیان ایک لازمی دوئی کے باعث وہ عدم حساسیت پیدا ہوتی ہے جس کا سنگین انجام یہ عقیدہ ہےکہ زمینی  وسائل   کی شناخت ایک زندہ وجاوید حقیقت نہیں  بلکہ   انسانی استعمال کے لیے پیدا شدہ  ایک نظام کی ہے15۔  یہاں توحید پرست مذاہب دراصل سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر  کچھ مخصوص حدودوقیود کی رعایت کے ساتھ سرمائے کی بڑھوتری اور انسانی ترقی کے ایک مخصوص نظریے کی مذہبی  تخلیقِ نو کرتے رہتے ہیں16۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس تناظر میں قارئین کو   فاضل مصنف  کے مفروضوں  سے لے کر نتائج تک کے سفرِ پر ازسرِ نو  ایک تفصیلی تنقیدی  نگاہ ڈالنے  کی ضرورت ہے تاکہ  ان کے دیے گئے اشارے سے ایک مضبوط اور قابلِ اطلاق تھیوری سامنے آ سکے۔ہماری    رائے میں کسی بھی  مذہبی روایت کو بشریاتی سیاق و سباق میں پرکھتے ہوئے عملی  رجحانات اور اعتقادات کے درمیان موجود نادیدہ کڑی کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا اٹوٹ انگ ہیں۔یہ وہی نکتہ ہےجس کا ذکر ہم اسلام بطور ایک نظری موضوع اور اسلام بطور  ایک  مجموعۂ عقائدواعمال    و رجحانات کی ایسی  دوئی کے طور پر کر آئے ہیں جس پر حالیہ بشریاتی تناظر میں  کئی سوالیہ نشانات ہیں۔یہاں مسلم معاشروں کا مکمل فکری و عملی  کونیاتی کینوس تخلیق کرتے    لاشعوری    مال مسالے کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیے جو  کسی بھی سماج کو تاریخ کے کسی خاص موڑ پر  بدیہی مفروضے یا ایسی اولین سچائیاں  بہم پہنچاتا ہے جن کے لیے استدلال کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔
امید ہے کہ فاضل مصنف اس بابرکت علمی منصوبے کو جاری رکھیں گے اور  ہمیں ان کی جانب سے قلب و  ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی  مزید تخلیقات میسر آئیں  گی جن کی مسلم معاشروں  کو اشد ضرورت ہے۔

اپریل ۲۰۱۸ء

نصوص کے فہم اور تعبیر پر واقعاتی تناظر کے اثراتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۱)ڈاکٹر محی الدین غازی
قواعد فقہیہ: تعارف و حجیتمفتی شاد محمد شاد
سماجی ارتقاء اور آسمانی تعلیماتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
چند بزرگوں اور دوستوں کی یاد میںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اور بھٹکلمولانا عبد المتین منیری
زوالِ امت میں غزالی کا کردار تاریخی حقائق کیا ہیں؟ (۱)مولانا محمد عبد اللہ شارق
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کانظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۱)مولانا عبید اختر رحمانی
مکاتیبادارہ

نصوص کے فہم اور تعبیر پر واقعاتی تناظر کے اثرات

محمد عمار خان ناصر

نص کی تعبیر میں جو چیزیں مفسر یا فقیہ کے فہم پر اثر انداز ہوتی ہیں، ان میں ایک اہم چیز وہ عملی صورت حال ہوتی ہے جس میں کھڑے ہو کر مفسر یا فقیہ نص پر غور کرتا اور مختلف تفسیری امکانات کا جائزہ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عملی حالات کے بدل جانے سے انھی نصوص کی تعبیر کے کچھ ایسے امکانات سامنے آتے ہیں جو سابق مفسرین کے پیش نظر نہیں تھے۔ گویا حکم کی تعبیر کے مختلف امکانات عملی حالات سے مجرد ہو کر صرف متن پر غور کرنے سے سامنے نہیں آتے، بلکہ حکم کو عملی صورت واقعہ کے ساتھ جوڑنے سے وہ اصل تناظر بنتا ہے جس میں مجتہد مختلف تعبیری امکانات کا جائزہ لیتا ہے اور پھر ان میں سے کسی امکان کو اجتہادی طور پر ترجیح دیتا ہے۔ اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ایک واقعاتی تناظر میں حکم پر غور کرنے والے اور اس سے مختلف ایک دوسرے واقعاتی تناظر میں حکم پر غور کرنے والے مجتہدین کے سامنے تعبیراتی امکانات کا دائرہ مختلف ہو سکتا ہے۔ 
اس نکتے کو چند مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔
سیدنا عمر کے دور میں عراق کی فتح سے پہلے عمومی پریکٹس یہ تھی کہ مفتوحہ زمینوں کا ایک خمس بیت المال کے لیے رکھ کر باقی زمینیں قرآن مجید میں بیان ہونے والے مال غنیمت کے عام ضابطے کے تحت مجاہدین میں تقسیم کر دی جائیں۔ عراق فتح ہوا تو اسی اصول کے تحت فتح میں شریک صحابہ نے زمینوں کی تقسیم کا مطالبہ کیا، لیکن سیدنا عمر کے ذہن میں تردد پیدا ہو گیا جس کا عملی باعث نئی صورت حال تھی۔ سیدنا عمر کا خیال تھا کہ عراق کے بعد ایسی مزید زرخیز زمینیں مفتوح نہیں ہوں گی جن سے اتنی بڑی مقدار میں غلہ حاصل ہو سکے۔ اب اگر یہ زمینیں بھی انفرادی طور پر مجاہدین میں تقسیم کر دی گئیں تو ریاست کے پاس اجتماعی ضروریات کے بندوبست کے لیے مستقبل میں ذرائع باقی نہیں رہیں گے۔ چنانچہ انھوں نے اس پر طویل غور وفکر کیا، صحابہ سے مشاورت کی، اختلاف کرنے والے حضرات سے بحث ومباحثہ ہوا اور آخر عمومی اتفاق سے یہ طے پایا کہ یہ زمینیں تقسیم نہیں کی جائیں گی۔
یہاں دیکھیے، زمینوں کی تقسیم کے حکم کی تعبیر میں ایک نیا پہلو شامل کیا گیا کہ یہ مطلق اور حتمی حکم نہیں، بلکہ اس کا فیصلہ اجتماعی مصلحت کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا۔ حکم کو اس قید سے مقید کرنے کا امکان پہلے دن سے موجود تھا، لیکن عملاً اس کی طرف مجتہدین کی توجہ تب مبذول ہوئی جب ایک خاص صورت حال نے مطلق حکم کے valid ہونے پر سوال کھڑا کر دیا۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ تعبیر اجتہادی تھی جس سے اس وقت بھی اختلاف کیا گیا اور بعد میں امام شافعی نے بھی مفتوحہ زمینوں کی تقسیم کے باب میں قرآن کی بظاہر مطلق ہدایت ہی کو حکم شرعی قرار دینے پر اصرار کیا۔ 
اسی نوعیت کی ایک مثال جنگ میں مقتول دشمن سے چھینے گئے اسباب کو اس کے قاتل کا حق قرار دینے کی ہدایت ہے۔ عہد نبوی وعہد صحابہ میں جنگوں کے موقع پر عموماً یہی طریقہ اختیار کیا جاتا تھا کہ جنگ میں جو شخص جتنے دشمنوں کو مار کر ان کا اسباب چھین لے گا، وہ انفرادی طور پر اسی کا حق ہوگا، یعنی اسے اجتماعی مال غنیمت کا حصہ شمار نہیں کیا جائے گا۔ تاہم سیدنا عمر کے دور میں ایک جنگ میں حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں مسلمانوں نے ایک جنگ لڑی اور براء بن مالک نے ایک دشمن پر حملہ کر کے اس کو قتل کر دیا۔ اس کے سامان کی قیمت لگائی گئی تو وہ تیس ہزار تھی۔ سیدنا عمر کو اس کی اطلاع ملی تو انھوں نے فرمایا کہ اس سے قبل ہم سلب کو خمس میں شمار نہیں کرتے تھے، لیکن براء کا سلب قیمت میں بہت زیادہ ہے، اس لیے میرا ارادہ یہ ہے کہ میں اسے خمس میں شمار کروں۔ چنانچہ یہ سلب کو خمس میں شمار کرنے کا پہلا فیصلہ تھا جو اسلام میں کیا گیا۔ 
یہاں بھی دیکھیے، سلب کو قاتل کا حق قرار دینے کے حکم میں یہ قید لگانے کا امکان کہ اس کی قیمت بہت غیر معمولی نہیں ہونی چاہیے، فقہی طور پر پہلے بھی موجود تھا، لیکن اس کی طرف توجہ تب ہوئی جب عملاً ایک واقعہ پیش آ گیا جس میں اتنے قیمتی مال کو صرف قاتل کے سپرد کر دینے کا فیصلہ قابل اشکال محسوس ہوااور حکم کی ایسی تعبیر کی گئی جو بظاہر نئی اور مختلف تھی۔
اسی کی ایک مثال خلافت کے تاقیامت قریش میں محصور ہونے کا مسئلہ ہے۔ حضرت معاویہ، قریش کی خلافت سے متعلق احادیث کا مطلب یہ سمجھتے تھے کہ یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہے گا، اس لیے کہ اس وقت کے حالات کے لحاظ سے ان کے ذہن میں مستقبل کی جو تصویر تھی، وہ انھیں اسی تعبیر کی صحت پر مطمئن کرتی تھی۔ چنانچہ انھوں نے ایسی روایات سن کر سخت ناراضی کا اظہار کیا جن میں قریش کے اقتدار کے خاتمے کی بات بیان کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری)
چھٹی صدی ہجری سے پہلے کے فقہاء ومتکلمین بھی عموماً ’’الائمۃ من قریش‘‘ کی روایت کو ایک غیر مشروط شرعی فقہی حکم کا بیان قرار دیتے تھے اور اسے صرف فقہ نہیں، بلکہ علم کلام کے ایک امتیازی مسئلے کی حیثیت دی جاتی تھی اور خوارج کے ’’انحرافات‘‘ میں ایک بات یہ بھی شمار کی جاتی تھی کہ وہ خلافت کو قریش تک محدود نہیں مانتے تھے۔ تاہم جب عملاً قریش کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تو شارحین کی توجہ ان احادیث کی تعبیر کے دوسرے امکانات کی طرف بھی مبذول ہوئی اور رفتہ رفتہ انھیں پیشین گوئی پر محمول کرنے اور بعض شرائط کے ساتھ مشروط سمجھنے کا رجحان عام ہوتا چلا گیا۔ یہ دوسرا امکان اصولی اور نظری طور پر پہلے بھی موجود تھا، لیکن مجتہدین کی توجہ پہلے امکان پر مرکوز رہی اور اس اختلاف نظر کی وجہ بدیہی طور پر واقعاتی تناظر کا فرق تھا۔
اب اسی نکتے کو دور جدید کے بعض اجتہادات کے حوالے سے دیکھیے:
علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے پہلے سبھی شارحین سیدنا مسیح علیہ السلام کے نزول کے بعد غلبہ اسلام کی پیشین گوئی کو پوری دنیا سے متعلق قرار دیتے ہیں، لیکن شاہ صاحب نے ’’فیض الباری‘‘ میں اس سے شدید اختلاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ ایک خاص علاقے میں ہوگی اور اسلام کا غلبہ بھی اسی محدود خطے میں قائم ہوگا، نہ کہ ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ فہم کے اس اختلاف کی وجہ بھی بدیہی طور پر دنیا کے حالات میں تبدیلی کا وہ پہلو ہے جو قدیم شارحین کے سامنے نہیں تھا۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے ارتداد کی سزا سے متعلق کلاسیکی فقہی موقف کی تائید میں مفصل تحریر لکھی جو ’’مرتد کی سزا‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ ہے۔ اس میں مولانا نے نہ صرف نقلی دلائل سے بلکہ جدید قانونی وسیاسی تصورات کی روشنی میں عقلی دلائل سے بھی اس سزا کا جواز اور معقولیت واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم مولانا کو اس سوال کا بھی سامنا ہے کہ دور جدید میں اسلامی تعلیم وتربیت کے نظام میں نقص اور کافرانہ تعلیم وتربیت کے اثرات کے تحت نئی نسلوں میں اسلام سے فکری انحراف کا میلان اس درجے میں پھیل چکا ہے کہ انھیں قانون ارتداد کے تحت جبراً دائرہ اسلام میں مقید رکھنے سے ’’اسلام کے نظام اجتماعی میں منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہو جائے گی جس سے ہر وقت ہر غداری کا خطرہ رہے گا۔‘‘ مولانا نے اس سوال کے تناظر میں قانون ارتداد میں ایک نئی قید کا اضافہ کیا ہے جو کلاسیکی فقہی تعبیر سے متجاوز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی ریاست کو ایسے عناصر سے بچنے کے لیے یہ کرنا ہوگا کہ وہ ایک خاص مدت مقرر کر دے جس میں ایسے تمام عناصر کو ریاست کی شہریت ترک کر دینے کا موقع دیا جائے اور اس کے بعد جو لوگ علیٰ وجہ البصیرت اسلامی ریاست میں سکونت پذیر ہونا پسند کریں، انھی پر سزائے ارتداد نافذ کی جائے۔ یہاں اس تعبیر کی معقولیت یا عملیت زیر بحث نہیں، صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حکم کی اس نئی تعبیر کا تعلق ان نئے حالات سے ہے جن سے آج کے مجتہدین کو واسطہ ہے اور وہ تقاضا کر رہے ہیں کہ کلاسیکی تعبیر کو بعینہ اختیار نہ کیا جائے، بلکہ اس میں ضروری شرائط وقیود کا اضافہ کیا جائے۔
اسی قانون کی نئی تعبیر سے متعلق دوسری مثال بھی مولانا مودودی کے ہاں ہی ملتی ہے۔ اس کا ماخذ مولانا کی براہ راست لکھی ہوئی کوئی تحریر نہیں، بلکہ مولانا مفتی محمود ؒ کی روایت ہے جو ان سے مفتی صاحب کے شاگرد اور ہمارے مرحوم استاذ مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی ؒ نے ’’فتاویٰ مفتی محمود‘‘ کی جلد پنجم کے مقدمے میں نقل کی ہے۔ اس کے مطابق مولانا نے پاکستان کے ضابطہ تعزیرات میں سزائے ارتداد کو شامل کرنے سے اختلاف فرمایا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ اس سے غیر مسلم ممالک میں اسلام کی دعوت اور شیوع کے مواقع اور امکانات پر زد پڑے گی۔ 
یہاں دیکھیے، کسی شرعی حکم کو دینی مصالح کے تناظر میں دیکھنا اور ان کی روشنی میں اس کے نفاذ میں تحدیدات وقیود عائد کرنا اصولی طور پر ایک مسلمہ اجتہادی اصول ہے، لیکن ارتداد کی سزا کو اس تناظر میں دیکھنے اور قانون کی نئی تعبیر کا امکان عملاً اس نئی صورت حال کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو دور جدید میں پائی جاتی ہے اور راسخ العقیدہ اہل اجتہاد کو متوجہ کرتی ہے کہ اسے اپنے تعبیراتی زاویہ نظر میں وزن دیں۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۳۹) باء کا ایک خاص استعمال

علمائے لغت کے قول کے مطابق حرف باء کم وبیش چودہ معنوں میں استعمال ہوتا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک ان مفہوموں کے علاوہ قرآن مجید میں کچھ مقامات پر حرف باء مزید ایک خاص مفہوم میں استعمال ہوا ہے، ذیل میں مثالوں کے ذریعہ اسے واضح کیا جائے گا:

(۱) یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی۔ (البقرۃ: 178)

آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ حسب ذیل کیا گیا ہے:
’’اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے ‘‘(سید مودودی)
’’اے ایمان والو، تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ، لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت‘‘(احمد رضا خان)
’’مومنو! تم کو مقتولوں کے باے میں قصاص (یعنی خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ) آزاد کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت‘‘(فتح محمدجالندھری)
عام طور سے ترجمہ کرنے والوں نے باء کا ترجمہ بدلہ کیا ہے، لیکن اس میں اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مقتول آزاد ہو اور قاتل غلام ہو تو آزاد کے بدلے آزاد کس طرح ہوگا، اگر مقتول عورت ہو اور قاتل مرد ہو تو عورت کے بدلے عورت کس طرح ہوگا؟ غرض اس طرح کے کئی اشکالات سامنے آتے ہیں۔
ان ترجموں کے مقابلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی کے ترجمہ پر غور فرمائیں:
’’تم پر مقتولین کے سلسلے میں برابری کرنا فرض کیا گیا ہے، آزاد کی حیثیت آزاد کی ہے، غلام کی حیثیت غلام کی ہے، اور عورت کی حیثیت عورت کی ہے‘‘۔
مطلب یہ ہوا کہ مقتول کی جواصولی حیثیت ہے، اس کے مطابق یکساں معاملہ کیا جائے ، اور اس میں کچھ بھی کمی بیشی نہیں کی جائے۔
آیت کے اس ترجمہ کی رو سے یہ آیت دیت کے سلسلے میں رہنمائی کرتی ہے، کہ ہر مقتول کی دیت اس کی اصولی حیثیت کے مطابق برابر ہونی چاہیے۔اس آیت میں تین طرح کے مقتولین کا ذکر ہے، جن کا خوں بہا الگ الگ ہوتا ہے۔کسی بھی اونچ نیچ کا ااعتبار کرکے ایسا کرنا جائز نہیں ہے کہ آزاد مقتول کی دیت غلام والی طے کردی جائے، یا غلام مقتول کے لیے آزاد والی دیت کا مطالبہ کیا جائے، یا مقتول عورت ہو اور مطالبہ مرد والی دیت کا کیا جائے۔اس طرح کی غیر اصولی اونچ نیچ سے دیت کا پورا نظام متأثر ہوگا، اور یہ کسی طرح انسانی معاشرے کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔برابری کے اصول کو برتنے میں ہی انسانوں کے لیے زندگی ہے۔
اس ترجمہ سے آیت کا بعد والا ٹکڑا (فمن عفي لہ من أخیہ شيء) اس پہلے والے ٹکڑے سے اچھی طرح مربوط ہوجاتا ہے، اوراس کی معنویت بھی اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے۔
مفسرین اور مترجمین عام طور سے قصاص سے مراد قتل کا بدلہ قتل لیتے ہیں، حالانکہ قصاص قرآن مجید میں ہر جگہ برابری کرنے کے مفہوم میں آیا ہے۔

(۲) الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاص۔ (البقرۃ: 194)

’’ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا‘‘(سید مودودی)
’’ماہ حرام کے بدلے ماہ حرام اور ادب کے بدلے ادب ہے ‘‘(احمد رضا خان)
’’حرمت والے مہینے کا بدلہ حرمت والا مہینہ ہے اور سب قابلِ تعظیم باتوں کا بدلہ ہے ‘‘(احمد علی)
’’ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں ‘‘(محمدجوناگڑھی)
یہاں بھی ترجمہ کرنے والوں نے عام طور سے باء کا ترجمہ بدلہ کیا ہے، تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہونے کا کیا مطلب ہے، آیا یہ مطلب ہے کہ مشرکین کسی ماہ حرام کی بے حرمتی کرتے ہیں تو مسلمان بھی کسی ماہ حرام کی بے حرمتی کرسکتے ہیں؟ یہ مفہوم مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے، مشرکین اگر ماہ حرام کی بے حرمتی کرتے ہیں تو اس سے اہل ایمان کو کسی دوسرے ماہ حرام کی بے حرمتی کا جواز تو نہیں ملے گا۔ زیادہ سے زیادہ مشرکین کی زیادتی کا مقابلہ کرنے کی اجازت رہے گی۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں: ’’ماہ حرام کی حیثیت ماہ حرام کی ہے، اور تمام حرام چیزیں (سب کے لیے ) برابر ہیں‘‘۔ مطلب یہ ہوا کہ ماہ حرام اور دوسری تمام حرام چیزوں کی حرمت سب کے لیے یکساں ہے، ایسا نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں سے ان کی حرمت کی پاسداری کا مطالبہ کیا جائے اور مشرکین مکہ کو ان کی بے حرمتی کرنے کا جواز حاصل ہو۔ اس طرح جو مفہوم سامنے آتا ہے وہ عام مفہو م سے پیدا ہونے والے تمام اشکالات کو دور کردیتا ہے۔

(۳) وَکَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ۔ (المائدۃ: 45)

’’توراۃ میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ‘‘ (سید مودودی)
’’اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’اور ہم نے ان لوگوں کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے‘‘(محمدجوناگڑھی)
یہاں بھی عام طور سے لوگوں نے باء کا مطلب بدلہ لیا ہے، اور اس کی وجہ سے بڑے اشکالات سامنے آتے ہیں۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی اس آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں: اور ہم نے ان لوگوں کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا ہے کہ جان کی حیثیت جان کی ہے، اور آنکھ کی حیثیت آنکھ کی ہے، اور ناک کی حیثیت ناک کی ہے، اور کان کی حیثیت کان کی ہے، اور دانت کی حیثیت دانت کی ہے، اور تمام زخموں کے بدلے برابر برابر ہیں۔
اس ترجمہ کی رو سے یہ آیت بھی دیت کے سلسلے میں رہنمائی کرتی ہے۔ اس آیت سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ جو چیز تلف ہوئی ہے اسی چیز کی دیت واجب الادا ہوگی، اس میں کسی طرح کی نابرابری نہیں ہوگی۔
باء کے اس خاص استعمال کا تذکرہ ہمیں اہل لغت کے یہاں نہیں ملتا ہے، تاہم مندرجہ بالا آیتوں میں اس مفہوم کو اختیار کرنے سے آیت کا مفہوم بہت واضح ہوجاتا ہے، اور اس کو اختیار کرنے سے آیت میں کسی طرح کا اشکال نہیں رہ جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل روایت میں بھی باء کا یہی مفہوم لینا مناسب معلوم ہوتا ہے:

الْبِکْرُ بالبکر جلد ماءَۃ وتغریب عَام وَالثیب بِالثیب جلد ماءَۃ وَالرَّجم۔ (مشکاۃ المصابیح)

اس روایت کا مشہور ترجمہ تو یہ ہے کہ بکر بکر کے ساتھ زنا کرے تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے، اور ثیب ثیب کے ساتھ زنا کرے تو سو کوڑے اور سنگسار کرنا ہے۔تاہم اس ترجمہ میں بعض بڑے اشکالات ہیں جیسے کہ اگر ثیب بکر کے ساتھ زنا کرے تو ان دونوں کی سزا کیا ہوگی۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک اس کا ترجمہ یوں ہوگا: بکر کو بکر والی سزا ملے گی، یعنی سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی، اور ثیب کو ثیب والی سزا ملے گی، سو کوڑے اور سنگسار کرنا۔
انما الأعمال بالنیات میں بھی باء اسی مفہوم کے لیے ہے، ترجمہ ہوگا کہ اعمال ویسے ہی ہوں گے جیسی نیت ہوگی۔

(۱۴۰) الی برائے ظرف

جس طرح لام کبھی خالص ظرف کا مفہوم بتانے کے لیے آتا ہے، جیسے: 

فَکَیْْفَ إِذَا جَمَعْنَاہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْْبَ فِیْہِ۔ (آل عمران: 25) 

اسی طرح الی بھی کبھی خالص ظرف کا مفہوم بتانے کے لیے آتا ہے۔
مندرجہ ذیل آیتوں میں الی کا ترجمہ عام طور سے مترجمین نے ظرف کا کیا ہے، البتہ صاحب تدبر نے الی کا ترجمہ اس طرح کے مقامات پر غایت ہی کا کیا ہے:

(۱) لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (النساء: 87)

’’وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا ‘‘(سید مودودی)
’’وہ تم سب کو یقیناً قیامت کے دن جمع کرے گا ‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’وہ ضرور تمہیں اکٹھا کرے گا قیامت کے دن ‘‘(احمد رضا خان)
’’وہ تم سب کو قیامت کے دن کی طرف لے جاکر رہے گا‘‘ (امین احسن اصلاحی)

(۲) لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (الأنعام: 12)

’’بیشک ضرور تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا‘‘ (احمد رضا خان)
’’قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا ‘‘(سید مودودی)
’’تم کو اللہ قیامت کے روز جمع کرے گا‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’وہ تم کو جمع کرکے ضرور لے جائے گا قیامت کے دن کی طرف‘‘ (امین احسن اصلاحی)

(۳) ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ۔ (الجاثیۃ: 26)

’’پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر وہی تم کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں‘‘ (سید مودودی)
’’پھر تم سب کو اکٹھا کرے گا قیامت کے دن جس میں کوئی شک نہیں‘‘ (احمد رضا خان)
’’پھر وہ تم کو روز قیامت تک، جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے، تم کو جمع کرے گا ‘‘(امین احسن اصلاحی)

(۴) لَمَجْمُوعُونَ إِلَی مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ۔ (الواقعۃ: 50)

’’ضرور اکٹھے کیے جائیں گے، ایک جانے ہوئے دن کی میعاد پر‘‘ (احمد رضا خان)
’’ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں جس کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’ضرور جمع کئے جائیں گے ایک مقرر دن کے وقت‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’سب جمع کئے جائیں گے، ایک معین دن کی مقررہ مدت تک‘‘ (امین احسن اصلاحی)
صاحب تدبر نے عام ترجموں سے ہٹ کر جو ترجمہ کیا ہے وہ کمزور معلوم ہوتا ہے۔ قیامت کے دن جمع کرنا ایک صاف اور واضح بات ہے، جبکہ قیامت کے دن تک جمع کرنے میں واضح طور پر تکلف دکھائی دیتا ہے۔ 
غرض جو مفہوم جَمَعْنَاہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْْبَ فِیْہِ میں لام کا ہے وہی مفہوم یَجْمَعُکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِِ میں إِلَی کا ہے۔

(۵) ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَہُمْ لَإِلَی الْجَحِیْمِ۔ (الصافات: 68)

مذکورہ بالا مقامات کے برخلاف اس آیت میں عام طور سے لوگوں نے الی کا ترجمہ غایت کا کیا ہے: 
پھر ان کو لے جانا آگ کے ڈھیر میں (شاہ عبد القادر)
پھر ان کی بازگشت ضرور بھڑکتی آگ کی طرف ہے (احمد رضا خان)
پھر ان کو دوزخ کی طرف لوٹایا جائے گا (فتح محمدجالندھری)
اور اس کے بعد ان کی واپسی اسی آتش دوزخ کی طرف ہوگی (سید مودودی)
مذکورہ بالا ترجموں سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ وہ لوگ زقوم کھانے کے لیے دوزخ سے باہر کہیں جائیں گے، اور پھر دوزخ کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ لیکن یہ مفہوم لینا درست نہیں ہے، کیونکہ زقوم کا درخت جہنم کے باہر نہیں بلکہ جہنم کے بیچوں بیچ ہوگا، جیسا کہ اسی سیاق میں اس آیت سے پہلے واضح طور سے بتایا گیا ہے، اس لیے یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ وہ کھانے پینے کے لیے دوزخ یا جحیم سے باہر کہیں جائیں گے۔مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک یہاں بھی الی برائے ظرف ہے، اور اس کے مطابق ترجمہ ہوگا: ’’پھر ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگی‘‘ یہ بھی واضح رہے کہ یہاں ثم (پھر) زمانی ترتیب کے لیے نہیں ہے بلکہ (مزید برآں ) کے مفہوم میں ہے۔
مندرجہ ذیل ترجمہ میں بھی غالبا اسی کا لحاظ کیا گیا ہے:’’پھر ان سب کا آخری انجام جہنم ہوگا ‘‘(جوادی)
(جاری)

