2018

جنوری ۲۰۱۸ء

خواتین کے نکاح میں سرپرست کا اختیار / سرسید احمد خان اور مذہبی علماءمحمد عمار خان ناصر
سرسید احمد خان اور مذہبی علماءمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۸)ڈاکٹر محی الدین غازی
دور جدید کا حدیثی ذخیرہ۔ ایک تعارفی جائزہ (۶)مولانا سمیع اللہ سعدی
دستور کی اسلامی دفعات اور ’’سیاسی اسلام‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بیت المقدس کو اسرائیلی دار الحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ظلماتِ وقت میں علم و آگہی کے چراغ (۲)پروفیسر غلام رسول عدیم
قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو خدا کا حکم سمجھنے کی غلطیڈاکٹر عرفان شہزاد
’’تذکار رفتگاں‘‘ ۔ اہل علم کے لیے ایک علمی سوغاتمولانا مفتی محمد اصغر

خواتین کے نکاح میں سرپرست کا اختیار / سرسید احمد خان اور مذہبی علماء

محمد عمار خان ناصر

خواتین کے نکاح کے ضمن میں سرپرست کے اختیار سے متعلق کتب حدیث میں منقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد ارشادات منقول ہیں جو اس معاملے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس حوالے سے عموماً جن روایات کا حوالہ دیا جاتا ہے، ان میں خاتون کے نکاح میں سرپرست کی رضامندی کو فیصلہ کن حیثیت دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سرپرست کے بغیر کیے گئے نکاح کی کوئی حیثیت نہیں۔ (ترمذی، رقم ۱۱۰۱) اسی طرح ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی عورت کا نکاح سرپرست نے نہ کرایا ہو، اس کا نکاح باطل ہے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ کہی۔ البتہ اگر خاوند نے اس سے ہم بستری کر لی تو اسے اس کا مہر ملے گا۔ (ترمذی، رقم ۱۱۰۲)
مذکورہ روایات کے الفاظ کا ظاہری عموم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کوئی بھی عورت اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر ازخود اپنا نکاح کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اور اگر وہ ایسا کرے گی تو اس کا نکاح باطل قرار پائے گا، تاہم اس مسئلے سے متعلق دیگر روایات واحادیث کو جمع کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ زیر بحث روایات کے الفاظ کا ظاہری عموم شارع کی مراد نہیں ہے، بلکہ یہ ان کنواری لڑکیوں سے متعلق ہے جو کسی معقول وجہ کے بغیر اپنے ولی کی رضامندی اور اجازت کو نظر انداز کر کے ازخود نکاح کر لیں۔ چنانچہ خود روایات ہی میں درج ذیل صورتوں کو مذکورہ حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے: 
ایک یہ کہ ازخود نکاح کرنے والی خاتون کنواری نہیں بلکہ شوہر دیدہ ہو۔ چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’شوہر دیدہ عورت اپنے نفس پر اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے، جبکہ کنواری لڑکی سے اس کا باپ اس کی ذات کے معاملے میں اجازت طلب کرے اور اس کا خاموش رہنا اس کی رضامندی کی دلیل ہے۔‘‘ (مسلم، رقم ۳۴۷۶)
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ قبیلہ بنو اسلم میں سبیعہ نامی ایک عورت نے اپنی خاوند کی وفات کے پندرہ دن بعد بچہ جنم دیا۔ اس طرح اس کی عدت مکمل ہوگئی تو دو آدمیوں نے ،جن میں سے ایک نوجوان اور دوسرا ادھیڑ عمر تھا ،اسے نکاح کا پیغام بھیجا۔ سبیعہ نوجوان کے ساتھ نکا ح کرنے کی طرف مائل ہوگئی تو ادھیڑ عمر آدمی نے اس سے کہا کہ ابھی تیر ی عدت مکمل نہیں ہوئی۔ اس وقت سبیعہ کے گھر والے موجود نہ تھے اور اس آدمی کو توقع تھی کہ جب اس کے گھر والے آجائیں گے تو وہ اس نوجوان کے مقابلے میں اس کو ترجیح دیں گے۔ اس پر سبیعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو صورت حال بتائی۔ آپ نے اس سے فرمایا:
’’تیری عدت پوری ہو چکی ہے، اب تو جس سے چاہتی ہے اس سے نکاح کرلے۔‘‘ (مالک، الموطا، رقم ۱۸۲۹۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۵۷۰۳)
دوسری یہ کہ کسی لڑکی کا سرپرست اس کا نکاح کرنے میں خود لڑکی کی رضامندی کو نظر انداز کر رہا ہو۔ چنانچہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کر دیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہاکہ میرے والد نے میری رضامندی کے بغیر ایک شخص سے میرا نکاح کر دیا ہے، جبکہ میرا ایک چچا زاد بھی میرے ساتھ نکاح کا خواہش مند تھا۔ آپ نے اس کے والد سے بلا کر پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کی خیر خواہی کرتے ہوئے ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
’’اس نکاح کی کوئی حیثیت نہیں۔ تم جاؤ اور جس سے چاہتی ہو، اس سے نکاح کر لو۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۵۹۵۳)
عبد اللہ بن بریدہ سے مرسلاً روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور کہا کہ میرے والد نے اپنے بھتیجے کی عزت افزائی کے لیے میرا نکاح اس کے ساتھ کر دیا ہے جبکہ مجھے یہ پسند نہیں۔ ام المومنین نے اس سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے تک یہیں بیٹھو اور آپ کو اس بات سے آگاہ کرو۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اس نے آپ کو یہ بات بتائی تو آپ نے اس کے والد کو بلایا۔ جب وہ آیا تو آپ نے اس لڑکی کو اپنا نکاح اپنی مرضی سے کرنے کا اختیار دے دیا۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۳۴۵۴)
تیسری یہ کہ کسی خاتون کا کوئی سرپرست ہی موجود نہ ہو جس کی وساطت سے وہ نکاح انجام دے سکے:
ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کی وفات کے بعد عدت پوری ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے ان کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس پر تردد کا اظہار کیا اور اس کی ایک وجہ یہ بیان کی کہ اس وقت میرے اولیا میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھارے اولیا میں سے کوئی موجود یا غائب شخص ایسا نہیں ہے جو اس نکاح کو ناپسند کرے گا۔ اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے نابالغ بیٹے عمر بن ابی سلمہ سے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرا نکاح کردو۔ چنانچہ عمر بن ابی سلمہ نے اپنی والدہ کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا۔ (سنن النسائی، رقم ۳۲۵۶)
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ یا رسول اللہ، میں اس لیے حاضر ہوئی ہوں کہ اپنے آپ کو آپ کی خدمت میں پیش کر دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نگاہ اٹھا کر اس کو غور سے دیکھا اور پھر اپنا سر جھکا لیا۔ جب اس خاتون نے دیکھا کہ آپ نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس پر ایک آپ کے صحابہ میں سے ایک آدمی اٹھا اور کہا کہ یا رسول اللہ، اگرآپ اس عورت سے نکاح نہیں کرنا چاہتے ہو تو میرا نکاح اس سے کر دیجئے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کا نکاح اس صحابی سے کر دیا۔ (بخاری ، رقم ۵۰۳۰)
مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ ولی کی اجازت اور وساطت کے بغیر کسی خاتون کے نکاح کو باطل قرار دینا کوئی مطلق اور عام حکم نہیں، بلکہ اس کا ایک خاص محل ہے اور یہ اس صورت سے متعلق ہے جب کسی کنواری خاتون نے اپنے سرپرست کی موجودگی میں سرکشی کرتے ہوئے اس کی رضامندی اور وساطت کے بغیر کسی سے نکاح کر لیا ہو۔ منشا ئے کلام دراصل خواتین کو سرکشی کرتے ہوئے اپنے اولیا کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے سے روکنا اور اس طرح کے کسی بھی قدم کو قانونی طور پر غیر موثر قرار دینا ہے، چنانچہ اس خاص محل سے ہٹ کر ہر طرح کی صورت حال میں اس حکم کا اطلاق کرنا درست نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر عورت کے اولیا موجود ہی نہ ہوں اور ان کے آنے تک نکاح کے معاملے کو معلق رکھنا مصلحت کے خلاف ہو یا اس بات کا اطمینان ہو کہ اولیا کو عورت کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا یا ولی موجود تو ہو لیکن اس کے رویے سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اس معاملے میں عورت کی رضامندی کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور اپنی مرضی یک طرفہ طور پر اس پر ٹھونسنا چاہتا ہے تو ان سب صورتوں میں عورت کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کا حق ہوگا اور اسے اس کا اذن شامل نہ ہونے کی بنیاد پر باطل قرار نہیں دیا جائے گا۔ حکم کا صحیح محل متعین ہونے کے بعد ان صورتوں کا اس کے دائرہ اطلاق میں شامل نہ ہونا نہ صرف عقل وقیاس کی رو سے واضح ہے، بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد فیصلوں سے بھی واضح ہوتا ہے۔
فقہائے احناف نے اس حکم کے دائرہ اطلاق میں ایک مزید قیاسی تخصیص کی ہے، چنانچہ وہ اسے اس صورت سے متعلق قرار دیتے ہیں جب عورت نے غیر کفو میں یعنی اپنی برادری یا اپنے ہم پلہ لوگوں کو چھوڑ کر خاندانی لحاظ سے کم تر لوگوں میں نکاح کر لیا ہو۔ اس صورت میں چونکہ خاندان کی عزت ووقار کا سوال ہوتاہے اور بہتر معاشرتی حیثیت رکھنے والے خاندانوں کے یہاں اپنی خواتین کا نکاح معاشرتی لحاظ سے کم تر خاندانوں میں کرنا معیوب سمجھا جاتاہے، اس لیے ولی کی اجازت اور منظوری کے بغیر یہ نکاح درست نہیں۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ ایک روایت کے مطابق غیر کفو میں نکاح کو ولی کی اجازت پر موقوف جبکہ دوسری روایت کے مطابق ایسے نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں۔ تاہم اگر یہ معاملہ نہ ہو اور عاقل وبالغ عورت نے خاندانی اعتبار سے ہم پلہ لوگوں میں نکاح کیا ہو جس پر اس کے سرپرست کے اعتراض کا کوئی معقول جواز نہ ہو تو ایسی صورت میں فقہائے احناف کے نزدیک محض اس بنیاد پر اس کے نکاح کو باطل قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس کا سرپرست اس نکاح پر رضامند نہیں تھا۔ 
احناف کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور عقل وقیاس کی رو سے نکاح کرنا اصلاً عورت کا حق ہے اور وہ بالغ ہونے کے بعد جیسے اپنے مال میں خود تصرف کرنے کا حق رکھتی ہے، اسی طرح اپنی ذات کے بارے میں بھی فیصلہ کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے، البتہ اسے فیصلے میں اپنے اولیا اور خاندان کے جذبات واحساسات کی بھی پاس داری کرنی چاہیے۔ چنانچہ اگر وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ نکاح کر لے جس کے ساتھ تعلق داری میں اس کے اہل خاندان عار محسوس کریں تو یقیناًیہ نکاح اس کے سرپرست کی رضامندی پر موقوف ہوگا اور اگر وہ اس پر اعتراض کرے تو نکاح فسخ قرار پائے گا، لیکن مطلقاً اور ہر حالت میں عورت کے حق نکاح کو سرپرست کی رضامندی پر منحصر اور موقوف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (الشیبانی، الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ، ۳/۵۱۲۔ الطحاوی، شرح معانی الآثار، ۲/۳۷۰) 
مزید برآں اس معاملے میں اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر بحث ارشادات بنیادی طور پر ایک قبائلی معاشرت کے پس منظر میں فرمائے گئے ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ خاندان اور سماج کی شیرازہ بندی قبائلی معاشرے میں مختلف اصولوں پر ہوتی ہے اور متمدن اور ترقی یافتہ معاشروں میں دوسرے اصولوں پر۔ ایک قبائلی معاشرہ اپنی ساخت کے لحاظ سے رشتے ناتوں کو جس طرح interdependent بناتا ہے، اس میں فرد کے حقوق اور اختیارات بہرحال زیادہ محدود اور خاندان اور سماج کی پسند ناپسند کے زیادہ زیر اثر ہوتے ہیں۔ سماجی تنظیم کے اصولوں کے تحت اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ قبائلی معاشرے میں خاندان ، قبیلہ اور سماج فرد کو ایک غیر قبائلی معاشرے کے مقابلے میں زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس بنا پر اس کا بھی بجا طور پر استحقاق رکھتے ہیں کہ فرد اپنے فیصلوں میں ان کی پسند اور نا پسند کو خاص طور پر ملحوظ رکھے۔ معاشرے کے ارتقا کے ساتھ ساتھ جوں جوں قبائلی نظم کمزور ہوتا جاتا ہے، فرد اور سماج میں اس کو تحفظ دینے والے گروہوں یعنی خاندان اور قبیلوں پر اس کا انحصار بھی کم ہوتا جاتا ہے اور نتیجتاً اسے اپنے فیصلوں کو اپنی صواب دید کی روشنی میں کرنے کی زیادہ آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ ا س بحث کی روشنی میں دیکھیے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ حکم کی تعبیر اس مخصوص سماجی صورت حال کے تناظر میں بھی کی جا سکتی ہے جس کے پیش نظر آپ نے یہ فیصلہ فرمایا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس حکم کا مقصد دراصل عورت اور اس کے سرپرست کے باہمی حقوق واختیارات کی حتمی وقطعی تعیین نہیں، بلکہ مخصوص زمان ومکان میں سماج کے ایک اہم ادارے یعنی خاندان کو انتشار اور انہدام سے بچانا ہے۔ 

سرسید احمد خان اور مذہبی علماء

سرسید احمد خان اور ان کے مذہبی وسیاسی افکار گزشتہ دنوں سوشل میڈیا میں زیر بحث رہے۔ سرسید کے ناقدین نے ان کی مذہبی تعبیرات اور برطانوی اقتدار سے متعلق ان کے جذبات وفاداری کو موضوع بنایا، جبکہ حامیوں نے اس کے جواب میں ’’ملائیت‘‘ کو بے نقط سنائیں۔ 
اس تناظر میں یہ مختصر وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ سرسید کی مذہبی تعبیرات کو اگرچہ راسخ العقیدہ علماء نے علمی سطح پر رد کیا (بلکہ سچ یہ ہے کہ انھیں سرسید کے علاوہ کسی نے قبول ہی نہیں کیا)، لیکن انھیں ’’ہوا‘‘ نہیں بنایا اور نہ ان کی بنا پر ان کے خلاف مذہبی فتوے بازی کی کوئی مہم ذمہ دار علماء کی طرف سے منظم کی گئی، بلکہ اکابر علماء نے سرسید کی اس کوشش کو ان کے خلوص کی بنا پر ہمدردانہ نظر سے دیکھا اور ان پر کوئی فتویٰ عائد کرنے سے گریز کیا۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادیؒ کے سامنے کسی نے سرسید کے مذہبی خیالات پر سخت الفاظ میں تبصرہ کیا تو مولانا نے کہا کہ ’’ان کی ظاہری تقریر کو نہ دیکھو، ان کے قلب کو دیکھو کہ کیسا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک موقع پر انھوں نے چند مولوی صاحبان کو مسجد میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ سرسید روایات صحیحہ کا انکار کرتا ہے، تواتر کا انکار کرتا ہے، کافر ہے وغیرہ وغیرہ، تو اپنے حجرے سے نکلے، مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ’’یہ لوگ اس بے چارے کو کافر بناتے ہیں، مگر اس کے قلب کو دیکھ کہ کیسا ہے۔‘‘ (’’کمالات رحمانی‘‘ از شاہ تجمل حسین بہاری، بحوالہ صدق جدید، ۵؍ مئی ۱۹۶۱ء)
اسی طرح کے خیالات مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تھے، چنانچہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب، مولانا کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’سرسید کا عقیدہ توحید اور رسالت کے متعلق جس درجہ کا بھی تھا، بلا وسوسہ اور نہایت پختہ تھا جیسا کہ ان کی بعض تصانیف سے مجھ کو ظاہر ہوا اور قرآن وحدیث کی جو توجیہات انھوں نے کیں، ان کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین کا اسلام پر کوئی اعتراض وارد نہ ہو۔ گو اس کے لیے انھوں نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ غلط تھا، اس لیے میں ان کو نادان دوست کہتا ہوں۔‘‘ (اشرف السوانح از خواجہ عزیز الحسن مجذوب، جلد اول، ص ۲۱۵)
اس کے علاوہ سرسید کے متعارف کردہ بہت سے نئے مذہبی مباحث سے علماء نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس پہلو پر اب بعض مطالعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت کے ممتاز محقق مولانا رضی الاسلام ندوی نے ’’سرسید کی تفسیر القرآن اور مابعد تفاسیر پر اس کے اثرات‘‘ کے زیر عنوان اپنے مقالے میں سرسید کی تفسیر قرآن کی تالیف کا فکری پس منظر واضح کیا ہے اور سرسید کے منہج تفسیر پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن اور بائبل کے بیانات کے تقابلی مطالعہ، اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کے رد اور غیبیات و معجزات کی عقلی توجیہ کو اس کی اہم خصوصیات میں شمار کیا ہے۔ مصنف نے یہ دلچسپ حقیقت بیان کی ہے کہ تفسیر قرآن کے ضمن میں ان تینوں پہلووں سے بعد کے مفسرین نے سرسید کے اثرات قبول کیے اور اردو تفاسیر میں نہ صرف قرآن اور بائبل کے تقابلی مطالعہ اور اسلام پر اعتراضات کا رد کرنے کی ریت قائم ہوئی، بلکہ غیبیات اور معجزات کی عقلی توجیہ کے باب میں بھی ’’اس تفسیر کے مابعد تفاسیر پر اثرات مرتب ہوئے اور اہل علم نے اس کے اسلوب اور انداز تحقیق کو اپنایا۔‘‘ (ص ۲۳) 
مصنف کے خیال میں اس طرز فکر کے بعض مثبت اثرات بھی ہیں، چنانچہ ’’قدیم مفسرین کی عجوبہ پسندی کا یہ حال تھا کہ وہ ایسے واقعات کو بھی جن کی مناسب عقلی توجیہ ممکن ہے، معجزات قرار دیتے تھے۔ ..... معجزات کے سلسلے میں سرسید کا نقطہ نظر تو قبولیت حاصل نہ کر سکا، لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ عجوبہ پسندی کی شدت میں کمی آئی اور بعض قرآنی واقعات پر اس حیثیت سے بھی غور ہونے لگا کہ ان کی عقلی توجیہ کر کے انھیں غیر معجزانہ واقعات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ اسے بھی تفسیر سرسید کا ایک قابل لحاظ اثر قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (ص ۲۴) اس نکتے کی وضاحت میں مصنف نے متعدد مثالیں بھی نقل کی ہیں۔ سرسید کی تفسیری خدمات کے حوالے سے مصنف کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ بعض پہلووں سے ’’یہ تفسیر سرسید کی مذہبی خدمات میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور یہ ان کا ایک قابل قدر علمی کارنامہ ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ جہاں ان کی غلطیوں اور لغزشوں پر بے لاگ تنقید کی جائے، وہیں ان کی وقیع تحقیقات کو سراہا جائے۔‘‘ (ص ۱۱) 
جہاں تک برطانوی اقتدار کے حوالے سے سرسید کی فکر کا تعلق ہے تو اس میں اور مذہبی علماء کی ایک بڑی تعداد کے زاویہ نظر میں بنیادی اشتراک دکھائی دیتا ہے، تاہم یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس پر ان شاء اللہ ہم آئندہ کسی نشست میں بات کریں گے۔

سرسید احمد خان اور مذہبی علماء

محمد عمار خان ناصر

سرسید احمد خان اور ان کے مذہبی وسیاسی افکار گزشتہ دنوں سوشل میڈیا میں زیر بحث رہے۔ سرسید کے ناقدین نے ان کی مذہبی تعبیرات اور برطانوی اقتدار سے متعلق ان کے جذبات وفاداری کو موضوع بنایا، جبکہ حامیوں نے اس کے جواب میں ’’ملائیت‘‘ کو بے نقط سنائیں۔ 
اس تناظر میں یہ مختصر وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ سرسید کی مذہبی تعبیرات کو اگرچہ راسخ العقیدہ علماء نے علمی سطح پر رد کیا (بلکہ سچ یہ ہے کہ انھیں سرسید کے علاوہ کسی نے قبول ہی نہیں کیا)، لیکن انھیں ’’ہوا‘‘ نہیں بنایا اور نہ ان کی بنا پر ان کے خلاف مذہبی فتوے بازی کی کوئی مہم ذمہ دار علماء کی طرف سے منظم کی گئی، بلکہ اکابر علماء نے سرسید کی اس کوشش کو ان کے خلوص کی بنا پر ہمدردانہ نظر سے دیکھا اور ان پر کوئی فتویٰ عائد کرنے سے گریز کیا۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادیؒ کے سامنے کسی نے سرسید کے مذہبی خیالات پر سخت الفاظ میں تبصرہ کیا تو مولانا نے کہا کہ ’’ان کی ظاہری تقریر کو نہ دیکھو، ان کے قلب کو دیکھو کہ کیسا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک موقع پر انھوں نے چند مولوی صاحبان کو مسجد میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ سرسید روایات صحیحہ کا انکار کرتا ہے، تواتر کا انکار کرتا ہے، کافر ہے وغیرہ وغیرہ، تو اپنے حجرے سے نکلے، مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ’’یہ لوگ اس بے چارے کو کافر بناتے ہیں، مگر اس کے قلب کو دیکھ کہ کیسا ہے۔‘‘ (’’کمالات رحمانی‘‘ از شاہ تجمل حسین بہاری، بحوالہ صدق جدید، ۵؍ مئی ۱۹۶۱ء)
اسی طرح کے خیالات مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تھے، چنانچہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب، مولانا کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’سرسید کا عقیدہ توحید اور رسالت کے متعلق جس درجہ کا بھی تھا، بلا وسوسہ اور نہایت پختہ تھا جیسا کہ ان کی بعض تصانیف سے مجھ کو ظاہر ہوا اور قرآن وحدیث کی جو توجیہات انھوں نے کیں، ان کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین کا اسلام پر کوئی اعتراض وارد نہ ہو۔ گو اس کے لیے انھوں نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ غلط تھا، اس لیے میں ان کو نادان دوست کہتا ہوں۔‘‘ (اشرف السوانح از خواجہ عزیز الحسن مجذوب، جلد اول، ص ۲۱۵)
اس کے علاوہ سرسید کے متعارف کردہ بہت سے نئے مذہبی مباحث سے علماء نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس پہلو پر اب بعض مطالعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت کے ممتاز محقق مولانا رضی الاسلام ندوی نے ’’سرسید کی تفسیر القرآن اور مابعد تفاسیر پر اس کے اثرات‘‘ کے زیر عنوان اپنے مقالے میں سرسید کی تفسیر قرآن کی تالیف کا فکری پس منظر واضح کیا ہے اور سرسید کے منہج تفسیر پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن اور بائبل کے بیانات کے تقابلی مطالعہ، اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کے رد اور غیبیات و معجزات کی عقلی توجیہ کو اس کی اہم خصوصیات میں شمار کیا ہے۔ مصنف نے یہ دلچسپ حقیقت بیان کی ہے کہ تفسیر قرآن کے ضمن میں ان تینوں پہلووں سے بعد کے مفسرین نے سرسید کے اثرات قبول کیے اور اردو تفاسیر میں نہ صرف قرآن اور بائبل کے تقابلی مطالعہ اور اسلام پر اعتراضات کا رد کرنے کی ریت قائم ہوئی، بلکہ غیبیات اور معجزات کی عقلی توجیہ کے باب میں بھی ’’اس تفسیر کے مابعد تفاسیر پر اثرات مرتب ہوئے اور اہل علم نے اس کے اسلوب اور انداز تحقیق کو اپنایا۔‘‘ (ص ۲۳) 
مصنف کے خیال میں اس طرز فکر کے بعض مثبت اثرات بھی ہیں، چنانچہ ’’قدیم مفسرین کی عجوبہ پسندی کا یہ حال تھا کہ وہ ایسے واقعات کو بھی جن کی مناسب عقلی توجیہ ممکن ہے، معجزات قرار دیتے تھے۔ ..... معجزات کے سلسلے میں سرسید کا نقطہ نظر تو قبولیت حاصل نہ کر سکا، لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ عجوبہ پسندی کی شدت میں کمی آئی اور بعض قرآنی واقعات پر اس حیثیت سے بھی غور ہونے لگا کہ ان کی عقلی توجیہ کر کے انھیں غیر معجزانہ واقعات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ اسے بھی تفسیر سرسید کا ایک قابل لحاظ اثر قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘ (ص ۲۴) اس نکتے کی وضاحت میں مصنف نے متعدد مثالیں بھی نقل کی ہیں۔ سرسید کی تفسیری خدمات کے حوالے سے مصنف کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ بعض پہلووں سے ’’یہ تفسیر سرسید کی مذہبی خدمات میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور یہ ان کا ایک قابل قدر علمی کارنامہ ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ جہاں ان کی غلطیوں اور لغزشوں پر بے لاگ تنقید کی جائے، وہیں ان کی وقیع تحقیقات کو سراہا جائے۔‘‘ (ص ۱۱) 
جہاں تک برطانوی اقتدار کے حوالے سے سرسید کی فکر کا تعلق ہے تو اس میں اور مذہبی علماء کی ایک بڑی تعداد کے زاویہ نظر میں بنیادی اشتراک دکھائی دیتا ہے، تاہم یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس پر ان شاء اللہ ہم آئندہ کسی نشست میں بات کریں گے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۲۹) نظر المغشی علیہ من الموت کا ترجمہ

مندرجہ ذیل دو قرآنی مقامات کے بعض ترجمے توجہ طلب ہیں:

(۱) رَأَیْْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْْہِ مِنَ الْمَوْتِ۔ (محمد: 20)

’’مگر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو ‘‘(سید مودودی، اس ترجمہ میں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ اذا کے ہوتے ہوئے ترجمہ ماضی کا کیا گیا ہے، حالانکہ اذا فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے اور اسے حال یا مستقبل کے مفہوم میں بدل دیتا ہے)
’’سو جس وقت کوئی صاف (مضمون) کی سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا بھی ذکر ہوتا ہے تو جن لوگو ں کے دلوں میں بیماری (نفاق) ہے آپ ان لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی بیہوشی طاری ہو‘‘ (احمد علی)
مذکورہ بالا ترجموں میں ایک توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ینظروں الیک نظر المغشي علیہ من الموت کا ترجمہ کیا گیا: ’’آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی بیہوشی طاری ہو‘‘ یہ عبارت کا صحیح اور واضح ترجمہ نہیں ہے، اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ دیکھنے والے کی یہ کیفیت ہے یا جسے وہ دیکھ رہے ہیں اس کی یہ کیفیت ہے، ترجمہ میں یہ بالکل واضح ہونا چاہئے کہ دیکھنے والوں کی یہ کیفیت بتائی جارہی ہے۔
اس پہلو سے مندرجہ ذیل ترجمے زیادہ مناسب ہیں، ان میں عبارت کا حق بھی ادا ہورہا ہے اور وضاحت کا تقاضا بھی پورا ہورہا ہے۔
’’پھر جب اتری ایک سورۃ جانچی ہوئی، اور ذکر ہوا اس میں لڑائی کا تو تو دیکھتا ہے جن کے دل میں روگ ہے تکتے ہیں تیری طرف جیسے تکتا ہے کوئی بے ہوش پڑا مرنے کے وقت‘‘(شاہ عبدالقادر، اس ترجمہ میں زیر بحث غلطی تو نہیں ہے لیکن وہ غلطی یہاں بھی موجود ہے جس کا اوپر کے ایک ترجمے میں ذکر کیا گیا ، اور وہ یہ کہ اذا کے ہوتے ہوئے ترجمہ ماضی کا کیا گیا، حالانکہ اذا فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے اور اسے حال یا مستقبل کے مفہوم میں بدل دیتا ہے)
’’پھر جب کوئی پختہ سورت اتاری گئی اور اس میں جہاد کا حکم فرمایا گیا تو تم دیکھو گے انہیں جن کے دلوں میں بیماری ہے کہ تمہاری طرف اس کا دیکھنا دیکھتے ہیں جس پر مْرونی چھائی ہو‘‘(احمد رضا خان،یہاں بھی وہ غلطی ہے)
’’پس جب اتاری جاوے گی سورت ثابت اور ذکر کیا جاوے بیچ اس کے لڑائی کا، دیکھے گا تو ان لوگوں کو ،بیچ دلوں ان کے بیماری ہے ،دیکھتے ہیں تیری طرف ،جیسا دیکھتا ہے وہ شخص کہ بیہوشی آئی ہو اوپر اس کے موت سے ‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو ‘‘(محمد جوناگڑھی)
آخر الذکر دونوں ترجموں میں زیر بحث دونوں غلطیاں نہیں ہیں۔

(۲) فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَیْْتَہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ تَدُورُ أَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشَی عَلَیْْہِ مِنَ الْمَوْت۔ (الاحزاب: 19)

اس آیت کے ترجموں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر لوگوں کے یہاں نظر المغشي علیہ من الموت کی طرح کالذي یغشی علیہ من الموت کے ترجمے میں بھی وہی خامی باقی رہ گئی، چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’پھر جب آوے ڈر کا وقت تو تو دیکھے تکتے ہیں تیری طرف ٹکر ٹکر کرتی ہیں آنکھیں ان کی جیسے کسی پر آوے بیہوشی موت کی‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو‘‘ (سید مودودی)
’’پھر جب ڈر کا وقت آئے تم انہیں دیکھو گے تمہاری طرف یوں نظر کرتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھوم رہی ہیں جیسے کسی پر موت چھائی ہو ‘‘(احمد رضا خان)
’’پھر جب ڈر کا وقت آجائے تو تْو انھیں دیکھے گا کہ تیری طرف دیکھتے ہیں ان کی آنکھیں پھرتی ہیں جیسے کسی پر موت کی بے ہوشی آئے‘‘(احمد علی)
’’ پھر جب ڈر (کا وقت) آئے تو تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں (اور) اُن کی آنکھیں (اسی طرح) پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آرہی ہو‘‘(فتح محمدجالندھری)
مذکورہ ذیل ترجمہ مناسب ہے، اور اس میں یہ خامی نہیں ہے:
’’پھر جب خوف ودہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی انکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو‘‘(محمد جوناگڑھی)
دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ اوپر والی آیت کے ترجمہ میں بعض لوگوں نے اذا کے ہوتے ہوئے بھی پورے جملہ کا زمانہ ماضی سے ترجمہ کیا، لیکن انہی حضرات نے اس دوسری آیت میں اذاکی رعایت کی ہے، اوردرست طور سے حال یا مستقبل کا ترجمہ کیا ہے۔

(۱۳۰) مخلفون کا ترجمہ

مخلفون کا لفظ سورہ فتح میں تین بار آیا ہے، اور تینوں جگہ سب لوگوں نے ’’پیچھے رہ جانے والے‘‘ اور ’’پیچھے چھوڑ دیے جانے والے‘‘ ترجمہ کیا ہے۔

(۱) سَیَقُولُ لَکَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَہْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا۔ (الفتح: 11)

’’دیہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے وہ اب تجھ سے کہیں گے کہ ہم اپنے مال اور بال بچوں میں لگے رہ گئے پس آپ ہمارے لیے مغفرت طلب کیجئے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
’’اے نبیؐ، بدوی عربوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ ’’ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں‘‘۔(سید مودودی)

(۲) سَیَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَی مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوہَا ذَرُونَا نَتَّبِعْکُمْ۔ (الفتح: 15)

جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو۔ (سید مودودی)
جب تم لوگ غنیمتیں لینے چلو گے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ کہیں گے ہمیں بھی اجازت دیجیے کہ آپ کے ساتھ چلیں۔(فتح محمد جالندھری)

(۳) قُل لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَی قَوْمٍ أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُونَہُمْ أَوْ یُسْلِمُون۔ (الفتح: 16)

اِن پیچھے چھوڑے جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ "عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں تم کو ان سے جنگ کرنی ہوگی یا وہ مطیع ہو جائیں گے۔(سید مودودی)
جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہہ دو کہ تم ایک سخت جنگجو قوم کے (ساتھ لڑائی کے) لیے بلائے جاؤ گے ان سے تم (یا تو) جنگ کرتے رہو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے۔(فتح محمد جالندھری)
مخلفون کا لفظ ایک بار سورہ توبہ میں بھی آیا ہے وہاں صاحب تفہیم نے ایک مختلف ترجمہ کیا ہے، ذیل کی آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللّہِ وَکَرِہُواْ أَن یُجَاہِدُواْ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَقَالُواْ لاَ تَنفِرُواْ فِیْ الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ أَشَدُّ حَرّاً لَّوْ کَانُوا یَفْقَہُونَ۔ (التوبۃ: 81)

’’جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ’’اس سخت گرمی میں نہ نکلو‘‘ ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا‘‘۔(سید مودودی)
یہ ترجمہ لفظ کے موافق بھی نہیں ہے، اور حقیقت حال کے مطابق بھی نہیں ہے، کیونکہ اس ترجمہ سے صرف وہی لوگ مراد ہوتے ہیں جو اجازت لے کر رکے، حالانکہ آیت میں جو بات کہی جارہی ہے وہ ان تمام لوگوں کے بارے میں ہے جو پیچھے رہ گئے، خواہ وہ اجازت لے کر رہ گئے ہوں یا بغیر اجازت لیے رہ گئے ہوں، کسی بھی مہم کے موقعہ پر رکنے والے سب لوگ اجازت لے کر نہیں رکتے تھے، بہت سے یوں بھی رک جاتے تھے۔
مخلفون کا درست ترجمہ وہی ہے جو صاحب تفہیم نے مذکورہ بالا دوسرے مقامات پر کیا ہے یا دوسرے مترجمین نے خود اس مقام پر کیا ہے، جس کی ذیل میں مثالیں ہیں۔
’’پیچھے رہ جانے والے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا ناپسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اس گرمی میں مت نکلو۔ کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے، کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
’’جو لوگ (غزوہ تبوک میں) پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا (کی مرضی) کے خلاف بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے اور اس بات کو ناپسند کیا کہ خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور (اوروں سے بھی) کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا۔ (ان سے) کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش یہ (اس بات) کو سمجھتے‘‘۔(فتح محمدجالندھری)

(۱۳۱) وصلوات الرسول کا معطوف علیہ کیا ہے؟

وَمِنَ الأَعْرَابِ مَن یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللّہِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ سَیُدْخِلُہُمُ اللّہُ فِیْ رَحْمَتِہِ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔ (التوبۃ: 99)

اس آیت میں وصلوات الرسول کا عطف کس پر ہے، اس سلسلے میں مفسرین دو احتمال ذکر کرتے ہیں ایک یہ کہ قربات پر عطف ہے اور دوسرا یہ کہ ما ینفق پر عطف ہے۔ 
مشہور مفسر ابن عطیہ لکھتے ہیں:

ف صَلَواتِ علی ھذا عطف علی قُرُباتٍ، ویحتمل أن یکون عطفا علی ما ینفق، أی ویتخذ بالأعمال الصالحۃ وصلوات الرسول قربۃ، والأولی أبین. (المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز)

پہلی صورت کو ابن عطیہ ترجیح دیتے ہیں، اردو اور انگریزی مترجمین قرآن نے بھی پہلی صورت کو اختیار کیا ہے، بطور مثال یہاں کچھ ترجمے ذکر کیے جاتے ہیں:
’’اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے تقرب کا اور رسولؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں ہاں! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا، یقیناًاللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عنداللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کریں اسے اللہ کی نزدیکیوں اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھیں۔ (احمد رضا خان)
And of the dwellers of the desert is one who believeth in Allah and the Last Day, and taketh that which he expendeth as approaches unto Allah and the blessings of His apostle.(Daryabadi)
جبکہ مذکورہ ذیل دونوں ترجمے عام ترجموں سے مختلف ہیں اور اس بنیاد پر ہیں کہ وصلوات الرسول کا عطف ماینفق پر ہے:
اور ان دیہاتیوں میں وہ بھی ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو اور رسول کی دعاؤں کو حصول تقرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ (امین احسن اصلاحی)
And of the wandering Arabs there is he who believeth in Allah and the Last Day, and taketh that which he expendeth and also the prayers of the messenger as acceptable offerings in the sight of Allah.(Pickthall)
اول الذکر ترجموں کا مطلب یہ ہوگا کہ انفاق کا مقصود اللہ کا تقرب اور رسول کی دعائیں ہیں، جبکہ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہوگا کہ انفاق کا مقصود بھی اور رسول کی دعائیں لینے کا مقصود بھی اللہ کا تقرب ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی اس دوسرے ترجمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس جملے کے بعد أَلا إِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّہُمْ آیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیش نظر صرف اللہ کے تقرب کی بات ہے کہ وہ کس طرح سے اور کن کن چیزوں سے حاصل ہو، انفاق کرنے سے بھی اور رسول کی دعا لینے سے بھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انفاق یا کسی بھی نیک عمل کا مقصود صرف رضائے الٰہی ہونا چاہئے، اخلاص کا یہی تقاضا ہے، اس عمل سے خوش ہو کر رسول دعائیں دیں یہ تو ٹھیک ہے، لیکن عمل کا مقصود یہ بن جائے کہ رسول دعائیں دیں یہ اخلاص کے منافی معلوم ہوتا ہے۔ 
اس مفہوم کی تائید جملے کی لفظی ترکیب سے بھی ہوتی ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اتخذ فعل کے دو مفعول آتے ہیں پہلا مفعول حقیقت میں مبتدأ کی جگہ پر ہوتا ہے اور دوسرا مفعول خبر کی جگہ پر ہوتا ہے، مبتدأ عام طور سے معرفہ ہوتا ہے اور خبر عام طور سے نکرہ ہوتی ہے، یہاں ما ینفق مفعول اول ہے اور مبتدأ کی جگہ پر ہے، قربات مفعول بہ ہے اور خبر کی جگہ پر ہے، سوال صلوات الرسول کا ہے کہ اسے مفعول اول پر عطف کریں یا مفعول ثانی پر عطف کریں، چونکہ صلوات الرسول معرفہ ہے اس لئے اسے مفعول اول یعنی ما ینفق پر عطف کرنا ہی اولی ہے۔ اسے مفعول ثانی کے بعد لانے کی حکمت یہ ہے کہ اصل بات تو قربات عند اللہ پر پوری ہوگئی ہے، اس کے بعد صلوات الرسول دراصل ما ینفق کے لازمہ کے طور پر آیا ہے، اور یہ بتانے کے لئے کہ قربات کا ایک اور وسیلہ یہ بھی ہے۔
(جاری)

دور جدید کا حدیثی ذخیرہ۔ ایک تعارفی جائزہ (۶)

مولانا سمیع اللہ سعدی

3۔ موسوعات الحدیث بحسب الافراد و الاشخاص

موسوعات کی تیسری قسم ان کتب کی ہے جن میں کسی خاص راوی (خاص طور پر صحابہ)کی مرویات کو جمع کیا گیا ہو، یا کسی خاص حدیث کے جملہ طرق کو اکٹھا کیا گیا ہو ۔یہ موسوعات زیادہ تر ایم فل اور پی ایچ ڈی مقالات کی صورت میں تیار ہوئے ہیں۔ اس سلسلے کی اہم کاوش یوسف ازبک کی قابل قدر تصنیف مسند علی بن ابی طالب ہے۔ یہ ضخیم موسوعہ دار المامون دمشق سے سات جلدوں میں چھپا ہے، اس کی تصنیف میں معروف سلفی عالم شیخ علی رضا نے بھی تعاون کیا ہے ۔اس کے علاوہ عبد العزیز بن عبد اللہ الحمیدی نے کتب حدیث میں حضرت ابن عباس کی تفسیری روایات کو تفسیر ابن عباس و مریاوتہ فی التفسیر من کتب السنۃ کے نام سے جمع کیا ہے، یہ کتاب دو جلدوں میں مرکز البحث العلمی مکہ مکرمہ سے چھپی ہے۔
کسی خاص حدیث کے جملہ طرق اور ان پر بحث کے سلسلے میں متعدد کتب منظر عام پرآئی ہیں ۔خلیل ابن ابراہیم نے حدیث الذبابۃ (وہ حدیث جس میں کھانے میں مکھی گرنے کا حکم بیان ہوا ہے ) پر ایک ضخیم کتاب الاصابۃ فی صحۃ حدیث الذبابۃ کے نام سے لکھی ہے جو دار القبلہ جدہ سے چھپی ہے۔ علی حسن عبد الحمید نے تنویر العینین فی طرق حدیث اسما ء فی کشف الوجہ و الکفین (دار عمار ،عمان )کے نام سے چہرہ اور کفین کے کشف کی معروف حدیث کے طرق جمع کیے ہیں۔ اس طرح کی کتب کثیر تعداد میں چھپی ہیں جو فہارسِ کتب پر مبنی معاجم میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ (ان معاجم کا ذکر مستقل عنوان کے ساتھ آرہا ہے۔) ذیل میں اہم کتب کی ایک فہرست پیش کی جاتی ہے :
1۔ مرویات ابن مسعود فی الکتب الستۃ وموطا مالک و مسند احمد، منصور بن عون العبدلی ،دار الشروق ،جدہ (مجلدین)
2۔ ابو ایوب الانصاری و مرویاتہ فی الکتب الستۃ ومسند الامام احمد، محمد عبد اللہ ،دار عالم الکتب ،ریاض 
3۔ مرویات الصحابی سلمۃ بن الاکوع فی الکتب الستۃ وموطا مالک ومسند احمد، حکمت بشیر یاسین ،دار المعرفہ ،جدہ 
4۔ ارشاد المربعین الی طرق حدیث الاربعین، احمد بن محمد صدیق غماری ،مطبعہ الشرق ،قاہرہ
5۔ الامنیۃ فی تخریج المسلسل بالاولیۃ،محمود بن محمد الحداد ،دار العاصمہ ،ریاض 
6۔ التعلقۃ الامینۃ فی طرق حدیث اللھم احیینی مسکینا، علی حسن عبد الحمید الحلبی ،مکتبہ المدینہ، مدینہ منورہ 
7۔ کشف اللثام عن طرق حدیث غربۃ الاسلام، عبد اللہ بن یوسف الجدیع ،مکتبہ الرشد ،ریاض 
8۔ جزء حدیث ابی حمید الساعدی فی صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و جزء حدیث المسیء صلاتہ، بتجمیع طرقہ و زیاداتہ، محمد عمر بازمول، دار الہجرہ، ریاض 
9۔ رفع المنار لطرق حدیث من سئل عن علم فکتمہ الجم یوم القیامہ بلجام من نار، احمد بن محمد صدیق غماری ،مکتبہ الامام بخاری ،مصر
10۔ امتاع مشیخۃ الاحمدیۃ بطرق حدیث فضل المرویات الاربعینیۃ، صالح بن عبد اللہ العصیمی ،دار اہل الحدیث ،ریاض 

4۔موسوعات علوم الحدیث و المصطلحات 

مصطلح الحدیث کے مباحث کو موسوعاتی شکل میں بیان کرنے کے سلسلے میں اہم کتب لکھی گئی ہیں، اس سلسلے کی سب سے اہم کتاب معروف مصنف و محقق سید عبد الماجد غوری کا تیا رکردہ ضخیم موسوعہ "موسوعۃ علوم الحدیث و فنونہ" ہے، یہ قابل قدر کاوش دار ابن کثیر بیروت سے تین جلدوں میں چھپی ہے۔ اس موسوعہ میں حروف تہجی کے اعتبار سے علوم الحدیث کے مباحث ذکر کیے گئے ہیں۔ اس کے شروع میں ایک جامع مقدمہ بھی ہے جس میں علم مصطلح الحدیث کی تاریخ و ارتقاء کو جامعیت و اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ڈا کٹر عبد الرحمان الخمیسی نے معجم علوم الحدیث النبوی کے نام سے ایک ضخیم معجم تیار کیا ہے، جو دار ابن حزم بیروت سے چھپا ہے ۔مصر کی وزارت اوقاف کے ذیلی ادارے مجلس الاعلی للشؤن الاسلامیہ نے بھی ایک ضخیم موسوعہ "موسوعۃ علوم الحدیث الشریف" کے نام سے تیار کیا ہے ،جو ایک ہزار صفحات کی ضخیم جلد میں اسی ادارے سے چھپا ہے ۔
ا ہم موسوعات و معاجم کی فہرست پیش خدمت ہے:
1۔ معجم مصطلحات الحدیث و لطائف الاسانید، محمد ضیاء الرحمان الاعظمی، اضواء السلف، ریاض 
2۔ معجم المصطلحات الحدیثیۃ، سلیمان مسلم الحرش، حسین اسماعیل الجمل ،مکتبہ العبیکان ،ریاض 
3۔ معجم مصطلحات الحدیثیۃ، نور الدین عتر ،مجمع اللغہ العربیہ ،دمشق
4۔ قاموس مصطلحات الحدیث النبوی، محمد صدیق المنشاوی ،دار الفضیلہ ،قاہرہ
5۔ معجم اصطلاحات الاحادیث النبویۃ، عبد المنان راسخ ،دار ابن حزم ،بیروت
6۔ مصطلحات الجرح والتعدیل المتعارضۃ، جمال اسطیری ،اضواء السلف ،ریاض 
7۔ الشرح و التعلیل لالفاظ الجرح و التعدیل، یوسف محمد صدیق ،مکتبہ ابن تیمیہ ،کویت 
8۔ معجم الفاظ الجرح و التعدیل، سید عبد الماجد غوری ،دار ابن کثیر ،دمشق
9۔ معجم المصطلحات الحدیثیۃ، سید عبد الماجد غوری ،دار ابن کثیر ،دمشق
10۔ معجم لسان المحدثین، محمد خلف سلامہ (5 مجلدات)

5۔ موسوعات کتبِ حدیث

پانچویں قسم ان موسوعات کی ہیں جو کتب حدیث کی ببلو گرافی پر مشتمل ہو، ان میں سے بعض موسوعاتِ عامہ ہیں جن میں مطبوعہ کتب حدیث کا بلا قید زمان و مکان اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے۔ ان میں سے سب سے اہم اور مفصل کتاب "دلیل مولفات الحدیث الشریف القدیمہ و الحدیثہ" ہے ،یہ اشاریہ تین مصنفین کی کاوش کا نتیجہ ہے، دار ابن حزم بیروت سے دو جلدوں میں چھپا ہے۔ اس کتاب کا تکملہ انہی تین مصنفین میں سے ایک نے "المعجم المصنف لمولفات الحدیث الشریف" کے نام سے تین ضخیم جلدوں میں لکھا ۔یوں یہ کتاب پانچ جلدوں پر مشتمل ہے ۔اس کتاب میں عالم عرب سے چھپی کتب حدیث کی جملہ انواع کا اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بعض موسوعات خاص زمانے، خاص کتب حدیث ،خاص مصنفین یا خاص خطوں سے متعلق کتبِ حدیث کی فہارس پر مشتمل ہیں۔ ذیل چند اہم موسوعاتِ عامہ و خاصہ کی فہرست دی جاتی ہے :
1۔ المعین علی کتب الاربعین من احادیث سید المرسلین، سہیل العود ،عالم الکتب ،بیروت
2۔ الرسالۃ المستطرفۃ لبیان مشھور کتب السنۃ المشرفۃ، محمد بن جعفر کتانی ،دار البشائر الا اسلامیہ،بیروت
3۔ الامالی المستظرفۃ علی الرسالۃ المستطرفۃ، احمد بن محمد صدیق الغماری ،دار البیارق ،عمان 
4۔ معجم ما طبع من کتب السنۃ، مصطفی عمار ،دار البخاری ،مدینہ منورہ 
5۔ تراث المغاربۃ فی الحدیث النبوی وعلومہ، محمد بن عبد اللہ التلیدی ،دار البشائر الاسلامیہ ، بیروت
6۔ اتحاف القاری بمعرفہ جھود واعمال العلماء علی صحیح البخاری، محمد عصام عرار الحسنی ، الیمامہ للطباعہ والنشر، دمشق
7۔ ببلوغرافیا لکتب الحدیث والسنۃ باللغۃ الانکلیزیۃ، صہیب بن عبد الغفار حسن ،مجمع الملک فہد للطباعہ ،مدینہ منورہ
8۔ المولفات الخاصۃ بالسنۃ النبویۃ باللغۃ الاردیۃ، ببلیو غرافیا ،احمد خان بن علی محمد ،مجمع الملک فہد ، مدینہ منورہ
9۔ المطبوعات الحجریۃ فی المغرب، فوزی عبد الرزاق ،دار النشر ،رباط
10۔ التصنیف فی السنۃ النبویہ و علومہا، خلدون الاحدب ،موسسہ الریان ،بیروت
مطبوعات کی مذکورہ فہارس کے علاوہ کتب حدیث کے مخطوطات کی فہرستیں بھی چھپی ہیں۔ ان میں سب سے مفصل الفھرس الشامل للتراث العربی المخطوط (الحدیث النبوی و علومہ و رجالہ) ہے ،یہ فہرس تین جلدوں پر مشتمل ہے۔موسسہ ال البیت عمان سے چھپی ہے۔اس کے علاوہ دنیا کے مشہور مکتبات کی اپنی فہارس مخطوطات چھپی ہیں،ان میں کتب حدیث کے مخطوطات کا اشاریہ بھی شامل ہوتا ہے۔

6۔ موسوعات الرواۃ و الرجال 

رواۃِ حدیث پر متنوع موسوعات و معاجم منظر عام پر آئی ہیں، بعض موسوعات اہم متونِ حدیث کے رجال کے تراجم پر مشتمل ہیں ، اس کی عمدہ مثال عبد الغفار بنداری اور سید کسروی حسن کا تیار کردہ موسوعہ معجم رجال الکتب التسعۃ ہے جس میں صحاح ستہ، موطا، مسند احمد اور مسند دارمی کے تراجمِ رواۃ بیان ہوئے ہیں ۔ یہ کتاب چار جلدوں میں دار الکتب العلمیہ بیروت سے چھپی ہے ۔بعض موسوعات راویوں کی اقسام (وحدان ،ضعاف ،ثقات ، مدلسین وغیرہ) کے اعتبار سے تیار ہوئی ہیں ،جیسے سید کسروی حسن نے ھدی القاصد الی اصحاب الحدیث الواحد کے نام سے ان تمام رواۃ کو جمع کیا ہے جو وحدان(جن سے صرف ایک راوی نے روایتیں لی ہوں) کہلاتے ہیں۔ یہ کتاب دار الکتب العلمیہ بیروت سے سات جلدوں میں چھپی ہے ۔بعض موسوعات اہم متون حدیث کے رجالِ زوائد پر مشتمل ہیں، جیسے یحییٰ بن عبد اللہ الشہری نے ابن حبان کے رجال زوائد کو زوائد رجال صحیح ابن حبان علی الکتب الستۃ کے نام سے ایک موسوعہ میں جمع کیا ہے ۔ یہ ضخیم کتاب چھ جلدوں میں مکتبہ الرشد ریاض سے چھپی ہے ۔ بعض موسوعات کتبِ رجال کی تلخیصات یا تذییلات(اضافہ جات ) کے قبیل سے ہیں ، جیسے الشریف حاتم بن عارف عونی نے ذیل لسان ا لمیزان کے نام سے لسان ا لمیزان پر ایک ذیل لکھا ہے ،یہ کتاب دار عالم الفوائد مکہ مکرمہ سے چھپی ہے ۔
بعض موسوعات مخصوص خطوں کے محدثین اور رواۃ کے تعارف پر مشتمل ہیں ، جیسے عبد العزیز بن عبد اللہ الزہرانی نے قبیلہ زہران و غامد کے رواۃ حدیث پر ایک مفصل معجم معجم رواۃ الحدیث الاماجد من علماء زھران وغامد تیار کیا ہے ۔یہ معجم آٹھ جلدوں میں مکتبہ نزار مکہ مکرمہ سے چھپا ہے ۔ بعض موسوعات محدثین و رواۃِ حدیث کے القابات کے اعتبار سے لکھے گئے ہیں،جیسے عبد الفتاح ابو غدہ نے امراء المومنین فی الحدیث کے نام سے ان رواۃ پر کتاب لکھی ہے جو تراجم میں امیر المومنین کے لقب سے معروف ہیں ۔یہ کتاب مکتب المطبوعات الاسلامیہ حلب سے چھپی ہے ۔بعض موسوعات خاص راویوں کے اوہام و مدرجات پر مشتمل ہیں ، جیسے شیخ سعید باشنفر نے ایک مفصل کتاب اوھام المحدثین الثقات کے نام سے لکھی ہے ۔یہ ضخیم کتاب گیارہ جلدوں میں دار ابن حزم بیروت سے چھپی ہے ۔بعض موسوعات کمپیوٹر سافٹ وئیرز کی شکل میں ہیں (جن کا ذکر مستقل عنوان کے تحت آرہا ہے)۔ الغرض رواۃِ حدیث پر ایک وسیع و ضخیم مکتبہ وجود میں آچکا ہے ۔ذیل میں اہم معاجم رواۃ کی فہرست دی جارہی ہے :
1۔ رجال تفسیر الطبری جرحا و تعدیلا، محمد صبحی حلاق ،دار ابن حزم ،بیروت 
2۔ قرۃ العین فی تلخیص رجال الصحیحین، محمد بن علی بن ادم الاثیوبی ،موسسہ الریان ،بیروت
3۔ معجم اسامی الرواۃ الذین ترجم لہم الالبانی جرحا و تعدیلا، احمد اسماعیل شکوکانی ، صالح عثمان اللحام ،دار ابن حزم بیروت (4مجلدات)
4۔ الاحتفال بمعرفۃ الرواۃ الثقات الذین لیسوا فی تہذیب الکمال، محمود سعید ممدوح ،دار البحوث للدراسات الاسلامیہ ،دبئی (4مجلدات)
5۔ التذییل علی کتاب تہذیب التہذیب، محمد بن طلعت ،اضواء السلف ،ریاض 
6۔ رجال الحاکم فی المستدرک، مقبل بن ہادی الوداعی ،دار الحرمین ،قاہرہ (مجلدین )
7۔ اسعاف القاری بمعجم شیوخ الامام البخاری، مجدی بن محمد بن عرفات ،مکتبہ ابن تیمیہ ،قاہرہ
8۔ معجم شیوخ الامام احمد بن حنبل فی المسند، عامر حسن صبری ،دار البشائر الاسلامیہ ، بیروت
9۔ خلاصۃ القول المفھم علی تراجم رجال جامع الامام مسلم، محمد امین بن عبد اللہ الاثیوبی ، مکتبہ جدہ (مجلدین )
10۔ تراجم الاحبار من رجال شرح معانی الاثار، محمد ایوب المظاہری ،مکتبہ اشاعت العلوم ، سہارنپور (4 مجلدات)
11۔ معجم المختلطین، محمد بن طلعت ،اضواء السلف ،ریاض 
12۔ طبقات النساء المحدثات من الطبقہ الاولی الی السادسۃ، عبد العزیز سید الاہل ،الناشر ، خاص
13۔ معجم من رمی بالتدلیس، ابو عمرو نادر بن وہبی 

7۔معاجم الاثبات و الاسانید 

موسوعات کی ساتویں قسم ان کتب کی ہیں جن میں معروف شیوخ نے اپنی اسانید، شیوخ اور مسموعات کی فہرست دی ہو۔ اس سلسلے میں سب سے مفصل معجم معروف محقق یوسف عبد الرحمان المرعشلی نے معجم المعاجم و المشیخات والفھارس والبرامج والاثبات کے نام سے لکھا ہے ۔اس معجم میں مصنف نے پہلی صدی ہجری سے لے کر عصر حاضر تک ان تمام شیوخ کی فہرست مرتب کی ہے جنہوں نے مشیخہ یا ثبت لکھا ہے ۔نیز ان کے اساتذہ کی بھی فہرست دی ہے ۔یہ ضخیم کتاب چار جلدوں میں مکتبہ الرشد ریاض سے چھپی ہے۔ اس کے علاوہ معروف محدث محمد عبد الحی الکتانی نے فھرس الفھارس والاثبات ومعجم المعاجم والمسلسلات کے نام سے ضخیم کتاب لکھی ہے جس میں شیوخ الحدیث کی مرتب کردہ اثبات و مسلسلات کا اشاریہ ترتیب دیا ہے ۔یہ کتاب دار الغرب الاسلامی بیروت سے دو جلدوں میں چھپی ہے ۔اسانید و مسلسلات کے سلسلے میں مکہ مکرمہ کے معروف محدث محمد یاسین فادانی کی خدمات سنہری حروف سے لکھنے کے لائق ہیں ۔موصوف نے دو درجن سے زائد کتب اسانید ،اثبات ،مشیخات اور مسلسلات پر لکھی ہیں ۔ اس کے علاوہ عالم عرب اور برصغیر کے اجل محدثین کی اثبات و اسانید پر مبنی کتب بھی شائع ہوئی ہیں ۔ ذیل میں اہم کتب کی فہرست دی جارہی ہے :
1۔ الیانع الجنی فی اسانید الشیخ عبد الغنی، محمد بن یحییٰ التیمی ، طبع حیدر آباد
2۔ تشنیف الاسماع بشیوخ الاجازۃ و السماع، محمد سعید ممدوح ،دار الشباب ،قاہرہ 
3۔ العناقید الغالیۃ من الاسانید العالیۃ، محمد عاشق الہی برنی ،مکتبہ الشیخ ،کراچی 
4۔ بلوغ امانی الابرار فی التعریف بشیوخ واسانید مسند الدیار الحلبیہ احمد بن محمد سردار الحلبی الشافعی، خالد عبد الکریم المکی ،دار القلم، حلب(مجلدین)
5۔ امداد الفتاح باسانید و مرویات الشیخ عبد الفتاح (ابو غدہ)، محمد بن عبد اللہ ال رشید ،مکتبہ الامام الشافعی ،ریاض 
6۔ نفحات الہند و الیمن باسانید الشیخ ابی الحسن (علی میاں ندوی )محمد اکرم ندوی ،مکتبہ الامام الشافعی 
7۔ فھرسۃ الشیوخ والاسانید للام السید علوی بن عباس بن عبد العزیز المالکی الحسنی، محمد بن علوی المالکی ،خاص 
8۔ فتح الجلیل فی ترجمۃ وثبت شیخ الحنابلہ عبد اللہ بن عبد العزیز العقیل، محمد زیاد عمر، دار البشائر الاسلامیہ ،بیروت
9۔ منح المنۃ فی سلسلۃ بعض کتب السنۃ، محمد عبد الحی الکتانی ،المطبعہ الماجدیہ ،مکہ مکرمہ
10۔ الازدیاد السنی علی الیانع الجنی، مفتی محمد شفیع ، مکتبہ دار العلوم ،کراچی 

8۔معاجم متفرقہ 

آٹھویں قسم ان معاجم و موسوعات کی ہے جومذکورہ بالا عنوانات کے تحت نہ آتے ہوں۔ کتبِ حدیث یا ائمہ حدیث کی مختلف جہات سے متعلق ہونے کی وجہ سے ان معاجم کی متعین درجہ بندی نہیں کی جاسکتی ، جیسے شوقی ابو خلیل نے صحاح ستہ میں مذکور اماکن و اقوام کے تعارف پر ایک مفصل اطلس تیار کیا ہے ،یہ کتاب "اطلس الحدیث النبوی من الکتب الستہ،اماکن و اقوام" کے نام سے دار الفکر دمشق سے چھپی ہے۔ محمد التونجی نے معجم اعلام متن الحدیث کے نام سے ان اسماء کو جمع کیا ہے جن کا ذکر کسی نہ کسی حدیث میں آیا ہے۔ یہ کتاب دار المعرفہ بیروت سے چھپی ہے ۔ اس کے علاوہ ولید الزبیری نے اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ مل کر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان تمام اقوال کو جمع کیا ہے جن میں حافظ ابن حجر نے اپنی مولفات میں کسی حدیث یا اثر پر حکم لگایا ہے اور اس پر کسی جہت سے کلام کیا ہے ۔یہ قابل قدر کاوش "موسوعۃ الحافظ ابن حجر العسقلانی الحدیثیۃ" کے نام سے سلسلہ اصدارات مجلہ الحکمہ لیڈز برطانیہ سے چھپی ہے ۔
حدیث،کتب حدیث اور ائمہ حدیث سے متعلق اہم معاجم و موسوعات کی فہرست پیش خدمت ہے :
1۔ معجم المصنفات الواردۃ فی فتح الباری، مشہور حسن ال سلمان ،رائد بن صبری ،دار الہجرہ ،ریاض 
2۔ معجم الامکنۃ الواردۃ ذکرھا فی صحیح البخاری، سعد بن جنیدل
3۔ غبطۃ القاری ببیان احالات فتح الباری،صفا الضوی، مکتبہ ابن تیمیہ ،قاہرہ 
4۔ معجم اعلام الحدیث النبوی من الصحیحین، محمد التونجی ،مرکز المخطوطات و التراث و الوثائق ، کویت
5۔ موسوعۃ اقوال الامام احمد بن حنبل فی رجال الحدیث و عللہ، محمود محمد خلیل و آخرون، عالم الکتب،بیروت (4مجلدات)
6۔ معجم مسانید کتب الحدیث، ابو الفداء سامی ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت
7۔ تراجعات الحافظ ابن حجر فی فتح الباری، مشہور حسن ال سلیمان ،مکتبہ الخراز ،جدہ

ساتویں جہت :فہارس و اطراف الحدیث

کتبِ حدیث کی فہارس اور اطراف پر کثرت سے کتب لکھی گئی ہیں ۔ایک کتاب کی متنوع فہارس منظر عام پر آئی ہیں جن میں اعلام،اماکن ،آیات ،ابواب و فصول اور خاص طور پر حروف تہجی کے اعتبار سے کتاب کی احادیث (جنہیں اطراف کہا جاتا ہے ) کی فہرستیں مرتب ہوئی ہیں ۔ اس کے ساتھ علم فہرست اور اشاریہ سازی کے اصول و ضوابط پر الگ سے کام ہوا ہے۔ معروف محقق یوسف عبد الرحمان المرعشلی نے علم فھرست الحدیث، نشاتہ، تطورہ واشھر ما دون فیہ کے نام سے ایک قابل قدر کتاب لکھی ہے جس میں فن فہرس حدیث کا آغاز و ارتقاء اور اس فن پر لکھی گئی اہم کتب کا تعارف کرا یا ہے۔
فہارس کتب حدیث کی ابتداء مستشرقین کی طرف سے ہوئی۔ خاص طور پر مستشرقین کی ایک جماعت نے نو بنیادی متون حدیث صحاح ستہ ،مسند دارمی ،موطا امام مالک اور مسند احمد کی فہارس حدیث پر مشتمل ایک مفصل معجم تیار کیا ہے ۔ یہ کتاب "المعجم المفھرس لالفاظ الحدیث النبوی" کے نام سے آٹھ ضخیم جلدوں میں مکتبہ بریل ہالینڈ سے چھپی ہے ۔ اس میں حروف تہجی کے اعتبار سے الفاظ حدیث کی فہرست دی گئی ہے۔ معروف مستشرق ای فنسنک نے مفتاح کنوز السنۃ کے نام سے ایک مختصر اشاریہ ترتیب دیا ہے۔ یہ اشاریہ حدیث کی چودہ کتب (صحاح ستہ،مسند دارمی ،موطا،مسند زید بن علی ،مسند طیالسی ،مسند احمد، طبقات ابن سعد ،سیرۃ ابن ہشام ،مغازی واقدی) کے اطراف پر مشتمل ہے ۔ اس کا عربی ترجمہ معروف محقق فواد عبد الباقی نے کیا ہے ۔
مستشرقین کے بعد اسلامی دنیا میں بھی کثرت سے فہارس پر کتب لکھی گئیں ۔ اطراف الحدیث پر معاصر سطح کی سب سے مفصل فہرست محقق محمد سعید بن بسیونی زغلول نے تیار کی ہے ۔ موصوف نے حدیث کی دو سو کتب کے اطراف کو موسوعۃ اطراف الحدیث النبوی کے نام سے جمع کیا ہے ۔ یہ موسوعہ عالم الکتاب بیروت سے پندرہ جلدوں میں چھپا ہے ۔ مفصل فہارس کے سلسلے میں شعیب الارناووط کی فہارس مسند احمد بھی قابل ذکر ہیں ۔ موصوف نے مسند احمد پر قابل قدر تحقیق مکمل کرنے کے بعد اس کی مفصل فہارس تیار کیں۔ یہ الفھارس العامۃ لمسند الامام احمد بن حنبل کے نام سے پانچ جلدوں پر مشتمل ہیں ۔ موسسہ الرسالہ کی تحقیق شعیب الارناوط کی طباعتِ مسند کی آخری پانچ جلدیں انہی فہارس کی ہیں ۔ اس کے علاوہ عبد الکریم غانم سے ضعیف و موضوع احادیث کا ایک اشاریہ ترتیب دیا ہے ،جو دو جلدوں میں مکتبہ العبیکان ریاض سے چھپا ہے۔
ذیل میں اہم کتب حدیث کی فہارس و اطراف پر مشتمل کتب کی فہرست دی جارہی ہے :
1۔ قرۃ العینین فی اطراف الصحیحین، فواد عبد الباقی ، المکتبہ التجاریہ ،مکہ مکرمہ (3مجلدات)
2۔ فہارس صحیح مسلم، فواد عبد الباقی، دار احیاء الکتب العربیہ ،بیروت
3۔ المرشد الی احادیث سنن الترمذی، صدقی البیک ،مطبعۃ الفجر ،حمص
4۔ فھارس جامع الاصول فی احادیث الرسول لابن الاثیر، عبد اللہ بن محمد الغنیمان، دار المامون للتراث، دمشق(مجلدین)
5۔ المعجم المفھرس لالفاظ الحدیث النبوی فی سنن دار قطنی، یوسف عبد الرحمان المرعشلی، دار المعرفہ ،بیروت
6۔ فھارس احادیث سنن الکبری للبیھقی، یوسف عبد الرحمان المرعشلی ،دار المعرفہ ،بیروت
7۔ فھارس سنن النسائی ، عبد الفتاح ابو غدہ ،مکتب المطبوعات الاسلامیہ ،حلب
8۔ فھرس احادیث وآثار للمستدرک علی الصحیحین، یوسف عبد الرحمان المرعشلی ،دار المعرفہ ، بیروت (مجلدین)
9۔ فھارس سنن ابن ماجہ، محمد سعید بن بسیونی زغلول ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت
10۔ فھارس شرح معانی الاثار، عبد الرحمان دمشقیہ ،سلیمان الحرش،دار طیبہ ،ریاض
11۔ المرشد الی کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، ندیم مرعشلی، اسامہ مرعشلی، موسسہ الرسالہ، بیروت (مجلدین )
12۔ فھرس احادیث وآثار مجمع الزوائد، محمد سلیم ابراہیم سمارہ ،عالم الکتب ،بیروت(4مجلدات)
13۔ فھارس احادیث و آثار سنن ابی داود، عبد الرحمان دمشقیہ ،دار طیبہ ،ریاض
14۔ فھارس احادیث و آثار نصب الرایۃ، عدنان علی شلاق ،عالم الکتب بیروت (مجلدین )
15۔ فھرس مصنفی عبد الرزاق و ابن ابی شیبۃ، ام عبد اللہ بن محروس ،دار طیبہ ،ریاض (مجلدین )
16۔ الجامع المفھرس لالفاظ صحیح مسلم، سعد المرصفی ،مجلس النشر العلمی ،جامعہ الکویت (4 مجلدات)
متونِ حدیث میں سے تقریباً ہر ایک کتاب کی متعدد فہارس تیار ہوئی ہیں ۔ مزید کتب کے لیے المعجم المصنف لمولفات الحدیث الشریف (ص947 تا 960 ج2) کی طرف رجوع کیا جائے۔

آٹھویں جہت :کتبِ حدیث کی تہذیب ،ترتیب اور اختصار

دورِ جدید کے حدیثی ذخیرے کی ایک جہت اہم متونِ حدیث کی ترتیبِ جدید ،تہذیب اور ان کا اختصار ہے۔ اختصار میں عموماً سلسلہ سند حذف کر کے(سوائے صحابی کے) صرف متونِ حدیث ذکر کیے جاتے ہیں۔ بعض اختصارات میں سلسلہ سند کے ساتھ مکررات بھی حذف کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں معروف شامی محقق مصطفی دیب البغا نے قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ موصوف نے صحاح ستہ کے اختصارات تیار کیے ہیں۔ اس کے علاوہ فیصل بن عبد العزیز ال مبارک نے نیل الاوطار کا دو جلدوں میں اختصار کیا ہے ۔ یہ اختصار بستان الاحبار مختصر نیل الاوطار کے نام سے مطبعہ سلفیہ قاہرہ سے چھپا ہے ۔ معروف سلفی محدث ناصر الدین البانی نے بھی کتب حدیث کے عمدہ اختصارات کیے ہیں جن میں خاص طور پر صحیح بخاری کا اختصار قابل ذکر ہے ۔یہ اختصار مختصر صحیح الامام البخاری کے نام سے مکتب المعارف ریاض سے چار جلدوں میں چھپا ہے۔
اہم متونِ حدیث کے مختصرات کی ایک فہرست پیش خدمت ہے :
1۔ فتح الالہ فی اختصار السنن الکبری للبیھقی، محمد ابن احمد الشنقیطی ،دار الفکر، بیروت (5 مجلدات)
2۔ مختصر الشمائل المحمدیۃ للترمذی، ناصر الدین البانی ،المکتبہ الاسلامیہ ،عمان
3۔ مختصر النھایۃ فی غریب الحدیث لابن الاثیر، صلاح الدین حفنی ،دار البحوث العلمیہ ،کویت
4۔ مختصر مسند الامام احمد، خالد عبد الرحمان العک، محمد ادریس اسلام ،دار الحکمہ ،دمشق
5۔ مختصر صحیح مسلم، محمد بن یاسین بن عبد اللہ ،المکتبہ التجاریہ ،مکہ مکرمہ (مجلدین )
6۔ مختصر صحیح البخاری مع شرحہ فتح الباری، خالد عبد الرحمان العک ،دار الحکمہ ،دمشق (مجلدین)
7۔ مختصر مصنف عبد الرزاق، مصطفی بن علی بن عوض ،دار الجیل ،بیروت (4 مجلدات)
8۔ مختصر عمدۃ الاحکام للمقدسی، محمود الارناووط ،موسسہ الریان ،بیروت
9۔ المحصل من مسند الامام احمد بن حنبل، عبد اللہ بن ابراہیم القرعاوی ،ریاض (3 مجلدات)
10۔ مختصر صحیح الامام مسلم بشرح النووی، خالد عبد الرحمان العک ،دار الالباب ،دمشق
اختصارات کے ساتھ متونِ حدیث کی ترتیبِ جدید اور تہذیب پر بھی متنوع کام ہوئے ہیں۔اطراف الحدیث کے ماہر محقق محمد سعید بن بسیونی زغلول کی سر براہی میں دو محققین نے امام مزی کی تحفۃ الاشراف کی تہذیب و ترتیب جدید مرتب کی ہے۔ یہ عمدہ تہذیب "تقریب تحفۃ الاشراف بمعرفہ الاطراف" کے نام سے موسسہ الکتب بیروت سے چھ جلدوں میں شائع ہوئی ہے ۔ اس کتاب میں تحفہ الاشراف میں مذکورہ اطراف کی اسناد حذف کی گئی ہیں،ہر حدیث کی تخریج کی گئی ہے،جملہ رواۃ خواہ صحابہ ہوں یا تابعین، ان کی مرویات کی تعداد بتائی گئی ہے۔ الغرض تحفۃ الااشراف کے مباحث کی نئے انداز میں تہذیب کی گئی ہے ۔
تہذیبات کے سلسلے میں اہم کام موطا امام مالک کی معروف شرح التمھید لابن عبد البر کی فقہی ابواب پر ترتیبِ جدید ہے ۔ محمد بن عبد الرحمان المغراوی نے فتح البر فی الترتیب الفقھی لتمھید ابن عبد البر کے نام سے التمہید کو فقہی ابواب کے مطابق مرتب کیا ہے ۔ یہ کتاب چودہ جلدوں میں ریاض سے چھپی ہے ۔ خالد محمود رباط نے امام طحاوی کی شرح مشکل الآثار کو نئے قالب میں ڈھالا ہے ۔ یہ کتاب تحفۃ الاخیار بترتیب شرح مشکل الآثار کے نام سے دار بلنسیہ ریاض سے دس جلدوں میں چھپی ہے ،اس میں مصنف نے شرح مشکل الاثار کی جدید تبویب کی ہے اور احادیث و آثار کی تخریج بھی کی ہے ۔ عبدہ علی کوشک نے مسند ابی یعلی کو "المقصد الاعلی فی تقریب احادیث الحافظ ابی یعلی" کے نام سے فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب تین جلدوں میں دار ابن حزم بیروت سے چھپی ہے ۔
کتبِ حدیث کی اہم تہذیبات پیش خدمت ہیں:
1۔ تھذیب جامع الترمذی، عبد اللہ عبد القادر تلیدی ،دار الفکر ،بیروت(3مجلدات)
2۔ تقریب بلوغ المرام للحافظ، فہد بن عبد الرحمان یحیی ،طارق بن محمد الخضر ،دار ابن جوزی ،دمام
3۔ الشھاب اللامع  بتھذیب کتاب الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع، ضیاء الدین بن رجب ،دار الفتح، متحدہ عرب امارات
4۔ تھذیب الترغیب والترھیب، عونی نعیم اشرف ،دار الجیل ،بیروت(مجلدین ) 
5۔ تقریب التقریب  (لابن حجر)، عائض بن عبد اللہ القرنی ،مکتبہ ابہا ،سعودی
6۔ تقریب التدریب، صلاح محمد عویضہ ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت
7۔ مھذب عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، علی حسن عبد الحمید حلبی ،المکتبہ الاسلامیہ ،عمان

نویں جہت :کتبِ تخریجات 

معاصر سطح پر تخریج ِ حدیث کے سلسلے میں وسیع پیمانے پر کام ہوا ہے ،علم التخریج اور اس کے اصولوں و ضوابط پر پورا مکتبہ وجود میں آچکا ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ اصولِ حدیث میں لفظ تخریج متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ معاصر اصطلاح میں خصوصیت کے ساتھ اس کے مفہوم میں دراسۃ الاسانید یعنی اسانید پر جرح و تعدیل کے اعتبار سے بحث کر کے حدیث کے درجے کا تعین کرنا بھی شامل ہوا ہے۔ یوں اس فن کی دقت اور اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ۔ اس لیے فن تخریج پر کثیر تعداد میں کتب لکھی گئی ہیں،ان کتب میں تفصیلی ہونے کے اعتبار سے عبد الموجود محمد عبد اللطیف کی کتاب کشف اللثام عن اسرار تخریج حدیثِ سید الانام قابل ذکر ہے ،یہ کتاب مکتبہ الازہر قاہرہ سے دو جلدوں میں چھپی ہے، فن تخریج اور اس کے اصولوں و ضوابط پر شاید سب سے ضخیم کتاب ہے۔
اس کے علاوہ تفصیلی کتب میں کمال علی الجمل کی کتاب کنز الدقائق فی بیان ما فی التخریج من دقائق (خاص ،قاہرہ)، معروف مصنف عداب محمود الحمش کی کتاب علم التخریج الحدیث و نقدہ، تاصیل و تطبیق (دار الفرقان، عمان)، دس مصنفین کی مشترکہ کاوش الواضح فی فن التخریج ودراسۃ الاسانید (الدار العالمیہ للنشر، عمان)، علی نائف بقاعی کی تخریج الحدیث الشریف (دار البشائر الاسلامیہ، بیروت) اور محمد عزت حسین کی ضخیم کتاب المغنی فی طرق تخریج الحدیث (خاص ،قاہرہ )اہم کتب ہیں ، جبکہ درسی حوالے سے معروف مدرس و مصنف محمود طحان کی مختصر و جامع کتاب اصول التخریج ودراسۃ الاسانید (المطبعہ العربیہ، حلب) قابل ذکر ہے۔
اس موضوع پر چند تفصیلی کتب کی فہرست پیش خدمت ہے:
1۔ طرق تخریج حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، عبد المہدی عبد الہادی ،جامعہ الازہر، مصر
2۔ تیسیر علم التخریج ، محمود عمر ہاشم ، مطبعہ الشروق ،مصر
3۔ التاصیل لاصول التخریج و قواعد الجرح و التعدیل، بکر بن عبد اللہ ابو زید ،دار العاصمہ ، ریاض
4۔ المغنی فی علم تخریج احادیث المصطفی، دلال محمو ابو سالم ،خاص ،مصر
5۔ مفتاح المتبدئین فی تخریج حدیث خاتم النبیین، رضا بن زکریا حمیدہ ،خاص قاہرہ
علم تخریج کے ساتھ علوم اسلامیہ کے مختلف گوشوں پر لکھی گئی کتب میں مذکور احادیث کی تخریج پر بے شمار کام ہوئے ہیں ۔ زیادہ تر کام ایم فل، پی ایچ ڈی مقالات کی صورت میں ہوئے ہیں۔ لغت ،نحو ،صرف ،بلاغت ،فقہ و اصول فقہ اور تفسیر پر لکھی گئی اہم کتب میں مذکور احادیث کی تخریج مع ان کی درجہ بندی پر کام ہوا ہے۔ چند اہم کام ملاحظہ ہوں :
احمد بن محمد الغماری نے بدایۃ المجتہد کی احادیث کی مفصل تخریج الھدایۃ فی تخریج احادیث البدایۃ کے نام سے کی ہے۔ یہ کتاب عالم الکتب بیروت سے آٹھ جلدوں میں چھپی ہے ۔ مروان کجک نے امام ابن تیمیہ کے مجموعہ فتاوی میں مذکور احادیث کی تخریج کی ہے ۔یہ قابل قدر کام تخریج احادیث مجموعۃ الفتاوی شیخ الاسلام تقی الدین احمد ابن تیمیہ الحرانی کے نام سے دار ابن حزم بیروت سے چھ جلدوں میں چھپا ہے ۔ مخیمر صالح نے ابونعیم کی معروف کتاب حلیۃ الاولیاء کی احادیث کی تخریج کی ہے ۔یہ کتاب کمال البغیۃ فی تخریج احادیث الحلیۃ کے نام سے جامعہ الیرموک اردن سے دو جلدوں میں چھپی ہے۔ 
ابن حجر عسقلانی کی بلوغ المرام احادیثِ احکام کے بنیادی مصادر میں شمار ہوتی ہے ، اس کتاب کی مفصل تخریج خالد بن ضیف اللہ الشلاحی نے کی ہے۔ یہ ضخیم کتاب التبیان فی تخریج وتبویب احادیث بلوغ المرام و بیان ما ورد فی الباب کے نام سے موسسہ الرسالہ بیروت سے آٹھ جلدوں میں چھپی ہے۔ ابن سنی کی عمل الیوم و اللیلۃ کتب اذکار میں اہم مقام کی حامل ہے ، اس کی تخریج معروف مصنف سلیم بن عید الہلالی نے عجالۃ الراغب المتمنی فی تخریج کتاب عمل الیوم و اللیلۃ لابن سنی کے نام سے کی ہے ،جو دار ابن حزم بیروت سے دو جلدوں میں چھپی ہے ۔ احمد بن محمد صدیق الغماری نے تصوف کی معروف کتاب عوارف المعارف کی احادیث کی تخریج غنیۃ العارف بتخریج احادیث عوارف المعارف کے نام سے کی ہے ۔یہ کتاب المکتبہ المکیہ مکہ مکرمہ سے دو جلدوں میں چھپی ہے۔
تخریج کے حوالے سے چند مزید اہم کتب کی فہرست پیش خدمت ہے :
1۔ ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل، ناصر الدین البانی ،المکتب الاسلامی ،بیروت (8 مجلدات)
2۔ تخریج االاحادیث الواردۃ فی مدونۃ الامام مالک بن انس، طاہر محمد دردیری، جامعہ ام القری، مکہ مکرمہ (3 مجلدات)
3۔ غوث المکدود بتخریج منتقی ابن الجارود، ابو اسحاق الحوینی ،حجازی بن محمد ،دار الکتاب العربی، بیروت (3 مجلدات)
4۔ الروض البسام بترتیب و تخریج فوائد التمام، دار البشائر الاسلامیہ ،بیروت (5مجلدات)
5۔ فتح الجلا ل فی تخریج احادیث الظلال (سید قطب)عبد المنعم ابراہیم ،محمد ابراہیم ،مکتبہ نزار ،مکہ مکرمہ (3 مجلدات)
6۔ التعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان، ناصر الدین البانی ،جدہ (12 مجلدات) صحیح ابن حبان کی احادیث کی تخریج ہے۔ 
7۔ الاحادیث والآثار الواردۃ فی تاریخ بغدادللخطیب البغدادی، علی بن عبد اللہ الجمعہ، جامعہ ام القری (6مجلدات)
کتب تخریجات علمی تحقیقات میں بڑی معاون ہیں، ان کتب کی مدد سے احادیث پر تحقیق اور درجہ بندی کا تعین آسان ہوجاتا ہے۔
(جاری)

دستور کی اسلامی دفعات اور ’’سیاسی اسلام‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ربع صدی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ گکھڑ میں حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر? کی مسجد میں دینی جلسہ تھا، اس دور کے ایک معروف خطیب بیان فرما رہے تھے، موضوعِ گفتگو دارالعلوم دیوبند کی خدمات و امتیازات تھا۔ جوشِ خطابت میں انہوں نے یہ فرما دیا کہ دارالعلوم دیوبند نے شاہ اسماعیل شہید جیسے سپوت پیدا کیے۔ جلسہ کے بعد دسترخوان پر ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ حضرت! دارالعلوم دیوبند کا آغاز 1866ء میں ہوا تھا جبکہ شاہ اسماعیل شہید اس سے تقریباً پینتیس سال قبل بالاکوٹ میں شہید ہوگئے تھے، آپ نے انہیں دارالعلوم دیوبند کے سپوتوں میں کیسے شامل کر لیا؟ فرمانے لگے کہ یہ بات میرے ذہن میں نہیں تھی آئندہ اس کا خیال رکھوں گا۔ بھلے آدمی تھے، انتقال کر گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ شاہ اسماعیل شہید اور ان کے رفقاء کی قربانیوں کے نتیجے میں دارالعلوم دیوبند وجود میں آیا مگر شہدائے بالاکوٹ کو دارالعلوم دیوبند کے ثمرات میں شامل کرنے والی بات درست نہیں ہے۔
ہمارے ہاں تاریخ سے بے خبری کے باعث اس قسم کی باتیں عام طور پر ہو جاتی ہیں جو لاعلمی کی وجہ سے ہوں تو زیادہ سے زیادہ جہالت کا عنوان پاتی ہیں، لیکن اگر ایسی باتیں باخبر ہوتے ہوئے بھی جان بوجھ کر کی جائیں تو اس کے لیے بے خبری اور جہالت کی بجائے دجل اور جاہلیت کا عنوان زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ آج کل ایک بات تواتر کے ساتھ کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے دستور میں اسلامی دفعات جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے شامل کی تھیں اور یہ ان کے دورِ آمریت کی یادگار ہیں۔ حالانکہ دستور کی بنیادی اسلامی دفعات ۱۹۷۳ء اور ۱۹۷۴ء میں منتخب پارلیمنٹ نے طے کی تھیں مثلاً (۱) ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا (۲) سرکاری مذہب اسلام ہوگا (۳) پارلیمنٹ قرآن و سنت کی پابند ہوگی (۴) قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہیں کی جا سکے گی اور (۵) قادیانیوں کا شمار غیر مسلم اقلیتوں میں ہوگا۔ جبکہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اس وقت فوج کی ہائی کمان کا حصہ بھی نہیں تھے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے مگر ہمارے ہاں چونکہ سیاست میں نکولو میکیاولی اور پراپیگنڈا اور لابنگ میں جوزف گوئبلز کے ذوق و اسلوب کی حکمرانی ہے اس لیے یہ سب کچھ کسی حجاب کے بغیر کہا اور دہرایا جا رہا ہے۔
اسی طرح ایک بات ’’سیاسی اسلام‘‘ کے عنوان سے بھی وضع کر لی گئی ہے کہ جنوبی ایشیا میں اس کا پرچم سب سے پہلے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بلند کیا تھا، اس لیے یہ ان کی اختراع ہے۔ ’’سیاسی اسلام‘‘ کے تعارف کے لیے اس کے عناصر اربعہ کے طور پر جو باتیں آج کل بیان کی جا رہی ہیں وہ یہ ہیں کہ
آج کی دنیا میں ان امور کو ’’سیاسی اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور مغربی دانش و سیاست کا مسلسل یہ تقاضا ہے کہ ہم ان امور سے دست بردار ہو کر دین و مذہب کو عقیدہ و عبادت اور اخلاقیات کے دائرے میں ہی محدود سمجھ لیں۔ اس سلسلہ میں باقی تمام پہلوؤں سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اگر اس کا نام ’’سیاسی اسلام‘‘ ہے تو یہ مولانا مودودی کی ایجاد نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں ہمارے بہت پہلے کے ماضی میں پیوست ہیں۔ حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی اور حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی دخل اندازی بڑھتے دیکھ کر جو تاریخی فتویٰ صادر کیا تھا اس کی بنیاد دو بڑے نکات پر تھی:
اس وقت رسمی طور پر مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کی حکومت تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی بادشاہ کے نام پر وہ اقدامات کر رہی تھی جن کی بنیاد پر ہندوستان کے ’’دارالحرب‘‘ ہونے کا یہ فتویٰ صادر کیا گیا تھا۔ پھر اسی فتویٰ کی بنیاد پر سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے مسلح بغاوت اور جہاد کے نتیجے میں جو حکومت قائم کی تھی وہ امیر المومنین کی سربراہی میں اسلامی حکومت تھی۔ کم و بیش اسی دور میں بنگال میں حاجی شریعت اللہ کی ’’فرائضی تحریک‘‘ کا ٹائٹل بھی غیر ملکی تسلط کے خلاف مزاحمت اور نفاذِ شریعت تھا۔ جبکہ اس کے بعد برصغیر کے طول و عرض میں جو بیسیوں تحریکات اٹھیں وہ غیر ملکی تسلط سے نجات اور شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کے عنوان سے آگے بڑھیں۔ حتیٰ کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے خلافت عثمانیہ، جرمنی، جاپان اور افغانستان کی حکومتوں کے تعاون سے جس انقلاب کی منصوبہ بندی کی تھی اس کا ٹائٹل ’’حکومتِ الٰہیہ‘‘ تھا جس کا دستورِ اساسی بھی شائع ہو چکا تھا اور اس کے مسلح لشکر کا عنوان ’’جنود ربانیہ‘‘ تھا۔
اس لیے اگر کسی دانشور کو یہ ’’سیاسی اسلام‘‘ قبول نہیں ہے اور حکومت و سیاست اور غلبہ و بالادستی کے عنوان سے انہیں الرجی ہوتی ہے تو وہ انقلابِ فرانس کے بعد کی مسیحیت کی طرز پر اسلام کو جس لبادے میں چاہیں پیش کرتے رہیں مگر خدارا تاریخی حقائق کو مسخ نہ کریں اور تاریخ کی ترتیب تبدیل کرنے کی کوشش نہ فرمائیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جسے ’’سیاسی اسلام‘‘ کہہ کر پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ ماضی قریب کی تاریخ میں شاہ عبد العزیز دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید، حاجی شریعت اللہ، تیتومیر شہید، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، شیخ الہند مولانا محمود حسن، فقیر ایپی، حاجی صاحب ترنگ زئی، مولانا عبید اللہ سندھی او رپیر صاحب آف پگارا شہید کے پرچم تلے آگے بڑھتا رہا اور آج بھی انہی کے خوشہ چینوں نے اپنے ہاتھوں میں اس کا پرچم بحمد اللہ تعالیٰ تھام رکھا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اگر اس ’’سیاسی اسلام‘‘ کو اپنے اسلوب میں پیش کیا ہے تو ان کے اسلوب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مولانا مودودی کی بہت سی باتوں سے جمہور علماء اہل سنت کو اختلاف ہے اور ہم اس اختلاف میں جمہور علماء اہل سنت کے ساتھ ہیں لیکن جہاں نفاذِ اسلام کی جدوجہد میں مولانا مودودی کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا، وہاں ان سے اختلاف کی آڑ میں برصغیر کی دو سو سالہ تحریکِ آزادی کے نظریاتی اور دینی مقاصد کو نئی نسل کی نگاہوں سے اوجھل کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔

بیت المقدس کو اسرائیلی دار الحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امریکی صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اس مسئلہ پر عالم اسلام کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کے اب تک چلے آنے والے اجتماعی موقف کو بھی مسترد کر دیا ہے جس پر دنیائے اسلام اس کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ اس مذمت و احتجاج میں عالمی رائے عامہ کے سنجیدہ حلقے برابر کے شریک ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم او آئی سی اور عرب لیگ اس سلسلہ میں مذمت و احتجاج سے آگے بڑھ کر عملی طور پر کیا اقدامات کرتی ہے؟ مذمت و احتجاج کا سلسلہ تو ایک صدی سے جاری ہے، ضرورت عملی اقدامات کی ہے اور اس کے لیے پوری دنیا کی نظریں مسلمان حکمرانوں اور عرب حکومتوں پر ہیں۔ خدا کرے کہ وہ ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کے سحر سے نکل کر اس طرف کوئی عملی پیش رفت کر سکیں۔
اب سے چودہ برس قبل فلسطین کو اسرائیل میں تبدیل کرنے کے حوالہ سے برطانیہ کے کردار کا ہم نے مختصراً ایک مضمون میں ذکر کیا تھا جبکہ امریکہ اسی برطانوی کردار کے تسلسل کو آگے بڑھانے میں مصروفِ عمل ہے۔ یہ مضمون دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے جس سے بیت المقدس اور فلسطین کے بارے میں اسرائیل، امریکہ اور اس کے حواریوں کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ربع صدی کے دوران عالمی استعمار کی گرفت دنیا کے معاملات پر جس طرح مضبوط سے مضبوط تر ہوئی ہے اور وہ جس دیدہ دلیری اور بے فکری سے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جا رہے ہیں اور مسلم قیادت جس طرح خوابِ غفلت میں مدہوش دکھائی دے رہی ہے اس پر ہم اپنے جذبات و احساسات عالمِ تصور میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اس درخواست کی صورت میں ہی کر سکتے ہیں کہ
اے خاصہ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پر تری آکے عجب وقت پڑا ہے
’’روزنامہ نوائے وقت لاہور نے 5 مارچ 2003ء کو ایک اسرائیلی اخبار کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ اسرائیل کے وزیر دفاع جنرل موفاذ نے کہا ہے کہ چند روز تک عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا اور ہمارے راستے میں جو بھی رکاوٹ بنے گا اس کا حشر عراق جیسا ہی ہوگا۔ جنرل موفاذ نے خلافت عثمانیہ کا حوالہ بھی دیا ہے کہ عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید نے ہمیں فلسطین میں جگہ دینے سے انکار کیا تھا جس کی وجہ سے ہم نے نہ صرف ان کی حکومت ختم کر دی بلکہ عثمانی خلافت کا بستر ہی گول کر دیا۔ اب جو اسرائیل کی راہ میں مزاحم ہوگا اسے اسی انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔
اسرائیلی وزیر دفاع کے اس بیان سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے کہ عراق پر امریکی حملے کا منصوبہ در اصل صیہونی عزائم کی تکمیل کے لیے ہے اور اس عالمی پروگرام کا حصہ ہے جو عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ اور اسرائیلی سرحدوں کو وسیع اور مستحکم کرنے کے لیے گزشتہ ایک صدی سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اس میں امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادی مسلسل سرگرم عمل ہیں۔
آج سے ایک صدی قبل سلطان عبدالحمید (ثانی) خلافت عثمانیہ کے تاجدار تھے جن کا تذکرہ جنرل موفاذ نے اپنے مذکورہ بیان میں کیا ہے۔ خلافت عثمانیہ کا دار السلطنت استنبول ( قسطنطنیہ) تھا اور فلسطین، اردن، عراق، شام، مصر اور حجاز سمیت اکثر عرب علاقے ایک عرصہ سے خلافت عثمانیہ کے زیر نگین تھے۔ فلسطین خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا اور بیت المقدس کا شہر بھی عثمانی سلطنت کے اہم شہروں شمار ہوتا تھا۔ یہودی عالمی سطح پر فلسطین میں آباد ہونے اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ بیت المقدس پر قبضہ کر کے مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیرکرنے کا پروگرام بنا چکے تھے اور اس کے لیے مختلف حوالوں سے راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم کا وفد ان کے پاس آیا اور ان سے درخواست کی کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ چونکہ عثمانی سلطنت کے قانون کے مطابق یہودیوں کو فلسطین میں آنے کی اور بیت المقدس کی زیارت کی اجازت تو تھی مگر وہاں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز تک پورے فلسطین میں یہودیوں کی کوئی بستی نہیں تھی، یہودی دنیا کے مختلف ممالک میں بکھرے ہوئے تھے اور کسی ایک جگہ بھی ان کی ریاست یا مستقل شہر نہیں تھا۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے یہ درخواست منظور کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسرائیل، بیت المقدس اور فلسطین کے بارے میں یہودیوں کا عالمی منصوبہ ان کے علم میں آچکا تھا اس لیے ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس صورتحال میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دیتے۔
سلطان مرحوم کا کہنا ہے کہ دوسری بار یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا تو یہ پیشکش کی کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے لیے ایک بڑی یونیورسٹی بنانے کے لیے تیار ہیں جس میں دنیا بھر سے یہودی سائنس دانوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے یہودی سائنسدان خلافت عثمانیہ کا ہاتھ بٹائیں گے، اس کے لیے انہیں جگہ فراہم کی جائے اور مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے وفد کو جواب دیا کہ وہ یونیورسٹی کے لیے جگہ فراہم کرنے اور ہر ممکن سہولتیں دینے کو تیار ہیں بشرطیکہ یہ یونیورسٹی فلسطین کی بجائے کسی اور علاقہ میں قائم کی جائے۔ یونیورسٹی کے نام پر وہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن وفد نے یہ بات قبول نہ کی۔
سلطان عبدالحمید مرحوم نے لکھا ہے کہ تیسری بار پھر یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا اور یہ پیشکش کی کہ وہ جتنی رقم چاہیں انہیں دے دی جائے گی مگر وہ صرف یہودیوں کی ایک محدود تعداد کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دیں۔ سلطان مرحوم نے اس پر سخت غیظ و غضب کا اظہار کیا اور وفد کو ملاقات کے کمرے سے فوراً نکل جانے کی ہدایت کی نیز اپنے عملہ سے کہا کہ آئندہ اس وفد کو دوبارہ ان سے ملاقات کا وقت نہ دیا جائے۔
اس کے بعد ترکی میں خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک کی آبیاری کی گئی اور مختلف الزامات کے تحت عوام کو ان کے خلاف بھڑکا کر ان کی حکومت کو ختم کرا دیا گیا۔ چنانچہ حکومت کے خاتمہ کے بعد انہوں نے بقیہ زندگی نظر بندی کی حالت میں بسر کی اور اسی دوران مذکورہ یادداشتیں تحریر کیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں خلافت سے برطرنی کا پروانہ دینے کے لیے جو وفد آیا اس میں ترکی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر قرہ صو بھی شامل تھا جو اس سے قبل مذکورہ یہودی وفد میں بھی شریک تھا۔ اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ سلطان مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک اور ان کی برطرنی کی یہ ساری کارروائی یہودی سازشوں کا شاخسانہ تھی جس کی تصدیق اب تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع جنرل موفاذ نے بھی مذکورہ بیان میں کر دی۔
سلطان عبد الحمید مرحوم ایک باغیرت اور باخبر حکمران تھے جنہوں نے اپنی ہمت کی حد تک خلافت کا دفاع کیا اور یہودی سازشوں کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے لیکن ان کے بعد بننے والے عثمانی خلفاء کٹھ پتلی حکمران ثابت ہوئے جن کی آڑ میں مغربی ممالک اور یہودی اداروں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ایجنڈے کی تکمیل کی اور 1924ء میں خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ ترکوں نے عرب دنیا سے لاتعلقی اختیار کر کے ترک نیشنلزم کی بنیاد پر سیکولر حکومت قائم کرلی، جبکہ مکہ مکرمہ کے گورنر حسین شریف مکہ نے، جو اردن کے موجودہ حکمران شاہ عبد اللہ کے پردادا تھے، خلافت عثمانیہ کے خلاف مسلح بغاوت کر کے عرب خطہ کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ انہیں یہ چکمہ دیا گیا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ان کی خلافت عالم اسلام میں قائم ہو جائے گی مگر ان کے ایک بیٹے کو عراق اور دوسرے بیٹے کو اردن کا بادشاہ بنا کر ان کی عرب خلافت کا خواب سبو تاڑ کر دیا گیا۔ جبکہ حجاز مقدس پر آل سعود کے قبضہ کی راہ ہموار کر کے حسین شریف کو نظر بند کر دیا گیا جنہوں نے باقی زندگی اسی حالت میں گزاری۔
اس دوران فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر کے اپنا گورنر بٹھا دیا جس نے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ وہ فلسطین میں آکر جگہ خرید سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک سے منظم پروگرام کے تحت یہودیوں نے فلسطین میں آکر آباد ہونا شروع کیا۔ وہ فلسطین میں جگہ خریدتے تھے اور اس کی دوگنی چوگنی قیمت ادا کرتے تھے۔ فلسطینی عوام نے اس لالچ میں جگہیں فروخت کیں اور علماء کرام کے منع کرنے کے با وجود محض دگنی قیمت کی لالچ میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس وقت مفتی اعظم فلسطین الحاج سید امین الحسینی اور ان کی حمایت میں عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام نے فتویٰ صادر کیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر اسرائیلی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ ان کا اصل پروگرام ہے اس لیے یہودیوں کو فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ یہ فتویٰ دیگر بڑے علماء کرام کی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی جاری کیا جو ان کی کتاب ’’ بوادر النوادر‘‘ میں موجود ہے۔ مگر فلسطینیوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور دنیا کے مختلف اطراف سے آنے والے یہودی فلسطین میں بہت سی زمینیں خرید کر اپنی بستیاں بنانے اور آباد ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حتیٰ کہ 1945ء4 میں اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کے ایک حصے کا حقدار تسلیم کر کے ان کی ریاست کے حق کو جائز قرار دے دیا اور فلسطین میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو الگ الگ ریاستوں کے قیام کی منظوری دے دی جس کے بعد برطانوی گورنر نے اقتدار یہودی حکومت کے حوالہ کر دیا۔
یہ اس بیان کا مختصر سا پس منظر ہے جس میں اسرائیلی وزیر دفاع کے جنرل موفاذ نے خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کی معزولی اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ میں یہودی کردار کا ذکر کیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام کے دشمن کس قدر چوکنا، با خبر اور مستعد ہیں اور اس کے مقابلہ میں ہماری بے حسی، بے خبری اور نا عاقبت اندیشی کی سطح کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں،آمین یا رب العالمین۔‘‘
(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۱۷ مارچ ۲۰۰۳)

ظلماتِ وقت میں علم و آگہی کے چراغ (۲)

پروفیسر غلام رسول عدیم

مدرسہ نصرۃ العلوم 

چوک گھنٹہ گھرسے مغرب کی جانب مسجد نور سے ملحق مرسہ نصرۃالعلوم ضلع گوجرانوالہ کی عظیم دینی درس گاہ ہے ۔ ۱۳۷۱ء بمطابق۱۹۵۲ء کومدرسہ کی بنیاد رکھی گئی ۔مدرسہ کی سہ منزلہ عظیم لشان عمارت ۴۷کمروں پرمشتمل ہے ،جن میں ۱۹۰طلباء کی اقامتی گنجائش ہے۔ مدرسہ کے مہتمم حکیم صوفی عبدالحمیدسواتی (فاضل دارالعلوم دیوبند،فاضل دارالمبلغین لکھنؤ، مستندنظامیہ طبیہ کالج حیدرآباددکن )ایک عالم باعمل اور درویش صفت انسان ہیں۔ یوں تومدرسہ انجمنِ نصرۃ العلوم کے تحت چل رہاہے مگرمہتمم کی پرکشش شخصیت مدرسے کے جملہ انصرامی امور کامحورومرکزہے۔ وہ مسجدمیں خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں ۔ان کے سلسلہ درس قرآن میں کوئی ۲۰۰کی تعدادمیں ہرروزحاضری ہوتی ہے جو ساتھ ساتھ طبع بھی کیاجا رہاہے ۔چارجلدیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں ۔مدرسے کامسلک حنفی دیوبندی ہے۔
صدرمدرس کے فرائض شیخ الحدیث مولانامحمدسرفرازخاں صفدرؔ اداکرتے ہیں ۔مولاناموصوف عصر حاضر کے جیدعلماء حدیث میں شمارکیے جاتے ہیں۔ علوم حدیث خصوصاً"علم اسماء الرجال"پران کی گہری نظرہے ۔ وہ علوم دینیہ کے ایک ماہرعالم ،ایک محنتی استاد،ایک بلندپایہ مصنف اورایک ملنساراورشگفتہ طبع انسان ہیں۔ ان کی تصانیف اعلیٰ علمی حلقوں میں قدرکی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ وہ راہِ سنت ،راہِ ہدایت،صرف ایک اسلام(بجواب دواسلام از ڈاکٹر برق)، احسن الکلام (۲جلد)، الکلام الحاوی ، تبریدالنواظر، گلدستہ توحید، ازالۃالریب اور شوقِ حدیث کے علاوہ کوئی چاردرجن کے لگ بھگ کتابوں کے مصنف ہیں ۔ان کا انداز تحریر عامۃالناس کے لیے عام فہم اورخواص علماء کے لیے علمی استدلال سے مملوہوتاہے ۔ ان کی دینی بصیرت قابل اعتماد،تفہیمِ مسائل قابل قدر،تحقیقات علمی قابل داد اور زہدوتقوی قابل رشک ہیں۔ ان کے تبلیغی اورمناظراتی رسائل منطقی دلائل وبراہین کالاجواب شاہکارہیں۔ مدرسے کی تعطیلات کے دومہینے کے دوران میں وہ ترجمہ و تفسیر کاخصوصی درس دیتے ہیں جس میں منتہی طلباء کے علاوہ جدیدتعلیم یافتہ اصحاب بھی شامل ہوتے ہیں۔ باقاعدہ امتحان کے بعدامیدواروں کوسندات دی جاتی ہیں ۔
مدرسے میں درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ نصاب ۸سے۱۰سال تک ہے۔ طلباء کی مجموعی تعداد ۱۵۰ ہے۔ مسجدکاوسیع ہال اورصحن مختلف درجوں کی جماعتوں کی درس گاہ کاکام دیتاہے ۔
مدرسے کے دارالافتاء کی سرگرمی کارقابلِ ستائش ہے۔ مفتی محمدعیسیٰ گورمانی فرائض تدریس کے ساتھ ساتھ فتوے جاری کرتے ہیں۔ ان کاریکارڈ بھی رکھتے ہیں ان کی مددکے لیے مفتی عبدالشکوربطورنائب مفتی کام کرتے ہیں ۔کتب خانہ سہ منزلہ ہے ۔درسی کتابوں کے علاوہ کوئی چارہزار کے قریب دینی وادبی کتابیں نہایت قرینے سے سجائی گئی ہیں۔ مولانامحمداشرف ناظم کتب خانہ ہیں جونہایت محنتی ہیں۔ انتظامی امور مولانا حافظ عبدالقدوس قارن کے سپردہیں جو پورے مدرسے کے ناظم ہیں ۔
شروع میں یہ متروکہ جگہ تھی۔ مدرسہ کی بنیاد رکھتے وقت کسی کوسان گمان نہ تھاکہ ایک دن یہ درس گاہ اس قدر شان دار عمارت اورجاندارکام کاعمدہ نمونہ ہوگی۔ ہرسال کوئی بیس کے لگ بھگ طالب علم وفاق المدارس کا امتحان پاس کرکے دینی خدمت کے جذبے سے سرشارہوکریہاں سے فارغ ہوتے ہیں۔ مدرسے کاسالانہ بجٹ چھ لاکھ سے سات لاکھ روپے تک ہے ۔حسابات کی باقاعدہ پڑتال کے لیے ایک محتسب مقرر ہے۔ مدرسہ حکومت سے کسی قسم کی استعانت نہیں کرتا۔
اساتذہ کرام کے اسماء گرامی یہ ہیں:
شیخ الحدیث مولانامحمدسرفرازخاں صفدرؔ (صدر مدرس)، مولانا صوفی عبدالحمیدسواتی (مہتمم )، مولاناحافظ عبدالقدوس قارن، مولاناعبدالقیوم، مولانا عبدالمہیمن، مولاناسید غازی شاہ، مولانا مفتی محمدعیسیٰ گورمانی، مولانا محمد یوسف، مولانا فاروق احمدکھٹانہ ،مولانامحمداشرف صابر، مولانا عبدالشکور، مولانا حافظ رشیدالحق عابد۔
مدرسہ وفاق المدارس سے وابستہ ہے ۔فاضلین میں چندکے اسماء گرامی یہ ہیں :
حافظ محمودالحسن (آزادکشمیر)،مولاناقاری محمدسلیمان( جہلمی)، مفتی محمدعیسیٰ گورمانی (مفتی مدرسہ)، مولانا عبدالرحیم (سرگودھا)، مولاناعبدالقیوم( مدرس مدرسہ)، مولانازاہدالراشد ی( مدرس انوارالعلوم)۔ مدرسہ وفاق المدارس سے وابستہ ہے۔
اس دینی مدرسے کے شیخ الحدیث اورصدرمدرس مولانامحمدسرفرازخاں صفدرؔ کااجمالی تعارف درج ذیل ہے۔
صحیح تاریخ ولادت تومعلوم نہیں، البتہ سال ولادت ۱۹۱۴ء مولدومنشاچیڑاں ڈھکی داخلی کڑمنگ بالاتحصیل مانسہرہ (ضلع ہزارہ)حال ضلع مانسہرہ۔ والدگرامی کانا م نوراحمدخاں بن گل احمد خاں۔ 
شیخ سعدی نے کہاتھا:
تمتع زہرگوشۂ یافتم
زہر خرمنے خوشۂ یافتم
کچھ یہی حال مولاناموصوف کابھی ہے۔ ابتدائی تعلیم قریبی موضع بٹل اورشیرپورسے حاصل کی بعدازاں مانسہرہ میں بغرض تعلیم چلے آئے ۔یہاں ان دنوں مرحوم مولاناغلام غوث ہزاروی مدرس تھے ۔۱۹۳۴ء میں لاہور آئے۔ پھروڈالہ سندھواں ضلع سیالکوٹ میں مولانامحمداسحاق سے فیض اٹھایا۔۱۹۳۷ء میں انّہی ضلع گجرات سے مولاناولی اللہ سے اکتساب کیا۔ملتان میں مدرسہ مفتی عبدالکریم میں پڑھتے رہے۔ جہانیاں منڈی میں مدرسہ رحمانیہ میں مولاناغلام محمد لدھیانوی اورمولاناعبدالخالق سے پڑھاپھرمدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں مولانا عبدالقدیراورمفتی عبدالواحد سے استفادہ کیا۔اصول فقہ ،فقہ،تفسیر،اصول حدیث،منطق،صرف ،نحو حتی کہ حدیث میں بھی منتہی ہونے کے باوجوداس حدیث کے مصداق کہ اثنان لایشبعان طالب علم وطالبِ مال (دوآدمی کبھی سیرنہیں ہوتے علم کاچاہنے والااورمال کا چاہنے والا۔
اپنے برادرخورد صوفی عبدالحمیدسواتی کوہمراہ لے کردیوبندکے لیے رخت سفرباندھا۔
چلی ہے لے کے وطن کے نگارخانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
۱۹۴۱ء میں دیوبندگئے ،اپنے وقت کے جیداساتذہ سے فیض اٹھایا۔ان کے اساتذہ میں وہ جگمگاتے نام آتے ہیں جوعلم ودانش کے آفتاب وماہتاب تھے ان میں چنداہم یہ ہیں:
دیوبندسے واپسی پرگوجرانوالہ میں مدرسہ انوارالعلوم میں فرائض تدریس سنبھالے ،ساتھ ہی گکھڑ میں بھی درس و تدریس کا آغازکردیا۔۱۹۵۶ء میں مولاناصوفی عبدالحمید(موصوف کے برادرخورد)کے زیرِاہتمام چلنے والے مدرسے نصرۃالعلوم میں بطورِصدرمدرس اورشیخ الحدیث آپ کی خدمات لے لی گئیں ۔سالہاسال تک ٹیچرز ٹریننگ سکول گکھڑمیں بعدازنمازعصرسلسلہ درس قرآن جاری رہامگرآج کل بوجوہ موقوف ہے۔ مولانا کی ذات گرامی اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ۔وہ دورحاضرمیں اساتذۃ علوم حدیث میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔علمِ رجال پرخصوصی طور پر ان کی نگاہ گہری ہے ۔آپ کادرس قرآن ہویادرسِ حدیث یوں محسوس ہوتا ہے کہ علم و حکمت ،دینی بصیرت اوررموزو غوامض کاایک ٹھاٹھیں مارتاہواسمندرہے جس کے سامنے خیالات فاسدہ اورعقائدباطلہ خس وخاشاک کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں ۔ایک مینارۂ نورہے کہ جہالت و نافہمی کی تاریکیاں کافور ہوتی چلی جاتی ہیں ۔کلام میں نہ خشونت ہے نہ تیزگفتاری ،ٹھہرٹھہرکربات کرتے ہیں جو سامع کے ذہن کواپیل کرتی ہوئی دل تک اترجاتی ہے ۔شب ور وزقرآن وحدیث کی تعلیم کی دھن ہے ۔لکھتے ہیں تو قلم موتی رولتاہے۔ادق اورگنجلک علمی مسائل کونہایت شگفتہ پیرائے میں واضح کردیتے ہیں ۔آپ ماضی بعیدکے کثیرالتصانیف بزرگوں کی زندہ نشانی ہیں ۔اندازتحریرمیں ادبی رعنائی بھی ہے اوراستدلال کازور بھی، جامعیت بھی ہے اوردلآویزی بھی ،برجستہ اوربرمحل استشہادکے استعمال سے وہ مشکل سے مشکل عبارت میں بھی رنگینی پیداکرلیتے ہیں۔ مناظرانہ اورمجادلانہ تحریروں کے جواب میں ان کاقلم دودھاری تلواربن جاتاہے تاہم ثقاہت اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ ان کی تحریرکی سب سے بڑی خصوصیت عالمانہ شان ہے جس میں رکاکت و ابتذال نام کی کوئی چیزنہیں ہوتی۔ بعض تحریریں پڑھ کریوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک گلیشیربلندی سے یوں آ رہا ہے کہ ہرشے کواپنے ساتھ بہائے لیے جاتاہے ۔
مکر،مفر،مقبل ،مدبر معاً
کجلمودصخر حطہ السیل من عل
( امرؤ القیس)
موصوف کی تعلیمی وتصنیفی زندگی سے ہٹ کرنجی اورشخصی زندگی کاجائزہ کیاجائے تومعلوم ہوگاوہ علم وعمل اورزہدو تقوی میں قرنِ اول کے بزرگوں کی سچی تصویرہیں ۔کئی جسمانی عوارض اٹھائے لیے پھرنے کے باوجود یہ گوہرشبِ چراغ شب وروز ایک اورصرف ایک ہی دھن میں مگن ہے کہ ارتیاب آگیں ماحول نورِیقیں سے جگمگا اٹھے ،ایمان وایقاں کے اجالے پھیلیں ،توحیدورسالت کاغلغلہ بلندہو۔ وہ ضعف پیری میں مبتلاضرورہے مگر اس کے پرعزم شیب پرہزارشباب قربان۔سنِ ستربرس سے متجاوزہے مگررعنائی خیال اوربرنائی ذوق حدیث میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔

