2017

جنوری ۲۰۱۷ء

دینی مدارس اور غیر حکومتی تنظیموں کے باہمی روابطمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۶)ڈاکٹر محی الدین غازی
حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کی وفاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جنید جمشیدؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلام کا دستوری قانون اور سیاسی نظام ۔ برعظیم پاکستان و ہند کے فتاویٰ کا تجزیاتی مطالعہ (۲)ڈاکٹر محمد ارشد
’’علوم اسلامیہ میں تحقیق: عصری تناظر‘‘ / مجلس یادگار شیخ الاسلام کے زیر اہتمام مولانا سندھیؒ پر سیمینارڈاکٹر حافظ محمد رشید
فرزند جھنگویؒ اور جمعیۃ علماء اسلاممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا مسرور نواز کی کامیابی کے متوقع مثبت اثراتمحمد عمار خان ناصر
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام اسوۂ حسنہ سیمینارحافظ محمد شفقت اللہ

دینی مدارس اور غیر حکومتی تنظیموں کے باہمی روابط

محمد عمار خان ناصر

دینی مدارس اور غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کے باہمی روابط کا معاملہ ان دنوں اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت کے ہاں زیر بحث ہے اور ماہنامہ ’’وفاق المدارس‘‘ کے گذشتہ شمارے میں صدر وفاق مولانا سلیم اللہ خان نے جبکہ ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ کے حالیہ اداریے میں مولانا عزیز الرحمن نے اس ضمن میں اپنے خدشات وتحفظات کی تفصیلی وضاحت کی ہے۔ بحث کا فوری تناظر دو واقعات ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دینی جامعہ میں کسی غیر ملکی تنظیم کے اشتراک سے ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں مبینہ طور پر کچھ ایسی باتیں کہی گئیں جن سے دینی قیادت کے مسلمہ اعتقادی موقف پر زد پڑتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اسلام آباد کی ایک غیر حکومتی تنظیم، ادارہ برائے امن وتعلیم (PEF) کی جانب سے، جس کے ساتھ گذشتہ کئی سال سے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان (ITMP) کی قیادت کا قریبی رابطہ ہے اور وہ مختلف سطحوں پر دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے تربیتی ورک شاپس بھی منعقد کر رہی ہے، مرتب کردہ ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں رائج نصابی کتب کا اس حوالے سے تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے کہ ان میں مذہبی منافرت کو فروغ دینے والا مواد کس قدر اور کہاں کہاں پایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں ایسے موادکی نشان دہی کے ساتھ ساتھ نصاب کی اصلاح کے لیے کچھ سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں جن میں سے، مثال کے طور پر، ایک قابل اعتراض سفارش یہ ہے کہ نصابی کتابوں میں اسلام کو واحد سچے مذہب کی حیثیت سے پیش نہ کیا جائے۔
دینی مدارس کے تشخص اور کردار کی حفاظت کے حوالے سے دیوبندی قیادت کی حساسیت بدیہی طور پر قابل فہم ہے اور اگر کوئی ایسی پیش رفت ہو رہی ہے یا ہوئی ہے جس سے اس تشخص پر زد آنے کا خطرہ ہے تو اس پر قیادت کا فکر مند ہونا بالکل فطری ہے۔ بظاہر مذکورہ دونوں واقعات میں فریق ثانی کی طرف سے بھی اپنی پوزیشن کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ چنانچہ یہ کہا گیا ہے کہ متعلقہ دینی ادارے میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کوئی ایسی بات سرے سے کہی نہیں گئی جو موجب اعتراض ہو (اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ قیادت کے تحفظات کسی خاص نکتے کے حوالے سے نہیں، بلکہ فی نفسہ مدرسے کی چار دیواری میں کسی این جی او کے اشتراک سے اجلاس منعقد کرنے پر ہیں)، جبکہ ادارہ برائے امن وتعلیم کی جانب سے ایک تفصیلی وضاحت سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ہے جس کے مطابق قابل اعتراضات سفارشات اس رپورٹ کا حصہ نہیں تھے جو ادارہ برائے امن وتعلیم نے مرتب کی تھی اور یہ کہ اس میں ان نکات کا اضافہ بعد میں اس بین الاقوامی ادارے نے اپنی طرف سے کیا ہے جس کے لیے مذکورہ رپورٹ کا مواد جمع کیا گیا تھا۔ مذکورہ وضاحت کے مطابق، PEF کی طرف سے اس پر متعلقہ ادارے سے احتجاج بھی کیا گیا ہے جس کے بعد اس ادارے نے معذرت کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ سے یہ رپورٹ ہٹا دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں وضاحتیں ناظرین کے سامنے ہیں اور ان کو وزن دینے یا نہ دینے کا معاملہ بہرحال کسی بھی شخص کی اپنی رائے اور صواب دید پر منحصر ہے۔
اس فوری اور وقتی واقعاتی تناظر سے ہٹ کر، زیر نظر سطور میں ہمارے پیش نظر اس معاملے کے چند مستقل اور بنیادی پہلوؤں پر اپنی معروضات پیش کرنا ہے۔ 
صورت حال یہ ہے کہ نائن الیون کے واقعے نے پوری دنیا اور خاص طور پر مسلم معاشروں میں واقعاتی وفکری سطح پر جو شدید اضطراب پیدا کیا، اس نے دین کی تعبیر اور دور جدید میں اہل دین کے معاشرتی کردار کے حوالے سے درجنوں سوالات کھڑے کر دیے جن سے سنجیدہ اعتنا خود دینی قیادت کی ذمہ داری بنتی تھی، لیکن ہم نے دیکھا کہ حالات کے دباؤ کے تحت وقتاً فوقتاً سیاسی نوعیت کے بعض بیانات جاری کرنے کے علاوہ درپیش فکری سوالات پر سنجیدہ غور وفکر کی کوئی تحریک دینی قیادت نے اپنے ماحول میں پیدا نہیں کی۔ جمہوریت اور اسلام کا باہمی تعلق، جہاد اور دہشت گردی، خلافت کا تصور اور قومی ریاستیں، مذہبی ومسلکی فرقہ واریت، نجی سطح پر جہادی سرگرمیوں کی تنظیم، مسلم معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق ومسائل، مسلم ریاستوں کے خلاف خروج، مسلمان طبقات کی گروہی واجتماعی تکفیر، مذہبی رواداری، بین المذاہب مکالمہ، دینی مدارس کا نصاب ونظام، قیام امن اور سماجی ہم آہنگی، خواتین کے حقوق ومسائل، توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال، غیر ذمہ دارانہ فتوے بازی کا رجحان، مذہبی مزاج میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کا نفوذ، معاشرے کے مختلف طبقات کے مابین مکالمہ اور میل جیل، عسکری تحریکوں کا پیش کردہ مذہبی بیانیہ ۔۔ یہ وہ سب موضوعات ہیں جو پچھلے پندرہ سال کے عرصے میں سماج میں ہر سطح پر زیر بحث ہیں، لیکن چند استثنائی مثالوں کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پورے عرصے میں دینی قیادت نے خود اپنے فورمز پر اور اپنے ماحول میں ان موضوعات کو سنجیدہ غور وفکر کا موضوع بنانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ 
دینی قیادت کی فکری اور معاشرتی ترجیحات کے محدود اور یک رخا ہونے اور دینی ذمہ داری کے نہایت اہم دائروں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے وہ خلا پیدا ہوتا ہے جس کو کچھ دوسرے فورم، ادارے اور تنظیمیں آگے بڑھ کر پر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ چنانچہ گزشتہ عرصے میں، مذکورہ موضوعات پر سوچ بچار اور غور وخوض کی جو بھی کاوشیں ہوئی ہیں، ان کا محرک اصلاً دینی قیادت نہیں، بلکہ معاشرے کے کچھ دوسرے ادارے ہیں جو اس حوالے سے فکرمندی ظاہر کرتے ہوئے طبقہ علماء کو متوجہ کرنے اور اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی ایسا نمائندہ فورم موجود نہیں جہاں درپیش فکری وعملی سوالات پر سنجیدہ غور وخوض کیا جاتا ہو اور اس کا قیام دینی قیادت کی دلچسپی سے یا اس کی تحریک پر عمل میں آیا ہو۔ ملی مجلس شرعی اور اس جیسے بعض دوسرے فورمز کے کار پردازان، دینی قیادت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ایسے سب فورمز دینی قیادت کے دائرے سے باہر کھڑے چند حضرات نے اس ضرورت کا احساس کر کے قائم کیے ہیں کہ بہت سے غور طلب مسائل موجود ہیں جن میں مذہبی ودینی موقف کا سامنے لایا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ 
اس سلسلے میں گزشتہ چند سال میں درپیش فکری سوالات اور دینی قیادت کی متوقع ذمہ داری اور کردار کے حوالے سے نمایاں علمی وفکری سرگرمیوں کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ منظر سامنے آتا ہے:
دینی مدارس کے فضلاء، اساتذہ اور ائمہ وخطباء کے لیے مختلف سطحوں اور دائروں میں ایسے تربیتی پروگراموں کا انعقاد جن کا مقصد ان کو علمی وفکری ضروریات کا احساس دلانا، ان کے فکری افق کو وسیع کرنا، ان کے اور دوسرے معاشرتی طبقات کے مابین فاصلوں کو کم کرنا اور فضلائے مدارس کو نئے تعلیمی مواقع اور امکانات سے متعارف کروانا ہو، نہ صرف معاشرے کی بلکہ خود دینی مدارس کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے بھی ہمیں بنیادی طور پر وہی ادارے سرگرم نظر آتے ہیں جن کا مدارس کے روایتی دائرے سے تعلق نہیں۔ اس ضمن میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ذیلی اداروں: دعوہ اکیڈمی، شریعہ اکیڈمی، اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ کے علاوہ بعض قومی جامعات کے شعبہ ہائے علوم اسلامیہ اور کچھ غیر حکومتی تنظیموں مثلاً انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز، ادارہ برائے امن وتعلیم اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بالمقابل اس سارے عرصے میں مختلف دینی اداروں کے نمائندہ مذہبی جرائد کی فائل اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو پوری دنیا میں اسلام کے خلاف ہونے والی ہر سازش اور مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم کا ذکر ملے گا، لیکن جو سوالات مذہبی قیادت سے کسی جواب یا کردار کا تقاضا کرتے ہیں، ان کا بھولے سے بھی کوئی ذکر نظر نہیں آئے گا۔ مذہبی قیادت کا ذہنی رویہ، یہ ہے کہ چند سال قبل جب انٹر نیشنل ریڈ کراس کمیٹی کے زیر اہتمام بین الاقوامی قانون انسانیت اور اسلامی قوانین کے موضوع پر ایک علمی مجلس میں، جس میں شرکاء کی غالب تعداد علماء اور اسلامی قانون کے اساتذہ کی تھی، راقم نے بعض روایتی فقہی تعبیرات پر کچھ سوالات غور وفکر کے لیے پیش کیے تو صدر مجلس جناب مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنے صدارتی کلمات میں اس پر باقاعدہ رد عمل ظاہر فرمایا اور کہا کہ اس طرح کے سوالات صرف اکابر علماء کی کسی محدود مجلس میں زیر غور لائے جا سکتے ہیں، اس طرح کھلی مجالس میں (یعنی دینی اداروں کی مستند چار دیواری سے باہر) ان پر گفتگو کرنا درست نہیں۔ اسی طرح چند ماہ قبل جب یہ اطلاع کسی ذریعے سے سوشل میڈیا پر پہنچ گئی کہ جامعہ دار العلوم کراچی کی تحریک پر یہ مسئلہ چند بڑے مراکز افتاء کے زیر غور ہے کہ کیا قربانی کے وجوب کے لیے فقہی نصاب کی تعیین میں چاندی کے بجائے سونے کو معیار قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں تو دار العلوم کے ذمہ داران نے اس پر ایک گونہ ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ اہل افتاء کے کسی نتیجے تک پہنچ جانے سے پہلے اس بحث کی اطلاع عوام تک کیوں پہنچائی گئی۔ گویا یہ ایک علمی وفقہی مسئلہ نہیں بلکہ کوئی پر از خطر سیاسی قضیہ تھا جسے بیک ڈور ڈپلومیسی کے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے پر جناب مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنے درس حدیث میں ایک سوال کے جواب میں ایسی بات ارشاد فرمائی جس سے سلمان تاثیر کے قتل کا ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے تو اس کی اطلاع سوشل میڈیا پر آ جانے پر بھی دار العلوم کے متعلقین نے خفگی کا اظہار کیا اور یہ کہا گیا کہ یہ بات میڈیا پر تشہیر کے لیے نہیں، صرف درس گاہ کے ماحول کو مد نظر رکھ کر کہی گئی تھی۔
دینی قیادت کا یہی ذہنی رویہ ہے جس کے زیر اثر وہ ماحول کے دباؤ کے تحت سیاسی ضرورتوں کی حد تک بالائی سطح پر تو بعض ایسے اقدامات کر لیتی ہیں جن سے مسلکی رواداری کا اظہار ہوتا ہو، لیکن اس چیز کو خود اپنی ترجیحات میں کوئی جگہ دینے یا اپنے داخلی ماحول میں ان موضوعات پر غور وفکر کو فروغ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ مثلاً مختلف مکاتب فکر سے وابستہ تعلیمی وفاقوں کی قیادت بالائی سطح پر تو اتحاد واشتراک اور مسلکی رواداری کا اظہار کرتی ہے اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے عنوان سے پانچوں وفاقوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم بھی قائم کیا گیا ہے، لیکن رواداری، باہمی میل ملاپ اور مکالمہ کا ماحول زیریں سطح پر پیدا کرنے میں دینی قائدین نے اب تک کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دینی قائدین خود تو ایک دوسرے کے ساتھ شخصی اور دوستانہ روابط بھی رکھیں اور تحفظ ودفاع کے مشترکہ مقصد کے لیے مل جل کر جدوجہد کرنے کا طریقہ بھی اختیار کریں، لیکن خود ان دینی اداروں کی چار دیواری کے اندر بین المسالک مکالمہ اور تبادلہ خیال کی گنجائش روا نہ رکھی جائے؟ اگر قائدین مل بیٹھ کر اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے تبادلہ خیال کر سکتے ہیں اور سوسائٹی کے سامنے مسلکی رواداری کا پیغام پیش کرنے کو درست سمجھتے ہیں تو نچلی سطح پر مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے اسی قسم کا ماحول شجر ممنوع کیوں ہے؟ 
ہمارے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دینی قیادت اپنے حلقوں کا ایک روادارانہ چہرہ معاشرے کے سامنے پیش کرنے کو محض ایک عملی مجبوری یا ضرورت سمجھتی ہے اور اس درجے میں ان کے Constituent حلقے بھی ان کے مل بیٹھنے اور دنیا کے سامنے ایک مثبت تصویر پیش کرنے کو گوارا کر لیتے ہیں، لیکن اپنی داخلی نفسیات کے لحاظ سے ان سب حلقوں میں مسلکی اور گروہی سوچ بے حد پختہ ہے اور دوسرے مسالک کے لوگوں کے ساتھ اختلاط یا کھلے ماحول میں گفتگو اور مکالمہ کو مسلکی پختگی کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ 
اسی ذہنی رویے کا اظہار ہم اس پہلو سے بھی دیکھتے ہیں کہ دینی قیادت مختلف سماجی موضوعات (مثلاً خواتین کے حقوق، اقلیتوں کو درپیش مسائل، مذہبی رواداری، مکالمہ بین المذاہب وغیرہ) پر دوسرے اداروں اور تنظیموں کی طرف سے منعقد کردہ پروگراموں میں تو شریک ہوتی ہے اور اپنے زاویہ نظر سے ان مسائل پر اسلامی نقطہ نظر بھی پیش کرتی ہے، تاہم ایسے موضوعات پر خود اپنے اداروں میں سوچ بچار کو فروغ دینے یا کسی مکالماتی مجلس کے انعقاد میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں کرتی، بلکہ یہ مسائل چونکہ عموماً معاشرے کے لبرل حلقوں کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں، اس لیے مدارس کے ماحول میں ان عنوانات پر زیادہ گفتگو کو بھی شک وشبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ مسائل واقعتا غور طلب ہیں اور ان میں کوئی کردار ادا کرنا دینی طبقے کی ذمہ داری بنتا ہے اور اس حوالے سے کسی دوسرے فورم کی طرف سے منعقدہ مجالس میں مختلف الخیال حضرات بلکہ دوسرے مذاہب کی نمائندگی کرنے والے قائدین کے ساتھ شرکت میں بھی کوئی مضائقہ نہیں تو ایسی کوئی مجلس کسی دینی مدرسے کے حدود میں کیوں منعقد نہیں ہو سکتی؟ 
مثلاً ناروے کی ایک تنظیم ورلڈ کونسل آف ریلیجنز کے اشتراک سے ۲۰۰۴ء میں اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ایک بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مذہبی رواداری کے اظہار کے لیے ہال میں آویزاں بینرز پر قرآن مجید کے ساتھ ساتھ بائبل کی آیات بھی درج تھیں اور جہاں تک یاد پڑتا ہے، نشست کے آغاز میں قرآن مجید کے علاوہ بائبل کی آیات کی بھی تلاوت کی گئی تھی۔ اس مجلس میں پورے ملک سے نہ صرف دینی مدارس کے علماء وطلبہ کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی، بلکہ مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا محمد تقی عثمانی سمیت اعلیٰ ترین دیوبندی قیادت نے بھی شرکت کی۔ (اس پر ایک مختصر تبصرہ برادرم میاں انعام الرحمن کے قلم سے الشریعہ کے اکتوبر ۲۰۰۴ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا)۔ سوال یہ ہے کہ اگر مذہبی رواداری کے اظہار کا یہ انداز درست اور وقت کی ضرورت ہے اور اس میں دینی قیادت کی شرکت ایک مثبت پیغام کا درجہ رکھتی ہے تو یہی نیک کام انھی التزامات کے ساتھ کسی دینی ادارے کی چار دیواری کے اندر کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ 
آپ تجزیہ کر لیجیے، فرق کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں نکلے گی کہ دینی قیادت اس طرح کے معاملات کو اپنی اصولی ذمہ داری یا سماجی ضرورت کے نقطہ نظر سے نہیں، بلکہ صرف سیاسی مصلحت کے نقطہ نظر سے دیکھتی ہے جس کا تقاضا دوسری جگہوں پر جا کر میٹھی میٹھی باتیں کر دینا تو بنتا ہے، لیکن اپنے گھر میں دوسروں کو بلا کر ان کی کڑوی کڑوی باتیں سننا اور اپنے اساتذہ وطلبہ کے ذہنوں میں سوالات کی پیدائش کا خطرہ مول لینا ہرگز نہیں بنتا، کیونکہ انھیں ارادتاً ایک محدود فکری ماحول میں قید رکھنا دینی قیادت کی بنیادی ترجیح ہے۔
مدارس اور این جی اوز کے باہمی روابط کا مختلف پہلوؤں سے ایک معروضی جائزہ لینا بہت اہم ہے اور اس ضمن میں غیر مستحسن فکری اثرات (اگر کوئی ہوں) کے علاوہ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ان روابط کے ساتھ وابستہ بعض مادی مفادات دینی طبقوں اور خاص طور پر ان کی نمائندہ قیادت پر کس طرح کے اثرات مرتب کر رہے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس کے داخلی ماحول میں معاشرے کے زندہ فکری وعملی مسائل پر غور وخوض اور دوسرے معاشرتی طبقات کے ساتھ مکالمہ اور تعامل کی فضا قائم کی جائے اور اس خلا کو پر کیا جائے جسے اس وقت دوسرے علمی وفکری ادارے یا بعض غیر حکومتی تنظیمیں پر کر رہی ہیں۔ جب تک دینی قیادت خود اس ضرورت کا ادراک اور اس کی تکمیل کا اہتمام نہیں کرتی، اس وقت تک ہمارے زاویہ نظر سے یہ ادارے اور تنظیمیں، طریق کار اور ترجیحات کے بہت سے پہلوؤں سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود، ایک اہم معاشرتی ضرورت کو پورا کر رہی ہیں اور ان کی سرگرمیوں کا تنقیدی واصلاحی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کے کام کے مفید اور مثبت پہلوؤں کا بھی پورا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ ان تنظیموں کی سرگرمیوں کے اگر کچھ مبینہ خطرات ومضرات ہیں تو اس پر ان کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے یہ ضروری ہے کہ دینی قیادت خود درپیش فکری سوالات پر مشاورت اور مکالمہ ومباحثہ کا اہتمام کرے۔ ظاہر ہے کہ جہاں خلا ہوگا، وہاں اس کو پر کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی طبقہ آگے بھی بڑھے گا۔ اگر دینی قیادت حقیقی مفہوم میں اور کھلے ذہن کے ساتھ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے آمادہ ہو جائے تو کسی اور سے شکایت کا موقع ہی پیدا نہیں ہوگا۔ 

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۵) من نفس واحدۃ کا ترجمہ

من نفس واحدۃ کی تعبیر قرآن مجید میں چارآیتوں میں آئی ہے،ان میں سے تین آیتوں میں منھا زوجھا کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ عربی تفاسیر میں خلقکم من نفس واحدۃ کا عام طور سے ایک ہی مفہوم ملتا ہے، یعنی ’’ایک جان سے پیدا کیا‘‘ اور خلق منھا زوجھا کے دو مفہوم ملتے ہیں ’’اس سے اس کے جوڑے کو بنایا‘‘ اور اس کی جنس سے اس کے جوڑے کو بنایا‘‘ اردو تراجم میں شاہ عبد القادر کے ترجمہ کو لوگوں نے عام طور سے اختیار کیا ہے جس میں ’’ایک جان سے پیدا کیا‘‘ اور ’’اس سے اس کے جوڑے کو بنایا‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔ البتہ دوسرے جملے کے ترجمہ میں بعض لوگوں نے دوسری رائے بھی اختیار کی ہے۔ ذیل میں درج ترجموں سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے: 

(۱) یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاءً ا۔ (النساء:۱)

’’اے لوگو ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے بنایا تم کو ایک جان سے اور اسی سے بنایا اس کا جوڑا اور بکھیرے ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں۔ (شاہ عبدالقادر)
اے لوگو اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلادیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مردوعورت دنیا میں پھیلادیئے‘‘۔ (سید مودودی)

(۲) ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ إِلَیْْہَا فَلَمَّا تَغَشَّاہَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفاً فَمَرَّتْ بِہِ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللّہَ رَبَّہُمَا لَءِنْ آتَیْْتَنَا صَالِحاً لَّنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ۔فَلَمَّا آتَاہُمَا صَالِحاً جَعَلاَ لَہُ شُرَکَاء فِیْمَا آتَاہُمَا فَتَعَالَی اللّہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ۔ (الاعراف: ۱۸۹۔۱۹۰)

’’وہی ہے جس نے تم کو بنایا ایک جان سے اور اسی سے بنایا اس کا جوڑا کہ اس پاس آرام پکڑے پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانکا حمل رہا ہلکا سا حمل پھر چلتی گئی اس کے ساتھ پھر جب بوجھل ہوئی دونوں نے پکارا اللہ اپنے رب کو اگر تو ہم کو بخشے چنگا بھلا تو ہم تیرا شکر کریں پھر جب دیا ان کو چنگا بھلا ٹھیرانے لگے اس کے شریک اس کی بخشی چیز میں‘‘۔ (شاہ عبد القادر)
’’وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ایک ہی جان سے اور اسی سے پیدا کیا اس کا جوڑا کہ وہ اس سے تسکین پائے۔ تو جب وہ اس کو چھالیتا ہے تو وہ اٹھالیتی ہے ایک ہلکا سا حمل، پھر وہ اس کو لیے (کچھ وقت گزارتی ہے) تو جب بوجھل ہوتی ہے دونوں اللہ، اپنے رب، سے دعا کرتے ہیں اگر تونے ہمیں تندرست اولاد بخشی، ہم تیرے شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔ تو جب اللہ ان کو تندرست اولاد دے دیتا ہے تو اس کی بخشی ہوئی چیز میں وہ اس کے لیے دوسرے شریک ٹھہراتے ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ پھر مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔ مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح وسالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی اس بخشش وعنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھیرانے لگے۔‘‘(سید مودودی، اس ترجمہ میں ’’دونوں نے مل کر‘‘ کے بجائے ’’دونوں نے‘‘ ہونا چاہئے۔ ’’مل کر‘‘ زائد ہے)

(۳) خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَأَنزَلَ لَکُم مِّنْ الْأَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَ أَزْوَاجٍ یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ خَلْقاً مِن بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ۔ (الزمر:۶)

’’بنایا تم کو ایک جی سے پھر بنایا اسی سے اس کا جوڑا اور اتارے تمہارے واسطے چوپاؤں سے آٹھ نرومادہ بناتا ہے تم کو ماں کے پیٹ میں طرح پر طرح بنانا تین اندھیروں کے بیچ‘‘۔(شاہ عبد القادر)
’’اسی نے پیدا کیا تم کو ایک ہی جان سے، پھر پیدا کیا اسی کی جنس سے اس کا جوڑا اور تمہارے لیے (نرومادہ) چوپایوں کی آٹھ قسمیں اتاریں۔ وہ تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے۔ ایک خلقت کے بعد دوسری خلقت میں، تین تاریکیوں کے اندر۔‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ میں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ آٹھ قسمیں ترجمہ کیا ہے، درست ترجمہ ہے: آٹھ جوڑیاں۔ یعنی چار قسموں کی آٹھ جوڑیاں، جس کی تفصیل سورہ أنعام میں ہے)
’’اسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نرومادہ پیدا کیے۔ وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ ‘‘(سید مودودی)

(۴) وَہُوَ الَّذِیَ أَنشَأَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ قَدْ فَصَّلْنَا الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَفْقَہُونَ۔ (الأنعام :۹۸) 

’’اور وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ایک ہی جان سے۔ پھر ہر (ایک کے لئے) ایک مستقر اور ایک مدفن ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
مستودع کا ترجمہ مدفن کیا ہے۔ مستقر کا مطلب عارضی قیام گاہ اور مستودع کا مطلب آخری قیام گاہ ہے، اس لئے مدفن ترجمہ کرنا مناسب نہیں ہے۔
مذکورہ بالا ترجموں میں ہم دیکھتے ہیں کہ صاحب تدبر نے پہلے اور تیسرے مقام پر منھا کا ترجمہ ’’اس کی جنس سے‘‘ کیا، جبکہ دوسرے مقام پر ’’اسی سے‘‘ کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صاحب تفہیم نے اس کے برعکس پہلے اور تیسرے مقام پر ’’اس جان سے‘‘ اور دوسرے مقام پر ’’اسی کی جنس سے‘‘ ترجمہ کیا۔ غرض یہ کہ جنس والا ترجمہ دونوں کے پیش نظر رہا لیکن دونوں متعلقہ تینوں مقامات پر اس کا یکساں التزام نہیں کرسکے۔
ان آیتوں میں جب ہم خلقکم من نفس واحدۃ کا ترجمہ کرتے ہیں ’’اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا‘‘ تو بہت سارے اشکالات پیدا ہوتے ہیں، خواہ منھا زوجھا کا ترجمہ دونوں میں سے کوئی بھی کیا جائے۔ ان اشکالات کو تفسیروں میں تفصیل سے ذکر بھی کیا گیا ہے، اور ان کا جواب دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ تفسیر المنار میں اس مشہور مفہوم پر وارد ہونے والے اشکالات کو تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد ایک دوسرے مفہوم تک پہونچنے کی کوشش ملتی ہے جو اشکالات سے خالی ہو۔
ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے زوج بنایا یا پہلے ذریت پیدا کی؟ کیونکہ آیتوں کے مذکورہ مفہوم کے لحاظ سے تو یہ نکل رہا ہے کہ پہلے ذریت بنائی پھر زوج بنایا۔
ایک دوسرا اشکال یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم کا ذکر متعدد مقامات پر کیا ہے لیکن کہیں یہ نہیں ذکر کیا کہ تم سب کی تخلیق آدم اور حوا سے ہوتی ہے۔ آدم اور حوا کی ذریت ہونا ایک بات ہے اور آدم اور حوا سے انسانوں کی تخلیق کرنا ایک دوسری بات ہے، اور اس دوسری بات کے لیے ہمیں کوئی دلیل نہیں ملتی ہے۔ صراحت صرف اس کی ملتی ہے کہ انسان کو مٹی ’’طین‘‘ سے پیدا کیا گیا یا اس کی تخلیق پانی ’’ماء‘‘ سے کی گئی۔ لیکن کوئی اپنے ماں باپ سے تخلیق کیا گیا ہو ، یہ بات کہیں نہیں ملتی ہے۔ قرآن مجید میں نہ آدم وحوا کی تخلیق کے سیاق میں یہ کہا گیا کہ انسانوں کی تخلیق آدم وحوا یا ذکر اور انثی سے ہوئی ہے، اور نہ ہی انسانوں کی تخلیق کے سیاق میں یہ بات کہی گئی۔
خاص طور سے سورہ اعراف والی متعلقہ آیتوں میں عام مفہوم لینے سے ان آیتوں کی تفسیر بے حد مشکل ہوجاتی ہے، یا تو تفسیر تکلف سے دوچار ہوتی ہے، یا یہ ماننا پڑتا ہے کہ آدم وحوا شرک کے مرتکب ہوگئے تھے۔ ضعیف تفسیری روایتوں سے اس دوسرے مفہوم کی تائید بھی مل جاتی ہے، حالانکہ سیاق کلام کی رو سے وہ مفہوم ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے۔اس آیت میں مشہور مفہوم لینے کی صورت میں کتنی دشواریاں پیش آتی ہیں اس کا اندازہ تفسیر رازی کا متعلقہ مقام پڑھ کر ہوسکتا ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی ان چاروں مقامات پر ایک مختلف ترجمہ تجویز کرتے ہیں جس سے وہ سارے اشکالات بھی دور ہوجاتے ہیں جن کا ذکر تفاسیر میں ملتا ہے اور وہ اشکالات بھی جو ان آیتوں پر تدبر کرنے والے کے ذہن میں آتے ہیں۔ ان کی رائے کے مطابق خلقکم من نفس واحدۃ میں ’’من‘‘ تجرید کا ہے، یعنی خلقکم فی صورۃ نفس واحدۃ یا خلقکم نفسا واحدۃ اور اس کا ترجمہ ہوگا ’’اس نے تم کو ایک جان کی صورت میں (یعنی تن تنہا) پیدا کیا‘‘ اور خلق منھا کا زوجھا کا ترجمہ ہوگا ’’اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا‘‘ گویا ہر انسان تنہا پیدا کیا گیا، اور ہر انسان کا جوڑا اسی کی جنس سے بنایا گیا۔ ہر انسان تن تنہا پیدا کیا گیا، اس مفہوم کی تائید قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے بھی ہوتی ہے، جیسے: 

وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَی کَمَا خَلَقْنَاکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ۔ (الانعام:۹۴) 

ترجمہ: ’’اور بالآخر تم آئے ہمارے پاس اکیلے اکیلے جیسا کہ ہم نے تم کو اول بار پیدا کیا‘‘ اور: 

ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْداً۔ (المدثر:۱۱) 

ترجمہ: ’’چھوڑ مجھ کو اور اس کو جس کو میں نے پیدا کیا اکیلا‘‘۔
اسی طرح خلق منھا زوجھا کا ترجمہ ان کے نزدیک اس طرح ہے: ’’اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا‘‘ یعنی ہر انسان کو تنہا پیدا کیا ، اور اس کا جوڑا اسی کی جنس سے بنایا۔ اسی مفہوم کی تائید قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں یہ کہیں نہیں ہے، کہ نسل انسانی کی خاتون اول کو مرد اول سے تخلیق کیا گیا ہے۔ لیکن ایسی آیتیں موجود ہیں جو صراحت کے ساتھ یہ بتاتی ہیں کہ ہر انسان کے جوڑے کو اس کی جنس سے بنایا، انسان سے مراد صرف مرد نہیں بلکہ مرد بھی ہے اور عورت بھی ہے، یعنی دونوں ایک ہی جنس سے بنائے گئے۔ ذیل کی دو آیتیں ملاحظہ ہوں:

(۱) وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً۔ (الروم ۲۱)

’’ واز نشانہائے خدا آن است کیا بیا فرید برائے شما از جنس شما زنان را ‘‘(شاہ ولی اللہ، اس ترجمہ میں أزواج کا ترجمہ زنان محل نظر ہے، کیونکہ مردوں کے أزواج عورتیں ہیں اور عورتوں کے أزواج مرد ہیں)
’’اور اس کی نشاینوں سے یہ کہ بنادئے تم کو تمہاری قسم سے جوڑے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۲) فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً۔ (الشوری ۱۱)

’’آفرینندہ آسمانہا وزمین است پیدا کرد برائے شما از جنس شما زنان را ‘‘(شاہ ولی اللہ)
’’وہ آسمان وزمین کا پیدا کرنے والا ہے، اس نے تمہارے لئے تمہارے جنس کے جوڑے بنائے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
ان دونوں آیتوں کا اسلوب وہی ہے جو خلق منھا زوجھا کا ہے۔ لیکن ان دونوں آیتوں کا ترجمہ عام طور سے یہی کیا جاتا ہے کہ تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے بنائے، چونکہ یہاں جمع کا صیغہ ہے، اور عام انسانوں سے خطاب ہے، اس لئے یہ مفہوم نہیں لیا جاسکتا کہ حوا کو آدم سے تخلیق کیا گیا، اور یہ مفہوم تو کوئی نہیں لے گا کہ ہر عورت کو اس کے شوہر کے جسم سے تخلیق کیا گیا، لہذا یہ مفہوم لینا ضروری ہوگا کہ انسانوں کے جوڑے انسانوں کی جنس سے بنائے گئے۔ دراصل یہی مفہوم مذکورہ بالا ان تمام آیتوں کا بھی ہے جہاں نفس اور زوج جمع کے بجائے واحد آئے ہیں، فرق بس یہ ہے کہ یہاں انسانوں کی پوری جماعت سے ایک ساتھ خطاب ہے، اور وہاں انسانوں کی جماعت کے ہر فرد سے فردا فرداخطاب ہے۔
اس تفصیل کی روشنی میں اس مبحث کی ابتدا میں مذکور چاروں آیتوں کا ترجمہ بالترتیب اس طرح ہوگا:
(۱) ’’اے لوگو اپنے اس رب کی نافرمانی سے بچو جس نے تم کو تن تنہا پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کی جوڑی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلادیں۔‘‘
(۲) ’’وہی ہے جس نے تم کو تن تنہا پیدا کیا اور اسی جنس سے اس کی جوڑی بنائی کہ وہ اس سے تسکین پائے۔ تو جب وہ اس پر چھاگیا تو اس نے اٹھالیا ایک ہلکا سا حمل، پھر وہ اس کو لیے پھری جب بوجھل ہوگئی دونوں نے اللہ، اپنے رب، سے دعا کی اگر تونے ہمیں تندرست اولاد بخشی، ہم تیرے شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔ تو جب اللہ نے ان کو تندرست اولاد دے دی تو اس کی بخشی ہوئی چیز میں وہ اس کے لیے دوسرے شریک ٹھہرانے لگے۔ اللہ برتر ہے ان کے شرک سے جو یہ مانتے ہیں‘‘۔
(۳) ’’اس نے پیدا کیا تم کو تن تنہا، پھر پیدا کیا اسی کی جنس سے اس کی جوڑی اور تمہارے لیے (نرومادہ) چوپایوں کی آٹھ جوڑیاں اتاریں۔ وہ تمھیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کرتا ہے، تین تاریکیوں کے اندر۔‘‘
(۴) ’’اور وہی ہے جس نے تم کو تن تنہا پیدا کیا ۔ پھر ہر ( ایک کے لئے ) ایک عارضی قیام گاہ اورآخری قیام گاہ ہے‘‘
ا س مفہوم کو اختیار کرنے کے بعد پھر یہ بات بے وزن ہوجاتی ہے، کہ عورت کی تخلیق مرد سے کی گئی، اور تخلیق کے پہلو سے عورت مرد کا ضمیمہ ہے۔بلکہ درست بات یہ ہے کہ جس طرح مرد مستقل طور پر ایک نفس واحدۃ کے طور پر تخلیق کیا گیا ہے اسی طرح عورت بھی مستقل طور ایک نفس واحدۃ کے طورپر تخلیق کی گئی، اور جس طرح مرد عورت کا زوج ہے، اسی طرح عورت مرد کا زوج ہے، دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں، اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

(۱۰۶) من ذکر وأنثی کا ترجمہ

من نفس واحدۃ کے ترجمہ سے متعلق ایک اور بحث یہ ہے کہ ذیل کی آیت میں إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی کا ترجمہ کیا ہوگا؟:

یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا۔ (الحجرات: ۱۳)

عام طور سے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ہم نے تم کو ایک ہی نر اور ناری سے پیدا کیا، جیسا کہ ذیل کے ترجموں میں ہے:
’’اے آدمیو ہم نے بنایا تم کو ایک نر اور ایک مادہ سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اور گوتیں تا آپس کی پہچان ہو‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’تحقیق ہم نے پیدا کیا تم کو ایک مرد سے اور عورت سے اور کیا ہے ہم نے تم کو کنبے اور قبیلے تو کہ ایک دوسرے کو پہچانو‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’اے لوگو ہم نے تم کو ایک ہی نر اور ناری سے پیدا کیا ہے اور تم کو کنبوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے کہ تم باہم دگر تعارف حاصل کرو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘۔ (سید مودودی، اس میں ’’پھر‘‘ زائد ہے)
تاہم مولانا امانت اللہ اصلاحی کو اس ترجمہ سے اتفاق نہیں ہے، ان کے مطابق قرآن مجید میں یہ بات تو ایک سے زائد مقامات پر کہی گئی ہے کہ نطفہ سے نر اور مادہ کی تخلیق کی گئی، لیکن یہ صراحت کہیں نہیں ملتی ہے کہ نر اور مادہ سے انسان کی تخلیق کی گئی۔ وجہ یہی ہے کہ انسان نر اور ناری کے توسط سے توتخلیق پاتا ہے، لیکن اس کی تخلیق نر اور ناری سے نہیں ہوتی ہے۔ ہر انسان ایک منفرد تخلیق ہے، وہ کسی دوسرے انسان یا دو انسانوں سے تخلیق نہیں کیا گیا ہے۔ ان کی رائے ہے کہ من ذکر وأنثی میں ’’من‘‘ بیانیہ ہے، مفہوم یہ ہوگا کہ مرد وعورت سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ان کے نزدیک اس آیت میں من ذکر وأنثی کا وہی ترجمہ کیا جائے گا جو ذیل کی آیت میں من ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی کا ہے:

فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّیْ لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنکُم مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی۔ (آل عمران ۱۹۵)

ترجمہ:’’ تو اُن کے رب نے اُن کو دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو، مرد ہو یا عورت، ضائع نہیں کرتا‘‘ 
یوں زیر نظر آیت کا ترجمہ ہوگا:’’اے لوگو ہم نے تم کو پیدا کیا وہ نر ہو یا ناری، اور تم کو قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے کہ تم باہم دگر تعارف حاصل کرو۔‘‘
اس مفہوم کی تائید درج ذیل آیات سے بھی ہوتی ہے، 

وَأَنَّہُ خَلَقَ الزَّوْجَیْْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی۔ (النجم:۴۵) 

ترجمہ:’’اور یہ کہ وہ ہے جس نے جوڑے کے دونوں فرد ، نر اور ناری، پیدا کئے‘‘ 

فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی۔ (القیامۃ: ۳۹) 

ترجمہ:’’پھر بنایا اس سے جوڑا، نر اور مادہ‘‘ 

وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی۔ (اللیل: ۳) 

ترجمہ:’’اور شاہد ہے نر ومادہ کی آفرینش‘‘۔
مذکورہ بالا ترجموں میں ایک بات اور توجہ طلب ہے کہ بعض لوگوں نے شعوبا کا ترجمہ ’’کنبے‘‘ کیا ہے، یہ درست نہیں ہے۔ شعوبا کا ترجمہ ’’قومیں‘‘ ہوگا، شعب قبیلے سے بڑا ہوتا ہے جبکہ کنبہ جب قبیلہ کے ساتھ بولا جاتا ہے تو کنبہ قبیلہ سے چھوٹا ہوتا ہے۔
(جاری)

حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کی وفات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ گزشتہ ماہ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق تونسہ شریف کے قریب لتڑی جنوبی سے تھا لیکن ان کی زندگی کا بیشتر حصہ گوجرانوالہ میں گزرا۔ وہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ابتدائی فضلاء میں سے تھے جب نصرۃ العلوم کے شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ تھے۔ بخاری شریف انہوں نے حضرت قاضی صاحبؒ سے پڑھی جبکہ دورۂ حدیث کے دیگر اسباق حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ ، اور حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ سے پڑھے۔ حضرات شیخینؒ اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے تھے اور ایک عرصہ تک نصرۃ العلوم کے دارالافتاء کے سربراہ رہے۔ ان کا شمار ملک کے معروف مفتیان کرام میں ہوتا تھا اور حضرت مولانا عبد الواحدؒ کی وفات کے بعد گوجرانوالہ کے علماء کرام اور اہل دین کا فتویٰ کے بارے میں عام طور پر رجوع انہی کی طرف رہتا تھا۔ 1975ء میں جب جمعیۃ علمائے اسلام کے تحت لوگوں کے تنازعات شریعت کے مطابق نمٹانے کے لیے پرائیویٹ سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا گیا تو وہ ضلع گوجرانوالہ کے نائب قاضی مقرر کیے گئے جبکہ ضلعی قاضی مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ تھے۔ کتاب اور تحقیق سے گہرا تعلق تھا، وہ میرے دورۂ حدیث سے فارغ ہو جانے کے بعد مدرسہ نصرۃ العلوم میں استاذ اور مفتی کے طور پر تشریف لائے جبکہ ہمارے دور میں استاذ محترم حضرت مولانا مفتی جمال احمد بنویؒ یہ ذمہ داری سر انجام دیتے تھے۔ 
مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ کے ساتھ زندگی بھر میرا ربط و تعلق رہا۔ ہمارے درمیان عام طور پر مختلف دینی مسائل کی تحقیق اور نادر کتابوں کے حوالہ سے گفتگو چلتی رہتی تھی۔ نوشہرہ سانسی کی مسجد توحیدی میں امامت و خطابت کے ساتھ ان کی رہائش تھی اور اسی علاقہ میں جامعہ فتاح العلوم کے نام سے ایک درسگاہ بھی انہوں نے قائم کر رکھی تھی جس میں اپنی صحت کے زمانہ میں افتاء کا کورس کراتے تھے۔ بہت سے فاضل علماء کرام نے ان سے استفادہ کیا اور فقہ و افتاء کی تربیت حاصل کی۔ جب بھی ملاقات ہوتی کسی نایاب کتاب یا کسی مسئلہ پر نئی تحقیق پر بات چیت ہوتی، کوئی نئی کتاب ان کے علم میں آتی یا مجھے معلوم ہوتی تو باہمی معلومات کا تبادلہ ہو جاتا اور مسائل پر گفتگو ہوتی۔ ملاقات میں زیادہ دیر ہو جاتی تو پیغام بھیجتے تھے کہ کسی روز آکر مل جاؤ، میں جاتا اور ان کی مسجد میں کسی نماز کے بعد درس دیتا، پھر کچھ دیر نشست رہتی، وہ مجھے کوئی کتاب ہدیہ کے طور پر مرحمت فرما دیتے۔ الشریعہ اکادمی میں بہت دفعہ تشریف لائے اور دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھتے۔ 
جمعہ سے قبل گیارہ بجے جامعہ فتاح العلوم کے قریب کھلے میدان میں ان کی نمازہ جنازہ برادر عزیز مولانا عبد القدوس قارن حفظہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں ادا کی گئی جس میں حضرت مولانا فضل الرحمن درخواستی، حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ، اور حضرت مولانا محب النبی بھی شریک تھے جبکہ شہر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بڑی تعداد نے جنازہ میں شرکت کی اور اس کے بعد ان کی میت تونسہ شریف روانہ کر دی گئی۔ 
حضرت مفتی صاحب مرحوم کے اساتذہ میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ بھی شامل تھے جن کا ذکر وہ اکثر کیا کرتے تھے جبکہ مولانا فضل الرحمانؒ مولانا مفتی محمد عیسیٰ خانؒ کے شاگرد ہیں اور انہوں نے صرف و نحو کی ابتدئی تعلیم ان سے حاصل کی ہے۔ مولانا مفتی عیسیٰ خانؒ مسائل کی تحقیق و تجزیہ کا ذوق رکھتے تھے اور مسئلہ کی تمام جزئیات تک رسائی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ وسیع المطالعہ بزرگ تھے، نادر کتابوں اور نئی نئی تحقیقات کے حوالہ سے ان کے ساتھ میری اکثر گفتگو رہتی تھی۔ کوئی نئی تحقیق سامنے آتی تو مجھے ضرور آگاہ کرتے اور رائے بھی طلب کرتے تھے۔ حضرت مولانا عبد العزیز پرھارویؒ کی کچھ تصانیف میں نے طالب علمی کے دور میں دیکھ رکھی تھیں لیکن ان کے علوم و معارف اور فیوض و کمالات سے زیادہ تر واقفیت حضرت مفتی صاحبؒ کے ذریعہ ہوئی جو حضرت مرحوم کی تحقیقات اور نادر رسائل کی جستجو میں رہتے تھے اور مجھ سمیت بہت سے دوستوں کو اس سے باخبر رکھتے تھے۔ 
بعض فقہی مسائل میں وہ اپنی مستقل رائے رکھتے تھے اور اس کا بلاجھجھک اظہار بھی کرتے تھے لیکن دوسروں کی رائے کا احترام ان کے ہاں پوری طرح پایا جاتا تھا۔ وہ سنجیدہ اہل علم کی طرح اختلاف کرتے تھے مگر مخالفت کے ماحول سے گریز کرتے تھے۔ اپنے اساتذہ میں مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا اکثر ذکر کرتے تھے اور ان کے علمی نکات بیان کیا کرتے تھے۔ افتاء و تدریس کی عمومی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دورۂ تفسیر قرآن بھی ان کا خاص ذوق تھا۔ دارالعلوم مدنیہ رسول پارک لاہور میں حضرت مولانا محب النبی کے مدرسہ میں انہوں نے کئی سال تک مسلسل دورۂ تفسیر پڑھایا۔ قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کا یہ ذوق انہوں نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ سے پایا تھا اور اپنے ان تین اساتذہ کے علمی نکات سے اپنے طلبہ کو بڑے ذوق کے ساتھ آگاہ کرتے تھے۔ 
مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ کے حوالہ سے میں ایک ذاتی واقعہ بھی ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ ۱۹۹۰ء کے دوران میں نے اپنے معاشی حالات و مشکلات سے تنگ آکر ترک وطن کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لندن میں میرا آنا جانا تو رہتا ہی تھا، میں نے اس دوران لندن جا کر وہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا اور ساؤتھال کی ابوبکر مسجد کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ گوجرانوالہ کے بہت سے دوستوں سے میں نے کہہ دیا کہ اب میں یہاں شاید واپس نہ آسکوں گا۔ حضرت والد محترم قدس اللہ سرہ العزیز سے بھی اجازت لے لی تھی، وہ میرے حالات اور مجبوریوں سے آگاہ تھے، اس لیے انہوں نے خاموش سی اجازت دے دی تھی۔ میں لندن گیا تو کم و بیش چھ ماہ تک وہاں قیام کیا، جبکہ مستقل قیام کی تیاریاں کر رہا تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ کا ایک درد بھرا خط موصول ہوا جس کا لہجہ یہ تھا کہ اتنا بڑا مرکز (مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ) کس کے حوالے کر کے چلے گئے ہو؟ اس مرکز کی رونقوں اور آبادی کو اب کون بحال کرے گا؟ اس لہجے میں کم و بیش دو صفحے کے تفصیلی خط نے مجھے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور کر دیا اور چند روز کے تردد کے بعد بالآخر میں واپس آگیا۔ اس کے بعد کم و بیش بیس سال تک مسلسل لندن جاتا رہا ہوں، مگر وہاں مستقل رہنے کا خیال پھر کبھی نہیں آیا جس کے پیچھے مفتی صاحب مرحوم کے اس خلوص اور سوز کا یقیناًبڑا حصہ ہے۔ 
مفتی صاحب مرحوم کی وفات سے چند روز قبل ان کے فرزند مولانا حافظ احمد اللہ گورمانی نے فون پر کہا کہ اباجی یاد کر رہے ہیں، میں نے ڈائری دیکھ کر چند روز کے بعد حاضری کا وعدہ کر لیا کہ مغرب آپ کے پاس پڑھوں گا، درس بھی دوں گا اور حضرت مفتی صاحب کی زیارت بھی کروں گا۔ مگر اس سے کچھ دن قبل ہی حضرت مفتی صاحبؒ ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مفتی صاحب مرحوم کے فرزندان گرامی مولانا حافظ امداد اللہ (فاضل نصرۃ العلوم)، مولانا پروفیسر حافظ عنایت اللہ، مولانا حافظ احمد اللہ اور دیگر اہل خاندان نے مدرسہ کے اہتمام کے لیے مفتی صاحب کے بڑے فرزند مولانا حافظ امداد اللہ پر اتفاق کر لیا ہے جو ایک اچھا فیصلہ ہے اور شہر کے سرکردہ علماء کرام نے اس کی تائید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحبؒ کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور ان کے بیٹوں، اہل خاندان، اور تلامذہ و رفقاء کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ 

جنید جمشیدؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جنید جمشیدؒ اپنے دوستوں اور ماحول سے رخصت ہو کر اللہ رب العزت کے حضور پیش ہو چکے ہیں مگر ان کی یاد اور تذکرہ کسی نہ کسی حوالہ سے مسلسل چل رہا ہے۔ طیارہ کے حادثہ میں جاں بحق ہونے والے شہداء کا غم قومی سطح پر منایا گیا ہے، وہ سب ہمارا قیمتی سرمایہ تھے اور ان سب کے لیے پوری قوم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاگو ہے کہ اللہ رب العزت ان کے ساتھ کرم کا معاملہ فرمائیں اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ 
جنید جمشید مرحوم کی جدائی کا غم جس طرح ہر طبقہ اور ہر سطح پر محسوس کیا گیا ہے اس کا رنگ ہی جدا ہے۔ دراصل یہ جنید جمشید نامی ایک شخص کو خراج عقیدت نہیں ہے بلکہ اس کردار اور طرز عمل کی پذیرائی ہے جس کے باعث جنید جمشید نے لاکھوں مداحوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔ اس کردار اور طرز عمل کو مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ عیش و عشرت ترک کر کے اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع، اس رجوع کے لیے خود آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی دعوت دینے اور مخلوقِ خدا کو خدا کے دروازے پر واپس لانے کا عمل ہے۔ انسان کی فطرتِ سلیمہ یہ ہے کہ وہ دنیا کی عیش و عشرت میں جس قدر بھی آگے بڑھ جائے اس کے دل کے اندر کہیں نہ کہیں وہ تار موجود ہوتا ہے جسے اگر بروقت اور سلیقے سے چھیڑ دیا جائے تو انسان کا ضمیر بیدار ہوتا ہے اور اسے اپنے خالق و مالک کی طرف واپس لوٹنے کے لیے آمادہ کر لیتا ہے۔ 
جنید جمشیدؒ نے ایک مقبول گلوکار سے دین کے ایک فکرمند داعی کے مقام کی طرف جو سفر کیا اسے دیکھ کر امت کے عظیم علمی و روحانی بزرگ حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو اتباع تابعین کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ حضرت امام بخاریؒ کے استاذ گرامی اور حضرت امام ابوحنیفہؒ کے مایۂ ناز شاگرد تھے اور علمی دنیا میں انہیں ’’امیر المومنین فی الحدیث‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں تاریخ کے صفحات یہ بتاتے ہیں کہ نوجوانی کے دور میں وہ موسیقی اور ناچ گانے کی محفلوں کے دلدادہ تھے، ان کے شب و روز اپنے جیسے دوستوں کے ہمراہ اسی قسم کی سرگرمیوں میں گزرتے تھے، اور بے تکلف دوستوں کا یہ طائفہ اکثر اوقات ناچ گانے کے ماحول میں مگن رہتا تھا۔ عبد اللہ بن مبارکؒ بتاتے ہیں کہ ایک روز کسی باغ میں اسی طرح کی محفل بپا تھی اور وہ دوستوں کے ساتھ خاصی دیر تک ان مشاغل میں مگن رہنے کے بعد سو گئے۔ خواب میں انہوں نے دیکھا کہ باغ کے ایک درخت پر خوبصورت سی چڑیا بیٹھی ہے اور مترنم آواز میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ رہی ہے: الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ کہ کیا ابھی ایمان والوں پر وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے نازل کردہ احکام کی طرف جھک جائیں؟ جب ان کی آنکھ کھلی تو ان کی زبان پر اس جملہ کا تکرار تھا کہ وہ وقت آگیا ہے، وہ وقت آگیا ہے۔ 
اس پر حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دین اور علم دین کی طرف آگئے۔ اور پھر انہوں نے علم، روحانیت اور جہاد کے محاذوں پر وہ خدمات سرانجام دیں کہ انہیں اتباع تابعین کے پورے طبقے کا امام کہا جاتا ہے اور ’’امیر المومنین فی الحدیث‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ اور امام سفیان ثوریؒ کی مجلس اختیار کی اور علم حدیث کے بڑے ائمہ میں شما رہونے لگے۔ رقص و سرود کی محفلوں کا رسیا شخص علم حدیث کے ماحول میں ایسا گم ہوا کہ ایک دن کسی دوست نے پوچھ لیا کہ آپ اس تنہائی سے بور نہیں ہوتے؟ جواب دیا کہ میں تنہا کب ہوتا ہوں، میں تو ہر وقت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے ماحول میں ہوتا ہوں اور میری گفتگو حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت انس بن مالکؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ جیسے بزرگوں سے ہر وقت ہوتی رہتی ہے۔ 
حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ کا دور تو بہت پرانا ہے ہم نے حال ہی میں حق کی طرف رجوع کرنے والی ایک اور شخصیت کو دیکھا ہے جسے دنیا ’’یوسف اسلام‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ وہ پاپ سنگر تھے اور موسیقی کی دنیا میں بڑا نام رکھتے تھے مگر جونہی اسلام قبول کیا ذہن و قلب کا رخ دین کی خدمت اور دعوت کے میدان کی طرف پھر گیا۔ میری ان سے پہلی ملاقات ڈیوزبری برطانیہ کے تبلیغی مرکز میں ایک بڑے تبلیغی اجتماع کے دوران ہوئی تھی۔ جبکہ بعد میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا مفتی محمد عیسیٰ منصوری کے ہمراہ میں نے لندن میں یوسف کے اسلامک سکول کا وزٹ بھی کیا ۔ وہ دین کی دعوت اور تعلیم دونوں میدانوں میں مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں اور برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی نئی نسل کو دین اور دینی اقدار کے ساتھ وابستہ رکھنا ان کا سب سے بڑا مشن بن گیا ہے۔ 
جنید جمشید اسی صف کے لوگوں میں سے تھے، جب زندگی کا رخ بدلا تو حمد و نعت کے ساتھ ساتھ دعوتِ دین کی محنت ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی، حتی کہ اپنے آخری سفر میں چترال کے تبلیغی مرکز میں اسی خدمت کو سرانجام دینے کے بعد وہ اس طیارے پر سوار ہوگئے جو ان کے لیے اپنے رب کی بارگاہ میں حضوری کا پروانہ ثابت ہوا۔ جنید جمشید کی جدائی پر وسیع پیمانے پر محسوس کیا جانے والا یہ غم دراصل ہمارے اس قومی اور معاشرتی جذبہ و احساس کا عکاس ہے کہ اپنے اللہ کی طرف رجوع، عیش و عشرت کے ماحول سے واپسی، اور آخرت کی تیاری کے لیے ہر مسلمان کے دل میں تڑپ کسی نہ کسی درجہ میں ضرور موجود ہے جسے بے ثبات دنیا کی رنگا رنگ آسائشوں نے گھیر رکھا ہے۔ اسے صرف صحیح راہنمائی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، یہ کام اگر سلیقے سے کیا جا سکے تو جنید جمشید کا غم محسوس کرنے والے لاکھوں افراد خود بھی جنید جمشید بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ طیارے کے حادثہ کے تمام شہداء کو جنید جمشید شہید سمیت جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور ان کے پسماندگان کو صبر و حوصلہ کے ساتھ اس صدمہ سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

اسلام کا دستوری قانون اور سیاسی نظام ۔ برعظیم پاکستان و ہند کے فتاویٰ کا تجزیاتی مطالعہ (۲)

ڈاکٹر محمد ارشد

(۶) عورت کی سربراہی

وہ واحد دستوری مسئلہ جس کی بابت اہل سنت کے تینوں مکاتبِ فکر (دیوبندی، اہلحدیث اور بریلوی) کے مفتیان کرام کے فتاویٰ کثرت سے دستیاب ہیں وہ مسئلہ عورت کی حکمرانی کا ہے۔ اس امر پر تینوں مکاتب فکر کے ہاں ایک طرح کا اجماع پایا جاتا ہے کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں اور اسلامی مملکت ؍حکومت کے سربراہ کا مرد از روئے شریعت مسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہور یا ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔ اسلامی مملکت میں سربراہی کے منصب کی ذمہ داریاں کسی خاتوں کو سونپی نہیں جا سکتیں۔ لہٰذا کسی اسلامی حکومت میں عورت کو سربراہ بنانا ہرگز جائز نہیں اور اگر کہیں ایسا ہو جائے تو مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جلد از جلد سربراہی کی تبدیلی کے لیے ممکنہ کوششوں کو بروئے کار لائیں(۲۶)۔ 
عورت کی حکمرانی کے عدم جواز میں مفتی محمد اشرف القادری نے بھی تفصیلی دلائل بیان کیے ہیں۔ ان کی رائے میں اسلام میں عورت سربراہ مملکت بوجوہ ذیل نہیں ہو سکتی:
۱: اسلام میں سربراہ مملکت کے تقرر سے دو باتیں مقصود ہوتی ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ اسلام میں سربراہ مملکت کی دو اہم ترین ذمہ داریاں ہوتی ہیں: اول اعلائے دین و تنفیذ و اشاعت شریعت؛ دوم سیاست مدن یعنی انتظام و دفاع مملکت و فلاح و نجاح رعیت۔اور ظاہر ہے کہ یہ کٹھن ذمہ داریاں ، اعلیٰ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں مثلا جسمانی قوت و علمی وسعت، کمالِ عقل و بصیرت، حسنِ تدبیر و جودتِ عزم و حزم، معاملہ فہمی و اصابتِ رائے جذبات پر قابو اور خود اعتمادی، مصائب میں صبر و استقامت، شدائد میں جوانمردی و ثابت قدمی وا ستقلال اور کمال شجاعت کے بغیر قطعاً پوری نہیں کی جا سکتیں۔اور یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان خداداد خوبیوں اور خلقی و قدرتی صلاحیتوں میں بلا شبہ مرد فطری طور پر عورت سے بڑھ کر اور اس کے مقابلے میں عورت ان صفات سے کمتر موصوف ہے۔ لہٰذا حکومت و سربراہی مملکت کا بار گراں عورت کے کمزور کاندھوں پہ ڈال دینا خلاف فطرت و ناانصافی ہے۔ ہاں اسلام کی نگاہ میں ان عظیم اور کٹھن ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہوناصرف اور صرف مرد ہی کا منصب ہے اور یہی فطرت و انصاف کا تقاضاہے(۲۷)۔ 
اہل حدیث عالم مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف کی رائے میں: ’’عورت امامت کی اہل ہے (عورتوں کی جماعت کے لیے) مگر حکمرانی ناجائز ہے‘‘ (۲۸)۔ 
ان فتاویٰ میں قطعی اور واضح طور پر اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ عورت امامت کبریٰ یعنی امارت عامہ کی اہل نہیں۔البتہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ منصب قضا پر بھی فائزہ ہو سکتی ہے کہ نہیں؟ اس سلسلے میں مفتی محمود (۱۹۱۹۔۱۹۸۰ء) کی رائے یہ ہے کہ ’’ ضروری طور پر بعض مسائل میں حدود و قصاص کے علاوہ اگر اس کو حکم (ثالث) بنایا جائے تو گنجائش ہے، اور اس میں بھی کامیابی مشکل ہے، لیکن کسی ملک کی تمام ذمہ داریوں کو اس کے حوالے کر دینا خلافِ عقل و نقل ہے‘‘۔ (۲۹)

(۷) طریق انتخابِ امیر/ سربراہ مملکت و حکومت

جیسا کہ سطورِ بالا میں مغربی جمہوریت اور اسلام کے سیاسی نظام کے مابین جوہری فرق کے بیان میں مفتی رشید احمد کی رائے نقل کی جا چکی ہے کہ اسلام کے نظام سیاست میں سربراہ مملکت ؍حکومت کے انتخاب و تقرر کے ضمن میں مملکت کے تمام شہریوں کو حق رائے دہی حاصل نہیں ہے بلکہ یہ حق صرف اور صرف اہل حل و عقد کو حاصل ہے۔ مفتی رشید احمد کی اس رائے کی تائید حافظ عبداللہ روپڑی کے فتویٰ سے بھی ہوتی ہے۔ حافظ عبداللہ روپڑی کی رائے میں بھی رائے عامہ کو اسلام کے سیاسی نظام میں کوئی اہمیت حاصل نہیں، بلکہ اصل اہمیت اہل حل و عقد کی رائے کو ہے۔ چنانچہ اسلامی مملکت ؍ حکومت کے سربراہ کا انتخاب و تقرر رائے عامہ سے نہیں بلکہ اہل حل وعقد کی رائے کے ذریعے ہو گا : 
’’انتخاب مجلس شوریٰ کے ارکان حل و عقد کرتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت علی کو جب باغیوں نے امیر بنانا چاہا تو فرمایا یہ تمہارا کام نہیں بلکہ مہاجرین وانصار کا کام ہے، جس کو وہ امیر بنائیں گئے وہ امیر ہو گا۔ مجموعی ووٹنگ اور رائے عامہ کوئی چیز نہیں۔ موقعہ محل کے لحاظ سے جس طرح انتخاب ہو جائے کر لینا چاہیے۔ جیسے ابو بکر صدیق کا انتخاب ہوا‘‘ (۳۰)۔ 
مفتی رشید احمد کی رائے میں’’ عوام پر یہ فرض ہے کہ انتخاب امیر کا مسئلہ خود طے کرنے کی بجائے ایسے اہل حل و عقد کے سپرد کریں جن میں انتخاب کی اہلیت ہو۔نصوص شرعیہ کے علاوہ عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ انتخاب امیر ہر کس و ناکس کا کام نہیں بلکہ اس کے لیے عقل کی ضرورت ہے اور علم دین و تقویٰ کے بغیر عقل کامل نہیں ہو سکتی‘‘ (۳۱)۔ 
سربراہ مملکت ؍ حکومت کے انتخاب کے طریق کے بارے میں مفتیان کرام نے بالعموم قرونِ وسطیٰ کے سیاسی مفکرین کی آراء کو من و عن قبول کر لیا ہے۔ اور اس کا مطلق خیال نہیں رکھا کہ دور جدید کے ایک غیر قبائلی معاشرے میں جدید ریاستی نظاموں کے تجربات سے اخذو استفادہ کرتے ہوئے انتخاب سربراہِ مملکت کے کون کون سے جائز طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ مفتی رشید احمد کی رائے میں اسلام میں انتخاب امیر کے تین طریقے ہیں:
۱ : بیعت اہل و عقد ، کما وقع لسیدنا ابی بکر ۔
۲ : استخلاف، خلیفۂ وقت چند اہل حل و عقد سے مشورہ کر کے کسی کے بارے میں وصیت کر دے کہ میرے بعد یہ خلیفہ ہوگا، جیساکہ حضرت ابو بکر نے حضرت عثمان، عبدالرحمن بن عوف،سعید بن زید، اسید بن حضیر اور مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کو منتخب فرمایا (۳۲) ۔
استخلاف ابو بکر کی تفصیل مذکور سے ثابت ہوا کہ بذریعۂ استخلاف انعقاد خلافت کے لیے تین شرائط ہیں:
(ا) خلیفۂ اول میں خلافت کی سب شرائط موجود ہوں؛ (ب) خلیفہ ثانی بھی سب شروط خلافت کا مستجمع ہو؛ (ج)خلیفہ اول نے خلیفہ ثانی کے انتخاب میں اہل حل و عقد سے مشورہ کیا ہو۔
۳: شوریٰ، خلیفۂ وقت چند اہل حل و عقد کی شوریٰ متعین کر کے یہ وصیت کر دے کہ میرے بعد یہ لوگ اتفاق رائے سے اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کریں، جیسا کہ حضرت عمر نے چھ رکنی مجلس متعین فرمائی، اس کے ذریعے حضرت عثمان کا انتخاب عمل میں آیا (۳۳)۔ 
مفتی رشید احمد کی رائے میں اگرچہ خلافت راشدہ کے سیاسی نظائر سے انتخاب امیر کے یہی تین طریقے ثابت ہیں، البتہ انعقادِ خلافت کا ایک جوتھا طریقہ استیلاء و تغلب کا بھی ہے، یعنی خلیفہ وقت کی موت کے بعد کوئی شخص جبراً و قہراً مسلط ہو جائے۔ مفتی رشید احمد کے نزدیک ایسے شخص کی خلافت منعقد ہو جائے گی، اس لیے اس کی اطاعت واجب ہے۔ مفتی رشید کے نزدیک استیلاء و تغلب کے ذریعے انعقادِ خلافت کی بھی دو قسمیں ہیں:
۱) یہ شخص شروط خلافت کا مستجمع ہو اور لوگوں کو صلح و حسن تد بیر سے مائل کرے، کوئی ناجائز اقدام نہ کرے۔ یہ قسم جائز ہے، حضرت معاویہ کی خلافت اسی طرح منعقد ہو ئی تھی۔
۲) اس شخص میں شروط خلافت نہ ہوں، اور اپنے مخالفین کو قتال اور دوسرے ناجائز حربوں سے تابع کر لے، یہ جائز نہیں، ایسا شخص فاسق اور سخت گنہگار ہے، مگر اس کے باوجود اس کے تسلط کے بعد اس کی اطاعت واجب ہے، بشرطیکہ اس کا حکم خلافِ شرع نہ ہو، اس کی مخالفت اور اسے معزول کرنے کی کوشش جائز نہیں(۳۴)۔ 
مفتی رشید احمد کے اس فتوے کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے انعقادِ خلافت (خلیفہ کے انتخاب و تقرر) میں متقدمین مسلم سیاسی مفکرین میں سے الماوردی اور متاخرین میں سے شاہ ولی اللہ دہلوی کے نقطۂ نظر کو پورے طور سے اختیار کر لیا ہے (۳۵)۔ 
اہلحدیث علماء نے بالعموم انتخاب امیر مملکت کے طریق سے متعلق اس نقطۂ نظر سے اختلاف کیا ہے۔ مولانا محمد اسماعیل سلفی کی رائے میں’’ قرون خیر میں انتخابات کی مختلف صورتیں سامنے آئی ہیں لیکن آئینی طور پر انتخاب کو نہ ان چار صورتوں میں حصر کیا گیا ہے اور نہ کسی ایک ہی کو پسند کیا گیا ہے بلکہ کوشش کی گئی ہے کہ کوئی ایسا آدمی اس بوجھ کو اٹھائے جومساکین کو اونچا کر سکے اور خود مساکین کی سی زندگی بسر کرے‘‘(۳۶) ۔ایک دوسرے اہل حدیث عالم ابومحمد حافظ عبدالستار الحمادکی رائے میں بھی سربراہ مملکت کے انتخاب کے لیے اسلام نے کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کیا ہے۔ جدید مغربی دنیا میں انتخابات کے جو طریقے رائج ہیں اسلام کے سیاسی نظام میں اس کی گنجائش موجود ہے ۔چنانچہ وہ سربراہ مملکت کے منصب کے لیے اہل فرد کے انتخاب و تقرر کے لیے جدید طریق انتخابات (الیکشن) کو جائز قرار دیتے ہیں۔ان کی رائے میں ’’ واضح رہے کہ موجودہ الیکشن جمہوریت کی پیداوار ہیں، اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہے کیوں کہ اس میں سربراہ مملکت کے انتخاب کے لیے کوئی لگا بندہ قاعدہ مقرر نہیں ہے بلکہ حالات وظروف کے پیش نظر اسلام میں اس کی گنجائش ہو سکتی ہے‘‘ (۳۷)۔ تاہم ایک تیسرے سلفی عالم حافظ عبدالمنان نور پوری موجودہ جمہوریت وطریق انتخابات کو بدعت تصور کرتے ہیں کیونکہ ان کی رائے میں یہ سب قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔ ان کی رائے میں ’’رائج جمہوریت و الیکشن کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ ۔ ۔ مروجہ الیکشن کتاب و سنت سے ثابت نہیں‘‘ (۳۸)۔ 

(۸) سربراہِ مملکت / حکومت کی مدت انتخاب

زیرِ بحث مجموعہ ہائے فتاویٰ کے مطالعہ سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مفتیان کرام سربراہِ مملکت ؍حکومت کے انتخاب و تقرر کے لیے کسی معینہ مدت کو غیر ضروری تصور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مدت انتخاب سے زیادہ اہمیت اس منصب کے لیے منتخب ہونے والے فر د میں پائے جانے والے اوصاف کو حاصل ہے۔ اگر منصب سربراہی پر فائز ہونے والا شخص مطلوبہ شرائط پر کماحقہ پورا اترتا ہو تو اس کے عہدے کی میعاد مقرر کرنا نا مناسب ہو گا۔ چنانچہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی رائے میں: 
’’انتخاب ہر پانچ سال بعد کرانا کوئی شرعی فرض نہیں، لیکن حکمران میں کوئی بھی ایسی خرابی نہ پائی جائے جو اس کی معزولی کا تقاضا کرتی ہو تو اس کو بدلنا بھی جائز نہیں۔ دراصل اسلام کا نظریہ اس بارے میں یہ ہے کہ وہ حکومت تبدیل کرنے کے مسئلہ کو اہمیت دینے کے بجائے منتخب ہونے والے حکمران کی صفاتِ اہلیت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اسلامی ذوق سے قریب تر بات یہ ہے کہ قوم کے اہل رائے حضرات صدر یا امیر کاچناؤ کریں اور پھر وہ اہل الرائے کے مشورے سے اپنے معاونین و رفقاء کو خود منتخب کرے‘‘ ۔ (۳۹)

(۹) مجلس شوریٰ /مجلس اہل حل و عقد کی تشکیل

مجلس شوریٰ ؍مجلس اہل حل و عقد نیز اس کے ارکان کی اہلیت کے شرائط و اوصاف نیز مجلس شوریٰ ؍مجلس اہل حل و عقد کی تشکیل و تقرر کے بارے میں فتاویٰ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتیان کرام ارکان شوریٰ(اہل حل و عقد) کے لیے چند معینہ شرائط و اوصاف کو تو ناگزیر خیال کرتے ہیں البتہ شوریٰ کو ایک ادارے کی شکل میں منظم کرنے نیز ارکان شوریٰ کے انتخاب کے لیے کسی نوع کے استصواب رائے کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ ارکان شوریٰ کے انتخاب کو رئیسِ مملکت ؍حکومت کا صوابدیدی اختیار تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ مجلس شوریٰ کے ارکان کی تعداد کی تعیین کو بھی غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ان کی رائے میں ارکان شوریٰ کی اہلیت کے شرائط و اوصاف کو انتہائی اہمیت حاصل ہے، البتہ بقیہ امور چنداں اہمیت نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں مفتی رشید احمد اور مفتی محمد شفیع کے فتاویٰ کو بطورمثال پیش کیا جا سکتا ہے (۴۰)۔ مفتی محمد شفیع ارکانِ شوریٰ کے انتخاب کو امیر مملکت کی ذاتی رائے پر منحصر خیال کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں’’ ارکان مجلس شوریٰ کا انتخاب بھی اسلامی سیاست میں اس طوفان بے تمیزی کے ساتھ نہیں ہوتا جو موجودہ جمہوریت کا طغرائے امتیاز ہے اور جس کی بدولت تمام ملک جنگ و جدل بغض و عناد کی آماجگاہ بنا ہوا ہے بلکہ یہ انتخاب عموماً امیر خود اپنی رائے سے کرتا ہے‘‘ (۴۱)۔ 

(۱۰)  اصول مشورہ ۔ مشورہ کا فیصلہ کثرت رائے پر ہے یا امیر مجلس کی رائے پر

امور مملکت و حکومت کے باب میں مجلس شوریٰ ؍ مجلس اہل حل و عقد کے مشورہ کے ردو قبول میں سربراہ مملکت؍حکومت کے اختیارات کیا ہیں اور ان اختیارات کے استعمال کی حدود کیا ہیں؟ جدید مغربی نظام سیاست میں امور مملکت میں فیصلہ سازی کا معاملہ ہو یا مہمات امور میں قانون سازی کا عمل ہو ، ان سب امور میں مقننہ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ ان اداروں میں بحث مباحثہ کے بعد اصول اکثریت (اکثریت کی رائے) کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ جبکہ مذکورہ مجموعہ ہائے فتاویٰ کے مؤلفین کی آرا سے یہ آشکارا ہوتا ہے کہ ’’ مشورہ میں اگر اختلاف رائے پیش آئے تو فیصلہ کثرت رائے کے سپرد نہیں، بلکہ امیر کی رائے پر ہے اور اس کو اختیار ہے کہ اقلیت کو اکثریت پر ترجیح دے دے‘‘ (۴۲)۔ گویا سربراہ مملکت ؍حکومت ہر معاملے میں مجلس شوریٰ کے ارکان کی اکثریت کی رائے کو ویٹو کر کے تنہا اپنی رائے کے موافق فیصلہ کرسکتاہے۔ اس ضمن میں مفتی محمد شفیع قرآن حکیم کی آیت: وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ سے استدلال کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں قرآن عزیز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کا حکم فرمانے کے بعد: فاذا عزمت فتوکل علی اللہ (پھر جب آپ عزم کریں تو اللہ تعالیٰ پر توکل کریں)، بصیغہ واحد حاضر فرما کر اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مشورہ کے بعد کسی جانب کو ترجیح دے کر اس کا عزم کرنا فقط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے پر ہوگا۔ خود آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے بہت سے معاملات اس کے شاہد ہیں‘‘ (۴۳)۔ اس مسئلے میں مفتی محمد شفیع کی تفصیلی رائے ملاحظہ ہو:
’’ اصولی طور پر اس بحث میں بھی ہمیں سب سے پہلے قرآن عزیز کو حکم بنانا چاہیے اور اسی کے فیصلہ کو محکم اور مختتم فیصلہ سمجھنا چاہیے۔ مشورہ کے متعلق قرآن عزیز کی سب سے زیادہ مشہور آیت یہ ہے: وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ( آپ (معاملات میں ) صحابہ اور مسلمانوں سے مشورہ لیجیے اور جب پختہ ارادہ کریں تو اللہ تعالیٰ پر توکل کیجیے)۔ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا یا ہے کہ اہم معاملات میں (جن میں صریح وحی نہ آئی ہو) صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا کریں لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ مشورہ کے بعد جب آپ کسی ایک جانب کا عزم فرمائیں تو اس میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد کریں، اپنی رائے یا مشورہ پر بھروسہ نہ کریں۔ جس سے صاف معلوم ہوا کہ مشورہ کے بعد کسی ایک جانب کو ترجیح دینا اور اس کا عزم کرنا یہ فقط امیر مجلس کی رائے پر موقوف ہے۔ اور اگر مشورہ کا فیصلہ کثرت رائے کے سپرد ہوتا تو مناسب تھا کہ عزم کے لیے بھی جمع کا صیغہ استعمال کر کے یوں فرمایا جاتا: ’’فاذا عزموا‘‘ (یعنی جب صحابہ کسی کام کا عزم کریں)‘‘ (۴۴)۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی کا موقف بھی اسی رائے کے مماثل ہے۔ ان کی رائے میں بھی ’’حکومت کا سربراہ اہل مشورہ سے مشورہ لینے کا پابند ہے مگر کثرت رائے پر عمل کرنے کا پابند نہیں، بلکہ قوتِ دلیل پر عمل کرنے کا پابند ہے‘‘ (۴۵)۔ حافظ عبداللہ روپڑی بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں بھی مجلس شوریٰ کی حیثیت صرف یہی ہے کہ مشورہ طلب امور میں رائے پیش کردے اور بس۔ اس کی رائے حاکمہ(سربراہ مملکت؍حکومت )کے لیے واجب التعمیل ہر گز نہیں۔ حافظ عبداللہ روپڑی کی رائے ملاحظہ ہو:
’’ مجلس شوریٰ کی حیثیت صرف مشورہ کی ہوتی ہے مختلف آرائیں ہو جائیں تو فیصلہ امیر کرتا ہے خواہ قلت کی طرف کرے یا کثرت کی طرف اور مجلس شوریٰ کے ممبر اہلِ حل و عقد ہوتے ہیں جس معاملہ میں مشورہ کرنا ہو اس معاملہ میں جو مہارت رکھتے ہوں ان سے امیر مشورہ لے تعداد کوئی مقرر نہیں ۔ چنانچہ حضرت عمر نے ملک شام کو جانے کے موقع پر پہلے مہاجرین سے مشورہ لیا پھر انصار سے مشورہ کیا پھر پرانے مہاجرین سے مشورہ لیا۔ معاملہ یہ تھا کہ راستے میں خبر پہنچی کہ شام میں طاعون ہے اس حالت میں جانا چاہیے یا واپس ہو جانا چاہیے۔ حضرت عمر نے اس پر فیصلہ دے دیا‘‘۔ (۴۶)
اسلامی مملکت میں مجلس شوریٰ کے کردار اور اس کے اختیارات سے متعلق اس معروف نقطۂ نظر کے بر خلاف مولانا محمد اسماعیل سلفی کے نزدیک مشورہ کے ردو قبول میں امیرِ مملکت کا اختیار کوئی امر منصوص ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک ایسا دستوری مسئلہ ہے جسے ہر دور میں ارباب فکر کی صواب دید کے مطابق طے ہونا چاہیے ۔۔ مولانا محمداسماعیل سلفی کی رائے میں:
’’مشورہ کے ردو قبول میں امام کے اختیارات کیا ہیں اور ان اختیارات کے استعمال کی حدود کیا ہیں یہ ایک دستوری مسئلہ ہے جسے ہر دور میں ارباب فکر کی صوابدید کے مطابق طے ہونا چاہیے۔ نصوص میں نہ اس کی تصریح ہے اور نہ ہی ایسی چیزیں نصوص میں آنا ضروری ہیں۔ البتہ ایسے واقعات ضرور ملتے ہیں جہاں امیر نے شورٰی کو مسترد کر دیا۔ یہ دستوری مسائل ہر دور اور ہر ملک کے دانش مندوں کی رائے سے طے ہونے چاہئیں‘‘۔ (۴۷)

(۱۱) امیر کا مجلس شوریٰ کے سامنے جواب دہ ہونا 

مجلس شوریٰ کے کردار اور اختیارات کے سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کا امیر مجلس شوریٰ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے یا نہیں؟ علمائے برصغیر میں سے صرف حافظ عبداللہ روپڑی نے اس مسئلہ سے تعرض کیا ہے اور وہ بھی انتہائی اختصار کے ساتھ۔ ان کے رائے میں امیر مملکت’’ اگر بے انصافی کرے تو جواب دہ ہوتا ہے‘‘ (۴۸)۔ 

(۱۲) ووٹ اور ووٹر (حق رائے دہی اور رائے دہندگان)

امیر مملکت ؍سربراہِ حکومت کے انتخاب کے علاوہ دیگر انتخابی عہدوں(مجالس قانون ساز، کونسل وغیرہ) کے لیے ووٹ کے صحیح استعمال کو علماء و مفتیان کرام نے بڑی اہمیت دی ہے۔ علماء نے ووٹ کو ایک امانت قرار دیا ہے اور اسے صر ف اور صرف دیانت و امانت، عدل و قسط اور تقویٰ جیسی صفات سے متصف اور اچھے سیرت و کردار کے حامل امیدواروں کے حق میں استعمال کرنے نیز اس سلسلہ میں کسی بھی ترغیب و ترہیب ، لالچ، طمع اور رشوت سے اجتناب کو شرعی فریضہ قرار دیا ہے۔ ووٹ کی شرعی حیثیت کے بارے میں مفتی کفایت اللہ دہلوی(۴۹) ، مفتی محمد شفیع اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے تفصیل سے اظہار رائے کیا ہے۔ مفتی محمد شفیع کی رائے میں کسی امیدوارِ ممبری کو ووٹ دینے کی از روئے قرآن و حدیث چند حیثیتیں ہیں۔ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت و امانت بھی۔ اور اگر واقع میں ا س شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں، اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے ، جو سخت کبیرہ گناہ اور وبال دنیا و آخرت ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کا ذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر بلکہ اکبر کبائرمیں شمار فرمایا ہے ۔ جس حلقہ میں چند امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں فلاں آدمی قابلِ ترجیح ہے، تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اس اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے، محض رسمی مروت یا کسی طمع و خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے ۔ ووٹ کی ایک شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے۔ لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی ، اوراس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا، مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لئے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔ اگر امید وار بے دین و نااہل اور ظالم ہے تو اس کو ووٹ دینا سخت گناہ ہے، کیونکہ ووٹ دینا ایک امانت ہے، امانت کو جو اس کا اہل ہو اس کے حوالے کیا جائے (۵۰)۔
ان فتاویٰ میں امیدواروں کی طرف سے ووٹوں کے حصول کے لیے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے، ووٹروں کو دنیوی لالچ دینے، اسی طرح کسی امیدوار کا رقم لے کر دوسرے امیدوار کے حق میں دست بردار ہونے کو صریحاً ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے۔ووٹروں کا ووٹ کے معاوضہ میں اپنی ذات کے لیے روپیہ لینا رشوت اور ناجائز بتایا گیا ہے (۵۱)۔ دیوبند مکتب فکر کے مفتیان کرام امیدواروں کے مسلک و عقیدہ کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک ’’شیعہ کو ووٹ دینا سخت گناہ ہے۔ جس شخص کے مرزائی ہونے کے شواہد موجود ہوں، اس کو ووٹ دینا قطعاً جائز نہیں۔ ووٹروں پر لازم ہے کہ مرزائی کے بجائے کسی مسلمان کو منتخب کیا جائے‘‘ (۵۲)۔ 
اس موضوع پر فتاویٰ کا خلاصہ یہ کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام ، اس پر کو ئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس کو محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔ ووٹر جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعاً وہ اس کے بارے میں اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم اور عمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے، جس کام اور منصب کے لیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں (۵۳)۔ 

(۱۳) عورت کا حق ووٹ (حق رائے دہی)

پاکستان و ہند کے مجموعہ ہائے فتاویٰ میں اس موضوع پر بہت ہی کم فتاویٰ ملتے ہیں۔ البتہ مفتی محمو د نے ، جو پاکستان کی انتخابی سیاست میں طویل عرصے تک سرگرم عمل رہے، اپنے ایک فتویٰ میں اس پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی رائے میں دینی و ملی مصالح کا اگر تقاضا ہو تو عورت کو حق رائے دہی تفویض کیا جا سکتا اور وہ اپنے اس حق کو استعمال کر سکتی ہے۔ ’’عورتوں کا ووٹ بنانا جائز ہے، ضروری نہیں۔ اور اگر دینی مفاد کے پیشِ نظر ہو تو وہ اپنا ووٹ بے پردگی سے بچتے ہوئے استعمال کر سکتی ہے۔ اور اگر کوئی اہم دینی مصلحت پیش نظر نہ ہو تو عورتوں کے لیے ووٹ کا استعمال کرنا قباحت سے خالی نہیں‘‘۔ (۵۴)

(۱۴) ووٹر کی اہلیت کے شرائط

ووٹ کی اہمیت کے پیش نظر علماء نے ووٹرکی اہلیت کے شرائط بھی مقرر کیے ہیں۔ ان کی رائے میں ووٹر کیے لیے ضروری ہے کہ وہ کھوٹے اور کھرے، نیک اور بد میں تمیز کا شعور رکھتا ہو تاکہ نیک اور صالح نیز اہل اور فرض شناس افراد قیادت کے منصب کے لیے منتخب ہوں۔ اہل حدیث عالم مفتی عبدالستار الحماد کی رائے میں جس طرح ’’ سربراہ مملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کبائر سے گریزاں اور اس کا ماضی داغ دار نہ ہو، اسی طرح ووٹر کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ صاحب شعور اور کھرے کھوٹے کی تمیز کر سکتا ہو۔ کسی کو نمائندہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے متعلق اس قدر لیاقت ، معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو نمٹانے کی صلاحیت رکھنے کی گواہی دینا ہے۔ اس لیے گواہی دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے برے کے درمیان تمیز کر سکتا ہو اور امیدوار کے کردار کو اچھی طرح جانتا ہو اگر ان باتوں کا خیال نہ رکھا گیا تو فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جب معاملات کی بھاگ ڈور نالائقوں کے سپرد کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا‘‘۔ (۵۵)

(۱۵) اسلامی مملکت میں شہریوں کے حقوق

ا) مسلم شہریوں کے حقوق : برعظیم پاکستان و ہند کے مجموعہ ہائے فتاویٰ میں شہریوں کے حقوق کے متعلق فتاویٰ کالمعدوم ہیں۔ صرف مفتی محمد شفیع نے اپنے کتا بچہ دستور قرآنی میں، جو اب ان کے مجموعہ فتاویٰ جواھر الفقہ میں شامل ہے، شہریوں کے حق آزادی و حریت پر بھی مختصرا کلام کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی ۱۹۵۱ء میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے نفاذ اورحکومت کی طرف سے قومی سلامتی کے نام پر شہریوں کی پکڑ دھکڑ اور قید و بند کی سزاؤں کو غیر شرعی قرار دیا۔ مفتی محمد شفیع نے اپنے ایک فتوے میں حکومت کی طرف سے شہریوں کی آزادی سلب کرنے کے بارے میں برملا طور پر کہا: 
’’حکومت کا فرض ہے کہ کسی باشندۂ ملک کی جائز آزادی کو سلب نہ کرے جب تک اس پر کوئی جرم ثابت نہ ہو اور اس کو صفائی کا موقع نہ دیا جائے، اس لیے مروجہ سیفٹی ایکٹ اصول اسلام کیخلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ بلا اثبات جرم کسی شخص کو سزا دینا یا قید کرنا عدل و انصاف کے خلاف ہے اور قرآن مجید کی بیشمار آیات عدل و انصاف کی تاکید کے لیے نازل ہوئی ہیں ۔۔۔ محض پولیس کی رپورٹ پر کسی کو قید نہیں کیا جا سکتا جب تک اس پر باقاعدہ عدالت میں ثقہ اور قابل اعتماد شہادتوں سے جرم ثابت نہ کر دیا جائے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ ملزم کو حراست میں نہ لیا جائے اور اس کو بھاگ جانے کا موقع دیا جائے بلکہ حاصل یہ ہے کہ حراست میں لینے کے بعد اس کے جرم کی تحقیقات کر کے کسی باقاعدہ عدالت کے سامنے اس کا جرم ثابت کرنے سے پہلے اس کو کسی معینہ مدت کے لیے قید نہیں کیا جا سکتا، تا تحقیقات حراست میں رکھنا اس کے منافی نہیں‘‘۔ (۵۶)
ب) غیر مسلموں کے حقوق : زیر بحث فتاویٰ کے مطالعہ سے یہ امر بھی بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ علماء نے بلحاظ شہریتی حیثیت اور حقوق کے ا سلامی مملکت کے مسلم اور غیر مسلم شہریوں میں فرق و امتیاز قائم رکھا ہے۔ ان فتاویٰ کی رو سے بہت سے معاملات میں غیر مسلموں کا درجہ مسلمان شہریوں کے مقابلے میں کم تر ہوگا ، ان کو حکومت کی کلیدی اسامیوں پر تعینات نہیں کیا جائے گا، قضا اور افتاء کا کام ان کے سپرد نہیں کیا جائے گا (۵۷)۔ 
مفتیانِ کرام کی رائے میں اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو ان کی جان ، مال اورآبرو کے تحفظ و سلامتی کا ویسا ہی حق حاصل ہوگا جیسا کہ مملکت کے مسلم شہریوں کو حاصل ہے۔ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ غیر مسلم باشندگان ملک کی جان، مال، آبرو کی اسی طرح حفاظت کریں جس طرح مسلمان کی کی جاتی ہے(۵۸)۔ البتہ سیاسی اور مذہبی معاملات میں غیر مسلم شہریوں کو کھلے مقامات پر تبلیغی اجتماعات منعقد کرنے اور کفر و شرک کی تبلیغ کی اجازت حاصل نہ ہوگی۔ اسی طرح مملکت کے غیر مسلم شہریوں کو نہ صرف یہ کہ نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرنے کی اجازت نہ ہوگی ۔ وہ پرانی عبادت گاہیں کی مرمت تو کرسکتے ہیں البتہ قدیم عمارت پر اضافہ نہیں کر سکتے۔ اس باب میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے یہ رائے ظاہر کی ہے:
’’دارالاسلام میں غیر مسلموں کو تبلیغی اجتماع کی اجازت نہیں: دارالاسلام میں غیر مسلمین اپنے گھروں یا عبادت گاہوں میں مذہبی تبلیغ کر سکتے ہیں، کھلے مقامات پر انہیں تبلیغی اجتماع کی اجازت نہیں دی جا سکتی، حتیٰ کہ وہ اپنی مذہبی کتاب بھی بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتے ۔۔۔ غیر مسلمین کو دارالاسلام میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں، پرانی عبادت گاہیں باقی رکھ سکتے ہیں، ان کی مرمت بھی کر سکتے ہیں، مگر قدیم عمارت پر اضافہ نہیں کر سکتے، اسی طرح ان کا کوئی شہر فتح ہونے کے وقت اس میں اگر کوئی عبادت گاہ ویران تھی تو اسے از سرِ نو آباد کرنے کی اجازت نہیں۔‘‘ (۵۹)
مولانا ظفر احمد عثمانی کی اس رائے کو مکمل طور سے مفتی رشید احمد نے احسن الفتاویٰ میں اختیار کیا ہے۔ (۶۰) اہل حدیث مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف کی رائے میں بھی اسلامی مملکت کی ’’ذمی رعایا (ہندو، عیسائی اور قادیانی)نیا عبادت خانہ تعمیر نہیں کر سکتی‘‘ (۶۱)۔ 

اختتامیہ

اسلام کے دستوری قانون اور سیاسی نظام سے متعلق برعظیم پاکستان و ہند کے علماء کے مذکورہ فتاویٰ کے جائزہ سے یہ امر الم نشرح ہو جاتا ہے کہ ان( علماء و مفتیان کرام ) کا سیاسی تفکر عمیق طور سے مسلم کلاسیکی قانونی و سیاسی فکر میں رچا بسا ہوا ہے۔ دستوری و سیاسی مسائل خصوصاًخلیفہ؍ امیر؍رئیس مملکت کی اہلیت کے شرائط، اس کے انتخاب و تقرر کے طریق کار، مجلس شوریٰ کی تشکیل ، اور اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی حیثیت اور حقوق وغیرہ امور میں گزشتہ صدیوں میں علماء و فقہا نے جو آراء پیش کی تھیں، ان فتاویٰ میں ان آراء کو کامل طور سے اختیار کر لیا گیا ہے (۶۲)۔ بالفاظ دیگر ان فتاویٰ میں تقلیدی رجحان کامل طور سے کار فرما ہے ، اجتہاد ی آرا سے گریز کیا گیا ہے۔ فن مملکت داری (statecraft) میں معاصر اقوام کے تجربات و اختراعات کے بارے میں یہ فتاویٰ بالعموم خاموش ہیں۔ ان فتاویٰ میں اسلامی دستور اور سیاسی نظام کے بعض اہم مسائل کے بارے میں بیان کی گئی آراپاکستان میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے داعی و علمبرداروں (خصوصاً سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی اور علامہ محمد اسد، جنہوں نے اسلامی دستور اور سیاسی نظام کے خدوخال کی تنقیح کا قابل ذکر کام انجام دیا) کے آرا سے بھی مختلف نظر آتی ہیں (۶۳)۔ علمائے اہل سنت کے مجموعہ ہائے فتاویٰ کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امیر مملکت کے انتخاب و تقرر کے معاملہ میں جمہور مسلمانوں کی رائے کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ وہ امور مملکت بالخصوص سربراہ مملکت و حکومت اور مجلس شوریٰ کے ارکان کے انتخاب میں جمہور مسلمین کی رضا مندی اور رائے کے حصول کا کوئی قابل عمل میکینزم تجویز ہی نہیں کرتے۔
علماء حکومت کے مروجہ نظاموں میں سے صدارتی طرزِ حکومت کو اسلام کے مزاج اور اصول سے قریب تر گردانتے ہیں،کیونکہ ان کی نظر میں حکم و فیصلہ کی ذمہ داری خلیفہ ؍ امیر مملکت پر ڈالی گئی ہے جو صرف صدارتی طرزِ حکومت ہی میں ممکن ہو سکتی ہے، جب کہ پارلیمانی طرز حکومت میں امیر مملکت پر ایسی کوئی ذمہ دار ی عائد نہیں ہوتی۔ مزید براں وہ شوریٰ کو ایک غیر متعین ادارہ سمجھتے ہیں، وہ مجلس شوریٰ کے مدت انتخاب (tenure) کے بارے میں با لکل خاموش ہیں۔
ان فتاویٰ میں سربراہ مملکت و حکومت کے لیے مجلس شوریٰ کے ارکان کے انتخا ب و تقرر نیز فیصلہ سازی کے عمل میں شوریٰ کی اکثریتی رائے کے ردو قبول میں ویٹو کا اختیارتسلیم کیا گیا ہے۔ یہ فتاویٰ رئیس مملکت کو مطلق العنان اختیارات سونپ دیتے ہیں۔دستوری و سیاسی مسائل پر ان فتاویٰ میں اسلامی مملکت کے مسلم اور غیر مسلم شہریوں کی حیثیت اور ان کے حقوق میں واضح فرق و امتیاز قائم کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان فتاویٰ کی رو سے اسلامی ریاست میں غیر مسلم قومیں جزیہ ادا کریں گی اور مذہبی حقوق نیز سیاسی و انتظامی معاملات میں ان کا درجہ مسلمان شہریوں سے کم تر ہوگا (۶۴)۔ ان فتاویٰ کے جائزہ سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ علماء جدید دور کی اسلامی مملکت کے دستور اور اس کے اداروں کی تشکیل و تنظیم (Statecraft) کے باب میں معاصر نظاموں کے تجربات سے اخذو استفادے سے بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

حوالہ جات و حواشی

۲۶) دیکھیے: مولانا مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود (لاہور: جمعےۃ پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء)، جلد ۱۱، ص۳۷۴۔۳۷۵؛ مفتی محمد رفیع عثمانی و مولانا سلیم اللہ، ’’عورت کی حکمرانی :اکابر علماء کا فیصلہ‘‘، مشمولہ مفتی رشید احمد، احسن الفتاویٰ، جلد ۶، ص ۱۸۲۔ اس مفصل فتویٰ کے متن کے لیے دیکھیے: احسن الفتاویٰ، جلد۶، ص ۱۴۹۔۱۸۲؛ ’’عورت کی ولایت بالاجماع جائز نہیں‘‘، احسن الفتاویٰ، جلد ۶، ص ۱۸۳۔۱۹۲۔
۲۷) مفتی محمد اشرف القادری، امارۃ المرأۃ : عورت کی حکمرانی کے مسئلہ پر محققانہ شرعی فتویٰ (نیک آباد، گجرات: اہلسنت اکیڈمی ، جون۱۹۸۸ء)، ص ۳۔۵۔ عورت کی حکمرانی کے بارے میں جدید الخیال اہل قلم کے نقطۂ نظر کے بارے میں ملاحظہ ہو: مشیر الحق، ’’عورت کی حکمرانی: ایک اسلامی نقطۂ نظر‘‘، صحیفہ (لاہور)، شمارہ اپریل، جون ۱۹۸۹ء، ص ۱۔۱۲ ۔
۲۸) مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف، فتاویٰٰ محمدیہ: منہج سلف صالحین کے مطابق (مرتبہ: ابوالحسن مبشر احمد ربانی) (لاہور: مکتبۂ قدوسیہ، ۲۰۱۰ء)، ص ۴۱۴۔۴۱۷۔مزید دیکھیے: حافظ صلاح الدین یوسف، عورت کی سربراہی کا مسئلہ اور شبہات ومغالطات کا ایک جائزہ (لاہور: دارالدعوۃ السلفیہ، ۱۴۱۰ھ؍۱۹۹۰ء)؛ علامہ محمد اشرف سیالوی، اسلام اور عورت کی حکمرانی (لاہور:عالمی دعوتِ اسلامیہ، ۱۹۹۶ء)۔
۲۹) مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود، جلد ۱۱، ص ۴۷۵۔
۳۰) حافظ عبداللہ روپڑی، فتاویٰ اہل حدیث (تحقیق و تدوین: محمد صدیق بن عبد العزیز) ( سرگودھا: ادارۂ احیاء السنۃ النبوےۃ، س۔ ن)، جلد ۳، ص ۴۰۲۔۴۰۳۔ حافظ عبداللہ روپڑی نے اپنی ایک دوسری کتاب مرزائیت اور اسلام میں بھی اس موضوع پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔
۳۱) مفتی رشید احمد، احسن الفتاویٰ، جلد ۶، ص ۱۴۴۔
۳۲) ایضاً ، جلد ۶، ص ۱۴۵۔
۳۳) ایضاً ، ص ۱۴۵۔۱۴۶۔
۳۴) ایضاً ، جلد۶، ص۱۴۵۔۱۴۷۔
۳۵) انتخاب امام کے طریق کار کے بارے میں شاہ ولی اللہ کے آراء کے بارے میں ملاحظہ ہو: ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء (مترجمہ: مولانا عبدالشکور فاروقی و مولانا اشتیاق احمد ) (کراچی: قدیمی کتب خانہ، س۔ ن۔)، جلد ۱، ص ۱۷۔۲۶، ۳۳۔۳۵، ۵۳۱۔۵۳۶۔ خلیفہ کے انتخاب و تقرر کے طریق کارخصوصاً امارۃ الاستیلاء کے بارے میں شاہ ولی اللہ کے خیالات و آراء کے جائزہ کے لیے ملاحظہ ہو: عبیداللہ فہد، ’’شاہ ولی اللہ کے سیاسی افکار‘‘، مشمولہ محمد ےٰسین مظہر صدیقی (مرتب)، حجۃ اللہ البالغہ: ایک تجزیاتی مطالعہ ( علی گڑھ: شاہ ولی اللہ ریسرچ سیل، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ۲۰۰۲ء)، ص۲۱۹۔۲۲۸۔
۳۶) مولانا محمد اسماعیل سلفی،’’ افتتاحیہ‘‘، فتاویٰ ثنائیہ، جلد۲ ،ص ۵۸۵۔
۳۷) ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد، فتاویٰ اصحاب الحدیث، جلد دوم، ص ۴۵۸۔ ۴۵۹۔
۳۸) حافظ عبدالمنان نور پوری، قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل، جلد ۲، ص۶۹۲۔۶۹۳۔
۳۹) محمد یوسف لدھیانوی، آپ کے مسائل اور اُن کا حل جلد ۸، ص ۲۰۲۔
۴۰) مفتی رشید احمد، احسن الفتاویٰ، ص ۱۴۳۔ 
۴۱) مفتی محمد شفیع، جواہر الفقہ، جلد پنجم، ص ۴۶۷۔مولانا محمد ادریس کاندھلوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کے خلیفہ مفتی سید نعیم الدین مراد آبادی دونوں کی رائے میں شوریٰ کے تقرر و انتخاب کا اختیار امیر مملکت کو حاصل ہے۔ مؤخرالذکر کی رائے میں جماعت شوریٰ امیر کے ماتحت ہوگی۔ دیکھیے: محمد ادریس کاندھلوی، دستورِ اسلام مع نظام اسلام (لاہور: مکتبۂ عثمانیہ، س۔ ن؍ لاہور: تعلیمی پریس، ۱۹۶۸ء)، ص ۵۳۔۵۸ ؛ سید غلام معین الدین نعیمی، حیات صدر الافاضل: حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے حالات زندگی (لاہور: فرید بک سٹال، ۲۰۰۰ء)، ص ۱۹۴۔۱۹۵۔
۴۲) مفتی محمد شفیع، جواہر الفقہ، کتاب الحظر والاباحۃ، جلد پنجم، ص ۴۶۱۔
۴۳) ایضاً ، جلد ۵ ، ص ۴۶۱۔
۴۴) ایضاً ، جلد ۵،ص ۴۶۸۔۴۶۹۔
۴۵) مولانا محمدیوسف لدھیانوی، آپ کے مسائل اور ان کا حل ، جلد۸، ص ۲۰۲۔ متعدد علمائے دیوبند نے شوریٰ کے ردو قبول کے بارے میں امیر مملکت کے اختیارات کے متعلق اسی نقطۂ نظر کو اپنایا ہے۔ دیکھیے: مولانا محمد تقی عثمانی، حکیم الامت کے سیاسی افکار (کراچی: مکتبۂ دارالعلوم، ۱۴۱۳ھ)، ص۳۱۔۳۶؛ مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی و مولانا مفتی محمد شفیع، اسلام میں مشورہ کی اہمیت ( لاہور: ادارۂ اسلامیات، ۱۹۷۶ء)، ص ۱۵۲۔۱۵۳؛ مولانا محمد مسیح اللہ خان شروانی، اہتمام وشوریٰ (کراچی: زمزم پبلشرز، ۲۰۰۳ء)، ۲۶، ۴۷۔۴۸؛ مصنف؍مرتب (نا معلوم)، شوریٰ ہیئتِ حاکمہ نہیں: علمائے دیوبند کی واضح تصریحات (جلال آباد ، ضلع مظفر نگر: شعبۂ نشر و اشاعت، مدرسۂ مفتاح العلوم، س۔ ن)۔
۴۶) عبداللہ روپڑی،فتاویٰ اہل حدیث، جلد ۳، ص ۴۰۲۔
۴۷) مولانا محمد اسماعیل سلفی،’’ افتتاحیہ‘‘، مشمولہ فتاویٰ ثنائیہ، کتاب الامارۃ، ص ۵۸۹۔مولانا ریاست علی بجنوری نے بھی علماء کی اکثریتی رائے سے مختلف موقف ظاہر کیا ہے۔ان کی رائے میں شوریٰ کی اکثریتی رائے سربراہ مملکت کے لیے واجب التعمیل ہے۔ وہ مجلس شوریٰ کی حاکمہ؍تنفیذیہ پربالادستی کے نظریے کے علمبردار نظر آتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: مولانا ریاست علی بجنوری، شوریٰ کی شرعی حیثیت (لاہور: مکتبۂ لاہور ، ۱۹۹۶ء)۔
۴۸) حافظ عبداللہ روپڑی، فتاویٰ اہل حدیث، جلد ۳، ص ۴۰۲۔
۴۹) دیکھیے مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی، کفایت المفتی (جامع مؤلف: حفیظ الرحمٰن واصف) (دہلی: مطبع نعمانی، ۱۳۹۷ھ؍ ۱۹۷۷ء)، جلد ۹: کتاب السیاسیات، فصل ہفتم، ص ۲۹۴۔۳۸۱۔ 
۵۰) مفتی محمد شفیع، جواھر الفقہ، جلد ۵، ص۵۳۲۔۵۳۴؛ مولانا مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود، جلد ۱۱، ص ۳۶۷۔۳۶۸، ۳۸۰۔
۵۱) مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود، جلد ۱۱، ص ۳۸۰۔
۵۲) ایضاً ، جلد ۱۱، ص ۳۶۶۔۳۶۷، ۳۶۹،۳۷۰، ۳۷۵۔۳۷۷، ۳۸۰۔
۵۳) مفتی محمد شفیع، جواہر الفقہ، جلد ۵، ص ۵۳۵۔
۵۴) مولانا مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود، جلد۱۱، ص۳۶۹۔
۵۵) ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد، فتاویٰ اصحاب الحدیث (لاہور: مکتبہ اسلامیہ، ۷۰۰۲ء)، ص ۴۵۸۔ ۴۵۹۔ 
۵۶) مفتی محمد شفیع، جواھر الفقہ، جلد ۵، ص ۴۸۶۔۴۸۸۔
۵۷) مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود، جلد ۱۱، ص ۳۱۳ ۔
۵۸) مفتی محمد شفیع، جواھر الفقہ، جلد ۵، ص ۴۹۰۔
۵۹) مولانا ظفر احمد العثمانی، اعلاء السنن (کراچی: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ، ۱۴۱۵ھ) ، جلد ۱۲، ص ۵۱۵۔۵۱۷۔
۶۰) مفتی رشید احمد، احسن الفتاویٰ، جلد ۶، ص ۱۸۔۱۹۔ 
۶۱) مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف، فتاویٰ محمدیہ، ص ۸۶۶۔۸۶۸۔
۶۲) مسلم کلاسیکی سیاسی افکار کے جائزہ کے لیے ملاحظہ ہو:رشید احمد، مسلمانوں کے سیاسی افکار (لاہور: ادارۂ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۹۹ء)؛ص ۱۔۱۵۰۔ مزید دیکھیے:
E. I. J. Rosenthal, Political Thought in Medieval Islam (Cambridge: Cambridge University Press, 1958; Antony Black, The History of Islamic Political Thought: From the Prophet (PBUH) to the Present (Karachi: Oxford University Press, 2001).
۶۳) تفصیل کے لیے دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست (مرتبہ: خورشید احمد) (لاہور: اسلامک پبلی کیشنز ،۲۰۰۰ء)؛ مولانا امین احسن اصلاحی، اسلامی ریاست (لاہور: دارالتذکیر، ۲۰۰۲ء)۔ مزید دیکھیے:
 Muhammad Asad, The Principles of State and Government in Islam (Berkeley, CA: University of California Press, 1961).
۶۴) اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں لبرل اور آزادی روی پر مبنی نقطۂ نظر کے بارے میں ملاحظہ ہو:
Fahmi Huweidi, "Non-Musliims in Muslim Society", in Abdelwahab(ed.), Rethinking Islam and Modernity: Essays in Honour of Fathi Osman (Leicester: The Islamic Foundation, 2001/1422 A. H.), pp. 84-91.
(بشکریہ مجلہ ’’الاضواء‘‘، شیخ زاید اسلامک سنٹر، جامعہ پنجاب، لاہور)

’’علوم اسلامیہ میں تحقیق: عصری تناظر‘‘ / مجلس یادگار شیخ الاسلام کے زیر اہتمام مولانا سندھیؒ پر سیمینار

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

(اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ اور الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام دو روزہ ورکشاپ کی روداد۔)

الشریعہ اکادمی میں 5، 6 دسمبر 2016ء کو اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے اشتراک سے ایک دو روزہ قومی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان تھا : علوم اسلامیہ میں تحقیق: عصری تناظر ۔ اس ورکشاپ کا مقصد نوجوان محققین کو مختلف سطحوں پر علوم اسلامیہ میں ہونے والے تحقیقی کام کی جہات اور معاصر رجحانات سے روشناس کرانا تھا۔ ورکشاپ میں متنوع موضوعات پر گفتگو ہوئی اور مقررین نے جہاں ملک میں تحقیق اور تحقیقی اداروں کی موجودہ صورتحال پر بات کی، وہیں تحقیق کے ضروری اور نئے میدانوں کی طرف بھی توجہ دلائی تاکہ طلبہ تحقیق اپنی تحقیقی سمت کا درست انداز سے تعین کر سکیں۔ شرکاء میں مدارس کے مدرسین ، کالج اور یونیورسٹی کا اساتذہ اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ شامل تھے جنہوں نے دو دن ہونے والی گفتگو کو بڑے غور اور انہماک سے سنا۔ 

مولانا محمد عمار خان ناصر

مولانا محمد عمار خان ناصر نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ:
علوم اسلامیہ میں تحقیق ایک ایسا دائرہ ہے جس میں حسن اتفاق سے اور کئی عوامل کے اشتراک سے شاید پہلی مرتبہ یہ موقع و امکان پیدا ہو رہا ہے کہ روایتی دینی تعلیم کے اداروں سے فیض یاب ہونے والوں اور جدید عصری تعلیمی ادارو ں میں اسلامیات پر غورو فکر اور تحقیق کی روایت سے استفادہ کرنے والوں کے آپس میں اختلاط و اشتراک اور تبادلہ خیالات کا موقع پیدا ہو رہا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسی تناظر میں جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں وقتاً فوقتاً ایسی تقریبات اور نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں دونوں رَووں (streams) سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک ہوں اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں ۔ یہ نشست بنیادی طور پر انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ذیلی ادارہ اقبال مرکز برائے تحقیق و مطالعہ کا ترتیب دیا ہوا پروگرام ہے اور ہمیں ان سے تعاون کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ اس کے شرکاء دینی مدارس، کالجز اور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے وہ احباب ہیں جو یا تو وہاں کے اساتذہ ہیں اور یا پھر ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرامات میں زیر تعلیم ہیں اور تحقیق کر رہے ہیں۔ مقررین میں جن حضرات کو دعوت دی گئی ہے، وہ بھی انھی اداروں سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار اور کہنہ مشق افراد ہیں ۔میں آج کی نشست میں اپنے مہمانان گرامی اور شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جس مقصد کے لیے ہم ان نشستوں کا انعقاد کر رہے ہیں، وہ کامیابی کے ساتھ حاصل ہو گا ان شاء اللہ۔
اس کے بعد IRDکے اسسٹنٹ دائریکٹر جناب محمد اسماعیل صاحب نے خیر مقدمی کلمات کہے اور اپنے ادارے اور اس کی سرگرمیوں کا مختصر تعارف کروایا۔
ورکشاپ میں دیگر مقررین کی طرف سے پیش کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

ڈاکٹر تنویر احمد

ڈاکٹر تنویر احمد (اسسٹنٹ پروفیسر ادارہ تحقیقات اسلامی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد) نے ’’علوم اسلامیہ کے اہم انگریزی تحقیقی جرائد کا تعارف‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی اور کہا:
سب سے پہلے میں شکر گزار ہوں ادارہ اقبال مرکز برائے تحقیق و مکالمہ اور الشریعہ اکادمی کا کہ انہوں نے ہمیں یہ موقع عطا کیا کہ ہم علوم اسلامیہ میں تحقیق پر اپنے خیالات کا اظہار کریں کہ وہ کیسے کرنی ہے اور اس کی بنیادی معلومات کیا ہیں۔ میں آپ کو ان تحقیقی مجلات کا تعارف کرواؤں گا جن کی حیثیت انگریزی میں ہونے والی تحقیق کے حوالے سے اہم اوربنیادی ماخذ کی ہے۔ اس سے اہم بات یہ ہے کہ جو مضامین ان مجلات میں چھپتے ہیں، وہ کس طرح ہمارے ہاں اردو دنیا میں چھپنے والے مجلات کے مضامین سے مختلف ہیں اور ان سے سیکھنے کی چیزیں کیا ہیں۔ 
انگریزی دنیا میں یونیورسٹی کی سطح پر ہونے والی Academicتحقیق کا ظہور تین صورتوں میں ہوتا ہے۔ پی ایچ ڈی کی سطح پر لکھے جانے والے تحقیق مجلات کی شکل میں، مختلف پروجیکٹس کی صورت میں جو کتابی شکل میں شائع ہوتے ہیں، اور انھیں آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی پبلشنگ کمپنیز چھاپتی ہیں ۔ یہ کمپنیز جو کتابیں چھاپتی ہیں، ان کا دنیا بھر میں ایک خاص مقام ہوتا ہے۔ اور تیسری قسم آرٹیکلز یا بحوث ہیں جو تحقیقی مجلات میں چھپتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم آرٹیکلز ہی ہوتے ہیں جو کسی علمی طور پر مضبوط مجلے میں چھپیں، کیونکہ ان میں تحقیق و جستجو کے معیارات کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ کوئی بھی مقالہ اس وقت تک شائع نہیں کیا جاتا جب تک کہ دو یا تین لوگ اس کا peer review نہ کریں۔ ریویو کرنے والوں کے پاس لکھنے والوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہوتیں، وہ آزادی سے اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس کی ایڈیٹنگ کے لیے پور اعملہ ہوتا ہے جو اس کی نوک پلک سنوارتا ہے اور نقائص کو دور کرتا ہے۔
اسی سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کوئی مجلہ کس طرح استنادی حیثیت حاصل کرتا ہے، اس کی بین الاقوامی رینکنگ کیسے بنتی ہے؟ اس کا ایک معیار تو یہ ہے کہ اس میں چھپے ہوئے مقالات کتنی دفعہ بطور مصدر حوالے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کو جانچنے کا ایک پورا سسٹم ہے جسے citation system کہا جاتا ہے۔ مثلاً ایک مقالہ لکھا گیا ہے، وہ دیکھیں گے کہ اس موضوع پر لکھے جانے والے مقالات میں اس کا حوالہ کتنی مرتبہ آیا ہے۔ اس سے اس کا impact factor بڑھتا ہے اور اسی سے اس کی رینکنگ طے ہوتی ہے۔ 
پچھلے تین چار سال سے ایک مجلے کی ادارت میرے پاس ہے، اس لیے میں تجربے کی بنیاد پر کچھ چیزیں یہاں شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ جب آپ کوئی مقالہ لکھتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک رپورٹ اورریسرچ پیپر کا فرق باقی رہے۔ رپورٹ کہتے ہیں کہ کسی چیز کے بارے میں آپ نے کچھ حقائق جمع کیے، ان میں آپ نے حک و اضافہ کیا اور ان کو ترتیب دے دیا۔ یہ بہت اچھی معلومات تو ہو سکتی ہیں، لیکن کوئی ریسرچ پیپر نہیں ہو سکتا۔ ریسرچ participation ہے، recordingنہیں ہے۔ اسی طرح کسی کتاب کا خلاصہ یا کسی بڑے مقالے کا خلاصہ بھی research paper نہیں ہوتا۔ وہsummary ہوتی ہے ۔اسی طرح ہمارے ہاں ایک رواج ترتیب کا بھی ہے۔ لوگ آیات، احادیث اور اقتباسات کو ترتیب دے دیتے ہیں اور بہت خوبصورتی سے ترتیب دیتے ہیں، لیکن سوال وہی ہوتا ہے کہ اس میں آپ کی اپنی بات کیا ہے ؟ یہ ایک بہت عمدہ چیز تو ہو سکتی ہے، لیکن ریسرچ پیپر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اکثر اوقات مضامین میں ایسے جملے لکھے جاتے ہیں ، کہ ’’اس پر تو اتفاق ہوتا آیا ہے‘‘، ’’ یہ چیز سب کے ہاں متفق ہے‘‘ ، ’’ اس چیز میں تو دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں‘‘، حالانکہ اس میں دو رائے ہوتی ہیں۔ اس طرح کے بے دلیل جملے اگر لکھے ہوں تو بھی ہم اس کو ریسرچ پیپر نہیں سمجھتے۔ اچھا ریسرچ پیپر لکھنے کے لیے اس کو سیکھنا پڑتا ہے کہ کیسے اچھا ریسرچ پیپر لکھا جائے، اس کے لیے آسان اور عملی طریقہ یہ ہے کہ ابتدا میں آپ کسی اچھی کتاب کا ریویو لکھیں۔ اس سے آپ کو ریسرچ سیکھنے میں بہت مدد ملے گی ۔
ڈاکٹر تنویر احمد نے انگریزی دنیا کے قدیم و جدید اور بہت اہم مجلات کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ انگریزی دنیا میں اسلامیات کا وہ تصور نہیں ہے جو ہمارے ہاں ہے۔ ان کے ہاں Islamic Studies میں قرآن و حدیث تو ہے ہی، اس کے ساتھ مسلم سوسائٹی اور اس کے مسائل بھی آتے ہیں، مسلم ممالک کے قوانین بھی آتے ہیں خواہ وہ اسلامی ہوں یا سیکولر۔ وہاں کا تاریخی پس منظر اور معاشی و معاشرتی حالات و نظریات بھی اسی میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً دہشت گردی کا مسئلہ اس وقت ان کے ہاں بڑا اہم سمجھ کر پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے۔ اسی طرح مختلف ممالک میں اقلیتیں اور ان کے حقوق، خواہ وہ غیر مسلم اقلیتیں ہوں یا مسلم اقلیتیں، ان پر بھی اسلامیات کے عنوان سے ہی گفتگو ہوتی ہے ۔

مولانا سید متین احمد شاہ

مولانا سید متین احمد شاہ (نائب مدیر مجلہ ’’فکر ونظر‘‘، ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد) نے ’’ عصری یونیورسٹیز میں عمرانی علوم اور تصور تحقیق‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ:
مجلات تو پوری دنیا میں کثیر تعداد میں شائع ہو رہے ہیں، ان میں سے سب کا تعارف کروانا تو ممکن نہیں ، انتخاب ہی کیا جا سکتا ہے ، اس لیے میں کچھ منتخب مجلات کا تعارف آپ حضرات کے سامنے پیش کروں گا۔ ان کو میں نے موضوعاتی طرز پر تیار کیا ہے۔ سب سے پہلے علوم اسلامیہ میں برصغیر کے کچھ تحقیقی مجلات ہیں، پھر ایچ ای سی سے منظور شدہ اردو اور عربی کے کچھ مجلات ہیں۔ مخصوص تخصصات میں کون کون سے تحقیقی مجلات معاون ہو سکتے ہیں، ان میں قرآنیات سے لے کر تبصرہ کتب تک معاون مجلات شامل ہیں ۔
تحقیق کے بارے میں آپ پڑھتے ہیں کہ یہ دو قسم کی ہوتی ہے، مکینیکل ریسرچ اور اوریجنل ریسرچ۔ اوریجنل ریسرچ کو ہی حقیقی ریسرچ کہا جا تا ہے۔ یہ علم کو پیدا کرنے کا عمل ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے کہ دنیا میں ایسے وجود نادر ہی ہوتے ہیں جو علم کو نئے سرے سے پیدا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی فرد کسی حوالے سے اپنی تحقیق پیش کرتا ہے تو وہ تحقیق آرٹیکلز کی شکل میں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح ہم بہت سنتے ہیں جو سموئیل پی ہنٹنگن کی طرف یہ منسوب ہے۔ اس فکر کو اس نے ابتدائی طور پر پچیس تیس صفحات کے آرٹیکل کی شکل میں پیش کیا تھا ۔ اسی طرح آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت جس نے نیوٹن کی سائنس کو گرا کر نئے سائنسی نظریہ کو وجود دیا، یہ بھی ابتدا میں ایک تحقیقی آرٹیکل کی شکل میں ہی پیش کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں یک موضوعاتی مقالات کو مدون کر کے شائع کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اسی کے اثر سے عربی و اردو دنیا میں اس رجحان کو تقویت مل رہی ہے۔ کتابوں میں بہت سی باتیں تکرار محض کی قبیل سے ہوتی ہیں۔ نپولین کا وظیفہ پڑھنا لکھنا تھا، وہ اپنے پاس بہت سی کتابیں جمع کر لیتا اور جلد ہی ان کو فارغ کر کے واپس کر دیتا۔ کسی نے پوچھا کہ آپ اتنی جلدی کیسے ان کو پڑھ لیتے ہیں؟ تو اس نے کہا کہ ان کتابوں کے بنیادی نظریات میں نے کسی دوسری جگہ پڑھے ہوتے ہیں، اس لیے ان کو دوبارہ پڑھنا تحصیل حاصل ہوتا ہے، اس لیے میں جلدی ان کو اپنی نظر سے گزار لیتا ہوں۔ گویا کتاب کا پیٹ بھرنے کے لیے بہت سی دہرائی ہوئی باتیں اس میں شامل کر دی جاتی ہیں، لیکن ریسرچ آرٹیکل میں آپ کو یہ چیز نہیں ملے گی۔ اگر واقعی کسی خلاق ذہن نے آرٹیکل لکھا ہے تو آپ کو شروع سے آخر تک اس میں ایسے نظریات اور خیالات ملیں گے جو اس سے پہلے سامنے نہیں آئے ہوتے۔ یہ ریسرچ آرٹیکلز کی بڑی غیر معمولی قدر و قیمت ہے جس کی وجہ سے بڑے محققین مقالات اور کتابوں کو پڑھنے کی بجائے ریسرچ آرٹیکلز کو پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ ریسرچ سیکھنے میں معاونت ہو سکے اور اس کی بہترین صورت مجموعہ ہائے مقالات ہیں جو علمی دنیا میں مرتب ہو رہے ہیں۔ 
ہماری علمی دنیا میں بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔ شنید ہے کہ ایچ ای سی نے اب یہ لازم کر دیا ہے کہ آپ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسی موضوع سے متعلق آپ کے دو آرٹیکلز کسی ایسے مجلے میں چھپے ہوئے نہ ہوں جس کو ایچ ای سی اپنے ہاں معتبر تسلیم کرتا ہے۔ اسی لیے مجلات اپنی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی کے بیٹے ہیں، علی عثمان قاسمی۔ ان کی ایک کتاب Questioning the athority of the past کے نام سے آکسفورڈ سے چھپی ہے۔ اس کے مقدمے میں انہوں نے لکھا ہے کہ گوجرانوالہ کے ایک صاحب ہیں، ان کے پاس انیسویں صدی سے لے کر آج تک کے تمام مجلات کا ذخیرہ محفوظ ہے اور اس نے مجھے اپنی تحقیق میں غیر معمولی مدد فراہم کی ہے۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ذخیرے میں کیا کچھ محفوظ اور چھپا ہوا ہو گا جس کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیز میں بھی اس کی طرف توجہ ہو رہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے دار المصنفین کے مجلہ معارف میں 1916ء سے لے کر آج تک تحریک استشراق پر جتنے بھی مقالات چھپے ہیں، ان کومحض موضوعاتی ترتیب سے مرتب کیا ہے اور اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ اسی طرح بعض یونیورسٹیز ان مجلات کی اشاریہ سازی پر بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جاری کرتی ہیں۔
اس کے بعد انہوں نے برصغیر کے قدیم و جدید علمی مجلات کا بہت اچھا تعارف کروایاجس کی پوری پریزینٹیشن ان سے بذریعہ ای میل حاصل کی جا سکتی ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے ایچ ای سی سے منظور شدہ مجلات کے حوالے سے بڑی عمدہ معلومات فراہم کیں جو ریسرچ کے ان طلبہ کے لیے انتہائی مفید ہیں جو اپنی تحقیقات ایچ ای سی سے منظورشدہ مجلات میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ ایچ ای سی نے مجلات کی درجہ بندی کی ہوئی ہے۔ اردو اور عربی میں چھپنے والے مجلات میں سے کوئی بھی ابھی تکY کیٹگری سے اوپر نہیں جا سکا۔ فکر و نظر کے حوالے سے کوشش ہو رہی ہے کہ وہ Xکیٹیگری میں چلاجائے۔ طلبہ تحقیق کو چاہیے کہ اپنے مضامین Y کیٹگری میں شامل مجلات میں اشاعت کے لیے بھیجیں کیونکہ Zکیٹگری میں شامل مجلات کی وہ اہمیت نہیں سمجھی جاتی اور ہو سکتا ہے کہ اس درجہ کو ختم ہی کر دیا جائے۔

مولانا مفتی محمد زاہد

مولانا مفتی محمد زاہد (شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ امدادیہ ، فیصل آباد) کی گفتگو کا عنوان ’’علوم اسلامیہ میں تحقیق، توجہ طلب پہلو ‘‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ:
اس سے پہلے دو حضرات کی گفتگو سے تحقیق کے نئے پہلو اور تحقیق کے نمونے کہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں بڑی اچھی راہنمائی حاصل ہوئی۔ اس گفتگو کے دوران جو چیز مجھے محسوس ہوئی، وہ یہ کہ ہو سکتا ہے کہ انگریزی زبان میں کوئی بہت اچھی تحقیق چھپی ہو، لیکن میرے جیسے لوگ جن کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہے، وہ اس سے واقف نہ ہوں۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عربی میں کوئی اچھی تحقیق چھپی ہو، لیکن کچھ لوگ عربی چیزوں کا زیادہ مطالعہ نہ کرتے ہوں۔ یہی معاملہ اردو کا بھی ہے۔ مجھے ان تازہ چیزوں کے ترجمے کی کوئی مضبوط روایت نظر نہیں آتی۔ اگر کوئی ادارہ ان چیزوں کے معیاری ترجمے کی ذمہ داری بھی اپنے ذمہ لے لے تو ان تحقیقات کا فائدہ اور دائرہ کافی وسیع ہو جائے گا۔ سید متین شاہ صاحب کی گفتگو سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ برصغیر میں علمی تحقیق کی روایت کتنی زندہ، کس قدر تازہ ، بھر پور اور کس درجے اپ ڈیٹ رہی ہے اور اس میں علماء کا کتنا سر گرم کردار رہا ہے ۔ ان مجلات کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اس کا پتہ چل جاتا ہے۔
ایچ ای سی کی بات آئی تو پتہ چلا کہ بعض مجلات بہت معیاری ہیں، لیکن ایچ ای سی کی لسٹ میں نہیں ہیں یا وہاں سے Approvedنہیں ہیں ۔ایچ ای سی کو یہ تجویز جانی چاہیے کہ کچھ مجلات تو ایسے ہیں جو ایچ ای سی سے اس حوالے سے خود رابطہ کرتے ہیں کہ ان کو اس فہرست میں شامل کیا جائے یا ان کی کیٹگری بڑھائی جائے، لیکن بہت سے مجلات ایسے ہیں جو اس کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے، مثلاً بین الاقوامی مجلات اس کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے لیکن وہ بہت معیاری ہوں گے۔ انڈیا کے کچھ مجلات کی مثال دی جا سکتی ہے۔ تو جس طرح ادارے اور مجلات اپنے آپ کو ایچ ای سی کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ایچ ای سی ان کو اپنی فہرست میں شامل کر لیتا ہے، اسی طرح ایچ ای سی کو خود بھی یہ چیزیں ڈھونڈنی چاہییں اور مارکیٹ میں جا کر دیکھنا چاہیے کہ کون کون سی چیزیں اور مجلات ہیں جو ان کے معیار پر پورا اترتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا۔ ان کو بھی وہ اپنی فہرست میں لائیں، اس سے تحقیقی دنیا کا بھی فائدہ ہو گا اور ملازمت کی دنیا کے لوگوں کو بھی اس میں بہت ساری آسانیاں مل جائیں گی۔
میرا موضوع علوم اسلامیہ کے وہ دائرے ہیں جن میں تحقیق کی ضرورت ہے اور ان میں تحقیق ہو سکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایم فل کے طلبہ میں سے چند ایک ہی ایسے ہوتے ہیں جن سے ہم بہت ہی اوریجنل ریسرچ کی توقع کر سکتے ہیں۔ اکثر کم عمری اور ناقص تجربہ کی بنیاد پر محض معلومات اکٹھی کرنے یا مواد جمع کرنے کا کام ہی کر سکتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو اگر ہم کسی طرح منظم کر لیں اور پروجیکٹس کی شکل میں ان سے مواد جمع کرنے کا کوئی ایسا کام کروا لیں جو کسی اچھے تحقیقی کام کی بنیاد بن سکے تو یہ بہت مفید ہو گا۔ مثلاً امام ابوبکر الجصاص ؒ فقہائے احناف میں بہت بڑا نام ہیں۔ وہ بہت بڑے فقیہ اور اصولی ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ وہ بہت بڑے محدث بھی ہیں۔ وہ اپنی کتابوں میں اپنی سند کے ساتھ احادیث ذکر کرتے ہیں۔ اب مسند الجصاص کے نام سے کوئی یونیورسٹی ایک پروجیکٹ لے لے اور ان کی سند سے ساری احادیث جمع کر لی جائیں۔ لیکن اس ساری جمع بندی میں پیش نظر اس سے اگلا مرحلہ ہو، یعنی یہ دیکھنا ہو کہ اس صدی کے محدثین احناف کس طرح حدیث لے رہے تھے اور حدیث سے استدلال اور اس کے رد و قبول میں ان کا انداز کیا تھا۔ جب یہ مقصد پہلے سے پیش نظر ہو گا تو پھر جمع مواد کا منہج میں بھی یہ طالب علم کے ذمے ہو گا کہ اس حدیث کی سند اور اس سے استدلال کا تھوڑا سا خلاصہ بھی اس کے ساتھ ذکر کرے ۔ اس طرح یہ کوئی اتنا اوریجنل کام تو نہیں ہو گا، لیکن ایک اچھے تحقیقی کام کی بنیاد فراہم کر دے گا ۔ 
اس طرح کا ایک کام مجمع الزوائد کے رجال پر کسی یونیورسٹی نے کروایا ہے ، میرے علم میں نہیں کہ یہ کس نوعیت اور درجے کا کام ہے، لیکن اگر اس کو اسی طرز پر کروایا جائے کہ اس کام سے ان کے حدیث پر حکم لگانے کے اصول مستنبط ہو سکیں تو یہ بہت مفید ہوگا، جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں محدث متساہل ہیں، فلاں متشدد ہیں وغیرہ۔ اس سے ہمیں بحیثیت مجموعی جمع مواد کی بنیاد پر حدیث پر حکم لگانے میں مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کی صلاحیت سے بھی استفادہ کی راہیں تلاش کرنی چاہییں کہ وہ حدیث کے اس علم میں ہماری کس حد تک مدد کر سکتے ہیں، اور اگر ان سے مدد لینی ہے تو ہمیں ابتدا ہی سے اس کام کا منہج یہ رکھنا چاہیے کہ اس کے لیے سہولت ہو۔ وہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ آپ اس کام کو اس طرز پر کریں گے تو زیادہ مفید اور کمپیوٹنگ میں زیادہ آسان ہو گا۔ اسی طرح کا کام اسی دور کے دیگر محدثین کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے جو حدیث پر حکم لگاتے ہیں۔ ان پر اسی طرز کا کام کر کے ہم اس دور کے حدیث پر حکم لگانے کے مناہج کو جاننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ تاثر ہے اور ایک حد تک درست ہے کہ اسلامی دور کی ابتدائی چار پانچ صدیاں تو علمی عروج کی صدیاں ہیں، تخلیق علم کی صدیاں ہیں، تحقیق و جستجو کا دور ہیں، لیکن اس کے بعد کا زمانہ جمود اور تکرار کا زمانہ ہے ،Repeatition ہے، ان میں کوئی نیا کام نہیں ہو سکا ۔ یہ تاثر ایک حد تک درست ہے اور اس کی وجوہات بھی ہیں کہ ضرورت باقی نہیں رہی تھی کیونکہ زندگی ایک جگہ پر رک گئی تھی تو اس کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ تحقیق نے بھی رکنا تھا۔ آپ شروحات دیکھ لیں، ان میں ایک ہی جیسی عبارتیں ہوتی ہیں اور ایک ہی طرح سے نقل ہو رہی ہوتی ہیں۔اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہے کہ اسلامی دور کے قرون وسطیٰ اس طرح علمی عروج اور حرکت کا دور نہیں تھا۔ لیکن انھی ادوار کے اندر ہی بہت سے ایسے مفکر بھی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے نئی چیزیں پیش کی ہیں جن میں سے کچھ بہت مشہور ہوئے، جیسے ابن تیمیہ ؒ کی مثال دی جا سکتی ہے ۔ ان ادوار میں بھی اس تلاش کی ضرورت ہے کہ کس کس نے کون کون سی نئی چیزیں متعارف کروائی ہیں ۔ آپ ان ادوار کو صدیوں میں تقسیم کر لیں یا مرحلوں میں تقسیم کر لیں، ان ادوار میں ہماری تراث میں آرٹیکلز کے مترادف رسائل کے عنوان سے بہت سی چیزیں ملتی ہیں اور اس دور کے مفکرین کی اصل فکر بھی انہیں رسائل میں مل سکتی ہیں۔ اس ضمن میں رسائل ابن نجیم، رسائل ابن عابدین ہیں، رسائل عبد الحئی لکھنوی ہیں وغیرہ ۔ اس کام کے لیے بھی بہت اوریجنل تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔
تیسری چیز جس سے اسلامی معاشرے کو فرار نہیں ہو سکتا، وہ دو چیزیں ہیں ۔ ایک فتویٰ کا شعبہ اور دوسرا دینی مقتدائیت کا شعبہ۔ اگر لوگ چاہیں بھی تو ان سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔ ان کو بہتر بنانے کی بھی گنجائش موجود ہے۔ ہمارے ہاں فقہ کی کتابوں میں کتاب الحظر و الاباحۃ کا باب ہوتا ہے، کتاب الکراہیۃ ہوتا ہے، اس کے بہت سے مسائل کا تعلق ہماری روز مرہ کی سماجی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے، مثلاً حجاب کا مسئلہ اور مرد و زن کے اختلاط کا مسئلہ ہے، انفرادی طور پر ان پر بہت کام ہو سکتا ہے ۔میں جو چیز عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اوامر و نواہی تھے کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا، درجہ بندی نہیں تھی ۔اور ابتدا میں صحابہ کرامؓ کے سامنے بس یہ ہوتا تھا کہ اللہ اور رسول نے کہہ دیا کرنا ہے تو بس کرنا ہے اور اللہ و رسول نے کہہ دیا کہ نہیں کرنا تو نہیں کرنا ۔لیکن جب زندگی آگے بڑھی تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ کسی کام کے بارے میں شریعت کہتی ہے کہ کرنا ہے، لیکن معاشرے میں بہت سے لوگ نہیں کریں گے اور کچھ کاموں کے بارے میں ہدایت ہے کہ وہ نہیں کرنے، لیکن سماج میں بہت سے لوگ ہوں گے جن کو یہ کرنا پڑے گا۔ اب یہاں آ کر احکام کی درجہ بندی کی گئی کہ یہ فرض ہے، یہ واجب ہے، یہ سنت ہے، یہ مستحب ہے وغیرہ۔ یہ درجہ بندی تو نفس حکم کے اعتبار سے کی گئی، لیکن یہاں مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے ’’مقدمہ تدوین فقہ‘‘ میں مخاطبین کے اعتبار سے درجہ بندی کی بات کی ہے جسے وہ فقہ العامۃ اور فقہ الخاصۃ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل پر ہمیں کچھ دائرے کھینچنے ہوں گے کہ یہ گرین ہے، یہ وائٹ ہے، یہ گرے ہے ، یہ بلیک ہے اور یہ ریڈ ہے۔ امام احمد ابن حنبل ؒ کے پاس ایک آدمی آیا اور ایک مسئلہ دریافت کیا۔کوئی ایسا حلال و حرام کا مسئلہ نہیں تھا ، انہوں نے پوچھا کہ کس نے بھیجا ہے ؟ اگر بشر حافی نے بھیجا ہے تو اس کو جا کر بتا دو کہ یہ حرام ہے۔ یہ مخاطب کے اعتبار سے انہوں نے درجہ بندی کی۔ ایک صاحب نے ایک عالم سے پوچھا کہ آپ فلاں یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، وہاں تو مخلوط تعلیم ہوتی ہے، وہاں آپ نظر کی حفاظت کیسے کرتے ہوں گے؟ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے کبھی اپنے علماء سے پوچھا کہ آپ اسمبلی میں جاتے ہیں، بلکہ خواتین کو بھی منتخب کراتے ہیں ، وہاں بھی تو مخلوط ماحول ہوتا ہے بلکہ پچھلی حکومت میں تو میڈم سپیکر سامنے بیٹھی ہوتی تھیں، اور اس کو میڈم اسپیکر کہہ کر مخاطب بھی کرتے تھے۔ اب ایسا ہوتا تو ہے، اب یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے لیے گرین لائن سے نیچے آنا مناسب نہ ہو اور ایک کو اس کے مخصوص حالات کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تم نے ریڈ لائن میں نہیں آنا، اس سے پیچھے تم رہ سکتے ہو۔ ہماری سماجی زندگی کے اس طرح کے مسائل میں از سر نو غور وفکر اور دائرہ بندی کرنا بھی ایک میدان ہے جس میں کام کی ضرورت ہے جو ہماری بہت ساری عملی الجھنوں کو دور کرے گا اور خاص طور پر اہل فتویٰ اور دینی مقتدا حضرات اس سے استفادہ کر سکیں گے ۔

ڈاکٹر سمیع اللہ فراز

ڈاکٹر سمیع اللہ فراز (خطیب ڈی ایچ اے لاہور) نے ’’اسلامی تحریکات : مغربی زاویہ نگاہ ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی جس کا خلاصہ یہ ہے:
آج کی یہ ورکشاپ طلبہ تحقیق کو اسلا می تحقیق کے مختلف تناظر اور پہلوؤں سے روشناس کرانے اور ان کے ذہنی کینوس کو وسیع کرنے کی کوشش ہے۔ میں اپنے موضوع پر چار حوالوں سے مختصراً گفتگو کروں گا۔
پہلی چیز کہ اسلامی تحریک کسے کہتے ہیں اور جس کو ہم مغرب کہتے ہیں، اس سے کیا مراد ہے؟
دوسری چیز یہ کہ اسلامی تحریکوں کے ساتھ عسکریت پسندی، تشدد پسندی کے جو ٹائٹل جڑ چکے ہیں، اس کے اسباب کیا ہیں؟
تیسری چیز یہ کہ اسلامی تحریکوں کے حوالے سے مغربی دانش کے دیکھنے، سوچنے اور پالیسی بنانے کا انداز کیا ہے؟
چوتھا یہ کہ طلبہ تحقیق کے لیے اس حوالے سے کون سے پہلو قابل توجہ ہیں؟ 
اس ذہنی وسعت کے دور میں مغرب سے مراد وہ لوگ یا وہ دانش ہے جو غیر مسلم دانش کہلاتی ہے۔ مغرب کو کسی جغرافیائی حد بندی میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اسرائیل مشرق وسطیٰ کا ملک ہے، جغرافیائی طور پر مغرب میں نہیں ہے، لیکن اس سے اٹھنے والے فکر کو بھی ہم مغربی فکر سے تعبیر کرتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ مغرب کے لفظ کو انگریزی میں west ہی لکھیں گے، لیکن اس سے مراد امریکہ، برطانیہ یا کینیڈا وغیرہ نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد غیر مسلم دانش ہے۔ اس دانش میں شدت پسند دانش بھی ملے گی اور معتدل دانش بھی۔ 
مغربی دانش میں ہر لڑنے والا اور ہر کوشش کرنے والا گروہ تحریک نہیں کہلاتا۔ مغرب کے ہاں اسلامی تحریک وہ تحریک کہلائی گی جو مسلم معاشرے میں گہری جڑیں رکھتی ہو، اس کے وجود کا سبب کوئی مقامی مسئلہ نہ ہو بلکہ اس کی تشکیل کا مقصد اسلامی احیاء ہو، اور اس تحریک سے وابستہ لوگ دعوت اسلامی کے طریق سے منسلک ہوں، یعنی اگر اس تحریک کے مقاصد میں اسلامی قانون کو نافذ کرنا ہے تو اس کو اسلامی تحریک کہا جا سکتا ہے، وگرنہ نہیں ۔اس طرح اسلام کے اوائل کی قابل ذکر تحریکیں یہ ہو سکتی ہیں: حضرت عثمانؓ کے خلاف بغاوت کی تحریک، خوارج، مختار ثقفی کی تحریک، عباسی انقلاب اور اسماعیلی اور فاطمی تحریکات وغیرہ۔ گزشتہ تین سو سال میں مسلم دنیا میں جو تحریکات اٹھیں اور جن کے مطالعہ سے مغرب نے اپنی پالیسیوں کو ترتیب دیا ، ہم ان پر بات کریں گے۔ ان میں محمد بن عبد الوہاب کی تحریک تھی جو عرب علاقوں میں اٹھی اور اسی کے زیر اثر 1932ء میں سعودی عرب وجود میں آیا۔ اسی طرح ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تحریک، سید احمد شہید ؒ کی جہاد موومنٹ،افریقہ کی سنوسی موومنٹ، ایران کا شیعہ انقلاب ۔ ان تحریکات کو وہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کا مطالعہ کر کے آئندہ کی پالیسیوں کو ترتیب دیتے ہیں۔
ان تحریکوں کا مزاج وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا ۔ خاص طور پر ایشیا میں، مثلاً برصغیر میں پہلے پہل صوفیا کی تحریک مؤثر رہی، پھر شاہ ولی اللہ کے دور میں تعلیمی و علمی تحریک بن گئی اور تیسرے مرحلے میں یہ انقلاب پسندی کا روپ دھار لیتی ہے، جس کا مظہر سید احمد شہید کی تحریک ہے۔ اور چوتھے مرحلے میں یہ سیاسی پس منظر اور سیاسی فکر کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔عرب علاقوں کی تین تحریکوں کو مغرب اہمیت دیتا ہے۔ پہلی محمد بن عبد الوہاب کی تحریک جو اس وقت سلفی تحریک کی شکل میں موجود ہے۔ دوسری تحریک اخوان المسلمون ہے جس کی فکر سے ہم آہنگ جماعت اسلامی اور روسی ریاستوں میں حزب التحریر ہے۔ اسی فکر کی حامل مسلح تحریکوں میں حماس کا نام سب سے نمایاں ہے ۔ تیسری تحریک شیعہ انقلاب ہے۔ لبنان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں موجود شیعہ مسلح تحریکوں کو وہ انقلاب ایران سے ہی متعلق سمجھتے ہیں ۔
ڈاکٹر سمیع اللہ فراز نے اسلامی تحریکوں میں روایت پسندی سے شدت پسندی کے ارتقا کو بیان کرتے ہوئے ان مختلف اصطلاحات پر بات کی جو مغرب میں اسلامی تحریکوں کے حوالے سے مستعمل و متداو ل ہیں۔ مثلاً روایت پسندی (Traditionalism)، بنیاد پرستی (Fundametalism)، انتہا پسندی (Extremism)، انقلاب پسندی (Radicalism)وغیرہ ۔ اور جو لفظ کثرت سے استعمال ہوا، وہ انقلاب پسندی یا Radicalism ہے ۔مغرب کے نزدیک Radicals وہ لوگ ہیں جو مغرب کی بالا دستی کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں اور کسی بھی درجے میں مغرب کے نظریات کو اپنے ہاں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔اسلامی تحریکوں کے حوالے سے ریسرچ کا ایک موضوع یہ ہو سکتا ہے کہ روایت پسند اسلامی تحریکوں میں شدت پسندی در آنے کے داخلی و خارجی اسباب کیا ہیں ۔ 
اسلامی تحریکوں سے متعلق مغربی طرز مطالعہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغرب کسی بھی تحریک کا مطالعہ کرنے کے لیے تقسیمی طریقہ کار اپناتے ہیں۔ تحریک کوتاریخی ، فکری اور اس کے اہداف کے حوالے سے مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر دور کو اس کے پس منظر میں رکھ کر مطالعہ کرتے اور نتائج اخذ کرتے ہیں۔ ان کے ہاں تین بڑی کلاسیفی کیشنز نظر آتی ہیں جن کو مغربی دانش میں قبول عام حاصل ہوا ہے۔ پہلی ہرئیر ڈیک میجا کی، دوسری برنارڈ لیوس کی اور تیسری رینڈ کارپوریشن کی۔ رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ میں مذہبی تقسیم کی گئی ہے جو اس وقت عملی طور پر ان کے ہاں ہر پالیسی کی بنیاد ہے۔ دوسری تقسیم سیاسی ہے ، جو ہرئیر ڈیک میجا اور برنارڈ لیوس نے کی ہے۔ مغرب کے اس تقسیمی طرز مطالعہ پر مستقل حوالے سے تحقیقی کام ہو سکتا ہے۔ اسی طرح برنارڈ لیوس کی کتابیں اور آرٹیکلز بھی تحقیق کا موضوع ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح ایک شخص جان لوئس اسپوزیٹو ہے جو کہ اسلامی تحریکوں کے حوالوں سے ایک معتدل نام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ موجودہ مسلح تحریکیں اسلام کی نمائندہ نہیں ہیں، اسلام کی نمائندگی اس کے اوائل دور کی تحریکیں کرتی ہیں اور انھی کو اسلام کا موقف سمجھنے کے لیے مطالعہ کرنا چاہیے۔اس کے نظریات پر بھی کام ہو سکتا ہے ۔اسی طرح مغربی فکر کے نقائص کی نشاندہی بھی تحقیق کا موضوع ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تحریکات کا ہدف ریاست ہو یا معاشرہ ، یہ بھی تحقیق کا موضوع ہے ۔ اسی طرح ایک اہم موضوع اسلامی تحریکات کا فکری تقارب ہے ۔ یہ لفظ علامہ یوسف القرضاوی نے استعمال کیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں وحدت کا لفظ استعما ل نہیں کرتا اور نہ یہ کہتا ہوں کہ ساری دنیا کی اسلامی تحریکیں ایک ہو جائیں۔ یہ فطری و جغرافیائی لحاظ سے ناممکن ہے، لیکن فکری اعتبار سے یہ قریب تو ہو سکتی ہیں ۔ اس بات پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ اس فکری تقارب کا فقدان کیوں ہے اور اس کے اثرات کیا مرتب ہو رہے ہیں ۔

جناب آصف افتخار

جناب آصف افتخار (LUMSیونیورسٹی ، لاہور) کی گفتگو کا عنوان تھا ’’مغرب میں مطالعہ اسلام ، معاصر تناظر اور موضوعات ‘‘۔ انھوں نے کہا کہ:
میں نے آٹھ سال اس ماحول میں گزارے ہیں جس کو آپ مغرب کہتے ہیں اور بہت سے ان بڑے اساتذہ سے براہ راست پڑھنے کا موقع ملا جن کا ڈاکٹر سمیع اللہ فراز صاحب نے تذکرہ کیا اور شاید اسی لیے عمار ناصر صاحب نے مناسب سمجھا کہ میں اس موضوع پر گفتگو کروں ۔ عام طورپر ان موضوعات پر لوگ کتابی مطالعہ کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ وہ بھی ٹھیک ہے، لیکن میں کیونکہ ایک عرصہ ان لوگوں کے درمیان رہا ہوں اور ان سے براہ راست پڑھنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے، اس لیے میں اسی تناظر میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ بزنس کی زبان میں ایک ٹرم ہوتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کتاب میں نہیں لکھا ہوتا، وہ بھی بڑا اہم ہوتاہے اور اس کو بھی شیئر کرنا ضروری ہے۔ کرنے کو تو کافی باتیں ہیں لیکن میں چند باتیں کروں گا۔ ایک تو مغرب کا تقسیمی مطالعہ کا طریقہ کار ہے۔ بنیادی باتیں سمیع اللہ فراز صاحب نے کردی ہیں، میں ان پر کچھ اضافے اور کچھ مؤدبانہ اختلافات کروں گا ۔دوسرا ان کا منہج تحقیق کیسے ہم سے مختلف ہے اور اس کے استعمال سے تحقیق میں کیسے جوہری فرق پیدا ہوتا ہے۔اور تیسری اور آخری بات، وہ چیزیں جو مجسم نہیں ہوتیں لیکن ان کا اثر ہوتا ہے ، جیسے تحقیق کے پیچھے جو روح ہے ، جو مقصد اور پلاننگ ہے ، وہ کیا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے درمیان رہنے اور تھوڑا سا فارمل مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی فکر کوئی حجر واحد نہیں ہے جو ہر رخ اور ہر سمت سے ایک جیسا ہو، بلکہ اس کو ایک فکر کہنا بھی مناسب نہیں۔ یہ ایک مغالطہ ہے۔ بہت سے منتشر افکار ہیں جن میں اختلافات بھی ہیں اور تضادات بھی ہیں ۔ جو چیز ان کو ایک پلیٹ پر جمع کردیتی ہے، وہ تصورات ہیں جو حقیقی بھی ہوتے ہیں اور مصنوعی بھی اور محض تصورات ہی نہیں ہوتے، کچھ مفادات بھی ہوتے ہیں۔ اس مجموعے کے ظاہر کو ہم مغربی فکر کہہ دیتے ہیں۔یورپ بالکل ایک الگ دنیا ہے، اس کے اندر جرمن فکر بالکل الگ ہے، فرانسیسی فکر بالکل اور ہے، برطانیہ جس کو انگلش فلاسفی کہا جاتا ہے، وہ اور زاویہ سے چیزوں کو دیکھتی ہے۔ امریکہ میں خاص طور پر Pragmatism کے بعد جو دور آیا، اس کے اپنے Focal points ہیں ، ان میں کچھ مشترک عناصر بھی ہیں۔ میری یہ خوش نصیبی تھی کہ میں نے کینیڈا میں وقت گزارا۔ یہ ایک پل ہے یورپی اور امریکی فلسفے کے درمیان، اس پر انگلش افکار کا بڑا اثر ہے۔ افکار میں اسی لیے کہہ رہا ہوں اور دانستہ اس کے لیے صیغہ واحد استعمال نہیں کرنا چاہ رہا تاکہ وہاں کے تمام تر تنوع اور اختلافات سمیت ذہن میں تصور آئے کہ وہ ایک فکر نہیں ہے۔اس طرح کینیڈا میں آپ کو دونوں traditions کا بہت اچھا امتزاج مل جاتا ہے ۔ جن مشترک اقدار و مفادات پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک قدر کہ جس کو وہ خود ایک قدر کہتے اور مانتے ہیں اور جس کے بارے میں ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ہمارے ہاں نہیں ہے ، وہ Freedom of thought اور freedom of expression یعنی سوچ اور اظہار کی آزادی ہے ، جس کو وہ ایک انفرادی و امتیازی چیز سمجھتے ہیں اور جس پر جمع ہو جاتے ہیں۔
مغرب کی تقسیم ان کے ہاں تھوڑی سی مختلف ہے۔ وہ اس کو Hellenic culture اور Semitic Culture کہتے ہیں۔ یعنی یونانی اور رومی تہذیب سے جو چیزیں آئی ہیں، وہ مغرب ہیں اور prophetic cultureیعنی بنی اسماعیل و بنی اسرائیل سے جو چیزیں آئی ہیں، وہ مشرق ہیں۔اس اعتبار سے وہ جس چیز کو اپنا ورثہ legacyکہتے ہیں، وہ سوچ اور اظہار کی آزادی ہے۔
دوسری اہم بات ان کی وہ تقسیم ہے جو وہ ہمارے حوالے سے کرتے ہیں۔ ان کا اپنے بارے میں یہ زعم ہے اور ہمارا بھی ان کے بارے میں یہی خیال ہے کہ ان کے اصول تحقیق اور مناہج ہم سے بہتر ہیں، زیادہ دقت نظر سے تجزیاتی انداز میں وہ چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ بات تحقیق کے طلبہ کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ ان کے ہاں اس بات کا کوئی ٹھوس تصور نہیں ہے کہ جو Traditionalist ہے، وہ Modernist نہیں ہوسکتا اور نہ صرف یہ تصور ٹھوس شکل میں نہیں ہے بلکہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ان کے ہاں خلط مبحث بھی بہت ہوتا ہے۔ جو سیاسی تقسیم ہوتی ہے جیسے کہ رینڈ رپورٹ کی تقسیم، اس کو علمی حلقوں میں رد کر دیا جاتا ہے، اس کو مضحکہ خیز سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً Extremistکا لفظ Academia میں نہیں بولا جاتا۔ جب آپ یونیورسٹیز میں جاتے ہیں تو تقسیم میں بہت زیادہ complexity پائی جاتی ہے ۔اس لیے صحافیانہ لٹریچر کو Academic literatureسے جدا رکھنا چاہیے ۔ان کے ہاں Typology مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔ مثلاً کسی چیز میں ان کی دلچسپی ماہیئت و نوعیت یا اس کی ظاہری حالت کے اعتبار سے نہیں ہوگی ، بلکہ ان کی دلچسپی اپسٹمالوجی سے ہے کہ یہ بندہ سوچتا کیسے ہے ۔ مثلا مجھے وہ مجھے کہتے ہیں کہ آپ جینز پہنتے ہیں، لیکن آپ بڑے fundamentalist ہیں۔ گویا ان کی دلچسپی سوچ و فکر سے ہوتی ہے، ظاہری ہیئت سے نہیں۔ خاص طور پر جو چیز ان کے ہاں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے، وہ ہے hermeneutics، چیزوں کو دیکھا کیسے جاتا ہے ، ان کی تعبیر و تشریح کیسے کی جاتی ہے۔ مثلاً تاج محل کو ایک آدمی دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ محبت کی علامت ہے، اور دوسرا کہتا ہے کہ :
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
کس چیز نے ان کو ایک ہی شے کے بارے میں مختلف کر دیا ، یہ بات ان کے ہاں انتہائی اہم ہے۔ ان کے ہاں یہ بات اہم ہے کہ ان میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو ان تصورات کو آخری اور حتمی مانتے ہیں جو روایت میں موجود ہیں، اصول کے حوالے سے ہوں یا فتاویٰ کے حوالے سے۔ اور وہ ان کی Truth valueکو چیلنج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنی اصطلاح میں بات کریں تو اس کا مطلب بنے گا کہ روایت میں موجود اجماع کو جو چیلنج نہیں کرتا، وہ ان کے ہاں Traditionalist ہے۔ اسی سے آپ Modernism کو سمجھ لیں۔ ان کے ہاں جو Academiaکے لوگ ہیں، وہ بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ Modernism کا bent ان کے ہاں جدید پڑھے لکھے لوگوں کے ذریعے سے بہت کم درجے میں آیا ہے، یہ مدارس کے ان فضلاء کی کاوشوں سے زیادہ آیا ہے جن کو آپ عام اصطلاح میں Traditionalist کہہ دیں گے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر فضل الرحمن شکاگو یونیورسٹی والے جن کے شاگردوں سے پڑھنے کا مجھے موقع ملا ، وہ اپنی methodology پر جس کو ڈبل ہرمنیوٹکس کہتے ہیں، بہت بات کرتے ہیں اور جب وہ اس منہج کی ابتدا کرتے ہیں تو شاہ ولی اللہ ؒ کی الفوز الکبیر سے کرتے ہیں ۔وہ Historical cotextualisation کے لیے شاہ عبد العزیز ؒ کے دار الحرب اور دار الکفر کے متعلق دیے جانے والے فتاویٰ کو استعمال کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے ان کے ہاں ابو الاعلیٰ مودودی ؒ اتنے ہی Modernistہیں جتنے کہ ڈاکٹر فضل الرحمن ہیں حالانکہ ان کے درمیان کئی حوالوں سے اختلافات رہے ہیں ۔ان کے ہاں یہ لوگ نیا اسلام لے کر آئے ہیں۔
تیسری اہم چیزان کا منہج تحقیق ہے، اس حوالے سے بھی ان کے ہاں مختلف طریقہ ہائے کار ہیں، کوئی ایک طریقہ نہیں ہے۔ کچھ چیزیں سائنسی طریقہ کار سے لی گئی ہیں، عمرانی علوم میں انہوں نے بہت کام کیا ، اس کو انہوں نے شامل کیا ہوا ہے ، یہ سروے وغیرہ ان کے ہاں کم تر سائنس ہے، کیوں کہ ان پر سوالات بہت زیادہ ہوتے ہیں کہ یہ سروے کیسے کیا، کن سے کیا، کس علاقے میں کیا وغیرہ ۔ ان کے ہاں جو منہج ہے، وہ مواد جمع کرنا ، اس کا آزادانہ تجزیہ کرنا، rethinking، پھر اسے باہر نکل کر دوبارہ out of the boxسوچنا ، یہ ان کا طریقہ ہے۔ اسی طریقے سے ان کے ہاں Modernism آیا ، پھر Post Modernismآیا۔ان کے اس منہج کا اثر ان لوگوں پر بھی ہوا جو مغرب میں جا کر پڑھتے ہیں اور پھر ان کے طریقہ کار سے اپنی چیزوں کو دیکھتے ہیں ، جیسے علی شریعتی، ڈاکٹر فضل الرحمن وغیرہ۔ان چیزوں نے ہمارے لوگوں کو بہت متاثر کیا اور اب مدارس کے وہ لوگ بھی اس کو استعمال کر رہے ہیں جو یونیورسٹیز میں ایم فل اور پی ایچ ڈی میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ بھی اب انھی کی اصطلاحات بول رہے ہیں اور ان کے طریقہ کار کے مطابق چیزوں کی وضاحت کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس میں کچھ خدشات بھی ہیں کہ اس Freethinking کو کس حد تک جانے دیا جائے اور اس کے کیا اثرات نکلیں گے ۔ کچھ اثرات نکل بھی رہے ہیں جیسے Feminismوغیرہ ۔ 
میں اپنے طالب علموں کو یہ بات کہا کرتا ہوں کہ میرے مشہور و معروف استاد ہیں وائل حلاق، انہوں نے ایک بات بالکل ٹھیک لکھی ہے کہ ایسے لوگوں کا اثر ابھی بھی مدارس کے علماء کے مقابلے میں مسلم دنیا میں بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی علمی credibilityاور ان کے طور طریقہ کی credibility مسلم معاشروں میں مدارس کے پرانے علماء کی علمی و عملی وثاقت کا مقابلہ نہیں کر سکی اور میرا ذاتی خیال ہے کہ کر بھی نہیں سکے گی۔صرف زبان اور فلسفہ کی کچھ رکاوٹیں ہیں ، وگرنہ واقعی یہ لوگ اس میدان میں ان علماء کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے ۔اگر کوئی بھی تبدیلی آئی ہے جس کی مغرب کے مسلم و غیر مسلم سکالرز بھی تعریف کرتے ہیں، وہ بھی مدارس کے اندر سے ہی آئی ہے۔ان کے نزدیک بھی مسلم معاشروں میں حقیقی Modernismمدارس کے علماء نے زیادہ create کیا ہے اور ان کی credibility بھی ان سے زیادہ ہے جو باہر سے آئے تھے۔
اس سارے علمی رعب کے حوالے سے آخری بات بہت اہم ہے۔ وہاں علم کا مقصد اور خاص طور پر دینی علوم کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ آپ کو خدا سے متعارف کروائے اور اس کے قریب کرے۔ وہاں علم طاقت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ ان کا Bentہے ۔ ان کا مسئلہ حق نہیں ہے، ان کا مسئلہ Truthہے تاکہ ان کو طاقت حاصل ہو۔ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں علم کا مقصد خدا کا تقرب ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں برصغیر میں درس نظامی کے بانی ملا نظام الدین ؒ کے طلبہ پر یہ پابندی ہوتی تھی کہ وہ ہفتے میں پانچ گھنٹے شیخ عبد الرزاق بانسوی ؒ کے ساتھ گزاریں جو بالکل ان پڑھ آدمی تھے، جس طرح سید احمد ؒ پڑھ نہیں سکتے تھے ۔طلبہ کو ان کے پاس بیٹھانا تعلق باللہ کے لیے تھا۔ علم برائے طاقت کا اثر اب مغرب سے ہمارے ہاں بھی آ رہا ہے اور کئی وجوہات کی بنا پر ہمارے طالب علم کے لیے بھی پر کشش بن رہا ہے۔میں یہ کہا کرتا ہوں کہ ہمیں ان سے بہت کچھ لینا ہے ، منہج تحقیق وغیرہ ، کیونکہ الحکمۃ ضالۃ المؤمن۔لیکن مدرسہ میں اپنی فنون میں مہارت کی بنیاد اور تعلق باللہ والی بنیاد کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔یہ دونوں چیزیں ان کے ہاں نہیں پائی جاتیں اور یہی ہمارا سرمایہ ہیں ۔ 
اس کے بعد آصف افتخار صاحب کے ساتھ سوال و جواب کی بہت عمدہ نشست ہوئی جس میں مغرب کے حوالے سے بہت سے تفصیل طلب امور زیر بحث آئے اور بہت سی الجھنیں دور ہوئی ۔ 

مولانا سمیع اللہ سعدی

مولانا سمیع اللہ سعدی (سابق مدرس جامعہ فریدیہ ، اسلام آباد) نے ’’اسلامی علوم میں تحقیق کی اہم جہات اور اس کے ذرائع ‘‘ پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ:
میرے موضوع کے دو جز ہیں۔ ایک، علوم اسلامیہ میں تحقیق کی جہات اور دوسرا، اس کے ذرائع۔ ذرائع کو آپ لوازمات تحقیق بھی کہہ سکتے ہیں۔ پہلے میں ذرائع تحقیق ذکر کروں گا۔ 
اس حوالے سے پہلی چیز علوم اسلامیہ کے قدیم ذخیرہ کی اشاریہ سازی اور اس کی مفصل تاریخ کی ترتیب ہے۔ یہ معاجم کی شکل میں ہوں یا زمانی، موضوعاتی یا حروف تہجی کی ترتیب سے۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹر مظہر یاسین صدیقی صاحب کی کتاب ’’ مصادرسیرت‘‘ ہے ۔ اس طرز پر قدیم ذخیرہ کی اشاریہ سازی یا معاجم تیار ہونے چاہییں۔ اسی طرح تاریخ میں ہر علم کا ارتقا بھی ہمارے پیش نظر ہو۔ دوسری چیز اس علم میں ہونے والے کام کی درجہ بندی ہے۔آج کے دور کا دور زوال ہونا ایک حقیقت ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسی دور میں امت نے بڑے بڑے عبقری علماء پیدا کیے ہیں، ان کے کام کی درجہ بندی ہونی چاہیے ۔ تیسری چیز مخطوطات کی اشاعت ہے۔ بیروت کے ایک محقق ڈاکٹر یوسف المراشلی نے اپنی کتاب ’’اصول البحث العلمی وتحقیق المخطوطات‘‘ میں لکھا ہے کہ اس وقت بھی یورپ اور امریکہ کی لائبریریوں میں ایک لاکھ سے زیادہ اسلامی مخطوطات اشاعت کے منتظر پڑے ہوئے ہیں ۔ ان کی یہ کتاب 2003ء میں شائع ہوئی ہے۔ انہوں نے ترکی کی سات لائبریریوں کے مخطوطات کی تعداد ستر ہزار لکھی ہے۔ 
چوتھی چیز لائبریریز کا قیام ہے ، اس سے معاشرے میں تحقیق کا ذہن بنتا ہے اور تحقیق پروان پاتی ہے۔ پانچویں بات تخصصات کا رواج ہے ۔ اس حوالے سے معاصر جامعات میں کام ہوا ہے، لیکن مدارس میں ابھی تک بہت گنجائش باقی ہے ۔ ہمارے حلقے میں ابھی تک جب تخصص کا لفظ آتا ہے تو اس سے مراد تخصص فی الافتاء مراد لیا جاتا ہے ۔ یہ ایک المیہ ہے، مختلف میادین میں تخصصات کا رواج ہونا چاہیے ۔ چھٹی چیز جو ضروری ہے، وہ نصاب کی تدوین نو ہے۔ ہمارے ہاں مدارس اور یونیورسٹیز میں پڑھایا جانے والا اسلامیات کا نصاب طلبہ میں علم کی بنیادی صلاحیت پیدا کرنے سے قاصر ہے اور بنیادی صلاحیت کے بغیر تحقیق ممکن نہیں، اس لیے نصاب کی تدوین نو بھی انتہائی ضروری ہے۔ ساتویں چیز قدیم ذخیرہ کی تسہیل اور کمپیوٹرائزیشن ہے۔ قدیم ذخیرہ کی جدید اشاعت کا کام بہت حد تک ہو چکا ہے لیکن معاصر زبان و بیان کے اعتبار سے اس کی تسہیلات بھی انتہائی ضروری ہیں۔
جہات کے ضمن میں پہلی چیز علوم اسلامیہ کی تطہیر و تنقیح ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہر علم میں بہت ساری ایسی چیزیں شامل ہو چکی ہیں جو اس علم کا حصہ نہیں ہیں۔ ان چیزوں سے علم کی تطہیر یا تنقیح کرنا اس علم سے حقیقی استفادے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔دوسری جہت علوم اسلامیہ کی تشکیل جدید، یعنی عصر حاضر کے اسلوب اور چیلنجز کے مطابق ان میں حک و اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دو علموں میں تجدید کی اشد ضرورت ہے۔ ایک علم الکلام، آج کے سوالات و حالات کے تناظر میں علم الکلام کی تجدید بہت ضروری ہے اور جب ہم اس حوالے سے اس کو دیکھیں گے تو علم الکلام ماضی سے بالکل مختلف شکل میں سامنے آئے گا ، کیوں کہ یہ ایک دفاعی علم ہے۔ جیسے سوالات ہوں گے، ویسے ہی اس کی صورت گری ہو جائے گی ۔دوسرا علم الفقہ ہے ۔اس میں جب ہم عصر حاضر کے حوالے سے غور و فکر کریں گے تو ہمیں امت کو آسانی بھی فراہم کرنی ہو گی اور اس کو اباحیت سے بھی بچانا ہو گا۔یہ ایک پل صراط ہے ، اور محقق کی ذمہ داری ہے کہ وہ تیسیر اور اباحیت کے درمیان رہتے ہوئے جدید مسائل کا حل تلاش کر کے امت کی صحیح راہنمائی کرے ۔تیسری جہت علوم اسلامیہ کا دفاع ہے ۔ اس پر گزشتہ دو تین صدیوں میں مستشرقین کے جوابات کے ضمن میں بہت کام ہوا ہے ، اس لیے یہ ایک پائمال موضوع ہے۔ چوتھی جہت اسلامی و مغربی علوم کا تقابلی مطالعہ ہے ۔ اسلامی اور مغربی علوم میں رد و قبول کا تعلق، تطبیق و ترجیح کا تعلق وغیرہ ، ان پر بات کرنے کی ضرورت ہے ۔پانچویں جہت اسلامی علوم کے مخفی گوشوں کی توضیح ہے ۔ ہر علم میں بہت سارے گوشے مخفی ہوتے ہیں جو مرور زمانے کے ساتھ بقدر ضرورت واضح ہوتے جاتے ہیں، ان گوشوں کو واضح کرنا بہت ضروری ہے ۔اس ضمن میں ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب کے کام کو دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی زندگی، عرب کے پیشوں اور رسم و رواج پر بات کی ہے جس سے سیرت کے بہت سے پہلو واضح ہوئے ہیں جو پہلے واضح نہیں تھے۔ اسی طرح دیگر علوم میں بھی کئی گوشے ابھی تک مخفی ہیں، ان کی توضیح کی ضرورت ہے ۔

مولانا حافظ محمد بلال فاروقی

مولانا حافظ محمد بلال فاروقی (لیکچرار یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب، لاہور) نے ’’استعمار کے خلاف مزاحمت : امیر عبد القادر الجزائری بطور مثالی نمونہ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ اٹھارویں صدی میں فرانس نے الجزائر پر مختلف وجوہات کی بنا پر حملہ کیااور وہاں اپنی حکومت قائم کی۔ اس وقت الجزائر کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی، اس لیے قبائل نے مزاحمت کی ابتدا کی۔ امیر عبد القادر الجزائری کے والد ایک قبیلے کے سربراہ تھے۔ مختلف قبائل مل کر ان کے پاس آئے او ران سے جہاد کی قیادت سنبھالنے کی درخواست کی ۔ کبر سنی کی وجہ سے انہوں نے خود تو قیادت کی ذمہ داری نہ لی، لیکن اپنے بیٹے امیر عبد القادر کو پیش کیا جن پر اتفاق ہوا اور قبائل نے فرانس کے خلاف گوریلا مزاحمت شروع کر دی۔ الجزائری نے فوج کو منظم کیا، اسلحہ سازی کے کارخانے لگائے اور وہاں کام کرنے کے لیے جرمنی، ہسپانیہ اور دیگر ممالک سے ماہرین بلوائے۔ فوج کے لیے قوانین مرتب کیے جو آج بھی طبع شدہ مل جاتے ہیں۔ یہ گوریلا جنگ تھی کیوں کہ ان کی فوج کا اور فرانس کی فوج کے تناسب میں بہت فرق تھا۔ یہ دشمن پر حملہ کرتے اور چھپ جاتے تھے۔ اسی وجہ سے جوابی حملوں سے حفاظت کے لیے الجزائری نے اپنے زیر نگیں قبائل کو ایک متحرک شہر کی صورت میں منظم کیا جو خیموں پر مشتمل ہوتا تھا اور مسلسل نقل مکانی کرتا رہتا تھا۔ انہوں نے دیگر ممالک سے معاہدات بھی کیے اور اپنے مختصر عرصہ جدوجہد میں خود کو فرانس سے الجزائر کے دو تہائی حصے کا حاکم تسلیم کروا لیا۔ اپنی جدوجہد کے لیے سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس وقت کی ہر قابل ذکر طاقت سے رابطہ کیا اور بات چیت کی۔انہوں نے ایک مجلس شوریٰ قائم کی جو حکومت کے ہر قسم کے معاملات کا فیصلہ کرتی تھی۔ عدلیہ کا محکمہ قائم کیا۔ تعلیمی نظام پر بہت زیادہ توجہ دی، مساجد کے ساتھ مکاتب قائم کیے، اپنے ملک میں دو بڑی یونیورسٹیز بنائیں اور اپنے تیس طلبہ کو وظائف دے کر فرانس میں بھیجا تاکہ وہ وہاں تعلیم حاصل کر سکیں اور پھر ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔
امیر عبد القادر نے انسانی کی جان کی اہمیت وحفاظت کو اپنے طرز جدوجہد میں بنیادی اہمیت دی۔ انہوں اپنے فوجیوں کی جان بچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جب بھی موقع ملا، معاہدات کے ذریعے لڑائی روکنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی فوج میں یہ اعلان کر رکھا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی فرانسیسی فوجی کو زندہ پکڑ کر لائے گا تو اس کو زیادہ انعام دیا جائے گا۔اسلامی جنگی اخلاقیات پر عمل کے اعتبار سے ان کا کردار بہت روشن ہے۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں انہوں نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ قیدی کو جس کے پاس رکھا جائے، اگر اس کی قیدی کوئی شکایت کرے گا تو اس کا روزینہ بھی بند کر دیا جائے گا اور اس کو ملنے والے انعاما ت بھی واپس لے لیے جائیں گے۔ان کے معاصر غیر مسلم افراد اور حکومتوں کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے ۔ ان کی ریاست میں غیر مسلموں کو دوسرے درجے کا شہری نہیں سمجھا جاتا تھا، بلکہ امیر کے کئی سفیر غیر مسلم تھے ۔اسی طرح مذاکرات میں بھی وہ کسی نہ کسی غیر مسلم کو شریک رکھتے تھے ۔

حافظ محمد سلیمان اسدی

حافظ محمد سلیمان اسدی (لیکچرار، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج ، گوجرانوالہ) کی گفتگو کا عنوان ’’فقہائے احناف کے حدیث کے رد و قبول کے معیارات ‘‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ:
روایات کی تحقیق کے حوالے سے قرآن کریم کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ اسی طرح احادیث میں بھی تحقیق روایت کے بارے میں واضح تعلیمات دی گئی ہیں، جیسے حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت علیؓ یمن سے اونٹ لینے گئے۔ جب واپس آئے تو گھر میں دیکھا کہ حضرت فاطمہؓ نے احرام کھولا ہوا ہے، جبکہ دوسرے افراد نے ابھی احرام نہیں کھولا تھا۔ حضرت علیؓ کو کچھ ناگواری محسوس ہوئی تو حضرت فاطمہؓ نے ان کو بتایا کہ میرے والد گرامی نے اسی طرح حکم دیا ہے۔ حضرت علیؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے توآپ نے حضرت فاطمہؓ کی بات کی توثیق کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی تردد پیش آتا تو صحابہ کرامؓ براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق کر لیتے اور یہ بات ان کے لیے اطمینان کا باعث ہوتی اور تشفی ہو جاتی ۔اسی طرح حضرت ابو موسی ٰ اشعری ؒ ، حضرت عمرؓ کے بلانے پر ان کے گھر گئے اور اجازت نہ ملنے پر واپس آگئے تو حضرت عمرؓ نے اس بات کی ان سے دلیل بھی مانگی اور اس دلیل کے بارے میں گواہ بھی مانگے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد دو علاقے صحابہ کرامؓ کے علمی مراکز تھے، مدینہ منورہ اور عراق میں کوفہ۔ مستقبل میں انھ دو مراکز سے مسلمانوں کی علمی راہنمائی ہوتی رہی۔ اسی سے فقہاء کے دو گروہ بنے ، اہل حجاز اور اہل عراق۔ اہل عراق کو بعد میں فقہائے احناف کا نام دیا گیا ۔ان کے احادیث کو رد و قبول کرنے کے معیارات میں سے ایک معیار یہ تھا کہ وہ روایت نقل کرنے والے صحابہ کرامؓ کے درجات کا خیال رکھتے تھے، یعنی صحابہ کرامؓ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طول صحبت، یا کبر سنی یا فہم فراست اور رتبے میں بلندی کو ملحوظ رکھتے تھے اور درجہ صحابیت میں اعلیٰ فرد کی روایات کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد سمجھتے تھے۔

مولانا محمد عمار خان ناصر

مولانا محمد عمار خان ناصر (ڈپٹی ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی ، گوجرانوالہ) نے ’’فکری وتہذیبی سوالات اور اسلامی تحقیق کا باہمی ربط ‘‘ کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:
جامعات میں جب تحقیق ہوتی ہے تو دو طرح کے رجحانات کے درمیان کشمکش ہوتی ہے۔ ایک رجحان یہ ہوتا ہے کہ تحقیق کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جائے جو ہماری رویات اور تراث سے متعلق ہوں۔ کسی کتاب پر، کسی علمی شخصیت پر یا کسی علم و فن کے کسی پہلو پر تحقیق کی جائے۔ جبکہ اسلامیات کے علاوہ یونیورسٹی کے دیگر شعبہ جات کے افراد کا خیال یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا موضوع لیا جائے جو عصر جدید سے متعلق ہو ، موجودہ دور کا کوئی مسئلہ ہو جس کا حل تلاش کیا جائے، آج کے کسی سوال کا جواب ہو ۔ کوئی ایسا موضوع ہو جس کا موجودہ زمانے میں معاشرے کو کوئی فائدہ ہو۔ ان دونوں رجحانات کے ملاپ اور امتزاج سے ہی ایسی تحقیق وجود میں آ سکتی ہے جس کا ہماری روایت کے ساتھ بھی تعلق ہو اور موجودہ دور کے سوالات کا جواب بھی دے سکتی ہو۔
مختصر وقت میں کچھ ایسے عنوانات ذکر کروں گا جن سے ایک نمونہ ہمارے سامنے آئے گا کہ کیسے ہم اپنے روایتی ذخیرے سے بھی ایسے موضوعات نکال سکتے ہیں جن کا مطالعہ ہمیں اپنی روایت کی گہرائیوں کو سمجھنے اور ان تک رسائی میں بھی مدد دے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے آج کے فکری تناظر کے ساتھ بھی متعلق ہو ۔ ایسے ہی موضوعات کو تدریجی طور پر رواج دینے کی ضرورت ہے ۔
آج ہم جس ماحول میں، جس دنیا میں کھڑے ہیں، ظاہر بات ہے کہ وہ آج سے ڈیڑھ، دو سو سال کے ماحول سے مختلف ہے۔ آج کی سیاسی صورتحال بھی مختلف ہے، تہذیبی صورت حال بھی مختلف ہے۔ آج کے دور کے علمی و عقلی سوالات بھی ان سوالات سے مختلف ہیں جو آج سے دو سو سال پہلے لوگوں کے سامنے تھے۔مسلمان معاشروں کی اندرونی توڑ پھوڑ کی جو صورتحال آج ہے، وہ دو سو سال پہلے نہیں تھی ۔اس طرح ہر دور اپنے تناظر بھی بدلتا ہے، حالات بھی بدلتا ہے اور اسی کی مناسبت سے موضوعات کی نوعیت و اہمیت بھی بدلتی ہے ۔ جو عنوانات میں ذکر کرنے والا ہوں، ان میں سے کچھ عنوانات ہم نے گفٹ یونیورسٹی میں طلبہ کو دیے بھی ہیں اور کچھ میرے ذہن میں ہیں۔ ان کو ذکر کرنے کا مقصد اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ ہماری روایت کے جو نظری اور کتابی قسم کے موضوعات ہیں، ان کی بھی بڑی اہمیت ہے اور ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ایسے موضوعات کو بھی پوری اہمیت دینی چاہیے جن میں دونوں پہلو شامل ہوں۔ روایت کا مطالعہ بھی ہو اور معاصر تناظر کے سوالات بھی ان میں شامل ہوں۔
ابھی ہمارے دو دوستوں نے اپنے مقالات کا خلاصہ پیش کیا ہے، ان میں آپ یہ دونوں پہلو دیکھ سکتے ہیں۔ روایات کے رد و قبول کے حنفی معیارات، یہ بالکل ایک روایتی سا موضوع ہے جس میں اب بھی تحقیق کی کافی گنجائش ہے۔ امیر عبد القادر الجزائری والا موضوع دوسرے دائرے کی چیز ہے۔ اس میں تاریخ کا مطالعہ بھی ہے اور اس سے آج کے دور کی جدوجہد میں کچھ اہم چیزیں ہم سیکھ سکتے ہیں۔ 
ایک عنوان ہم نے ایک طالب علم کو دیا ہے، تکفیر کے مسئلہ میں امام غزالی ؒ کا نقطہ نظر۔ اس سوال سے بہت ابتدا میں مسلمان اہل علم کو سابقہ پیش آ گیا تھا کہ اسلام کے دائرے میں میں مختلف ایسے افراد اور گروہ بھی شامل ہو رہے ہیں جو دنیا کی بعض دوسری فکری اور مذہبی روایتوں کے زیر اثر خالص اسلامی عقائد ونظریات کے حامل نہیں، بلکہ ان سے منحرف ہیں۔ سوال یہ تھا کہ ہم کس مقام پر یہ فیصلہ کر یں گے کہ یہ فرد یا گروہ اسلام کے دائرے کے اندر نہیں رہا اور اب یہ اسلام کے دائرے سے باہر چلا گیا ہے۔ امام غزالی ؒ تقریباً پانچ سو سال کی علمی روایت کے وارث ہوئے اور انہوں نے ایک رسالے میں اس بحث کا مفصل محاکمہ پیش کیا ہے۔ یوں اس مطالعے میں تکفیر کے حوالے سے روایتی ذخیرے کی بھی تفہیم ہوگی اور آج مسلمان معاشروں کو بھی درپیش اسی سوال پر غور کرنے کی مختلف جہتیں سامنے آئیں گی۔
تکثیری معاشرہ آج کی ایک مقبول اصطلاح ہے، یعنی ایسا معاشرہ جس میں مختلف اور متنوع ثقافتیں اور تہذیبیں رہ رہے ہوں، ان سب کو قبولیت بھی حاصل ہو اور ان سب کے لیے مواقع بھی یکساں موجود ہوں۔ ابتدائی اسلامی تاریخ میں جب فتوحات کا زمانہ آیا اور اسلامی سلطنت پھیلی تو صحابہ کرامؓ کو بھی اسی طرح کے معاشروں سے واسطہ پیش آیا تھا۔ اب اگر اس دور کی تاریخ کا اس زاویے سے مطالعہ کیا جائے تو اس سے یہ راہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے کہ آج کے تکثیری معاشرے کے چیلنجز کا ہم کس طرح سامنا کریں۔
اسی طرح سیرت نبوی سے متعلق ہمارے مصادر ومآخذ میں مدنی دور کا مطالعہ زیادہ وسعت و گہرائی سے کیا جاتا ہے، اس کا زیادہ مواد ملتا ہے، جبکہ مکی دور کا مطالعہ اس طرح وسعت کے ساتھ نہیں کیا جا تا، حالانکہ اس کی بھی بڑی اہمیت ہے، خود مطالعہ سیرت کے حوالے سے بھی اور اس پہلو سے بھی کہ آج مسلمانوں کو مختلف علاقوں میں کئی طرح کے حالات کا سامنا ہے اور ان میں سے بعض حالات میں مکی دور کا اسوہ زیادہ راہنمائی دیتا ہے۔ اس پر ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب نے کچھ کام کیا بھی ہے اور ایک اچھی کتاب لکھی ہے، لیکن اب بھی کئی پہلو ایسے ہیں جن پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
امام ذہبیؒ کی ایک کتاب ہے ’’سیر اعلام النبلاء‘‘، یہ بظاہر رجال و تذکرہ کی کتاب ہے، لیکن اس میں خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کلامی تقسیمات سے اٹھ کر تمام مسالک و گروہوں کی شخصیات کا ذکر کیا ہے اور جس شخصیت کا علم و فضل کے لحاظ سے جو حق بنتا ہے، اس کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اس کے ، ساتھ ساتھ مسلمانوں کے آپس کے اختلافات کے حوالے سے بھی بہت اہم چیزیں بیان کی ہیں، تاریخی واقعات کے انداز میں بھی اور اپنے تبصروں کی صورت میں بھی ۔ہمارے ایک طالب علم اس پر کام کر رہے ہیں کہ ہم اس پورے مواد کا مطالعہ کریں اور اس سے یہ سمجھیں کہ ہر طرح کے اختلاف کے باوجود اسلامی معاشرے میں تنوع، قبولیت اور رواداری کی کیا روایت رہی ہے۔
اسلامی تہذیب کی دوسری تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کی کیا نوعیت رہی ہے، اس میں رد و قبول اور اخذ و استفادہ کے کیا معیارات مقرر کیے گئے، کس طرح کی چیزیں لے کر ان کو اپنے نظام میں ڈھالا گیا، اور کس طرح کی چیزیں قبول نہیں کی گئیں، اس موضوع کا بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ روایت و تاریخ کا مطالعہ بھی ہو گا اور آج ہمیں پھر اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ ہمیں دوسرے نظام ہائے فکر اور تہذیبوں سے واسطہ ہے، اس میں بھی راہنمائی ملے گی۔
ایک اور موضوع بھی بہت اہم ہے اور میں اس میں خاصی دلچسپی محسوس کرتا ہوں، وہ یہ کہ حنفی فقہی فکر آج کئی حوالوں سے از سر نو مطالعہ کا موضوع بن رہی ہے۔ مثال کے طور پر اس حوالے سے اس کا مطالعہ بہت اہم ہو گا کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے تلامذہ اپنے دور میں جو تہذیبی تبدیلی دیکھ رہے تھے،اس کو انھوں نے اپنے نظام فکر میں کیسے جگہ دی۔ ان کے ہاں جو اصول ان کے نظام فکر پر اثر انداز ہوئے، وہ سارے نظری قسم کے نہیں تھے۔ وہ معاشرتی تبدیلیوں کو ، بدلتے ہوئے حالات و ضروریات کو دیکھ رہے تھے اور نئے نئے معاشرے جو اپنا اپنا پس منظر لے کر اسلام میں آ رہے تھے، ان پر اسلامی قانون کے نفاذ میں جو پیچیدگیاں تھیں، اس کا بھی بہت گہرا ادراک ان کے ہاں ملتا ہے۔ اس حوالے سے اگر ان کے اجتہادات کا دوبارہ مطالعہ کریں تو عصر حاضر کے اعتبار سے ہمیں بڑی روشنی اور راہنمائی ملے گی۔ 
ایک موضوع یہ ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں سیاسی و حکومتی معاہدات اور ان کے تہذیبی اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ اسلامی تہذیب ایک اخلاقی تصور رکھتی تھی جس میں معاہدات کی پاسداری بڑی اہم اخلاقی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی۔ اسلامی سلطنت کے پھیلنے میں ان اخلاقی اصولوں کا بڑا غیر معمولی اثر ہے۔ ہمارے دور عروج میں دنیا میں عمومی تاثر یہ تھا کہ مسلمان جب معاہدہ کرتے ہیں تو اس کی پاسداری کرتے ہیں۔ اس پہلو کا بھی تاریخی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک دلچسپ عنوان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تاتاری جب اسلامی ممالک پر حملہ آور ہوئے اور آخر کار انہوں نے اسلام قبول کر لیااور اسلام کے سپاہی بن گئے تو یہ transformation کیسے ہوئی؟ وہ کیا عوامل تھے اور مسلمانوں نے کیا حکمت عملی اپنائی کہ اسلام کو مٹانے والے، اسلام کا حصہ بن گئے۔

ڈاکٹر عبد اللہ صالح صاحب

ڈاکٹر عبد اللہ صالح صاحب ( ایسوسی ایٹ پروفیسر، شیخ زاید اسلامک سنٹر ، جامعہ پنجاب ، لاہور) نے ’’علو م اسلامیہ میں تحقیق: چیلنجز اور امکانات ‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا:
مجھے یہاں آ کر سب سے پہلے تو اس بات کی خوشی ہے کہ کوئی ایسا فورم، کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو علوم اسلامیہ کے بارے میں سو چ بچار اور غورو فکر کرتے ہیں، مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور ان کا حل تلاش کرتے ہیں ۔یہ فورم اور ایسے لوگ آج کے دور میں غنیمت ہیں۔جہاں تک علوم اسلامیہ میں تحقیق ہے، اس حوالے سے نہ ہی کوئی خوش فہمی ہے کہ ہم کسی آئیڈیل پوزیشن پر کھڑے ہیں اور نہ ہی کوئی مایوسی کی بات ہے کہ ہم سر پکڑ کر بیٹھ جائیں کہ ہمارے ادارے اور محققین کوئی تحقیقی کام نہیں کر رہے۔علوم اسلامیہ میں اگر سو مقالات لکھے جاتے ہیں ان میں سے پانچ بھی اگر کام کے نکل آئیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا سفر جاری ہے اور ہم جمود کا شکار نہیں ہیں۔پاکستان میں ہندوستان سے مختلف اسکالرز اور علماء آتے رہتے ہیں۔ میں جہاں بھی موقع ملے، ان سے یہ سوال ضرور پوچھتا ہوں کہ ہمارے ہاں اور آپ کے ہاں ہونے والی تحقیق میں کیا فرق ہے؟یہ سوال میں نے علامہ نور الحسن راشد کاندھلوی، ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی اور ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی صاحب سے کیا جو پچھلے دنوں تشریف لائے ہوئے تھی اور الحمد للہ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات بجا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی سیاسی مسائل نہیں ہیں، لیکن پاکستان میں بھی تحقیقی کام ہو رہا ہے ، ادارے بھی کر رہے ہیں اور افراد بھی۔یہی علماء اکثر اوقات پی ایچ ڈی کے مقالات کے ممتحن بھی ہوتے ہیں اور بہت سے مقالات کے بارے میں ان کی رائے ہوتی ہے کہ یہ معیاری ہیں، اس لیے ان کو شائع کیا جائے ۔اس سے ایک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ ہم بالکل اندھیرے میں نہیں بیٹھے، کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے اور ہم آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
تحقیق کے ضمن میں ایک اچھی پیش رفت پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کا قیام بھی ہے۔ پہلے صرف پبلک سیکٹر یونیورسٹیز اعلیٰ تحقیق کرواتی تھیں اور اس میں داخلہ بہت کم لوگوں کو ملا کرتا تھا۔ اب پرائیویٹ یونیورسٹیز کی وجہ سے طلبہ کے لیے اعلیٰ تحقیق کے زیادہ مواقع ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ طلبہ کی اکثر تعداد ان مفادات کے حصول کے لیے آتی ہے جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں، لیکن بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو محض علمی پیاس بجھانے اور پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔ان پرائیویٹ یونیورسٹیز میں پیسہ کمانے کے لیے پیدا ہونے والا ایک رجحان کوئی اچھا اور مثالی رجحان نہیں ہے۔ اب یہ یونیورسٹیز طلبہ کو یہ آپشن بھی دیتی ہیں کہ وہ مقالہ لکھنے کی بجائے اگر اضافہ کورس پڑھ لیں تو ان کو ڈگری جاری کر دی جائے گی۔ علوم اسلامیہ میں تحقیق کے حوالے سے یہ کوئی اچھا رجحان نہیں ہے ۔ایم فل کی ڈگری ریسرچ اور تحقیق کی ڈگری ہے، اس لیے اس میں طالب علم کے لیے مقالہ لکھنا لازمی ہونا چاہیے۔
یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم کے لیے آنے والے دو قسم کے طلبہ ہوتے ہیں۔ ایک درس نظامی پڑھے ہوئے مدارس کے فضلاء اور دوسرے عام عصری اداروں کے ذریعے ایم اے کی ڈگری کے حاملین ۔ ان میں مدارس کے فضلاء کو بنیادی ماخذسے براہ راست استفادے کی صلاحیت کے پیش نظر سبقت حاصل ہوتی ہے اور یہی اس نظام کے اصل شناور ہیں، لیکن ان کو عصری علوم اور معاصر زبانوں سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
جامعات میں ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ تحقیق کے لیے موضوعات کون دے۔ جامعات میں کوشش یہ ہوتی ہے کہ موضوع طالب علم خود دے، کیوں کہ وہی تحقیق مؤثر ہوتی ہے جو طالب علم کے اندر سے نکلے اور وہ خود اس کا انتخاب کرے۔ لیکن اکثر طلبہ ایسا نہیں کرسکتے، اس کی مختلف وجوہات ہیں ۔ ایک وجہ تو ہمارے ادارے ہیں کہ انہوں نے کوئی ترجیحات متعین نہیں کی ہوتی قومی یا بین الاقوامی طور پر کہ جس پر ہمیں تحقیق کرنے کی اور راہنمائی کی ضرورت ہے ۔ اس وجہ سے موضوع تلاش کرنا پڑتا ہے اور ظاہری طور پر موضوعات کی کمی کا سامنا نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کام کرنے والوں کے لیے موضوعات کی کمی نہیں ہوتی۔ یہ موضوعات کا قحط وہیں نظر آتا ہے جہاں استاد و طالب علم میں مطالعہ کی کمی اور نقص ہوتا ہے ۔اب کتنے ایسے اساتذہ ہیں جو اچھے مقالات لکھتے ہیں، اچھی کتابیں لکھتے ہیں اور مختلف میدانوں میں اپنے مطالعہ کو وسعت دینے کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ بہت سے موضوعات جامعات میں اس لیے بھی نہیں دیے جاتے کہ اس موضوع پر تحقیق کروانے والے اساتذہ ہی نہیں ملتے، اس لیے دانستہ ایسا موضوع طالب علم کو نہیں دیا جاتا۔
ایک سوال تحقیق کی نوعیت کا ہے۔ ہماری زیادہ تر تحقیق کتابی قسم کی ہو رہی ہے جو لائبریریوں میں ہی پڑی رہ جاتی ہے۔ تحقیق ایسی ہونی چاہیے جو معاشرے، قومی و بین الاقوامی مسائل اور متحرک زندگی کے ساتھ تعلق بھی رکھتی ہو۔ جامعات میں دینی مدارس کے جو فضلاء آ رہے ہیں، وہ بنیادی مہارتوں کے اعتبار سے تو بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن ان کی تقریباً ساری توجہ عبارتی موشگافیوں اور عبارت کی ترکیب وغیرہ کی طرف ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ان کو ہدایہ کی کوئی عبارت دی جائے تو وہ اس کی ترکیب تو بہت اچھی کر دیں گے، لیکن اگر ان سے یہ پوچھا جائے کہ اس عبارت میں جو لکھا ہے، اس کے بارے میں دیگر علماء کا کیا موقف ہے، امام شافعی ؒ ، امام مالک ؒ وغیرہ کا تو وہ کچھ نہیں بتا پاتے، حتیٰ کہ جس کتاب کو انہوں نے بالاستیعاب پڑھا اور سمجھا ہوتا ہے، بسا اوقات وہ اس کے مصنف کا نام اور اس کے حالات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ یہ میرا تقریباً پندرہ سال کا تجربہ ہے۔ دینی اداروں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کمی کو ختم کیا جاسکے۔اسی طرح ان کا نصوص کا مطالعہ تو بہت اچھا ہوتا ہے، لیکن حالات حاضرہ سے اکثر اوقات وہ بالکل نابلد ہوتے ہیں۔ اگر ان سے پوچھ لیا جائے کہ اس وقت فلسطین کا یا عراق کا کیا مسئلہ ہے تو وہ نہیں بتا سکتے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ علوم اسلامیہ کے حوالے سے تو ان کی صورتحال کسی حد تک قابل اطمینان ہوتی ہے، لیکن دیگر علوم مثلاً سوشل سائنسز کے حوالے سے وہ کچھ نہیں جانتے ہوتے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ علوم اسلامیہ کو سیاسیات کے نئے رجحانات، اقتصادیات کے نئے پہلوؤں اور اسی طرح دیگر معاشرتی علوم کے ساتھ Interlinkکیا جائے ۔ اسی لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ درسیات یا کتابی علوم سے متعلق ہی ان کو کام دیا جائے ۔ اگر مدارس کے فضلاء ان چیزوں پر کچھ توجہ مرکوز کر لیں تو ان کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ ہمارا ماضی اس بات پر گواہ ہے اور ابھی بھی مدارس کے فضلاء جو ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں، ان کی تحقیق میں جو گہرائی ہوتی ہے، وہ مروجہ جامعات کے فاضلین کی تحقیق سے کئی حوالوں سے زیادہ ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے ادارے کی اشد ضرورت ہے جو مستقبل کے حالات و امکانات کے حوالے سے ملک میں ہونے والی تحقیق کی سمت متعین کر ے۔ ایچ ای سی نے کچھ اصول تو دیے ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسے اقداما ت بھی کیے ہیں جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تحقیق کا معیار بلند ہونے کی بجائے مزید گر گیا ہے ۔ اس چیز کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں یونیورسٹیز کے اندر اصول تحقیق اور معیار تحقیق میں یکسانیت ہو۔ اس وقت ہر یونیورسٹی کا اپنا اپنا معیار اور اصول تحقیق ہیں، اسی وجہ سے تکرار تو عام ہو گیا ہے حالانکہ اب ITکے شعبہ میں ترقی کی وجہ سے وسائل بھی آ گئے ہیں کہ کسی موضوع پر دیکھا جائے کہ آیا کسی یونیورسٹی نے اس پر پہلے کام تو نہیں کروا دیا، لیکن عام طور پر اس بات کا اہتمام نہیں کیا جاتا اور اگر کیا بھی جاتا ہے تو بہت سرسری سا ہوتا ہے۔یہ چند معروضات ہیں جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی (ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ) نے اختتامی کلمات میں کہا کہ:
میں آپ سب حضرات کا اور بالخصوص ڈاکٹر عبد اللہ صالح صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ تشریف لائے اور اچھے موضوعات پر اچھی محفل دو دن جمتی رہی۔ میں اس بات پر بھی اطمینا ن کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ الشریعہ اکادمی کا جن عزائم اور جن مقاصد کے تحت ہم نے آغاز کیا تھا، الحمد للہ مجھے وہ مقاصد اب پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں اور یہ نظم اصل ٹریک پر چڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے الحمد للہ۔ میرے ذہن میں ایک خواب تھا جو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے پورا فرما رہے ہیں۔ اس کے ساتھ میں حصہ ڈالنے کے لیے ایک بات عرض کرنا چاہوں گا ۔ ڈاکٹر صاحب نے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے اکثر خدشات میرے ذہن میں بھی ہیں۔ موجودہ صورتحال کے حوالے سے ایک بات میں بھی کہنا چاہتا ہوں۔
پچھلے دنوں وزارت مذہبی امور نے ایک قومی علماء ومشائخ کونسل بنائی جس کا میں بھی ممبر ہوں۔ اس کونسل نے ایک قومی نصاب کمیٹی برائے دینی مدارس تشکیل دی ہے جس کی دو تین میٹنگز ہو چکی ہیں۔ میں نے ایک میٹنگ میں سوال کیاکہ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم قومی سطح پر تعلیم کی عمومی صورتحال کا جائزہ لے کے ایک رپورٹ پیش کر دیں کہ اس وقت ملک میں تعلیم کی کیا صورتحال ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ دینی مدارس کے نصاب سے فرقہ وارانہ مواد کیسے خارج کرنا ہے۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور اس پر فوکس کریں۔ یہ ضمناً ایک بات ہے۔
میں تحقیق کے نتائج کے حوالے سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تحقیق کر چکنے کے بعداس کے نتائج کو پیش کرتے ہوئے ماحول کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ معاشرے پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ بخاری کی روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا۔ آپ نے حضرت عائشہؓ کو ایک روز بتایا کہ مجھے پتہ چل گیا ہے، فرشتوں نے بتایا ہے کہ مجھ پر جادو ہوا ہے، فلاں چیز پر کیا گیا ہے اور فلاں نے کیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق کی، وہ کنواں بھی مل گیا جہاں جادو کیا گیا تھا، وہ چیز بھی برآمد ہو گئی اور جس نے کیا تھا، اس کا بھی پتہ چل گیا ۔آج کی اصطلاح میں یہ کہیں کہ کیس بھی ثابت ہو گیا اور آلہ واردات بھی مل گیا۔ اس سب کچھ کے بعد حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ھلا نشرتہ؟ یارسول اللہ ! مسجد میں جا کر اعلان فرمائیں، آپ نے اعلان کیوں نہیں کیا ؟ یہ بات دو چار بندوں تک ہی محدود کیوں ہے ؟آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے بتا دیا ہے اور میرا مسئلہ حل ہو گیا ہے، اب میں لوگوں میں شر کیوں پیدا کروں؟
اس واقعے سے میں اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ تحقیق کرنا تو ٹھیک ہے، لیکن کیا ہر تحقیق کا نشر کرنا بھی ضروری ہے؟ یا اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے، مثبت ہوں گے یا منفی ؟ میرے خیال میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
ایک بات میں ڈاکٹر صاحب کی تائید میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں ہر ادارہ ایڈ ہاک ازم پر چل رہا ہے، جامعات بھی، ادارے بھی ، اور افراد بھی ۔ ہمیں چاہیے کہ قومی پالیسی طے کریں، تقسیم کار کریں اور سمت طے کریں ۔ جو کام ہو رہا ہے، اگر یہی کام پلاننگ کے تحت ہو تو اس کی افادیت دو گنا نہیں بلکہ کئی گنا بڑھ جائے گی ۔ 
ورکشاپ کے اختتام پر مقررین کو اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ او رالشریعہ اکادمی کی طرف سے شیلڈز دی گئی اور شرکاء کو شرکت کی اسناد پیش کی گئیں ۔
آئی آر ڈی کے احباب (محمد اسماعیل صاحب، محمد فرقان اور محمد یونس قاسمی) کے ساتھ الشریعہ اکادمی کی ٹیم (مولانا محمد عثمان، حافظ محمد رشید، مولانا محمد طبیب، مولانا محمد عبد اللہ راتھر، مولانا عبد الوہاب، حافظ شفقت اللہ) نے مل جل کر اس دو روزہ ورکشاپ کے انتظامات کیے اور بحمد اللہ حسن وخوبی سے دو دنوں میں تین نشستوں کا کامیاب انعقاد کیا گیا۔