قواعد فقہیہ: تعارف و حجیت

مفتی شاد محمد شاد

فقہ کی اساس ’’اصولِ فقہ‘‘پر ہے جس میں قرآن،سنت،اجماع اور قیاس سے متعلق اصولی مباحث ہوتے ہیں اور یہی فقہ کے دلائل ہیں۔فقہ سے متعلق ایک اور مفید اور دلچسپ علم ’’قواعد فقہیہ‘‘کا ہے جس کی طرف متقدمین فقہاء نے کافی توجہ دی ہے اور عصر حاضر میں اس موضوع پر خاصا کام ہوا ہے،خصوصا عرب دنیا میں اس پر بڑا ذخیرہ وجود میں آگیا ہے۔ زیرنظر مضمون میں قواعد فقہیہ کے مفہوم کے بعدان کی حجیت اور دائرہ کار سے متعلق فقہاء کی آرا کو بیان کرنا مقصود ہے۔

قواعد فقہیہ کا مفہوم

قاعدہ کا مادہ (ق ع د) ہے، جس کے بنیادی معنی ثبات و استقرار کے ہیں۔اس کی جمع قواعد آتی ہے اور لغت کی کتابوں میں اس کے معنی ’’اساس ‘‘اور’’ بنیا د‘‘ کے بھی ملتے ہیں۔(1)
قرآن مجید میں بھی قاعدہ کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ باری تعالیٰ کاارشاد ہے: وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاھِیمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ۔ (2)۔ ترجمہ:’’اور اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کی بنیادیں اْٹھارہے تھے۔‘‘ دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَاَتَی اللّٰہُ بُنْیَانَھُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ۔ (3)۔ترجمہ:’’ان سے پہلے بہت سے لوگ مکاریاں کرچکے ہیں، تواللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی۔‘‘
قاعدہ فقہیہ کی اصطلاحی تعریف میں علماء کے دو نقطہ ہائے نظر ہیں:
1۔بعض حضرات نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: القاعدۃ ھی قضیۃ کلیۃ منطبقۃ علی جمیع جزئیاتھا۔ (4)۔ یعنی وہ کلی امر جو اپنی تمام جزئیات پر منطبق ہو۔
اگرچہ علامہ جرجانی کی یہ تعریف عام قاعدے کی ہے،قاعدہ فقہیہ کی تعریف نہیں ،لیکن بہت سے فقہاء نے قاعدہ فقہیہ کے سلسلے میں بھی یہی رائے اختیار کی ہے۔اس تعریف کی روشنی میں قواعدِ فقہ ’’کلیہ‘‘ ہوتے ہیں۔رہی بات استثناء ات کی تو اس سے قاعدہ کے کلی ہو نے پر اثر نہیں پڑتا، کیونکہ ہر اصل سے کچھ چیزیں مستثنیٰ ہوتی ہیں۔ جب ان کا تذکرہ ہو جا ئے تو بقیہ قاعدہ ’’کلیہ‘‘ اپنی جگہ برقرار رہ جا تا ہے،اور ان مستثنیات کے مجموعہ سے کوئی دوسرا ایسا قاعدہ یا کلیہ نہیں بن سکتا جو کہ اس قاعدے کے معارض بن سکے، لہٰذا قواعد فقہ کو ’’کلیات استقرائیہ‘‘ کہا جاسکتا ہے، جیسا کہ علامہ شاطبیؒ نے لکھا ہے کہ:
فکل ھذا غیر قادح فی اصل المشروعیۃ، لان الامر الکلی اذا ثبت کلیا فتخلف بعض الجزئیات عن مقتضی الکلی لا یخرجہ عن کونہ کلیا، وایضا فان الغالب الاکثری معتبر فی الشریعۃ اعتبار العام القطعی، لان المتخلفات الجزئیۃ لا ینتظم منھا کلی یعارض ھذا الکلی الثابت، ھذا شان الکلیات الاستقرائیۃ (5)
ترجمہ:’’تو یہ سب (مستثنیات) اصل مشروعیت کے لیے مضر نہیں ہیں،کیونکہ کسی امر کا کلی ہونا جب ثابت ہوجائے تو اس سے بعض جزئیات کا نکل جانا اس کے کلی ہونے کو ختم نہیں کرتا اور اس لیے بھی کہ غلبہ و اکثریت شریعت میں اسی طرح معتبر ہے جیسا کہ عام قطعی،کیونکہ مستثنیٰ جزئیات سے کوئی ایسا کلیہ نہیں بن سکتا جو ثابت شدہ کلی امر کے معارض بن سکے،کلیات استقرائیہ کی یہی شان ہوتی ہے۔‘‘
شیخ وہبہ الزحیلی ؒ نے یہی رائے اختیار کی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
قد اخترنا التعریف الاول الذی یفید انطباق القاعدۃ علی جمیع الجزئیات، لان الاصل فیھا ان تکون کذلک، وان خروج بعض الفروع عنھا لا یضر ولا یوثر، وتکون استثناء من القاعدۃ، لان کل قاعدۃ او مبدا او اصل لہ استثناء، وھذا الاستثناء لا یغیر من حقیقۃ الاصل او المبدا (6)
ترجمہ:’’ہم نے پہلی تعریف کو اختیار کیا جو کہ اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ قاعدہ تمام جزئیات پر منطبق ہو،کیونکہ قاعدہ کے اندر اصل یہی ہے کہ وہ کلی ہو اور بعض فروعات کاقاعدہ سے خارج ہونا اس کے لیے مضر نہیں ہے،کیونکہ ہر قاعدے،بنیاد یا اصول کے لیے کچھ مستثنیات ہوتے ہیں، اس سے قاعدہ کی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔‘‘
2۔دوسری طرف اکثر علماء نے قاعدہ کو اکثری قراردیتے ہوئے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: حکم اکثری لا کلی ینطبق علی اکثر جزئیاتہ لتعرف احکامھا منہ۔ (7)۔ یعنی وہ اغلبی یا اکثری حکم جو اپنی اکثر جزئیات پر منطبق ہو،تاکہ اس کے ذریعہ اس کی جزئیات کا علم ہوسکے۔
اس تعریف کی رو سے قواعد ،کلیہ نہیں ہوتے،بلکہ ’’اکثریہ‘‘ ہو تے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کسی چیز کے مطرد یا کلی ہو نے کا مطلب یہی ہے کہ وہ استثناء ا ت سے خا لی ہو، ورنہ وہ کلی ومطرد نہیں رہے گا۔
شیخ مصطفی الزرقاء نے اسی دوسری رائے کوترجیح دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دراصل قواعد فقہیہ قیاس کا نتیجہ ہے،کہ جو مسائل ایک جیسے تھے، انہیں منضبط کرنے کے لیے عقلاً ایک مختصر سی جامع عبارت بنالی گئی۔اب یہ ممکن ہے کہ ان سے ’’استحسان‘‘ یا ’’جلب مصالح‘‘ یا ’’درء المفاسد‘‘ یا ’’دفعِ حرج‘‘ کی وجہ سے کچھ مسائل مستثنیٰ ہوں۔ اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اکثر قواعد سے کچھ مسائل مستثنیٰ بھی ہیں،جنہیں فقہاء نے ذکر کیا ہے، لہٰذا قواعد فقہ کو ’’کلیات ‘‘ کہنا درست نہیں۔ آپ نے اپنے الفاظ میں قواعد کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
اصول فقھیۃ کلیۃ فی نصوص موجزۃ دستوریۃ تتضمن احکامھا تشریعیۃ عامۃ فی الحوادث التی تدخل تحت موضوعھا (8)
ترجمہ:’’فقہ کے وہ کلی اصول جنہیں مختصر قانونی عبارات میں مرتب کیا گیا ہو اور وہ ایسے قانونی اور عمومی احکام کو متضمن ہوں جو ان کے موضوع کے تحت آنے والے حوادث کے بارے میں ہوں۔‘‘
اس تعریف میں شیخ مصطفی الزرقاء نے ’’کلیہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ،جس کے بارے میں مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے لکھا ہے کہ اس کے بجائے اگر ’’اکثریہ‘‘کی تعبیر اختیار کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا،کیونکہ قواعد ’’کلی‘‘ نہیں ہوتے، ’’اکثری‘‘ہوتے ہیں،یعنی ہمیشہ ان کا اطلاق نہیں ہوتا،بعض صورتیں مستثنیٰ بھی ہوتی ہیں اور اکثر وبیشتر ان کا اطلاق ہوتا ہے۔(9)
لیکن اگر غور کیا جائے تو شیخ مصطفی الزرقاء کی مراد ’’کلیہ‘‘کے لفظ سے وہ نہیں ہے جو مولانا خالد سیف اللہ صاحب نے سمجھا ہے،بلکہ اس سے بظاہر مراد ’’ایسے قواعد ہیں جو کسی اور قاعدے پر متفرع نہ ہو،بلکہ اس سے دوسرے قواعد مستخرج ہوں‘‘کیونکہ فقہا کی عبارات میں کئی جگہ ’’قواعدِکلیہ‘‘ کے لفظ سے یہی معنی مراد لیے گئے ہیں، جیسا کہ علامہ حمویؒ نے لکھا ہے :
ان المراد بالقواعد الکلیۃ القواعد التی لم تدخل قاعدۃ منھا تحت قاعدۃ اخری لا الکلیۃ بمعنی الصدق علی جمیع الافراد بحیث لا یخرج فرد (10)
ترجمہ:’’قواعد کلیہ سے وہ قواعد مراد ہیں جوکسی دوسرے قاعدے کے تحت داخل نہ ہوں۔کلیہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمام افراد پرس طرح صادق آئیکہ کوئی فرد اس سے خارج نہ ہو۔‘‘
دوسری وجہ یہ ہے کہ شیخ مصطفیٰ الزرقاء نے آگے خود تصریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: وھذہ القواعد ھی کما قلنا احکام اغلبیۃ غیر مطردۃ (11)۔ترجمہ:’’یہ قواعد احکام اکثریہ ہوتے ہیں، نہ کہ مطردہ و کلیہ۔‘‘
علامہ قرافی ؒ لکھتے ہیں کہ: ومعلوم ان اکثر قواعد الفقہ اغلبیۃ (12) ترجمہ:’’اور یہ بات معلوم ہے کہ اکثر فقہی قواعد اغلبی ہوتے ہیں۔‘‘ شیخ احمد بن عبد اللہ نے بھی قواعدِ فقہ کی دوسری تعریف(اغلبی)اختیار کی ہے۔ (13)
ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ نے اس مقام پر ایک اہم نکتہ ذکر کیا ہے کہ قواعدِ فقہ کے علاوہ دیگر علوم وفنون کے قواعد کلیہ ہوسکتے ہیں، لیکن فقہ کے قواعد ،کلی نہیں،بلکہ اغلبی ہوتے ہیں، لہٰذا جن حضرات نے پہلی تعریف اختیار کی ہے، اس کا اطلاق دیگر علوم پر درست ہے،جبکہ قواعد فقہ پر دوسری تعریف زیادہ منطبق ہوتی ہے۔آپ لکھتے ہیں:
’’اصطلاحی اعتبار سے فقہی اور قانونی قاعدہ دوسرے علوم وفنون سے ذرا مختلف مفہوم رکھتا ہے۔دوسرے علوم مثلاً نحو، طبیعیات،ریاضی وغیرہ میں قاعدہ سے مراد ایسا حکم یا اصول ہے جو اپنی تمام جزئیات پر منطبق ہوتا ہو،یعنی اس کا اطلاق اس کے ذیل میں آنے والی تمام فروعی صورتوں پر ہوتا ہو،مثلاً نحو کا قاعدہ ہے کہ فاعل مرفوع ہوتا ہے،مفعول منصوب ہوتا ہے۔اب یہ دونوں قواعد ہر قسم کے فاعل اور ہر قسم کے مفعول کو حاوی ہیں اور سب پر ان کا اطلاق یکساں طور پر ہوتا ہے۔کوئی مفعول یا فاعل ایسا نہیں ہے جو ان قواعد کے اطلاق سے باہر ہو۔یا مثلاً طبیعیات اور منطق کے قواعد ہیں کہ وہ ہر حال میں اپنی ذیلی شکلوں پر منطبق ہوتے ہیں۔
فقہی قواعد کا معاملہ ان سے ذرا مختلف ہے،ایک فقہی قاعدہ کا اطلاق اس کے ذیل میں آسکنے والے تمام حالات ومسائل پر نہیں ہوتا،بلکہ اس کی صرف بیشتر صورتوں پر ہوتا ہے اور بہت سی صورتیں بہرحال ایسی ہوتی ہیں جو اس قاعدہ کے اطلاق سے باہر رہتی ہیں۔‘‘(14)

قواعد فقہیہ اور اصول فقہ میں فرق

یہاں یہ نکتہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ اصول فقہ اور قواعد فقہ میں فرق ہے۔دونوں میں سب سے اہم اور بنیادی فرق یہ ہے کہ اصول فقہ سے براہ راست احکام مستنبط نہیں ہو سکتے، بلکہ ان کی روشنی میں کسی نص سے استفادہ کرتے ہوئے حکم کا استنباط ممکن ہوتا ہے، جبکہ قواعد فقہیہ سے براہ راست حکم مستنبط کرنا ممکن ہوتا ہے۔ جیسے ’’الامر یدل علی الوجوب‘‘ یہ اصولِ فقہ کا ایک اصل ہے۔اس سے براہ راست حکم مستنبط نہیں ہو سکتا، لیکن کسی نص میں امر ہو، قرینہ صارفہ عن الوجوب نہ ہو جیسے: ’’اقیموا الصلاۃ‘‘، تب حکم مستنبط ہو سکے گا ، جبکہ ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘ جو کہ ایک قاعدہ فقہیہ ہے، اس سے براہ راست حکم مستنبط کیا جاسکتا ہے کہ اگر طہارت کا یقین ہو اور حدث لاحق ہونے یا نجاست کا شک ہو توطہارت ہی برقرار رہے گی۔ شک کی وجہ سے حدث یا نجاست کا حکم صادر نہیں کیا جائے گا۔ (15)

قواعد فقہیہ کی حجیت

اب آتے ہیں اصل مقصودی بات کی طرف کہ کیا ’’قواعد فقہ ‘‘ کسی شرعی مسئلہ کے لیے دلیل بن سکتے ہیں؟ بالفاظ دیگر کیا ’’قواعد فقہ‘‘ کو بنیاد بناکرکسی مسئلہ کا حکم شرعی بتانا یا فتویٰ دینا درست ہے یا نہیں؟
اس سلسلے میں علماء کی عبارات سے مختلف آراء سامنے آئی ہیں،جن کوتین آراء کے ضمن میں بیان کیا جاسکتا ہے:

پہلی رائے:

علامہ ابن نجیم حنفیؒ ، علامہ شامیؒ ، علامہ ابن دقیق العیدؒ اور شیخ الجوینی کی رائے یہ ہے کہ قواعدِ فقہ سے استدلال کرنااور ان سے فتویٰ دینا جائز نہیں ہے،جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1۔قواعد فقہ ’’کلیہ‘‘ نہیں ہوتے،بلکہ اغلبی اور اکثری ہوتے ہیں۔ان سے کئی مسائل مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ممکن ہے پیش آنے والا مسئلہ بظاہر قاعدہ کی تفریعات میں سے ہو،لیکن حقیقت میں وہ اس قاعدے سے مستثنیٰ ہو،اس لیے قواعد فقہ سے مسئلہ کا جواب نہیں دینا چاہیے۔ علامہ حمویؒ نے علامہ ابن نجیم ؒ کی کتاب ’’فوائد زینیہ‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے:
فی الفوائد الزینیۃ بانہ لا یجوز الفتوی بما تقتضیہ الضوابط لانھا لیست کلیۃ بل اغلبیۃ خصوصا وھی لم تثبت عن الامام بل استخرجھا المشایخ من کلامہ (16)
’’فوائد زینیہ میں لکھا ہے کہ ضوابط کے مقتضی کے مطابق فتویٰ دینا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ ’’کلیہ ‘‘ نہیں ہوتے،بلکہ اغلبی ہوتے ہیں اور قواعدوضوابط امام ابوحنیفہ سے ثابت نہیں ہیں، بلکہ انہیں بعد کے مشائخ نے امام صاحب کے کلام سے اخذ کیا ہے۔‘‘
2۔چونکہ بعض قواعد فقہ کسی نص شرعی کی طرف منسوب نہیں ہوتے، بلکہ استقراء ناقص کی طرف منسوب ہوتے ہیں، یعنی فقہی مسائل میں غور کرکے ایک جیسے مسائل کے لیے قاعدہ بنالیا جاتاہے ، تاکہ اس کے ذریعے ان متشابہ اور ایک جیسے مسائل کو یاد کرنا اور ذہن میں رکھنا آسان ہو۔ بعض قواعد کا وجود اجتہاد کا ثمرہ ہوتا ہے جو کہ خطاء کا احتمال رکھتا ہے، اس لیے محض ان قواعد کی روشنی میں کسی مسئلہ کا حکم بتلادینا ’’مجازفہ‘‘ یعنی تخمینہ کہلائے گا، جو کہ فتویٰ میں بے احتیاطی ہے اور احکامِ فقہیہ کے کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔
3۔قواعدِ فقہ، مسائل فقہ کا ثمرہ ہیں، اور کسی چیز کا ثمرہ اس کے لیے دلیل نہیں بن سکتا۔یعنی پہلے اصولِ فقہ کی روشنی میں قرآن و سنت سے مسائل فقہ کو مستنبط کیا گیا ہے۔مسائل فقہ کے وجود میں آنے کے بعد قواعدِ فقہ وجود میں آئے ہیں،اور یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ جو چیز خود کسی دوسری چیز کا ثمرہ ہو، وہ اس کے لیے دلیل بن سکے۔(17)

دوسری رائے:

امام قرافی، علامہ شاطبی اور شیخ ابن بشیر فرماتے ہیں کہ قواعد فقہ سے فتوی دینا جائز ہے اور مسائل فقہ کے لیے دلیل بن سکتے ہیں،ان کے دلائل یہ ہیں:
1۔قواعد فقہ’’کلیہ‘‘ ہوتے ہیں اور اپنی تمام فروعات پر منطبق ہوتے ہیں،بعض مستثنیات سے ان کے کلی ہونے پر فرق نہیں پڑتا،اس لیے یہ اپنی ہر فرع کے لیے دلیل بن سکتے ہیں۔
2۔قواعد فقہ کی حجیت اور ان کا استدلال کے قابل ہونا اَدلہ جزئیہ (نصوص)کے مجموعہ سے مستفاد ہے،کیونکہ ہر قاعدے پر کوئی نہ کوئی شرعی دلیل یاماخذ موجود ہے،اور جب ادلہ جزئیہ انفرادی طور پر استدلال کے قابل ہیں تو ان کے مجموعہ (جو قاعدہ کی شکل میں ظاہر ہوا ہے)میں بطریق اولیٰ استدلال کی صلاحیت ہوگی۔
3۔مجتہدین اور فقہاء کرام کے احوال سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے قواعد فقہ کا اعتبار کرکے ان پر اعتماد کیا ہے اورایسے کئی مقامات ہیں جہاں نص شرعی کے نہ ہونے کی صورت میں قواعد فقہ سے مسائل مستنبط کیے ہیں۔

تیسری رائے:

تیسری رائے وہ ہے جسے ’’مجلہ احکام عدلیہ‘‘ میں اختیار کیا گیا ہے کہ جب تک کسی قاعدہ فقہیہ پر قرآن و سنت کی کوئی نص موجود نہ ہو، اس وقت تک محض قواعد فقہ کو دلیل و بنیاد بناکر احکام مستنبط کرنا درست نہیں ہے،چنانچہ مجلہ احکام عدلیہ کی تقریر میں یہ لکھا ہے :
فحکام الشرع ما لم یقفوا علی نقل صریح لا یحکمون بمجرد الاستناد الی واحدۃ من ھذہ القواعد، الا ان لھا فائدۃ کلیۃ فی ضبط المسائل (18)
ترجمہ:’’حکامِ شرع کو جب تک کسی نقل صریح پر اطلاع حاصل نہ ہو، تب تک وہ محض ان قواعد میں سے کسی قاعدہ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے،البتہ مسائل کے ضبط میں ان قواعد کا ایک بڑا فائدہ ہے۔‘‘
علامہ اتاسیؒ نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ قواعد فقہ کے خاص مدارک،مآخذ،علل،شروط،قیود اور مستثنیات ہوتی ہیں جو کہ ہر مقلد کے ذہن میں موجود نہیں ہوتی، اس لیے ممکن ہے کہ پیش آنے والا مسئلہ ان ہی میں سے کسی سبب کی وجہ سے قاعدہ سے خارج ہو، لہٰذا محض قواعد فقہ کی بنیاد پر فتوی نہیں دینا چاہیے۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
لکن ربما یعارض بعض فروع تلک القواعد اثر او ضرورۃ او قید او علۃ مؤثرۃ تخرجھا عن الاطراد، فتکون مستثناۃ من تلک القاعدۃ یتنور بھا المقلد ولا یتخذھا مدارا للفتوی والحکم، فلعل بعضا من حوادث الفتوی خرجت عن اطرادھا لقید زائد او لاحد الاسباب المتقدم ذکرھا (19)
ترجمہ:’’لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی روایت، ضرورت، قید یا کوئی علتِ مؤثرہ ان قواعد کی بعض فروعات کے معارض ہوتی ہے جو ان کو قواعد کے تحت داخل ہونے سے نکال دیتی ہے،تو وہ فروعات اس قاعدہ سے مستثنیٰ شمار ہوتی ہیں،(ان قواعد کا فائدہ یہ ہے کہ) مقلد ان کے ذریعے نور اور روشنی حاصل کرے اور ان کو فتویٰ اور حکم کے لیے مدار نہ بنائے،کیونکہ ممکن ہے کہ بعض جدید مسائل ایسے ہو ں جو کسی اضافی قید یا سابقہ اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے قاعدہ کی تفریعات سے خارج ہوں۔‘‘
شیخ مصطفی الزرقاء لکھتے ہیں :
ولذلک کانت تلک القواعد الفقھیۃ قلما تخلو احداھا من مستثنیات فی فروع الاحکام التطبیقیۃ خارجۃ عنھا، اذ یری الفقھاء ان تلک الفروع المستثناۃ من القاعدۃ ھی الیق بالتخریج علی قاعدۃ اخری، او انھا تستدعی احکاما استحسانیۃ خاصۃ ۔۔۔ ومن ثم لم تسوغ المجلۃ ان یقتصر القضاۃ فی احکامھم علی الاستناد الی شیء من ھذہ القواعد الکلیۃ فقط دون نص آخر او عام یشمل بعمومہ الحادثۃ المقضی بھا، لان تلک القواعد الکلیۃ علی ما لھا من قیمۃ واعتبار ھی کثیرۃ المستثنیات، فھی دساتیر للتفقیہ لا نصوص للقضاء. (20)
ترجمہ:’’اور اسی وجہ سے بہت کم قواعد فقہیہ ایسے ہوں گے جومستثنیات سے خالی ہوں، کیونکہ فقہاء یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ وہ فرع یا جزئیہ ایک قاعدے سے مستثنیٰ ہو اور کسی اور قاعدے کے تحت آجائے،یا وہ مسئلہ استحسانی احکام میں سے ہو،اسی لیے مجلہ میں قضاۃ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تک کوئی صریح نقل یا ایسی نص نہ ہو جس کے عموم کے تحت مسئلہ آئے،اس وقت تک محض ان قواعد پر اعتماد نہ کیا جائے ،کیونکہ ان قواعد کی قدر وقیمت کے باوجود ان کے تحت کئی مستثنیات بھی ہوتے ہیں، لہٰذا یہ تفقہ کے لیے طریقہ و آئین تو ہے، لیکن قضاۃ کے لیے نصوص نہیں ہیں۔‘‘
اس قول کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی مسئلہ کے بارے میں قرآن وسنت کی کوئی نص موجود ہو تو ایسی صورت میں ان قواعد کو بطورِ دلیل ذکر کیا جاسکتا ہے،بلکہ بعض قواعد چونکہ براہ راست نصوص سے مستنبط ہیں ،جیسے: ’’الامور بمقاصدھا‘‘ اور ’’الخراج بالضمان‘‘ اس لیے مسئلہ کے استنباط میں محض ان جیسے قواعد کوذکر کرلینا بھی کافی ہوسکتا ہے، کیونکہ ان قواعد کو ذکر کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ اصل نص کو ذکر کردینا،تاہم ایسے قواعد بہت کم ہیں۔اور اگر قرآن و سنت کی کوئی نص موجود نہ ہو تو پھر یہ قواعد محض استیناس کا فائدہ دیں گے،کہ ایک دلیل کو دوسری دلیل پر ترجیح دینے یا کسی دلیل میں قوت اور مزید پختگی پیدا کرنے کے لیے ان قواعد کو ذکر کیا جاسکتا ہے ،لیکن محض قواعد ہی کی بنیاد پر فیصلہ نہ کیا جائے۔

ترجیح:

درج بالا تینوں اقوال میں سے تیسرا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے،لیکن بندہ کی نظر میں اس میں تھوڑا اضافہ کرنا مناسب ہے۔وہ یہ کہ جب مفتی کے سامنے کوئی سوال آئے تو اس پر لازم ہوگا کہ پہلے قرآن وسنت میں اس کی دلیل اور کتبِ فقہ میں اس مسئلہ کا صریح جزئیہ تلاش کرے، اور محض چند کتابیں دیکھنے سے یہ ذمہ داری پوری نہ ہوگی، بلکہ خوب جستجو اور تلاش بسیار سے کام لینا ضروری ہے، جیسا کہ علامہ شامی نے لکھا ہے :
والغالب ان عدم وجدانہ النص لقلۃ اطلاعہ او عدم معرفتہ بموضع المسئلۃ المذکورۃ فیہ، اذ قل ما تقع حادثۃ الا ولھا ذکر فی کتب المذھب، اما بعینھا او بذکر قاعدۃ کلیۃ تشملھا (21)
ترجمہ:’’عموما کسی کو نص(یا صریح جزئیہ) نہ ملنے کی وجہ قلت اطلاع (کم تلاش) ہوتی ہے یا جس مقام پر وہ مسئلہ مذکور ہوتا ہے، اس کی معرفت نہیں ہوتی، کیونکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے اور مذہب کی کتابوں میں اس کا ذکر نہ ہو، یا تو بعینہ وہ مسئلہ مذکور ہوتا ہے یا کوئی ایسا قاعدہ کلیہ ہوتا ہے جو اس مسئلہ کو بھی شامل ہوتا ہے۔‘‘
البتہ اگر مکمل کوشش کے باوجود کوئی صرح جزئیہ نہ ملے تو عموماً مفتی کو قواعد سے اس مسئلہ کا جواب نہیں دینا چاہیے، بلکہ سائل کو کسی دوسرے عالم اور مفتی کے حوالے کردے، تاہم اگر مفتی ایک متبحر عالم ہے اور فقہ، اصولِ فقہ اور قواعد فقہ پر مکمل عبور رکھتا ہے تو ایسی صورت میں وہ قواعد فقہ سے جواب دے سکتا ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرے مفتی سے پوچھنے کا مشورہ بھی دینا چاہیے۔(22) یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابر کو جب تک کسی مسئلہ کے بارے میں صریح جزئیہ ملا ہے، انہوں نے قواعد سے جواب نہیں لکھا، تاہم صریح جزئیہ نہ ملنے کی صورت میں قواعد سے جواب لکھ کر یہ مشورہ بھی دیتے تھے اور دیتے ہیں کہ ’’جواب کا صریح جزئیہ نہیں ملا،اس لیے قواعد سے جواب لکھا گیا ہے،بہتر ہے کہ دوسرے علماء سے بھی جواب دریافت کرلیا جائے۔‘‘
مولانا شبیر احمد قاسمی صاحب امداد الفتاوی کی خصوصیات لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’(2)۔جس مسئلہ میں (حضرت تھانوی کو)کوئی صریح جزئیہ ہاتھ نہ آتا، وہاں اصول وقواعد سے مسئلہ کا جواب تحریر فرماتے تھے اور آخر میں عموماً اس پر تنبیہ فرماتے تھے کہ جواب اصول وقواعد سے لکھا گیا ہے،صریح جزئیہ فقہاء کے فتاوی میں نہیں ملا۔ اس لیے دوسرے علماء سے بھی مراجعت کرلی جائے اور وہ اختلاف فرمائیں تو مجھے بھی مطلع کردیا جائے۔‘‘(23)
ہمارے کئی اکابر نے یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے۔چند مثالیں دیکھنے کے لیے ملاحظہ فرمائیں:امداد الفتاوی 2/423۔ 219۔ امداد الاحکام2/234 اور4/254۔ فتاویٰ محمودیہ 17/325۔ فتاویٰ عثمانی 2/375۔ 516۔ فتاوی حقانیہ 4/294۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں:
’’ان(قواعدِ فقہ)کے بارے میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ قواعد کسی مستقل بالذات شرعی دلیل کی حیثیت نہیں رکھتے، یعنی یہ خود اپنی ذات میں ماخذ قانون نہیں ہیں کہ محض کسی قاعدہ کلیہ کی بنیاد پر کوئی قانون وضع کیا جا سکے، ماخذِ قانون صرف قرآن مجید اور سنت رسول ہیں،یا وہ اجماع اور اجتہاد وقیاس جو قرآن وسنت کی کسی سند کی بنیاد پر وقو ع پذیر ہوئے ہوں۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کبھی بھی کسی قاعدہ کلیہ سے کوئی استدلال کرنا یا کسی نئی پیش آمدہ صورت حال پر اس کو منطبق کرنا غلط ہے۔ قاعدہ کلیہ سے استدلال کرنا درست ہے اور کسی نئی صورت حال پر اس کو منطبق کرنا بھی درست ہے،لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اس استدلال کو محض مجازاً ہی استدلال کہا جا سکے گا، اس لیے کہ یہ وہ استدلال نہیں ہے جو کسی شرعی دلیل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔اس استدلال کی حیثیت دراصل تفریع کی ہے۔‘‘(24)
عصر حاضر میں بھی قانون سازی کے وقت قواعد کلیہ سے راہنمائی لی جاتی ہے،چنانچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دساتیر، 1956ء، 1962ء اور 1973 ء میں اس سے استفادہ کیا گیا ہے،اور 1973ء کے آئین میں آرٹیکل 29 تا 40 میں ’’حکمت عملی کے اصول‘‘ (Principles of Policy)کے تحت انہیں درج کیا گیا ہے۔ہماری عدالتیں بھی فیصلے کے وقت ان جیسے قواعد سے استفادہ کرتی ہیں۔
انگریزی قوانین میں بھی اس سلسلے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں کہ جب کوئی ایسا مسئلہ سامنے آجائے جس پرقانون موجود نہ ہو تو وہاں جج کیا کرے؟اس بارے ایک اہم رائے یہ بھی ہے کہ ایسی صورت میں جج موجود ہ قانون کے قواعد عامہ معلوم کرے اور ان کے ذریعے مقننہ کا عمومہ ارادہ طے کر کے اس کی روشنی میں فیصلہ کرے۔اسی کی طرف انگریزی کے اس مقولہ میں اشارہ ہے کہ:
If the law is inadequate, the maxim serves in its place.
یعنی قانون کی عدم موجودگی میں قواعد اور مقولے اس کی جگہ لیتے ہیں۔
یہاں یہ شبہ کیا جاسکتا ہے کہ جب قواعد فقہ کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے اور بذاتِ خود یہ کسی حکم کے لیے دلیل وماخذ نہیں بن سکتے تو پھر علماء نے اس علم کے لیے اتنی محنت اور تگ و دو کیوں کی؟اس کا جواب یہ ہے کہ یہ علم قانونی حیثیت سے زیادہ تعلیمی اہمیت کا حامل ہے،کیونکہ اس سے فقہ کی فہم اور شریعت اسلامیہ کے اسرار ورموز کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اس علم سے کثیر تعداد میں جزئیات یاد کرنے سے نجات مل جاتی ہے۔اس علم میں مہارت رکھنے والے فکری انتشار اور فقہی اختلافات سے بچ جاتے ہیں اور اسی علم سے مقاصد شریعت کا ادراک بھی حاصل ہوتا ہے، لہٰذا محض اس کی قانونی حیثیت کو سامنے رکھ کر اس علم سے بے اعتنائی برتنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔

حوالہ جات

(1) تاج العروس من جواہر القاموس 9/ 60
(2) البقرۃ: 127
(3) النحل: 26
(4) التعریفات ص: 219
(5) الموافقات للشاطبی 2/ 83
(6) القواعد الفقہیۃ وتطبیقاتہا فی المذاہب الاربعۃ 1/ 22
(7) غمز عیون البصائر 1/ 51
(8) المدخل الفقہی العام2/966
(9) فقہ اسلامی، تدوین وتعارف، ص:156
(10) غمز عیون البصائر 1/ 198
(11) المدخل الفقہی العام2/966
(12) الفروق للقرافی 1/ 58
(13) مقدمۃ التحقیق لکتاب القواعد للمقری 1 /107
(14) قواعد کلیہ اور ان کا آغاز وارتقاء، ص:11
(15) مقدمۃ فی قواعد الفقہ الکلیۃ، ص:7
(16) القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ فی الشریعۃ الاسلامیۃ، ص:73
(17) ایضاً، ص:84
(18) مجلۃ الاحکام العدلیۃ، ص: 11
(19)شرح المجلۃ للاتاسی 1/12
(20)المدخل الفقہی العام 2/966،967
(21) شرح عقود رسم المفتی، ص:59
(22) المصباح فی رسم المفتی ومناہج الافتاء 2/224
(23) امداد الفتاوی جدید، مطول ومبوب 1/193
(24) قواعدِ کلیہ اور ان کا آغاز وارتقاء ،ص: 17

سماجی ارتقاء اور آسمانی تعلیمات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی سماج لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر ہے اور اس میں ہر پیش رفت کو ارتقا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ تغیر اور پیش رفت سوسائٹی کے مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر ہوتی ہے اس لیے ہر آنے والے دور کو پہلے سے بہتر قرار دے کر اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانے کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور اسے نظرانداز کرنے کو قدامت پرستی اور معاشرتی جمود کا عنوان دے دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے آج کی مروجہ عالمی تہذیب و قوانین کو ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ کے عنوان سے انسانی سماج کی سب سے بہتر صورت اور آئیڈیل تہذیب کے ٹائٹل کے ساتھ پوری نسل انسانی کے لیے ناگزیر تصور کیا جاتا ہے اور دنیا کے تمام مذاہب اور تہذیبوں سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ اسے قبول کر لیں اور اس کے ساتھ ایڈجسٹ ہو کر اپنے امتیازات اور الگ تشخصات سے دستبردار ہو جائیں۔ اس تصور بلکہ مقدمہ کا حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے چنانچہ اس سلسلہ میں ہم کچھ معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
وقتاً فوقتاً مختلف قوموں اور علاقوں کی طرف حضرات انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے اور انہیں جس بھی معاشرہ اور سماج کا سامنا کرنا پڑا وہ اس وقت کا ارتقائی معاشرہ تھا جو سوسائٹی کے باہمی احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کا نتیجہ تھا۔ مگر انبیاء کرام نے اسے من و عن قبول کرنے کی بجائے اس کی بہت سی باتوں کی اپنے اپنے دور میں نفی کی اور ان میں اصلاحات کا پروگرام پیش کیا۔ یہ سلسلہ صرف اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان معاملات یعنی عقیدہ و عبادت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں معاشرتی مسائل اور سماجی امور بھی شامل تھے۔
مثلاً حضرت شعیب علیہ السلام کا قرآن کریم نے تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ انہوں نے قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور توحید کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ اس وقت کے ایک اہم سماجی مسئلہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ تجارت میں بد دیانتی، ماپ تول میں کمی اور اشیائے صرف کے معیار میں نقصان سوسائٹی میں فساد کا باعث بنتا ہے اس لیے وہ اس سے باز آجائیں۔ جس کے جواب میں قوم نے ’’اَصَلاَتُکَ تَاْمُرُکَ‘‘ کہہ کر یہ طعنہ دیا کہ کیا تمہاری نمازیں تمہیں یہ باتیں سکھاتی ہیں جو تم ہم سے کر رہے ہو؟ گویا نماز اور عبادت کا معاشرتی معاملات کے ساتھ کوئی تعلق قومِ شعیب کے لیے بھی قابل قبول نہیں تھا۔
حضرت لوط علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے صرف عقیدہ و عبادت کی بات نہیں کی بلکہ اس وقت کی سب سے بڑی معاشرتی برائی ’’ہم جنس پرستی‘‘ کی مذمت کی اور ’’اِنَّکُمْ قَومٌ تَجْھَلُونَ‘‘ کہہ کر اسے جاہلیت کی علامت قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمہ کو اپنی جدوجہد کے اہداف میں شامل کیا۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ فرعون کے دربار میں دعوتِ دین کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کا پیغام توحید و عبادت کے ساتھ ساتھ اس دور کے مجموعی سماج کے حوالہ سے بھی تھا جس پر فرعون نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ دونوں شخص جادوگر ہیں جو تمہیں تمہارے ملک و اقتدار سے محروم کرنے اور ’’وَیَذْھَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلیٰ‘‘ تمہاری آئیڈیل تہذیب کو ختم کرنے کے لیے آئے ہیں۔ چنانچہ فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسٰی کی دعوت کو سیاسی اور سماجی تبدیلی کا عنوان دے کر اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پھر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوئے۔
یہ تینوں قومیں ان پیغمبروں کی تشریف آوری سے قبل جس مقام پر کھڑی تھیں وہ اس دور کا سماجی ارتقا تھا، جہاں تک وہ اپنے مشاہدات و تجربات اور احساسات و جذبات کے ذریعے پہنچی تھیں اور وہی اس دور کا ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے اسے مسترد کر دیا اور اس کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی حتیٰ کہ وہ قومیں ان کی بات قبول نہ کرنے کے جرم میں عذاب خداوندی سے دوچار ہوگئیں۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو انہیں شرک اور بت پرستی کے ساتھ ساتھ بہت سی سماجی قدروں اور معاشرتی روایات و رواجات کا بھی سامنا تھا۔ چنانچہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیئس سالہ جدوجہد میں صرف بت پرستی اور شرک کو ہدف نہیں بنایا بلکہ زنا، شراب، جوا، نسل پرستی، فحاشی، ناچ گانا، لسانی تفاخر اور دیگر بہت سی سماجی قدریں بھی ان کی جدوجہد کا ہدف تھیں جو ظاہر ہے کہ اس وقت تک کے سماجی ارتقا اور تہذیبی ترقی کی علامت تھیں۔ اور اگر آج کی اصطلاح میں بات کی جائے تو اس دور کا ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ وہی سماج اور سوسائٹی تھی جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر آزما محنت کے ساتھ تبدیل کیا۔ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و محنت کا یہ امتیاز بھی تھا تاریخ انسانی کا حصہ ہے کہ آپ نے کسی قوم یا علاقے تک اپنی تگ و تاز کو محدود رکھنے کی بجائے ’’ایہا الناس‘‘ کہہ کر پوری نسل انسانی کو دعوت و محنت کی جولانگاہ بنایا جس کے نتیجے میں آپ کی لائی ہوئی سماجی تبدیلیاں صرف ایک صدی میں دنیا کے مختلف ممالک بلکہ بر اعظموں تک پھیل گئیں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت سے بیسیوں سماجی قدریں تبدیل ہوئیں حتیٰ کہ بہت سے معاملات میں اللہ تعالیٰ کے آخری رسول نے سماج کے ارتقا کو مسترد کر کے معاملات کو ماضی کی طرف لوٹا دیا۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے یہودیوں نے زنا کا ایک مقدمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا تو وہ زنا کی سزا کے حوالہ سے توراۃ کے حکم میں لچک پیدا کر کے الگ ماحول بنا چکے تھے جس سے تورات کا قانون تغیرات سے گزر کر نئی شکل اختیار کر چکا تھا۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سماجی ارتقا کو مسترد کر کے توراۃ کے اصل حکم کو بحال کیا اور زنا کا ارتکاب کرنے والے یہودی جوڑے کو سنگسار کر دیا۔ اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب معاشرہ میں مرد اور عورت کے جنسی تعلق کی متعدد صورتیں رائج تھیں جنہیں سماجی طور پر جائز تسلیم کیا جاتا تھا، جو ظاہر ہے کہ سماجی ارتقا کی ہی علامت تھیں، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یکسر تبدیل کر دیا۔
چنانچہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ مبارکہ یہ ہے کہ انسانی سماج کا ہر ارتقا قابل قبول نہیں ہے بلکہ جو سماجی ارتقا آسمانی تعلیمات اور خدائی احکام و قوانین سے متصادم ہو، اسے مسترد کرنا اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کا اصل تقاضا ہے۔

چند بزرگوں اور دوستوں کی یاد میں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پرانے رفقاء میں سے کسی بزرگ یا دوست کی وفات ہوتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ جنازہ یا تعزیت کے لیے خود حاضری دوں اور معمولات کے دائرے میں ایک حد تک اس کی کوشش بھی کرتا ہوں مگر متنوع مصروفیات کے ہجوم میں صحت و عمر کے تقاضوں کے باعث ایسا کرنا عام طور پر بس میں نہیں رہتا۔ گزشتہ دنوں چند انتہائی محترم بزرگ اور دوست جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا شفیق الرحمانؒ ہمارے پرانے بزرگوں میں سے تھے، ایبٹ آباد میں کیہال کے مقام پر مکی مسجد اور مدرسہ انوار العلوم میں مدت العمر تدریس و اہتمام کی خدمات سرانجام دیتے رہے، شہر کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب تھے اور خطیبِ ہزارہ کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان کے شاگرد تھے اور ان کی طرز پر ایک عرصہ تک ہر سال علماء و طلبہ کو دورہ تفسیر قرآن کریم پڑھاتے رہے اور جمعیۃ علماء اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ ساتھ مختلف دینی جماعتوں اور تحریکات میں سرپرستی کے ساتھ متحرک عملی کردار ادا کرتے رہے۔ مجھے ان کی ہمیشہ سرپرستی اور شفقت حاصل رہی بلکہ ان کے ساتھ رشتہ داری بھی تھی کہ ان کے فرزند مولانا انیس الرحمان قریشی میرے خالو محترم مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی آف میر پور آزاد کشمیر کے داماد ہیں۔
مولانا عبد الوارث چنیوٹ کے بزرگ عالم دین تھے، دارالعلوم مدنیہ کے مہتمم اور بے باک خطیب تھے، سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی کے سرگرم رفیق کار اور دست و بازو رہے، جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے، دینی حمیت کے پیکر تھے اور مختلف دینی تحریکات میں ان کا کردار نمایاں رہا۔ مولانا مرحوم میرے ساتھ دوستی اور بے تکلفی کا تعلق رکھتے تھے اور جماعتی و تحریکی امور میں ہماری ہر دور میں رفاقت رہی۔ ان کے شاگرد اور خوشہ چین علماء و طلبہ کی بڑی تعداد دینی کاموں میں مصروف ہے جو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
مولانا رشید احمد لدھیانوی جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے امیر رہے، لدھیانہ کے اس عظیم خاندان سے تعلق تھا جو جرات و عزیمت کے حوالہ سے برصغیر کے ممتاز خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ استقامت اور حق گوئی میں اپنے خاندان کی روایات کے امین تھے اور دینی تحریکات میں ہمیشہ سرگرم رہتے تھے۔ رحیم یار خان میں ان کے ہاں متعدد بار حاضری ہوئی اور جماعتی مجالس اور پروگراموں میں وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہتی تھی بلکہ دو سال قبل دیوبند کی شیخ الہند کانفرنس میں شرکت کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی دعوت پر پاکستان سے مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں علماء کا جو قافلہ گیا اس میں ہم دونوں شریک تھے اور لدھیانہ میں ان کے ہمراہ ان کے خاندان کے بعض بزرگوں سے ملاقات میری زندگی کے یادگار لمحات میں سے ہے۔
مولانا احمد سعید ہزاروی گوجرانوالہ کے بزرگ علماء میں سے تھے جو پرانے دور کے علماء کرام کی آخری نشانی کے طور پر باقی رہ گئے تھے۔ ۱۹۶۲ء میں صدر ایوب خان مرحوم کے مارشل لاء کے خاتمہ پر جب جمعیۃ علماء اسلام دوبارہ متحرک ہوئی تو ضلع گوجرانوالہ میں اسے منظم کرنے میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحد کے ساتھ مولانا احمد سعید ہزاروی کا کردار نمایاں تھا۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کو جمعیۃ علماء اسلام کا ضلعی امیر منتخب کیا گیا تو ان کے ساتھ مولانا احمد سعید ہزاروی ضلعی سیکرٹری جنرل تھے اور کم و بیش ربع صدی تک دونوں بزرگوں کی یہ عملی رفاقت قائم رہی۔ حضرت مولانا قاضی شمس الدین کے تلامذہ میں سے تھے اور شہر کے محلہ آبادی حاکم رائے کی ایک مسجد کے خطیب و امام تھے۔ ساری زندگی وہیں گزار دی اور دینی خدمات میں مصروف رہے۔ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد کے معتمد ترین ساتھی تھے حتیٰ کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے چھوٹے سے ذاتی کارخانے کا نظم بھی سنبھالتے تھے، حق گو اور جرات مند خطیب تھے، دینی تحریکات اور جماعتی کاموں میں ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔
مولانا سید غلام کبریا شاہ بھی اسی قافلہ کے ایک فرد تھے۔ وہ میرے ابتدائی شاگردوں میں سے تھے، میں نے ۱۹۷۰ء کے دوران مدرسہ انوار العلوم ملحقہ مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا تو اس دور میں انہوں نے صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں بالخصوص علم الصیغہ مجھ سے پڑھا۔ اس دور کی بعض یادوں کا وہ اکثر تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام میں کچھ عرصہ متحرک رہے پھر شہید عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی کی رفاقت کے دائرہ میں شامل ہوگئے اور آخر وقت تک پوری استقامت اور صبر و حوصلہ کے ساتھ اسی دائرہ میں رہے۔ ایک دور میں سپاہ صحابہ کے صوبائی صدر بھی رہے۔ ضلعی انتظامیہ کے سامنے مسلکی اور جماعتی موقف اور معاملات کی جرات و بے باکی کے ساتھ ترجمانی کرتے تھے اور حکومتی دائروں میں ضلعی سطح پر ہماری نمائندگی کرنے والے چند متحرک اور حوصلہ مند ساتھیوں میں سے تھے۔ گوجرانوالہ کے قریب مرالی والا میں مسجد و مدرسہ بنا کر علاقہ کے لوگوں کی دینی و تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ایسے بے لوث، باشعور، سادہ اور ایثار پیشہ رفقاء اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ سب بزرگ اپنا اپنا وقت پورا کر کے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اب ان کی یادیں باقی رہ گئی ہیں اور یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہ چند دوست ہی ہم سے رخصت نہیں ہوئے بلکہ ان کے ساتھ بہت سی قدریں اور روایات بھی نگاہوں سے اوجھل ہوتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ روز ایک پرانے دوست نے حال پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ میرے بھائی اردگرد ہجوم تو بڑھ رہا ہے مگر اسی حساب سے تنہائی بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ جن دوستوں، ماحول اور روایات و اقدار میں ہم نے زندگی گزاری ہے وہ قصہ ماضی بن گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان و متعلقین کو ان کی اچھی روایات جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اور بھٹکل