جامعہ مدینۃ الاسلام 

جنرل بس سٹینڈکے قریب ماڈل ٹاؤن میں جامعہ مدینۃالاسلام واقع ہے مدرسے کامسلک حنفی بریلوی ہے ۔ علامہ سعیداحمدمجددی مہتمم مدرسہ اورخطیب جامع مسجدنقشبندیہ ہیں۔ مدرسے کاقیام ۶اکتوبر۱۹۷۸ء کو عمل میں آیا۔ اس لحاظ سے شہرکے کئی قدیم مدارس کی نسبت یہ مدرسہ اپنے ایام طفلی میں ہے ۔دومدرس کتابوں کی تعلیم کے لیے ہیں اوردو اساتذہ شعبۂ حفظ وناظرہ میں فرائض تدریس انجام دیتے ہیں۔ طلباء کی تعداد۲۰۰کے لگ بھگ ہے ۔۱۵۰مقامی اور۵۰ بیرونی۔ مدرسہ اقامتی ادارہ ہے ۔کتب خانے میں ایک ہزارکتابیں ہیں۔ عمارتِ جامعہ دس کمروں پرمشتمل ہے ۔ دوسری منزل کاپروگرام بھی پیش نظرہے ۔مدرسہ انجمن نقشبندیہ مجددیہ کے زیراہتمام چل رہاہے۔ دوسرے دینی مدارس کی طرح یہ جامعہ بھی اہل خیرکے تعاون سے کام کررہی ہے۔ ۱۹۸۲ء میں سالانہ بجٹ ۱۰۵۵۲۵روپے تھا۔ تعمیرکے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ جامعہ کانصاب وہی ہے جو جامعہ غوثیہ بھیرہ میں زیرتدریس ہے ۔
مدرسے کوپاکستان کے مایہ نازعالم دین اورمشہورماہرتعلیم جسٹس پیرکرم شاہ کی اعزازی سرپرستی اوررہنمائی ہے۔ علامہ سعید احمدمجددی راجوری (مقبوضہ کشمیر)کے ایک علمی ودینی خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ جامعہ انوارالعلوم ملتان سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ دورہ قرآن کی سندشیخ القرآن علامہ عبدالغفورہزاروی جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیرآبادسے حاصل کی۔ ان کی تبلیغی وتدریسی سرگرمیاں اس امرکاپتہ دیتی ہیں کہ وہ خلوص ودیانت سے سرگرم عمل رہے تووہ دن دور نہیں جب یہ مدرسہ شہرکے صف اول کے مدارس کے ہم پلہ ہوسکے گا۔وہ دارالعلوم نقشبندیہ قبرستان کے بھی ناظم اعلیٰ ہیں وہ حضرت خواجہ صوفی محمدعلی نقشبندی سے بیعت ہیں ۔
وہ مجلس تعلیمات مجددیہ کے زیراہتمام لٹریچربھی شائع کرتے ہیں ۔اہم تالیفات یہ ہیں : سرمایہ ملت کا نگہبان، درس طریقت ،آداب الحرمین ،اسلام میں عیدمیلادالنبی ﷺکی حیثیت اورشجرہ خواجگان نقشبندیہ۔ 
چونکہ مدرسہ درس میں ترمیم وتنسیخ کاقائل ہے اس لیے یہاں جدیدذہن تیارکرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ میٹرک سے بی۔اے تک آرٹس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ،ادیب عربی، عالم عربی اورفاضل عربی بھی نصاب میں شامل ہیں۔ یوں یہ ادارہ قدیم وجدیدکاحسین امتزاج ہے۔تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کوخطابت کی بھی مشق کرائی جاتی ہے۔ مذاکرات ،مضمون نویسی ،اورحسن قرأت کے مقابلے کرواکرانعامات بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔ سالانہ امتحان کے پرچے بھیرہ سے آتے ہیں اورجانچے بھی وہیں جاتے ہیں اوروہیں سے نتیجے کا اعلان ہوتاہے ۔
کوشش کی جاتی ہے کہ طلباء کو تصوف وطریقت کی چاشنی سے لذت یاب کیاجائے ۔علم کے ساتھ ساتھ عمل پر بھی زور دیاجاتاہے ۔مدرسے کا اصول یہ ہے کہ صاحب کردارعلماء ہی معاشرے میں انقلاب پیداکرسکتے ہیں۔ مختلف مذہبی تہواروں مثلاًعیدمیلادالنبی،یوم عاشورہ،معراج النبی،عیدین اوراکابرمسلک کے ایام منا کر اسلامی تعلیمات کا پرچار کیا جاتا ہے۔ اولیائے عظام کوخراج عقیدت پیش کیاجاتاہے ۔
اساتذہ کرام کے اسمائے گرمی یہ ہیں :مولاناسعیداحمدمجددی مہتمم وصدرمدرس،مولانانوازظفرایم اے ، مولانا نورالحسن تنویرچشتی بی اے،قاری محمدافضل مجددی۔

مدرسہ فاروقیہ رضویہ تعلیم القرآن

محلہ فاروق گنج کی ملک سٹریٹ میں مسلک بریلوی کی نہایت شانداردرس گاہ ہے مدرسے کاقیام کوئی بیس سال قبل ہوا۔ بانیوں میں مولاناعبداللطیف قادری اورمولانا محمدعبداللہ بٹ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ اگرچہ وسعت میں توجگہ اتنی نہیں تاہم گنجائش میں اتنی کم بھی نہیں۔ عمارت ۱۵کمروں پرمشتمل ہے جس میں تدریسی کمرے بھی ہیں اور اقامتی بھی۔ سالانہ بجٹ کوئی ۶۰،۶۵ہزارتک ہے ۔دورہ حدیث تک تعلیم دی جاتی ہے مگرسندکے لیے طلباء کو انوارالعلوم ملتان یاجامعہ رضویہ مظہرالعلوم فیصل آبادجاکرمنتہی ہوناپڑتا ہے ۔بیرونی طلباء کی تعدادپچاس ہے اوراساتذہ کی تعدادپانچ ہے ۔
مولاناغلام فریدصدرمدرس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ مولاناموصوف علم حدیث میں گہری بصیرت رکھتے ہیں اوربڑی جانکاہی سے تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان کے خلوص اورلگن کانتیجہ ہے کہ تشنگانِ علم اس غیرمعروف سی جگہ سے علم وحکمت کے قیمتی موتیوں سے جھولیاں بھربھرکرجاتے اورمعاشرے میں دعوت و اردات کافریضہ انجام دیتے ہیں۔ درس نظامی میں ترمیم وتنسیخ مدرسے کے مسلک کے منافی ہے ،لہٰذاکوشش یہ کی جاتی ہے کہ تمام و کمال کتب درس نظامی پڑھائی جائیں ۔فتوے کا ریکارڈنہیں رکھاجاتاتاہم فرضِ افتاء شیخ الحدیث مولاناغلام فریدہی اداکرتے ہیں ۔ آپ علمی بصیرتوں کامرقع اورفکری عظمتوں کی تصویرہیں۔ قحط الرجال کے اس دورمیں آپ کاوجودغنیمت ہے ۔اس علاقے کے لیے آپ وجہ رحمت بھی ہیں اوروجہ ناز بھی ۔ آپ کاسوانحی خاکہ درج ذیل ہے :
آپ کے والدمحترم کانام الحاج مولاناعبدالجلیل ہے۔ آپ ۱۱ ؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کوموضع جھاڑ مضافات تربیلا (ہزارہ) میں پیداہوئے۔ مشہورپٹھان قوم عیسیٰ خیل کے مورث اعلیٰ عیسیٰ خان آپ کے جداعلیٰ تھے ۔آپ کے خاندان کے ایک اور بزرگ عبدالرشیدخان قندھارکے حاکم اعلیٰ ہوگزرے ہیں ۔ آپ علمی اورروحانی خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ آپ کے والداورآپ کے جدامجدکے حقیقی بھائی امیرمحمودمبلغ دین بھی تھے اورعلاقہ کے لیے مرکز رشدوہدایت بھی۔
جناب مولاناغلام فریدنے ابتدائی تعلیم بعض مساجد سے حاصل کی پھروالدماجدکی وساطت سے ہزارہ ڈویژن کے روحانی و علمی مرکزدارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ میں داخل ہوئے۔مولاناقاضی حبیب الرحمٰن اور مولانا قاضی غلام محمودسے علمی استفادہ کیا۔مولاناحافظ محمدیوسف بھی آپ کے اساتذہ میں رہے ہیں ۔چارسال بعد جامعہ رضویہ مظہراسلام فیصل آبادمیں داخلہ لیا۔دوسال بعدجامعہ نعیمیہ لاہورآگئے جہاں سے آپ نے مولانا مفتی محمدحسین نعیمی سے اکتسابِ علم کیا۔ درس نظامی کی آخری کتب آپ نے یہیں سے پڑھیں ۔بخاری شریف کادرس بھی یہیں ختم کیا۔مفتی عزیزاحمدبدایونی سے بھی کچھ اسباق پڑھے۔۱۹۵۹ء میں جامعہ نعیمیہ سے دستارِ فضیلت اورفراغت حاصل کی ۔
آپ نے تدریسی زندگی کاآغازجامعہ گنج بخش لاہور سے کیا۔یہاں آپ نے ابتدائی اورمتوسط کتب پڑھائیں۔ دو سال جامعہ امینیہ گوجرانوالہ میں اوردو سال دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پورمیں مسندتدریس پر فائز رہے ۔ ۱۹۶۶ء میں علامہ احمدسعید کاظمی کے ارشادپرمدرسہ جامع العلوم خانیوال میں صدر مدرس کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دینے شروع کیے ۔ دوسال جامعہ فضل العلوم ڈسکہ میں مدرس رہے اوراب عرصہ بارہ سال سے جامعہ فاروقیہ رضویہ تعلیم القرآن گوجرانوالہ میں بطور صدرمدرس علوم اسلامیہ کی تدریس میں مصروف ہیں ۔ آپ ایک مصروف زندگی گزاررہے ہیں۔ شب وروز دین اسلام کی تبلیغ واشاعت میں گزرتے ہیں اور اس سرزمین پرآپ کے بہت احسانات ہیں ۔کتنے ہی دل ہیں جو آپ کے طفیل نورہدایت سے منورہوئے اور کتنے ہی ذہن ہیں جنہیں آپ کی مروت وعلمیت نے نکتہ داں بنایا۔
آپ صاحبِ قرطاس وقلم بھی ہیں آپ نے گوناگوں علمی وتدریسی مصروفیات کے باوجود بہت سی دینی اور علمی کتب تصنیف فرمائی ہیں جن میں سے درج ذیل خاص طور سے قابل ذکرہیں :
اثباتِ علم الغیب بجواب ازالۃالغیب ، مفتاح الجنۃ بجواب راہ سنت ،صداقتِ میلاد،حاضرو ناظراورعلم غیب ملاعلی قاری کی نظرمیں،اثبات الدعاء بعدالجنازۃ ، رسالہ علم الغیب ملاعلی قاری۔ 
علوم قرآن و حدیث پرآپ کودسترس حاصل ہے۔ اس شہرہی کے نہیں بلکہ دوردرازکے علاقوں کے متلاشیانِ حق و صداقت نگاہوں سے دیکھاجاتاہے ۔آپ مدرسہ سے ملحقہ جامع مسجد میں فرائض خطابت بھی انجام دیتے۔ آپ کو علامہ سیداحمدسدسے شاہ کاظمی مدظلہ سے شرفِ تلمذ توتھاہی بعدمیں آپ نے انہی کے دستِ حق پرست پربیعت کرلی ۔ حضرت کاظمی نے آپ کوسلسلہ چشت میں بیعت کی اجازت بھی عطا فرمائی۔ آپ کو۱۹۷۶ء میں حج حرمین الشریفین کی زیارت کاشرف حاصل ہوا۔آپ کے برادراصغر مولانا محمد شریف ہزاروی بھی معروف خطیب ،عالم نکتہ داں اورجامعہ فاروقیہ میں آپ کی سربراہی میں فرائض تدریس انجام دے رہے ہیں ۔مولاناغلام فریدہزاروی سے اب تک ہزاروں تلامذہ فیوض علمی حاصل کرکے وطن عزیز کے اطراف و اکناف میں رشدو ہدایت کی روشنی پھیلارہے ہیں۔ آپ کے معروف تلامذہ میں مندرجہ ذیل علماء خاص طور سے قابل ذکرہیں:
مولاناسیدبشیرحسین شاہ، مولاناخالدحسن مجددی،مولاناسعیداحمدمجددی ،مولاناگل احمد عتیق، مولانا صداقت علی،مولاناقاضی محمدیوسف،مولاناحافظ محمدعلی ،مولاناقاری عبدالرزاق ،مولانامحمدحنیف اختر ، مولانا محمد صدیق ہزاروی۔ (حالات ماخوذ ازتعارف علمائے اہل سنت، مرتبہ مولانامحمدصدیق ہزاروی )

جامعہ صدیقیہ مجاہدپورہ

محلہ مجاہدپورہ میں جامعہ صدیقیہ مسلک حنفی دیوبندی کااہم مدرسہ ہے ۔ مدرسے کا قیام ۱۹۶۰ء میں عمل میں آیا۔ مدرسے کانصاب خالصتاًدرس نطامی ہے اس میں ترمیم وتنسیخ کومذموم خیال کیاجاتاہے ۔مدرسے کے مہتمم اور صدر مدرس قاضی شمس الدین ،فاضل ومدرس دارالعلوم دیوبند ہیں۔ مولاناموصوف ایک منجھے ہوئے عالم اور ایک عظیم سکالرہیں ۔ ان کارجحان طبع تحقیق و تدقیق کامتقاضی ہے۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے دارالعلوم دیوبندجیسے عظیم ادارے میں بحیثیتِ استاد کام کرچکے ہیں ۔ان کی عربی و اردوتصانیف اس بات کی گواہی دیتی ہیں ،ان کاعلمی مرتبہ عصرحاضرکے بلندپایہ علمائے دین میں نمایاں و ممتازہے ۔کم وبیش اکسٹھ سال سے قرآن و حدیث کی شمع کوروشن رکھے ہوئے ہیں ۔سادگی کامرقع ،نمود و نمائش سے بے نیاز اور فقروغناء کوایک پیکر دلآویز۔
آپ ۱۹۰۱ء میں مقام پٹری ڈاکخانہ ناڑہ ،تحصیل پنڈی گھیب ،ضلع اٹک میں پیداہوئے ۔آباء و اجدادعلم دین کے مشتاق تھے ۔ آپ کے دادااوروالدبھی اپنے وقت کے معروف عالم تھے گو وہ بعض خانگی امورکی بناء پر درس نظامی کی تکمیل نہ کرسکے مگروالدنے اپنے بیٹوں کوعلم دین کی تحصیل کے لیے وقف کر دیا۔ مولانا نور محمد، مولانا بدرالدین اورمولانامحمدرفیق ،قاضی صاحب کے تینوں بھائی عالم باعمل تھے اورتینوں بھائیوں کاانتقال ہو چکا ہے۔ مولائے کریم ان سب کواپنے جوارِرحمت میں جگہ دے۔
مولاناقاضی شمس الدین صاحب کی زندگی محنت ،خلوص اورسعی بلیغ کی ایک قابل تقلیدمثال ہے ۔ آپ نے ناظرہ قرآن ناڑہ ضلع اٹک میں پڑھا۔۱۹۱۲ء میں جامعہ نعمانیہ لاہورمیں تعلیم حاصل کی ۔ ۱۹۱۳ء میں انّھی تحصیل پھالیہ ضلع گجرات میں مولاناغلام رسول مرحوم سے درس نظامی کی تکمیل کی ۔ ۱۹۲۲ء میں دارالعلوم دیوبند میں مولاناانورشاہ کشمیریؒ ، مولانارسول خاں اورمولاناشبیراحمدعثمانی سے دورہ حدیث پڑھا۔۱۹۲۳ء کے آخر میں مدرسہ انوارالعلوم مسجد شیرانوالہ گوجرانوالہ میں آگئے اورایک سال تک تدریس کے فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں۱۹برس تک پنڈی گھیب ضلع اٹک میں مصروفِ تدریس رہے ۔۱۹۴۲ء میں دیوبندکے اساتذہ کے اصرار پر وہاں تشریف لے گئے اورتشنگانِ علم و معرفت کوسیراب کرتے رہے ۔وہاں انہوں نے وہ کتابیں پڑھائیں جو فی الواقع ان کے فنون میں ماہر ہونے کی دلیل تھیں۔ دیوبندسے واپسی پرفیصل آبادمیں مدرسہ اشاعتِ علوم میں بطورِصدرمدرس کام کرتے رہے۔۱۹۴۶ء میں گوجرانوالہ کے مدرسہ انوارالعلوم اور نصرۃالعلوم میں صدرمدرس رہے ۔۱۹۶۰ء میں جامعہ صدیقیہ کی بنیادڈالی جو اب تک انتہائی کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے ۔
مولاناموصوف کوحضرت مولاناحسین علی واں بھچراں سے قلبی عقیدت ہے ۔وہیں سے آپ نے سلوک و معرفت کی منزلیں طے کیں اورکم و بیش چوبیس سال تک ان سے کسبِ فیض کرتے رہے ۔وہیں سے تفسیرِ قرآن، مثنوی مولانا روم، مسلم شریف،دارالمحارف ورسراجی پڑھی۔ مولاناکی پوری زندگی درس و تدریس اور قرطاس وقلم سے متعلق رہی ۔وہ بہت سی علمی ودینی کتابوں کے مصنف ہیں، چندایک کے نا مدرج ذیل ہیں:۔
اردو:تفسیرتیسرالقرآن،غایۃالمامون،شرح عبدالرسول ،القول الجلی فی حیاۃالنبیﷺ، الشھاب الثاقب۔
عربی :تفسیرانوارالتبیان فی اسرارالقرآن،الہام الباری فی حل مشکلات البخاری،کشف الودودشرح سنن ابی داؤد،التعلیق الفصیح شرح مشکوٰۃالمصابیح،الہام الملہم شرح صحیح مسلم۔
جہاں تک قاضی صاحب کے تلامذہ کاتعلق ہے ان کی فہرست خاصی طویل ہے۔ چندنام درج کیے جاتے ہیں، جن سے خود صاحب موصوف کی علمی وجاہت ،دینی عظمت اور فکری رفعت کااندازہ ہوتاہے: مولانا نصیر احمد سابق شیخ الحدیث و مدرس دارالعلوم دیوبند،شیخ غازی احمدسابق پرنسپل بوچھال کلاں ،مولاناعبدالرحیم پروفیسرڈھاکہ یونیورسٹی ، مولانامفتی عبدالواحدگوجرانوالہ ،قاضی عصمت اللہ ،مولاناعلی محمد حقانی (لاڑکانہ)، مولانا عبدالرؤف مہتمم مدرسہ مفتاح العلوم حیدرآباد،مولاناسرفرازخاں صفدر(گوجرانوالہ)اورمولاناعبدالحکیم (راولپنڈی ) قاضی شمس الدین کے چند ایسے تلامذہ ہیں جن پرفکرکی بلندیاں عمل کی لطافتیں اورعلم کی نظافتیں نازکرتی ہیں ۔
مدرسے کا علمی معیار نہایت اعلیٰ ہے اوردور درازکے علاقوں سے طلباء تحصیل علم کے لیے آتے ہیں۔ دورہ حدیث میں تخصص کے درجے تک تعلیمی معیار رکھاگیاہے۔ اب تک ۴۵۴طلباء فارغ التحصیل ہوکرگئے ہیں۔ فاضلین میں درج ذیل نام خاص اہمیت کے حامل ہیں :
مولاناعبدالمجیدندیم،مولاناضیاء اللہ شاہ بخاری،مولاناخالدرشید،مولانااحمدسعیدملتانی،مولاناعلی محمدحقانی مدرسہ اشاعت الاسلام لاڑکانہ، مولاناقاضی عصمت اللہ مدرسہ محمدیہ قلعہ دیدارسنگھ۔
زیادہ ترطلباء بیرونی ہیں۔ اس وقت ۲۷طلباء زیرِتعلیم ہیں۔ نئی عمارت ۲کنال ۹مرلے میں زیرتعمیر پر ۱۰۰طلباء کی اقامتی گنجائش ہو گی۔
اساتذہ کرام درج ذیل ہیں :مولانامفتی سیدبدیع الزمان بخاری ،مولاناقاضی عطاء اللہ ،مولاناقاضی ثناء اللہ، مولاناحافظ نذیراحمد،مولاناعبدالرحمن۔ افتاء کے فرائض،مفتی سیدبدیع الزمان بخاری انجام دیتے ہیں۔ سالانہ بجٹ ستا سی ہزاروپے کے لگ بھگ ہے ۔درس نظامی اپنی اصلی شکل میں پڑھایاجاتاہے۔

مدرسہ نعمانیہ 

نعمانیہ روڈ محلہ اسلام آباد میں حنفی بریلوی مسلک کاایک شاندارمدرسہ ہے۔ کوئی ۱۶سال پہلے ۱۹۶۷ء میں مدرسے کی بنیادرکھی گئی۔ اس وقت یہ مدرسہ ابتداءً اقبال گنج میں قائم ہوا بعدازاں مدینہ مسجدگوبندگڑھ میں تدریس کاکام شروع ہوا تو ۱۵طالب علم زیرتعلیم تھے ۔
مولانامحمدعبداللہ جوایک درویش صفت عالمِ دین ہیں ،اس مدرسے کے موسس ومہتمم ہیں۔ آغازِکارمیں حفظِ قرآن سے کام شروع کیاگیا ۔ ۱۹۶۸ء تک صرف حفظ کاہی اہتمام تھابعدمیں تدریسِ کتب کابھی انتظام کر لیا گیا۔مدرسے کا نصاب درس نظامی ہے مگرتنظیم المدارس کے نصاب کے مطابق تدریس ہوتی ہے۔ صرف و نحو اور فقہ کے علاوہ تاریخی شعور بھی بیدارکیاجاتاہے تاہم تاریخ پرمکمل انحصارنہیں کیاجاتا۔مدرسے کاسالانہ بجٹ تقریباً۳۵ ہزارروپے ہے ۔ مدرسے کی انصرامی ذمہ داریوں کا بارانجمن نعمانیہ فیض العلوم کے سر ہے۔ صدر انجمن شیخ حاجی محمدشفیع صاحب ہیں۔ 
مدرسے کے فاضلین میں چنداہم نام یہ ہیں:مولاناخالدحسین مجددی ، مولاناگل احمدجامعہ رضویہ فیصل آباد، مولاناطالب حسین سول لائینز، مولاناسلطان العارفین (پی ڈی پی)، مولاناہدایت اللہ (مظفرآباد)۔ اساتذہ کی کمی کا شدت سے احساس ہوتاہے ۔

جامعہ جعفریہ 

بائی پاس قلعہ چندسے جانب لاہوجی ٹی روڈ میں ۳ ایکڑ۳ مر لے میں پاکستان کی اثناعشری شیعہ مکتب فکرکی عظیم جامعہ ہے۔جامعہ کی تاسیس۱۹۷۹ء میں ہوئی۔ مفتی جعفرحسین مجتہداس کے بانی تھے۔ مفتی مرحوم جو ۱۹۸۳ء میں راہی ملک عدم ہوئے۔ ملتِ جعفریہ کے بلندپایہ اورمجتہدتھے ۔ملت جعفریہ ان کی دینی بصیرت پر پورا عتمادرکھتی تھی۔ حق یہ ہے کہ وہ علم ودانش کے جرعہ کش ہی نہیں خم بدوش بلانوش بھی تھے۔ تادم زیست انہوں نے کتاب وقلم سے رشتہ قائم رکھا۔وہ ایک خوددار،صلح کیش اوردرویش منش عالم دین تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حنفی دیوبندی مکاتب میں حاصل کی۔ پھر لکھنؤاورایران سے تکمیل علوم کی ۔یوں وہ سعدی کے اس شعر کا پور امصداق تھے۔
تمتع زہرگوشۂ یافتم 
زہرخرمنے خوشۂ یافتم
ان کی تحریریں ان کے وسیع المعلومات اورعمیق المطالعہ ہونے پرگواہ ہیں۔ نہج البلاغۃکااردوترجمہ ان کی ادبی صلاحیتوں کابھی پتہ دیتاہے۔ ان کے عربی و فارسی اشعارسے ان کاشعری ذوق بھی نکھرکرسامنے آتاہے۔
؂خدابخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں 
مدرسے کا نصاب درس نظامی ہے مگراصولِ فقہ میں دوسرے مسالک سے کلی اختلاف ہے۔حدیث میں بھی یہاں صحاح ستہ کی بجائے کتبَ اربعہ لائقِ اعتمادخیال کی جاتی ہیں۔ کتب اربعہ یہ ہیں: الکافی للکلینی،استبصار، تہذیب الاحکام ، من لایحضرہ الفقیہ۔
فقہ میں تبصرۃالمتعلمین،شرائع السلام ،شرح لمعہ اورمکاسب قابل قدرکتابیں ہیں ۔اصول فقہ میں منتہی طلباء اصول فقہ ، رسائل اورکفایۃالاصول پڑھتے ہیں ۔مستقل اساتذہ صرف دوہیں، موقت و زائدتین۔طلبہ بالفعل بیس۔پروگرام کے مطابق ۲۰۰طلباء کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ سردست بیس لاکھ کے خرچ سے بنائی ہوئی عمارت ۲۶کمروں پرمشتمل ہے تاہم منصوبہ ۱۰۰کمروں کاہے جس پردوکروڑروپے خرچ آئے گا۔
ملحقہ جعفریہ کالونی ادار ے کے اساتذہ اورطلبہ کی رہائش کے لیے مخصوص ہوگی۔امتحان کااپنانظام ہو گا جو مجتہدینِ ایران کے زیرِنظرہوگا۔سہم امام (خمس )عطیہ جات مدرسے کے وسائل اخراجات ہیں۔ دوسرے دینی مدارس کی طرح طلبہ کے قیام و طعام کابندوبست جامعہ کے ذمے ہے۔جامعہ کاکتب خانہ نہایت شاندارہے جس میں تین ہزارسے زائدکتب ہیں ،چندقلمی نسخے بھی ہیں ۔اس وقت تخصص کے لیے نجف و قم میں جاتے ہیں تاہم منصوبہ یہ ہے کہ یہیں درسِ اجتہادیادرس خارج بھی دیاجائے ۔مفتی مرحوم کی وفات کے ساتھ جامعہ کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے ۔
اس ادارے کے پرنسپل جناب علامہ حسین بخش ہمارے شہرکے ایک معروف عالم دین ہیں جن کی زندگی درس و تدریس کے لیے وقف ہے ۔ جیساکہ اوپرلکھاجاچکاہے کہ مفتی جعفرحسین نے جامعہ جعفریہ کے نام سے جس علمی ادارے کا آغازکیاتھا۔ ان کے بعدعلامہ حسین بخش کی زیرنگرانی ادارہ ایک بہارآفرین مستقبل کی جانب بڑی تیزی سے رواں دواں ہے۔ علامہ موصوف کاشمار ان علمی شخصیات میں کیاجاسکتاہے جواپنی ذاتی استعداد، پیہم محنت اورفکری ریاضت کی بنا پربلندیوں کی طرف لپکتے ہیں بلکہ خود بلندیاں ان کااستقبال کرتی ہیں۔
آپ کے والدگرامی کانام ملک اللہ بخش ہے سن پیدائش۱۹۲۰ء اورمقامِ پیدائش جاڑاضلع ڈیرہ اسماعیل خان ہے ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد علامہ سیدباقرشاہ مرحوم کی صحبت میں رہے۔ ان کے بعدمولاناسیدمحمدیارشاہ اور مفتی جعفرحسین سے علمی ودینی استفادہ کیا۔ایک عرصہ دیگرمکاتب فکرکے دینی مدارس میں بھی زیرتعلیم رہے جن میں جامع مسجد شیرانوالہ باغ کامدرسہ قابل ذکرہے اوربالخصوص مولاناعبدالقدیر جووہاں درس دیاکرتے تھے معقولات کی تمام کتابیں انّھی شریف ضلع گجرات میں مولاناولی اللہ سے پڑھیں۔۱۹۵۲ء میں نجف اشرف میں تشریف لے گئے اوروہیں سے فقہی اوراصولی تعلیم حاصل کی۔۱۹۵۵ء میں واپس آئے۔ جامعہ علمیہ باب النجف جاڑاضلع میانوالی کی بنیادرکھی جو اب تک جاری ہے ۔نجف اشرف میں جن علمی شخصیات سے کسبِ فیض کیا، ان میں سے چندکے نام درج ذیل ہیں:
سیدابوالقاسم خوئی،سیدعبداللہ شیرازی ،سیدمحسن الحکیم ،مرزاحسن یزدی ،مرزامحمدباقر رنجانی ،سیدحسین حمامی،سید حسن بجنوری۔
علامہ حسین بخش کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے چندنام یوں ہیں :
مولانامحمدحسین ڈھکو،ملک اعجازحسین ،سیدصفدرحسین نجفی،مولاناغلام حسین نجفی ،سیدکرامت علی شاہ، مولاناغلام حسن، کاظم حسین اثیر،سیدامدادحسین شیرازی ،وزیرحیدر۔
آپ کی علمی کتابیں درج ذیل ہیں :تفسیرقرِ آن چودہ جلدوں میں ،لمعۃالانوار،اصحاب الیمین ،المجالس المرضیہ ، امامت وملوکیت ،اسلامی سیاست ،معیار شرافت ،اسلامی فکر،انوارشرافت ،انوارشریعت ، نمازامامیہ، احبابِ رسول ﷺ۔ (سوانحی معلومات آغاقربان علی ایڈووکیٹ نے فراہم کیں) 

مدرسہ فیض القرآن

گل روڈ پرواقع مدرسہ حنفی دیوبندی مسلک کاہے۔ ابھی ابتدائے کارہے تاہم مولاناحافظ احسان الحق کی شبانہ روزکوششوں سے مدرسہ پھیلنے پھولنے کے خاصے امکانات نظرآتے ہیں۔ مولاناموصوف یکہ و تنہا ۳۰ طلباء کوموقوف علیہ کے درجے تک تعلیم دیتے ہیں۔ یہ ان کابہت بڑاایثارہے ۔

مدرسہ احیاء العلوم 

نوشہرہ روڈ پرواقع مدرسہ احیاء العلوم حنفی دیوبندی مسلک کااہم مدرسہ ہے۔ اپنی وسعت کے لحاظ سے شہرکے بڑے بڑے دینی مدارس میں شمارکیاجاسکتاہے۔ مولاناامان اللہ خاں دینی جذبے سے سرشاراہل خیرکے تعاون سے سرگرم عمل ہیں۔ مولانامحمدواصل خاں اورحافظ حبیب اللہ تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔

مدرسہ تفہیم القرآن

محلہ توحیدگنج میں قاری حافظ محمداسلم (نابینا)کے زیراہتمام مسلک حنفی دیوبندی کااہم مدرسہ ہے۔

مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث 

نوشہرہ روڈ پرمدرسہ تعلیم القرآن والحدیث مولاناعبدالعزیز راشدی کی زیرنگرانی خدمت دین کا فریضہ انجام دے رہاہے ۔

جامعہ عثمانیہ فیروز والا روڈ

جامع مسجد عثمانیہ سے ملحق فیروزوالاروڈپرجامعہ عثمانیہ حنفی دیوبندی مسلک کی ایک درس گاہ ہے۔ صاحبزادہ محمدداؤدیہاں کے مہتمم ہیں ۔مدرسہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ عصرحاضرکے تقاضوں کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے اسلام کے معاشی نظام پرزوردیاجاتاہے تاکہ معاشرے کے معاشی مسائل کاحل تلا ش کیا جا سکے اورنسلِ نوکوآگاہ کیاجاسکے کہ اسلام تمدن انسانی کے ہرپہلومیں رہنمااصول پیش کرتاہے ۔

جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیر آباد

جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیرآبادمیں حنفی بریلوی کی سب سے بڑی درس گاہ ہے۔مولانامحمدعبدالغفور ہزاروی نے ۱۹۴۰ ء میں اس کی بنیاد رکھی۔مولاناہزاروی اپنے دورکے ایک جیدعالم دین اورفن حدیث میں گہری بصیرت رکھنے والے مدرس تھے۔ وہ ایک شعلہ بارخطیب ،علم و حکمت کے بحر زخاراورنہایت قوی حافظے کے مدرسِ حدیث تھے۔ ان کی وفات پرعلمی حلقوں میں ایک بہت بڑاخلامحسوس کیاگیا۔ مولانا کی سیاسی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کے ہراول دستے کے عظیم سپاہی تھے۔ مفتی عبدالشکورجوآج کل جامعہ کے مہتمم ہیں انہی کے خلف الرشید ہیں ۔نصاب درس نظامی ہے۔حفظ وتجویدکابندوبست بھی ہے۔ جہاں ۳۸ بیرونی اور۴۰ مقامی طلباء ہیں ۔درس نظامی میں ۱۰طلباء ہیں۔ مدرسے کی تعطیلات کے دوران دورہ تفسیرہوتاہے جس میں ۴۰،۵۰منتہی طالب علم شریک ہوتے ہیں ۔سالانہ بجٹ کوئی اسی ہزارروپے ہے۔ مفتی صاحب خود ہی فتوی جاری کرتے ہیں مگررجسٹرنہیں، تنظیم المدارس سے وابستگی نہیں۔ عمارت پانچ کمروں پرمشتمل ہے ۔ کتب خانے میں دوسوکے لگ بھگ کتابیں ہیں مزیدتوسیع کاعزم ہے ۔طلباء کے قیام وطعام کابندوبست مدرسے کے ذمے ہے جواہل خیراورحکومت کے زکوٰۃ فنڈ سے پوراہوتاہے ۔

ممتاز المدارس وزیر آباد

جی ٹی روڈ پرواقع مسلک شیعہ اثناعشریہ کاوزیرآبادمیں سب سے بڑامدرسہ ہے ۔مدرسے کی تاسیس جون ۱۹۷۸ء میں ہوئی۔ مہتمم سیدمحمدسبطین نقوی فاضل قم (ایران )ہیں۔ علامہ موصوف ایک فاضل نوجوان اور باعمل انسان ہیں دیگراساتذہ کے اسماء گرامی یہ ہیں :مولانا اخترعباس،حافظ سید منظور حسین، مولانا محمد اصغر یزدانی۔ 
طلباء کی تعداد۲۳ہے۔ نصاب آٹھ سال کاہے ۔مدرسے کایک شاندارہال ہے۔ جہاں تقاریب کا اہتمام کیاجاتاہے ۔گاہِ گاہِ ایران کے مشاہیرعلماء بھی یہاں آکرخطاب فرماتے ہیں۔ مثلاًجنوری۱۹۸۳ء میں حسن طاہری خرم آبادی تشریف لائے ۔دارالاقامہ کے نوکمرے ہیں ۔ امتحان زبانی و تحریری دونوں طرح سے ہوتا ہے ۔فتویٰ جاری کیا جاتاہے مگررجسٹرنہیں ۔سالانہ بجٹ کم وبیش ۵۰ہزارہے ۔اصول فقہ اورفلسفہ میں تخصیص کی جاتی ہے ایک مختصر مگر نہایت شاندارکتب خانہ تدریسی ودرسی ضروریات کوپوراکرتاہے ۔

مدرسہ محمد یہ قلعہ دیدار سنگھ

یہ مدرسہ موضع قلعہ دیدارسنگھ میں شیخ الحدیث قاضی نورمحمدفاضل دارالعلوم دیوبند نے ۱۹۲۳ء میں قائم کیا۔ یوں یہ ضلع کانہایت قدیم مدرسہ ہے۔مرحوم۴۰ برس تک خدمت دین کرکے اس جہان فانی سے ۱۹۶۲ء میں رخصت ہوگئے۔ وہ ایک سادہ طبع عالم باعمل تھے ۔علم ودانش کے موتی رولتے اورتقوی وپرہیزمیں سرمست رہتے ۔ ان کے بعدان کے خلف الرشیدقاضی عصمت اللہ نے مدرسے کابار اپنے ذمے لیا۔مدرسے کامسلک حنفی دیوبندی ہے۔ اولیائے عظام کے سلاسل اربعہ میں نقشبندی مجددی کی پیروکاری کی جاتی ہے ۔ درس نظامی کی تدریس ہوتی ہے ۔دورہ حدیث تک تکمیل ہوتی ہے۔ مدرسہ دور افتادہ علاقے میں علم و اخلاق کی شمع فروزاں ہے ۔

دارالعلوم سلطانیہ رضویہ گکھڑ

گکھڑمیں جی ٹی روڈ پرجانب مشرق واقع ہے ۔اگست۱۹۶۸ء میں مدرسہ کی تاسیس عمل میں آئی۔ حافظ محمد حمیداختراس کے بانی ہیں ،جو سراج العلوم گوجرانوالہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ مشائخ میں قادری ،سروری سلطانی سلسلے کے پیرو کارہیں۔ حفظ وکتابت کاشعبہ بھی ہے۔ ۳۵،۴۰کے درمیا ن طلبہ کی تعدادہوتی ہے۔ اساتذہ کی تعدادتین ہے۔ مولاناموصوف عرصہ درازسے ایک دینی پرچہ بھی جاری کرتے ہیں جس میں تصوف کا رنگ غالب ہے۔ سالانہ بجٹ کوئی ۲۰ہزارکے لگ بھگ ہے ۔

جامعہ عربیہ ہمدانیہ کامونکے

کامونکے میں سب سے پرانامدرسہ ہے جو۱۹۴۴ء کے لگ بھگ قائم ہوا۔ مسلک حنفی دیوبندی ہے۔ حافظ عبدالشکور فاضل دارالعلوم دیوبند نے مدرسہ کی بنیاد ڈالی۔ وہ ایک زمانے تک علم وحکمت کی روشنی پھیلاتے رہے۔ وہ اپنی وفات فروری۱۹۸۱ء تک اس کے مہتمم اور صدرمدرس رہے۔ وہ صدربلدیہ کامونکے، کونسلر اور حزبِ اختلاف کے لیڈربھی رہے۔ ان کی شخصیت نہایت متوازن اورعلمی حیثیت مسلم تھی۔تازیست وہ مسجد کے خطیب بھی رہے ۔اس وقت درس نظامی نہیں پڑھا یاجاتا۔اس وقت تین مدرسین ہیں۔ حافظ احمددین (صدرمدرس)،حافظ عبدالرحمن، حافظ محمدسلیمان۔ مولاناعبدالرؤف فاروقی خطابت کے فرائض نجام دیتے ہیں۔ مدرسے نے حافظ مفتی محمدامین فاضل جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ مبعوث سعودیہ (مچاکوسٹ کینیا)جیسے فاضلین پیداکیے ہیں ۔بجٹ ۷۵ہزارروپے سالانہ ہے ۔
مدرسہ اسلامیہ جامع مسجدحیدری کامونکے
کامونکے میں حنفی بریلوی مسلک کانہایت اہم مدرسہ ہے ۔جنوری ۱۹۷۴ء میں قائم ہوا۔الحاج لطیف احمد چشتی مدرسے کے بانی ہیں۔ چشتی صاحب موصوف کامونکے کی اہم سیاسی وسماجی شخصیت سے متعارف ہیں۔ 
اساتذہ کے اسمائے گرامی یہ ہیں:حاجی نواب دین،حافظ محمدناصر،حافظ شیرمحمد، حافظ محمد اشرف، مولانا رب نواز ۔ مدرسہ پندرہ کمروں پرمشتمل ہے۔ دارالاقامہ کے چارکمرے ہیں ۔درس نظامی میں دس طالب علم ہیں، باقی حفظ وتجویدو قرأت اورناظرہ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔فتوی جاری نہیں کیاجاتا۔لائبریری کوئی ایک ہزارکتب پرمشتمل ہے ۔ مدرسہ تنظیم المدارس سے منسلک ہے ۔

مدرسہ حنفیہ رضویہ اکرم العلوم کامونکے

مدرسہ جی ٹی روڈ سے جانب مغرب واقع ہے۔ مدرسہ کاافتتاح۱۹۷۸ء میں ہوا۔مولانامحمداکرم رضوی فاضل مدرسہ سراج العلوم (گوجرانوالہ) اس مدرسے کے بانی اورمہتمم ہیں۔ عمارت چارکمروں پرمشتمل ہے اور طلبہ کی تعدادکوئی ۱۵۰ہے۔ درس نظامی سردست نہیں پڑھا یاجاتا۔ مولاناابوداؤدمحمدصادق مدرسے کے اعزازی نگران ہیں۔ مولانامحمداکرم ایک شعلہ نواخطیب اورباعمل نوجوان ہیں ۔

دارالعلوم حبیبیہ رضویہ کامونکے

منڈیالہ روڈ حنفی بریلوی مسلک کامدرسہ ہے جس میں شعبہ حفظ وتجویدمیں ۷۰طالب علم ہیں ۔مولانامفتی حبیب اللہ مدرسے کے بانی اورمہتمم ہیں۔ مفتی صاحب ایک متقی اورعالم باعمل انسان ہیں ۔درس نظامی کے طلباء کی تعدادساٹھ ہے۔ ۱۲اساتذہ فرائض تعلیم اداکررہے ہیں ۔

جامعہ ریاض المدینہ( زیرتکمیل )

جامعہ ریاض المدینۃایک ایسی عظیم الشان دینی درس گا ہ ہے جوابھی تعمیرکے مراحل سے گزررہی ہے۔جی ٹی روڈ پرپانچ ایکڑرقبہ پرتعمیرہونے والااہل سنت وجماعت کایہ مرکزی دارالعلوم علوم قدیمہ و جدیدہ کا مرکز ہو گا۔ انجمن مرکزی دارالعلوم کے شائع کردہ پروگرام کے مطابق اس دارالعلوم میں میٹرک سے لے کرایم اے ایم ایس سی اورحفظ قرآن سے لے کرمکمل درس نظامی تک تعلیم دی جائے گی۔ اس کے علاوہ فنی اورپیشہ وارانہ تعلیم کااہتمام بھی کیاجائیگا۔علوم دینی کے تحصیل کے ساتھ ساتھ علوم دنیوی کی تحصیل کا انتظام اس خاطر کیا جا رہا ہے کہ جو علماء یہاں سے فارغ التحصیل ہوکرنکلیں وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسرکرنے کے لیے روزگارکے معقول ذرائع تلاش کرسکیں۔ علوم دینی و دنیوی کے امتزاج سے جوعلماء یہاں سے فارغ ہوں گے وہ عہدحاضرکے جدید علمی وفکری تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہوں گے اورخدمتِ ملک ودین کے لیے بھی نمایاں کردار ادا کرسکیں گے۔ اس طور وطن عزیزمیں اسلام کی ترویج وتبلیغ کی رفتارتیزسے تیزترہوجائے گی۔
اس زیرتکمیل درس گاہ میں مجوزہ نقشے کے مطابق جوعمارات ابھررہی ہیں ان میں مہتم بالشان مسجد، لائبریری ، دفاترانتظامیہ،علوم دینی کے لیے آٹھ بلاک ،علوم دنیوی کے لیے دوبلاک ،۴۰۰طلباء کی رہائش کے لیے دو منزلہ ہوسٹل، شعبہ تصنیف و تالیف،ایک بڑاہال،اورشعبہ تبلیغ خاص طورسے قابل ذکرہیں۔ مختلف بلاکوں کے درمیان خوب صورت لان اس درس گاہ کی خوب صورت اورتزئین میں اضافے کاموجب بنیں گے ۔
اس کے سرپرست اعلیٰ الحاج محمداسلم بٹ میئرمیونسپل کارپوریشن ہیں جبکہ انجمن انتظامیہ کے صدرحاجی معراج دین ہیں۔ انجمن مرکزی دارالعلوم باقاعدہ طورپررجسٹرڈہے اورشہرکے تمام جیدعلماء اس دارالعلوم کی سرپرستی کررہے ہیں ۔ جسٹس پیرمحمدکرم شاہ آف بھیرہ شریف مسلسل انتظامیہ کواپنے عملی وفکری تعاون سے نوازرہے ہیں ۔

دارالعلوم تحفظ ختم نبوت کنگنی والا

یہ مجوزہ دارالعلوم چارکنال کے رقبے پرجی ٹی روڈ سے مغرب کی جانب آبادی کے کچھ اندرجانے والی شاہراہ پرواقع ہے۔دارالعلوم کی عمارت زیرتعمیرہے ملحقہ مسجدکی تکمیل ہوچکی ہے ۔مسجد سے ملحق چارکمرے ہیں۔ ساتھ ہی ۲۲ عدد دکانوں پرمشتمل ایک مارکیٹ ہو گی تاکہ مدرسے کے مصارف کا بندوبست ہو سکے۔ یہاں درس نظامی کی تعلیم دی جائے گی مگرخصوصی مطالعہ سرور کائنات کی ختم المرسلینی کے پہلوکاہو گا۔یوں یہ دارالعلوم پورے علاقے میں اپنی نوعیت کاواحدادارہ ہو گاجوختم نبوت کے تخصص کے ساتھ تعلیم دے گا۔ 
ادارہ کی سرپرستی مولاناخان محمدصاحب کندیاں نے قبول فرمائی ہے ۔دارالعلوم کے لیے جگہ موضع کھیالی کے ایک زمیندارحاجی محمدیوسف علی قریشی نے وقف کی۔ اس کاسنگ بنیادبھی مرحوم نے خودہی رکھا۔حافظ نذیراحمدبالفعل مدرسے کے مہتمم ہیں ۔اس وقت قرأت وناظرہ وحفظ کاسلسلہ جاری ہے اورطلبہ کی تعداد۱۰۰کے لگ بھگ ہے۔مرحوم حاجی یوسف علی قریشی ہاشمی نہایت درددل رکھنے والے اورسرورکونین ﷺ کی ختم المرسلینی پرجان تک نچھاورکرنے والے انسان تھے۔ موصوف سیدعطاء اللہ شاہ بخاری ،چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین اورماسٹرتاج الدین انصاری اوردوسرے زعماء احراراورشمع ختم نبوت کے پروانوں کے محبوب نظرتھے ۔
ان مدارس کے علاوہ بھی سینکڑوں مدارس ہیں جوعلم وعمل کے مینارہ ہائے نورہیں ۔طوالت کے پیش نظر ان مدارس کے منتظمین سے معذرت کے ساتھ ہم چندایک کے محض نام گنوانے پراکتفاء کرتے ہیں:
یہ ہے ایک اجمالی تذکرہ گوجرانوالہ کے دینی مدارس کا۔ان دینی مدارس کاوجود رشدوہدایت کاایک ایسا سرچشمہ ہے جہاں سے نوربھی ملتاہے اورسروربھی ،حضوری کی نعمتیں بھی عطاہوتی ہیں اورشعور کی رفعتیں بھی۔ اسلام اگرباقی ہے توانہی بوریہ نشینوں کے دم سے اوردین تمام ترمخالفانہ یورشوں کے باوجود اگرزندہ و تابندہ ہے توانہی فقیروں کے طفیل ،جوعلم دین کی تحصیل کوایک معاشی وسیلہ نہیں بلکہ فرض اورمقصد سمجھتے ہیں ۔یہی وہ اربابِ ہمت ہیں جن کے نزدیک علم بازارکی جنس نہیں بلکہ انسانیت کاجوہر،کردارکاحسن اورفرض کی پکارہے ۔ یہ لوگ تاریخ اسلامی کی تاباں روایات کے امین ہیں۔ تاریخ جانتی ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کاذریعہ معیشت بزازی تھا، علم نہیں ۔امام معروف کرخی پاپوش سازتھے مگراپنے علم سے فکرو نظرکی گرہیں کھولتے چلے جاتے تھے۔ان عظمتوں نے علم کوعلم کے لیے حاصل کیا،دنیاکے لیے نہیں ۔وہ علمِ دین جوصرف معیشت کاذریعہ بن جائے اور فرض نہ رہے جنس کاسب سے زیادہ وقیع نہیں ہواکرتا۔
مولاناابوالکلام آزاد اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں :عربی تعلیم کوآج کوئی نہیں پوچھتاحتی کہ روٹی بھی اس کے ذریعے نہیں مل سکتی ۔ عربی مدارس کے طلباء اس کسمپرسی میں عربی تعلیم ہی کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردیتے ہیں۔ یہ جذبہ بجزعلم پرستی اوررضائے الٰہی کے اورکوئی دنیوی غرض نہیں رکھتااور اس لیے دنیابھرمیں علم کوعلم کے لیے اگرپڑھنے والی جماعت ہے توعربی مدارس کی جماعت ہے ۔
ان مدارس کے بارے میں علامہ اقبال کی آرزو یہ ہے:
’’اگرہندوستان کے مسلمان ا ن مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے توبالکل اس طرح جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سوسال کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈراورالحمراء اور باب الاخوتین کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اوراسلامی تہذیب کے آثارکاکوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرے ،تاج محل اوردلی کے لال قلعے کے سوامسلمانوں کی آٹھ سوبرس کی حکومت اوران کی تہذیب کاکوئی نشان نہیں ملے گا‘‘۔

قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو خدا کا حکم سمجھنے کی غلطی

ڈاکٹر عرفان شہزاد

اسلام کے سیاسی غلبے کو دینی فریضہ قرار دینے کے حق میں یہ استدلال ایک بنیادی استدلال کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام سے فتح و نصرت کے وعدے کیے تھے جو ان کے حق میں پورے ہوئے۔ یہی وعدے دیگر اہل ایمان کے لے بھی عام ہیں۔مسلمان اگر پورے جذبہ ایمانی سے اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشش کریں گے تو یہ وعدے ان کے حق میں بھی اسی طرح پورے ہوں گے جیسے یہ صحابہ کے لیے پورے ہوئے تھے۔ اس استدلال کے بھروسے پر مسلم تاریخ میں بے شمار مسلح اور غیر مسلح سیاسی تحاریک برپا کی گئیں جن کا انجام تاریخ کے صفحات میں رقم ہے۔ زیر نظر مضمون میں اس استدلال کا تجزیہ زبان و بیان کے معروف اسالیب کی روشنی میں ،تاریخی اور معروضی حقائق کے حوالے کیا گیا ہے۔
یہاں دو نکات قابل غور ہیں:
پہلا یہ کہ زبان کا معلوم و معروف اسلوب ہے کہ وعدہ، حکم نہیں ہوتا، یعنی جب کسی سے کوئی وعدہ کیا جاتا ہے تو یہ نہیں سمجھا جاتا کہ کوئی حکم دیا جا رہا ہے۔ مثلاً میں اپنے بیٹے سے کہوں کہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھانے پر اسے کوئی انعام دوں گا تو اس کا مطلب بس یہی ہے کہ اس کی کارکردگی اچھی ہوئی تو میں اپنا وعدہ پورا کروں گا۔ اس سے یہ کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا کہ اس انعام کا حصول میرے بیٹے کے لیے فرض ہو گیا ہے یا میرے لیے اپنا وعدہ ہر حال میں پورا کرنا فرض ہو گیا ہے۔ یہ ایک عام فہم بات ہے۔ کوئی صحیح الفہم شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا۔
دوسرا یہ ہے کہ وعدہ اگر خاص کسی شخص یا اشخاص سے کیا جائے تو وہی اس کا مخاطب اور مصداق ہوتے ہیں، دیگر لوگ اس سے مراد نہیں ہوتے۔ جیسے مذکورہ بالا مثال میں میرے وعدے کا مخاطب میرا بیٹا ہے۔ اس وعدے کا مصداق بھی وہی ہے، کوئی دوسرا نہیں ہے، حتی کہ اس کے علاوہ میری دوسری اولاد بھی اس وعدے کا مصداق نہیں بن سکتی تاوقتیکہ ان کو بھی اس میں شامل کرنے کا اعلان میں خود نہ کروں، یا وعدے کی نوعیت ہی عام ہو جیسے میں اپنے بچوں سے کہوں کہ جو بھی اچھی کارکردگی دکھائے گا، اسے انعام ملے گا۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ سب اس میں شامل ہوں گے۔ لیکن وعدہ خاص الفاظ میں ہے تو عام ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بھی ایک معروف بات ہے۔ اس کا انکار بھی ممکن نہیں۔
ان دونوں اصولوں کی روشنی میں قرآن مجید میں صحابہ سے متعلق خدا کے وعدوں کو دیکھتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ خدا نے صحابہ کے ساتھ جو وعدے کیے، وہ صرف وعدے ہیں، حکم نہیں۔ اگر کوئی ان کو حکم سمجھتا ہے تو اس کے لیے دلیل درکار ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ خدا کے یہ وعدے صحابہ کے حق میں بعینہ پورے ہوئے کیونکہ وہی ان کے مخاطب تھے، لیکن یہ وعدے دیگر مسلمانوں کے لیے تھے نہ ان کے حق میں پورے ہوئے، کیونکہ وہ ان کے مخاطب ہی نہیں تھے۔ ان خاص وعدوں کو اگر کوئی عام سمجھتا ہے تو اس کے لیے بھی دلیل لانی پڑے گی۔
یہاں قرآن مجید سے خدا کے دو وعدے پیش کیے جاتے ہیں۔ ہم ان کا تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا ان وعدوں کو حکم اور پھر اس حکم کو عام سمجھا جانا درست ہو سکتا ہے۔
خدا نے صحابہ سے بحیثیت جماعت وعدہ کیا کہ ان کے صالحین کو اس دنیا ہی میں غلبہ و حکومت عطا کرے گا:
وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (3:139)
’’اور (جو نقصان تمھیں پہنچا ہے، اْس سے) بے حوصلہ نہ ہو اور غم نہ کرو، اگر تم مومن ہو تو غلبہ بالآخر تمھیں ہی حاصل ہو گا۔‘‘
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُون (24:55)
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے ہیں، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو وہ اِس سرزمین میں ضرور اسی طرح اقتدار عطا فرمائے گا، جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو اس نے عطا فرمایا تھا اور ان کے لیے ان کے دین کو پوری طرح قائم کر دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے اور ان کے اِس خوف کی حالت کے بعد اِسے ضرورامن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھیرائیں گے۔ اور جو اِس کے بعد بھی منکر ہوں تو وہی نافرمان ہیں۔‘‘
خدا کا ایک وعدہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں سے تھا کہ اگر وہ خدا کی راہ میں ہجرت کریں گے تو خدا کی طرف سے بحیثیت جماعت اس دنیا ہی میں امن و خوش حالی پائیں گے۔ یہ وعدہ پہلے وعدے ہی کا ابتدائیہ ہے، تاہم یہ الگ سے بھی کیا گیا ہے، اس لیے بوجوہ اسے یہاں الگ وعدہ شمار کیا گیا ہے:
وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوا فِی اللّٰہِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّءَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَلَأَجْرُ الآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ (16:41)
’’جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہے، اِس کے بعد کہ ان پر ظلم ڈھائے گئے ، ہم ان کو دنیا میں بھی لازماً اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو کہیں بڑھ کر ہے۔ اے کاش، یہ منکرین جانتے۔‘‘
وَمَن یُہَاجِرْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الأَرْضِ مُرَاغَماً کَثِیْراً وَسَعَۃً (4:100)
’’(یہ لوگ گھروں سے نکلیں اور مطمئن رہیں کہ) جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا، وہ زمین میں پناہ کے لیے بڑے ٹھکانے اور بڑی گنجایش پائے گا۔‘‘
ہم جانتے ہیں کہ صحابہ سے کیے گئے یہ دونوں وعدے صحابہ کے حق میں پورے ہوئے۔ انھوں نے ہجرت کے نتیجے میں امن و خوش حالی بھی پائی اور اپنے مخالفین کے ساتھ ہونے والی جنگوں کے نتیجے میں غلبہ و حکومت بھی۔
زبان و عقل کے عام اور معروف فہم کے مطابق، خدا کے یہ وعدے حکم نہیں ہو سکتے، دوسرے یہ کہ یہ وعدے عام نہیں ہو سکتے، لیکن مسلمانوں نے دونوں مغالطے اختیار کیے: انھوں نے ان وعدوں کو حکم بھی سمجھا اوراس مزعومہ حکم کو عام بھی سمجھا۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے حصول غلبہ و حکومت کو اپنے لیے دینی فریضہ اور اس کے وقوع کو خدائی وعدہ قرار دے دیا۔ پھر اس بھروسے پر انھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں حصول اقتدار کے لیے مسلح اور غیر مسلح سیاسی تحریکیں برپا کیں جو کم و بیش تمام کی تمام ناکامی سے دو چار ہوئیں۔ اس قسم کی تحریکوں اور ان کی ناکامیوں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ قرآن مجید میں بڑی وضاحت سے یہ بیان آیا ہے کہ خدا اپنے اصول کبھی نہیں بدلتا۔ اگر یہ وعدے عام مسلمانوں کے لیے بھی ہوتے تو کامیابی ان کو بھی نصیب ہوتی۔ چونکہ یہ وعدے عام مسلمانوں کے لیے تھے ہی نہیں ، اس لیے ان کے لیے پورے بھی نہیں ہوئے۔ خدا نے اپنااصول نہیں بدلا۔
بالکل اسی طرح، جب کبھی مسلمانوں کی کسی جماعت کو کسی علاقے سے ہجرت کرنا پڑ جاتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ساری زندگی مہاجر کیمپوں میں کسمپرسی کے عالم میں گزار دیتے ہیں، مگر بحیثیت جماعت امن و خوش حالی کا منہ نہیں دیکھ پاتے۔ یہاں افراد کی انفرادی حیثیت نہیں، بلکہ جماعتی حیثیت مد نظر ہے۔ چنانچہ جس ملک میں بھی یہ جا کر رہ پاتے ہیں، دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے ہی رہ پاتے ہیں۔ ہجرت کے بعد امن و خوش حالی کے خدائی وعدے بھی اگر عام ہوتے تو ان کے حق میں بھی پورے ہوتے نظر آتے۔ چنانچہ تاریخی اور معروضی حقائق بھی اس فہم کے خلاف کھڑے ہیں کہ صحابہ سے کیے جانے والے لازمی فتح و نصرت اور لازمی امن و خوش حالی کے وعدے عام ہیں۔ 
یہاں تاویل کرنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ غلبہ و حکومت کے وعدے اعلی ایمان کے ساتھ مشروط ہیں۔ چونکہ صحابہ جیسا ایمان اب تک دستیاب نہ ہو سکا، اس لیے یہ وعدے عام مسلمانوں کے حق میں کبھی پورے ہو کر نہ دیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات ماضی و حال میں برپا ہونے والی تمام مسلح و غیر مسلح سیاسی تحاریک کے لیے علی الاطلاق کہی جا سکتی ہے، حالانکہ ان میں سے بعض بلکہ اکثر کے تذکرے ان کے رہنماؤں اور ان میں شامل افراد کے اعلیٰ کردار اور ایمان افروز واقعات سے بھرے پڑے ہیں؟سوچنے کی بات یہ ہے کہ اپنے جان و مال قربان کر دینے سے بڑھ کر ایمان و نیت کے خالص پن کا اور کیا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے اور مسلم عسکری تنظمیں یہ قربانیاں آج بھی پیش کر رہی ہیں؟ تاہم،حقیقت یہ ہے کہ غلبہ و حکومت انھیں میسر نہ آئے۔
بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ ان تمام لوگوں میں سے کوئی بھی پورے ایمان والے نہ ہو سکے تو ہجرت پر مجبور کر دیے جانے والے مسلمانوں کی مظلومیت میں تو عموماً کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ ہجرت کے بعد امن و خوش حالی کے وعدے اگر عام ہوتے تو بحیثیت جماعت عام مسلم مظلوم مہاجرین کے حق میں تو لازماً پورے ہونے چاہیے تھے، مگر وہ بھی نہیں ہوتے؟اور اگر ہجرت کے بعد کے وعدے عام نہیں ہیں، تو غلبہ و حکومت والے وعدے کیونکر عام ہو سکتے ہیں؟ 
ان سوالوں کا جواب اس کے سوا اور کیا ہے کہ غلبہ و حکومت اور امن و خوش حالی کے یہ وعدے عام نہیں تھے۔عام مسلمان ان وعدوں کا مخاطب ہیں نہ مصداق۔
بعض حضرات خدا کے ان وعدوں میں موجود غلبہ و حکومت کی بشارتوں کو اخلاقی فتح قرار دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ خدا کے ان وعدوں کی رو سے صحابہ کو کیا صرف اخلاقی فتح ملی تھی؟ان سے وعدہ دنیوی سیاسی غلبے و حکومت کا تھا، انھیں وہی ملا۔ اب دیگر لوگوں کے لیے یہ وعدہ اگر صرف اخلاقی فتح تک محدود ہو گیا ہے تو اس تخصیص کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر یہ تخصیص مان بھی لی جائے تو پھر مسلمانوں کو مسلح و غیر مسلح سیاسی تحاریک برپا کرنے کی بجائے اخلاق کے میدان میں ہی فتح حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؛ یا پھر یہ مان لیا جائے کہ اس اخلاقی فتح کا یہ فہم غلبہ و حکومت کے حصول میں کوشاں گزشتہ اور موجودہ تحاریک کے سربراہان کو بھی نہ تھا اور نہ ہے۔ وہ اسے سیاسی فتح ہی سمجھتے رہے، مگر ناکامی کے بعد قرآن کے وعدوں کا عمومی مصداق اور ان تحریکوں کی شکست دونوں کا محل درست کرنے کے لیے اسے اخلاقی فتح قرار دینے کی کوشش کی گئی۔
یہاں اس سوال کو بھی لے لینا چاہیے کہ صحابہ ہی کے ساتھ یہ وعدے کیوں کیے گئے اور انھی کے حق میں کیوں پورے ہوئے؟ یہ وعدے عام نہیں تھے تو قرآن میں قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ان کے تذکرے کا مقصد کیا ہے؟
اختصار سے بیان کیا جائے تو اس سب کا مقصد مسلمانوں کو وہ سرگزشت سنانا ہے جس میں خدائی مدد سے جزیرہ عرب میں ایک غیر معمولی واقعہ برپا کیا گیا تاکہ وہ ایک نشانِ حق بن کر قیامت تک کے انسانوں کے لیے تذکیر اور دعوت ایمان کا سامان بن جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح دیگر رسولوں کی سرگزشت ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں جن میں ہم خدا کی خاص نصرت کے واقعات عبرت اور تذکیر کے لیے پڑھتے ہیں، جیسے موسیٰ علیہ السلام کا قصہ جس میں موسیٰ علیہ السلام خدا کی خاص مدد سے اپنے دشمنوں پر اپنے عصا، عبور بحر اور دیگر معجزات کے ذریعے غالب آئے۔ ان کو پڑھتے وقت ہم یہ نہیں سمجھتے کہ موسیٰ علیہ السلام کی طرح ہم بھی کسی فرعون سے جا ٹکرائیں تو خدا کی مدد اسی طرح نازل ہو گی جس طرح موسیٰ کے لیے اتری تھی۔ ہم اسے خدا کا ایک خاص نشانِ حق سمجھ کر پڑھتے ہیں۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ خدا کے رسولوں کا اسی دنیا میں اپنے مخالفین پر غالب آ جانا خدا کا ایک خاص قانون ہے:
کَتَبَ اللّٰہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِیْ إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (58:21)
’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔‘‘
چنانچہ ہر رسول کے مخالفین خدائی عذاب کے نتیجے میں بالآخر مغلوب ہوئے۔ 
قرآن مجید کی درج ذیل آیت بھی اسی تناظر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبے کا خدائی فیصلہ سناتی ہے:
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (9:33)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ (اِس سرزمین کے) تمام ادیان پر اس کو غالب کر دے، خواہ مشرکین اِسے کتنا ہی نا پسند کریں۔‘‘
یہ غلبہ خدا کے مذکورہ قانون کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ظاہر ہو کر رہا۔اس سے دیگر مسلمانوں کے لیے سیاسی غلبے کے حصول کی ہدایت یا حکم کا کوئی قرینہ نہیں نکلتا۔ آیت میں موجود الدین کلہ (تمام ادیان) کے الفاظ سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ’’تمام ادیان‘‘ وہ ادیان تھے جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے غالب آنا تھا، یعنی جزیرہ عرب میں پائے جانے والے ادیان۔ یہ تخصیص اس لیے کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دین کاغالب ہونا بیان کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ آیت میں موجود المشرکین کا الف لام عہد کا ہے جو تمام مشرکین نہیں بلکہ عرب کے مشرکین کو بیان کر رہا ہے۔ اس غلبے کے خاص ہونے کا یہ ایک مزید واضح قرینہ ہے۔
دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ذریت ابراہیم کو ان کے ایمان و عمل کے مطلوبہ معیار پر پورا اترنے کی صورت میں اسی دنیا میں غلبے کا وعدہ اور ایمان و عمل میں غیر مطلوب طرز عمل اختیار کرنے پر اسی دنیا میں ذلت و رسوائی کی وعید سنائی ہے:
چنانچہ پہلے مرحلے میں ذریت ابراہیم کی ایک شاخ، بنی اسرائیل اس امتحان کے لیے چنے گئے تھے:
یَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَوْفُوا بِعَہْدِیْ أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ (سورۃ البقرہ، 2:40)
’’اے بنی اسرائیل، میری اْس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی تھی اور میرے عہد کو پورا کرو ، میں تمھارے عہد کو پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔‘‘
یہ وعدہ یہی تھا کہ خدا کے فضل و سرفرازی کی جو نعمت وہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے گنوا چکے ہیں، انھیں دوبارہ مل سکتی ہے اگر وہ اپنی روش بدل کر دوبارہ خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اختیار کر لیتے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں ذریت ابراہیم کی دوسری شاخ، بنی اسماعیل چنے گئے:
أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمُ اللّٰہُ مِن فَضْلِہِ فَقَدْ آتَیْْنَا آلَ إِبْرَاہِیْمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَآتَیْْنَاہُم مُّلْکاً عَظِیْماً (4:54)
’’کیا یہ لوگوں سے اللہ کی اس عنایت پر حسد کر رہے ہیں جو اس نے ان پر کی ہے؟ (یہی بات ہے تو سن لیں کہ) ہم نے تو اولاد ابراہیم (کی اِس شاخ یعنی بنی اسماعیل) کو اپنی شریعت اور اپنی حکمت بخش دی اور انھیں ایک عظیم بادشاہی عطا فرما دی ہے۔‘‘
پھر انہی مسلمانوں سے گزشتہ سنت الٰہی کے مطابق وعدہ کیا گیا:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوَا إِن تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوا یَرُدُّوکُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (آل عمران، 3:149)
’’ایمان والو، اگر اِن منکروں کی بات مانو گے تو یہ تمھیں الٹا پھیر کر رہیں گے اور تم نامراد ہو جاؤ گے۔‘‘
وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (3:139)
’’اور (جو نقصان تمھیں پہنچا ، اس سے) بے حوصلہ نہ ہو اور غم نہ کرو، اگر تم مومن ہو تو غلبہ بالآخر تمھیں ہی حاصل ہوگا۔‘‘
ان کی ہجرت کے بعد امن و خوش حالی بھی اسی وعدے کی فرع تھی۔ 
اس خصوصی اہتمام کی وجہ دین کے لیے انسانی محافظین کا چناؤ، ان کے ذریعے سے بعد از رسالت دنیا میں تبلیغِ دین اور عام لوگوں کے لیے خدا کی زندہ نشانی قائم کرنا تھا کہ کس طرح ذریت ابراہیم اپنے ایمان و عمل کی درستی اور بگاڑ کی بنیاد پر بار بار عروج و زوال کے ادوار سے گزرتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی ساڑھے تین ہزار سالہ تاریخ اور بنی اسماعیل کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں خدا کے اس فیصلے کی داستانیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ صحابہ نے دشمنان اسلام کے خلاف جو قتال کیا، وہ غلبہ و حکومت کے لیے نہیں، بلکہ خدا کے نافرمانوں کو اتمام حجت کے بعد خدا کے حکم سے آخری سزا دینے کے لیے اور مظلوم مسلمانوں کو ان کے پنجہ ظلم سے چھڑانے کے لیے کیا تھا:
قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِأَیْْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنصُرْکُمْ عَلَیْْہِمْ وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ (سورہ التوبہ 9:14)
’’ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کو سزا دے گا اور اْنھیں ذلیل و خوار کرے گا اور تمھیں ان پر غلبہ عطا فرمائے گا اور مومنوں کے ایک گروہ کے کلیجے (اِس سے) ٹھنڈے کرے گا۔‘‘
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً (4:75)
’’(ایمان والو)، تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کر رہے ہیں کہ پروردگار، ہمیں ظالموں کی اِس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر دے اور اپنے پاس سے حامی اور مددگار پیدا کر دے۔‘‘
مسلمانوں کے غلبہ و حکومت کا ذکر ان مہمات کے نتیجے اور خدا کی طرف سے انعام کے طور پر کیا گیا ہے۔ ذریت ابراہیم کے علاوہ، خدا نے اپنے ذمے یہ لیا ہے نہ اس پر لازم ہے کہ مسلمانوں کے دیگر گروہوں کے لیے بھی یہی قانون لاگو کرے۔ ان وعدوں کو حکم اور پھر حکم کو اپنے لیے عام سمجھنا مسلمانوں کی اپنی غلط فہمی ہے۔ خدا ان کی غلط فہمی کا ذمہ دار نہیں، اور نہ وہ ان کی غلط فہمی کی وجہ سے اپنے اصول بدلنے والا ہے۔
اپنے حقوق کے لیے اگر سیاسی جدوجہد کرنا مسلمانوں کے حالات کا تقاضا ہو تو وہ اسے انسانی سماج کی ایک ضرورت سمجھ کر اختیارکر سکتے ہیں، نہ کہ کوئی دینی فریضہ سمجھ کر۔ نیز یہ بھی ذہن میں رہے کہ ان کی کاوشوں کی وجہ سے خدا پر ان کی فتح و نصرت کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ خدا کی حکمت کا تقاضا ہوگا تو وہ مدد کر بھی سکتا ہے، مگر یہ نہ اس کا وعدہ ہے نہ کوئی عام قانون۔
سماجی حقیقت یہ ہے کہ آج کے کثیر القومی اور کثیر المذاہب جمہوری سماجوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی، وہاں ان کو اپنی حکومت تشکیل دینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آنی چاہیے جہاں وہ اسلام کے مسلم اجتماعیت سے متعلق احکامات مسلم کمیونٹی پر لاگو کریں۔ اور جہاں وہ اقلیت میں ہوں، وہاں انھیں ایک مفید، صالح اور دوستانہ اقلیت بننے سے کوئی چیز مانع نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم،ان کے صالح طرز عمل کے باجودبطور اقلیت انھیں اپنے سماج کے نظام یا سماجی رویوں کی وجہ سے کسی ناانصافی یا زیادتی سے پالا پڑتا ہے تو اس کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش، جس کی اجازت سماج اور قانون انھیں دیتا ہے،انھیں کرنی چاہیے۔ ناانصافی اور زیادتی کی ایسی صورت حال تو مسلم اکثریت کے سماج میں مسلمانوں کے مختلف مسلکی یا لسانی گروہوں کو بھی درپیش رہتی ہے۔جاننا چاہیے کہ یہ مذہبی سے زیادہ انسانی رویوں کا مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہتھیار اٹھا لینا نہیں، سماجی رویوں کی اصلاح کی کوششیں کرنا ہے۔تاہم، معاملہ اگر مسلم کمیونٹی کی برداشت سے باہر ہو جائے تو انھیں وہاں سے ہجرت کر جانی چاہیے۔ ہجرت بھی ممکن نہ ہو تو بیرونی ریاستی طاقتوں اور اداروں کو مدد کے لیے بلایا جانا چاہیے، نہ کہ خود ہتھیار اٹھا کر اپنے لیے مزید خرابی کے اسباب پیدا کرنا چاہئیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عہد رسالت میں مسلمانوں میں سے جو لوگ ہجرت نہ کر پائے تھے اور کفار کے ظلم کا شکار تھے تومدینہ کی اسلامی ریاست کو ان کی مدد کے لیے ابھارا گیا لیکن جہاد کے احکام نازل ہو جانے کے باوجود ان محکوم و مظلوم مسلمانوں کو ہتھیار اٹھا لینے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا بلکہ یہ ہدایت دی گئی کہ خدا سے دعا کریں کہ وہ کسی طاقت کو ان کی مدد کے لیے بھیجے۔ (دیکھیے مذکورہ بالا آیت 4:75) نوبت البتہ اگر یہاں تک پہنچ جائے کہ مسلمانوں کی طرف سے پر امن رہتے ہوئے بھی ان کے مخالفین کی طرف سے ان کی جان، عزت اور آبرو بھی محفوظ نہ رہیں تو ذاتی دفاع کے فطری حق کے لیے لڑ پڑنا، ہتھیار اٹھا لینا ناگزیر تقاضا بن جاتا ہے۔
دور جدید میں دنیا کے کثیر القومی اور کثیر المذاہب سماجوں میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کے پیچھے بڑی وجہ مسلمانوں کی اپنے دین کی بنیاد پر دیگر کمیونٹیز پر غالب آنے کی نفسیات ہے۔ مسلمان اگر اس نفسیات سے باہر آ جائیں توبقائے باہمی کے اصول پر دنیا کے ساتھ آگے بڑ ھ سکتے ہیں۔ دنیا بھی ان پر بھروسہ کرے گی اور جن مشکلات کا سامنا انھیں اب ہے، ان میں سے اکثر کا خاتمہ ہو جائے گا۔ المیہ مگر یہ ہے کہ مسلمانوں نے دین کے نام پر غلبے کے حصول کے لیے جن مشکلات کا راستہ اپنے لیے چنا ہے، وہ ان کے دین کا تقاضا ہی نہیں ہے۔ جن وعدوں کے بھروسے پر یہ سب کیا جا رہا ہے، وہ وعدے ان کے لیے ہیں ہی نہیں۔
دین کا اصل مقصد تزکیہ نفس ہے۔ مسلمانوں سے ان کے دین کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان جہاں بھی رہے، اپنی انفرادی اور سماجی حیثیت کے مطابق ایمان و عمل کے بہترین معیار کے حصول میں کوشاں رہے۔ پھر وہ چاہے باپ ہو یا بیٹا، معلم ہو یا شاگرد، حاکم ہو یا محکوم ہر حال میں خدا کے حکم کا پابند ہو کر رہے۔ مسلمان جتنا جلد ان حقائق کو باور کر لیں، اتنا ہی ان کے لیے بہتر ہے تاکہ ان کی توانائیاں غیر ضروری ترک تازیوں میں ضائع ہونے کی بجائے مثبت مقاصد کے لیے استعمال ہو سکیں۔

’’تذکار رفتگاں‘‘ ۔ اہل علم کے لیے ایک علمی سوغات

مولانا مفتی محمد اصغر

اس وقت مولانا زاہد الراشدی صاحب کی تازہ تصنیف ’’تذکار رفتگاں‘‘ ہمارے سامنے ہے۔ کتاب کیا ہے، پڑھ کر ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس پایے کی کتاب ہے اور اس میں کتنا قیمتی تاریخی علمی مواد موجود ہے۔ یہ کتاب تقریباً نصف صدی سے زائد کے اکابر علماء، زعماء، مشائخ، قائدین، سربراہان مملکت اور قومی وبین الاقوامی شخصیات کے حالات زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب میں اس فانی دنیا سے رخصت ہو جانے والے اکابر اہل علم کی وفات پر ہلکے پھلکے انداز میں مولانا نے اپنے قلبی تاثرات وجذبات کا اظہار پیش کیا ہے۔ 
مولانا کو اللہ رب العزت نے گوناگوں صفات وکمالات سے نوازا ہے۔ علم وعمل، درس وتدریس، تقریر وتحریر، خطابت وصحافت، فقہ واجتہاد، تواضع وانکسار جیسی صفات سے مالا مال فرمایا ہے۔ مولانا کا قلم عجب قلم ہے، آپ کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ آپ کو مشکل سے مشکل بات آسان پیرایے میں بیان کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل نکالنے میں مولانا اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ غبی اور کم علم بھی آپ کی تحریر کو شوق سے پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ اہل علم کا ایک بڑا طبقہ آپ کے قلم کا گر ویدہ ہے۔ آپ کے قلم سے نکلی شستہ تحریر محبت کا پیغام دیتی، مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑتی اور پست ہمت لوگوں کو باہمت بنا دیتی ہے۔ آپ کی تحریر بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لاتی، فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوؤں کو وحدت آشناکرتی اور گم کردہ راہوں کو نشان منزل عطا کرتی ہے۔ 
مولانا کو نصف صدی سے زیادہ تک امت کے اساطین علم اور اکابر اہل علم کی سرپرستی میں دینی خدمات کا موقع ملا ہے، حافظ الحدیث مولانا عبد اللہ درخواستی، مفتی محمود صاحب، مولانا عبید اللہ انور، مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہم اللہ جیسی عظیم ہستیوں سے حصول علم اور کسب فیض کا موقع میسر آیا ہے۔ اللہ رب العزت مولانا کو اور زیادہ صحت وعافیت سے نوازیں اور ان کی قومی، ملکی، دینی، ملی خدمات کے دائرے کو وسیع فرمائیں۔
زیر نظر کتاب کو چار مرکزی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے: اساتذہ واکابر، قومی وبین الاقوامی شخصیات، رفقاء واحباب، اور مختصر تعزیتی شذرات۔ تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اہل علم و قلم، اصحاب علم و دانش، صاحب ثروت شخصیات کا تذکرہ عقیدت و محبت کے ساتھ بڑے والہانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے، بالخصوص چند عظیم شخصیات کا تذکرہ تو بڑی چاہت و محبت اور تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ حضرت مفتی محمود صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر لگ بھگ پچپن صفحات میں اظہار خیال کیا گیا ہے، مرکز ی جامع مسجد گوجرانوالہ کے سابق خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب کو چودہ صفحوں میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، مولانا عبیداللہ انور اور مولانا عبداللہ درخواستی کا تذکرہ بھی محبت و عقیدت کے ساتھ بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، لیکن سب سے زیادہ قلبی جذبات و تاثرات کا اظہار مولانا صوفی عبدالحمید سواتی اور شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے تذکرہ میں ہوا ہے۔ اول الذکر مولانا کے عم محترم اور ثانی الذکر مولانا کے والد محترم ہیں، ان دونوں کا تذکرہ مولانا نے بڑی چاہت اور محبت میں ڈوب کر کیا ہے۔ 
مولانا اپنے والد محترم کے تذکرہ میں مضمون کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں:
’’حضرت مولانا سرفراز خان صفدر میرے والد گرامی تھے، استاد محترم تھے، شیخ ومربی تھے، اور ہمارے درمیان دوستی اور بے تکلفی کا وہ رشتہ موجود تھا جو ہر باپ اور اس کے بڑے بیٹے کے درمیان ہوتا ہے۔‘‘
اس کے بعد مولانا نے اپنے والد گرامی کے خانگی حالات، بچوں کی تعلیم وتربیت کا انداز، تدریسی اور تحریکی زندگی، تصنیفی اور تالیفی خدمات اور روزمرہ کے معمولات کو سپرد قلم کیا ہے جو ہم سب کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’حضرت والد صاحب کی صحت میں شب و روز کا نظام کچھ اس طرح ہوتا تھا کہ سحری کے وقت اٹھ کر بلاناغہ غسل کرتے تھے اور تہجد کی نماز ادا کرتے تھے۔ اس وقت ہماری والدہ مرحومہ بھی بیدار ہو کر تہجد پڑھتی تھیں اور ناشتہ تیار کرتی تھیں۔ اذان فجر کے فوراً بعد والد محترم ناشتہ کرتے تھے جو عام طور پر پراٹھے اور چائے پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے بعد مسجد میں چلے جاتے تھے، ساتھ ہی والدہ مرحومہ بھی مسجد میں چلی جاتی تھیں، اس لیے کہ فجر کی نماز اور درس میں خواتین بھی باقاعدہ شریک ہوا کرتی تھیں اور خواتین کے لیے مسجد میں الگ انتظام موجود تھا۔ نماز فجر پڑھانے کے فوراً بعد حضرت والد محترم درس دیتے تھے جو تین دن قرآن پاک اور تین دن حدیث پاک کا ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ گوجرانوالہ میں مدرسہ نصرت العلوم میں پڑھانے کے لیے چلے جاتے تھے جہاں سے دوپہر سے کچھ پہلے واپسی ہوتی تھی۔ کھانا کھا کر اور اخبار پڑھ کر سو جاتے تھے۔ ظہر تک آرام ہوتا تھا، ظہر سے عصر تک اپنی چارپائی پر بیٹھے لکھنے اور پڑھنے کا کام کرتے رہتے تھے اور اسی دوران بچیاں مختلف اسباق کی تعلیم حاصل کرتی رہتی تھیں۔ عصر کی نماز کے بعد قرآن کی منزل پڑھتے تھے جو عام طور پر روزانہ ایک پارہ ہوتا تھا۔ اس کے بعد گھر کے چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ جس زمانے میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی، لیمپ اور لالٹین کے شیشے صاف کرنا، چارپائی کی ڈھیلی ادوائن کو کسنا، پیڑھی وغیرہ اگر قابل مرمت ہو تو اسے ٹھیک کرنا اور اسی طرح کے دیگر چھوٹے چھوٹے کام کرنا ان کے معمولات میں شامل تھا۔ نماز مغرب کے بعد کھانا کھاتے اور مطالعہ کرتے تھے، عشاء کے بعد سردیوں میں مطالعہ کرتے اور گرمیوں میں جلد سونے کی کوشش کرتے تھے۔‘‘
حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا مفتی محمود صاحب صرف ایک سیاستدان نہیں تھے بلکہ دینی علوم کے معتبر استاد، بیدار مغز مفتی، فقیہ النفس عالم، حق گو خطیب، شب زندہ دار عارف باللہ بھی تھے، اس لیے ان کی ان متنوع اور گو نا گوں حیثیتوں میں سے سیاستدان اور سیاسی قائد کی حیثیت کو الگ کرنا اور اس کے امتیازات و تخصصات کو جداگانہ طور پر پیش کرنا ایک مشکل اور دشوار امر ہے، اور یہ شاید ان کے ساتھ نا انصافی بھی ہو کہ ان کو صرف سیاسی قائد کے طور پر سامنے لایا جائے۔ مولانا مفتی محمود صاحب ایک مفتی اور فقیہ کی حیثیت سے اسلامی احکام کی تعبیر و تشریح، ترجمانی اور دفاع کی ذمہ داری سے تدبیر اور بصیرت کے ساتھ عہدہ برآ ہوتے تھے۔ 
افتاء اور تفقہ میں ابتدائے اسلام سے دو الگ الگ ذوق پائے جاتے ہیں۔ ایک ذوق سختی اور تشدد کا ہے کہ مسئلہ بیان کرنے اور فتویٰ دینے میں کوئی لچک نہ دی جائے، دوسرا ذوق رخصت اور لچک کا ہے کہ مسئلہ پوچھنے والے کو شرعی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر ممکن سہولت اور لچک فراہم کی جائے اور اسے مشکل اور الجھن سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، حضرت مفتی محمود صاحب کا ذوق نرمی اور سہولت کا تھا اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ کوئی شخص مسئلہ پوچھنے کے لیے آیا ہے تو اس بات کو غنیمت سمجھو کہ وہ دین کے دائرے میں رہنا چاہتا ہے، اس لیے اسے جتنی سہولت فراہم کر سکتے ہو، اس کے لیے پوری کوشش کرو اور اصول کے دائرے کو قائم رکھتے ہوئے فروع و جزئیات میں زیادہ سختی نہ کرو، امت کے اجتماعی مسائل و مشکلات کے حوالے سے ان کا ذوق یہی تھا اور ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کسی بھی مسئلہ میں شرعی اصول اور قواعد کی حدودمیں رہتے ہوئے نرمی اور سہولت کا راستہ اختیار کیا جائے اور مسئلہ کو الجھانے اور ڈیڈلاک کی کیفیت پیدا کرنے کی بجائے مسئلہ کے حل اورسلجھاؤ کی کوئی صورت نکالی جائے۔ مفتی صاحب کو قدرت نے اسلامی احکام و مسائل کی حکیمانہ تشریح اور دفاع کا بھی خصوصی ذوق عطا کیا تھا اور وہ اسلامی قوانین پر اعتراضات کے جواب میں پورے اعتماد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے منطق و استدلال کا ایسا حصار قائم کر دیتے تھے کہ کسی بڑے سے بڑے مخالف کے لیے بھی ان کے دلائل کا سامنا مشکل ہو جاتا تھا۔‘‘
جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوری کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’مولانا عبداللہ رائے پوری کی ذاتی زندگی انتہائی سادگی اور کفایت شعاری سے عبارت تھی، وہ جامعہ رشیدیہ سے اپنی تنخواہ وصول کرتے وقت مہینہ میں کی ہوئی چھٹیوں کا حساب کر کے اتنے دنوں کی تنخواہ وضع کروا لیتے تھے۔ درسگاہ میں پڑھائی کے وقت کے علاوہ جو وقت گزارتے، اس کا حساب کر کے اتنا بجلی کا بل مدرسہ میں جمع کروا دیتے۔ حضرت کے لیے جامعہ رشیدیہ میں ایک کمرہ الگ مخصوص کیا گیا تھا مگر وہ آخر وقت تک جامعہ کو اس کا کرایہ ادا کرتے رہے۔ حضرت مدرسہ کے شیخ الحدیث ہو نے کے باوجود مدرسہ کے لیٹر پیڈ اور قلم دوات کو فتویٰ نویسی کے علاوہ کسی کام کی لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ مدرسہ کی سالانہ تعطیلات کی تنخواہ بھی وصول نہیں کرتے تھے۔ دوسرے مدارس کے سالانہ اجتماعات اور امتحانات وغیرہ کے لیے جاتے تو ان سے سفر کے اخراجات سے زائد رقم وصول نہ کرتے تھے۔‘‘
مولانا زاہد الراشدی صاحب کا اصلاح و ارشاد اور بیعت کا تعلق مولانا عبیداللہ انور صاحب سے تھا، ان کا تذکرہ بھی مولانا نے بڑی محبت سے کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’مولانا عبید اللہ انور میرے شیخ تھے، میرا ان کے ساتھ اصل تعلق سلسلہ قادریہ میں بیعت کا تھا۔ میں نے چند بزرگ ایسے دیکھے ہیں جن کا مستقل معمول تھا کہ وہ رات کو نہیں سوتے تھے۔ ایک مولانا عبیداللہ انور، دوسرے مولانا سید حامد میاں۔ ان کا معمول تھا کہ ساری رات نماز، مطالعہ، ذکر میں گزارتے تھے۔ مطالعہ بہت کرتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں وسعت مطالعہ کے اعتبار سے تین چار آدمی دیکھے ہیں کہ وہ ہر موضوع پر طویل کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے تھے۔ ایک والد محترم مولانا سرفراز خان صفدر مطالعہ و تحقیق کے آدمی تھے۔ دوسرے امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کے بڑے بیٹے حضرت مولانا سید ابوذر شاہ بخاری۔ تیسرے مولانا عبیداللہ انور۔ چوتھے حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب بڑے کتاب دوست آدمی تھے۔ 
ابتدا میں جب میں لکھتا تھا تو ’’زاہد گکھڑوی‘‘ کے نام سے لکھتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت فرمانے لگے کہ زاہد صاحب! یہ گکھڑوی بڑا ثقیل لفظ ہے، کہتے ہوئے بڑ ا زور لگانا پڑتا ہے۔ کوئی سادہ سا لفظ ساتھ رکھیں۔ میں نے کہا حضرت! گکھڑ سے تعلق ہے، اس لیے یہ اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتا ہوں۔ فرمانے لگے کہ سلسلہ کی نسبت کرو۔ ہمارا سلسلہ کہلاتا ہے، عالیہ قادریہ راشدیہ۔ عالیہ حضرت علیؓ کے حوالے سے، قادریہ حضرت شنخ عبدالقادر جیلانی کے حوالہ سے، اور راشدیہ حضرت شاہ محمد راشد سندھی کے حوالہ سے۔ اس وقت مولانا سعید الرحمان علوی میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے کہا، علوی تو یہ بیٹھے ہیں اور قادری بھی بہت ہیں، اب میں راشدی ہو جاؤں؟ فرمایا: ہاں، ہو جاؤ، چنانچہ اس دن سے میں ’’زاہد راشدی‘‘ ہوں۔‘‘
غرض مولانا نے تین سو کے لگ بھگ اکابر علماء، مشائخ عظام، احباب ورفقاء، قومی وبین الاقوامی شخصیات کا تذکرہ بڑے ہی دل نشیں انداز میں کیا ہے۔ چند ایک کے نام حسب ذیل ہیں: قائد احرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مولانا مفتی محمد حسن، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا قاری محمد طیب، الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا خواجہ خان محمد، مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف، مولانا سلیم اللہ خان، شاہ فیصل بن عبدالعزیز، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمد ضیاء الحق شہید، ڈاکٹر محمد حمیداللہ، نوابزادہ نصراللہ خان، نواب محمد اکبر خان بگٹی، صدر صدام حسین، ملا محمد عمر مجاہد، اسامہ بن لادن، مولانا شاہ احمدنورانی، قاضی حسین احمد، علامہ احسان الٰہی ظہیر، مولانا حق نواز جھنگوی، حکیم محمد سعید، مولانا محمد ضیاء القاسمی، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی، مولانا محمد اعظم طارق، علامہ علی شیر حیدری، مجید نظامی اور جنرل حمید گل۔
کتاب بہترین کاغذ، خوبصورت ٹائٹل کےِ ساتھ تقریباً آٹھ سو صفحات کے لگ بھگ شائع ہوئی ہے۔ شائقین علم وادب کے لیے بہترین تحفہ ہے۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کی اشاعت خاص کے طور پر منظر عام پر آیا ہے۔ امید ہے کہ اگلا ایڈیشن مزید اضافوں کے ساتھ اس سے بہتر انداز میں شائع ہو گا، ان شاء اللہ۔

فروری ۲۰۱۸ء

احمدیوں کی مذہبی اور آئینی حیثیت کی بحثمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۹)ڈاکٹر محی الدین غازی
دورِ جدید کا حدیثی ذخیرہ : ایک تعارفی جائزہ (۷)مولانا سمیع اللہ سعدی
تصوف و سلوک اور ماضی قریب کے اجتہاداتسراج الدین امجد
’’پیغام پاکستان‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
فقہاء اور مکتب فراہی کے تصورِ قطعی الدلالۃ کا فرقعدنان اعجاز
مدرسہ ڈسکورسز کیا ہے؟محمد عرفان ندیم
مدرسہ ڈِسکورسز کا وِنٹر اِنٹنسو ۔ میرے تاثراتسید مطیع الرحمٰن
الشریعہ اکادمی میں اسلامی تاریخ پر کوئز مقابلہمولانا محفوظ الرحمٰن

احمدیوں کی مذہبی اور آئینی حیثیت کی بحث

محمد عمار خان ناصر

احمدیوں کی تکفیر اور ختم نبوت سے متعلق امت مسلمہ کے اجماعی عقیدے کے تحفظ کے ضمن میں ہمارے ہاں کی جانے والی قانون سازی گزشتہ دنوں بعض مبینہ قانونی ترمیمات کے تناظر میں ایک بار پھر زیر بحث آئی۔ اس پس منظر میں والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں بعض توجہ طلب سوالات دینی حلقوں کے غور وفکر کے لیے اٹھائے۔ ان میں سے ایک نکتہ یہ ہے کہ:
’’چوتھی بات اس مسئلہ کے حوالہ سے ان حلقوں کے بارے میں کرنا چاہتا ہوں جو ۱۹۴۷ء کے بعد سے مسلسل مسئلہ ختم نبوت کے دستوری اور قانونی معاملات کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ بین الاقوامی ادارے ہوں، عالمی سیکولر لابیاں ہوں یا ملک کے اندر قادیانیت نواز حلقے ہوں، جب یہ ان کے علم میں ہے اور انہیں اس بات کا پوری طرح اندازہ ہے کہ وہ اس مسئلہ پر پاکستان کی رائے عامہ، سول سوسائٹی اور منتخب اداروں میں سے کسی کا کھلے بندوں سامنا نہیں کر سکتے اور ہر بار انہیں درپردہ سازشوں کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے تو وہ پاکستانی قوم کے اجتماعی فیصلے کو تسلیم کرنے اور زمینی حقائق کا اعتراف کر لینے سے مسلسل کیوں انکاری ہیں؟ یہ انصاف، جمہوریت، اصول پرستی اور حقیقت پسندی کی کون سی قسم ہے کہ پاکستانی قوم نے اجتماعی طور پر ایک فیصلہ کیا ہے اور وہ اس پر قائم رہنا چاہتی ہے تو اسے اس سے ہٹانے کے لیے دباؤ، سازش اور درپردہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اپنے اجماعی عقیدہ اور موقف سے ہٹنے پر بلاوجہ مجبور کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ان بین الاقوامی اور اندرون ملک حلقوں کو ان کی اس غلط روی بلکہ دھاندلی کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔‘‘ (روزنامہ اسلام، ۸ نومبر ۲۰۱۷ء)
آئندہ سطور میں ہم اس سوال کے بعض پہلوؤں کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کرنا چاہیں گے۔
یہ بات درست ہے کہ مغربی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے پاکستان میں اسلامی قانون سازی کے ضمن میں کیے جانے والے اقدامات کو ختم کرنے کے لیے دباؤ موجود ہے اور اس کے لیے علانیہ اور پس پردہ کوششوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ احمدی کمیونٹی اپنا مقدمہ بین الاقوامی فورمز پر مسلسل پیش کر کے عالمی سطح پر عمومی ہمدردی حاصل کر چکی ہے اور اپنے خلاف امتیازی قوانین کے خاتمے کے لیے پاکستانی حکومت پر مختلف اطراف سے دباؤ کو بڑھانے کے لیے بھی کوشاں رہتی ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک اس صورت حال کو سادہ طور پر ’’پاکستانی قوم کے اجتماعی فیصلے کو تسلیم نہ کرنے‘‘ اور ’’اپنے اجماعی عقیدہ اور موقف سے ہٹنے پر بلا وجہ مجبور کرنے‘‘ سے تعبیر کرنے سے پہلے ذرا توقف کر کے معاملے کے چند بنیادی پہلووں پر غور کر لینے اور بالخصوص زاویہ نظر کے اس اختلاف کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو احمدیوں کے حوالے سے ہمارے مذہبی موقف اور اس کی مخالفت کرنے والے بین الاقوامی اور قومی حلقوں کے مابین پایا جاتا ہے۔
احمدیوں سے متعلق مذہبی موقف کا ایک نکتہ تو یہ ہے کہ احمدی، امت مسلمہ کے نزدیک مسلمہ اور متفقہ مفہوم کے اعتبار سے اسلام کے ایک بنیادی عقیدے یعنی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے اور اس وجہ سے امت مسلمہ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اعتقادی اور قانونی لحاظ سے انھیں مسلمانوں کا حصہ شمار نہیں کیا جائے گا۔ اسلام کے اعتقادی نظام کا تحفظ نہ صرف مسلمانوں کا اجتماعی دینی فریضہ ہے، بلکہ سیکولر اخلاقی معیارات کے لحاظ سے بھی یہ مسلمانوں کا گروہی حق بنتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے کسی ایسے گروہ کو اپنا حصہ شمار نہ کریں جو شناخت کے کسی بنیادی اور اساسی جزو کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ تاہم اصل پیچیدگی اس نکتے کو تسلیم کر لینے کے بعد سامنے آتی ہے۔
مسلمانوں کی روایتی مذہبی تعبیرات کی رو سے اگر مسلمانوں میں سے کوئی فرد یا گروہ اپنے کسی عقیدے یا عمل کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج شمار کیا جائے تو اس کا قانونی حکم یہ ہے کہ توبہ کا موقع دیے جانے کے باوجود اگر وہ اپنے عقیدہ وعمل پر قائم رہے تو اسے قتل کر دیا جائے۔ اس تعبیر کی رو سے احمدیوں کا، اور خاص طور پر ان کی پہلی نسل کا، شرعی حکم یہ بنتا تھا کہ انھیں ارتداد کی پاداش میں قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ علماء نے نظری طور پر احمدیوں کی تکفیر کے ساتھ ساتھ ان کا یہ قانونی حکم بھی واضح کیا، تاہم چونکہ یہ صورت حال اس وقت پیش آئی تھی جب برصغیر میں اسلامی اقتدار قائم نہیں تھا، اس لیے مذکورہ قانون پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا تھا۔ اس پس منظر میں علامہ محمد اقبال نے، جو اس صورت حال کو روایتی فقہی تعبیرات کے بجائے جدید سیاسی وقانونی تصورات کے تناظر میں دیکھ رہے تھے، یہ تجویز کیا کہ احمدیوں کو مرتد اور گردن زدنی قرار دینے کے بجائے ایک غیر مسلم اقلیت کا درجہ دے دیا جائے اور مسلمان ان کے ساتھ عملاً وہی برتاؤ کریں جو دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ روایتی علما اگرچہ اپنی تحریروں میں عموماً احمدیوں کے متعلق روایتی فقہی موقف کا ہی اعادہ کرتے رہے، تاہم پاکستان بننے کے بعد جب اس ضمن میں عملی قانون سازی کا موقع آیا تو تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کی ایک مجلس نے اتفاق رائے سے علامہ اقبال کے تجویز کردہ حل کو قبول کر لیا اور یہ مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت کا درجہ دیا جائے۔
والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے موقف کی اس تبدیلی کو علماء کے اجتہادی زاویہ نظر کی ایک نمایاں مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اس تاریخی حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب علمائے کرام کو نئی ریاست کی دستوری حیثیت کا تعین کرنے کے لیے فیصلہ کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے ماضی کی روایات سے بے لچک طور پر بندھے رہنے کے بجائے وقت کے تقاضوں اور علامہ اقبال کی فکر کا ساتھ دیا ۔۔۔ عقیدۂ ختم نبوت کے منکر قادیانیوں کو مرتد کا درجہ دے کر فقہی احکام کے مطابق گردن زدنی قرار دینے کے بجائے علامہ اقبال کی تجویز کی روشنی میں غیر مسلم اقلیت کی حیثیت دے کر ان کے جان ومال کے تحفظ کے حق کو تسلیم کرنا بھی ملک کے علما کا ایک ایسا اجتہادی فیصلہ ہے جس کے پیچھے علامہ محمد اقبال کی فکر کارفرما دکھائی دیتی ہے۔‘‘ 
(عصر حاضر میں اجتہاد، شائع کردہ: الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ، فروری ۲۰۰۸ء، ص ۳۸) 
یہاں یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ مذہبی علماء نے علامہ محمد اقبال کی تجویز کو نتیجے کے اعتبار سے تو قبول کر لیا، یعنی یہ کہ احمدیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا، تاہم وہ اقبال کی رائے کی اصل بنیاد پر یا تو غور نہیں کر سکے اور یا اسے قبول کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوا۔ اقبال کی رائے، جیسا کہ عرض کیا گیا، ایک جمہوری ریاست میں حق شہریت کے جدید تصورات پر مبنی تھی جس کی رو سے ریاست کے تمام باشندوں کو یکساں شہری وسیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں اور ریاست کسی گروہ کے ساتھ مذہبی جبر کا اختیار نہیں رکھتی۔ یہ تصور، ظاہر ہے کہ دار الاسلام کے کلاسیکی فقہی تصور سے بالکل مختلف ہے جس میں نہ صرف یہ کہ ریاست کو ارتداد پر سزا دینے کا حق حاصل تھا، بلکہ ریاست کے غیر مسلم باشندے بھی شہری وسیاسی حقوق کے اعتبار سے مساوی درجے کے شہری تسلیم نہیں کیے جاتے تھے، اگرچہ ریاست مخصوص شرائط کی پابندی کے ساتھ ان کے جان ومال اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ذمہ دار سمجھی جاتی تھی۔ فقہی اصطلاح میں اسی وجہ سے انھیں ’’اہل ذمہ‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ مزید برآں اسلامی قانون کی رو سے اسلام سے ارتداد اختیار کرنے والے فرد یا گروہ کے بارے میں ریاست کو یہ اختیار بھی حاصل نہیں تھا کہ وہ انھیں ’’اہل ذمہ‘‘ کا درجہ دے کر دوسرے غیر مسلموں کی طرح ان کے جان ومال اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضامن بن جائے۔
اب ہوا یہ کہ احمدیوں کے حوالے سے اقبال کی تجویز کو علماء نے ظاہری نتیجے کے لحاظ سے تو قبول کیا، لیکن معاملے کے مختلف پہلوؤں کو بنیادی طور پر روایتی فقہی زاویے سے ہی دیکھتے رہے اور اس ثنویت یا دو ذہنی کا اظہار علماء کے موقف میں مختلف پہلووں سے ہونے لگا۔ مثلاً متعدد ذمہ دار مذہبی علماء اور اداروں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ یہ کہا گیا کہ قادیانیوں کے بارے میں پارلیمنٹ کا فیصلہ موجودہ حالات کے اعتبار سے وہ کم سے کم اقدام ہے جو ممکن تھا، لیکن ان کا اصل حکم یہی ہے کہ جب بھی حالات سازگار ہوں، ان پر زندقہ وارتداد کے احکام جاری کیے جائیں۔ پھر جن علماء نے پارلیمنٹ کے فیصلے کو ایک حتمی فیصلے کے طور پر قبول کیا، انھوں نے بھی احمدیوں کے لیے غیر مسلم اقلیت کے حقوق تسلیم کرنے کو ایسی شرائط کے ساتھ مشروط کر دیا جو شہریت کے جدید تصور کے بجائے ذمہ کے روایتی فقہی تصور سے پیدا ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۷ء میں قومی اسمبلی کے فیصلے کے بعد مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے اس کے شرعی نتائج واضح کرتے ہوئے لکھا:
’’مرزائیوں کی حیثیت قبل ازیں کفار محاربین کی تھی اور قومی اسمبلی کے فیصلہ کے بعد اس کی حیثیت پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کی ہے جن کو ذمی کہا جاتا ہے (بشرطیکہ وہ بھی پاکستان میں بحیثیت غیر مسلم کے رہنا قبول کر لیں، اس لیے کہ عقد ذمہ دو طرفہ معاہدہ ہے)۔ اور کسی ذمی کے جان ومال پر ہاتھ ڈالنا اتنا سنگین جرم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں ایسے شخص کے خلاف نالش کریں گے۔ اس بنا پر تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کی جان ومال کی حفاظت کریں۔ مجلس عمل نے مرزائیوں سے سوشل بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا جو مسلمانوں کے دائرہ اختیار کی چیز تھی، لیکن جن مرزائیوں نے قومی اسمبلی کا فیصلہ تسلیم کر کے اپنے غیر مسلم شہری ہونے کا اقرار کر لیا ہو، اب ان سے سوشل بائیکاٹ نہیں ہوگا۔ اور جو مرزائی اس فیصلہ کو قبول نہ کر رہے ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مسلمانوں سے ترک محاربت پر آمادہ نہیں۔‘‘ (احتساب قادیانیت، شائع کردہ مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان، جلد ۱۶، ص ۳۳۳)
یہاں ’’محاربین‘‘ اور ’’ذمی‘‘ کی اصطلاحات کے استعمال سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا کے ذہن میں گفتگو کا تناظر ایک جمہوری ریاست نہیں، بلکہ دار الاسلام کا فقہی تصور ہے، اس لیے کہ جمہوری ریاست کے باشندوں کو نہ تو عقیدہ ومذہب کے اختلاف کی وجہ سے محارب کہا جا سکتا ہے اور نہ غیر مسلم شہریوں کو ذمی۔ پاکستان کے آئین کی رو سے احمدیوں کے شہری وسیاسی حقوق سے بہرہ ور ہونے یا نہ ہونے کا تعین ان کے مسلمان یا غیر مسلم ہونے پر سرے سے منحصر ہی نہیں تھا، کیونکہ انھیں یہ تمام حقوق اس فیصلے سے پہلے بھی حاصل تھے اور اس کے بعد بھی۔ 
پھر ’’ذمی‘‘ کی حیثیت سے ان کے جان ومال کے تحفظ کو اس سے مشروط کرنا کہ وہ خود کو غیر مسلم تسلیم کر لیں، بدیہی وجوہ سے ناقابل فہم ہے۔ آئین شہریت کی شرائط میں اسے شمار نہیں کرتا کہ کوئی شخص نظری طور پر من کل الوجوہ آئین کے تمام اجزا کو تسلیم کرے۔ شہریت کا تعلق عملاً آئین اور قانون کی پابندی کرنے اور ملک وقوم کے مفاد کے ساتھ وفاداری سے ہے اور کسی مخصوص سیاسی نظریے یا مذہبی عقیدے کو غداری کے ہم معنی نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی آئین کے مخالف اور سیکولر ریاست کے حامی گروہ موجود ہیں اور پوری طرح شہری وسیاسی حقوق سے بہرہ مند ہیں۔ اسی طرح جمہوریت کو غلط سمجھنے اور اس پر تنقید کرنے والے مذہبی گروہ بھی یہاں پائے جاتے ہیں اور ان کے لیے بھی وہ تمام شہری وسیاسی حقوق تسلیم کیے جاتے ہیں جو باقی شہریوں کو حاصل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ غیر مسلم اقلیت تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انھیں اپنے عقیدے پر رہتے ہوئے شہری حقوق حاصل ہوں گے۔ احمدی اپنے عقیدے کے مطابق خود کو مسلمان تصور کرتے ہیں۔ امت مسلمہ ان کا یہ دعویٰ قبول نہیں کرتی، یہ تو درست ہے، لیکن احمدیوں سے یہ مطالبہ کہ وہ بھی خود کو مسلمان نہ سمجھیں، دراصل اس بات کا مطالبہ ہے کہ وہ اپنا عقیدہ چھوڑ دیں، تبھی انھیں اقلیت کے حقوق حاصل ہوں گے۔ 
(اس حوالے سے مذہبی طبقوں کی عمومی نفسیات نامعقولیت کی جن حدوں کو چھو رہی ہے، اس کا اندازہ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ایک درخواست سے کیا جا سکتا ہے جو ایک مذہبی تنظیم کے ذمہ داران کی طرف سے احمدیوں کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے لیے پولیس کو دی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ فلاں اور فلاں احمدیوں نے ضلعی انتظامیہ کے نام درخواست کے شروع میں بسم اللہ اور حضرت محمد کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہے جو کہ اسلامی شعائر ہیں اور ان کا استعمال صرف مسلمان کر سکتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور قانون کی خلاف ورزی پر مذکورہ درخواست دہندگان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون)
شہریت کے تصور کے حوالے سے زیر بحث الجھاؤ کا دوسرا بنیادی اظہار اس مطالبے میں ہوتا ہے کہ احمدیوں کے لیے کلیدی مناصب پر تقرر کو ممنوع قرار دیا جائے۔ یہ مذہبی علماء کا ایک بنیادی مطالبہ رہا ہے اور پارلیمنٹ میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد سے لے کر اب تک اس کا اعادہ کیا جاتا اور اس کی قانونی عدم تنفیذ کی وجہ سے غیر مسلم قرار دیے جانے کے فیصلے کو بھی ادھورا قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی بدیہی طور پر وہی الجھاؤ کار فرما ہے، کیونکہ یہ مطالبہ دار الاسلام کے اہل ذمہ کے بارے میں تو کیا جا سکتا ہے، لیکن جمہوری قومی ریاست کے تناظر میں اس کا کوئی آئینی جواز نہیں بنتا۔ آئین، چند ایک استثناءات کے ساتھ، شہری وسیاسی حقوق میں مذہب کی بنیاد پر کوئی تمیز نہیں کرتا اور احمدیوں کے لیے اس امتیاز کا مطالبہ دراصل آئین میں دی گئی عدم امتیاز کی ضمانت کو رد کرنا ہے۔ 
الجھاؤ کا اس سے بھی بڑھ کر اظہار علماء کے اس عمومی فتوے میں ہوتا ہے جس کی رو سے احمدیوں کے سماجی اور معاشی مقاطعہ کو مسلمانوں کی دینی ذمہ داری قرار دیا جاتا اور کسی بھی سطح پر احمدیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کو عقیدہ ختم نبوت پر ایمان کے منافی گردانا جاتا ہے۔ اس ضمن میں جو شرعی و فقہی استدلال پیش کیا جاتا ہے، وہ تمام تر شہریت کے اسی فقہی تصور پر مبنی ہے جس میں ان معاملات کو عقیدہ اور مذہب کی روشنی میں طے کیا جاتا ہے۔ یہاں ہمارے پیش نظر اس نوعیت کا ایک مفصل فتویٰ ہے جو مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی مرحوم کے قلم سے ہے اور ’’فتاویٰ بینات‘‘ کی پہلی جلد میں شامل ہے۔ مولانا نے اس فتوے میں احمدیوں کے مقاطعہ کے تفصیلی و شرعی دلائل پیش کرنے کے بعد جو نتائج اخذ کیے ہیں، ان میں سے چند اہم نتائج یہ ہیں:
کفار محاربین سے دوستانہ تعلقات ناجائز اور حرام ہیں۔ جو شخص ان سے ایسے روابط رکھے، وہ گمراہ، ظالم اور مستحق عذاب الیم ہے۔
جو کافر مسلمانوں کے دین کا مذاق اڑاتے ہوں، ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات، نشست و برخاست وغیرہ بھی حرام ہے۔
جو کافر مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں، ان کے محلے میں ان کے ساتھ رہنا بھی ناجائز ہے۔
مرتد کو سخت سے سخت سزا دینا ضروری ہے۔ اس کی کوئی انسانی حرمت نہیں، یہاں تک کہ اگر پیاس سے جاں بلب ہو کر تڑپ رہا ہو، تب بھی اسے پانی نہ پلایا جائے۔
اقتصادی اور معاشرتی مقاطعہ کے علاوہ مرتدین، موذیوں اور مفسدوں کو یہ سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں: قتل کرنا، شہر بدر کرنا، ان کے گھروں کو ویران کرنا، ان پر ہجوم (یعنی حملہ) کرنا وغیرہ۔
اگر محارب کافروں اور مفسدوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ان کی عورتیں اور بچے بھی تبعاً اس کی زد میں آ جائیں تو اس کی پروا نہیں کی جائے گی، ہاں اصالتاً عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا جائز نہیں۔
ان لوگوں کے خلاف مذکورہ بالا اقدامات کرنا دراصل اسلامی حکومت کا فرض ہے، لیکن اگر حکومت اس میں کوتاہی کرے تو خود مسلمان بھی ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جو ان کے دائر ہ اختیار کے اندر ہوں اور ظاہر ہے کہ عوام کے اختیار میں مکمل مقاطعہ ہی ایک ایسا اقدام ہے جو موثر بھی ہے اور پرامن بھی۔ (ص ۲۳۹، ۲۴۰)
استدلال کے دروبست سے واضح ہے کہ صاحب فتویٰ احمدیوں کی قانونی حیثیت محارب کے فقہی تصور کے تحت متعین کر رہے ہیں۔ اس سوال سے قطع نظر کر لیا جائے کہ فقہی لحاظ سے یہاں محارب کی تعریف صادق آتی ہے یا نہیں، لیکن یہ سامنے کی بات ہے کہ جمہوری ریاست کے تناظر میں یہ بحث نہ صرف بالکل غیر متعلق ہے، بلکہ کسی گروہ کے مقاطعہ کی عمومی دعوت دینا اور اس کی مہم چلانا ریاست کی دی ہوئی اس ضمانت کی نفی ہے کہ کسی شہری کے ساتھ اس کے عقیدے کی وجہ سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ریاست نہ صرف خود اس اصول کی پابند ہے، بلکہ اس کی بھی ذمہ دار ہے کہ کسی گروہ کو کسی دوسرے گرو ہ کے خلاف نفرت کا ایسا ماحول پیدا کرنے کی اجازت نہ دے جس سے اس کے مسلمہ شہری یا سیاسی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ 
اس تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس معاملے میں اصل الجھاؤ کہاں ہے اور اس کا فکری منبع کیا ہے۔ مذہبی علماء اصولاً اس مسئلے کو روایتی فقہی احکام کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور اقبال کے تجویز کردہ حل کو اس کی پوری قانونی بنیاد اور تمام مضمرات کے ساتھ نہیں، بلکہ صرف ظاہری نتیجے کے لحاظ سے قبول کرتے ہیں۔ اسی سے ایک طرف علماء کے مطالبات اور فتووں اور دوسری طرف آئین کی دی گئی ضمانتوں کے درمیان وہ تمام تضادات پیدا ہوتے ہیں جن کا سابقہ سطور میں ذکر کیا گیا۔ احمدیوں کو مظلوم اور مذہبی امتیاز کا شکار قرار دینے اور اس بنیاد پر ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے بین الاقوامی اور قومی حلقوں کے سامنے بنیادی طور پر معاملے کا یہ پہلو ہوتا ہے اور احمدی حضرات بھی جب اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں تو انھی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے خود کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے فیصلے کو اس کے ساتھ نتھی کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جدید دنیا میں ریاست اور شہریت کے معروف اور مسلم تصورات کی رو سے ان کے موقف میں وزن محسوس کیا جاتا ہے، جبکہ مذہبی علماء اس پہلو کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے اپنے تئیں یہ تصور قائم کر لیتے ہیں کہ امت مسلمہ کو اس کے اجماعی عقیدے سے ہٹانے کے لیے ناروا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ یہ یقیناً معاملے کا ایک پہلو ہو سکتا ہے، لیکن اسے صرف اسی ایک پہلو سے دیکھنا ہمارے خیال میں معاملے کی پیچیدگی سے نظریں چرانے کے ہم معنی ہوگا۔
یہ بات کہ اس معاملے میں مذہبی حلقوں میں ذہنی اور فکری سطح پر ایک الجھاؤ موجود ہے، اس کا احساس بعض ذمہ دار علماء کو بھی ہے۔ چنانچہ والد گرامی مولانا زاہد الراشدی لکھتے ہیں:
’’کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں یہ روایت سی بن گئی ہے کہ ہم کسی اجتماعی مسئلے پر دینی اور شرعی حوالے سے ایک قدم اٹھا لیتے ہیں، فیصلہ کر لیتے ہیں، لیکن اس پر آزادانہ علمی بحث نہ ہونے کی وجہ سے اس فیصلے کی علمی توجیہ سامنے نہیں آتی اور دلائل کا پہلو اوجھل رہتا ہے جس سے کنفیوڑن پیدا ہوتی ہے اور فیصلہ ہو جانے اور اس پر عمل درآمد ہو جانے کے باوجود علمی دنیا میں وہ فیصلہ بدستور معلق رہتا ہے۔ ۔۔۔ قادیانیوں کے بارے میں ہم نے اجتماعی طور پر فقہی احکام کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ انھیں غیر مسلم اقلیت کے طور پر ملک میں رہنے کا حق دیا جائے گا اور ان کے جان ومال کے تحفظ کی حکومت ذمہ دار ہوگی۔ یہ فیصلہ جو تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے متفقہ طور پر کیا ہے اور ملک میں نافذ العمل ہے، ہمارے روایتی فقہی موقف سے ہٹ کر ہے۔ میں اس فیصلے کی مخالفت نہیں کر رہا، بلکہ اس کے حق میں ہوں اور اس کو قانونی اور دستوری درجہ دلوانے کے لیے عملی جدوجہد کرنے والوں میں شامل ہوں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی علمی توجیہ کیا ہے اور ایسا کرنا شرعی طور پر کیا حیثیت رکھتا ہے؟ ہمارے خیال میں اس پر علمی مباحثہ ضروری ہے اور نہ صرف علما و طلبہ بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقات کے سامنے بھی اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ تبدیلی کیوں آئی ہے اور اس کا شرعی جواز کیا ہے؟‘‘ (کلمہ حق، ماہنامہ الشریعہ، مئی ؍جون ۲۰۰۹)
غالباً اسی تناظر میں کچھ عرصہ قبل اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی یہ نکتہ زیر بحث آیا تھا کہ احمدیوں کی شرعی حیثیت کے مسئلے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے، تاہم اس پر کونسل کے ارکان میں ایک تنازع پیدا ہو گیا اور غالباً یہ سوال سنجیدگی کے ساتھ زیر بحث نہیں لایا جا سکا۔ بہرحال یہ بات باعث اطمینان ہے کہ مذہبی مطالبات میں پائے جانے والے الجھاؤ اور عملی مضمرات کا اب فکری سطح پر ادراک کیا جا رہا ہے اور دینی سیاسی موضوعات پر لکھنے والے کئی راسخ العقیدہ اہل دانش کی تحریروں میں اس پر نظر ثانی کی ضرورت کو اجاگر کیا جانے لگا ہے۔ چنانچہ حالیہ بحث کے دوران میں ملک کے معروف صحافی اور دانش ور جناب عامر ہاشم خاکوانی نے اس موضوع پر سوشل میڈیا میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا جسے، بعض پہلوؤں سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود، بحیثیت مجموعی ایک متوازن اور معتدل موقف کہا جا سکتا ہے۔ عامر ہاشم خاکوانی لکھتے ہیں:
’’تین چار باتیں الگ الگ ہیں۔ پہلا یہ کہ قادیانی غیر مسلم ہیں چونکہ وہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ ایسا بنیادی نکتہ ہے جسے نہ ماننے والا دائرہ اسلام میں رہ ہی نہیں سکتا۔ اس لئے قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کے حوالے سے کسی دوسری رائے کی گنجائش ہی نہیں۔ 
دوسرا یہ کہ پاکستانی آئین کے تحت قادیانی غیر مسلم قرار بھی پا چکے ہیں۔ یہ بھی واضح امر ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں۔ یہ طے شدہ امر ہے، اسے قطعی طور پر ری اوپن نہیں کرنا چاہیے۔ ہم قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کی آئینی ترمیم میں ایک نقطے کی تبدیلی کے بھی حق میں نہیں۔ قانون توہین رسالت بھی اپنے اصول میں ایسی ہی حتمیت کا حامل ہے۔ اس کے پروسیجر میں کوئی تبدیلی صرف علمائے دین کی مشاورت سے ہوسکتی ہے، اس کا بہترین فورم اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔ اکابر علما کے مشورے اور منظوری سے کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔ 
تیسرا معاملہ قادیانی کے ساتھ تعلق کا ہے۔ یہ ہر ایک کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے، کوئی داعیانہ تعلق بنانا چاہتا ہے اور بطور غیر مسلم ان تک دعوت پہنچانا چاہتا ہے، ان کے فکری مغالطے اور گمراہی کو دور کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے، اسے کسی مولوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں (اللہ اور اس کا رسول اس کی نیت جانتا ہے، اسے اجر اپنی نیت اور عمل پر ملے گا، کسی مولوی صاحب کے سرٹیفکیٹ کی بنا پر نہیں)۔ کوئی فاصلہ رکھنا چاہتا ہے تو رکھے، یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے، مگر اسے اپنی رائے کو دوسروں پر تھوپنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
چوتھا معاملہ ہے قادیانیوں کے بطور غیر مسلم سرکاری ملازمتوں کا۔ آئینی طور پر وہ پاکستانی ہیں، دوسرے پاکستانیوں کی طرح ان کا مساوی حق ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا ممکن نہیں کہ کسی مذہب، نسل کی بنیاد پر کسی کو باقاعدہ قانون بنا کر روکا جائے۔ ایسا کرنا خطرناک بھی ہے کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کی طرح اس کا بائیکاٹ ہوجائے گا، سماجی مقاطعہ۔ سرکاری اداروں میں ملازمتیں قادیانی بھی لے سکیں گے دوسروں کی طرح۔ ہاں جو اہم یا حساس محکمے ہیں، جہاں کسی قسم کا خطرہ ریاست کو محسوس ہوگا تو وہاں پر غیر تحریری، غیر رسمی طور پر ایسا کیا جاتا ہے۔ 
امریکی قانون کے تحت کسی مسلمان کو امریکی صدر بننے سے نہیں روکا جا سکتا یا سی آئی کا چیف بننے یا جج یا کسی اور اہم حساس محکمے میں ٹاپ پوزیشن لینے سے نہیں روکا جا سکتا۔ وہاں صرف یہ پابندی ہے کہ پیدائشی امریکی ہو۔ مسلمان بھی بن سکتا ہے اگر وہ پیدائشی امریکی ہو تو۔ لیکن کبھی کوئی مسلمان امریکی صدر بنے گا نہ سی آئی کا چیف یا کسی اور اہم حساس امریکی محکمے کی ٹاپ پوزیشن میں آ سکے گا۔ ایسا مگر غیر تحریری، غیر رسمی طور پر سلیقے سے کیا جاتا ہے۔ کوئی احمق امریکی ہی مطالبہ کرے گا کہ نہیں، مسلمان کے لئے باقاعدہ قانونی پابندی لگائی جائے۔ اس کی اس بات پر اس کا مذاق اڑایا جائے گا، کیونکہ ایسا ہوتا نہیں۔ یہ صرف پاکستان ہے جہاں ایسے غبی العقل لوگ موجود ہیں جو ایسے معاملات کی پیچیدگی اور حساسیت کو نہیں سمجھتے۔ جہاں جہاں روکا جانا مقصود ہے، بے فکر رہیں ، وہاں ایسا ہو رہا ہے۔ ایسا ہونے دیں، احمقانہ مطالبات اور تقریروں سے مسائل پیدا نہ کریں۔
نوٹ: یہ بھی یاد رکھیں کہ جس طرح ہر یہودی صہیونی نہیں، ہر ہندو بی جے پی والا نہیں، اسی طرح ضروری نہیں کہ ہر قادیانی پاکستان یا اسلام کے خلاف دن رات سازشیں کرنے میں لگا ہو۔ عالمی قادیانیت تحریک کے حوالے سے مجھے بھی تحفظات ہیں۔ کچھ لوگ ہوسکتے ہیں جنہیں پاکستان کھٹکتا ہو، مگر عام آدمی ہر جگہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے چونکہ کسی خاص مذہب کے گھر میں پیدا ہو گئے، اس لیے وہ مذہب اختیار کر لیا۔ دعوت کا کام اچھے طریقے سے ہو تو ان شاء اللہ ایک بڑی تعداد حق کی طرف لوٹ سکتی ہے۔ یہ گنجائش باقی رکھنی چاہیے۔‘‘
امید کرنی چاہیے کہ اہل فکر کی توجہ کے نتیجے میں اس طرح کے موضوعات پر عمومی بحث و مباحثہ کی راہ کھلے گی اور اس نوعیت کے حساس مسائل پر اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم بہتر مستقبل کی طرف پیش رفت کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۳۲) بل قالوا کا ترجمہ

بَلْ قَالُواْ أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ہُوَ شَاعِرٌ فَلْیَأْتِنَا بِآیَۃٍ کَمَا أُرْسِلَ الأَوَّلُون۔ (الانبیاء: 5)

اس آیت میں بَلْ کے بعد قَالُواْ آیا ہے، الفاظ کی ترتیب کے لحاظ سے ترجمہ ہوگا: بلکہ انہوں نے کہا۔
عام طور سے مترجمین نے یہی ترجمہ کیا ہے، لیکن ایک ترجمہ اس سے مختلف بھی ملتا ہے،مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’اتنا ہی نہیں بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ یہ قرآن پراگندہ خوابوں کا مجموعہ ہے بلکہ اس نے از خود اسے گھڑ لیا ہے بلکہ یہ شاعر ہے، ورنہ ہمارے سامنے یہ کوئی ایسی نشانی لاتے جیسے کہ اگلے پیغمبر بھیجے گئے تھے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’بلکہ (ظالم) کہنے لگے کہ (یہ قرآن) پریشان (باتیں ہیں جو) خواب (میں دیکھ لی) ہیں۔ (نہیں) بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے (نہیں) بلکہ (یہ شعر ہے جو اس) شاعر (کا نتیجہ طبع) ہے۔ تو جیسے پہلے (پیغمبر نشانیاں دے کر) بھیجے گئے تھے (اسی طرح) یہ بھی ہمارے پاس کوئی نشانی لائے‘‘۔ (فتح محمدجالندھری)
وہ کہتے ہیں ’’بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں، بلکہ یہ اِس کی مَن گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے‘‘۔(سید مودودی)
آخری ترجمہ محل نظر ہے، اگر اس طرح ہوتا کہ قالوا بل اضغاث احلام تب تو یہ ترجمہ درست ہوتا، لیکن آیت میں بل قالوا اضغاث احلام ہے، تفاسیر میں اس طرح کا قول ذکر کیا گیا ہے لیکن محققین نے اسے کمزور قرار دیا ہے۔
امام آلوسی لکھتے ہیں:

وجوز أن تکون الأولی من کلامھم وھی ابطالیۃ أیضا متعلقۃ بقولھم ھو سحر المدلول علیہ بأفتأتون السحر، ورد بأنہ انما یصح لو کان النظم الکریم قالوا بل الخ لیفید حکایۃ اضرابھم، وکونہ من القلب وأصلہ قالوا بل لا یخفی ما فیہ، وقد أجیب أیضا بأنہ اضراب فی قولھم المحکی بالقول المقدر قبل قولہ تعالی: ھَلْ ھذا الخ أو الذی تضمنہ النجوی وأعید القول للفاصل أو لکونہ غیر مصرح بہ ولا یخفی ما فیہ أیضا. (روح المعانی.)