مجلس یادگار شیخ الاسلام کے زیر اہتمام مولانا سندھیؒ پر سیمینار

گزشتہ نومبر کے دوران میں لاہور کی قدیمی دینی درسگاہ جامعہ مدنیہ ، کریم پارک میں "مجلس یادگار شیخ الاسلام " کے زیر اہتمام مولانا عبید اللہ سندھی کی شخصیت اور افکار کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیاگیا۔ عشاء کی نماز کے بعد سیمینار کا تلاوت قرآن کریم سے باقاعدہ آغاز ہوا ۔ 
پہلا مقالہ پروفیسر امجد علی شاکر کا تھا۔ انہوں نے "مولانا عبید اللہ سندھی بطور صوفی " کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور قبول اسلام کے بعد ان کی مختلف بزرگوں اور مختلف خانقاہوں کے ساتھ وابستگی کو تفصیل سے بیان کیا ۔ ان کے مقالے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ حضرت سندھی نے علم حاصل کرنے سے پہلے تصوف کے مراحل طے کیے۔ انہوں نے حضرت سندھی کا ایک واقعہ سنایا کہ کیسے انہوں نے دہلی کا ایک سفر بغیر زاد راہ کے کیا اور کیسے اللہ تعالیٰ نے دوران سفر ان کی دستگیری فرمائی۔ انہوں نے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت سندھی اپنی ذاتی زندگی میں تیسرے گروہ کے صحابہ کرام کے مزاج کے حامل تھے جو اس بات کے قائل تھے کہ اگلے دن کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے سونے سے پہلے تمام مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے تھے۔ (پروگرام کے بعد ہماری اس حوالے سے گفتگو ہوئی تو ایک دوست نے کہا کہ یہ واقعہ حضرت سندھی کی مجموعی فکر سے میل نہیں کھاتا۔ کیونکہ حضرت سندھی اپنے نصائح میں متعلقین کو نہ صرف معاشی ذرائع اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں بلکہ معاشی طور پر تفوق کے حصول کے داعی ہیں اور اس کو اس زمانے میں اسلام کی سر بلندی کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔) بہر حال مجموعی طورپر انہوں نے حضرت سندھی کے سفر تصوف و علم کو بہت عمدگی سے بیان کیا۔ 
دوسرا خطاب استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی کا تھا ۔ استاد گرامی نے فرمایا کہ ہمارے ہاں یہ عمومی مزاج بنتا جا رہا ہے کہ اکابر میں سے کسی بزرگ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ گفتگو چند باتوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ کوئی بھی بڑا شخص جب مسائل پر اظہار خیال کرتا ہے یا ان کے لیے عملی کوشش کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ دو چار باتیں ایسی ضرور ہوتی ہیں جن میں انفرادیت ہوتی ہے اور وہ عام روٹین اور روایت سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔ ایسی باتیں ناقدین کے ہاں تو موضوع بحث بنتی ہی ہیں مگر ہم نوا حلقے بھی انہی کے دفاع میں مصروف ہو جاتے ہیں اور پھر اس شخصیت کے بارے میں سارا تذکرہ انہی باتوں کے گرد گھومتا رہتا ہے جس سے شخصیت کے مثبت ارشادات و اعمال نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ایسے طرز عمل سے بہت سی بڑی شخصیات اعتراضات و جوابات کے گرد ہی گھوم کر رہ جاتی ہیں۔ چنانچہ ہمیں اپنے بزرگوں سے صحیح استفادہ کے لیے اس نفسیات اور مزاج کے ماحول سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اکابر کی زندگیوں کے ان پہلوؤں کو سامنے لانا چاہیے جن کا تعلق امت کی اجتماعی راہنمائی سے ہے اور جن سے نئی نسل کو اس کی تربیت و اصلاح کے لیے آگاہ کرنا زیادہ ضروری ہے۔ 
اس کے بعد استاد گرامی نے حضرت سندھی کے حوالے سے تحقیقی کام کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا۔ (ان کی گفتگو کا خلاصہ ’الشریعہ‘ کے گزشتہ شمارے میں شائع کیا جا چکا ہے)۔ آخر میں کہا کہ آج کے علماء کرام اور دانش وروں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ تہذیبوں کے تصادم اور ثقافتوں کے اس ٹکراؤ کو سمجھنے کی کوشش کریں، آج کے عصر کا ادراک حاصل کریں، اور اس سولائزیشن وار میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں امت مسلمہ بلکہ نوع انسانی کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں جس کے لیے ولی اللہی فکر و فلسفہ کی روشنی آج بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ میرے نزدیک آج کی نسل کے لیے مولانا عبید اللہ سندھی کا پیغام یہی ہے۔ 
استاد گرامی کے خطاب کے بعدسینیٹر حافظ حمداللہ کا خطاب تھا، لیکن بعض وجوہ کی بنا پر اس میں شرکت نہ ہو سکی۔ ان کے بعد قاری تنویر احمد شریفی صاحب نے گفتگو کی، لیکن وقت کی قلت کے باعث انہوں نے انڈیا سے مولانا ارشد مدنی صاحب کا بیان پڑھ کر سنانے پر اکتفا کی۔
ان کے بعد شیخ ابوبکر صاحب نے گفتگو کی اور مولانا سندھی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بطریق احسن نمایاں کیا اور اس بات پر زور دیا کہ حضرت سندھی کے اصل افکار ان کے وطن واپسی کے بعد کے ہیں، اس لیے ان کو زیادہ اہمیت کے ساتھ بحث و تحقیق کا موضوع ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں جس عبید اللہ سندھی کو پڑھ کر شعوری طور پر مسلمان ہوا ہوں، وہ ہجرت کے بعد کے عبید اللہ سندھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید دور میں جو اشکالات پیدا ہو رہے ہیں، ان کے جوابات اور تسلی بخش جوابات تلاش کرنے کے لیے ہمیں حضرت سندھی کو پڑھنا پڑے گا۔ انہوں نے آج سے 75 سال پہلے جن خیالات کا اظہار کیا تھا، وہ آج بھی اسی طرح تازہ ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے عصر حاضر کا کوئی دانش ور اپنے دور کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال ان کے وہ نصائح ہیں جو انہوں نے مولانا عبید اللہ انور کو ان کے دورہ حدیث کے سال کی تھیں ۔
جس سال مولانا عبید اللہ سندھی وطن پہنچے، وہ سال مولانا عبید اللہ انور کا دورہ حدیث کا سال تھا۔ مولانا عبید اللہ انور ان سے ملنے گئے تو انہوں نے جو نصائح فرمائے، ان میں سے چند کچھ اس طرح ہیں: فرمایا کہ تمہیں چاہیے کہ حضرت مدنی سے لطیفہ قلبی سیکھو، یعنی ذکر اللہ سیکھو۔ اس کے ساتھ انگریزی زبان سیکھو اور اسے سیکھنے میں ڈائریکٹ میتھڈ استعمال کرو۔ جب تم کوئی کام کرنے لگو تو اس کو عقل و خرد کے ترازو میں تولو، اور جب کسی کام کا فیصلہ کر لو تو اس وقت تک ڈٹے رہو جب تک تمہیں اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ اب تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ جو تم نے گھروندے بنا رکھے ہیں، وہ نہیں بچیں گے ، یعنی زمانے کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔
ان کے خطاب کے بعد وقت کی کمی کی وجہ سے مولانا عبد الوحید اشرفی کو ان کے اصرار پر ایک منٹ کے لیے گفتگو کا وقت دیا گیا جس میں انہوں نے حضرت سندھی پر ہونے والے اعتراضات کے صحیح تناظر کو واضح کرنے کی کوشش کی ، لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکے۔ 
آخر میں ڈاکٹر اویس شاہد صاحب، جو کہ صدر مجلس بھی تھے، کی دعا پر سیمینار کا اختتام ہوا۔ 
مولانا عبید اللہ سندھی پر سیمینار کا انعقاد ایسا مبارک کام ہے کہ ساری کمزوریوں کے باوجود یہ کاوش انتہائی مستحسن ہے۔ اس سیمینار کو مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کی فکر کی طرف توجہ کا آغاز کہا جا سکتا ہے جس کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے، لیکن عصر حاضر میں سیمینار کے عنوان سے منعقد کیے جانے والے پروگرامات کے کچھ لوازمات ہیں جو ایسے پروگرامات کو بارآور کرنے میں انتہائی معاون ہوتے ہیں ، مثلاً عام جلسے اور سیمینار میں فرق ہونا چاہیے۔ سیمینار میں شرکاء کی زیادہ تعدا دنہ بھی شریک ہو تو کوئی مضائقہ نہیں، تعداد کی بجائے معیار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیمینار میں سوال و جواب کی نشست بات کی درست تفہیم کے لیے انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر اس کا کما حقہ فائدہ وصول نہیں کیا جا سکتا۔ سیمینار کا ایک اور لوازمہ غیر رسمی نشستیں ہوتی ہیں جس میں شرکاء ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں اور زیر بحث موضوع پر بے لاگ تبصرے اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں جس سے موضوع کے پوشیدہ پہلو بھی سامنے آجاتے ہیں اور مستقبل میں اس حوالے سے کام کی راہیں واضح ہوتی ہیں۔ سیمینار میں صدر مجلس کی ذمہ داری محض بیٹھ کر سننا ہی نہیں ہوتا بلکہ مقررین کی گفتگو کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی اور مضبوط پہلوؤں کی تحسین بھی ان کے فرائض میں شامل ہوتا ہے تاکہ اگر کسی بات سے سامعین میں کوئی غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کو دور کیا جا سکے اور مقصود پر توجہ مرکوز رکھنے کی تاکید کی جا سکے۔ وقت کی پابندی آج کل کے پروگرامات کا خاصہ سمجھی جاتی ہے، اس کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔
بہر حال حضرت سندھی کے حوالے سے اس سیمینار کے انعقاد پر مجلس یاد گار شیخ الاسلام پاکستان کے ذمہ داران ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ دعا ہے کہ اس موضوع پر یہ سیمینار بارش کے پہلے قطرے کی حیثیت حاصل کر لے اور حضرت سندھی کی فکر کے فروغ کا سبب بنے۔

فرزند جھنگویؒ اور جمعیۃ علماء اسلام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا مسرور نواز جھنگوی کی الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی اور اس کے بعد جمعیۃ علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان دونوں اچھی اور حوصلہ افزا خبریں ہیں جن پر دینی حلقوں میں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور جھنگ کی صورتحال میں اس تبدیلی کا خیرمقدم کیاجا رہا ہے۔ ہمارے جذبات بھی اس حوالہ سے یہی ہیں اور ہم اپنے عزیز محترم مولانا مسرور نواز کو مبارک باد دیتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ 
موصوف کے ساتھ کوئی ملاقات تو یاد نہیں ہے مگر ان کے والد محترم حضرت مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کے ساتھ ایک عرصہ تک ملاقاتیں اور دینی جدوجہد میں رفاقت رہی ہے۔ ہم دونوں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سرگرم حضرات میں سے تھے اور مختلف مراحل میں باہمی مشاورت اور رفاقت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمن گروپ میں تقسیم ہوئی تو ہم دونوں بھی اس تقسیم کا شکار ہوئے۔ میں درخواستی گروپ کا فعال کردار تھا اور وہ فضل الرحمن گروپ میں متحرک تھے۔ دونوں ورکر تھے اور سیاسی بیانات کے علاوہ پبلک اجتماعات کے خطابات دونوں کا میدان کارزار تھا اس لیے آپس میں نوک جھونک بھی چلتی رہتی تھی۔ لیکن باہمی ملاقاتیں، مشاورت اور مختلف معاملات میں تعاون کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ 
مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ نے جھنگ کی وڈیرہ سیاست کے خلاف محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے عقائد و مفادات کے تحفظ کا مورچہ سنبھالا تو ان کے موقف سے اصولی اتفاق رکھتے ہوئے بوقت ضرورت ان کو سپورٹ کرنے کی سعادت مجھے بھی حاصل ہوتی رہی۔ البتہ ان کے طریق کار سے خود کو کبھی متفق نہیں پا سکا اور اس کے اظہار میں بھی کبھی مجھے حجاب نہیں رہا۔ ان کے ساتھ میں نے بارہا اس سلسلہ میں گفتگو کی حتیٰ کہ ان کی شہادت کے روز اس سانحہ سے ایک گھنٹہ قبل بھی فون پر ان سے اسی حوالہ سے میری گفتگو ہوئی تھی جو ان کے ساتھ میری آخری گفتگو ثابت ہوئی۔ وہ سپاہ صحابہؓ کے نام سے نئی تنظیم قائم کرتے ہوئے بھی جمعیۃ علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کے صوبائی نائب امیر تھے لیکن دھیرے دھیرے وہ جمعیۃ علماء اسلام میں غیر متحرک ہوتے ہوئے اپنی قائم کردہ تنظیم کے لیے ہی وقف ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے دفاع صحابہؓ کے لیے ملک بھر کے ہزاروں نوجوانوں کو اپنے ذوق کے مطابق منظم کیا، پرجوش اور متحرک کیا، جذبہ و قربانی کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور پھر اسی مشن کے لیے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا۔ 
مولانا جھنگویؒ کی شہادت کے بعد کیا ہوا اور کیا ہوتا رہا، میں اس مرحلہ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ میں نے یہ ساری تمہید اس لیے باندھی ہے کہ ان کے فرزند مولانا مسرور نواز جھنگوی نے جمعیۃ علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کیا ہے تو کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ اپنے پرانے گھر میں ہی واپسی کی ہے۔ جبکہ جمعیۃ کے امیر مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے بھتیجے کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ کر بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔ 
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا اصل میدان ملک میں نفاذ اسلام ہے۔ البتہ ایک دور میں جمعیۃ مسلکی معاملات بالخصوص سنی شیعہ کشمکش سے اس قدر لاتعلق نہیں ہوتی تھی جتنی اس وقت بظاہر دکھائی دے رہی ہے۔ بلکہ ان امور میں متعلقہ حلقوں کو سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ جمعیۃ کا اپنا بھی ایک موقف اور کردار ہوتا تھا اور وہ مسلکی محاذ کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے حلقوں کے درمیان کوآرڈی نیشن اور سرپرستی کا فریضہ سرانجام دیا کرتی تھی۔ یہ پہلو جوں جوں دھیما پڑتا گیا مسلکی مسائل پر محنت کرنے والی جماعتیں خودمختار اور آزاد ہوتی چلی گئیں جس سے مسلکی حلقوں میں باہمی عدم تعاون بلکہ خلفشار کا ماحول پیدا ہوگیا۔ میرے خیال میں آج بھی اگر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اجتماعی دینی و ملی معاملات کے حوالہ سے تمام مذہبی مکاتب فکر کے درمیان جبکہ مسلکی مسائل کے حوالہ سے متعلقہ جماعتوں کے درمیان حقیقی اور عملی کوارڈینیٹر کا کردار سنبھال لے تو ملک بھر کے دینی حلقوں میں دن بدن بڑھتے چلے جانے والے خلفشار کی سنگینی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ 
اہل سنت کے حقوق و مفادات اور صحابہ کرامؓ کی عظمت و مقام کے تحفظ کا محاذ ان میں سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے، اس لیے کہ اس دائرہ میں مستقبل کے خدشات و خطرات کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے اور مشرق وسطیٰ کے وسعت پذیر تغیرات پاکستان کی صورتحال پر براہ راست اثر انداز ہوتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ میرے خیال میں یہ محاذ پہلے بھی جوش و خروش سے زیادہ حکمت و تدبر کا متقاضی تھا اور اب تو اس میں کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے حکمت و تدبر اور دانش و حوصلہ ہی واحد ذریعہ اور آپشن باقی رہ گیا ہے۔ اس پس منظر میں مولانا مسرور نواز جھنگوی کی اپنے پرانے گھر میں واپسی خوش آئند ہے اور یہ بات مزید خوش کن ہے کہ اس سارے عمل کو مولانا محمد احمد لدھیانوی کی سرپرستی حاصل ہے۔ 
ملک بھر میں مختلف دینی محاذوں پر کام کرنے والے دیوبندی علماء کرام اور کارکن اصل میں جمعیۃ علماء اسلام ہی کا اثاثہ ہیں جنہیں اپنا حقیقی اور قیمتی اثاثہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ دو طرفہ اعتماد اور تعلقات کار بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ یہ ضروری ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمن اور حضرت مولانا سمیع الحق مل بیٹھ کر اس کا راستہ نکالیں۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اگلے سال اپریل کے دوران صد سالہ تقریبات کا انعقاد کرنے جا رہی ہے، اگر اس سے قبل اس سلسلہ میں کوئی مشترکہ حکمت عملی اور روڈ میپ طے کیا جا سکے تو نہ صرف تقریبات کا لطف دوبالا ہو جائے گا بلکہ علماء اور کارکنوں کو بہت حوصلہ ملے گا۔ اس سے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر دین اور دینی حلقوں کے خلاف مصروف عمل سیکولر قوتوں کو مؤثر پیغام جائے گا اور علماء حق کا یہ قافلہ نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ اگلی صدی کے سفر کا آغاز کر سکے گا۔ 
دلی دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے عزیز بھتیجے مولانا مسرور نواز جھنگوی کو اس کارِ خیر کا نقطۂ آغاز بنا دیں اور اہل حق کو آج کے تقاضوں اور ضروریات کے ادراک کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مولانا مسرور نواز کی کامیابی کے متوقع مثبت اثرات

محمد عمار خان ناصر

(جھنگ کی صوبائی نشست پر مولانا مسرور نواز کی کامیابی کے حوالے سے سوشل میڈیا کے لیے لکھی گئی مختصر تحریر) 
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہ کامیابی ایک بہت بڑے حلقے کو، جو صحیح یا غلط وجوہ سے گزشتہ تین دہائیوں سے حکومتی وسیاسی پالیسیوں سے نالاں تھا اور بڑی حد تک مین اسٹریم کی مذہبی جدوجہد سے کٹ چکا تھا، دوبارہ اس میں واپس لانے اور جمہوری طرز جدوجہد پر اس کا اعتماد بحال کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت نے بھی یقیناًایسے عناصر کو اکاموڈیٹ کرنے کی پالیسی اپنائی ہے جو ہر لحاظ سے درست اور دانش مندانہ ہے۔ ناراض عناصر کو مین اسٹریم میں واپس لانا اور انھیں سیاسی space دینا، نہ کہ انھیں دور سے دور تر کرتے چلے جانا، ہی مدبرانہ سیاسی حکمت عملی ہے۔ انتہا پسندانہ رجحانات کو اعتدال پر لانے کا واقعاتی دنیا میں یہی ایک طریقہ ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس کامیابی پر پورے دیوبندی حلقے میں بحیثیت مجموعی خوشی محسوس کی گئی ہے اور اس تقسیم کو، جو سپاہ صحابہ کے ظہور کے بعد جمعیت علماء اسلام اور سپاہ صحابہ کے مابین پیدا ہوئی اور رفتہ رفتہ شدید منافرت تک جا پہنچی، کم کرنے میں بھی یقیناًمدد ملی ہے اور مزید مل سکتی ہے۔ جمعیت کا رویہ اور طرز فکر پہلے بھی روادارانہ رہا ہے اور اس کامیابی میں جمعیت کی تائید کا بھی حصہ ہے۔ اس لیے توقع کی جانی چاہیے کہ باہمی منافرت کی فضا میں مزید کمی آئے گی اور ترجیحات کے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور مشترکہ امور میں تعاون کی فضا دوبارہ قائم ہو سکے گی۔
بعض اطلاعات کے مطابق اس کامیابی میں جھنگ کے بعض شیعہ ووٹرز نے بھی مولانا مسرور نواز کی تائید کی ہے، اس بنیاد پر کہ ان کا تعلق کسی جاگیردار خاندان سے نہیں، بلکہ عوامی طبقات سے ہے۔ یہ بھی ایک بہت اہم پہلو ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سپاہ صحابہ جھنگ میں خود کو ایک حقیقی عوامی جماعت کی حیثیت سے منظم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو نہ صرف سیاسی لحاظ سے بلکہ شیعہ اور سنی کی مذہبی تفریق کو کم کرنے کے لحاظ سے بھی اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام اسوۂ حسنہ سیمینار

حافظ محمد شفقت اللہ

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ۷دسمبر ۲۰۱۶ء کو اسوۂ حسنہ کے عنوان سے ایک سیمینارمنعقد کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹرعبدالماجد حمید المشرقی صاحب نے فرمائی۔ خصوصی خطاب کے لئے فاضل نوجوان مولانا شاہ نواز فاروقی صاحب مدعو کیے گئے۔سیمینار کا آغازاستاذ القراء قاری سعید احمد صاحب کی تلاوت سے ہوا ۔بعد ازاں الشریعہ اکادمی کے طالب علم عبدالرحمن نے نعت رسول مقبولؐ پیش کی۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے رہنما جناب احمد حسین زید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں برے نتائج سے بچنے کے لئے زندگی کے تمام شعبوں میں تمام معاملات کواسوۂ حسنہ کے مطابق چلانا ہوگا۔انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کوڈاکٹر عبد السلام کے نام سے منسوب کرنے کی مذمت کی اور کہا کہ جو شخص امریکہ میں بیٹھ کر کہتا ہے کہ میں ایک ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پسند نہیں کرتا، ایسے شخص کو اعزاز سے نوازنا افسوس ناک ہے۔
راقم الحروف (حافظ شفقت اللہ) نے چند معروضات پیش کرتے ہوئے کہا کہ کامیابی و کامرانی تعلیماتِ نبویؐ، اسوۂ حسنہ سے ہی وابستہ ہے۔ اسوۂ حسنہ سے ہٹ کر اگر کوئی کسی دوسرے راستے کا انتخاب کرے گا تو وہ گمراہی کی پاتال میں جا گرے گا۔
مولانا شاہ نواز فاروقی صاحب نے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بنیادی طور پر دو پہلو ہیں: (۱)کمالاتِ نبوی اور (۲)تعلیماتِ نبوی۔ کمالات آپ کی خصوصیات کہلائے اور تعلیمات آپؐ کا اسوۂ کہلائے۔ 
آپ ؐ کے کمالات کے بارے میں علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اپنی زندگی کی آخری کتاب خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ جس طرح روشنی کے تمام مراتب کی سورج پر انتہا ہے، ایسے ہی کمالات کے بھی تمام مراتب کی آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہا ہے۔ آپ کی ذات کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ آپ کی نبوت وجوداً اول ہے، ظہوراً آخر ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وجود میں تقدیم باعثِ افضلیت ہے اور ظہور میں تاخیرباعث افضلیت ہے۔
مولانا فاروقی نے کہا کہ سیرت النبیؐ کے دوسرے پہلو کی چار خصوصیات ہیں:
(۱) آپؐ کی تعلیمات کامل و مکمل محفوظ ہیں۔ جوفیضانِ نبوت آپ کے در سے چلا، اس کو اصحابِ پیغمبرؓ نے اور جو گھر سے چلا، اس کو ازواجِ پیغمبر نے امت تک منتقل کرکے عظیم احسان کیا ہے۔
(۲) آپ کی تعلیمات جامع ہیں جو زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود کوئی متجددایسا کوئی مسئلہ نہیں پیش کر سکا جس کا حل چودہ سو سال پہلے آپؐ نے اپنی تعلیمات میں نہ پیش کیا ہو۔
(۳) اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی تعلیمات کو کاملیت عطا فرمائی۔ نبی کی تعلیمات کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو مخفی ہو حتیٰ کہ آپؐ نے ازدواجی زندگی کا نازک ترین مرحلہ بھی امت سے مخفی نہیں رکھا ۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی نبی کا نام لیواخفا کی وجہ سے کشکولِ گدائی لے کر غیر کے دروازے پر نہ چلا جائے۔
(۴) آپ کی تعلیمات کو عملیت بھی عطا فرمائی۔ آپ کی شریعت میں قول ہی نہیں فعل بھی ہے، قال ہی نہیں حال بھی ہے،علم ہی نہیں عمل بھی ہے،تھیوری ہی نہیں پریکٹیکل بھی ہے۔
ہماری عملی زندگی کا تعلق کمالاتِ نبوی سے نہیں تعلیماتِ نبوی سے ہے۔ تعلیماتِ نبوی ہی کو علماء نے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالماجد حمید المشرقی صاحب نے صدارتی کلمات کہتے ہوئے سامعین کی فرمائش پر اپنی انگریزی میں کہی ہوئی نعت: if you want to go to Madeena, let us go to Madeena اردو ترجمے کے ساتھ سماعتوں کی نذر کی۔ دوسری نعت (اب میری نگاہوں کا خوب یہ قرینہ ہے،بس اس طرف یہ اٹھتی ہیں جس طرف مدینہ ہے) کے دوران ڈاکٹر صاحب کے فی البدیہہ اشعار نے سامعین کو مزید محظوظ کیا۔
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے دعائیہ کلمات کے ساتھ اس تقریب کا اختتام ہوا۔

فروری ۲۰۱۷ء

اختلاطِ مرد وزن، پردہ اور سماجی حقوق و فرائض / دینی مدارس کا نصاب ونظام۔ قومی پالیسی وضع کرنے کی ضرورتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۷)ڈاکٹر محی الدین غازی
’’سفر جمال: نبی مکرمؐ کی جمالیاتی مزاحمت کی پر عزم داستان‘‘پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک
حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ اور حضرت قاری محمد انورؒ کا انتقالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری تحدیاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس کے فضلا کا یورپی ممالک کا مطالعاتی دورہ ۔ مختصر روداد اور تاثراتمولانا محمد رفیق شنواری
دینی مدارس اور عصری رجحاناتغازی عبد الرحمن قاسمی
احمدی اور تصورِ ختم نبوت : ایک احمدی جوڑے سے گفتگوڈاکٹر محمد شہباز منج
مولانا محمد بشیر سیالکوٹیؒ ۔ چند یادیں، چند باتیںمحمد عثمان فاروق
’’فقہائے احناف اور فہم حدیث ۔ اصولی مباحث‘‘ڈاکٹر حافظ مبشر حسین

اختلاطِ مرد وزن، پردہ اور سماجی حقوق و فرائض / دینی مدارس کا نصاب ونظام۔ قومی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت

محمد عمار خان ناصر

اسلامی شریعت میں خواتین کے لیے پردے سے متعلق کیا احکام دیے گئے ہیں؟
مرد وزن کے میل جول کے ضمن میں وہ کون سے حدود وآداب ہیں جن کی پابندی شرعاً ضروری ہے؟
خواتین اجنبی مردوں کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہیں یا نہیں؟ جب عورت کا چہرہ ہی جسم کا سب سے زیادہ پرکشش حصہ ہوتا ہے تو کیا فتنے سے بچنے کے لیے اس کو چھپانا ضروری نہیں ہونا چاہیے؟
ذیل کی سطور میں ہم ان سوالات کے حوالے سے اپنے فہم کے مطابق اسلامی شریعت کے زاویہ نظر کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی معاملے کے صرف ایک پہلو کو مد نظر رکھ کر احکام طے نہیں کرتی، بلکہ تمام متعلقہ پہلوؤں کی پوری رعایت کرتے ہوئے اور ہر ہر پہلو کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے وزن دیتے ہوئے حدود اور پابندیوں کا تعین کرتی ہے۔ مرد وزن کے اختلاط کے حوالے سے احکام شرعیہ کے مجموعی مطالعے سے بھی یہی نکتہ واضح ہوتا ہے۔ 
اس میں شبہ نہیں کہ دونوں صنفوں میں قدرت نے ایک دوسرے کے لیے فطری کشش رکھی ہے جس کی وجہ سے دونوں کا ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہونا اور ربط وتعلق کی خواہش کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ اگر اس فطری کشش کو حدود وآداب کا پابند نہ بنایا جائے اور دونوں صنفوں کے آزاد اور بے قید تعلق کو قبول کر لیا جائے تو معاشرے میں اخلاقی انارکی کا پھیلنا لازم ہے جس کا آخری نتیجہ جنسی جبلت کے، اعلیٰ انسانی واخلاقی اوصاف پر غالب آ جانے اور معاشروں اور تہذیبوں کی اخلاقی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ 
دوسری طرف انسانی معاشرت کا یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ خواتین اپنی فطری وخلقی صلاحیتوں کے لحاظ سے اس طرح کی معاشرتی ذمہ داریاں اپنے سر نہیں لے سکتیں جو مرد انجام دیتے ہیں۔ اس طرح ناگزیر طور پر خواتین کا معاشرتی کردار کئی پہلوؤں سے مردوں کے مقابلے میں محدود ہو جاتا ہے اور اپنے تحفظ اور دیگر معاشرتی حقوق کے لیے انھیں بنیادی طور پر مردوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں خواتین بطور ایک طبقے کے عموماً زیادتی ، جبر اور استحصال کا شکار رہی ہیں اور دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں انھیں ان کے بہت سے معاشرتی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے باقاعدہ نظری فلسفے اور جواز گھڑے گئے ہیں۔
اسلامی شریعت نے ان مختلف پہلوؤں میں توازن کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے معاشرتی نظام میں خواتین کے کردار، حدود اور حقوق وفرائض کی تعیین کی ہے۔ چنانچہ اس نے صنفین کی باہمی کشش، پسندیدگی اور تعلق کی خواہش کو بنیادی طور پر درست اور جائز تسلیم کرتے ہوئے اسے کچھ حدود اور آداب کا پابند بنایا ہے اور نکاح کو اس کا جائز طریقہ ٹھہراتے ہوئے خفیہ یاری آشنائی یا بے قید جنسی تعلق کو غیر اخلاقی قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ باہمی اختلاط کے ماحول میں بہت سی ایسی اخلاقی ہدایات اور احتیاطی تدابیر تجویز کی ہیں جن کی پابندی معاشرے کو بحیثیت مجموعی عفت مآب بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ قرآن وحدیث کے نصوص کی روشنی میں ان ہدایات وتدابیر کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
  1. مرد اور عورت خلوت میں تنہا جمع ہونے سے حتی الامکان اجتناب کریں اور اس معاملے میں گھر کے قریبی، لیکن غیر محرم رشتہ داروں، مثلاً دیور وغیرہ کے معاملے میں بھی بے احتیاطی سے کام نہ لیں۔ (ترمذی، رقم ۱۱۵۳)
  2. خواتین، غیر محرم مردوں کے سامنے حتی الامکان اپنی زیب وزینت کی نمائش نہ کریں اور نہ کسی بھی انداز سے مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں۔ بالخصوص گھر سے باہر نکلتے ہوئے انھیں تیز خوشبو کے استعمال یا دیدہ زیب، شوخ رنگ اور بھڑکیلے لباس پہننے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ لوگ خواہ مخواہ ان کی طرف متوجہ نہ ہوں۔(سورۃ النور، آیت ۳۱۔ ابو داود، رقم ۳۶۹۹)
  3. اگر مرد اور عورتیں کسی مجلس میں اکٹھے ہوں تو فریقین اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، کیونکہ غلط نگاہ، زنا کی طرف پہلا قدم ہے۔ غلط نگاہ بے اختیار اور بلا ارادہ پڑ جائے تو فوراً متنبہ ہو کر نظر پھیر لینی چاہیے اور قصداً وارادتاً نظر لوٹانے سے خود کو روک لینا چاہیے۔(سورۃ النور، آیت ۳۱۔ ابوداود، رقم ۱۸۷۵)
  4. لباس ایسا ہونا چاہیے جو جسم کے مستور اعضا کو اچھی طرح چھپا لے۔ ایسا باریک یا چست لباس جو جسم کو چھپانے کے بجائے اعضا کو نمایاں کرنے کا ذریعہ ہو، گویا برہنہ پھرنے کے مترادف ہے۔ اس سے بطور خاص اجتناب کرنا چاہیے۔(سورۃ النور، آیت ۳۱۔ مسلم، رقم ۴۰۸۷۔ ابو داود، ۳۶۳۶)
  5. بلوغت کی عمر میں ہاتھ پاؤں اور چہرے کے علاوہ، عورت کے جسم کا کوئی حصہ اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر نہیں ہونا چاہیے۔ خواتین بالخصوص اپنے سر کی اوڑھنی سے اپنے سینے کو ڈھانپے رکھنے کا اہتمام کریں۔ (سورۃ النور، آیت ۳۱۔ ابو داود، ۳۶۳۶)اسی طرح سر کے بالوں کو کھلا رکھنا، خاص طور پر جب کہ ان کی زیب وزینت کا اہتمام کیا گیا ہو، خواتین کے لیے مناسب نہیں۔ 
  6. ایک ہی ماحول میں کام کرتے ہوئے غیر محرم مردوں اور خواتین کے میل جول اور باہمی گفتگو کو حیا اور وقار کا مظہر ہونا چاہیے۔ اس میں بے تکلفی، لگاوٹ اور دوستانے کا انداز، دلوں میں غلط خیالات پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے، اس لیے درمیان میں مناسب فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔ اسی طرح حتی الامکان اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ مشترک مجالس میں مردوں اور عورتوں کی نشستیں الگ الگ ہوں اور صنفین کے جسمانی قرب کا موقع کم سے کم پیدا ہو۔
  7. قرآن مجید نے سورۂ احزاب کی آیت ۵۹ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ، آپ کی بیٹیوں اور عام مسلمان خواتین کو منافقین کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ تدبیر بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ایک بڑی چادر لے کر اپنے جسم پر ڈال لیا کریں تاکہ ان کے لباس کی یہ خاص وضع انھیں دوسری خواتین سے ممتاز کر دے اور منافقین مختلف بہانوں سے ان کے قریب جانے اور گفتگو کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش نہ کر سکیں اور مسلمانوں کی خواتین تک ان کی رسائی کا دروازہ ہی بند ہو جائے۔ قران کی اس ہدایت سے یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ خواتین کو اپنی حفاظت اور عرفی تشخص وامتیاز کے پہلو سے ماحول کے اتار چڑھاؤ سے بھی چوکنا اور خبردار رہنا چاہیے۔ چنانچہ اگر ماحول میں فتنہ انگیز عناصر موجود ہوں اور ماحول کا عمومی بگاڑ خواتین کو ایذا پہنچانے اور ان کی عزت وآبرو پر حملہ کرنے میں ان کا مددگار بن رہا ہو تو ایسے حالات میں مسلمان خواتین کو اپنے لباس اور ظاہری وضع قطع میں امتیاز پیدا کرنے اور عام معمول سے بڑھ کر اپنے جسم کو ڈھانپنے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ فتنہ انگیز عناصر کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے کوئی عذر یا جواز نہ پیش کر سکیں۔ 
مذکورہ اخلاقی ہدایات اور احتیاطی تدابیر کے علاوہ شریعت نے ایسی کوئی غیر فطری پابندی مسلمان معاشرے پر عائد نہیں کی جس کے نتیجے میں مرد اور عورت بطور ایک صنف کے، نکاح کے رشتے کے علاوہ، ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی اور دو الگ الگ دنیاؤں کی مخلوق نظر آنے لگیں۔ اس کے بجائے شریعت نہ صرف صنفین کو اس کا حق دیتی ہے کہ وہ نکاح کے لیے اپنی پسند کے مرد یا عورت کا انتخاب کریں، بلکہ اس کی ترغیب بھی دیتی ہے کہ نکاح سے پہلے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ہو اور باہمی رغبت اور پسند پر اس رشتے کی بنیاد رکھی جائے۔چنانچہ احادیث میں نکاح کی غرض سے نہ صرف مردوں کے لیے اس کی ترغیب بیان ہوئی ہے کہ وہ متعلقہ خاتون اور اس کے جسمانی محاسن کا جائزہ لیں تاکہ نکاح پوری رغبت کے ساتھ کیا جا سکے، بلکہ روایات میں سبیعہ اسلمیہ کا دلچسپ واقعہ بھی ملتا ہے۔ یہ بدری صحابی، سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں جن کا حجۃ الوداع میں انتقال ہو گیا۔ اس وقت سبیعہ حاملہ تھیں، لیکن وفات کے پندرہ دن بعد ہی وضع حمل سے فارغ ہو گئیں اور اس کے بعد نکاح کی خواہش رکھنے والوں کے لیے بن سنور کر اپنے گھر میں بیٹھ گئیں (فتجملت للخُطّاب)۔ مختلف لوگ آتے اور آکر ان سے نکاح کے لیے بات چیت کرتے اور یہ گفتگو براہ راست ہوتی تھی۔ خواہش مندوں میں ایک، ابو السنابل بن بعکک بھی تھے جو ذرا ادھیڑ عمر تھے۔ تاہم سبیعہ کا میلان ایک دوسرے خواہش مند ابو البشر ابن الحارث العبدری کی طرف ہو گیا جو جوان تھے۔ اس وقت سبیعہ کے اہل خاندان وہاں موجود نہیں تھے۔ چنانچہ ابو السنابل نے یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ وہ سبیعہ کے خاندان والوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور اگر ان کے آنے تک انتظار کیا جائے تو سبیعہ کو اپنے حق میں راضی کیا جا سکتا ہے، سبیعہ سے کہا کہ تم اس وقت نکاح نہیں کر سکتیں۔ تمھیں چار ماہ دس دن کی عدت پوری کرنی ہوگی۔ سبیعہ یہ سن کر سیدھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلی گئیں اور صورت حال بتائی۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بچہ جننے کے بعد تمھاری عدت پوری ہو چکی ہے۔ اب تم جس سے چاہو، نکاح کر سکتی ہو۔ (یہ تفصیلات موطا امام مالک اور صحیح بخاری کی روایات میں بیان ہوئی ہیں)۔ 
اس واقعے میں دو تین باتیں بہت اہم اور قابل توجہ ہیں:
ایک یہ کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل آخری ایام (حجۃ الوداع کے بعد) کا واقعہ ہے۔ گویا اس میں اس طرح کی کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی کہ اس وقت ابھی پردے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔
دوسرا یہ کہ سبیعہ نے باقاعدہ زیب وزینت کے ساتھ نکاح کے خواہش مندوں کو ملنے اور بات چیت کا موقع دیا اور یوں یہ واضح کیا کہ اگر اپنی پسند کے رفیق حیات کا انتخاب مرد کی طرح عورت کا بھی حق ہے تو اس کا موقع اسے بھی میسر ہونا چاہیے کہ وہ نکاح کے ممکنہ خواہش مندوں کو اپنی طرف راغب (woo)کر سکے۔ 
تیسرا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ساری صورت حال پر نہ صرف یہ کہ کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ سبیعہ کو اس کا بھی پابند نہیں کیا کہ وہ اپنے اہل خاندان کی مرضی کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی یا یہ کہ ان کا انتظار کر لینا مناسب ہے۔ آپ نے اسے فیصلہ کرنے اور اس کے مطابق نکاح کی فوری اجازت دے دی۔ ویسے بھی آپ نے اس ضمن میں جو عمومی ہدایت بیان فرمائی، وہ یہی تھی کہ کنواری لڑکی کا سرپرست اس کی رضامندی سے اس کا نکاح کرے، جبکہ مطلقہ یا بیوہ اپنے معاملے میں بالکل خود مختار ہے۔ (الثیب احق بنفسھا من ولیھا والبکر تستامر فی نفسھا)۔
اس واقعے سے عبد نبوی میں خواتین کے سماجی حقوق اور آزادیوں کی جو شکل سامنے آتی ہے، ظاہر ہے کہ وہ پردے کے ایسے ماحول میں ممکن نہیں جس میں مردوں اور عورتوں کے مابین مکمل معاشرتی علیحدگی ہو اور صنفین کو ایک دوسرے کو دیکھنے تک کی اجازت نہ ہو۔ 
اس میں شبہ نہیں کہ خواتین، حیا کے فطری احساس کے تحت نیز مردوں کی غلط نگاہوں سے بچنے کے لیے ازروئے احتیاط اپنے چہرے کو چھپا کر رکھنا چاہیں تو شریعت اس جذبے کو یقیناًپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے، خاص طور پر جب کہ کسی جگہ ماحول میں خرابی اور بگاڑ کا عنصر نمایاں ہو اور خواتین اپنے تحفظ کے پہلو سے ایسا کرنے کو مناسب محسوس کریں۔ تاہم شریعت نے چونکہ ایسی کوئی لازمی پابندی خواتین پر عائد نہیں کی، اس لیے ایسا کرتے ہوئے توازن اور اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور خاص طور پر گھر کے داخلی ماحول میں اس حوالے سے ایسا بے لچک رویہ نہیں اپنانا چاہیے جو خود خواتین کے لیے یا دیگر متعلقین کے لیے بے جا زحمت کا باعث بن جائے۔ چنانچہ عہد رسالت اور عہد صحابہ میں لونڈیاں مسلم معاشرت کا ایک اہم حصہ تھیں اور گھریلو کام کاج انجام دینے کے علاوہ، وہ بازار کی ضروریات اور پیغام رسانی کے فرائض بھی انجام دیا کرتی تھیں۔ مردوں کے ساتھ اختلاط کی عام ضرورت کے تحت ان کے لیے لباس کی وہ پابندیاں لازم نہیں کی گئیں جو شریعت میں آزاد خواتین کے لیے بیان کی گئی ہیں، کیونکہ ایسا کرنا صریحاً حرج اور مشقت کا باعث ہوتا۔ 
ستر وحجاب کی بحث میں ایک اور پہلو بھی بطور خاص توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ یہ کہ شریعت نے خواتین کی جسمانی ساخت اور خلقی صلاحیتوں کی رعایت سے انھیں اکتساب مال اور اس طرح کی دوسری ذمہ داریوں سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان کی کفالت اور حفاظت کا فریضہ خاندان کے مردوں پر عائد کیا ہے۔ تاہم گھر کے ماحول سے باہر نکل کر سماجی سرگرمیوں میں شرکت یا مردوں کے ساتھ معاشرتی میل جول کے حوالے سے کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی جس کے نتیجے میں معاشرتی سطح پر ان کی انفرادی شناخت ہی باقی نہ رہے اور وہ اپنے سماجی کردار کی انجام دہی یا معاشرتی حقوق کے حصول کے لیے سر تا سر اپنے گھر کے مردوں کی محتاج بن جائیں۔ 
پردے سے متعلق اسلامی شریعت کے زاویہ نظر کو ہمارے نزدیک اس پہلو سے سمجھنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ کسی فرد یا طبقے کے سماجی کردار یا معاشرتی حقوق کے معاملے میں سب سے بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں اس کی شناخت کیا ہے اور اسے دوسرے طبقوں کے ساتھ میل جول اور اختلاط کے مواقع اور کسی حق تلفی کی صورت میں اپنی آواز ذمہ دار افراد یا طبقات تک پہنچانے کی سہولت کتنی میسر ہے۔ اگر کوئی طبقہ کلی طور پر کسی دوسرے طبقے پر انحصار کر رہا ہو، حتیٰ کہ اس کے افراد اپنی انفرادی شناخت بھی معاشرے میں ظاہر نہ کر سکتے ہوں تو بدیہی طور پر اس کے لیے کوئی فعال معاشرتی کردار ادا کرنے یا زیادتی اور حق تلفی کی صورت میں داد رسی کے مواقع اور امکانات بہت محدود ہو جاتے ہیں اور کتابی طور پر اس کے حق میں جتنی بھی باتیں کر لی جائیں، عملاً اس پہلو کا رو بہ عمل ہونا خارج از امکان رہتا ہے۔

دینی مدارس کا نصاب ونظام۔ قومی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت

دینی تعلیم کے نصاب میں اصلاح کی بات کم وبیش ڈیڑھ صدی سے ہمارے ہاں چل رہی ہے اور کم سے کم اصولی طور پر نصاب میں تبدیلی کے مسئلے پر ارباب مدارس نے جمود کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مثال کے طور پر وفاق المدارس العربیہ کا موجودہ نصاب اپنی تفصیلات اور ترجیحات کے لحاظ سے ستر اسی فی صد تک درس نظامی کے اصل نصاب سے مختلف ہو چکا ہے، اور اب اسے محض ایک تاریخی نسبت سے ہی ’’درس نظامی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اصلاحات کی گنجائش آج بھی اتنی ہی محسوس ہوتی ہے جتنی پہلے دن تھی۔ اس کی بنیادی وجہ اصل میں نصاب کے اہداف ومقاصد کی تعیین میں زاویہ نظر کا اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک اس ضمن میں بنیادی نکتہ اس امر کو متعین کرنا ہے کہ آج کی علمی وتعلیمی ضروریات کے تناظر میں ہمارے معاشرے کو کس طرح کے دینی علما اور اسکالرز کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہماری رائے میں نصاب میں نہ صرف مسلمانوں کی مجموعی علمی روایت اور اس کی نمایاں شاخوں کا غیر جانب دارانہ تعارفی مطالعہ شامل ہونا چاہیے، بلکہ ایسے عصری علوم اور مباحث سے بھی علماکو واقفیت ہونی چاہییے جو دور جدید کے غالب نظریہ حیات کو سمجھنے اور اس کے تناظر میں اسلام کا زاویہ نظر واضح کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ 
اس کے برعکس ارباب مدارس کا بنیادی مطمح نظر اپنے بزرگوں اور اکابر کی قائم کردہ تعلیمی روایت کو لے کر آگے چلنا ہے جس کے بنیادی ڈھانچے اور مزاج میں کوئی تبدیلی ان کے لیے قابل قبول نہیں اور جزوی وفروعی تبدیلیاں بھی حد درجہ ہچکچکاہٹ اور تردد کے بعد بامر مجبوری قبول کی جا رہی ہیں۔ گویا داخلی طور پر نصاب کے اہداف کو ازسر نو متعین کرنے اور پھر اجتہادی زاویہ نظر سے نصاب کی تشکیل کا داعیہ ارباب مدارس میں نہیں پایا جاتا جس کی وجہ سے اس ضمن میں کی جانے والی اچھی سے اچھی کوششیں اور تجاویز سرد خانے میں ہی پڑی رہتی ہیں۔
چنانچہ مدارس کے نظام ونصاب میں اصلاح کے خواہش مند حلقوں کو یہ پہلو بہرحال مد نظر رکھنا چاہیے کہ یہاں نقطہ نظر کا ایک جوہری اختلاف موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے اس سمت میں کوئی حقیقی پیش رفت ممکن نہیں۔ اس لیے اصلاحی مساعی کو اس نکتے پر زیادہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ مدارس کے ماحول میں فکری طور پر وہ تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جس کی روشنی میں نصاب ونظام میں مطلوبہ اصلاحات کے لیے آمادگی پیدا ہو سکے۔ اس کے لیے موجودہ تناظر میں بنیادی ضرورت مذہبی فکر اور نفسیات کو موضوع بنانے کی ہے، جبکہ نصاب پر گفتگو کی اہمیت ثانوی ہے، کیونکہ نصاب، سوچ کو نہیں پیدا کر رہا، بلکہ سوچ نصاب اور اس کی ترجیحات کو متعین کر رہی ہے۔
اس ضمن میں ریاست کی دلچسپی کا محوری نکتہ اب تک یہ رہا ہے کہ مدارس کے نظام کے ساتھ فرقہ واریت یا مذہبی انتہا پسندی جیسے جو مسائل وابستہ ہیں، ان سے انتظامی سطح پر کیسے نمٹا جائے۔ جہاں تک مدرسے کے مجموعی کردار اور اس میں مطلوب اصلاحات کا تعلق ہے تو ارباب حکومت کو ابھی تک اس سے کوئی خاص دلچسپی پیدا نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک وفاقوں کے ساتھ رابطے اور اصلاح نصاب کے ضمن میں مذاکرات وغیرہ کا فریضہ عموماً وزارت داخلہ کے ذمہ داران ہی انجام دیتے ہیں۔ وزارت تعلیم نے کبھی اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔یہ ایک المیہ ہے اور جب تک حکومتیں اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ اپنی ذمہ داری کے طور پر قبول نہیں کرتیں، وہ اس حوالے سے کوئی مفید کردار ادا نہیں کر سکتیں۔
اگر ریاست واقعتا مدرسے کے معیار اور کردار کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے تو دینی تعلیم کے مسئلے پر قومی سطح پر ایک جامع اور سنجیدہ بحث ومباحثہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بحث ومباحثہ کی روشنی میں ایک جامع قومی پالیسی وضع کی جائے اور تیسرے مرحلے پر اس پالیسی کو رو بہ عمل کرنے کے لیے جامع قانون سازی کی جائے۔ اس حوالے سے وقتاً فوقتاً محض نیم دلی سے کی جانے والی حکومتی کوششیں معاملے کو درست سمت میں آگے بڑھانے اور مطلوب اصلاحات کو رو بہ عمل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۷) القول علی اللہ کا مفہوم

قرآن مجید میں قول علی اللہ کی تعبیر مختلف صیغوں میں استعمال ہوئی ہے، اس تعبیرکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف کسی بات کو منسوب کرکے یہ کہنا کہ اللہ نے یہ بات کہی ہے ، جب کہ کہی نہ ہو، یا یہ کہنا کہ اللہ ایسا کرتا ہے یا کرے گا، جب کہ ایسا نہ ہو۔ بعض مترجمین نے بعض مقامات پر اس کا ترجمہ اللہ پر تہمت لگانا اور بہتان باندھنا کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ اس تعبیر کے اندر اللہ پر کسی طرح کی تہمت لگانے کا مفہوم نہیں پایا جاتا ہے۔ بعض مترجمین نے اللہ کی شان کے خلاف بات کہنے کا مفہوم بھی لیا ہے، وہ بھی اس لفظ کا اصل مفہوم نہیں ہے، اسی طرح بعض لوگوں نے اللہ کے ذمہ کوئی بات ڈالنے کا ترجمہ کیا ہے، یہ بھی الفاظ کے مطابق نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے اللہ کے بارے میں کہنے کا ترجمہ کیا ہے، یہ بھی موزوں نہیں ہے۔

(۱) وَقَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَیَّاماً مَّعْدُودَۃً، قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللّٰہِ عَہْداً فَلَن یُّخْلِفَ اللّٰہُ عَہْدَہُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُون۔ (البقرۃ:۸۰)

’’اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمہیں کچھ علم نہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمہ لیا ہے‘‘۔ (سید مودودی، اللہ کی طرف منسوب کرکے کہ اس نے وہ باتیں کہی ہیں) 
’’یا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی کوئی علمی سند اپنے پاس نہیں رکھتے ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’بلکہ تم خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں مطلق علم نہیں‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’یا تم اللہ پر یونہی (وہ) بہتان باندھتے ہو جو تم خود بھی نہیں جانتے‘‘ (طاہر القادری)
درست ترجمہ ہوگا: ’’یا تم اللہ کی طرف منسوب کرکے وہ باتیں کہہ رہے ہو جن کاتم کو علم نہیں ہے‘‘ 

(۲) إِنَّمَا یَأْمُرُکُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُواْ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ۔ (البقرۃ: ۱۶۹)

’’اور یہ (بھی تعلیم کرے گا) کہ اللہ کے ذمہ وہ باتیں لگاؤ کہ جس کی سند ہی نہیں رکھتے ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’وہ تو بس تمہیں برائی اور بے حیائی (کی راہ) سجھائے گا اور اس بات کی کہ تم خدا کی طرف وہ باتیں منسوب کرو جن کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہیں ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
دوسرا ترجمہ زیاد ہ مناسب ہے۔

(۳) بِأَنَّہُمْ قَالُوا لَیْْسَ عَلَیْْنَا فِی الأُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ وَیَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ۔ (آل عمران: ۷۵)

’’یہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان امیوں کے معاملے میں ہمارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے۔ اور یہ جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)

(۴) وَیَقُولُونَ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَمَا ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَیَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ۔ (آل عمران: ۷۸)

’’اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے حالانکہ وہ اللہ کے پاس سے نہیں ہے۔ اور وہ اللہ پر جانتے بوجھتے جھوٹ باندھتے ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)

(۵) یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لاَ تَغْلُوا فِی دِیْنِکُمْ وَلاَ تَقُولُوا عَلَی اللّٰہِ إِلاَّ الْحَقَّ۔ (النساء:۱۷۱)

’’اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کوئی اور بات نہ ڈالو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اے اہل کتاب! تم اپنے دین میں حد سے زائد نہ بڑھو اور اللہ کی شان میں سچ کے سوا کچھ نہ کہو‘‘(طاہر القادری)
پہلا ترجمہ زیادہ مناسب ہے۔یہاں اللہ کی شان میں کہنا مراد نہیں بلکہ کسی بات کو جو اللہ نے نہیں کہی ہے اسے اللہ کی طرف منسوب کرکے کہنا مراد ہے۔

(۶) اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ غَیْْرَ الْحَقِّ۔ (الانعام:۹۳)

’’آج تم ذلت کا عذاب دیے جاؤ گے، بوجہ اس کے کہ تم اللہ پر ناحق تہمت جوڑتے تھے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے‘‘ (سید مودودی)
’’ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ تم خدا پر جھوٹ بولا کرتے تھے‘‘ ( فتح محمد جالندھری)
یہاں تیسرا ترجمہ درست ہے، پہلے اور دوسرے ترجمہ میں تہمت جوڑنے اور رکھنے کا ترجمہ کیا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔

(۷) وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَۃً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَیْْہَا آبَاءَ نَا وَاللّٰہُ أَمَرَنَا بِہَا قُلْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَتَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ۔ (الاعراف:۲۸)

’’اور جب یہ لوگ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں، کہتے ہیں ہم نے اسی طریق پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور خدا نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ کہہ دو اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا ہے۔ کیا تم لوگ اللہ پر وہ تہمت جوڑتے ہو جس کے باب میں تم کو کوئی علم نہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’کیا خدا کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’بھلا تم خدا کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ‘‘(فتح محمد جالندھری)
یہاں بھی اللہ پر تہمت جوڑنے یا اللہ کی نسبت کوئی بات کہنے کے بجائے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرکے کہنا مراد ہے۔

(۸) قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِکُوا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً وَّأَنْ تَقُولُوا عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ۔ (الاعراف: ۳۳)

’’کہہ دو میرے رب نے حرام تو بس بے حیائیوں کو ٹھہرایا ہے، خواہ کھلی ہوں خواہ پوشیدہ، اور حق تلفی اور ناحق زیادتی کو۔ اور اس بات کو حرام ٹھہرایا ہے کہ تم اللہ کا کسی چیز کو ساجھی ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ پر کسی ایسی بات کا بہتان لگاؤ جس کا تم علم نہیں رکھتے ‘‘(امین احسن اصلاحی)
یہاں بھی اللہ پر بہتان لگانا غلط ترجمہ ہے، صحیح ترجمہ ہے: اور یہ کہ تم اللہ کی طرف منسوب کرکے وہ بات کہو جس کے بارے میں تم کو علم نہیں ہے۔

(۹) وَقَالَ مُوسَی یَا فِرْعَوْنُ إِنِّیْ رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ حَقِیْقٌ عَلَی أَن لاَّ أَقُولَ عَلَی اللّٰہِ إِلاَّ الْحَقَّ۔ (الاعراف:۱۰۴،۱۰۵)

’’اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون میں خداوند عالم کا فرستادہ ہوں سزاوار اور حریص ہوں کہ اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی اور بات منسوب نہ کروں ‘‘(امین احسن اصلاحی، اس میں حریص کا لفظ زائد ہے)
’’مجھے یہی زیب دیتا ہے کہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا (کچھ) نہ کہوں‘‘(طاہر القادری)
یہاں پہلا ترجمہ درست ہے۔

(۱۰) أَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْْہِم مِّیْثَاقُ الْکِتَابِ أَن لاَّ یِقُولُوا عَلَی اللّٰہِ إِلاَّ الْحَقَّ۔ (الاعراف: ۱۶۹)

’’کیا ان سے درباب کتاب یہ میثاق نہیں لیا گیا کہ وہ اللہ پر حق کے سوا کوئی اور بات نہ جوڑیں ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’کیا ان سے کتابِ (الٰہی) کا یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں حق (بات) کے سوا کچھ اور نہ کہیں گے؟ ‘‘(طاہر القادری)
یہاں بھی پہلا ترجمہ درست ہے۔

(۱۱) قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً سُبْحَانَہُ ہُوَ الْغَنِیُّ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَات وَمَا فِی الأَرْضِ إِنْ عِنْدَکُم مِّن سُلْطَانٍ بِہَذَا أَتقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ۔ (یونس: ۶۸)

’’یہ کہتے ہیں کہ خدا کے اولاد ہے۔ وہ ایسی باتوں سے پاک ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ تمھارے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ کیا تم اللہ پر وہ بات لگاتے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
یہ ترجمہ درست ہے، البتہ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً کا ترجمہ یہ نہیں ہوگا کہ ’’ یہ کہتے ہیں کہ خدا کے اولاد ہے‘‘ بلکہ یہ ہوگا کہ ’’یہ کہتے ہیں کہ خدا نے کسی کو اولاد بنالیا ہے‘‘۔

(۱۲) وَأَنَّہُ کَانَ یَقُولُ سَفِیْہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطاً۔ وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّنْ تَقُولَ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِباً۔ (الجن:۴،۵)

’’اور یہ کہ ہمارا بے وقوف (سردار) اللہ کے بارے میں حق سے بالکل ہٹی ہوئی باتیں کہتا رہا ہے اور یہ ہم نے گمان کیا کہ انسان اور جن خدا پر ہرگز کوئی جھوٹ نہیں باندھ سکتے‘‘(امین احسن اصلاحی۔ القول علی اللہ کی تعبیر دونوں آیتوں میں آئی ہے، دونوں آیتوں میں الگ الگ ترجمہ کیا گیا ہے، جب کہ دوسری آیت کا ترجمہ زیادہ صحیح ہے، ایک چوک مترجم سے یہ ہوگئی ہے کہ دوسری آیت میں لن کا ترجمہ مستقبل سے نہیں کیا ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا’’ہرگز کوئی جھوٹ نہیں باندھیں گے‘‘) 
’’اور ہم میں جو احمق ہوئے ہیں وہ اللہ کی شان میں حد سے بڑھی ہوئی باتیں کہتے تھے اور ہمارا (پہلے) یہ خیال تھا کہ انسان اور جنات کبھی خدا کی شان میں جھوٹ بات نہ کہیں گے‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتا ہے. اور ہمارا (یہ) خیال تھا کہ انسان اور جن خدا کی نسبت جھوٹ نہیں بولتے ‘‘( فتح محمد جالندھری، جھوٹ نہیں بولتے کے بجائے جھوٹ نہیں بولیں گے ہونا چاہئے، کیونکہ ’’لن‘‘ مستقبل کے لئے ہوتا ہے )
’’اور یہ کہ ہم میں سے کوئی اَحمق ہی اللہ کے بارے میں حق سے دور حد سے گزری ہوئی باتیں کہا کرتا تھا،اور یہ کہ ہم گمان کرتے تھے کہ انسان اور جن اللہ کے بارے میں ہر گز جھوٹ نہیں بولیں گے‘‘ (طاہر القادری)
اس آیت کے مذکورہ ترجموں میں خدا پر جھوٹ باندھنے کا ترجمہ زیادہ صحیح ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ بعض مترجمین کے یہاں ایک ہی لفظ کے مختلف مقامات پر مختلف ترجمے ملتے ہیں، یا تواسے تسامح سمجھا جائے،یا پھر ممکن ہے کہ ان کو ترجمے کے سلسلے میں تردد ہو، اور کسی ایک تعبیر پر اطمینان نہ ہو۔
(جاری)

’’سفر جمال: نبی مکرمؐ کی جمالیاتی مزاحمت کی پر عزم داستان‘‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

(میاں انعام الرحمن کے مجموعہ مقالات پر ایک نظر)

اسلامی ادبیات کے سدا بہار موضوعات میں سے ایک سیرت نگاری ہے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت نگاروں کی فہرست میں جگہ پانا ایک عظیم سعادت ہے۔ سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا تو آپ کی ولادت باسعادت سے بھی پہلے کا ہے۔ تاہم علومِ اسلامیہ میں بطور فن ،سیرت نگاری کامنظم آغاز پہلی صدی ہجری میں ہوا۔ تاریخِ علوم میں کسی انسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اس کثرت کے ساتھ نہیں لکھا گیا جتنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر لکھا گیا ہے ،لیکن اس کے باوجود عجائباتِ سیرت لا متناہی ہیں ،سیرت کے کتنے ہی گوشے ہنوز پردۂ مستور میں ہیں اور محققین کے لئے چیلنج ہیں ۔
قدیم ادبِ سیرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصولِ روایت اور اصولِ درایت کو پوری طرح بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے کتب سیرت میں کمزور اور موضوع روایات داخل کردی گئیں ،جن کی کوئی معقول توجیہ ممکن نہیں ۔یہی روایات مستشرقین کی مرغوب غذا ہیں جن کو بنیاد بنا کر سیرت پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ سترھویں صدی کے آغاز سے موجودہ دور تک سیرت پر مستشرقین کی جو کتابیں منصہ شہود پر آئیں، ان میں سے بیشتر کتب میں انہی کمزور روایات کو تحقیقات کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ مشہور مستشرق سر ولیم میور(م ۱۹۰۵ء) (Sir William Muir) کی کتاب The Life of Muhammad بڑی تہلکہ خیز ثابت ہوئی۔ اس کتاب میں علمی انداز میں رسول اللہ ؐ کی ذات کو ہدفِ تنقید بنایا گیا اس کتاب کی پذیرائی نے مسلمان اہلِ علم کو شدید اضطراب میں مبتلا کردیا ۔ سر سید احمد خانؒ (م ۱۸۹۸ء ) ، اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے، وہ اوّلین شخص تھے جنھوں نے۱۸۷۰ء میں ’’ خطباتِ احمدیہ‘‘ میں مستشرق مذکور کے اعتراضات کاعلمی اسلوب میں جواب دیا ۔ سر سید کے اسلوبِ نگارش اور طرزِ استدلال سے برصغیر میں سیرت نگاری کے ایک نئے رجحان نے جنم لیا ۔روایات سیرت کو تنقیدی نظر سے دیکھا جانے لگا ۔
علامہ شبلی نعمانی ؒ (م ۱۹۱۴ء ) نے سر سید کی روایت کو ایک منظم تحریک میں بدل دیا۔ علامہ موصوف نے سیرت نگاری میں غیر مستند موادکو الگ کرنے کے لئے اپنی قابلِ قدر تصنیف ’’ سیرۃ النبی‘‘ کے مقدمے میں سیرت نگاری کے گیارہ اصول بیان کئے۔علامہ شبلی نے سیرت نگاری کے جو اصول بیان کئے ہیں، ان کا تنقیدی جائزہ لیا سکتاہے، ان سے اتفاق یا اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے، تاہم ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ علامہ شبلی نے سیرت نگاری کے جن اصولوں کو متعارف کروایا، اس نے مابعد ادبِ سیرت پر اتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں کہ تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی سیرت نگار، علامہ شبلی کے اسلوب نگارش اور اصولِ سیرت نگاری کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے۔علامہ شبلی نے سیرت نگاری کے جو اصول متعین کئے ہیں، ان اصولوں پر محدثین کے اصولوں کی گہری چھاپ ہے۔روایاتِ سیرت کو محدثین کی کڑی شرائط پر پر کھنا کس حد تک درست ہے، یہ بہر حال ایک الگ بحث ہے ،تاہم ان اصولوں کے عملی اطلاق کے بعد سیرت پر موجود مواد کے ایک معقول حصے سے محرومی لازم تھی ،لیکن اس سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اہلِ علم نے روایاتِ سیرت کی جانچ پرکھ میں مزیداحتیاط کی روش اختیار کی۔
علامہ شبلی کے بعد، راقم الحروف کے علم کی حد تک، اصولِ سیرت نگاری پر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی کی کتاب ’’اصولِ سیرت نگاری‘‘ کے علاوہ اردو ادبِ سیرت میں کوئی دوسری مثال نظر نہیں آتی لیکن اس کتاب کی علمی قدروقیمت کا اعتراف کرنے کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کتاب میں بھی اصولِ سیرت نگاری کے نام پر فاضل مصنف نے زیادہ گفتگو سیرت کے مصادر و مراجع پر ہی کی ہے ۔ فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے جو پچیس اصول ذکرکئے ہیں، وہ اصول کم ،سیرت کے مصادر و مراجع زیادہ ہیں ۔
پروفیسر میاں انعام الرحمن ان خوش بخت لوگوں میں سے ہیں جن کو سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس موضوع پر قلم اٹھانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔فاضل مصنف کی زیر نظر کتاب’’سفر جمال :نبی مکرم ؐ کی جمالیاتی مزاحمت کی پر عزم داستان ‘‘ اردو ادبِ سیرت میں ایک خوبصورت اور نادر اضافہ ہے۔یہ کتاب، تالیف نہیں ’’تصنیف ‘‘ ہے جس میں فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے لگے بندھے انداز سے ہٹ کر ایک منفرد اسلوب اختیار کیا ہے۔ ہماری محتاط رائے میں اردو ادبِ سیرت میں زیر نظر کتا ب ایک نئے اورمنفردرجحان کی نمائندہ کتاب ثابت ہو گی ۔ فاضل مصنف نے قرآن مجید پر گہرے تدبر کے بعد سیرت نگاری کے اصول اخذ کئے ہیں۔ اس مختصر کتاب کا مقدمہ خاصے کی چیز ہے۔ مقدمہ بائیس (۲۲) صفحات پر مشتمل ہے جس میں فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے ان اصولوں کی نشان دہی کی جن کو پیشِ نظر رکھنے سے سیرت نبوی کے آفاقی پہلو کی تفہیم ممکن ہے۔ کتاب کا مقدمہ مصنف کی اجتہادی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ کتاب کے قارئین سے درخواست ہے کہ وہ کتاب کا مقدمہ پوری توجہ سے ملاحظہ فرمائیں۔ کتاب کا امتیاز یہ ہے کہ مصنف نے سیرت نگاری کے جن اصولوں کی نشاندہی کی ہے، زیر نظر کتاب میں ان اصولوں کا اطلاق کرکے سیرت کے ایسے گوشوں کو منکشف کیا ہے جس کی طرف سیرت نگاروں نے کم ہی توجہ دی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ سیرت نگاری کے اس اسلوب سے ہمارے روایتی مذہبی حلقے میں برپا نوروبشر اور حاضر وناظر جیسی لا ینحل بحثوں کی گتھی بھی سلجھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے جن اصولوں کا تعین کیا ہے، ان میں سے چند ایک کا مختصر تعارف ہم ذیل کی سطور میں پیش کر یں گے ۔

پہلا اصول

قرآن مجید کی موجودہ ترتیب نزولی نہیں بلکہ توقیفی ہے اوریہ ترتیب اللہ تعالیٰ کے منشا اور حکم کے مطابق ہے ۔ فاضل مصنف نے حضرت عائشہؓ کے قول: ’’کان خلقہ القرآن‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے سیرت نگاری کا بڑا اہم اصول اخذ کیا ہے ۔پروفیسر میاں انعام الرحمن لکھتے ہیں :
’’جب قرآن مجید کی نزولی ترتیب کو اٹھالیا گیا، اسے باقی نہیں رکھا گیا اور اسی وجہ سے قرآن مجید اپنے نزول کے مخصوص دور سے ماورا ہو کر آفاقی اور قیامت تک کے لیے ہدایت کا آخری سرچشمہ قرار پایا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو زمانی ترتیب سے منسوب کر کے ایک مخصوص دور کے لیے محدود کیوں کیا جائے؟‘‘ (ص: ۳۲)
ہماری رائے میں اگر اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو سوانح نگاری اور سیرت نگاری میں جو فرق ہے ، وہ بالکل نمایاں ہوجائے گا۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کے خدا کا تعارف’’رب العالمین‘‘کی صفت سے کروایا ہے اور اپنا تعارف ’’ذکر للعالمین‘‘سے کروایا ہے۔ اور اگر سیرت نگاری میں اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو سیرت نبویہ کس اس آفاقی پہلو کا جسے قرآن مجید نے’’ رحمۃ للعالمین‘‘کہا ہے، صحیح معنوں میں ظہور ہو گا۔ سیرت نگاری میں اس اصول کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت کیوں ہے ؟ میاں صاحب لکھتے ہیں :
’’چوں کہ محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزمان ہیں، نبی خاتم ہیں، اس لیے آپ کی سیرت طیبہ کا بیان محض مسلمانوں کا داخلی معاملہ نہیں کہ آپ تو نوع انسانی کے ہر فرد بشر کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس لیے سیرت نگاری صرف مسلم مخاطبین کو پیش نظر رکھ کر نہیں کرنی چاہیے۔ یہ صرف اور صرف مسلم مخاطبین کو پیش نظر رکھ کر کی گئی سیرت نگاری ہے جو نہ صرف زندگی کی واقعیت سے دور جاپڑتی ہے بلکہ مطالعہ سیرت کے غیر مسلم قاری کوشش و پنج میں مبتلا کردیتی ہے۔ اسی اپروچ کا نتیجہ ہے کہ مطالعہ سیرت کا روایتی بیانیہ، آپ کے رحمۃ للعالمین او رخاتم النبیین ہونے سے لگا نہیں کھاتا۔‘‘ (ص: ۳۸)
روایتی مذہبی حلقے میں سیرتِ طیبہ کی تفہیم کے محدود اور سطحی تصور پر گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’بعض لوگ سیرت نگاری کے باب میں غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں جب وہ (نزولی ترتیب سے مربوط ارتقائی مراحل کی بناپر) کہتے ہیں کہ ہم ابھی مکی دور سے گزر رہے ہیں۔ انہیں جاننا چاہیے کہ اگر قرآن مجید کی حتمی ترتیب اپنے موضوعاتی بکھراؤ کے جلو میں، ایک ہی موضوع کے متعلق مختلف احکامات کو ارتقا کے (پرانے مراحل کے) بجائے نظامِ تناسبا ت کے اثبات کے ساتھ نئے زمانی احوال، سماجی مقتضیات اور تقافتی متغیرات کے حوالے سے دیکھتی ہے تو پھر صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کیوں کر (پرانے ارتقائی مراحل کی ) پابند رہ سکتی ہے؟ سیرتِ مطہرہ کے باب میں ، قرآن مجید کی حتمی ترتیب سے وابستہ حکمت اور قرآنی نظامِ تناسبات کا لحاظ نہ رکھنے کا نتیجہ ہے کہ علمی و عملی میدان میں ’غلو‘ کی نت نئی عجیب و غریب صورتیں ظہور پارہی ہیں۔‘‘ (ص: ۴۹، ۵۰)
ابتدائی صدیوں کی سیرت نگاری میں یہ گوشہ دب جانے کی وجہ سے ہی یہ تاثر پیدا ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف عربوں کے نبی ہیں۔ غالباً اسی پس منظر میں ایران میں نقطوی تحریک کا ظہور ہوا جن کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام صرف ایک ہزارسال کے لیے ہی تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت آفاقی نہیں بلکہ صرف عربوں کے لیے تھی۔ اس تحریک نے برصغیر کو بھی متاثر کیا اور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اسی تحریک کے زیرِ اثر ’’دینِ الٰہی‘‘ کی بنیاد رکھی۔

دوسرا اصول

:سیرت نگاری کا دوسرا اصول جس کی طرف فاضل مصنف نے توجہ دلائی، وہ قرآن مجید میں سابقہ انبیاء کی سیرت کا تدبر سے مطالعہ کرتے ہوئے نمایاں ہوتا ہے ۔ قرآن مجید نے انبیاء کی سیرت نگاری میں نبوت و رسالت کے مرکز ی پیغام کو کسی بھی جگہ پر متاثر نہیں ہونے دیا ۔ قرآن مجید نے بعض انبیاء کا ایک سے زائد مقامات پر تذکرہ کیا ہے، لیکن تمام مقامات پر نبی کے پیغام کی مرکزیت پوری طرح نمایاں رہی ہے۔ انبیاء کرام ؑ کی بعثت کا بنیادی مقصد معاشرے کی اخلاقی تطہیر ہے، اس لیے انبیاء کرام کی سیرت نگاری میں دعوتی اور تذکیری پہلو بہت نمایاں ہے۔ فاضل مصنف نے اس سے یہ اصول مستنبط کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بھی اسی انداز سے بیان کیا جانا چاہیے کہ آپ کی زندگی کا دعوتی اور تذکیری پہلو نمایاں ہواور کسی بھی جگہ پیغامِ محمدی کی روح متاثر نہ ہونے پائے۔ میاں انعام الرحمن رقمطراز ہیں :
’’ قصص الانبیاء کے بیان میں خدا نے جو اسلوب اور منہج اختیا رکیا، سیرت نگاری میں اس سے بھرپور استدلال کرنا چاہیے کہ سیرت طیبہ کا بیان ایک اعتبار سے قصے کا بیان بھی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اس کا رائٹر انسان ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ (قرآن میں مذکور) ہر نبی کا قصہ ایک اعتبار سے اس کی سیرت کا بیان ہے اور کسی کی بھی سیرت کو مکمل اور زمانی ترتیب سے پیش نہیں کیا گیا بلکہ ہر ایک کی سیرت میں سے ایسا ’انتخاب‘ کیا گیا ہے جو ابدی ہونے کے باعث تاقیامت انسانوں کی راہنمائی کرسکتا ہے ۔ایک لحاظ سے یہ انتخاب ’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت پر سابقہ انبیا کی تاریخی مہر‘ثبت کرنے کی علامت بھی ہے۔‘‘ (ص: ۳۳)
ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاں سیرت نگاری میں فضائل و کمالات کا تذکرہ اس اسلوب میں کیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور شان نمایاں ہو اور بس، لیکن اس قسم کی سیرت نگاری میں قارئین کے لیے کوئی عملی پیغام عام طور پر موجود نہیں ہوتا۔یہی حال ان کتابوں کابھی ہے جومحض معلوماتِ سیرت (Database) پرمبنی ہیں، اگرچہ اس نوعیت کی سیرت نگاری کی جزوی افادیت کا انکار ممکن نہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں چونکہ رسالتِ محمدیؐ کا مرکزی پیغام پیشِ نظر نہیں ہوتا لہٰذا سیرت کا آفاقی پہلو پردۂ اخفا ء ہی میں رہتا ہے ۔ 

تیسرا اصول

عربوں کو اپنی زبان دانی پر بڑا فخر تھا ۔ عرب شعراء نے فنِ شاعری اور خطباء نے مقفع و مسجع گفتگو اور نثرنگاری کو نکتہ کمال تک پہنچا دیا تھا اور اپنے مقابلے میں پوری دنیا کو عجمی سمجھتے تھے۔ قرآن مجید عرب شعراء اور خطباء دونوں کے لیے چیلنج کے طورپر نازل ہوا۔ فصحائے عرب کو اعتراف کرنا پڑا کہ قرآن نہ تو شاعری ہے اور نہ ہی محض مقفع ومسجع نثر نگاری، بلکہ قرآن صرف قرآن ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک جداگانہ صنف ہے۔ قرآن مجید میں اصل غلبہ اس کے پیغام کو حاصل ہے ۔ قرآن مجید نے عربوں کو اس بحث میں پڑنے ہی نہیں دیا کہ وہ قرآن مجید کو فن شاعری اور نثر کے اصولوں پر ہی پرکھنے کے چکر میں پڑے رہیں۔ قرآن نے اپنے اسلوب کو عربوں کے لیے چیلنج تو ضرور قرار دیا لیکن اپنی دعوت پر اس نئے اور منفرد اسلوب کو غالب نہیں آنے دیا۔ میاں انعام الرحمن چونکہ سیرت رسولِ عربی ؐ کو قرآن مجید کا پر توسمجھتے ہیں، اس لیے وہ اس نوعیت کی سیرت نگاری کے شدید ناقد ہیں جس میں’’ فن‘‘ سیرت نگاری پر غالب ہو،چنانچہ لکھتے ہیں :
’’سیرت نگاری کو ’’فن‘‘ کے اظہار کا ذریعہ ہرگز نہیں بنانا چاہیے، مثلاً بغیرنقطوں کے سیرت کی کتاب۔ سیرت نگاری کے باب میں فن کو مخدوم نہیں ، خادم ہونا چاہیے۔ ورنہ فن کے مخدوم ہونے کی صورت میں سیرت کے پیغام کی روح اور اس سے چھلکتی تاثیر، ہم سے غیر محسوس انداز میں چھنتی چلی جائے گی۔‘‘ (ص: ۳۱)
تاریخ گواہ کہ مسلمانوں کے دورِ زوال میں اس طرح کے لطائف ہماری علمی تاریخ کا حصہ رہے ہیں کہ ایک شخص کسی موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھتا ،پھر خود ہی’’ اختصار نویسی‘‘ کے فن کے اظہار کے لیے اس کا اختصار لکھتا اور پھر خود ہی اس کی شرح لکھنے بیٹھ جاتا۔ اس قسم کی’’قلمی عیاشیاں‘‘ اس وقت کی جاتی ہیں جب آپ کے پاس کہنے کو کچھ باقی نہ بچے۔ ہماری نظر میں میاں صاحب کی یہ رائے کہ سیرت نگاری کو اپنے فن کے اظہار کا ذریعہ بنانا، فن کی خدمت ہے ، سیرت کی ہرگز نہیں ،قابلِ توجہ ہے ، کیونکہ اگر غلبہ فن کو حاصل ہو گا تو خدشہ ہے کہ فن کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے سیرت سے وابستہ بعض حقائق تشنہ رہ جائیں گے اور پھر اس نوعیت کی سیرت نگاری پر اہم سوال یہ ہے کہ کیا سیرت کا متحرک پہلو ختم ہو گیا ہے ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیرت کے عجائبات کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں۔

چوتھا اصول

سیرت نگاری کے جدید رجحانات میں جزئیات نگاری ایک جدید اور قابل قدر رجحان ہے ۔ اس وقت محققین کا ایک بڑا طبقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے انفرادی پہلوؤں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنائے ہوئے ہیں ، مثلاً: طبِ نبویؐ،رسول اللہ ؐکی جنگی حکمت عملی، رسولِ اکرمؐ بطور معلم، رسول اللہ ؐ بطور ماہر نفسیات، نبی اکرم ؐ بطور تاجر، وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن پر کثرت کے ساتھ لکھا جارہا ہے۔ سیرتِ نبوی ؐکے بیان میں جزئیات نگاری کا اسلوب قابلِ تعریف ہے ،لیکن اس نوعیت کی سیرت نگاری میں رسالتِ محمدی ؐ کا مجموعی تاثرنظر انداز ہو رہا ہے ۔میاں انعام الرحمن جدیدسیرت نگاری میں اس خلا کی نشاندہی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : 
’’سیرت کی کسی ایک جہت پر قلم اٹھانے والے سیرت نگار کو اسوۂ حسنہ کی ’’کلیت‘‘ دھیان میں رکھنی چاہیے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ اس طبی ماہر جیسا ہوگا جو پورے جسم کا لحاظ رکھے بغیر صرف متعلقہ عضو کی دیکھ بھال کرنے کی کوشش کرے ۔اس کے نتیجے میں دیگر اعضا تو متاثر ہوتے ہی ہیں ، متعلقہ عضو بھی آخر کار مزیدبگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ سیرت کے باب میں خوامخواہ کے اعتراضات اٹھانے والے مستشرقین و مستغربین و دیگر افراد اسی نوع کے ’ماہر‘ ہیں کہ اسوۂ حسنہ کی کلیت ان کی نظروں میں سما نہیں پاتی۔‘‘ (ص: ۳۴، ۳۵)
جزئیات نگاری کے ’’نقصانات ‘‘ کی ایک مثال قرآن مجید کی سائنسی تفسیر کا رجحان ہے۔ معروف مستشرق ڈاکٹر موریس بوکائے نے قرآن مجید اور بائبل کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد جب اپنی معروف کتاب"The Bible, The Quran and The Science"مرتب کی تو چونکہ موصوف علوم القرآن پر گہری نظر نہ رکھتے تھے اور محض ایک سائنسدان اور ڈاکٹر ہی تھے، اس لیے اپنی تحقیق میں قرآن مجید کے موضوع اور اس کے نزول کے حقیقی مقصد کو پیش نظر نہ رکھ سکے۔ فاضل مستشرق نے تمام سائنسی حقائق کو قرآن مجید سے ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں تفسیری ادب میں بوکائے ازم کی صورت میں قرآن مجید کی سائنسی تعبیر و تشریح کے ایک نئے رجحان نے جنم لیا۔ یہ کوشش کتنی ہی اخلاص پر مبنی کیوں نہ ہو ، بہرحال نزولِ قرآن کا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ اس سے سائنسی حقائق کو ثابت کیا جائے یا سائنسی حقائق کی سچائی کو قرآن مجید کی روشنی میں پرکھا جائے۔ قرآن مجید کا موضوع انسان ہے اور اس کا مقصدِ نزول انسان کی ہدایت ہے۔لہٰذا قرآن مجید کا مطالعہ اسی تناظر میں کرنا چاہیے، ورنہ لوگ قرآن مجید کو فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کی کتاب بنا کر رکھ دیں گے اور قرآن مجید کا اصل پیغام دب جائے گا۔ 
میاں صاحب نے سیرتِ محمدی میں جس ’’کلیت ‘‘ کو سیرت نگاری کا اصول قرار دیا ہے ، جزئیات نگاری میں اس کا لحاظ لازم ہے تاکہ کس بھی مرحلہ پر سیرت کا مرکزی پیغام متاثر نہ ہو۔ مثلاً بطور جرنیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی حکمت عملی پر لکھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی اخلاقیات پر مبنی تعلیمات کو نمایاں کر نا اصل سیرت نگاری ہوگی نہ کہ جنگ کے مختلف طریقے۔ اسی طرح بطور تاجر آپ کی زندگی پر لکھتے ہوئے کاروباری اخلاقیات (Business Ethics) کے پہلو کو اجاگر کرنا اصل سیرت نگاری ہوگی نہ کہ محض کاروباری زندگی کی تاریخ،لہٰذا جزئیات نگاری میں دروس و عبر اور دعوتی پہلو کو نمایاں کیا جانا چاہیے۔

پانچواں اصول

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ یہ دور مغربی فکروفلسفہ کے غلبہ کا دور ہے، اسلام پر اہلِ مغرب کے اعتراضات کے پس منظر میں ہمارے اہلِ علم نے جب سیرت پر قلم اٹھایا تو سیرتِ طیبہ پر مغرب کے سوالا ت ان کے پیشِ نظر تھے ۔مغرب نے طویل علمی وفکری ارتقاء اور مسلسل تجربات کے بعد جس تہذیب کو جنم دیا ،اس کے فوائدو ثمرات بھی ان لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے ،چنانچہ اس دور میں لکھی گئی کتبِ سیرت زیادہ تر تحفظات پر مبنی ہے۔ ان کتبِ سیرت میں مغرب کے اعتراضات کا رد بھی ہے اور اس کے ساتھ واقعاتِ سیرت کی ایسی تعبیرات بھی ہیں جن کا مقصد سیرت کا دفاع بھی ہے ۔اخلاص پر مبنی ان اہلِ علم کی بعض تعبیرات سے فاضل مصنف مطمئن نظر نہیں آتے، مثلاً ہمارے اہلِ علم نے بعض مستشرقین کے اعتراضات ، ’’انٹر نیشنل ہیومینٹیرن لاء‘‘ اور’’ بنیادی انسانی حقوق کا عالمی منشور ‘‘ سے ا ثر پذیر ہوتے ہوئے رسول اللہ ؐ کی جہادی زندگی کی ایسی تعبیرات کی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کی جنگی مہمات دفاع پر مبنی تھیں۔ ان کی نظرمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمۃ للعالمین ہونا اس تعبیر کی بنیاد ہے ۔میاں صاحب نہ صرف اس تعبیر کو سرے سے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ سیرتِ طیبہ کے کسی پہلو کی تعبیر میں اس قسم کی معذرت خواہی کے قائل نہیں ہی ہیں ،موصوف لکھتے ہیں :
’’اخلاق عالیہ، رحم دلی اور انسان دوستی وغیرہ کے نام پر سیرت نگاری میں معذرت خواہانہ اسلوب ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ زندگی کا جمالی پہلو ہی زندگی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جلال و جمال ایک وحدت میں ڈھلتے ہیں یا کسی وحدت کے دو اجزاء بنتے ہیں تو زندگی کی ایک توانا اور نظر نواز صورت جنم لیتی ہے ۔ پوری انسانی تاریخ میں ایک بھی قوم ایسی نہیں گزری جس نے کبھی جنگ نہ کی ہو۔ یہ اس دنیاوی زندگی کی واقعیت ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ اس لیے اخلاق اور رحم بھی تلوار اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف بشیر ہوتے، نذیر نہ ہوتے تو کیا پھر بھی خلقِ عظیم سے متصف ہوتے ؟ محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام میں للکار نہ ہوتی تو آپ ؐ کا اسوہ،کیاپھر بھی اسوہ حسنہ قرار پاتا ؟ خدا کی قسم ! اگر محمد رسول اللہ ؐ بدر واحد کے میدان میں تلوار اٹھائے نہ نکلتے تو اللہ رب العزت آپ ؐ کو رحمۃ للعالمین قرار نہ دیتے۔‘‘ (ص: ۴۲)
یہی رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کی ناگزیریت کو تسلیم کرتے ہوئے رسول اللہ ؐ کی جہادی زندگی میں جنگی اخلاقیات کے پہلو کو اجاگر کیا جائے۔ سیرت کے قارئین پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آپؐ نے دنیا کوجنگ برائے امن کا تصور دیا۔آپ نے ؐ ’’ جنگ نہیں، جنگ کی تیاری ‘‘کا حکم دیا ہے تاکہ ظالم کا ہاتھ روکا جا سکے ۔یہ تعبیر تبھی ممکن ہے جب سیرت کے اس باب کو اس تناظر میں پڑھا جائے جس کی طرف فاضل مصنف نے اشارہ کیا ہے ۔ 

چھٹا اصول

تزکیہ نفس مذہب کا بنیادی ہدف ہے ، انسان کی شخصیت روح اور بدن کی تالیف اور امتزاج سے عبارت ہے۔ ایساکوئی مذہب اورنظریہ کامیاب نہیں ہو سکتا جو روح اور بدن میں سے ایک کو ابھارے اور دوسرے کو کچل دے۔ عیسائیت ، ہندو مت ، بدھ مت، اور دیگر مذاہب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ انہوں نے ترک دنیا اور رہبانیت کے تیشے سے انسانی جسم کو صرف اس لیے گھائل کر دیا ہے تاکہ انسانی روح کو بیدار کیا جا سکے۔ لیکن اس غیر طبعی تعلیم اور جان سوزی کے نتیجے میں روح کی شمع بھی گل ہو کر رہ گئی۔ اہل کلیسا نے خانقاہوں میں بسیرا کر لیا، ہندؤوں او ر بدھوں نے جنگلوں کا رخ کر لیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد تزکیہ نفس بھی تھالیکن آپ ؐ نے نہ صرف رہبانیت کی مذمت کی بلکہ روحانی ترقی کے لئے بھر پور سماجی زندگی کو لازم قرار دیا۔ نکاح جیسے ’’دنیوی عمل ‘‘ کو ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری قرار دیا۔ اعلانِ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھر پور خاندانی اور معاشرتی زندگی گزاری۔ اسلام نے تجرد اوررہبانیت کو رمضان کے دس روزہ اعتکاف اور حج تک محدود کریا ، اعلانِ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعض مواقع پر غارِ حرا ضرورگئے ہیں لیکن اعلانِ نبوت کے بعد حضور پھر کبھی غار حرا نہیں گئے۔ سماجی زندگی کے کڑے معیار پر پورا اترنا ہی سیرت طیبہ کا آفاقی پہلو تھا جس کو اس امت نے گم کردیا ہے۔میاں انعام الرحمن سیرت محمدیؐ کے اس تابناک پہلو کی عصری معنویت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
’’پوری انسانی تاریخ میں انسان اور سماج کے ہمیشہ دو بڑے مسائل رہے ہیں؛ازدواجی رشتہ اور معاشی رشتہ ۔ کتنی لطیف بات ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی اور سماجی دونوں اعتبارات سے دونوں رشتے مثالی انداز میں نبھائے ہیں۔ سیرت نگاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے اسی نوع کے پہلو (بات کو غلط انداز میں نہ لیا جائے ) سیکولر منہج بیان کرنے چاہییں تاکہ کثیر مذہبی دنیا کے عام بشر کو راہنمائی مل سکے کہ وہ کیسے اور کیوں کر ازدواجی و معاشی رشتوں سے انصاف کرسکتا ہے۔‘‘ (ص: ۳۰)
صحابہ کرامؓ کے ذہنی رویوں کی تشکیل میں نبوی تعلیمات کابہت گہرااثر تھااس لئے وہ بجا طور پر سمجھتے تھے کہ سماجی زندگی ہی روحانی ترقی کی بنیاد ہے ،چنانچہ منقول ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک شخص کے حال کی تحقیق کے لئے گواہ طلب کئے تو ایک آدمی نے گواہی دی کہ موصوف ایک شریف آدمی ہیں ۔حضرت عمر فارقؓ نے اس سے سوال کیا: کیاآپ اس کے پڑوسی ہیں ؟ اس نے عرض کی کہ نہیں ۔پھر پوچھا: کیا آپ نے اس کے ساتھ کبھی لین دین کیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ۔پھر فرمایا کہ کبھی اس کے ساتھ سفر کیا ہے ؟ اس نے عرض کی کہ نہیں ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا : تم نے اسے رکوع ،سجدے ،ذکر اذکار اور تلاوت میں مشغول دیکھا ہوگا ؟ اس نے کہا : ہاں ۔اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: تم اسے نہیں جانتے اورپھر آپؓ نے اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:کسی ایسے شخص کو بلاؤ جو تمہیں جانتا ہو۔ 
امام محمد بن حسن الشیبانی فقہ حنفی کے مدونِ اول تھے۔ ان سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے زہد اور رقاق کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی کہ لوگ اس کو پڑھتے اور ان کے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ۔آپ نے فرمایا کہ میں نے کتاب البیوع لکھ دی ہے۔یعنی جو شخص کتاب البیوع میں حلال و حرام کے احکام پر مسلسل عمل کرے گا، اس میں تدین ضرور پیدا ہوگا ۔دنیا دار العمل ہے اورعمل کا ’’معیاری اظہار ‘‘ حلال و حرام کی تمیز اور مثبت سر گرمیوں سے ہوتا ہے ۔

ساتواں اصول

فاضل مصنف کی رائے میں سیرت نگار کے لئے رسالتِ محمدی ؐ کی آفاقیت اور عصری معنویت کے پرت کب کھلیں گے، ملاحظہ فرمائیں:
’’سیرت نگار کو آثار و تاریخ اور روایات کے علاوہ ایسی قرآنی تفسیرات و تعبیرات سے بھی باہر جھانکنے کی جرأت کرنی چاہیے جو اسوۂ حسنہ کے باب میں واقعیت پر مبنی کسی سچائی کی راہ میں مزاحم ہوں۔ زمانے کی تحریک انگیز قوت ، تکوینی سطح پر علم و ہنر کے گلستان میں جو نت نئے پھول کھلاتی ہے سیرت نگار کو ان کی خوشبو سے محفوظ ہوتے رہنا چاہیے۔‘‘ (ص: ۳۹، ۴۰)
صدیوں کے علمی فکری اور تمدنی سفر میں مختلف معاشروں اور تہذیبوں نے عمرانی علوم میں کئی تجربات کئے ہیں۔ سوشل سائنسز کے عنوان سے سماجی زندگی کے مختلف گوشوں پر تحقیقات اب باقاعدہ درس گاہوں میں نصاب کا حصہ ہیں۔ سیرت نگار کے لئے لازم ہے کہ وہ جدید سماجی علوم وفنون سے واقفیت حاصل کرے تاکہ سیرت نگاری میں ’’سفرجمال‘‘ کی عزم داستان رقم کرنا اس کا نصیب بن سکے ۔ 
راقم الحروف کو اعتراف ہے کہ زیر نظر کتاب ’’سفر جمال :نبی مکرم ؐ کی جمالیاتی مزاحمت کی پر عزم داستان ‘‘پر جس طرح نظر ڈالنے کا حق تھا، وہ ادا نہیں ہو سکا، بلکہ درست بات تو یہ ہے کہ کتاب کے مقدمہ کا،جس میں سیرت نگاروں کے لئے ’’فکری غذا ‘‘ کا دریا موجزن ہے،مکمل تعارف بھی نہیں کروایا جا سکا، لیکن مجھے امید ہے کہ کتاب کا قاری جب کتاب میں غوطہ زن ہو گا تو اس کا دامن ان جواہر پارو ں سے خالی نہیں رہے گا ، جو سیرت کے قارئین کا نصیب ہوا کرتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ کتاب کے مطالعہ میں محبت و عقیدت کے ساتھ اپنی فکری صلاحیت کو بھی پوری طرح بروئے کار لائے ۔کتاب کے مقدمے میں مصنف نے عصر حاضرمیں سیرت نگاری کے لئے جن اصولوں کی نشاندہی کی ہے ، خودمصنف نے اپنے منفرد طرز استدلال اور اسلوب نگارش کا استعمال کرتے ہوئے سیرت طیبہ کی عصری معنویت کو خوب اجاگر کیا ہے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور ان کے لئے توشۂ آخرت بنائے ۔ (آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسین ﷺ)

حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ اور حضرت قاری محمد انورؒ کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ ماہ کے دوران دو تین دنوں میں یکے بعد دیگرے تین محترم بزرگوں، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ اور استاذ محترم حضرت قاری محمد انورؒ کی وفات کا صدمہ دینی حلقوں کو سوگوار کر گیا۔ تینوں بزرگوں کا تذکرہ خاصی تفصیل کا متقاضی ہے مگر سرِدست ابتدائی تاثرات ہی پیش کر سکوں گا۔ 
حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ علماء حق کے قافلہ کے سالار تھے اور انہوں نے علمی، عملی اور مسلکی محاذ پر جو خدمات سرانجام دیں، وہ تاریخ کے ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے اور اپنے استاذِ گرامی سے انہوں نے اپنے اردگرد ماحول پر ہر طرف نظر رکھنے کا ذوق بھی پایا تھا۔ ان کے اس ذوق کو دیکھتے ہوئے مجھے حضرت خالد بن ولیدؓ کا وہ واقعہ یاد آجاتا ہے جو ابن عساکرؒ نے ’’تاریخِ دمشق‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ دمشق کی فتح کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ نے حمص میں رہائش اختیار کر لی تھی اور یوں سمجھ لیں کہ ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ دمشق کے تین فاتحین حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت یزید بن ابی سفیانؓ میں اول الذکر بزرگ فوت ہوگئے تھے، حضرت یزیدؓ کو امیر المومنین حضرت عمرؓ نے شام کا گورنر مقرر کر دیا تھا جبکہ حضرت خالد بن ولیدؓ حمص میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایک مجلس میں ذکر کیا کہ حضرت عمرؓ نے اب شاید غزوۂ ہند کا ارادہ کر لیا ہے اور انہیں یعنی حضرت خالد بن ولیدؓ کو اس کی تیاری کے لیے کہا جا رہا ہے۔ اس پر مجلس میں موجود کسی صاحب نے کہا کہ آپ اس سے معذرت کر دیں۔ ایک اور صاحب نے یہ سن کر کہا کہ اس طرح معذرت کرنے سے تو فتنہ پیدا ہوگا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان صاحب کو یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ ’’امّا فی عہد عمر فلا‘‘ کہ اس بات کی تسلی رکھو، حضرت عمرؓ کی زندگی میں کوئی فتنہ کھڑا نہیں ہوگا۔ چنانچہ حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ کی ہر طرف نظر دیکھ کر یہ اطمینان رہتا تھا کہ کوئی فتنہ ان کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکے گا اور وہ اس کی نشاندہی اور روک تھام کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ 
حضرت مولانا قاری محمد انورؒ میرے حفظ قرآن کریم کے استاذ تھے، میں نے ان سے گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں 1960ء میں حفظ قرآن کریم مکمل کیا تھا۔ وہ خاصا عرصہ گکھڑ میں رہے اور ہم سب بہن بھائی ان کے شاگرد ہیں۔ بڑے مشفق استاذ تھے، کم و بیش چالیس سال سے مدینہ منورہ میں مقیم تھے اور تحفیظ القرآن کی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کی بہت سی یادیں ذہن میں تازہ ہو رہی ہیں جن میں سے ایک کا سرِدست تذکرہ کرنا چاہتا ہوں کہ 1977ء میں تحریک نظام مصطفی کے دوران پاکستان قومی اتحاد کے ایک جلوس کی قیادت والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کر رہے تھے، ان کے ساتھ استاذ محترم قاری محمد انورؒ اور جے یو پی کے راہنما حاجی سید ڈارؒ بھی تھے۔ جلوس کو روکنے کے لیے فیڈرل سکیورٹی فورس کے کمانڈر نے ایک جگہ لائن لگا کر اعلان کیا کہ اس سے آگے بڑھنے والے کو گولی مار دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی چاروں طرف سنگینیں تن گئیں جن کا رخ اس لائن کی طرف تھا۔ حضرت والد محترمؒ یہ سن کر اپنے ان دونوں ساتھیوں کے ہمراہ کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے سرخ لائن عبور کر گئے اور فرمایا کہ ’’مسنون عمر پوری کر چکا ہوں اور اب شہادت کے لیے تیار ہوں‘‘۔ ان تینوں حضرات کی اس جرأت رندانہ پر سنگینوں کا رخ زمین کی طرف ہوگیا اور فیڈرل سکیورٹی فورس نے پسپائی اختیار کر لی۔
حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کے ساتھ تحریک ختم نبوت کے محاذ پر گزشتہ تین عشروں سے میری مسلسل رفاقت چلی آرہی تھی۔ انہوں نے 1985ء میں لندن میں پہلی انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس منعقد کرنے کا پروگرام بنایا تو ان کے رفقاء کی ٹیم میں حضرت مولانا علامہ خالد محمود، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ تب سے تحریک ختم نبوت کے محاذ پر ہماری باہمی رفاقت و تعاون کا سلسلہ چلا آرہا تھا اور میں نے ان کی دعوت و اہتمام پر اسی سلسلہ میں جنوبی افریقہ کا بھی دو دفعہ سفر کیا۔ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی خدمت میں کافی عرصہ رہے اور ان کے خلیفہ مجاز تھے۔ حضرت شیخؒ کا رنگ ان کی زندگی میں نمایاں دکھائی دیتا تھا۔ وہ مکہ مکرمہ کی معروف دینی درسگاہ مدرسہ صولتیہ میں حدیث و فقہ کی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور تحریک ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’’انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ‘‘ کے سربراہ ہونیکے ساتھ ساتھ اپنے شیخؒ کی طرز پر خانقاہی نظام میں خاصے متحرک و فعال تھے۔ 
یہ صدمہ تمام اہل دین کا مشترکہ صدمہ ہے اور قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ اہل علم یکے بعد دیگرے اٹھتے جا رہے ہیں مگر ان کی جگہ سنبھالنے کے لیے نعم البدل تو کجا کوئی بدل بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہم سب کو ان کی حسنات کی پیروی کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری تحدیات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ نے سالِ گزشتہ کا اختتام ’’معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری تحدیات‘‘ کے موضوع پر دو روزہ قومی کانفرنس سے کیا جو ۳۰ و۳۱ دسمبر ۲۰۱۶ء کو منعقد ہوئی اور اس کی مختلف نشستوں سے ڈاکٹر محمد ضیاء الحق، پروفیسر ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء، ڈاکٹر مستفیض احمد علوی، ڈاکٹر غلام عباس، ڈاکٹر عاصم ندیم، ڈاکٹر ریاض محمود، ڈاکٹر شہباز احمد منج، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، ڈاکٹر محمد حماد لکھوی، ڈاکٹر عبد القدوس حبیب، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، ڈاکٹر حافظ محمود اختر، ڈاکٹر محمد اکرم ورک، غازی عبدا لرحمن قاسمی، جناب محمد مجتبیٰ، ڈاکٹر سلطان شاہ، حافظ محمد عمار خان ناصر اور دیگر ارباب فکر و دانش نے خطاب کیا۔ جبکہ گفٹ یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر قیصر شہریار درانی کی نگرانی میں کانفرنس اختتام کو پہنچی۔ راقم الحروف کو آخری نشست میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا جس کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔ 
بعد الحمد والصلاۃ۔ گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کو اس کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں جو یونیورسٹی کی علمی و فکری سرگرمیوں میں ایک اچھی پیش رفت ہے۔ مجھے چند سالوں سے یہ دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ملک کی جامعات میں علمی و فکری سرگرمیوں کے حوالہ سے اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر ان جامعات کے شعبہ ہائے علوم اسلامیہ دینی و ملی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کانفرنسوں اور سیمینارز کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اور ایک طرح سے صحت مندانہ مقابلہ کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے جو یقیناًخوش آئند ہے کہ قرآن کریم نے بھی خیر کے اعمال میں وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اسلامی علوم کے ان شعبوں میں علمی و فکری سرگرمیوں میں اضافہ کے ساتھ دوسری بات جو خوشی اور اطمینان کا باعث بن رہی ہے، یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے فضلاء اور دینی مدارس کے فضلاء میں میل جول بڑھ رہا ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان سرگرمیوں میں شریک ہونے والے اور ان کا اہتمام کرنے والے اساتذہ و طلبہ میں دونوں طرف کے فضلاء شریک ہیں۔ پی ایچ ڈی اسکالرز میں دینی مدارس کے فضلاء کی تعداد روز افزوں ہے اور دینی مدارس کے اساتذہ و فضلاء کی دلچسپی اس میں مسلسل بڑھ رہی ہے جو ہمارے پرانے خواب کی تعبیر ہے کہ قدیم و جدید علوم کے ماہرین یکجا بیٹھیں اور مل جل کر دینی، قومی، علمی اور ملی مسائل میں قوم کی راہنمائی کریں۔ 
حضراتِ محترم! ہماری اس قومی کانفرنس کا بنیادی موضوع وہ فکری تحدیات اور چیلنجز ہیں جو اس وقت امت مسلمہ کو درپیش ہیں اور جن میں صحیح سمت راہ نمائی کے لیے پوری امت ارباب فکر و دانش اور اصحابِ علم و فضل کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ہمارے بہت سے فاضل دوستوں نے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے۔ میں گفتگو کے آغاز سے پہلے سوچ رہا تھا کہ فکری چیلنجز کے کون سے دائرے میں بات کروں گا؟ اس لیے کہ فکری چیلنجز کا ایک دائرہ یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی کے عالمی ماحول میں امت مسلمہ کو متعدد اہم فکری چیلنجز درپیش ہیں، جبکہ ملت اسلامیہ کو داخلی سطح پر بھی بہت سی فکری تحدیات کا سامنا ہے اور ہم اپنے قومی ماحول یعنی پاکستانی قوم کے اندرونی دائروں میں مختلف فکری چیلنجز سے نبرد آزما ہیں۔ مجھ سے پہلے ڈاکٹر محمد اکرم ورک صاحب نے اپنی گفتگو میں ’’گلوبل سوسائٹی‘‘ کی بات کر کے میری یہ مشکل آسان کر دی ہے اس لیے میں بھی اسی حوالہ سے چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ 
پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے متعدد فاضل مقررین نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ ہمیں ان فکری تحدیات کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت سے راہنمائی حاصل کرنا ہوگی، اس لیے کہ راہنمائی کے لیے ہمارا اصل علمی و فکری سرچشمہ وہی ہے اور اسی سے فیض حاصل کر کے ہم نہ صرف اپنے بلکہ نسل انسانی کے مسائل و مشکلات کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ 
جناب نبی اکرمؐکی سیرت و سنت کے بارے میں ایک پہلو کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں کہ (۱) حدیث (۲) سنت (۳) سیرت کے تینوں شعبوں کا سرچشمہ جناب رسول اللہؐکی ذات گرامی ہے۔ لیکن ان تینوں میں باہمی طور پر فرق موجود ہے جس کی وجہ سے محدثین کرام اور ائمہ عظام نے ان تینوں کے حوالہ سے علمی ذخیرہ الگ الگ عنوانات کے ساتھ جمع و مرتب کیا ہے۔ احادیث نبویہؐکا دائرہ الگ ہے، سنت و شریعت کا دائرہ مستقل ہے، اور سیرت و سوانح کا دائرہ ان دونوں سے مختلف ہے۔ ہماری علمی و فکری راہنمائی کا سرچشمہ یہ تینوں دائرے ہیں مگر میں اپنے اس طالب علمانہ تاثر اور احساس کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ مسائل و احکام کے استنباط اور استدلال میں حدیث اور سنت سے جس قدر استفادہ کیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے، سیرت کی طرف ہماری اس قدر توجہ نہیں ہے۔ ممکن ہے میرا یہ احساس درست نہ ہو، لیکن ایک طالب علم کے طور پر میں یہی محسوس کر رہا ہوں اور اس رائے کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ حدیث اور سنت کی طرح سیرت کو بھی ہمارے استنباط و استدلال کی مستقل بنیاد ہونا چاہیے۔ خصوصاً آج کی انسانی سوسائٹی کو درپیش مشکلات و مسائل کے حل کے لیے اس طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
میرا تاثر یہ ہے کہ جناب رسول اکرمؐنے جس طرح اپنے قول اور عمل کے ساتھ امت کی راہنمائی فرمائی ہے، اسی طرح خاموش حکمت عملی اور طرز و رویہ کے ساتھ بھی بہت سے مسائل حل کیے ہیں جو ہمارے لیے قیامت تک مشعل راہ ہیں۔ اس طرز عمل اور مسلسل رویہ کی تلاش سیرت کے علمی ذخیرہ میں زیادہ آسانی کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر میں دو باتوں کا ذکر کروں گا۔ 
ایک مثال یہ کہ جناب رسول اللہؐہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے ماحول میں یہ تبدیلی سب نے دیکھی کہ آنحضرتؐکی تشریف آوری کے بعد باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی جس کے سربراہ رسول اکرمؐخود تھے اور اس کے بعد دس سال تک آپؐنے ایک حاکم کے طور پر مدینہ منورہ میں زندگی گزاری۔ یہ مدینہ منورہ کے ماحول میں بہت بڑی تبدیلی تھی جس نے پورے جزیرالعرب کے مستقبل کا رخ ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا۔ لیکن اس دوران ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ قسم کا کوئی خطاب حدیث و تاریخ کے ذخیرے میں کہیں دکھائی نہیں دیتا، البتہ آنحضرت کی وہ خاموش ڈپلومیسی ضرور دکھائی دے گی جس کے نتیجے میں نہ صرف حکومت کا وجود قائم ہوا بلکہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے عنوان سے دستوری خاکہ بھی تشکیل پا گیا۔ 
دوسری قابل توجہ مثال یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں جناب رسول اکرمپر ایمان کا اظہار کرنے والوں میں منافقین کا وہ گروہ بھی شامل تھا جسے قرآن کریم نے وماھم بمؤمنین اور انھم لکاذبون کا خطاب دیا ہے۔ آپ کو اس گروہ کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم قرآن کریم میں ان الفاظ میں ہوا کہ جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم۔ مگر نبی اکرمنے پورے دس سال تک اس گروہ کے خلاف معروف معنوں میں کوکئی جہاد نہیں کیا، نہ عسکری کارروائی کی اور نہ ہی کوئی اجتماعی ایکشن لیا۔ البتہ حکمت عملی ایسی اختیار کی کہ وہ بتدریج سوسائٹی میں تحلیل ہوتے چلے گئے، حتیٰ کہ خلافت راشدہ کے دور میں اس قسم کے کسی گروہ کا مدینہ منورہ میں سراغ نہیں ملتا۔ 
جناب رسول اللہؐ کی یہ حکمت عملی اگر ظاہری نصوص میں تلاش کی جائے تو شاید استدلال و استنباط کے معروف دائروں میں نہ ملے، لیکن آپ کے مسلسل طرزِ عمل کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا ایک ایک مرحلہ ترتیب کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔ یہ دو باتیں میں نے بطور مثال پیش کی ہیں ورنہ اس پہلو سے سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سے امور ایسے ملیں گے جن کی بنیاد آنحضرتؐ کے کسی صریح ارشاد یا متعین عمل پر نہیں بلکہ مسلسل طرز عمل اور رویہ پر دکھائی دے گی۔ اس لیے میں یہ گزارش کر رہا ہوں کہ حدیث و سنت کی طرح سیرت کو بھی استنباط و استدلال کا مستقل ماخذ بنانے کی ضرورت ہے جو اصلاً تو حدیث و سنت کے دائرہ میں ہی شامل ہے، لیکن وہ امتیاز و فرق جس کی وجہ سے سیرت کو حدیث و سنت سے الگ کر کے علمی ذخیرہ میں مستقل طور پر پیش کیا گیا ہے، وہ استنباط و استدلال میں بھی نمایاں ہونا چاہیے۔ اور فقہ القرآن، فقہ الحدیث اور فقہ السنکی طرح ’’فقہ السیرۃ‘‘ کو بھی علمی حلقوں میں موضوع بحث بنایا جانا چاہیے۔ 
دوسری بات یہ عرض کروں گا کہ اس وقت انسانی سوسائٹی میں فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی جو کشمکش جاری ہے، وہ رفتہ رفتہ فیصلہ کن مراحل کی طرف بڑھ رہی ہے اور اگرچہ دیگر تہذیبیں اور فلسفے بھی اس کشمکش میں شریک نظر آتے ہیں، لیکن فائنل راؤنڈ اسلام اور مغربی تہذیب و فلسفہ کے درمیان ہی ہوگا۔ مغرب کا فلسفہ و تہذیب اس وقت غالب و قابض فلسفہ ہے جبکہ اسلامی فکر و فلسفہ نہ صرف مزاحمت کر رہا ہے بلکہ انسانی سوسائٹی کی قیادت حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان دونوں فلسفوں اور تہذیبوں کے درمیان اس بات پر کشمکش جاری ہے کہ مستقبل میں گلوبل انسانی سوسائٹی کی قیادت کون کرے گا؟ مغرب تو موجودہ کیفیت کو ’’اینڈ آف دی ہسٹری‘‘ قرار دے کر اپنے دائمی قبضے کا اعلان کر رہا ہے، لیکن اسلامی تہذیب و ثقافت نے دست برداری اور سپر اندازی قبول نہیں کی اور ابھی ان دونوں کے درمیان جنگ جاری ہے جس کا حتمی نتیجہ آخری راؤنڈ کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ مغرب کے پاس قبضہ اور قوت ہے جس کے باعث وہ خود کو فاتح سمجھ رہا ہے جبکہ مسلمانوں کے پاس دلیل اور حسین ماضی ہے جس کے سہارے وہ یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ 
ہمارا موضوع چونکہ فکری تحدیات ہیں، اس لیے دلیل کی دنیا میں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ مغرب کی دانش کو اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ وجدانیات، وحی اور آسمانی تعلیمات سے مکمل دستبرداری کے انسانی سوسائٹی پر منفی نتائج سامنے آئے ہیں، اس لیے اس پر نظر ثانی کی بہرحال ضرورت ہے۔ یہ بات سابق برطانوی وزیر اعظم جان میجر ’’بیک ٹو بیسکس‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ کہتے رہے ہیں، شہزادہ چارلس ’’وجدانیات کی طرف واپسی‘‘ کی ضرورت کا احساس دلاتے رہتے ہیں، جبکہ امریکی یونیورسٹیوں میں وحی اور عقل کے درمیان توازن کی تلاش تحقیقی سرگرمیوں کا اہم عنوان بن چکی ہے۔ میں سیاست اور طاقت کے میدان کی بات نہیں کر رہا کہ وہاں تو مغرب کی مکمل اجارہ داری ہے مگر دلیل کی دنیا میں مغربی دانش کی ایک سطح اپنے فکر و فلسفہ کی بنیادوں کا ازسرِنو جائزہ لے رہی ہے۔ اس سلسلہ میں ریورس گیئر لگ چکا ہے اور الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے جو ہمارے لیے ایک بہت بڑے علمی و فکری مشاہدہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ کیا ہم مغرب کو اس واپسی کے لیے ’’باعزت راستہ‘‘ دینے کے لیے تیار ہیں؟ ہمارا مزاج اور نفسیات کم و بیش اس طرح کی بن چکی ہیں کہ ناک کی لکیریں نکلوائے بغیر کسی کو واپسی کا راستہ دینا ہمارے لیے مشکل عمل ہوتا ہے۔ جبکہ میرے خیال میں اب اس کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے کہ ہم دلیل و دانش کی دنیا میں مغرب کو واپسی کا باعزت راستہ دینے کی فکر کریں، اس کی راہ نمائی کرتے ہوئے اس کے سامنے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو آج کی زبان اور مغرب کی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے پیش کریں، اور عقل اور وحی کے مابین توازن کے مکالمہ میں شریک ہو کر وحی کی ضرورت و برتری کو ثابت کریں۔ میری طالب علمانہ رائے میں اس وقت ہمارے جامعات اور دینی مدارس کو سب سے زیادہ اس بات کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ جس طرح مغرب نے ’’استشراق‘‘ کے نام سے اسلام اور مسلمانوں کا وسیع اور گہرا مطالعہ کیا ہے اور اسے ہمارے خلاف پوری مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے، اسی طرح ہم بھی مغرب کے فلسفہ و تہذیب اور معاشرت کا مطالعہ کریں اور تحقیق و تجزیہ کے ذریعہ اس کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسلامی احکام و قوانین کی برتری کو واضح کریں۔ یہ کام بہت محنت طلب ہے اور جگر کاوی کا عمل ہے کہ اس کے لیے دماغ کی اعلیٰ صلاحیتوں کے استعمال میں قلب و جگر کا خون بھی جلانا ہوگا۔ یہ سطحی اور جذباتی کام نہیں ہے لیکن اس کے بغیر اب بات آگے نہیں بڑھے گی، یہ کام بہرحال کرنا ہوگا اور جامعات کو دینی مدارس و مراکز کے ساتھ مل کر کرنا ہوگا۔ 
موجودہ عالمی ماحول میں فکری تحدیات کا تیسرا دائرہ میری طالب علمانہ رائے میں یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں حکومتوں کی نہیں بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی حکومت ہے۔ معاہدات نے پوری دنیا کو جکڑ رکھا ہے۔ میرے نزدیک صرف وہ پانچ ملک اس وقت آزاد ملک کہلانے کے مستحق ہیں جن کے پاس سلامتی کونسل میں ’’ویٹو پاور‘‘ ہے، ان کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک اس طرح کا آزاد اور خودمختار ملک نہیں ہے کہ وہ اپنی پالیسی اپنی اور اپنے عوام کی مرضی سے خود طے کر سکے۔ سب کے سب بین الاقوامی معاہدات کے اسیر اور پابند ہیں جن سے انحراف کی صورت میں وہی کچھ ہوتا ہے جو افغانستان اور عراق میں ہو چکا ہے۔ ان معاہدات کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے سیاسی طور پر حکومتوں کو جکڑ رکھا ہے اور ان کی خودمختاری کو قبضے میں لیا ہوا ہے۔ جبکہ اس کا دوسرا پہلو علمی، فکری اور تہذیبی ہے کہ یہ معاہدات مغربی تہذیب و فلسفہ کے علاوہ باقی سب کی نفی کر رہے ہیں اور ان کی زد میں سب سے زیادہ اسلام کے احکام و قوانین ہیں۔ قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو بین الاقوامی معاہدات کی چھلنیوں سے گزار کر ان کی نفی کی جا رہی ہے، استہزاء کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مسلمانوں پر ان سے دستبردار ہونے کے لیے ہر طرح کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ 
اس صورت حال کا علمی و فکری تقاضا یہ ہے کہ ان کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے، اسلامی عقیدہ و ثقافت کے ساتھ ان معاہدات کے ٹکراؤ اور تضادات کی نشاندہی کی جائے اور اسلام کا موقف واضح کیا جائے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سب معاہدات کو یکسر مسترد کر دیا جائے اور نہ ہی یہ کہ انہیں من و عن قبول کر لیا جائے۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہوں گی، اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی معاہدات اور اسلامی تعلیمات کا تقابلی جائزہ لے کر بتایا جائے کہ کون سی باتیں قابل قبول ہیں اور کون سی قابل قبول نہیں ہیں۔ کن باتوں پر کسی درجہ میں مفاہمت ہو سکتی ہے اور کون سے امور ہیں جنہیں کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالہ سے مغرب کو ایک متوازن موقف سے دوٹوک طور پر آگاہ کرنا ضروری ہے اور اس سلسلے میں امت مسلمہ کی راہنمائی ضروری ہے جو ہماری یونیورسٹیوں اور دینی مراکز کے کرنے کا کام ہے اور سنجیدہ علمی شخصیات کی نگرانی میں کرنے کا کام ہے۔ 
آخر میں گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کی اس علمی و فکری کاوش پر ایک بار پھر یونیورسٹی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو اسلام اور امت مسلمہ کی صحیح خدمت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ 

دینی مدارس کے فضلا کا یورپی ممالک کا مطالعاتی دورہ ۔ مختصر روداد اور تاثرات

مولانا محمد رفیق شنواری

جرمنی کی ایرفرٹ یونی ورسٹی کی طرف سے دینی مدارس کے طلبہ کے بعد وہاں کے ایک تحقیقی ادارے میکس پلانک فاؤنڈیشن (Max Foundation۔Planck ) کی دعوت پر دینی مدارس کے فضلا بھی یورپ کے دورہ سے ہو آئے ہیں۔ اس دورے کی مختصر روداد ، تاثرات اور اس کے انتظام و انصرام کے بارے چند گزارشات پیش کی جاتی ہیں۔ 

میکس پلانک فاؤنڈیشن کا تعارف اور دورے کا مقصد 

سب سے پہلے میکس پلانک سوسائٹی کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں جرمنی، بکھرنے کے بعد جب دوبارہ لڑکھڑاتے وجود کے ساتھ ابھرنے لگا تو مختلف شعبوں میں حکومت کو رہنمائی فراہم کرنے کی خاطر 1948ء میں اس ادارے کو قائم کیا گیااور اس سے پہلے 1911ء میں قائم ہونے والا ادارہ Kaiser Wilhelm Society بھی اس میں ضم کر دیا گیا۔ کارکردگی اور کام کے معیار کی بدولت میکس پلانک اس وقت ایک ادارے کی شکل میں ایک عمارت کے اندر محصور نہیں بلکہ جرمنی سے باہر دیگر یورپی ممالک اور امریکہ تک اس کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے اوراس وقت سو سے زائد ادارے اس سوسائٹی کے زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔ ان سب اداروں کو تین بنیادی شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے: میڈیکل سائنسز ، کیمسٹری و ٹیکنالوجی اور ہیومینیٹیز۔ پھر ہر کیٹگری میں مزید کئی ادارے کام کر رہے ہیں۔ یہ تمام ادارے انتظامی طور پر ایک دوسرے سے آزاد ہیں اور وسائل کی فراہمی میں اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے ہیں۔ لیکن ان سب کا معیار میکس پلانک سوسائٹی کی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے ان سب کی کڑی نگرانی ہوتی رہتی ہے۔ Kaiser Wilhelm Instituteکے تحت 1924ء میں Kaiser Wilhelm Institute for Comparative Public Law and International Law کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ 1948ء میں یہ ادارہ بھی میکس پلانک میں ضم ہو گیا جس کا نام MaxPlanck Institute for Comparative Public Law and International Law پڑ گیا جسے مختصر کر کے میکس پلانک فار انٹرنیشنل لا (MPIL)بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا دفتر ہائیڈل برگ یونی ورسٹی کے نیو کیمپس میں قائم ہے اور اور اس کے اجلاسات بھی اسی یونیورسٹی کے لا سکول میں ہی منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ میکس پلانک فار انٹرنیشنل پیس اینڈ رول آف لا (MPIL) کے کچھ لوگوں نے 2013ء میں ایک نیا ادارہ Max-Planck Foundation for International Peace and the Rule of Law (جس کی طرف آگے میکس پلانک فاؤنڈیشن کے الفاظ کے ساتھ اشارہ کیا جائے گا) قائم کیا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد کسی بھی ملک کے لیے دستورسازی یا آئین میں ترامیم و اصلاحات لانے یا کسی بھی مسئلے سے متعلق قانون سازی میں تعاون مہیا کرنا ہے۔ دینی مدارس کے لیے ورکشاپ اور جرمنی کے دورے کا انتظام اسی میکس پلانک فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔ 
ایک دور دراز اور خوش حال ملک کے ادارے کا پاکستان کے ستم زدہ اداروں کے تعلیم یافتگاں کے ساتھ مل بیٹھنے سے آخر کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت دہشت گردی بلا شبہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ دوسری طرف عالمی سطح پر اسلام، اسلامی تعلیمات ، روایات و اقدار کے مراکز یعنی دینی مدارس اور ان سے نکلنے والے علما و فضلا کے ساتھ اس مسئلے کو پیوستہ کرنے کی کوششیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وطن عزیز میں بھی بین الاقوامی دباؤ کے تحت ہر حکومت مدارس کے بارے میں کوئی نہ کوئی قدم اٹھاتی رہی ہے۔ اس تناظر میں مدارس اور مدارس کے فضلا ملکی و بین الاقوامی دونوں پہلوؤں سے چھان بین اور تحقیق کا موضوع بن گئے جس پر کافی حد تک لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ دیگر اداروں کی طرح اس ادارے نے بھی ایک مستقل پروجیکٹ کی شکل میں اس پر کام کا آغاز کیا۔ اس دورے کا مقصد بھی یہ بتایا گیا کہ مدارس میں تعلیم و تربیت پانے والے فضلا کے بارے میں میڈیا کے پراپیگنڈا اور دیگر تعصب اور دین دشمنی پر مبنی نام نہاد تحقیقی رپورٹس پر اندھے اعتماد کی بجائے براہ راست ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی سوچ، اندازِ فکر، اور ان کے ہاں صحیح اور غلط میں تمیز کے پیمانوں کو دیکھا جائے اور اسی طرح یہ کہ انھیں بین الاقوامی اداروں میں لے جا کر عالمی سطح کے سیاسی و قانونی فیصلوں میں کلیدی کردار ادا کرنے والے لوگوں اور وہاں کے طریقہ کار کا مشاہدہ کرایا جائے تاکہ دنیا کو ان کی حقیقی تصویر اور تعمیری کردار کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی اداروں اور مدارس کے درمیان ایک براہِ راست رابطہ پیدا ہونے سے ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع میسر ہوگا۔ 
ظاہر ہے، اتنا بڑا مقصد ایک ہی دورے سے حاصل کرنا اور محض بارہ افراد سے ہزاروں اداروں اور لاکھوں افراد کی سوچ اور ذہنی رویوں کے متعلق جاننا مشکل بلکہ ناممکن ہے؛ اسی لئے اس ادارے نے اس کام کو ایک سلسلہ وار پروجیکٹ کے طور پر انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ اس کا صرف پہلا حصہ تھا۔ اس ادارے کے لوگوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ مسلم معاشرے میں عام علما کی بہ نسبت مفتیانِ کرام کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور عوام اپنے ہر طرح کے مسائل میں انھی سے رہنمائی لیتے ہیں اور انھی کی بتلائی ہوئی باتوں (فتاویٰ) پر عمل کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس پروگرام کا اگلا حصہ سند یافتہ مفتیانِ کرام کے لیے ہوگا۔ 

پاکستان میں ورکشاپ

اس پروگرام کا آغاز بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارے شریعہ اکیڈمی کے تعاون سے ایک ورک شاپ کے انعقاد سے کیا گیا۔ ملک کے مختلف حصوں سے پانچوں مسالک کے مدارس سے تقریباً پچاس فضلا اس میں شریک ہوئے۔ تمام فضلا کے رہنے کا انتظام اسلام آباد کے ایک فور سٹار ہوٹل میں کیا گیااور کلاسز فیصل مسجد کے احاطے میں واقع شریعہ اکیڈمی میں ہوتی رہیں۔ 
یہاں ایک بات کی وضاحت مناسب ہوگی۔ وہ یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو بشمول ہمارے چند شرکا کے، اتنے مہنگے ہوٹلوں میں رہائش نیز بڑے پیمانے پر کیے جانے والے اخراجات سے اس ورک شاپ کے مقاصد اور اس ادارے کی نیت پر شک سا ہونے لگا کہ مدارس کے فضلا پر اس قدر اخراجات سے آخر ان کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ راقم کا ذاتی تاثر یہ ہے کہ اس شک کی وجہ شاید ترقی یافتہ یورپ کے ایک مضبوط اکانومی پر قائم ملک کے ادارے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے مدارس کے طرز معاشرت کے درمیان پایا جانے والا فیصلہ ہے۔ مدارس کا طرز زندگی کم وسائل پر قائم ہے، پاکستان کے عام شہری کے طرز زندگی سے بھی فروتر ہے۔ میرے خیال میں مالی وسائل سے مالامال ادارے کے لیے ایک بیرونی ملک میں ایک حساس مسئلے پر ورکشاپ پر اتنے اخراجات شاید ان کے نقطہ نظر سے معمول کی بات ہے۔
بہرحال پانچ ہفتوں پر مشتمل ورکشاپ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے دو حصوں میں تمام شرکا کو Public International Law اور Constitutional Law پڑھائے گئے۔ تدریس کی ذمہ داری اٹھانے والے ہر مضمون پر اتھارٹی سمجھے جانے والے قومی و بین الاقوامی سطح کے مشہور و معروف پروفیسرز نے اٹھائی ، جن میں سے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے نائب صدر اور شریعہ اکیڈمی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد منیر، پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے بین الاقوامی قانون اور فقہ السیر کے مضامین پڑھائے، پروفیسرڈ اکٹر عزیز الرحمن، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل جناب حامد خان اور پروفیسر ڈاکٹر محمد زبیر عباسی نے کانسٹی ٹیوشنل لا، کانسٹی ٹیوشنلزم، ان کے اسلامی تعلیمات سے تقابل اور پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ کے مطالعہ کی ذمہ داری اٹھائی۔ ان حضرات کے ساتھ میکس پلانک فاؤنڈیشن کی جانب سے تشریف لائے Dr. Mixmalion Sphor نے ہیومن رائٹس لا کا مضمون پڑھایا۔ دو ہفتے کا یہ دورانیہ یقیناًہمارے لئے خرد افروزی اور فکر کی تازہ کاری کا ایک بہترین موقع تھا جس سے سب شرکا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ 
تدریسی دورانیہ ختم ہونے کے بعد ایک ہفتہ کی چھٹی کی سہولت کے ساتھ آخری ہفتے میں ہر شریک کورس کوایک موضوع پردس سے بارہ صفحات پر مشتمل تحقیقی مضمون تیار کر کے پریزینٹیشن دینے کے لیے کہا گیا۔ ہر شریک کو پریزینٹیشن کے لیے پچیس منٹ کا وقت دیا گیا، دیگر تمام شرکا کی طرف سے سوالات جوابات کا سلسلہ بھی ہوا اور آخر میں پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمداورمیکس پلانک فاؤنڈیشن کے سربراہ Dr. Tillman Roder کی جانب سے اسے مزید بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی دی گئیں۔ 
اس کے بعد دو ہفتے کے وقفے کے ساتھ اپنے مضامین کو حتمی شکل دے کر بھیجنے کے لیے کہا گیا اور اس ادارے کے اسکالرز کی طرف سے تمام مضامین کا جائزہ لینے کے بعد جرمنی کے دورے کے لیے بارہ منتخب شرکاء کے ناموں کا اعلان کیا گیا۔ ان بارہ افراد کے اسمائے گرامی یہ ہیں :
۱۔ مفتی محمد تاج ، فاضل جامعہ دارلعلوم کراچی 
۲۔ مفتی احمد افنان ، فاضل جامعہ دارلعلوم کراچی
۳۔ مولانا محمد صادق کاکڑ، فاضل جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی
۴۔ مولانا محمدمعین الدین شاہ جمالی ، فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف سرگودھا
۵۔ مولانا محمد رفیق شنواری ، فاضل جامعہ امداد العلوم الاسلامیہ پشاور
۶۔ مولانا ذیشان حیدر ، فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور
۷۔ مولانا بہرام خان ، فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی
۸۔ مولانا عثمان اکبر ، فاضل جامعۃ الرشید کراچی
۹۔ مولانا محمد شہزاد، فاضل جامعہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ 
۱۰۔ مولانا ڈاکٹر نعیم الدین ، فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف سرگودھا
۱۱۔ مولانا عبدالحمید ، فاضل مرکز الدعوۃ السلفیۃ، فیصل آباد
۱۲۔ مولانا محمد یوسف، فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ،گجرات

جرمنی میں ورکشاپ 

ای میل کے ذریعے ہمیں پاسپورٹ لے کر جرمن ایمبیسی جانے، ویزا لے کر فلائیٹ کی تاریخ اور وہاں کی تمام مصروفیات کی ترتیب سے متعلق معلومات ملتی رہیں۔ ویزا لینے کے بعد کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے ٹرکش ایئر لائن کی چھبیس اکتوبر صبح چھ بجے والی فلائیٹ سے استنبول روانہ ہوئے۔ استنبول میں ہم سب ساتھی ایک ہی طیارے کے ذریعے جرمنی کے فرانکفرٹ شہر ظہرکے وقت پہنچے، اور وہاں سے بس کے ذریعے جرمنی کے دوسرے شہر ہائیڈل برگ روانہ ہوئے جہاں میکس پلانک فاونڈیشن ہے اور وہیں ہمارا قیام طے تھا۔ اگلے روز یعنی پیر کے دن سےAdam Walker کے ساتھ جو خود یونی ورسٹی آف ہالینڈ میں علوم الحدیث میں پی ایچ ڈی اسکالر تھے، ہماری ورکشاپ شروع ہوئی۔ Adam Walker کا تعلق برطانیہ سے ہے، ہائیڈل برگ یونی ورسٹی کے شعبہ قانون کے پی ایچ ڈی اسکالرز کے ساتھ فاؤنڈیشن کی عمارت میں فاؤنڈیشن ہی کی درخواست پر ریسرچ میتھڈالوجی کا مضمون پڑھاتے ہیں۔ عربی زبان پر عبور کے ساتھ ساتھ عربی الفاظ بھی خوب صورتی کے ساتھ ادا کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے حدیث المنزلہ پر تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ اب تک آغاز سے لے کر امام سیوطی تک اس حدیث کے ایک سو چوہتر طرق جمع کر چکے ہیں۔ خود ایک پاکستانی اسکالر جناب ڈاکٹر افتخار زمان کے کام کے بڑے مداح تھے، اور جہاں تک میں نے ان کے اور ڈاکٹر افتخار زمان کے کام کا جائزہ لیا تو ان کا انداز اور اسلوبِ تحقیق بھی جناب ڈاکٹر افتخار زمان سے مشابہ تھا۔ طبقات ، رجال، مصطلح الحدیث اور حدیث کی کتابوں پر ہونے والے کام پر گہری نظر رکھتے تھے۔ 
ہم ان کے ساتھ چائے اور کھانے کے وقفے میں بھی اکثر علمی موضوعات پر گفتگو کرتے تھے۔ ہمارے بعض ساتھیوں کی صلاحیت اور کتب شناسی سے کافی متاثر ہوئے۔ اپنی گفتگو میں بہ تکرار یہ کہتے رہے کہ آج تحقیق کی دنیا میں مغربی معیاراور اسلوب کو ہر جگہ اپنایا جاتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ چند موضوعات یا سائنسی علوم میں یہ درست ہو، لیکن کلی طور پر اور تمام علوم میں بے جا انفعالیت کے ساتھ اس کو تسلیم کرنا ہر گز درست نہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مغرب باقی دنیا کی مرعوبیت اوربے جا انفعالیت والی سوچ اور ذہنیت سے فائدہ اٹھا کر اسلامی علوم کو بھی دلیرانہ موضوعِ تحقیق بنا رہا ہے اور دنیا میں اسلام کی من مانی تعبیر پیش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں شاید مغرب میں کچھ مثبت اور صحیح معنوں میں تحقیقی کام بھی ہوئے ہیں۔ اس کی مثال میں جناب ڈاکٹرافتخار زمان کے کام کا حوالہ دیتے۔ مزید یہ بھی کہتے کہ جناب ڈاکٹرافتخار زمان کا مقالہ غیر مطبوعہ ہونے کے باوجود مغربی دنیا میں علوم الحدیث میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے پی ایچ ڈی کے مقالوں میں سے ہے، اور مسکرا کر کہتے کہ میرا نہیں خیال کہ ان کو اس بات کا پتہ بھی ہو۔ اسلامی علوم میں تحقیق کے مغربی اصول و اسلوب پر گفتگو کے دوران ہمیں اس بات کی ترغیب دیتے رہے کہ آپ لوگوں کو شریعت اور تمام اسلامی علوم کو براہِ راست مصادر سے سمجھنے پر قدرت حاصل ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاکر مغربی زبان و اسلوب میں ساری دنیا میں مانے جانے والے تحقیق کے اس فورم پر اپنا کردار ادا کریں۔ تحقیق کے اس مسلمہ فورم پر اسلامی علوم کے اعتبار سے نااہل لوگوں کے کام کو تنقید کا نشانہ بنا کر اور ہمیں آگے بڑھ کر اس فورم پر کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے انہوں نے دو روزہ ورکشاپ میں تحقیق و تنقید کے اصول و قواعد تفصیل سے پڑھائے اور اس کے بعد واشنگٹن لاء ریویو میں اسلام پر شائع شدہ دو تحقیقی مقالے ہمیں دیے اور کہا کہ تحقیق و تنقید کے اصولوں کی بنیاد پر آپ لوگ ان مقالوں کا تنقیدی نگاہ سے مطالعہ کریں اور یہ سامنے رکھتے ہوئے کہ تحقیق کی دنیا میں اس رسالے کا کیا مقام و مرتبہ ہے، دیکھیں کہ یہ مقالے کس حد تک اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ 
تین دن تک تحقیق و تنقید کے اصول و قواعد پڑھنے کے بعد ہمیں مغربی مصنفین کے دو تحقیقی مقالوں کا اجتماعی تنقیدی مطالعہ کرایا جن سے ایک تو ان قواعد کی تمرین ہوئی اور دوسرا تحقیق کی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے والے مغربی فورمز پر کچھ متعصب اور نا اہل لوگوں کا تسلط بھی دیکھا اور یہ احساس ہوا کہ مدارس کی چار دیواری سے باہر بھی تحقیق کی دنیا میں اسلام اور شریعت کو اصل مصادر و مراجع سے براہِ راست سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے علما کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد انھی اصولوں پر بعض شرکا کے تحقیقی مضامین کا جائزہ لیا گیا اور فرداً فرداً ہر ایک کو اس کے مضمون سے متعلق تجاویز دی گئیں۔ 

میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے مرکزی کتب خانے کا دورہ 

ورکشاپ کی صورت میں مقالہ جات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لینے کے بعدمیکس پلانک فار انٹرنیشنل پیس اینڈ رول آف لا (MPIL) کے مرکزی کتب خانے کے دورے کا پروگرام طے تھا۔ بدھ، یکم دسمبر کی یخ بستہ سہ پہر کو صاف ستھری سڑک پر بیس منٹ تک پیدل چل کر ہم ایک پر شکوہ عمارت میں داخل ہوئے۔ یہ دفاتر، ریڈنگ ہال اور بعض خفیہ و اہم دستاویز ات کے لیے مخصوص مکانات پر مشتمل میکس پلانک فار انٹرنیشنل پیس اینڈ رول آف لا کا مرکزی کتب خانہ تھا۔ پاکستانی علما کا سن کر اس لائبریری کے پرانے اور ریٹائرڈ لائبریرئن جوشم شوائتسکے ہمارے وفد کا استقبال کرنے اور کتب خانے کا وزٹ کرانے کے لیے ذاتی دلچسپی سے تشریف لائے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ سقوطِ برلن کے بعد جرمنی جب دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں تھا تو میکس پلانک فار انٹرنیشنل پیس اینڈ رول آف لا کو جرمنی کے سرکاری اداروں کو ملکی استحکام اور بین الاقوامی سطح کے معاملات طے کرنے نیز اس سب میں مذہب کا کردار متعین کرنے میں مدد مہیا کرنے کا فرض سونپا گیا تھا۔ اس لیے اس ادارے کو عالمی سطح کی کتابیں، مجلات اور خفیہ و تاریخی رپورٹیں جمع کرنے میں ریاستی وسائل فراہم تھے۔ ادارے کی اس ذمہ داری کو دیکھتے ہوئے اس کے کتب خانے کے لیے بنیادی طور پر چار طرح کی کتابیں اور معلومات اکٹھی کرنا اولین ترجیح ٹھہرا:
1. Public International Law
2. Constitutional Law
3. Theory of Law (Jurisprudence)
4. Religion
مذہب کی کتابیں جمع کرنے کا مقصد صرف دینیات اور مذاہب کی تعلیمات میں تحقیق نہیں تھا، بلکہ ہر مذہب کو اصل بنیادوں اور اس کی تعلیمات کی روح کے ساتھ سمجھ کر ان کے ریاست کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو متعین کرنے اور اس بارے میں اپنے عوام کے ساتھ اعتماد و اطمینان کا رشتہ قائم کرنے میں ریاستی اداروں کو سہولت فراہم کرنا تھا۔اسی طرح ملک کے داخلی نظام میں استحکام پیدا کرنے اور اپنی ترجیحات کے حصول کی خاطر قانون اور دستور سازی میں کوئی خاص اور موافق منہج ڈھونڈھنے اور اختیار کرنے کے لیے اصولِ قانون کی کتابیں بھی جمع کی گئیں تاکہ قانون سازی اور قانون کی تعبیر و تشریح کے لیے مختلف قانونی نظریات (Legal theories) کا مطالعہ و تحقیق بھی کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستوں کے ساتھ معاملات طے کرنے میں مدد فراہم کرنے کی خاطر بین الاقوامی قانون کی کتابیں بھی اکٹھی کی گئی۔ اسی سلسلے کی ایک انتہائی اہم اور تاریخی دستاویز 1648 کی پیس آف ویسٹ فالیہ بھی تھی جس کی بنیاد پر یورپی اقوام کی تقسیم ہوئی تھی اور نیشن اسٹیٹ کا تصور بھی اسی سے پھوٹا تھا۔ اس دستاویز کو تاریخی اور غیر معمولی اہمیت کے حامل ہونے کی وجہ سے انتہائی محفوظ جگہ پر رکھا گیا تھا۔ کتب خانے میں کافی پرانی کتابیں، رسائل اور خفیہ اور نایاب رپورٹیں انتہائی اہتمام کے ساتھ، دل فریب ترتیب اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنٹیفک انداز میں رکھی گئی تھی۔ میری ذاتی دلچسپی قانون سے تھی، اس لئے قانون سے متعلق کوئی شیلف سرسری طور پر ہی سہی، دیکھے بغیر آگے نہیں گزرا۔ بالخصوص امریکی جامعات کے مجلات ہارورڈ لاء ریویو، واشنگٹن لاء ریویو ، نیو یارک لاء ریویو وغیرہ اور عرب لاء کوارٹرلی کے علاوہ بھی کافی وقیع جرائد و مجلات کی پرانی فائلیں مکمل پڑی ہوئی نظر آئیں۔ یہیں پہلی بار ہم نے سلطنت عثمانیہ کا آئین قدیم اردو نما ترکی رسم الخط میں دیکھا۔ 
اس لائبریری میں مختلف خفیہ ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹس بھی موجود تھیں۔ ہمیں چائنیز ایجنسیوں کی کچھ رپورٹس بھی دکھائی گئیں۔ پی ایل ڈی اور دیگر کئی درجن پاکستانی مطبوعات دیکھ کر دل میں ایک خوشگوار حیرت کا احساس ناگزیر تھا۔ کتابوں کی کثرت کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ جگہ کو استعمال میں لانے کے لیے شیلفوں کو ایک بٹن دباکر آگے پیچھے دھکیلنے کا انتظام کیا گیا ہے اور صفائی کا عالم یہ ہے کہ ایسی شیلفیں جہاں میرے خیال میں شاید ہی کوئی جاتا ہو، وہاں ہاتھ پھیر کر بھی کہیں گرد محسوس نہیں کی گئی۔ سچ یہ ہے کہ یہاں کتاب دوستی کا عالم دیکھ کر بہت تعجب بھی ہوا اور اپنے یہاں کے حالات اور اس باب میں اپنی پستی پر افسوس بھی۔
میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے مرکزی کتب خانے کے دورے کے بعد ہم نے جمعرات اور جمعہ کے دو دن اپنے مقالات پر نظر ثانی اور مزید بہتر کرنے پر صرف کیے۔ اس دوران ہم نے انسٹی ٹیوٹ اور فاؤمڈیشن دونوں کے کتب خانوں سے استفادہ کیا۔ ٰاؤنڈیشن میں کتابوں کا ذخیرہ کم مگر عالمی طباعتی اداروں کی گراں قدر اور بیش قیمت نیز اعلیٰ معیار کی تحقیقی کتابوں پر محیط تھا۔ اسی طرح اس دورے کا پہلا ہفتہ جو ورکشاپ اور اپنے مقالات پر نظر ثانی اور مزید بہتر کرنے کے لیے مختص تھا، جمعے کو ختم ہوا۔ 
ہفتے اور اتوار کے دو دن ہمیں ذاتی طور پر سیر و تفریح یا کسی دوست عزیز سے ملنے کے لیے دیے گئے۔ اکثر دوست سیر تفریح کے لیے سوٹزرلینڈ چلے گئے۔ سوٹزرلینڈکی خوب صورتی واقعی بے مثال ہے۔ سرسبز پہاڑ ہیں اور بہتی نہریں جن کے کناروں پر صاف ستھری اور کشادہ سڑکوں کا جال بچھایا گیا ہے۔ پہاڑوں پر چڑھ کر برف پوش چوٹیوں، ان کے درمیاں اڑتے بادل کے ٹیلوں اور نیچے زمین کی ہریالی اور درختوں کا نظارہ کرنے کے لیے حکومت نے بجلی سے چلنے والی ریل کا نظام بنایا ہے جو سطح زمین سے اوپر پہاڑ پر چڑھتی ہے۔ نہروں اور ان میں آبشاروں سے گرتے پانیوں کے منظر سے محظوظ ہونے کے لیے کشتیاں چلائی گئی ہیں جن کو کسی بھی مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لیے تین سے چار منٹ میں پہنچنے والے ہیلی کاپٹرز سے جوڑا گیا ہے۔ سب سے اہم اور بنیادی چیز یہ کہ زائرین کے لیے امن کو یقینی بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ ملک ساری دنیا سے سیاحوں کا مرکز بن چکا ہے جو اس ملک کی آمدنی میں غیر معمولی اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اس حسین اور خوب صورت ملک میں انتہائی نظم و ضبط، صفائی ستھرائی کے غیر معمولی اہتمام اور اس کو حسین و محفوظ رکھنے کے لیے یہاں کے رہائشیوں میں احساس و شعور نے یقیناًاس کے قدرتی حسن کو زیادہ پر کشش اور قابل دید بنا دیا ہے۔ قدرتی حسن کی یہاں پاکستان میں بھی کمی نہیں اور نہ بھر پور طریقے سے محظوظ ہونے کے لیے انتظامات ناممکن ہیں، لیکن امن کے فقدان نے ساری دنیا کے سیاحوں کو اس ملک کے حسن سے لطف اندوز ہونے سے محروم کر دیا ہے۔ اگر امن کی نعمت اس ملک کے نصیب میں آ جائے تو یہ ملک بھی عالمی سیاحوں کا مرکز بن سکتا ہے۔ حکومتی انتظامات اور نظام کی بہتری تو کافی حد تک اس کی آمدنی میں اضافے کا سبب بھی بنیں گے۔ 
بہرحال دو دن سوٹزرلینڈ میں گذارنے کے بعد اتوار کو تقریباً رات دس بجے واپس جرمنی پہنچ گئے۔ 

فیڈرل کا نسٹی ٹیوشنل کورٹ آف جرمنی کا دورہ 

ہمارا دوسرا ہفتہ مختلف اداروں کے وزٹ کے لیے طے تھا۔ اس سلسلے میں پہلا دورہ جرمنی کے کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کا کیا گیا۔ کانسٹی ٹیوشنل کورٹ ہائیڈل برگ سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر کارلسرو شہر میں واقع ہے۔ چھ دسمبر بروزِ پیر صبح آٹھ بجے ریل کے ذریعے کارلسرو کے لیے روانہ ہوئے۔ ہماری ملاقات کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کے جسٹس ڈاکٹر میڈاؤسکی کے ساتھ طے تھی۔ فاضل جسٹس انتہائی خوش مزاج اور متواضع انسان تھے۔ ہماری آمد کی اطلاع ملتے ہی خود استقبال کے لیے آئے اور جب اپنا تعارف کروایا تو ہم سب اعلیٰ عدلیہ کے ایک جسٹس کے یوں استقبالیہ پر آنے پر ایک دوسرے کوتعجب سے دیکھنے لگے۔ استقبالیہ سے جسٹس صاحب خود ہی ہمیں عدالت کا وزٹ کرانے لے گئے، بالخصوص کورٹ روم جہاں کیسز کی سماعت اور فیصلے ہوتے ہیں۔ کورٹ کی ساری عمارت شیشے کی بنی ہوئی ہے جس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ چونکہ ہماری ساری کارروائی پبلک ہوتی ہے، اس لیے کسی کا بھی حق ہے کہ جب چاہے ہماری کارروائی دیکھ سکتا ہے جس کے لیے کورٹ کے اندر جانے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ شیشے کی دیوار سے بھی دیکھ سکتا ہے۔ کر انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ پچھلے مہینے رات دس بجے میں اپنے چیمبر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ ایک بندہ سامنے سڑک پر گزرا۔ وہ شراب کے نشے میں تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے زوردار آواز میں کہا کہ Thank you for working for me this hour ( اتنی دیر تک ہماری خدمت کرنے کے لیے آپ کا شکریہ )۔ 
اس کے بعد ہمیں ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں فاضل جسٹس نے جرمنی کے عدالتی نظام، اسٹرکچر اور Hierarchy (عدالتوں کے مراتب) کے بارے میں بریفنگ دی۔ عدلیہ کی آزادی کا بار بار فخر کے ساتھ ذکر کرتے رہے۔ جرمنی سول لاء کے نظام پر قائم ملک ہے، اس لئے وہاں کا عدالتی نظام پاکستان اور کامن لا نظام پر قائم ملکوں سے مختلف ہے۔ جرمنی میں عدلیہ Inquisitorial system پر قائم ہے جہاں عدالت خود بھی کسی کیس کے حقائق تک پہنچنے میں شامل ہوتی ہے جب کہ کامن لا کے نظام پر قائم ملکوں میں Adversarial System پر عمل ہوتا ہے جہاں عدلیہ کی حیثیت فریقین کے درمیان ایک غیر جانب دار منصف کی ہوتی ہے اور وہ خود کیس کے حقائق معلوم کرنے میں مشغول نہیں ہوتی۔ جسٹس صاحب نے ہم سے بھی کافی سوالات پوچھے۔ فتویٰ کے بارے میں انہوں نے تفصیلی بریفنگ لی۔ بالخصوص بہ تکرار یہ پوچھتے رہے کہ پاکستان کے اندر ملکی قانونی نظام کے ساتھ ساتھ علما کا فتوے کا نظام یکساں کیسے چلتا ہے؟ نیز ان فتاویٰ پر عمل درآمد کروانے کا کیا نظام ہے؟ ہمارے کچھ شرکا نے جو شعبہ افتا سے منسلک ہیں، اس سوال کا تفصیلی جواب دیا کہ افتاء اور قضاء میں کئی اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے۔ عدالتی فیصلے تو دو یا زیادہ فریقوں میں کوئی تنازع ہو تو دیے جاتے ہیں جبکہ فتویٰ عقائد وعبادات میں بھی دیا جاتا ہے جہاں دو فریقین کے درمیان نزاع نہ ہو بلکہ معاملہ خالص ذاتی نوعیت کا ہو اور کسی کو رہنمائی درکار ہو۔ دوسرا یہ کہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے ریاستی طاقت ہوتی ہے جبکہ فتوے کی حیثیت کوئی شرعی حکم جاننے میں مدد لینے کی حد تک ہے، اس پر زبردستی عمل نہیں کروایا جاتا۔ اس کے ساتھ انھیں شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ سے بھی آگاہ کیا گیا۔ 
دورانِ گفتگو ہمارے بعض ساتھیوں کی قرآن و سنت کی نصوص کی تلاوت سے کافی متاثر دکھائی دینے لگے۔ پشتو ، پنجابی یا کسی بھی مادری زبان کے علاوہ اردو کے ساتھ عربی اور انگریزی پر عبور کو بھی انہوں نے کافی سراہا۔ فاضل جج کے ساتھ ہماری ملاقات کا طے شدہ دورانیہ صرف ایک گھنٹہ تھا لیکن انھوں نے ہمیں ڈھائی سے تین گھنٹے تک وقت دیا۔ دورانِ گفتگو پر تکلف چائے کے ساتھ ہماری ضیافت بھی ہوتی رہی۔ تین گھنٹے پر محیط یہ محفل تقریباً ساڑھے بارہ بجے اختتام کو پہنچی اور ہم واپس ہائیڈل برگ کے لیے روانہ ہوئے۔ 

یورپی عدالت برائے انسانی حقوق اورکاؤنسل آف یورپ کا دورہ

اگلے دن یعنی سات دسمبر بروزِ منگل ہم نے فرانس کے لیے رخت سفر باندھا جہاں یورپ کے دو بڑے اداروں کا دورہ طے تھا۔ یہ دونوں ادارے فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں واقع ہیں۔ سات دسمبر کی صبح ہائیڈل برگ سے جرمنی کے ایک دوسرے شہر کالسرو تک اور وہاں سے ایک تیز ترین ٹرین کے ذریعے ریاستی حدود کو محسوس کیے بغیر فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں داخل ہوئے۔ یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس کی ایک جسٹس صاحبہ نے، جن کا تعلق جرمنی سے تھا، اس عدالت کی تاریخ، ساخت اور دائرہ اختیار کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ شامی مہاجرین کے بارے میں اس عدالت کے کردار کو خاص طور پر وضاحت کے ساتھ اجاگر کیا اور فخر سے کہا کہ ہم نے تمام یورپی ریاستوں کوشامی مہاجرین کو اپنے ملک واپس بھیجنے سے منع کیا ہے۔ اس کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوئی جس میں زیادہ تر موضوع گفتگو سزائے موت کا خاتمہ ، مرد و عورت کی کلی مساوات اور اسکارف کے مسائل رہے۔ اسلوب بیان اور تعبیر پر قدرت کے علاوہ جج صاحبہ اپنی گفتگو کے دوران اس عدالت کے مختلف کیسز کا حوالہ دیتی رہیں جس سے قانونی نظائر (Precedents) کے ساتھ ان کے تعامل کا اندازہ ہوتا رہا۔ یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس میں ایک فریق لازماً کوئی یورپی ریاست ہوتی ہے جب کہ دوسرا فریق کوئی شکایت کنندہ ہوتا ہے جو اپنی کسی حق تلفی کی تلافی کے لیے اس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ یہ عدالت بنیادی طور پر یورپین کنونشن آن ہیومن رائٹس، اور خصوصی حالات میں دوسرے بین الاقوامی معاہدات کی روشنی میں فیصلے کرتی ہے۔ عدالت کا فیصلہ آخری اور حتمی ہوتا ہے اور اس کے پچانوے فیصد فیصلوں پر عمل در آمد بھی ہوتا ہے۔ تاہم بعض حالات میں کوئی ریاست فیصلے کو ماننے سے انکار بھی کر دیتی ہے۔ 
اس عدالت میں کاؤنسل آف یورپ کی ممبر یورپی ریاستوں سے ایک ایک جج آتا ہے جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے نامزد کردہ تین ججز میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جاتا ہے جو نو سال کے ناقابل تجدید عرصے کے لیے یہاں پر کام کرتا ہے۔ اس وقت، فی ریاست ایک جج کے حساب سے، کل ۴۷ ججز یہاں کام کر رہے ہیں۔ عدالت میں دو چیمبر ہوتے ہیں۔ نچلے درجے کے چیمبر میں ۷ جج ہوتے ہیں اور اگر یہاں کے فیصلے پر مزید غور کی ضرورت ہو یا اس کے خلاف اپیل کی جائے تو ۱۷ ججز کا دوسرا بینچ بیٹھتا ہے جس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور اس کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہوتا۔ عجیب بات یہ تھی کہ یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس کو جج صاحبہ ایک معجزے سے تعبیر فرما رہی تھیں اور بجا طور پر یہ ۱۹۵۰ کی دہائی کے حساب سے ایک سیاسی معجزہ ہی تھا۔ تاہم یورپینز میں سے ہی کچھ لوگوں کو اس عدالت سے شکایت ہے۔ عین عدالت کے دروازے پر ایک برطانوی شہری پتہ نہیں کتنے عرصے سے احتجاج میں لگا ہوا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ یہ عدالت انصاف فراہم نہیں کر رہی۔ یہ عدالت ہٹلر کی وجہ سے بنائی گئی تھی، لیکن یہاں سے بھی ظلم ہی تقسیم ہوتا ہے۔کمال کی بات یہ تھی کہ اس برطانوی شخص کے حق احتجاج کا احترام کیا جا رہا تھا اور اس کو عدالت کے دروازے پر شور مچانے اور تماشا لگانے سے روکنے کے لیے کوئی پولیس والا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ بھی عدالت کے دروازے کے سامنے دیواروں پر احتجاجی پوسٹرز آویزاں تھے۔ 
ریسٹورنٹ سے لنچ کے بعد ہمیں کاؤنسل آف یورپ میں لے جایا گیا۔ کاؤنسل ہی کے استقبالیے میں ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی۔ کاؤنسل آف یورپ ۴۷ممالک پر مشتمل، ۲۷ریاستوں پر محیط یورپین یونین سے الگ ایک ادارہ ہے۔ اس ادارے کی تاریخ ، فرائض اور قیام کے مقاصد کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد یورپ کے خونریز اور سیاہ دور سے نکلنے کے بعد تمام ممبر ریاستوں کو آئین سازی، جمہوریت کے استحکام ، انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں تعاون فراہم کرنا تھا اور ہے۔ کوئی بھی ریاست سزائے موت کے قانون کے ساتھ اس یونین کی ممبر نہیں بن سکتی۔ اس کاؤنسل کی عمارت کے مختلف حصوں کا دورہ کروایا گیا بالخصوص ڈیبیٹ روم جو کہ ایک فرانیسیی آرکیٹیکٹ کا ڈیزائن کردہ ایک خوب صورت اور وسیع ہال ہے۔ حال بین الاقوامی سیاست اور قانون کے منظرنامے پریہ دو نمایاں ادارے تھے جن کا وزٹ یقیناًہمارے سیاست و قانون کے فہم میں اضافے کا سبب بنا۔ ان دو اداروں کے دورے سے تقریباً عصر کے وقت فارغ ہونے کے بعد ہم جرمنی کے لیے واپس روانہ ہوئے۔ 

نیدر لینڈز میں بین الاقوامی اداروں، STL ، ICTYاور ICJ کا دورہ

جرمنی کے ملکی اور یوروپی اداروں کے ساتھ ساتھ چند بین الاقوامی اداروں کا دورہ بھی ہمارے پروگرام میں شامل تھا۔ جن اداروں میں ہم نے جانا تھا، وہ سب نیدرلینڈز کے ایک خوب صورت شہر ہیگ میں واقع ہیں۔ ہم آٹھ دسمبر بروزِ بدھ، صبح فجر پڑھتے ہی بس کے ذریعے ہیگ کے سفر پر نکلے۔ جرمنی کی ہائی وے پر بس تیز رفتاری کے ساتھ دوڑ رہی تھی اور فرانس اورجرمنی کی طرح ہمیں یہاں بھی دو مختلف ملکوں کی سرحدوں کا پتہ نہیں چلا۔ میکس پلانک فاؤنڈیشن کے نمائندے نے ہمیں نیدرلینڈز کے حدود میں داخل ہونے کی خبر دی۔ ابھی ہم نیدرلینڈز کی خوبصورت شاہراہوں کا دوڑتی بس سے نظارہ کر رہے تھے کہ ایک ساتھی کو واٹس ایپ پر پیغام موصول ہوا کہ پاکستان میں پی آئی اے کا طیارہ تباہ ہوا ہے جس میں دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ جنید جمشید بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ شہید ہو گئے ہیں۔ دیارِ غیر میں وطن عزیز سے یہ جان گسل اطلاع ملتے ہی سب ساتھیوں پر رنج و الم کی کیفیت چھا گئی اور فوراً حدیث نبوی اکثروا ذکر ھاذم اللذات(کہ لطف ختم کرنے والی شے یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو) یاد آ گئی۔ اللہ پاک تمام شہداء کی کامل مغفرت فرمائے۔ اس قوم کو ہر طرح کی آفات و مصائب سے آزمائش اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔ 

خصوصی ٹربیونل برائے لبنان (STL) کا دورہ 

چھ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد ہم دکھی دلوں کے ساتھ ظہر کو ہیگ پہنچے جہاں سب سے پہلے Special Tribunal for Lebanon (STL) خصوصی ٹریبونل برائے لبنان کا دورہ طے تھا۔ ٹریبونل کے استقبالیے پر مامور سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی گارڈ سے ملاقات ہوئی۔ ان سے تعارف اور کچھ دیر تک باتیں کرنے کے بعد ایک خاتون ہمیں لینے کے لیے آئیں۔ وہ ہمیں اوپر ایک اال میں لے گئیں اور ایک دوسری خاتون نے اس عدالت کے قیام، طریقہ کار اور اب تک ہونے والے کام کے بارے میں بریفنگ دی۔ ۱۴ فروری جسے دنیا بھر میں عید محبت کی حیثیت سے منایا جاتا ہے، 2005 میں یہ دن لبنان کی سیاسی تاریخ کو ایک نیا موڑ دے گیا جب بیروت میں ایک کار بم دھماکے میں اس وقت کے وزیر اعظم رفیق الحریری اور ان کے علاوہ بائیس لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ دہشت گردی کی اس واردات کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ نے لبنان کی درخواست اور امریکہ و فرانس کے اصرار پرتیس مئی 2007 کو ہالینڈ کے شہر ہیگ میں باقاعدہ ٹربیونل قائم کیا جس کو 10جنوری 2007میں مؤثر قرار دینے کے بعدخصوصی طور پر اس واردات کی تحقیقات سونپی گئیں اور ٹربیونل کو ’سپیشل ٹربیونل فار لبنان‘کا نام دیا گیا۔ اس ٹربیونل کے مرکزی دفتر کے علاوہ بیروت میں ایک ذیلی دفتر بھی واقع ہے۔ ٹربیونل کے ججز میں لبنان کے ججز کے علاوہ بین الاقوامی ججز بھی شامل ہیں جن کا انتخاب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تین سال کے دورانیے کے لیے کرتا ہے۔ 
اس ٹربیونل کی خاص بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کسی دہشت گردی کی عدالتی تحقیقات کرنے والا یہ واحد ٹربیونل ہے۔ ابتدائی طور پر یہ ٹربیونل تین سال کے عرصے کے لیے قائم کیا گیا تھا تاہم جب تک اس کا کام ختم نہ ہو، یہ اگلے کئی سال تک کام کرتا رہے گا۔اس خاتون کی عمومی اور تعارفی بریفنگ کے بعد جانبین کے وکلاء نے فریفنگ دی اور اپنے شواہد و دلائل کا خلاصہ پیش کیا۔ ان تینوں تفصیلی بریفنگز اور سوال و جواب کی نشستوں کے بعد یہی تاثر قائم ہوا کہ یہ اقوامِ متحدہ کا قائم کردہ سہی مگر ایک کمزور و ناتواں ادارہ ہے۔ اکثر کوئی مشکل سوال پوچھے جانے پر یہی جواب ملتا کہ اس ادارے کا قیام اقوامِ متحدہ کا ایک سیاسی فیصلہ ہے اور ہم اس ادارے کے قائم ہونے کے بعد اس کے قانونی امور کو دیکھنے پر مامور ہیں۔ اس ٹریبونل کو ICTY جس کا ذکر آگے آرہا ہے ، کے ایک جج نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس کا قیام محض امریکہ اور فرانس کی خواہش ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کے لیے سب سے زیادہ فنڈنگ بھی یہی دو ملک کر رہے ہیں۔ اس ادارے کے دورے سے فراغت کے بعدیاس و نا امیدی کے ساتھ ڈھلتی شام کو تھکے ہارے ہم نے ہوٹل کا رخ کیا اور اس طرح ہمارا آج کا یہ دن آدھا سفر اور آدھا اس ادارے کی نذر ہوگیا۔ 

انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل فار دی فارمر یوگوسلاویہ (ICTY) کا دورہ

یوگوسلاویہ کی نوے کی دہائی انسانی بحران، نسل کشی اور جنگی جرائم کا استعارہ ہے۔ 1991سے 1999 تک سابقہ یوگوسلاویہ میں لاکھوں انسان خانہ جنگی میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں ایک بڑی تعداد بوسنیا کے مسلمانوں کی بھی تھی جو سربیا کے درندوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے تھے۔ ان جنگی جرائم میں ملوث افراد کو International Criminal Law (یاد رہے کہ اس شعبہ قانون کے وضع کرنے والوں میں تین سو سے زائد تحقیقی کتب و مقالات کے مصنف مسلمان مصری نژاد امریکی پروفیسر محمود شریف بسیونی بھی شامل ہیں) کے اصولوں کے تحت مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور ان کو سزا دینے کے لیے اقوام متحدہ نے ایک ٹربیونل قائم کیا تھا جس کو International Criminal Tribunal for The Former Yugoslavia یا مختصر طور پر ICTY کہا جاتا ہے۔ اس سانحے کو سمجھنے کے لیے اس ٹربیونل کی بعض کار روائیوں ، تحقیقاتی رپورٹوں کے بعض حصوں ، متاثرہ افراد اور خاندانوں کے بیانات اور صحافیوں کے تبصروں پر مشتمل ایک لمبی ڈاکومنٹری دکھائی گئی۔ اس کے بعد اس ٹربیونل کے کردار اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایک فاضل جج نے پریزینٹیشن دی۔ خصوصی ٹربیونل برائے لبنان کی بہ نسبت یہ ٹربیونل بہت کچھ کر چکا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں عرب ممالک میں ہونے والے جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ذکر آیا تو موصوف جج نے مسکراہٹ کے ساتھ عرب لیگ کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھیں بھی ایک ایسی عدالت قائم کرنی چاہیے، لیکن بدقسمتی سے عرب مما لک ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔اس خانہ جنگی میں ملوث ہزاروں افراد پر مختلف عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے تھے تاہم ان میں سے با اثر 161 افراد پر مقدمہ آئی سی ٹی وائی میں چلایا گیا۔ ان افراد میں اس دور کا وزیر اعظم بھی شامل ہے۔ یہ ٹربیونل زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا دے سکتی ہے اور اب تک کچھ افراد کو عمر قید کی سزا دی بھی جا چکی ہے۔ یہاں سے سنائی گئی سزا پر عمل در آمد مختلف ممالک میں کیا جاتا ہے۔اس ٹربیونل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر کسی قسم کے استثنا کا کوئی تصور نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس عدالت سے نامزد کوئی بھی ملزم اپنی کسی بھی حیثیت کی بنیاد پر ماورائے قانون نہیں۔ 
عدالت کا دائرہ اختیار چار قسم کے جرائم تک محدود ہے جن کا 1991 سے 1999 تک ارتکاب کیا گیا ہو۔ یہ جرائم نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی قوانین کی خلاف ورزی اور جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ عدالت کے اعداد و شمار کے مطابق 38 افراد کو سزا دی جا چکی ہے جن پر عمل در آمد 41 مختلف ممالک میں ہو رہا ہے۔ 31افراد کا کیس مختلف عدالتوں کی طرف بھیجا جا چکا ہے۔ 19 افراد کو بری کر دیا گیا ہے۔ 37 افراد کا کیس کسی وجہ سے درمیان میں ہی ختم کر دیا گیا تھا۔ ایک کیس چل رہا ہے جبکہ 6 افراد نے اپنی سزا کے خلاف اپیل کی۔ اس تمام کارروائی میں عدالت نے چار ہزار سے زیادہ افراد کی گواہیاں قلم بند کی ہیں، دس ہزار سے زیادہ دن عدالت کی کارروائی چلی ہے اور پچیس لاکھ سے زیادہ صفحات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کارروائی کے لیے خصوصی کمرہ بنایا گیا ہے جہاں مختلف نوعیت کی گواہیاں لینے اور ملزموں کے بیانات قلمبند کرانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک خوب صورت نظام بنایا گیا ہے۔ اس کے تعارف کے لیے بھی ایک تفصیلی پریزینٹیشن دی گئی۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کا دورہ

پچھلی صدی کے نصف آخر میں بین الاقوامی فوجداری قوانین میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ انہی میں سے ایک بین الاقوامی فوجداری عدالت International Criminal Court یا آئی سی سی کا قیام بھی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ایسی کسی عدالت کے قیام کی تجویز دینے والوں میں ایک نمایاں نام عالم اسلام کا ایک نہایت مؤقر نام محمود شریف بسیونی کا بھی ہے جن کے ذکر کے بغیر بین الاقوامی فوجداری قانون کبھی مکمل نہیں ہوگا ۔ کافی کوششوں اور مذاکرات کے بعد 1998 میں اٹلی کے شہر روم میں ایک معاہدہ طے پایا جس کو روم سٹیٹیوٹ کہا جاتا ہے۔ 2002 میں روم سٹیٹیوٹ کے موثر ہوتے ہی آئی سی سی کا وجود عمل میں آ گیا جو بین الاقوامی فوجداری قانون کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ یہ عدالت صرف ان ممالک تک دائرہ اختیار رکھتی ہے جو روم سٹیٹیوٹ کے فریق ہیں۔ عالمی سطح پر بڑی طاقتیں مثلاً روس، امریکا اور چین اور عالم اسلام کے اہم ملک پاکستان نے اب تک اس بین الاقوامی معاہدے کو تسلیم نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے اس عدالت کی تاثیر میں کافی کمزوری محسوس ہو رہی ہے کیونکہ عالمی سطح پر جنگی جرائم کے مرتکبین اس عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ فی الوقت اس عدالت میں جن ۳۹ افراد پر مقدمات چل رہے ہیں، وہ سب افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ افریقہ سے ہی تعلق رکھنے والے ممالک جنوبی افریقہ، برونڈی اور گھیمبیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب اس عدالت کے فریق نہیں رہے۔ اسی طرح بین الاقوامی قانون کی وسعت پذیری کے ساتھ بین الاقوامی عدالت سکڑتی اور کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اس عدالت کی کمزوری کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس عدالت میں کیس لے جانے کے اخراجات کافی زیادہ ہیں، اس لیے اکثر ممالک اس میں کیس لے جانے کو دولت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ یہ عدالت بنیادی طور پر جنگی جرائم، نسل کشی اور جارحیت جیسے جرائم پر مقدمات چلانے کا اختیار رکھتی ہے اور بالعموم ان افراد پر مقدمہ چلاتی ہے جن پر مقامی عدالتوں میں مقدمات نہ چلائے جاتے یا نہ چلائے جا سکتے ہوں۔گو کہ فی الوقت آئی سی سی کافی کمزور عدالت ہے، لیکن بین الاقوامی فوجداری قانون، جو تیزی سے قوت پکڑتا جا رہا ہے، کے مضبوط ہونے پر آہستہ آہستہ مزید مؤثر ہوتی رہے گی۔ 
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ICJ اور اس عدالت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ICJ اقوامِ متحدہ کے چھ بنیادی اداروں میں سے ایک ہے جب کہ ICC اقوامِ متحدہ کا ادارہ نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی معاہدے کی بنیاد پر وجود میں آیاتھا اور اس کا اختیارِ سماعت صرف ممبر ممالک تک محدود ہے۔ ICC کے اقوامِ متحدہ سے آزاد ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ویٹو پاورز کو ایسی عدالت پر تحفظات تھے۔ یہی وجہ ہے کہ روس ، امریکا اور چین نے روم سٹیٹیوٹ (جس کی بنیاد پر یہ عدالت وجود میں آئی ہے ) کی توثیق نہیں کی ہے۔ 
اس ادارے کے دورے سے فراغت کے ساتھ ہی ہمارا یہ یورپ کا دورہ بھی اختتام کو پہنچا اور ہم جمعرات کے دن ظہر کے بعد ہیگ کو الوداع کہتے ہوئے جرمنی کے لیے روانہ ہوئے۔ تقریباً رات گیارہ بجے ہائیڈل برگ پہنچے۔ جمعہ کا دن آرام اور پاکستان واپسی کے لیے تیاری میں گزرا۔ فرانکفرٹ سے تین بجے والی فلائیٹ سے عشاء کو استنبول پہنچے۔ استنبول میں ٹرکش ائیرلائن کی اسلام آباد جانے والی فلائیٹ موسم کی خرابی کی وجہ سے کینسل ہو گئی تھی۔ اس طرح ای ویزا لے کر استنبول شہر دیکھنے کا بھی موقع مل گیا۔ میری ذاتی طور پر زیادہ دلچسپی نیلی مسجد اور سلاطینِ ترک کے آثار دیکھنے میں تھی، اس لیے صبح ناشتے کے بعد نیلی مسجد پہنچا اور وہاں نزدیک ہی واقع سلاطین ترک کا قبرستان دیکھنے چلا گیا۔ قبرستان کی پرانی اور خاموش عمارتوں کے نیچے چشم تخیل سے ان بادشاہوں اور ان کے درباروں میں لوگوں اور غلاموں کی آمد و رفت کے ہجوم کا نظارہ کرنے اور ہر شے کے زوال اور فنا کے قانون پر کچھ دیر غور و فکر کرنے کے بعد ائیرپورٹ کے لیے روانہ ہوا۔ رات بارہ بجے کی فلائیٹ سے ہم اتوار کی صبح کو بخیر و عافیت جب اسلام آباد پہنچے تو بارہ ربیع الاول کو اپنا منتظر پایا۔ 
پاکستان میں ورکشاپ سے لے کر واپسی تک بارہا یہ خیال آتا رہا کہ میکس پلانک فاؤنڈیشن کے اس پروگرام کی طرح یورپ اور امریکا کے دیگر اداروں کو بھی مدارس کے فضلا کے ساتھ مل بیٹھنے اور اپنے ملکوں میں بلا کر تبادلہ خیال کے مواقع پیدا کرنے چاہییں۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ ایسے پروگراموں میں عموماً مدارس کے ایسے تعلیم یافتگان کو شرکت کا موقع ملتا ہے جو مدارس سے پڑھے ہوئے تو ہیں، لیکن فراغت کے بعد عملی زندگی میں ان کا مدارس کے ماحول سے کوئی تعلق نہیں رہ جاتا۔ جبکہ فکر و نظر کے اعتبار سے مکمل طور پر مدارس کے سانچے میں ڈھلے ہوئے فضلا یا مدارس کے نوجوان مدرسین انگریزی زبان پر قدرت نہ ہونے یا ایسے پروگرامات کی سرے سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں شرکت نہیں کر پاتے۔ ظاہر ہے، ایسی صورت میں جہاں ایک طرف مدارس کی نمائندگی نہیں ہو پاتی، وہاں ان اداروں کا مقصد بھی پورا نہیں ہوتا جو دراصل مدارس کے لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں ایسے پروگراموں میں مدارس کے فضلاء کو انفرادی طور پر شرکت کرنے کے بجائے اداروں کی سطح پر شرکت کا وقع دیا جائے اور ہر مدرسہ مشاورت سے نسبتاً زیادہ فائق اور باصلاحیت افراد کو ایسے پروگراموں میں بھیجے، نیز ہر مرحلے پر اساتذہ سے رہنمائی لی جاتی رہے تو اس سے نہ صرف مدرسے کی حقیقی تصویر دنیا تک جائے گی، بلکہ ان اداروں کا اصل مقصد بھی پورا ہوگا۔

دینی مدارس اور عصری رجحانات

غازی عبد الرحمن قاسمی

بر صغیر پاک وہند میں دینی مدارس کی بے مثال خدمات ہیں ۔اور ایسے مدارس کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے بے سروسامانی کی حالت میں دین متین کی تبلیغ واشاعت میں اہم کردار ادا کیا اور ان اداروں سے ایسی نامور علمی شخصیات تیار ہوئیں جن کی دینی روایات اور اسلامی اقدار کے لیے مساعی جمیلہ قابل ستائش اور وجد آفرین ہیں ۔ دور جدید میں نئے مسائل اور عصری تقاضے ہیں جن کی رعایت رکھتے ہوئے اگر دینی مدارس میں علوم اسلامیہ کی تعلیم وتدریس ہو توا س عظیم الشان کا م کو مزید بہتر انداز میں کیا جاسکتاہے ۔زیر نظر مقالہ میں بالعموم پاکستان کے دینی مدارس اور بالخصوص وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ملحقہ دینی مدارس کو جن عصری تقاضوں کا سامناہے ان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

پاکستانی مدارس کا پس منظر

پاکستان میں اس وقت علوم اسلامیہ کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں ہزاروں چھوٹے وبڑے مدارس اپنی اپنی بساط کے مطابق کام کررہے ہیں ۔جن کا تعلق مختلف مکاتب فکر سے ہے چنانچہ اس سلسلہ میں علماء دیوبند ،علماء بریلی،علماء اہل حدیث ،اورجماعت اسلامی کے مختلف شہروں میں قائم کردہ دینی مراکز ہیں جن میں علوم دینیہ کی تعلیم دی جارہی ہے۔اور ان تمام مدارس کا تعلق مدینہ منورہ سے قائم صفہ کے اس عظیم مدرسہ سے ہے جہاں سے دینی علوم کے چشمے جاری ہوئے اور وہاں کے فضلاء نے پوری دنیا میں اسلام کے پیغام کو پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور یوں شمع سے شمع روشن ہوتی گئی اور آج دینی مدارس کا جال ہمیں عالم اسلام اور دنیا کے مختلف خطوں میں نظرآرہاہے ۔
قیام پاکستان کے بعداولاً تو حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست میں ایسا نظام تعلیم رائج کرتی جو دینی اور دنیاوی تعلیم کا جامع ہوتا ۔ جس میں قرا ن وسنت کی مکمل تعلیم اور جدید علو م وفنون کو مد نظر رکھتے ہوئے مشترکہ نصاب تشکیل دیا جاتا جس کو پڑھنے کے بعد ہر مسلمان دینی تعلیم میں بھی مہارت ولیاقت رکھتا اور دنیاوی علوم پر بھی اس کی اچھی خاصی دسترس ہوتی،مگر افسوس کہ بعض ایسی وجوہات جن کے تذکرے کا نہ یہ موقع ہے اور نہ ہی وقت کی قلت اس کی گنجائش دیتی ہے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔چنانچہ جب حکومتی سطح پر یہ اقدامات نہیں ہوئے تو ارباب مدارس نے آپس میں اتفاق واتحادپیدا کرنے کے لیے اور نصاب میں ہم آہنگی اور طریقہ تدریس کو یکساں بنانے کے لیے کوششیں شروع کیں ۔
پاکستان میں مدارس کے مختلف بورڈزہیں جن میں ایک اہم تعلیمی بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان (علماء دیوبند) کے نام سے معروف ہے ۔جس کے تحت ایک بہت بڑی تعداد مدارس کی اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہے ۔
اسی سلسلہ میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔چنانچہ ان مدارس میں باہمی ربط اور نصاب تعلیم کو منظم کرنے کے لیے ایک اجلاس جامعہ خیرالمدارس ملتان میں 20 شعبان المعظم 1376ھ بمطابق 22 مارچ 1957ء کو مولانا خیرمحمد جالندھری ؒ کی زیر صدارت منعقدہوا اور ایک تنظیمی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ تنظیمی کمیٹی کے اجلاس منعقدہ 14-15ربیع الثانی 1379ھ مطابق 18-19اکتوبر 1959ء میں باقاعدہ طور پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نام سے ایک ہمہ گیر تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ اورملک گیر سطح پر تمام دینی مدارس کی ایسی فعال اور مربوط تنظیم کی مثال دیگر اسلامی ممالک میں نہیں ملتی۔ یہ امتیاز صرف پاکستان کے دینی مدارس کو حاصل ہے کہ وہ ایک مربوط تعلیمی نظام سے وابستہ ہیں۔وفاق المدارس سے اب تک فارغ التحصیل ہونے والے علماء کی تعدادایک لاکھ انیس ہزار آٹھ سو بانوے (119892)، عالمات کی تعدادایک لاکھ پچاس ہزار اٹھائیس(150028) اور حفاظ کی تعداد نولاکھ پچیس ہزار ایک سو بانوے(925192) ہے۔(1)
یہ تو صرف ایک مکتبہ فکر (علماء دیوبند )کے مدارس کے فضلاء اور فاضلات کی تعداد ہے جب کہ دیگر مکاتب فکر کے دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے فضلاء اور فاضلات کے اعداد وشمار کو بھی اگر اکھٹا کرلیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی تعداد ہوگی جو ان مدارس سے دینی تعلیم وتربیت حاصل کررہی ہے ۔
اس وقت دینی مدارس صرف خالصتاً علوم اسلامیہ کی تعلیم کے ساتھ مختص ہوگئے ہیں اور سکول وکالجز اور یونیورسٹیز میں جدید علوم وفنون کی تدریس ہونے لگی ۔سکول وکالجز اور دینی مدارس میں نصاب تعلیم کی یہ دوری بڑھتی گئی بدقسمتی سے اس وقت دونوں طرفوں سے ایک دوسرے کے نصاب اور طریقہ تدریس پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔اور ہرطبقہ صرف خود کو ہی درست اور مبنی برحق سمجھتا ہے ۔جہاں تک ہے اصلاحات کا تعلق اس کی گنجائش تو یہ دونوں طرف رہے گی ۔اور ماہرین تعلیم اس ضرورت کو پورا کرتے رہیں گے ۔دینی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دینی مدراس کا نصاب نہایت جامع اور مفید ہے۔اس پر تو بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔دنیاوی اور جدید عصری ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اس میں اگر اصلاحات ہوتی ہیں تو یہ اہم کام ہوگاجس پر اہل علم کی توجہ درکارہے ۔ 
عصر حاضر میں دینی مدارس کوبہت سے مسائل ، چیلنجزاور عصری تقاضوں کا سامنا ہے جن سے نبرد آزما ہوئے بغیر صحیح خطوط پر کام جاری رکھنا دشوار ہے ۔چند اہم مسائل کی نشاندہی اور اس کے لیے لائحہ عمل پیش کیا جاتاہے ۔

1۔انگریزی زبان کی تعلیم

اس وقت انگریزی زبان انٹرنیشنل زبان بن چکی ہے ۔اور مغربی علماء واسکالر ز کی بہت سی اہم کتب انگریزی زبان میں موجود ہیں ۔اور اسلام پر جو فکری اور نظریاتی بنیادوں پر اہل مغر ب کی طرف سے اشکالات واعتراضات کیے جارہے ہیں وہ سب انگریزی زبان میں ہیں ۔اسلام دشمنی اور مخالفت میں ہرروز کوئی نہ کوئی نیا مضمون،کتاب شائع ہو رہی ہے یا انٹر نیٹ پر اس قسم کا مواد آن لائن کیا جارہاہے ۔جب کہ جن علماء واسکالرز کاشرعی ودینی فریضہ ہے کہ وہ اسلام کی ترجمانی کرتے ہوئے ان شبہات واشکالات کا ازالہ کریں، ان میں اہل علم کی اکثریت چونکہ اس زبان سے نا آشنا ہے اس لیے کماحقہ یہ فریضہ ادا نہیں ہورہا ۔اور اگر یہ کہا جائے کہ علماء کو انگریزی زبان وغیرہ کو سیکھنا چاہیے تو اس پر بڑا شدید ردعمل سامنے آتاہے ۔
اب ایک تاریخی حقیقت کو دیکھیے آج یورپ اور مغرب کی امامت کا طلسم قائم ہے ۔کسی بھی چیز کے مستنداور معیار کے لیے مغرب کی مہر تصدیق لازمی سمجھی جاتی ہے ۔ایک وہ وقت تھا جب یورپ دور تاریک سے گزر رہا تھا ۔علم ومعرفت کی اصطلاحات سے ناواقف تھا ۔مسلمان علماء واسکالرز قرطبہ اور اندلس کی تعلیمی درسگاہوں میں تحقیقی اور علمی کام کررہے تھے، یورپ جہالت کے اندھیروں میں غائب تھا ۔مسلمان دانشور و علماء اس وقت کے رائج علوم وفنون کی تدوین کررہے تھے اور مختلف موضوعات پر تحقیقات کرکے کتابیں لکھ رہے تھے اور مغرب کاغذ وقلم کے استعمال سے کوسوں دور تھا ۔جس دور میں مسلمانوں کے علاقے اور شہر صفائی وستھرائی ،نظم وضبط اور عد ل وانصاف کے قیام میں اس وقت کی تہذیبوں کو شرمندہ کررہے تھے اس وقت مغرب اور یورپ پر غلاظت کے بادل منڈلارہے تھے ۔جس وقت مسلمانوں کے علمی وتحقیقی کارناموں سے ایک دنیا مستفید ہورہی تھی اس وقت یورپ اور مغرب مسلمانوں کے ان کارناموں پر حسرت ویاس سے انگلیاں مروڑ رہے تھے ۔پھر اچانک کیا ہوا کہ یورپی اقوام میں تبدیلیاں شروع ہوئیں اور وہ لوگ مادی ودنیاوی ترقی میں آگے بڑھتے گئے۔اس کے پیچھے کیا راز ہے ؟
یور پ نے اپنے طور طریقوں پر غور وفکر کیا اور ان اسباب کو تلاش کیا جن کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے آگے پسماندہ تھے ۔چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی کامیابیوں اور عظمتوں کے راز جاننے کے لیے اولا ان کی زبان عربی کو سیکھا اور پھر جتنے اس وقت کے اہم علوم وفنون تھے ان کو انگریزی زبان میں منتقل کرنے لگے ۔اور وہ تمام روشنیاں حاصل کرنے میں کوششیں شروع کردیں جنہوں نے مسلمانوں کو جگمگایا تھا ۔اور دوسری طرف مسلمانوں کی بدقسمتی کے انہوں نے اپنے اسلاف واکابر کے طرز فکر وعمل کو پس پشت ڈال دیا اور اس کا وہ نتیجہ نکلا جو ہم سب دیکھ رہے ہیں ۔
مغرب کی اقوام نے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عربی زبان کو سیکھا اور جہاں تک ان سے ممکن ہوا انہوں نے مسلمانوں کے علوم وفنون کا مطالعہ کیا اور اس کے مطابق اصلاحات کیں اور اس طرز پرکام کیا اپنی تہذیب کوبھی زندہ رکھا۔آج مغر ب اور یورپ کی طرف سے اسلام کو جو فکری ونظریاتی طور پر جن مسائل کا سامناہے اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہم انگریزی زبان کو پڑھیں اور ان کے طرز استدلال کو سمجھیں اور انہی کے سکوں میں ادائیگی کی کوشش کریں ۔
آج مغربی افکار مسلمانوں میں انتشار کا باعث بن رہے ہیں اور اسی طرح دیگر غیرمسلموں تک اسلام کی صحیح ترجمانی کے لیے انگریزی زبان کا سیکھنا منع نہیں ہونا چاہیے ۔بلکہ دینی مدارس میں ایسے طلباء اور علماء کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے جو انگریزی سیکھنے کے خواہاں ہیں۔اس مقصد کے لیے نصاب میں چند ایسی کتب شامل کرلی جائیں جو مفید ثابت ہوں یا سپیشل کورسز تیار کرائے جائیں جو ان کے لیے معاون ہوں۔اوردینی مدارس کے فضلا ء کے بارے میں یہ تاثر ختم ہو کہ یہ لوگ جدید معاشرتی تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوتے ہیں۔

2۔کتب اصول تحقیق کاخصوصی مطالعہ

عصر حاضر میں نت نئے چیلنجزر اور درپیش مسائل کے حل لیے تحقیق کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے ۔کسی بھی چیز کی اہمیت کااندازہ اس کی ضرورت سے ہوتاہے ۔اور موجودہ زمانہ میں انسان کی ضروریات دن بدن بڑھ رہی ہیں اس لیے مختلف شعبوں میں ضروریا ت کے پیش نظر تحقیق کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ۔
اس وقت تحقیق وتدوین کے حوالہ سے مختلف یونیورسٹیز اور ادارے کام کررہے ہیں ۔جن میں طلباء کو پہلے باقاعدہ اور باضابطہ طور پر تحقیق اور مبادیات تحقیق کے حوالہ سے مطالعہ کرایا جاتاہے ۔قران وسنت سے استدلال واستنباط کے اصول وقواعد ،موضوع کا انتخاب،عنوان سازی،امہات الکتب سے مراجعت،حوالہ دینے کے طرق وغیرہ سے واقفیت کرائی جاتی ہے۔ اس کے بعد انہی تحقیقی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے کسی بھی علوم اسلامیہ سے متعلقہ موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھوایا جاتاہے ۔نگران مقالہ اس کی رہنمائی کرتاہے ۔اس طرح طلباء اور طالبات کو تحقیق کا طریق کار سکھایا جاتاہے۔ مگر دینی مدارس میں تحقیقی مقالہ جات کی کسی قسم کی کوئی مشق نہیں ہے ۔اور نہ اس حوالے سے کوئی کتب شامل نصاب ہیں جن سے مقالہ کی تیاری کے دوران رہنمائی حاصل کی جاسکے ۔حالانکہ اس وقت عرب کے علماء نے بہت سی شاندار کتب لکھی ہیں جو اسلامی تحقیق کے اصول ومبادی پر مشتمل ہیں ۔جن کو شامل نصاب کرکے فائدہ اٹھا یا جاسکتاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی مدارس کے فضلاء کے میں عام طلباء کی نسبت لیاقت اور استعداد بہتر ہوتی ہے ۔اور وہ علمی وتحقیقی کام عمدہ انداز میں کرسکتے ہیں ۔ مگر کتنی ہی پائیدار اور مضبوط عمارت کیوں نہ ہو۔اگر اس میں رنگ وروغن اور آرائش وزیبائش کی رعایت نہ کی گئی ہو تو وہ اصل قدروقیمت کھودے گی ۔اسی طرح کتنی ہی علمی تحریر ہو اگر تحقیقی اصولوں کے مطابق پیش نہ کی گئی ہو تو وہ اتنی جاذب نظر اور موثر ثابت نہیں ہوگی جتنا کہ اس کو ہونا چاہیے ۔
اس لیے ان حالات میں ارباب مدارس کو مضمون نویسی ،مقالہ نگاری کی فضا قائم کرنی چاہیے اور اصول تحقیق کو بطور موضوع پڑھایا جائے تاکہ آٹھ دس سال لگاکر علم دین حاصل کرنے والے طلباء دوران تحقیق ومطالعہ حاصل ہونے والے اس علمی سرمایہ کوجدید تحقیقی اصولوں کے مطابق پیش کر سکیں۔اور دوران تدریس استاد کا انداز تدریس بھی تحقیقی ہو۔ایک مناظرانہ اور ایک تحقیقی انداز میں فرق کرنا چاہیے ۔ہاں اگر موضوع کا تقاضا ہی مناظرانہ اسلوب کا ہو تو یہ صورت مستثنیٰ سمجھی جائے گی ۔

3۔کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کا استعمال

موجود ہ دور میں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے علم کے حصول اور ماخد ومصادر تک رسائی اتنی آسان کردی ہے کہ اس سے زیادہ آسانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔مکتبہ الشاملہ،الفیہ وغیرہ سافٹ ویئر کمپیوٹر میں انسٹال کرکے ،ایک ہی جگہ بیٹھے ہوئے مختلف تفاسیر،کتب حدیث وکتب فقہ وغیرہ کا نہ صرف مطالعہ کیا جاسکتاہے بلکہ ان سے مکمل حوالہ جات بھی دیے جاسکتے ہیں۔کوئی بھی عربی عبارت لکھ کر مطلوبہ حوالہ تلاش کیا جاسکتاہے ۔ جامعۃ الرشید کراچی، دارالعلوم کراچی،جامعہ اشرفیہ لاہور میں اس سلسلے میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے جو کہ بہت ہی مستحسن قدم ہے تاہم یہ سلسلہ دیگر مدارس میں جاری ہونا چاہیے ۔صرف کمپیوٹر کی لیب بنانا کافی نہیں ہے ۔بلکہ اس میں علوم اسلامیہ سے متعلقہ عربی ،اردو ،انگلش،لغات وغیرہ ہوں اور ان کے استعمال کا طریقہ بھی بتا یا جائے ۔تاکہ علماء ان جدید سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ بہتر انداز میں اپنی خدمات سرانجام دے سکیں ۔
اور یہ اعتراض کافی نہیں ہے کہ ہمارے بزرگوں نے کیا کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی بدولت ہی علمی کام کیاتھا ؟اس لیے کہ ان بزرگوں کے پاس جو قوت حافظہ اور یادداشت تھی وہ آج نہیں ہے ؟اور جس قدر ان میں محنت ومشقت اٹھانے کا جذبہ تھا، وہ بھی مفقود ہے ۔آج ہمتیں پست ہیں ،اور ذہن خالی ہیں ۔اور نہ ویسی استعدادیں ہیں ،اس لیے اگر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھایا جائے تو بہت کم وقت میں بہت زیادہ حوالے تلاش کیاجاسکتے ہیں ۔ایک ہی جگہ بیٹھ کر تمام کتب کا مطالعہ کیا جاسکتاہے ۔اور بھی بہت سے فوائد ہیں جو کام کی نوعیت پر منحصر ہیں ۔

4۔میڈیا سیل کا قیام

عصر حاضر میں میڈیا کی ضرورت واہمیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ،ذہن سازی اور خاص مقاصد کے حصول کے لیے میڈیا نہایت موثر کردار ادا کرتاہے ۔اس وقت میڈیا نے جہاں ایک طرف فحاشی ،عریانی کو فروغ دیاہے وہاں دینی مدارس اور علماء کے بارے میں بھی مختلف ٹی وی چینلز پر بہت سے دانشور اور مفکر حضرات کے تجزیوں نے عوام الناس میں بہت سے شبہات پیدا کردیے ہیں ۔
اسی طرح بہت سے لوگوں کے حصول علم کا اہم ذریعہ ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے مذہبی پروگرا م ہیں ۔مثلاً چند چینلز اسلامی نقطہ سے مختلف پروگرام کرنے میں شہرت رکھتے ہیں ۔مگر متعددبار ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ ایسے پروگرام بھی کررہے ہوتے ہیں جن کو اسلامی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
اگر ایسے حالات میں دینی مدارس میڈیا سیل قائم نہیں کرتے، اور علماء وطلباء کو میڈیا کی تعلیم نہیں دیتے اور اس میدان کو کھلا چھوڑ تے ہیں تو پھر میڈیا ہماری نئی نسلوں کو جس رخ پر لے کر جارہا ہے، اس نقصان عظیم کا خمیازہ بھگتنے کے لیے ابھی سے تیار ہوجا ناچاہیے ۔ غیر ملکی میڈیا ہماری معاشرتی ، سماجی اور دینی اقدار کو آہستہ آہستہ ختم کر رہا ہے اس کے تدراک کے لیے بھی لائحہ عمل ضروری ہے ۔محض یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ میڈیا برائیوں کی جڑ ہے ۔آج زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسکالر ز کی ایسی جماعت تیار کرنے کی ضروت ہے جوکسی بھی عالمی یا ملکی مسئلہ پر اسلامی نقطہ نظر کو واضح کر سکیں۔اور شرعی حدود وقیود میں رہتے ہوئے میڈیا پرآئیں اور اسلام کی ترجمانی کریں اگر ہم نے ماضی کے ورثہ کی حفاظت اور اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنا نا ہے تو عصری تقاضوں کی رعایت ضروری ہے ۔

5۔فارغ التحصیل علماء کے معاشی مسائل کا حل

الحمدللہ اس وقت مختلف دینی مدارس سے ایک بڑی تعداد ہرسال فارغ التحصیل ہورہی ہے ۔جو الشہادۃ العالمیہ کی سند حاصل کرتے ہیں ۔عملی زندگی میں آنے کے بعد ان کو جہاں اور مسائل درپیش ہیں وہاں ایک اہم مسئلہ معاش سے متعلق ہے ۔معاشی مشکلات کا شکار کوئی بھی ذی استعداد پوری یکسوئی سے کام نہیں کرسکتا ۔بلکہ حدیث مبارکہ میں تو یہاں تک ہے ’’کہ فقر وفاقہ سے کفرتک نوبت جاسکتی ہے ۔‘‘(2) اس سلسلہ میں ارباب مدارس کو مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہیے کہ فارغ التحصیل علماء کے معاشی مسائل کو کیسے حل کیا جاسکتاہے اور فارغ ہونے والے علماء کو کن میدانوں میں بھیجنا ہے ۔
چند ایک ہی علماء کی کسی مدرسہ میں درس وتدریس کی جگہ بنتی ہے اور وہ بھی معمولی سے وظیفہ پر کا م کرتے ہیں،اکثریت ٹیوشن وغیرہ کی تلاش میں رہتی ہے اورایک نہایت محدود آمدنی میں گزر بسر کرنے پرمجبور ہوتی ہے۔ حالانکہ خوشی وغمی اور بیماری بیسیوں ایسے مسائل درپیش ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بہت سے اہل علم بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کرپاتے ۔چند ہی لوگوں کا سکول وکالجز میں بطور معلم تقرر ہوتاہے ۔یہ لوگ قدرے آمدنی کے لحاظ سے دوسروں سے بہتر ہوتے ہیں یا پھر وہ علماء جن کومخیرحضرات کی معاونت سے اپنا ادارہ قائم کرنے کا موقع مل جاتاہے ۔
بہرکیف اکثریت اہل علم کی معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوتی ،2003میں دینی مدارس کے ملازمین کی تنخواہوں کے بارے میں ایک سروے ہوا جس کی رپورٹ درج ذیل ہے :
’’حفظ وقراۃ کے مدارس کے ایک عام معلم کی تنخواہ 2500سے لے کر 6000ہزار روپے تک ہوتی ہے ۔اور مدارس کے ائمہ کی تنخواہیں بھی اسی رینج میں ہوتی ہیں ۔جبکہ مساجد کے موذن اور خادم حضرات کو500 روپے سے لے کر 3000 ہزار روپے تک ادا کیے جاتے ہیں۔درس نظامی کے فارغ التحصیل علماء بطور خطیب تقریباً4000 سے 8000 ہزار روپے تک تنخوہ پاتے ہیں ۔اور مدارس میں بطور معلم بھی زیادہ سے زیادہ اتنی ہی رقم حاصل کرتے ہیں ۔یہ اعدادوو شمار بھی بڑے شہروں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں عام لوگ مساجد اور مدارس کو اچھی خاصی رقم بطور چندہ ادا کرتے ہیں۔‘‘(3)
ملک بھر میں چھوٹے بڑے مدارس کا اتنا بڑا جال پھیلا ہوا ہے کہ اس سے ہر سال فارغ التحصیل ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں شمار کی جاسکتی ہے۔ ملک میں اتنی بڑی تعداد میں نہ تو مساجد کی تعمیر ہو رہی ہے اور نہ ہی نئے مدارس وجود میں آ رہے ہیں۔ مدارس کے ذہین طلباء عموماً دین پر ریسرچ کا ذوق رکھتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسے ادارے بہت کم ہیں جہاں دین پر ریسرچ کی جارہی ہو۔ ان حالات کے پیش نظر اس طبقے میں بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کا حل سوچنا نہ صرف ارباب حکومت کا کام ہے بلکہ مدارس کے منتظمین اور علماء کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے پر خوب غور و خوض کرکے اس کا کوئی حل نکال سکیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ عوا م کی ذمہ داری ہے کہ وہ علماء کی معاشی ضروریات کو پوراکریں ،تو بظاہر یہ بہت اچھی بات ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر عوام ا س ذمہ داری کو کماحقہ پورا نہ کرے تو متبادل کیا حل ہے ؟
اور یہ کہنا بھی کافی نہیں ہے کہ کیا عصری اداروں کے فضلاء میں ہرایک کو جاب اور روزگار مل جاتاہے ۔؟اس لیے کہ علماء سے کام لینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کو معاشی فکر سے آزاد کیا جائے ۔