مولانا عبد المتین منیری

بات تو کل ہی کی لگتی ہے ، لیکن اس پر بھی نصف صدی بیت چکی ہے۔ ۱۸؍نومبر ۱۹۶۷ء گورنمنٹ پرائمری بورڈ اسکول کے احاطہ میں منعقد ہونے والے بھٹکل کی تاریخ کے عظیم الشان مجمع سے خطاب کرتے ہوئے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمہ نے مسلمانان بھٹکل کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ :
’’اے بھٹکل کے باشندو ! اے نوائط قوم کے چشم و چراغ ! تمہارے بزرگ یہاں کے لوگوں کے پاس اسلام کا پیغام لے کر آئے ، وہ تو بتیس دانتوں میں ایک زبان کی حیثیت رکھتے تھے ، کوئی ان کا ساز وسامان نہیں تھا ، کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہیں تھا ، اور ان کا کوئی دوست نہیں تھا ، لیکن ان کی باتوں کا وزن تھا ، اور تم ہو اتنی بڑی تمہاری تعداد ہے ، لیکن تمہارا کوئی وزن نہیں ہے ، تم یہاں قریب قریب پچاس فیصد ہو، یہاں تمہاری کتنی تعلیم گاہیں ہونی چاہیے تھیں، تمہارا یہاں تہذیب کا قلعہ ہونا چاہئے تھا، روشنی کا ایک مینا ر ہونا چاہئے تھا، وہ اس سے بھی زیادہ دور سے جو کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک روشنی کا مینارہ ہے ، اللہ نے تم کو بہت دیا ہے ، میں نے تم کو کالیکٹ میں دیکھا ہے ، میں تم سے ناواقف نہیں ہوں ، میں نے تم کو مدراس میں دیکھا ہے ، اور میں نے تمہارے کولمبو کے بارے میں بھی سنا ہے ، اور ایسی ایک کاروباری قوم اور ملت کے مسائل کو حل کرکے نہ رکھ سکے ، کوئی عقل اس بات کو مان نہیں سکتی جو اتنا بڑا اس کا کوئی ملی مسئلہ ادھورا پڑا ہوا ہے ، کیا بات ہے ؟ کیا راز ہے ، اس کا ؟ ایک دن میں یہ مسئلہ حل ہو جانا چاہئے ، تمہارا نام یہاں ایک ضرب المثل ہونا چاہئے ، تمہاری قومی زبان نوائطی میں لٹریچر ہونا چاہئے ، واقعی جامعہ اسلامیہ ایک ایسا مرکزی ادارہ ہوتا جو دکن میں ایک بڑا ادارہ مانا جاتا ، تمہارے یہاں سے تم سارے دکن کو برابر غذا پہنچاتے ، مسلمانوں کے اداروں کو اور جگہ کے مسلمانوں کے اداروں کو تم سے غذا ملتی ۔‘‘
دیکھنے والوں کو آج بھی وہ منظر یا د ہے ، حضرت مولانا کی زبان مبارک سے تحریک اور جذبے سے بھرپور خطابت کا ایک دریا موجزن تھا اور سننے والے والوں کی آنکھوں سے سیل رواں جس سے بہتوں کے رخسار اور ڈاڑھیاں تر ہو رہے تھے۔ ایسا والہانہ منظر بھٹکل نے اس سے پہلے کاہے کو دیکھا ہوگا؟ یہ ایک تاریخ ساز لمحہ تھا ، شاید قبولیت دعا کا بھی۔
حضرت مولانا اس وقت پہلی بار بھٹکل تشریف لائے تھے ، اور ان کے استقبال کے لئے اولین مہتمم جامعہ اور استاد الجیل مولانا عبد الحمید ندوی علیہ فرش راہ بنے ہوئے تھے ، مولانا ندوی اپنے اس مہمان عزیز سے اس وقت سے متعارف تھے جب سات آٹھ سال کی عمر میں سایہ پدری آپ کے سر سے اٹھ گیا تھا ، پھر کچھ عمر بڑھی تو لکھنو یونیورسٹی میں حصول علم میں مصروف نظر آنے لگے، اس وقت وہ بغل میں کتابیں دبائے ندوے کی چہار دیواری میں اس وقت کے اساطین علم ، مولانا حلیم عطا، شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن خان ٹونکی وغیرہ سے کسب فیض پانے آیا کرتے، طلبہ میں مرحوم ناظم ندوہ کے دریتیم کی حیثیت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ، ورنہ ایک خاموش الطبع اور سنجیدگی کی اس مورت کا میل جول دوسروں سے کم ہی تھا، اس وقت مولانا عبد الحمید ندوی جوان تھے آپ کا ندوے میں طوطی بولتا تھا ، جوشیلے مقرر ، تحریک خلافت کے ایک لیڈر کی حیثت سے آپ کا لکھنو و اطراف میں شہرہ تھا ، لیکن چالیس سال بعد عالم دوسرا ہی تھا ، مولانا عبد الحمید ندوی مرحوم دنیا جہاں سے تنہا ایک دور دراز بستی میں ناموری اور شہرت سے بلند ہوکر ایک دین کے قلعہ تعمیر میں مگن ایک گمنام زندگی گزاررہے تھے ،اتنے عرصہ بعد اپنے ایک خورد کو مقبولیت کی اس چوٹی پر دیکھیں ، جس سے فیض عام کے سوتے پھوٹ رہے ہوں تو آنکھیں شدت جذبات سے چھلک نہ اٹھیں، اور چہرہ تمتمانے نہ لگے توکیوں آخر کر؟ وہ بھی کس قدر جذباتی منظر تھا ، جب مولانا عبد الحمید ندوی اپنے سے کم سن مولانا علی میاں علیہ الرحمۃ سے گلے مل رہے تھے ، جذبات کا ایک ریلا بڑھ رہا تھا ۔ وہ لمحہ بھٹکل کی تاریخ میں یادگار بن گیا۔ 
اس وقت بھٹکل میں حضرت مولانا سے ربط و تعلق رکھنے والوں کی کمی نہیں تھی ، مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی مرحوم نے حضرت مولانا کی رفاقت میں آپ کے سرپرست بھائی ڈاکٹر عبد العلی حسنی مرحوم سے صحیح مسلم کا خصوصی درس مکمل کیا تھا،بانیان جامعہ میں سے جناب الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمہ سے آپ کے گزشتہ پچیس سال سے مراسم تھے ، ۱۹۴۲ء میں منیری صاحب نے آپ کے ساتھ تبلیغی قافلے میں حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی علیہ الرحمہ کی بار گاہ میں حاضری دی تھی ، انجمن خدام النبی ممبئی سے وابستگی اور حاجیوں کی خدمت نے آخر الذکر سے غیر ملکی اسفار کے انتظامات ٹکٹ وغیرہ بنانے میں ضرورت پڑتی رہتی تھی ، بانی جامعہ ڈاکٹر علی ملپا مرحوم کے تو آپ سے نیازمندانہ مراسم کوئی پوشیدہ نہیں ۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ ممبئی سے بھٹکل کا سفر تین دن تین رات کا اور منگلور کا سفر پورے ایک دن کا ہوا کرتا تھا ،اور زندگی کے ایک ایسے مرحلہ میں جب حضرت مولانا بینائی سے محروم ہوگئے تھے ، اور لمحے لمحے کے لئے دوسروں کے دست نگر بن گئے تھے ، اس وقت معمول کی غذا ئیں بھی ایک مسئلہ بن گئی تھیں ، بھٹکل جیسے دور دراز قصبے میں جہاں لال بھبھوکا مرچیں روازنہ غذا کا جزء لاینفک ہو ا کرتی تھیں ،اور آپ کا یہ حال کہ مرچ کی بو بھی آنکھوں میں جلن پیدا کردے اور راتوں کی نیندیں اڑادے ، ایسی حالت میں اتنی لمبی مسافت طے کرکے اس عظیم شخصیت کا بھٹکل کی سرزمین پر قدم رنجہ ہونا جہاں عظیم قربانی اور مخلصانہ تعلقات کی نشاندہی کرتا ہے ، وہیں اس بات کی بھی غماز ہے کہ یہ دعاؤں کی قبولیت کے لمحات تھے ، اس وقت خداوند قدوس سے قوم کے لئے جو بھی مانگا جاتا مل جاتا۔ 
جامعہ آباد میں آج جہاں عظیم الشان مسجد کھڑی ہے ، اس کے محراب کی سمت پر حضرت مولانا نے اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا تھا ، اس وقت جامعہ آباد صرف ایک خواب تھا ، ایک وادی غیر ذی زرع ، بستی سے دور ایک ویرانہ ، جہاں چرندوں پرندوں اور درندوں کا بسیرہ تھا، سانپ بچھو قدم قدم پر رینگتے نظر آتے تھے ، یہاں سے گزرنے والے آسیب اور جنات کے بھی شاکی تھے ، یہاں سے نوائط کالونی تک تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر کوئی آبادی نظر نہیں آتی تھی ، نہ ہی کوئی پختہ سڑک پائی جاتی تھی ، بس پگڈنڈیاں تھیں ، دور دور تک آدمی کی لمبائی سے بھی اونچی سوکھی گھاس نظر آتی تھی ،جنہیں چیر کرجانے والوں پر دور دور سے نگاہ نہیں پڑسکتی تھی، بس دور دور فاصلے پر اونچے اونچے پیپل کے درخت ایستادہ تھے، جہاں صبح و شام اڑوس پڑوس سے گزرنے والے مزدوراور مچھیرے سستانے کے لئے ٹہرا کرتے ۔ آج جب شہر کی طنابیں جامعہ آباد تک پھیل گئی ہیں ، کون ان باتوں پر یقین کرے گا؟ لیکن یہ وہی مبارک لمحہ تھا جب اس علاقہ کو حضرت مولانا نے جامعہ آباد کا نام دیا تھا اور بھٹکل نے ایک نئے دن کا سورج کو طلوع ہوتے دیکھا تھا، بہت ہی روشن اور تابناک ، یہاں کی تاریخ بدلنے والاسورج۔
حضرت مولانا پہلی مرتبہ جب بھٹکل تشریف لائے تھے ، وہ زمانہ مسلمانان ہند کے لئے مشکل ترین دور تھا ، پور ا ہندوستان فسادات کی لپیٹ میں جھلس رہا تھا ، جہاں جہاں مسلمانوں کی اقتصادی حالت اچھی تھی ، وہاں پر ان کی صنعتوں کو راکھ کی ڈھیر میں بدل دیا گیا تھا ، مسلمانوں کے قائم کردہ تعلیمی اداروں کا اقلیتی کردار چھینا جارہا تھا ، ان کی قومی زبان اردو کا دیس نکالا ہورہا تھا ، اور مسلمانوں کے تشخص کے لالے پڑ گئے تھا ، یہی دن تھے جب حضرت مولانا مسلمانان ہند کی رہنمائی اور ان میں عمل کی تحریک پیدا کرنے کے لئے دوسرے رفقاء کے ساتھ میدان میں کود پڑے تھے ، اس میں دو رائے نہیں کہ حضرت مولانا کا عظیم خطیبوں میں شمار ہو تا ہے ، لیکن جس طرح دل پر ٹھیس پڑنے پر ایک شاعر کا وجدان پھڑک اٹھتا ہے ، اور اس کے ذہن و قلب سے دلوں کو تڑپانے والے شعر پھوٹنے لگتے ہیں ، اسی طرح حضرت مولانا کی ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہوئی تقاریر کا جواب نہیں ، جس طرح آپ نے دلوں کو گرمایا ، ڈھارس دی اور ہمت بڑھائی ، اس کی مثالیں شاذو نادر ہی ملتی ہیں، اس کے بعد آپ کی بھٹکل کی سرزمین پر تینتیس سال تک تسلسل کے ساتھ تشریف آواری ہوتی رہی ، جن میں بہت ساری تقریریں بھی ہوتی رہیں ، لیکن جنہوں نے حضرت مولانا کو قریب سے سنا ہے ان کی یہ رائے وزن رکھتی ہے کہ حضرت مولانا کی اصل ماسٹر پیس تو (نشان منزل )وہی پہلی والی تقریر تھی جس کا کوئی ثانی نہیں ۔
دیکھئے اتفاقات بھی کتنے حسین ہوتے ہیں ، جامعہ آباد کی سرزمین قدم رنجہ رکھنے کے ٹھیک نصف صدی بعد حضرت مولانا کی دعوتی زندگی پر یہاں ادبی سیمینار منعقد ہورہا ہے ، اہل بھٹکل پر یہ ایک قرض تھا ،جس کی ادائیگی کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ، کیادنیا میں کوئی ممتا کے دودھ کا بھی قرض ادا کرسکا ہے ، لیکن گلاب نہیں تو پنکھڑی ہی سہی ۔ اگر رو ز قیامت آپ کا سامنا ہو تو شرمندگی تو نہیں ہوگی ، اہل بھٹکل ،ارباب جامعہ، حضرت مولانا کے جانشین اور جامعہ کے روز اول سے خیرخواہ اور محسن ، اور موجودہ سرپرست جامعہ کے دل کی گہرائیوں سے ممنون احسان ہیں کہ دور حاضر کی جاری اصطلاحات گولڈن جوبلی وغیرہ کے تکلفات سے بلند ہوکر لاشعوری میں ایک یادگار موقعہ عنایت فرمایا کہ بھٹکل کی جو سرزمین حضرت مفکر اسلام کی توجہات کی ہمیشہ سرتاپا سپاس رہی ہے ، وہاں زمانہ بیتنے کے بعد اب بھی انہیں اسی طرح یاد کیا جائے جیسے پہلے روز سے کیا جارہا ہے۔ یہ احسان مندی اور تشکر کی علامت ہے جو خوش نصیب قوموں کے ماتھے ہی پر سجتی ہے ۔
آپ کی پہلی آمد کے بعد سے تین سال کے عرصہ تک جامعہ پر بڑی قیامت ٹوٹی ، اور یہ ادارہ ابتلاء کے دور سے گزرا ، ۱۹۷۱ء میں آپ کی دوسری بار یہاں آمد ہوئی ، پہلے سفر میں دئے گئے پیغام کی یاد دہانی کے لئے ، ا س وقت جامعہ گوائی منزل ، سوداگر بخار اور جامع مسجد سے ہوتا ہوا جامعہ آباد سے نصف مسافت پر بھٹکل کے وسط میں واقع شمس الدین سرکل پر جوکاکو منشن میں منتقل ہوچکا تھا ۔ پھر ۱۹۷۳ء میں وہ دن آیا جب سرپرستان و بانیان جامعہ کو ان کے خوابوں کی حقیقی تعبیر مل گئی ، آپ ہی کے مبارک ہاتھوں سے ایک چھوٹی سی مسجد اور چند کمروں کے پر مشتمل جامعہ آباد کا افتتاح ہوا ، اور اس وقت آپ نے ایک عالم باتدبیر مولانا شہباز اصلاحی علیہ الرحمۃ کو نئے دور کے جامعہ کا تعلیمی نظم و نسق سنبھالنے کے لئے پیش کردیا ، وہ دن ہے اور آج کا دن چاہے طوفان آئے یا باد وباراں ، آندھیاں اٹھیں یا مشکلات روڑے اٹکائیں ، جامعہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، اسکی کشتی لہروں کا مقابلہ کرتے ، بھنوروں سے بچ بچاتے ، سیل رواں میں آگے ہی بڑھتے جارہی ہے ، اس میں جہاں توفیق یزدی شامل رہی ، وہاں آپ کی اور دیگر اکابر کی توجہات اور دعائیں بھی شامل حال رہی ہیں ، ورنہ جامعہ کو قائم کرنے والے اور اسے چلانے والے عموما متوسط طبقہ کے افراد تھے ، اس کے بانیان اور ناظمین میں کوئی بھی معروف معنی میں سکہ بند مولوی اور فارغ التحصیل نہیں ہوئے تھے۔
حضرت مولانا کی جب پہلی مرتبہ بھٹکل آمد ہوئی تھی تو اس وقت اس ناچیز کی عمر پختہ نہیں ہوئی تھی، پانچویں پرائمری کا طالب علم اپنے بڑوں سے بزرگوں کا صرف نام یا تعریفیں ہی سن سکتا ہے ۔ ایک عشرے تک بالمشافہ دیکھنے اور استفادے کی کوئی صورت نہیں نکل سکی ، لیکن جامعہ میں اس زمانے میں مطالعہ اور کتابیں پڑھنے کا کچھ ایسا ماحول بن گیا تھا ، اور خاص طور پر ہمارے استاد مکرم اور جامعہ کے اولین طالب علم مولانا ملا اقبال ندوی صاحب اللہ ان کا سایہ تادیر قائم رکھے ، انہوں نے اسلامی فکر پر مبنی کتابوں سے وابستگی کا ایسا ذوق طلبہ میں پیدا کردیا تھا کہ پندرہ سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے بے سمجھے بوجھے ناول پڑھنے کی رفتار ہی سے سہی حضرت مولانا کی اس وقت تک کی زیادہ تر اردو کتابیں نظر سے گذر گئی تھیں۔ اس کچی عمر میں دل و دماغ پر آپ کی جن کتابوں نے اثرات مرتب کئے ان میں مولانا نور عظیم کی ترجمہ کردہ عربی تقاریر اور مضامین کا مجموعہ( عالم عربی کا المیہ) آج بھی نظروں کے سامنے گھوم رہا ہے ، واقعی عالم اسلام کے واقعات سے اس کتاب نے دلچسپی پیدا کی تھی، یہاں کی سیاسیات اور عرب قوم پرستی کے بارے میں اسی کتاب نے پہلے پہل متوجہ اور آئندہ پیش آنے والے واقعات و حوادث کی گہرائی تک پہنچنے کا فہم عطا کیا تھا۔
ستر کے اوائل میں حضرت کی تصانیف کے ذریعہ نصف ملاقات ہوتی رہی ، اس دوران مختلف ایام میں جنوبی ہند کے عظیم بزرگ مفکر اور عالم دین حضرت مولانا محمد صبغۃ اللہ بختیاری علیہ الرحمۃ سے کبھی ویلور میں کبھی مدراس میں ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوتا رہا ، اس زمانے کی ایک مجلس میں مولانا بختیاری کے سامنے حضرت مولانا کی تازہ تصنیف ارکان اربعہ رکھی ہوئی تھی ، بختیاری صاحب کہنے لگے کہ اس کتاب میں سیرت النبی ،حجۃ اللہ البالغہ ، زاد المعاد اور جمع الفوائد سے مواد مرتب کیا گیا ہے ، یہ کتابیں ہم نے بھی پڑھی ہیں ، لیکن اللہ تعالی نے ارکان اربعہ اور آپ کی دوسری تصانیف کو مقبولیت دی۔ یہ انسان کی محنت سے نہیں ہوا ہے ، توفیق خداوندی اسی کو کہتے ہیں ، ورنہ مفسر قرآن حضرت مولانا احمد علی لاہوری علیہ الرحمۃ کے یہاں حضرت مولانا میرے رفیق درس تھے ، مولانا لاہور ی کے دروس عام درسوں جیسے نہیں ہوا کرتے تھے ، بلکہ آپ کے دروس میں آنے سے قبل بہت محنت کرکے آنی پڑتی تھی ، مولانا اشاروں اور مختصرنکات میں تفسیر بیان کرتے تھے ، ان دروس میں منطق اور فلسفہ کی آمیز ش ہوتی تھی ، ہم جیسے دیوبند سے پڑھ کر آنے والوں کو مولانا کے درس سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی تھی ، لیکن چونکہ حضرت مولانا کا منطق و فلسفہ سے کوئی تعلق نہیں تھا تو انہیں ان دروس کو سمجھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی ، مولانا لاہوری کے یہاں ہمارا شمار زیرک طلبہ میں ہوتا تھا ، لیکن حضرت مولانا کا خاندانی پس منظر کچھ ایسا تھا کہ مولانا لاہوری کے یہاں آپ کے ساتھ بڑے احترام کا معاملہ ہوا کرتا تھا، اب دیکھئے مجھ جیسا ہونہار طالب علم اور اپنے وقت کا مقرر کتابوں کا پارکھ باقیات الصالحات ویلور کے ایک چھوٹے سے کمرے میں گمنام پڑا ہے ، اور حضرت مولانا کا چاردانگ عالم میں طوطی بول رہا ہے ، یہ انعام خداوندی ہے جسے چاہے نوازدے ۔
حضرت مولانا سے تسلی بخش انداز سے ملنے کا موقعہ ہمیں پہلی مرتبہ غالبا ۱۹۷۹ء کے اوائل میں ہوا ۔ اس وقت مخدومی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتہم کی آپ کے ساتھ پہلی مرتبہ بھٹکل آمد ہوئی تھی ، اس وقت میں جامعہ آباد میں تدریس سے میں وابستہ تھا، حضرت مولانا امریکہ سے آنکھوں کے کامیاب آپریشن کے بعد شفایاب ہوکر آئے تھے ، اور دس بارہ سال بعد کھلی آنکھوں سے دنیا کے مناظر سے لطف اندوز ہورہے تھے ، انہی دنوں ایران میں خمینی انقلاب کامیابی سے ہم کنار ہورہا تھا، اور جنرل محمد ضیاء الحق کے بھی یہ ابتدائی ایام تھے ، اور حضرت مولانا پڑوسی ملک ہوکر آئے تھے ، حضرت مولانا کی زبانی عالم اسلام کے واقعات و حوادث اور حقائق جاننے کا اس سے بہتر موقعہ کہاں مل سکتا تھا ، آپ سے ان موضوعات پر خوب استفادے کا موقعہ ملا ، انہی ایام میں کیریر گانڈنس پر ڈیل کارنیگی کی کتابیں میٹھے بول میں جادو ہے وغیرہ نظر سے گزری تھیں، ان کتابوں کو پڑھ کر بولنا یا تقریر کرنا تو کبھی نہیں آیا ، لیکن انٹرویو لینے کے لئے چند ایسے نکات مل گئے جنہیں ہم نے دو شخصیات پر آزمایا ، حضرت مولانا نے تو طالب علمانہ سوالات پر اس وقت دل کھول کر رکھ دیا اور دوسری مرتبہ پاکستان کے مولانا مفتی محمو علیہ الرحمہ نے پہلے ہی سوال میں ڈھیر کردیا، مفتی صاحب سیاسی جو ٹھہرے ۔ حضرت مولانا سے اسی سفر میں غیر مرتب انداز میں ارتجالاً اس ناچیز نے طالب علمانہ سوالات کی بھر مار کردی تھی اور آپ نے اس وقت بڑی تفصیل سے اپنی ذاتی علمی و مطالعاتی زندگی پر روشنی ڈالی تھی ، ان میں سے بہت سی باتیں بعد میں کہیں ہمارے مطالعے سے نہیں گزریں ۔ اسی مجلس میں اس ناچیز نے آپ سے آب بیتی لکھنے کی درخواست کی جرات کی تھی ، جس پر پہلے تو آپ نے فرمایا کہ پرانے چراغ کی بنیاد پر ان کے رفیق قاضی عدیل عباسی صاحب نے آپ کی ایک آب بیتی مرتب کی ہے ، اسی مجلس میں آپ نے اپنی مستقل آب بیتی لکھنے کا عندیہ دیا تھا جو کاروان زندگی کے عنوان سے ایک تاریخی و دعوتی دستاویز کی شکل میں بعد میں سامنے آئی ۔ 
آپ کو جامعہ اور بھٹکل سے بڑی محبت تھی ، بر صغیر میں عربوں کی آباد کردہ قدیم بستیوں میں وہ صر ف بھٹکل کے نوائط کو عربی خصوصیات کا حامل سمجھتے تھے ،وہ محبت اور تعلق میں وہ ہمیشہ ندوۃ العلماء کے بعد جامعہ اسلامیہ بھٹکل کو اہمیت دیتے تھے ، اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے ، بھٹکل میں پہلی آمد پر آپ نے جامعہ کے لئے جن جذبات کا اظہار کیا تھا، ان میں آخری دم تک سر مو فرق نہیں آیا ، انہیں جامعہ کو درپیش ابتلاء اور امتحان کی گھڑیوں میں بڑی فکر لاحق ہوتی تھی ، اور اس کے لئے آپ کے ہاتھ بلند بہ دعاء ہوجایا کرتے تھے ۔ بھٹکل کو جب حاسدوں کی نظر لگتی ، اور یہاں کا امن و امان بگڑ جاتا تو آپ بلک اٹھتے ، بہت پریشان ہوتے ، اور اسے نظر بد سے بچانے کے لئے جملہ اسباب استعمال کرتے ، مولانا کی زندگی میں جب کبھی یہاں کی فضاوں میں مایوسی کے بادل چھا جاتے تو اور وسائل و اسباب سب ناکارہ نظر آتے تو آپ جیسے بزرگارن کی کی نظر کرم اورتوجہات سے یہ بادل چھٹے ہوئے صاف نظر آتے ۔
نو زائیدہ جامعۃ الصالحات کی عمارت کی تقریب افتتاح کے دوسرے روز مورخہ : ۳۰ ؍دسمبر ۱۹۸۰ء جامعہ آباد میں منعقدہ اعیان شہر اور اراکین مجلس شوری کے سامنے دل کھول کر جس انداز سے جامعہ سے اپنی محبت اور لگاؤ کاآپ نے اظہار کیا تھا ، اس میں اخلاص اور درد کے جذبات امنڈ رہے تھے ، ہماری ناقص رائے میں حضرت مولانا کی زبانی ایسے والہانہ جذبات کسی اورادارے یا جامعہ کے لئے نہیں سنے گئے ، آپ کے الفاظ تھے:
’’میں آپ سے اس جامعہ اسلامیہ سے متعلق کہوں گا کہ اسے اس درجہ تک پہنچائیں کہ عرب کے بڑے بڑے علماء اور ماہرین یہاں آئیں اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ یہ جامعہ اس درجہ تک پہنچ جائے گا اور میں زندہ رہا تو بڑے سے بڑے آدمی کو ان شاء اللہ یہاں لے آؤں گا اور آپ دیکھیں گے کہ کیسے شوق سے آتے ہیں، تو اس کو ترقی دیجیے۔ اور مجھے اس کا افسوس بھی ہے اور تعجب بھی ہے کہ میں شروع سے آرہا ہوں، سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شریک رہا ہوں ،جامعہ کو جہاں تک پہنچنا چاہئے تھا نہیں پہنچا،کیا اسباب ہیں ؟ میں زیادہ واقف بھی نہیں اورتفصیل میں جانا بھی مناسب نہیں سمجھتا،لیکن جامعہ کو اس وقت واقعی صحیح معنی میں اسم بامسمیٰ ہونا چاہئے تھاہر حیثیت سے ،ابھی تک یہ اس حیثیت کو نہیں پہنچا ،نہ عمارتوں کی حیثیت سے پہنچ سکا ،نہ معیار تعلیم کے لحاظ سے پہنچ سکا،میں چاہتا ہوں کہ اس قابل ہوجائے کہ اس کے ساتھ الحاق ہو،اور یہ ایک مرکزی مدرسہ بن جائے ،اس میں آپ کا فائدہ ہی فائدہ ہے اور آپ کی شہرت کا باعث ہے ۔‘‘
’’میں منیری صاحب سے کہوں گا کہ آپ اس ذمہ داری کو سنبھالیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو کام کا طریقہ سکھایا ہے، صلاحیت دی ہے، تمام ذمہ داروں سے کہوں گا کہ اس کام کو سنبھالیں اور اسکو ترقی دیں، میں اس سے قبل بھی جامعہ میں آیا ہوں، لیکن جامعہ میں کوئی ترقی نہیں ہوئی، وہی تین بڑے کمرے اور چار چھوٹے کمرے، اور ایک مسجد ، اتنے دن کے بعد آیا، وہی کمرے اس میں کوئی ترقی نہیں ، تعمیری ترقی بھی ہونی چاہئے۔‘‘
درد دل کے مالک اس اللہ والے کی تمنا ئیں پوری ہوئیں ، اس خطاب کے بعد جامعہ نے ایک اور کروٹ لی ، الحاج محی الدین منیری مرحوم کے دور میں تیز رفتاری سے اس نے ترقی کے مراحل طے کرنا شروع کیا ، اپنی زندگی ہی میں آپ نے سیرت ٹیپو سلطان کے رسم اجراء کی تقریب میں یہاں کے فرزند مولانا محمد الیاس ندوی کے تصنیفی کام سے خوش اور شادمان ہوئے ، اور آپ کی آنکھیں بند ہوتے ہیں آپ کے جانشین سرپرست جامعہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم نے یہاں پر رابطہ ادب اسلامی کے ادب اطفال پر سیمینار منعقد کرکے آپ کے خواب کو تعبیر بخشی ، اور اب یہ تیسرا سیمینار ہے جس کا موضوع جامعہ اور بھٹکل کے عظیم محسن کی دعوتی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے ۔
۱۹۸۰ء کے بعد حضرت مولانا سے بھٹکل اسفار میں تیز ی آگئی ، رحلت سے قبل جب آپ کو اطلاع ملی کہ یہاں کے کتب خانے میں علامہ رشید رضا کے مجلہ( المنار) کی پوری فائل موجود ہے ، تو فرمایا کہ اس مجلے میں اٹھارہ سال کی عمر میں اپنا تحریر کردہ پہلا عربی مضمون شائع ہوا تھا، لیکن اسے کبھی دیکھنے کا موقع نہ مل سکا ،ساٹھ سال بعد جب پہلی مرتبہ اسے یہاں پر دیکھا تو بہت خوش ہوئے ، دبی انٹرنیشنل قرآن ایوارڈ کے موقعہ پر ملاقات ہوئی تو ہمیں بڑی دعائیں دیں، اور جب ہم نے طلبہ و اساتذہ کی مطالعہ میں بے رغبتی اور کتب خانے کے علمی خزانوں کے جمود پر ہمت پست ہونے کا تذکرہ کیا تو فرمایا کہ کتب خانے آج کی نسلوں کے لئے نہیں ہوا کرتے ، یہ آئندہ نسلوں کے لئے ہوتے ہیں ۔ اور بڑی محبت سے تہجد کے وقت بلا کر اپنے سلسلے کی اجازت اسناد حدیث سے نوازا۔ دوبئی میں کوئی تین چار بار آپ کا آنا ہوا ، ہر مرتبہ صحبت کا شرف حاصل رہا ، اس ناچیز سے اپنے دو طرح کے تعلقات بھٹکل سے اور منیری صاحب سے تعلق کا تذکرہ بار بار کرتے رہے۔
منیری صاحب نے بھی علامہ شبیر احمد عثمانی اور علامہ سید سلیمان ندوی علیہم الرحمۃ سے آپ تک بیشتر برصغیر کے علماء و اکابر کو قریب سے دیکھا تھا، لیکن آپ کا جو والہانہ محبت اور تعلق حضرت مولانا سے تھا، اسے بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ، ایک مرتبہ ہم سے کہنے لگے کہ حضرت مولانا بار بار تکلیف کرکے بھٹکل آتے رہے لیکن کبھی آپ کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ، لیکن جامعہ آباد کے افتتاح کے موقعہ پر آپ تنہائی میں جاکر آپ کی خدمت میں پانچ ہزار روپئے جب پیش کئے تو حضرت مولانا کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا، کہنے لگے: چالیس سالہ تعلق کا یہ صلہ دے رہے ہو ؟ منیری صاحب کہنے لگے کہ میں آپ کے جلال سے تھر اگیا ، انگ انگ کانپ اٹھا ، مال و زر سے ایسی بے اعتنائی کا منظر کبھی دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ اور جب منیری صاحب نے آپ کے سامنے بیعت کے لئے دست طلب پیش کیا تو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں سفارشی خط کے ساتھ بھیج دیا۔ بھٹکل سے حضرت مولانا کو قریب سے دیکھنے والی اس نسل میں اب کوئی نہیں رہا ، یہی قانون قدرت ہے ، لیکن یہ کیا کم ہے کہ ان حضرات کے فیوض و برکات جاری و ساری ہیں، ان کی دعائیں اور توجہات اب بھی بلاؤں کو ٹالتی رہتی ہیں ، ورنہ ہمارا رویہ تو ایسا نہیں ہے ، خدا کرے ان کی جلائی ہوئی شمع تا قیامت روشنی بکھیر تی رہے ، یہ جہاں ان حضرات کے بلندی درجات کا باعث بنے ، وہیں آنے والی نسلوں کی مغفرت کا بھی ، آمین

زوالِ امت میں غزالی کا کردار تاریخی حقائق کیا ہیں؟ (۱)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