قرآن میں کچھ دوسرے مقامات پر بھی یہ الفاظ آئے ہیں، وہاں سب نے ترتیب کے مطابق ترجمہ کیا ہے، جیسے:

بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُون۔ (المومنون: 81)

مگر یہ لوگ وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے پیش رَو کہہ چکے ہیں (سید مودودی)

بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَی أُمَّۃٍ وَإِنَّا عَلَی آثَارِہِم مُّہْتَدُون۔ (الزخرف: 22)

نہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم اُنہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ (سید مودودی)

(۱۳۳) إِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً کا ترجمہ

یہ جملہ قرآن مجید میں دو مقامات پر آیا ہے، اور اس کے دو طرح کے ترجمے ملتے ہیں، مثالیں ملاحظہ ہوں:

إِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُون۔ (الانبیاء: 92)

یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امّت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔ (سید مودودی)
بیشک تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو میری عبادت کرو۔ (احمد رضا خان)
یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو۔ (فتح محمدجالندھری)
مذکورہ بالا ترجمے عربی ترکیب کے لحاظ سے محل نظر ہیں، جبکہ ذیل کے ترجمے عربی قاعدے کے مطابق ہیں:
یہ لوگ ہیں تمہارے دین کے سب ایک دین پر اور میں ہوں رب تمہارا سو میری بندگی کرو۔ (شاہ عبدالقادر)
یہ ہے امت تمہاری امت ایک اور میں ہوں پروردگار تمہارا پس عبادت کرو میری۔ (شاہ رفیع الدین)
یہ تمہاری امت ہے جو حقیقت میں ایک ہی امت ہے، اور میں تم سب کا پروردگار ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو۔(محمدجوناگڑھی)
یہ لوگ تمہارے گروہ کے ہیں جو ایک ہی گروہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں پھر میری ہی عبادت کرو۔(احمد علی)

وَإِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُون۔ (المومنون: 52)

اور تحقیق یہ امت تمہاری امت ایک ہے اور میں ہوں پروردگار تمہارا پس ڈرو مجھ سے۔ (شاہ رفیع الدین)
اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو۔(سید مودودی)
اور بیشک یہ تمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو مجھ سے ڈرو۔(احمد رضا خان)
مذکورہ بالا ترجمے عربی ترکیب کے لحاظ سے محل نظر ہیں، جبکہ ذیل کا ترجمہ عربی قاعدے کے مطابق ہیں:
اور یہ لوگ ہیں تمہارے دین کے سب ایک دین پر اور میں ہوں تمہارا رب سو مجھ سے ڈرتے رہو۔ (شاہ عبدالقادر)
زیر نظر جملے میں ھذہ، ان کا اسم ہے اور امتکم خبر ہے، اس کے بعد امۃ واحدۃ حال ہے۔
علامہ ابن عاشور کے الفاظ ہیں: 

وَ (اُمَّۃً واحِدَۃً) حَالٌ مِنْ اُمَّتکُمْ مُؤَکِّدَۃٌ لِمَا اَفَادَتہْ الاِشَارَۃُ الَّتی ھی الْعَامِلُ فی صَاحِبِ الحَالِ. (التحریر والتنویر)

علامہ آلوسی لکھتے ہیں: 

وقولہ تعالی: اُمَّۃً واحِدَۃً نصب علی الحال من اُمَّۃً. ( روح المعانی)

جملے کی اس ترکیب کے لحاظ سے ترجمہ یوں ہوگا: بے شک یہ تمہاری امت ہے، ایک امت۔
لیکن بہت سے لوگوں نے ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ بے شک تمہاری یہ امت ایک امت ہے۔ یہ ترجمہ اس وقت درست ہوتا جبکہ ھذہ امتکم ان کا اسم ہو اور امۃ واحدۃ خبر ہو۔ جبکہ ایسا نہیں ہے امۃ واحدۃ منصوب ہے، وہ ان کی خبر نہیں بن سکتا ہے۔
ترجمہ کے اس فرق کا اثر یقیناً مفہوم پر بھی پڑتا ہے، نحوی ترکیب کے لحاظ سے جو درست ترجمہ ہے اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ جس امت یا طریقہ کا تذکرہ ہوا ہے وہی تمہاری امت یا تمہارا طریقہ ہے، پھر مزید یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ وہ ایک ہی امت یا طریقہ ہے۔ جبکہ دوسرے ترجمہ کے لحاظ سے امت کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ ایک امت ہے، بلاشبہ پہلے ترجمہ میں جو معنویت ہے وہ دوسرے ترجمہ میں نہیں آتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جب الفاظ اور قواعد کی پابندی کے ساتھ ترجمہ کیا جائے تبھی عبارت کا حقیقی مفہوم سامنے آتا ہے، ورنہ کچھ نہ کچھ کسر رہ جاتی ہے۔

(۱۳۴) وزع اور أوزع میں فرق

عربی لغات کے مطابق وزع کے معنی روکنے کے ہیں، اور أوزع کے معنی ترغیب دینے کے ہیں، فیروزابادی لکھتے ہیں:

وزَعتُہ، کوَضَعَ: کفَفتُہ، فاتَّزَعَ ھو: کَفَّ. وأوزَعَہُ بالشیءِ: أغراہُ۔ القاموس المحیط

والوازِعُ: الکَلبُ، والزاجِرُ، ومَن یُدَبِّرُ أُمورَ الجَیشِ، ویَرُدُّ مَن شَذَّ منھم۔ القاموس المحیط 

قرآن مجید میں دو مقامات پر أوزعنی آیا ہے، جو أوزع سے فعل امر ہے، اور اس کا ترجمہ مترجمین نے عام طور سے توفیق دینا کیا ہے، البتہ کچھ ترجموں میں اس سے ہٹ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۱) فَتَبَسَّمَ ضَاحِکاً مِّن قَوْلِہَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاہُ۔ (النمل:۱۹)

’’تو وہ اس کی بات سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ اے پروردگار! مجھے توفیق عطا فرما کہ جو احسان تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں ان کا شکر کروں اور ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہوجائے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’سلیمانؑ اس کی بات پر مسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور بولا ’’اے میرے رب، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے‘‘ (سید مودودی)
’’پس وہ اس کی بات سے خوش ہوکر مسکرایا اور دعا کی اے میرے رب مجھے سنبھالے رکھ کہ میں بھی اس فضل کا شکر گزار رہوں جو تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمایا اور میں ایسے نیک کام کروں جو تجھے پسند ہوں‘‘ (امین احسن اصلاحی)

(۲) حَتَّی إِذَا بَلَغَ أَشُدَّہُ وَبَلَغَ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاہ۔ (احقاف:۱۵)

’’یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں ان کا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
’’یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا’’اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں، اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو‘‘(سید مودودی، یہاں ماضی کا ترجمہ مناسب نہیں ہے، چونکہ اذا آیا ہے اس لئے حال کا ترجمہ مناسب ہے جیسا کہ دیگر مترجمین نے کیا ہے)
’’یہاں تک کہ جب وہ پہنچ جاتا ہے اپنی پختگی کو اور پہنچ جاتا ہے چالیس سال کی عمر کو، وہ دعا کرتا ہے اے رب مجھے سنبھال کہ میں تیرے اس فضل کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمایا اور وہ نیک عمل کروں جو تجھے پسند ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
صاحب تدبر نے دونوں مقامات پر ’’مجھے سنبھال‘‘ ترجمہ کیا ہے، جبکہ صاحب تفہیم نے پہلے مقام پر ’’مجھے قابو میں رکھ‘‘ اور دوسرے مقام پر عام ترجمے کے مطابق ’’مجھے توفیق دے‘‘ ترجمہ کیا ہے، دونوں حضرات کی تشریحات سے لگتا ہے کہ انہوں نے أوزع کے بجائے وزع کے معنی کو ملحوظ رکھا ہے۔ جبکہ أوزع باب افعال سے ہے، اور اس میں سلب ماخذ کا مفہوم ہے، یعنی ایزاع کا معنی وزع کے برعکس ہے، وزع کے معنی روکنے کے ہیں تو أوزع کے معنی رکاوٹ دور کرنے اور آگے بڑھنے کی ترغیب دینے کے ہیں۔غرض یہ کہ دونوں مقامات پر قابو میں رکھنے اور سنبھالنے کے بجائے توفیق دینے کا ترجمہ درست ہوگا۔معنوی لحاظ سے بھی شکر ادا کرنے کے لئے قابو میں رکھنا کہنے کی مناسبت ظاہر نہیں ہوتی ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی یہاں (ترضاہ) کے ترجمہ کے حوالے سے ایک نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں وہ یہ کہ خوش ہونا اور راضی ہونا عمل کرنے والے سے متعلق ہوتا ہے، جب کہ پسند آنا یہ پسند ہونا یا پسند کرنا خود عمل سے متعلق ہوتا ہے، یہاں چونکہ عمل کے حوالے سے بات آئی ہے اور ضمیر عمل کی طرف لوٹ رہی ہے اس لئے پسند آنا یہ پسند ہونا یا پسند کرنامناسب ترجمہ ہے۔
(جاری)

دورِ جدید کا حدیثی ذخیرہ : ایک تعارفی جائزہ (۷)

مولانا سمیع اللہ سعدی

دسویں جہت : مناہجِ محدثین

دورِ جدید کے حدیثی ذخیرے کی ایک اہم جہت محدثین کے مناہج ،اسالیب اور ان کے طرزِ تصنیف و تالیف کے تعارف و تجزیہ پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل مباحث شامل ہوتے ہیں :
1۔محدثین کے مناہجِ تحمل روایت و ادائے روایت کیا تھے ؟
2۔محدثین کا حفظ احادیث کا منہج کیا تھا ؟
3۔روایات کی توثیق میں محدثین کے مناہج کیا تھے؟
4۔کتابت حدیث کے کون سے مناہج محدثین کے ہاں رائج تھے؟
5۔محدثین کے حلقہ دروس کا انداز کیا تھا؟
6۔محدثین کے تصنیفی مناہج و اسالیب کیا تھے؟
7۔راوی کی توثیق یا تضعیف میں محدثین کے کیا مناہج تھے؟
ان تمام موضوعات پر فرداً فرداً تفصیلی تصانیف منظر عام پر آئی ہیں ،اس کے علاوہ متونِ حدیث میں سے کسی بھی متن کا منہج ،اسلوب اور اس کی خصوصیات کا جائزہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ اہم متونِ حدیث میں سے تقریبا ہر کتاب کے منہج و اسلوب پر ضخیم کتب شائع ہوچکی ہیں ۔یوں منہج محدثین ایک مستقل فن بن گیا ہے جس میں عمومی و خصوصی دونوں انداز میں محدثین کے مناہج کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔اس سلسلے کی ایک مفصل کتاب "دراسات فی مناھج المحدثین، دراسۃ تحلیلیۃ لمناھج اشھر المحدثین من العھد النبوی الی وقتنا الحاضر‘‘ ہے جو محمود محمد احمد ہاشم کی تصنیف ہے،مکتب مہیب للطباعہ ،مصر سے چھپی ہے ۔اس کے علاوہ دو مصنفین عزت علی عطیہ، یحییٰ اسماعیل کی مشترکہ ضخیم تصنیف "اعلام المحدثین ومناھجھم فی الروایۃ والآداب والدرایۃ" ایک اہم کتاب ہے ،جو مکتبہ مدینہ منورہ مصر سے چھپی ہے ۔مناہج محدثین پر اہم کتب کی فہرست پیشِ خدمت ہے :
1۔ دراسات فی مناھج المحدثین، اسماعیل عبد الواحد مخلوف ،مصر 
2۔ الواضح فی مناھج المحدثین، یاسر شمالی ،دار مکتبہ الحامد ،عمان 
3۔ فی رحاب السنۃ،ا لکتب الصحاح الستہ، محمد بن محمد ابو شہبہ ،مجمع البحوث الاسلامیہ ،قاہرہ
4۔ ارشاد السالک الی مناھج السنن المخمسۃ وموطا مالک، ا نو ر عبد الفتاح العطافی ،دار ابوالفضل للطباعہ ،مصر
5۔ الصناعۃ الحدیثیۃ فی السنن الکبری للاما م البیھقی ، نجم عبد الرحمان خلف ،دار الوفاء،مصر
6۔ الامام مسلم ومنھجہ فی الصحیح ، محمد عبد الرحمان طوالبہ ،دار عمان ،عمان 
7۔ منھج الامام البخاری فی تصحیح الاحادیث وتعلیلھا من خلال الجامع الصحیح، ابوبکر کافی ،دار بن حزم ،بیروت
8۔ منھج ابن ابی شبیہ فی المصنف، صالح عبد الوھاب القفی ،الفاروق الحدیثہ للطباعہ و النشر،قاہرہ
9۔ الامام الترمذی و منھجہ فی کتابہ الجامع، عداب محمو دالحمش ،دار الفتح ،عمان (3مجلدات)
10۔ الصناعۃ الحدیثیۃ فی کتاب شرح معانی الاثار لابی جعفر احمد بن محمد الطحاوی، خالد بن محمد الشرمان ،مکتبہ الرشد ،ریاض 

گیارھویں جہت: ردود و مناقشات 

دورِجدید میں حدیث و سنت کے حوالے سے مسلم مفکرین و علماء میں نت نئے نظریات اور جدید بیانیے سامنے آئے ہیں، جنہیں انکارِ حدیث تو نہیں کہا جاسکتا ،لیکن ان سب میں قدرِ مشترک سنت کے حوالے سے روایتی اسلوب سے الگ راہ اپنانے کی کوشش ہے۔ ان کوششوں کا مقصد عصر حاضر میں حدیث و سنت کو درپیش نئے چیلنجز کے جوابات دینا ہے، ان میں بعض اسالیب خالص رویتی علماء کی طرف سے ذخیرہ حدیث کی از سر نو تنقیح کی صورت میں سامنے آئے ہیں ۔یہ سب نظریات اور بیانیے تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ یوں سنت و حدیث کے حوالے سے تنقیدات و تنیقحات کا ایک وسیع مکتبہ وجود میں آچکا ہے۔ یاد رہے یہ ردود و مناقشات اور تعقبات ان تنقیدات کے علاوہ ہیں جو مستشرقین اور منکرینِ حدیث کی طرف سے حدیث پر وارد کیے گئے ہیں۔ ان کا ذکر اس سلسلے کی پہلی جہت دفاعِ حدیث میں ہوچکا ہے۔ یہاں ان ردود کا تذکرہ مقصود ہے جو حدیث و سنت کو حجت ماننے والوں کے درمیان حدیث و سنت کے مختلف پہلوؤں پر مختلف علمی آراء کی شکل میں سامنے آئے ہیں ۔ ان ردو د کے کچھ مرکزی محور ہیں ۔ذیل میں ردود و تعقبات کے اہم محاور کا ذکر کیا جاتا ہے :

پہلا محور :

حدیث و سنت پر ردود کا ایک بڑا حصہ عصر حاضر کے معروف سلفی محدث ناصر الدین البانی اور ان کی تائیدو مخالفت میں لکھا جانے والا ذخیرہ ہے ۔ علامہ البانی نے احادیث و رواۃ اور کتب و متون کی صحت و ضعف پر نظر ثانی کی، اور اس پورے عمل میں متقدمین کے منہج، اسلوب اور ان کی آراء سے بڑے پیمانے پر اختلاف کیا ۔ یوں از سر نو ضعیف و موضوع احادیث پر السلسلۃ الضعیفۃ اور صحیح احادیث پر السلسلۃ الصحیحۃ کے نام سے ضخیم موسوعات تیار کیے ۔ اس کے علاوہ صحاح ستہ میں سے سنن اربعہ کے صحیح و ضعیف دو الگ الگ نسخے تیار کیے۔ علامہ البانی اور ان کی تحقیقات پر اعتماد کرنے والے ایک مستقل مکتب کی صورت اختیار کر چکے ہیں ۔علامہ البانی کا یہ اسلوب زیادہ تر سلفی و اہل حدیث طبقے میں پروان چڑھا ۔ مکتبِ البانی کی موافقت و مخالفت پر اہم کتب کا ذکر کیا جاتا ہے :
1: علامہ البانی پر مفصل ردود لکھنے والوں میں مصر کے معروف شافعی عالم محمود سعید ممدوح قابل ذکر ہیں۔ موصوف نے چھ جلدوں پر مشتمل "التعریف باوھام من قسم السنن الی صحیح وضعیف" لکھی ہے ۔ یہ علامہ البانی پر اپنی نوعیت کی مفصل تنقید ہے جس میں علامہ البانی کی تصحیحات و تضعیفات کا تعقب کیا گیا ہے۔ یہ کتاب دار البحوث الاسلامیہ دبئی سے چھپی ہے ۔ اس کتاب کا جواب مکتب البانی کی طرف سے طارق بن عوض اللہ نے تین جلدوں میں "ردع الجانی المعتدی علی الالبانی" کے نام سے لکھا ہے ۔یہ کتاب دار المحجہ ابو ظہبی سے چھپی ہے ۔محمود سعید ممدوح نے "تنبیہ المسلم الی تعدی الالبانی علی صحیح مسلم"، "وصول التھانی باثبات سنیۃ السبحۃ والرد علی الالبانی" کے علاوہ سلفی مکتب کے مواقفِ حدیث کے رد میں گرانقدر کتب لکھی ہیں۔
2: علامہ البانی پر دوسری مفصل اور افراط پر مبنی تنقیدات معروف اردنی عالم حسن بن علی سقاف نے کی ہیں۔ موصوف وہابی و سلفی فکر کے رد میں غالی نظریات کے حامی ہیں۔ آپ نے علامہ البانی کی تصحیحات پر ایک مفصل کتاب "تناقضات الالبانی الواضحات فی ما وقع لہ فی تصحیح الاحادیث و تضعیفھا من اخطاء و غلطات" کے نام سے لکھی ہے ۔ یہ کتاب تین جلدوں میں دار الامام النووی اردن سے چھپی ہے ۔ اس کے علاوہ "قاموس شتائم الالبانی: الشماطیط فی بیان ما یھذی بہ الالبانی فی مقدماتہ من تخبطات وتخلیط" بھی علامہ البانی کے رد میں لکھی ہیں ۔ موصوف کے بعض نظریات سلفیت کے رد میں خود اہل سنت والجماعت کے منہج سے منحرف ہیں ۔ 
موصوف کے رد میں مکتب سلفیت کی طرف سے درجہ ذیل کتب لکھی گئی ہیں :
1۔ افتراآت السقاف الاثیم علی الالبانی شیخ المحدثین، خالد العنبری 
2۔ الانوار الکاشفۃ لتناقضات الخساف الزائفۃ وکشف ما فیھا من الزیغ والتحریف والمجازفۃ، علی حسن حلبی ،دار الاصالہ، بیروت
3۔ الکشاف عن ضلالات حسن السقاف، سلیمان علوان ،دار المنار،مصر
4۔ الایقاف علی اباطیل قاموس شتائم السقاف، حسن حلبی ،دار الاصالہ ،بیروت
اس کے علاوہ بھی حسن سقاف اور وہابی و سلفی مکتب میں ردود و تعقبات لکھی گئی ہیں۔
3: علامہ البانی پر ایک اہم رد برصغیر سے معروف محدث و محقق حبیب الرحمان اعظمی رحمہ اللہ نے "الالبانی، شذوذہ و اخطاءہ" کے نام سے لکھا ہے ۔یہ کتاب اگرچہ مختصر ہے ،لیکن ہندوستانی مصنفین کی عمومی عادت کی طرح عمق و قوتِ تنقید کی حامل ہے ،اس لیے اس کے جواب میں مکتب سلفی کے دومشہور مصنفین کو کمر بستہ ہونا پڑا اور سلیم بن عید الہلالی و حسن حلبی نے دو جلدوں میں اس کتاب کا جواب "الرد العلمی علی حبیب الرحمان الاعظمی" کے نام سے لکھا جو المکتبہ الاسلامیہ عمان سے چھپا ہے۔
علامہ البانی پر اہم ردود و تعقبات کی فہرست پیش خدمت ہے :
1۔ التنبیھات علی رسالۃ الالبانی فی الصلاۃ، حمود بن عبد اللہ التوجری ،مطابع القصیم ،ریاض 
2۔ تفنید بعض اباطیل ناصر الالبانی، احمد عبد الغفور عطار،دار ثقیف ،طائف
3۔ جزء فیہ الرد علی الالبانی، عبد اللہ بن محمد الصدیق الغماری ،دار الجنان ،بیروت
4۔ تنبیہ القاری لتقویۃ ما ضعفہ الالبانی، و تنبیہ القاری لتضعیف ما قواہ الالبانی ،عبد اللہ بن محمد الدرویش ،دار العلیان، بریدہ
5۔ نظرات فی السلسلۃ الصحیحۃ، مصطفی العدوی ، خالد الموذن،مکتبہ الطرفین ،طائف
6۔ حوار مع الشیخ الالبانی فی مناقشۃ لحدیث عرباض بن ساریہ ، حسان عبد المنان ،مکتبہ المنہج العلمی ،بیروت
7۔ الاعلام فیما خفی علی الامام، تعقبات حدیثیۃ علی الشیخ محمد ناصر الدین الالبانی، فہد بن عبد اللہ السنید ،مکتبہ السنہ ، قاہرہ
8۔ کشف المعلول مما سمی بسلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، صلاح الدین بن احمد الادلبی 
9۔ لقطات مما وھم فیہ الالبانی من تخریجات وتعلیقات، علی عبد الباسط فرید ،اختانون للنشر والتوزیع ،قاہرہ 
10۔ النصیحۃ فی تھذیب السلسلۃ الصحیحۃ، عبد الفتاح محمود سرور ،مکتبہ السنہ ،قاہرہ
11۔ نظرات فی کتاب حجۃ النبی للالبانی، سعید بن عبد القادر ،دار طیبہ ،ریاض 
12۔ بیان اوھام الالبانی فی تحقیقہ لکتاب فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اسعد سالم تیم
13۔ تصحیح الاخطاء و اوہام لمحدث الشام، عمار المصری
14۔ التعقب المتوانی علی السلسلۃ الضعیفۃ والصحیحۃ للالبانی، ابو محمد الالفی 

دوسرا محور :

معروف مصری عالم اور کثیر کتب کے مصنف شیخ محمدالغزالی نے ایک کتاب "السنۃ النبویۃ بین اھل الفقہ واھل الحدیث" لکھی جس میں انہوں نے چودہ بڑے موضوعات کی احادیث پر نظر ثانی اور نئی تحقیق پیش کی۔ یہ کتاب بھی حدیثی ردود و مناقشات کا بڑا محور بنی رہی ۔ اس کتاب کی تائید و مخالفت میں متعدد کتب لکھی گئیں ۔ ذیل میں اس حوالے سے اہم کتب کی فہرست پیش کی جاتی ہے :
1۔ براء ۃ اھل الفقہ واھل الحدیث من اوھام محمد الغزالی، مصطفی سلامہ ،مکتبہ ابن حجر ،مکہ مکرمہ 
2۔ وقفات مع کتاب السنۃ بین اھل الفقہ و اھل الحدیث ،سلمان بن فہد عودہ ،مکہ مکرمہ
3۔ نقد کتاب السنۃ النبویۃ بین اھل الفقہ واھل الحدیث للشیخ محمد الغزالی، جمال سلطان ،دار الصفا ،قاہرہ
4۔ کشف موقف الغزالی من السنۃ واھلھا ونقد بعض آراءہ، ربیع بن ہادی المدخلی ،مکتبہ ابن القیم ، مدینہ منورہ
5۔ الشیخ محمد الغزالی بین النقد العاتب و المدح الشامت، محمد جلال کشک ،مکتبہ التراث الاسلامی ،قاہرہ
6۔ الغزالی فی مجلس الانصاف، عائض بن عبد اللہ القرنی ،دار الرایہ ،ریاض
7۔ اعانۃ المتعالی لرد کید الغزالی، عبد الکریم بن صالح الحمید ،دار الرایہ ،ریاض
8۔ المعیار لعلم الغزالی فی کتابہ السنۃ النبویۃ، صالح بن عبد العزیز ال شیخ ،مکتبہ الحسن ،عمان 
9۔ جنایۃ الشیخ محمد الغزالی علی الحدیث واھلہ، اشرف بن عبد المقصود ،مکتبہ الامام البخاری، مصر
10۔ دفع شبھات عن الشیخ محمد الغزالی، احمد حجازی السقا، مکتبہ الکلیات الازہریہ ،قاہرہ
11۔ الغزالی و السنۃ النبویۃ بین اھل الفقہ واھل الحدیث، نظرات وملاحظات، منذر ابو شعر، دار البشائر، دمشق

تیسرا محور :

برصغیر میں حنفی و اہل حدیث حضرات کے درمیان حدیثی ردود او رتعقبات کا ایک وسیع ذخیرہ مرتب ہوا ہے جس کا ایک بڑا حصہ فریقین کے درمیان اختلافی مسائل کو حدیث کی روشنی میں واضح کرنا ہے ۔فاتحہ خلف الامام، آمین بالجہر، رفع یدین، مسح علی الخفین، وضع الید فی الصلاۃ، طلا ق ثلاثہ سمیت دیگر اہم مسائل پر فریقین نے ایک دوسرے کے جواب میں تفصیلی کتب لکھی ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امامِ اہل سنت مولانا سر فراز خان صفدر صاحب نے فاتحہ خلف الامام کے مسئلے پر دو جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب "احسن الکلام فی ترک القراء ۃ خلف الامام" لکھی، جس کا جواب معروف اہل حدیث عالم مولانا ارشاد الحق اثری نے "توضیح الکلام فی وجوب القراء ۃ خلف الامام " میں لکھا جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے ۔ ان جیسی کتب میں حدیث و اصول حدیث سے متعلق عمدہ مباحث و نکات ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے مسائل پر بیسیوں کتب دونوں اطراف سے لکھی گئی ہیں ۔ اس جیسی کتب کے علاوہ اس محور میں درج ذیل کاوشیں قابل ذکر ہیں :
1۔علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ طبقہ احناف میں ایک وسیع النظر محدث شمار ہوتے ہیں۔ آپ نے حنفیت کے استحکام اور مستدلا تِ حنفیہ پر بہترین تحقیقات کی ہیں۔ اہل حدیث مکتب کی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ کی کتب پر مناقشات کیے گئے ہیں ،آپ کے درس بخاری پر مشتمل بخاری شریف کی عربی شرح "فیض الباری "پر دو اہل حدیث مصنفین حافظ محمد گوندلوی اور حافظ عبد المنان نو ر پوری نے "ارشاد القاری الی نقد فیض الباری "کے نام سے چا رجلدوں میں ایک مفصل تنقید لکھی ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ بعض مقامات پر مضبوط گرفت کی ہے۔ نیز ان حضرات کا اسلوب بھی علمی و تحقیقی ہے۔ اسی طرح علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے درس بخاری پر مشتمل اردو شرح "انوار الباری" پر ہندوستان کے معروف اہل حدیث عالم محمد رئیس ندوی نے "اللمحات الیٰ ما فی انوار الباری من الظلمات" کے نام سے چار جلدوں میں ایک تنقیدی کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ندوی صاحب کا نقد،لہجہ اور اسلوب ایک محقق کی بجائے متشددانہ مناظر کا طرز لیے ہوئے ہے۔
2۔معروف حنفی عالم محمد ظہیر احسن نیموی نے مستدلاتِ حنفیہ پر مشتمل ایک کتاب "آثار السنن" کے نام سے لکھی جس کا جواب معروف اہل حدیث عالم عبد الرحمن مبارکپوری نے "ابکار المنن فی تنقید آثار السنن" کے نام سے دیا ۔ اس کا جواب الجواب علامہ نیموی کے صاحبزادے محمد عبد الرشید نے "القول الحسن فی الرد علیٰ ابکار المنن " کے نام سے لکھا۔
3۔ترمذی شریف کے مشہور اہل حدیث شارح عبد الرحمان مبارکپوری نے اپنی مفصل شرح "تحفۃ الاحوذی " میں جگہ جگہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی تقریرِ ترمذی "العرف الشذی "پر نقد کیا ہے جس کا جواب علامہ کشمیری کے شاگرد حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ نے اپنی عمدہ شرح "معارف السنن" میں دیا ہے۔
4۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فقہ کے جملہ ابواب میں حنفیہ کے مستدلات احادیث کو جمع کرنے کا ایک وسیع منصوبہ تیار کیا ۔ یہ منصوبہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے حکیم الامت کی سر پرستی میں اعلا ء السنن کے نام سے بیس جلدوں میں پورا کیا۔ اعلا ء السنن حنفی نقطہ نظر سے حدیثی ذخیرے کی ایک عمدہ کتاب ہے ۔ اس کتاب پر ایک مختصر نقد معروف اہل حدیث عالم مولانا ارشاد الحق اثری نے "اعلاء السنن فی المیزان " کے نام سے لکھا ہے۔
5۔علامہ ظفر احمد عثمانی نے اعلاء السنن کے دو ضخیم مقدمے لکھے ۔ اس میں ایک مقدمہ "قواعد فی علوم الحدیث " کے نام سے چھپا ہے جس میں حدیث کی صحت و ضعف اور رواۃ کی توثیق و تضعیف کے اصول فقہاء خاص طور پر حنفی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر مرتب کیے۔ اس پر تنقیدی تبصرہ اہل حدیث عالم مولانا بدیع الدین راشدی نے "نقض قواعد فی علوم الحدیث"کے نام سے لکھا ہے۔
6۔عالم عرب میں حنفیت کے دفاع و استحکام کے حوالے سے شیخ زاہد الکوثری اور آپ کے رفقاء،تلامذہ و منتسبین کی کوششیں قابل قدر ہیں ،جبکہ اس کے بالمقابل سلفی حضرات نے جوابی ردود لکھی ہیں۔ ذیل میں اس حوالے (حدیثی حوالے )سے فریقین کی اہم کتب کی فہرست دی جاتی ہے :
1۔ النکت الطریفۃ فی التحدث عن ردود ابن ابی شیبۃ علی ابی حنیفۃ،  شیخ زاہد الکوثری، المکتبہ الازہریہ ،قاہرہ
2۔ فقہ اھل العراق وحدیثھم، ایضاً
3۔ اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الفقھاء، محمود عوامہ 
4۔ بیان تلبیس المفتری محمد زاہد الکوثری، احمد بن محمد الصدیق الغماری ،دار الصمیعی ،ریاض 

چوتھا محور :

عالم اسلام کا جدت پسند طبقہ حدیث کے بارے میں خاص نقطہ نظر رکھتا ہے ۔ برصغیر میں متجددین کے سرخیل سر سید احمد خان ہوں یا عالم عرب کے مفتی محمد عبدہ کا مکتب فکر، مصری متجدد ادباء و مفکرین ہوں یا پاکستان میں ڈاکٹر فضل الرحمان، جاوید احمد غامدی، سب حضرات حدیث کے بارے میں الگ الگ مواقف رکھنے کے باوجود اس وصف میں مشترک ہیں کہ ان کے مواقف اسلاف کے نقطہ نظر (خواہ محدثین کا موقف ہو یا فقہاء کا )سے مختلف ہے۔ اس کے علاوہ بعض روایت پسند طبقات، جن کا جھکاؤ تفسیر و قرآنیات(جیسے مکتبِ فراہی ) کی طرف کچھ زیادہ رہا، حدیث کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بھی بعض حوالوں سے ایک الگ موقف شمار ہوتا ہے ۔ ان سب حضرات کے موقفِ حدیث پر ردود و مناقشات کا ایک وسیع ذخیرہ مرتب ہوچکا ہے ۔ ذیل میں اس حوالے سے اہم عربی و اردو کتب کی فہرست دی جاتی ہے :
1۔ موقف المدرسۃ العقلیۃ من السنۃ النبویۃ، الامین الصادق الامین ، جامعہ ام القری ،مکہ مکرمہ(مجلدین )
2۔ موقف المدرسۃ العقلیۃ من الحدیث النبوی، دراسۃ تطبیقیۃ علی تفسیر المنار ،شفیق شقیر ،المکتب الاسلامی، بیروت
3۔ ریاض الجنۃ فی الرد علی المدرسۃ العقلیۃ ومنکری السنۃ، سید بن حسین العفانی ،دار عفانی، قاہرہ
4۔ الرد القویم علی المجرم الاثیم، حمود بن وعبد اللہ التویجری
5۔ مع بعض الکتاب فی بیان حکم اعفاء اللحیۃ و خبر الآحاد، عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ،دار الافتاء، ریاض 
6۔ الشناعۃ علی من رد احادیث الشفاعۃ، عبد الکریم بن صالح ،ریاض 
7۔ الاعتداء ات الاثیمۃ علی السنۃ النبویۃ القویمۃ، کریمہ احمد محمود،المجلس الاعلی للشون الاسلامیہ ، قاہرہ 
8۔ انکارِ حدیث کا نیا رروپ ،(اصلاحی تدبر حدیث کا جائزہ )غازی عزیر مبارکپوری (مجلدین )
9۔ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث ،تنقیدی جائزہ ،محمد اسماعیل سلفی 
10۔ سید ابو الاعلیٰ کا مخصوص نظریہ حدیث ،عبد اللہ روپڑی
11۔ اصول و مبادی پر تحقیقی نظر ،ابو عمرو محمد یوسف
12۔ جاوید احمد غامدی اور انکار سنت ،مولانا محمد رفیق چودھری
13۔ نقد فراہی ،محمد رضی الاسلام ندوی 
14۔ دورِ حاضر کے تجدد پسندوں کے افکار ،مولانا یوسف لدھیانوی 
15۔ فکر غامدی کا تحقیقی جائزہ ،ڈاکٹر حافظ محمد زبیر 

پانچواں محور:

حدیثی ردود و مناقشات کا پانچواں محور حدیثی تراث میں اخطاء،اغلاط ،تصحیفات اور ان کتب کی مختلف اشاعتوں میں غلطیوں کی نشاندہی ہے۔ اس باب میں مخطوطات کے محققین نے ایک دوسرے پر تعقبات کیے ہیں۔ ذیل میں اس حوالے سے اہم کاوشوں کی فہرست دی جاتی ہے :
1۔ تنبیھات علیٰ تحریفات وتصحیفات فی کتاب مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ، عاصم بن عبد اللہ القریوتی ،دار ہجرہ، الریاض 
2۔ التراجم الساقطۃ من الکامل فی معرفۃ ضعفاء المحدثین وعلل الحدیث لابن عدی، عبد المحسن الحسینی ،مکتبہ ابن تیمیہ ، قاہرہ
3۔ النقد لما وقع فی اسانید صحیح ابن خزیمۃ من التصحیف و السقط، عبد العزیز بن عبد الرحمان العثیم ،دار سلطان ،جدہ 
4۔ تصحیح الاغلاط الکتابیۃ الواقعہ فی النسخ الطحاویۃ، محمد ایوب المظاہری ،المکتبہ الیحیویہ ، سہارنپور
5۔ نصوص ساقطۃ من طبعات اسماء الثقات لابن شاھین، سعد الہاشمی ،مکتبہ الدار ،مدینہ منورہ
6۔ التصحیفات والتحریفات الواقعۃ فی طبعۃ کتاب المعین فی طبقات المحدثین، عواد الخلف ،دار یلاف ،کویت

بارہویں جہت : فقہی مکاتب اور حدیث و سنت 

معاصر سطح پر ائمہ اربعہ کے نظریہ سنت اور حدیث سے احکام کے اخذو ترک کے اصولوں پر قابل قدر کام ہوا ہے، خاص طور پر احناف چونکہ قدیم زمانے سے ترک حدیث کے الزام کا مورد رہے ہیں، اس لیے حنفیہ کے قواعد و اصول حدیث پر کافی کام ہوا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام مولانا عبد المجید ترکمانی کا لکھا ہوا مقالہ "دراسات فی اصول الحدیث علی منھج الحنفیۃ" ہے جو معروف محدث و محقق ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی کی زیرِ سرپرستی لکھا گیا ہے۔ چھ سو صفحات کی ضخیم کتاب میں حنفیہ کے اصول الحدیث پر بڑی مفید و مفصل بحث کی گئی ہے، جبکہ اردو میں اس حوالے سے امام اہل سنت کے پوتے اور مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ کے قابل قدر صاحبزادے مولانا عمار خان ناصر صاحب کی کتاب "فقہائے احناف اور فہم حدیث،اصولی مباحث" قابل ذکر کتاب ہے۔ اس کتاب میں ان درایتی اصولوں کی وضاحت کی گئی ہے جو مکتب حنفی میں احادیث کے اخذ و ترک کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صہیب عباس کی مفصل کتاب "منھج الاصولیین الحنفیۃ فی الاستدلال بالسنۃ النبویۃ" (مکتبہ الرشد ریاض)، کیلانی محمد خلیفہ کا مقالہ "منھج الحنفیۃ فی نقد الحدیث بین النظریۃ والتطبیق" (دار السلام للطباعۃ و النشر، قاہرہ) اور ادارہ تحقیقاتِ اسلامی (اسلام آباد ) کے محقق مبشر حسین صاحب کی کتاب "احادیثِ احکام اور فقہائے عراق "اہم کاوشیں ہیں ۔ ذیل میں اس حوالے سے چند اہم کتب کی فہرست دی جاتی ہے:
1۔ منھج الامام ابی حنیفۃ فی توثیق السنۃ، محمد امین الاسلام ،الجامعہ الاسلامیہ ،مدینہ منورہ
2۔ اصول الحدیث عند الامام ابی حنیفۃ، احمد یوسف ابو حلیبہ ،کلیہ اصول الدین ،غزہ (محقق مذکور نے اسی طرز پر اصول الحدیث عند الامام مالک ،اصول الحدیث عند الامام احمد مختصر مقالات لکھے ہیں ،جو مجلہ الجامعہ الاسلامیہ (مدینہ منورہ) میں چھپے ہیں )
3۔ اختلافات المحدثین والفقھاء فی الحکم علی الحدیث، عبد اللہ شعبان علی ،دار الحدیث ، قاہرہ
4۔ مختلف الحدیث بین المحدثین والاصولیین الفقھاء، دراسۃ حدیثیۃ اصولییۃ فقھیۃ تحلیلیۃ، اسامہ بن عبد اللہ خیاط ،دار الفضیلہ ،ریاض
5۔ علل الاصولیین فی رد متن الحدیث و الاعتذار عنہ، بلال فیصل البغدادی ،دار المحدثین ، قاہرہ 
6۔ منھج الاستدلال بالسنۃ عند المالکیۃ، حسین حیان ،دار البحوث ،متحدہ عرب امارات
7۔ تقویۃ الحدیث الضعیف بین الفقھاء والمحدثین، محمد بن عمر باز مول 
8۔ مباحث نقد متن خبر الواحد عند الاصولیین، عبد المعز حریز ،کلیۃ الشریعہ و الدراسات الاسلامیہ، جامعہ قطر 
9۔ اثر اختلاف الاسانید والمتون فی اختلاف الفقھاء، ماہر یاسین فحل ،دار الکتب العلمیہ، بیروت
10۔ حدیث الآحاد عند الاصولیین، ابو عاصم البرکاتی ،دار الصفا و المروہ ،مصر

تیرہویں جہت :ایم فل و پی ایچ ڈی مقالات 

دورِ جدید کے حدیثی ذخیرے کی ایک اہم جہت حدیث و علومِ حدیث پر مقالات (theses) پر مشتمل ہے۔ عالمِ اسلام کی مختلف جامعات نے حدیث و علومِ حدیث پر ہزاروں طلبا کو ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تفویض کی ہیں،ان تینوں ڈگریوں کے لیے مقالہ کا لکھنا ضروری ہے۔ یوں حدیث و علومِ حدیث کے بے شمار موضوعات پر عمدہ تحقیقی مقالات تیار ہوئے ہیں ۔ یہ مقالات عموماً درج ذیل انواع پر مشتمل ہوتے ہیں :
1۔کسی قدیم کتاب کی از سر نو تحقیق و تعلیق 2۔کسی محدث کی خدماتِ حدیث کا تذکرہ
3۔کسی کتاب کے منہج و اسلوب ، مباحث اور اس کی مختلف جہات کا جائزہ و تجزیہ 
4۔مصادرِ حدیث و علوم حدیث کی تاریخ و ارتقاء 5۔کسی بھی دو کتب یا محدثین کا مقارنہ ،موازنہ او رتقابل 
6۔کسی خطے یا صدی میں ہونے والے حدیثی ذخیرے کا تعارف اور اس کی تاریخ
7۔کسی بھی موضوع پر احادیث و روایات کی جمع و ترتیب
8۔کسی حدیث کے مختلف طرق اور کسی محدث کی مرویات کا محاکمہ و جائزہ
9۔علوم الحدیث کے مختلف فنون و انواع پر مفصل متنوع تحقیقات 
10۔اہم کتب میں مذکور احادیث و روایات کی تخریج 
11۔کسی کتاب کے رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے جائزہ
12۔حدیث پر مستشرقین و مغرب زدہ دانشوروں کے مناقشات و اعتراضات کے جوابات 
13۔حدیث کی مختلف اقسام و انواع کی متونِ حدیث سے جمع و تدوین
14۔حدیث و علومِ حدیث پر مختلف اقسام و انواع کے فہارس کی تیاری 
15۔کتابیات اور مختلف قسم کے معاجم و موسوعات کی تیاری
ان مقالات کی فہرستیں متعلقہ جامعات کی ویب سائٹس پر موجود ہیں، اس کے علاوہ فہارس و معاجمِ کتب سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ عربی میں اس کے لیے درج ذیل کتب اور آن لائن لائبریریز کی طرف رجوع کیا جائے :
1۔ دلیل مؤلفات الحدیث الشریف المطبوعۃ القدیمۃ والحدیثۃ، محی الدین عطیہ، صلاح الدین حفنی، محمد خیر رمضان، دار ابن حزم بیروت (مجلدین)
2۔ التصنیف فی السنۃ النبویۃ وعلومھا، خلدون الاحدب، موسسہ الریان ،بیروت(مجلدین)
3۔ المعجم المصنف لمولفات الحدیث الشریف، محمد خیر رمضان ،مکتبہ الرشد ،ریاض (3 مجلدات)
ان تین ویب سائٹس پر خصوصیت کے ساتھ مقالات و رسائل موجود ہیں :
1۔ملتقی اہل الحدیث 
http://www.ahlalhdeeth.com/vb
2۔جامع الکتب المصورۃ
http://kt-b.com/?page_id2363806
3۔جامع البحوث العلمیہ 
http://b7oth.com
جبکہ اردو میں ولی خان یونیورسٹی مردان کے پروفیسر ڈاکٹر سعید الرحمان کی حال ہی میں چھپی قابل قدر کاوش تحقیقاتِ اسلامیات (العلم پبلی کیشنز ،پشاور) اہم کتاب ہے جس میں پاکستان بھر کے جامعات میں علوم اسلامیہ کے مختلف گوشوں پر لکھے گئے اردو مقالات کی فہرست دی گئی ہے۔ اس کتاب میں ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب مقالات کی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں حدیث و علوم حدیث پر لکھے گئے مقالات بھی شامل ہیں۔

چودھویں جہت: جرائد و رسائل کے خاص نمبر اور کانفرنسز و سیمینارز 

دورِ جدید کے حدیثی ذخیرے میں حدیث و علومِ حدیث پر تحقیقی مضامین (research articles) اہم حیثیت کے حامل ہیں ۔ ان مضامین میں کسی خاص موضوع پر اختصار کے ساتھ تحقیقی انداز میں بحث ہوتی ہے ۔ ان مضامین و مقالات کی تعداد بلا شبہ ہزاروں تعداد میں ہے۔ اس کے ساتھ حدیث و علوم حدیث پر رسائل کے خاص نمبر بھی قابلِ ذکر ہیں جن میں موضوع سے متعلق مختلف اہل علم کے تحقیقی مقالات یکجا ہوتے ہیں ۔ حدیث کے حوالے سے اردو رسائل کے اہم خاص نمبر کا ذکر کیا جاتا ہے :
1۔ ہفت روزہ الاعتصام (لاہور ) حجیتِ حدیث نمبر (1956)
2۔ ماہنامہ الاحسن (کراچی )ختم بخاری نمبر ( رجب ،شعبان 1426ھ)
3۔ماہنامہ الصدیق (ملتان ) کتابتِ حدیث نمبر ( جمادی الاولیٰ 1378ھ)
4۔ماہنامہ الصدیق (ملتان )عظمتِ حدیث نمبر (جمادی الثانیۃ 1378ھ )
5۔ماہنامہ محدث (لاہور )فتنہ انکارِ حدیث نمبر (اگست 2002)
6۔سہ ماہی فکر و نظر (اسلام آباد )برصغیر میں مطالعہ حدیث (2005)
اس کے علاوہ بعض رسائل میں خصوصیت کے ساتھ حدیثی مباحث ہوتے ہیں ۔ اس کی مثال خیر پور سے ڈاکٹر سید عزیز الرحمان صاحب کی زیرِ ادارت نکلنے والا سہ ماہی رسالہ "تحقیقاتِ حدیث "(جامعہ خیر العلوم خیر پور ٹامیوالی )ہے جس میں خصوصیت کے ساتھ حدیث و علوم حدیث پر تفصیلی مقالات کی اشاعت ہوتی ہے ۔
عمومی رسائل میں بھی حدیث و علوم حدیث کی مختلف جہات پر اہم مقالات شائع ہوتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان سے منظور شدہ بیس بڑے تحقیقی مجلات میں حدیث و علوم حدیث پر ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے چار سو کے قریب تحقیقی مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں سے بعض مضامین مستقل کتابچے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح برصغیر کے معروف تحقیقی مجلے ’’معارف‘‘ میں ایک صدی میں حدیث و علوم حدیث پر ۸۰ کے قریب تحقیقی مضامین شائع ہوئے ہیں۔ عالم عرب کی جامعات سے علوم اسلامیہ کے مختلف شعبہ جات کی طرف سے تحقیقی مجلات شائع ہوتے ہیں ،ان میں بھی حدیث و علوم حدیث پر اہم مواد شامل ہوتا ہے۔
اسی طرح حدیث و علوم حدیث کی مختلف جہات پر ورکشاپس و سیمینارز بھی دورِ جدید کے حدیثی ذخیرے کی ایک اہم جہت ہے۔ 2007 میں شیخ ابو الحسن علی ندوی سینٹر (انڈیا) کی طرف سے "ہندوستان اور علم حدیث " کے موضوع پر ایک اہم سیمینار منعقد ہوا۔ اس سیمینار کے مقالات اسی نام سے دو ضخیم جلدوں میں چھپے ہیں۔ ادارہ تحقیقات اسلامی (اسلام آباد ) کی طرف سے منعقدہ سیمینار "برصغیر میں مطالعہ حدیث (2003)" میں بھی اہم مقالات پیش کیے گئے۔
عالم عرب میں بھی حدیث و سنت پر اہم سیمینارز منعقد ہوتے رہتے ہیں ،ان میں سے اہم سیمینارز کی تفصیلات شبکۃ ضیاء للموتمرات و الدرسات (http:/diae.net//)ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہیں۔

پندرہویں جہت :ویب سائٹس اور سافٹ وئیرز

دورِ جدید میں احادیث کی کمپیوٹرائزیشن پر عمدہ کام ہوا ہے ۔ مفید سافٹ وئیرز کے ساتھ حدیثی تحقیقات پر مشتمل اہم ویب سائٹس بنائی گئی ہیں۔ ان ویب پیجز اور سافٹ وئیرز نے حدیث پر تحقیقی کام کو بہت حد تک آسان بنا دیا ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے اہم سافٹ وئیرز اور ویب سائٹس کی نشاندہی کی جاتی ہے :

سافٹ وئیرز:

جوامع الکلم 

حدیث کی کمپیوٹرائزیشن پر دورِ جدید کا سب سے ممتاز کام جوامع الکلم سافٹ وئیر کی شکل میں ہوا ہے۔ اس سافٹ وئیر کے تعارف کے لیے مستقل مضمون درکار ہے ۔ ذیل میں اس کی اہم خصوصیات کا ذکر کیا جاتا ہے :
1۔یہ سافٹ وئیر تیس سال کی مدت میں ساڑھے تین سو محققین کی محنت کا نتیجہ ہے۔
2 : اس میں حدیث سے متعلق چودہ سو مصادر شامل ہیں جن میں ساڑھے پانچ سوکے قریب مخطوطات ہیں۔
3:سافٹ وئیر میں ستر ہزار راویوں کے مکمل حالات درج ہیں، کسی بھی راوی کے محض نام کی سرچنگ سے جملہ کوائف سامنے آ جاتے ہیں۔
4:سافٹ وئیرز میں جتنے متون حدیث ہیں، ان میں سے کسی بھی حدیث کی سند کے کسی بھی راوی پر محض کلک کرنے سے اس کے حالات سامنے آجاتے ہیں۔
5: حدیث کی سرچنگ صحت و ضعف کے اعتبار سے، قولی و فعلی ہونے کے اعتبار سے، قدسی و غیر قدسی کے اعتبار سے، رفع و وقف کے لحاظ سے، راوی کے اعتبار سے، صحابی کے اعتبار سے، موضوع کے اعتبار سے کی جا سکتی ہے۔
6:کسی بھی حدیث کی جملہ کتب حدیث سے تخریج ،رواۃ کی حیثیت ،حدیث کے شواہد و متابعات ،حدیث کی مرسل و موصول اسناد ،حدیث کے مختلف طرق و اسناد کے گرافس ، حدیث کے مکررات ،الغرض ایک حدیث پر کئی اعتبار سے تحقیق کی جاسکتی ہے۔
7:سافٹ وئیرز میں موجود اسناد کی تعداد سات لاکھ ہے۔
یہ سافٹ وئیر ،اس کا مکمل تعارف اور اس کو ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کرنے کا طریقہ اس لنک پر دستیاب ہے۔
http://gk.islamweb.net:8080

2۔ موسوعۃ الحدیث الشریف 

یہ سافٹ وئیر حدیث کی نو کتب (صحاح ستہ موطا امام مالک مسند احمد و سنن دارمی ) کی روایات اور ان کتب کی اہم شروح پر مشتمل ہے ۔ اس سافٹ وئیر کا تازہ ترین ورژن اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے :
http://www.islamspirit.com/islamspirit_ency_002.php
3۔ الموسوعۃ الذھبیۃ للحدیث النبوی وعلومہ
یہ سافٹ وئیر اردن کے معروف ادارے مرکز التراث لابحاث الحاسب الآلی نے بنایا ہے ،اس سافٹ وئیر میں چھ سو کے قریب مجلدات کا مواد شامل ہے ۔ سافٹ وئیر میں دو لاکھ کے قریب احادیث اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب راویوں کا تذکرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ مصطلح الحدیث کی ایک سو اٹھائیس کتب بھی شامل ہیں۔ حدیث اور رواۃ کو تلاش کرنے کی متعدد سہولیات شامل کی گئی ہیں۔ 

4۔ المکتبۃ الالفیۃ للسنۃ النبویہ 

یہ سافٹ وئیر بھی اسی ادارے کا تشکیل کردہ ہے جس میں ساڑھے تین ہزار جلدوں کا مواد شامل ہے۔

5۔ موسوعۃ التخریج و الاطراف الکبری 

یہ سافٹ وئیر بھی اردن کے مذکورہ ادارے کا تشکیل کردہ ہے جس میں تین لاکھ حدیثی نصوص کی تخریج اصلی مصادر سے کی گئی ہے۔

6۔ موسوعۃ رواۃ الحدیث 

معروف ویب سائٹ موقع الاسلام نے اسے تیار کیا ہے، اس میں تراجم و رجال کی تقریباً ۸۰ کتب کا مواد جمع کیا گیا ہے ،متنوع اسالیبِ تلاش کی سہولیات اس میں شامل ہے۔اس لنک سے ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے :
http://www.islamspirit.com/islamspirit_ency_036.php

7۔ موسوعۃ الاجزاء الحدیثیۃ

یہ موسوعہ بھی روح الاسلام ویب سائٹ کا تیار کردہ ہے جس میں پانچ سو کے قریب مختلف موضوعات پر حدیثی اجزاء و رسائل کو جمع کیا گیا ہے ۔ اس کا ڈاؤن لوڈنگ لنک حسب ذیل ہے :
http://www.islamspirit.com/islamspirit_ency_028.php

8۔ موسوعۃ علوم الحدیث 

اس موسوعہ کی تیاری بھی موقع روح الاسلام کے حصے میں آئی ہے ،اس میں علوم الحدیث پر دو سے زائد کتب کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ لنک پیشِ خدمت ہے :
http://www.islamspirit.com/islamspirit_ency_019.php

9۔ موسوعۃ شروح الحدیث 

اس سافٹ وئیر میں سو سے زائد شروح حدیث کو جمع کیا گیا ہے ،جس میں تلاش کی متنوع سہولیات بھی شامل ہیں۔
http://www.islamspirit.com/islamspirit_ency_004.php

10۔ ایزی قرآن و حدیث 

اردو داں طبقے میں زیادہ معروف ہے ،اس میں علمائے برصغیر کے لکھے ہوئے قرآن پاک کے چھبیس اردو تراجم و تفاسیر، تیرہ انگلش تراجم و تفاسیر اور حدیث کی گیارہ بنیادی کتب (صحاح ستہ ،موطا ،مسند احمد ،مشکاۃ، سنن دارمی ،شمائل ترمذی ) کو عربی متن، اردو و انگلش تراجم اور موضوعاتی ترتیب کی اضافی خصوصیت کے ساتھ جمع کیا گیا ہے۔معروف ویب سائٹ kitabosunnat.com پر دستیاب ہے۔

ویب سائٹس:

اردو اور عربی کی ہر اہم اسلامی ویب سائٹ پر حدیث و علوم حدیث سے متعلق وسیع مواد ہوتا ہے ،البتہ خصوصیت کے ساتھ علم حدیث کے لیے درج ذیل ویب سائٹس قابل ذکر ہیں :

1۔ جامع الحدیث 

http://www.sonnaonline.com
جامع الحدیث، جوامع الکلم سافٹ وئیر کی طرز پر ایک آن لائن سرچ ایبل حدیثی لائبریری ہے جس میں تیس ہزار عنوانات کے تحت پانچ لاکھ احادیث کا مجموعہ ہے ، جو حدیث کے چار سو مصادر سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں رواۃ حدیث کے احوال آن لائن سرچ اور اقوال جرح و تعدیل کے ساتھ دستیاب ہیں۔ نیز ہر راوی کی کتنی احادیث کس کس کتاب میں ہیں ، اس کی تفصیلات بھی درج ہیں۔الغرض سیکڑوں مراجع حدیث سے تلاش کی متنوع سہولیات کے ساتھ آن لائن استفادہ کے لیے جامع الحدیث سب سے بڑی ویب سائٹ ہے۔ لنک یہ ہے :

2۔ شبکۃ السنۃ و علومہا 

http://www.alssunnah.org/ar
حدیث سے متعلق کتب، ویڈیوز، بیانات اور خبروں کی ایک اہم ویب سائٹ ہے۔

3۔ جامع السنۃ و شروحہا 

http://hadithportal.com
اس ویب سائٹ پر حدیث کی جملہ اہم کتب اور ان کی شروح آن لائن دستیاب ہیں۔لنک یہ ہے :

4۔ موسوعۃ صحیح البخاری 

http://www.bukhari-pedia.net
اس ویب سائٹ پر صحیح بخاری سے متعلقہ مواد دستیاب ہے۔ بخاری شریف کی شروح، حواشی، مختصرات، مستخرجات، رجال، مقدمات اور صحیح بخاری پر معاصر دراسات کا قابل قدر ذخیرہ جمع کیا گیا ہے۔


مصادر و مراجع 

اس پورے سلسلے کے لیے درج ذیل مراجع سے استفادہ کیا گیا ہے :

عربی کتب:

1۔ دلیل مولفات الحدیث الشریف المطبوعۃ، محی الدین عطیہ و آخرون ،دار ابن حزم ،بیروت 
2۔ المعجم المصنف لمولفات الحدیث الشریف ،محمد خیر رمضان ،مکتبہ الرشد ،ریاض 
3۔ التصنیف فی السنۃ النبویۃ وعلومھا، خلدو ن الاحدب ،موسسہ الریان ،بیروت 
4۔ جھود مخلصۃ فی خدمۃ السنۃ المطھرۃ، عبد الرحمان عبد الجبار ،ادارۃ البحوث الاسلامیہ ،بنارس 
5۔ جھود المعاصرین فی خدمۃ السنۃ المشرفۃ، محمد عبد اللہ اب وصعیلیک ،دار القلم ،دمشق
6۔ معجم ما طبع من کتب السنۃ، مصطفی عمار ،دار البخاری ،مدینہ منورہ
7۔ المدخل الی دراسۃ علوم الحدیث، سید عبد الماجد غوری 
8۔ جھود محدثی شبہ القارۃ الھندیۃ فی خدمۃ کتب السنۃ المشھورۃ فی القرن الرابع العشر، سہیل حسن 

اردو کتب:

1۔قافلہ حدیث ،محمد اسحاق بھٹی 
2۔برصغیر پاک و ہند میں علم حدیث ،عبد الرشید عراقی 
3۔علم حدیث اور پاکستان میں اس کی خدمت ،ڈاکٹر سعد صدیقی 
4۔علم حدیث میں براعظم پاک وہند کا حصہ ،ڈاکٹر محمد اسحاق
5۔مرآۃ التصانیف ،حافظ محمد عبد الستار قادری ،جامعہ نظامیہ لاہور
6۔پاک وہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث ،ارشاد الحق اثری ، فیصل آباد
7۔ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ،ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ،مکتبہ نذیریہ 
8۔اصول حدیث میں علمائے برصغیر کی خدمات ،تاج الدین ازہری (یہ اصلاً ایک ریسرچ آرٹیکل ہے )
9۔تذکرہ اکابر اہل سنت ،عبد الحکیم اشرف قادری 
10۔برصغیر میں مطالعہ حدیث (اشاعت خصوصی فکر و نظر 2005)
11۔ماہانہ رسائل کے خصوصی شمارے، (بشکریہ ضیاء اللہ کھوکھر ، عبد المجید کھوکھر میموریل لائبریری، گوجرانوالہ)

ویب سائٹس:

1۔ المکتبۃ الوقفیہ
http://waqfeya.com
2۔ملتقی اہل الحدیث 
http://www.ahlalhdeeth.com/vb
3۔مکتبہ الالوکہ 
http://majles.alukah.net
4۔مکتبۃ المشکاۃ
http://www.almeshkat.net/library
5۔جامع الکتب المصورہ 
http://kt-b.com
6۔جامع الرسائل العلمیہ 
http://b7oth.com
7۔مکتبہ صید الفوائد
http://www.saaid.net
8۔مدونہ محمد الترکی 
http://m-alturki.blogspot.com
9۔اسلامک ریسرچ انڈیکس 
http://iri.aiou.edu.pk/indexing
10۔دلیل السلطان للمواقع العربیہ 
http://www.sultan.org/a
11۔کتاب و سنت 
http://kitabosunnat.com
12۔مصورات عبد الرحمان الجندی
http://www.moswarat.com
13۔شبکۃ ضیاء للموتمرات
http://diae.net
14۔موقع روح الاسلام 
http://www.islamspirit.com
15۔المکتبۃ الشاملہ الحدیثہ 
https://al-maktaba.org
16۔البرامج المجانیہ 
http://www.bramjfreee.com
17۔ ریختہ 
https://www.rekhta.org
18۔الملتقی الفقہی
http://www.feqhweb.com/vb
19۔مسجد صلاح الدین 
http://masjidsalahudin.com
20۔طوبی ریسرچ لائبریری 
http://toobaa-elibrary.blogspot.com/p/blog-page.html
21۔شبکۃ الدفاع عن السنہ 
http://www.dd-sunnah.net/forum

تصوف و سلوک اور ماضی قریب کے اجتہادات

سراج الدین امجد

دور حاضر میں تصوف و سلوک کی طرف شعوری رجحان اور عمومی ذوق خوش آئند ہے گو اس کی وجوہات گوناگوں ہیں۔ کچھ کے نزدیک تصوف انسان دوستی اور لبرل اقدار کا ہم نوا مذہب کا ایک جمالیاتی رخ ہے۔ کچھ لوگ اسے طالبانی خارجیت اور داعشی بربریت کا تریاق سمجھتے ہیں۔ کہیں روایتی تصوف کے علمبردار مشہور خانوادوں کے خوش فکر نوجوان نئے اسالیب میں اشغالِ تصوف کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں تو کہیں تصوف فی الواقع روایت دینی کی پر کیف و جمال افروز فکری و نظری جولانگاہ کا حامل ہے۔ تاہم یہ المیہ بھی کچھ کم نہیں کہ بالعموم مروجہ سلوک میں چند رسوم کی بجاآوری ہی طرز ادا ٹھہری ہے یا پھر بعض اذہانِ رسا کی خوش اعتقادی پر مبنی حرف و صوت کی کارگزاری کشش کا سامان پیدا کر رہی ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں پروفیسر احمد رفیق اختر، سید سرفراز شاہ صاحب ، بابا جی عرفان الحق اورعبد اللہ بھٹی صاحب وغیرہ موخر الذکر اسلوبِ تصوف کی عمدہ مثالیں ہیں۔ 
دورِ جدید کے ذہن کے لیے، جو تشکیک و ارتیاب کے ایمان شکن مظاہر سے نبرد آزما ہے، لاریب انٹلکچول تصوف کی قد رو قیمت بھی کچھ کم نہیں ۔ تاہم چمنستانِ تصوف کے سنجیدہ طبع اور سلیم الفطرت ریزہ چینوں کو عجمی تصوف کی خرابیوں کو ہمہ وقت پیش نظر رکھنا چاہیے۔ نیز یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ عملی تصوف فی الاصل تزکیہ نفس اور اصلاحِ باطن کا میدان ہے، باقی چیزیں ثانوی ہیں۔ اس باب میں اتباعِ شریعت اور استقامت ہی مدار نجات اور فوزِ عظیم ہے، لہٰذا آج بھی متبعِ سنت بزرگوں کی تعلیمات اور افکارِ عالیہ میں بڑا فیض ہے، لہٰذا اسی کی تلاش اور جستجو کرنی چاہیے۔ سردست موضوع سخن چونکہ بر صغیر پاک و ہند کے صوفیہ کرام کی اجتہادی کاوشوں کے ایک اجمالی جائزہ سے متعلق ہے، لہٰذا اسی تناظر میں بات کی جائے گی۔
امامِ ربانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ تصوف و سلوک کی وضاحت میں مکتوب نمبر ۱۳ دفتر اول حصہ اول بنام شیخ نظام الدین تھانیسری (یہ بزرگ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے بڑے مشائخ میں سے تھے جیساکہ حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے شجرہ سے ظاہر ہوتا ہے ) میں فرماتے ہیں : ’’تامعرفت اجمالی تفصیلی گردد واستدلال کشفی شود ‘‘، یعنی جن چیزوں کو اجمالاً جانتا ہے، ان کو تفصیلی جان لے اور جن باتوں کو بحث و استدلال سے سمجھتا ہے، ان کو کشف سے جان لے۔ تو گویا ان کے نزدیک یہ سلوک کا خلاصہ ہوا۔ ویسے بھی سلوک و احسان آیہ کریمہ ’’یزکیھم‘‘ کی تعبیر اور ’’حدیث احسان‘‘ کی تفصیل ہی ہے۔ تاہم اصل مسئلہ دور جدید میں اس کے حصول کا ہے۔سچ پوچھیے تو اس حوالے سے روایتی تصوف کے ہاں اب کچھ نہیں رہا ، الا ماشاء اللہ۔ فقط مجددانہ ایقان اور مجتہدانہ بصیرت کے حامل شیوخ ہی اس تشنہ کامی کا مداوا کرسکتے ہیں۔ اب اگر اس تناظر میں بات آگے بڑھائیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تصوف و سلوک میں اجتہادی کاوشیں بالعموم کم نظر آتی ہیں۔ گزشتہ دو تین صدیوں میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ اور حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ جیسی شخصیات ہی ملتی ہیں جنہوں نے مجتہدانہ بصیرت سے دامن تصوف کو مالامال کیا۔ اسی طرح ماضی قریب میں بھی چند شخصیات ہی ایسی نظر آتی ہیں جنہوں نے اچھوتے افکار اور اجتہادی آراء سے منتسبینِ تصوف کے لیے کشش کا بڑا سامان پیدا کیا۔ 
فی الحال اس حوالے سے بحث کو بیسویں صدی تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ دور آخر میں مشائخ دیوبند خصوصاً حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب (متوفی ۱۹۴۳ء) کا تصوف پر وقیع کام ہے۔امورِ تصوف و سلوک پر لکھنے کے علاوہ وہ سالہا سال خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں مسترشدین کی باقاعدہ تربیت کرتے رہے۔ یہ تربیت کس درجہ کی تھی، اس طرز و اسلوب اورنظم خانقاہ کی معرفت کے لیے مولانا عبد الماجد دریابادی کی کتاب "حکیم الامت" کا مطالعہ بصیرت افروز ہوگا۔ مزید تھانوی صاحب کی اپنی کتب مثلاً التکشف عن مہمات التصوف،بوادر النوادر، تجدید تصوف و سلوک ( مرتبہ عبد الباری ندوی) وغیرہ تصوف سے متعلق بہت سے شکوک و شبہات کے ازالہ کے لیے کافی ہیں۔ نیز ان کے سیکڑوں مواعظ بھی سالکین راہ کے لیے کم مفید نہیں۔ تھانوی صاحب چشتی صابری سلسلہ سے تعلق کے باوجود سلوک و احسان کے باب میں شریعت پر استقامت کو ہی اصل اور مقصود جانتے ہیں اور لطائف و واردات کو غیر مقصود سمجھتے ہیں جبکہ مجددی سلوک میں کشف و مشاہدہ کی بہر طور اپنی اہمیت ہے، بلکہ ان مشائخ کے نزدیک عبادات و طاعات کے ثمرہ کے طور پر حاصل ہونے والے احوال اور کیفیات ہی تو روحانی حالت کی صحیح تمیز اور کشوف کا باعث ہوا کرتی ہیں۔ سر دست تھانوی صاحب کی آراء پر تبصرہ یا محاکمہ مقصود نہیں بلکہ حالت باطنی اور واردات کی کسی درجہ میں ہی سہی، اہمیت دکھلانا پیش نظر ہے 
اس حوالے سے بحث کو آگے بڑھایا جائے تو پچھلی صدی میں تھانوی صاحب کے علاوہ تین شخصیات کے ہاں اجتہادی رنگ نظر آتا ہے۔ ایک سلسلہ اویسیہ کے مولانا اللہ یار خان ؒ چکڑالوی ( فاضل مدرسہ امینیہ دہلی ) جنہوں نے تصوف پر اپنی وقیع تصنیف ’’ دلائل السلوک‘‘ میں کشف و مشاہدہ کی اہمیت اور روحی فیض کی افادیت پر کتاب و سنت اور اقوال فقہاء سے مربوط استدلال فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اور باقاعدہ بیعت و تربیت سے بہت سے لوگوں کی راہنمائی کی۔ یوں پڑھے لکھے حلقوں میں سلوک و احسان کی طلب پیدا ہوئی اور بے شمار لوگوں کو ذاکر شاغل بنایا، اگرچہ بعد میں اس درجہ کا کام اور لوگ سامنے نہ آسکے جتنا شروع میں سمجھا گیا۔ 
دوسری شخصیت حضرت خواجہ محمد عمر بیر بلوی (متوفی ۱۹۶۸ ء) کی ہے۔ یہ پنجاب کے ضلع سرگودھا کی ایک مشہور نقشبندی مجددی خانقاہ بیر بل شریف کے سجادہ نشین تھے۔ آپ نے بھی مدرسہ امینیہ دہلی سے علوم دینیہ کی تکمیل کی۔ بعد میں خانقاہ بیر بل شریف کے سجادہ نشین بنے۔ منصب سجادگی اور حلقہ مریدین کے باوصف روحانی کمی کا خیال دامن گیر رہتا، تا آنکہ سلوک و احسان اپنے دور کے نہایت سریع التاثیر اور قوی النسبت نقشبندی بزرگ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری سے سیکھا اور خلافت پائی۔ حضرت بیربلوی صاحبِ مشاہدہ ،وسیع المطالعہ اور بہت زیرک انسان تھے۔ ایک تو آپ نے مروجہ سلوک اور تفصیلی اسباق و مراقبات کے حوالے سے تقلیدی روش ترک کی، بلکہ تعلق باللہ کے لیے متقدمین کی روش پر تلاوت قرآن، احکام شریعت کی پابندی اور صحبت و معیتِ صادقہ سے باطنی رذائل کے دور کرنے پر زور دیا ہے۔ آپ کے افکار عالیہ ’’انقلاب الحقیقت‘‘، ’’قرآنی حقائق‘‘ اور دیگر کتب میں بکھرے پڑے ہیں تاہم نہ صرف مربوط سلوکی تربیتی نظام کے متقاضی ہیں بلکہ ایسی شخصیت کے متلاشی ہیں جو اپنے پیشرووں کے افکار اپنے مشاہدہ باطنی اور کشفی بصیرت سے مزید نکھار سکے اور آج کے مصروف انسان کے لیے سلوک و تربیت کا ایک جامع نظام وضع کر سکے۔ 
تیسری بڑی شخصیت سلسلہ قادریہ کے بزرگ حضرت فقیر نور محمد سروری قادری ( متوفی ۱۹۶۰ء) کی ہے جنہوں نے نہ صرف سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کی تعلیمات کو از سر نو مرتب کر کے پیش کیا بلکہ اپنی معرکۃ الآرا تصنیف موسوم بہ ’’عرفان‘‘ میں دورِ حاضر کے معروف بلکہ مغربی دنیا تک میں مقبول روحیت و سِرّیت، سپرچولزم اورحاضراتِ ارواح کے تصورات کا بھی ناقدانہ جائزہ پیش کیا اور بتایا کہ کیسے عالم غرب ابھی ناسوت کی تنگنائیوں میں بھٹک رہا ہے۔ مزید یہ کہ آپ نے اولیا ء کرام کے مزارات سے حصولِ فیض کے لیے ’’دعوتِ قبور‘‘ ایسے بیش قیمت اور سریع التاثیر عمل کو بڑی صراحت سے پیش کیا۔ اصلاً یہ ایصالِ ثواب کی ہی ایک شکل تھی، لیکن سلطان باہو کی تعلیمات کی روشنی میں بڑی عمدگی سے اسے فیض قبور کا وسیلہ بنا دیا۔ اس حوالے سے حضرت کی فکر مولانا اللہ یار خان کی پیشرو اور نقشِ اولیں محسوس ہوتی ہے۔ 
آج کے دور میں دیوبندی حلقوں میں حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی کے مریدین اور سنیوں میں سیفی سلسلہ (مسترشدین اخوندزادہ پیر سیف الرحمن ارچی) کے لوگ سب کے سامنے ہیں۔تھوڑا بہت اثر بھی ہے، اتباع شریعت کا رنگ ڈھنگ بھی ہے اور انٹلیکچول تصوف کے منتسبین کی نسبت اتباعِ سنت اور شریعت غرا کی پیروی میں ممتاز ہیں، تاہم سلوک و احسان کا مطلوب انسان ابھی بھی نظر نہیں آتا۔ کچھ لوگوں نے چند انفرادی کاوشیں کی ہیں جیسے کچھ مشائخِ نقشبند یہ مجددیہ نے ذکر قلبی اور ذکر خفی کے برعکس ذکر جہر بھی شروع کیا لیکن نہ تو اس حوالے سے وجوہ ترجیح کی عمدہ تنقیح پیش کرسکے نہ ہی اپنے مسترشدین پر اس کے اثرات کا معروضی جائزہ لیا گیا۔ اسی طرح خود مجددی سلوک کے اسباق اور ان پر عمل پیرا لوگوں کے احوال دیکھ کر تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسا سلوک ہے کہ اسباق بھی طے ہیں، مراقبات بھی ہو چکے تاہم نفس کی شر انگیزیاں ہیں کہ جوں کی توں برقرار ہیں۔ ساری فکر دنیا کی ہے، آخرت ابھی تک ترجیح نہیں بن سکی۔ 
اس میں ذرا شک نہیں کہ دور حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کرسلوک پر چلانا ہی اصل ہمت کا کام ہے جو واقعتا کسی تجدیدی شان کے بزرگ کی کرشمہ سازیوں کا منتظر ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ سلوک و احسان کے تفصیلی اسباق و اشغال مخصوص صاحبان استعداد کے لیے ہی ہیں، ورنہ اکثریت کے لیے متقدمین کے طرز پر اخلاقی تربیت اور شریعت کے احکام پر کاربند ہونا ہی نجات کے لیے کافی ہوگا۔ یہی فکر علمائے دیوبند کے ہاں بھی ہے بلکہ مولانا منظور نعمانی جیسے جید عالم اور حضرت رائے پوری کے خلیفہ نے اپنے ایک خوش ذوق دوست کو کہا تھا: ’’مولانا ! عوام کی فلاح تو شیخ ابن تیمیہ کی پیروی میں ہے، گو خواص کی منفعت شیخ عبد الحق محدث دہلوی ایسے بزرگوں کی طرز میں ہو۔‘‘ نیز مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے بھی ایک جگہ لکھا کہ’’انجام کار رستگاری کے واسطے آقاو مولا جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرشد جاننا بس ہے ۔‘‘پس یہ نتیجہ اخذ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ عوام کو مبادیاتِ شریعت میں خوب پختہ کیا جائے، پھر ان میں جو عمدہ ذوق کے لوگ ہوں اور سلوک و احسان کے لیے فطری ملکہ رکھتے ہوں، انہیں ذوقی مناسبت دیکھتے ہوئے کسی کامل شیخ سے تعلق استوار کرکے سلوک کو آگے بڑھانا چاہیے۔ جب تک کسی کو کامل شیخ نہیں ملتا توتزکیہ نفس کے لیے امام غزالی کی کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ ایک راہنما اور راہبر سے کم نہیں ۔ یا پھر مکتوبات مجددی کا کوئی اچھا سا انتخاب دیکھ لیا جائے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ کی ’’ ہمعات‘‘، ’’الطاف القدس‘‘ اور ’’انفاس العارفین‘‘ بہت عمدہ ہیں۔نیز متذکر ہ بالا کتب مثلاً ’’ دلائل السلوک‘‘، ’’تجدید تصوف و سلوک‘‘، ’’ انقلاب الحقیقت‘‘ اور ’’عرفان‘‘ بھی قابل مطالعہ، مرشد روحانی کا عکس اور عملی سلو ک و تصوف کے لیے بڑی راہنما ہیں۔ 

’’پیغام پاکستان‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۶ جنوری کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے اجراء کی تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور اکابرین امت کے ارشادات سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ کتاب ’’پیغام پاکستان‘‘ معروضی حالات میں اسلام، ریاست اور قوم کے حوالہ سے ایک اجتماعی قومی موقف کا اظہار ہے جو وقت کی اہم ضرورت تھا اور اس کے لیے جن اداروں، شخصیات اور حلقوں نے محنت کی ہے وہ تبریک و تشکر کے مستحق ہیں۔
ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تیار کردہ تمام مکاتب فکر کے متفقہ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ میں بنیادی اور اصولی باتیں تو وہی ہیں جن کا گزشتہ دو عشروں سے مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے اور کم و بیش تمام طبقات اور حلقے ان پر متفق چلے آرہے ہیں۔ اس کا ذکر مذکورہ تقریب میں مولانا فضل الرحمان اور مولانا مفتی منیب الرحمان نے اپنے خطابات کے دوران تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے کہ اسلامی ریاست کے خلاف عسکری محاذ آرائی، نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جنگ، پرامن شہریوں کا قتل، دستور کی بالادستی کو چیلنج اور خودکش حملوں کے ناجائز ہونے کے بارے میں دینی حلقے اور ان کی قیادتیں اس افسوسناک عمل کے آغاز سے ہی لگاتار اپنے دوٹوک موقف کا اعلان کر رہی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود وسیع تر دائرے میں اعلیٰ ترین سطح پر ریاستی اداروں کے اشتراکِ عمل کے ساتھ صدرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین کی قیادت میں اس نئے اور اجتماعی اظہار نے اسے متفقہ قومی موقف کی حیثیت دے دی ہے اور آج کے قومی اور عالمی حالات میں اس کی اہمیت و افادیت کو دوچند کر دیا ہے جس سے دنیا کو پاکستانی قوم کی طرف سے ایک واضح اور دوٹوک پیغام ملا ہے۔
البتہ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ میں بظاہر ایک نئی بات فرقہ واریت کے حوالہ سے ضرور سامنے آئی ہے کہ کسی فرد یا طبقہ کی تکفیر اور اسے دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے عمل کو ریاست و عدالت کے دائرہ اختیار میں محصور قرار دیا گیا ہے جو مختلف حلقوں کی وسیع تر باہمی تکفیری مہم اور اس میں مسلسل اضافے کے باعث ضروری ہوگیا تھا اور اس کا سنجیدہ حلقوں میں خیرمقدم کیا جائے گا۔ ویسے عملاً پہلے بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بارے میں تمام مکاتب فکر کے اجماعی فیصلے اور فتوے کے عملی نفاذ کے لیے پارلیمنٹ اور عدالتِ عظمیٰ کو ذریعہ بنایا گیا تھا اور انہی کے فیصلوں کو اس حوالہ سے بنیادی اور کلیدی مقام حاصل ہے۔ جبکہ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے ذریعے اس روایت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ کسی طبقہ یا فرد کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ اور عدالتِ عظمیٰ ہی مجاز ادارے ہیں اور تکفیری رجحانات سے معاشرہ میں پھیلنے والی انارکی کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ ناگزیر ہے اور اسی سے فرقہ واریت کے عفریت کو قابو میں لایا جا سکتا ہے۔
’’پیغامِ پاکستان‘‘ کی تیاری اور ترتیب و تدوین کے دوران ہمیں کسی مرحلہ میں شریک ہونے کا موقع نہیں ملا، ورنہ اسے زیادہ مؤثر اور جامع بنانے کے لیے ایک دو تجویزیں ہمارے ذہن میں بھی تھیں جن کا اظہار اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے آئندہ کسی مرحلہ میں ان کی طرف توجہ مبذول ہو جائے۔
ایک یہ کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی مسلم ریاست کی جائز اور مسلمہ حکومت ہی جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز ہے اور اس کے بغیر کسی شخص یا گروہ کو اس کا حق حاصل نہیں ہے لیکن کسی بھی اجتماعی فتویٰ میں عام طور پر مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ فتویٰ بار بار جاری کیے جانے اور درست ہونے کے باوجود اس سوال کے حوالہ سے تشنہ چلا آرہا ہے کہ اگر کسی مسلم ریاست میں غیر ملکی اور غیر مسلم طاقتوں کی مداخلت سے اس کا ریاستی ڈھانچہ اور حکومتی نظام ہی ’’ہیک‘‘ ہو جائے اور خود وہ حکومت غیر مسلم اور غیر ملکی مداخلت کے ہاتھوں کٹھ پتلی کی حیثیت اختیار کر لے تو پھر اس تسلط اور استعلاء کے خلاف مزاحمت اور جہاد کا اعلان کس کی ذمہ داری قرار پائے گا اور اس کی مجاز اتھارٹی کون سی ہوگی؟ مثلاً جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی کے مغل بادشاہ کو بے اختیار کر کے اسی کے نام پر مالیاتی، انتظامی اور عدالتی نظام کو اپنے کنٹرول میں لینے کا اعلان کیا تھا تو حکومتی اتھارٹی اس طرح ’’ہیک‘‘ ہو جانے پر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اس خطہ کو ’’دارالحرب‘‘ قرار دے کر جہاد کا اعلان کر دیا تھا اور اس اعلان کو دینی و علمی طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اب خدانخواستہ ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو کسی کو مزاحمت اور جہاد کے اعلان کا اختیار حاصل ہوگا یا سارے معاملات کو ’’سرِ تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے‘‘ کہہ کر قبول کر لیا جائے گا؟
دوسری گزارش یہ ہے کہ نفاذِ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانے کو بجا طور پر شرعاً حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ شریعت کے نفاذ میں کوتاہی برتنے اور اسے نظرانداز کرتے چلے جانے والوں کے اس عمل کی شرعی حیثیت بھی اس ’’قومی فتوے‘‘ میں واضح ہونی چاہیے تھی۔ کیونکہ صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ متعلقہ افراد اور اداروں کو نفاذ اسلام کے اقدامات کرنے چاہئیں بلکہ اس بات کا تعین بھی ضروری ہے کہ جو ادارے اور طبقات شرعی و دستوری دونوں حوالوں سے نفاذِ اسلام میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے ان کی حیثیت کیا ہے اور کیا ان پر بھی کسی فتوے کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟
مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مولانا فضل الرحمان، مولانا مفتی منیب الرحمان، پروفیسر ساجد میر، مولانا عبد المالک، علامہ ریاض حسین نجفی اور دیگر اکابرین نے اپنے خطابات میں اس طرف توجہ دلائی ہے لیکن ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کا متن اس کے بارے میں خاموش ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا عبد المالک کا یہ کہنا بھی قابل توجہ ہے کہ بغاوت کرنے والوں کے خلاف کاروائی اور آپریشن ضروری ہے مگر ان کو اپنے موقف سے رجوع کرنے اور محاذ آرائی سے دستبردار ہونے کا موقع بھی دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں حوالہ دیا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے باغیوں کے خلاف کاروائی کے لیے فوجیں بھیجی تھیں تو پہلی ہدایت یہ تھی کہ انہیں اسلامی ریاست کے سامنے سپرانداز ہونے اور توبہ کرنے کی دعوت دیں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر پوری قوت کے ساتھ ان کے خلاف کاروائی کریں۔
بہرحال اب تک جو ہوا سو ہوا، کوئی بھی انسانی عمل کتنا ہی جامع اور مکمل ہو اس میں کوئی نہ کوئی کمی بہرحال رہ جاتی ہے اس لیے ان باتوں کو مستقبل پر چھوڑتے ہوئے ہم ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اس کی مکمل حمایت و تائید کے ساتھ ہرممکن عمل و تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔

جنرل باجوہ اپنے آبائی شہر کے باسیوں کے درمیان

آرمی چیف محترم جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ اتوار کو گوجرانوالہ کینٹ میں اپنے آبائی شہر گکھڑ کے چند سرکردہ شہریوں کے ساتھ محفل جمائی۔ گکھڑ سے تعلق اور اس سے بڑھ کر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر? کا فرزند ہونے کے حوالہ سے مجھے بھی شریک محفل کیا گیا اور جنرل صاحب محترم نے عزت افزائی سے نوازا ، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ جنرل صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور ان کے بے ساختہ پن اور بے تکلفانہ انداز نے بہت متاثر کیا۔ انہوں نے بچپن کی بہت سی یادیں تازہ کیں اور گکھڑ کے پرانے بزرگوں کا محبت و احترام کے ساتھ ذکر کیا جس میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا عقیدت سے بھرپور تذکرہ بھی شامل ہے۔
محفل میں شریک کم و بیش سبھی احباب نے جنرل صاحب کی شخصیت و مقام کو اپنے شہر اور علاقہ کے لیے باعث افتخار قرار دیا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ انہوں نے اپنے آبائی شہر کے حضرات سے ملاقات اور علاقہ کے مسائل معلوم کرنے کے لیے اس نشست کا اہتمام کیا ہے۔ اس محفل کے توسط سے مجھے بھی بعض پرانے دوستوں اور بزرگوں سے ملاقات کا موقع مل گیا، مثلاً گکھڑ کے ایک پرانے بزرگ ریٹائرڈ کرنل نسیم صاحب بڑے تپاک سے ملے اور بتایا کہ انہوں نے میری والدہ مرحومہ و مغفورہ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ایک دوست حارث منظور بٹ گرمجوشی سے ملے اور کہا کہ آپ سے تئیس سال بعد ملاقات ہو رہی ہے، اس سے قبل امریکہ کے شہر اٹلانٹک سٹی میں ملاقات ہوئی تھی وغیر ذلک۔ غرضیکہ یہ محفل جنرل باجوہ صاحب محترم سے ملاقات کے ساتھ ساتھ بعض پرانے دوستوں کی باہمی ملاقات کا ذریعہ بھی بن گئی۔
گکھڑ میں اسٹیڈیم کے قیام کی بات ہوئی تو جنرل صاحب نے بتایا کہ ایک بڑے اسٹیڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بن چکا ہے جس کا بہت جلد آغاز کیا جا رہا ہے۔ ٹریفک کے رش اور ہسپتال کی توسیع کے ساتھ ساتھ وزیرآباد کی کٹلری کی صنعت اور کار ڈیلر حضرات کے مسائل پر بھی گفتگو ہوئی اور جنرل صاحب نے مسائل کے حل کے لیے پوری توجہ کا وعدہ کیا۔ مجھے یہ انداز اچھا لگا کہ با اثر لوگ اگر اپنے اپنے علاقہ کے مسائل کے حل میں ترجیحات طے کرتے وقت عوام کی رائے بھی سن لیا کریں تو اس سے کام کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔ بعض قومی مسائل بھی زیربحث آئے۔ ایک دوست نے کرپشن کی طرف توجہ دلائی تو جنرل صاحب موصوف نے خوبصورت بات کہی کہ اس کا حل تو آپ لوگوں کے پاس ہے کہ آپ الیکشن میں کرپٹ لوگوں کو منتخب نہ کریں۔ ملک کی سیاسی صورتحال پر ایک دوست نے گفتگو کرنا چاہی تو جنرل صاحب نے کہا کہ وہ اس حوالہ سے صرف ایک ہی بات کریں گے کہ آپ حضرات اپنے نمائندوں کا صحیح انتخاب کریں کیونکہ نظام تو منتخب لوگوں نے ہی چلانا ہے، آپ جس طرح کے لوگ منتخب کر کے بھیجیں گے، ملکی نظام انہی کے مطابق چلے گا۔ جنرل صاحب نے یہ بھی کہا کہ اگر انتخابات کے موقع پر عوام کی ترجیحات میں برادری ازم، تھانہ کچہری اور گلی محلہ کے مسائل کی بجائے اہلیت و دیانت اور قومی سوچ و جذبہ کو اولیت حاصل ہو جائے تو صورتحال بدل سکتی ہے، لیکن اس کے لیے مسلسل انتخابات کا منعقد ہوتے رہنا ضروری ہے۔
جنرل باجوہ نے دہشت گردی کے خاتمہ اور مذہبی فرقہ واریت پر کنٹرول کی بات تفصیل کے ساتھ کی، انہوں نے کہا کہ تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ ہمارے بیشتر مسائل کی وجہ تعلیم کی کمی اور تعلیمی نصاب کی یک رخی ہے۔ جن حضرات کے پاس دینی تعلیم ہے، وہ عصری تعلیم سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ملکی نظام میں آگے نہیں بڑھ سکتے اور جو لوگ عصری تعلیم سے بہرہ ور ہیں، وہ دینی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت میں کمزور ہیں۔ ان دونوں کو اکٹھا کرنا ہوگا، دینی تعلیم کے ساتھ ضروری عصری تعلیم کو شامل کرنا ہوگا اور عصری تعلیم کے ساتھ ضروری دینی تعلیم کا اہتمام کرنا پڑے گا، اس کے بغیر ہم اپنے نظام کو صحیح نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں دین کا علم بھی حاصل کرنا چاہیے اور جب ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے ’’ذلک الکتاب لا ریب فیہ‘‘ پڑھتے ہیں تو ہمیں اس کا ترجمہ و مفہوم بھی معلوم ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سازش کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا بھر میں مسلمان کو مسلمان سے لڑایا جا رہا ہے جس سے فائدہ صرف دشمن کو ہوتا ہے، اس سازش کو سمجھ کر اسے ناکام بنانے کی فکر کرنی چاہیے۔
اس موقع پر متعدد حضرات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میں نے عرض کیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سرگرمیوں اور رجحانات کو میں بڑی توجہ سے دیکھ رہا ہوں اور مجھے ان کی یہ بات اچھی لگی ہے کہ وہ ملکی اور قومی معاملات میں توازن اور اعتدال کے رخ کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بیلنس کی بات کرتے ہیں جس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کے بارے میں جنرل صاحب کی تشویش اور بے چینی کو درست قرار دیتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرقہ کے اعتدال پسند راہ نماؤں کی بات توجہ سے سنی جائے۔ ایسے لوگ ہر فرقہ میں موجود ہیں، کسی بھی فرقہ کے سب لوگ انتہا پسند اور شدت پسند نہیں ہوتے بلکہ اس قسم کے لوگ ہر مکتب فکر میں بہت کم ہوتے ہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اعتدال و توازن کی بات کرنے والوں کو توجہ کے ساتھ سنا جائے اور انہیں فرقہ وارانہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔
گکھڑ کی باجوہ فیملی سے میں ایک عرصہ سے متعارف ہوں بلکہ میرا بچپن اور نوجوانی انہی کے ماحول میں گزرے ہیں مگر جنرل صاحب کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی جو خوشگوار ماحول میں ہوئی، دعا ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کے لیے جن اچھے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں ان کے مطابق تادیر ملک و قوم کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

حکیم مختار احمد الحسینی ؒ اور قاری محمد رزین نقشبندیؒ کا انتقال

گزشتہ دنوں حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمی قدس اللہ سرہ العزیز کے برادر خورد اور میرے پرانے بزرگ دوست مولانا حکیم مختار احمد الحسینی کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ایک دور میں متحرک فکری اور نظریاتی راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور ان کے ساتھ میری پرجوش رفاقت رہی ہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ جامعہ نصرۃ العلوم میں بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا نام آج کے نوجوان علماء اور کارکنوں کے لیے اجنبی ہوگا مگر جن حضرات نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات سے قبل اور بعد کے فکری اور نظریاتی معرکے اور محاذ آرائیاں دیکھی ہیں، وہ ان سے یقیناًناواقف نہیں ہیں۔ یہ ۱۹۶۷ء ، ۱۹۶۸ء کے لگ بھگ کا قصہ ہے کہ مولانا حکیم مختار احمد الحسینی نے اپنے برادر بزرگ مولانا حافظ خالد محمود کے ہمراہ لاہور میں ایک فکری اور نظریاتی مورچہ جمایا اور کافی عرصہ جمعیۃ علماء اسلام اور جماعت اسلامی کی باہمی معرکہ آرائی کا سرگرم کردار رہے۔
اس دور میں جماعت اسلامی کے ساتھ محاذ آرائی کے دو مورچے تھے۔ ایک یہ کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی بعض اعتقادی اور فقہی تعبیرات سے جمہور علماء اہل سنت کو اختلاف تھا اور دونوں طرف سے تنقید و جواب کا ماحول پوری شدت کے ساتھ گرم تھا جس میں حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ اور حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ پیش پیش تھے، جبکہ سیاسی و فکری تقسیم میں جماعت اسلامی اس وقت دائیں بازو کی جماعت شمار ہوتی تھی بلکہ دائیں بازو کی فکری قیادت کر رہی تھی۔ اس کے برعکس جمعیۃ علماء اسلام اپنے روایتی سامراج دشمن مزاج اور استعمار مخالف ایجنڈے کے باعث بائیں بازو کے قریب سمجھی جاتی تھی اور ڈاکٹر احمد حسین کمال کی فکری راہنمائی میں حکیم مختار احمد الحسینی اور دوسرے حضرات ’’عوامی فکری محاذ‘‘ کے نام سے اس کے لیے سرگرم تھے اور میں بھی اس وقت اس محاذ کا متحرک کردار تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فکری محاذ آرائی ٹھنڈی پڑتی گئی حتیٰ کہ جہادِ افغانستان کے دوران دائیں بازو اور بائیں بازو کی یہ تقسیم ہی تحلیل ہو کر رہ گئی۔ اگر اس دور کی اس فکری اور نظریاتی معرکہ آرائی کی تاریخ مرتب کی جا سکے تو اس میں نئی نسل کے لیے راہنمائی کا بہت سامان موجود ہے۔ حکیم مختار احمد الحسینی اس نظریاتی اور فکری جنگ کا متحرک کردار تھے۔ میں نے ان کے فرزندان گرامی سے تعزیت کے دوران عرض کیا کہ اگر ان کے کاغذات اور یادداشتوں تک رسائی میسر آجائے تو اس حوالے سے کچھ خدمت میں بھی سر انجام دے سکتا ہوں۔
حکیم صاحب مرحوم کے ساتھ ہماری رشتہ داری بھی ہے کہ ان کے بھتیجے اور حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کے فرزند مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ میرے بہنوئی تھے اور ان کی جگہ اب جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے مہتمم مولانا قاری ابوبکر صدیق میرے عزیز بھانجے ہیں۔ جہلم میں برادرم مولانا قاری صہیب احمد اور عزیزان قاری ابوبکر صدیق، حافظ محمد عمر فاروق اور حافظ محمد عمیر سے تعزیت کے بعد قاری ابوبکر صدیق کے ہمراہ حکیم صاحب مرحوم کے فرزندان گرامی کے پاس حاضری ہوئی جو سوہاوہ سے چکوال جاتے ہوئے سرگ ڈھن میں حکیم صاحب کے ڈیرہ اور مطب سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان سے تعزیت و دعا کے ساتھ بہت سی پرانی یادیں تازہ کیں اور پھر ہم راولپنڈی روانہ ہوگئے۔
جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر میں جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے امیر مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمان سے ان کی والدہ محترمہ کی وفات پر تعزیت کی۔ ڈاکٹر صاحب کے والد محترم حضرت مولانا قاری سعید الرحمان جمعیۃ علماء اسلام کے بزرگ راہنماؤں میں سے تھے اور میرے محترم اور بزرگ دوست تھے۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے انہیں نقشبندی سلسلہ میں خلافت عطا کی تھی اور وہ ہمارے ساتھ پاکستان شریعت کونسل کی سرگرمیوں میں شریک رہتے تھے۔ اس موقع پر تحریک خدام اہل سنت پاکستان کے امیر حضرت مولانا قاضی ظہور الحسین اظہر بھی جامعہ اسلامیہ میں مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی کے ہمراہ تشریف لے آئے اور ہم اس تعزیت و دعا میں اکٹھے شریک ہوئے۔ مولانا قاضی ظہور الحسین اظہر بھی میرے بزرگ ساتھیوں میں سے ہیں اور ہم نے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کئی سال اکٹھے گزارے ہیں۔
وہاں سے ہم حضرت مولانا قاری محمد زرین نقشبندیؒ کی تعزیت کے لیے ان کے گھر حاضر ہوئے جن کا چند روز قبل انتقال ہوا ہے۔ وہ مجاہد ہزارہ حضرت مولانا عبد الحکیم ہزاروی کے داماد تھے اور جامعہ فرقانیہ راولپنڈی میں طویل عرصہ ان کے ساتھ رفیق کار رہے ہیں، خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف سے تعلق تھا اور اپنی تعلیمی و انتظامی سرگرمیوں میں مگن ذاکر و شاغل بزرگ تھے۔ حضرت مولانا عبد الحکیم ہزاروی بھی ۱۹۷۰ء کے انتخابی معرکہ کا اہم عنوان رہے ہیں۔ وہ اپنے علاقہ کے سب سے بڑے خان اور سردار کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور ۱۹۷۳ء کے دستور کی تدوین اور ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں پارلیمانی محاذ پر انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا۔ درخواستی گروپ اور ہزاروی گروپ میں جمعیۃ علماء اسلام کی تقسیم سے قبل وہ جمعیۃ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھے اور قومی اسمبلی کے بعد سینٹ کے ممبر بھی منتخب ہوئے تھے۔
اللہ تعالیٰ مرحومین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