6۔اسلامی بینکاری کی خصوصی تعلیم

اس وقت ایک اہم کام سود سے پاک بینکاری نظام کا قیام ہے جو عصری اور شرعی تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔اس بارے میں بعض علماء نے اپنی فہم وفراست سے شرعی حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے مگر دیگر معاصر علماء اس سے مطمئن نہیں ہیں گو اختلاف رائے شرعا باعث اشکال نہیں ہے تاہم عوام کو اس کشمکش سے نکالنا ضروری ہے ۔تمام جید علماء مل کر اس مسئلہ کا حل نکالیں ،کسی بھی چیز کو حرام قرار دینا کافی نہیں ہے ،بلکہ اس کا متبادل شرعی حل بھی پیش کرنا اہل علم کی ذمہ داری ہے ۔سود کی حلت کا تو کوئی مسلمان قائل نہیں ہے مگر اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ سود کی تعریف اور دائرہ کار میں کونسی صورتیں داخل ہیں ،اور یہ فیصلہ صرف چندعلماء کانہ ہو بلکہ اس میدان کے ماہر علماء وفقہاء تمام پہلوؤں ،جزئیات اور اشکالات کو سامنے رکھیں اور باہمی اتفاق رائے سے حل پیش کریں اور یہ بھی ضروری ہے کہ اختلاف رائے کرنے والے محض اس بات کا سہارا نہ لیں کہ ان کو مذکورہ صورتوں پر ’’شرح صدر‘‘ نہیں ہورہاہے یااس عمومی اصو ل’’جب حلت وحرمت میں تعارض ہو تو حرمت کو ترجیح ہوگی ‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ قول اختیار کریں کہ اس معاملہ میں سود کا احتمال اور اندیشہ ہے لہٰذا ’’حرمت ‘‘کا فتویٰ دے یدیا جائے ۔اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ اصول اس صورت میں کار آمد ہوتاہے جب حلت وحرمت کے اسباب جمع ہوں مگر ان کے تقدم وتاخر کا علم نہ ہو تووہاں احتیاطاً حرمت کو ترجیح ہوگی ۔لہذا قائلین اور مانعین دونوں کے دلائل اپنے موقف کی تائید میں صحیح وصریح ہوں اور ان پرجو اعتراضات ہوں ان کا بھی کافی وشافی دفاع ہو۔ 
اس حوالہ سے آخری بات یہ ہے کہ جب چند ایسے ممالک ایک دوسرے سے لین دین کریں جن میں مختلف فقہاء کے پیروکار ہوں تو وہاں حرمت کی سود کی علت کا تعین کیسے ہوگا ؟اس لیے کہ ہرامام نے نصوص پر گہری سوچ وبچار کے بعد جو علت مستنبط کی ہے وہ دیگر ائمہ کی بیان کردہ علتوں سے مختلف ہے تو پھر علی سبیل الفرض چار ایسے ملک جن میں ائمہ اربعہ کے متبعین ہوں تو وہاں اس مسئلہ کا کیاحل ہوگا ۔؟اس لیے دینی مدارس کو اسلامی بینکاری کی خصوصی تعلیم دینی چاہیے اور اس حوالہ سے کچھ جدید کتب شامل نصاب کرنی چاہئیں۔اس بارے میں زیادہ بہتر رہنمائی وہ اہل علم کرسکتے ہیں جو معاشیات پر کام کررہے ہیں ۔

7۔مذہبی انتہا پسندی اورفرقہ واریت کاخاتمہ

اس وقت مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور فرقہ واریت کے تسلسل نے بہت سے نئے مسائل سے دوچار کیاہے۔ انتہا پسندی فی نفسہ مذموم ہے خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ،اس لیے کہ کسی بھی کام اس انتہا تک چلے چا نا جو شرعاً اورعقلاً غیر مطلوب ہے، منع ہے ۔اس وقت پورے عالم اسلام کو بالعموم اور وطن عزیز پاکستان کو جن تباہ کن مسائل سے دور چار ہے، ان میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت بھی شامل ہے۔ آج کل ایک دوسرے کا قتل عین ثواب سمجھ کیا جارہاہے ۔ معمولی سے اختلاف رائے اور اظہار رائے کرنے پر ایک دوسرے پر سخت قسم کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور بسا اوقات معاملات حد سے زیادہ سنگینی اختیار کرلیتے ہیں ۔ان حالات میں ضرورت ہے مذہبی انتہاء پسندی کے پس منظر،اسباب کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے خاتمہ کے لیے کوئی لائحہ عمل بنایا جائے اور دینی مدارس اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کریں جس سے معاشرہ میں وسعت نظری اور برداشت وتحمل پیدا ہو۔

خلاصہ بحث

علوم اسلامیہ کی ترویج واشاعت میں دینی مدارس کا کردار نہایت نافع اور مستحسن ہے ۔اوران مدارس سے تعلیم یافتہ علماء کی قران وسنت کے ساتھ گہری بصیرت اور علوم اسلامیہ کے ساتھ اچھی مناسبت ہوتی ہے ۔اور انہی مدارس سے بڑی بڑی علمی شخصیات پیدا ہوئیں جن کے علمی کام کو عرب وعجم میں سراہا گیا ۔ مگر آج ان اداروں میں سے ویسی شخصیات پیدا نہیں ہورہیں جوامت مسلمہ کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکیں،اور جن حالات سے امت مسلمہ گزررہی ہے ان مسائل کا حل پیش کرسکیں۔ا س کی وجہ محض نصاب نہیں ہے ۔بلکہ کچھ عصری تقاضے ہیں جن کو نظر انداز کیا جارہاہے ۔آج اگر ان عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے دینی مدارس اپنے اہداف ومقاصد میں مزید وسعت پیدا کرلیں تو یقیناًمطلوبہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں ۔

سفارشات

  1. مغربی افکار سے واقفیت اور غیر مسلموں تک اسلام کی موثر ترجمانی کے لیے دینی مدارس کے طلباء اورعلماء جو انگر یزی سیکھنے کے خواہاں ہیں ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ۔
  2. نصاب میں چند ایسی کتب شامل کرلی جائیں جو مفید ثابت ہوں یا سپیشل کورسز تیار کرائے جائیں جو انگریزی زبان سیکھنے اور سمجھنے میں معاون ہوں۔
  3. مدارس میں اصول تحقیق کو بطورموضوع پڑھا یا جائے تاکہ اسلاف کے علمی سرمایہ کو جدید تحقیقی اصولوں کے مطابق پیش کیا جاسکے ،اور مناظرانہ و تحقیقی انداز میں فرق کو ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔
  4. کمپیوٹر ،علوم تک رسائی کا بہت بڑا موثر ذریعہ بن چکاہے ،برقی کتب خانے موجود ہیں جس میں دینی علوم کی بے شمار کتب کے آن لائن مطالعہ کی سہولت موجود ہے اس تناظر میں کمپیوٹر کی تعلیم ہر فاضل کے لیے لازمی قرار دی جائے اورمدارس میں کمپیوٹر کی تعلیم کااہتمام ہونا چاہیے ۔
  5. مدارس میں اسلامی بینکاری کی تعلیم کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے اور اس حوالہ سے کچھ جدید کتب شامل نصاب کرنی چاہییں تاکہ سود کے خلاف جذباتی گفتگو کی بجائے کسی ٹھوس حل کی طرف پیش رفت ہو ۔
  6. مذہبی انتہا پسندی کے پس منظر ،اسباب کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے خاتمہ کے لیے کوئی لائحہ عمل بنایا جائے ،دینی مدارس معاشرہ میں وسعت نظری اور برداشت وتحمل کا ماحو بنا کر معاشرہ کو اس المناک صورت حال سے نکالنے میں خصوصی کردار ادا کریں ۔
  7. مدارس کو اپنے میڈیا سیل قائم کرنے چاہییں ،نیز زمانے کے بدلتے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے اسکالرز تیار کیے جائیں جو کسی بھی عالمی یا قومی مسئلہ پر اسلامی نقطہ نظر کو واضح کرسکیں ۔
  8. ملک بھر میں ہزاروں چھوٹے بڑے مدارس ہر سال ہزارو ں کی تعداد میں علماء وفاضلین تیار کررہے ہیں اس تعداد کی نسبت سے روزگار کا اہتمام موجود نہیں ،جن کے لیے روزگار کا بندوبست ہے انہیں چندہ کے لیے مالدار طبقہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے جو ایک عالم کی شان اورعظمت سے تضاد رکھتا ہے چنانچہ اس پر ارباب مدارس کو غور کرنا چاہیے کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا اہتمام کریں نیز ایسے وسائل مہیا کریں جس سے فاضل علماء کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

حوالہ جات و حواشی 

(1) http://www.wifaqulmadaris.org/intro.php
(2) البیہقی،احمد بن الحسین،ابوبکر،شعب الایمان،ریاض ،مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیغ ،1423ھ،جلد،صفحہ12
(3) http://www.mubashirnazir.org/ER/L0010-00-Career.htm

احمدی اور تصورِ ختم نبوت : ایک احمدی جوڑے سے گفتگو

ڈاکٹر محمد شہباز منج

ایک یونی ورسٹی کی احمدی طالبہ میری نگرانی میں ایم فل کا تھیسز لکھ رہی ہے۔ وہ اپنے کام کے سلسلے میں اپنے خاوند کے ساتھ میرے پاس آتی ہے۔ پہلی دفعہ تو وہ دونوں بہت گْھٹے گْھٹے سے لگے،تاہم میں نے روٹین کے مطابق ان سے بساط بھر عام نرم و مہمان نواز لہجے اور ٹون میں بات کی ، اور کام سے متعلق لڑکی کی رہنمائی بھی کی۔ دی گئی رہنمائی کے مطابق کا م کرنے کے بعد وہ دونوں میاں بیوی گذشتہ روز پھر آئے۔رسمی ملاقات اور مقالے سے متعلق گفتگو کے بعد میں نے کہا: میں ایک تحقیقی ذہن کا آدمی ہوں اور آپ بھی محقق ہیں، میری کسی بات کو مائینڈ نہیں کرنا، نہ میں آپ کی کوئی بات مائینڈ کروں گا۔ میں تفہیم کی خاطر آپ سے آپ کے مذہب کے حوالے سے ایک اہم سوال کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ میں اپنے طور پر اس ضمن میں کچھ معلومات رکھتا ہوں ، لیکن میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں یا نہیں؟لڑکی نے کہا: ہم نے مرزا صاحب کی کتابوں میں تو کہیں نہیں پڑھا کہ انھوں نے اس طرح خود کو نبی لکھا ہو جس طرح عام لوگ سمجھتے ہیں! میں نے کہا: تو پھر مطلب یہ ہوا کہ مرزا کے ساتھیوں اور پر وکاروں نے خود سے انھیں نبی کہنا شروع کر دیا! اگر ایسا ہے تو ان لوگوں نے خود سے بھی اور مرزا صاحب سے بھی زیادتی کی! 
لڑکی کہنے لگی : نہیں سر! انھوں نے تو دراصل مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کے بارے میں حدیثیں بھی موجود ہیں۔ میں نے کہا: تو پھر یوں کہیے کہ مرزا صاحب نے نبی نہیں مہدی یا مسیحِ موعود ہونے کا دعوی کیا، تو پھر ان کو نبی کہنا غلط ہوا۔ لڑکی بولی: نہیں سر! دراصل ان کی نبوت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے تابع ہے، آپ کی نبوت کے اندر رہتے ہوئے آپ نے دین کی سربلندی اور تجدید کے لیے کام کیا۔ میں نے کہا: تو مجدد تو اور بھی بہت ہوئے ہیں امت میں ، مرزا صاحب بھی اگر اسی طرح کے مجدد تھے، تو اس کے لیے نبوتِ محمدی کے تابع نبوت کی کیا ضرورت تھی؟ فقط مجددیت سے کام چل سکتا تھا۔ لاہوری جماعت نے ان کو مجدد مانا بھی ہے، اور اسی بنا پر مین سٹریم احمدیوں سے ان کا اختلاف بھی ہے۔ پھر اگر آپ مرزا صاحب کو مجدد ہی مانتے ہیں تو آپ کا لاہوریوں سے کیا اختلاف ہے؟نیز مجددیت اور نبوت میں جو کنفیوڑن پیدا ہورہی ہے ، اس کو آپ کیسے حل کریں گے؟ مجھے فقط یہ سمجھا دیں کہ آپ کے نزدیک مرزا صاحب کا سٹیٹس، مجددیت ، نبوت اور مہدویت وغیرہ میں سے فی الواقع کیا ہے؟
لڑکی احمدیت اور اسلام کے بارے میں قابل ذکر معلومات رکھتی تھی ،لیکن مجھے وہ دوٹوک یہ بتانے میں ناکام رہی کہ ان کے نزدیک مرزا صاحب کا اصل سٹیٹس کیا ہے! وہ مختلف طریقوں سے مذکورہ تینوں چیزوں کو مرزا صاحب سے متعلق قرار دے رہی تھی۔میں نے کہا، اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں محض ایک دو باتیں کر لوں ! وہ بولے، ضرور سر! میں نے کہا: دیکھیے: مرزا صاحب کا خود کو کھل کر نبی نہ کہنا یا اپنی نبوت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے تابع قراردینا یا اپنی نبوت کی تعبیریں ظلی و بروزی نبوت وغیرہ سے کرنا، اور آپ لوگوں کا کھل کر مرزا صاحب کو نبی نہ کہنا اور اس کی مختلف تعبیریں کرنا، اس حقیقت کا عکاس ہے کہ مرزا صاحب کو اس بات کا یقینی علم تھا کہ اسلام کے اندر نئی نبوت کی کوئی گنجایش نہیں۔ اگر انھوں نے کھل کر خود کو نبی کہا، تو وہ مسلمان ہوکر نہیں رہ سکیں گے، اور نہ اس معاملے میں ان کو کوئی مقبولیت مل سکتی ہے۔ یعنی وہ مسلمانوں میں ختم نبوت کے واضح سٹیٹس کو جانتے تھے، جبھی تو وہ اس کی تاویلیں کرتے تھے، اور جبھی آپ لوگ اس کی تاویلیں کر رہے ہیں! مزید یہ کہ یہ جو بات کی گئی کہ خاتم النبیین کے قرآنی الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے خاتم الاولیاء یا خاتم المفسرین وغیرہ کے الفاظ ، تو اس سے ثابت تو یہ کیا جاتا ہے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی اور آپ کے بعد بھی نبی آ سکتا ہے، جیسا کہ خاتم الاولیا یا خاتم المفسرین کے بعد بھی ولی یا مفسر ہو سکتے ہیں ، لیکن دوسری طرف مرزاصاحب خود کو کھل کر نبی بھی نہیں کہہ رہے۔سوال یہ ہے کہ جب شرعاً نیا نبی آ سکتا ہے، تو اس میں شرمانے اور کان کو اِدھر اْدھر سے پکڑنے کی ضرورت کیا ہے، بلا کسی تاویل اور خوف و جھجک کے مرزا صاحب کو بھی کہنا چاہیے تھا کہ وہ نبی ہیں اور آپ لوگوں یا ان کے پیروکاروں کو بھی ڈنکے کی چوٹ کہنا چاہیے کہ وہ نبی ہیں! بہ الفاظِ دیگر مرزا صاحب اور ان کے پیروکاروں کا رویہ خود بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک خاتم النبیین کی مذکورہ تعبیر درست نہیں اوروہ جانتے ہیں کہ اسلام میں کسی نئے نبی کی کوئی گنجایش نہیں ، ورنہ، نہ مرزا صاحب اپنے سٹیٹس کو یوں کنفیوز رکھتے اور نہ ان کے پیروکار ہمیشہ کے لیے کنفیوژن میں پڑے رہتے۔
وہ میاں بیوی میری باتوں پر کافی غور کر رہے تھے، اور اکثر جگہ اثبات میں سر ہلا رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ پتہ نہیں میری کسی بات سے وہ اپنے کسی نظریے پر نظرثانی کریں گے یا نہیں۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر ان کا خوف اتار کر کھلے ماحول میں ان سے مکالمہ اور گفتگو ہو تو قادیانیت کی تفہیم بھی صحیح ہو سکے گی، اور ان کے بہت سے لوگ دائرۂ اسلام میں واپس بھی آ جائیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کے اپنے خول میں بند ہونے کے بہت حد تک ذمے دار مسلمان ہیں۔ واللہ! ان لوگوں کے پاس ایک دلیل ایسی نہیں جو کسی ذرا سے سنجیدہ مسلمان کو قائل کر سکتی ہو اور ایک عام سے سنجیدہ مسلمان کے پاس سو دلیلیں ہیں ، جو ان کو قائل کر سکتی ہیں ،یا کم ازکم سوچنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ 
یہ جوڑا ذرا کھلا تو ایک عجیب بات سامنے آئی۔لڑکی کے خاوند نے کہا : سر! میرا تو خود اس سے اختلاف رہتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ قادیانیت غلط ہے،لیکن یہ نہیں مانتی۔ میں نے ان کی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، مرزا صاحب ایک جگہ خود کو نبی کہتے ہیں اور کچھ آگے جاکر اس کا انکار کر دیتے ہیں۔لڑکی بولی سر! ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ انھوں نے میرے بھائی سے کہا کہ میں نے بیعتِ خلافت کر لی ہے، اور میرے خاندان والوں نے مجھ سے تعلق توڑ لیا ہے، مجھے کوئی رشتہ نہیں دیتا۔ انھوں نے جماعت میں بات کی تو لوگوں نے کہا کہ آپ اپنے گھر سے ابتدا کریں ، اپنی بہن اس سے بیاہ دیں۔ یوں (گویا تالیف قلب کے طور پر)ان سے میری شادی ہو گئی۔شادی کے کچھ دن بعد ہی انھوں نے مجھ سے اختلاف کرنا شروع کر دیا۔دراصل ان کا خیال تھا کہ رشتہ تو کریں ، مذہب تو مرد کا ہی ہوتا ہے، وہ عورت کو قائل کر لیتا ہے، لہذا یہ مجھے قائل کر کے گھر لے جائیں گے اور بڑا ثواب پائیں گے،لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اس کو میرے پاس آنا پڑا ہے۔ ہمارے دو بچے ہیں۔ یہ ہماری رسمیں بھی ادا کرتا ہے ، اور بیچ بیچ میں ہمیں غلط بھی کہنے لگتا ہے۔ہمارا اختلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔واضح رہے کہ لڑکے کی تعلیم واجبی سی ہے اور لڑکی ایم فل اسلامیات کر رہی ہے۔

مولانا محمد بشیر سیالکوٹیؒ ۔ چند یادیں، چند باتیں

محمد عثمان فاروق

عربی زبان کے استاذ، متعدد کتابوں کے مولف مولانا بشیر سیالکوٹیؒ (۱۹۴۰۔۲۰۱۶ء) طویل علالت کے بعد ۱۶ اکتوبر کو انتقال کر گئے۔ ان کی پوری زندگی علوم اسلامیہ کی تدریس بالخصوص عربی زبان کی تعلیم میں گزری۔ مولانا سیالکوٹی عربی نظم و نثر دونوں میں یکساں اور کمال مہارت رکھتے تھے۔ ان کی دیرینہ آرزو اور والہانہ لگن تھی کہ ملک پاکستان میں لسان القرآن کو فروغ ملے تاکہ لوگوں کا خدا کی کتاب اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے زندہ تعلق قائم ہو۔ مولانا سیالکوٹی کی خدمات کے پیش نظر عالم عرب کے تین جید علماء( دکتور ف عبدالرحیم، دکتور عبدالغفور البلوشی، محمد عزیر شمس) نے انہیں شیخ العربیہ کا لقب دیا۔
جولائی ۲۰۱۳ ء میں راقم کو الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں دورہ تفسیر قرآن میں شرکت کا موقع ملا۔ دورہ کے اختتام پر شرکاء کو اکیڈمی کی طرف سے جن کتابوں کا سیٹ تحفے میں دیا گیا، ان میں سے ایک کتاب مولانا سیالکوٹی کی ’’ درس نظامی کی اصلاح اور ترقی‘‘ بھی تھی۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد مولانا سیالکوٹی کی خدمت میں نیاز مندانہ حاضری دینے کا شوق پیدا ہوا، چنانچہ میں نے خط لکھ کر ملاقات کی خواہش کی اظہار کیا جسے مولانا نے بڑی محبت اور شفقت سے قبول کیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی اور استفادے کا موقع ملتا رہتا۔ 
مولانا سیالکوٹی سے جب بھی ملاقات ہوتی، ان کی گفتگو کا مرکزی نکتہ ہمیشہ دینی تعلیم کا نصاب، عربی زبان کی تدریس اور طریقہ تدریس ہوتا۔ اپنی کتاب’’ درس نظامی کی اصلاح اور ترقی‘‘ کے بارے میں بتایا کہ میں نے اس کا عنوان ’’ درس نظامی کا محاسبہ ‘‘ سوچ رکھا تھا، لیکن پھر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ عنوان تو مخاطب کو رد عمل کی نفسیات میں مبتلا کر دے گا اور یوں کتاب کے مقصد کو نقصان پہنچے گا، لہٰذا میں نے کتاب کا عنوان تبدیل کر دیا اور انداز نگارش کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کی۔ مولانا سیالکوٹی ارباب مدارس بالخصوص طبقہ علماء کے جمود اور اور قدیم نصاب و طریقہ تدریس پر اصرار کے حوالے سے شکوہ کناں رہتے تھے۔ ایک مرتبہ( تاسف سے) کہنے لگے ہم لوگوں نے درس نظامی کو منزل من اللہ سمجھ لیا ہے اور کسی نئی اور مثبت تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ جو کوئی یہ کام کرنے کی کوشش کرے تو اسے گردن زدن قرار دے دیا جاتا ہے۔ مولانا کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ مروجہ دینی نصاب اور طریقہ تدریس دونوں ہی ناقص، فرسودہ ہیں اور دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ مولانا سیالکوٹی کا یہ مفصل تنقیدی جائزہ کوئی عجلت میں نہیں کیا گیا، بلکہ ان کے چالیس سالہ تجربے ، غور فکر کا حاصل تھا۔ وہ ہمارے دینی علم کی روایت سے ہٹے ہوئے آدمی بھی نہیں تھے بلکہ اسی مر وجہ نظام تعلیم سے گزر کر آئے تھے۔ اس لحاظ سے ان کی آرا گہرے غور فکر کی مستحق ہیں۔ ان کی تنقید کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تو جدیدیت سے مرعوب کسی روشن خیال دانشور کی ذہنی اختراعات ہیں جو استعمار کی ایجنڈے کو تقویت پہنچا رہا ہے، جو دینی علمی کی مبادیات سے واقف ہے نہ دینی علم کی روایت سے۔
مولانا سیالکوٹی نے محض مروجہ نصاب و نظام تدریس پر تنقید کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ عملاً ایک متبادل نصاب اور عصری اسلوب تدریس اپنے قائم کردہ ادارے معہد اللغۃ العربیہ اسلام آباد میں نافذ کر کے دکھایا ۔ مولانا سیالکوٹی کی اولاد اور تلامذہ اس مشن میں ان کے دست و بازو ہیں ۔ اب اس ادارے کی ذیلی شاخیں بھی کام کر رہی ہیں۔ گویا جو پودا مولانا سیالکوٹی نے لگایا تھا، وہ اب تن آور درخت بن چکا ہے۔ 
عربی زبان میں مہارت کے علاوہ وہ فارسی ور انگریزی بھی اچھی جانتے تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کی فارسی کتاب ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء‘‘ کا عربی ترجمہ کرنے کی سعادت بھی آپ کو حاصل ہے۔ ایک مرتبہ مولانا نے تحدیث نعمت کے طور پر بتایا کہ ۱۹۷۳ء میں قادیانی حضرات کے خلاف پارلیمنٹ میں علماء کے متفقہ فیصلے کا انگریزی ترجمہ میں نے ہی کیا تھا۔
نج کی ایک مجلس میں مولانا سیالکوٹی اردو تفاسیر پر گفتگو کر رہے تھے۔ جب تدبر قرآن کا ذگر آیا تو بلند تعریفی کلمات کہے اور اسے نمائندہ تفسیر قرار دیا۔ مولانا نے کہا کہ مولانا اصلاحیؒ کی بعض تفسیری آرا پر میرے ملاحظات ہیں جن میں مسئلہ رجم بھی شامل ہے۔ اس مسئلے پر خاصی لے دے ہوئی اور مولانا اصلاحی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور بعض علماء نے تو انہیں منکرین حدیث کی صف میں کھڑا کر دیا، لیکن میرے نزدیک یہ زیادتی ہے۔ مولانا کے موقف پر نقد ضرور ہونا چاہیے، لیکن تنقید اور تنقیص میں فرق بہرحال ملحوظ رہنا چاہیے۔
ایک مرتبہ بر سبیل تذکرہ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ذکر آیا تو مولانا سیالکوٹیؒ نے کہا کہ غازی صاحب فکر اسلامی کے ممتاز اور متوازن شارح تھے، میرے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے، قدیم اور جدید پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اکثر ہمارے اشاعتی ادارے دارالعلم، آبپارہ اسلام آباد تشریف لائے، کتابیں خریدتے اور مختلف علمی ، فکری اور ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل پر تبادلء خیال کرتے تھے۔ اعلیٰ انتظامی عہدوں (غازی صاحب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر رہے اور پرویز مشرف صاحب کے دور میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور بھی رہے) پر ہونے کے باوجود ان کے عجز و انکسار میں فرق آیا، نہ قلم و کتاب سے رشتہ کمزور ہوا۔ ایک مرتبہ غازی صاحب نے کتابیں خریدیں۔ جب جانے لگے تو میں نے ملازم سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی کتابیں ان کی گاڑی میں رکھ دو تو غازی صاحب نے منع کر دیا اور صاحب الحاجۃ احق بھا کہتے ہوئے خود کتابوں کا تھیلا اٹھایا اور چل دیے۔ 
مولانا سیالکوٹی نے اپنے متعلق کہا کہ بہت سے لوگ مجھے اہل حدیث سمجھ کر کنی کتراتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں مسلکی تعصبات اور گروہی مفادات اتنے غالب ہو چکے ہیں کہ اپنے حلقے سے باہر کے اہل علم کی بات سننے اور ان سے استفادے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ مولانا نے مزید بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ میری تعلیم و تربیت سلفی ماحول میں ہوئی ہے اور ظاہر سی بات ہے، انسان قریبی شخصیات اور ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ میرا رجحان مسلک اہل حدیث کی جانب ہے اور ان کی بہت سی چیزیں مجھے اپیل کرتی ہیں، لیکن میں نے کبھی اس لیبل کو اپنے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ مسلکی و گروہی تنگ نائیوں سے اٹھ کر اسلام اور ملت اسلامیہ کے لیے جدو جہد کروں۔
راقم کے اس سوال پر کہ وہ کون سی شخصیات ہیں جنہوں نے آپ کی فکر و نظر پر اثر ڈالا، مولانا نے بتایا کہ ویسے تو بہت سے علماء سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا، لیکن میں اپنے آپ کو تین اہل علم کی فیض تربیت کا نتیجہ سمجھتا ہوں:
۱۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ۲۔مولانا عبدالغفارحسنؒ ۳۔ مولانا محمد حنیف ندویؒ 
مولانا سیالکوٹی ابتدا میں سعودی سفارتخانے میں ملازمت کرتے رہے، لیکن کچھ عرصے بعد تصنیف و تالیف اور درس و تدریس میں یکسو ہو گئے۔ بعد میں بھی متعدد مرتبہ انہیں سفارتخانے کی طرف سے پیش کش کی گئی، لیکن وہ ایک ہی جواب دیتے کہ میں مبعوث ہو کر محبوس نہیں ہونا چاہتا۔
مولانا سیالکوٹیؒ کی تصنیفات میں سے چند یہ ہیں:
۱۔ الامام المجدد والمحدث الشاہ ولی اللہ الدھلوی، حیاتہ ودعوتہ 
۲۔ اقرا  ( یہ کتاب چار اجزاء پر مشتمل ہے جو عربی کا جدید اور با تصویر ریڈر ہے)
۳۔ آسان عربی ( دو اجزاء پر مبنی یہ کتاب جس میں صرف و نحو کو عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے)
۴۔ مفتاح الانشاء ( یہ کتاب بھی دو اجزاء میں ہے جو اعلیٰ جماعتوں کے طلبہ کو عربی زبان میں ترجمہ ، تحریر اور انشاء کی تعلیم دیتی ہے)
۵۔ الصرف الجمیل ( دو اجزاء، جس میں عربی افعال کی تفصیلی گردانوں اور ان کے روز مرہ استعمالات کا باتصویر بیان ہے)
۶۔ اساس الصرف (تین اجزاء، علم صرف کے قواعد کا موثر دلچسپ اور آسان پیرائے میں بیان ہے)
۷۔ ھیا غنوا یا اطفال (عربی کی دلچسپ نظموں کا مجموعہ جس میں اسلام کے بنیادی عقائد و تعلیمات اور ملی نغمے شامل ہیں)
اس کے علاوہ مولانا نے متذکرہ بالا درسی کتابوں کی راہنمائے اساتذہ(مرشد المعلمین/Teacher's Guide) بھی تیار کر رکھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولانا سیالکوٹ کی مساعی کو شرف قبول عطا کرے، ان کے مشن کو ترقی حاصل ہو اور ہمیں بھی دین کی خدمت کرنے کی توفیق حاصل ہو۔ (آمین)

’’فقہائے احناف اور فہم حدیث ۔ اصولی مباحث‘‘

ڈاکٹر حافظ مبشر حسین

حدیث کے ردو قبل کے اصول مخصوص نہیں ، بلکہ خیر القرون میں علمائے امت نے اپنے فہم اور علم کی روشنی میں انہیں منضبط کیا ہے۔ چنانچہ انسانی کاوش ہونے کے ناطے بعض اصولوں پر اختلاف رائے بھی پیدا ہوا۔ اس اختلاف رائے کے اولیں مظاہر حجازی و عراقی مکاتب فکر کی شکل میں وقوع پذیر ہوئے جبکہ آگے چل کر اس اختلاف کی خلیج نے محدثین اور فقہا کے دو مستقل اور ایک دوسرے کے حریف گروہوں یا طبقوں کی شکل اختیار کر لی۔ اس اختلاف کے یوں تو کئی علمی ، سیاسی اور معروضی اسباب تھے مگر ایک بڑا علمی سبب، میرے ناقص مطالعہ کے مطابق ، وہ اصول تھے جو حدیث کے ردو قبول اور اس کے معنی و مفہوم کی تعیین سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی تفصیل امام ابو یوسف اور امام محمد کی کتابوں بالخصوص امام محمد کی کتاب الحجۃ علی اھل المدینتہ اور امام شافعی کی کتاب الام میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ 
مذکورہ بالا علمی معرکہ آرائیوں میں محدثین کا مد مقابل فریق اگرچہ فقہا کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے، مگر بنیادی طور پر فقہا کے فریق میں حنفی فقہاہی زیادہ تر زیر بحث رہے ہیں اس لیے کہ حنفی فقہاء نے حدیث بالخصوص خبر واحد کے رد و قبول کے بعض اصولوں ( جنہیں اردو اصطلاح میں’’ درایتی اصول ‘‘ بھی کہا جانے لگا ہے) پر بھر پور تنقید کی اور بہت سے اہل علم بالخصوص محدثین آپ کی تنقید سے متاثر ہوئے اور انہوں نے ایسی بہت سے اخبار آحاد کو مستند تسلیم کر کے اپنے مجموعہ ہائے حدیث میں درج کیا جو حنفی فقہاء کے اصولوں کی روشنی میں غیر مستند قرار پاتی تھیں، بلکہ ایسا کرتے ہوئے محدثین کا حنفی فقہا کے خلاف رد عمل یا منفی تاثر بعض مواقع پر خاصا شدید ہو جاتا ہے ، مثلاً محدث ابن ابی شیبہ جو امام بخاری و امام مسلم وغیرہ جیسے محدثین کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، نے اپنے حدیث کی جامع کتاب ’’ المصنف‘‘ میں امام ابو حنیفہ کے رد میں ایک باب قائم کیا جس کا عنوان ہے:
ھذا ما خالف بہ ابو حنیفہ الاثر الذی جاء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
’’ ابو حنیفہؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی جس جس اثر(حدیث) کی مخالفت کی ہے یہ باب اسی بارے میں ہے‘‘۔
اس باب کے تحت انہوں نے تقریباً سوا سو ایسے مسائل کی نشاندہی کی ہے جن میں ان کے بقول امام صاحب کی رائے حدیث کے خلاف ہے۔
زیر نظر کتاب’’ بنیادی طور پر دوسری صدی ہجری کے عظیم محدث حضرت امام ابن ابی شیبہؒ کی طرف سے ان کی معرکۃ الآرا تصنیف مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ پر اس حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات کا نا قدانہ جائزہ ہے‘‘ (ص12 )تاہم مصنف کے بقول اس کتاب میں مذکورہ بالا موضوع کے علاوہ ان کی بعض وہ تحریریں بھی نظر ثانی کے بعد شامل اشاعت ہیں جو ماہنامہ الشریعہ، اشراق اور معارف وغیرہ میں’’ احادیث و آثار کے حوالے سے ائمہ احناف کا زاویہ نظر اور اصولی موقف کی وضاحت‘‘(ص 17)کے سلسلے میں شائع ہوئی ہیں۔
زیر نظر کتاب درج ذیل تین ابواب پر مشتمل ہے:
باب 1۔ حنفی منہج اجتہاد میں احادیث و آثار کی اہمیت
باب 2۔ احادیث کی تحقیق اور ردو قبول کے معیارات
باب3۔ حدیث کی تعبیر و تشریح کے اصول
کتاب کا پیش لفظ(ص 13-7 )جناب مصنف کے والد محترم مولانا زاہدالراشدی صاحب کا تحریر کردہ ہے جس میں انہوں نے مصنف کے کام کی تائید کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، جب کہ کتاب کے آخر میں اہم علمی اصطلاحات (ص 253-251)اور مصادر و مراجع (ص 264-254)کی فہرستیں بھی شامل اشاعت ہیں۔
زیر نظر کتاب، جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے، بنیادی طور پر حنفی فقہا کے حدیث کے سلسلہ میں اختیار کیے جانے والے مخصوص علمی اسلوب پر ہونے والے نقد کے دفاع اور حنفی مکتب فکر کے بارے میں اس سلسلہ میں مشہور ہوجانے والی بعض غلط فہمیوں کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ایک ایسی بحث کا تسلسل ہے جو فقہ حنفی کے آغاز سے آج تک جاری ہے ، اور بالخصوص بر صغیر پاک و ہند میں تو خدا جانے یہ بحث کب اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔ ماضی میں علامہ ابن تیمیہ جیسے عبقری بھی اس بحث کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینے میں ناکام رہے ہیں!
زیر نظر کتاب میں مصنف نے حنفی فقہ کی وکالت بہت اچھے طریقے سے انجام دی ہے، تاہم اس سلسلہ میں کچھ چیزیں مزید غور و فکر کی متقاضی ہیں۔
پاک و ہند میں زیر بحث مسئلے میں حنفی مکتب فکر کا مد مقابل حریف عموماً غیر مقلد طبقہ رہا ہے جس میں اہل حدیث سب سے نمایاں ہیں اور انہی کے اعتراضات ، خواہ وہ تحریری شکل میں ہوں یا تقریری، سے ماحول میں جو تناؤ پیدا ہوا، اسے زائل کرنے کے لیے بالعموم اس نوعیت کی کتابیں حنفی مکتب فکر کی طرف سے وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔زیر نظر کتاب اس اعتبار سے اسی کا تسلسل ہے جیسا کہ کتاب کے دیباچہ اور پیش لفظ میں خود مصنف اور ان کے والد محترم نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ تاہم کتاب کے مطالعہ کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں، اور ہو سکتا ہے کہ میری رائے غلط ہو ، کہ اس کتاب میں دیے گئے نتائج تحقیق سے حنفی مکتب فکر تو خوش ہوگا مگر مد مقابل فریق ، جو اس کاوش کا غالباً اصل مخاطب ہے یا ہونا چاہیے، بالکل متاثر نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مخاطب فریق کی طرف سے جو اصولی نوعیت کے اعتراضات حدیث کے ردو قبول اور فہم حدیث کے سلسلہ میں فقہ حنفی پر کیے جاتے ہیں، انہیں صحیح معنوں میں بحث کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
مثال کے طور پر زیر تبصرہ کتاب کے پہلے باب’’ حنفی منہج اجتہاد میں احادیث وآثار کی اہمیت‘‘ میں مختلف ذیلی عنوانات قائم کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ فقہ حنفی میں حدیث کو اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ ضعیف حدیث ، خواہ وہ مرسل ہو یا اس میں کوئی راوی مجہول ہو یا وجہ ضعف کچھ اور ہو، کو بھی قبل کیا جاتا ہے بلکہ قیاس و رائے پر بھی فوقیت دی جاتی ہے، اس طرح آثار صحابہ کی بھی یہی اہمیت بیان کی گئی ہے۔(دیکھیے،ص33تا99)۔ لیکن مخاطب فریق کا موقف یا اعتراض حنفی مکتب فکر پر یہ ہے کہ جہاں اپنے حنفی فقہا کی فقہی رائے بچانی ہو، وہاں اس رائے کی تائید میں موجود ضعیف حدیث بھی یقیناًقبول کر لی جاتی ہے اور جہاں حدیث واضح طور پر فقہ حنفی کے خلاف ہوتی ہے، وہاں اسے قبول نہیں کیا جاتا، خواہ وہ کتنی ہی مستند ہو اور اسے بخاری و مسلم جیسی مستند کتب حدیث میں کیوں نہ روایت کیا گیا ہو!
یہ اعتراض یا موقف اہل حدیث مکتب فکر میں بہت عام ہے اور ضروری ہے کہ اس حوالے سے فقہ حنفی سے انطباقی مثالوں کے ساتھ بھر پور علمی اور غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کیا جاتا۔ اور میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اس بحث میں ابن حزم کی آرا کو ضرور زیر بحث لایا جائے جس کے بعض حوالہ جات مصنف نے زیر نظر کتاب میں مختلف مقامات پر اپنی تائید میں پیش کیے ہیں، حالانکہ علامہ ابن حزم جتنا حنفی مکتب فکر کے خلاف شدید تھے، اتنا کوئی اور عالم شاید ہی رہا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ ابن حزم کو اہل حدیث مکتب فکر میں خاص قبولیت حاصل ہے۔اسی طرح مصنف لکھتے ہیں،’’ احناف کے ہاں روایات کی جانچ پرکھ اور تحقیق کا ایک خصوصی معیار ہے جو بعض اہم پہلوؤں سے محدثین کے اختیار کردہ منہج سے مختلف ہے اور اس کے زیر اثر بہت سی روایات کے ردو قبول کے ضمن میں بھی احناف کا موقف محدثین کے موقف سے مختلف ہو جاتا ہے‘‘۔(ص105)
اگرچہ مصنف نے مذکورہ مخصوص معیار کی حنفی کتب فقہ سے مثالوں کے ساتھ تفصیلات فراہم کی ہیں، مگر یہاں بھی فریق مخاطب مخالف کے نقطہ نظر کو سمجھ کو موضوع بحث بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ فریق مخالف کی رائے یہاں یہ ہے کہ حدیث کے ردوقبول کا یہ مخصوص معیار اختراعی یا الحاقی نوعیت کا ہے، یعنی ان کی رائے میں موسسین فقہ حنفی اس مخصوص معیار کے بانی خود نہیں، بلکہ متاخرین حنفی اصولیوں نے فقہ حنفی کو حدیث کی مخالفت کے الزام سے بچانے کے لیے اس ضمن میں مختلف اصول اور معیارات قائم کر کے انہیں اپنے ائمہ موسسین کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ اس کی تائید میں شاہ وہلی اللہ مرحوم کی بعض تحریروں کو بھی بطور سند پیش کیا جاتا ہے۔ اس مخصوص معیار کو قبول یا رد کرنا تو ایک الگ علمی بحث رہی ہے اور رہے گی ، مگر یہ کہنا کہ یہ مخصوص معیار الحاقی ہے، اس بارے میں زیر نظر کتاب کا مطالعہ کئی جہتوں سے تشنگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔
اسی ضمن میں مصنف نے لکھا ہے کہ’’ اخبار آحاد کی تحقیق اور جانچ پرکھ کا معاملہ سر تا سر ایک اجتہادی معاملہ تھا اور محدثین اور فقہا کے مختلف گروہوں نے اپنے اپنے اجتہادی ذوق کے تحت ہی روایات کی تحقیق کے لیے مختلف معیارات وضع کیے۔‘‘ (ص108) مجھے ذاتی طور پر اس رائے سے اختلاف نہیں، لیکن چونکہ بہت سے اہل حدیث علما کی رائے اس باب میں مختلف ہے، اس لیے اگر مصنف اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال کرتے تو شاید قارئین کے لیے اس موقف پر مزید غور و فکر کا سامان میسر آتا۔
میں اس بات پر فاضل مصنف کو مبارکباد پیش کروں گا کہ انہوں نے یہ کتاب لکھ کر فقہ حنفی کی نمائندگی، یا دوسرے لفظوں میں، فقہ حنفی پر حدیث کے حوالے سے پائے جانے والے شبہات کا ازالہ کی کوشش خوب عمدگی سے کی ہے، قطع نظر اس سے کہ فریق مخالف اس سے متاثر یا مستفید ہوتا ہے یا نہیں، تاہم جاوید احمد غامدی صاحب کے ساتھ مصنف کا جو سلسلہ تلمذ رہا ہے، کتاب کے بعض مندرجات مصنف پر جناب غامدی صاحب سے اثر پذیری کی غمازی بھی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب مذکور کے صفحات 106 یا 107 پر ’’ دائرہ اختلاف کی تعیین‘‘ کے عنوان کے تحت مصنف نے جو کچھ لکھا ہے ،غامدی صاحب کے تصورِ حدیث،تصورِ سنت،تصورِ اُسوہ سے واقفیت رکھنے والے اہل علم اس کی بو یہاں محسوس کر سکتے ہیں، تاہم کتاب کے موضوع کے اندر رہتے ہوئے مصنف نے یہاں کھل کر کوئی بات نہیں کی جو جناب غامدی صاحب کی فکر کی عکاسی کرتی ہو، اس لیے شک کے فائدے کی گنجائش بہرحال انہیں حاصل ہے، مگر درج ذیل عبارت کی کیا توجیہ کی جائے ، میرے فہم سے بالا ہے۔
مصنف لکھتے ہیں، ’’کتاب اللہ اور سنت متواترہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث دین کا تیسرا بنیادی ماخذ ہیں جنہیں فکر و تدبر کا موضوع بنانا دین کے مکمل اور جامع فہم کے لیے ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ (ص 167)
کیا حنفی فقہ اور اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن، سنت اور حدیث کی شکل میں شریعت کے تین بنیادی مصادر الگ الگ حیثیت میں بیان کیے گئے ہیں، یا اس کی تہہ میں کہیں فکر غامدی کے اثرات کار فرما ہیں؟ اس سوال کا جواب میں مصنف اور اپنے حنفی دوستوں پر چھوڑتا ہوں!
(بشکریہ ماہنامہ ’’البرہان‘‘ لاہور)

مارچ ۲۰۱۷ء

مسلمانوں کے خلاف جنگ میں غیر مسلموں کی معاونت ۔ تکفیری مکتب فکر کے ایک اہم استدلال کا تنقیدی جائزہمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۸)ڈاکٹر محی الدین غازی
استاذ القراء حضرت قاری محمد انور قدس اللہ سرہ العزیزمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اقلیتوں سے متعلق مسلمانوں کے فکری تحدیاتڈاکٹر محمد ریاض محمود
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ
DNA کے بارے میں چشم کشا حقائقمولانا مفتی منیب الرحمن
دیو بند و بریلی : اختلافات سے مشترکات تکسراج الدین امجد

مسلمانوں کے خلاف جنگ میں غیر مسلموں کی معاونت ۔ تکفیری مکتب فکر کے ایک اہم استدلال کا تنقیدی جائزہ

محمد عمار خان ناصر

موجودہ مسلم حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے گروہوں کی طرف سے ایک اہم دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ان حکمرانوں نے بہت سی ایسی لڑائیوں میں کفار کے حلیف کا کردار ادا کیا ہے جو انھوں نے دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف شروع کی ہیں اور اسلامی شریعت کی رو سے یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا مرتکب کافر اور مرتد قرار پاتا ہے۔
یہ نقطہ نظر ہمارے ہاں سب سے پہلے غالباً انگریزی دور اقتدار میں جنگ عظیم اول کے موقع پر اس وقت پیش کیا گیا جب برطانوی فوج میں شامل مسلمانوں کے لیے ترکی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا سوال سامنے آیا۔ تحریک خلافت کے قائدین نے اس پر ایک سخت مذہبی موقف اختیار کیا اور مولانا ابو الکلام آزاد نے اس کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’تیسری صورت قتل مسلم کی یہ ہے کہ کوئی مسلمان کافروں کے ساتھ ہو کر ان کی فتح ونصرت کے لیے مسلمانوں سے لڑے یا لڑائی میں ان کی اعانت کرے اور جب مسلمانوں اور غیر مسلموں میں جنگ ہو رہی ہو تو وہ غیر مسلموں کا ساتھ دے۔ یہ صورت اس جرم کے کفر وعدوان کی انتہائی صورت ہے اور ایمان کی موت اور اسلام کے نابود ہو جانے کی ایک ایسی اشد حالت ہے جس سے زیادہ کفر وکافری کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے وہ سارے گناہ، ساری معصیتیں، ساری ناپاکیاں، ہر طرح اور ہر قسم کی نافرمانیاں جو ایک مسلمان اس دنیا میں کر سکتا ہے یا ان کا وقوع دھیان میں آ سکتا ہے، سب اس کے آگے ہیچ ہیں۔ جو مسلمان ایسے فعل کا مرتکب ہو، وہ قطعاً کافر ہے اور بد ترین قسم کا کافر ہے۔ اس کی حالت کو قتل مسلم کی پہلی صورت پر قیاس کرنا درست نہ ہوگا۔ اس نے صرف قتل مسلم ہی کا ارتکاب نہیں کیا ہے، بلکہ اسلام کے برخلاف دشمنان حق کی اعانت ونصرت کی ہے اور یہ بالاتفاق وبالاجماع کفر صریح وقطعی مخرج عن الملۃ ہے۔ جب شریعت ایسی حالت میں غیر مسلموں کے ساتھ کسی طرح کا علاقہ محبت رکھنا بھی جائز نہیں رکھتی تو پھر صریح اعانت فی الحرب اور حمل سلاح علی المسلم کے بعد کیونکر ایمان واسلام باقی رہ سکتا ہے؟‘‘ (مسئلہ خلافت، ص ۹۷، مکتبہ جمال لاہور، ۲۰۰۶ء)
مولانا سید حسین احمد مدنی نے بھی اس موقف کی تائید کی، چنانچہ مولانا آزاد کا مذکورہ اقتباس ان کی ’’تقریر ترمذی‘‘ میں باللفظ مولانا مدنی کے موقف کے طور پر نقل کیا گیا ہے۔ معاصرتکفیری گروہوں کی طرف سے بالعموم اپنے موقف کے حق میں اسی اقتباس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
یہ معاملہ شرعی نقطہ نظر سے تفصیل طلب ہے۔ اس ضمن میں بنیادی اور فیصلہ کن نکتے دو ہیں: ایک یہ کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی باہمی جنگ میں لڑائی کا اصل باعث کیا ہے اور اس سے کس مقصد کا حصول کفار کے پیش نظر ہے؟ اور دوسرا یہ کہ غیر مسلموں کا ساتھ دینے والے مسلمان، کس محرک کے تحت اس جنگ میں کفار کے ساتھ شریک ہو رہے ہیں؟ اگر وجہ قتال نفس اسلام ہے، یعنی کفار صرف اس لیے مسلمانوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور انھیں اسلام سے برگشتہ کرنا یا اسلام کو مٹا دینا اس جنگ کا مقصد ہے، جبکہ جنگ میں غیر مسلموں کا ساتھ دینے والے مسلمانوں کا محرک بھی اسلام کو زک پہنچانا ہے تو بلاشبہ یہ کفر ہے، اس لیے کہ کوئی مسلمان حالت ایمان میں یہ طرز عمل اختیار نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر لڑائی کی وجہ عام دنیاوی مفادات کا تصادم ہے اور کفار، مسلمانوں کے کسی علاقے پر قبضہ کرنے یا ان کی دولت ہتھیانے یا ان پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ان پر حملہ آور ہوتے ہیں جبکہ اس جنگ میں کچھ دوسرے مسلمان بھی کچھ دنیوی مفادات کے حصول کے لیے، کفار کے ساتھ شریک جنگ ہونے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس عمل کو فی نفسہ کفر نہیں کہا جا سکتا، اگرچہ اس کا مذموم اور قابل اجتناب ہونا واضح ہے۔ گویا لڑائی کا واقعاتی تناظر اور جنگ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی نیت اور ارادہ یہ طے کریں گے کہ ان کے اس عمل کی حیثیت کیا متعین کی جائے۔ اگر لڑائی کفر اور اسلام کے تناظر میں لڑی جا رہی ہے اور لڑائی میں شریک ہونے والے بھی اسی نیت سے لڑ رہے ہیں کہ اسلام بطور دین کمزور جبکہ کفر اس پر غالب ہو جائے تو بلاشبہ یہ عمل کفر وارتداد کے ہم معنی ہے، لیکن کفار اور مسلمانوں کے مابین ہر جنگ کو نہ تو کفر واسلام کی جنگ کہا جا سکتا ہے اور نہ یہ قرار دینا ممکن ہے کہ کسی دنیوی مفاد کے تناظر میں، جنگ میں کفار کا ساتھ دینے والے مسلمان فی نفسہ اسلام ہی کے دشمن ہیں اور ان میں اور کھلے کافروں میں کوئی فرق ہی باقی نہیں رہا۔
اس حوالے سے فقہاء کا بیان کردہ یہ بنیادی اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ اگر مسلمان کا کوئی قول یا عمل ایک سے زیادہ احتمال رکھتا ہو اور ان میں سے بعض احتمال اس کی تکفیر کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ کچھ احتمال اسے تکفیر سے بچاتے ہوں تو اس کی نیت اور ارادہ فیصلہ کن ہوگا۔ اگر اس نے اس عمل کا ارتکاب ایسی نیت سے کیا ہو جو کفر کو مستلزم ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی، جبکہ اس کے برعکس صورت میں تکفیر سے گریز کیا جائے گا۔ فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’المحیط البرہانی‘‘ میں ہے:
یجب ان یعلم انہ اذا کان فی المسئلۃ وجوھا توجب التکفیر ووجھا واحدا یمنع التکفیر فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم، ثم ان کان نیۃ العامل الوجہ الذی یمنع التکفیر فھو مسلم، وان کانت نیتہ الوجہ الذی یوجب التکفیر لا ینفعہ فتوی المفتی ویومر بالتوبۃ والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین امراتہ (المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، ج ۵، ص ۵۵۰)
’’یہ جاننا لازم ہے کہ اگر کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ احتمالات تکفیر کا تقاضا کرتے ہوں جبکہ صرف ایک احتمال تکفیر سے مانع ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ وہ مسلمان کے ساتھ حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اسی احتمال کو اختیار کرے جو تکفیرسے مانع ہے۔ پھر اگر اس عمل کا ارتکاب کرنے والے کی نیت وہی احتمال ہو جو تکفیر سے مانع ہے تو وہ مسلمان شمار ہوگا، لیکن اگر خود اس کی نیت وہ احتمال ہو جو تکفیر کا موجب ہے تو ایسی صورت میں اسے مفتی کا فتویٰ کوئی فائدہ نہیں دے گا اور اسے کہا جائے گا کہ وہ توبہ کر کے اس عمل سے رجوع کرے اور اپنی بیوی کے ساتھ نکاح کی تجدید کرے۔‘‘
’’المحیط البرہانی‘‘ میں اس اصول کے انطباق کی ایک عمدہ مثال بھی نقل کی گئی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
المسلمون اذا اخذوا اسیرا وخافوا ان یسلم فکغموہ ای سدوا فمہ بشیء حتی لا یسلم او ضربوہ حتی یشتغل بالضرب فلا یسلم فقد اساء وا فی ذلک، ولم یقل فقد کفروا ۔۔۔ وذکر شیخ الاسلام رحمہ اللہ فی شرح السیر ان الرضا بکفر الغیر انما یکون کفرا اذا کان یستجیز الکفر ویستحسنہ، اما اذا کان لا یستجیزہ ولا یستحسنہ ولکن احب الموت او القتل علی الکفر لمن کان شریرا موذیا بطبعہ حتی ینتقم اللہ منہ فھذا لا یکون کفرا (المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، ج ۵، ص ۵۵۱)
’’مسلمان اگر (جنگ میں) کسی قیدی کو گرفتار کریں اور اس ڈر سے کہ کہیں وہ (زبان سے) اسلام کا اقرار نہ کر لے، اس کے منہ کو کسی چیز سے بند کر دیں یا اسے مارنا شروع کر دیں تاکہ وہ مار سے بد حواس ہو جائے اور قبول اسلام کا اعلان نہ کر پائے تو ایسا کرنے والوں نے غلط کام کیا، لیکن اس سے وہ کافر نہیں ہو جائیں گے۔ شیخ الاسلام نے شرح السیر میں واضح کیا ہے کہ دوسرے کے کفر پر راضی ہونا صرف اس صورت میں کفر ہے جب ایسا کرنے والے کفر کو اچھا اور جائز سمجھتا ہو۔ لیکن اگر وہ کفر کو نہ تو جائز سمجھتا ہو اور نہ اسے پسند کرتا ہو، بلکہ صرف یہ چاہتا ہو کہ ایک شریر اور طبعاً موذی کافر، کفر پر ہی مرے یا اسے قتل کر دیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے (ان اذیتوں کا جو اس نے مسلمانوں کودیں) انتقام لے تو اس نیت سے ایسا کرنے والا کافر نہیں ہوگا۔‘‘
مذکورہ مثال میں دیکھیے، کچھ مسلمان ایک کافر کو کلمہ پڑھنے سے روکنا چاہتے ہیں جس کا مطلب بظاہر یہ بنتا ہے کہ وہ اس کو کافر ہی رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے اسلام قبول کرنے پر راضی نہیں۔ اب ظاہر کے اعتبار سے کسی کے کفر پر راضی ہونا اور اسے قبول اسلام سے روکنا کفر ہے، لیکن فقہاء یہ قرار دے رہے ہیں کہ یہاں چونکہ اسلام سے روکنے والوں کی نیت فی نفسہ کفر کو پسند کرنا اور اسے جائز سمجھنا نہیں، بلکہ وہ اس نیت سے ایسا کر رہے ہیں کہ ایک موذی اور شرپسند دشمن اللہ کے انتقام سے بچنے نہ پائے، اس لیے ان کے اس عمل کو ان کی نیت کا اعتبار کرتے ہوئے کفر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہی اصول زیر بحث سوال کے حوالے سے بھی پیش نظر رہے تو صاف واضح ہوگا کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار کا ساتھ دینے والے مسلمانوں کو صرف اسی صورت میں کافر قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ فی نفسہ کفر کو اسلام کے مقابلے میں پسند کرتے ہوں اور اسلام پر کفر کو غالب کرنے کی نیت اور ارادے سے جنگ میں کفار کا ساتھ دے رہے ہوں۔ اگر ان کا محرک اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہو تو فقہی اصول کے لحاظ سے انھیں محض مسلمانوں اور کفار کی لڑائی میں کفار کا ساتھ دینے کی بنا پر کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مذکورہ اصولی نکتے کے علاوہ فقہی ذخیرے میں متعدد ایسے نظائر موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہائے اسلام مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار کے ساتھ شرکت کو مطلقاً یعنی ہر حال میں کفر قرار نہیں دیتے، بلکہ ایسا کرنے والے مسلمانوں کومسلمان ہی شمار کرتے ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر بعض حالات میں اس کی باقاعدہ اجازت دیتے ہیں۔ یہاں چند اہم نظائر کا مطالعہ مفید ہوگا:
۱۔ فقہاء کے مابین اس بات میں اختلاف ہے کہ اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ حکومت کے خلاف بغاوت کر دے تو اس کے خلاف جنگ میں کفار سے مدد لی جا سکتی ہے یا نہیں؟ ایک گروہ کے نزدیک ایسا کرنا درست نہیں، کیونکہ اس سے کفار کو مسلمانوں پر مسلط کرنا لازم آتا ہے جو کہ شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔ (یہاں یہ بات بطور خاص ذہن میں رہے کہ ممانعت کرنے والے فقہاء نے اس کی دلیل یہ نہیں بیان کی کہ ایسا کرنا فی نفسہ کفر ہے)۔ اس کے برخلاف امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا موقف یہ ہے کہ مسلمانوں باغیوں کے خلاف جنگ میں اہل حرب یا اہل ذمہ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے، بشرطیکہ لشکر کی کمان اہل اسلام کے ہاتھ میں ہو اور وہ جنگ کی ترجیحات طے کرنے میں آزاد ہوں۔ سرخسی لکھتے ہیں:
ولا باس بان یستعین اھل العدل بقوم من اھل البغی واھل الذمۃ علی الخوارج اذا کان حکم اھل العدل ظاھرا (المبسوط ۱۰/ ۱۳۴)
’’اس میں کوئی حرج نہیں کہ مسلمان حکومت، خوارج کے خلاف جنگ میں باغیوں کے کسی گروہ یا اہل ذمہ کی مدد حاصل کریں، بشرطیکہ مسلمان حکومت کا فیصلہ غالب ہو۔‘‘
۲۔ یہ اس صورت میں ہے جب مسلمان حکومت، باغیوں کے خلاف کفار کی مدد لینے پر مجبور نہ ہو۔ اگر صورت حال ایسی پیدا ہو جائے کہ باغیوں کا زور توڑنے کے لیے مدد لینا ناگزیر ہو جائے تو یہاں دلچسپ صورت حال پید اہو جاتی ہے۔ فقہائے احناف تو اپنے اصول کے مطابق اس صورت میں باغیوں کے خلاف کفار کی مدد لینے کو جائز قرار نہیں دیتے، چنانچہ سرخسی لکھتے ہیں:
وان ظھر اھل البغی علی اھل العدل حتی الجاوھم الی دار الشرک فلا یحل لھم ان یقاتلوا مع المشرکین اھل البغی، لان حکم اھل الشرک ظاھر علیھم ولا یحل لھم ان یستعینوا باھل الشرک علی اھل البغی من المسلمین اذا کان حکم اھل الشرک ھو الظاھر (المبسوط ۱۰/ ۱۳۴)
’’اگر باغی حکومت کے مقابلے میں غالب آ جائیں اور انھیں اہل شرک کے علاقے کی طرف دھکیل دیں تو اس حالت میں حکومت کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف جنگ کرے، کیونکہ اہل شرک کا اقتدار غالب ہے جبکہ ایسی صورت میں مسلمانوں کے لیے حلال نہیں کہ وہ مسلمان باغیوں کے خلاف اہل شرک کی مدد حاصل کریں۔‘‘
لیکن فقہا کا دوسرا گروہ جو عام حالات میں باغیوں کے خلاف کفار کی مدد لینے کو ناجائز کہتا ہے، ان میں سے بعض اہل علم مذکورہ صورت حال میں مجبوری کے تحت کفار کی مدد لینے کی اجازت دیتے ہیں، چنانچہ علامہ ابن حزم تصریح کرتے ہیں کہ باغیوں کے خلاف کفار سے مدد لینے کی ممانعت اس صورت میں ہے جب مسلمان خود باغیوں کے خلاف لڑنے کی قدرت رکھتے ہوں۔ اگر حکومت اتنی کمزور ہو جائے کہ کفار کی مدد لیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو پھر اہل حرب یا اہل ذمہ کا سہارا لے کر اور ان کی مدد سے باغیوں کے خلاف جنگ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ جن کفار سے وہ مدد لے رہے ہیں، ان کی طرف سے یہ خدشہ نہ ہو کہ وہ کسی مسلمان یا ذمی کی جان ومال کو نقصان پہنچائیں گے۔ لکھتے ہیں:
ھذا عندنا ما دام فی اھل العدل منعۃ، فان اشرفوا علی الھلکۃ واضطروا ولم تکن لھم حیلۃ فلا باس بان یلجؤا الی اھل الحرب وان یمتنعوا باھل الذمۃ، ما ایقنوا انھم فی استنصارھم لو یوذون مسلما ولا ذمیا فی دم او مال او حرمۃ مما یحل (المحلی، ۱۱/ ۳۵۵)
’’ہمارے نزدیک یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب حکومت اپنے دفاع پر قادر ہو۔ اگر مسلمان ہلاکت کے قریب پہنچ جائیں اور حالت اضطرار سے دوچار ہو جائیں اور کوئی چارہ باقی نہ رہے تو پھر (باغیوں کے خلاف) اہل حرب کا سہارا لینے میں یا اہل ذمہ کے ساتھ مل کر دفاع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، بشرطیکہ انھیں یہ یقین ہو کہ ان سے مدد لینے کے نتیجے میں وہ وہ کسی مسلمان یا ذمی کی جان ومال یا کسی حرمت پر دست درازی نہیں کریں گے۔‘‘
فقہ شافعی کی کتاب ’’الاقناع‘‘ میں ہے:
ولا یستعان علیھم بکافر لانہ یحرم تسلیطہ علی المسلم الا لضرورۃ (۲/۵۴۹)
’’مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں کسی کافر سے مدد نہ لی جائے، کیونکہ انھیں مسلمانوں پر مسلط کرنا حرام ہے، الا یہ کہ مجبوری ہو۔‘‘
’’مغنی المحتاج‘‘ میں ہے:
فی التتمۃ صرح بجواز الاستعانۃ بہ ای الکافر عند الضرورۃ وقال الاذرعی وغیرہ انہ المتجہ (۵/۴۰۷)
’’تتمہ میں ضرورت اور مجبوری کے تحت کفار سے (مسلمانوں کے خلاف) مدد لینے کے جواز کی تصریح کی گئی ہے۔ اذرعی اور دوسرے اہل علم نے کہا کہ یہی بات درست ہے۔‘‘
یہی بات فقہ حنبلی کی کتاب شرح منتہی الارادات (۳/۳۹۰) میں بھی کہی گئی ہے۔ 
۳۔ فقہاء اس کی بھی تصریح کرتے ہیں کہ اگر مسلمان باغی، حکومت کے خلاف جنگ میں کفار سے مدد لیں تو ایسا کرنے سے باغی، کافر نہیں ہو جائیں گے۔ چنانچہ امام شافعی لکھتے ہیں:
ولو استعان اھل البغی باھل الحرب علی قتال اھل العدل وقد کان اھل العدل وادعوا اھل الحرب فانہ حلال لاھل العدل قتال اھل الحرب وسبیھم ۔۔۔ وقد قیل: لو استعان اھل البغی بقوم من اھل الذمۃ علی قتال المسلمین لم یکن ھذا نقضا للعھد لانھم مع طائفۃ من المسلمین (الام ۴/ ۲۳۴)
’’اگر باغی، حکومت کے خلاف جنگ میں اہل حرب کی مدد حاصل کریں ، جبکہ ان اہل حرب کے ساتھ اس سے پہلے حکومت نے صلح کا معاہدہ کر رکھا ہو تو اب نئی صورت حال میں حکومت کے لیے ان اہل حرب کے ساتھ جنگ کرنا اور انھیں قیدی بنانا جائز ہو جائے گا۔ ۔۔۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ اگر باغی، مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں اہل ذمہ کی مدد حاصل کریں تو ایسا کرنے والے اہل ذمہ کا معاہدہ نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ وہ (مسلمانوں کے خلاف) مسلمانوں ہی کے ایک گروہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔
یہی بات ابن قدامہ نے المغنی (ج ۹، مسئلہ ۷۰۸۱) میں اور امام نووی نے روضۃ الطالبین (۷/۲۸۰، ۲۸۱) میں لکھی ہے۔ 
امام سرخسی نے شرح السیر الکبیر کی ایک مستقل فصل میں اس صورت حال کے فقہی احکام پر بحث کی ہے جب مسلمانوں کا کوئی باغی گروہ اہل حرب کے ساتھ مل کر مسلم ریاست کے خلاف جنگ کرے۔ سرخسی نے اس کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اہل حرب، خوارج کی کمان میں مسلمانوں کے ساتھ لڑیں یا یہ کہ خوارج، اہل حرب کی کمان میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ کریں یا یہ کہ دونوں کی کمان اپنی اپنی ہو اور وہ مختلف محاذوں سے مسلمانوں کے خلاف حملہ آور ہوں۔ اس ساری بحث کے فقہی احکام اس نکتے پر مبنی ہیں کہ خوارج ایسا کرنے کے باوجود مسلمان ہی شمار ہوں گے اور ان پر مسلمانوں ہی کے احکام جاری ہوں گے۔ کہیں بھی سرخسی نے اشارۃً بھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے یہ مترشح ہوتا ہو کہ وہ اس عمل کو، خاص طور پر اہل حرب کی کمان میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کو کفر وارتداد کے ہم معنی سمجھتے اور اس کے نتیجے میں خوارج کو ان مخصوص رعایتوں سے محروم تصور کرتے ہیں جو انھیں بطورمسلمان حاصل ہیں:
ولو سال الخوارج من اھل الحرب ان یعینوھم علی اھل العدل فقالوا لا نعینکم الا ان یکون الامیر منا ویکون حکمنا ھو الجاری ففعلوا ذلک ثم ظھر علیھم اھل العدل فاھل الحرب واموالھم فیء، اما اذاکانت الخوارج لم یومنوھم فالجواب ظاھر لانھم اھل حرب لاامان لھم، واما اذا کانوا امنوھم حتی خرجوا فلانھم نقضوا ذلک الامان حین قاتلوا اھل العدل لمنعتھم وتحت رایتھم بخلاف ما تقدم فھناک انما قاتلوا تحت رایۃ الخوارج وکان حکم الخوارج ھو الجاری فلم یکن ذلک نقضا لامانھم (شرح السبیر الکبیر، باب النفل من اسلاب الخوارج واہل الحرب یقاتلون معہم بامان او بغیر امان، ص ۲۷۲)
’’اگر خوارج، اہل حرب سے اہل عدل کے خلاف مدد کا مطالبہ کریں اور اہل حرب اس کے لیے یہ شرط عائد کریں کہ امیر لشکر ہم میں سے ہوگا اور ہمارے فیصلے جاری ہوں گے اور خوارج یہ شرط قبول کر لیں تو اس کے بعد اگر اہل عدل، جنگ میں غالب آ جائیں تو اہل حرب اور ان کے اموال کا حکم مال فے کا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تو خوارج نے ان کو امان نہ دی ہو تو پھر تو جواب ظاہر ہے کہ یہ لوگ اہل حرب ہیں جنھیں امان حاصل نہیں تھی۔ اور اگر خوارج نے ان کو امان دی ہو اور اس کے تحت وہ (اپنے علاقے سے) نکلے ہوں تو جب انھوں نے اپنے لشکر کی حفاظت میں اور اپنی کمان کے تحت اہل عدل کے خلاف جنگ شروع کی تو خود ہی اس امان کو باطل کر دیا، بخلاف سابقہ صورت کے کہ وہاں انھوں نے خوارج کی کمان میں لڑائی کی تھی اور خوارج کا حکم ان پر غالب تھا، اس لیے اس صورت میں ان کر لڑنا، ان کی امان کو باطل کرنے والا نہیں تھا۔‘‘
دیکھ لیجیے، اس بحث میں بھی فقہاء، مسلمان حکومت کے خلاف کفار کی مدد سے جنگ کرنے والے باغیوں کو کافر قرار نہیں دیتے، بلکہ انھیں مسلمان شمار کرتے ہوئے ہی ان کے احکام بیان کرتے ہیں۔
ابن حزم کی رائے یہ ہے کہ اگر کمان مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو یا مسلمان اور کفار اپنے الگ الگ لشکروں میں دوسرے مسلمانوں کے خلاف مل کر لڑائی کریں تو ایسا کرنا بہت بڑا فسق تو ہے، لیکن انھیں کافر نہیں کہا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:
واما من حملتہ الحمیۃ من اہل الثغر من المسلمین فاستعان بالمشرکین الحربیین واطلق ایدیہم علی قتل من خالفہ من المسلمین او علی اخذ اموالہم او سبیلہم فان کانت یدہ ہی الغالبۃ وکان الکفار لہ کاتباع فہو ہالک فی غایۃ الفسوق ولا یکون بذلک کافرا لانہ لم یات شیئا اوجب بہ علیہ کفرا قرآن او اجماع ۔۔۔۔۔۔ فان کانا متساویین لا یجری حکم احدہما علی الآخر فما نراہ بذلک کافرا (المحلی ۱۱؍۲۰۰، ۲۰۱)
’’سرحدوں پر رہنے والے مسلمانوں میں سے اگر کچھ لوگ (مسلمان حکومت سے) ناراض ہو کر حربی مشرکین سے ان کے خلاف مدد حاصل کریں اور اپنے مخالف مسلمانوں کو قتل کرنے یا ان کے اموال لوٹنے میں مشرکین کا ساتھ دیں تو اگر تو ان مسلمانوں کو غالب حیثیت حاصل ہو اور کفار ان کے بالتبع ہوں تو ایسے لوگ انتہائی درجے کے فاسق ہیں، لیکن اس سے وہ کافر نہیں ہو جائیں گے، کیونکہ انھوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کو قرآن یا اجماع نے مستوجب کفر قرار دیا ہو۔ اسی طرح اگر مسلمانوں اور کافروں کو برابر کی حیثیت حاصل ہو اور کوئی بھی دوسرے پر بالادست حیثیت نہ رکھتا ہو تو بھی کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے والے مسلمان، کافر نہیں ہوں گے۔‘‘
علامہ ابن حزم نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ اگر مسلمانوں کا کوئی محارب گروہ اہل حرب کے ساتھ مل کر مسلمان باغیوں کا مال لوٹنے کے لیے ان پر حملہ کرے تو اس کے باوجود وہ مسلمان ہی رہے گا، البتہ دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان حملہ آوروں کے خلاف باغی مسلمانوں کا دفاع کریں۔ لکھتے ہیں:
ولو ترک اھل الحرب من الکفار واھل المحاربۃ من المسلمین علی قوم من اھل البغی ففرض علی جمیع اھل الاسلام وعلی الامام عون اھل البغی وانقاذھم من اھل الکفر ومن اھل الحرب لان اھل البغی مسلمون ۔۔۔ واما اھل المحاربۃ من المسلمین فانھم یریدون ظلم اھل البغی فی اخذ اموالھم والمنع من الظلم واجب (المحلی ۱۱/ ۳۶۱)
’’اگر اہل حرب کفار اور مسلمانوں میں سے کچھ محاربین، باغیوں پر حملہ کریں تو تمام اہل اسلام اور مسلمان حکمران پر لازم ہے کہ وہ باغیوں کی مدد کریں اور انھیں اہل کفر اور محاربین سے بچائیں کیونکہ یہ باغی مسلمان ہیں۔ جہاں تک (کفار کے ساتھ مل کر حملہ کرنے والے) مسلمان محاربین کا تعلق ہے تو (ان سے لڑنا اس لیے ضروری ہے کہ) وہ باغیوں کے مال چھین کران پر ظلم کرنا چاہتے ہیں اور ظلم سے روکنا واجب ہے۔‘‘
۴۔ مذکورہ نظائر کا تعلق اس صورت سے ہے جب مسلمانوں (حکومت یا باغیوں) کے خلاف جنگ کا بنیادی فریق خود مسلمان ہوں اور کفار کو اس جنگ میں ایک مددگار فریق کے طور پر شریک کیا جائے۔ اگر صورت حال اس کے برعکس ہو، یعنی مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اصل فریق کفار ہوں اور کچھ مسلمان ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں تو فقہاء کے ہاں اس کے حکم کے متعلق قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ علامہ ابن حزم اس کے قائل ہیں کہ اگر مسلمانوں کے خلاف لڑائی کی کمان کفار کے ہاتھ میں ہو تو ان کے ساتھ مل کر لڑنا مسلمانوں کے لیے مستوجب کفر عمل ہے۔ 
لکھتے ہیں:
وان کان حکم الکفار جاریا علیہ فہو بذلک کافر علی ما ذکرنا (المحلی ۱۱؍۲۰۰، ۲۰۱)
’’اگر کفار کا حکم ان پر غالب ہو تو ان کی کمان میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے والا کافر ہو جائے گا۔‘‘
تاہم یہ ابن حزم کا انفرادی نقطہ نظر ہے۔ جمہور فقہاء کی تصریحات کے مطابق مسلمانوں کے، کفار کی کمان میں دوسرے مسلمانوں کے خلاف لڑنے یا اپنی کمان میں ان سے مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں مدد لینے سے معاملے کی شرعی حیثیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا اور ایسے مسلمان اس عمل کے بعد بھی مسلمان ہی تصور کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے چند تصریحات درج ذیل ہیں:
امام سرخسی نے لکھا ہے کہ اگر کسی مرتد کا مسلمان غلام کفار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہو اور گرفتار ہو جائے تو اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے قیدی نہیں بنایا جائے گا بلکہ آزاد کر دیا جائے گا:
ان کان خرج لیقاتل المسلمین فظھروا علیہ فان کان مسلما فھو حر لانہ مراغم لمولاہ ولو کان ذمیا فھو فیء لمن اخذہ لان قتالہ المسلمین نقض منہ للعھد (شرح السیر الکبیر ج ۵ ص ۲۰۸)
’’اگر مرتد کا غلام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے دار الحرب سے نکلا ہو اور پھر مسلمان اسے پکڑ لیں تو اگر وہ مسلمان ہو تو اسے آزاد کر دیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے آقا کی مرضی کے برخلاف آیا ہے، اور اگر وہ غلام ذمی ہو تو جو لوگ اسے گرفتار کریں گے، وہ ان کی ملکیت بن جائے گا کیونکہ ذمی کا، مسلمانوں کے ساتھ قتال کرنا معاہدہ کو توڑ دیتا ہے۔‘‘
یہاں واضح طور پر کفار کی طرف سے شریک جنگ ہونے والے مسلمان اور غیر مسلم غلام میں فرق کیا جا رہا ہے اور محض جنگ میں شریک ہونے کی بنا پر مسلمان غلام کو کافر اور مرتد شمار نہیں کیا جا رہا۔
امام سرخسی لکھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ کفار کے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرے تو مسلمانوں کے لیے بھی ان کو جواباً قتل کرنا جائز ہے، لیکن اس کے باوجود ان کا شمار مسلمانوں میں ہی ہوگا:
ولو لقوا فی صف المشرکین قوما من المسلمین معھم الاسلحۃ فلا یدرون امکرھون علی ذلک ام غیر مکرھین فانی احب لھم الا یعجلوا فی قتالھم حتی یسالوھم ان قدروا علی ذلک، وان لم یقدروا فلیکفوا عنھم حتی یروھم یقاتلون احدا منھم فحینئذ لا باس بقتالھم وقتلھم، لان موافقتھم فی الدین تمنعھم من محاربۃ المسلمین وھذا منھم معلوم للمسلمین۔ فما لم یتبین خلافہ لا یحل لھم ان یقتلوھم وبمجرد وقوفھم فی صف المشرکین لا یتبین خلاف ذلک، لان ذلک محتمل وقد یکون عن اکراہ وقد یکون عن طوع، فالکف عن قتالھم احسن حتی یتبین منھم القتال، فحینئذ لا باس بقتالھم لان مباشرۃ القتال فی منعۃ المشرکین مبیح لدمھم وان کانوا مسلمین، الا تری ان اھل البعی یقاتلون دفعا لقتالھم وان کانوا مسلمین (شرح السیر الکبیر ۴ /۲۰۶، ۲۰۷)
’’اگر مسلمان، مشرکین کی صفوں میں کچھ مسلمانوں کو دیکھیں جن کے پاس ہتھیار ہوں تو اب یہ معلوم نہیں کہ وہ مجبوراً آئے ہیں یا اپنے اختیار سے، اس لیے مجھے یہ پسند ہے کہ اگر وہ ایسا کر سکیں تو جب تک ان سے دریافت نہ کر لیں، ان کے خلاف لڑنے میں جلدی نہ کریں۔ اور اگر ان سے دریافت نہ کر سکتے ہوں تو بھی ان کے خلاف اقدام نہ کریں جب تک کہ انھیں اپنے خلاف لڑتا ہوا نہ دیکھ لیں۔ اس صورت میں ان سے لڑنے اور انھیں قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (پہلے مرحلے پر انھیں قتل کرنا) اس لیے درست نہیں کہ ان کا مسلمان ہونا انھیں مسلمانوں ہی کے خلاف لڑنے سے روکتا ہے اور یہ بات مسلمانوں کو معلوم ہے، اس لیے جب تک معاملے کا اس کے برخلاف ہونا بالکل واضح نہ ہو جائے، ان کے محض مشرکوں کی صف میں کھڑے ہونے کی وجہ سے انھیں قتل کرنا جائز نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ وہ جبراً لائے گئے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی مرضی سے آئے ہوں۔ اس لیے جب تک وہ صاف طور پر لڑائی میں شریک نہ ہو جائیں، ان کے خلاف جنگ سے گریز کرنا ہی اچھا ہے۔ البتہ دوسری صورت میں ان کے خلاف لڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ مشرکین کی کمان میں (مسلمانوں کے خلاف) جنگ کرنا ان کے خون کو مباح کر دیتا ہے، اگرچہ وہ مسلمان ہی ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ باغیوں کی لڑائی کے سد باب کے لیے ان کے خلاف جنگ کی جاتی ہے، حالانکہ وہ مسلمان ہوتے ہیں۔‘‘
یہ تو اس ضمن میں کلاسیکی فقہی ذخیرے کی تصریحات تھیں۔ علمائے اسلام کے زاویہ نظر میں اس کی تائید وتوثیق کی مثال ہمیں ماضی قریب کی بعض بحثوں میں بھی ملتی ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے نصف اول میں جب برصغیر سے انگریزی اقتدار کے خاتمے کے لیے سیاسی جدوجہد کی جا رہی تھی تو یہاں کے مذہبی سیاسی قائدین کی اکثریت کا رجحان متحدہ قومیت کے تصور کے تحت ایک ایسی آزاد جمہوری ریاست کے قیام کی طرف تھا جس میں مسلمانوں، ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو یکساں سیاسی وشہری حقوق حاصل ہوں۔ اس ضمن میں ان حضرات کے سامنے ایک اہم سوال یہ آیا کہ اگر کسی وقت ہندوستان اور کسی بیرونی مسلمان حکومت کے مابین جنگ کی نوبت آ جائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کا شرعی موقف کیا ہوگا یا کیا ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں ممتاز ترین اہل علم نے دوٹوک انداز میں یہ بات واضح کی کہ ہندوستان کے مسلمان ایسی صورت میں کسی بھی غیر ملکی طاقت کے خلاف، چاہے وہ مسلمانوں ہی کی کیوں نہ ہو، ہندوستان کا دفاع کرنے کے پابند ہوں گے اور یہ نہ صرف ان کا وطنی وقومی فریضہ بلکہ ان کی شرعی واخلاقی ذمہ داری بھی ہوگی۔
اس ضمن کی چند اہم تصریحات یہاں نقل کی جا رہی ہیں۔
علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ نے جمعیۃ علمائے ہند کے اجلاس منعقدہ پشاور (۱۹۲۷ء) میں خطبہ صدارت ارشاد فرماتے ہوئے کہا کہ:
’’اگر آج مسلمانوں کو اکثریت کی تعدی کے خطرے سے محفوظ کر دیا جائے تو وہ ہندوستان کی طرف سے ایسی ہی مدافعانہ طاقت ثابت ہوں گے جس طرح اپنے وطن کی کوئی مدافعت کرتا ہے۔ یہ خطرہ کہ آزادی کے وقت اگر کسی مسلمان حکومت نے ہندوستان پرحملہ کر دیا تو مسلمانوں کا رویہ کیا ہوگا؟ نہایت پست خیالی ہے اور اس کا نہایت سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ اگر مسلمان اپنے ہمسایوں کی طرف سے کسی معاہدے کی وجہ سے مطمئن ہوں گے اور ہمسایوں کی زیادتیوں کا شکار نہ ہوں گے تو ان کا رویہ اس وقت وہی ہوگا جو کسی شخص کا اس کے گھر پر حملے کرنے کی حالت میں ہوتا ہے، اگرچہ حملہ آور اس کا ہم قوم اور ہم مذہب ہی ہو۔‘‘ (بحوالہ ’’ہند پاکستان کی تحریک آزادی اور علمائے حق کا سیاسی موقف‘‘، از مولانا سعید احمد اکبر آبادی، جمعیۃ پبلی کیشنز لاہور، جنوری ۲۰۰۷ء، ص ۹۷)
مولانا سعید احمد اکبر آبادی نے اس موضوع پر علامہ انور شاہ کشمیری کے مختلف بیانات اور تصریحات کا حاصل ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
’’ازروئے معاہدہ مسلمانوں پر اس ملک کی، جو خود ان کا بھی وطن ہے، خیر خواہی اور اس کی حفاظت ومدافعت ایسی ہی واجب اور ضروری ہوگی جیسی کہ ہندوؤں پر ہے، چاہے وہ حملہ آور کوئی بیرونی مسلم طاقت ہی ہو اور یہ سب کچھ محض ڈپلومیسی نہیں بلکہ ازروئے شرع واحکام دین مسلمانوں کو کرنا ہوگا۔‘‘ (’’ہند پاکستان کی تحریک آزادی اور علمائے حق کا سیاسی موقف‘‘، ص ۱۰۳)
مولانا عبید اللہ سندھی لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی بیرونی طاقت ہندوستان پر حملہ آور ہو تو خواہ وہ مسلمان کیوں نہ ہو، ہم اس کا پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی مسلمان طاقت کا بھی یہ حق نہیں ہے کہ ہماری موجودگی میں وہ اسلام کے نام پر ہندوستان کی سرزمین کو پامال کرنے کی کوشش کرے۔ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا ہمیں اپنے وطن میں حکومت قائم کرنے کا حق نہیں ہے؟ اس میں شک نہیں کہ بیرونی مسلم ممالک کو اپنی حکومتوں کو مستحکم اور منظم کرنے کا حق حاصل ہے، مگر ہم ان کے اس حق کو ہرگز قبول نہیں کر سکتے کہ وہ ہندوستان پر حملہ کر کے اسے فتح کرنے کی کوشش کریں۔ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم ہندوستان میں ہندوستانی حکومت قائم کریں۔‘‘ (خطبات ص ۱۹۶)
تقسیم ہند کی بحث کے تناظر میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا تو مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے اس کے جواب میں لکھا:
’’عموماً پاکستان کے حامیوں کی جانب سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کی خارجی پالیسی میں اس کی کیا گارنٹی ہوگی کہ جنگ وصلح اور دیگر معاہدات میں مسلمان حکومتوں کے ساتھ مسلمانان ہند کے اتحاد اسلامی کا لحاظ رکھا جائے گا؟ سو اس کے متعلق بھی کانسٹی ٹیوشن بناتے وقت طے کیا جا سکتا ہے اور اس سے متعلق تفصیلات کو تسلیم کرایا جا سکتا ہے۔ اور میرے خیال میں یہ مسئلہ ایسا پیچیدہ بھی نہیں ہے، خصوصاً جبکہ ہندوستان کی حکومت اس اصول پر قائم کی جائے گی کہ وہ استعمارانہ ہو اس میں خود کسی پر بھی جارحانہ حملہ نہیں کرے گی۔ ہاں، اس سلسلہ میں اگر کوئی پیچیدگی پیش آ سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ دنیا کی مختلف حکومتوں کی باہمی جنگ میں اگر جمہوریت کی حمایت میں ہندوستان کو ایسی حکومت کا ساتھ دینا پڑے جس کے برعکس کوئی مسلمان حکومت کسی سرمایہ پرست، جمہوریت کے مخالف، یورپین یا کسی ایشیائی حکومت کے ساتھ ہو تو اس صورت میں مسلمانان ہند کیا رویہ اختیار کریں گے؟ تو ظاہر ہے کہ جب ہم ہندوستان میں صاحب حکومت ہوں گے تو جس طرح ہمارا فرض ہے کہ مسلمان حکومتوں کے ساتھ اتحاد کرنا ضروری سمجھیں، اسی طرح اس مسلمان حکومت کا بھی یہی فرض ہوگا اور اگر وہ خدا نخواستہ اس فرض کو قصداً نظر انداز کر دے تو مسلمانان ہند بھی مجبور ہوں گے کہ اپنے ملک اور خود اپنی حفاظت کے لیے جو صورت مناسب سمجھیں، اختیار کریں۔ جس طرح آج ترکی، ایران، افغانستان، عراق، شام او رمصر میں ہو رہا ہے اور اگر یہ بات بھی دل میں کھٹکتی ہو تو ترکی اور دوسری مسلمان حکومتوں کے حالات کو پیش نظر رکھ کر اور جذبات سے الگ ہو کر بعینہ اس پوزیشن کو اس حالت میں بھی سوچیے اور حل کیجیے کہ جب پاکستان کو اپنی حفاظت کے لیے کسی دوسری مسلمان حکومت کے خلاف جنگ آزما ہونا پڑ جائے اور جو حل آپ اس کے لیے تجویز فرمائیں، وہی حل وحدت ہند کی صورت میں بھی اختیار کرنے کی تجویز فرمائیں۔‘‘ (’’پاکستان پر ایک نظر‘‘، نئی زندگی الہ آباد، خاص (پاکستان) نمبر، ۱۹۴۶ء، جلد ۶، شمارہ ۱، کتاب دوئم، ص ۴۵)
اس بحث سے واضح ہے کہ مختلف جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم قوتوں کا ساتھ دینے کی بنیاد پر مطلقاً تکفیر کا موقف ایک انتہائی غیر محتاط اور علمی وشرعی لحاظ سے بے بنیاد موقف ہے۔ نہ تو شرعی نصوص میں ایسی کوئی تصریح موجود ہے اور نہ فقہاء نے ایسا مطلق اور کلی نوعیت کا کوئی شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس موقف میں کفر واسلام کی جنگ اور مسلمانوں اور کفار کی باہمی جنگ کو ایک ہی شمار کرتے ہوئے سنگین نوعیت کا خلط مبحث پیدا کیا گیا ہے اور اس اہم نکتے کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ دنیا میں مختلف گروہوں کے مابین جنگ کے اسباب مذہبی اختلاف سے ہٹ کر بھی کئی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی جنگ میں محض ایک فریق کے مسلمان اور دوسرے فریق کے کافر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ جنگ، مذہبی تناظر میں، کفر اور اسلام کی جنگ بھی ہو جس میں ایک طرف یا دوسری طرف فریق بننے کو ایمان یا کفر کا معیار قرار دیا جا سکے۔ ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۸) القاء کا ترجمہ

القاء کا مطلب ڈالنا اور رکھنا ہوتا ہے، پھینکنا اس لفظ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا ہے، بعض لوگوں نے جگہ جگہ اس لفظ کا ترجمہ پھینکنا کیا ہے، کہیں کہیں اس سے مفہوم میں فرق نہیں پڑتا، لیکن کہیں تو اس ترجمہ سے مفہوم میں واضح طور پر خرابی آجاتی ہے۔
ہم پہلے وہ آیتیں ذکر کرتے ہیں جہاں القاء کا ترجمہ پھینکنا ہوہی نہیں سکتا ہے، اس لئے کسی نے یہ ترجمہ نہیں کیا ہے، خاص طور سے سید مودودی نے بھی نہیں، جو کہ اکثر جگہ القاء کا ترجمہ پھینکنا کرتے ہیں:

(۱) وَأَلْقَی فِی الأَرْضِ رَوَاسِیَ۔ (النحل:۱۵)

’’اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں‘‘ (سید مودودی)
’’اور اس نے زمین میں لنگر ڈالے ‘‘(احمد رضا خان)

(۲) وَأَلْقَی فِی الْأَرْضِ رَوَاسِیَ۔ (لقمان: ۱۰)

’’اس نے زمین میں پہاڑ جمادئے ‘‘(سید مودودی)

(۳) فَلَوْلَا أُلْقِیَ عَلَیْْہِ أَسْوِرَۃٌ مِّن ذَہَبٍ۔ (الزخرف: ۵۳)

’’کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے‘‘ (سید مودودی)
اس کے بعد ہم وہ آیتیں ذکر کرتے ہیں، جہاں القاء کا ترجمہ پھینکنا کرنے سے مفہوم میں بظاہر کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی، گوکہ لفظ کی رعایت سے یہاں بھی پھینکنے کے بجائے ڈالنا ترجمہ کرنا زیادہ بہتر ہے:

(۱) فَأَلْقَی عَصَاہُ فَإِذَا ہِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْن۔ (الاعراف: ۱۰۷)

’’موسی نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اڑدہا تھا‘‘ (سید مودودی)
’’موسیٰ نے اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دی تو وہ اسی وقت صریح اڑدھا (ہوگیا) ‘‘(فتح محمد جالندھری)

(۲) قَالُوا یَا مُوسَی إِمَّا أَن تُلْقِیَ وَإِمَّا أَن نَّکُونَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ۔ قَالَ أَلْقُوْا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ وَجَاءُ وا بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ۔ وَأَوْحَیْْنَا إِلَی مُوسَی أَنْ أَلْقِ عَصَاکَ فَإِذَا ہِیَ تَلْقَفُ مَا یَأْفِکُون۔ (الاعراف:۱۱۵۔ ۱۱۷)

’’پھر انہوں نے موسی سے کہا ’’تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟ موسی نے جواب دیا تم ہی پھینکو۔ انہوں نے جو اپنے انچھر پھینکے تو نگاہوں کو مسحور اور دلوں کو خوف زدہ کردیا اور بڑا ہی زبردست جادو بنالائے۔ ہم نے موسی کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا۔ اس کا عصا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا‘‘ (سید مودودی)
’’(جب فریقین روزِ مقررہ پر جمع ہوئے تو) جادوگروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم (جادو کی چیز) ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں. (موسیٰ نے) کہا تم ہی ڈالو۔ جب انہوں نے (جادو کی چیزیں) ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا (یعنی نظربندی کردی) اور (لاٹھیوں اور رسیوں کے سانپ بنا بنا کر) انہیں ڈرا دیا اور بہت بڑا جادو دکھایا. (اس وقت) ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ تم بھی اپنی لاٹھی ڈال دو۔ وہ فوراً (سانپ بن کر) جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو (ایک ایک کرکے) نگل جائے گی‘‘(فتح محمدجالندھری)
دوسرے ترجمہ سے لگتا ہے کہ فَإِذَا ہِیَ تَلْقَفُ مَا یَأْفِکُون اس جملے کا جزء ہے جو حضرت موسی سے کہا گیا، جب کہ یہ ایک مستقل جملہ ہے ، جیسا کہ پہلے ترجمہ میں ہے، کہ ’’اس کا عصا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا‘‘ البتہ اس دوسرے ترجمہ کی خامی یہ ہے کہ تلقف جو کہ فعل مضارع ہے اس کا ترجمہ ماضی سے کیا گیا، اس کے بجائے اس کا ترجمہ حال یہ ماضی مستمر سے ہوگا، یعنی نگلتا جارہا ہے، یا نگلتا جارہا تھا۔ نہ کہ مستقبل سے کیا جائے گا جیسا کہ پہلے ترجمہ میں کیا گیا)

(۳) فَلَمَّا جَاء السَّحَرَۃُ قَالَ لَہُم مُّوسَی أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ۔ فَلَمَّا أَلْقَوا قَالَ مُوسَی مَا جِءْتُم بِہِ السِّحْر۔ (یونس: ۸۰،۸۱)

’’جب جادو گر آگئے تو موسی نے ان سے کہا جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے پھینکو۔ پھر جب انہوں نے اپنے انچھر پھینک دیے، تو موسی نے کہا یہ جو کچھ تم نے پھینکا ہے یہ جادو ہے‘‘ (سید مودودی)
’’پھر جب آئے جادوگرکہا ان کو موسی نے ڈالو جو تم ڈالتے ہو پھر جب انہوں نے ڈالا موسی بولا کہ جو تم لائے ہو سو جادو ہے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۴) وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَا مُوسَی۔ قَالَ ہِیَ عَصَایَ أَتَوَکَّأُ عَلَیْْہَا وَأَہُشُّ بِہَا عَلَی غَنَمِیْ وَلِیَ فِیْہَا مَآرِبُ أُخْرَی۔ قَالَ أَلْقِہَا یَا مُوسَی۔ فَأَلْقَاہَا فَإِذَا ہِیَ حَیَّۃٌ تَسْعَی۔ (طہ: ۱۷ ۔۲۰)

’’اور اے موسی یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟ موسی نے جواب دیا یہ میری لاٹھی ہے، اس پر ٹیک لگاکر چلتا ہوں، اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں، اور بھی بہت سے کام ہیں جو اس سے لیتا ہوں ۔ فرمایا پھینک دے اس کو موسی۔ اس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دوڑرہا تھا۔ (سید مودودی، اس پر ٹیک لگاکر چلتا ہوں ‘‘ کے بجائے کہنا چاہئے ’’اس کا سہارا لیتا ہوں‘‘ کیونکہ الفاظ میں صرف ٹیکنے کی بات ہے چلنے کی بات نہیں ہے، سہارا لینے کی ضرورت کھڑے رہنے کے لئے بھی ہوسکتی ہے، اور بھی کام ہوسکتے ہیں، جیسا کہ بعد میں ذکر ہے)
’’اور یہ کیا ہے تیرے داہنے ہاتھ میں اے موسی ۔ بولایہ میری لاٹھی ہے اس پر ٹیکتا ہوں اور پتے جھاڑتا ہوں اس سے اپنی بکریوں پر اور میرے اس میں کتے کام ہیں۔ اور فرمایا ڈال دے اس کو اے موسی۔ تو اس کو ڈال دیا پھر تب ہی وہ سانپ ہے دوڑتا ۔ (شاہ عبدالقادر، دونوں ترجموں میں ایک توجہ طلب بات یہ ہے کہ غَنَمِی کا ترجمہ بکریوں کے بجائے بھیڑ بکریوں کرنا چاہئے)

(۵) قَالُوا یَا مُوسَی إِمَّا أَن تُلْقِیَ وَإِمَّا أَن نَّکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَی۔ قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ إِلَیْْہِ مِن سِحْرِہِمْ أَنَّہَا تَسْعَی۔ فَأَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہِ خِیْفَۃً مُّوسَی۔ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّکَ أَنتَ الْأَعْلَی۔ وَأَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِکَ۔ (طہ:۶۵ ۔۶۹)

’’جادوگر بولے موسی تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟۔ موسی نے کہا نہیں تم ہی پھینکو۔ یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے موسی کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، اور موسی اپنے دل میں ڈر گیا۔ ہم نے کہا مت ڈرو، تو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے‘‘ (سید مودودی)
’’بولے اے موسی یا تو ڈال اور یا ہم ہوں پہلے ڈالنے والے۔ کہا نہیں تم ڈالو۔ پھر تب ہی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں اس کے خیال میں آئیں ان کے جادو سے کہ دوڑتے ہیں۔ پھر پانے لگا اپنے جی میں ڈر موسی۔ ہم نے کہا تو نہ ڈر ، مقرر توہی رہے گا اوپر۔ اور ڈال جو تیرے داہنے میں ہے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۶) قَالَ لَہُم مُّوسَی أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُون۔ فَأَلْقَوْا حِبَالَہُمْ وَعِصِیَّہُمْ وَقَالُوا بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ۔ فَأَلْقَی مُوسَی عَصَاہُ فَإِذَا ہِیَ تَلْقَفُ مَا یَأْفِکُون۔ (الشعراء: ۴۳ ۔۴۵)

’’موسی نے کہا پھینکو جو تمہیں پھینکنا ہے۔ انہوں نے فورا اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے۔ پھر موسی نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جارہا تھا‘‘ (سید مودودی)
’’کہا ان کو موسی نے ڈالو جو تم ڈالنے آئے ہو۔ پھر ڈالیں انہوں نے اپنی رسیاں اوراپنی لاٹھیاں اور بولے فرعون کے اقبال سے ہم ہی زبر رہے۔ پھر ڈالا موسی نے اپنا عصا پھر تبھی وہ نگلنے لگا جو سانگ انہوں نے بنایا تھا‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۷) إِذَا أُلْقُوا فِیْہَا سَمِعُوا لَہَا شَہِیْقاً وَہِیَ تَفُورُ۔ تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْْظِ کُلَّمَا أُلْقِیَ فِیْہَا فَوْجٌ سَأَلَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ نَذِیْرٌ۔ (الملک: ۷،۸)

’’جب وہ اس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دہاڑنے کی ہولناک آواز سنیں گے۔ اور وہ جوش کھارہی ہوگی، شدت غضب سے پھٹی جاتی ہوگی۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا‘‘ (سید مودودی)
’’جب وہ اس میں جھونکے جائیں گے اس کا دہاڑنا سنیں گے اور وہ جوش مارتی ہوگی۔ معلوم ہوگا کہ غصہ سے پھٹی پڑ رہی ہے۔ جب جب ان کی کوئی بھیڑ اس میں جھونکی جائے گی اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے کیا تمھارے پاس (اس دن سے) کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟‘‘ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا مقامات وہ ہیں جہاں القاء کا ترجمہ پھینکنا کرنے سے مفہوم میں کوئی واضح خرابی پیدا نہیں ہوتی ہے، گو کہ لفظ کی رعایت نہیں ہوپاتی ہے۔
اب آخر میں ہم وہ مقامات ذکر کریں گے، جہاں القاء کا ترجمہ پھینکنا کرنے سے مفہوم میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ جبکہ ڈالنا ترجمہ کرنے سے کسی طرح کی خرابی پیدا نہیں ہوتی ہے، اور مفہوم اچھی طرح اور اچھے پیرائے میں واضح ہوجاتا ہے:

(۱) وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَی إِلَی قَوْمِہِ غَضْبَانَ أَسِفاً قَالَ بِءْسَمَا خَلَفْتُمُونِیْ مِن بَعْدِیَ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّکُمْ وَأَلْقَی الألْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِیْہِ یَجُرُّہُ إِلَیْْہِ۔ (الاعراف: ۱۵۰)

’’اور جب موسی رنج اور غصہ سے بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف لوٹا، بولا تم نے میرے پیچھے میری بہت بری جانشینی کی۔ کیا تم نے خدا کے حکم سے پہلے ہی جلد بازی کردی؟ اور اس نے تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر اس کو اپنی طرف گھسیٹنے لگا‘‘(امین احسن اصلاحی) 
ألْـقَی الألْوَاح کے کچھ اور ترجمے بھی ذکر کئے جاتے ہیں:
’’اور تختیاں پھینک دیں‘‘ (سید مودودی)
’’اور ڈال دیں وہ تختیاں ‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اور ڈال دیں وہ تختیاں‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اور (جلدی سے) تختیاں ایک طرف رکھیں ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں ‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’اور تختیاں ڈال دیں ‘‘(احمد رضا خان)
یہاں تختیاں پھینک دینے کا ترجمہ بالکل درست نہیں ہے، کسی کی حرکت پر غصہ آجانے پر بھی ایک نبی تختیاں ایک طرف رکھ کر اپنے غصہ کا اظہار کرے یہ تو درست ہے، لیکن تختیاں پھینک دینے کا کوئی جواز نہیں نکلتا ہے، یہ ترجمہ بے محل بھی ہے، اور نامناسب بھی ہے۔ تختیاں رکھ دیں یا ڈال دیں کہیں تو یہ قباحت دور ہوجاتی ہے۔

(۲) أَنِ اقْذِفِیْہِ فِی التَّابُوتِ فَاقْذِفِیْہِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَأْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّہُ وَأَلْقَیْْتُ عَلَیْْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ۔ (طہ:۳۹)

’’کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے، دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے کا دشمن اٹھالے گا۔ میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کردی‘‘ (سید مودودی، القاء پھینکنے کے لئے نہیں آتا ہے، اور نہ ہی طاری کرنے کے لئے آتا ہے، تجھ پر محبت طاری کرنے کا مفہوم ہوگا کہ تو محبت کرے، نہ کہ تجھ سے محبت کی جانے لگے، اور یہاں یہ مراد نہیں ہے، بلکہ یہ مراد ہے کہ تجھ سے محبت کی جانے لگے، ترجمہ ہوگا: اور اپنی طرف سے تیری محبت ڈال دی)
’’کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دے تو دریا اسے کنارے پر ڈالے کہ اسے وہ اٹھالے جو میرا دشمن اور اس کا دشمن اور میں نے تجھ پر اپنی طرف کی محبت ڈالی ‘‘(احمد رضا خان)
’’کہ تو اسے صندوق میں بند کرکے دریا میں چھوڑ دے، پس دریا اسے کنارے لا ڈالے گا اور میرا اور خود اس کا دشمن اسے لے لے گا اور میں نے اپنی طرف کی خاص محبت ومقبولیت تجھ پر ڈال دی‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’(وہ یہ تھا) کہ اسے (یعنی موسیٰ کو) صندوق میں رکھو پھر اس (صندوق) کو دریا میں ڈال دو تو دریا اسے کنارے پر ڈال دے گا (اور) میرا اور اس کا دشمن اسے اٹھا لے گا۔ اور (موسیٰ) میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی ہے ‘‘(فتح محمد جالندھری)
اس آیت میں اس کا محل نہیں ہے کہ سمندر صندوق کو ساحل پر پھینک دے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت اختیار کرنا مراد نہیں ہے جس سے بچے کو اذیت پہنچ سکتی ہو، یا اس سے بے اعتنائی کا اظہار ہوتا ہو۔ اس آیت میں رکھنا اور ڈالنا ہی مراد ہے نہ کہ پھینک دینا۔ آخری جملے وَأَلْقَیْْتُ عَلَیْْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّی کا مفہوم یہ نہیں ہے آپ اللہ کے محبوب بن گئے، وہ تو آپ تھے ہی، اور نہ یہ ہے کہ آپ لوگوں سے محبت کرنے لگے، بلکہ یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ نے اپنی طرف سے لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دی۔ آپ اللہ کے محبوب تو تھے ہی، اللہ نے آپ کو لوگوں کا محبوب بھی بنادیا۔اور اس وقت فرعون کے دربار میں اور ملک کے اس ماحول میں بحفاظت نشوونما کے لئے یہ بہت ضروری انتظام تھا۔

(۳) اذْہَب بِّکِتَابِیْ ہَذَا فَأَلْقِہْ إِلَیْْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانظُرْ مَاذَا یَرْجِعُونَ۔ (النمل:۲۸)

’’میرے اس خط کو لے جاکر انہیں دے دے پھر ان کے پاس سے ہٹ آ، اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں‘‘ (محمد جونا گڑھی)
’’یہ میرا خط لے جا اور اسے ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے پھر آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’میرا یہ خط لے اور اسے ان لوگوں کی طرف ڈال دے، پھر الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں‘‘ (سید مودودی)

(۴) قَالَتْ یَا أَیُّہَا المَلَأُ إِنِّیْ أُلْقِیَ إِلَیَّ کِتَابٌ کَرِیْمٌ۔ (النمل: ۲۹)

’’ملکہ بولی اے اہل دربار، میری طرف ایک بڑا اہم خط پھینکا گیا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’وہ کہنے لگی اے سردارو میری طرف ایک باوقعت خط ڈالا گیا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’ملکہ نے کہا کہ دربار والو! میری طرف ایک نامہ گرامی ڈالا گیا ہے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں پھینکنے کا ترجمہ کسی طرح مناسب حال نہیں ہے، نہ تو پرندہ خط پھینکتا ہے، اور نہ باوقعت اور کریم خط کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ میری طرف پھینکا گیا۔

(۵) قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا وَلَکِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَاراً مِّن زِیْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاہَا فَکَذَلِکَ أَلْقَی السَّامِرِی۔ (طہ:۸۷)

’’انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے آپ سے کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزی اپنی مرضی سے نہیں کی۔ بلکہ قوم کے زیورات کا بوجھ جو ہمارے حوالہ کیا گیا تھا ہم نے اس کو پھینک دیا اور اس طرح سامری نے ڈھال کر پیش کردیا‘‘ (امین احسن اصلاحی، یہاں لفظ ’’موعد‘‘ وعدہ وعہد کے لئے نہیں ہے، بلکہ طے کردہ وقت اور جگہ کے لئے ہے، کہ جس وقت جس جگہ پہونچنے کے لئے کہا گیا تھا وہاں نہیں پہونچے )
’’بولے ہم نے خلاف نہیں کیا تیرا وعدہ اپنے اختیار سے ولیکن اٹھالئے ہم نے بوجھ گہنے سے اس قوم کے گہنے کے سو ہم نے وہ پھینک دئیے پھر یہ نقشہ ڈالا سامری نے‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’وہ کہنے لگے ہم نے جو آپ سے وعدہ کیا تھا اس کو اپنے اختیار سے خلاف نہیں کیا ولیکن قوم (قبط) کے زیور میں سے ہم پر بوجھ لد رہا تھا سو ہم نے اس کو (سامری کے کہنے سے آگ میں) ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے (بھی) ڈال دیا‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’انہوں نے جواب دیا ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے اور ہم نے بس ان کو پھینک دیا تھا۔ پھر اسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا‘‘ (سید مودودی)
’’وہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے اختیار سے تم سے وعدہ خلاف نہیں کیا۔ بلکہ ہم لوگوں کے زیوروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے اس کو (آگ میں) ڈال دیا اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا‘‘ (فتح محمد جالندھری)
اس آیت میں فَکَذَلِکَ أَلْقَی السَّامِرِیُّ کے مختلف مطلب لئے گئے ہیں، مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ سامری نے کچھ نہیں ڈالا، اور یہاں اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ کیا وہ سامری کے سجھانے پر کیا، وہ ترجمہ کرتے ہیں:
’’انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے آپ کے مقرر کئے ہوئے وقت کی خلاف ورزی اپنے اختیار سے نہیں کی۔ بلکہ قوم کے زیورات کا بوجھ جو ہمارے حوالہ کیا گیا تھا ہم نے اس کو ڈال دیا اور اس طرح سامری نے سجھایا ‘‘(امانت اللہ اصلاحی)

(۱۰۹) ألقی ساجدا کا ترجمہ

قرآن مجید میں جادوگروں کے سجدے میں جانے کا تذکرہ تین مقامات پر ہے، تینوں جگہ اس مفہوم کے لیے ألقي فعل مجہول کے صیغے میں استعمال ہوا ہے۔ مفسرین کے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جادوگر تو اپنی مرضی سے سجدے میں گئے تھے، پھر یہ فعل اور یہ صیغہ کیوں استعمال ہوا؟ اس کی مختلف توجیہیں بھی ملتی ہیں، ترجمہ کرنے والوں میں سے بعض لوگوں نے سب جگہ ڈالے گئے ترجمہ کیا، بعض لوگوں نے تینوں جگہ گرگئے ترجمہ کیا، جبکہ بعض لوگوں نے کہیں یہ ترجمہ کیا اور کہیں وہ ترجمہ کیا۔

(۱) وَأُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سَاجِدِیْنَ۔ (الاعراف: ۱۲۰)

’’اور ڈالے گئے جادو گر سجدے میں‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’اور ڈالے گئے ساحر سجدے میں ‘‘(شاہ عبد القادر)
’’اور جادوگر سجدے میں گرادئے گئے ‘‘(احمد رضا خان)
’’اور وہ جو ساحر تھے سجدہ میں گرگئے ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’اور وہ جو ساحر تھے سجدہ میں گرگئے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرادیا‘‘ (سید مودودی)
’’اور ساحر سجدے میں گرپڑے ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’(یہ کیفیت دیکھ کر) جادوگر سجدے میں گر پڑے‘‘ (فتح محمدجالندھری)

(۲) فَأُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّداً۔ (طہ:۷۰)

’’پس ڈالے گئے جادوگر سجدہ کرتے ہوئے‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’پھر گرپڑے جادوگر سجدہ میں ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’تو سب جادوگر سجدے میں گرادئے گئے ‘‘(احمد رضا خان)
’’سو جادوگر سجدہ میں گرگئے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’اب تو تمام جادوگر سجدے میں گرپڑے‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’تو جادوگر سجدے میں گرپڑے ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’آخر کو یہی ہوا کہ سارے جادوگر سجدے میں گرادئے گئے ‘‘(سید مودودی)
’’(القصہ یوں ہی ہوا) تو جادوگر سجدے میں گر پڑے ‘‘(فتح محمدجالندھری)

(۳) فَأُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سَاجِدِیْن۔ (الشعراء: ۴۶)

’’پس ڈالے گئے جادوگر سجدہ کرتے ہوئے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’پھر اوندھے گرے جادوگر سجدے میں‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اب سجدے میں گرے جادوگر ‘‘(احمد رضا خان)
’’یہ دیکھتے ہی جادوگر بے اختیار سجدے میں گرگئے ‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’تو ساحر بے تحاشا سجدے میں گرپڑے‘‘ (امین احسن اصلاحی، بے تحاشا کا محل نہیں ہے)
’’اس پر سارے جادوگر بے اختیار سجدے میں گرپڑے‘‘ (سید مودودی)
’’تب جادوگر سجدے میں گر پڑے‘‘(فتح محمدجالندھری)
عربی زبان کے لحاظ سے مناسب اور اردو محاورے کے لحاظ سے فصیح ترجمہ گرادئے جانے کا نہیں بلکہ گرپڑنے کا ہوگا۔ صورت واقعہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہے، جن لوگوں نے گرادئے جانے کا ترجمہ کیا ہے، انہوں نے یہ دیکھا کہ فعل مجہول استعمال ہوا ہے، لیکن یہ ایک اسلوب ہے، اس کا ترجمہ معروف لازم ہی کا ہوگا، دراصل ألقي یہاں ویسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح توفي مجہول استعمال ہوتا ہے، تاج العروس میں ہے تُوفِّیَ فلانٌ: اِذا ماتَ.توفي کا ترجمہ یہ نہیں کیا جاتا کہ اس کو وفات دی گئی، بلکہ یہ ہوتا کہ اس نے وفات پائی۔ تینوں آیتوں کا مناسب ترجمہ ہے جادوگر سجدے میں گرپڑے۔ اس اسلوب کی اور بھی مثالیں مل سکتی ہیں۔
علامہ ابن عاشور نے توجیہ یہ کی ہے کہ یہ تعبیر بے اختیارتیزی سے گرپڑنے کے لئے استعمال ہوتی ہے، اور چونکہ انہوں نے خود اپنے آپ کو سجدے میں گرایا تھا، اس لیے ألقي مجہول استعمال ہوا۔ 

والاِلْقاءُ: مستعملٌ فی سُرعۃِ الھُویِّ الی الأرضِ، أی: لمْ یتمالکوا أن سجدوا بدون تریث ولا ترددٍ۔ وبُنِیَ فعلُ الالقاءِ للمجھولِ لظھور الفاعلِ، وھو أنفسُھم، والتقدیرُ: وألقوا أنفسھم علی الأرض۔ (التحریر والتنویر: ۹؍۵۲)

(جاری)

استاذ القراء حضرت قاری محمد انور قدس اللہ سرہ العزیز

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ۱۴؍ فروری کو منعقد ہونے والی پندرہ روزہ فکری نشست میں مولانا زاہد الراشدی نے استاذ القراء حضرت قاری محمد انور صاحبؒ کے بارے میں گفتگو کی جو مولانا زاہد الراشدی کے حفظ کے استاذ تھے اور ابھی پچھلے دنوں ان کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا ہے۔ اس نشست میں ان کے حوالے سے کچھ یادداشتیں بیان کی گئیں اور آخر میں ان کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن کریم کی تلاوت اور دعا کی گئی۔)

بعدالحمدوالصلوٰۃ ! 
استاذالحفاظ، استاذا لقراء حضرت قاری محمدانور صاحبؒ کا چند روز پہلے مدینہ منورہ میں انتقال ہو گیا ہے ۔آپ ؒ میرے حفظ کے استاذتھے اور صرف میرے ہی نہیں بلکہ ہمارے پورے خاندان کے استاذ تھے۔ ہم سب بھائی بہنیں ان کے شاگردہیں۔الحمدللہ نو بھائیوں نے اورتین بہنوں نے حفظ کیا ہے۔ ایک بڑی بہن کے سواباقی سب کے استاذ وہی تھے، جبکہ گکھڑ میں اور گکھڑ کے ارد گرد سیکڑوں حفاظ کے استاذ تھے۔ گکھڑسے افریقہ کے ایک ملک میں تشریف لے گئے، وہاں بھی بیسیوں حفاظ کے استاذ ہیں۔ پھر مدینہ منورہ میں تقریباًپینتیس سال انہوں نے قرآن پاک پڑھایا ہے۔ وہاں بھی سیکڑوں حفاظ نے ان سے قرآن کریم حفظ کیا ہے۔ آج کی تقریب میں ان کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کروں گا۔
ان کے تعارف کے لیے دو تین باتوں کاتذکرہ ضروری ہے۔گکھڑمیں حضرت والدمحترم مولانامحمدسرفرازخان صفدرؒ ۱۹۴۳ء  میں آئے تھے۔ ۴۱،۴۲ء میں دارالعلوم دیوبندمیں دورۂ حدیث کیا تھا اور ۱۹۴۳ء میں گکھڑ بوہڑ والی مسجد میں بطورامام وخطیب کے تشریف لائے تھے اور ۲۰۰۹ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ساراعرصہ انہوں نے گکھڑ میں گزارا ۔جب تک صحت نے اجازت دی، وفات سے سات آٹھ سال پہلے تک، تو پانچوں نمازیں خود پڑھاتے تھے،صبح درس بھی دیتے تھے، جمعہ بھی پڑھاتے تھے ۔وہاں درس نظامی کامدرسہ تو تھا جس میں حضرت والدصاحبؒ جب سے آئے تھے، پڑھارہے تھے ۔ملک کے مختلف حصوں سے علماء آتے تھے ،وہاں رہتے تھے، پڑھتے تھے، لیکن حفظ کاکوئی باضابطہ مدرسہ نہیں تھا۔ حفظ کاباضابطہ مدرسہ تقریباً ۱۹۵۷ء میں بنا ہے۔ اس کاپس منظر یہ ہے کہ راہوالی سے گکھڑ جاتے ہوئے رستہ میں ایک گتہ فیکٹری ہوتی تھی۔ اب تووہ ختم ہوچکی ہے، لیکن بلڈنگ وغیرہ موجود ہے۔ اس کے ساتھ سیٹھی کالونی ہے۔ یہ گتہ فیکٹری کسی زمانے میں پاکستان کی بڑی گتہ فیکٹری ہوتی تھی۔ ایک مردان میں تھی، دوسری یہ تھی۔ اس کے مالک سیٹھی محمدیوسف صاحب ؒ نومسلم باپ کے بیٹے تھے۔ سیالکوٹ روڈ پر ایک قصبہ ہے ترگڑی، وہاں کے رہنے والے تھے ۔ان کے والد ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ حضرت مولانااحمدعلی لاہوری ؒ کے والدجلال کے تھے۔ ہمارے ایک اور بزرگ گزرے ہیں باوا جی عبدالحق ، ؒ یہ تلونڈی کھجور والی کے تھے۔ تلونڈی کھجور والی،جلال اورترگڑی، یہ تینوں قریب قریب علاقے ہیں، دو دوتین تین میل کافاصلہ ہے۔ یہ تینوں حضرات ایک ہی دورمیں مسلمان ہوئے تھے۔ حضرت لاہوریؒ کے والد سکھ سے مسلمان ہوئے تھے، باواجی عبدالحق ؒ ہندو پنڈت سے مسلمان ہوئے تھے اورسیٹھی صاحب کے والد ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ سیٹھی محمدیوسف صاحبؒ کے والد صاحب کو قرآن پاک سے بڑالگاؤ تھا، اپنے بیٹے کو بھی انہوں نے قرآن پاک کی طرف توجہ دلائی ۔ 
سیٹھی محمدیوسف صاحب گتہ فیکٹری کے مالک تھے اوراپنے زمانے میں ضلع گوجرانوالہ کے چند امیرترین لوگوں میں سے تھے ۔ذوق قرآن پاک کی خدمت کاتھا۔ ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ مدرسے بنائے جائیں۔ اس زمانے میں حفظ اورتجوید کے مدارس اکا دکا کہیں ہوتے تھے۔ ملتان ،کراچی،چنیوٹ سائڈ پر جہاں حضرت قاری رحیم بخش صاحبؒ اورحضرت قاری فتح محمدصاحبؒ کے کچھ شاگرد تھے،ہمارے اس علاقے میں حفظ کاکوئی مدرسہ نہیں تھا ۔سیٹھی محمدیوسف صاحب کاطریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ ان کے ساتھ ایک قاری صاحب ہوتے تھے، مولاناقاری عبدالحفیظ صاحبؒ ۔ اکوڑہ خٹک کے ساتھ شیدوشریف ایک جگہ ہے، یہ و ہاں کے تھے ۔سیٹھی صاحب قاری صاحب کو مختلف علاقوں میں لے کرجاتے ، مجمع کے سامنے قاری صاحب کوقرآن سنانے کاکہتے۔ قاری صاحب تلاوت کرتے ۔قاری صاحب قرآن پاک اچھا پڑھتے تھے پھر سیٹھی صاحب لوگوں کو کہتے ایسے ہی تم بھی پڑھا کرو ۔لوگ کہتے، ہم ایسے کس طرح پڑھیں؟ سیٹھی صاحب کہتے کہ اس کا بندوبست کرو، میں بھی حصہ ڈالتا ہوں۔یہاں کوئی مدرسہ بناؤ ،قاری صاحب رکھو، میں بھی حصہ ڈالتا ہوں۔ یہ ان کا طریقہ تھا۔
اب بھی وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ غالباً ۵۶ یا ۵۷ء کی بات ہے۔ میں اس وقت آٹھ نوسال کاتھا۔ سیٹھی صاحب ہماری مسجد میں تشریف لائے۔ جمعے کے دن حضرت والدصاحب ؒ سے کہا کہ خطبے سے پہلے مجھے پانچ سات منٹ دیں گے ؟انہوں نے کہا، ٹھیک ہے ۔سیٹھی صاحب نے قاری صاحب سے کہا، تلاوت کریں ۔انہوں نے مختصر سی تلاوت فرمائی۔ پھر سیٹھی صاحب نے کھڑے ہوکر دوتین منٹ بات فرمائی کہ قرآن پاک اچھے طریقے سے پڑھانا چاہیے، صحیح پڑھنا چاہیے،یاد کرنا چاہیے۔ جیسے قاری صاحب نے پڑھا ہے، تم بھی کوئی شوق پیداکرو اورکہاکہ جیسا قاری صاحب نے صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن پڑھا ہے، مولوی صاحب (مراد والدگرامیؒ )کے علاوہ یہاں کے مقامی لوگوں میں سے اگر کوئی اسی طرح ایک رکوع پڑھ کرسنادے تو پچاس روپے انعام دوں گا۔ اس زمانے کے پچاس روپے آج کے پانچ ہزار تھے۔ ایک بزرگ مہاجر تھے حافظ احمدحسن صاحبؒ (زاہداقبال خوشنویس کے والد)۔ انہوں نے کہا: میں سناتا ہوں۔ کہا:سنائیں ۔جب سنا چکے تو سیٹھی صاحب نے کہا، آپ مقامی نہیں ہیں ۔کہا: جی میں مقامی تو نہیں ہوں، مہاجر ہوں۔ سیٹھی صاحب نے کہا: میں نے مقامی حضرات سے کہا تھا۔ یہ کہہ کرسیٹھی صاحب نے ایک شوق پیدا کیا۔ فرمایا: ایسا کرو کہ کسی قاری صاحب کابندوبست کرو۔ قاری صاحب کو جو تنخواہ دو گے، آدھی تنخواہ میں دیاکروں گا۔ اسی پرفیصلہ ہوگیا کہ اب قاری صاحب رکھیں گے اور قرآن پاک حفظ ناظرہ کی کلاس شروع ہوگئی۔اس فیصلے کے تحت ہمارے پہلے استاذِ محترم قاری اعزازالحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ تھے جو امروہہ کے مہاجر تھے۔ ان کومقررکیا گیا۔ میں پہلی کلاس کا طالب علم تھا،مجھے اسکول سے اٹھاکر مدرسے میں ڈال دیاگیا۔ تب میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ چوتھی جماعت پڑھی تھی، امتحان نہیں دیا تھا ۔ گیارہ بارہ لڑکوں کی کلاس تھی۔ ہمیں قرآن پاک حفظ شروع کروادیا گیا۔ ناظرہ میں نے پہلے والدہ مرحومہ سے اوروالد صاحبؒ سے پڑھا ہوا تھا۔بات میں نے قاری صاحبؒ کی کرنی ہے، لیکن سیٹھی صاحب کا تعارف ضروری ہے۔ سیٹھی صاحب سارے ملک میں ایسا ہی کرتے تھے۔ فیکٹری کماتی تھی ،وہ خرچ کرتے تھے۔ اسی طرح ترغیب دلا کرمدرسہ بنواتے تھے، کہیں تجوید کا،کہیں حفظ کا۔ کہیں آدھی تنخواہ دیتے ،کہیں تیسراحصہ اور کہیں تو پوری تنخواہ خوددیتے تھے کہ تم قاری صاحب کورکھو ،تنخواہ میں دوں گا۔ 
ان کی گتہ فیکٹری کاایک مستقل شعبہ تھا، شعبہ تعلیم القرآن۔ اس شعبہ کے انچارج محمدحسین صاحب مرحوم تھے۔ایک مرتبہ شاید ۱۹۶۵ء کی بات ہے، میں نے ان سے پوچھا کہ ملک کے کتنے مدرسے ہیں جن کی سیٹھی صاحب اس طرح مدد کرتے ہیں؟ انہوں نے سیکڑوں میں تعداد بتائی جن کی سیٹھی صاحب اس طرح معاونت اور نگرانی کرتے ہیں ۔ پھرآہستہ آہستہ مدرسے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے اورسیٹھی صاحب کامقصد بھی یہی ہوتا تھاکہ میں ان کو سہارا دوں، یہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں۔ جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجاتے تو آپ پیچھے ہٹ جاتے کہ میراکام یہی تھا ۔سیٹھی صاحب مرحوم نے افریقہ میں اورسعودی عرب میں بھی بہت سے مدرسے بنوائے ہیں۔ہمارے استاذِمحترم قاری محمد انور صاحبؒ کویہ گکھڑ سے افریقہ لے گئے تھے، قاری صاحبؒ چند سال وہاں پڑھاتے رہے ۔
سیٹھی صاحب ؒ کے اللہ پاک درجات بلند فرمائیں، اللہ پاک جس سے کام لینا چاہیں ۔یہ بات شایدآپ کی سمجھ میں نہ آئے کہ سعودی عرب میں حفظ کاکوئی مدرسہ نہیں تھا اورتراویح میں قرآن مجید سننے سنانے کا سوائے حرمین کے کہیں رواج نہیں تھا۔ سعودی عرب میں حفظ کا پہلا مدرسہ حرمِ مکہ میں سیٹھی صاحب نے قائم کیا تھاجس کے پہلے طالب علم امامِ کعبہ شیخ عبداللہ بن السبیلؒ تھے جو بعد میں امام الحرمین بنے۔ حرمین شریفین کے حفظ کے پہلے استاذ زندہ ہیں، قاری خلیل احمدصاحب۔اب معذورہیں، آزادکشمیر کے ہیں۔ قاری خلیل احمدصاحب کاایک بیٹاحرمین کے ائمہ میں شامل ہے جن کانام غالباً محمد ہے۔ سیٹھی صاحب نے مدرسے بنوانے شروع کیے ۔جب تعدادخاصی بڑھ گئی توسعودیہ والوں کو خیال آیا کہ باہر کے آدمی خرچہ کر کے مدرسے بنوارہے ہیں۔ پیسے تو ہمارے پاس بہت ہیں، ہم خود یہ کام کیوں نہ کریں۔ اس طرح ان کوخیال آیااورانہوں نے نظام سنبھال لیا، لیکن آغازسیٹھی صاحب نے کیااورکئی سال تک کئی مدارس کاخرچہ یہاں سے بھجواتے رہے۔ ائمہ حرمین میں الشیخ حذیفی اورالشیخ السدیس بھی پاکستانی قاری صاحبان کے شاگردہیں اور قاری انور صاحبؒ کے تو وہاں سیکڑوں شاگردہیں۔ یہ وہاں کے ائمہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے پاکستانی قاریوں سے پڑھا ہے۔اس وقت بھی وہاں حضرت قاری بشیراحمدصاحب ملتانی ہیں، مدینہ منورہ میں عشاء کے بعدبیٹھتے ہیں اوربڑے بڑے لوگ ان کے پاس آکراپنا تلفظ صحیح کرتے ہیں۔
یہ ہمارے گکھڑ کے مدرسے کاپس منظر تھا، لیکن اتفاق کی بات تھی اوریہ ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ مزاج نہیں ملتے۔ ہم نے قرآن پا ک شروع توکردیا، لیکن کوئی قاری صاحب یہاں ٹکتے نہیں تھے یا محلے والے ٹکنے دیتے نہیں تھے۔ دونوں باتیں ہوتی ہیں، یاتو قاری صاحب کاا پناموڈ ٹکنے کانہیں ہوتا یا وہ ٹکنا چاہتا ہے، لیکن محلے والے ٹکنے نہیں دیتے۔ یہی سلسلہ چلتا رہا ۔ایک قاری صاحب آئے، وہ چلے گئے۔ دوسرے آگئے ،وہ چلے گئے۔ اسی طرح کئی قاری صاحبان ہمارے تبدیل ہوئے اورمسئلہ یہ تھا کہ جو قاری صاحب آتے، وہ نئے سرے سے شروع کرواتے کہ تم نے صحیح نہیں پڑھاہوا ،تمہاراتلفظ صحیح نہیں ،تمہارالہجہ صحیح نہیں ہے۔ ہم اسی الجھن میں تھے کہ کریں کیا ؟ہر پانچ چھ مہینے کے بعد نئے قاری صاحب آجاتے ہیں۔ بالآخراللہ پاک نے ہمیں حضرت قاری محمدانور صاحب ؒ عطا فرمائے۔ لاہور میں حفظ اور تجویدکا مدرسہ تجویدالقرآن سب سے قدیمی مدرسہ ہے۔ حضرت قاری فضل کریم صاحبؒ اورقاری محمدحسن شاہ صاحب ؒ ،قاری محمدظریف صاحب کامدرسہ تھا۔ ان سے حضرت والدصاحب ؒ نے کہا کہ کوئی اچھا ساقاری دو ،ہم نے مدرسہ چلانا ہے۔ حضرت قاری محمدانور صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہنے والے تھے، ابتدائی تعلیم انہوں نے دارالعلوم ربانیہ میں حاصل کی تھی۔ حفظ مکمل کیا تجویدالقرآن لاہور میں، تجوید قاری محمدحسن شاہ صاحب ؒ سے پڑھی تواس تعلق سے قاری محمدانور صاحبؒ یہاں تشریف لائے۔ یہ پھر ٹک کر بیٹھے، ایسے ٹک کر بیٹھے کہ الحمدللہ ہرطرف حافظ ہی حافظ ہوگئے۔
آپؒ بڑے اچھے استاذتھے۔ میں نے پھر ان سے حفظ کرنا شروع کیا۔ آپؒ بڑی شفقت فرماتے تھے ،اورڈنڈا بھی خوب چلاتے تھے۔ یہ تو ہوتا ہی ہے۔ویسے آج کا ماحو ل بدل گیا ہے، ورنہ ڈنڈا ہی انسان کو سیدھا رکھتاہے، لیکن زیادہ بھی نہ مارا جائے، ہلکی پھلکی مار میں کوئی حرج نہیں۔ ہم نے توخیر والد صاحبؒ سے بھی بہت ڈنڈے کھائے ہیں اورقاری صاحبؒ سے بھی بہت ڈنڈے کھائے ہیں ۔میں اس پرطلبہ کواپنا قصہ سنایا کرتا ہوں کہ ایک دفعہ ایساہوا کہ مجھے سبق یاد نہیں تھا، قاری صاحبؒ نے میرے دائیں ہاتھ پر پانچ ڈنڈے ٹکاکر مارے جو اَب تک مجھے یادہیں۔ میں آخر صاحبزادہ تھا، منہ بسورااوراٹھ کر گھر چلاگیا ۔والدہ مرحومہ اللہ پاک غریق رحمت کریں۔ وہ بھی گھر میں بچیوں کو ناظرہ اورحفظ پڑھاتی تھیں، اگرچہ خود حافظ نہیں تھیں ۔میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ اماں جی آپ سے کتنی بچیوں نے حفظ کیا ہے؟کہنے لگیں تیئس بچیوں نے۔ حالانکہ خود حافظ نہیں تھیں، نیم معروف پڑھتی تھیں۔ اس زمانے میں یہی ہوتا تھا۔ گھرمیں روزانہ ان کامدرسہ ہوتا تھااوروہ پڑھاتی تھیں۔ انہوں نے بھی ڈنڈا رکھاہواتھا۔ میں قاری صاحبؒ سے مار کھاکر گھر آگیا۔ والدہ مرحومہ نے دیکھا کہ سبق کے وقت میں یہ گھر پھررہا ہے۔ مجھے بلاکر پوچھا۔ میں نے منہ بسور کر جواب دیا :قاری صاحب نے مارا ہے ۔میرے ذہن میں تھا کہ ماں مجھے سینے سے لگائے گی ، دلاسہ دے گی اورقاری صاحب کودوچارسنائے گی کہ قاری کون ہوتاہے میرے بچے کومارنے والا ۔مجھ سے پوچھا:اچھا بیٹے! کیوں ماراتھا؟ میں نے کہا: سبق یادنہیں تھا۔ کس چیز سے مارا تھا ؟میں نے کہا :ڈنڈے سے۔کتنے ؟ پانچ ۔کہاں مارا ؟ دائیں ہاتھ پر۔ والدہ مرحومہ نے اپناڈنڈاپکڑااور میرے بائیں ہاتھ پر چھ ڈنڈے مارے اور کہا، چلوپہنچو مدرسے۔
اس وقت مجھے بہت غصہ آیا اورآنابھی تھا، لیکن آج اماں جان کودعائیں دیتا ہوں کہ اگراس وقت میری ماں مجھے سینے سے لگاکر سہارادے دیتی اورگھر میں بٹھالیتی تو ہم آج یہ کچھ نہ ہوتے جوہیں۔ پتہ نہیں کدھر کدھر پھرتے ، کیا ہوتا اور کہاں ہوتا۔میں کہتا ہوں کہ سارا کمال ان چھ ڈنڈوں کاہے۔ ایمانداری کی بات ہے، بزرگوں کی دعائیں اور ماں کے ہاتھ سے کھائے ہوئے ڈنڈے یہی دوچیزیں کام آگئیں، ورنہ میراکانٹا بدل چکاہوتا اور گاڑی کا کانٹا ہی بدلنا ہوتا کہ وہ اِدھر سے اُدھر ہوجاتی ہے۔قاری صاحب ؒ مارتے بھی تھے، لیکن اگر کبھی سمجھتے کہ زیادہ مار لیا ہے تو بلا کر چائے بھی پلاتے تھے۔ ایک دن مجھے ڈنڈے زیادہ لگ گئے تو میں پریشان بیٹھا تھا کہ قاری صاحب نے مارا بہت ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد چائے منگوائی ،مجھے بلایا اوئے مولوی! ادھر آ (مجھے مولوی ہی کہتے تھے)،چائے پی لے۔میں حیران کہ ابھی مار رہے تھے اوراب چائے پلا رہے ہیں ۔مجھ سے فرمایا: بیٹا !ہم مارتے ہیں تو کسی وجہ سے مارتے ہیں۔یہ ان کاانداز تھا۔ میں قاری صاحب سے حفظ کرتا رہا۔ میراحفظ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۶۰ ؁ ء کو مکمل ہوا۔ قاری صاحبؒ مجھ پر بہت مہربان تھے۔ بڑی شفقت فرماتے تھے۔ قاری صاحبؒ نے دوتین سال اپنے ساتھ مجھے قرآن کریم کادورکروایا ہے۔ آپ گکھڑ کی مسجد میں قرآن مجید سنایا کرتے تھے،میں ان کاسامع ہوتا تھا ۔پھراپنی نگرانی میں پہلا مصلیٰ سنانے کے لئے مجھے بھیجا ۔میں نے پہلا مصلیٰ بدوکے گوسائیاں کینٹ میں سنایا تھا۔
گکھڑ ہی کی دو باتیں اور ذکر کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ استاذ، استاذ ہوتا ہے اور جس طالب علم پر استاد کی نظر ہو، اسے کیمیا بنادیتا ہے۔ مجھے تقریر کرنابھی حضرت قاری صاحبؒ نے سکھایاہے، ورنہ قاری صاحب ؒ کاتقریر سے کیا تعلق ؟قاری صاحب ؒ نے ہمیں حفظ کے دوران تجویدکا رسالہ زینۃالقرآن سبقاًسبقاًپڑھایا اور مجھے کھڑاکر کے کہتے، اوئے مولوی! کیا سبق پڑھا ہے؟ بیان کرو ۔مجھ سے تقریر کرواتے تھے ۔ گکھڑ میں کبھی کبھی مولانا قاری سیدحسن شاہ صاحبؒ تشریف لایا کرتے تھے۔ آپؒ قاری بھی بہت اچھے تھے اورخطیب بھی بہت اچھے تھے ۔ قاری محمدانور صاحبؒ کبھی جلسہ کرواتے تو شاہ صاحب ؒ کو بلاتے تھے ۔مجھے کچھ جملے رٹا کر،کچھ چیزیں یاد کرا کر پہلے کھڑا کردیتے کہ تقریر کرو۔ کبھی لکھ کر دیتے، میں یاد کرتا اور پھر مجمع کے سامنے تقریرکے اندازمیں بیان کرتا۔ 
ایک واقعہ میں عموماً سنایا کرتا ہوں کہ روڈ پر جلسہ تھا، شاہ صاحبؒ کی تقریر تھی، ان سے پہلے قاری صاحبؒ نے مجھے تقریر کرنے کے لئے کھڑا کردیا ۔میں مائیک پر کھڑا ہوا اوربازو چڑھاکر قادیانیوں کے خلاف تقریر کرنا شروع کردی اور مرزاقادیانی کو پنجابی میں دوچار گالیاں دیں کہ مرزابے ایمان ،مرزایہ، مرزا وہ ۔دوچارجوسنائیں تو والد صاحبؒ نے پیچھے گردن سے مجھے پکڑا اور پیچھے بٹھا دیا۔ خود مائیک پر آکر ارشاد فرمایا :بچہ ہے ،جذبات میں غلط باتیں کرگیا ہے ،میں معافی مانگتا ہوں ۔حالانکہ میں نے جو کچھ کہا تھا، مرزا کو کہا تھا۔ میں کہا کرتا ہوں کہ ہم آج کل مائیک پر کھڑے ہوکر کیا کچھ نہیں کہتے؟ میں اپنی بات کیا کرتا ہوں کہ میری تربیت اس ماحول میں ہوئی ہے، اس لیے میری زبان سے سخت لفظ کی کسی شدید ترین مخالف کے لیے بھی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ الحمدللہ !میں آج اپنے کسی شدید ترین مخالف کانام بھی لیتا ہوں تو احترام کے ساتھ لیتا ہوں۔ خیر، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جو بولنے اور تقریر کرنے کی صلاحیت اور ذوق ہے، اس کی ابتدا بھی حضرت قاری صاحب ؒ نے کی تھی ۔
ایک اور واقعہ حضرت قاری صاحبؒ کا ذکرکرناچاہتا ہوں۔ ۱۹۷۷ء میں تحریک نظامِ مصطفی چلی جو بہت بڑی تحریک تھی۔ گکھڑ میں حکومت کے خلاف تحریک نظامِ مصطفی کا جلوس تھا۔ ایک فورس ہوتی تھی، فیڈرل سیکورٹی فورس (ایف ایس ایف کہلاتی تھی) جلوسوں کوکچلنے کے لئے۔حضرت والدصاحبؒ نے قیادت کرنی تھی ،گورنمنٹ نے پابندی لگادی کہ جلوس نہیں نکالیں گے، لیکن جمعہ کے بعد والدصاحبؒ کی قیادت میں لوگ جلوس کے لئے جمع ہوگئے کہ جلوس نکالیں گے۔ جلوس جب آگے بڑھا تو فورس کے کمانڈر نے ایک لکیر کھینچ دی اور چاروں طرف سپاہی کھڑے کردیے اورکہا کہ جو اس لکیر کوعبور کرے گا، اسے گولی ماردیں گے ۔اس زمانے میں ایسے ہوتا تھا۔ اب بغیروارننگ کے مارتے ہیں، اس وقت وارننگ دے کر مارتے تھے ۔اس کایہ اعلان سن کر سناٹا چھاگیا کہ یہ کیا ہوا اورچاروں طرف سپاہی گنیں نشانہ پرلیے ہوئے کھڑے تھے کہ کون لکیر عبور کرتاہے اور پھر کیا ہوتا ہے۔ اُدھر فورس کھڑی ہے، اِدھر یہ ہیں ۔حضرت والدصاحبؒ اوروالد گرامی کے ساتھ دو آدمی اورایک حضرت قاری محمد انور صاحبؒ اور ایک گکھڑ کے حاجی سیدڈارتھے، یہ تین آدمی جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ آگے بڑھے اورکلمہ شہادت پڑھتے ہوئے لکیر عبور کرگئے اوروالد صاحبؒ نے ایک جملہ کہا کہ مسنون عمر پوری کر چکا ہوں، اگر اب شہادت مل جائے تو بڑی سعادت کی بات ہے۔ کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے لکیر عبور کرگئے،سب سناٹے میں آگئے ،کسی کو کچھ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔یہ بھی قاری صاحبؒ کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے کہ انہوں نے اس طرح اپنی جان کی پروا کیے بغیر ساتھ نبھایا۔
حضرت قاری صاحبؒ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو میں کبھی کبھی جایا کرتا تھا۔ بہت واقعات ہیں، دو تین عرض کرتا ہوں۔
پہلی دفعہ ۱۹۸۴ء میں جب میں مدینہ منورہ گیا توآپؒ وہاں پڑھاتے تھے۔ میں نے آپ ؒ کواطلاع دی تھی کہ میں فلاں وقت آرہا ہوں۔ میرازندگی میں مدینہ منورہ جانے کا پہلا موقع تھا۔ راستے کا پتہ نہیں تھا، اس لئے جووقت بتایا تھا، اس سے دو تین گھنٹے لیٹ پہنچا ۔قاری صاحبؒ میرے بتائے ہوئے وقت پر آئے، اڈے پر ڈیڑھ، دو گھنٹے تلاش کرتے رہے۔ میں نہ ملا توپریشان واپس چلے گئے ۔میں مدینہ منورہ دیرسے پہنچا ۔وہاں عصر سے مغرب تک کلاس ہوتی ہے ،وہ عصر اول وقت میں پڑھتے ہیں، جیسے ہمارے ہاں اہل حدیث حضرات پڑھتے ہیں۔ عصراور مغرب کے درمیان خاصا وقت ہوتا ہے۔ میں نے عصر کی نماز پڑھی اورتلاش کرتے کرتے قاری صاحبؒ کی کلاس تک پہنچ گیا ۔مجھے جونہی دور سے دیکھا تو بے ساختہ فرمایا:اوئے مولوی !کان پکڑ لے۔میں نے بیگ نیچے رکھا اورمرغا بن گیا ۔آپؒ اٹھ کر آئے اور کہا :ارے میں نے یہ تو نہیں کہا تھا ۔ میں نے عرض کیا یہ نہیں کہا تھا تواور کیا کہا تھا ؟ فرمایا :اللہ کے بندے! میں دو گھنٹے پریشان رہا ،تمہیں ڈھونڈتا رہا، تم نہیں ملے تو میں واپس آگیا۔ میں نے معذرت کی کہ مجھے راستے کاعلم نہیں تھا، اس لئے دیر ہوگئی ۔سچی بات ہے حضرت قاری صاحبؒ کووہاں پڑھاتے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی تھی کہ میرے استاذِمحترم ہیں اورمدینہ منورہ میں بیٹھے پڑھا رہے ہیں ۔فجرکی نمازکے بعد مسجد نبوی کے برآمدے میں بیٹھ کر طلبہ کی منزلیں سنا کرتے تھے اور میں قریب کسی ستون کی اوٹ میں کھڑا دیکھتا اورخوش ہوتارہتاکہ کیا خوش نصیبی ہے کہ مسجد نبوی کے برآمدے میں بیٹھے شاگردوں کی منزلیں سن رہے ہیں۔ بڑی خوشی ہوتی تھی اور بڑا رشک آتا تھا۔ میں اپنااعزازسمجھتا کہ میرے استاذِ محترم ہیں اور یہاں بیٹھے پڑھا رہے ہیں۔
میراہرسال، دو سال بعدوہاں چکر لگ ہی جاتا ہے۔ میں ان کے پاس جاتا ،ملتا، کچھ دیر ان کے پاس ٹھہرتا ۔کوئی ساتھی ملتا تو میں اسے تعارف کرواتا کہ یہ میرے استاد محترم ہیں۔ ایک دن کہنے لگے : اس طرح نہ کہا کرو ۔میں نے کہا: کیوں؟ فرمایا :مجھے شرم آتی ہے۔ میں نے بے تکلفی میں کہا :مجھے شرم نہیں آتی،آپ کوکیوں آتی ہے ۔میں تو ایسے ہی کہوں گا، کیاآپ مجھے ڈنڈے نہیں مارتے رہے؟ مجھے وہ ڈنڈے یادہیں۔ ان کی ڈاڑھی دیر سے سفید ہوئی ہے ۔ایک دور وہ بھی گزرا ہے کہ میری ڈاڑھی سفید تھی، ان کی کالی تھی ۔میں یہ کہتا کہ یہ میرے استاذ ہیں تو لوگ حیران ہوتے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے ۔ میراجب بھی مدینہ منورہ جانا ہوتا توان کااصرار ہوتا تھا کہ میرے پاس ٹھہرو ۔ہمارا ان کے ساتھ محبت وعقیدت کاگہراتعلق تھا اور ان کابھی صرف میرے ساتھ ہی نہیں، ہمارے پورے خاندان کے ساتھ شفقت کاتعلق تھا۔ ہمارے خاندان کاکوئی آدمی عمرے یاحج پر جاتا تو قاری صاحبؒ کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔ بہت خوش ہوتے کہ مولوی صاحبؒ کے بچے آئے ہیں، بیٹے آئے ہیں، بھانجے آئے ہیں اوربڑی خدمت اور بڑااعزاز فرماتے تھے۔ ایک دفعہ میں گیا تو بتایا نہیں اور قاری ریاض انصاری صاحب کے بیٹے حافظ محمد یحییٰ ابوبکر فاضل نصرۃالعلوم کے پاس ٹھہر گیا۔مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد نبوی میں حضرت قاری صاحبؒ کی چھتری متعین ہوتی تھی۔ پہلی صف کی دوسری چھتری کے ساتھ بیٹھاکرتے تھے ۔قاری صاحبؒ سے جاکر ملا۔ انہوں نے پوچھا :کب آئے ہو؟ میں نے بتایا: کل آیا تھا۔کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا: ابوبکر کے پاس ۔ فرمایا:سامان اٹھاکرگھر آجاؤ۔ابوبکر کو کہا :چلو جاؤ، مولوی کاسامان اٹھا کرابھی یہاں لے آؤ۔اس شفقت اور عنایت کا برتاؤ فرماتے تھے۔
ہمارے ہاں الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں ایک دفعہ تشریف لائے۔ آخر عمر میں بیمار ہوگئے تھے ۔میں نے پروگرام بنایا کہ ان کے اس علاقے میں بہت سے شاگرد ہیں تو قاری صاحبؒ کے جو شاگرد میرے علم میں تھے، ان کو یہاں اکٹھا کیا، ایک نشست کی اور قاری صاحبؒ کو دعوت دی۔ قاری صاحبؒ تشریف لائے اوربہت زیادہ خوش ہوئے کہ یہ تو تم نے بڑا کام کردیا ،میں کس کس کے پاس جاتا،کس کس سے ملتا۔تم نے اکثر شاگردوں سے اکٹھے ملاقات کروا دی ۔
پچھلے سال سعودی حکومت کی دعوت پر میراحج پر جانا ہوا۔ وہ پروٹوکول کاحج تھا۔ مدینہ منورہ میں ہم تین چار دن ٹھہرے تھے ۔شام کو میں حسبِ معمول ملنے کے لیے گیا تو قاری صاحب مسجد میں نہیں آرہے تھے،معذور تھے۔ ان کے گھر گیااورملاقات کی۔ان سے مل کر ،تھوڑی دیربیٹھ کر واپس اپنے ساتھیوں کے پاس آگیا۔ دوسرے دن برادرم محمداشفاق (یہ ان کے بیٹے ہیں ،ہمارے بھائی ہیں) کا فون آگیا کہ ابوجی آپ سے ملنے کے لیے آنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مولوی کو ملنے ہوٹل میں جانا ہے ۔ میں نے کہا :کیوں ،وہ کیوں آئیں،میں خود حاضرخدمت ہوں گا ۔یہ غلطی نہ کرناکہ قاری صاحب مجھے ملنے میرے پاس آئیں،میں خود حاضر ہو ں گا ۔ شام کو پھر میں آپؒ کے گھر گیا اور ملاقات کی۔ آپ ؒ بڑی محبت، عزت کرتے تھے، بڑی شفقت سے نوازتے تھے ۔
آپؒ کافی عرصے سے وہاں رہ رہے تھے کچھ عرصہ پہلے ایک الجھن پیدا ہوگئی کہ سعودیہ نے کچھ ایسے قوانین نافذ کیے کہ لگتا تھا کہ شایدان کو واپس آنا پڑے گا کہ وہاں کی شہریت نہیں تھی۔ سعودیہ والے شہریت نہیں دیتے ۔ میں ان کے پاس گیا تو کہنے لگے کہ سعودیہ والے اب شاید نکال دیں گے، میں تو یہاں دفن ہونے کی نیت سے آیا ہوں۔ دعاکرومیرے لئے۔میں نے کہا: اللہ پاک مہربانی فرمائیں گے، نیتوں کو اور نیتوں کے خلوص کواللہ پاک جانتے ہیں ۔اس سال میں وہاں نہیں جاسکا ۔استاذِمحترمؒ حج کے موقع پرساتھیوں سے پوچھتے رہے کہ مولوی نہیں آیا،کیوں نہیں آیا؟ مجھے بھی حسرت رہی کہ پچھلے سال ہی ملاقات ہوئی تھی ۔جی چاہتا تھا کہ کوئی موقع مل جائے اورملاقات کا کوئی وسیلہ بن جائے ۔سچی بات ہے کہ میں تو ان کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ میرا دعاؤں کا خزانہ مسجد نبوی میں بیٹھاہواہے اتنی زیادہ دعائیں دیتے تھے کہ ان کے چلے جانے کے بعد میں دعاؤں کے کنکشن سے محروم ہو گیا ہوں اورجب کبھی روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دیتے تو میری طرف سے سلام کہتے اور بے شمار دعائیں دیتے تھے۔
پچھلے دنوں ہمارے لیے دو تین صدمے اکٹھے ہی آگئے۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحبؒ کا انتقال ہوا، ابھی ان کا جنازہ بھی نہیں ہوا تھا کہ مدینہ منورہ سے فون آگیا کہ حضرت قاری صاحبؒ فوت ہوگئے ہیں۔ ابھی اسی صدمے میں تھے کہ تیسری خبرآگئی کہ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی ؒ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ یہ دو دن میں تین ایسی خبریں سن کر میری عجیب کیفیت تھی کہ یا اللہ کیا کریں۔بہت صدمہ تھا اپنے بزرگوں کی جدائی کا۔ سچی بات ہے کہ باپ ہی کی طرح تھے،باپ ہی کی جگہ تھے۔ بہرحال اللہ پاک ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور ہمیں ان کے صدقہ جاریہ کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اقلیتوں سے متعلق مسلمانوں کے فکری تحدیات

ڈاکٹر محمد ریاض محمود

(شعبہ علوم اسلامیہ، گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ۳۰، ۳۱ دسمبر ۲۰۱۶ء کو ’’معاصر مسلم معاشروں کو درپیش فکری تحدیات‘‘ کے عنوان سے منعقدہ قومی کانفرنس کے لیے لکھا گیا۔)

اسلام روحانی اورمادی اعتبارسے ایساانسان دوست دین ہے جس میں تمام طبقات کے لئے امن،محبت، ترقی، خوشحالی، رواداری اوراحترام کی ہدایات ملتی ہیں۔(۱) یوں اسلامی فکروفلسفہ سے وابستہ کسی بھی سیاسی،معاشی یاسماجی نظام میں ظلم، تعصب،جانبداری، حق تلفی یاکسی قسم کے امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں۔اسی اعلیٰ ظرفی اور شانداربصیرت کی کرشمہ سازی تھی کہ مختلف ادوارمیں قائم ہونے والی مختلف علاقوں کی مسلم حکومتوں نے غیرمسلم اقلیتوں کو بڑی فراخ دلی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ برداشت کیا بلکہ ان کی سیاسی حیثیت اور نسلی شناخت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں مختلف شعبہ ہائے حیات میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دیا۔مختلف مذاہب کے حاملین سے عدل اورمساوات کی بنیاد پرمعاملات کوطے کیاگیا،مذہبی اختلافات کو ہوادینے کے بجائے تحمل،ایثاراوربات چیت کے ذریعے مسائل کوحل کرنے کی راہ ہموارکی گئی،عقائدکے اختلاف کی وجہ سے گالی اوربلاتحقیق الزام تراشی کوناپسندکیا گیا۔(۲)حل تنازعات کے لیے مثبت رویے اپنانے کی تعلیم دی گئی۔(۳) مسلم فکرپران تعلیمات کااثریہ ہوا کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی گئی، ان کی تعلیم وتربیت کوترجیحی بنیادوں پراہمیت دی گئی،ان کواپنے مذہبی وسماجی تہوارمنانے میں آزادی فراہم کی گئی اورانہیں عبادت گاہیں تعمیرکرنیکی اجازت دی گئی۔غیرمسلموں کے ساتھ مسلمانوں کی رواداری اوراُن کے حسن سلوک کی تصدیق وتحسین معروف مستشرقین نے بھی کی ہے۔سرولیم میورکے الفاظ کامفہوم ملاحظہ ہو: 
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بشپوں، پادریوں اور راہبوں کویہ تحریردی کہ اُن کے گرجاگھروں اورخانقاہوں کی ہر چیز ویسے ہی برقرار رہے گی۔ کوئی بشپ اپنے عہدہ،کوئی راہب اپنی خانقاہ اورکوئی پادری اپنے منصب سے معزول نہیں کیا جائے گا۔ اُن کے ا ختیارات وحقوق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی نیزجبروتعدی سے کام نہیں لیا جائے گا۔‘‘ (۴) 
معروف ہندومحقق ونقادشری سندرلال جی کے الفاظ اس طرح ہیں: 
’’حکمران کی حیثیت سے محمدصاحب نے غیرمسلموں کویہاں تک کہ بت پرستوں کوبھی اپنی ریاست کے اندررہتے ہوئے اپنے مذہبی مراسم اداکرنے کی پوری پوری آزادی بخشی اوراُن کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرناہرمسلمان کافریضہ قراردیا۔لااکراہ فی الدین مدنی آیت ہے اورمحمدصاحب کی پوری زندگی اس آیت کی جیتی جاگتی تصویرہے‘‘۔ (۵) 
ساری اسلامی تاریخ مسلمانوں کے غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے شواہدپرمشتمل ہے خصوصاً برصغیرمیں سلاطین دہلی اورمغل حکمرانوں کامذہبی رواداری کوفروغ دینے کے ضمن میں کردارنہایت شاندار اور قابل فخر ہے۔ (۶) یہ مثالی صورتِ حال اُس وقت قائم نہ رہ سکی جب بعض انتہاپسندعناصرنے مذہبی اختلافات کی بنیادپرتشدداورتوہین آمیز رویوں کواختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ایسے غیرذمہ دارانہ اورناعاقبت اندیش رویوں کاہی نتیجہ ہے کہ آج ایسی فضا پیدا ہو گئی ہے کہ جس میں نہ صرف یہ کہ مذہبی اقلیتیں خوف وہراس کاشکار ہو کر رہ گئی ہیں بلکہ مسلمانوں میں موجودبہت سے سنجیدہ حلقے بھی اس پرافسوس،پریشانی،حیرت اورتشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ شدت پسندی پرمبنی اس ہلاکت خیز بیان نے مسلم اُمہ کوابہام اورفکری انتشار سے دوچار کردیاہے،اسلامی ریاست کی نوعیت وحیثیت کی تشریح و توضیح پر اختلافات سامنے آئے ،(۷) قوم اسلامی ریاست، مسلم ریاست،دینی ریاست،قومی ریاست اورجدیدریاست کی لفظی موشگافیوں میں پھنس کررہ گئی ہے،(۸) بعض علماء نے اس ضمن میں قدیم فقہی اصطلاحات کااستعمال کیا ہے، اُنہوں نے دار الاسلام اور دارالحرب کی تقسیم کرکے جدیدسیاسی، عالمی اورجغرافیائی حقائق اوراِن کے پس منظر کو نظرانداز کردیا ہے۔(۹) جہاد جو ایک مقدس فریضہ ہے اس کی عصری تعبیرات نے قوم کونظریاتی طورپرپریشانی اورابہام میں مبتلا کر دیا ہے، اب قوم کااس معاملے پر متفقہ موقف سامنے آنامحال نظرآرہاہے۔(۱۰)
مسلم ریاستوں کے غیرمسلم باشندگان اہل ذِمہ،اہل صلح،معاہدین اور محاربین کی اصطلاحات کے الجھاؤ میں اپنا وجود تلاش کررہے ہیں،اُن کی وفاداریوں پربلاوجہ شک کیاجارہاہے،بعض حلقہ یہ تاثردینے کی کوشش میں ہیں کہ اِن غیرمسلموں کے مغربی طاقتوں سے خفیہ روابط ہیں اوروہ مسلمانوں کے زیر انتظام علاقوں اور ممالک کے خلاف کسی بین الاقوامی منصوبہ بندی اورسازش کاحصہ ہیں۔بعض طبقات ایک عجیب قسم کی نفسیاتی کیفیت میں مبتلاہیں جس کے مطابق حقیقی دشمن پرقابونہ پانے کی صورت میں کسی امکانی یافرضی دشمن کوہدف بنا کر ذہنی تسکین حاصل کی جاتی ہے،چونکہ دورِ حاضر میں ترقی یافتہ مغربی ممالک کے خلاف کسی قسم کاقدم اُٹھانامسلم حکومتوں اورتشددپریقین رکھنے والے بعض مسلم طبقات کے بس کی بات نہیں،اس لئے وہ اپنے ممالک میں موجودکمزوراوربے بَس اقلیتوں کوہدف بناتے اوراپنا غصہ نکالتے ہیں۔ 
ایک مخصوص مذہبی طبقہ اپنے آپ کوبرصغیرکے نوآبادیاتی دورمیں رواج پانے والی مختلف المذاہب مناظرانہ کشمکش کا آج بھی حصہ سمجھتاہے،(۱۱) دیگر مذاہب کے علمی مصادرسے کسی بھی درجے میں اخذ واستفادہ کونامناسب خیال کیا جاتا ہے۔ توہین رسالت جوکسی بھی مذہب میں ایک ناپسندیدہ اورقابل مذمت فعل ہے(۱۲) خصوصاً مسلمان اس حوالے سے اپنی ایک شانداراورغیرت مندانہ تاریخ رکھتے ہیں، اس تصور کوضد،انااورناسمجھی کی بھینٹ چڑھادیاگیاہے۔ دنیا کے ا یک بڑے حصے پراسلام کے فروغ کا واحد ذریعہ تبلیغ، دعوت،حسن اخلاق اورتصوف رہا ہے، مگرآج نوبت یہ آگئی ہے کہ غیرمسلموں کے قبولِ اسلام پرسوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں ایسی قانون سازی کی جارہی ہے کہ ایک مخصوص عمر تک کوئی شخص اپنامذہب تبدیل نہ کر سکے۔ 
مذہبی اقلیتیں سیاسی میدان میں اپنی شناخت کوکس طرح قائم رکھیں،اِن کاقانون سازاداروں میں پہنچنے کا طریقہ کار کیا ہو،؟ اِن معاملات پرعجیب ابہام پایاجاتاہے،اقلیتوں کے طریقہ انتخاب میں باربارتبدیلیاں کی جا رہی ہیں، کبھی وہ براہِ راست اپنے ہم مذہبوں کیے ووٹ لے کرمنتخب ہوتے ہیں اورکبھی وہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے رحم وکرم پرہوتے ہیں کیونکہ اُنہیں بالواسطہ طورپرمنتخب ہوناہوتاہے،سیاسی جماعتیں اپنے غیرمسلم نمائندوں کی فہرست ترجیحی بنیادوں پر ترتیب دیتی ہیں جن کے مطابق حاصل کردہ کل ووٹوں کے تناسب سے یہ نمائندے اسمبلی کی رکنیت حاصل کرتے ہیں۔اقلیتوں میں موجودسیاسی بصیرت کے بہت سے حاملین اس سرگرمی کوالیکشن کے بجائے سلیکشن خیال کرتے ہیں۔ (۱۳)یوں اقلیتیں تسلسل کے ساتھ تجربات کی زد میں ہیں، کبھی انہیں ایک ووٹ کاحق دیاجاتاہے اورکبھی دُہرے ووٹ کا۔(۱۴)علاوہ ازیں قانون سازی کے مختلف مراحل میں اقلیتوں کونظراندازکئے جانے کی شکایات بھی عام ہیں، مذہبی میدان میں یہ ایک اہم سوال ہے کہ اقلیتوں سے متعلق قانون سازی کرتے وقت مسلمانوں کی رائے کوکس حدتک دخل حاصل ہے اور خود اقلیتوں کی رائے کو کتنی اہمیت دی جائے،آج تک کوئی اصول اورضابطہ اس ضمن میں طے نہیں کیاجاسکا۔یہ امربھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ مذہبی اقلیتوں کی مقدس کتب اوراُن کی تاریخ کوتعلیمی نصاب کاحصہ بنایاجائے یااس سے گریز کیا جائے۔ 
مسلم اُمہ اقلیتوں سے متعلق فکری طورپردوطبقات میں تقسیم ہے،ایک طبقہ قدامت پسندجب کہ دوسراروشن خیال ہے۔ مسلمانوں کی یہ داخلی فرقہ بندی کسی ایک مؤقف پرامت مسلمہ کوجمع نہیں ہو نے دیتی۔یہ سوال وضاحت طلب ہے کہ پاکستان میں شریعت اسلامیہ غالب ہے یاملکی وغیرملکی قوانین کی پاسداری کی جائے گی۔ علاوہ ازیں اقلیتوں سے متعلق مختلف علمی موضوعات پرگفتگوکے بارے میں بہت سے ذہنی الجھاؤ موجود ہیں مثلاً علمی میدان میں اختلاف کرنے کی حدود کیا ہیں؟ کون کس معاملہ میں کتنا اختلاف کرسکتا ہے اور کیوں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کے لیے برداشت کی بڑی قوت درکارہے۔مسلم امہ فکری اورنظریاتی طورپر اسی نوعیت کے بہت سے سوالات، ابہامات اورعلمی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ اس پس منظرمیں یہ سوال بڑااہم ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے بارے میں معاملات کوطے کرتے وقت کیاحکمت عملی اختیارکی جائے۔اسلامی ریاست، جہاد، دہشت گردی،توہین رسالت، قبولِ اسلام کی حدودوشرائط،حق اختلاف، اقلیتوں کی مذہبی شناخت اوراُن کاحق تبلیغ مذہب،مختلف قومیتوں کاوجوداوراستحکام،اقلیتوں کاقانون سازی میں کرداراورمختلف المذاہب طلبہ کے لیے نصابِ تعلیم ایسے معاملات ہیں جن پردرست اوریک سومسلم فکرکیاہے اوراس کے تقاضوں کو کس طرح روبہ عمل لایا جا سکتا ہے۔ (۱۵) ایسے ہی علمی وفکری اورنظریاتی سوالات کے جوابات تلاش کرنے اور اس ضمن میں درپیش چیلنجز کو سمجھنے اوراُن کی حساسیت کااندازہ کر نے کے لئے موضوعِ تحقیق کے طور پر ’’اقلیتوں سے متعلق مسلمانوں کودرپیش فکری تحدیات‘‘ کا انتخاب کیاگیاہے۔ذیل میں اُن فکری چیلنجز کا تجزیہ پیش کیاجاتاہے جومسلمانوں کواقلیتوں سے متعلق درپیش ہیں۔ 

۱۔ مذہبی تکثیریت کی اہمیت وحساسیت کاعدم احساس

تنوع کائنات کاحسن اورقدرت کی تخلیق کاایک بنیادی اصول ہے،انسانی زندگی میں موجودرنگارنگی کا شعوراوراس کی حکمتوں کی تفہیم خدا شناسی میں معاون ہے۔آسمانوں اورزمین کوپیداکرنا،انسانوں کے درمیان زبانوں اوررنگوں کے مختلف ہونے کوقرآن مجیدنے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں قرار دیاہے۔(۱۶) شکل وصورت اوررنگ ونسل کی انفرادیت کے باعث انسانوں کے درمیان میلانات،جذبات،رجحانات،خیالات اور ترجیحات کااختلاف ہے۔یہ اختلاف قدرت الٰہی کا کرشمہ اورایک اہم معاشرتی ضرورت ہے۔اس تنوع اور رنگارنگی کی حکمتوں سے واقف ہونامعاشرتی اورمذہبی میدان میں نہایت مفیدہے۔دنیامیں مختلف المذاہب لوگ رہتے ہیں ان کی مذہبی ونسلی شناخت کااحترام،ان کے حقوق اوران کی ترجیحات کاعلم خوش گوارمعاشرت کاایک لازمی تقاضاہے۔کثیرالعقائدیامذہبی تکثیریت پرمبنی معاشرے کس طرح بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرتے ہیں، اس حقیقت کاادراک مذہب سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔پاکستان مذہبی،نسلی،لسانی، جغرافیائی،معاشی اورسماجی تنوع کاحامل ملک ہے۔اس تنوع کو ایک فلاحی اورصحت مندمعاشرے کی بنیادرکھناتھی، لیکن فہم اورتربیت کے فقدان نے ایساممکن نہ ہونے دیا۔ علم وفکر اور شعور وآگہی کے اسی زوال نے پاکستان کواپنے حقیقی مسائل کے حل سے دوررکھا۔مذہبی تکثیریت کی نوعیت، اہمیت، فوائد اور محاسن کاعدم شعورہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جوکسی قوم کواقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کوقومی دھارے میں شامل کرنے سے روکے رکھتاہے۔مختلف المذاہب لوگوں کاباہم مل جل کررہنا، اعتدال وتوازن کے رویوں کوجنم دیتاہے۔اوراگرلوگ دیگر افراد معاشرہ کی اہمیت سے ہی آگاہ نہ ہوں توانواع واقسام کے تضادات اورعدم برداشت کے رویے پاتے ہیں۔اس پس منظرمیں مذہبی تکثیریت کے مختلف پہلوؤں کافہم نہایت ضروری ہے۔کثیرالعقائدمعاشر ے علمی وفکری اعتبارسے بڑے زرخیز واقع ہوتے ہیں۔اس زرخیزی کامشاہدہ وتجربہ مسلمانوں نے عباسی اوراُندلسی ادوارِ حکومت میں خوب کیا،ان مثالی ادوار میں مسلم 150غیرمسلم تعلقات اس حدتک خوشگوارتھے کہ اعلیٰ ترین سطح کی تعلیم وتحقیق کیلئے قائم کئے گئے اداروں کی سربراہی کئی مرتبہ غیرمسلم ماہرین علم وفن کوسونپی گئی۔دورِجدیدمیں مسلم معاشروں کویہ چیلنج درپیش ہے کہ مذہبی وثقافتی تنوع کی اہمیت کااحساس رکھنے والوں کی تعدادبہت کم ہے۔تنوع ایک قوت ہے،اسے دبانے کے بجائے قبولیت سے نوازا جائے اوردوسروں کوجگہ بنانے کاموقع فراہم کیاجائے۔ 

۲۔اقلیتوں کے حقوق سے متعلق احساسِ ذمہ داری کافقدان

مذہبی،سماجی اورسیاسی اعتبارسے اقلیتوں کاوجودکسی بھی ملک کیلئے ایک اہم اورحساس معاملہ ہے۔کسی بھی ملک کی آزادی، ترقی اوراستحکام کااندازہ اس امرسے لگایاجاتاہے کہ اس میں بسنے والی اقلیتیں،کتنی مطمئن اورخوشحال ہیں،انہیں کس حدتک قومی دھار ے میں شامل کیاگیاہے(۱۷)، ان کے تعلیمی ادارے کتنے بااختیار اور مؤثرہیں، ریاست کے ساتھ اُن کی وابستگی کی گہرائی کتنی ہے اوراُن کے حقوق کی ادائیگی کیلئے اکثریتی آبادی کیانقطہ نظررکھتی ہے ؟نیزاس نقطہ نظرکاعملی اظہار اُن میں کس درجے تک پایاجاتاہے؟یہ تمام سوالات ساری پاکستانی قوم سے تقاضاکرتے ہیں کہ اقلیتوں سے متعلق نہایت مثبت اورحوصلہ افزا رویہ رکھاجائے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ اس ضمن میں کوئی قابل ذکرکارنامہ منظر عام پرنہیں آیا بلکہ احساسِ ذمہ داری کے فقدان نے منصوبہ سازوں کی منفی کارکردگی سے پردہ اٹھادیاہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم آج تک بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کی ۱؍۱اگست ۱۹۴۷ ء کی اُس تقریرکی مبہم تشریحات میں پھنسے ہو ئے ہیں جس میں اُنہوں نے پاکستان کی غیرمسلم اقلیتوں کویہ یقین دلایاتھاکہ اُن کے مذہبی وسیاسی حقوق پوری طرح محفوظ ہوں گے اور ریاست پاکستان اس ضمن میں کوئی جانب دارانہ رویہ اختیارنہیں کرے گی۔(۱۸)اس پس منظرمیں یہ امر نہایت ضروری ہے کہ اقلیتوں کے وجودکودلی طورپرنہ صرف یہ کہ تسلیم کیاجائے بلکہ اُن کی خوشحالی وترقی کیلئے شعوری کوششیں کی جائیں۔ 

۳۔ اسلامی ریاست اوراقلیتوں کی حیثیت کے بار ے میں ابہامات

فکری میدان میں مسلم امہ کوآج جن چیلنجزکاسامناہے اُن میں اسلامی ریاست کاوجوداور اُس کی نوعیت وتشکیل بڑے نمایاں ہیں۔آج تک یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے،مسلم ریاست ہے،قومی ریاست ہے، اسلامی جمہوریہ ہے یادارالاسلام ہے۔(۱۹)اسی طرح اس ملک میں رہنے والے غیرمسلم فقہ اسلامی کی رُو سے کس حیثیت اور درجے کے مالک ہیں،اہل کتاب اورغیر اہل کتاب کی بحث اس ضمن میں نمایاں اہمیت کی حامل ہے،(۲۰)علاوہ ازیں معاہدین، اہل ذِمہ،اہل صلح اورمحاربین ایسی فقہی اصطلاحات کی مددسے اُن کی قانونی حیثیت کاتعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ (۲۱) علم وفکراورفہم ودانش کے میدان میں یہ عجیب وغریب الجھاؤقوم کواقلیتوں کے بار ے میں یک رُخ ہونے سے روکے رکھتے ہیں۔ 

۴۔جہادسے متعلق نامناسب تعبیرات وتاویلات

جہادکی حیثیت اوراس کے مقاصدوطریقہ ہائے کارکواسلام میں کیااہمیت حاصل ہے، یہ وہ بنیادی سوال ہے جو اہل مغرب مسلمانوں سے تکرارکیساتھ کرتے آئے ہیں۔کیونکہ مسلمانوں کی طرف سے جہادسے متعلق مختلف الجہات تشریحات منظرعام پر آچکی ہیں۔ان تعبیرات و تشریحات نے علمی دنیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے کام کرنیوالی تنظیموں کو بھی ایک عجیب اُلجھن میں مبتلا کر دیا ہے۔ عصر حاضر میں ’’جہاد‘‘ ایک حساس موضوع قرارپایاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی وسعت وقبولیت کاسہرا دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ جہادی سرگرمیوں کے سر ہے۔اس مخصوص تاریخی ونظریاتی پس منظرمیں جہادنہ صرف یہ کہ اجروثواب کے حصول کا باعث ہے بلکہ اقوام عالم کیساتھ مسلمانوں کے تعلقات کی نوعیت کا تعین بھی کرتاہے۔مخمصہ یہ ہے کہ عصر حاضرمیں تصورِجہادکی مختلف تعبیرات سامنے آئی ہیں۔ایک حلقہ اسے ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ سمجھتے ہوئے کفارکودعوت اسلام کی جانب راغب کرتاہے اورکفاراس دعوت کوقبول نہ کریں تواُن کے خلاف جہادی سرگرمیوں کاآغازکر کے اُنہیں اپنازیرنگیں بنالیناچاہتاہے۔ایک دوسراحلقہ جہادکومحض مسلمانوں کے دفاع اور غیرمسلموں کے ظلم کے خاتمے کی ایک تدبیرقراردیتاہے۔سیدمودودی ؒ نے اس تصورکوپوری دنیا پر اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کر نے سے تعبیرکیاہے۔ (۲۲) ان کی رائے میں اسلام شخصی اعتقادمیں توکفروشرک کو گوارا کرتا ہے، لیکن کسی ایسے نظامِ حکومت کاوجوداسے قبول نہیں جس میں خدائی قانون کے علاوہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کیا گیا ہو۔ (۲۳)
مولاناامین احسن اصلاحی کاموقف ہے کہ اللہ تعالیٰ باطل نظام کے انتشارکوبھی اُس وقت تک پسند نہیں کرتاجب تک اس بات کاامکان نہ ہو کہ جولوگ اس باطل نظام کودرہم برہم کررہے ہیں وہ اس کی جگہ پرکوئی نظامِ حق بھی قائم کرسکیں گے۔ انارکی اور بے نظمی کی حالت ایک غیرفطری حالت ہے بلکہ انسانی فطرت سے اس قدرپیچیدہ کہ تعمیر انسانیت کے لیے زہر قاتل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی جماعت کوجنگ چھیڑنے کااختیارنہیں دیاہے جوبالکل مبہم اورمجہول ہو، جس کی اطاعت ووفاداری کاامتحان نہ ہواہو،جس کے افراد منتشر اورپراگندہ ہوں،جوکسی قائم نظام کوتودرہم برہم کرسکتے ہوں، لیکن اس بات کاکوئی ثبوت اُنہوں نے بہم نہ پہنچایاہوکہ وہ کسی انتشارکومجتمع بھی کرسکتے ہیں۔(۲۴)
یعنی وہ جہادوقتال کے عمل کواتنی زیادہ پابندیوں کے ساتھ مشروط کرتے ہیں کہ جن کااہتمام کرنا،فی نفسہٖ ایک پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے۔ان مختلف تعبیرات نے جہادکے نام پرکام کرنے والی مختلف تنظیموں کو جہادکے نت نئے مفاہیم اور اسالیب اختیار کرنے کی گنجائش فراہم کردی ہے۔یہ غیرمحدودگنجائش اقلیتوں سے متعلق مسلم طرزِ فکرکوبعض اوقات منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔ مسلم ممالک میں بعض مسلمان تنظیموں کی طرف سے اقلیتوں کے ساتھ روارکھے جانے والے نامناسب سلوک کو اسی پس منظرمیں سمجھنے اوراس کاحل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ 

۵۔قانون توہین رسالت کے استعمال پراقلیتوں کے تحفظات

مقدس ہستیوں،مقدس کتب خصوصاً انبیاء ورُسل سے متعلق نازیباکلمات واندازکسی بھی معاشر ے میں برداشت نہیں کئے جاتے مگر پاکستان میں ایک مخصوص قانون نے اس ساری صورتِ حال کواقلیتوں سے وابستہ کر دیا ہے۔ اقلیتیں اس قانون کے حوالے سے شدیدعدم تحفظ کاشکار ہیں،اس قانون سازی کاپس منظریہ ہے کہ برصغیرکی انگریزحکومت نے اس ضمن میں کچھ اقدامات کئے۔کسی مذہب کی عبادت گاہ کونقصان پہنچانایااس کے تقدس کوکسی بھی طریقے سے پامال کرنا، 1860ء کے قانون کی دفعہ 295کے تحت قابلِ تعزیرجرم قرارپایا، قیامِ پاکستان کے بعداسی قانون میں کئی ترامیم کی گئیں۔ ان ترامیم میں مذہبی شعائر،قرآن مجید اور انبیاء ورسل کی توہین پربھی سزاؤں کااعلان کیاگیا۔نظریاتی پس منظراپنی جگہ پر، عمل کے میدان میں اس قانون کاشکاراقلیتیں ہی ہوتی آئی ہیں۔اس حقیقت کاایک افسوسناک پہلویہ ہے کہ جن پرتوہین مذہب یا توہین رسالت کاالزام لگتا ہے، اُن پرعدالت میں جاکرجرم ثابت کرنے کے بجائے حملے کئے جاتے ہیں اور انہیں ماورائے عدالت قتل کردیاجاتاہے۔اس پرتشدداورخوفناک ماحول کے پیشِ نظرجج اوروکلاء ایسے مقدمات کی سماعت اور کاروائی کوآگے بڑھانے سے قصداً گریزکرتے ہیں۔ اس قتل وغارت میں ملوث انتہاپسند ذہنیت رکھنے والے لوگ کسی قانونی کاروائی سے محفوظ رہتے ہیں۔مذہبی اقلیتوں کاتاثریہ ہے کہ اصولی ونظریاتی طورپراگریہ قانون درست بھی ہے تو اس کے عمل درآمدمیں بہت سی ناانصافیاں موجود ہیں۔ (۲۵) اِن حالات میں عدالتیں دباؤمیں کام پرمجبورہیں اورذرائع ابلاغ اپنی غیرجانب داریت کوقائم رکھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔افسوس کامقام یہ ہے کہ اس خطرناک اورگمبھیر صورتِ حال کی اصلاح کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ابھی تک منظر عام پرنہیں آئی ہے۔کسی بھی مہذب معاشرے میں بلاتحقیق وتفتیش کسی شخص کو کسی جرم کا مرتکب قراردینا،قطعاً ظلم اورناقابل برداشت فعل ہے۔اس رویے کی تائیدوحمایت مسلم تاریخ ومصادر سے بھی نہیں ہوتی ہے۔اقلیتوں سے متعلق اس فکری چیلنج کوسمجھے اور اس پرمناسب فیصلہ سازی کئے بغیرامن، خوشحالی اور فراہمی انصاف کے کسی دعوے کی تصدیق وتائید نہیں ہوسکتی۔ 

۶۔تبدیلی مذہب سے متعلق حالیہ قانون سازی

اقلیتوں کی طرف سے یہ شکایات اکثرموصول ہوئی ہیں کہ اُن کی لڑکیوں کوزبردستی مسلمان بناکرشادیاں کرلی جاتی ہیں، نیزاُن کے نا بالغ بچوں کے مذہب بھی تبدیل کئے جاتے ہیں۔(۲۶) اگریہ سب کچھ درست ہے تونہایت قابل افسوس ہے، اس ظالمانہ اورغیراسلامی روش کاسدباب مسلم اُمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اسی پس منظرمیں گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی نے اقلیتوں کے حقوق کے عنوان سے ایک بل منظورکیاہے جس کے مطابق کسی غیرمسلم کے اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے اسلام لانے پرپابندی عائدکردی گئی ہے اوراسے قابل تعزیر جرم قراردیاگیاہے۔اس بل کی منظوری حقائق کومسخ کرنے کی کوشش ہے ا وریہ ساری کاروائی عدل کے تقاضوں کے خلاف ہے۔امر مسلمہ ہے کہ اسلام میں کسی کوزبردستی مسلمان بناناقطعاً جائز نہیں اورایسی کسی کوشش کو روکنابھی درست ہے جس میں کسی شخص پرتبدیلی مذہب کے لیے دباؤ ڈالا جائے، لیکن دوسری طرف اپنی مرضی سے ا سلام لانے پرپابندی لگاکرکسی کو دوسرے مذہب پرباقی ر ہنے کے لئے مجبورکرنا بھی بدترین زیادتی ہے۔ اگرکوئی نابالغ بچہ مسلمان ہوناچاہے تواُسے ر وکنابنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اس قابل اعتراض قانون کومنسوخ کیاجا ئے، البتہ اگرتبدیلی مذہب کے لیے کسی زبردستی یا جبر کا ارتکاب کیاجائے تو اس کے مرتکب افرادیااداروں کے خلاف موثرکاروائی ضرورکی جائے۔ 

۷۔ آئینی تضادات

اقلیتوں کے حقوق اوراُن کے سماجی رُتبہ کابراہ راست تعلق آئین اورقانون سے ہے۔بہت سے ایسے قانونی اور سماجی معاملات ہیں جن کے بارے میں آئین میں تضادات ہیں۔آئین ایک طرف شریعت کی پاسداری کی ضمانت دیتاہے تودوسری طرف بین الاقوامی اداروں کے بیان کردہ انسانی حقوق کی ادائیگی کایقین دلاتاہے۔ دلچسپ اورقابل غورنکتہ یہ ہے کہ شریعت کے کئی امورایسے ہیں جوکہ مختلف اداروں کے بیان کردہ انسانی حقوق سے مختلف بلکہ متصادم ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم نظریاتی واصولی طورپرایسی چیزیں طے کرلیں کہ کہاں شریعت پرعمل ہوگااورکہاں بین الاقوامی قوانین پر۔ یہ فیصلہ ہوناچاہئے کہ موجودہ بین الاقوامی قانون کی حیثیت کیاہے،کیونکہ تمام مسلم ممالک نے مختلف بین الاقوامی معاہدات کوتسلیم کررکھاہے اورانہوں نے بین الاقوامی عرف کی پابندی کی یقین دہانی کرارکھی ہے۔اس پس منظرمیں بین اقوامی معاملات میں چنداصولوں کو قانونی طورپر مسلمات کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، (۲۷) یوں جب تک معاصربین الاقوامی قانون کی حجیت یاعدمِ حجیت کا فیصلہ نہ کر لیا جائے، اُس وقت تک اقلیتوں کے بار ے میں واضح حکمت عملی کاتعین کرنا ایک نہایت مشکل معاملہ ہے۔ 

۸۔ دورِ جدیدکے مسلمات سے عدم واقفیت

اقلیتوں سے متعلق عدم برداشت کے رویوں کے بہت سے نفسیاتی وجذباتی اسباب بھی ہیں، بعض لوگ جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اورتحقیق وتنقیدکوبالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی دینی ترجیحات کاتعین کرتے ہیں۔ وہ ایسے قدیم لٹریچرکی بنیادپررائے قائم کرتے ہیں جوکہ دورِ جدیدمیں اپنی حیثیت گنواچکاہے۔ زمانے کے تغیرات نے مسلمات کوبدل کررکھ دیا ہے، اس علمی وفکری اورسماجی ارتقاء کوسمجھے بغیرمعاملات دنیاکی تفہیم ناممکن نہیں توازحدمشکل ضرورہے۔افسوس کامقام یہ ہے کہ ہم آج تک مذہبی اقلیتوں کے بار ے میں ذمی، معاہد، اہل صلح،محارب اورمفتوح ایسی مخصوص فقہی اصطلاحات کے معانی ومفاہیم کے تعین میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اقلیتوں سے متعلق غوروفکرکرتے ہوئے ہمیں تغیرپذیرعالمی حالات کی نوعیت وحساسیت کو سمجھناہوگا۔عالمی اداروں اوران کے چارٹرز کو نظر انداز کر کے ہمیں کیامشکلات پیش آسکتی ہیں، اُن پربھی نظرکرنے کی اشدضرورت ہے۔ 

۹۔اقلیتوں سے متعلق امورمیں غیرتحقیقی رویے

اقلیتوں کے لیے مسائل پیداکرنے میں اکثریتی آبادی کے جذباتی اورغیرتحقیقی رویوں کوبڑادخل حاصل ہے۔ مذہبی اشتعال پیداکرنے والے اکثر واقعات کی تحقیق وتفتیش جب بھی کی گئی تومعلوم ہواکہ اصل مسئلہ وہ نہیں جس کاشہرہ تھا۔ توہین رسالت اورقرآن مجیدکونذرِ آتش کرنے کے بہت سے واقعات کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے پس منظرمیں ذاتی انتقام، غصہ اورتعصب کارفرماتھا۔(۲۸) اقلیتوں سے متعلق امورمیں غیرتحقیقی رویوں کو اختیار کرنا ایک ایسا مذہبی وسماجی مسئلہ ہے جس کے اثرات پاکستان مسلسل بھگت رہاہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ بحیثیت قوم تمام معاشرتی طبقات کو عدل، مساوات اورتحقیق کاپابندکیاجائے۔ 

۱۰۔علمی مکالمات کافقدان

قومی وبین الاقوامی مسائل کے حل میں علمی مکالمہ کاکردارانتہائی اہمیت کاحامل ہوتاہے، مذہبی اقلیتوں کے مسائل کیا ہیں؟ ان کے اسباب ومحرکات کیاہیں؟مذہبی اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں کون سے عوامل وعناصرموثر ہوسکتے ہیں؟ اس ضمن میں مذہب ہماری کیارہنمائی کرتاہے؟یہ وہ سوالات ہیں جن کاجواب ایک موثرعلمی مکالمہ ہی فراہم کرسکتاہے۔ کیونکہ مکالمہ دوطرفہ عمل ہے جس میں مسئلہ کے تمام پہلوؤں پربحث ہوتی ہے۔ مکالمہ سے گریز، ضد، اشتعال اورغیرسنجیدگی کی علامت ہے۔مکالمے کی عدم موجودگی کامطلب یہ ہوتاہے کہ افرادواقوام نے اپنے تمام مسائل حل کرلئے ہیں یاپھریہ کہ تمام طبقات کی علمی صلاحیتیں کمزورپڑگئی ہیں۔ اس علمی کمزوری کافائدہ مخصوص مفاداتی طبقات اٹھاتے ہیں۔یہ طبقات تشدد اور عدم برداشت کی راہ ہموارکرتے ہیں اورمعاشرے میں شکست وریخت کاباعث بنتے ہیں۔مذہبی اقلیتوں کے وجود، ان کے تشخص اور اُن کے سیاسی ومذہبی حقوق پربات چیت سے گریزکرنا،پاکستانی مسلمانوں کیلئے ایک اہم نفسیاتی اور فکری چیلنج ہے۔علمائے کرام،اہل دانش، پالیسی سازشخصیات اورعام لوگوں کواس چیلنج کی حساسیت کااحساس کرتے ہوئے اقلیتوں کے سماجی،علمی،سیاسی اورمذہبی معاملات میں گنجائش اوروسعت کا پہلوتلاش کرناہوگاجوکہ مؤثرمکالمہ کے بغیر ممکن نہیں۔ 

۱۱۔اپنے دائرہ اختیارسے تجاوزکرنے کے رجحانات

اقلیتوں سے عدم رواداری کاایک اہم سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے دائرہ اختیار سے لاعلم ہیں،وہ ہرچیزکو انفرادی اور ذاتی حیثیت میں اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگراس کوشش میں وہ ناکام ہوجائیں تو انتہائی اقدام کرنے سے گریزنہیں کرتے،اس بات کی فکرکم ہی ہوتی ہے کہ یہ عمل یاردعمل میرے دا ئرہ اختیارمیں بھی ہے یا نہیں۔ توہین رسالت اور قرآنی اوراق جلانے کے ردعمل میں جتنے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، اُن میں کبھی کسی نے یہ نہیں خیال کیاکہ ان واقعات پرردعمل دینااس کے دائرہ اختیارسے باہرہے نیزوہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس عمل کا جواب دہ نہیں ہے۔اگرعدالتی نظام کومضبوط بنایاجائے اوراس نظام پر اعتمادکیاجائے توریاست ایسے واقعات سے زیادہ بہترطورپرنمٹ سکتی ہے۔ریاستی نظام کی تمام ترکمزوریوں کے باوجودکسی فردکویہ حق نہیں دیاجاسکتاکہ وہ قانون کواپنے ہاتھ میں لے اورکسی قسم کی مذہبی اشتعال انگیزی کاباعث بنے۔ 

۱۲۔اختلافِ رائے کے اصول وآداب کی عدمِ تفہیم

مختلف معاملات میں افرادِمعاشرہ کامختلف نقطہ ہائے نظرکاحامل ہوناایک فطری امر ہے۔تمام لوگوں کی علمی وفکری اور ذہنی وجسمانی صلاحیتیں ایک جیسی نہیں ہوسکتیں کیونکہ ان کی معلومات،مشاہدات اورتجربات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگر اختلافِ رائے کے اظہار کے لیے مناسب مواقع فراہم نہ کئے جائیں تویہ اختلاف اپنی حدودسے تجاوزکرجاتاہے جس کے منفی اور برے نتائج بھگتناپڑتے ہیں۔اختلافِ رائے کا مقصد بلاوجہ اپنی رائے پراصرارنہیں ہے بلکہ دستیاب وسائل کی روشنی میں ٹھوس ثبوت کی بنیادپراپنی رائے خوبصورت اندازمیں دوسرے کے سامنے پیش کرناہے۔اگر دوسروں کے پاس بہتر ثبوت اوردلائل موجودہوں توان کو سناجائے اور انہیں اپنی رائے پرقائم رہنے کاحق دیاجائے۔اختلافِ رائے کے اصول وآداب کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔اختلافِ رائے کی صورت میں تحقیقی رویوں کوفروغ دیاجائے،مخالف اوراس کی رائے کااحترام کیا جائے اوریہ تسلیم کیاجائے کہ غلطی کاامکان ہر وقت موجود رہتاہے۔ ان اصول وآداب کوسمجھنااورانہیں استعمال کرناکثیرالمذاہب معاشروں کے افراد کیلئے بہت ضروری ہے۔مسلم امہ کا ایک المیہ عہد حاضرمیں یہ ہے کہ اختلافِ رائے کے معنی ومفہوم پرتوجہ نہیں دی جاتی نیزاس کے آداب و شرائط کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ رجحان مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی اور اس ضمن میں مناسب ذہن سازی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ 

۱۳۔متوازن نصابِ تعلیم

تعلیمی نصاب کسی قوم کی نظریاتی اساس کے تحفظ کاضامن ہوتاہے،اسے متوازن ومعتدل اورمختلف معاشرتی طبقات کے لیے یکساں طورپر قابل قبول ہوناچاہئے۔نصاب میں کسی مذہب کی توہین ایک نامناسب بات ہے،اکثریتی آبادی کے مذہبی فلسفہ کوہی اگرنصاب قرارپاناہے تومتحدہ ہندوستان میں ’’بندے ماترم‘‘ کے گیت پرمسلمانوں نے جواحتجاج کیا تھا، اس کی کیاحیثیت رہ جاتی ہے؟ہندواکثریت میں تھے،مسلمانوں نیاکثریت کیاس طرزِعمل کوکیوں قبول نہیں کیا تھا؟ یقیناً اس سوال کا جواب صرف یہ ہے کہ ہرطالب علم کاحق ہے کہ اسے برابری کے اصول پرتعلیم وتربیت کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ جو عقائدو افکاراس کے مذہب سے مناسبت نہ رکھیں، اُسے اُنہیں پڑھنے پرمجبورنہ کیاجائے۔یہ ہمارافکری تضاد ہوگا کہ ہم غیرمسلم بچوں کو اسلام پڑھنے کاپابندکریں اورجہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں دیگرمذاہب کی تدریس پر احتجاج کریں اور ناراضگی کااظہارکریں۔ معقولیت اسی میں ہے کہ اکثریت اپنی رائے دوسروں پرٹھو نسنے سے گریز کرے۔ 

۱۴۔تنازعات کے خاتمے میں غیرسنجیدگی کامظاہرہ

ایک ہی ماحول ومعاشرہ میں مختلف العقائدلوگوں کی موجودگی سے کسی نہ کسی تنازعہ یا تناؤکاپیداہوجانافطری امر ہے لیکن اربابِ فکرودانش افراداوراقوام کے د رمیان تنازعات کوسنجیدگی کے ساتھ ختم کر نے کے لیے پرعزم ہوں تومعاشرہ مذہبی ہم آہنگی کی بہترین تصویرپیش کرسکتاہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ مختلف اوقات میں پیش آنے وا لے نامناسب سلوک کے نتیجے میں جوتنازعات سامنے آیا ان کے حل کر نے میں بہت زیادہ سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آئی۔قومی سطح پراس احساس کی بیداری اشدضروری ہے کہ اگرکسی معاملہ میں کوئی مذہبی اختلاف اشتعال کی شکل اختیار کرنے لگے توفوراًایسے اقدامات کئے جائیں جن سے ماحول پرامن منزل کی طرف بڑھ سکے۔ حل تنازعات کے ضمن میں اختیارکی جانیوالی غیرسنجیدگی کی روش اقلیتوں سے متعلق امورمیں مایوسی کی فضا کوپیداکرتی ہے۔زندہ اوربیدارمغزقوم کی حیثیت سے ہمیں اقلیتوں سے متعلق تنازعات کوحل کرنے کیلئے مستقل بنیادوں پرمنصوبہ بندی کرناہوگی کیونکہ ان تنازعات پرعدمِ توجہ کے نتیجے میں معاشرہ تشدد، ضد، خوف،احساسِ کمتری اور اجتماعیت سے دوری ایسے منفی رجحانات کاشکارہورہاہے۔ تنازعات کاعلم جدید سماجی علوم میں بڑی اہمیت اختیارکرچکاہے(۲۹)،اس شعبہ علم سے بھرپوراستفادہ عصر حاضر کی ایک اہم ضرورت ہے۔ 
اقلیتوں کی حیثیت کوتسلیم کرنے اوراُنہیں حقوق عطاکرنے کے ضمن میں مسلم اُمہ کوعصر جدیدمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے، اُن کامناسب اورشریعت اسلامیہ کی حدودکے اندررہتے ہوئے حل تلاش کرناازحدضروری ہے۔مسلم اُمہ کودرپیش فکری چیلنجزکی تفہیم کویقینی بنانے کے لیے دینی مدارس اورعصری تعلیمی اداروں میں ہم آہنگی پیداکرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ان اداروں میں تحقیقی مقالات، سیمینارز، کانفرنسوں اور کلاس روم لیکچرزکے ذریعے اقلیتوں سے متعلق شعور کو بیدار کیا جائے۔ نیزسماجی وسیاسی ڈھانچے کومعتدل ومتوازن بنانے کے لئے ہرقسم کے تعصب کوبالائے طاق رکھا جائے۔ اس ضمن میں نہایت ضروری ہے کہ نصابِ تعلیم میں اقلیتوں اورمذہبی تکثیریت سے متعلق مختلف مباحث کوشامل کیاجائے، اس ضمن میں مختلف مذاہب کی تعلیمات سے مدد لی جائے اور ان کے نمائندوں کومختلف نصابی کمیٹیوں میں نمائندگی دی جائے۔ اقلیتوں سے متعلق شعورکی بیداری میں ذرائع ابلاغ کوبھی استعمال کیاجائے۔ علاوہ ازیں اختلاف اورتنقیدکی اخلاقیات کی پابندی کوہرطبقہ فکرمیں رواج دیا جائے۔مذہبی اشتعال انگیزی کوریاستی اداروں کے ذریعے کنٹرول کیاجائے اور اس ضمن میں کسی بھی طبقہ کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے۔اقلیتوں سے متعلق معاملات میں عدل، احتیاط اور تحقیق سے کام لیا جائے، نیز کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے۔پاکستان میں اقلیتوں کی حیثیت اوراُن کے حقوق کی ادائیگی سے متعلق عالمی سطح پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔اسلام کے سیاسی نظام کی وضاحت میں اعتدال وتوازن سے کام لیاجائے۔ 
اسلامی ریاست، اقلیتوں، جہاد اور توہین رسالت ایسے حساس موضوعات پرغیرذمہ دارانہ تبصرہ سے گریز کیا جائے۔ پاکستان میں موجودمذہبی اقلیتوں کواہل مغرب کاہم خیال اورہم نواسمجھنے کے بجائے محبِ وطن شہری تصور کیا جائے، اگرکسی معاملے میں کوئی تنازعہ سامنے آئے تواختلافِ رائے کے اصول وآداب کوملحوظِ خاطررکھاجائے نیز اُس مسئلہ کوحل کرنے کی غیر جانبدارانہ اورموثر کوششیں کی جائیں۔ 

حواشی وحوالہ جات 

۱۔سیدصباح الدین عبدالرحمن، اسلام میں مذہبی رواداری،دارالشعور،۷۳۔مزنگ روڈ، بُک سٹریٹ، لاہور، ۲۰۱۰ء، ص: ۱تا۷۱ 
۲۔الانعام۶:۸۰۱ 
۳۔النحل۵۲۱:۶۱ 
4- William Muir, The Life of Mahomet, Smith Elder & Company, London, 1958, P:158
۵۔شری سندرلال جی،آنحضرت کی زندگی،ششماہی وشال،کلکتہ،بھارت،نومبر۱۹۳۳ء،ص:۵۱۴ 
۶۔ملاحظ ہو:سیدصباح الدین عبدالرحمٰن،ہندوستان کے عہدِ ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، یوپی،۲۰۰۹ء،مجلدات:۳ 
۷۔سیدمحمدمیاں،پاکستان گورنمنٹ کی اسلامی حیثیت،ماہنامہ برہان،دہلی،جون۱۹۵۰ء،مشمولہ،برصغیرپاک وہندکی شرعی حیثیت از ابوسلمان شاہجہانپوری،ڈاکٹر، مجلس یادگارِ شیخ الاسلام، قاری منزل، پاکستان چوک، کراچی، ۱۹۹۳ء، ص:۹۱۱ تا ۳۲۱، نیز ملاحظہ ہو:مجتبیٰ محمدراٹھور، جہاد، جنگ اور دہشت گردی، نیریٹوز پرائیویٹ لمیٹڈ، پوسٹ بکس نمبر: ۲۱۱۰، اسلام آباد، جون۲۰۱۲ء، ص: ۹۰تا۹۱ 
۸۔ابوسلمان شاہجہانپوری،ڈاکٹر،برصغیرپاک وہندکی شرعی حیثیت، ص:۹۳تا۹۷ 
۹۔محمدمشتاق احمد،جہاد،مزاحمت اوربغاوت،الشریعہ اکادمی،گوجرانوالہ،جون۲۰۱۲ء،ص:۸۳تا۱۴۸ 
۱۰۔محمدشہبازمنج،ڈاکٹر،مباح الدم اور ’’جہادیوں‘‘ کا بیانیہ، ماہنامہ الشریعہ،گوجرانوالہ، ستمبر۲۰۱۶ء،ص:۳۰تا۳۵ 
۱۱۔ڈاکٹرمحمدریاض محمود(راقم)،برصغیرمیں مسلم۔مسیحی مناظرانہ ادب(۱۸۵۷ ء تا۱۹۴۷ء): تحقیقی وتنقیدی جائزہ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی علومِ اسلامیہ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد،سیشن:۲۰۰۸ء تا۲۰۱۰ء،ص: ۹۲ تا ۱۰۵ 
۱۲۔سیف الحق چکیسری،اسلام کاتصورِجہاداورالقاعدہ،شعیب سنز،مینگورہ،سوات،۲۰۱۰ء،ص:۵۶۵تا۵۷۲
۱۳۔طارق کرسٹوفرقیصر،کتابچہ:صُلح کُل،سلسلہ:۲۱فلیٹ نمبر:۸،آربی۔I،عوامی کمپلیکس،گارڈن ٹاؤن، لاہور، ص: ۱۔۲ 
۱۴۔ نذیرناجی،اب دھاندلی نہیں ہوگی،روزنامہ نوائے یوقت،اسلام آباد،۴مارچ۱۹۹۶ء،مشمولہ پاکستان کی پہچان: جے سالک، اہل بصیرت کی نظر میں، تدوین، جبارمرزا، شہریارپبلی کیشنز، پوسٹ بکس نمبر:۱۶۹۲،جی پی او، اسلام آباد، ۷مئی ۲۰۰۶ء، ص:۲۰۶ 
۱۵۔خورشیدندیم،صدارتی خطبہ،سماجی ہم آہنگی،رواداری اورتعلیم:پاکستان کی جامعات کے اساتذہ کے ساتھ نشستوں کی روداد، مرتبین: سجاد اظہر، احمداعجاز، پاکستان انسٹی ٹوٹ فارپیس سٹڈیز، جولائی ۲۰۱۶ء، ص:۴۵تا۴۸، نیز ملاحظہ ہو: شہزاداقبال شام، ڈاکٹر، دساتیرپاکستان کی اسلامی دفعات۔ایک تجزیاتی مطالعہ، شریعہ اکیڈمی،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام، آباد، ۲۰۱۱ء، ص: ۲۹۱ تا ۲۲۲ 
۱۷۔ الروم۲۲:۳۰ 
۱۷۔ جنیدقیصر،پاکستانی اقلیتوں کانوحہ،فکشن ہاؤس،۱۳مزنگ روڈ،لاہور،۲۰۰۷ء،ص:۳۱تا۵۱ 
۱۸۔محمدعمارخان ناصر، بین المذاہب مکالمہ کی ایک نشست کے سوال وجواب، ماہنامہ الشریعہ،گوجرانوالہ، جلد:۲۷، شمارہ:۱، جنوری۲۰۱۶ء، ص: ۲۵ 
۱۹۔جاوید احمدغامدی،ریاست اورحکومت،ماہنامہ اشراق، لاہور، جلد:۲۷، شمارہ:۴، اپریل۲۰۱۵ء، ص:۱۷تا۲۰، نیز ملاحظہ ہو: محمد عمارخان ناصر، ریاست،معاشرہ اورمذہبی طبقات،ماہنامہ الشریعۃ، گوجرانوالہ، جلد:۲۴، شمارہ:۳، مارچ ۲۳۱۰ء، ص:۱۸تا۲۳ 
۲۰۔ ابوسلمان شاہجہانپوری،ڈاکٹر،برصغیرپاک وہندکی شرعی حیثیت،ص:۹۹تا۱۰۳
۲۱۔محموداحمدغازی، ڈاکٹر،اسلام کاقانون بین الممالک،شریعہ اکیڈمی،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد، ۲۰۰۷ء، ص: ۲۱۷ تا ۳۱۳، نیزملاحظہ ہو:محمدعمارخان ناصر،بین المذاہب مکالمہ کی ایک نشست کے سوال وجواب، ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ، جلد: ۲۷، شمارہ:۱، جنوری ۲۰۱۶ء، ص:۲۲تا۲۵ 
۲۲۔سیف الحق چکیسری،اسلام کاتصورِجہاداورالقاعدہ،ص:۱۱۳تا۱۱۴ 
۲۳۔محمدعمارخان ناصر،جہاد:ایک مطالعہ،المورد،لاہور،۲۰۱۰ء،ص:۱تا۱۰ 
۲۴۔ سیف الحق چکیسری،اسلام کاتصورِجہاداورالقاعدہ،ص:۱۱۵تا۱۱۹ 
۲۵۔ رازشتہ سیتھنا، پاکستان میں اقلیتوں کی حالت زار،سہ ماہی تجزیات،اسلام آباد،شمارہ:۷۳،اپریل 150 جون ۲۰۱۵ء، ص: ۹۰۔۹۱ 
۲۶۔ روزنامہ جنگ،لاہور،۲۶نومبر۲۰۱۵ء،پاکستانی سینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس، ص:۱،۵ 
۲۷۔محمدمشتاق احمد،جہاد،مزاحمت اوربغاوت،ص:۱۴۹تا۱۷۵
۲۸۔ اداریہ، ماہنامہ ہم سخن انٹرنیشنل،لاہور،جولائی۲۰۱۳ء،جلد:۱۷،شمارہ:۵،ص:۴تا۵ 
۲۹۔ محمدحسین، حل تنازعات کے طریقے سیرتِ نبوی کی روشنی میں، ماہنامہ الشریعہ،گوجرانوالہ، جلد:۲۷، شمارہ:۳، مارچ ۲۰۱۶ء، ص: ۲۲تا۲۷

ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘

محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ

1970ء کا آغاز ہوا تو میں میٹرک سے فارغ ہو چکا تھا۔ ابھی کالج میں داخلہ نہیں لیا تھا۔ ہر سو سیاست ہی سیاست ہی تھی۔پیپلز پارٹی کی کامیابیوں کے ڈنکے بج رہے تھے۔جماعت اسلامی کے لوگ ابھی تک انتخابی شکست کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکے تھے۔مسلم لیگ بھی شکستہ دیوار کی مانند گرچکی تھی۔اخبارات میں صرف شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو اور انہیں ڈیرہ اسماعیل خاں میں شکست دینے والے مفتی محمود کے تذکرے اور ان پر تبصرے شائع ہوتے۔ جمعیۃ علماء اسلام والے خوش تھے کہ ناقابل تسخیر بھٹو کو مفتی محمودنے ڈیرہ اسماعیل خاں میں انتخابی شکست سے دوچار کیا ہے۔گوجرانوالہ میں جناب زاہد الراشدی جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے ایک بڑا نام تھا۔ہم اس سفر میں ان کے رفیق بھی رہے پھر وقت کے ساتھ ساتھ جب ان کی شہرت اور علمی مقام ومرتبہ ملکی سطح تک پہنچا تو پہلے ایک حد تک اورپھر مکمل طور پر سیاست سے کنارہ کش ہوکر علمی مشاغل میں مصروف ہوگئے اپنے والد مولانا سرفراز خاں صفدر اور چچا صوفی عبدالحمید سواتی سے ورثے میں علم وفضل خوب حاصل کیا۔آج کل "الشریعہ"کے نام سے ایک رسالہ جاری کرتے ہیں۔ اس ماہنامہ کی خوبی یہ ہے کہ پچاس کے لگ بھگ صفحات جو آپ ایک نظر میں نہیں پڑھ سکتے ان کا مختصر نچوڑ وہ ٹائٹل کے صفحے پر کچھ اس طرح بکھیر دیتے ہیں کہ ایک بار ہی میں پڑھنے والا اسے محسوس کئے یا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔آج میں نے ماہنامہ "الشریعہ"کے ٹائیٹل اکٹھے کرکے فکرونظر کے تانوں بانوں کو جوڑ کرکالم مکمل کیا ہے۔لگ بھگ گذشتہ پانچ سالوں کے یہ چھوٹے چھوٹے فکر پارے کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں:
(1) دورحاضر میں داعیان اسلام نہ صرف اپنے مخاطبین کی زبان اور محاورے سے ناواقف ہیں۔بلکہ اس فکری پس منظر سے بھی نابلد ہیں جس میں آج کی نئی نسل کی ذہنی تشکیل ہورہی ہے اور یہی چیز ان کی دعوت کے غیر موثر ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔دور حاضر میں وارثان منبرو محراب پر اصحاب کہف کی مثال صادق آتی ہے ۔جن کی زبان اور سکہ دونوں ہی لوگوں کے لئے اجنبی تھے۔(آراء وافکار۔از ڈاکٹر محمد اکرم ورک شعبہ علوم اسلامیہ ۔گورنمنٹ ڈگری کالج پیپلز کالونی گوجرانوالہ مارچ 2009ء )
(2) ہمارے ارباب علم ودانش حضرات کے لیے یہ بات سوچنے اور ہمارے نوجوانوں ایک طبقے کو سمجھانے کی ہے کہ کب تک ہم دنیا بھر کے تنازعات کو اپنے ہاں درآمد کرتے رہیں گے۔ہمارے لئے یہ لمحہ ء فکریہ ہے کہ بے تحاشہ درآمد کی اس پالیسی نے ہمارے ملک کو کس حد تک پہنچا دیا ہے۔ (حالات وواقعات از مولانا مفتی محمد زاہد۔ شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ امدادیہ۔فیصل آبادنومبر2011)
(3) فرقہ واریت اور تفریق کے نتیجے میں مطلع ابرآلود اور فضاء مکدر ہوجاتی ہے ۔اس کو اسلام کی بہت بڑی خدمت تصور کیاجاتا ہے ۔یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ اگر کوئی مقرر مخالف فرقے کے لئے نرمی سے کام لے یا تہذیب کے دائرے میں رہ کر تقریر کرے تو کہا جاتا ہے کہ اس نے اچھی تقریر نہیں کی اور دوبارہ اسے بلانے سے توبہ کرلی جاتی ہے (آراء وافکار۔از محمدبدر عالم ۔اپریل 2014)
(4) یہ جو بہت زیادہ تقریریں سننا ہے یہ بھی ہمارے عمل کی حس کو بہت حدتک دبادیتا ہے۔اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے میں ایک ہی دن وعظ ونصیحت فرماتے تھے۔جب ہم ہروقت باتیں سنتے اور کرتے رہتے ہیں تو ہماری حس مردہ ہوجاتی ہے اور ہم بے پرواہ ہوجاتے ہیں کہ یہ باتیں تو ہم ہر وقت سنتے رہتے ہیں۔ (حالات وواقعات از مولانا مفتی محمد زاہد اپریل 2013ء)
(5) خلیق ابراہیم سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " شاہ صاحب تین چار بار ہمارے ہاں آئے۔وہ بڑی دلچسپ باتیں کرتے تھے۔ہندوستانی مسلمانوں کے قومی مزاج کی بات ہورہی تھی کہنے لگے ۔اس سے زیادہ جذباتی قوم دنیا کے پردے پر نہیں ہوگی۔اس کے دین نے اسے اعتدال اور حقیقت پسندی کا رستہ دکھایا ہے۔ اور رسول کریم کا ارشاد ہے کہ دین میں غلو نہ کرو۔مگر ہندوستان کی مسلمان قوم نے دین کو مشعل راہ بنانے کی بجائے اسے اپنے اعصاب پر سوار کرلیا ہے۔اس کے جذبات میں کنکری ڈالوتولہریں پیدا نہیں ہوتیں بلکہ ایک دم ابال آجاتا ہے۔ (حالات وواقعات از مولانا مفتی محمد زاہد ۔جون 2013)
(6) جہاد کی حقیقی روح یہ ہے کہ جہاد کو ذاتی اقتدار یادولت یا اثرورسوخ کے حصول کا ذریعہ نہ بنایا جائے ۔یہ ایک فریضہ ہے جو مسلمانوں کو مخصوص حالات میں ایک ذمہ داری کے طور پر ادا کرنا ہوتا ہے۔اگر اس میں دولت واقتدار کی خواہش شامل ہوجائے تو اللہ کی نظر میں وہ جدوجہد اپنی روح کے لحاظ سے بے وقعت قرار پاتی ہے "(حالات وواقعات از ۔محمد عمار خان ناصر مارچ2014)
(7) جس طرح شریعت رحمی رشتہ داروں سے حسن سلوک کی مسلسل تلقین کے باوجود ان سے مشترکہ خاندانی نظام کا تمدنی تقاضہ نہیں کرتی اسی طرح مسلمانوں کو اخوت ومحبت واتحاد کی تلقین کے باوجودعالمگیر متحدہ سلطنت کا تقاضہ بھی نہیں کرتی۔ 
(8 ) دینی مزاج رکھنے والے کروڑوں متشرع تاجروں اور دکانداروں کی موجودگی کے باوجود ملاوٹ ناجائزمنافع خوری ،ذخیرہ اندوزی وعدہ خلافی اور ٹیکس چوری اس طبقے میں از حد نمایاں ہے ۔خوراک تو خوراک ہے ادویات اور معصوم بچوں کا دودھ بھی ملاوٹ سے پاک نہیں ہے (حالات واقعات از ۔محمد اظہار الحق ستمبر2015)
(9) تکفیر وقتال کی روش اور نفسیات کی تازہ لہرنے عالم اسلام کے بہت سے حساس علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس سے عالمی اسلام دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھانے کی ایسی منظم منصوبہ بندی کررکھی ہے کہ ملت اسلامیہ کی اجتماعی دانش کرب واضطراب کی شدت سے تلملا کررہ گئی ہے۔(کلمہ حق از مولانا زاہد الراشدی ۔مارچ2015)
(9) دہشت گردی کے واقعات جتنے بڑھتے چلے جائیں گے ان سے مغرب کے جسم پر خراش تک نہیں آئے گی بلکہ ان کی طرف ہمارا رویہ بدلنے لگے گا اور ہم ان کی اخلاقی برتری کے قائل ہونے لگیں گے۔اس سے ان کے پھیلاؤ کا راستہ اور زیادہ ہموار ہوجائے گا (آراء وافکار احمد جاوید /اے ۔اے سیدمارچ 2016)

DNA کے بارے میں چشم کشا حقائق

مولانا مفتی منیب الرحمن

گزشتہ سال اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے قرار دیا کہ DNA کی فارنزک لیبارٹری رپورٹ کو حدِّزنا جاری کرنے کے لیے حتمی اور قطعی شہادت (Absolute Evidence)کے طورپر تسلیم نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے عینی شہادت(Eye Witness)کا مطلوبہ شرعی معیار لازمی ہے،ا لبتہ اسے ظنّی شہادت ،قرائن کی شہادت اور تائیدی شہادت کے طورپر لیا جا سکتا ہے اور عینی شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں عدالت مطمئن ہو تو تعزیر۱ًسزا دے سکتی ہے۔ اس پر ہمارے آزاد الیکٹرانک میڈیا، لبرل عناصر نے کہرام مچا دیا، ان میں حقوق نسواں اور حقوق انسانی کے نام پر تنظیمیں چلانے والی NGOsاور دیگر فعال عناصرسب شامل ہیں۔چونکہ مغربی ممالک کی اقدارکے پرچارک ان طبقات کو زنا بالرضا (Adultery)پرکوئی اعتراض نہیں ہے، اس لیے ان کا اصرار ہے کہ زنا بالجبر (Rape)کے ثبوت کے لیے DNAکا لیبارٹری ٹیسٹ اگر مثبت آجائے تواسے حتمی اور قطعی شہادت قرار دے کر اس جرم کے مرتکب پر سزائے موت جاری کردی جائے۔
میں 12تا30جنوری امریکہ کے دورے پرتھا اور مختلف ریاستوں میں دوستوں نے دینی پروگرام ترتیب دے رکھے تھے، نیو جرسی اسٹیٹ سے جماعت اہل سنت نارتھ امریکا کے رہنماعلامہ مقصود احمد قادری یہ پروگرام ترتیب دیتے ہیں، ا ن میں ایک پروگرام ٹینیسی اسٹیٹ کے شہر نیو جانسن سٹی میں جناب ڈاکٹر شہرام ملک کے مکان پر ہوتاہے، جو دین دار،علم دوست اور مہمان نواز شخص ہیں۔ یہ ڈاکٹر صاحبان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کا ایک حلقہ احباب ہے جو کافی دور دور سے سفر کرکے یکجا ہوتے ہیں۔چونکہ تعلیم وتعلّم ہمارا مشن ہے، اس لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے ساتھ مجلس کا انعقاداورتبادلۂ خیال بے حد مفید ثابت ہوتاہے، ان میں کئی احباب میاں بیوی دونوں ڈاکٹرہوتے ہیں۔ ممتاز عالمی شہرت یافتہ آئی سرجن جناب ڈاکٹرخالد اعوان اس حلقۂ احباب کا نقطۂ اتصال ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کا قرآن وحدیث کا وسیع مطالعہ، یادداشت اور استدلال قابل رشک ہے۔ وہ راسخ العقیدہ ہیں، محض روایتی اور نسلی مسلمان نہیں ہیں کہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے اور وراثت میں اسلام کی نعمت بھی مل گئی، بلکہ اُس خوش نصیب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے اسلام کو پڑھا،سمجھا اور شعوری طورپر قبول کیا اورعمل بھی کیا۔ ان کے اپنے شعبۂ طب Opthalmology میں ان کے 250سے زیادہ ریسرچ پیپرز معتبر عالمی طبی جرائدمیں طبع ہو چکے ہیں۔امراضِ چشم کے علاج کے حوالے سے ان کی ایک تحقیق ’’Awan Syndrome‘‘کے عنوان سے ان کے نام سے منسوب ہے اور بلاشبہ یہ ایک بڑااعزازہے، اسی طرح لیزر ٹیکنالوجی سے جو آنکھوں کا علاج ہوتاہے، ان میں سے بھی ایک خاص’’ لیزر‘‘کے موجد چونکہ ڈاکٹرخالد اعوان ہیں،ا س لیے یہ بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔ امریکا اور دیارِمغرب میں مقیم قابل فخر کارنامے انجام دینے والے ایسے پاکستانیوں کو قومی اعزازکے لیے منتخب کیا جاناچاہیے اورامریکا میں مقیم پاکستانی صحافیوں کو ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔
میں ایک عرصے سے متلاشی تھا کہ آیا امریکا اور یورپی ممالک میں DNAٹیسٹ کی مثبت رپورٹ کو ایسے جرائم کے ثبوت کے لیے، جن کی سزا موت ہے، قطعی اور حتمی شہادت کے طورپرتسلیم کیاجاتا ہے یا اسے زیادہ سے زیادہ ہمارے فقہائے کرام کے اقوال کے مطابق ایک ظنّی اور مشتبہ شہادت یا تائیدی شہادت کے طورپر ہی لیا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے عہد مبارک میں مختلف مواقع پر قرائن کی شہادت کواپنے قیاس کی بنیاد بھی بنایا اور اسے تائیدی شہادت کے طور پر استعمال بھی فرمایا،لیکن اسے کسی بھی وقوعے کے بارے میں قطعی اور حتمی شہادت کا درجہ نہیں دیا کہ اس کی بنا پر شرعی حد جاری کی جاسکتی ہے،ذیل میں ہم اس کی مثالیں پیش کر رہے ہیں:
ابورافع سَلَّام بن ابوالحُقَیق ایک مشہور دشمنِ رسول تھا،وہ آپ کو ایذاپہنچاتا تھا ۔آپ ﷺ نے عبداللہ بن عَتِیْک کی قیادت میں انصار کے پانچ افراد کو اُسے قتل کرنے کے لیے بھیجا ۔عبداللہ بن اُنَیس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے واپس آکررسول ا للہ ﷺ کو اُس کے قتل کی خبر دی۔ہم میں اختلاف پیدا ہوا کہ وہ شخص کس کی ضرب سے قتل ہوا ہے ،کیونکہ ہم میں سے ہر ایک اس اِعزاز کا دعوے دار تھا،پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ سب اپنی تلواریں لے آؤ‘‘،چنانچہ ہم اپنی اپنی تلواریں لے آئے۔آپ ﷺ نے سب تلواروں کو دیکھا اور عبداللہ بن اُنَیس کی تلوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’وہ اِس تلوار سے قتل ہوا ہے ،کیونکہ مجھے اس پر خوراک کے ذرّات نظر آرہے ہیں،( سیرتِ ابن ہشام، ج:2،ص:275،روایت کا خلاصہ)‘‘۔
آپ ﷺ کے اس ارشادکامطلب یہ تھا کہ عبداللہ بن اُنیس کی تلوار ابن ابوالحُقیق کے بد ن میں زیادہ گہرائی یعنی معدے تک گئی ہے اوراس کا ثبوت یہ ہے کہ اس پر لگے ہوئے خون کے دھبوں میں خوراک کے ذرات کی آمیزش نظر آتی ہے۔ لہٰذا معلوم ہواکہ ان کا وار زیادہ گہرائی تک گیااور جان لیواثابت ہوا۔ یہ فراستِ نبوت کا فیضان تھا کہ آپ ﷺنے قرائن کی شہادت (Circumstantial Evidence)کا اعتبار کیا اور اسے کسی وقوعے کے ثبوت کے لیے تائیدی شہادت اور قرینے کے طورپراستعمال فرمایا۔
حدیث پاک میں ہے:’’ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ!(صلی اللہ علیک وسلم)، میرے ہاں ایک سیاہ فام بیٹے نے جنم لیا ہے (غالباً وہ شخص سفید رنگ کا تھا اور اس بنا پر اُسے اپنے بیٹے کے نسب کے بارے میں شبہ لاحق ہوا)،آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ ،اُس نے جواب دیا: جی ہاں !، آپ نے پوچھا: اُن کے رنگ کیسے ہیں ؟، اُس نے عرض کی: سرخ۔ آپ نے فرمایا: کیا اُن میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے ؟ ، اُس نے عرض کی: جی ہاں !، آپ ﷺ نے فرمایا: تووہ (یعنی سرخ اونٹوں میں خاکستری رنگ کا اونٹ)کہاں سے آگیا ؟، اُس نے عرض کی: شاید(اُس کے نسبی آباء میں سے) کسی کی رگ نے اُسے کھینچ لیا ہو ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تمہارے بیٹے کو بھی (تمہارے آباء کی )کسی رگ نے کھینچ لیا ہو، (بخاری: 5305)‘‘۔ یہاں رسول اللہ ﷺ نے قیاس کو صحیح نسب کے لیے تائید کے طور پراستعمال فرمایا۔ اس کومندرجہ ذیل حدیث سے مزید تقویت ملتی ہے:
علی بن ابی رباح اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے اُن سے پوچھا: تمہارے ہاں کیا پیدا ہوا؟، اُس نے جواب دیا:میرے ہاں جو بھی پیدا ہوگا بیٹاہوگا یا بیٹی ،آپ ﷺ نے پوچھا: وہ بچہ (صورت میں )کس سے مشابہ ہوگا؟، اُس نے عرض کی: یارسول اللہ!(صلی اللہ علیک وسلم)، یقینااپنے باپ یا ماں میں سے کسی کے مشابہ ہوگا ، آپ ﷺ نے فرمایا: ذرا رکو، اس طرح نہ کہو، (بات یہ ہے کہ )جب نطفہ ماں کے رحم میں قرار پاتا ہے ،تو اللہ تعالیٰ (اپنی قدرت سے )اُس کے اورآدم علیہ السلام کے درمیان تمام رشتوں(یعنی اُن کی صورتوں) کو حاضر فرمادیتا ہے (اور وہ اُن میں سے کسی سے مشابہت اختیار کرلیتا ہے) پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھا: ’’وہ جس صورت میں چاہتا ہے ،تمہارے وجود کی تشکیل فرمادیتا ہے ،(المعجم الکبیر للطبرانی: 4624)‘‘۔اس کی مزید تائید اس حدیث پاک سے ہوتی ہے:
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ بہت خوش تھے ۔آپ ﷺ نے فرمایا: (عائشہ!)تمہیں معلوم ہے کیا ہوا؟،مُجَزِّز مُدْلِجی میرے پاس داخل ہوا ،اُس نے دو اشخاص (زید بن حارثہ اور اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما)کو چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے اس طرح دیکھا کہ اُن کے سر(اور بدن کا بالائی حصہ) ڈھکا ہواتھااور پاؤں کھلے تھے۔اُس نے کہا:یہ پاؤں ایک دوسرے سے ہیں (یعنی یہ دونوں اشخاص آپس میں باپ بیٹا ہیں) ، (صحیح بخاری:6771)‘‘۔ حضرت اسامہ بن زیدکا نسب اپنے باپ زید بن حارثہ سے ثابت تھا ،لیکن باپ بیٹے کے رنگ میں تفاوُت کی وجہ سے کسی منافق نے اُن کے نسب پر طعن کیا تھا ،تو رسول اللہ ﷺ نے قیافے کے ماہر مُجَزِّزمُدلِجی کے اس مشاہدے کو تائیدی شہادت کے طور پر لیا اور خوشی کا اظہار فرمایا کہ ایک غیر جانبدار ماہرشخص نے ان دونوں کے حقیقی باپ بیٹا ہونے کی تصدیق کردی۔
اب جاکر سائنس اورجدید علم نے اس کی توثیق کی ہے ۔چنانچہ اب فارنزک لیبارٹری کی مثبت رپورٹ اور وڈیو ریکارڈنگ یعنی مُتحرک تصاویر کو کسی جرم کے ثبوت کے لیے ایک حدتک قبول کیاجارہاہے ۔لیکن کسی سنگین نوعیت کے جرم ،جس کی قانون اور شریعت میں سزا موت مقرر ہے،کے ثبوت کے لیے ڈی این اے کی مثبت لیبارٹری رپورٹ اور ویڈیو ریکارڈنگ کو،خواہ وہ کتنی ہی معیاری ہو ، واحد حتمی اور قطعی ثبوت مان کر سزائے موت کا فیصلہ نہیں دیاجاسکتا ۔یعنی محض اس مثبت فارنزک رپورٹ کی بناپر شریعت کی مقرر کی ہوئی ’’حَدِّ زنا‘‘جاری نہیں کی جاسکتی ،کیونکہ اس میں ملاوٹ اورکسی چیز کی آمیزش کا امکان موجود ہے ۔اسی طرح وڈیو ریکارڈنگ اور متحرک تصاویر میں بھی ایڈٹنگ کے امکان کو کلی طورپر مستردنہیں کیاجاسکتا ۔یہ تو ہمارے ہاں روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ٹیلیویژن کوریج کرنے والے اپنے کسی من پسند سیاسی رہنما یا پارٹی کے جلسے کو بڑا کرکے دکھاتے ہیں اور ناپسندیدہ لیڈر یا پارٹی کے اُتنے ہی یا اُس سے بھی بڑے اجتماع کو چھوٹا کرکے دکھاتے ہیں،اِسے ہمارے مُحاورے میں کیمرے یا ہاتھ کا کمال کہتے ہیں ۔یعنی ذاتی پسند وناپسند ، ترغیب وتحریص ،دباؤ اور تعصُّب کی بناپر حقائق وواقعات میں تغیروتبدل یا کمی بیشی یا مؤثر یا غیر مؤثر بناکر پیش کرنا ممکن ہے ۔اسی طرح تمام تر دیانت اورنیک نیتی کے باوجود بشری خطا کے امکان کو بھی کلی طورپر رَد نہیں کیاجاسکتا ۔یہ ضروری نہیں کہ ہر کیس میں ایساہو ،لیکن خطا کا امکان قطعیت کی نفی کے لیے کافی ہے ۔ہمارے ہاں میڈیکولیگل رپورٹ اور میّت کے پوسٹ مارٹم میں ردّوبدل کے شواہد بہت ہیں۔
الغرض ان اسباب کی بناپر ڈی این اے کی مثبت رپورٹ یا فارنزک شواہد ظنّی اور مشتبہ (Doubtful)قرار پاسکتے ہیں ،قطعی ہرگز نہیں ہوسکتے ،جبکہ حد زناجاری کرنے یا قتل کی سزا نافذ کرنے کے لیے ثبوت کا قطعی اورلاریب ہونا ضروری ہے اوروہ مطلوبہ عینی شہادت ہی سے ممکن ہے۔خون کے دھبے ،بندوق کی گولیاں اورانسانی دانت سے کاٹنا اسی زمرے میں آتاہے ،تاہم ان شواہد کی بناپر جج یا قاضی اگر مطمئن ہو توتعزیر کے طورپر سزادے سکتاہے اوراس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔امریکہ کے حالیہ سفر میں ڈاکٹر خالد اعوان صاحب نے امریکہ اور جرمنی کی عدالتوں اور تفتیشی اداروں کے حوالے سے ڈی این اے رپورٹ کے غیر یقینی ہونے کے بارے میں وہاں کے اخبارات کے حوالوں سے ہمیں یہ شواہد فراہم کیے،جوہمارے لبرل عناصر کے لیے یقیناًحجت ہوں گے:
امریکہ کے نہایت مشہور ایتھلیٹ اوجے سمپسن پر اپنی بیوی اوراس کے آشنا کے دُہرے قتل کاالزام تھا ،وکیل صفائی نے موقف اختیار کیاکہ ڈی این اے کے حاصل کیے ہوئے نمونے میں لیبارٹری میں کسی آمیزش کے امکان کو رَد نہیں کیاجاسکتا ۔اسی طرح 2009ء میں ایک واضح ابہام رپورٹ کیاگیا ۔اس کی رُو سے محض ڈی این اے کی مثبت رپورٹ پر اس حد تک انحصار کو شک کی نظر سے دیکھاگیا کہ اسے قطعی شہادت مان کر مجرم پر سزائے موت نافذ کردی جائے۔
پندرہ سال تک جرمنی کی ایک اسٹیٹ کی پولیس ایک عادی قاتلہ خاتون کو شدت سے تلاش کرتی رہی،جس کی ڈی این اے کے مثبت شواہد چالیس جرائم کے وقوعوں میں پائے گئے ،ان میں سے چھ قتل کے جرائم تھے۔ 2007ء میں انہوں نے متبادل امکانات پر غور شروع کیا،پھر مارچ 2009ء میں اسٹیٹ منسٹر نے اعلان کیا کہ کیس کو حل کرلیاگیا ہے،وہ یہ کہ جس فیکٹری سے نمونہ لینے کے لیے روئی کا پھایا لیاجارہاتھا،وہاں ایک خاتون ورکر کی لاپرواہی سے آمیزش (Contamination) ہورہی تھی ،(Kingport Times-News,Monday, May11 ,2009)‘‘۔
اسی طرح Amanda knoxنامی ایک امریکی خاتون کو اٹلی میں اپنے ساتھ کمرے میں رہنے والی دوسری خاتون کو قتل کرنے کے الزام میں 25سال کی سزا سنائی گئی ۔اس پر الزام ثابت کرنے کے لیے ڈی این اے لیبارٹری رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کیاگیا ۔تقریباً ایک سال بعد اس فیصلے کو چیلنج کردیاگیا اورامریکہ کے ایک اخبار میں رپورٹ شائع ہوئی :’’ Amanda knox- Romeکوایک فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی ۔ ایک غیرجانبدار فارنزک رپورٹ نے بتایا کہ اس امریکی طالب علم اوراس کی ساتھی کے مقدمے میں جو ڈی این اے رپورٹ بطورشہادت استعمال کی گئی ،وہ قابل اعتماد نہیں تھی اوراس میں آمیزش تھی۔اس رپورٹ سے معلوم ہواکہ پہلے ٹرائل میں جوڈی این اے ٹیسٹ استعمال کیاگیا ،وہ بین الاقوامی معیار سے کم تر درجے کاتھا اوراس کے سبب اَمنڈا ناکس کی سزا کو ختم کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں،(Bristol Herald Courier,Thursday,June 30,2011)‘‘۔پس شرعی حد جاری کرنے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کو حتمی اور قطعی ثبوت ماننے والوں کواس رپورٹ کا مطالعہ ضرورکرنا چاہیے ۔
اسی طرح امریکی ریاست ٹیکساس میں فوجداری عدالتِ مُرافعہ نے16جولائی کوClifton Williamsکی سزائے موت کو نفاذ سے محض چند گھنٹے قبل ملتوی کردیا ،کیونکہ استغاثہ کے وکلاء نے یہ موقف اختیار کیاکہ Williamsنامی ایک اور سیاہ فام شخص کے ڈین این اے پروفائل سے اس کے مشابہ ہونے کا امکان ہے اوراس امکان کاتناسب ایک کے مقابلے میں 43 Sextilion ہے ،یعنی 43کے آگے اکیس صفر لگانے سے جو عدد بنتا ہے، اس کے برابر ہے یااسے ایک بہ نسبت 43بلین ٹریلین سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ٹیکساس کی انتظامیہ نے حال ہی میں ایف بی آئی کے تیارکردہ ڈیٹابیس پر انحصارکر کے نتیجہ اخذکیاکہ ایک اورسیاہ فام ولیم نامی شخص کے ڈی این اے پروفائل سے اس نمونے کے ملنے کے امکانات One in 40 Billions Trillionہیں ، (Kingsport Times-News,Monday,August 10,2015)‘‘۔
ہمارے ہاں بعض لوگ قتل یا آبروریزی کے مقدمات ( یعنی ایسے جرائم جن کی سزا موت یا عمر قید ہے) میں صرف ڈی این اے کی مثبت لیبارٹری رپورٹ کو حتمی اور قطعی شہادت کے طور پر قبول کرنے پر مُصر ہیں اوراِسے حتمی اورقطعی ثبوت نہ ماننے والوں کو دقیانوسی فکر کا حامل قرار دیتے ہیں۔ایسے تمام لبرل حضرات سے گزارش ہے کہ وہ آبروریزی کے مقدمات میں ڈی این اے کی شہادت کو قطعی ثبوت نہ ماننے کی بابت Univercity of Michigans Innocene Clinicکے 56سالہ کارل ونسن کے مقدمے کا مطالعہ کریں، جسے جبری آبروریزی کے مقدمے میں25سال کی جیل گزارنے کے بعد اس بناپر رہاکردیاگیا کہ جج ایزن براؤن نے کہا:’’عدالت سائنسی شواہد کی بجائے عینی شہادت پر انحصار کرے گی،(Kingport Times-News,Monday,July16,2011)‘‘۔
الغرض ڈی این اے ٹیسٹ کی مثبت رپورٹ کے قطعی ثبوت نہ ہونے کے بارے میں امریکہ اور مغربی ممالک کی عدالتیں یک آواز نہیں ہیں ، بعض اسے حتمی اور قطعی ثبوت مانتے ہیں اور بعض عدالتوں اور ایف بی آئی نے اسے تسلیم نہیں کیا۔اسی حقیقت کو علمِ نبوت نے چند الفاظ میں بیان فرمادیا:’’جس قدر ہوسکے مسلمانوں سے حدود کو ساقط کردو،(سنن ترمذی:1424)‘‘۔امام ابن ماجہ نے اپنی سُنَن میں باب باندھا:’’مومن کی پردہ پوشی اور حدود کو شبہات کے سبب دور کرنے کا بیان‘‘ ۔ امید ہے میری یہ عاجزانہ کاوش ان شاء اللہ جج صاحبان، مفتیانِ کرام ،وکلاء حضرات اورقانون کے طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوگی۔

دیو بند و بریلی : اختلافات سے مشترکات تک

سراج الدین امجد

امت مسلمہ آج جن گونا گوں مسائل کا شکار ہے ان میں ایک فرقہ واریت بھی ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر اس کی تباہ کاریوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کے دور میں یہ الحاد اور بے دینی سے بھی بڑا فتنہ اور عفریت ہے۔ آج اگر ملت اسلامیہ کا بدن لہو لہان ہے تو جہاں اغیار کی ریشہ دوانیاں ہیں، وہیں اپنوں کی کارستانیاں بھی کم نہیں۔ کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ آج شرق سے غرب تک جہاں بھی مسلمان پس رہے ہیں، وہاں عالمی سامراج کے ناپاک عزائم کے ساتھ ساتھ اندرونی خلفشار اور باہمی تنازعات کی شر انگیزی بھی کارفرما ہے۔ گویا خارجی محاذ پر اگر کفر و الحاد کی فتنہ سامانیاں ہیں تو داخلی محاذ پر تکفیری ذہنیت اور فرقہ واریت کی شر انگیزیاں۔یہ مسائل اس وقت مزید گھمبیر اور اندوہناک معلوم ہوتے ہیں جب بین المذاہب تو کجا، خود اہل سنت کے مکاتبِ فکر کے اندربھی مسلکانہ شدت پسندی اور تفسیق و تضلیل کا بازار گرم ہو۔ اگر کہیں باہمی رواداری ،یگانگت، اتحاد او ریکجہتی کی فضا قائم کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو جلد ہی دیرینہ تعصبات کی زہر ناکی اور قلبی منافرت عود کر آئے۔ اور امن و آشتی اور مسلکانہ رواداری کے سارے دعوے کھو کھلے محسوس ہو نے لگیں۔ تو کیا اس دیرینہ بیماری کا علاج اور تدارک کا ساماں ہی نہ کیا جائے؟ نہیں، قطعاً نہیں بلکہ زیادہ قوت، یکسوئی اور تن دہی کے ساتھ اس کی زہر ناکیوں کو بجھانے کی ضرورت ہے۔اس خطے میں جس طرح آج سنی مکتبہ فکر کے دو بڑے گروہ یعنی دیوبند اور بریلی آپس میں دست و گریباں ہیں، اس پر ہر درد مند دل افسردہ اور پریشاں ہے۔
اس باہمی آویزش کی کچھ وجوہ ہیں۔تاہم اس کے حل کی کوئی کوشش اس تمام صورتِ حال کے معروضی جائزہ اور غیر متعصبانہ تفہیم کے بغیر شاید ممکن نہ ہو۔جو لوگ فطرت انسانی میں کارفرما گوناگوں نفسیاتی مہیجات اور تعصبات کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں، وہ اس بات کی بر ملا تائید کریں گے کہ باہمی نفرت و کدورت کم علمی، بے جا تعصبات، ناگوار انانیت اور معاملات کا درست تجزیہ نہ ہونے سے ہی پھیلتی ہے۔پھر دینی اور مذہبی معاملات میں چونکہ اپنے موقف پر اصرار کو تصلب، للٰہیت اور پرہیزگاری کا لبادہ اوڑا دیا جاتا ہے، لہٰذا معروضی تناظر اور بے لاگ تبصرہ و تحقیق کی نوبت آتی ہے نہ خیال گزرتا ہے۔ اور یوں فکر و نظر کا اختلاف بھیانک مسلکانہ پیکار کا روپ دھار لیتا ہے۔اس مضموں میں دیوبند اور بریلی کی علمی اور فکری آویزش کے پس منظر کا تعارف بھی ہے، طرفین کی جانب سے ایک دوسرے کے رد و خلاف کی وجوہات کا تذکرہ بھی۔ نیز ہر ایک کے جدا ذوقی رنگ اور طرزِفکر کا بیان بھی۔ آخر میں طرفین کے معتدل فکر علماء کا اجمالی تعارف اور مشترکات کا بیان، تاکہ آنے والے دنوں میں جداگانہ مسلکانہ تشخص کے باوجوددونوں طبقات میں باہمی رواداری اور حسن ظن کی خوشبو بکھرتی رہے۔ 

دیوبندی بریلوی مناقشہ: بحث مباحثہ سے مناظرہ بازی تک

علماء اہل سنت کے درمیان شرک و بدعت کے مسائل ہوں یا تقدیسِ الوہیت اور عظمتِ رسالت سے متعلقہ ابحاث، یہ تو دیوبند اور بریلی کے مدارس کے قیام سے بھی بہت پہلے کی ہیں۔ مسئلہ امتناعِ نظیر کے حوالے سے شاہ اسماعیل صاحب دہلوی اورعلامہ فضلِ حق خیرآبادی کے درمیان بحث مباحثہ تو مشہور و معروف ہے۔ خاص دیو بندی وغیر دیوبندی (بریلوی ) تنازعہ کے تناظر میں بھی دیکھنا ہو تو ساری بحث اثر ابن عباس کے حوالے سے مولانا احسن نانوتوی کی کتاب سے شروع ہوئی۔ اس کی تائید میں مولانا قاسم نانوتوی نے ۲۲۹۰ھ /۱۸۷۲ء میں تحذیر الناس لکھی۔ اس پر اہل سنت کے حلقوں میں خوب شور اٹھا۔اور ہندوستان بھر میں علماء نے مخالفت کی۔ بلکہ خود مولانا تھانوی نے کہا ہے کہ جب مولانا نانوتوی نے تحذیر لکھی تو ہندوستان بھر میں کسی نے موافقت نہ کی سوائے مولانا عبد الحئی لکھنوی کے ( دیکھیے الافاضات الیومیہ ، جلد چہارم )۔ یہ الگ بات کہ مولانا لکھنوی نے بھی بعد میں رسالہ ’’ابطالِ اغلاطِ قاسمیہ (۱۳۰۰ھ/۱۸۸۳ء )‘‘ کی تائید کر کے پہلے موقف سے رجوع کر لیا۔یہ رسالہ بھی کسی بریلوی عالم کی کاوش نہ تھی۔ بلکہ شروع میں مخالفت دیگر سنی علماء کی طرف سے سامنے آئی۔اور وہیں سے بات آگے بڑھی۔ 
اسی طرح اس دورمیں ایک اور تصنیف جو بعد میں علماء دیوبند اور سنی علماء کے مابین وجہ بحث بنی ، وہ " انوار ساطعہ" ہے جس کے مصنف مولانا عبد السمیع رامپوری تو حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے خلیفہ تھے۔ کوئی بریلوی نسبت نہ تھی۔ بلکہ یہ کتاب آپ نے ۲۰۳۱ھ میں لکھی، جبکہ دارالعلوم منظرِ الاسلام بریلی کا قیام ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء میں عمل میں آیا۔ اس کے ردّ میں براہین قاطعہ ۱۳۰۴ھ میں آئی۔ان موضوعات پر پہلا بڑا مناظرہ علامہ غلام دستگیر قصوری (خلیفہ حضرت مولانا محی الدین قصوری جو معروف نقشبندی مجددی شیخ یعنی شاہ غلام علی دہلوی کے خلیفہ تھے ) اور مولاناخلیل احمد سہارنپوری کے درمیان بہاولپور میں ۱۳۰۶ھ میں ہوا۔ مولانا قصوری کی زندگی بھر مولانا احمد رضا خاں بریلوی ( م ۱۳۴۰ ھ/۱۹۲۱ء)سے ملاقات تک ثابت نہیں، چہ جائیکہ انہیں بریلوی کہا جائے۔ بلکہ زمانی لحاظ سے بھی انہیں مولاناکے والد، مولانا نقی علی خان کا معاصر کہنا زیادہ درست ہو گا۔ گویا علماء دیوبند کے مقابل علمی بحث اور مناظرہ بازی سنیوں میں جن دو بڑی قد آور شخصیات نے شروع کی، دونوں کا بریلویت سے کوئی تعلق نہیں ، یعنی ایک ان کے اپنے شیخ حضرت مہاجر مکی کے خلیفہ مولانا عبد السمیع رامپوری اور دوسرے علامہ قصوری۔
گویا یہ عقائد و معمولات کا اختلاف اور مناظرے مولانا احمد رضا بریلوی کے فتاویٰ سے بھی دو دہائیاں پہلے کے ہیں۔ تاہم یہ درست ہے کہ حسام الحرمین (۱۹۰۶ء) نے دیوبندی بریلوی تنازع کو بہت اجاگر کیا اور طرفین کے رویوں میں شدت آنے لگی۔ تاہم دیوبندی بریلوی تنازع کو سمجھنے کے لیے اس کا تاریخی پس منظر سمجھنا ناگزیرہے اور اس کے لیے دو کتب کا مطالعہ از حد ضروری ہے اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، یہ دونوں کتابیں کسی بریلوی عالم کی نہیں۔ ایک حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے خلیفہ اجل کی ہے۔ میری مراد ’انوار ساطعہ‘ از علامہ عبد السمیع رامپوری (م۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء) سے ہے، جبکہ دوسری معرکہ آراء تصنیف ’ تقدیس الوکیل‘ علامہ غلام دستگیر قصوری نقشبندی (م ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء) کی ہے جو خواجہ غلام محی الدین قصوری نقشبندی مجددی (خلیفہ شاہ غلام علی دہلوی) کے خلیفہ اور شاگرد تھے۔ لہٰذا ان اکابر کی کتب کا مطالعہ بڑی حد تک اس علمی و فکری پس منظر کو واضح کردیتا ہے۔ ان دو کے علاوہ اکابر دیوبند کے پیر و مرشد سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (م ۱۳۱۷ھ/۱۸۹۹ ء ) کا رسالہ " فیصلہ ہفت مسئلہ " ( شائع شدہ ۱۳۱۲ ھ) بھی لائق مطالعہ ہے جو دراصل انوار ساطعہ اور براہین قاطعہ کی مباحث کے بعد خود ان کے نامی گرامی خلفاء میں باعث تفریق و تشویق مسائل کا حل ڈھونڈنے کی ایک اہم کاوش تھی۔ 
مزید حیران کن بات یہ ہے کہ علماء دیوبند کی مویدہ’ براہین قاطعہ ‘ کے مقابل ’انوار ساطعہ‘ کو بریلوی علماء کی بجائے استاذ الکل مولانا لطف اللہ علی گڑھی (م ۱۳۳۴ھ۔ سید ابوالحسن علی ندوی نے انہیں استاذ الکل لکھا ہے) ،مولانا عبد الحق حقانی صاحب تفسیر حقانی(م ۱۳۳۵ ھ) ،مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی ( م ۱۳۰۸ھ)، ادیب الہند مولانا فیض الحسن سہارنپوری( م ۱۳۰۴ھ)، مفتی ارشاد حسین رامپوری مجددی ( م ۱۳۱۱ھ)، مولانا مفتی عبد المجید فرنگی محلی لکھنوی (م ۱۳۴۰ھ ) اور مولانا وکیل احمد حنفی سکندر پوری ( م ۱۳۲۲ھ/ ۱۹۰۴ء ۔ شاگرد خاص علامہ ابو الحسنات عبد الحئی لکھنوی) ایسے اجلہ علماء کی تائید حاصل تھی۔لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں ایک بھی بریلوی یا بدایونی علماء کا شاگرد نہیں۔ 
گویا اہل سنت کے ما بین مباحث میں اختلاف بریلی کے کسی عالم کی فکر کا شاخسانہ نہیں بلکہ علماء دیوبند کے کچھ تفردات اور زعم توحید میں شان رسالت کے حوالے سے تنقیص و سوء ادب پر مشتمل کچھ افکار تھے جس کی گرفت پہلے اور لوگوں نے کی۔ہاں حسام الحرمین (۱۳۲۵ھ/ ۱۹۰۶ء ) کے فتاویٰ سے بڑے پیمانے پر ردِّ دیوبند کا غلغلہ بلند ہوا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ حسام کی تائید جہاں بہت سے علماء اہل سنت نے کی۔(کم و بیش ۲۷۰ کے قریب علماء کی فہرست الصوارم الہندیہ میں مولانا حشمت علی لکھنوی نے دی ہے۔یہ کتاب ۱۳۴۵ھ/ ۱۹۲۶ء میں طبع ہوئی) وہاں کئی اکابر مثلاً حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی، حضرت شاہ ابو لخیر دہلوی ( شاگرد شاہ عبد الغنی مجددی )، خواجہ حسن جان سرہندی ( شاگرد شیخ احمد بن زینی دحلان مکی و شیخ رحمۃ اللہ مہاجر مکی ) ،شیخ الاسلام مولانا انواراللہ فاروقی ، مولانا عبد الباری فرنگی محلی ،مولانا مشتاق احمد چشتی انبیٹھوی اور علامہ معین الدین اجمیری ایسے علماء نے اگرچہ عبارات کو غلط، گستاخانہ اور کفریہ کہا تاہم تکفیر سے کفِّ لسان رکھا اور اسی کو احوط جانا۔گو یہ وضاحت اپنی جگہ اہم ہے کہ حسام الحرمین کے فتاویٰ تکفیر کی حمایت نہ کرنے کے باوجودیہ اکابر علماء و مشائخ معتقدات و معمولات میں مولانا بریلوی سے کلی موافقت رکھتے ہیں۔اور دیوبندی عقائد کے ہمنوا نہیں۔ فاضل بریلوی کے فتویٰ تکفیر کی عدم تائید کو دیوبندی عقائد و نظریات کی موافقت سے تعبیر کرنا صریحاًغلط اور دورازکار تاویل کی قبیل سے ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ دیوبند کے عمومی حلقے تو کجا ان کے بڑے بڑے علماء بھی ان شخصیات سے متعارف نہیں۔ حالانکہ دیوبندی مورخین نے اپنے مکتب فکر کے تمام فضلاء و رجال کار کے سوانحی خاکے بڑی دقت نظرسے قلمبند کیے ہیں۔ اگر کہیں اشتراک فکر ہوتا تو حلقہ دیوبند میں ان کا بھی بھرپور تعارف ہوتا۔ 

رد بریلویت کی وجوہات اور پس منظر 

اس ساری بحث میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آج جس طرح بریلوی عقائد کو شرک و بدعت سے آلودہ قرار دیا جا رہا ہے اور مولانا احمد رضا کو ایک فرقہ کا بانی، تو کیا فی الواقع ایسا ہی ہے؟ نہیں بلکہ تاریخی حقائق کچھ اور ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ فاضل بریلوی نے تو علماء دیوبند کے خلاف فتوے دیے تاہم اکابرین دیوبند کی طرف سے کوئی فتویٰ ان کے( عقائد و معمولات کے ) خلاف نہ تھا۔ بلکہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب علامہ انور شاہ کشمیری سے مناظرہ بہالپور کے دوران پوچھا گیا کہ آپ تو بریلوی علماء کی تکفیر کرتے ہیں تو انہوں نے باقاعدہ بیان قلمبند کروایا کہ وہ کسی صورت بریلویوں کی تکفیر نہیں کرتے۔ یہ عدالتی بیان ۰۵۳۱ھ کے لگ بھگ ہے جب فاضلِ بریلوی کے وصال (۱۳۴۰ھ) کو بھی دس گیارہ سال ہو چکے تھے۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ چند فروعی مسائل کے علاوہ تو کسی بات پر شرک و کفر کے فتویٰ کا مطلب اپنے اکابرین کو متہمّ کرنے کے مترادف تھا کیو نکہ ارواح ثلاثہ ، سوانح قاسمی اور اشرف السوانح جیسی کتب میں درج واقعات کسی طور بھی مروجہ سنی عقائد و معمولات سے ہٹ کر نہیں تھے۔ہاں یہ درست ہے کہ حلقہ دیوبند میں بریلویوں کے خلاف شدت فاضل بریلوی کے تکفیری فتویٰ سے شروع ہوئی تاہم رد بریلویت پر جم کر کام فاضل بریلوی کی وفات کے بھی ۲۵، ۳۰ سال بعد ہوا۔ اس میں دو شخصیات کا کردار اہم ہے۔ ہندوستانی علماء میں مولانا منظور نعمانی چونکہ مناظرانہ ذوق اور طبیعت رکھتے تھے تو وہ کھل کر لکھنے لگے اور مناظرے کیے، اگرچہ آخری عمر میں انہوں نے معارف الحدیث ایسے علمی کاموں کی طرف توجہ دی۔ دوسری شخصیت مولانا سرفراز صفدر کی ہے۔
پاکستان میں بریلوی مکتبہ فکر کے خلاف اصل نفرت اور آواز مولانا حسین علی ( واں بھچراں / تفسیر بلغۃ الحیران والے) کے ہاں سے اٹھی۔ ان کے شاگردوں نے اس میں کافی جوش دکھایا جس میں سر فہرست مولانا غلام اللہ خان، مولانا سرفراز صفدر اور مولانا ضیاء القاسمی وغیرہ تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس انداز فکر کا معروضی تجزیہ نہیں کیا گیا۔ ایک تو مو لانا حسین علی صاحب بڑی متشدد اور تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ اگرچہ خاندان نقشبندیہ مجددیہ موسیٰ زئی شریف کے مجاز تھے، تاہم صوفیاء کی روش کے برعکس مناظرہ جو طبیعت پائی تھی، لہٰذا مشائخ و صوفیاء بالخصوص چشتیہ نظامیہ ( پاکستان میں کثرت ہے) سے بڑی کد تھی۔ اس دور میں پنجاب کے تمام بڑے علماء یا علمی گھرانے خانقاہ سیال شریف سے وابستہ تھے۔ ان چشتی مزاج علماء کے ساتھ جو کہ بریلوی نہ تھے، مولانا حسین علی کی نوک جھوک لگی رہتی۔ اندازہ کریں کہ حضرت پیر مہر علی شاہ گو لڑوی جیسے بزرگ صوفی اور عالم سے بھی موصوف مناظرہ کرنے سے باز نہ آئے۔ تو یہ وہ ذہن تھا جس نے سنی مشائخ اور علماء ( پنجاب کے زیادہ علماء دار العلوم نعمانیہ لاہور کے فاضل تھے اور خیر آبادی منہج رکھتے، گو بگوی خاندان میں حدیث کا ذوق زیادہ تھا) کے خلاف ذہن سازی کی۔ مولانا بھچرانوی کے شاگردوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بعد میں دیوبندیوں میں مماتی فکر بھی اسی مولانا حسین علی کی فکر کا شاخسانہ تھی۔ 
مولانا حسین علی کی متشدد طبیعت کا شاہ عبد القادر رائے پوری علیہ الرحمۃ جیسے بزرگوں کو بڑا احساس تھا۔ ( حضرت کے ’ملفوظات ‘ مرتبہ از مولانا محمد انوری اور ’حیات طیبہ‘ از صاحبزادہ محمد حسین انصاری تمیمی للّہی دیکھیے) بلکہ خودمولانا حسین علی کے پیر بھائی اور بانی خانقاہ سراجیہ، مولانا ابو السعد احمد خان علیہ الرحمۃ ( جن کے علو مقام کے مولانا انورشاہ کشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے بزرگ قائل تھے۔ دیکھیے کتاب " تحفہ سعدیہ ") کو اس تکفیری اورمتشدد طبیعت سے بڑی نفرت تھی۔ ( دیکھیں 'حیات صدریہ'۔سوانح قاضی صدرالدین نقشبندی ) اب چونکہ پچاس / ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کے سنی علماء میں سے علماء دیوبند کے ساتھ بحث مباحثہ کے لیے جو علماء اٹھے وہ زیادہ تر بریلوی اور مرادآبادی سلسلہ کے لوگ تھے، لہٰذا فتویٰ بریلویوں پر لگنا شروع ہوا۔حالانکہ خود سنی حلقوں میں فاضل بریلوی کی کتب کا تعارف اور پڑھنے کا ذوق کہیں بعد میں شروع ہوا، بلکہ بیشتر سنی علماء دیوبندیوں کی فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے خلاف سخت کلامی سے ہی متاثر ہو کر ادھر متوجہ ہوئے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فاضل بریلوی پر جن دو شخصیات نے پاکستان میں سب سے پہلے علمی اور تحقیقی انداز میں کام کیا، وہ دونوں بریلوی نہ تھے نہ بریلوی علماء کے شاگرد۔ میری مراد ڈاکٹر مسعود احمد نقشبندی اور حکیم محمد موسیٰ امرتسری سے ہے۔جیسے پہلے عرض کیا ہے، پنجاب کے سنی علماء کا تعارف بریلویوں سے زیادہ نہ تھا۔ یہاں تو علامہ فضل حق رامپوری ( م ۱۹۴۰ء)، علامہ غلام محمد گھوٹویؒ (م ۱۹۴۰ء)، علامہ معین الدین اجمیری ( م ۱۹۴۰ء )، مولانا مہر محمد اچھروی (م ۱۹۵۴ء) اور مولانا یار محمد بندیالوی ( م ۱۹۴۷ء)، قاضی محمد دین بدھوی (م ۱۹۶۴ء) اور علامہ غلام محمود پپلانوی( م ۱۹۴۸ء) وغیرہ کے شاگرد زیادہ تھے اور یہ سب سنی تھے۔ بریلویوں سے کوئی بھی براہ راست نہ پڑھا تھا۔تاہم جب مولانا حسین علی اور ان کے شاگردوں نے ان علماء کے شاگردوں سے مناظرے شروع کیے تو سارے غیر دیوبندی اب بریلویوں کی چھتری تلے جمع ہونا شروع ہو گئے جن میں مختفو مراکز علمی ( رامپور، فرنگی محل،لکھنو، کانپور، خیرآباد، دارالعلوم نعمانیہ لاہور، بدایوں اور بریلی کے) کے وابستگان تھے۔
اس پس منظر میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ بریلوی عقائد و معمولات کے بڑے حصے کو انیسویں اور بیسویں صدی کے علماء اہل سنت کے بڑے طبقے کی تائید رہی ہے۔ رہاحسام الحرمین کے بعد کے ادوار میں دیوبندی بریلوی شدید منافرت اور دونوں کے اندازو مزاج میں واضح فرق جس میں تطبیق کی کوئی صورت آج دینی مزاج کے لوگوں کے لیے ہضم کرنا مشکل ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ علماء دیوبند نے علمی و تحقیقی اور درس و تدریس پر توجہ دی اور دینی مدارس کے فروغ اور دعوتی کام کی وجہ سے عوام کے بڑے طبقے کو متاثر کیا۔ یوں شعوری طور پر دینی ذوق رکھنے والے لوگ ان کے پاس آتے گئے۔ دوسری طرف بریلوی علماء مولانا حشمت علی لکھنوی ، مولانا اجمل سنبھلی وغیرہ ہندوستان جبکہ پاکستان میں مولانا سردار احمد فیصل آبادی، مولانا عمر اچھروی اور مولانا ابوالبرکات وغیرہ نے اور ان کے شاگردوں نے "رد دیوبندیت" کو ہی موضوع بنایااور ٹھوس علمی کام نہ کرسکے۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ جدید موضوعات تو کجا، روایتی خرافات و رسومات کے آگے بھی بند نہ باندھا جا سکا۔ مزید نقصان یہ ہوا کہ فاضل بریلوی ،جنہوں نے رد بدعات میں بہت کام کیا تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمعصر مشائخ و علماء میں رد بدعات کے حوالے سے شاید ہی کسی نے اتنا کام کیا ہو ،کی اصل فکراور اصلاحی تعلیمات دب گئیں اور نیم خواندہ بریلوی مولوی نورو بشر کے موضوعات پر ہی تقریریں کرکے سنیت کا تعارف کروانے لگے۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ فاضل بریلوی کی اصلاحی تعلیمات کے فروغ میں رکاوٹ میں اہم کردار یہاں کے چشتی نظامی، چشتی صابری اور سہروردی اور قادری مشائخ کی خانقاہوں اور گدیوں کا بھی رہا۔ انہوں نے ان پڑھ مریدوں کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک طرف تو دیوبندیوں کے خلاف ان کے حسام الحرمین کے فتاویٰ کو خوب اچھالا لیکن فاضل بریلوی کی اصل تعلیمات خاص کر رد بدعات کو سامنے ہی نہ آنے دیا۔ یوں علمی کم مائیگی، وعظ پسندی اور جہال کی خرافات و بدعات کوگویا بریلویت کے مترادف سمجھاجانے لگا۔ 
ماضی قریب میں بہت سارے اہل علم اپنے آپ کو اس رد دیوبندیت کی شدت پسند بریلویت سے نہیں جوڑتے۔ متاخرین میں شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی، مولانا محمد عالم آسی امرتسری ، پیر کرم شاہ الازہری، خواجہ غلام سدید الدین مرولوی، مولانا محمد ذاکر بانی جامعہ محمدی شریف جھنگ، شاہ ابوالحسن زید فاروقی، شاہ وجیہ الدین احمد خاں رامپوری ، خواجہ محمد عمر بیر بلوی، قاضی صدر الدین نقشبندی ، علامہ حافظ ایوب دہلوی ، علامہ جمال میاں فرنگی محلی، سید محمد ہاشم فاضل شمسی، علامہ حکیم محمود احمد برکاتی، پروفیسر مولانا شاہ منتخب الحق ، ڈاکٹر فضل الرحمٰن انصاری، محدث دکن شاہ عبد اللہ قادری ، ڈاکٹر پیر محمد حسن، مولانا سعید احمد مجددی،علامہ علی احمد سندھیلوی اور سید نصیر الدین نصیر گیلانی ایسے کئی جید علماء و مشائخ نے خیر آبادی ،فرنگی محلی اور خانوادہ اللٰہی سے منسوب سنیت کو ہی فروغ دیا ہے۔ ذرا دیکھیے، ذیل کے الفاظ میں کس درد مندی اور اخلاص کے ساتھ ایک بڑے سنی عالم نے اس طرف توجہ دلائی ہے:
’’دین کے اصولی مسائل میں دونوں متفق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید ذاتی اور صفاتی، حضور نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بسا اوقات رسالت اور ختم نبوت، قرآن کریم، قیامت اور دیگر ضروریات دین میں کلی موافقت ہے۔ لیکن طرزتحریر میں بیاحتیاطی اور انداز تقریر میں بے اعتدالی کے باعث غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اور باہمی سوءِ ظن ان غلطیوں کو بھیانک شکل دے دیتا ہے۔ اگر تقریرو تحریر میں احتیاط و اعتدال کا مسلک اختیار کیا جائے اور اس بد ظنی کا قلع قمع کر دیا جائے تو اکثر و بیشتر مسائل میں اختلاف ختم ہو جائے۔ اور اگر چند امور میں اختلاف باقی رہ بھی جائے تو اس کی نوعیت ایسی نہیں ہوگی کہ دونوں فریق عصر حاضر کے سارے تقاضوں سے چشم پوشی کیے آستینیں چڑھائے، لٹھ لیے ایک دوسرے کی تکفیر میں عمریں برباد کرتے رہیں۔‘‘
یہ آراء معروف سنی عالم اور صوفی حضرت پیر کرم شاہ صاحب الازہری کی ہیں جس کا اظہار ٹھیک پچاس برس قبل تفسیر ضیاء القرآن کے مقدمہ میں کیا۔ اس میں شک نہیں کہ باہمی تکفیر و تفسیق کے اس دور میں اس جرات مندانہ موقف اور امت کے اجتماعی مسائل کے لیے دلسوزی اور دردمندی کے جذبہ رفیعہ سے پیر صاحب اتحاد بین المسالک کی کوششوں میں اپنے معاصرین سے سبقت لے گئے۔ بعد کے ادوار میں مجاہد ملت مولانا عبد الستار خان نیازی ایسے بزرگوں نے عملی کوششیں بھی کیں جو بوجوہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں۔ تاہم اس کا سنی حلقوں بڑا فائدہ یہ ہوا کہ فہیم و ذی شعور عناصر مذہبی مسائل میں ٹھیٹھ بریلویت اور دیوبندیت کی بجائے اہل سنت کی پرانی معتدل روش کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔پیر کرم شاہ سے کم وبیش بیس سال بعد ہندوستان میں رامپور ،جو دیوبند و بریلی کے مدارس دینیہ سے پہلے کا مشہور دبستان علمی ہے ، کے ایک نہایت قابل فرزند مولانا وجیہ الدین احمد خاں رامپوری نے "مسلک ارباب حق" لکھ کر یہاں احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ سر انجام دیا اور طرفین کی درست باتوں کی تائید اور غلط عقائد و نظریات کا علمی رد کیا، وہیں اتحاد بین المسالک کی دعوت بھی دی۔ اس کتاب کی ثقاہت اور اہل علم و فضل کے ہاں وقعت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ معروف محقق و دانشور پروفیسر نثاراحمد فاروقی ( صدر شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی) نے پیش لفظ لکھا۔ وہ لکھتے ہیں: 
’’حضرت مولانا شاہ وجیہ الدین احمد خاں علیہ الرحمۃ نے دیوبندی اور بریلوی دونوں مدرسہ ہائے فکر کے بارے میں متوازن اور معتدل رائے کا اظہار کیا ہے۔ اور عام مسلمانوں کیلئے جو دین کی بنیادی کتابوں سے براہ راست اور گہری واقفیت نہیں رکھتے، یہی مسلک اعتدال مناسب ہے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ علمائے دیوبند کے بعض اکابر سے لغزشیں ہوئی ہیں۰ مولانا المولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی نے ان لغزشوں پر مدلل نکتہ چینیاں کی ہیں اور وقت نکتہ چینی وہ اکابر موجود تھے۔ لیکن اپنے اقوال کی تفسیریں اور تعبیریں انہوں نے بیان کی ہیں، قول سے رجوع نہیں کیا۔ کاش یہ دیوبندی اکابر اپنے اقوال سے رجوع کر لیتے تو آج ہندوستان کا بہت بڑا اختلاف مٹ جاتا ۔ لیکن نہ اکابر نے رجوع کیا نہ اصاغر نے لغزش کا اقرا ر کیا۔نتیجے میں دیوبندی بریلوی محاذ قائم ہو گیا۔ دوسری طرف بریلوی علماء کے بارے میں حضرت خطیب اعظم فرماتے ہیں کہ حضرات علمائے بریلی نے سخت تشدد اختیار کیا اور لغزشوں کے کرنے والوں کو ہی فقط کافر نہیں کہا بلکہ ان کے کفر میں جو شک کرے، اس کو بھی کافر کہا ہے ۔ اس غلو آمیز عموم سے ہندوستان میں کوئی بھی مسلمان نہیں رہ سکتا ‘‘۔ 
سچی بات ہے کہ آج غیر جانبدار اور تحقیقی ذوق کے علماء اور مفکرین کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف عوامی مزاج کے لیے خاطر خواہ طریقے سے دینی تربیت کا اہتمام ہو سکے۔اس کے لیے بریلوی فکر کی اہمیت سے انکار نہیں۔نیز سلاسل تصوف اور بزرگوں کے عقائد و معمولات سے وابستہ افر اد بھی ان سنی بریلویوں سے ہی قربت محسوس کرتے ہیں اور انہی سے ذوقی مناسبت کی وجہ سے فیض اٹھا سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ طبقات جو شرک و بدعت کے حوالے سے شاہ اسمٰعیل دہلوی اور ان کے اَتباع کی سی حساسیت رکھتے ہیں، علماء دیوبند کی دینی راہنمائی میں شرک و بدعت کے حوالے سے محتاط روی کو حرزِ جان بنا سکتے ہیں۔ جیسے بریلوی علماء کے لیے رد دیوبند سے بڑھ کر رد بدعات اور احیائے دین پر کام کرنا زیادہ ضروری ہے، وہاں پر دیوبندی علماء کوبھی اس فکر سے نکلنا ہو گا کہ امت کے ایک بڑے طبقہ کے معمولات گویا شرک سے آلودہ ہیں۔نیز انہیں اپنے آپ کو یزیدی فکر کے فروغ اور خارجیت جدیدہ کے دست و بازو بننے سے رکنا ہوگا تاکہ دیوبندی بریلوی مسالک صحیح معنوں میں ذوقی چیز ہی رہیں نہ کہ تکفیر و تضلیل سے اپنا شیرازہ بکھیرتے رہیں۔ مسلک ذوقی ترجیح کی حد تک توشاید قابل قبول ہو، لیکن اسے امت میں تشتت و افتراق کی دستاویز کسی صورت نہیں بننے دیا جا سکتا۔

ذوقی رنگ اور متنوع اسالیب 

دیوبند سے مراد مدرسہ دیوبند اور ان کے ہم خیال مدارس اور علمی خانوادے ہیں جبکہ غیر دیوبند اب سارا بریلوی کہلایا جانے لگا ہے۔ اگرچہ بریلوی کی اصطلاح دیوبندی اور وہابی مورخین نے طعنہ آمیزی کے طور پر استعمال کی تاہم اب اسکو دیوبندی بریلی عقائد و معمولات کے عمومی تناظر میں دیکھا جا نے لگا ہے۔ بریلی اور دیگر سنی خانوادہائے علمی کے مقابلے میں دیوبند دعوتِ دین، علمی وتحقیقی کام ،شروح کتب احادیث ودرسیات ، مدارس دینیہ کے قیام اور اتباع سنت میں محتاط روی کی بنا پر خاص مقام کا حامل ہے۔دوسری طرف بریلوی یا غیر دیوبندی ( فرنگی محل، رامپور، خیر آباد، بدایوں اور بریلی علمی گھرانے) امت کے بڑے طبقے کے ساتھ خیر خواہی ، دینی اقدار کے تحفظ کے لیے ترغیب کو ترہیب پر ترجیح دینا، علماء ہند مثلاً شیخ عبد الحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ایسے بزرگوں کی آراء کو دیگر علماء پر فوقیت ، اثبات عقائد و توضیحِ احکامِ فروعی میں معقولات پر زور جبکہ منقولات پر کم توجہ ، صوفیہ کے عقائد و معمولات کی شرعی توجیہ اور ان کے بظاہر غیر محتاط اعمال کی مؤدبانہ حسن تاویل ، مزاجاً خانقاہی نظام سے تمسک و وابستگی کو اہمیت دینا ، ’کثرت عمل ‘کی بجائے ’حسن عمل ‘ پر نگاہ ، علمی و تحقیقی کام کی بجائے صدقہ و خیرات اور عوام الناس کے عرف کی رعایت کرتے ہوئے رسوم و رواج میں شراکت وغیرہ وغیرہ بہت سے اعمال ایسے ہیں جو اس طبقے کی پہچان ہیں۔

طرفین میں معتد ل فکر کے علماء

بریلوی ذہن کے لیے علماء دیو بند میں مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا مناظر احسن گیلانی ، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا ادریس کاندھلوی ، مفتی محمد حسن امرتسری ، مولانا عبد الرشید نعمانی، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی، مفتی تقی عثمانی وغیرہ اور شاہ عبد القادر رائے پوری، مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب نقشبندی، ابو السعد مولانا احمد خان، حضرت مولانا اللہ یار خان اور خواجہ خان محمد جیسے مشائخ میں کشش کا بڑا سامان ہے۔ اسی طرح دیوبندی ذہن کے لیے شیخ الاسلام علامہ انواراللہ فاروقی ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی،علامہ مشتاق احمد چشتی انبیٹھوی، حضرت خواجہ حسن جان سرہندی ، مولانا نور احمد پسروری ثم امرتسری ،حضرت میاں شیر محمد شرقپوری ، خواجہ محمد عمر بیر بلوی ، شیخ الجامعہ علامہ غلام محمد گھوٹوی ، پروفیسر نور بخش توکلی، پیر کرم شاہ الازہری، مفتی محمد حسین نعیمی، مولانا شاہ ابو الحسن زید فاروقی الازہری ، محدث دکن سید عبد اللہ قادری ، مولانا شاہ وجیہ الدین ا حمد خاں رامپوری، مولانا سعید احمد مجددی، محدث عصر علامہ غلام رسول سعیدی، علامہ سید فاروق القادری، مفتی محمد خان قادری اورقاضی عبد الدائم دائم ایسے علماء اور مشائخ کے ہاں کشش کے کئی پہلو ہیں۔اللہ پاک ہمیں دونوں مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کے نوادرات علمی اور اسالیب طریقت سے بہرہ مند فرمائے اورہمیں مسالک سے بڑھ کر دین سے محبت نصیب فرمائے۔آمین 

اپریل ۲۰۱۷ء

دینی مدارس میں عقلی علوم کی تعلیممحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۹)ڈاکٹر محی الدین غازی
اسلامی دنیا میں عقلی علوم کا زوال ۔ عہد زریں اور عہد تاریک کا افسانہپروفیسر اسد احمد
علمِ سماجیات : دعوت نامے کی باز طلبی؟پیٹر برجر
مختلف نظام ہائے قوانین کے اصولوں میں تلفیق : چند اہم سوالاتڈاکٹر محمد مشتاق احمد
قومی بیانیہ اور اہل مدارسمولانا مفتی منیب الرحمن
جوابی بیانیہ اور قومی بیانیہ ۔ ایک تقابلی جائزہعدنان اعجاز
وزیراعظم اور ’’متبادل بیانیہ‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ‘‘مولانا سید متین احمد شاہ

دینی مدارس میں عقلی علوم کی تعلیم

محمد عمار خان ناصر

برصغیر میں اکبری عہد میں ملا فتح اللہ شیرازی کے زیراثر معقولات کی تعلیم کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس نے مقامی تعلیمی روایت پر گہرا اثر ڈالا، چنانچہ اس کے قریبی زمانے میں ملا قطب الدین اور ملا نظام الدین نے ’’درس نظامی‘‘ مرتب کیا تو اس میں یونانی فلسفہ، یونانی منطق اور علم الکلام کے علاوہ ریاضی اور ہیئت کے مضامین بطور خاص نصاب کا حصہ بنائے گئے۔ پورے نصاب پر معقولی رنگ بے حد غالب تھا اور معقولات کے عنوان سے کم وبیش ہر شعبہ علم میں ایسی اعلیٰ سطحی کتابیں شامل کی گئیں جن پر یونانی منطق کی اصطلاحات میں مباحث کی تنقیح کا رنگ کا غالب تھا۔ اس رجحان کے خلاف، شاہ ولی اللہ کی فکری مساعی کے زیر اثر، اصلاح نصاب کی ایک عمومی لہر پیدا ہوئی جس میں منطق وفلسفہ کے مضامین کی فی نفسہ اہمیت نیز ان کی تدریس کے لیے دقیق اور غامض متون کی افادیت پر سوالات اٹھائے گئے اور نتیجتاً نقلی علوم، بالخصوص ترجمہ وتفسیر، حدیث اور زبان وادب سے متعلق تدریسی مواد کا تناسب بڑھتا چلا گیا۔ نصاب میں مختلف مراحل پر ہونے والی تدریجی اصلاحات کے نتیجے میں موجودہ نصاب تعلیم میں معقولی علوم کا تناسب بہت کم ہو چکا ہے اور منطق، فلسفہ اور کلام کے مضامین سے متعلق نصاب سکڑتا ہوا چند مختصر کتابوں تک محدود ہو گیا ہے۔ 
اصلاح نصاب کی یہ تحریک اس زاویے سے یقیناًمفید اور ضروری تھی کہ تشحیذ اذہان کے لیے دقیق اور غامض متون کے حل کی لفظی مشقیں دراصل نفس مضمون اور اس کے مباحث کی تفہیم کی قیمت پر ہوتی ہیں اور عبارتوں کو حل کر لینا ہی ساری تدریسی ریاضت کا منتہائے مقصود بن جاتا ہے۔ مزید یہ کہ کلی طور پر متن پر مبنی طریقہ تدریس میں پڑھنے والوں کا جو ذہنی سانچہ اور اس ذہنی سانچے میں کسی علم کا جو مجموعی تصور بنتا ہے، وہ بڑی حد تک جامد اور بے لچک ہو جاتا ہے جس میں فکری جدلیات اور کسی بھی علم کے دائرے میں فکر انسانی کے ارتقاء اور تغیرات کو سمجھنے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ تاہم ان خامیوں کے تناظر میں اصلاح نصاب کا جو رجحان پیدا ہوا، اس کا نتیجہ سرے سے عقلی علوم اور عقلی مباحث ہی کو نظر انداز کر دینے کی صورت میں نکلا، حالانکہ اصل ضرورت اس چیز کی تھی کہ طریقہ تدریس کو متوازن بنایا جائے اور دور قدیم کے عقلی مباحث کی جگہ ان علوم ومباحث کو شامل نصاب کیا جائے جو آج کی فکری دنیا میں زیر بحث ہیں اور فکر وذہن کے سانچے بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ 
اسی طرح کسی خاص علم کے زیر عنوان چند مخصو ص متون یا نظریات پڑھا دینے کے بجائے یہ ضروری ہے کہ اس علم کے مجموعی ارتقائی سفر اور اس دائرے کے مختلف فکری رجحانات سے طلبہ کو روشناس کرایا جائے۔ مثال کے طور پر درس نظامی میں فلسفہ کے مباحث کی تعلیم وسیع تر تناظر میں دیے جانے کے بجائے ان چند مخصوص کتابوں مثلاً ہدایۃ الحکمۃ، میبذی، الشمس البازغہ اور ملا صدرا وغیرہ کا انتخاب کیا گیا جو اس دور میں مختلف وجوہ سے ایرانی درس گاہوں میں زیادہ مقبول تھیں۔ ان کتابوں کے مضامین یونانی فلسفے کے ان مباحث کے گرد گھومتے ہیں جن سے عباسی دور میں یونانی علوم کے عربی زبان میں ترجمہ کی وساطت سے مسلمان واقف ہوئے۔ ان چند مخصوص کتابوں پر انحصار اور فلسفے کی بنیادی ماہیت اور اس کی عمومی تاریخ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے ذہنوں میں عموماً فلسفہ کا جو تصور پایا جاتا ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ فلاسفہ یا حکماء نام کی کوئی ایک جماعت ہے جس کے کچھ مخصوص ومتعین نظریات ہیں جو ان کے ہاں عقائد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان نظریات کو ’’فلسفہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 
فلسفہ کا یہ تصور، ظاہر ہے کہ بے حد ناقص ہے، کیونکہ فلسفہ چند متعین اور طے شدہ نظریات کا نہیں، بلکہ عقلی بنیادوں پر غور وفکر کی ایک مسلسل روایت کا نام ہے جس میں بے شمار مختلف ومتنوع بلکہ متضاد رجحانات ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ خود مسلمانوں کی فکری روایت اس تنوع اور تغیر وارتقا کی ایک رنگا رنگ داستان ہے۔ عرب ابتداءً ا یقیناًاس طرح کی عقلی بحثوں سے یونانی علوم کے ترجمہ کی وساطت سے واقف ہوئے تھے، لیکن اس کے بعد ان تصورات ونظریات کی تنقیح، تشریح وتوضیح اور تردید واثبات کی ایک مستقل علمی روایت قائم ہو گئی جس میں اگر ایک طرف یونانی فلسفے کے ان تصورات کو اسلامی عقائد کے مطابق ڈھالنے اور انھیں اسلامی عقائد کی عقلی تفہیم کے لیے استعمال کرنے کا رجحان سامنے آیا تو دوسری طرف اس کے برعکس فلسفہ یونان کے اساسی تصورات پر نقد ومحاکمہ کا فکری رجحان بھی پیدا ہوا، چنانچہ دور متوسط میں غزالی اور بعد ازاں ابن تیمیہ وغیرہ نے یونانی منطق وفلسفہ پر جان دار تنقیدیں کیں اور ان عقلی معیارات کو چیلنج کیا جن کی بنیاد پر فلاسفہ کے خلافِ اسلام نظریات کی تائید کی کوشش کی جا رہی تھی۔ 
یونانیوں سے ورثے میں ملنے والے تصورات ومباحث کے علاوہ مسلمانوں میں ایسے جلیل القدر اہل فکر بھی پیدا ہوئے جنھوں نے نئے اور طبع زاد مباحث پر داد فکر دی اور مابعد الطبیعیات کے علاوہ انسانی نفسیات، علم اخلاق، عمرانیات، سیاسیات اور فلسفہ تاریخ جیسے موضوعات پر اپنے نتائج فکر پیش کیے۔ ان میں الکندی، الفارابی، ابن سینا، ابن باجہ، ابن طفیل، ابن رشد، ابن خلدون اور نصیر الدین طوسی وغیرہ کے نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ عقل اور شریعت کے باہمی تعلق جیسے دقیق سوالات پر علم کلام اور اصول فقہ میں معرکہ آرا بحثیں اٹھائی گئیں اور اس حوالے سے مختلف فکری رجحانات معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیرہ مکاتب فکر کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے آئے۔ مسلم صوفیہ نے اہم ترین فلسفیانہ مباحث کے حوالے سے ایک مستقل روایت کی بنیاد ڈالی جس کا بنیادی ماخذ کشف وعرفان اور روحانی سیر ومشاہدہ تھے۔ 
ان معروضات کا حاصل یہ ہے کہ دینی علوم کے نصاب میں عقلیات کو دوبارہ مناسب اہمیت دینے اور منتہی طلبہ کو کلاسیکی عقلی روایت کے ساتھ ساتھ معاصر فکری و فلسفیانہ بحثوں سے متعارف کروانے کی طرف سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۰) ولد اور ابن میں فرق کی رعایت

عربی زبان میں جب ولدکا لفظ آتا ہے تو اس میں بیٹا اور بیٹی دونوں اور ان کی اولاد شامل ہوتے ہیں، یہ مفرد کے لیے بھی آتا ہے اور جمع کے لیے بھی۔ جبکہ ابن کے مفہوم میں صرف نرینہ اولاد یعنی بیٹا ہوتا ہے، علامہ ابوھلال عسکری (چوتھی صدی ہجری) اپنی شہرہ آفاق کتاب الفروق اللغویۃ میں لکھتے ہیں: یقال الابن للذکر والولد للذکر والأنثی۔ قرآن مجید میں دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جہاں ولد استعمال ہوا ہے وہاں اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے اولاد ترجمہ کرنا چاہیے، اور جہاں ابن یا ابن کی جمع بنین یا أبناء استعمال کی گئی ہے، وہاں بیٹا اور بیٹے ترجمہ کرنا چاہیے، دونوں الفاظ یعنی ولد اور ابن کے استعمال کے مواقع پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ولد استعمال ہوا ہے وہاں مفہوم کے لحاظ سے بھی مطلق اولاد ہی کا محل ہے خواہ وہ نرینہ ہو یا نہ ہو، اور جہاں ابن یا بنین استعمال ہوا ہے وہاں مفہوم بھی نرینہ اولاد کے خصوصی تذکرے کا تقاضا کررہا ہے۔ مگر اکثر مترجمین قرآن سے اس فرق کی رعایت ہر جگہ نہیں ہوسکی، ذیل کی مثالوں سے صورت حال واضح ہوجاتی ہے:

ولد کا ترجمہ

(۱) قَالَتْ رَبِّ أَنَّی یَکُونُ لِیْ وَلَدٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ۔ (آل عمران: ۴۷)

’’وہ بولی کہ اے پروردگار میرے کس طرح لڑکا ہوگا جبکہ کسی مرد نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’بولی اے رب کہاں سے ہوگا مجکو لڑکا اور نہ مجہکو ہاتھ لگایا کسی آدمی نے ‘‘(شاہ عبد القادر)
اس آیت میں ولد آیا ہے، اس کا ترجمہ لڑکا کرنے کے بجائے اولاد کرنا چاہیے۔ یہاں بشارت ابن کی تھی، لیکن اظہار تعجب میں ولد کا ذکر ہے، کیونکہ مطلق اولاد ہونے پر تعجب ہوا قطع نظر کہ وہ لڑکا ہوگا یا لڑکی۔

(۲) إِنَّمَا اللّٰہُ إِلَہٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَہُ أَن یَکُونَ لَہُ وَلَدٌ۔ (النساء: ۱۷۱)

’’اللہ تو بس ایک خدا ہے۔ وہ بالاتر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو‘‘ (سید مودودی)
’’سو ایک معبود ہے اس لائق نہیں کہ اس کے اولاد ہو‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’سوائے اس کے نہیں کہ اللہ معبود اکیلا ہے پاکی ہے اس کو کہ ہو واسطے اس کے اولاد‘‘ (شاہ رفیع الدین)

(۳) وَجَعَلُوا لِلّٰہِ شُرَکَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَخَرَقُوا لَہُ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یَصِفُونَ۔ بَدِیْعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنَّی یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُن لَّہُ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْْءٍ وہُوَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ۔ (الانعام: ۱۰۰،۱۰۱)

’’اس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرادیا، حالانکہ وہ ان کا خالق ہے، اور بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کردیں، حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں، وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’کہاں سے ہو اس کے بیٹا‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’کیونکر ہو واسطے اس کے اولاد‘‘ (شاہ رفیع الدین)
دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ یہاں پہلی آیت میں صراحت ہے بنین وبنات کی، پھر دوسری آیت میں مشرکوں کی اسی بات کی تردید کرتے ہوئے ولد لفظ لایا گیا، جو عام ہے اور اس میں بنین اور بنات دونوں شا مل ہوتے ہیں۔ غرض ولد کا بیٹا ترجمہ کرنا درست نہیں ہوگا، اولاد ترجمہ کرنا درست ہے۔

(۴) مَا کَانَ لِلّٰہِ أَن یَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَہُ۔ (مریم: ۳۵)

’’اللہ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ذات ہے‘‘ (سید مودودی، مناسب ترجمہ ہوگا’’اللہ کے شایان شان نہیں ہے‘‘)
’’اللہ ایسا نہیں کہ رکھے کوئی اولاد وہ پاک ذات ہے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۵) مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِن وَلَدٍ (المؤمنون: ۹۱)

’’اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’اللہ نے کوئی بیٹا نہیں کیا‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۶) قُلْ إِن کَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِیْن۔ (الزخرف: ۸۱)

’’ان سے کہو اگر واقعی رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا‘‘ (سید مودودی) 

(۷) وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً سُبْحَانَہُ۔ (البقرۃ: ۱۱۶)

’’اور کہتے ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے، اس کی شان ان باتوں سے ارفع ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی، مناسب ترجمہ ہوگا’’نے اولاد بنارکھی ہے‘‘)
’’اور کہتے ہیں اللہ رکھتا ہے اولاد وہ سب سے نرالا ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اللہ پاک ہے ان باتوں سے ‘‘(سید مودودی)

(۸) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً۔ (الاسراء:۱۱۱)

’’اور کہہ سرا ہے اللہ کو جس نے نہیں رکھی اولاد‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اور کہو تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا‘‘ (سید مودودی)

(۹) وَیُنذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً۔ (الکہف:۴)

’’اور ان لوگوں کو ڈرادے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے‘‘ (سید مودودی، ’’ڈرادے کے‘‘ بجائے’’ خبردار کرے ‘‘مناسب ترجمہ ہوگا)
’’اور ڈر سنادے ان کو جو کہتے ہیں اللہ رکھتا ہے اولاد‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۱۰) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً۔ (مریم: ۸۸)

’’وہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ‘‘(سید مودودی)
’’اور لوگ کہتے ہیں رحمن رکھتا ہے اولاد ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۱۱) أَن دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَداً۔ (مریم: ۹۱)

’’کہ لوگوں نے رحمان کے لیے اولاد ہونے کا دعوی کیا ‘‘(سید مودودی)

(۱۲) وَمَا یَنبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَداً۔ (مریم:۹۲)

’’رحمان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے‘‘ (سید مودودی)
’’اور نہیں بن آتا رحمن کو کہ رکھے اولاد‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۱۳) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَداً سُبْحَانَہُ۔ (الانبیاء: ۲۶)

’’یہ کہتے ہیں رحمان اولاد رکھتا ہے، سبحان اللہ‘‘ (سید مودودی)
’’اور کہتے ہیں رحمن نے کرلیا کوئی بیٹا وہ اس لائق نہیں ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اور کہا انہوں نے کہ پکڑی ہے رحمن نے اولاد پاک ہے وہ ‘‘(شاہ رفیع الدین)

(۱۴) وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً۔ (الفرقان: ۲)

’’جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ‘‘(سید مودودی)
’’اور نہ پکڑی اولاد ‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اور نہیں پکڑا اس نے بیٹا‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۱۵) لَوْ أَرَادَ اللّٰہُ أَنْ یَتَّخِذَ وَلَداً لَّاصْطَفَی مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ سُبْحَانَہُ۔ (الزمر: ۴)

’’اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا برگزیدہ کرلیتا، پاک ہے وہ اس سے ‘‘(سید مودودی)
’’اگر اللہ چاہتا کہ اولاد کرلے تو چن لیتا اپنی خلق میں جو چاہتا وہ پاک ہے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۱۶) وَأَنَّہُ تَعَالَی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَلَا وَلَداً۔ (الجن: ۳)

’’اور یہ کہ اونچی ہے شان ہمارے رب کی نہیں رکھی اس نے جورو نہ بیٹا‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے، اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا‘‘ (سید مودودی)
’’اور یہ کہ بہت بلند ہے عزت پروردگار ہمارے کی، نہیں پکڑی اس نے بی بی اور نہ اولاد ‘‘(شاہ رفیع الدین)
مذکورہ بالا تمام آیتوں میں ولد کا ترجمہ لڑکا یا بیٹا کرنے کے بجائے اولاد کرنا درست ہے۔

بَنِیْنَ کا ترجمہ

(۱) وَجَعَلَ لَکُم مِّنْ أَزْوَاجِکُم بَنِیْنَ وَحَفَدَۃً۔ (النحل: ۷۲)

’’اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لئے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’ان نیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کئے‘‘(سید مودودی)

(۲) الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔ (الکہف:۴۶)

’’مال وپسران آرائش زندگانی دنیا را‘‘ (شیخ سعدی)
’’مال وفرزندان آرائش زندگانی دنیا است‘‘ (شاہ ولی اللہ)
’’مال واولاد دنیوی زندگی کی زینت ہیں ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’مال واولاد تو دنیا کی ہی زینت ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’مال واولاد حیات دنیا کی ایک رونق ہے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے‘‘(سید مودودی)
’’مال اور بیٹے رونق ہیں دنیا کے جیتے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۳) وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ۔ (الاسراء:۶)

’’اور تمہاری مال واولاد سے مدد کی ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’اور مال واولاد سے تمہاری مدد کی‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی ‘‘(سید مودودی)
’’اور زور دیا تم کو مالوں سے اور بیٹوں سے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۴) أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّہُم بِہِ مِن مَّالٍ وَبَنِیْنَ۔ (المؤمنون: ۵۵)

’’کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو ان کے مال واولاد میں اضافہ کررہے ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جو بھی ان کے مال واولاد بڑھارہے ہیں‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’کیا خیال رکھتے ہیں کہ یہ جو ہم ان کو دئے جاتے ہیں مال اور اولاد ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’کیا گمان کرتے ہیں یہ کہ جو کچھ مدد دیتے ہیں ہم ان کو ساتھ اس کے مال سے اور بیٹوں سے‘‘ (شاہ رفیع الدین)

(۵) أَمَدَّکُم بِأَنْعَامٍ وَبَنِیْنَ۔ (الشعراء: ۱۳۳)

’’اس نے تمھاری مدد کی چوپایوں اور اولاد سے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اس نے تمہاری مدد کی مال اور اولاد سے ‘‘(محمد جونا گڑھی)
’’تمہیں جانور دئے، اولادیں دیں‘‘ (سید مودودی)
’’پہنچائے تم کو چوپائے اور بیٹے ‘‘(شاہ عبدالقادر)
یہاں ایک بات اور واضح رہے کہ مذکورہ بالا کچھ آیتوں میں امداد کی تعبیر استعمال ہوئی ہے، اس کا صحیح ترجمہ عطا کرنا ہے، نہ کہ مدد کرنا یا اضافہ کرنا۔اس موضوع پر تفصیلی گفتگو اس لفظ کے تحت ہوئی ہے۔

(۶) أَن کَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِیْنَ۔ (القلم: ۱۴)

’’یہ کردار اس وجہ سے ہوا کہ وہ مال واولاد والا ہے ‘‘(امین احسن اصلاحی، ’’یہ کردار اس وجہ سے ہوا‘‘ کے بجائے مناسب ترجمہ ہوگا ’’اس وجہ سے کہ‘‘ یعنی یہ علت ہے اس رویہ کی جس کا ذکر آگے آرہا ہے نہ کہ اس کردار کی جس کا ذکر پہلے ہوا )
’’اس بنا پر کہ وہ بہت مال واولاد رکھتا ہے ‘‘(سید مودودی)
’’اس سے کہ رکھتا ہے مال اور بیٹے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۷) وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ۔ (نوح: ۱۲)

’’اور مال واولاد سے تمہیں فروغ بخشے گا ‘‘(امین احسن اصلاحی، مناسب ترجمہ ہوگا: ’’اور مال اور بیٹوں سے تمہیں نوازے گا‘‘)
’’تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا ‘‘(سید مودودی)
’’اور تمہیں خوب پے در پے مال اور اولاد میں برکت دے گا‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور بڑھنے دے گا تم کو مال اور بیٹوں سے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۸) وَبَنِیْنَ شُہُوداً۔ (المدثر: ۱۳)

’’اور بیٹے حاضر ہونے والے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دئے‘‘ (سید مودودی)

(۹) زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِیْنَ۔ (آل عمران: ۱۴)

’’لوگوں کے لئے مرغوبات نفس عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنادی گئی ہیں ‘‘(سید مودودی)
’’رجھایا ہے لوگوں کو مزوں کی محبت پر عورتیں اور بیٹے ‘‘(شاہ عبدالقادر)
مذکورہ بالا تمام آیتوں میں بنین کا ترجمہ اولاد کرنے کے بجائے بیٹے کرنا درست ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ وہ بہت سی آیتیں جن میں لفظ ولد آیا ہے، دراصل وہاں قرآن مجید نے کافروں کے اس جھوٹے دعوے کی تردید کی ہے ، جو وہ کیا کرتے تھے کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد اختیار کی ہے، یہاں اصل مسئلہ اولاد اختیار کرنے کا ہے، خواہ وہ نرینہ اولاد ہو یا غیر نرینہ اولاد ہو۔ ویسے بھی منسوب کرنے والوں نے اللہ کی طرف دونوں طرح کی اولاد کو منسوب کیا، چنانچہ اللہ کی طرف سے تردیدکے لیے وہ لفظ اختیار کیا گیا جس سے بیک وقت دونوں باتوں کی تردید ہوجائے۔اس کی بہت واضح مثال اوپر مذکور سورہ انعام کی آیت نمبر ۱۰۰ اور ۱۰۱ ہیں، جہاں پہلے بنین اور بنات کے الفاظ آئے اور پھر انہیں ولد کہہ کر ایک لفظ میں بیان کردیا۔
دوسری طرف تنہا بنین کا لفظ زیادہ تر اس پس منظر میں آیا ہے کہ لوگ نرینہ اولاد کو باعث قوت اور سامان شان وشوکت سمجھتے ہیں، اور اس پر اتراتے ہیں جبکہ یہ سب اللہ کی نوازش ہے۔ غرض جس سیاق میں بنین کا لفظ آیا ہے، وہ سیاق اسی خاص لفظ کا مقتضی ہے۔ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ایسے بیشتر مقامات پر بنین کا لفظ مال یا اس کے ہم معنی لفظ کے ساتھ آیا ہے۔
اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ ترجمہ میں اس فرق کی رعایت بہت ضروری ہے جس فرق کا اہتمام خود قرآن مجید میں بہت خاص طریقے سے کیا گیا ہے۔
(جاری)

اسلامی دنیا میں عقلی علوم کا زوال ۔ عہد زریں اور عہد تاریک کا افسانہ

پروفیسر اسد احمد

ترجمہ: عاطف حسین

(پروفیسر اسد کیو احمد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے سے منسلک ہیں۔ پیش جدیدی مسلم معاشروں کی سماجی اور فکری تاریخ ان کی تحقیق کے خاص میدان ہیں۔ یہ تحریر اکتوبر 2013ء کی ہے۔ مترجم)

کوئی دو ماہ قبل مجھے امیریکن اسلامک کانگریس نامی ایک این جی او کی طرف اسلام اور سائنس کے موضوع پر ایک مباحثے میں شمولیت کی دعوت ملی۔ مجھے بتایا گیا کہ اس میں میرے ساتھ ایک پاکستانی عوامی اسپیکر بھی شرکت کریں گے (یہ اسپیکر پروفیسر ہودبھائی تھے۔ مترجم) جو اسلامی فکر کی تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مسلم دنیا میں سائنس اور دوسرے عقلی علوم کی اشاعت و ترویج کے لیے کوشاں ہیں۔ مجھے اس مباحثے میں فوری طور پر دلچسپی محسوس ہوئی کیونکہ ماقبل جدید (800۔1900ء) مسلم دنیا میں عقلی علوم جیسے کہ فلسفہ،منطق اور فلکیات وغیرہ کی تاریخ میرے مطالعے کا خصوصی موضوع ہے۔
کئی سالوں سے میں آہستہ آہستہ مگر بڑی محنت سے مسلم عقلی علوم کے متعلق مباحث کی مختلف تہوں کو پلٹ رہا ہوں تاکہ مسلم دنیا میں سائنس کی تاریخ کے متعلق ایک ذمہ دارانہ بیانیہ تشکیل دے سکوں۔ مجھے اپنے کام اور پوری دنیا میں انفرادی حیثیتوں اور ٹیموں کی شکل میں اسی علمی مشغلے میں مصروف اپنے ساتھیوں کے کام سے ماضی کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے۔ اگرچہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے، لیکن اب تک اپنی دریافتوں کے نتیجے میں ہم سب متفقہ طور پر ایک عرصے سے درست تسلیم کی جانے والی مسلم عہد زریں اور اس کے بعد مسلم دنیا میں علومِ عقلی کے زوال کی کہانی کو مسترد کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
چونکہ اب تک اس موضوع پر کچھ اہم کام ہوچکا ہے، اس لیے میں نے عام لوگوں کے ساتھ اب تک ہونے والی تحقیقات کے نتائج پہنچانے کے موقعے کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مباحثے میرے ساتھ شریک دوست کو پہلے بولنے کا موقع ملا اور انہوں اپنی گفتگو کا آغاز ایک ایسی بات سے کیا جس سے مجھے مکمل اتفاق ہے۔ وہ یہ کہ فی زمانہ مسلم دنیا میں سائنس اور باقی عقلی علوم کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور اسے جلد از جلد بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ عمدہ آغاز تھا لیکن اس کے بعد انہوں نے اس صورتِ حال کے جو اسباب گنوائے، وہ محل نظر تھے۔ کچھ دلچسپ ذاتی تجربات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے فرمایا کہ اس صورت حالات کی تاریخی وجوہات مسلم عہدزریں کے اختتام اور تاریک دور کے آغاز میں، جس میں مسلم روایت پرستی کو عروج حاصل ہوا، تلاش کی جانی چاہیے۔
ان کی بیان کی ہوئی کہانی کے مطابق سنی ماہر الہٰیات غزالی کے حملوں کے نتیجے میں مسلم دنیا میں علوم عقلی زوال آشنا ہوگئے۔ فلسفیوں پر برا وقت آیا اور ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، فطری مظاہر کی توجیہ معجزوں سے کی جانے لگی، اجرام فلکی کی حرکت کے ذمہ دار فرشتے قرار دیے گئے اور اس طرح مسلمان سائنسی ترقی کے قابل ہی نہ رہے کیونکہ انہوں نے سببیت کا ہی انکار کردیا تھا۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اس تناظر میں یہ بالکل بھی تعجب خیز نہیں ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں نے علم کی دنیا میں مزید کوئی ترقی نہیں کی۔ اور آج جو ہم صورتِ حالات دیکھ رہے ہیں، یہ اسی کا نتیجہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ عقل دشمنی کی اسی صدیوں پرانی روایت کا تسلسل ہے۔
تاہم یہ سب ایسے نہیں ہوا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ تہافت الفلاسفہ میں غزالی کا نشانہ عقل یا فلسفہ تھے ہی نہیں۔ غزالی کا اعتراض جیسا کہ انہوں نے ایک سے زائد ابتدائیوں اور پھر پوری کتاب میں باربار واضح کیا ہے، اسلامی عقائد کے متعلق بحثوں میں ناقص منطق سے استدلال کرنے والے مابعد الطبیعیاتی مفکروں پر ہے۔ غزالی نے بڑی صراحت سے لکھا ہے کہ عقائد کے علاوہ دوسرے معاملات یعنی ایسی چیزیں جو سائنسی نوعیت کی ہیں، ان میں فلاسفہ سے نہیں جھگڑنا چاہیے۔ وہ (غزالی) تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر کسی چیز کی سائنسی توجیہ اور حدیث میں تعارض ہو تو زیادہ بہتر رویہ یہ ہے کہ حدیث کو ضعیف قرار دے کر رد کردیا جائے۔ اسی طرح اگر الہامی متن اور سائنسی طور پر ثابت شدہ کسی چیز کے درمیان تعارض واقع ہوجائے تو متن کے استعاراتی معنی مراد لیے جائیں گے۔ درحقیقت یہ بات بالکل واضح ہے کہ غزالی عقل کو روایت پر ترجیح دیتے ہیں۔ فقہی معاملات میں انہوں نے اندھی تقلید پر شدید تنقید کرتے ہوئے عقل کو ہی نقلی علوم کی بنیاد قراردیا ہے۔
غزالی کے بعد بھی مسلم دنیا میں عقل کے متعلق یہ رویہ جاری رہا۔ اس روایت کو زندہ رکھنے والے بے شمار مفکروں میں سے نصیرالدین طوسی (وفات 1274 ) ، قطب الدین شیرازی (وفات 1311)، عضدالدین ایجی (وفات 1355)، سید شریف جرجانی (وفات 1413) اور محب اللہ بہاری (وفات 1707) کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک فلکیات سے مابعد الطبیعات تک مختلف علوم میں مسلم علماء کا موقف بالعموم یہی رہا کہ عقل ہی وہ سائنسی تمثیلات مہیا کرتی ہے جن سے کائنات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم ریاضیاتی اور منطقی طور پر درست ہونے کے بعد باوجود یہ طے کرنا کئی دفعہ ممکن نہیں ہوتا کہ ان میں کونسی تمثیل دوسروں سے برتر ہے۔ بالفاظ دیگر مسلم علماء نے سائنس کے بارے میں بعینہ وہی رویہ اختیار کیا جو ڈیوڈ ہیوم کے بعد مغربی دنیا میں اختیار کیا گیا۔ اتفاق سے ہیوم ہی وہ شخص ہے جس نے سببیت اور استقرائی منطق کے مابعد الطبیعاتی پہلووں کے متعلق بہت اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ درحقیقت غزالی کے بعد کے دور میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں علماء نے بڑی صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ سائنسی تحقیق عقائد کے لیے بالکل مضر نہیں ہے۔
مبادا کہ قارئین کو ان علماء کی اہمیت کے بارے میں کوئی شک ہو، میں بیان کرتا چلوں کہ جن علماء کا میں ذکر کررہا ہوں، وہ کوئی ایرے غیرے نہیں بلکہ تفسیر، حدیث، فلکیات، طب اور ریاضی جیسے علوم پر دسترس رکھنے والے غیر معمولی لوگ تھے جو پیچیدہ پیش جدیدی معاشرے میں ایک سے زائد کردار نبھا رہے تھے۔ یہ کوئی ایسی حیرانی کی بات نہیں کیوں کہ بیسویں صدی کے آغاز تک مدرسے کے نصاب میں نقلی علوم کے مقابلے میں عقلی علوم کے متعلق زیادہ کتابیں شامل ہوتی تھیں۔ درحقیقت اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ الہامی متون کے درست اور ذمہ دارانہ مطالعے کے قابل بننے کے لیے پہلے عالم کو منطق و خطابت، حتیٰ کہ طب جیسے علوم میں مہارت پیدا کرنی چاہیے۔ گویا اس طرح سے ہماری تحقیق کے بالکل آغاز میں ہی واضح ہوگیا ہے کہ عقل و وحی، عقلیت پسند و روایت پسند، عہدزریں و عہد تار اور فلسفی و ملا جیسی سادہ و سطحی ثنائیات کو سرے سے ترک کردینا چاہیے۔ اور اسلامی تناظر میں "آرتھوڈوکسی’’، "کلیرک "اور "سیمینری’’ جیسی اصطلاحات کا استعمال تو ہے ہی بالکل بے جا اور غلط۔۔
تو پھر ہمارا یہ حال کیسے ہوا؟ اور اس کے متعلق کسی تحقیق کی آخر کیا ضرورت ہے؟ میں دوسرے سوال سے شروع کروں گا کیوں کہ اس کا جواب آسان ہے۔ اگر تو روشن خیال اور لبرل دانشوروں کی طرف سے بار بار دہرایا جانے والا بیانیہ جو میرے ساتھ مباحثے میں شریک میرے دوست نے بھی پیش کیا، درست ہے، یعنی یہ کہ اسلامی دنیا میں عقلی علوم کی موجودہ حالت زار عقل کے متعلق مین اسٹریم اسلام کے رویے کا براہ راست نتیجہ ہے تو پھر میں تو مسلمانوں کو یہی مشورہ دوں گا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑدیں۔ کیونکہ میرے خیال میں جو مذہب عقل جیسی بنیادی ترین ذہنی استعداد کا انکارکرتا اور اسے دباتا ہو، وہ سچا مذہب نہیں ہوسکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عہدزریں اور زوال کے بیانیے کا فوری نتیجہ بالکل وہی ہے جو اسلامو فوبیا میں مبتلا لوگوں کا موقف بھی ہے یعنی یہ کہ مسلمانوں کو اپنا مذہب ترک کر دینا چاہیے۔ یہ لوگ ہمیں باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مین اسٹریم روایت پرستانہ اسلام کی وجہ سے 900 سال سے علوم عقلی اسلامی دنیا میں اجنبی ہیں۔ تو یہ مذہب ہے ہی غلط اور اسے اب ناپید ہوجانا چاہیے۔ اب اسے ستم ظریفی کہیے کہ اس بیانیے سے کچھ اسلام پسند گروہوں جیسی ہی شدت پسندی پیدا ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک بھی اسلام کی ابتدائی صدیوں کا دور مثالی تھا جس کی طرف وہ لوٹ کرجانا چاہتے ہیں۔ رہے ہم جیسے لوگ تو وہ معقولیت کی تلاش میں ان دونوں انتہاؤں کے درمیان پس رہے ہیں۔
یہ مقبول بیانیہ انتہائی خطرناک تو ہے، لیکن خوش قسمتی سے یہ بالکل ہی غیر علمی اور بودا بھی ہے اور علوم عقلی کے متعلق اسلامی دنیا میں تخلیق کردہ قلمی نسخوں کے بحر ذخار میں سے محض چند قطرے دیکھنے کے بعد ہی مغربی علمی حلقوں میں اب کوئی بھی اب اس بیانیے پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ تو پھر آخر اسلامی دنیا میں علوم عقلی کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا؟ سچ تو یہ ہے کہ ابھی ہم پورے یقین کے ساتھ کوئی جواب دینے کے قابل نہیں ہوئے، لیکن میں اپنی تحقیق کے دوران کئی ایسے عوامل کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوا ہوں جو اسلامی دنیا میں فلسفے، فلکیات اور طب جیسے علوم کے زوال کا باعث بنے ہیں۔ میں ان میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کرتا ہوں، لیکن مکمل تصویر کے لیے ہمیں ابھی مزید تحقیق کا انتظار کرنا ہوگا۔
ایک وجہ تو یہ رہی کہ انیسویں صدی کے وسط میں علو م عقلی میں تربیت یافتہ علماء کو شاہی سرپرستی میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے ایسے علماء مختلف درباروں سے قاضیوں، شاعروں، تحصیل داروں، سفارت کاروں ، طبیبوں اور نقشہ نویسوں کی حیثیت سے منسلک ہوتے تھے اور یہیں سے ا ن کی سرپرستی ہوتی تھی۔ تاہم برطانوی راج کے عروج کے نتیجے میں جب ایسے دربار ختم ہونے شروع ہوئے تو ایسے علماء بھی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ اس سے پیدا ہونے والے خلا کو بین العلاقائی مصلحین کے گروہوں سے تعلق رکھنے والے عوامی مبلغوں نے پر کرنا شروع کردیا جن کی تربیت بالکل ہی الگ ڈھنگ پر ہوئی تھی۔
جنوبی ایشیا کی حد تک علوم عقلی کے زوال کی ایک اور وجہ اردو کو مسلمانوں کے ہاں ادب کی بنیادی زبان کا درجہ حاصل ہوجانا بھی تھی۔ عقلی علوم کے متعلق قریب قریب کل تصانیف عربی ( اور کچھ فارسی میں ) تھیں۔ ان زبانوں (عربی اور فارسی) میں عقلی علوم کی لمبی تاریخ کے دوران وجود میں آنے والا فنی اصطلاحات کا ایک پورا ذخیرہ موجود تھا، لیکن ان زبانوں کے متروک ہوجانے اور ان سے اردو میں ترجمے کی کسی منظم کوشش کی عدم موجودگی میں اس ذخیرے کے ضیاع کے نتیجے میں علومِ عقلی کا معیار بڑی حد تک گر گیا۔
اسی طرح ، اگرچہ یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے ، لیکن علوم عقلی کے زوال میں کچھ کردار شاید پرنٹنگ ٹیکنالوجی میں ترقی نے بھی ادا کیا ہو۔ مسلم علماء مخطوطات پر ہاتھ سے حاشیے اور تشریحات لکھنے کے عادی تھے۔ اس طرح ہر شعبہ علم میں ایک ایسی داخلی جدلی روایت وجو د میں آئی جو اس شعبہ علم کی ترقی کی براہِ راست ذمہ دار تھی۔ تاہم پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی آمد کے باعث صورتِ حالات بدل گئی۔ اب نہ قلمی نسخے رہے اور نہ ان پر لکھے ہوئے حاشیے۔ اس طرح کسی موضوع پر تاریخی مباحث سے براہ اکتساب کی روایت بھی دم توڑ گئی۔ درحقیقت (مین اسٹریم اسلام کی عقل دشمنی کے بجائے) ان چند ایک عوامل کے ساتھ اور بے شمار سماجی، سیاسی، ثقافتی، ادارہ جاتی اور ٹیکنالوجیکل عوامل دراصل آج مسلم دنیا میں علوم عقلی کی زبوں حالی کے ذمہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ تشخیص درست ہو یعنی یہ کہ مین اسٹریم ‘روایتی’ اسلام عقل کا دشمن نہیں ہے تو پھر اس زبوں حالی کا حل بھی کہیں اور تلاش کرنا پڑے گا۔ میں یہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس پر غور و فکر کریں کہ وہ حل کیا ہوسکتے ہیں اور ان کو کیسے روبعمل لایا جاسکتا ہے۔
اب میں آخر میں کچھ روشنی اس چیز پر ڈالنا چاہتا ہوں کہ نام نہاد عہد تاریک کے دوران ہونے والے کام کے وسیع ذخائر کو نظر انداز کرتے ہوئے عہد زریں و عہِ تاریک کا بیانیہ پیدا ہی کیونکر ہوا، کیوں یہ اب بھی مقبول ہے اور شاید آگے بھی باوجود ہمارے جیسے لوگوں کی کوششوں کے مقبول ہی رہے گا۔ اس کو جس خوبصورتی سے کولمبیا یونیورسٹی کے جنوبی ایشیائی مطالعات کے اروند رگوناتھ پروفیسر شیلڈن پولاک نے واضح کیا ہے، میں اس سے بہتر طور پر نہیں کرسکتا۔ پروفیسر صاحب ہندوستانی دانش کی تاریخ پر ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
"سائنس اور اسکالر شپ کے متعلق ، خصوصاً دور جدید کے ابتدائی دنوں میں مختلف علوم کی تاریخ کے متعلق گہری تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ مخطوطات کی لائبریریوں کی لائبریاں یوں ہی پڑی ہیں جن کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ایسا کیوں ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب ان مخطوطات کو پڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ ہی کم ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے علماء کی کمی جدیدیت اور نوآبادی نظام کے بدترین نتائج میں سے ایک ہے، اگرچہ اس بارے میں بات بہت کم کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی اس کے علاوہ اور وجوہات بھی ہیں جن میں سے ایک مستشرقین کا یہ رومانوی نظریہ بھی ہے کہ کسی بھی ہندوستانی مصنوع، کتاب یا خیال کی اہمیت و وقعت اس کی قدامت سے طے ہوتی ہے۔ اسی طرح نوآبادیاتی دور کا یہ بیانیہ بھی، جس کو برطانوی سامراجی منصوبے کے تحت شروع کیے جانے والے ‘مہذب بنانے‘ اور ‘جدید بنانے‘ کے پراجیکٹ میں بنیادی حیثیت حاصل تھی، کہ ہندوستانی تہذیب 1800ء سے پہلے ہی زوال آشنا ہوچکی تھی اس صورتِ حالات کا ذمہ دار ہے۔ اس کا ایک مظہر وہ تحقیر اور بے اعتنائی ہے جس کے ساتھ’دیسی ‘ علماء نے اپنے سامراجی آقاؤں کی طرح عظیم ہندی لٹریچر کو ٹھکرایا ہے۔‘‘
یہ بیانیہ نوآبادیاتی استشراقی افسانے کے طور پر شروع ہوا جو اب ایک طرح کے نواستشراقی مظہر کے طور پر اپنے ماضی سے کٹ جانے والے لوگوں میں رائج ہوگیا ہے۔ اس تناظر میں میرے خیال میں اب مسلمانوں کے پاس صرف دو ہی انتخابات ہیں۔ یا تو وہ یہی استشراقی راگ الاپتے ہوئے اپنی بیماری کی غلط تشخیص کرتے اور اس طاقتور افسانے کے زورپر شدت پسندی کی پرورش کرتے رہیں یا پھر وہ اپنی زبانوں کو ازسر نو زندہ کریں، ایسے تاریخ دان پیدا کریں جو اصل مصادر میں غواصی کرسکیں ، ایسے فلسفی پیدا کریں جو سطحی ثنائیات سے آگے بڑھ کر مہارت اور خلوص کے ساتھ ان مباحث کو آگے بڑھا سکیں۔ اگر ایسا ہو سکے تو تبھی شاید مسلمان تاریخ کے نام پر سنی ہوئی کہانیوں کو ازسر نو لکھنے اور اپنے پیچیدہ مسائل کے حل دریافت کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے۔
(بشکریہ http://daanish.pk/2582)

علمِ سماجیات : دعوت نامے کی باز طلبی؟

پیٹر برجر

ترجمہ: عاصم بخشی

زندگی کے اس موڑ پر ایک ماہر سماجیات کے طور میرے تشخص میں ایسا کچھ خاص داؤ پر نہیں لگا ہوا۔ اگر علمی تخصص کی بابت پوچھا جائے تو میں خود کو ماہر سماجیات ہی کہوں گا، لیکن اِس تخصیص کا اِس سے کچھ خاص لینا دینا نہیں جو میں کرتا ہوں یا خود کو سمجھتا ہوں۔ میں اِس علمی دائرے سے منسلک محققین کے کام پر سرسری توجہ ہی دیتا ہوں اور یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ بھی میرے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال کچھ ایسی بری بھی نہیں۔لیکن مجھے کبھی کبھار یاد آتا ہے کہ میں اپنی پرجوش جوانی میں دوسروں کو کافی جذباتی انداز میں اپنی تحریروں (جو خوش قسمتی سے آج بھی اشاعت میں ہیں) اور تدریس سے علم سماجیات کی دعوت دیتاتھا۔ کیا مجھے اپنے اس عمل پر پشیمان ہونا چاہئے؟ کیا مجھے متانت سے دعوت کے منسوخ ہونے کا اعلان کر دینا چاہئے تاکہ ایک دیوالیہ ادارے کا رخ کرتے مزید معصوم طلباء کی گمراہی کا الزام مجھ پر نہ لگے؟ میرا خیال ہے کہ ان دونوں سوالوں کا جواب ایک شکستہ دل سی ’’نہیں‘‘ ہے۔ ’’نہیں‘‘ کیوں کہ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ و ہ علم سماجیات جس کی میں نے کبھی وکالت کی تھی آج بھی اتنا ہی مستند ہے ، اور’’ شکستہ دل‘‘ کیوں کہ خود کو ماہر سماجیات کہنے والے بہت سے لوگ واقعتا یہ نہیں کر رہے۔ کیا ان حالات کے بدلنے کا کوئی امکان ہے؟ شاید نہیں جس کی محکم سماجیاتی وجوہات ہیں۔تاہم اس سے پہلے کہ علاج کے امکانات کا جائزہ لیا جائے، واضح تشخیص ضروری ہے۔
یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ ایک عظیم اور تیزرفتار تبدیلیوں کا دور ہے۔ یہ محض اس وسیع قلب ماہیت کا ایک سرعت پذیر دور ہے جو پہلے یورپ اور پھر تیز رفتاری سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جدیدیت کا بہاؤ تھا۔یہ یاد دہانی چشم کشا ہے کہ علم سماجیات اس عظیم بہاؤ کے کسی نہ کسی حد تک فہم اور اس پر ممکنہ طور پر قابو پانے کی کوشش کے نتیجے میں وضع ہوا۔ یہ صورتِ حال واضح طور پر ان تین ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں واضح طور پر علم سماجیات کے تین ممیز روایتی دھارے ظہور میں آئے، یعنی فرانس، جرمنی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ۔ جدیدیت کا فہم بلکہ شاید اس کو قابو میں لینے کی خواہش! کیا ہی رعب دار تجویز ہے! لہٰذا اس میں حیرا نی کی کوئی بات نہیں کہ اولین سماجی گرو قابل رشک ذہنی اور زیادہ تر مثالوں میں انفرادی صلاحیتیں رکھنے والے اہل علم تھے۔ کئی علمی نسلوں بعد آنے والے متاخرین سے اسی قسم کی قابل موازنہ خصوصیات کی توقع خام خیالی ہو گی۔ لیکن کم از کم فکری رویوں میں ایک مخصوص تسلسل کی توقع تو کی جا سکتی ہے، یعنی ماہیت نہیں تو کم از کم ایک قسم کا جوہری تسلسل ہی سہی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ منظر نامہ ایسا ہی ہے۔اپنے کلاسیکی دور یعنی تقریباً ۱۸۹۰ سے ۱۹۳۰ کے درمیان علمِ سماجیات نے زمانے کے ’’عظیم سوالوں‘‘ سے تعلق رکھا، لیکن آج یہ زیادہ تر ان سوالوں سے کتراتا نظر آتا ہے اور جب نہیں کتراتا تو انہیں بہت مجرد انداز میں موضوع بناتا ہے۔
کلاسیکی ماہرین سماجیات اپنی خواہشات و تعصبات سے اوپر اٹھ کر سماجی منظرنامے پر ایک معروضی نظر ڈالنے میں بہت محتاط تھے(جس کی تعریف میکس ویبر نے اپنے بدنامِ زمانہ تصور ’’آزاد قدری‘‘ سے کی)، جب کہ آج ماہرین سماجیات کی ایک بڑی تعداد بہت فخر سے اپنی غیر معروضیت یعنی حزبی فرقہ واریت کا اعلان کرتی ہے۔ ایک زمانے میں امریکہ میں علم سماجیات ٹھوس تجربیت پسندی کی فضا پیدا کرنے پر مائل تھا جسے لوئس ورتھ نے ’’تحقیق سے اپنے ہاتھ میلے کرنے‘‘ سے تشبیہ دی اور جسے ایک سماجیاتی قوتِ شامہ بھی کہا جا سکتا ہے۔آج زیادہ تر ماہرین سماجیات اپنی تحقیق کی مجرد عفونت ربا خاصیت پر فخر کرتے ہیں جو نظری معاشیات کے ماڈل وضع کرنے جیسی ہے۔تعجب ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے کبھی کسی جیتے جاگتے انسان کا انٹرویو لیا یا کسی سماجی تقریب میں ذوق و شوق سے شرکت بھی کی۔ 
کہاں کیا غلط ہوا؟ اور کیا اب بھی یہ صورتِ حال سدھارنے کے لئے کچھ کیا جا سکتا ہے؟ میں اعتماد سے کوئی مستند تشخیص یا علاج پیش کرنے سے قاصر ہوں۔ نہ ہی یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اس تمام عرصے میں علم سماجیات کو لاحق عارضوں سے خود بھی محفوظ رہ سکاہوں۔لیکن کامل تشخیص نہ سہی، میں ایک امید افزا علاج کی اپنی سی کوشش ضرور کروں گا تاکہ کم از کم بیماری کی علامتوں کا کچھ بیان ممکن ہو سکے۔ اور میں یہ کام چار ایسی اہم واقعاتی تبدیلیوں کے تناظر میں کروں گا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد رونما ہوئیں۔ ان میں سے ہر ایک تبدیلی نے اگر تمام نہیں تو زیادہ تر ماہرین سماجیات کو حیران کر کے رکھ دیا۔ یہی نہیں بلکہ ان تبدیلیوں کے واضح طور پر منصہ شہود پرآنے کے بعد ماہرین سماجیات کسی سماجیاتی تناظر میں ان کے فہم او ربیان سے قاصر رہے۔ ان تبدیلیوں کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سماجیاتی تھیوری کی ان کے ادراک یا پیشین گوئی میں ناکامی اسی بات کی علامت ہے کہ کوئی نہ کوئی اہم بگاڑ ضرور واقع ہوا ہے۔

پہلی مثال:

۱۹۶۰ کے اواخر اور ۷۰ کے اوائل میں اہم مغربی صنعتی معاشروں میں ایک ثقافتی اور سیاسی زلزلہ برپا ہوا۔ سب کچھ بہت اچانک تھا۔ رسمی سماجیات کی عینک سے دیکھا جائے تو یہاں ایک عاجز کر دینے والا سوال سامنے آیا: کیسے ممکن ہے کہ روئے زمین پر بلکہ پوری تاریخ میں سب سے زیادہ خوش حال افراد اسی سماج کے خلاف تشدد پر آمادہ ہوں جس نے انہیں خوش حال کیا؟ اگر ہم امریکی سماجیات کی جانب دیکھیں تو اس وقت بھی آج کل کی طرح کئی کالجوں کے نصاب میں یہی قضیہ پڑھایا جاتا تھا کہ لوگ خوش حالی کے ساتھ زیادہ قدامت پسند ہو جاتے ہیں۔ یہ قضیہ شاید مذکورہ بالا واقعے تک بہت مستند ہو۔ لیکن اس سیاسی و ثقافتی زلزلے کے بعد یقیناًدرست نہیں رہا اور آج بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس سیاست و ثقافت دونوں میں ’’ترقی پسند‘‘ تحریکیں سماجی طور پر خوش حال بالا مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں یعنی نیا بایاں بازو، سیاست نو کے دھارے، جنگ مخالف، حقوقِ نسواں ، ماحولیات اور سبز نظریات کی تحریکیں وغیرہ۔ دوسری طرف، چاہے ان کے روحِ رواں رانلڈ ریگن، مارگریٹ تھیچر یا ہیلمٹ کوہل ہوں، نئی قدامت پسند تحریکوں نے خود کو زیریں مڈل کلاس اور محنت کش طبقات کے ایسے دھارے سے منسلک کیا جو ساتھ ہی ساتھ ایک چارو ناچار پرانی قدامت پسند اسٹیبلشمنٹ کو بھی گھسیٹ رہا تھا۔ امریکہ میں (اسی قسم کے ردعمل برطانیہ اور اس وقت کے مغربی جرمنی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں) پرانی طرز کے مضافاتی کلب رپبلی کنز نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے غیر ترقی یافتہ علاقوں کے اناجیلی مبلغین، ثقافتی غضب سے بھرے ہوئے مقامی لوگوں، اسقاطِ حمل کے مخالفین اور کئی دوسرے نام نہاد سماجی طبقات سے مصافحہ کیا۔ دوسری طرف مڈل کلاس کے انتہا پسند مفکرین نے اگر ثقافتی نہیں تو سیاسی طور پر خود کو اپنی نظریاتی وابستگی سے منسلک’’محنت کش عوام‘‘ کے ساتھ نہیں بلکہ نچلے ترین طبقات کے نام نہاد نمائندوں اور دوسرے حاشیائی طبقات کے ساتھ کھڑا پایا۔ 
مجھے آج بھی بروکلن کے مضافات کا ایک منظر بخوبی یاد ہے جہاں ہم ساٹھ کی دہائی کے وسط سے ستر کے اواخر تک رہے۔ یہ علاقہ تیزی سے اشرافیہ میں تبدیل ہو رہا تھا (ہم اس تبدیلی کا حصہ تھے) یعنی ایک مقامی محنت کش طبقہ ایک پیشہ ور بالا مڈل کلاس میں ڈھل رہا تھا۔ گلی میں تقریباً ہر گھر میں اس زمانے کی سیاسی سنجیدہ روی کے مطابق امن کے اشتہار چسپاں تھے جیسے ’’امریکہ ، ویت نام سے باہر‘‘، ’’جنگ نہیں محبت‘‘، ’’وہیل مچھلیوں کو بچاؤ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ صرف ایک استثناء تھا: ایک گھر نے اس قسم کے پیغام لگا رکھے تھے کہ ’’ ویت نام میں فوجیوں کی ہمت بندھاؤ‘‘، ’’اپنی مقامی پولیس کا ساتھ دو‘‘ اور ’’بندوقوں کا نہیں کمیونسٹوں کا اندراج کرو‘‘۔ اس گھر میں ایک عمر رسیدہ معذور اور رنڈوا پرانا فوجی رہتا تھا۔ ایک دن اس آدمی کو بے دخل کر دیا گیا۔ سپاہی آئے اور ا س کا سامان گلی میں رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد اسے بھی اپنی وہیل چیئر پر بٹھا کر ایک امریکی فوجی ٹوپی پہنے گلی میں چھوڑ دیا گیا۔ اس کے کچھ دوست اسے ساتھ لے گئے اور پھر اس کا سامان بھی کسی گاڑی میں کہیں چلا گیا۔ اگلے ہی ہفتے اس گھر میں کچھ نئے لوگ آ گئے۔ فوراً کھڑکیوں میں امن کے پیغامات لگا دیے گئے۔
آج کا رائج نظریہ یہ ہے کہ’’ساٹھ کی دہائی کا آخر‘‘ تاریخِ رفتہ ہے جو بس یادِ ایام کی بازگشت کے طور پر واپس لوٹ آیا ہے۔یہ صریحاً ایک غلط تعبیر ہے:ساٹھ کی دہائی کا آخر محو نہیں ہوا بلکہ سیاسی اور ثقافتی دونوں طریقوں سے ایک اداراتی صورت میں ڈھل گیا ہے۔ اس تبدیلی کی کسی حد تک ایک نیم مؤثر سماجیاتی وضاحت وہ نام نہاد ’’نئی طبقاتی تھیوری ‘‘ تھی جو ستر کی دہائی میں ایک مختصر سے عرصے کے لئے منظر عام پر آئی اور اس کے بعد سے تقریباً فراموش کر دی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وضاحت بائیں اوردائیں بازو کی دونوں تعبیرات رکھتی ہے جو بالترتیب ایلون گولڈنر اور ارونگ کرسٹول نے پیش کیں۔ دونوں تعبیرات ہی کلی طور پر حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں اور ترقی یافتہ صنعتی معاشروں کے لیے طبقاتی سماجیاتی تھیوری کی تشکیل نو ایک کٹھن چیلنج ہے۔ لیکن یہاں میرے پیش نظر یہ مسئلہ نہیں۔ہمارا سوال یہ ہے کہ ماہرین سماجیات کس طرح اتنے عظیم مظہر کے ادراک سے بے خبر رہے؟ شاید کسی حد تک یہ جانے مانے روایتی سماجیاتی مناہج کو تبدیل کرنے کی جھجک ہے۔
بائیں بازو کے سماجیاتی مفکرین نے خاطر خواہ ناکامی سے کوشش کی کہ اس سماجی مظہر کو’’مڈل کلاس کی پرولتاریت‘‘ جیسے مارکسی مقولات میں سکیڑ دیا جائے۔ ہمارے کچھ ’’بورژوا‘‘ ہم عصروں نے ’’منصبی سیاست‘‘ کے بارے میں کچھ بڑبڑانے کی کوشش کی۔لیکن شاید سب سے بہتر تعبیر یہی ہے کہ زیادہ تر سماجی مفکرین خود بھی اسی مظہر کا ایک حصہ تھے۔ اس زمانے میں اس پیشے کو اپنانے والی نسل جو آج تدریسی وابستگی کی ایک عمر گزار چکی ہے، سینوں پر امن کے چمکتے تمغے چپکائے پھر رہی تھی۔ ان کے لئے یہ حق و باطل کی جنگ تھی اور آج بھی ہے، گو اب سیاسی سنجیدہ روی کی علامات کسی حد تک جگہ بدل چکی ہیں۔ چاہے وہ پیشہ ور ماہرین سماجیات ہی کیوں نہ ہوں، لوگ اپنی وابستگیوں کی سماجیاتی وضاحتیں قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ باالفاظِ دیگر، اس تبدیلی کے ادراک کی حد تک علم سماجیات کی ناکامی کی وجہ نظریاتی اندھیارے ہیں۔ 

دوسری مثال:

آج کی دنیا میں ایک بنیادی پیش رفت جاپان اورمشرقی ایشیا کے دوسرے ممالک کی تیز رفتار معاشی سبقت ہے۔ یہ محض نہایت تیزرفتاری سے برپا ہونے والا ایک عظیم معاشی معجزہ نہیں بلکہ غیر مغربی سماجی سیاق و سباق میں کامیاب جدیدیت کا وہ پہلا واقعہ ہے جو ماہرین سماجیات کے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث ہونا چاہیے۔ میں کچھ عرصے سے یہی استدلال پیش کر رہا ہوں کہ یہ سرمایہ دارانہ جدیدیت کا دوسرا واقعہ ہے جو یقیناًفی نفسہ اپنے اندر بہت سے دلچسپی کے سامان تو رکھتا ہی ہے لیکن جدید سماج کے نظری تناظر میں مزید اہمیت رکھتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ جاپان خود اپنی خاطر نہیں بلکہ ہماری خاطر ہی فہم کا تقاضا کرتا ہے۔یہ بھی بالکل غیر متوقع واقعہ تھا۔ پچاس کی دہائی میں جب جدیدیت کی تھیوری تشکیل پا رہی تھی، اگر اس کے وکلاء سے یہ سوال کیا جاتا کہ معاشی ترقی کے اعتبار سے کون سا ایشیائی ملک سب سے زیادہ کامیابی کا احتمال رکھتا ہے تو گمان یہی ہے کہ جواب فلپائن ہوتا جو کہ اب اس خطے کے سرمایہ دارانہ حصے میں واحد معاشی حادثہ ہے۔ اس زمانے میں ہونے والی ایک کانفرنس میں، جسے آج کچھ مندوبین ذرا اضطراب سے یاد کرتے ہیں، ایک وسیع اتفاق ظاہر کیا گیا کہ کنفیوشی مذہب کوریائی اور چینی سماج کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج اس ثقافتی ورثے کو مشرقی ایشیائی معاشی کامیابی کی ایک علت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
جدیدیت کی تھیوری ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں متزلزل ہو گئی تھی جب اسے عمومی طورتحقیر کی نیت سے مغربی سامراج کا نظریہ کہا جاتا تھا۔ اس عرصے میں بائیں بازو کے ماہرین سماجیات نام نہاد نظریہ انحصاریت کو وضع کرنے میں مصروف تھے جس کی رو سے سرمایہ داریت ناگزیر طور پر پسماندگی کے تسلسل کو بڑھاوا دیتی ہے، ظاہر ہے کہ جس کا حل اشتراکیت ہے۔ یہاں تجربے اورنظریے میں ایک اوٹ پٹانگ سی ہم عصری پائی جاتی ہے۔ عین اس وقت جب سرمایہ دارانہ مشرقی ایشیا ایک عظیم معاشی ترقی اور خوشحالی کے دور سے گزر رہا تھا اور ہندچین تا جزائر غرب الہندتمام اشتراکی معاشرے ایک مایوس کن ٹھہراؤ میں دھنس رہے تھے ، زیادہ سے زیادہ ماہرین سماجیات ایک ایسے نظریے کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے جس کے مطابق حالات الٹ ہونے چاہئے تھے۔ مزاحیہ ترین تقریب جس میں کچھ سال قبل شریک ہونے کا اتفاق ہوا، زمانہ جدید کے ایک عظیم معاشی معجزے تائیوان میں ہونے والی ایک کانفرنس تھی۔کانفرنس تائیوان کے بارے میں تھی یعنی اسے کیسے سمجھا جائے۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر مدعو کئے جانے والے زیادہ تر امریکی اہل علم ایسے انحصاریت پسند مفکرین تھے جو اس سے قبل لاطینی امریکہ میں سرگرمِ عمل رہ چکے تھے۔ وہ پوری دلیری سے تائیوان کے واقعات کو اپنے نظرئیے میں گھسیڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کانفرنس کی سب سے بڑی نظری کامیابی ’’منحصر ترقی‘‘ کا ایک تصور تھا جو قیاساً تائیوان کی صورت حال کی وضاحت کر تاتھا۔یہ بات تو خیر قابل فہم ہے کہ اس سے قبل لاطینی امریکہ سے باہر کی دنیا کے بارے میں نا تجربہ کار نومارکسیوں نے شاید اسے معقول مان لیا ہو، لیکن ان سر ہلاتے تائیوانی سماجی سائنسدانوں کو کیا کہا جائے جن کے سامنے dependencia کا مستشرقی ترجمہ پیش کیا جا رہا تھا۔ ایک ممکنہ وضاحت یہ ہے: جہاں انحصاریت پسندی کا نظریہ عالمی معاشیات کے تناظر میں بری طرح رد کیا جا چکا ہے، وہاں شاید عالمی ثقافت کے تناظر میں اس کی کوئی پیش گویانہ قدر وقیمت باقی ہو، آخر ’’دنیائے اولیٰ ‘‘ کے مفکرین کے پاس اعلیٰ و ارفع وسائل اور سرپرستیاں ہوتے ہوئے کم ترقی یافتہ ملکوں میں ان کا ایک ’’نمائندہ طبقہ‘‘ وجود میں آ ہی جاتا ہے۔ 
سچ پوچھیے تو میرا دوسرا دعویٰ ہر گز دعویٰ اول جیسا نہیں کیوں یہاں ماہرینِ سماجیات کی جانب سے مسئلے کو سمجھنے کی قرار واقعی کوشش کی گئی ہے گو وہ اس کی پیشین گوئی میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مذکورہ بالا مابعد کنفیوشیائی مفروضہ پہلے پہل ماہرین سماجیات کی جانب سے ہی وضع کئے جانے کے بعد خطے اور خطے سے باہر کے ماہرین سماجیات کے درمیان خاطر خواہ علمی مباحث کا موضوع رہا ہے۔ بایاں بازو تو ظاہر ہے اپنی نظریاتی وجوہات کے باعث اس بحث میں شریک نہیں ہوا، لیکن بائیں بازو سے تعلق نہ رکھنے والے ماہرین سماجیات بھی اس میں کچھ خاص حصہ لیتے نظر نہیں آئے سوائے ان کے جو خطے کے معاملات پر تخصیص رکھتے ہیں۔ ایک اور اہم کام نئی غیر مغربی جدیدیت سے حاصل شدہ بصیرت کی بنیاد پر میکس ویبر سے ٹیلکوٹ پارسنز تک پہنچتے جدید سماج کے تصور میں تبدیلی ہے۔
یہ یقیناًایک بہت ’’عظیم سوال‘‘ ہے۔ لیکن یہ ان لوگوں کے مزاج کے موافق نہیں جن کا تناظر شدید قوم یا نسل پرستانہ ہو اور وہ ایسے ضوابط سے منسلک ہوں جو ’’عظیم سوالات‘‘ سے سروکار نہیں رکھتے۔آج کلاسیکی قسم کے علم سماجیات کی ضرورت ہے جس کی بنیادیں تاریخ کے علم میں ہوں ، جو اپنے ضابطوں میں لچک رکھتا ہو اور ایک ایسی وسیع المشرب روح رکھتا ہو جو ہمہ وقت انسانی زندگی کے مظاہر کے بارے میں متجسس رہے۔ ظاہر ہے اس قسم کے ماہرین سماجیات تو ذرا مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت اور صلے کا نظام چالاکی سے ( چاہے غیر ارادی ہی سہی) اس طرح وضع کیا گیا ہے کہ اس قسم کے ماہرین نہ ابھر سکیں۔ 

تیسری مثال:

ایک اور تھیوری جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پختہ معلوم ہوتی تھی، سیکولرائزیشن کی تھیوری تھی۔ مختصراً دیکھا جائے، اس کے مطابق جدیدیت اپنے ساتھ انسانی زندگی میں سماجی اداروں اور انفرادی شعور کی دونوں تہوں پر مذہب کا تنزل لاتی ہے۔ مغربی فکر میں اس تصور کی تاریخ طویل ہے جو کم از کم زیادہ دور نہیں تو اٹھارہویں صدی کی تنویری(یا روشن خیالی ) تحریک تک ضرور جاتی ہے۔ لیکن اگر مکمل غیرجانبدار ہو کر دیکھا جائے تو اسے مذہبی سماجیات بالخصوص یورپ کے ماہرین کی تحقیقی کاوشوں سے ہی قوت ملی۔ خام قومی پیداوار میں بڑھوتری اور خداؤں کے تنزل کے درمیان متوقع مطابقتوں کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر تعمیر کی گئی جدیدیت اپنے ساتھ ایک ایسی حددرجے معقولی سوچ لائی جس کے نزدیک دنیا کی غیرمعقولی مذہبی تعبیرات فی زمانہ نامعتبر ٹھہری تھیں۔ 
مذہب کی غیرمعقولیت کے اس قابل اعتراض مفروضے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ذرا آگے بڑھئے جو یقیناًتنویری فلسفے پر قائم ہے۔ گمان غالب ہے کہ یہ تھیوری تجرباتی شواہد پر قائم کی گئی تھی، لہٰذا اس کی تردید بھی تجرباتی بنیادوں پر ممکن تھی۔ سن ستر کے اواخر تک بہت شدت سے اس کی تردید کی جا چکی تھی۔ لیکن پھر یہ معلوم ہوا کہ اس تھیوری میں شروع دن سے ہی کچھ خاص تجرباتی مواد نہیں تھا۔ یہ درست تھی اور آج بھی درست ہے، لیکن دنیا کے صرف ایک خطے یعنی یورپ کے لئے، اس کے علاوہ کچھ بکھرے ہوئے خطے جیسے کیوبک جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سیکولرائزیشن کے ایک حیران کن دور سے گزرا، اور اس کے علاوہ ہر جگہ پھیلا ہوا مغربی تعلیم یافتہ مفکرین کا ایک چھوٹا سا طبقہ۔باقی تمام دنیا اسی جوش و جذبے کے ساتھ مذہبی ہے جیسے کبھی بھی تھی اور غالباً بیسویں صدی کے اوائل سے تو زیادہ ہی ہے۔ 
ستر کی دہائی کے اواخر میں پیش آنے والے دو واقعات اس حقیقت کو عوام کے سامنے لائے۔ امریکہ میں تو پچاس کی دہائی کے الموسوم مذہبی احیاء اور ساٹھ کی دہائی کی برعکس ثقافت (counter culture) نے اس تھیوری پر اعتراضات کھڑے کر دیے،گو مذہبی سماجیات کے ماہرین اول الذکر کو مبہم طور پر مذہبی اور آخر الذکر کو ضمنی طور پر مذہبی گردانتے رہے۔ جس واقعے نے اس تھیوری کو بالکل ناقابل دفاع کر دیا، وہ ا ناجیلی جوش و جذبے کا احیاء تھا جو پہلے پہل جمی کارٹر کی امیدواری اور کچھ عرصہ بعد’’اخلاقی برتری ‘‘ کے غوغے اوراسی قسم کے دوسرے طبقات کے ظہور سے سامنے آیا۔ اچانک یہ ظاہر ہوا کہ فکری ماحول میں نمایاں نہ ہونے کے باوجود امریکی سماج میں لاکھوں حیاتِ نو یافتہ عیسائی ہیں جو خطر انگیز طور پر بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں جب کہ کلیسا کے مرکزی دھارے ایک گہرے آبادیاتی تنزل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مذہبی جوش و جذبے کے اس مظہر نے ایک مزید بنیادی حقیقت پر روشنی ڈالی: امریکہ اور یورپ مذہبی خدوخال میں ہی تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ 
امریکہ سے باہر جسے واقعے نے جدیدیت کو سیکولرائزیشن سے جوڑنے والی تھیوری کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ، وہ ایرانی انقلاب تھا۔ ایک بار پھر ایک ایسا عظیم واقعہ رونما ہوا جو نظری طور پر خارج از امکان تھا۔اس وقت سے دنیا میں قسم قسم کے مذہبی احیاء رونما ہو رہے ہیں۔ نوروایتی یا بنیاد پرست اور پروٹسٹنٹ مذہبیت اور اسلام عالمی منظر نامے پر منعقد ہونے والے دو بڑے کھیل ہیں، لیکن دنیا میں تقریباً ہر مذہبی روایت نے کم و بیش اسی قسم کی حیاتِ نو کی تحریکیں برپا کی ہیں۔ اور رنگا رنگ سماجیاتی مفکرین مسلسل ورطہ حیرت میں ہیں۔ 
میرا ایران کا واحد دورہ اس واقعے اسے دو سال قبل تھا۔ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر دانشوروں سے ہی ملاقاتیں رہیں جن میں سے زیادہ تر شاہ کی حکومت سے دل سے نالاں تھے اور اس کے جانے کے منتظر تھے۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ یہ سب کچھ اسلامی سرپرستی میں ہو گا۔ نہ ہی کہیں خمینی کا نام تک سنائی دیا۔تقریباً اسی وقت جب میں ایران کے دورے پر تھا، بریجٹ برجر دروس کے سلسلے میں ترکی میں تھیں، ایک ایسی جگہ جہاں وہ پہلے کبھی نہیں گئی تھیں اور نہ ہی وہاں کی زبان سے واقف تھیں۔ استنبول میں انہیں کئی گاڑیوں اور گلی کی مساجد کی دیواروں پر سبز جھنڈے لگے نظر آئے جو ان کے خیال میں کسی اسلامی تہوار کی مذہبی علامتیں تھی۔ جب انہوں نے اس مشاہدے میں اپنے ترک میزبانوں کو شریک کیا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ یا تو انہوں نے یہی اصرار کیا کہ انہیں کوئی غلطی لگی ہے کہ آج کل کوئی مذہبی تہوار وغیرہ منعقد ہو رہا ہے یا پھر یہ کوئی غیر اہم سا چھوٹا موٹا مظاہرہ ہو گا۔یہ تمام سماجیاتی سائنسدان جو زیادہ تر سیکولر دانشور تھے، ایک بار پھر اپنی آنکھوں کے سامنے موجود حقیقت کو دیکھنے میں ناکام رہے کیوں کہ اس کے ظہور کی کوئی توقع نہیں تھی۔ 
ماہرین سماجیات کو عصر حاضر کی دنیا کے شدید مذہبی رجحان سے مطابقت پیدا کرنے میں کافی مشکل پیش آئی ہے۔ چاہے سیاسی تناظر میں بایاں بازو ہو یا نہیں، مذہب کی مد میں یہ نظریاتی مغالطوں میں گرفتار رہتے ہیں اور پھر یہی رجحان ہوتا ہے کہ ایک ایسے سماجی مظہر کی فوراً کوئی وضاحت پیش کر دی جائے جس کی وضاحت ممکن ہی نہیں۔ لیکن نظریاتی وابستگی کے علاوہ تنگ نظری بھی اہم عوامل میں سے ایک ہے۔ ماہرین سماجیات حقیقی سیکولر ماحول یعنی علمی درسگاہوں اور پیشہ ورانہ علمی صنعت سے متعلقہ دوسرے اداروں کے باسی ہوتے ہیں ، لہٰذا یوں لگتا ہے کہ وہ سماجی علوم میں غیر تربیت یافتہ لوگوں کی طرح ہی اس عمومی غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ دنیا پر اپنی ننھی سی نکڑ سے نظر ڈال کر ایک عمومی سماجی منظرنامہ تشکیل دیا جائے۔ 

آخر میں چوتھی مثال:

یہ سوویت سلطنت کے ڈھیر ہو جانے کا عظیم واقعہ تھا اور کم از کم فی الحال یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ عالمی منظرنامے پر بطور ایک حقیقت اور بطور ایک تصور بھی اشتراکیت کا ڈھیر ہو جانا ہے۔ اس عظیم تاریخی واقعے کی شروعات تک ابھی ماضی قریب ہی کی بات ہیں اور نتائج اب تک نہایت سرعت کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ لہٰذا کسی کو بھی اس کی وضاحت کے لئے کوئی معقول تھیوری پیش نہ کرنے کا دوش دینا ناانصافی ہو گی۔ ماہرین سماجیات کو علیحدہ کر کے موردِ الزام ٹھہرانا بھی اتنی ہی بڑی ناانصافی ہو گی کیوں کہ تقریباً کسی نے بھی اس کی توقع نہیں کی تھی (بشمول سند یافتہ ماہرین سماجیات کے جتھوں کے) اور ہر کوئی کسی بھی معقول نظری ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے اس کے فہم کی مشکل سے نبرد آزما ہو رہا ہے۔پھر بھی یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ماہرینِ سماجیات ،یہاں تک کہ و ہ بھی جو اس خطے کے معاملات پر متعلقہ مہارت رکھتے ہیں، اس واقعے کی پیشین گوئی میں کسی سے بھی بہتر نہیں تھے اور نہ ہی اب اس کے فہم میں کسی سے افضل ہیں۔ تعجب ہے کہ آنے والے سالوں میں وہ کیا کریں گے۔
بائیں بازو والے بھی اس نظریاتی طبقے میں موجود دوسروں کے ساتھ یقیناًاس عمومی ابہام (اسے ایک ’’گیانی عدم رسمیت ‘‘ کیوں نہ کہہ لیں؟) میں شریک ہیں۔ بائیں بازو سے متعلق ان دانشوروں کو چھوڑ دیجئے جن کے خیال میں سوویت یونین اور اس کے نقال کسی اخلاقی فضیلت کے حامل تجربے میں مشغول تھے۔غلطیاں وغیرہ تو ہوئیں، لیکن یہ مفروضہ تو قائم تھا کہ ایک ناقص اشتراکیت بھی کم از کم سرمایہ دارانہ نظام سے زیادہ امید رکھتی ہے جو ان کے دعوے کے مطابق لاعلاج طور پر گلا سڑا ہواہے۔ لیکن بائیں بازو کے وہ لوگ بھی جو بہت عرصہ قبل سوویت تجربے سے وابستہ تمام امیدیں ترک کر بیٹھے تھے، مسلسل افق پر اس ’’حقیقی اشتراکیت‘‘ کی تلاش کر رہے تھے جو کسی نہ کسی وقت نمودار ہونی ہی تھی کیوں کہ یہ منطقِ تاریخ کی مشیت ہے۔ یہ صرف قلبی جھکاؤ کی بات نہیں تھی بلکہ یہ ذہن تھا جو اپنے بنیادی ادراکی مفروضوں میں بائیں جانب تھا۔ اور سب سے بنیادی تو یہی مفروضہ تھا کہ تاریخ کا سفر سرمایہ دارانہ نظام سے اشتراکیت کی جانب ہوا ہے۔ اب اشتراکیت سے سرمایہ دارانہ نظام کی جانب تبدیلی سے کیسے نمٹا جائے؟آج کل بائیں بازو کے مجلے یورپ اور دوسرے علاقوں میں پچھلے چند سال میں ہونے والی پیش رفت کی درد انگیز تعبیرات سے بھرے پڑے ہیں جن کی کثیر تعداد سامنے موجود منظرنامے کی تردید کی کوششوں سے عبارت ہے۔ مجھے بھرپور توقع ہے کہ ماہرین سماجیات نظریہ انحصاریت کے کہنہ مشق دستوں کی دلیر کمان میں اس سرگرمی میں پورے ذوق و شوق سے شریک ہوں گے۔ کیوں نہ ہم ایسے کسی اور زبردست تصور مثلاً ’’خود مختار پسماندگی‘‘ کی جانب پیش قدمی کریں جو کسی نہ کسی طرح تھیوری کو مشکل سے نکال لے؟
سوویت یونین کا بکھراؤ اور اشتراکیت کا عالمی بحران جدیدیت کے سماجیاتی فہم کے لئے ایک عظیم چیلنج ہے۔ پھر یہ صرف بائیں بازو کے ماہرینِ سماجیات نہیں جو اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ، یعنی وہ جو ان واقعات کی اپنے بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والے رفقاء کی بہ نسبت کچھ زیادہ پیشین گوئی نہ کر سکے۔ جس چیز کی ضرور ت ہے، وہ ایک ایسی فکر نو ہے جو جدید سماج میں معاشی، سیاسی اور سماجی اداروں کے بیچ تعلقات کو ازسر نو دریافت کرے۔ مجھے ایک پرانی کہاوت یاد آتی ہے جو آس پاس کی خوش مزاج دکانوں پر آج بھی لکھی نظر آ جاتی ہے، ’’اگر آپ کسی اور چیز کے قابل نہیں تو کم از کم ایک بری مثال کے طور پر تو پھر بھی کارآمد ہیں۔‘‘ سماجیاتی نظریہ بندی کے لئے ’’بری‘‘ مثالیں اتنی ہی مفید ہیں جتنی ’’اچھی‘‘۔ زیادہ دلچسپ سوال یہ نہیں کہ ’’وہ ‘‘ کیوں بکھر گئے بلکہ یہ ہے کہ ’’ہم‘‘ کیوں نہیں بکھرے۔ یہ ایک بنیادی نظری نکتہ ہے جس سے زیادہ تر سماجیاتی نظریہ بندی نے مسلسل صرفِ نظر کیا ہے۔ ’’مسئلہ‘‘ سماجی بدنظمی نہیں بلکہ سماجی نظم ہے، یعنی شادی نہ کہ طلاق، قانون کی پاسداری نہ کہ جرم، نسلی ہم آہنگی نہ کہ نسلی فساد وغیرہ۔ہم کسی شک و شبہ کے بغیر یہ فرض کر سکتے ہیں کہ جان رومین کی کارآمد عبارت ’’مشترکہ انسانی نمونہ‘‘ بے ایمانی ، تشدد اور نفرت ہے۔ انسانی فطرت کے ان مظاہر کو وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں سوائے شاید ماہرین حیوانیات کے۔ وضاحت کی ضرورت ان صورتوں میں ہے جن میں معاشرے حیرت انگیز طور پر ان فطری میلانات پر قابو پاتے ہیں اور انہیں مہذب کرتے ہیں۔ 
یہ مثالیں علم سماجیات کی کن بیماریوں کو ظاہر کرتی ہیں؟ چار علامات کی جانب اشار ہ ممکن ہے: تنگ نظری، فکری ناتوانی، عقلیت پسندی اور نظریاتی وابستگی۔ان میں سے ہر ایک معذور کر دینے والی ہے۔ ان کا مجموعہ ہلاکت خیز ہے۔ اگر عظیم کلاسیکی ماہرین سماجیات کے کام پر نظر ڈالی جائی جن میں میکس ویبر اور ایملی ڈرک ہائیم سرِ فہرست ہیں تو ویزلے کا مقولہ ذہن میں آ جاتا ہے کہ ’’دنیا میر اکلیسائی حلقہ ہے۔‘‘ کم ہی ماہرینِ سماجیات آ ج یہ دعویٰ کر سکتے ہیں اور جو کرتے بھی ہیں، و ہ شرمناک طور پر تاریخی سطحیت سے دوچار نظر آتے ہیں۔ 
زیر نظر معاملہ نفیس قسم کی کسی مخصوص وسیع المشربیت کی حمایت میں جانبداری سے کہیں بڑا ہے۔ اپنے سماج سے باہر ایک قدم نکالے بغیر ایک اعلیٰ ماہر طبیعات بننا ممکن ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ ماہر سماجیات کے لئے ایسا ممکن نہیں۔ اور اس کی وجہ بہت ساد ہ ہے۔ جدیدیت آج دنیا میں ایک عظیم تبدیلی لانے والی قوت ہے، لیکن یہ ہر جگہ جاری و ساری کوئی ایک سا میکانی ضابطہ نہیں۔ یہ مختلف شکلیں بدلتا ہے اور مختلف ردعمل پر اکساتا ہے۔ اسی لیے علم سماجیات یعنی ایک ایسی نوعِ علم جو جدیدیت کے فہم کے لئے بہترین ہے، بہرصورت تقابلی ہونی چاہیے۔ 
یہ یقیناًویبر کی بنیادی بصیرتوں میں سے ایک ہے اور آج بھی ہمیشہ کی طرح اتنی ہی معنی خیز۔ لہٰذا ماہرین سماجیات کو مغرب کو سمجھنے کے لئے جاپان پر نظر ڈالنی چاہئے، سرمایہ داریت کے فہم کے لئے اشتراکیت پر غور کرنا چاہئے، بھارت کو دیکھنا چاہئے اگر برازیل کو سمجھنا ہو، وغیرہ وغیرہ۔ سماجیات میں تنگ نظری کسی ثقافتی کمزوری سے کہیں زیادہ ہے، یہ تو ادراک کی معذوریوں کا باعث ہے۔ یہ کسی بھی ماہر سماجیات کی تربیت کا لازمی حصہ ہونا چاہئے کہ وہ ایک ایسے سماج کے بارے میں تفصیلی علم حاصل کرے جو اس سے حد درجہ مختلف ہو، ایک ایسی مہم جوئی جو یقیناًکئی طالبعلموں کو ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتی ہے: یعنی بدیسی زبانوں کا سیکھنا۔ 
فکری ناتوانی بھی تنگ نظر ی ہی کا ایک پھل ہے، لیکن سماجیات کی حد تک زیادہ اہم جڑ علمی ضوابط سے تعلق رکھتی ہے۔اس علمی میدان میں اس عارضے کی جڑیں کم از کم پچاس کی دہائی تک جاتی ہیں۔ طبعی علوم کی نقالی کرنے کی ایک بے کار اور نظری طور پر بے سمت کوشش میں ماہرین سماجیات نے تحقیق کے نت نئے اور پہلے سے زیادہ نفیس مقداری طریقے وضع کیے۔اس میں فی نفسہ تو کچھ غلط نہیں کیوں کہ آخر علمِ سماجیات کئی ایسے سوالوں سے متعلق ہے جن کے لئے سروے قسم کی تحقیق ناگزیر ہے اور مقداری طریقے جتنے بہتر ہوں گے، دریافت شدہ نتائج اتنے ہی معتبر ہوں گے۔ لیکن تمام سماجیاتی سوالات کے لئے یہ طریقہ موزوں نہیں اور کئی مسائل اس سے بہت مختلف تحلیلی تجزیے مانگتے ہیں۔ سائنسی بااصولیت کو مقداریت تک محدود کر کے سماجیات کا دائرہ اکثر بس ان سکڑے ہوئے موضوعات تک محدود کر دیا گیا جو مقداری طریقوں کے لئے موزوں ہیں۔ نتیجے میں پیدا ہونے والی فکری ناتوانی پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ 
ایک سائنس کے طور پر علم سماجیات عقلی استدلال ہی کی ایک کوشش ہے۔ لیکن یہ اس مفروضے سے بہت مختلف ہے کہ سماجی فعالیت عقلی استدلال کی راہنمائی میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ کلاسیکی سماجیات میں یہ بات اچھی طرح سمجھی جا چکی تھی، شاید سب سے زیادہ ڈرامائی انداز سے ول فریڈو پریٹو کے ہاں جو ریاضیاتی رجحان رکھنے والا ایک ایسا ماہر معاشیات تھا جو سماجیات کی جانب اپنی اسی دریافت کے باعث آیا کہ زیادہ تر انسانی افعال اس کے مطابق غیرمنطقی تھے۔ افسوس ہے کہ علم معاشیات نے تو اس بصیرت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور homo oeconomicus کے ایک شدید عقلی ماڈل کے تحت کام کرنے کو ترجیح دی۔ نتیجتاً حرکی پیشین گوئیوں کا تو ذکر ہی کیا، وہ تو بار بار معاشی منڈی کے فہم میں بھی ناکام ہوتی رہی۔ 
ماہرین سماجیات کی ایک بڑی تعداد معاشیات کی نقالی کرتے ہوئے ’’مبنی بر عقل فعالیت کے منہج‘‘ پر مبنی نظری نمونوں کو اپنی علمیات سے مطابقت دینے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ ہم اعتماد سے پیشین گوئی کر سکتے ہیں کہ اس رجحان کے فکری نتائج کافی حد تک معاشیات ہی سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جی ہاں، سماجیات ایک عقلی علم ہے جس طرح ہر ایک تجرباتی علم ہے۔ لیکن اسے اپنی عقلیت کو دنیا کی عقلیت سمجھ لینے کی ہلاکت خیز غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ 
یہ تنقیدیں کسی حد تک سی رائٹ ملز کی کتاب ’’سماجیاتی تخیل‘‘ سے مطابقت رکھتی ہیں۔ ملز نے ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں علم سماجیات کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والے نظریاتی طوفان کے بعد لکھا۔ ہم نہیں جان سکتے کہ اگر ملز ہمارے دور میں ہوتا تو کیا کرتا۔ نہ ہی ہم یہ جانتے ہیں کہ اس کے اتنے سارے قارئین خاص طور پر وہ جو اس کی تنقیدوں سے بہت متاثر ہوئے تھے، کیا کرتے۔ وہ مارکسی اور نیم مارکسی مفروضوں سے تشکیل پاتی ایک ایسی نظریاتی سراسیمگی کے عالم میں تھے جو سماجیات کی تمام بیماریوں کا علاج تجویز کرتی محسوس ہوتی تھی۔ اس نے ایک ایسا نظری رجحان پیش کیا جو یقیناً’’عظیم سوالوں‘‘ سے متعلق تھا ، یہ سب کچھ ایک بین الاقوامی تناظر (نظامِ عالم سے کم کوئی بات نہیں کی گئی) میں پیش کیا گیا، یہاں مقداری طریقوں کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ نہیں تھا اور آخری بات یہ کہ خود کو پوری طرح سائنسی مانتے ہوئے یہاں یہ بھی فرض کر لیا گیا کہ اپنے علاوہ تقریباً ہر کوئی ’’شعورِ باطل‘‘ لئے اِدھر اْدھر ڈگمگا رہا ہے۔ 
بدقسمتی سے ’’عظیم سوالوں‘‘ کے جواب غلط ثابت ہوئے اور دنیا نے تھیوری کے مطابق عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ مارکسزم کے خاتمے کا دعویٰ تو خیر قبل از وقت ہو گا ہی، یہاں تو کتنے ہی ایسے نیم مارکسی نظریات ہیں جو کامیابی سے کل مارکسی روایت سے مکمل طور پر کٹ کر ایک علیحدہ دھارا تشکیل دے چکے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں علم سماجیات کو نظریاتی لبادہ اوڑھانے کا بدترین نتیجہ یہ غیرمتزلزل اعتقاد ہے کہ معروضیت اور ’’اقداری آزادی‘‘ ناممکنات میں سے ہیں اور ماہرین سماجیات کو یہ جانتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر کسی نظریے کے وکلا کے طورپر اظہارِ رائے کرنا چاہیے۔
یہ سوچ صرف بائیں بازو تک محدود نہیں۔ علم سماجیات کے کلاسیکی دور کی طریقیاتی جھڑپوں، خاص طو ر پر جرمنی میں یہ دائیں بازو کے مفکرین ہی تھے جو پوری قوت کے ساتھ اس محاذ پر کھڑے تھے۔معروضیت کے ’’باطل آدرش‘‘ کا تریاق ’’جرمن سائنس‘‘ تھی اور سائنس کا سب سے شاندار مقدمہ جس شخصیت نے لڑا، وہ کوئی اور نہیں بلکہ مرحوم ڈاکٹر گوئبلز تھے :’’حق وہی ہے جو جرمن عوام کا مفاد ہے۔‘‘
جوں جوں امریکی فکر ی منظرنامے پر بایاں بازو تنزل کی جانب گامزن رہے گا، اور بالفرض اگر ایسا ہے تو دوسرے نظریات بھی یہی سوچ اپناتے نظر آئیں گے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو سائنس کو پروپیگنڈے میں بدل دیتی ہے اور جہاں جہاں اسے اپنایا جاتا ہے، وہاں یہ سائنس کے خاتمے کی علامت بن جاتی ہے۔ امریکی سماجی علوم میں تحریکِ نسواں اور تکثیری ثقافت کے علمبردار اس سوچ کے سب سے بڑے نمائندہ ہیں لیکن ہم توقع کر سکتے ہیں کہ اوروں کا ظہور بھی ہو گا۔ ان میں سے کچھ دائیں بازو کے بھی ہو سکتے ہیں۔ 
علم سماجیات کی حالت کی تشخیص کے لئے اسے علیحدگی میں نہیں دیکھنا چاہئے۔ اس کی علامات وہ ہیں جو عمومی طور پر ہی فکری منظرنامے کا حصہ ہیں۔ دوسرے سماجی علوم بھی کچھ خاص اچھی حالت میں نہیں۔ زیادہ تر معیشت دان اپنے عقلیت پسند مفروضوں کے قیدی ہیں اور ماہرین سیاسیات کا جمِ غفیر بھی جیسے تیسے آخر کار اسی کھائی میں گرتا نظر آتا ہے۔ ماہرین بشریات شاید سماجی علوم کی کسی بھی شاخ سے زیادہ نظریاتی وابستگیاں رکھتے ہیں اور تاریخ اور بقیہ سماجی علوم کسی بھی ایسے نظریاتی فیشن کے آگے ڈھیر ہوتے محسوس ہوتے ہیں جو عام طور پر ائیر فرانس کے ذریعے بحر اوقیانوس پر سے اڑتا ہوا یہاں آن پہنچے، ہر ایک اپنے سے پہلے والے کی نسبت زیادہ ابہام پسند اور فکری سفاک۔
شاید ماہرین سماجیات سے اس سے بہتر کی امید لگانا بہت بڑی توقع باندھنا ہے۔ لیکن ماہرین سماجیات کا ایک مخصوص مسئلہ ایسا ہی ہے جو(ممکنہ طور پرماہرین بشریات کے استثنا کے ساتھ) اور کسی بھی سماجی علم میں نہیں پایا جاتا۔ علم سماجیات ایک نوعِ علم سے کہیں زیادہ ایک زاویہ نگاہ یعنی ایک تناظر ہے اور اگر یہ تناظر ناکام ہو جائے تو کچھ باقی نہیں بچتا۔ لہٰذا معیشت کا مطالعہ ہو یا سیاسی نظام یا ساموئی قوم کے جنسی ملا پ کے میلانات ، ممکنہ تناظر متعدد اور مختلف ہوتے ہیں جن میں سے ایک علم سماجیات ہے۔ زیادہ تر سماجی علوم کے فکری آلات میں سماجیاتی تناظر بہت کامیابی سے داخل ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی تاریخ دان ہوگا جس نے کسی نہ کسی طرح اپنے کام میں سماجیاتی تناظر کو جگہ نہ دی ہو۔ سماجی علوم کے بہت سے دوسرے اہل علم کے برعکس ماہرین سماجیات کسی مخصوص تجرباتی منطقے کو اپنا قرار نہیں دے سکتے۔ زیادہ تر ان کے پاس پیش کرنے کے لئے اپنا تناظر ہی ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا روگ دراصل اسی تناظر کو توڑ پھوڑ کر علمِ سماجیات کو متروک کر دیتا ہے۔ 
یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ یہ منسوخی کوئی بڑا فکری حادثہ نہیں کیوں کہ جو علم سماجیات نے اپنی اصل میں پیش کرنا تھا، اس میں سے بہت کچھ تو دوسرے علوم میں سما چکا ہے۔ لیکن جب ان علوم پر نظر ڈالی جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انہیں اس سماجیاتی دوا کی اچھی خاصی ضرورت ہے جو اس نوعِ علم کی کلاسیکی صورت تھی اور سماجیاتی روایاتِ علم کے وہ بچے کھچے ٹکڑے نہیں جنہیں اب اکٹھا کر لیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سماجیات کے ممکنہ زوال پر خوش نہ ہونے کی اچھی خاصی فکری وجوہات موجود ہیں۔ 
لیکن کیا قسمت کا پانسہ پلٹ سکتا ہے؟ میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بیماری کی جڑیں اب بہت گہری ہو چکی ہیں۔ واپسی کے لئے کچھ شرائط تجویز کی جا سکتی ہیں۔ دیکھا جائے تو اوپر دیے گئے مشاہدات پہلے ہی ضروری خدوخال سامنے رکھ چکے ہیں: ہم ایک ایسے علمِ سماجیات کی بات کر رہے ہیں جو کلاسیکی دور کے عظیم سوالوں کی جانب لوٹ جائے، ایک ایسا علم سماجیات جو وسیع المشرب اور طریقیاتی لچک رکھتا ہو، اور پرزور بلکہ پرتشدد طور پر نظریاتی جبر کے خلاف ہو۔ لیکن ایسی واپسی کے لئے اداراتی مطالبات کیا ہوں گے؟ ظاہر ہے یہ کام کانفرنسوں، منشوروں اور اسی قسم کی دوسری فرار آمادہ سرگرمیوں سے تو نہیں ہو سکتا۔ اس نوعِ علم کا احیاء تو شاید بڑی جامعات میں (چاہے پچھتاتے ہوئے ہی سہی) ایک یا ایک سے زیادہ ایسے درسی منصوبوں سے ہی ممکن ہے جن میں ماہرین سماجیات تربیت یافتہ ہیں۔ مزید برآں یہ سارا کام ایسے نوجوان لوگوں کے ذریعے ہونا چاہیے جن کے آگے دو یا دو سے زیادہ دہائیوں کی پیشہ ورانہ زندگی باقی ہو، کیوں کہ اس میں اتنا وقت لگنا تو لازمی ہے۔ کیا اس کا احتمال ہے؟ شاید نہیں۔ لیکن کلاسیکی علم سماجیات کی ایک بنیادی بصیرت یہی ہے کہ انسانی افعال حیران کن ہوتے ہیں۔

مختلف نظام ہائے قوانین کے اصولوں میں تلفیق : چند اہم سوالات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

(کسی ایک فقہی مذہب کی پابندی اور مختلف مذاہب کے مابین تلفیق کے حوالے سے فیس بک پر ہونے والی بحث کے تناظر میں لکھی گئی توضیحات۔)

پہلی گزارش یہ ہے کہ میرے استاد محترم نیازی صاحب اور مجھے تلفیق پر جو اعتراض ہے، وہ اس بات پر نہیں ہے کہ مختلف مذاہب سے آرا کیوں اکٹھی کی جارہی ہیں؟ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ آرا اکٹھی کی جارہی ہیں یہ فکر کیے بغیر کہ ان آرا کے پیچھے جو اصول کارفرما ہیں، وہ آپس میں ہم آہنگ ہیں بھی یا نہیں؟ اگر اصولی ہم آہنگی یقینی بنائی جائے اور اصولی تضادات دور کیے جائیں ، تو بے شک آرا اکٹھی کرکے نئی رائے قائم کی جائے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ فقہائے کرام نے مذاہب کی تشکیل اسی طرح کی ہے۔ امام محمد ، مثال کے طور پر ، امام ابوحنیفہ کے شاگرد رہے ، پھر امام ابویوسف کے شاگرد رہے، پھر امام مالک اور امام اوزاعی سے استفادہ کیا ، اور پھر انھوں نے علیٰ وجہ البصیرت ایک موقف اختیار کیا۔ 

آرا کے تنوع میں "مذہب" کی حیثیت کسی ایک رائے کو ہی حاصل ہوتی ہے

جو اصول امام محمد نے اپنائے اور ان کی روشنی میں فقہی جزئیات مرتب کیں، وہی بعد کے فقہائے کرام کے لیے فقہ حنفی ہو گئی۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ خود امام محمد کی کتب میں بسا اوقات آپ کو ایک سے زائد آرا مل جاتی ہیں۔ ایسے میں "حنفی مذہب" کیا ہے اور اس کا تعین کیسے کیا جائے؟ میں یہ بحث نہیں کروں گا کہ کئی آرا میں کسی ایک رائے کا تعین کیوں ضروری ہے؟ ضرورت تو اس لیے مسلم ہے کہ خود امام محمد نے ہی الجامع الصغیر اور السیر الصغیر میں یہی کوشش کی کہ صرف "مذہب" ہی متعین کرکے دکھایا جائے۔ امام محمد کے بعد امام طحاوی اور امام کرخی نے "مختصر" لکھ کر اس کام میں مزید حصہ ڈالا۔ امام جصاص نے مختصر الکرخی کی شرح کرکے توضیح کا سلسلہ آگے بڑھایا۔ دوسری طرف ان فقہی جزئیات سے اصولوں کی تخریج کا کام بھی ان بزرگوں نے کیا۔ امام سرخسی کو اللہ تعالیٰ نے یہ شرف بخشا کہ انھوں نے اصولوں کی تدوین کا کام بھی پورا کیا اور فقہی جزئیات کی شرح بھی اس انداز سے کی کہ ان کی المبسوط ہی مذہب کی نمائندہ کتاب بن گئی۔ یہاں تک کہ فقہائے کرام نے تصریح کی کہ مذہب کے تعین کے لیے لا یعول الا علیہ ؛ بلکہ یہاں تک کہا کہ لا یعمل بما یخالفہ۔ (دیکھیے علامہ شامی کی شرح عقود رسم المفتی۔ ) 
بعد میں خواہ امام کاسانی ہوں یا امام مرغینانی ، دونوں نے المبسوط پر بہت زیادہ انحصار کیا۔ امام مرغینانی نے مختصر القدوری اور الجامع الصغیر کو اکٹھا کرکے بدایۃ المبتدی کا متن تشکیل دیا اور یہی متن آئندہ کے تمام فقہائے کرام کے لیے حنفی مذہب کا مستند ترین متن بن گیا۔ خود امام مرغینانی نے اس متن کی جو مختصر تشریح کی اور اسے ہدایہ کا نام دیا ، وہ شرح حنفی مذہب کا بنیادی ماخذ بن گیا۔بعد کی تمام شروح ، حواشی بلکہ متون بھی اسی ہدایہ سے ماخوذ اور ان پر تکیہ کیے ہوئے ہیں بلکہ ان کے رطب و یابس کی تمییز کے لیے بھی ہدایہ ہی معیار قرار پائی۔ 
عصر حاضر میں مسئلہ یہ ہوا کہ ہدایہ پڑھتے پڑھاتے ہوئے متن اور شرح میں فرق کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ہدایہ میں بھی تو دو دو ، تین تین اور بعض اوقات زیادہ آرا پائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ پائی جاتی ہیں۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے؟ لیکن جسے "حنفی مذہب" کہا جاتا ہے، وہ ان کئی آرا میں صرف ایک رائے ہی ہے 150 وہی جو بدایۃ المبتدی کے متن میں ہے۔ 
یہاں میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ بعض اوقات حالات کے تبدیل ہونے سے فتویٰ تبدیل بھی ہوسکتا ہے اور مذہب کے مشائخ مذہب کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فتوی تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔البتہ یہ ضرور یاد دلاؤں گا کہ جب حالات کی تبدیلی کے بعد فتوی تبدیل ہوجائے تو ہی تبدیل شدہ فتوی ہی اب "مذہب" بن جاتا ہے اور وہ پہلے سے موجود کئی آرا میں کوئی "ایک رائے "ہوتی ہے۔ مزارعت و مساقات ، وقف، زنا میں سلطان کے بجائے کسی اور شخص کی جانب سے اکراہ، تعلیم قرآن پر اجرت ، یہ اور اس طرح کے اور کئی مسائل یہاں مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ان میں میرے جیسے کسی ناپختہ فکر والے شخص کی رائے یہ ہوسکتی ہے کہ مزارعت و مساقات اور وقف کے باب میں امام ابوحنیفہ کی رائے لی جائے لیکن جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو ان مسائل میں وہ صاحبین ہی کی رائے ہے اور یہ رائے تب تک مذہب کی حیثیت سے رائج رہے گی جب تک مذہب کے مشائخ اسے ترک کرکے امام کی رائے پر فتوی دینا شروع نہ کردیں۔ یہ ایک لمبا پروسس ہے اور ایک دو دن یا چند سالوں میں نہیں ہونے والا۔ مذہب کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ فتوی تبدیل ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے اور کسی اور رائے کو مذہب بننے میں کتنی محنت لگتی ہے۔ 
تنقید کا شوق رکھنے والے احباب فوراً ہی لپک کر ، یا شاید لہک کر ، کہہ دیں گے کہ یہ جمود کی علامت ہے ! یہ تقلید جامد ہے ! وغیرہ وغیرہ۔ ایسا نہیں ہے، حضور! کسی نے بھی مذہب کے خلاف رائے کے حق میں دلیل دینے سے نہیں روکا ، نہ ہی مذہب کے خلاف رائے کو دبانے کی کسی نے کوشش کی ہے۔ یہ ایک شورائی اور 'لبرل' قسم کی مشق ہے۔ آپ کو جو رائے مناسب لگتی ہے اس کے حق میں دلائل اکٹھے کیجیے ؛ دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کیجیے ؛ لیکن دوسروں پر اپنی رائے مسلط نہ کریں ؛ دوسروں کے لیے بھی یہ حق مانیے کہ وہ جس رائے کو مناسب سمجھتے ہیں اس کے حق میں دلائل دیں اور آپ کو اور دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کریں ؛ اس طریقے سے بالآخر ہوسکتا ہے کہ جس رائے کو آپ بہتر سمجھتے ہیں اسی کو قبولیت عامہ حاصل ہوجائے اور اسی پر مذہب کا فتوی ہوجائے۔ یہ رہی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے مشائخ جب مذہب کے اندر موجود کئی آرا میں کسی ایک رائے کو مذہب قرار دیتے ہیں تو یہ کوئی الل ٹپ بات نہیں ہوتی ؛ بلکہ مذہب کے تمام اصولوں اور ان کی آپس میں ہم آہنگی اور تعامل کو دیکھ کر ہی وہ ایسا کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ عملی حالات کے تقاضوں کو بھی لازماً مد نظر رکھتے ہیں۔ یہاں سے ہم واپس اصولی مسئلے کی طرف لوٹتے ہیں۔ 

مسئلہ اصولی ہے

جی ہاں۔ مسئلہ اصولی ہے ، نہ کہ فقہی۔ اس لیے قواعد فقہیہ کی طرف جانے کے بجائے قواعد اصولیہ کی طرف رجوع ضروری ہے۔ پہلے تو ذرا امام شاطبی کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ "اصول فقہ قطعی ہیں۔"وہ یہ کیوں کہتے ہیں؟ میں وضاحت کرنے کے بجائے مثال کے ذریعے سوال "داغنے" کو ترجیح دیتا ہوں۔ چنانچہ ایک سوال ملاحظہ کیجیے۔ ایک فقیہ نے جب مان لیا کہ مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا تو کیا وہ اس اصول کو کسی وقت چھوڑ سکتا ہے؟ امام شاطبی نے جو کچھ کہا ہے اس کی روشنی میں تو یہ ناجائز ہوگا۔ اگر مثال کے طور پر جناب غامدی صاحب ایک جگہ یہ کہیں کہ سنت صرف عملی شے کو کہتے ہیں اور دوسری جگہ کہیں کسی قول کو بھی سنت کہہ دیں ، تو ان کے ناقدین کیا کہیں گے؟ گویا امام شاطبی کی بات کہ اصول قطعی ہیں ، ہر شخص نے مانی ہے۔ 
چلیں آپ نے ایک اصول اپنا لیا تو اب اس کی پابندی آپ پر لازم ہوگئی ، الا یہ کہ آپ وہ اصول ترک کردیں۔ لیکن جب ترک کردیں تو اس صورت میں کسی جگہ بھی آپ اس اصول کا اطلاق نہیں کرسکیں گے۔ ہاں، ایک گنجایش ہوسکتی ہے۔ وہ یہ کہ ایک جگہ آپ ایک اصول مان رہے ہیں اور دوسری جگہ اسے ترک کررہے ہیں تو دونوں مسائل میں فارق واضح کریں۔ (اسے اصول قانون کی اصطلاح میں distinguishing کہتے ہیں۔ ) گویا یہاں بھی اطلاق یا ترک کا فیصلہ کسی اصول پر ہی ہوتا ہے۔ 
آگے بڑھیں اور اب مختلف اصولوں کے تعلق پر غور کریں۔ حنفی اصول یہ ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا (جب تک چند مخصوص شرائط پوری نہ ہوں)؛ شافعیہ کا موقف اس کے برعکس ہے۔ اسی طرح حنفی اصول یہ کہ عام کی دلالت قطعی ہے ؛ شافعیہ اسے ظنی مانتے ہیں۔ اب کیا یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص ایک اصول حنفی لے ( کہ مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا) اور دوسرا شافعی ( کہ عام کی دلالت ظنی ہے)؟ اس سوال کا جواب اثبات میں تبھی ہوسکتا ہے جب دونوں اصولوں کے درمیان ہم آہنگی ہو ، ورنہ نہیں۔ اس کی وضاحت نیچے دی جارہی ہے۔ 

کیا تلفیق کبھی صحیح بھی ہوسکتی ہے؟ 

اب ہم ا س مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔ 
ایک فقہی مذہب دراصل اسلامی قانون کے متعلق ایک مخصوص تصور رکھتا ہے ؛ اس کے نزدیک اس مخصوص تصورِ قانون کے مطابق قانون اخذ کرنے کے لیے کچھ مخصوص مصادر اور کچھ مخصوص طرقِ استدلال و استنباط ہوتے ہیں ؛ اور اس مقصد کے لیے اس کے وضع کردہ یا قبول کردہ تمام اصول باہم ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اس پورے "فکری نظام" میں اچانک ہی باہر سے کوئی اصول کیسے داخل کیا جاسکتا ہے جب تک پہلے سے موجود اصولوں کے ساتھ اس "اجنبی" اصول کی ہم آہنگی یقینی نہ بنائی جائے؟ فقیہ کا کام ہی یہی ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ یہ اصول اس نظام میں چل سکتا ہے یا نہیں؟ یا اگر اسے قبول کرنا ہے تو کن شرائط کے ساتھ قبول کیا جاسکتا ہے؟ یا اس میں کیا تبدیلیاں لائی جائیں جن کے بعد یہ قابلِ قبول ہوسکے گا؟ 
امام غزالی نے جب "مصلحت مرسلہ" کو ، یعنی اس مصلحت کو جس کے شرعاً قابلِ قبول ہونے کے لیے کوئی مخصوص دلیل جزئی نہ ملے ، قبول کرنے کے لیے درج ذیل تین شرائط لگائیں تو یہی ان کا مقصود تھا : 
1۔ یہ کہ وہ کسی نص کے خلاف نہ ہو (جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس مخصوص فقہی مذہب کے اصولِ تعبیر کی رو سے نص کا جو مفہوم بنتا ہو اس کے خلاف نہ ہو ) ؛ 
2۔ یہ کہ وہ "تصرفاتِ شرع" کے خلاف نہ ہو (جس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ اس مخصوص فقہی مذہب نے اسلامی شریعت کے جو قواعد عامہ متعین کیے ہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو ) ؛ اور 
3۔ یہ کہ وہ "غریب" نہ ہو ( یعنی اس مخصوص فقہی مذہب کے تصورِ قانون میں وہ بالکل ہی اجنبی نہ ہو بلکہ اس سے ملتا جلتا کوئی تصور ، کوئی قاعدہ ، کوئی ضابطہ ملتا ہو )۔ 
یہ تین شرائط اسی compatibility کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔ 
تلفیق کے جواز و عدم جواز پر معاصراہل علم کی بحث میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس بحث میں ہم آہنگی یقینی بنانے والی یہ بات بالکل ہی نظرانداز کردی گئی ہے۔ ہمارا موقف اس سلسلے میں یہ ہے کہ تلفیق اگر یہ ہم آہنگی یقینی بنانے کے بعد کی جائے تو صحیح ہے ، ورنہ غلط ہے۔ 
قرآن وسنت کی نصوص سے اسلامی قانون کے استنباط و استخراج کے لحاظ سے فقہی احکام کو ہم تین مراتب میں تقسیم کرتے ہیں : 
1۔ وہ احکام جو نصوص کی تعبیر و تشریح ، اصول فقہ کی اصطلاح میں "بیان"، کے ذریعے اخذ کیے گئے ہیں؛ 
2۔ وہ احکام جو اس پہلے مرتبے میں موجود احکام کی علت پر غور کرکے "قیاس" کے ذریعے اخذ کیے گئے ہیں؛ اور 
3۔ وہ احکام جو پہلے دو مراتب میں موجود احکام کے مقاصد اور حکمتوں پر غور کرنے کے بعد ، یعنی "مقاصدِ شریعت" پر غور کرنے کے بعد ، اخذ کیے گئے ہیں۔ 
پہلے مرتبے میں موجود احکام میں تلفیق کی گنجایش کم سے کم ہے اور تیسرے مرتبے کے احکام میں تلفیق کی گنجایش زیادہ سے زیادہ ہے لیکن کسی بھی جگہ تلفیق صرف اسی صورت میں صحیح قرار پائے گی جب پہلے ان اصولوں کے درمیان ہم آہنگی یقینی بنائی جائے جن پر ان احکام کا دارومدار ہے۔ 
فقہی احکام کا جو یہ تیسرا مرتبہ ہے ، یعنی جہاں مقاصدِ شریعت پر غور کرکے احکام اخذ کیے جاتے ہیں ، یہاں مختلف مذاہب فقہ کے درمیان بہت حد تک پہلے ہی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جسے فقہائے کرام "سیاسہ شرعیہ" کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں۔ سیاسہ شرعیہ اور مقاصد شریعت کے باہمی تعلق پر بعد کے فقہائے کرام کے کام کو اگر چھوڑ بھی دیں اور صرف امام دبوسی کی "تقویم الادلہ "میں متعلقہ مباحث دیکھ لیے جائیں تو اس بات کی پوری وضاحت مل جائے گی۔ 

امام محمد نے دوسرے مذاہب کے اصول کیسے استعمال کیے؟ 

اب ان مسائل پر غور کریں جہاں امام محمد نے محدود پیمانے پر دیگر مذاہب کے اصول استعمال کیے ہیں۔ 
پہلی بات یہ ہے کہ سیر کے بیش تر احکام ، اور بالخصوص وہ احکام جو "السیر الکبیر" میں مذکور ہیں ، سیاسہ شرعیہ کے دائرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے وہاں پہلے ہی تلفیق کی گنجایش تھی۔ 
دوسری بات جو زیادہ اہم ہے یہ ہے کہ امام محمد نے جو دوسرے اصول یہاں قبول کیے ہیں ان میں کچھ ایسے ہیں جو پہلے بھی حنفی مذہب کی رو سے مقبول ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں نے کسی کو امان دی ، یا کسی سے امان لی ، تو امان کے الفاظ میں وہ مفہوم مخالفہ کو معتبر قرار دیتے ہیں تو یہ حنفی مذہب کی رو سے بھی صحیح ہے کیونکہ مفہوم مخالفہ کو وہ صرف شرعی نصوص کی تعبیر میں معتبر نہیں مانتے اور وہاں بھی چند شرائط پوری ہوں تو اس کے بعد معتبر مانتے ہیں۔ دیگر اصول جو انھوں نے استعمال کیے ہیں وہاں امام سرخسی نے ہر جگہ واضح کیا ہے کہ حنفی مذہب کی رو سے وہ کیسے قابل قبول "بنائے گئے "ہیں۔ اس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ہم آہنگی یقینی بنائی۔ 
تیسری بات ان دونوں سے زیادہ اہم ہے اور وہ یہ کہ ایسے مسائل میں امام محمد کی رائے اور حنفی "مذہب" ہمیشہ ایک نہیں ہیں اگرچہ السیر الکبیر کا شمار "ظاہر الروایہ" میں ہوتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو ذرا ان مسائل پر امام سرخسی کی شرح ، امام کاسانی کا موقف اور بدای? المبتدی کا متن دیکھ لیجیے۔ 

کیا یہ Positivism ہے؟ 

میرے لیے عمار بھائی کا یہ کمنٹ نہایت حیران کن تھا کہ جو موقف ہم پیش کررہے ہیں وہ positivism سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ موقف positivism سے ایک سو اسی درجے مختلف ہے۔ 
ایک تو positivism کا تو یہ کہنا ہے کہ قانون بس وہی ہے جو ریاست نے ، یا کسی انسانی نظام نے ، باقاعدہ طور پر وضع کرکے دیا اور اس کا اخلاقیات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کم از کم اس لحاظ سے تو عمار بھائی ہمارے موقف کو positivism قرار نہیں دے رہے۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ مقننہ /شارع کی جانب سے دیے گئے قانون میں جہاں خلا پایا جائے ، جس معاملے میں "حکم" نہ ملے، وہاں positivism جج کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنی قانونی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا حکم "وضع" کردے جو اسے اس مسئلے میں مناسب محسوس ہوتا ہو۔ میں نے کئی دفعہ وضاحت کی ہے اور آج پھر تصریح کرتا ہوں کہ ہم جج کے لیے ایسے کسی اختیار کے قائل نہیں ہیں۔ یہی تو ہمارے موقف اور جناب غامدی صاحب کے موقف میں بنیادی فرق ہے۔ 
غامدی صاحب اس کے قائل ہیں کہ "جہاں شریعت خاموش ہو "وہاں انسانوں کو "عقل و فطرت" کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ براہ کرم اس موقف کو فوراً ہی positivism نہ قرار دیں۔ درحقیقت یہ naturalism ہے کیونکہ naturalists کا یہی موقف ہے کہ قانونِ فطرت میں تمام مسائل کے لیے حکم موجود ہے اور انسان اسے عقل کے ذریعے معلوم کرسکتے ہیں ، اگر وہ معلوم کرنا چاہیں۔ اس موقف اور positivism میں بظاہر یکسانیت ہے لیکن دراصل دونوں میں جوہری فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ positivism کی رو سے ایسے مقام پر جج قانون "وضع" کرتا ہے جبکہ naturalism کی رو سے وہ قانون "دریافت" کرتا ہے۔ 
ہمارے نزدیک یہ دونوں موقف صحیح نہیں ہیں۔ ہمارے موقف کی رو سے حنفی اصول سے قریب ترین موقف مغربی فلاسفہ قانون میں کسی کا اگر ہے تو وہ رونالڈ ڈوورکن ( Ronald Dworkin) کا ہے جس نے تفصیل سے دکھایا ہے کہ جہاں آپ قرار دیتے ہیں کہ قانون خاموش ہے ، وہاں بھی قانون خاموش نہیں ہوتا ؛ نہ ہی جج وہاں قانون وضع کرتا ہے ، نہ ہی وہ "قانونِ فطرت" اپنی "عقل" کے ذریعے "دریافت" کرکے اس پر فیصلہ سناتا ہے ؛بلکہ ایسے مواقع پر جج قانون کے قواعدِ عامہ general principles of law) کی روشنی میں فیصلہ سناتا ہے۔ ان قواعدِ عامہ کے لیے جج کو دکھانا پڑتا ہے کہ قانون کی مختلف جزئیات کے پیچھے کون سا قاعدہ کارفرما ہے جس کا اطلاق یہاں بھی ہوتا ہے جہاں بظاہر آپ کو کوئی دلیل جزئی نہیں مل رہی۔ 

کیا ہم کسی ایک منہج کو لے کر باقی مناہج کی نفی کرتے ہیں؟ 

کہنے دیجیے کہ ہمارے موقف کے متعلق یہ اعتراض بھی قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔ ہم بالکل بھی اس کے قائل نہیں ہیں کہ اسلامی قانون کے اصول اور قواعد کا ارتقا امام سرخسی پر آکر رک گیا ہے ؛ نہ ہی ہم وقت کا پہیہ واپس گھمانا چاہتے ہیں۔ 
اس کے برعکس ہم اس کے قائل ہیں کہ ظاہر الروایہ پر مستند ترین شرح امام سرخسی کی ہے اور حنفی فقہائے کرام کے اصولوں کی بہترین وضاحت امام سرخسی نے کی ہے۔ امام سرخسی کے بیان کردہ کسی اصول کی مزید بہتر تہذیب ، تعبیر یا توضیح اگر کی جاسکتی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ امام سرخسی سے قبل کے فقہائے احناف کے کام ، بالخصوص امام محمد کی کتب ، سے جزئیات بیان کرکے بتایا جائے کہ کون سا جزئیہ امام سرخسی کے بیان کردہ اصول کے خلاف جاتا ہے اور اس اصول میں کیا تبدیلی کی جائے کہ وہ اس جزئیے پر بھی محیط ہوجائے اور باقی جزئیات بھی اس کے اطلاق سے نہ نکلیں؟ یہ بالکل وہی طریقہ ہے جس پر امام سرخسی مثال کے طور پر امام کرخی یا امام عیسی بن ابان یا متقدمین فقہائے کرام میں کسی اور کے بیان کردہ اصول کی تصحیح کرتے ہیں۔ 
جیسا کہ اس مضمون کی ابتدا میں ذکر کیا گیا ، امام سرخسی کے لیے یہ مقام ہم نے "تخلیق" نہیں کیا بلکہ حنفی مذہب کے مشائخ نے ان کے لیے بالاتفاق یہ حیثیت تسلیم کی ہے۔ 
مزید برآں ، ہم اس کے بھی قائل ہیں کہ جدید مسائل کے حل کے لیے حنفی مذہب کے ان اصولوں کی روشنی میں نئے اصول بھی وضع کیے جاسکتے ہیں؛ دیگر مذاہبِ فقہ سے بھی اصول لیے جاسکتے ہیں ، بالخصوص سیاسہ شرعیہ کے میدان میں ؛ اور دیگر نظام ہائے قوانین سے بھی اصول لیے جاسکتے ہیں ؛ لیکن اس سب کچھ میں بس یہ لحاظ رکھنا لازمی ہوگا کہ وہ نیا اصول جو آپ وضع کریں ، کسی اور فقہی مذہب سے لیں ، یا کسی اور نظامِ قانون سے لیں، وہ اصول پہلے سے موجود اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو ؛ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس اصول میں کچھ ایسی تبدیلیاں کرنی ہوں گی جن کے بعد وہ ان اصولوں سے ہم آہنگ ہوجائے ؛ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر وہ اصول قبول نہیں کیا جاسکتا۔ 
ہذا ما عندی ، و العلم عند اللہ۔ 

قومی بیانیہ اور اہل مدارس

مولانا مفتی منیب الرحمن

بیانیہ یا Narrative ہماری سیاست و صحافت کی نئی اصطلاح ہے جو اکیسویں صدی میں متعارف ہوئی، اس سے پہلے شاید کہیں اس کا ذکر آیا ہو، لیکن ہمارے مطالعے میں نہیں آیا۔ البتہ ایک نئے ’’عمرانی معاہدے‘‘ (Social Contract) کی بات کی جاتی رہی ہے، حالانکہ کسی ملک کا دستور ہی اس کا عمرانی معاہدہ ہوتا ہے اور پاکستان کا دستور اتفاقِ رائے سے 14 اگست 1973ء کو نافذ ہوا اور اْس کے بعد سے اب تک اس میں 22 ترامیم ہوچکی ہیں۔ اٹھارھویں ترمیم نے اِسے فیڈریشن سے کنفیڈریشن کی طرف سرکا دیا ہے۔
7 ستمبر 2015ء کو وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں قومی بیانیہ ترتیب دینے کے لیے ایک مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی: مفتی منیب الرحمن، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا یاسین ظفر اور مولانا عبدالمالک۔
میں نے بنیادی مسودہ ترتیب دیا، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری شریک کار تھے، پھر اسے پانچوں تنظیمات کے اکابر کے پاس بھیجا، انہوں نے اس کا مطالعہ کیا، بعض نے کچھ ترامیم تجویز کیں، کچھ حذف و اضافہ کیا اور پھر میں نے حتمی مسودہ 22 اکتوبر 2015ء کو کوآرڈی نیٹر نیکٹا جناب احسان غنی کو ارسال کیا کہ وہ متعلقہ اہل اقتدار کو اِسے دکھا دیں اور اگر وہ اس میں کوئی ردّوبدل چاہیں تو اس کی نشان دہی کردیں۔ میں نے اِسے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جناب جنرل رضوان اختر کو بھی ارسال کیا کہ اگر اس میں وہ اپنا کوئی حصہ ڈالنا چاہیں یا کوئی اضافہ مطلوب ہو تو مطلع کریں، ہم باہمی مشاورت سے اسے حتمی شکل دیں گے۔ اس دوران میڈیا پر وقتاً فوقتاً بیانیہ کا ذکر آتا رہا، لیکن سرکار کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت وقت کے لیے آئے دن کوئی نیا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے یا کوئی نئی افتاد نازل ہوجاتی ہے، انہیں ان چیزوں پر غور کی فرصت ہی نہیں ملتی اور نہ ہی وہ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ چونکہ ہمارے میڈیا کے کرم فرما حضرات کا ہدف مدارس اور اہل مدارس ہوتے ہیں، اس لیے وہ مشقِ ستم فرماتے رہتے ہیں۔ ان پر نہ کوئی ذمے داری عائد ہوتی ہے، نہ ان کے لیے حب الوطنی کا کوئی معیار ہے، نہ ہی ملکی سلامتی کے حوالے سے ان پر کوئی قید و بند عائد کی جاسکتی ہے، اْن کی زبان کی کاٹ سے ویسے ہی اہل اقتدار لرزاں و ترساں رہتے ہیں، خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار کی آرزو میں بیٹھے ہوں۔ سو ایک کمزور طبقہ مدارس و اہلِ مدارس کا رہ جاتا ہے جس پر مشقِ ناز کی جائے اور یہ بھی ان کی خواہش رہتی ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا جائے اور جتنا ہوسکے ان کی مشکیں کَسی جائیں۔ لہٰذا ہم نے اپنے تناظر میں یہ بیانیہ ترتیب دیا۔ دو تین ماہ قبل بیانیہ ترتیب دینے کے لیے اہلِ عقل و دانش کی کوئی مجلس ترتیب دی گئی اور ظاہر ہے کہ بنیادی قرطاسِ عمل اِسی عاجز کا ترتیب دیا ہوا تھا، بیرونِ ملک سفر کی وجہ سے میں خود اِن دانائے روزگار اشخاص کی دانش سے مستفید نہ ہوسکا اور محروم رہا۔
البتہ طیور کی زبانی جو اڑتی سی خبر ملی، وہ یہ تھی کہ نفاذِ شریعت کے مطالبے کا بیانیے سے تعلق نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ایسی کوئی ہوا اسے لگنی چاہیے۔ ہمیں حیرت ہے کہ جمہوریت کے نام پر کوئی بھی مطالبہ کیا جا سکتا ہے، لیکن نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے کی جمہوریت میں بھی اجازت نہیں ہے، سو جمہوریت اور جمہوری اَقدار کس چڑیا کا نام ہے، یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ ویسے تو اسرائیل میں بھی مذہبی جماعتیں سیاسی دوڑ میں شامل ہیں، جرمنی میں کرسچین ڈیموکریٹس کے نام سے جماعت قائم ہے اور اِن سے اْن کے نظام کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے سے ریاست کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
ہمارا مرتبہ بیانیہ درج ذیل ہے:
ہمارے وطن عزیز میں گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے داخلی طور پر تخریب وفساد، دہشت گردی اور خروج و بغاوت کی صورتِ حال ہے اور اس کے بار ے میں دینی لحاظ سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے ابہامات اور اشکالات وارد ہو رہے ہیں۔ بعض حضرات یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ اس ذہنی نہاد کے پیچھے مذہبی محرکات کارِفرما ہیں اور انھیں دینی مدارس و جامعات سے بھی کسی نہ کسی سطح پر تائید یا ترغیب ملتی رہی ہے۔ لہٰذا ہماری دینی اور ملی ذمہ داری ہے کہ اس کے ازالے اور حقیقت حال کی وضاحت کے لیے اپنا شرعی مؤقف واضح کریں اور اسی بنا پر ہم نے اسے قومی بیانیے کا عنوان دیا ہے، پس ہمارا موقف حسب ذیل ہے:
(1) اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، جس کے دستور کا آغاز اس قومی و ملی میثاق سے ہوتا ہے: ’’اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہے، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔ نیز دستور میں اس بات کا اقرار بھی موجود ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا۔ اگرچہ دستور کے ان حصوں پر کماحقہ عمل کرنے میں شدید کوتاہی رہی ہے، لیکن یہ بے عملی ہے اور اس کوتاہی کی بنا پر ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک، حکومت وقت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔
(2) پاکستان کے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذِ شریعت کی پرامن جدوجہد کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے، یہ پاکستان کے دستور کا تقاضا بھی ہے اور اس کی دستور میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ہماری رائے میں ہمارے بہت سے ملکی اور ملّی مسائل کا سبب اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد سے روگردانی ہے۔ حکومت اس حوالے سے پیش رفت کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کو فعال بنائے اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پر مبنی قانون سازی کرے، جو کہ دستوری تقاضا ہے۔ نفاذِ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے، حرام قطعی ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ ریاست، ملک و قوم اور وطن کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں، عدمِ استحکام سے دوچار کر رہی ہیں، تقسیم در تقسیم اور تفرقے کا باعث بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لیے ضربِ عضب کے نام سے جو آپریشن شروع کر رکھا ہے اور قومی اتفاقِ رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا ہے، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اب ہماری مسلّح افواج نے ایک نئی مہم شروع کی ہے، جس کا عنوان ہے: ’’رَد الفَسَاد‘‘، ہم اس کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
(3) اکیسویں آئینی ترمیم میں جس طرح دہشت گردی کو ’’مذہب و مسلک کے نام پر ہونے والی دہشت گردی‘‘ کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہمارے تحفظات ہیں۔ دہشت گردی اور ملک کے اندر داخلی فساد کی باقی تمام صورتوں کو یکسر نظرانداز کر دینا مذہب کے بارے میں نظریاتی تعصب کا آئینہ دار ہے، اور اس امتیازی سلوک کا فوری تدارک ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم ریاست اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سے ملک میں قیامِ امن کے لیے ہمارے عزم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کے بعد بھی معلوم ہوا ہے کہ ہماری لبرل جماعتیں مذہب اور اہلِ مذہب کو ہدفِ خاص بنانے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو آمادہ نہیں ہیں، اوراِسی لیے تیئسویں ترمیم پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا، اگرچہ اس اختلاف کا سبب دراصل ان کی ایک دوسرے سے شکایات، گلے شکوے اور کچھ خدشات ہیں۔
(4) تمام مسالک کے نمائندہ علماء نے 2004ء میں اتفاقِ رائے سے شرعی داائل کی روشنی میں قتل ناحق کے عنوان سے خود کش حملوں کے حرامِ قطعی ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا تھا، ہم اس کی مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں۔ نیز لسانی علاقائیت اور قومیت کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروفِ عمل ہیں، یہ بھی قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب ہیں اور شریعت کی رو سے یہ بھی ممنوع ہے، لہٰذا ضربِ عضب کا دائرہ ان سب تک وسیع کیا جائے۔
(5) مسلمانوں میں مسالک و مکاتبِ فکر قرونِ اولیٰ سے چلے آرہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گی۔ لیکن یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں اور ان کا اصل مقام درس گاہ ہے۔ اِن کو پبلک یا میڈیا میں زیرِ بحث لانا بھی انتشارپیدا کرنے اور وحدتِ ملی کو نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔ اِن کو انتظامی اور انضباطی اقدامات سے کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق یا قانون بنا کر اسے سختی سے نافذ کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے وہ کوئی تعزیری اقدام بھی تجویز کر سکتی ہے۔
(6) فرقہ وارانہ نفرت انگیزی، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت اور آئین و قانون کی رو سے ناجائز ہے اور یہ ایک قومی اور ملی جرم ہے۔
(7) تعلیمی اداروں کا، خواہ وہ دینی تعلیم کے ادارے ہوں یا عصری تعلیم کے، ہر قسم کی عسکریت اور نفرت انگیزی پر مبنی تعلیم یا تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی فرد یا ادارہ اس میں ملوث ہے، تو اس کے خلاف ثبوت و شواہد کے ساتھ کارروائی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
(8) دینی مدارس پر مبہم اور غیر واضح الزامات لگانے کا سلسلہ ختم ہوناچاہیے۔ دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات حکومت کو لکھ کر دے چکی ہیں کہ اگر اس کے پاس ثبوت و شواہد ہیں کہ بعض مدارس عسکریت، دہشت گردی یا کسی بھی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث ہیں، تو ان کی فہرست جاری کی جائے۔ وہ خود نتائج کا سامنا کریں یا اپنا دفاع کریں، ہم ان کا دفاع نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کی حمایت کریں گے۔
(9) ہم بلا استثنا تمام دینی مدارس میں کسی منفی سرگرمی کی مطلقاً نفی نہیں کر سکتے، ہماری نظر میں انتہا پسندانہ سوچ اور شدت پسندی کومحض دینی مدارس سے جوڑنا غیرمنصفانہ سوچ کا مظہر ہے۔ گزشتہ عشرے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے شواہد سا منے آئے ہیں کہ یہ روش جدید عصری تعلیمی اداروں اور دیگر اداروں میں بھی فروغ پا رہی ہے، اس کے نتیجے میں مغرب کے پر تعیش ماحول سے نکل کر لوگ وزیرستان آئے، القاعدہ اور داعش سے ملے، جبکہ یہ جدید تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ پس تناسب سے قطعِ نظر یہ فکر ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ سو یہ فکری نہاد جہاں کہیں بھی ہو، ہماری دشمن ہے۔ یہ لوگ دینی مدارس یا جدید تعلیمی اداروں یا کسی بھی ادارے سے متعلق ہوں، ہمارے نزدیک کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
(10) دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات اس بات کا عہد کرتی ہیں کہ دینی تعلیم کھلے ماحول میں ہونی چاہیے اور طلبہ و طالبات پر کسی قسم کا جسمانی یا نظریاتی تشدد یا جبر روا نہیں ہے۔ الحمدللہ ہمارے دینی مدارس کا ماحول کھلا ہے اور اس میں عوام بلا روک ٹوک آسکتے ہیں اور کوئی چیز مخفی نہیں ہے، یہ ادارے ملکی قانون کے تحت قائم ہیں اور ملکی قانون کے پابند ہیں اور رہیں گے۔
(11) ہر مکتب فکر اور مسلک کو مثبت انداز میں اپنے عقائد اور فقہی نظریات کی دعوت و تبلیغ کی شریعت اور قانون کی رو سے اجازت ہے، لیکن اہانت آمیز اور نفرت انگیزی پر مبنی اندازِ بیان کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح صراحت، کنایہ، تعریض، توریہ اور ایہام کسی بھی صورت میں انبیائے کرام ورسل عظام علیہم السلام، اہل بیتِ اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور شعائر اسلام کی اہانت کے حوالے سے ضابطہ فوجداری کے آرٹیکل 295 کی تمام دفعات کو لفظاً اور معناً نافذ کیا جائے، اور اگر اس قانون کا کہیں غلط استعمال ہوا ہے، تو اس کے اِزالے کی احسن تدبیر کی جاسکتی ہے۔ فرقہ وارانہ محاذ آرائی کے سد باب کی یہی ایک قابلِ عمل صورت ہے۔
(12) عالم دین اور مفتی کا منصبی فریضہ ہے کہ کلماتِ کفر کو کفر قرار دے اور سائل کو شرعی حکم بتائے، البتہ کسی شخص کے بارے میں فیصلہ صادر کرنا کہ آیا اس نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا کلمہ کفر کہا ہے، یہ قضا ہے اور عدالت کا کام ہے۔ مفتی کا کام صرف شرعی حکم بتانا ہے، اس سے آگے ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔ اسی لیے ہمارے فقہائے کرام نے ’’لزومِ کفر‘‘ اور ’’التزام کفر‘‘ کے فرق کو واضح کیا ہے۔
(13) اس وقت پاکستان میں جدید تعلیم ایک انتہائی منفعت بخش صنعت بن چکی ہے۔ پلے گروپ اور نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک پرائیویٹ تعلیمی ادارے ناقابل یقین حد تک غیر معمولی فیسیں وصول کر رہے ہیں۔ اعلیٰ معیاری تعلیم قابلِ فروخت جنس بن چکی ہے اور مالی لحاظ سے کمزور طبقات کی پہنچ سے دور ہے، اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو مستقل حیثیت حاصل ہے، کیونکہ پبلک سیکٹر میں تعلیم کا معیار انتہائی حد تک پست ہے۔ ہمیں تعلیم کے پرائیویٹ سیکٹر میں ہونے پر اعتراض نہیں ہے، اعتراض یہ ہے کہ تعلیم کو صنعت کے بجائے سماجی خدمت کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک قومی کمیشن قائم کیا جائے جو پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کے لیے’’نہ نفع نہ نقصان‘‘ یا مناسب منفعت کی بنیاد پر فیسوں کا تعین کرے اور انہیں اس بات کا پابند کرے کہ وہ کم از کم پچیس فیصد نادار طلبہ کو میرٹ پر منتخب کر کے مفت تعلیم دیں۔ عصری تعلیم کے پرائیویٹ اداروں میں کئی قسم کی درآمد کی ہوئی نصابی کتب پڑھائی جا رہی ہیں اور ان کا نظامِ امتحان بھی بیرونِ ملک اداروں سے وابستہ ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کے نصاب پر مؤثر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان میں تعلیم پانے والی ہماری نئی نسل اسلامی اور پاکستانی ذہن کی حامل ہو اور سب سے آئیڈیل بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح اسکول گریجوایشن کی سطح تک یکساں نصابِ تعلیم اور نظامِ امتحان رائج ہو۔
(14) پاکستان میں رہنے والے پابند آئین و قانون تمام غیرمسلم شہریوں کو جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ اور ملکی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے وہی تمام شہری حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ ہم حقوقِ انسانی کی مکمل پاسداری کا عہد کرتے ہیں۔ اِسی طرح پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
(15) اسلام خواتین کو احترام عطا کرتا ہے اور ان کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے۔ اسلام کے قانونِ وراثت میں خواتین کے حقوق مقرر ہیں۔ ان کو جاگیرداری، سرمایہ داری اور قبائلی رسوم پر مبنی سماجی روایات کی بنیاد پر وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں اخلاقی اور معاشرتی دباؤ ڈال کر وراثت سے دست برداری حاصل کی جاتی ہے۔ قرآن سے شادی کا تصور بھی وراثت سے محروم کرنے کی غیر شرعی رسم ہے۔ وراثت کا استحقاق محض دست برداری سے ختم نہیں ہوتا، قرآن و سنت کی رو سے تقسیمِ وراثت شریعت کا لازمی قانون ہے۔ شریعت کی رو سے اگر کوئی وارث اپنا حصہ رضا و رغبت سے اور کسی جبر و اکراہ کے بغیر کسی کو دینا چاہے، تو بھی محض دست برداری کافی نہیں ہے۔ جائیداد مالکانہ طور پر اس کے نام پر منتقل کرنا اور اسے اْس پر قبضہ دینا لازمی ہے، اس کے بعد ہی وہ مالکانہ حیثیت سے تصرف کرسکتا ہے۔ عورتوں پر تشدد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں عورتوں کے حقوق کی پاسداری پر نہایت تاکید کے ساتھ متوجہ فرمایا ہے۔ خواتین کی جبری شادی ہمارے دیہی اور جاگیردارانہ سماج کی ایک خلافِ شرع روایت ہے، اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اسے قانون کی طاقت سے روکے۔ اسلام عورت کے حق رائے دہی پر بھی کوئی قدغن نہیں لگاتا اور نہ ہی عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی ہے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ شرعی حدود کی پابندی کی جائے۔
ہم نے دینی مدارس و جامعات کی رجسٹریشن کا میکنزم بھی بنا کر دیا، تمام ضروری کوائف ومعلومات اس میں شامل کی گئیں اور تفصیلی کوائف کے لیے اصل کیفیت نامہ کے ساتھ ضمنی فارم مرتب کر کے دیے۔ اسی طرح ڈیٹا فارم بھی مرتب کر کے دیا اور طے پایا کہ پہلے سے قائم سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ مدارس کو قانونی تصور کیا جائے گا، اور ان سے دوبارہ رجسٹریشن کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ یہی اصول سابق صدر جناب جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کے ساتھ طے پایا تھا اور اْن کے دور میں اس پر عمل رہا۔ یہ بھی طے پایا کہ پہلے سے رجسٹرڈ مدارس اور نئی رجسٹریشن حاصل کرنے والے مدارس سالانہ ڈیٹا بھی فراہم کریں گے اوراس کے لیے وفاقی وزارتِ مذہبی امور یا وزارتِ تعلیم میں ایک سیل قائم کیا جائے گا یا صوبے اس ذمہ داری کو انجام دیں گے۔ ہماری معلومات کے مطابق ہمارے تیارے کیے گئے اس مسودہ قانون کی صوبوں سے منظوری بھی لی گئی، لیکن پھر اس پر قانون سازی نہ ہوسکی۔ 
ماضی قریب میں صوبہ سندھ کی اسمبلی نے ایک متنازعہ بل بنایا، لیکن وہ اب تک معرضِ التوا میں ہے، کیونکہ صوبائی وزیرِ اعلیٰ جنابِ سید مراد علی شاہ متعدد وعدوں کے باوجود اتفاقِ رائے کے لیے اب تک کوئی اجلاس منعقد نہیں کرسکے اور حکومت کے اِسی شعار کی وجہ سے ’’تبدیلی مذہب ‘‘ کا قانون جو دراصل ’’قانونِ امتناعِ قبولِ اسلام ‘‘ ہے، صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے کے باوجود قانون نہ بن سکا اور اس کے بارے میں بھی اتفاقِ رائے کے لیے جنابِ آصف علی زرداری کے وعدے اور ہدایت کے باوجود کوئی اجلاس منعقد نہ ہوسکا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو ملامت کرنے میں لگی رہتی ہیں، لیکن ہمیں سنجیدگی کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی اور سب پنجابی محاورے کے مطابق ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)