امام غزالی پر ایک اور اتہام

اپنے سابقہ مضمون "غزالی اور ابن رشد کا قضیہ" (الشریعہ، فروری ومارچ ۲۰۱۴ء) میں ہم نہایت تفصیل سے یہ عرض کرچکے ہیں کہ امام غزالی نے ایسا کچھ نہیں لکھا کہ جس سے انہیں علم، عقل اور سائنس وفلسفہ کی کاوشوں کا منکر قرار دیا جاسکے، بلکہ اس کے برعکس ان کے ہاں متواتر ایسی عبارات ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود ان لوگوں کے سخت مخالف ہیں جو اسلام کو فلسفہ وسائنس اور عقلی علوم کے تمام اجزاء اور شعبوں کا مخالف کہتے ہیں۔ ہم نے ایسی کئی عبارات وہاں نقل کی ہیں جن سے قاری بخوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ امام غزالی کو تمدن دشمن قرار دینا، عقلی علوم کی تمام تر انسانی روایت کا مخالف باور کرانا یا مذہب اور سائنس کی ہم آہنگی کے خلاف سمجھنا ان کے مخالفین کا محض خیالی پلاؤ ہے اور غزالی پر ایسا الزام تو کم ازکم خود ان کے حریف ابن رشد نے بھی عائد نہیں کیا تھا۔ 
ہم اپنے محولہ بالا مضمون میں غزالی کی طرف منسوب مسخ شدہ موقف کی اصل حقیقت آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ غزالی اور ابن رشد کے قضیہ کے اصل متعلقات پر بھی خود ان کی اپنی عبارات کی روشنی میں ہم ایک محاکمانہ نظر ڈال چکے ہیں جس سے نہ صرف قضیہ کی اصل صورتِ حال سامنے آتی ہے، بلکہ یہ بھی کہ ابن رشد، غزالی کے ساتھ اپنی آویزش میں کتنی سادہ پوزیشن پر کھڑے ہیں اور کس طرح انہوں نے در اصل غزالی کا جواب لکھ کر غزالی ہی کے مقدمہ کو مضبوط کیا ہے۔ غزالی کے موقف اور منہج کی علمی ومتونی تحقیق کا فریضہ ہم نے اس مضمون میں انجام دیا تھا اور یہاں ہمیں غزالی کے حوالہ سے ترقی پسندوں کے واویلے کے کچھ تاریخی پہلؤوں پر روشنی ڈالنی ہے۔
لبرلز کی زبان پر عموماً جب غزالی اور ابن رشد کا تقابلی تذکرہ آتا ہے تو غزالی کا نام اسلامیت کا حوالہ بن کر اور ابن رشد کا نام دینی انحراف کا حوالہ بن کر آتاہے۔ ابن رشد کے نام کو کسی اور نے نہیں، خود اس کے اپنے شیدائیوں نے اباحیت اور دینی انحراف کا استعارہ بنادیا ہے۔ اس کی ایک معمولی سی مثال عالم عرب میں جدیدیت کو فروغ دینے کے لیے سرگرم مؤسسۃ ابن رشد للفکر الحر (من اجل الحریۃ والدیمقراطیۃ وحقوق الانسان فی العالم العربی)ہے جس کی طرف سے ہر سال برلن (جرمنی) کی سالانہ تقریب میں عالم عرب کے اندر اباحیت اور جدیدیت کے لیے سرگرم کسی نمایاں شخصیت یا ادارہ کو جائزہ ابن رشد کے نام سے انعام سے نوازا جاتا رہا ہے جو اپنے حلقوں میں کافی باوقعت سمجھا جاتا ہے۔ اسی برلن میں ایک کنیسہ کے ساتھ قائم مسجد ابن رشد کو دیکھ لیجیے جہاں خاتون امامت کراتی ہے اور کسی نقاب بلکہ سر ڈھانپنے والی عورت کا داخلہ وہاں ممنوع ہے۔ الحاد وجدیدیت کے متاثرین ایسا نہیں کہ ابن رشد کے فرسودہ فلسفیانہ افکار سے اتفاق رکھتے ہوں اور اسی وجہ اس کی تعظیم کرتے ہوں، بلکہ جیسا کہ ایک سلفی عالم شیخ صالح المنجد نے لکھا ہے، اس کا سبب وحید اس کے دینی انحرافات ہیں۔ وہ اس کی کسی فکر سے نہیں، محض اس کے دینی انحراف سے متاثرہیں۔ 
شیخ صالح نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے نہایت عمدہ انداز میں غزالی اور ابن رشد کے قضیہ پر وشنی ڈالی ہے، اس قضیہ کی بابت شیخ ابنِ تیمیہ کا قول نقل کیا ہے کہ کس طرح اس میں ابن رشد کم زور پوزیشن پر کھڑا ہوتا ہے اور حق اس میں عموماً غزالی ہی کے ساتھ ہوتا ہے، نیز اباحیت پسند لبرلز کے ہاں اس کی تعظیم کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے کہ ابن رشد باوجود اپنے فکری انحرافات کے عملی شریعت کی تعطیل میں اس حد تک پہنچا ہوا نہیں تھا جس حد تک اس کے شیدائی پہنچے ہوئے ہیں، جبکہ اس کے فلسفیانہ افکار بھی عرصہ ہوا خود فلسفہ ہی کی دنیا میں اپنی علمی وقعت کھو چکے ہیں اور خود لبرلز بھی ان میں کوئی خاص کشش نہیں پاتے، لیکن اس کے باوجود اگر لبرلز نے ابن رشد کی تعظیم کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے تو اس کا سبب وحید اس کے دینی انحرافات ہیں اور بس، خواہ وہ خود بھی اس کے افکار سے من وعن اتفاق نہ رکھتے ہوں۔ غزالی اور ابن رشد کے اس قضیہ میں در اصل ہمارا مقصود محض غزالی ہی کی وکالت نہیں، بلکہ اسلامیت کی وکالت کرنا اور اسی کا دفاع کرنامطلوب ہے۔
"ترقی پسندوں" کی طرف سے دانستہ یا نادانستہ طور پر نہ صرف یہ کہ غزالی کے موقف کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے، بلکہ ایک اور دعویٰ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ مسلم زوال کے ذمہ دار بھی غزالی ہیں اورفلسفہ پر ان کی تنقید سے ہی عالم اسلام پہلے علمی اور بعد ازاں سیاسی زوال کا شکار ہوگیا جس کا یہ تسلسل ہے کہ آج عالم اسلام کو ذلت کے یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ عالم اسلام غزالی کی بجائے ابن رشد کے ساتھ اپنا رشتہ استوارکرے، اس سے اس کے ایامِ بہار پھر سے لوٹ آئیں گے۔ عالم اسلام کے ان بہی خواہوں کے بقول آٹھویں تا بارھویں صدی عیسوی کا دور جو مسلمانوں کی علمی وعقلی ترقی کا دورِ عروج تھا، گیارہویں صدی عیسوی میں ہونے والی غزالی کی تنقید سے ہی زوال پذیر ہوگیا۔ مسلم معاشرہ میں علم وعقل اور فلسفہ وسائنس کے زوال کا آغاز شروع ہوا اور چونکہ سیاسی ومعاشرتی عروج واستحکام لازمی طور پر علمی وعقلی سرگرمیوں سے مشروط ہیں، اس لیے علمی وعقلی سرگرمیوں کے انحطاط کے ساتھ مسلمان کلی طور پر زوال وانحطاط کا شکار ہوتے چلے گئے۔ یوں گویا جب تک مسلم معاشرہ "تلقین غزالی" کا شکار نہیں ہوا تھا، تب تک وہ علمی وعقلی اعتبار سے بھی عہد عروج میں تھا اور اقوامِ عالم کی قیادت کے مقام پر بھی فائز تھا، بعد ازاں جب تلقین غزالی کو اس نے اپنے سینہ سے لگایا تو علمی وعقلی اعتبار سے انحطاط کا شکار ہوگیا اور دنیاوی وجاہت اور وقار سے بھی محروم ہوگیا۔
جسٹس امیر علی نے اپنی کتاب "روحِ اسلام" میں برابر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 
"غزالی سائنس کے تمام انکشافات کو اور ریاضی وہیئت کے تمام نتائج کو قبول کرتے تھے" ۔
اور یہ سچ ہے کہ غزالی کی کتابوں سے معمولی سی ممارست رکھنے والا کوئی شخص بھی انہیں اس کے برخلاف کسی ایسے مسخ شدہ موقف سے متہم نہیں کرسکتا جس میں تمام عقلی اور سائنسی علوم کو بیک جنبش مسترد کر دیا گیا ہو۔ نیز بقول امیر علی کے غزالی سلطان سنجر کے وزیر اور نظام الملک کے بیٹے فخر الملک کے نہایت قریبی دوستوں میں سے تھے اور بغداد کو انہوں نے تب ہی چھوڑا تھا کہ جب فخر الملک کو قتل کردیا گیا۔ جبکہ سلطان سنجر کے زمانہ میں علمی وعقلی سرگرمیاں اتنے عروج پر تھیں کہ انہیں مامون کے دور پر قیاس کیا جاتا ہے جس کی تاریخی تفصیل آئندہ سطور میں مذکور ہوگی، ان شاء اللہ! 
تاہم یہی امیر علی چونکہ انگریزی لٹریچر کے خوشہ چین ہیں، خود اسلامی تاریخ کو بھی انگریزی تراجم کے ذریعہ سمجھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور انگریز مصنفین کے علمی رعب کا شکار ہیں، اس لیے وہ غزالی کے بارہ میں اعترافِ حقیقت کے باوجود خود کو غزالی کے بارہ میں مسخ شدہ موقف کے اثر سے محفوظ نہیں رکھ سکے اور اس کی رو میں بہتے ہوئے وہ یہ تک بھول گئے ہیں کہ کہیں وہ تضاد بیانی کا شکار تو نہیں ہو رہے۔ چنانچہ اسی "روحِ اسلام" کے اندر اعترافِ حقیقت کے باوجود بڑی سادگی کے ساتھ غزالی کے بارہ میں ایک انگریز کا ایسا اقتباس بھی بلانکیر نقل کرتے ہیں جو علمی وعقلی افلاس میں اپنی مثال آپ ہے۔ لکھا ہے کہ 
"البیرونی کی انڈیکا کا مشہور ومعروف مترجم ڈاکٹر شاشو لکھتا ہے: اگر عربوں میں اشعری اور غزالی پیدا نہ ہوتے تو عرب قوم کا ہر فرد گلیلیو اور نیوٹن ہوتا۔" 
ڈاکٹر شاشو کا یہ اقتباس ایک بار نقل کرنے کے بعد ان کا جی نہیں بھرا تو اسی کتاب میں چند ہی صفحات کے بعد ایک بار پھر یہی اقتباس نقل کرتے ہیں اور اسے نہایت عمدہ تبصرہ قرار دیتے ہوئے مزید اضافہ کرتے ہیں کہ 
"یہ دونوں بزرگ سائنس اور فلسفہ کی مذمت کرکے اور اس پر زور دے کر کہ دینیات اور فقہ کے علاوہ کوئی علم قابلِ تحصیل نہیں، اسلامی دنیا کی ترقی کو مسدود کرنے میں سبقت لے گئے۔ ان کی مثال آج تک جہالت اور ذہنی جمود کے جواز میں پیش کی جاتی ہے۔" 
کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ غزالی یا اشعری کے بارہ میں ایسے بے وقعت تبصرے کوئی ان کو واقعتا پڑھنے کے بعد کر رہا ہے؟ لیکن الحاد اور جدیدیت کے متاثرین کا المیہ یہ ہے کہ وہ اس رائے کو کئی دہائیوں سے بڑے طمطراق کے ساتھ دہرائے چلے جارہے ہیں جس کا سرے سے کوئی سر پیر نہیں اور جس کا کوئی ایک بھی ثبوت خود غزالی کی عبارات سے پیش نہیں کیا جاسکتا۔ کاش ہمارے روشن خیال مفکر انگریز مصنفین کے علمی رعب کے اثر سے آزاد ہوپاتے تو ان کے بعض انتہائی احمقانہ بیانات پر ناقدانہ نظر ڈالنے کے قابل ہوپاتے۔
غزالی کو مسلم زوال کا ذمہ دار ٹھہرانا ہماری نظر میں کم وبیش ایسا ہی ہے جیسے ایک امریکی فاضل کے بقول مسلمانوں کے زوال کا آغاز تب ہوا تھا جب انہوں نے پندرہویں صدی میں شراب کو چھوڑ کر قہوہ پینا شروع کردیا تھا یا ایک اور مغربی نابغہ کے بقول مسلمانوں کے افلاس کا سبب ان کا سود سے کنارہ کشی کرنا ہے۔ مسلمانوں کے یہ بہی خواہ بجا طور پر اس لائق ہیں کہ ان کے اس عقلی افلاس اور ذہنی دیوالیہ پن پر ان کے ساتھ تہہ دل سے اظہارِ افسوس اور اظہارِ ہم دردی کیا جائے۔ یقیناًخواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے اس لیے اگر کوئی خواب دیکھنا چاہتا ہے تو ہم اس کو روک نہیں سکتے، مگر ہم نہایت معذرت کے ساتھ عرض کریں گے کہ زوالِ امت کے بارہ میں واقعات کی یہ تمام تر نقشہ کشی ناقص اور ادھوری ہے۔ غزالی کو فلسفہ کے تمام اجزاء کا ناقد ٹھہرانے کی جو حقیقت ہے، وہ بالتفصیل بیان ہو چکی ہے۔اس لیے اگر مسلم معاشرہ مفید انسانی علوم کی تحقیق وترقی کے اعتبار سے کسی وقت انحطاط پذیر ہوا تو اس کے اسباب خواہ کچھ بھی رہے ہوں، مگر امام غزالی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا محض ایک من پسند خواب دیکھنے یا دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ امام غزالی نے جب مفید انسانی علوم پر کوئی تنقید سرے سے کی ہی نہیں، الٹا ایسا کرنے والوں کو موردِ تنقید بنایا تو اس حوالہ سے مسلم معاشرہ میں پیدا ہونے والے انحطاط کو بہرحال ان کے سر ڈالنا بالکل بلاجواز اور خود فریبی کے مترادف ہے۔ جبکہ اگر تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تو وہ بھی واقعات کی ایک بالکل الگ تصویر پیش کرتے ہیں اور غزالی کے رقیبوں اور حریفوں کے پروپیگنڈے کی کوئی تصدیق وہاں سے بھی نہیں ہوتی۔ ہم یہاں غزالی کے حوالہ سے یہی تاریخی حقائق آپ کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ 
تاریخی حقائق کی رو سے اول تو آٹھ تا بارہویں صدی عیسوی کو مسلمانوں کے عروج کا قابلِ رشک دور قرار دینا ہی محل نظر ہے۔ بے شک وہ دور بعد کے ادوار سے تو بہتر تھا ہی اور یہ ہونا بھی تھا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زمانہ جس قدر بعد کی طرف جائے گا، اس میں شر اور فساد بڑھتا ہی جائے گا۔ نیز یہ بھی سچ ہے کہ اس دور میں علمی وعقلی نوعیت کی سرگرمیاں مسلمانوں میں عروج پر تھیں۔ مگر محض اس بنیاد پر اس دور کو ہر اعتبار سے ایک قابلِ رشک دور قرار دینا درست نہیں ہے۔ نیز یہ تاثر دینا کہ جب آٹھویں تا بارہویں صدی عیسوی کے آخر میں مسلم معاشرہ علمی وعقلی سرگرمیوں کے اعتبار سے انحطاط کا شکار ہوا تو اس کے بعد ہی ان کی سیاسی تنزلی بھی شروع ہوئی، اس دور کی نہایت ادھوری تصویر ہے اور اس میں بہت سے تاریخی حقائق سے سہواً یا عمداً غماض کیا جاتا ہے۔
پھر غزالی کی سیرت کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ غزالی نے اگر عملی اعتبار سے مسلمانوں کے سیاسی عروج وزوال میں کوئی کردار ادا کیا بھی تھا تو وہ مسلم معاشرہ، سلطنت اور ریاست کے بقاء واستحکام اور ارتقاء پر منتج ہوا تھا، نہ کہ زوال وانحطاط پر۔ تاریخی حقائق کے مطابق مسلمانوں کے علمی وعقلی عروج کا زمانہ بعض دوسرے پہلوؤں کی وجہ سے صرف قابل رشک نہیں، بلکہ اس میں مسلمان اجتماعی سطح پر کچھ مسائل اور پریشانیوں کا سامنا بھی کر رہے تھے، امام غزالی نے ان امور کی اصلاح کے لیے حصہ ڈالا اور انہی کی برکت سے مسلمانوں کو تمدنی اور سیاسی سطح پر بھی اس کا بیش بہا فائدہ ہوا۔ اس حوالہ سے ہم نے چند دیگر حوالوں کے ساتھ ساتھ خاص طور پر اندلس کی تاریخ کے ایک دو اوراق کا انتخاب کیا ہے۔ میری مراد وہی اندلس ہے جو مسلمانوں کے علمی، عقلی اور سائنسی عروج کی تاریخ میں سب سے زیادہ قابل ذکر کہلاتا ہے اور مسلمانوں کی علمی وصنعتی سرگرمیوں کا عہد یادگار اس سے وابستہ ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں، مگر اس سے پہلے ایک نظر چند تمہیدی متعلقات پر ڈالتے ہیں۔

مسلم سلاطین کی "علم دوستی" کے قابل مذمت پہلو 

اور شعوبیتِ جدیدہ کے رد عمل میں ان سے برتا گیا اغماض

ایک خاص عہد، خصوصاً آٹھویں تا بارہویں صدی عیسوی کے مسلم سلاطین کی شہرہ آفاق علمی وعقلی سرگرمیوں کے بارہ میں ہم سب نے یقیناًکافی کچھ سن رکھا ہے، مگر کیا ہم جانتے ہیں کہ ان سرگرمیوں کے کچھ منفی پہلو بھی تھے، جو مسلم سلاطین کی طرف سے نظر انداز کیے گئے جن کی وجہ سے مسلمانوں کی مین اسٹریم اور صالح دینی قیادت کو ان سرگرمیوں پر تحفظات تھے اور مسلم مؤرخین نے بھی ان سرگرمیوں کو کچھ زیادہ تحسین آمیز انداز میں نقل نہیں کیا؟ اگر نہیں تو پھر آئیے جان لیجئے۔
نو آبادیاتی عہد کے پس وپیش زمانہ میں مغرب کے شعوبی ناقدین کی طرف سے اسلام اور اسلامی عرب پر یہ اعتراضات کیے گئے کہ وہ تمدن مخالف ہیں اور تہذیب وتمدن نے ان کی تاریخ میں کبھی بھی نشو ونما نہیں پائی۔ اس کے جواب میں اسی عہد کے اندر بعض مسلم قلم کار میدان میں آئے اور مختلف زبانوں میں ایک جوابی لٹریچر تیار کیا جس میں ثابت کیا گیا کہ اسلام اور اسلامی عرب پر شعوبیت کے جدید مغربی فرزندوں کا اعتراض درست نہیں ہے۔ اس جوابی رد عمل کے جوش میں ان قلم کاروں سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے اسلامی تاریخ کو تمدن دوستی کے مغربی مفہوم اور معیار پر منطبق کرنے کے لیے مواد تلاش کیا، اس سلسلہ میں انہیں سب سے زیادہ مواد انہی سلاطین کی تاریخ میں میسر آیا جن کی مخصوص علمی وعقلی سرگرمیوں پر خود انہی کے زمانہ میں مسلم معاشرہ کے اندر ایک طرح کا اضطراب پایا جاتا تھا۔ یوں ان کی سرگرمیوں کو مسلمانوں کی علم دوستی کا حوالہ بنادیا گیا۔
ہمیں جاننا چاہئے کہ مسلمانوں کی اصل تاریخ ہارون ومامون کے زمانہ سے شروع نہیں ہوتی اور نہ ہی غیر اقوام کے علوم وتجربات سے استفادہ کا سلسلہ اس دور میں شروع ہوا۔ ان کی تاریخ کا اصل قابل تقلید اور قابل رشک عہد وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا عہد ہے۔ مسلمان اس عہد میں بھی غیر اقوام کے مفید تجربات اور عقلیات سے فائدہ اٹھاتے رہے، جس کی ایک سے زیادہ مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ بعد میں اموی اور خصوصا عباسی خلفاء بھی اگر غیر اقوام کے علوم وفنون سے استفادہ کرنے میں اس حد تک محدود رہتے تو یقیناًان کے اس کردار پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ حادثہ یہ ہوا کہ بعد کے مسلم خلفاء نے کتاب پرستی کو خود ایک آرٹ بنالیا، غیر اقوام کی دیمک زدہ کتابوں کو اور اپنی موت آپ مرجانے والے فلسفوں کو سونا اور چاندی میں تول تول کر برآمد کرتے رہے، ان فلسفوں کے ساتھ اسلام کے تخیلاتی تقابلی مطالعے شروع کروائے اور اس سلسلہ میں حلال وحرام کی تمیز بھی بھول گئے۔ موسیقی، تصویر سازی اور طلسمیات جیسے خالص غیر اسلامی آرٹس بھی طب وطبابت کی طرح ان کی دلچسپی کا محور تھے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ سب اسلام کے تصورِ علم اور آدابِ علم سے سراسر انحراف تھا اور مسلمانوں کو اس کی قیمت چکانی پڑی۔
شعوبیت جدیدہ کے اعتراضات کا زور گھٹانے کے لیے ہمارے مصنفین نے جن سرگرمیوں کا سہارا لیا، کیا ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں شعوبیت قدیمہ نے در اصل انہی سرگرمیوں کے نتیجہ میں نشو ونما پائی تھی؟ شعوبیت ایک تحریک تھی جس کی ابتداء عربوں پر عجموں کو فضیلت دینے کے نکتہء نظر سے ہوئی تھی، مگر بعد ازاں اس نے عرب دشمنی اور فتنہ ارتداد کی شکل اختیار کرلی تھی، یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا موقع تو نہیں، البتہ اتنا ضرور عرض کرنا ہے کہ مسلمانوں میں اس شعوبیت اور عرب دشمنی نے خصوصاً عباسی خلفاء کی "علم دوست" سرگرمیوں کے نتیجہ میں ہی راہ پائی تھی۔ جدید دور میں مغربی مصنفین کے ایک متعصب گروہ کی طرف سے عرب سرزمین، اس کی تہذیب وثقافت اور اس کی آب وہوا تک کو موردِ اعتراض بنانا در اصل اسی شعوبیت کا ہی دوسرا جنم تھا۔ اگر اب اس شعوبیت جدیدہ کے اعتراضات کا زور گھٹانے کے لیے انہی سرگرمیوں کا حوالہ پیش کیا جائے جو کسی دور میں مسلمانوں کے اندر شعوبیت قدیمہ کے نمو پانے کا سبب بنی تھیں تو یہ کتنی عجیب بات ہے!
چنانچہ ہمارے دور میں ان سلاطین کی علمی تابناکیوں کا غوغا اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک دور میں مسلمان بادشاہوں نے یونانی، فارسی اوررومی فلسفوں کو درآمد کرنے کے بعد مسلمانوں کی علمی وعقلی کاوشوں کو جو رخ دیا تھا اور ان سلاطین کی تہذیبی وتمدنی خدمات نے مسلم معاشرہ میں جو جو فساد اور انتشار پیدا کیا تھا، اس کے تناظر میں صالح مسلمانوں کی "مین اسٹریم" نے کبھی بھی اپنے سلاطین کی ان سرگرمیوں کو بنظر تحسین نہیں دیکھا، مسلم معاشرہ میں مرجعیت رکھنے والے علماء اور شرفاء ان کی اِن سرگرمیوں پر مضطرب تھے اور یہ تاثر صرف اس دور تک محدود نہیں رہا، ان سرگرمیوں کی تاریخ، ان کے دیر پا مضرات اور ان کے نتائج وقبائح کو دیکھتے ہوئے ہر دور میں دینی وابستگی رکھنے والے مسلمان اہل علم اور مسلم معاشرہ کا مجموعی تاثر اْس دور کے موروثی سلاطین کی اِن سرگرمیوں کے بارہ میں یہی رہا ہے۔ چنانچہ مامون جو ان سرگرمیوں میں سر نوشت کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے بارہ میں شیخ ابن تیمیہ کا ایک قول قابل ذکر ہے جس سے ان سرگرمیوں کے بارہ میں روایتی مذہبی حلقوں کے غم وغصہ کا کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے:
"میں نہیں سمجھتا کہ خدا تعالیٰ مامون سے غافل رہے گا،بلکہ ا س امت پر اس نے جو مصیبت نازل کی ہے، اس کا ضرور اس سے بدلہ لے گا۔" 
ہمارے پرانے اسلامی لٹریچر میں ان سرگرمیوں کی شاید ہی کسی نے تحسین کی ہو، جبکہ جدید لٹریچر میں سے اگر اردو لٹریچر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی بہرحال ایسے مصنفین ملتے ہیں جو ان سلاطین کی غیر صالح سرگرمیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب "تاریخ دعوت وعزیمت" کی جلد اول اور دوم قابل ملاحظہ ہیں۔، جبکہ اردو کے عمومی لکھاریوں کی روش اس باب میں جو اب اس نہج سے ہٹی ہوئی نظر آتی ہے، اس کی ابتداء ہمارے ہاں خصوصاً علامہ شبلی کے ذریعہ سے ہوئی۔ علامہ شبلی نے مسلم سلاطین کے ان کاموں کو بلاتمیز کارناموں کی حیثیت سے اپنی تحریروں میں بیان کیا، یہ سلسلہ اگر جینوئن اور مفید علوم کے حوالہ سے ان کی خدمات کی حد تک محدود رہتا تو قابل فہم ہوتا، مگر جیسے ان سلاطین کی آزاد روی نے جاہلی آرٹس تک کی تمیز روا نہ رکھی، اسی طرح علامہ شبلی بھی ان کی سرگرمیوں کے نتائج وعواقب اور قبائح کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی ان سرگرمیوں کو بالعموم صرف کارناموں کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ سید مودودی اس پر تنقید کرتے ہوئے اور ان سرگرمیوں سے مسلم معاشرہ میں پیدا ہونے والے مفاسد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"یونان اور عجم کے فلسفہ اور علوم وآداب نے اس سوسائٹی میں راہ پائی جو اسلام کی طرف منسوب تھی اور اس لٹریچر کے اثر سے مسلمانوں میں "کلامیات" کی بحثیں شروع ہوگئیں، اعتزال کا مسلک نکلا، زندقہ اور الحاد پَر پرزے نکالنے لگا اور عقائد کی موشگافیوں نے نئے نئے فرقے پیدا کردیے۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ رقص، موسیقی اور تصویر کشی جیسے خالص جاہلی آرٹ بھی از سرِ نو ان قوموں میں بار پانے لگے جن کو اسلام نے ان فتنوں سے بچا لیا تھا۔" 
اس پر ایک حاشیہ قائم کرتے ہوئے مزید رقم طراز ہیں:
"مولانا شبلی اور جسٹس امیر علی جیسے لوگوں نے ان بادشاہوں کے ان کارناموں کو اسلامی تہذیب وتمدن کی خدمات میں شمار کیا ہے۔" 
نیز شاہ معین الدین احمد ندوی جو خود شعوبیتِ جدیدہ کے بڑے ناقد ہیں، نے آج سے تقریبا ستر سال قبل بالکل صحیح لکھا تھا کہ 
"اس زمانہ میں مغربی تہذیب اور اس کی مادی ترقیوں کا ایسا رعب چھایا ہوا ہے کہ اس کے ناقد بھی اس کے مادی مظاہر کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیں اور یورپ کی تہذیب کو معیار اور اس کے تمدنی نظریوں کو مسلم مان کر اپنی تہذیب اور اپنے تمدنی نظریوں کو بھی اسی رنگ میں دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔" 
جدید عرب دشمن شعوبیوں کا یہ اعتراض درست نہیں ہے کہ اسلام یا اسلامی عرب تمدن مخالف تھے اور نہ ہی ان کے جواب میں ہمیں عباسی خلفاء کی سرگرمیوں سے اپنی تاریخ کا آغاز کرنے کی کوئی ضرورت ہے۔ اسلام کی تعلیمات وہی ہیں جو کہ قرآن وحدیث میں مذکور ہیں۔ اگر ان میں کوئی بات تمدن اور علم دوستی کے خلاف دکھائی جاسکتی ہے تو ضرور دکھائی جائے۔ فرزندانِ اسلام ہمیشہ سے تمدن دوست رہے ہیں، مگر اس حوالہ سے ان کا نکتہ نظر اپنا تھا، تمدن دوستی کا مغربی معیار ان کے پیش نظر قطعاً نہیں تھا اور نہ ہی اس حوالہ سے ہمیں صفائی دینے کی کوئی ضرورت ہے۔ اہل مغرب کا چونکہ اس حوالہ سے بہرحال ایک اپنا معیار ہے اور وہ اسی کو بنیاد بنا کر اسلامی تاریخ پہ اعتراض کرتے رہے ہیں کہ یہ تمدن دوست نہیں ہے تو ردِ عمل میں آکر ان کا جواب دینے والوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خلافت راشدہ سے بعد کے خلفاء کی ان علم دوست سرگرمیوں کو بیان کیا ہے جو دراصل دینی اعتبار سے ان کی سستی وکاہلی کا نتیجہ تھیں، جنہیں مسلم معاشرہ کی مین اسٹریم نے کبھی بہ نظر تحسین نہیں دیکھا اور جن کا مسلم معاشرہ کو فائدہ سے زیادہ نقصان ہوا۔ ان کو بیان کرنے سے مقصود یہ تھا کہ مغرب کے تمدن دشمنی کے اعتراض کا زور گھٹایا جاسکے۔ ان حضرات کی حسن نیت اپنی جگہ، مگر رد عمل میں ہونے کی وجہ سے یہ حضرات بھول جاتے ہیں کہ قرونِ اولی کے مسلمان بعد کے "علم دوست" خلفاء سے بہرحال زیادہ قابل تقلید اور زیادہ قابل رشک ہیں۔ 
ان کی نظر میں تمدن دوستی کے کسی الحادی تصور سے زیادہ خود اپنا دین ومذہب عزیز تھا۔ اسی دین کی برکت سے تو وہ خاک سے اٹھ کر آسمان تک پہنچے تھے، قیصر وکسریٰ ان کے گھوڑوں کی دھول بن گئے تھے اور انہیں جو کچھ بھی ملا تھا، اسی دین کی برکت سے ملا تھا جسے وہ وعلم وتمدن دوستی کے کسی ایسے تصور پر قربان نہیں کرسکتے تھے جو غیر اسلامی تصورِ زندگی کی کوکھ سے نکلا ہو۔ بعد کے خلفاء بد قسمتی سے اس معیار کے نہ تھے۔ گو کہ وہ بھی اتنے گئے گذرے نہ تھے جتنے آج کے مسلمان حکم ران، مگر بہرحال علم دوستی اور کتاب پروری کے جوش میں وہ اسلامی آداب وتعلیمات میں تساہل کے مرتکب ضرور ہوئے۔ مغربی ناقدوں کا جواب دینے والے مسلم مصنفین سے نوآبادیاتی دور کے پس وپیش زمانہ میں یہ غلطی ہوتی رہی ہے کہ جس طرح مسلم خلفاء علم دوستی کے جوش میں حلال وحرام اور مفید وغیر مفید کی تقسیم تک کو بھول گئے تھے، اسی طرح ان مذکور الصدر مصنفین نے بھی علم دوستی اور تمدن دوستی کے مظاہر بیان کرتے ہوئے ان کی ان سب سرگرمیوں کو بطورِ کارنامہ پیش کیا ہے اور اس کے لیے بہت زور لگایا ہے کہ مسلم ریاستوں کے ماضی کو مغربی تصورات کے مطابق تمدن دوست اور علم پرور ثابت کیا جاسکے، قطع نظر اس سے کہ وہ سرگرمیاں حلال بھی تھیں یا نہیں اور قطع نظر اس سے کہ یہ سرگرمیاں مسلم ریاست کو سیاسی اور معاشرتی حوالہ سے کس طرح عدمِ استحکام کا شکار کر رہی تھیں۔
علم دوستی کی رو میں بہہ کر اپنے اس دین کے آداب اور تقاضوں کو بھول جانا جو ان کے لیے دنیا میں وجاہت اور وقار کا سبب بنا تھا یا صرف اس علم دوستی کو کامیابی کی شہ کلید سمجھ لینا ہی ان سلاطین کی غلطی تھی۔ ان سرگرمیوں کے مضرات اور ان کے تدارک کے لیے علماء کی مساعی کی ایک پوری تاریخ ہے۔ ان کی نظر میں ان سرگرمیوں میں اگر افادیت کا کوئی پہلو تھا بھی تو مضرت کے وہ پہلو جو نظر انداز کیے جارہے تھے، وہ ان کی افادیت سے کہیں زیادہ تھے۔ 