فقہاء اور مکتب فراہی کے تصورِ قطعی الدلالۃ کا فرق

عدنان اعجاز

محترم زاہد صدیق مغل صاحب کی مذکورہ بالا عنوان کی حامل تحریر نظر سے گزری (الشریعہ، اکتوبر ۲۰۱۶ء)۔ مکتب فراہی کے تصورِ قطعی الدلالہ کے فقہا کے تصور سے تقابل کے ذریعے زاہد صاحب نے اس میں یہ باور کرانے کی سعی فرمائی ہے کہ ’’فراہی و اصلاحی صاحبان کا نظریہ قطعی الدلالہ نہ صرف مبہم ہے بلکہ ظنی کی ایک قسم ہونے کے ساتھ ساتھ سبجیکٹو (subjective) بھی ہے۔‘‘ میری نظر میں ایسی تحاریر موضوع سے متعلق الجھنوں کو رفع کرنے کے لیے اچھی بنیاد فراہم کرتی ہیں، اس لیے ایسے مواقع ضائع نہیں ہونے دینے چاہئیں۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے دیے گئے اہم دلائل ان الفاظ میں بیان کیے جا سکتے ہیں:
1۔ فقہا چونکہ وضوح و خفا کے اعتبار سے آیات کو آٹھ مدارج میں تقسیم کرتے ہیں، اس لیے جن اقسام کو وہ قطعی الدلالۃ کہتے ہیں، وہ واقعی 'definite in meaning' ہوتی بھی ہیں، اور نتیجتاً وہ ان میں سے زیادہ واضح کے مفاہیم میں تاویل کرنے والوں پر گمراہی کا حکم بھی لگا سکتے ہیں اور لگاتے ہیں۔ جبکہ مکتب فراہی جب سب کو قطعی کہہ دیتا ہے تو ایک تو یہ واضح نہیں کرتا کہ ان مدارج میں سے کس درجے کا وضوح مراد لیتا ہے، اور اسی طرح یہ بھی بیان نہیں کرتا کہ اس قطعی مفہوم کے انکار کرنے والے کو وہ گمراہ کہے گا کہ نہیں، اور دونوں صورتوں میں کیوں کا جواب بھی نہیں دیتا۔
2۔ ان کے یہاں جس طرح لفظ قطعی کے معنی میں ابہام ہے، اسی طرح لفظ دلالت کے مفہوم میں بھی ہے۔ وہ یہ واضح نہیں کرتے کہ یہ قطعیت عبارۃ النص، دلالۃ النص، اشارۃ النص یا اقتضاء النص میں سے کس قسم کی ہے۔
3۔ مکتب فراہی جب کلام کو قطعی ماننے کے باوجود یہ کہتا ہے کہ ممکن ہے کہ اس کے معنی دو مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوں تو پھر درحقیقت وہ قطعی ہی کو ظنی کر دیتا ہے، پس پورا تصورِ قطعیت ہی سبجیکٹو ہو جاتا ہے۔ جبکہ فقہا کا طریقہ کار کلام کو حتی الامکان آبجیکٹو (objective) قطعیت سے متصف دکھاتا ہے، کیونکہ انہیں حکم اخذ کرنے کے لیے جو عموم و استحکام درکار ہوتا ہے، وہ اسی طریقے سے حاصل ہو سکتا ہے۔
4۔ مکتب فراہی کے منتسبین کلام کو عنداللہ قطعی مانتے ہیں نہ کہ عندالناس۔ تو اس اعتبار سے تو یہ کوئی فرق ہی نہیں کیونکہ فقہاء بھی عندالناس ہی کی بات کرتے ہیں۔
5۔ پھر یہ بھی واضح نہیں کہ عندالناس سارا کلام ظنی ہے یا قطعیت کا کوئی دائرہ ہے؟ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مفسر کے سمجھے ہوئے معنی کو ہم قطعی نہیں کہتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کلام کے معنی سبجیکٹو ہیں، گویا عندالناس قطعیت کا کوئی دائرہ موجود نہیں۔
6۔ قرآن عنداللہ میزان اور فرقان ہے یا عندالناس؟ جب عندالناس معنی کو آپ قطعی نہیں مانتے تو پھر فرقان و میزان ہونے کا کیا مطلب؟
یہ اور اس سے ملتے جلتے سوالات ہمارے روایتی مذہبی علم سے متاثر و وابستہ اور اہل علم بھی کرتے ہیں، اس لیے ان سے تعرض عمومی اعتبار سے ہی مناسب رہے گا۔ ان کے جوابات ویسے تو بہت سادہ اور سیدھے ہیں، پر یہ سوالات کچھ ایسی بنیادی غلط فہمیوں سے پیدا ہوئے ہیں جن کی درستی اگر ایک دفعہ پہلے ہو گئی تو ان سوالات سے تعرض کا مختصر ترین راستہ بھی وا ہو جائے گا، اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے یہ بھی جان لیں گے کہ کیسے اس طرح کے ابہامات محض دو مختلف مباحث کو آپس میں گڈ مڈ کرنے سے پیدا ہو جاتے ہیں اور جو یہاں ہو گئے ہیں۔
تاہم، اس سے پہلے کہ میں نفس مسئلہ کی طرف بڑھوں، ایک اور نکتے کی طرف توجہ دلانا بھی شاید اہم ہے۔ اس نکتے کا بہترین بیان اداروں پر تحقیق کرنے والے محققین پیٹر ایم بلاؤ کے ریفرنس سے یوں نقل کرتے ہیں: ’’اداروں کے ممبران (رفتہ رفتہ) دنیا کو انہی مخصوص تصورات کی بنیاد پر دیکھنے لگتے ہیں جو ان اداروں کی لغت میں منعکس ہوتے ہیں۔ پس جو درجہ بندیاں اور تقسیم کی اسکیمیں اس ادارے میں مستعمل ہوتی ہیں، وہی حقیقی دِکھنے لگتی ہیں، اور اس ادارے کے ممبران کی نظر میں محض اصطلاحات کی بجائے دنیا کی صفات بن جاتی ہیں۔‘‘
میری نظر میں ہمارے فقہا کی طرف سے علم الفقہ میں ان کے زاویہ نظر سے الفاظ کی پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لیے کی گئی درجہ بندیاں بھی اسی لیے ہمارے بعض اہل علم کے لیے اصطلاحات سے آگے بڑھ کر 'دنیا کی صفات' بن گئی ہیں۔

چند بنیادی باتیں

سب سے پہلی اور ضروری بات اس بحث کی تاریخ ہے جس کی طرف زاہد صاحب نے بھی اشارہ کیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں سوفسطائی نظریات کی یلغار ہوئی اور عقلی مقدمات کے جواب میں ہمارے فقہا نے جب قرآن و حدیث سے استدلال پیش فرمایا تو ان کے جواب میں یہ کہا گیا کہ بھئی زبان تو ظنی الدلالہ ہوتی ہے، اس لیے عقلی برہانیات کے مقابل میں ان سے استدلال سرے سے درست ہی نہیں۔ اس مقدمے کو ہمارے بھی کچھ اہل علم نے قبول کر لیا۔ امام رازی اور کچھ دوسرے بزرگوں نے بھی جب اسی مقدمے کی تائید کی تو ہمارے جلیل القدر فقہا نے اس کا جواب یہ دیا کہ زبان بالکل متواترات پر مبنی اور قطعیت کا فائدہ دینے کے قابل ہوتی ہے، اس لیے یہ مقدمہ ہی درست نہیں۔ اس معاملے کو ابن قیم، شاہ اسمٰعیل شہید، التوضیح والتلویح کے مصنفین وغیرہ نے موضوعِ بحث بنایا اور یونانی فلسفے سے متاثر اس مقدمے کو منہدم کر دیا۔ چنانچہ ائمہ فقہ و حدیث ایک مسلمہ قاعدے کی حیثیت سے اس حقیقت کو بیان کرتے رہے کہ ’ماثبت بالکتاب قطعی موجب للعلم والعمل‘۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جہاں فقہا نے یہ بحث کی ہو گی، مثلاً ابن قیم یا شاہ اسمٰعیل وغیرہ نے، وہاں انہوں نے کلام کو قطعیت اور ظنیت کے اعتبار سے آٹھ مدارج میں تقسیم کر کے یہ بتایا ہو گا کہ کیسے بس جب محکم یا مفسر الفاظ آئیں، تبھی قطعیت حاصل ہو سکتی ہے؟ جی نہیں! ایسا کچھ بھی نہیں۔ حنفی ہوں یا سلفی ہوں، اس موضوع پر جب بحث ہوئی تو بس قطعی اور ظنی ہی پر ہوئی۔ یہ حضرات یقیناًان فقہی مدارجِ وضوح و خفا سے آگاہ ہوں گے، پر اس کلامی بحث کا آخر اس فقہی تقسیم سے تعلق کیا تھا جو وہ اسے اس میں گڈ مڈ کر دیتے!
اور دلچسپ بات دیکھیے۔ اس بحث میں جب قطعی اور ظنی کی تعریف ہمارے اصولیین نے فرمائی تو وہ کیا تھی؟ غامدی صاحب نے اس پر بڑی سیر حاصل بحث اپنے قطعی و ظنی کی سیریز کے مضامین میں باحوالہ کر دی ہے۔ مثلاً استاذ مخلوف نے’’الموافقات‘‘ پر اپنی تعلیقات میں قطعی کی تعریف کو یوں لکھا ہے: 
یستعمل القطع فی دلالۃ الالفاظ فیاتی علی نوعین: اولھما الجزم الحاصل من النص القاطع، وھو ما لایتطرقہ احتمال اصلًا... ثانیھما العلم الحاصل من الدلیل الذی لم یقم بازاء احتمال یستند الی اصل یعتد بہ، و لایضرہ الاحتمالات المستندۃ الی وجوہ ضعیفۃ او نادرۃ (الموافقات، الشاطبی ۱/۳۱) 
’’یہ لفظ جب دلالت الفاظ کے باب میں استعمال کیا جاتا ہے تو دو صورتوں کے لیے آتا ہے: ایک اس جزم کے لیے جو نص قطعی سے حاصل ہوتاہے، یعنی وہ نص جس میں سرے سے احتمال کی گنجایش نہ ہو... دوسرے اس علم کے لیے جو اس دلیل سے حاصل ہوتا ہے جس کے مقابل میں کوئی ایسا احتمال نہ ہو جس کی بنا قابل لحاظ سمجھی جائے۔ نادر اور کمزور وجوہ پر مبنی احتمالات اْس پر اثرانداز نہیں ہوتے۔‘‘ 
پھر اس کے بالکل مقابل اصولیین ظن کا لفظ شمار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اِس میں احتمال کی نفی ممکن نہیں ہوتی، صرف ایک احتمال کو ترجیح دی جا سکتی ہے۔ پس مکتب فراہی جب اس بحث کے پس منظر میں یہ کہتا ہے کہ قرآن قطعی الدلالۃ ہی ہے، تو ظاہر سی بات ہے، وہ اوپر بیان کیے گئے انہی دو معانی میں سے ایک میں کہتا ہے، یعنی یا تو سرے سے اس میں احتمال ہی نہیں ہوتا، اور اگر ہو تو قابل لحاظ نہیں ہوتا، کیونکہ اسے غور و تفحص سے رفع کیا جا سکتا ہے۔
اس خلط مبحث کو مثال سے یوں سمجھیے کہ ہم آج کسی ایسے شخص سے بحث کر رہے ہوں جو یہ کہتا ہو کہ یار یہ مذاہب و ادیان تو بس لوگوں کی اپنی اختراعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان میں یہ بھی جانا نہیں جا سکتا کہ ان کی اصلی صورت کیا تھی، اس میں کون سے وہ احکامات تھے جو ان کے بانیوں کے پیش نظر تھے اور کون سے وہ جو بعد کی صدیوں میں لوگوں نے ان میں اضافی داخل کر دیے، اور ہم اسے یہ بتا رہے ہوں کہ اسلام میں ایسا نہیں ہے بھائی۔ ہم تحقیق سے یہ قطعی طور پر جان لیتے ہیں کہ کون سا حکم ثابت ہے اور کون سا نہی، اور اسی اثنا میں ہماری فقہ سے واقف ایک شخص وہاں آ کر ہم سے پوچھے کہ بھئی ہماری فقہ میں واجب تو دراصل دلیل ظنی سے ثابت ہوتا ہے، اس میں آپ قطعیت کہاں سے تلاش کر لیتے ہیں ۔۔۔ تو بتائیے! کیا یہ سوال اس بحث سے متعلق ہو گا؟
ایک اور دلچسپ بات نوٹ کیجیے۔ ہمارے جلیل القدر فقہا نے یہ جو آٹھ مدارجِ وضوح و خفا کا حوالہ دیا جا رہا ہے، اور زاہد صاحب نے بھی دیا ہے، ان میں تقسیم کی کس پہلو سے ہے؟ کیا وہ اسی متکلمین والی بحث میں اپنا حصہ ڈالنا چاہ رہے تھے؟ ارے نہیں! وہ اس پہلو سے بحث کر ہی نہیں رہے۔ وہ تو استنباطِ احکام کے لیے تقسیم فرما رہے تھے۔ انہیں اس مذکورہ بالا بحث سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسی لیے انہوں نے کہیں یہ بھی نہیں کہا کہ ہم قرآنِ مجید کی آیات کی قطعی و ظنی تقسیم کرنے جارہے ہیں۔ وہ تو بس احکام اخذ کرنے کی غرض سے جو دقتیں انہیں مدعا تک رسائی میں پیش آتی ہیں، انہیں اپنی وضع کردہ اصطلاحات میں ایک معیاری طریقے سے بیان کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس کے برعکس، غامدی صاحب یا مکتب فراہی ان فقہاء کے زاویے سے بحث کر ہی نہیں رہے۔ انہوں نے کہاں یہ فرمایا ہے کہ ہم فقہا کے اِن آٹھ مدارج کے مقابل میں یہ دو مدارج دے رہے ہیں؟ ان کی بحث بھی بالکل ایک مختلف پہلو سے ہے، اور اسی پہلو سے ہے جس سے متکلمین سے بحث ہو رہی تھی۔ اس میں نہ مکتب فراہی پہلا ہے اور نہ ہی منفرد، اسی اسلاف کی بحث کو آگے بڑھا رہا ہے۔
بایں ہمہ ایک انتہائی بنیادی فرق اور دیکھیے۔ ہمارے فقہا جب استنباطِ احکام کے لیے وضوح و خفا میں تقسیم کرتے ہیں تو وہ دراصل 'الفاظ'کے مدارج طے کر رہے ہوتے ہیں، نہ کہ 'کلام' کے، جبکہ زبان کی قطعی و ظنی الدلالۃ والی بحث جن حضرات نے بھی تاریخ میں کی ہے، اور جو مکتب فراہی کر رہا ہے، وہ 'کلام' کی بحث ہے۔ الفاظ کی تحقیق کے حساب سے کوئی نئے مدارج دینا ان کے پیش نظر ہی نہیں۔ تاہم، اگر وہ الفاظ کی مشکلات کے زاویے سے بحث کریں تو یہ عین ممکن ہے کہ فقہا کے بیان کردہ بہت سے مدارج خود بھی اختیار کر لیں، یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے پندرہ اور مدارج بھی اس میں شامل کر لیں، اور یہ بھی پوری طرح ممکن ہے کہ اس طرح کی کوئی تقسیم بھی اختیار نہ کریں، کیونکہ یہ محض فنی اصطلاحات ہیں، جو ایک خاص اپروچ کے باعث وضع کی گئی ہیں، نہ شرعی ہیں اور نہ ضروری۔ اور اس اپروچ کے علاوہ اور بھی اپروچیں کلام کو دیکھنے کی ہو سکتی ہیں جن سے اصطلاحات بھی یقیناًفرق ہو جائیں گی۔ لیکن ظاہر ہے، یہ بحث تو فی الحال انہوں نے کی نہیں۔
ایک آخری بات بھی دیکھیے۔ فقہا نے جو الفاظ کی یہ تقسیم کی ہے، یہ 'لغوی' اعتبار سے ایک 'initial'پوزیشن کے لحاظ سے ہے۔ اس لیے جب کلام میں رکھ کر کسی لفظ میں سے وہ احتمالات ختم کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو اسے قطعی کی کیٹیگری میں بھی لے آتے ہیں۔ پس اس بحث کو اگر مکتب فراہی کی تقسیم سے 'intersect' کرانا ہی ہو تو چاہے کسی لفظ کو فقہا 'initially' کسی بھی درجے میں پلیس کر رہے ہوں، مکتب فراہی زبان و بیان کے اصولوں اور کلام کے قرائن سے احتمالات ختم کر کے اس کی 'final' پوزیشن آپ کو قطعی کی کیٹگری میں لا کر ہی دکھائے گا۔ اس لیے جو مطالبہ ہونا چاہیے، وہ احتمالات کی نفی کا ہونا چاہیے۔ یہ ہر جگہ قطعی اور ظنی کی بحث کو بیچ میں لے آنا عجیب 'frustration' کا مظہر لگنا شروع ہو گیا ہے۔
ان نکات کا حاصل یہ کہ یہ دونوں بحثیں بہت مختلف ہیں۔ نہ تو براہِ مہربانی ان میں خلطِ مبحث پیدا کریں، اور نہ ہی ایک بحث کے قطعی و ظنی کو اٹھا کر دوسرے میں وضع کردہ اصطلاحات پر محمول کر کے وضاحت طلب کیجیے۔ آپ خود بھی شکوک میں مبتلا ہوں گے اور دوسروں کو بھی کریں گے۔ تاہم، اگر قرآن کے کسی مقام پر یہ بحث کرنی ہو کہ کلام کا منشا سمجھ نہیں آ پا رہا، یا محتمل الوجوہ ہو گیا ہے، یا یہ کہ زیادہ سے زیادہ بس کسی ایک احتمال کی ترجیح ممکن رہ گئی ہے، تو وہاں پر مکتب فراہی سے اگر ان کے اصولوں کے تحت کوئی گفتگو کرنی ہے تو کسی کلام (نہ کہ لفظ) کو ظنی قرار دینے کے لیے نقیض کا احتمال ثابت کیجیے، ورنہ اصولیین کے معیارات کے مطابق اس کلام کی تاویلات میں اس سے کمتر درجے کے اختلافات کسی طور قطعیت کو مانع نہیں قرار دیے جا سکتے۔
اب آئیے سوالات کی طرف اوپر دی گئی ترتیب کے لحاظ سے نکتہ بہ نکتہ:
1۔ تمہید سے یہ واضح ہو چکا ہو گا کہ مکتب فراہی کیوں فقہا کے سے مدارج اختیار نہیں کرتا۔ اس کے پیش نظر 'کلام' کی جو قطعیت ہے، وہ یا تو بادنیٰ تامل حاصل ہو جاتی ہے، یا غور و خوض سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی احتمالِ نقیض تھا بھی تو وہ کیوں ناقابلِ اعتنا تھا۔ تو جب پورا قرآن قطعی الدلالہ ہی ہے تو کسی رائے کو گمراہی کہنے کے لیے جو چیز درکار ہوتی ہے، وہ کسی خاص درجے کا وضوح نہیں بلکہ مضمون کی نوعیت ہوتی ہے۔ یعنی اگر کوئی غلط تاویل کسی عقیدہ و عمل کی ضلالت سے عبارت ہو گی، تبھی گمراہی قرار پا سکے گی۔ جیسے کوئی خاتم النبیین سے بہت بلند پائے کا نبی مراد لے گا یا فاقطعوا ایدیھما سے غربت کے نظام کا خاتمہ مراد لے گا وغیرہ، تو ہی اسے گمراہی سے تعبیر کیا جا سکے گا، اور خود غامدی صاحب نے بھی کیا اور لکھا ہے، نہ کہ اگر کوئی ملکہ بلقیس کے عرش کی تحویل کے متعلق کوئی مختلف رائے رکھے گا تو وہ رائے گمراہی قرار پائے گی۔ اس دوسری طرح کے معاملات میں 'درست' اور 'غلط' کی تقسیم تک محدود رہنا بھلا کیوں کفایت نہ کرے گا!
ویسے میں قارئین سے کہوں گا کہ کبھی اس رائے کے حاملین سے درخواست کیجیے گا کہ ان 'definite in meaning' آیات کی، یا مثلاً محکم الفاظ کی، پورے قرآن سے ایک فہرست مرتب کر دیں تا کہ قارئین یہ جان سکیں کہ اس تقسیم کے مطابق قرآنِ مجید جیسی ضخیم کتاب سے بس کتنی آیات اور کتنے الفاظ قطعی کی کیٹگری میں جگہ بنا پاتے ہیں اور کتنے ظنی۔ میرے خیال سے قارئین کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہو گی کہ شاید پورے قرآن سے بس اعداد کے نام، جیسے ثلاثہ اربعہ، یا لوگوں جگہوں وغیرہ کے نام کی قسم کے گنتی بھر الفاظ ہو ں گے جو اس موضوعہ معیار کے مطابق 'subjectivity' کے دائرے سے باہر، یعنی قطعی بن پائیں گے۔ پس فقہا کی ان تعبیرات کا کلام پر اطلاق واقعی اہمیت کا حامل ہوتا اگر ان کے نتیجے میں قرآنِ مجید کے اکثر حصے سے متعلق کوئی ایسی معنی خیز حدبندی ہو جاتی کہ ہم خود دیکھ لیتے کہ جس طرح ہم روزمرہ کلام کے اکثر حصے سے قطعیت کے عادی ہوتے ہیں، اسی طرح بس قرآن کے وہ کون سے چند مقامات ہیں جن کی قطعیت 'objective' نہیں ہو پائی۔ حالانکہ یہاں تو معاملہ بالکل برعکس ہے۔
2۔ تمہید کے بعد یہ اعتراض بھی غیر متعلق ہو جانا چاہیے۔ تاہم، انہی اصطلاحات میں رہتے ہوئے اگر سمجھانے کی کوشش کی جائے تو بھی بات بہت سادہ ہے۔ مکتب فراہی اصلاً دلالۃ النص ہی کے تعین پر اکتفا کرے گا، کیونکہ متکلم کا سیدھا سادہ منشا اخذ کرنا ہی وہ بنیادی چیز ہے جو قطعیت سے متعلق ہے۔ اس کے بعد اگر کسی مسئلے میں استنباط کی نوبت آئے تو پھر اضافی طور پر کسی نص کے اشارات و اقتضاء ات زیر بحث آ سکتے ہیں۔ اس طرح کے اعتراضات اس لیے بھی پیدا ہوتے ہیں کہ عموماً اس بنیادی پیراڈائم کے فرق کو اہل علم پوری طرح باور نہیں کرتے، یعنی یہ کہ مکتب فراہی اللہ کے کسی موضوع سے متعلق احکامات کو بس دین یا بالفاظِ دیگر پاکیزگی کے زاویے سے دیکھے گا، جبکہ ہمارے فقہا اس موضوع سے متعلق پورا قانون انہی احکامات سے اخذ کرنے کا قصد کرتے ہیں، اسی لیے مکتب فراہی میں دلالت تک محدود رہنا ہی عام ہے۔
3۔ مکتب فراہی مذکورہ امکان اس لیے مانتا ہے کہ وہ انسانوں میں غلطی کا امکان مانتا ہے، نہ کہ کلام میں احتمال کا، کہ قطعیت ہی سبجیکٹو ہو جائے۔ انسانوں میں سے غلطی کا امکان اگر ختم ہو جائے تو پھر یقیناًمکتب فراہی اس امکان سے بھی انکار کر دے گا۔یہ بالکل سادہ سی حقیقت کا اظہار ہے۔ پر آئیے اسے ایک اور زاویے سے بھی دیکھ لیتے ہیں۔
کوئی کلام جو بالکل چھوٹے بچوں کے لیے معصوم سے جملوں میں نہ ترتیب دیا گیا ہو، بڑوں کے لیے مرتب کیا گیا ہو، ادبی ذوق رکھنے والوں کو متاثر کرنا بھی اس کے مقاصد تشکیل میں سے ہو، زندگی کے اہم معاملات پر گویا ہو، اپنے فہم کے لیے قارئین سے غور و خوض کا طلبگار تو ہوتا ہی ہے۔ تو جب غور و خوض کسی کلام کے عوامل فہم میں سے ہو تو اس امکان کو بھلا کون رد کر سکتا ہے کہ کوئی شخص غور و تفکر کا حق نہیں بھی ادا کرے گا؟ یعنی یہ تو منطقی ہے کہ اگر کوئی قلت تدبر یا قلت فہم کا مظاہرہ کرے گا تو ممکن ہے، کلام کا مدعا متکلم کے منشا کے علاوہ کچھ اور متعین کرنے پر اکتفا کر بیٹھے۔ پر کیا ایسا کرنے سے کلام ظنی ہو جایا کرتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اس لیے یہ تو کوئی لائق التفات رائے نہیں۔ پر یہ قطعی ہی کو ظنی کر دینے والی بات پر ذرا مزید غور کر لیتے ہیں۔ یعنی اصول یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جب بھی کبھی کسی حقیقت کے متعلق اگر سب لوگ ایک ہی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں تو بجائے اس کے کہ یہ دیکھا جائے کہ کیا جس محقق نے اختلاف کیا ہے، اس نے تحقیق کا حق ادا کیا ہے کہ نہیں، یہ اس بات کا اشاریہ شمار کر لینا چاہیے کہ حقیقت ہی دراصل قطعی نہیں؟ ما لکم کیف تحکمون! اگر کسی شے کے قطعی ہونے کے لیے سب محققین کا اتفاق ضروری ہوتا تو پھر نہ اللہ کا ایک ہونا قطعی ہے اور نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول اللہ ہونا۔ آپ کی کسی انتہائی سادہ لکھی ہوئی عبارت سے آپ کا اسکول میں پڑھنے والا بیٹا بیٹی غلط مدعا اخذ کر لے تو عبارت کا ظنی ہو جانا لازم؟انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر روز بحث ہو رہی ہوتی ہے کہ اس کا مدعا اِس نے ٹھیک سمجھا ہے یا اس نے۔ ایک وکیل پورے رسوخ سے ایک رائے کا حامی ہوتا ہے اور دوسرا دوسری۔ پر کوئی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ دو وکیل مختلف رائے رکھ رہے ہیں، اس لیے لازماً قانون ہی ظنی الدلالۃ ہو گیا ہے۔ آہ! یہ اعزاز قرآنِ مجید ہی کے حصے میں آنا تھا۔
میرا ہمدردانہ مشورہ ہو گا کہ 'subjectivity' اور 'objectivity' طے کرنے کے لیے 'headcount' کا طریقہ ترک کر دیں، ورنہ دنیا میں کچھ بھی قطعی نہیں بچے گا۔ اور جو بچے گا وہ بس بے سود و بچگانہ ہی ہو گا۔ الغرض، کلام کے مدعا میں اختلاف کرنا تحقیق کا بھی نقص ہوتا ہے، نہ کہ ہمیشہ کلام کا۔
4۔ یہ عنداللہ اور عندالناس کی تقسیم بھی ناقابل فہم ہے، اور معلوم نہیں کی کس نے ہے۔ کم سے کم فراہی، اصلاحی اور غامدی صاحب نے تو نہیں۔ یہ تقسیم ہی مضحکہ خیز ہے۔ قطعیت، کلام کی صفت ہوتی ہے۔
5۔ پس یہ سوال بھی پھر نہیں رہتا، کیونکہ سارا ہی کلام قطعی ہے۔ تاہم، فہم قطعی نہیں ہوتا، یہ بھی بڑی سادہ حقیقت کا اظہار ہے۔ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ چونکہ انسان کے فہم میں غلطی کا امکان بہر حال ماننا پڑتا ہے، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی محقق نے جو سمجھا ہے، وہ غلطی سے لازماً پاک ہی ہے۔ اس سے سبجیکٹوٹی پر استدلال کیسے درست ہو گیا؟ اگر غلطی کا امکان مان لینے سے موضوعیت آ جاتی ہے تو پھر دنیا کی ہر حقیقت سبجیکٹو ہی ہے۔ ایسا ظاہر ہے کہ نہیں ہے!
6۔ یہاں بھی وہی عندا للہ اور عندالناس کی مغالطہ انگیز اصطلاحات۔ تاہم، امید ہے کہ یہ واضح ہو چکا ہو گا کہ اس تقسیم کا مکتب فراہی سے کوئی تعلق نہیں۔ پس میزان اور فرقان اس کلامِ پاک کی اپنی صفات ہیں۔ اور اگر فہم میں غلطی کے امکان کو مان لینے سے اس کی یہ صفات مجروح ہوتی ہیں تو بتایا جائے کہ کیسے؟
اختتام سے پہلے میں ایک معصوم سا سوال کرنا چاہوں گا۔ یہ سوال یقیناًاور لوگوں کے ذہنوں میں بھی پیدا ہوتا ہو گا، اس لیے پوچھ رہا ہوں۔ چونکہ نقد کرنے والے حضرات اہل علم یہ رائے تو رکھتے نہیں کہ کلام بس ظنی الدلالۃ ہی ہو سکتا ہے۔ وہ تو یہ مانتے ہیں کہ کلام قطعی بھی ہوتا ہے اور ظنی بھی، اسی لیے قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے متعلق مصر ہیں کہ اس کا کچھ حصہ قطعی ہے اور کچھ ظنی۔ اس لیے ان سے بس اب یہ سوال پوچھنا ہے کہ انہوں نے یہ جو انتہائی دلیری دکھا کر مالک ارض و سما کے کلام کو ظنی کہنے کی جرات کی ہے، وہ اس کی وجہ کیا بتاتے ہیں؟ کیونکہ منطقی اعتبار سے اس کی وجہ بس انہی میں سے ایک ہو سکتی ہے:
1۔ (معاذاللہ) اللہ تعالیٰ کو قطعی کلام کرنا نہیں آتا تھا، یا وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ کلام لوگوں کے لیے ظنی ہو جائے گا۔
2۔ انسانی زبان و بیان کی کمزوری کے سبب جس حصے کو اللہ تعالیٰ نے ظنی بنایا، وہ درحقیقت قطعی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
3۔ اللہ تعالی نے ارادتاً کچھ حصے کو اس لیے ظنی رہنے دیا:
ا۔ تا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت کر کے اسے قطعی بنا سکیں۔
ب۔ تاکہ نبی بھی اسے ظنی چھوڑ جائیں اور امت کی آزمائش ہو سکے۔
ان میں سے جو نکتہ وہ اختیار کریں گے، پھر اس سے تعرض کر لیں گے۔ اور پہلا نکتہ محض منطقی طور پر درج کیا ہے، ظاہر ہے کوئی مؤمن تو یہ اعتقاد رکھ نہیں سکتا۔ پر مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ سارے راستے ادھر ہی لیِڈ کرتے ہیں، بس لوگوں نے اس بارے غور نہیں کیا۔
جہاں تک مکتب فراہی کی بات ہے، ہم اپنے رب کے کلام کے متعلق یہ جسارت کبھی تصور نہیں کر سکتے کہ اس کے کسی حصے کو بھی ظنی کہہ بیٹھیں۔ ہم ہر نقص اور کمزوری بلاخوفِ تردید انسانوں کی ہی جانب تسلیم کرتے ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز کیا ہے؟

محمد عرفان ندیم

یہ آئیڈیا ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کا تھا اور اسے عملی جامہ ڈاکٹر ماہان مرزا نے پہنچایا ۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر ماہان مرزا دونوں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں اور امریکی ریاست انڈیانا کی یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم سے منسلک ہیں۔
ڈاکٹر ابرہیم موسیٰ کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے۔ ان کے آبا ؤ اجداد انڈیا کے شہر گجرات سے ہجرت کر کے جنوبی افریقہ چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کا بچپن جنوبی افریقہ ہی میں گزرا ۔یہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے جب انہیں اسلامک اسٹڈیز کے مضمون میں دلچسپی پیدا ہوئی ۔ ایک دن کسی کلاس فیلو نے کلاس میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ اسلام ایک غلط اور جھوٹا مذہب ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا تجسس بڑھا تو یہ امام مسجد کے پاس پہنچ گئے ۔ یہاں تشفی نہ ہوئی تو پہلے تبلیغی جماعت اور پھر مختلف اسکالرز سے ملے، لیکن تشنگی ابھی باقی تھی۔ چنانچہ انہوں نے خود دینی علوم حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا ۔ یہ دینی علوم حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دینی مدارس میں آنا چاہتے ،تھے لیکن گھروالوں کا اصرار تھا کہ انہیں انڈیا جانا چاہیے۔ چنانچہ یہ ندوۃ العلماء لکھنو پہنچ گئے ، یہاں کچھ عرصے تک تعلیم حاصل کی اور پھر دار العلوم دیوبند چلے گئے ۔ وہاں مختلف اساتذہ سے استفادہ کیااور قاری محمد طیب کی محفلوں میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ۔ تقریباً چھ سال تک انہوں نے مدارس میں رہ کر رسمی دینی تعلیم حاصل کی،کچھ عرصہ کے لیے کراچی بھی تشریف لائے اور اس طرح ان کی دینی تعلیم کا ایک مرحلہ مکمل ہوا ۔ 
تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہ دوبارہ جنوبی افریقہ چلے گئے ،یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا، جرنلز م میں ماسٹر کیا اور صحافت کو بطور پیشہ جائن کر لیا ۔کچھ عرصہ تک جنوبی افریقہ میں ہی صحافت کرتے رہے اور ساتھ پی ایچ ڈی بھی مکمل کر لی ۔ اس کے بعد یہ امریکہ منتقل ہوئے اور مختلف اداروں سے ہوتے ہوئے یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم پہنچ گئے ۔ یہ گزشتہ بیس سالوں سے امریکہ میں ہیں اور امریکہ میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسروں میں ان کا نام ٹاپ پر ہے ۔ یہ ان چند گنے چنے اسکالرز میں سے ہیں جو مغرب میں رہ کر اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کر رہے ہیں ۔ یہ امریکہ میں دینی مدارس کے وکیل سمجھے جاتے ہیں اور یہ مختلف فورمز پر دینی مدارس کا دفا ع کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ خود بھی اپنے آپ کو مدارس کا ایڈووکیٹ کہتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔
چونکہ یہ خود دینی مدارس سے گزر کر گئے ہیں، اس لیے انہوں نے 2015میں دینی مدارس کے حوالے سے ایک کتاب لکھی جس میں مدارس کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت اور افادیت پر بھی بات کی ۔ مغرب میں اس کتاب کو خوب پزیرائی ملی اور وہاں کے دانشوروں اور سول سوسائٹی کے دینی مدارس کے بارے میں جو تحفظات اور خدشات تھے، وہ کافی حد تک کم ہوئے ۔کچھ عرصہ پہلے انڈیا کے ڈاکٹر وارث مظہری نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا اور اب پاکستان میں یہ ترجمہ الشریعہ اکادمی اور اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے اشتراک سے شائع ہوا ہے۔ 21 دسمبر کو اسلام آباد میں اس کتاب کی تقریب رونمائی تھی جس میں ڈاکٹر ابرہیم موسیٰ اور ڈاکٹر ماہان مرزا دونوں تشریف لائے تھے۔ یہ دونوں حضرات تین دن کے دورے پر پاکستان آئے تھے ، اسلام آباد میں تقریب رونمائی کے بعد مختلف یونیورسٹیز میں لیکچرز، سیمینارز اور پینل ڈسکشن ہوئی اور 24دسمبر کو یہ قطر کے لیے روانہ ہوگئے۔ 
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کو مدرسہ ڈسکورس کا خیال کیسے آیا، اس کی طرف آنے سے پہلے میں ڈاکٹر ماہان مرزا کی طرف جانا چاہتا ہوں ۔ 
ڈاکٹر ماہان مرز ا کا تعلق اسلام آباد پاکستان سے ہے۔ یہ کافی عرصہ پہلے امریکہ منتقل ہو ئے ، بی ایس میکینکل انجینئرنگ میں کیا اور اس کے بعد یہ اسلامک اسٹڈیز کی طرف آ گئے۔ یہ ییل یونیورسٹی امریکہ سے پی ایچ ڈی ہیں ، کچھ عرصہ تک کیلی فورنیا کے زیتونہ کالج سے منسلک رہے اور آج کل یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں پروفیسر آف پریکٹس ہیں ۔ اس کے ساتھ یہ مدرسہ ڈسکورس کورس کے بھی ڈائریکٹر ہیں اور بڑی مہارت اور دانشمندی سے اس کو ر س کو چلا رہے ہیں ۔
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ جس یونیورسٹی سے وابستہ ہیں، بنیادی طور پر یہ کیتھولک یونیورسٹی ہے ۔ یہاں ڈاکٹر صاحب کا رابطہ جان ٹیمپلٹن فاؤنڈیشن سے ہوا۔ یہ فاؤنڈیشن سائنس اور مذہب کے باہمی تصادم اور مذہب اور سیکولرزم کے مسائل کو افہام وتفہیم سے حل کرنے پر کام کر رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو کچھ اسکالرشپس کی آفر ہوئی تو انہوں نے مدرسہ ڈسکورس کورس کا آئیڈیا پیش کر دیا۔ آئیڈیا یہ تھا کہ انڈیا کے مدارس کے وہ فارغ التحصیل طلباء جو گریجویٹ ہیں اور عربی اور انگلش پر مناسب عبور رکھتے ہیں، انہیں آن لائن کورس شروع کروایا جائے جس میں انہیں جدید علم الکلام کے حوالے سے مناسب تربیت دی جائے اور جدید سائنس نے مذہب کے حوالے سے جو چیلنجز اور سوالات کھڑے کیے ہیں، انہیں رسپانڈ کیا جائے ۔ مزید یہ کہ عقائد کے علاوہ فروعی مسائل میں امکانی حد تک ایسی تعبیر پیش کی جائے جو موجودہ زمانے میں قابل قبول ہو۔
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اپنی مصروفیات کی بنا پر اس پرو جیکٹ کو وقت نہیں دے پائے، چنانچہ انہوں نے اپنے کولیگ ڈاکٹر ماہان مرزا کو ہائر کر لیا ۔ ڈاکٹر ماہان مرزا کا تعلق پاکستان سے تھا، لہٰذا انہوں نے پاکستانی اسٹوڈنٹس کو بھی اس کورس میں شا مل کرنے کا ارادہ کر لیا ۔ اس سال فروری 2017میں اس کورس کا پہلا سمسٹر شروع ہوا اور انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں سے ٹیسٹ اور انٹر ویو کے بعد پندرہ پندرہ اسٹوڈنٹس کو منتخب کیا گیا ۔ ہفتے میں ایک مقررہ دن پر کلاس ہوتی ہے۔ تمام اسٹوڈنٹس مقررہ وقت پر آن لائن ہو جاتے ہیں ، ٹیکسٹ کو پڑھا جاتا ہے ،ڈسکشن ہوتی ہے، سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور تشنہ سوالوں کے ساتھ کلاس ختم ہو جاتی ہے ۔ کلاس میں جو ٹیکسٹ پڑھنا ہوتا ہے، ایک ہفتہ پہلے اسٹوڈنٹس کو بھیج دیا جاتا ہے جسے وہ پڑھ کر کلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ اسٹوڈنٹس کو مناسب لیپ ٹاپ اور نیٹ پیکچ بھی دیا گیا ہے تاکہ تعلیم کا یہ عمل کسی تعطل کے بغیر جاری رہے۔
انڈیا میں لیڈ فیکلٹی کے فرائض ڈاکٹر وارث مظہری صاحب سرانجام دے رہے ہیں۔ ٹیسٹ و انٹر ویو سے لے کر کورس کے بعض حصوں کی تدریس ان کی ذمہ داری ہے ۔ یہ دار العلوم دیوبندسے فارغ التحصیل ہیں اور ترجمان دار العلوم کے مدیر بھی رہ چکے ہیں، علی گڑھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں اور اسی یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں۔ پاکستان میں یہ ذمہ داری الشریعہ کے مدیر حافظ عمار خان ناصر صاحب سرا نجام دے رہے ہیں۔
عمار خان ناصر نامور اسلامی اسکالر مولانا زاہد الراشدی کے صاحبزادے اور مولانا سرفرازخان صفدر کے پوتے ہیں۔ پاکستان کے علمی حلقوں خصوصاً روایتی مذہبی حلقوں میں اپنی بعض انفرادی آرا اور روایت سے ہٹ کر چلنے کی وجہ سے متنازع حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ روایتی مذہبی حلقہ ان کے دینی اور خاندانی پس منظر کی وجہ سے ان سے یہ توقع نہیں رکھتا، لہٰذا تحفظات اور خدشات کی وسیع خلیج جانبین میں حائل ہوگئی ہے۔مجھے ذاتی طور پر عمار خان صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے، یونیورسٹی سطح پر ا ن سے تلمذ کی نسبت بھی رہی ہے۔ تحفظات کے باوجود میرا خیال ہے کہ ان کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ میرا ماننا یہ بھی ہے کہ محترم موصوف کو بھی معاملات کی نزاکت کا احساس ہونا چاہیے۔ ایک تو ان کا دینی و خاندانی پس منظراور دوسری طرف اگر وہ روایت کو روندنا چاہتے ہیں تو سر پر اپنے بڑوں اور بزرگوں کا سایہ بھی چاہیے۔ بڑوں کے زیر سایہ اور ان کو اعتماد میں لے کر جو کام کیا جائے گا، اس کے نتائج اور فوائد و ثمرات اس سے کہیں زیاد ہ اور دیر پا ہوں گے جو وہ انفرادی طور پر حاصل کر پا رہے ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز کیوں ضروری تھا اور اس کی اہمیت و افادیت کیا ہے؟ اس سے پہلے آپ یہ واقعہ سن لیں۔ 
یہ دونوں پی ایچ ڈی کی اسٹوڈنٹ تھیں اور امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں ۔ ان کا آبائی تعلق لاہور سے تھا اور ا ن دنوں یہ لاہور آئی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک میرے دوست ناصر باجوہ کی صاحبزادی تھیں۔ ناصر باجوہ پاکستان میں انٹر نیشنل میڈیا کا بڑا نام ہیں، یہ وائس آف جرمنی سے وابستہ ہیں اور کئی پاکستانی چینلز میں بھی کام کر رہے ہیں۔ ایک دن ان کا فون آیا کہ میری بیٹی اور اس کی چند دوستوں کا ایک گروپ ہے ،یہ سب سائنس کی سٹوڈنٹس ہیں ، ان کے ذہن میں اسلام کے بارے میں چند سوالات ہیں اور وہ اپنے سوالات کلیئر کرنا چاہتی ہیں ۔ 
اس سلسلے میں انہیں کسی اسکالر کی تلاش تھی ، مولانا طارق جمیل صاحب سے رابطہ کیا گیا تو وہ ملک سے باہر تھے ۔ ایک دو اور مولانا حضرات سے بات ہوئی تو انہوں نے معذرت کر لی۔ بالآخر لاہور کی ایک یونیورسٹی کے اسلامیات کے پروفیسر سے بات ہو گئی۔ وہ گھر تشریف لائے، اسٹوڈنٹس نے سوالا ت شروع کر دیے۔ یہ پی ایچ ڈی لیول کی اسٹوڈنٹ تھیں۔ اس سے آپ ان کے سوالات کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ ان کے سوالات کچھ اس طرح کے تھے کہ ہم خدا کو کیوں مانیں جبکہ جدید سائنس یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ کائنات کا نظام چند متعین قوانین کے تحت چل رہا ہے اور اس میں خدا کا کوئی کر دار نہیں۔ اگر مذہب کو ماننا ہی ہے تو دنیا میں مختلف مذاہب کیوں ہیں؟ ان سب مذاہب کو ملا کر ایک انٹر نیشنل مذہب کیوں تشکیل نہیں دیا جا سکتا؟ ہمیں عبادت کا حکم کیوں دیا گیا ہے، ہمارے نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے سے اللہ کو کیا فائدہ ہوتا ہے اور اگر ہم نہیں کرتے تو اللہ کو کیا نقصان ہے؟ اگر اللہ رحمان اور رحیم ہے تو اپنے بندوں کو جہنم میں کیوں ڈالے گا؟ اللہ نے قرآن میں زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے بارے میں جو حقائق بیان کیے ہیں، جدید سائنس نے انہیں غلط ثابت کر دیا ہے، ایسا کیوں کیا ؟ پروفیسر صاحب نے اپنے علم اور فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہے اور محفل ختم ہو گئی ۔ 
یہ ایک مثال ہے، ورنہ ہماری نوجوان نسل میں سے اکثر اس طرح کے سوالات سے دو چار ہیں اور ان سوالات نے ان کے ذہنوں میں طوفان برپا کر رکھا ہے ، یہ سوالات کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟ اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے ۔ دنیا کی گزشتہ تین چار سو سالہ تاریخ میں سیکڑوں نئے علوم و فنون متعارف ہوئے اور یہ سارے علوم مغرب نے متعارف کروائے ہیں۔ آج بھی مغربی یونیورسٹیوں میں پانچ پانچ سو ماسٹر ز ڈگری پروگرام چل رہے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں کوئی یونیورسٹی بمشکل ہی سو پروگرام آفر کر رہی ہو گی۔ یہ سارے علوم وفنون نیچرل سائنسز اور سوشل سائنسز پر مشتمل ہیں اور یہ مغرب کے راستے سے ہم تک پہنچے ہیں۔ مغربی فکر کا خدا،کائنات ، سماج اور انسان کے بارے میں اپنا ایک نقطہ نظر ہے اور یہ سارے علوم اسی خاص نقطہ نظر اور تناظر میں پروان چڑھے ہیں۔ اب ہمارے نوجوان جب یہ علوم وفنون یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں تو اس کا ٹکراؤ ان کے ایمان اور عقیدے سے ہوتا ہے اور یہیں سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ اب سوالات تو اٹھ رہے ہیں، لیکن انہیں رسپانڈ نہیں کیا جا رہا اوراس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے، اس کا شاید ہمیں ابھی احساس نہیں ہو پا رہا۔
یہ سوالات ماضی میں بھی تھے، لیکن تب صورتحال مختلف تھی۔ ایک تو ان سوالات کی نوعیت مختلف تھی، دوسرا انہیں رسپانڈ کرنے کے لیے پورا علم الکلام موجود تھا۔ علم الکلام کیا تھا اور یہ کیسے وجود میں آیا؟ یہ حقیقت بھی دلچسپ ہے۔ آسان لفظوں میں آپ علم الکلام کو فلسفے کی اسلامی شاخ کا نام دے سکتے ہیں۔ ابتدائی صدیوں میں دین اسلام جب جزیرۂ عرب سے نکل کر عجم میں پھیلا تو اس کا سامنا وہاں کے مقامی مذاہب اور فلسفوں سے ہوا۔ یہ دور یونانی فلسفے کے عروج کا دور تھا۔ایک طرف یونانی فلسفہ اور دوسری طرف ہندو متھا لوجی نے اسلام کے سامنے خدا، کائنات ،سماج اور انسان کے بارے میں بہت سارے سوالات کھڑے کر دیے تھے ۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کے اندر بھی کچھ ایسے گروہ پیدا ہو گئے تھے جنہوں نے کائنات ، خدا ، قرآن ، معجزات ، بندے اور خدا کے تعلق اور مرتکب کبیرہ کے بارے میں بحث کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ لوگ اہل سنت سے ہٹ کر ایک الگ روش پر چل نکلے اور معتزلہ کہلائے۔ اسلامی علمی روایت میں سب سے پہلے انہی لوگوں نے عقلیت کا نعرہ لگایا اور عقلی بنیادوں پر احکام و مسائل کی تشریح کرنے کی کوشش کی۔
ان سے پہلے فقہی مسائل میں بحث و مباحثہ ہوتا تھا، لیکن عقائد پر بات نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے عقائد پر بھی بات شروع کر دی اور یوں اہل سنت کو یونانی فلسفے ، ہندو متھالوجی کے ساتھ معتزلہ کی کلامی مباحث کا بھی جواب دینا پڑا۔ ان سارے چیلنجز اور سوالات کو رسپانڈ کرنے کے لیے جو علمی روایت قائم ہوئی، اسے علم الکلام کا نام دیا گیا اور اس فن کے ماہرین متکلمین کہلائے ۔ اہل سنت کی طرف سے اشاعرہ اور ماتریدیہ نے اس میدان کو سنبھالا اور اپنے وقت اور زمانے کے سوالات اور چیلنجز کو بہترین طریقے سے رسپانڈ کیا ۔ 
گزشتہ تین چار صدیوں سے مسلمانوں پر جو علمی و سیاسی زوال آیا، اس کے اثرات علم الکلام پر بھی پڑے ۔ اگرچہ برصغیر ، ایران اور مصر میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے طور پر علم الکلام کو زندہ رکھنے کی کوشش کی اور اپنے دور کے سوالات کا جواب دیا، لیکن یہ انفراد ی کوششیں ذیادہ دیر تک نہ چل سکیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جدید سائنس اور فلسفے نے سوالات کی نوعیت بدل ڈالی ہے۔ اکیسویں صدی میں جدید سائنس اپنی معراج پر کھڑی ہے، انسانی فہم وشعور ارتقاء کی منازل طے کرتا ہوا بہت آگے جا چکا ہے۔ جدید سائنس نے قدیم متھالوجی اور ایمان و عقیدے کے باب میں بہت سارے نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور سوشل اور نیچرل سائنسز کے دائرے میں سوالات کا ایک طوفان ہے جو مسلسل بلند ہوتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے اور نوجوان نسل اس طوفان میں غرق ہو رہی ہے، لیکن اسے کہیں سے ریلیف نہیں مل رہا ۔
اس وقت جو سوالات پیدا ہو رہے ہیں، وہ دو طرح کے ہیں۔ ایک ، وہ سوالات جو غیر مسلموں کی طرف سے سامنے آ رہے ہیں۔ اس میں مستشرقین سے لے کر جدید سائنس اور جدید مغربی فکر و فلسفہ شامل ہیں۔ دوسرے، وہ سوالات جو خود مسلمانوں کے اپنے ذہنوں میں پرورش پا رہے ہیں اور ان کے ذہنوں میں الجھاؤ اور وسوسے پیدا کر رہے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک سائنس کا اسٹوڈنٹ یا ایک عام مسلمان جب ان سوالا ت کو لے کر اپنے محلے کی مسجدیا امام کے پاس جاتا ہے تو اسے تسلی بخش جواب نہیں ملتا اور اس کی تشنگی بر قرار رہتی ہے۔ ہمارے علماء ،قراء حضرات اور ائمہ مساجد کے ایمان و تقویٰ میں کو ئی شک نہیں۔ ان کی علمی پختگی ، دینی تصلب اور خشیت الٰہی میں کسی کو شبہ نہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان سوالات کا جواب نہیں دے پا رہے۔ ہمارے مدارس میں آج جو فلسفہ اور علم الکلام پڑھایا جا رہا ہے، وہ وہی ہے جو قدیم یونانی فلسفے اور معتزلہ کے سوالات کو رسپانڈ کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ بلاشبہ یہ اپنے دور کا بہترین علم الکلام تھا، لیکن آج اس سے کام نہیں چلے گا ۔ہمیںآگے بڑھ کر جدید سائنس، انسانی شعور کے ارتقاء، نئے علوم وفنون اور جدید مغربی فکر و فلسفے کو مد نظر رکھ کرنئی تھیا لوجی یا نیا علم الکلام ڈویلپ کرنا پڑے گا۔ 
ہم اس وقت اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق انسان نے اس زمین پر پہلا قدم دس ہزار سال پہلے رکھا تھا، ان میں سے پہلے پانچ ہزار سالوں کے بارے میں انسانی علم خاموش ہے ۔ اگر کچھ بیان کیا جاتا ہے تو وہ محض ظن و تخمین ہے ۔ آخری پانچ ہزار سالوں کی تاریخ کسی نہ کسی حد تک ہمارے پاس محفوظ حالت میں موجود ہے ۔ ان پانچ ہزار سالوں میں دنیا میں تقریباً بائیس نامور تہذیبوں نے جنم لیا ، اسلامی تہذیب بھی ان میں سے ایک ہے ۔ان میں سے ہر تہذیب ماقبل تہذیب سے اپنے تجربات ومشاہدات کی بنیاد پر ارتقاء اور فہم وشعور کی اگلی منزل پر کھڑی ہوتی تھی۔ اسلامی تہذیب نے انسانی فہم و شعور کوجومہمیز دی، پہلی تہذیبوں میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔شاید پہلی تمام تہذیبوں نے مل کرانسانی فہم و شعور کووہ عروج نہیں بخشا جواکیلے اسلامی تہذیب نے انسان کو عطا کیا۔
اسلامی تہذیب نے تسخیر کائنات کا نظریہ پیش کر کے آزادانہ غور فکر اور تجربات و مشاہدات کا راستہ ہموار کیا ۔ اس سے قبل جن چیزوں کو مقدس مان کر ان کی پوجا کی جاتی تھی، اسلامی تہذیب نے اس پر غور و فکر شروع کر دیا اور یہی عمل بعد میں جدید سائنس کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ ارتقاء اور انسانی فہم و شعور کوآگے بڑھنے سے روکا نہیں جا سکتا، لہٰذا ہمیںآگے بڑھ کر اس کا حل نکالنا پڑے گا۔ آج سے چودہ سو سال پہلے انسانی شعور جس جگہ پر کھڑا تھا، آج ترقی کرتا ہوا بہت آگے نکل چکا ہے۔ سائنس نے کائنات کے ان گنت راز افشاں کر دیے ہیں اور اکیسویں صدی کی مغربی تہذیب اور مغربی فکر و فلسفے نے آدھی دنیا فتح کر لی ہے۔ اب مسئلہ یہ پیدا ہو رہا ہے کہ اسلامی شریعت جو اس وقت کے انسانی فہم کو بنیاد بنا کر نازل ہوئی تھی، موجودہ دور میں ان کی تفہیم کے حوالے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ جدید علوم، جدید سائنس اورجدید مغربی فکر و فلسفہ ان کے بالکل مخالف پوزیشن پر کھڑا ہے اور ان پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے ۔ یہ حملے اس قدر شدید اور خطرناک ہیں کہ ہمارے بعض مسلمان بھائی ان کی زد میں آ کر ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ماضی میں یہ حملے یونانی فلسفے اور مقامی مذاہب اور متھالوجی کی طرف سے ہوتے تھے، لیکن ایک تو اسلامی تہذیب غالب تھی اور دوسرا انہیں رسپانڈ کرنے کے لیے پورا علم الکلام موجود تھا۔ لیکن آج ہمارا مسئلہ تھوڑا مختلف ہے ۔ ہمارے سامنے جو محاذ ہے، اس میں جدید علوم ، جدید سائنس اور جدید مغربی فکر مورچہ زن ہے لیکن ہم آج بھی یونانی فلسفے اور قدیم متھالوجی کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں ۔ اب یہ جو خلیج پیدا ہو رہا ہے، اس کا حل کیا ہے اور ہم اس خلیج کو کیسے پر کر سکتے ہیں؟ اس کے لیے ہمارے پاس دو آپشن ہیں ۔ ایک، ہم نیو تھیا لوجی یا علم الکلام کے نام سے ایک کورس ڈیزائن کریں اور اسے اپنی یونیورسٹیوں میں پڑھانا شروع کر دیں ۔ میرے خیال میں یہ آپشن ممکن نہیں کیونکہ نئے علم الکلام کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے قدیم کلامی مباحث اور دینی نصوص پر گہرا عبور ہونا ضروری ہے، اس کے لیے عربی سے مناسب حد تک واقفیت بھی لازمی شرط ہے اور ہمارا یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ ان تمام چیزوں سے ادنیٰ واقفیت بھی نہیں رکھتا ۔ اسے کلامی مباحث سے بھی واقفیت نہیں اور اسے عربی کے معرب اور مبنی کا بھی نہیں پتا، لہٰذا ہم یہ آپشن استعمال نہیں کر سکتے ۔ اگر کرتے بھی ہیں تو اس سے نتئج حاصل نہیں کر سکتے ۔ 
ہمارے پاس دوسرا آپشن دینی مدارس ہیں۔ دینی مدارس میں پہلے ہی علم الکلام کے نام سے ایک سبجیکٹ داخل نصاب ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ وہی علم الکلام ہے جو قدیم یونانی فلسفے، مقامی مذاہب اور معتزلہ کو رسپانڈ کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔جدید علوم وفنون، جدید سائنس اور جدید مغربی فکر و فلسفہ کیا کہہ رہے ہیں اور کون سے سوالات کھڑے کر رہے ہیں، اس حوالے سے مباحث اس میں شامل نہیں ۔ صرف تھوڑی سے ترمیم و اضافہ سے اس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ مدارس کے ذمہ داران ایک کمیٹی تشکیل دیں، یہ کمیٹی مسائل کا جائزہ لے ، اس کے لیے ایک کورس مرتب کرے اوراسے نصاب کا حصہ بنادے ۔ مدارس کے طلباء جو قدیم کلامی مباحث سے بھی واقف ہیں ، دینی نصوص پر بھی انہیں عبور حاصل ہے اور عربی سے بھی انہیں شناسائی ہے ،یہ طلباء محض تھوڑی سی محنت سے اس قابل ہو سکیں گے کہ اس خلیج کو پر کر سکیں ۔
اس سے بھی زیادہ بہتر صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے ہاں مدارس میں کئی قسم کے تخصصات چل رہے ہیں ،ان میں ایک تخصص جدید مغربی فکر و فلسفے کے نام سے شروع کر دیا جائے۔ اس میں ان طلباء کی ترجیح دی جائے جو درس نظامی کے ساتھ انگلش پر بھی مناسب حد تک عبور رکھتے ہوں تاکہ وہ اصل ماخذات سے اس فکر اور فلسفے کو سمجھ کر اس کو رسپانڈ کر سکیں ۔ یہ کام آج نہیں تو کل بہر حال ارباب مدارس کو کرنا ہو گا اور یہ ان کی دینی و ملی ذمہ داری ہے ۔ 
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ اور ڈاکٹر ماہان مرزانے مدرسہ ڈسکورس شروع کر کے فرض کفایہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں اس چیز کا احساس کیسے ہوا؟ اس کی وجہ ان کا وہ ماحول اور سوسائٹی ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر نئی چیز کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح کی فضا اس کورس کے بارے میں بھی کچھ حلقوں میں پائی جاتی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں چیزوں کو وسیع تر تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ دار العلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے پڑھے ہوئے ہیں، لیکن اپنے بعض افکار کی وجہ سے مین اسٹریم میں قابل قبول نہیں۔ اس کی وجہ شاید ان کا وہ پس منظر اور تناظر ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں۔ تناظر کے بدلنے سے دیکھنے کا زاویہ بھی بدل جاتا ہے۔ وہ مغرب میں جس سوسائٹی اور معاشرے میں رہ رہے ہیں، ان کی تفہیم اور ہماری تفہیم میں فرق کا آجانا ایک لازمی امر ہے اور ہمیں اس بات کو کھلے دل سے قبو ل کرنا چاہیے۔ ہاں، اگر یہ تفہیم بنیادی عقائد اور متعین نصوص کے باب میں ہوتو الگ بات ہے ۔ 
جہاں تک میں ڈاکٹر صاحب کو جانتا ہوں، ان کی نیت میں کوئی شک نہیں ، وہ خود مدارس کے پڑھے ہوئے ہیں اور ان کاماننا ہے کہ یہ خلیج صرف مدارس کے طلباء ہی پر کر سکتے ہیں، اس لیے انہوں نے مدارس کے طلباء سے ہی اس کورس کا آغاز کیا۔ البتہ کورس میں شریک بعض دوست شعوری یا غیر شعوری طور پر مدارس اور ارباب مدارس کے بارے میں غیر متوازن رویہ رکھتے ہیں۔ شاید یہ طرز عمل ٹھیک نہیں ۔ محض تنقیدبرائے تنقید کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ، آپ مثبت سوچ اور مثبت رویے کے ساتھ اپنے حصے کا چراغ جلائیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ آپ کو جس چیز کا احساس ہو چکا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ اس کا احساس ہمارے بڑوں کو بھی ہونا چاہئے تو احسن طریقے سے اپنی بات کو ان تک پہنچانے کی کوشش کریں، قطع نظر اس کے کہ کوئی آپ کی بات سنتا ہے یا نہیں۔کیونکہ ہر نئی بات کہنے والے کو اسی طرح کے طرز عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اور اگر آپ بجائے اپنی بات کو ان تک پہنچانے کے الٹا ان اداروں اور ان افراد پر تنقید شروع کر دیں گے تو اس سے بجائے فائدے کے الٹا نقصان ہو گا اور کورس کے منتظمین کے جو نیک مقاصد ہیں، وہ بھی ہدف تنقید بن جائیں گے اور اس ساری تگ و دو کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔اگر آپ یہ مثبت طرز عمل اختیار کرتے ہیں تو یہ تنقید برائے تنقید سے کہیں زیادہ سود مند ثابت ہو گا۔ 

مدرسہ ڈِسکورسز کا وِنٹر اِنٹنسو ۔ میرے تاثرات

سید مطیع الرحمٰن

مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے سمسٹر کے بعد نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کی جانب سے حمد بن خلیفہ یونیورسٹی دوحہ (قطر) میں ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔ یہ ورکشاپ 25 دسمبر تا 30 دسمبر 2017ء تک جاری رہی۔ 
قطر میں ایک پورا علاقہ ایجو کیشن سٹی کے نام سے موسوم ہے جہاں یونیورسٹیز ، کالجز ،لائبریریز قریب قریب واقع ہیں۔ حمد بن خلیفہ یونیورسٹی بھی اسی علاقے میں ہے۔ یہ یونیورسٹی 2007ء میں قائم کی گئی۔غالباً یہ وہی یونیورسٹی ہے جس کے نظام و نصاب کے لیے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی خدمات لی گئی تھیں۔ہماری ورکشاپ کے دنوں میں یہاں تعطیلات تھیں۔ نہایت خوبصورت کلاس رومز ، اعلیٰ درجے کی سہولیات سے مزین آڈیٹوریم ، لائبریری،شاندار مسجد ، اور بہت ہی بااخلاق اور معاون عملہ موجود تھا۔
ورکشا پ کی ترتیب کچھ یوں تھی کہ پہلاڈیڑھ گھنٹے کا سیشن لیکچر پر مشتمل ہوتا۔ پھر پندرہ منٹ کی بریک کے بعد لیکچر کابقیہ حصہ اور سوال وجواب کی نشست ہوتی۔ اس کے بعد نماز اور دوپہر کا کھانا۔ دوپہر کے کھانے کے لئے بہترین ہوٹلز کا انتخاب کیا گیا، ڈشز اتنی ہوتیں کہ ہر کسی کو اس کی پسند کی ڈش مل جاتی۔ ہوٹل سے دوبارہ یونیورسٹی واپسی ہوتی، پھر ڈسکشن روم میں طلبہ کے چھ یا سات گروپ تشکیل دے دیے جاتے اور انہیں اس دن کے لیکچرکے بنیادی اور اہم نکات پر گفتگوکرنے اور سوالات تیار کرنے کا کام سونپاجاتا۔ اساتذہ اس گروپ ڈسکشن میں خود بھی طلبہ کے ساتھ بیٹھتے اور ان کی گفتگو کو سنتے۔ تما م طلبہ اپنے اپنے نکات، گروپ میں ڈسکس کرتے اور سوالات تیارکرتے جس کا جواب وہی استاذ دیتے جن کا اس دن لیکچر ہوتا۔ گروپس روزانہ کی بنیاد پر نئے بنائے جاتے تاکہ تمام طلبہ کا ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ و مباحثہ ہو سکے اور ایک دوسرے سے خیالات کا تبادلہ زیادہ مفید انداز میں ہو سکے۔ یہ سیشن بھی ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ڈسکشن کے دوران میں مختلف طلبہ کی مختلف آراء نے ذہن کو کئی نئی وسعتوں سے روشناس کرایا اور کئی نئے زوایہ ہائے فکر سامنے آئے۔ اساتذہ باری باری تمام گروپس کے سوالات کے جوابات دیتے۔ اس کے بعد دو گھنٹے کے لیے ہوٹل میں آرام کے لیے لے جایا جاتا۔ شام کے بعد اگلے دن کے لیکچر کی تیاری کے لیے دیے گئے مواد کو پڑھنے اور اس پر غور خوض کاسیشن ہوتا۔ اساتذہ اس ٹاسک میں بھی طلبہ کی ہر طرح کی معاونت کرتے۔اس سیشن کے بعدرات کے کھانے کے لیے کوچ کیا جاتا اور اس کے بعد تقریباً رات آٹھ بجے آرام کے لیے ہوٹل پہنچ جاتے۔
علمی و فکری دنیا میں خلوص اور علمی دیانت دو نہایت جلیل القدر اقدار ہیں جن کے بغیر صراطِ مستقیم پر دو قدم بھی چلنا محال ہے۔ تمام اساتذہ میں ان اقدار کو بدرجہ اتم موجود پایا۔ ان کا ہاں روایت پر بھی گہری نظر موجود ہے اور جدید مباحث و نظریات پر بھی پوری بصیرت۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسہ ڈسکور سز کے ایک سمسٹر کے بعد، اسلامی روایت کے بارے میں خود کو فکری طورپر اعتماد کی فضا میں محسوس کر رہا ہوں۔ ایمان کو شعوری اور فکری طور پر بھی قلب و ذہن میں جاگزیں ہوتا محسوس کر سکتا ہوں۔ اپنی روایت میں جب غزالی، ابن تیمیہ، ابن رشد، ابن حزم اوررازی جیسے عبقر یوں کی منتخب تحریریں نظر سے گزریں تو اسلامی روایت کو نہایت مضبوط فکری بنیادوں پر استوار پایا۔
ڈاکٹر ماہان مرزا جو اس پورے پروگرام کی جان ہیں، نہایت ہی زندہ دل ، خوش مزاج اور خوش دل انسان ہیں۔ پوری تندہی اور چستی سے ہر گام ہمارے ساتھ رہے۔ ہماری حس مزاح کو بھی گدگداتے رہے اور ہمیں ہوٹل ، یونیورسٹی اور دیگر مقررہ جگہوں پر وقت پر پہنچنے کا پابند بھی کرتے رہے۔ سیشنز کے اختتام پر بسوں کی طرف کوچ کرنے کے لیے ان کا نعرہ ’’اِلیَ البَسَّین‘‘ ابھی بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔ الوداعی ڈنر میں ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ نے سر ماہان کے لیے ایک جملے میں ہم سب کی دلی ترجمانی کردی: ?Who can do without Mahan۔ ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا،پھر اس جملے پر سر ماہان کے ایک تبصرے نے پوری محفل کو کشت زعفران بنادیا۔
ایک نہایت قیمتی پہلو اس ورکشا پ کا یہ تھا کہ سیشن کے درمیان چائے اور کافی بریک میں،آڈیٹوریم سے ہوٹل تک ، ڈسکشن روم سے مسجد تک، یہاں تک کہ کھانے کے دوران میں بھی اساتذہ سے کسی بھی موضوع پر سوال کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔ اساتذہ نہایت توجہ سے سوال سنتے اور پوری تفصیل سے جواب دیتے۔ اچھے سوالات کو بعض دفعہ اساتذہ لیکچر یا ڈسکشن سیشن میں تمام طلبہ کے سامنے دہراتے،سراہتے اور اس کے جوابات کی مختلف جہتیں سامنے لاتے۔
میرے نزدیک اس پوری ورکشاپ میں جو مباحث بنیادی اہمیت کے حامل تھے، ان میں مرکزی بحث جدید لسانی مباحث کی تھی اور اسی کے تناظر میں دورِ جدید کی فکری تحدیات کو دیکھا گیا۔ گزشتہ نصف صدی سے ساختیات،پس ساختیات اور مابعد ساختیات کے نظریات و مباحث نے متن کی تفہیم کے نئے نئے زاویے اور نئی نئی جہات متعارف کروائی ہیں جس سے مذہبی متون کے لیے نئی تحدیات سامنے آئی ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر توشی ہیکو ازوتسو کی منتخب تحریر اور پروفیسر ابراہیم موسی کے مضامین زیر بحث آئے جن میں دینی متون کے حوالے سے روایت اور جدید لسانی زاویہ نظر کو بیا ن کیا گیا ہے۔ اسی طر ح سر عمار ناصر نے الفاظ کے حقیقی اور مجازی معانی اور ان کی تعیین کے اصول و قواعد پر سیر حاصل گفتگو فرمائی اور اس پہلو پر خوب روشنی ڈالی کہ زبان اور اہل زبان کے ہاں عمومی طورپر یہ اصول طے شدہ ہوتے ہیں کہ کس مقام پر لفظ کامجازی معنی مراد لیا جا سکتا ہے اور کہاں حقیقی۔ سر وارث مظہری نے بھی اسی پہلو کو زیرِ بحث لاتے ہوئے امام غزالی اورامام ابن تیمیہ کے اصولِ تاویل کو موضوعِ بنایا، خاص طور پر امام غزالی کی "اصول التاویل" کی روشنی میں اہل تاویل کے پانچ گروہوں اور ان کے اصولِ تاویل کا مطالعہ پیش فرمایا۔ اردن سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر رنا دجانی کے ہاں بھی الفاظِ قرآنی کی تاویل کا ایک اطلاق ڈاورن کے نظریہ ارتقا ء اور تخلیقِ آدم کے قرآنی بیانات کے ضمن میں سامنے آیا۔ 
اس ساری گفتگو سے یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ جدید علم اور قدیم متن کے مابین بنیادی مسائل میں اہم ترین مسئلہ متن کی تاویل کے امکانات اور اس کی حدود کا تعین کرنا ہے۔ تاویل کی حدود اور قرآنی الفاظ کے ممکنہ معانی اور اس معانی میں سے جدید دور کے تناظر میں چناؤ اور بقول پروفیسر توشی ہیکو ان الفاظ کے ساخت اور بناوٹ میں شامل اس دور کی ثقافت اور نظریہ کائنات کے بنیادی اجزا ء کا مطالعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وہ بنیاد ی مسئلہ ہے جو اس پوری ورکشا پ کے علمی مکالمے کا محور بنا رہا۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے چند اہم باتیں اگر ملحوظ رکھی جائیں تو اس بحث کے حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے:
ایک بنیادی اصول یہ مدنظر رکھنا ہوگا کہ تاویل کے حوالے سے کوئی بھی ایک اصول ہر ہر آیت پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں مختلف آیات کو مختلف گر وپس میں تقسیم کیاجا ئے اور تمام گرو پس پر الگ اصولِ تطبیق لاگو کرنے کی کوشش کی جائے۔
الفاظ اور ان کے اندر معانی اور اس کی مختلف تعبیرات کے حوالے سے تمدن عر ب،عر ب کا نظریہ حیات و کائنات اور جاہلی شاعری کو مدنظر رکھا جائے۔ بہت سی آیاتِ قرآنی جن کی تفہیم آج محلِ نظر ہے، وہ عرب کے مشرکین کے ہاں بھی اعتراض کی وجہ نہیں بنیں۔
ہماری علمی میراث اور روایت میں موجود اس مسئلہ سے متعلق علمی و فکری مباحث کو خام مال کی طرح لے کر نئی عمارت کھڑی کی جائے۔نہ اپنی روایت سے بے اعتنائی کا رویہ درست ہے اور نہ ہی اسی کے گر د طواف کر نے کا۔ختمِ نبوت کو اقبال اپنے خطبات میں رحمتِ خداوندی قرار دیتے ہیں۔ تاویل کی وسعت کے حوالے سے ہمیں ختم نبوت کی حکمتوں کو سمجھنا ہوگا کہ آخر کیوں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقت میں وحی کا سلسلہ ختم دیا اور چند ہزار فقروں تک محدود کر دیا۔
مذہبی متن اور انسانی ذہن کے مابین تعلق محض تعقلی نہیں، وجدانی بھی ہے۔ ان وجدانی دوائر و جہات کو بھی کھو جنے کی ضرورت ہے جس کے بارے میں واضح اشارے امام غزالی کے ہاں بھی ملتے ہیں۔
تاویل کرتے ہوئے قرآنی احکام کی بنیادی روح کو متاثر نہ کیا جائے۔ یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ قرآنی احکام کی روح بڑی نمایاں اور ظاہرہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ آیاتِ قرآنیہ کی روح نہایت پوشیدہ اور کوئی چیستان ہو جس کی تفہیم جو ئے شیر لانے کے مترادف ہو، بلکہ اس کے علل و مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے متن کی شرح کی نئی جہات متعین کی جائیں۔
ورکشا پ کے اختتام پر الوداعی ڈنر کے موقع پر تمام اساتذہ نے باری باری اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اور نہایت محبت بھرے جذباتی انداز میں طلبہ کو رخصت فرمایا۔اس موقع پر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کی آنکھوں میں مچلتے آنسو صاف دکھائی دے رہے تھے۔اللہ ان تمام اساتذہ کی مساعیِ جمیلہ و عظیمہ اور اخلاص کو قبول فرمائے۔

الشریعہ اکادمی میں اسلامی تاریخ پر کوئز مقابلہ

مولانا محفوظ الرحمٰن

تاریخ کا علم نسل انسانی کی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ تاریخ سے سابقہ اقوام کی سرگزشت معلوم ہوسکتی ہے۔ قرآن کریم نے بھی سابقہ اقوام کے قصوں کوبڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرکے آنے والے لوگوں کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ بنایا ہے۔ ہماری اسلامی تاریخ کا ایک تابناک دورتھاجس سے واقفیت اور اطلاع نئی نسل کو بہتر راستے پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ہماری تاریخ میں ایک دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کاہے جس کوسیرت طیبہ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے بعدخلفاء راشدین کا دور ہے اور پھر خلافت بنوامیہ اورخلافت بنوعباس اور اس کے بعد خلافت عثمانیہ بڑے طمطراق والی خلافتیں گزری ہیں۔ 
سیرت وتاریخ کی اسی اہمیت کے پیش نظر الشریعہ اکادمی میں گزشتہ چند سال سے سیرت اور تاریخ کے موضوع پر کوئز مقابلے منعقد کیے جا رہے ہیں۔ سیرت نبوی کے علاوہ خلفاء اربعہ، حضرت معاویہ، حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرات حسنین کریمین کی زندگیوں پر مقابلے منعقد کیے جا چکے ہیں۔ امسال کوئز مقابلہ کے لیے خلافت بنوامیہ اور خلافت عباسیہ کا موضوع منتخب کیا گیا۔ 
مقابلے کا انعقاد دو مرحلوں میں کیا گیا جس میں شہر کے مختلف مدارس سے طلبہ نے شرکت کی۔ ہرٹیم تین تین شرکاء پرمشتمل تھی۔ مدرسہ ابوایوب انصاری کی ایک ٹیم جبکہ جامعہ حقانیہ، جامعہ مدینۃالعلم، جامعہ دارالعلوم گوجرانوالہ اور الشریعہ اکادمی سے دو دو ٹیمیں شریک ہوئیں۔ مقابلہ کاپہلاسیشن ۱۱ جنوری کو مکمل ہوا جس میں کامیاب ہوکر فائنل مرحلے میں پہنچنے والی آٹھ ٹیموں نے ۱۸ جنوری کو مقابلے کے آخری راؤنڈ میں حصہ لیا۔ مقابلہ ہر لحاظ سے دلچسپ رہا۔ طلبہ کی ان تھک جدوجہداورانتہائی لگن سے کی ہوئی تیاری قابل دادتھی جس میں ہرخلیفہ کی زندگی، کارنامے اور دیگر تاریخی امور زیر بحث لائے گئے۔
مقابلہ میں الشریعہ اکادمی کی ٹیموں نے اول اور سوم جبکہ جامعہ حقانیہ کے طلباء نے دوسری پوزیشن حاصل کرکے میدان جیتا۔ کانٹے دارمقابلہ میں سوالات کے جوابات اتنے بھرپورتھے کہ تقریباًتین دفعہ دو دو ٹیمیں برابر رہیں جن سے مزید سوالات کرکے ایک کوکامیاب قرار دیا جاتا رہا۔ سوالات تیار کرنے اور میزبانی کی ذمہ داری الشریعہ اکادمی کے استاذ مولاناعبدالغنی محمدی نے بخوبی سرانجام دی، جبکہ اکادمی کے دیگراساتذہ اورعملہ نے پروگرام کی کامیابی کے لیے بھرپور محنت کی۔ 
شرکاء کوقیمتی انعامات اورشیلڈز سے نوازاگیا۔ انعامات کی تقریب میں اول آنے والی ٹیم کو۹۰۰۰ روپے مع قیمتی کتب، دوم آنے والی ٹیم کو ۶۰۰۰ روپے مع قیمتی کتب اورسوم آنے والی ٹیم کو۴۵۰۰روپے مع قیمتی کتب دی گئیں۔ انعامات الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹرحضرت مولانا زاہدالراشدی دام مجدہ نے اپنے دست مبارک سے دیے۔ بعد ازاں مولانا زاہد الراشدی مدظلہ نے مختصر گفتگو فرمائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ علماء کرام سب سے زیادہ فن تاریخ میں کمزور شمار ہوتے ہیں، چنانچہ فن تاریخ سے واقفیت کی غرض سے چندسالوں سے اس مقابلے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ الحمد للہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ پورے ذوق سے جاری ہے۔ تاریخ کی اہمیت بیان کرنے کے بعد استاذمحترم مدظلہ نے طلبہ کو دعاؤں سے نوازا۔ طلبہ کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے لیے شہر بھر کے مدارس سے اساتذہ کرام کی ایک بڑی تعداد بھی اس موقع پر موجودتھی۔ اختتامی دعا جامعہ مدینۃ العلم کے بانی ومہتمم مولاناریاض جھنگوی صاحب نے کروائی اور یہ پررونق مجلس حاضرین کے عشائیے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ 

مارچ ۲۰۱۸ء

اسلامی شریعت اور حلالہ / ایک سوال نامہ اور اس کے مختصر جواباتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۰)ڈاکٹر محی الدین غازی
درک ’’درِ ادراک‘‘پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک
دینی مدارس میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائجمولانا مفتی محمد زاہد
موجودہ دور میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تکفیر کی اتھارٹی، علماء یا حکومت؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’پیغام پاکستان‘‘ : پس منظر اور پیش منظرمولانا حافظ عبد الغنی محمدی
تین طلاقوں کا مسئلہڈاکٹر مختار احمد
قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو سمجھنے میں غلطیمحمد ندیم پشاوری
مدرسہ ڈسکورسز : سفر قطر کے احوال و تاثراتمولانا محمد رفیق شنواری
’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘ڈاکٹر عرفان شہزاد

اسلامی شریعت اور حلالہ / ایک سوال نامہ اور اس کے مختصر جوابات

محمد عمار خان ناصر

ہمارے معاشرے میں دین وشریعت کے غلط اور مبنی بر جہالت فہم کے جو مختلف مظاہر پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک، حلالہ کی رسم ہے۔ مروجہ رسم کے مطابق حلالہ کا تصور یہ ہے کہ اگر شوہر، بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اب ان کے اکٹھا رہنے کے جواز کے لیے شرط ہے کہ عورت، عارضی طور پر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے، اس سے جسمانی تعلق قائم کرے اور پھر طلاق لے کر پہلے شوہر کے پاس واپس آ جائے۔ یعنی اس میں دو تین چیزیں پہلے سے طے ہیں: ایک یہ کہ یہ دوسرا نکاح وقتی اور عارضی مدت کی نیت سے ہوگا۔ دوسرا یہ کہ اس کا مقصد ہی پہلے شوہر کے لیے عورت کو حلال کرنا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ اس سارے عمل میں عورت کی مرضی کی کوئی اہمیت نہیں، اسے بس ایک بتایا گیا پروسیجر پورا کر کے بہرحال پہلے شوہر کے پاس واپس آنا ہے۔
اسلامی شریعت میں حلالہ کے اس تصور کی کوئی بنیاد نہیں۔ شریعت میں جو قانون دیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر شوہر دو دفعہ بیوی کو طلاق دینے کے بعد رجوع کر چکا ہو اور پھر تیسری مرتبہ بیوی کو طلاق دے دے تو اب وہ رجوع نہیں کر سکتا اور تیسری طلاق کے بعد وہ دونوں، میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ عورت اب کسی دوسرے مرد سے ہی نکاح کرے گی اور یہ نکاح ہرگز عارضی تعلق کی نیت سے اور پہلے شوہر کے لیے عورت کو حلال کرنے کے ارادے سے نہیں ہوگا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نیت سے نکاح کرنے والے اور پہلے شوہر، جس کے لیے نکاح کیا جا رہا ہے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور عارضی نکاح کرنے والے کو کرایے کے سانڈ سے تشبیہ دی ہے۔ اس طرح کا مقدمہ سامنے آنے پر سیدنا عمر نے دوسرے شوہر کو سخت زجر وتوبیخ کی اور اسے پابند کیا کہ اب وہ اس نکاح کو قائم رکھے۔ نیز یہ کہ اگر اس نے پہلے شوہر کے لیے عورت کو حلال کرنے کی غرض سے اسے طلاق دی تو اسے بدکاری کی پاداش میں سنگسار کیا جائے گا۔ جمہور فقہائے اسلام حلالہ کی نیت سے کیے گئے نکاح کو منعقد ہی نہیں مانتے اور نہ اس کی بنیاد پر عورت کو پہلے شوہر کے لیے حلال قرار دیتے ہیں۔ صرف حنفی فقہاء نے ایک فقہی نکتے کی بنیاد پر اس طریقے کو اصولاً واخلاقاً ناجائز قرار دیتے ہوئے صرف قانونی اثرات کی حد تک معتبر تسلیم کیا ہے۔ 
اس تفصیل سے واضح ہے کہ شریعت میں دراصل، عورت کو پہلے شوہر کے لیے حلال کرنے کا کوئی طریقہ تجویز نہیں کیا گیا، بلکہ تیسری طلاق کے بعد دونوں کے اکٹھے رہنے پر پابندی عائد کی ہے اور عورت سے کہا ہے کہ اب وہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ ہی زندگی گزارے۔ البتہ اگر کسی وجہ سے اتفاقاً دوسرے شوہر سے بھی علیحدگی ہو جائے اور عورت اپنی آزادانہ مرضی سے دوبارہ پہلے شوہر کے نکاح میں جانا چاہے اور دونوں کو یہ اطمینان ہو کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے رشتہ نکاح کو نباہ سکیں گے تو ایسی صورت میں شریعت انھیں دوبارہ نکاح کی اجازت دیتی ہے۔ اس طریقے کا، جیسا کہ واضح ہے، حلالہ کے مروجہ طریقے سے کوئی تعلق نہیں جو سر تا سر جہالت اور حرام حیلوں پر مبنی طریقہ ہے۔ اس میں شوہر کی غلطی کی سزا بیوی کو دی جاتی ہے جو غیر منصفانہ بھی ہے اور عورت کی تذلیل بھی۔ 
البتہ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ تیسری طلاق کے بعد شریعت میں مرد اور عورت کو اکٹھا رہنے سے کیوں روکا گیا ہے؟ اس کی حکمت عموماً یہ بتائی جاتی ہے کہ اس پابندی کے ذریعے سے، شوہر سے بیوی کو اذیت پہنچانے کا ایک ہتھیار چھین لیا گیا ہے، کیونکہ اگر شوہر کو طلاق دینے کے بعد عدت کے اندر بیوی سے رجوع کر لینے کا لا محدود اختیار حاصل ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ نہ تو اپنی ناپسندیدہ بیوی کو مکمل حقوق کے ساتھ نکاح میں رکھے گا اور نہ اسے بندھن سے آزاد کرے گا تاکہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کر لے۔ گویا زمانہ جاہلیت کے غیر اخلاقی طرز عمل کے تناظر میں شریعت میں شوہر پر یہ پابندی عائد کر دی گئی کہ وہ طلاق کے بعد رجوع کا حق صرف دو مرتبہ استعمال کر سکتا ہے، تیسری مرتبہ طلاق دینے پر اسے یہ حق حاصل نہیں ہوگا۔
یہ حکمت جزوی طور پر درست معلوم ہوتی ہے، لیکن اس سے حکم کی مکمل توجیہ نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ حکم کے مطابق پابندی صرف شوہر کے رجوع کرنے پرنہیں، بلکہ میاں بیوی کے اکٹھا رہنے پر عائد کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خود عورت بھی بدستور اس شوہر کے نکاح میں رہنے پر راضی ہو، تب بھی اس کی گنجائش نہیں اور عورت کو بہرحال کسی دوسرے آدمی سے ہی نکاح کرنا پڑے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پابندی صرف عورت کو ضرر سے بچانے کے لیے نہیں لگائی گئی، بلکہ اس میں کوئی دوسرا پہلو بھی ہے۔ ہماری رائے میں اس پابندی سے رشتہ نکاح کے تقدس کے حوالے سے شریعت کی مخصوص حساسیت کا اظہار ہوتا ہے۔ شریعت کی نظر میں یہ رشتہ محض مادی یعنی جسمانی وسماجی ضروریات کے پہلو سے اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ اسے ایک خاص طرح کا روحانی تقدس بھی حاصل ہے جو یہ تقاضا کرتا ہے کہ انسان اس رشتے کو معمولی سمجھتے ہوئے غیر سنجیدہ اور لا ابالی قسم کا رویہ اختیار نہ کرے۔ انسانی نفسیات میں اس حساسیت کو زندہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس رشتے کو قائم کرنے اور اسے ختم کرنے کے ضمن میں اس نوعیت کی کچھ پابندیاں عائد کی جائیں۔ شریعت کا منشا یہ ہے کہ نکاح کا رشتہ خوب سوچ سمجھ کر قائم کیا جائے اور ہمیشہ قائم رکھے جانے کے عزم کے ساتھ وجود میں لایا جائے۔ اگر کسی وجہ سے نباہ نہ ہو سکے تو اسے ختم کرنے کا فیصلہ بھی پوری طرح سوچ سمجھ کر اور اسی صورت میں کیا جائے جب موافقت اور ہم آہنگی کے امکانات بالکل ختم ہو جائیں۔ یہاں تک کہ طلاق دینے کا فیصلہ کیا جائے تو بھی ایک مخصوص مدت کے اندر فیصلے پر نظر ثانی کی گنجائش باقی رکھی گئی ہے، تاہم مذکورہ زاویہ نظر سے شریعت کی منشا یہ ہے کہ نظر ثانی کی گنجائش لامحدود نہیں، بلکہ محدود اور کچھ شرائط کے ساتھ مشروط ہو تاکہ طلاق کے حوالے سے غیر سنجیدگی اور لابالی پن کی نفسیات پیدا نہ ہو سکے۔
اسی نوعیت کی حساسیت ہمیں ظہار کے قانون میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ قبل از اسلام کی عرب معاشرت میں اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہہ دیتا کہ تم مجھ پر میری ماں کی طرح حرام ہو تو اسے حتمی اور ابدی حرمت کا مستوجب سمجھا جاتا تھا۔ اسلامی شریعت میں ابتداءً اسی قانون کو برقرار رکھا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ نکاح میں اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو شریعت بھی سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس تشبیہ کے بعد مرد اور عورت، میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہ رہیں۔تاہم ایک خاص واقعہ رونما ہونے پر اللہ تعالیٰ نے اس قانون میں آسانی پیدا کرتے ہوئے ترمیم کر دی اور سورۃ المجادلہ میں فرمایا کہ بیوی کو ماں سے تشبیہ دینے کے بعد ، دونوں کے بطور میاں بیوی رہنے کی گنجائش تو ہے، لیکن اس کے لیے شوہر کو، بالترتیب، ایک غلام آزاد کرنے یا دو مہینے کے مسلسل روزے رکھنے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ غور کیا جائے تو تیسری طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش باقی نہ رکھنے کے قانون میں بھی اسی نوعیت کی حکمت دکھائی دیتی ہے۔ 
اس بحث سے ان فقہاء کے نقطہ نظر کا وزن بھی واضح ہوتا ہے جو تیسری طلاق کے بعد رجوع کے عدم امکان کی پابندی کو اس صورت سے متعلق قرار دیتے ہیں جب شوہر نے الگ الگ موقعوں پر صورت حال کا بغور جائزہ لے کر بیوی کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا ہو۔ اگر اس طرح کے دو فیصلوں کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دی گئی ہو تو شریعت کی عائد کردہ زیر بحث پابندی کی حکمت پوری طرح برقراررہتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر کسی شخص نے وقتی جذبات کے زیر اثر نادانی میں بیک وقت تینوں طلاقیں دے دی ہوں تو قانون کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے رجوع کی گنجائش باقی رکھی جائے اور بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے عددکو بنیاد بنانے کے بجائے اس نکتے کو زیادہ اہمیت دی جائے کہ اس نے طلاق کا حق بہرحال ایک ہی موقع پر استعمال کیا ہے۔ علامہ ابن رشد المالکیؒ اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یوں لگتا ہے کہ جمہور فقہاء نے سد ذریعہ کے طور پر (یعنی تاکہ لوگ طلاق کے معاملے میں جری نہ ہو جائیں)، تین طلاقوں کے معاملے میں سختی کا طریقہ اختیار کیا (اور بیک وقت تین طلاقوں کو نافذ قرار دے دیا) ہے، لیکن اس سے وہ شرعی رخصت اور وہ آسانی جو شریعت کا مقصود ہے، فوت ہو جاتی ہے، یعنی جس کا ذکر اللہ تعالی ٰنے یوں کیا ہے کہ ہو سکتا ہے، اللہ اس کے بعد (موافقت اور مصالحت کی) کوئی راہ پیدا کر دے۔‘‘ (بدایۃ المجتہد ج ۲، ص ۶۲)


ایک سوال نامہ اور اس کے مختصر جوابات

1۔ پاکستان میں مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ابھرنے والی سیاسی قوتوں خاص طور پر بریلوی مسلک سے وابستہ ’’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘‘ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب : ایسی تحریکیں اپنے مسلکی فکر کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان سے عوامی سطح پر پائے جانے والے مذہبی جذبات ورجحانات کا اندازہ ہوتا ہے۔
2۔ پاکستان کی سیاست میں اس نئی مذہبی سیاسی قوت کی آمد کے معاشرتی اور سیاسی محرکات و وجوہات کیا ہیں؟
جواب : بریلوی مسلک کی پیروی پاکستانی عوام کی اکثریت کرتی ہے، تاہم کچھ عرصے سے مذہبی سیاست میں اس طبقے کی نمائندگی کوئی موثر شخصیت یا جماعت نہیں کر رہی۔ تحریک لبیک اسی احساس محرومی کا اظہار اور اس خلا کو پر کرنے کی کوشش ہے۔
3۔ ختم نبوت، توہین رسالت وغیرہ کے عنوان سے قائم مذہبی سیاسی جماعتیں اور ان کے شدت پسندی بیانیے کے حوالے سے ریاست کا کیا رسپانس ہونا چاہیے؟
جواب : ریاست کو آئین میں طے کردہ حدود کے مطابق ایسی تحریکوں کے جائز مطالبات کو وزن دینا چاہیے اور حدود سے متجاوز مطالبات کی، حکمت عملی اور فراست کے ساتھ مزاحمت کرنی چاہیے۔
4۔ مذکورہ بالا مقاصد کے تحت سیاسی میدان میں قدم رکھنے والی مذہبی سیاسی جماعت کس طرح آنے والے انتخابات کے ذریعے پاکستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟
جواب : پاکستانی سیاست میں مذہبی جماعتوں کی حیثیت پریشر گروپس کی ہے جو مذہبی حساسیت رکھنے والے ایشوز میں تو ایک موثر کردار ادا کر سکتی ہیں، لیکن انتخابی سیاست کے عمومی نتائج پر کوئی خاص اثر مرتب نہیں کر سکتیں، الا یہ کہ وقتی حالات اور ماحول سے ایسی کوئی فضا بن جائے، جیسے نائن الیون کے بعد متحدہ مجلس عمل کو ملی۔
5۔ آپ دیوبندی سیاسی جماعتوں اوربریلوی مسلک کی نئی ابھرتی ہوئی جماعت جیسے تحریک لبیک یا رسول اللہ کے تقابل کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں؟
جواب : ان دونوں طبقوں کی constituencies الگ الگ ہیں، اس لیے میرے خیال میں بظاہر براہ راست ٹکراو کا کوئی خاص امکان نہیں۔ البتہ اگر بریلوی مسلک کی نمائندہ جماعتوں کو سیاسی میدان میں ایک خاص سطح پر accommodate نہ کیا گیا تو وہ زیادہ شدت کے ساتھ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا راستہ اختیار کریں گی۔ اس لیے دوسری مذہبی سیاسی قوتوں اور خاص طور پر دیوبندی قیادت کو چاہیے کہ انھیں سیاسی میدان میں انگیج کر کے مذہبی سیاست کے مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کریں۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۳۵) فھم یوزعون کا ترجمہ

یوزعون کا لفظ قرآن مجید میں تین مقامات پر آیا ہے، یہ فعل مضارع ہے، لفظی لحاظ سے اس کا ماضی وزع بھی ہوسکتا ہے اور أوزع بھی ہوسکتا ہے، گو کہ معنوی پہلو سے وزع ہی درست لگتا ہے جس کے معنی روکنے کے ہیں، اور لشکر کو قابو میں رکھنے کے بھی ہیں، جبکہ أوزع کے معنی ترغیب وتوفیق دینے کے ہیں ، اہل لغت کے مطابق ایزاع توزیع کے ہم معنی ہوکرتقسیم کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے،بہرحال یہ مفہوم اگر ہو بھی تو استعمال میں رائج نہیں ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تینوں مقامات پر اس لفظ کے مختلف ترجمے کئے گئے ہیں:

(۱) وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُودُہُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوزَعُونَ۔ (النمل:۱۷)

’’سلیمانؑ کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے‘‘ (سید مودودی)
’’اور جمع کیے گئے سلیمان کے لیے اس کے لشکر جنوں اور آدمیوں اور پرندوں سے تو وہ روکے جاتے تھے‘‘(احمد رضا خان)
’’اور سلیمان کے لیے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اور قسم وار کیے جاتے تھے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’سلیمان کے سامنے ان کے تمام لشکر جنات اور انسان اور پرند میں سے جمع کیے گئے (ہر ہر قسم کی) الگ الگ درجہ بندی کردی گئی‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور سلیمان کے جائزے کے لیے ان کا سارا لشکر، جنوں انسانوں اور پرندوں میں سے، اکٹھا کیا گیا اور ان کی درجہ بندی کی جارہی تھی ‘‘(امین احسن اصلاحی، یہاں جائزے کے لیے نہیں بلکہ مہم پر نکلنے کے لیے مراد ہے، کیونکہ اس کے فورا بعد ایک مہم پر نکلنے کا تذکرہ ہے)
’’اور سلیمان کے لیے اکٹھا کردیے گئے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر، تو وہ پوری طرح منظم تھے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)

(۲) وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِن کُلِّ أُمَّۃٍ فَوْجاً مِّمَّن یُکَذِّبُ بِآیَاتِنَا فَہُمْ یُوزَعُون۔ (النمل:۸۳)

’’اور ذرا تصور کرو اُس دن کا جب ہم ہر امت میں سے ایک فوج کی فوج اُن لوگوں کی گھیر لائیں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے، پھر ان کو (ان کی اقسام کے لحاظ سے درجہ بدرجہ) مرتب کیا جائے گا‘‘(سید مودودی)
’’اور جس دن اٹھائیں گے ہم ہر گروہ میں سے ایک فوج جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتی ہے تو ان کے اگلے روکے جائیں گے کہ پچھلے ان سے آملیں‘‘ (احمد رضا خان)
’’اور جس روز ہم ہر اُمت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے تو اُن کی جماعت بندی کی جائے گی‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کے گروہ کو جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے گھیر گھار کرلائیں گے، پھر وہ سب کے سب الگ کر دیے جائیں گے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکٹھا کریں گے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے تھے، پس وہ پوری طرح منظم ہوں گے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)

(۳) وَیَوْمَ یُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللّٰہِ إِلَی النَّارِ فَہُمْ یُوزَعُون۔ (فصلت: ۱۹)

’’اور ذرا اُس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے، اُن کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا‘‘(سید مودودی)
’’اور جس دن اللہ کے دشمن آگ کی طرف ہانکے جائیں گے تو ان کے اگلوں کو روکیں گے‘‘(احمد رضا خان)
’’اور جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کرلیے جائیں گے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف لائے جائیں گے اور ان (سب) کو جمع کر دیا جائے گا‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے، پس وہ پوری طرح منظم ہوں گے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
مذکورہ ترجموں پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک ہی لفظ اور ایک ہی اسلوب (فھم یوزعون) کا بعض مترجم تینوں مقامات پر الگ الگ ترجمہ کرتے ہیں، مثال کے طور پر صاحب تفہیم نے پہلے مقام پر قابو میں رکھنا، دوسرے مقام پر اقسام کے لحاظ سے درجہ بدرجہ مرتب کرنا اور تیسرے مقام پر روکنا ترجمہ کیا ہے۔
موخر الذکر دونوں آیتوں کا بہت سے لوگوں نے روکنے کا ترجمہ کیا ہے، وزع کے معنی روکنا ہوتے ہیں مگر وہ روکنا چلتے ہوئے شخص کو روکنا نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی کام سے کسی کوباز رکھنا ہوتا ہے۔اسی کو قابو میں رکھنا کہتے ہیں۔
لشکر کے ساتھ جب یہ لفظ آتا ہے تو اس کا مفہوم لشکر کو منظم اور ڈسپلن میں رکھنا ہوتا ہے۔ اوریہی مفہوم مذکورہ بالا تینوں مقامات پر زیادہ بہتر طریقے سے فٹ ہوتا ہے۔

(۱۳۶) غنم کا ترجمہ

غنم کا لفظ قرآن مجید میں تین جگہ آیا ہے، اس لفظ کے اندر بھیڑ اور بکری دونوں شامل ہوتے ہیں، (الغنم) القطیع من المعز والضأن. المعجم الوسیط (۲؍۶۶۴)
صرف بھیڑ کے لیے ضأن اور صرف بکری کے لیے معز آتا ہے، قرآن مجید میں مذکورہ ذیل ایک مقام پر دونوں ایک ساتھ استعمال ہوئے:

ثَمَانِیَۃَ أَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَیْْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْْنِ۔ (الانعام: ۱۴۳)

(یہ بڑے چھوٹے چارپائے) آٹھ قسم کے (ہیں) دو (دو) بھیڑوں میں سے اور دو (دو)بکریوں میں سے (یعنی ایک ایک نر اور اور ایک ایک مادہ)۔(فتح محمدجالندھری)
ہشت جفت آفریدہ است: از گوسفند دو جفت و از بز دو جفت. (خرمدل)
Eight pairs: Of the sheep twain, and of the goats twain. (Pickthall)
(Take) eight (head of cattle) in (four) pairs: of sheep a pair, and of goats a pair; (Yusuf Ali)
اس آیت کے ترجمے میں ایک غلطی عام طور سے ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ثمانیۃ أزواج کا ترجمہ آٹھ جوڑے یا آٹھ قسمیں کیا گیا ہے، حالانکہ قسمیں یا جوڑے چار ہیں، البتہ ان چار قسموں کے افراد یا چار جوڑوں کی جوڑیاں آٹھ ہیں۔ اس پہلو سے اوپر درج کئے گئے ترجمے تصحیح طلب معلوم ہوتے ہیں۔ آٹھ قسم، ہشت جفت، Eight pairsلفظ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتے۔
اس آیت کے ترجموں کو یہاں ذکر کرنے سے سے یہ واضح کرنا بھی مقصود ہے کہ عربی کے ان دونوں الفاظ یعنی ضأن اور معز کے مختلف زبانوں میں متبادل الفاظ کیا ہیں۔ ان دونوں الفاظ کے مقابلے میں غنم کا لفظ چونکہ ضأن اور معز یعنی بھیڑ اور بکری دونوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے اس کا ترجمہ صرف بھیڑ یا صرف بکری کرنے سے لفظ غنم کا حق ادا نہیں ہوتا ہے۔ 
مندرجہ ذیل تینوں آیتوں کے ترجموں کا اس پہلو سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

(۱) وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُواْ حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ شُحُومَہُمَا إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُہُورُہُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْم۔ (الانعام: ۱۴۶)

’’اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے اور گایوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کر دی تھی سوا اس کے جو ان کی پیٹھ پر لگی ہو یا اوجھڑی میں ہو یا ہڈی میں ملی ہو‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’(این چیزھائی بود کہ بر شما حرام کردہ ایم) و بر یھودیان ھر (حیوان) ناخنداری (یعنی: درندگان کہ دارای پنجہ ھای قوی، و پرندگان شکاری کہ از چنگال نیرومند برخوردارند) حرام کردہ بودیم، و از گاو و گوسفند (تنھا) پیہ ھا و چربیھای آنھا را بر آنان حرام نمودہ بودیم، مگر پیہ ھا و چربیھائی کہ بر پشت اینھا یا در اندرونہ (و لابلای احشاء و امعاء) قرار دارد و یا پیہ ھا و چربیھائی کہ آمیزہ ی استخوان گردیدہ است‘‘(خرمدل)
Unto those who are Jews We forbade every animal with claws. And of the oxen and the sheep forbade We unto them the fat thereof save that upon the backs or the entrails, or that which is mixed with the bone. (Pickthall)
For those who followed the Jewish Law, We forbade every (animal) with undivided hoof, and We forbade them that fat of the ox and the sheep, except what adheres to their backs or their entrails, or is mixed up with a bone. (Yusuf Ali)

(۲) وَدَاوُدَ وَسُلَیْْمَانَ إِذْ یَحْکُمَانِ فِیْ الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَکُنَّا لِحُکْمِہِمْ شَاہِدِیْن۔ (الانبیاء:۷۸)

’’اور داؤد اور سلیمان (کا حال بھی سن لو کہ) جب وہ ایک کھیتی کا مقدمہ فیصلہ کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چر گئی (اور اسے روند گئی) تھیں اور ہم ان کے فیصلے کے وقت موجود تھے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’(و یاد کن) داود و سلیمان را، ھنگامی کہ دربارہ ی کشتزاری کہ گوسفندان مردمانی، شبانگاھان در آن چریدہ و تباھش کردہ بودند، داوری می کردند، و ما شاھد داوری آنان بودیم‘‘(خرمدل)
And remember David and Solomon, when they gave judgment in the matter of the field into which the sheep of certain people had strayed by night: We did witness their judgment. (Yusuf Ali)
And David and Solomon, when they gave judgment concerning the field, when people's sheep had strayed and browsed therein by night; and We were witnesses to their judgment.(Pickthall)

(۳) قَالَ ہِیَ عَصَایَ أَتَوَکَّأُ عَلَیْْہَا وَأَہُشُّ بِہَا عَلَی غَنَمِی۔ (طہ:۱۸)

’’انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے۔ اس پر میں سہارا لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’پاسخ داد کہ این عصای من است و بر آن تکیہ می کنم و با آن گوسفندانم را می رانم و برای آنھا برگ می ریزم‘‘ (خرمدل)
He said: This is my staff whereon I lean, and wherewith I bear down branches for my sheep, (Pickthall)
He said, "It is my rod: on it I lean; with it I beat down fodder for my flocks;" (Yusuf Ali)
مذکورہ بالا ترجموں کو دیکھنے پر ایک بڑی اہم اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ تمام اردو مترجمین غنم کا ترجمہ بھیڑ نہیں کرکے بکری کرتے ہیں، اور تقریباً تمام انگریزی مترجمین اس کا ترجمہ Sheep کرتے ہیں جس کے معنی بھیڑ کے ہیں، اور تمام فارسی مترجمین اس کا ترجمہ گو اسفند کرتے ہیں، جو بھیڑ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یہ دیکھ کر ذہن اس طرف جاتا ہے کہ ہندوستان میں بھیڑ کے مقابلے میں بکری کا رواج زیادہ ہے، اس لیے ترجمہ کرتے وقت اس کا اثر زیادہ رہا، جبکہ دوسرے علاقوں میں بھیڑ کا رواج ترجمہ پر اثر انداز رہا۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ مذکورہ تینوں مقامات پر غنم کا ترجمہ مویشی یا ریوڑ یا’’بھیڑ بکری‘‘ ہونا چاہیے، تاکہ لفظ میں موجود معنی کی وسعت میں کوئی کمی واقع نہیں ہو۔غنم ترجمہ کرتے وقت بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر کرنے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ قرآن مجید میں (جیسا کہ اوپر گزرا) ایک مقام پر صراحت کے ساتھ بھیڑ اور بکری دونوں کا خصوصیت کے ساتھ الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔

(۱۳۷) اولیاء کا ترجمہ

أولیاء کا لفظ ولی کی جمع ہے، جس کا اصل مطلب دوست ہے، فیروزآبادی لکھتے ہیں: 

الوَلْیُ: القُرْبُ والدُّنُوُّ، المَطَرُ بَعْدَ المَطَرِ، وُلِیَتِ الأرضُ، بالضم۔ والوَلِیُّ: الاسمُ منہ، والمحبُّ، والصدیقُ والنصیرُ۔ القاموس المحیط

بعض مقامات پر اس کا ترجمہ لوگوں نے معبود اور کارساز وغیرہ بھی کیا ہے، لیکن کبھی محل کلام خود تقاضا کرتا ہے کہ اس لفظ کا ترجمہ دوست کیا جائے، کوئی اور ترجمہ وہاں مناسب نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے ذیل کی آیتوں کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

(۱) وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ فَیَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہَؤُلَاءِ أَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ۔ قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنبَغِیْ لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَاءَ وَلَکِن مَّتَّعْتَہُمْ وَآبَاءَ ہُمْ حَتَّی نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوا قَوْماً بُوراً۔ (الفرقان:۱۷،۱۸)

’’اور وہ وہی دن ہو گا جبکہ (تمہارا رب) اِن لوگوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے اُن معبودوں کو بھی بُلا لے گا جنہیں آج یہ اللہ کو چھوڑ کر پوج رہے ہیں، پھر وہ اُن سے پوچھے گا ’’کیا تم نے میرے اِن بندوں کر گمراہ کیا تھا؟ یا یہ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے؟‘‘وہ عرض کریں گے ’’پاک ہے آپ کی ذات، ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولا بنائیں مگر آپ نے اِن کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامانِ زندگی دیا حتیٰ کہ یہ سبق بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے‘‘(سید مودودی)

قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنبَغِیْ لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَاءَ 

کے مزید ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’وہ کہیں گے کہ پاک ہے تیری ذات ہمیں یہ حق نہیں تھا کہ ہم تجھے چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مولا بنائیں‘‘ (محمد حسین نجفی)
’’وہ عرض کریں گے پاکی ہے تجھ کو ہمیں سزاوار (حق) نہ تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو مولیٰ بنائیں‘‘ (احمد رضا خان)
’’کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ کب لائق تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو کارساز بناتے‘‘ (احمد علی)
’’وہ کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ بات شایان نہ تھی کہ تیرے سوا اوروں کو دوست بناتے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ذات ہے خود ہمیں ہی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا اوروں کو اپنا کارساز بناتے‘‘(محمد جوناگڑھی)

(۲) وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ یَقُولُ لِلْمَلَائِکَۃِ أَہَؤُلَاءِ إِیَّاکُمْ کَانُوا یَعْبُدُونَ۔ قَالُوا سُبْحَانَکَ أَنتَ وَلِیُّنَا مِن دُونِہِم بَلْ کَانُوا یَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَکْثَرُہُم بِہِم مُّؤْمِنُون۔ (سبا: ۴۰، ۴۱)

’’اور جس دن وہ لوگوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے کہے گا (پوچھے گا) کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے؟وہ کہیں گے پاک ہے تیری ذات! تو ہمارا آقا ہے نہ کہ وہ (ہمارا تعلق تجھ سے ہے نہ کہ ان سے) بلکہ یہ تو جنات کی عبادت کیا کرتے تھے ان کی اکثریت انہی پر ایمان و اعتقاد رکھتی تھی‘‘(محمد حسین نجفی)

قَالُوا سُبْحَانَکَ أَنتَ وَلِیُّنَا مِن دُونِہِم کے مزید ترجمے حسب ذیل ہیں:

’’تو وہ جواب دیں گے کہ ’’پاک ہے آپ کی ذات، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ اِن لوگوں سے‘‘۔ (سید مودودی)
’’وہ عرض کریں گے پاکی ہے تجھ کو تو ہمارا دوست ہے نہ وہ‘‘ (احمد رضا خان)
’’وہ کہیں گے تو پاک ہے تو ہی ہمارا دوست ہے۔ نہ یہ‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے ان کے بالمقابل تو ہمارا کارساز ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب سوال ان سے کیا جائے گا جن کو لوگ معبود مانتے تھے، تو وہ جواب میں یہ کیوں کہیں گے کہ ہم نے تیرے سوا کسی کو مولا یا سرپرست یا کارساز نہیں بنایا۔ مولی یا سرپرست یا کارساز تو انہیں معبود بنانے والوں نے بنایا تھا، اس سلسلے میں صفائی تو معبود بنانے والوں کو پیش کرنی ہوگی، یہاں تو جن کو معبود بنایا گیا انہوں نے اپنی طرف سے یہ وضاحت پیش کی ہے کہ ہم نے ان سے کوئی دوستی نہیں کی جس کی وجہ سے ہم پر انہیں اس طرح کی کوئی شہ دینے کا کوئی الزام آئے۔
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اکثر حضرات نے دوسری آیت میں ولی کا ترجمہ دوست کیا ہے، لیکن انہیں لوگوں نے پہلی آیت میں اولیاء کا ترجمہ دوست کرنے کے بجائے مولی اور کارساز کیا۔
غرض لفظ کا تقاضا بھی یہی ہے، اور پورے کلام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دونوں مقامات پر دوست ترجمہ کیا جائے۔

(۱۳۸) کلمات کا ترجمہ

مذکورہ ذیل دونوں آیتوں میں کلمات کا لفظ آیا ہے، صاحب تدبر نے اس کا ترجمہ نشانیاں کیا ہے، بعض نے اس سے صفتیں مراد لیا ہے، بعض نے باتیں ترجمہ کیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ لفظ آلاء کی طرح کلمات کا ترجمہ’’ کرشمے ‘‘کرنا زیادہ مناسب ہے۔

(۲) وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَۃٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِن بَعْدِہِ سَبْعَۃُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (لقمان: ۲۷)

’’روئے زمین کے (تمام) درختوں کے اگر قلمیں ہو جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے، بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور باحکمت ہے‘‘ (محمدجوناگڑھی، یہاں تمام سمندروں کے بجائے سمندر ہونا چاہئے)
’’اور اگر زمین میں جتنے پیڑ ہیں سب قلمیں ہوجائیں اور سمندر اس کی سیاہی ہو اس کے پیچھے سات سمندر اور تو اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی بیشک اللہ عزت و حکمت والا ہے‘‘(احمد رضا خان)
’’اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں اور سمندر (کا تمام پانی) سیاہی ہو (اور) اس کے بعد سات سمندر اور (سیاہی ہو جائیں) تو خدا کی باتیں (یعنی اس کی صفتیں) ختم نہ ہوں۔ بیشک خدا غالب حکمت والا ہے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر سات سمندروں کے ساتھ (روشنائی بن جائیں) جب بھی اللہ کی نشانیاں قلم بند نہیں ہوسکتیں۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی) 

(۲) قُل لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَداً۔ (الکہف:۱۰۹)

’’کہہ دو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے (لکھنے کے) لئے سیاہی ہو تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہوجائے اگرچہ ہم ویسا ہی اور (سمندر) اس کی مدد کو لائیں‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو وہ بھی میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا، گو ہم اسی جیسا اور بھی اس کی مدد میں لے آئیں‘‘ (محمدجوناگڑھی)
’’اے محمدؐ، کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے‘‘(سید مودودی)
’’کہہ دو اگر میرے رب کی نشانیوں کو قلم بند کرنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے تو میرے رب کی نشانیوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجائے گا اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملادیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
دوسری آیت میں (لو کان) آیا ہے ، اس کے لحاظ سے ترجمہ ماضی کا ہونا چاہئے ، نہ کہ مستقبل کا جیسا کہ عام طور سے مترجمین نے کیا ہے، درست ترجمہ یوں ہوگا:کہہ دو اگر میرے رب کی نشانیوں کو قلم بند کرنے کے لیے سمندر روشنائی بن جاتا تو میرے رب کی نشانیوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجاتا اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملادیتے۔
(جاری)