جوابی بیانیہ اور قومی بیانیہ ۔ ایک تقابلی جائزہ

عدنان اعجاز

حال ہی میں وزیر اعظم کی جانب سے 'جوابی بیانیے' کے تجدید مطالبہ کے نتیجے میں چھڑنے والی بحث کے استقصا سے پتہ چلا کہ مفتی منیب الرحمن صاحب کی جانب سے ایک 'قومی بیانیہ' 2015 میں ہی تیار ہو چکا تھا۔ بنیادی ڈھانچہ اگرچہ مفتی صاحب ہی کا تھا تاہم ان کی روداد کے مطابق تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علما کی جانب سے حذف و اضافے کی تضمیم و توثیق کے بعد متفقہ مسودہ متعلقہ وفاقی اداروں کو ارسال بھی کر دیا گیا تھا۔ ہماری بدقسمتی کہ یہ اہم ترین پیشرفت شاید گمنامی اور شاید کوتاہ بینی سے اب تک علم میں نہ آسکی تھی۔ خیر اب چونکہ یہ مسودہ جس کا بے چینی سے انتظار تھا، جسے مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانیوں کو درپیش مہلک عالمگیر نظریاتی وباؤں کے لیے نسخہ کیمیا بننا تھا، جب نمودار ہو چکا تو اب یہ ایک دیانتدارانہ علمی تجزیے کا متقاضی ہے۔
2015 ہی کے آغاز میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کا مسودہ ’’اسلام اور ریاست۔ ایک جوابی بیانیہ‘‘ اس سے پہلے ہی شائع ہو چکا تھا۔ چنانچہ اب جبکہ یہ دونوں بیانیے 150 یعنی علما کا قومی بیانیہ اور غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ150منظر عام پرآ چکے، ان دونوں کا تقابل و تجزیہ آسان بھی ہو گیا ہے اور ضروری بھی، تاکہ یہ پرکھا جا سکے کہ کون سے وہ نظریات ہیں جو اب اس منتشر قافلے کی شیرازہ بندی کے لیے بانگ درا بننے کے اہل ہیں۔ 
یہ بات محتاجِ بیان نہیں کہ حکومت یا اہل علم و دانش جس بیانیے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس کے موضوعات و مندرجات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ تو آپ سے ہویدا ہے کہ ان کی مراد ان بنیادی مذہبی نظریات 150 جن کا پرچار دہشتگرد اور انتہا پسند کرتے ہیں 150 کے جواب میں ایسے نئے یا درست دینی نظریات ہیں جو قوم اور امت کی سمت و احوال میں بہتری کی طرف گامزن کرنے کا موجب بنیں۔ بہر حال اس بات کا بیان یہاں کر دینا مناسب معلوم پڑا۔
تجزیے کے لیے آئیے پہلے مفتی منیب صاحب کے قومی بیانیے کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں، کہ غامدی صاحب کے جوابی بیانے پر تو بعض پہلوؤں سے بہت کلام (ہرچند ناکافی) اب تک ہو چکا ہے، اور پھر یہ دیکھتے ہیں کہ جس تناظر میں اور جن امراض کے علاج کے لیے یہ لکھے گئے ہیں، یہ دونوں بیانیے کس حد تک ان کی رگِ معدن معین اور ان کی تشخیص کر پائے ہیں، اور کس تشخیص کے نتیجے میں قافلے کے رخ میں درستگی کے لیے کس قدر راہنمائی مل پائے گی۔

خلاصہ قومی بیانیہ 

مفتی صاحب نے مملکت پاکستان کی اسلامی اساسوں کی نشاندہی کے بعد موجودہ ملکی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کا مطالبہ دہرایا اور نفاذِ شریعت کی جدوجہد کا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہونے کی یاددہانی بھی کرائی۔ تاہم انہوں نے یہ واضح فرمایا کہ نفاذِ شریعت کی یہ جدوجہد پرامن ہونی چاہیے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے، حرامِ قطعی ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ ریاست ان متشدد تحریکوں کو کچلنے کے لیے جو فوجی آپریشن کر رہی ہے، علما ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ علما کو اکیسویں آئینی ترمیم پر جس میں دہشت گردی کو ’’مذہب و مسلک کے نام پر ہونے والی دہشت گردی‘‘ کے ساتھ خاص کر دیا، تحفظات تھے۔ انہوں نے خودکش حملوں کے حرامِ قطعی ہونے کا اعادہ بھی فرمایا اورضربِ عضب کا دائرہ لسانی، علاقائی اور قومیت کے نام پر مصروفِ عمل مسلح گروہوں تک وسیع کرنے کا مطالبہ کیا۔ فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت انگیزی اور مسلح تصادم کو ناجائز و جرم قرار دیتے ہوئے انہیں مسالک و مکاتبِ فکر سے ممیز کیا،اور مؤخرالذکر کو تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہونے کی وجہ سے اسلامی علمی سرمائے کا حصہ بتلایا۔ اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ میڈیا کے لیے ایک ضابطہ اخلاق بنا کر انہیں ان موضوعات پر گفتگو کے لیے قانونی حدود کا پابند کیا جائے تا کہ انتشار نہ پھیلے۔
پھر مفتی صاحب نے بالعموم درسگاہوں کے حوالے سے حکومت کو ذمہ داری کا احساس دلایا کہ اگر کہیں بھی عسکریت یا نفرت انگیزی کی تعلیم دی جارہی ہو تو اس کے خلاف اقدام کیا جائے۔ جہاں تک مدرسوں کا معاملہ ہے، مفتی صاحب نے اْن کا دفاع کیا، ہر قسم کی حکومتی آڈٹ کی پیشکش کی اور شکوہ کیا کہ ان پر بے جا الزامات بند ہونے چاہییں۔ انہوں نے دعوت و تبلیغ اور اظہارِ رائے کی آزادی کی توثیق کرتے ہوئے آرٹیکل 295 کا حوالہ دے کر اس آزادی کو قانون کے دائرے میں رکھنے کی تاکید فرمائی۔ مفتی صاحب نے صریح الفاظ میں واضح کیا کہ مفتیان اور علما کا اختیار کفر کو کفر کہنے اور سائل کو شرعی حکم بتانے تک محدود ہے۔ کسی شخص پر اس کے اطلاق اور اس کے کفر و اسلام کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف حکومت و عدالت کو ہے۔ پھر دنیاوی تعلیم کے پرائیویٹ اداروں کے لیے کچھ اصلاحات تجویز فرمائیں۔ مفتی صاحب نے یہ نکتہ بھی واضح فرمایا کہ علما غیر مسلم شہریوں کے انسانی، شہری اور مذہبی حقوق کی توثیق اور ان کے تحفظ کی پاسداری کا عہد کرتے ہیں۔ آخری نکتے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے اْن کی وراثت، تعلیم، شادی اور حق رائے دہی جیسے حقوق کی پاسداری کی تاکید کی اور حکومت کو قانون کی طاقت سے ان کی رکھوالی کی نصیحت فرمائی۔

قومی بیانیے کا طائرانہ جائزہ

سب سے پہلے مفتی منیب الرحمن صاحب مع مساعد علما شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے حکومت و عوام کی معاونت کی خاطر یہ مفصل بیانیہ مرحمت فرمایا۔ اْن کی یہ کاوش قابلِ ستائش و توصیف ہے۔ پھر جس دو ٹوک، بلااستثنا اور بے لاگ انداز میں محارب گروہوں کی قتل و غارت گری کو حرام لکھا ہے، یہ بھی لائق تحسین ہے۔
اب آئیے اس کے تجزیے کی طرف۔
اس بیانیے کا سب سے پہلا اور اہم ترین پہلویہ سامنے آتا ہے کہ علما کی رائے میں روایتی مذہبی فکر یا اس پر مبنی مروّجہ مذہبی بیانیہ اور اس دور کے مفسدین کے نظریات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ یعنی وہ اس کے قائل ہیں کہ مروّجہ مذہبی بیانیے میں کوئی شے ایسی نہیں جو اِنتہاپسندی یا دہشتگردی کا باعث بن رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایسے مذہبی نظریے یا استدلال سے تعارض جو متشدد تحریکیں اپنی تائید میں اکثر پیش کرتی رہتی ہیں، اس بیانیے میں سرے سے جگہ ہی نہ بنا سکا۔ ہاں، مفسدین کے اعمال کی مذمت انہوں نے دہرائی ہے،تاہم شاید ہی کوئی حلقہ دانش یا مکتب فکر ایسا ہو جس نے اس کی مذمت بارہا نہ دہرائی ہو؛ الغرض تحصیل حاصل۔ شاید اسی لیے انہوں نے اس کا نام مذہبی بیانیہ کے بجائے قومی بیانیہ رکھا ہے۔ چنانچہ یہ واضح ہوا کہ علما کے نزدیک محارب گروہوں کے مذہبی بیانیے کا کوئی پہلو لائقِ تنقیح نہیں۔ اہل علم و دانش کے لیے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں پھر کچھ مانع نہیں کہ اِن محارب گروہوں کے نظریات و اہداف کی تو علما توثیق کرتے ہیں، فقط طریقہ کار سے اختلاف ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ بنیادی نظریات پر بحث یا ان کی وضاحت کے بجائے یہ بیانیہ مختلف شعبہ ہائے ریاست و حکومت سے متعلق مجوزہ اصلاحات پر مرتکز نظر آتا ہے۔ پس اپنے مقصد کے اعتبار سے یہ بیانیہ کم اور مسودۂ انتظامی اصلاحات زیادہ معلوم پڑتا ہے۔ باوجود اس کے، حکومت کو تجویز کردہ اِن گراں قدر اصلاحات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ یہ خیر کا باعث بہر حال بن سکتی ہیں۔ جیسے مثلاً فتووں کے لزومی و التزامی تخصیص کے باب میں کسی مفتی کی حدود کا تعین اور حکومت و عدالت کے اختیارات کی توضیح موجب اصلاح تجویز ہے۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ یہ بیانیہ بین السّطور اور مبہم الفاظ میں اِن باغی گروہوں کے تولد و وجود کی اصل ذمہ داری حکومت پر ڈالتا ہے، اور اس کا سبب شریعت کے نفاذ سےْ وگردانی یا کوتاہی کو قرار دیتا ہے۔ اسی لیے اس بیانیے کی مجوزہ اصلاحِ اقدامات کابشکل کبیر رخ حکومت کی طرف ہے اور متشدد گروہوں کی جانب نسبتاً کہیں کم۔
چوتھا پہلو یہ ہے کہ یہ بیانیہ باغی گروہوں کے ظالمانہ اعمال کی مذمت و تحریم تو کرتا ہے، پر اس کے لیے بھی کوئی دینی استدلال فراہم نہیں کرتا۔ بیانیے کا مقصد ہر کوئی جانتا ہے کہ فقط یہ تو نہیں تھا کہ مفسدین کی لفظاً مذمت کر دی جائے، یا حرام کو حرام اور حلال کو محض حلال کہہ دیا جائے، بلکہ یہ تھا کہ ایسے مذہبی استدلال، خواہ اجمال سے ہی سہی، پیش کیے جائیں جن سے ان کے فاسد نظریات 150 جو ان کے مہلک افعال کا سر چشمہ ہیں 150 کی تصحیح اور سادہ لوح عوام اور مخلص مسلمانوں کی رہنمائی ممکن ہو سکے۔ جیسے مثلاً پہلے ہی نکتے میں قرآن و سنت کے مطابق قوانین بنانے میں 'کوتاہی' کے نتیجے میں حکومت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کی ممانعت تو لکھی، پر اِس کے لیے کوئی شرعی جواز فراہم نہیں کیا؛ باوجود اس کے کہ یہ 'کوتاہی' کا دعوی سراسر ایک موضوعی رائے ہے جسے کوئی دوسرا 'سرکشی' پر محمول کر کے ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون کے زمرے میں لے آسکتا ہے، اور جبکہ باغی گروہ اس استدلال کا سہارا ہر حملے کے فوراً بعد نشر کیے جانے والے بیانات میں بہ تکرار لیتے بھی نظر آتے ہیں۔ پس کسی قسم کے دینی استدلال سے خالی یہ بیانیہ علمی طور سے کمزوری کا مظہر نظر آتا ہے۔
پانچواں اور آخری اہم پہلو یہ ہے کہ بیانیہ تحریر و پیش کرنے والے قابل صد احترام مفتی صاحب کا تعلق جس مسلک سے ہے، سب اہلِ علم جانتے ہیں کہ اِس مسلک کے عقائد و نظریات اور پیروکار 150 ایک تحفظ ناموسِ رسالت کے زمرے کے کچھ متجاوز اقدامات کے ماسوا 150کبھی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث و منسوب نہیں پائے گئے۔ یہ تو چند اور مسالک ہیں جس کے کچھ متبعین اس ناسور سے گھائل ہوئے اور ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ چنانچہ اِن کے قلم سے تسوید خیالات سے مخاصمین کی اصلاح کی امید کچھ اتنی ہی ہے جتنی اس خط سے ہونی چاہیے جو پوپ (pope) نے تعددِ ازواج کی مذمت پر مبنی مورمنوں (Mormons) کے نام ارسال کیا ہو۔ اگرچہ مفتی صاحب نے دوسرے مسالک کے پیشواؤں اور ان کے نمائندوں کے موثق و ہم نوا ہونے کا دعویٰ کیا ہے، تاہم فدوی کو یہ خوف ہے کہ کہیں غائبانہ توثیق اس اہم معاملے میں ناکافی نہ سمجھی جائے۔ پس انہیں ببانگ دہل اس کی تائید میں سامنے آنا ہو گا۔
اب آئیے، ان نکات کے ذیل میں دونوں بیانیوں کی تشخیص کی موزونیت ماپتے ہیں جن کو مخاصمین مذہبی بیانیے کی حیثیت سے اپنائے ہوئے ہیں اور وقتاً فوقتاً پوری قوت و چیلنج کے ساتھ ان کی نمائش بھی کرتے رہتے ہیں۔ نظریات کی یہ تالیف ظاہر ہے کہ میرا انتخاب ہے اور اس میں حذف و اضافہ ممکن، تاہم مجھے اپنی تحقیق کے جامع ہونے پر اعتماد ہے۔

دہشت گردوں کا بیانیہ

نکتہ 1: اسلام کا نظام فقط خلافت ہے جو یہ تقاضاکرتا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی ایک ہی سلطنت اور ان کا ایک ہی خلیفہ ہونا چاہیے۔ ہر مسلمان پر اس کے قیام کی جدوجہد کرنا واجب ہے۔ موجودہ دَور کی متفرق ریاستوں کے عوام اور اِن کے حکمران اس حکم کی صریح خلاف ورزی کر کے، اور خلافت کے مقابل میں جمہوریت جیسے کفریہ نظام کو اپنا کے، شدید گنہگار ہو رہے ہیں۔ پس جو کوئی اس ’’ایک اسلامی خلافت‘‘ کے قیام میں حائل ہو رہا ہو یا اس گناہ پر مطمئن ہو، وہ گمراہ، بعض صورتوں میں فاسق اور بعض میں کافر اور حلال الدم بھی ہو جاتا ہے۔ ہمارے سب جارحانہ اقدامات اسی تناظر میں ہیں۔
نکتہ 2: تمام مسلمان ایک قوم ہیں۔ اسلام میں قومیت کی بنیاد صرف ہمارا مذہب ہی ہو سکتا ہے۔ موجودہ دَور کی ریاستیں چونکہ مذہب کے علاوہ دوسرے مشترکات 150 جیسے زبان، رنگ، نسل، علاقہ وغیرہ 150 کی بنیاد پر بنی ہیں، اس لیے حرام ہیں، اور اِن سرحدوں کا مٹا دینا دین کا تقاضا۔ویسے بھی سرحدوں کی یہ لکیریں کافروں کی کھینچی ہوئی ہیں، اس لیے باطل منذ البدایۃ (void ab initio) اور ناقابل قبول ہیں۔ لہٰذا اللہ کی زمین کو اِن ناجائز و بدعی سرحدوں سے پاک کر دینا یا کم از کم اس کی جدو جہد کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے۔جو مسلمان یہ نہیں کر رہے، وہ شدید گنہگار ہیں۔
نکتہ 3: کفر و شرک کو دنیا میں رہنے کی اجازت تو دی جا سکتی ہے، پر کسی خطہ ارض پر حکومت کرنے کی نہیں۔ یہ زمین جس طرح صرف خدائے واحد کی ملک ہے، اسی طرح یہاں امر (حکومت) کا اختیار بھی صرف اسی کو ہے۔ پس مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ پوری زمین کو خدائے واحد کی حکمرانی میں لانے کے لیے ہر لمحہ کافر و مشرک اقوام سے برسرِ پیکار رہیں، اور اس مقصد کے حصول کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے مثال پکڑتے ہوئے دعوت، تبلیغ، مجادلہ اور جارحانہ اقدامات سب اپنائے جا سکتے ہیں۔ ایک دِن تو ایسا آنے ہی والا ہے جب پوری زمین پر صرف اسلام کا بول بالا ہو گا، پر اِس دن کو لانے کی جدو جہد کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔
نکتہ 4: اسلام کی رو سے کافر کی جان کو فی الحقیقۃ کوئی حرمت حاصل نہیں۔ ہاں، اگر انہیں کسی مسلمان یا معاہد قوم یا ان کے اربابِ اقتدار نے امان دے رکھی ہو تو ایک طرح کی عارضی حرمت اِن کے باب میں بھی قائم ہو جاتی ہے۔ تاہم، چونکہ کوئی ایسی اسلامی حکومت نہ تو پاکستان میں اور نہ ہی دوسرے اسلامی ممالک میں قائم ہے جو اسلامی حکومت کہلانے کی لائق یا اہل ہو تو اس سبب سے اِن کی دی ہوئی امان بھی باطل و ناکارہ ہے۔ پس کہیں بھی غیر مسلموں کی بے دریغ گردن زنی کرنا دینی اعتبار سے بالفعل جائز ہے۔
نکتہ 5: ارتداد کی سزا اسلام میں موت ہے۔ یہ سزا دینے کا اصل اختیار اور ذمہ داری حکومت ہی کے پاس ہے۔ پر جب نہ تو حکومت خود ہی اسلامی کہلانے کی اہل ہو اور/یا اس سزا کے اطلاق میں ناکامی یا عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہو، تو مخلص مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اللہ کی اس حد کی پاسداری و نفاذ کریں۔ اس سبب سے وہ فرقے جو اپنے بعض عقائد (جیسے اسلاف سے شرکیہ عقیدت، تحقیر صحابہ وغیرہ)، یا افعال (جیسے ہجو رسول، مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کی اعانت وغیرہ)کے باعث مرتد ہو چکے ہیں، اْن کی گردن زنی جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہو جاتی ہے۔
نکتہ 6: نفاذِشریعت کی جدوجہد ہر مسلمان پر دینی فریضہ ہے۔ پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا۔ پس جو حکمران اور معاون حکومتی ادارے، یہاں تک کہ ان کی معاونت کرنے یا ان کے ساتھ اس انحراف میں تسامح برتنے والے علما، جو کوئی بھی پاکستان یا دنیا کے کسی اور مسلم ملک میں نفاذِ شریعت (جس میں نماز، زکوٰۃ، حدود، داڑھی، پردہ، آلاتِ موسیقی کی ممانعت، غیر مسلموں کی اذلّ شہریت اور ان سے جزیہ کی وصولی جیسے اسلامی قوانین اور شعائر کی پابندی شامل ہے) سے انحراف یا پس وپیشی سے کام لے رہا ہے وہ اللہ کا مجرم ہے اور سورہ مائدہ کی آیات 44، 45 اور 47 کے تحت سرکش و کافر ہو چکا ہے۔
نکتہ 7: جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یہ اصلاً دین اسلام کو تمام دنیا پر نافذ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے (کلمۃ اللہ ھی العلیا)۔ پھر مزید اِس وقت جو صورتحال مسلم ممالک پر غیر مسلم عالمی قوتوں کے ہاتھوں حملوں اور قبضوں کے باعث درپیش ہے، یہ بھی اِن حربیوں کے خلاف قتال اور 'ہلکے ہو یا بوجھل، اللہ کی راہ میں نکلو' کا تقاضا کرتی ہے۔پس ہر سالم عقل و بدن مسلمان کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف غیر مسلم قوتوں کے ہر ہر معاون (فوجی، حکمران، ریاستی اداروں، جنگ پر گرمانے والے لکھاریوں حتی کہ ٹیکس کے ذریعے بالواسطہ معاونت کرنے والے عوام) کے خلاف ہر جلی و خفی طریقے سے جنگ کریں بلکہ جو مسلمان افراد یا ممالک بھی معاونت علی الاثم کے اس جرم میں ان کے شریک کار ہیں، اِن سب کو بھی غیر مسلموں میں سے ہی شمار کر تے ہوئے اِن کی بھی بیخ کنی سر انجام دیں، اور فقط نام کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان سے کوئیْ و رعایت نہ برتیں۔ یہی آیت ومن یتولھم منکم فانہ منھم کا تقاضا ہے۔
یہ ہے وہ بیانیہ اور بالعموم وہ بنیادی نظریات جن کے دہشت گرد قائل ہیں اور جن کی اشاعت و تبلیغ ان کی جانب سے بارہا ہو چکی ہے۔ اور کوئی محقق بھی بشکل مستقل ذاتی طور پر یہ باور کر سکتا ہے کہ دہشت گردوں کے ہر ظالمانہ فعل کا اصولی کھرا انہی نکات میں سے کسی ایک تک پہنچتا ہے۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ علماء اور غامدی صاحب کے پیش کردہ بیانیے اِن سے کس طور پر تعارض کرتے ہیں۔

تعارض

نکتہ 1: جوابی بیانیہ کا نکتہ نمبر 2 خلافت کے نظریے کو اپنی بنیاد سے ہدف بنا کر یہ واضح کرتا ہے کہ نہ تو خلافت دین اسلام کی کوئی اصطلاح ہے اور نہ ہی اس کا کسی عالمگیر سطح پر قیام مسلمانوں سے کوئی دینی تقاضا۔ خلافت کا اصطلاح بننا اور اس کے لوازمات کا شمار بعد کے ادوار میں ہوا۔ اوّلین ماخذوں میں حکم تھا تو فقط اتنا کہ اگر کسی قطعہ ارض میں حکومت مسلمانوں کے پاس آ جائے تو ان کی ذمہ داری ہے کہ اللہ کے احکامات کی پاسداری کریں، انصاف سے معاملات چلائیں، اور اپنے پورے نظام کو باہمی مشاورت پر استوار کریں۔ اسی طرح نکتہ نمبر 8 جمہوریت کو گناہ تو کجا باہمی مشاورت اور منشائے الٰہی کی ایک مجسم اور قابل عمل موجودہ صورت بتاتا ہے اور اس کے لیے دلائل بھی فراہم کرتا ہے۔ پھر اِن دونوں نکات کی مزید وضاحت اور علما کے اعتراضات کے جوابات کے لیے دو پورے مضامین بھی اس جوابی بیانیے کے ضمیمہ کے طور پر فراہم کرتا ہے۔ الغرض یہ بیانیہ دہشت گردوں کے نظریے کی بنیاد ہی کا استیصال کر دیتا ہے۔ پس مسلمانوں کا مجرم یا گنہگار ہونا تو درکنار، ان کے دورِ حاضر کی ریاست و جمہوریت کا وفادار بن کے رہنے کو ہی عین مطلوبِ اسلام ثابت کرتا ہے۔
قومی بیانیہ: قومی بیانیہ اس نکتے سے تعرض ہی نہیں کرتا۔
نکتہ 2: جوابی بیانیہ کا نکتہ نمبر 3 پورے ارتکاز سے اس خیال کی تردید کرتا ہے کہ مسلمانوں کا متفرق اقوام میں بٹ جانا دین کے کسی حکم یا ہدایت کی خلاف ورزی ہے۔ اسلام کی تعلیم فقط یہ ہے کہ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں، ایک دوسرے کے ہمدرد اور مددگار ہیں، ایک جسم کی مانند ہیں۔ چنانچہ چاہے وہ ایک سلطنت کے باسی ہوں اور چاہے سینکڑوں، چاہے مشرق میں رہتے ہوں اور چاہے مغرب میں، ان کا ایک دوسرے کو بھائی سمجھنے میں اور دکھ درد میں شریک ہونے میں کوئی شے مانع نہیں۔ اسی طرح وطن اور ملک کا قیام جس طرح مذہب کے اشتراک کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے، اسی طرح دوسرے مشترک خصائص جیسے رنگ، نسل، زبان، جغرافیہ کی بنیاد پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر قرآن و حدیث میں اس کے بر عکس کوئی حکم ہے تو پیش کیا جائے۔
قومی بیانیہ: اس اہم نظریے پر بھی یہ بیانیہ سکوت اختیار کیے ہوئے ہے۔
نکتہ 3: جوابی بیانیے کا کوئی نکتہ براہِ راست اس نظریے کو موضوع نہیں بناتا۔ تاہم، اس سے تعارض کے لیے اصل بنیادی مقدمہ وہی ہے جسے جوابی بیانیے کے نکتہ نمبر 5 اور 6 پیش کرتے ہیں۔ یعنی اسلام کی رو سے یہ باور کرایا جائے کہ اگرچہ کفر و شرک ابدی جرائم ہیں مگر اِن جرائم کو اختیار کرنے کی اللہ نے اس زندگی میں ہر کسی کو کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ اس دنیا کی حد تک یہ قابل دست اندازی جرائم سرے سے ہیں ہی نہیں۔ کافر و مشرک یہاں فقط مخاطب دعوت ہیں۔ ان جرائم پر محاسبہ صرف آخرت میں اللہ خود کرے گا۔ اور اگر دنیا میں مثال بنانے کے لیے اللہ نے اس پر محاسبہ کیا بھی ہے تو ایک پورا نظام اس کے لیے وضع فرما کر قرآن میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے، جس کے تحت یہ دروازہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔پس جس طرح ان کفار و مشرکین کو دنیا میں اپنے مذاہب پر قائم رہنے کی پوری آزادی ہے، اسی طرح حکومت بنانے کی بھی پوری اجازت ہے۔ اور رہی بات اسلام ان تک پہنچانے کی تو اس مقصد کے لیے صرف دعوت و تبلیغ کا رویہ اپنایا جا سکتا ہے۔ جہاد و قتال دینی اعتبار سے صرف اور صرف ظلم و عدوان، جسے شرعی اصطلاح میں فتنہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، کے خلاف جائز و روا ہے۔تاہم، یہ تبصرہ ضروری ہے کہ جوابی بیانیہ اس نظریے سے پورے ارتکاز اور شد و مد سے تعارض کرنے اور استدلال کو سینگوں سے پکڑنے میں کچھ ناقص دِکھتا ہے۔
قومی بیانیہ: اس نظریے سے تعارض بھی قومی بیانیے میں جگہ نہ بنا سکا۔
نکتہ 4: جوابی بیانیے کا نکتہ نمبر 5 اس نظریے سے بھی مماسی تعارض اس طرح کرتا ہے کہ جب کفر و شرک وغیرہ ایسے جرائم ہی نہیں جو اس دنیا میں قابل دست اندازی و سزا ہوں تو پھر کفارو مشرکین کی جان کی حرمت اس طرح کے اٹکل پچوؤں سے حلال کرنا سراسر زیادتی اور اللہ کے دین کے ساتھ مذاق ہے۔ تاہم یہاں بھی جوابی بیانیہ انسانی جان کی مطلق حرمت پر مبنی کسی دلیل کے ذریعے جو اس فاسد نظریے کا استیصال کر دیتی، براہِ راست تعارض میں کمزور ہے۔
قومی بیانیہ: قومی بیانیے نے اس نکتے کو کسی حد تک براہِ راست اور کسی حد تک مماسی موضوع بنایا ہے، اور نکتہ نمبر 1 میں بتا یا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اگر اسلام کے نفاذ میں ان سے کوتاہی ہو رہی ہے تو یہ بے عملی ہے اور اس کوتاہی کی وجہ سے سے ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک، حکومت وقت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ پس اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اِن کی دی ہوئی امان پوری طرح سالم اور قائم ہے۔ پھر نکتہ 14 میں غیر مسلموں کے کچھ حقوق کے تحفظ اور مذہب پر عمل کرنے کے پورے حق کی توثیق فرمائی۔ تاہم کافر کی جان کو فی الحقیقت حرمت حاصل نہ ہونے جیسے سنگین نظریے سے کسی قسم کا کوئی تعارض یہاں بھی مفقود ہے۔
نکتہ 5: جوابی بیانیہ کا نکتہ نمبر 4 اور 5 اس نظریے کو مرکز پارہ بنا کر پوری طرح نابود کر دیتے ہیں۔ یہ نکات یہ بات واضح کرتے ہیں کہ اوّل تو کفر و شرک کی طرح ارتداد بھی اس دنیا کی حد تک قابل سزا جرم ہی نہیں۔ اِس کا محاسبہ بھی موضوعِ آخرت ہے۔ اور دوم، یہ حق اللہ نے کسی انسان کو دیا ہی نہیں کہ وہ دوسروں کے کفر و اسلام کا فیصلہ کر سکیں، کجا کہ اس پر سزا کا موقع آئے۔ جو مسلمان اپنے اقرار سے مسلمان ہوں مگر کچھ گمراہ عقائد یا اعمال اپنائے ہوئے ہوں تو ان کے متعلق علما کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ ان کو علمی انداز میں ان کی غلطی کا احساس دلایا جائے اور بس۔ اور رہا اللہ کے حدود کا نفاذ تو نکتہ نمبر 9 اور 10 یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ اجتماعی احکامات اربابِ حل و عقد ہی سے متعلق اور وہی ان کے مخاطب ہیں۔ اسی لیے اگر وہ کسی ثابت شدہ حد (نہ کہ ارتداد کی سزا جس کا حد ہونا ہی ان کے مطابق بے بنیاد ہے) کے نفاذ میں بھی کوتاہی یا سرکشی کریں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ جتھہ بندی کر کے خود حدود کا نفاذ شروع کر دیں۔
قومی بیانیہ: ارتداد جیسے اہم موضوع سے بھی کوئی اصولی تعارض نہیں کیا گیا۔ ہاں ارتداد کے اطلاق میں نکتہ نمبر 1 اور 12 کے ذیل میں یہ بات البتہ واضح کی گئی ہے کہ نہ تو حکومت پاکستان کو مرتد کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی فرد یا ادارے پر اس کا اطلاق عدالت کے سوا کوئی کر سکتا ہے۔ تاہم، اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی شرعی دلیل مرحمت نہیں فرمائی۔ بایں ہمہ، اس طرزِ گفتگو سے انہوں نے اس تاثر کو قوت بخشی ہے کہ کسی کو مرتد قرار دینا مذہبی اعتبار سے بر حق ہے اور اس کی سزا موت ہی ہے، مگر اس کا طریقہ کار وہ نہیں ہے جو مفسدین اپنائے ہوئے ہیں۔
نکتہ 6: جوابی بیانیہ شاید اس نفاذِ شریعت کے نظریے پر سب سے زیادہ تفصیل سے کلام کرتا ہے اور اس کے نکات9 اور 10 مختلف جہتوں سے اس کی مفصل وضاحت کرتے ہیں۔ یہ نکات بتاتے ہیں کہ نفاذِ شریعت کی اصطلاح ہی مغالطہ انگیز ہے، اِس لیے کہ اِس سے یہ تاثر پیدا ا ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام ریاست کی طاقت سے لوگوں پر نافذ کر دے، دراں حالیکہ قرآن و حدیث میںیہ حق کسی حکومت کے لیے بھی ثابت نہیں ہے۔ اس لیے اسے شریعت پر عمل کی دعوت کہنا چاہیے۔پھر مزید یہ بیانیہ تفصیل کے طور پر پورے تعین اور تحدید کے ساتھ ایک فہرست بنا کر بتا تا ہے کہ وہ کون سے انفرادی اور اجتماعی دینی احکامات ہیں جن کے نفاذ کا اختیار اسلام کی رو سے حکومت کو حاصل ہے اور جن کے نفاذ کا مطالبہ وعظ، نصیحت اور انذار کے ذریعے حکمرانوں سے عوام کر سکتے ہیں۔ پھر اس پر ایک مزید توضیحی مضمون 'قانون کی بنیاد'کے عنوان سے بھی مرحمت فرمایا جو اس سلسلے میں اساسی اشکالات رفع کرتا ہے۔ میری رائے میں اس نظریے سے تعارض جوابی بیانیے کا ذروۂ سنام ہے۔
قومی بیانیہ نفاذِ شریعت کی تعبیر یا تفصیل کے متعلق خاموش ہے، البتہ علما کی جانب سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ حکومت سے اس بیانیے میں بھی دہرایا گیا ہے، اس تخصیص کے ساتھ کہ اس نفاذ کی جدوجہد صرف پر امن طریقوں ہی سے ممکن ہے۔ اور جو طاقت کا استعمال وہ کر رہے ہیں اور اس کے نام پر قتل و غارت گری مفسدین نے مچا رکھی ہے، وہ قطعی حرام ہے۔تاہم، حسب معمول کوئی شرعی دلیل اس حرمت پر بھی غیر مذکور ہے۔
نکتہ 7: جوابی بیانیہ کے نکات 6 اور 7 جہاد کے اس طرح کے نظریات کے تفصیلی ردّ پر مشتمل ہیں اور باحسن و خوبی اس کی انجام دہی کرتے ہیں۔ یہ بیانیہ بتاتا ہے کہ جہاد فقط ظلم و عدوان کے خلاف ممکن ہے۔ یہ صرف مقاتلین (combatants) کے خلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس کے دوران اخلاقیات ہمیشہ مقدم ہیں۔ اور جہاں تک اختیار کا تعلق ہے تو قرآن و حدیث میں جہاد کا اختیار صرف نظم اجتماعی کو حاصل ہے۔ وہی اِن احکامات کے مخاطب ہیں۔ اس لیے کوئی فرد یا گروہ جہاد کے فیصلے کا ذاتی اختیار رکھتاہی نہیں۔ البتہ مسلمانوں کا غیر مسلم اقوام کو مسلمان اقوام کے خلاف معاونت مہیا کرنے کی صورت میں یہ بیانیہ امکان، جواز، عدم جوازوغیرہ جیسے موضوعات پر بحث کے معاملے میں کچھ تشنہ رہ گیا ہے۔میرے نزدیک یہ ایک بڑی تشنگی ہے۔
قومی بیانیہ: جہاد کے موضوع سے بھی کوئی قابل ذکر تعارض اس بیانیے میں نہیں۔ نکتہ نمبر 4 اور 6 میں خود کش حملوں کی حرمت کی تکرار اور فرقہ وارانہ مسلح تصادم کو ناجائز و جرم لکھا ہے۔ پر یہ اس نظریہ جہاد کے چند اطلاقات سے تعارض سے زیادہ کچھ نہیں۔

اختتامیہ

دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے جو بیانیہ نظریات ہر غیر جانبدار محقق کے مطابق مولد فساد ہیں، ان کے مقابل میں ایک ایسے بیانیے کی ضرورت تھی جو ان فاسد نظریات کے متعلق دین اسلام کے صحیح نظریات مدلل انداز میں پیش کر کے مفسدین، امت مسلمہ اور غیر مسلم اقوام کے سامنے اسلام کے بے داغ نظریات پیش کر دیں، اور امت مسلمہ کو وہ فکری ہتھیار مہیا کریں جن کی ترویج و اشاعت سے مفسدین کو متواتر بہم پہنچنے والی انسانی کمک تھم سکے اور اس جاری و صاری مذہب کے نام پر فساد کا خاتمہ ممکن ہو۔ 
غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ تقریباً ان سارے ہی نظریات سے تعارض کرتا اور بڑے پر مغز انداز میں ان کی غلطی واضح کرتا اور ان کی فری بنیادیں منہدم کرتا ہے۔ اور امت مسلمہ اور ان کی حکومتوں کو وہ دلائل فراہم کرتا ہے جن کی بنیاد پر وہ اپنے قافلے کو دشت ہلاکت سے شاہراہِ ہدایت پر لا سکتے ہیں۔ اس میں اگرچہ بہتری کی گنجائش موجود ہے، پر بنیادی مسودے کی حیثیت سے یہ پوری طرح جامع ہے۔
اس کے مقابل میں قومی بیانیے کے متعلق حیرانی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس نے تقریباً ان سارے ہی نظریات کو نظرانداز کر دیا ہے جو صرف یہی نہیں کہ محققین فساد کی رگِ معدن بتا رہے ہیں، بلکہ مفسدین خود بھی پورے خلوص و یقین سے اس کا اقرار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اِن نظریات سے دامن بچا کر علما نے 'تقوٰی' کا مظاہرہ کیا ہے یا 'تقیہ' کا، پر یہ معلوم ہے کہ یہ موقع اِن دونوں کا نہیں تھا۔ اس سے تو یہ تاثر ناقابل تجاہل ہو جائے گا کہ علما چاہے طریقہ کار کی درستگی پر کچھ نصیحتیں کررہے ہیں، پر مفسدین کے بنیادی نظریات کی خاموش توثیق کرتے ہیں۔
بہر حال اب یہ دو بیانیے عیاں ہو چکے۔ اب حکومت کو چاہیے کہ اپنی سرپرستی اور حفاظت میں بحث و مباحثہ کا ماحول اور فورم مہیا کرے، تاکہ ان بیانیوں کی بحث کے نتائج سے وہ اپنے لیے ایک حتمی بیانیہ تسوید کر سکے۔ یہ صرف چند لفظوں کی جنگ نہیں، مسلمانوں کے بقا کی جنگ ہے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس معاملے میں اضمحلال، عدم دلچسپی یا تاخیر سے حکومت اللہ کے سامنے مجرم قرار پا رہی ہے۔
یہ یاد رہے کہ مذہب اس فساد کے سکے کا مگر ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ سیاست ہے۔ ہمیں اپنی داخلی و خارجہ پالیسی پر بھی نظر ثانی کرنی ہے اور اس کے لیے بھی ایک ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو ہمیں عالمی قوتوں کی طاقت سے مجبور ہو کر بھی اندرونی یا بیرونی کسی ایسی پالیسی کا حصہ نہ بننے دے جو پاکستان کے شہریوں کو مذہب سے لاتعلق ہونے یا اس کا غلط استعمال کرنے یا اخلاقی ضوابط کو طاقِ نسیاں کے سپرد کرنے پر مجبور کرے۔ کسی اصولی اخلاقی وجہ سے نہیں تو کم از کم اس کے مہلک نتائج سے ہی کچھ سبق سیکھ کر ہمیں اپنی پیمانہ بندی کرنی ہے۔

وزیراعظم اور ’’متبادل بیانیہ‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ دنوں جامعہ نعیمیہ لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دینی حلقوں کی طرف سے ’’متبادل بیانیہ‘‘ کی جس ضرورت کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں مختلف حلقوں میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور ارباب فکر و دانش اپنے اپنے نقطہ? نظر کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کی یہ تقریر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ براہ راست سننے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ انہوں نے موجودہ عالمی اور قومی تناظر میں جس ضرورت کا اظہار کیا ہے وہ یقیناً موجود ہے لیکن ’’بیانیہ‘‘ کی اصطلاح اور ’’متبادل‘‘ کی شرط کے باعث جو تاثر پیدا ہوگیا ہے وہ کنفیوڑن کا باعث بن رہا ہے، ورنہ یہ بات زیادہ سیدھے اور سادہ انداز میں بھی کی جا سکتی تھی۔
ہمارے نزدیک وزیراعظم کی تقریر کا مجموعی اور عمومی مفہوم یہ بنتا ہے کہ دہشت گردی کے مبینہ جواز کے لیے اسلامی تعلیمات کا جس طرح غلط طور پر حوالہ دیا جا رہا ہے، علماء کرام کو اس کا جواب دینا چاہیے، ملک کے امن و استحکام کے لیے دینی تعلیمات کو مثبت انداز میں وضاحت کے ساتھ سامنے لانا چاہیے اور معاشرہ کی فرقہ وارانہ تقسیم کو ختم کرنے کے لیے دینی مدارس کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ان باتوں سے کسی بھی مکتب فکر کے سنجیدہ حضرات کو اختلاف نہیں ہو سکتا لیکن ’’نئے قومی بیانیہ‘‘ کی اصطلاح کچھ عرصہ سے جس فکری تناظر میں عام کی جا رہی ہے اس کے پس منظر میں وزیراعظم کی زبان سے ’’متبادل دینی بیانیہ‘‘ کے جملہ نے ذہنوں میں سوالات کی ایک نئی لائن کھڑی کر دی ہے جو ہمارے خیال میں شاید وزیراعظم کے مقاصد میں شامل نہیں ہوگی۔ لیکن اب چونکہ یہ سوالات سامنے آگئے ہیں اور انہیں مختلف حوالوں سے دہرایا جا رہا ہے اس لیے اس کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنے کی ضرور ت ہم بھی محسوس کر رہے ہیں۔
’’قومی بیانیہ‘‘ سے مراد اگر ملک و قوم کی بنیادی پالیسی اور ریاستی تشخص کے بارے میں ’’قوم کی متفقہ رائے‘‘ ہے تو یہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی ’’قرارداد مقاصد‘‘ کے عنوان سے طے شدہ ہے جو ملک کے ہر دستور میں شامل رہی ہے اور موجودہ دستور کا بھی باقاعدہ حصہ ہے۔ حتیٰ کہ چند برس پہلے جب پارلیمنٹ نے پورے دستور پر نظر ثانی کی تھی تو قرارداد مقاصد کو متفقہ طور پر دستور کے باضابطہ حصہ کے طور پر برقرار رکھا گیا تھا جو اس کی پوری قوم کی طرف سے از سر نو توثیق اور تجدید کے مترادف ہے۔ اس لیے ملک کے نظریاتی تشخص اور اس کے نظام و قوانین کی اسلامی بنیادوں کو ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی کوئی بھی بات دستور سے انحراف کی بات ہوگی جو ملک کی دستوری وحدت اور معاشرتی استحکام کو ایک ایسے خلفشار کا شکار بنا سکتی ہے جسے سمیٹنا عالمی قوتوں کی مسلسل اور ہمہ نوع مداخلت کے موجودہ ماحول میں شاید کسی کے بس میں نہ رہے۔ اس لیے ملک کے نظریاتی تشخص کے حوالہ سے کسی نئے قومی بیانیہ کا نعرہ اپنے اندر فکری اور تہذیبی خلفشار بلکہ تصادم کے جن خطرات کو سموئے ہوئے ہے ان سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی ملک و قوم کو فکری طالع آزماؤں کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر ’’قومی بیانیہ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ معاشرہ کی فرقہ وارانہ تقسیم اور دہشت گردی کے لیے دینی تعلیمات کا غلط اور مسلسل حوالہ دیے جانے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس دلدل سے قوم کو نجات دلانے کے لیے علمی اور عملی جدوجہد کی جائے تو یہ بلاشبہ آج کی سب سے بڑی قومی ضرورت ہے، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں اب تک کی جانے والی اجتماعی کوششیں وزیراعظم کے سامنے نہیں ہیں، مثلاً
1951ء میں تمام مکاتب فکر کے 31 اکابر علماء کرام نے 22 متفقہ دستوری نکات قوم کے سامنے رکھے تھے جو دینی حلقوں کی طرف سے پیش کیا جانے والے ’’قومی بیانیہ‘‘ ہی تھا۔ جبکہ 2013ء4 میں تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء4 کرام کے مشترکہ علمی فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ نے مختلف مکاتب فکر کے 57 اکابر علماء کرام کو ازسرنو جمع کر کے 15 وضاحتی نکات کے اضافہ کے ساتھ ان 22 نکات کی ازسرنو توثیق کرائی تھی جس کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ملک میں نفاذِ اسلام ضروری ہے مگر اس کے لیے مسلح جدوجہد اور ہتھیار اٹھانے کا طریق کار شرعاً درست نہیں ہے، اور اسلامی قوانین و نظام کا صحیح نفاذ پرامن قانونی جدوجہد کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔
جب امریکی تھنک ٹینک ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ کی طرف سے دیوبندی مکتب فکر کو موجودہ دہشت گردی کا پشت پناہ قرار دیا گیا تو اپریل 2010ء میں دیوبندی مکتب فکر کے تمام حلقوں اور مراکز کی قیادتوں نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں جمع ہو کر متفقہ طور پر اس دہشت گردی سے برا?ت کا اعلان کیا اور نفاذِ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانے کو شریعت کے منافی قرار دیا جسے رینڈ کارپوریشن اور اس کے ہمنوا اب تک قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ستمبر 2015ء کے دوران وزیراعظم ہاؤس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے اجلاس میں طے کیا گیا کہ دہشت گردی سے براء ت کے بارے میں اجتماعی موقف کا ایک بار پھر اظہار کیا جائے تو مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمان، مولانا عبد المالک، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا محمد یاسین ظفر اور مولانا قاضی نیاز حسین نقوی پر مشتمل کمیٹی نے وقت کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ’’متفقہ قومی بیانیہ‘‘ مرتب کر کے وزیراعظم ہاؤس کو بھجوایا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے صرف اس لیے ’’داخل دفتر‘‘ کر دیا گیا کہ اس میں شریعت کے نفاذ کی بات بھی شامل تھی۔
یہ چند حوالے جو ہم نے پیش کیے ہیں قومی پریس کے ریکارڈ میں موجوود و محفوظ ہیں جنہیں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور زمینی حقائق سے آنکھیں بند کر کے نئے دینی اور قومی بیانیہ کا مطالبہ بار بار دہرایا جا رہا ہے جس پر کم از کم الفاظ میں افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے گزارش ہے کہ دہشت گردی کی مذمت اور ملک میں کسی بھی حوالہ سے ہتھیار اٹھانے کو ناجائز قرار دینے پر آج بھی تمام مکاتب فکر کے علماء کرام پوری طرح متحد ہیں اور ان کا دوٹوک موقف یہ ہے کہ
پاکستان کی نظریاتی اساس ’’قرارداد مقاصد‘‘ ہے جس سے انحراف کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
شریعت کا نفاذ ریاست کے مقاصد اور فرائض میں سے ہے لیکن اس کی جدوجہد دستور و قانون کے دائرہ میں ہونی چاہیے اور اس کے لیے ہتھیار اٹھانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لیے تمام دینی حلقے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جبکہ ملک کے نظریاتی تشخص، سیاسی استحکام، قومی وحدت اور امن کے قیام کے لیے بیرونی مداخلت کی روک تھام بھی ناگزیر ہے۔

’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘

گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی کے چند اساتذہ کے ساتھ ایک غیر رسمی گفتگو میں مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کی بات چل پڑی، ایک دوست نے کہا کہ مذہب اور ریاست میں تعلق کبھی نہیں ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں تو ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک ریاست کی بنیاد مذہب رہا ہے۔ خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ، خلافت عباسیہ اور خلافت عثمانیہ کا مجموعی دورانیہ تیرہ صدیوں کو محیط ہے اور ان سب کا ٹائٹل ہی ’’خلافت‘‘ تھا جو خالصتاً ایک مذہبی اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ امت مسلمہ کے اجتماعی معاملات کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کرتے ہوئے قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق چلانے کا نام ’’خلافت‘‘ ہے۔ اور یہ خلافت مختلف ادوار اور دائروں سے گزرتی ہوئی اب سے ایک صدی قبل تک قائم رہی ہے۔
پھر سوال ہوا کہ برصغیر میں مغل سلطنت مذہبی نہیں تھی۔ میں نے عرض کیا کہ بے شک اس کا ٹائٹل خلافت کی بجائے سلطنت تھا لیکن اس کی پالیسیوں کا حوالہ ہمیشہ اسلام ہی رہا ہے جبکہ قانون و نظام کا ماخذ و سرچشمہ قرآن و سنت اور فقہ اسلامی تھے۔ غزنوی?، لودھی?، غوری?، التمش?، ایبک? اور مغل خاندانوں میں عمومی طور پر عدالتی اور معاشرتی احکام و قوانین کا سب سے بڑا حوالہ اسلامی فقہ رہا ہے۔ حتٰی کہ مغل اعظم اکبر بادشاہ نے، جسے سب سے بڑا سیکولر حکمران کہا جاتا ہے، جب معاشرتی نظام میں تبدیلیوں کا پروگرام بنایا تو اپنے خود ساختہ مذہبی اور معاشرتی نظام کے لیے ’’دین الٰہی‘‘ کا عنوان اختیار کیا اور درباری علماء سے ’’مجتہد اعظم‘‘ کا خطاب حاصل کر کے یہ سارا کام ’’اجتہاد‘‘ کے نام سے کیا۔ چنانچہ جب 1857ء کی جنگ آزادی میں غلبہ پانے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاج برطانیہ نے اس خطہ کا نوآبادیاتی نظام براہ راست اپنے کنٹرول میں لیا اور نئے تعلیمی، عدالتی اور انتظامی سسٹم کا آغاز کیا تو اس کے لیے جس نظام کو منسوخ کیا گیا وہ درس نظامی اور فتاویٰ عالمگیری پر مبنی تھا۔ اس لیے یہ کہنا تاریخی حقائق کے منافی ہے کہ مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق نہیں رہا یا نہیں ہوتا، اور ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے کا مسلم ماضی اس دعویٰ کی نفی کرتا ہے۔ اس پر مجلس میں شریک ایک اور استاذ محترم کہنے لگے کہ ہم اپنے اس ماضی سے نہ کٹ سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے دستبردار ہو سکتے ہیں۔
ریاست اور مذہب کا تعلق کیا ہوتا ہے؟ یہ بحث اب اس قدر عام ہوگئی ہے اور ہر سطح پر گفتگو کا حصہ بن گئی ہے کہ اپنے عقائد، ماضی اور تہذیب و معاشرت کی پروا کیے بغیر میڈیا، لابنگ اور این جی اوز کے بیشتر ذرائع مسلسل یہ راگ الاپے جا رہے ہیں کہ مذہب اور ریاست کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا اس لیے مذہب کو ریاست اور حکومت کے معاملات سے الگ رکھنا چاہیے۔ مغربی فلسفہ کی نمائندہ یہ سوچ سیاسی حلقوں میں کہاں تک سرایت کیے ہوئے ہے اس کی ایک مثال مولانا مفتی منیب الرحمان کی طرف سے جاری کردہ ’’قومی بیانیہ‘‘ کا وہ متن ہے جو ابھی چند روز پہلے اخبارات کی زینت بنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب سے دو برس قبل وزیراعظم ہاؤس میں دینی مدارس کے تمام وفاقوں کے قائدین کے ساتھ ایک میٹنگ میں ان قائدین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی کہ وہ موجودہ حالات کی روشنی میں ایک ’’قومی بیانیہ‘‘ مرتب کریں۔ تمام مذہبی مکاتب فکر اور دینی مدارس کے وفاقوں کے قائدین نے مل کر اس قومی بیانیہ کے لیے مشترکہ متن مرتب کر کے حکومتی حلقوں کو بھجوایا جو ’’داخل دفتر‘‘ کر دیا گیا اور وجہ یہ ظاہر کی گئی کہ اس میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ شامل ہے جبکہ حکومتی حلقوں کے خیال میں قومی بیانیہ میں شریعت کا ذکر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم اس پر مفتی صاحب موصوف کے شکر گزار ہیں کہ ان کے اس مضمون سے دینی حلقوں اور حکومتی اداروں کے درمیان جاری کشمکش کی اصل وجہ سامنے آگئی ہے۔
مسئلہ اصل میں یہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کی بنیاد اسلامی تہذیب کی حفاظت اور اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدوں پر رکھی گئی تھی اور جس کے دستور میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کا واضح اعلان کیا گیا ہے، اس وطن عزیز کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے یہ تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام اور شریعت کو قومی معاملات سے الگ رکھا جائے۔ ہم اب تک یہ سمجھتے رہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت کو ختم یا کمزور کرنے کا مطالبہ صرف بیرونی ہے جس کے لیے عالمی ادارے دباؤ ڈال رہے ہیں اور بین الاقوامی سیکولر لابیاں مہم جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے حکمران اس دباؤ کا سامنا نہیں کر پا رہے۔ لیکن اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اس میں ’’سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کا بھی اچھا خاصا عنصر شامل ہے۔ اور اس ’’شوق‘‘ کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ اسلامی نظام حکومت میں قناعت پسندی، عوامی خدمت اور اقتدار کو خدائی امانت سمجھنے کی جو خصوصیات موجود ہیں، ان کے لیے ہمارا حکمران طبقہ خود کو تیار نہیں پاتا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تاج برطانیہ کے دور میں جو ریاستیں نیم خودمختار حیثیت سے برطانوی نوآبادیاتی نظام کا حصہ تھیں انہیں یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنے داخلی، قانونی اور عدالتی نظام کو شریعت اسلامیہ کے مطابق چلاتی رہیں جیسا کہ قلات، بہاولپور، سوات اور بہت سی دیگر ریاستوں میں ان کے پاکستان کے ساتھ باقاعدہ الحاق تک یہ نظام چلتا رہا لیکن اب آزاد پاکستان میں اس کی گنجائش موجود نہیں رہی۔ ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اسے عالمی دباؤ اور بیرونی مداخلت کا نتیجہ قرار دیا جائے یا ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ کی روایتی نفسیات کا ثمرہ سمجھا جائے لیکن یہ بات اب واضح ہوگئی ہے کہ قومی معاملات اور شریعت اسلامیہ کے درمیان فاصلہ قائم رکھنے کی ’’ڈپلومیسی‘‘ کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں۔ اس لیے وطن عزیز کے اسلامی تشخص، نفاذ شریعت اور مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ کی جدوجہد کرنے والوں کو اب اپنی محنت کے دائروں اور ترجیحات کا ازسرِنو جائزہ لینے کا راستہ تلاش کرنا چاہے۔

’’جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ‘‘

مولانا سید متین احمد شاہ

مسلمانوں کی فکری تاریخ میں جب بھی دیگر تہذیبوں سے تصادم ہوا ہے تو اس کے نتیجے میں فکرونظر کے نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ صدرِ اول کی تاریخ میں یونانی افکار کے نتیجے میں مسلم دنیا کئی سوالات سے دوچار ہوئی۔اسی نوعیت کا ’انتقالی مرحلہ‘فکر مغرب کے عمومی اور ہمہ گیر استیلا کے نتیجے میں درپیش آیا جو فکر یونان کے مقابلے میں کئی درجے ہمہ گیر تھا۔ علامہ محمد اسد کے الفاظ میں ’’انسانیت شاذ ہی ایسے فکری انتشار سے گزری ہے، جیسی ہمارے دور سے گزر رہی ہے۔نہ صرف یہ کہ ہم بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن کے لیے نئے اور عدیم النظیر حل کی ضرورت ہے، بلکہ یہ مسائل ایسے انداز سے ظاہر ہو رہے ہیں، جن سے ہم واقف بھی نہیں۔‘‘ (۱) اس دور میں مغربی فکر کی طرف سے پیدا کردہ سوالات اور استشراقی مطالعات نے مسلم دنیا میں عمومی طور پر ماضی کی علمی روایت پر نظرثانی (Rethinking) کا ذہن پیدا کیا۔نظر ثانی کا یہ دائرہ تفسیر قرآن کے اسالیب، حدیث وسنت کی حجیت، فقہ اسلامی کی تشکیل جدید وغیرہ تمام اسلامی علوم پر پھیلا ہوا ہے۔مستشرقین کا حدیث پر کام ایک تو وہ ہے جو ایجابی نوعیت کا ہے جس میں بعض اصل عربی متون کی تدوین، ترجمہ، اشاریہ سازی اور جدید اسالیب تحقیق کے مطابق اشاعت ہے۔(۲) اس میں سے بعض افراد نے تو نقد حدیث کے وہی معیارات استعمال کیے جو مسلم اہل علم نے وضع کیے تھے، جب کہ بعض نے دیگر معیارات بھی وضع کیے۔(۳) ان معیارات میں بنیادی دخل ادبی اور تاریخی تنقید کے مناہج کا ہے۔ اس رجحان کا آغا Aloys Sprenger سے ہوا تاہم اس کو عروج تک پہنچانے میں سب سے مؤثر شخصیت معروف جرمن مستشرق گولڈ زیہر (Ignaz Goldziher) کی ہے۔گولڈ زیہر کا معاملہ اسلام کے حوالے سے عجیب ہے کہ ایک طرف اس کا اعتراف ہے کہ:
I truly entered into the spirit of Islam to such an extent that ultimately I became inwardly convinced that I myself was a Muslim, and judiciously discovered that this was the only religion which, even in its doctrinal and official formulation, can satisfy philosophical minds. My ideal was to elevate Judaism to a similar rational level.(4)
’’میں اس حد تک روحِ اسلام میں اتر گیا کہ داخلی طور پر مجھے یقین سا ہو چلا کہ میں خود مسلمان ہی ہوں اور شعوری سطح پر میں نے دریافت کیا کہ یہ وہ واحد مذہب ہے جو عقیدے اور فکری تشکیل کی سطح پر فلسفیانہ دماغوں کو مطمئن کر سکتا ہے۔میرا مطمح نظر یہ تھا کہ یہودیت کو بھی اسی طرح کے عقلی معیار تک پہنچاؤں۔‘‘
لیکن دوسری طرف اپنے استادVembery کے سامنے ایک گفت گو میں اس نے ایمان کے اقرار سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ غالباً اس کا وہی تعصب تھا جو اسے استشراقی روایت سے ورثے میں ملا تھا۔ نقد حدیث کے لیے اس نے وہی منہج اختیار کیا جسے بائبل کی تنقید کے سیاق میں Higher Criticismسے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس نے اسے بعض عبرانی دستاویزات کے نقد کے لیے بھی بروئے کار لایا تھا۔ اس کے اثرات مسلم اہل قلم نے (براہ راست مطالعے یا تراجم کے ذریعے) بھی قبول کیے۔ اس نے یہ دعویٰ کیا کہ بیشتر احادیث جعلی اور فرضی ہیں جنھیں حکم رانوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے وضع کیا۔ اس تحریک نے برصغیر کے بہت سے ذہنوں کو بھی اپنی گرفت میں لیا۔حدیث و سنت کی حیثیت کو چیلنج کرنے اور اس پر مختلف پہلوؤں سے سوال اٹھانے والی شخصیات میں سب سے اولین حیثیت سرسید احمد خان (م 1898ء) کی ہے اور پھر یہ سفر طے ہوتا ہوا جناب غلام احمد پرویز (م 1985ء) پر اپنے عروجِ کمال کو پہنچا۔ پرویز، حافظ اسلم جیراج پوری(م1955ء ) کے فیض یافتہ تھے۔ 1938ء میں جب علامہ اقبال کی وفات ہوئی تو ان کی یادگار کے طور پر سید نذیر نیازی نے مجلہ ’’طلوعِ اسلام ‘‘ جاری کیا جس کی سرپرستی کچھ عرصے بعد پرویز صاحب کے حصے میں آئی اور انھوں نے اس میں جہاں فکر اقبال کی نشرواشاعت کی، وہیں اپنے افکار بھی اس کے ذریعے پھیلانے شروع کیے۔ قیام پاکستان کے موقع پر پاکستان آئے تو یہاں اپنے افکار کا کھل کر پرچار کیا۔ فکری طور پر ماضی کے مبتدع فرقوں میں معتزلہ سے عقیدت رکھتے تھے جس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں :’’اگر مسلک اعتزال باقی رہتا تو یہ جمود وتعطل جو آج مسلمانوں میں نظر آ رہا ہے، وجود میں نہ آتا اور علم وفکر کی دنیا میں مسلمان آج ایسے مقام پر کھڑے ہوتے جہاں ان کا کوئی مقابل نہ ہوتا۔‘‘ ( ۵) 
حدیث وسنت کے بارے میں جناب پرویز کے جمہور امت سے ہٹے ہوئے افکار سامنے آتے ہی ان پر نقد ونظر کا سلسلہ علماء کی طرف سے شروع ہوگیا اور دلائل وبراہین سے اس فکر کی علمی کمزوریوں اور داخلی تضادات واضح کیا گیا۔ اس موضوع پر تیار ہونے والا لٹریچر اس فکر کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب اصل میں فکر پرویز پر لکھی گئی تحریروں کا ایک انتخاب ہے۔ کسی موضوع پر نمائندہ تحریروں کا انتخاب اس اعتبار سے آسان ہے کہ اس میں مرتب خود تحقیق وتخلیق کے مرحلے سے نہیں گزرتا، لیکن اس پہلو سے مشکل ہے کہ اس انتخاب میں خوب سے خوب تر کی تلاش کے بغیر انتخاب جامع اور جان دار نہیں ہو پاتا۔علمی مواد کی تنگ دامانی جہاں تصنیف کے کام میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہے، وہیں علمی مواد کی فراوانی بھی کچھ کم مشکل کا باعث نہیں ہوتی۔ ایک مؤلف کے سامنے معلومات کا ایک سیلاب ہوتا ہے اور اس نے اپنے ذوقِ سلیم کی مدد سے بہت سا مواد پڑھ کر ایسی تحریروں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو متعلقہ موضوع کی جملہ جہات کا احاطہ کرتی ہوں۔ یہ کام ظاہر ہے موضوع کے وسیع مطالعے اور اس پر ناقدانہ نظر کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
زیر تبصرہ کتاب کے انتخاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ جناب مرتب (محترم شکیل عثمانی) کی نظر فکر پرویز پر لکھے گئے لٹریچر پر غیر معمولی ہے اور انھوں نے اس انتخاب میں اپنے عمدہ ذوقِ سلیم ، تجربے اور وسعت مطالعہ کو کام میں لایا ہے۔ اس وقت مغربی دنیا میں مختلف موضوعات پر Anthologies ترتیب دینے کا چلن روز افزوں ہے۔ کیمبرج ، آکسفرڈ، راؤٹلج اور کئی دیگر اشاعتی ادارے مجموعہ ہاے مقالات شائع کر رہے ہیں، جو اپنے موضوع پر لکھنے والے اعلیٰ سطح کے قلم کاروں کی تخلیقات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ اس طرح کے مجموعوں کی افادیت یہ ہوتی ہے کہ ان میں وہ سقم نہیں ہوتا، جو طبع زاد تصنیف کا پیٹ بھرنے کے لیے بسا اوقات ایک مصنف کی کتاب میں معروف اور تکرار شدہ مواد کے ذریعے پیدا ہوا جاتا ہے اور کہیں بہت بعد میں جا کر اصل موضوع کی باری آتی ہے۔ آج کتابوں کی مارکیٹ میں جو جامعات کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سندی مقالات شائع ہو کر سامنے آ رہے ہیں، ان میں سے بیش تر کا حال یہی ہے۔تبصرہ نگار کی راے میں اس طرح کی کتابوں کے بجائے اعلیٰ سطح کے اہل علم کے مقالات کے انتخابات علمی لحاظ سے زیادہ سود مند ہوتے ہیں، وللناس فیما یعشقون مذاھب۔
اس خوب صورت مجموعہ انتخاب میں نو تحریریں شامل ہیں: 1۔تحریک انکارِ سنت پر ایک نظر، مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی، 2۔ جناب پرویز کی فکر کے بنیادی خدوخال، پروفیسر خورشید احمد، 3۔ فکر پرویز کا علمی جائزہ، مولانا قمر احمد عثمانی، 4۔ پرویز صاحب اورا ن کے ’’قرآنی‘‘ نظریات، ماہر القادری، 5۔ تضاداتِ فکر پرویز، ڈاکٹر محمد دین قاسمی، 6۔پرویز صاحب کی اصل غلطی، خورشید احمد ندیم، 7۔ پرویز صاحب اور کفر کا فتویٰ، مولانا امین احسن اصلاحی، 8۔ مقتدر ’’باس‘‘اور غرض مند خوشامدی، پروفیسر وارث میر، 9۔ پرویز صاحب اور طلوعِ اسلام کا سیاسی کردار، شکیل عثمانی(مرتب کتاب)
اس انتخاب پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آخری دو مضامین جناب پرویز کی ’شخصیت وکردار‘ کا احاطہ کرتے ہیں، جب کہ باقی مضامین ان کی فکرسے بحث کرتے ہیں۔ ’شخصیت‘ سے بحث کرنے والے مضامین پاکستانی سیاست کی گردشوں اور اقتدار کے بدلتے چہروں کے سامنے ’’طلوعِ اسلام‘‘ کی ’سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ‘ کا مصداق پالیسی اور ’کشتہ سلطانی‘ مزاج کوعیاں کرتے ہیں۔ گورنز جنرل غلام محمد کی منفی پالیسیوں او رسیاست کا واضح نقشہ پروفیسر وارث میر نے اپنے مضمون میں کھینچ کر ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے ان کو خطاب کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:’’اے پیکر عزم وبسالت کہ دنیا تجھے غلام محمد کہتی ہے، ہم ملت شریفہ پاکستان کی طرف سے ادب و احترام سے جھکی ہوئی آنکھوں، لرزتے ہوئے ہونٹوں، کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہزار عقیدت وصد ہزار سپاس گزاری کے گلہائے تازہ تیری خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ یقین مانیے کہ فرطِ جذبات سے اس وقت ہمارے دل کی یہ حالت ہے کہ : آبگینہ تندیِ صہبا سے پگھلا جائے ہے‘‘(۶) اسی طرح جناب شکیل عثمانی نے اپنے مضمون ’’ پرویز صاحب اور طلوعِ اسلام کا سیاسی کردار ‘‘ میں غلام محمد، صدر ایوب اور بھٹو وغیرہ کے دور میں ’’طلاعِ اسلام‘‘ کے خوشامدانہ طرز اور سیاسی موقف کی تبدیلیوں کو اقتباسات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ دینی امور میں کسی کے افکار کو سامنے رکھتے ہوئے محض یہ دیکھنا کافی نہیں ہوتا کہ ’کیا کہہ رہا ہے‘ بلکہ ’کون کہہ رہا ہے‘ کو بھی اس لیے یکساں اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ دینی پیشوائی محض الفاظ کا لطف لینے کا نام نہیں، بلکہ یہ منصب سب سے پہلے صاحبِ منصب سے اعلیٰ کردار کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہردور کے اصحابِ دعوت وعزیمت کے ہاں ہمیں زبان، دل کی رفیق ملتی ہے اور ان کے ہاں زہد فی الدنیا، اصحابِ جاہ وثروت سے دوری، بغیر کسی خوشامد کے کلمہ حق کہنے کی صدا بلند ہوتی ملتی ہے اور ان کے یہی اوصاف ان کے اخلاص للہ کی ظاہری علامت ہوا کرتے ہیں۔ 
بقیہ مضامین جناب پرویز کی فکر کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں۔ پہلا مضمون مولانا مودودی کا ہے جس میں انھوں نے معتزلہ کے عہد میں انکارِ سنت کی تحریک پر نظر ڈالتے ہوئے اس فتنے کے سدِ باب کے مختلف اسباب ذکر کیے ہیں اور پھر تہذیب مغرب کے استیلا کے نتیجے میں اس فتنے کی نئی اٹھان کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔انھوں نے انکارِ سنت کے اس نئے فتنے کے فروغ کے چھے اسباب بیان کیے ہیں اور ساتھ ہی پرویز صاحب کے نظامِ ربوبیت کو اختصار کے ساتھ چند نکتوں میں عمدگی سے سمو دیا ہے۔ 
دوسرا مقالہ پروفیسر خورشید احمد کا ہے جو مؤلف کی تصریح کے مطابق ایک طویل مقالے ’’دینی ادب ‘‘ سے لیا گیا ہے۔یہ مقالہ پنجاب یونی ورسٹی کی شائع کردہ کتاب ’’تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند‘‘ میں شامل ہے۔اس مقالے میں پرویز صاحب کی موضوعی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ ، ’’لغات القران‘‘، ’’نظامِ ربوبیت‘‘، ’’سلیم کے نام‘‘ وغیرہ کتابوں پر گفتگو کی ہے۔ مصنف کے مطابق ’’پرویز صاحب اور علامہ مشرقی کے بنیادی افکار میں کوئی فرق نہیں۔ان کے ہاں جو کچھ فرق ہے، فروعات اور تفصیلات کا ہے۔مشرقی صاحب نے گفتگو زیادہ تر عمومی کی ہے۔پرویز صاحب نے فلسفیانہ اور سماجی نقطہ نظر سے اپنے تصورات کو نسبتاًزیادہ واضح کیا ہے۔ ۔۔۔مشرقی صاحب زیادہ نظری اور بین الاقوامی معلوم ہوتے ہیں جب کہ پرویز صاحب کے نقطہ نظر پر سماجی اور معاشی پہلو کو غلبہ حاصل ہے۔‘‘(۷)
تیسرا مقالہ مولانا قمر احمد عثمانی کا ہے(۸) اور ان کی کتاب ’’ہماری مذہبی جماعتوں کا فکری جائزہ‘‘ کا ایک باب ہے۔ اس میں مولانا عثمانی نے پرویز صاحب کے اطاعت رسول،نظامِ ربوبیت،مسلمات کو تبدیل کرنے والی خود ساختہ اصطلاحات اور شعائر اسلامی کے استخفاف وغیرہ کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ 
چوتھا مقالہ جناب ماہر القادری کا ’’پرویز صاحب اور ان کے قرآنی نظریات ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ مضمون پرویز صاحب کی فکر کا کافی جامعیت کے ساتھ احاطہ کرتا ہے۔اس میں پرویز صاحب کے قرآنی اصطلاحات و مفاہیم کو خود ساختہ اور چودہ سو سال میں امت کے لیے اجنبی معانی کا جامہ پہنانے پر گرفت کی گئی ہے۔ 
پانچواں مضمون ’’تضاداتِ فکرِ پرویز ‘‘ کے نام سے ڈاکٹر محمد دین قاسمی کے قلم سے ہے اور ان کی کتاب ’’جناب غلام احمد پرویز اپنے الفاظ کے آئینے میں‘‘ سے لیا گیا ہے۔اس مضمون میں بڑی محنت اور دقت نظر کے ساتھ پرویز صاحب کی فکر میں پندرہ تضادات کی بطور نمونہ نشان دہی کی گئی ہے۔ اس میں ایک دلچسپ تضاد پرویز صاحب کا مولانا مودودی?کے بارے میں راے بھی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ مولانا مودودی کے علمی اور فکری کمالات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں، لیکن جب ان کے محل نظر افکار سامنے آتے ہیں اور مولانا مودودی ان کی غلطیوں پر گرفت کرتے ہیں تو انھیں قرآن کی ابجد سے بھی ناواقف قرار دیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دوسرے کے بارے میں اچھی یا بری راے قائم کرنے میں بڑی حد تک داخلی پسند ناپسند کااسیر ہوتا ہے اور یہ جذبہ اس کی فکر کا رخ متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کے کئی مظاہر آج ہمارے سماج میں نظر آتے ہیں۔ 
چھٹے مضمون ’’پرویز صاحب کی اصل غلطی‘‘ میں جناب خورشید احمد ندیم نے واضح کیا ہے کہ پرویز صاحب کی اصل غلطی ان کے فہم قرآن کے اصول ہیں جو بنیادی طور پر غلط ہیں۔ یہ مضمون اچھا عمدہ اور فکری مضمون ہے اور اصل میں مؤلف کتاب ہی کے مرتب کردہ ایک چھوٹے سے کتابچے کا مقدمہ ہے جس میں جناب جاوید احمد غامدی نے پرویز صاحب کی قرآنی فکر پر نقد کیا ہے۔ پرویز صاحب کی قرآنی فکر کی کم زوریوں پر یہ ایک عمدہ گفتگو ہے۔ 
ساتویں مضمون ’’پرویز صاحب اور کفر کا فتویٰ‘‘ میں مولانا امین احسن اصلاحی نے پرویز صاحب پر علما کی طرف سے فتواے کفر پر گفت گو کی ہے اور اس کو اصولاً درست قرار دیا ہے۔ یہ مضمون مولانا اصلاحی کی کتاب ’’تفہیم دین‘‘میں شامل ہے۔
جناب غلام احمد پرویز کی فکر کے مختلف پہلوؤں کے احاطے کے لیے یہ مجموعہ مختصر ہونے کے باوجود کافی جامع اور عمدہ ہے اور قاری کو بہت کچھ دے جاتا ہے۔، تاہم اگر اس میں حجیت حدیث اور تدوین حدیث کی تاریخ پر جامع تحریرات بھی شامل ہو جاتیں تو تو اس پروپیگنڈے کی ایک مرکزی غلطی پر بھی روشنی پڑ جاتی۔ اسی طرح اس طرح کے مجموعہ مضامین میں فکر پرویز کے بارے میں مزید مطالعے کے لیے کتابوں، مجلات، مقالات وغیرہ کی بھی ایک فہرست فراہم ہو جاتی تو اس کی افادیت مزید بڑھ جاتی۔ 
کتاب، معروف اشاعتی ادارے کتاب سراے (لاہور) سے عمدہ معیار پر شائع ہوئی ہے۔ جب سے کتابوں کی اشاعت کمپیوٹر کمپوزنگ کے ذریعے ہونا شروع ہوئی ہے، ان میں اغلاط کی بھرمار نظر آتی ہے۔ اس کتاب کے ساتھ بھی یہ مسئلہ درپیش ہوا ہے ، جس کے لیے کتاب کے آغاز میں مؤلف کو ’صحت نامہ‘ شامل کرنا پڑا ہے۔

حواشی

۱ ۔ محمد اسد،’’ ملتِ اسلامیہ دو راہے پر‘‘ ، ترجمہ ، محبوب سبحانی(لاہور:دارالسلام، 2004ء)، 15۔
۲ ۔ اس نوعیت کا ایک جامع اور عمدہ اشاریہ Concordance and Indices of Muslim Tradition (Leiden, 1936) ہے۔اس میں صحاح ستہ کے علاوہ بعض دیگر مجموعے بھی شامل ہیں۔اس منصوبے کا آغاز ونسنک ، ہارویز اور دیگر مستشرقین نے کیا تھا۔ بعد میں اس کام کی تکمیل میں معروف محقق فؤاد عبدالباقی نے بھی حصہ لیا۔ 1936ء میں اس کی پہلی اور 1988ء میں اس کی آٹھویں اور آخری جلد شائع ہوئی، تاہم اس میں کئی فاش اغلاط بھی تھیں جن کی تصحیح اور کمپیوٹر ایڈیشن کی تیاری کے لیے جامعہ ازہر میں ایک بورڈ تشکیل دیا گیا۔
۳ ۔ برٹش اسکالر جے رابسن اور امریکی اسکالر این ایبٹ حدیث کے روایتی فریم ورک کو تسلیم کرتے ہیں ، جب کہ گولڈ زیہر اور جوزف شاخت کا پیش کردہ منہج تشکیکی ہے۔ یورپی زبانوں میں حدیث لٹریچر پر ایکاچھے مطالعے کے لیے دیکھیے: 
Denffer, Ahmad, Literature on Hadith in European Languages (Leicester, 1981)
4- See. Siddiqi,op.cit ,125.
۵ ۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘،30 جولائی 1955ء بحوالہ، عبدالرحمن کیلانی ،’’آئینہ پرویزیت حصہ اول، معتزلہ سے طلوعِ اسلام تک‘‘(لاہور: مکتبۃ السلام، 1987ء )، 112۔
۶ ۔ وارث میر،’’مقتدر باس اور غرض مند خوشامدی‘‘ مشمولہ ’’جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ‘‘، مرتب، شکیل عثمانی(لاہور:کتاب سرائے ، 2016ء)، 161۔ 162۔
۷ ۔ خورشید احمد، ’’جناب پرویز کی فکر کے بنیادی خدوخال‘‘، نفس مرجع، 28۔
۸ ۔ مولانا قمر احمد عثمانی ، معروف دیوبندی عالم مولانا ظفر احمد عثمانی کے بیٹے ہیں۔ ان کے دوسرے بیٹے ’’فقہ القرآن‘‘ کے مصنف مولانا عمر احمد عثمانی ہیں۔ ان دونوں حضرات کے بارے میں عام طور پر مشہور ہے کہ وہ منکر حدیث ہیں، لیکن بظاہر یہ بات درست نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ تدبر حدیث کے حوالے سے ان کا منہج عام اسلوب سے ذرا مختلف ہے، لیکن اسے انکارِ حدیث سے موسوم نہیں کیا جاسکتا۔ جنوری 1968ء کے ’’البلاغ‘‘میں مولانا ظفر احمد عثمانی اور ان کے ایک شاگرد کے درمیان ایک مکالمہ شائع ہوا جس پر اہل حدیث مکتب فکر کے معروف مجلے ’’الاعتصام ‘‘ نے بہت سخت نقد کیا اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ مولانا ظفر احمد عثمانی کے بیٹے منکر حدیث ہیں۔مولانا ظفر احمد عثمانی نے مولانا عمر احمد عثمانی کے ایک مختصر رسالے ’’خاتمۃ الکلام فی القراء ۃ خلف الامام ‘‘ کے پیش لفظ میں اس بات کو محض الزام قرار دیا ہے کہ ان کے بیٹے حجیت حدیث کے منکر ہیں۔ (دیکھیے: عمراحمد عثمانی، ’’خاتمۃ الکلام فی القراء ۃ خلف الامام ‘‘، دیباچہ مولانا ظفر احمد عثمانی (حیدر آباد: العزیز پبلی کیشن ہاؤس، س ن)، 2،3۔)

مئی ۲۰۱۷ء

اقلیتوں کے حقوق کے لیے علماء و فقہاء کا عملی کردارمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۰)ڈاکٹر محی الدین غازی
اختلاف رائے اور رواداری ۔ اکابرین امت کے اسوہ کی روشنی میںمولانا محمود خارانی
جمعیۃ علماء اسلام کا صد سالہ عالمی اجتماعمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مذہبی قوتوں کے باہمی اختلافات اور درست طرز عملمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امام عیسیٰ بن ابانؒ : حیات و خدمات (۱)مولانا عبید اختر رحمانی
جہادی بیانیے کی تشکیل میں روایتی مذہبی فکر کا کردارڈاکٹر عرفان شہزاد
علامہ اقبال اور شدت پسندی کا بیانیہ: ان کی جہادی اور سیاسی فکر کی روشنی میںمولانا سید متین احمد شاہ
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پہلا عالمی اسلامی مفاہمتی اجلاسڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اقلیتوں کے حقوق کے لیے علماء و فقہاء کا عملی کردار

محمد عمار خان ناصر

مذاہب عالم کی تعلیمات میں آزادئ مذہب کا اصول اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی تعلیم جس قدر وضاحت اور تاکید کے ساتھ اسلام میں ملتی ہے، کسی دوسری جگہ شاید نہیں ملتی۔ مسلم فقہاء نے اسی تعلیم کی روشنی میں غیر مسلم اقلیتوں کے شہری ومذہبی حقوق کے تحفظ سے متعلق نہایت واضح قانونی اور اخلاقی ضابطے مرتب کیے ہیں اور اسلامی تاریخ میں ایسی روشن مثالیں بکثرت ملتی ہیں جب علماء وفقہاء نے اللہ کے پیغمبر کی وراثت اور نیابت کا حق ادا کرتے ہوئے اقلیتی گروہوں پر کی جانے والی کسی بھی قسم کی زیادتی کے خلاف کلمہ حق بلند کیا اور زیادتی کی تلافی کے لیے حتی الوسع کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔
اس حوالے سے تاریخ کے چند معروف اور مستند واقعات پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہوگا:
۱۔ اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اپنے عہد حکومت میں مسیحیوں کا گرجا ان سے چھین کر اسے زبردستی دمشق کی جامع مسجد کا حصہ بنا دیا۔ تاہم جب عمر بن عبد العزیز کا دور حکومت آیا اور مسیحیوں نے ان کے سامنے یہ معاملہ دوبارہ اٹھایا تو انھوں نے حکم دیا کہ مسجد کا وہ حصہ جو گرجے کی جگہ پر بنا ہوا ہے، ڈھا دیا جائے اور یہ جگہ دوبارہ مسیحیوں کے تصرف میں دے دی جائے۔ اس موقع پر مسلمانوں نے مسیحیوں کے ساتھ مذاکرات کیے اور انھیں اس پر آمادہ کر لیا کہ وہ غوطہ کے تمام گرجے لے لیں اور اس کے بدلے میں دمشق کی جامع مسجد میں شامل اس حصے سے دست بردار ہو جائیں۔ چنانچہ مسیحیوں نے اپنی رضامندی سے یہ پیش کش قبول کر لی جس پر عمر بن عبد العزیز نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ (بلاذری، فتوح البلدان ص ۱۳۲)
۲۔ اسی طرح خلیفہ ہادی کے زمانے میں مصر کے گورنر علی بن سلیمان نے کچھ گرجوں کو منہدم کرا دیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد جب ہارون الرشید کا دور حکومت آیا اور مصر کی گورنری موسیٰ بن عیسیٰ کے سپرد کی گئی تو موسیٰ نے گرجوں کے انہدام کا مسئلہ علماء کے سامنے پیش کیا۔ علماء نے مسیحیوں کے حق میں فتویٰ دیا اور زبردستی گرجے منہدم کرنے کو ناجائز قرار دیا۔ چنانچہ حکومت نے اپنے خرچ پر ان منہدم شدہ گرجوں کو دوبارہ تعمیر کروایا اور انھیں مسیحیوں کے حوالے کر دیا۔ (الخطط المقریزیہ ۲/۵۱۱ بحوالہ رسائل شبلی ص ۷۰)
۳۔ عباسی دور کے معروف فقیہ قاضی ابو یوسف نے خلیفہ ہارون الرشید کی فرمائش پر امور سلطنت سے متعلق شرعی احکام ان کے لیے مرتب کیے تو اس میں خلیفہ کو یہ نصیحت بھی کی کہ
وقد ینبغی یا امیر المومنین ایدک اللہ ان تتقدم فی الرفق باہل ذمۃ نبیک وابن عمک محمد صلی اللہ علیہ وسلم والتفقد لہم حتی لا یظلموا ولا یؤذوا ولا یکلفوا فوق طاقتہم ولا یؤخذ شیء من اموالہم الا بحق یجب علیہم (الخراج، ص ۱۲۴)
’’اے امیر المومنین، اللہ آپ کی تائید ونصرت فرمائے، یہ مناسب ہوگا کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ جنھیں آپ کے نبی اور آپ کے چچازاد بھائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (جان ومال اور مذہب کی حفاظت کا) ذمہ دیا، حد درجہ نرمی سے کام لیں اور ان کی خبر گیری کرتے رہیں تاکہ ان پر نہ تو ظلم کیا جا سکے نہ انھیں اذیت پہنچائی جائے، نہ ان پر ان کی طاقت سے بڑھ کر کوئی بوجھ ڈالا جائے اور ان کے مال سے کسی واجب حق کے علاوہ کوئی چیز وصول کی جائے۔‘‘
۴۔ شام اور حجاز کی سرحد پر عیسائیوں کا ایک مشہور طاقت ور قبیلہ بنو تغلب تھا جس کے ساتھ حضرت عمر نے جان ومال کے تحفظ پر ایک پرامن معاہدہ کیا تھا۔ ہارون الرشید اپنی سیاسی مصلحت کی بنا پر اس کو توڑ دینا چاہتا تھا۔ ایک دن دربار میں جبکہ امام محمد بھی وہاں موجود تھے، ہارون الرشید آیا اور امام محمد کو تخلیہ میں بلا کر لے گیا اور کہا کہ میں بنو تغلب کے عیسائیوں کا معاہدہ ختم کر کے انھیں قتل کرا دینا چاہتا ہوں۔ امام محمد نے فرمایا کہ حضرت عمر نے انھیں امان دی ہے، اس لیے معاہدہ توڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ حضرت عمر نے انھیں اس شرط پر امان دی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا بپتسمہ نہیں کریں گے (یعنی انھیں عیسائی بنانے کی رسم نہیں ادا کریں گے)۔ امام محمد نے کہا کہ بپتسمہ کے باوجود حضرت عمر نے ان سے معاہدۂ امن برقرار رکھا تھا۔ اس پر ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت عمر کو ان سے جنگ کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ امام محمد نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو اس کے بعد حضرت عثمان اور حضرت علی کو ان سے جنگ کرنی چاہیے تھی، حالانکہ ان لوگوں نے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے بلا شرط ان کو امان دی تھی۔ جب ہارون سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو ان کو دربار سے نکلوا دیا مگر وہ معاہدہ نہ توڑ سکا۔ (بحوالہ ’’اسلام کے بین الاقوامی اصول وتصورات‘‘ از مولانا مجیب اللہ ندوی)
۵۔ ولید بن یزید نے قبرص کے مسیحیوں کو اس خدشے سے وہاں سے جلا وطن کر دیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف رومی حکومت کی مدد کریں گے۔ مورخین بتاتے ہیں کہ اس فیصلے کو مسلمانوں نے بہت برا سمجھا اور فقہاء نے اس کو سخت نا انصافی قرار دیا۔ چنانچہ ولید کے بعد اس کا بیٹا یزید بن الولید حکمران بنا تو اس نے جلا وطن کیے جانے والے لوگوں کو دوبارہ قبرص میں آبا د کر دیا اور اس فیصلے کو مسلمانوں نے عدل وانصاف تصور کرتے ہوئے اس کی بہت تحسین کی۔ (بلاذری، فتوح البلدان، ص ۱۵۶)
۶۔ سیدنا معاویہ کے دور مسلمانوں اور جزیرہ قبرص کے باشندوں کے مابین اس بات پر صلح کا معاہدہ ہوا کہ وہ مسلمانوں اور سلطنت روم، دونوں کے ساتھ تعلقات رکھیں گے اور دونوں کو سالانہ خراج ادا کرتے رہیں گے۔ عبد الملک بن صالح کے زمانے میں قبرص کے کچھ لوگوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو عبد الملک نے اسے علی الاطلاق نقض معاہدہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف جنگ کا ارادہ کیا۔ تاہم اس نے اس سلسلے میں شرعی پہلو سے وقت کے نامور فقہا سے رائے طلب کی جن میں لیث بن سعد، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، موسیٰ بن اعین، اسماعیل بن عیاش، یحییٰ بن حمزہ، ابو اسحاق فزاری اور مخلد بن حسین شامل تھے۔ ان میں سے سفیان بن عیینہ اور لیث بن سعد نے عبد الملک کی رائے سے اتفاق کیا، لیکن اکثریت کی رائے اس سے مختلف تھی۔ انھوں نے خلیفہ کو ان کے خلاف جنگ کرنے سے منع کیا اور کہا کہ چند لوگوں کی طرف سے خلاف ورزی کرنے پر سب لوگوں کو معاہدہ توڑنے کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ (ابو عبید، کتاب الاموال، ص ۲۶۸)
۷۔ امام اوزاعی کے زمانے میں جبل لبنان میں مقیم مسیحیوں میں سے کچھ لوگوں نے بعبلبک کے افسر محصولات سے کسی شکایت کی بنا پر بغاوت کر دی۔ مسلمان حاکم صالح بن علی بن عبد اللہ نے ان میں سے شر پسند عناصر کی سرکوبی کے بعد آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو، جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہاں سے جلا وطن کر دیا۔ (بلاذری، فتح البلدان، ص ۱۶۹) اس پر امام اوزاعی نے اسے تفصیلی خط لکھا جس کا کچھ حصہ امام ابوعبید نے اپنی کتاب ’’الاموال‘‘ میں نقل کیا ہے۔ امام صاحب نے فرمایا:
’’جبل لبنان کے جن اہل ذمہ کو جلا وطن کیا گیاہے، ان کے بغاوت کرنے پر ساری جماعت متفق نہیں تھی، اس لیے ان میں سے ایک گروہ کو (جس نے بغاوت کی) قتل کرو اور باقی لوگوں کو ان کی بستیوں کی طرف واپس بھیج دو۔ کچھ افراد کے عمل کی پاداش میں سارے گروہ کو کیونکر پکڑا جا سکتا اور انھیں ان کے گھر بار اور اموال سے بے دخل کیا جا سکتا ہے؟ .... یہ لوگ غلام نہیں ہیں کہ تمھیں ان کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ وہ آزاد اہل ذمہ ہیں (جو بہت سے قانونی حقوق اور ذمہ داریوں میں ہمارے برابر ہیں، مثلاً) ان میں سے کوئی شادی شدہ فرد زنا کرے تو اسے رجم کیا جاتا ہے اور ان کی جن عورتوں سے ہمارے مردوں نے نکاح کیا ہے، وہ دنوں کی تقسیم اور طلاق وعدت میں ہماری عورتوں کے ساتھ برابر کی شریک ہوتی ہیں۔‘‘ (ابوعبید، کتاب الاموال، ص ۲۶۳، ۲۶۴)
۸۔ آٹھویں صدی کے عظیم مجدد اور مجاہد امام ابن تیمیہ کے زمانے میں جب تاتاریوں نے دمشق پر حملہ کر کے بہت سے مسلمانوں اور ان کے ساتھ دمشق میں مقیم یہودیوں اور مسیحیوں کو قیدی بنا لیا تو امام صاحب علما کا ایک وفد لے کر تاتاریوں کے امیر لشکر سے ملے اور اس سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ تاتاری امیر نے ان کے مطالبے پر مسلمان قیدیوں کو تو چھوڑ دیا، لیکن یہودی اور مسیحی قیدیوں کو رہا نہیں کیا۔ ا س پر امام صاحب نے اس سے کہا کہ :
’’تمھیں ان تمام یہودیوں اور مسیحیوں کو جو ہمارے اہل ذمہ ہیں اور تمھارے قبضے میں ہیں، چھوڑنا ہوگا۔ ہم تمہارے پاس اپنا کوئی قیدی نہیں چھوڑیں گے، خواہ وہ مسلمان ہو یا اہل ذمہ میں سے۔ اہل ذمہ کے وہی حقوق ہیں جو ہمارے ہیں اور ان کے فرائض بھی وہی ہیں جو ہمارے ہیں۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ ۲۸/۶۱۷، ۶۱۸)
چنانچہ تاتاری امیر کو یہودی اور مسیحی قیدیوں کو بھی رہا کرنا پڑا۔
۹۔ بعض مسلم حکمرانوں نے بیت المقدس کی زیارت کے لیے جانے والے اہل ذمہ پر ایک خاص ٹیکس عائد کیا تو فقہا نے صراحتاً اس کے عدم جواز کا فتویٰ دیا۔ معروف حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
’’بیت المقدس کی زیارت کے لیے مسیحیوں سے جو ٹیکس لیا جاتا ہے، وہ حرام ہے۔ یہ بات خیر الدین الرملی نے کہی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کل عمال جو حربی یا ذمی سے جزیہ کے علاوہ رقم لیتے ہیں تاکہ اسے بیت المقدس کی زیارت کرنے دیں، وہ حرام ہے۔‘‘ (رد المحتار، ۲/۳۱۳۔ ۴/۱۶۹)
۱۰۔ ماضی قریب میں ہمیں اسی کردار کا ایک نمونہ انیسویں صدی میں الجزائر کے جلیل القدر عالم اور مجاہد امیر عبدالقادر الجزائری کے ہاں دکھائی دیتا ہے جنھوں نے ۱۸۶۰ء میں دمشق میں ہونے والے مسلم مسیحی فسادات کے موقع پر اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے جاں نثار ساتھیوں کی مدد سے ہزاروں بے گناہ مسیحیوں کو مسلمانوں کے مشتعل ہجوم سے بچانے کے لیے نہایت ذمہ دارانہ کردار ادا کیا تھا۔ 
الجزائری کے معاصر اور وسطی ایشیا کے عظیم مجاہد امام شامل نے اس واقعے میں الجزائری کے کردار کی تحسین اور مسلمانوں کے عمومی طرز عمل کی پرزور الفاظ میں مذمت کی تھی: 
’’میں ان حکام کی کور چشمی پر بھونچکا رہ گیا جنھوں نے ایسی زیادتیاں کیں اور اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث فراموش کردی کہ: ’’جس کسی نے بھی اپنے زیر امان رہنے والے کے ساتھ ناانصافی کی، جس کسی نے بھی اس کے خلاف کوئی غلط حرکت کی یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی، وہ جان لے کہ روز محشر میں خود اس کے خلاف مدعی بنوں گا۔‘‘ (جان کائزر، امیر عبد القادر الجزائری: سچے جہاد کی ایک داستان (اردو ترجمہ)، ص ۴۲۷)

اگر مذہبی معاشرہ یہی ہے تو ہمیں سیکولرزم کی ضرورت ہے

مشال خان کے دل دوز واقعے کی کچھ تفصیلات سوشل میڈیا پر دیکھیں، لیکن ویڈیو دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ گزشتہ دنوں ایک مجلس میں جناب افراسیاب خٹک، ڈاکٹر قبلہ ایاز، وسعت اللہ خان اور حسن خان (خیبر ٹی وی) جیسے باخبر حضرات کی زبانی صورت حال کے جو پہلو معلوم ہوئے، ان کی روشنی میں، واقعہ یہ ہے کہ اس قوم کی اجتماعی اخلاقی پستی بالکل ننگی ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ چند پہلو ملاحظہ ہوں:
یہ تو اب سب کو معلوم ہے کہ یہ قتل مشتعل طلبہ کے کسی ہجوم نے heat of the moment کے زیر اثر نہیں کیا، بلکہ اس میں یونیورسٹی کے اساتذہ، انتظامیہ اور اس سے بھی بڑھ کر مقامی پولیس ملوث ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے یہ اقدام کیا گیا۔ یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ توہین مذہب کا الزام بے بنیاد تھا۔ قتل کے اصل محرک کے متعلق بعض واقفان حال کی رائے یہ ہے کہ مشال خان متعلقہ یونیورسٹی کے نظام، تعلیم کے معیار، اساتذہ وانتظامی عملہ کی تقرری میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی اقربا نوازی کا ناقد تھا اور انتظامیہ واساتذہ اس کے سوالوں کا جواب دینے سے خود کو عاجز پاتی تھی، چنانچہ اس سے نمٹنے کے لیے توہین مذہب کے الزام کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔
واقعے کے بعد میڈیا کی طرف سے خیبر پختون خوا کی ذمہ دار سیاسی قیادت سے (جس میں نہ صرف مذہبی بلکہ سیکولر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں) تبصرے کے لیے رجوع کیا گیا تو سب کا ابتدائی رد عمل، تبصرے سے اعراض کا تھا بلکہ بعض نے رابطہ کرنے والے رپورٹر کو بھی یہ ناصحانہ مشورہ دیا کہ بہتر ہے، آپ اس معاملے سے دور رہیں۔ وزیر اعلیٰ کو اس کی مذمت پر آمادہ ہونے میں بارہ گھنٹے لگے، جبکہ جناب وزیر اعظم کو (اطلاعات کے مطابق) کوئی تین دن کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ملک میں اس قسم کا کوئی واقعہ ہوا ہے۔
میڈیا پر واقعہ کی اطلاع آنے کے ساتھ ہی مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے فوری طور پر اس قسم کی بے محل بیان بازی شروع کر دی گئی کہ توہین مذہب کے قانون میں کوئی تبدیلی قبول نہیں کی جائے گی، جو دراصل دوسری طرف کے دباؤ کو تحلیل کرنے اور واقعے کی سنگینی کو ہلکا بنانے کا ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ مزید یہ کہ مقامی طور پر تمام مذہبی جماعتوں نے ایک مشترکہ فورم تشکیل دیا اور انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ مشال کے قاتلوں نے چونکہ مذہب کی محبت میں یہ اقدام کیا ہے، اس لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی نہ کی جائے۔
اور اب واقعے کی ناقابل بیان وحشت ناکی کے تناظر میں رائے عامہ کے دباؤ کے تحت بظاہر انتظامی وقانونی کارروائی تو کی جا رہی ہے، لیکن چونکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نیز مقامی پولیس کی سطح پر ملوث تمام افراد ایسے ہیں جنھیں کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی پشت پناہی میسر ہے، اس لیے درون خانہ تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کی ترجیح یہی ہے کہ ان افراد کو کیفر کردار تک پہنچنے سے بچایا جائے۔
وسعت اللہ خان نے کہا کہ اس سارے معاملے میں امید کا ایک ہی پہلو سامنے آیا ہے، اور وہ یہ کہ جب قتل کے بعد مشال خان کے گاؤں کی مساجد میں مولوی حضرات نے یہ اعلان کروا دیا کہ مقتول کی نماز جنازہ پڑھنا حرام ہے تو مقتول کے والد کے چند دوستوں نے، جن کا تعلق اس گاؤں سے نہیں تھا، یہ طے کیا کہ جنازہ ہر حال میں پڑھا جائے گا اور اس کے لیے وہ اپنے گاؤں سے جنازہ پڑھنے کے لیے افراد کو لے کر آئے اور ان کی جرات اور حوصلے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ نماز جنازہ پڑھی گئی، بلکہ لوگوں کو اصل حقیقت حال سے باخبر کرنے کی راہ بھی ہموار ہوئی، ورنہ شاید پہلے مرحلے پر ہی یہ بات ہمیشہ کے لیے طے ہو جاتی کہ مقتول واقعی توہین مذہب کا مرتکب تھا اور یہ کہ اسے قتل کرنے والوں نے، ایسے ہر واقعے کی طرح، مذہبی حمیت میں یہ کار خیر انجام دیا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، اس نوعیت کا ہر واقعہ ہماری اجتماعی اخلاقی صورت حال کے حوالے سے آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہوتا ہے، لیکن اس واقعے نے تو اتمام حجت میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی۔ اس کا سب سے افسوس ناک پہلو، ہمارے معاشرے میں پست اخلاقیات اور غیر انسانی بلکہ حیوانی رویوں کے ساتھ نام نہاد مذہبی جذبات کا مل جانا اور مذہب کے نام پر سیاسی مفادات کے کھیل کو مقبولیت کا حاصل ہو جانا ہے۔ ہمیں سیکولر ریاست اور سیکولر معاشرے سے اصولی اور نظریاتی طور پر شدید اختلاف ہے، لیکن اگر ’’مذہبی معاشرے‘‘ کا نقشہ یہی ہے تو خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اب سیکولرزم کی ضرورت ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۱) علقۃ اور مضغۃ کا ترجمہ

قرآن مجید میں علق کا لفظ ایک بار اور علقۃ کا لفظ متعدد بار آیا ہے، دونوں کا مطلب ایک ہے، اور وہ ہے جما ہوا خون، راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والعَلَقُ: الدّم الجامد ومنہ: العَلَقَۃُ التی یکون منھا الولد.المفردات۔ علقہ کی اردو تعبیر کے لیے مترجمین نے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں، جیسے، جنین، لوتھڑا، خون کا لوتھڑا، خون کی پھٹک، خون کی پھٹکی، خون کا تھکا۔ علقہ کے لیے جنین کا لفظ کسی طرح مناسب نہیں ہے، کیونکہ جنین کا عمومی اطلاق عربی میں بھی اور اردو میں بھی پیٹ کے بچے پر ہوتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مرحلے میں ہو، جبکہ اردو میں وہ مضغہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، راغب اصفہانی کے الفاظ میں، ’’والجنین: الولد مادام فی بطن أمہ‘‘. المفردات. اردو کی مستند لغت فرہنگ آصفیہ میں ہے: ’’جنین: مضغہ ، لوتھڑا‘‘۔
علقہ کے لیے لوتھڑا بھی مناسب لفظ نہیں ہے، کیونکہ اردو میں لوتھڑا گوشت کے لیے استعمال ہوتا ہے، جمے ہوئے خون کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں ہے: لوتھڑا: گوشت کا بڑا ٹکڑا جس میں ہڈی نہ ہو، مضغہ، گوشت پارہ، پارچہ، مچا۔ خون کا لوتھڑا بھی مناسب لفظ نہیں ہے، کیونکہ لوتھڑا گوشت کا ہوتا ہے، جمے ہوئے خون کو لوتھڑا نہیں کہتے۔ خون کی پھٹک یا پھٹکی سے علقہ کا مفہوم کسی قدر ادا ہوجاتا ہے، فرہنگ آصفیہ میں ہے: ’’پھٹکی: گٹھلی، گرہ، گانٹھ، کسی خشک چیز کے گھولنے سے جو گٹھلیاں پڑ جاتی ہیں‘‘۔
بعض مترجمین نے جما ہوا خون ترجمہ کیا ہے، یہ لفظی ترجمہ ہے۔
مضغۃ کا لفظ گوشت کی بوٹی کے لیے آتا ہے، زمخشری لکھتے ہیں: والمضغۃ: اللحمۃالصغیرۃ قدر مایمضغ۔ مضغۃ کا ترجمہ بعض لوگوں نے لوتھڑا کیا ہے اور بعض لوگوں نے بوٹی کیا ہے، لوتھڑا چونکہ گوشت کے بڑے ٹکڑے کو کہتے ہیں، اس لحاظ سے بوٹی کا لفظ زیادہ مناسب ہے۔غرض یہ کہ دونوں الفاظ کے لئے ایسے اردو متبادل کی جستجو ہونی چاہئے جو ان الفاظ کاواقعی مفہوم ادا کرتے ہوں۔ اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل ترجموں کا جائزہ مفید ہوگا :

(۱) یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِن کُنتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَغَیْْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ۔ (الحج:۵)

’’لوگو اگر تم کو دھوکہ ہوا ہے جی اٹھنے میں تو ہم نے تم کو بنایا مٹی سے پھر بوند سے پھر پھٹکی سے پھر بوٹی سے نقشہ بنے اور بن نقشہ بنے، اس واسطے کہ تم کو کھول کر سنادیں‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ یہ ہم اس لیے بتارہے ہیں تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں‘‘ (سید مودودی)
’’اے لوگو، اگر تمہیں قیامت کے دن جینے میں کچھ شک ہو تو یہ غور کرو کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا مٹی سے پھر پانی کی بوند سے پھر خون کی پھٹک سے پھر گوشت کی بوٹی سے نقشہ بنی اور بے بنی، تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں‘‘(احمد رضا خان)
’’اے لوگو، اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے باب میں شبہ میں ہو تو دیکھو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر منی کے ایک قطرے سے، پھر ایک جنین سے، پھر ایک لوتھڑے سے، کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص، ایسا ہم نے اس لیے کیا تاکہ تم پر (اپنی قدرت وحکمت) اچھی طرح واضح کریں‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس میں علقہ کے لیے جنین کا لفظ مناسب نہیں) 
اس آیت میں لنبین لکم کا مفہوم عام طور سے یہ لیا گیا ہے کہ اللہ تعالی تخلیق کے ان مراحل سے یا ان کے تذکرے سے اپنی قدرت وحکمت کو واضح کرتا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کے مطابق اس کا اصل مفہوم تو یہ ہے کہ جنین مخلقۃ اور غیر مخلقۃ اس لیے ہوتا ہے تاکہ انسانوں پر حقیقت واضح ہوجائے، یعنی غیر مخلقۃ جنین کے ساقط ہوجانے سے انسانوں پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ تخلیق کے کتنے مرحلوں سے جنین کا گزر ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا تو اس وقت کے انسانوں کو ان مراحل کا علم بھی نہیں ہوتا۔البتہ اس کا ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے یہ واضح ہوجائے کہ ان سب مراحل میں اللہ کی قدرت کام کررہی ہوتی ہے، اس کے بغیر یہ سب کچھ نہیں ہوسکتا تھا، ہر مرحلہ میں اللہ کی مشیت کار فرما ہوتی ہے۔
اس آیت میں مترجمین نے عام طور سے (من ) کا ترجمہ ’’سے‘‘ کیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ ترجمہ اس طرح ہونا چاہئے: ’’پھروہ پھٹکی بنا، پھروہ بوٹی بنا‘‘ ۔

(۲) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَاماً فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْن۔ (المؤمنون: ۱۴)

’’پھر بنائی اس بوند سے پھٹکی پھر بنائی اس پھٹکی سے بوٹی پھر بنائی اس بوٹی سے ہڈیاں، پھر پہنایا ان ہڈیوں پر گوشت پھر اٹھا کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں۔ (شاہ عبدالقادر)
پھر ہم نے پانی کی بوند کو ایک جنین کی شکل دی، پھر جنین کو گوشت کا لوتھڑا بنایا، پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنایا، پھر اس کو ایک بالکل ہی مختلف مخلوق میں متشکل کردیا‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ میں علقہ کا ترجمہ جنین کیا گیا ہے، جو درست نہیں ہے، مزید یہ کہ فخلقنا المضغۃ عظاما کا ترجمہ کیا گیا پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں۔ الفاظ کی رو سے بھی اور امر واقع کے لحاظ سے بھی ترجمہ ہوگا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا۔)
’’پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔(سید مودودی)
پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا، پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی‘‘ (احمد رضا خان)
’’پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا‘‘ (فتح محمد جالندھری)

(۳) ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ۔ (غافر: ۶۷)

’’وہی ہے جس نے بنایا تم کو خاک سے پھر پانی کی بوند سے پھر لہو کی پھٹکی سے‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا مٹی سے، پھر نطفے سے، پھر خون کی ایک پھٹکی سے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے‘‘(سید مودودی)
’’وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے بنایا پھر پانی کی بوند سے پھر خون کی پھٹک سے‘‘ (احمد رضا خان)
اس آیت میں مترجمین نے عام طور سے تینوں جگہ (من ) کا ترجمہ ’’سے‘‘ کیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ تیسرے من کا ترجمہ اس طرح ہونا چاہئے: ’’پھروہ پھٹکی بنا‘‘ ۔

(۴) ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً۔ (القیامۃ: ۳۸)

’’پھر تھا لہو کی پھٹکی‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’پھر وہ بنا خون کی ایک پھٹکی‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’پھر خون کی پھٹک ہوا‘‘ (احمد رضا خان)
’’پھر وہ ایک لوتھڑا بنا‘‘ (سید مودودی)

(۵) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ (العلق: ۲)

’’بنایا آدمی لہو کی پھٹکی سے‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’جس نے پیدا کیا انسان کو خون کے تھکے سے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا‘‘ (اشرف علی تھانوی)
(جاری)

اختلاف رائے اور رواداری ۔ اکابرین امت کے اسوہ کی روشنی میں

مولانا محمود خارانی

علم و تحقیق کے سفر میں اختلاف رائے ایک ناگزیر امر ہے جو تحقیق و جستجو کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، مسائل و مباحث کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں، تحقیق طلب امور کے نئے گوشے وا ہوتے ہیں، فکر و نظر کے نئے زاویے کھل جاتے ہیں۔ مگر اس اختلاف رائے میں ان سلف صالحین اور اکابرین امت کا درخشاں طرز واسلوب اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے جن کے منہج و طرز فکر سے وابستگی دینی طبقے میں ایک لازمی امر کے طور پر متعارف ہے۔ یہ بجا طور پر آج کے پرفتن دور میں ایک محتاط اور قابل تحسین حکمت عملی ہے۔ دینی طبقہ کے "اکابر سے وابستگی" کے اس رجحان کے پیش نظر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سلف صالحین اور اکابر علماء کے ’’اختلاف رائے اور رواداری‘‘ کے چند اصول و آداب اور ان کے منہج و اسلوب کے کچھ نمونے سامنے لائے جائیں تاکہ موجودہ دور میں باہمی علمی و سیاسی اختلافات کے موقع پر نقوش اکابر کے مطابق ہم اپنے طرز فکر و عمل میں تبدیلی لاسکیں۔

امامت و اقتدا کے معاملے میں رواداری

موجودہ دور میں دینی طبقے کے اختلاف رائے کا سب سے پہلا اثر "امامت" پر پڑتا ہے۔ معمولی نوعیت کے فقہی اختلافات میں بھی ایک دوسرے کی امامت میں نماز کی شرعی گنجائش ختم سمجھی جاتی ہے، حالانکہ اکابر امت نے عبادات میں بعض فروعی اختلافات کی بنیاد پر مسلکی تنوع کو کبھی بھی رکاوٹ نہیں سمجھا اور اس اختلاف مسلک کو امامت کے جواز و عدم جواز کا معیار نہیں بنایا۔
علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ قاضی ابو عاصم عامری ایک حنفی عالم تھے۔ ایک مرتبہ وہ مشہور شافعی عالم علامہ قفال رحمہ اللہ کی مسجد میں مغرب کی نماز پڑھنے گئے۔ شافعی مسلک میں تکبیر کہتے وقت شہادتین یعنی ’’اشھد ان لا الہ الا اللہ‘‘ اور ’’اشھد ان محمدا رسول اللہ‘‘ اور ’’حی علی الصلوۃ، حی علی الفلاح‘‘ صرف ایک ایک مرتبہ کہے جاتے ہیں اور حنفی مسلک میں دو دو مرتبہ۔ علامہ قفال شافعی نے قاضی ابو عاصم حنفی کو مسجد میں دیکھا تو ان کے احترام کی وجہ سے مؤذن کو حکم دیا کہ آج تم تکبیر کے یہ کلمات دو مرتبہ کہنا۔ اس کے بعد انہوں نے قاضی ابو عاصم حنفی سے نماز پڑھانے کو کہا تو قاضی صاحب نے نماز پڑھاتے وقت سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ بلند آواز سے پڑھی اور نماز کے کئی دوسرے افعال بھی شافعی مسلک کے مطابق ادا کیے۔ (تراشے ص 90. مولانا مفتی محمد تقی عثمانی)
یہی حال اکابر دیوبند کا تھا، چنانچہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ کپڑے کے وہ باریک موزے جو ثخین نہ ہوں، لیکن ان کے تلے پر چمڑا چڑھا ہوا ہو،جنہیں فقہاء رقیق منعل کہتے ہیں، ان پر مسح کے جواز میں فقہائے حنفیہ کا کچھ اختلاف رہا ہے۔ اس مسئلہ میں مفتی اعظم مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کا فتویٰ یہ تھا کہ ان پر مسح جائز نہیں، لیکن شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا رجحان جواز کی طرف تھا۔ اس مسئلہ پر دونوں کی زبانی گفتگو کئی بار ہوئی، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ایک دن حضرت مدنی نے حضرت مفتی اعظم سے کہا کہ اس مسئلہ کی تحقیق کے لیے میں کچھ وقت فارغ کرکے دارالافتاء میں آؤں گا۔ چنانچہ ایک دن حضرت مدنی تشریف لائے اور کتابوں کی مراجعت کرکے گفتگو ہوتی رہی۔ حضرت مدنی نے اپنے دلائل بیان فرمائے اور مفتی اعظم نے اپنے دلائل پیش کئے، یہاں تک کہ یہ گفتگو تین دن تک چلی اور آخر میں حضرت مدنی نے مفتی صاحب سے فرمایا کہ: ’’بات آپ کی بھی بے وزن نہیں ہے، لیکن میرا اس پر شرح صدر نہیں ہوتا اور آپ کو میرے دلائل پر اطمینان نہیں ہور ہا، اس لیے آپ اپنے موقف پر رہیں اور میں اپنے موقف پر۔‘‘
حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد حضرت مدنی رحمہ اللہ میرے بہنوئی مولانا نبیہ حسن صاحب کے مکان پر تشریف لائے۔ میں بھی حاضر تھا۔ حضرت اس وقت ایسے ہی موزے (رقیق منعل) پہنے ہوئے تھے۔ مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو حضرت مدنی نے ان موزوں پر مسح فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ: ’’ مفتی صاحب! آپ کے نزدیک تو یہ مسح درست نہیں ہوا اس لیے میرے پیچھے آپ کی نماز بھی نہ ہوگی۔ اب آپ ہی امامت فرمائیں ۔‘‘ حضرت کے ارشاد پر میں نے بھی بلاتکلف خود امامت کی۔
حضرت مفتی صاحب یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ ان حضرات نے اختلاف کرنے کا طریقہ بھی اپنے عمل سے سکھایا ہے۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر 288/1 )

اختلاف کے باوجود باہمی محبت و عقیدت

علمی اختلافات کے علاوہ شدید ترین سیاسی اختلاف رائے کے مواقع پر بھی اکابر نے اپنی باہمی محبت و عقیدت میں ذرہ برابر کمی نہ آنے دی۔ ربط و تعلق کا والہانہ انداز حسب معمول برقرار رکھ کر ہمارے لئے قابل تقلید نمونے چھوڑ گئے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ حضرت مدنی کو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے سیاسی مسلک سے اختلاف تھا، لیکن ان کے قلب میں نہ صرف حضرت تھانوی کی قدر و منزلت کم نہ تھی بلکہ وہ حضرت تھانوی کے ساتھ اپنے بڑوں جیسا معاملہ ہی فرماتے تھے۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ عین اس زمانے میں جب کہ حضرت تھانوی اور حضرت مدنی کا سیاسی اختلاف الم نشرح ہوچکا تھا، ایک مرتبہ حضرت مدنی نے دیوبند کے بعض اساتذہ سے کہا کہ ’’ عرصہ ہوا ہمارا تھانہ بھون جانا نہیں ہوا اور حضرت تھانوی کی زیارت کو دل چاہتا ہے"‘‘ چنانچہ حضرت مدنی اور دارالعلوم دیوبند کے بعض دوسرے اساتذہ تھانہ بھون کے لیے روانہ ہوئے۔ اتفاق سے گاڑی رات گئے تھانہ بھون پہنچی اور یہ حضرات ایسے وقت خانقاہ کے دروازے پر پہنچے کہ خانقاہ بند ہوچکی تھی۔ ان حضرات کو یہ معلوم تھا کہ خانقاہ کا نظام الاوقات مقرر ہے، اس لیے نہ اس نظام کی خلاف ورزی مناسب سمجھی اور نہ حضرت تھانوی کو رات گئے تکلیف دینا پسند کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مدنی کو بڑا جفاکش اور مجاہدانہ زندگی کا عادی بنایا تھا، چنانچہ آپ اپنے ساتھیوں سمیت خانقاہ کے دروازے کے سامنے چبوترے ہی پر لیٹ کر سوگئے۔
حضرت تھانوی فجر کی اذان کے وقت جب اپنے مکان سے خانقاہ کی طرف تشریف لائے تو دیکھا کہ کچھ لوگ باہر چبوترے پر لیٹے ہیں۔ اندھیرے میں صورتیں نظر نہ آئیں۔ چوکیدار سے پوچھا تو اس نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ قریب پہنچ کر دیکھا تو حضرت مدنی اور حضرت مولانا اعزاز علی صاحب جیسے حضرات تھے۔ حضرت تھانوی نے اچانک انہیں دیکھا تو مسرور بھی ہوئے اور اس بات کا صدمہ بھی ہوا کہ یہاں پہنچ کر اس حالت میں انہوں نے رات گزاری۔ چنانچہ ان سے کہ : ’’حضرت ! آپ یہاں کیوں سو گئے؟ ‘‘ ۔ حضرت مدنی نے فرمایا کہ: ’’ ہمیں معلوم تھا کہ آپ کے یہاں ہر چیز کا نظم مقرر ہے، خانقاہ اپنے مخصوص وقت پر بند ہوجاتی ہے اور پھر نہیں کھلتی۔‘‘ حضرت تھانوی نے فرمایا کہ: ’’خانقاہ کا تو نظم بلاشبہ یہی ہے، لیکن غریب خانہ تو حاضر تھا اور اس پر تو آپ جیسے حضرات کے لیے کوئی پابندی نہ تھی۔‘‘ حضرت مدنی نے فرمایا کہ: ’’ ہم نے رات گئے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا۔‘‘
غرض اس طرح یہ حضرات تھانہ بھون گئے اور ایک دو روز رہ کر واپس تشریف لے آئے۔ (ایضا 287/1)

اکابر کی وسعت ظرفی

تاریخ اسلام کے ہر دور میں یہ قابل فخر روایت موجود رہی ہے کہ اکابر نے اپنے اصاغر کے اختلاف رائے کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم کیا ہے۔ اگر ضرورت محسوس کی تو قوی دلائل اور شستہ و متین اسلوب میں علمی مکالمہ سے کام لیا، مگر اصاغر کو دیوار سے لگانا یا انہیں دینی حلقوں میں مطعون ٹھہرانا ان کی سیرت میں بالکل ناپید طرز عمل تھا۔ ماضی قریب میں بھی یہ شاندار علمی روایت بڑی آب و تاب کے ساتھ موجود تھی۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (وفات 16,17 رجب 1362ھ/19,20 جولائی 1943ء کی درمیانی رات) فرماتے ہیں کہ مولوی محمد رشید مرحوم جنہوں نے مجھ سے پڑھا تھا، بڑے حق گو لیکن اس کے ساتھ بڑے باادب تھے۔ ایک بار میں مسجد میں بیٹھا تھا۔ وہاں ریزگاری کی ضرورت پڑی۔ ایک صاحب کے پاس موجود تھی، ان کو روپیہ دے کر میں نے ریزگاری لے لی۔ مولوی بھی اس وقت موجود تھے، وہ آگے بڑھے اور مجھ سے پوچھا کہ یہ معاملہ کیا بیع میں تو داخل نہیں۔ مجھے فوراً تنبہ ہوا، میں نے کہا کہ خیال نہیں رہا، یہ معاملہ واقعی بیع میں داخل ہے جو مسجد میں جائز نہیں۔ پھر میں نے ان صاحب کو جن سے معاملہ ہوا تھا، ریزگاری واپس کرکے کہا کہ میں اب اس معاملہ کو فسخ کرتا ہوں۔ پھر میں نے کہا کہ مسجد سے باہر چلو، وہاں پھر اس معاملہ کو ازسرنو کریں گے۔ چنانچہ مسجد سے باہر آکر اور روپیہ دے کر میں نے ان سے ریزگاری لے لی۔ مولوی رشید مرحوم کی اس بات سے میرا جی بڑا خوش ہوا، کیونکہ ظاہر کرنا تو ضروری ہی تھا، لیکن انہوں نے نہایت ادب سے ظاہر کیا۔ یہ پوچھا کہ کیا یہ بیع میں تو داخل نہیں؟ (آپ بیتی 272/2. شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ)
ایک بار حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ، حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں مکہ معظمہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت حاجی صاحب کے پاس مولود کا بلاوا آیا۔ حضرت نے مولانا سے پوچھا: مولوی صاحب چلو گے؟ مولانا نے فرمایا کہ: ’’نا، حضرت میں نہیں جاتا، کیونکہ میں ہندوستان میں لوگوں کو منع کیا کرتا ہوں۔ اگر میں یہاں شریک ہوگیا تو وہاں کے لوگ کہیں گے، وہاں بھلے شریک ہوگئے تھے۔‘‘ حاجی صاحب نے بجائے برا ماننے کے مولانا کے اس انکار کی بہت تحسین فرمائی اور فرمایا کہ ’’میں تمہارے جانے سے اتنا خوش نہ ہوتا جتنا تمہارے نہ جانے سے خوش ہوں۔‘‘ حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ اب دیکھئے، پیر سے زیادہ کون محبوب و معظم ہوگا، مگر دین کی حفاظت ان کے اتباع سے بھی زیادہ ضروری ہے، اس لیے دونوں کے ظاہری تعارض کے وقت اسی کو ترجیح دی۔ واقعی حفاظت دین بڑی نازک خدمت ہے۔ سارے پہلوؤں پر نظر رکھنی پڑتی ہے کہ نہ چھوٹوں کو نقصان پہنچے نہ بڑوں کے ساتھ جو عقیدت ہونی چاہیے، اس میں فرق آئے۔ (ایضا 265/2.)

ذہنی اذیت رسانی سے اجتناب

بسا اوقات اختلاف رائے کے نتیجے میں فریقین بے احتیاطی سے اپنے قول و فعل کے ذریعے ایک دوسرے کی ذہنی کوفت کا سبب بنتے ہیں جسے بدقسمتی سے بعض حلقوں کی طرف سے دینی مصلحت کا تقاضا بھی قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ اکابرین امت نے اپنے اختلافات کے عروج میں بھی فریق مخالف کو نیچا دکھانے کے ہر اس عمل سے نہایت سختی سے اجتناب کیا جو اس کے لیے ذہنی اذیت کا ذریعہ بنتا تھا۔
تحریک خلافت کے معاملے میں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ اور آپ کے مایہ ناز شاگرد حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے درمیان رائے کا جو اختلاف تھا، وہ معروف و مشہور ہے,حضرت تھانوی رحمہ اللہ اس قسم کی تحریکات کو چونکہ مسلمانوں کے لیے مفید نہ سمجھتے تھے، اس لیے اس سے علیحدہ رہے، لیکن استاد اور شاگرد دونوں کو اپنے اپنے موقف پر پوری طرح ثابت قدم ہونے کے باوجود اس بات کا پورا یقین تھا کہ یہ رائے کا دیانت دارانہ اختلاف ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ تحریک کے بعض کارکنوں نے تھانہ بھون میں جلسہ کرنے کا ارادہ کیا اور حضرت شیخ الہند کے سامنے یہ تجویز ذکر کی گئی تو حضرت نے سختی سے انکار کیا اور فرمایا کہ: ’’ یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ اگر میں تھانہ بھون میں جلسہ کروں گا تو مولوی اشرف علی کے لیے بڑی تکلیف کا سامان ہوگا۔ ان کو یہ بھی گوارا نہ ہوگا کہ میں تھانہ بھون میں کوئی خطاب کروں اور وہ اس میں موجود نہ ہوں۔ اگر شرکت کریں گے تو یہ ان کے دیانت دارانہ موقف کے خلاف ہوگا، اس لیے یہ کام نہیں کروں گا۔‘‘
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت تحریک کے سلسلہ میں ہندوستان کے مختلف خطوں میں تشریف لے گئے، لیکن تھانہ بھون میں جلسہ نہیں کیا۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر 231/1)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اکابر کے نقش قدم کے مطابق اخلاص و دیانت کے ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین.

جمعیۃ علماء اسلام کا صد سالہ عالمی اجتماع

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جمعیۃ علماء اسلام کے ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ میں شرکت کے لیے پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی اور راقم الحروف کو مولانا فضل الرحمان نے زبانی طور پر یہ کہہ کر دعوت دی تھی کہ آپ حضرات مہمان نہیں بلکہ میزبان ہیں اس لیے ہم دعوت نامہ اور انٹری کارڈ وغیرہ کے تکلف میں نہیں پڑے اور شریک ہونے کا پروگرام بنا لیا۔ چنانچہ مولانا عبدالرؤف ملک، جناب صلاح الدین فاروقی، مولانا احمد علی فاروقی، حافظ شفقت اللہ اور راقم الحروف کانفرنس میں حاضر ہوئے، پنڈال تک پہنچے، اس سے آگے جانے کے لیے ہم سے پاس طلب کیا گیا جو ہمارے پاس نہیں تھا اس لیے وہیں ایک کونے میں بیٹھ کر ہم نے مولانا فضل الرحمان، حافظ حسین احمد، مولانا عطاء الرحمان اور مولانا عبد اللہ کے خطابات سنے اور عصر کی نماز کا وقفہ ہونے پر واپس آگئے۔
کانفرنس میں ملک بھر سے علماء کرام، جماعتی کارکنوں، مختلف مکاتب فکر کے دینی و سیاسی راہنماؤں اور عوام کی وسیع پیمانے پر بھرپور شرکت دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ ملک بھر سے لوگوں کی حاضری، مختلف مذاہب و مسالک کی نمائندگی اور سیاسی جماعتوں کے متعدد راہنماؤں کی شرکت کے باعث ایک بھرپور ’’قومی کانفرنس‘‘ کی صورت اختیار کیے ہوئے تھی جبکہ مختلف ممالک سے علماء کرام کی جماعتوں کے وفود کی تشریف آوری نے اسے فی الواقع ’’عالمی اجتماع‘‘ بنا دیا تھا۔ البتہ مولانا سمیع الحق کی کمی شدت کے ساتھ محسوس ہوئی کہ ان کے پڑوس میں منعقد ہونے والے اس عظیم دینی و قومی اجتماع میں ان کے شریک ہونے سے بلاشبہ کانفرنس کی عظمت و افادیت اور مقصدیت میں اضافہ ہوتا، بہرحال
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
ہمارے خیال میں کانفرنس کا بنیادی مقصد حریت قومی اور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کی قیادت میں اب سے ایک سو سال قبل اس جدوجہد کے طریق کار میں اساسی تبدیلی اور اس کا رخ عسکریت کے محاذ سے عدم تشدد پر مبنی پر امن سیاسی جدوجہد کی طرف موڑ دینے کے تاریخی فیصلے کے ساتھ تجدید عزم اور اس کے تسلسل کو جاری رکھنے کا اعلان تھا جس میں جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت کامیاب رہی ہے اور ہم اس پر جمعیۃ کے قائدین او رکارکنوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
حضرت شیخ الہند کی قیادت میں جمہور علماء ہند نے ایک صدی قبل اپنی جدوجہد کو صرف عسکریت کے محاذ سے پر امن سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ اس کے ساتھ اور بہت سی اہم باتیں اس تاریخی فیصلے کا حصہ تھیں۔ مثلاً یہ کہ اپنی جدوجہد کو دینی حلقوں تک محدود رکھنے کی بجائے انہوں نے جدید تعلیم یافتہ حضرات اور سیاسی کارکنوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا تھا جس کے نتیجے میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین اور ماسٹر تاج الدین انصاری جیسے قد آور سیاسی راہنما تحریک کو میسر آئے تھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلم باشندگان وطن بھی تحریک آزادی حتٰی کہ تحریک خلافت کا حصہ بنے تھے۔ یہ حضرت شیخ الہند کی فہراست و بصیرت اور ان کی ہمہ گیر شخصیت کا اظہار تھا کہ تحریک خلافت کو مہاتما گاندھی کی سربراہی میں غیر مسلم سیاسی کارکنوں کی ہر جگہ بڑی کھیپ مل گئی تھی۔ جبکہ اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ شیخ الہند کی جدوجہد اور فکری راہنمائی کی روشنی میں جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام جیسی دو بڑی جماعتیں جب پورے برصغیر میں متحرک ہوئیں تو ان کی قیادت میں صرف دیوبندی مسلک کے بزرگ شامل نہیں تھے بلکہ دوسرے مذہبی مکاتب فکر مثلاً بریلوی، اہل حدیث، شیعہ اور جدید تعلیم یافتہ طبقوں کی سرکردہ شخصیات بھی اس قیادت کا متحرک حصہ تھیں۔
ہمارے خیال میں شیخ الہند کی راہنمائی میں اب سے ایک صدی قبل کے دینی راہنماؤں نے آزادی و خودمختاری اور نفاذِ اسلام کے دو بنیادی اہداف کے لیے تحریک کا جو نیا رخ طے کیا تھا، اس کی بنیاد میں (۱) عدم تشدد پر مبنی پر امن سیاسی جدوجہد (۲) غیر مسلم باشندگان وطن کی اس تحریک میں شرکت (۳) جدید تعلیم یافتہ حضرات کو اس کی قیادت کے لیے آگے لانا (۴) اور تمام مذہبی مکاتب فکر کو اس تحریک کا عملی حصہ بنانا شامل تھا۔
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے حالیہ ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ کو دیکھ کر یہ اطمینان بخش اندازہ ہوتا ہے کہ دینی جدوجہد کے یہ اہداف اور دائرے نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوئے۔ تحریک شیخ الہند کے میرے جیسے نظریاتی اور شعوری کارکن کے اطمینان اور خوشی کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے اور اسی جذبہ و احساس کے ساتھ ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ کے منتظمین کو اس بامقصد پیش رفت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کر رہا ہوں۔

مذہبی قوتوں کے باہمی اختلافات اور درست طرز عمل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز نے پہلی صدی ہجری کے خاتمہ پر خلافت سنبھالی تھی، اس سے قبل حضرات صحابہ کرام کے درمیان جمل اور صفین کی جنگیں ہو چکی تھیں اور صلح کے باوجود نفسیاتی طور پر اس ماحول کے اثرات کسی نہ کسی حد تک باقی تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور وہ اموی خلافت کے تسلسل میں ہی برسراقتدار آئے تھے جبکہ بنو امیہ مذکورہ بالا جنگوں میں واضح فریق رہے ہیں۔ اس پس منظر میں حضرت عمر بن عبد العزیز سے ان دو جنگوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو اس خونریزی میں ملوث ہونے سے محفوظ رکھا ہے تو ہم اپنی زبانوں کو بھی ان جھگڑوں میں ملوث ہونے سے بچائیں گے۔
ہمارے بزرگ یعنی اکابر علماء دیوبند قیام پاکستان سے قبل اس کی حمایت یا مخالفت کے حوالہ سے دو گروہوں میں بٹ گئے تھے، باہمی سیاسی محاذ آرائی پوری شدت کے ساتھ ہوئی تھی اور اس کے اثرات خاصے عرصے تک محسوس کیے جاتے رہے۔ مگر جب دونوں گروہ کے علماء کی اکثریت ملک میں نفاذ اسلام کے لیے ایک نکتہ پر آگئی اور اس اتحاد کا کئی مواقع پر عملی مظاہرہ بھی ہوگیا تو اب پچھلی باتوں کو دوبارہ کرید کر نئی نسل کو کنفیوڑ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس لیے مجھ سے اگر کوئی اس حوالہ سے سوال کرتا ہے تو کوفت ہوتی ہے، اکثر ٹال دیتا ہوں اور کبھی حسب موقع ڈانٹ بھی دیا کرتا ہوں۔ اس لیے کہ دونوں طرف ہمارے بزرگ تھے، اگرچہ رائے کا اختلاف تھا اور اپنے وقت پر محاذ آرائی بھی ہوئی تھی مگر وقت گزر گیا ہے اور یہ محاذ آرائی جنگ جمل اور جنگ صفین کی طرح تاریخ کی نذر ہوگئی ہے۔ اب ہمارے لیے حضرت عمر بن عبد العزیز کا مذکورہ بالا تاریخی جملہ ہی راہنمائی فراہم کرتا ہے کہ جب ہم براہ راست اس محاذ آرائی کا حصہ نہیں تھے تو اب زبان و قلم کے ذریعہ اس کا بالواسطہ حصہ کیوں بنیں؟ میں نے دونوں طرف کے بعض کونوں سے ماضی کی تلخیوں کی راکھ سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھتے دیکھا ہے اس لیے یہ عرض کرنے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔
دوسرا یہ کہ میرے طالب علمی کے دور کی بات ہے میں مدرسہ نصرۃ العلوم کا طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ جمعیۃ علماء اسلام کا متحرک کارکن بھی تھا۔ اس دور میں مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ایک بار مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں تشریف لائے تو حضرت مولانا مفتی عبد الواحد نے شہر کے کچھ علماء کرام کو جمع کر لیا جن سے مولانا ہزاروی نے خطاب کیا۔ انہوں نے ایک بات بہت زور دے کر فرمائی کہ آپ میں بہت سے دوستوں نے حضرت مدنی، حضرت امیر شریعت، حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور دوسرے بزرگوں کو دیکھا ہے اور ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ اب آپ کا خیال ہوگا کہ ان جیسے مزید بزرگ سامنے آئیں گے تو ہم ان کی قیادت میں کام کریں گے۔ وہ سب چلے گئے ہیں ان میں سے کوئی نہیں آئے گا اور اب آپ حضرات کو ہمارے جیسے لوگ ہی ملیں گے اس لیے ان کا انتظار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم جیسے لوگوں سے ہی کام لے رہا ہے اس لیے آپ بھی ہمارے ساتھ گزارہ کریں اور کام کے لیے میدان میں نکلیں۔ یہ وقت گزر گیا تو پھر ہم جیسے بھی نہیں ملیں گے۔ حضرت مولانا ہزاروی کی یہ باتیں یاد آتی ہیں تو بہت سی الجھنیں ذہن سے خود بخود محو ہوتی چلی جاتی ہیں اور آج کے کارکنوں سے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ وقت ضائع نہ کریں، جو موجود ہیں ان کو غنیمت سمجھیں اور دینی جدوجہد کے حوالہ سے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں۔ بہتر کی تلاش بہت اچھی چیز ہے لیکن بہتر کے انتظار میں موجود کو گنوا بیٹھنا بھی کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے۔
جبکہ تیسری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بہت سے دوستوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ سب لوگ متحد ہوں گے تو ہم کام کریں گے۔ اہل حق کا اتحاد بہت مبارک چیز ہے لیکن دینی جدوجہد تو اپنے اپنے دائرہ میں بھی کی جا سکتی ہے بلکہ آج کی تکنیک یہ ہے کہ ایک کام کو مختلف زاویوں اور حوالہ سے کیا جائے تو وہ زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ سیکولر حلقوں اور این جی اوز کو دیکھ لیں کہ وہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں حلقوں میں تقسیم ہیں اور اپنا اپنا کام کیے جا رہی ہیں۔ ایک ہی ایجنڈے کے لیے بیسیوں الگ الگ این جی اوز متحرک نظر آتی ہیں، البتہ ان کے درمیان انڈراسٹینڈنگ اور رابطہ موجود رہتا ہے اور بوقت ضرورت ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتی ہیں۔ آپ پاکستان میں سیکولر ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز کو شمار کرنا چاہیں تو ان کی فہرست سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں بنے گی جبکہ ان کا کام اور اس کے اثرات دیکھیں تو سر چکرانے لگتا ہے۔ عسکری جنگوں میں بھی صف بندی کی ترتیب قصہ پارینہ بن چکی ہے، یہ جنگیں اب الگ الگ مورچوں اور مراکز میں بیٹھ کر لڑی جاتی ہیں، البتہ ان میں پیش قدمی اور کامیابی کا انحصار باہمی ربط و تعاون اور اعتماد و مفاہمت پر ہوتا ہے۔
میں خود دینی جماعتوں کے اتحاد کے لیے ہر وقت اور ہر سطح پر کوشاں رہتا ہوں مگر اسے کام کرنے کی شرط قرار دینا دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ ہم اگر موجود دائروں میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کام کریں، ایک دوسرے کی مخالفت نہ کریں، باہمی مفاہمت و تعاون کی فضا قائم کر لیں اور مشترکہ ملی و قومی مقاصد پر متفقہ موقف سامنے لا کر اس کے لیے کام کرتے رہیں تو اس کے اثرات بھی کمزور نہیں ہوں گے۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ اتحاد کی کوشش بھی جاری رہے گی کہ بہرحال اتحاد میں برکت ہوتی ہے۔

امام عیسیٰ بن ابانؒ : حیات و خدمات (۱)

مولانا عبید اختر رحمانی

نام ونسب

نام عیسیٰ، والد کانام ابان اورداداکانام صدقہ ہے۔ پورانسب نامہ یہ ہے: عیسیٰ بن ابان بن صدقہ بن عدی بن مرادنشاہ۔کنیت ابوموسیٰ ہے۔( الفہرست لابن الندیم ۱/۲۵۵، دار المعرفۃ بیروت،لبنان)
کنیت کے سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقریباًسارے ترجمہ نگاروں نے جن میں قاضی وکیع،قاضی صیمری، خطیب بغدادی، ابن جوزی ،حافظ ذہبی ،حافظ عبدالقادر قرشی،حافظ قاسم بن قطلوبغا وغیرہ شامل ہیں، سبھی نے آپ کی کنیت ابوموسیٰ ذکر کی ہے، محض حافظ ابن حجر نے آپ کی کنیت ابومحمد ذکر کی ہے(لسان المیزان ۶/۲۵۶) اورکسی بھی تذکرہ نگار نے اس کی بھی صراحت نہیں کی ہے کہ آپ کی دوکنیت تھی ،ہرایک نے آپ کی محض ایک ہی کنیت ’ابوموسی‘کا ذکر کیاہے،بادی النظر میں ایسامحسوس ہوتاہے کہ شاید اس بارے میں حافظ ابن حجر سے کسی قسم کاذہول ہواہے۔
عیسیٰ بن ابان کے خاندان کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چلتاکہ ان کے بیٹے بیٹیاں کتنے تھے،اوردیگر رشتہ دار کون کون تھے۔ ایسا صرف عیسیٰ بن ابان کے ساتھ نہیں بلکہ دیگر اکابرین کے ساتھ بھی ہوا ہے، عیسیٰ بن ابان کے حالات کی تلاش وتحقیق کے بعد ان کے دورشتہ داروں کا پتہ چلتاہے۔ 
(۱) ابوحمزہ بغدادی: آپ کانام محمد،والد کانام ابراہیم اور کنیت ابوحمزہ ہے، آپ کا شمار کبارصوفیاء میں ہوتاہے، آپ نے اپنے عہد کے جلیل القدر محدثین سے علم حاصل کیاتھا ،علم قراء ت بالخصوص ابوعمرو کی قرات میں آپ ممتاز مقام کے مالک تھے،دنیا جہان کا سفر کیاتھا، آپ کا حلقہ ارادت ومحبت کافی وسیع تھا، ایک جانب جہاں آپ جنید بغدادی ،سری سقطی اوربشرحافی جیسے اکابر صوفیاء کے ہم نشیں تھے تو دوسری جانب امام احمد بن حنبل کے مجلس کے بھی حاضرباش تھے اوربعض مسائل میں امام احمد بن حنبل بھی آپ کی رائے دریافت کرتے تھے۔ تذکرہ نگاروں میں سے بعض نے آپ کو عیسیٰ بن ابان کا’ مولی‘قراردیاہے ،جب کہ بعض نے آپ کو عیسیٰ بن ابان کی اولاد میں شمار کیا ہے۔ اس بارے میں شاید قول فیصل ابن الاعرابی کا قول ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے بارے میں عیسیٰ بن ابان کی اولاد سے دریافت کیاتو انہوں نے اعتراف کیاکہ آپ کا سلسلہ نسب عیسیٰ بن ابان سے ہی ملتاہے۔(سیر اعلام النبلاء، ۱۳/۱۶۵، تاریخ دمشق ۵۱/۲۵۲،ترجمہ نمبر ۶۰۶۲) آپ کا انتقال ۲۷۰ہجری مطابق ۸۸۳ء میں ہوا۔ (الاعلام للزرکلی ۵/۲۹۴)
(۲) نائل بن نجیح:نام اورکنیت ابوسہل ہے۔ نائل بن نجیح کو متعدد تذکرہ نگاروں نے عیسیٰ بن ابان کا ماموں قراردیاہے، لیکن مجھ کو اس وجہ سے توقف تھاکہ عیسیٰ بن ابان کے نام سے ایک اور راوی ہیں جورقاشی ہیں۔ بظاہربصرہ کا ہونے کی وجہ سے زیادہ احتمال یہی تھا کہ نائل عیسیٰ بن ابان حنفی کے ہی ماموں ہیں، لیکن کہیں اور اس کی وضاحت نہیں مل رہی تھی۔ تفتیش کے بعد یہ بات ملی کہ حافظ ابن کثیر نے وضاحت کی ہے کہ نائل بن نجیح ،ابوسہل بصری اورجن کو بغدادی بھی کہاجاتاہے، عیسیٰ بن ابان القاضی کے ماموں ہیں۔ قاضی کی وضاحت سے اس کی تعیین ہوگئی کہ نائل بن نجیح صاحب تذکرہ عیسیٰ بن ابان کے ہی ماموں ہیں۔ (التکمیل فی الجرح والتعدیل ومعرفۃ الثقات والضعفاء والمجاھیل ۱/۳۳۰)

اساتذہ ومشائخ

آپ نے ابتدائی زندگی میں کس سے تعلیم حاصل کی اورکن شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیا،اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ صرف اتناتذکرہ ملتاہے کہ ابتداء میں اصحاب حدیث میں تھے اورانہی کے مسلک پر عمل پیرا تھے، بعد میں امام محمد سے رابطہ میں آنے پر حنفی فکر وفقہ سے متاثرہوکر حنفی ہوگئے:
ومنھم ابو موسی عیسی بن ابان بن صدقۃ، وکان من اصحاب الحدیث، ثم غلب علیہ الرای (طبقات الفقہاء لابی اسحاق الشیرازی صفحہ50 ، من مکتبہ مشکاۃ)
’’اور ان میں سے (فقہاء حنفیہ)ایک عیسیٰ بن ابان بن صدقہ بھی ہیں۔ وہ اصحاب حدیث میں تھے، پھر ان پرفقہ غالب آگئی۔‘‘
علم حدیث کی تحصیل انہوں نے اپنے عہد کے جلیل القدر محدثین سے کی۔ حافظ ذہبی اس بارے میں لکھتے ہیں:
وحدّث عن ھشیم واسماعیل بن جعفر ویحییٰ بن زائدۃ (تاریخ الاسلام للذہبی 16/ 312)
’’ہشیم، اسماعیل بن جعفر اوریحییٰ بن ابی زائدہ سے انہوں نے روایت کی ہے۔‘‘
امام عیسیٰ بن ابان کس طرح محدثین کی صف سے نکل کراہل فقہ کی جماعت میں شامل ہوئے، اس تعلق سے ایک دلچسپ واقعہ خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں عیسیٰ بن ابان کے ترجمہ میں محمد بن سماعہ سے نقل کیاہے:
عیسیٰ بن ابان ہمارے ساتھ اسی مسجد میں نماز پڑھاکرتے تھے جس میں امام محمد بن حسن الشیبانی نماز پڑھتے تھے اورفقہ کی تدریس کے لیے بیٹھاکرتے تھے۔میں (محمد بن سماعہ)عیسیٰ بن ابان کو محمد بن حسن الشیبانی کی مجلس فقہ میں شرکت کے لیے بلاتا رہتا تھا، لیکن وہ کہتے تھے کہ یہ وہ لوگ ہیں جواحادیث کی مخالفت کرتے ہیں۔ (ھولاء قوم یخالفون الحدیث)۔ عیسیٰ بن ابان کو خاصی احادیث یاد تھیں۔ ایک دن ایساہوا کہ فجر کی نماز ہم نے ساتھ پڑھی۔ اس کے بعد میں نے عیسیٰ بن ابان کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ امام محمد بن حسن کی مجلس فقہ نہ لگ گئی۔ پھر میں ان کے قریب ہوا اور کہا، یہ آپ کے بھانجے ہیں، یہ ذہین ہیں اوران کو حدیث کی معرفت بھی ہے۔ میں ان کو جب بھی آپ کی مجلس فقہ میں شرکت کی دعوت دیتاہوں تویہ کہتے ہیں کہ آپ حضرات حدیث کی مخالفت کرتے ہیں۔ امام محمد ان کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : اے میرے بیٹے، تم نے کس بنا پر یہ خیال کیاکہ ہم حدیث کی مخالف کرتے ہیں؟ (یعنی ہمارے کون سے ایسے مسائل اورفتاوی ہیں جس میں حدیث کی مخالفت کی جاتی ہے؟)پھراسی کے ساتھ امام محمد نے نصیحت بھی فرمائی: لا تشھد علینا حتی تسمع منا، ہمارے بارے میں کوئی رائے تب تک قائم مت کرو جب تک ہماراموقف نہ سن لو۔
عیسیٰ بن ابان نے امام محمد سے حدیث کے پچیس ابواب کے متعلق سوال کیا (جن کے بارے میں ان کو شبہ تھا کہ ائمہ احناف کے مسائل اس کے خلاف ہیں)۔ امام محمد نے ان تمام پچیس ابواب حدیث کے متعلق جواب دیا اوران احادیث میں سے جومنسوخ تھیں، اس کو بتایااوراس پر دلائل اورشواہد پیش کیے۔ عیسیٰ بن ابان نے باہر نکلنے کے بعد مجھ سے کہاکہ میرے اورروشنی کے درمیان ایک پردہ حائل تھاجو اٹھ گیا۔ میر انہیں خیال کہ اللہ کی زمین میں اس جیسا (صاحب فضل وکمال) کوئی دوسرابھی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے امام محمد کی شاگردی اختیار کی۔ (تاریخ بغداد، جلد12، صفحہ480، تحقیق دکتوربشارعواد معروف، مطبع دارالغرب الاسلامی)
نوٹ:اس سند کے ایک راوی احمد بن مغلس الحمانی ہیں جن کی محدثین نے تضعیف اورتکذیب کی ہے، لیکن تاریخی شخصیات اورروایات کے بارے میں وہی شدت پسندی برقراررکھنا جو کہ حدیث کے بارے میں ہے،ایک غلط خیال اورنظریہ ہے۔ یہ بات تقریباً ان کے بیشترترجمہ نگاران نے بیان کی ہے کہ وہ اصحاب حدیث میں سے تھے، بعد میں انہوں نے فقہ کی جانب رخ کیا۔ خطیب بغدادی کا بیان کردہ واقعہ ہمیں صرف یہ بتاتاہے کہ محدثین کی جماعت میں سے نکل کر فقہاء کی جماعت میں وہ کیسے داخل ہوگئے، اس کاپس منظرکیاتھا اور بس۔ ظاہر ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اس واقعہ کو قبول نہ کیاجائے۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی جس کی وجہ سے امام عیسیٰ بن ابان محدثین کی صف سے نکل کر فقہاء کی صف میں اوربطور خاص فقہائے احناف کی صف میں شامل ہوئے ،جن کے خلاف ایک عام پروپگنڈہ کیا گیا تھا کہ وہ رائے کو حدیث پرترجیح دیتے ہیں اورحدیث کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسی پس منظر اوروجہ کو احمد بن مغلس الحمانی نے بیان کیاہے اوراس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے اس واقعے کو قبول نہ کیا جائے۔

امام محمد سے تحصیل فقہ 

حافظ ذہبی نے بھی سیر اعلام النبلاء میں اس کی وضاحت کی ہے کہ امام عیسیٰ بن ابان نے امام محمد سے تحصیل فقہ کیا تھا۔ چنانچہ وہ سیر اعلام النبلاء (جلد10،صفحہ 440)میں لکھتے ہیں: فقیہ العراق، تلمیذ محمد ابن الحسن، کہ وہ عراق کے فقیہ اورامام محمد کے شاگرد تھے۔حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں: وتفقہ علیہ یعنی عیسیٰ بن ابان کے فقہ میں خصوصی استاذ محمد بن الحسن ہیں۔(لسان المیزان ۶/۲۵۶)
عیسیٰ بن ابان نے کتنی مدت تک امام محمد سے تحصیل علم کیا؟ ابن ندیم نے الفہرست میں ذکر کیاہے کہ انہوں نے امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے بہت کم مدت تک تحصیل علم کیا: ویقال انہ قلیل الاخذ عن محمد بن الحسن۔ (الفہرست لابن الندیم ۱/۲۵۴) یہی بات وکیع نے بھی اخبارالقضاۃ میں لکھی ہے کہ ان کا امام محمد سے تحریری طورپر استفادہ کا تعلق کم رہا: ان عیسی بن ابان قلیل الکتاب عَن مْحَمَّد بن الحَسَن (اخبارالقضاۃ ۲/۱۷۱) 
الجواہرالمضیءۃ فی طبقات الحنفیۃ میں اس مدت کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ وہ مدت چھ مہینے کی تھی، چنانچہ صاحب طبقات الحنفیہ ابن ابی الوفاء ذکرکرتے ہیں: تفقہ علی محمد بن الحسن، قیل انہ لزمہ ستۃ اشھر۔ (الجواہر المضیءۃ فی طبقات الحنفیہ ص 272،مکتبہ مشکاۃ)
لیکن مشکل یہ ہے کہ دونوں جگہ یعنی ابن ندیم کی الفہرست اورالجواہرالمضیءۃ میں اس قول کو "قیل" سے نقل کیاگیاہے جوکہ کمزور اقوال کے نقل کے لیے خاص ہے،جب کہ دوسری جانب ان کے ترجمہ نگاروں نے ان کے فقہ کے اساتذہ میں امام محمد کاخاص طورسے نام لیاہے۔ اس سے اس قیاس کی تائید ہوتی ہے کہ امام عیسیٰ بن ابان کی امام محمد کی شاگردی کی مدت خاصی طویل ہوگی، چھ مہینے کی مختصر مدت نہیں ہوگی۔ مشہور حنفی فقیہ قاضی صیمری امام طحاوی کے واسطہ سے ابوخازم سے نقل کرتے ہیں:
انما لزم عیسی بن ابان محمد بن الحسن ستۃ اشھر، ثم کان یکاتبہ الی الرقۃ (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، ۱/۱۴۷، ابو عبد اللہ الصیمری الحنفی المتوفی ۴۳۶ھ، عالم الکتب بیروت)
’’ابوخازم کہتے ہیں کہ عیسی بن ابان نے امام محمد سے چھ مہینے براہ راست استفادہ کیا، بعد میں جب امام محمدکو ہارون رشید اپنے ساتھ رقہ لے گیا تو عیسیٰ بن ابان نے امام محمد سے خط وکتابت کے ذریعہ استفادہ کیا۔‘‘
صیمری کی نقل کردہ روایت تسلیم کرنے سے یہ تومعلوم ہوتاہے کہ عیسیٰ بن ابان، امام محمد کے ’’رقہ ‘‘چلے جانے کے بعد بھی خط وکتابت کے ذریعہ مستفید ہوتے رہے۔ ابن ابی العوام کی تصنیف ’فضائل ابی حنیفہ‘ سے معلوم ہوتاہے کہ امام محمد سے براہ راست استفادہ کی مدت گیارہ مہینے تھی، چنانچہ وہ ابوخازم سے ہی روایت نقل کرتے ہیں کہ :
قال لی عبد الرحمن بن نابل: ما جالس عیسی بن ابان محمد بن الحسن الا احد عشر شھرا، وتوفی عیسی بن ابان سنۃ عشرین ومائتین (فضائل ابی حنیفۃ واخبارہ ومناقبہ، ۱/۳۴۰، الناشر: المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمۃ)
’’مجھ سے عبدالرحمن بن نابل نے کہا: عیسیٰ بن ابان کے امام محمد سے استفادہ کی کل مدت گیارہ مہینے ہے اور عیسیٰ بن ابان کاانتقال ۲۲۰ ہجری میں ہوا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ماقبل میں جوکچھ عرض کیاگیا،یہ تمام ہی باتیں تحقیق کے معیارپر پوری نہیں اترتی ہیں۔ امام محمد کا رقہ جاناان کے انتقال سے کئی برس قبل کا واقعہ ہے۔ آپ رقہ میں کتنی مدت رہے،اس کے بارے میں بروکلمان نے لکھاہے کہ کئی سال رہے،پھر رقہ کی قضاء سے آپ کو معزول کردیاگیا۔ اس درمیان آپ بغداد میں رہے، پھر قاضی القضاۃ بنائے گئے اورپھر ہارون رشید کے ساتھ’ رَے ‘گئے تھے کہ وہیں انتقال ہوگیا۔(تفصیل کے لیے دیکھئے :امام محمد بن الحسن شیبانی اوران کی فقہی خدمات ص:۳۱۱ تا۵۲۱)اس سے واضح ہے کہ عیسیٰ بن ابان نے آپ سے کئی سال تک استفادہ کیاہے،کیوں کہ رقہ کا واقعہ امام محمد کی وفات سے کئی سال قبل کا ہے اور یہ بالکل غیرفطری ہے کہ رقہ میں جب تک امام محمد رہیں تو عیسیٰ بن ابان ان سے خط وکتابت کے ذریعہ استفادہ کریں، لیکن جب امام محمد معزول ہوکر بغداد میں تشریف فرماہوں تو عیسیٰ بن ابان استفادہ نہ کریں اورجب رَے چلے جائیں تو وہاں جاکر استفادہ نہ کریں۔ ماقبل میں جتنے اقوال امام محمد سے استفادہ کے سلسلے میں گزرے ہیں، ان کے بارے میں ہماراخیال یہ ہے کہ یہ ابتداء کی مدت بتائی جارہی ہے کہ عیسیٰ بن ابان کو ابتداء میں کس قدر استفادہ کا براہ راست موقع ملا۔
امام محمد علیہ الرحمہ سے طویل استفادہ کا ہی فیض تھاکہ عیسیٰ بن ابان کی امام محمد کے اقوال وعلوم پر گہری نگاہ تھی۔ جو بات دوسروں کو بھی معلوم نہیں ہوتی تھی، وہ عیسیٰ بن ابان کے علم میں ہوتی تھی،چنانچہ ایک واقعہ میں انہوں نے وراثت کے مسئلہ میں نواسوں اورپوتوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا توبعض فقہائے احناف نے ان پر ائمہ احناف کے قول سے باہر نکلنے کر فیصلہ کرنے کی بات کہی۔ عیسیٰ بن ابان نے کہا:میں نے جو فیصلہ کیاہے، وہ امام محمد کا بھی قول ہے۔ اس کو بکار بن قتیبہ،ہلال بن یحییٰ اورامام محمد کے دوسرے شاگرد جان نہ سکے، لیکن ابوخازم نے اعتراف کیاکہ یہ امام محمد بن حسن کا ہی قول ہے اور عیسیٰ بن ابان سچ کہتے ہیں۔ (اخبار ابی حنیفۃ۱/۱۵۲)
امام عیسیٰ بن ابان نے امام ابویوسف سے کوئی استفادہ کیایانہیں کیا، اس بارے میں عیسیٰ بن ابان کے تمام سوانح نگار خاموش ہیں۔ قاضی وکیع لکھتے ہیں: ولم یخبرنی انسان انہ رآہ عند ابی یوسف (اخبار القضاۃ۲/۱۷۱) ’’مجھے کسی بھی شخص نے یہ نہیں بتایاکہ اس نے عیسیٰ بن ابان کو ابویوسف کے پاس دیکھاہے‘‘۔ اس سے انداز ہوتاہے کہ عیسیٰ بن ابان نے امام ابویوسف سے استفادہ نہیں کیا۔ امام ابویوسف سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ شاید یہ ہوگی کہ امام محمد کے انتقال سے کئی برس قبل امام ابویوسف کا انتقال ہوچکاتھا، یعنی جس وقت وہ امام محمد سے وابستہ ہوئے، اس سے پہلے امام ابویوسف کاانتقال ہوچکاتھا اورجب امام ابویوسف باحیات تھے، ان سے اس مسلکی اورگروہی اختلاف کی بناء پر استفادہ نہیں کیاہوگا۔

تلامذہ

مختلف ذمہ داریوں بالخصوص کارِ قضا کی نازک فریضہ کی ادائیگی کے ساتھ عیسیٰ بن ابان نے درس وتدریس کا فریضہ بھی انجام دیا۔ عیسیٰ بن ابان کی بہتر تعلیم وتربیت کا نتیجہ تھاکہ آپ کے شاگرد آگے چل کر آسمان علم وفضل کے آفتاب وماہتاب ہوئے۔ عیسیٰ بن ابان کے چند ممتاز شاگردوں کا یہاں ذکر کیاجاتاہے۔
ہلال بن یحییٰ الرائے (000 ۔ 245 ھ 236 000 ۔ 859 م): آپ کاشمار فقہ حنفی کے ممتاز ترین فقہاء میں ہوتا ہے۔ بصرہ کے قاضی رہے۔ آپ عیسیٰ بن ابان کے شاگرد ہیں، اور آپ نے ہی اولاًعلم شروط وسجلات میں تصنیف کی۔
ابوخازم ( 000 ۔ 292 ھ 236 000 ۔ 905 م) : آپ کا نام عبدالحمید اوروالد کانام عبدالعزیز ہے، ابوخازم کنیت ہے۔ آپ بصرہ کے رہنے والے تھے، شام، کوفہ، کرخ، بغداد وغیرہ میں آپ نے قضاکی ذمہ داریاں انجام دیں۔ علم وعمل اور زہد وورع میں آپ کا مقام بہت بلند ہے۔ امام طحاوی آپ کے شاگرد ہیں۔
بکاربن قتیبہ (182 ۔ 270 ھ 236 798 ۔ 884 م): آپ کے علمی کمال بالخصوص فقہ وحدیث کی جامعیت پرمحدثین کااتفاق ہے۔ ۲۴۶ھ میں آپ مصر کے قاضی بنے ،لیکن ابن طولون کے ایک حکم کی تعمیل اپنی اصول پرستی کی بناپر نہ کرسکنے کی وجہ سے قید کردیے گئے۔ قید میں بھی حدیث وفقہ کا درس جاری رہا، لوگ مسائل پوچھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ امام طحاوی آپ کے خاص شاگرد ہیں۔ دوران قید ہی آپ کا انتقال ہوا، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ (الاعلام للزرکلی۲/۶۱)
حسن بن سلام السواق: آپ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتی ہیں۔ آپ نے اپنے دور کے جلیل القدر محدثین سے حدیث کا علم حاصل کیا، آپ حدیث کے معتبر راوی ہیں۔ حافظ ذہبی نے آپ کو الامام، الثقۃ، المحدث کے گراں قدر الفاظ سے یاد کیاہے۔ ۷۷۲ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔ (سیراعلام النبلاء)

صورت وسیرت اور ذہانت وفطانت

امام عیسیٰ بن ابان کو اللہ تعالیٰ نے حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت سے بھی نوازا تھا۔ آپ بڑے حسین وجمیل تھے۔ ابن سماعہ جوان کے رفیق بھی تھے، وہ کہتے ہیں: کان عیسی حسن الوجہ (الجواہر المضیءۃ فی طبقات الحنفیہ) عیسی بن ابان خوبصورت شخص تھے۔ آپ صرف حسین ہی نہیں تھے بلکہ عفیف بھی تھے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت سے بھی پورے طورپر متصف تھے۔ابن ندیم الفہرست میں لکھتے ہیں ’’وہ پاک دامن شخص تھے‘‘۔ وکان عیسی شیخا عفیفا۔ (الفہرست لابن الندیم)
ابوحازم جواپنے دور کے انتہائی نامورقاضی وفقیہ تھے، ان کا قول ہے کہ میں نے اہل بصرہ کے نوجوانوں میں عیسیٰ بن ابان اور بشربن الولید سے زیادہ ذہین کسی کو نہیں دیکھا۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ وہ ابتداء سے ہی بہت ذہین وفطین تھے۔ حافظ ذہبی نے بھی ان کے ترجمہ میں ایک جگہ ان کو وکان معدودا من الاذکیاء کے الفاظ سے یاد کیاہے یعنی وہ منتخب ترین ذہین لوگوں میں سے ایک تھے۔(تاریخ الاسلام للذہبی۔ جلد16، صفحہ 312) حافظ ذہبی نے ہی دوسری جگہ ان کوذکاء مفرط(وفور ذہانت)سے متصف کیاہے۔ (سیراعلام النبلاء 10/440)

فقہ وحدیث میں مقام ومرتبہ

عیسیٰ بن ابان کا دور علم حدیث وفقہ کا زریں دور ہے۔ آپ نے اپنے عہد کے مشہور اورجلیل القدر محدثین سے حدیث کا علم حاصل کیاتھا اورخاصی بڑی عمر تک آپ کا تعلق محدثین کے گروہ کے ساتھ تھا،اورامام محمد سے رابطہ سے قبل آپ کی دلچسپی کا محور فقط علم حدیث ہی تھا۔ آپ کو اللہ نے جس ذہانت وفطانت سے نوازاتھا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آپ کا علم حدیث میں بھی ممتاز مقام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ا بن سماعہ جیسے مشہورمحدث اورفقیہ کا آپ کا متعلق تاثرہے: وکان عیسیٰ حسن الحفظ للحدیث (اخبارابی حنیفۃ واصحابہ ۱/۱۳۲)عیسیٰ بن ابان حدیث کو اچھی طرح یاد رکھنے والے تھے۔ ابن سماعہ نے جب عیسیٰ بن ابان کاامام محمد سے تعارف کرایاتو یہ کہا: ھذا ابن اخیک ابان بن صدقۃ الکاتب، ومعہ ذکاء ومعرفۃ بالحدیث (اخبارابی حنیفۃ واصحابہ ۱/۱۳۲) یہ آپ کے بھتیجے ابان بن صدقہ ہیں،یہ ذہین ہیں اور علم حدیث سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ پھر اسی واقعہ میں یہ بھی اعتراف ہے کہ امام محمد سے انہوں نے حدیث کے پچیس ابواب کے متعلق اپنے اشکالات دوہرائے جس سے پتہ چلتاہے کہ ان کو علم حدیث میں کتنا ممتاز مقام حاصل تھا۔ اگریہ سب اعتراف نہ بھی ہوتا ،تب بھی ان کی کتاب الحجج الصغیر کا جو خلاصہ امام جصاص رازی نے ’’الفصول فی الاصول‘‘ میں پیش کیاہے، اس کو پڑھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ کا علم حدیث میں مقام کتنا بلند اور حدیث وآثار سے اصول وفروع کے استنباط میں آپ کو کتنی مہارت اور کتنا رسوخ تھا۔ احادیث وآثار سے آپ نے احناف کے اصول فقہ پر جودادتحقیق دی ہے، اس کو دیکھ کر بے ساختہ یہ کہنا پڑتاہے کہ امام شافعی کے بعد اصول فقہ پر اس طرح سے مجتہدانہ کلام کی نظیر نہیں ملتی۔
امام محمد کی شاگردی میں آکر ان کی خفتہ صلاحیتوں کو جلاملی اورجلد ہی انہوں نے فقہ میں درک اورمہارت حاصل کرلی اور رفتہ رفتہ فقہ کے فن شریف میں اتنی مہارت پہنچائی کہ اس دور کے اور بعد کے اجلہ علماء فقہ میں آپ کی معرفت تامہ اوررسوخ کامل کے معترف ہوگئے۔ بلکہ بعض اجلہ علماء نے توان کی تعریف میں یہاں تک کہہ دیاکہ بصرہ میں ابتداء اسلام سے لے کرعیسیٰ بن ابان کے قاضی ہونے تک ان سے زیادہ بڑافقیہ بصرہ میں قاضی نہیں ہوا۔

جلیل القدر علماء کے اعترافات

امام طحاوی فرماتے ہیں کہ میں نے بکار بن قتیبہ کو کہتے سنا، وہ ہلال بن یحییٰ کا قول نقل کررہے تھے کہ اپنے دور میں مسلمانوں میں عیسیٰ بن ابان سے فقاہت میں بڑھاہوا قاضی کوئی اورنہیں ہے۔ "قال الطحاوی سمعت بکار بن قتیبۃ یقول سمعت ھلال بن یحیی یقول ما فی الاسلام قاض افقہ منہ یعنی عیسی بن ابان فی وقتہ۔ (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ ۱/۱۵۰) جب کہ قاضی بکار بن قتیبہ خود کہتے ہیں: "قال الطحاوی وسمعت بکار بن قتیبۃ یقول کنا لنا قاضیان لا مثل لھما، اسماعیل بن حماد وعیسی بن ابان"۔ امام طحاوی کہتے ہیں کہ میں بکار بن قتیبہ سے سناہے کہ ہمارے (فقہاء حنفیہ)دوقاضی ایسے ہیں جن کی کوئی مثال نہیں، ایک اسماعیل بن حماد اوردوسرے عیسی بن ابان۔(الجواہر المضئیۃ ۱/۴۰۱) خود حافظ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں ان کے فضل وکمال کااعتراف ’’فقیہ العراق‘‘ کے الفاظ سے کیاہے۔ (سیر اعلام النبلاء ۱۰/۴۴۰)اورتاریخ اسلام میں نام کے ساتھ ’’الفقیہ‘‘ کا لاحقہ لگایاہے۔ (تاریخ الاسلام ۵/۶۵۱)
مشہور شافعی عالم ابواسحاق الشیرازی نے طبقات الفقہاء میں ان کو احناف کاممتاز فقیہ تسلیم کیاہے۔حافظ عبدالقادر القرشی نے ’’الامام الکبیر‘‘ کے گراں قدر لقب سے متصف کیاہے (الجواہرالمضئیۃ ۱/۴۰۱) تو حافظ قاسم بن قطلوبغا نے ’’احد الائمۃ الاعلام‘‘ کا گراں قدر لقب تحریر کیاہے۔(تاج التراجم ۱/۲۲۷)اوراسی کے ساتھ ان کے ’’وسعت علم‘‘ کا بھی اعتراف کیاہے۔ (مصدرسابق) مشہور حنفی مورخ ابوالمحاسن یوسف بن تغری بردی لکھتے ہیں: وکان مع کرمہ من اعیان الفقھاء (النجوم الزاہرۃ فی ملوک مصر والقاہرۃ ۲/۲۳۶) سخاوت کے ساتھ ساتھ آپ ممتاز فقہاء میں سے ایک تھے۔ مشہور حنفی امام وعلامہ زاہد الکوثری آپ کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حاصل کلام یہ کہ عیسیٰ بن ابان علم فقہ کے پہاڑ تھے جس کی بلندی اور عظمت کے سامنے سب سرجھکانے لگے۔ (سیرت امام محمدبن الحسن الشیبانی ص۷۰۲)

قضاء 

قضاء کی ذمہ داری بہت بھاری اورگرانقدر ذمہ داری ہے۔ اس میں مسائل واحکام کی واقفیت کے ساتھ ساتھ مردم شناسی اور لوگوں کے مزاج سے واقفیت، بیدار مغزی اورکسی کی ظاہری صورت سے متاثرنہ ہونے کی شرطیں شامل ہیں۔ عیسیٰ بن ابان ان اوصاف سے متصف تھے، لہٰذا ان کی انہی خوبیوں کودیکھتے ہوئے عباسی خلافت میں مامون الرشید کے دور میں قاضی القضاۃ یحییٰ بن اکثم نے ان کو مامون کے ساتھ ’’فم الصلح‘‘ جاتے وقت عسکرمہدی میں اپنانائب بنایا اور پھرواپسی پر ان کو مستقل طورپر بصرہ کا قاضی بنا دیا۔ خطیب بغدادی نے بیان کیا ہے کہ ان کو211 ہجری میں اسماعیل بن حماد کی معزولی کے بعد بصرہ کاقاضی بنایا گیا تھا اور انتقال تک وہ بصرہ کے قاضی رہے۔ اس زمانہ میں بصرہ علمی لحاظ سے عالم اسلام کے گنے چنے شہروں میں شمار ہوتاتھا، ایسے میں ان کوبصرہ کاقاضی بنانایہ بتاتاہے کہ قاضی یحییٰ بن اکثم ان کے علم وفضل سے کتنے متاثر تھے۔
قضاکے باب میں ان کی خاص صفت یہ تھی کہ وہ اپنے حکموں کا اجراء اورفیصلوں کانفاذ بہت جلد کرایاکرتے تھے۔ چنانچہ ابن ندیم ان کی اس خصوصیت کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کان فقیھا سریع الانفاذ للحکم، وہ فقیہ تھے اورحکم کو جلد نافذ کرتے تھے۔ (الفہرست لابن الندیم) یہی بات قاضی وکیع نے بھی لکھی ہے: وکان عیسی سھلا فقیھا سریع الانفاذ للاحکام (اخبارالقضاۃ ۲/۱۷۰) عیسیٰ نرم رو، فقیہ تھے اوراپنے احکام جلد جاری کرایا کرتے تھے۔ قاضی وکیع نے لکھاہے کہ بسااوقات وہ فیصلوں کے اجراء میں اس تیزی سے کام لیتے تھے جس سے بعض حضرات کوشبہ ہوتاتھاکہ احکام کا اتنا اتیز اجرا ونفاذ قاضیوں کے لیے مناسب بھی ہے یانہیں۔
قضاکے باب میں آپ کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ جب تک آپ کو اپنے زیر بحث معاملہ کے فیصلہ پرپورا اطمینان نہ ہوجاتا، فیصلہ صادر نہ کرتے، چاہے اس میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائے اور اگر کوئی اصرار کرتا تو صاف فرما دیتے کہ قاضی کو تمہارے مسئلہ کے بارے میں علم نہیں ہے۔ اگرتم چاہو تو انتظار کرو یاپھر چاہو تو کسی دوسرے کے پاس جاؤ۔ (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ ۱/۱۵۰)
(جاری)