علمی وعقلی عروج کے عہد میں سیاسی انحطاط کے چند پہلو

(آٹھ تا بارہویں صدی عیسوی کی اصل تصویر)
اس دور کے خلفاء اور امراء میں بہت سی خوبیاں بھی موجود تھیں اور ان سے انکار ممکن نہیں، مگر کتاب پرستی کو اور جاہلی آرٹس کی سرپرستی کو ان کی مطلق خوبی نہیں مانا جاسکتا۔ علم دوستی ایک اچھی خصلت ہے، لیکن انحطاط کا مفہوم اگر یہ ہے کہ کوئی قوم سیاسی طور پر غیر مستحکم ہوجائے، معاشرتی طور پر اس میں انتشار وفساد ہو، فرقہ بندیاں ہوں، اس قوم کے آباء نے جن صفات کے عامل وداعی ہوکر دنیا میں عزت وعروج اور ترقی کی منازل طے کی تھیں، اس قوم کے اربابِ بست وکشاد ان صفات کو اپنانے میں غفلت وتکاسل برتنا شروع کر دیں اور ریاست اپنے عروج کی اصل حقیقت اور علت کو ہی بھول جائے تو پھر جان لیجئے کہ انحطاط کا یہ مفہوم مسلم امت میں غزالی سے بہت پہلے وارد ہوچکا تھا۔ جس دور کو مسلم علمی وعقلی عروج کا دور کہا جاتا ہے، وہ سیاسی اور معاشرتی اعتبار سیان کے لیے نہایت زبوں حالی کا دور تھا اور غزالی کے بارہ میں تاریخی حقائق یہ ہیں کہ انہوں نے در اصل اس زبوں حالی کے تدارک کے لیے اپنا حصہ ڈالا تھا۔
ہم دوبارہ کہیں گے کہ مسلم سلاطین کے علم دوست رویوں میں دینی آداب کو ملحوظِ خاطر نہ رکھنے کا جو تساہل برتا گیا، اس کی وجہ سے ایک تو وہ مسلمانوں کے لیے دینی اعتبار سے تشویش وخدشات کا باعث بن رہے تھے، دوسرا چونکہ صرف علم دوستی کا رویہ ریاست اور معاشرت کی تمام ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا اس لیے علم دوستی کے باوصف جب دوسرے لوازمات میں سستی برتی گئی تو اس کا نقصان ریاست اور معاشرہ کو برداشت کرنا پڑا۔ چنانچہ ایک مسلمان کے لیے اول تو علم دوستی کا وہ مفہوم ہی قابل اعتبار نہیں جس میں اس کے دینی آداب اور تقاضوں کو نسیاً منسیاً کر دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ شہرہ آفاق علم پرور مسلم سلاطین کے علم دوستی کی رو میں بہہ کر دینی اعتبار سے مسلم معاشرہ کو انارکی کا شکار کردینے کی روش کو مسلمانوں کی مین اسٹریم نے کبھی بھی بنظر تحسین نہیں دیکھا، ان کی ان سرگرمیوں کو ان کی تمدن دوستی کے طور پر بلانکیر نقل کرنا ہمیں مسلمانوں کے اندر نوآبادیاتی عہد کے پس وپیش زمانہ سے قبل کہیں نظر نہیں آتا۔ دوسرا اس دور میں اگر فرض کر لیا جائے کہ مسلمان واقعی علمی، عقلی اور تمدنی اعتبار سے عروج پر تھے تو دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ بعینہ اسی دور میں وہ سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے سخت ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی تھے۔
علم دوستی ایک اچھی خصلت ہے، مگر صرف اس ایک خصلت کی وجہ سے کسی فرد،معاشرہ یا ریاست کی تمام کم زوریوں سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی محض علم دوستی اور کتاب پروری کے رویہ کو کسی قوم کی تمام ضرورتوں کا کفیل قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ بڑی دلچسپ داستان ہے کہ مسلمانوں نے جب انحطاط کا سفر شروع کیا تھا تو نہ تو اس وقت تک غزالی پیدا ہوئے تھے اور نہ ہی اس وقت مسلم سلاطین کے "علم دوست" رویوں میں کچھ کمی آئی تھی، بلکہ علم دوستی کے جدید مفہوم کی رو سے تو وہ سلاطین اپنے سابقین سے کچھ زیادہ ہی علم دوست تھے اور یہ علم دوستی ان میں برابر ترقی کر رہی تھی۔ علم دوستی ایک اچھی خصلت ہے، مگر کسی قوم کو اپنی سیاسی ومعاشرتی بقاء واستحکام کے لیے کچھ اور چیزوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ محض لائبریریوں کا کتابوں سے آباد ہونا کسی قوم کی عزت اور وجاہت کی ضمانت فراہم نہیں کرتا اور نہ ہی محض علم دوستی کے جدید مفہوم کو عروج وزوال کا واحد قطعی سبب قرار دیا جاسکتا ہے۔ خصوصاً خدا کی منتخب قوم کے لیے تو کوئی بھی مادی پیمانہ عروج وزوال کا قطعاً کوئی معیار نہیں ہے اور نہ ہی تاریخ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ہاں، اگر آداب کے ساتھ علم دوست رویے اختیار کیے جائیں اور صرف اسی پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے معاشرتی وسیاسی استحکام کے باقی اسباب کو اختیار کیا جائے تو اس میں بہرحال شرعی اعتبار سے کوئی حرج بھی نہیں ہے۔
مسلم سلاطین کی شہرہ آفاق علم دوستیوں کا پس منظر سامنے آجانے کے بعد بہتر ہے کہ اب ایک نظر اس دور میں مسلمانوں کے معاشرتی وسیاسی استحکام پر بھی ڈال لی جائے۔ یہ محض ایک تخیل ہے کہ جب تک مسلمان علمی وعقلی سرگرمیوں میں مگن تھے جو آٹھویں تا بارہویں صدی عیسوی کا عہد ہے تو سیاسی ومعاشرتی اعتبار سے بہت مستحکم تھے۔ ذیل میں ہم اس سلسلہ کے چند حالات وواقعات آپ کے سامنے رکھتے ہیں اور حالات وواقعات کے تجزیہ کی یہ ساری سعی اصل علمی مراجع کی بجائے عمداً اردو لٹریچر کے بعض ان نام ور مصنفین کی تحریروں کی روشنی میں کریں گے جو گویا آٹھویں تا بارہویں صدی عیسوی کی علمی وعقلی سرگرمیوں کا گویا دورِ جدید کے مسلمانوں میں احیاء چاہتے ہیں، مسلمانوں کو اپنے اِس ماضی سے رشتہ استوار کرنے کی پر زور دعوت دیتے ہیں اور اس عہد کی علمی سرگرمیوں کے قابل مذمت پہلوؤں کی برملا مذمت سے اغماض برتتے ہیں۔ نیز اس سلسلہ میں رو بہ زوال ایک بڑی مسلم ریاست کو آخری دموں میں سقوط سے بچالے جانے کے سلسلہ میں امام غزالی کا جو ناقابل فراموش کردار تھا، اس پر ہم قدرے روشنی ڈالیں گے۔ 
مسلمانوں کے مفروضہ علمی عروج کے عہد میں سے چوتھی صدی ہجری(بمطابق دسویں یا گیارہویں صدی عیسوی) مسلمانوں کی تاریخ میں بالعموم سائنسی اعتبار سے سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے‘ مگر ٹھیک اسی دور میں مسلمانوں کا سیاسی استحکام کس قدر زوال کا شکار تھا‘ مولانا عبدالسلام ندوی اس کی صحیح تصویر آپ کے سامنے رکھتے ہیں:
’’چوتھی صدی میں مسلمانوں کا زوال انتہائی درجہ کو پہنچ گاط تھااور ہر جگہ طوائف الملوکی پھیل گئی تھی‘ لیکن اسی کے ساتھ مسلمانوں کی عقلی زندگی نہایت ترقی یافتہ ہوگئی تھی اور تمام دنیا کی قوموں کے علوم وفنون اسلامی تمدن کا جزو ہوگئے تھے۔‘‘ 
مولانا عبد السلام ندوی کی مذکورہ بالا عبارت میں کافی اجمال ہے، ہم اس کی کچھ تفصیل آپ کے سامنے رکھتے ہیں اور صرف چوتھی صدی ہجری کی بجائے مسلم علمی عروج کے پورے مزعومہ اسلامی عہد پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ نویں صدی عیسوی (تیسری صدی ہجری) کے وسط میں عباسی خلافت کا زوال شروع ہوگیا تھا، مرکز کی کم زوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف صوبوں میں کئی خود مختار ریاستیں (طاہریہ، سامانیہ، صفاریہ، بویہ اور طولونیہ وغیرہ) قائم ہوگئیں۔ طوائف الملوکی کے اس دور کی تین بڑی اور قابل ذکر حکومتیں یہ ہیں: سامانیہ، بنی بویہ اور خلافتِ فاطمیہ۔ بوعلی سینا بنی سامانیہ کے عہد میں اور ابن مسکویہ بنی بویہ کے عہد میں پیدا ہوا۔ پھر دسویں صدی عیسوی میں سامانی حکومت کے اندر زوال آیا تو اس کی قلم رو میں میں شامل علاقہ مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگیا اور یہاں کئی خود مختار ریاستیں قائم ہوگئیں۔نویں صدی عیسوی کے وسط میں مرکزی خلافت کے ضعف سے شروع ہونے والا طوائف الملوکی کا دور تقریباً دو سو سال یعنی گیارہویں صدی عیسوی کے وسط تک محیط ہے۔
سلجوقی سردار طغرل کے ہاتھوں گیارہویں صدی عیسوی کے نصف اول میں اس طوائف الملوکی اور ضعف وافتراق کا کافی حد تک خاتمہ ہوا اور مسلمانوں کی ایک مضبوط ریاست قائم ہوئی جو سلطنت سلجوقیہ کہلاتی ہے۔ امام غزالی اسی دور میں پیدا ہوئے۔ مگر یہ سلطنت بھی تقریباً پچاس سال کے اندر اندر یعنی گیارہویں صدی عیسوی ہی کے نصف اخیر میں زوال کا شکار ہوئی تو کئی خود مختار حکومتیں قائم ہوگئیں۔ مسلمانوں کے داخلی ضعف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس دور میں صلیبی عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے۔ گیارہویں صدی عیسوی کے اخیر میں وہ بیت المقدس پر قابض ہوگئے اور فلسطین کے بڑے حصہ پر ان کی حکومت قائم ہوگئی۔ بارہویں صدی عیسوی ان صلیبی حملہ آوروں کے ساتھ نبرد آزمائی میں گذری، سلجوقی سلاطین کا پروردہ عماد الدین زنگی، اس کا بیٹا نور الدین زنگی اور بعد ازاں اس کا جانشین صلاح الدین ایوبی یکے بعد دیگرے صلیبیوں کے ساتھ ٹکراتے رہے اور بارہویں صدی عیسوی کے اخیر میں بیت المقدس کی فتح اور واپسی کے بعد پورپ بھر میں غیظ وغضب کی آگ بھڑک اٹھی۔ تقریباً سارا یورپ ملک شام پر اپنی پوری قوت کے ساتھ آتش وآہن اگلنے لگا۔ تاہم پانچ برس کی تھکا دینے والی جنگ کے بعد 1192ء میں فریقین کے درمیان صلح ہوئی اور بیت المقدس سمیت مسلمانوں کے تمام علاقے مسلمانوں ہی کے پاس رہنے پر اتفاق ہوا۔
سلجوقی سلطنت سے جدا ہونے والے حصوں میں ایک بڑا نام خوارزم شاہی سلطنت کا ہے، بارہویں صدی عیسوی کے اختتام پر اس حصہ پر تاتاری مسیحی حملہ آور ہوئے جو بغداد تک عالم اسلام کو روندتے چلے گئے اور اسی کے بعد بغداد کے آخری برائے نام خلیفہ مستعصم باللہ کے ساتھ بغداد کی عباسی خلافت کا نام ختم ہوگیا۔ کتب خانوں کو جلادیا گیا اور بیت الحکمت جل کر راکھ ہوگیا۔ تاہم مسلمانوں کی افواج اور کتابوں سے شکست نہ کھانے والے یہ تاتاری مسلمانوں کے دین کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ کعبہ کو صنم خانہ سے پاسباں مل گئے۔
یہ تھی مشرقی اسلامی دنیا کے علمی وعقلی عروج کے عہد میں مسلمانوں کے انحطاط وزوال کے اجمال کی تفصیل جس کی طرف مولانا عبد السلام ندوی نے اپنی عبارت میں اشارہ کیا ہے۔ ہمارا مدعا یہ نہیں کہ مسلمانوں کے لیے علم دوستی مضر چیز ہے۔ نہیں، بلکہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ محض علم دوستی اور کتاب پروری کا رویہ کسی ریاست کی تمام ضرورتوں کی کفالت کے لیے کافی نہیں ہے، چنانچہ علمی عروج کے مزعومہ عہد میں مسلمان حکم رانوں کی تمام تر علمی دوستی کے باوجود مسلم ریاستیں انحطاط کا شکار تھیں، اس وجہ سے ہم ان ادوار کو ہر لحاظ سے قابل رشک نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس مفروضہ سے اتفاق کرتے ہیں کہ علمی عروج کے اس عہد میں مسلمان کی سیاست ترقی اور استحکام کے معیار پر پورا اترتی تھی۔ عرب میں عجمی فلسفہ کی بنیاد مستحکم بنیادوں پر رکھنے کے لیے مسلمانوں کو ابتدا ہی میں جو قیمت چکانا پڑی، وہ کوئی معمولی قیمت نہ تھی۔ شبلی کے الفاظ ہیں:
’’منصور ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے عرب کے زور کوگھٹانے کے لیے عوما ں کا رسوخ بڑھایا اورتمام بڑے بڑے عہدے ان کے ہاتھ میں دیے‘ اگرچہ منصور کی یہ کارروائی پولیٹیکل حیثیت سے نہایت خراب تھی لیکن اس غلطی سے اتنا فائدہ ہوا کہ عرب میں فلسفہ کی بنارد قائم ہوئی اور آج مسلمانوں میں عقلی علوم کا جو کچھ رواج ہے، وہ اسی غلطی کی بدولت ہے۔‘‘ 
پھر کیا ہم جانتے ہیں کہ اسی فلسفہ کی بنیاد رکھے جانے بعد ہی خلافت عباسیہ کے عروج کے دور میں مسلمانوں میں شعوبیت (عرب دشمنی) اور الحاد وزندقہ کی تحریک پیدا ہوئی؟ سوال یہ ہے کہ جس فلسفہ کی بنیاد قائم کرنے اور اسے رواج دینے کے لیے ہمارا سیاسی استحکام داؤ پر لگا، ہمارے دین کے خلاف خود ہماری ہی غلطی کے بسبب ایک خواہ مخواہ کا انتشارکھڑا ہوا، ہم اس کو اپنی ترقی کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ہمارا منصب تو یہ تھا کہ ہم لوگوں کو اللہ کے دین کے معاملہ میں تقدیس کی تلقین کرتے اور انہیں اس معاملہ میں طفلانہ اور غیر ذمہ دارانہ بحث بازی سے باز رہنے کی تلقین کرتے، مگر ہم خود ہی اس کام کے نقیب بن گئے۔
کہا جاتا ہے کہ تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاریوں کے حملہ کے بعد مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہوا۔ کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ عالم اسلام پر تاتاریوں کے حملہ کو جس چیز نے کامیاب بنایا تھا، کیا وہ تاتاریوں کا علمی و وفنی ترقی میں مسلمانوں سے فائق ہونا تھا؟ ظاہر ہے کہ نہیں، کیونکہ اس وقت عالم اسلام علمی وفنی ترقی کے اعتبار سے تاتاریوں سے کہیں آگے تھا اور عالم اسلام پر غلبہ پانے کے بعد دجلہ وفرات کو مسلمانوں کی کتابوں کی سیاہی سے جنہوں نے سیاہ کیا تھا، وہ تاتاری ہی تھے۔ نیز کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ تیرہویں صدی میں تاتاریوں کے حملہ کے بعد اگر عالم اسلام میں علمی زوال شروع ہوا جو اب تک ختم نہیں ہورہا تو کیا عالم اسلام کا سیاسی اور مجموعی زوال بھی اسی وقت شروع ہوگیا تھا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ تاتاریوں کے حملہ کے بعد ایک وقتی اور عارضی زوال کے باوجود مسلمان ڈوبے نہیں، بلکہ ڈوبنے کے بعد ایک بار پھر ابھرے اور زبردست شان کے ساتھ ابھرے۔ مسلمانوں کا عروج اس کے بعد بھی تقریباً پانچ سو سال تک باقی رہا۔ مسلمانوں کا عہد عروج کسی بھی قوم کے عہد عروج سے زیادہ یعنی ایک ہزار سال پر محیط ہے جو 1700ء تک باقی رہا۔ اس کے بعد اگر مسلمانوں کی مغلوبیت شروع ہوئی تو بے شک اس کے ظاہری اسباب سے ایک ان کا مادی علوم کنارہ کشی اختیار کرنا بھی ہے، لیکن صرف یہی ایک سبب نہیں۔ مادی اسباب ووسائل کے بل بوتے پر حاصل ہونے والا غلبہ انہیں دنیا کا چودھری تو بنا سکتا ہے، مگر اللہ کا محبوب نہیں۔ جبکہ اللہ کی ناراضگی کے ساتھ حاصل ہونے والا غلبہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔ دفاع کے مادی اسباب مہیا رکھنا مسلمانوں کے دینی فرائض میں شامل ہے۔ اگر مسلمانوں نے اس سے پہلو تہی کی تو علم دوستی کی رو میں بہہ کر باقی سب تقاضے بھول جانے کی طرح یہ بھی ان کی دینی غلطی ہی تھی، جبکہ راہِ اعتدال ان کے درمیان تھی۔ مگر موجودہ دور میں انہیں اگر عزت اپنے صحیح مفہوم میں چاہئے تو اس کے لیے انہیں اپنے ایمان واعمال اور اللہ کے ساتھ قلبی تعلق کی کم زوری پر بھی توجہ دینا ہوگی، ورنہ مادہ پرست قوموں کی طرح محض مادی اسباب ووسائل کے بل بوتے پر حاصل ہونے والی عزت کسی کام کی نہیں۔
مشرقی اسلامی دنیا کی کہانی کے بعد ہم اس سلسلہ میں یہاں پر بطورِ خاص اندلس پر بھی روشنی ڈالیں گے۔ اندلس کا دور مسلمانوں کی علمی وعقلی ترقی کا یادگار ترین زمانہ ہے۔ مسلمانوں کی علمی وعقلی عروج کی تاریخ کا تذکرہ جب بھی آئے گا تو سب سے پہلے اندلس، غرناطہ اور قرطبہ کا ذکر ہوگا، مسلم علمی وعقلی عروج کے حوالہ سے اس خطہ کو بہت یادگار اور عہد ساز سمجھا جاتا ہے، مگر کیا ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے پہلا سقوط بھی اندلس میں ہوا اور وہ عیسائی جو فاتح بن کر یہاں وارد ہوئے، وہ در اصل ان علوم اور کتابوں میں مسلمانوں کے شاگرد تھے؟ مسلمانوں کی تاریخ میں سائنسی اور علم پروری کے اعتبار سے سب سے زیادہ تاب ناک اور قابل رشک دور اندلس کا تھا۔ غزالی کی ضرب کے بعد جب فلسفہ کا منحرف دبستان مشرق میں راہی عدم ہوا تو ابن باجہ، ابن طفیل اور ابن رشد جیسے لوگ بھی اندلس ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ اندلس کبھی عباسی خلافت کے زیر نگیں نہیں آسکا، بلکہ گیارہویں صدی عیسوی تک یہ امویوں کے پاس رہا۔ 1030ء تک یہاں قائم رہنے والا اموی خاندان کا دورِ حکومت سید قاسم محمود کے الفاظ میں:
’’اندلس کی تاریخ کا سب سے شان دار دور ہے اور اس دوران یہاں سائنسی ترقی پوری تیزی سے ہوئی اور کئی ممتاز سائنس دان پیدا ہوئے۔ ‘‘
مگر گیارہویں صدی عیسوی میں اموی خلافت کے سقوط کے بعد اسلامی اندلس طوائف الملوکی کا شکار ہوکر سات حصوں میں بٹ گیا۔ شبلی کے بقول چوتھی صدی ہجری (تقریباً دسویں یا گیارہویں صدی عیسوی جو اندلس میں اموی خلافت کے زوال کا آخری عہد ہے) میں عالم اسلام کا سب سے بڑا کتب خانہ اندلس کا تھا‘ جو اتنا بڑا تھا کہ ملک بھر کا ٹکسع اس کے مصارف کے لیے ناکافی تھا‘ سینکڑ وں گماشتے اطراف واکناف کے اضلاع میں اس کے لیے مقرر تھے کہ قدیم وجدید کتابیں بروقت فراہم کی جائیں‘ صرف اشعارو قصائد کی کتابیں اس میں اتنی تھیں کہ آٹھ سو اسی صفحات پر ان کی فہرست مشتمل تھی۔کتاب پروری کا یہ شوق اتنا عام تھا کہ صرف حکم ران نہیں‘ عام امراء بھی کتب خانے قائم کرتے تھے۔ قرطبہ میں اس کا عام دستور تھا اورامراء کے مابین اس کی بنیاد پر فخر ونمود ہوتی تھی۔ تفصیل شبلی کے مضمون "اسلامی کتب خانے" میں دیکھئے۔ لطف یہ ہوا کہ اموی خلافت کے سقوط کے بعد طوائف الملوکی کا شکار تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حکم ران بھی بلا کے علم دوست نکلے۔ سید قاسم محمود کے الفاظ میں:
’’علمی لحاظ سے ان حکومتوں نے بہت ترقی کی۔ بادشاہ بذاتِ خود حکمت ودانش اور علم وادب کا شغف رکھتے تھے۔ ‘‘
پھر یہ ہوا کہ طوائف الملوکی کا شکاراندلس محض ستر‘اسی سال کے اندر اندر ان علم دوست لیکن نااہل حکم رانوں کے ہاتھ سے بھی نکل کر دو حصے تو عیسائیوں کے پاس جاتا رہا، جبکہ باقی ماندہ حصہ سے باقاعدہ عیسائیوں کو جزیہ جاتا تھا۔ تاہم پھر اس حصہ میں تبدیلی کی ایک ہوا چلی، اس حصہ میں طوائف الملوکی کے دور کا خاتمہ ہوا، نہایت مضبوط حکومتیں قائم ہوئیں جنہوں نے صلیبیوں نے کے ساتھ آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کی۔ یوں یہ علاقہ جو گیارہویں صدی عیسوی میں ہی آخری دموں کے اندر پڑا تھا، مزید تقریباً ساڑھے تین سو سال تک کے لیے صلیبیوں کے ہاتھ لگنے سے بچ گیا اور ظاہری اسباب کے تحت گویا اس کا کلی سقوط 1492ء تک کے لیے مؤخر ہوگیا۔ حالات کی اس خوش کن اور غیر متوقع تبدیلی کے اسباب کیا تھے، آئیے غور کرتے ہیں۔
(جاری)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کانظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۱)