درک ’’درِ ادراک‘‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

مسیحیت ، ہندو مت ، بدھ مت، اور دیگر مذاہب کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے ترک دنیا اور رہبانیت کے تیشے سے انسانی جسم کو صرف اس لیے گھائل کر دیا تاکہ انسانی روح کو بیدار کیا جا سکے، لیکن اس غیر طبعی تعلیم اور جان سوزی کے نتیجے میں روح کی شمع بھی گل ہو کر رہ گئی۔ اہل کلیسا نے خانقاہوں میں بسیرا کر لیا، ہندؤوں او ر بدھوں نے جنگلوں کا رخ کر لیا۔ مسیحیت کی غیر فطری تعلیمات کے ردِ عمل میں پروان چڑھنے والے مغربی فکرو فلسفہ میں یورپ کے ارباب فکر ودانش نے مادہ پرستی کی رو میں بہتے ہوئے نہ صرف روح کے ہر تقاضے کو نظر انداز کر دیا بلکہ روح ہی کا انکار کر دیا اور اس عالم رنگ وبو کو ہی انسانیت کا منتہا قرار دیا ۔ جسم کی تو خوب پرورش کی ،لیکن روح کو کچل کر رکھ دیا۔ نتیجہ کے طور پر وہ انسان تیار ہوا جوان اخلاقی اقدار ہی سے عاری ہے جو اس کا طرۂ امتیاز ہے ۔مغرب کی اخلاقی اقدار کسی روحانی محرک سے محروم ہیں۔اخلاقی قدروں کی ترویج میں بھی مارکیٹنگ کی نفسیات کار فرما ہے ۔"Eathical guide book for call girl"جیسی کتابوں کا سر عام فروخت کے لیے پیش کیا جانامغرب کے اخلاقی بحران اور دیوالیہ پن کا نکتہ کمال ہے۔سچ تو یہ ہے کہ مذاہبِ عالم کے زوال کے بعد مغربی تہذیب بھی اپنے زوال کی منازل طے کر رہی ہے، اور اس زوال کی سب سے بڑی وجہ ’’فطرت‘‘ کے نام پرفطرت سے بغاوت ہے۔ بقول اقبال 
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
مغربی تہذیب کا سب سے تباہ کن پہلو یہ ہے کہ اس نے روح اور بدن میں افتراق پیدا کر دیا ہے، حالانکہ انسان کی شخصیت روح اور بدن کی تالیف اور امتزاج سے عبارت ہے۔ ایساکوئی مذہب اور کوئی نظریہ کامیاب نہیں ہو سکتا جو روح اور بدن میں سے ایک کو ابھارے اور دوسرے کو کچل دے۔ مغربی تہذیب نے گذشتہ کئی صدیوں میں فکری ارتقاء کا کٹھن سفر طے کیا ہے،مسلسل فکری ارتقاء اور تجربات کے نتیجے میں اس کے ہاں کئی تصورات اور نظریات اب مسلمہ عقائد کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔اہلِ مغرب اب ان نظریات پرکوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ مغرب نے سماجی ،معاشرتی اور اخلاقی حوالے سے جو تجربات کیے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کے ہاںیہ سوچ پختہ ہو رہی ہے کہ انسانیت اپنے سماجی ارتقاء کی آخری سیڑھی پر قدم رکھ چکی ہے ۔مغرب میں "The End of History"کے عنوان سے لکھی جانے والی کتب اسی سوچ کی مظہر ہیں ۔اس اندازِ فکر پر یہ سوال بہرحال موجود ہے کہ پھر انسان مسلسل روحانی اور اخلاقی بحران کا شکار کیوں ہے؟کمی کہاں پر ہے ؟
اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے آزادئ اظہارِ رائے، انسانی جان کی حرمت، انسانی مساوات، سماجی انصاف، حقوقِ نسواں، مذہبی آزادی، عدلِ اجتماعی اور امن عالم جیسے تصورات کو مذہبی اور روحانی بنیادیں فراہم کیں۔ مذاہب عالم اور جدید مغربی فکر و فلسفہ کے مقابل ا سلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے روح اور جسم ددنوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھا ہے۔ مذاہبِ عالم میں شاید اسلام ہی واحد دین ہے جس نے خالصتاً روحانی غلطیوں پر بھی مالی جرمانے کی سزا عائد کی ہے۔ حکم ہے کہ اگر رمضان کا روزہ ٹوٹ جائے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔قسم ٹوٹنے کی صورت میں تین مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے ۔اپنی بیوی سےِ ظہار کی صورت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے ۔حتی کہ قتل جیسے سنگین معاملے میں مقتول کے ورثاء ضرورت مند ہوں تو وہ دیت پر صلح کر سکتے ہیں ۔ گویا اسلام کی نظر میں ضرورت مندوں کی داد رسی سے ہی روحانی سکون حاصل ہوسکتا ہے ۔ اسلام کے نظامِ عبادت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ،روزہ، زکوٰۃ اور حج کا بنیادی فلسفہ عدل اجتماعی کا قیام ہی ہے ۔ 
دینِ اسلام پر اس انداز سے غور کرنے سے ا للہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں انسان کی معاشی ، سماجی اور معاشرتی زندگی اور حقوق کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ 
اعلانِ نبوت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی زندگی لوگوں کے لیے آپؐ کی نبوت و رسالت کی دلیل ٹھہری ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی قرآن وسنت اور اسوۂ رسول ؐ سے یہی أ خذکیا کہ وہی شخص اللہ تعالیٰ کی نظر میں معتبر ہے جو اس کے بندو ں سے اپنے معاملات ٹھیک رکھتا ہے ۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمرؓ (م ۲۳ھ) نے ایک شخص کے حال کی تحقیق کے لیے گواہ طلب کیے تو ایک آدمی نے گواہی دی کہ موصوف ایک شریف آدمی ہیں ۔حضرت عمر فارقؓ نے اس سے بڑا اہم سوال کیاکہ کیاآپ اس کے پڑوسی ہیں ؟ اس نے عرض کی کہ نہیں ۔پھر پوچھا کہ کیا آپ نے اس کے ساتھ کبھی لین دین کیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ پھر فرمایا کہ کبھی اس کے ساتھ سفر کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ نہیں ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا :تم نے اسے رکوع وسجود اور ذکر اذکار میں مشغول دیکھا ہو گا ؟ اس کہا جی ہاں۔اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا : تم اسے نہیں جانتے اورپھر حضرت عمرؓ نے اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکسی ایسے شخص کو بلاؤ جو تمہیں جانتا ہو ۔گویا حضرت عمرؓ کی نظر میں کسی انسان کی اصل پہچان عبادت و ریاضت سے نہیں بلکہ اس کے سماجی رویے سے ہوتی ہے۔
امام محمد بن حسن الشیبانی(م ۲۸۵ھ) فقہ حنفی کے مدونِ اول تھے ان سے کسی نے سوال کیا کہ آپؒ نے زہد اور رِقاق کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی کہ لوگ اس کو پڑھتے اور ان کے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ۔آپؒ نے فرمایا کہ میں نے کتاب البیوع لکھ دی ہے ۔یعنی جو شخص کتاب البیوع میں حلال و حرام کے احکام پر مسلسل عمل کرے گا اس میں تدین ضرور پیدا ہوگا ۔دنیا دار العمل ہے اورعمل کا ’’معیاری اظہار ‘‘ حلال و حرام کی تمیز اور مثبت سر گرمیوں سے ہوتا ہے ۔
اسلام کی نظر میں سماجی زندگی کی اس اہمیت کے پس منظر میں ہمارے قابلِ قدر تلمیذ محمد تہا می بشر علوی کی تحریروں کا زیر نظر مجموعہ ’’درِ ادراک ‘‘ ایک قابلِ قدر کاوش ہے ۔یہ تصنیف کل تین حصوں پر مشتمل ہے، جبکہ زیرتبصرہ حصہ کتاب کے آخری دوحصے ہیں۔فاضل محقق نے اپنی ان تحریروں میں سماجی رویوں کی تشکیل میں اسلام کے کردار کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے۔ موصوف نے داعیانہ اسلوب اور پورے دردِ دل کے ساتھ مختلف طبقات میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کی ہے اور ان خرابیوں کے اسباب و وجوہ کا تجزیہ کرنے کے بعد حل بھی تجویز کیا ہے ۔
ہمیں نہایت تاسف سے اعتراف کرنا چاہیے کہ آج علماء کرام عمل کے معیاری اظہار کے فروغ کے بجائے تبلیغ محض کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔دین کی بجائے مسلک کی تبلیغ روز افزوں ہے ،نادان لوگوں نے اپنے اپنے مسلک کو ہی کل دین سمجھ لیا ہے ۔دینداری کے بجائے فنِ دین داری کا خوب دور دورہ ہے ۔ ظاہری وضع قطع اورعبادت کے نام پرچند عادات اورمرنے جینے کی مخصوص رسموں کے علاوہ دین کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ اور جس مسلک کی دین کے نام سے تبلیغ کی جارہی ہے اس کا غالب حصہ بھی ما بعد الطبعیاتی مباحث سے متعلق ہے۔نور وبشر ،علم غیب ،حاضرو ناظر ،محرم،میلاد اور گیارہویں کی مجالس کے جواز اور عدم جواز کی بحثیں ہی زندہ موضوعات ہیں ۔عام لوگوں میں یہ سوچ پختہ ہو رہی ہے کہ مذہب کا ریاست، سیاست اورمعاشرت وغیرہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لوگ بجا طور پر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دین کا چونکہ دنیوی امور سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اس کے حقیقی فوائدو ثمرات کے لئے فوت ہو نا ضروری ہے۔ معاشرتی اصلاح اور سماجی رویوں کی تشکیل میں اسلام کے کردار کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔علماء کرام لوگوں کے سماجی اور نفسیاتی مسائل اور عرف سے بڑی حد تک نابلد ہیں ۔مذہبی طبقے میں دعوت و تبلیغ کی جگہ فتویٰ بازی سکہ رائج الوقت ہے ،فتویٰ بازی میں عرف اور سماجی رویوں کامطالعہ کرنے کی بجائے محض فتاویٰ جات کی قدیم کتب سے استفادہ کافی سمجھا جاتا ہے ۔ معاشرتی اصلاح اب مذہبی طبقے کی ترجیحات میں آخری درجے میں ہے۔ فاضل محقق نے دینی مدارس کے موجودہ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے خوب لکھا ہے: 
’’ایک وقت تھا جب مدرسے تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے ۔پھر المیہ یہ ہوا کہ اب یہ مسلک پرستوں کے تحریکی ادارے بن کر رہ گئے ہیں ۔یہاں ’’میں اور میرا مسلک ‘‘ عین حق اور میں اور میرے مسلک کے سوا مکمل باطل کا نفسیاتی شاکلہ تیار ہوتا ہے۔‘‘ 
اقبال سے انتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑتاہے: 
گلا توگھونٹ دیا ’’اہلِ مدرسہ‘‘ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ
عام طور پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ"THE SOCIAL CONTRACT"کا مصنف مشہور فرانسیسی مفکر اور دانشور ژاں ژاک روسو(م ۱۷۷۸ء) انسانی تاریخ کا پہلا شخص ہے جس نے انسانی ضروریات اور احتیاجات کو اس کا ’’حق‘‘ ثابت کیا ہے۔ ہماری بد نصیبی ملاحظہ کیجئے کہ مغرب کی طرف سے آنے والی کوئی انسانی قدر جب شہرتِ دوام حاصل کرنے لگتی ہے توہم اسے قرآن و حدیث سے ثابت کرنے بیٹھ جاتے ہیں ۔اگرچہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے وہ اس کو جہاں بھی پائے حاصل کر لے،لیکن اگروہ جواہر پارہ براہِ راست ہمارے علمی خزانے کا حصہ ہو اور ہم اپنی کور چشمی کی وجہ سے اس کو دیکھ ہی نہ پارہے ہوں تو اس پرماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے ۔ اب بھلا کون ہماری اس بات پرغور کرے گا کہ انسانی تاریخ میں روسو نہیں بلکہ اسلام نے سب سے پہلے انسانی ضروریات کو انسان کا ’’حق‘‘ ثابت کیا ہے۔ سورۃ الذاریات میں ہے:
وَفِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاءِلِ وَالْمَحْرُومِ (۵۱/۱۹)
ترجمہ : اور ان مالوں میں سائل اور محروم لوگوں کا’’ حق ‘‘ہے۔ 
یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی اور اس وقت تک زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی تھی ۔مطلب یہ کہ زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے ہی مسلمانوں کی تربیت اس ماحول میں ہو رہی ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر بھی ان پر دوسرے مسلمانوں کی ضروریات کو پورا کرنا بطور ’’حق‘‘ لازم ہے ۔قرآن و سنت میں زکوٰۃ اورصدقہ جیسے الفاظ’’ فریضہ‘‘ اور’’ حق‘‘ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ کسی چیز کو خیرات کے طور پر مانگنے اور حق کے طور پر طلب کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ،لیکن ہماری غلط دینی تعبیرات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام لوگوں کا تو کیا کہنا پڑھے لکھے لوگ بھی زکوٰۃ اورصدقہ کو خیرات کے ہم معنی ہی سمجھتے ہیں ۔ فقیہ شہر کا فتویٰ یہ ہے کہ فرض تو قرض کی طرح ہے جنت کا ٹکٹ تو صرف اس کے لیے کنفرم ہو گا جو ’خیرات‘ بانٹتا ہے۔اس تبلیغ کا نتیجہ یہ ہے کہ آج باوسائل اور مقتدر طبقہ مزدور اور غریب کے لازمی حق کو نظر اندازکرکے صدقہ و خیرات کے نام پر اس کا استیصال رہا ہے ۔مقتدر طبقات کی نظر میں مزدور اور غریب کو اس کا حق دینے کی بجائے خیرات دینا پسندیدہ عمل ہے تاکہ اس کی گردن ہمیشہ اپنے مالک کے سامنے جھکی رہے اور وہ انہیں اپنا آقاو مولیٰ سمجھتا رہے ۔زیر نظر کتاب میں اس معاشرتی کجی کی ان الفاظ میں نشاندہی کی گئی ہے :
’’پاکستان دنیا کا کم ترین مزدوری دینے والا ملک ہے ،اور پاکستان ہی دنیا کا سب سے زیادہ خیرات کرنے والا ملک بھی ہے ۔ہمارے معاشرے کا یہ تضاد ایک بہت بڑی کجی کا اظہار ہے ۔ہم نے مزدور کے استحصال کو ایک معاشرتی قدر بنادیا ہے ۔ہم پہلے ان کو کم مزدوری دے کر محتاج بناتے ہیں ، پھر ان کی محتاجیوں سے مزید محتاجیاں جنم لیتی ہیں ،اور پھر ہم صدقہ و خیرات سے ان محتاجوں کی مدد کرکے ان کو اپنا احسان مند بھی بنالیتے ہیں اور اس احسان مندی سے ایک طرف ہم اپنا کاروبار چمکاتے ہیں اور دوسری طرف ان کی دعاؤں سے جنت کے محل تعمیر کرالیتے ہیں۔‘‘ 
ایک غیر ہنرمند مزدور کے خاندان کو ماہانہ تقریباً36,000سے40,000ہزار درکار ہیں جبکہ حکومت نے کمال مہربانی سے مزدور کی کم ازکم اجرت 13سے14ہزار روپے مقرر کی ہے ۔جبکہ مزدوروں کا ایک طبقہ اس سے بھی کم ماہانہ تنخواہ پا رہا ہے۔ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ مذہب سے گہری عقیدت رکھنے والا سرمایہ داربھی مزدور کو اس کا حق دینے کی بجائے خیرات دینا ہی پسند کرتا ہے ۔کسی کی عزت نفس کا لحاظ، اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں کتنے رتبے کا کام ہے، کاش یہ بات ہم پر کھل جائے تو یقین کیجئے معاشرے کا مزاج ہی تبدیل ہو جائے ۔لوگ خیرات بھی رات کے اندھیرے میں دینا پسند کریں گے ۔ 
دنیا کے تمام مذاہب نے مختلف طبقات کے حقوق کی نشاندہی اپنے اپنے اسلوب میں کی ہے ،بالخصوص جدید مغربی معاشرے میں بنیادی انسانی حقوق کی تحریک کا منظم ظہور ہواہے ۔مغرب بجا طور پر انسانی حقوق کی جدید تحریکوں کا بانی ہے، لیکن محض حقوق کے مطالبات سے معاشرے میں ٹکراوکی نفسیات جنم لیتی ہیں سماجی سطح پر اس حوالے سے اسلام کا اسلوب بہترین ہے کہ حقوق کے شعور کے ساتھ اصل زور فرائض کی ادائیگی پر دیا جائے ۔ جب ہر طبقہ اپنے فرائض کو ادا کرنے لگے تو کسی طبقے کے حقوق پامال نہیں ہوں گے ۔ بظاہر یہ بات معمولی نظر آتی ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے یہ طرزِ عمل دور رس نتائج کا حامل ہے۔ مغرب میں اس طرزِ فکر کی ایک بڑی مثال حقوقِ نسواں کی جدید تحریک ہے جس نے عورت کو بھڑکا کر مرد کا مدمقابل بنا دیا ہے ۔جس کے نتیجے میں مغرب میں خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے ۔ عورتوں کا اپنے حقوق سے آگاہ ہونا بے شک ضروری سہی لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ عورت کے حوالے سے مرد پر بحیثیت باپ،بھائی اور شوہرجو فرائض عائد ہوتے ہیں ان کا شعور اتنے تسلسل سے اجاگر کیا جائے کہ حقوقِ نسواں کی کسی تحریک کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔اس حوالے سے ہمارے فاضل تلمیذ نے آج کے معروضی حالات کے تناظر میں معاشرتی اصلاح کے لیے زیر نظر کتاب میں عورت کے حقوق اور مرد کے فرائض کے حوالے سے اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے ۔تفصیل کے لیے :’’نکاح کے بعد‘‘،’’بیوی پر پابندیاں‘‘،’’ شادی کا فیصلہ‘‘،’’رفیقِ حیات کا فیصلہ کیسے ہو؟‘‘،کے عنوانا ت ملاحظہ فرمائیں ۔
کسی معاشرے کی طاقت اس کا اتحاد اور یکجہتی ہے ،اسلام کی برکت سے جب عربوں میں اتحادو یگانگت کا ظہور ہوا تواللہ تعالیٰ نے اس اتحاد کا اپنے خصوصی فضل کے طور پر تذکرہ فرمایا اسی اتحادکی بدولت وہ موقع پیدا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقی معنوں میں ’خاک کے ذروں کو ہمدوش ثریا کردیا ‘لیکن پھر ’اپنی ملت کو اقوام مغرب پر قیاس نہ کرنے والوں ‘ نے اس سبق کو بھلادیا تو اللہ نے بھی ان کو بھلادیا۔خاک مدینہ و نجف کو اپنی آنکھوں کا سرمابنانے والی قوم فرقہ بندی کے عفریت کی نظر ہو گئی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ فرقہ وارایت کا جن بے قابوہو چکا ہے۔ مسئلہ صرف مذہبی تعصبات تک محدود نہیں رہا بلکہ ہمارے سماج میں فرقہ وارایت کا ظہور کئی شکلوں میں ہورہا ہے ۔اس وقت مسلم معاشرے کا اتحادذات برادری، مسلکی،فقہی،لسانی ، جغرافیائی اورنسلی تعصّبات کے طوفان میں بری طرح گھر چکا ہے ۔ جس طبقے کے ذمے ان تعصبات کے خلاف سر پر کفن باندھ کر میدان کارزار میں نکلنا تھا اس کی نظر میں سرے سے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ ہمارے مذہبی طبقے میں تو یہ موضوع سماجی مسئلے کے طورکم ہی زیر بحث آتا ہے ۔اس تناظر میں فاضل مصنف نے اتحادو یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے والے منفی سماجی رویوں کو پوری قوت سے اجاگر کیا ہے ۔موصوف نے ’’قبیلہ پرستی‘‘،’’تعصبات اور قبیلہ پرستی خدااوررسول ؐ کی نظر میں‘‘، ’’قبیلے سے باہر شادیاں‘‘،’’بزرگوں کے طور طریقے‘‘، ’’اب ایسا نہیں چلے گا‘‘،جیسے عنوانات کے تحت آج کے ایک زندہ مسئلے کو موضوع بحث بنایا ہے ۔ 
کتاب کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ فاضل محقق بلدئ فکر کے ساتھ زبان و بیان پر بھی گہری گرفت رکھتے ہیں۔ بعض جملے اتنے شاندار ہیں کہ گویا دریا کوزے میں بند کر دیا گیا ہو اس نوعیت کے جملے بجا طور پر ان کو’’ اقوالِ زریں ‘‘ میں شمار کرنے کے لائق ہیں ۔چند جملے ملاحظہ ہوں : 
(ہمارا علاج قیمتی باتوں میں نہیں ،ضروری باتوں میں ہے ۔)
(انسانی تعمیر سے دلچسپی میں مبتلاء احباب کو علیم سے زیادہ حکیم ہونا ضروری ہے ۔)
(لوگ اس خیال پر جمے بیٹھے ہیں کہ تبدیلی حکمران بدلنے سے آئے گی حقیقت مگر یہ ہے کہ حکومت ہمارے بدلنے سے بدلے گی ۔)
(مدرسوں میں بندگی کو چھوتا ہواادب ایک طرف طلبہ کے مزاج میں پستی پیدا کر رہا ہوتاہے اور دوسری طرف اساتذہ میں غرور بڑھا رہا ہوتا ہے ۔)
(قربانی کسی ’’صاحبِ نصاب ‘‘کے’’عمل ‘‘کے طور نہیں بلکہ اپنے ’’وفا شعاروں ‘‘ کی ’’ادا‘‘کے طور پر ہی محبوب ہے۔)
اس وقت زیر نظر کتاب پر تفصیلی تبصرہ مقصود نہیں ہے تاہم مختلف مضامین پر نظر ڈالنے سے کتاب کی اس خصوصیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ’’درِ ادراک‘‘ ایک طرف ہمارے ہاں منفی سماجی رویوں کا بیان ہے تو دوسری طرف اصلاح معاشرہ کی کوششوں اور طریق کار پر ایک شاندار استدراک بھی ہے ۔توقع ہے کہ کتاب اپنے اسلوبِ بیان اور مصنف کے گہرے سماجی مطالعے اور تنقیدی نظر کی وجہ سے قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی۔ 

دینی مدارس میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائج

مولانا مفتی محمد زاہد

(۱۴ نومبر ۲۰۱۷ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ اور اقبال انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (IIRD) کے اشتراک سے ’’دینی مدارس میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائج‘‘ کے عنوان پر منعقدہ سیمینار میں گفتگو۔)

بعدالحمدوالصلوٰۃ۔میں سب سے پہلے تو مخدوم و مکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب، جناب مولانا عمارخان ناصر صاحب، الشریعہ اکادمی کے ذمہ داران اور ادارہ اقبال برائے مکالمہ و تحقیق کے ذمہ دارحضرات کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس محفل میں حاضری کا اور اپنی گزارشات پیش کرنے کا موقع عنایت فرمایا۔ میں انتہائی مختصر وقت میں چند موٹی موٹی باتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کروں گا۔ 
دینی مدارس میں عصری تعلیم کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ یا کیا ہونا چاہیے؟ 
اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز تویہ ہے کہ اس زمانے میں بچے کی سوشلائیزیشن یعنی بچے کو اپنی سوسائٹی کا، اپنے سماج کا حصہ بنانا کہ بچے کو اپنے معاشرے کی اقدار، معروف و منکر اور رہن سہن کا علم ہو، یہ مقصود ہوتا ہے۔اس طرح کے کام عموماً بچے کو والدین سکھایاکرتے تھے، لیکن آج کے دورمیں بچے کی سوشلائیزیشن کا عمل بھی تعلیمی اداروں ہی کے ذریعے سے ہوتاہے ۔ دینی مدارس میں ابتدائی عصری تعلیم کاایک مقصد یہ ہوسکتاہے اوردوسری طرف یہ بھی مقصد ہونا چاہیے کہ ہمارے جتنے بھی بچے ہیں اور بڑے ہوکرجس لائن میں بھی وہ جانے والے ہیں، چاہے وہ عالم دین بننے والے ہوں، انجینئر بننے والے ہوں یا ڈاکٹربننے والے ہوں، ان کی جو ابتدائی سوشلائیزیشن ہو رہی ہے، وہ تقریباً یکساں ہو۔ اگرہمارا بچہ شروع میں اسکول کی تعلیم سے بالکلیہ ناواقف ہوگاتوا س بات کاامکان موجود رہے گاکہ وہ اپنے آپ کو سوسائٹی کامکمل طور پرحصہ نہ سمجھ سکے۔ 
دوسری طرف بھی اس چیزکی ضرورت ہے کہ اسکول میں دینی بنیادی تعلیم، قرآن کی تعلیم کولازمی حصہ بنایاجائے۔ کہنے کی حدتک تویہ حصہ ہے، لیکن اس کو فعال اور متحرک بنانے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں مختلف تجربات مختلف جگہوں پرہوئے ہیں۔ مثلاً بہت ساری جگہوں پرحفظ کے ساتھ ساتھ ایک آدھ گھنٹہ نکال کربچے کو اسکول کی تعلیم دے دی جاتی ہے اورتھوڑے وقت میں بچہ بہت کچھ کور کر لیتا ہے۔ ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اصلاً تو بچہ اسکول جا رہا ہوتا ہے، لیکن پارٹ ٹائم قرآن کریم حفظ کررہاہوتاہے ۔ اس کی مثالیں بلکہ کامیاب مثالیں موجود ہیں۔
عام طور پر اس طرح کی چیزوں میں سب سے بڑاسوال یہ اٹھتاہے کہ حفظ کی تعلیم کے ساتھ اگر دوسری چیز اٹیچ ہوگی یادوسری تعلیم کے ساتھ حفظ اٹیچ ہوگا توحفظ کمزوررہے گا، لیکن حفظ کے کمزوررہنے یانہ رہنے کادارومدار اس چیز پر ہوتا ہے کہ حافظ بننے کے بعد اس نے قرآن مجید کی طرف توجہ کتنی دی ہے ۔ اگرکچا پکا یا درمیانہ سا یاد ہے لیکن زندگی بھر خاص طور پررمضان میں اگروہ قرآن کی طرف متوجہ رہتاہے تواس کاحفظ ٹھیک ہوتاہے۔ ایک تیسراتجربہ ہے، ہمارے ہاں بھی اس پرعمل ہورہاہے، اوربھی کئی جگہ پر اس پرعمل ہورہاہے۔ وہ یہ کہ وہ بچہ داخل کیاجائے جوپرائمری پاس ہویعنی ابتدا میں بچہ ناظرہ پڑھنے کے لیے مسجد میں بے شک جائے، لیکن حفظ کے لیے مدرسے میں قاری صاحب کے حوالے کرنے کی بجائے وہ روٹین میں اسکول ہی جائے، ابتدا میں ہم نے رعایت رکھی تھی کہ اساتذہ کے بچوں کوہم ابتدا ہی سے حفظ میں داخل کرلیتے تھے اورایک استادان بچوں کے لیے مقرر کر دیا تھا، لیکن وہ تجربہ بھی اتناکامیاب نہیں ہوا۔ اب ہم اپنے اساتذہ کوبھی کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کوپرائمری تک اسکول میں پڑھاؤ۔
اس کے مختلف اسباب ہیں جن میں سے ایک تویہ کہ قاری صاحب کی درس گاہ میں جو جلال کاغلبہ ہوتاہے، چھوٹے بچے کے لیے وہ ماحول شایداتنازیادہ سازگار نہ ہو۔ دوسرے ماحول میں وقت گزارکرآئے گاتوبہت سی چیزیں سیکھا ہوا ہو گا اور ان پر محنت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ دوسرایہ کہ اتنے چھوٹے بچے کی لرننگ کی رفتار سست ہوتی ہے ، اس کی سست رفتاری کو اپنے یا قاری صاحب کے ذمہ ڈالنے کی بجائے ابتدائی تعلیم اسکول میں عام ماحول میں ہی ہو تو بہتر ہے۔ بچہ پانچویں پڑھ چکاہو گاتواس کوحروف کی شناخت ہوچکی ہوتی ہے، سمجھ دارہوچکاہوتا ہے، وہ اڑھائی تین سالوں میں حفظ مکمل کر سکتا ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں ہیں بلکہ ایک سال میں حفظ کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ کرتے ہیں اوربہت ساری جگہوں پریہ ہو رہا ہے کہ چھٹی، ساتویں، آٹھویں کے مشکل مضامین تھوڑے تھوڑے کر کے ساتھ پڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ بچہ جب حفظ سے فارغ ہوتاہے توتھوڑی سی ٹیوشن پڑھ کر مڈل کاامتحان دے لیتاہے۔ اس کے بعد پھرا س کے لیے آگے راستہ کھلاہوتاہے۔
اس سے اوپرکی تعلیم میں کئی مقاصد پیش نظر ہوتے ہیں۔ ایک تویہ کہ عصری تعلیم کی ایسی سندموجود ہو جو سرکاری طور پر مسلمہ ہو۔ اس سے دینی مدرسے کے فارغ التحصیل کے لیے یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے راستے کھل جائیں گے اور الحمدللہ جب سے یہ راستے کھلے ہیں، اس کے بہت سارے اچھے فوائداورثمرات نظر آئے ہیں۔ دوسری چیز یہ پیش نظرہوتی ہے کہ ہمارے مدارس اور مساجدمیں شاید افرادکے کھپانے کی اتنی گنجائش نہیں ہے جتنی بڑی تعداد دینی مدارس سے الحمدللہ فارغ ہورہی ہے۔ جوفارغ التحصیل ،ہیں ان کے لیے روزگار کے مواقع ہونے چاہئیں تو اس حوالے سے بھی عصری تعلیم کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ یہ تعلیم روزگار میں کتنی کارگر ہے، یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن بہرحال یہ سوچ ذہن میں ہوتی ضرورہے۔ 
اس سلسلے میں ایک مستقل مجلس الشریعہ اکادمی میں ہو چکی ہے کہ فضلائے کرام کے معاشی مسائل کا حل کیا ہو؟ اس سلسلے میں، میں یہ عرض کروں گایہ صرف ہماری تعلیم ہی کامسئلہ نہیں ہے، ہماری جومین اسٹریم ایجوکیشن ہے، اس میں بھی یہ مسئلہ ہے کہ صرف نوکری کرنا سکھلایا جاتا ہے، اس کے علاوہ بچے کو اور کچھ نہیں سکھایاجاتا، حالانکہ تھوڑاسابزنس مائنڈ بنانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ایک فارغ التحصیل عالم نے کسی اور لائن میں جانا ہی ہے تو اگر وہ کچھ بزنس مائنڈڈ ہوگا تو بجائے اس کے کہ وہ کسی سے روزگار مانگے، وہ روزگار دینے والا بن جائے گا۔ اس کے علاوہ عصری تعلیم سے متعلق کچھ خالص دینی مقاصد بھی ہوتے ہیں اور یہ جتنی بھی بحثیں ہیں، اصل مقصدضرورہمارے پیش نظر رہنا چاہیے۔ اصل مقصود وہ متبحر، عمیق علم رکھنے والے، رسوخ فی العلم رکھنے والے علماء پیداکرناہے جوہرزمانے کے مطابق لوگوں کواللہ کی طرف، اللہ کے رسول کی طرف بلاسکیں اوردینی امورمیں لوگوں کی رہنمائی کرسکیں۔ یہ ایک مستقل مقصد ہے اوراس کے لیے الگ انداز سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ محض کوئی سندیاڈگری حاصل کر لینا شاید اس کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس دورکے جو چیلنجز ہیں، کچھ کلامی نوعیت کے ہیں، کچھ فقہی اورقانونی نوعیت کے ہیں، سماجی اور معاشرتی نوعیت کے ہیں، معاشی نوعیت کے ہیں، دعوتی نوعیت کے ہیں۔ ہرایک کوسامنے رکھ کراس کے حساب سے الگ سے تعلیم کابندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔
ابتدائی تعلیم کے بعد بہت سارے مدارس ایسے ہیں جن میں اولیٰ کے سال کو دو حصوں میں تقسیم کرکے باقاعدہ میٹرک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ کافی حد تک اچھااور کامیاب تجربہ ہے، لیکن میری معلومات کی حد تک اس میں دوتین مسائل پیش آرہے ہیں۔ ایک مسئلہ تووہی ہے جس کا حضرت مولانا مفتی حامد حسن صاحب نے ذکرفرمایاتھاکہ ایک استاد رکھا تواس کے نتیجے میں طلباء چلے گئے۔ اپنااستاد ہوتویہ مسئلہ ذراکم ہوجاتاہے۔ یہ مسئلہ اس وجہ سے ہے کہ گھر والے بچے کویہ سوچ کر مدرسے میں بھیجتے ہیں کہ یہ کوئی زیادہ صلاحیت رکھنے والابچہ نہیں ہے، لیکن یہاں چونکہ وہ چوبیس گھنٹے ہماری نگرانی میں ہوتاہے، محنت کرتاہے، پڑھتا ہے، اس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے تووہ میٹرک میں بہت اچھے نمبرلے لیتا ہے اور بعض اوقات والدین کی توقعات سے بہت بڑھ کرنمبرلے لیتاہے تووالدین کاذہن دوسری طرف چلناشروع ہو جاتا ہے کہ اچھا! ہمیں تواب پتہ چلا کہ ہمارابچہ ذہین ہے۔ اگریہ ذہین ہے تواسے ایف ایس سی کرانی چاہیے، اس کوکسی اورطرف لگاناچاہیے۔ اگرچہ یہ بچہ ابتداء میں مدرسے میں پڑھ کرکسی اورطرف بھی چلا گیا تو دین کی جوبنیاد اس کے اندرپڑ گئی ہے، وہ ان شاء اللہ اس کے ساتھ رہے گی، لیکن پھربھی ہم نے اس پرمحنت کی ہے، ہمارے ہی کام آئے اورآخرتک ہمارے پاس ہی پڑھے، یہ ہماراایک مقصد ہوسکتاہے۔ تواس میں اگرہمارے اپنے اساتذہ ہوں، وہ ترغیب سے کام لیں تواس مسئلے کوحل کیاجاسکتاہے۔
دوسرے ایک چیزمحسو س کی گئی ہے، ہماراپناذاتی تجربہ بھی ہے کہ آپ اولیٰ میں عربی زبان کے قواعد پڑھاتے ہیں یا اسے دوسالوں میں تقسیم کردیتے ہیں، اگرچہ دورانیہ اتناہی ہوتاہے، لیکن اس کے باوجود قواعدمیں، صرف ونحومیں کچھ نہ کچھ کمی ضرور رہ جاتی ہے۔ یہ قابل غورہے اور اس کاحل ہونا چاہیے۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ دارالعلوم دیوبندمیں تعلیمی سال کا اختتام شعبان کے آخرمیں ہوتاتھا۔ پچیس شعبان کے لگ بھگ امتحان ہوتے تھے۔ دینی مدارس میں تعلیمی سال چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ شعبان کاپہلاہفتہ امتحان کاہوتاتھا، اب رجب کے آخری ہفتہ بلکہ آخری عشرہ کی طرف آنے لگ گئے ہیں، اوردوسری طرف بعض مدارس میں تعلیم کاآغاز بھی ذرادیر سے ہوتا ہے۔ تو تعلیمی سال کودوبارہ بڑھانے کی طرف توجہ دیں تواس مسئلے کوحل کیاجاسکتاہے۔ ہم نے ایک تجربہ یہ بھی کیاکہ اولیٰ میں جومیٹرک والے طلبہ ہیں، ان کوہم رمضان سے ایک دو دن پہلے چھٹی دیں، لیکن باقی مدرسے میں چھٹی ہوچکی ہوتی ہے۔ چند ایک کوجب رکھتے ہیں تووہ ایک نیاماحول محسوس کرتے ہیں، اس میں ان کا دل پوری طرح لگانا، ان کوپڑھائی پر لگانا بھی اچھاخاصاکام ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم جس لیول پربھی ہو، ایک اہم مسئلہ تاریخوں کاclash ہوتاہے، انہی تاریخوں میں بورڈ کے امتحان ہورہے ہوتے ہیں، انہی تاریخوں میں وفاق کے امتحان ہو رہے ہوتے ہیں ۔ قمری وشمسی حساب کی وجہ سے بعض اوقات تاریخیں تقریباً اکٹھی ہو جاتی ہیں۔
میٹرک کے بعدمیرے علم کے مطابق تین ماڈلز چل رہے ہیں۔ ایک یہ کہ میٹرک کر کے طالب علم دورہ حدیث تک اب اپنے آپ کوروک کررکھے، اس دوران مزیدکسی اورطرف توجہ نہ دے۔ بہت ساری جگہوں پریہ ماڈل روبہ عمل ہے اور اس کے اپنے فوائد، اثرات اور نتائج ہیں۔ دوسراماڈل ہے کہ عصری تعلیم کوباقاعدہ اپنے نظام کاحصہ بنا لیا جائے، وہاڑی میں جامعہ خالدبن ولیدمیں، جامعۃ الرشید میں،اسلام آبادکے اندر مولانافیض الرحمٰن عثمانی کے ہاں، جامعہ حنفیہ بورے والا میں ایسا ہی ہے اور اس طرح کی کئی اور مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ تیسراماڈل یہ ہے کہ ادارہ اپنی طرف سے کوئی اس طرح کاانتظام نہیں کرتا، لیکن طلبہ کومشروط طور پراجازت دے دیتاہے۔ مثلاًہمارے ہاں جامعہ امدادیہ میں گذشتہ سال کی حاضریوں کا ریکارڈ دیکھاجاتاہے، گزشتہ تعلیمی سال میں امتحانات میں نمبروں کی ایک مخصوص حدمتعین کی جاتی ہے تاکہ پتہ چلے کہ اس تعلیم میں توجہ کیسی ہے اورایک یہ کہ چھٹی جوملے گی، وہ صرف امتحان دینے کی ملے گی، تیاری کا زیادہ حصہ شعبان رمضان کی یادیگر چھٹیوں میں مکمل کرناہوگا۔ 
لیکن ان تینوں ماڈلز میں بھی مسائل ومشکلات ہیں۔ ممانعت والے میں یہ ہے کہ دورہ حدیث کے بعد اس گیپ کو اگر طالب علم کور کرنا چاہے توسال زیادہ لگتے ہیں اور کسی جگہ سیٹل ہونے میں وقت زیادہ لگ جاتا ہے۔ عمرکا مسئلہ بھی اس میں آ جاتا ہے۔ اپنے طورپرتیاری کے ماڈل میں ایک مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ بچے چھٹیوں کے دوران اپنے گھروں میں کسی استادسے تیاری کر رہے ہوتے ہیں یا تعلیم کے ساتھ ہی عصرکے بعد یاکسی اوروقت اپنے طورپرکسی کے پاس جاکرتیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ دوقسم کی تیاریوں میں یکسانیت بعض اوقات نہیں ہوتی، اس سے تیاری کے سلسلے میں طالب علم کے ذہن پر اضافی بوجھ پڑتاہے۔ دوسرایہ کہ ایک بالکل مختلف ماحول میں کچھ دیر کے لیے طالب علم کو جانا پڑتا ہے ۔اصل ضرورت اس چیز کی ہے کہ بحیثیت مجموعی پورے سسٹم اورپورے نظام پرطویل اوروسیع پیمانے پرمشاورت ہواوروسیع غور وفکرہو۔
اس کی دوجہتیں ہیں۔ ایک تومدارس، وفاق ہائے مدارس، تنظیمات ہائے مدارس کی سطح پر۔ اگرہم اپنی پہلی ٹرمنالوجی کودیکھیں تو دینیات اور درسیات کے الگ الگ حصے ہوتے تھے۔ جس طرح آج کل عصری تعلیم کے بارے میں یہ ہے کہ یہ تدین کے حوالے سے برے اثرات پیداکرے گی، بعینہ یہی تحفظات پہلے بزرگوں کے ملفوظات میں درسیات، مثلاً منطق وفلسفہ کے متعلق ملتے ہیں، کیونکہ یہ اس دورکے عصری علوم تھے ۔ مثلاً حضرت مولانا خیر محمد صاحب کے بارے میں حضرت والدصاحب سے سناکہ ان کاذوق یہ تھاکہ مشکوٰۃ اوردورہ حدیث سے پہلے جودرسیات پڑھنی ہیں، شمس بازغہ اورملاصدرا وغیرہ، پڑھ لو، تاکہ اس کے اوپرجوتہہ لگے، وہ علم حدیث کی لگے اورجوبرے اثرات ہوسکتے ہیں، ان کاحدیث کے ذریعے سے ازالہ ہوجائے۔ وہ تحفظات وہاں بھی تھے جو آج عصری علوم میں ہیں، لیکن ان چیزوں کو نظام کا حصہ بنایا گیا۔ جوچیزیں ہم لے کرچل رہے ہیں، ان میں جوغیرضروری چیزیں ہوں، ان میں کمی کرکے ان کی جگہ پر ضروری چیزوں کو شامل کر لیں۔ بہرحال ہم عملی طور پر دوالگ الگ نظام ہائے تعلیم کی پیوندکاری کررہے ہوتے ہیں، بلکہ ہم کیاکررہے ہوتے ہیں، طالب علم اپنے طور پر کر رہا ہوتا ہے جس سے وہ ایک عجیب ساملغوبہ سا بن جاتا ہے۔ اگرمدارس ازخوداس پر جامع مشاورت کرکے ایک جامع نظام بنالیں تواس سے طلباء کے لیے آسانی بھی ہو جائے گی اورنتائج بھی بہترسامنے آنے کی توقع ہے ۔
اس مشاورت کادوسرا پہلو سرکاری سطح پر ہے، کیونکہ بہت سارے مقاصد اس چیزپرمنحصرہیں کہ جو سندبھی ہمارے بچے کے پاس ہے، وہ سرکاری طورپرتسلیم شدہ ہو۔ مدارس کی اسنادکا اعتراف کیسے کرناہے؟ کن بنیادوں پر کرنا ہے؟ اس کے لیے فی الحال میری ناقص معلومات کے مطابق کوئی قانون موجودنہیں ہے، چندایک نوٹیفکیشنز ہیں اور بس۔ ایک جامع قانون سازی کی ضرورت ہے اوراس قانون سازی کے پیچھے جتنے بھی اسٹیک ہولڈرزہیں، وفاق ہوں، مدارس ہوں، مدارس کے فضلاء ہوں، جہاں ان فضلاء نے کھپنا ہوتا ہے، وہ لوگ ہوں، جہاں ان فضلاء نے داخلہ لینا ہوتا ہے، وہ ادارے ہوں یا سوسائٹی کے سرکردہ لوگ ہوں، پہلے تو اس پروسیع مباحثہ ہوناچاہیے اور اس کے بعدضرورت کے مطابق ایک جامع قانون سازی کی جانی چاہیے۔خاص طور پردوبڑے اہم مسئلے آئندہ آرہے ہیں اور وہ ہمارے لیے مسائل پیداکریں گے ۔ ایک تویہ کہ اب تک گریجویشن دوسالہ ہے، دوسال میں بی اے ہو جاتی ہے ، لیکن ممکن ہے کہ پوری دنیا کے ٹرینڈ کے مطابق چارسالہ گریجویشن ہو جائے۔ اس سے یہ اپنے طور پر چلنے والاسلسلہ نبھانابہت مشکل ہو جائے گا۔ اس کے لیے ایک پورے سسٹم کی اور وسیع اور گہرے غوروخوض کی ضرورت ہے۔ دوسرامسئلہ یہ کہ یونیورسٹی لیول کی تعلیم میں پرائیویٹ تعلیم کا تصور اگر ختم ہو گیا توبھی مسائل پیدا ہوں گے۔ آنے والے وقت میں ہمارا جنرل تعلیمی رجحان اور دنیاکا رجحان کس طرف جارہا ہو گا، ہماری ملک کی عمومی تعلیم کدھرجارہی ہوگی، اس کاصحیح اندازہ لگاکربروقت سوچناہماری ذمہ داری ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے اس بیٹھنے کی برکت سے مزیدراہیں کھولیں۔ آمین

موجودہ دور میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۴ جنوری ۲۰۱۸ء کو مجلس صوت الاسلام کلفٹن کراچی میں علماء کرام کی ایک نشست سے خطاب کا خلاصہ۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج ہماری گفتگو کا عنوان ہے کہ ایک مسلمان ریاست میں غیر مسلموں کے کیا حقوق و مسائل ہیں اور کسی غیر مسلم ریاست میں رہنے والے مسلمانوں کے معاملات کی نوعیت کیا ہے؟ ہمارے ہاں جب پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور برما سمیت یہ خطہ، جو برصغیر کہلاتا ہے، متحد تھا اور مسلمانوں کی حکمرانی تھی تو اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں فقہی بحث و مباحثہ اس قسم کے عنوانات سے ہوتا تھا کہ یہاں رہنے والے ذمی ہیں یا معاہد ہیں، اور یہاں کی زمینیں عشری ہیں یا خراجی ہیں۔ اس علاقہ میں اسلام مجاہدین کی جنگوں کے ذریعے بھی آیا ہے، صوفیاء کرام کی دعوت و اصلاح کی محنت سے بھی آیا ہے اور تاجروں کی آمد ورفت بھی فروغِ اسلام کا ذریعہ بنی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جہاد کے ذریعے مغلوب ہونے والے لوگوں اور علاقوں کی حیثیت از خود مسلمان ہوجانے والے لوگوں اور علاقوں سے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے اس حوالہ سے یہاں ہمارے فقہی مباحث کا ایک وسیع دائرہ ماضی کے علمی ذخیرہ میں ملتا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ مدنی دور میں ہمیں اس سلسلہ میں مختلف صورتیں دکھائی دیتی ہیں:
چنانچہ دورِ نبوی کی انہی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مسلمان ریاست کا حصہ بننے والے خطوں اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں فقہاء کرام نے الگ الگ فقہی ابواب و احکام مرتب فرمائے اور متحدہ ہندوستان پر مسلمانوں کے اقتدار کے دور میں بھی بحث و مباحثہ کا یہ تنوع موجود رہا جس کی ایک مثال یہاں کی زمین کے عشری یا خراجی ہونے کی بحث میں ملتی ہے۔ لیکن جب برصغیر پر انگریزوں کا اقتدار قائم ہوجانے کے بعد دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا انتظامی و مالیاتی کنٹرول قائم ہونے پر حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی اور حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا اور اہل علم کے عمومی حلقوں میں اس فتویٰ کو قبول کر لیا گیا جس کے نتیجے میں فرنگی اقتدار کے خلاف مسلح جنگوں کا وسیع سلسلہ شروع ہوگیا تو میری طالب علمانہ رائے میں یہ سارے فقہی مباحث ماضی کا حصہ بن گئے تھے اور اس پورے خطہ کی شرعی حیثیت یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ اس سے قبل اس علاقہ میں مسلمان غالب اور غیر مسلم مغلوب تھے جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری قائم ہونے کے بعد یہ پہلے کے غالب و مغلوب دونوں مغلوب ہوگئے تھے اور دونوں نے مل کر اس نئے غلبہ کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اب ان کے درمیان غالب اور مغلوب کا تعلق نہیں رہا تھا بلکہ مستقبل کے معاملات میں یہ باہمی شریک کار بن گئے تھے اور اس طرح ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا جسے شرعی اور فقہی حوالہ سے نئی صورتحال کے طو رپر دیکھنا ضروری ہے۔ یہ میری طالب علمانہ رائے ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ جنگ آزادی اور اس کے بعد کے معاملات کے حوالہ سے اس خطہ کے مسلم اور غیر مسلم دونوں باہمی معاہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے باہمی معاملات کو ان معاہدات کے دائرہ میں دیکھنا ہوگا جو حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے فتویٰ کے بعد جنگ آزادی میں یہاں کی مسلم اور غیر مسلم اقوام کے درمیان باہمی اشتراک عمل کی صورت میں وجود میں آئے تھے او یہ عملی اور خاموش معاہدات ہی آئندہ کے سارے معاملات کی بنیاد بنتے ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان بننے کے بعد اس ریاست کے تمام غیر مسلم طبقوں کی حیثیت معاہدین کی بنتی ہے اور ان پر ذمی کا اطلاق درست معلوم نہیں ہوتا اس لیے کہ جنگ آزادی اور تحریک پاکستان میں یہ سب باہم شریک کار تھے جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد ’’دستور پاکستان‘‘ کی صورت میں ہمارے درمیان ایک سماجی معاہدہ تشکیل پا چکا ہے۔ اس لیے جو غیر مسلم حلقے پاکستان کے شہری کے طور پر دستور پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی پابندی کا عہد کرتے ہیں، وہ ہمارے معاہدین ہیں اور ان کے ساتھ دستور میں ہمارے جو معاملات طے پائے ہیں، ان کی پابندی کرنا اور دستور کے مطابق وطن عزیز کے غیر مسلم باشندوں کو ان کے حقوق ادا کرنا بلکہ ان کی پاسداری کرنا ہماری قومی اور شرعی ذمہ داری قرار پاتی ہے۔ البتہ قادیانیوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے، اس لیے کہ وہ اس دستوری معاہدہ کو تسلیم نہیں کر رہے اور اس سے مسلسل انکاری ہیں۔ چنانچہ جب تک وہ ملک کی دیگر غیر مسلم آبادیوں کی طرح دستور پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے اور اس پر عملدرآمد کی ضمانت نہیں دیتے، انہیں دوسری غیر مسلم آبادیوں کی طرح برابر کے حقوق نہیں دیے جا سکتے۔
یہ تو ایک مسلم ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں کی بات ہے جس کے بارے میں پاکستان کے تناظر میں ہم نے چند گزارشات پیش کی ہیں۔ اب ہم مسئلہ کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں کہ غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو وہاں کس طرح رہنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ہم اپنی معروضات کو درج ذیل دائروں میں پیش کریں گے:

تکفیر کی اتھارٹی، علماء یا حکومت؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک سوال ان دنوں کم و بیش ہر جگہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے ذریعے کفر کے فتوے کی اتھارٹی اب حکومت و عدالت کو منتقل ہوگئی ہے؟ اور اگر ایسا ہوگیا ہے تو مفتیان کرام کا اس میں کیا کردار باقی رہ گیا ہے؟
اس سلسلہ میں اپنا ذاتی نقطہ نظر پیش کر رہا ہوں جسے من و عن قبول کرنا ضروری نہیں ہے البتہ اس کے بارے میں اہل علم و دانش سے سنجیدہ توجہ اور غور و خوض کی درخواست ضرور کروں گا۔ یہ سوال اس سے قبل ہمارے سامنے اس وقت بھی آیا تھا جب بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی میں یہ تحریک پیش کی گئی تھی کہ بنگلہ دیش میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ وہاں کے قادیانی حلقوں نے بڑے شد و مد کے ساتھ یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا کسی کو مسلمان یا کافر قرار دینا اسمبلیوں کا کام ہوتا ہے یا یہ ذمہ داری اہل علم و فتویٰ کی ہے؟ بنگلہ دیش کے بعض علماء کرام نے سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی سے اس سلسلہ میں رجوع کر کے راہنمائی طلب کی تھی جس پر مولانا چنیوٹی نے بہت سے دیگر علماء کرام کے علاوہ مجھ سے بھی مشورہ کیا تھا اور میری اس گزارش سے اتفاق کیا تھا کہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کی شرعی حیثیت تو علماء کرام نے واضح کر دی ہے اور سب اہل علم کا اس سے اتفاق ہے، مگر اسے عملی قانون کا حصہ بنانے اور اس کے معاشرتی اطلاق و تنفیذ کے لیے پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا جا رہا ہے، کیونکہ کسی معاملہ کے سوسائٹی پر اطلاق اور اس کی عملی تنفیذ کی اتھارٹی بہرحال حکومت وقت کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم نے جب پاکستان کی حکومت اور پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تھا تو وہ مطالبہ یہ نہیں تھا کہ پارلیمنٹ قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا فتویٰ صادر کرے، بلکہ یہ تھا کہ چونکہ اس گروہ کو پوری امت مسلمہ غیر مسلم قرار دے چکی ہے، اس لیے قانون و دستور میں بھی ان کی یہ حیثیت تسلیم کی جائے۔
میرے خیال میں وہی سوال اب مذکورہ صورت میں ہمارے سامنے آگیا ہے کہ کفر و اسلام کی بحث تو اہل علم و افتاء کا کام ہوتا ہے، اس میں حکومت یا پارلیمنٹ کو اتھارٹی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ میری طالب علمانہ رائے میں کسی فرد یا گروہ کے کفر یا اسلام کو واضح کرنا تو بہرحال اہل علم و فتویٰ ہی کی ذمہ داری بنتی ہے مگر اس کی عملی تطبیق اور معاشرتی اطلاق کی اتھارٹی عدالت، پارلیمنٹ یا حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد ان کے بارے میں اس اجتماعی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے عدالت، حکومت اور پارلیمنٹ سے رجوع کیا تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل اس مقصد کے لیے ریاست بہاولپور کی عدالت کے سامنے حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیری، حضرت علامہ غلام محمد گھوٹوی اور دیگر اکابر علماء کرام کا پیش ہونا اور اس سے فیصلہ طلب کرنا اسی مقصد کے لیے تھا، جبکہ اسی ناگزیر ضرورت کے تحت قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ حکومت وقت سے کیا گیا تھا جو ۱۹۴۷ء میں ایک دستوری بل کی صورت میں منتخب پارلیمنٹ کے سامنے رکھا گیا تھا اور اس کے بعد یہ معاملہ وفاقی شرعی عدالت اور عدالت عظمیٰ کے سامنے بھی پیش ہوا تھا۔ یہ سارے مراحل اس امر کی توثیق کرتے ہیں کہ کسی فتویٰ کا عملی اطلاق اور اس کی معاشرتی تنفیذ حکومت و عدالت ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی قانونی یا دستوری مسئلہ پر حکومتی رائے وہ ہوتی ہے جو اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل یا ڈسٹرکٹ اٹارنی پیش کرتے ہیں، لیکن اسے قانونی فیصلے کی حیثیت متعلقہ عدالت کے حکم سے حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ باقاعدہ قانونی صورت اختیار کرتی ہے۔ ایک حد تک اس معاملہ کو اس فقہی قاعدہ کی صورت میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی کیس میں قاضی کا فیصلہ قانونی تقاضے تو پورے کر لیتا ہے جبکہ حقیقتاً وہ درست نہیں ہوتا حتیٰ کہ اس میں حلال و حرام کے معاملات بھی گڑبڑ ہو جاتے ہیں، تو ایسی بعض صورتوں میں فقہاء کرام یہ کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ قضاء میں تو نافذ ہو جائے گا مگر دیانتاً نافذ نہیں ہوگا۔ دیانت اور قضا کے درمیان جو یہ فرق کیا جاتا ہے اس سے اتنی بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی مسئلہ کے عملی نفاذ و اطلاق کی صورت اس کی علمی و دینی حیثیت سے مختلف ہو سکتی ہے اور اس کا فقہی طور پر بھی اعتراف کیا جاتا ہے۔
میری یہ گزارشات ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کی توضیح یا دفاع کے حوالہ سے نہیں بلکہ اس سے پیدا ہونے والے ایک سوال کے بارے میں فقہی صورتحال کے ایک پہلو کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہیں کہ کسی فرد، طبقہ یا گروہ کے مسلمان یا کافر ہونے کی بحث و فیصلہ تو اصولی طور پر اہل علم و فقہ کا کام ہے مگر اس کی معاشرتی تنفیذ اور قانونی اطلاق متعلقہ اور مسلمہ اداروں کے ذریعے ہی قابل عمل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جب ہم کسی مسئلہ کی شرعی پوزیشن کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اس کے عملی اطلاق اور معاشرتی تنفیذ کے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے بہرحال کنفیوڑن پیدا ہوتا ہے، جبکہ ان دونوں معاملات کو الگ الگ رکھا جائے تو اس قسم کی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے۔

’’پیغام پاکستان‘‘ : پس منظر اور پیش منظر

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

دہشت گردی کے خلاف علماء کرام نے ’’ پیغام پاکستان‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں ایک متفقہ فتویٰ صادرکیا ہے جس پر 1800 سے زائد علماء کے دستخط ہیں۔اس کتا بچے کو ادارہ تحقیقا ت اسلامی نے شائع کیا ہے۔ اس کا قومی بیانیے کے حوالے سے اجراء صدر پاکستان کی سربراہی میں علماء کرام اور حکومتی نمائندہ شخصیات کی موجود گی میں اسلام آباد میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ہوا۔ اس فتویٰ میں دہشت گردی، خونریزی، خود کش حملوں اور ریاست کے خلا ف مسلح جدو جہد کو، خواہ وہ کسی نام یا مقصد سے ہو، حرام قرارد یا گیا ہے اور ان چیزوں سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے علماء کرام کی تجاویز ہیں۔ اس فتویٰ کی اہمیت کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کو تمام مسالک کے علماء ومفتیان کرام کی ایک بڑی تعداد نے نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے اور پھر ریاست نے اس کو قومی بیانیہ قرار دے دیا ہے۔ 
پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے نا درست خارجہ پالیسیوں یا کچھ عناصر کے بے لگام ہونے کی وجہ سے بد امنی اور انتشار کی کیفیت تھی۔ مشر ف حکومت کے بعد دہشت گردی اور بد امنی میں مزید اضافہ ہوا۔دہشت گردی ، بدامنی اور انتشار کی اس کیفیت نے ملک عزیز کی سلامتی کوداؤپر لگا رکھا تھا، پاکستان کی معیشت ہچکولے کھار ہی تھی، بہت سی قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا تھا۔ ملک میں داخلی سطح پر جو کیفیت تھی سو تھی، عالمی طور پر پاکستان کا امیج خراب ہو چکا تھا، اور ہمارے ہمسایے ہمیں آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ انھی حالات میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ یہ واقعہ آرمی پبلک اسکو ل میں ڈیڑ ھ سو کے قریب بچوں، اساتذہ اور یگر عملے کی شہادت کا تھا۔ ننھی اور معصوم کلیوں کی شہادت کے درد کو پوری قوم نے محسوس کیا اور اس المناک حادثہ نے پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف ایک صف میں لا کھڑا کیا۔ دہشت گر دی کا مقابلہ کرنے اور اس کو شکست دینے کے لیے پوری قوم مضبوط و آہنی عز م کے ساتھ متحد ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ در حقیقت ملک عزیز کو درپیش چیلجز سے نمٹنے کے لیے ایسے ہی اتفاق و اتحاد کی ضرورت تھی۔ 
اس واقعہ کے بعددہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے ریاست نے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا، دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے مختلف آپریشن کیے گئے، بینکوں میں اکاؤنٹس کی چھان بین کی گئی، سموں اور شناختی کارڈز کی رجسٹریشن کا نظام سخت کر دیا گیا، میڈیا و سوشل میڈیا کی کڑی نگرانی کی گئی، اور انسداد دہشت گردی کے ادارہ نیکٹا کو مضبوط کیاگیا۔ ان تمام عملی کاموں کے ساتھ دہشت گردوں کا نظری سطح پر بھی مقابلہ کیا گیا۔ اس ضمن میں علماء کرام کی خدمات نہایت وقیع ہیں۔ علماء کرام نے دہشت گردی کے خلاف فتاویٰ اور بیانیے صادر کیے، دہشتگردوں کا نظری سہارا ختم کرنے کے لیے ان آیات، احادیث اور عبارات کے جواب دیے جن کو وہ استعمال کر رہے تھے، ان نصوص کی درست تعبیرات و محل کو امت کے سامنے واضح کیا۔ دہشت گر دی کے خلاف جنگ میں امن پسند علماء کرام کو اپنے فتاویٰ کی بھاری قیمت چکا نا پڑی۔ اس جنگ میں بہت سے ممتاز علماء کرام کی شہادتیں ہوئیں۔ ان علماء کرام کی انفرادی کوششوں کے بعد اب یہ اجتما عی اور متفقہ فتویٰ بھی آچکا ہے جس کو قومی بیانیہ قرار دینا اور اس حوالے سے مزید کوششیں کرنا نہایت خوش آئند اقدام ہے۔ 
ہمارے ہاں مخصوص حالات اور خاص پس منظر میں کی جانے والی کوششیں صرف ان حالات سے نمٹنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ بلاشبہ عام طور پر کوئی بھی کوشش مخصوص حالات اور خاص پس منظر میں ہی شروع کی جاتی ہے، لیکن اس کو ایسی مستقل بنیادوں پر استوار کرنا کہ دوبارہ اس قسم کے حالات سے دوچار نہ ہونے پڑے، یہی اصل دانشمندی ہوتی ہے۔ دہشت گر دی کے خلاف ہماری جو کوششیں ہیں، انہیں بھی مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم وقتی امن کی بجائے مستقل اور پائیدا ر امن قائم کرسکیں اور نسل نو کو آگے بڑھنے کے اچھے مواقع فراہم کرسکیں۔ 
اس ضمن میں کیا کیا جاسکتاہے، اس حوالے سے مختلف اہل علم اور صاحب قلم حضرات آرا دے رہے ہیں۔ میں بھی چند آرا دینا چاہوں گا۔ 

فرقہ واریت کا خاتمہ

دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے مختلف نوعیت کی محنت درکارہے۔ ایک کوشش فرقہ واریت کو ختم کرنے کی ہے۔ فرقہ واریت سے مراد کسی بھی سطح پر ایسی گروہ بندی یا فرقہ بندی ہے جو دیگر گروہوں کے خلاف منفی جذبات کی تعمیر میں مصروف ہو اور شدت پسندی کو ابھار رہی ہو۔ ایسی گروہ بندی مذہبی، لسانی، صوبائی یا کسی بھی لحاظ سے ہو، اس کا قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمیں ایک قوم بننا ہے جس کی امنگیں، خواہشیں، ترجیحات اور مفادات یکساں ہوں۔ تبھی ہم ترقی کر سکتے ہیں اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ 
جو فرقے اور جماعتیں بن چکی ہیں، ان کو ختم کرنا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن رواداری، احترام اوربرداشت کے ذریعے ہم پر امن ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔ فرقہ واریت میں چند چیزیں ایسی ہیں جن کو اگر ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو فرقہ واریت کی شد ت کم ہو سکتی ہے:
1۔ مختلف فرقوں کی کتابوں اور لٹریچر میں ایک دوسرے کے خلاف سخت فتاو یٰ اور غیر مہذب اور اخلا ق سے عاری الفاظ موجود ہیں۔ ان فتاویٰ پر شاید ان مسالک کو دل و جان سے حرز جان بنانے والے لوگ بھی نہ عمل کر پاتے ہوں، کیونکہ معاشرتی طور پر ایک دوسرے سے اتنا کٹ جانا کہ آدمی معاشرتی افعال خرید و فروخت، شراکت، تعلق داری اور دیگر معاملات میں صرف اپنے مسلک تک محدود ہو کر رہے، یہ عملی طور پر بہت مشکل کام ہے۔ اس قسم کے شدت پسندی پر مبنی فتاویٰ اگر چہ عملی اور معاشرتی زندگی میں ناقابل عمل ہیں، لیکن نظری طور پر یہی فتاویٰ کسی بھی مسلک میں شدت پسندی اور دوسروں سے بغض و عداوت پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ نہ صرف موقع پرست علماء کے لیے بہتر ین ہتھیار ثابت ہوتے ہیں بلکہ جادہ اعتدال پر گامزن اور امن باہمی کی کوششیں کرنے والے علماء کے لیے بھی بہت بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اب اس قسم کے عمر رسید ہ و سن یاس کو پہنچے ہوئے فتاویٰ کو ختم کر کے ان پر نظری تکیہ رکھنے والوں کا سہارا بھی ختم کیا جائے۔ اس زمرے میں کون سے فتاویٰ آتے ہیں، اس میں ہر مسلک کے معتدل و جید علماء و مفتیان کرام کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ اگر تمام مسالک کے معتدل علماء اس قسم کے فتاویٰ کو ختم کرنے میں متفق و متحد ہوجائیں تو راکھ میں دبی اس چنگاری سے جو کسی بھی وقت ہلاکت خیز آگ کا روپ دھار سکتی ہے، ہم بچ سکتے ہیں۔ 
2۔ مولانا مودودیٰ کی کتابوں میں مقد س شخصیات کے حوالے سے بعض ایسی باتیں تھیں جو بظاہر نظر دیکھنے سے خلاف ادب معلوم ہوتی ہیں اور دینی حمیت رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے مقد س شخصیات کے بار ے میں ہمارے جذبات ایسے ہی ہونے چاہییں، لیکن ان جذبات کو اگرہم دائرہ قانون میں لے آئیں تو شاید اس قسم کے مسائل زیادہ احسن طریقے سے حل ہو سکیں گے۔ مولانا مودودی کی کتابوں سے قاضی حسین احمد صاحب نے اس قسم کا مواد ہٹا دیا۔ قاضی صاحب عبقری شخصیت کے مالک تھے، ان کے دیگر سیاسی و مذہبی کارناموں کے ساتھ یہ بہت بڑا کا رنامہ تھا۔ جماعت کے اندر سے بہت سے لوگوں نے اس کی سخت مخالفت کی، لیکن قاضی صاحب اپنی جرا ت رندانہ کے باعث یہ کام کر گزرے۔ 
قاضی حسین احمد کے ایسا کرنے کافائدہ یہ ہوا کہ مولانا مودودی کی شخصیت اصل روپ کے ساتھ نکھر کر سامنے آگئی۔ ان کی چند باتوں کو لے کر مخالفین نے ان کی شخصیت کے بہت سے مفید پہلوؤں کو چھپادیا تھا۔ قاضی حسین احمد نے ایسے لوگوں کے لیے وہ راہ مسدود کر دی اور مولانا مودودی کو بحیثیت بے مثل مفکر لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔ اب جس شخص نے مولانا مودودی کے حوالے سے بات کرنی ہے، وہ کوئی فکری بات ہی کرے گا۔ طعن و تشنیع یا لایعنی و غیر مفید ابحاث کا سلسلہ ختم ہو چکاہے، اگر چہ بعض لوگ اب بھی گڑے مردے اکھاڑنے میں لگے رہتے ہیں۔ 
ایسے ہی اگر ہر مسلک کی نمائندہ شخصیات اپنے اکابر کی ایسی باتوں کو ختم کرنے کی طرف توجہ دیں تو ہم بجا طور پر ایک اچھی روایت کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ ایسی عبارات کی نشاندہی کوئی مشکل کام نہیں۔ ان پر باقاعدہ مختلف مسالک کے علماء کی کتابیں اور مناظرے موجود ہیں ۔ اپنے مسلک کی کسی بڑی اور عقیدتوں کی مرکز شخصیت کی تصانیف سے اس قسم کا مواد ہٹانا یقیناًبہت مشکل ہے۔ شاید اس کو ناممکن بھی کہا جا سکے۔ اس سے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، مسلکی طور پر لوگوں کا یقین و اعتبار اٹھنے کا خطرہ ہوتا ہے، لیکن جتنا یہ پر امن بقائے باہمی اور شدت پسند ی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے، اتنا ہی علمی ترقی اور مکالماتی ماحول میں مفید ابحاث پر گفت و شنید کے لیے بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں مکالماتی ماحول اٹھ چکا ہے۔ اس کی جگہ جدل و مناظرہ نے لے لی ہے جس کا اختتام کسی فائدے کی بجائے باہمی رقابتوں میں اضافے، ماحول میں کشیدگی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر ہوتا ہے۔ مفید علمی ابحاث کا مکالمہ ایک عرصہ ہوا شاید ختم ہی ہو چکا ہے اوران حالات میں علمی ترقی ایک خواب اور سراب ہی ہو سکتی ہے۔
3۔ ہمارے ہاں طویل عرصہ سے چلنے والے مسلکی اختلافات دشمنی اور رقابت کا روپ دھار چکے ہیں جن میں ایک دوسرے سے شدید نفرت و عداوت پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کا پیدا ہوجانا بھی لازمی اور یقینی امر ہے۔ ہم کسی کا نقطہ نظر اس سے معلوم کر نے کی بجائے خود ہی طے کر کے اس پر فرضی قضیوں کی پوری عمارت تیار کر لیتے ہیں، ایسے میں غلط فہمیوں کا پیدا ہونا اور بھی لازمی اور یقنیی ہوجا تا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ان غلط فہمیوں میں خیانت کا بھی دخل ہو ، لیکن ابتدائی طور پر کی گئی خیانت بعد میں ذہن میں رچ بس کر فکر کا ایسا حصہ بن جاتی ہے جس پر انسان ازسر نو غور نہیں کرتا اور ایسے خیالا ت ایک دوسرے کے بارے میں نسل در نسل چلتے رہتے ہیں۔ یہ غلط فہمیاں سیاسی، معاشرتی اور مذہبی ہر طرح کے مسائل میں ہو سکتی ہیں۔سب سے زیادہ غلط فہمیاں دوسروں کی عبارات و نظریات کی تفہیم میں ہوتی ہیں۔ ہر مسلک والے لازماً خود پر ہونے والی تنقید میں یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کے موقف پر دیانتدارانہ غور و فکر نہیں کیا گیا بلکہ اس سے من مانے معانی اخذ کر کے خیانت کا ارتکا ب کیا گیا ہے۔ یہ صرف آج کے دور میں ہی ایسا نہیں بلکہ ابتدائی ازمنہ سے ہی ہم مختلف مسالک کی آویز ش میں ایسی بہت سی مثالیں تلاش کر سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مکالماتی ماحول پیداکیا جائے جس میں مختلف مسالک کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آسکیں اور باہم غلط فہمیاں دور کرسکیں۔ اس مکالماتی ماحول میں بازاری علماء اور پیشہ ور مناظرین جن کی روزی روٹی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کسی بھی طرح غلط ثابت کرنے سے وابستہ ہو، ان کو دور رکھ کر سنجیدہ اور امن کی چاہت رکھنے والے علماء کو موقع دیا جائے۔
4۔ ایسی تحریروں، تقریروں، جلسے جلوسوں اور مناظروں پر پابندی عائد کی جائے جن سے باہمی نفرت میں اضافہ اور ماحول میں کشید گی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے علماء و مناظرین کی ذہنی اور اخلاقی سطح کو بہتر بنانے کے لیے مختلف تربیتی کورسز اور ورکشاپس کااہتمام کیا جائے۔ ان علماء کی توجہ جدید مسائل اور اسلام کی آفاقیت کو در پیش چیلنجز کی طرف مبذول کروائی جائے تاکہ ان کی صلاحیتیں کسی اچھے مصرف میں استعمال ہو سکیں۔ دور جدید میں اسلام کو کس قسم کے چیلنجز اور مسائل کا سامنا ہے اور مسلم امہ کے مسائل کیا ہیں ؟ مسالک سے ماوراء مذاہب کی رقابت موجودہ دور میں کس موڑ پر پہنچ چکی ہے ؟ اور پھر اس سے بھی آگے مذہب کو لا دینیت اور دہریت کی موجودہ جن شکلوں سے سابقہ ہے، اس کا ادراک علماء امت کو ہونا چاہیے ۔ اس کے لیے ٹیم ورک کی ضرورت ہے اور ایسے افراد کو پیدا کرنا ضروری ہے جو علماء کی ان خطوط پر تربیت کر سکیں۔ 

پرائیویٹ جہادی گروپوں کا خاتمہ

علماء کرام کے موجودہ قومی بیانیہ کی حیثیت اختیار کرجانے والے فتویٰ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جہاد صرف ریاست کا حق ہے، ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کسی کو اجازت نہیں اور ریاست کی اجازت کے بغیر کوئی جہاد نہیں کر سکتا۔ اس بات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور اس فتویٰ کے بعد اس قسم کے تمام فتاویٰ جن سے دہشت گردوں کی پشت پناہی یا نظریات کو تقویت ملتی ہو، ختم کرنا بھی ضروری ہے۔ ایسے افراد یا جماعتیں جو اس کام میں ملوث رہی ہیں، ان کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد اگر سیاست میں حصہ لیتے ہیں یا فلاحی کام کر تے ہیں تو ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ تاہم لوگوں کو پرائیویٹ جہاد کے لیے تیار کرنے والوں، یا ایسے لوگوں کی کسی بھی قسم کی اعانت کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہونی چاہیے اور جن جماعتوں کو کا لعدم قرار دیا جا چکا ہے، ان کو کسی دوسرے نام سے وہی کام کرنے کی اجازت بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کا نظری سہارا ختم کریں تا کہ جن نصوص کی بنیادپر وہ خود غلط فہمی کا شکار ہیں یا لوگوں کو تیار کر تے ہیں، ان سے وہ استدلال نہ کرسکیں اور درست راستے کی طرف آسکیں۔ 

دیگر ممالک اور عالمی پالیسیوں پر نظررکھنا

ہمارے ملک میں دہشت گردی کی بڑی وجہ دوسرے ملکوں کی مداخلت بھی ہے۔ دوسرے ملکوں کے وہ لوگ جو اپنے مفادات کے لیے کسی خاص مسلک کی پشت پناہی کر رہے ہیں، اس کو جس حد تک ہو سکے روکا جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایران پاکستان میں شیعہ گروپوں کی سب سے زیادہ امداد کرتاہے۔ اب ایران ہو، سعودیہ یا کوئی اور ملک، یہ لوگ مذہبی نام پر مختلف مسالک یا تنظیموں کی مدد کرتے ہیں اور ان سے سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آج بھی ایران یا سعودیہ کے مختلف محاذوں پر باقاعدہ سپاہی کا کام کررہے ہیں اور اس کا محرک صرف مذہبی عقیدت ہے اور یہ سب ریاست سے ماوراء ہو رہا ہے۔ ایسے عناصر اور ان کے سر کردہ لوگوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ 
اسی طرح عالمی طور پر دہشت گردی نے ایک کاروبار کی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ امریکہ یا مختلف ملک باقاعدہ تنظیموں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس کو کاروبار سمجھتے ہیں۔ جانے انجانے میں ان کی آلہ کار بننے والی شدت پسند تنظیموں اور جماعتوں پر بھی کڑی نظررکھی جائے۔ یورپی اور مغربی ممالک پاکستان کی نظریا تی سرحدوں کو متاثر کرنے کے لیے جس قدر سرمایہ کاری کرتے ہیں، اس کا ادراک و احساس بھی ضروری ہے۔ 
علماء کرام کے متفقہ فتوے میں یہ بات بھی موجود ہے جسے قوم کو اچھی طرح ذہن نشین کروانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے نام پر آئین کو پرے پھینک کر اور جغرافیائی سرحدوں کو نظر انداز کرکے کسی دوسرے ملک میں لشکر کشی کا حصہ بننا بھی خلافِ اسلام ہے اور عہد شکنی کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستانی شہری پر لازم ہے کہ وہ دستور میں کیے گئے عمرانی معاہدے کی پابندی دیں اور کسی بیرون ملک گروہ کی مدد کے نام پر اس میثاق کی خلاف ورزی نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوگا۔

ریاستی پالیسیاں

سب سے زیادہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ریاست کی پالیسیاں بالکل صاف شفاف اور ملکی و عالمی قوانین و معاہدات کے مطابق ہوں۔ عالم اسلام میں مختلف مسلم ممالک میں جو ظلم و زیادتی کے واقعات ہیں، ہمیں ان کی سیاسی و سفارتی سطح پر مذمت کرنی چاہیے، تاہم دنیا بھر میں کسی بھی جگہ بشمول افغانستان، کشمیر، فلسطین وغیرہ، ہمیں نہ صرف ریاستی سطح پر مسلح جدو جہد کی پشت پناہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمارے ملک کے ایسے لوگ یا تنظیمیں جو ان جگہوں پر مسلح جدوجہد میں مصروف عمل ہیں، ان کے خلا ف سخت تادیبی کاروائی عمل میں لانی چاہیے، اور شدت پسندی کے رویے پر بنی کسی بھی تنظیم کی حوصلہ شکنی کر نی چاہیے، نہ کہ حوصلہ افزائی۔ 

سماجی اور معاشرتی اصلاحات

دہشتگر دی کے خاتمے اور پر امن معاشرے کے قیام کے لیے مذہبی، معاشی، معاشرتی، قانونی اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں عدل وانصاف بہت ضروری ہے۔ معاشرے میں کچھ طبقات کے حقوق کو مسلسل نظر انداز کرنے سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان کا اچھی طرح ادراک بہت ضروری ہے۔ وہ افراد اور گروہ جو مایوسی اور محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ اپنے ادنی مفادات کے لیے کسی بھی حدتک جا سکتے ہیں، اس لیے ہمیں انہیں حقوق دے کر ان کا احساس محرومی ختم کر نا چاہیے۔ ہمارے ملک میں مذہبی، معاشی، معاشرتی، قانونی، لسانی اور صوبائی سطحوں پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے اندر نہ صرف احساس مایوسی اور محرومی پنپ رہا ہے بلکہ ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کر رہا ہے جس کے پھٹنے سے جونقصان ہو گا، اس کی قیمت ہمیں نسل در نسل چکانی پڑے گی، اس لیے ہمیں نہ صرف ان لوگوں کی شکایات کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سننا ہوگا بلکہ ان کو مساوی حقو ق بھی مہیاکرنا ہوں گے۔ حقوق سے محرومی کے معاملے میں مذہبی اقلیتوں اور چھوٹے و پسماندہ صوبوں اور علاقوں کے لوگوں کا لحاظ خاص طور پر ضروری ہے۔ 
اسی طرح دہشت گردی ، بدامنی اور جرائم کے بنیا دی اسباب یعنی غربت جہا لت اور کر پشن کے خاتمے کے لیے موثر اور سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روایتی کھیلوں، ثقافتی میلوں، موسیقی، ڈرامے اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے باضابطہ پالیسیاں مرتب کی جائیں تاکہ فرسٹریشن سے پاک ایک اچھا اور صحت مند معاشرہ قائم ہو سکے۔

تین طلاقوں کا مسئلہ

ڈاکٹر مختار احمد

جناب محترم مفتی شبیراحمد صاحب کی ہدایت پراس ناچیز نے جناب ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کا مضمون "یکبارگی تین طلاقوں کے نفاذ کا مسئلہ" مطالعہ کیا، لیکن افسوس مجھے شدید مایوسی ہوئی کہ انہوں نے تین طلاقوں کو تین ہی قرار دینے کی کچھ خودساختہ علتیں بیان کی ہیں۔ان علتوں کو طلاق کے مسئلے سے منسلک کرنے کے لیے انہوں نے قرآن وسنت سے کوئی دلیل نہیں دی، بلکہ "عرب معاشرے اور سماج" کی کچھ خصوصیات کو اپنی دانست میں تین طلاقوں کے اکھٹے نفاذ کی علت قرار دے دیا ہے اورپھرخود ہی نتیجہ نکالتے ہوئے فرمایا ہے کہ چونکہ آج ہمارے "معاشرے" میں یہ علتیں موجود نہیں ہیں، اس لیے تین طلاقوں کو تین نہیں بلکہ ایک طلاق قرار دینا چاہیے۔ حالانکہ اگر ان علتوں کوتسلیم کرلیاجائے تو پھر سرے سے طلاق کے تصور ہی کو ختم کرنا پڑے گا۔ کجا ایک ، دو اور تین طلاقوں کی بحث میں انسان الجھے!
۱۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ "عرب معاشرے" میں عورت کو مہر کی ادائیگی نکاح کے قبل یا پھرفوراً بعد کی جاتی تھی اور اس پر عورت کا قطعی حق تسلیم کیاجاتا تھا، جبکہ آج کل عورت کو مہر کی ادائیگی نہیں کی جاتی یا مہر کی مقدار بہت تھوڑی مقرر کی جاتی ہے۔
مہر کی ادائیگی اور اس کی ملکیت تو عورت کا قطعی حق اب بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس نے آکریہ حق تین طلاقوں کوایک سے بدلنے کے عوض سلب کر لیا ہے؟ مہر کے تقرر اور ادائیگی کا تعلق نکاح سے ہے، نہ کہ طلاق سے۔ نکاح کے منعقد ہونے کے لیے مہر مقرر کرنا شرط ہے جس کے بغیر نکاح ہی درست نہیں ہوتا، کجا کہ طلاق کا سوال پیدا ہو سکے۔ اگر عورت کو حق مہر سے محروم رکھا جاتا ہے تو اس کی حق تلفی کو روکنے کے لیے مرد کو ریاستی طاقت یا عدالت کے ذریعے حق مہر اداکرنے پر مجبور کیاجائے۔ طلاق کا قانون چھیڑنے کی کوئی سبیل نہیں۔
۲۔ دوسری علت ڈاکٹر صاحب نے یہ بیان فرمائی ہے کہ عرب معاشرے میں طلاق کے بعد بچوں کی ذمہ داری مرد پر ہی عائد ہوتی تھی، آج کل عورت پر سارا بار ڈال دیا جاتا ہے۔ بچوں کی پرورش کی ذمہ داری طلاق سے پہلے بھی اور بعد میں بھی مرد پرہی عائد ہوتی ہے۔ شریعت کا یہ حکم بھی منسوخ کرنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا۔ بچوں کی ذمہ داری عورت پر ڈالنے کے بدلے میں مرد کی دی گئی تین طلاقوں کو ایک تصور کرلینا دین میں خودساختہ قطع وبرید سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ بہانے بازیاں دراصل شریعت اسلامی کے متعلق پھیلائی گئی سیکولر اور لبرلز طبقات کی ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ ہے جس سے بعض مسلمان مفکرین غیر ارادی طور متاثر ہوئے ہیں۔
۳۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق عرب معاشرے کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مطلقہ اور بیوہ سے شادی کرنا نہ صرف معیوب تصورنہیں کیاجاتا تھا بلکہ مستحسن امر گرداناجاتا تھا۔ یہ خصوصیت تو درحقیقت عرب معاشرے کی اسلامائزیشن کا اثرتھا۔ اسلام نے اس ٹمٹماتے رویے کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کی طرف اور زیادہ مؤثر انداز سے ترغیب دی، لیکن اس کا طلاق کے منعقد ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ 
یہ ہمارے آج کے معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے کہ طلاق کوعورت کے لیے (اور بعض علاقوں میں مرد کے لیے بھی) ایک گالی بناکررکھ دیا گیا ہے۔ طلاق یافتہ عورت کو طلاق ہونے کاواحدسبب اس کی مبینہ" بدکرداری" ہی کو سمجھاجاتا ہے۔ چنانچہ اس سے شادی کرنا پورے معاشرے کی توپوں کا رخ اپنی طرف کرانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یہ معاشرے کی جاہلانہ سوچ ہے۔ لڑکی کی منگنی ٹوٹنے یااس کوطلاق ہوجانے کومحض بدکرداری کی عینک سے دیکھ کراس کو ہمیشہ کے لیے اچھوت قراردینا معاشرے میں علم اور سمجھ بوجھ کے عنقا ہونے کی علامت ہے، نہ کہ طلاق کے قانون میں خرابی کی دلیل۔شریعت مرد کو طلاق کی مطلق اجازت دیتا ہے۔ طلاق کی بہت سی دیگر وجوہات بھی ہیں جو ضروری نہیں کہ عورت کی بدکرداری پر ہی دلالت کرتی ہوں۔ معاشرے کی اس جہالت کو دور کرنے کی بجائے طلاق کے منعقد ہونے یا نہ ہونے کو اس خودساختہ علت پر موقوف ٹھہرایاجارہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
۴۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کا یہ فرمانا کہ " عرب معاشرے میں اکٹھے تین طلاقوں کو نافذ کرنے کا نقصان مرد کوہوتا تھا، اس لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مرد کو سزا دینے کے لیے اسے نافذ کیا، اور ساتھ میں اکٹھے تین طلاق دینے والے مرد کو تعزیری سزا بھی دیتے تھے'' بھی میرے ناقص خیال میں ناواقفیت پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرد کو تعزیری سزا دینے کے حضرت عمر کے فیصلے کو تو باقی رکھنا چاہتے ہیں، البتہ تین طلاقوں کو تین ہی نافذکرنے کے حضرت عمر کے اسی فیصلے کے دوسرے پہلو کو ختم کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا معصیت ہے اور اس معصیت کا ارتکاب نہ صرف مرد کے لیے رجوع کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتا بلکہ عورت کو بھی مرد کی رنجش اور ناراضگی دور کرنے کے مواقع سے محروم کردیتا ہے، تبھی حضرت عمر نے اس کے لیے تعزیری سزائیں دیں۔ اگر تین طلاقیں بیک وقت واقع ہی نہ ہوتیں تو یہ ایک لغو فعل ہوتا۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص پر غضبناک ہوتے جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ساتھ دی تھیں اور نہ حضرت عمر تعزیری درے لگواتے۔ قرآن اور احادیث رسول کی روشنی میں ایک اچھے مسلمان کی علامت یہ ہے کہ وہ لغوباتوں سے تعرض نہیں کرتے۔
ڈاکٹر صاحب نے معاشرے کی جاہلانہ رسوم ورواج اور ان کے نتیجے میں عورت پرمرتب ہونے والی زیادتیوں کا ذمہ دار سراسر تین طلاقوں کے یکبار گی انعقاد کو قرار دے کر ثابت کیا ہے کہ انہیں کچھ بھی ایسا چاہیے جس سے ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دیا جاسکے۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگر ان کی رائے کو اپناتے ہوئے مرد تین مختلف اوقات میں طلاق دے کر عورت کو گھر سے نکالے گا تو پھر کیا اس کو مہر کی ادائیگی فرشتے اتر کریں گے؟ کیا اس صورت میں بچوں کی ذمہ داریاں مرد اٹھانے پر رضاکارانہ تیار ہو جائے گا؟ کیا اس صورت میں مہر کے کم ہوتے ہوئے بھی عورت مالدار ہوجائے گی؟ کیا پھر طلاق یافتہ عورتوں کو بدکردارسمجھنے کا رجحان جڑ سے اکھڑ جائے گا؟ اور ان سے شادی کرنے میں کوئی امرمانع نہیں رہے گا؟ میرے خیال میں تو جو عورت اس طرح طلاقیں لے کر گھرسے نکلے گی، وہ زیادہ ذلت ورسوائی کا سامنا کرے گی۔ اگر معاشرے کی اصلاح کی بجائے طلاق کے قوانین کا "اصلاح" کے نام پر اس طرح حلیہ بگاڑا جاتا رہا تو ایسی صورت میں طلاق یافتہ عورت سے نکاح کرنا تو درکنار، کوئی ترس کھاکر اس کو بھیک بھی نہیں دے گا۔
اب ذرا اس پر نظر ڈالتے ہیں کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واقعی ڈاکٹر صاحب کے بیان کردہ انہی معاشرتی علل کے تحت تین طلاقوں کو تین نافذ کیا تھا یا اس کی دلیل "شرعی" ہے؟
مستند احادیث کے مطابق اکٹھی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں جسے فقہی اصطلاح میں طلاق مغلظہ کہاجاتا ہے۔ مستند اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود تین طلاقوں کو نافذ کیا ہے، لیکن طلاق دینے والے کو اللہ کی نافرمانی کا مرتکب بھی قراردیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کی والدہ کو ہزار طلاقیں دیں۔ انہوں نے جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا:
بانت منہ بثلٰث فی معصیۃ اللہ تعالیٰ، وبقی تسع ماءۃ وسبع وتسعون ظلماً وعدواناً؛ ان شاء اللہ عذبہ وان شاء غفرلہ
’’تین طلاقوں سے تو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہوگئی،اور باقی نو سو ستانوے طلاقیں ظلم اور عدوان کے طورپر باقی رہ گئی ہیں جن پر اللہ چاہے تو اسے (یعنی تیرے باپ کو) عذاب دے اور چاہے تو معاف کردے۔‘‘
البتہ ایک حدیث میں، جس سے انتہائی کمزور طرز استدلال کے ذریعے یکبار دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ذکر ہے کہ ایک شخص نے آکر عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیتے وقت محض تاکید کی خاطر لفظ "طلاق" کو تین بار دہرایا تھا حالانکہ میری نیت ایک ہی طلاق دینے کی تھی۔ آپ نے اس سے دوبارہ پوچھا کہ کیا واقعی تم نے ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی؟ اس نے اقرار کیا۔ تب آپ نے اسے ایک طلاق قراردیا۔ تین طلاقوں کو ایک ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے اس حدیث کا سہارا لیتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث بھی تین طلاقوں کو تین ثابت کرنے میں صریح ہے، کیونکہ اس میں نیت ایک طلاق کی ہونے کی تصریح ہے۔لہٰذا اس کو تین کی نیت سے دی گئی طلاقوں کو ایک قرار دینے کی دلیل کس طرح بنایاجاسکتا ہے؟
اس واقعے کو بنیاد بناکر لوگ کثرت سے تین طلاق دینے کے بعد یہی عذر تراشنے لگے کہ ان کی نیت فقط ایک ہی طلاق کی تھی جس پر حضرت عمرنے اپنے دورخلافت میں لوگوں کے اس قسم کے دعووں پر اعتماد کرنے سے انکارکرنے کا اعلان کیا کہ آئندہ ایسا کوئی عذر قبول نہیں کیاجائے گا اور تین طلاقیں تین ہی سمجھی جائیں گی۔ عہد نبوی میں کسی ضعیف الایمان شخص کو بھی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ کوئی بیان خلاف واقعہ دے سکے کیونکہ یہ خوف تھا کہ کہیں اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آشکارا نہ کردے۔ (غالباً حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ عہد نبوی میں ہم اپنی بیویوں کے ساتھ بھی دل کھول کر بے تکلفی کرنے سے ڈرتے تھے، مبادا ہمارے بارے میں وحی نازل نہ ہو جائے)۔ لیکن عہد رسالت کے بعد یہ اندیشہ نہیں رہا تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام پر کسی ایک صحابی نے بھی اعتراض نہیں کیا، حالانکہ ان کے دور میں اگرایک بدو کو بھی شبہ ہوتا کہ کسی معاملے میں امیر المومنین سے خلاف سنت یا خلاف انصاف فعل سرزد ہورہا ہے تو وہ فوراًبلاخوف اور براہ راست انہیں ٹوک سکتا تھا۔
لہٰذا اگر تین طلاقوں کی یکبارگی نفاذ کے سلسلے میں وہ قرآن مجید یا سنت رسول کی منشاء کے خلاف کوئی قانون وضع کر رہے ہوتے توجماعت صحابہ میں ان کی بھرپور مخالفت کی جاتی۔ اور یہ کوئی ایسا غیرمعمولی اقدام نہ تھا جس پر کبار صحابہ میں سے کوئی بھی نوٹس نہ لیتا۔ نہ صرف ان کے دور میں کسی نے ا س کے خلاف رائے نہیں دی بلکہ ان کے بعد حضرات عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے ادوار خلافت میں بھی اکٹھی دی گئی تین طلاقوں کو تین قراردینے پر اتفاق رہا۔ بعد کے ادوار میں بھی بشمول ائمہ اربعہ متفقہ مسلک یہی بن کر سامنے آیا۔ آج بھی پوری دنیا کے اندر علمائے دین کی عظیم اور غالب اکثریت اسی قول کو راجح مانتی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو اصل مسئلہ طلاق کا نہیں، بلکہ طلاق کے بعد دونوں خاندانوں میں بالخصوص اور معاشرے کے رویوں میں بالعموم افراط وتفریط پر مبنی رویوں کا ہے جسے دعوت، تعلیم وتربیت اور تزکیہ نفوس کے ذریعے دور کرنا ایک صبرآزما اور محنت طلب کام ہے۔اگر اصلاح ، آگاہی اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کا مطلوبِ شریعت کلچر پیدا کیا گیا تو پھر نہ بچوں کی پرورش کا بہانہ بنا کر "حلالہ" جیسے ملعون افعال کا ارتکا ب کرنے کی "ضرورت" باقی رہے گی اور نہ ہی عورت کو طلاق کے بعد دوسری یا تیسری شادی میں کوئی مشکل پیش آئے گی۔ لیکن ہمارے دانشور حضرات بنیادی کام سے جان چھڑا کر شارٹ کٹ کے چکروں میں پڑگئے ہیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ اس طرح کی کچھ ملمع کاریاں کرکے وہ کچھ معاشرتی مسائل کوڈھانپ سکیں گے اوراسلام کے چہرے پر جمی"گرد" کو صاف کرکے سیکولر اورلبرل طبقات کی طعنہ زنی سے بچ جائیں گے، حالانکہ یہ انداز فکر سراسر غیر علمی ہونے کے ساتھ ساتھ عملاً ناممکن بھی ہے۔

قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو سمجھنے میں غلطی

محمد ندیم پشاوری

اسلام کے دشمنوں نے مختلف زمانوں میں اسلام کو ناقص بنانے اور اس کے اجزاء میں کتر بیونت پیدا کرنے اور پیوند کاری کی کوششیں کی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ناکام ہوتے رہے ہیں کیونکہ دین کی حفاظت کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیشہ اہل علم پیدا فرمائے جو دین کو اس کی مکمل شکل میں باقی رکھنے کے لئے جدوجہد کرتے رہے کیونکہ اسلام مکمل اور آخری دین کی صورت میں آیا ہے اور اس کو قیامت تک اسی طرح مکمل طریقہ سے باقی رہنا ہے۔ اس وقت بھی دین کو اس کی مکمل شکل سے ہٹا کر پیش کرنے کی کوششیں وقتاً فوقتاً ہوتی نظر آتی ہیں اور بعض اوقات غلط فہمی، کم علمی یا کسی شخصیت کی حاضر جوابی اور عقلی استدلالات سے متاثر ہو کر بعض اہل علم اور اہل قلم حضرات بھی غلط نظریات، افکار اور رجحانات کا شکار ہوجاتے ہیں اور اُن غلط افکار، نظریات و رجحانات کی ترویج کے لیے کبھی کبھار زبان کے ساتھ ساتھ قلم کی مدد بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ پچھلے مہینے ایسے ہی ایک صاحب قلم محترمی و مکرمی جناب اکٹر عرفان شہزاد صاحب کا مضمون ماہنامہ الشریعہ کے جنوری کے شمارے میں پڑھنے کا اتفاق ہوا جس پر چند تحفظات پیش کرنا مقصود ہے۔ 
محترم موصوف کے مضمون ’’قرآن مجید میں خدا کے وعدوں کو خدا کا حکم سمجھنے کی غلطی‘‘ کو بار بار پڑھنے سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اور جہاں تک موصوف کے موقف کو سمجھا گیا ہے، اس کو دو نکات میں مختصرا یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئے گئے تمام یا اکثر (جن کا مضمون میں تذکرہ کیا گیا ہے)وعدے عمومی حیثیت کے نہیں ہیں بلکہ مخصوص ہیں۔ ان کا مصداق نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) تھے جو مجموعی طور پر امت مسلمہ کو شامل نہیں ہیں۔ 
اس موقف کو اختیار کرنے کے لیے جس نظریے کا سہارا لیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے:
۲۔ مسلمانوں کا اسلام کے سیاسی غلبے کے لیے جدوجہد کرنا حالات کا تقاضا تو ہو سکتا ہے، انسانی سماج کی ضرورت تو ہو سکتی ہے لیکن اس جدوجہد کو دینی فریضہ سمجھ کر سر انجام دینا مسلمانوں کی غلط فہمی اور قرآن مجید میں خدا کے وعدوں سے نا واقفیت ہے۔مسلمانوں کے لیے اس جدوجہد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت، فتح و کامرانی حکمت کا تقاضا تو ہو سکتا ہے لیکن شرط، ذمہ داری یا کوئی عام قانون نہیں۔
موصوف کے مضمون کا تنقیدی جائزہ پیش کرنے سے قبل اس بنیادی غلط فہمی کا ازالہ ناگزیر ہے جو موصوف کے مذکورہ بالا نظریے کی پشت پر کارفرما دکھائی دیتا ہے اور وہ بنیادی غلط فہمی ’’دین اور سیاست و ریاست کے رشتے‘‘ سے ناواقفیت ہے جس کے نتیجے میں اجتماعی جدوجہد وجود میں آتی ہے۔دین و سیاست کا رشتہ بے حد نازک ہے اور اس رشتہ کو بیان کرنا پل صراط پر چلنے سے زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ کسی ایک پہلو پر ضرورت سے کم یا ضرورت سے زیادہ بات کرنا آسمانی دین کی غلط تشریح تک پہنچا دیتا ہے۔ اسلام کے سیاسی غلبے کو اگر نظر انداز کیا جائے تو موجودہ سیاسی کشمکش اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی استعماری سازشیں بے معنی ہیں کیونکہ حزب اختلاف اسلام کو ہر شخص کی انفرادی زندگی کے طور پر قبول کرنے کا برملا اعتراف کر چکے ہیں۔ 
امریکہ کے مشہور مصنف جے ویلیم فیڈرر اپنی کتاب What Every American Needs to know about the Qur'an میں اسلام کو ایک دہشت گرد اور خونخوار مذہب کے طور پر پیش کرنے کے باوجود انفرادی طور پر اسلام کے مستقبل کے بارے میں رقمطراز ہیں: 
We say to Muslim believers there is a noble future for Islam as a personal faith, not a political doctrine.
ترجمہ: ’’ہم مسلمانوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی غلبے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انفرادی طور پر اسلام کا مستقبل خوش آئند ہے۔‘‘
یہی وہ موقف ہے جس کے بارے میں مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی نے اپنی وفات سے دو سال قبل اپریل 1997ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء کے شعبہ ’’دعوت و تربیت‘‘ کی زیر نگرانی قائم ’’المعہد العالی للدعوۃ والفکر الاسلامی‘‘ کے زیر اہتمام ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اہل مغرب اسلام کو بحیثیت عالمگیر دعوت ، سیاسی قوت اور مذہبی آزادی کے اتنا کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ محدود رقبہ میں اور خاص نسل اور قومیتوں کے دائرہ کے اندر ہی نافذ اور کارفرما رہے، لیکن عالمی پیمانے پر اس کا وجود اور نفوذ ختم ہو جائے۔‘‘
حضرت عمر کے دور میں ربعی بن عامر سردارانِ فارس کے دربار میں سفیر بن کر گئے تھے اور اپنی تقریر میں اسلام کی تعریف کے دوران اسلام اور سیاست کے نازک رشتے اور حساس تعلق کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں:
فَقَالوا لَہ مَا جَاءَ بِکم؟ فَقَالَ، اَللہ اِبتَعَثنَا لِنخرِجَ مَن شَاءَ مِن عِبَادَۃِ العِبَادِ اِلیَ عِبَادَۃ اللہِ وَمِن ضَیقِ الدّْنیَا اِلَی وسعَتِھَا وَمِن جَوَرِ الاَدیَانِ اِلَی عَدلِ الاِسلَامِ فَاَرسَلنَا بِدِینِہِ اِلَی خَلقِہِ لِنَدعوھم الیہِ (البدایۃ و النہایۃ /الجزء السابع/غزوۃ القادسیۃ) 
’’اہل دربار نے پوچھا کہ تم لوگ یہاں کس لئے آئے ہو ؟ربعی بن عامر نے جواب دیا: اللہ نے ہمیں اس لئے بھیجا ہے تاکہ وہ جسے چاہے اسے بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کرے، دنیا کی تنگی سے آخرت کی وسعت کی طرف، مذاہب کے ظلم سے اسلام کے عدل کی طرف لائیں۔ پس اللہ نے ہم کو اپنے دین کے ساتھ اپنی مخلوق کی طرف بھیجا ہے تاکہ ہم لوگوں کو اس طرف بلائیں‘‘۔ 
اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مِن عِبَادَۃِ العِبَادِ اِلیَ عِبَادَۃ اللہِ سے مطلق العنان اور استبدادی نظام حکومت و سیاست سے نجات دلانا مراد ہے، وَمِن ضَیقِ الدّْنیَا اِلَی وسعَتِھَا میں اسلام کی جہاں گیری اور وسعت و آفاقیت کا ذکر ہے اور وَمِن جَوَرِ الاَدیَانِ اِلَی عَدلِ الاِسلَامِ سے اسلام کے عادلانہ قوانین کی طرف اشارہ ہے؟
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
’’دین میں سیاست اور روحانیت دونوں کی اہمیت ہے۔ سیاست اور سلطنت کو نظر انداز کر دینا یا اسلامی معاشرہ میں اسلام کے معاشی، سیاسی اور اجتماعی قوانین کے نفاذ کی کوششوں کا تمسخر اور استہزاء غلط تصور دین کا حامل ہونا ہے اور اس کج فکری و مسلمانوں کے ذہنوں تک پھیلانا ایک محرف دین کی طرف مسلمانوں کو بلانے کے مرادف ہے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں :
’’جب کبھی دین و سیاست میں جدائی ہوتی ہے دو، گروہ معرض وجود میں آتے ہیں۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو دین دار تو ہوتے ہیں، لیکن قوتِ حرب، و جاہ و مال سے، جس کا دین خداوندی ضرورت مند ہوتا ہے، دین کی تکمیل نہیں کر سکتے۔ دوسرا گروہ ایسے امراء و حکام پر مشتمل ہوتا ہے جو مال اور حربی قوت کو بروئے کار تو لاتے ہیں، لیکن اس سے ان کا مقصد دین کی اقامت نہیں ہوتا۔ دونوں گروہ اسلام کے لیے بے کار ہیں‘‘۔ (السیاسۃ الشرعیۃ)
علامہ سید سلیمان ندوی اس موضوع پر رقم طراز ہیں:
’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت حکومت و سلطنت اور دنیا کی سیاست ہے، یہاں تک کہ کتاب و نبوت کی دولت کے بعد اس کا درجہ ہے‘‘۔ (سیرۃ النبی جلد ۷ صفحہ ۵)
مزید فرماتے ہیں : 
’’اسلام دین و دنیا اور جنت ارضی و جنت سماوی اور آسمانی بادشاہت اور زمین کی خلافت دونوں کی دعوت کو لے کر اول ہی روز سے پیدا ہوا ہے۔ اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دو نہیں، ایک ہی شہنشاہ علی الاطلاق ہے جس کے حدود حکومت میں نہ کوئی قیصر ہے نہ کوئی کسریٰ۔ اس کا حکم عرش سے فرش تک اور آسمان سے زمین تک جاری ہے۔ وہی آسمان پر حکمراں ہے، وہی زمین پر فرماں روا ہے‘‘۔ (سیرۃ النبی جلد ۷ ص ۷)
یہی اسلام کی انفرادیت ہے کہ یہ تسبیح و مناجات کے ساتھ سیاسی شوکت اور اجتماعی قوت کا ضامن ہے اور اسی لئے اقبال نے کہا ہے:
وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگ و حشیش
جس نبوت میں نہ ہو قوت و شوکت کا پیام
اقبال کا یہ شعر محض ایک شعر نہیں بلکہ قرآن کریم کی چند آیتوں کا پرتو ہے:
وَلِلّٰہِ العِزَّۃ وَلِرَسُولِہِ وَلِلمُومِنِینَ (المنافقون ۸)
’’اور اللہ ہی کے لئے غلطہ و عزت اور اس کے رسول کے لئے اور مومنین کے لئے‘‘ (المنافقون: ۸)
وَلَا تَھِنُوا وَلَا تَحزَنُوا وَاَنتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُمْ مُّومِنِینَ (آل عمران : ۱۳۹)
’’ہراساں اور غم زدہ مت ہو، تم ہی سربلند ہو گے اگر تم صاحب ایمان ہو۔‘‘
مولاناابو الکلام آزاد فرماتے ہیں:
’’اسلام کا قانونِ شرعی یہ ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کا ایک خلیفہ و امام ہونا چاہیے۔ خلیفہ سے مقصود ایسا خود مختار مسلمان سربراہ اور صاحب حکومت و مملکت ہے جو مسلمانوں اور ان کی آبادیوں کی حفاظت اور شریعت کے اجراء و نفاذ کی پوری قدرت رکھتا ہو اور دشمنوں سے مقابلہ کے لیے پوری طرح طاقتور ہو۔‘‘ [تحریک خلافت از قاضی محمد عدیل عباسی، ص ۵۱]
اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ غلبہ اسلام کی راہ میں خون شہادت کا ایک قطرہ بھی مومن کے معاصی کے دفتر کو دھو دیتا ہے اور قرآن مجید میں موجود وہ تمام وہ وعدے، جن کو سمجھنے میں ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب سے غلطی سرزد ہوئی ہے، متوجہ ہوتے ہیں۔
امید قوی ہے کہ قارئین کو اس نازک رشتے اور تعلق کا احساس ہو گیا ہو گا کیونکہ اسلام کی تاریخ سلطنت و مذہب کے اشتراک کی تاریخ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں مکی و مدنی دونوں زندگیاں جمع کر دی گئی تھیں۔ آپ کی ذاتِ مبارک میں امامت و نبوت دونوں کو اس طرح بہم کر دیا گیا تھا، اسی لیے تو علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں کہ ’’اسلام اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ناخن کو گوشت سے علیحدہ کرنا ہے‘‘۔ ان شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی عقل سلیم کے لیے اس بات کو قبول کرنا ممکن نہیں کہ ’’دین کے سیاسی غلبے کے لیے جدوجہد کرنا دینی فریضہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ یہ الفاظ مخصوص ذہنی تراش خراش کے بعد ہی زبان اور قلم سے ادا ہو سکتے ہیں کہ ’’دین اسلام کو غالب کرنے اور سیاسی طور پر نافذ کرنے کے لیے اجتماعی کوشش دین کا ایک اضافی جزو ہے اور اس قسم کی جدوجہد پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت مسلمہ کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں کیا گیا اور نہ یہ جدوجہد اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کو مشروط ہے۔‘‘