جہادی بیانیے کی تشکیل میں روایتی مذہبی فکر کا کردار

ڈاکٹر عرفان شہزاد

آج مذہبی عسکریت پسندی کے لا وارث بچے کو کوئی اپنے نام سے منسوب کرنے کو تیار نہیں، لیکن ایک ایسا بھی وقت گزرا ہے کہ جب اسے گود لینے کے لیے اہل مدارس میں مسابقت برپاتھی۔
یہ 80 اور 90 کی دہائی کی بات ہے جب صدر ضیاء الحق کے زیر سرپرستی جہادی بیانیہ قوم کا نصب العین بنایا جا رہا تھا۔ مساجد اورمدارس میں جہادی پروگرام منعقد کیے جاتے تھے، جہادی مقررین اپنی شعلہ بار تقاریر سے نوجوان طلبہ کے جذبات کو برانگیختہ کر دیا کرتے تھے، طلبہ کومحاذ پر جانے کی بجائے مدرسے میں آرام سے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا خلافِ غیرت لگنے لگتا تھا،جہادیوں کے شانوں تک چھوڑے ہوئے لمبے بال، گھنی داڑھیاں، کسرتی جسم، فولادی ہاتھ اور ان ہاتھوں میں اسلحہ،طلبہ کے لیے ہیروازم جیسی کشش رکھتے تھے، جہادی تنظیموں کے چندے کی مہم ایسی شان سے چلائی جاتی تھی جیسے عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے چلائی تھی، لیاقت باغ راولپنڈی میں جہادی کرتبوں کا مظاہرہ ہوتا تھا، جہادی کمانڈر ایسے پروٹوکول سے جلوس نکالتے تھے کہ محسوس ہوتا کہ قرونِ اولیٰ کے مجاہدین واپس زندہ ہو کر آ گئے ہیں، جہادی تربیتی کیمپ لگائے جاتے تھے جن میں جذبہ جہاد سے سرشار نوجوانوں کی تربیت کی جاتی اور پھرمحاذ پر بھیج دیاجاتا تھا۔ مدارس کی چھٹیوں میں طلبہ کو جہادی کیمپوں میں جانے کی ترغیب دی کی جاتی تھی، دارالعلوم کراچی سے لے کر خیر المدارس ملتان تک سب مدارس کے طلبہ جہادی کیمپوں میں آتے تھے۔شہید ہوتے مجاہدین کی سمعی Audio کیسٹیں سنائی جاتیں جن میں وہ شہادت سے پہلے آخری گولیاں چلاتے ہوئے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوتے کہ خدا کی قسم انہیں جنت کی خوشبو آ رہی ہے۔
جمعہ و عیدین کی نمازوں میں افغانستان، فلسطین، کشمیر اور چیچنیا میں برسرپیکار مجاہدین کے غلبہ و نصرت کی دعائیں مانگی جاتی تھیں (دعاؤں کا تسلسل اب بھی جاری ہے)، جہادی نغمے اور ترانے جگہ جگہ اونچی آواز میں بجائے جاتے تھے اور مولوی حضرات 'سبیلنا سبیلنا الجھاد الجھاد' کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ بیچ بیچ میں کسی عالم کا اختلاف بھی سننے کو ملتا تھا، لیکن اسے گمراہی اور بزدلی کے طعنے دے کر خاموش کرا دیا جاتا، یا نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔
یہیں سے یہ بیانیہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہنچا۔ مولانا مودودی کا لٹریچر پہلے سے وہاں موجود تھا، حاکمیت اسلام کا نعرہ پورے آہنگ سے بلند کیا گیا تھا۔ ریاست اور علما کو کوئی نیا لٹریچر تخلیق کرنے کی زحمت بھی کرنا نہیں پڑی تھی۔ جماعت اسلامی کے نظریات کو میدان عمل میسر آ گیا۔انہوں نے بھی دامے درمے سخنے اپنے نوجوانوں کے خون کے نذرانے پیش کرنے کے لیے اپنی الگ عسکری تنظیم بنا لی۔
اس دور میں بھی البتہ، ہر فرقے اور ہر تنظیم نے دینی مفاد کے اشتراک کے باوجود مسلکی غیرت پر سمجھوتہ کرنا گوارا نہ کیا۔ جہاد جیسی نازک سرگرمی کے لیے بھی کسی ایک لیڈر شپ کی ماتحتی کی 'ہتک'کا تحمل نہ کیا جا سکا، اپنے اپنے مسلک کے جہادی کمانڈروں کی قیادت میں ہی جہاد کرنے کو ترجیح دی گئی۔ مسلک سے وفاداری کی اس سے بہترین مثال اور کیا ہوگی کہ جس دین کی خاطر شہادت جیسی کٹھن منزل قبول کر لی گئی، اس کے لیے مسلکی تفریق سے بلند ہونا گوارا نہ کیا گیا۔ یوں مجاہدین کے مختلف دھڑے ایک دوسرے کے رقیب بھی بنے رہتے، ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈا بھی کرتے رہتے، ایک دوسرے کے کمانڈر بھی توڑتے رہتے، زیادہ سے زیادہ مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچتے رہتے اور خدا کی راہ میں اپنے اپنے نوجوانوں کی جانیں بھی باقاعدگی سے پیش کرتے رہتے تھے۔
یہ دور 90 کی دہائی کے آخر تک زندہ تھا، تا آں کہ جنرل مشرف نے اسی امریکہ کے ہی کہنے پراس پر روک لگا دی جس امریکہ کے کہنے پر جنرل ضیانے اس کی آبیاری کی تھی۔ جنرل ضیا نے صرف کھاد اور پانی مہیا کیا تھا،بیج اور پودے مدارس کے فکر و نصاب میں پہلے سے موجود تھے۔ (شواہد آگے پیش کیے گئے ہیں)
جب سے ریاست نے اس بیانیے کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچا ہے، مولوی حضرات نے اس سے ایسے لاتعلقی کا اعلان کر رکھا ہے جیسے مفتی حنیف قریشی نے ایفی ڈیوٹ لکھ کر ممتاز قادری سے برات کا اعلان کر دیا تھا، حالانکہ اسی کی تقریر سن کر ہی ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کے قتل کا انتہائی قدم اٹھایا تھا، قادری کی گرفتاری کے بعد، اس کی رہائی کی مہم بھی مفتی موصوف نے چلائی تھی، اور پھر اس کی پھانسی کے بعد اس کے دفنانے کے وقت بھی وہ آگے آگے تھے۔ یہی کچھ اس جہادی بیانیے کے ساتھ اب مدارس کے علما حضرات فرما رہے ہیں۔
ان حالات سے نا واقف لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شدت پسندی کا یہ عفریت غربت، جہالت اور ناانصافی سے نکلا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔جس وقت یہ بیانیہ کچے اذہان میں انڈیلا جاتا ہے، اس وقت ان نوجوانوں کی غالب اکثریت کو سماجی ناانصافی اور عدم مساوات جیسی باتوں کا مکمل ادراک بھی نہیں ہوتا، وہ ابھی زندگی کے عملی میدان میں اترے ہی نہیں ہوتے کہ ان مسائل کا پورا احساس انہیں ہو، وہ تو یہ سن کر جان دینے اور جانیں لینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں کہ ان کے دین نے مسلمانوں پر ایک عالمی خلافت کا قیام فرض قرار دیا ہے، اگروہ اس کی جد و جہد نہیں کریں گے تو گناہ گار ہوں گے، خدا کے ہاں جواب دہ ہوں گے، انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جس نے جہاد نہ کیا اور نہ اپنے آپ کو جہاد کے لیے تیار کیا، وہ منافقت کے ایک شعبے پر مرے گا۔ ان کا بیانیہ ایک شاعر کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے:
نماز اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا، زکوٰۃ اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
جہادی بیانیہ اگر غربت، جہالت اور ناانصافی کی وجہ سے پروان چڑھا ہوتا تو ان عسکریت پسندوں میں زیادہ بڑا طبقہ ملک کے غریبوں اور جاہلوں کا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کا غریب اور پسا ہوا طبقہ تمام تر ناانصافیوں کے باوجود اپنے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے میں لگا ہوا ہے۔ کبھی انفرادی طور پر ان کے ہاں بھی جارحیت کے واقعات ہو جاتے ہیں، لیکن بحیثیت طبقہ یہ لوگ بے بسی کے ہاتھوں پر امن زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جب کہ جہادی تحریکوں کے افراد کسی نہ کسی مدرسے، یا فکری تنظیم سے وابستگی رکھتے ہیں۔ ایسا بھی ہے کہ جہادی تحریکوں میں کچھ لوگ ذاتی رنجش یا خفگیوں کے باعث شامل ہوتے ہیں لیکن ایسا لوگ بہت کم ہیں۔ ان تحریکوں کی اصل جان اور اصل نمائندے وہی لوگ ہیں جو فکری پس منظر رکھتے ہیں۔ اور اسی بنا پر جہاد کی مشکل زندگی اور اختیاری موت کو خوشی خوشی گلے لگا لیتے ہیں۔
اس بیانیے کے متاثر نوجوانوں کا جائزہ لے کر دیکھیے۔ ان میں مدارس کے غریب خاندانوں کے بچے ہی نہیں ہوتے، خوشحال گھرانوں کے، یونیورسٹیوں کے بلکہ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں پلنے بڑھنے والے نوجوان سب شامل ہیں۔ یہ غلبہ اسلام کا رومانوی تخیل ہے جو دینی فریضہ کے طور پر جب سامنے آتا ہے تو اس میں اتنی اپیل ہوتی ہے کہ ان کا ایمان انہیں مجبور کر دیتا ہے کہ خدا کے اس سیاسی ایجنڈے کے لیے وہ سب کچھ کر گزریں جو ممکن ہو سکتا ہے۔
آپ کسی بھی جہادی تنظیم کا لڑیچر دیکھ لیجیے، ان کا استدلال ملاحظہ کیجیے کہ آیا وہ سماجی ناانصافی اور کفار کی بربریت کو اپنا بنیادی استدلال بناتے ہیں یا اس سارے عمل کو دینی فریضہ قرار دے کر نوجوانوں کو اس طرف بلاتے ہیں۔ غیر مسلم قوتوں کا مسلمانوں پر ظلم و ستم ایک اضافی چیز ہے جس نے ان کے نزدیک معاملہ کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اگر نہ بھی ہوتا تو بھی مسلمانوں پر فرض ہے کہ ایک عالمی خلافت کے قیام اور غیر مسلموں کو محکوم بنانے کے لیے جہاد کا معرکہ برپا کریں۔
مدارس میں یہ جہادی بیانیہ پڑھایا، سکھایاجاتا ہے، اس حقیقت سے انکار ایسا ہی ہے جیسے نصف النہار میں سورج کی موجودگی کا انکار کر دیا جائے۔ رزم و بزم میں یہ معرکہ آج بھی ان کے نصاب و فکر کی بدولت زندہ ہے۔ طالبان ہوں یا داعش، سب یہیں سے پھوٹ رہے ہیں۔لیکن اہل مدارس نے چونکہ بڑی ہمت سیاس حقیقت کو جھٹلانے کی روش اختیار کی ہے، اس لیے ہمیں اس کے شواہد، انہیں کے لٹریچر اور نصاب سے پیش کرنا پڑ رہے ہیں:
خلافت کا قیام واجب ہے۔ یہ بدیہی طور پر تسلیم شدہ بات ہے،جس کا انکار اہل مدارس تو کیا کوئی عام مسلمان بھی کرتا نظر نہیں آئے گا۔اس کے لیے شواہد پیش کرنا غیر ضروری ہوگا۔ آگے چلتے ہیں۔
اس خلافت کے قیام کے لیے جدو جہد فرض ہے۔ یہ جد و جہد اہل حل و عقد اگر نہیں کرتے تو اہل علم کے ذمے واجب ہے کہ وہ برپا کریں۔ اس بیانیے کی مثالیں بہت ہیں، لیکن میں پہلے سید احمد شہید کی عبارات نقل کرتا ہوں، ان کی عبارات نقل کرنا اس لیے بھی مناسب ہے کہ یہ معلوم ہے کہ ان کے دور میں کسی 'ریاست' نے انہیں اس کام پر نہیں لگایا تھا۔ بلکہ 'نصوص' سے استدلال سے بننے والا بیانیہ ہی ان کی جہادی تحریک کا محرک تھا۔ آج کے جہادی بیانیے کا استدلال بھی یہی ہے۔ یہ درست ہے کہ سکھوں کے مبینہ مظالم سید صاحب کی تحریک کا ایک فوری محرک بنے، لیکن سید صاحب کی تحریروں سے پوری طرح واضح ہے کہ ان کے نزدیک سکھ حکومت کا خاتمہ ان کی منزل کا محض ایک سنگ میل تھا، جہاد کے داعیات سید صاحب میں پہلے سے موجود تھے۔ سید صاحب کی تحریک آج کی جہادی تحریکات کو علمی اور اخلاقی جواز بھی مہیا کرتے ہیں اور ہمت و حوصلہ بھی۔
سید صاحب فرماتے ہیں:
i ۔ ’’اگرچہ کفار اور سرکشوں سے ہر زمانے اور ہر مقام میں جنگ کرنا لازم ہے، لیکن خصوصیت کے ساتھ اس زمانے میں کہ اہل کفر و طغیان کی سرکشی حد سے گزر چکی ہے، مظلوموں کی آہ و فریاد کا غلغلہ بلند ہے، شعارِ اسلام کی توہین ان کے ہاتھوں صاف نظر آ رہی ہے، اس بنا پر اب اقامت رکن دین، یعنی اہل شرک سے جہاد، عامہ مسلمین کے ذمے کہیں مؤکد اور واجب ہو گیا ہے۔‘‘ (ابو الحسن علی ندوی ، سیرتِ سید احمد شہید، جلد دوم،طبع نہم، لکھنؤ، مجلسِ تحقیق و نشریاتِ اسلام، ص 388)
اس عبارت کے پہلے جملے سے واضح ہے کہ کفار سے 'ہر حال' اور 'ہر مقام' پر جنگ کرنا سید صاحب دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ وہی فقہی موقف ہے جس کے مطابق کفار سے جنگ کی اصل علت کفر قرار دی گئی ہے۔ یعنی محض اسلام قبول کرنے سے انکار غیر مسلموں پر جنگ مسلط کرنے کی کافی وجہ ہے۔ نیز لفظ 'عامۃ المسلمین' سے صاف ظاہر ہے کہ سید صاحب پرائیویٹ جہاد کے جواز کے قائل ہیں اور اسے "مؤکد" سمجھتے ہیں۔ آپ کی تحریک تھی ہی پرائیویٹ جہاد۔ اس پرائیویٹ جہاد کے لیے مزید جواز مہیا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ii۔ ’’جو حکومت اور سیاست کے مردِ میدان تھے، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس لیے مجبورًا چند غریب و بے سروسامان کمر ہمت باندھ کر کھڑے ہو گئے اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے۔‘‘ (سیرتِ سید احمد شہید، جلد دوم،ص 389)
اپنے وسیع تر ایجنڈے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
iii۔ ’’اس کے بعد میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ہندوستان کا رخ کروں گا تاکہ اسے کفر وشرک سے پاک کیا جائے۔‘‘ (سیرتِ سید احمد شہید، جلد دوم، ص 410)
کیا آج کے جہادی بیانیے کے علم بردار اس سے مختلف کوئی بات کہتے ہیں؟
اب یہاں مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب کی چند نمائندہ کتب کے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جو اس جہادی بیانیے کی تشکیل کا سبب ہیں۔
مختصر القدوری، درس نظامی میں ابتدائی درجے کی فقہ کی کتاب ہے، یعنی جب طالب علم ابھی Teen ager ہوتا ہے۔ اس میں لکھا ہے:
i۔ وقتال الکفار واجب وان لم یبدؤونا (مختصر القدوری، کتاب السیر، ص 52)
’’کفار سے جنگ کرنا واجب ہے، خواہ وہ ہم سے جنگ کرنے میں ابتدا نہ کریں۔‘‘
ii۔ خلافت یا اسلامی حکومت کس کے خلاف اقدامی جنگ یعنی جنگ میں پہل کرنا جائز سمجھتی ہے؟ صاحب قدوری لکھتے ہیں کہ جو لوگ دعوتِ اسلامکا انکار کر دیں، ان سے جنگ کی جائے گی:
ولا یجوز ان یقاتل من لم تبلغہ دعوۃ الاسلام الا بعد ان یدعوھم، ویستحب ان یدعو من بلغتہ الدعوۃ ولا یجب ذلک، وان ابوا استعانوا باللہ تعالی علیھم وحاربوھم ونصبوا علیھم المجانیق وحرقوھم وارسلوا علیھم الماء وقطعوا اشجارھم وافسدوا زروعھم، ولا باس برمیھم وان کان فیھم مسلم اسیر او تاجر، وان تترسوا بصبیان المسلمین او بالاساری لم یکفواعن رمیھم ویقصدون بالرمی الکفار (مختصر القدوری، کتاب السیر، ص 52)
’’جن لوگوں تک دین کی دعوت نہ پہنچی ہو ان سے جنگ کرنا جائز نہیں، البتہ دعوت کے بعد جنگ کرنا جائز ہے۔ بہتر ہے کہ جس تک دعوت پہنچ چکی ہو اسے بھیدعوت دی جائے،تاہم یہ واجب نہیں ہے۔ پھر اگر مخاطبین دعوت کا انکار کر دیں تو مسلمان اللہ کی مدد طلب کریں، ان منکرین پر جنگ مسلط کر دیں، ان پر منجنیقیں نصب کریں، آگ لگا دیں، ان پر پانی چھوڑ دیں، ان کے درخت کاٹ دیں، ان کے کھیت برباد کر دیں۔ ان منکرین پر تیر چلانے میں بھی کوئی حرج نہیں،چاہے وہاں مسلمان قیدی یا تاجر بھی ہوں، یا مسلمانوں کے بچوں یا مسلمان قیدیوں کو انہوں نے ڈھال بنایا ہوا ہو، مسلمان تیر چلانے سے ہاتھ مت روکیں، البتہ تیر چلاتے ہوئے کفار کو مارنے کی نیت کر لی جائے۔‘‘
iii۔ ہدایہ درس نظامی کے آخری سالوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس میں لکھا ہے:
وقتال الکفار واجب وان لم یبدء وا للعمومات (الہدایہ فی شرح البدایۃ، کتاب السیر)
’’قتال کی نصوص کے عموم کی رو سے کفار سے قتال واجب ہے، اگرچہ جنگ کی ابتدا ان کی طرف سے نہ ہو۔‘‘
امام سرخسی کی المبسوط اعلیٰ درجوں میں تحقیقی مراحل میں پڑھی دیکھی جاتی ہے اور فقہ حنفی کی نمائندہ کتاب ہے۔ اس میں ہے:
i۔ الشرک فھو اعظم ما یکون من الجھل والعناد لما فیہ انکار الحق من غیر تاویل، فعلی کل مؤمن ان ینھی عنہ بما یقدر علیہ (المبسوط، کتاب السیر)
’’شرک کی شناعت جہالت اور عناد سے پیدا ہونے والی برائیوں میں سب سے بڑھ کر ہے، اس لیے کہ اس میں بلا تاویل انکارِ حق پایا جاتا ہے، چنانچہ ہر مسلمان پر بقدر استطاعت اس کا روکنا فرض ہے۔‘‘
یعنی صرف تبلیغ نہیں بلکہ بقدر استطاعت اسے روکنا بھی فرض ہے، اب جس کی جتنی استطاعت ہو۔ یہ مشرکین کے خلاف مستقل جنگ perpetual war کا بیانیہ ہے۔
ii۔ امام سرخسی مزید لکھتے ہیں:
وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ فاذا قالوھا فقد عصموا منی دماء ھم واموالھم الا بحقھا وحسابھم علی اللہ‘‘، فاستقر الامر علی فرضیۃ الجھاد مع المشرکین وھو فرض قائم الی قیام الساعۃ، قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ’’الجھاد ماض منذ بعثنی اللہ تعالیٰ الی ان یقاتل آخر عصابۃ من امتی الدجال‘‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال جاری رکھوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں، جب وہ ایسا کر لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جان اور مال بچا لیا، سوائے اسلام کے حق ہے اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ مشرکین کے ساتھ جہاد کا فرض ہونا یہاں طے ہو جاتا ہے، اور یہ فرض قیامت تک قائم رہے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’جہاد جاری رہے گا میری بعثت سے لے کر میری امت کے اس آخری گروہ تک جو دجال سے جنگ کرے گا۔‘‘
یعنی مشرک اقوام سے محض اس لیے قیامت تک جنگ جاری رکھی جائے گی کہ وہ مشرک ہیں۔
iii۔ مبسوط کی درج ذیل عبارت بہت دلچسپ ہے:
وقال ابن عباس رضی اللہ عنھما: ’’ما قاتل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قوما حتی دعاھم الی الاسلام‘‘ وھذا لانھم لا یدرون علی ماذا یقاتلون، فربما یظنون انھم لصوص قصدوا اموالھم
’’ابن عباس فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم سے اس وقت تک جنگ نہیں کرتے تھے جب تک انھیں اسلام کی دعوت نہ دیتے تھے، یہ اس لیے کہ اگر دعوت دیے بغیر قتال کیا جائے گا تو ان کفار کو معلوم نہ ہوگا کہ مسلمان ان سے کیوں لڑ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ یہ سمجھیں کہ یہ لٹیرے ہیں جن کا مقصد ان کا مال لوٹنا ہے۔‘‘
اس عبارت کا کیا مطلب ہے؟ یہ کہ جنگ کا آغاز کفار کی طرف سے کسی صورت میں نہیں ہوا، کفار کو معلوم ہی نہیں کہ ان پر جنگ کیوں مسلط کی جا رہی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ جنگ سے پہلے انہیں بتایا جائے کہ ہم تم سے جنگ کیوں کرنے آئے ہیں۔
دور جدید میں بعض اہل علم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اسلامی حکومت کی طرف سے کفار و مشرکین کے خلاف جنگ کی علت احناف کی جمہورفقہی روایت کے مطابق محاربہ یعنی جارحیت یا فتنہ و فساد ہے نہ کہ محض کفر۔ یعنی جب جنگ میں غیر مسلموں کی طرف سے پہل ہو تو لڑنا چاہیے، ورنہ نہیں۔ اگر ایسا ہے تویہ کیا ہے جو پڑھایا جا رہا ہے؟ فقہ حنفی کے سرخیل، امام سرخسی کی اس عبارت سے نکلنے والے موقف کی کیا تاویل ممکن ہے؟امام کی اس بات کی مزید وضاحت کے لیے مبسوط کی درج ذیل عبارت دیکھیے:
وان لم تکن الموادعۃ خیرا للمسلمین فلا ینبغی ان یوادعھم لقولہ تعالی ’’فلا تھنوا وتدعوا الی السلم وانتم الاعلون‘‘، ولان قتال المشرکین فرض وترک ما ھو الفرض من غیر عذر لا یجوز (المبسوط، باب صلح الملوک والموادعۃ، ج ۱۰، ص ۸۶)
’’اگر صلح مسلمانوں کے حق میں بہتر نہ ہو، تو صلح نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ’’پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو تم ہی غالب رہنے والے ہو‘‘، نیز اس وجہ سے بھی صلح نہیں کرنی چاہیے کہ مشرکین سے جنگ کرنا فرض ہے اور بلا عذر فرض کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘
یعنی غیر مسلموں سے صلح کی وجہ کوئی مجبوری ہو تو ہو، محض جنگ سے رکنا صلح کی وجہ نہیں ہونی چاہیے، ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ مشرکین سے جنگ کرنا فرض ہے۔
غیر مسلموں سے جنگ کی وجہ محض ان کا کفر ہے یا ان کی طرف سے فتنہ و فساد؟ اس میں حنبلی اور شافعی فقہا بالکل یکسو ہیں کہ غیر مسلموں کا کفر ہی ان کے ساتھ جنگ کرنے کا سبب ہے۔ جب کہ بعض حنفی فقہا غیر مسلموں سے جنگ کے دونوں اسباب گنواتے ہیں یعنی کفر اور جارحیت دونوں وجوہات کی بنا پر ان سے جنگ کی جائے گی۔ یوں وہ ایک الجھاؤ پیدا کر دیتے ہیں جس کی نشاندہی مولانا عمار خان ناصر نے، اپنے مضمون، ’’قتال کی علت: حنفی فقہا کا نقطہ نظر‘‘ میں بیان کی ہے، لکھتے ہیں:
’’اگر قتال کی علت فتنہ وفساد ہے تو ایسے کفار کے خلاف قتال کا اقدام کرنا کیونکر جائز ہے جو اہل اسلام کے خلاف فتنہ وفساد کا ارتکاب نہیں کرتے؟ اور کفار کی طرف سے کسی جارحیت کی ابتدا کے بغیر ان کے خلاف قتال کرنے کو نہ صرف مشروع بلکہ فرض کفایہ کیونکر قرار دیا گیا ہے؟ مزید یہ کہ کفار کے فساد سے بچنے کے لیے ان کو مسلمانوں کا محکوم بنانا کیوں ضروری ہے اور اگر ان کی طرف سے معاہدے کی پابندی کا اطمینان ہو تو ان کی سیاسی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے صلح کی گنجایش کیوں نہیں؟‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’کسی کافر کو اس کے کفر کی سزا اس دنیا میں دینے کا اختیار مسلمانوں کے پاس نہیں ہے تو قتال کے ذریعے سے اہل کفر کو مغلوب کر کے ان پر ’جزیہ‘ عائد کرنا، جو احناف کی تصریح کے مطابق ان کے کفر پر عقوبت اور سزا کی حیثیت رکھتا ہے، کس اصول پر روا ہے؟‘‘
مدرسے کا ایک طالب علم جب فقہ کا یہ بیانیہ پڑھتا ہے اور دوسری طرف یہ دیکھتا ہے کہ مسلم حکومتیں غیر مسلم ریاستوں پر جنگ مسلط نہیں کرتیں اور نہ اس کا کوئی ارادہ ہی رکھتی ہیں، بلکہ الٹا بلا عذر ان کے ساتھ صلح کر کے جہاد کے فریضے کو ہی ترک کرنے کی مرتکب ہو چکی ہیں تو وہ اس مثالی اسلامی خلافت کے قیام کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے جس کا بیانیہ وہ فقہ میں پڑھتا ہے، یعنی ایسی خلافت جو آگے بڑھ کر اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ سر انجام دے اور غلبہ حق کے لیے غیر مسلموں پر جنگ مسلط کر دے اور انہیں محکوم بنا لے۔
شاہ ولی اللہ اور مولانا مودودی علم کی دنیا کے وہ دو جلیل القدر علما ہیں جن کی فکر نے ہر مکتب فکر کو متاثر کیا ہے، ان کے اثرات عالمگیر ہیں۔ جہادی بیانیے کی تشکیل میں ان کے گہرے اثرات ہیں۔ ان کے افکار کا خلاصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:
شاہ ولی اللہ اپنی کتاب، حجۃ اللہ البالغہ، میں جہاد کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
i۔ اعلم ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعث بالخلافۃ العامۃ، وغلبۃ دینہ علی سائر الادیان لا یتحقق الا بالجھاد واعداد آلاتہ، فاذا ترکوا الجھاد واتبعوا اذناب البقر احاط بھم الذل وغلب علیھم اھل سائر الادیان ( حجۃ اللہ البالغۃ، محقق سید سابق، بیروت، دارالجیل، 2005، جلد دوم، ص 268)
’’معلوم ہونا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خلافت عامہ کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔ دین کا غلبہ دیگر تمام ادیان پر جہاد اور اس کے آلات و وسائل کی تیاری کے بغیر ممکن نہیں۔ تو جب لوگ جہاد چھوڑ دیں گے، اپنے مال مویشیوں میں لگ جائیں گے تو ذلت ان کو گھیر لے گی اور دیگر ادیان والے ان پر غالب آ جائیں گے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
ii۔ ویقاتل اھل الکتاب والمجوس حتی یسلموا او یعطوا الجزیۃ عن ید وھم صاغرون (حجۃ اللہ البالغہ، ص 271)
’’مسلمانوں کا حکمران اہل کتاب اور مجوس سے لڑتا رہے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائیں یا وہ اپنے ہاتھوں سے ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کریں۔‘‘
نیز یہ بھی کہ:
iii۔ وبالثالثۃ زوال شوکۃ الکفار وظھور شوکۃ المسلمین، وقد بعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم لھذہ المصالح (حجۃ اللہ البالغہ، ص 270)
’’اور تیسرے حال(یعنی اہل کتاب سے ذلت کے ساتھ جزیہ وصول کیا جائے) سے یہ مصلحت حاصل ہوتی ہے کہ کفار کی شان و شوکت کا زوال ہوتا ہے اور مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھی مصالح کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے۔‘‘
iv۔ شاہ صاحب،مسلم حکمران کے لیے یہ لازم قرار دیتے ہیں کہ وہ غیر مسلم قوتوں کے خلاف ہر حال میں جنگ کرے، اور صلح بامر مجبوری کرے یعنی جب جنگ کی مطلوبہ طاقت نہ ہو۔ یعنی کہ اگر طاقت ہو صلح نہیں کی جائے گی:
ویصالحھم بمال وبغیر مال فان المسلمین ربما یضعفون عن مقاتلۃ الکفار فیحتاجون الی الصلح، وربما یحتاجون الی المال یتقوون بہ او الی ان یامنوا من شر قوم فیجاھدوا آخرین (حجۃ اللہ البالغہ، ص 271)
’’مسلم حکمران،غیر مسلم حکومتو ں سے مال کے ساتھ یا بغیر مال کے صلح کر سکتا ہے۔ یہ اس لیے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسلمان کفار سے لڑنے میں کمزور ہوتے ہیں، اس لیے انہیں صلح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، یا کبھی انہیں مال کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ قوت حاصل کر سکیں، یا صلح کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ ایک قوم کے شر سے محفوظ ہو کر وہ دوسری قوم سے جہاد کر سکیں۔‘‘
v۔ شاہ ولی اللہ جبر و اکراہ کے ذریعے انسانوں کو دین حق پر ایمان لانے اور انکار کرنے والوں کو اسی بنا پر قتل کرنے کے حق میں ہیں۔ شاہ صاحب کے نزدیک ایسا کرنا انسانوں کی بھلائی اور خدا کی رحمت کا تقاضا ہے۔ فرماتے ہیں:
ان کثیرا من الناس یغلب علیھم الشھوات الدنیۃ والاخلاق السبعیۃ ووساوس الشیطان فی حب الریاسات، ویلصق بقلوبھم رسوم آباءھم، فلا یسمعون تلک الفوائد ولا یذعنون لما یامر بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا یتاملون فی حسنۃ، فلیست الرحمۃ فی حق اولئک ان یقتصر علی اثبات الحجۃ علیھم، بل الرحمۃ فی حقھم ان یقھروا لیدخل الایمان علیھم علی رغم انفھم بمنزلۃ ایجاد الدواء المر، ولا قھر الا بقتل من لہ منھم نکایۃ شدیدۃ وتمنع قوی، او تفریق منعتھم وسلب اموالھم حتی یصیروا لا یقدرون علی شیء، فعند ذلک یدخل اتباعھم وذراریھم فی الایمان برغبۃ وطوع، وربما اسرھم وقھرھم یودی الی ایمانھم، والی ھذا اشار النبی صلی اللہ علیہ وسلم حیث قال ’’عجب اللہ من قوم یدخلون الجنۃ فی السلاسل‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ، ص 263)
’’بہت سے لوگوں پرگھٹیا خواہشات، درندگی والی صفات اور ملک سے محبت کے شیطانی خیالات غالب آ جاتے ہیں، ان کے آبا و اجداد کی رسمیں ان کے دلوں میں رچ بس جاتی ہیں، اس لیے ایمان لانے کے فوائد ان کی سمجھ میں نہیں آتے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو جو حکم دیتے ہیں، وہ اس کی تابع داری نہیں کرتے، نہ وہ اسلام کی خوبیوں میں غور کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ مہربانی یہ نہیں ہے کہ ان پر حجت قائم کر کے ان کو چھوڑ دیا جائے، ان کے ساتھ مہربانی یہ ہے ان کی مرضی کے خلاف ان کو ایمان لانے پر مجبور کیا جائے، دوا کا کڑوا گھونٹ زبردستی ان کو پلایا جائے۔ یہی ان کے حق میں مفید ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو ان میں سخت گیر اور طاقت ور ہیں، ان کو تہ تیغ کر دیا جائے، یا ان کا شیرازہ منتشر کر دیا جائے، اور ان کے اموال چھین لیے جائیں، تاکہ ان کی طاقت ٹوٹ جائے اور وہ بے بس ہو کر رہ جائیں۔ جب ان کی رکاوٹ ہٹ جائے گی تو ان کے متبعین اور آل اولاد ایمان کی طرف مائل ہوں گے، اور اطاعت قبول کریں گے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو جہاد میں گرفتار و مغلوب ہو کر آتے ہیں، اسلام سے بہرہ ور ہو جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں جہاد کی اس مصلحت کی طرف اشارہ آیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’ایسے لوگوں پر اللہ کو تعجب ہو گا جو جنت میں بیڑیوں سمیت داخل ہوں گے۔‘‘
شاہ ولی اللہ کے مشہور شارح، محمد الغزالی ، شاہ صاحب کے ان افکار کا خلاصہ یوں لکھتے ہیں:
"Explaining this distinctive ideological feature of the Islamic state, Shah Wali Allah points out that the "supremacy of the Religion of Islam over all other religions was inconceivable without contemplating among the Muslims a khalifah, who can put those who might transgress the ideological frontiers, and commit acts which have been prohibited by their Religion or omit their obligations under it, into open disrepute". Further, he should be able to subdue the followers of all other religions and receive Jizyah from them, while they submit to the supremacy of the Shari'ah. For, in his view, without establishing the supremacy of Islam over other religions and creeds, no preference of the Muslim community over non-Muslims could be visibly demonstrated." (The Sociopolitical Thoughts of Shah Wali Ullah, Institute of Islamic Thought, Islmababd, 2001, pg, 98)
’’شاہ ولی اللہ، اسلامی ریاست کے نمایاں نظریاتی خدو خال بیان کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ اسلام کا غلبہ دیگر ادیان پر مسلمانوں کے درمیان ایک خلیفہ کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں، ایساخلیفہ جو نظریاتی سرحدوں کو پامال کرنے والوں، اسلام کے ممنوعات کی خلاف ورزی کرنے والوں، یا اس کے لاگو کردہ واجبات سے پہلو تہی کرنے والوں کو عاجز کر سکے۔ مزید یہ کہ وہ دیگر تمام ادیان کے پیروکاروں کو مطیع کر سکے اور ان سے جزیہ وصول کر سکے اس حال میں کہ وہ اسلامی شریعت کی بالادستی کے سامنے سر تسلیم خم کردیں۔ یہ سب اس لیے کہ شاہ صاحب کے مطابق، دیگر ادیان پر اسلام کی برتری قائم کیے بغیر غیر مسلمانوں پرمسلمانوں کی برتری واضح طور پر ثابت نہیں ہوسکتی۔‘‘
مولانا مودودی کے سیاسی اسلام کے بیانیے کے بارے میں معلوم ہے کہ مولانا نے اسلام اور ریاست کو مترادف قرار دیا، اسلام کا مقصد حاکمیت الٰہیہ کا قیام بتایا اور اس کے لیے استدلال کی پوری عمارت کھڑی کی۔ انہوں نے غیر اسلامی نظام کو طاغوت قرار دیا جس کے تحت مسلمانوں کا راضی ہو کر رہنا خلاف اسلام قرار دیا اور مسلمانوں پر لازم قرار دیا کہ وہ جہاں بھی ہوں، اسلام کے سیاسی غلبہ کی جہد و جہد کریں، یہ دینی فریضہ ہے جس کا ترک خدا سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
i۔ ’’مسلمان اپنے اپنے ایمان کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے جب تک وہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومت قائم نہ کر لیں۔ خدا کے قانون کی بالا دستی قائم کیے بغیر بحیثیت مسلمان زندگی نہیں گزار سکتے ۔۔۔ انبیا اسی لیے مبعوث کیے گیے تھے کہ خدا کی حاکمیت کا نظام قائم کریں۔‘‘ (اسلامی ریاست ص 59)
ii۔ ’’وہ (اسلام) اس بات کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ قوانین تمدن، جن پر اسٹیٹ کا نظام قائم ہوتا ہے، خدا کے سوا کسی اور کے بنائے ہوئے ہوں، اور خدا کی زمین پر اس کے باغی اس کو نافذ کریں، اور مسلمان ان کے تابع ہو کر رہیں ۔۔۔ اسلام یہ تقاضا کرتا کہ مسلمان آگے بڑھ کر نظام زندگی پر قبضہ کریں۔‘‘ (اسلامی ریاست ص 67)
iii۔ ’’اسلام کا اپنے مخصوص نظام زندگی کی طرف دعوت دینا عین اپنی فطرت میں اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ دوسرے نظامات کو ہٹا کر ان کی جگہ اپنے نظام کی اقامت کا مطالبہ کرے اور اس مقصد کے لیے اپنے پیروؤں کو جد وجہد کی ان تمام صورتوں کو اختیار کرنے کا حکم دے جن سے یہ مقصد حاصل ہوا کرتا ہے۔‘‘ (اسلامی ریاست، ص 66)
iv۔ مولانا مودودی درج ذیل آیت سے مسلمانوں کی عالمگیر سیادت کا استدلال کرتے ہیں:
اَلَّذِینَ اِنْ مَّکَّنَّاھُمْ فِی الاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَآتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ، وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الاُمُورِ (سورۃ الحج، 22:41)
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
یعنی مولانا مودودی منکر کے دائرے میں کفر و شرک اور بدی کے تمام مظاہر کو شامل کرتے ہیں اور پھر آخری درجے میں طاقت سے ان کو مٹانے کا حکم اس آیت سے مستنبط کرتے ہیں۔ پھر قرآن مجید میں جہاں جہاں 'الارض' یعنی زمین پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے کا ذکر آیا ہے، اس سے وہ پورا کرہ ارض مراد لیتے ہیں۔ (ملخص)۔ (الجہاد فی الاسلام، 91۔92)
مولانا مودودی سے ہی متاثر ہو کر سید قطب نے معالم الطریق لکھی جس نے عالمی سطح پر خصوصا عرب جہادی تحریکوں میں اسی جہادی بیانیے کو مزید ترویج دی۔
اب جمہوریت کے بارے میں،روایتی بیانیہ کے حاملین اہل علم کا موقف جان لیجیے:
i۔ قاری طیب قاسمی اپنی کتاب "فطری حکومت"، میں لکھتے ہیں:
"یہ (جمہوریت) رب تعالیٰ کی صفت ملکیت میں بھی شرک ہے اور صفت علم میں بھی شرک ہے۔"
ii۔ احسن الفتاویٰ (ج 6 ص 26) میں مفتی رشید احمد لکھتے ہیں :
’’یہ تمام برگ و بار مغربی جمہوریت کے شجرہ خبیثہ کی پیداوار ہے۔ اسلام میں اس کافرانہ نظام کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
iii۔ مولانا یوسف لدھیانوی ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ (ج 8 ص 176) میں لکھتے ہیں:
’’جمہوریت کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریے کی ضد ہے (ظاہر ہے اسلام کی ضد کفر ہی ہے)۔‘‘
iv۔ مولانا عاشق الٰہی بلند شہری، تفسیر انوار البیان (ج 1 ص 518) میں لکھتے ہیں :
’’ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
v۔ مولانا فضل محمد، اسلامی خلافت (ص 117) میں لکھتے ہیں:
’’اسلامی شرعی شوریٰ او رموجودہ جمہوریت کے درمیان اتنا فرق ہے جتنا آسمان او رزمین میں ، وہ مغربی آزاد قوم کی افراتفری کا نام ہے۔ جس کا شرعی شورائی نظام سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔‘‘
vi۔ مولانا تقی عثمانی دور حاضر کے معتدل ترین علما میں سے ہیں، لکھتے ہیں:
’’جمہوریت میں عوام خود حاکم ہوتے ہیں، کسی الہی قانون کے پابند نہیں تو وہ خود فیصلہ کریں گے کیا چیز اچھی ہے یا بری ۔۔۔ ’’جمہوریت سیکولرازم کے بغیر نہیں چل سکتی۔‘‘ (اسلام اور سیاسی نظریات، مولانا تقی عثمانی، ص 146)
اب جب طلبہ کو یہ بتایا جائے گا کہ جمہوریت غیر اسلامی نظام ہے تو وہ اس نظام حکومت اور آئین کے بارے میں جو موقف اپنائیں گے، وہ ظاہر ہے۔ علما تو اپنی دو عملی کے لیے گنجائش نکال لیتے ہیں یعنی ایک طرف وہ جمہوریت کو بھی غلط کہتے ہیں، لیکن آئین سے وفاداری کا اعلان بھی کرتے ہیں، لیکن ان کے سادہ مزاج طلبہ پوچھتے ہیں کہ کیا آئین بھی انسانوں نے جمہوریت کی اکثریتی رائے کے اصول پر نہیں بنایا ہے؟ کل اگر اکثریتی رائے سے اس میں غیر اسلامی شقیں ڈال دی جائیں یا پورے آئین کو ہی سیکولر بنا دیا جائے تو کیا جمہوری اصولوں پر اسے بھی مان لیا جائے گا؟اگر نہیں تو پھر آج اس کی حمایت کیوں کی جا رہی ہے؟اس لیے نہ جمہوریت درست ہے نہ انسانوں کا بنایا ہوا آئین۔ یہ طلبہ اپنے اساتذہ کو ان کا ہی پڑھایا ہوا سبق سنانے لگتے ہیں اور اساتذہ کے پاس کوئی جواب بھی نہیں ہوتا۔ ذیل میں مدرسہ کے ہی ایک طالب علم، طالبان کے جہادی کمانڈر مولانا عصمت اللہ معاویہ کے ایک طویل خط کا آخری پیرا نقل کیا جاتا ہے، جو انہوں نے علما کو مخاطب کر کے لکھا تھا:
’’ان بنیادی نکات کے بعد آپ سے عرض کروں گا ۔۔۔.. جائیے، جید علمائے کرام سے جاکر پوچھئے کہ اسلامی خلافت کے احیا اور نفاذ کی محنت ہم پر واجب ہے کہ نہیں۔ میں سرکاری وردباری صاحب جبہ و دستار کی نہیں، علمائے حق کی بات کررہا ہوں۔ شریعت کا نفاذ، خلافت کا احیا واجب ہے ۔۔۔. علمائے امت کا اس پر اجماع ہے ۔۔۔. بلکہ خلافت کے احیا کے وجوب کو تو اہل سنت کے عقیدے کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے بغیر اسلام اور اہل اسلام کا شیرازہ ہی بکھر جاتا ہے، یہی سچ ہے ۔۔۔. تو پھر دیر کس بات کی، ڈر کس بات کا، خوف و اندیشہ کس چیز کا؟ اٹھو! اب اسلام کے رستے کی رکاوٹیں بیلٹ سے نہیں بلٹ سے دور کر دو۔ یہ ہڑتالیں، یہ ریفرنڈم، یہ دھرنے، یہ جلوس سب جمہوری ایجاد ہیں۔ اس سے امت کے حقیقی اثاثوں کی تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ تم اپنوں کے سر پھوڑو ، اپنوں کی دوکانیں توڑو، املاک کو تباہ کرو، اپنے گلے پھاڑو۔ پولیس، فوج تمہیں ماریں، تم انہیں مارو، یہ سب تماشہ ہے ۔۔۔.. بہکاوا ہے ۔۔۔۔۔۔ بس بند ہو جانی چاہئیں یہ سب فضول مشقتیں ۔۔۔.. آئیے بسم اللہ کیجئے۔ اپنے مجاہد بھائیوں کے ساتھ مل کر جامعہ حفصہ کی شہیدہ بہنوں کے خوابوں کی تعبیر کے لیے، لال مسجد کے شہید بھائیوں کی امنگوں اور تمناؤں کو عملی روپ دینے کے لیے، شریعت یا شہادت کے حسین نعرے کو لے کر آگے بڑھو ۔۔۔.. بڑھو کہ جنت ہے منتظر ۔۔۔.. حورو ملائکہ ہیں صف بہ صف ۔۔۔... توڑ دو غلامی کی زنجیریں، چھوڑ دو طاغوتی تدبیریں، پاک شریعت پاک رستے سے ہی آئے گی ۔۔۔.. جب سینوں کا پاک خون پائے گی !!!‘‘ (نوائے افغان جہاد 2013)
یہ بیانیہ درست ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر کہنا یہ ہے کہ اہل مدارس کو یہ ذمہ داری قبول کرنا ہوگی کہ جہادی بیانیہ ان کے نصاب و روایتی فقہ و فکر سے پروان چڑھا ہے اور اب بھی ان سے ہی غذا پاتا ہے۔ اصولی طور پر وہ اور جہادی بیانیے کے علم برادر ایک ہی صفحے پر ہیں۔اختلاف صرف حکمت عملی میں کیا جاتا ہے۔ اس مسئلے کو جب تک اس کی بنیاد سے نہیں دیکھا جائے گا، اس کا کوئی قابل عمل اور موثر حل پیش نہیں کیا جا سکتا۔ آپ شاخیں کاٹتے رہیں گے اور درخت نئے نئے برگ و بار پیدا کرتا رہے گا۔ یہ بیانیہ اگر درست ہے تو علی الاعلان بتایا جائے کہ ایسا ہی ہے۔ اگر اس میں غلطی ہوئی ہے تو برملا اس کا اظہار کیا جائے۔ اب محض مذمتیں کر کے آپ اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔

علامہ اقبال اور شدت پسندی کا بیانیہ: ان کی جہادی اور سیاسی فکر کی روشنی میں

مولانا سید متین احمد شاہ

جس طرح اردو کے مایہ ناز شاعر مولانا الطاف حسین حالی پر ’’ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے‘‘ کی مشق کی گئی، اسی طرح علامہ اقبال پر بھی اعتراضات کا سلسلہ دراز ہوا جو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ یہ اعتراضات شخصی بھی ہیں، ان کے کلام کے شعری، لسانی اور عروضی پہلوؤں سے متعلق بھی، فکر کی تشکیل اور اس کے اجزا سے متعلق بھی اور دیگر مختلف جہات پر بھی۔ ان اعتراضات میں بہت سے وقیع اور صائب ہیں، جب کہ بعض اعتراضات سوے فہم، بعض قلت فہم، بعض مخصوص ذہنی سانچوں اور بعض حسد اور عناد کے سبب ہیں۔ 1910ء میں اقبال کے سفرِ حیدرآباد میں اردو کے نامور محقق اور غالب شناس سید علی حیدر نظم طباطبائی نے ان کی اردو زبان کی ’’عجمیت‘‘ پر بعض تحفظات کا اظہار کیا۔ 1913ء میں ’’زمانہ‘‘ (کانپور) اور دیگر جرائد میں نقاد لکھنوی کے اعتراضات سامنے آئے، 1935ء میں اقبال کی زندگی ہی میں حافظ آباد کے برکت علی گوشہ نشین نامی ایک شیعہ مصنف نے ’’مکائدِ اقبال‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اسی طرح سیماب اکبر آبادی، نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی اور دیگر لوگوں کے سوالات کا سلسلہ چل نکلا اور جہات بدل کر ہنوز جاری ہے۔
جہاں تک زبان وبیاں کا تعلق ہے، یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں فاضل سے فاضل شخص کی زبان پر بھی اعتراضات ہوئے ہیں، کیوں کہ کلام میں بہتری کی گنجائش کا کوئی کنارہ شاید نہیں ہے، یہاں تک کہ اس کا وہ اکمل ترین درجہ آ جاتا ہے،جسے کلامِ خداوندی کہا جاتا ہے اور جس کے ساتھ تصورِا عجاز متعلق ہے۔مرزا غالب کو شہنشاہِ سخن کہا جاتا ہے، لیکن استاد سید اولاد حسین شاداں بلگرامی اور دیگر لوگوں نے ان کے کلام میں عروض وقوافی اور زبان کے کئی عیوب شمار کیے ہیں۔یہی معاملہ اقبال کا بھی ہے کہ ان کے کلام پر مختلف پہلوؤں سے اعتراضات کیے گئے ہیں، جن میں بہت سے درست بھی ہیں اور بہت سے غلط بھی۔ زیر نظر تحریر میں موجودہ فضا کے اعتبار سے ایک اعتراض ، اس کے حوالے سے خود اقبال کی اپنی تصریحات اور نامور شارحین اقبال کی وضاحت کا ایک جائزہ پیش کرنا مقصود ہے۔
موجودہ دور کی بڑی شخصیات میں ہندوستان کے مولانا وحید الدین خان کا نام معروف ہے۔ دین کی تعبیر کے حوالے سے ان کا مخصوص نقطہ نظر ہے جو ’’اسلام کے انقلابی تصور‘‘ یا ’’دین کی سیاسی تعبیر‘‘ کے ردعمل اور نقد کی صورت میں وجود میں آیا ہے۔مولانا وحید الدین خان عام طور پر مسلم دنیا کی بڑی بڑی شخصیات (بشمول ’’سیاسی اسلام‘‘ اور ماضی سے متعلق) پر یہ اعتراض مختلف جگہوں پر قلم بند کرتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کو بے فائدہ ٹکراؤ پر لگایا اور اس طرح جہاد کی تعبیر کو وہ تعذیبِ مذہبی (Persecution Religious ) کی علت کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں کہ یہ ماضی کا جبر تھا جس کے استیصال کے لیے جہاد مشروع ہوا اور چونکہ بعد کے ادوار میں یہ مسئلہ نہیں رہا، اس لیے مسلم رہ نما اس بدلتی صورتِ حال کو نہ سمجھ سکے اور مسلمانوں کو بے فائدہ ٹکراؤ پر لگائے رکھا۔ مولانا کی فکر میں پائے جانے والے کئی قابل قدر اجزا کے باوجود ان کا یہ تصور (دیگر اور تصورات کی طرح)درست نہیں ہے اور اس سے تاریخ اسلام کی بھی ایک عجیب تصویر سامنے آتی ہے؛ بلکہ مولانا کے اس تصورِ جہاد اور فکر کے مجموعی نتیجے کے بارے میں راقم کا تاثر یہ ہے کہ اپنے مزاج اور مقاصد میں سے یہ تقریباً وہی چیز ہے جس پر علامہ اقبال نے ’’اسرارِ خودی‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں حافظِ شیراز کی شاعری کے حوالے سے ’’ہوشیار از حافظِ صہبا گسار‘‘ کہ کر تنقید کی تھی جس پر خواجہ حسن نظامی نے اخبارات میں ایک شور برپا کر دیا تھا۔اقبال کا مقصود صرف اتنا تھا کہ زوال کے دور کے لٹریچر نے مسلمانوں کے قواے عملیہ کو جس طرح سرد کیا ہے، حافظ کا پیغام اس حوالے سے ایک افیون کی حیثیت رکھتا ہے۔
مولانا وحید الدین خان اس سلسلے میں اقبال پر کافی سخت نقد کرتے ہیں کہ اقبال مسلمانوں کو ٹکراؤاور شدت پسندی کی راہ دکھانے والے آدمی ہیں اور اس وقت مسلمانوں میں جو جگہ جگہ عسکری کارروائیاں جاری ہیں، اس کے پیچھے فکر اقبال کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہی اعتراض کہیں دبے لفظوں میں اور کہیں صراحتاً ہمارے لبرل دانش ور( جیسے ڈاکٹر مبارک علی) دہراتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض Neo-Religious Liberals حلقوں میں بھی اس اعتراض کی صداے بازگشت سننے کو ملتی رہتی ہے۔
ماضی میں اقبال پر یہ اعتراض دو حلقوں کی طرف سے سامنے آیا: ایک مستشرقین اور دوسرے اردو ادب میں ترقی پسند ادب کی تحریک کے افراد کی طرف سے۔مستشرقین یا مغربی مصنفین تین طرح کے ہیں جنھوں نے کلام وفکر اقبال سے اعتنا کیا ہے: شعری یا نثری تحریروں کے مترجمین، شعر وفکر کے ناقدین اور کتابوں کے مبصرین اور وہ جنھوں نے اقبال کے کلام کے اجزا کو اپنے انتخابی مجموعوں میں شامل کیا۔پروفیسر اے آر نکلسن نے 1919ء میں ’’اسرارِ خودی‘‘ (1915ء ) کو انگریزی میں ڈھالااور اس پر مقدمہ بھی تحریر کیا جو اقبال کے انگریزی دنیا اور یورپ میں تعارف کا سبب بنا۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ کی اشاعت پر ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول پہلے اپنے ملک میں خواجہ حسن نظامی، محمد دین فوق کشمیری اور رسالہ ’’صوفی‘‘ منڈی بہاؤالدین کے مقالہ نگاروں نے اور پھر یورپ کے علمی حلقوں نے بحث ونظر کا بازار گرم کیا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں :
’’جہاں اقبال کے مقامی نقادوں کا مرکزی نکتہ بحث ،تصوف کی حمایت و مخالفت، وحدت الوجود والشہود کی تردید وتائید اور خودی وبیخودی کی تحقیق تھی، وہاں مغرب کے ان نقادوں نے مغربی ماحول اور مغربی ذہن کے مطابق اقبال کے فلسفہ خودی پر جرح کرتے ہوئے اسے احیائے اسلام کی ایک سعی قرار دیتے ہوئے یورپ کو آنے والے خطرے سے ڈرایا جو اسرارِ خودی کی حکمت سے (ان کی راے میں) پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر سید عبداللہ، ’’اقبال کے غیر مسلم مداح اور نقاد‘‘ مشمولہ ’’اقبالیات کی مختلف جہتیں‘‘، مرتبہ یونس جاوید، ص 2)
مغربی نقادوں میں دو نے اقبال کے افکار پر ’’اسرارِ خودی‘‘ کا ترجمہ سامنے آنے کے بعد تنقید کی:پروفیسر ڈکنسن اور ایم فارسٹر؛ اقبال نے مترجم پروفیسر نکلسن کو خط لکھا جس میں ان تینوں کے نکات پر تنقید کی۔ (ان تنقیدوں اور اقبال کے خط کے اردو تراجم دارالمصنفین اعظم گڑھ کے معروف جریدے" معارف" کے شماروں جون، ستمبر اور اکتوبر 1921ء میں شائع ہوئے۔)ن کلسن نے لکھا:
’’اقبال مذہب کے بارے میں بہت پرجوش ہے۔وہ ایک نئے حرم کی تعمیر میں مصروف ہے۔اس نئی بستی سے مراد ایک عالم گیر مذہبی ریاست ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمان نسل ووطن کی قید سے بے نیازایک ہو جائیں گے۔وہ جس ریاست کی بات کرتا ہے، اس میں دین کی بادشاہت ہو گی۔میکیاولی کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘
ڈکنسن کے اعتراضات میں یہ بنیادی بات تھی کہ اقبال جہاد کی بات کرتا ہے، اس لیے اسے اس تصورِ پیکارسے خوف محسوس ہوتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اقبال مسلمانوں کو اسلحہ کے زور سے متحد کرنا چاہتا ہے، وہ ایک خونیں ستارہ ہے، امن کا ستارہ نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ :
’’مشرق اگر مسلح ہو گیا تو ممکن ہے کہ مغرب کو تسخیر کر ڈالے، لیکن کیا اس سے وہ فساد وہلاکت کی قوت کو بھی مسخر کر لے گا؟نہیں؛ بلکہ قدیم خون ریزیاں رہ رہ کر برابر ابھرتی رہیں گی اور ساری دنیا کو مبتلائے مصائب رکھیں گی۔ بس اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں، کیا اقبال کا یہی اختتامی پیغام ہے۔؟‘‘ (مرجع مذکور، ص 5)
دوسرے جس حلقے کی طرف سے اقبال پر شدت پسندی کے پرچارک کا اعتراض ہوا، وہ ترقی پسند ادیبوں کا حلقہ ہے۔ ترقی پسند تحریک میں ڈاکٹر اخترحسین راے پوری کا مقالہ ’’ادب اور زندگی‘‘ اکتوبر 1934ء میں ہندی میں اور جولائی 1935ء میں اردو میں شائع ہوا(ڈاکٹرا نور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، ص 436) اور یہ وہ مقالہ ہے جواس تحریک کی ’بائبل‘ ثابت ہوا۔پروفیسر آل احمد سرور اس مقالے کا ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اقبال فاشسطیت کا ترجمان ہے اور یہ حقیقت زمانہ حال کی جدید سرمایہ داری کے سوائے کچھ نہیں۔ تاریخ اسلام کا ماضی اقبال کو بہت شاندار معلوم ہوتا ہے، اس کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا دورِ فتوحات اسلام کے عروج کی دلیل ہے اور ان کا زوال یہ بتاتا ہے کہ مسلمان اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں، حالانکہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اسلام کی ابتدائی فتوحات عرب ملوکیت کی فتوحات نہیں تھیں اور تاریخ کے کسی دور میں بھی اسلامی تصورِ زندگی پر عمل بھی ہوا تھا۔بہرحال وطنیت کا مخالف ہوتے ہوئے بھی اقبال قومیت کا اسی طرح قائل ہے جس طرح مسولینی۔اگر فرق ہے تو اتنا کہ ایک کے نزدیک قوم کا مفہوم نسلی ہے اور دوسرے کے نزدیک مذہبی۔ فاشسٹوں کی طرح وہ بھی جمہور کوحقیر سمجھتا ہے۔فاشزم کا ہمنوا ہو کر وہ اشتراکیت اور ملوکیت دونوں کی مخالفت کرتا ہے۔ ملوکیت وسرمایہ داری کا وہ اس حد تک دشمن ہے جس تک متوسط طبقہ کا آدمی ہو سکتا ہے۔ اقبال مزدوروں کی حکومت کو چنداں پسند نہیں کرتا۔ وہ اسلامی فاشسٹ ہے۔‘‘ (آل احمد سرور، اقبال اور ان کا فلسفہ ، ص 91، 92)
کچھ اسی قسم کے اعتراضات مجنوں گورکھ پوری کی طرف سے سامنے آئے۔ (اے ایم خالد، "اقبال کا خصوصی مطالعہ"(ایم اے اردو ادب سیریز)، ص310 )
مذکورہ سطور سے یہ واضح ہوا کہ مستشرقین، ترقی پسند ادیبوں اور ہمارے ہاں کے Liberals اور Neo-Religious Liberals کے نزدیک اقبال دہشت پسندی کی تعلیم دیتا ہے، اس کے ہاں مرنا مارنا اور ٹکراؤ اصل فلسفہ ہے، وہ صرف "برہم زن" کے اصول کو جانتا ہے، وغیرہ؛ تاہم جب علامہ اقبال کی جملہ نثری تحریروں کی طرف رجوع کیا جائے تو اس اعتراض کا بڑی حد تک ازالہ ہو جاتا ہے اور فکر اقبال سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اقبال نے اسلام کو ایک پرامن مذہب کے طور پر پیش کیا ہے اور ان پر یہ اعتراض ان کی فکر کی جملہ جہات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اس اعتراض کا ایک بڑا منشا علامہ اقبال کی سیاسی فکرکی جملہ جہات کو نظر انداز کرنا بھی ہے جو ان کی نثری تحریروں میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہے۔اقبال کو بحیثیت کل دیکھنے کا مسئلہ آج تک کے اقبال شناسوں میں ایک کافی مشکل علمی مسئلے کے حیثیت سے موجود ہے اور خود اقبال کے الفاظ میں اس "مجموعہ اضداد" کی کڑیوں میں ایک "نظم"تلاش کرنا اقبال کی صحیح تفہیم کا ایک بنیادی پتھر ہے۔ اقبال کی سیاسی فکر کے بارے میں غلط فہمیوں کے حوالے سے ماضی قریب کے معروف دانش ور اور مصنف جناب مظہر الدین صدیقی نے بجا طور پر لکھا ہے:
Iqbal's political philosophy has been grossly misinterpreted. By some, he has been held us as the champion of Fascist dictatorship, others have tried to discover in his writings leanings towards Communism. Very few have tried to view as a whole the political ideas of Iqbal which lie scattered in his writings and therefrom to build up a consistent political theory which might fit in with the general framework of his philosophical ideas. It is often overlooked by the critics as well as the admirers of Iqbal that a man's political ideas cannot be isolated from the general system of his thought, because both spring from the depth of his personality, which is a unified whole. (Mazheruddin Siddiqi, Concept of Muslim Culture in Iqbal, 69)
’’اقبال کی سیاسی فکر کی بری طرح غلط انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔بعض نے اسے فاشزم کی ڈکٹیٹرشپ کے رہ نماکے طور پر پیش کیا، جب کہ بعض نے اس کی تحریروں میں کمیونزم کی طرف جھکاؤ رکھنے والا باور کیا۔ بہت تھوڑے لوگوں نے اقبال کے سیاسی تصورات کو ان کی منتشر تحریروں کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے، تاکہ ایک ایسا مربوط سیاسی نظریہ کشید کیا جا سکے جو اقبال کے فلسفیانہ افکار کے عمومی فریم سے لگا کھاتا ہو۔ اقبال کے مادحین اور ناقدین ، دونوں ہی سے یہ بات عام طور پر نظر انداز ہوئی ہے کہ انسان کے سیاسی افکار اس کی فکر کے عمومی نظام سے جدا نہیں کیے جا سکتے، کیوں کہ دونوں ہی اس کی شخصیت کے مربوط کل کی گہرائیوں سے پھوٹتے ہیں۔ ‘‘
یہاں اقبال کی اپنی تحریروں اور اقبالیات کے ماہرین کی آرا کی روشنی میں اقبال کی مذکورہ بالا شناخت کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ 
ڈکنسن کے مذکورہ بالا اعتراض کا جائزہ لیتے ہوئے اقبال نے لکھا:
’’میں جس شے کا قائل ہوں، وہ روحانی قوت ہے نہ کہ جسمانی طاقت۔بے شبہہ جب کسی قوم کو جہاد کی دعوت دی جائے تو اس صدا پر لبیک کہنا میرے عقیدے میں اس کا فرض ہونا چاہیے، لیکن جوع الارض (تسخیر ممالک) کے لیے جنگ وجدل کرنا میں نے حرام قرار دیا ہے۔‘‘
چناں چہ "اسرارِ خودی" میں ایک جگہ عنوان اسی طرح باندھا ہے: ’’دربیان ایں کہ مقصد حیاِ ت مسلم اعلاے کلمۃ اللہ است وجہاد اگر محرکِ او جوع الارض باشد، درمذہب اسلام حرام است‘‘؛اقبال کے عربی ترجمان شیخ عبدالوہاب عزام نے اس کا عربی ترجمہ خوب صورت الفاظ میں کیا ہے جو مقصودکو عمدہ طور پر واضح کرتا ہے یعنی: "مقصد حیاۃ المسلم اعلاء کلمۃ اللہ، والجھاد للاستیلاء علی الارض حرام"(عبدالوہاب عزام، محمد اقبال سیرتہ وفلسفتہ وشعرہ، 86) یعنی مسلمان کی زندگی کا مقصد اللہ کا کلمہ بلند کرنا ہے اور زمین پر محض غلبہ پانے کی خاطر جہاد کرنا حرام ہے۔اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے توواضح ہے کہ اہل مغرب نے آج تک دنیا میں جو فساد مچایا ہے، وہ" جوع الارض"کے مرض کی وجہ سے برپا کیا ہے۔کہیں اقوام کے وسائل کی لوٹ، کہیں توسیعی عزائم ، کہیں حقیقی یا مفروضہ دشمن کو پامال کرنا، لیکن ان کا اعتراض صرف اسلام اور مسلم شخصیات پر ہے :
اپنے عیبوں کی کہاں آپ کو کچھ پروا ہے
غلط الزام بھی اوروں پہ لگا رکھا ہے
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے!
اسی طرح اقبال نے کشمکش کے تصور پر لکھا: ’’میں کش مکش کا جو مفہوم لیتا ہوں، وہ اصلاً اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی، درآں حالیکہ نطشے کے پیش نظر غالباً اس کا صرف سیاسی مفہوم تھا۔۔۔ میں نے جنگ وتنازع کی صورت جس مفہوم میں تسلیم کی ہے، وہ اصلاً اخلاقی ہی ہے۔ ڈکنسن نے افسوس کہ میری تعلیم مردانگی وسختی کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا ہے۔‘‘
اسی طرح اقبال نے ڈکنسن کے مخصوص استشراقی پس منظر پر نقد کرتے ہوئے لکھا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو ایک خون ریز مذہب سمجھنے کا جو متعصبانہ خیال یورپ میں قدیم سے چلا آتا ہے، وہ ڈکنسن صاحب کے سر پر بھی سوار ہے۔ حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ یہ صرف مسلمان، بلکہ کافہ انام اسلامی عقیدے کی رو سے آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے کے لائق ہے، بشرطیکہ نسل وقوم کے اصنام کو توڑ دیا جائے اور ایک دوسرے کی خودی یا انا کو تسلیم کیا جائے۔‘‘ (ڈاکٹر سید عبداللہ، حوالہ سابق، ص 8، 9)
ڈاکٹر سید عبداللہ نے اقبال کے بارے میں مغربی مصنفین میں سے پروفیسر آربری کی آرا نقل کی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کے پیغام کو جن مستشرقین نے سنجیدگی سے دیکھا، ان کی رائے کس طرح ڈکنسن کی رائے سے مختلف ہے۔آربری نے لکھا:
’’یورپ صدیوں سے اسلام کے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے،ان معنوں میں کہ اسلامی تہذیب وتمدن کے واضح کارناموں کو نظرانداز کرتارہا، کیوں کہ یورپ کے فضلا علمی طریقہ کار اپنانے کے بجائے مذہبی عصبیتوں میں پھنسے رہے۔۔۔اس لیے اگر اقبال نے اپنی نظم ونثر میں یہ دعویٰ کیا کہ یورپ انسانی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ یورپ کے فضلاے سابق کے تعصبات کا قدرتی ردعمل ہے۔۔۔اب جب کہ تعصبات کے بادل آہستہ آہستہ چھٹتے جا رہے ہیں، یورپ کو واقعی یہ سوچنا چاہیے کہ اس نے مشرق سے کیا کیا لیا اور اب بھی تہذیب کی ترقی کے لیے مشرق سے کیا کچھ لے سکتا ہے۔ اسی صورت میں تعمیرِ انسانیت کے مقصد میں وسیع تر اشتراکِ عمل ہو سکتا ہے۔‘‘
علامہ اقبال کے کلام کی علامات میں "شاہین" کی علامت بہت اہم ہے۔ اقبال کا شاہین غیرت و خودداری ، فقر واستغنا، خدامستی، بلند پروازی، خلوت پسندی، تیز نگاہی، سخت کوشی، آزادی، تجسس اور قوت وتوانائی کا سمبل ہے۔ اقبال کی علامتوں کے حوالے سے ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کا یہ کہنا بہت برمحل ہے کہ "اقبال کے کلام کی روشنی میں جب ہم ان علامتوں کو سمجھتے ہیں تو ایک طرف تو اپنے شعور میں اضافہ کرتے ہیں اور روحانی زندگی کی تنظیم کرتے ہیں اور یہی علامتیں جن کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہے اور جو ہمارے لاشعور کا خارجی انعکاس ہیں، ہمارے طرزِ احساس کی تشکیل کرتی ہیں۔"(خالد اقبال یاسر، جدید تحریکات اور اقبال، ص 332، بحوالہ سجاد باقر رضوی، علامہ اقبال اور عرضِ حال ص 13) 
اقبال نے شاہین کی علامت مردِ کامل کی ترجمانی کے لیے پیش کی ہے جس سے مراد انبیاء علیہم السلام، حضراتِ صحابہ اور اولیاے امت ہیں۔اس کے مقابلے میں اقبال نے کرگس کی علامت لائی ہے جو گھٹیا درجے کی نفسانی خواہشات ، فروتر مقاصد ، فطرت کی پستی اور دوں نہاد مزاج کا استعارہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں اقبال کا شاہین ،قرآن کا "نفس مطمئنہ" اور کرگس، "نفسِ امارہ" ہے۔ تاہم اقبال کے بارے میں شدت پسندی کا بیانیہ کشید کرنے میں سب سے زیادہ اس اصطلاح سے غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے۔اسے مسولینی کی فکر اور نیٹشے کے سپر مین کی علامت قرار دیا گیا، جہاں جبر وقہر اور تسلط ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اس طرح کے اعتراضات زیادہ تر ترقی پسند ادیبوں نے کیے۔ فکر اقبال کے سلسلے میں ایک معتبر نام عزیز احمد(مصنف ، "اقبال ۔ نئی تشکیل") کا ہے۔انھوں نے ان امور پر نقد کرتے ہوئے لکھا: ’’[اقبال کا شاہین] بلند پروازی اور خیر کی طاقت کا رمز ہے، جبر کا نہیں۔طاقت اس لیے ضروری ہے کہ اس سے انسان مظلوم نہیں بن سکتا۔‘‘ عزیز احمد مزید کہتے ہیں کہ اقبال نے دوسرے مذاہب کے حقوق پامال کرنے کی ہدایت کبھی نہیں کی، صرف اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے طاقت جمع کرنے کی تلقین ضرور کی ہے۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے بعض دیگر مقالات کے براہِ راست اقتباسات بھی درج کیے جائیں جو ان کی سیاسی فکر پر روشنی ڈالتے ہیں؛ کیوں کہ علامہ کے کلام میں ’’خلافت‘‘ کا لفظ دیکھتے ہی غلط فہمیوں کا ایک سلسلہ جنم لے لیتا ہے اور اس اصطلاح کو اقبال کے پورے فکری نظام میں رکھ کر دیکھنے کے بجائے جزوی تفہیم کے نتیجے میں غیرصحیح نتائج اخذ کرلیے جاتے ہیں۔
اقبالیات میں ایک مستقل ذیلی صنف "اقبال دشمنی" کو اقبالیات کے نامور محقق جناب ڈاکٹر ایوب صابر نے ایک پورے پراجیکٹ کے طور پر پانچ کتابوں میں مکمل کیا ہے۔ ’’اقبال کی فکری تشکیل ۔ اعتراضات اور تاویلات کا جائزہ‘‘ نامی کتاب میں انھوں نے ’’کیا اقبال جارحیت پسند ہیں؟‘‘ کے عنوان کے تحت زیر نظر تحریر کے مقصد پر گفت گو کی ہے، تاہم انھوں نے اقبال کی نثری تحریروں کا بھرپور جائزہ نہیں لیا جو کہ ضروری تھا، کیوں کہ اقبال کے تصورِ سیاست کی ناقص تفہیم کے ساتھ لوگ تصورِ جارجیت کو جوڑتے ہیں۔یہاں اقبال کی نثری تحریروں کے مختلف اقتباسات دیے جا رہے ہیں۔ راقم کے پیش نظر سید عبدالواحد معینی کے مرتب کردہ ’’مقالاتِ اقبال‘‘ ،پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض کے مرتب کردہ ’’افکارِ اقبال‘‘ اور لطیف احمد شیروانی کی مرتب کردہ Speeches, Writings & Statements of Iqbal ہیں جن میں اقبال کی Original تحریریں درج ہیں۔ ’’افکارِ اقبال‘‘ میں ایک مقالہ ہے ’’اسلام کا اخلاقی اور سیاسی نقطہ نظر‘‘؛ یہ اصل میں ترجمہ ہے اقبال کے ایک مقالے "Islam as a Moral and Political Ideal" کا جو شیروانی کی مذکورہ بالا کتاب کا حصہ ہے؛اس میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید نے دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت دی ہے، لیکن منکروں اور کافروں کے خلاف جارحانہ جنگ لڑنے کا عقیدہ اسلام کی مقدس کتاب کی رو سے بالکل ناجائز ہے۔۔تمام جنگیں جو پیغمبر اسلام کے زمانہ حیات میں لڑی گئیں، دفاعی تھیں۔۔دفاعی جنگوں میں بھی پیغمبر اسلام نے مفتوح پر وحشیانہ ظلم کرنے سے منع کیا ہے۔میں ذیل میں آپ کے وہ رقت انگیز کلمات درج کرتا ہوں جو آپ نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے اس وقت ادا کیے جب وہ جنگ کے لیے جا رہے تھے۔ ‘‘
نبی پاک کے اس فرمان کے اقتباس میں بچوں، عورتوں ، غیر مقاتلین (Non-Combatants) وغیرہ سے جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ آگے اقبال لکھتے ہیں :
’’تاریخ اسلام ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام کی توسیع واشاعت بطور مذہب کسی صورت میں بھی اس کے پیرؤوں کے سیاسی اقتدار سے مربوط نہیں۔ اسلام کی سب سے بڑی روحانی فتوحات ہمارے سیاسی زوال اورانحطاط کے زمانے میں عمل میں آئیں۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’صداقت تو یہ ہے کہ اسلام لازمی طور پر امن کا مذہب ہے۔سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی خلل کی تمام صورتوں کو قرآنِ مجید نے غیرمصالحت پسندانہ اصطلاحات میں مسترد کیا ہے۔‘‘
آیاتِ قرآنی نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ قرآنِ مجید نے کتنی سختی کے ساتھ کھلے انداز میں سیاسی ، اجتماعی اور معاشرتی بدنظمیوں کی تمام صورتوں کی مذمت کی ہے۔ ‘‘
نیز لکھتے ہیں:
’’اسلام کا مطمح نظر ہر قیمت پر اجتماعی اور معاشرتی امن وامان کوحاصل کرنا ہے۔معاشرے میں سخت اور شدید قسم کے تمام طریقوں کی بڑی روشن اور واضح زبان میں مذمت کی گئی ہے۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے وہ احادیث نقل کی ہیں جن میں امیر اگر ایک حبشی غلام بھی ہے توا س کی اطاعت کا حکم ہے، ان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہم میں سے وہ لوگ جو اس بات کو اپنا شعار بناتے ہیں کہ سیاسی عقائد میں مسلمانوں کی ہیئت عمومی سے اختلاف کریں تو ان کو چاہیے کہ اس حدیث کو بڑے غور اور بڑی احتیاط سے پڑھیں اور اگر ان کے دل میں پیغمبر اسلام کے الفاظ کے لیے کوئی احترام ہے تو یہ ان کا فرض ہے کہ سیاسی رائے کے اظہار میں خود کو اس گھٹیا روش سے باز رکھیں۔‘‘
آگے لکھتے ہیں :
’’قومیت ہی اسلامی اصول کی خارجی علامت ہے۔یہی وہ اصول ہے جو اسلام میں انفرادی آزادی کو محدود کرتا ہے، ورنہ اسلام کے آئین کی رو سے ہرفرد مطلقاً آزاد ہے۔ ایسی قوم کے لیے حکومت کی بہترین صورت جمہوریت ہے جس کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان کو قابل عمل حد تک آزادی دی جائے تاکہ وہ اپنی فطرت کے تمام امکانات کی نشوونما کر سکے۔‘‘
آگے اقبال نے اسلام کے سیاسی ڈھانچے پر گفتگو کی ہے جس میں اقتدارِ اعلیٰ میں اللہ کے قانون کی حاکمیت، قوم کے تمام افراد میں مساوات ، فرقہ پرستی کی مذمت، مسلکی جھگڑوں پر تنقید اور وحدت کی دعوت دی گئی ہے۔ (ملاحظہ ہو، علامہ اقبال، "افکارِ اقبال"، مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض، ص 27 150 52) 
اقبال کے اس مضمون میں اسلام کے تصورِ جہاد میں دفاعی جہاد کا موقف اپنایا گیاہے جو ایک خاص فضا میں برصغیر میں بعض افراد کے ہاں سامنے آیا جیسے سید امیر علی، چراغ علی،علامہ شبلی نعمانی وغیرہ؛ تاہم یہ موقف محل نظر ہے جس پر نقد کا یہاں موقع نہیں، لیکن اس کے علی الرغم اقبال کا یہ مضمون نہایت واضح طور پر ایسے خطوط دیتا ہے جن کی رو سے آج کی شدت پسند تحریکوں کے لیے اقبال کے ہاں کوئی جگہ نہیں۔ یہاں یہ دلچسپ تقابل پیش نظر رکھنا مناسب ہے کہ مولانا وحید الدین خان بھی صدرِ اول کے غزوات وسرایا کے بارے میں اقدامی کے بجائے دفاعی ہونے کے نقطہ نظر کے قائل ہیں اور اقبال بھی؛ لیکن وہ اقبال کے بارے میں موجودہ حالات کے لحاظ سے ایک بالکل دوسرے اور غیردرست نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ اس طرح کے امور ہراس شخص کو پیش آئے ہیں، جنھوں نے اقبال کی فکر کے کسی ایک جز کو سامنے رکھ کر کوئی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ ممکن ہے مولانا کے پیش نظر یہ بات ہو کہ چوں کہ تقسیم برصغیر کے معاملے میں اقبال تقسیم کی پالیسی پر عمل پیرا تھے، اس لیے ضرور ہے کہ ان کی فکر بس "تقسیم" ہی سکھاتی ہے، حالاں کہ وہ اس وقت کے تناظر میں ایک خاص فیصلہ تھا جسے مسلمانانِ برصغیر نے اختیار کیا جس کے پس منظر، وجوہ اور جواز میں ان حضرات کا تصور کچھ کم زور اساسات پر استوار نہیں تھا۔ یہاں اس بحث میں جانے کا موقع نہیں۔ 
اسلام میں خلیفہ کے تصور کے ذیل میں اسلام کے شورائی مزاج کے روح کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے:
"The Caliph is not necessary the high-priest of Islam; he is not the representative of God on earth. He is fallible like other men and is subject like every Muslim to impersonal authority of the same law... In fact the idea of personal authority is quite contrary to the spirit of Islam." (Sherwani, Speeches, Writings & Statements of Iqbal, 142.)
’’خلیفہ اسلام میں کوئی پوپ نہیں ہوتا، وہ زمین پر خدائی ترجمان نہیں ہوتا۔ وہ ویسا ہی غیرمعصوم ہوتا ہے جیسے دیگر لوگ اسی قانون کے غیرشخصی اقتدار کے تابع ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شخصی اختیار کا تصور مکمل طور پر اسلام کی روح کے منافی ہے۔‘‘
’’مقالاتِ اقبال‘‘ (مرتبہ عبدالواحد معینی) میں ایک مضمون ’’خلافت اسلامیہ 150 عرب جاہلیت اور طریق انتخابِ رئیس‘‘ ہے جواس باب میں اقبال کی فکر کی توضیح میں بہت اہم ہے؛ اقبال کہتے ہیں:
’’اسلام ابتدا ہی سے اس اصول کو تسلیم کر چکا تھا کہ فی الواقع اور عملاً سیاسی حکومت کی کفیل وامین ملت اسلامیہ ہے کہ کوئی فردِ واحد؛ ہاں جو عمل انتخاب کنندگان اس معاملہ میں کرتے ہیں، اس کے معنی صرف یہی ہیں کہ وہ اپنے متحدانہ وآزادانہ عملِ انتخاب سے اس سیاسی حکومت کو ایک ایسی مختصر ومعتبر شخصیت میں ودیعت کر دیتے ہیں جس کو وہ اس امانت کا اہل تصور کرتے ہیں۔ یوں کہو کہ تمام ملت کا ضمیر اجتماعی اس ایک فرد یا شخصیت منفردہ کے وجود میں عمل پیرا ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حقیقتاً اور صحیح معنوں میں فرد تمام کی تمام قوم کا نمائندہ کہلا سکتا ہے، لیکن ایسے فرد کا مسند حکومت پر متمکن ہونا شریعت کے نزدیک اسے کسی برتری یا ترجیح کا مستحق ہرگز نہیں بناتا۔شریعتِ حقہ کی نگاہ میں اس کی شخصی وذاتی حیثیت بالکل وہی رہے گی جو ایک عام دوسرے مسلمان کی ہے۔اس کوان افراد پر ، جن کا وہ نمائندہ ہے، سوائے اس حکومت کے جو شرعاً آئین کے نافذ کرنے کی غرض سے اسے حاصل ہے اور کوئی اختیار و اقتدار نہ ہوگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اسلام میں مسئلہ "قانون سازی" کی بنیاد شریعت کے تصریحی احکام کے بعد تمام تر اتحاد و اتفاق و آرائے جمہور ملت کے بنیادی اصول پر قائم ہے۔ ‘‘ 
مزید لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خود اپنے فرزند کو خلافت کی امیدواری سے مستثنیٰ رکھنا کس قدر روشن اور جلی ثبوت ہے اس الم نشرح حقیقت کا کہ اس زمانے تک عرب کے سیاسی دل ودماغ کو روایتی بادشاہت کے خیال سے قطعاً بعد اور مغائرت تھی۔‘‘
’’جمہوریہ اسلامیہ کی بنا شریعت حقہ کے نزدیک ایک مطلق اور آزاد مساوات پر قائم ہے۔شریعت کے نزدیک کوئی گروہ، کوئی ملک، کوئی زمین فائق ومرجح نہیں۔ اسلام میں کوئی مذہبی پیشوائی یا مشیخت نہیں۔ ذات پات یا نسل ووطن کا امتیاز نہیں۔۔۔اسلام کا سیاسی منتہا یہ ہے کہ تمام نسلوں اور قوموں کے آزادانہ اتحاد واختلاط سے ایک نئی جامع فضائل وکمالات قوم پیدا کی جائے۔ ‘‘
اسی مضمون میں اقبال نے خلیفہ اسلام کے اوصاف شمار کرنے کے بعد عالم اسلام میں، ابن خلدون کے تصورِتعددِ خلفا کے نظریے کی حمایت کی ہے اور نظیر کے طور پر حضرت معاویہ اور حضرت علی کی خلافتوں کو پیش کیا ہے۔ اقبال کے تصورِ خلافت کو سمجھنے کے لیے یہ مضمون نہایت اہم ہے جو لبرل ازم اور معاصر شدت پسندانہ رویوں کے مابین منہجِ اعتدال کا حامل ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: علامہ محمد اقبال، "مقالاتِ اقبال"، مرتب سید عبدالواحد معینی، ص 123۔ 153)
فکر اقبال کے اس نثری پہلو کا نقش اولین راقم نے سب سے پہلے جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل کی کتاب ’’اقبال اور جدید دنیائے اسلام: مسائل ، افکار اور تحریکات‘‘ میں پڑھا تو احساس ہوا کہ اقبال کی فکر اس پہلو سے ہمارے یہاں بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہے۔پھر براہ راست ان کی نثری تحریروں کو دیکھا تو یہ تصورِ مزید مستحکم ہوا۔ اس کے بعد ایک دوست کی وساطت سے معاصر ماہر اقبالیات جناب خرم علی شفیق نے اپنی مختصر کتاب ’’اسلامی سیاسی نظریہ علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں ‘‘ حاصل ہوئی تو اس کے نقوش مکمل طور پر نکھر کر سامنے آئے جس سے واضح ہوا کہ اقبال اسلامی حکومت سے کوئی جبر اور تسلط پر مبنی کسی سیاسی نظریے کا تصور پیش نہیں کرتے ہیں، بلکہ اس میں شریعت کے قانون کی بالادستی کے ساتھ جدید جمہوری تصورات کے صالح اجزا کو بھی پورے طور پر پیش نظر رکھا گیا ہے؛ یوں یہ تصور ایک خوب صورت اور متوازن تصورِ سیاسی کی شکل میں سامنے آتا ہے جس میں دینی روح اور تمدنی ارتقا دونوں کی پاس داری ملتی ہے جو اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اقبال ایک طرف اگر اقتدار اعلیٰ میں شریعت کی بالادستی کے قائل ہیں تو دوسری طرف پارلیمنٹ کو حق اجتہاد تفویض کرنے کے قائل ہیں، لیکن ساتھ وہ خلیفہ کے اوصاف بھی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکم ران کو دینی لحاظ سے کن اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے۔ 
ہمارے یہاں ایک طرف اسلا م کے نام پر پرتشدد تحریکوں کا بیانیہ ہے جو بزورِ شمشیر اسلام کو لوگوں کے لیے قابل قبول بنانا چاہتی ہیں، تو دوسری طرف سیکولر اور لبرل ذہن کا جو مغرب سے مرعوب، کسی مجاہدہ نفسانی سے گریزاں اور ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کےHedonistic فلسفے پر عمل پیرا ہے۔محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے بیانیے میں اگرچہ اربابِ حکومت کی کچھ دینی ذمے داریاں بھی شمار کی گئی ہیں، لیکن عملی طور پر قانون سازی کے عمل میں قرآن وسنت کی بالادستی کو ختم کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ بڑی حد تک دوسری قسم کے بیانیے کے لیے سازگار ہو گیا ہے۔ اس میں آج تک کی علما اور مخلصین ملت کی پرامن دینی جمہوری مساعی پر پانی پھر جاتا ہے۔ اس لیے جدید جمہوری اداروں کو ایک وجودی حقیقت کے طور پر باقی رکھتے ہوئے اسلام کے تصورِ خلافت کی Values کی جو آئیڈیالوجی اقبال کے ہاں ہے، اس کو اپنانا اور اپنے پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ 
اقبال کا یہ تصور منہجِ اعتدال معلوم ہوتا ہے جس میں اسلام کے تصورِ سیاست اور جدید تمدنی ارتقا کے تقاضوں کی پاس داری موجود ہے، نیز پاکستان کے تناظر میں یہ اوپر مذکورہ علما اور مخلصینِ ملت کی مساعی کے بھی موافق ہے۔مذکورہ بالا توضیحات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال جہاں ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ جیسی باتیں اپنی شاعری میں کرتے ہیں تو ان کا حقیقی محل اور مفہوم کیا ہوتا ہے اور یہ کہ کس طرح یہ بات شدت پسندی بیانیے کی حمایت نہیں کرتی۔ یہ بات ظاہر ہے فکر اقبال کو بحیثیت مجموعی پیشِ نظر رکھنے سے سامنے آتی ہے، ورنہ جزوی امور پر توجہ مرکوز رکھنا بہت غلط نتائج اخذ کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ واللہ اعلم!

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پہلا عالمی اسلامی مفاہمتی اجلاس

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مسلمانان عالم کی دھماکہ خیز صورت حال، باہمی چپقلش اورداخلی نزاعوں کے عالم میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے دنیابھرکے مسلمانوں کے لیے مصالحت اورکلمہ کی بنیادپر وحدت کی آواز مسلسل بلند کی جارہی ہے۔ اس مقصد سے ۳۔۴ اپریل 2017 کو یونیورسٹی کے مرکز برائے فروغ تعلیم و ثقافت مسلمانان ہندکی طرف سے پہلاعالمی اسلامی مفاہمتی اجلاس ہوا۔ مذکورہ مرکز کے صدراوربرج کورس کے ڈائرکٹر پروفیسر راشدشاز، جواِس کانفرنس کے داعی اورروح رواں تھے،نے کانفرنس کے انعقادسے قبل اس کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے ایک پریس بیان میں بتایاتھاکہ اس مفاہمتی کانفرنس کاتصوریہ ہے کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ جب تک دنیابھرکے مسلمانوں کے مختلف دھڑے ایک مشترکہ جدوجہدکا ڈول نہیں ڈالتے، ہمارے لیے اقوام عالم کی قیادت کا حصول توکجا، خود اپنی بقا و وجود کو باقی رکھنا ممکن نہ ہوگا۔
ڈاکٹرشاز نے اپنے بیان میں کہاتھاکہ ہم نے اس سے قبل بھی دوکانفرنسیں کیں جن میں متعدد ممالک سے امت مسلمہ کے متفکر اور دردمند افراد علی گڑھ پہنچے اورسب کا مشترکہ خیال تھاکہ ایک نئی صبح کا آغاز پرانی ترکیبوں سے نہیں ہوسکتا۔ان کا احساس تھاکہ جب تک امت میں نفرت پر مبنی فتوے بازی ،شرانگیزتحریروں وتقریروں پر لگام نہیں لگائی جاتی، تب تک مسلمانوں میں کسی حقیقی اتحادکا قیام ممکن نہیں۔ڈاکٹرشازکااحساس تھاکہ اس پیغام کوزیادہ بڑے پیمانہ پر مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ امت مسلمہ کے تمام فرقے اورمکاتب فکرباہمی افہام وتفہیم کے لیے مسلسل ایک دوسرے سے ملتے رہیں۔چنانچہ۳ ،۴،اپریل کوہونے والی یہ عالمی کانفرنس اسی سلسلہ کی ایک پیش رفت تھی جس میں نہ صرف امت کے تمام گروہوں کے لیے باہمی ارتباط کا ایک موقع فراہم کیاگیابلکہ مستقبل کے لیے بھی ایک مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل کی کوشش کی گئی۔
اس دوروزہ اجلاس میں جن امورپر غورکیاگیا وہ یوں ہیں:
۱۔مسلمان،اہل کتاب اورشبہ اہل کتاب :مستقبل کا منظرنامہ 
۲۔ایک نئے علی گڑھ کی صورت گری :کیاایک دوسری علی گڑھ تحریک برپاکرنے کا وقت آگیاہے ؟
۳۔دینی مدارس میں سائنسی علوم کا مستقبل :ایک نئے قرطبہ ماڈل کا احیاء 
۴ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء :ایک نئے لائحہ عمل کی تلاش 
۵۔مفاہمتی اجلاس:اہم پالیسی اعلانات
اس کانفرنس میں ایک خاص سیشن برج کورس کے سابق فارغین اورموجودہ بیچ کے نوجوان علماء وعالمات کے لیے رکھاگیاتھاجس میں انہوں نے مذکورہ بالاچاروں عناوین اوران سے متعلقہ مختلف ذیلی مباحث پرامت مسلمہ کے مستقبل کے سلسلہ میں اپناوژن پیش کیا۔یادرہے کہ برج کورس گزشتہ چارسالوں سے ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ کے طلبہ کویک سالہ پروگرام کے تحت جدیدعلوم کی تعلیم وتربیت دیتاہے ،جس کے بعدیہ طلبہ یونیورسٹی مین اسٹریم میں جانے کے لائق ہوجاتے ہیں۔اس نئے تعلیمی تجربہ کوملک وبیرون ملک میں خاصاسراہاجا رہاہے ۔اس کانفرنس کا انعقادبھی انہیں نوجوان طلباء کے فورم ’’انجمن علماء اسلام ‘‘کے پلیٹ فارم سے کیاگیاتھا۔
اس عالمی مصالحتی کانفرنس میں ملیشیا، ترکی وجاپان کے اسکالروں کے علاوہ ہندوستان کے ممتازعلما ودانشوران،ملی رہنماؤں، سماجی کارکنان،صحافیوں اورکالم نگاروں نے شرکت کی اوردودن تک کھلے طورپر اپنے خیالات کے اظہار اور بحث ومباحثہ کے ذریعہ نہایت علمی اورخوشگوارومتحرک ماحول بنائے رکھا۔واضح رہے کہ مذکورہ مرکزاس سے قبل بھی ملک وملت کے لیے حساس اورگرم موضوعات پر دوعالمی کانفرنسیں کرچکاہے۔اس کے پروگراموں کوشعوری طورپر اس طرح ترتیب دیاجاتاہے کہ رسمی طورپر صرف پیپرزکی خواندگی نہ ہوبلکہ مشارکین بھرپورتیاری کے ساتھ آئیں،اپنے مقالا ت تحریر کریں مگر کانفرنس میں اپناpresentation نہایت اختصارکے ساتھ کریں تاکہ ہرموضوع پر زیادہ سے زیادہ بحث ومباحثہ ہواورمشارکین نیز کانفرنس کے عام شرکاء کھل کراپنے خیالات کا اظہارکرسکیں۔یوں ایک نئی علمی طرح بھی علی گڑھ میں ڈالی جارہی ہے۔ 
کانفرنس کے افتتاحی جلسہ میں مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب لیفٹیننٹ ضمیراالدین شاہ نے ہندوستانی مسلمانوں کو ملک کی موجودہ صورت حال میں، جہاں کہ مرکزاورملک کی اکثربڑی ریاستوں میں ہندواحیائی قوتیں برسراقتدار آچکی ہیں، حوصلہ دیتے ہوئے کہاکہ ہم ہندوستان میں ہم وطنوں سے مل جل کر رہیں گے لیکن اپنا مذہب اور تہذیب کو برقرار رکھیں گے۔ اسی طرح کانفرنس کے داعی اورمرکزکز برائے فروغ تعلیم مسلمانان ہند اوربرج کورس کے ڈائرکٹرپروفیسرراشدشاز نے امت مسلمہ کے تابناک ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ :جب مسلمان ایک امت تھے تو دنیا کا کوئی بڑا فیصلہ ہمارے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ 
افتتاحی سیشن میں مرکز کے سینئر فیلو ڈاکٹر محمد زکی کرمانی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ جب کہ دوسری قومیں چاند ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہیں، ہم ابھی تین طلاقوں میں ہی الجھے بیٹھے ہیں۔ حیدر آباد سے آنے والی سماجی کارکن ڈاکٹر لبنیٰ ثروت کاکہناتھا ہم عورتوں کوتومسجدمیں جانے کی اجازت ہی نہیں مگرجولوگ جاتے ہیں، ان کوبھی کوئی پیغام نہیں مل پاتاہے کیونکہ وہ مسجد میں جاتے ہیں جہاں خطبہ اس زبان میں دیا جاتا ہے جسے لوگ سمجھتے نہیں، آخرہمارے فکراور تھیولوجی میں یہ جمودکیوں ہے؟ ڈاکٹر لبنیٰ نے سوال کیا کہ آج دنیا کو یا اپنے ملک کو ہم کیا پیغام دے رہے ہیں؟انھوں نے کہا کہ دنیا میں ماحولیات ، معاشیات،حقوق انسانی اورعام انسانوں کودرپیش مسائل پر بحث ومباحثہ میں ہم کہاں ہیں؟ برج کور س کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر کوثر فاطمہ نے مسلم خواتین کے حوالے سے قرآن واسوۂ رسول کی روشنی میں صحیح پوزیشن واضح کی اور مسلمانوں کی عملی صورت حال کا شکوہ کیا۔ انہوں نے سوا ل کیا کہ خواتین کو ناقص العقل قرار دینے والے کیا حضرت عائشہؓ و خدیجہؓ کو بھی ناقص العقل قرار دینے کی جرأت کریں گے؟
علماء کی عالمی انجمن(قطر) کے نمائندہ اورملی شخصیت ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے عرب ممالک میں مسلکی تشدد اور شام وعراق کی تباہ کن خانہ جنگی اورانتہاپسندانہ جنون کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے بڑے اطمینان کی بات ہے کہ عالم اسلام میں مصالحت کی یہ آواز ہندوستان سے اٹھ رہی ہے کہ ماضی میں بھی مسلمانان ہند امت مسلمہ کے حساس مسائل اورایشوزپر جرأت وحمیت کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں ۔انہوں نے یہ تجویزبھی پیش کی کہ ایک مجلسِ حکماء (Council of Elders (کی تشکیل کی جائے جومسلم حکمرانوں اورارباب حل وعقدکوصلاح ومشورے دے۔ 
جاپان کی مسلم ایسوسی ایشن میں نوجوانوں کے شعبہ کے ڈائرکٹر اورعالمی ادارہ برائے فکراسلامی واشنگٹن کے رکن ڈاکٹر احمد شیوزکی یوکی نے مشورہ دیا کہ دوسرے معاشروں کے مقابلے میں مسلم اقلیتوں کے لیے زیادہ ضروری ہے کہ اکثریتی قوموں کے ساتھ پر امن رہنے کے طریقے سیکھیں۔ شیعہ تھیولوجی کے چیئرمین پروفیسر سید علی محمد نقوی نے امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں کے مقابلے کے لیے چار اصول پیش کیے : دوسرے مسلک ومکتب فکرکوبرداشت کرنا ، تکفیر کا انکار ، بہتان طرازی سے پرہیز اوردوسروں کی اہانت ودل آزاری سے اجتنا ب۔
اسلامی فقہ اکیڈمی (انڈیا)کے سیکریٹری مولانا امین عثمانی ندوی نے فرمایا کہ برج کورس سے مدارس کے طلبہ کو غیر معمولی فائدہ ہورہا ہے ۔ انھوں نے تاریخی طورپر اسلام میں اصلاح حال کے لیے تغییر ، تجدیداور تفکیر کے پراسس پر روشنی ڈالی اورماضی کی اس تابناک روایت کے احیاء کے لیے عقل کے استعمال پر زور دیا۔ 
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی شوری کے رکن مجتبیٰ فاروق نے بڑے دردسے کہاکہ ہندوستان میں یوپی کے حالیہ انتخابات میں مسلمانوں کی بری گت بن گئی ہے جبکہ اسی یوپی میں دیوبند بھی ہے، مسلم یونیورسٹی بھی، ندوۃ اور اشرفیہ بھی ، لیکن ہماری بصیرت جیسے کہیں کھوگئی ہے ۔ افتتاحی سیشن سے خاتو ن سماجی ایکٹیوسٹ سائرہ شاہ حلیم نے اپنے خطاب میں مشورہ دیا کہ ہمیں اکثریتی سماج کے لوگوں کو اپنے گھر بلانا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ ان سے میل جول بڑھایا جائے۔ہمیں چاہیے کہ اکثرتی سماج کوسمجھیں اس کے بعد ہی ہم امید کرسکتے ہیں کہ وہ بھی ہمیں سمجھیں گے۔ 
مرکزی جمعیت اہل حدیث کے صدر مولانا اصغرعلی امام سلفی نے فرمایاکہ یہ مفاہمتی اجلاس وقت کی ضرورت ہے۔ آج خوارج کی فکرکی پھرسے تجدیدہورہی ہے جواسلام اورمسلمانوں کے لیے شدیدنقصانات کا باعث بن رہی ہے، اس کا مقابلہ کیاجاناچاہیے ۔انہوں نے کہاکہ یہ مفاہمتی اجلاس صحیح معنی میں تبھی کامیا ب ہوگا جب ہم سب لوگ عملاً اس اجلاس کے روح رواں اور داعی راشد شاز صاحب کا ان کے ملی کاموں میں ساتھ دیں گے۔
مرکز برائے فروغ تعلیم مسلمانان ہند کے ڈائریکٹر پروفیسر راشد شاز نے اپنے خطاب میں مسلمانان عالم کی ناگفتہ بہ صورت حال کا مختصراًجائزہ لیااوراس تجویز کا کہ علی گڑھ سے ایک عالمی سطح کی مجلس حکماکی تشکیل کی جائے اور اس کی ابتداء اسی کانفرنس سے ہو،خیرمقدم کیااوراس بارے میں اپنے پورے تعاون کایقین دلایا۔ وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ نے اپنے صدارتی خطے میں لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ اب فرقہ بندی کی دیواریں گرادی جائیں اور مدارس میں دنیاوی علوم بھی داخل کیے جائیں۔ انھوں نے طلباء اور طالبات کو نصیحت کی کہ صبح کے وقت کا صحیح استعمال کریں۔ مزیدبرآں برج کورس نے طلباء وطالبات کے مابین’’برج کورس میں میراعلمی سفر‘‘کے موضوع پر مضمون نگاری کا ایک مقابلہ کرایا تھا جس کے انعام یافتگان کو وائس چانسلر صاحب کے بدست انعامات کی تقسیم بھی کانفرنس کے پہلے سیشن میں عمل میں آئی۔ نیز وئس چانسلرصاحب کی خدمت میں سپاس نامہ بھی طلبۂ برج کورس نے پیش کیا۔
افتتاحی اجلاس کے بعدپہلے اوردوسرے دن اس کانفرنس کے اہم ترین موضوعات پر ورکنگ پیپرزپیش کیے گئے جن پر مشارکین نے گفتگواوربحث ومباحثہ کیا۔ دونوں دن مختلف سیشنوں میں اسکالرز اور مقررین نے ان موضوعات کا احاطہ کیا۔ مدارس میں سائنسی علوم کے مستقبل کے موضوع پربولتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ خاتون نے کہا کہ علم اسماء بعض مفسرین کے نزدیک خواص اشیاء کا نام ہے۔ اس سے استنباط کیاجاسکتاہے کہ ہمارانظام تعلیم ایسا ہوناچاہیے جس میں دینی و عصری علوم کا امتزاج ہو۔انہوں نے اقبال کا یہ شعرپڑھا: 
جوعالم ایجادمیں ہے صاحب ایجاد
ہردورمیں کرتاہے طواف اس کا زمانہ 
ڈاکٹر محمد عامر نے رائے دی کہ سائنس کے بارے میں زیادہ تر علماء یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس سے خدا بیزاری پیدا ہوتی ہے ، حالانکہ مطلقاًیہ بات درست نہیں ہے۔انیسویں صدی کی سائنس میں یہ رعونت پائی جاتی تھی مگراب سائنسی فکرخودخداکے وجودکوتسلیم کررہی ہے۔ مرکز برائے فروغ تعلیم مسلمانان ہندکے سینئر فیلواور سائنٹسٹ ڈاکٹرمحمد زکی کرمانی نے اپنے تعلیمی وسائنسی تجربات کی روشنی میں یہ رائے دی کہ ملک میں رائج آٹھویں درجہ کا جدید سائنسی نصاب مدارس میں داخل کیا جانا چاہیے اور اسی طرح مغربی تہذہب اورمغربی سائنسی فکر کا ابتدائی تعارف بھی کرایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ مدارس کا جوآزادانہ نظام ہے، اس میں ایک مثبت پہلویہ ہے کہ وہ اس امکان کوروشن کرتاہے کہ گورنمنٹ کے سیکولرتعلیمی سسٹم کے پہلوبہ پہلوایک دوسراآزادانہ نظام بھی چل سکتاہے ۔ مدرسہ سراج العلوم سنبھل کے مہتمم مولانا محمد میاں قاسمی نے فرمایا کہ مدارس دراصل خود رروجنگل ہیں ان کا کوئی متحدہ سسٹم نہیں ہے۔ انھوں نے اہل مدارس سے سوال کیا کہ قرآن پاک میں تقریباً سولہ سو آیات ایسی ہیں جن میں کائنات کی نشانیوں کو بتایا گیا ہے اور سائنس کو جانے بغیر ان آیات کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے۔ 
پروفیسر راشد شاز نے مغربی نظام تعلیم کے بعض امریکی ناقدین کے حوالہ سے یونیورسٹیوں اورکالجوں میںآئے تحقیقی اوراکیڈمک انحطاط پر روشنی ڈالتے ہوئے اس پر زور دیا کہ مدرسہ سسٹم اور یونیورسٹی سسٹم دونوں میں بعض اچھائیاں اور بعض خرابیاں ہیں۔اس لیے دونوں کی خرابیوں سے بچتے ہوئے اوردونوں کی اچھائیوں کو جمع کرتے ہوئے ایک نیا تعلیمی ماڈل ترتیب دیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ ہمارایہ پراناخواب ہے اوراب اس کوتعبیردینے کا وقت آن پہنچاہے۔
رٹائربینکرجناب نفاست یارخاں نے کہاکہ مسلمانان ہندکوسرسیدکے ماڈل کواختیارکرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں کو خیربادکہتے ہوئے صرف تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ دینی تعلیم کے ساتھ مدارس میں شروع ہی سے انگریزی پڑھائیں۔ ڈاکٹرمحمدآصف خاں نے عالم اسلام کی دوسری مشہوراورقدیم یونیورسٹی جامعۃ القرووین کا تعارف پیش کیااوراس کی بانیہ فاطمہ الفہریہ کی حیات اورکارناموں پر روشنی ڈالی۔ڈاکٹرشفیق الرحمان نے مدارس کے مختلف ٹرینڈز کا جائزہ پیش کیااوربتایاکہ مدارس کے تعلیمی دورانیہ میںیکسانیت نہیں جس سے عا لمیت وفضیلت کی سندوں میں بھی ٹیکنیکل پیچیدگیاں ہیں۔جولوگ مدارس سے یونیوسٹیوں میں آتے ہیں، ان کے لیے بڑے مسائل پیداہوجاتے ہیں۔اسی طرح انہوں نے حیرت ظاہرکی کہ گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے مدرسوں کوبھی اہل مدارس عموماً جامعہ بولتے ہیں جبکہ جامعہ کا اطلاق موجودہ دورمیں یونیورسٹی پرہوتاہے۔ کالم نگارڈاکٹرسلیم خاں نے ذریعہ تعلیم کے طورپر مادری زبان کی افادیت پرروشنی ڈالی اوردنیاکی ترقی یافتہ اقوام جرمن،فرنچ،جاپانی اورچینیوں کے حوالہ سے بتایاکہ مادری زبان میں پڑھنے سے تصورات زیادہ کلیرہوتے ہیں۔
مسلم پرسنل لاوالے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبندکے ایک بزرگ فاضل مولاناکبیرالدین فوزان قاسمی نے اپنی یہ تحقیق پیش کی کہ نکاح وطلاق اصلاً تعبدی نہیں، سماجی مسائل ہیں، اس لیے مسلمانوں کوطلاق ثلاثہ کے سلسلہ میں بہت زیادہ حساسیت برتنے کی ضرورت نہیں اوران کوایسامعقول موقف اپناناچاہیے جس سے برادران وطن میں ہماری غلط شبیہ نہ بنے۔ مولانا اصغرعلی امام سلفی نے ملک کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے پس منظرمیں مسلم عائلی مسائل کے تحفظ پر زوردیالیکن انہوں نے کہاکہ اس کے لیے عوامی مہم چلانے سے منفی تاثر جاتا ہے، اس لیے اس سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔
ایڈیٹرملی گزٹ ڈاکٹرظفرالاسلام خاں نے بتایاکہ ہندوستان میں رائج مسلم پرسنل لاء دراصل انگریزوں کا نافذکردہ مسلم لاء ہے اوریہ مسلمانوں کی نااہلی ہے کہ وہ ابھی تک اپنے عائلی قوانین کا جامع مجموعہ مرتب کرکے اسے انگریزی میںCoded اندازمیں پیش نہیں کرسکے ۔جوکوششیں کی گئی ہیں، وہ بہت ناقص ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے ضمن میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے داخل کردہ حلف نامہ کوبھی نقائص سے پربتایااورمسلمانوں کواپنے کیس کو غلط طورپر ہینڈلنگ کرنے کے نتائجِ بدسے آگاہ کیا۔مولاناامین عثمانی ندوی نے اس سیشن کی صدرات کرتے ہوئے مسلم پرسنل لااوراس کوپیش کردہ خطرات وچیلنجوں کا ذکرکیا۔انہوں نے مفتی استنبول کے ایک فتوے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ ترکی میں فقہ حنفی رائج ہے، لیکن وہاں کے علما نے اس میں حالات کے مطابق ترمیم کی ہے اورطلاق ثلاثہ (یک بارگی )کوایک ہی طلاق کے حکم میں رکھاہے۔ 
کانفرنس کے تیسرے سیشن میں اہل کتاب سے تعلقات کے سلسلے میں ڈاکٹر محمد محب الحق نے اس خیال کا اظہارکیا کہ کیتھولک عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں کو مذاکرات کی جو دعوت دی جاتی رہی ہے، اس کو ہمیں ویلکم کرنا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بین المذاہب مذاکرات مسلم یونیوسٹی کی بنیاد میں شامل ہے کیونکہ سرسید احمد خاں انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے بانی ہیں۔انہوں نے بائبل کی تفسیراوررسالہ طعام اہل کتاب لکھ کرگویااہل کتاب سے مکالمہ کی ابتداکی تھی۔ مولانا محمد میاں قاسمی نے اس سلسلہ میں رائے دی کہ اس کام کے لیے ہمیں انسانوں کی خدمت کرنی چاہیے اور اللہ کے تصور پر ہم تمام انسانوں کو جمع کرسکتے ہیں۔جیساکہ قرآن کریم کاکہناہے کہ: تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم ان لانعبد الا اللہ۔ مترجم قرآن جناب سکندراحمدکمال نے ان الذین فرقوا دینہم وکانوا شیعاً کی روشنی میں تمام مسالک اورمکاتب فکرکواپنے رویوں کا احتساب کرنے کی دعوت دی۔نوجوان اسکالریاسرمحمودفلاحی نے قرآن اوراسوۂ رسول اورتاریخ میں امت مسلمہ کے اہل کتاب کے ساتھ مجموعی تعامل کوپیش کیااورموجودہ دورمیں اہل کتاب سے مسلمانوں کے عمومی نفرت کے رویہ کاناقدانہ جائزہ لیا۔اردوکے سینئرصحافی عالم نقوی نے طلبہ وطالبات پر زوردیاکہ وہ اپنے مسائل کا حل قرآن کی روشنی میں تلاش کریں اوربراہ راست قرآ ن سے اکتساب فیض کریں۔
مرکز کے سینئر فیلو ڈاکٹر عبدالرؤف نے کہا کہ ہمارے ملک میں ماحولیا ت کے موضوع پر چار ہزار تنظیمیں کام کررہی ہیں،ہم کہیں نظر نہیں آتے، کم از کم ان کے ساتھ شامل تو ہوں۔ کلکتہ کے سماجی ایکٹوسٹ کاشف حسن کا کہناتھاکہ ہم مسلمانوں کواب مسلمہ امہ جیسی اصطلاحوں سے باہرنکل کروسیع انسانیت کے پس منظرمیں کام کرناچاہیے ،ملک میں اس وقت نیشنل از م پر جوبحث جاری ہے اس میں ہمیں سرگرم حصہ لیناچاہیے ۔انہوں نے بیوروکریسی میں مسلمانوں کی عدم موجودگی پر بھی بھی افسوس ظاہرکیا۔شیعہ تھیولوجی کے ڈین پروفیسر سید علی محمد نقوی نے اس بات پر زور دیا کہ بین المذاہب مذاکرات کا نظریہ ڈیولپ کیا جائے اور ہم سب کومشترک انسانی مقاصد کے لیے کا م کریں۔دوسری علی گڑھ تحریک کے سلسلے میں ڈاکٹرزکی کرمانی صاحب نے یہ تبصرہ کیا کہ علی گڑھ تحریک سے کوئی بڑا مفکر اور بڑا سائنٹسٹ اور اسکالر پیدا نہیں ہوا۔ اس لیے نئی سرسید تحریک میں ہمیں اس جہت کو بھی شامل کرنا چاہیے۔مذکورہ مرکزکے ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی نے سرسیداحمدخان کی مذہبی فکرکا مختصر تعارف کرایااوراس پر افسوس کا اظہارکیاکہ ان کے مذہبی فکرکواب تک تحقیقی وناقدانہ مطالعہ کاموضوع ہی نہیں بنایاگیااوراس کوکبھی منظرعام پر ہی نہیں آنے دیاگیا۔ 
اس دوروزہ کانفرنس کے شرکا جوش وولوے کے ساتھ پرعز م دکھائی دیے کہ کانفرنس کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے وہ اپنی اپنی سطح پر فوری طور پر متحرک ہوں گے اور مرکز برائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہند کانفرنس کے منظور کردہ چاروں نکات پر عمل درامد کے لیے فی الفور اقدامات کرے گا۔ اختتامی سیشن میں یہ بات کانفرنس کے شرکاء نے منظورکی کہ جدید وقدیم کے جامع نئے تعلیمی منصوبے کے احیاء کے لیے المدرسہ یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔یوں عالمی سطح کی اپنی نوعیت کی دوسری High Profileکانفرنس اس علامیہ کے ساتھ ختم ہوئی کہ مرکز برائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہند کے تحت ایک مجلس حکماء بنائی جائے گی۔ (۲)
ایک نئے تعلیمی منصوبے کی نمائندہ المدرسہ یونیورسٹی کے لیے ایک نئے تعلیمی ماڈل (قرطبہ ماڈل)کی تیاری کی جائے گی۔ (۳) علی گڑھ تحریک کو ازسر نو پوری جامعیت کے ساتھ زندہ کیا جائے گا جس میں سرسید کی مذہبی فکر بھی منظر عام پر آئے۔(۴)اس کانفرنس کا احساس ہے کہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں مسلمانوں کی نمائندگی صحیح طورپر نہیں ہورہی ہے۔ اس کی اصلاح ودرستگی کے لیے بھی مرکز برائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہندمثبت اندازمیں کام کرے گا ۔یہ اعلان بھی کیا گیا کہ انجمن علماء اسلام طلبا ء کے مابین ایک نیا مقابلہ کرائے گی جس کی انعامی رقم دولاکھ کردی گئی ہے۔ 
اس بین الاقوامی کانفرنس کے لیے جاپان، ملیشیااور ترکی کے ممتازا سلامی اسکالروں نے مقالات لکھے اوربعض نے شرکت بھی کی۔ نیز ہندوستان کے کونے کونے سے علماء ، دانشور ، سماجی ایکٹیوسٹ اور دردمندافرادنے حصہ لیا۔ پوری دنیا میں مسلمان جس مسلکی ، گروہی، اور فرقہ وارانہ کشاکش کا شکار ہیں، اس میں اس کانفرنس نے مسلمانان عالم کو ایک مصالحت کا پیغام دیا اورشرکاء دینی وملی جذبہ سے سرشارہوکراورمختلف میدانوں میں نئے سرے سے سرگرم ہونے کاعزم لے کرلوٹے۔توقع کی جاتی ہے کہ مسلمانان عالم کے درمیان مصالحت کے لیے علی گڑھ سے لگائی جانے والی یہ دردمندانہ صدارائگاں نہ جائے گی اورایک انقلابی پہل ثابت ہوگی۔

جون ۲۰۱۷ء

امام ابو حنیفہ کی اجتہادی فکر سے چند راہنما اصولمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۱)ڈاکٹر محی الدین غازی
رؤیت ہلال کا مسئلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امام عیسیٰ بن ابانؒ : حیات و خدمات (۲)مولانا عبید اختر رحمانی
بین الاقوامی عدالت انصاف کا فیصلہ: ایک قانونی تجزیہڈاکٹر محمد مشتاق احمد
قرآنِ مجید اور اسیرانِ جنگعدنان اعجاز
مباحث فطرت و اخلاق: بحث کیا ہے؟محمد زاہد صدیق مغل
مکاتیبادارہ
سانحہ مستونگ کے شہداءمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام ابو حنیفہ کی اجتہادی فکر سے چند راہنما اصول

محمد عمار خان ناصر

(۱۹ جنوری ۲۰۱۷ء کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ فکر اسلامی کے زیر اہتمام ’’خطبات اسلام آباد‘‘ کے زیر عنوان لیکچر سیریز میں کی گئی گفتگو کے بنیادی نکات۔)
۱۔ اجتہاد کا بنیادی مقصد زندگی اور اس کے معاملات کو قرآن وسنت کے مقرر کردہ حدود میں اور ان کی منشا کے مطابق استوار کرنا ہے۔ اس ضمن میں شارع کے منشا کو عملی حالات پر منطبق کرنے اور بدلتے ہوئے حالات اور ارتقا پذیر انسانی سماج کا رشتہ قرآن وسنت کی ہدایت کے ساتھ قائم رکھنے کا وظیفہ بنیادی طور پر انسانی فہم ہی انجام دیتا ہے اور ایک طرف قرآن وسنت کی منشا اور دوسری طرف پیش آمدہ مخصوص صورت حال یا مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے اور ان دونوں کے باہمی تعلق کو متعین کر کے ایک مخصوص قانونی حکم لاگو کرنے کی اسی علمی وفکری کاوش کو اصطلاح میں ’اجتہاد‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
۲۔ دوسری صدی ہجری میں امت میں جو مختلف فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے، ان میں سے بعض تو علمی وتحقیقی طور پر کتابی بحثوں تک محدود رہ گئے، جبکہ بعض کو بعد کے ادوار میں بہت سے علمی، سیاسی اور سماجی عوامل کے تحت امت میں قبول عام حاصل ہوا اور عالم اسلام کے مختلف حصوں میں ان میں سے کسی نہ کسی فقہی مکتب فکر کو عمومی سطح پر پذیرائی بخشی گئی۔ امت میں وسیع پیمانے پر قبول عام حاصل کرنے والے ان فقہی مکاتب فکر میں فقہ حنفی سب سے نمایاں ہے جسے نہ صرف علمی سطح پر امت کے بہت سے نامور اہل علم اور فقہا ومحدثین کی وابستگی میسر ہوئی، بلکہ اسلامی تاریخ کی تین عظیم سلطنتوں یعنی خلافت عباسیہ، خلافت عثمانیہ اور برصغیر میں مغل سلطنت کی سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوئی۔ 
۳۔ علامہ محمد اقبال نے ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کے چھٹے خطبے میں اجتہاد کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے احادیث سے متعلق امام ابوحنیفہ کے زاویہ نگاہ کا ذکر تے ہوئے لکھا ہے:
’’شاید اسی نقطہ نظر سے امام ابوحنیفہ نے، جو اسلام کے عالمگیر کردار کے بارے میں گہری بصیرت رکھتے تھے، عملی طور پر ان احادیث کو استعمال نہ کیا۔ انھوں نے استحسان، یعنی فقیہانہ ترجیح کے اصول کو متعارف کرایا جو قانونی فکر میں حقیقی یا اصلی صورت حال کے محتاط مطالعے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ یہ حقیقت ان محرکات پر مزید روشنی ڈالتی ہے جنھوں نے اسلامی فقہ کے اس ماخذ (یعنی احادیث) کے بارے میں امام ابوحنیفہ کے رویے کا تعین کیا۔‘‘ (’’تجدید فکریات اسلام‘‘، ترجمہ: ڈاکٹر وحید عشرت، اقبال اکادمی، پاکستان، طبع اول، ۲۰۰۲ء، ص ۲۰۴، ۲۰۵)
۴۔ اقبال کے مذکورہ بیان کا ایک حصہ تو امام ابوحنیفہ کے نقطہ نظر کی درست ترجمانی نہیں کرتا، یعنی یہ کہ امام ابوحنیفہ نے عملی طور پر اپنے اجتہادات میں احادیث کو استعمال نہیں کیا، اس لیے کہ احادیث وآثار کی اہمیت کے ضمن میں امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ مجتہدین کے نقطہ نظرمیں اصولی طور پرکوئی فرق نہیں اور امام ابوحنیفہ بھی روایات وآثار کو اجتہاد واستنباط کا بنیادی ماخذ تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ امام ابوحنیفہ کے براہ راست تلامذہ کی تصنیف کردہ کتب میں استدلال واستنباط کی اصل بنیاداحادیث وآثار ہی پررکھی گئی ہے۔ تاہم اقبال کا یہ تجزیہ بہت اہم ہے کہ امام ابوحنیفہ اسلامی قانون کے عالمگیر کردار (Universal Character) کے بارے میں گہری بصیرت رکھتے تھے اور یہ کہ نصوص یعنی آیات واحادیث کے ساتھ ساتھ حقیقی یا واقعی صورت حال (جس میں قانون کا عملی اطلاق کیا جانا ہے) کے گہرے اور محتاط مطالعے کو بھی حنفی منہج اجتہاد میں بہت بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ 
۵۔ اسلامی قانون کے عالمگیر کردار یعنی اس کی آفاقیت کو محفوظ اور برقرار رکھنے یا دوسرے لفظوں میں ہر طرح کی صورت حال میں اس کی عملی معنویت (relevance) کو قائم رکھنے کے لیے امام ابوحنیفہ نے احادیث کی تعبیر وتشریح اور ان سے استنباطِ احکام کا ایک بہت واضح اور منضبط علمی وعقلی منہج اختیار کیا جس کی اہم خصوصیات کو ان نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
الف۔ امام ابوحنیفہ احادیث کے ظاہری مفہوم تک محدود رہنے کے بجائے ان کی تعبیر وتشریح میں کتاب وسنت کے دیگر نصوص اور شریعت کے مجموعی مزاج ونظام سے بھی استفادہ کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل منشا ومراد کی تعیین کے لیے متنوع علمی وعقلی اصولوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔وہ ایک طرف حدیث کے ظاہری الفاظ اور ان کی دلالتوں کو مد نظر رکھتے ہیں اور دوسری طرف ان علمی وعقلی قرائن کو بھی پورا وزن دیتے ہیں جو متعلقہ نص سے ہٹ کر دیگر خارجی دلائل پر غور کرنے سے ان کے سامنے آتے ہیں اور جنھیں ان کی اہمیت کے باعث حکم کا محل اور اس کا دائرۂ اطلاق متعین کرتے ہوئے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ 
ب۔ کسی بھی حکم کے اطلاق اور نفاذ یا دوسرے لفظوں میں اس کی بنیاد پر عملی قانون سازی کے لیے دیگر عقلی واخلاقی اصولوں اور عملی مصالح کی روشنی میں بہت سی قیود و شرائط کا اضافہ اور مختلف صورتوں میں حکم کے اطلاق ونفاذ کی نوعیت میں فرق کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ دین کے کسی حکم یا اصول کے تحت کسی دوسرے حکم کی تخصیص کرنے، استثنائی صورتوں پر عمومی حکم کا اطلاق نہ کرنے، مقاصد ومصالح اور عملی حالات کی رعایت سے کسی مباح کو واجب یا سد ذریعہ کے طور پر ممنوع قرار دینے، کسی اخلاقی ذمہ داری کو قانونی پابندی میں تبدیل کرنے، کسی اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے اس پر قدغن لگانے اور اس نوعیت کی دیگر تحدیدات وتصرفات کی مثالیں احادیث، آثار صحابہ اور ائمۂ مجتہدین کی فقہی آرا میں موجود ہیں اور امام ابوحنیفہ نے بھی اپنے اجتہادات میں اس اصول سے بکثرت فائدہ اٹھایا ہے۔ 
ج۔ احادیث نبویہ کی تعبیر وتشریح میں فقہائے احناف نے جن علمی وعقلی اصولوں کو ملحوظ رکھا ہے، ان میں سے ایک نہایت اہم اصول یہ ہے کہ ان احکامات میں جن کی پابندی آپ نے بطور دین امت پر لازم فرمائی اور ان ہدایات میں جن کی بنیاد وقتی نوعیت کی انتظامی مصلحتوں پر ہے، فرق ملحوظ رکھا جائے۔ پہلی صورت میں آپ کے احکام کی اتباع لازم ہے اور اس میں کسی فرد بشر کو تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں، لیکن جن معاملات سے متعلق قرآن میں کوئی متعین حکم نہیں دیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سنت کی حیثیت سے کسی عمل یا طریقے کو جاری نہیں فرمایا، وہاں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے یا نافذ کردہ فیصلے کو مختلف امکانی طریقوں میں سے ایک طریقہ سمجھنے اور ان کے علاوہ دیگر مختلف امکانات کا راستہ کھلا رکھنے کی پوری گنجایش رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ریاست مدینہ کے حاکم تھے اور آپ نے بہت سے فیصلے، اپنی اس حیثیت میں، اس وقت کے انتظامی مصالح کو سامنے رکھتے ہوئے کیے۔ چونکہ اس طرح کے مصالح ہر زمانے کے لیے حتمی طور پر ایک جیسے نہیں ہوتے، اس لیے احناف ایسے فیصلوں پر ہر حال میں عمل کرنے کو لازم نہیں سمجھتے بلکہ ان میں اصل فیصلہ کن حیثیت حاکم وقت کی صواب دید کو قرار دیتے ہیں۔ 
د۔ فقہائے احناف کے منہج ا جتہاد کی نہایت بنیادی خصوصیت اور سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ احادیث میں وارد ہدایات کو شریعت کے عمومی ضابطے کا درجہ دینے میں ازحد احتیاط سے کام لیتے ہیں اور متنوع علمی وعقلی اصولوں کی روشنی میں مختلف پہلوؤں سے بہت باریک بینی سے کسی بھی حکم پر غور کرنے کے بعد یہ طے کرتے ہیں کہ آیا شارع کو اس کی پابندی ہر طرح کی صورت حال میں مطلوب ہے یا اس نے وہ حکم کسی مخصوص تناظر میں بیان کیا ہے جو اپنی شرائط وقیود کے لحاظ سے عمومی قانون سازی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ چنانچہ احکام شرعیہ کے استنباط کے ضمن میں احناف نے اس پہلو پر بطور خاص توجہ دی ہے کہ کسی بھی معاملے میں شریعت کے اصل اور عمومی حکم کی حیثیت اسی بات کو دی جائے جو دین کے عام مزاج، اصول عامہ اور قواعد کلیہ سے مناسبت رکھتی ہو اور اگر کسی حدیث میں اس سے مختلف کوئی بات منقول ہو تو اس کی بنیاد پر قواعد کلیہ کو ترک کر دینے کے بجائے خود ان روایات کی کوئی مناسب توجیہ کی جائے جس سے اپنے خاص محل میں وہ بھی قابل فہم بن جائیں اور شریعت کے عمومی اصول بھی مجروح نہ ہوں۔ 
۶۔ امام ابوحنیفہ کی اجتہادی فکر کا مطالعہ اس حوالے سے بھی بہت اہم ہے کہ وہ اور ان کے تلامذہ اپنے دور میں جو تہذیبی تبدیلی دیکھ رہے تھے،اس کو انھوں نے اپنے نظام فکر میں کیسے جگہ دی۔ جو عوامل ان کے نظام فکر پر اثر انداز ہوئے، وہ سارے نظری قسم کے نہیں تھے، بلکہ وہ معاشرتی تبدیلیوں اور بدلتے ہوئے حالات و ضروریات پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے اور ان کے ہاں اس بات کا بھی بہت گہرا ادراک ملتا ہے کہ غیر مسلم معاشرے جو اپنا اپنا پس منظر لے کر اسلام میں آ رہے تھے، ان پر اسلامی قانون کے نفاذ میں کیا عملی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔ ائمہ احناف کے بہت سے اجتہادات کا اگر اس تناظر میں دوبارہ مطالعہ کیا جائے تو عصر حاضر کے اعتبار سے اس میں بڑی روشنی اور راہنمائی کا سامان مل سکتا ہے۔ 

جمہوری اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی شرعی حیثیت

کسی طبقے کو معاشرے میں کیا حیثیت حاصل ہے اور اس کے شہری وسیاسی حقوق کیا ہیں، اس کے تعین میں مجموعی معاشرتی رویوں کے ساتھ ساتھ آئینی وقانونی تصورات کو بھی بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ مسلم اکثریتی معاشروں میں بسنے والی غیر مسلم آبادی کے متعلق کلاسیکی اسلامی تصور یہ تھا کہ وہ ’’اہل ذمہ‘‘ ہیں جن کی حیثیت ایسے شہریوں کی ہے جن کی جان ومال اور مذہب کو ازروئے معاہدہ تحفظ حاصل ہے، لیکن وہ شہری وسیاسی حقوق میں اکثریت کے برابر شمار نہیں ہوتی۔ جدید جمہوری ریاستوں میں شہریت کا تصور اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں شہریوں میں ایسی کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی اور نتیجتاً سیاسی وقانونی حقوق میں کسی مذہبی امتیاز کے بغیر تمام شہری یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے ہماری سیاسی قیادت کے تصورات تو روز اول سے واضح رہے ہیں، جیسا کہ قائد اعظم اور دیگر سیاسی قائدین کے بیانات وتصریحات سے عیاں ہے۔ البتہ مذہبی سیاسی قائدین اور خاص طور پر مذہبی علماء کو اس تغیر کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے میں وقت لگا ہے اور شاید مزید لگے گا۔ دوسرے بہت سے امور کی طرح، اس معاملے میں بھی مولانا مودودی ہمارے ہاں کے شاید پہلے مذہبی مفکر تھے جنھوں نے اجتہادی بصیرت سے کام لیتے ہوئے اس تغیر کو باقاعدہ علمی توجیہ کا موضوع بنایا اور یہ واضح کیا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کی حیثیت اہل ذمہ کی نہیں ہے، اس لیے ان پر کلاسیکی فقہی احکام کے مطابق جزیہ وغیرہ عائد نہیں کیا جا سکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ مولانا نے صرف حکم بیان کرنے پر اکتفا نہیں کی، بلکہ اصل سوال کو بھی موضوع بنایا ہے، یعنی یہ کہ کلاسیکی فقہ میں بیان کیا جانے والا حکم آج کس بنیاد پر قابل اطلاق نہیں ہے۔ یہ سوال وجواب ’’رسائل ومسائل‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (اس ضمن میں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ مسئلہ جہاد کی طرح اسلامی ریاست سے متعلق دیگر اہم سوالات کے حوالے سے مولانا کی فکر میں ارتقا پایا جاتا ہے۔ غیر مسلم شہریوں کے قانونی اسٹیٹس سے متعلق بھی مولانا کے زاویہ نظر میں یہ ارتقا موجود ہے۔)
تاہم روایتی مذہبی علماء کے ہاں معاملات کو قدیم فقہی پیرا ڈائم میں ہی دیکھنے کا رجحان غالب رہا ہے اور ان کی تحریروں اور فتاویٰ جات میں انھی قدیم اصطلاحات وتصورات کی روشنی میں صورت حال کو دیکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسراراحمد صاحب مرحوم کے ہاں بھی ’’نظریاتی ریاست‘‘ کا وہی تصور ملتا ہے جس میں اقلیتیں بہرحال دوسرے درجے کی شہری ہوں گی۔ تحریک طالبان وغیرہ گروہوں کا تصور ریاست بھی یہی ہے۔ بہت سے معاصر اہل علم بھی، جو بنیادی طور پر پاکستانی آئین کو پوائنٹ آف ریفرنس کے طور پر قبول کرتے ہیں، اقلیتوں کے حقوق اور آزادیوں کی عملی تفصیلات کے لیے کلاسیکی فقہ سے ہی رجوع کرتے اور فقہی تصریحات کو جمہوری ریاست کے باشندوں پر منطبق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس تناظر میں، ہمارے خیال میں، مفتی منیب الرحمن صاحب کا اپنے ایک حالیہ کالم میں یہ ارشاد ایک اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ’’ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہماری قانونی و سیاسی اصطلاحات اور روز مرہ محاورے میں لفظ اقلیت کے استعمال کو ترک کر دیا جائے اور تمام غیر مسلموں کو مساوی درجے کا پاکستانی تسلیم کیا جائے۔‘‘ یہ جمہوری قومی ریاست کے تصور کا ایک ناگزیر تقاضا ہے اور ایک مستند روایتی عالم دین کے قلم سے یہ بات پڑھ کر امید بندھتی ہے کہ روایتی مذہبی فکر اور معاصر تاریخی سیاق کے مابین فاصلہ کچھ کچھ سمٹ رہا ہے۔ بس روایتی اہل علم سے ہماری گزارش یہ ہوگی کہ وہ اپنے موجودہ موقف کو کلاسیکی فقہی موقف کے ساتھ گڈمڈ نہ کریں اور نہ اسے اس کا تسلسل دکھانے کی غیر علمی روش اختیار کریں۔ انھیں یہ حقیقت واضح طور پر تسلیم کرنی چاہیے کہ ’’دار الاسلام‘‘ کا روایتی فقہی تصور اور جدید جمہوری مسلم ریاست کا تصور، ہم معنی نہیں ہیں اور دونوں کے درمیان بنیادی فروق پائے جاتے ہیں۔ اس کی روشنی میں انھیں اپنی فقہی واجتہادی بصیرت کو اس سوال کا علمی جواب طے کرنے میں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے کہ علمی وفقہی روایت سے وابستہ ہوتے ہوئے معاصر تغیرات کو قبول کرنے کی گنجائش کیسے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک علمی قرض ہے جو پاکستان میں ’’جمہوری اسلامی ریاست‘‘ کو مذہبی جواز فراہم کرنے والے تمام اہل علم کے ذمے ہے اور اسی میں ان ابہامات کا ازالہ بھی پوشیدہ ہے جو تحریک طالبان جیسے گروہوں کی فکری گمراہی کے بہت بڑی حد تک ذمہ دار ہیں۔

فکری مباحثہ: جارحیت اور پسپائی میں توازن کی ضرورت

رد عمل کا شکار ہو کر فکری وکلامی مخالفین کو کلی طور پر discredit کرنے (یعنی ناقابل اعتماد ثابت کرنے) کی کوشش کرنا ایک عام انسانی کمزوری ہے۔ مخلص، نیک اور متقی لوگ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔ ہماری علمی تاریخ میں اس کا ایک مظہر محدثین کا رویہ ہے جو امام احمد بن حنبل پر ہونے والے تشدد پر بحیثیت جماعت رد عمل کا شکار ہو گئے اور خلق قرآن کے مسئلے میں معتزلہ سے محض لفظی یا جزوی مشابہت رکھنے والے حضرات کو بھی discredit کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا (جس کی مشہور ترین مثال امام بخاری کا اپنے استاذ امام ذہلی کی طرف سے discredit کیا جانا ہے)، حالانکہ یہ حضرات راویان حدیث کی جرح وتعدیل کی نہایت نازک ذمہ داری انجام دے رہے تھے جہاں لاگ، تعصب اور ذاتی وگروہی رنجشوں کی دینی واخلاقی طور پر کوئی گنجائش نہیں بنتی۔ (یہ مسئلہ محدثین کی مجموعی نفسیات پر کس طرح اثر انداز ہوا اور جرح وتعدیل جیسے انتہائی ذمہ داری کے کام کو اس نے کیسے منفی طور پر متاثر کیا، اس کی تفصیلات ماضی قریب کے معروف عرب محدث الشیخ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’مسالۃ خلق القرآن واثرھا فی صفوف وکتب الجرح والتعدیل‘ میں بیان کی ہیں)۔ ہمارے اپنے ماحول میں اس کی ایک مثال مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور جماعت اسلامی ہیں۔ مولانا کی مذہبی فکر تمام تر، روایتی مذہبی تعبیرات کی تنقید پر مبنی تھی جس پر انھیں روایتی مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید ترین الفاظ میں discredit کیے جانے کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ رد عمل سامنے آنا ناگزیر تھا، کیونکہ اقتدار میں کسی نئے اسٹیک ہولڈر کی شرکت کسی بھی طبقے کے لیے آسانی سے قابل قبول نہیں ہوتی۔ 
اس صورت حال میں جماعت کی عمومی اور سوچی سمجھی پالیسی یہ رہی ہے کہ اس کے جواب میں پبلک میں کسی مخالفانہ مہم کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے جو اس لحاظ سے قابل تحسین ہے کہ مسلمان معاشرے کسی مزید گروہ بندی کی آزمائش کے متحمل نہیں ہیں، اور پہلے سے موجود تقسیمات نے ہی معاشرتی وحدت کو پارہ پارہ کر رکھا ہے۔ البتہ مولانا کے بعد جماعت، بحیثیت جماعت اس تجدیدی مذہبی فکر سے بھی بتدریج دست بردار ہوتی چلی گئی جو مولانا مودودی کا اصل کارنامہ تھا (اور یہاں تحسین سے مقصود ہرگز اس فکر کے تمام تر یا بنیادی نتائج سے اتفاق نہیں ہے)، اس لیے کہ روایتی مذہبی فکر کی تنقید اور اصل مصادر سے دین کو سمجھنے کی روایت کا احیاء اس امت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ جماعت کو، یا کسی بھی ایسے نئے حلقہ فکر کو، جارحیت اور پسپائی کے مابین توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جارحیت بایں معنی کہ مذہبی فکر کی تنقید کو اس طرح عوامی بحث ومباحثہ کا موضوع بنایا جائے کہ ایک نئی گروہی تقسیم پیدا ہو جائے، اور پسپائی یوں کہ سرے سے فکری جدلیاتی عمل میں کوئی حصہ ڈالنے سے ہی دست برداری اختیار کر لی جائے۔

قومی امراض اور ان کی ظاہری علامتیں

درد، پھنسی پھوڑے اور خارش وغیرہ اصل مرض نہیں، بلکہ مرض کی علامات ہوتی ہیں اور علامتیں اس لحاظ سے نعمت ہوتی ہیں کہ وہ مرض کی موجودگی اور اس کی تشخیص میں مدد دیتی ہیں۔ پچھلے سالوں میں ہمارے قومی امراض کا ظہور جن علامات کی صورت میں ہوا ہے، ان پر ہاہا کار مچانے کے بجائے اصل مرض کو سمجھنے میں ان سے مدد لینی چاہیے۔ یہ ’’علامات’’ ہماری راہ نمائی کرتی ہیں کہ:
۱۔ ’’فرقہ واریت‘‘ صرف مذہبی طبقوں کا نہیں، بلا استثناء تمام طبقوں کا مسئلہ ہے۔
۲۔ انتہا پسندی اور عدم برداشت صرف مذہبی تعلیمی اداروں کے ساتھ خاص نہیں، جدید اور اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے بھی اس کی آماج گاہ ہیں۔
۳۔ ریاست کی رٹ کو بزور بازو چیلنج کرنا اور اس کی کمزوریوں کا تماشا دکھانا صرف ’’باغیوں‘‘ کا نہیں، قومی دھارے میں شامل سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا بھی من پسند مشغلہ ہے۔
۴۔ انصاف، مساوات اور میرٹ کو دیوانے کا خواب سمجھنا پورے معاشرے کی اساسی قدر ہے۔
۵۔ بحث ومباحثہ اور جمہوری جدوجہد کے لیے level playing field پر یقین نہ ہونا اور معیارات کا تعین اپنے طبقے کی پوزیشن اور مفاد کے لحاظ سے کرنا کسی گروہ کا ’’خاصہ‘‘ نہیں، بلکہ قومی ’’عرض عام‘‘ ہے۔
۶۔ سماج کی تعمیر اور قوم کی اخلاقی تربیت کسی بھی ’’قیادت‘‘ کی ترجیح نہیں، ساری قیادتیں صرف حصول اقتدار کی خواہش رکھتی ہیں اور اقتدار ہی کو قومی فلاح کا واحد ذریعہ باور کرانے پر متفق ہیں۔
۷۔ قوم کے بگاڑ میں دوسرے طبقوں کی ذمہ داری کو اونچے آہنگ سے بیان کرنا جبکہ اپنے طبقے کی نا اہلی کے ذکر کو پرائیویسی میں خلل انداز ہونے کے مترادف سمجھنا ایک مشترکہ مائنڈ سیٹ ہے۔
علامتیں چلا چلا کر مرض کا پتہ بتا رہی ہیں، اور سننے والے کانوں کی توجہ مانگتی ہیں۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ علامتیں دیکھ کر مایوس ہونے کی نہیں، بلکہ مرض کی سنگینی کا ادراک اور اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۲) تاب علی کا مفہوم

تاب کے معنی لوٹنے کے ہوتے ہیں، قرآن مجید میں بندوں کے لیے تاب کا فعل الی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے اللہ کی طرف رجوع اور انابت کرنا، اس وسیع مفہوم میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا بھی شامل ہے، لیکن لفظ کا اصل مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔
اللہ کے لیے تاب کا فعل علی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے مہربان ہونا نظر کرم فرمانا۔ اس وسیع مفہوم میں توبہ کی توفیق دینا اور توبہ قبول کرلینا اور معاف کردینا بھی شامل ہے، لیکن اصل مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔
فیروزآبادی کے الفاظ میں:وتابَ اللہ علیہ: وفَّقَہ للتَّوبۃِ، أو رجَعَ بہ من التَّشدِید الی التَّخفیفِ، أو رَجَعَ علیہ بِفَضْلِہِ وقبولہ۔القاموس المحیط (ص: 62) سورہ توبہ میں بیان ہوا ہے:ثُمَّ تَابَ عَلَیْْہِمْ لِیَتُوبُواْ۔اس سے اچھی طرح تاب علی کا مفہوم واضح ہوتا ہے، یعنی اس لفظ کے مفہوم میں نہ صرف توبہ قبول کرنا بلکہ مہربانی کرنا اور توبہ کی توفیق دینا بھی آتا ہے۔
مختلف تراجم قرآن کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تاب علی کے مفہوم کی یہ وسعت عام طور سے مترجمین کے سامنے بھی رہی ہے اور بعض نے اکثر جگہ اور بعض نے کچھ جگہوں پر لفظ کے اس مفہوم کو ادا بھی کیا ہے تاہم بعض ایسے مقامات جہاں معاف کرنے کے بجائے مہربان ہونا ہی مناسب ترجمہ ہوسکتا تھا، وہاں بعض مترجمین نے معاف کرنا ترجمہ کیا ہے، ایسے بعض مقامات کا ہم یہاں بطور مثال تذکرہ کریں گے:

(۱) عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوہُ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ۔ (المزمل: ۲۰)

’’اس نے جانا کہ تم اس کو نباہ نہ سکو گے تو اس نے تم پر عنایت کی نظر کی، تو قرآن میں سے جتنا میسر ہوسکے پڑھ لیا کرو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اس نے معلوم کیا کہ تم اس کو نباہ نہ سکو گے تو اس نے تم پر مہربانی کی‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’ اسے معلوم ہے کہ اے مسلمانو! تم سے رات کا شمار نہ ہوسکے گا تو اس نے اپنی مہر سے تم پر رجوع فرمائی‘‘(احمد رضا خان)
’’اْسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی‘‘ (سید مودودی)
’’اس نے جانا کہ تم اس کو پورا نہ کرسکو گے تو تم پر معافی بھیجی (شاہ عبدالقادر)

(۲) وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ عِندَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ (البقرۃ: ۵۴)

’’اور جب کہا موسی نے اپنی قوم کو اے قوم تم نے نقصان کیا اپنا یہ بچھڑا بنالیکر، اب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اور مارڈالو اپنی اپنی جان، یہ بہتر ہے تم کو اپنے خالق کے پاس، پھر متوجہ ہوا تم پر برحق وہی ہے معاف کرنے والا مہربان‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۳) وَحَسِبُواْ أَلاَّ تَکُونَ فِتْنَۃٌ فَعَمُواْ وَصَمُّواْ ثُمَّ تَابَ اللّہُ عَلَیْْہِمْ ثُمَّ عَمُواْ وَصَمُّواْ کَثِیْرٌ مِّنْہُمْ وَاللّہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُون۔ (المائدۃ:۷۱)

’’اور انھوں نے گمان کیا کہ کوئی پکڑ نہیں ہوگی، پس اندھے اور بہرے بن گئے، پھر اللہ نے ان پر رحمت کی نگاہ کی، پھر ان میں سے بہت سے اندھے بہرے بن گئے، اور اللہ دیکھ رہا ہے جو کچھ یہ کررہے ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اور خیال کرتے تھے کہ (اس سے ان پر) کوئی آفت نہیں آنے کی تو وہ اندھے اور بہرے ہو گئے پھر خدا نے ان پر مہربانی فرمائی (لیکن) پھر ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہو گئے اور خدا ان کے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’اور اپنے نزدیک یہ سمجھے کہ کوئی فتنہ رونما نہ ہوگا، اس لیے اندھے اور بہرے بن گئے پھر اللہ نے اُنہیں معاف کیا تو اُن میں سے اکثر لوگ اور زیادہ اندھے اور بہرے بنتے چلے گئے اللہ اُن کی یہ سب حرکات دیکھتا رہا ہے‘‘(سید مودودی)
’’اور اس گمان میں ہیں کہ کوئی سزا نہ ہوگی تو اندھے اور بہرے ہوگئے پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی پھر ان میں بہتیرے اندھے اور بہرے ہوگئے اور اللہ ان کے کام دیکھ رہا ہے‘‘(احمد رضا خان)
’’اور سمجھ بیٹھے کہ کوئی پکڑ نہ ہوگی، پس اندھے بہرے بن بیٹھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی، اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر اندھے بہرے ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو بخوبی دیکھنے والا ہے ‘‘(محمد جوناگڑھی)

(۴) لَقَد تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِیْنَ وَالأَنصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِن بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْْہِمْ إِنَّہُ بِہِمْ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ۔ وَعَلَی الثَّلاَثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُواْ حَتَّی إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْْہِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْْہِمْ أَنفُسُہُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّٰہِ إِلاَّ إِلَیْْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْْہِمْ لِیَتُوبُواْ إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ (التوبۃ:۱۱۷،۱۱۸)

’’اللہ نے معاف کر دیا نبیؐ کو اور ان مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبیؐ کا ساتھ دیا اگر چہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہو چکے تھے (مگر جب انہوں نے اس کجی کا اتباع نہ کیا بلکہ نبیؐ کا ساتھ ہی دیا تو) اللہ نے انہیں معاف کردیا، بے شک اُس کا معاملہ اِن لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا ہے۔ اور اُن تینوں کو بھی اس نے معاف کیا جن کے معاملہ کو ملتوی کر دیا گیا تھا جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی اپنی جانیں بھی ان پر بار ہونے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے دامن رحمت کے سوا نہیں ہے، تو اللہ اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹا تاکہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں، یقیناًوہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘ (سید مودودی، تاب علی کا ترجمہ دونوں طرح سے کیا ہے جبکہ دونوں جگہ مہربانی کرنے کا محل ہے)
’’بیشک اللہ کی رحمتیں متوجہ ہوئیں ان غیب کی خبریں بتانے والے اور ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے مشکل کی گھڑی میں ان کا ساتھ دیا بعد اس کے کہ قریب تھا کہ ان میں کچھ لوگوں کے دل پھر جائیں پھر ان پر رحمت سے متوجہ ہوا بیشک وہ ان پر نہایت مہربان رحم والا ہے، اور ان تین پر جو موقوف رکھے گئے تھے یہاں تک کہ جب زمین اتنی وسیع ہوکر ان پر تنگ ہوگئی اور ہو اپنی جان سے تنگ آئے اور انہیں یقین ہوا کہ اللہ سے پناہ نہیں مگر اسی کے پاس، پھر ان کی توبہ قبول کی کہ تائب رہیں، بیشک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے‘‘ (احمد رضا خان، تاب علی کا ترجمہ دونوں طرح سے کیا ہے، جبکہ دونوں جگہ مہربانی کرنے کا محل ہے)
’’اللہ نے نبی اور مہاجرین وانصار پر رحمت کی نظر کی جنھوں نے نبی کا ساتھ تنگی کے وقت میں دیا، بعد اس کے کہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہوچکے تھے، پھر اللہ نے ان پر رحمت کی نگاہ کی۔ بے شک وہ ان پر نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور ان تینوں پر بھی رحمت کی نگاہ کی جن کا معاملہ اٹھا رکھا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب زمین، اپنی وسعتوں کے باوجود، ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں ضیق میں پڑ گئیں اور انھوں نے اندازہ کرلیا کہ خدا سے، خدا کے سوا، کہیں مفر نہیں۔ پھر اللہ نے ان پر عنایت کی نظر کی تاکہ وہ توبہ کریں۔ بے شک اللہ ہی ہے جو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی، یہاں دونوں جگہ تاب علی کا ترجمہ مناسب ہے)
’’اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا، اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا۔ پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے.اور تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وہ آئندہ بھی توبہ کرسکیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم والا ہے‘‘(محمدجوناگڑھی)

(۵) أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللّٰہُ عَلَیْْکُمْ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَأَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ۔ (المجادلۃ:۱۳)

’’کیا تم اس بات سے اندیشہ ناک ہوئے کہ اپنی رازدارانہ باتوں سے پہلے صدقے پیش کرو۔ پس جب تم نے یہ نہیں کیا اور اللہ نے تم پر رحم فرمایا تو نماز کا اہتمام کرو اور زکوۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’کیا تم ڈر گئے اس بات سے کہ تخلیہ میں گفتگو کرنے سے پہلے تمہیں صدقات دینے ہوں گے؟ اچھا، اگر تم ایسا نہ کرو اور اللہ نے تم کو اس سے معاف کر دیا تو نماز قائم کرتے رہو، زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو‘‘ (سید مودودی، اس ترجمہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہاں محل مہربانی کرنے کا ہے نہ کہ معاف کرنے کا، اور ’’اس سے معاف کردیا‘‘ تو اس لفظ کے مفہوم میں آہی نہیں سکتا، کیونکہ کسی کو معاف کرنے کے لئے تو تاب علی آتا ہے، لیکن کسی کو کسی کام سے معاف کرنے کے لئے یہ لفظ نہیں آتا ہے، اسی طرح اذ لم تفعلوا کا ترجمہ ماضی کا ہونا چاہئے، نہ کہ مستقبل کا جیسا کہ یہاں کیا گیا ہے، دوسرے مترجمین نے اس کا ترجمہ ماضی کا کیا ہے اور وہی درست ہے)
’’کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے؟ پھر جب تم نے (ایسا) نہ کیا اور خدا نے تمہیں معاف کردیا تو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو اور خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو۔‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’کیا تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے سے ڈر گئے؟ پس جب تم نے یہ نہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرما دیا تو اب (بخوبی) نمازوں کو قائم رکھو زکوٰۃ دیتے رہا کرو اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو۔‘‘ (محمد جوناگڑھی)

(۶) یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَیَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ وَیَتُوبَ عَلَیْْکُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ وَاللّٰہُ یُرِیْدُ أَن یَتُوبَ عَلَیْْکُمْ وَیُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُونَ الشَّہَوَاتِ أَن تَمِیْلُواْ مَیْْلاً عَظِیْماً۔ (النساء :۲۶و۲۷)

’’اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم پر (اپنی آیتیں) واضح کردے اور تمہیں ان لوگوں کے طریقے کی ہدایت بخشے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، اور تم پر رحمت کی نگاہ کرے۔ اور اللہ علم والا اور حکمت والا ہے۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم پر رحمت کی نگاہ کرے اور وہ لوگ جو اپنی شہوات کی پیروی کررہے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ تم پر راہ حق سے بالکل ہی بھٹک کر رہ جاؤ‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اللہ چاہتا ہے کہ تم پر اُن طریقوں کو واضح کرے اور اْنہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء کرتے تھے وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی۔ ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ‘‘ (سید مودودی)
’’خدا چاہتا ہے کہ (اپنی آیتیں) تم سے کھول کھول کر بیان فرمائے اور تم کو اگلے لوگوں کے طریقے بتائے اور تم پر مہربانی کرے اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔ اور خدا تو چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی کرے اور جو لوگ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھے راستے سے بھٹک کر دور جا پڑو‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے خوب کھول کر بیان کرے اور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک) لوگوں کی راہ پر چلائے اور تمہاری توبہ قبول کرے، اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے اور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ‘‘ (محمد جوناگڑھی)

(۷) لِیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکَاتِ وَیَتُوبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوراً رَّحِیْماً۔ (الاحزاب: ۷۳)

’’اِس بار امانت کو اٹھانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں، اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے اور مومن مَردوں اور عورتوں کی توبہ قبول کرے، اللہ درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے ‘‘(سید مودودی)
’’(یہ اس لیے) کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں عورتوں اور مشرک مردوں عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں عورتوں کی توبہ قبول فرمائے، اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا اور مہربان ہے‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’تاکہ اللہ منافقین ومنافقات اور مشرکین ومشرکات کو سزا دے اور مومنین ومومنات کو اپنی رحمت سے نوازے۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’تاکہ خدا منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور خدا مومن مردوں اور مومن عورتوں پر مہربانی کرے۔ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے‘‘ (فتح محمدجالندھری)

(۸) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْْنِ لَکَ وَمِن ذُرِّیَّتِنَا أُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ (البقرۃ: ۱۲۸)

’’اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری ذریت میں سے تو اپنی ایک فرمانبردار امت اٹھا اور ہمیں ہمارے عبادت کے طریقے بتا اور ہماری توبہ قبول فرما، بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اور ہم کو معاف کر تو ہی ہے اصل معاف کرنے والا مہربان‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’اور ہماری توبہ قبول فرما، تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم وکرم کرنے والا ہے‘‘ (محمدجوناگڑھی)
’’ اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’اور ہمارے حال پر توجہ رکھئے اور فی الحقیقت آپ ہی ہیں توجہ فرمانے والے مہربانی کرنے والے‘‘ (مولانا تھانوی)

(۱۱۳) توبۃ من اللہ

فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ تَوْبَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْماً حَکِیْماً۔ (النساء :۹۲)

اس آیت میں (تَوْبَۃً مِّنَ اللّہِ) کا ترجمہ مختلف طرح سے کیا گیا ہے:
’’یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی توبہ ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اللہ تعالی سے بخشوانے کے لئے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’یہ اللہ کے یہاں اس کی توبہ ہے‘‘ (احمد رضا خان)
’’یہ اس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے‘‘ (سید مودودی)
ان تمام ترجموں کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ توبہ کو تاب الی یعنی توبہ کرنے کے معنی میں لیا گیاہے، اور اسی وجہ سے لفظ من کے مفہوم کی ادائیگی میں بھی مترجمین کو دشواری پیش آئی ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے کے مطابق یہاں توبہ تاب علی یعنی مہربانی کرنے کے مفہوم میں ہے، ترجمہ ہوگا ’’یہ اللہ کی طرف سے مہربانی ہے‘‘ جملہ کی تفصیل اس طرح ہوگی: (تَوْبَۃ مِّنَ اللّٰہِ علی عبادہ) مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے قتل خطا کے سلسلے میں جو کچھ رہنمائی فرمائی ہے وہ اللہ کی طرف سے بندوں پراس کی مہربانی ہے۔اس طرح لفظ من کے مفہوم کی ادائیگی احسن طریقے سے ہوجاتی ہے، اور جملہ کا مفہوم بھی پوری آیت سے بخوبی ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔
(جاری)

رؤیت ہلال کا مسئلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(ڈاکٹر محمد مشتاق احمدکی کتاب ’’رویت ہلال: قانونی وفقہی تجزیہ‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا۔)

نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔ 
رؤیت ہلال کا مسئلہ ہمارے ہاں طویل عرصہ سے بحث ومباحثہ اور اختلاف وتنازعہ کا موضوع چلا آ رہا ہے اور مختلف کوششوں کے باوجود ابھی تک کوئی تسلی بخش اجتماعی صورت بن نہیں پا رہی۔ اکابر علماء کرام کی مساعی سے حکومتی سطح پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی قائم ہوئی تو امید ہو گئی تھی کہ اب یہ مسئلہ مستقل طور پر طے پا جائے گا، مگر ملک کے بیشتر حصوں میں اجتماعیت کا ماحول قائم ہو جانے کے باوجود بعض علاقوں میں انفرادیت کی صورتیں ابھی تک موجود ہیں اور میڈیا کی وسعت، پالیسی اور مزاج کے باعث قومی اجتماعیت کی وہ صورت نہیں بن رہی جس کی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے وجود میں آنے کے بعد توقع ہو گئی تھی۔
اس کے اسباب کسی حد تک فقہی اور شرعی ہونے کے ساتھ بڑی حد تک سیاسی اور معاشرتی بھی ہیں کہ حکومت اور دینی حلقوں کے درمیان شرعی معاملات میں اعتماد کی وہ فضا وجود میں نہیں آ سکی جو اس قسم کے معاملات میں حکومتی احکام کی عمل داری قائم کرنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ ایک اسلامی یا کم از کم مسلم ریاست میں بہت سے معاملات میں حکومت ہی اتھارٹی ہوتی ہے جس کی فقہاء کرام نے مختلف معاملات میں صراحت کی ہے، لیکن اس اتھارٹی کے عملی اظہار کے لیے باہمی اعتماد کی فضا ناگزیر ہوتی ہے۔ بیرونی استعمار کے تسلط سے قبل مسلم ریاستوں میں سیاسی اور گروہی اختلافات وتنازعات کے باوجود یہ اعتماد پایا جاتا تھا کہ حکومت خود جیسی بھی ہو، شرعی معاملات میں گڑبڑ نہیں کرے گی اور علماء کرام کے مشورہ سے ہی شرعی مسائل کو طے کرے گی، حتیٰ کہ اکبر بادشاہ کے ’’دین الٰہی‘‘ کے عروج کے دور میں بھی عام لوگوں کے شرعی معاملات ان کے قاضیوں کے ذریعہ ہی طے کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ اعتماد بیرونی استعمار کے تسلط کے زمانے میں قائم نہیں رہا جس کا تسلسل آزادی کے بعد کے دور میں بھی جاری ہے اور اسی وجہ سے اس قسم کی بہت سی معاشرتی الجھنیں موجود ہیں جن میں سے ایک رؤیت ہلال کا مسئلہ بھی ہے۔ اکابر علماء کرام کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ایسے معاملات میں اجتماعیت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور تفرقہ وانتشار سے قوم کو ہر ممکن حد تک بچایا جائے، چنانچہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا قیام اکابر علماء کرام کی توجہ اور مساعی کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا اور کسی حد تک مرکزیت واجتماعیت کی صورت سامنے آ گئی تھی۔ 
خود میرا مشاہدہ ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے باضابطہ قیام سے پہلے گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد کو علاقہ میں وہی پوزیشن حاصل تھی جو پشاور کی مسجد قاسم علی خان کو اس سلسلہ میں حاصل چلی آ رہی ہے۔ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ تعالیٰ کا شمار ملکی سطح پر اکابر علماء کرام میں ہوتا تھا اور وہ میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے استاذِ محترم تھے۔ انھیں پورے علاقہ میں مرکزیت ومرجعیت حاصل تھی۔ چاند دیکھنے کے لیے مرکزی جامع مسجد میں اس رات شہر کے بڑے بڑے علماء کرام جمع ہوتے تھے۔ رات گئے تک شہادتوں کا انتظار رہتا تھا اور بسا اوقات سحری کے وقت فیصلہ ہوا کرتا تھا۔ ارد گرد کے علماء کرام جامع مسجد کے فیصلے کے انتظار میں ہوتے تھے۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بار بار پوچھتے تھے کہ جامع مسجد گوجرانوالہ میں کیا اعلان ہوا ہے؟ لیکن جب مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی بن گئی اور اس نے کام شروع کر دیا تو جامع مسجد کی چاند رات کی رونقیں آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی گئیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر خود میں نے حضرت مفتی صاحبؒ سے پوچھا کہ رؤیت ہلال کا فیصلہ کرنے کے لیے علماء کرام کو بلانا ہے؟ تو انھوں نے فرمایا، کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جو فیصلہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کرے گی، ہم اس پر عمل کریں گے۔ 
مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اگرچہ اس سلسلہ میں مجاز اتھارٹی ہے، مگر اس کے فیصلوں اور طرز عمل سے علمی بنیاد پر اختلاف کی گنجائش ہر دور میں موجود رہی ہے جس کا اظہار مرکز گریز حلقوں کی طرف سے مسلسل ہوتا آ رہا ہے اور بحث ومکالمہ کے مختلف پہلو اس حوالے سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس پس منظر میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ کوئی صاحب علم اس مسئلہ کے تمام متعلقہ پہلوؤں کا فقہی اور علمی بنیاد پر جائزہ لے کر اس کے مجموعی تناظر کو سامنے لائیں تاکہ اس سلسلہ میں کوئی رائے آسانی کے ساتھ قائم کی جا سکے۔ بہت سے اصحاب علم نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور ان کی کاوشیں مسئلہ کو سمجھنے میں یقیناًمددگار ہیں، لیکن بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ قانون کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انھوں نے زیادہ وسیع تناظر میں اس مسئلہ کا جائزہ لیا ہے اور اس کی فقہی وفنی ضروریات کا احاطہ کرنے کے ساتھ معاشرتی ماحول اور قانونی صورت حال کو بھی سامنے رکھا ہے۔
وہ ایک مسلمہ علمی خاندان کے فرد ہیں، دینی اور عصری علوم پر یکساں نظر رکھتے ہیں، قانونی پیچیدگیوں اور موشگافیوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور معاشرتی ماحول کے تقاضوں سے بھی اچھی طرح باخبر ہیں۔ چنانچہ ان کی اس علمی کاوش میں ان کی یہ تمام خصوصیات جھلک رہی ہیں۔ انھوں نے جس عرق ریزی کے ساتھ اس مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، وہ لائق تحسین ہے اور اس کے حل کے لیے جو تجاویز پیش کی ہیں، وہ معروضی حالات میں بہت مناسب بلکہ ضروری ہیں اور ہم صرف ایک گذارش کے ساتھ ان کی تمام تجاویز کی تائید کرتے ہیں کہ مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ریاستی اداروں، عوام اور دینی حلقوں کے درمیان باہمی اعتماد کی ایسی فضا کا قائم کرنا بھی ضروری ہے جو شرعی معاملات میں حکومتی اقدامات کی عمل داری کو یقینی بنا سکے۔
دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت محترم ڈاکٹر پروفیسر مشتاق احمد صاحب کی اس علمی محنت کو اس مسئلہ کے حل کے لیے موثر ذریعہ بنائیں اور انھیں دنیا وآخرت میں قبولیت ورضا سے بہرہ ور فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

امام عیسیٰ بن ابانؒ : حیات و خدمات (۲)

مولانا عبید اختر رحمانی

جودوسخا

آپ نے مالدار گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں،یہی وجہ ہے کہ آپ کی پوری زندگی مالداروں کی سی گزری اوراس مالداری کے ساتھ اللہ نے آپ کی فطرت میں سخاوت کا مادہ بدرجہ اتم رکھاتھا۔ بسااوقات ایسا بھی ہوا کہ قرضدار قرض ادانہ کرسکا اورقرض خواہ قرضدار کو جیل میں بند کرانے کے لیے لایا اور آپ نے قرض خواہ کو اس کی رقم اپنی جیب سے اداکردی۔
خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں یہ واقعہ نقل کیاہے کہ ایک شخص نے ان کی عدالت میں محمد بن عبادالمہلبی پر چارسو دینار کادعویٰ کیا۔ عیسیٰ بن ابان نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے مقروض ہونے کااعتراف کیا، اس شخص نے قاضی عیسیٰ ابن ابان سے کہاکہ آپ اس کو میرے حق کی وجہ سے قید کردیجئے۔ عیسیٰ بن ابان نے کہاکہ تمہاراحق اس پر واجب ہے؛ لیکن ان کو قید کرنا مناسب نہیں ہے ، اورجہاں تک بات تمہارے چار سو دینارکی ہے تو وہ میں تمہیں اپنے جانب سے ان کے بدلے میں دے دیتاہوں۔(تاریخ بغداد 480/11)
خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں قاضی ابوحازم سے نقل کیاہے کہ عیسیٰ بن ابان بہت سخی شخص تھے اوران کا قول تھا کہ اگرمیرے پاس کسی ایسے شخص کو لایاگیاجواپنے مال میں اسی قدرسخاوت سے کام لیتاہے جس قدر سخاوت سے میں لیتاہوں تومیں اس کوسزادوں گایااس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دوں گا۔(تاریخ بغداد جلد12)حافظ ذہبی بھی سیراعلام النبلاء میں ان کی اس خصوصیت کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں: وفیہ سخاء وجود زائد (تاریخ الاسلام 16؍320)

حساب اورفلکیات میں مہارت

فقہائے احناف کاامام محمد کے دور سے ایک خاص وصف یہ رہاہے جس میں وہ دیگر مسالک کے فقہاء سے ممتاز رہے ہیں کہ ان کو علم حساب سے بڑی اچھی اورگہری واقفیت رہی ہے۔امام محمد کو حساب کے فن میں گہرا رسوخ تھا اورانہوں نے حساب دانی کے اس فن کو اصول سے فروع کی تفریع میں بطور خاص استعمال کیا۔ دکتور دسوقی اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’امام محمد جس طرح عربی زبان میں امام تھے،اسی طرح حساب میں بھی آگے تھے، اصول سے فروع اخذکرنے میں ماہر تھے۔ قاری کے لیے آپ کی کتاب الاصل یاالجامع الکبیر کا مطالعہ کرلینا یہ جاننے کے لیے کافی ہوگا کہ امام محمد کو مسائل پیش کرنے اوران کے احکام بیان کرنے میں گہری مہارت حاصل تھی۔ آپ کوحسابی حصوں اوران کی مقداروں پرعلمی قدرت تھی۔‘‘ (امام محمدبن الحسن الشیبانی اوران کی فقہی خدمات، ص ۶۸۱)
امام محمد کی فقہی تفریعات کی انہی باریکیوں اور دقائق سے امام احمد بن حنبل نے بھی فائدہ اٹھایا،چنانچہ جب ان سے ابراہیم حربی نے سوال کیاکہ یہ باریک اور دقیق مسائل آپ نے کہاں سے حاصل کیے، توانہوں نے امام محمد کی خدمات کا پورا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: امام محمد کی کتابوں سے۔ (مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ، ص ۶۸)
امام محمدسے حساب کا یہ فن ان کے شاگردوں نے بھی سیکھا اوراس میں کمال پیداکیا، چنانچہ عیسیٰ بن ابان کے تذکرہ میں متعدد ان کے معاصرین اورشاگردوں نے اعتراف کیاکہ آپ کو حساب کے فن میں کامل دستگاہ تھی اورنہ صرف حساب کے فن میں بلکہ آپ کو فلکیات میں بھی مہارت حاصل تھی، چنانچہ اسی اعتبار سے آپ اپنے کام کو ترتیب دیا کرتے تھے۔ آپ کے شاگرد ہلال الرائے کہتے ہیں کہ عیسیٰ بن ابان نے جعفر بن سلیمان کے لیے دستاویزات لکھیں جن میں وراثت کے احکام اور وراثت کی تقسیم کا پورا حساب تھا اوراس کے ساتھ ایسے قواعد وضوابط بھی بیان کیے تھے جن کی ضرورت مفتی اور قاضی دونوں کو پڑتی ہے ،ہلال کہتے ہیں :خدا کی قسم اگر وہ اتنی تفصیل سے یہ سب نہ لکھتے تو مجھے بڑی پریشانی ہوتی۔ (اخبار القضاۃ، ۲؍۲۷۱)
عباس بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے مسجد والوں اورپڑوسیوں کو کہتے سناکہ عیسیٰ بن ابان نے قضا میں ایک نئی چیز ایجاد کی ہے اور وہ فلکیات کے علم سے کام لینا۔ اس کے بعد انہوں نے تفصیل بتائی ہے کہ وہ فلکیات کے علم سے واقفیت کا کس طرح مفید استعمال کرتے تھے۔ (اخبار القضاۃ، ۲؍۲۷۱)

تصنیفات و تالیفات

قضاء کی ذمہ داریوں اوردرس وتدریس کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ انہوں نے تصنیف وتالیف کی خدمات بھی انجام دی ہیں،اوربطورخاص اصول فقہ میں گرانقدر اضافہ کیاہے۔ان کے تقریباًتمام ہی ترجمہ نگاروں نے ان کے نام کے ساتھ ’’صاحب التصانیف‘‘کااضافہ کیاہے،جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ تصنیف کے لحاظ سے بہت مشہور تھے اوران کی تصانیف کی خاصی تعداد رہی ہوگی۔ اصول فقہ کے مختلف موضوعات پر انہوں نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ مختلف مصنفین جنہوں نے ان کی تصنیفات کا فہرست دی ہے، ہم اس کا ذکر کرتے ہیں۔
1: کتاب الحجۃ
2: کتاب خبر الواحد
3: کتاب الجامع 
4: کتاب اثبات القیاس 
5: کتاب اجتہاد الرای (الفہرست لابن الندیم)
امام جصاص رازی درج ذیل کتاب کا اضافہ کیاہے:
6: الحجج الصغیر (الفصول فی الاصول ۱/ ۱۵۶)
صاحب ہدیۃ العارفین نے درج ذیل کتابوں کا اضافہ کیاہے۔
7: الحجۃ الصغیرۃ فی الحدیث (اس کاپتہ نہیں چلاکہ آیا یہ وہی الحجج الصغیر ہے جس کا تذکرہ جصاص رازی نے کیاہے یاپھر الگ سے کوئی اورکتاب ہے)۔
8: کتاب الجامع فی الفقہ
9: کتاب الحج.
10: کتاب الشہادات.
10: کتاب العلل.
11: فی الفقہ۔
(ہدیۃ العارفین، اسماء المولفین وآثار المصنفین، ۱/ ۸۰۶، دار احیاء التراث العربی بیروت)
گیارہویں نمبرپر موجود کتاب کانام معجم المولفین میں ’’العلل فی الفقہ‘‘ ہے اور شاید یہی زیادہ صحیح بھی ہے۔ (۸؍۸۱،مکتبۃ المثنی ،بیروت)
12: الحجج الکبیر فی الرد علی الشافعی القدیم: اس کتاب کا تذکرہ علامہ زاہدالکوثری نے کیاہے۔اس کے علاوہ علامہ لکھتے ہیں کہ عیسیٰ بن ابان نے ایک کتاب حدیث قبول کرنے کی شروط کے سلسلہ میں مریسی اور شافعی کے رد میں بھی لکھی۔ عیسیٰ بن ابان نے اپنی کتابوں میں وہی اصول بیان کیے امام محمد سے جن کی تعلیم انہوں نے حاصل کی تھی۔ (’’سیرت امام محمد بن الحسن الشیبانی‘‘ ،اردو ترجمہ بلوغ الامانی فی سیرت الامام محمد بن الحسن الشیبانی،ص ۲۰۷)
کتابوں کے نام سے اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے اپنے دور میں محدثین اوراہل فقہ کے درمیان جن مسائل میں شدید اختلافات تھے، ان پر قلم اٹھایاہے۔مثلاً بعض شدت پسند ظاہری محدثین کا موقف تھاکہ قیاس کرناصحیح نہیں اوروہ شرعی دلیل نہیں ہے، اس کی تردید میں کتاب اثبات القیاس لکھی گئی ہوگی۔ اسی طرح اس زمانے میں محدثین جہاں ایک طرف خبرواحد کو قطعی اوریقینی دلیل مانتے تھے، دوسری جانب معتزلہ اوردیگرگمراہ فرقے خبرواحد کی اہمیت کم کررہے تھے، ایسے عالم میں انہوں نے خبرواحدپر قلم اٹھایااوراحناف کا موقف سامنے رکھا۔

الحجج الصغیر

عیسیٰ بن ابان کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ناپید ہے لیکن خوش قسمتی سے اب امام جصاص رازی کی ’’الفصول فی الاصول‘‘طبع ہوکر آگئی ہے، اس کے مطالعہ سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ گویا امام جصاص کی یہ کتاب الحجج الصغیر کی شرح یااس کا بہتر خلاصہ ہے۔تقریباً تمام مباحث میں انہوں نے الحجج الصغیر سے استفادہ کیاہے اور ایک دومقامات کو چھوڑکر ہرجگہ وہ عیسیٰ بن ابان کے ہی موقف کے حامل نظر آتے ہیں۔ گویااس کتاب کے واسطہ سے براہ راست نہ سہی؛ لیکن بہت قریب سے ہم عیسیٰ بن ابان کے نظریات وخیالات سے واقف ہوسکتے ہیں۔ صاحب کشف الظنون حاجی خلیفہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
وحجج عیسی بن ابان ادق علماً، واحسن ترتیبا من کتاب المزنی (کشف الظنون ۱/۲۳۶، مکتبۃ المثنی،بغداد)
’’اورعیسی بن ابان کی حجج (شاید الصغیر مراد ہو) علم کی باریکی اور ترتیب کے حسن کے لحاظ سے مزنی کی دونوں کتابوں سے بہتر ہے۔‘‘
اسی کتاب میں عیسیٰ بن ابان نے اپناوہ مشہور نظریہ دہرایاہے جس کی بنیاد پر احناف آج تک مخالفین کے طعن وتشنیع کے شکار ہیں کہ حضرت ابوہریرہ فقیہ نہیں تھے اور ان کی وہ روایت جو قیاس کے خلاف ہوگی، رد کردی جائے۔ راقم الحروف نے اس پر ایک طویل مضمون لکھاہے، جس میں عیسیٰ بن ابان اور بعد کے علماء جنہوں نے عیسیٰ بن ابان کی رائے اختیار کی ہے، ان کے حوالوں سے بتایاہے کہ عیسیٰ بن ابان کی یہ رائے مطلق نہیں ہے بلکہ تین یاچارشرطوں کے ساتھ مقید ہے اوراگران شرائط کالحاظ وخیال رکھاجائے توپھر عیسیٰ بن ابان اوردوسروں کے نظریہ میں اختلاف حقیقی نہیں بلکہ محض لفظی بن کر رہ جاتاہے۔

کتاب الحجج کی تصنیف

اس کی تصنیف کا ایک دلچسپ پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ مامون الرشید کے قریبی رشتہ دار عیسیٰ بن ہارون ہاشمی نے کچھ احادیث جمع کیں اوران کومامون الرشید کے سامنے پیش کیا اورکہاکہ احناف جو آپ کے دربار میں اعلیٰ مناصب اورعہدوں پر مامور ہیں ،ان کا عمل اورمسلک وموقف ان احادیث کے خلاف ہے اوریہ وہ حدیثیں جس کو ہم دونوں نے اپنے عہد تعلیم میں محدثین کرام سے سناہے۔ یہ بات سن کر عیسیٰ بن ابان نے اپنے دربار کے حنفی علماء کو اس کا جواب لکھنے کے لیے کہا؛لیکن انہوں نے جوکچھ لکھا وہ مامون کو پسند نہ آیا۔ یہ دیکھ کرعیسیٰ بن ابان نے کتاب الحجج تصنیف کی جس میں انہوں بتایاکہ کسی روایت کو قبول کرنے اورنہ کرنے کا معیار کیاہوناچاہیے اوراس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے مسلک کے دلائل بھی بیان کئے۔ جب مامون الرشید نے یہ کتاب پڑھی توبہت متاثرہوااوربے ساختہ کہنے لگا:
حسدوا الفتی اذ لم ینالوا سعیہ 
فالنّاس اعداء لہ وخصوم
کضرائر الحسناء قلن لوجھھا
حسداً وبغیا انہ لذمیم
’’کسی بھی باصلاحیت آدمی کا جب مقابلہ نہیں کیاجاسکتاتولوگ اس سے حسد کرنے لگتے ہیں اوراس کے دشمن بن جاتے ہیں جیساکہ خوبصورت عورت کی سوتنیں محض جلن میں کہتی ہیں کہ وہ تو بدصورت ہے۔‘‘ (بحوالہ تاج التراجم227/ تاریخ الاسلام للذہبی 16؍320)
اس واقعہ کو سب سے ز یادہ تفصیل کے ساتھ صیمری نے اخبارابی حنیفۃ واصحابہ میں بیان کیا ہے۔ (۱/۱۴۷)
تصنیفات کے باب میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عیسیٰ بن ابان نے ایک کتاب بطور خاص امام شافعی کے رد میں لکھی تھی۔ (یہ شاید وہی کتاب ہے جس کا نام شیخ زاہد الکوثری نے الحجج الکبیر فی الرد علی الشافعی القدیم لکھا ہے)۔ اس کتاب کے بارے میں تاریخ بغداد کی روایت کے مطابق داؤد ظاہری اور اخبارالقضاۃ کے مصنف قاضی کا الزام ہے کہ انہوں نے اس کتاب کی تصنیف میں سفیان بن سحبان سے احادیث کے سلسلے میں مدد لی تھی۔ (یہ سفیان بن سحبان حنفی ہیں اورامام محمد کے شاگرد ہیں۔ (تاج التراجم لابن قطلوبغا ۱؍۱۷۱) قاضی وکیع لکھتے ہیں کہ ’’مجھ سے کہاگیاہے کہ وہ احادیث جو عیسیٰ بن ابان نے امام شافعی کے رد میں اپنی کتاب میں لکھی ہیں، سفیان بن سحبان کی کتاب سے ماخوذ ہیں‘‘۔ (اخبارالقضاۃ لوکیع:۲؍۱۷۱) اور داؤد ظاہری سے جب عیسیٰ بن ابان کی کتاب کا جواب دینے کے لیے کہاگیاتوانہوں نے کہاکہ عیسیٰ بن ابان کی اس کتاب کی تصنیف میں ابن سختان نے مدد کی ہے۔ (تاریخ بغداد ۶/۲۱،دارالکتب العلمیہ)
(تاریخ بغداد میں ’ابن سختان‘ ہی لکھا ہے، لیکن صحیح ابن سحبان ہے جیساکہ الفہرست لابن الندیم اور تاج التراجم لابن قطلوبغا میں ہے۔)
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عیسیٰ بن ابان پر اس سلسلے میں ابن سحبان سے مدد لینے کا الزام ایک غلط الزام ہے اوراس کی تردید خود عیسیٰ بن ابان نے کی ہے۔ ایسامحسوس ہوتاہے کہ ان کی زندگی میں ہی یہ چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں کہ ان کی فلاں تصنیف ابن سحبان کی اعانت کا نتیجہ ہے۔ کسی نے جاکر پوچھ لیاتوانہوں نے بات واضح کردی اوریہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وہ کون سی کتاب ہے:
قال ابو خازم: فسمعت الصریفینی شعیب بن ایوب یقول: قلت لعیسی ابن ابان: ھل اعانک علی کتابک ھذا احد؟ قال: لا، غیر انہ کنت اضع المسالۃ واناظر فیھا سفیان بن سختیان. (فضائل ابی حنیفۃ واخبارہ ومناقبہ ۱/۳۶۰، الناشر: المکتبۃ الامدادیۃ، مکۃ المکرمۃ)
’’ابوخازم کہتے ہیں ،میں نے شعیب بن ایوب کو یہ کہتے سناکہ میں نے عیسیٰ بن ابان سے پوچھاکہ اس کتاب (کتاب الحجج)کی تصنیف میں کیا کسی نے آپ کی مدد کی ہے؟ فرمایاکہ نہیں،ہاں اتنی سی بات تھی کہ میں اولاً مسئلہ کو لکھ لیتاتھا، پھر اس کے بعد اس بارے میں سفیان بن سختیان سے مناظرہ کرتاتھا۔‘‘

عیسیٰ بن ابان کے ناقدین

ہرصاحب تصنیف جو مجتہدانہ فکر ونظر کا مالک ہو، ہرمسئلہ میں جمہور کے ساتھ نہیں چلتا بلکہ بسااوقات وہ اپنی راہ الگ بناتاہے۔ بقول غالب ’’ہرکہ شد صاحب نظر دین بزرگاں خوش نکرد‘‘ امام عیسیٰ بن ابان کے بھی بعض نظریات وخیالات ایسے ہیں جن سے جمہور اتفاق نہیں کرتے اور جن پر ان کے معاصرین اوربعد والوں نے تنقید کی ہے۔ان پر جن لوگوں نے تنقید کی ہے، ان کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔

امام طحاوی

آپ کے سوانح نگاروں نے آپ کی تصنیفات کے ضمن مین ایک کتاب کا ذکرکیاہے جس کا نام ’خطا الکتب‘ ہے، اس میں شاید ایک باب یاکوئی خاص فصل عیسیٰ بن ابان کے رد میں ہے۔ (الجواہر المضئیۃ فی طبقات الحنفیۃ ۱؍۱۰۴)

ابن سیریج

مشہور شافعی فقیہ ہیں، ان کے حالات میں ترجمہ نگاروں نے لکھاہے کہ انہوں نے ایک کتاب عیسیٰ بن ابان کی فقہی آراء کے رد میں لکھی ہے۔ (موسوعۃ اقوال ابی الحسن الدارقطنی فی رجال الحدیث وعللہ،۱؍۷۶،عالم الکتب للنشر والتوزیع)

اسماعیل بن علی بن اسحاق

آپ نے بھی ایک کتاب عیسیٰ بن ابان کے رد میں لکھی ہے،جس کا نام ہے ’’النقض علی مسالۃ عیسیٰ بن ابان فی الاجتھاد‘‘۔مصنف کا تعلق شیعہ سے فرقہ سے ہے۔(لسان المیزان۱؍۴۲۴) کتاب کے نام سے ایسامحسوس ہوتاہے کہ عیسیٰ بن ابان علیہ الرحمہ کی جو کتاب الاجتھاد فی الرای ہے، یہ کتاب اسی کی تردید میں لکھی گئی ہے۔

خلق قرآن کے موقف کاالزام اور حقیقت

امام عیسیٰ بن ابان پر سب سے بڑااورسنگین الزام خلق قرآن کے عقیدہ کے حامل ہونے کا ہے۔ یہ الزام مشہور شافعی محدث حافظ ابن حجرنے لگایاہے (اگرچہ حافظ ابن حجر سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے خلق قرآن کے موقف کا الزام لگایاہے لیکن انہوں نے قیل کے ساتھ یہ بات کہی ہے یادیگرصیغہ تمریض کے ساتھ)۔ حافظ ابن حجر کے تعلق سے متعدد احناف کو شکایت رہی ہے کہ وہ احناف کے ترجمہ میں اس فیاضی اور دریادلی کا مظاہرہ نہیں کرتے جو شوافع کے ساتھ برتتے ہیں۔ ان شکوہ وشکایات سے قطع نظر خلق قرآن یادوسری کسی بھی جرح کے ثبوت کے لیے کچھ پیمانے ہیں۔ پہلا پیمانہ یہ ہے کہ جو امام جرح وتعدیل کسی راوی پر کوئی جرح کررہاہے، اس علم جرح وتعدیل کے ماہر تک صحیح سند سے یہ جرح ثابت ہو۔ دوسراپیمانہ یامعیار یہ ہے کہ یہ جرح بادلیل ہو۔ تیسرا معیار یہ ہے کہ جس پر الزام لگایا جا رہا ہے، اس کا موقف اسی کے الفاظ میں ثابت ہو۔
سب سے پہلے یہ الزام تاریخ بغداد میں خطیب بغداد نے لگایاہے۔چنانچہ لکھتے ہیں:
ویْحکی عن عیسی انہ کان یذھب الی القول بخلق القران (تاریخ بغداد جلد12صفحہ 482)
’’عیسیٰ بن ابان سے نقل کیاجاتاہے کہ وہ خلق قرآن کا عقیدہ رکھتے تھے۔‘‘
یہی بات حافظ ذہبی نے بھی تاریخ الاسلام میں دہرائی ہے:
ویحکی عنہ القول بخلق القرآن، اجارنا اللہ، وھو معدود من الاذکیاء (تاریخ الاسلام للذہبی ،صفحہ 312،جلد16)
’’ان سے خلق قران کا قول نقل کیاگیاہے، اللہ ہمیں اس سے بچائے،اور وہ ذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔‘‘
یہی بات ابن جوزی نے بھی کہی ہے:
ویذکر عنہ انہ کان یذھب الی القول بخلق القرآن. (المنتظم فی تاریخ الامم والملوک، ۱۱/ ۶۷، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
’’اوران کے بارے میں ذکر کیاجاتاہے کہ ان کا موقف خلق قرآن کا تھا۔‘‘
واضح رہے کہ خطیب بغدادی نے جس سند سے اس حدیث کو روایت کیاہے، اس میں بعض مجہول اور بعض ضعیف راوی ہیں جس کی وجہ سے یہ سند اس قابل نہیں کہ اس کی وجہ سے کسی پر خلق قرآن کا سنگین الزام عائد کیا جائے۔ علاوہ ازیں خطیب نے اس روایت کو نقل کرنے کے باوجود خلق قرآن کے الزام کو صیغہ تمریض کے ساتھ بیان کیاہے۔ اگریہ سند ان کے نزدیک صحیح ہوتی تو وہ اس کو ضرور بالضرور جزم اورقطعیت کے ساتھ نقل کرتے اوریہی بات حافظ ذہبی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے جن کے رجال کی معرفت اور علم جرح وتعدیل میں گہرائی وگیرائی پر اتفاق ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ دو مورخ یعنی خطیب بغدادی اورحافظ ذہبی اس قول کو تمریض کے صیغہ کے ساتھ نقل کرتے ہیں جواس بات کی نشاندہی ہے کہ ان کا خلق قرآن کے عقیدہ کا حامل ہونا کمزور بات ہے،کوئی پکی بات نہیں ہے،چنانچہ خود حافظ ذہبی نے جب سیر اعلام النبلاء میں ان کا ترجمہ نقل کیا تو عقیدہ خلق قرآن کے حامل ہونے کی بات نقل نہیں کی، کیونکہ وہ پکی بات نہ تھی۔ (سیراعلام النبلاء للذہبی10؍441) اگرخلق قرآن کے عقیدہ کی بات پکی ہوتی توکیایہ مناسب تھاکہ حافظ ذہبی اس کا یہاں ذکر نہ کرتے ؟ ضرورکرتے جیساکہ سیراعلام النبلاء میں انہوں نے خلق قرآن کے عقیدہ کے دیگر حاملین کا ذکر کیاہے۔ پھر دیکھئے حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کا صرف ایک سطری جملہ لکھتے ہیں اور اس میں بھی خلق قرآن کے عقیدہ کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے، بلکہ صاف صاف یہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے ان کی توثیق یاتضعیف کی ہے:
عیسی بن ابان، الفقیہ صاحب محمد بن الحسن ما علمت احدا ضعفہ ولاوثقہ (میزان الاعتدال : ج5، ص 374)
خلق قرآن کاعقیدہ کا حامل ہونابجائے خود ایک جرح ہے اوراس کے حاملین مجروح رواۃ میں شمارہوتے ہیں اورکسی کے مجروح یاضعیف راوی ہونے کے لیے اس کاخلق قرآن کے عقیدہ کا حامل ہونابھی کافی ہے، اس کے باوجود حافظ ذہبی صاف صاف کہہ رہے کہ ماعلمت احدا ضعفہ ولاوثقہ۔ کیایہ اس کی بالواسطہ صراحت نہیں ہے کہ عیسیٰ بن ابان کی جانب خلق قرآن کا جوعقیدہ منسوب کیاگیاہے ،وہ غلط اوربے بنیاد اورانتہائی کمزور ولچربات ہے؟
ان سب کے برخلاف حافظ ابن حجر لسان المیزان میں لکھتے ہیں کہ عیسیٰ بن ابان نہ صرف خلق قرآن کے قائل تھے بلکہ وہ اس کے داعی بھی تھے۔(لسان المیزان :ابن حجر: 4؍390)
حافظ ابن حجر کے علاوہ کسی بھی دوسرے ترجمہ نگارنے، جس میں شوافع اوراحناف سبھی شامل ہیں، عیسیٰ بن ابان پر خلق قرآن کے عقیدہ کا الزام نہیں لگایاہے، چاہے وہ مشہور شافعی فقیہ ابواسحاق شیرازی صاحب طبقات الفقہاء ہوں، حافظ عبدالقادر قرشی ہوں، یا حافظ قاسم بن قطلوبغاہوں۔
اس تفصیل سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ خلق قرآن کا الزام لگانے کے سلسلے میں حافظ ابن حجر منفرد ہیں اور انہوں نے اپنے دعویٰ کی بھی کوئی دلیل بیان نہیں کی ہے،اور دعویٰ کی جب تک کوئی دلیل نہ ہو ،اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ حافظ ابن حجر نے خلق قرآن کی بات ضرور نقل کی ہے اوراس کاداعی بھی بتایاہے، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایاکہ ان کے سامنے ایسی کون سی نئی بات اورنئی دلیل تھی کہ جو چیز خطیب بغدادی اور ذہبی کے یہاں صیغہ تمریض کے ساتھ اداکی جا رہی تھی ، وہ یہاں آکر صیغہ جزم میں بدل گئی ،اورجس میں وہ محض ایک عقیدہ کے حامل نظر آتے ہیں ،وہ یہاں آکر داعی میں بدل جاتے ہیں۔ جتنے ماخذ اس وقت تک ہمارے سامنے ہیں، اس میں سے کسی سے بھی حافظ ابن حجر کے قول کی تائید نہیں ہوتی۔
علم جرح وتعدیل کی رو سے بھی حافظ ابن حجر کی یہ بات اس لیے غیرمعتبر ہے کہ حافظ ابن حجر عیسیٰ بن ابان کے معاصر نہیں، بہت بعد کے ہیں۔ لازماً ان کی یہ بات کسی اور واسطہ اورسند سے منقول ہونی چاہیے، اورسند یاکسی معاصر شخصیت کی شہادت کا اہتمام خود حافظ ابن حجر نے نہیں کیاہے، اس لیے کہاجاسکتاہے کہ علم جرح وتعدیل کی رو سے ان کی یہ بات ناقابل قبول ہے۔
اگرکوئی یہ کہے کہ لسان المیزان میں حافظ ابن حجر کے ذہبی پر بہت سارے تعقبات اوراضافے ہیں، اس میں سے ایک یہ بھی ہے، تو اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ جہاں بھی حافظ ابن حجر نے ذہبی کے کسی قول پر اعتراض کیا ہے، باحوالہ کیاہے،محض اپنے قول کے طورپر ذکر نہیں کیاہے۔ جن لوگوں کواصرار ہے کہ وہ خلق قرآن کے عقیدہ کے حامل اورداعی تھے توانہیں چاہیے کہ وہ ان کی معاصرکسی شخصیت کا کوئی قول یاکوئی سند پیش کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ خلق قرآن کے الزام کی حقیقت پر غورکرنے کے لیے چند باتیں ذہن میں رکھنی ضروری ہے۔ ایک تویہ کہ یہ عقیدہ خلق قرآن ایک مبہم لفظ ہے۔ محض کسی کا یہ کہہ دینا کہ فلاں خلق قرآن کا قائل تھا،کافی نہیں ہے۔ یہ واضح ہوناچاہیے کہ وہ کن الفاظ میں خلق قرآن کا قائل تھا، ورنہ تو خلق قرآن کا الزام یا دیگر سنگین الزامات مشہور محدثین پر بھی لگے ہیں،لیکن جب ان کے ہی الفاظ میں ان کے موقف کو جاناگیاتو حقیقت واضح ہوگئی۔
اس کی واضح مثال خود امام بخاری کا واقعہ ہے۔ جب امام ذہلی سے وابستہ ایک شخص نے امام بخاری سے اس مسئلہ میں پوچھاتوانہوں نے اس مسئلہ کی حقیقت کوصاف اورواضح کرتے ہوئے کہاتھاکہ جس قرآن کی تلاوت ہم کرتے ہیں، وہ افعال مخلوق ہونے کے لحاظ سے مخلوق ہے، ورنہ قرآن کلام اللہ ہونے کے لحاظ سے غیر مخلوق ہے۔ان کے الفاظ ہیں: القران کلام اللہ غیرمخلوق، وافعال العباد مخلوقۃ والامتحان بدعۃ (ہدی الساری ص 494) اگر خلق قرآن کے سلسلے میں ہمارے سامنے امام بخاری کی عبارت نہ ہو، محض ذہلی کا بیان اور ابوحاتم وابوزرعہ کی تنقید ہو توکوئی بھی امام بخاری کو خلق قرآن کے عقیدہ کا قائل قراردے دے گا۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ خلق قرآن کے معاملہ میں امام احمد بن حنبل کی آزمائش کے بعد امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ اور دیگر محدثین انتہائی شدید ذکی الحس ہوگئے اوراس تعلق سے اگرکوئی ان کے الفاظ سے ہٹ کر کچھ کہتاتو وہ اسے برداشت نہ کرتے اور فوراً اس کے متروک اورضعیف ہونے یاخلق قرآن کے قائل ہونے کی بات کہہ دیتے تھے۔ تفصیل کے لیے شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تصنیف لطیف وقیم "مسالۃ خلق القرآن واثرھا فی صفوف الرواۃ والمحدثین وکتب الجرح والتعدیل" کی جانب رجوع کریں۔اس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اور حوالوں کے ساتھ بتایاہے کہ آگے چل کر اس مسئلہ میں محدثین کے درمیان کس قدر غلو ہو گیا تھا۔

انتقال

امام عیسیٰ بن ابان تادم واپسیں بصرہ کے قاضی رہے، آپ کو معزول کرنے کی بعض حضرات نے کوشش کی لیکن قاضی القضاۃ یحییٰ بن اکثم اور ابن ابی دواد تک کو آپ کو معزول کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ 
محمد بن عبداللہ کلبی کہتے ہیں کہ میں انتقال کے وقت ان کے پاس موجود تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہاکہ ذرا میرے مال ودولت کا شمار تو کردو۔ میں نے گنا تو بہت زیادہ مال نکلا۔ پھر انہوں نے فرمایاکہ اب مجھ پر جو قرضے ہیں، ان کو جوڑ کر بتاؤکہ کل قرضہ کتنا ہے؟ جب میں نے ان کے قرضوں کو جوڑا توپایاکہ یہ ان کی کل مالیت کے قریب ہے۔ اس پر عیسیٰ بن ابان کہنے لگے،اسلاف کہاکرتے تھے کہ زندگی مال داروں کی سی جیو اور موت فقیروں کی سی ہونی چاہیے۔ (اخبارابی حنیفۃ واصحابہ ۱؍۱۴۹)
بالآخر وہ گھڑی آہی گئی جس سے ہرایک کو دوچار ہونا ہے، اورجونہ ٹل سکتی ہے، نہ آگے پیچھے ہوسکتی ہے۔ ماہ صفر کی ابتدائی تاریخ اور سنہ ۲۲۱ ہجری میں علم کا یہ آفتاب غروب ہوگیا۔
امام عیسی بن ابان کاانتقال کب ہوا؟ اس بارے میں مورخین کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض نے220ہجری قرار دیا ہے جب کہ بعض نے 221ہجری بتایاہے۔ لیکن 221کاقول زیادہ معتبر ہے ،کیونکہ خلیفہ بن خیاط جن کا انتقال عیسیٰ بن ابان کے محض ۱۹، ۲۰ سال بعد ہوا ہے، انہوں نے عیسیٰ بن ابان کی تاریخ وفات ۲۲۱ ہجری ہی بتائی ہے۔ علاوہ ازیں خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں سند کے ساتھ نقل کیاہے کہ ماہ صفر کی ابتداء 221 ہجری میں ان کاانتقال ہوگیا۔ اسی طرح حافظ ذہبی نے بھی تاریخ الاسلام اور سیر اعلام النبلاء میں تاریخ وفات 221ہجری ہی ذکر کی ہے اورحافظ ذہبی چونکہ انتقال کی تاریخ وغیرہ بتانے میں کافی محتاط ہیں اوراس سلسلے میں بہت احتیاط اورتحقیق سے کام لیتے ہیں، لہٰذا ان مورخین کی بات زیادہ معتبر ہے۔

بین الاقوامی عدالت انصاف کا فیصلہ: ایک قانونی تجزیہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

اس فیصلے پر کئی پہلوؤں سے مباحثہ جاری ہے لیکن قانونی تجزیہ کم ہی کہیں نظر آیا ہے، حالانکہ اصل میں یہ مسئلہ قانونی ہے۔ اس مضمون میں کوشش کی جائے گی کہ اس فیصلے کے متعلق اہم قانونی مسائل کی مختصر توضیح کی جائے۔ 

بین الاقوامی عدالت انصاف (International Court of Justice/ICJ) کیا ہے؟ 

سب سے پہلے اس عدالت کا مختصر تعارف ضروری ہے۔ اس عدالت کے متعلق چند حقائق یہ ہیں : 
1۔ یہ عدالت اقوامِ متحدہ کی تنظیم کی ایک شاخ ہے اور اس عدالت کا ضابطہ (Statute) اقوامِ متحدہ کے منشور (Charter) کا حصہ ہے۔ اس لیے جو ریاستیں اقوامِ متحدہ کے منشور پر دستخط کرکے اس کی رکنیت حاصل کرلیتی ہیں ، وہ اس عدالت کے ضابطے کی بھی پابند ہوجاتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس عدالت کو ان ریاستوں پر لازمی اختیارِ سماعت حاصل ہوجاتا ہے۔ اختیارِ سماعت کے مسئلے پر آگے بحث آرہی ہے۔ یہاں مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ ریاستیں اس عدالت میں مقدمہ لاسکتی ہیں۔ جو ریاستیں اقوامِ متحدہ کی رکن نہیں ہیں ، وہ اس عدالت میں مقدمہ لانے کے لیے الگ طریقِ کار اختیار کرسکتی ہیں۔ 
2۔ اس عدالت سے قبل اسی نوعیت کی ایک اور بین الاقوامی عدالت موجود تھی جس کا نام "بین الاقوامی انصاف کی مستقل عدالت" (Permanent Court of International Justice/PCIJ) تھا۔ یہ تنظیم مجلس اقوام (League of Nations) کے تحت بنی تھی۔ مجلسِ اقوام کی جگہ بعد میں اقوامِ متحدہ کی تنظیم نے لی اور بین الاقوامی انصاف کی مستقل عدالت کی جگہ بین الاقوامی عدالت انصاف نے حاصل کی۔ 
3۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف ریاستوں کے درمیان قانونی تنازعات کا تصفیہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کرتی ہے۔ یہاں دو باتوں پر نظر رہے۔ ایک یہ کہ تنازعے کا قانونی ہونا ضروری ہے ؛ سیاسی مسائل عدالت میں نہیں لائے جاسکتے۔ دوسری یہ کہ عدالت ان تنازعات کا فیصلہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کرتی ہے۔ یہ "بین الاقوامی قانون "کہاں پایا جاتا ہے؟ اس کے لیے عدالت کے ضابطے کی دفعہ 38 میں قرار دیا گیا ہے کہ عدالت تین بنیادی مصادر کا رخ کرے گی : بین الاقوامی معاہدات ، بین الاقوامی تعامل اور قانون کے قواعدِ عامہ جنھیں مہذب اقوام نے تسلیم کیا ہو۔ 
4۔ یہ عدالت اقوامِ متحدہ کی ذیلی شاخوں کے قانونی سوالات کے جواب بھی دے سکتی ہے۔ اسے Advisory Jurisdiction کہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قابض طاقت اسرائیل کی جانب سے دیوار کی تعمیر کے قانونی نتائج کے متعلق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سوال ہے جس پر عدالت نے 2003ء میں تفصیلی فیصلہ سنایا۔ 
5۔ عدالت تنازعے کے فریقوں پر لازمی اختیارِ سماعت نہیں رکھتی بلکہ تبھی تنازعے کا قانونی حل بتاتی ہے جب تنازعے کی فریق تمام ریاستیں عدالت سے تصفیہ کرنے پر رضامند ہوں۔ بہ الفاظِ دیگر ، عدالت ثالث (Arbitrator)کی طرح تبھی فیصلہ کرسکتی ہے جب تنازعے کے تمام فریق اس سے فیصلہ کرانا چاہیں۔ تاہم یہ عدالت مخصوص قانونی مفہوم میں ثالث نہیں بلکہ عدالت ہی ہے۔ ثالث کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی مخصوص قانون کی رو سے فیصلہ کرے جبکہ یہ عدالت فیصلہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کرتی ہے۔ البتہ تنازعے کے فریق چاہیں تو اوپر مذکور تین بنیادی مصادر کے علاوہ بعض دیگر مصادر یا قواعد کو بھی عدالت مد نظر رکھ سکتی ہے۔ 
6۔ بعض ریاستوں نے پہلے ہی سے ایک اعلان (declaration)جاری کیا ہوتا ہے جس کی رو سے اس نے اس عدالت کا اختیارِ سماعت تسلیم کیا ہوتا ہے ایسی صورت میں اس ریاست کے خلاف دوسری ریاست اس عدالت میں آسکتی ہے۔ امریکا نے ایسا ہی ایک اعلان پہلے ہی سے عدالت کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس وجہ سے نکاراگووا نے امریکا کے خلاف اس عدالت میں مقدمہ قائم کیا کیونکہ امریکا نے نکاراگووا میں حکومت کے خلاف باغیوں (Contras)کی مدد اور تربیت کا سلسلہ شروع کررکھا تھا۔ عدالت نے اس تنازعے میں ابتدائی مراحل طے بھی کرلیے لیکن بعد میں مزید کارروائی اس وجہ سے نہیں ہوسکی کہ امریکا نے اپنا اعلان واپس لے لیا تھا اور اس کے بعد عدالت کے پاس اختیارِ سماعت باقی نہیں رہا تھا۔ پاکستان نے بھی ایسا ہی ایک اعلان 1960ء میں جاری کیا تھا۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ 29 مارچ 2017ء کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے پاکستان کی جانب سے نیا اعلان عدالت میں جمع کرایا جس کی رو سے اس اختیارِ سماعت پر کئی اہم قیود لگائی گئی ہیں۔ ان قیود میں ایک قید یہ ہے کہ تنازعہ پاکستان کی سلامتی کے امور سے متعلق نہ ہو۔ 

بین الاقوامی عدالت انصاف کیا نہیں ہے؟ 

یہ بتانا بھی ضروری ہے کیونکہ اس عدالت کے متعلق کئی غلط فہمیاں غلط مفروضات کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ 
1۔ یہ فوج داری عدالت نہیں ہے۔ یہاں افراد کے خلاف فوج داری مقدمات قائم نہیں کیے جاسکتے۔ نہ ہی فوج داری مقدمات کا تصفیہ کیا جاتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ، نہ یہ کسی ملزم کا جرم ثابت ہونے پر اسے سزا سناتی ہے ، نہ ہی اس کے بے گناہ ثابت ہونے پر اسے رہا کرنے کا حکم جاری کرتی ہے۔ ان مقاصد کے لیے ایک الگ مستقل عدالت موجود ہے جس کا نام ہے : بین الاقوامی فوج داری عدالت (International Criminal Court/ICC)۔ تاہم پاکستان اور بھارت دونوں میں کسی نے بھی ابھی تک آئی سی سی کے منشور کی توثیق نہیں کی ہے۔ اس لیے وہاں کسی فرد کے خلاف مقدمہ پاکستان یا بھارت کی جانب سے قائم نہیں کیا جاسکتا۔ 
2۔ یہ دنیا کی اعلیٰ ترین عدالت (Apex Court) نہیں ہے۔ کئی لوگوں نے یہ فرض کیا ہوا ہے کہ کلبھوشن یادو کے خلاف پاکستان میں فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف بھارت اس عدالت میں گیا ہے اور اب گویا یہ عدالت اس فوجی عدالت کے فیصلے کو اسی طرح کالعدم کرسکتی ہے جیسے ہائی کورٹ ماتحت عدالت کا ، یا سپریم کورٹ کسی ہائی کورٹ کا ، فیصلہ ختم کرلیتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہر ریاست کا اپنا عدالتی نظام ہے جو اس ریاست کے ملکی قانون کے مطابق چلتا ہے۔ یہ عدالت اقوامِ متحدہ کی عدالت ہے جو بین الاقوامی قانون پر فیصلے کرتی ہے۔ ملکی عدالتوں کا ، بشمول فوجی عدالتوں کے ، دائرہ کار اور اس عدالت کا دائرہ کار ایک دوسرے سے یکسر الگ ہے۔ 

بین الاقوامی عدالت انصاف کا ایک اہم اصول 

1۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس عدالت نے بارہا جس اصول کا بڑی شد و مد سے ذکر کیا ہے اور ہمیشہ اس کی پابندی کی کوشش کی ہے وہ ہے ریاست کی خودمختاری (sovereignty)۔ اسی اصول پر یہ کسی ریاست کو کسی مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہونے پر مجبور نہیں کرسکتی جب تک وہ ریاست خود اس عدالت کا اختیارِ سماعت تسلیم نہ کرے۔ اسی طرح یہ کسی ریاست پر زبردستی اپنا فیصلہ نافذ نہیں کرسکتی بلکہ اس ریاست سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اس فیصلے کو نافذ کرلے گی۔ البتہ اس فیصلے کے بعد عالمی دباو میں یقیناً اضافہ ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات ریاست وہ فیصلہ ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ 
2۔ ریاستی خودمختاری ماننے کا ہی ایک نتیجہ یہ ہے کہ اگر اس عدالت نے یہ فیصلہ کر بھی لیا کہ کسی ریاست کی عدالت کا فیصلہ کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر مبنی ہے تو یہ عدالت خود اس مقدمے کا فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ اس ریاست سے کہتی ہے کہ وہ اپنی ریاستی عدالت کے فیصلے پر نظرثانی کروائے۔ 

بھارت کے دعوے کی بنیاد : ویانا معاہدہ براے قونصلر تعلقات 1963ء 

اب ہم اس سوال کا جائزہ لیں گے کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں بھارت نے پاکستان کے خلاف مقدمہ کس بنیاد پر قائم کیا ہے ؟ بہ الفاظِ دیگر، بھارت کا شکوہ کیا ہے کہ پاکستان نے بین الاقوامی قانون کے کس اصول کی خلاف ورزی کی ہے؟ 
1۔ قونصلر کو تقریباً وہی حیثیت اور مراعات حاصل ہوتی ہیں جو سفیر کو حاصل ہوتی ہیں۔ البتہ سفیر بنیادی طور پر حکومتی تعلقات اور بڑے معاملات کو دیکھتے ہیں جبکہ قونصلر کا کام اپنے ان شہریوں کے حقوق کی دیکھ بھال ہوتی ہے جو دوسری ریاستوں میں گئے ہوں، بالخصوص جن کو کسی الزام میں حراست میں لیا گیا ہو۔ قونصلر سے متعلق امور کے بارے میں بین الاقوامی قانون مدون شکل میں 1963 کے معاہدہ ویانا (Vienna Convention on Consular Relations/VCCR) میں پایا جاتا ہے اور اس معاہدے میں ان زیرِ حراست لوگوں تک قونصلر رسائی کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے اس معاہدے کی توثیق کی ہوئی ہے اور یوں ایک دوسرے کے قونصلروں کے لیے یہ حیثیت بنیادی طور پر تسلیم کی ہوئی ہے۔ بھارت کا تقاضا مسلسل یہی رہا ہے کہ پاکستان اسے کلبھوشن یادو تک قونصلر رسائی دے۔ 
2۔ تاہم اس سے متوازی ایک حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی حق کی طرح یہ حق لا محدود نہیں ہے بلکہ اس پر بعض قیود اور حدود موجود ہیں جو بین الاقوامی تعامل سے بخوبی واضح ہیں۔ سب سے اہم قید اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر حراست میں لینے والی ریاست کسی مخصوص قیدی تک قونصلر رسائی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے تو وہ یہ رسائی دینے سے انکار کرسکتی ہے۔ ماضی میں کئی دفعہ پاکستان اور بھارت دونوں نے ، اور کئی دوسری ریاستوں نے بھی ، کئی قیدیوں تک قونصلر رسائی سے اس بنیاد پر انکار کیا ہے۔ اب بھی پاکستان نے اسی بنیاد پر کلبھوشن یادو تک قونصلر رسائی دینے سے انکار کیا ہے۔ 
3۔ اس ضمن میں ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ 2008ء میں پاکستان اور بھارت نے ایک باہمی سمجھوتے کے ذریعے قونصلر رسائی کے معاملے کو منضبط بھی کیا ہے اور اس میں دونوں ریاستوں نے قومی سلامتی کو خطرے کی بنیاد پر قونصلر رسائی سے انکار کا حق ایک دوسرے کے لیے تسلیم کیا ہوا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ بعد میں کیے جانے والے اس دو طرفہ (bilateral)سمجھوتے کی بنیاد پر کیا 1963ء کے کثیر الملکی (multilateral)بین الاقوامی معاہدے میں مذکور حق کو محدود کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ 
4۔ اس آخری سوال کے جواب کے لیے بین الاقوامی قانون میں دو اہم دستاویزات کا جائزہ لینا پڑے گا۔ ایک تو خود 1963ء کے معاہدۂ ویانا کے ساتھ اضافہ شدہ "اختیاری ملحق" (Optional Protocol) ہے۔ اس ملحق میں طے کیا گیا ہے کہ ویانا معاہدے کی تعبیر و تشریح کے متعلق تنازعات کا تصفیہ بین الاقوامی عدالت انصاف کرے گی۔ چونکہ پاکستان اور بھارت دونوں نے اس ملحق کی توثیق کی ہے ، اس لیے اگر پاکستان نے اوپر مذکور اعلان کے ذریعے اس عدالت کا اختیارِ سماعت تسلیم نہ بھی کیا ہوتا تب بھی اس ملحق کی توثیق کی وجہ سے بھارت پاکستان کے خلاف مقدمہ اس عدالت میں لے جاسکتا تھا۔ دوسری اہم دستاویز 1969ء کا ویانا معاہدہ براے قانونِ معاہدات (Vienna Convention on the Law of Treaties/VCLT) ہے جس میں معاہدات کی تعبیر و تشریح کے متعلق بنیادی قواعد و ضوابط دیے گئے ہیں۔ عدالت لازماً اس معاہدے کو بھی مدنظر رکھے گی ، بالخصوص جبکہ پاکستان اور بھارت دونوں نے اس معاہدے کی توثیق کی ہوئی ہے۔ 
5۔ پس عدالت میں بھارت کے دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ کلبھوشن تک قونصلر رسائی سے انکار کی وجہ سے پاکستان نے 1963ء کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستان کا جوابِ دعوی اس بنیاد پر قائم ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے تناظر میں یہ رسائی نہیں دی جاسکتی تھی اور انکار کا یہ حق بین الاقوامی تعامل میں بھی موجود ہے اور دونوں ریاستوں نے باہمی سمجھوتے کے ذریعے ایک دوسرے کے لیے یہ حق تسلیم بھی کیا ہے۔ عدالت اصلاً اسی سوال کا جواب تلاش کرے گی کہ کیا قونصلر رسائی سے انکار کرکے پاکستان نے 1963ء کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے ، یا بین الاقوامی تعامل اور دوطرفہ سمجھوتے کی وجہ سے قونصلر رسائی دینے سے انکار کرنے میں پاکستان حق بجانب تھا ؟ 

عدالت کا حکم نامہ 

اب ہم آتے ہیں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے حکم نامے کی طرف۔ 
1۔ کسی بھی عدالت کے سامنے سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ اسے اختیارِ سماعت حاصل ہے یا نہیں؟ اختیارِ سماعت کا باقاعدہ تعین تفصیلی بحث چاہتا ہے اور اس میں سب سے ضروری امر یہ بھی ہوتا ہے کہ دوسرے فریق کی بات بھی سنی جائے جو اختیارِ سماعت سے انکاری ہو۔ تاہم بعض اوقات معاملہ فوری اور سنگین نوعیت کا ہوتا ہے جس کی بنا پر عدالت کو کچھ ابتدائی نوعیت کے ایسے احکامات جاری کرنے پڑتے ہیں جن کی بنا پر اس معاملے کی سنگینی کو مزید شدت اختیار کرنے سے روکا جاسکے۔ چونکہ عدالت کا مفروضہ اختیارِ سماعت کے حق میں ہوتا ہے اس لیے اگر معاملہ فوری اور سنگین نوعیت کا ہو جس میں اگر عدالت نے فوری احکامات جاری نہ کیے تو ناقابلِ تلافی نقصان ہونے کا قوی خدشہ ہوتا ہے، اس لیے ایسے معاملے میں عدالت اختیارِ سماعت فرض کرتے ہوئے کچھ اشد ضروری احکام جاری کرلیتی ہے۔ 
2۔ یہاں چونکہ معاملہ ایک شخص کی زندگی اور موت کا تھا اور ایک فریق کا کہنا یہ تھا کہ اس شخص تک قونصلر رسائی نہ دے کر پاکستان نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہ کی ہوتی تو اسے سزاے موت نہ ہوپاتی کیونکہ اس صورت میں اس کا بہتر دفاع ممکن ہوجاتا ؛ اب بھی اگر اسے قونصلر رسائی دی جائے تو اسے بہتر دفاع کا موقع مل سکتا ہے؛ اور اس کی سزاے کسی بھی وقت نافذ کی جاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی عدالت ہوتی تو وہ اختیارِ سماعت کے لیے کوئی بھی ظنی دلیل قبول کرتے ہوئے ، بلکہ اختیارِ سماعت فرض کرتے ہوئے ، حکم امتناعی جاری کرتی۔ یہی کام اس عدالت نے کیا۔ 
3۔ تاہم یہ کہانی کا اختتام نہیں ہے بلکہ ابھی اس کہانی میں کئی موڑ آنے والے ہیں۔ عدالت نے صرف "بظاہر اختیارِ سماعت " کی موجودگی فرض کی ہوئی ہے۔ ابھی اس کے حق میں اور اس کے خلاف تفصیلی دلائل دینے کا مرحلہ آئے گا۔ پہلا اہم موڑ پاکستان کی جانب سے اختیارِ سماعت پر باقاعدہ تفصیلی اور تحریری (و زبانی) اعتراضات اٹھانے کا ہوگا۔ 
3۔ اس موڑ پر پاکستان کے حق میں سب سے اہم دلیل 29 مارچ 2017ء کا وہ اعلان ہوگا جس کے ذریعے اس نے اپنے 1960ء کے اعلان کو بہت حد تک محدود کردیا ہے اور بالخصوص قومی سلامتی سے متعلق امور پر پاکستان عدالت کے اختیارِ سماعت کا منکر ہوسکتا ہے۔ اس انکار کے بعد عدالت پاکستان کو مقدمے میں مزید حصہ لینے پر مجبور نہیں کرسکے گی۔ اوپر امریکا کی مثال دی گئی جس نے مقدمے کے آغاز اور ابتدائی سماعت کے بعد اپنا اعلان واپس لیا تھا اور مقدمہ آگے نہیں چل سکا تھا۔ یہاں تو پاکستان نے بہت ہی ذہانت اور کمال کی سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالت کے ابتدائی حکم سے بھی ڈیڑھ مہینہ قبل اس اعلان کے ذریعے قومی سلامتی کے امور کو اس عدالت کے اختیارِ سماعت سے مستثنیٰ کردیا ہے۔ 
4۔ پاکستان کی دوسری اہم دلیل 2008ء کا وہ باہمی سمجھوتا ہوگا جس کے ذریعے دونوں ممالک نے قومی سلامتی سے متعلق امور میں زیر حراست افراد تک قونصلر رسائی سے انکار کا حق ایک دوسرے کے لیے تسلیم کیا ہوا ہے۔ بھارت اس کے خلاف یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سمجھوتا 1963ء کے ویانا معاہدے کے خلاف ہونے کی وجہ سے کالعدم ہے کیونکہ یہ معاہدہ نو سال سے مؤثر ہے اور دونوں ریاستوں نے باہمی رضامندی سے بغیر جبر و اکراہ کے اسے تسلیم کیا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ اہم دلیل یہ ہے کہ ریاست کے اقتدارِ اعلی اور قومی سلامتی کے تحفظ کو بنیاد بنا کر قونصلر رسائی سے انکار کی روایت پاکستان ، بھارت اور دنیا کی کئی ریاستوں نے مختلف مواقع پر اپنائی ہوئی ہے۔ یہ روایت 1963ء کے معاہدے سے پہلے سے جاری تھی اور اب تک چل رہی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر اس استثنا کو بین الاقوامی تعامل نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ 
5۔ اس سمجھوتے کے اثر سے بچنے کے لیے بھارت زیادہ سے زیادہ یہ دلیل دے سکتا ہے کہ چونکہ یہ معاہدہ اقوامِ متحدہ کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے ، اس لیے اپنے منشور کی رو سے عدالت اسے مد نظر نہیں رکھ سکتی۔ یہ دلیل اہم ہے اور اس کے جواب میں پاکستان کو فوراً سے پیش تر اس سمجھوتے کو اقوامِ متحدہ کے پاس رجسٹرڈ کرنا چاہیے۔ اگر پاکستان نے ایسا کیا تو اس پر یہ اعتراض نہیں اٹھایا جاسکے گا کہ اس نے مقدمہ شروع ہونے کے بعد یہ سمجھوتا رجسٹرڈ کرایا ہے کیونکہ بین الاقوامی قانون میں اس کی اجازت موجود ہے اور عدالت نے پہلے بھی یہ بات تسلیم کی ہوئی ہے۔ 

کلبھوشن کی اہمیت اور پاکستان کا بہترین اقدام 

اب ذرا ایک نظر اس سوال پر بھی ڈالیے کہ کلبھوشن تک قونصلر رسائی بھارت کے لیے اتنی اہم کیوں ہوگئی ہے کہ وہ اس کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف تک بھی پہنچ گیا ہے اور پاکستان اس معاملے میں کیوں اس حد تک ڈٹ گیا ہے کہ اس نے قونصلر رسائی نہیں دی یہاں تک کہ معاملہ عدالت تک جاپہنچا؟ 
1۔ اس سوال کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ پاکستان میں جاری فساد میں کلبھوشن کا بہت ہی اہم کردار رہا ہے۔ وہ محض ایک عام جاسوس نہیں تھا۔ اس نے جاسوسوں، ایجنٹوں اور دہشت گردوں کا پورا نیٹ ورک پھیلایا ہوا تھا۔ اس کے اعترافات دنیا کے سامنے لانے سے قبل پاکستانی ایجنسیوں نے اس سارے نیٹ ورک کی تمام تفصیلات ممکن حد تک حاصل کی ہوں گی اور اب اسی بنیاد پر جوابی کارروائی (counter-intelligence بھی اور counter-terrorismبھی ) شروع ہوچکی ہوگی۔ یہ بہت بڑا کھیل ہے جس میں پاکستان کو بہت بڑا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اب اس شخص تک قونصلر رسائی دے کر پاکستان کسی صورت یہ فائدہ کھونا نہیں چاہتا کیونکہ اس صورت میں پورا امکان ہے کہ بھارت کو معلوم ہوجائے کہ کلبھوشن نے کہاں تک اور کیا کچھ بتایا ہے ؟ اس لیے یہ معاملہ کلبھوشن کی جان بچانے کا نہیں بلکہ اس کے نیٹ ورک کو ممکن حد تک بچانے کا ہے۔ 
2۔ بھارت نے عدالت سے دیگر امور کے علاوہ کلبھوشن کی رہائی کے احکامات جاری کرنے کی بھی استدعا کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مبتدی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ عدالت کے پاس ایسا حکم جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ دراصل اس خاص قسم کی ذہنیت کی علامت ہے جس میں مبتلا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو ' موت کے لیے پکڑوگے تو وہ بخار پر راضی ہوجائیں گے '۔ بھارت کا خیال یہ ہے کہ یہ اور اسی نوعیت کے دیگر مطالبات کرکے وہ پاکستان پر دباؤ ڈال سکے گا اور پاکستان کم سے کم ، یعنی قونصلر رسائی ، پر راضی ہو ہی جائے گا۔ 
3۔ یہ ظاہر ہے کہ بھارت کی خام خیالی ہے۔ پاکستان نے اب تک اپنے کارڈ نہایت ہوشیاری سے کھیلے ہیں اور وہ اس دھوکے میں بالکل نہیں آیا ، نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان ہے۔ پاکستان کا اب تک کا سب بہترین کارڈ 29 مارچ 2017ء کا وہ ترمیمی اعلان ہے جس کے ذریعے اس نے 1960ء کے اعلان کو مقید اور محدود کردیا ہے اور اب پاکستان کے پاس یہ واضح اور صاف آپشن موجود ہے کہ وہ قومی سلامتی کے امور میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے اختیارِ سماعت سے انکار کردے۔ اس اقدام پر پاکستان کے تمام پالیسی ساز اور بالخصوص اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مندوب ڈداکٹر ملیحہ لودھی پوری قوم کے شکریے کی مستحق ہیں۔ 

پس نوشت

میرے احباب اور قارئین جانتے ہیں کہ میں میاں محمد نواز شریف صاحب کی حکومت کے سخت ترین ناقدین میں سے ہوں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مختلف عوامل اور اسباب کی وجہ سے میں فوج کے طرزِ عمل پر بھی سخت نکتہ چینی کرتا آیا ہوں۔ تاہم یہ معاملہ ایسا ہے جس میں سول اور ملٹری دونوں جانب سے بہترین کارکردگی سامنے آئی ہے اور اس بنا پر دونوں داد کے مستحق ہیں۔ اگر 2008ء کے سمجھوتے کو بھی جلد از جلد اقوامِ متحدہ کے پاس رجسٹرڈ کرالیا جائے تو اس مقدمے میں پاکستان مضبوط ترین پوزیشن پر آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ 