مولانا عبید اختر رحمانی

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (ولادت4/شوال 1114ہجری، وفات 29/محرم 1176 ہجری) کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ آپ نے اصلاح وتجدید کا مشعل روشن کرکے برصغیر کے مسلمانوں کے دل میں ایمان وعمل کی نئی جوت جگائی۔ جب سلطنت مغلیہ کا آفتاب لب بام تھااور مسلمانوں کی پستی وانحطاط نوشتہ دیوار نظرآرہی تھی، ایسے نازک حالات میںآپ نے برصغیر کے مسلمانوں کومایوسی کے اندھیارے میں امید کی نئی کرن دکھائی اور یہاں کے مسلمانو ں کو قرآن وحدیث کے آب حیات وچشمہ زلال سے سیراب کیا ۔ جن اختلافی مسائل پر معرکے گرم تھے،ان میں عالمانہ اورغیرجانبدارانہ نقطہ نظرپیش کیا،فقہی تنگ نظری کو ختم کرکے تمام ائمہ فقہ کے احترام کی دعوت دی اوراپنے مسلک پر تنقیدی نگاہ ڈالنے اورمخالف کے نقطہ نظر پر غیرجانبداری سے غور کرنے کی تاکید کی۔

تنقیدی نگاہ کی ضرورت

یہ حقیقت ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکار وخیالات پر کام ہواہے،ان کی شخصیت پر کام ہواہے، ان کی تعریف وتوصیف پر مشتمل کتابیں لکھی گئی ہیں، ان کے قرآنی،حدیثی اورفقہی خیالات کو نقل کیاگیاہے ؛لیکن حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے افکار وآراء پر تنقیدی نظربہت کم کسی نے ڈالی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہندوستان برصغیرکی ان گنی چنی شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے پچھلوں کے افکار وخیالات پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے، روش عام کو قبول نہ کرکے اپنانیاراستہ نکالاہے،علم وتحقیق کی وادی میں آبلہ پائی کی ہے اور نشاندہی کی ہے کہ کس نے موتیوں سے دامن بھرے اورکس کے حصے میں خرف ریزے آئے۔ حضرت محدث دہلوی نے اہل علم کے لیے اجتہاد کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ اس کو ضروری قراردیتے ہوئے پچھلوں کے افکار وخیالات کا کتاب وسنت کی روشنی میں جائزہ لینے کی ترغیب دی ہے اورکسی حدتک اس پر خود بھی عمل کیاہے۔(۱)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے اس طرزعمل کی روشنی میں ہمارے لئے بھی ضروری ہوجاتاہے کہ ہم بھی ان کے افکار وخیالات کو علم وتحقیق کی میزان پر تولیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ان کا مقام بڑااوربلند ہے؛لیکن جب حضرت شاہ ولی اللہ اپنے سے بڑوں لوگوں کے افکار وخیالات پر علم وتحقیق کی روشنی میں تنقید کرسکتے ہیں تو یہ حق ان کے چھوٹوں کوبھی ملناچاہیے کہ وہ بھی اپنے علم وتحقیق کی روشنی میں ان کے افکار وخیالات کاجائزہ لیں؛کیونکہ تنقید اورتحقیق سے ہی کاروان علم رواں دواں ہے او رآسمان علم میں فکرونظر کے اختلاف اوراختلاف آرا کی ضیاپاشیوں سے ہی اجالاہے،مختصر
گلہائے رنگارنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
تنقید اورتحقیق سے ہی پچھلوں کی غلطیاں سامنے آتی ہیں اور اگلوں کے لیے محفوظ سفر کا راستہ تیار ہوتاہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جس شخصیت پر ہم قلم اٹھائیں، اس کا پورااحترام کریں، تنقید ہو،تنقیص نہ ہو،اپنی بات سلیقے سے کہی جائے، کہیں سے بھی ایسانہ لگے کہ مضمون نگار یا محقق نے زیر بحث شخصیت کے وقار کے خلاف کوئی بات کہی ہے،اگرکسی انتہائی غلط بات پر سخت الفاظ میں تنقید بھی کرنی ہو توبھی مناسب تعبیر کا خیال ضروری ہے کیونکہ بقول کلیم عاجزمرحوم
بات گرچہ بے سلیقہ ہوکلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے

اہل الرائے اوراہل الحدیث کا تعین

فقہی اختلاف اورتاریخ وتراجم پر لکھی گئی کسی بھی کتاب کو اٹھاکردیکھئے،اس میں دوطبقے ضرور ملیں گے، اہل الحدیث اوراہل الرائے، چاہے مسلک کا ذکر ہو ، یاشخصیات کا ،ہرجگہ آپ یہ لکھاپائیں گے کہ فلاں اہل حدیث میں سے تھا اورفلاں اہل الرائے میں سے تھا۔
رہایہ امر کہ اہل حدیث کون ہے اور اہل الرائے کون ہے؟ یہ بحث جتنی اہم تھی،عمومی طورپر اس سے اتنی ہی غفلت برتی گئی ہے اوراس کو اتنی ہی بے توجہی کے ساتھ نظراندازکیاگیاہے۔ ماضی کے بیشتر علماء اورمورخین نے عمومی طور پر اس بھاری پتھرکواٹھانے کے بجائے محض چوم کر چھوڑدیاہے اور اہل الرائے اوراہل الحدیث کی تقسیم اورمعیار کے ضمن میں کوئی فیصلہ کن بات کہنے سے قاصر رہے۔
دکتور عبدالمجید اس ضمن میں لکھتے ہیں:
واذا استثنینا قلیلا من المحققین الذین وقفوا عند ھذہ العبارۃ محاولین الرجوع بھا الی اصل اطلاقھا ومسمی اھلھا فان الکثرۃ الغالبۃ من المورخین کانوا یذکرونھا نقلا عمن سبقھم وتقلیدا لھم دون عنایۃ بمعرفۃ حقیقۃ ھذا الاطلاق ودون ادراک لعامل الزمن فی تطویرہ لھذا المصطلح بما یجعل اطلاقہ غیر متساو تماما فی عصرین مختلفین (الاتجاہات الفقہیۃ عند اصحاب الحدیث فی القرن الثالث الہجری، الناشر: مکتبۃ الخانجی، مصر. 1399 ھ ۔ 1979 م)
’’اوراگرہم ان تھوڑے سے محققین کو مستثنیٰ کردیں جنہوں نے اس عبارت پر ٹھہر کر غوروفکر کیا اور اس کے اطلاق کی اصل تک پہنچنے کی کوشش کی اور اس کے مصداق کو معلوم کرنے کی جدوجہد کی تو اکثریت ایسے مورخین کی ہے جواسے اپنے سے ماقبل کے مورخین سے ان کی تقلید کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں، نہ وہ اس لفظ کے اطلاق کی معرفت رکھتے ہیں نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اس لفظ میں زمانی اعتبار سے کیاتبدیلیاں اور تغیرات واقع ہوئی ہیں جس کی وجہ سے دو مختلف زمانوں میں اس کا اطلاق ایک دوسرے سے بالکل الگ ہو جاتا ہے۔‘‘
الملل والنحل کے مولف عبدالکریم الشہرستانی(متوفی548)نے سیدھی سادھی تقسیم یہ کی ہے کہ جو حجازی ہے، وہ اہل حدیث ہے اور جوعراقی ہے، وہ اہل الرائے ہے:
ثم المجتھدون من ائمۃ الامۃ محصورون فی صنفین لا یعدوان الی ثالث: اصحاب الحدیث، واصحاب الرای۔ اصحاب الحدیث: وھم اھل الحجاز133133 اصحاب الرای: وھم اھل العراق (الملل والنحل، مؤسسۃ الحلبی، 2/12)
’’اس امت کے مجتہدین کی دوقسم ہے، تیسری قسم نہیں ہے، اصحاب الحدیث اوراصحاب الرائے۔ اصحاب الحدیث، وہ حجاز والے ہیں اور اصحاب الرائے، وہ عراق والے ہیں۔
ان کی یہ رائے بتاتی ہے کہ اہل الرائے اوراہل الحدیث کااختلاف فکر ونظر کا نہیں، بلکہ مقام کا اختلاف ہے۔ جو حجاز کا ہوگا، وہ اہل الحدیث ،اورجو عراق(بغداد)سے ہے ، وہ اہل الرائے۔ یہ رائے بالبداہت غلط ہے، کیونکہ امام احمد بن حنبل اوربہت سے محدثین کا تعلق کوفہ، بصرہ اوربغداد سے ہے، لیکن وہ اہل الرائے قطعاًنہیں ہیں اورامام ربیعہ مدینہ کے ہیں، لیکن وہ ربیعۃ الرائے کے نام سے مشہور ہیں۔
بعض دیگر مصنفین جیسے ابن خلدون ودیگر نے اہل الرائے اور اہل الحدیث کی تقسیم اس طورپر کی کہ حنفی اہل الرائے ہیں اور بقیہ مالکی، حنبلی اور شافعی اہل الحدیث ہیں ،ابن خلدون لکھتے ہیں:
’’اور فقہ ان دوحصوں میں بٹ گیا،ایک طریقہ تو اہل الرائے والقیاس کا تھا جو اہل عراق تھے اورایک طریقہ اہل حدیث کا تھا،جو حجازی تھے۔ ہم اوپر بیان کرآئے ہیں کہ عراقیوں کے پاس حدیث کا ذخیرہ کم تھا، اس لئے انہوں نے کثرت سے قیاس کیے اوراس میں خوب ماہر ہوگئے ،اس لیے انہیں اہل الرائے کہاجانے لگا۔ اہل الرائے میں سب سے پیش پیش ابوحنیفہ ہیں،جن کا اورجن کے شاگردوں کا ایک مستقل مذہب ہے، اور حجازیوں کے امام مالک بن انس اوران کے بعد امام شافعی ہیں۔ علماء کی ایک جماعت نے قیاس کو نہیں مانا اور قیاس پر عمل کو غلط ٹھہرایا،یہ فرقہ ظاہریہ کاہے۔‘‘ (مقدمہ تاریخ ابن خلدون،2/283،ترجمہ مولاناراغب رحمانی،ناشرنفیس اکیڈمی،اردو بازار کراچی،طبع یازدہم 2001)
ابن خلدون اور اس تقسیم کے حامیوں نے یہ سوال تشنہ چھوڑدیاکہ شوافع ،حنابلہ اورمالکیہ اہل حدیث کیوں ہیں اور حنفیہ اہل الرائے کیوں ہیں؟ بعض مصنفین بشمول شہرستانی وغیرہ نے اس سوال کا تحقیقی جواب دینے کے بجائے ایک سطحی ساجواب دے دیاکہ ’’احناف کے یہاں قیاس بہت ہے اور وہ قیاس جلی کو اخبار آحاد پر مقدم کردیتے ہیں‘‘۔ (الملل والنحل، ۲/۱۲)
اولاًتوکثرت اورقلت ایک اضافی اورنسبتی امر ہے۔ امام احمد بن حنبل کے یہاں قیاس کم ہے اوراس کے مقابلہ میں امام شافعی اورامام مالک کے یہاں قیاس زیادہ ہے ،ایسے میں امام احمد کی نسبت سے شافعیہ اورمالکیہ کو اہل الرائے کہناچاہئے؛ لیکن ایسانہیں کہاجاتا۔ علاوہ ازیں قلت وکثرت کی بنیاد پرکسی علمی بحث کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ دوسرے یہ الزام کہ ’’احناف خبر واحد پر قیاس جلی کو مقدم کردیتے ہیں‘‘ علم وتحقیق کی نگاہ میں غلط ہے کیونکہ محققین احناف بشمول امام کرخی ودیگر اس کی تغلیط کرچکے ہیں۔ یہ درحقیقت عیسیٰ بن ابان رحمہ اللہ کی رائے تھی (۲) جسے بعد میں کچھ دیگر متاخرین فقہاء احناف نے پسند کیا،لیکن یہ رائے نہ امام ابوحنیفہ کی تھی ،نہ صاحبین کی ،نہ امام زفر کی اورنہ متقدمین فقہائے احناف کی اوراس پر تفصیلی بحث کشف الاسرار کے مصنف علامہ علاء الدین البخاری نے کی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: کشف الاسرار شرح اصول البزدوی (۲/۳۷۸)، دار الکتاب الاسلامی)

حضرت شاہ ولی اللہ اور اہل الحدیث واہل الرائے کی تعیین 

اہل الرائے اور اہل الحدیث کے درمیان فرق وامتیاز پر بحث حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اپنی کئی تصنیفات میں کی ہے اور اہل حدیث واہل الرائے کے درمیان مرکزی اختلاف کیاہے،اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ بلامبالغہ یہ کہاجاسکتاہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے اس معاملہ پر نئے سرے سے غورکیا اور اہل الحدیث اور اہل الرائے کے درمیان جوہری فرق اور حد فاصل بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ دیگرتمام متقدم مورخین وتراجم وتذکرہ نگاروں سے ممتاز ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اہل الرائے اور اہل الحدیث کے درمیان فرق پر مختلف کتابوں میں اظہار خیال کیاہے، اس میں سب سے زیادہ بنیادی حیثیت ان کی الانصاف فی بیان سبب الاختلاف کوحاصل ہے۔ پھر یہی بحث حجۃ اللہ البالغہ میں بھی موجود ہے، اس کے علاوہ مختصر انداز میں حضرت شاہ صاحب نے اہل الرائے اوراہل الحدیث کے درمیان فرق پرمسویٰ شرح مؤطا میں بھی بحث کی ہے۔ چونکہ حضرت شاہ صاحب کی اس موضوع پر مستقل اور جامع کتاب الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ہے، لہٰذا اس بحث میں شاہ صاحب کے خیالات کے تعلق سے بنیادی طورپر اسی کتاب کے مندرجات سے ہم بحث کریں گے۔

اسباب اختلاف کے قطعی اوریقینی علم کا دعویٰ

الانصاف کے شروع میں حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے ایک عجیب وغریب دعویٰ فرمایاہے،حضرت محدث دہلوی لکھتے ہیں:
اما بعد فیقول الفقیر الی رحمۃ اللہ الکریم ولی اللہ بن عبد الرحیم اتم اللہ تعالیٰ علیھما نعمہ فی الاولی والاخری ان اللہ تعالیٰ القی فی قلبی وقتا من الاوقات میزانا اعرف بہ سبب کل اختلاف وقع فی الملۃ المحمدیۃ علی صاحبھا الصلوات والتسلیمات واعرف بہ ما ھو الحق عند اللہ وعند رسولہ ومکننی من ان ابین ذلک بیانا لا یبقی معہ شبھۃ ولا اشکال (الانصاف، تحقیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ ،مطبع دارالنفائس،1986)
’’بہرحال اللہ کریم کی رحمتوں کا محتاج ولی اللہ بن عبدالرحیم (اللہ دونوں کودنیا وآخرت کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے ) کہتاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے میرے دل میں کسی وقت ایک ایسی میزان ڈال دی جس سے میں ملت محمدیہ کے ہرواقع شدہ اختلاف کو جانتاہوں اور یہ بھی جانتاہوں کہ اللہ اوراس کے رسول کے نزدیک حق کیاہے اور اللہ نے اس پر بھی مجھے قدرت دی ہے کہ اس میں ان اسباب اختلاف کو اسی طرح بیان کروں کہ کوئی شبہ اوراشکال باقی نہ رہے۔‘‘
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کا یہ دعویٰ بڑاعجیب وغریب ہے۔ اسباب اختلاف پر علماء شروع سے ہی لکھتے چلے آرہے ہیں، لیکن کسی نے بھی اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے ممدوح علامہ ابن تیمیہ نے بھی ’’رفع الملام‘ ‘کے نام سے اس موضوع پر ایک بیش قیمت کتاب لکھی ہے؛ لیکن انہوں نے بھی اس کا دعویٰ نہیں کیا کہ میں ملت کے ہراختلاف سے واقف ہوں اور یہ بھی جانتاہوں کہ اس میں اللہ اوراس کے رسول کے نزدیک حق کیاہے۔ اس دعویٰ پر شیخ عبدالفتاح ابوغدہ، جنہوں نے الانصاف کواپنی تحقیق سے طبع فرمایاہے، نے بھی تنقید کی ہے،چنانچہ وہ حاشیہ میں لکھتے ہیں:
قول المولف133. واعرف بہ ماھو الحق عنداللہ وعند رسولہ، لایعول علیہ، فان علم ماھو الحق عنداللہ تعالیٰ وعند رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم لایمکن الجزم بہ لاحد (الانصاف، ص14)
’’مولف کا یہ کہنا کہ میں اللہ اوراس کے رسول کے نزدیک حق کیاہے، اس کو جانتاہوں، اس پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ اس چیز کاقطعی علم کہ اللہ اوراس کے رسول کے نزدیک حق کیاہے، اس کا دعویٰ کسی کے بھی حق میں نہیں کیاجاسکتا۔‘‘

ایک غلط خیال کی تردید

حضرت شاہ ولی اللہ اولاًاس غلط خیال کی تغلیط کرتے ہیں کہ یہاں صرف دوہی فرقے ہیں، ایک اہل الرائے اور دوسرے اہل الحدیث،اورتیسرا کوئی فرقہ نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہاں تیسرا فرقہ موجود ہے اور وہ ظاہریوں کی جماعت ہے:
ووجدت بعضھم یزعم ان ھناک فرقتین لا ثالث لھما، الظاھریۃ واھل الرای، وان کل من قاس واستنبط فھو من اھل الرای، کلا بل لیس المراد بالرای نفس الفھم والعقل فان ذلک لا ینفک من احد من العلماء، ولا الرای الذی لا یعتمد علی سنۃ اصلا فانہ لا ینتحلہ مسلم البتۃ، ولا القدرۃ علی الاستنباط والقیاس فان احمد واسحاق بل الشافعی ایضا لیسوا من اھل الرای بالاتفاق (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف، ص 93)
’’بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ فقہائے اسلام کی صرف دوہی جماعتیں ہیں، تیسراکوئی فرقہ نہیں ہے، ایک ظاہری اور دوسرے اہل الرائے اورقیاس واستنباط سے کام لینے والے سبھی اہل الرائے ہیں ۔ ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ رائے سے مراد صرف سمجھ اورعقل نہیں ہے کیونکہ اس سے علمائے اسلام کا کوئی فرد بھی خالی نہیں ہے اور نہ ہی رائے سے مراد یہ ہے جس میں سنت پر بالکلیہ اعتماد ہی نہ ہو،کیونکہ اس کی جانب کوئی مسلمان کبھی نہیں جاسکتا،اور نہ استنباط وقیاس کی صلاحیت ہے کیونکہ امام احمد،امام اسحاق اورامام شافعی بالاتفاق اہل الرائے میں سے نہیں ہیں۔‘‘
میراخیال ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ اس طرح شہرستانی کے رائے کی تردید فرمارہے ہیں جس نے امت کے ائمہ مجتہدین کو دوقسم میں محصور کیاہے اورتیسری کسی قسم سے انکار کیاہے۔

عہد صحابہ اور اکابر تابعین کے اختلاف کی نوعیت

حضرت شاہ ولی اللہ اولاًدور صحابہ کا حال بیان کرتے ہیں کہ ان میں اجتہاد کا طریقہ کیاتھا؟ پھر یہ بتاتے ہیں کہ فروعی مسائل میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف کیوں ہوااوراس کی وجوہات کیاتھیں؟اس کے بعد وہ دور تابعین میں آتے ہیں اور اہل مدینہ اوراہل کوفہ یاعراق کے نمائندے سعید بن المسیب اور امام ابراہیم نخعی کے فقہی اجتہاد کے طریقہ پر گفتگو کرتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ سعید بن المسیب اور ابراہیم نخعی دونوں ہی اپنے شہر کے متقدمین کبار تابعین اور صحابہ کرام کے فقہ وفتاویٰ کو اپنے لیے مشعل راہ مانتے تھے اور دیگر شہروں میں مقیم صحابہ کرام سے زیادہ لگاؤان کا اپنے شہر کے فقہاء صحابہ کرام سے تھا۔ جب صحابہ کرام وتابعین عظام میں کسی مسئلہ کے درمیان اختلاف ہوتا تو ہرایک عالم (مجتہد) کے نزدیک اپنے شہر کے علماء اورمشائخ کا قول زیادہ پسندیدہ ہوتا کیونکہ وہ اس سے زیادہ واقف تھے اور جن اصولوں کی رعایت پر یہ قول مبنی تھا، اس سے زیادہ باخبر تھے اور ان کو اپنے شہر کے علماء ومشائخ سے دلی لگاؤ تھا،چنانچہ حضرت عمرؓ، عثمانؓ، عائشہؓ، ابن عمرؓ ، ابن عباسؓ، زید بن ثابتؓ اوران کے شاگرد مثلاً سعید بن المسیب حضرت عمر کے فیصلوں اورحضرت ابوہریرہ کی روایتوں کے بڑے حافظ تھے،یامثلاً حضرت عروہ،سالم، عکرمہ،عطاء بن یسار، قاسم، عبیداللہ بن عبداللہ، زہری، یحییٰ بن سعید، زید بن اسلم اور ربیعہ وغیرہ حضرات کا مسلک اہل مدینہ کے لیے دیگر شہروں کے فقہاء کے مسلک سے زیادہ قابل قبول تھا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اوراہل مدینہ کی فضیلت بیان کی ہے اور علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے کہ مدینہ ہردور میں علماء اورفضلاء کا مسکن وماویٰ رہاہے۔ اسی باعث امام مالک اہل مدینہ کے عمل کو ایک دلیل کے طورپر تسلیم کرتے ہیں اور امام مالک کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ اہل مدینہ کے اجتماعی تعامل کو حجت مانتے ہیں۔ امام بخاری نے ایک باب باندھاہے، باب فی الاخذ بما اتفق علیہ الحرمان، یعنی جس بات پر اہل مکہ واہل مدینہ دونوں کا اتفاق ہو، اسی کو اختیار کرنے کا بیان۔
شاہ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعودؓ اوران کے اصحاب کا مذہب،حضرت علی،شریح اور شعبی کے فیصلے اور ابراہیم نخعی کے فتاویٰ جات کوفہ والوں کی نظر میں دیگر شہروں کے فقہاء وعلماء کے اقوال کی بہ نسبت زیادہ قابل ترجیح ہیں، اسی باعث جب حضرت مسروق، حضرت زید بن ثابت کے قول کی طرف مسئلہ تشریک میں مائل ہوئے تو حضرت علقمہ نے ان سے کہا ’’کیا کوئی عبداللہ بن مسعود سے بھی زیادہ قابل وثوق ہے؟‘‘ حضرت مسروق نے جواب دیاکہ ایسی بات تونہیں ہے، لیکن میں نے زید بن ثابت اور اہل مدینہ کو تشریک(زمین بٹائی پر کاشت کے لیے دینا)پر عمل کرتے دیکھاہے۔
حاصل کلام یہ کہ کسی شہر کے فقہا اور مشائخ جس قول پر متفق ہو جاتے، اس پر یہ مجتہدین مضبوطی سے جم جاتے اور امام مالک کا یہ فرمان اسی قبیل سے ہے کہ جس سنت کے بارے میں اہل مدینہ میں اختلاف نہیں ہے، وہی ہمارے نزدیک قابل وثوق ہے۔ اوراگر شہر کے علماء ومشائخ میں کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تو جورائے دلیل کے اعتبار سے قوی اور قابل ترجیح ہوتی،اس کو اپناتے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ غورکرتے کہ کس قول کی جانب علماء وفقہاء کی اکثریت ہے، کس قول کی بنیاد قیاس پر ہے اوراورکس قول کی بنیاد کتاب وسنت پر ہے۔ امام مالک کا یہ قول بھی اسی قبیل سے ہے کہ ’’یہ جو میں نے سناہے، سب سے اچھی بات ہے‘‘۔ پھر جب یہ فقہاء اپنے شہر کے صحابہ وتابعین کے اقول وآثار میں پیش آمدہ مسئلہ کا حل نہ پاتے توان کے کلام اسے استنباط مسائل کرتے اوران کے اشارات ومقتضیات کی پوری تلاش کرتے۔ (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف ص38) 