دلائل و استدلالات کا جائزہ

اقتباس: ’’قرآن میں سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں کئے گئے وعدے صحابہ کرام کے حق میں تھے جو پورے ہوئے، عام مسلمان ان وعدوں کا مخاطب ہیں نہ مصداق۔‘‘
تبصرہ: ہر خاص و عام جانتا ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا محکم پیغام قیامت تک تمام انسانوں کے لیے نور ہدایت ہے جس کے اولین مخاطب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) تھے اور اِن ذوات فاضلہ کے بعد قیامت تک آنے والا ہر انسان اس پیغام کے ایک ایک حرف کا مخاطب ہے۔ قرآن مجید کی عمومیت ہی اِس کا اعجاز ہے۔ مثلاً کسی شخص کے بالغ ہونے یا غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے کے بعد ’’اَقِیمُوا الصَّلٰوۃ‘‘ کا حکم دونوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ صاحب نصاب ہونے کی صورت میں ’’اٰتُوا الزَّکٰوۃ‘‘ پر عمل کرنا لازم ہے۔ ماہ رمضان میں ’’اَتِمُّوا الصِّیَامَ‘‘ کے حکم کا بجا لانا فرض ہے۔ حج کی فرضیت کے بعد ’’اَتِمُّوا الحَجَّ‘‘ بیت اللہ کی زیارت اور مخصوص احکام کی بجا آوری کا تقاضا کرتا ہے۔ اِن احکامات پر عمل کرنے کے بعدمسلمانوں کو اِن احکامات کی بجا آوری پر انعام و اکرام اللہ تعالیٰ ہی کی شایان شان ہے۔ 
کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ مسلمانوں کو نماز پڑھنے کا تو حکم ہے، لیکن تنھی عن الفحشاء والمنکر اْن کے لیے نہیں ہے؟ رمضان کے مہینے میں مشقتوں اور تکلیفوں کو برداشت کر کے لمبے لمبے روزے رکھنے کے تو مسلمان پابند ہیں، لیکن لعلکم تتقون اور وانا اجزی بہ صرف پیغمبر اور صحابہ کرام کے لیے تھے؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صاحب استطاعت ہونے کے بعد مسلمانوں پر مناسک حج کی بجا آوری لازمی ہے لیکن رجع کیوم ولدتہ امہ سے ان کا اکرام نہیں کیا جائے گا؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صدقات و خیرات کے ذریعے مسلمانوں پر غریبوں کی مدد کرنا ایمان کا تقاضا ہے، لیکن کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ (البقرۃ: ۲۶۱) تو آپ اور صحابہ کرام کے لیے خاص تھے؟ اگر اِن احکامات کی تعمیل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا اور بدلے کے تمام وعدے مسلمانوں کے لیے ہیں اور روگردانی کی صورت میں تمام وعیدات مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو پھر کون سے قاعدوں اور قوانین کے تحت مسلمانوں کی اسلام کے سیاسی غلبے کے لیے سیاسی جدوجہد کے وعدوں کو قرون اولیٰ کے ساتھ مخصوص کیا جا رہا ہے؟
قرآن کی کسی بھی آیت کے مفہوم کی تخصیص یا تو قرآن کی دوسری آیت کے ذریعے ممکن ہے یا پھر خبر متواتر اور مشہور کے ذریعے تخصیص کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف خالص عقلی استدلالات کے ذریعے تخصیص کرنا مسلمانوں کو غلط پٹڑی پر گامزن کرنا ہے۔ کل کو اگر کوئی شخص نبوت کا اعلان کرے اور دعوی کرے کہ قرآن پچھلی نسلوں کے لیے تھا اور موجودہ امت کے لیے مجھ پر وحی بھیجی جا رہی ہے تو موصوف اپنے پیش کردہ اصول کی روشنی میں قرآن کی صداقت کو کیسے ثابت کریں گے؟
اقتباس: ’’زبان کا معروف اسلوب ہے کہ وعدہ اگر خاص کسی شخص یا اشخاص سے یا جائے تو وہی اس کا مخاطب اور مصداق ہوتے ہیں۔۔۔۔۔اس کا انکار ممکن نہیں۔‘‘
اگر کوئی شخص کسی بچے سے کہے کہ ’’امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھانے پر اسے انعام ملے گا‘‘ تو اِس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ بچے کو محنت کی ترغیب دی جا رہی ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل ہونے پر اس شخص کی طرف سے بچے کو انعام دینا لازمی ہو گا، لیکن اگر نہیں دے گا تو جھوٹا ہو گا۔ ہم اللہ تعالیٰ کے غلام ہیں اگر احکام کی بجا آوری پر ہمیں جزا نہ بھی ملے اور اللہ کی تائید و نصرت شامل حال نہ ہو تو اعتراض نہیں کیا جا سکتا، لیکن جو ذات اپنے بارے میں ومن اصدق من اللہ قیلا کا اقرار کرے، جس کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہو، اور جو احکام کی بجا آوری کے سلسلے میں بار بار وعدوں کی یاد دہانی کرے تو اس کے لیے جزا اور بدلہ نہ دینا اس کے شایان شان نہیں۔ 
دوسری بات یہ کہ مخلوق اور خالق کے درمیان کسی بھی قسم کی مماثلت کا تصورنہیں کیا جا سکتا، چہ جائیکہ اپنے وعدوں کو خدا کے وعدوں پر قیاس کیا جائے۔ اس قسم کے استدلالات مشرکین مکہ بھی کیا کرتے تھے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’فَلَا تَضرِبُوا لِلہِ الاَمثَال‘‘۔
تیسری بات یہ کہ اگر کوئی شخص کسی بچے کو ’’مکتوب ‘‘ پیش کرے جس میں یہ وعدہ کیا گیا ہو کہ’’اچھی کارکردگی پر اسے انعام دیا جائے گا‘‘، بچہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور وہ شخص اپنے وعدے کے مطابق بچے کو انعام سے نوازتا ہے۔ اس کے بعد وہی ’’مکتوب‘‘ دوسرے بچے کو پکڑاتا ہے اور دوسرا بچہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر انعام کا مطالبہ کرتا ہے تو اس شخص کے لیے یہ کہنا کس طرح صحیح اور ممکن ہو سکتا ہے کہ اِس ’’مکتوب‘‘ میں لکھا گیا وعدہ تو پہلے بچے کے لیے تھا، آپ کے لیے نہیں ہے، لہٰذا آپ انعام کے مستحق نہیں ٹھہرتے؟
موصوف نے اِس عقلی استدلال کے ضمن میں چار آیتیں پیش کی ہیں: 
وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ [سورۃ آل عمران: ۱۳۹]
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ، وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا، یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْءًا، وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ [سورۃ النور: ۵۵]
وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّءَنَّھُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ [سورۃ النحل: ۴۱]
وَمَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً [سورۃ النساء: ۱۰۰]
پہلی آیت میں مخاطب کے صیغوں کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے جس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اِن آیتوں کے مصداق صرف آپ اور صحابہ کرام ہیں اور دیگر مسلمان اِس کے مصداق ہیں نہ مخاطب۔ دوسری آیت میں خطاب کے صیغے بھی مفقود ہیں، جبکہ تیسری اور چوتھی آیت میں تو خطاب عموم کے صیغوں سے کیا گیا ہے، لیکن موصوف کو اِس میں بھی تخصیص کا مفہوم دکھائی دے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔
اقتباس: ’’قرآن مجید میں بڑی وضاحت سے یہ بات آئی ہے کہ خدا اپنے اصول کبھی نہیں بدلتا۔ اگر یہ وعدے عام مسلمانوں کے لیے بھی ہوتے تو کامیابی ان کو بھی نصیب ہوتی۔ چونکہ یہ وعدے مسلمانوں کے لیے تھے ہی نہیں، اس لیے ان کے حق میں پورے نہیں ہوئے۔ خدا نے اپنا اصول نہیں بدلا۔‘‘
یہ وعدے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ خاص ہیں، اس کے لئے مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق دلیل پیش کرنا لازمی ہے۔ عقل کی بنیاد پر کسی آیت کو ایک زمانے کے ساتھ مخصوص کر دینا نا انصافی بھی ہے اور قرآن کریم کی غلط تشریح بھی ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ وعدے مسلمانوں کے حق میں کبھی پورے نہیں ہوئے تو نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ ہمیں فقط محنت، کوشش اور جدوجہد کا مکلف کیا گیا ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی ہجرت کے بعد ملک خدادا د پاکستان جو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے، درجہ بالا آیت کی عملی تشریح ہے۔یقیناًاللہ تعالیٰ اپنے اصول کبھی نہیں بدلتا اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ جو بھی ہمارے راستے میں کوشش کریں گے، ہماری تائید و نصرت اور امداد ان کے ساتھ ضرور شامل حال ہوگی۔ چنانچہ ارشاد ہے: 
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ (العنکبوت ۶۹) 
اس آیت میں شک کی گنجائش ہے نہ تاویل کی کیونکہ لَنَھْدِیَنَّھُمْ میں تاکیدات کے مجموعہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی یقین دہانی کرتا ہے۔اس کے علاوہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِن فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (النحل ۹۷) میں بھی تاکیدات کو جمع کر کے ’’عام مسلمانوں‘‘ سے وعدے کو یقینی بنایا گیا ہے۔
اقتباس: ’’یہ بات ذہنی میں رہنی چاہیے کہ صحابہ نے دشمنان اسلام کے خلاف جو قتال کیا، وہ غلبہ و حکومت کے لیے نہیں تھا بلکہ خدا کے نافرمانوں کو اتمام حجت کے بعد خدا کے آخری سزا دینے کے لیے اور مظلوم مسلمانوں کو ان کے پنجہ ظلم سے چھڑانے کے لیے تھا۔‘‘
مظلوم مسلمانوں کا مدد کے لیے پکارنے پر لبیک کہنا ہمیشہ سے مسلمانوں کا دینی فریضہ رہا ہے اور یہی غلبہ و حکومت کی بنیاد ہے۔ اگر صرف مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا ہی مقصود تھا تو آپ کو حیات میں اور آپ کے رخصت ہونے کے بعد صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) اور ان کے رفقاء کبھی سو سال تک ریاست و حکومت کو برقرار رکھنے کی کوشش نہ کرتے بلکہ کبھی کبھار مشاجرات تک بھی نوبت پہنچ چکی تھی۔
اقتباس: ’’مسلمانوں نے دین کے نام پر غلبے کے حصول کے لیے جن مشکلات کا راستہ اپنے لیے چنا ہے ، وہ ان کے دین کا تقاضا ہی نہیں ہے کیونکہ دین کا اصل مقصد تزکیہ نفس ہے۔‘‘
اسلام ایک جامع دین ہے اور اس کے جامع ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ عبادت و ریاست کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ میں مرکزی حیثیت یقیناًخدا کے ساتھ لگاؤ اور تعلق کو حاصل ہے اور وہ اصلاً مطلوب ہے، لیکن خدا کے ساتھ تعلق کی استواری اور پھر اس کے بعد خدا کے عادلانہ قوانین کے نفاذ کے لیے اختیار اور طاقت کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ اس کے لیے بھی سعی و کاوش ایک دینی ضروت ہے۔ نہ حکومت کے بغیر زمین میں فتنہ و فساد کو دفع کیا جا سکتا ہے اور نہ اللہ کے بندوں کے درمیان عدل و انصاف اور امن و امان کا قیام ممکن ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انسان خلیفۃ اللہ ہے اور اس کا مقصد زندگی عبادت ہے۔ عبادت کے صرف داخلی تقاضوں کو پورا کرنا اور تسبیح و مناجات میں مشغولیت کو کافی سمجھ لینا ، ملت کے اجتماعی مسائل سے روگردانی اور عبادت کے خارجی تقاضوں کو جن کا تعلق خاکدان ارضی پر احکام الہٰی کے نفاذ سے اور غلبہ اسلام سے ہے، بالکلیہ نظر انداز کر دینا اور ان کو اہمیت نہ دینا اور اس میدان میں کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی یا تحقیر کرنا دین کے متوازن تصور کے خلاف ہے۔ عبادت کے داخلی تقاضے جوہر اور اصل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسلامی حکومت کا قیام اور دین کے قوانین عدل کا نفاذ اس کے لئے وسیلے کا درجہ رکھتے ہیں، اس لئے وہ بھی مطلوب ہیں۔ وسیلے اور مقصد کے اس فرق کو آشکارا کرنے کے لیے قرآن کریم کا ارشاد ہے: 
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ (سورۃ الحج: ۴۱)
’’وسیلے‘‘ اور ’’مقصد‘‘ کے اِس فرق پر مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندوی نے اپنی کتاب ’’ارکان اربعہ‘‘ میں یوں روشنی ڈالی ہے:
’’انسان کی حیثیت یہ ہے کہ وہ اس زمین میں اللہ کا خلیفہ ہے۔ چونکہ وہ اللہ کا خلیفہ ہے، اس لئے اس کے اندر ذوق علم، شوق جستجو اور زمی کے خزینوں اور دفینوں سے فائدہ اٹھانے اور ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی صلاحیت بخشی گئی اور تعلیم اسماء کا امتیاز اسے عطا کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں انسان مسلسل رکوع و سجود اور مسلسل تسبیح و ذکر کا پابند نہیں۔ اگر وہ اس کی کوشش کرے گا تو اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کی حیثیت سے اپنی ناکامی کا ثبوت فراہم کرے گا۔‘‘
اس موضوع پر سید سلیمان ندویؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سیرۃ النبی‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:
’’اسلام کے سارے دفتر میں ایک حرف بھی ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ قیام سلطنت اس دعوت کا اصل مقصد تھا اور عقائد و ایمان، شرائع و احکام اس کے لیے بمنزلہ تمہید تھے بلکہ جو کچھ ثابت ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ شرائع اور حقوق و فرائض ہی اصل مطلوب تھے اور ایک حکومت صالحہ کا قیام ان کے لیے وجہ اطمینان اور سکون خاطر کا باعث ہے تاکہ وہ احکام الہٰی کی تعمیل بآسانی کر سکیں۔ اس لیے وہ بھی عرضاً مطلوب ہے۔‘‘ (سیرۃ النبی جلد ۷ ص ۶)
قرآن میں سلطنت کے ملنے کو عزت اور سلطنت کے چھن جانے کو ذلت قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہے: 
قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ، وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ، بِیَدِکَ الْخَیْرُ، اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر (آل عمران ۲۶)
’’اے اللہ، حکومتوں کے مالک، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے۔ تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے اور تیرے ہی قبضے میں ہر قسم کا خیر ہے۔‘‘
اس آیت میں عزت و ذلت سے مراد سلطنت کا ملنا اور سلطنت کا چھن جانا ہے۔ بلاغت کی اصطلاح میں اسے لف و نشر مرتب کہتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات میں نبوت و ہدایت کے بعد حکومت و سلطنت کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: 
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ، فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا (النساء: ۵۴) 
’’یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے فضل پر لوگوں (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام) سے حسد کرتے ہیں حالانکہ ہم نے ابراہیم کی اولاد کو بھی حکمت اور عظیم بادشاہت عطا کی تھی۔‘‘
خلاصہ بحث یہ کہ دین میں حکومت کا قیام مقصود بالذات نہیں ہے۔ جن لوگوں نے دین کی تشریح اس انداز میں کی ہے کہ تمام پیغمبروں کو خدائی فوجدار بنا کر بھیجا گیا تھا اور ان کا مشن یہ تھا کہ وہ دوسروں سے اقتدار کی کنجیاں چھین لیں، وہ تشریح کے معاملے میں عدم توازن کا شکار ہوئے ہیں۔ قرآن و سنت میں اس بات کی صراحت نہیں ملتی ہے۔ غور کیجئے تو اس میں حکمت کا پہلو ہے اور بندوں پر اللہ کی خاص شفقت نظر آتی ہے۔ اگر اس کی صراحت کر دی جاتی تو کسی ملک میں دو مسلمان بھی پائے جاتے تو حکومت کا قیام ان پر فرض ہو جاتا اور ان کے لیے یہ کام ضروری ہو جاتا، خواہ اس کے لیے ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔اسی طرح سے وہ لوگ بھی عدم توازن کا شکار ہوئے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجے گئے تھے، اس لیے مسلمانوں کے لیے حکومت قائم کرنے کی کوشش غیر مشروع ہے۔
قرآن کریم میں غلبہ و اقتدار کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی بڑی آرزو اور تمنا کے طور پر ذکر کیا گیا ہے:
وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا نَصْر مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْح قَرِیْب وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (الصف ۱۳)
’’اور ایک چیز دے گا جسے تم عزیز رکھتے ہو مدد اللہ کی اور فتح قریب۔ اور خوشی سنا دو ایمان والوں کو‘‘۔
نصوص سے اقتدار اور غلبہ کے حصول کے اشارے ملتے ہیں۔ سیرت طیبہ اور تاریخ سے ثابت ہے کہ اس کے لیے مواقع کو استعمال کیا گیا ہے اور اسی لئے علماء اور ائمہ کرام نے اس کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا ہے اور نظام عدل کے قیام اور مظالم کے سد باب کو ضرور قرار دیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ملت و مدن، دونوں قسم کے مصالح کی تدبیر و انتظام کے لئے ہوئی تھی اور چونکہ امام ان کا نائب اور ان کے امر کو نافذ کرنے والا ہوتا ہے، اس لئے یہ دونوں کام اس کے لئے ضروری ہیں اور نبی کی اطاعت کی طرف اس کی اطاعت بھی واجب ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں اور اپنی غلطی کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے کی صلاحیت عنایت فرمائے۔ آمین

مدرسہ ڈسکورسز : سفر قطر کے احوال و تاثرات

مولانا محمد رفیق شنواری

امریکہ کی ایک معروف کیتھولک یونیورسٹی، یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ صاحب نے پاک و ہند کے دینی مدارس کے فضلاء کے لیے " مدرسہ ڈسکورسز" کے عنوان سے ایک تین سالہ کورس متعارف کروایا ہے جو پچھلے سال شروع ہوا تھا اور آئندہ سال اختتام پذیر ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کی پیدائش ساؤتھ افریقہ میں ہوئی، دارلعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنو میں دینی تعلیم کی تکمیل کی۔ اس کے بعد لندن میں صحافت سے وابستہ رہے اور اس کے بعد امریکہ منتقل ہوگئے۔ امام غزالی کے فلسفہ لسانیات پر پی ایچ ڈی کی۔ ان کا پی ایچ ڈی کا کام تو اب تک غیر مطبو ع ہے، لیکن امام غزالی پر ان کی ایک اور کتاب Ghazali and the Poetics of Imagination زیور طبع سے آراستہ ہے جس نے ۲۰۰۵ء میں American Academy of Religion سے مذہبیات کی تاریخ میں بہترین کتاب کا ٹائٹل بھی حاصل کیا ہے۔ پروفیسر صاحب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ذیلی ادارے اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ سے شائع ہونے والی کتاب ’’دینی مدارس: عصری معنویت اور جدید تقاضے‘‘ کے مصنف بھی ہیں جو دراصل ان کی انگریزی تصنیف ?What is a Madrasa کا ترجمہ ہے۔ ترجمہ ہندوستانی فاضل محقق مولانا ڈاکٹر وارث مظہری نے کیا ہے۔ ابراہیم موسیٰ صاحب آج کل یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم (امریکہ)میں بطور پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 
پروفیسر ابراہیم موسیٰ فلسفہ لسانیات کے متخصص ہیں اور اس باب میں ابتدائی دینی تعلیم مدرسے سے لینے کی بدولت اسلامی علوم اور تراث کے ساتھ ان کا گہراتعلق واضح طور پر ان کے کام میں محسوس ہوتا ہے۔ ان کے سامنے یہ حقیقت واضح ہے کہ اسلامی علوم و فنون کے کسی بھی پہلو پر کام تراث کے ساتھ مضبوط تعلق اور کامل فہم کے بغیر بہر صورت ادھورا ہوگا۔ اسی طرح پروفیسر صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ مدارس کا نظام تعلیم کئی اعتبار سے قابل نقد و اصلاح ہونے کے باوجود طلبہ کا تراث کے ساتھ گہرے فہم اور مضبوط گرفت کا رشتہ استوار کر دیتا ہے۔ انہی باتوں کو سامنے رکھ کر انہوں نے یہ ضرورت محسوس کی کہ مدارس میں پروان چڑھنے والی تراث فہمی کی ان صلاحیتوں کے لیے مغرب کے جدید اسلوبِ تحقیق اور نقد و نظر کے نئے اور متعارف منہاج کے مطابق نشوونما کا موقع پیدا کیا جائے جو ممکن ہے مستقبل میں مغرب اور اسلام کے درمیان علمی وتہذیبی مکالمے کی بنیاد ثابت ہو۔ 
اس فکر کو عملی شکل دینے کے لیے " مدرسہ ڈسکورسز" کے عنوان سے یہ پروگرام متعارف کرایا گیا جس کومالی طور پر امریکہ کا ایک مشہور ادارہ جان ٹمپلٹن فاؤنڈیشن سپورٹ کر رہا ہے۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے میں پروفیسر صاحب کو نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے رفقائے کار، خاص طور پر ڈاکٹر ماہان مرزا کے علاوہ پاکستان سے مولانا عمار خان ناصر اور ہندوستان سے مولانا ڈاکٹر وارث مظہری کا تعاون بھی حاصل ہے۔ اس کورس کا دورانیہ تین سال رکھا گیا ہے جس کو چھ سمسٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہفتہ وار تدریسی سرگرمیاں آن لائن رکھی گئی ہیں اور استفادہ کو آسان بنانے کے لیے تدریس کے اوقات شام کے بعد رکھے گئے ہیں۔ نصاب کے طور پر علم کلام ، عقیدہ ، فلسفہ اور فلسفہ تاریخ کے اہم مباحث انتخاب کیا گیا ہے اور ان کی لیے کسی مخصوص کتاب کے بجائے مختلف مصنفین کی تحریریں منتخب کی گئی ہیں۔ 
اس کورس کا باقاعدہ آغاز پچھلے سال ہوا تھا۔ میں چونکہ اس سال شریک ہو سکا ہوں، اس لیے اپنے پہلے سمسٹر کے حوالے سے کچھ گذارشات پیش کروں گا۔ 
سمسٹر کے آغاز میں ہمارے سامنے عمومی سولات رکھے گئے۔ بعد میں ان سوالات کا تفصیلی تعارف، طلبہ کی طرف سے اشکالات و جوابات کا سلسلہ اور بحث کے سمٹنے تک جزوی سوالات بھی شامل ہوتے گئے۔ یوں پورے سمسٹر میں زیر بحث آنے والے تقریباً تمام موضوعات کا ایک جامع خاکہ شرکاء کے سامنے آگیا۔ ہر پہلو سے متعلق شہرہ آفاق اور نہایت معتبر اصحابِ قلم کی کتابو ں کے منتخبات کو تدریسی مواد کے طور پر رکھاگیا۔ تدریس کی ذمہ داری پاکستان سے مولانا عمار خان ناصر، ہندوستان سے مولانا ڈاکٹر وارث مظہری صاحب اور یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم سے ڈاکٹر ماہان مرزا صاحب نے اٹھائی، جبکہ وقتاً فوقتاً ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ بھی شریک گفتگو ہوتے رہے۔ 
کلاسز کا انتظام اس طور پر کیا گیا کہ ایک ہفتہ قبل ہمیں اگلی کلاس میں پڑھایا جانے والا مواد بھیج دیا جاتا اور کلاس کے مقررہ دن سے ایک یا دو دن پہلے پاکستانی طلبہ کے ساتھ مولانا عمار خان ناصر جبکہ ہندوستانی طلبہ کے ساتھ مولانا ڈاکٹر وارث مظہری ایک گھنٹے کی تیاری کی کلاس منعقد کرتے۔ اس میں ہر شریک اس مواد کو پڑھ کر کلاس میں شریک ہوتااور متن کی کسی مشکل کو سمجھنے کے لیے اپنا سوال استاد کے سامنے رکھ دیتا۔ کورس کی مرکزی کلاس شام سات بجے سے، درمیان میں عشاء کے لیے بیس پچیس منٹ کے وقفے کے ساتھ، رات دس بجے تک چلتی۔ یہ سب سے اہم اور بنیادی کلاس ہوتی جس میں پاک و ہند کے تمام شرکاء شریک ہوتے۔ اس کو دو یا تین حصوں میں تقسیم کر کے ہر استاد اپنا حصہ پڑھا دیتا اورآخر میں شرکا کے سولات کا جواب دیتا۔ مرکزی کلاس کے علاوہ طلبہ کی استعداد میں اضافہ کے لیے چند ذیلی سرگرمیاں بھی اس کورس کا حصہ ہیں۔ مثلاً شرکاء کو تین یا چار افراد پر مشتمل گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر گروپ، ہفتہ میں ایک دفعہ یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم کے کسی طالب علم کے ساتھ مخصوص موضوع پر انگریزی میں مکالمہ کرتا ہے۔ موضوع کا انتخاب اور متعلقہ مواد بذریعہ ای میل پہلے سے ارسال کر دیا جاتا ہے۔ ایک ہفتہ وار کلاس انگریزی زبان کے حوالے سے ہوتی ہے، جبکہ ایک کلاس تاریخ فلسفہ پر مبنی مشہور ناول Sophie's World کو گروپ کی شکل میں مشترکہ طور پر پڑھنے کے لیے منعقد کی جاتی ہے۔ 
پروگرام کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ونٹر اور سمر میں تمام شرکا کو ایک ہی جگہ جمع کیا جائے تاکہ براہِ راست مل بیٹھنے اور آپس میں بالمشافہہ گفتگوا ور ایک دوسرے کے ساتھ خیالات و آراء کے تبادلہ کا موقع ملے۔ چنانچہ دسمبر ۲۰۱۷ء کے آخری ہفتے میں کورس کے سالِ اول اور سالِ دوم میں شریک پاک وہند کے تمام طلبہ کو قطر کی حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کے کالج آف اسلامک اسٹڈیز کی دعوت پر قطر لے جانے کا پروگرام بنایا گیا۔ 

قطر میں ورکشاپ کے احوال

قطر جانے سے پہلے ونٹر انٹینسو کے لیے تدریسی مواد ہمیں بھیجا گیا اور وہاں کی مصروفیات کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی۔ کورس کے پاکستانی شرکاء لاہور ایئر پورٹ سے بذریعہ سری لنکن ائیر لائن ۲۴ دسمبر ۲۰۱۷ء بروز اتوار روانہ ہوئے۔ کولمبو ایئر پورٹ پر دو گھنٹے کے وقفے کے بعد دوحہ کی فلائیٹ لی اور رات بارہ بجے ہم دوحہ کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترے۔ دوحہ کا یہ خوب صورت ایئر پورٹ دنیا کا آٹھواں بڑا ائیر پورٹ مانا جاتا ہے۔ائیر پورٹ سے باہر ہوٹل کی بسیں انتظار میں کھڑی تھی جو ہمیں سیدھا ہوٹل لے گئیں۔ قطر میں ہم دوحہ کی حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کے کالج آف اسلامک اسٹڈیز کے مہمان رہے اور اسی کے آڈیٹوریم میں کلاسز کا انعقاد ہوتارہا۔ حمد بن خلیفہ یونیورسٹی دوحہ کے ایجوکیشن سٹی میں واقع ہے جس کا قیام ۲۰۱۰ء میں عمل میں لایا گیا۔ ہمارے قیام کا انتظام ایجوکیشن سٹی میں ہی ایک فور اسٹار ہوٹل میں کیا گیا جہاں سے کالج تک آنے جانے کے لیے گاڑیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ ایجوکیشن سٹی کو ’’نیشنل فاؤنڈیشن فار ایجوکیشن، سائنس اینڈ کمیونٹی ڈیویلپمنٹ‘‘ نامی تنظیم نے سنٹر فار ہائر ایجوکیشن کے طور پر تعمیر کیا ہے اور اب تک یہاں چھ امریکی جامعات کے کیمپسز کے علاوہ قطر نیشنل لائبریری (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) سمیت دیگر کئی تعلیمی ادارے قائم ہو چکے ہیں۔ 
قطر میں ہمارا قیام ایک ہفتہ رہا اور اس دوران کورس کے اساتذہ اور دیگر اہل علم و دانش کو سننے اوران سے براہ راست استفادہ کے مواقع میسر آئے۔ ۲۵ دسمبر بروز پیر سے باقاعدہ ورکشاپ کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر ماہان مرزا صاحب نے اس کورس کے اہداف اور اس پورے ہفتے کی سرگرمیوں اور طریقہ کار سے متعلق مفصل بریفنگ دی اور اس کے بعد ’’معاصر فکری تحدیات‘‘ کے موضوع پر محاضرہ پیش کیا جس میں مذہب اور سائنس کے درمیان تعلق کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ مستقبل کے کیا امکانات ہیں؟ مفکرین اس پہلو کو اپنے چشم تخیل سے کیسے دیکھ رہے ہیں؟ ان امور بھی پر ڈاکٹر صاحب نے مختلف اہل فکر و دانش کی تحریروں کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کی جس کی تکمیل سوالات و جوابات کے سیشن سے ہوئی۔ لنچ کے بعد ڈاکٹر ماہان مرزا کے لیکچر میں زیر بحث آنے والے موضوعات پر طلبہ کے درمیان گروپس کی شکل میں گفتگو ہوتی رہی۔ مغرب کے بعد اگلے دن کے مواد سے متعلق تیاری کی کلاس ہوئی۔ رات کو حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کی جانب سے عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں کالج آف اسلامک اسٹڈیز کے ڈین پروفیسر عماد شاہین اور چند پروفیسر حضرات نے اپنے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور پروگرام کے آئندہ مراحل پر بھی اپنی میزبانی کی پیش کش کی۔ 
اگلا دن یعنی ۲۶ دسمبر پروفیسر ابراہیم موسیٰ صاحب کے لیکچر کے لیے تھا۔ پروفیسر صاحب نے’’نص کی تعبیر و تشریح (Hermeneutics)، روایت اور تاریخ ‘‘پر گفتگو کی۔ لنچ کے بعد گروپس کی شکل میں مذاکرہ اور اگلی کلاس کی تیاری کے ساتھ یہ دن بھی اختتام پذیر ہوا۔ 
۲۷ دسمبر کو ڈاکٹر محمد خلیفہ نے ’’مذہب ، سائنس اور ترقی ‘‘ کے موضوع پر اور ڈاکٹر دین محمد نے ’’جدیدیت ، مذہب اور مختلف آرا‘‘ کے موضوعات پر بات کی۔ لنچ اور تیاری کے بعد سب شرکاء دوحہ کے ’’سوق واقف‘‘ دیکھنے کے لیے گئے۔ سوق واقف کوئی بہت پرانا شہر نہیں، لیکن دوحہ جیسے جدید شہر میں اپنے قدیم انداز، پرانے طرز تعمیر اور ہاتھ کی بنی اشیاء کی دکانوں کی کثرت کی وجہ سے یہ بازار سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ دوگھنٹے اس بازار میں گھومنے اور سیر وتفریح کے بعد ہم واپس ہوٹل پہنچے۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم یونیورسٹی گئے جہاں اگلے دن کی کلاس کی تیاری کی گئی اور پھریونیورسٹی کے ریستوران میں ڈنر پر اس دن کی مصروفیات بھی ختم ہوئیں۔ 
۲۸ دسمبر بروزِ جمعرات ڈاکٹر رناء دجانی نے (جن کا تعلق اردن سے ہے اور الجامعہ الہاشمیہ، اردن میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں) ’’مسلم دنیا میں ارتقا کی تدریس‘‘ سے متعلق تفصیلی لیکچر دیا۔ 
ظہر اور لنچ کے بعد دوحہ میں واقع میوزیم آف اسلامک آرٹ جانے کا پروگرام تھا۔ یہ میوزیم مصنوعی جزیرے پر کئی منزلہ انتہائی عالیشان بلڈنگ اور اس میں متنوع تاریخی اور نادر اشیا کے مجموعے کا نام ہے۔ میوزیم کی بلڈنگ کو اس طرز پر تعمیر کیا گیا ہے کہ دوحہ کی فلک بوس عمارتوں سے کسی بھی طرف سے دیکھنے والوں کو دور سے نظر آئے۔ ایک طرف وسیع و عریض سڑک اور باقی تینوں اطراف میں سمندر کا پانی۔ میوزیم کا ماحول بھی کافی خوبصورت اور پر فضا ہے۔ میوزیم کے اندردیگر نوادرات کے علاوہ اسلامی تہذیب کے اثرات و باقیات کو بھی اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ پانی کی طرح پیسہ خرچ کیے جانے کے باوجود ابھی یہ میوزیم تاریخ اور تہذیبوں کے آثار سے محبت رکھنے والوں کے لیے تسکین کا وہ سامان نہیں رکھتا جو ہمارے ملک پاکستان کیکئی میوزیمز میں پایا جاتا ہے۔ کاش ان کا خیال رکھنے اور سیاحوں کے لیے انھیں پرکشش بنانے پر توجہ دی جائے۔ میوزیم سے واپسی پر یہ دن بھی حسب معمول گروپس کی شکل میں اجتماعی مذاکرے اور اگلی کلاس کی تیاری کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ 
۲۹ دسمبر بروز جمعہ مولانا عمار خان ناصر اور مولانا ڈاکٹر وارث مظہری نے ’’مذہب اور نصوص کی تاویل‘‘ کے موضوعات پر تفصیلی بات کی۔ اس دن شرکاء میں سے کچھ اپنے دوست احباب سے ملاقات کے لیے گئے اور باقی شرکا کے لیے اساتذہ کے ساتھ دوحہ کے علاقے نیو سٹی کارنیش جانے کا پروگرام بنایا گیا۔ کارنیش بلند و بالا عمارتوں کے سائے میں ساحل سمندر کے سات کلومیٹر پر پھیلا خوب صورت اور پر فضا علاقہ ہے۔رات کو ان بلندو بالا عمارتوں سے پانیوں میں گرتی رنگا رنگ روشنیاں اورسمندر سے آنے والی ہلکی ہوائیں بہت خوب صورت نظارہ پیش کر رہی ہوتی ہیں۔ 
۳۰ دسمبر کو تمام شرکا کو کئی گروپس میں تقسیم کر کے ہر گروپ کو ایک یا دو اہم سوال طے کرنے اور پھر مؤثر انداز میں اس کا جواب پیش کرنے کی سرگرمی دی گئی۔ اس کی تیاری اور باہمی مشاورت کے لیے وقت بھی دیا گیا۔ تمام گروپس کی طرف سے اپنے منتخب کردہ سوال یا مشکل کی تفہیم کے لیے کافی دلچسپ انداز اختیار کیے گئے۔ تعلیمی تسلسل میں تمرین کا یہ پہلو قدرے مسرور کن بھی تھا۔ لنچ کے بعد ہمارا پروگرام دوحہ میں قائم قومی کتب جانے کا دورہ تھا۔ 

نیشنل قطر لائبریری کا دورہ

بطور نیشنل لائبریری اس کے قیام کا اعلان قطر فاؤنڈیشن کی چیئر پرسن ملکہ موزا بنت ناصر المسند کی طرف سے نومبر ۲۰۱۲ء میں قطر کے پچاسویں یاد گاری دن پر کیا گیا۔ تب سے اس لائبریری پر کام شروع ہے۔ اس کا افتتاح امیر قطر خود کریں گے جس کی تقریب میں کئی دیگر ممالک کے سربراہان کی شرکت بھی متوقع ہے۔ اس لائبریری میں اب تک پندرہ لاکھ کتابیں جمع کی گئی ہیں اور کل بیس لاکھ کتابوں کی گنجائش ہے۔ میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق تقریباً ہر کتاب پرحفاظت کی غرض سے پلاسٹک کور چڑھایا گیا ہے۔ اس لائبریری کا وزٹ کرانے کے لیے ہم سب شرکا کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور لائبریری کے مختلف حصوں کا الگ الگ نمائندے تفصیلی تعارف کراتے رہے۔ اس لائبریری کی خاص بات اس کا انوکھا طرزِ تعمیر اور خالص کتابی دنیا میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی تنصیب ہے۔ 
اس کی تعمیر کا انداز کچھ یوں ہے کہ بالکل درمیان میں تہہ خانے بنائے گئے ہیں جس میں مخطوطات اور قدیم نایاب کتابیں جمع کی گئی ہیں۔ تہہ خانوں کے ارد گرد چار سو سیڑھی نما فرش ہیں جن پر الماریاں رکھی گئی ہیں اور بیچ میں پڑھنے کے لیے کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ الماریوں میں جگہ جگہ کمپیوٹر اور آئی پیڈ نصب ہیں جن کے ذریعے کسی کتاب کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ لائبریری کے ممبرز کو کتاب دی بھی جاسکتی ہے۔ پڑھنے کے بعد کتاب عملہ کو بھی واپس کی جا سکتی ہے اور لائبریری کے اندر نصب سات ڈراپ سٹیشنز کے ذریعے بھی اپنی مقررہ جگہ پر واپس بھیجی جاسکتی ہے۔ کسی بھی ڈراپ سٹیشن میں کتاب ڈالی جائے تو تین منٹ کے اندر وہ اپنی الماری تک پہنچ جائے گی۔لائبریری کے اندر سیڑھی نما فرش، جہاں الماریاں رکھی گئی ہیں، کے نیچے لائبریری عملہ کے دفاتر، مختلف ہالز ، عملی کام کے لیے مخصوص کمرے وغیرہ تعمیر کیے گئے ہیں۔ مخطوطات کی سکیننگ اور کمپیوٹر میں انھیں محفوظ کرنے کے لیے نہایت جدید آلات نصب کیے گئے ہیں۔ لائبریری کے مختلف حصوں کے تفصیلی وزٹ کے بعد ہمیں ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں ایک خاتون نے اس لائبریری کے بارے میں مزید معلومات دیں۔ اس کے اہداف کیا ہیں اور اس کی رکنیت کے حصول کا طریقہ اورفوائد کیا ہیں، ان سب امور کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔
لائبریری کے وزٹ کے دوران مجھے ایک خیال بار بار آتا رہا کہ سادہ، پر سکون اور یکسوئی والے ماحول کی بہ نسبت ٹیکنالوجی سے بوجھل اور سہولیات سے لبریز اس ماحول میں کتاب کی طرف بھر پور توجہ کتنا آسان یا مشکل عمل ہوگا۔
ہفتے کا دن واپسی کی تیاریوں، وہاں کے پروفیسرز اور تمام اساتذہ کی اختتامی تقریروں میں گذرنے کے بعد اسی روز یعنی ۳۰ دسمبر بروز ہفتہ سری لنکن ایئر لائن کے ذریعے وطن عزیز کا رخ کیا اور ۳۱ دسمبر کو جب لاہور پہنچے تو سال ۲۰۱۷ء کا سورج اپنی الوداعی روشنیاں پاکستان اور بالخصوص اہل لاہور پر پوری فیاضی کے ساتھ بکھیر رہا تھا اور وہ نئے سال کی آمد اور استقبال کی تیاریوں میں مگن تھے۔ 

تاثرات

میکس پلانک فاؤنڈیشن کے بعد میرا کسی غیر ملکی ادارے کے ساتھ سفر اور تعلیمی دورے کا یہ دوسرا تجربہ تھا۔ دونوں میں جو چیز مجھے زیادہ عجیب لگی، وہ ان لوگوں کے ہاں وقت کی پابندی ہے۔ ان لوگوں کے لیے سب سے بیش قیمت چیز وقت ہے۔ ایک ایک لمحہ سوچ سوچ کر خرچ کرتے ہیں اور مقررہ وقت پر نہ صرف یہ کہ خود موجود رہتے ہیں بلکہ سب دوستوں کو نہایت خوش اخلاقی اور محبت سے بلا بلا کر نظام الاوقات کا پورا پورا خیال رکھنے کا پابند بناتے ہیں۔ 
دوسرا خاص پہلو، اس کورس کے دوران سلیبس کی ترتیب و تدوین، تدریسی انداز، اور عمل تعلم کو آسان سے آسان تر بنانے کے لیے اختیار کردہ حکمت عملی ہے۔ یہ شایداس کورس کی خصوصیت کے بجائے پورے مغرب کی روایت ہو۔ اولاً کسی بھی موضوع سے متعلق نہایت اہم سوالات کا تعین ہوتا ہے۔ پھر ان سولات کے جوابات کے لیے کسی ایک کتاب یا ایک مصنف کو ہمیشہ پڑھتے رہنے کے بجائے نہایت مستند تحریروں کاا نتخاب ہوتا ہے۔ ان منتخبات کو سمجھنے کے لیے الگ کلاس رکھی جاتی ہے، پھر استاد کے ساتھ پڑھنے اور تنقیدی جائزہ لینے اور اپنے سوالات پیش کرنے کے لیے الگ سیشن ہوتا ہے، اس کے بعد مزید غور و فکر کے لیے طلبہ کے آپس میں مل بیٹھنے اور مذاکرے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان تمام مراحل میں بالکل بھی متوجہ نہ رہنے والے کے دماغ کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور چپک جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پڑھانے کے انداز میں مسلسل تقریر اور محض لکھوانے کے بجائے مکالمہ اور طالب علم کو بولنے اور سوال پوچھنے کا موقع دینے کا اسلوب کافی مؤثر محسوس ہوتا ہے۔ تدریس کا یہ انداز اب رفتہ رفتہ پاکستان کی عصری جامعات میں بھی فروغ پا رہا ہے۔
حمد بن خلیفہ یونیورسٹی اور قطر کی نیشنل لائبریری کے ماحول سے اندازہ ہوا کہ قطر کے حکمران خاندان کے لیے عوام کو خوش رکھنا اور انھیں ہر طرح کی سہولت فراہم کرنا اولین ترجیح ہے، اسی لیے ہمیں بھی ہر جگہ عوام کے اندر اپنے حکمرانوں سے محبت کے اظہار کے مختلف انداز ملے۔ کاش پاکستان میں بھی حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایسا ہی باہمی محبت کا رشتہ اور اس کے مثبت ثمرات دیکھنے کو ملیں۔ 

’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘

ڈاکٹر عرفان شہزاد

ڈاکٹر محی الدین غازی انڈیا سے تعلق رکھنے والے، دینی علوم کے ماہر اور متوازن فکر کی حامل شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب وحدتِ امت کے ایک متحرک داعی ہیں۔
غازی صاحب کی کتاب "نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل"، ایک نہایت ہی اہم موضوع پر ایک چشم کشا کتاب ہے جس سے دین کے اندر علم کا ایک پورا پیرا ڈائم بدل جاتا ہے۔ پیش لفظ میں غازی صاحب لکھتے ہیں:
"راقم کے علم کی حد تک اس موضوع پر ایک مکمل کتاب کی صورت میں یہ ایک منفرد کوشش ہے۔"
غازی صاحب نے ایک نہایت اہم علمی حقیقت کی طرف رہنمائی کی ہے جو بوجوہ امت کے ذہن سے اوجھل ہو گئی، تاہم اس کا ادراک کسی نہ کسی درجے میں بڑے علمائے محققین کے ہاں مل جاتا ہے۔انھوں نے اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ دین اس امت کو تواتر عملی کی صورت میں منتقل ہوا ہے، جس میں اہم ترین عمل نماز ہے۔ جو عمل تواتر سے امت کو منتقل ہو ا ہو، اس میں کسی قسم کے شک و شبہ اور اختلاف کی گنجایش نہیں ہو سکتی۔ 
اس کی وضاحت میں غازی صاحب لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری امت نے نماز کا طریقہ سیکھ کر آگے پوری امت کو منتقل کیا، یہ سلسلہ بغیر کسی انقطاع کے مسلسل ہم تک چلا آتا ہے، اس لیے نماز میں کسی اختلاف کا کوئی سوال اٹھنا ہی نہیں چاہیے۔ نماز ایسا عمل تھا جو روزانہ دن میں پانچ بار ادا کیا جاتا تھا، اور آپ نے اسے مسلسل کئی برس صحابہ کی معیت میں کھلے عام کر کے دکھایا تھا۔ یہ نہایت آسان عمل تھا، اس کو یاد کر لینا اور دوسروں کو منتقل کرنا نہایت سہل ہے۔آج کے گئے گزرے دور میں بھی ہر مسلم گھرانہ اہتمام کے ساتھ اپنے بچوں کو نماز سکھاتا ہے تو کیا کسی دور میں اس کے اہتمام میں کسی کوتاہی کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لاکھ سے زائد صحابہ نے نماز سیکھی، اور اسے اپنی اولاد اور انھوں نے اپنی اولاد کو سکھایا اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اپنی تمام کیفیات اور تنوع کے ساتھ پوری امت میں تواتر کے ساتھ رائج ہوئی ہے۔ نماز کے وہ تمام طریقے جو تواترِ عملی کی صورت میں امت میں رائج ہیں، وہ در حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی زندہ سنتیں ہیں اور ان میں سے کسی بھی طریقے کو خلافِ سنت قرار دینا تواتر عملی سے تغافل اورسراسر غلط رویہ ہے۔
رہی یہ بات کہ نماز کے طریقوں میں اختلاف کیوں ہے، تو حقیقت اس کی یہ ہے کہ نماز کے کچھ اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ایک طرح ادا فرماتے تھے۔ ان اعمال میں پوری امت کا ہمیشہ اجماع رہا ہے کہ وہ ایسے ہی ہیں اور ان میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں، جیسے ایک رکعت میں رکوع ایک اور سجدے دو ہیں، فجر کی نماز دو رکعات اور مغرب کی تین رکعات ہیں وغیرہ، لیکن نماز کے بعض اعمال میں آپ نے تنوع اور گنجایش رکھی تھی، آپ انھیں ہمیشہ ایک ہی انداز سے ادا نہیں کرتے تھے۔ مثلاً قیام میں ہاتھ باندھنے کی جگہ، تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین، جلسہ استراحت، قنوت کا وقت اور طریقہ وغیرہ۔ ان میں آپ نے امت کو کسی ایک چیز کا پابند نہیں کیا تھا۔ چنانچہ صحابہ تنوع کے اس دائرے میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق کوئی ایک یا زائد طریقے اختیار کر لیتے تھے۔ صحابہ کے اپنائے ہوئے یہ مختلف طریقے مختلف علاقوں میں، جہاں جہاں وہ گئے، لوگوں میں پھیل گئے۔ یعنی یہ طریقے ان میں تواترِ عملی کے ذریعے سے رائج ہو گئے۔ پھر لوگ اپنے ہاں رائج نماز کے طریقوں سے مانوس ہوگئے اور دوسرے تنوعات کو اجنبی نظر سے دیکھنے لگے۔ پھر جب تدوین فقہ کا دور آیا تو فقہاء نے اپنے اپنے علاقوں میں رائج طریقوں کو اپنی فقہی کتب میں مدون کر دیا۔ پھر یوں ہوا کہ تواتر عملی سے حاصل ہونے والی نماز کو فقہا کی طرف منسوب کر دیا گیا۔ نماز حنفی، مالکی، شافعی کہلانے لگی، اور یہ تاثر قائم ہوتا چلا گیا کہ گویا نماز کا طریقہ ان کے ائمہ نے طے کر کے دیا تھا، حالانکہ لوگوں نے نماز فقہا سے نہیں سیکھی تھی، بلکہ فقہا نے اپنے دور کے لوگوں سے سیکھی تھی۔ انھوں نے تو بس ایک تواتر عملی کو اپنی کتب میں درج کیا تھا۔ ان کے بعد کے لوگ پھر یہ اصرار بھی کرنے لگے کہ ان کی نماز کا طریقہ ہی افضل اور مطابق سنت ہے۔ کچھ حضرات مزید آگے بڑھے اور دوسروں کے طریقہ ہائے نماز میں پائے جانے والے اختلاف کو باطل اور خلافِ سنت بھی قرار دینے لگے۔ یوں وحدت امت اور دینی ہم آہنگی کی ضامن نماز فرقہ واریت کی نذر ہوگئی۔
تواتر عملی کی اس زبردست دلیل کے سامنے نماز سے متعلق ہر اختلاف بے وقعت ٹھیرتا ہے۔ مگر افسوس کہ اس واضح اور ناقابل تردید دلیل کی طرف عموماً توجہ نہیں دی گئی۔ شروع کے دور میں امام مالک نے تواتر عملی کو بہت نمایاں کیا۔ انھوں نے عمل مدینہ پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی، لیکن بعد کے مالکی فقہا بھی یہ نظر انداز کر گئے کہ نماز سے متعلق یہ تواتر عمل پوری امت کو منتقل ہوا ہے نہ کہ صرف اہلِ مدینہ کو، اس لیے ایسے معاملات میں ان کی طرف سے دوسرے طریقہ ہائے نماز پر طعن بے اصل تھا۔ اذان اور اقامت کے کلمات میں تکرار کے اختلاف کی نوعیت بھی یہی تھی کہ یہ اصل میں تنوع کے اختلاف تھے، کوئی بھی طریقہ اپنایا جا سکتا ہے۔ مگر یہ بھی ہر گروہ کے مسلک کی پہچان بن جانے کے بعد بلا وجہ محل اختلاف بن گئے۔
غازی صاحب نے نماز کے ہر ہر عمل پر فقہا کے اختلافات نقل کر کے ان کے ہاں کے معتدل اور معروف فقہا کے اقوال بھی نقل کیے ہیں جن کے ہاں تواتر عملی کی اہمیت کسی نہ کسی درجے میں پائی جاتی تھی اور وہ اپنے مسلک کے عمومی رجحان کے برعکس تواتر عملی کی بنیاد پر اختلاف کو گنجایش دینے کی بات کرتے ہیں۔ بہر حال غازی صاحب کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے تواتر عملی کی دلیل کو بہت خوبی سے نمایاں کیا ہے۔
اس امت کی فقہی روایت کی تاریخ میں یہ ہوا کہ نماز کے اختلافات کو حل کرنے کے لیے تواتر عملی کی ناقابل تردید دلیل کو پیش نظر رکھنے کی بجائے، ہر گروہ اپنی اپنی نمازوں کے مختلف طریقوں کے ثبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب روایات سے استشہاد کرنے لگا۔ ایک گروہ نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے پاس اپنے طریقے کے ثبوت میں احادیث دوسرے سے زیادہ ہیں، تو دوسرے نے یہ دعویٰ کر دیا کہ اس کے پاس دوسرے گروہ کے طریقہ نماز کی منسوخی کی روایات موجود ہیں۔ 
محی الدین غازی صاحب نے یہ توجہ دلائی ہے کہ نماز کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات سے نماز نہیں سیکھی گئی، نماز تو امت نے ہر دور میں اپنے بڑوں کے عمل سے سیکھی ہے۔ ان روایات اور آثار میں البتہ نماز کے ان طریقوں میں سے بعض یا اکثر اعمال کا تذکرہ بھی آ گیا ہے، لیکن نماز کا انحصار روایات پر نہیں، عمل تواتر پر ہے۔
غازی صاحب نے اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ نماز کے بارے میں روایات پر انحصار کرنا یوں بھی غلط ہے کہ نماز کے بعض متفقہ اعمال کے بارے میں کوئی مستند روایت موجود نہیں۔ اس کے باوجود امت کو ان کا نماز کا حصہ ہونے پر کبھی کوئی شبہ نہیں ہوا۔ مثلاً خواتین کی نماز کا انداز مردوں کی نماز سے مختلف ہے، اس بارے میں روایات میں مردو عورت کی نماز کے اس اختلاف کی تفصیل موجود نہیں، لیکن امت ہمیشہ سے متفق رہی ہے کہ خواتین کی نماز کا انداز مردوں کی نماز سے مختلف ہے۔ اسی طرح رکوع و سجدے کی تسبیحات، تشہد اور درودکا بلا آواز پڑھنا، اسی طرح جہری نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعت میں بنا آواز قراء ت کے اجماعی عمل کے پیچھے کوئی مضبوط اور قابل اطمینان روایات موجود نہیں ہیں، لیکن ساری امت کا ان عمال پر اتفاق ہے۔ یہ کہنا کہ کسی فقیہ کو کچھ روایات نہیں پہنچی تھیں، اس لیے انھوں نے مسائل میں اختلاف کیا تو یہ بات کبھی کبھار پیش آنے والے مسائل کے بارے میں تو کہی جا سکتی ہے لیکن نماز جیسے متواتر عمل کے بارے میں کہنا غلط ہے۔
ایک اور اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غازی صاحب نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری نماز امت کو سکھائی ہے، اس میں یہ نہیں بتایا کہ اس میں کیا فرض ہے، کیا واجب اور کیا سنت۔ یہ تعیین فقہا نے کی جس میں اختلافات ہو گئے۔ یعنی، نماز کے وہ اعمال بھی جو سب کے نزدیک نماز کا حصہ تھے، ان کی حیثیت کہ وہ فرض، واجب یاسنت ہیں، اس تعیین میں فقہی اختلاف ہو گیا، جیسے قیام میں امام کے پیچھے مقتدی کو فاتحہ پڑھنی چاہیے یا خاموش رہنا چاہیے۔ اس میں بعض فقہاء کی طرف سے تشدد برتا گیا اور فاتحہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کی بنا پر ایک دوسرے کی نماز کو باطل تک قرار دے دیا گیا، حالانکہ اس کا حل یہ تھا کہ یہ کہا جاتا کہ اس بارے میں تواتر عمل موجود ہی نہیں ،جس کی بنیاد پر حق و باطل کا فیصلہ ہوتا۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ یہ بھی تنوع کا مسئلہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو کسی ایک طریقہ کا پابند نہیں کیا تھا، چنانچہ مقتدی اپنے مزاج و مذاق کے اعتبار سے کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔
اس بے جا تشدد نے امت کو تقسیم کر رکھا ہے۔کرنے کا کام یہ ہے کہ نماز کی کیفیت پر توجہ دی جائے جو بندے کو خدا سے اور فرد کو فرد سے جوڑنے کا ذریعہ ہے، نہ کہ نماز کے فقہی اختلافات کو ہوا دی جائے، جن کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔
آخر میں غازی صاحب نے تجویز پیش کی ہے کہ فقہ کے نصاب کی تدوین نو کی ضرورت ہے۔ لکھتے ہیں:
’’بلا شبہ، آج ضرورت ہے فقہ کی ایسی کتابوں کی تیاری کی، جن میں تمام شرعی دلیلوں کا احترام ہو، متواتر عملی سنت کا بھی لحاظ ہو، احادیث اور آثار کا بھی خیال ہو، اور پھر ساتھ ہی ساتھ ائمہ کرام کے اجتہاد و استنباط کا بھی احترام ہو۔ مدارس میں جب اس طرح کی کتابیں پڑھائی جائیں گی تو مثبت سوچ رکھنے والا اور پوری امت اور ساری شریعت سے محبت کرنے والا ذہن تیار ہوگا۔‘‘
راقم کے مطابق، صرف نماز ہی نہیں بلکہ پورے کا پورا دین، اپنی عملی صورت میں اس امت کو اجماع اور تواتر کے ذریعے سے منتقل ہوا ہے۔ چنانچہ اصلی اور بنیادی دین میں پوری امت میں حقیقتاً کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا اور اس کی اس حیثیت کے باوجود جو اعتراضات یا شبہات پیش کیے گئے ہیں، وہ لائق اعتنا نہیں ہیں۔ قرآن مجید، دین کی علمی اساس ہے جو اجماع و تواتر کے قطعی ذریعے سے امت کو منتقل ہوا ہے اور سنت متواترہ سارا عملی دین ہے جو اجماع اور تواتر عملی سے امت کو منتقل ہوا ہے۔ فروعات میں اختلافات ہیں، لیکن اصل دین میں کوئی بھی اختلاف نہیں۔ یہ دین روایات پر منحصر نہیں رہنے دیا گیا۔ روایات کی اپنی جگہ اہمیت ہے، لیکن ثبوت دین کا انحصار روایات پر نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر مسلمان کو یہ کتا ب ایک بار ضرور پڑھ لینی چاہیے۔ غازی صاحب سے میں یہ گزارش بھی کروں گا کہ کتاب اگرچہ پہلے ہی کم ضخامت کی ہے، تاہم اس کے بنیادی استدلال کو بغیر فقہی تفصیلات کے الگ سے مرتب کر کے بھی شائع کریں تاکہ ایک مختصرتر جامع ورژن بانداز راست عام قاری کو میسر آ سکے۔

مئی ۲۰۱۸ء

جنسی ہراسانی: مذہب کا اخلاقی و قانونی زاویہ نظرمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۲)ڈاکٹر محی الدین غازی
جدید ریاست میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید ۔ بنیادی خدوخال اور طریق کار (۱)مولانا سمیع اللہ سعدی
حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
غامدی صاحب اور اہلِ فتویٰمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۲)مولانا عبید اختر رحمانی
زوالِ امت میں غزالی کا کردار ۔ تاریخی حقائق کیا ہیں؟ (۲)مولانا محمد عبد اللہ شارق
مولانا مفتی تقی عثمانی کی “اسلام اینڈ پالیٹکس’’ کی تقریب رونمائیعظیم الرحمن عثمانی

جنسی ہراسانی: مذہب کا اخلاقی و قانونی زاویہ نظر

محمد عمار خان ناصر

معاشرتی زندگی  کے مختلف دائروں میں کام کرنے والی خواتین کو مردوں کی طرف سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جانا دور جدید کا ایک اہم سماجی مسئلہ ہے اور ہمارے ہاں بھی وقتاً‌ فوقتاً‌ یہ بحث موضوع گفتگو بنتی رہتی ہے۔ اس مسئلے کے کئی پہلو ہیں جن میں سے ہر پہلو مستقل تجزیے کا متقاضی ہے۔ اس کا تعلق انسان کی جنسی جبلت سے بھی ہے، انفرادی اخلاقیات سے بھی،  مرد وزن کے اختلاط کے ضمن میں سماجی روایت سے بھی، جدید معاشی نظم سے بھی اور قانون وریاست کی ذمہ داریوں سے بھی۔ 
بلوغت کی عمر میں مرد وزن کا جنسی طور پر  ایک دوسرے کے لیے باعث کشش ہونا ایک معلوم حقیقت ہے۔ افراد کی سطح پر یہ کشش ضروری نہیں کہ ہمیشہ دو طرفہ ہو۔ بسا اوقات یہ یک طرفہ ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں  جنس مخالف تک رسائی کے لیے مرد اور عورت باہم مختلف رویوں کا اظہار کرتے ہیں۔  عورت جنسی تعلق میں چونکہ فطرتاً‌ منفعل ہے اور اس کی سماجی تربیت میں بھی یہ شامل ہے کہ وہ جنسی رغبت کا اظہار نہ کرے، اس لیے اس کا اظہار رغبت عموماً‌ بالواسطہ یعنی اشارہ وکنایہ کی زبان میں ہوتا ہے اور اس میں جارحیت شامل نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس مرد حیاتیاتی اور معاشرتی، دونوں پہلووں سے غلبے کا مزاج رکھتا ہے، اس لیے اس کی طرف سے جنسی رغبت کا اظہار  اقدام اور جارحیت کا انداز لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ مرد وزن کے مابین معاشرتی تعامل میں  جہاں مرد کسی بھی لحاظ سے  اپنی خواہش کو عورت کی مرضی کے خلاف  اس پر مسلط کرنے کی طاقت رکھتا ہے، وہاں جنسی ہراسانی کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
گویا سادہ لفظوں میں جنسی ہراسانی کا مطلب یہ ہے کہ مرد، عورت کی کمزور پوزیشن یا کسی مجبوری یا خواہش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، جس کی تکمیل اس کے تعاون پر منحصر ہے، عورت کی مرضی کے برخلاف اس سے جنسی تلذذ حاصل کرے ۔ یہ چونکہ اخلاقیات کے کسی بھی تصور کے لحاظ سے ایک غلط طرز عمل ہے،  اس لیے کسی اختلاف کے بغیر دنیا کے ہر معاشرے میں اسے جرم تصور کیا جاتا اور اس کے سدباب کے لیے تدابیر کی جاتی ہیں۔ تاہم اس بنیادی اتفاق کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کی اخلاقی نوعیت  اور اس کی روک تھام کی حکمت عملی کے حوالے سے مذہب کے نقطہ نگاہ اور جدید لبرل تصور اخلاق میں بعض جوہری فرق پائے جاتے ہیں جن کی تنقیح ضروری ہے۔ 
مذہب کے نقطہ نظر سے اس مسئلے کا تجزیہ تین بنیادی اصولوں پر مبنی ہے:
ایک یہ کہ صنفی تعلق کے جواز کا مدار صرف باہمی رضامندی پر نہیں، بلکہ چند اخلاقی حدود وشرائط کی پابندی سے ہے جنھیں نظر انداز کر کے باہمی رضامندی سے قائم کیا جانے والا صنفی تعلق بھی مذہب کی نظر میں غیر اخلاقی ہے۔
دوسرا یہ کہ ناجائز صنفی تعلق کے سدباب کے لیے مرد وزن کے میل جول کو کچھ آداب کا پابند بنانا ضروری ہے جن کی رعایت دونوں صنفوں کے لیے واجب ہے۔
تیسرا یہ کہ  عورت کے ساتھ جبر، زبردستی یا اس کی مجبوری یا ضرورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا استحصال ایک مزید گناہ ہے جو مستقلاً‌ قابل مذمت وقابل تعزیر ہے۔
حاصل یہ کہ مذہب اس مسئلے کو بطور ایک فرد کے، عورت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ حیا اور پاک دامنی کی قدروں کے تناظر میں بھی دیکھتا ہے اور اس کے نقطہ نظر سے صرف جنسی ہراسانی مسئلہ نہیں، بلکہ دو اور چیزیں بھی قابل اعتراض ہیں: ایک، جنسی کشش پیدا کرنے کے مختلف طریقے استعمال کرنا، اور دوسرا، “فلرٹیشن’’ کرنا جو باہمی رضامندی سے ہوتی ہے۔چنانچہ مذہبی تصور اخلاق اس مسئلے کو ایک کل کے طور پر دیکھتے ہوئے ان تمام پہلووں کا موضوع بناتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ خواتین جنسی کشش پیدا کرنے کے طریقوں سے اجتناب کریں، مرد وعورت باہمی رضامندی سے بھی “فلرٹیشن’’ نہ کریں، اور مرد، عورت کی کمزور پوزیشن یا مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسے جنسی تلذذ کا ذریعہ نہ بنائے۔ انفرادی سطح پر اخلاقی تعلیم وتلقین کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے جب معاشرتی حدود وآداب متعین کیے جاتے ہیں تو  یہاں بھی مذہب یک طرفہ طور پر صرف مردوں کو “احترام خواتین’’ کا پابند نہیں کرتا، بلکہ خواتین کو بھی اخلاقی حدود وآداب کا پابند بناتا ہے جن کو نظر انداز کرنا جنسی جبلت کو اخلاقی حدود سے باہر نکلنے کا موقع دے سکتا ہے۔ اسی اصول کے تحت کسی جرم کی سرزدگی کی صورت میں جب قانون حرکت میں آتا ہے تو وہ بھی صرف ہراسانی پر نہیں، بلکہ باقی دونوں پہلووں کے حوالے سے بھی آتا ہے۔
اس کے برعکس انسانی حقوق کا عصری فلسفہ اس مسئلے کو بنیادی طور پر عورت کی انفرادیت اور آزادی کے حوالے سے دیکھتا ہے  اور اسی حد تک اس کے سدباب کو موضوع بناتا ہے جس حد تک اس کی زد بطور ایک فرد کے، عورت کی آزادی اور تحفظ پر پڑتی ہے۔ جہاں تک پاک دامنی اور عفت کی اقدار کا اور صنفین کے اختلاط کو حدود وآداب کا پابند بنانے کا تعلق ہے تو  لبرل فلسفہ معاشرت کو اس سے براہ راست کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں یہ چیزیں اس تصور معاشرت میں بنیادی قدر کا درجہ رکھنے والے تصور، حریت فرد کے منافی قرار پاتی ہیں۔  یوں اس تصور اخلاق میں جنسی ہراسانی کے مسئلے کو باقی دونوں پہلووں سے الگ کر کے دیکھا جاتا ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ عورت کو یہ حق ہے کہ وہ جیسا چاہے، لباس پہنے اور اپنے نسوانی حسن کی داد یا صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جو انداز چاہے، اختیار کرے، اور اس حوالے سے تلقین ونصیحت کے علاوہ کوئی  معاشرتی یا قانونی پابندی اس پر عائد نہیں کی جا سکتی۔  سماجی یا قانونی قدغنیں صرف وہاں شروع ہوں گی جہاں عورت کو جنسی ہراسانی جیسے رویے کا سامنا کرنا پڑے۔  یوں جنسی ہراسانی جیسے اخلاقی وسماجی مسائل میں جدید ذہن اسی بنیادی غلطی کا شکار ہے جو دوسرے کئی مسائل میں بھی ظاہر ہوتی ہے، یعنی مسئلے کے صرف اس پہلو کو موضوع بنانا جو کسی کی “آزادی’’ یا “حق’’ پر زد پڑنے سے متعلق ہو اور قانوناً‌ اس پر کوئی اقدام کیا جا سکے۔
ہمارے ہاں چونکہ ابھی روایتی معاشرتی قدریں بھی اپنا کچھ بچا کھچا وجود رکھتی ہیں اور  اباحت پسندی کی جدید تہذیبی قدریں تیزی سے، لیکن رفتہ رفتہ ہی ان کی جگہ لے رہی ہیں، اس لیے ہمارے اہل دانش جدید فلسفہ معاشرت کے تضادات اور تباہیوں کا ادراک پوری طرح نہیں کر پاتے۔ اس فلسفہ معاشرت میں  تمام اعلیٰ اخلاقی اصول، فرد کی آزادی اور حق تلذذ کے تابع مانے جاتے ہیں  اور معاشی سرگرمیوں کا اہم ترین مقصد فرد کو اس آزادی اور حق تلذذ سے متمتع ہونے کے مواقع اور ذرائع مہیا کرنا اور اس کی غیر محدود ترغیب پیدا کرتے رہنا ہے۔ اس فلسفے کی رو سے جنسی جذبات کو انگیخت کرنے اور اس کے علاوہ تشہیری مقصد کے لیے نسوانی حسن کو  سامان تجارت کے طور پر استعمال کرنے کے لیے پوری پوری صنعتوں کو منظم کرنا ایک بالکل جائز بلکہ مطلوب سرگرمی ہے، لیکن اس سارے بندوبست کے  ناگزیر نتیجے کے طور پر جب خواتین کو عدم تحفظ اور جنسی ہراسانی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی قانونی روک تھام کی کوشش کی جاتی ہے جو کبھی مطلوب سطح پر موثر نہیں ہو سکتی۔ 
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جنسی ہراسانی سے سابقہ صرف بے پردہ خواتین کو ہی پیش آتا ہے۔ مرد کے مزاج میں جنسی جارحیت اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ توجہ یہ دلانا مقصود ہے کہ حریت نسواں کے نام سے اس جارحیت کو انگیخت کرنے کے جن طریقوں کا جواز مانا جاتا، لیکن ان کے لازمی نتائج ومضمرات سے نظریں چرائی جاتی ہیں، وہ سادہ فکری اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ طرز فکر اس تضاد فکری بلکہ ایک لحاظ سے منافقانہ ذہنی رویے کا ایک مظہر ہے جسے جدید فلسفہ معاشرت کی خصوصیت  شمار کیا جا سکتا ہے۔
جنسی ہراسانی کا تعلق صرف مرد کی جارحیت سے نہیں ہے، اس کو تقویت دینے والے اسباب میں بنیادی کردار عورت سے متعلق اس عمومی ذہنی واخلاقی تصور کا ہے جو کسی معاشرے میں پایا جاتا ہے۔  اگر عمومی معاشرتی ماحول اور اس میں ذہنی واخلاقی تربیت کے ذرائع عورت کے متعلق احترام، ہمدردی اور تحفظ کا رویہ پیدا کریں گے (جس کے لیے مرد وزن کے اختلاط اور نسوانی حسن کی نمائش کے حدود وآداب کی اہمیت بنیادی ہے) تو اس کے نتائج اور ہوں گے، لیکن اس پہلو کو نظر انداز کیا جائے گا تو ایسے ماحول میں جنسی ہراسانی اور خواتین کے عدم تحفظ جیسے مسائل مستقل طور پر حل طلب رہیں گے۔  جدید فلسفہ حیات، معیشت کے دائرے میں سرمایہ داری اور معاشرتی اقدار کے دائرے میں فرد کی مطلق حریت جیسے تصورات پر اندھے ایمان کی وجہ سے معاملے کے اس پہلو سے نظریں چرانے پر مجبور ہے اور اسی وجہ سے اس طرح کے مسائل کے حل میں ناکام بھی ہے۔
معاشرتی برائیوں کے بارے میں یہ بات بھی درست ہے کہ ان کا کماحقہ سدباب محض قانونی بندوبست سے نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کی روک تھام کا میکنزم معاشرے کے روز مرہ کے چلن اور عمومی اخلاقی حساسیت میں ہونا چاہیے، اور قانون کی دخل اندازی کی نوبت انتہائی صورتوں میں ہی آنی چاہیے۔  اخلاقی حساسیت اور معاشرتی روایات کی مثال ان جسمانی اعضاء کی ہے جن کا وظیفہ بدن کی روز مرہ ضروریات کو پورا کرنا ہے، جبکہ قانون کو بیماری کی حالت میں استعمال کی جانے والی دوا کے مانندسمجھا جا سکتا ہے جسے مستقل طور پر غذا کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر کسی عضو کی ناقص کارکردگی کی تلافی کے لیے دوا کو غذا کے طور پر استعمال کیا جائے تو متعلقہ عضو رفتہ رفتہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور بدن مکمل طور پر دواوں کے رحم وکرم پر چلا جاتا ہے۔ بعینہ اسی طرح معاشرے کی اخلاقی صحت کو برقرار رکھنے یا اس کی حفاظت کی اصل ذمہ داری روز مرہ کے معاشرتی آداب اور رویوں پر عائد ہوتی ہے جنھیں معطل کر کے اگر ناہموار اور غیر صحت مند رویوں کی روک تھام کا سارا کام قانون سے لیا جانے لگے تو انسانی شخصیت، اجتماعی اور انفرادی، دونوں سطح پر اپنی شناخت کے نہایت بنیادی پہلووں  سے اجنبی  ہو جاتی ہے۔
مرد وزن کے اختلاط کے حوالے سے عمومی اخلاقی تربیت اور رویہ سازی میں اس  نکتے کو بنیادی اہمیت دی جانی چاہیے کہ مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین کے لیے عزت واحترام، ہمدردی اور ترحم کے جذبات بیدار کیے جائیں۔  جدید طرز معاشرت نے خواتین کو بھی معاشی ذمہ داریوں میں  شریک کر دیا ہے اور  انھیں اپنے خاندان کا سہارا بننے کے لیے کئی طرح کی پر مشقت معاشی سرگرمیوں میں  حصہ لینا پڑتا ہے۔ ایسے ماحول میں انھیں جنسی تلذذ کا ذریعہ تصور کرنے والی نفسیات  سے خواتین کی صورت حال کا یہ پہلو اوجھل ہوتا ہے اور وہ اس جبر کو محسوس کیے بغیر جس کا خواتین کو سامنا ہے، خود غرضی اور نفس پرستی کی کیفیت میں  انھیں صرف صنف مخالف کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ بار بار کی تذکیر سے لوگوں کی اخلاقی حس کو بیدار کرنے کا اہتمام کرنے اور خواتین کے حوالے سے کلچرل زاویہ نظر  کی تشکیل میں احترام، ترحم اور ہمدردی جیسے جذبات کو بنیادی عناصر کے طور پر شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں خواتین سے متعلق ایک عمومی غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے جو ذہنوں میں پائی جاتی ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے خواتین بھی زیبائش کے حوالے سے اخلاقی حدود وآداب کی پابند ہیں۔ عموماً‌ ہمارے ہاں مخلوط ماحول میں ان حدود وآداب کی پابندی نہیں کی جاتی، لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ مخلوط ماحول میں بن سنور کر آنے والی ہر خاتون، صنف مخالف کو “صلائے عام’’ دینا چاہتی ہے اور کسی بھی پیش قدمی کو اس کی طرف سے اہلا وسہلا ومرحباً‌ کہا جائے گا، محض غلط فہمی ہے۔ خواتین کے اس رویے میں بنیادی کردار ماحول کا ہوتا ہے اور خاص طور پر جہاں دوسری خواتین زیب وزینت کی نمائش کا پورا اہتمام کر رہی ہوں، وہاں اس temptation سے بچ پانا خواتین کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے بناو سنگھار کے اہتمام کا اصل محرک صنف محرک  کی توجہ پانے سے زیادہ اپنی ہم جولیوں میں پرکشش نظر آنا ہوتا ہے۔ سو اسے اسی نظر سے دیکھیں اور خواتین کی بات کو خواتین کے درمیان ہی رہنے دیں۔ 
مخلوط ماحول میں نگاہ اور دل کے خیالات کی حفاظت دور جدید کی آزمایشوں میں سے ایک بڑی آزمایش ہے اور اپنےاخلاق وکردار کی حفاظت کے حوالے سے غیر معمولی حساسیت رکھنے والے افراد ہی اس میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ بہرحال، طہارت اخلاق کی نیت اور ارادہ رکھنے والوں کے لیے اس ضمن میں دو تین چیزوں کا اہتمام ان شاء اللہ مفید ثابت ہوگا:
ایک تو یہ کہ حتی الامکان قصداً‌ صنف مخالف پر نظریں دوڑانے سے گریز کریں۔ ابتدا میں یہ مشکل ہوتا ہے، لیکن اگر ارادہ اور نیت پختہ ہو تو رفتہ رفتہ انسان بے نگاہی پر قابو پا سکتا ہے۔
دوسری یہ کہ جب بھی بلا ارادہ یا ارادتاً‌ غلط نگاہ پڑ جائے تو فوراً‌ استغفار سے خود کو یاد دہانی کرائیں کہ غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ اگر ایسے موقع پر “اللھم جنبنی الفواحش ما ظھر منھا وما بطن’’ (اے اللہ! مجھے بے حیائی کے کاموں سے دور رکھ، ظاہر بھی اور مخفی بھی) بھی پڑھ لیں تو ان شاء اللہ کچھ عرصے میں بہت افاقہ محسوس ہوگا۔
تیسری اہم چیز جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے کافی موثر رہتی ہے، یہ ہے کہ آپ اس معاملے کو اپنی عزت نفس کے حوالے سے دیکھیں۔ اگر آپ کسی ذمہ دار منصب پر ہیں، خاص طور پر استاذ کا منصب آپ کے پاس ہے تو قدرتی طور پر آپ کے لیے ماحول میں عزت واحترام پایا جاتا ہے۔ آپ عمر میں تھوڑا بڑے ہوں اور کچھ بال بھی سفید ہو چکے ہوں تو طلبہ وطالبات آپ کو اپنے باپ کی جگہ، نہیں تو ایک ہمدرد اور غم خوار بڑے بھائی کی جگہ ضرور رکھتے ہیں۔برے خیالات یا بد نگاہی میں مبتلا ہونے پر یہ تصور کیا کریں کہ اگر آپ کا احترام کرنے والوں کو، خاص طور پر آپ کے طلبہ وطالبات کو آپ کے ان خیالات وعزائم کا پتہ چلے تو وہ آپ کے لیے کتنی عزت دل میں رکھ پائیں گے؟ خود کو یاد دلائیں کہ اگر انھیں اپنے بھائی یا باپ کے “نیک خیالوں’’ یا “پاکیزہ نگاہوں’’ کا کچھ اندازہ ہو جائے تو وہ کیا محسوس کریں گے اور ان کے ایسا محسوس کرنے کا اثر خود آپ کی شخصیت پر کیا ہوگا؟ گویا کسی بھی ماحول کے ذمہ داران اور خاص طور پر اساتذہ خود کو اپنے منصب کے وقار اور اس کے ساتھ وابستہ عزت واحترام کی یاد دہانی کے ذریعے سے اس آزمائش کا بڑی حد تک کامیابی سے سامنا کر سکتے ہیں۔ 
جہاں تک نوجوانوں کا تعلق ہے جنھیں اس عمر میں عموماً‌ سیلف رسپکٹ سے زیادہ صنف مخالف کی توجہ مرغوب ہوتی ہے، تو ان کے لیے وہ طریقہ زیادہ موثر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کی اصلاح کے لیے اختیار فرمایا تھا۔ جو نوجوان اس آزمایش سے دوچار ہوں، انھیں چاہیے کہ ایسی کیفیت میں وہ اپنی ماں، بہن اور بیٹی کا تصور ذہن میں لایا کریں کہ اگر کوئی ان کی طرف بد نظر سے دیکھے تو انھیں کیسا محسوس ہوگا اور یہ کہ وہ جس کو بری نظر سے دیکھ رہے ہیں، وہ بھی کسی کی ماں، بہن اور بیٹی ہی ہے۔ 
ان چند امور کا اہتمام کرنے سے، ان شاء اللہ حسب استعداد وحسب توفیق افاقہ محسوس ہوگا۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۱) القول اور کلمۃ فیصلے کے معنی میں 

قرآن مجید میں القول کا لفظ ایک خاص اسلوب میں استعمال ہوا ہے، اس اسلوب کے لیے القول کے ساتھ تین مختلف افعال استعمال ہوئے ہیں، جیسے حق علیہ القول، اور وقع علیہ القول، اور سبق علیہ القول۔ القول کی طرح کلمة کا لفظ بھی اسی خاص اسلوب میں استعمال میں ہوتا ہے، جیسے حقت علیہ کلمۃ، اور سبقت کلمۃ۔
مترجمین قرآن کے یہاں ایسے مقامات کا ترجمہ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کو ان کا مفہوم متعین کرنے میں دشواری ہوئی ہے، اور وہ مختلف مقامات پر مختلف ترجمے کرتے ہیں، بسا اوقات ان ترجموں کو سمجھنا بھی دشوار ہوتا ہے، کہ ان کی مراد کیا ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی ان تمام مقامات پر ایک ہی ترجمہ تجویز کرتے ہیں، اور وہ ہے فیصلہ ہونا۔ اس ترجمہ کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسے ہر مقام پر بہت اچھی طرح موزوں ہوجاتا ہے، مزید یہ کہ اس ترجمہ سے پوری آیت کا مفہوم اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے۔ ذیل میں مثالوں کے ذریعہ سے یہ بات اور واضح ہوگی:

(۱) وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُہْلِكَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِيْہَا فَفَسَقُوا فِيہَا فَحَقَّ عَلَيْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِيرًا۔ (الاسراء: 16)

”جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں“ (سید مودودی)
”تو اس پر بات پوری ہوجاتی ہے“ (احمد رضا خان)
”تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہوجاتی ہے “(محمد جوناگڈھی)
”پس ان پر بات پوری ہوجاتی ہے “(امین احسن اصلاحی)
”پس اس کے سلسلے میں فیصلہ ہوجاتا ہے “(امانت اللہ اصلاحی)

(۲) وَيَوْمَ يُنَادِیْہِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ (62) قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْہِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا ھٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاھُمْ كَمَا غَوَيْنَا تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ۔ (القصص: 62 - 63)

”اور (بھول نہ جائیں یہ لوگ) اُس دن کو جب کہ وہ اِن کو پکارے گا اور پوچھے گا ''کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے؟'' یہ قول جن پر چسپاں ہو گا وہ کہیں گے اے ہمارے رب، بے شک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا، اِنہیں ہم نے اُسی طرح گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے ہم آپ کے سامنے برائت کا اظہار کرتے ہیں یہ ہماری تو بندگی نہیں کرتے تھے“ (سید مودودی)
”کہیں گے وہ جن پر بات ثابت ہوچکی“ (احمد رضا خان)
”(تو) جن لوگوں پر (عذاب کا) حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے“ (فتح محمدجالندھری)
جن کے خلاف فیصلہ ہوچکا ہوگا (امانت اللہ اصلاحی)

(۳) وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ ھُدَاہَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ۔ (السجدہ: 13)

”اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے۔ لیکن میری طرف سے یہ بات قرار پاچکی ہے کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھردوں گا (جالندھری)
مگر میری وہ بات پُوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی“ (سید مودودی)
”مگر میری بات قرار پاچکی “(احمد رضا خان)
”مگر میرا فیصلہ ہوچکا ہے “(امانت اللہ اصلاحی)

(۴) لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰی أَكْثَرِہِمْ فَہُمْ لَا يُؤْمِنُونَ۔ (یس: 7)

”بیشک ان میں اکثر پر بات ثابت ہوچکی ہے تو وہ ایمان نہ لائیں گے“ (احمد رضا خان)
”اِن میں سے اکثر لوگ فیصلہ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں “(سید مودودی)
”ان میں سے اکثر پر (خدا کی) بات پوری ہوچکی ہے“ (فتح محمدجالندھری)
”ان میں سے اکثر کے خلاف فیصلہ ہوچکا ہے“ (مطلب ان کے ایمان نہ لانے کا فیصلہ ہوچکا ہے، لہذا  
وہ ایمان نہیں لائیں گے، یعنی جو فیصلہ ہوچکا ہے اس کا نتیجہ بھی بیان کردیا) (امانت اللہ اصلاحی)

(۵) فَحَقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَا إِنَّا لَذَائِقُونَ۔ (الصافات: 31)

”آخرکار ہم اپنے رب کے اِس فرمان کے مستحق ہو گئے کہ ہم عذاب کا مزا چکھنے والے ہیں“ (سید مودودی)
”تو ثابت ہوگئی ہم پر ہمارے رب کی بات “(احمد رضا خان)
”سو ہمارے بارے میں ہمارے پروردگار کی بات پوری ہوگئی“ (فتح محمدجالندھری)
”ہمارے خلاف ہمارے رب کا فیصلہ صادر ہوگیا“ (امانت اللہ اصلاحی، آگے فیصلہ کا بیان نہیں بلکہ فیصلہ کے نتیجہ کا بیان ہے)

(۶) أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْہِ كَلِمَۃُ الْعَذَابِ أَفَأَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِي النَّارِ۔ (الزمر: 19)

”بھلا جس شخص پر عذاب کا حکم صادر ہوچکا۔ تو کیا تم (ایسے) دوزخی کو مخلصی دے سکو گے“ (فتح محمدجالندھری)
”جس پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہو“ (سید مودودی)
”جس پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی“ (احمد رضا خان)
”جس کے سلسلے میں عذاب کا فیصلہ ہوچکا “(امانت اللہ اصلاحی) (جو فیصلہ ان کے کرتوتوں کے نتیجے میں ابھی ہوا ہے وہ مراد ہے)

(۷) أُولَئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْہِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنَّہُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ۔ (الاحقاف:18)

”یہ وہ ہیں جن پر بات ثابت ہوچکی ان گروہوں میں جو ان سے پہلے گزرے جن اور آدمی“ (احمد رضا خان)
”یہ وہ لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہے“ (سید مودودی)
”وہ لوگ ہیں جن پر (اللہ کے عذاب کا) وعدہ صادق آگیا “(محمد جوناگڈھی)
”یہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی وعید پوری ہوئی“ (امین احسن اصلاحی)

(۸) كَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَی الَّذِينَ فَسَقُوا أَنَّہُمْ لَا يُؤْمِنُونَ۔ (یونس: 33)

”اسی طرح خدا کا ارشاد ان نافرمانوں کے حق میں ثابت ہو کر رہا کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے“(فتح محمدجالندھری)
”اس طرح نافرمانی اختیار کرنے والوں پر تمہارے رب کی بات صادق آ گئی“ (سید مودودی)
”یونہی ثابت ہوچکی ہے تیرے رب کی بات فاسقوں پر“ (احمد رضا خان)
”اس طرح نافرمانی کرنے والوں کے سلسلے میں تیرے رب کا فیصلہ صادر ہوگیا“ (امانت اللہ اصلاحی)

(۹) إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْہِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ (96) وَلَوْ جَاءَتْہُمْ كُلُّ آيَۃٍ حَتّیٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ۔ (یونس: 96، 97)

”بیشک وہ جن پر تیرے رب کی بات ٹھیک پڑچکی ہے ایمان نہ لائیں گےو اگرچہ سب نشانیاں ان کے پاس آئیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں “(احمد رضا خان)
”جن لوگوں پر تیرے رب کا قول راست آگیا ہے“ (سید مودودی)
”جن لوگوں کے بارے میں خدا کا حکم (عذاب) قرار پاچکا ہے“ (فتح محمدجالندھری)
”جن کے سلسلے میں تیرے رب کا فیصلہ ہوچکا ہے“ (امانت اللہ اصلاحی)

(۱۰) وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلیٰ جَہَنَّمَ زُمَرًا حَتّیٰ إِذَا جَائوہَا فُتِحَتْ أَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا بَلٰی وَلَكِنْ حَقَّتْ كَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْكَافِرِينَ۔ (الزمر: 71)

”اور کافر جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے گروہ گروہ یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن سے ملنے سے ڈراتے تھے، کہیں گے کیوں نہیں مگر عذاب کا قول کافروں پر ٹھیک اترا“(احمد رضا خان)
”مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر چپک گیا“ (سید مودودی)
”لیکن عذاب کا حکم کافروں پرثابت ہو گیا “(محمدجونا گڈھی)
”پر کافروں پر کلمہ عذاب پورا ہوکر رہا “(امین احسن اصلاحی)

(۱۱) وَكَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَی الَّذِينَ كَفَرُوا أنَّہُمْ أَصْحَابُ النَّارِ ۔ (غافر:6)

”اِسی طرح تیرے رب کا یہ فیصلہ بھی اُن سب لوگوں پر چسپاں ہو چکا ہے جو کفر کے مرتکب ہوئے ہیں کہ وہ واصل بجہنم ہونے والے ہیں“ (سید مودودی)
”اور یونہی تمہارے رب کی بات کافروں پر ثابت ہوچکی ہے کہ وہ دوزخی ہیں“ (احمد رضا خان)
”اور اسی طرح کافروں کے بارے میں بھی تمہارے پروردگار کی بات پوری ہوچکی ہے کہ وہ اہل دوزخ ہیں“
 (فتح محمدجالندھری)
”اور اسی طرح تیرے رب کی بات اب لوگوں پر پوری ہوچکی جنھوں نے کفر کیا ہے کہ یہ لوگ دوزخ میں پڑنے والے ہیں“ (امین احسن اصلاحی)
”اور اسی طرح تیرے رب کا فیصلہ ان لوگوں کے سلسلے میں ہوچکا جنھوں نے کفر کیا کہ وہ دوزخی ہیں“(امانت اللہ اصلاحی)

(۱۲) لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْكَافِرِينَ۔ (یس:70)

”تاکہ وہ ہر اُس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پر حجت قائم ہو جائے“ (سید مودودی)
”اور کافروں پر بات ثابت ہوجائے “(احمد رضا خان)
”اور کافروں پر بات پوری ہوجائے “(فتح محمدجالندھری)
”اور کافروں پر حجت ثابت ہو جائے“ (محمدجوناگڈھی)
”اور کافروں پر حجت تمام ہوجائے“ (امین احسن اصلاحی)
”اور کافروں کے سلسلے میں فیصلہ ہوجائے“ (امانت اللہ اصلاحی)

(۱۳) وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْہِمْ بِمَا ظَلَمُوا فَہُمْ لَا يَنْطِقُونَ۔ (النمل: 85)

”اور ان پر بات پوری ہوجائے گی بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے، پس وہ کچھ نہ بول سکیں گے“ (امین احسن اصلاحی)
”ان پر بات جم جائے گی“ (محمدجوناگڈھی)
”عذاب کا وعدہ ان پر پورا ہو جائے گا“ (سید مودودی)
”اور بات پڑچکی ان پر “ (احمد رضا خان)
”اور ان کے خلاف فیصلہ ہوگیا “(امانت اللہ اصلاحی)

(۱۴) وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْہِمْ أخْرَجْنَا لَہُمْ دَابَّۃً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُہُمْ أنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ۔ (النمل: 82)

”اور جب ان پر بات پوری ہوجائے گی تو ہم ان کے لئے زمین سے کوئی جانور نکال کھڑا کریں گے جو ان کو بتائے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے“ (امین احسن اصلاحی، کوئی جانور نہیں بلکہ ایک جانور کہنا درست ہے)
”اور جب بات ان پر آپڑے گی “(احمد رضا خان)
”اور جب ہماری بات پُوری ہونے کا وقت اُن پر آ پہنچے گا“ (سید مودودی)
”اور جب ان کا فیصلہ ہوجائے گا“ (امانت اللہ اصلاحی)

(۱۵) قُلْنَا احْمِلْ فِيہَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأھْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ۔ (ھود: 40)

”ہم نے اس کو کہا کہ ہر چیز میں سے نرو مادہ دونوں کو اور اپنے اہل وعیال کو، بجز ان کے جن پر حکم نافذ ہوچکا ہے، اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اس کشتی میں سوار کرلو“ (امین احسن اصلاحی)
”اور جن پر بات پڑچکی ہے ان کے سوا“ (احمد رضا خان)
”سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے“ (سید مودودی)
”جن کے خلاف فیصلہ ہوچکا ہے “(امانت اللہ اصلاحی)

(۱۶) فَاسْلُكْ فِيہَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأھْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْہِ الْقَوْلُ مِنْہُمْ۔ (المومنون: 27)

”تو اس میں ہر چیز کے جوڑے رکھ لو اور اپنے لوگوں کو بھی سوار کرالو، بجز ان کے جن کے بارے میں قول فیصل ہوچکا ہے“ (امین احسن اصلاحی)
”وہ جن پر بات پہلے پڑچکی “(احمد رضا خان)
”جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے “(سید مودودی)
حق القول اور وقع القول ہم معنی الفاظ ہیں، فیروزابادی کے الفاظ میں:

والاَمرُ یَحُقُّ ویَحِقُّ حَقَّۃً، بالفتح: وجَبَ ووَقَعَ بلا شَکٍ۔ (القاموس المحیط)

القول میں معنی کے لحاظ سے بڑی وسعت ہے، بات، وعدہ، حکم اور فیصلہ وغیرہ وہ سب مفہوم اس میں آسکتے ہیں، جن کا تعلق قول سے ہوتا ہے، ایسی صورت میں سیاق کلام کی مدد سے مناسب مفہوم کا تعین کیا جاتا ہے، مذکورہ بالا تمام آیتوں میں القول اور کلمة سے مراد اگر فیصلہ لیں، تو بات سیاق کلام کے مطابق ہوتی ہے، مفہوم بہت واضح ہوکر سامنے آتا ہے، اور کسی تاویل کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ اس صورت میں حق القول کا مطلب ہوگا فیصلہ ہوجانا۔ یہی مطلب وقع القول کا ہوگا، جبکہ سبق القول کا مطلب ہوگا پہلے سے فیصلہ ہوجانا۔
بعض حضرات مذکورہ بالا آیتوں میں قول اور کلمة سے مراد وہ بات لیتے ہیں جو اللہ تعالی نے ابلیس سے کہی تھی۔ لیکن وہ بات تمام مقامات پر فٹ نہیں ہوتی ہے۔ اس کے بجائے یہ بات زیادہ مناسب ہے کہ  نافرمانوں کی بدعملی کی پاداش میں اللہ کی طرف سے جو فیصلہ ہوتا ہے، وہ فیصلہ مراد ہے۔
(جاری)

جدید ریاست میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید ۔ بنیادی خدوخال اور طریق کار (۱)

مولانا سمیع اللہ سعدی

مسلم امت کا دور زوال  علوم  و فنون کا دور جمود ہے، زوال نے  علوم و فنون کے ارتقاء کا سفر روک دیا، ماضی کے ذخیرے کی تشریح، توضیح، تعلیق، اختصار اور تلخیص علمی حلقوں کا مشغلہ بن گیا ہے، فقہ اسلامی   علوم  و فنون  میں سب سے زیادہ زوال سے متاثر ہوئی، خاص طور پر ادارہ خلافت کے ٹوٹنے سے فقہ اسلامی کے  وہ شعبے یکسر منجمد ہوگئے، جن کا تعلق مسلم امت کے اجتماعی امور سے ہے، ریاستی امور، عدالتی قضایا، اقتصادی معاملات، بین الااقوامی  ایشوز  اور معاشرتی نظم و نسق سب سے زیادہ جمود کا شکار ہوئے، اور افتاء و استفتاء عبادات اور عائلی معاملات  میں منحصر ہو کر رہ گیا ہے۔ اس لئے  فقہ اسلامی کی تشکیل جدید اور احیا کی   ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ  رفتار زمانہ کی تیزی اور نت  نئی تبدیلیوں کے سیلا ب نے نوازل و حوادث کا  پہاڑ کھڑا کیا، عبادات سے لے کر معاملات تک، انفرادی امور سے لے کر اجتماعی امور تک نئے مسائل کثیر تعداد میں پیدا ہوئے ہیں، جن کا حل نکالنا فقہ اسلامی کی روشنی میں  وقت کی سب بڑی ضرورت بن گیا ہے۔ ان نوازل و حوادث کو اباحیت اور  جمود سے بچتے ہوئے  تیسیر اور احتیاط کی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے، اس کام کے لئے ایسے نبض شناس فقہا  چاہئے ، جو ایک طرف ماضی کے ذخیرے پر مکمل عبور رکھتے ہوں،دوسری طرف حال کی تبدیلیوں  اور   تقاضوں  کا کامل ادراک رکھتے  ہوں ۔ ماضی سے انحراف یا حال سے اعراض پر مبنی کوششیں جمود یا اباحیت پر منتج ہو ں گی ۔
اس مقالے میں اس حساس اور اہم ترین موضوع پر بحث کی جائے گی اور جدید ریاست میں  فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے رہنما خطوط واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ مقالہ میں حسب ذیل سوالات  زیر بحث لائے جائیں گے :
۱۔ جدید ریاست کیا ہے اور جدید ریاست سے جڑے تصورات  شریعت سے کتنے ہم آہنگ ہیں؟
۲۔ فقہ اسلامی کا کون سا حصہ تشکیل ِجدید کا متقاضی ہے اور کس قسم کے مسائل و احکام میں تشکیل ِجدید  وقت  کی ضرورت ہے؟
۳۔ تشکیل جدید کے بنیادی خدوخال کیا ہیں اور اس کے اساسی مراحل کون سے  ہیں ؟
۴۔  عالم  اسلام میں فقہ اسلامی کی تشکیل ِجدید کیا  کوششیں ہوئی ہیں اور ان کوششوں کے کیا اثرات مرتب ہوئے ؟
ان چار سوالات کو چار ابحاث میں بیان کیا جائے گا ۔

بحث اول : جدید ریاست اور اس کے  اجزائے ترکیبی 

فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے خدوخال طے کرنے  سے پہلے جدیدریاست کے اجزائے ترکیبی اور اس کی اسلامائزیشن  کا کام اہم ہے ، اگر ریاست غیر اسلامی بنیادوں پر کھڑی ہوگی ،تو تجدید و احیا کے کام میں متنوع رکاوٹوں سمیت ایسے عناصر  اثر انداز ہو  سکتے ہیں ،جس کی وجہ سے  تجدید کے حساس کام کا  تحریف و تغیر میں  تبدیل ہو نے کا امکان ہے ۔عالم اسلام میں وقتاً‌ فوقتا ً‌ تجدد پسندی کی  اٹھنے والی لہروں کے  پیچھے متنوع عوامل  میں سے  ایک یہ عامل بھی  کارفرما ہے ۔اس  مو قع پر ریاست کے جملہ اجزائے ترکیبی (یہاں اجزائے ترکیبی  سے مراد وہ امور و ہ تصورات  ہیں ،جو ریاست کے وجود ،تنظیم اور نظم و نسق سے متعلق ہیں ، ورنہ ٹھیٹھ سیاسی فلسفہ کی رو سے ریاست آبادی ،علاقہ ،حکومت اور اقتدار اعلی  صرف چار اجزا پر مشتمل ہوتی ہے )سے بحث کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ ان  پہلووں پر بات کی جائے گی ،جو شرعی نقطہ نظر سے قابل غور ہیں ،اور اسلامی تعلیمات سے قطعی طور پر ٹکراتی ہیں یا  شریعت کے  مقاصد کلیہ سے ہم آہنگ نہیں  ہیں ۔اس میں درجہ ذیل تصورات پر بحث ہوگی:
۱۔تصورریاست  (concept of state )
۲۔سیکولرازم (secularism)
۳۔ اقتداراعلی (sovereignty)   کاتصور
۴۔ تصورقومیت  (concept of nationalism )
۵۔آزادی ومساوات  (freedom and equality )
۶۔فلسفہ حقوق (philosophy of rights )

۱۔ تصور ریاست     (concept of state )

جدید سیاسی فلسفے میں ریاست کا تصور انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،جدیدپولیٹکل سائنس  میں ریاست کو مستقل بالذات عنصر مانا گیا ہے ،ریاست باقاعدہ ایک شخص قانونی ہوتا ہے ، اور یہ شخص قانونی  عام افراد کی طرح حقوق و فرائض کا مخاطب ہوتا ہے ،ریاست معاشرے ،حکومت اور قوم  سے الگ تھلگ  وجود رکھتا ہے، سارے افعال ریاست کی طرف منسوب ہوتے ہیں ،جو ریاست کی نیابت میں حکومت  سر انجام دیتی ہے۔ 1
ریاست کا یہ تصور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جانچنے کی ضرورت ہے ،کیا  فقہ السیاسہ کی روشنی میں یہ تصور درست ہے؟اس کا جائزہ لینا از حد ضروری ہے ،  فقہ اسلامی میں  خلیفہ و امام کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے  اور خلیفہ و ا مام کو ہی احکام کا مخاطب بنایا گیا ہے ، دار کی اصطلاح بھی آئی ہے ،جسے ہم کسی نہ کسی درجے میں ریاست کے قریب قریب مفہوم دے سکتے ہیں ،لیکن اس کی نوعیت بھی امام  وسلطان اور رہنے والے افراد  کے بدلنے سے بد ل جاتی ہے ،دار الاسلام ،دار الکفر،دار الامن اور دار الحرب  وغیرہ،ان سب اصطلاحات کا مدار عوام اور حکمرانوں پر ہے ،یہی وجہ ہے کہ دار الاسلام دار الکفر میں بد ل سکتا ہے اور اس کے برعکس بھی ،اس لئے دار کی اصطلاح کو کلی طور پر جدید تصورِ ریاست کے ہم معنی قرار دینا مشکل ہے۔
یہ بات باعثِ تعجب ہے کہ جدید مسلم مفکرین کے ہاں  جدید تصور ریاست اور اسلام کے تصور ریاست  پر کوئی  تفصیلی بحث نہیں ملتی ،بلکہ  اسلامی ریاست پر لکھنے والوں  کا مرکز توجہ نظام حکومت ہے ،البتہ مو لانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ  نے اسلام کی رو سے ریاست و حکومت کا حسب ذیل الفاظ میں فرق بیان کیا ہے:
’’خلافت کی اصطلاح اسلامی اصولوں پر قائم شدہ ریاست کے لئے استعما ل ہوئی ہے اور امامت یا امارت سے مراد وہ گورنمنٹ ہوتی ہے ،جو خلافت کے اداروں کی تنفیذ کرتی اور اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی ہے۔‘‘ 2
مولانا اصلاحی رحمہ اللہ  کا بیان کردہ فرق محلِ نظر ہے ۔خلافت و امامت کی اصطلاحات  مترادف ہیں۔ابن خلدون مقدمہ میں لکھتے ہیں:
واذ قد بینا حقیقہ ھذا المنصب وانہ نیابۃ عن  صاحب الشریعہ فی حفظ الدین وسیاسۃ الدنیا بہ تسمی خلافۃ و امامۃ والقائم بہ خلیفہ و امام۔ 3
ترجمہ: جب ہم اس منصب کی حقیقت بیان کر چکے  اور اس بات کا بیان بھی ہوچکا کہ یہ منصب دین کی حفاظت اور دنیاوی امور کی تدبیر میں    شارع کی نیا بت  کانام ہے ، تو اسے امامت و خلافت کہتے ہیں اور اس کو قائم کرنے والا خلیفہ و امام کہلاتا ہے۔
 جب جدید مسلم سیاسی فکر  میں جدید ریاست کی ماہیت  پر بحث نہیں ملتی تو اس کی مختلف تشریحات اور انواع پر بحث کجا ملے گی؟،جدید سیاسی فلسفے کی رو سے ریاست کی مختلف نقطہ ہائے نظر سے متنوع تشریحات ہیں مثلا  liberal-pluralist state (لبرل تکثیری ریاست ) social-democratic state (سماجی جمہوری ریاست ) Marxist analysis (ریاست کا مارکسی تجزیہ ) feminist analysis (ریاست کا تانیثی تجزیہ) self-serving state (خود مکتفی ریاست) وغیرہ 4، ان تمام  تشریحات سے ریاست کی متنوع اقسام  بنتی ہیں،اس لئے جدید ریاست کا گہرا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے   اور اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جدید ریاست اپنی ماہیت اور جدید تشریحات  کے اعتبار سے  اسلامی بن  بھی سکتی ہے  یا نہیں؟  اور اسے  اسلامی فقہی تصورات سے ہم آہنگ  کرنا  کیا ممکن  ہے؟

۲۔ سیکولرازم (secularism)

 سیکولرازم جدید ریاست کے مفہوم کا لازمی جزو ہے، یہ اصطلاح  انیسویں صدی میں جارج ہالی اوک(George Jacob holyoake) نے وضع کی تھی5، سیکولرازم  ریاست سے مذہب کی بے دخلی کا نام ہے ،اجتماعی امور سے مذہب کو نکال کر اسے محض ایک پرائیویٹ معاملہ بنانے کی تحریک ہے ،سماج سے مذہبی علامات ،تعلیمات اور شعائر کو الگ کر کے اسے خالص دنیاوی رنگ دینے کانام ہے ،انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں سیکولرازم کی درجہ ذیل تشریح کی گئی ہے:
A movement in society directed away from other worldliness  to life on earth. 6
ترجمہ :سماج میں اخرویت  سے رخ پھیر کر دنیویت پر توجہ دینے کی تحریک۔
عام طور پر اس کی شناعت کم کرنے کے لئے  اسے   مذہب  کے بارے میں ریاست کی  غیر جانبداری سے تعبیر کیا جاتا ہے ،لیکن یہ  درحقیقت الفاظ کا ہیر پھیر ہے ،ریاست  کا مذہب کے معاملے میں غیر جانبدار ہونا دراصل مذہب کو ریاستی امور سے نکالنے کا نام ہے ۔    سیکولرازم   معاصر فقہا کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ،کیونکہ آج نئے روپ اور نئی تعیبرات کے ساتھ سیکولر فکر اسلامی ممالک پر حملہ آور ہے ،خصوصا مسلم ممالک میں چلنے والی خارجیت و عسکریت کی حالیہ لہروں کے جواب میں بعض مسلم مفکرین7 کی جانب سے جو بیانیہ (narrative)سامنے آیا ہے ،وہ انجام ِکار کے اعتبار سے سیکولرازم  کی ایک" اسلامی توجیہ" ہے  ،اس کے علاوہ مسلم سماج میں ایسے دانشور اور صحافی موجود ہیں8 ، جو اپنے آ پ کو  علانیہ سیکولرازم کا علمبردار   کہتے ہیں  اور  باعثِ تعجب یہ کہ اسے اسلامی تعلیمات کے منافی بھی نہیں سمجھتے ،حالانکہ اسلامی تعلیمات   میں اجتماعی و انفرادی امور کی اس اعتبار سے کوئی تقسیم نہیں ہے ،کہ سماجی امور اور ریاستی معاملات الہی اوامر و نواہی سے  آزاد ہوں  گے،بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو فرد کی زندگی کی تشکیل کے ساتھ اجتماعی زندگی میں بھی مکمل رہنمائی کرتا ہے اور اسے احکام و فرائض کا پابند بناتا ہے ۔

۳۔ اقتدار اعلی ( sovereignty) کاتصور 

جدید سیاسی فلسفہ میں  اقتدا راعلی کا تصور کلیدی اہمیت رکھتا ہے ، حکومت  کی مختلف اقسام  اور ایک ریاست میں  مختلف سپریم ادارے اقتدار اعلی کے تصور میں تنوع کا نتیجہ ہے ،اندورنی (internal) و بیرونی  (external) اقتدار اعلی ہو   یا آئینی (legal) اور سیاسی (political) اقتدار اعلی ، فوری (immediate) اور حتمی (ultimate) اقتدار اعلی ہو ،یا عمومی (popular)، قا نونی (jure) اور حقیقی (actual) اقتدار اعلی ہو،9 ان تمام اقسام نے  متعدد سوالات کھڑے کئے  ہیں ،ان سوالات کا فقہ السیاسہ کی روشنی میں جائزہ لینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ،یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ جدید سیاسی فلسفوں کے برعکس  اسلامی تعلیمات کی رو سے مقتدر اعلی صر ف اور صرف اللہ کی ذات  اور اللہ و رسول کے دئیے ہوئے احکامات ہیں ،جسے دین اسلام سے تعبیر کیا جاتا ہے ،لیکن اس دین کو نافذ کرنے کے لئے کس قسم کے مقتدر اعلی کی ضرورت ہے جو حقیقی مقتدر اعلی  کے تابع ہوکر    سپریم اتھار  ٹی کی حیثیت رکھتا ہو؟ وہ مقتدر اعلی خلیفہ و امام ہوتا ہے یا اہل حل  و عقد، خواص ہوتے ہیں یا عوام؟ اگرچہ قدیم فقہی تصور کے مطابق خلیفہ و امام سپریم اتھارٹی ہے ، کیا جدید دور میں یہ تصور قابلِ عمل ہے؟ جدید اسلامی ریاست میں   ایک ہی  شخص اور ادارے میں  اختیارات مرتکز کرنا زیادہ مفید ہوگا یا جدید تجربات  سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اختیارات کی تقسیم مقاصدِ شریعت سے زیادہ ہم آہنگ ہوگا؟ مسلم مفکرین نے اقتدار اعلی کے تصور پر گفتگو کرتے ہوئے عموماً‌ حتمی و حقیقی اقتدار اعلی پر بحث کی ہے،اور  اقتدار اعلی کے جدید تصور کو بیک جنبشِ قلم اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے ،حالانکہ اس تصور کی تحلیل  اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

۴۔تصور قومیت 

قومیت   جدید سیاسی فلسفہ کا وہ نظریہ ہے ،جس سے عالم اسلام سب  سے زیادہ  متاثر ہوا  ،برصغیر میں "قوم وطن سے بنتی ہے یا مذہب سے  "کے  سوال پر لمبا عرصہ تک  بحث مباحثہ ہوتا رہا ،متحدہ  قومیت اور اسلامی قومیت  کے دو  الگ الگ نعرے ایجاد ہوئے ،اس کے علاوہ عالم عرب میں  عرب نیشنلزم  کی  لہر چلی ،جس  سے خلافت  کا ادارہ ٹو ٹ پوٹ کا شکار ہوا ،نیزمصر  وعراق میں  قدیم تہذیبوں  کے احیا کی صداوں کے پیچھےبھی یہی تصور کارفرما تھا ،بلکہ خود یورپ اس تصور سے شدید متاثر ہوا ،بیسیویں صدی کی دو عظیم جنگوں کے پیچھے بھی قومیت کا عنصر شامل تھا ،فلسفہ سیاسیات کے معاصر برطانوی مصنف Andrew Heywood  لکھتے ہیں :
Nationalism was therefore a powerful factor leading to war  in both 1914 and 1939. 10
 اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جدید ریاستیں سب کے سب  قومی ریاست (nation –state ) کے تصور پر کھڑی ہیں ،اور nationalism  ایک تسلیم شدہ نظریہ بن گیا ہے ۔
اسلامی حوالے سے لفظ قوم  مختلف معانی و مفاہیم رکھتا ہے ،ڈاکٹر مستفیض علوی صاحب نے  ایک مضمون میں قرآن پاک میں لفظ قوم کے مختلف استعمالات   جمع کئے ہیں ،ڈاکٹر صاحب  لکھتے ہیں :
"کتاب الہی میں اس کاذکر درجہ ذیل حوالوں سے آیا ہے :
۱۔کسی خاص طرز فکر و عمل رکھنے والے گروہ کے لیے جیسے ان فی ذلک لایات لقوم یومنون 11 
۲۔کسی نبی کی امت اور کسی بادشاہ کی رعایا کے لئے جیسے  من بعد قوم نوح 12، من قوم فرعون 13، اتذر موسی و قومہ14
۳۔کسی خاص علاقے میں رہنے والے گروہ کے لئے جیسے قالوا لا تخف انا ارسلنا الی قوم لوط 15
۴۔کسی خاص نسلی  اور نظریاتی پس منظر ،توارث اور تشخص کے حامل گروہ  کے لئے قوم کے ساتھ ملت کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے ،جیسے انی ترکت ملۃ قوم لا یومنون 16، ملۃ ابیکم ابراہیم 17
۵۔کسی عقیدے اور مسلک کے حامل گروہ  کے لئے قوم کے ساتھ امت کا لفظ بھی ساتھ آیا ہے ،جیسے  ومن  قوم موسی امۃ یھدون  بالحق وبہ یعدلون 18
تاہم امت کا لفظ ایک مقدس فریضہ  حیات کے ضمن میں  استعمال کیا گیا ہے ،جیسے کنتم خیر امۃ  19، ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر 20
معلوم  یہ ہوا  کہ  قرآن نے قوم کا لفظ یا تو ایسے انسانی گروہ کے لئے استعمال کیا ہے :
۱۔ جو ایک خاص  نقطہ نظر کا حامل ہو اور ایک خاص تہذیب یا کلچر رکھتا ہو ۔
۲۔ ایسی اجتماعیت کے لیے جو ایک  دستور اور  اقتدار و حکومت کے تحت ہو ،
۳۔ یا ایسی جامعت انسانی کے لئے  جو خاص علاقوے میں رہائش پذیر ہو ۔
اس کے ساتھ کسی ایسی قوم کے لئے جو ایک خاص نسلی توارث  اور نظریاتی تشخص کی حامل ہو ،قرآن نے ملت کا لفظ استعمال کیا ہے  اور ایسی ملت کو جو ایک اپنے سامنے ایک  فریضہ اور نظریاتی مقصدیت رکھتی ہو ، امت کے لفظ سے یاد کیا ہے۔" 21
    ڈاکٹر صاحب کی اس وقیع عبارت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے قوم کی بجائے ملت اور امت کا لفظ  استعما ل کرنا قرآنی تعبیرات سے ہم آہنگ ہے ،اس لئے اسلامی قومیت کا نعرہ  قرآنی تعبیرات کی رو سے محل نظر ہے۔
البتہ  کسی خاص نسل ،زبان یا کلچر کے اشتراک کی بنیاد پر ریاست بنانا   اسلامی  اصولوں  سے میل نہیں کھاتا ،مسلم سیاسی فقہ  میں  ریاستوں کی تقسیم نظریات کی بنیاد پر ہوئی ہے جیسے دار الاسلام ،دالحرب وغیرہ کے تصورات ،اس لئے  (nation-state)کے تصور پر از سر نو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔

۵۔ آزادی و مساوات (freedom and equality )

آزادی و مساوات جدید سیاسی فلسفے کے لازمی اجزا ہیں ،پولیٹکل سائنس کی چھوٹی کتاب  سے لیکر بڑی کتب تک اور بنیادی ماخذ سے لیکر ثانوی ماخذ تک سب میں آزادی و مساوات پر بحث ملتی ہے ،  معروف برطانوی مفکر برلن آزادی کے متعلق لکھتے ہیں:
The area within which a man can act unobstructed by others. 22
یعنی آزادی سے مراد   ایسا دائرہ جس میں  ایک فرد دوسروں کی مداخلت سے مکمل طور پر  آزاد ہو کر اپنے اعمال سر انجام دے سکے ، کسی  بھی دوسری طاقت کو اسے روکنے کا اختیار نہ ہو ۔ظاہر ہے کہ انسان جب خارجی مداخلت سے مکمل  آزاد ہوگا  تو  اپنے اعمال کا انتخاب بھی  خود کرے گا ،یوں  خیر و شر   طے کرنے کا پیمانہ اس کے ہاتھ میں آجائے گا اور ہر آدمی خیر و شر خود تخلیق کرے گا ۔آزادی کے اس تصور سے خیر و شر کے جملہ خارجی معیارات بشمول مذہب کے لایعنی ہوگئے ۔
اسی طرح مساوات کے بارے میں political ideas and movements  کے مصنفین لکھتے ہیں :
whatever the actual circumstancesall human beings are ‘equal’ by virtue of being human. 23
یعنی اصل حالات جو کچھ بھی ہوں، تمام انسان بحیثیت انسان ہونے کے مساوی ہیں،گویا انسان کے جملہ  وجوہِ تعارف اور نظریات و عقائد سے  صرف ِنظر کرتے ہوئے سب  انسان برابر ہونگے،حالانکہ   روئے زمین پر  عقائد ،خیالات،نظریات اور میلانات و رجحانات سے    مجرد  کوئی انسان موجود نہیں ہے ،انسان ہمیشہ   شناخت اور مخصوصی ذہنی میلانات  کے سانچے میں ہوتا ہے خواہ وہ جو بھی ہوں۔
آزادی ومساوات کا مذکورہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے مکمل منافی ہے۔ اسلام انسان کے بارے میں آزادی کی بجائے عبدیت اور نیابت الہی   کا تصور رکھتا ہے ،جبکہ  مساوات کی بجائے انسانوں  میں فرق ِمراتب کا قائل ہے  ،مومن  کافر ،برا اچھا ،عالم جاہل وغیرہ مراتب میں تقسیم کر کے ہر ایک کو الگ خانے میں رکھ کر اس  پر حکم لگاتا ہے ۔اس لئے جدید ریاست تشکیل دیتے وقت مغربی ساسی فلسفہ کے تصور آزادی و تصور مساوات کا محاکمہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

۶۔فلسفہ حقوق (Philosophy of rights)

جدید سیاسی فلسفے  میں  حقوق کا نظریہ بنیادی فلسفہ ہے ،حقوق کا  پورا  پیراڈائم جدیدیت (modernism) کا تشکیل کردہ ہے ،جس میں عقلی بنیادوں پر انسانوں کے حقوق طے کئے گئے ہیں ،ان میں بعض  بنیادی حقوق ہیں ،جسے جدید سیاسی فلسفے میں انسانی حقوق human rights یا فطری حقوق natural rights  کا نام دیا گیا ہے ،اور باقی ثانوی حقوق ہیں ، جیسے تعلیم کا  حق،آزادی اظہار رائے کا حق،سماجی حقوق،قانونی حقوق وغیرہ 24 ان میں خاص طور پر ا نسانی حقوق  عہدِ جدید کا مقدس عقیدہ ہے ،انسانی حقوق کی یہ عمارت  مذہب کے ملبے پر تعمیر کی گئی ہے ،معروف برطانوی  ماہر سیاسیات andrew heywood  لکھتے ہیں :
By the twentieth century, the decline of religious belief had led to the secularization of natural rights theories, which were reborn in the form of ‘human’ rights. Human rights are rights to which people are entitled by virtue of being human. 25
اسلامی بنیادوں پر جدید ریاست تشکیل کرتے وقت فلسفہ حقوق کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے ، خاص طور پرفلسفہ  حقوق کا  پس منظر   گہرے مطالعے کا متقاضی ہے ،بعض مسلم  مفکرین نے انسانی حقوق کو  اسلامی اصطلاح حقوق العباد کے مترادف مانا ہے ، جسے مغالطہ کہا جاسکتا ہے 26، اس مغالطے کی تفصیل مغربی فلسفے کے معروف ناقد ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب   کی زیر نگرانی  مرتب شدہ کتاب" سرمایہ دارانہ نظام ایک تنقیدی جائزہ "میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