قرآنِ مجید اور اسیرانِ جنگ

عدنان اعجاز

سورہ محمد (۷۴) (۱) کی آیت ۴ میں اللہ تعالیٰ کے وہ جنگی احکامات مذکور ہیں جو ہجرتِ مدینہ کے مختصراً بعدکفار مکہ سے باقاعدہ آغازِ جنگ کے موقع پر مسلمانوں کو دیے گئے۔ ان میں جنگی قیدیوں سے متعلق ایک اہم قانون بھی بیان ہوا ہے۔ آیت کے الفاظ چونکہ جنگ میں پکڑے جانے والے قیدیوں کے حوالے سے مسلمانوں کے اختیار کو دو ایسی صورتوں میں محصور کر دیتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طرزِ عمل سے بظاہر محصور دکھائی نہیں دیتے، اس لیے ہمارے فقہا کے لیے یہ آیت ہمیشہ 'مسئلے کا حصہ' (part of the problem) اور محل تاویلات رہی ہے۔ آیت کا وہ حصہ جو موضوع سے متعلق ہے، یہ ہے:
فَاِذَا لَقِیتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَاب، حَتّٰی اِذَا اَثْخَنْتُمُوھُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ، فَاِمَّا مَنًّام بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاءً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا۔
ترجمہ تفسیر عثمانی: ’’سو جب تم مقابل ہو منکروں کے تو مارو گردنیں یہاں تک کہ جب خوب قتل کر چکو ان کو تو مضبوط باندھ لو قید پھر یا احسان کیجیو اور یا معاوضہ لیجیو جب تک کہ رکھ دے لڑائی اپنے ہتھیار۔‘‘
ترجمہ تدبر قرآن: ’’پس جب ان کافروں سے تمہارے مقابلہ کی نوبت آئے تو ان کی گردنیں اڑاؤ۔ یہاں تک کہ جب ان کو اچھی طرح چور کر دو تو ان کو مضبوط باندھ لو پھر یا تو احسان کر کے چھوڑنا ہے یا فدیہ لے کریہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔‘‘
ترجمہ تفہیم القرآن: ’’پس جب ان کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔‘‘
ترجمہ البیان (غامدی): ’’سو، (ایمان والو)، جب اِن منکروں سے تمھارے مقابلے کی نوبت آئے تو بے دریغ گردنیں مارنی ہیں، یہاں تک کہ جب تم اِن کو اچھی طرح کچل دو، تب قیدی بنا کرمضبوط باندھو۔پھر جب باندھ لو تو اْس کے بعد احسان کرکے چھوڑ دینا ہے یا فدیہ لے کر۔ (اِن کے ساتھ تمھارا یہی معاملہ رہنا چاہیے)، یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔‘‘
یہ مختلف تراجم تقابل کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ بظاہر تراجم کتنے ہم آہنگ ہیں، جو ظاہر ہے کہ آیت کے غیر مبہم ہونے ہی کی دلیل ہے، مگر واقعہ یہ ہے کہ ان مماثل تراجم کے باوجود ان حضرات کے فقہی نتائج مختلف ہیں۔ ان میں سب سے اہم اختلاف اس امر پر ہوا ہے کہ خط کشیدہ میں جو حکم قیدیوں کے متعلق دیا گیا ہے، وہ فی الواقع مسلمانوں کے اختیار کو انہی مذکورہ دو صورتوں یعنی "فدیہ لے کر رہا کرنے" یا "احسان کے طور پر رہا کرنے" میں محدود کر دیتا ہے یا اس کے علاوہ اور صورتیں مثلاً غلام یا ذمی بنا لینا اور قتل کر دینا وغیرہ بھی دائرۂ جواز میں شامل رہتی ہیں۔ یہ سوال شاید آیت کے الفاظ سے باور کرنا مشکل ہو، کہ وہ تو بہت واضح ہیں، تاہم یہ پوری شدت سے تب پیدا ہو جاتا ہے جب قرآن کے دوسرے مقامات، احادیث، سیرت رسول اور تاریخ پر نظر ڈالی جائے۔ان مصادر میں ایسے احکامات و واقعات مذکور ہیں جن کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے جنگی قیدیوں کو غلام اور مفتوحہ مکینوں کو ذمی بھی بنایا، اگرچہ قتل کرنے کی صرف چند مثالیں موجود ہیں۔ پھر مزید یہ کہ اگر واقعی پہلی صورت مراد ہے تو پھر اس آیت کی رو سے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت ختم کر دی گئی جس کا منطقی اور لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے تھا کہ غلامی کا ہی خاتمہ ہو جاتا، فوراً نہیں تو تدریجاً۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں ایسا ہوا، نہ صحابہ کے دَور میں اور نہ ہی اس کے بعد کبھی۔ اسلاف میں سے کسی ایک فقیہ نے بھی اِس یا کسی اور آیت کے تحت غلام بنانے کو مطلقاً کبھی ناجائز نہیں سمجھا۔
چنانچہ آیت کے حکم اور واقعات کے مابین اس تضاد کو حل کرنے کے لیے ہمارے مفسرین نے وہی طریقہ اختیار کیا جو اس طرح کے دوسرے مواقع پر وہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ ایک اجمالی نیز مستحق تفسیر تو تقریباً بے لاگ ہی بیان کر دیتے ہیں مگر نتائج و احکامات کے لیے وہ فقہائے اسلاف کی آراء نقل کر دیتے ہیں، اس حال میں کہ ان دونوں کے مابین تطبیق کو بہت اہمیت نہیں دیتے۔ پس کوئی قدیم و جدید تفسیر اٹھا لیجیے، آپ کو اسی آیت کے ذیل میں ابن عمر، مجاہد، قتادہ، ابو حنیفہ و شافعی وغیرہم کی آراء مل جائیں گی کہ کون قتل کو جائز سمجھتا تھا، کون غلامی و جزیہ کو بھی، کون اس آیت کو منسوخ مانتا تھا اور کون نزولِ عیسیٰ تک اسے قابل عمل۔تاہم اگر کوئی طالب علم آیت کے الفاظ کو ہی کشتی نتائج کے بادبانوں میں ہوا کا واحد ذریعہ دیکھنا چاہے تو سوائے تدبر قرآن اور البیان کے تشفی نہیں ہو پاتی۔ہر چند یہ بالترتیب استاذ اور شاگرد کی تفاسیر ہیں، اور یہ دونوں حضرات قرآن ہی کے الفاظ کو مجرد کر کے احکامات کی تخریج کے قائل ہیں، مگر ان دونوں کے نتائج بھی باہم دگر مختلف ہی ہیں۔
اصلاحی صاحب نے یہاں "احسان یا فدیہ" تک حدبندی کو قیدیوں کے باب میں بیانِ قانون ماننے ہی سے انکار کیا ہے، اور حکم کومحض الفاظِ آیت کی بجائے فحوائے کلام سے اخذ کرتے ہوئے خط کشیدہ کے حصر کو"باعزت آزاد کرنے " کے مقابلے میں ایک طرح کی تاکید قرار دیا ہے۔ اس لیے وہ خط کشیدہ کے ٹکڑے کو حصر مانتے ہوئے بھی قتل و غلامی اور دوسری صورتوں کے لیے مانع نہیں سمجھتے۔ اس طرزِ تفسیر کی تفصیل تدبر قرآن یا عمار خان ناصر صاحب کی توضیح میں دیکھی جا سکتی ہے(۲)۔ میں اس تفسیر کو درست نہیں سمجھتا، بلکہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ کسی بھی طالب علم کو یہ تفسیر مصنوعی معلوم پڑتی ہے۔
اس کے مقابل میں غامدی صاحب نے نہ صرف یہ کہ حصر کو قانونی حصر ہی سمجھا ہے بلکہ اصلاحی صاحب کے موقف پر تفصیلی تنقید کرتے ہوئے فحوائے کلام کی بھی ایسی توضیح کر دی ہے کہ میرے جیسے قرآن کے طالب علموں کے لیے تو کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔ یہ تفسیر انتہائی سادگی اور دیانتداری سے کلام کا رخ بھی متعین کر دیتی، سارے نتائج بھی بے لاگ برآمد کر کے سامنے رکھ دیتی ہے اور کسی خارج کی احتیاج بھی باقی نہیں رہنے دیتی۔ چنانچہ اس میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ اس آیت کے تحت مسلمانوں کے اختیار کو دو ہی مذکورہ صورتوں تک محدود کر دیا گیا 150 یعنی جنگی قیدیوں کو یا تو احسان کے طور پر رہا کر دینا ہے اور یا فدیہ لے کر۔ اِس کے بعد صرف وہی مستثنیا ت باقی رہ گئے جو علم و عقل کے مسلمات کی رو سے ہر قانون، ہر قاعدے اور ہر حکم میں اس کی ابتدا ہی سے مضمر ہوتے ہیں۔ یعنی مثال کے طور پر، سنگین جرائم کے کسی مرتکب کے ساتھ اس کے جرائم کی بنا پر اِس سے ہٹ کر کوئی معاملہ کیا جائے۔ اِس سے، ظاہرہے کہ قیدیوں کے بارے میں اِس عام قانون پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔(۳) اس پر مزیداس حکم کے منطقی نتیجے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "یہ حکم اگرچہ مشرکین عرب کے حوالے سے بیان ہوا ہے، لیکن ہر لحاظ سے عام ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ قیدی بنا لینے کے بعد جب رسول کے منکرین سے احسان یا فدیے کے سوا کوئی معاملہ نہیں کیا جا سکتا تو دوسروں سے بدرجہ اولیٰ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ قرآن کا یہی حکم ہے جس نے قیدیوں کو غلام بنانے کا رواج ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور اِس طرح غلامی کی جڑ کاٹ دی۔" 
ما سوا اس آخری نتیجے کے150 کہ جس کو میں درست نہیں سمجھتا151 آیت کی باقی تفسیر ہر اعتبار سے صحیح، صاف و بلاپیچیدگی (straightforward)، الفاظ سے آخری حد تک دیانتداری ( translational fidelity) کی حامل اور کلام اللہ کے کمال و جامعیت پر دال ہے۔اس کو پڑھ کر دیکھ لیجیے 150 کوئی دوسری تفسیر قابل اعتنا نہیں رہتی۔ تاہم151 اور یہ تو نتیجہ معلومہ ( foregone conclusion) ہے151 اس تفسیر کے نتیجے میں تاریخ اور تمام مخالف روایات کو نظرانداز کرنا یا ان کی تاویل کرنا ضروری ٹھہر جاتا ہے۔چنانچہ غامدی صاحب اپنے مضمون "قرآن اور اسیرانِ جنگ" میں ایک دو مشہور واقعات کی مختلف روایات کے مابین تضادات کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اِس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ تاریخی واقعات کے سمجھنے میں اِن روایتوں پر کہاں تک اعتماد کیا جا سکتا ہے۔جن لوگوں نے دقت نظر کے ساتھ اِن کا مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ راویوں کا فہم، ان کاذہنی اور سماجی پس منظر اور ان کے دانستہ یا نادانستہ تصرفات بات کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ دین کے طالب علموں کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ روایتوں سے قرآن کو سمجھنے کے بجاے اْنھیں خود روایتوں کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔" 
میری رائے غامدی صاحب کی تفسیر کے اکثر حصے کو درست ماننے کے باوجود مجموعی اعتبار سے قدرے مختلف ہے، پس یہاں سے آگے میں اپنی رائے کے دلائل تحریر کروں گا۔ اس کے لیے ہم اس آیت اور اس کی حامل سورہ کے وسیع تر موقع و محل کا مشاہدہ کریں گے، پھر آیت کے اندرونی قرائن کا تجزیہ کرکے نتائج برآمد کریں گے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ نتائج اور روایات کیسے باہم موافق قرار پائیں گی۔اس رائے کے اجزا آپ کو اسلاف کے یہاں مل جائیں گے، پر کلی اعتبار سے یہ منفرد ہے، اس لیے علیحدہ تفصیل سے بیان کرنا ضروری ہے۔ مزید، ان میں سے بعض دلائل کو سمجھنے کے لیے کچھ عسکری ذوق بھی درکار ہو گا مگر میں کوشش کروں گا کہ وہ تفہیم میں حائل نہ ہونے پائے۔

سورہ کا موقع و محل

سورہ محمد، سب جانتے ہیں کہ سورۂ قتال ہے۔ یہ ہجرتِ مدینہ کے بعد کفارِ مکہ سے کسی باقاعدہ جنگ میں مڈبھیڑ سے پہلے مسلمانوں کو اس کے لیے تیار کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ اس جنگ کے ضوابط بھی اسی لیے موقع کی مناسبت سے بیان ہو گئے ہیں۔ یہ جنگ کب تک جاری رہے گی اور اس کا ہدف کیا ہے، یہ بھی اجمال سے بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد نازل ہونے والی سورہ یعنی سورہ انفال میں اس اجمال کی تفصیل بھی کر دی گئی ہے۔یہ اصل میں ان چار سورتوں میں سے ایک ہے جن کے مجموعی مطالعے اور انضمام کے بعد ان تدریجی جنگی احکامات کو مکمل طور پر سمجھنا ممکن ہو پاتا ہے۔اس لیے آئیے ان کی نشاندہی بھی کر لیتے ہیں۔
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ قرآن پاک میں سورتیں جوڑا جوڑا آئی ہیں۔ پس یہاں سورہ محمد اور سورہ فتح جوڑا ہیں۔ موضوعی اعتبار سے اسی سلسلے کا دوسرا جوڑا سورہ انفال اور سورہ توبہ ہیں۔ سورہ محمد جنگوں کے آغاز سے متصلاً پہلے اور سورہ فتح جنگوں کے اختتام (۴)سے متصلاً پہلے نازل ہوئی۔ سورہ انفال جنگوں کے آغاز کے متصلاً بعد (۵)اور سورہ توبہ اختتام کے متصلاً بعد (۶)نازل ہوئی۔ ان کو اگر موضوعی اور زمانی ترتیب میں رکھ کر دیکھا جائے تو ان کی ترتیب محمد، انفال، فتح اور پھر توبہ قرار پاتی ہے۔(۷) اس لیے ان کو میں یہاں سے آگے بالترتیب پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی سورت سے تعبیر کروں گا۔ ان سورتوں میں اگرچہ ضمنی طور پر ’’اور‘‘ دشمنوں کا ذکر بھی ہے تاہم کوئی بھی مدبر طالب علم یہ باور کر سکتا ہے کہ ان سب سورتوں میں ایک ہی مرکزی دشمن ہے جس کو ان سورتوں میں اصلی ہدف بنایا گیا ہے۔ ہم ان سورتوں میں تدریجی احکامات کا مطالعہ ایک ترتیب سے کرتے ہیں تا کہ وہ دشمن نکھر کر سامنے آ جائے۔
1۔ پہلی سورہ میں بتایا گیا کہ اِن کافروں سے جب کبھی بھی مڈبھیڑ ہو تو چونکہ حق کے انکار کی وجہ سے یہ خدا کے انتقام کے مستحق ہو چکے ہیں، انہیں ہمیشہ بے دریغ قتل کرنا ہے، اور صرف خوب خونریزی کے بعد قیدی بنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر قیدی بنا لیے گئے تو پھر انہیں یا تو احساناً آزاد کر دینا ہے اور یا پھر فدیہ لے کر۔ اور انہیں صلح کی پیشکش بھی نہیں کرنی۔ پھر ایک دن آئے گا کہ یہ جنگ ہی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی اور اس کے ساتھ یہ احکامات بھی۔
2۔ دوسری سورہ میں بتایا گیا کہ اب چونکہ انہیں ایک بڑی شکست دے دی گئی ہے، اس لیے اب اگر یہ اپنی طرف سے صلح کی پیشکش کریں تو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم اگر یہ جنگ پر ہی مصر رہیں تو جنگ تو اب اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اس سرزمین میں صرف اللہ کا دین نہیں رہ جاتا اور کسی شخص کے لیے اسے اختیار کرنا مشکل نہیں رہتا۔ اور جو قیدی بنا لیے گئے تھے، ان پر احساناً یا فدیہ لے کر چھوڑتے ہوئے یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ ان کے لیے ہدایت کا امکان اب بھی باقی ہے۔
3۔ تیسری سورہ میں فتح کی خوشخبری سنا دی گئی اور بتا دیا گیا کہ ان کی جانب سے پیش کی گئی صلح کی پیشکش قبول کر لی گئی، اگرچہ اگر وہ جنگ ہی پر اصرار کرتے تو مکہ ابھی اسی وقت فتح ہو جاتا۔ جو مسلمان اس اہم موقع پر پیچھے رہ گئے تھے، ان پر شدید برہمی کا اظہار کیا گیا اور بتا دیا گیا کہ اب اِن مسلمانوں کو بھی بس ایک موقع اور دیا جائے گا؛ اگر اس پر بھی اِنہوں نے بیٹھ رہنے کا فیصلہ کیا تو پھر اِنہیں بھی مستحق عذاب سمجھا جائے گا۔
4۔ چوتھی سورہ میں الفتح کے مل جانے کے بعد بتا دیا گیا کہ اب ان سب کفار کو (کچھ مہلت کے بعد جس میں وہ اسلام کو جان سکتے ہیں) قتل کر دیا جائے گا، الّا یہ کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ یعنی اِن کے باب میں نہ احسان، نہ غلامی، نہ معاہد، نہ ذمی، کوئی بھی صورت اختیار نہیں کی جا سکتی؛ اب اِن پر اسلام نہ لانے کی صورت میں اللہ کی سنت کے عین مطابق مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب آئے گا اور اِن کا استیصال کر دیا جائے گا۔
پس وہ مرکزی دشمن کون تھا؟ اگر آپ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ ’’مشرکین عرب‘‘ تھے تو آپ کا جواب صرف پچیس فی صد صحیح ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ گروہ ’’کفارِ مکہ‘‘ تھا۔ پہلی تین سورتوں تک یہ بالکل معین رہے۔ ہاں چوتھی سورت میں پہنچ کر اس دائرے کو وسیع کر کے تمام مشرکین عرب تک پھیلا دیا گیا۔ 
اس کو سہل ترین زاویے سے ہی دیکھ لینے سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔ پہلی سورہ میں فرمایا گیا کہ ان کی طرف صلح کا ہاتھ نہیں بڑھایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے پہنچنے کے بعد اس حکم کے نزول سے پہلے اور بعد میں یہودی قبائل سے بھی صلح کے معاہدے کیے اور غیر یہودی قبائل سے بھی۔نہیں کیا تو بس مشرکین مکہ ہی سے۔ دوسری سورہ میں صلح کی پیشکش اگر دوسری جانب سے ہو تو اسے قبول کرنے کی اجازت کا اضافہ کر دیا گیا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ مشرکین مکہ ہی کی طرف صریح اشارہ تھا۔ تیسری میں اس صلح پر تبصرہ جو اِنہی مشرکین سے ہوئی اور چوتھی میں ہر طرح کی صلح کے معاہدے کے اختتام کا اعلان کر دیا گیا۔ 
دشمن کی تعیین سے اصل میں بتانا یہ مقصود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگیں اگرچہ کثیر رخی تھیں مگر اس کی متنوع لڑیوں میں سے ایک لڑی وہ تھی جو مرکزی اور باقیوں سے مختلف اور اہم تر تھی۔ باقی لڑیاں اس کے ارد گرد اور ضمنی نوعیت کی تھیں۔ اس کے متعلق نہ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اصلاً عرب کی حکمرانی کی جنگ تھی بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہلے معرکے سے ہی ان لوگوں کے خلاف تھی جن پر اتمام حجت ہو چکا تھا۔ پس اس جنگ کے بارے میں دیے گئے احکامات نہ صرف تدریجی تھے بلکہ باعتبارِ مفعول اور وقت دونوں اعتبارات سے ہی خاص اور محدود تھے۔ ان احکامات کا اور کسی گروہ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور انہیں عام نہیں کیا جا سکتا۔
اس کو اچھے طریقے سے سمجھنے کے لیے آئیے، آیت کا تجزیہ کرتے ہیں۔

آیت کا تجزیہ

یہ سورہ کی چوتھی آیت ہے۔ پہلی چار آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کر دیا کہ یہ کفارِ مکہ اور متبعین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے فیصلوں کے عین مطابق اب دو ممیز گروہ بن گئے ہیں۔ ایک کفار: جنہوں نے جانتے بوجھتے اللہ کی ہدایت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اس لیے اب اللہ کے بدلہ لینے کے مستحق ہو چکے ہیں۔ اور دوسرے مؤمنین: جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی ہدایت پر ایمان لے آئے ہیں۔ پس اللہ اب ان کفار سے بدلہ لینے کے لیے ان مؤمنین کو اپنے آلے اور جارحے کے طور پر استعمال کرے گا۔ 
یہاں اگرچہ خطاب 'الَّذِینَ کَفَرْوا' کے عام الفاظ سے کیا گیا ہے مگر موقعِ کلام سے مشار الیہ بالکل واضح ہے۔ عام الفاظ سے اشارہ اس لیے کیا گیا ہے کہ جس وقت یہ سورہ نازل ہو رہی ہے، کفار کا لفظ انہی مشرکین مکہ پر صادق آ سکتا تھا۔ پورے عرب میں یہی وہ لوگ تھے جن کے بیچ رہ کر کم و بیش 13 برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انذار کیا تھا اور انہی کے متعلق یہ کہا جا سکتا تھا کہ انہوں نے جانتے بوجھتے انکار کیا ہے۔ اور کوئی گروہ150خواہ وہ یہودی ہوں یا باقی عرب کے مشرکین 150ابھی تک مخاطب دعوت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب سے صلح کے معاہدے کر لیے گئے یا کوشش کی گئی۔ پس کسی اور کو کافر کہہ کر اللہ کے بدلے کا مستحق گرداننا قبل از قت اور منطقی اعتبار سے ناقابل فہم ہوتا۔ 
اب آئیے آیت پر۔ میں صرف اس آیت کی تحدید سے متعلق وضاحت کرنے پر اکتفا کروں گا کہ باقی تفسیر کے لیے غامدی صاحب کی البیان کی مراجعت کر لی جائے۔ 
اس میں پہلا حکم گردنیں مارتے چلے جانا ہے یہاں تک کہ 'اثخان' کا حق ادا ہو جائے؛ صرف تب قیدی بنائے جا سکتے ہیں۔ پس اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اس سے کیا مراد ہے ورنہ ان مخصوص احکامات کی حکمت اور قیود واضح نہ ہو پائیں گی۔
اثخان کہتے ہیں ’’الاثخان فی الشیء المبالغۃ فیہ والاکثار منہ‘‘،(۸) کسی کام میں مبالغے اور کثرت کو۔ بالفاظِ دیگر کسی معاملے میں حد اعتدال سے بڑھ کر کام کرنے کو اثخان سے تعبیر کریں گے۔ اسی لیے ہمارے مفسرین نے اسے ٹھیک اچھی طرح کچل دینے، خوب خونریزی کر دینے وغیرہ سے تعبیر کیاہے۔ پر اس کی بالفعل صورت کیا ہو گی اس پر کما حقہ غور نہیں کیا، حالانکہ دوسری سورہ میں اسی کام کو کما حقہ کرنے سے پہلے قیدی بنا لینے پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر برہمی کا اظہار فرمایا۔(۹)
جنگ کا معروف طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی دشمن ہتھیار پھینک کر خود کو قیدی کے طور پر پیش کر دے تو اس سے جنگ نہیں کی جائے گی بلکہ اسے قیدی بنا لیا جائے گا۔ اس اثخان کے حکم سے گویا عرف کی نفی کر دی گئی۔ اثخان کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت تک جب تک دشمن کے اکثر لوگوں کو مار نہ دیا گیا ہو، قیدی بنانے کا عمل شروع نہیں کیا جائے گا۔ یعنی کوئی دشمن چاہے ہتھیار پھینک دے، اسے قتل کر دیا جائے گا الّا یہ کہ جنگ میں وہ موقع آ جائے کہ یہ تسلی ہو جائے کہ دشمن کا اکثر حصہ تہ تیغ کر دیا گیا ہے۔ اس کو سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ معروف طریقے میں قیدی بننے کا اختیار اسیر کے اپنے پاس ہے۔ اس جنگ میں اس اختیار کو آسر یعنی قیدی بنانے والے کے ہاتھ میں دے دیا گیا اور یہ شرط لگا دی گئی کہ اس اختیار کا استعمال وہ صرف اثخان کے بعد کر سکتا ہے، خواہ کتنے ہی دشمن کسی بھی وقت قیدی بننے کے لیے تیار کیوں نہ ہوں۔ سارے دشمنوں کو بلاتفریق دورانِ جنگ ہی قتل کر دیا جائے تو بھی اس حکم سے انحراف شمار نہیں ہو گا۔
اس حکم سے آپ ہی واضح ہے کہ یہ جنگ صرف جیتنے کے لیے نہیں لڑی جا رہی تھی بلکہ سزا کے لیے لڑی جا رہی تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ خلافِ عرف حکم زیادتی پر محمول ہو سکتا تھا۔ چنانچہ یہ واضح ہے کہ اس حکم کا مصداق صرف ایسا گروہ ہو سکتا ہے جو اللہ کی نظر میں سزا کا حقدار ہو چکا تھا۔مسلمانوں کی عام جنگوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور اگر تعلق جوڑا جائے گا تو صاف حکم کے سبب الوجود ( raison d'234tre) کے خلاف ہو گا۔
اس میں دوسرا حکم پکڑے جانے والے قیدیوں کو لازماً رہا کر دینا ہے: یا احسان کے طور پر اور یا فدیہ لے کر۔ یہ ہے وہ اچانک 'خدائی رحمدلی' جو بظاہر بڑی 'فی غیر محلہ' ( out of place) معلوم پڑتی ہے، جس کی وجہ سے یہ پوری طرح سمجھ میں نہیں آتی۔ اسی لیے ہمارے اکثر اسلاف نے اس کی متفرق تاویلات کی ہیں۔ کسی بھی قاری کو صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ کلام کا زور جس رخ پر ذہن کو آپ سے آپ منتقل کر رہا تھا، اس میں اچانک اتنا بڑا اور بظاہر غیر مستحق احسان قطعاً خلافِ توقع اور بظاہر ناقابلِ توجیہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس گروہ کے متعلق اللہ کی پوری سکیم قاری کے پیش نظر نہیں۔
یہ وہ گروہ تھا جس کے متعلق بلا تفریق قتل عام کی تاریخ طے ہو چکی تھی۔ اللہ کی سنت کے مطابق ان میں سے کسی کافر کو بھی زندہ رہنے کی مہلت اب بس چند سال تھی جس کے بعد ان سب کو علی الاطلاق قتل کر دیا جانا تھا۔ پس جو لوگ اس مخصوص جنگ میں قسمت سے زندہ بچ گئے، ان کو ہدایت پانے کا ایک موقع اور دے دیے جانے کا فیصلہ کہ آخرکار تو ان کے قتل کا فیصلہ آیا ہی چاہتا تھا150 ایک بڑا پر حکمت فیصلہ تھا۔ لہٰذا ہدایت کے اس آخری موقعے کو مزید میٹھا کرنے اور ان کے مؤلفۃ القلوب کے ذریعے ایمان لے آنے کی ترغیب مزید کے لیے اِن پر احسان کر کے انہیں رہا کر دینے کا حکم دے دیا گیا۔ پھر اس احسان سے یہ امید بھی کی جا سکتی تھی کہ ایسے ممنونِ احسان دوبارہ جنگ کے لیے نہ آئیں گے۔ قتل کی سزا کے مستحقین کے لیے غلامی یا قید وغیرہ کی سزاؤں کا اضافہ بے وجہ اور خلافِ حق ہوتا۔ انہیں اپنے آخری ایام آزاد لوگوں کی حیثیت سے اپنا اپنا فیصلہ کر لینے کی خاطر بسر کرنے کی اجازت دیا جانا ہر طرح سے سمجھ میں آتا ہے۔
پس یہ کوئی مجرد اور مطلق خدائی رحم نہیں تھا جو ان لوگوں پر کیا جا رہا تھا۔ یہ اصل میں سزائے موت سے پہلے مہلت مزید تھی۔ اسی لیے آیت میں ہی اس مہلت کے اختتام کی تاریخ بھی مضمر کر دی گئی۔
اس حکم کا آخری حصہ150 یعنی حتی تضع الحرب اوزارھا (یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے)150 وہ تھا جسے آج کل کی قانونی زبان میں 'Sunset Clause' یعنی بند الانقضاء (یا ذیلی شزجوال) سے تعبیر کیا جاتا ہے؛ یعنی وہ وقت یا واقعہ جس کے بعد یہ حکم آپ سے آپ ختم متصور ہو گا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ جو 'اثخان' اور 'اطلاق'151 یعنی 'خونریزی' اور 'رہائی'151 کے غیر معمولی احکامات دیے جا رہے تھے، یہ بس وقتی تھے جو اس وقت منسوخ تصور کیے جائیں گے جب جنگ اپنے ہتھیار اتار دے گی۔ یہ الفاظ چونکہ پورے حکم کے آخر میں آئے ہیں، اس لیے حکم کا کوئی حصہ اس کے اثر سے باہر نہیں سمجھا جا سکتا؛ کہ خونریزی پر تو اس کا اطلاق کیا جائے مگر رہائی پر نہ کیا جائے۔ 
’’جنگ اپنے ہتھیار اتار دے گی‘‘ سے مراد کیا ہے؟ عربی کی اس تعبیر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جنگ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گی اور جنگ کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی۔ اس کا اطلاق کسی باقاعدہ جنگ کے دورانیے میں وقتاً فوقتاً لڑے جانے والے معرکوں کے درمیان کسی عارضی نوعیت کے التوا یا معاہدۂ التوا پر نہیں ہو سکتا۔ جس دشمن سے جنگ لڑی جا رہی ہو اس کے خلاف مکمل فتح یا شکست یا پھر وجوہِ جنگ کے بنیاد میں ختم ہو جانے پر ہی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس کا مصداق کیا تھا، اس کی تعیین میں بہت اختلاف رہا ہے۔ کچھ اسلاف کے نزدیک اس سے مراد شرک کا خاتمہ تھا۔ کچھ کے نزدیک مشرکین کی قوت (شوکت) کا خاتمہ تھا۔ کچھ کے نزدیک نزولِ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام تک کا دورانیہ اس کی مراد تھا، کیونکہ وہی ایک ایسا سنگِ میل تھا جس کے بعد دنیا سے جنگ ختم ہو جانا ممکن تھا۔ 
میرے نزدیک یہاں 'الحرب' کا 'ال' عہد کے لیے ہے اور اس قطعے کا واضح مصداق فتح مکہ تھا۔ یعنی 'یہاں تک کہ یہ جنگ اپنے ہتھیار اتار دے' سے مراد یہی جنگ تھی جو عرب کی قانونی حکمرانی کے لیے کفارِ مکہ سے لڑی جا رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس نوعیت کی تقیید فرماتے ہیں تو اس کا مصداق بالکل واضح اور متعین ہوتا ہے۔ فتح مکہ سے چونکہ عرب کی حکمرانی قانوناً ( de jure) مسلمانوں کو حاصل ہو گئی، پس باقی سب عرب قبائل کے لیے اسے قبول کرنا لازم ٹھہر گیا اور انہوں نے بحیثیت مجموعی اسے بالفعل تسلیم بھی کر لیا۔ چنانچہ اسلاف میں سے جن نے اس ذیلی جملے کو شرک سے متعلق مانا ہے، میری رائے ان کی رائے کے قریب قریب ہے۔
تاہم یہاں جو بات اہم ترین ہے اور جس پر اصل میں توجہ مبذول کرنا مقصود تھا، وہ اس حکم کی وقتی حدبندی ہے جو 'حتی تضع الحرب اوزارھا' سے مثل آفتاب واضح ہے۔ اس قطع حکم نے اس پورے حکم کو بلا ریب موقت (limited by time) بنا دیا ہے۔ چنانچہ ان مخصوص احکامات کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک وقت زوال، حکم کی پیدائش ہی سے مقرر و بیان کر دیا جانا ان احکامات کی تعمیم میں سب سے پہلے حائل ہے۔
مندرجہ بالا بحث کا حاصل یہ ہے کہ سورہ محمد کی یہ آیت دو اعتبارات سے خاص تھی۔ ایک، یہ مخصوص گروہ یعنی مشرکینِ مکہ کے لیے خاص تھی جو اس سورہ کے قرائن سے بالکل واضح ہے۔ اور دو، ان کے باب میں بھی یہ ایک خاص وقت تک مؤثر تھی اور یہ وقت فتح مکہ کے بعد پورا ہو گیا۔ ان کی حکمت یہ تھی کہ اس گروہ پر اتمامِ حجت کے اور ارادۂ قتلِ رسول و انہدام الاسلام کے بعد اب اللہ کی سزا نافذ ہونی تھی۔ اس لیے اگر جتھہ بندی کر کے آتے تو ان کی خوب خونریزی ہونی چاہیے تھی۔ اور ان میں سے جو خونریزی کے بعد ہاتھ لگ جائیں تو ان کے لیے بھی سزائے موت کی تاریخ چونکہ طے تھی، اس لیے انہیں اس وقت تک کچھ مہلت مزید دے دی جائے تا کہ یہ امید کی جا سکے کہ یہ ایمان لے آئیں گے یا کم از کم لڑنے کے لیے دوبارہ آنے سے شرمائیں گے۔ یہ جنگ کے متعلق احکامات نہیں بلکہ دشمن کے متعلق احکامات ہیں۔ ان سے کسی نوعیت کے عام جنگی احکامات برآمد کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی قائل کے پیش نظر۔یہ سب باتیں خود کلام ہی سے واضح ہیں۔اگر ایسا کرنا پیش نظر ہوتا تو جب تک یہ جنگ ہتھیار اتار دے کی قید تو کبھی نہ لگائی جاتی۔اس لیے محترم غامدی صاحب نے جو ان احکامات کی تعمیم کی ہے یا ان سے غلامی کے متعلق کوئی عام حکمِ امتناع کا استنباط، میری نظر میں وہ درست نہیں۔
اس سے پہلے کہ اس حکم کے منطقی نتائج کا مطالعہ ہم تاریخ کے موازنے سے بھی کر لیں، جنگی قیدیوں سے متعلق 'معروف' کا تذکرہ یہاں مفید معلوم پڑتا ہے۔
1۔ جنگ میں پکڑے جانے والے قیدیوں کے متعلق منصفانہ اور معروف طریقہ یہی ہے کہ انہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہ کوئی اسلامی نہیں بلکہ غلامی یا مقتولین کی لاشوں کی واپسی کی طرح ایک اجتماعی اور تاریخی فیصلہ اور آدابِ جنگ کا ایک قاعدہ تھا۔ اگرچہ جنگ میں قیدی اس طرح بھی پکڑے جاتے ہیں کہ دشمن کسی وار یا غیر متوقع حملے کے نتیجے میں غیر مسلح ہو گیا ہو، تاہم اس کی اغلب نوعیت یہی ہوتی ہے کہ مقاتل کسی وجہ سے ایسے گھر گیا ہو کہ لڑائی جاری رکھنے کی صورت میں اس کا مر جانا یقینی ہو۔ پس اپنی جان بخشی کے عوض وہ خود کو قتل سے کم تر ہر طرح کی ذلت پر پیش کرنے کے ارادے سے ہتھیار ڈال کر قیدی بن جائے۔ تاہم وہ کس حال میں پکڑے گئے ہیں، ان کا انجام اس پر بھی معلق ہوتا تھا۔ یعنی اگر وہ لڑتے لڑتے فقط مقہور ہو جانے کے نتیجے میں قیدی بن گئے ہیں تو انہیں بعد میں قتل کی گنجائش باقی رہتی تھی۔ پر اگر وہ دوسرے طریقے سے قیدی بن گئے ہوں اور اکثر ایسا ہی ہوتا تھا تو پھر ایسے اشخاص کے اس فعل کا پاس رکھتے ہوئے انہیں قتل سے خلاصی دے دی جاتی تھی۔ یہ ایک طرح کا 'اتفاقِ اشراف' ( Gentleman's agreement) ہے جو ماضی میں کوئی قانونی نوعیت تو نہیں رکھتا تھا، پر ایک رواج اور نامذکور منطقی سمجھوتے کی حیثیت رکھتا تھا۔پس اس معاملے میں ذلت کی کوئی صورت خلافِ حق متصور نہیں ہوتی مگر قتل قابل کراہت اور اس مسلمہ سمجھوتے کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے۔ الّا یہ کہ قیدی صرف جنگ کا مجرم نہ ہو بلکہ اس سے بڑے کسی جرم کا ارتکاب بھی اس نے کر رکھا ہو، جیسے بغاوت یا فتنہ انگیزی وغیرہ۔ہمارے مذہبی فکر میں اس ضابطے کو اسلام سے مستخرج بتانے کی کوشش کی جاتی ہے جو صحیح نہیں۔ اسلام میں پہلے سے موجود اس اخلاقی ضابطے کی فقط پاسداری کی جاتی ہے۔
2۔ ذلت کی مختلف صورتوں میں سے ایک غلامی بھی تھی۔ زمانہ قدیم کی جنگوں میں اگر قیدیوں کی کوئی جماعت ہاتھ آ جائے تو انہیں قید رکھنا یا تو ممکن نہیں ہوتا تھا اور یا موزوں۔ جن علاقوں میں کوئی باقاعدہ قید خانوں کا نظام نہیں ہوتا تھا یا اس مقصد کی خاطر طویل مدت کے لیے معاشی وسائل کی کمی ، تو قیدیوں کو حکومت کی سطح پر سنبھالنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ اور جن علاقوں میں یہ ممکن ہو بھی تو موزوں اس لیے نہیں ہوتا تھا کہ یا تو ان قیدیوں کو اکٹھا رکھنا ان کی کسی فتنہ انگیزی کی کوشش کو ممکن بنائے رکھتا تھا اور یا پھر جنگ میں لڑنے والوں کے لیے ان سے فائدہ اٹھانا ان کا زیادہ فائدہ مند تصرف سمجھا جاتا تھا۔ان وجوہات کے باعث غلامی بالکل عام اور ایک ناگزیر نتیجہ تھی اور ایک طرح کے انتظامی مسئلے کا قابل عمل حل۔
3۔ قیدیوں کے لیے قتل سے کم تر کسی نوعیت کی سزا تو ایک معقول اور لازمی تقاضا تھی۔ پر اگر مخالفین نے بھی اس طرف کے کچھ قیدی پکڑ رکھے ہوں یا فوج کو مال و متاع کی حاجت ہو تو فدیے کا طریقہ بھی بالکل منطقی طور پر رائج رہا ہے۔ مزید اگر مفتوحین کے ساتھ کسی نوعیت کے سالانہ تاوان پر معاہدہ ہو جائے تو یہ بھی حالات کے اعتبار سے ایک قابلِ عمل طریقہ ہوا کرتا تھا۔ الغرض ایسے بہت سے طریقے رائج رہے ہیں پر اب چونکہ جنیوا کنونشن (Geneva Convention) کے نتیجے میں سب دستخط کنندہ کچھ عالمی قواعد کے پابند ہو گئے ہیں، جو یقیناًایک بہت اعلیٰ چیز ہے، اس لیے اب سب قدیم طریقے ناقابل عمل ہو گئے ہیں۔
4۔ تاہم ماضی میں قیدیوں کے بارے میں کوئی یک طرفہ رحمدلی کا رواج ناممکن تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس طرح کی کوئی رحمدلی دشمن کے لیے ترغیب اور شے دینے کے مترادف ہوتی کہ آؤ ہم پر حملہ کرو اور اگر حملے میں کامیاب نہ ہو پاؤ اور پکڑے جاؤ تو تسلی رکھو، ہمارے لیے تمہیں واپس کرنا لازمی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس نوعیت کا کوئی ابدی فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کر دیا ہے تو اس پر مجھے تو بہت حیرانی ہوتی ہے۔ یعنی کوئی ایک طرف کے قیدیوں کے ساتھ جو مرضی کرتا پھرے، دوسری طرف اگر قیدی پکڑ لے تو رہا کرنے کے پابند؟ اگر یہ حملے کی پیشکش اور ترغیب نہیں تو اور کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ سے ایسی کسی نامعقولیت کی توقع میرے لیے ناممکن ہے۔
اب آئیے اس آیت کے نتائج تاریخی واقعات کے تقابل سے جانچتے ہیں:
1۔ یہ احکامات مشرکین مکہ سے متعلق تھے۔ پس تاریخی روایات کا مطالعہ کریں تو کہیں کوئی معاملہ اس سے ہٹ کر نظر نہیں آتا۔ جنگ بدر اور اس سے پہلے کے سریے میں پکڑے جانے والے سب قیدیوں کو احساناً یا فدیہ لے کر رہا کر دیا گیا۔ ایک دو سرداروں کو قتل کیا گیا پر وہ اصلاً فتنہ انگیزی کی سزا تھی۔ اس طرح کے استثنائی قتل باقی جنگوں میں بھی کیے گئے مگر یہ وہ لوگ تھے جن کے بارے میں علیٰ لسانِ داود کے طرز پر علی لسانِ محمد ان کے متعلق پہلے ہی فیصلہ سنایا جا چکا تھا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کچھ حملہ آور ان میں سے پکڑ لیے گئے تو انہیں بھی احساناً رہا کر دیا گیا۔الغرض ان کے متعلق ان احکامات کی سختی سے پیروی کی گئی۔
2۔ جب یہ احکامات مشرکینِ مکہ تک محدود تھے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ یہود و نصاریٰ اس کے اثر سے باہر رہیں۔ یعنی چاہے کوئی مشرکین مکہ تک اس گھیرے کو تنگ سمجھے نہ سمجھے، اہل کتاب کے منفرد تشخص اور قرآنی احکامات میں ہمیشہ ایک علیحدہ اکائی کی حیثیت سے ان کے بارے میں قانون سازی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ ان کے متعلق اللہ کی اسکیم شروع ہی سے نہ صرف مختلف الشکل ( Structurally different) تھی بلکہ مختلف الطور (Out of phase) بھی تھی۔اِدھر اتمامِ حجت کی تکمیل ہو چکی تھی اور اْدھرابھی دعوت کا آغاز ہوا تھا۔ اِدھر ہر طرح کی صلح منع اور ادھر صلح ہی سے آغاز۔ وھکَذَا دَوَالَیک۔ ہر سورہ میں اترنے والے تدریجی احکامات میں بھی ان کی شناخت ہمیشہ علیحدہ سے کی گئی۔یہاں تک کہ جب آخری فیصلہ چوتھی سورہ میں آیا تو وہاں بھی اِن کے وجود کو علیحدہ تسلیم کرتے ہوئے علیحدہ احکامات ہی دیے گئے اور قتل کے بجائے محکومی کی سزا سنا دی گئی۔ اس لیے اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اس آیت کی حدود سے باہر تھے اور رہے بھی۔ پس یہود کے بارے میں تاریخ میں بھی یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ نہ تو کبھی ان کے خلاف اثخان کی نوبت آئی (۱۰)اور نہ ہی کبھی جنگ کے زمانی عرف سے ہٹ کر کسی اور امر کو ان کے معاملے میں فیصلہ سازی کے لیے استعمال کیا گیا۔ نصاریٰ سے بھی جب بالفعل مڈبھیڑ ہوئی تو جلیل القدر صحابہ نے کبھی ایسے احکامات نہیں دیے اور معاملات نہیں کیے جن سے یہ شک بھی گزرتا ہو کہ وہ اس حکم کو ان پر مؤثر مانتے تھے۔
3۔ تیسرا گروہ مشرکین عرب باستثناء مشرکین مکہ تھا۔یہ گروہ بھی اس آیت کی مار کے علاقے سے باہر تھا۔ ان کے بارے میں نہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ انہوں نے جانتے بوجھتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا دیا تھا اور نہ ہی یہ ابھی اسلام کے خلاف برسر پیکار تھے۔ ہاں مگر چونکہ اس گروہ کے متعلق اسکیم شکل کے اعتبار سے تو وہی تھی جو مشرکین مکہ کے متعلق تھی، صرف مختلف الطور تھی، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ان پر بھی اس حکم کا اطلاق کر دیتے؛ پر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے احکامات کی پوری روح کا خیال کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا۔ اس سورہ کے نزول کے بعد اگر ان سے کبھی مقابلہ ہوا بھی تو ان پر کبھی ان احکامات کا اجرا نہیں کیا گیا۔ پھر مکہ فتح ہو گیا اور یہ احکامات آپ سے آپ منسوخ۔ تاہم آخری حکم جو چوتھی سورہ میں نازل ہوا جس کے تحت سب مشرکین کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا گیا، فتح مکہ کے بعد اور اس آخری حکم سے پہلے اگر کسی مشرک قبیلے سے جنگ ہوئی بھی تو ان پر ان منسوخ احکامات کی بنا پر سلوک نہیں کیا گیا۔ بلکہ جنگ کا عرف ہی کارفرما رہا، جیسے مثلاً غزوہ حنین وغیرہ۔
4۔ چوتھا گروہ عرب سے باہر کی قوموں کا تھا۔ یہ چاہے یہود و نصاریٰ تھے اور چاہے شرک و متفرق ادیان کے ماننے والے، ان کے متعلق اگر کبھی اشتباہ ہوا بھی تو ٹھیک قیاس کرتے ہوئے ان پر جنگ کے عرف کا ہی اطلاق کیا گیا۔پس زمانے کی مناسبت سے سارے معروف آپشنز قابل عمل سمجھے گئے۔

اختتامیہ

میری رائے کے مطابق سورہ محمد کی چوتھی آیت چونکہ باعتبارِ مفعول اور باعتبارِ وقت دونوں اعتبارات سے خاص ہے اس لیے اس کی تعمیم نہیں ہو سکتی۔ ان کی تخصیص نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین تک تھی بلکہ اس میں سے بھی ایک مخصوص گروہ کے لیے تھی۔ اور پھر یہ موقت بھی تھے جس کا بیان ’’یہاں تک کہ یہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے‘‘ میں ہوا ہے۔ اس کی تعمیم کرنا دراصل اس اسکیم کو نظر انداز کر دینے کے مترادف ہے جو اتمامِ حجت کے لیے تدریجی نوعیت لیے ہوئے تھی اور جو قرآنی قرآئن ہی سے نہیں بلکہ اسی سورہ اور آیت کے درو بست سے بھی بالکل واضح ہے۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ

حواشی

۱۔ سورہ کا ایک اور نام سورۂ قتال بھی ہے۔
2.https://ammarnasir.wordpress.com/2016/04/30/اسیران۔جنگ۔کو۔غلام۔بنانے۔کا۔جواز/; http://ibcurdu.com/news/24492; 
۳۔ البیان، دیکھیے آیت 4 سورہ محمد۔ یہ آن لائن بھی یہاں دیکھا جا سکتا ہے:
http://www.javedahmadghamidi.com/quran/albayaan/127/P1
۴۔ یعنی الفتح جو ظاہر ہے کہ فتح مکہ ہے۔
۵۔ یعنی غزوۂ بدر کے فوراً بعد
۶۔ اگرچہ اس سورہ کی کچھ آیات اس الفتح سے پہلے بھی نازل ہوئیں ہیں، تاہم اس کا اکثر حصہ بعد کا ہی ہے۔
۷۔ اس سلسلے میں اگرچہ کچھ سورتوں کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے جیسے آلِ عمران کا کچھ حصہ اور سورۃ الاحزاب وغیرہ، مگر جو نکتہ میں سمجھانا چاہتا ہوں اس کے لیے یہ چار سورتیں کفایت کریں گی۔
۸۔ لسان العرب، دیکھیے ثخن۔
۹۔ سورۃ الانفال 8:67۔
۱۰۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ یہود نے کبھی کھلے میدان میں آ کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا ہی نہیں۔ تاہم جو معاملات اْن کے ساتھ مختلف فتوحات کے بعد کیے گئے ان سے یہ بات واضح ہے کہ انہیں بجا طور پر اس آیت کے تحت نہیں دیکھا گیا۔

مباحث فطرت و اخلاق: بحث کیا ہے؟

محمد زاہد صدیق مغل

"فطرت بطور ماخذ" کی بحث میں فطرت کے ماخذ ہونے کا انکار کرنے والے گروہ پر نقد کرتے ہوئے مختلف احباب غیر متعلق و غلط فہمیوں پر مبنی استدلال پیش کرتے ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ ان کی وضاحت کردی جائے تاکہ نفس موضوع و بحث واضح ہوسکے اور کم از کم گفتگو تو اصل مدعے پر ہوا کرے۔

پہلی غلطی

اس ضمن میں پہلی غلطی یہ سوال ہوتا ہے: تو کیا آپ اسلام کو دین فطرت نہیں مانتے، یہ بات تو نصوص کے خلاف ہے؟ پھر چند نصوص پیش کرکے یہ ثابت کرنا شروع کردیا جاتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے انسان کی ایک فطرت بنائی ہے وغیرہ۔

تبصرہ

یہ سوال اور یہ استدلال ہی زیر بحث گفتگو میں غیر متعلق ہے کیونکہ بحث یہ نہیں کہ آیا انسان کی کوئی فطرت ہے یا نہیں، نیز کیا اللہ تعالیٰ کے احکامات انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔ ہم نہ تو اس کے منکر ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اور نہ ہی تبلیغ و دعوت دین کو ریشنلائز کرنے کے لیے فطرت کی دلیل کو اپیل کرنے کی اہمیت کے انکاری ہیں کہ آپ آیات سے یہ امور ثابت کریں۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے، شارع کا ہر حکم انسانی فطرت ہی کی آواز ہے، اسی بنیاد پر ہم ایک غیر مسلم و ملحد کو خطاب کرتے ہیں کہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ نیز شارع کی بات اصلاً "تذکیر" (عہد الست کی یاد دہانی ہی) ہے۔ اس پہلو سے فطرت (سلیمہ) ایک آئینے کی طرح ہے جو جس قدر خالص ہوگا، حقیقت اعلیٰ اور اس کے تقاضوں کی طرف اسی قدر مضبوط رجحان رکھتی ہوگا۔ اسلامی تاریخ میں صوفیاء کا پورا نظام اسی مقصد کے لئے تھا کہ نفس انسانی کو ظلمات سے پاک کرکے اسے اصل حالت (معرفت رب) پر لایا جائے۔ اس تناظر میں جو کچھ آیات پیش کی جاتی ہیں ان کا حاصل یہی کچھ ہے اور معاملے کے اس پہلو سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اسلام محض کوئی کلامی و قانونی کتاب تھوڑی ہے، یہ دعوتی و تبلیغی اپیل کو بھی شامل ہے۔
لیکن یہ اس معاملے کا صرف دعوتی و تبلیغی پہلو ہے۔ جب اس سکے کو ایک منطقی و متکلم گھما کر یوں پیش کرتا ہے کہ "اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی فطرت گویا الگ سے ایک ماخذ ہے جسے خیر و شر کے معاملے میں وحی کے بغیر معلوم کرکے بھی اس سے راہنمائی لی جاسکتی ہے" تو اب یہ سوال کلامی و قانونی بن جاتا ہے کہ شارع کے حکم کی قانونی بنیاد کیا ہے، نیز اگر فطرت و عقل رہھنمائی کے لئے کافی ہیں تو پھر شارع کی ضرورت و مقام کیا ہے؟
سکے کو پلٹنے کے بعد اب متعلقہ سوال یہ نہیں رہتا کہ "کیا انسان کی کوئی فطرت ہے یا نہیں" بلکہ یہ بنتا ہے کہ "ماقبل وحی" جس انسانی فطرت کو ماخذ خیر و شر مانا جارہا ہے، وہ کیا ہے؟ نیز اس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ اس بحث میں نصوص اصولاً لائق استدلال نہیں رہتیں کیونکہ یہ بحث ماقبل نصوص حالت کے بارے میں ہے نہ کہ مابعد نصوص۔ اگر فطرت ماخذ ہے تو اس کے مشمولات کا تعین نصوص سے نہیں بلکہ از خود انسانی فطرت کے کسی مطالعے پر مبنی ہوگا۔ لہٰذا جو حضرات اس بحث میں نصوص پیش کرتے ہیں، وہ ایک اصولی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ بحث "فطرت کے مجرد وجود" کے انکار کی نہیں کہ جسے ثابت کرنے کے لئے آپ آیات پیش کررہے ہیں بلکہ بحث "بدون وحی اس کے مافیہ و مشمولات کے تعین" کی رہی ہے۔ یہاں نصوص سے کام لینا ایک منطقی تضاد ہے کیونکہ ماخذ ماخوذ نہیں ہوتا، یعنی اس کے مشمولات (content) کا تعین کسی دوسرے ماخذ سے نہیں کیا جاتا۔

دوسری غلطی

متعلقہ بحث کے تعین میں دوسری اہم ترین غلطی فطرت کے دو مختلف معنی کو گڈ مڈ کردینا ہوتا ہے، ایک "فطرت بطور صلاحیت" اور دوسرا فطرت "بطور قدر(ماخذ خیر)"۔ چنانچہ عموماً یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ دیکھئے جناب حیا وغیرہ تو فطری چیزیں ہیں، ہر کوئی محسوس کرتا ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ فطرت ماخذ ہے۔

تبصرہ

یہاں فطرت کے دونوں معنی کا فرق سمجھنا لازم ہے۔
1) فطرت بمعنی صلاحیت nature as potential))۔ اس معنی کے لحاظ سے فطرت کا مطلب "انسان کے لئے کیا کرنا ممکن ہے؟" ہوتا ہے۔ یعنی انسان کے اندر کس امر و عمل کی صلاحیت ہے اور کس کی نہیں۔ اس لحاظ سے جو اس کی صلاحیت ہوگی، وہ اس کے لئے فطری بھی ہوگا۔ فطرت بطور صلاحیت کے لحاظ سے سچ اور جھوٹ بولنا، محبت و نفرت کرنا، حرص، حسد، غضب، بغض، صبر، غنا، ایثار، توکل، رحم وغیرہ انسان کے لئے سب کچھ "یکساں طور پر" فطری ہے، ان معنی میں کہ انسان کے لئے یہ سب "کرنا ممکن ہے"۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جب میں حرص، حسد، شہوت یا غضب سے مغلوب ہوتا ہوں تو کچھ ایسا کرتا ہوں جو میرے لئے غیر فطری (بمعنی ناممکن) ہو۔ اس کے برعکس مثلا پانی میں سانس لینا انسان کے لئے غیر فطری ہے (کم از کم اب تک)، ان معنی میں کہ انسان ایسا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فطرت کو جب صلاحیت (what is possible) کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اسے positive conception of nature ( مثبت تصور فطرت) کہتے ہیں۔
2) فطرت بمعنی خیر، عدل یا معیاری نفسانی کیفیت (nature as normal behavior)۔ اس معنی کے اعتبار سے فطرت کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ "امکانی طور پر انسان جو کرسکتا ہے اس میں سے معیاری طور پر مطلوب طرز عمل کیا ہے؟" اب فطرت پوٹنشل نہیں بلکہ اس پوٹنشل کے جائز اظہار کا نام پوتا ہے، یعنی یہ کہ "کیا کرنا جائز (عدل) ہے اور کیا نہیں؟" فطرت کو جب اس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے تو اسے normative conception of nature (اخلاقی تصور فطرت) کہتے ہیں۔
چنانچہ جب فطرت کو خیر و شر کے ماخذ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو وہاں فطرت پہلے نہیں بلکہ دوسرے معنی میں بولا جا رہا ہوتا ہے۔ یعنی اس گفتگو میں متعلقہ سوال یہ نہیں ہوتا کہ "انسان کے لئے بطور صلاحیت کیا کرنا ممکن (فطری) ہے؟" بلکہ یہ ہوتا ہے کہ "انسان کے لئے کونسا طرز عمل اختیار کرنا جائز و معیاری (فطری) ہے؟" جب فطرت کو خیر و شر کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے، تو دراصل دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ "انسان کے لئے کیا جائز ہے اور کیا نہیں، اس کا جواب نفس کی کسی معلوم معیاری کیفیت سے جاننا ممکن ہے"۔ دوسرے لفظوں میں "فطرت بطور آزاد ماخذ" کا مطلب "معیاری انسانی کیفیات کے علم" کا ایسا دعوی ہے جو کسی دوسرے ذریعہ علم سے ماخوذ نہیں۔
اب اگر "حیا" کے جذبے کی مثال لی جائے تو "بطور صلاحیت" اس کا معنی کسی ایسے جذبے کے وجود کا نام ہے جس کی بنیاد پر انسان کسی شے کے اظہار سے بچنے کا داعیہ محسوس کرتا ہے۔ اس اعتبار سے حیا "آنکھ سے دیکھ سکنے جیسی صلاحیت" ہی طرح ایک شے ہے جو کسی امر کے خیر و شر ہونے کا معیار بننے لائق نہیں۔ یعنی جیسے دیکھ سکنے کی صلاحیت "کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں" کی بحث میں دلیل نہیں ہے اسی طرح حیا جیسے جذبے کے تحت کسی شے کے اظہار سے بچنے کا داعیہ محسوس کرنا "کس شے کو برا سمجھنا ہے یا نہیں" میں کوئی دلیل نہیں۔
خوب یاد رکھنا چاہیے کہ what is possible اور what is normal دو الگ سوالات ہیں۔ ہاں اگر یہ "مفروضہ" مان لیا جائے کہ "جو کچھ ممکن ہے وہ جائز ہے" تو اب یہ بذات خود ایک "اخلاقی تصور فطرت" بن جاتا ہے۔ یہاں خلط مبحث یہ ہوتا ہے کہ فطرت کو ماخذ قرار دینے والے حضرات یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ "حیا محسوس کرنا ایک فطری (بمعنی صلاحیت) چیز ہے" جبکہ اس کا تو کوئی انکار ہی نہیں کررہا ہوتا کہ یہ انسان کی ایک صلاحیت ہے۔ اصل گفتگو اس "صلاحیت کا وجود ثابت کرنے" کی نہیں بلکہ اس "موجود صلاحیت کو معیار ثابت کرنے" کی ہوتی ہے مگر اسے سمجھے بغیر محض وجود صلاحیت کے غیر متعلق دلائل دئیے جارہے ہوتے ہیں۔ پس اس فرق کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔

تیسری غلطی

اس ضمن میں تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ فطرت کو ماخذ خیر و شر نہ ماننے والوں کی بنیادی دلیل یہ فرض کرلینا ہے کہ "چونکہ تعیین فطرت میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے، لہٰذا اسے ماخذ نہیں مانا جا سکتا"۔ پھر یہ حضرات اس دلیل کو از خود چند مثالوں سے رد کرتے ہیں (کہ مثلاً خوبصورتی کی تعریف پر اگرچہ اختلاف ہے مگر اس کا یہ معنی نہیں کہ خوبصورت کا وجود نہیں یا اس کا تعین ممکن نہیں وغیرہ۔ بعض لوگ تو اس بحث میں "تعریف کی مشکلات" میں پھنس کر رہ گئے)۔

تبصرہ

یہاں یہ نشاندہی کرنا مقصود ہے کہ فطرت کی تعیین کی متعلقہ بحث (کہ "بدون وحی فطرت بطور قدر" کا تعین کیسے ہوتا ہے) میں اصل نکتہ "اختلاف ہوجانے کا مسئلہ نہیں" بلکہ "ابتدائی صورت (starting point)" اور اس کے "قابل اعتبار" ہونے کا ہے۔ یعنی یہاں اصل سوالات یہ ہیں کہ
1) کس کی فطرت" اصل ہونے کا اعتبار ہوگا، فرد کی یا گروہ کی؟ یعنی جس کی فطرت کو معیار مانا جارہا ہے آیا وہ ایک قبل از معاشرہ بطور اکیلا فرد وجود ہے یا کسی معاشرے میں بسنے والا ایک تاریخی فرد؟
2) اگر اکیلے فرد کی تو جس کی فطرت کو معیار مانا جارہا ہے وہ ابوبکر، زید، ایڈم سمتھ، مارکس، رالز، عبداللہ وغیرہم میں سے کس کی فطرت ہے؟
3) پھر اگر وہ اکیلا فرد ہی ہے تو اس کے مشمولات فطرت کا تعین کن اصولوں کے تحت ہوتا ہے؟ اس کے متعدد جواب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً
الف) ہر فرد خود اپنے نفس میں جھانک کر طے کرلے کہ کیا فطری ہے اور کیا غیر فطری۔ ظاہر ہے یہ جواب غلط ہے کیونکہ یہاں جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ ہوگا اور ہر کوئی اپنی ہی عادات، اطوار، رجحانات و میلانات کو ہی فطری قرار دے گا (نیز ان میں سے ہو شخص ایک "تاریخی فرد" ہی ہوگا)۔
ب) ایک مخصوص فرد یہ طے کرے۔ یہاں اس "مخصوص" کے تعین کا سوال کھڑا ہوگا
ج) انبیاء و صلحاء کی فطرت معیار ہوگی۔ لیکن صورت میں ماخذ شرع ہوئی نہ کہ مجرد فرد
4) اگر وہ اکیلا فرد ہی ہے تو اس کی "حالت اصلی" کی بابت معلومات وحی سے ماسواء کس ذریعہ علم سے میسر آئیں؟ ایسا انسان کب اور کہاں پایا گیا؟ کیا اس انسانی حالت پر بسنے والے کسی انسان کا کوئی معتبر تاریخی ریکارڈ موجود ہے کہ جسے دیکھ کر یہ بتایا جاسکے کہ "فلاں فلاں عمل کا اچھا یا برا سمجھنا حالت اصلی کا تقاضا ہے"؟
5) اگر وہ انسان معاشرے کے اندر بسنے والا ایک تاریخی فرد ہے تو اختلاف تاریخ و معاشرتی عوامل نے کیا اس کی فطرت کو حالت اصلی پر چھوڑا ہوگا؟ ایسے انسان میں کیا کچھ اصل ہے اور کیا کچھ مسخ ہوچکا، اس کا فیصلہ کون اور کس بنیاد پر کررہا ہے؟ ہر فرد کی تاریخ یہ ہے کہ وہ چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے ماں باپ کے یہاں پیدا ہوتا ہے، اپنے ارد گرد چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے معاشرے میں تربیت پاتا ہے، چند معین نظریات و میلانات رکھنے والے تعلیمی نظام میں علم حاصل کرکے "اپنے شعور" کو تعمیر کرتا ہے۔ تو ایسی صورت میں آخر یہ تاریخی فرد کیسے اس سوال کے جواب کا حوالہ بن سکتا ہے کہ "حالت اصلی کا تقاضا کیا ہے؟" کیا اس تمام سوشل کنڈیشننگ کے بعد کسی بھی فرد یا گروہ کے میلانات کا "سٹینڈرڈ" (حالت اصلی) پر برقرار ہونے کا دعوی کیا جاسکتا ہے؟ کیا ماخذ کا سٹینڈرڈ ہونا ضروری نہیں؟ 
یہ ہیں چند حقیقی سوالات جن کا کوئی واضح جواب دئیے بغیر فطرت کو ماخذ کہنا صرف ایک ہوائی بات ہے جس کی بنا پر اپنے نکتہ نظر میں ایک داعیانہ اپیل تو پیدا کی جاسکتی ہے مگر قانونی مسائل حل نہیں کئے جاسکتے

چوتھی غلطی

چوتھی غلطی "فطرت کو ماخذ ثابت کرنے" کا یہ غلط استدلال ہے کہ نصوص بھی خیر و شر کے چند معیاری بدیہی یا فطری تصورات ہی کے تناظر میں انسان سے خطاب کرتی ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلیل یہ ہے کہ مثلاً جب شارع کہتا ہے کہ "زنا کے قریب مت جاؤ کہ بے شک یہ کھلی ہوئی فحاشی ہے" (لاتقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ) تو یہ بات کہنے سے قبل قران نے فحاشی کی تفصیل تو نہیں بتا رکھی تھی کہ جس کے بعد پھر زنا کو بالتخصیص ذکر کرکے فحاشی کہا، بلکہ معاملہ یوں ہے کہ فحش کا یہ تصور پہلے سے مخاطب کی فطرت میں ہی موجود تھا اور اسی کی بنیاد پر اسے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ عمل فحاشی ہے، بصورت دیگر کلام ممکن نہیں۔اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ فحاشی وغیرہ الگ سے متعین اخلاقی قدریں ہیں نیز وہ شارع کا کلام نازل ہونے سے قبل بھی شارع اور بندے کے مابین مشترک تھیں اور انہی کی بنیاد پر شارع نے بندے سے کلام کیا۔ پس ثابت ہوا کہ فطرت و نفس انسانی میں اخلاقی تصورات کے چند معیاری مفاہیم ماننا لازم ہے۔

تبصرہ

اس ضمن میں پہلی اصولی بات یہ سمجھنی چاہئے کہ مثلا فحاشی ایک شرعی اصطلاح ہے جس کا تعین تمام متعلقہ نصوص کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص فحاشی کے نام پر جو کچھ کہتا پھرے مسلمان اسے محض کسی کے ایسا کہنے کی بنا پر قبول نہیں کرلیتے بلکہ کسی عمل سے متعلق فحاشی کے دعوے کو نصوص اور ان کے مقاصد و مضمرات پر تولا جاتا ہے۔ اگر آپ پاکستان کے مختلف صوبوں کے دیہاتوں کا چکرلگا آئیں تو آپ کو فحاشی کے عجیب و غریب فرسودہ قسم کے تصورات ملیں گے اور اگر جدید تعلیمی اداروں اور میڈیا ھاؤسز کا چکر لگا آئیں تو اسی فحاشی کے جاہلیت پر مبنی تصورات ملیں گے جبکہ یہ سب اپنے تصورات کو فطری ہی سمجھتے ہیں۔ الغرض فحاشی شرع سے ڈیفائن ہوتی ہے، فحاشی کا ایسا تصور جو نصوص اور اس کے مضمرات سے ہم آہنگ نہ ہو، وہ غیر معتبر ہے۔ یہ اصولی بات اگر مد نظر رہے تو شارع کے اس کلام کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہتی۔ پس اس اعتبار سے شارع کا قول "انہ کان فاحشۃ" فحاشی کے کسی معیاری فطری تصور پر متفرع نہیں بلکہ اس عمل کے فحش ہونے کی دلیل و بیان ہے۔
اس بات کو دوسرے پہلو سے یوں سمجھئے کہ شارع کسی مجرد فرد سے مخاطب نہیں ہوتا رہا بلکہ ایک ایسے تاریخی انسان سے مخاطب ہوا جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ اس تاریخی انسان کے پاس انبیاء کی حق تعلیمات اور نفس انسانی کے اپنی طرف سے وضع کردہ ملغوبے کی بنا پر فحاشی کے بہت سے تصورات موجود تھے۔ تو جب شارع نے اس انسان کو خطاب کرکے کہا کہ "انہ کان فاحشۃ" تو حوالہ وہی برحق تصورات تھے جس سے وہ تاریخی طور پر واقف اور قائل رہے تھے۔ الغرض یہ پورا استدلال "ایک مجرد فطری فرد" کے تناظر میں وضع کیا گیا ہے، جبکہ شارع کے اس کلام کے بامعنی ہونے کے لئے "مجرد فطری فرد" نہیں بلکہ "تاریخی فرد" کا تناظر درکار ہے۔ اگر زنا یا ننگ پن جیسے افعال کو کسی ایسے شخص کے سامنے فحش قرار دے کر پیش کیا جائے جو تاریخی طور پر کسی ایسی تاریخ اور معاشرت سے تعلق رکھتا ہو جہاں ان اعمال کو فحش ہی نہ سمجھا جاتا ہو اور اس بنا پر وہ فرد بھی یہی رائے رکھتا ہو تو ظاہر ہے اس کے لئے اس آیت کا کوئی معنی نہیں ہوگا۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ انسان ایک تاریخی وجود ہے نہ کہ مجرد۔ اگر یہ تناظر درست کرلیا جائے تو بہت سے اشکالات پیدا ہی نہ ہوں۔

پانچویں غلطی

فطرت بطور ماخذ کو ثابت کرنے کے لئے اسی نوع کی ایک مزید دلیل مشہور فلسفی کانٹ کی طرز کا ایک استدلال پیش کیا ہے۔ کانٹ کا کہنا تھا کہ (سائنسی) علم نہ تو اکیلے تجربے سے تخلیق ہوتا ہے اور نہ ہی مجرد عقل سے، بلکہ علم عقل کی ساخت (جنہیں وہ عقل کی کیٹیگریز کہتا ہے) اور تجربے کی ماہیت سے ملکر کر بنتا ہے۔ اگر عقل کے اندر ساخت فرض نہ کی جائے تو تجربے سے جو ڈیٹا آتا ہے، اس سے کوئی بامعنی بات معلوم ہونا ممکن نہیں۔ الغرض کائنات کے بارے میں جو ڈیٹا حواس کے ذریعے موصول ہوتا ہے، عقل کی ساخت اسے بامعنی تعلقات میں ڈھال دیتی ہے۔چنانچہ اسی طرز پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ انسان کو مخاطب کرنے والی وحی ایک بیرونی ہدایت کی طرح ہے، جب تک اس خطاب کو وصول کرنے والے انسان کے اندر اس خیر کا وجود نہ مانا جائے جس کی پیروی کرنے کا وحی اسے حکم دیتی ہے، اس وقت تک یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اس خطاب کو سمجھے اور اس کی پیروی کرے؟ اگر انسان میں خیر و شر کا کوئی فطری ادراک موجود نہیں تو انسان خدا کے بتائے ہوئے خیر و شر کو پہچانتا کس بنیاد پر ہے؟ سمجھنے کی خاطر یوں مثال لیں کہ اگر خدا کا کلام کسی مشین پر یا کسی جانور پر پڑھا جائے تو وہ محض اس کلام کے پڑھے جانے کی بنا پر نہ تو اس کلام کو سمجھ سکتاہے اور نہ ہی مکلف ہوجائے گا کیونکہ وہ اپنے اندر اخلاقی تصورات کی عدم موجودگی کی وجہ سے اسے سمجھ ہی نہیں سکتا۔ گویا کانٹ کی دلیل کی طرز پر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وحی سے خیروشر معلوم ہونے کے لئے ابتداءً یہ ماننا لازم ہے کہ نفس انسانی میں خیروشر کا ادراک موجود ہے، خیروشر کا یہی انسانی ادراک وحی کو معنی دیتا ہے۔
حاصل دلیل یہ کہ اگر انسان کو خدا کے حکم کا مکلف ماننا ہے تو یہ ماننا ضروری ہے کہ انسان ایک اخلاقی وجود (normative being) ہے، اس کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ خداداد صلاحیت کی بنا پر خیر و شر کا فیصلہ کرسکے۔ اس دلیل سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ "انسان کو مکلف اور قابل مواخذہ ٹھہرانے کی آخری بنیاد یہی فطری علم ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو سرے سے انسان کو مکلف اور اخلاقی لحاظ سے کسی بھی حکم کا پابند بنانا ہی ممکن نہیں۔ جن علمائے کلام نے علم فطرت کی اہمیت کی نفی کرتے ہوئے، محض ’’حکم شرع‘‘ کو بنائے تکلیف قرار دیا ہے، انھوں نے اس سوال پر شاید غور نہیں کیا کہ ’’حکم شرع‘‘ کی پابندی کو انسان پر لازم کرنا بھی اصل میں انسانی فطرت میں موجود کسی اخلاقی تصور کے بغیر ممکن نہیں۔"

تبصرہ

اس دلیل میں چنداں مسائل ہیں، سردست دو مسائل اہم تر ہیں۔ اس پوری دلیل کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو ایک اخلاقی وجود ماننا لازم ہے، یعنی یہ کہ خیروشر کے (کچھ نہ کچھ) تصورات بہرحال انسان کے پاس موجود ہیں۔ لیکن یہ دلیل اصل نکتے کو ایڈریس نہیں کرتی کیونکہ اصل بحث یہ نہیں کہ "آیا انسان کوئی اخلاقی وجود ہے یا نہیں" (اس کا تو ہم نے انکار کیا ہی نہیں کہ جسے ثابت کرنے کے لئے دلیل لانے کی ضرورت ہو۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ انسان good essentially ہے اور گناہ، یعنی اپنے رب کی بات کی مخالفت، اس کی فطرت کے خلاف ہے) بلکہ یہ ہے کہ "اس اخلاقی وجود کی تفصیلات (content) کیا ہیں" نیز "کیا بدون وحی ان تفصیلات کو جان لینا ممکن ہے؟" چنانچہ یہ دلیل اصل مسئلے کو حل کرنے میں مددگار نہیں۔ اس دلیل میں یہ بعینہ وہی مسئلہ ہے جو غامدی صاحب کی دلیل میں بھی موجود ہے، یعنی "تعیین فطرت" کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے "وجود فطرت" کی دلیل دینا اور اسی کی طرف غلط فہمی نمبر ایک میں اشارہ کیا گیا تھا۔ المختصر "وجود فطرت" کا لزوم "تفصیلات فطرت" جان سکنے کو مستلزم نہیں، اس دوسرے مقدمے کے لئے مستقل دلیل درکار ہے جو اس پورے استدلال میں موجود نہیں۔
پھر دیکھئے، کانٹ جب یہ کہتا ہے کہ علم درحقیقت عقل (اندرون) اور تجربے (بیرون) سے مل کر بنتا ہے تو وہ اپنے تئیں تجربے سے ماوراء رہتے ہوئے عقل کی ساخت متعین کرتا ہے (جسے وہ "عقل کی کیٹیگریز" کہتا ہے)۔ لہٰذا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسئلہ خیروشر کی تعیین میں جس فطری ساخت کو آپ اصل قاضی بنانا چاہتے ہیں اس کی ساخت یا کنٹنٹ کیا ہے؟ جس طرح کانٹ "بیرونی تجربے سے ماوراء رہتے ہوئے" عقل کی اندرونی ساخت کی تفصیلات بتاتا ہے، کیا بعینہ "بیرونی وحی سے ماوراء رہتے ہوئے" فطرت کی اندرونی تفصیلات متعین کرنا ممکن ہے؟ چنانچہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں direction of reading کیا ہے، یعنی آپ کس کی روشنی میں کس کو متعین کررہے ہیں؟ اگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ انسان کے اندرونی اخلاقی وجود کی تفصیلات بالاخر آپ وحی میں بیان کردہ تفصیلات ہی سے اخذ کرتے ہیں (جیسا کہ آپ کے استدلال میں پیش کردہ تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے)۔ نیز انسانی فطرت سے متعلق ہر دعوے کو آپ بالاخر وحی کی بنیاد پر ہی جانچتے ہیں (ان معنی میں کہ اگر کوئی شخص فطرت کی بنیاد پر کوئی ایسا دعوی کرے جو وحی میں بیان کردہ حکم سے متصادم ہو تو آپ ایسے دعوے کو رد کردیتے ہیں) تو یہ اس بات کا اقرار ہے کہ تفصیلات خیر و شر کا ماخذ فطرت نہیں وحی ہے۔ 

چھٹی غلطی

آخر یہ مان لینے سے کیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ وحی سے ماقبل بھی خیر و شر کی تعیین کا ایک قابل اعتبار ماخذ موجود ہے۔ نیز یہ کہ انسان کو اصلا عقل و فطرت کی راہنمائی ہی کے تحت زندگی بسر کرنا ہے البتہ جہاں کہیں انسانی فطرت دھوکہ کھا سکتی تھی یا جس معاملے میں عقل کے پاس فیصلے کی کوئی واضح بنیاد نہ تھی، ان معاملات میں وحی کے ذریعے انسان کی راہنمائی کردی گئی؟ یہ تو ایک معقول بات ہے۔ 

تبصرہ

غلط فہمی نمبر ایک پر تبصرے میں واضح کیا گیا کہ سکے کو گھما نے کے بعد جب یہ کہاجاتا ہے کہ " انسانی فطرت گویا الگ سے ایک ماخذ ہے جسے خیر و شر کے معاملے میں وحی کے بغیر معلوم کرکے بھی اس سے راہنمائی لی جاسکتی ہے" تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شارع کے حکم کی قانونی بنیاد کیا ہے نیز اگر فطرت وغیرہ اصولاً راہنمائی کے لئے کافی ہیں تو پھر شارع کی ضرورت و مقام کیا ہے؟اب اس موقع پر چند جوابات ممکن ہیں: 
الف) تعیین قدر میں شارع کی حیثیت بنیادی ہے، فطرت شارع کے حکم سے الگ کوئی شے نہیں، نہ ہی اسکے بغیر اسے جاننا ممکن ہے
ب) فطرت ہی بنیادی چیز ہے اور عقل وغیرہ کے ذریعے اسے پہچاننا ممکن ہے۔ اس صورت میں شارع کی ضرورت محض اضافی و facilitating نوعیت کی ہوئی، یعنی عام لوگوں کو تو اس کی ضرورت ہے مگر فلاسفہ کو اس کی ضرورت نہیں (یہ بعض معتزلہ وغیرہ نے سمجھا)
ج) اس معاملے میں معلوم اصول فطرت بنیادی چیز ہیں اور شارع کی حیثیت ان معنی میں ایک تتمے (appendix) کی ہے کہ جہاں کہیں فطرت ٹھوکر کھا سکتی تھی ان مقامات پر حکم نازل کردیا گیا۔ یہ پوزیشن چند جدید مفکرین (مثلاً غامدی صاحب) نے اپنائی
اب اس موقع پر جائز طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام تر ذہنی مشق اور کیٹیگرائزیشن سے عملی طور پر کیا فرق پڑتا ہے؟ تو اس تمام تر بحث کا تعلق اس عملی سوال سے ہے کہ شارع میری زندگی کے کس قدر شعبے و حصے سے متعلق ہے؟
۔ پہلی صورت میں جواب یہ بنتا ہے کہ میں اپنی زندگی کے ہر حصے میں شارع ہی کے حکم کا پابند ہوں۔
۔ دوسری صورت میں شارع کے حکم کی کسی بھی دائرے میں ضرورت نہیں رہتی، اصولاً ہر معاملے میں مشمولات عقل و فطرت (وہ جو بھی ہوں) ہی کی طرف دیکھا جائے گا (عملاً اس کا مطلب یہ ہے کہ فلاسفہ و سوشل سائنٹسٹ کی طرف دیکھا جائے کیونکہ اصول فطرت و عقل کی تنقیح انہی کا شعبہ ہے۔
۔ تیسری صورت میں شارع کا حکم ایک محدود سے دائرے میں مجھے خطاب کرتا ہے، اس دائرے سے باہر پھر دوسری صورت پلٹ آتی ہے
پہلی صورت ہر قسم کی سیکولرائزیشن کا امکان ختم کردیتی ہے کیونکہ یہاں ہر حکم کا ریفرنس پوائنٹ بہرحال شارع کا قول ہوگا (فقہاء نے شرع کو اسی طرز پر دیکھا ہے)۔ دوسری صورت مکمل سیکولرائزیشن کی ہے کہ جہاں شارع کو کلیتاً فارغ (suspend) کردیا جاتاہے، جبکہ تیسری صورت ایک قسم کی "دینی سیکولرائزیشن" کا جواز پیدا کرتی ہے، یعنی شرع کو چند محدود سے معاملات میں محدود کرکے باقی سارا میدان عقل و فطرت کے ہاتھ کھلا چھوڑ دیا جائے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ خلا پھر حاضر و موجود علمیت (سوشل سائنسز) سے پر کیا جائے۔ اس قسم کی دینی سیکولرازم یورپ میں City of Man and City of God کے نام پر طویل عرصے تک پائی گئی۔
جملہ معترضہ کے طور پر یہ یہاں بات ذہن نشین کرانا لازم ہے کہ فقہاء و غامدی صاحب کے تصور اجتہاد میں بنیادی نوعیت کا فرق ہے۔ فقہاء نے عقل و فطرت جیسے مبہم الفاظ استعمال کرنے کے بجائے عقلی طرق استنباط (قیاس، استحسان وغیرہ) و نص کی دلالات کو اخذ احکام کی بنیاد بنایا ہے اور پھر ہر عقلی طریقہ استنباط و دلالت کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے اخذ کردہ حکم کو کلاسیفائی کیا ہے۔ یہ ایک منظم طریقہ کار ہے۔ اس کے مقابلے میں غامدی صاحب اجتہاد کا دائرہ کار عقل و فطرت سے راہنمائی لینے کو قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب کا یہ تصور دین و اجتہاد ایک قسم کی "دینی سیکولرائزیشن" کا جواز پیداکرتا ہے، یعنی شرع کو چند محدود سے معاملات میں محدود کرکے باقی میدان کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر سوائے عقل و فطرت جیسے مبہم الفاظ کے یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہاں معاملات پر حکم کس بنیاد پر لگایا جائے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ خلا پھر حاضر و موجود علمیت (سوشل سائنسز) سے پر کیا جائے۔ 
مسئلہ خیر و شر کے بارے میں اشاعرہ و ماتریدیہ کے مابین بحث صرف نظریاتی ہے جبکہ اشاعرہ و معتزلہ کے مابین بحث اصلی، حقیقی و عملی ہے۔ ایسا اس لئے کہ عملی سوال یہ ہے کہ "مجھے عمل کس شے پر کرنا ہے، اس شے پر جو خدا نے نازل کیا یا وہ جسے میں خود خیر سمجھ رہا ہوں؟" چنانچہ اشاعرہ و ماتریدیہ دونوں کا اتفاق ہے کہ عملی تکلیف خدا کے کلام ہی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ نتیجتاً یہ دونوں پوزیشن ہر قسم کی سیکولرائزیشن کے امکان کو ختم کردیتی ہیں کیونکہ عمل کے لئے خدا کے حکم کا ریفرنس معلوم کرنا ہوگا۔ اس تصور سے شریعت و اجتہاد کا بالکل الگ تصور برآمد ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں معتزلہ کے یہاں عملی تکلیف کی بنیاد ازخود عقل کے ذریعے معلوم کردہ اشیاء کا ذاتی خیر و شر ہے، خدا کا حکم صرف ایک اضافی چیز ہے۔ یہ پوزیشن شرع کو redundant قرار دے کر پوری عملی زندگی کو سیکولرائز کرنے کا جواز پیدا کرتی ہے، اسی لئے اہل سنت کے دونوں گروہوں اشاعرہ و ماتریدیہ نے اس کی مخالفت کی۔

آخری بات

نبی یعنی خدا سے مسلسل تعلق "ثانوی" نہیں "بنیادی" ضرورت ہے
بنیادی مدعا یہ ہے کہ مسئلہ خیر و شر کی تعیین میں وحی کی حیثیت ثانوی نہیں بلکہ بنیادی ہے۔ اس مسئلے میں وحی کوئی "اختتامی نوٹ" نہیں کہ جس سے قبل بہت کچھ معلوم و طے ہوچکا ہو بلکہ وہ "لازمی ابتدائیہ" ہے جس کے بنا آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ یہ ہے نبی کا اصل مقام اور یہ مقام صرف اسی کو سزا وار ہے۔مسئلہ خیر و شر کی تعیین میں وحی "ثانوی" نہیں بلکہ "بنیادی" طور پر اپنا کردار ادا کرتی ہے، یعنی یہاں معاملہ ایسا نہیں ہے کہ خیر و شر کے بہت سے مسائل فطرت و عقل ازخود اپنے دریافت کردہ اصولوں کی بنا پر حل کرسکتی ہے اور صرف اس کی ناکامی کے مقامات میں وحی کی ضرورت پڑتی ہے۔ نہیں، بلکہ یہاں معاملہ یہ ہے کہ خیر و شر کی تعیین کے اس دائرے میں وحی کی راہنمائی کے بغیر عقل کوئی اصولی حکم دریافت نہیں کرسکتی، بلکہ یوں کہا جانا چاہیے کہ عقل میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اس معاملے میں کوئی حکم لگا سکے۔
فطرت، عقل اور وحی کے مابین تعامل کو سمجھنے کے ضمن میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ پہلا انسان نبی (صاحب وحی) تھا نہ کہ محض کوئی "فطری وجود"۔ چنانچہ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ہی ہمیں فطرت، عقل اور وحی کے تعامل کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ "پہلا انسان نبی تھا"۔ یعنی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فطرت و عقل دے کر ایک مخلوق زمین پر بھیج دی اور جب خیر و شر کے مسائل میں وہ غلطیاں کرتے تو ان کی اصلاح کے لیے نبی بھیج دیا۔ نہیں، بلکہ یہاں تاریخی حقیقت یوں ہے کہ خیروشر سے متعلق دنیا کے سب سے پہلے انسان کو بذریعہ وحی حقائق بتائے گئے اور پھر نبیوں کا یہ سلسلہ بغیر کسی وقفے کے مسلسل چلتا رھا۔ گویا ڈاکٹر مشتاق صاحب کے الفاظ میں "پہلے ہی دن سے کچھ کام ممنوع اور ناپسندیدہ ٹھہرے اور کچھ ضروری اور پسندیدہ اور ایسا 'وحی کی روشنی میں' ہوا"۔
پھر عقل کے دائرہ کار اور حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے یہ تنقیح لازم ہے کہ عقل کو کس معنی میں استعمال کیا جارہا ہے، یعنی "عقل بطور کسی مقصد کو حاصل کرنے کی صلاحیت" (جسے آلاتی عقل instrumental reasoning کہتے ہیں) اور یا "عقل بطور خیر و شر یعنی مقاصد اور انکی ترتیب متعین کرنے کی صلاحیت" (جسے substantive reasoning کہتے ہیں)۔ چنانچہ عقل کے اندر یہ صلاحیت تو ہے کہ وہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ بتائے مگر یہ صلاحیت نہیں کہ مقاصد اور ان کی ترتیب بھی متعین کرلے۔ نبی کا تعلق مقاصد (خیر و شر) اور ان کی ترتیب کو متعین کرنے سے ہے، اس دائرے میں عقل کسی کام کی نہیں۔ اس دائرے میں عقل لازماً اپنے سے بیرون کسی ذریعے ہی سے رہنمائی لیتی ہے، چاہے وہ ذریعہ وحی ہو، ماضی سے چلی آنے والی روایات ہوں اور یا خود نفس کی خواہشات۔
پس اگر عقل کے اس درائرہ کار کو اچھی طرح متعین کرلیا جائے، جسے امام غزالی نے بڑی ہی جانفشانی سے سمجھایا ، تو وحی کی اصل و بنیادی ضرورت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ بصورت دیگر نبی بطور اضافی شے یا تتمہ ایک ثانونی معاملہ بن کر رہ جاتا ہے۔ پس سمجھ رکھنا چاہیے کہ نبی ، یعنی خدا سے مسلسل تعلق،انسان کی بنیادی و مستقل (permanent and essential) ضرورت ہے، ثانوی و اضافی (facilitating and contingent) نہیں۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم مدیر الشریعہ زیدمجدکم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
خداکرے مزاج گرامی بعافیت ہو!
مئی کے شمارہ میں ڈاکٹرعرفان شہزاد کا مضمون بعنوان ’’جہادی بیانئے کی تشکیل میں روایتی مذہبی فکر کا کردار ‘‘پڑھنے کا موقع ملا، پڑھ کر یہی لگاکہ ڈاکٹر صاحب نے تحقیق کے نام پر ایک طرفہ مضمون لکھاہے ،یعنی ان کے ذہن ومزاج نے پہلے ہی طے کرلیاہے کہ مدارس اورنصاب کو عسکریت پسندی کا ذمہ دارٹھہراناہے تواسی لحاظ سے ثبوت وشواہد اکٹھے کئے۔ 
انہوں نے جس منطق سے مدارس کے نصاب کو موردالزا م ٹھہرایاہے، بعینہ اسی منطق سے قرآن وحدیث پر بھی یہ الزامات عائد کئے جاسکتے ہیں اور مختلف لوگ عائد کرتے ہی رہتے ہیں، کبھی یہ بات چلتی ہے کہ قرآن کی آیات جہاد نکال دی جائیں ،کبھی یہ موقف سامنے آتاہے کہ قرآن مسلمانوں کو غیرمسلموں سے بہتر تعلقات کے لیے روکتاہے ،تو کبھی یہ کہاجاتاہے کہ پوری دنیا میں شدت پسندی اور بم دھماکوں کے لیے قرآن ذمہ دارہے،ڈاکٹر صاحب اورایسے لوگوں کے موقف میں اصولی طورپر کوئی فرق نہیں ،بس اتنا ہے کہ انہوں نے براہ راست قرآن وحدیث کو موردالزام ٹھہرایا اور ڈاکٹر صاحب نے کرم کرتے ہوئے مدارس اوران کے نصاب پر نزلہ گرایا،کیاڈاکٹر شہزاد صاحب کے لیے یہ مناسب نہ تھاکہ وہ مدارس اوردیگر شخصیات کو بیچ میں لانے کے بجائے ڈائرکٹ قرآن وحدیث کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہراتے؟ آخر کو جہاد کا حکم قرآن میں ہے، تکرار کے ساتھ ہے، واضح الفاظ میں ہے، حدیث میں اس کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں،جہاد سے جی چرانے والوں کے لیے وعیدیں ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے مختلف کتابوں سے جہاد کے حکم پر مشتمل تحریریں تو پیش کرکے اپناموقف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مدارس اوراس کا نصاب جہادو عسکریت پسندی کے ذمہ دار ہیں ؛لیکن ان کی تحقیق کی خیانت اس سے واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے ان تمام نصوص سے۔ جو فقہ وحدیث کی کتاب میں جہاد کی شرائط کے لیے مندرج ہیں۔ بالکلیہ صرف نظرکرلیاہے، جس شخص نے بھی کتب حدیث وفقہ اور قرآن کریم کی آیات جہاد کی تفسیریں پڑھی ہیں،وہ بخوبی جانتاہے کہ جہاد کی کچھ شرائط ہیں، کچھ پابندیاں ہیں، کچھ حدود وآداب ہیں، ان کی رعایت کے بغیر اگرکوئی جہاد کانام لے کر کسی قسم کی کارروائی کرتاہے تو وہ خود ملزم ہے نہ فقہ کی کوئی کتاب اورنہ کوئی مدرسہ،لیکن ڈاکٹرصاحب کی تحقیق دیکھ کر ایک مزاحیہ مصرعہ یاد آرہاہے۔
ہم طرفدارہیں غالب کے سخن فہم نہیں
یہ ایک عجیب وغریب طرز عمل ہے جوایک تسلسل سے جاری ہے اوردانشور حضرات ہروقت اس کی جگالی کرتے رہتے ہیں کہ معاشرے میں برائی بڑھ گئی ،علماء ذمہ دارہیں، ان کو اس کے حل کیلئے کوشش کرنی چاہئے،شدت پسندی بڑھ گئی ہے، علمائکو کوشش کرنی چاہئے،عسکریت پسندی بڑھ گئی ہے علماء اس کیلئے ذمہ دارہیں،معیشت کی حالت خستہ ہے تو علماء کا دقیانوسی سوچ کہ سود حرام ہے،اس کے لیے ذمہ دار ہے،غرضیکہ ہر مسئلہ کی جڑان کو مولوی اورعلماء میں نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہر مسئلہ کا حل علماء کی ذمہ داری ہے تو یہ پروفیسر،ڈاکٹر اوردانشور حضرات کس مرض کی دوا ہیں؟ کیاان کی زندگی کا مقصد پیٹ سے شروع ہوکر پیٹ پر ختم ہوجاتاہے؟کیا ان کی معاشرہ اورسماج کے حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟اگرایسانہیں ہے تو وہ اپنے بھائی بندوں کو اس جانب متوجہ کیوں نہیں کرتے،کیاان کی ارشاد ونصیحت کا ساراپٹارہ مولویوں کے لیے مخصوص ہے؟
ایک عالم کی ہمارے معاشرے میں کیا حیثیت ہے؟اس سے ہرصاحب نگاہ ونظرواقف ہے،کچھ چند اور الاماشاء اللہ مثالیں چھوڑ کر علماء کی اکثریت کس مپرسی کا شکار ہے،قلیل تنخواہیں، کام کا بارگراں، فرصت کے لمحات نہایت کم ،اس کے بالمقابل ہمارے ڈاکٹر پروفیسر اوردانشور کہلانے والوں کاجائزہ لیجئے، تنخواہیں بھاری بھرکم ،کام کم،تعطیلات کی طویل فہرست،ہرقسم کی فارغ البالی اور ہرقسم کے وسائل سے لیس ،اس سب پرہرقسم کے معاشرتی اورسماجی مسائل کی ذمہ داری علماء کی ہے،دانشور حضرات بالکل فارغ البال ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جو دانشور حضرات علماء کو مسائل کا ذمہ دار ٹھہراکر اس سے مسائل کے حل کی کوشش کے لیے فرمان جاری کرتے ہیں، وہ مولویوں کی بات کتنی مانتے ہیں؟مولوی کہتاہے کہ مذہب پر عمل کرو ،وہ کہتے ہیں کہ مذہب پرائیویٹ معاملہ ہے،مولوی کہتاہے کہ سود مت لو، وہ کہتے ہیں کہ سود معیشت کے لیے ضروری ہے،مولوی کہے گاکہ فحاشی وعریانیت ختم کی جائے ،وہ کہتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق کی بات ہے ،ہرشخص کو اختیار ہے کہ وہ جتنا جسم دکھانا چاہے دکھائے، مولوی کہے گاکہ شرعی قوانین ملک میں نافذ کئے جائیں،وہ کہتے ہیں کہ وہ چودہ سوسال پرانی بات ہو چکی، مولوی کہے گاکہ ظاہری وضع قطع دینداروں کاسابناؤ، وہ کہتے ہیں کہ اسلام دل میں ہوتاہے،ڈاڑھی میں نہیں۔ غرضیکہ دانشور حضرات کا قبلہ مولویوں سے ایک سو اسی ڈگری الٹ ہوتاہے۔
پھربھی ان کو یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
آپ پہلے مولویوں کی بات مانئے ،پھر مولویوں سے اس کا شکوہ کیجئے کہ وہ مسائل کے حل کے لیے قدم نہیں اٹھاتے۔ یہ طرفہ تماشابھی خوب ہے کہ مولویوں کی بات بھی نہیں مانتے اورمولویوں سے مسائل کے حل کے لیے کوشش کرنے کے لیے بھی کہاجائے۔
یہ عرض کرنابھی ضروری ہے کہ اس تحریرکے محرک ڈاکٹر شہزاد صاحب ضرور ہیں؛ لیکن تنہامخاطب نہیں ،اورمولاناعمار ناصر صاحب کا بھی شکریہ کہ انہوں نے میرے مضمون کو اپنے موقر رسالہ میں شائع کیا۔
عبیداختررحمانی
المعہد العالی الاسلامی،حیدر آباد
(۲)
مکرمی جناب۔۔۔۔۔السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
علم حدیث کے ایک اہم مسئلے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا ہے؛علم حدیث میں"حدیث" کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟
علم حدیث میں"حدیث" دو شرائط سے مشروط "اصطلاح" ہے، ان میں سے کوئی ایک شرط نہ ہو تو وہ "حدیث" نہیں ہوتی ہے۔ اولاً،متعین راوی کا قول ہو۔ ثانیاً ، وہ راوی اپنے اس قول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قول، عمل اور تقریر بیان کرے۔ وہ خبر، حکم اور عمل "حدیث" نہیں ہے جو مذکورہ بالا دونوں شرائط میں سے کسی ایک شرط سے خالی ہو۔
علم حدیث کا موضوع "حدیث" ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل علم حدیث کا موضوع ہے اور نہ متعین راوی کا ہر بیان اس علم کا موضوع ہے۔ وہ قول رسول "حدیث" نہیں ہے جس کا متعین راوی نہیں ہے اور متعین راوی کا وہ قول "حدیث" نہیں ہے جس میں رسول اللہ کا قول و عمل بیان نہیں ہے۔ ائمہ حدیث جب لفظ "حدیث" بطور اصطلاح استعمال کرتے ہیں یا علم حدیث کے موضوع کے طور پر بولتے ہیں تو ان کے پیش نظر "قول رسول" نہیں ہوتا، ان کی مراد متعین راوی کا وہ قول ہوتا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل بیان ہو۔
مابعد کے تذکرہ نگاروں اور تذکرہ خوانوں نے بغیر سوچے سمجھے "حدیث" کو قول رسول اور "قول رسول" کو حدیث کہنا اور ماننا شروع کر دیا۔ ان کا کام علم حدیث کی مصطلحات رٹنے اور ان کی تعریف یاد کرنے کے سوا کچھ نہیں رہا ہے۔ وہ علم حدیث کے عالم تھے اور نہ اس عظیم الشان علم سے کوئی ذہنی مناسبت رکھتے تھے۔ نا اہل اخلاف کی نا اہلی نے ایک عظیم الشان علم اور علما کی بے مثال محنت نہ فقط ضائع کر دی، الٹا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اسے فرد جرم بنا دیا۔
والسلام علی من اتبع الہدی۔
ڈاکٹر خضریٰسین
C / 111o / جے ماڈل ٹاون لاہور
 

سانحہ مستونگ کے شہداء

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اضاخیل پشاور کے ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ کے بعد سے اس بات کا خدشہ اور خطرہ مسلسل محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہوگا۔ صد سالہ اجتماع کی بھرپور کامیابی اور اس میں دیے جانے والے واضح پیغام نے دنیا کو ایک بار پھر بتا دیا ہے کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا قافلہ دینی و قومی تحریکات کے لیے عدم تشدد پر مبنی پر امن جدوجہد کی پالیسی پر نہ صرف قائم ہے بلکہ آئندہ کے لیے اس نے اس کا تسلسل قائم رکھنے کا عزم نو بھی کر لیا ہے۔ اس لیے خیال تھا کہ تشدد کو اوڑھنا بچھونا بنانے والوں کے لیے اس کو ہضم کرنا مشکل ہوگا اور وہ اپنے غصے کا کہیں نہ کہیں اظہار ضرور کریں گے۔ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانے اور دستور و ریاست کو چیلنج کرنے کی روش اختیار کرنے والوں سے ابتداء میں ہی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ پاکستان دستوری طور پر ایک اسلامی ریاست ہے اس لیے اس ملک کی حدود کے اندر کسی بھی دینی یا قومی مقصد کے لیے پر امن جدوجہد کا راستہ ترک کرنے اور ہتھیار اٹھانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے اور ملک کے جمہور علماء کرام کا متفقہ موقف یہی ہے۔ لیکن اسے خوف یا مصلحت پر محمول کر کے اسے تبدیل کرانے کی مختلف حوالوں سے کوششیں ہوتی رہیں۔ خود میں نے جب ایک ٹی وی چینل پر ایک سوال کے جواب میں کچھ عرصہ قبل یہ کہا کہ پاکستان کی حدود میں نفاذِ شریعت یا کسی بھی دینی و قومی مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانا درست نہیں ہے تو مجھے یہ پیغام دیا کہ خوف اور مصلحت سے بے نیاز ہو کر حق کی حمایت کریں۔ میں نے اس کے جواب میں دوٹوک عرض کیا کہ بحمد اللہ تعالیٰ زندگی میں کبھی خوف، لالچ یا مصلحت کی بنیاد پر کوئی موقف طے نہیں کیا اور اب بھی اسی بات کو درست کہہ رہا ہوں جسے پورے شرح صدر کے ساتھ شرعاً درست اور ضروری سمجھتا ہوں۔
اس دوران پاکستان کے جمہور علماء کے اجماعی موقف کے دوٹوک اظہار کی وجہ سے حضرت مولانا حسن جان، حضرت مولانا معراج الدین، حضرت مولانا نور محمد اور ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی جیسی قیمتی جانیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں جبکہ مولانا فضل الرحمان ایک سے زائد بار وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات مزید پختہ ہوتی چلی گئی کہ موقف وہی حق ہے جو پاکستان کے جمہور علماء نے اختیار کیا ہے اور جس کا اظہار اضاخیل کے عالمی اجتماع میں ایک بار پھر کر دیا گیا ہے۔
کافی عرصہ قبل جب ان باتوں کی ابھی شروعات تھیں، راقم الحروف نے چند تحریروں میں یہ عرض کیا تھا کہ اب عالمی استعمار اور اسلام دشمن قوتوں کی حکمت عملی یہ ہوگی کہ جہاں جہاں بھی نفاذِ شریعت کی جدوجہد کی فضا موجود ہے وہاں اشتعال انگیز کارروائیوں کے ذریعہ جذباتی عناصر کو سامنے لایا جائے اور ریاستی قوتوں کے ساتھ ٹکرا کر انہیں ختم کر دینے کی راہ ہموار کی جائے۔ اس موقع پر میں نے یہ مثال بھی ایسے عناصر کے سامنے رکھی تھی کہ حضرت خالد بن ولید کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کارنامے پر ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب دیا تھا وہ کسی فوج کو شکست دینے یا کسی علاقے پر قبضہ کر لینے کا نہیں تھا بلکہ ایک لاکھ افراد پر مشتمل لشکر میں پھنسے ہوئے تین ہزار مسلمانوں کو وہاں سے نکال کر بحفاظت مدینہ منورہ واپس لے آنے کا تھا۔ حتی کہ ان واپس آنے والوں کو مدینہ منورہ کے بہت سے حضرات کی طرف سے ’’انتم الفرارون‘‘ (تم بھگوڑے ہو) کا طعنہ بھی دیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا تم بھگوڑے نہیں ہو بلکہ ’’کرارون‘‘ دوبارہ حملہ کرنے والے ہو۔
مگر جذباتیت اور سطحیت کے ماحول نے کسی کو ان باتوں پر سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا اور اس نے بتدریج دنیائے اسلام کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہم نے تو اس وقت یہ بات پاکستان کے تناظر میں عرض کی تھی مگر جب تشدد اور دہشت گردی کی اس نفسیات کا دائرہ مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک میں پھیلنا شروع ہوا تو آہستہ آہستہ یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ یہ سارا کھیل ’’یار لوگوں‘‘ کا رچایا ہوا تھا کہ جذباتی نوجوانوں کو اشتعال دلا کر سامنے لاؤ اور انہی کی ریاستی قوتوں کے ذریعہ ان کو کچل ڈالو۔ اور اب تو یہ جال اس قدر وسیع اور پیچیدہ ہو چکا ہے کہ اگر کچھ لوگ اس سے نکلنا چاہیں تو ان کے لیے اس کا کوئی راستہ موجود نہیں رہا۔
اس پس منظر میں مولانا عبد الغفور حیدری کے قافلے پر اس وحشیانہ اور بزدلانہ حملہ کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ مولانا عبد الغفور حیدری ملک کی اعلیٰ ترین قیادت میں اہل دین کی نمائندگی جس تدبر، حوصلہ اور شرافت کے ساتھ کر رہے ہیں، وہ ملک و قوم اور حکومت و ریاست کے ساتھ دینی حلقوں کی بے لچک کمٹمنٹ اور ایثار و قربانی کی علامت ہے اور خصوصاً جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے لیے اعزاز و افتخار کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سانحہ جہاں مولانا حسن جان، مولانا نور محمد، مولانا معراج الدین اور ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کی جانوں کا نذرانہ وصول کرنے والوں اور مولانا فضل الرحمان اور مولانا عبد الغفور حیدری کو وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنانے والوں کے لیے پیغام ہے کہ اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے اہل حق کو ان کے موقف سے ہٹایا نہیں جا سکتا وہاں اس میں ایک پیغام ان حلقوں کے لیے بھی ہے جنہوں نے ان قربانیوں کے باوجود میڈیا اور لابنگ کے تمام ذرائع ابلاغ اہل دین کی کردار کشی، مدارس کے خلاف منفی مہم اور سوسائٹی کو دینی روایات و اقدار سے بے گانہ کرنے کے لیے مسلسل وقف کر رکھے ہیں۔ اور اس پیغام کو کم از کم الفاظ میں اس طرح تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ ’’شرم تم کومگر نہیں آتی‘‘
اللہ تعالیٰ شہداء کے درجات بلند سے بلند فرمائیں، زخمیوں کو صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں اور مولانا عبد الغفور حیدری کو صحت و عافیت کے ساتھ قومی قیادت میں اپنا کردار ادا کرتے رہنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

جولائی ۲۰۱۷ء

فہم قرآن کے چند اخلاقی اور لسانی اصولمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۲)ڈاکٹر محی الدین غازی
مشرق وسطیٰ میں ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کے دور کا آغازمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
انقلابِ ایران کی متنازعہ ترجیحاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تقسیم مسلسل سے گزرتی پاکستانی قوممحمد حسین
دیوبندی بریلوی اختلافات : سراج الدین امجد صاحب کے تجزیے پر ایک نظر (۱)کاشف اقبال نقشبندی
فطرت بطور معیار کی بحثڈاکٹر عرفان شہزاد
مشال خان کا واقعہ، الشریعہ اور سیکولرزممحمد عرفان ندیم
مکاتیبادارہ
علم کلام، فلسفہ تاریخ اور دور جدید کی فکری تحدیات ۔ مدرسہ ڈسکورسز کے تحت تربیتی ورکشاپ کی رودادڈاکٹر حافظ محمد رشید

فہم قرآن کے چند اخلاقی اور لسانی اصول

محمد عمار خان ناصر

(فہم قرآن کے اصول ومبادی سے متعلق ایک لیکچر سیریز میں کی گئی گفتگو۔)

قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے، اس کی آیات کی تفسیر وتوضیح کرتے ہوئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی منشا اور مدعا متعین کرتے ہوئے کچھ اصول ہیں جو قرآن مجید کے ہر طالب علم کے سامنے رہنے چاہییں اور ان کی پابندی اس بات کی ضمانت دے گی کہ انسان اللہ کی مراد کے زیادہ قریب پہنچنے کے قابل ہو جائے گا۔ ان میں سے کچھ اصول علمی نوعیت کے ہیں اور کچھ اخلاقی اصول ہیں۔ ان کو ملحوظ رکھنے سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ انسان ہر جگہ ہر معاملے میں کسی بھی قسم کی غلطی کا شکار نہیں ہوگا، ا س لیے کہ بہرحال اللہ کی کتاب کو سمجھنا اور اس کی تفسیر وتوضیح کرنا، اس میں انسانی فہم کا حصہ اور اس کا کردار بہت زیادہ ہے اور انسان کا فہم کبھی کمال کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ لیکن بہرحال کچھ اصول ہیں جن کی پابندی سے آدمی یہ اطمینان حاصل کر سکتا ہے کہ وہ قرآن کی تعلیم اور اس کے خاص پیغام کا جو core ہے، کم سے کم اس سے محروم نہیں رہے گا۔ اسی طرح مختلف مقامات پر جہاں ایک سے زیادہ احتمالات ممکن ہیں اور جہاں ایک سے زیادہ تعبیرات اور تشریحات پیش کی جا سکتی ہیں، ان میں آدمی صحت کے قریب تر پہنچ جائے گا۔ اگر ان اصولوں کی دیانت داری کے ساتھ، اور اہلیت کے ساتھ پابندی کی جائے تو اس بات کا اطمینان بڑی حد تک حاصل کیا جا سکتا ہے۔
سب سے بنیادی اخلاقی اصول جس کی رعایت نہ صرف اللہ کی کتاب کے معاملے میں، بلکہ دنیا کی کسی بھی کتاب کے معاملے میں ، کسی بھی متکلم کے کلام کو پڑھنے کے معاملے میں ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ آپ پوری دیانت داری سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہنے والے کا جو اپنا مدعا او ر منشا ہے، اس کی جو اپنی مراد ہے، وہ کیا ہے، نہ یہ کہ آپ کے ذہن میں جو پہلے سے موجود خیالات ہیں، رجحانات ہیں، کچھ پسندیدہ یا ناپسندیدہ باتیں ہیں، ان کو لے کر ان کی تائید یا تصویب کے لیے یا ان کی تردید تلاش کرنے کے لیے آپ کسی بھی کتاب کی طرف رجوع کریں۔ یہ انسان کی فطرت میں، اس کی طبیعت میں جو خامیاں رکھ دی گئی ہیں، ان میں سے ایک بڑی خامی ہے کہ اپنے ذہنی رجحانات اور اپنے پسندیدہ خیالات سے مختلف خیالات پر پر غور کرنا یا ان کو ہمدردی سے سمجھنے کی کوشش کرنا، یہ انسان کے لیے بالعموم ممکن نہیں ہوتا، خاص طور پر جب معاملہ ایک مذہبی کتاب کا ہو جس میں خاص طور پر اس کو ماننے والے، اس پر ایمان رکھنے والے یہ بنیادی مسلمہ لے کر اس کی طرف جائیں گے کہ یہ کتاب جو کچھ کہے گی، ہمیں اس کو ماننا ہوگا، جس طرف بھی ہماری راہ نمائی کرے گی، ہمیں اس کو قبول کرنا ہوگا۔ تو جہاں یہ حساسیت بھی موجود ہو، وہاں اپنے آپ کو بالکل خالی الذہن کر کے اور تعصبات سے اور ذہنی رجحانات سے بالکل پاک کر کے اس کتاب کے سامنے سرنڈر کر دینا، یہ رویہ انسان کے لیے زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ 
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جتنی غلط تاویلات مذہبی کتابوں کے معاملے میں پیش آتی ہیں، اس کا شاید عشر عشیر دوسری کتابوں کے معاملے میں پیش نہیں آتا۔ دوسری کتابوں کے ساتھ کوئی تقدس کا جذبہ وابستہ نہیں ہوتا، ان کے سامنے سر اطاعت خم کرنے کا کوئی تصور وابستہ نہیں ہوتا۔ مذہبی کتابوں کے ساتھ یہ تصورات بھی وابستہ ہوتے ہیں، لوگوں کے دینی جذبات بھی وابستہ ہوتے ہیں، اور اس سے آپ جو بات بھی اخذ کرتے ہیں، وہ گویا آپ کی کہی ہوئی بات کی تائید بھی فراہم کرتی ہے، اور دوسروں سے اس کے ساتھ موافقت اور اس کی قبولیت کا مطالبہ کرنے کے لیے بھی آپ کو بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس طرح کی بہت سی چیزیں اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس لیے مذہبی کتابوں کی تاریخ میں یہ چیز بہت زیادہ مسئلہ بنتی ہے۔ کتاب اللہ کو خالص نیت کے ساتھ اور اللہ کی منشا ومراد تک پہنچنے کے جذبے کے ساتھ پڑھنا، یہ خاصا مشکل کام ہے۔ انسان فطرتاً اپنے جذبات کا اور احساسات کا اسیر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ جب کچھ تعصبات وابستہ ہو جائیں، کچھ ذہنی رجحانات اور کچھ پسند ناپسند کے مسائل اس کے ذہن میں جگہ بنا لیں تو پھر وہ انھی کو لے کر اللہ کی کتاب کی طرف آتا ہے اور بجائے اس کے کہ معروضی انداز میں اس کی کوشش کرے کہ اللہ کی کتاب کی مراد تک پہنچے، انسان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اپنے پسندیدہ خیالات کی تصویب اس کو وہاں سے ملے اور اپنے ناپسندیدہ خیالات کی تردید اس کے الفاظ میں وہ پڑھ لے۔
تو پہلی جو بنیادی چیز ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی اس کتاب کو پڑھے تو خالی الذہن ہو کر، تعصب سے پاک ہو کر اور صحیح خالص نیت کے ساتھ اللہ کی مرادکو سمجھنے کی نیت سے پڑھے۔ اس نیت سے پڑھے گا تو اس میں اللہ کی تائید وتوفیق بھی شامل ہوگی۔ اگر یہ نیت نہیں ہوگی تو پھر عین ممکن ہے کہ آدمی اس کتاب کو پڑھے، اس کی تلاوت کرے، اس پر غور کرے، تدبر بھی کرے، لیکن اس سے جو کچھ اس کو حاصل ہو، وہ سوائے اس کے کچھ نہ ہو کہ اپنی ہی خواہشات کو اللہ کی کتاب کے الفاظ میں پڑھ لے اور اپنے تعصبات کو اس میں منتقل کر کے دوبارہ اس سے اخذ کر لے۔ 
قرآن مجید نے بھی یہ بات اپنے بارے میں ایک اور پس منظر میں بیان کی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ: یُضِلُّ بِہِ کَثِیرًا وَّیَھْدِی بِہِ کَثِیرًا۔ یعنی اس کتاب سے ہدایت پانے کے لیے آدمی کی نیت کا خالص ہونا یہ بنیادی شرط ہے۔ خالص نیت کے بغیر بہت سے لوگ اس کی طرف رجوع کریں گے۔ ان میں سے ایک گروہ وہ تھا جو نزول قرآن کے زمانے میں موجود تھا۔ اب بھی اس کی باقیات یقیناًہیں جو اصل میں اس کتاب کو ہدایت حاصل کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اس میں مین میکھ نکالنے، ، اس کے مطالب پر اعتراضات اٹھانے اور لوگوں کو اس کے بارے میں شکوک وشبہات میں ڈالنے کے جذبے سے اس کی طرف آتے ہیں اور اس میں سے ایسی باتیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جن کو وہ اس مقصد کے لیے استعمال کر سکیں۔ چونکہ یہاں جذبہ حصول ہدایت کا نہیں ہے، نیت خالص نہیں ہے، قرآن مجید نے ان کے بارے میں تبصرہ کیا ہے کہ جو لوگ اس نیت سے اس کتاب کو پڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعے سے ان کو گمراہی میں مبتلا کر دیں گے۔ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کے ذریعے سے اللہ لوگوں کو ہدایت بھی دیتا ہے اور اسی کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہ بھی کرتا ہے۔ مدار صدق نیت پر ہے۔ سچی نیت سے لوگ آئیں گے تو انھیں ہدایت ملے گی اور بری نیت سے آئیں گے تو اسی کتاب کو پڑھ کر بجائے اس کے کہ ہدایت حاصل کریں، وہ اپنی گمراہی میں پختہ ہو جائیں گے۔ یہ پہلا اخلاقی اصول ہے۔
دوسرا اخلاقی اصول جس کی پابندی قرآن کے پڑھنے والے ہر شخص کو قبول کرنا لازم ہے، یہ ہے کہ اگر کہیں اس کو قرآن کے مطالب اور اس کی تعلیمات کے سمجھنے میں اشتباہ پیش آ گیا ہے، آیات میں ٹکراؤ نظر آ رہا ہے، بات اپنے صحیح محل میں نہیں لگ رہی، ا س کا صحیح مصداق جو عقل وفطرت کو مطمئن کر دے، وہ واضح نہیں ہو رہا تو یقیناًوہ غور جاری رکھے گا، وہ بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرے گا، لیکن یہ اصول بھی اس کو سامنے رکھنا چاہیے کہ ایسی چیزوں میں بعض دفعہ توکیل وتفویض کا اصول اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس بات کے درپے ہو جانے کے بجائے اور جیسا تیسا، کوئی بھی ایک مفہوم ضرور طے کرنے کے بجائے یہ ذہنی رویہ اپنائے کہ کتاب اللہ کے سارے معانی اور سارے مطالب پر حاوی ہونا یہ ہر شخص کے لیے نہ ضروری ہے اور نہ اس کا امکان ہے۔ وَفَوقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیمٌ۔ مجھے جتنا علم اور جتنی سمجھ اللہ نے دی ہے، اس کے لحاظ سے اگر میں نہیں سمجھ پا رہا تو کچھ دوسرے لوگ ہوں گے جن کے پاس اس کا ہوگا۔ گویا بہت سی جگہوں پر بات کے درپے ہونے یا اس سے کوئی نہ کوئی مطلب لازمی طور پر اخذ کر کے اس کو ایک قطعی اور حتمی مفہوم سمجھ لینے کے بجائے توکیل کا اصول اختیار کرنا پڑے گا۔ اس کی تعلیم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دی ہے۔ جہاں پر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے، کوئی اشکال ہو تو وہاں پر مجادلہ میں یا بحث میں الجھنے کے بجائے یا اس کی تہہ تک ضرور پہنچنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ آپ توکیل کریں۔ جو باتیں بالکل واضح سمجھ میں آ رہی ہیں، ان پر توجہ رکھیں۔ جو بات سمجھ میں نہیں آ رہی، اس پر غور جاری رکھیں، اس کے متعلق اہل علم سے سوال کریں، لیکن اس کے بارے میں آدمی کی ذہنی پوزیشن یہ ہونی چاہیے کہ بھئی، بہت سی چیزیں ہوں گی جو میرے علم کی سطح سے بلند ہیں، جن کی حقیقت کو میں نہیں سمجھ سکتا۔ میرے علم میں اگر نہیں ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فکلوہ الی عالمہ۔ اس کو اس کے عالم کے سپرد کر دو جس کو اللہ نے اس کو سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔ وہ یقیناًجانتا ہوگا، اگرچہ میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہی۔ 
یہ بات خاص طو رپر ایک عام آدمی کے لیے بڑی اہم ہے جو علمی طو رپر قرآن کی تشریح وتفسیر کے جو لوازم ہیں، اس سے متعلق جو علوم وفنون ہیں، اس کی جو ایک پوری علمی روایت ہے، علمی سطح پر اس کو سمجھنے کی اس طرح سے اہلیت نہیں رکھتا۔ وہ جب ایک سادہ انسانی سطح پر تذکیر کے لیے، ہدایت کے لیے، اصلاح کے لیے، اپنے آپ کو خدا کے ساتھ جوڑنے کے لیے، خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس کتاب کو پڑھتا ہے تو اس کو بہت سے مقامات پر مدعا سمجھنے میں اشتباہ پیش آ سکتا ہے۔ ایسے اشتباہات بھی پیش آ سکتے ہیں، ایسے سوالات بھی پیش آ سکتے ہیں جن کو وہ اپنے محدود علم کی حد تک حل کرنے پر قادر نہ ہو۔ اس کو بعض جگہ آیات ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی نظر آئیں گی۔ بعض جگہ پر کوئی ایسی بات بیان ہوتی ہوئی نظر آئے گی جس کو انسان کی سادہ عقل قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ بہت سے شکوک وشبہات بھی پیدا ہوں گے۔ ایسے موقع پر ایک صاحب علم جو اس طرح کی چیزوں کو tackle کرنے کے علمی وسائل سے آراستہ ہے، اس کو علمی وسائل حاصل ہیں، وہ تو ایک علمی طریقے سے، ایک علمی منہج کی پیروی کرتے ہوئے ان کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس سے بھی غلطی ہو سکتی ہے، لیکن اگر وہ علمی اصولوں کی پیروی کرے گا، اخلاقی اصولوں کی پیروی کرے گا تو وہ نسبتاً بہتر پوزیشن میں ہوتا ہے کہ علمی سوالات سے یا علمی اشکالات سے نبرد آزما ہو۔ تاہم ایک عام آدمی کے لیے اس طرح کی الجھنوں کا سامنا کرنا شاید تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔ بہرحال عام آدمی ہو یا ایک صاحب علم ہو، یہ اصول اس کو ہر جگہ ملحوظ رکھنا ہے۔ 

زبان میں حقیقت ومجاز کے اسالیب

اس کے بعد کچھ چیزیں ہیں جو علمی نوعیت کی ہیں جن کا تعلق کتاب اللہ کی زبان سے اور کسی بھی کلام کی تشریح وتفسیر کے اصولوں سے ہے۔ متکلم کے لسانی اسالیب، کلام کا سیاق، ایک ہی متکلم کے مختلف بیانات کو سامنے رکھ کر اس کا مدعا طے کرنا اور اس طرح کی چیزیں ہیں جو کلام کی تفسیر کے علمی اصول ہیں اور وہ معلوم ومعروف ہیں۔ بحث کی تکمیل کے لحاظ سے یہاں اس پہلو کا کچھ ذکر کر لیتے ہیں۔
ایک بات جس پر قرآن مجید کے سب مفسرین، تمام اہل علم اصولی طور پر متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ دنیا کی جو بھی زبان ہوگی، اس میں دونوں طرح کے اسالیب موجود ہیں۔ ایک اسلوب جس کو ہم حقیقت کا اسلوب کہتے ہیں، یعنی جس میں لفظ یا لفظوں کا مجموعہ یعنی جملہ اپنے انھی معنوں میں بولا اور استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے مراد بھی اس کے وہی معنی ہیں جو اس کے اپنے اصل اور حقیقی معنی ہیں جن کے لیے ان لفظوں کو زبان میں وضع کیا گیا۔ اسی طرح ایک دوسرا اسلوب ہے جس کو مجاز کا، استعارے اور تمثیل کا اسلوب کہتے ہیں، جس میں لفظ براہ راست اپنے اصلی معنی میں نہیں، بلکہ ایسے اسلوب میں استعمال ہوتا ہے جو سننے والے کو بالواسطہ متکلم کی مراد تک پہنچاتا ہے۔ متکلم ایک صورت کو کسی دوسری صورت کی طرف توجہ دلانے کے لیے مستعار لے لیتا ہے۔ لفظ کا حقیقی معنی چھوڑ کر اس کو کسی دوسرے، ایسے معنی کی طرف لے جاتا ہے جو اس سے وابستہ ہے، اس سے جڑا ہوا ہے اور مجازاً اس کا وہ مفہوم مراد لے لیتا ہے۔ زبان میں یہ دونوں طرح کے اسالیب موجود ہوتے ہیں۔ حقیقت کا اسلوب بھی ہوتا ہے، مجاز کا اسلوب بھی ہوتا ہے اور یہ ضرور ی ہے کہ آپ ان میں سے ہر اسلوب کو اپنے اپنے محل میں صحیح طور پر ملحوظ رکھیں۔
اس حوالے سے جو علم اصول اور علم تفسیر کے ماہرین اس کے مختلف قواعد بھی وضع کرتے ہیں اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ آپ یہ اصول سامنے رکھیں کہ زبان میں کہیں حقیقت کا اسلوب ہوگا، کہیں مجاز کا اسلوب ہوگا اور ہر اسلوب کے ساتھ کچھ قرائن اور لوازم ہوں گے۔ جہاں آپ کو حقیقت کے اسلوب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کلام کا مفہوم سمجھنا ہے، اس کا اپنا محل ہے، اور اپنے قرائن اور اسالیب ہیں۔ جہاں متکلم نے مجاز کا اسلوب استعمال کیا ہوگا، اس کا کوئی محل ہوگا، اس کے کچھ قرائن اور کچھ اسالیب ہوں گے۔ تو ان دونوں اصولوں کو اپنے اپنے محل میں رکھنا، یہ علمی اصولوں میں سے ایک بڑا بنیادی اصول ہے۔ زبان کا عام اسلوب تو یہی ہے کہ لفظ جس مفہوم کے لیے وضع کیا گیا ہے، جب وہ بولا جائے تو وہی مراد لینا چاہیے۔ ہاں، جب کلام کے اندر یا ماحول کے اندر ایسے قرائن موجود ہوں یا متکلم اور سامع کے مابین جو ایک عہد ذہنی ہے، invisible communication کا جو ایک رشتہ ہے، اس میں ایسے قرائن ہوں جو یہ بتا رہے ہوں کہ متکلم دراصل ان الفاظ سے وہ لفظی مفہوم مراد نہیں لینا چاہ رہا جو عام طور پر اس کا ہوتا ہے تو پھر آپ اس کے مجازی مفہوم کی طرف shiftکریں گے، پھر آپ انتقال کریں گے۔ یہ قرائن کہیں بھی ہو سکتے ہیں، کلام میں بھی ہو سکتے ہیں، ماحول میں بھی ہو سکتے ہیں، متکلم اور مخاطب کے درمیان ان کے ذہن میں بھی ہو سکتے ہیں۔ خاص طورپر گفتگو کے کچھ مقامات اور کچھ دائرے ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں پر زبان کا عرف اور متکلم کا اسلوب یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ اس دائرے میں وہ استعمال ہی مجازی اسلوب کرتا ہے۔ تو یہ دونوں اسلوب، انھیں بڑی دقت نظر سے اور علمی طور پر خوب غور کرکے ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ کہاں متکلم اپنے حقیقت کے اسلوب کو اختیار کر رہا ہے او رکہاں مجاز کے اسلوب کو اختیار کر رہا ہے۔
اس کی ایک مثال سامنے رکھیں۔ لفظ کا اپنا حقیقی معنی مراد ہونا چاہیے، اس کی مثالیں تو بے شمار ہیں۔ مثلاً قرآن مجید کہتا ہے: وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِیمُ لِاَبِیْہِ آزَرَ۔ ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا۔ یہاں بہت سے مفسرین کی رائے ہے کہ جس سے مکالمہ ہوا، وہ ان کا باپ نہیں تھا، بلکہ ان کا چچا تھا۔ تاہم کلام میں اس کا کوئی قرینہ نہیں۔ کوئی وجہ ایسی دکھائی نہیں دیتی کہ اب کے لفظ کو مجازی مفہوم میں لیا جائے اور باپ کے بجائے باپ کے درجے کا کوئی دوسرا رشتہ دار مراد لیا جائے۔ جب قرآن نے اب کہا ہے، یہاں بھی کہا ہے اور دوسری جگہوں پر بھی جہاں ابراہیم علیہ السلام کا اپنے ایک بزرگ سے مکالمہ نقل ہوا ہے، وہاں بھی لفظ اب ہی استعمال ہوا ہے تو لفظ کو اس کی حقیقت میں لینا چاہیے، یعنی یہ ان کا حقیقی باپ تھا جس سے ابراہیم کا یہ مکالمہ ہوا۔ اگرچہ یہ قرآن کی تعلیم کے لحاظ سے یہ کوئی بہت اہم بات نہیں ہے ، کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے کہ یہ ابراہیم کا باپ تھا یا چچا تھا۔ چچا ہو یا باپ ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن مثال کے لیے میں یہ بات عرض کی ہے۔ یہاں پر جو اہل علم مجازی مفہوم مراد لیتے ہیں، ان کے سامنے یہ سوال رکھا جا سکتا ہے کہ اس کا کیا قرینہ ہے اس کا؟ کیوں لفظ اب کو اس کے حقیقی مفہوم کے بجائے مجازی مفہوم میں لیا جا رہا ہے؟
اسی اصول کو آپ تھوڑا سا پھیلائیں تو دور جدید میں ہمارے ہاں اور دوسرے مسلم معاشروں میں بھی جو تفسیر کا ایک پورا اسکول وجود میں آیا، اس کی غلطی بھی واضح ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ قرآن نے انسانیت کی تخلیق کے حوالے سے آدم اور ابلیس کے دو لفظ استعمال کر کے بعض واقعات بیان کیے ہیں۔ ان میں ملائکہ کا ذکر بھی آیا ہے۔ اسی طرح قرآن بعض دوسرے مقامات پر جن اور جنہ کے نام سے بھی ایک مخلوق کا ذکر کرتا ہے۔ اب اس واقعے میں آدم کا ذکر ہو رہا ہے، ابلیس کا ذکر ہو رہا ہے، دونوں کے درمیان گفتگو کا ذکر ہو رہا ہے، ان کے ایک آزمائش کے عمل سے گزرنے کا، ایک جگہ پر رکھے جانے کا، بہکائے جانے او رپھر وہاں سے ہٹا دیے جانے کا ایک پورا واقعہ بیان ہوا ہے۔ دور جدید میں ایک منہج فکر ایسا پیدا ہوا جو اس طرح کے واقعات کو، خاص طور پر آدم کی شخصیت اور ابلیس کی شخصیت کو اور اس پورے واقعے کو تمثیل کے اسلوب میں دیکھتا ہے۔ یعنی آدم سے مراد کوئی شخصیت نہیں ہے جس طرح ہم عام طور پر سمجھتے ہیں۔ ابلیس سے مراد بھی کوئی شخصیت نہیں ہے۔ اور یہ جو واقعہ ہوا، یہ حقیقی معنوں میں پیش آنے والے کسی واقعے کا بیان نہیں۔ یہ ایک تمثیلی اسلوب ہے۔ آدم سے مراد خیر کی اور بھلائی کی صلاحیت ہے جو انسان کے اندر موجود ہے، اور ابلیس سے مراد شر کی طرف رجحان رکھنے والی وہ طبیعت ہے جو انسان میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ جو واقعہ ہے، وہ اصل میں انسان کی شخصیت میں خیر اور شر کے مابین کشمکش کا ایک تمثیلی بیان ہے۔ یہ ایک مثال ہے۔ اسی اسلوب پر وہ قرآن مجید میں اس طرح کے دوسرے بہت سے واقعات کی بھی توضیح کرتے ہیں۔
یہاں پر علمی طو رپر جو اعتراض بنتا ہے او رجو علمی اصول پامال ہوتا ہوا نظر آتا ہے، وہ یہی ہے کہ قرآن جس طرح اس واقعے کو بیان کر رہا ہے، ا س میں آخر ایسے کون سے قرائن ہیں جو اس کو حقیقت پر محمول کرنے کے بجائے اس کو تمثیل کا رنگ دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں؟ جس اسلوب میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے، اگر تو یہ بتایا جا سکے کہ حقیقی واقعے کے بیان کا اسلوب یہ نہیں ہوتا، کوئی اور ہوتا ہے تو وہ سامنے لایا جائے۔ یعنی قرآن اگر ایک واقعتا ایک حقیقی واقعے ہی کو بیان کرنا چاہتا تو اس کے لیے کون سا اسلوب ہوتا جو اس سے مختلف ہوتا؟ اس لیے کہ یہ اگر تمثیل کا اسلوب ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے لیے کوئی اور اسلوب ہوگا۔ زبان کے جتنے معروف اسالیب ہیں اور کلام کو سادہ طور پرسمجھنے کے لیے ہر جگہ ہم جس طریقے کی پیروی کرتے ہیں، اس کے لحاظ سے کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ یہ کوئی تمثیل بیان ہو رہی ہے۔ قرآن نے اس کو کسی ایک جگہ بیان نہیں کیا۔ مختلف مقامات پر بیان کیا ہے اور تفصیلات کی کمی بیشی اور فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ کہیں یہ تاثر کلام کے اندر نہیں ملتاکہ اس کو ایک حقیقی واقعے کے بیان کے بجائے اس اسلوب کی مثال فرض کیا جائے جسے ادب کی زبان میں allegorical styleکہتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کوئی علاماتی مواد مستعار لیں اور اس کی مدد سے کسی معنوی حقیقت کی یا کسی ذہنی تصور کی تفہیم کرنا چاہیں۔ یہاں کلام کے اندر اس کے کوئی قرائن نہیں پائے جاتے۔ 
تو جس اصول کی طرف ہم توجہ دلا رہے ہیں، اس کا لفظ کی حد تک بھی اطلاق ہوگا اور ایک پورے واقعے پر بھی اس کا انطباق ہوگا کہ جب تک ہمیں قوی قرائن اور دلائل نہ ملیں جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ یہاں تمثیل کا اسلوب ہے اور استعارے اور مجاز کا اسلوب ہے، تب تک اس کو کلام کو ظاہر کے لحاظ سے اس کے حقیقی مفہوم میں ہی رکھنا چاہیے۔
اسی اصول کا انطباق حقیقت کے مقابل، مجاز کے اسلوب کے دائرے میں بھی ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ کچھ دائرے ایسے ہوتے ہیں جہاں قرائن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ متکلم استعارہ کا اسلوب استعمال کر رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی اچھی مثال ہے جہاں قرآن نے صفات باری تعالیٰ کا اور اس کے مختلف افعال کا ذکر کیا ہے۔ یہ بات قرآن مجید سے بطور اصول واضح ہے، ا س نے بتا دیا ہے کہ خدا کی ذات انسان کے ادراک اور اس کے دائرۂ حواس سے ماورا ہے۔ اس کی ذات تک انسان کا ذہن اور اس کی جو حسی ادراک کی صلاحیت ہے، وہ نہیں پہنچ سکتی اور وہ انسان کے ہر تصور سے ماورا ایک ذات ہے۔ لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْءٌ، اس ذات جیسی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے بار ے میں بھی اور عالم غیب سے تعلق رکھنے والے دوسرے بہت سے امور کے بار ے میں بھی انسان کے سامنے جو باتیں بیان کی جائیں گی، وہ بنیادی طور پر تمثیل اور کسی حد تک تشبیہ کے اصول کو استعمال کرتے ہوئے کی جائیں گی۔ ان سے آدمی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ جیسے اپنی زبان میں ہم ان کا تصو رکر سکتے ہیں، وہ حقیقت میں بھی ایسے ہی ہیں۔ یہ تقریب ذہن کا اصول ہوتا ہے، کیونکہ انسان کے اپنے ذہن میں مشاہدات سے اخذ کردہ جو مواد ہے، اس سے مدد لیے بغیر کسی غیر محسوس یا غیر مشاہد چیز کا تصور کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ تو خداکی ذات ہو یا قیامت کا ذکر ہو یا جنت کا ذکر ہو یا ماورائے مشاہدہ جو عالم ہے، اس کے جو بھی حقائق بیان ہوں گے، وہ اسی اصول پر ہوں گے کہ اس کا ایسے اسلوب میں ذکر کیا جائے جو انسان کے لیے بڑی حد تک قابل فہم ہو اور وہ اس کا کسی نہ کسی درجے میں ایک تصور قائم کر سکے۔ 
اسی اصول پر اللہ تعالیٰ کی ذات کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بات قرآن سے واضح ہے کہ اللہ ایک صاحب ارادہ، صاحب شعور، صاحب اقتدار اور صاحب حکمت ہستی ہے۔ وہ کوئی اندھی بہری force نہیں ہے جو کسی سائنسی طاقت کے طریقے پر کام کرتی ہے۔ وہ باقاعدہ ایک ہستی ہے، لیکن اس ہستی کے تعارف کے لیے، اس کے افعال کے بیان کے لیے قرآن مجید بہت سے الفاظ وکلمات ایسے استعمال کرتا ہے جن میں تشبیہ کا ایک پہلو پایا جاتا ہے۔ مثلاً خدا کے عرش پر مستوی ہونے کا بیان ہے، خدا کے ہاتھ کا ذکر ہے۔ احادیث میں آپ کو اس کی کچھ مزید تفصیلات ملیں گی۔ مثلاً خدا ہر رات عرش سے نیچے اتر کر آسمان دنیا پر آ جاتا ہے۔ قیامت کے دن جب جہنم کا پیٹ بھرنا مقصود ہوگا اور وہ ایندھن سے نہیں بھرے گا تو خدا اپنا پاؤں اس کے اندر رکھے گا اور پھر جہنم کہے گی کہ بس بس، میرا پیٹ بھر گیا۔ تو قرآن نے خدا کی ذات کے بارے میں جو یہ بنیادی بات بیان کر دی ، اس کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ جب اللہ کے ہاتھ کا ذکر ہوگا یا اس کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہوگا تو وہ حقیقت کے لحاظ سے نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ جیسے میں کرسی پر بیٹھا ہوں، ایسے ہی خدا بھی عرش پر بیٹھا ہے۔ اسی لیے سلف نے اس کے لیے یہ اصول بیان کیا کہ یقیناًخدا ان ساری صفات کے ساتھ موصوف ہے، لیکن اس کا بیٹھنا، اس کا اترنا ، چڑھنا، اس کا متوجہ ہونا یہ ویسے ہے جیسے اس کی ذات اور اس کی شان کے لائق ہے۔ اس کو ہم انسانی اٹھنے بیٹھنے اور انسانی اعضاء پر قیاس نہیں کر سکتے۔
اس معاملے میں بھی آپ دیکھیں گے کہ علم کلام میں ایک پورا اسکول آف تھاٹ ہے جس نے اس اصول کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے بعض انتہا پسندانہ کلامی تعبیرات اختیار کر لی ہیں اور اس کا اصرار ہے کہ جیسے یہ باتیں بیان ہوئی ہیں، ان کو ایسے ہی باللفظ ماننا چاہیے۔ ان کا استدلال اس اصول کے غلط انطباق پر مبنی ہے کہ لفظ کا حقیقی معنی مراد ہونا چاہیے۔ اگر خدا کے ہاتھ کا ذکر ہے تو وہ ایسا ہی ہاتھ ہے جیسے میرا ہاتھ ہے۔ یعنی اس انتہا تک بعض کلامی اسکول پہنچ گئے۔ بنیادی غلطی یہ ہے کہ اس اصول کو نہیں سمجھا گیا کہ زبان میں دونوں طرح کے اسالیب موجود ہیں۔ حقیقت کا بھی موجود ہے، استعارے کا بھی موجود ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کون سا محل اور کون سا دائرہ کس قسم کے اسلوب کے لیے موزوں ہے۔ عالم غیب سے متعلق امور کو بیان کرنے کے لیے قرآن مجید نے ہماری اس طرف راہ نمائی کی ہے کہ جب یہ چیزیں انسان کے سامنے بیان کی جاتی ہیں تو وہ حقیقت کے اسلوب میں نہیں ہوتیں۔ ان میں مجاز اور استعارے کا اسلوب ہوتا ہے او رمقصود یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے تصورات کی حد تک جس حد تک ممکن ہو، ان چیزوں کو اپنے ذہن کی گرفت میں لے آئے اور ایک عمومی سا تصور ان کا قائم کر سکے۔ ایسی چیزوں میں حقیقت کے اسلوب پر اصرار کرنا، یہ اس اصول کو پامال کرنے کا نتیجہ ہوگا۔

سوالات

سوال: خالی الذہن ہونے سے کیا مراد ہے؟ انسان اپنے علمی پس منظر سے جدا ہو کر کیسے کسی نئی چیز کو دیکھ سکتا ہے؟
جواب: خالی الذہن ہونے سے یہ یقیناًمراد نہیں ہے کہ آدمی ایک صاف سلیٹ لے کر آئے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ خالی الذہن ہونے سے مراد یہ ہے کہ آدمی کوئی تعصب لے کر یا یہ ارادہ لے کر نہ آئے کہ مجھے ایک خاص مفہوم کی تلاش کرنی ہے۔ یہ چیز اخلاقی طو رپر قابل اعتراض بن جاتی ہے کہ آپ اپنے خیال کو یا اپنی مراد کو کہیں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کی تائید دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی جب ایک خاص ذہن لے کر آتا ہے کہ اس طرح کی بات مجھے ملنی چاہیے تو پھر اس کو الفاظ میں جہاں بھی تھوڑی سی گنجائش نظر آتی ہے اس بات پر منطبق کرنے کی تو وہ ان ساری باتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ وہاں متکلم کا مدعا کیا ہے، ا س کی منشا کیا ہے، سیاق سباق میں کیا بات چلی رہی ہے، کس محل میں کیا بات ہو رہی ہے، اور بس اگر ایک جملہ اس کے مطلب پر لفظی لحاظ سے منطبق ہو سکتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ مجھے قرآن کی نص مل گئی۔ جو بات میں سوچ رہا تھا، قرآن نے بھی اس کی تائید کر دی۔ تو خالی الذہن سے مراد یہ ہے کہ ایسا رویہ نہ ہو۔ باقی آدمی کا اپنا جو ایک علمی وفکری پس منظر ہے، اس سے آدمی یقیناًپوری طرح اوپر اٹھ نہیں سکتا۔ اس کے لیے آدمی کو بعض دفعہ ایک سفر بھی کرنا پڑتا ہے، ایک ریاضت بھی کرنی پڑتی ہے۔ جو چیز اخلاقی طو رپر قابل اعتراض ہے، وہ یہی ہے کہ آپ پہلے سے ایک خاص مراد، ایک منشا طے کر کے آئیں کہ اس طرح کی چیزیں مجھے تلاش کرنی ہیں۔
سوال: ہم کس طرح طے کریں گے کہ یہ حقیقت ہے یا استعارہ ہے؟
جواب: اس کے اصول تو زبان میں کم وبیش طے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی قرآن کے ساتھ خاص نہیں یا دینیات کا کوئی علم نہیں۔ زبان کیا ہے، اس کے معانی ومطالب کیسے طے کرنے ہیں، اس کا انسان کو ایک فطری علم دیا گیا ہے، اس کی روشنی میں یہ باتیں طے ہوتی ہیں۔ قرآن کے لیے کوئی الگ اصول نہیں ہے۔ یہ جانے پہچانے اصول ہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں ان کی پابندی کی جاتی ہے۔ انطباق میں بعض جگہ یقیناًفرق ہو جائے گا، لیکن بنیادی جو اصول ہیں، وہ ہر زبان میں معلوم ومعروف ہیں اور ان کی پیروی کی جاتی ہے۔
سوال: فرشتے، ملائکہ اور شیاطین، جب ہم نے ان کو دیکھا نہیں تو ان کے وجود کو کس طرح مان سکتے ہیں؟
جواب: ان کے وجود کو ماننا اس لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا ماخذ جس کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ سچی بات ہمیں بتاتا ہے، اس نے ہمیں اطلاع دی ہے۔ اگر قرآن یا حدیث نے ہمیں ان کے متعلق نہ بتایا ہوتا تو ان کی حیثیت بھی ان بے شمار مخلوقات کی طرح ہوتی جو ہمارے علم میں نہیں اور جن کو جاننا یا ماننا ہمارے لیے کوئی اہمیت بھی نہیں رکھتا۔ یقیناًاور بھی بہت سی مخلوقات ہوں گی، لیکن ان کے بارے میں قرآن میں ذکر آ گیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ان کا انسانی زندگی کے ساتھ اور انسانی معاملات کے ساتھ کیا رشتہ ہے۔ توقرآن کے یا پیغمبر کے بیان کی بنیاد پر ہم ان کو مانتے ہیں۔ یہ ہمارا قرآن اور رسول اللہ پر ایمان کا ایک تقاضا بن جاتا ہے۔
سوال: قرآن کے سمجھنے کے اصول کون وضع کرے گا؟
جواب: وہی لوگ جو قرآن کا علم رکھتے ہیں، قرآن پر غور کرتے ہیں۔ جیسے دنیا بھر میں ہر علم سے متعلق، ا س کے علمی مباحث اور اصول وہی لوگ وضع کرتے ہیں جو اس پر کام کرتے ہیں، اس پر غور وفکر کرتے ہیں، اس کی اہلیت پیدا کرتے ہیں، اسی طرح قرآن کے معاملے میں بھی کریں گے۔
سوال: قصہ آدم حقیقی اسلوب میں بیان ہوا ہے اور جنت اور دوزخ کا تذکرہ تمثیلی اسلوب میں ہوا ہے، یہ تفریق کس بنیادی اصول سے ہوگی؟
جواب: بنیادی اصول تو میں نے عرض کیا کہ جنت اور دوزخ کا تعلق اس عالم سے ہے جو ہمارے لیے قابل مشاہدہ نہیں اور اس عالم سے ملتی جلتی کوئی چیز جو حقیقت کے لحاظ سے اس کے مماثل ہو، وہ ہماری اس دنیا میں موجود نہیں۔ اس لیے اس کے بار ے ہمیں یہی تصور کرنا ہوگا۔ قرآن جگہ جگہ اس کی نشان دہی کرتا ہے۔ قرآن اپنی تصریحات سے بھی اور قرائن واسالیب سے بھی اس کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ جنت حقیقت میں کیا ہوگی، اس کے جو پھل ہیں، وہ نعمتیں، وہ سکون، وہ لذت جو انسان کو وہاں حاصل ہوگی، اس کا اس دنیا میں جو سکون، لذت، نعمت، ذائقے ہیں، ان کے ساتھ کوئی حقیقی مماثلت نہیں ہے، لیکن ہمیں دنیا میں ان چیزوں کا جو کچھ ادراک اور احساس حاصل ہے، اس پر قیاس کرتے ہوئے ہم ایک حد تک ان کا تصور کر سکتے ہیں۔ حقیقت میں وہ لطف کیا ہوگا، حقیقت میں وہ نعمت کیا ہوگی، حقیقت میں وہ سکون قلب کیا ہوگا، اور جن نعمتوں کا اور جن باغات کا اور جن دوسری چیزوں کا ہمیں بتایا گیا ہے، ان کا حقیقت میں وہاں کیا رنگ ہوگا؟ یہاں ان کا محض ایک تصور کر سکتے ہیں۔ حقیقت وہاں جا کر معلوم ہوگی، کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایک ایسی دنیا سے متعلق بات ہے جو ہمارے مشاہدے میں بھی نہیں اور جو چیزیں ہمارے مشاہدے میں ہیں، ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو حقیقت کے لحاظ سے اس کی ترجمانی کر سکے۔
آدم کا جو قصہ ہے، وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہم نے آدم کو نہیں دیکھا، لیکن آدم ایک انسان تھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم ماضی کے واقعات بیان کریں۔ ہم نے تو ان کو نہیں دیکھا، لیکن ہم ان کو سمجھ سکتے ہیں، اس لیے کہ ہم انسان آج بھی انسان ہیں۔ انسان کی زندگی کے جو احوال ہیں، وہ وہی ہیں جو ان کے ہیں۔ تو ہم اپنے احوال سے، اپنے مشاہدۂ انسان سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس میں حقیقت کے لحاظ سے کیا ہوا ہوگا۔ آدم بھی ایک انسان تھے۔ ان کو جو واقعات اور احوال پیش آئے، وہ بالکل اسی طرح مادی زندگی کے احوال ہیں جو ہمارے لیے قابل فہم بھی ہیں اور قابل ادراک بھی ہیں۔ تو اس کو ایک تمثیل قرار دینے کی یا ایک استعاراتی اور مجازی اسلوب میں بیان کردہ واقعہ فرض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۴) مِلَّۃَ إِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفاً کا ترجمہ

قرآن مجید میں حنیفا کا لفظ دس بار آیا ہے، اس کے علاوہ حنیف کی جمع حنفاء کا بھی دو مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ پانچ مقامات پر مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً آیا ہے، ان پانچوں مقامات پر ترجمہ کرتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ حنیفا اگر نحوی ترکیب کے لحاظ سے حال ہے تو اس کا ذوالحال کیا ہے، یعنی وہ کس کا حال ہے؟، کیونکہ اس کی وجہ سے ترجمہ مختلف ہوسکتا ہے۔ ہم پہلے ان مقامات کے مختلف ترجمے پیش کریں گے، اور اس کے بعد ان ترجموں کے متعلق اپنا جائزہ پیش کریں گے۔

(۱) وَقَالُواْ کُونُواْ ہُوداً أَوْ نَصَارَی تَہْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّۃَ إِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (البقرۃ: ۱۳۵)

’’یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہ راست پاؤ گے عیسائی کہتے ہیں: عیسائی ہو، تو ہدایت ملے گی اِن سے کہو: ’’نہیں، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیمؑ کا طریقہ اور ابراہیمؑ مشرکو ں میں سے نہ تھا‘‘۔ (سید مودودی)
’’یہ (یہودی و نصرانی ) لوگ کہتے ہیں کہ تم لوگ یہودی ہوجاؤ یا نصرانی ہوجاؤ تم بھی راہ پر پڑ جاؤ گے، آپ کہہ دیجئے کہ ہم تو ملت ابراہیمی (یعنی اسلام) پر رہیں گے جس میں کجی کا نام نہیں اور ابراہیم علیہ السلام مشرک بھی نہ تھے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’اور کتابی بولے یہودی یا نصرانی ہوجاؤ راہ پاؤگے تم فرماؤ بلکہ ہم تو ابراہیمؑ کا دین لیتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرکوں سے نہ تھے 150 (احمد رضا خان)
اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودی یا عیسائی ہو جاؤ تو سیدھے رستے پر لگ جاؤ۔ (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو، (نہیں) بلکہ (ہم) دین ابراہیم (اختیار کیے ہوئے ہیں) جو ایک خدا کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔ تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں، اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے‘‘(جوناگڑھی)

(۲) قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُواْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ (آل عمران: ۹۵)

’’کہو، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے، تم کو یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے، اور ابراہیمؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا‘‘(سید مودودی)
’’آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے سچ کہہ دیا سو تم ملت ابراہیم کا اتباع کرو جس میں ذرا کجی نہیں اور وہ مشرک نہ تھے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’کہہ دو کہ خدا نے سچ فرمادیا پس دین ابراہیم کی پیروی کرو جو سب سے بے تعلق ہو کر ایک (خدا) کے ہو رہے تھے اور مشرکوں سے نہ تھے‘‘ (فتح محمد جالندھری)

(۳) وَمَنْ أَحْسَنُ دِیْناً مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْہَہُ للہ وَہُوَ مُحْسِنٌ واتَّبَعَ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَاتَّخَذَ اللّٰہُ إِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلاً۔ (النساء : ۱۲۵)

’’اُس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کی، اُس ابراہیمؑ کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا‘‘(سید مودودی)
’’اور اس شخص سے زیادہ اچھا کس کا دین ہوگا جو کہ اپنا رخ اللہ کی طرف جھکادے اور وہ مخلص بھی ہو۔ اور وہ ملت ابراہیم کا اتباع کرے جس میں کجی کا نام نہیں، اور اللہ تعالی نے ابراہیم کو اپنا خاص دوست بنایا تھا‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’باعتبار دین کے اس سے اچھا کون ہے؟ جو اپنے کو اللہ کے تابع کر دے اور ہو بھی نیکو کار، ساتھ ہی یکسوئی والے ابراہیم کے دین کی پیروی کر رہا ہو اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست بنا لیا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)

(۴) قُلْ إِنَّنِیْ ہَدَانِیْ رَبِّیْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْناً قِیَماً مِّلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (الانعام: ۱۶۱)

’’اے محمدؐ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیمؑ کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘ (سید مودودی)
’’آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا رستہ بتلادیا ہے کہ وہ ایک دین ہے مستحکم طریقہ ہے ابراہیم کا جس میں ذرا کجی نہیں اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے‘‘(اشرف علی تھانوی)

(۵) ثُمَّ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ (النحل: ۱۲۳)

’’پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یک سو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘(سید مودودی)
’’پھر ہم نے تمہیں وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی کرو جو ہر باطل سے الگ تھا اور مشرک نہ تھا‘‘(احمد رضا خان)
’’پھر ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم کے طریقہ پر جو کہ بالکل ایک طرف کے ہورہے تھے چلئے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے‘‘(اشرف علی تھانوی)

(۶) مَا کَانَ إِبْرَاہِیْمُ یَہُودِیّاً وَلاَ نَصْرَانِیّاً وَلَکِن کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ (آل عمران: ۶۷)

’’ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی، بلکہ وہ ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘(سید مودودی)

(۷) إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ (الانعام: ۷۹)

’’میں نے تویکسو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘(سید مودودی)

(۸) وَأَنْ أَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً وَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (یونس: ۱۰۵)

’’اور مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ تو یکسو ہو کر اپنے آپ کو ٹھیک ٹھیک اِس دین پر قائم کر دے، اور ہرگز ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو‘‘(سید مودودی)
’’اور یہ کہ اپنے آپ کو اس دین (مذکور توحید خالص) کی طرف اس طرح متوجہ رکھنا کہ اور سب طریقوں سے علیحدہ ہوجاؤ‘‘(اشرف علی تھانوی)

(۹) إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتاً لِلّٰہِ حَنِیْفاً وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ (النحل: ۱۲۰)

’’واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو وہ کبھی مشرک نہ تھا‘‘(سید مودودی)

(۱۰) فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً ۔ (الروم: ۳۰)

’’پس (اے نبیؐ، اور نبیؐ کے پیروؤں) یک سو ہو کر اپنا رُخ اِس دین کی سمت میں جما دو‘‘(سید مودودی)
’’سو تم یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف رکھو‘‘(اشرف علی تھانوی)

(۱۱) وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاءَ۔ (البینۃ:۵)

’’اور اُن کو اِس کے سوا کوئی علم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر‘‘(سید مودودی)
مذکورہ بالا آیتوں اور ان کے مختلف ترجموں کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں اور خاص طور سے جب ہم مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً کے ترجموں پر غور کرتے ہیں، تو صورت حال کچھ اس طرح سامنے آتی ہے۔
عام طور سے مترجمین نے حنیفا کو ابراھیم سے حال مان کر ترجمہ کیا ہے، ’’ابراہیم جو یکسو تھا‘‘۔بہت کم اردو مترجمین نے کوئی دوسری راہ اختیار کی ہے۔ عام ترجمے سے ہٹ کر ترجمہ کرنے والے دو نام خاص طور سے سامنے آتے ہیں:
مولانا تھانوی نے حنیفا کو ملۃ کا حال بنایا ہے، ’’ابراہیم کا طریقہ جس میں کوئی کجی نہیں ہے‘‘۔
مولانا مودودی نے مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً کا ترجمہ کرتے ہوئے حنیفا کو نہ ملۃ کا حال بنایا ہے، اور نہ ابراھیم کا حال بنایا ہے، بلکہ اس سے پہلے مذکور ضمیر کا حال بناکر ترجمہ کیا ہے ’’یکسو ہو کر پیروی کرو ابراہیم کے طریقے کی‘‘۔
اس طرح گویا تین طرح کے مفہوم سامنے آتے ہیں، ابراہیم حنیف تھے، ابراہیم کا طریقہ حنیف تھا، اور ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرنے والے کو حنیف ہونا ہے۔ 
تینوں میں سے کون سا ترجمہ زیادہ بہتر ہے، اس پر گفتگو سے پہلے یہ اشارہ بھی مفید ہوگا کہ مولانا تھانوی نے مذکورہ پانچوں مقامات میں سے سورہ نحل والی آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے عام مترجمین کی راہ اختیار کرلی۔ جبکہ مولانا مودودی نے پانچوں مقامات میں سے سورہ انعام والی آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے عام مترجمین والا ترجمہ کردیا۔
مولانا تھانوی کے مطابق مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً میں حنیفا کو ملۃ کا حال بنانے سے ایک اشکال تو یہ سامنے آتا ہے کہ قرآن مجید میں ابراہیم کو تو صریح طور سے حنیف کہا گیا ہے، إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتاً لِلّٰہِ حَنِیْفاً، اسی طرح کہیں پر ان لوگوں کو بھی صریح طور سے حنفاء کہا گیا ہے جنہیں دین پر چلنے کی ہدایت دی گئی، وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاءَ، لیکن کہیں دین کے لیے یا ابراہیم کے طریقے کے لیے صریح طور سے حنیف کی صفت کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ ایسی صورت میں قرآن کی تفسیر قرآن سے کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں احتمال پایا جاتا ہو وہاں اس صورت کو اختیار کیا جائے جس کی صریح اور قطعی نظیر قرآن مجید میں موجود ہو، یعنی زیر نظر مقامات پر حنیف کو ملۃ کے بجائے ابراہیم کی صفت قرار دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملۃ مونث ہے اور حنیفا مذکر ہے، اس لیے ملۃ اور ابراہیم یعنی مذکر اور مونث جب دونوں موجود ہوں، اور دونوں میں ذو الحال بننے کا احتمال پایا جاتا ہو وہاں پہلے درجے میں حنیفا کو مذکر یعنی ابراہیم کا حال بنانا چاہیے۔
مولانا مودودی کے ترجمہ کے مطابق پہلے مذکور ضمیر کو ذوالحال بنانے کی صورت میں ایک اشکال یہ سامنے آتا ہے کہ سورہ آل عمران والی آیت میں فاتبعوا آیا ہے، یعنی اس فعل میں فاعل ضمیر واحد نہیں بلکہ ضمیر جمع ہے، ایسی صورت میں اگر وہ ضمیر ذوالحال ہوتی تو حنیفا کی جگہ حنفاء ہوتا جیسا کہ قرآن مجید میں دوسرے دو مقامات پر جمع ذوالحال کے لیے حنفاء آیا ہے۔غالبا مولانا مودودی کا ذہن اس طرف نہیں جاسکا اور انہوں نے غلطی سے اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے فاتبعوا میں موجود جمع کی ضمیر کو حنیفا کا ذوالحال بنادیا۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ جمہور مترجمین نے حنیفا کو ابراھیم کا حال مانا ہے، یہی بات زیادہ مناسب ہے ، اس رائے کے حق میں قرآنی استعمالات کی ایک زبردست دلیل حنیفا کے بعد وما کان من المشرکین والا جملہ ہے، وہ اس طرح کہ اوپر مذکور دوسری جن آیتوں میں ابراہیم کا ذکر نہیں ہے اور حنیفا کا لفظ آیا ہے، وہاں حنیفا کے ذو الحال کی رعایت سے حنیفا کے بعد والا جملہ آیا ہے، جیسے ولا تکونن من المشرکین اور وما أنا من المشرکین۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں وما کان من المشرکین آیا ہے، وہاں حنیفا کا ذو الحال وہی ہے جس کی ضمیر وما کان کا اسم ہے، یعنی ابراہیم۔ غرض حنیفا کے بعد والے جملے میں جس کا ذکر ہے، اسی کو حنیفا کا ذوالحال ہونا چاہیے۔
مذکورہ بالا سورہ روم والی آیت میں زمخشری کا خیال ہے کہ حنیفا کو الدین کا حال بنایا جاسکتا ہے، لیکن اس کی تردید سورہ بینہ والی آیت سے ہوتی ہے جہاں حنفاء آیا ہے جو یقینی طور پر الدین کا حال نہیں ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ مولانا تھانوی جو دوسرے مقامات پر حنیفا کو ملۃ کا حال بناتے ہیں، وہ بھی سورہ روم والی آیت میں حنیفا کو الدین کا حال نہیں بناتے، اس سے بھی اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفا والی آیتوں میں حنیفا کو ملۃ کا حال نہیں بلکہ ابراہیم کا حال ہونا چاہیے۔
غرض تمام قرآنی نظائر اور استعمالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جمہور مترجمین نے جو ترجمہ کیا ہے، وہی قرآنی استعمالات کے زیادہ موافق ہے۔ 
(جاری)

مشرق وسطیٰ میں ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کے دور کا آغاز

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مشرق وسطیٰ میں جغرافیائی سرحدوں میں نئی تبدیلیوں کی بات کافی عرصہ سے چل رہی ہے۔ سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کی یادداشتوں میں بھی اس منصوبے کا ذکر موجود ہے جس میں عراق کو تین حصوں میں تقسیم کر دینے کا پروگرام تھا (۱) سنی عراق (۲) شیعہ عراق (۳) کرد عراق۔ اسی طرح شام اور سعودی عرب کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی باتیں مختلف اوقات میں سامنے آتی رہی ہیں۔ عراق اور شام کے مسلح سنی گروپوں سے تشکیل پانے والی ’’داعش‘‘ کے بہت سے منفی کاموں کے ساتھ ایک مثبت پہلو بھی محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے سامنے آنے سے عراق اور شام کی مختلف ملکوں میں تقسیم کے منصوبے میں وقتی رکاوٹ آگئی ہے۔ اگر داعش قتل و قتال اور تکفیر کے خوارج کے ایجنڈے پر نہ چلی جاتی اور ’’دام ہمرنگ زمین‘‘ طرز کی بین الاقوامی سازشوں کے جال میں نہ پھنستی تو اس کا یہ مثبت پہلو زیادہ نمایاں ہوتا اور صورتحال یہ نہ ہوتی جو اب نظر آرہی ہے۔ مگر تقدیر کے فیصلوں کے سامنے کس کا بس چلتا ہے؟
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس نئی منصوبہ بندی کا ہوم ورک کسی حد تک مکمل ہو چکا ہے کہ ٹرمپ صاحب اسے لے کر آگے چل پڑے ہیں اور انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ جبکہ جرمن وزیر خارجہ کے بقول اب سے شروع ہونے والا دور ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کا دور ہوگا جس کی شروعات ’’اسلامی سربراہ کانفرنس‘‘ سے ہوئی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے نہ صرف اس سے سرپرستانہ خطاب کیا ہے بلکہ جاتے ہوئے سعودی عرب اور قطر کے غیر متوقع تنازعہ کا تحفہ بھی دے گئے ہیں۔ ان کے رخصت ہوتے ہی سعودی عرب سمیت چھ عرب ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور ٹرمپ صاحب نے اس تنازعہ کو حل کرانے کے لیے ’’ثالثی‘‘ کی پیشکش بھی فرما دی ہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے درمیان اس تنازعہ کی بنیاد کیا ہے؟ اس کے بارے میں مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں۔ ایک عرب تبصرہ نگار ڈاکٹر ہدی نجات کا کہنا ہے کہ اصل بات لین دین کی ہے کہ صدر ٹرمپ نے سعودی عرب سے پانچ سو ملین ڈالر کی جو رقم ہتھیاروں کی فروخت کے حوالہ سے وصول کی ہے اس میں اصل تقاضہ پندرہ سو ملین ڈالر کا تھا مگر ادائیگی پانچ سو ملین ڈالر کی ہوئی ہے جو مبینہ سمجھوتے کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر تینوں کو ادا کرنا تھی۔ ڈاکٹر نجات کے بقول اس میں قطر نے اپنے حصہ کی رقم ادا نہیں کی جو تنازعہ کی وجہ بنی ہے۔ اور ان کے مضمون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اب قطر اور امریکہ کے درمیان اندرون خانہ گفتگو چل رہی ہے جس سے یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ قطر قسطوں میں یہ رقم ادا کرے گا۔
ممکن ہے تنازعہ کی اصل وجہ یہی ہو مگر تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میرے ذہن میں یہ بات کھٹک رہی ہے کہ ایک صدی قبل مشرق وسطیٰ میں اس وقت کی بڑی عالمی قوت برطانیہ نے مختلف خطوں میں بعض خاندانوں کے نسل در نسل حق اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے جو الگ الگ معاہدات کیے تھے، شاید قطر اس معاہدہ کی حدود کی پابندی نہیں کر رہا جس کی تھوڑی سی جھلک قطری وزیر خارجہ کے ایک حالیہ بیان میں دکھائی دیتی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں خودمختاری کی سزا دی جا رہی ہے۔
ویسے یہ ریسرچ کا ایک مستقل اور دلچسپ موضوع ہے کہ گزشتہ صدی کے آغاز میں مشرق وسطیٰ کے بعض خطوں میں چند خاندانوں کا نسل در نسل اقتدار کا حق تسلیم کرتے ہوئے برطانیہ عظمیٰ نے ان سے مختلف معاہدات کیے تھے جن کی پاسداری اب برطانیہ کی جگہ امریکہ نے سنبھال رکھی ہے، وہ سب کے سب معاہدات تاریخ کے میسر ریکارڈ میں موجود ہیں، کوئی صاحبِ ذوق ان معاہدات اور اب تک ان پر عملدرآمد کو تحقیق کا موضع بنا سکیں تو یہ امت کی ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔
البتہ سعودی وزیرخارجہ جناب عادل الجبیر نے ایک بیان میں اس کی جو وجہ ظاہر فرمائی ہے وہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ قطر کو اخوان المسلمون اور حماس کے ساتھ تعاون پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ حالانکہ اخوان المسلمون عرب دنیا کی ایک اسلام پسند تنظیم ہے جو معاشرے میں اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کے لیے ایک عرصہ سے محنت کر رہی ہے، اس نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھائے بلکہ پر امن عوامی جدوجہد کو ہی اپنا طریقِ کار بنایا ہے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ رائے عامہ اور ووٹ کے ذریعے اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے باوجود اس کے راہنما جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔ ان کی بعض آراء اور طریق کار کے بعض پہلوؤوں سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن ان سے اس درجہ کا اختلاف کہ معاملہ ان کے خلاف محاذ آرائی تک جا پہنچے اور اس کی بنیاد پر مقاطعہ کی نوبت آجائے، نہ شرعاً درست ہے اور نہ ہی حکمت و تدبر کا تقاضہ ہے۔ جبکہ حماس تو آزادی فلسطین کے لیے جدوجہد کرنے والوں اور مسلسل قربانیاں دینے والوں کی تنظیم ہے، انہیں دہشت گردوں کے زمرے میں شمار کرنا خود آزادی فلسطین کے موقف کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
داعش کی حد تک تو یہ طرز عمل ٹھیک تھا جو اختیار کیا گیا ہے اس لیے کہ انہوں نے بلاجواز ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور قتل و قتال او رتکفیر کے فتنہ کی آبیاری کر رہے ہیں لیکن رائے عامہ اور ووٹ کے ذریعہ جدوجہد کرنے والی اخوان المسلمون کو ان کے ساتھ شمار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر ہتھیار اٹھا کر جدوجہد کرنے والے بھی غلط ہیں اور عدم تشدد کے اصول پر چلتے ہوئے پر امن جدوجہد کرنے والے بھی غلط ہیں تو پھر نفاذِ اسلام کی محنت اور نظامِ کفر کے خاتمہ کے لیے محنت کا کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے؟ یوں لگتا ہے کہ سعودی عرب کی اسلامی مرکزیت کو نفاذِ اسلام کی پر امن جدوجہد کا راستہ روکنے کے لیے آڑ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سعودی حکومت حرمین شریفین کی خدمت کے حوالے سے دنیائے اسلام میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے لیکن اخوان المسلمون اور حماس کے بارے میں اس کی نئی پوزیشن ناقابل فہم ہے، اس معاملہ میں سعودی حکومت کو اپنے طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی ورنہ ملت اسلامیہ خصوصاً عالم عرب میں ایک نئے خلفشار کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا۔

انقلابِ ایران کی متنازعہ ترجیحات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایران کے معروف اپوزیشن گروپ ’’قومی مزاحمتی کونسل‘‘ کی چیئرپرسن مریم رجاوی نے گزشتہ دنوں سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والی اسلامی امریکی سربراہی کانفرنس کے فیصلوں کا خیرمقدم کیا ہے۔ لاہور کے ایک روزنامہ میں 6 جون 2017ء کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق مریم رجاوی نے پیرس میں اپنی پارٹی کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں جنگوں اور دہشت گردی کا ماخذ ایران کو قرار دینے کا اعلان حقیقت ہے اور ایران میں ولایت فقیہ پر مبنی سیاسی نظام ہی خطے میں بد امنی اور دیگر تمام مسائل کی جڑ ہے۔
مریم رجاوی کا تعلق مسعود رجاوی کے خاندان سے بتایا جاتا ہے جو شاہ ایران کے دور میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت ’’تودہ پارٹی‘‘ کے لیڈر تھے اور شاہِ ایران کے خلاف انقلاب کی جدوجہد کا حصہ تھے۔ بادشاہت کے خلاف انقلاب کی عوامی جدوجہد میں ایران کے مذہبی راہنماؤں کے ساتھ کمیونسٹ اور نیشنلسٹ عناصر بھی شریک تھے مگر کامیابی کے بعد مذہبی راہنماؤں کی قوت کار، نظم و ضبط ، منصوبہ بندی اور بے پناہ عوامی حمایت کے باعث باقی عناصر بتدریج پیچھے ہٹتے چلے گئے اور مذہبی قیادت نے انقلاب کا تمام تر نظم نہ صرف اپنے ہاتھ میں لے لیا بلکہ وہ اب تک اسے کامیابی کے ساتھ چلا بھی رہے ہیں جو ان کے نظریات اور پالیسیوں سے اختلاف کے باوجود بہرحال ان کا کریڈٹ بنتا ہے۔ ہمارے ہاں دراصل معاملات کو صرف ایک رخ سے دیکھنے کا مزاج اس قدر پختہ ہوگیا ہے کہ اس سے مختلف زاویہ سے صورتحال کا جائزہ لینا ’’شجرِ ممنوعہ‘‘ کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے، ورنہ عقائد و نظریات سے ہٹ کر عوامی انقلاب لانے، اسے کنٹرول کرنے اور کامیابی و تسلسل کے ساتھ اسے جاری رکھنے میں ایرانی مذہبی قیادت کی اب تک کی حکمت عملی اور طریق کار کی اسٹڈی کی ضرورت ہے۔ مگر ہم محض جذباتی نعروں اور مطالبوں والی قوم ہیں اور اس سے زیادہ کوئی ذمہ داری لینے کے لیے ہم تیار نہیں ہوتے۔
مریم رجاوی اور ان کی قومی مزاحمت کونسل کا ایجنڈا کیا ہے اور ان کے حالیہ نظریات و افکار کا دائرہ کیا ہے، ہم سرِدست نہ اس سے پوری طرح آگاہ ہیں اور نہ ہی ان سے دلچسپی کا کوئی فوری داعیہ ہمارے سامنے ہے۔ البتہ انہوں نے مشرقِ وسطٰی کی تازہ صورتحال کے بارے میں اسلامی امریکی کانفرنس کے فیصلوں کی حمایت کرتے ہوئے جو مذکورہ بالا دو جملے کہے ہیں ان کے بار ے میں ہم کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔
ایک یہ کہ ان کے نزدیک ایران میں ولایت فقیہ پر مبنی سیاسی نظام خطے میں بد امنی اور دیگر تمام مسائل کی جڑ ہے اور دوسرا ان کے خیال میں ایران کو خطے میں موجودہ جنگوں اور دہشت گردوں کا ماخذ قرار دینا درست ہے۔ مریم رجاوی اگرچہ پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں اور اپنے خاندانی ماضی کے باعث بائیں بازو کے خیالات کی حامل سمجھی جاتی ہیں لیکن بہرحال وہ ایرانی ہیں، سیاسی راہنما ہیں اور ایرانی قوم کے ایک حصے کی نمائندگی کرتی ہیں اس لیے ان کی اس بات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کا جائزہ لینا معاملات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
’’ولایت فقیہ پر مبنی سیاسی نظام‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ایرانی دستور میں اثنا عشری شیعہ مذہب کے عقائد کو دستور و قانون کی بنیاد بنایا گیا ہے جس کے مطابق بارہ اماموں میں سے آخری بزرگ جو ’’امام غائب‘‘ اور ’’ولی عصر‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جاتے ہیں، چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں اس لیے حاکمیت اعلیٰ کا حق وہی رکھتے ہیں اور ایرانی دستور میں انہی کی حاکمیت کو عملاً نافذ کرنے کا نظم وضع کیا گیا ہے۔ امام غائب کے ظاہر ہونے تک کا زمانہ ’’غیبوبت‘‘ کا زمان کہلاتا ہے اور اس دوران ان تک براہ راست رسائی بھی میسر نہیں ہے، اس لیے ان کی نیابت کے لیے اپنے وقت کے سب سے بڑے اور ممتاز فقیہ کو ان کا قائم مقام چنا جاتا ہے جس کے لیے ایرانی دستور میں باقاعدہ طریق کار اور شرائط طے ہیں۔ اس دستوری طریق کار کے مطابق جو صاحب اس منصب کے لیے چن لیے جاتے ہیں انہیں ’’ولایت فقیہ‘‘ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے او روہ امام غائب کے نمائندہ کے طور پر ان کے اختیارات استعمال کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہیں حکومت، صدر، پارلیمنٹ اور عدالتِ عظمٰی سمیت کسی بھی ادارے کے کسی بھی فیصلے کو ’’ویٹو‘‘ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے اور ان کے کسی فیصلے کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ وقت میں یہ حیثیت جناب آیت اللہ خامنہ ای کو حاصل ہے۔
’’ولایت فقیہ‘‘ کا یہ شخصی اختیار ’’پاپائے روم‘‘ کے ان اختیارات کے مشابہ لگتا ہے جو انہیں یورپ کے بادشاہی دور میں حکومتوں کے مذہبی سرپرست کے طور پر حاصل تھا اور شاید مریم رجاوی بھی ولایت فقیہ کے اسی پہلو پر تنقید کر رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مجھ سے ایک مجلس میں کسی دوست نے سوال کیا کہ سعودی عرب کا نظام شخصی بادشاہت پر قائم ہے، کیا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں بادشاہت کی کسی بھی شکل کو اسلامی نہیں سمجھتا اور نہ اس کی حمایت کرتا ہوں لیکن مجھے شخصی اختیارات کے حوالہ سے بادشاہت او رولایت فقیہ میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا کہ عملی نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے۔
جہاں تک خطے میں جنگوں اور دہشت گردی کے فروغ میں ایران کے مبینہ کردار کی بات ہے اس کا بھی گہری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور ہمارے خیال میں سب سے زیادہ یہ ضرورت خود ایران کی ہے کہ وہ انقلابِ ایران کے بعد سے اب تک کی صورتحال کا ازسرِنو جائزہ لے اور دیکھے کہ موجودہ حالات کے پس منظر میں اس کی پالیسیاں اور طرزِ عمل کہاں کہاں اور کس کس انداز میں جھلک رہا ہے۔ ہم اس سے قبل یہ بات متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ اگر انقلابِ ایران کو مذہب دشمنی اور سیکولرازم کے عالمی تسلط کے اس دور میں ایک کامیاب مذہبی انقلاب کے دائرے میں محدود رکھا جاتا اور اسے ایک مسلکی انقلاب کے طور پر اردگرد کے دیگر ممالک میں برآمد کرنے کی پالیسی اختیار نہ کی جاتی تو آج صورتحال یقیناً بہت مختلف ہوتی۔
ایک کامیاب مذہبی انقلاب کے طور پر ہم بھی انقلابِ ایران کا خیرمقدم کرنے والوں میں شامل تھے اور ہم نے یہ توقع وابستہ کر لی تھی کہ ایران کا کامیاب اور بھرپور مذہبی انقلاب عالم اسلام کی ان مذہبی قوتوں اور تحریکوں کا معاون بنے گا جو اپنے اپنے ممالک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے محنت کر رہی ہیں۔ لیکن یہ توقع غلط ثابت ہوئی حتیٰ کہ خود ہمارے ہاں پاکستان میں اسلامی تحریکوں کو سپورٹ کرنے کی بجائے ’’فقہ جعفریہ‘‘ کے نفاذ کی تحریک کے عنوان سے پریشان کن مسائل کھڑے کر دیے گئے۔ جبکہ دیگر مسلم ممالک بالخصوص مشرقِ وسطٰی میں بھی مسلکی ہم نواؤں کو منظم و متحرک بلکہ مسلح اور مورچہ بند کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی جیسا کہ عراق، شام، کویت، سعودی عرب، لبنان اور یمن وغیرہ کی صورتحال سے واضح ہے۔ یہاں تک کہ اردن کے فرمانروا شاہ عبد اللہ کو ایک موقع پر یہ کہنا پڑا کہ ’’ہم اس خطے کے سنی شیعہ ہلال کے حصار میں ہیں‘‘۔ جبکہ اس حصار کو آج سعودی عرب کے گرد کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایران عراق جنگ سے لے کر یمن اور شام کے موجودہ بحران تک حالات و واقعات کا جو تسلسل ہمارے کربناک ملی المیوں کی نشاندہی کر رہا ہے اس میں یقیناً عالمی استعمار کا کردار سب سے زیادہ شرمناک او رخوفناک ہے لیکن اس سے ہم اس کے علاوہ اور کیا توقع کر سکتے ہیں؟ ہم خطے میں سنی و شیعہ کے باہمی تصادم کے حق میں نہیں ہیں بلکہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اس حوالہ سے اب تک جو ہو چکا ہے اسے کسی طرح ’’ریورس گیئر‘‘ لگے کیونکہ اس کا فائدہ اسرائیل اور اس کے سرپرست عالمی استعمار کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ لیکن ایرانی راہنما مریم رجاوی کی طرح ہمارے خیال میں بھی ماضی اور مستقبل دونوں حوالوں سے اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری ایران پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کا کوئی راستہ ضرور نکالے ورنہ خطرہ ہے کہ خطہ کے امن کے ساتھ ایران کا مذہبی انقلاب بھی اس انتشار کی زد میں آئے گا۔

تقسیم مسلسل سے گزرتی پاکستانی قوم

محمد حسین

برصغیر کی گزشتہ چند دہائیوں کو دیکھ لیا جائے تو تقسیم کا عمل ہمیں قدم قدم پر پہلے سے زیادہ پرتشدد اور پرتعصب نظر آتا ہے۔ مسلم سلطنتوں کی داخلی خلفشار اور کمزوریوں کے باعث ایسٹ انڈیا کمپنی سے شکست ہوئی جس کے خاتمے اور برطانوی نوآبادیاتی نظام کے زمام حکومت سنبھالنے کے بعد تقسیم کا عمل پھر سے شروع ہوا۔ پہلے ہندوستانی و برطانوی بنے، اور ہندو مسلم مل کر برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جدو جہد کی۔ پھر ہندوستانی بلاک ہندو مسلم میں تقسیم ہو گیا۔ مسلمان بھی دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک متحدہ ہندوستان کے حق میں تھا اور دوسرا مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے حق میں۔ مسلمانوں کے دوسرے طبقے نے ہندو اکثریتی سماج میں بطور اقلیت مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور اپنی آزادی و خودمختاری کے لیے تحریک چلائی جس کے نتیجے میں ہندوستان کو چھوڑ کر جانے والے برطانوی سامراج نے اس خطے کو آبادی کے تناسب سے دو حصوں میں تقسیم کر کے دو الگ آزاد مملکتیں پاکستان اور بھارت بننے کے فارمولے پر اسے اپنی غلامی سے آزاد کر دیا۔
تقسیم ہند کے عمل میں پاکستان اور انڈیا کے مابین تقسیم کے طے شدہ فارمولے پر کشمیر کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا جس کے باعث پاکستان اور انڈیا اپنی تقسیم اور تاریخ انسانی کی سب سے بڑی انسانی مہاجرت کے تکلیف دہ انسانی بحران سے باہر آنے سے پہلے ہی باہمی رقابت پر اتر آئے اور یہ رقابت برسوں کے سفر کو لمحوں میں طے کر جنگ میں بدل گئی۔ اور تقسیم کی دو دہائیاں بھی نہ گزری تھیں کہ آپس میں جنگ چھڑ گئی۔ اب دونوں طرف ایسے جنگی مزاج پر مبنی سماج کی پرورش کا آغاز ہو گیا کہ دونوں ملکوں کے انسانی، قدرتی اور قومی وسائل کا رخ انہی جنگوں کی طرف مڑ گیا اور یہیں اٹک گیا جو ہنوز پھنسا ہوا ہے۔ نہ کشمیر کا فیصلہ ہوتا ہے اور نہ جنگی مزاج کا کوئی خاتمہ بالخیر۔ شاید اسی مزاج کا نتیجہ تھا کہ تقسیم ہندوستان کی تیسری دہائی کی ابتداء میں دوسری جنگ چھڑی۔ اس جنگ کی کوکھ سے ایک الگ آزاد مملکت بنگلہ دیش نے جنم لیا جو اس سے پہلے مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔
سابقہ مغربی پاکستان اور سن اکہتر کے بعد کا موجودہ پاکستان چار صوبوں، اسلام آباد کے وفاقی علاقے، فاٹا، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان یعنی مجموعی طور پر آٹھ یونٹوں پر مشتمل ہے۔ بعض یونٹوں کو آئینی اور سیاسی حقوق کے لحاظ سے اور بعض کو معاشی اور انتظامی حقوق اور خودمختاری کے اعتبار سے مختلف طر ح کی شکایتیں ہیں۔ 1973 میں ملک کا پہلا متفقہ جمہوری دستور منظور ہوا جس کے مطابق پاکستان کو دستوری طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان بنایا گیا۔ اگرچہ پاکستان کو ایک وفاق کے تحت متحد کیا گیا مگر اس کے باوجود داخلی تناؤ اور تقسیم مزید گہری ہونے لگی۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دانوں کے مابین اقتدار کی رسی کشی کے علاوہ سماجی سطح پر کراچی میں سندھی مہاجر، بلوچستان میں بلوچ ہزارہ، پشتون ، پنجاب میں پنجابی اور سرائیکی اور پوٹھوہاری، خیبر پختونخوا میں پختون و ہزارہ، گلگت بلتستان میں گلگتی بلتی، شین اور یشکن میں لسانی و نسلی تناؤ کے واقعات وقتا فوقتا سامنے آنے لگے۔ 
مذہبی تقسیم کی لہر چلی تو پہلے مسلم غیر مسلم، پھر مسلمانوں میں شیعہ سنی، پھر سنیوں میں مقلد و غیر مقلد، مقلد بھی دیوبندی و بریلوی، دیوبندی آگے حیاتی مماتی میں تقسیم، پھر معتدل و شدت پسند۔ بریلوی مسلک سواد اعظم ہونے نہ ہونے کی بابت درجن بھر ذیلی تنظیموں میں تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتا گیا۔ اسی طرح شیعوں میں اثنا عشری و اسماعیلی کی تقسیم پختہ ہونے لگی۔ اثناعشری آگے بڑھ کر علماء و ذاکرین کے پیروکاروں میں تقسیم ہو گئے۔ علما کے پیرکاروں کی مزید تقسیم انقلابی وغیر انقلابی میں نظر آنے لگی، جبکہ ذاکرین میں بعض غالی اور بعض مقصر قرار پائے۔۔ ابھی ہر طرف یہ تقسیم مزید جاری ہے۔ ہر طرف پھل پھول رہی ہے۔ 
سیاسی بنیادوں پر دائیں اور بائیں بازو، جو مزید تقسیم ہو کر مذہبی و غیر مذہبی، آگے بڑھ کر مذہبی جماعتوں میں ہر ایک مسلک کا الگ برانڈ سامنے آتا ہے۔ آپ کو ہر مسلک کی کم و بیش تین تین درجن مذہبی سیاسی جماعتیں نظر آئیں گی جن کی اندرونی رقابتیں بہت پیچیدہ ہوتی ہیں۔ ان جماعتوں کے پرسان حال بھی مسلکی خطوط پر زیادہ تر بیرونی ممالک ہیں۔ کچھ سعودی عرب کی آغوش میں بیٹھ کر پاکستان میں رقصاں ہیں تو کچھ تہران کو عالم مشرق کا جنیوا دیکھنے کے لیے بے تاب۔ بعض کو ترکی مسیحا نظر آتا ہے۔کچھ ایسے بھی ہیں جو خلیجی ممالک کے دست شفقت کے بابرکت سایہ تلے رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ غیر مذہبی جماعتیں لبرل اور نظریاتی میں تقسیم ہیں۔ بعض امریکہ کو مثالیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو بعض یورپ کو۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے چین سے امیدیں جوڑ رکھی ہیں، کچھ سہمے ہوئے مزاج کے ساتھ بھارت کی طرف دیکھتے ہیں۔ الغرض کہیں ریاست نے دوستی اور دشمنی کی لکیریں کھینچ کر لوگوں کو انہی پر لگا دیا تو کہیں تہذہبی برتری و سیاسی نفوذ اور کہیں پر خطیر رقم ہی قوت جاذبہ بنی ہوئی ہے۔
سماجی حیثیت کے اعتبار سے ہماری قوم جاگیردار، سردار، سیاسی و عسکری اشرافیہ، سرمایہ دار، بالائی متوسط طبقہ، متوسط متوسطہ طبقہ، زیرین متوسطہ طبقہ، سفید پوش، غریب، افلاس زدہ کے خانوں میں بٹ گئی ہے۔ بد قسمتی سے ریاستی ادارے، مراعات اور وسائل لوگوں کی ضروریات اور استحقاق اور محنت کے حساب سے تقسیم نہیں ہوتے بلکہ قوت بازو کے حساب سے لوٹے جاتے ہیں۔ 
تقسیم کا رخ جب تعلیمی اداروں کی طرف بڑھا تو پہلے برطانوی و ہندوستانی، پھر انگریزی اور اسلامی، پھر انگریزی تقسیم ہو کر پبلک و پرائیوٹ سیکٹر، پھر لوگوں کی سماجی حیثیت کے لحاظ سے اشرافیہ سے لے کر غربت زدہ لوگوں کے لیے پبلک اور پرائیویٹ دونوں سیکٹرز میں الگ الگ تعلیمی نظام بنتا گیا۔مذہبی تعلیم مسالک کی تقسیم کے حساب سے تقسیم در تقسیم ہوتی گئی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہ تقسیم اب پاکستان سے دیگر دنیا میں برآمد بھی ہو رہی ہے۔ پاکستان کا داخلی مذہبی اور سیاسی تناؤ مغربی ، خلیجی اور دیگر ممالک میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ 
رقابت پر مبنی تقسیم کے اس تسلسل کا انکار کرنے والے وہی ہو سکتے ہیں جن کو آرام دہ کرسیوں اور بستروں سے باہر نکل کر دیکھنا نصیب نہیں ہوا، ’’سب کچھ ٹھیک ہے سر‘‘ سے زیادہ سنا نہیں۔ ورنہ گزشتہ سات دہائیوں میں بھوک، افلاس، قتل و غارت اور باہمی انتشار اس سماجی تفریق، سیاسی تناؤ اور مذہبی منافرت کی گواہی کے لیے کافی ہے۔
خطے کی صورت حال اور عالمی طاقتوں کے تزویراتی مفادات کے ٹکراؤ نے تناؤ کو مزید شدید کر دیا۔ چنانچہ سات دہائیوں سے انڈیا کے ساتھ تناؤ، گزشتہ چار دہائیوں میں افغانستان میں یکے بعد دیگرے روس اور امریکہ کی مداخلت کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے حالات اور اس میں پاکستان کا کردار ایسا عنصر ہے جس نے اس مداخلت کے پرتشدد لہر کو پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ اس ریاستی ٹاسک کے لیے پرائیویٹ طبقات میں سے کچھ زیادہ کاریگر ثابت ہوئے تو کچھ کم۔ یوں داخلی تقسیم کو اس ہمسایگی کی تپش نے مزید گرم کر دیا۔ چین کے اقتصادی قوت کے طور پر ابھرنے کے باعث عالمی طاقتوں کے باہمی مفادات کی سرد و گرم جنگ کے لیے پاکستان اہم ترین میدان قرار پایا۔ پھر عالمگیریت کے جدید دور میں سراٹھانے والی عالمی دہشت گردی نے جلتی پر تیل کا کام کر دیا ہے۔ اب یہ مختلف الجہات تناؤ گمراہ (unguided) میزائل کی طرح بن گیا ہے جس کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا کہ کب کس طرف جائے گا اور کہاں جا کر پھٹے یا گرے گا۔ یوں تقسیم پھل پھول کر آگ و خون کے کھیل میں بدل گئی۔ اس خون وآگ اور منافرت کے کھیل کے باعث نہ عبادت گاہ کا تقدس باقی رہا اور نہ ہی درسگاہ کا تحفظ۔ انسان ایسے کٹنے اور جھلسنے لگے جس کا منظر دیکھ کر آنکھوں کی روشنی چلی جائے اور جس کی دردناک چیخیں سن کر کان کے پردے پھٹ جائیں۔
سماجی مسائل تنازعات کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان کے ظاہری اور فوری اسباب کون سے ہیں۔ ظاہری اسباب تیل کے کنوئیں پر چنگاری کی طرح بہت چھوٹے اور محدود ہوتے ہیں۔ لیکن وہی چھوٹی سی چنگاری پورے کنوئیں کو جلا کر راکھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جبکہ خفیہ، دیرپا اور مختلف الجہات اسباب اس تیل کے کنوئیں یا پکتے ہوئے لاوے کی مانند ہوتے ہیں جس کی گہرائی، حجم، پھیلاؤ بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن زمین کے اوپر بظاہر کچھ نظر نہیں آرہا ہوتا۔ اس کی جڑیں اور رگیں دور دور تک اور گہرائی تک پہنچ چکی ہوتی ہیں۔ اس طرح حادثہ یک دم نہیں ہوتا، بلکہ اس کے پس منظر میں مختلف ثقافتی تناؤ، اقتصادی نا انصافیاں، سیاسی اقتدار و اختیار میں عدم مساوات، سماجی تفاوت، معاشی مفادات کا ٹکراؤ، نسلی تعصبات، اخلاقی کمزوریاں، نفسیاتی عوامل وغیرہ جیسے گہرے زخم اور شکایتیں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی ابھرتا ہوا یا سلگتا ہوا تنازع یا مسئلہ اس وقت مثبت نتائج کی طرف بڑھنا شروع ہو جاتا ہے جب مسئلے کی موجودگی کو تسلیم کیا جائے کہ یہ واقعتا کچھ ایسی عدم موافقت ہے۔ اس اعتراف میں جتنی دیر لگتی ہے، مسئلہ اتنا ہی پیچیدہ تر ہوتا جاتا ہے اور وہ تیزی سے تخریبی نتائج کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ اور زیادہ متاثرہ طبقے کے لیے اعتراف کی یہ تاخیر، شکایتوں کے سننے، ان کے ازالہ کرنے میں ہونے والی دیر نیز سماجی انصاف کی فراہمی میں سست رفتاری بہت کار گر ثابت ہوتی ہیں۔ متاثرہ طبقات کے غم و غصے میں مزید شدت اور حدت بڑھ جاتی ہے۔ 
گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری تشدد، قتل و غارت ، دہشت گردی اور دیگر سماجی نا انصافیوں کے باعث پیدا ہونے والے سماجی تعصبات کے سوچ ورویوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اب قومی مجموعی مزاج اور سماج مختلف طرح کے نفسیاتی عوارض اور منفی سماجی رجحانات میں مبتلا ہو گیا ہے جس سے قوم مجموعی پیداروی صلاحیت، فکری پختگی، اخلاقی بلندی اور تہذیبی برتری کے میدان میں پیچھے رہ گئی ہے۔ 
یہ درست ہے کہ ہمارے قومی شعور اور پاکستانیت اور اداروں کے استحکام کی وجہ سے اتنی تقسیمات کے باوجود وطن عزیز مشرق وسطیٰ کی قسم کی بڑی خانہ جنگی کی طرف نہیں بڑھا۔ مختلف قدرتی آفات اور بحرانوں کے دوران بھی قومی یکجہتی کا مظاہرہ دیکھا گیا ہے۔ بہت سے قومی دارے بھی قومی یگانگت کو محفوظ رکھنے اور پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم تعصبات کے پکتے ہوئے لاووں کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں لسانی و نسلی اور علاقائی تعصبات کے بہت سے ساختیاتی و ثقافتی اسباب بھی ہیں، بعض شخصی واقعات کی بنیاد پر جن کا انکار کرنا ناممکن ہے۔ اقتدار میں یکساں طور پر یونٹوں (اکائیوں علاقوں اور صوبوں) کی عدم شمولیت، قومی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، مراعات و اختیارات میں عدم توازن، جمہوری اور ارتقائی عمل کے تسلسل میں تعطل اور داخلہ وخارجہ پالیسی میں عارضی سیاسی مفادات کے تحت وسیع تر اور دیرپا قومی مفاد کو نظر انداز رکھنے، دور اندیش، مستعد، دیانت دار اور متحرک قیادت کی عدم دستیابی نے پاکستان میں تقسیم کے عمل کو مزید آگے بڑھایا اور باہمی تعاون و ترقی، سماجی انصاف کی فراہمی، قانون کی بالادستی اور جان و مال اور دیگر بنیادی حقوق کے تحفظ کے عمل کو یکسر متاثر کر دیا ہے۔ تقسیم، تفریق اور برتری کی نفسیات پر مبنی سیاسی نظریہ ’’تقسیم مسلسل‘‘ کو ہی جنم دیتا ہے۔ تقسیم کے عمل کو جب تک باہمی تعاون سے بدل نہیں دیا جاتا، طاقت کے زور پر اسے دبایا نہیں جا سکتا۔
باہمی تعاون ، تعمیر و ترقی پر مبنی سیاسی نظریہ کی ایک ’’عملی مثال‘‘ مذہبی، لسانی، نسلی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے باہمی تفاوت، تناؤ اور اختلافات کے باوجود تقریباً اٹھائیس ممالک پر مبنی یورپی یونین دیکھ لیجیے۔ یہ ممالک تقسیم اور غلبے کی نفسیات کے تحت دو عالمی جنگوں میں حصہ لینے اور متعدد دیگر جنگیں لڑنے اور کروڑوں لوگوں کو مروانے اور بے پناہ معاشی نقصانات اٹھانے کے بعد اس نتیجے تک پہنچ گئے کہ کسی قیمت پر بھی اپنے خطے میں جنگ نہیں لڑنی۔ انہوں نے باہم تہیہ کر رکھا ہے کہ جنگ کو نہ صرف اپنی اپنی سرزمینوں سے بلکہ پورے براعظم یورپ سے دور ہی رکھنا ہے اور اس معاملے میں سب نے یکساں باہمی تعاون کرنا ہے۔ان کے آپس میں بہت سے اختلافات و تنازعات موجود ہیں، مختلف ملکوں میں مذاہب اور مسالک مختلف ہیں، زبانوں، نسلوں، معاشی مفادات، سیاسی تعلقات پر تناؤ موجود ہے لیکن وہ ایسے تناؤ اور تنازعات کو باہمی نفرت، رقابت اور تعصبات میں بدلنے نہیں دیتے تاکہ باہمی پرتشدد خانہ جنگی اور اس سے جڑے دیگر جرائم کا سامنا نہ کرنا پڑے جن کا خمیازہ پہلے وہ بھگت چکے ہیں اور دنیا کے دیگر حصوں میں وہ مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان کا استحکام، ترقی اور بہتر طرز حکمرانی شاید اسی میں مضمر ہے کہ انہوں نے ایک بنیادی اصول پر مکمل اتفاق کر لیا ہے کہ تشدد اور منافرت کو سماجی قبولیت اور سیاسی چھتری نہ دینے میں وہ پرعزم اور یکسو رہیں، جبکہ عددی لحاظ سے دوگنا تقریباً ساٹھ ممالک پر مبنی ’’امت واحدہ‘‘ عالمی طاقتوں کے مفادات کے حصول کی راہ ہموار کرنے میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کی خاطر جنگجوؤں کی صف بندی اور اسلحہ کی جمع بندی میں مصروف ہے۔

دیوبندی بریلوی اختلافات : سراج الدین امجد صاحب کے تجزیے پر ایک نظر (۱)

کاشف اقبال نقشبندی

نظری آراء کا اختلاف نہ مضر ہے نہ اس کو مٹانے کی ضرورت ہے، نہ مٹایا جاسکتا ہے۔اختلاف رائے نہ وحدت اسلامی کے منافی ہے نہ کسی کے لیے مضر، اختلاف رائے ایک طبعی امر ہے جس سے نہ کبھی انسانوں کا گروہ خالی رہا نہ رہ سکتا ہے۔ یہ اختلاف خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں بھی ہوتا رہا اور خلفاء راشدین اورعام صحابہ کرامؓ کے عہد میں امور انتظامیہ کے علاوہ نئے نئے حوادث اور شرعی مسائل جن کا قرآن و حدیث میں صراحتاً ذکر نہ تھا ، ان کے استخراج میں جب انہیں اپنی رائے اور قیاس سے کام لینا پڑاتو ان میں اختلاف رائے ہوا جس کا ہونا عقل و دیانت کی بنا پر ناگزیر ہے۔اسی طرح بعد میں تابعین عظام کا عمل بھی ہر ایک اہل علم کے سامنے ہے؛ لیکن صحابہ وتابعین کے اس پورے خیر القرون میں اس کے بعد ائمہ مجتہدین اور ان کے پیروؤں میں کہیں ایک واقعہ ایسا سننے میں نہیں آیا کہ ایک دوسرے کو گمراہ یافاسق کہتے ہوں یاکوئی مخالف فرقہ اور گروہ سمجھ کر ایک دوسرے کی اقتدا کرنے سے روکتے ہوں یا ان اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل یا سب وشتم ، توہین و استہزا کا بازار گرم کرتے ہوں؛بلکہ ان مقدس زمانوں میں ایسا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔
اما م ابن عبدالبر قرطبی اپنی کتاب ’’جامع بیان العلم‘‘ میں سلف کے باہمی اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں :
’’ہمیشہ اہل فتاوی فتویٰ دیتے رہے ۔ ایک شخص غیر منصوص مسائل میں ایک چیز کو حلال قرار دیتا ہے اور دوسرا اسے حرام قرار دیتا ہے، مگر نہ حرام کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ جس نے حلال ہونے کا فتویٰ دیا، وہ ہلاک اور گمراہ ہوگیا نہ حلا ل کہنے والا یہ سمجھتا ہے‘‘ (وحدت امت از مفتی محمد شفیع)
ہندوستان میں بھی انگریز کے برسر اقتدار آنے سے پہلے علماء کا آپس میں بعض مسائل و معمولات میں اختلاف ہونے کے باوجودایک دوسرے کے لیے احترام کا جذبہ غالب تھا۔
’’دیوبند و بریلی اختلافات سے مشترکات تک ‘‘ کے موضوع پر ایک مضمون الشریعہ نامی ویب سائٹ پر نظر سے گزرا ۔ صاحب مضمون کی فرقہ واریت اور مسلکانہ رنجشوں اور کدورتوں کی تلافی کے لیے لکھی جانے والی تمہید نے متاثر کیا۔لیکن پورا مضمون پڑھ کر افسوس ہوا کہ عنوان اور تمہید تو اس قدر خوبصورت لیکن اندر سے مضمون سراسر بریلوی مکتب فکر کی ترجمانی۔
آنے والی سطور میں ہم غیر جانب دارانہ طریق سے دیوبندی اور بریلوی مکتب فکر کے نزاع اور صاحب مضمون کی بریلوی مکتب فکر کی ترجمانی کا جائزہ لیں گے۔