اہل الرائے اور اہل الحدیث کے استنباط واجتہادکی نوعیت

اہل حدیث اوراہل الرائے کی تاریخ حضرت شاہ ولی اللہ تابعین عظام سے شروع کرتے ہیں۔ ایک جانب وہ سعید بن المسیب کو اہل حرمین کا نمائندہ بتاتے ہیں ،دوسری جانب وہ ابراہیم نخعی کو اہل کوفہ وعراق کا نمائندہ بتاتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ ایک گروہ تو ایساتھاجس کو ہر مسئلہ میں احادیث رسول کی تلاش وجستجو تھی، اس غرض سے وہ شہروں شہروں ملکوں ملکوں ملکوں مارے پھرتے رہے۔ جہاں کہیں بھی حدیث رسول یا آثار صحابہ کا سراغ پایا، وہاں جاکر اس حدیث کو حاصل کیا اور اس طرح ان کے پاس ہرمسئلہ کے جواب میں یاتو حدیث رسول یاقول صحابی یاتابعین عظام میں سے کسی ایک کا قول فراہم ہوگیااور احادیث وآثار کے وسیع ذخیرہ کی بنیاد پر انہوں نے اپنی فقہ کی تدوین احادیث وآثار پر رکھی۔ حضرت محدث دہلوی لکھتے ہیں:
’’حاصل کلام یہ کہ جب انہوں نے فقہ کو ان قواعد کے مطابق تیار کرلیا تو فقہی مسائل میں سے کوئی مسئلہ جس پر متقدمین علماء نے اپنی رائے دی ہو،اورجوان کے زمانہ میں واقع ہواہو،کوئی مسئلہ ایسانہ تھا جس میں انہوں نے حدیث مرفوع،متصل اورمرسل ،موقوف ،صحیح ،حسن اور اعتبار کے لیے صالح سند سے نہ پائی ہو، یاحضرت ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما یادیگر خلفائے راشدین اور شہروں کے قاضی اورفقہاء کا کوئی اثر نہ پایاہو یا انہوں نے ان احادیث وآثار کے عموم ،اشارہ یااقتضاء سے استنباط نہ کیا،تواس طورپر اللہ نے ان کے لیے سنت پر عمل کرنا آسان کردیا۔‘‘ (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف، ص 54)
دوسرا گروہ وہ تھاجسے احادیث رسول بیان کرنے میں تو ڈرلگتاتھا لیکن وہ رائے سے جواب دینے اور فتوی کے اظہار میں ہچکچاتے نہیں تھے:
’’اوران کے بالمقابل مالک ،سفیان اوران کے بعدکے دور میں ایک ایساگروہ تھاجسے مسائل کے بیان کرنے اورفتویٰ دینے میں کوئی باک نہیں تھا اوران کا کہنایہ تھاکہ فقہ پر ہی دین کی بنیاد ہے، لہٰذا اس کی اشاعت ہونی چاہیے اور وہ لوگ رسول اللہ سے روایت کرنے اور کسی کی نسبت آپ کی جانب کرنے میں بڑے محتاط تھے۔ شعبی کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد والوں تک اکتفاء کرنا ہمیں زیادہ پسند ہے، کیونکہ اگرخدانخواستہ کچھ کمی بیشی ہوئی بھی تو صحابہ کے تعلق سے ہوگی اور ابراہیم کہتے ہیں کہ میں کہوں ’’عبداللہ نے کہا‘‘، ’’علقمہ نے کہا‘‘، یہ مجھے زیادہ محبوب ہے کہ میں کہوں کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ ‘‘ (الانصاف، ص 57)
حضرت محدث دہلویؒ آگے چل کر ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ الحدیث کے بالمقابل حضرات(جس کو آگے چل کر حضرت شاہ ولی اللہ اہل الرائے سے یاد کریں گے، یہاں پر انہوں نے قوم سے یاد کیاہے)کو فتوی دینے اورمسئلہ کے استنباط میں گہری دلچسپی تھی ،احادیث کا سرمایہ ان کے پاس نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ احادیث وآثار پر مسائل کی بنیاد رکھ سکیں ،لہٰذا اس گروہ نے تخریج کی بنیاد پر مسائل کا استنباط کیا،چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’اس طرح سے(اہل الرائے) کے احادیث سے فقہ ومسائل کی ضرورت دوسرے طریقہ سے پوری ہوئی اور ایسااس لئے ہواکہ ان کے پاس احادیث وآثار کا اتناسرمایہ نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ ان اصول پر فقہ کا استنباط کرتے جن پر اہل الحدیث نے اپنے فقہ کی بنیاد رکھی ہے اور ان کا یہ مانناتھاکہ ان کے ائمہ تحقیق کے بلند مرتبہ کے حامل ہیں اور ان کے دل بھی اپنے مشائخ کی جانب زیادہ مائل تھے جیساکہ علقمہ نے کہا: کیاکوئی ان میں عبداللہ بن مسعود سے بھی زیادہ پختہ نظررکھتاہے اورامام ابوحنیفہ نے فرمایا: ابراہیم، سالم سے بڑے فقیہ ہیں اور اگرشرف صحبت کا لحاظ نہ ہوتا میں کہتاکہ علقمہ، ابن عمر سے بڑے فقیہ ہیں۔ اور ان کو ایسی ذہانت اور زور فہمی عطاہوئی تھی اوران کا ذہن ایک بات کی نظیر سے دوسری بات کی نظیر کی جانب بڑی تیزی سے منتقل ہوتاتھا۔ ان صلاحیتوں کے ذریعے وہ مسائل کا جواب اپنے مشائخ کے اقوال پر تخریج کرکے دیا کرتے تھے اور ہر ایک کے لیے اپنی خلقت کے لحاظ سے کام آسان ہو جایا کرتا ہے (ہر کسے رابہر کارے ساختند)۔ اس طرح فقہ کی تدوین تخریج کی بنیاد پر عمل میں آئی۔‘‘ (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف ص57۔58)

تخریج کی وضاحت

اس کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ ہمیں بتاتے ہیں کہ تخریج کیاہے اور کس طرح کام میں لایاجاتاہے، چنانچہ وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہرایک اپنی جماعت کے ترجمان اور مشائخ کے اقوال کی سب سے زیادہ پرکھ رکھنے والے اور ترجیح میں صائب نظروالے کی کتاب یاد کرلے اور ہرمسئلہ میں غورکرے کہ حکم کی وجہ کیاہے توجب بھی کسی پیش آمدہ مسئلہ کے بارے میں سوال ہو یاکوئی ضرورت آن پڑے تواولاًاپنے مشائخ کے اقوال جو اس کو یاد ہیں، اس میں غورکرے ،اگراس میں جواب مل جائے توبہتر ورنہ ان کے کلام کے عموم کا جائزہ لے اور اسی عموم میں پیش آمدہ مسئلہ کو منطبق کرے یاان کے کلام میں کسی ضمنی اشارہ کا علم ہو تواس سے استنباط کرے اوربسااوقات کلا میں ایسے اشارات اور تقاضے ہوتے ہیں،جس سے مقصود کوسمجھاجاسکتاہے۔
بسااوقات تصریح کردہ مسئلہ کی کوئی نظیرموجود ہوتی ہے جس پر زیربحث مسئلہ کو محمول کیاجاتاہے اور بسااوقات وہ صریح حکم کی علت میں تخریج یاسبر (۳)(مماثلت)اورحذف (درگزر) کے ذریعہ غورکرتے ہیں اوراس کی علت کو غیرمصرح مسئلہ پر منطبق کرتے ہیں اور بسااوقات ایسابھی ہوتاہے ان کے ایک ہی مسئلہ میں دوقول ہوتے ہیں۔ اگران کو قیاس اقترانی (۴) یا قیاس شرطی (۵) کے طرز ترتیب دیاجائے تواس سے مسئلہ کا جواب معلوم ہوجاتاہے۔
کبھی تخریج اس طورپر ہوتی ہے کہ ان شیوخ کے اقوال میں کوئی بات مثال یااصل مسئلہ کی ایک قسم کے طورپر ہوتی ہے ؛لیکن تعریف کے لحاظ سے وہ جامع مانع نہیں ہوتی تووہ اس سلسلے میں اہل زبان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس مسئلہ کی ذاتیات(خصوصیات )حاصل کرتے ہیں،جامع مانع کی تعریف ،مبہم کی نشاندہی اور مشکل کی تمیز بہم پہنچاتے ہیں۔
بسااوقات ایساہوتاہے کہ ان کے کلام میں دوپہلوؤں کا احتمال ہوتاہے تو وہ کسی ایک پہلو کو ترجیح دینے میں غوروفکر کرتے ہیں،کبھی دلائل ومسائل کے درمیان جو پردہ پڑاہے اس کی نقاب کشائی کرتے ہیں ،کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ اصحاب تخریج اپنے ائمہ کے سکوت ،یافعل یااسی طرح کی کسی دوسری بات سے استدلال کرتے ہیں اوریہ سب (جوکچھ بیان ہوا)تخریج ہی ہے۔‘‘ (الانصاف، ص 61)

اہل الرائے سے مراد احناف ہیں

ماقبل میں آپ نے پڑھاکہ یہاں تین گروہ ہیں، اہل الرائے،اہل الحدیث اورظاہریہ، ظاہریہ سے پوری کتاب میں کوئی بحث نہیں کی گئی ، بحث صرف اہل الحدیث اوراہل الرائے سے ہے۔ حضرت شاہ صاحب جب بتاتے ہیں کہ اہل الحدیث کے بالمقابل ایک گروہ وہ تھا جو اپنے مشائخ کے اقوال میں تخریج کرکے پیش آمدہ مسئلہ کا جواب دیتاتھا تو یہ بات متعین ہوگئی تھی کہ وہ اہل الرائے کا ہی بیان کررہے ہیں کہ اہل الرائے کا کام تخریج کاہے؛ آگے چل کر حضرت شاہ ولی اللہ پوری صراحت اوروضاحت سے کہتے ہیں کہ اہل الرائے کاہی کام تخریج کاہے:
المراد من اھل الرای قوم توجھوا بعد المسائل المجمع علیھا بین المسلمین او بین جمھورھم الی التخریج علی اصل رجل من المتقدمین وکان اکثر امرھم حمل النظیر علی النظیر والرد الی اصل من الاصول دون تتبع الاحادیث والآثار (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف، ص93)
’’اہل الرائے سے مراد ایساگروہ ہے جنہوں نے مسلمانوں میں متفق علیہ مسائل ایسے مسائل جن پر جمہور متفق تھے ،متقدمین میں سے کسی ایک شخص کی رائے پر تخریج کی اوران کے کام کا زیادہ حصہ نظیر پر نظیر کوحمل کرنا،یافروع کو اصول میں سے کسی اصل کی جانب لوٹانے کاتھا،احادیث اورآثار کی تلاش وجستجوکیے بغیر۔‘‘
اہل الحدیث اور اہل الرائے کے درمیان فرق تخریج کا ہے، یہ نظریہ شاہ ولی اللہ نے انصاف کے دیگر مقامات اور حجۃ اللہ البالغہ وغیرہ میں بھی دوہرایاہے۔ ایسابھی نہیں ہے کہ شاہ ولی اللہ کا یہ نظریہ تخریج بعد کے فقہاء احناف کے لیے ہو جس کو کہ اصحاب تخریج اور اصحاب المذاہب سے فقہ حنفی میں یاد کیاگیاہے، بلکہ حضرت شاہ ولی اللہ اس تخریج کااطلاق امام ابوحنیفہ پر بھی کرتے ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
وکان ابو حنیفۃ رضی اللہ عنہ الزمھم بمذھب ابراھیم واقرانہ لا یجاوزہ الا ما شاء اللہ وکان عظیم الشان فی التخریج علی مذھبہ دقیق النظر فی وجوہ التخریجات مقبلا علی الفروع اتم اقبال وان شئت ان تعلم حقیقۃ ما قلنا فلخص قول ابراھیم من کتاب الآثار لمحمد رحمہ اللہ وجامع عبد الرزاق ومصنف ابی بکر بن ابی شیبۃ ثم قایسہ بمذھبہ تجدہ لا یفارق تلک المحجۃ الا فی مواضع یسیرۃ وھو فی تلک الیسیرۃ ایضا لا یخرج عما ذھب الیہ فقھاء الکوفۃ (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف، ص39)
’’امام ابوحنیفہ، حضرت ابراہیم نخعی اوران کے ہم عصروں کو مسلک کو سب سے زیادہ مضبوطی سے پکڑنے والے تھے،کبھی کبھار ہی اس سے تجاوز کرتے تھے،ابراہیم کے مذہب پر تخریج کرنے میں آپ کوبڑی مہارت تھی ،تخریجات کی مختلف صورتوں آپ نہایت باریک بیں تھے،فروعات میں پوری توجہ تھی۔ اگرتم میری باتوں کی حقیقت جانناچاہتے ہو تو ابراہیم نخعی کے اقوال کو کتاب الآثار سے منتخب کرواورجامع عبدالرزاق سے اورمصنف ابن ابی شیبہ سے،پھراس کا موازنہ امام ابوحنیفہ کے مذہب سے کرو،تم پاؤگے کہ وہ اس ڈگر سے بہت کم ہٹے ہیں اوراس تھوڑے میں بھی وہ دیگرفقہائے کوفہ کے اقوال سے باہر نہیں نکلے ہیں۔‘‘
یہی بات حضرت شاہ ولی اللہ نے صاحبین کے بارے میں بھی کہی ہے:
’’اوروہ دونوں یعنی ابویوسف اورمحمد بھی ہمیشہ بقدراستطاعت ابراہیم نخعی کے طریقہ پر گامزن رہے جیساکہ امام ابوحنیفہ کا شیوہ تھا۔ امام ابوحنیفہ سے صاحبین کا اختلاف دوامور میں تھا۔ یاتو امام ابوحنیفہ کی ابراہیم کے مذہب پر کوئی تخریج ہو جس سے یہ دونوں متفق نہ ہوں ،یاپھر ابراہیم اوران کے معاصرین کے ایک مسئلہ میں مختلف اقوال ہوں اوریہ دونوں اس میں امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کی ترجیح میں اختلاف کریں (یعنی امام ابوحنیفہ مختلف اقوال میں سے کسی ایک کو ترجیح دیں اوریہ دونوں کسی دوسرے کو)۔ ‘‘(الانصاف، ص 40)
اب تک کی بحث کا خلاصہ یہ ہے :
۱: امت میں اگرچہ تین گروہ ہیں لیکن زیر بحث کتاب میں دوہی گروہ سے بحث ہے، ایک اہل الحدیث اوردوسرا اہل الرائے۔
۲: اہل حدیث حضرات نے حدیث وآثار کی تلاش میں ملکوں اورشہروں کی خاک چھانی اور اس طرح ان کے پاس احادیث کابڑاذخیرہ ہوگیا اور ہرقسم کے مسئلہ کے جواب کے لیے ان کے پاس حدیث رسول، آثارصحابہ وتابعین عظام میں سے کوئی قول موجود رہا۔
۳: دوسرا گروہ ان کا تھاجو احادیث کی تلاش میں شہروں کی خاک نہیں چھان سکتے تھے،ان کے پاس احادیث کا سرمایہ کم تھا، مسائل کے جواب دینے میں انہوں کوئی جھجھک یاہچکچاہٹ نہیں تھی، انہوں نے اپنے مشائخ اوراساتذہ کے اقوال پر تخریج کرکے پیش آمدہ مسائل کا جواب دیا۔
۴: تخریج کرنے والا گروہ اہل الرائے کا تھا۔
۵: امام ابوحنیفہ اور صاحبین اہل الرائے ہیں۔
۶: ان کابھی کام یہی تھاکہ وہ ابراہیم اوران کے ہم عصرکوفی فقہاء کے اقوال پرتخریج کے پیش آمدہ مسائل کا جواب دیں۔

نظریہ تخریج پرتنقید کرنے والے ایک نگاہ میں

حضرت شاہ ولی اللہ کا نظریہ تخریج ایک نیانظریہ ہے۔ میرے علم کی حد تک ان سے قبل کسی بھی اہل علم نے اہل الرائے کا امتیازی وصف ’’تخریج ‘‘نہیں بتایاہے اورنہ ہی کسی نے یہ دعویٰ کیاہے کہ اہل الرای اوراہل الحدیث کے درمیان جوہری فرق تخریج کاہے۔ میرے علم ومطالعہ کی حد تک برصغیر کے کسی عالم نے نظریہ تخریج پرتنقید نہیں کی ہے، البتہ عرب علماء میں سے شیخ ابوزہرہ نے ابوحنیفۃ: حیاتہ وعصرہ وآراہ وفقھہ میں اورشیخ عبدالمجید محمود عبدالمجید نے الاتجاھات الفقھیۃ میں شاہ ولی اللہ دہلوی کے نظریہ تخریج پر تنقید کی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ علامہ زاہد الکوثری (۶) نے بھی شاہ ولی اللہ پر تنقید کی ہے لیکن اس کی حیثیت نظریہ تخریج پر تنقید کی نہیں بلکہ عمومی نوعیت کی ہے اورحسب معمول سخت لفظوں میں تنقید کی ہے۔

حواشی

1۔ وصیت نامہ ،مجموعہ رسائل امام شاہ ولی اللہ ،ص: ۵۲۷،یہ وصیت نامہ درحقیقت تفہیمات الٰہیہ کے آخر میں شامل ایک چھوٹا سا جزہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:’’ اورفقہ کی جزئیات وتفریعات کو ہمیشہ کتاب وسنت کے روبرو پیش کریں،جوان کے موافق ہو، اسے قبول کریں اورجونہ ہو،اسے مسترد کردیں‘‘۔ 
2۔ حضرت عیسیٰ بن ابان کی رائے بھی مطلقاً یہ نہیں ہے کہ قیاس کے سامنے خبر واحد کو رد کردیاجائے بلکہ ان کی رائے تین چار شرطوں کے ساتھ مقید ہے۔ (دیکھیں سہ ماہی بحث ونظر کا شمارہ نمبر ۷/۱۷،جنوری تا مارچ، ص ۱۹ تا ۴۶)عملی لحاظ سے دیکھیں تو یہ اختلاف محض لفظی بن کر رہ جاتاہے ،عیسیٰ بن ابان کی شرائط یہ ہیں: 1:راوی فقہ اوراجتہاد میں معروف نہ ہو، 2:اس مفہوم کی تائید کرنے والی دیگر روایات نہ ہو، 3:صحابہ اورتابعین نے مذکورہ راوی کی دیگر روایات پر انکار کیا یاپھر زیر بحث خبر پر اعتراض کیاہو، 4:دیگر مجتہدین صحابہ کرام اورتابعین نے اس پرعمل نہ کیاہو۔(تفصیل کے لیے دیکھئے:الفصول فی الاصول ،امام جصاص رازی یاپھراصول السرخسی)
3۔ ایک صطلاحی لفظ ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل کے تمام اوصاف اس فرع پر منطبق کیاجائے ،جس کو اصل پر قیاس کیاجارہاہے اور اس وصف کو لے کر جواصل اورفرع میں مشترک ہے باقی سے صرف نظر کرلیاجائے تاکہ حکم کی علت متعین ہوجائے۔
4۔ قیاس اقترانی منطق کی اصطلاح میں اس قیاس کو کہتے ہیں جس کے مقدمات صغریٰ وکبریٰ میں نتیجہ یااس کی نقیض بعینہ موجود نہ ہو بلکہ دلیل سے نتیجہ برآمد ہوتاہو، یعنی وہ دلیل مشتمل برنتیجہ نہیں بلکہ مقترن بالنتیجہ ہو ،مثلاً عالم متغیر ہے اورہرمتغیر حادث ہے ،لہٰذا عالم حادث ہے ،یہ نتیجہ اس دلیل سے نکلتاہے۔
5۔ قیاس شرطی وہ ہے جس کے دونوں مقدمے شرطیہ ہوں یعنی جس میں کسی چیز کیلئے کسی دوسری چیز کے ثبوت یاعدم ثبوت کا حکم لگایاگیاہو،اس قیاس میں نتیجہ بعینہ موجود ہوتاہے مثلاًکوئی کہے کہ اگرتم جھوٹ بولے تو تم ذلیل ہوگے، لیکن جھوٹ نہ بولے تو ذلیل نہ ہوگے (یہ نتیجہ خود قیاس کے مقدمات یعنی صغریٰ وکبریٰ میں بعینہ موجود ہے،اسے شرطی اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں جملہ شرطیہ ہوتاہے۔ (فقہی اختلافات کی اصلیت ،ترجمہ الانصاف ،ص68)
6۔ شیخ زاہد الکوثری سلطنت عثمانیہ کے نائب شیخ الاسلام تھے،مصطفی کمال کے انقلاب کے بعد انہوں نے ترکی سے ہجرت کی اورمصر آکر بسے۔ علم کی گہرائی، گیرائی اوروسعت مطالعہ میں وہ علامہ کشمیری کے مثل تھے، اسی کے ساتھ نادر مخطوطات کے معلومات ،خوف خدا اورتدین میں بھی اپنی نظیر آپ تھے،جس کی مثال شیخ ابوزہرہ نے ان کے حوالہ سے اپنے تاثراتی مضمون میں پیش کیاہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے بڑے ناقد تھے۔ ان کی زندگی کا ایک وصف شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے ملتاجلتاہے، ابن تیمیہ کے بارے میں ذہبی نے لکھاہے کہ علماء ان کے علم کے معترف تھے لیکن ان کی شدت اورسخت کلامی سے نالاں تھے، بعینہ یہی بات ان کے تعلق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کا علم وفضل اپنوں کو توچھوڑیے، مخالفین تک میں مسلم تھا۔ معلمی ،البانی جیسے انتہائی شدید مخالفین نے ان کی علمی عظمت کااعتراف کیاہے، مگر ان کی سخت کلامی کی وجہ سے بات بگڑتی چلی گئی اورتانیب الخطیب میں بعض ائمہ پر سخت کلامی کی وجہ سے ان کے خلاف مخالفت کا ایک طوفان برپاہوگیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کتنا سچا ہے کہ اللہ نرمی پرجو دیتاہے، وہ سختی پر نہیں دیتا۔
(جاری)

مکاتیب

ادارہ

مکرمی مولانا عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ امید ہے مزاج بخیریت ہوں گے ۔
آپکی کتاب’’فقہائے احناف اور فہم حدیث‘‘ پڑھ کر ناقابل بیان خوشی ہوئی۔ احادیث میں احناف کی بے شمار تاویلات دیکھ کر کبھی کبھار پریشانی ہوتی تھی، لیکن کتاب ہذا دیکھ کر دلی سکون حاصل ہوا۔ حنفیہ کی دقت علمی کا ایک اجمالی تعارف ہوا۔جزاکم اللہ فی الدارین ۔
اگر ایک بحث کی وضاحت فرمادیں توعین نوازش ہوگی: کتاب ہذا کے صفحہ ۴۰تا ۴۹صفحہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ احناف کے ہاں اصول حدیث میں سے ہے کہ ’’حدیث ضعیف قیاس پر مقدم ہوگی ‘‘ جبکہ زیر مطالعہ کے کتاب کے ہی چند مواضع اس کے متعارض ہیں جہاں کہا گیا ہے کہ امام ابوحنیفہ صحیح حدیث کو ہی قبول کرتے تھے۔ مثلاً ص ۲۴ پر ہے: ’’اذا صح الحدیث فھو مذھبی‘‘ (امام ابوحنیفہ)۔ اسی طرح ص ۲۹ پر ہے : ’’کان ابو حنیفۃ یاخذ بما صح عندہ من احادیث‘‘۔ نیز چند دیگر کتب میں بھی ایسی تصریحات ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ یہ حنفیہ کا اصول نہیں ہے۔
مولانا عبدالحی لکھنویؒ لکھتے ہیں: ’’حدیث ضعیف سے استحباب چند شرائط سے ہوسکتا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کس اصول کے تحت مندرج ہو۔(مستقل بالذات نہ ہو) نیز وہ کسی دلیل شرعی سے نہ ٹکرائے ‘‘۔ (الأجوبۃ الفاضلۃ صفحہ ۵۰طبع مکتب المطبوعات الاسلامیہ) گویا نیا حکم ثابت نہیں ہو سکتا ۔ 
اس بحث کے تحت صفحہ ۴۹پر عبد الفتاح ابو غدۃؒ لکھتے ہیں کہ اس بحث میں حدیث ضعیف کا استعمال متأخرین کی اصطلاح کے مطابق نہیں ہے بلکہ بعض اوقات متأخرین جس کو حسن کہتے ہیں، متقدمین اس کے لئے ضعیف کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ۔
مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ لکھتے ہیں : ’’ان میں سب سے اہم شرط یہ ہے ،کہ وہ حدیث ضعیف سے کوئی نیا حکم ثابت نہیں کیا جائے گا ،حتی کہ استحباب بھی جزما ثابت نہیں ہوسکتا ۔ (’’فتاوی عثمانی ص۲۳۲ ،مکتبہ معارف القرآن)
مفتی رشید احمد لدھیانویؒ لکھتے ہیں : ’’مگر فضائل میں بھی عمل بالضعیف کے لیے یہ شرط ہے :کہ وہ کسی قاعدہ شرعیہ میں داخل ہو اور اس سے سنت نہ سمجھا جائے ۔ (’’احسن الفتاوی‘‘ص۵۱۳ایچ ایم سعید کمپنی)
چند حوالے پیش خدمت کیے گئے ہیں، اگرچہ بہت سی کتب میں یہ بحث مذکور ہے۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ یہ اصول بھی کتابوں میں ملتا ہے تو اس کی نفیس بحث ’’دراسات فی اصول الحدیث علی منھج الحنفیۃ‘‘ میں ملتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قول خاص طور پر درج ذیل چار حضرات سے نقل کیا جاتا ہے:
۱۔ امام ابن حزمؒ سے اس بارے میں دو قول منقول ہیں : ایک یہ کہ امام ابوحنیفہؒ کہتے ہیں کہ مرسل اور ضعیف حدیث قیاس سے اولیٰ ہے ۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ امام صاحب سے’’ظاہر الروایہ‘‘ میں جو نقل کیا گیا ہے، وہ اس کے خلاف ہے۔ مثلاً سفیان ثوری ؒ سے نقل کرتے ہیں : ’’اگر کتاب اللہ میں کسی عمل کی دلیل ملے تو اس پر عمل کرتا ہوں ، اگر اس میں نہ ہو تو سنت نبویہ اور’’ ثقہ لوگوں‘‘ سے منقول ’’صحیح آثار ‘‘ پر مسلک قائم کرتا ہوں ۔اگر اس میں نہ ملے تو صحابہؓ کے اقوال کی طرف رجو ع کرتا ہوں۔‘‘ نیز مقدمین میں سے کسی نے ان سے یہ نقل نہیں کیا ہے ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ : احناف کا اس پر اجماع ہے کہ ابوحنیفہ ؒ کا مسلک ضعیف حدیث کے بارے میں یہ ہے کہ وہ قیاس پر مقدم ہوگی۔ لیکن ابن حزمؒ کا دعویٰ درست نہیں ہے کیونکہ احناف میں سے مقدمین کا اس پر اجماع ہے نہ متاخرین نے اس کو نقل کیا ہے ۔ ممکن ہے ابن حزم ؒ جن کے ہاں سب سے قبل یہ قاعدہ پایا جاتا ہے ،انہوں نے اس قاعدہ کو خود وضع کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حنفیہ کے کچھ مستدلات ان کے نزدیک ضعیف تھے جس سے ان کو یہ شبہہ ہوا ۔
۲۔ علامہ ابن تیمیہؒ ؒ کے قول کو حجت نہیں بنایا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے قول میں صراحتاً موجود ہے: 
’’لاعتقاد صحتھما وان کان ائمۃ الحدیث حدیث لم یصححوھا‘‘ 
۳۔ علامہ ابن قیم ؒ نے یہ بات ابن حزمؒ سے نقل کی ہے، اس کی بحث گزر چکی ہے ۔
۴۔ ملاعلی قاریؒ نے بھی اس کو ذکر کیا ہے ۔ نیز ابن عابدین ؒ نے اور مولانا عبدالحئ لکھنویؒ نے بھی لکھا ہے۔ اسی طرح اس پر متاخرین کی تقریر و تشہیر بھی ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان حضرات نے دفاعی مباحث میں نقل کیا ہے جس میں عام طور تسامح برتا جاتا ہے، جب کہ ان حضرات سے بھی دیگر مقامات اس کے برعکس منقول ہے۔ نیز اس کا ایک جواب علامہ ابن زکشیؒ نے بھی دیا ہے کہ ابن حزمؒ کے قول میں ضعیف سے مراد حسن ہے ۔
’’الاجوبۃ الفاضلۃ‘‘ میں صفحہ نمبر ۴۹ کے حاشیہ میں ابو غدہؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث ضعیف (متقدمین کی اصطلاح کے مطابق) پر تمام ائمہ نے قیاس کو مقدم کیا ہے۔ امام شافعیؒ نے جواز الصلاۃ بمکۃ فی وقت النہی کو قیاس پر مقدم کیا ہے۔ امام مالک ؒ تو حدیث مرسل، منقطع، بلاغات اور قول صحابی کوقیاس پر مقدم رکھتے ہیں۔ امام احمد ؒ بھی حدیث مرسل اور ضعیف کے بعد قیاس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ گویا یہ احناف کا خاصہ نہ رہا بلکہ سب کا یہ اصول ہے ۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ حنفیہ ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم تو کیا قابل استدلال بھی بمشکل مانتے ہیں، چنانچہ ان کی طرف اس اصول کی نسبت ٹھیک نہیں ہے۔ متاخرین کی اصطلاح میں ضعیف حدیث میں اگرچہ شبہ اتصال پایا جاتا ہے، لیکن اتصال نہ پائے جانے کی بنیاد پر مفاد اور نقصانات بھی زیادہ ہیں ۔ رسول اللہ کی طرف غلط نسبت پر جو سخت وعیدیں ہیں، حد تواتر کو پہنچتی ہیں ، نیز اس کو دین کا حصہ بنا دینا اس سے بھی زیادہ خطرناک امرہے۔
عبدالقادر عباسی 
حویلیاں روڈ، ایبٹ آباد