جدید ریاست اور مسلم مفکرین 

انیسویں  صدی اور بیسویں صدی کے نصف اول میں مسلم مفکرین  کا مرغوب موضوع  ریاست و سیاست کے مباحث  تھے ،لیکن ان تمام مباحثوں میں  بنیادی طور پر دو نکات پر زیادہ زور تھا :
۱۔ اسلا م میں سیاست و ریاست کا مقام و مرتبہ 
۲۔اسلامی نظام خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ ومحاکمہ
پہلے نکتے سے  ریاست مقصود ہے یا موعود ، عبادات مقصود ہیں یا حاکمیت  الہی پر مشتمل ریاست کے قیام کے لئے وسیلہ   وغیرہ جیسی بحثوں نے جنم لیا ، بعض مسلم مفکرین 27 نے تو سرے سے ہی  اسلام کے نام پر سیاست اور اسلامی ریاست کا انکار کر دیا  اور  بعض   28 نے اسلامی ریاست کا صور کچھ اس زور سے  پھونکا کہ اسے اسلامی تعلیمات کا مقصود اعظم قرار دیا ،جبکہ دوسرے نکتے نے جمہوریت  سراسر کفر ہے  یا اس کی اسلامائزیشن ممکن ہے،جیسی ابحاث کو جنم دیا ،اور آج بھی ان آوازوں کی گونج  وقتا فوقتا سنائی دیتی ہے ۔اسے مسلم دنیا کا المیہ کہہ سکتے ہیں کہ مغربی سیاسی فلسفے سے جڑئے دیگر اہم تصورات ان ابحاث کے بوجھ تلے دبے رہے اور ان پر وہ  بحثیں نہ ہوسکیں ،جو  جدید دور  میں  مسلمانوں کا سیاسی رخ متعین کرنے کے لئے بے حدضروری تھیں ،آج عالم اسلام میں سیاسی حوالے سے افراط و تفریط  اسی اغماض کا نتیجہ ہے ،کہ  مسلم دنیا میں ایک طرف  خارجیت کی فکر زور پکڑ رہی ہے ،جس نے اسلامی ممالک میں کشت و خون کا بازار گرم  کر رکھا ہے ، دوسری طرف سیکولرازم و لبرلزم  کی  فکری لہر نے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے سحر  میں جکڑ ا ہوا ہے  اور باقاعدہ اپنے آپ کو لبرل و سیکولر کہلوانے والے گروہ پیدا ہوگئے ہیں ،جو جدید  مغربی سیاسی  فلسفے کے سامنے سر ِتسلیم خم ہیں ،اس لئے فقہ اسلامی کی  تشکیل جدید سے پہلے  جدید اسلامی ریاست کے خدوخال واضح کرنے کی ضرورت ہے اور مغربی سیاسی فلسفے کے   فکری  اور انتظامی اجزا  الگ  الگ کر کے خذ ما صفا و دع ما کدر پر عمل کرنا چاہئے اور مغرب سے در آمد شدہ پورے سیاسی ڈھانچےاور جدید سیاسی  تصورات   کا محاکمہ کرکے اس پر حکم لگانا چاہئے۔

حواشی

1. Andrew, hywood,political theory an introduction (new york 2004) P.75
2. اصلاحی ،امین احسن،اسلامی ریاست ، ص  ۱۶،دارالتذکیرلاہور ۲۰۰۴
3. ابن خلدون ،عبد الرحمن ،تاریخ ابن خلدون  ج۱،ص،۲۳۹،دار الفکر ۲۰۰۱
4. Kevin,Harrison and tony, boyd ,political ideas and movements(new York 2003) P.19
5. فرہاد ،شاہد ،ڈاکٹر ،سیکولرازم ایک تعارف ،ص ،۷۱،کتاب محل لاہور
6. بحوالہ ،فرہاد ،شاہد ،ڈاکٹر ،سیکولرازم ایک تعارف ، ص ۱۹
7. جاوید احمد غامدی صاحب کے حالیہ بیانیے کی طرف اشارہ ہے
8. سوشل میڈیا پر سینئر صحافی وجاہت مسعود صاحب کی زیر سرپرستی چلنے والا گروپ ہم سب مراد ہے
9. Heywood andrew ,political theory an introduction(new yark 2004) P .90,97
10. .heywood Andrew , political ideologies an introduction (3rd edition) P.127
11. الزمر:۵۲
12. الاعراف:۶۹
13. الاعراف:۱۲۷
14. الاعراف:۱۲۷
15. ھود:۷۰
16. یوسف:۳۷
17. الحج:۷۸
18. الاعراف:۱۵۹
19. آل عمران:۱۱۰
20. آل عمران:۱۰۴
21. علوی مستفیض ،ڈاکٹر،رائج الوقت سیاسی افکار کا تجزیہ ،فکر و نظر،شمارہ ۴،جلد ۴۵ ص ۷۰،۷۱
22. Belin, Isaiah ,tow concepts of liberty (oxford university press) P.3
23. Kevin,Harrison and tony , boyd ,political ideas and movements(new York 2003) P.119
24. Heywood , andrew ,political theory an introduction (new York 2004) P.185
25. Heywood,Andrew ,political theory an introduction (new york 2004) P.188
26. مودوی ،ابو الاعلی ،اسلامی ریاست ، ص ۵۷۰،اسلامک پبلیکیشنز ۲۰۰۰
27. جیسے مولانا وحید الدین خان صاحب
28. مولانا مودودی صاحب مراد ہیں
(جاری)

حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دارالعلوم (وقف) دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی علالت کے بارے میں کئی روز سے تشویشناک خبریں آرہی تھیں جبکہ گزشتہ روز کی خبروں نے اس تشویش میں مزید اضافہ کر دیا۔ اسی دوران خواب میں ان کی زیارت ہوئی، عمومی سی ملاقات تھی، میں نے عرض کیا کہ حضرت! دو چار روز کے لیے دیوبند میں حاضری کو جی چاہ رہا ہے مگر ویزے کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آرہی، میری طرف غور سے دیکھا اور فرمایا اچھا کچھ کرتے ہیں۔ خواب بس اتنا ہی ہے، اب خدا جانے پردۂ غیب میں کیا ہے، مگر یہ اطمینان ہے کہ خاندانِ قاسمی کی نسبت سے جو بھی ہوگا خیر کا باعث ہی ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ خاندانِ قاسمی کے چشم و چراغ اور اس عظیم خانوادہ کے ماتھے کا جھومر تھے، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ کے فرزند و جانشینؒ، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا حافظ محمد احمدؒ کے پوتے اور حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے پڑپوتے تھے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کے ساتھ میری نیازمندی اپنے شیخ و مرشد حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے وسیلہ سے تھی کہ ان بزرگوں کا باہمی قرب و تعلق مثالی تھا۔ حضرت قاری صاحبؒ جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو شیرانوالہ لاہور میں کوئی نہ کوئی مجلس ضرور جمتی اور میرا شمار اس دور میں شیرانوالہ کے حاضر باش شرکاء میں ہوا کرتا تھا، اس لیے متعدد بار ان برکات سے فیض یاب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت قاری صاحبؒ کے بعد حضرت مولانا قاری محمد سالم قاسمیؒ کے ساتھ بھی اسی تسلسل میں نیاز مندی کا تعلق رہا اور جب دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کے ساتھ میں بھی شریک تھا، ہم تینوں کا قیام حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کے مکان میں رہا اور چند روز تک ہم ان کی میزبانی کا حظ اٹھاتے رہے۔ ہمارے ساتھ گوجرانوالہ کے چند اور دوست مولانا مفتی محمد نعیم اللہ، قاری محمد یوسف عثمانی، جناب امان اللہ قادری، عبد المتین چوہان مرحوم اور دیگر حضرات کے علاوہ بزرگ اہل حدیث عالم دین مولانا حکیم محمودؒ بھی اسی مکان میں ہمارے ساتھ قیام پذیر تھے۔ اس دورے میں حضرت قاری صاحبؒ کی رہائش گاہ کا قیام اور حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کی دعوتیں اور مجالس میری زندگی کے یادگار لمحات میں سے ہیں۔
مولانا محمد سالم قاسمیؒ جب پاکستان تشریف لاتے تو میری کوشش ہوتی کہ کسی جگہ ان کی زیارت و ملاقات کی کوئی صورت بن جائے جس میں اکثر کامیاب ہو جاتا۔ ایک بار گوجرانوالہ تشریف لائے تو میرے گھر کو بھی رونق بخشی اور جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں میری رہائش گاہ پر ناشتہ کے لیے قدم رنجہ فرمایا۔ لاہور، راولپنڈی اور دیگر مقامات کی بعض ملاقاتیں ابھی تک ذہن کی اسکرین پر جھلملا رہی ہیں مگر ایک ملاقات بہت یادگار رہی۔ میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسٰی منصوری کے ساتھ بنگلہ دیش کے سفر پر تھا، سلہٹ میں ایک پرانے اور معروف بزرگ حضرت شاہ جلالؒ کا مزار ہے جو لوگوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز ہے، میں اسے سلہٹ کا داتا دربار کہا کرتا ہوں، ہم وہاں اپنے پروگرام کے تحت گئے تو معلوم ہوا کہ دربار کے ساتھ جو دینی درسگاہ ہے وہ ہمارے ہم مسلک دوستوں کے زیر انتظام ہے اور وہاں حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی قیام گاہ پر پہنچ گئے تاکہ زیارت و ملاقات کی سعادت حاصل ہو جائے۔ میزبانوں کو ایک پاکستانی مولوی کی کسی طے شدہ پروگرام کے بغیر ان سے ملاقات کرانے میں تردد تھا اور اس تردد کی وجہ بھی سمجھ آرہی تھی۔ میں نے ڈیوٹی پر موجود ایک صاحب کو اپنا نام لکھ کر دیا کہ حضرت کو صرف یہ نام بتا دیں اگر وہ اجازت دیں تو ملاقات کرا دیں۔ حضرت مولانا مرحوم نے نام پڑھا تو بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ یہ ادھر کہاں آگئے ہیں؟ بہرحال اذن باریابی مل گیا اور کچھ دیر محفل رہی۔ ایک بار جدہ کے سفر میں دوستوں نے بتایا کہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ تشریف لائے ہوئے ہیں اور قریب ہی ایک دوست کے ہاں قیام پذیر ہیں۔ حاضری پر خوشی کا اظہار فرمایا، مختلف مسائل پر باہمی گفتگو ہوئی اور دعاؤں سے نوازا۔ اسی طرح اور بھی بعض مقامات پر ملاقات و گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت مرحوم کے والد گرامی حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ اپنے دور کے بڑے خطباء میں شمار ہوتے تھے اور انہیں بجا طور پر خطیب اسلام کہا جاتا تھا۔ بلکہ میں نے ان کی پہلی زیارت اپنے طالب علمی کے دور میں ایک جلسہ میں ہی کی تھی جب لاہور کے انارکلی بازار میں بہت بڑا جلسہ تھا، والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ حضرت قاری صاحبؒ کی تقریر سننے کے لیے گوجرانوالہ سے لاہور تشریف لے گئے تو مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ میرا شاید کافیہ کا سال تھا اور میں نو عمر لڑکا ہی تھا مگر اس سفر کی بہت سی باتیں اور جلسہ کا منظر ابھی تک نگاہوں کے سامنے ہے۔ حضرت قاری صاحبؒ کی باتیں تو یاد نہیں مگر ان کا سراپا اب بھی نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی خطابت اپنے والد گرامیؒ کی خطابت کا رنگ رکھتی تھی اور انہیں خطیب الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا مگر میرا طالب علمانہ ذوق حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ کے لیے خطیب کی بجائے “متکلم اسلام” کے تعارف کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ متکلم کا اپنا دائرہ ہوتا ہے اور محدثین، فقہاء، مناظرین اور مفسرین کی طرح متکلمین بھی مستقل تعارف رکھتے ہیں۔ متکلم کا کام اپنے دور کی عقلیات کے دائرے اور ماحول میں اسلامی عقائد اور ان کی تعبیرات کی تشریح و توضیح کرنا ہوتا ہے اور ہر دور میں جلیل القدر متکلمین امت مسلمہ کی راہنمائی کرتے رہے ہیں۔ جب دیوبندی مکتب فکر کی ان دائروں میں تقسیم کی بات ہوتی ہے تو میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے سب سے بڑے متکلم حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ تھے، ان کے بعد شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے اس محاذ کو سنبھالا اور پھر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ ان دونوں کے ترجمان بن گئے۔ مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی خطابت و تدریس میں بھی اس کی بھرپور جھلک پائی جاتی تھی اور بسا اوقات ان کی گفتگو سنتے ہوئے ہم آنکھیں بند کر کے حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کی زیارت کا حظ اٹھا لیا کرتے تھے۔
دیوبندی متکلمین کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو ایک اور نام کا اضافہ کیے بغیر میری تسلی نہیں ہوتی اور وہ بزرگ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ ہیں جو اپنے دور میں پنجابی زبان کے سب سے بڑے متکلم اسلام تھے اور عقائد کی مشکل سے مشکل تعبیر کو آسان مثالوں اور سادہ اسلوب میں عام آدمی کو سمجھا دینے کا کمال رکھتے تھے۔ مجھ سے ایک بار پوچھا گیا کہ حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ اور حضرت مولانا لال حسین اخترؒ میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت قاضی صاحب چوٹی کے خطیب تھے، حضرت جالندھریؒ کمال کے متکلم تھے اور حضرت لال حسین اخترؒ میدانِ مناظرہ کے شاہسوار تھے۔ تینوں کا مشن ایک ہی تھا مگر دائرہ کار اور اسلوب الگ الگ تھا اور یہ تینوں اسلوب کسی بھی دینی تحریک کی لازمی ضروریات میں شمار ہوتے ہیں۔
بہرحال حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے خانوادہ کے ساتھ ساتھ ان کے اسلوب و ذوق کے بھی ایک اور نمائندہ بزرگ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں انہیں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ان کے تمام متعلقین کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

غامدی صاحب اور اہلِ فتویٰ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رجب کے دوران ملک بھر میں بیسیوں مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا اور دینی مدارس کے مختلف النوع اجتماعات میں شرکت کے علاوہ متعدد ارباب علم و دانش کے ساتھ بعض علمی و فکری مسائل پر تبادلہ خیالات کا موقع ملا، ان میں سے ایک اہم اور نازک مسئلہ جاوید احمد غامدی صاحب کے بارے میں بعض اہل علم کے فتویٰ کی بات بھی تھی جس کے بارے میں احباب نے میرا موقف معلوم کرنا چاہا۔ متعدد دوستوں کے ساتھ کی گئی متفرق گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ بے شمار رحمتیں نازل فرمائے حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جانؒ کی روح اور قبر پر جن سے طویل عرصہ تک جمعیة علماءاسلام کی سرگرمیوں میں رفاقت کا تعلق رہا ہے جب وہ لکی مروت میں تھے، پھر کراچی چلے گئے اور اس کے بعد لاہور تشریف لے آئے۔ ”شریعت بل“ کی تحریک اور نفاذ شریعت کی عمومی جدوجہد میں ہمارے درمیان مشاورت و معاونت کا سلسلہ دیر تک چلتا رہا۔ ایک بار انہوں نے دریافت فرمایا کہ کچھ دوستوں نے جاوید احمد غامدی صاحب کی بعض عبارات استفتا کی صورت میں بھجوائی ہیں اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ چونکہ بات مشورہ کی تھی اور مسئلہ علمی و فقہی تھا اس لیے دیانت داری کے ساتھ جو کچھ محسوس کیا وہ ان سے عرض کر دیا۔ اسے قارئین کے سامنے پیش کرنے سے قبل یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ غامدی صاحب کے بعض افکار و آرا پر میں نے متعدد مواقع پر نقد کیا ہے اور ان سے اختلاف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں میرے بعض مضامین کا مجموعہ ”ایک علمی و فکری مکالمہ“ کے عنوان سے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے کتابچہ کی صورت میں شائع کیا ہے اور ایک مختصر کتابچہ ”غامدی صاحب کا تصور حدیث و سنت“ کے عنوان سے الگ طور پر بھی شائع ہو چکا ہے۔جبکہ میری ویب سائیٹ zahidrashdi.org پر غامدی صاحب کے عنوان سے ایک درجن سے زائد مضامین موجود ہیں جو وہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود فتویٰ کے حوالہ سے مجھے تامل رہا ہے چنانچہ حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جانؒ سے میں نے عرض کیا کہ:
حضرت مفتی صاحبؒ نے میری اس گزارش کا جو کہ تحریری صورت میں تھی کوئی جواب نہیں دیا جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں میری بات سے اتفاق نہیں تھا۔ مگر میں اس موقف پر اب بھی قائم ہوں اس لیے کہ فتویٰ اگر افکار و نظریات کے حوالہ سے ہو تو اس کی نوعیت اور ہوتی ہے کہ ایسا نظریہ اور فکر رکھنے والے شخص کے بارے میں شرعی فتویٰ یہ ہے۔ لیکن اگر فتویٰ کسی متعین شخصیت کے بارے میں ہو جو موجود و زندہ ہے تو اس سے اس کا موقف پوچھے بغیر اور اسے اپنے بارے میں اشکالات و سوالات کی وضاحت کا موقع دیے بغیر محض معترضین و ناقدین کی منتخب اور نقل کردہ عبارات کی بنیاد پر کوئی شخصی فتویٰ صادر کر دینا فقہ و شریعت کے ایک سنجیدہ طالب علم کے طور پر میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ مجھے یہ بات اس لیے بھی سمجھ میں نہیں آرہی کہ خود ہم اس طرزعمل کا شکار چلے آرہے ہیں کہ ہمارے انتہائی محترم اکابر کی چند عبارات نقل کر کے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کیا گیا اور اس پر عرب و عجم کے بہت سے علماءکرام سے دستخط بھی کرا لیے گئے جبکہ ان بزرگوں سے نہ پہلے پوچھنے کی زحمت کی گئی اور نہ ہی بعد میں ان کی طرف سے کی جانے والی وضاحت کو قبول کیا گیا اور یہ سلسلہ ایک صدی سے مسلسل چل رہا ہے جو اب بھی جاری ہے۔ 
اس لیے میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ میں غامدی صاحب کے بعض افکار و نظریات سے اختلاف میں ان دوستوں کے ساتھ ہوں لیکن باقاعدہ شخصی فتویٰ کے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ چند سنجیدہ مفتی صاحبان مبینہ اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے غامدی صاحب کے متعلقہ لٹریچر کا مطالعہ کریں اور خود سوالات و اشکالات مرتب کر کے انہیں اور ان کے معتمد رفقاءکو بھجوا کر ایک معقول متعینہ مدت کے اندر جواب و وضاحت کا تقاضا کریں، اگر وہ جواب نہ دیں یا ان کے جوابات تسلی بخش نہ ہوں تو اس کے بعد باضابطہ فتویٰ اگر ضروری ہو تو صادر کر دیا جائے۔ 
جبکہ اس سے ہٹ کر میرا یہ ذوق بھی ہے جس کی بنیاد تجربہ و مشاہدہ پر ہے کہ ماضی قریب میں انکار حدیث کے عنوان سے دو بڑی شخصیات سامنے آئیں اور پڑھے لکھے لوگوں کے ایک بڑے حلقہ کو متاثر کیا۔ ایک چودھری غلام احمد پرویز اور دوسرے ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم تھے۔ عملی تجربہ و مشاہدہ یہ ہے کہ چودھری غلام احمد پرویز پر ملک بھر کے سرکردہ علماءکرام کے اتفاق سے کفر کا فتویٰ صادر کیا گیا جس سے مجھے بھی مکمل اتفاق ہے مگر اس سے ان کی واپسی کا دروازہ بند ہوگیا۔ جبکہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کے خلاف کوئی شخصی فتویٰ نہیں دیا گیا بلکہ ان کی کتابوں کا باقاعدہ جواب دیا گیا بالخصوص حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ اور میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے برق صاحب کے حدیث نبوی پر اعتراضات اور تنقید کا مدلل رد کیا اور حجیت حدیث کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔ اس کے ساتھ ہی اٹک کے حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ فاضل دیوبند نے برق صاحب کے ساتھ ذاتی ملاقاتوں اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا اور سالہا سال کی باہمی گفتگو کے بعد انہیں حجیت حدیث پر نہ صرف قائل کیا بلکہ ان سے سابقہ موقف سے رجوع کا اعلان کروایا اور ”تاریخ الحدیث“ کے عنوان سے ایک مستقل کتابچہ بھی تحریر کروایا جو شائع ہو چکا ہے۔ 
حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے خلیفہ مجاز تھے اور خود بھی ایک مفسر قرآن اور روحانی شیخ کی حیثیت سے علماءکرام کی ایک بڑی تعداد کا مرجع تھے۔ ابھی چند روز قبل ۱۵ ۔اپریل کو باغبان پورہ لاہور کی مسجد امن میں ختم قرآن کریم کی ایک تقریب میں حضرت قاضی صاحبؒ کے فرزند و جانشین حضرت مولانا قاضی ارشد الحسینیؒ اس طویل مکالمہ و مباحثہ کا تذکرہ کر رہے تھے جو حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کے درمیان چلتا رہا اور جس کے نتیجے میں برق صاحب مرحوم نے انکار حدیث سے رجوع کر کے حدیث نبوی کی حجیت و تاریخ پر کتابچہ لکھا اور شاید اسی وجہ سے پرویز صاحب کی طرح ملک میں برق صاحب کا کوئی حلقہ قائم نہ ہو سکا جبکہ پرویز صاحب کا حلقہ اب بھی قائم ہے اور مسلسل مصروف عمل ہے۔ 
چنانچہ میں ذاتی طور پر تو اس قسم کے کسی بھی معاملہ میں اس دوسرے راستے کو ترجیح دیتا ہوں لیکن عمومی مصلحت اور مفاد عامہ کی ضرورت کے تحت اہل علم کی طرف سے کسی فتویٰ کی ضرورت و اہمیت سے بھی مجھے انکار نہیں ہے بشرطیکہ وہ محض معترضین کی نقل کردہ عبارات کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ متعلقہ شخصیت کو وضاحت کا موقع دے کر فتویٰ کے مسلمہ اصولوں کے مطابق تحقیق و تجزیہ کی بنیاد پر ہو۔ یہ میری ذاتی رائے ہے ضروری نہیں کہ دیگر دوستوں کو بھی اس سے اتفاق ہو البتہ یہ ضرور توقع رکھتا ہوں کہ اس طالب علمانہ رائے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے گا۔ 

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۲)

مولانا عبید اختر رحمانی

حضرت شاہ ولی اللہ کے دلائل کا جائزہ 

حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنے نظریہ تخریج پر  الانصاف اورحجۃ اللہ میں تفصیل سے بحث کی ہے  ، اپنے موقف کی تائید کیلئے انہوں نے تین دلیلیں پیش کی ہیں،ہم ترتیب وار ان تینوں دلیلوں کا جائزہ لیتے ہیں
(۱) حضرت شاہ صاحب کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اہل کوفہ کو اپنے مشائخ اوراساتذہ سے خصوصی لگاؤ تھااور ان کی پوری توجہات کا مرکز کوفہ کے فقہااورمشائخ تھے اوراس ضمن میں انہوں نے حضرت مسروق اورامام ابوحنیفہ کا واقعہ پیش کیاہے۔
حضرت مسروقؒ نےایک مسئلہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ کر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قول کو اختیار کرلیاتھاتوان سے علقمہ نے کہا تھا کہ کیاکوئی اہل مدینہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی زیادہ صاحب علم ہے،اس پر مسروق نے کہاکہ ایسی بات نہیں ؛لیکن حضرت زید بن ثابت کو میں نے راسخین فی العلم میں سے پایاہے۔
دوسری مثال یہ ہے کہ جب امام ابوحنیفہ اورامام اوزاعی میں رفع یدین پر مناظرہ ہوا توامام ابوحنیفہ نے فرمایا : اگر حضرت عبداللہ بن عمر کو شرف صحابیت حاصل نہ ہوتی تومیں کہتاکہ علقمہ ابن عمر سے زیادہ فقیہ ہیں، ان مثالوں سے محض یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کو اپنے مشائخ اورمشائخ کے مشائخ سےدلی لگاؤتھااوران کے اقوال واجتہادات کے ساتھ خصوصی تعلق تھا؛لیکن یہ تو فطری چیز ہے،ہرشہر والے کو اپنے شہر اورملک کے عالم وشیخ سے محبت ہوتی ہے، اہل مدینہ کو فقہاء سبعہ اوران کے مشائخ حضرات صحابہ سےفطری لگاؤتھا،مکہ والوں کوحضرت عبداللہ بن عباس اوران کےشاگردوں سےخصوصی لگاؤتھا، اہل شام کوحضرت معاذ بن جبلؓ،حضرت معاویہؓ وغیرہ اوران کے شاگردوں سے خصوصی محبت تھی۔ یہ دونوں نقل کردہ اثر اس بات کو توبتاتی ہیں کہ اہل کوفہ کو اپنے مشائخ اوراساتذہ سے محبت تھی؛ لیکن اس سے نظریہ تخریج پر کوئی روشنی نہیں پڑتی اورنہ یہ نظریہ تخریج کے لیے دلیل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
(۲) حضرت شاہ ولی اللہ کی دوسری دلیل منطقی اور قیاسی ہے ،پہلی بات یہ کہ  اہل الرائے حضرات کو مسائل کاجواب بتانے اورفتویٰ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی ،دوسری بات یہ کہ اہل الرائے کے پاس احادیث وآثار کا وسیع ذخیرہ نہیں تھا، نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ایسے میں محض تخریج ہی ایک واحد طریقہ کار بچ جاتاہے ،جس سے وہ پیش آمدہ مسائل کا جواب دیتے تھے۔
گویا اس صغری کبریٰ کاملاپ نظریہ تخریج کا مولد ہے۔ صغریٰ یہ ہے کہ شہروں کی خاک چھان کر حدیث کی تلاش کرنہیں سکتےتھے،پیش آمدہ مسائل کا جواب دینے کیلئے حدیث کا سرمایہ کم تھااورکبریٰ یہ ہے کہ فقہ وفتاویٰ میں خاص دلچسپی ہے اور رائے بیان کرنے میں کوئی باک نہیں ہے نتیجہ نظریۂ تخریج کی صورت میں سامنے آگیا۔سردست ہم صرف حضرت شاہ صاحب کا موقف پیش کررہے ہیں،ہم آگے چل کر عرض کریں گے کہ یہ دونوں ہی صغری اورکبریٰ مشکوک بلکہ مخدوش ہیں لہذا جس صغری وکبریٰ کے ملانے پر نتیجہ کی بنیاد رکھی گئی، وہ بنیاد ہی غارت ہوجاتی ہے توظاہرہےاس صغریٰ وکبری سے حاصل شدہ نتیجہ کا انجام بھی بخیر نہیں ہوگا۔
ہم شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے صغری اورکبریٰ کا جائزہ لیتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ دلائل کی کسوٹی پر یہ صغریٰ اورکبریٰ کہاں تک پورے اترتے ہیں،حضرت شاہ ولی اللہ کا دعویٰ یہ رہاہے کہ اہل عراق کے پاس حدیث کا سرمایہ کم تھا،محدثین کی طرح مختلف شہروں اورملکوں میں گھوم گھوم کر احادیث کے جمع کرنے سے قاصر تھے،یہ دعویٰ صرف حضرت شاہ ولی اللہ کا ہی نہیں بلکہ ماضی کے کچھ علماء مثلاابن خلدون اورشہرستانی وغیرہ نے بھی یہ دعویٰ کیاہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عراق احادیث میں حجاز سےکسی اعتبار سے کم تر نہیں تھا۔

عراق احادیث کے معاملہ میں حجاز سے کمتر نہیں!

اولاًتویہ دعویٰ ہی صحیح نہیں ہے کہ اہل عراق کے پاس حدیث کا سرمایہ کم تھا،حقیقت یہ ہے کہ اگرکوئی شخص صرف تذکرۃ الحفاظ کھول کر بیٹھ جائے اور کوفی وبصری اوربغدادی محدثین کوتلاش کرے تواسے حیرت ہوگی کہ کوفہ وبصرہ کے محدثین حضرات کسی طرح مکہ اورمدینہ سے کم نہیں  ہیں، نہ معیار میں نہ مقدار میں،کون کہہ سکتاہے کہ علقمہ اوراسود سعید بن المسیب اوردیگرفقہاء سبعہ سےفروتر ہیں ؟کون کہہ سکتاہے کہ سفیان ثوری امام مالک سے کم ہیں؟ کون کہہ سکتاہے کہ سلیمان بن مہران معروف بہ اعمش زہری سے کم ہیں؟کون کہہ سکتاہے کہ شعبی کسی حجازی محدث سے کم درجہ ہیں؟کون کہہ سکتاہے کہ شعبہ کسی حجازی محدث سے کم تر ہیں ،کس کی یہ مجال ہے کہ یحیی بن سعید القطان کو امام مالک سے  فروتر قراردے،پھر اس کے بعد فوراًمتصل دیکھئے تو امام یحیی بن معین اورعلی بن مدینی ہیں ،احمد بن حنبل ہیں ،عبدالرحمن بن مہدی ہیں،حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال کی عراق میں حدیث کم تھی،ایک غلط خیال ہےجونقل درنقل ہوتاچلاآرہاہے؛ لیکن کسی نے اس پر رک کرغور کرنے سوچنے اورسمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ،مولانا سرفراز خاں صفدر صاحب نے اپنی بیش قیمت تصنیف مقام امام ابوحنیفہ میں اس پر اچھی بحث کی ہےاور محض تذکرۃ الحفاظ جو حافظ ذہبی کی تصنیف ہے،اس میں سے سو سےز ائد محدثین کوفہ کی نشاندہی کی ہے،جوسب کے سب حافظ حدیث اوربعضےامیرالمومنین فی الحدیث تھے،اگرآپ کوفہ کے ساتھ بصرہ اوربغداد کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیں توعراق کا علم حدیث میں رتبہ بے تحاشا بڑھ جاتاہے۔ (1)
اس مقالہ میں اس کی گنجائش نہیں کہ عراق میں علم حدیث کی جو گرم بازاری تھی،اس کا مفصل ذکر کیاجائے، اس پر علامہ زاہد الکوثری نے نصب الرایہ کے مقدمہ’’فقہ اہل العراق وحدیثھم’’ میں بہترین اورمحققانہ کلام کیاہے، اس کے علاوہ اس موضوع پر مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کی کتاب ’’مقام امام ابوحنیفہ ‘‘میں بھی بہترمواد موجود ہے،جس سے اس غلط خیال کی پورے طورپر تردید ہوجاتی ہے کہ کوفہ یاعراق میں علم حدیث کم تھا،جن حجازی ائمہ نے اس سلسلے میں کچھ طعن وتعریض کے کلمات کہے ہیں تو وہ معاصرانہ اورحریفانہ چشمک ورقابت کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کو کوفہ وعراق میں حدیث کم ہونے کی دلیل سمجھنا غلط ہے۔

امام ابوحنیفہ اورعلم حدیث 

امام ابوحنیفہ کی پیدائش 80ہجری میں ہوئی ہے جب کہ بعض روایات اس سے پہلے بھی کی ہیں، زاہد الکوثری نےمختلف قرائن کی بنیاد پر 80سے پہلے کی روایت کو تانیب الخطیب میں ترجیح دیاہے(تانیب الخطیب، ص42/44) جوں جوں عہد رسالت سے بعد ہوتاگیا،اسناد کے وسائط یعنی راوی سے لے کر رسول اللہ تک واسطے بڑھتے گئے ،حدیث کی سندیں اورطرق میں اضافہ ہوا،اس کےبرعکس رسول پاک ﷺ سے جس قدر قرب زمانی کم ہوا،وسائط کم ہوئے اور حدیث کے طرق کم ہوئے، اس طرح رسول پاک ﷺ سے جو جتنا قریب رہا،اس کیلئے احادیث کے اسناد اورطرق اتنے ہی کم اور وسائط اتنے ہی کم رہے جس کی وجہ سے اس کیلئے احادیث کے ذخیرہ پر حاوی ہونا اور روایتوں کو محفوظ کرنا زیادہ آسان تھا۔
امام ابوحنیفہ کا عہد رسالت سے بالکل قریب کا ہے، امام ابوحنیفہ کے اساتذہ میں زیادہ تر اوساط اورکبار تابعین ہیں،امام ابوحنیفہ سے رسول پاکﷺ تک راویوں کا واسطہ بہت کم ہےجس کی بناء پر سند مختصر اور احادیث کی تعداد بھی کم تھی، امام ابوحنیفہ کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں :وعني بطلب الآثار، وارتحل في ذلك(سير أعلام النبلاء،الناشر : مؤسسۃ الرسالۃ،6/392)اورآثار کی طلب میں توجہ کی اور اس سلسلے میں اسفار کیے،حافظ ذہبی مزید لکھتے ہیں کہ طلب حدیث میں امام ابوحنیفہ کی یہ جدوجہد ایک ہجری کے بعد دوسری ہجری کی ابتداء میں ہوئی (سیراعلام النبلاء،6/396) امام ابوحنیفہ اموی حکومت کے داروگیر کے باعث تقریباچھ سال تک کوفہ کو چھوڑ کر  مکہ میں رہے،اس دوران دنیا بھر سے آنے والے محدثین عظام سے وہ علم حدیث حاصل کرتے رہے،پھر آپ سال بہ سال حج کرتے تھے، روایتوں میں پچاس پچپن ،ساٹھ حج کا ذکر ملتاہے، حج کے ایام میں دنیابھرکے محدثین سے استفادہ کا موقع ملتارہا۔

علم حدیث میں امام صاحب کی عظمت شان کا اعتراف

امام ابودائود فرماتے ہیں: “اللہ شافعی پر رحم کرے  وہ امام تھے، اللہ مالک پر رحم کرے وہ امام تھے اللہ ابوحنیفہ پر رحم کرے وہ امام تھے”۔ظاہر سی بات ہے کہ جس طرح امام شافعی اورامام مالک کی امامت فقہ وحدیث دونوں میں ہے،اسی طرح امام ابوحنیفہ کوبھی ان کے ساتھ ملاکر امام ابوداؤد نے بتادیاکہ امام ابوحنیفہ بھی فقہ وحدیث کے امام ہیں۔(الانتقاء 1/32) حماد بن زید جو بڑے درجہ کے محدث ہیں اورجن کو حافظ ذہبی نے گراں قدر القاب سے یاد کیاہے ،ان کے بارے میں حافظ المغرب ابن عبدالبر لکھتے ہیں، “انہوں نے امام ابوحنیفہ سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں”(الانتقاء ص130)مشہور محدث مسعر بن کدام کہتے ہیں : “میں نے امام ابوحنیفہ کے ساتھ حدیث کی تحصیل کی لیکن وہ ہم پر غالب رہے اور زہد میں مشغول ہوئے تواس معاملہ میں بھی ہم پر غالب رہے اورہم نے ان کے ساتھ فقہ طلب کی تو تم دیکھ ہی رہے ہو کہ انہوں نے اس میں کیاکمال حاصل کیاہے” (مناقب الامام ابی حنیفہ وصاحبیہ ص43)
سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کا خاص امتیاز یہ تھاکہ آپ ہر قسم کی واہی تباہی احادیث کا ذخیرہ جمع کرنے کے فراق میں نہیں رہتے تھے ؛بلکہ آپ ان احادیث کو جمع کرتے تھے جو ثقہ روات سے مروی ہوں اور صحیح ہوں اور جو رسول اللہﷺ کاآخری عمل رہاہو (2)۔
حفاظ حدیث میں شمار
حافظ ذہبی نے آپ کو حفاظ حدیث میں شمار کیاہے (تذکرہ الحفاظ 1/126،دار الكتب العلميۃ بيروت) اور تذکرۃ الحفاظ کے بارے میں خود حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
ہذہ تذكرۃ بأسماء مُعَدِّلِي حَمَلَۃ العِلْمِ النبوي، ومن يُرْجَعُ إلی اجتہادہم في التوثيق والتضعيف، والتصحيح والتزييف ( مقدمہ تذکرہ الحفاظ)
ترجمہ :اس کتاب میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو عادل ،علم نبوت کے حامل اور احادیث وروات کی توثیق وتضعیف اورکھرے کھوٹے الگ کرنے میں جن کی جانب رجوع کیاجاتاہے۔
حافظ ذہبی نے ہی المعین فی طبقات المحدثین میں بھی آپ کا ذکر کیاہے،(دیکھئے مذکورہ کتاب ص51،مطبع دار الفرقان - عمان–الأردن) اس کتاب  کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
فَہَذِهِ مُقَدّمَۃ فِي ذكر أَسمَاء أَعْلَام حَملَۃ الْآثَار النَّبَوِيَّۃ تبصر الطَّالِب النبيہ وتذكر الْمُحدث الْمُفِيد بِمن يقبح بالطلبۃ أَن يجہلوہم وَلَيْسَ ہَذَا كتاب بالمستوعب للكبار بل لمن سَار ذكره فِي الأقطار والأعصار وَبِاللَّہِ أَعْتَصِم وَإِلَيْہِ أنيب (مقدمہ المعین فی طبقات المحدثین )
حافظ ذہبی کے ہم عصر اوراونچے درجہ کے محدث وفقیہ عبدالہادی مقدسی حنبلی نےبھی مختصرطبقات علماء الحدیث میں امام ابوحنیفہ کا ذکر خیر کیاہے۔(دیکھئے مختصرطبقات علماء الحدیث جلداول ،ترجمہ امام ابوحنیفہ)،اس کتاب کے بارے میں حافظ عبدالہادی لکھتے ہیں:
فہذا كتاب مختصر يشتمل علی جملۃ من الحفاظ من أصحاب النبي صلَّی اللہ عليہ وسلّم والتابعين ومن بعدہم، لا يسع من يشتغل بعلم الحديث الجہل بہم  (طبقات علماء الحديث (1/ 77)
مشہور محدث ابن ناصرالدین دمشقی شافعی نے بھی حفاظ حدیث پر لکھے گئے اپنے منظومہ ’’بدیعۃ البیان عن موت الاعیان‘‘ میں امام ابوحنیفہ کا ذکر کیاہے ،چنانچہ لکھتے ہیں :
بَعْدَہُمَا فَتَی جُرَيْجِ الدَّانِي ... مِثْلُ أَبِي حَنِيفَۃ النُّعْمَانِي۔ (بحوالہ مکانۃ الامام ابوحنیفہ فی الحدیث ،ص60)
جمال الدين يوسف بن حسن الصالحي الحنبلي جوابن مبرد کے نام سے مشہور ہیں،انہوں نے بھی امام ابوحنیفہ کا ذکر حفاظ حدیث میں کرتے ہوئے اپنی تصنیف “طبقات الحفاظ” میں ذکر کیاہے،جس سے شیخ عبداللطیف ہاشم سندی نے اپنی تصنیف ’’ذَبُّ ذُبَابَاتِ الدراسات، عن المذاهب الأربعۃ المتناسبات" میں نقل کیاہے۔ان کے علاوہ حافظ سیوطی نے طبقات الحفاظ میں اور محدث علامہ محمد بن رستم قباد بدخشی نے تراجم الحفاظ میں امام ابوحنیفہ کا ذکر کیاہے۔
امام ابوحنیفہ حافظ حدیث ہونے کے علاوہ جرح وتعدیل کے بھی امام تھے،اس کا بھی ذکر محدثین عظام امام ترمذی بلکہ ان سے قبل سے لے کر حافظ سخاوی اورمابعد تک کرتے آئے ہیں ۔(دیکھئے ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل للذہبی اور المتکلمون فی الرجال للسخاوی)
مولانا عبدالرشید نعمانی کی ایک بہترین تصنیف مکانۃ الامام ابوحنیفہ فی علم الحدیث ہے، اس میں مولانا نے بڑی محنت اور تحقیق وتفتیش سے ثابت کیاہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ کا علم حدیث میں کیامقام اورمرتبہ تھا اورکس طرح بعد کے لوگوں نے بھی علم حدیث میں ان کی اس عظمت کو تسلیم کیاہے، یہ بات دوسری ہے کہ انہوں نے روایت حدیث کو مرکز توجہ نہیں بنایا ،اس طرح علم حدیث میں ان کی مہارت اوررسوخ دنیا کے سامنے نہیں آسکی اورنہ دنیا نے ان کو اس حیثیت سے پہچانا جیسے امام بخاری فقیہ ہونے کے باوجود دنیا کے سامنے فقیہ کی حیثیت سے نہ آسکے اور نہ کسی فقیہ نے اپنی کتاب میں ان کو جگہ دی۔اسی طرح قاسم حارثی عبدہ نے بھی اپنے دکتوراہ کا موضوع مکانۃ الامام ابی حنیفہ بین المحدثین کو بنایاہے اوراس پر ایک سیرحاصل مقالہ لکھاہے جس سے واضح ہوتاہے کہ نہ صرف امام ابوحنیفہ کا علم حدیث میں بڑامقام تھا بلکہ محدثین کے درمیان بھی انتہائی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
اگرہم اس بات کو بالفرض تسلیم بھی کرلیں کہ اہل الرای حضرات یعنی امام ابوحنیفہ وغیرہ کے پاس حدیث کا سرمایہ نہیں تھا توبھی کوفہ جہاں عظیم محدثین کی ہمیشہ ایک بڑی تعداد رہی ہے ،کیامسائل کے حل میں وہ ان محدثین سے رجوع نہ کرتے ہوں گے ؟آج کے دورمیں بھی ایک معمولی محقق بھی جب کسی مسئلہ کی تحقیق کرتاہے تو کتابوں سے مدد لیتاہے، جوبڑے عالم اس موضوع کے جانکار ہوتے ہیں، ان کی رائے حاصل کرتاہے ،ان سے مزید مواد کے سلسلے میں استفسار کرتاہے توکیا خیرالقرون کے اس دور میں امام ابوحنیفہ کسی مسئلہ کے استنباط میں کوفہ میں موجود محدثین سے اس موضوع کے تعلق سے احادیث کے تعلق سے دریافت نہ کرتے ہوں گے؟
کوفہ کی علمی اورحدیثی عظمت اورامام ابوحنیفہ کی علم حدیث میں گہرائی اورگیرائی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے جن بنیادوں پر قصر تخریج کی عمارت اٹھائی ہے، اس کی کمزوریاں واضح کی جائیں۔

حدیث کی روایت نہ کرنا عدم علم کو مستلزم نہیں

دوسری بات یہ ہے کہ حدیث کی روایت نہ کرنا علیحدہ بات ہےاورحدیث سے واقف نہ ہونا دوسری بات ہے،حضرت ابوبکر وحضرت عمررضی اللہ عنہما کی روایتیں کم ہیں توکیااس کا یہ مطلب ہے کہ ان کو کم روایتیں معلوم تھیں؟اگرامام ابوحنیفہ کی روایت سے کتب صحاح خالی ہونے کا یہ مطلب لیاجائے کہ ان کے پاس حدیث کا سرمایہ نہیں تھا توکیا کتب فقہ میں امام بخاری کی آراء نہ نقل کیے جانے سے یہ مطلب نکالنا درست ہوگاکہ وہ فقیہ نہیں تھے؟ (3)
جس طرح امام بخاری کی آراء سے کتب فقہ وخلافیات کا خالی ہونا اس کو مستلزم نہیں کہ وہ فقیہ نہیں تھے،اسی طرح اہل الرائے حضرات کی روایتوں سے کتب حدیث کاخالی ہونااس کو مستلزم نہیں کہ وہ محدث نہیں تھے،یا ان کے پاس حدیث کا معتدبہ سرمایہ نہیں تھا؟؛بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں اہل الحدیث حضرات نے متعدد اہل الرای حضرت سے باوجود مستحق ہونے کے ان سے روایت نہیں لی ہے اور روایت نہ لینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ اہل الرای میں سے تھے ،حضرات محدثین کے اس ظلم وتعصب کی جانب  علامہ شام جمال الدین قاسمی (4)، امام یحیی بن معین (5) اور ابن عدالبر (6) وغیرہ نے بھی اشارات کیے ہیں،خود شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے الرفع والتکمیل (7) میں اس کے تعلق سے متعدد نقول بہم پہنچائے ہیں،جہاں محدثین نے کسی سے محض اس کے اہل الرایٔ ہونے کی وجہ سے روایت نہیں لی۔

محدثین کے پاس لاکھوں احادیث کی حقیقت

اکثر لوگوں کو اس بات سے غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ بخاری نے چھ لاکھ سات لاکھ احادیث سے انتخاب کرکے صحیح الجامع مرتب کی(تاریخ بغداد 2/9)امام مسلم نے مسلم شریف تین یاچار لاکھ احادیث سے انتخاب کرکے تالیف کی(طبقات الحنابلہ1/338،دار المعرفۃ - بيروت) ،ابودائود نے پانچ لاکھ احادیث سے سنن ابی دائود مرتب کی(مختصر تاریخ دمشق 10/109، دار الفكر دمشق - سوريا)یہ محدثین ملکوں اورشہروں میں گھومے توان کے پاس احادیث کا وسیع ذخیرہ ہوگیااور اہل الرائے کوفہ تک محدود رہے ،اس لئے ان کی معلومات کچھ ہزار حدیثوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
محدثین کا خاص طرز تھا کہ وہ دنیا بھر میں گھوم پھر کر ایک حدیث کے زیادہ سے زیادہ سند اورطرق تلاش کرتے تھے جیساکہ یحیی بن معین کہتے ہیں کہ اگر کوئی حدیث میرے پاس سو طرق سے نہ ہو تواس کی صحت معلوم نہیں ہوتی،لَوْ لَمْ نَكْتُبِ الْحَدِيثَ مِنْ مِائَۃِ وَجْہٍ مَا وَقَعْنَا عَلَی الصَّوَابِ (الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث ،2/595، مكتبۃ الرشد - الرياض) ابراہیم بن سعید جوہری کہتے ہیں اگرمیرے پاس کسی حدیث کی سوسند نہ ہوتواس حدیث کے معاملہ میں ،میں خود کو یتیم سمجھتاہوں،كل حَدِيث لم يكن عندي من مائۃ وجہ فأَنَا فِيہِ يتيم (تاریخ بغداد 6/618، دار الغرب الإسلامي –بيروت)
پھر جیسے جیسے حدیث کے روات اور شیوخ کا دائرہ وسیع ہوتاگیا، حدیث کے طرق اور سندوں میں اضافہ ہوتاگیا، مثلاحضرت عمر ؓسے ایک حدیث مروی ہے،ان سے اس حدیث کی روایت کرنے والے چارافراد ہیں، پھر ان چاروں سے اس حدیث کو سننے والے چالیس افراد ہیں، پھر ان چالیس افراد سے روایت سننے والے چارسو افراد ہیں اوران چارسو افراد سے اس روایت کو نقل کرنے والے چارہزار افراد ہیں، اب ایک شخص ان چارہزار افراد سے یہی ایک حدیث سنتاہے توچارہزار سندوں کی وجہ سے وہ ایک حدیث چار ہزار حدیث ہوجاتی ہے، مختصر یہ سمجھئے کہ جو حال آبادی میں اضافہ کا ہے، دوسے دس،دس سے سو ،سو سے ہزار،کچھ اسی طرح کا حال حدیث کی سند کاہے،تورسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے زمانہ جتنا دورہوتاجائے گا، راویوں کی تعداد اتنی ہی بڑھتی جائے گی، حدیث کے طرق اوراسناد میں اضافہ ہوتاجائے گا،اس کی واضح مثال انماالاعمال بالنیات والی حدیث ہے، اس کو حضورپاک سے نقل کرنے والے حضرت عمر ؓ ہیں، ان سے روایت کرنے والے ایک راوی ہیں اورپھر ان سے روایت کرنے والے بڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ محدثین نے اس ایک حدیث کی سات سوسندیں تلاش کی ہیں۔)فتح المغیث 1/28)
اب جن محدثین کے بارے میں ہم سنتے ہیں کہ ان کے پاس سات لاکھ، دس لاکھ اورپانچ لاکھ احادیث تھیں، تو اس کو اسی اضافہ سند پر قیاس کرناچاہئے اوراسی اعتبار سے دیگر محدثین کے پاس لاکھوں کی تعداد میں احادیث تھیں،ورنہ اگر نفس حدیث کی بات کی جائے توصحیح متصل مرفوع بلاتکرار احادیث کی تعدادصرف چارسے پانچ ہزارکے درمیان ہے،اس  سے زائد نہیں ہےجیساکہ اس کی صراحت حافظ ابن حجر نے کی ہے۔ ("النكت علی ابن الصلاح"، ص992)
واضح رہے کہ اس میں ذکر کردہ ثوری،شعبہ،امام احمد بن حنبل ،ابن مہدی،یحیی بن سعید القطان سب کے سب امیرالمومنین فی الحدیث ہیں، ان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ احادیث کے تقریباًتمام ذخیرہ پر ان کی نگاہ اورنظر ہے،ایسے میں ان کی یہ بات کتنی وزنی اور مستند ہے اس کا اندازہ کیاجاسکتاہے۔
یہ تو مرفوع متصل صحیح بلاتکرار حدیث کی تعداد ہوئی، اب اس میں احادیث احکام کی کیاتعداد ہے،ظاہر سی بات ہے کہ بہت ساری احادیث فضائل ،زہد اوردیگر ابواب میں مذکور ہیں،ایسے میں یہ بات ہرعاقل پر روشن ہے کہ احکام کی حدیث کی تعداد اس تعداد سے یقیناکم ہوگی۔حافظ بیہقی امام شافعی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ احادیث جن پر حلال وحرام کا مدار ہے ،ان کی تعداد پانچ سو ہے۔ (مناقب الشافعي" (1\915 تحقيق أحمد صقر)
اگرہم مان لیں کہ چلو پانچ سو نہیں حدیث حسن وغیرہ ملاکر دوہزار کے قریب حلال وحرام کی احادیث کی تعداد ہے توکیاان دوہزار احادیث کے حفظ وضبط سے بھی ائمہ احناف عاجز تھے؟امام ابویوسف کے بارے میں طبری نے لکھاہے کہ ان کا حافظہ اس غضب کاتھاکہ کسی محدث کے درس میں شریک ہوتے تھے اورسن کر ہی پچاس ساٹھ حدیثیں یاد کرلیتے تھے اورپھر اس کو بغیر کسی تغیر وتبدل کے دوہرادیتے تھے اور امام ابویوسف کثیر الحدیث تھے(الانتقاء  ص172)کیاایسوں کیلئے دوہزار تین ہزار حدیثیں یاد کرنابھی مشکل ہے؟ لہذا حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے اہل الرائے کے پاس احادیث کم ہونے کی وجہ سے تخریج کا جو نظریہ تراشاہے ،وہ درست معلوم نہیں پڑتا۔
درج بالا بحث سے یہ بات واضح ہے کہ احادیث کا سرمایہ یوں ہی کم ہے اورپھر جس قدر احکام میں احادیث کی ضرورت پڑتی ہے اس کا معتدبہ حصہ امام ابوحنیفہ کے پاس موجود تھا،پھر خود کوفہ میں علم حدیث کے امیرالمومنین ایک نہیں، کئی کئی موجود تھے، ان سے کسی بھی مسئلہ میں استفادہ کیاجاسکتاتھا،لہذا قلت حدیث کو تخریج کی بنیاد بنانا درست نہیں ہے۔
(۳) تیسری دلیل حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی یہ ہے کہ کتاب الآثار اورمصنف عبدالرزاق میں حضرت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ سے بڑی تعداد میں حضرت ابراہیم کے فتاویٰ منقول ہیں اورانہی کے مطابق امام ابوحنیفہ کی رائے بھی ہے ،اس سے واضح ہوتاہے کہ امام ابوحنیفہ ابراہیم نخعی کے قول پر تخریج کرتے تھے۔ (الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف ص39)
بظاہر یہ دلیل سابقہ دونوں دلیلوں سے قوی نظرآتی ہےاورکتاب الآثار کے مطالعہ سے بھی پتہ چلتاہے کہ ابراہیم نخعی کےاجتہادی اقوال انہوں نے بکثرت بیان کئے ہیں اورزیادہ مقامات وہ ہیں،جہاں انہوں نے ابراہیم نخعی کے قول کے مطابق ہی اپنی رائےبنائی ہے؛لیکن یہ پوراسچ نہیں ہے۔
 اسی کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ کتاب الآثار میں ایسے مقامات بھی کم نہیں ہے جہاں امام ابوحنیفہ نے ابراہیم نخعی کی رائے سے اختلاف کیاہے اورابراہیم نخعی کی رائے کے مقابلہ میں مکی اورمدنی فقہائے کرام کی رائے کو پسند کیاہے،اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ کے نظریہ تخریج کے دلائل اور امام مالک

حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے احناف کو اہل الرائے میں سے قراردیاہے اوراہل الحدیث اوراہل الرائے کے درمیان فرق وامتیاز ‘‘تخریج’’ کو قراردیاہے،تخریج کے نظریہ کیلئے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے دلائل ماقبل کے صفحات میں گذرچکے،حضرت شاہ صاحب جن دلائل کی بنیاد پر احناف کو یاامام ابوحنیفہ کو اہل الرائے قراردیتے ہیں بعینہ انہی دلائل کی بنیاد پر تو امام مالک کوبھی اہل الرائے قراردیاجاسکتاہے؛لیکن حضرت شاہ ولی اللہ نے کہیں بھول کربھی امام مالک کو اہل الرائے میں شمار نہیں کیاہے۔
اگرائمہ احناف اپنے کوفہ کے علماء ومشائخ سے ازحد عقیدت رکھتے تھے تویہ یہ بات امام مالک کے یہاں بھی ہے،وہ بھی اپنے فقہاء ومشائخ سے بے انتہاعقیدت رکھتے ہیں، بالخصوص عبداللہ بن عمرؓ،سعید بن المسیب،نافع  اورفقہاء سبعہ وغیرہ ،اس کی انتہایہ ہے کہ عمل اہل مدینہ کے مقابل حدیث تک کو ترک کردیتے ہیں،جب کہ امام ابوحنیفہ سے اس طرح کانہ کوئی اصول منقول ہے اورنہ کوئی فرع ،جس میں انہوں نے حدیث رسول پر اپنے مشائخ یااپنے شہر کے علماء کو ترجیح دی ہو۔
اگرکتاب الآثار میں ابراہیم نخعی کے اقوال بکثرت ملتے ہیں اور وہی فقہ حنفی کا مسلک ومذہب قرارپاتاہے  تو امام مالک کی موطابھی فقہاء سبعہ، سعید بن المسیب اورنافع وغیرہ کے اقوال سے مملو اورپُرہے،حقیقت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ جتنا ابراہیم نخعی کے اقوال سے متاثر نہیں دکھائی دیتے،اس سے کہیں زیادہ امام مالک فقہاء سبعہ کے اقوال سے متاثر نظرآتے ہیں۔ 
اب رہ گئی آخری بات کہ امام مالک کے پاس روایات کا بہت زیادہ ذخیرہ تھا اورامام ابوحنیفہ کے پاس کم تھاتوبحمداللہ ہم اولاًاس کی حقیقت واضح کرتے چلے آئے ہیں کہ امام ابوحنیفہ سے عدم روایت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بڑے محدث نہیں تھے،پھر احکام کی روایات یوں بھی کم ہیں، اگر کتاب الآثار میں موجود روایات کو ہی امام ابوحنیفہ کا سرمایہ علم قراردینے پر تل جائے تواسی منطق میں اس کو تسلیم کرنا ہوگاکہ امام مالک کا سرمایہ علم بھی موطامیں موجود روایات تک ہی محدود ہے(جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایساسوچنے والا کوئی انتہائی متعصب یاانتہائی جاہل شخص ہی ہوگا)علاوہ ازیں کمی وبیشی ایک اضافی امر ہے، اگرہم  مان لیں کہ امام مالک سےا مام ابوحنیفہ علم حدیث میں کم تر تھے تو اسی طرح امام شافعی بھی علم حدیث میں امام احمد سے کم تر تھے؛ لیکن اس سے کیا امام شافعی کی شان فقاہت میں کوئی کمی آتی ہے؟اس موقعہ پر ضروری محسوس ہوتاہے کہ ہم حافظ ذہبی کا وہ محاکمہ نقل کریں جو انہوں نے امام ابوحنیفہ اورامام مالک  کے درمیان علم حدیث کے سلسلے میں کیاہے:
وعلی الإنصاف لو قال قائل: بل ھما سواء في عِلم الكتاب. والأول (أبو‏حنيفۃ) أعلم بالقياس. والثاني (مالك) أعلم بالسنۃ. وعندہ عِلمٌ جَمٌّ من أقوال كثيرٍ من الصحابۃ. كما أن الأول أعلمُ بأقاويل علي وابن مسعود ‏وطائفۃ ممن كان بالكوفۃ من أصحاب رسول اللہ فرضي اللہ عن الإمامين، فقد صِرنا في وقتٍ لا يقدِرُ الشخص علی النطق بالإنصاف. نسأل‏اللہ السلامۃ۔ (سير أعلام النبلاء (8\112)
اور اگر انصاف کی بات کی جائے توکہنے والا کہہ سکتاہے کہ دونوں (امام مالک اورامام ابوحنیفہ)کتاب اللہ کے علم میں برابر تھے اورا مام ابوحنیفہ قیاس میں امام مالک سے بڑھ کر تھے،اورامام مالک کو حدیث کا علم زیادہ تھااورامام مالک کے پاس بہت سارے صحابہ کے اقوال کا علم تھا،جیساکہ امام ابوحنیفہ کو حضرت علیؓ اورحضرت ابن مسعودؓ اورکوفہ میں بسنے والے صحابہ کرام کا زیادہ علم تھا،اللہ دونوں امام سے راضی ہو،ہم ایسے عہد میں جی رہے ہیں جب کسی شخص کے اندر انصاف کے ساتھ بات کرنے کا یارانہیں ہے،اللہ سے ہی سلامتی کے طلبگار ہیں۔
(حافظ ذہبی اپنے زمانہ کا شکوہ کررہے ہیں،اگروہ آج کے حالات دیکھتے اورمقبل الوادعی ،زبیر علی زئی اوران ہی جیسوں کی تصنیفات  وغیرہ پر ان کی نگاہ پڑتی تو نہ جانے وہ کیاکہتے؟)

حضرت ابراہیم نخعی کی مخالفت

حضرت شاہ ولی اللہ کاتیسرا دعویٰ یہ رہاہےکہ امام ابوحنیفہ بکثرت ابراہیم نخعی کی پیروی کرتے ہیں، اورشاذونادر ہی ان کے اقوال سے عدول کرتے ہیں، ہم ذیل میں کتاب الآثار سے کچھ ایسے آثار نقل کررہے ہیں جہاں امام ابوحنیفہ نے بصراحت ابراہیم نخعی کے اقوال سے عدول کیاہے اورایسے مقامات کم نہیں ہے، ہم نے مقالہ کی طوالت کے پیش نظر ان تمام مسائل کی نشاندہی نہیں کی ہے جہاں امام ابوحنیفہ کی راہ ابراہیم نخعی سے الگ ہوتی ہے، اگرسنجیدگی سے جائزہ لیاجائے تویہ بات واضح ہوجائے گی کہ  ابراہیم نخعی کے اقوال سے امام ابوحنیفہ کی مخالفت اس قدر کم نہیں ہے کہ وہ کسی درجہ میں قابل لحاظ ہی نہ ہو۔
سردست ہم صرف کتاب الآثار کی ورق گردانی کرتے ہیں؛ کیونکہ اس میں امام محمد نے اپنے اورامام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے قول کی وضاحت کردی ہے،جس سے تقابل بہت آسان ہوجاتاہے،اورکتاب الآثار کی ورق گردانی ہمیں بتاتی ہے کہ امام صاحب نے فقہائے کوفہ کے علاوہ مکہ اورمدینہ کے فقہاء سے بھی استفادہ کیاہے اور ان کی فقہی تفکیر میں صرف کوفہ نہیں بلکہ حجاز کا بھی اہم حصہ ہے،مقالہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتاکہ ہم کتاب الآثار کے وہ تمام  اقتباسات نقل کردیں ،جس میں فقہ نخعی سے عدول ہے ؛اختصار کے ساتھ کچھ مثالیں پیش ہیں ۔
۱۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سفر سے واپس آئے اوراس کا عورتیں بوسہ لیں ،تواگربوسہ لینے والی خواتین محارم ہیں تووضو نہیں ٹوٹتا،اگربوسہ لینے والی عورتیں غیرمحرم ہیں تو وضو ٹوٹ جائے  گاکیونکہ یہ بمنزلہ حدث کے ہیں۔ 
اس پر امام محمد کہتے ہیں:
وَہَذَا قَوْلُ إِبْرَاہيمَ، وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِہذَا وَلَا نَرَی فِي الْقُبْلَۃ وُضُوءًا عَلَی حَالٍ إِلَّا أَنْ يَمْذِيَ فَيَجِبُ عَلَيْہ لِلْمَذْيِ الْوُضُوءُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (الامام محمد بن الحسن الشيباني، دار النشر: دار الكتب العلميۃ، بيروت - لبنان1/34)
یہ ابراہیم کا قول ہے اور ہماری رائے اس کے برخلاف ہے،بوسہ لینے والی عورتیں چاہے محرم ہوں یاغیرمحرم ،کسی بھی حال میں روزہ نہیں ٹوٹتا،ہاں!یہ کہ بوسہ کے خیال سے مذی نکل آئے تو مذی نکلنے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے گااوریہی امام ابوحنیفہ کا بھی قول ہے۔
۲۔ مستحاضہ(جس عورت کو حیض کے بعد بھی خون آتارہے)کے بارے میں ابراہیم نخعی کی رائے ہے کہ ظہر کی نماز کا جب آخری وقت ہو تو وہ غسل کرے گی اورنماز پڑھے گی، پھر اسی غسل سے وہ عصر کی نماز پڑھے گی،پھر رکی رہے گی ،جب مغرب کاوقت بالکل آخری ہوگا تووہ غسل کرے گی اور اور مغرب اور عشاء کی نماز پڑھے گی،امام محمد فرماتے ہیں:
وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِہَذَا، وَلَكِنَّا نَأْخُذُ بِالْحَدِيثِ الْآخَرِ أَنَّہَا تَتَوَضَّأُ لِكُلِّ وَقْتِ صَلَاۃٍ وَتُصَلِّي فِي الْوَقْتِ الْآخَرَ، وَلَيْسَ عَلَيْہَا عِنْدَنَا إِلَّا غُسْلٌ [ص:89] وَاحِدٌ حَتَّی تَمْضِيَ أَيَّامُ إِقْرَائِہَا، وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق1/87)
ہم ابراہیم نخعی کی اس رائے کے قائل نہیں ہیں،بلکہ ہماری رائے اس حدیث کے مطابق ہے ،جس میں حکم دیاگیاہے کہ وہ ہرنماز کے وقت وضو کرے گی اور آخروقت میں نماز پڑھے گی،اور جب اس کا خون بند ہوجائے گا تو وہ غسل کرے گی اورنماز پڑھے گی اوریہی امام ابوحنیفہؓ کا بھی قول ہے۔
۳۔ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں،اگرکسی شخص نے عشاء کی نماز پڑھی اور وتر نہیں پڑھا ،یہاں تک کہ صبح ہوگئی تو وترپڑھنے کا وقت ختم ہوگیا، امام محمد فرماتے ہیں:
وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِہَذَا. يُوتِرُ عَلَی كُلِّ حَالٍ إِلَّا فِي سَاعَۃٍ تُكْرَهُ فِيہَا الصَّلَاۃُ حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ حَتَّی تَبْيَضَّ، أَوْ يَنْتَصِفَ النَّہَارُ حَتَّی تَزُولَ أَوْ عِنْدَ احْمِرَارِ الشَّمْسِ حَتَّی تَغِيبَ. وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق1/338)
ہم اس رائے کے قائل نہیں ہیں:وہ اس پورے دن مکروہ اوقات کے علاوہ میں وتر کی قضاء پڑھ سکتاہےاوریہی امام ابوحنیفہ کابھی قول ہے۔
۴۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں:جب کوئی مسجد میں اس حال میں داخل ہو کہ جماعت کھڑی ہوچکی ہو، اور لوگ رکوع میں ہوں توتیز چل کر رکوع میں شامل ہوجاناچاہئے۔
امام محمد ؒ فرماتے ہیں :
قَالَ مُحَمَّد: وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِہَذَا، وَلَكِنْ يَمْشِي عَلَی ھِينَۃِ حَتَّی يُدْرِكَ الصَّفَّ فَيُصَلِّيَ مَا أَدْرَكَ، وَيَقْضِيَ مَا فَاتَہُ (المصدرالسابق1/347)
ہماری رائے اس کے خلاف ہے،وہ آہستہ حسب سابق چلے ،یہاں تک کہ صف میں پہنچے ،جتنی نماز جماعت کے ساتھ ملے،اسے اداکرے اورجوچھوٹ گئی،اسے مکمل کرےاوریہی امام ابوحنیفہؓ کا بھی قول ہے۔
۵۔ جنازہ کے ساتھ چلنے میں ابراہیم نخعی کا طرزعمل یہ تھاکہ وہ جنازہ سے کافی آگے بڑھ جایاکرتے تھے ،ہاں !اتنی دور نہیں جایاکرتے تھے کہ نظروں سے اوجھل ہوجائیں۔
امام محمد فرماتے ہیں:
لَا نَرَی بِتَقَدُّمِ الْجَنَازَۃِ بَأْسًا إِذَا كَانَ قَرِيبًا مِنْہَا، وَالْمَشْيُ خَلْفَہَا أَفْضَلُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ۔
جنازہ کے آگے چلنے میں کوئی ہرج نہیں ہے ،جب کہ زیادہ دوری نہ ہو،لیکن جنازہ کے پیچھے چلناافضل ہے اور یہی امام ابوحنیفہ ؓ کا بھی قول ہے۔
۶۔ ابراہیم نخعی سے ایسے پانی کے پینے اوروضو کے بارے میں سوال کیاگیا،جس میں بلی منہ ڈال چکی ہو،ابراہیم نخعی نے جواب دیاکہ بلی گھر میں گھومتی رہتی ہے ،اس کا بچاہواپانی پینے میں کوئی حرج نہیں ہے،پھر ان سے بلی کے منہ ڈالے پانی سے وضو کے بارے میں پوچھاگیاتوانہوں نے کہاکہ اس بارے میں اللہ نے رخصت دی ہے، نہ حکم دیاہے اورنہ منع کیاہے۔
امام محمد فرماتے ہیں کہ 
قَالَ أَبُوحَنِيفَۃ: غَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْہُ، وَإِنْ تَوَضَّأ مِنْہُ أَجْزَأهُ، قَالَ، وَكَذَلِكَ شُرْبُ غَيْرِهِ أَحَبُّ إِلَيَّ، وَإِنْ شَرِبَہُ فَلَا بَأْسَ بِہٖ، قَالَ مُحَمَّدٌ [ص:13]: وَبِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَۃَ نَأْخُذُ (المصدرالسابق 1/11)
امام ابوحنیفہ ؓ نے فرمایا:بلی نے جس پانی میں منہ ڈال دیاہو ،اگراس سے وضو کرلیاجائے تو وضو درست ہوجائے گالیکن بہتر یہ ہے کہ دوسراپانی استعمال کیاجائے،اسی طرح بلی کا بچاہواپانی پینا جائز ہے؛لیکن پسندیدہ یہ ہے کہ دوسرا پانی پیاجائے،امام محمد فرماتے ہیں :میری رائے وہی ہے جوامام ابوحنیفہ کی رائے ہے۔
۷۔ کپڑے میں شیرخوار بچے کا پیشاب لگ جائے توابراہیم نخعی کی رائے یہ ہے کہ اس پر سےپانی بہادیاجائے۔
امام محمد فرماتے ہیں:
قَالَ مُحَمَّد: وَأَعْجَبُ ذَلِكَ أَنْ تَغْسِلَہُ غَسْلًا. وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق 1/53)
مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ ایسے کپڑے کو باقاعدہ دھویاجائے اور یہی رائے امام ابوحنیفہ ؓ کی بھی ہے۔
۸۔ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ جوشخص ناخن تراشے یاپھر بال اکھاڑے یاکاٹے،توانگلیوں پر یاجہاں سے بال اکھاڑے گئے ہیں، وہاں پانی بہادے۔
امام محمد فرماتے ہیں:
وَسَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَۃَ يَقُولُ: «رُبَّمَا قَصَصْتُ أَظْفَارِي، وَأَخَذْتُ مِنْ شَعْرِي وَلَمْ أُصِبْہُ الْمَاءَ حَتَّی أُصَلِّيَ» قَالَ مُحَمَّد: وَبِہٖ نَأْخُذُ، (المصدرالسابق1/65)
میں نے امام ابوحنیفہ کو یہ کہتے ہوئے سناہے “بسااوقات میں نے ناخن تراشیا یاپھر بال اکھاڑے ،لیکن بغیر دھوئے اورپانی بہائے میں نے نماز پڑھی ہے’’،امام محمدفرماتے ہیں:میری بھی رائے یہی ہے۔
۹۔ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں:عورت کیلئے وضو کے دوران محض کنپٹیوں کا مسح کرنا کافی نہیں؛بلکہ اس کو ایسے ہی مسح کرنا ضروری ہے جیسے مرد مسح کرتے ہیں۔
امام محمد فرماتے ہیں:
وَأَمَّا نَحْنُ فَنَقُولُ: إِذَا مَسَحَتْ مَوْضِعَ الشَّعْرِ فَمَسَحَتْ مِنْ ذَلِكَ مِقْدَارَ ثَلَاثِ أَصَابِعَ أَجْزَأھا وَأَحَبُّ إِلَيْنَا أَنْ تَمْسَحَ كَمَا يَمْسَحَ الرَّجُلُ، وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق 1/74)
ہماری رائے یہ ہے کہ جب کسی عورت نے اس طرح مسح کیاکہ سرپر تین انگلی کے برابر مسح ہوگیا تو بس کافی ہے ؛ہاں!زیادہ بہتر اورپسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ بھی ایسے ہی مسح کرے ،جیسے مرد مسح کرتے ہیں  اوریہی قول امام ابوحنیفہ ؓ کا بھی ہے۔
۱۰۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ موذن اگر دوران اذا ن کلام (بات چیت کرے)تومیں نہ اس کی اجازت دوں گا اورنہ منع کروں گا۔
امام محمدفرماتے ہیں:
وَأَمَّا نَحْنُ فَنَرَی أَنْ لَا يَفْعَلَ، وَإِنْ فَعَلَ لَمْ يَنْقُضْ ذَلِكَ أَذَانَہُ. وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق 1/100)
اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ موذن ایسانہ کرےاوراگر وہ ایساکرتاہے تو اس سے اذان فاسد نہیں ہوگی۔
۱۱۔ ابراہیم نخعی، علقمہ اور اسود سے روایت کرتے ہیں کہ ان کو ایک مرتبہ عبداللہ بن مسعودؓ نے نماز پڑھائی، تین آدمی تھے ،تینوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا،ایک کودائیں اورایک کوبائیں، اورنماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایاکہ جب تم تین آدمی ہو توایسے ہی کیاکرو،حضرت عبداللہ بن مسعود رکوع میں تطبیق فرماتے تھے(تطبیق یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو ملاکر دونوں گھنٹیوں کے درمیان رکھ لیاجائے)اور وہ نماز بغیر اذان اوراقامت کے پڑھی۔
امام محمد فرماتے ہیں:
وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ فِي الثَّلَاثَۃِ، وَلَكِنَّا نَقُولُ إِذَا كَانُوا ثَلَاثَۃً تَقَدَّمَہُمْ إِمَامُہُمْ، وَصَلَّی الْبَاقِيَانِ خَلْفَہُ، وَلَسْنَا نَأْخُذُ أَيْضًا بِقَوْلِہِ فِي التَّطْبِيقِ كَانَ يُطَبِّقُ بَيْنَ يَدَيْہِ إِذَا رَكَعَ، ثُمَّ يَجْعَلَہُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْہ، وَلَكِنَّا نَرَی أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ رَاحَتَيْہ عَلَی رُكْبَتَيْہ، وَيُفَرِّجَ بَيْنَ أَصَابِعِہ تَحْتَ الرُّكْبَتَيْنِ. وَأَمَّا صَلَاتُہُ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَۃٍ فَذَلِكَ يُجْزِئُ وَالْآذَانُ وَالْإِقَامَۃُ أَفْضَلُ. وَإِنْ أَقَامَ الصَّلَاۃ وَلَمْ يُؤَذِّنْ فَذَلِكَ أَفْضَلُ مِنَ التَّرْكِ لِلْإِقَامَۃ؛ لِأَنَّ الْقَوْمَ صَلَّوْا جَمَاعَۃ. وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدرالسابق1/211)
ہم اس مسئلہ میں عبداللہ بن مسعودؒکے قول وفعل پر عمل نہیں کرتے،ہماری رائے یہ ہے کہ نماز پڑھنے میں اگر تین آدمی ہوں تو ایک آگے کھڑا ہو اوربقیہ دو اس کے پیچھے،اور تطبیق پربھی ہمارا عمل نہیں ہے، ہماری رائے یہ ہے کہ دونوں ہتھیلیاں دونوں گھٹنوں پر رکھی جائے، گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے میں انگلیاں ملاکر نہیں بلکہ کشادہ اورپھیلاکررکھی جائے ،جہاں تک بغیر اذان واقامت کے نماز پڑھنے کی بات ہے تو اس سے نماز ہوجاتی ہے ؛لیکن اذان واقامت کہنا افضل ہے ،اگراقامت کہی جائے لیکن اذان نہ دی گئی ہو تو وہ اذان واقامت دونوں نہ کہنے سے بہتر ہے اوریہی قول امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کابھی ہے۔
۱۲۔ ایک شخص نماز کے دوران اپنے عصو تناسل کے سرے پر کچھ تری پاتاہے تو وہ کیاکرتے،(شبہ یہ ہے کہ شاید یہ پیشاب کاقطرہ ہو)ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اگرمیرے ساتھ ایساہوتاہے تومیں وضو اورنماز دونوں کو دوہراتاہوں۔
امام محمدفرماتے ہیں:
وَأَمَّا نَحْنُ فَنَرَی أَنْ يَمْضِيَ عَلَی صَلَاتِہ، وَلَا يُعِيدَ، وَلَا يَضْرِبَ بِيَدَيْہ عَلَی الْأَرْضِ، وَلَا يَمْسَحَ بِوَجْھہ وَلَا يَدَيْہ حَتَّی يَسْتَيْقِنَ أَنَّ ذَلِكَ خَرَجَ مِنْہُ بَعْدَ الْوُضُوءِ، فَإِذَا اسْتَيْقَنَ ذَلِكَ أَعَادَ الْوُضُوءَ. وَہُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ (المصدر السابق 1/412)
ہماری رائے یہ ہے کہ مصلی نمازپڑھتارہے ،اس کو نہ وضو دوبارہ دوہرانے کی ضرورت ہے ، ہاں!اگراس کو یقین ہوجائے کہ وہ قطرہ  وضو کے بعد نکلاہے تو وہ وضو کو دوہرالے،اوریہی امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
۱۳۔ حماد ،ابراہیم نخعی سے نقل کرتے ہیں کہ کسی عورت کے انتقال پر اس کا شوہر اس کو غسل دے سکتاہے۔ 
قَالَ أَبُو حَنِيفَۃ: أَكْرَهُ أَنْ يُغَسِّلَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہ قَالَ مُحَمَّد: وَبِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَۃ نَأْخُذُ، إِنَّ الرَّجُلَ لَا عِدَّۃَ عَلَيْہ؛ وَكَيْفَ يُغَسِّلُ امْرَأَتَہ، وَہُوَ يَحِلُّ لَہ أَنْ يَتَزَوَّجَ أُخْتَہَا؟ وَيَتَزَوَّجَ ابْنَتَہَا إِنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ بِأُمِّہَا؟ (المصدرالسابق2/36)
امام ابوحنیفہ ؓ فرماتے ہیں میں اسے مکروہ سمجھتاہوں کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دے، امام محمد فرماتے ہیں ،امام ابوحنیفہ کا قول ہی ہم اس مسئلہ میں اختیار کرتے ہیں،اوراس قول کی دلیل ہے کہ بیوی کے موت کے بعد مرد پر کوئی عدت نہیں ہے(جس سے خفیف سا رشتہ نکاح باقی رہنے کا وہم ہو)وہ اس کی بہن سے شادی کرسکتاہے،اوراگرہم بسترنہ ہوا ہوتو اس کے دوسرے شوہر کی بیٹی سے بھی شادی کرسکتاہے(یہ تمام باتیں بتاتی ہیں کہ شوہر اس میت بیوی کیلئے غیر اورنامحرم ہوچکاہے) 
۱۴۔ ابراہیم  کہتے ہیں کہ عورت نماز میں جیسے چاہے بیٹھ سکتی ہے۔
 امام محمد فرماتے ہیں :
أَحَبُّ إِلَيْنَا أَنْ تَجْمَعَ رِجْلَيْہَا فِي جَانِبٍ، وَلَا تَنْتَصِبَ انْتِصَابَ الرَّجُلِ (کتاب الاثارللامام محمد،ص:609]
ہمارے نزدیک بہتر یہ ہے کہ وہ مرد کی طرح نہ بیٹھے بلکہ وہ اپنے پاؤں کو ایک جانب نکال کو بیٹھے۔
(نوٹ:اس کے علاوہ مزید اس طرح کے مسائل ڈھونڈنے سے جہاں امام ابوحنیفہ ابراہیم نخعی کی مخالفت کرتے ہیں پچاس سے بھی زائد مثالیں محض کتاب الآثار سے مل جاتی ہیں۔ اگرابراہیم نخعی اورامام ابوحنیفہ کے اختلافات کو ازاول تاآخر کھنگالا جائے تویقیناًاس کی تعداد بہت بڑھ جائے گی اوراس میں مزید کئی گنااضافہ ہوجائے گا،اگرہم ابراہیم نخعی کے ساتھ اختلاف کرنے میں امام ابویوسف وامام محمد یاان مین سے کسی ایک کوبھی شامل کرلیں توان اختلافات کی مقدار مزیدبڑھ جائے گی۔)
ان تمام مثالوں میں یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ نہ صرف امام ابوحنیفہ بلکہ امام محمد بھی ابراہیم نخعی کے اجتہاد کے پابند نہیں ہیں؛ بلکہ وہ کھلے عام دلیل کی روشنی میں اوراپنے اجتہاد کی روشنی میں ان سےاختلاف کرتے ہیں ،جہاں ان سے اتفاق کرتے ہیں ،وہاں تخریج کی بنیاد پر نہیں اوران کے اقوال کو لازم سمجھ کر نہیں؛بلکہ ان مقامات میں دونوں کا اجتہاد ایک ہوجاتاہے،اجتہاد میں توافق کی بناء پر امام صاحب ابراہیم نخعی کے ہمنوا ہوتے ہیں نہ کہ ان کے قول کو لازم سمجھ کر۔
(جاری)

حواشی

29- اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ میں بیت اللہ ہے،مدینہ مھبط وحی اور رسول پاک کی قبرانور وہاں ہے اور وہیں سے سارے عالم مین اسلام پھیلا، صحابہ کرام کی بڑی تعداد وہاں محو خواب ہے،لیکن جس دور کی ہم بات کررہے ہیں یعنی امام مالک اورامام ابوحنیفہ کی، اس دور کے لحاظ سے اگر ہم دونوں جگہ کی علمی حیثیت کا جائزہ لیں تو پتہ چلتاہے کہ علم وحدیث کے میدان میں کوفہ یادوسرے لفظوں میں عراق مدینہ ومکہ سے کسی طورپیچھے نہیں تھا۔
30- سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ كَانَ أَبُو حَنِيفَۃَ شَدِيدَ الأَخْذِ لِلْعِلْمِ ذَابًّا عَنْ حَرَمِ اللَّہِ أَنْ تُسْتَحَلَّ يَأْخُذُ بِمَا صَحَّ عِنْدَہُ مِنَ الأَحَادِيثِ الَّتِي كَانَ يَحْمِلُہَا الثِّقَاتُ وَبِالآخَرِ مِنْ فِعْلِ رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ عَلَيْہِ وَسلم وَبِمَا أَدْرَكَ عَلَيْہِ عُلَمَاءَ الْكُوفَۃَ (الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثہ142)
31- واضح رہے کہ امام بخاری کے اخص الخواص شاگر امام ترمذی نے اپنی کتاب سنن میں دیگر فقہاء محدثین کی آراء نقل کرنے کا اہتمام تو کیاہے، مثلاًعبداللہ بن مبارک، احمد بن حنبل، یحیی بن سعید القطان ،اسحاق بن راہویہ وغیرذلک لیکن وہ کہیں پر بھی امام بخاری کی فقہی رائے کا اظہارنہیں کرتے۔
32- كالإمام أبي يوسف والإمام محمد بن الحسن فقد فقد لينہما أہل الحديث - كما تری في "ميزان الاعتدال " - ولعمري لم ينصفوہما وہما البحران الزاخران، وآثارہما تشہد بِسَعَۃِ عِلْمِہِمَا وَتَبَحُّرِہِمَا، بل بتقدُّمہما علی كثير من الحفاظ. وناہيك كتاب " الخراج" لأبي يوسف و "موطأ " الإمام محمد (الجرح والتعدیل،ص31)
33-  يَحْيَی بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ: «أَصْحَابُنَا يُفْرِطُونَ فِي أَبِي حَنِيفَۃ وَأَصْحَابِہ (جامع بیان العلم وفضله 2/1081)
34- قَالَ أَبُو عُمَرَ : وَأَمَّا سَائِرُ أہلِ الْحَدِيثِ فَہْمْ كَالأَعْدَاءِ لأَبِي حَنِيفَۃَ وَأَصْحَابِہ (الانتقاء ص :173)
35- دیکھئے :الرفع والتکمیل ص70تا77

زوالِ امت میں غزالی کا کردار ۔ تاریخی حقائق کیا ہیں؟ (۲)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

زوالِ امت میں غزالی کاکردار اور اصل حقائق

(تاریخِ اندلس کے چند دلچسپ اوراق)

ہم نے لکھا ہے کہ اندلس میں خلافتِ امویہ کے سقوط کے بعد جو دور شروع ہوا وہ طوائف الملوکی کا دور کہلاتا ہے، اس دور میں ریاست سات حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ضعف وافتراق اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ اس دور میں اندلس صلیبیوں کا باج گذار بنا ہوا تھا،  ڈیڑھ ڈیڑھ انچی ریاستوں کے امراء اہلِ صلیب کو باقاعدہ جزیہ دیتے تھے، پھر اسی پہ بس نہیں، مذکورہ  حصوں میں سے دو حصے یکے بعد دیگرے عیسائی ہتھیا کر لے گئے۔  اس وقت جس طرح مسلمان بے سمت، تفرق وتشتت کا شکار اور آپس میں گتھم گتھ تھے، اس کی بناء پر اندیشہ ہوچلا تھا کہ بقایا حصہ پر بھی عیسائی جلد قابض ہوجائیں گے، مگر صلیبیوں کی  پھرتیوں کو مزید تقریبا تین سو سال تک کے لیے بریک لگ گئی، جس کے ظاہری اسباب کچھ یوں تھے۔
تفرق، انحطاط اور اہلِ صلیب سے مغلوبیت کے اس زمانہ میں اندلس کے مسلمان اہلِ حل وعقد سر جوڑ کر بیٹھے۔ اس وقت اندلس کے پڑوس میں مراکش کے اندر امیر یوسف بن تاشفین کی حکومت تھی، یہ بغداد کی مرکزی خلافت کا ما تحت اور نہایت بارعب حکم ران تھا۔ اندلس کے علماء اور شرفاء نے قاضی قرطبہ عبد اللہ بن محمد بن ادہم کے ساتھ مل  بیٹھ کر اس سے متعلق مشاورت کی اور اس تجویز پر سب کا اتفاق ہوا کہ مراکش کے بوڑھے برگد امیر المسلمین یوسف بن تاشفین  کو خط لکھ کر اپنے احوال کی اطلاع کی جائے اور  اس سے اپنے لیے سہارا طلب کیا جائے۔ اہلِ فکر اور اہلِ دل کا یہ اجتماع قرطبہ میں ہوا جو اس وقت بنو عباد کی قلم رو میں تھا، طوائف الملوکی کے دور میں اندلس کی مختلف حکومتوں میں سے سب سے مضبوط اور بڑی حکومت بنوعباد کی تھی۔ لیکن صلیبیوں کے مقابلہ میں اس حکومت کی بھی نقاہت اور بے بسی کا یہ عالم تھا کہ جس وقت قرطبہ میں اہلِ درد کا اجتماع ہورہا تھا، اس وقت بنو عباد کا وارث المعتمد علی اللہ اس علاقہ کا تخت نشین تھا، لیکن وہ نصاری کا باج گذار تھا،  خود کو نصاری کے مقابلہ میں بے بس پاتا تھا اور جب صلیبیوں کی طرف سے اشبیلیہ کا محاصرہ کیا گیا تو اس کے پاس ان کے مقابلہ کی قوت نہیں تھی، خود اس کی اپنی ذاتی سیرت یہ تھی کہ شراب کا رسیا تھا، بعض چھوٹی چھوٹی اسلامی ریاستوں کے خلاف اس نے زور آزمائی میں صلیبیوں کا ساتھ دیا تھا، لیکن بہرحال مسلمان تھا اور اشبیلیہ کے محاصرہ کے بعد اس کی آنکھ قدرے کھل گئی تھی۔ یہ خود بھی یوسف بن تاشفین کو مدد کے لیے بلانا چاہتا تھا۔ چنانچہ جب قاضی عبداللہ نے شہر کے شرفاء کی رائے معتمد تک پہنچائی تو معتمد نے اس کی تصویب کی۔ بعض مشیروں نے اشارہ کیا کہ ممکن ہے، یوسف بن تاشفین یہاں آنے کےبعد واپس جانے کا نام نہ لے، اس پر معتمد کی رگِ اسلامی پھڑکی اور اس نے ایک تاریخ ساز جملہ کہا کہ رعی الغنم خیر من رعی الخنازیر یعنی امیر یوسف کا قیدی بن کر ریوڑ چرانا ہمارے لیےصلیبیوں کا قیدی بن کر خنزیر چرانے سے بہتر ہے۔  چنانچہ معتمد کی تصویب کےبعد پہلی بار امیر یوسف کے پاس سرکاری وفد گیا، امیر یوسف اس سے قبل بعض نجی وفود کے ذریعہ بھی اندلس کے حالات سنتے رہے تھے۔
امیر یوسف بن تاشفین مراکش کی اس اصلاحی تحریک کے ایک کارکن تھے جس کےبانی ایک نہایت خدا رسیدہ بزرگ شیخ عبد اللہ بن یسین تھے اور جن کی تحریک مرابطین کی تحریک کہلاتی تھی۔ امیر یوسف کی امارت کا قصہ یہ ہے کہ ان کے پیش رو شیخ ابو بکر بن عمر اللمتونی جو خود بھی مذکورہ اصلاحی اور دعوتی تحریک ہی کے ایک بزرگ کارکن تھے،  خدا نے ان کو دعوت وعبادت کا ایک خاص ذوق عطا فرمایا تھا، انہوں نے اپنے ماتحت علاقہ کی قلم رو یہ کہہ کر امیر یوسف بن تاشفین کے حوالہ کر دی تھی کہ امورِ ریاست کی نگہبانی میرے ذوق کے خلاف ہے، اس کو میری جگہ تم سنبھالو اور میں اپنی بقیہ زندگی اپنے ذوق کے میدان میں صرف کرنا چاہتا ہوں۔  امیر یوسف نے اپنے پیش رو کی امانت کو نہایت حسنِ تدبیر کے ساتھ سنبھالا۔ اندلس کے مسلمانوں نے جب ان کو پکارا تو انہوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور اندلس میں پہنچ کر صلیبیوں کے ساتھ ایک زبردست معرکہ لڑا جو معرکہء زلاقہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معرکہ میں نہایت گھمسان کا رن پڑا جس کی وجہ سے بعض مصنفین نے اسے حضرت عمر کے دور میں ہونے والے قادسیہ اور یرموک کے معرکوں پر قیاس کیا جاتا ہے۔ اس معرکہ میں   مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور بڑی تعداد میں غنیمتیں حاصل ہوئیں، مگر امیر یوسف نے ان غنیمتوں میں سے کوئی حصہ لینے کی بجائے وہ سب اہلِ اندلس کے حوالہ کیا، انہیں افتراق سے بچنے اور اور اتحاد سے رہنے کی تعلیم دی اور خود واپس مراکش چلے گئے۔
تاہم اندلس کےمسلمانوں میں زوال کے جو اسباب پیدا ہوچکے تھے، ان کے ہوتے ہوئے ممکن نہ تھا کہ وہ اس قدر تعلیم وتلقین سے سنبھل جاتے۔ چنانچہ امیر یوسف کی واپسی کے بعد اندلس دوبارہ اپنی پرانی روش پر آگیا،  طوائف الملوکی ویسے کی ویسے رہی،  نصاری کی چھیڑ چھاڑ پہلے سے زیادہ بڑھ گئی،  بلنسیہ پر ان کا قبضہ ہوگیا جو اب تک کی ان کی کامیابیوں میں سے ایک بڑی کامیابی تھی اور چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستوں کے امراء آپس ہی میں لڑتے رہے، امیر یوسف کی نصیحت کسی کو یاد نہ رہی۔ امیر یوسف کی طرف سے مختلف موقعوں پر بہرحال ان کے پاس امداد آتی رہی۔  ان میں سےبعض موقعوں پر امیر یوسف کو ان امراء کی اقتدار پرستی،  صلیبیوں سے در پردہ دوستی اور مسلمانوں کی اجتماعیت میں عین موقع پر چھرا گھونپنے کے بعض ایسے شدید تجربات ہوئے کہ  انہیں ان امراء سے خیر کی توقع نہ رہی۔ انہیں صاف نظر آرہا تھا کہ اندلس کو اگر ایک حکومت پر جمع نہ کیا گیا تو اس کا مستقبل تاریک ہے۔ ان کے پاس اس کی قوت موجود تھی کہ وہ چھوٹے چھوٹے امراء  کو بزور وجبر ایک طرف کرکے اندلس میں اجتماعیت پیدا کردیتے، مگر ظاہر ہے کہ اس صورت میں مسلم آبادیوں کے اندر خون خرابہ ہوتا اور امیر یوسف اس کی شرعی پوزیشن کے حوالہ سے اپنے اضطراب کو دور کرنے کے لیے کسی مستند علمی وفقہی حوالہ کے خواہش مند تھے،  نیز امیر یوسف اپنی تمام تر قوت کے باوجود خود کو خود مختار سمجھنے کی بجائے بغداد کی مرکزی خلافت کے ماتحت سمجھتے تھے،  اس لیے وہ اس اقدام سے قبل مرکز سے اجازت لینا بھی ضروری سمجھتے تھے۔
ان کی ان دونوں ضرورتوں کو ایک مالکی فقیہ ابو محمد العربی اور ان کے بیٹے ابو بکر (جو امام غزالی کے شاگرد تھے) نے پورا کیا۔ وہ بغداد گئے، وہاں ان دنوں امام غزالی رونق افروز تھے، ان سے ملاقات کی، اندلس کے احوال سنائے، وہاں کے حکم رانوں کی بے تدبیری، بد اندیشی اور نصرانیت نوازی  کو بے نقاب کیا اور امیر یوسف بن تاشفین کے لیے ان سے شرعی سند اور حوالہ کی استدعا کی۔ امام غزالی نے  بد اندیش حکم رانوں کےخلاف راست اقدام کے حق میں فتوی لکھ کر ان باپ بیٹے کو دیا، نیز یوسف بن تاشفین کے نام از خود ایک خط لکھ کر روانہ کیا جس میں ساری تفصیلات لکھیں کہ مجھے اندلس کے کیا کیا احوال پہنچے ہیں، نیز یہ کہ میں نے یوسف بن تاشفین کے لیے ایک فتوی لکھ کر  اپنے شاگردوں کے حوالہ کر دیا ہے،  نیز یہ کہ وہ کس طرح عالمِ اسلامی میں یوسف بن تاشفین کے حق میں فضا ہم وار کرنے کے لیے سر گرم ہیں اور یہ کہ وہ جلد ہی خلافت بغداد کے سرکاری اجازت نامہ کے ساتھ آپ کے پاس آپہنچیں گے۔  بعد ازاں فقیہ ابن العربی سال 493ھ  میں وفات پاگئے اور ان کے فرزند ابو بکر امام غزالی کا فتوی اور خلافتِ بغداد کا اجازت نامہ لے کر اسی سال اندلس میں  یوسف بن تاشفین کے پاس پہنچ گئے۔ تو یہ ہے زوالِ امت میں غزالی کے کردار کی حقیقت اور اندلس کی تاریخ کا ایک رشن ورق، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح امام غزالی اندلس کو صلیبیوں کی جھولی میں گرنے سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ 
امیر یوسف بن تاشفین کو اگر بروقت صحیح سمت راہ نمائی نہ دی جاتی اور انہیں راست اقدام کے لیے تیار نہ کیا جاتا  تو اندلس کا کلی سقوط ظاہری اسباب کے مطابق اپنے اصل وقت سے گویا تین سو سال قبل ہی ہوجاتا، جیساکہ ہاتھ سے نکلتے ہوئے اس کے مختلف علاقےاس کے  اشارے دے رہے تھے۔ تاہم امیر یوسف کے راست اقدام نے اندلس میں ایک مضبوط اور یک سو حکومت کی بنیاد رکھی جو خلافتِ امویہ کے سقوط کے بعد اندلس کی پہلی با معنی حکومت تھی۔ اس عہد میں وہ بہت سے علاقے صلیبیوں سے واپس لے لیے گئے جو ان کے قبضہ میں جاچکے تھے۔  لیکن ایک بڑا شہر طلیطلہ بدستور ان کے پاس رہا اور باوجود کوشش کے واپس نہ لیا جاسکا۔ (۱)
امیر یوسف کی وفات کے بعد ان کا بیٹا علی بن یوسف بن تاشفین تخت نشین ہوا اور ان دونوں باپ بیٹا کا دور حکومت اندلس میں مرابطین کا دورِ حکومت کہلاتا ہے۔ علی بن یوسف میں بہت سی اچھی صفات موجود تھیں، جہاد بھی ہوتا رہا اور علماء کا احترام بھی کیا جاتا تھا، مگر دوسری طرف ریاست میں  شرعی احکام کے حوالہ سے کافی کچھ تساہل بھی پایا جاتا تھا۔  شراب کی خرید وفروخت عام ہوتی تھی، سرکاری فوجی علانیہ لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے، شہریوں کی عزت وناموس کو تارتار کرتے، اور  علی بن یوسف کے خاندان میں ایک اور قبیح روایت یہ چلی آتی تھی کہ مرد نقاب پہنتے تھے، جبکہ عورتیں کھلے منہ پھرتی تھیں۔ اسی دور میں غزالی کی احیاء علوم الدین کو بھی اندلس میں جلایا گیا۔  مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کا اول وآخر ان کا دین ہے، انہوں نے جب اپنے دین سے بے وفائی کی تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں زوال سے نہ روک پائی اور  اسباب ووسائل کے باوجود یہ ناکام ہوکر رہے، جبکہ جب انہوں نے اپنے دین سے وفا کی، اس کے احکام کو نظروں کے سامنے رکھا اور  ظاہری اسباب ووسائل کی بجائے خدا کی ذات پر اعتماد کیا تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں زوال کا شکار نہیں کرسکی، بلکہ یہ آگے سے آگے بڑھتے رہے۔  علی بن یوسف کی بعض نیک خصلتوں کے باوجود جس طرح منکرات وبدعات اس دور میں پھل پھول رہے تھے، اگر اس  خرابی کے سامنے بند نہ باندھا جاتا تو ظاہر تھا کہ اندلس میں مسلمانوں کی قوت کو ایک بار پھر زوال کا شکار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ 
اس دور میں اندلس کے اندر محمد بن تومرت کی سربراہی میں ایک اور اصلاحی تحریک چلی، اس کا ابتدائی مقصد ریاست میں منکرات کی روک تھام ہی تھا، لیکن رفتہ رفتہ اس کے نتیجہ میں اندلس کے اندر ایک اور خاندان کی حکومت کی داغ بیل پڑی جو موحدین کی حکومت کہلائی۔ محمد بن تومرت کے بارہ میں مشہور یہ ہے کہ حکومت کے خلاف اپنی تحریک سے قبل  وہ بھی امام غزالی سے ملے تھے، ان سے اپنی تحریک کے حق میں مشاورت لی اور  انہی کی تائید سے اپنا کام شروع کیا تھا۔ علامہ ابنِ خلدون نے اس ملاقات اور مشاورت کی روایت نقل کی ہے اور اردو لٹریچر میں شبلی، سید ابو الحسن علی ندوی اور سید قاسم محمود وغیرہ کے ہاں اسی روایت کے اتباع میں اس کو غزالی کا شاگرد تسلیم کرتے ہوئے اس کی تحریکِ موحدین کو نہ صرف غزالی ہی کی ایماء کا نتیجہ کہا گیا ہے، بلکہ اس انقلاب کو ایک بروقت اور صحیح اسلامی انقلاب بتایا گیا ہے اور شبلی نے لکھا ہے کہ موحدین کی ریاست امام غزالی کی منشاء اور اسلامی اصولوں کے عین مطابق تھی۔ (۲)
تاہم علامہ ابنِ اثیر کی رائے میں محمد بن تومرت کی امام غزالی سے ملاقات نہیں ہوئی اور ماضی قریب کے بعض عرب محققین نے باقاعدہ اس موضوع پر داد تحقیق دی ہے کہ محمد بن تومرت کی امام غزالی سے تلمذ اور ملاقات کی بات غلط ہے۔ نیز عرب محققین میں بالعموم خود محمد بن تومرت کےحوالہ سے  بھی عموما کوئی مثبت رائے نہیں ملتی اور یہ سچ ہے کہ تاریخ میں اس کی تحریکِ اصلاح وجہاد کے بعض پہلو ایسے بیان ہوئے ہیں جو سخت ناگوار ہیں اور جن کے ہوتے ہوئے اس کی تحریک کی مجموعی تحسین کی گنجائش کم ہی نکلتی ہے۔ ابنِ تیمیہ کی بعض عبارات، ذہبی کی سیر اعلام النبلاء اور ابنِ حجر عسقلانی کی الدرر الکامنۃ کے مطابق وہ خود کو مہدی اور معصوم کہتا تھا، اپنے اس دعوی کی سچائی لوگوں کے دلوں میں مستحکم کرنے کے لیے اس نے کچھ عجیب وغریب حرکتیں بھی کی تھیں، نیز شیخ ابنِ تیمیہ کے مطابق وہ اعتزال کی طرف مائل تھا اور صفات سے متعلقہ مشہور اعتزالی موقف ہی کی بناء پر اس نے اپنی تحریک کا نام موحد رکھا ہوا تھا۔ تاہم بعض محققین کے مطابق ابنِ تومرت کے حوالہ سےمشرق کےمؤرخین نے انصاف سے کام نہیں لیا، وہ اتنا برا نہ تھا جتنا کہ کہا جاتا ہے۔ نیز سبکی نے طبقات الشافعیہ میں اس کا جو ذکر کیا ہے، اس سے اس کے کردار کا کوئی منفی پہلو سامنے نہیں آتا، ہاں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ اشعری تھا اور محض اشعری ہونا شاید کوئی اتنا بڑا "عیب" نہیں۔  مولانا ابو الحسن علی ندوی نے بھی اس کے بارہ میں سبکی کے کلمات بلانکیر نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے اور شبلی وابنِ خلدون کی عبارات سے اس کی توثیق مزید کی ہے۔ (۳)
یہاں ہمیں اس بحث میں نہیں جانا کہ محمد بن تومرت درحقیقت کیا تھا اور کیا نہیں؟ اور کیا امام غزالی سے فی الواقع اس کی ملاقات ہوئی تھی یا نہیں؟ نیز ہمیں یہاں اس بحث میں بھی اپنا کوئی محاکمہ پیش نہیں کرنا کہ محمد بن تومرت کتنا صحیح تھا اور کتنا غلط اور نہ ہی غزالی اور ابنِ تیمیہ کی سلفی اور اشعری فکر کا کوئی تقابل پیش کرنا ہے۔ ہمیں تو یہاں صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ امام غزالی پر زوالِ امت کا الزام کتنا غلط ہے اور امت کے زوال وانحطاط کے حوالہ سے ان کا کوئی کردار اگر تاریخ میں ملتا بھی ہے تو وہ مثبت ہے، نہ کہ منفی۔ ابن تومرت کے بارہ میں یہ پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ بعض محققین  سرے سے غزالی کے ساتھ اس کی ملاقات سے انکاری ہیں، جبکہ جو مصنفین اس ملاقات کا ذکر کرتے ہیں تو یہ وہی ہیں  جو ابنِ تومرت کے انقلاب کو ایک صحیح اسلامی انقلاب کہتے ہیں اور اسے امام غزالی  کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ شمار کرتے ہیں۔  اب ان دونوں میں سے کون سی بات صحیح ہے، اس  کے بارہ میں کوئی ٹھوس رائے دینا ممکن نہیں ہے۔
اگر محمد بن تومرت کے بارہ میں شبلی وغیرہ کی یہ رائے درست تسلیم کرلی جائے کہ وہ صحیح الفکر آدمی تھا، اس کی تحریک اندلس کے لیے مقتضائے حال کے مطابق تھی اور موحدین کی قائم کردہ حکومت بھی اسلامی اصولوں کے عین مطابق تھی تو انہی کے نزدیک ابنِ تومرت کی اس ساری کاوش کی بنیاد امام غزالی سے اس کی مشاورت تھی۔ پس اگر اس انقلاب کو  صحیح فرض کر لیا جائے جو تحریکِ موحدین نے برپا کیا تھا تو جو اس انقلاب کو صحیح کہتے ہیں، انہی کے بقول اس انقلاب کے خمیر میں غزالی کی مشاورت شامل تھی۔ تاہم ہمیں ذاتی طور پر اس کا ہرگز اصرار نہیں کہ ابنِ تومرت صحیح الفکر تھا اور اس کا انقلاب بھی صحیح بنیادوں پر قائم تھا، بلکہ  صورتِ حال ا س کے برعکس بھی ہوسکتی ہے، مگر اس صورت میں امام غزالی سے اس کی ملاقات کو تاریخی اعتبار سے ثابت کرنا بھی ایک مشکل کام ہوگا۔ کیونکہ جو مؤرخین ابنِ تومرت کے کردار سے متفق نہیں، انہیں اس کی امام غزالی کے ساتھ ملاقات سے بھی اتفاق نہیں، بلکہ ابنِ اثیر سے لے کر دکتور راغب السرجانی تک یہ تمام مؤرخین اور محققین  جو ابن تومرت کو بھٹکا ہوا سمجھتے ہیں، غزالی سے اس کی ملاقات  سے بھی سخت انکاری ہیں۔ (۴)
ہماری ذاتی رائے میں  ابنِ تومرت کے ہاتھوں تشکیل پانے والی موحدین کی حکومت میں یا ابنِ تومرت کی ذات میں خواہ کچھ عیب رہے ہوں، مگر موحدین کی حکومت سے بظاہر ایک بڑی خیر بھی برآمد ہوئی۔ مرابطین کے ہاتھوں مراکش اور اندلس کے باقی ماندہ علاقے جو ایک بار پھر ضعف کا شکار ہورہے تھے اور ان کے بارہ میں اندیشہ تھا کہ عیسائی اس کم زوری سے شہ پا کر کہیں ان پر بھی حملہ آور نہ ہوجائیں،  موحدین کی وجہ سے ایک بار پھر مضبوط ہاتھوں میں چلے گئےاور اس حکومت کی تشکیل میں کسی نہ کسی درجہ کے اندر غزالی کے بالواسطہ کردار کو بہرحال مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ امام غزالی کے شاگرد ابو بکر ابن العربی (جنہوں نے اپنے والد کے ساتھ اس سے قبل یوسف بن تاشفین کا اقتدار استوار کرنے میں کردار ادا کیا تھا) نے آگے بڑھ کر اس وقت عبد المومن کا اندلس کی طرف سے استقبال کیا تھا جب وہ اندلس پر حملہ آور تھا۔ عبد المومن موحدین کی حکومت کا پہلا تاج دار  اور ابنِ تومرت کا نہایت قریبی ساتھی تھا، اس کے مزاج میں اپنے پیش رو ابنِ تومرت کی طرح کچھ سختی تھی، مگر تاریخ سے ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ اس نے اپنی حکومت کی بنیاد ابنِ تومرت کی معصومیت کے عقیدہ پر، توحید کے مخصوص اعتزالی تصور پر  یا اس طرح کی اور گم راہیوں پر رکھی ہو، بلکہ اس کے برعکس یہ نظر آتا ہے کہ اس حوالہ سے سکوت کی پالیسی اختیار کرکے گویا اس نے ابنِ تومرت کے اثرات کومٹنے کا موقع دیا اور ان علماء کو عزت دی جو کسی بھی لحاظ سے ابنِ تومرت کی گم راہیوں سے متفق نہیں کہلائے جاسکتے، جبکہ اسی خاندان کے تیسرے یا چوتھے حکم ران تک  باقاعدہ ریاستی سطح پر ابنِ تومرت کی گم راہیوں سے براءت کا اعلانِ عام کردیا گیاv لیکن عرفِ عام میں ان کے لیے موحدین کا نام استعمال ہوتا رہا۔
سید قاسم محمود کے الفاظ میں صلاح الدین ایوبی کے ہم عصر عبد المومن نے جتنی بڑی حکومت قائم کی، اتنی بڑی حکومت شمالی افریقہ کے کسی مسلمان نے اب تک قائم نہیں کی تھی اور نہ اس کے بعد پھر اتنی بڑی حکومت قائم ہوئی۔ نیز عہدِ موحدین کا  تیسرا حکم ران یعقوب المنصور  سب سے زیادہ مشہور ہے، اس کو ارک کے میدان میں  عیسائی حکم ران الفانسو پر فتح حاصل ہوئی، وہ نہایت علم دوست تھا اور اس کے دور میں بے شمار رفاہی کام ہوئے۔ (۵) سبھی اتفاق کرتے ہیں کہ یہ نہایت مضبوط حکومت تھی، اس سے اندلس میں مسلمانوں کے قدموں کو مزید ثبات اور استحکام نصیب ہوا۔ اندلس پر اس خاندان کی حکومت تقریبا سوا صدی قائم رہی۔ بعد ازاں ایک بار پھر انحطاط شروع ہوا جو 1492ء میں مکمل سقوط پر منتج ہوا۔ یوں اندلس کا جو سقوط گیارہویں صدی میں اموی خلافت کے سقوط کے بعد شروع ہوا تھا  اور اندلس مسلسل صلیبیوں کی لپیٹ میں آتا جارہا تھا، ابن تاشفین، غزالی اور مرابطین وموحدین وغیرہ کی بر وقت مداخلت سے مکمل سقوط تک پہنچنے میں اسے تقریبا ساڑھے تین سو سال تک کی بریک لگ گئی۔
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ غزالی پر اس اعتراض کی قطعا کوئی حقیقت نہیں ہے کہ فلسفہ پر ان کی تنقید سے عالمِ اسلام اولا علمی اور بعد ازاں سیاسی زوال کا شکار ہوگیا جس کا یہ تسلسل ہے کہ آج عالمِ اسلام کو ذلت کے یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ غزالی نے اگر علمی وفکری سطح سے ہٹ کر عملی میدان میں کوئی بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار ادا کیا بھی تو وہ مسلمانوں کے وقار پر منتج ہوا، نہ کہ زوال پر۔ تاریخ میں اس کے برعکس اگر کوئی اور تصویر ملتی ہے، تو ہوائی باتیں کرنے کی بجائے اس کا ثبوت فراہم کیا جائے۔ 

غزالی اور ابنِ رشد کا تقابل؛ کیا کوئی جواز ہے؟

نیز کیا کوئی بتا سکتا ہے  کہ غزالی کے مقابلہ میں جس ابنِ رشد کو اپنا راہ نما بنانے کی تلقین دن رات مسلمانوں کو کی جاتی ہے، امت کے عروج وزوال کی کہانی میں اس نے کب اور کون سا تاریخ ساز مثبت کردار ادا کیا تھا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ ابن رشد موحدین ہی کا ایک درباری تھا، بلکہ عبد الواحد المراکشی (مصنف المعجب) کے بقول یہیں سے اس کی شہرت ہوئی اور جو کچھ ملا، یہیں سے ملا۔ ابنِ رشد سے قبل اندلس کے ایک اور مشہور فلسفی اابنِ طفیل کا عبد المومن کے دربار میں آنا جانا تھا، وہی ابنِ رشد کو دربار میں لایا،  عبدالمومن کے بعد خلیفہ ابو یعقوب کے دربار میں اسے بہت عزت ملی، وہ خلیفہ کا مشیرِ خاص بنا،  شاہی طبیب اور قرطبہ کا قاضی بنا،  بعد ازاں تیسرے خلیفہ یعقوب المنصورکے زمانہ میں اس کی عزت وتوقیر میں مزید اضافہ ہوا،  اس کے بعد عتابِ شاہی کا شکار ہوا۔ اب اس بارہ میں کچھ کہنا ممکن نہیں کہ اس کا سبب کیا تھا۔ بعض کے بقول خلیفہ کے بعض ہم نشینوں نے خلیفہ کو اس کے خلاف ورغلایا تھا،  جبکہ بعض کے بقول اس کا سبب اس کے دینی انحرافات تھے۔ خیر، ہمیں اس بحث میں نہیں جانا کہ ان میں سے کون سی بات درست ہے، لیکن اگر وہ واقعتا ان "اعلی خیالات" کا حامل تھا جو خود ملحدین یا متفلسفین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں  اور وہ واقعتا مسلمانوں کے لیے فکری انتشار اور خلفشار کا باعث بھی بن رہا تھا تو اس صورت میں اس پر نازل ہونے والے شاہی عتاب پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
ابنِ رشد  (الحفید) خصوصا فقہ میں وسعتِ نگاہ کے حوالہ سے اپنے ہم نام دادااحمد بن رشد القرطبی (الجد)  کا صحیح جانشین تھا اور اس کے علم سے انکار نہیں، اس کی کتاب "بدایۃ المجتہد" سے علمی حلقے شروع سے استفادہ کرتے آرہے ہیں، لیکن اپنے الہیاتی نظریات میں وہ فلسفہ ہی کے ایک منحرف دبستان کا پیروکار بھی تھا۔  اس لیے اس سے دینی انحرافات کی توقع کچھ غلط نہیں۔  اگر دعوی یہ ہے کہ ابنِ رشد کے موردِ عتاب بننے سے عالمِ اسلام کا زوال اور مسیحیت کی علمی اٹھان شروع  ہوئی تو ریکارڈ کی درستگی کے لیے عرض ہے کہ ابنِ رشد کی تکفیر خود اس کی زندگی میں مسیحیوں کی طرف سے بھی ہوئی تھی اور اندلس پر اپنے حملہ کے بعد صلیبیوں نے اس کی کتابوں کو بھی جلادیا تھا۔ ہاں البتہ ملحدین کے ہاں اسے قبولِ عام حاصل ہوا ہے تو کیا ہمیں ابنِ رشد کو راہ نما بنانے کا جو مشورہ دیا جاتا ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم مذہب کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکیں؟ کسی ایک فلسفی کے اپنے الہیاتی نظریات کی وجہ سے زیرِ عتاب آجانے سے کوئی ریاست یا معاشرہ علمی یا سیاسی زوال کا شکار نہیں ہوسکتے، نہ ہی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اہلِ فکر جینوئن اور مفید سائنسی علوم کے حوالہ سے بھی غور وفکر کرنا چھوڑ دیں۔ چنانچہ  کتاب پروری اور اور علمی ترقی موحدین کے دور میں بھی برابر جاری رہی۔ عبد المومن نے مراکش میں ایک بڑا کتب خانہ قائم کیا تھا جس میں چار لاکھ کتابیں تھیں۔ یعقوب کا دور ہر لحاظ سے ایک زبردست دور تھا، اس دور میں مسلمانوں کو صلیبیوں کے خلاف نہایت  اہم فتوحات  حاصل ہوئیں،  سڑکیں ، ہسپتال، سرائیں اور درس گاہیں تعمیر ہوئیں اور سید قاسم محمود کے بقول اس زمانہ میں اندلس میں بڑی زبردست سائنسی ترقی ہوئی اور ایسے ایسے مصنف اور سائنس دان پیدا ہوئے کہ جو بغداد اور نیشاپور  وغیرہ کے بڑے علماء سے کسی طرح کم نہ تھے۔ (۶) 
ابنِ رشد کی بعض علمی صلاحیتیں اپنی جگہ،  مگر اس تاریخ کو سامنے رکھیں اور ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ  کیا عروج وزوال کی کہانی میں غزالی اور ابنِ رشد کا تقابل کرنے اور دن رات اس کی مالا جپنے کا کوئی جواز ہے؟ کہاں تو غزالی جو حکومتوں پر اثر انداز ہوکر مسلمانوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہورہے ہیں اور کہاں ابنِ رشد جن کی کہانی درباری نوازشات سے فیض یاب ہوکر درباری عتاب پر ختم ہوتی ہے اور جن کی شخصیت اتنی الجھی ہوئی ہے کہ آج تک ان کی فکر کے اجزاء کے تعین پر ہی کوئی اتفاق نہ ہوسکا۔ ہمارا مقصود یہاں پر نہ تو ابنِ رشد کی تکفیر وتفسیق ہے اور نہ ہی اشعری فکر کا سلفی فکر کے ساتھ کوئی محاکمہ مقصود ہے، بلکہ ہمارا مقصود صرف یہ عرض کرنا ہے کہ امت کے عروج وزوال کی کہانی میں غزالی اور ابنِ رشد کا تقابل کسی بھی حوالہ سے معقول نہیں ہے۔
اگر مغرب کی ترقی اور امتِ مسلمہ کے زوال کا راز یہی ہے کہ مغرب نے ابنِ رشد کی تقلید کی ہے تو ذرا بتائیے ناں کہ ابنِ رشد کی وہ کون سی روشن فکر ہے جس نے مغرب کی نشاتِ ثانیہ میں کردار ادا کیا ہے اور اسے وقت کی "سپر پاور" پنا دیا ہے۔ لوگوں کو دینی انحرافات کی طرف مائل کرنے کے لیے ابنِ رشد کا نام بطور حوالہ مت استعمال کیجئے۔ اگر مغرب کی ترقی کاراز اس کا الحاد اور مذہبی تقدسات سے دستکش ہوجانا ہے تو ایسی ترقی ہمیں ہر گز نہیں چاہئے اور یہ سچ ہے کہ ہم اپنے دین کے ساتھ جیسے تیسے منسلک رہنے کی وجہ سے ہزار خرابیوں کے باوجود ترقی یافتہ مغرب سے کہیں بہتر اور کہیں اچھے حال میں ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی اپنے دین کی جیسی تیسی اتباع کی برکت سے اتنا کچھ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم الحاد کے راستہ سے سپر پاور یا بین الاقوامی چودھری بن کر بھی کبھی وہ سب کچھ حاصل نہیں کرسکتی۔ یہ سچ ہے کہ خواہ ہم مغلوب ہی کہلاتے ہیں، مگر ہم نے ایٹم بم جیسے ہتھیار بنانے میں مجرمانہ پہل نہ کرکے کوئی غلطی نہیں کی، ہم نے عام شہری آبادیوں پہ وہ بم گراکر اگر خود کو سپر پاور نہیں کہلوایا تو ہم اس پر آج بھی خوش ہیں، ہم نے جنگہائے عظیم  میں کوئی مؤثر کردار ادا نہ کرکے اور کروڑوں انسانوں کے جان ومال کے ساتھ کھلواڑ کرکے اچھا ہی کیا ہے، ہم نے آزادی نسواں کے نام پر صنفِ نازک کو نہیں ورغلایا تو اس پر اللہ کے حضور شکر بجا لاتے ہیں، ہم نے دنیا کو خاندانی نظام کی بربادی کا تحفہ نہیں دیا، اخلاق اور انسانیت کے نام پر ہم نے دنیا سے کوئی مکاری نہیں کی، خود کشی کے ریکارڈ قائم نہیں کیے اور نہ ہی ہم نے انسانیت کو ملحدانہ عقلیت کے نام پر ذہنی امراض کا شکار بنایا ہے۔ شکر ہے کہ ایسی ترقی کسی اور ہی کے حصہ میں آئی ہے اور ہم اپنی ہزار خرابیوں کے باوجود "ترقی یافتہ اقوام" سے آج بھی کہیں بہتر ہیں۔ الحمد للہ!

مشرقی اسلامی دنیا میں غزالی کا کردار

ہم نے گذشتہ سطور میں اندلس کے حوالہ سےغزالی کے کردار کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی ہے، مگر غزالی خود مشرق میں  تھے جہاں اس زمانہ میں سلجوقیوں کی حکومت تھی۔ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ مشرق میں غزالی کا جو کردار تھا، اس کے چند روشن اور مثبت پہلوؤں پر بھی یہاںروشنی ڈالیں۔
ایک بات جو نہایت اہم اور قابلِ توجہ ہے، وہ یہ  کہ امام غزالی نے اپنی علمی وجاہت کے زمانہ میں شاہانِ سلجوقی کو کئی تربیتی اور تنبیہی خطوط لکھے جن میں شاہ سنجر سلجوقی کے نام ان کے خطوط خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جو ان کے دور میں نائب امیر کے عہدے پر فائز تھا۔ شاہ سنجر سلجوقی نے چالیس سال حکومت کی، وہ اپنی کم زوریوں کے باوجود بہرحال ایک نہایت علم دوست اور ہنر پرور آدمی تھا۔ مسلم علم وفن اور حرفت وصنعت کے بلند پایہ مؤرخ سید قاسم محمود نے اس کے لیے نہایت غیر معمولی الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان کے الفاظ میں
"اس کے دربار میں ادب، شاعری اور سائنس وفلسفہ کا ویسا ہی چرچا رہتا تھا جیسا ہارون الرشید، مامون الرشید اور محمود غزنوی کے درباروں میں رہتا تھا۔ اس کے زمانہ میں خراسان دار العلم بن گیا تھا اور وہاں کے بڑے بڑے شہر مدرسوں، کتب خانوں، علماء اور اربابِ کمال سے بھر گئے ۔۔۔۔۔ سلجوقی دور میں علوم وفنون کی خوب سرپرستی کی گئی اور اسلامی دنیا علمی حیثیت سے اس عہد میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔" (۷)
ان سلجوقی حکم رانوں کے نام لکھے گئے اپنے مکاتیب میں غزالی نے ان کو کئی حوالوں سے تنبیہات فرمائیں، خصوصا بیت المال کےحوالہ سے بدعنوانیاں برتنے پر انہیں ٹوکا، لیکن اپنے ان خطوط میں انہوں نے ان کی علمی وفنی سرگرمیوں پر کوئی ایک بھی تنقیدی کلمہ نہیں کہا۔  اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غزالی کو  علمی وفنی ترقی کا دشمن گرداننا ان پر کتنا بڑا اتہام ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انہیں اس پر کوئی اعتراض ہوتا تو جب وہ اپنے مکاتیب میں ان پر نکیر کی ہمت کر ہی رہے تھے تو اس حوالہ سے ان کا قلم اور ان کے لب خاموش کیوں رہتے؟
تاہم جیساکہ ہم نے لکھا، مملکت کا محض تعلیمی وصنعتی سرگرمیوں سے آباد ہونا اس کی وجاہت اور استحکام کی ضمانت نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے بعض اور لوازمات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ سلجوقی حکم رانوں میں اپنی تمام تر علم پروریوں کے باوجود جب ان لوازمات کی کمی آئی تو ریاست غیر مستحکم ہوئی۔ غزالی کے دور میں اندلس کی طرح مشرق میں بھی اسلامی دنیاکی سرحدوں پر صلیبی حملہ آور تھے۔ ان کی زندگی میں بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ ہوچکا تھا۔  تاہم اس حوالہ سےمحض چند جذباتی کلمات لکھ دینے کی بجائے انہوں نے اپنے منصب کے مطابق نہایت حکیمانہ انداز میں مسلم معاشرہ کے داخلی امراض کی تشخیص وعلاج میں اپنی زندگی صرف کی اور اس حوالہ سے خود کو ایک دیرپا علاج کے لیے وقف کیا۔ وہ غالبا مشرق میں کسی ایسی پرجلال شخصیت کو نہیں دیکھ رہے تھے جو اس وقت صحیح معنوں میں  صلیبیوں کے مد مقابل آسکتی۔ مسلم معاشرہ میں اس وقت  وہ دینی روح نہایت کم زور ہوچکی تھی جو مسلمانوں کو  یک سوئی کے ساتھ صلیبیوں کے مقابلہ کے لیے کھڑا کرتی۔  عالمِ اسلام کے ایک بڑے حصہ پر باطنیوں کی خود مختار حکومت قائم تھی اور وہ اپنے بارہ میں کئی سو سال سے مستقل خلافت کے دعوے دار تھے جس کا مرکز مصر تھا۔  بغداد کی عباسی خلافت برائے نام باقی رہ گئی تھی اور در اصل وہ محکومی کے دور سے گذر رہی تھی۔ سلجوقیوں کی طاقت اور حکومت  ملک شاہ کے تین بیٹوں محمد، محمود اور برکیارق (سنجر اسی کا نائب تھا) میں منقسم ہوچکی تھی، خانہ جنگی کی وجہ سے  کئی علاقے خود ان کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے۔  ملک شاہ کے وزیر نظام الملک اور اس کے بیٹے فخر الملک نے جو تعلیمی نظام مملکت کے اطراف میں قائم کر رکھا تھا، اس میں روحانیت سے زیادہ مادیت کا غلبہ تھا، علم کا حصول عہدہ، عزت اور دولت کے لیے ہوتا تھا، اخلاص کی روح نہایت کم زور تھی۔ غزالی نے اسی خلاء سے اثر لے کر اس نظام سے کنارہ کشی اختیار کی تھی۔ جبکہ فلسفہ کے نام پر منحرف معقولی جو ظلمتیں پھیلارہے تھے، وہ ان سب پر مستزاد تھیں۔
غزالی کو خدا نے ایک سیال اور مؤثر قلم عطا کیا تھا۔  اپنی اصلاح کے لیے مجاہدے کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسلم معاشرہ کی اصلاح کے لیے نہایت وقیع اور عمدہ  تصنیفات تیار کیں، جن سے ایک بڑی مخلوق نے استفادہ کیا۔ وہ باوجود متکلم اور صوفی ہونے کے خود اہلِ تصوف اور اہلِ کلام پر نہایت ماہرانہ تنقید کرتے ہیں، ان کی وفاداری کا تمام تر محور دینِ اسلام ہے، وہ سلاطین پر تنقید کرتے ہیں، علماء کو فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے اکساتے ہیں، علم اور عمل کے حوالہ سے اہلِ اسلام کی حسیات کو بے دار کرتے ہیں، انہیں اللہ کے رنگ میں پھر سے نہا جانے کی دعوت دیتے ہیں، فلسفہ اور باطنیت پر نہایت نکتہ رس تنقیدات کرتے ہیں۔ ان کے اخلاص اور قلم کی برکت سے ایک بڑی مخلوق کو فائدہ ہوا۔ ان کی تنقید سے فلسفہ کا وہ دبستان جو کندی سے شروع ہوکر بنِ رشد اندلسی پر ختم ہوتا ہے اور جس کا مقصد دینِ اسلام کو فلسفہ کے چوکھٹے میں فٹ کرنا تھا، مشرق میں ایسا نیم جان ہوا کہ پھر سر نہ اٹھا سکا۔
نیز انہوں نے نظامی مدارس کے بالمقابل اپنے گھر کے ساتھ ایک خود انحصار خانقاہ اور مدرسہ کی بنیاد رکھی جس میں وہ کم زوریاں نہیں تھیں جو انہیں مملکت کے عمومی مدارس کی فضا میں محسوس ہوئی تھیں۔ محققین کے ایک طبقہ کے بقول یہ ایک مثال تھی جو غزالی نے قائم کی تھی، اس سے علم وعمل کے چراغ جلنا شروع ہوئے اور اصلاحی مدارس کی ایک نئی طرح قائم ہوئی۔ بقول ان محققین کے کچھ عرصہ بعد صلیبیوں کے سیلاب کے بالمقابل اتابک عماد الدین زنگی، نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کی جو نسل تیار ہوئی اورجس کے ذریعہ سے بیت المقدس کی کی بازیافت ہوئی، وہ غزالی جیسے بزرگوں کی اصلاحی مساعی کا نتیجہ تھی۔ اس سلسلہ میں دکتور ماجد عرسان الکیلانی کی کتاب "ھکذا ظہر جیل صلاح الدین وھکذا عادت القدس" مذکورہ موضوع کا متخصصانہ احاطہ کرتی ہے اور یہ بعض لوگوں کے اس سوال کا جواب ہے کہ مشرقی اسلامی دنیا جو غزالی کے زمانہ میں صلیبی حملوں کی زد میں تھی، غزالی نے اپنی کتابوں میں اس پہ کوئی تبصرہ کیوں نہیں کیا یا اس کے خلاف عملا جہاد میں حصہ کیوں نہیں لیا؟ ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگر مشرق میں بھی اس وقت یوسف بن تاشفین جیسا کوئی ذی حشمت اور طاقت ور آدمی دستیاب ہوتا تو غزالی ضرور اس کی پشت پناہی کرتے، غالباً‌ ایسا کوئی آدمی سامنے نہ ہونے کی وجہ سے ہی غزالی کی نباضی اور حکیمانہ تشخیص نے انہیں وہ اصلاحی منہج اختیار کرنے پر اکسایا جس کے نتیجہ میں چند سال بعد زنگی اور ایوبی کی نسل منظر پر آئی۔ (۸)
بعض عرب محققین کی طرح ہمارا بھی خیال ہے کہ مذکورہ کتاب میں صلاح الدین کے ظہور کا جوڑ جس طرح کلی طور پر غزالی کی اصلاحی مساعی سے قائم کیا گیا ہے، اس میں کچھ مبالغہ محسوس ہوتا ہے، لیکن اس میں شک نہیں کہ زنگی اور ایوبی صوفیاء کے قدردان تھے اور اس حوالہ سے تاریخ میں ایک سے زیادہ ثبوت موجود ہیں، لہذا اگر ان صف شکن مجاہدین کی تشکیل میں دکتور ماجد عرسان کیلانی کے بقول امام غزالی اور شیخ عبد القادر جیلانی رحمہما اللہ جیسے اس دور کے چوٹی کے صوفیاء کی برکات شامل رہی ہوں تو اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ امام غزالی اور شیخ جیلانی جیسے بزرگوں نے جس زمانہ میں مسلم معاشرہ کے اندر رجوع الی اللہ کا صور پھونکا تھا، اس زمانہ میں واقعی امت کو اس صور کی ضرورت تھی اور اسی وجہ سے ان دونوں بزرگوں کی اصلاحی مساعی امت کی تاریخ دعوت وعزیمت کا ایک عظیم باب سمجھی جاتی ہیں۔ نیز غزالی کے ظہور کے کچھ ہی عرصہ بعد زنگی اور ایوبی مجاہدین نے جس طرح مصر میں باطنیوں کی تقریبا تین سو سال سے قائم حکومت کا خاتمہ کیا تھا، وہ مسلم معاشرہ کے اس حوالہ سے تحرک اور بے داری کا پتہ دیتا ہے جس کا ایک بڑا سبب اس دور میں غزالی کی طرف سے باطنیوں پر کی گئی علمی تنقید رہی ہو تو اس میں بھی ہرگز کوئی عجیب بات نہیں۔ لہذا زنگی اور ایوبی جیسے مجاہدین کی تشکیل میں غزالی کا اگر براہِ راست کوئی کردار نہ بھی رہا ہو تو بالواسطہ اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔  
اگر عملی میدان میں بھی دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ غزالی کی نظر اس زمانہ میں مغرب کے یوسف بن تاشفین پر تھی اور اس سے انہیں نیک توقعات تھیں۔ ابنِ خلکان اور سبکی کی روایت کےمطابق انہوں نے اسکندریہ سےبراستہ سمندر بذاتِ خود اس کی طرف جانے کے لیے تیاری بھی کر رکھی تھی، مگر ابھی وہ اسکندریہ کے اندر ہی تھے کہ انہیں ابنِ تاشفین کی وفات کی خبر پہنچی جس کی وجہ سے انہوں نے جانے کا ارادہ موقوف کردیا۔ (۹) روایات کے مطابق ابنِ تاشفین نے 500ھ میں وفات پائی۔ یوں جب اندلس سے ان کی وفات کی خبر اسکندریہ میں غزالی کے پاس پہنچی تو یقینا یہ بھی 500ھ یا 501ھ کا سال ہوگا۔ بیت المقدس پر صلیببیوں کا قبضہ تقریبا 492ھ میں ہوا تھا اور یہ وہی سال ہے جب غزالی کی طرف سے ان کے شاگرد ابوبکر ابن العربی یوسف بن تاشفین کے نام ان کا خط لے کر جارہے تھےجس میں انہیں اندلس کو ایک یک سو حکومت پر جمع کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ اس وقت ممکن نہ تھا کہ ابنِ تاشفین کو مشرق آکر یہاں کے حالات سنبھالنے کی دعوت دی جاتی۔ 
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 500ھ کے پس وپیش زمانہ تک جب اندلس اور مغرب میں ابنِ تاشفین کے استحکام کی خبر غزالی کو پہنچی ہوگی تو یقنا مشرق میں ان کی قوت سے استفادہ کی غرض سے ہی وہ خود ان کے پاس بنفسِ نفیس چل کر جانے کا ارادہ رکھتے ہوں گے، مگر ابنِ تاشفین کو اجل نے آلیا اور یہ ارادہ پورا نہ ہوسکا۔یوں غزالی نے نہ صرف مشرق میں صلیبی حملوں کے زمانہ میں مسلمانوں کی عمومی اصلاح کے گراں قدر خدمات انجام دیں، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ 500ھ کے پس وپیش زمانہ میں ابنِ تاشفین کے پاس جانے کا ان کا ارادہ مشرق کے حکم رانوں سے کسی ہنگامی درست اقدام کی توقع نہ ہونے کی بناء پر  اور ابنِ تاشفین کو عملی جہاد کے لیے تیار کرنے کی غرض سے ہی ہوگا جو ابنِ تاشفین کے پاس نہ پہنچ پانے کی وجہ سے پورا نہ ہوپایا اور اس ارادہ کے تفصیلی نقوش بھی تاریخ میں مذکور ہونے رہ گئے۔

آخری بات

ہمارا مقصود یہاں قاری کو محض غزالی کی شخصیت کی طرف دعوت دینا نہیں ہے۔ اس قضیہ کے اندر ہماری دعوت اور ہمارا موقف دراصل یہ ہے کہ امت کا ماضی، حال اور مستقبل اسلام کے ساتھ وابستہ ہے، نہ کہ دینی انحرافات کے ساتھ۔ انہیں  اگر پھر سے اپنی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھنا ہےتو اس کے لیے انہیں اسلام کے ساتھ اپنے رشتہ کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا چاہئے اور اپنے پیکر کو اسلامی پیکر بنانا چاہئے۔دینی انحراف میں کامیابی کا کوئی راستہ نہیں۔ ہماری اصل تنقید دینی انحراف پر ہے، نہ کہ علم دوستی اورکتاب پروری کے رویہ پر۔ بلکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ اپنے دفاع کے حوالہ سے چوکنا رہنا  اور ضروری لوازمات کا انتظام کرنا تو خود ان کے دینی فرائض میں شامل ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو دنیا میں جو کچھ بھی عزت ملی تھی، وہ انہیں اپنے دین کے ساتھ عہدِ وفا نباہنے کی وجہ سے ملی تھی۔ وہ اسلام کے داعی تھے، قرآن ان کا دعوی اور قرآن ہی ان کی دلیل تھا، ان کے دلوں میں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کےلیے مرعوبیت وعقیدت کے ایسے جذبات تھے کہ ان کے لعابِ دہن کو اپنے چہروں پر ملنا وہ سعادت سمجھتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ اپنے انہی صفاتی خدوخال اور اسی ایمانی پیکر کے ساتھ دنیا میں بلند ہوئے تھے۔  روم وفارس اور یونان کے فلسفے، ان کی بھری ہوئی لائبریریاں اور ان کا علمی رعب ودبدبہ مدینہ کے خاک نشین مسلمانوں کے سامنے شکست کھا گیا تھا اور روم وفارس صرف سیاسی طور پر ہی ان کے ہاتھوںمغلوب نہ ہوئے تھے، بلکہ علمی، تہذیبی اور مذہبی اعتبار سے بھی وہ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے تھے۔ یہ ان کے فلسفوں کی، ان کے مذہب کی اور ان کے تہذیب وتمدن کی شکست تھی۔   حق یہ تھا کہ مسلمان سلاطین اپنے اس شان دار ماضی سےرشتہ نباہتے، جن آباء کے ہاتھوں یہ فتوحات حاصل ہوئی تھیں، ان آباء کے اسوہ کو سامنے رکھتے اور ان مفتوحہ علاقوں کے حوالہ سے ان کا جو اسوہ تھا، اسے اپنے لیے آئین ودستور کی حیثیت سے پیشِ نظر رکھتے۔ مگر ان سلاطین کی سرگرمیوں کے حوالہ سے مسلمانوں کے روایتی علمی ورثہ کا شروع سے عدمِ تحسین کا رویہ ہی اس بات کی کافی وافی شہادت ہے کہ یہ سرگرمیاں اسلامی آداب اور تقاضوں کی رعایت کے حوالہ سے کس سطح کی تھیں۔
ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ مفید انسانی علوم سے اسلام کو ، اہلِ اسلام کو اور علماءِ اسلام کو کبھی کوئی پرخاش نہیں رہی اور نہ ہی ان سے استفادہ کرنا کسی بھی درجہ میں ان کے ہاں کوئی قابلِ اشکال چیز تھا۔ عہدِ ملوکیت  میں علمی وعقلی سرگرمیوں کے نام پر جو کچھ ہوا، اگر وہ بھی اسی دائرہ میں رہتا یا زیادہ سے زیادہ کچھ مباح تفریحی مشاغل کی حد تک ہوتا تو حرج نہ تھا اور نہ ہی کسی کو اس پر اعتراض ہونا تھا، ہوا یہ کہ یہاں پر حلال وحرام کی تمیز تک مٹا دی گئی، انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے  مسلمانوں کو لغویات میں لگا دیا گیا، ان کے آپس کے درمیان اختلافات پھوٹ پڑے، نئے نئے فتنے اور فرقے وجود میں آئے اور اسلام کے مقتدایان کی تمام تر دہائیوں کے باوجود یہ سلسلہ پادشاہانِ اسلام کی سرپرستی میں روز افزوں رہا اور  خود اختلاف کرنے والے علماء کو بھی زبردستی ان معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظاہر ہے کہ اِس ساری صورتِ حال کو کوئی بھی واقفِ حال مسلمان نہ تو ماضی میں اور نہ ہی آج، بنظرِ تحسین دیکھ سکتا ہے۔
اسلامی اندلس جسے اموی خلافت کے سقوط کے بعد ہی اپنے وجود اور بقاء کے لالے پڑ گئے تھے اور طوائف الملوکی سے فائدہ اٹھاکر صلیبی اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے لپیٹتے جارہے تھے، پہلے مرابطین اور پھر موحدین کی حکومت کی وجہ سے اس کو سہارا ملا اورتقریبا تین سو سال تک یہ علاقہ مسلمانوں کے پاس باقی رہا۔ جبکہ موحدین کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ایک بار پھر سابقہ کیفیت پیدا ہوئی، اسلامی اندلس کی حدود سمٹتی چلی گئیں  اور بالآخر کہانی اندلس کے مکمل سقوط پر ختم ہوئی۔آپ جان چکے ہیں کہ تقریبا ساڑھے تین سوسال کا وہ سہارا جو اسلامی اندلس کو ملا ، اس میں غزالی کا کس قدر کلیدی حصہ شامل تھا۔ نیز خود مشرق میں دینی روح کی کم زوری کی وجہ سے اسلامی سرحدات پر جس طرح صلیبی حملہ آور تھے، اس کے تدارک کے لیے غزالی جیسے بزرگوں نے اسلامی بے داری کا جو صور پھونکا، اس کے کتنے خاطر خواہ نتائج نکلے۔ 

حواشی
۱۔ الغزالی، علامہ شبلی نعمانی، صفحہ 225، ط: اسلامی کتب خانہ لاہور
 ۲۔ تاریخ دعوت وعزیمت، جلد اول، صفحہ 191 – 193۔ ط: ۔ مجلس نشریاتِ اسلام، کراچی
۳۔  تفصیل کے لیے دیکھئے: قصۃ الاندلس، راغب السرجانی، صفحہ 537، 538۔
۴۔  دیکھئے: قصۃ الاندلس، راغب السرجانی، ص:581،
۵۔ مسلم سائنس، سید قاسم محمود، صفحہ 118، 119۔ ط: الفیصل لاہور
۶۔ مسلم سائنس، سید قاسم محمود، صفحہ 118، 119۔ ط: الفیصل لاہور
۷۔ مسلم سائنس، سید قاسم محمود، صفحہ 118، 119،
۸۔  مسلم سائنس، سید قاسم محمود، صفحہ 100،
۹۔  تفصیل کے لیے دیکھئے: ھکذا ظھر جیل صلاح الدین، دکتور ماجد عرسان الکیلانی، الباب الثالث، الفصل العاشر: دور مدرسۃ ابی حامد الغزالی فی الاصلاح والتجدید، ط: المعہد العالمی للفکر الاسلامی

مولانا مفتی تقی عثمانی کی “اسلام اینڈ پالیٹکس’’ کی تقریب رونمائی

عظیم الرحمن عثمانی

۱۷۔ اپریل ۲۰۱۸ء کو 'سو ایس یونیورسٹی آف لندن' میں ایک پروقار علمی نشست کا اہتمام ہوا جو اپنی حقیقت میں دو انگریزی کتابوں کی تقریب رونمائی تھی۔ پہلی کتاب اردن کے شہزادے اور پی ایچ ڈی اسکالر پرنس غازی بن محمد کی تصنیف تھی جو تدبر قرآن سے متعلق ہے اور دوسری کتاب "اسلام اینڈ پولیٹکس" (اسلام اور سیاست) محترم مفتی محمد تقی عثمانی کی تحریر کردہ تھی جو اسلام کے سیاسی نظام اور اس کے نفاذ کی بات کرتی ہے۔ یہ تقریب بہترین نظم کے ساتھ ایک خوبصورت یونیورسٹی کے کشادہ آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ سامعین میں غیر مسلم طالب علم بھی اچھی تعداد میں موجود تھے۔ 
کئی مراحل سے گزر کر مائیک مفتی تقی عثمانی صاحب کی جانب آیا اور انہوں نے بلیغ انداز میں اپنی کتاب کو بیان کیا۔ مفتی صاحب کی گفتگو کا مختصر خلاصہ حسب ذیل ہے:
سب سے پہلے انہوں نے بیان کیا کہ آج کس طرح ساری دنیا پر سیکولرزم کا غلبہ ہے۔ انہوں نے سیکولرزم کو تھیوکریسی کا ردعمل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ تھیوکریسی اپنی اصل میں غلط نہیں مگر اس کی عملی شکل جو دنیا کو دکھائی گئی، وہ غلط تھی۔ عیسائیت سمیت دیگر غیر اسلامی مذاہب میں سیاست کے لیے اسلام کی طرح واضح احکامات نہیں موجود ہیں، لہذا ان مذاہب نے خدا کی حکومت یعنی تھیوروکریسی کے نام پر مذہبی رہنماوں کی حکومت قائم کردی جنہوں نے حرام کو حلال بناکر اپنی طاقت قائم رکھنا چاہی۔ اس مسلسل ظلم سے بددل ہوکر مغربی عوام نے تھیوکریسی کا تختہ الٹا اور سیکولرزم کو مقابل پیش کیا جس کے تحت الہامی ہدایات کا ملکی قوانین سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اسلام اس نظریے کو مسترد کرتا ہے اور یہ اصول دیتا ہے کہ زمین اللہ کی ہے تو اس پر قانون بھی اللہ ہی کا نافذ ہوگا۔ مسلمانوں میں وہی شخص حکمران ہوسکتا ہے جو اس اصول کو تسلیم کرتا ہو۔ خلافت راشدہ اور اس کے بعد بھی کچھ صالح خلفاء کی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کتاب و سنت کا بہترین حکومتی اطلاق کرکے دکھایا۔ افسوس کہ مسلمانوں میں بھی بہت سے خلیفہ ایسے گزرے جنہوں نے اس نفاز میں ذاتی مفاد کو محبوب رکھا۔ خلیفہ کو خلیفہ کہتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ اپنی مرضی نہیں چلاتا بلکہ وہ 'سب آرڈینیٹ'ہوتا ہے، 'وائسرائے' ہوتا ہے جو پوری صلاحیت سے خدائی نظم کے نفاز کا قیام کرتا ہے۔ البتہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ آپ اسے خلیفہ کا ہی نام دیں۔ یہ آپ کی مرضی ہے کہ آج کے دور میں آپ اسے ملک کہیں، امیر کہیں یا پریذیڈینٹ۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ مغالطہ ہے کہ خلیفہ ایک ڈکٹیٹر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس خلیفہ قرانی اصول شوری بینھم یعنی مشورے کو اپناتا ہے۔
آج کے مسلمانوں نے اس ضمن میں دو مختلف انتہائیں اختیار کی ہیں۔ پہلا گروہ ان ماڈرنسٹ اہل علم کا ہے جو مغربی جمہوریت اور سیکولرزم کے داعی بن بیٹھے ہیں۔ حالانکہ جمہوریت یعنی ڈیموکریسی دراصل عوام کی حاکمیت کا نام ہے جو اس اصول کی نفی ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہوگی۔ اسلام میں قانون سازی کیلئے یا خلیفہ منتخب کرنے کیلئے صرف ووٹوں کا زیادہ ہونا کافی نہیں ہیں بلکہ ساتھ ہی کئی اور شرائط ہیں جن کا اس شخص میں موجود ہونا لازم ہے جو خلیفہ بنایا جائے گا۔ مسلمانوں میں دوسری انتہا ان گروہوں نے اپنائی ہے جو فقط خلافت ہی کے قیام و کوشش کو دین کا واحد مقصد سمجھ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ جس طرح تجارت کے قوانین و ہدایات اسلام کا حصہ ہیں ویسے ہی حکومت چلانے کے قوانین و احکامات بھی اسلام میں شامل ہیں۔ کسی ایک حصے کو پورا مدعا بنالینا درست نہیں۔ اس گروہ میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو اسی غلو کے تحت حج کو بھی عبادت کی بجائے ایک انٹرنیشنل میٹنگ برائے خلافت کہتے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے بہت سے انبیاء خلافت نہیں قائم کرپائے تو کیا وہ ناکام رہے؟ جواب میں وہ معاذ اللہ کہتے ہیں کہ وہ دین کے بنیادی مقصد کو قائم کرنے میں ناکام ہوئے۔ یہ دوسری انتہا ہے۔ انہوں نے سیاست کو اسلامی کرنے کی چاہ میں اسلام کو سیاسی بناڈالا۔ حدیث کے مطابق کوئی مسلمان خلیفہ بننے کی تگ و دو نہیں کرتا یا اس کی لالچ نہیں رکھتا جیسا کہ آج اس کے برعکس سیاسی رہنما کرسی کے لیے تحریکیں چلاتے ہیں۔ دور خلافت میں کچھ اہل دانش کا انتخاب ہوا کرتا تھا جو مل کر کسی اہل شخص کو حکومتی نظم کے لیے بطور خلیفہ نامزد یا مقرر کرتے تھے۔ آج کے دور میں ایسی مجلس کا قیام ممکن نہیں رہا۔ اپنی اس کتاب میں مفتی عثمانی صاحب نے اس کا حل پیش کیا ہے۔
انہوں نے خلافت سے متعلق غلط فہمیوں کا بھی جواب دیا جیسے انہوں نے ثابت کیا کہ خلافت میں غیر مسلم کو برابر کے شہری حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔ جزیہ ایک ٹیکس ہے جو غیر مسلم دیتے ہیں۔ اس کے مقابل زکاۃ ہے جو صرف مسلم ادا کرتے ہیں۔ جزیہ کی شرح ہمیشہ زکاۃ سے کم رکھی گئی ہے، لہذا جزیہ کو ظلم سمجھنا بلکل غلط ہے۔ آج خلافت کے قیام پر آپ جزیہ کا کوئی اور نام رکھ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ اسی طرح یہ بھی غلط فہمی ہے کہ خلافت غیر مسلم ممالک سے حالت جنگ میں رہتی ہے۔ انہوں نے مثالیں دے کر یہ واضح کیا کہ کس طرح خلافت دیگر ممالک سے عمومی طور پر امن معاہدہ کرکے رکھتی ہے۔ 
(نوٹ: تحریر راقم کی اپنی سمجھ اور یادداشت پر مبنی ہے، لہذا اس میں کمی بیشی کا امکان ہے۔ تفصیل کے لیے اس پروگرام کی ریکارڈنگ سنی جا سکتی ہے جو انٹر نیٹ پر بآسانی دستیاب ہے)

جون ۲۰۱۸ء

قومی ریاست اور جہاد: کیا کوئی نیا فکری پیراڈائم ممکن ہے؟محمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۳)ڈاکٹر محی الدین غازی
جدید ریاست میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید ۔ بنیادی خدوخال اور طریق کار (۲)مولانا سمیع اللہ سعدی
دھتکارے ہوئے بھارتی مسلمانوں کی داستانِ کرب ۔ ایک اور پاکستان؟پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان
قرآن مجید میں تحریف کا جاہلانہ مطالبہحافظ عاکف سعید
مذہبی انتہا پسندی کے محرکاتمولانا غازی عبد الرحمن قاسمی
مغربی ممالک کے مسلمانوں کے مسائل اور ذمہ داریاںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاریؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۳)مولانا عبید اختر رحمانی
الشریعہ اکادمی کی سالانہ کارکردگی رپورٹمولانا مفتی محمد عثمان

قومی ریاست اور جہاد: کیا کوئی نیا فکری پیراڈائم ممکن ہے؟

محمد عمار خان ناصر

جدید قومی ریاست کے بارے میں ایک بہت بنیادی احساس جو روایتی مذہبی اذہان میں بہت شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے، یہ ہے کہ اس تصور کو قبول کرنا درحقیقت جہاد کی تنسیخ کو تسلیم کر لینے کے مترادف ہےجو اسلامی تصور حکومت واقتدار کا ایک جزو لا ینفک ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں مسلمان ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے، چند ضروری شرائط کے ساتھ، ارد گرد کے علاقوں میں قائم غیر مسلم حکومتوں کے خلاف جنگ کر کے یا تو ان کا خاتمہ کر دے اور ان علاقوں کو مسلمان ریاست کا حصہ بنا لے  یا کم سے کم انھیں اپنا تابع اور باج گزار بننے پر مجبور کر دے۔ قومی ریاست کے جدید تصور میں، ظاہر ہے، اس کی گنجائش نہیں، کیونکہ  اپنی جغرافیائی حدود میں سیاسی خود مختاری  کو ہر قومی ریاست کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے اور کسی ریاست کو  یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی بنیاد پر  دوسری ریاست کی جغرافیائی حدود یا  انتظام کار میں مداخلت کرے ۔ یوں جہاد اور قومی ریاست میں گویا تباین کی نسبت پائی جاتی ہے۔
تاہم مذہبی فکر کو اس عملی حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ موجودہ عہد میں  معاشروں کی بقا سر تا سر قومی ریاست کے تصور پر منحصر ہے، اس لیے جہاں یہ سوال اہم ہے کہ قومی ریاست میں جہاد کا امکان باقی رہتا ہے یا نہیں، وہاں یہ سوال بھی اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے  کہ اگر قومی ریاست کے تصور کو کالعدم کر دیا جائے تو بحالات موجودہ معاشروں کی نفس بقا کیسے ممکن ہوگی۔ یہ معلوم ہے کہ دور جدید میں نہ صرف استعمار (یعنی طاقت کے زور پر بالادست قوموں کے کمزور قوموں پر مسلط ہونے کے عمل) کا خاتمہ قومی ریاست کے تصور کے تحت ہی ممکن ہوا ہے، بلکہ طاقتور قوموں کے باہمی جنگ وجدال اور خوں ریزی کا سلسلہ بھی اسی اصول کو قبول کر لینے کی بدولت ہی رکا ہوا ہے۔ مزید براں،  طاقتور قوموں کے جوار میں قائم چھوٹے چھوٹے ممالک بھی اگر ایک سطح پر انفرادیت اور خود ارادی سے بہرہ ور اور اپنے زور آور پڑوسیوں کی  براہ راست چیرہ دستی سے محفوظ ہیں تو اس کے پیچھے بھی قومی ریاست کے احترام کا ہی اصول کار فرما ہے۔چنانچہ خدا نخواستہ آج اگر اس اصول کے حوالے سے بین الاقوامی اتفاق رائے ختم ہو جائے تو ایک نئی جنگ عظیم کا شروع ہو جانا  ہفتوں یا دنوں کی نہیں، بلکہ لمحوں کی بات ہے اور اس سارے فساد میں خاص طور پر کمزور اور پس ماندہ قومیں  جس تباہی سے دوچار ہوں گی، اس کا بس تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔
گویا فکر اسلامی کو ایک مخمصے کا سامنا ہے۔ اگر قومی ریاست کے تصور کو قبول نہیں کیا جاتا  تو خود اس معاشرے کا قیام اور بقا ممکن نہیں جس نے جہاد کی ذمہ داری انجام دینی ہے، اور اگر کیا جاتا ہے تو  مسلمان ریاست کی ایک بنیادی ذمہ داری یعنی جہاد سے دستبرداری کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ روایتی مذہبی فکر میں اس مخمصے کا عمومی طور پر قابل قبول حل یہ ہے کہ قومی ریاست کے تصورکو بادل نخواستہ اور بامر مجبوری ایک وقتی وعارضی  صورت حال کے طور پر تو قبول کیا جائے، اور جب تک یہ عملی رکاوٹ موجود ہو، اس وقت تک  جہاد پر عمل کو بھی  مجبوراً‌ معطل رکھا جائے، لیکن اسے کوئی مستقل اور معیاری اصول نہ مانا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی مسلمان حکومتیں اس پوزیشن میں آ جائیں کہ قومی ریاست کے تصور کو چیلنج کر سکیں تو وہ ایسا ہی کریں اور طاقت وحوصلہ کے بل بوتے پر اسلام کی سیاسی بالادستی غیر مسلم قوموں پر قائم کرنے کے لیے جہاد کا آغاز کر دیں۔ 
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ نقطہ نظر فقہ اسلامی کے ایک خاص فہم اور  تعبیر پر مبنی ہے جس سے مختلف نقطہ نظر بھی موجود ہے۔ اس متوازی نقطہ نظر کے مطابق فقہ اسلامی میں غیر مسلم حکومتوں کے اصولی جواز کو تسلیم کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ لازماً‌ جنگ جاری رکھنے کو مسلمان ریاست کا مقصد یا فریضہ قرار نہیں دیا گیا۔ تاہم سردست ہم اس دوسرے نقطہ نظر پر بات نہیں کر رہے جس کی نوعیت دراصل دور جدید کے تناظر میں  فقہی ذخیرے کی تعبیر نو کی ہے۔ یہاں ہماری گفتگو فقہ اسلامی کی روایتی اور کلاسیکی تعبیر کےتناظر میں ہےجس کی رو سے مسلمان اور غیر مسلم ریاستوں کے مابین اصل تعلق جنگ ہی کا ہے۔ اس زاویہ نظر سے جدید قومی ریاست، جہاد کی ذمہ داری کی ادائیگی میں ایک مانع کا درجہ رکھتی ہے اور، جیسا کہ واضح کیا گیا ، اسے ایک وقتی اور عارضی کیفیت کے طور پر ہی قبول کیا جا سکتا ہے۔ 
تاہم یہ ایک فقہی اور قانونی انداز کا حل ہے جو ایک محدود دائرے میں قابل فہم ہے، لیکن صورت حال کی اصل پیچیدگی  کو موضوع نہیں بناتا۔اس پیچیدگی کے تین چار پہلو بہت بنیادی ہیں۔ ایک تو وہی جس کا اوپر ذکر کیا گیا، یعنی یہ کہ طاقت کے غیر معمولی عدم توازن کی موجودہ صورت حال میں  قومی ریاست کے تصور کی نفی کا نتیجہ عملاً‌ کس کے حق میں نکلے گا؟
دوسرا یہ کہ جدید دور میں قومی ریاست کے اصول سے انحراف کا تعلق طاقت اور استطاعت کی فراہمی یا عدم فراہمی سے ثانوی ، جبکہ قانونی واخلاقی جواز سے بنیادی ہے۔ اس اصول پر دنیا کے اجتماعی اخلاقی ضمیر کا اجماع ہو چکا ہے اور کوئی طاقت ور سے طاقت ور حکومت بھی اس کی خلاف ورزی کرے تو اخلاقی اور قانونی طور پر اس کا جواز تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جب تک اجتماعی انسانی شعور میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اور، مثال کے طور پر، ماقبل جدید ادوار کے سیاسی تصورات کے مطابق دوبارہ طاقت کو حق حکومت کی جائز  بنیاد نہیں مان لیا جاتا، ایسا کوئی بھی اقدام اجتماعی انسانی ضمیر کی نظروں میں غیر اخلاقی اور غیر قانونی رہے گا۔ یہ صورت حال دور قدیم سے جوہری طور پر مختلف ہے جب سلطنتوں اور ریاستوں کے لیے توسیع حدود کو  ایک جائز سیاسی حق تصور کیا جاتا تھا اور  تسلط کے بالفعل قائم ہو جانے کے بعد  غالب طاقت کو  وہاں کا قانونی حاکم تسلیم کر لیا جاتا تھا۔ اس اصول کو بین الاقوامی عرف کی حیثیت حاصل تھی ، چنانچہ طاقت کے استعمال کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلنے کے بعد قانونی واخلاقی جواز کا سوال  مستقل طور پر  سر نہیں اٹھاتا رہتا تھا۔ 
اس پہلو کو یہ کہہ کر جھٹکا نہیں جا سکتا کہ مسلمان اپنے اقدامات کےلیے دنیا سے سند جواز حاصل کرنے کے پابند نہیں، ان کے لیے خدا کی شریعت کا حکم ہی کافی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ  یہاں مسئلہ صرف ابتداءا سند جواز کی فراہمی کا نہیں، بلکہ عالمی اخلاقی عرف کے تناظر میں جواز کی مستقل sustainability کا ہے اور اس کے بارے میں یہ فرض کرنا کہ شریعت کو  اس سے مطلقاً‌ کوئی غرض نہیں یا یہ کہ وہ مسلمانوں کو    عالمی رائے عامہ کے سامنے مستقلاً‌ ایک اخلاقی ملزم سمجھے جانے کے امتحان میں ڈالنا چاہتی ہے، انتہائی سادہ فکری کا نتیجہ ہوگا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ صرف سیاسی طاقت ہر سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔ طاقت کے استعمال کو اخلاقی جواز درکار ہوتا ہے اور اس جواز کی بنیادیں انسانی ضمیر کی سطح پر  مشترک ہونی چاہییں۔ اخلاقی جواز کے دائرے میں جزوی اور محدود سطح کے اختلافات، جن کا اثر وقتی اور عارضی ہو،  کی تلافی تو طاقت سے کی جا سکتی ہے، لیکن طاقت کے زور پر اخلاقی نوعیت کے سوالات کو مستقلاً‌ ایڈریس نہیں کیا جا سکتا۔ 
تیسرا انتہائی اہم پہلو وہ تبدیلیاں ہیں جو دور جدید میں جنگ کی نوعیت اور اس کی تباہ کاری کی صلاحیت میں رونما ہو چکی ہیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، آج کی جنگ صرف میدان جنگ تک محدود نہیں رہی اور  معیشت واقتصاد پر اس کے عمومی اثرات کے علاوہ جنگی ہتھیار بھی مقاتل اور غیر مقاتل کی تفریق سے عاجز ہیں، بلکہ بہت سے ہتھیار تو بنائے ہی اس مقصد سے گئے ہیں کہ تباہی کا دائرہ صرف مقاتلین تک محدود نہ رہے۔ جنگ سے پھیلنے والی تباہی کا نشانہ سب سے زیادہ عام لوگ بنتے ہیں جو جنگ کا فیصلہ کرنے یا جنگی عمل کی انجام دہی میں شریک بھی نہیں ہوتے۔ جنگ کے بارے میں کلاسیکی اسلامی قانون کا تصور یہ ہے کہ یہ حسن لغیرہ ہے، یعنی انسانی خون بہانا اگرچہ فی نفسہ ایک قبیح چیز ہے، لیکن چونکہ اس پر قیام امن اور دفع فساد کا مقصد موقوف ہے، اس لیے ایک ذریعے کے طور پر اس میں بالواسطہ اخلاقی حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ دور جدید میں جنگ کی تباہ کاری کی نوعیت بدل جانے کے تناظر میں مذکورہ تصور کی معنویت بھی  بدیہی طور پر برقرار نہیں رہی ، اس لیے کہ حسن وقبح کی بحث میں  تناسب کا سوال بنیادی ہوتا ہے۔ ایک قبیح چیز اسی وقت تک حسن لغیرہ ہو سکتی ہے جب تک اس سے پیدا ہونے والا ضرر، اس سے حاصل ہونے والے فائدے کے مقابلے میں  کم ہو اور متوقع فائدے کے حصول کا امکان بھی غالب ہو۔ دور جدید کی جنگ میں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں،  صورت حال بالکل برعکس ہے۔
ایک اور نہایت اہم سوال یہ ہے کہ جہاد کے ذریعے سے اسلامی ریاست کے رقبے کی توسیع کی پالیسی قدیم دور میں دار الاسلام اور دار الحرب کی جس تقسیم پر مبنی تھی، بذات خود وہ تقسیم جدید دور میں کتنی بامعنی رہ گئی ہے؟ جدید دور میں کم سے کم دو بنیادی تبدیلیوں نے اس معاملے کی نوعیت کو بالکل بدل دیا ہے: ایک، بڑے پیمانے پر  انتقال آبادی اور دوسرے، شہری حقوق کا جدید سیاسی تصور۔ قدیم دور میں دنیا کے مسلمان، بنیادی طور پر اسلامی سلطنتوں کے حدود میں مقیم ہوتے تھے اور غیر مسلم حکومتوں کے دائرہ اختیار میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد کا تناسب نہ ہونے کے برابر تھا۔  جدید دور میں صورت حال بالکل مختلف ہے اور مختلف عوامل کے تحت مسلمانوں کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اب غیر مسلم ریاستوں میں سکونت پذیر ہو چکا ہے۔ پھر یہ کہ بیشتر ممالک میں ان مسلمانوں کی حیثیت اجنبی یا  دوسرے درجے کے شہری کی نہیں، بلکہ انھیں مساوی مدنی وسیاسی حقوق سے بہرہ ور تسلیم کیا گیا ہے اور اس حیثیت سے انھیں اپنی تعداد اور معاشی صورت حال کے لحاظ سے ان ممالک کی پالیسیوں اور فیصلوں کی تشکیل میں شامل ہونے کا موقع بھی حاصل ہے۔ گویا غیر مسلم ممالک کے بارے میں یہ تصور کہ وہ اصولی طور پر غیر مسلموں کے ملک ہیں، اب اس طرح بامعنی نہیں رہا  جیسا کہ ماضی میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دور جدید کے فقہاء  نے ایسی مسلمان کمیونٹیز کے مسائل واحکام پر گفتگو کے لیے فقہ الاقلیات کے عنوان سے ایک مستقل باب وضع کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے، جبکہ کلاسیکی فقہ میں  اس موضوع پر چند منتشر جزئیات سے زیادہ کوئی راہ نمائی نہیں ملتی۔ 
صورت حال کی یہ تبدیلی قانون بین الممالک کے اساسی تصورات اور عملی ڈھانچے پر بھی براہ راست اثرات مرتب کرتی ہے اور بدیہی طور پر اس فریم ورک میں  جہاد کے کلاسیکی تصور کو، جس میں فرض کردہ صورت واقعہ بالکل مختلف تھی، رو بہ عمل نہیں کیا جا سکتا۔ 
یہ تمام پہلو ایک گہرے اور بنیادی نوعیت کے اجتہادی زاویہ نظر کا تقاضا کرتے ہیں اور فکر اسلامی کو اس حوالے سے سب سے اہم سوال یہ درپیش ہے کہ کیا حالات کے جبر اور اصول ضرورت کے علاوہ ان نئے سیاسی واخلاقی  تصورات کے ساتھ تعامل کا کوئی علمیاتی اور اخلاقی زاویہ بھی ہو سکتا ہےجس میں ان تصورات کی داخلی قدر وقیمت یا عملی افادیت  کو فیصلے کی بنیاد بنایا جا سکے؟اگر ایسا ممکن ہے تو کیا یہ تصور جہاد کی تنسیخ کے ہم معنی ہوگا یا اس کی کوئی ایسی تعبیر  بھی کی جا سکتی ہے جو شریعت کی آفاقیت اور جامعیت کے اسلامی عقیدے سے ہم آہنگ ہو؟ اتنا بہرحال واضح ہے کہ سوالات فلسفیانہ اور اصولی نوعیت کے ہیں۔ جزوی وفقہی نوعیت کا انداز نظر ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۴۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۴۲) انتصر کا ترجمہ

انتصر کے لغت میں دو مفہوم ملتے ہیں: ایک انتقام لینا، اور دوسرا ظالم کا مقابلہ کرنا۔

وانتَصَرَ منہ: انتَقَمَ (القاموس المحیط) وانتصر الرجل اذا امتنع من ظالمہ، قال الازھری: یکون الانتصار من الظالم الانتصاف والانتقام، وانتصر منہ: انتقم۔ والانتصار: الانتقام (لسان العرب) وانتَصَرَ منہ: انتقم۔ (الصحاح)

جدید لغت المعجم الوسیط میں اس کی اچھی تفصیل ملتی ہے کہ جب یہ فعل من کے ساتھ ہو تو انتقام لینا، علی کے ساتھ ہو تو غلبہ حاصل کرنا اور بغیر صلے کے عام معنی ظالم کا مقابلہ کرنا اور اس کے ظلم کو روکنا ہوتا ہے۔

انتصر: امتنع من ظالمہ وعَلی خَصمہ استظھر وَمِنہ انتقم۔ (المعجم الوسیط)

انتصر کا قرآن مجید میں تین طرح استعمال ملتاہے:
کچھ مقامات پر اہل ایمان کے خاص وصف کے طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ اس حوالے سے کہ ظلم وتعدی کے سلسلے میں ان کا رویہ کیا ہوتا ہے، ایسے مقام پر بدلہ لینا اور انتقام لینا مناسب نہیں لگتا، کیونکہ بدلہ لینااور انتقام لینا جائز تو ہے لیکن کوئی قابل تعریف وصف نہیں ہے، کہ اس کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا جائے، بلکہ ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا مناسب مفہوم لگتا ہے، اور یہ واقعی ایک قابل قدر وصف ہے جس سے ظلم کی روک تھام ممکن ہوتی ہے۔ مثالیں حسب ذیل ہیں:

(۱) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُونَ۔ وَجَزَاء سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ۔ وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ۔ إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُوْلَئِكَ لَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ (الشوری: 39 - 42)

”اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں، برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اُس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا، اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں اُن کو ملامت نہیں کی جا سکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے“۔(سید مودودی)
”اور وہ کہ جب انہیں بغاوت پہنچے بدلہ لیتے ہیں“۔(احمد رضا خان)
”اور جب ان پر ظلم (و زیادتی) ہو تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں “۔(محمدجوناگڑھی)

(۲) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ۔ (الشعراء: 227)

”مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور بکثرت اللہ کی یاد کی اور بدلہ لیا بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا اور اب جاننا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے“۔(احمد رضا خان)
”بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا، اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں“۔ (سید مودودی)
”مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور خدا کو بہت یاد کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لیا اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں“۔ (فتح محمدجالندھری)
”سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا، جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں“۔ (محمدجوناگڑھی)
انتصر کچھ مقامات پر اللہ کے عذاب کے مقابلہ میں مجرموں کے بارے میں مذکورہوا ہے، وہاں بھی بدلہ اور انتقام کا محل نہیں ہے، ظاہر ہے کہ اللہ کا عذاب درپیش ہوتو بدلہ لینے اور انتقام لینے کا کیا محل ہے، ویسے بھی کسی کے ذہن میں اللہ سے بدلہ اور انتقام لینے کی بات بھی نہیں آتی ہے، دراصل یہ مقابلہ کرنے اور اپنا بچاو خود کرنے کا محل ہے، کہ جب اللہ کا عذاب سامنے آئے گا تو اس وقت نہ دوسرے مجرموں کی مدد کرسکتے ہیں، اور نہ وہ مجرم خود اپنا بچاو کرکے اللہ کے عذاب کے سامنے ٹھہر سکتے ہیں۔اس کی مثالیں حسب ذیل ہیں:

(۱) یُرسَلُ عَلَیکُمَا شُوَاظ مِّن نَّارٍ وَنُحَاس فَلَا تَنتَصِرَان۔ (الرحمن: 35)

”(بھاگنے کی کوشش کرو گے تو) تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا جس کا تم مقابلہ نہ کر سکو گے“۔(سید مودودی)
”تم پر چھوڑی جائے گی بے دھویں کی آگ کی لپٹ اور بے لپٹ کا کالا دھواں تو پھر بدلہ نہ لے سکو گے“۔ (احمد رضا خان)
”تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا تو پھر تم مقابلہ نہ کرسکو گے“۔ (فتح محمدجالندھری)
”تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا پھر تم مقابلہ نہ کر سکو گے“۔ (محمدجوناگڑھی)

(۲) وَقِیلَ لَھم اَینَ مَا کُنتُم تَعبُدُونَ۔ مِن دُونِ اللَّہِ ھَل یَنصُرُونَکُم اَو یَنتَصِرُون۔ (الشعراء: 92، 93)

”اور ان سے پوچھا جائے گا کہ ''اب کہاں ہیں وہ جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کیا کرتے تھے؟کیا وہ تمہاری کچھ مدد کر رہے ہیں یا خود اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں؟“۔(سید مودودی)
”اللہ کے سوا، کیا وہ تمہاری مدد کریں گے یا بدلہ لیں گے“۔(احمد رضا خان)
”یعنی جن کو خدا کے سوا (پوجتے تھے) کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا خود بدلہ لے سکتے ہیں “۔(فتح محمدجالندھری)
”جو اللہ تعالیٰ کے سوا تھے، کیاوہ تمہاری مدد کرتے ہیں؟ یا کوئی بدلہ لے سکتے ہیں“۔(محمدجوناگڑھی)

(۳) اَم یَقُولُونَ نَحنُ جَمِیع مُّنتَصِر۔ سَیُہزَمُ الجَمعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ۔ (القمر: 44، 45)

”یا یہ کہتے ہیں کہ ہم غلبہ پانے والی جماعت ہیں عنقریب یہ جماعت شکست دی جائےگی اور پیٹھ دے کر بھاگے گی“۔(محمدجوناگڑھی)
”یا اِن لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ہم ایک مضبوط جتھا ہیں، اپنا بچاو  کر لیں گے؟“۔(سید مودودی)
”یا یہ کہتے ہیں کہ ہم سب مل کر بدلہ لے لیں گے“۔ (احمد رضا خان)
”کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت بڑی مضبوط ہے“۔ (فتح محمدجالندھری)

(۴) وَلَم تَکُن لَّہُ فِئَة یَنصُرُونَہُ مِن دُونِ اللَّہِ وَمَا کَانَ مُنتَصِرا۔ (الکہف: 43)

”اس کی حمایت میں کوئی جماعت نہ اٹھی کہ اللہ سے اس کا کوئی بچاو  کرتی اور نہ وہ خود ہی بدلہ لینے والا بن سکا“۔(محمدجوناگڑھی)
”نہ ہوا اللہ کو چھوڑ کر اس کے پاس کوئی جتھا کہ اس کی مدد کرتا، اور نہ کر سکا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ“۔ (سید مودودی)
”اور اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ کے سامنے اس کی مدد کرتی نہ وہ بدلہ لینے کے قابل تھا“۔(احمد رضا خان)
”(اس وقت) خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوئی اور نہ وہ بدلہ لے سکا“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۵) فَخَسَفنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الارضَ فَمَا کَانَ لَہُ مِن فِئَةٍ یَنصُرُونَہُ مِن دُونِ اللَّہِ وَمَا کَانَ مِنَ المُنتَصِرِینَ۔ (القصص: 81)

”(آخرکار) ہم نے اسے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئی نہ وہ خود اپنے بچانے والوں میں سے ہوسکا“۔ (محمدجوناگڑھی)
”(آخرکار) ہم نے اسے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئی نہ وہ خود اپنے بچانے والوں میں سے ہو سکا“۔(سید مودودی)
”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسایا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ سے بچانے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ بدلہ لے سکا“۔ (احمد رضا خان)
”پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی۔ اور نہ وہ بدلہ لے سکا“۔ (فتح محمدجالندھری)

(۶) فَمَا استَطَاعُوا مِن قِیَامٍ وَمَا کَانُوا مُنتَصِرِینَ۔ (الذاریات: 45)

”پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی۔ اور نہ وہ بدلہ لے سکا“۔(فتح محمدجالندھری)
”پس نہ تو وہ کھڑے ہو سکے اور نہ بدلہ لے سکے“۔ (محمدجوناگڑھی)
”تو وہ نہ کھڑے ہوسکے اور نہ وہ بدلہ لے سکتے تھے“۔(احمد رضا خان)
”پھر نہ اُن میں اٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچاو کر سکتے تھے“ ۔(سید مودودی)
انتصر بعض مقامات پر وہ اللہ کے لیے استعمال ہوا ہے، وہاں بدلہ لینے کا مفہوم بھی ہوسکتا ہے اور نمٹ لینے کا مفہوم بھی ہوسکتا ہے۔

(۱) وَلَو یَشَاءُ اللَّہُ لَانتَصَرَ مِنھُم۔ (محمد: 4)

”اللہ چاہتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا“۔(سید مودودی)
”اوراللہ چاہتا تو آپ ہی اُن سے بدلہ لیتا“۔ (احمد رضا خان)
”اور اگر خدا چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا“۔ (فتح محمدجالندھری)
”اور اللہ اگر چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا“۔ (محمدجوناگڑھی)

(۲) فَدَعَا رَبَّہُ اَنِّی مَغلُوب فَانتَصِر۔ (القمر: 10)

”پس اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بے بس ہوں تو میری مدد کر“۔ (محمدجوناگڑھی، اس ترجمے میں ایک تو ”میری“ زائد ہے، دوسرے انتصر کامطلب مدد کرنا نہیں ہوتا ہے۔)
”آخر کار اُس نے اپنے رب کو پکارا کہ ''میں مغلوب ہو چکا، اب تو اِن سے انتقام لے“۔ (سید مودودی)
”تو اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوں تو میرا بدلہ لے“۔ (احمد رضا خان)
”تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ (بار الٰہا) میں (ان کے مقابلے میں) کمزور ہوں تو (ان سے) بدلہ لے “۔ (فتح محمدجالندھری)
(جاری)

جدید ریاست میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید ۔ بنیادی خدوخال اور طریق کار (۲)

مولانا سمیع اللہ سعدی

بحث دوم : فقہ اسلامی  اور تشکیل جدید کا متقاضی حصہ 

فقہ اسلامی کی تشکیل جدید سے پہلے اس سوال کا جواب معلوم کرنا نہایت ضروری ہے کہ  فقہ اسلامی کے کس حصے کی تشکیل جدید وقت کی ضرورت ہے اور کس قسم کے مسائل   تجدید  کا تقاضا کرتے ہیں ؟تجدید کے بنیادی خدوخال طے کرنے سے پہلے اگر محل ِتجدید کا تعین نہیں ہوا تو قوی امکان  ہے کہ عمل تجدید تحریف یا تغییر میں تبدیل ہوجائے ۔اس نکتے پر بحث سے  کرنے سے پہلے فقہ اسلامی کے بنیادی شعبہ جات  اور فقہی مسائل  کی مختلف انواع کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ فقہ اسلامی اور معاصر قانون کے نامور ماہر ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب  رحمہ اللہ  نے فقہی موضوعات کو درجہ ذیل آٹھ قسموں میں تقسیم کیا ہے :
۱۔عبادات 
۲۔مناکحات 
۳۔معاملات
۴۔فقہ التعامل الاجتماعی (الحظروالاباحہ)
۵۔الاحکام السلطانیہ
۶۔ جنایات
۷۔ادب القاضی
۸۔ فقہ السیر1

فقہی مسائل کی انواع و اقسام 

کتب فقہ میں مذکور مسائل کی  استقرائی  طور درجہ ذیل انواع و اقسام ہیں :
۱۔ وہ مسائل جو منصوص ہیں اور قطعی و حتمی ہیں  ،یعنی اس کا مفہوم بھی واضح ہے اور اس کے معارض نصوص بھی نہیں ہیں ،جیسے بنیادی محرمات و محللات اسے ہم منصوص حتمی کا نام دیں گے ۔
۲۔ وہ مسائل جو منصوص تو ہیں ،لیکن مفہوم میں ایک سے زیادہ احتمالات ہونے کی وجہ سے یا معارض نصوص  کی وجہ سے ان میں مجتہدین کی مختلف آرا پائی جاتی ہیں  ،اسے منصوص غیر حتمی کہہ سکتے ہیں  ،نیز اسے مجتہد فیھا مسائل بھی کہتے ہیں ۔
۳۔وہ مسائل جو منصوص نہیں ہیں  ،بلکہ فقہا نے منصوص مسائل پر قیاس و استنباط  کے ذریعے  ان کا حکم  معلوم کیا ہے ،اسے آسانی کے لئے مسائل قیاسیہ کہیں گے ۔پھر مسائل قیاسیہ کی  آگے متعدد قسمیں ہیں :
الف۔ وہ مسائل  جن پر  چاروں  مکاتب  فقہیہ کا اتفاق ہے ،اسے مسائل قیاسیہ اجماعیہ کا نام دیں  گے۔
ب۔ وہ مسائل جن  پر مجتہدین اربعہ کا  تو اتفاق نہیں ہے ،لیکن ایک مذہب و مکتب میں وہ متفقہ ہیں ،اسے آسانی کے لئے مسائل قیاسیہ   اتفاقیہ کہہ سکتے ہیں 
ج۔ وہ مسائل جو ایک مسلک و مذہب میں بھی اختلافی ہیں ،اسے ہم مسائل قیاسیہ  خلافیہ کہیں گے ۔
د۔ وہ مسائل  جن کے حکم کی بنیادسدِ ذریعہ،عموم ِبلوی ، مصلحت یا عرف ہے ۔اسے ہم (تغلیبا)مسائل قیاسیہ  عرفیہ کہیں گے ۔
۴۔ وہ مسائل  جو قدیم فقہی ذخیرے میں مذکور نہیں ہیں ،بلکہ  نوازل و حوادث کے قبیل سے ہیں ۔
اس طرح سے مسائل فقہیہ کی درجہ ذیل انواع بنیں گی:
۱۔ منصوص حتمی 
۲۔منصوص غیر حتمی 
۳۔قیاسی 
۴۔ نوازل و حوادث
پھر قیاسی کی  درجہ ذیل چار قسمیں ہیں :
۱۔قیاسی اجماعی
۲۔قیاسی اتفاقی 
۳۔قیاسی خلافی 
۴۔قیاسی عرفی 
اب  فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے متقاضی حصے کے بنیادی خدوخال کچھ یوں بنتے ہیں :
۱۔ وہ مسائل جو نوازل و حوادث کے قبیل سے ہیں ،ان کا  فقہی اصولوں اور جزئیات کی روشنی میں حکم معلوم کرنا وقت کی سب بڑی ضرورت ہے اور فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے اہم تقاضا  ہے ۔ یہ ضرورت فقہ کے  تما م موضوعات و شعبہ جات میں ہے اور عبادات سے لے کر فقہ السیر تک نوازل و حوادث کا ڈھیر لگ گیا ہے ،جن کا فقہی حل   عصر حاضر کے نمایاں  چلینجز میں سے ہیں ۔
۲۔ وہ مسائل جو منصوص حتمی ہیں ،ان کو کسی صورت نہیں چھیڑا جائے گا ،ان میں تشکیل جدید دراصل تحریف و تغییر ہے ۔
۳۔وہ مسائل جو منصوص غیر حتمی ہیں ،ان میں حالات کے مطابق متعدد آرا میں انتخاب کیا جاسکتا ہے ، بشرطیکہ اس میں  فقہی طریقہ کار کی پوری پابندی ہو ،جو  کتب اصول میں افتا ءبمذہب الغیر یا  افتاء بقول المرجوح کے عنوان سے مذکور ہے ۔
۴۔مسائل اجماعیہ و اتفاقیہ  بھی منصوص حتمی کے قریب قریب ہیں ،اس لئے اس میں تبدیلی  کے لئے اجتہاد ِاجماعی درکار ہوگا ۔
۵۔مسائل قیاسیہ خلافیہ میں   حالات کے مطابق انتخاب  یا متعدد آرا کا جمع بھی تشکیلِ جدید کے زمرے میں آتا ہے ،معاصر سطح پر کاسموپولیٹن فقہ یا تلفیق بین المذاہب کی جو صدائیں بلند ہورہی ہیں ،اور اس کی موافقت و مخالفت میں بحث کا بازار گرم ہے 2، اس کا مصداق دراصل اسی قسم کے مسائل ہیں ۔
۶۔ مسائل قیاسیہ عرفیہ نوازل و حوادث کے بعد فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے بڑا تقاضا ہے ، معاصر سطح پر تشکیل جدید کی جو   آوازیں اٹھ رہی ہیں ،عمومی طور پر انہی دو اقسام کے مسائل مراد ہوتے ہیں، لہذا فقہ اسلامی کے ذخیرے میں جن مسائل کی بنیاد اس وقت کا عرف تھا ،یا  ان کا حکم سد ذریعہ یا کسی مصلحت کے طور پر  نکالا گیا تھا ، ان مسائل پر دوبارہ غور و فکر کر کے معاصر عرف کے مطابق اس کا نیا حکم معلوم کرنا چاہیے ، اسی طرح  مصلحت پر مبنی مسائل میں مصلحت  کی تبدیلی  کی صورت میں حکم تبدیل کرنا چاہئے یا سد ذریعہ والے احکامات میں ذرائع کی دوبارہ جانچ پڑتال کر کے  موجودہ حالات کے مطابق حکم نکالنا  چاہئے ۔

بحث سوم :تشکیل جدید کے بنیادی خدوخال اور اس کا  طریقہ کار

فقہ اسلامی کی تشکیل جدید  کن خطوط پر ہونی چاہئے ؟اس کے لئے کیا طریقہ کار اپنانا چاہیے اور تشکیل جدید کے بنیادی خدوخال کیا ہوں گے ؟یہ ایک طویل الذیل اور ذو ابعاد موضوع ہے ،    عمومی طور پر اس سے احکام فقہیہ کی تبدیلی  مراد ہوتی ہے ،حالانکہ تغییر و تبدیلی تشکیل جدید کا ایک جزو ہے جو بعض  مسائل میں   جاری ہوتی ہے  ،وہ بھی اصطلاحا تبدیلی کے زمرے میں نہیں آتا ،کیونکہ  عرف کے بدلنے ،مصلحت کی تبدیلی یا ذرائع  و علل کے تغییر سے  مسائل پر نیا حکم لگانا  فقہی اصطلاح میں تبدیلی نہیں کہلاتی ، درجہ ذیل میں تشکیل جدید کے چند مراحل بیان کئے جاتے ہیں :

۱۔تصنیف و تالیف میں تجدید 

فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے  اہم مرحلہ    فقہی کتب کے طرزِ تصنیف و تالیف میں تجدید ہے ،قدیم تراث بے پناہ اہمیت و مرکزیت رکھنے کے باوجود معاصر  اسلوب ِتصنیف سے ہم آہنگ نہیں ہے ،فقہی کتب کے طرز ِتالیف میں  درجہ ذیل تبدیلیاں  وقت کا تقاضا ہے :
۱۔قدیم فقہی تراث کا انداز جزئیات کے ضمن میں اصول و کلیات کی تفہیم ہے ،جبکہ معاصر ذہن    اصول و قواعد  کو جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے ،اس لئے جدید طرز کے مطابق ایسی کتب فقہیہ تصنیف ہونی چاہیں ،جن میں ابوابِ  فقہیہ  سے بحث اصولی انداز میں ہو ،اور ہر باب میں تعریفات ،تقاسیم ،انواع و اقسام مرتب انداز میں موجود ہو ،معاصر سطح پر معروف فقہیہ وہبہ الزحیلی کی الفقہ الاسلامی و ادلتہ  جدید منہج کی نمائندہ مثال ہے ۔
۲۔ قدیم تراث میں ابواب  و مسائل کی طے شدہ ترتیب ہے ،جو تقریباً‌ ہر فقہی کتاب میں یکساں  نظر آتی ہے ، جبکہ جدید ذہن فقہی تصورات کو بحیثیت مجموعی جاننے  کا  متمنی ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی باب سے ہو ، مثلاً‌ ضمان  کا فقہی تصور خواہ اس کا تعلق کتاب الغصب سے ہو ،لقطہ سے ہو ،کتاب البیوع سے ہو یادیگر ابواب فقہیہ سے،مال کا فقہی تصور ،فساد و بطلان کا فقہی تصور  وغیرہ ۔اس لئے ایسی کتب کی ضرورت ہے جو  فقہی  تصورات و نظریات پر مشتمل ہو اور اس مخصوص تصور کا پوری فقہ اسلامی  کی روشنی میں جائزہ لیا گیا اور اس کی وضاحت کی گئی ہو۔
۳۔قدیم  تراث میں عمومیت ہے  فقہ اسلامی کے جملہ ابواب  پر کتب فقہیہ مشتمل ہوتی ہیں ،جبکہ جدید دور تخصص و سپیشلائزیشن کا ہے ،اس لئے ہر باب پر تفصیلی کتب ہونی چاہیں ،اس پر اگرچہ کافی کام ہوا ہے، لیکن مزید بھی اس نہج پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
۴۔قانون دان اور وکیل حضرات کے لئے فقہ اسلامی کی دفعہ وار تدوین و ترتیب وقت کا تقاضا ہے ،اس کی عمدہ مثال مجلہ الاحکام العدلیہ ہے ،نیز معاصر سطح پر مزید کام بھی ہوا ہے ،مزید بھی اس نہج پر کام فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا اہم مرحلہ ہے ۔
۵۔ مباحث فقہیہ  کو  الفبائی ترتیب پر  موسوعات و قوامیس کی صورت میں مرتب کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ عربی میں اس کی مثال الموسوعہ الفقہیہ جبکہ اردو میں  مولنا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی قاموس الفقہ اس کی بہترین مثالیں ہیں ،لیکن اس پر مزید تفصیلی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔معروف فقیہ جمال الدین عطیہ نے اپنی کتاب تجدید الفقہ الاسلامی میں ایک ضخیم  فقہی موسوعہ مرتب کرنے کے  کا تفصیلی نقشہ پیش کیا ہے3،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی یہ موضوع مزید کام کا متقاضی ہے ۔
۶۔قدیم تراث کی جدید طرز پر اشاعت بھی تشکیل جدید کا اہم تقاضا ہے ،یہ بات ایک حقیقت ہے کہ جدید اصول تحقیق و تدوین کے مطابق قدیم تراث کی اشاعت نے فقہ اسلامی سے استفادہ  بہت آسان بنا دیا ہے ،عالم عرب سے اگرچہ اہم مصادر فقہیہ محقق انداز میں چھپ چکی ہیں ،لیکن اب بھی دنیا بھر کے  مکتبات میں ہزاروں کتب  فقہیہ اشاعت کی منتظر ہیں ۔
۷۔نواز ل و حوادث  پر مشتمل فقہی کتب  کی تیاری تشکیل جدید کا اہم مرحلہ ہے ، اس پر عربی و اردو میں کچھ کام ہوا ہے ،لیکن وہ بالکل ابتدائی نوعیت کا کام ہے ،نیز وہ اکثر انفرادی کاوشیں ہیں ،جبکہ نواز ل کے فقہی حل کے لئے اجتماعی غور و فکر کی ضرورت ہے ۔
تصنیف و تالیف میں  تجدید کے چند اہم  پہلو بطور مثال کے ذکر کئے ،ورنہ تجدید کا یہ پہلو متنوع ابعاد کا حامل ہے  اور انفرادی کوششوں کی بجائے اجتماعی کاوشوں کا متقاضی ہے۔

۲۔ تعبیر و اصطلاح میں تجدید

فقہ اسلامی کی تجدید کا دوسرا اہم مرحلہ فقہی تعبیرات و اصطلاحات کو عصر حاضر کی قانونی مصطلحات ، مروج تعبیرات اور معاصر ذہن سے ہم آہنگ الفاظ کا جامہ پہنانا ہے ،اس کام کا مقصد جدید تعلیم یافتہ حضرات ، اور جدید قانونی نظا م و اصطلاحات کے ماہرین   کے لئے فقہ اسلامی  کو عام فہم بنانا ہے ،ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب رحمہ اللہ  محاضرات فقہ   کے ابتدائی تعارف میں  لکھتے ہیں :
"مزید برآں  کسی بھی علم وفن کی طرح   فقہ اور اصول فقہ کے کلیات کو بیان کرنے کا انداز اور اسلوب بھی ہرزمانے میں بدلتا رہتا ہے ،ایک زمانہ تھا مثلا ائمہ مجتہدین کا زمانہ ،جب ان کلیات کو خالص مذہبی عقائد اور تعلیمات کی زبان اور انداز میں بیان کیا جاتا تھا ۔چنانچہ امام شافعی اور امام محمد بن شیبانی اور ان جیسے دوسرے فقہا کی تحریروں میں شریعت کے کلیات بحث کرنے کا ایک خاص انداز پایا جاتا تھا ۔پھر جلد ہی ایک دور ایسا آیا جب فقہی اور اصولی مباحث منطق اور فلسفہ کے اسلوب میں بیان کیا جانے لگا ،اس اسلوب کا اعلی ترین نمونہ امام غزالی اور امام رازی کی تصنیفات میں نظر آتا ہے ،یہ اسلوب متقدمین  کے اسلوب سے بالکل مختلف ہے ،دور جدید میں مغرب کے تصورات اور مباحث نے فقہ اسلامی کے مباحث اور انداز گفتگو پر گہرا  اثر ڈالا ،آج عرب دنیا میں جو کتابیں لکھی جارہی ہیں ،ان میں خاصا بڑا حصہ ان کتابوں کا ہے جو مغربی قوانین کے اسلوب اور تصورات کے مطابق لکھی جارہی ہیں ،ان  حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو زبان میں بھی نئے اسلوب کے مطابق کتابیں   تیار کی جائیں تاکہ قانون دان حضرات اور وکالت پیشہ حضرات زادہ بہتر اور موثر انداز میں فقہ اسلامی کے موقف کو سمجھ سکیں4"

۳۔احکام کی نوعیت میں تجدید

فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے حساس مرحلہ احکام کی نوعیت میں تجدید ہے ،وہ فقہی احکام جو عرف ،مصلحت ،سد ذریعہ  ،عموم بلوی ،اور متنوع احوال و ظروف  پر مبنی ہیں ،ان میں آج کے حالات کے مطابق   اور موجودہ ظروف کے موافق حکم نکالنا موجودہ حالات کا  سب سے بڑا تقاضاہے ،لیکن اس عمل میں ماضی سے مکمل ربط اور حال کا کامل ادراک بیک وقت ہونا چاہئے  ،ورنہ تجدید تحریف میں بدل سکتی ہے ۔

۴۔ درس و تدریس میں تجدید 

درس و تدریس میں تجدید فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے ،نصاب اور طریقہ تدریس دونوں تجدید کے متقاضی ہیں ،اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قدیم طرز کے مدارس میں متاخرین کی کتب پر مکمل اعتماد ہے ،جن میں   احکام و اصول کی اصل روح سے زیادہ لفظی ابحاث پر زور ہے جبکہ جدید اداروں میں  تدریس کا سارا مواد جدید کتب ہیں  ،جن میں اکثر کتب  مرتب ہونے کے باوجود  اس فقہی عمق کی حامل نہیں ہیں ،جو فقہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے ،اس لئے درس و تدریس میں ہر فقہ کی   امہات الکتب کی طرف رجوع ہونا چاہئے ،نیز طریقہ تدریس میں بھی جدت وقت کا تقاضا ہے ،مناظرانہ و مباحثانہ طرز کی بجائے تقابلی جائزہ کو رواج دینا چاہئے  ۔

۵۔ شعبہ افتا ءمیں تجدید 

افتا ءفقہ اسلامی کے تطبیقی عمل کانام ہے ،جس کا ایک سرا کتاب اور دوسرا خارجی عمل ہے ،کتاب کے فہم میں خلل یا خارجی عمل کو سمجھنے میں نقص   سے   عمل فتوی  اپنی جاذبیت کھو بیٹھتا ہے ، اور وہ محض ایک موقف بن جاتا ہے ، جو جذبات ،میلانات  اور خواہشات و ترجیحات کے تابع ہوتا ہے ،بد قسمتی سے امت مسلمہ کے دور زوال میں عمل ِفتوی مناظرہ و مباحثہ کا مظہر بن گیا ہے ،  اس کے ساتھ جدت پسند حضرات اباحتِ کلی کے درپے ہیں ،جبکہ روایتی علما جمود پر عمل پیرا ہیں ،اس لئے شعبہ افتا میں  تجدیدی نوعیت کے کام وقت کی ضرورت ہیں ،منصب افتا ءکے لئے کڑی شرائط رکھنی چاہییں ،جس میں ایک طرف  تراث کا  گہرا مطالعہ شامل ہو اور دوسری طرف  موجودہ حالات و تغیرات کا مکمل احاطہ ہو ۔

۶۔طریقہ اجتہاد  میں تجدید 

اجتہاد کی تاریخ کا اگر تجزیہ کیا  جائے تو انفرادی اجتہاد کا غلبہ دکھائی دیتا ہے ،فقہ اسلامی کا اکثر حصہ انفراد ی کاوشوں کا نتیجہ ہے ،سوائے  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ  کے ،جنہوں نے اجتماعی اجتہاد کی ابتدائی شکل کی  داغ بیل ڈالی تھی ،فقہ اسلامی کو درپیش معاصر چلینجز  اجتماعی اجتہاد سے حل ہونگے ،اس لئے عملِ اجتہاد کو  فرد کی سرگرمی سے نکا ل کر اجتماعی سرگرمی بنانا چاہئے ،دور حاضر میں اجتماعی اجتہاد کے ادارے خوش آئند مستقبل کی نوید ہے ،مجمع الفقہ الاسلامی ،اسلامک فقہ اکیڈمی ،مجمع البحوث الاسلامیہ ،ھیئہ کبار العلما ،یورپی مجلس برائے افتا و تحقیق جیسے اداروں کی  منظور کردہ قرار دادیں طریقہ اجتہاد میں تجدید کی بہترین مثال ہے،اس کے علاوہ ریاستی سطح پر قوانین کو اسلامیانے کے لئے اجتماعی اجتہاد کے ادارے وقت کی ضرورت ہیں ،تاکہ اجتماعی اجتہاد سے کئے گئے فیصلے  قانونی حیثیت کے حامل ہو ں ،پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت اپیلٹ بینچ کو اس کی مثال میں پیش کر سکتے ہیں ۔
طریقہ اجتہاد میں تجدید کی دوسری سطح  مقاصدی اجتہاد کی وہ لہر ہے جو معاصر سطح پر اٹھی ہے ،مقاصدی اجتہاد وقت کی اہم ضرورت ہے اگر اسے  قواعد و ضوابط کا پابند کیا جائے ،اس سلسلے میں اہل علم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ افراط و تفریط سے ہٹ کر مقاصدی اجتہاد کے اصول ،حدود ،قیود اور طریقہ کار کو منضبط کریں ۔

۷۔امثلہ و جزئیات میں تجدید 

قدیم ذخیرہ  لاکھوں جزئیات و امثلہ سے عبارت ہے ،لیکن  اکثر جزئیات اس وقت کے تمدن اور  احوال  پر مبنی ہیں ،ان  قدیم جزئیات کا  طلبا کے ذہن پر غیر شعوری طور  پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ فقہ اسلامی کو  ایک زندہ جاوید فن کے طو ر پر نہیں دیکھتے  اور انہیں فقہ اسلامی قدیم  مقدسات کے قبیل  سے لگتی ہے ،دوسرا  نقصان یہ ہوتا ہے کہ قدیم جزئیات کے نواز ل پر  انطباق  کے لئے جس فقہی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ مفقود ہونے کی وجہ سے انطباق  کما حقہ نہیں ہوپاتا ،جس کی وجہ سے عمل  فتوی بھی  متاثر ہوتا ہے ،اس لئے فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا  اہم ترین مرحلہ ان جزئیات کو حال سے جوڑنا ہے تاکہ فقہ اسلامی میں رواں دواں زندگی کی جھلک محسوس ہو ،یہ نہایت مشکل اور تفصیلی کام ہے ،جو انفرادی سطح کی بجائے اجتماعی کوششوں کا متقاضی ہے۔
امثلہ کی تجدید کا دوسرا مرحلہ اصول فقہ میں  قواعد کی تفہیم کے لئے دی  گئی امثلہ میں تجدید ہے ،عمومی طور پر اصول فقہ کے ذخیرے میں چند مثالیں ہیں ،جو ہر اصولی کتاب کی زینت ہیں  ،اس سے اصول فقہ کا تطبیقی عمل شدید متاثر ہوا اور اصول فقہ ، فقہ اسلامی  کی رگوں میں دوڑتے خون کی بجائے   چند نظری قواعد پر مبنی علم کی صورت میں سامنے آیا ہے ،اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ کتب اصول میں  مروج  امثلہ میں کم و کیف دونوں اعتبار سے بہتری لائی جائے ۔

۸۔مکاتب فقہیہ کے تقابل و مقارنہ میں تجدید 

مکاتب فقہیہ کا تقابلی مطالعہ ہماری فقہی روایت کا حصہ رہا ہے ،ائمہ مجتہدین کے دور سے اس کی داغ بیل پڑ گئی تھی ،امام محمد کی الحجہ علی اہل المدینہ ،اما م ابویوسف کی الرد علی  سیر الاوزاعی  اور امام شافعی کی الرد علی محمد بن الحسن تقابلی مطالعے کے اولین نقوش ہیں ،ان کتب  کا  انداز عمومی طور پر مباحثانہ رہا ہے ،جس میں مخالف نقطہ نظر کا تخطئہ،مرجوحیت اور اس میں پائے جانے والی کمزوریوں کی نشاندہی  کی کوشش  ہوتی ،اور اپنے موقف کی تقویت اور اصابت کے دلائل دئے جاتے ،یہی منہج بعد میں تقابلی مطالعے کا امتیاز قرار پایا ،اور یوں   مختلف مکاتب میں بحث و مباحثہ کا بازار گرم رہا ، اس منہج کا سب سے بڑا فائدہ دلائل کی تنقیح اور ان میں پائے جانے والی  فنی خامیوں کا تعین کی شکل میں سامنے آیا  ، انہی مباحثوں کی بدولت ہر  فقہی  مکتب نے اپنے مستدلات کو از سر نو منضبط کیا اور اپنے مواقف کے لئے دلائل کا  ڈھیر لگا دیا ،جس سے  منصوص مسائل    پوری طرح مبرہن ہوئے، دور جدید میں اس منہج کی تشکیل جدید کی ضرورت ہے اور تقابلی مطالعے  کا یہ قدیم انداز  تبدیل کرنے کی ضرورت  ہے ،تقابلی مطالعہ میں اس بات کی کوشش ہو کہ   مختلف اقوال کا تقابل عصر حاضر کے تناظر میں کیا جائے کہ آج جدید دور میں امت مسلمہ کی آسانی اور  نوازل و حوادث کو حل کرنے کے لئے کونسا قول زیادہ مناسب ،احوط اور قابل عمل ہے ۔نیز مختلف  آرا کا  بلا امتیاز مسلک مختلف پہلووں سے جائزہ  ہو ،قوت دلیل کے اعتبار سے ،احوط ہونے کے اعتبار سے ،تیسیر کے اعتبار سے وغیرہ ،مبادا اس  سے تلفیق کی طرف دعوت دینا  مقصود نہیں ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ   افتا ءبمذہب الغیر کی ضرورت کے وقت ان جیسی کتب کی طرف رجوع ہو اور کسی مسئلہ میں مختلف فقہی اقوا ل کا تیسیر ،احتیاط  ،تشدید اور دیگر پہلووں سے موازنہ و تقابل    کرنا آسان ہو ۔

۹۔مطالعہ تراث  کے منہج میں تجدید

ہمارے ہاں مطالعہ تراث کے محدود مقاصد ہیں ،درس و تدریس ،افہام و تفہیم ،توضیح و تشریح اور تعلیق و اختصار ، دور جدید میں اس منہج میں خاص طور پر یہ چیز  شامل کرنے کی ضرورت ہے کہ  تہذیب و تنقیح کے اعتبار سے  تراث کا مطالعہ و تحقیق ہو  ،فقہی تراث  میں مختلف اسباب  کی بنا پر     ایسی چیزیں پروان  چڑھیں ،جو اپنی اصل کے اعتبار سے  جس نوعیت کی تھیں ،آگے جاکر اس کی وہ نوعیت برقرار نہ  رہ سکی ، اس کی کچھ مثالیں علامہ ابن  عابدین شامی نے عقود رسم المفتی میں دی ہیں ،نیز بعض مسلم  مانے جانے والے تصورات  پر بھی از سر نو  تحقیق کی ضرورت ہے ،اس کی سب سے بہترین مثال معاصر محقق سائد بکداش کا کتابچہ  تکوین المذہب الحنفی مع تاملات فی ضوابط المفتی بہ  ہے ،جس میں محقق نے صاحبین کے اقوال کو فقہ حنفی کا حصہ سمجھنے پر نقد کیا ہے اور مفتی بہ قول کے بعض ضوابط پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے ۔ اتفاق یا اختلاف سے قطع نظر  تراث کی تحقیق و تہذیب کی اچھی کاوش ہے۔ مطالعہ تراث کے اس منہج سے فقہی ورثہ میں نکھار آئے گا اور  حوادث زمانہ سے جمی گرد کی تہیں   اتریں گی ۔

۱۰۔مندرس مکاتب فقہیہ و مجتہدین کی آرا کی  تجدید 

تدوینِ فقہ کے دور میں عالم اسلام کے مختلف خطوں سے قا بل قدر مجتہدین اٹھے ،لیکن مختلف وجوہات و اسباب کی بنا پر چار کے علاوہ باقی مجتہدین کی  آرا حوادثِ زمانہ کی نذر ہوگئیں اور ان کے مستقل مقلدین  کا سلسلہ نہ چل سکا ،البتہ کتب میں ان کے اقوال اور ان کی فقہی ترجیحات بکھری پڑی ہیں ،دور جدید میں  ان مندرس مکاتب کے احیا کی ضرورت ہے ،تراث سے ان کی فقہی آرا ،ان کےپیش نظر اصول اور ان کی ترجیحات نکال کر انہیں ایک مرتب شکل دینے کی ضرورت ہے ۔فقہ اسلامی کی تشکیل جدید اور  نوازل فقہیہ کے حل میں ان اقوال و آرا سے بہت مدد مل سکتی ہے اور فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوسکتے ہیں ۔ معروف   شامی محقق رواس قلعہ جی کی کوششیں اس حوالے سے خشت اول کی حیثیت رکھتی ہیں  کہ انہوں نے فقہ السلف کے عنوان سے اٹھارہ کے قریب معجم تیار کئے ہیں ،جن میں سلف کے اقوال فقہیہ کو بالاستیعاب جمع کرنے کی کوشش کی ہے ،اب ان اقوال کی تہہ میں کار فرما اصول و قواعد  کی تخریج اور ائمہ اربعہ کے فقہی اصولوں سے اس کے تقابل کی ضرورت ہے ۔

بحث چہارم : فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کی معاصر کوششیں اور اس کے اثرات 

دور جدید فقہ اسلامی کے حوالے سے بیداری  و اٹھان کا دور ہے ،فقہ اسلامی کی مرحلہ وار  تا ریخ  لکھنے والے مصنفین نے  دور جدید کو فقہ اسلامی کا تجدیدی زمانہ  قرار دیا ہے 5، دور جدید میں فقہ اسلامی پر مختلف جہات سے کام ہوا ،نئے تصورات اور نئے طرز و اسلوب کی داغ بیل ڈالی گئی  اور فقہ اسلامی کو جدید ذہن اور جدید احوال و ظروف سے ہم آہنگ کرنے کے لئے  قابل قدر کوششیں ہوئیں ،ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
"بیسویں صدی کی آخرکی تین چوتھائیاں اور بالخصوص اس کا نصف ثانی فقہ اسلامی میں  ایک نئے دور کا آغاز ہے ،عرب دنیا میں اور غیر عرب مسلم دنیا میں عام طور پر فقہ اسلامی پر ایک نئے انداز سے کام کا وسیع پیمانہ پر آغاز ہوا ،ایسا کام جس کے مخاطبین مغربی تعلیم یافتہ لوگ اور مسلمانو ں میں  وہ لوگ تھے ،جو مغربی قوانین اور افکار سے مانوس یا متاثر ہیں6"
ذیل میں ان  کاوشوں کی اہم جہات کا ذکر کیا جاتا ہے :
۱۔ فقہ اسلامی کی تشکیل جدید  اور اس کے بنیادی خدوخال پر قابل قدر تصانیف منظر عام پر آئیں ،جن میں فقہ اسلامی کی تجدید کی صدا بلند کی گئی ،اس کا نقشہ کھینچا گیا ،اس کے اسباب و موانع پر بحث کی گئی  اور اس راہ میں حائل مشکلات و صعوبات کی نشاندہی کی گئی،ان تصانیف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ان سے فقہ اسلامی کی تجدیدکی فکر کو مہمیز ملی ،علمی حلقوں کی توجہ مبذول ہوئی  اور  اس موضوع پر مختلف فورمز اور کانفرنسوں میں مباحثے و مکالمے ہوئے ،ان تصانیف میں شیخ ازہر علی جاد الحق کی تصنیف الفقہ الاسلامی  مرونتہ و تطورہ ،معروف فقیہ شیخ مصطفی احمد زرقا کی المدخل المفقہی العام ،شیخ جما  ل الدین عطیہ  اور شیخ وھبہ الزحیلی کی مشترکہ تصنیف تجدید الفقہ الاسلامی ،الدکتور عبد الوہاب ابو سلیمان کی منہج البحث فی الفقہ الاسلامی خصائصہ و نقائصہ ،مشہور مصری مصنف محمد سلیم العواکی ضخیم کتاب الفقہ الاسلامی فی طریق التجدید ،ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی الفقہ الاسلامی بین الاصالہ و التجدید ،جزائر یونیورسٹی سے  حوریہ تاغلابت کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا ضخیم مقالہ الفقہ الاسلامی بین الاصالہ و التجدید،جما ل البنا کی نحو فقہ جدید ، ڈاکٹر حسن ترابی کی کتباور ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کی محاضرات فقہ و محاضرات شریعت کے بعض خطبات  قابل ذکر ہیں ۔عالم اسلام کے مختلف خطوں سے مسلم مفکرین کی جانب سے فقہ اسلامی کی تجدید کی یہ صدائیں بہت موثر ثابت ہوئیں ،اور اس فکری صدا پر  عمل کی مختلف صورتیں سامنے آئیں ۔
۲۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں فقہ اسلامی  پر تجدیدی کام ہوا ہے ،اور جدید طرز و اسلوب پر فقہ اصول فقہ اور فقہ و اصو ل فقہ کے تعارف و تاریخ  کی کتب لکھی گئیں ہیں ،تجدیدی تصانیف کی  اہم انواع کا تذکرہ کیا جاتا ہے :
  1. جدید قانونی طرز پر فقہ اسلامی کی تدوین نو  جیسے  مجلہ الاحکام العدلیہ ،شیخ احمد القاری کی مجلہ الاحکام الشریعہ  اور  محمد قدوری پاشا کی مرشد الحیران وغیرہ
  2. فقہی موسوعات و انسائیکلوپیڈیاز کی تیاری جیسےموسوعہ الفقہ الاسلامی  ، موسوعہ جمال عبد الناصر  فی الفقہ الاسلامی ،محمد  صدقی البورنو کی موسوعہ القواعد الفقہیہ وغیرہ
  3. فقہ و اصول فقہ کا مقارن مطالعہ جیسے وھبہ زحیلی کی الفقہ الاسلامی و ادلتہ ،ڈاکٹر عبد الکریم النملہ کی المہذہب فی اصول الفقہ المقارن
  4. مقاصد شریعت پر جدید انداز میں  تصانیف جیسے شیخ طاہر بن عاشور کی مقاصد الشریعہ الاسامیہ ،محمد سلیم العوا کی  مقاصد الشریعہ الاسلامیہ اور جما ل الدین عطیہ کی نحو تفعیل مقاصد الشریعہ وغیرہ
  5. فقہ اسلامی و مذاہب فقہیہ کی تاریخ و تعارف پر مبنی کتب جیسے شیخ خضری کی تاریخ التشریع الاسلامی، حجوی کی الفکر السامی وغیرہ
  6. معدوم فقہی مسالک و مجتہدین کے اوقوال فقہیہ کی جمع و تدوین نو جیسے محمد رواس قلعہ جی کے تیار کردہ معاجم
  7. عالم اسلام کی مختلف جامعات و یونیورسٹیوں سے جاری شدہ ماجستیر ،ایم فل و پی ایچ ڈی مقالات ،جو فقہ اسلامی کے مختلف پہلووں پر مشتمل ہیں  اور بلا شبہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۔
  8. فقہ اسلامی کے مختلف ابواب  پر تفصیلی و ضخیم تصانیف  جیسے شیخ ابوزہرہ مرحوم کی الاحوال الشخصیۃ، شیخ عبدالقادر عودہ کی التشریع الجنائی الاسلامی مقارنا بالقانون الوضعی  وغیرہ
  9. قدیم تراث کی تحقیق و تعلیق کے ساتھ اشاعت جدید جیسے الدکتور حسام الدین الفرفور کی نگرانی میں فتاوی شامی کی جدید اشاعت
  10. فقہی ویب سائٹس و سافٹ وئیر کی تیاری جیسے الشبکہ الفقہیہ وغیرہ7
۳۔فقہی مسائل پر اجتماعی غور و غوص کے ادارے وجود میں آئے  ہیں ،جن میں عالم اسلام کے ممتاز فقہا و قانون دان حضرات اہم مسائل پر مشترکہ غور و فکر اور بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور اجماعی یا اکثریتی فیصلے کئے جاتے ہیں ۔یہ ادارے ملکی و بین الاقوامی دونوں سطح پر وجود میں آئے ،پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل ، المرکز العالمی الاسلامی (بنوں )مجلس  تحقیق مسائٍل حاضرہ (کراچی ) ،انڈیا میں اسلامک فقہ اکیڈمی ،مجلس تحقیقات شرعیہ   اور ادارہ المباحث الفقہیہ ،مصر میں مجمع البحوث الاسلامیہ ،سعودی عرب میں ھیئہ کبار العلما ، کویت میں الادارہ العامہ للافتاء،یورپ میں یورپی  مجلس برائے افتا و تحقیق ،امریکہ میں فقہائے  شریعت اسمبلی، شمالی امریکی فقہ کونسل ،جبکہ عالم اسلام کی  مشترکہ فورمز میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت  مجمع الفقہ الاسلامی ،او آئی سی کے تحت مجمع الفقہ الاسلامی الدولی  اہم ادارے ہیں ۔ان اداروں سے سینکڑوں مسائل  پر فقہی فیصلے جاری ہوئے  ہیں ،انفرادی کاوشوں کی بنسبت یہ اجماعی کوششیں استناد ،قوت ،صحت اور ثقاہت  کے اعلی معیار پر ہیں  اور  عالم اسلام میں ان فیصلون کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
۴۔ دور جدید میں ریاستی سطح پر فقہ کو نافذ کرنے اور اسلامی ممالک کے دساتیر کو اسلامیانے کے عمل کا آغاز ہوا  اور مختلف اسلامی ممالک میں مختلف فقہی مکاتب کے نفاذ کی کوششیں ہوئیں ، یہ کوششیں اگرچہ زیادہ تر عائلی ،فوجداری اور بعض دیوانی  قوانین  میں ہوئیں ،لیکن بہر حال ان سے جدید  دور میں فقہ کے نفاذ اور جدید قوانین کی اسلامائزیشن کی راہیں ہموار ہوئیں ،پاکستان ،ہندوستان ،سعودی عرب ،مصر ،عراق اور شام میں یہ کوششیں بڑے پیمانے پر ہوئیں ، خاص طور پر پاکستان میں قرار داد مقاصد ،۱۹۷۳ کی اسلامی دفعات ،ضیا ءالحق  کے دور حکومت میں جاری کئے گئے آرڈیننس اور ریاستی سطح پر قوانین کو اسلامیانے کے عمل کو تیز تر بنانے کے لئے شریعت اپیلٹ بینچ اور اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام فقہ اسلامی کے نفاذ کے لئے  اہم سنگ میل ہیں ۔
۵۔دور جدید میں فقہ الاقلیات  معاصر فقہا کا خصوصی موضوع ہے ،یورپ و امریکہ میں مقیم مسلم اقلیتوں کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر خصوصی کام ہوا ہے  اور فقہ الاقلیات المسلمہ ایک ممتاز فقہی شعبہ بن گیا ہے ، جس کے اصول و فروع کے انضباط پر مستقل کام ہوا ہے ،اس حوالے سے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی  فی فقہ الاقلیات المسلمۃ، سید عبد المجید بکر کی الاقلیات المسلمۃ فی اوروبا، محمد یسری ابراہیم کا ضخیم مقالہ فقہ النوازل للاقلیات المسلمہ تاصیلا و تفعیلا، علی بن نایف کی الخلاصۃ فی فقہ الاقلیات، اشرف عبدالعاطی کی فقہ الاقلیات المسلمۃ بین النظریۃ والتطبیق اور شیخ عبد اللہ بن بیہ کی صناعۃ الفتوی و فقہ الاقلیات اہم کتب ہیں ،اس کے علاوہ یورپی مجلس  برائے افتا و تحقیق اور اسلامک فقہ اکیڈمی کی منظور کردہ قرار دادیں فقہ الاقلیات کے مختلف پہلووں پر  اہم فیصلے ہیں ۔
۶۔جدید معاشیات کی اسلامائزیشن اور بینکنگ سسٹم کو اسلامی قوانین سے ہم آہنگ بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر کام ہوا ہے ،خصوصا پچھلی تین چار دھائیوں سے  نوے فیصد فقہی کاوشیں مالیاتی نظام سے متعلق ہیں ،دور جدید میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے بڑا مظہر فقہ المعاملات المعاصرہ ہے ،اس فقہی پیراڈائم میں اگرچہ کافی چیزیں محل نظر ہیں  اور اس پر عالم اسلام کے مختلف خطوں سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے لیکن  یہ تنقیدیں   مزید نکھار اور  تنقیح و تہذیب  کا سبب ہیں ،جدید معاشی نظام کے اسلامیانے کا عمل اگر پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے تو فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا سب سے اہم اور بنیادی مرحلہ عبور ہوجائے گا ۔
۷۔فقہ السیر کے میدان میں قابل قدر تجدیدی کام ہوا ہے ،ڈاکٹرحمید اللہ ،علی علی المنصور ،صبحی محمصانی ،شیخ ابوزہرہ ،شیخ وھبہ الزحیلی اور ڈاکٹر محمود احمد غازی   سمیت  نامور فقہا نے اس میدان میں قابل  قدر کتب لکھی ہیں ،لیکن اکیسویں صدی  میں فقہ السیر کو نئے چلینجز کا سامنا ہے ،خاص طور پر جہاد ،بغاوت، ارتداد،مسلم حکمرانوں کے فسق و تکفیر   اور ان کی اطاعت یا معزولی کا مسئلہ  اور مسلم معاشروں میں خود کش حملوں جیسے مسائل کا فقہ السیر کے اصولوں کی روشنی میں جائزہ لینا  وقت کی اہم ترین ضرورت ہے 8،مسلم امہ  خارجیت  کے افراط اور تجدد پسندی کی تفریط کے درمیان پِس رہی ہے ،بین الاقوامی حالات کے اتار چڑھاو سے لگ رہا ہے کہ اگلی صدی میں مسلم مفکرین کو فقہ السیر پر خصوصی  توجہ دینا پڑے گی ۔
۸۔جدید دور میں مختلف فقہی مکاتب میں  قربتیں بڑ ھ گئی ہیں  اور خاص طور پر اجتماعی فقہی اداروں کے قیام نے مکاتب فقہیہ کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ،اور بقول ڈاکٹر غازی صاحب کہ دنیا ایک عالمی فقہ (کاسموپولیٹن  فقہ )کی طرف بڑھ رہی ہے ،جس میں چارو ں مکاتب سے اخذو استفادہ ہوگا ، البتہ اس  کے نتیجے میں  تلفیق بین المذاہب اور شواذ آرا  کے انتخاب کا رجحان پیدا ہورہا ہے ،جس سے ٹھیٹھ اور روایت پرست فقہا متفق نہیں ہیں ، اسلامی بینکاری کے جواز و عدم جواز پر مبنی  مباحثوں میں  خاص طور پر یہ دونوں رجحانات ممتاز طور پر سامنے آئے  ہیں ۔یہ دونوں رجحانات اپنے دلائل اور بنیادیں رکھتے ہیں  ،ان میں سے کس رجحان کو  قبو ل عام ملتا ہے ،اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا ۔

اختتامی بات

جدید دور میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کے بنیادی خاکے اور اس کی مختصر تاریخ  سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ  جدید  تغیرات کے ساتھ چلنے کے لئے فقہ اسلامی کی مستحکم بنیادوں پر تشکیل جدید انتہائی اہم ترین کام ہے ،اس مضمون کا اختتام   فقہ اسلامی کی تشکیل جدید  کے سب سے بڑے داعی ،نامور قانون دان اور ممتاز فقیہ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب رحمہ اللہ کی ایک عبارت پر کرنا چاہوں گا ،جس سے فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کی اہمیت  و ضرورت واضح ہوتی ہے ،ڈاکٹر غازی صاحب رحمہ اللہ محاضرات فقہ کے آخری محاضرہ میں فرماتے ہیں :
"اگر دنیائے اسلام کا مستقبل خوشگوار ہے ،اگر د نیائے اسلام کی آئندہ زندگی کا نقشہ ان کی اپنی آرزووں اور تمناوں کی روشنی میں تشکیل پانا ہے ،اگر مسلم ممالک  کی آئندہ سیاسی زندگی خود مختار،آزاد اور باعزت  مستقبل پر مبنی ہے  اور یقینا ایسا ہی ہے تو ایسا صرف اور صرف ایک بنیاد پر ممکن ہے ،وہ یہ کہ مسلمان شریعت اسلامیہ کے بارے میں اپنے عمومی رویہ پر نظر ثانی کریں، دور جدید میں فقہ اسلامی کی فہم از سر نو حاصل کریں اور اس رشتہ گم گشتہ کو بازیاب کریں،جس سے ان کا تعلق گزشتہ کئی سو سال سے ٹوٹ گیا ہے یا کمزور پڑ گیا ہے ۔اس ساری صورتحال میں جو چیز ان کی زندگیوں کو نئی تشکیل عطا کر سکتی ہے ،وہ فقہ اسلامی کا نیا فہم ہے۔فقہ اسلامی کے نئے فہم سے ہر گز یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ نیا فہم ماضی کے فہم  سے مختلف ہوگا ،یا اکابر فقہا ئے اسلام کے فہم و بصیرت پر عدم اعتماد کا غماز ہوگا ،بالکل نہیں ۔بلکہ یہ فہم ماضی کے فہم ہی کا تسلسل ہوگا۔یہ فہم صدر اسلام کے ائمہ مجتہدین کے فہم کا تسلسل اور احیا ہوگا ۔ جس انداز سے اسلام کے ابتدائی چار پانچ سو سال میں فقہ اسلامی نے ان کی رہنمائی کی ،اسی انداز کی  رہنمائی فقہ اسلامی مسلمانوں  کے مستقبل کے لئے کر سکتی ہے اور ان شاء اللہ کرے گی ۔9"

حواشی

1. غازی ،ڈاکٹر محمود احمد ،اسلام کا قانون بین الممالک ، ص ۳۸، شریعہ اکیڈمی اسلام آباد  ۲۰۰۷۔
2. ڈاکٹر عمران احسن نیازی اور ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کا اس حوالے سے اختلاف معروف ہے۔
3. عطیہ ،جما ل الدین ،تجدید الفقہ الاسلامی ،ص ۷۵ ت ۱۴۰ دار الفکر بیروت ۲۰۰۰۔
4. غازی ،ڈاکٹر محمود احمد ،محاضرات فقہ ، ص۷،۸الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور ۲۰۰۵۔
5. القطان ،مناع ،تاریخ التشریع الاسلامی ، ص ۳۹۷،مکتبہ المعارف، ریاض۱۹۹۶۔
6. غازی ،ڈاکٹر محمود احمد ،محاضرات فقہ ، ص۵۳۳،الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور ۲۰۰۵۔
7. جدید دور کے فقہی ذخیرہ کے تفصیلی تعارف پر راقم الحروف کا مقالہ الشریعہ ج۲۶ شمارہ۵ اور ۶ میں شائع ہوچکا ہے۔
8. اردو میں اس حوالے سے اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صاحب کی کتاب" جہاد ،مزاحمت اور بغاوت اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں" اہم کتاب ہے۔
9. غازی ،ڈاکٹر محمود احمد ،محاضرات فقہ ،ص ۵۱۶،۵۱۵،الفیصل ناشران و تاجران کتب ۲۰۰۵۔

دھتکارے ہوئے بھارتی مسلمانوں کی داستانِ کرب ۔ ایک اور پاکستان؟

پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

شمس الرحمان فاروقی (۱۹۳۵ء) ادبی دنیا کا ایک مقتدر نام ہے۔ وہ شاعر، ادیب، نقاد اور سماجی دانشور ہیں۔ الٰہ آباد سے ایم اے انگریزی بھی کیا ہے اور انوکھے انداز میں تنقیدی کلیے وضع کیے ہیں۔ مختلف اعزازات سے انہیں نوازا گیا ہے۔ پاکستان آچکے ہیں اور کراچی کی ایک باوقار ادبی تقریب میں چبھتے ہوئے سوالوں کا جواب محتاط انداز میں دیا ہے جس کا انہوں نے اپنی تحریر یں ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے انڈین ایکسپریس کی ۵ اپریل کی اشاعت میں ایک بھرپور مضمون لکھا ہے۔ یہ ایک چشم کشا تحریر ہے اور پاکستانی دانشوروں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ۔ مضمون ۷۰ سالہ تجربات، مشاہدات کا نچوڑ ہے۔ ڈاکٹر صاحب روایتی طور پر جمعیۃ علماء ہند سے تعلق کے ناطے کانگریس کے وفادار ہیں۔ اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فاروقی بچپن ہی سے سیاسی منظر نامہ کو دیکھ اور سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے تقسیم ہند کو بھارتی مسلمانوں کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو ایک روایتی اپروچ ہے۔ لیکن ایک نقاد کی حیثیت سے انہوں نے اپنے مضمون میں جس توازن اور احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے وہ سامنے نظر آرہا ہے۔ کانگریس اور بھارتی قیادتوں کی تعریف اور توصیف کے پس پردہ وہ اپنے دل کی بات بھی کر گئے ہیں۔ مضمون کا عنوان ایک عالمانہ اور حساس ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ “تنہائی کا شکار اقلیتوں کی کرب ناک زندگی” ،اگرچہ یہ ترجمہ انگریزی عنوان کی مؤثر شکل نہیں ہے۔
اس مضمون میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ کئی مرتبہ مختلف انداز میں دہرائی گئی ہیں لیکن ڈاکٹر شمس الرحمان فاروقی کے قلم سے لکھی گئی باتیں پروپیگنڈا یا سیاست بازی کے زمرے میں نہیں آتیں۔ یہ ایک مفکرانہ اور معروضی اظہار حقیقت ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے واضح طور پر بتایا ہے کہ تقسیم کے بعد مسلم دشمنی میں اضافہ ہوا ہے اور اب بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ یہ بات ڈاکٹر صاحب کی گرفت میں نہیں آتی کہ ان ہی خدشات نے پاکستان کی تخلیق کی۔ کانگریس کی وزارتوں نے سیاسی، مالی، نظریاتی اور انتظامی اعتبار سے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس سے اکٹھا رہنے کے تمام امکانات ختم ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے موجودہ قیادتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے دبے لہجے میں یہ کہہ دیا ہے کہ موجودہ صورتحال اگر زیادہ دیر تک قائم رہی تو مسلمان اپنی شناخت سے محروم ہو جائیں گے۔ دراصل یہ کوئی نئی پالیسی نہیں۔ کانگریس کی حکومت ہو یا آر ایس ایس کی، مسلمانوں کے بارے میں ایک جیسی سوچ رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کانگریس نے اپنے نفاق سے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے اور بی جے پی کھل کر مسلمان دشمنی کا اظہار کر رہی ہے۔ امریکی پشت پناہی نے اسے اتنا منہ زور کر دیا ہے کہ وہ مصلحت اور اخفاء کو ضروری نہیں سمجھتی۔
یہ ان کوششوں کا عروج ہے جن کا آغاز بہت پہلے سے ہوا۔ ڈی پی دھرکی سرپرستی میں ایک کمیٹی (کمیشن) بنائی گئی اور اس کے ذمہ اسپین (ہسپانیہ) کے ثقافتی امور کا مطالعہ تھا۔ اصل میں وہ یہ تحقیق کرنا چاہتے تھے کہ اسپین میں مسلمانوں کو کیسے ختم کیا گیا حالانکہ وہاں پر بھی مسلمانوں نے ۶ سو سال حکومت کی تھی۔ سب سے بڑی کامیابی نصاب سازی کی شکل میں ہوئی، بھارت کے تعلیمی اداروں میں ایسا نصاب پڑھایا جا رہا ہے جس سے مسلمانوں کی حکومت کے اثرات ختم کیے جائیں۔ نصاب میں مسلمانوں کو غاصب اور استعماری حکمرانوں کا نام دیا گیا ہے، تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے، الٹی سیدھی توجیہیں دے کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ سب عمارتیں ہند