دیوبندی بریلوی مناقشہ :بحث مباحثہ سے مناظرہ تک‘‘ پر ایک نظر

بعض حضرات اور شاید صاحب مضمون بھی ناواقفیت کی وجہ سے خیال کرتے ہیں کہ مروجہ میلاد شریف، عرس، قیام ، قوالی، فاتحہ ، نذرونیاز وغیرہ یا دسواں، بیسواں، چالیسواں، برسی وغیرہ کے بدعت یا غیر بدعت ہونے میں دیوبندی مکتب فکر اور بریلوی مکتب فکرکے علماء میں جو اختلاف ہے یہی ان دونوں مکاتب فکر کے اختلاف کی بنیاد ہے۔ لیکن ایسا سمجھنا درست نہیں ہے کیونکہ ان مسائل میں اختلا ف کا تذکرہ اس وقت سے ہے جب بریلوی یا دیوبندی لفظ کسی خاص مسلک کا ترجمان بنا تھا نہ عا م لوگ ان ناموں سے آشنا تھے۔ شاہ محمد اسحاق دہلویؒ کی کتاب ’’ماءۃ مسائل‘‘ میں مندرجہ بالا مسائل کی تفصیل موجود ہے جو دیوبندی اور بریلوی مکتب فکر کے مدارس کے قیام سے پہلے کی کتاب ہے۔علاوہ ازیں ان مسائل کی یا ان جیسے دیگر مسائل کی حیثیت کسی بھی فریق کے ہاں ایسی نہیں ہے کہ ان کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے کسی مسلما ن کو کافر اور خارج از اسلام کہا جاسکے۔
جہاں تک مضمون نگار نے مولانا شاہ اسماعیل دہلوی اور مولانا فضل حق خیر آبادی کے اختلاف کا ذکر کیا ہے تومولانا شاہ اسماعیل شہید دہلویؒ اور مولانا خیر آبادی کے درمیان مسئلہ امکان نظیر وغیرہ پر اختلاف تھا ۔ یہ اختلاف خالصتاًعلمی اختلاف تھا۔ دراصل شاہ اسماعیل دہلوی نے’’ تقویۃ الایمان‘‘ میں عموم قدرت باری تعالی کے تحت یہ لکھا کہ ’’اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکم کن سے چاہے تو لاکھوں ، کروڑوں نبی ولی جن و فرشتے جبرئیل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پیدا کرڈالے ‘‘اس پر مولانا فضل حق خیر آبادی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام صفات کاملہ میں مثل اور نظیر محال ہے ۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں؛ مولانا شاہ اسماعیل دہلوی اور مولانا فضل حق خیرآبادی کے درمیان اتنی بات متفق علیہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل نہ موجود ہے اور نہ ہوسکتا ہے، اختلاف اس پر تھا کہ نظیر کیوں نہیں ہوسکتی؟ علامہ فضل حق خیر آبادی کے نزدیک ممتنع بالذات ہے اور مثل مذکور مستلزم کذب باری ہے جب کہ مولانا شاہ اسماعیل دہلوی صاحب اس کا جواب دیتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
’’اس مقام پر اس قدرثابت کرنا مقصود ہے کہ مثل مذکورقدرت الہیہ کے تحت داخل ہے مثل مذکورکا وقوع ثابت کرنا مقصود نہیں۔‘‘ (رسالہ یک روزی ص۱۳۸) 
آگے لکھتے ہیں:
’’ ہاں البتہ مثل مذکورکے وقوع کا قول کرنا کذب باری کو جائز ماننا ہے معاذاللہ من ذالک ، رہا مثل مذکور کے امکان کا قول کرنا پس وہ کذب باری کے امکان کو مستلزم نہیں‘‘(یک روزی ص ۱۴۴)
آپ دیکھ رہے ہیں ساری بحث امکان نظیر کی ہے وقوع یا اثبات نظیرکو مولانا شہید بھی صحیح نہیں سمجھتے۔رہی بات یہ کہ کیا مولانا شہید سے پہلے بھی کسی نے اس قسم کی مثال دی ہے تو اس ضمن میں تفسیر رازی سے امام رازی کا قول پیش کرتا ہوں۔ امام رازیؒ قرآن پاک کی آیت: ’’وَلَو شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِی کُلِّ قَرْیَۃٍ نَّذِیرًا‘‘ (سورۃ الفرقان: ۵۱) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا ہے اس بات پر کے ہر بستی کے اندر ایک رسول ایک نذیر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) جیسا پیدا کردے‘‘۔
بتاےئے کیا فرق ہے، اما م رازی ؒ اور شاہ اسماعیل دہلوی ؒ کی’’ تقویۃ الایمان‘‘ والی مثال میں؟
اس کے علاوہ ایک غیر جانب دار شہادت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فضل حق خیر آبادی نے شاہ اسماعیل دہلوی شہید کے خلاف اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ (دیکھیں ’’امیرا لروایات‘‘ روایت امیر شاہ خان عن مفتی عنایت اللہ مرحوم)
مولانا فضل حق خیر آبادی جب مولانا شاہ اسماعیل دہلوی کے مخالف تھے تو مولانا خیرآبادی کے شاگرد مولانا سراج الدین لکھنوی اس مسئلہ میں شاہ اسماعیل دہلوی کے ساتھ تھے اپنے استاد کے ساتھ نہ تھے۔ اس سے مولانا خیر آبادی کے اختلاف کا وزن آسانی سے معلوم ہوسکتا ہے ۔ مولانا سراج الدین نے اس مسئلہ میں مولانا خیر آبادی کے خلاف ایک رسالہ بھی لکھا جس کانام تھا’’امکان نظیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم و امتناعہ‘‘دیکھیے مورخ الہند مولانا عبدالحئی لکھنوی کی کتاب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (ج ؍۷ )
اس کے علاوہ مولانا حیدر علی رام پوری جو کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ کے شاگرد رشید تھے نے بھی مولانا فضل حق خیر آبادی کے رد میں متعدد رسائل لکھے۔
مولانا شاہ اسماعیل دہلوی کے بارے میں بدلے موقف کی تائید مولانا فضل حق خیر آبادی کے صاحبزادے مولانا عبدالحق خیرآبادی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے ۔مولانا احمد رضاخان بریلوی کی مولانا عبدالحق خیر آبادی سے جو گفتگو ہوئی، اسے ہم المیزان کے’’ احمد رضانمبر‘‘ سے نقل کرتے ہیں:
’’(مولانا عبدالحق خیر آبادی صاحب نے مولانا احمد رضاخان بریلوی سے) پوچھابریلی میں آپ کا کیا شغل ہے؟ فرمایا تدریس و تصنیف اور افتاء۔ پوچھا کس فن میں تصنیف کرتے ہو؟ اعلی حضرت نے فرمایا جس مسئلہ دینیہ میں ضرورت دیکھی اور رد وہابیہ میں۔علامہ نے فرمایا، آپ بھی رد وہابیت کرتے ہیں ،ایک وہ ہمارا بدایونی خبطی ہے کہ ہر وقت اس خبط میں مبتلا رہتا ہے‘‘ (ص ۳۳۲)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا شاہ اسماعیل کے بارے خیرآبادی حضرات کا وہ موقف نہ تھا جو بدایونیوں اور بریلی کے حضرات کا تھا۔ اور وہ اس اختلاف کی شدت کو محض خبط کے علاوہ اور کچھ نہ تصور کرتے تھے۔
مولانا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی مرحوم کی تحقیق میں مولانا خیرآبادی اورمولانا شاہ اسماعیل شہید میں جو بھی اختلاف تھا وہ محض اجتہادی تھا،ہدایت و ضلالت کا اختلاف نہ تھا۔پیر صاحب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر کے متعلق سوال کیاگیا تو آپ نے یوں جواب دیا:
’’اس مقام پر امکان یا امتناع نظیرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنا مافی الضمیرظاہر کرنا مقصود ہے نہ تصویب یا تغلیظ کسی فریقین کی اسماعیلیہ و خیر آبادیہ میں سے شکراللہ تعالی سعیہم ۔راقم سطور دونوں کو ماجورو ثواب جانتاہے۔‘‘ (فتاوی مہریہ ص۱۱)
حکیم محمود احمد برکاتی صاحب جن کی تعریف بریلوی مکتب فکر کے مولانا عبدالحکیم شرف قادری صاحب نے بھی کی ہے ۔ (آپ فطری طور پر خیرآبادی خانوادہ سے گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے اور وقتا فوقتا اکابر خیر آبادی کی خدمات پر علمی اور تحقیقی کام کرتے ہیں )لکھتے ہیں۔
’’مگر اس کے باوجود انہوں نے(یعنی شاہ اسماعیل شہید نے)جہاد کیا اور خداکی راہ میں جان دے دی یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان کے افکارامتناع نظیر، امکان کذب ، شفاعت وغیرہ متعددہ سے ہمیں اختلاف ہے ۔ہمارے بزرگوں نے انہیں بروقت ٹوکااور برحق ٹوکامگر مجاہدو شہید ہونے سے انکار کی جرأت ہم میں نہیں ہے، دل کانپتا ہے۔‘‘ (مولانا حکیم سید برکات احمد، سیرت اور علوم، ص۲۸۱،۲۸۲)۔
جہاں تک دیوبندی بریلوی اختلاف کو سمجھنے کے لیے صاحب مضمون نے مولانا قاسم نانوتوی مرحوم کی ’’تحذیر الناس‘‘ کا ذکر کیا ہے تو یہ اختلاف بھی دیوبندی بریلوی اختلاف کی بنیا د قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ مولانا قاسم نانوتوی نے اثر ابن عباسؓ کی تشریح و توضیح کی ، چونکہ اثر ٹھیک تھا تو ایسا مضمون و مفہوم بیان فرمایا کہ جس سے عقیدہ ختم نبوت بھی دلائل سے بیان ہوگیا اور روایت کا بھی صحیح مطلب بیان کرکے رد ہونے سے بچایا۔دوسرا یہ کہ علماء کی آراء میں اختلاف ہوجاناکوئی عجیب بات نہیں ہے ۔ مولانا عبدالحئی لکھنوی باوجود اثر ابن عباسؓ کی تشریح و توضیح میں اختلاف کے تادم زیست مولانا قاسم نانوتوی کے ساتھ اخوت و محبت کے ساتھ پیش آتے رہے جیسا کہ’’ عمدۃ الرعایہ‘‘ کے مقدمہ سے معلوم ہوتا ہے۔باقی مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا عبدالحئی لکھنوی کا اس اثر کے حوالے سے تقریبا اتفاق ہے اورمولانا عبدالحئی لکھنوی نے اثر ابن عباسؓ کی تصحیح پر باقاعدہ ایک رسالہ ’’زجر الناس علی انکاراثرابن عباس ضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘ لکھااور اس روایت کے مضمون کودرست سمجھا۔جب کہ بریلوی مکتب فکر کے ممتاز علماء محض’’ اثر ابن عباس‘‘ کے مضمون کو درست سمجھنے والے کو ختم نبوت کا منکر سمجھتے ہیں۔(دیکھیے عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ص ۶۰ ) ۔ باقی مولانا اشرف علی تھانوی کے کہنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہندوستان کے اہل علم حضرات نے مولانا قاسم نانوتوی کے اس نقطہ سے دلائل کی بنیاد پر اعتراض کیامگر اس نقطہ کو بنیاد بنا کر تکفیر کسی نے نہیں کی۔

انوار ساطعہ

اسی طرح مضمون نگار نے ’’انوار ساطعہ‘‘ کو دیوبندی بریلوی اختلاف کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔ ’’ انوار ساطعہ‘‘ کے بارے میں بتاتا چلوں کہ انوار ساطعہ مولانا عبدالسمیع رامپوری نے ۱۳۰۲ھ (الشریعہ ویب سائٹ کے مضمون پرکتاب کا سن طباعت کتابت کی غلطی سے ۲۰۳۱ھ لکھا ہے) میں’’ انوار ساطعہ دربیان مولود فاتحہ‘‘ لکھی جس کے جواب میں مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے۱۳۰۴ھ میں ’’براہینِ قاطعہ علی ظلام انوار ساطعہ‘‘ لکھی۔ صاحب مضمون نے انوار ساطعہ پر معاصرین علماء کی تقاریظ اور براہین قاطعہ پر کسی تقریظ کے نہ ہونے سے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انوار ساطعہ میں موجود نظریات و معمولات تو اہل السنۃوالجماعۃ کے مصدقہ ہیں جب کہ براہین قاطعہ میں موجود عقائد و معمولات خود ان علماء کے تراشیدہ ہیں ۔ اول تو براہین قاطعہ تقاریظ کے لیے دیگر ہم عصر علماء کو پیش ہی نہیں کی گئی دوم انوار ساطعہ میں جن مسائل کو اختلافی بتایا گیاہے ہندوستان کے اکابر علماء اس پر اپنی رائے پہلے سے ہی دے چکے تھے۔ ذیل میں بریلوی دیوبندی مسلکی نسبتوں سے پہلے کے اکابر علماء کے معمولات و عقائد کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ 

حضرت مجدد الف ثانیؒ (۹۷۱ ؍ ۱۰۳۴ ھ)

’’ہرگاہ ہر محدث بدعت است و ہربدعت ضلالت،پس معنی حسن در بدعت چہ بود‘‘
ترجمہ .......’’جب ہر نئی بات بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے پس بدعت میں حسن وخوبی کے کیا معنی؟‘‘
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کا یہ قول آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔حق جو باطل کے پردوں میں مستور ہوگیا تھا آپ نے مجددانہ عزیمت سے اور مجاہدانہ جدو جہد سے اسے اصلی صورت اور اصلی شان میں دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ عاجز کے نزدیک ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’’بدعت حسنہ ‘‘ کی پردہ دری ہے ۔آپ سے اس دور میں کہ جب دیوبندی بریلوی مدارس قائم نہیں ہوئے تھے اور’’ انوار ساطعہ دربیان مولود و فاتحہ‘‘ اور’’ براہین قاطعہ‘‘ جیسی کتب بھی معرض وجود میں نہیں آئیں تھیں مولودخوانی سے متعلق پوچھا گیا کہ ’’خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا اور نعت و منقبت کے قصائد(خوش الحانی کے ساتھ) پڑھنے میں کیا مضائقہ ہے؟۔ 
حضرت امام ربانی ؒ اس کا انتہائی بصیرت آمیز جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’میرے مخدوم ! فقیر کے دل میں آتا ہے کہ جب تک اس دروازہ کو مطلق طور پر بند نہ کریں گے اس وقت تک ابوالہواس باز نہیں آئیں گے اگر تھوڑا سا بھی جائز کریں گے تو بہت تک پہنچ جائے گا مشہور مقولہ ہے تھوڑا زیادہ کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘ (مکتوبات امام ربانی دفتر سوم ،مکتوب نمبر ۷۲)
ملاحظہ فرمائیں کہ امام ربانی تو ایسی محفل میلاد کو جس میں قرآن خوانی اور نعت خوانی ہو کبھی جائز نہیں سمجھتے ۔بعینہ ایسے ہی مفہوم کا سوال جب علماء دیوبند میں سے مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب سے پوچھا گیا توآپ کا جواب بھی یہی تھا جو امام ربانی مجددالف ثانی کے مکتوب میں درج ہے کہ اس زمانہ میں ایسی مجلس مولود جس میں کوئی خلاف شرع امور نہ ہوں، درست نہیں۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ

اما م ربانی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے زمانہ میں ہی ایک اور عظیم شخصیت حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تھی۔آپ نے عقائد اہل سنت اور معمولات اہل سنت کوصحیح شکل میں رکھنے کے لیے جو کاوشیں کی وہ قابل تحسین ہیں۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ ایک جگہ لکھتے ہیں’’باجماعت نفل ادا کرنا مکروہ ہے ‘‘(ماثبت بالسنہ)حضرت شیخ جماعت کے ساتھ نوافل ادا کرنے کو مکروہ فرما رہے ہیں جب کہ بریلوی مکتب فکر کے حضرات کے معمولات میں سے ہے کہ خصوصاً ۲۷؍ رمضان اور ۱۵؍ شعبان کی راتوں میں نوافل کی جماعت ہوتی ہے اور ا سکے لیے باقاعدہ اعلانات کیے جاتے ہیں۔اسی طرح نماز کے بعد مصافحہ کرنے کو حضرت شیخ بدعت کہتے ہیں۔ (اشعۃ اللمعات ج ۴ ص ۲۴) حضرت شیخ قبروں پرقبوں کے جواز کے بھی قائل نہیں ہیں۔ (شرح سفر السعادۃص ۳۴۹)اسی طرح میت کے کفن پر کچھ بھی لکھنے کو ناجائز فرماتے تھے۔ (مکتوبات شیخ: مکتوب نمبر۶۴)
قارئین کرام! یہ وہ معمولات ہیں جو بریلوی مکتب فکر کے لوگوں میں بڑی شدومدسے رائج ہیں اور ان کے خلاف کرنے والوں کو بریلوی مکتب فکر کے حضرات وہابی یا اہل سنت سے خارج قراردیتے ہیں۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ

حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کی وفا ت کے ۸۰؍ سال بعد اور عالمگیر بادشاہ کی وفات سے چار سال پہلے اما م الہند شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نواح دہلی میں پیدا ہوئے۔شرک و بدعات اور ہندوانہ چلن جو حضرت مجدد ،شیخ عبدالحق اور سلطان عالمگیرؒ کی جدوجہد سے مٹنے لگے تھے ، سلطان عالمگیر کی وفات کے بعد پھر سر اٹھانے لگے۔ نام نہاد فقرا اورصوفیہ فقر کی بساط بچھا کر سادہ لوح مسلمانوں کے مال اور ایمان پر ڈاکہ ڈالنے لگے۔حجر پرستی کی جگہ قبر پرستی نے لے لی۔ 
ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اور سب سے بڑی بدعت جو لوگوں نے اختراع کی وہ قبورکے بارے میں ہے اور ان قبروں کوانہوں نے عید بنا رکھا ہے‘‘(تفہیمات الٰہیہ ج ۲ص۶۴) 
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’’جو اجمیر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی یا سالار مسعود غازی کے مزار پر اس لیے گیا کہ وہاں اپنے لیے دعا کرے گا اور وہاں ضرور دعا قبول ہوگی تو اس نے بڑا گناہ کیااور یہ ایسے ہے جیسے کو ئی بتوں کو پوجے یا لات وعزیٰ کو پکارے۔‘‘ (ایضاًص ۴۵)
ان عبارات سے معلوم ہوا کہ اس وقت بھی ایسے لو گ پورے پھیلاؤکے ساتھ موجود تھے جس طرح کے نظریات کے حامل لوگ شہرِ خرافات میں آج موجود ہیں۔
علم غیب کے متعلق لکھتے ہیں:
’’پھر جان لیجیے کہ لازم ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے واجب الوجودجل مجدہ کی صفات کی نفی کی جائے جیسے علم غیب اور عالم کی تخلیق وغیرہ اور ان امور کی کمی ہرگز ان کی شان میں کمی نہیں کرتی‘‘ (ایضاً ص ۲۴)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ :
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحبزادے اور جانشین شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں:
’’شرک وکفر کی باتوں میں سے ہے کہ ائمہ و اولیاء کا رتبہ انبیاء علیہم السلام کے برابر جاننا،انبیاء علیہم السلام کے لیے لوازم الوہیت جیسے علم غیب کا عقیدہ رکھنا،ہر ایک کی پکار ہر ایک جگہ سے سن لینا تمام مقدورات پر ان کی قدرت(مختار کل)ماننا۔‘‘ (تفسیر عزیزی ج۱،ص ۵۲) 
شاہ صاحب محدث دہلوی زیارات قبور کے لیے کوئی دن مقرر کرنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’زیارا ت قبور کے لیے کوئی دن مقرر کرنا بدعت ہے‘‘ (فتاوی عزیزی)

قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ

قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی جنہیں بیہقی وقت کہتے تھے، لکھتے ہیں: اولیاء کی قبور پر جواونچی عمارتیں بناتے ہیں اور چراغاں کرتے ہیں اور اس قسم کے جتنے کام کرتے ہیں سب حرام یا مکروہ (تحریمی) ہیں۔ (مالابد منہ ص ۸۶) 
دسواں، چالیسواں ،برسی کے متعلق وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میرے مرنے کے بعد دنیوی رسمیں مثلاًدسواں اور بیسواں اور چالیسواں اور ششماہی اور سالانہ برسی عر س کچھ بھی نہ کریں‘‘(مالابدمنہ ص ۱۶۱)
شاہ محمداسحاق محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں:
’’میت کے دفن کرنے کے بعد قبرپر اذان مکروہ ہے اس لیے کہ احادیث سے اس کا ہونا معلوم نہیں ہوتا۔‘‘ (ماءۃ مسائل،ص۶۴)
ملاحظہ فرمائیں کہ دیوبندی مکتب فکر کے علماء نے براہین قاطعہ میں کوئی نئے معمولات یا عقائدمتعارف نہیں کروائے تھے بلکہ وہی عقائد و معمولات جوہندوستان میں سلف و خلف سے چلتے آرہے تھے، بیان کیے۔

ہندوستان کے اکابر علماء کے معمولات و عقائد سے کس نے اختلاف کیا؟

حضرت مجدد الف ثانیؒ کی تجدیدی فکر اور اما م الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور ان کے جانشینوں کی علمی سوچ سے سب سے پہلے مولانا فضل رسول بدایونی (۱۲۱۳ھ ،۱۲۸۹ھ)نے اختلاف کیا۔ انگریز دور میں سرکار کے ملازم تھے۔ مشہور مؤرخ پرفیسر ایوب قادری صاحب لکھتے ہیں:
’’مولوی فضل رسول بدایونی حکومت انگریزی کی ملازمت میں اول مفتی عدالت اور پھر کلکٹر میں رشتہ دار رہے۔‘‘ (تذکرہ علماء ہند ص ۳۸۲،۳۸۱))
مولانا فضل رسول بدایونی کی اکثر تصانیف انگریز ملازمین کی اعانت سے چھپتی تھیں۔ پروفیسر محمد ایوب قادری بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
’’مولوی فضل رسول بدایونی کی تصانیف کی طباعت کے سلسلہ میں ایک بات خاص طور پر نوٹ کی کہ ان کی اکثر تصانیف کسی نہ کسی سرکاری ملازم کی اعانت سے شائع ہوئیں ۔‘‘ (جنگ آزادی 1857ء ص۶۳)
مولانا پہلے شخص ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے اقتدار علمی پر حملہ کیا ۔حضرت شاہ اسماعیل ؒ اور حضرت شاہ محمد اسحق دہلویؒ تو ایک طرف آ پ نے مجدد الف ثانیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار ونظریات سے بھی اختلاف کیا۔ مشہور غیرمقلدمؤرخ محمد اسحاق بھٹی صاحب نے جو مولانا کے متعلق لکھا ہے، وہ کافی حدتک درست لکھا ہے اور مولانا فضل رسول بدایونی کی کتب اس پر صادق آتی ہیں۔لکھتے ہیں:
’’مولانا فضل رسول بدایونی بہت بڑے فقیہ اور مجادلہ و مناظرہ میں مشہور تھے۔ اپنے مسلک اور نقطۂ نظر میں سخت متعصب تھے۔ علماء سے مخاصمت اور بحث و جدل میں تیز تھے۔ مولانا اسماعیل شہید کی تکفیر کرتے تھے اور انہوں نے جو بدعات و رسومات کی تردید کی ہے، اسے غلط قرار دیتے تھے۔ بعض مسائل کی وضاحت کے سلسلے میں حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو بھی ہدف تنقید بنا لیتے اور اس ضمن میں بہت آگے نکل جاتے۔‘‘ (فقہائے پاک و ہند تیرہویں صدی ہجری، جلد سوم )
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے بارے ’’بوارق محمدیہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’شاہ ولی اللہ دہلوی کی ان کتابوں پر مطلع ہوئے تو ان کی(یعنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی) کی کتابوں کلمات فرقہ ظاہریوں(وہابی، نجدیوں)نے بہت دخل پایا۔اگرچہ دوسری جگہ اس کے خلاف بھی پایا جاتا ہے‘‘ (شوارق صمدیہ ترجمہ بوارق محمدیہ ص ۶۰) ۔
مولانا فضل رسول بدایونی کے خلاف شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگردمولانا سراج احمد سہسوانی نے رسالہ ’’سراج الایمان‘‘ لکھا۔
مولانا احمد رضاخان بریلوی اما م ربانی مجدد الف ثانی کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’کوئی مجددی ان کے قول(یعنی مجدد الف ثانی کے قول)سے استدلال کرے تو وہ جانے۔ ہم تو ایسے شخص کے غلام ہیں جس نے جو بتا یا وحی سے بتایاخدا کے فرمانے سے کہا۔‘‘ (ملفوظات اعلی حضرت حصہ ۳ ص ۷۰) 
مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی مکتب فکر میں جنہیں حکیم الامت جانا جاتا ہے، لکھتے ہیں:
’’حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب و قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ بیشک بزرگ ہستیاں ہیں؛ لیکن یہ حضرات مجتہد نہیں تاکہ کراہت تحریمی و حرمت فقط ان کے قول سے ثابت ہو، اس کے لیے مستقل دلیل شرعی کی ضرورت ہے‘‘ (جاء الحق ص ۲۹۴)
مولانا محمد عمر اچھروی مولانا احمد رضاخان بریلوی کے شاگردمولانا محمد حسین صاحب کے ہاں زیر تعلیم رہے ۔ تذکرہ اکابر اہل سنت میں مولف مولانا عبدالحکیم شرف قادری صاحب( جن کے بارے میں بریلوی مکتب فکر کے مفتی اعظم پاکستان جناب مفتی منیب الرحمان صاحب چئیر مین روئیت ہلال کمیٹی لکھتے ہیں کہ بریلوی مسلک میں یہ حجت و سند کا درجہ رکھتے ہیں) انہیں اپنے اکابر میں شمارکرتے ہیں مولانا عمر اچھروی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جب (حرمین شرفین سے)واپس پہنچے تو حالت دگرگوں ہوچکی تھی۔ اور اپنے والد ماجد کا عطیہ ولایت بھی کھو بیٹھے تھے حتی کہ والد ماجد کے سلجھے ہوئے مریدین نے جب ہتک آمیز کلمات بزرگوں کی شان میں سنے تو دست افسوس ملتے ملتے علیحدہ ہوگئے۔محمد بن عبدالوہاب کے عقیدہ کی چند کتابیں بلاغ المبین وغیرہ انبیاء و اولیاء کی توہین میں شائع کیں............دہلی میں شور برپا ہوگیا شاہ ولی اللہ وہابی ہوچکاہے۔ چنانچہ حیات طیبہ کے ص ۱۲؍ پر درج ہے کہ تما م علماء اسلام نے متفقہ طور پر فتوی کفر صادر کئے تو شاہ صاحب کا جدی و علمی وقار ہباء منثورا ہوگیا۔‘‘ (مقیاس حنفیت ص ۵۷۶)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ان دو حضرات نے ابھی اپنے دادا کے حنفی مذہب کو پسند فرمایا۔ لیکن آبی اثر ضرور ہوتا ہے کچھ نہ کچھ شاہ ولی اللہ صاحب کا معمولی سا رنگ چڑھا۔‘‘ (ایضاً ص ۵۷۷)
قریب قریب یہی کچھ مولانا شاہ تراب الحق قادری صاحب کے اہتمام سے لکھی جانے والی کتاب ’’مکمل تاریخ وہابیہ‘‘ ص ۷۲ تا۷۹ پر بھی درج ہے۔ ممبئی سے المیزان کا احمد رضا نمبر چھپا تھا جس میں مولانا سید عبدالکریم علی ہاشمی یوں رقم طراز ہیں:
’’اس مذہب کے آخری اما م ابن عبدالوہاب جس نے یہ طریقہ اپنے شیخ طریقت شیخ محمد حیات سندھی سے لیاہے اور اس نے مدینے کے ۲۷ استادوں سے لیا ہے شیخ احمد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی ان ہی محدثین میں سے پانچ اصحاب حدیث سے حدیث سند حاصل کی ہے چنانچہ سب سے پہلے آپ مدینہ سے وہابی مذہب ہندوستان لے کر آئے۔‘‘ (المیزان کا امام احمدرضانمبرص ۶۱۰)
مولوی غلام مہر علی چشتیاں مولف ’’دیوبندی مذہب‘‘ لکھتے ہیں:
شاہ ولی اللہ نے ہگا، شاہ عبدالعزیز نے اس پر مٹی ڈالی مگر اسماعیل نے اسے ننگا کرکے سارے ملک کو متعفن کردیا۔‘‘ (عصمۃالنبی ص ۷،۸) 
اس پورے پس منظر سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ ہندوستان میں دیوبندی مکتب فکر سے پہلے کے علماء و اکابرین سے عقائد و معمولات میں اختلاف کرنے والے حضرات بریلوی مکتب فکر سے ہیں اختلاف کا جو تخم مولانا فضل رسول بدایونی نے بویا تھا، وہ احمد رضاخان ، مفتی احمد یار نعیمی، مولانا عمر اچھروی ، شاہ تراب الحق قادری اور مولانا غلام مہر علی چشتی کی صورت میں تناور درخت بن چکا ہے۔مولانا شاہ اسماعیل دہلوی اور مولانا فضل حق خیر آبادی کا اختلاف تو بعد کی بات ہے۔

مقرظین انوار ساطعہ

اب آتے ہیں انوار ساطعہ پرتقاریظ لکھنے والے علماء کی طرف توانوار ساطعہ پر تقاریظ لکھنے والے علماء باوجود بعض معمولات میں اجتہادی و فکری رائے کے اختلاف کے دیوبندی مکتب فکر کے علماء کی تکفیر و تفسیق نہیں کرتے تھے بلکہ باہمی عقیدت و احترام کے ساتھ تعلقات قائم تھے بلکہ بعض نے تو مولانا احمد رضاخان کی تکفیری کاوشوں کی حوصلہ شکنی کی۔ بعض علماء نے انوار ساطعہ کی بعض جزیات سے اپنی کتب میں اختلاف بھی کیا۔ذیل میں اس ضمن میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
۱۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ جو مولانا عبدالسمیع رامپوری کے پیرو مرشد ہیں، ’’ضیاء القلوب ‘‘میں مولانا رشید احمد گنگوہی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جوشخص مجھ سے عقیدت رکھے، و ہ مولوی رشیداحمد صاحب سلمہ سے اور مولوی محمد قاسم صاحب سلمہ کو میری جگہ بلکہ مجھ سے بلندمرتبہ سمجھے، اگرچہ ظاہر میں معاملہ اس کے برعکس ہے کہ میں ان کی جگہ پر ہوں اور وہ میری جگہ پراور ان کی صحبت کو غنیمت سمجھے کہ ان کے ایسے لوگ زمانے میں نہیں پائے جاتے اور ان کی برکت خدمت سے فیض حاصل کرے۔‘‘ (ضیاء القلوب ص ۷۲)
۲۔مولانا لطف اللہ علی گڑھی ؒ آپ علما ء دیوبند اور بانیان ندوۃ العلماء کو آخری زندگی تک مسلمان اور اہل سنت والجماعت سمجھتے تھے۔ آپ کے تلامذہ میں مولانا عبدالحق حقانی صاحب تفسیر حقانی اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی جیسی برگزیدہ ہستیاں شامل ہیں۔ مولانا کے بارے میں احمد رضاخان اور ان کے ہمنواؤں نے یہ تاثر دیا کہ مولانا لطف اللہ علی گڑھیؒ بھی ندوۃ العلماء کے خلا ف ہیں اورانہوں نے ندوۃ کے خلاف فتویٰ پر دستخط کیے ہیں جس کی بعد میں مولانا لطف اللہ علی گڑھیؒ نے تردید کی ۔مولانا احمد رضاخان کو مولانا لطف اللہ علی گڑھیؒ نے ایک مفصل خط تحریر کیا جس میں مولانا احمد رضاخان کوشغل تکفیر سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
’’ ذرا غور فرمائیے!ہماری سختی اور تشدد نے ہمارے اہل سنت والجماعت کواور بالخصوص احناف کوکیسے سخت صدمہ پہنچایاہے.......افسوس صد افسوس! ہمیں اپنے پاک مذہب کی ذلت پر ذرا نظر نہیں ہوتی ، مولانا(احمد رضاضان بریلوی) ذرا خداکے لیے غور کیجیے اور دشمنان دین کو ہم پر اور ہمارے پاک مذہب پر ہنسنے کا موقع نہ دیجیے‘‘۔
اس مراسلت کاکوئی نتیجہ نہ نکلابلکہ مخالفت کی آنچ تیز ہوگئی۔ندوۃ العلماء کے لیے ندوۃ الجہلاء کالفظ وضع کیا گیا۔ ۔۔۔ ندوۃ کے بعض علماء کی تکفیر بھی کی گئی ۔ اس جنگ میں مولانا احمد رضاخان، مولاناعبدالقادر بدایونی اور مولانانذیراحمد خان رامپوری شامل تھے (سیرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ ص۱۷۱،۱۷۲) 
۳۔ مولانا فیض الحسن سہارنپوری صاحب کے بارے میں تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہورمولف پیر زادہ اقبال احمد فاروقی میں ہے مولانانے عنوان باندھاہے:
’’مولانا قاسم سے دل لگی :مولانا قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری دونوں میں گونہ ایسے تعلقات تھے کہ باہم مزاح و ظرافت کی گفتگو کبھی کبھی ہوجایا کرتی تھی۔ (ص ۱۸۵) 
آگے اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ الغرض یہ کہ اختلاف کی شدت اس طرز کی نہیں تھی کہ جس طرز کی بنیاد مولانا احمد رضاخان نے ڈالی ،تفصیل آگے آرہی ہے ۔
۴۔مفتی ارشاد حسین رام پوری صاحب سے کسی نے سوال کیاکہ ’’انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیائے کرام کو سوائے قبر کے حاضرو ناظر جان کر پکارنا بطو راستمدادیا بایں نظر کہ وہ سنتے ہیں جس جگہ ان کو پکارے جائز ہے یا نہیں۔ آپ نے جواب دیا:
’’حاظر اور ناظر اور ہر جگہ ہروقت سننے والا جان کر کسی کو سوا اللہ تعالی کے پکارنا جائز نہیں‘‘ (فتاوی ارشادیہ ص۱۶۷)
معلوم ہوا کہ بعض معمولات میں فکری و رائے کے اختلاف کے باوجود اعتقادی اختلاف نہ تھا۔
(جاری)

فطرت بطور معیار کی بحث

ڈاکٹر عرفان شہزاد

فطرت سے مراد انسانوں میں پائے جانے والے وہ عمومی پیدایشی رجحانات ہیں، جو انسانی شعور کو حق و باطل، خیر و شر، اور طیبات و خبائث میں تمیز کی صلاحیت عطا کرتے ہیں۔ وحی کی عمارت انہیں بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔
فطرتِ انسانی ان اقدار کے لیے معیار ہے یا نہیں، اس بحث کو ہم تین سطح پر دیکھتے ہیں: عقیدہ، اخلاق اور قانون۔ یہ واضح رہے کہ قانون کی بنیاد بھی پر اخلاق ہی پر ہوتی ہےِ، اس لیے اصلاً یہ بحث کہ فطرتِ انسانی اقدار کے لیے معیار ہے یا نہیں، عقیدہ اور اخلاق سے ہی متعلق ہے۔
فطرت میں پائی جانے والی یہ وہ بنیادی رہنمائی ہے جس کا تجربہ و مشاہدہ ہر انسان کرتا ہے۔ تاہم، اس شعوری رہنمائی کے اطلاق میں کبھی مغالطہ بھی لاحق ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں بحث کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور درست نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے مغالطے، لیکن، بہت کم پیش آتے ہیں۔ ان کم تر پیش پیش آنے والے مغالطوں کی وجہ سے اس حقیقت کا انکار کرنا کہ فطرت، ایمان و عقیدہ، خیر و شر، اور طیبات و خبائث کے لیے معیار نہیں بن سکتی، ایک بدیہی حقیقت کا انکار ہے۔ جس طرح فقہی اطلاقات میں انسانی فہم کے مختلف درجات اور نصوص اور اصول کے اطلاقات میں خطا کے احتمال کے باوجود انسانی فہم پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے، اسی طرح بعض اوقات درست فطرتی پوزیشن کی تعیین میں در آنے والے احتمالات کے باوجود فطرت کا معیار ہونا متاثر نہیں ہو سکتا۔ 
ساری انسانیت ان تمام اقدار کے معیارات طے کرنے میں فطرت کی ودیعت کردہ اسی بنیادی رہنمائی پر عمل کرتی ہے۔ تاہم،بعض مقامات پر فطرت اس رہنمائی سے قاصر رہ جاتی ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب وحی کی ضرورت پڑتی ہے، یا اس بحث کی ضرورت پڑتی ہے کہ درست فطری پوزیشن کیا ہے۔ ہر علم و فن میں ایسا ہوتا ہے کہ جس چیز کو معیار تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے اطلاق میں بعض اوقات اختلاف بھی رونما ہوتا ہے۔ آئین و قانون کی بحث میں ہر جگہ اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے البتہ، بنیاد کا انکار نہیں کر دیا جاتا۔
ہمارے فاضل احباب نے فطرت کو 'قبل از وحی فطرت' اور 'بعد از وحی فطرت' میں تقسیم کیا ہے اور اصرار کیا ہے کہ معیار اگر ہے تو بعد از وحی فطرت ہی بن سکتی ہے، اس صورت میں جب کہ پوائنٹ آف ریفرینس شارع کو بنایا گیا ہو۔ تاہم، اپنے اس اصول کی خلاف ورزی البتہ انہیں پہلے ہی قدم پر کرنا پڑی جب انہوں نے قبل از وحی فطرت کوایمان و عقیدے کے معاملے نہ صرف بطور صلاحیت تسلیم کیا، بلکہ میں اسے معیار بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ دین و ایمان کی دعوت و تبلیغ کے لیے فطرت کا معیار ہونا ضروری ہے، ورنہ کسی کو خدا کے وجود اور توحید کی دعوت اس بنا پر دی ہی نہیں جا سکتی ہے کہ خدا کے وجود اور توحید کا ماننا حق ہے اور اس کا انکار اور شرک کرنا باطل ہے۔ توحید و شرک کے لیے معیار فطرت نہ ہو تو دین و ایمان کی دعوت کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔
یہاں ظاہر ہے کہ فطرت سے مراد قبل از وحی فطرت ہی ہے جو حق و باطل کا معیار تسلیم کی گئی ہے۔تاہم، اخلاق و قانون میں وہ قبل از وحی فطرت کو بطور معیار تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ قبل از وحی فطرت کو اگر ایمان و عقیدہ کے لیے معیار تسلیم کر لیا گیا ہے تو اخلاق و قانون کے لیے اسے معیار تسلیم نہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ فطرت کی تعیین اور تعریف کی جن مشکلات اور ابہامات کی بنا پر اخلاق اور قانون کے لیے فطرت کو معیار ماننے سے انکار کیا جاتا ہے، وہ غور کیجیے تو عقیدے کے باب میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ انسان نے اخلاق اور قانون سے زیادہ عقیدہ کے میدان میں اپنی توحیدی فطرت سے انحراف کیا ہے۔ دنیا میں قتل، جھوٹ اور چوری کو درست اور جائز قرار دینے والا کوئی ایک بھی صحیح الدماغ انسان نہیں ملے گا۔ قانون میں بھی انسان اپنی فطرت سے بہت کم منحرف ہوا ہے، خیر و شر، عدل و انصاف کے تعین میں اس نے بہت ہی کم خطا کی ہے، لیکن سب سے زیادہ انحراف انسان سے اگر سرزد ہوا ہے تو وہ عقیدے میں ہوا ہے۔ دنیا میں توحید پرستوں کے مقابلے میں غیر توحیدی عقائد کے حامل افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اس کے باوجود فطرت کو بطور معیار ماننے سے انکار کرنے والے بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ عقیدے کے باب میں انسانی کی اصلی فطرت توحید پر ایمان لانا ہے، اور یہی حق و باطل کا معیار قرار پاتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں یہ اس لیے تسلیم کرنا پڑا ہے کہ اس بارے میں قرآن و حدیث میں چند بیانات آ گئے ہیں۔ قرآن میں عہد الست کا ذکر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ روایت، جس میں خبر دی گئی ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین یعنی اس کا ماحول اس کو یہودی، نصرانی اور مجوسی وغیرہ بنا دیتا ہے۔ 
غور کیجیے کہ عقیدے کے باب میں قرآن و حدیث میں آنے والے بیانات، فطرت کا محض ذکر کر رہے ہیں،فطرت کی تعیین تو وہ بھی نہیں کرتے۔ پھر کس بنیاد پر عقیدہ و ایمان میں فطرت کو معیار تسلیم کر لیا گیا ہے؟
وحی کی رہنمائی سے ہٹ کر بھی بشریات و دینیات کے محققین، مثلا کیرن آرمسڑانگ اور دیگر بہت سے، بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہر دور اور ہر جگہ کے انسان کا پہلا عقیدہ توحید ہی تھا، شرک اور الحاد بعد کے انحرافات ہیں۔ یہ قبل از وحی فطرت کی شہادتیں ہیں۔
ہمارا مشاہدہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ بچے فطرت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی وہ ذرا شعور سنبھالتے ہیں تو خالق کے بارے میں سوال کرنے لگتے ہیں۔ یعنی اقرار خداوندی ان کے شعور میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں پوچھتے کہ یہ سب کیسے بن گیا، وہ یہ پوچھتے ہیں کہ یہ سب کس نے بنایا۔ نیز، وہ چاند سورج سے لے کر اپنی تخلیق تک ہر مخلوق کے لیے صرف ایک خالق کو تصور کر کے سوال پوچھ رہے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ یہ پوچھتے ہیں کہ کس نے یہ سب بنایا، نہ کہ کس کس نے یہ سب بنایا۔ بچوں کے سوالوں میں ان کے الفاظ کے چناؤ پر غور کیجیے۔ 
بہرحال مدعا یہ ہے کہ فطرت کو ایمان و عقیدہ کے باب میں معیار ماننے کے نتیجے میں بھی تعریف اور تعیین کے انہیں منطقی اور فلسفیانہ ابہامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اخلاق و قانون میں فطرت کو معیار ماننے کے خلاف پیش کیے جاتے ہیں۔ تس پر بھی اگر فطرت عقیدے کے لیے معیار بن سکتی ہے تو اخلاق و قانون کے لیے کیوں نہیں بن سکتی؟
مسئلہ در حقیقت یہ نہیں کہ فطرت معیار ہے یا نہیں، فطرت کو معیار مانے بنا آپ دو قدم نہیں چل سکتے۔ بحث اصل میں یہ ہونی چاہیے کہ فطرت کی تعیین کے پیمانے کیا ہونے چاہییں۔ اس پر بحث کرنے کی بجائے یہ حل پیش کر دیا گیا ہے کہ جہاں وحی خاموش ہے یا اجمالی حکم دے دیا گیا ہے جیسے طیبات اور خبائث اور فحاشی کی تعیین وغیرہ تو وہاں قبل از وحی نہیں، بلکہ بعد از وحی ماحول میں وحی کی رہنمائی میں تربیت پانے والے علم و فہم کو یہ منصب عطا کیا جائے کہ وہ وحی کو بنیاد پر بنا کر ان اجمالی اور غیر منصوص مسائل میں خیر و شر اور عدل و ظلم کے معیار طے کرے اور ان کی بنا پر قانون سازی بھی کرے۔
اس میں کوئی حرج نہیں ہے ایسا کر لیا جائے، لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوتا۔ وحی کی روشنی میں تربیت پانے والے اذہان بھی خیر و شر، عدل و انصاف اور طیبات و خبائث کی تعیین میں ہر بار درست نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے؛ بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ ان اذہان کی اکثریت جس مسئلے پر متفق ہوئی، وہ بعد میں خلافِ فطرت ثابت ہوا اور پھرفطرت کے دباؤ پر انہیں اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا۔ وحی کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا لینے سے بھی انسانی عقل و فہم کی آمیزش، معاملہ کو پھر اسی جگہ پہنچا دیتی ہے جہاں سے مسئلہ شروع ہوا تھا۔ 
مثال کے طور پر فقہ حنفی نے مفقود الخبر (گم شدہ) شخص کی جائیداد کی تقسیم اور اس کی بیوی کے لیے تنسیخ نکاح سے پہلے انتظار کی مدت مفقود الخبر کی ودلادت سے70 سے 120 سال تک مقرر کی تھی، یعنی جب تک کسی شخص کے زندہ رہنے کا امکان ہو۔ اس فتوے کے خلافِ فطرت ہونے میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے؟ لیکن شارع کو پوائنٹ آف ریفرینس بنا کر فقہا کا یہ فتویٰ برسوں کار فرما رہا تا آں کہ جنگ عظیم میں جب ہندوستانی مسلمان سپاہی برطانیہ کے پرچم تلے معمولی اجرت پر مختلف بین الاقوامی محاذوں پر داد شجاعت دیتے ہوئے بڑی تعداد میں مفقود الخبر ہونے لگے، اور ان کی خواتین کو معلوم ہوا کہ دوسری شادی کے لیے انہیں شوہر کی طبعی عمر یعنی کم از کم 70 برس تک انتظار کرنا ہوگا، نیز فقہ حنفی میں تنسیخ نکاح میں موجود دیگر سختیوں کی وجہ سے، مسلم خواتین نیاسلام سے ارتداد اختیار کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ نکاحِ ثانی کر سکیں۔ اس پر اس وقت کے بیدار مغز علما کو احساس ہوا کہ تنسیخ نکاح کے بارے میں یہ فتاوی اگرچہ فقہ کی فنی اور منطقی بنیادوں پر شارع کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا کر ثابت تو کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہ ہیں خلافِ فطرت، چنانچہ انہوں نے اسی فطرت کی پیروی میں ان میں ترامیم کر کے ایسی خاتون کے لیے شوہر کے انتظار کی مدت کم کر کے چار سال مقرر کر دی۔
اب یہاں دیکھیے، اس مسئلے کے درست یا غلط ہونے کے لیے معیار کوئی فقہی بنیاد نہیں بنی، فنی و منطقی لحاظ سے مسئلہ درست تھا۔ اس کے نا درست ہونے کے لیے معیار پھر وہی فطرت بنی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ کوئی دلیل، کوئی مقدمہ قائم کرنے سے پہلے انسانی فطرت نے یہ فتویٰ دے دیا کہ یہ درست نہیں ہو سکتا، اس کو درست کرنے کے لیے دلیل بعد میں تلاش کی گئی۔ اور یہ فطرت وہی عام فطرت ہے جو قبل از وحی بھی یہ رہنمائی دینے سے قاصر نہیں ہے۔فقہ میں ایسے غیر فطری فتاوی کی طویل فہرست گنوائی جا سکتی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ فطرت کو بطور معیار تسلیم کرنے سے انکار کرنے کے بعد بھی عین اسی لمحے اس کا اقرار بھی ہر لمحہ کیا جا رہا ہوتا ہے۔ اس لیے اصولی بات یہی ہے کہ نہ صرف عقیدے بلکہ اخلاق اور قانون کی بنیاد بھی فطرت ہے۔
یہ دعویٰ کہیں نہیں کیا گیا کہ فطرت مکمل رہنمائی کرتی ہے۔ ایسا ہوتا تو وحی کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہمیشہ یہ کہا گیا ہے کہ دین کے احکامات فطرت کے مطابق ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم ان معاملات اور اطلاقات میں جہاں وحی خاموش ہوتی ہے، فطرت کے مطابق اخلاق و قانون کے معاملات بھی طے کرتے ہیں۔فطرت سے کی جانے والی تعیین میں بھی غلطی کا امکان اسی طرح موجود ہوتا ہے جیسے بعد از وحی، شارع کو پوائنٹ آف ریفرینس بنانے کے بعد فقہا کے درمیان کسی چیز کے خیر و شر یا مبنی بر عدل ہونے، یا حلال و حرام کی تعیین میں ہوتا ہے۔ اس معاملے میں درست طرز عمل، درست تر نتیجے تک پہنچنے کا کوشش کرنا ہوتا ہے نہ کہ سرے سے بنیاد ہی کا انکار کرنا۔
فطرت کی تعیین کی بحث ریاضیاتی اور منطقی اصولوں پر نہیں ہو سکتی۔ یہ معاشرتی علوم کی طرح ہے، جہاں درست سے درست تر کا سفر جاری رہتا ہے۔ جیسے عمرانیات اور دینیات کے ماہرین آج اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ کہ انسان اصلا موحد تھا، مشرک بعد میں ہوا۔ درست تر کی کھوج، یہی خدا کی آزمایش ہے جس کے لیے اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔
چند اختلافی امور میں فطرت کی تعیین کا مسئلہ فہم کے امکانات کا دائرہ ہے۔ اس معاملے میں ایک سے زائد آرا ہو سکتی ہیں۔ ہمارے نزدیک جن علاقوں اور قوموں میں وحی کا سلسلہ تا دیر جاری رہا، یعنی وہ فطرت کے ساتھ وحی کی رہنمائی سے بھی مسلسل مستفید ہوتی رہیں، اور فطرت سے انحرافات پر وحی کی صورت میں ان پرمسلسل تنقید بھی ہوتی رہی، اور وہ وحی سے اثر سے قائم ہونے والی تہذہب میں پرورش پاتی رہیں، ان کی فطرت بہت حد تک معیاری ہوتی ہے۔ یہاں یہ نہ کہا جائے کہ یہ معیار بھی وحی کی روشنی میں یہ طے ہوا ہے اس لیے معیار تو وحی ہوئی، نہیں، بلکہ وحی نے اس فطرت کی حفاظت ایک حد تک کیے رکھی، اس لیے ان کی فطرت معیاری ہوئی۔ یہ بھی درست ہے کہ وحی کی رہنمائی اور اس کی تنقید کے ماحول میں پرورش پانے والا انسان اور معاشرہ انسان کی اصلی فطرت کو زیادہ محفوظ رکھنے کا امکان رکھتا ہے، لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ اس کے بغیر انسان کی اصلی محفوظ فطرت نہیں پائی جاتی یا اس کی تعیین کرنا ناممکن ہے۔
اصول میں فطرت کو معیار تسلیم کر لینے کے بعد بعض اوقات اس کے اطلاقات میں ہونے والے اختلاف کے حل کے لیے ہم وہی طرز عمل اختیار کریں گے جیسے عقیدے کے باب میں کرتے ہیں کہ باوجود بیشتر انسانوں کے غلط عقائد میں ملوث ہو جانے کے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قبل از وحی فطرت، اقرار خدا اور اقرار توحید پر مبنی ہے، اور وہی معیار ہے، غلط عقائد کے جمگھٹے میں ہم اس فطرت سلیم کو کھوجتے ہیں، تعیین کرتے ہیں، اور اس کے لیے عقلی اور فکری بنیادیں فراہم کرتے ہیں، اسی طرح، لیکن اس سے بہت کم تگ و دو ہمیں کرنا پڑتی ہے جب اخلاق اور قانون میں فطرت سلیم کی تعیین میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ جس طرح فقہا کے درمیان اختلاف ہو جاتا ہے تو ہم دلائل کی بنیاد پر کوئی رائے اختیار کرتے ہیں، یہاں بھی ہم ایسا ہی کریں گے۔ اس میں ہم وحی، وحی کے اثر سے قائم ہونے والی تہذیب اور اجتماعی شعور سب سے مدد لیں گے۔ لیکن ایسے اختلافی مقامات، اتفاقی مقامات کی نسبت کہیں کم پیش آتے ہیں۔

مشال خان کا واقعہ، الشریعہ اور سیکولرزم

محمد عرفان ندیم

ہمارے سیکولر احباب کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ مذہب کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق دیکھتے ہیں ،مذہب کے حوالے سے ان کی سوچ ان کی مخصوص دانش کے تابع ہوتی ہے اور ان کی یہ دانش صرف تاریخی اسلام تک محدود ہے ، وہ یہ تو دیکھتے ہیں کہ تاریخی تناظر میں اسلام نے کیا کیا غلطیاں کی ہیں لیکن اسلام بذات خود اپنا تعارف کیا کرواتا ہے اور قرآن و سنت میں اسلام کا جو تعارف کروایا گیا ہے اس تک ان احباب کی پہنچ نہیں ہوتی اور یہ مسلمانوں کی غلطیوں کی بھی اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔ سر دست ہم مشال خان کے واقعے کو لیتے ہیں ، مشال کا قتل بلاشبہ ہماری ا جتماعی بے حسی اور ہماری اجتماعی اخلاقیات کا جنازہ تھا جسے مسلمانوں کے ایک گروہ نے سر انجام دے کر ہمارے اخلاقی دیوالیہ پن پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ ہمیں اس واقعے پر تجزیہ کرنے سے پہلے چند باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے تھا۔ در اصل ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہ ایک اوسط درجے کا معاشرہ ہے اور ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اوسط درجے کے معاشروں میں شعور، آراء کا اختلاف اور نئی بات کہنے والوں کے لیے اسپیس بہت کم ہوتی ہے ، ایسے معاشرو ں میں نئی روایات، نئی فکر اور نئی بات کے لیے اسپیس بدتریج بنتی ہے۔ معاشرے کا اجتماعی فہم اور شعور چونکہ اس جگہ پر نہیں ہوتا اس لیے کوئی بھی نئی بات خواہ وہ کتنے ہی مضبوط استدلال کے ساتھ کیوں نہ کہی جائے وہ معاشرے کے اجتماعی فہم اور شعور سے بالا تر ہوتی ہے اور اس پر مزاحمت ایک لازمی امر ہے ۔ ارسطو اور سقراط سے لے کے گلیلیو اور نیوٹن تک پوری انسانی تاریخ اس پر شاہد عدل ہے ۔ 
مشال خان کا قتل بھی اسی اوسط درجے کے معاشرے کا ایک فعل اور اقدام تھا، لہٰذا ہمیں اس کا تجزیہ کرتے وقت معاشرے کی نفسیات، اس کے اجتماعی فہم اور معاشرے کے سیاق سباق کو لازمی طور پر ذہن میں رکھنا چاہیے ۔ بجائے اس کے کہ ہم لٹھ لے کر مذہب کے پیچھے پڑ جائیں، ہمیں ان زمینی حقائق کو نظر ا نداز نہیں کر نا چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ امر بطور خاص ذہن میں رہے کہ افراد اور اقوام کی طرح معاشروں کا شعور بھی بتدریج کمال کو پہنچتا ہے۔ مغربی معاشرے ،جنہیں ہمارے ہاں آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ، سینکڑوں سال کا سفر طے کر کے اپنے موجودہ مقام تک پہنچے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا اجتماعی فہم اور شعور اس قابل نہیں کہ انہیں بطور مثال پیش کیا جا سکے۔، ہمارے معاشرے کی تو عمر ہی ابھی ستر سال ہے اس لیے مشال خان سمیت دیگر مذہبی اور سیاسی معاملات میں تجزیہ کرتے وقت معاشرے کی ان بنیادی نفسیات اور عوامل کو ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔ ان عوامل کو مدنظر رکھے بغیر جو بھی تجزیہ پیش کیا جائے گا وہ ناقص اور ادھورا ہو گا۔ 
مشال خان کے واقعے پر ہمارے اکثر احباب، دانشوروں اور کالم نگاروں نے جو تجزے اور تبصرے پیش کیے ہیں میرے ناقص فہم کے مطابق ان میں مذہب کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیااور اصل عوامل کو نظر انداز کر کے سارا ملبہ مذہب اور اسلام پر گرا دیا گیا ہے ۔ میں یہاں سب اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس کا حوالہ تو نہیں دے سکتا البتہ الشریعہ کے حوالے سے ہی اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کروں گا ۔ مشال خان کے حوالے سے الشریعہ کے مدیر محترم عمار خان ناصر کی یہ تحریر پہلے ’’ ہم سب ‘‘ ویب سائٹ پر شائع ہوئی اور بعد میں مدیر محترم نے اسے الشریعہ کے اداریے کے طور پر شائع کر دیا ۔ الشریعہ جیسے موقر رسالے میں اس تحریر کا بطور ادارتی نوٹ چھپنا اور محترم عمار خان ناصر کے نام سے چھپنا کہ جو بذات خود صاحب علم اور مضبوط استدلال کے مالک ہیں کم از کم میرے لیے حیران کن تھا ۔ مدیر محترم نے اپنی تحریر کا عنوان یہ رکھا ہے ’’ اگر مذہبی معاشرہ یہی ہے تو ہمیں سیکولرزم کی ضرورت ہے ‘‘اور تحریر کے آخر میں لکھتے ہیں ’’ہمیں سیکولر ریاست اور سیکولر معاشرے سے اصولی اور نظریاتی طور پر شدید اختلاف ہے لیکن اگر ’’ مذہبی معاشرے‘‘کا نقشہ یہی ہے تو خدا کو حاضر ناظر جان کر کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اب سیکولرزم کی ضرورت ہے ‘‘ ۔ 
میرے ناقص فہم کے مطابق یہ استدلال کئی پہلوؤ ں سے ناقص اور کمزور ہے۔ سب سے پہلے اس تحریر کا عنوان ہی غلط ہے اور استدلال کی غلطی عنوان سے ہی واضح ہے ۔ مثلاً موصوف نے اس واقعے کا سارا ملبہ ’’ مذہبی معاشرے ‘‘ پر گرا دیا ہے کہ اگر مذہبی معاشرہ یہی ہے تو ہمیں سیکولرزم کی ضرورت ہے ، دوسرے لفظوں میں وہ اس سارے واقعے کا ذمہ دار مذہب کو سمجھتے ہیں کہ مذہب کی وجہ سے یا مذہب کے نا م پر یہ سب کچھ ہوا ، میرا ماننا یہ ہے کہ یہاں وہ جس معاشرے کو مذہبی معاشرہ کہہ رہے ہیں وہ سرے سے مذہبی معاشرہ ہے ہی نہیں بلکہ موزوں ترین لفظوں میں آپ اسے uncivilized (غیر مہذب ) معاشرہ کہہ سکتے ہیں ۔ یعنی یہ کام ایک ایسے معاشرے اور اس میں رہنے والے افراد نے کیا ہے جنہوں نے مذہب کوٹھیک طرح سمجھا ہی نہیں ، جو اخلاقی طور پر پستی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں اور داخلی طور پر وہ تہذیب سے ناآشنا ہیں ۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ معاشرہ مذہبی ہوتا تو مشال کے ساتھ ایسا کبھی نہ ہوتا کیونکہ مذہب تو احترام انسانیت سکھاتا ہے اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے ۔
اس استدلال کا دوسرا کمزور پہلو یہ ہے کہ اس میں سیکولر معاشرے کو ایک آئیڈیل معاشرے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر معاشروں میں اس طرح کے جرائم نہیں ہوتے ؟ وسیع تر تناظر میں د یکھیں تو پچھلی ایک صدی میں سیکولر معاشروں نے جن کروڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا ہے مذہبی معاشروں میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ پھر ماضی قریب میں سیکولر معاشروں نے جو روش اپنائے رکھی کیا وہ واضح نہیں ۔ افغانستا ن سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے مخالفین کی لاشوں کی بے حرمتی ، مروا الشربینی کی بھری عدالت میں شہادت، عافیہ صدیقی پر ہونے والا ظلم ، عراق و افغانستان میں نہتے نوجوانوں کا قتل اور ان کی لاشوں پر بول و براز اوراس کے علاوہ انسانیت کی تذلیل و تحقیرکے ایسے بیسیوں واقعات ، سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سیکولر معاشرے کے کس پہلو کو اسلامی معاشرے کے لیے آئیڈیل قرار دیا گیا ہے ۔ 
اس استدلال کا تیسرا کمزور پہلو یہ ہے کہ اس میں چند مسلمانوں کی غلطی کا سارا ملبہ مذہب اور اسلام پر ڈال دیا گیا ہے ۔ مشال خان کا قتل چند مسلمان جو کہ اخلاقی طور پر کمزور تھے ،یہ ان کا فعل تھا اور اس پر ان کی مذمت کرنی چاہیے اور میری معلومات کی حدتک ، سب اہل مذہب نے اس کی مذمت کی بھی ہے لیکن مدیر محترم یہاں تھوڑا سا پھسل گئے ہیں اور انہوں نے ان چند افراد کو تو کچھ نہیں کہا بلکہ الٹا مذہب اور مذہبی معاشرے کوہی نشانے پر رکھ لیا ۔ ہونا تو یہ چایئے تھا کہ وہ معاشرے کی پست اخلاقیات کا نوحہ پڑھتے ، ان افراد پر تنقید کرتے اور ان کی بہتری کے لیے کوئی تجویز دیتے انہوں نے مذہب پر ہی طبع آزمائی شروع کر دی۔ انہوں نے اپنے تجزیے میں ان افراد کے اجتماعی شعور ، معاشرے کے ارتقائی مراحل اور سیاق و سباق کو یکسر نظر انداز کر دیا اور مشال کے قتل کا سارا ملبہ مذہب پر گرا دیا۔ 
آپ ان کی یہ عبارت دیکھیں ’’ یہ بھی اب واضح ہو چکا ہے کہ توہین مذہب کا الزام بے بنیاد تھا ۔قتل کے اصل محرک کے متعلق بعض واقفان حال کی رائے یہ ہے کہ مشال خان متعلقہ یونیورسٹی کے نظام ،تعلیم کے معیار، اساتذہ اور انتظامی عملہ کی تقرری میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی اقرباء نوازی کا ناقد تھااور انتظامیہ و اساتذہ اس کے سوالوں کا جواب دینے سے خود کو عاجز پاتی تھی،چانچہ اس سے نمٹنے کے لیے توہین مذہب کے الزام کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا‘‘دیکھیں اس عبار ت میں وہ خود اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ قتل کے اصل محرکات کچھ اور ہیں اور مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ،لیکن حیرت ہے کہ اس اقرار کے باوجود وہ مذہب کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کر رہے ہیں ۔ ایک طرف وہ خود اس بات کے داعی ہیں کہ اس سارے واقعے میں مذہب مظلوم ہے اور اسے استعمال کیا گیا اور دوسرے طرف مذہب کو ہی اپنی تحریر میں آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیتے ہیں ، کیا ان کی یہ تحریر داخلی تضاد کا ملغوبہ نہیں ؟یہاں مدیر محترم نے وہی غلطی کی ہے اور اسی اعتراض کو دہرا یا ہے جو ہمار ے اکثر سیکو لر احباب کرتے ہیں۔
ہمارے سیکولر احباب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مذہب کو اپنے مخصوص ذہنی سانچے اور مخصوص زاویہ فکر کے تحت ہی دیکھتے ہیں، چونکہ مذہب کی اپنی ایک تعبیر اور اپنا ایک مزاج ہے اور وہ کسی انسانی ذہن کی تخلیق نہیں اس لیے ہمارے سیکولر احباب اسے سمجھنے میں غلطی کر جاتے ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ کہ ہمارے ان سیکولر احباب کا فہم اسلام صرف ثانوی مصادر تک محدود ہوتا ہے اور وہ اسلام کو اس کے اصل مصادر قرآن وسنت سے سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں ، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ معاصر دنیا میں اسلام کے نام پر، کچھ گروہوں کی طرف سے اسلام کی جو غلط تشریخ کی جا رہی ہوتی ہے اسی کو اسلام سمجھ بیٹھتے ہیں اور پھر ان چند گروہوں کی غلط تشریحات کی نشاندہی اور ان کی مذمت کی بجائے اصل اسلام کو ہی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس سے اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی انفرادی واجتماعی غلطیوں کو اسلام کے سر تھونپ دیتے ہیں اور تاریخی طور پر اسلام کی تفہیم و تبیین میں لوگوں نے جو غلطیاں کی ہیں وہ بھی مذہب کے کھاتے میں ڈال کر کہتے ہیں کہ دیکھو یہ ہے اسلام ۔یہ ہے اسلام جو لوگوں کے گلے کاٹنے کی دعوت دیتا ہے یا جو عوامی مقامات پر تباہی پھیلانے میں ملوث ہے ۔ موصوف نے بھی یہی کیا ہے کہ چند بد تہذیب اور اخلاقی طور پر پست مسلمانوں کی غلطی کو اسلام کے کھاتے میں ڈال کر کہتے ہیں کہ اگر یہ اسلام ہے تو ہمیں سیکولرزم کی ضرورت ہے ، کیا موصوف اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں گے کہ انہوں نے ا سلام کی یہی تشریح پڑھی ہے اور کیا وہ اسی اسلام سے واقف ہیں ؟اور اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناًنفی میں ہے تو وہ چند مسلمانوں کی غلطی کی سزا اسلام کو کیوں دے رہے ہیں ؟ حیرت ہے کہ مدیر محترم تو اسلام کا کافی گہرا فہم رکھتے ہیں اور ان کی زندگی اسلامی فقہ وشریعت اور اجتہادی مسائل کے بارے میں غور و فکر سے مزین ہے، لیکن اس کے باوجود انہیں نے اتنی سطحی بات کیسے کر دی اور اسے اپنے ادارے کی پالیسی کے طور پر اداریے میں کیسے شائع کر دیا ۔ 
خیر ہمارے سیکولر احباب جنہیں اسلامی فقہ و شریعت سے براہ راست استفادے کا دور سے بھی تعلق نہیں اور وہ صرف ماضی وحال میں اسلامی کی تفہیم و تبیین کے ضمن میں کی جانے والی غلطیوں اور تاریخی اسلام کی بنیاد پر اسلام پر اعتراضات کرتے ہیں، ان سے عرض ہے کہ اصل مذہب اور اسلام وہ نہیں جس کو وہ جانتے ہیں بلکہ اصل مذہب اور اسلام وہ ہے جو قرآن وسنت میں مذکور ہے اور جسے اللہ اور اس کے رسول نے بیان کیا اور خلفاء راشدین نے اسے نافذ کے کے دکھایا تھا۔ نہ کہ وہ مذہب کہ جس کی ہردور کی طرح، مشال خان کے واقعے میں مسلمانوں کے ایک خاص گروہ نے تعبیر پیش کی ہے۔ ہم جس ہذہب کی بات کرتے ہیں اورجس کے نفاذ کی بات کرتے ہیں، ہم اسے دنیا و آخرت میں نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں اوراگر ہم نے اسے اپنی زندگیوں سے دیس نکالا دیا ،جیسا کہ ہمارے سیکولر احباب چاہتے ہیں تو ہم دنیا و آخرت میں خسارے میں پڑ جائیں گے اور ہماری دنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی ۔ اور اگر کوئی فرد ٹھیک طرح اسے اپنی زندگی میں نافذ کر لے تو اس کا تزکیہ ہو جاتا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جاتا ہے ۔ اور اگر اس مذہب کو معاشرتی سطح پر اپنایا جائے تو ہمارا یہ وحشیانہ پن کہ جس کا مظاہر ہ ہم ہر دوسرے روز دیکھتے ہیں، مکمل طور پر ختم ہو جائے۔
ہمارے سیکولر احباب مسلمانوں کے صرف خارجی اعمال کو بنیاد بنا کر اصل موقف اور اصل بات سے پھر جاتے ہیں اور سرے سے مذہب ہی کی اہمیت کا انکار کر دیتے ہیں ۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ ماضی کی تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلام کی غلط تشریح اور اس پر عمل کی صورت میں جو غلطیاں مسلمانوں نے کی ہیں یا کر رہے ہیں اس کا بوجھ اسلام پر نہیں بلکہ اس کے ذمہ دار وہ مسلمان ہیں جو یہ غلط تعبیر پیش کر رہے ہیں ۔ آج داعش، طالبان اور جناب جاوید احمد غامدی اسلام کی جو تعبیر و تشریح پیش کر رہے ہیں، اس کا وبال اسلام پر نہیں اور نہ اسلام ان سب کا ذمہ دار ہے ۔ مسلمانوں کی غلطیوں کا ملبہ اسلام پر ڈالنے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک مجمع میں جائے جہاں چند طاقتور مسلمان کمزور مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہوں اور یہ بھی ظالموں کے ساتھ شامل ہو کر ان کا دست و بازو بن جائے اور اگر لوگ پکڑ کر اسے پوچھیں کہ تم کیا کر رہے ہو تووہ کہے کہ ہمارا اسلام کہتا ہے کہ ہمیں مسلمانو ں کی مدد کر نی چاہئے اور آپ لٹھ لے کر اسلام کے پیچھے پڑ جائیں ، حالانکہ اس میں اسلام کا کوئی قصور اور غلطی نہیں بلکہ اس بندے کا اپنا فہم ناقص ہے کہ وہ یہ موٹی سی بات نہیں سمجھ سکا کہ مدد سے مراد مظلوم مسلمانوں کی مدکرنا ہے نہ کہ ظالم کی ۔ 
مذہب اسلام اپنی ذات میں بالکل سچا، واضح اور دو ٹوک ہے اور وہ خود ہر ایسی غلط روش کی سخت مذمت کرتا ہے جس کی نسبت ہمارے سیکولر احباب اور مدیر محترم نے اس کی طرف کی ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ احباب یہاں یہ سوال اٹھائیں کہ آج کل اصل اسلام صرف کتابوں تک محدود ہے اور مسلمانوں کی عملی روایت قطعا اس سے مختلف ہے یا یہ کہ یہ صرف ایک آئیڈیل صورت ہے اور مسلمانوں کی عملی روایت میں کہیں اس کا وجود نہیں ملتا ۔ گویا ان احباب کا کہنا یہ ہے کہ جب اسلام اپنا تعارف کروائے یا ہم اس کے نفاذ کی بات کریں تو اس کو اصل ماخذات سے پیش نہ کریں ، اللہ اور اس کے رسول کے بیان کردہ اسلام کی بات نہ کریں بلکہ ہم اس اسلام کا تعارف کروائیں جس کی نمائندگی خارجیوں ،حجاج اور اکبر نے کی ہے یا جس کی نمائندگی، طالبان ، داعش اور جاوید احمد غامدی کر رہے ہیں ، فیا للعجب۔ ہم اس اسلام کو تعارف کے طور پر کیسے پیش کر سکتے ہیں جس کا اصل اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں اور جسے تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں نے اپنے غلط نظریات کے طور پر معاشرے میں رائج کر دیا ہے ۔ ہم اس اسلام کی تشہیر کیوں کریں اور اس کی طرف دعوت کیوں دیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول نے نازل ہی نہیں کیا بلکہ وہ چند مسلمانوں کی اپنی ناقص فہم کا شاخسانہ ہے۔ 
اور جہاں تک یہ بات ہے کہ ہم جس اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے نفاذ کی بات کرتے ہیں وہ ایک آئیڈیل صورت ہے تو عرض ہے کہ دنیا میں ہر انسان جب کسی نظریے کی دعوت دیتا ہے یا اس کے نفاذ کی بات کرتا ہے تو اس کی آئیڈیل صورت کو ہی سامنے رکھتا ہے اور اسی کی طرف بلاتا ہے ۔ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی انسان کسی نظریے کی دعوت دے اور اس کی بدترین صورت اپنے مخاطب کے سامنے رکھے اور دعوت کے عمل کے دوران اس بدترین صورت کو پیش کرے ۔ذرا آپ بتائیں جب آپ سیکولرزم اور جمہوریت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس کے نفاذ کی بات کرتے ہیں اور اس کے لیے دلائل کے انبار لگا تے ہیں تو کیا آپ اسی آئیڈیل صورت کو سامنے نہیں رکھتے؟ کیا آپ نے کبھی وہ تصویر بھی سامنے رکھی جو ان دونوں اداروں نے پچھلی ایک صدی میں دنیا کے منظر نامے پر پینٹ کی ہے؟ اسی طرح سوشلزم اور کیپٹل ازم کا تصور جب دنیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا تو ان کی آئیڈیل صورت ہی دنیا کے سامنے نہیں پیش کی گئی تھی؟ تو پھر اسلام پر یہ اعتراض کیوں کہ اس کی اصل تصویر چھوڑ کر آئیڈیل صورت پیش کی جاتی ہے۔ پھر یہ بات عقل اور حکمت کے بھی خلاف ہے کہ آپ جس چیز کی طرف دعوت دیں، اس کی ناقص تفہیم، اس کی کم تر صورت اور بد ترین تصویر اپنے مخاطب کے سامنے رکھیں اور پھر اس سے یہ امید رکھیں کہ وہ آپ کی بات نہ صرف سنے گا بلکہ دل وجان سے من وعن اسے قبول بھی کر لے گا۔ 
یہ ہیں وہ ا صل حقائق جو سیکولر احباب اسلام کے خلاف چارج شیٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یہی بات مدیر محترم نے مشال خان کے واقعے پر اپنے ادارتی نوٹ کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ہمیں کسی بھی واقعے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر تجزیہ کرنے سے قبل زمینی حقائق، سماجی نفسیات اور معاشرتی سیاق و سباق کو کسی صور ت نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور میڈیا سے متاثر ہونے کی بجائے اصل حقائق او ر موزوں استدلال کو اپنے تجزیے اور تبصرے کی بنیاد بنانا چاہئے۔ بسا اوقات ایک چیز بدیہی طور پر بالکل واضح اور غیر مبہم ہوتی ہے، لیکن مخاطب اسے اس لیے قبول نہیں کرتا کہ وہ اس کے مخصوص ذہنی سانچے کے مطابق فٹ نہیں بیٹھتی اور اس کا ذہن اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ ذہن اپنے مخصوص ماحول اور اپنے فہم کی بنیاد پر ایک مخصوص ڈھانچہ تیار کر لیتا ہے اور کوئی بھی استدلال خواہ کتنا ہی مضبوط اور محکم کیوں نہ ہو، وہ اسے قبول نہیں کرتا۔ ہمارے سیکولر دوست بھی چونکہ اکیسویں صدی کے مخصوص ماحول، تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں کی طرف سے اسلام کی تفہیم و تبیین کے ضمن میں کی جانے والی غلطیوں اور سیکولر معاشروں کی مادی ترقی کو دیکھ کر ان کے ذہن کا ایک مخصوص سانچہ بن چکا ہے، اب آپ انہیں قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں یا احادیث سے استدلال کریں، یہ کبھی نہیں مانیں گے اور ان کا کوا ہمیشہ سفید رہے گا۔

مکاتیب

ادارہ

آپ کے مجلے میں اردو تراجم قرآن کے سلسلے میں قسط وار ایک جائزہ شائع ہورہا ہے، جس میں مترجمین کی خدمات اور ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے قرآن کے تراجم میں بعض جگہوں پر بشری تقاضوں سے جو تسامح اور غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ان کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے صحیح ترجمے سے باخبر کیا گیا ہے۔ مترجمین میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ ، شیخ سعدیؒ ، شاہ عبدالقادرؒ ، شاہ رفیع الدینؒ ، محمد جوناگذھیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا احمد رضا خاں بریلویؒ وغیرہ کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اور غلطیوں کی نشاندہی کے سلسلے میں قرآنی نظائر اور علمی دلائل سے کام لیا گیا ہے۔ 
یہ عظیم خدمت مولانا حافظ محمد امانت اللہ اصلاحی صاحب کے افادات اور رہنمائی کی روشنی میں ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب انجام دے رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ قرآن اور قرآنی علم کی ایک عظیم خدمت ہے جس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بحمداللہ ہندوپاک دونوں جگہوں پر اس جائزے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس جائزے کے کام کو باحسن طریق انجام دینے کی توفیق عطافرمائے اور قارئین کو اس سے مستفید ہونے کا شرف عنایت کرے۔ 
حافظ امانت اللہ صاحب کی یہ خدمت غیرمعمولی، وقیع اور معتبر ہے۔ موصوف کے علم اور قرآنی فہم کے سلسلے میں بھلے ہی عام لوگوں کو علم نہ ہو، لیکن ۱۹۶۲ء یا ۱۹۶۳ء کی بات ہوگی جب ایک واقعے نے مجھے چونکا دیا، جبکہ ایک بزرگ عالم دین نے جن کا اپنا خاص موضوع بھی قرآن تھا، برملا حافظ امانت اللہ صاحب کے قرآنی فہم اور تفقہ پر اعتماد ظاہر کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ رام پور کے قیام کے دوران جب میں قرآن مجید کا ہندی میں ترجمہ کررہا تھا، اس وقت مجھے قرآن مجید کے مشکل مقامات کو سمجھنے کی فکر ہوتی تھی۔ حالانکہ مولانا عبدالحئی صاحب کا کہنا تھا کہ پریشان ہونے کی ضرورت ہے اور نہ اتنی گہری تحقیق میں پڑنے کی ضرورت ہے، بس یہ ہے کہ جو عام ترجمے قرآن مجید کے ملتے ہیں ان میں سے کسی نہ کسی کی تائید حاصل ہونی چاہیے۔ 
قرآن مجید کے کچھ مشکل مقامات کو سمجھنے کے لیے میں مولانا صدرالدین اصلاحی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ بہت خوشی کے ساتھ میری طرف متوجہ ہوئے اور قرآن کے مطالب اور مفہوم کو سمجھاتے رہے۔ اس سلسلے میں وہ امام راغب اصفہانی وغیرہ کی طرف بھی رجوع کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ قرآن کے ایک مقام کے بارے میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ بہت مشکل مقام ہے اس کے لیے حافظ امانت اللہ صاحب سے ملو، ہمیں امید ہے کہ وہ مسئلہ کو حل کردیں گے، ان کا علم تازہ ہے۔ حالانکہ مولانا کے لیے کچھ نہ کچھ مفہوم بتاکر مجھ کو مطمئن کردینا مشکل نہیں تھا، لیکن یہ انہوں نے اپنی ذمہ داری سمجھی کہ طالب علم کو جہاں تک ممکن ہو، حقیقی رہنمائی ملنی چاہیے۔ مولاناکے اس طرز عمل سے دوباتیں کھل کر سامنے آتی ہیں، ایک یہ کہ اپنے سے کم عمر عالم کے علم، سمجھ اور تفقہ کا برملا اعتراف کرنا، یہ مولانا کی وسیع القلبی کی دلیل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مولانا صدرالدین اصلاحی صاحبؒ جو خود قرآن پر گہری نظر رکھتے تھے اورقرآن ان کا خاص موضوع تھا، وہ مولانا حافظ امانت اللہ اصلاحی صاحب کے علم اور ان کی گہری سمجھ کا نہ صرف یہ کہ دل سے اعتراف کرتے تھے، بلکہ اس کا کھل کر اظہار بھی فرمایا۔ 
مولانا محمد فاروق خان
(مترجم قرآن مجید بزبان ہندی واردو)

علم کلام، فلسفہ تاریخ اور دور جدید کی فکری تحدیات ۔ مدرسہ ڈسکورسز کے تحت تربیتی ورکشاپ کی روداد

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

گزشتہ جنوری میں پاکستان اور انڈیا میں، نوٹرے ڈیم یونیورسٹی، انڈیانا امریکہ کے ذیلی ادارے the Kroc Institute for International Peace Studies کے زیر اہتمام درس نظامی کے فضلاء کے لیے ’’مدرسہ ڈسکورسز‘‘ کے عنوان سے ایک آن لائن تربیتی کورس کا آغاز کیا گیا جس میں تقریباً پندرہ فضلاء انڈیا سے اور اتنے ہی پاکستان سے شریک ہیں۔ ہفتہ میں دو دن آن لائن کلاس ہوتی ہے ، کورس کا مقصد درس نظامی کے فضلاء کو تہذیب و تمدن کے تبدیل شدہ ماحول اور جدید سائنسی نظریات و سائنسی ترقی کی وجہ سے پیدا ہونے والے سوالات سے روشناس کروانا اور علمی طور پر ان سوالات کا سامنا کرنے کے قابل بنانا ہے۔ کورس کے سرپرست ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ ہیں جو آج کل یونیورسٹی آف نوٹریڈیم کے مختلف اداروں the Kroc Institute for International Peace Studies, the Department of History اور the Keough School of Global Affairs میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے، کیپ ٹاؤن یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے اسلامیات اور عربی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ ڈاکٹر ماہان مرزا صاحب اس کورس کے کوآرڈینیٹر ہونے کے ساتھ انسٹرکٹر کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ماہان مرزا کا آبائی تعلق پاکستان سے ہے۔ انہوں نے پہلے یونیورسٹی آف ٹیکساس، آسٹن سے میکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر مذہبی تعلیم کی طرف رجوع کیا اور Yale University سے مذہبیات میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل کی۔ انڈیا سے ڈاکٹر وارث مظہری صاحب اس کورس کی Lead faculty ہیں۔ ڈاکٹر وارث مظہری نے دار العلوم دیوبند سے درس نظامی کی تعلیم حاصل کی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ، انڈیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ پاکستان میں مولانا عمار خان ناصر اس کورس میں Lead faculty کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ 
کورس کے پہلے سمسٹر کے اختتام پر 5 تا 11 اپریل 2017 ایک ntensive workshop منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر ماہان مرزا صاحب امریکہ سے تشریف لائے۔ پہلے تین دن انہوں نے انڈیا میں گزارے اور وہاں کے شرکاء کے ساتھ مختلف موضوعات پر نشستیں ہوئی جن میں پاکستان کے شرکاء آن لائن شریک رہے۔ تین دن کے بعد شرکاء کے لیے ایک Study Tripکا انتظام کیا گیا تھا۔ انڈیا کے شرکاء نے اس ٹرپ کے دوران دہلی میں مولانا وحید الدین خان اور علی گڑھ میں ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی سے ملاقات کی اور مختلف علمی و تاریخی مقامات کا دورہ کیا، جبکہ پاکستان کے شرکاء نے 8 اور 9 اپریل کو اسلام آباد کا دو روزہ مطالعاتی دورہ کیا۔ 
8 اپریل کو شرکاء نے الندوہ لائبریری ، مری روڈ چھتر میں ادارے کے سربراہ مفتی سعید خان صاحب سے ملاقات کی اور ان کی راہنمائی میں لائبریری کے مختلف شعبہ جات ملاحظہ کیے۔ اسی دن شام کے وقت ایک مقامی ہوٹل میں ڈاکٹر ادریس آزاد (پروفیسر آف فزکس، انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد) اور ڈاکٹر محمد زاہد مغل (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ معاشیات، نسٹ اسلام آباد) کے ساتھ نشست کا اہتمام تھا جس میں اس موضوع پر بھرپور گفتگو کی گئی کہ فزکس کے میدان میں جدید سائنسی تصورات کیا ہیں، نیز یہ کہ ان تصورات سے مذہب کے متعلق پیدا ہونے والے سوالات کیا ہیں اور ان کا کس طرح سامنا کیا جا سکتا ہے۔ اس مجلس میں ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب بطور صدر مجلس شریک ہوئے اور اختتامی گفتگو کے ساتھ دعا بھی انہوں نے ہی کروائی۔
9 اپریل کو دس بجے دن ایک مقامی ہوٹل میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (PIPS) کے زیر اہتمام کورس کے شرکاء کے لیے مختلف سائنس دانوں کے ساتھ نشست کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں PIPS کے نمائندہ محمد اسماعیل خان، سینئر کالم نگار اشفاق سلیم مرزا اور معروف دانشور اور قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اے ایچ نیر شریک تھے۔ اسی دوران ڈاکٹر ماہان مرزا بھی انڈیا سے پاکستان پہنچ چکے تھے جو اس نشست میں ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ اس مجلس میں پروفیسر اے ایچ نیر کے ساتھ ان کے ایک کولیگ ڈاکٹر رضوان بھی تشریف لائے تھے جنہوں نے جدید فزکس کے بنیادی ڈھانچے پر عمدہ گفتگو کی۔ اس نشست کا موضوع بھی جدید سائنسی تصورات کی وجہ سے مذہب کو درپیش چیلنجز ،تھا لیکن اس سے ہٹ کر بھی بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ شرکاء نے ان موضوعات پر کھل کر گفتگو کی اور ماہرین نے طلبہ کے سوالات کو خندہ پیشانی سے سنا اور کھلے دل سے ان کے جوابات دینے کی کوشش کی۔ 
Intensive کے اختتام پر یہ قافلہ گوجرانوالہ واپس روانہ ہوا۔ ڈاکٹر ماہان مرزا بھی ساتھ ہی گوجرانوالہ تشریف لے آئے اور اگلے دو دن ان کی سرپرستی میں الشریعہ اکادمی میں ورکشاپ کی مختلف نشستیں منعقد کی گئیں جس میں انڈیا کے شرکاء بھی آن لائن شریک ہوئے۔ انڈیا میں ہونے والی نشستوں میں ڈاکٹر وارث مظہری نے "امام غزالی کا فلسفہ علم" پر گفتگو کی، جبکہ ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی نے "علم الکلام کے اساسی مباحث" پر اور ڈاکٹر راما کرشنا نے " concept of regional "history and universal history پر روشنی ڈالی۔ ورکشاپ کے سارے سیشنز میں ڈاکٹر ماہان مرزا نے فلسفے کے ابتدائی تعارف پر لکھنے جانے والے جوسٹین گارڈر کے مشہور ناول "Sofie's world" کے مختلف حصوں کا خلاصہ بیان کیا۔ یہ ناول شرکاء کورس کو ورکشاپ سے پہلے مہیا کر دیا گیا تھا تاکہ وہ اس کا مطالعہ کر کے ورکشاپ میں شریک ہوں۔ پاکستان سے مولانا عمارخان ناصر نے علامہ ابن خلدون کے فلسفہ تاریخ پر بات کی۔ اختتامی نشست سے استاذ گرامی مولانا زاہد الراشدی نے مختصر خطاب کیا اور مذہب اور سائنس کے عنوان سے پر مغز گفتگو کی۔ انھی کی دعا پر اس ورکشاپ کا اختتام ہوا۔ 
ورکشاپ میں ہونے والی کچھ گفتگوؤں کا خلاصہ ہم یہاں پر پیش کر دیتے ہیں۔ 
ورکشاپ میں مولانا عمارخان ناصر نے "مقدمہ ابن خلدون اور فلسفہ تاریخ" کے موضوع پر گفتگو کی۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
ابن خلدون سے ہم لوگ واقف ہی ہیں اور ان کو فلسفہ تاریخ کے بانی کے طور پر جانتے ہیں۔ ابن خلدون کے حوالے سے تین چار حوالوں سے گفتگو ہو گی۔ 
ان میں ایک بات تو یہ ہے کہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ کی بالکل ابتدا میں تاریخی واقعات کو جانچنے کے جو معیارات قائم کیے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ محدثانہ معیار پر روایت کو جانچنے کے معیارات کے ساتھ اس روایت یا واقعہ کے متن کو کچھ عقلی و معاشرتی معیارات پر بھی جانچنے کی ضرورت ہے ۔اگر واقعہ عقلاً اور عادۃ ممکن نہیں تو راویوں کی جرح و تعدیل کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس اصول کے تحت ایک تو ابن خلدون نے بہت سی تاریخی روایات کو پرکھا ہے، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کچھ ایسی روایات پر بھی نقد کیا ہے اور سوالات اٹھائے ہیں جو احادیث کی کتابوں میں مستند ذرائع سے روایت ہوئی ہیں۔ ان میں ایک روایت حضرت آدم علیہ السلام کے قد کے بارے میں ہے کہ ان کے قد کی لمبائی ساٹھ ذراع تھی ، پھر آہستہ آہستہ نسل آدم کا قد کم ہوتا گیا اور اب تک کم ہورہا ہے۔ یہ روایت محدثین کے معیار کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے، اور صحیح بخاری میں آئی ہے۔ انہوں نے اس روایت پر یہ سوال اٹھایا کہ ہمارے پاس جو تاریخی ریکارڈ موجود ہے جو کئی ہزار سال پہلے تک کا ہے، اس میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انسانوں کا قد اس قدر لمبا تھا۔ 
اسی طرح ظہور مہدی کی روایات پر انہوں نے سوالات اٹھائے۔ انہوں نے ان روایات پر محدثانہ اسلوب میں بھی نقد کیا ہے، لیکن اصل ان کا نقد تاریخی اعتبار سے ہے۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ اس دور میں جبکہ قریش کی سیاسی عصبیت ختم ہو چکی ہے، کوئی ایک شخص آ کر کیسے اپنے شخصی بل بوتے پر ان کے اقتدار کو دوبارہ قائم کر دے گا؟ یہ تاریخ اور سیاست کے اساسی قواعد کے خلاف ہے۔ اسی طرح غالباً ابن خلدون نے یہ بھی محسوس کیا کہ جس دور میں یہ روایات زیادہ مشہور ہوئی ہیں، اس وقت کچھ سیاسی عوامل تھے اور کچھ گروہوں کی سیاسی ضرورت تھی جو اس طرح کے تصور کا محرک بنی۔ اس ماحول کے زیر اثر یہ روایتیں بنائی گئیں یا ان کی نسبت کی گئی۔ بہرحال یہ ابن خلدون کے تنقیدی منہج کا اہم نکتہ ہے کہ انھوں نے روایات کو پرکھنے کا جو درایتی معیار قائم کیا، وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محدثانہ ذرائع سے آنے والی روایات پر نقد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں جو مذہبی ذہن کے لیے ایک حساس معاملہ بن جاتا ہے۔
دوسرا پہلو ان کا مشہور نظریہ عصبیت ہے، کہ سیاسی طاقتیں کیسے اقتدار حاصل کرتی ہیں ، کیسے ان کا اقتدار قائم رہتا ہے اور کیسے اور کب وہ زوال کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے عصبیت کی تھیوری پیش کی۔ اس تصور کو اسلامی تاریخ پر جب ابن خلدون نے منطبق کیا ہے تو کئی اہم تاریخی تغیرات کی تعبیر میں دوسرے مؤرخین سے ان کی رائے کافی مختلف ہو گئی ہے۔ مثلاً وہ روایات جو قریش کی حکمرانی کے بارے میں آئی ہیں، ان کی روشنی میں کافی عرصہ تک یہ مذہبی اور کلامی بحث چلتی رہی ہے کہ مذہبی طور پر قریش ہی خلافت کے حق دار ہیں۔ کئی صدیوں تک یہ بات ایک مذہبی تصور کے طور پر مقبول رہی۔ لیکن ابن خلدون نے اس کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ کوئی مذہبی ہدایت نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے وہی عصبیت کا اصول کام کر رہا تھا۔ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ قریش کو قبائل مضر میں غالب حیثیت حاصل تھی اور عرب کے سارے قبائل ان کی اس حیثیت کا اعتراف کرتے تھے۔ چنانچہ اگر قریش کے علاوہ اقتدار کسی کے سپرد کیا جاتا تو یقینی طور پر اہل عرب ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرتے اور قریش کے علاوہ دوسرے قبائل مضر انھیں اپنی اطاعت پر مجبور نہ کر سکتے۔ یوں اجتماعیت ختم ہو جاتی، حالانکہ شریعت مسلمانوں میں اتفاق اور وحدت پیدا کرنا چاہتی تھی۔ اس کے برعکس اقتدار قریش کے سپرد کیے جانے کی صورت میں وہ لوگوں کو اپنی اطاعت پر آمادہ کر سکتے اور اپنے سامنے جھکا سکتے تھے، اس لیے ان کے مقابلے میں کسی کے اختلاف کا بھی خدشہ نہیں تھا۔ گویا اقتدار کے لیے قریشی ہونے کی شرط اس بنیاد پر عائد کی گئی کہ وہ مضبوط عصبیت کے مالک تھے تاکہ ان کے ذریعے سے ملت کو مجتمع اور قوت کو متحد رکھا جا سکے۔ قریش کے متحد ہونے سے مضر کے سارے قبائل متحد ہو جاتے اور ان کے سامنے تمام اہل عرب جھک جاتے اور پھر اہل عجم بھی احکام دین کے تابع ہو جاتے جیسا کہ اسلامی فتوحات کے زمانے میں ہوا اور اس کے بعد اموی اور عباسی خلافت کے زمانے میں یہ صورت حال برقرار رہی، تا آنکہ رفتہ رفتہ عرب عصبیت کمزور ہوتی گئی اور خلافت کا معاملہ کمزور پڑ گیا۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ شریعت کی نظر میں اصل اصول کی حیثیت ’’عصبیت‘‘ کو حاصل ہے جو ہمیشہ کے لیے ہے اور اس کی روشنی میں جس زمانے میں جس گروہ کو بھی عصبیت حاصل ہو جائے، وہ حکومت واقتدار کا حق دار ہوگا۔ 
اسی طرح ابن خلدون نے ایک عنوان یہ قائم کیا ہے: "انتقال الخلافۃ الی الملک" کہ کیسے خلافت ملوکیت میں منتقل ہوئی۔ یہ بھی ہماری روایت کی ایک بڑی اہم بحث ہے۔ عموماً اہل اسنت اور خصوصاً اہل شیعہ کی یہ رائے ہے کہ ملوکیت کی طرف اس کو منتقل کرنے کا عمل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہوا ، اور یہ عمل ٹھیک نہیں تھا۔ پھر اس کی مختلف توجیہات کی جاتی ہیں۔ یہاں پر بھی ابن خلدون اس واقعے کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں اور عصبیت کے نظریے کو بنیاد بناتے ہوئے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل کی Justification بھی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر امیر معاویہ خاندان امیہ سے باہر اقتدار کو منتقل کرنے کی کوشش کرتے تو اسے اموی عصبیت قبول نہ کرتی اور امت دوبارہ تشتت وافتراق کا شکار ہو جاتی۔ ابن خلدون کا موقف اس حوالے سے بھی کافی مختلف ہے کہ خلافت و ملوکیت میں کوئی بہت جوہری فرق ہے۔ ابن خلدون کے نزدیک ان میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔ وہ اس کو غیر اہم اور ظاہری فرق سمجھتے ہیں۔
تیسرا پہلو ان کا نظریہ عروج و زوال ہے جو ایک حوالے سے نظریہ عصبیت ہی کی توسیع ہے۔ ابن خلدون کا خیال ہے کہ جب تک کسی گروہ کو مطلوبہ عصبیت حاصل رہتی ہے، اس وقت تک اس کا عروج قائم رہتا ہے اور جب یہ عصبیت کمزور اور ڈھیلی ہونا شروع ہو جاتی ہے تو اس کا اقتدار ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔یہی بحث ایک بڑے اہم تاریخی سوال کی شکل اختیار کر لیتی ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی اساس کیا ہے؟ ابن خلدون کے زمانے میں بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ زوال کا شکار نہیں ہوئی تھی ۔اس لیے ان کے ہاں یہ بحث تو ملتی ہے کہ اسلامی ممالک کے اندر کیسے مختلف خاندان اور گروہ عروج حاصل کر رہے ہیں اور زوال کا شکار ہو رہے ہیں، اقتدار میں آ رہے ہیں یا اقتدار سے ہٹائے جا رہے ہیں، لیکن بحیثیت مجموری پوری امت مسلمہ کے عروج و زوال پر کیا اصول لاگو ہوتے ہیں ، یہ بحث نہیں ملتی۔ تاہم انہوں نے اپنے تناظر میں جو اصولی بحثیں کی ہیں، وہ اصولی طور پر یہاں بھی لاگو ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ کسی بھی قوم کو اقتدار ہمیشہ کے لیے نہیں ملتا ، ہر قوم ایک خاص وقت کے لیے ہی اقتدار میں آتی ہے۔ پھر ایک دوسری قوم اٹھتی ہے اور اس کو ہٹا کر اقتدار میں آ جاتی ہے، اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ابن خلدون کے دور میں شاید اس کے آثار نہیں تھے کہ وہ اس اصول کو بحیثیت امت مسلمانوں پر لاگو کر کے دکھا سکتے۔ تاہم بعد میں آنے والے مفکرین نے اس اصول کو مسلمان امت پر منطبق کر کے عروج و زوال کی تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ابن خلدون کے ساتھ کچھ اور مفکرین مثلاً شاہ ولی اللہ، علامہ انور شاہ کاشمیری وغیرہ کو ملا کر اس پر غوروفکر اور گفتگو کریں، کیونکہ ان مفکرین کو یہ موقع ملا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو عروج کے بعد زوال کے مرحلے سے بھی ہم کنار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ 
آخری بات یہ کہ ابن خلدون کے بعض عمرانی افکار کا شاہ ولی اللہ کے عمرانی افکار کے ساتھ تقابل کرنے کی ضرورت ہے۔ شاہ ولی اللہ بھی ہماری تاریخ کے بہت اہم مفکرہیں اور انسانی اجتماعیات کو دیکھنے کی بڑی عمدہ اپروچ رکھتے ہیں۔ ان دونوں مفکرین کے مابین کچھ اتفاقات بھی پائے جاتے ہیں اور اختلافات بھی۔ ان دونوں کو ملا کر مطالعہ کرنے سے تاریخ اور عمرانیات کے بہت اہم پہلو واضح ہو سکتے ہیں۔ 
ڈاکٹر وارث مظہری صاحب نے امام غزالی کے فلسفہ علم پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ:
میرا موضوع امام غزالی اور ان کے نظریات ہے۔ میں دو حوالوں سے بات کروں گا، "امام غزالی اور علم الکلام" اور "امام غزالی کا تصور علم"۔ علم الکلام کے حوالے سے امام غزالی کا نقطہ نظر کہیں مثبت لگتا ہے اورکہیں منفی۔کہیں وہ متکلمین کی تعریف کرتے ہیں اور کہیں ان کی مذمت بیان کرتے ہیں۔ اپنی کتاب المستصفیٰ میں علم الکلام کو وہ کلی علم قرار دیتے ہیں اور باقی علوم کو جزئی۔ اس طرح علم الکلام کے حوالے سے امام غزالی کے بارے میں مفکرین کی آرا میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ امام غزالی علم الکلام کو پسند نہیں کرتے اور اس کے سخت ناقد ہیں اور کچھ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ علماء متقدمین میں سے کئی افراد میں یہ رویہ پایا جاتا ہے کہ کسی علمی نکتے پر ان کی رائے ایک دور میں ایک رہی ہے اور کچھ عرصہ کے بعد دوسری ۔ تو کیا امام غزالی کے ہاں بھی یہی رویہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اہل علم کی آراء ان کے بارے میں مختلف ہوئیں؟ امام غزالی یہ بھی کہتے ہیں کہ علم الکلام کے مباحث کو دیکھنا ، پڑھنا اور سیکھنا بسا اوقات واجب عینی ہو جاتا ہے ، یعنی پہلے کلام میں غوروفکر کرنا بدعت تھا لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہی بدعت واجب عینی بن گیا۔
دیگر علوم کے بارے میں بھی ان کا یہی رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک جگہ پر ان کی عبارت ہے "ادلۃ القرآن مثل الغذاء ینتفع بھا کل انسان وادلۃ المتکلمین مثل الدواء ینتفع بھا آحاد الناس ویستضر بھا الاکثرون" یہ عبارت ان کی کتاب "الجام العوام" کی ہے۔ ایک جگہ پر "القرآن" کی جگہ الفقہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے "احیاء العلوم" میں جہاں مختلف علوم کی درجہ بندی ہے، وہاں علم فقہ کا درجہ بہت کم کردیا ہے۔ علم فقہ پر بات کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ علم الفقہ ایک دنیاوی علم ہے ، اور پھر اس کی لمبی چوڑی توجیہات بیان کی ہیں کہ یہ دنیاوی علم کیوں ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ فقہاء علماء الدنیا ہیں ، علماء الآخرۃ نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل فقہ کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب خصومات و جھگڑے ہوں ، لوگوں کا شریعت سے تعلق بہت کمزور ہو گیا ہو، سماج اپنی صحیح بنیادوں پر نہ چل رہا ہو، اس میں اخلاقی زوال سا آ گیا ہو۔ پھر ایسی جگہ عدالتیں قائم ہوتی ہیں اور فقہاء کو احکامات و مسائل کو ترتیب دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر سماج اپنی صحیح ڈگر پر چل رہا ہو اور یہ خرابیاں نہ ہوں تو پھر فقہ کی ضرورت نہیں پڑے گی اور فقہاء معطل محض ہو کر رہ جائیں گے۔ 
اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی چیز ایک وقت میں بدعت ہو اور دوسرے وقت میں واجب عینی بن جائے، یہ کیسے ہوتا ہے ؟ اور اس اصول کو ہم کہاں کہاں استعمال کر سکتے ہیں ؟ ہم برصغیر کی تاریخ میں دیکھیں تو اس کے کئی مظاہر نظر آتے ہیں ، مثلاً انگلش سیکھنا کسی وقت حرام ہوا کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے ، اب یہ تحول مکانی کیسے ہوتا ہے ؟ اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کن چیزوں کو ہم نے ممنوعات کے خانے میں ڈال رکھا ہے۔ اور ان میں کتنی چیزوں کو مستقبل میں ممنوعات سے نکال کر واجبات یا مباحات کے خانے میں ڈالنا پڑے گا؟
اسی طرح غزالی کے ہاں یہ بحث بھی ملتی ہے کہ نصوص کی سطح پر ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن۔ غزالی کے ہاں اس ظاہر و باطن کی مذمت بھی ملتی ہے اور حمایت بھی۔ اب یہ سوال ہے کہ کس حد تک ان کے ظاہر کی پیروی کی جائے اورکس حد تک ان کے باطن کی؟ 
پروفیسر ادریس آزاد (پروفیسر آف فزکس، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد) نے بڑی آسان زبان اور عمدہ اسلوب میں جدید فزکس کے اہم مباحث شرکاء کے سامنے رکھے۔ ان کا لیکچر بہت اہم تھا، ان کے لیکچر کے اہم پوائنٹس حسب ذیل ہیں:
جدید فزکس کا دور 1905 سے شروع ہوا جب آئن سٹائن نے theory of special relativity پیش کی۔ جدید فزکس میں تین بڑے بریک تھرو آئے۔ پہلا theory of special relativity ، دوسرا theory of general relativity ، تیسرا Quantum۔ اس کے بعد 1967 سے 2017 فزکس میں تھیوریز تو بہت آئیں لیکن قوانین یا لاز کوئی نہیں آئے۔ جدید فزکس کا یہ سارا عمل 1905 سے 1930 تک مکمل ہو گیا اور یہی ابھی تک چھایا ہوا ہے۔
جدید فزکس کی وجہ سے پہلے سے موجودٹائم اور سپیس کا تصور تبدیل ہوا اور Time Dilation کا تصور آیا ، اسی کے ساتھ متحرک اشیاء کے لیے contraction length کا تصور آیا ۔ یہ تصورات سیاروں کے فاصلے، خلاء میں سفر اور مستقبل یا ماضی میں سفر کرنے کے تصور میں بہت اہم ہیں۔
آئن سٹائن نے سائنسی تعریفات میں بڑی تبدیلی پیدا کی، تقریباً ہر چیز کی نئی تعریف کی گئی۔ کسی بھی چیز کی جو تعریف نیوٹن کے دور میں تھی، وہ اب تبدیل ہو گئی ہے۔ اگرچہ نصاب میں آج بھی امریکہ سمیت ہر جگہ اسکولوں میں نیوٹن والی تعریف ہی پڑھائی جا رہی ہے۔ مثلاً پہلے یہ تصور تھا کہ کشش ثقل چیزوں کو نیچے سے کھینچ رہی ہے، لیکن آئن سٹائن کے آنے سے یہ تصور بدل گیا۔ اب یہ تصور ہے کہ gravity چیزوں کو نیچے سے کھینچنے کا نام نہیں بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف دھکیلنے کا نام ہے۔
ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب کا موضوع "مذہب کے لیے سائنس کی وجہ سے پیدا ہونے والے چیلنجز اور ان کا سامنا کرنے کا طریقہ" تھا۔ انہوں نے کہا کہ سائنس کے بارے میں ہمارے کچھ غلط تصورات ہیں جو سائنس کا لفظ سننے کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں آتے ہیں۔ مثلاً سائنس سے ہمارے ذہن میں مشینوں کا تصور آتا ہے جیسے فریج ، گاڑی وغیرہ۔ سائنس ان چیزوں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو سائنس کے حاصلات ہیں۔ دوسری چیز ہم سمجھتے ہیں کہ شاید سائنس کسی specific method of knowing کا نام ہے اور وہ تجرباتی طریقہ کار ہے۔ یہ تصور کسی حد تک ٹھیک بھی ہے، لیکن پورا درست نہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ It is more than that۔ اس میں الہایاتی تصورات بھی ہیں ، تجربات بھی ہیں اور دیگر معاشرتی چیزیں بھی موجود ہیں ، کیوں کہ یہ سائنس کا سارا عمل انسان کرتا ہے اور انسان کے ہر عمل کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ سائنس بھی ایک سوشل پراسس ہے، اس کا بھی ایک مقصد ہے۔ اور ہمارے نزدیک سائنس کا مقصد اس کائنات پر انسانی ارادے کا تسلط قائم کرنا ہے۔ اس کو سرمایہ دارانہ معاشی نظام سے ہٹا کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ جو بھی عمل سائنس کی فیلڈ میں ہو رہا ہے، اس پر سرمایہ لگ رہا ہے اور کچھ لوگ یا ممالک یہ سرمایہ فراہم بھی کر رہے ہیں، اس لیے ہمارے نزدیک سائنس کا مقصد اس وقت اس سرمایہ دار یا سرمایہ دارانہ نظام میں موجود قوتوں کے ارادے کو اس کائنات میں مسلط کرنا ہے۔ سائنس کے تقریباً ہر مظہر میں یہی فکر کارفرما ہے۔ مثلاً موسمیات کی ساری ریسرچ اس لیے نہیں ہو رہی کہ یہ پتہ چلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کیسے بارش برساتا ہے۔ یہ ساری ریسرچ اس لیے ہے کہ بارش جہاں ہم چاہتے ہیں، وہاں بارش ہو۔اسی طرح دیگر سائنسی تحقیقات میں بھی ہے۔ انسان یہ چاہتا ہے کہ سائنس کے ذریعے میں دنیا کو جنت بنا لوں، یعنی اس میں جو میں چاہتا ہوں، وہ ہو جائے۔ اب اس ماحول میں حلال و حرام کے سارے مباحث ، ساری حد بندیاں اور قیدیں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ یہ اصل چیلنج ہے۔کائنات کی تسخیر کا محرک انسانی فلاح کا تصور ہونا چاہیے نہ کہ انسانی ارادے کا تسلط اور سرمایہ دارانہ سوچ۔
مولانا زاہد الراشدی نے اپنی اختتامی گفتگومیں کہا کہ:
اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جب اسلامی سلطنت پھیلی تو کئی قسم کے فلسفوں سے مسلمانوں کا واسطہ پڑا ، ان میں یونانی فلسفہ تھا ، ایرانی فلسفہ تھا ، ہندو فلسفہ وغیرہ۔ ان سب فلسفوں میں سب سے ممتاز یونانی فلسفہ تھا۔ ان سب فلسفوں کا اپنا اپنا پس منظر تھا ، اپنی اپنی تعبیرات تھیں۔اس سے مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے اور علم الکلام وجود میں آیا۔ ابتدائی طور پر علم الکلام کی مذمت کی گئی اور یہ کہا گیا کہ اس میں نفع سے نقصان زیادہ ہے، اس لیے اس میں نہ پڑو۔ بلکہ یہاں تک تاریخ میں ہے کہ امام ابو یوسف کے دور تک یہ بحث رہی ہے کہ متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔ یہ اس لیے تھا کہ ان لوگوں کو اپنے لیے علم الکلام کی ضرورت نہیں تھی۔ علم الکلام کی ضرورت مباحثے اور مکالمے کے لیے پیش آئی ہے۔حضرت شاہ ولی اللہ نے اس کی حد بندی کی ہے کہ عقائد کی کی تعبیر و تشریح میں اگر الجھن پیش آئی ہے تو اس کے لیے، عقائد کے اثبات کے لیے اور جو اعتراضات ہیں، ان کو دور کرنے کے لیے علم الکلام کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے لیے پھر ہماری پوری تاریخ ہے، ابوالحسن اشعری ہیں ، ابو منصور ماتریدی ہیں، غزالی ہیں ، ابن رشد وغیرہ ہیں۔ برصغیر میں ہمیں دو فلسفوں کا سامنا تھا۔ ایک ہندو فلسفہ اور دوسرا ایرانی فلسفہ جس کو ہمایوں ایران سے واپسی پر اپنے ساتھ لایا ہے۔ان فلسفوں کے تناظر میں جو مسائل پیدا ہوئے، ان کا سامنا یہاں کے علماء نے کیا ہے جن میں مرکز کی حیثیت حضرت مجدد الف ثانی کو حاصل ہے۔ پھر شاہ ولی اللہ ہیں۔ 
اس وقت فکر و فلسفہ میں ایک نئی تبدیلی آئی ہے اور بڑی بنیادی تبدیلی ہے جس نے پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔یہ مغربی فکر و فلسفہ ہے جس کو ہیومنزم کا فلسفہ کہا جاتا ہے ، انسانیت کا فلسفہ کہا جاتا ہے۔ اس کا زیادہ تعلق عقلیات سے نہیں ہے، سماجیات سے ہے۔اس تبدیلی کی ایک وجہ یہ بنی کہ معقولات میں پہلے سائنس اور فلسفہ اکٹھے تھے۔ اس دور میں سائنس کا دائرہ الگ ہو گیا اور فلسفہ کا دائرہ الگ ہو گیا۔ فلسفہ عقلی بحثوں تک محدود ہو گیا اور سائنس مشاہدات، محسوسات اور تجربات پر آ گئی۔ اس کے علاوہ مغرب میں جبر کے خلاف جو بغاوت ہوئی ہے، خواہ وہ چرچ کا جبر ہو، بادشاہت کا جبر ہو یا جاگیرداری کا، اس سے دو بغاوتیں اکٹھی ہو گئیں۔ سائنس نے فلسفہ سے بغاوت کر دی اور سماج نے مذہب سے بغاوت کر دی۔ ان دونوں بغاوتوں کا بنیادی ماخذ تو مغرب ہی ہے اور یہ اسی کا فلسفہ ہے لیکن جب مغرب کو غلبہ حاصل ہوا ہے تو پھر مغرب کو یہ شوق ہوا کہ یہ فلسفہ ہم تک نہیں رہنا چاہیے، دوسروں تک بھی جانا چاہیے۔ اسی تناظر میں مستشرقین نے علمی وفکری جنگ کا آغاز کیا۔ اسی کے ساتھ ہمارے سیاسی نظام خلافت کے خاتمے کو بھی مغرب نے ضروری سمجھا کیوں کہ "خلافت" کا ادارہ پوری اقدار سمیت اس فلسفے کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کے لیے انہوں نے معاشی، عسکری، معاشرتی، مواصلاتی غرض ہر قسم کے ذریعہ کو استعمال کیا ، اور اس غلبہ کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ تازہ دم تھے اور ہم تھک چکے تھے۔ 
اس غلبے کے کئی پہلوؤں میں سے ایک تہذیبی پہلو ہے کہ مغرب نے اپنے پس منظر میں پیدا ہونے والے فلسفہ کو ہم پر مسلط کرنا شروع کیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ماحول تھا جیسا کہ اتباع تابعین کے زمانے میں یونانی فلسفہ کے در آنے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا یا برصغیرمیں ہندو فلسفہ کا سامنا ہونے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا ، لیکن اس دفعہ بدقسمتی سے ہمارا رویہ ماضی سے مختلف تھا ۔ ماضی میں ہم نے ان مسائل کو face کیا ہے، ان کا سامنا کیا ہے ، اب ہم بالکل تحفظ پر آگئے ہیں اور بچاؤ کرتے کرتے اپنے گھروں کی چار دیواری کے اندر بند ہوگئے اور اب وہاں بھی ہم محفوظ نہیں ہیں۔ہم نے سیاسی مغلوبیت کو اپنے اوپر طاری کر لیا اور آگے بڑھنا ، سامنا کرنا ، اقدام کرنا ہمارے ایجنڈے سے بالکل نکل گیا اور صورتحال ہنوز اسی طرح ہیں۔ ہمیں مغربی فکر و فلسفہ کا بطور فلسفہ سامنا کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہم کلام یا عقائد کی نئی تشریح کو نئے عقائد بنانا یا گھڑنا کے مترادف سمجھتے ہیں۔ یہ مطلب ہر گز نہیں کہ نئے عقائد بنائے جائیں بلکہ عقائد کی عصر حاضر کی نفسیات کے مطابق تعبیر کرنا ہے۔خدا خدا ہی رہے گا ، رسول رسول ہی رہے گا ، قیامت قیامت ہی رہے گی ، ختم نبوت ختم نبوت ہی رہے گی۔لیکن آج کی نسل کو اس کی نفسیات اور ماحول کے مطابق یہ باتیں سمجھنانے کی بہر حال ضرورت ہے جس کی طرف ہم اجتماعی طور پر نہیں آ رہے۔ اقبال نے تو یہ بات فقہ کے دائرے میں کی تھی، یعنی دین کے علماء اور سماج کے علماء۔وہ فقہ کی تشکیل نو کے داعی تھے ، یہ انفرادی و اجتماعی طور پرکسی نہ کسی حد تک ہو رہی ہے۔ لیکن کلام و عقائد کے باب میں شاید کوئی کوشش ہو رہی ہو، لیکن کوئی قابل ذکر نہیں۔
میں نے اپنے دو تین بزرگوں کو یہ تجویز دی تھی کہ ہم "شرح العقائد" پڑھاتے ہیں جو کہ یونانی فلسفے کے تناظر میں ہے ۔ اس کی کوئی جلد ثانی لکھے جو مغربی فلسفہ کے تناظر میں ہو۔ ضرورت سب محسوس کرتے ہیں۔ اللہ کرے کہ کوئی لکھے۔ یہ وہی کام ہے جو اقبال فقہ میں کروانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے دو طبقے مل جائیں جو قدیم و جدید کے حامل ہوں یا ایک طبقہ جو ان دونوں کا حامل ہو، وہ یہ کام کر لے ، اس کام کی ضرورت بہر حال ہے۔ایک ہی طبقہ ہو تو بہتر ہے جس کی ہمارے قدیم کلامی مباحث پر بہت گہری نظر ہو اور اس کے ساتھ مغربی فلسفہ کو اس کے پورے پس منظر اور اثرات سمیت سمجھتا ہو۔ 
دوسرا موضوع مذہب اور سائنس ہے ، میں اب تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ ہم نے مذہب اور سائنس کو کیسے آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سائنس نے ترقی شروع کی ہے تو اس کا سامنا مسیحیت سے ہوا اور مسیحیت نے سائنس کے مقابل محاذ کھڑا کر دیا، سزائیں دیں ، فتوے لگائے کہ یہ مباحث کائنات کے نظام میں دخل دینا ہے وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گلیلیو کو سزا دی گئی اور تین سو سال کے بعد پوپ بینیڈکٹ نے اس پر معافی مانگی ہے۔ 
قرآن پاک تو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن نے جہاں علم کی بات کی ہے جیسے پہلی وحی میں فرمایا : عَلَّمَ الاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ، اس میں اتنا عموم ہے کہ اس کو کسی دائرے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، مقصدیت کے اعتبار سے ایک فرق قرآن بیان کرتاہے جس کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ سورہ آل عمران کے آخر میں "اُولُوا الاَلْبَابِ" کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عقل والے وہ ہیں جو اللہ پاک کو یاد کرتے رہتے ہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق پر غوروفکر کرتے رہتے ہیں۔ ہماری آج کی سائنس کا یہ المیہ ہے کہ یہ تجربات بھی کرتی ہے ، مشاہدات بھی کرتی ہے ، یہ دیکھتی ہے کہ "یہ کیا ہے ؟" اور "اس سے فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے ؟" لیکن " یہ کیوں ہے؟" یہ ہماری سائنس کے موضوع میں شامل ہی نہیں ہے۔ لیکن قرآن کہتا ہے: رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔ مقصدیت کا تعین بھی ضروری ہے۔ قرآن ایک اور جگہ پر کہتا ہے : سَنُرِیھِمْ آیَاتِنَا فیِ الآفَاق وَفِی اَنْفُسِھِمْ۔ یہ سب جنرل اور میڈیکل سائنس ہے، لیکن اس کے بعد کہا : حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ، تاکہ اللہ کی حقانیت تمہارے سامنے واضح ہو۔ یہاں بھی مقصدیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس کا آغاز الحاد سے ہوا تھا لیکن سائنس کا نتیجہ اللہ کی آیات کی تصدیق ہے۔
اور ایک فرق جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا، علم نافع اور علم ضار کا۔ اسلام کا سارا فلسفہ علم اسی پر مبنی ہے۔ علم بذات خود علم ہوتا ہے ، اس کا استعمال اس کو نافع یا ضار بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ سے کہ سائنس کے بارے میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ اس کا استعمال غلط ہو رہا ہے۔ مثلاً چارلس اس پر بہت بات کرتا ہے کہ سائنس کو تم انسانیت کے نفع کے لیے استعمال کر رہے ہو یا نقصان کے لیے ؟ اس پر وہ سائنس دانوں کو بہت کچھ کہتا ہے اور ٹھیک کہتا ہے۔ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی فرمایا کرتے تھے کہ مغرب نے علم میں بہت ترقی کی ہے، لیکن علم کے استعمال کا طریقہ نہیں سیکھا، علم کے استعمال کی اخلاقیات و دائرے نہیں سیکھے۔ خلاصہ یہ کہ سائنس مذہب کے مخالف نہیں ہے اور میرے نزدیک تو بالکل نہیں ہے بلکہ قرآن پاک خود سائنس کی دعوت دیتا ہے ، غوروفکر کی دعوت دیتا ہے مقصد کے اعتبار سے۔ دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سائنس کا انسانیت کو کیا فائدہ ہے اور فائدہ بھی صرف دنیا کا نہیں بلکہ آخرت کے فائدہ کو بھی ایجنڈے میں شامل کرنا ہو گا ، تبھی اس کا غلط استعمال کنٹرول میں آ سکتا ہے۔
اس پوری ورکشاپ میں مذہب اور سائنس کے حوالے سے جو اہم نکات زیر بحث آئے، وہ حسب ذیل ہیں:
1۔ ہمارے ذہنوں میں پہلے ٹائم اور سپیس کا تصور نہایت محدود تھا۔ ہم ٹائم اسی کو سمجھ رہے تھے جو ہمیں روز مرہ زندگی میں سمجھ آ رہا ہے، جو گزر رہا ہے اور کبھی واپس نہیں آئے گا ، ہمیں بس اس گزرے ہوئے وقت کا حساب دینا ہے لیکن اس ورکشاپ کی وساطت سے اس تصور میں تبدیلی آئی اوریہ پتہ چلاکہ ٹائم ایک relativeچیز ہے۔ جس کو ہم ٹائم سمجھ رہے ہیں، وہ ایک اضافی تصور ہے۔ اگر خلا میں چلے جائیں تو اس کو ماپنے کا معیار بدل بھی سکتا ہے۔
2۔ ہمارے ذہن میں ایک تصور یہ تھا کہ سائنس کے مذہب کے خلاف ہونے میں مختلف اطراف سے جبر کا عمل دخل ہے، مثلاً کلیسا کی طرف سے مذہبی جبر وغیرہ۔لیکن ورکشاپ میں زیر بحث آنے والے نکات سے یہ معلوم ہوا کہ یہ اختلاف کسی چیز کا ردعمل نہیں بلکہ سائنس کی nature کا حصہ ہے۔ جیسے جیسے کائنات کی دریافت ہو رہی ہے، ویسے ہی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اس سے پہلے مذہب کا رویہ بہت سی چیزوں پر سوال نہ اٹھانے کا تھا، لیکن سائنس ان چیزوں پر بھی سوال کھڑے کر رہی ہے۔ اسلوب میں تبدیلی آئی ہے اور مذہب کے بیانیے کے مقابل ایک پورا بیانیہ کھڑا ہو گیا ہے، اس لیے سائنس اور مذہب میں اختلاف کی نوعیت محض ردعمل کی نہیں ہے بلکہ کچھ بہت Original سوالات ہیں جو کسی جبر کا نتیجہ نہیں ہیں۔ جہاں تک مختلف سطح پر ہونے والے جبر کا تعلق ہے تو اس نے سائنس اور سائنس دانوں کے رویے میں یہ چیز شامل کر دی ہے کہ وہ مذہب کے پیرایے میں آنے والی کسی بھی چیز کو بڑی عجلت میں رد کر دیں اور اس عجلت میں بسا اوقات وہ تحقیق وجانچ کے اپنے ہی قائم کردہ معیارات کو بھی استعمال کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اس سے وہی رویہ جو ابتداء میں اہل مذہب نے سائنس کے لیے اختیار کیا تھا، اب سائنسدان مذہب و اہل مذہب کے لیے اختیار کر رہے ہیں۔
3۔ مذہب میں ذرائع علم میں عقل کو ثانوی حیثیت حاصل ہے ، اول درجہ وحی کا ہے۔ اگرچہ عقل عملی طور پر سب ذرائع سے فائق ہی نظر آتی ہے، لیکن جن ایک مرتبہ عقلی بنیاد پر وحی کو تسلیم کر لیا جائے تو بہت سے امور میں خصوصاً مابعد الطبیعاتی امور میں عقل کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔ سائنس میں وحی کی کوئی حیثیت نہیں۔ عقل اور تجربہ ومشاہدہ ہی اتھارٹی ہے۔ عقل کبھی بھی معطل نہیں ہوتی۔ مذہب میں جہاں وحی کی بات آ جائے، وہاں عقل کو چھوڑنے اور سوال نہ کرنے کی بات مانی جاتی ہے اور کئی جگہوں پر سوچ بچار کو بڑھانے پر بھی پابندی لگ جاتی ہے۔لیکن سائنس میں اس کائنات، طبیعات یا مابعد الطبیعات کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس کو سوال سے استثناء حاصل ہو اور اس پر غورو فکر کرنے اور اس کو زیر بحث لانے کی ممانعت ہو۔ 
4۔ سائنس جو کلیات یا مسلمات بناتی ہے، ان کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی بنیاد تجربہ پر ہے اور بار بار کے تجربہ سے ایک جیسے نتائج کے حصول نے سائنس کو ایک قسم کا اعتماد فراہم کر دیا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کے قائم کردہ مقدمات یا کلیات بھی اسی حساب سے مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، لیکن مذہب کو گزشتہ دو تین صدیوں سے اس چیلنج کا سامنا ہے کہ اس کے مقدمات سائنسی یا عقلی کسوٹی پر یا تو ثابت نہیں ہو پا رہے یا اہل مذہب اس کو ثابت نہیں کر پا رہے۔ اس لیے مذہب و اہل مذہب کا مورال گرتا جا رہا ہے اور سائنس کی طرف توجہ بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اس سے انسانی زندگی میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ انسانی زندگی کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن کا جواب سائنس کے پاس نہیں یا اگر جواب ہے بھی تو وہ انتہائی بودا اور غیر تسلی بخش ہے۔ ان پہلوؤں میں جذباتی تسکین، بہت سے نفسیاتی گوشے، دعا و التجا کا جذبہ، برتر ہستی کا فطری تصور، خالق کا خیال اور مقصدیت وغیرہ اہم ہیں۔ مذہبی تصورات بہر حال انسانی جذبات و احساسات کی تسکین و تسلی کا شاید ابھی تک واحد ذریعہ ہیں، مثلاً موت کے بعد کی زندگی میں جزا و سزا کا تصور اور اس کے نتائج، دعا ، التجا ، حصول مدد و مناجات وغیرہ۔ 
دوسرا یہ کہ مذہب کے بنائے ہوئے مسلمات Questionable نہیں ہیں۔ مذہب بہت سی چیزوں کو صرف مان لینے کی ہدایت ہی نہیں کرتا، اس پر سوال نہ کرنے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ جبکہ سائنس کے کلیات پرہر وقت سوال ہو سکتا ہے۔ یہ Questionable ہیں اور کوئی بھی دلائل کے ساتھ ان پر نہ صرف اعتراض کر سکتا ہے بلکہ ان کو جھٹلا کر کوئی نیا نظریہ بھی دے سکتا ہے۔ یہ بھی ایک بنیادی فرق ہے۔
5۔ اہل مذہب اور اہل سائنس کے درمیان مسائل کا سب سے بڑا سبب ان کے بیچ کا بعد و دوری ہے۔ بہت سے نظریات کے بارے میں اہل مذہب بات کرتے ہیں کہ سائنس اور سائنسدان یہ کہتے ہیں، لیکن ان کے اصل تناظر کا ان کو کچھ پتہ نہیں، محض سنی سنائی اور سطحی باتوں کی بنیاد پر تاثرات کی عمارت تعمیر کر لی گئی ہے۔ یہی حال سائنسدانوں کا ہے کہ وہ اہل مذہب سے دور بیٹھ کر ان کے خیالات کو اپنے ذہن میں کچھ معنی دے کر ان سے بدظن ہو جاتے ہیں۔اس کا احساس اے ایچ نیر، پروفیسر اشفاق سلیم مرزا اور ڈاکٹر رضوان صاحبان کے ساتھ نشست میں بھی ہوا۔ جناب اے ایچ نیر نے دوران گفتگو یہ سوال کیا کہ آپ لوگ یہ بتائیں کہ اجتہاد کیا ہوتا ہے اور اس کا دائرہ کار اور حدود کیا ہیں ؟ اس سوال سے پہلے انہوں نے کائنات میں مختلف دریافتوں کے بعد پیدا ہونے والے سوالات کا تذکرہ کیا اور ان کے بارے میں پوچھا کہ کیا ان کے بارے میں اجتہاد ہو سکتا ہے ؟؟ اس پر مولانا عمار خان ناصر نے اسلامی شریعت میں اجتہاد کی حیثیت کو بڑی عمدگی سے واضح کیا، لیکن وہاں لوگوں کی Body language یہ بتا رہی تھی کہ وہ اجتہاد کے اس دائرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اپنے ذہن میں اجتہاد کا مفہوم اور دائرہ کار اس مفہوم اور دائرہ کار سے مختلف ہے جو کہ ہمارے اسلامی لٹریچر میں حقیقتاً ہے۔ 
ایک اہم بات یہ بھی ہے جس کا اظہار ڈاکٹر رضوان صاحب نے کیا کہ اہل مذہب کی طرف سے ہمیں اس رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ان سائنسدانوں کو کیا پتہ ہے، یہ تو بے وقوف لوگ ہیں اور اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا کر اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اہل مذہب کم از کم ہمیں بے وقوف تو نہ کہیں اور نہ سمجھیں۔
6۔ سائنس کے حوالے سے مختلف لوگوں کی گفتگو سننے سے یہ تاثر بھی ذہن میں آیا کہ کائنات کی تخلیق کی وضاحت میں سائنس کے پیراڈائم میں بھی بہت سے گوشے ایسے ہیں جن کی سائنس دان کوئی تسلی بخش توضیح نہیں کر سکتے اور ان کے مفروضات اس کی توجیہ نہیں کر پاتے، مثلاً روشنی کے Particle like behavior اور Wave like behaviorمیں weirdness کا مشاہدہ۔ گویا کائنات اور فطری عوامل کے بہت سے گوشے ایسے ہیں جن کی کوئی قابل قبول تعبیر عقلی حوالے سے ابھی تک ممکن نہیں۔ 
7۔ مذہب کے نمائندگان کی طرف سے سائنس کے نمائندوں سے یہ دریافت کیا گیا کہ سائنس کے نظریات کون سا اٹل ہیں۔ یہ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ آج ایک نظریہ ہے تو کل کوئی نئی تحقیق اس کو رد کر کے دوسرا نظریہ پیش کر دے گی۔ پھر ان پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے ؟ اس کی وضاحت میں اے ایچ نیر اور ڈاکٹررضوان صاحب نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ سائنس کا کوئی نیا نظریہ آنے سے پرانے نظریہ کی بالکلیہ نفی ہو جاتی ہے بلکہ نئے نظریہ کے باوجود بہت سی چیزوں کی وضاحت پرانے نظریات سے ہی ہوتی ہے ، اکثر اوقات نئے نظریات کچھ gaps کو پر کرنے کے کام آتے ہیں۔ پرانے نظریات اپنی جگہ موجود رہتے ہیں اور ان کی اہمیت بھی مخصوص دائروں میں مسلم رہتی ہے۔
ورکشاپ میں ہر لیکچر کے بعد انڈیا و پاکستان کے شرکاء کو بحث ومباحثہ کا موقع دیا جاتا تھا جس میں وہ لیکچر کے مندرجات پر کھل کر گفتگو کرتے اور اپنے سوالات مقررین کے سامنے رکھتے۔ مقررین سوالات کو سن کر اہم اور بنیادی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتے۔ آخری دن کورس کے شرکاء کے لیے لازم کیا گیا کہ وہ اپنے دلچسپی کے کسی موضوع پر presentation پیش کریں اور پوری ورکشاپ کے بارے میں اپنے تاثرات کورس کی ویب سائٹ پر قائم Discussion forum پر ڈال دیں تاکہ تمام شرکاء ایک دوسرے کی آراء سے استفادہ کر سکیں۔ 

اگست ۲۰۱۷ء

قرآن مجید اور نفس انسانی کا تزکیہمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۳)ڈاکٹر محی الدین غازی
دور جدید کا حدیثی ذخیرہ، ایک تعارفی جائزہ (۱)مولانا سمیع اللہ سعدی
دینی مدرسہ میں استاد کا کردار (۱)مولانا محمد رفیق شنواری
دستور سازی، سوشل کنٹریکٹ اور اسلاممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دیوبندی بریلوی اختلافات : سراج الدین امجد صاحب کے تجزیے پر ایک نظر (۲)کاشف اقبال نقشبندی

قرآن مجید اور نفس انسانی کا تزکیہ

محمد عمار خان ناصر

(فہم قرآن کے اصول ومبادی سے متعلق ایک لیکچر سیریز میں کی گئی گفتگو۔)

قرآن کریم نے انسانی نفس کو اور اس کی پیچیدگیوں اور مسائل کو کیسے بیان کیا ہے؟ نفس انسانی کے میلانات کی صحیح رخ پر تشکیل ہو اور وہ غلط راستے سے محفوظ ہو کر راہ راست پر آسکے، اس کے لیے ہمیں قرآن پاک سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟ یہ آج کی گفتگو کا عنوان ہے۔ 
اگر قرآن کریم کی ساری تعلیم کو نفس انسانی کے حوالے سے ہم ملخص کرنا چاہیں تو دو تین نکات کی صورت میں اس کوبیان کیا جا سکتا ہے۔ پورے قرآن کی تعلیم کا خلاصہ کیا ہے؟ ایک تو اس کائنات سے متعلق اور اس کائنات کے مالک سے متعلق اور بطور ایک مخلوق کے خود انسان سے متعلق کچھ ایسے حقائق کی یاد دہانی اور تذکیر جن کو جاننا اور ماننا اور ان کے مطابق عمل کرنا انسان کی نجات کے لیے ضروری ہے۔ الحمد سے لے کر الناس تک آپ قرآن کے سارے مطالب کا خلاصہ نکالیں تو بنیادی نکتہ یہی ہوگا۔ انسان کو یہ بتایا جائے، اس کو یہ رہ نمائی فراہم کی جائے کہ اس دنیا اور اس کائنات سے متعلق اور خود انسان سے متعلق وہ کون سے بنیادی حقائق ہیں جن کی صحیح معرفت انسان کی نجات کے لیے، اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ حقائق جو بیان کیے گئے، ان کا مخاطب نفس انسانی ہے۔ یہ حقائق جس کو سمجھانے کے لیے بیان کیے گئے ہیں، وہ انسان یعنی نفس انسانی ہے۔ اس لیے کہ انسان اصل میں تو اس جسم کا نام نہیں ہے، اصل میں تو انسان وہ نفس ہے جس کے اندر معرفت کی، حقائق کو جاننے کی، ان کو قبول کرنے کی یا نہ کرنے کی استعداد رکھی گئی ہے۔ یہ جسم تو اس نفس کو اس دنیا میں سہولت فراہم کرنے کے لیے یا اس دنیا میں کچھ ذمہ داریاں انجام دلوانے کے لیے اس کو دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے قرآن کا بنیادی مخاطب نفس انسانی ہے۔ جتنے بھی حقائق قرآن نے بیان کیے ہیں، وہ اس نفس انسانی کے لیے بیان کیے ہیں۔ کوئی اور ان کا مخاطب نہیں ہے۔ 
دوسرا نکتہ، اگر آپ قرآن کی ساری تعلیم کو ملخص کریں تو یہ ہوگا کہ قرآن کریم میں نفس انسانی کو مخاطب کرتے ہوئے صرف حقائق بیان کرنے پر اکتفا نہیں کی گئی بلکہ ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے، ایسے دلائل و شواہد اور ایسی آیات بیان کی گئی ہیں جن سے نفس انسانی ان حقائق کو جاننے اور ان کو قبول کرنے کی طرف راغب ہو، آمادہ ہو۔ چنانچہ قرآن میں آپ کو طرح طرح کے دلائل ملیں گے، طرح طرح کی آیات ملیں گی، جو انسان کے سامنے اس لیے رکھے گئے ہیں کہ وہ ان حقائق کی طرف متوجہ ہو اور ان کو ماننے اور قبول کرنے کی طرف راغب ہو۔ قرآن نے صرف یہ نہیں بتا دیا کہ اس کائنات کا خالق ایک ہے بلکہ اس نے اس کے ساتھ بے شمار شواہد، بے شمار توجہ دلانے والی چیزیں بھی انسان کے سامنے رکھی ہیں تاکہ انسان اس حقیقت کو جاننے اور ماننے کے لیے راغب ہو اور زیادہ آسانی کے ساتھ، زیادہ آمادگی کے ساتھ ان کو قبول کرے۔ 
اور تیسری چیز یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن میں نفس انسانی کا ایسا تجزیہ بھی پیش کیا ہے کہ انسان کو قبول حق سے روکنے کے جو اسباب بن جاتے ہیں، جو موانع اس میں حائل ہو جاتے ہیں اور نفس انسانی کو ان حقائق تک پہنچنے سے اور ان کو قبول کرنے سے روک دیتے ہیں، قرآن مجید نے ان موانع کا، ان پیچیدگیوں کا، ان گرہوں کا بھی پورا تجزیہ پیش کیا ہے۔ یعنی وہ کیا اسباب ہیں کہ ایک حقیقت اپنی جگہ ثابت اور برحق ہے، اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنے والے دلائل اور آیات اور شواہد ہر طرف بکھرے ہوئے پڑے ہیں، لیکن انسان پھر بھی اس حقیقت کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا یا اس کو قبول نہیں کر رہا؟ اس کامطلب یہ ہے کہ قرآن کے پیغام کا جو receiver ہے، اس کا مخاطب ہے، اس کے اندر کچھ خرابیاں اور کچھ موانع ہیں۔ تو قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی یہ بہت بڑی عنایت اور اس کا بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے اس پوری بحث کو مکمل کرتے ہوئے اس تیسرے پہلو پر بھی بطور خاص توجہ مبذول کی ہے کہ انسان اگر حق قبول نہیں کرتا یا حق کے مطابق اپنے آپ کو نہیں ڈھالتا یا راہ راست کے موجود ہوتے ہوئے اس سے بھٹک جاتا ہے تو خود اس کے نفس کے اندر وہ کون سی خرابیاں اور کون سے عوارض اور کمزوریاں ہیں جو اس کا سبب بنتی ہیں۔ اگر انسان ان پر متنبہ ہو جائے، اپنی کمزوریوں کو سمجھ لے اور ان کمزوریوں کا مداوا کر لے تو وہ گمراہ ہونے سے، بھٹکنے سے، جادہ حق سے منحرف ہونے سے بچ جائے گا۔ میری طالب علمانہ رائے کے مطابق اگر ہم قرآن کی تعلیم کو اور اس کے پورے پیغام کو نفس انسانی کے حوالے سے سمجھنا چاہیں اور اس کا خلاصہ نکالنا چاہیں تو وہ یہ تین باتیں ہیں۔ 
وہ حقائق جن کو جاننا اور ماننا انسانی نفس کے لیے ضروری ہے دین کی تمام تعلیم، اخلاق اور شریعت کی سب باتیں ان تین نکات کے اندر آجاتی ہیں۔ یعنی، کچھ کائناتی حقائق کا تعارف قرآن کا مقصد اور موضوع ہے۔ دوسرا یہ کہ انسان ان حقائق کو جانے اور مانے لیکن تحکماً نہیں، زبردستی اور حکم کے تحت نہیں بلکہ اس کے سامنے ایسے شواہد ہوں، ایسی چیزیں ہوں جو اس کو قائل اور آمادہ کریں کہ وہ ان حقائق کو اپنے شعور کا حصہ بنائے۔ قرآن میں آپ کو جگہ جگہ جتنی آیات، جتنے شواہد تاریخ سے، کائنات سے، انسان کے نفس سے ملیں گے، وہ اصل میں اس لیے ہیں کہ نفس انسانی ان حقائق کی طرف متوجہ ہو، ان آیات اور شواہد پر غور کرے۔ اور تیسری چیز جو آپ کو قرآن میں ملے گی، وہ یہ ہوگی کہ قرآن اس پر بھی تبصرہ کرتا ہے اور اس پر اپنا ایک تجزیہ پیش کرتا ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود کہ اللہ نے حق کو واضح کرنے کا پورا اہتمام کیا ہے، رسول بھیجے، انسانی فطرت میں وہ چیزیں الہام کیں، انسان کے اردگرد پوری کائنات میں وہ شواہد اور دلائل بکھیر دیے، لیکن اس کے باوجود اگر انسان متوجہ نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے نفس میں کچھ پیچیدگیاں ہیں، کچھ ایسے عوارض اور موانع ہیں جو اس کو روک دیتے ہیں۔ قرآن نے ان عوارض اور موانع کا ذکر کیا ہے کہ وہ کون سے عوارض ہیں، نفس کی وہ کون سی خرابیاں اور کمزوریاں ہیں جو اس کو ہدایت کی طرف متوجہ ہونے سے روک دیتی ہیں۔ 
اب اس بنیادی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے اہم پہلوؤں پر قرآن کی روشنی میں بات کریں گے۔ 
پہلی چیز جو قرآن کریم نے بیان کی ہے، وہ یہ کہ اس نے حقائق، حق اور حق کی معرفت اور دوسری طرف نفس انسانی، ان دونوں کا باہمی تعلق واضح کیا ہے۔ نفس انسانی مکلف ہے کچھ حقائق کی معرفت کا اور ان حقائق کو بیان کرنا، ان کی وضاحت کرنا اللہ کے پیغمبروں کا اور اللہ کی کتابوں کا وظیفہ ہے۔ حق کی معرفت اور انسانی نفس یا انسانی فطرت، ان کا باہمی تعلق جو قرآن نے بیان کیا ہے، وہ بہت اہم ہے۔ قرآن کی پوری تعلیم کا اور پیغام کا بنیادی نکتہ ہے۔ اللہ کے پیغمبر یا اللہ کی کتابیں آکر انسان اسے کہتی ہیں کہ خدا کو مانو اور اس کو وحدہ لا شریک تسلیم کرو۔ یہ حقیقت جانو کہ یہ دنیا آزمائش کے لیے بنی ہے اور تم یہاں آزمائش کے لیے بھیجے گئے ہو۔ یہ وقتی مرحلہ ہے، اس کے بعد تمہیں موت آئے گی، پھر تمہیں دوبارہ اٹھایا جائے گا اور اس وقت تمہیں اپنے عمل کا حساب دینا ہوگا۔ اس کو مانو اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو تشکیل دو۔ اس کے ساتھ انسان کی آزادئ عمل پر کچھ پابندیاں لگائی جاتی ہیں کہ یہ کرنا روا ہے اور یہ ناروا ہے، یہ جائز ہے اور یہ ناجائز ہے، یہ درست ہے اور یہ غلط ہے۔ 
قرآن یہ کہتا ہے کہ یہ سب باتیں جو انسان کو بتائی جاتی ہیں، ان باتوں کی ایک بنیادی معرفت اور ان کو قبول کرنے کی ایک بنیادی استعداد اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی میں رکھی ہوئی ہے۔ اس کی تخلیق کے وقت سے، اس دنیا میں آنے سے پہلے انسان کے نفس کی اور اس کی فطرت کی ایسی تشکیل اللہ نے کی ہے کہ وہ تمام حقائق جن کی اس دنیا میں آنے کے بعد اس کو یاد دہانی کروائی جاتی ہے، انسان ان ان کی بڑی بنیادی معرفت اپنی فطرت میں ساتھ لے کر آتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن کریم اپنی ساری تعلیم کو جو عنوان دیتا ہے، وہ ’’یاد دہانی‘‘ ہے : ھٰذَا ذِکْر، اِنَّ ھٰذِہِ تَذْکِرَۃ، اِنَّ فِی ذَلِکَ لَذِکْرٰیٰ۔ اس کا مطلب ہوتا ہے ایسی چیز یاد کروانا جو انسان بھول چکا ہے۔ ایسی چیز جس سے وہ غافل ہو چکا ہے، اس کی طرف اس کو توجہ دلانا۔ تو انبیاء کوئی ایسا مطالبہ یا کوئی ایسی بات انسان کے سامنے نہیں رکھتے جس کی معرفت کی استعداد یا جس کو قبول کرنے کی استعداد بنیادی طور پر انسان کی فطرت میں نہ ہو۔ عہد الست ہمیں اسی حقیقت پر متوجہ کرتا ہے۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے اللہ نے انسان سے یہ عہد لے لیا تھا کہ میرا اور تمہارا خالق اور مخلوق کا اور رب اور عبد کا تعلق ہے۔ اس کے تم ماننے والے ہو، معترف ہو۔ اچھائی اور نیکی اور اس کے مقابلے میں بدی اور برائی، اس کا فرق بھی انسانی فطرت میں رکھ دیا گیا۔ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا، فَاَلْھَمَھَا فُجُورَھَا وَتَقوٰھَا۔سو نفس انسانی کا اور ان حقائق کا باہمی تعلق یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ انسان قیامت کے دن اللہ سے یہ نہیں کہہ سکے گا کہ تیرے پیغمبر یا تیری بھیجی ہوئی کتابیں دنیا میں ہمیں کچھ باتیں سناتے تھے، لیکن وہ بڑی اجنبی سی باتیں تھیں۔ ہمارا دل، دماغ، عقل ان کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ ہماری فطرت ان سے وحشت محسوس کرتی تھی، یہ عذر انسان اللہ کے سامنے نہیں پیش کر سکیں گے۔ قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ جو لوگ اس دنیا میں اللہ کے پیغمبروں اور اس کی کتابوں کی طرف سے ملنے والی رہنمائی کو قبول نہیں کرتے، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس کی تعلیم اور اس کے دلائل اور آیات میں کوئی نقص ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان کے نفس میں جو عوارض تھے، جو موانع تھے، ان میں سے کچھ عوارض روبہ عمل ہو جاتے ہیں جو اس کو ادھر متوجہ ہونے سے روک دیتے ہیں۔ 
اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایک دوسری بات بھی بہت اہمیت اور بہت زور کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ جب آدمی کے سامنے حق بات آئے، اس کا دل اس کو قبول کرنے کی طرف راغب ہو، دل سے وہ جانے اور مانے کہ یہ حق ہے اور اس کے بعد وہ اس کو قبول نہ کرے، اس کے بعد اس کی ناقدری کرے تو ایک وہ وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر انسان کے نفس کو قبول حق کی صلاحیت سے ہی محروم کر دیتے ہیں۔ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ اٰمَنُوا ثُمَّ کَفَرُوا فَطُبِعَ عَلیٰ قُلُوبِھِمْ۔ حق واضح ہوا، اس کے دلائل انسان کے سامنے آئے، فطرت نے اس کے حق میں گواہی دی، نفس اس کو قبول کرنے کی طرف مائل ہوا، لیکن کچھ عارضی مفادات، کچھ تعصبات رکاوٹ بن گئے۔ انسان نے حق واضح ہونے کے بعد ان سے اعراض کیا، قبول نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ مہلت دیتے ہوئے ایک آدھ دفعہ مزید موقع دیتے ہیں۔ جب انسان بار بار اس اندر رکھی ہوئی ہدایت کی ناقدری کرتا ہے، اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ بطور سزا ایک وقت میں وہ استعداد ہی چھین لیتے ہیں، اسے ختم کر دیتے ہیں۔ پھر وہ قانون لاگو ہوتا ہے : خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوبِھِمْ وَعَلیٰ سَمْعِھِمْ وَعَلیٰ اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ۔ اب پیغمبر جتنی مرتبہ چاہے انذار کرے، اب اللہ نے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اب ان کے اندر حق جا ہی نہیں سکتا۔ 
تو یہ دونوں باتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ انسان کے نفس میں اور فطرت انسانی میں اس دعوت کو قبول کرنے کی طرف ایک بنیادی رغبت اور میلان اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ جب اللہ کے پیغمبر، اس کی کتابیں، یا اس کے نیک بندے دعوت دیتے ہیں تو انسان فطری طور پر اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ بعض دفعہ کچھ عوارض و موانع رکاوٹ بھی بن جاتے ہیں، لیکن اب اس کے لحاظ سے انسانوں میں فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا کہ کون ہیں جنہوں نے اپنی فطرت کے ساتھ وفاداری کی اور حق کی طرف راغب ہوئے اور اس کو قبول کیا۔ کون ہیں جنہوں نے اس کے ساتھ خیانت کی، حق کے ساتھ وفاداری نہیں کی اور دوسرے راستے کی طرف چل دیے۔ 
ہم نے قرآن مجید کی روشنی میں یہ سمجھا کہ انسان نفس میں اللہ نے تقویٰ بھی رکھا ہے اور فجور بھی رکھا ہے۔ انسان کے نفس میں وہ صلاحیت بھی رکھی ہے جو اس کو حق کے قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور کچھ ایسی خامیاں اور کمزوریاں بھی اس کی فطرت کا حصہ ہیں کہ جو اس میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ ان موانع اور ان عوارض کی پوری ایک فہرست ہے جو انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ کسی انسان میں ایک رکاوٹ ظہور پذیر ہوتی ہے، تو دوسرے انسان میں دوسری رکاوٹ رو بہ عمل ہوتی ہے۔ ایک گروہ میں نفس کی ایک بیماری زیادہ غالب آجاتی ہے، تو کسی دوسرے گروہ میں نفس کی دوسری بیماری زیادہ غالب آجاتی ہے۔ اور یہ جو نفس کی کمزوریاں ہیں، یہ دنیا میں انسانوں کو، افراد کو بھی اور مختلف گروہوں کو بھی، یا تو حق کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتیں یا حق ملنے کے بعد اور حق کو پا لینے کے بعد اس سے بہک جانے یا اس سے بھٹک جانے کا سبب بن جاتی ہیں۔ قرآن مجید میں ان سب عوارض اور موانع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چند جو بہت نمایاں عوارض ہیں، ان کا ایک مختصر تذکرہ کر لیتے ہیں۔ 
سب سے بڑی چیز جو اللہ نے نمایاں کی ہے، وہ ہے کبر، تکبر، اپنی بڑائی کا ایسا احساس جو انسان کو حق قبول کرنے سے روک دے۔ کبر، نفس کی ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ جس میں انسان کو کوئی بات قبول کرتے ہوئے اپنی خفت کا احساس ہوتا ہے۔ نفس یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ بات مان لینے سے میرا جو بڑائی کا تصور ہے یا لوگوں کی نظروں میں جو میرا بڑائی کا احساس ہے، وہ کم ہو جائے گا۔ نفس کی یہ کیفیت اس کو اس بات کی طرف متوجہ ہونے سے یا پہچان لینے کے بعد اس کو قبول کرنے سے روک دیتی ہے۔ تکبر نفس کی وہ کیفیت ہے جس کو قرآن مجید نے سب سے زیادہ نمایاں کیا ہے۔ شیطان کا واقعہ بار بار بیان ہوا ہے، اس میں سب سے نمایاں حقیقت یہی ہے۔ شیطان کا بھی نفس ہے جیسے انسان کا نفس ہے۔ شیطان کو جو انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے، بلکہ اس کائنات میں اللہ کا سب سے بڑا مخالف ہے، اس کی گمراہی کی اور اس کے بھٹکنے کی بڑی وجہ کیا تھی؟ نفس کے اندر یہ احساس کہ خدا مجھے کہہ رہا ہے کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو، یہ تو میری شان سے فروتر ہے۔ یہی مرض اللہ تعالیٰ نے یہود کے اندر نمایاں کیا ہے۔ یہود جن کا قرآن مجید میں سب سے زیادہ تفصیلی تذکرہ ہوا ہے، ان کے اندر بھی یہ مرض سب سے زیادہ قوی اور نمایاں تھا۔ ان کے لیے یہ بات توہین کے ہم معنی تھی کہ بنی اسرائیل سے اللہ نے نبوت لے کر بنی اسماعیل کو دے دی۔ پڑھے لکھے اہل کتاب سے لے کر امیوں کو دے دی۔ ان کے تکبر نے، ان کے احساس برتری نے اس طرف آنے سے روک دیا۔ باقی بھی جتنے انبیاء کی قوموں کا اللہ نے ذکر کیا ہے، آپ دیکھیں گے کہ بڑی نمایاں بیماری ان کی یہی کبر تھا۔ انھوں نے پیغمبروں سے کہا کہ تم غریب آدمی ہو، ہم مالدار لوگ ہیں۔ اللہ کو پیغمبری اور نبوت کے لیے کیا یہی ملا تھا : لَولاَ نُزِّلَ ھٰذَا القُرْاٰنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَینِ عَظِیمٍ۔ مکہ اور طائف کے کسی سردار پر قرآن نازل ہونا چاہیے تھا۔ تو کبر انسانی نفس کی وہ بیماری ہے کہ حق سامنے ہوگا، روز روشن کی طرح واضح ہوگا اور اندھے کو بھی دکھائی دے رہا ہوگا، لیکن جو گروہ یا فرد اس بیماری میں مبتلا ہوگا، وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھے گا، وہ سنتے ہوئے نہیں سنے گا، اس کی عقل پر پردے پڑ جائیں گے۔ اس لیے کہ نفس نے قبول حق کی جو استعداد تھی، اس کے اوپر تکبر کا پردہ ڈال دیا ہے۔ 
دوسری چیز جس کو قرآن نے بیان کیا ہے، وہ حسد ہے۔ یہ تکبر کے ساتھ کچھ ملتی بھی ہے، لیکن اس سے کچھ مختلف پہلو بھی رکھتی ہے۔ حسد میں بھی تکبر ایک بہت بڑا نمایاں عنصر ہوتا ہے۔ حسد میں یہ چیز شامل ہوتی ہے کہ یہ چیز اصل میں تو مجھے ملنی چاہیے تھی۔ مجھے نہیں ملی اور اسے کیوں مل گئی ہے۔ تو حسد کی کیفیت انسان کے لیے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ 
ایک اور بڑی اہم چیز جو تکبر سے ہی پھوٹتی ہے، اس سے پیدا ہوتی ہے، اس کو قرآن نے بَغیًا بَیْنَھُمْ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ انسانوں میں، افراد کے درمیان بھی اور گروہوں کے مابین بھی مسابقت ہوتی ہے، اس بات کی کہ انہیں دوسروں پر برتری حاصل ہو۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ عزت، سرفرازی سے بہرہ ور ہوں۔ یہ جو چیز ہے، یہ لوگوں کو اس پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر سرکشی کریں، ایک دوسرے پر زیادتی کریں، اور یہ چیز جب دین کے معاملے میں آجاتی ہے تو پھر فرقہ بندی اور گروہ بندی پیدا ہوتی ہے جس کا سب سے زیادہ شکار بنی اسرائیل ہوئے۔ قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ بغیًا بینھم کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے غیر شعوری طور پر حق کی اطاعت قبول کرنے کی بجائے اپنے اپنے گروہی احساس تفاخر کو زیادہ اہمیت دی۔ ایک دوسرے کے مقابلے میں برتری جتانے کے لیے ایسی ایسی چیزیں، ایسے ایسے مسائل، ایسے ایسے مباحث ایجاد کیے اور ان کی بنیاد پر مجادلوں اور مباحثوں کا طریقہ اختیار کیا اور اس کے نتیجے میں پوری امت گروہوں کے اندر تقسیم ہوگئی۔ تو بَغیًا بَیْنَھُمْ یہ انسانی نفس کی ایک اور بڑی بیماری ہے۔ 
ایک چیز جو قرآن نے خاص طور پر نصاریٰ کے حوالے سے نمایاں کی، وہ ہے غلو۔ غلو کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کے درجے اور اس کی حیثیت سے بہت زیادہ بڑھا کر پیش کرنا یا تصور کرنا۔ جتنے بھی انحرافات اور جتنی بھی گمراہیاں دین و مذہب کے معاملے میں انسانوں نے اختیار کی ہیں، قرآن ان کی اصل نفس انسانی کے اندر پائی جانے والی کسی بیماری کو قرار دیتا ہے۔ جو بھی گمراہی پیدا ہوئی، اس کا منبع نفس انسانی کی خرابی ہے۔ یا وہ بَغیًا بَیْنَھُمْ ہوگا یا وہ تکبر کا احساس ہوگا یا وہ اور اس طرح کی کوئی چیز ہوگی۔ اس کا منبع اور اس کا سرا نفس انسانی کے کسی انحراف یا اس کے بگاڑ کے ساتھ جا ملے گا۔نصاریٰ میں جو گمراہی پیدا ہوئی، اور انھوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو عقائد اختیار کیے ہیں ، اس کا منبع غلو ہے۔ غلو نفس انسانی کی ایک کمزوری ہے کہ جب اس کو کسی چیز سے محبت اور عقیدت ہو، تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے درجے کو، اس کے مقام کو اس سے زیادہ بڑھا کر دکھائے، اس سے زیادہ بلند کر کے دکھائے جتنا کہ وہ ہے۔ نصاریٰ کو اسی کیفیت نفسانی کے تحت یہ بات حضرت مسیح کی شان سے فروتر محسوس ہوئی کہ لگا کہ ہم بھی اللہ کے بندے ہیں اور حضرت مسیح بھی اللہ کے بندے ہی ہیں۔ نہیں، ان کا درجہ تو زیادہ ہونا چاہیے۔ یعنی اگر ہمارے جیسے انسان ہوں تو یہ ان کی شان سے کمتر بات ہوگی۔ ان کی اس عقیدت کا یا عقیدت میں افراط کا جو نتیجہ نکلا، وہ یہ تھا کہ یہ انسان اچھے نہیں لگتے۔ ان کا الوہیت کے درجے میں کہیں کوئی مقام ہونا چاہیے۔ تو انہوں نے الوہیتِ مسیح کا عقیدہ اختیار کر لیا۔ قرآن ان کو مخاطب کر کے کہتا ہے: لاَ تَغْلُوا فِی دِینِکُمْ۔ محبت، عقیدت، اللہ کے بندوں کا احترام، ان کو جو اعزاز، شرف اللہ نے دیا ہے، اس کا اعتراف، یہ تو عین دین اور دین کی روح ہے، لیکن جب وہ عقیدت اور تعظیم حد سے آگے بڑھے گی تو غلو ہوگا۔ تو پیغمبر کو آپ اللہ کی الوہیت میں شریک کریں گے، اس ذات کو جس کی بیٹی بیٹا کچھ بھی نہیں ہے، ماں باپ کے رشتوں میں باندھیں گے اور یوں انسان کی قدر بڑھاتے بڑھاتے خدا کی عظمت اور کبریائی کو مجروح کر دیں گے۔ تَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَقُولُ الظَّالِمُونَ عُلُوًّا کَبِیْرًا۔
اسی طریقے سے کئی اور موانع اور امراض ہیں جو انسانوں میں بہت عام ہیں۔ قرآن بھی ان کا جگہ جگہ ذکر کرتا ہے۔ مثلاً حب دنیا، حب شہوات، حب عاجلہ، یہ سب ایک ہی چیز کے مختلف عنوان ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ تم دنیا سے محبت کرتے ہو: کَلاَّ بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَۃَ، جو فوری اور نقد کچھ فائدہ یا کچھ آسائش ملی ہوئی ہے، اس سے محبت کرتے ہو۔ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوَاتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ ۔۔۔۔ عنوان مختلف ہیں، حقیقت ایک ہی ہے کہ انسان کو جو چیز فوری اور نقد یہاں پر ملی ہوئی ہے، اس کی کشش اتنی ہے، اس کی محبت میں انسان اتنا گرفتار ہو جاتا ہے کہ وہ اس کے لیے اصل فائدے کو، ابدی فائدے کو قربان کرنے پر تیار ہو جاتا ہے کہ یہ ہاتھ سے نہ جائے۔ یہ جو ملا ہوا ہے، یہ ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اور اگر اس کے لیے اس کے سامنے یہ مطالبہ رکھا جائے کہ بھئی اس کو چھوڑنا یا اس کی قربانی دینا تو اللہ کا تقاضا ہے تو وہ اس تقاضے سے جان چھڑانے کے لیے حق کا انکار کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہود کے جو امراض قرآن نے نمایاں کیے، ان میں ایک بہت بڑا مرض یہ بھی ہے کہ دنیا کی محبت، مال کی محبت، سیادت اور قیادت کی محبت، یہ ایسے ان کے اندر سرایت کیے ہوئے ہے کہ وہ اس کی قربانی دے کر اللہ کے رسول کی اطاعت اختیار نہیں کر، سکتے اس لیے کہ اس کے بعد مذہبی سیادت سے محروم ہونا پڑے گا۔ اور جو مذہب اور اعزاز ان کا سمجھا جا رہا تھا، اس میں انہیں دوسری صف میں آنا پڑے گا۔ کیونکہ نئی امت جو اللہ نے کھڑی کی ہے وہ تو بنی اسرائیل نہیں بلکہ بنی اسماعیل ہے۔ بنیاد دنیا کی محبت ہے اور دنیا کی محبت میں وہ ساری چیزیں یہود کے رویے میں ظاہر ہوئیں جن کا ذکر ہوا۔ 
قرآن نفس انسانی پر تبصرہ کرتے ہوئے اس طرح کے بہت سے امراض کو، اور مختلف موانع کو نمایاں کرتا ہے۔ اگر آپ ایک فہرست بنائیں تو کافی وسیع بن جائے گی۔ میں نے اختصار کے ساتھ چند پہلو آپ کے سامنے رکھے ہیں۔ 
اس ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ انسان اگر حق کا انکار کرتا ہے یا حق ملنے کے بعد اس سے منحرف ہوتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ انسانی نفس کے اندر آنے والی کوئی آلائش یا نفس کا کوئی بگاڑ یا نفس کی کوئی بے اعتدالی ہوتی ہے جس سے مغلوب ہو کر انسان نے حق کا راستہ چھوڑ دیا اور وہ راستہ اختیار کر لیا جو اس خاص کیفیت میں نفس کو زیادہ پسند ہے۔ اس کیفیت سے اگر انسان کو الگ کر دیا جائے، وہ کیفیت اگر دور کر دی جائے تو وہی نفس قبول حق کے لیے تیار ہو جائے گا۔ یہ جو آلائشیں ہیں، جو امراض اور عوارض ہیں، یہ چند در چند ہیں، ان کی شکلیں مختلف ہیں۔ قرآن مجید کی ایک بڑی عنایت ہدایت کے پہلو سے یہ ہے کہ اس نے انسانی نفس کا بھی ایک گہرا اور حقیقی تجزیہ ہمارے سامنے رکھا ہے کہ اگر انسان اس پر غور کر کے اس سے رہنمائی لے تو وہ گمراہیوں سے اور ضلالتوں سے بچ سکتا ہے۔ 
ایک اور پہلو اس ضمن میں یہ ہے کہ قرآن جب انسانی نفس کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتا ہے تو نفس کو ترغیب دینے کے لیے، اس کو راغب کرنے کے لیے وہ کئی اسالیب اختیار کرتا ہے۔ ایک طرف وہ ان موانع پر روشنی ڈالتا ہے جو انسان کے نفس کو حق کی طرف متوجہ ہونے سے روک دیتے ہیں، اور دوسری طرف وہ انسانی نفس کی کچھ خصوصیات کو اور انسانی نفس کے جو کچھ امتیازات ہیں، ان کو استعمال کرتے ہوئے ان کو اپنی دعوت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ 
مثلاً یہ دیکھیں کہ انسان کا نفس جب کسی چیز کی طرف متوجہ ہوگا یا اس کی طرف راغب ہوگا تو بنیادی طور پر اپنی کچھ رغبتوں اور اپنی کچھ ضرورتوں کی بنیاد پر ہوگا۔ نفس انسانی بنیادی طور پر احتیاج سے عبارت ہے۔ انسان اس دنیا میں محتاج ہے۔ انسان کی پوری نفسیات کا اگر آپ تجزیہ کریں تو وہ اصل میں کچھ احتیاجات سے اور کچھ رغبات اور خواہشات سے عبارت ہے۔ انسان کو اِس چیز کی خواہش ہے، اُس چیز کی ضرورت ہے۔ پوری انسانی شخصیت، پوری انسانی نفسیات رغبتوں، احتیاجات اور خواہشات سے عبارت ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہی ایسا ہے کہ وہ محتاج اور مخلوق ہے۔ غیر محتاج تو صرف خدا کی ذات ہے۔ ایک محتاج مخلوق اپنی احتیاجات کے لحاظ سے بہت سی چیزوں کی طرف حاجت یا رغبت محسوس کرتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانی نفس کی ان خصوصیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے جب اسے دین کی دعوت پیش کی ہے، ہدایت کا راستہ دکھایا ہے تو اس دعوت اور اس تعلیم کو بھی انسان کی فطری رغبات کے ساتھ جوڑا ہے، نتھی کیا ہے۔ اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کو طمع دی ہے، اس کو لالچ دیا ہے کہ اگر تم یہ راستہ اختیار کر لو گے تو اس کے نتیجے میں وہ تمہیں ساری چیزیں ملیں گی جن کی طرف تمہیں فطری طور پر رغبت ہے۔ 
منکرین مذہب اور ملحدین جو یہ کہتے ہیں کہ مذہب، خدا اور وحی، یہ چیزیں انسان کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں، وہ اس بات کو مذہب کے خلاف اپنا مقدمہ دائر کرتے ہوئے بطور دلیل بھی پیش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مذہب کیا ہے؟ وہ انسان کی کمزور نفسیات کو تسکین دینے کا ایک حیلہ ہے۔ انسان کی اس دنیا میں بے شمار خواہشات پوری نہیں ہوتیں، انسان کی بے شمار رغبات ہیں جن کا اس دنیا میں پورے ہونے کا کوئی وسیلہ نہیں تو مذہب نے بڑی چالاکی سے انسان کو کہا کہ ہمارے پاس آجاؤ، ہم تمہاری تمناؤں کی تسکین کا بندوبست کر دیں گے۔ یہاں ہماری باتیں مان لو، مرنے کے بعد تمہاری یہ ساری خواہشیں پوری ہو جائیں گی۔ ہمیشہ کی زندگی چاہیے تو ہم دلوائیں گے۔ اگر بڑے بڑے محلات چاہییں تو ان کی ضمانت ہمارے پاس ہے۔ خوبصورت بیویاں اور عورتیں اور حوریں چاہییں تو ہماری طرف آجاؤ۔ تو یہ مذہب کے خلاف ایک مقدمہ بھی قائم کیا جاتا ہے کہ مذہب کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ اصل میں انسان کی نفسیات میں جو کچھ خلا اور کمزوریاں ہیں جن کی وہ تسکین چاہتا ہے تو مذہبی لوگوں نے بڑی ہشیاری اور چالاکی سے ان ساری نفسیاتی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر ایک پورا تصور بنا دیا اور اس کے بدلے میں وہ انسان کو خرید لیتے ہیں۔ وہ اس کو تسلی اور تسکین دیتے ہیں اور ایک تصوراتی اور تخیلاتی دنیا کا تصور اس کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اس دنیا میں انسان کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں کہ جو پابندیاں، جو قاعدے، جو ضابطے ہم بنائیں، وہ یہاں مانو، یہاں ہمارے غلام بنو، تو مرنے کے بعد تمہاری جتنی بھی خواہشات ہیں وہ، ہم پوری کر دیں گے۔ تو یہ مذہب پر ملحدین کا ایک اعتراض بھی ہے۔
بہرحال قرآن مجید انسان کو دعوت دیتے ہوئے ترغیب و ترہیب کے یہ طریقے استعمال کرتا ہے۔ جب وہ دعوت ہے دیتا ہے اللہ کے پیغمبروں کی اطاعت قبول کرنے کی، دین کو قبول کرنے کی تو سب سے بڑی ترغیب کیا بیان کرتاہے؟ جنت۔ جنت کیا ہے؟ انسان کی تمام خواہشات کا مجموعہ۔ اور ترہیب سے جب کام لیتا ہے تو کس چیز سے ڈراتا ہے؟ جہنم سے۔ جہنم کیا ہے؟ ان تمام چیزوں کا مجموعہ جن سے انسان نفرت کرتا ہے، جن سے دور ہونا چاہتا ہے۔ تو قرآن انسان کو دعوت دیتے ہوئے، نفس انسانی کو راغب کرتے ہوئے ترغیب و ترہیب کے یہ طریقے بھی استعمال کرتا ہے۔ ابدی راحتیں، ابدی نعمتیں، کبھی نہ ختم ہونے والی آسائشیں ، انسان کو اِن کی خواہش ہے، انسان فطری طور پر یہ چاہتا ہے۔ تو قرآن ان کے سامنے یہ تصور پیش کرتا ہے کہ یہ دعوت قبول کرو تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمہیں مرنے کے بعد جو نئی زندگی دے گا، اس میں یہ سب راحتیں عطا کرے گا۔ 
ایک اور چیز جو آپ کو قرآن میں ترغیب کے پہلو سے بہت نمایاں ملے گی، وہ یہ ہے کہ قرآن کئی جگہ پر یہ کہتا ہے کہ یہ چیز، یہ ذمہ داری، یہ پابندی جو تمہیں بتائی گئی ہے، اس کو قبول کرو، اس کو اختیار کرو، یہ طریقہ اختیار کرو، اس لیے کہ یہ ان لوگوں کے شایان ہے جن کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہے۔ تمہیں اللہ نے اگر فضل اور برتری دی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم اس کو اختیار کرو۔ اب دیکھیں، نفسیاتی تجزیہ آپ کریں تو انسان کے اندر اپنی برتری یا اپنی فضیلت کا احساس ایک فطری چیز ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ چیزوں میں وہ دوسروں سے برتر سمجھا جائے یا اس کو فضیلت حاصل ہو۔ یہ انسان کا فطری، نفسیاتی احساس ہے۔ قرآن مجید اس احساس کی کلی نفی نہیں کرتا۔ وہاں نفی کرتا ہے جہاں اس کے نتیجے میں کوئی غلط عمل ہو رہا ہو۔ نفی کرنے کے بجائے قرآن اسی برتری اور فضیلت کے احساس کو مثبت مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے کہ تمہیں اللہ نے جو برتری دی ہے، اس کے مطابق رویہ اپناؤ۔ مثلاً دیکھیں، میاں بیوی کے باہمی حقوق وفرائض ہیں۔ میاں بیوی میں جب کوئی کشاکش ہو، نزاع ہو، کوئی لڑائی جھگڑا ہو تو قرآن مردوں سے کہتا ہے کہ تمہیں اللہ نے ایک درجہ زیادہ دیا ہے، اس درجے اور فضیلت کا تقاضا ہے کہ تمہارا برتاؤ زیادہ فراخدلی پر مبنی ہو۔ تمہارا برتاؤ زیادہ وسعت ظرفی پر مبنی ہو۔ وَلاَ تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ۔ اگر ایسی صورت ہے کہ آدھا مہر دینا واجب ہے تو دونوں طریقے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عورت اپنا حق چھوڑ دے کہ میں نہیں لیتی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرد آدھا دینے کی بجائے پورا ہی دے دے۔ قرآن اس موقع پر یہ فرماتا ہے : وَلاَ تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ کہ یہ قربانی مردوں کو دینی چاہیے۔ آدھا بنتا ہے، لیکن پورا دے دو، کیونکہ تمہیں اللہ نے اس رشتے میں زیادہ درجہ دیا ہے۔ ویسے بھی مرد کو عورتوں پر کچھ فضیلتیں دی گئی ہیں تو برتاؤ کرتے ہوئے اس کا لحاظ کرنا چاہیے۔ اس سے قرآن کے اسلوب دعوت کا جو پہلو نمایاں ہوتا ہے ، اور یہ بڑا قیمتی اور کارآمد اصول ہے، کہ جہاں افراد کو یا گروہوں کو دوسروں کے مقابلے میں کوئی امتیاز حاصل ہو یا کسی چیز میں کوئی برتری حاصل ہو تو آپ اس برتری کو اچھے اور مثبت مقصد کے لیے موثر طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ 
انسان کے اندر جو فطری جذبات اللہ نے رکھے ہیں، دوسرے انسانوں کے ساتھ محبت ومودت کے، رشتہ داری کے، ماں باپ کے ساتھ ترحم کے، اور احترام کے، آپ دیکھیں گے کہ خاندانی معاملات سے متعلق جو شریعت ہے، اس میں اللہ تعالیٰ جگہ جگہ احکام دیتے ہوئے، ہدایات دیتے ہوئے اس فطری جذبے کو ابھاریں گے، اس کو تحریک دیں گے۔ یتیموں کے حقوق کا خیال کرو، اس لیے کہ اللہ نے تمہارے مابین رشتہ داریاں بنائی ہوئی ہیں اور وہ مقدس ہیں اور قابل احترام ہیں: وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِی تَسَآءَ لُونَ بِہِ وَالاَرْحَامَ۔ رشتے اللہ کے بنائے ہوئے ہیں، ان کا تقدس ملحوظ رکھو، حقوق کی پاسداری کرو، ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، بڑھاپے میں ان کی سختی اور تلخی کو گوارا کرو۔ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْرًا۔ تو یہ جو انسان کے اندر دوسرے انسانوں کے لیے، خاص طور پر اپنے ماں باپ کے لیے، بہن بھائیوں کے لیے، اقرباء کے لیے فطری جذبات ہیں، قرآن دعوت دیتے ہوئے، احکام دیتے ہوئے، پابندیاں عائد کرتے ہوئے انسان کو راغب کرنے کے لیے ان جذبات سے بھی کام لیتا ہے۔ آپ اپنی زندگی میں اس کا مشاہدہ کریں۔ ہو سکتا ہے کبھی دو بھائیوں میں ایسا سخت جھگڑا ہو کہ انصاف کے اصول پر یا قانون ضابطے کے تحت صلح کا کوئی امکان ہی نہ ہو، لیکن کوئی اللہ کا بندہ، کوئی حکیم آدمی اگر ان کے رشتے کی جو نزاکت ہے، ذرا اس کی طرف متوجہ کر کے انہیں یاد دلوائے کہ تمہارا رشتہ آپس میں کیا ہے۔، تو آپ دیکھیں گے کہ رشتہ داری کا احساس اجاگر ہوا، دل تھوڑے نرم ہوئے اور لوگ بڑے سے بڑا حق بھی چھوڑ دینے پر آمادہ ہوگئے۔ تو قرآن کا سکھایا ہوا یہ اسلوب ہے۔
مدح، ثنا، اچھی تعریف انسان کو مرغوب ہے اور پسند ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ قرآن جگہ جگہ جہاں اعمال خیر کی دعوت دیتا ہے، اعمال خیر کی طرف متوجہ کرتا ہے تو اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحِسِنِینَ، اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمَتَّقِینَ، اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ کے الفاظ میں ایسے لوگوں کی تعریف بیان کرتا ہے۔ خدا کی ابدی رضا کا حصول، اسی طرح عزت و سرفرازی کا حصول، دنیا میں اچھ رتبہ ملنا، یہ فرد کو بھی پسند ہے اور گروہوں کو بھی پسند ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جب قرآن کریم اہل ایمان کو مشکل حالات میں ثابت قدمی کی تلقین کرتا ہے تو ان کو کہتا ہے کہ اس مرحلے کا ثابت قدمی کے ساتھ سامنا کرو۔ یسے موقع پر وہ صرف نصیحتیں نہیں کرتا بلکہ اس کے بعد انسان کو ملنے والے جو فوائد ہیں، ان کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس مرحلے سے ثابت قدمی سے گزر جاؤ تو آئندہ تمہارے لیے عزت و سرفرازی ہے۔ حکومت اور اقتدار ملے گا، آج تم مغلوب ہو تو کل غالب ہو جاؤ گے، آج تم پست ہو تو کل عزیز اور سرفراز ہو جاؤ گے۔ 
میں نے یہ چند چیزیں مثال کے طور پر ذکر کیں کہ نفس انسانی کو متوجہ کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی جو فطری احتیاجات، ضروریات، اور خواہشات ہیں، جو جائز ہیں اور اللہ کی رکھی ہوئی ہیں، ان کو بھی اپیل کرتا ہے۔ انسان کو ترغیب دینے کے لیے ان احساسات وجذبات سے بھی کام لیتا ہے۔ میں نے بطور مثال چند باتیں ذکر کیں۔ قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے تو بے شمار پہلو آپ کے سامنے آئیں گے۔
جو نکتہ ابھی عرض کیا گیا، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جیسے قرآن قبول حق پر مرتب ہونے والے فوائد کا ذکر کرتا ہے، چاہے اس دنیا میں ہوں یا آخرت میں، اسی طرح قبول نہ کرنے کی صورت میں جو نقصانات آنے والے ہیں، قرآن ان کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ جہنم اس کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ اگر یہ نہیں کرو گے تو کتنے دن جی لو گے؟ اس کے بعد ہمیشہ کی آگ اور دوزخ ہے، اور اس دنیا میں بھی ضرر اور نقصان وابستہ ہے۔ قبول حق سے اعراض پر انسان کو اس دنیا میں بھی جو خسارہ اور نقصان ہونے والا ہے، قرآن اس بھی اس کو جگہ جگہ نمایاں کرتا ہے۔ 
آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ کے زمانے میں اہل ایمان کو ایمان اور عمل صالح کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جو ایک بڑی آزمائش درپیش تھی، وہ یہ تھی کہ اسلام کے آنے سے پہلے ان کے مختلف مذہبی گروہوں کے ساتھ بڑے قریبی تعلقات اور روابط قائم تھے۔ مشرکین کے ساتھ، یہود و نصاریٰ کے ساتھ، مدینہ کے منافقین کے ساتھ ان کی دوستیاں تھیں۔ اب اس نئی صورت حال میں ایمان یہ تقاضا کر رہا تھا کہ مسلمان ان تعلقات کو ختم کریں، ان تعلقات پر نظر ثانی کریں اور معاشرتی وگروہی تعلقات کو ایک نئی بنیاد پر استوار کریں۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ تھا کہ قرآن کی کئی سورتیں آپ کو اس موضوع پر ملیں گی۔ کہیں منافقین کا مسئلہ زیر بحث ہے، کہیں یہود و نصاریٰ زیر بحث ہیں، کہیں مشرکین زیر بحث ہیں۔ قرآن بتا رہا ہے، سمجھا رہا ہے، آمادہ کر رہا ہے کہ ان کے ساتھ دوستیاں قائم نہ کرو، یہ ایمان کے منافی ہے، عمل صالح کے منافی ہے۔ اب یہاں آپ دیکھیں گے کہ قرآن اس بات کو جہاں خدا کے ایک مطالبے کے طور پر بیان کر رہا ہے، وہاں اہل ایمان کو اس طرح بھی متنبہ کرتا ہے کہ دیکھو، تمہیں ان کی دوستی کا شوق چڑھا ہوا ہے، لیکن یہ تمہارے دوست نہیں ہیں۔ ان کو جب موقع ملے گا، تمہیں نقصان پہنچائیں گے۔ لاَ یَألُونَکُمْ خَبَالًا، وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ اور بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں، تمہارے دوست نہیں ہیں۔ اِنَّ مِنْ اَزْوَاجکُمْ وَاَولَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ۔ تم جنہیں دوست اور رشتہ دار سمجھتے ہو، حقیقت میں تمہارے دشمن ثابت ہوں گے۔ تو یہ بھی اسی نکتے کا ایک پہلو ہے جو میں نے عرض کیا کہ قرآن جب انسان کو دعوت دیتا ہے تو ترغیب و ترہیب میں ان سب چیزوں سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے، ان سے کام لیتا ہے جو انسان کو اور نفس انسانی کو کسی راستے پر لانے کے لیے یا کسی راستے سے دور ہٹانے کے لیے موثر اور مددگار ہو سکتی ہیں۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک طالب علم کے طور پر ایک نکتہ یہ بھی آپ کے سامنے ہونا چاہیے کہ نفس انسانی کو دو الگ الگ سطحوں پر عوارض لاحق ہوتے ہیں اور قرآن ان دونوں کو موضوع بناتا ہےؒ نفس انسانی کے تزکیہ یعنی اس کو پاک صاف بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو اس کی حق کی معرفت اور اس کو قبول کرنے کی استعداد زنگ آلود نہ ہو اور دوسرا یہ کہ حق کی معرفت کے بعد اپنے عمل کو اس کے مطابق ڈھالنے کے لیے بھی وہ پوری طرح تیار ہو۔ تزکیہ نفس یہی ہے کہ انسان صحیح حقائق کو جانے اور جاننے کے بعد اپنے عمل کو، اپنے رویے کو، اپنی روز مرہ زندگی کو، اپنے معاملات کو اس کے مطابق ڈھال لے۔ صرف ایمان لے آنا کافی نہیں، عمل صالح بھی ضروری ہے۔ جو انسان یہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں ، وہ کامیاب ہیں۔ اب نفس انسانی کو ان دونوں سطحوں پر عوارض سے واسطہ پیش آتا ہے۔ یا تو نفس پر آلائشوں کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ انسان قبول حق سے ہی محروم رہ جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن نے اپنی تعلیم کا اور اپنی گفتگو کا ایک بہت بڑا حصہ ایسے لوگوں پر مرکوز کیا ہے جن کے لیے نفسانی خواہشات یا نفسانی آلائشیں سرے سے حق کی معرفت میں ہی رکاوٹ بن جاتی ہیں، قبول حق کے لیے ہی مانع بن جاتی ہیں۔ اس کے بعد جو دوسری بڑی آزمائش نفس انسانی کو درپیش ہوتی ہے، وہ یہ کہ حق کو شعوری طور پر قبول تو کر لیتا ہے، لیکن ایمان لے آنے کے بعد عمل صالح اختیار کرنے میں بھی انہی تمام عوارض کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہو جاتا ہے۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی کلام کا اور اپنی تعلیم کا ایک بہت بڑا حصہ اس دوسرے گروہ کے لیے بھی خاص کیا ہے جو ایمان لے آئیں اور فرمانبرداری قبول کر لیں۔ تزکیہ نفس کا ایک امتحان ان کو بھی درپیش ہے۔ اب زندگی کو منشائے خداوندی کے مطابق ڈھالنے کے لیے انہیں مزید کچھ قربانیاں دینی ہیں، کچھ پابندیاں اختیار کرنی ہیں اور اس میں جو نفسانی مشکلات ہیں، جو نفس کے عوارض ہیں، ان سے نبرد آزما ہونا ہے۔ ان کے لیے بھی تزکیہ نفس کا ایک پورا نصاب اور ایک پورا ضابطہ اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے۔ 
اس کا سب سے بڑا حصہ وہ ہے جس کو ہم ’’شریعت‘‘ کہتے ہیں۔ شریعت ساری کی ساری انسان کے نفس کا تزکیہ ہے۔ وہ اگر عبادات کی صورت میں ہے تو انسان کے نفس کا تزکیہ کرتی ہے۔ وہ اگر خاندانی معاملات کی صورت میں ہے تو وہاں انسان کے نفس کا تزکیہ کرتی ہے۔ وہ اگر تجارت، معیشت اور مالی معاملات سے متعلق ہے تو وہاں انسان کا تزکیہ کرتی ہے۔ وہ اگر معاشرے میں عدل، انصاف اور اس طرح کے معاملات سے متعلق ہے تو وہاں انسان کا تزکیہ کرتی ہے۔ اس لیے کہ ساری شریعت دراصل آپ کے سامنے وہ طریقہ رکھ رہی ہے جس کو اختیار کرنا اچھے اور اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا تقاضا ہے، اور جن کو انسان اپنی کسی نفسانی خواہش کے زیر اثر پامال کردیتا ہے۔ بیوی سے بدسلوکی، بچوں سے بدسلوکی، ماں باپ سے بدسلوکی، یا ماں باپ کی حق تلفی، یہ ساری چیزیں کیوں وقوع پذیر ہوں گی؟ کیونکہ انسان کا نفس عدل پر، انصاف پر اور حقوق کی ادائیگی پر آمادہ نہیں ہوگا۔ معاملات میں کمی بیش کیوں ہوتی ہے؟ جب مال کی محبت میں انسان دوسرے کی حق تلفی کرے گا، دوسرے کا حق چھینے گا، دھوکہ دے گا، خیانت کرے گا۔ تو شریعت آکر پوری ضابطہ بندی کرتی ہے اور ساتھ ساتھ انسان کو متوجہ کرتی جاتی ہے کہ اگر تم اللہ کی نظر میں پسندیدہ انسان بننا چاہتے ہو، اچھے اور با اخلاق انسان بننا چاہتے ہو تو اس لائحہ عمل کی پابندی کرو۔ اسی طرح عبادات کے متعلق ہم جانتے ہی ہیں کہ نماز کیسے انسان کا تزکیہ کرتی ہے، زکوٰۃ انسان کے مال کو پاکیزہ بناتی ہے، روزہ کیسے انسان کی خواہشات کو اور ان کا جو بے قابو ہونا ہے، کیسے اس کو اعتدال کے اندر لاتا ہے۔ تو شریعت تمام دائروں میں انسان کی تہذیب نفس کا، اس کے تزکیہ نفس کا ایک بہت بڑا اور بنیادی ذریعہ ہے۔ 
نفس انسانی کے تزکیے کا ایک اور پہلو بھی اللہ نے قرآن میں واضح کیا ہے جس کا بندوبست اللہ نے تکوینی طور پر کیا ہوا ہے، اور وہ ہے انسانی زندگی میں مصائب ، آزمائشوں اور مشکلات کا آنا۔ یہ انسان کے تزکیے کا ایک مستقل ذریعہ ہے جو اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ شریعت کی پابندی کرنے یا نہ کرنے میں تو ہم مختار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں تو توڑ بھی دیتے ہیں، چاہتے ہیں تو پامال بھی کر دیتے ہیں، لیکن ایک تزکیہ ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی انسان کا کرتے رہتے ہیں، اور وہ ہے انسان کو زندگی کے مختلف مراحل میں، مختلف آزمائشوں سے دوچار کرنا، مشکلات سے دوچار کرنا، اور ان میں سے گزار کر انسان کے مزاج، اس کی طبیعت اور اس کے نفس کی کچھ ناہمواریوں کو دور کرنا۔ یہ گویا انسان کی تربیت کا ایک عمل ہے۔ آسائش میں انسان تربیت نہیں پاتا۔ مشکل میں، تکلیف میں، رنج میں تربیت پاتا ہے اور اسے کچھ حقائق کا ادراک ہوتا ہے۔ نفس کی جو بعض منہ زو رخواہشات ہوتی ہیں، مشکل میں، رنج میں اور مصیبت میں ان پر قابو پانا انسان سیکھتا ہے۔ تو یہ جو آزمائش اور مشکل ہے، یہ بھی انسان کے تزکیے کا ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے، بشرطیکہ انسان اس سے سیکھنے والا ہو۔ انسان اگر آزمائش اور مشکلات سے سیکھنے والا ہو، ان کی حکمت پر اس کی نظر ہو تو بجائے خود انسان کے نفس کی تربیت کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہے۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الاَمْوَالِ وَالاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ۔ ہر طرح کی آزمائش انسان پر آتی ہے، اور یہ اس طرح کی چیز ہے کہ اس سے اللہ کے نبی بھی مستثنیٰ نہیں، بلکہ حدیث کے مطابق تو جو اللہ کے زیادہ مقرب ہوتے ہیں، ان کے لیے آزمائش کا نصاب بھی زیادہ سخت ہوتا ہے، مشکلات بھی زیادہ آتی ہیں۔ 
خلاصہ ان سب باتوں کا وہی ہے جو میں نے شروع میں آپ کے سامنے رکھا کہ قرآن کی ساری تعلیم، قرآن کی ساری گفتگو انسانی نفس کے گرد گھومتی ہے، اس لیے کہ قرآن کا مخاطب نفس انسانی ہے۔ قرآن کا پیغام، اس کی تعلیم یا اس کا مقصد یہ ہے کہ نفس انسانی کو ان حقائق کی یاد دہانی کرائی جائے جن کو ماننا اس کی نجات کے لیے ضروری ہے، اور نہ صرف ان حقائق کو اس کے سامنے رکھا جائے بلکہ ان حقائق کو ماننے کی طرف اس کو آمادہ اور راغب کیا جائے، بڑی حکمت اور محبت سے اس کو قائل اور متوجہ کیا جائے کہ وہ اس راستے پر آ جائے۔ تاہم انسان کے نفس کی کچھ کمزوریاں ایسی ہیں جو اس کو اس راستے پر آنے سے روک دیتی ہیں۔ تو قرآن مجید اپنی تعلیم میں ان حقائق کی تذکیر کے ساتھ ساتھ وہ آیات و شواہد بھی جمع کرتا جاتا ہے جن پر غور کر کے انسان اس طرف متوجہ ہو سکتا ہے اور ان موانع کی بھی نشاندہی اور ان پر تبصرہ کرتا جاتا ہے۔ انسان کو گویا آئینہ دکھاتا جاتا ہے کہ اس آئینے میں اپنی کمزوریاں بھی دیکھ لو۔ یہ بڑا موثر طریقہ ہے۔ جدید نفسیات میں بھی آپ دیکھیں، جو نفسیاتی عوارض ہوتے ہیں، نفسیاتی بیماریاں ہوتی ہیں، ان کے علاج کا سب سے موثر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ماہر نفسیات اور معالج مسلسل عمل کے ذریعے سے خود انسان کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ اپنی اس بیماری یا کمزوری پر متوجہ ہو، اس کی علامتوں اور اس کے ساتھ وابستہ جو چیزیں ہیں، ان پر نظر رکھے اور اپنی قوت ارادی سے ان کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائے۔ جدید طریقہ علاج میں بھی یہ بڑی اہم چیز ہے۔ قرآن مجیدنے ہمیں وہی چیز روحانی واعتقادی امراض کے علاج کے لیے فراہم کر دی۔ ہم اگر اپنی اصلاح چاہتے ہیں، اپنے آپ کو آلائشوں سے بچانا چاہتے ہیں تو قرآن وہ ایک ایک مرض، وہ ایک ایک عارضہ، وہ ایک ایک مانع جو انسان کو مختلف راستوں سے بہکا دیتا ہے، بھٹکا دیتا ہے، اس کو پوری طرح واضح کر کے آئینہ ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اگر انسان اس سے سیکھنا چاہے تو اس سے زیادہ موثر چیز نہیں ہو سکتی۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۵) مُلک کا ترجمہ

عربی میں مُلک کا مشہور معنی بادشاہت، اقتدار اور حکمرانی ہے، امام لغت جوہری کے الفاظ میں: والاسم المُلکُ، والموضع مَمْلکَۃ۔
اردو میں ملک کا مشہور معنی دیس اور سلطنت ہے، عربی کے لفظ ملک کا اردو میں بھی ملک ترجمہ کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے، بلکہ بادشاہت ، اقتدار اور حکمرانی جیسی تعبیر مناسب معلوم ہوتی ہے۔
قرآن مجید میں ملک کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے، اور اکثر وبیشتر مقامات پر اس کا ترجمہ بادشاہی اور حکمرانی کیا گیا ہے، لیکن بعض مقامات پر بہت سارے مترجمین نے ملک کا ترجمہ ملک کیا ہے۔ مشہور ومعروف استعمالات کا لحاظ کیا جائے تو ہر مقام پر ملک کا ترجمہ اقتدار، بادشاہی اور حکمرانی زیادہ مناسب ہے۔
ذیل میں ایسی کچھ آیتیں ذکر کی جاتی ہیں جہاں بعض مترجمین نے ملک کا ترجمہ ملک کیا ہے:

(۱) قُلِ اللّٰہُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِیْ الْمُلْکَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْکَ مِمَّن تَشَاءُ- (آل عمران: ۲۶)

’’کہہ یا اللہ مالک ملک کے، دیتا ہے تو ملک جس کو چاہے اور چھین لیتا ہے ملک جس سے چاہے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’تو کہہ یا اللہ مالک سلطنت کے تو سلطنت دیوے جس کو چاہے اور چھین لیتا ہو ملک جس سے چاہے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’آپ اللہ تعالیٰ سے یوں کہئے کہ اے اللہ مالک تمام ملک کے آپ مالک جس کو چاہیں دے دیتے ہیں اور جس سے چاہیں ملک لے لیتے ہیں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’کہو خدایا، ملک کے مالک، تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے، چھین لے‘‘۔ (سید مودودی)
’یوں عرض کر، اے اللہ ملک کے مالک، تو جسے چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’آپ کہہ دیجئے اے اللہ، اے تمام جہان کے مالک، تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’کہو کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’دعا کرو اے اللہ، بادشاہی کے مالک، توہی جس کو چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھینے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
زیر نظر آیت میں تین بار ملک کا لفظ آیا ہے، بعض لوگوں نے پہلے لفظ کا ترجمہ ملک کیا ہے اور بعض نے تینوں کا ترجمہ ملک کیا ہے۔ آخری دونوں ترجمے زیادہ مناسب ہیں، ان میں تینوں مقامات پر بادشاہی ترجمہ کیا گیا ہے۔
شیخ سعدی اور شاہ ولی اللہ نے بھی اپنے فارسی ترجموں میں تینوں جگہ بادشاہی ترجمہ کیا ہے۔

(۲) وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ إِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکاً، قَالُوا أَنَّی یَکُونُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ، قَالَ إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَاہُ عَلَیْْکُمْ وَزَادَہُ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ، وَاللّٰہُ یُؤْتِیْ مُلْکَہُ مَن یَّشَاءُ۔ (البقرۃ: ۲۴۷)

’’اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا بیشک اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے بولے اسے ہم پر بادشاہی کیونکر ہوگی اور ہم اس سے زیادہ سلطنت کے مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی وسعت نہیں دی گئی فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اُن کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے یہ سن کر وہ بولے : "ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اُس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں وہ تو کوئی بڑا ما ل دار آدمی نہیں ہے" نبی نے جواب دیا: ’’اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے تو کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔ نبی نے فرمایا سنو، اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے بات یہ ہے کہ اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ خدا نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہے، بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں۔ پیغمبر نے کہا کہ خدا نے اس کو تم پر فضیلت دی ہے اور (بادشاہی کے لیے) منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور خدا (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور ان کے نبی نے ان کو بتایا کہ بے شک اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو امیر مقرر کردیا ہے۔ وہ بولے کہ بھلا اس کی امارت ہمارے اوپر کیسے ہوسکتی ہے جب کہ اس سے زیادہ حق دار ہم اس امارت کے ہیں اور اسے تو مال کی وسعت بھی حاصل نہیں ہے؟ نبی نے کہا اللہ نے تمہاری سرداری کے لیے اسی کو چنا اور اس کو علم اور جسم دونوں میں کشادگی عطا فرمائی ہے، اللہ اپنی طرف سے جسے چاہے اقتدار بخشے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
زیر نظر آیت میں بھی ملک کا لفظ تین بار آیا ہے، آخری دونوں ترجموں میں تینوں جگہ ملک کا ترجمہ بادشاہی کیا گیا ہے، اور یہی مناسب ترجمہ ہے۔ جبکہ زیادہ تر لوگوں نے تیسری جگہ ملک کا ترجمہ ملک کیا ہے، ذیل کے کچھ اور ترجموں میں بھی یہی ترجمہ کیا گیا ہے۔
’’اور اللہ دیتا ہے ملک اپنا جس کو چاہتا ہے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
اللہ تعالی اپنا ملک جس کو چاہیں دیں۔ (اشرف علی تھانوی)
شیخ سعدی اور شاہ ولی اللہ نے اپنے فارسی ترجموں میں تینوں جگہ بادشاہی ترجمہ کیا ہے۔

(۳) لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ۔ (التغابن: ۱)

’’اسی کا ملک ہے اور اسی کی تعریف‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اسی کی سلطنت ہے اور وہی تعریف کے لائق ہے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
شیخ سعدی، شاہ ولی اللہ اور شاہ رفیع الدین وغیرہ نے پادشاہی ترجمہ کیا ہے۔

(۴) ذَلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ۔ (فاطر: ۱۳)

’’وہی تمہارا پروردگار ہے اسی کے اختیار میں سارا ملک ہے ‘‘(جوادی)
’’جس کی یہ شان ہے تمہارا پروردگار ہے اس کی سلطنت ہے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
شیخ سعدی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین وغیرہ نے پادشاہی ترجمہ کیا ہے۔

ذَلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ۔ (الزمر: ۶)

’’وہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اسی کے قبضہ میں ملک ہے‘‘۔ (جوادی)
’’یہ ہے اللہ تمہارا رب اسی کی سلطنت ہے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
شیخ سعدی، شاہ ولی اللہ اور شاہ رفیع الدین وغیرہ نے پادشاہی ترجمہ کیا ہے۔

(۵) فَقَدْ آتَیْْنَا آلَ إِبْرَاہِیْمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَآتَیْْنَاہُم مُّلْکاً عَظِیْماً۔ (النساء: ۵۴)

’’پس تحقیق دی ہم نے اولاد ابراہیم کی کو کتاب اور حکمت اور دی ہم نے ان کو بادشاہی بڑی‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’تو ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انھیں بڑا ملک دیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’تو انہیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا‘‘۔ (سید مودودی)
اردو میں شاہ رفیع الدین نے ’’بادشاہی بڑی‘‘ اور فارسی میں شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ سعدی نے ’’بادشاہی بزرگ‘‘ ترجمہ کیا ہے۔

(۶) وَإِذَا رَأَیْْتَ ثَمَّ رَأَیْْتَ نَعِیْماً وَمُلْکاً کَبِیْراً۔ (الانسان: ۲۰)

’’اور جب دیکھے گا تو اس جگہ دیکھے گا تو نعمت اور بادشاہی بڑی‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
وہاں جدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سر و سامان تمہیں نظر آئے گا۔ (سید مودودی)
’’اور جہاں دیکھو گے وہیں عظیم نعمت اور عظیم بادشاہی دیکھو گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور وہاں جدھر بھی نظر ڈالو گے وہیں آرام وآسائش اور عظیم بادشاہی کے سازوسامان دیکھو گے‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
یہاں شیخ سعدی نے ’’ملکے بزرگ ‘‘ اور شاہ ولی اللہ نے ’’بادشاہی بزرگ‘‘ ترجمہ کیا ہے۔
بعض مترجمین نے مختلف مقامات پر مُلک کا ترجمہ سلطنت بھی کیا ہے، سلطنت کے لفظ میں وسعت ہے، اس لیے ملک کے لیے سلطنت کا ترجمہ بھی مناسب ہوسکتا ہے، اگر یہ بات واضح ہورہی ہو کہ اس سے مراد ملک ومملکت نہیں بلکہ بادشاہی اور اقتدار ہے۔
مذکورہ بالا آیتوں کے انگریزی ترجموں میں لفظ ملک کے لیے مندرجہ ذیل تعبیریں ملتی ہیں: authority, power, sovereignty, kingship
تحقیق طلب بات یہ ہے کہ کیا عربی کے لفظ ملک کا انگریزی ترجمہ Kingdom ہوسکتا ہے؟ بعض انگریزی تراجم قرآن میں ایسے کئی مقامات پر ملک کا ترجمہ Kingdom بھی کیا گیا ہے۔
(جاری)

دور جدید کا حدیثی ذخیرہ، ایک تعارفی جائزہ (۱)

مولانا سمیع اللہ سعدی

حدیث اسلامی شریعت کا دوسرا اساسی ماخذ ہے۔ حدیث اور اس کے متعلقات پر پہلی صد ی ہجری سے لے کر آج تک بلا تعطل کام جاری ہے اور بلا شبہ امت کے بہترین دماغوں نے علم حدیث کے بے شمار پہلووں پر کام کیا ہے۔ علم حدیث کی تاریخ میں دور جدید بعض وجوہ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے ،کیونکہ امت مسلمہ کے دور زوال میں علم حدیث مسلم اور غیر مسلم مفکرین کی توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے۔ اس مرکزیت کے متعدد اسباب ہیں جنہیں بیان کرنے کے لیے مستقل مضمون درکار ہے ۔اس مضمون میں ہم دور جدید میں علم حدیث پر ہونے والے متنوع کام کا ایک تعارفی جائزہ لیں گے۔ تعارفی جائزے سے پہلے موضوع سے متعلق چند تمہیدی باتیں پیش خدمت ہیں :
۱۔ اس مقالے میں دور جدید میں علم حدیث پر ہونے والے کام کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اس پر بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دور جدید سے کیا مراد ہے؟اور اس کی زمانی تحدید کیا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم امت کا دور زوال اور مغرب کی بیداری کا زمانہ عمومی طور پر دور جدید کہلاتا ہے۔ اس کا اوائل مارٹن لوتھر کی تحریک اصلاح ہے ،جس نے آگے چل کر جدیدیت اور اس کے ذیلی فلسفوں کی شکل اختیار کر لی اور بیسیویں صدی کے نصف آخر سے مابعد جدیدیت میں ڈھل چکی ہے۔ اس کو اگر زمانی تحدید کی صورت میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ تقریباً آخری تین صدیاں دور جدید کہلاتی ہیں۔
۲۔دور جدید میں علم حدیث پر ہونے والے کام کی متنوع درجہ بندی کی جاسکتی ہے :
(الف) امت مسلمہ کے مختلف مکاتب ،جماعتوں اور فرقوں نے علم حدیث پر جو کام کیا ہے ،ہر مکتب فکر کا کام الگ الگ بیان کیا جائے۔
(ب) عالم اسلام میں ہر ملک میں جو کام ہوا ہے ،اسے ممالک و امصار کی ترتیب سے بیان کیا جائے۔
(ج) دور جدید کے کام کو زمانی ترتیب سے بیان کیا جائے۔
(د) دور جدید کے کام کو الف بائی ترتیب سے موسوعاتی شکل میں بیان کیا جائے۔
(ر) دور جدید کے کام کو اہم جہات میں تقسیم کر کے بیان کیا جائے ،اور جدید حدیثی ذخیرہ جن پہلووں اور جوانب پر مشتمل ہے ،ان جہات کے اعتبار سے بیان کیا جائے۔
۳۔کچھ وجوہ سے موخر الذکر ترتیب کو ترجیح دی گئی ہے، اس لیے جدید ذخیرے کو جہات و جوانب میں تقسیم کر کے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بات پیش نظر رہے کہ مقصود جدید ذخیرے کا احاطہ و استقصا کرنا نہیں ہے،بلکہ بنیادی مقصدیہ ہے کہ علم حدیث پر ہونے والے کام کی اہم جہات اور ان جہات کی بعض نمائندہ کتب سامنے آجائے۔
۴۔ مقصود چونکہ جہات کی نشاندہی ہے،اس لئے ہر ہر کتاب کا تفصیلی تعارف پیش نہیں کیا گیا ،بلکہ بقدر ضرورت بعض اہم کتب پر تبصرہ کیا گیا ہے۔
۵۔ اس تعارفی جائزے میں بنیادی طور پر اردو اور عربی میں علم حدیث پر ہونے والے کام کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ طوالت کے پیش نظر دیگر السنہ خصوصاً یورپی اورعالم اسلام کی مختلف قومی وعلاقائی زبانوں میں علم حدیث پر ہونے والے کام کو شامل نہیں کیا گیا ہے ،البتہ جن کتب کا اردو یا عربی میں ترجمہ ہوگیا ہے ،اسے بھی تعارفی جائزے کا حصہ بنایا گیا ہے۔نیز تمام جہات کی نشاندہی کے بعد دیگر زبانوں میں ہونے والے کام کی نشاندہی کی چنداں ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ بھی انہی جہات میں سے کسی نہ کسی جہت سے متعلق ہے۔
دور جدید میں علم حدیث پر ہونے والے کام کی اہم جہات یہ ہیں:
۱۔ دفاع حدیث
۲۔ تاریخ حدیث
۳۔ علوم الحدیث

پہلی جہت: دفاع حدیث 

دور جدید میں اسلام پر جو متنوع فکری حملے ہوئے ،ان میں حدیث و سنت کی حجیت اور تشریعی حیثیت میں تشکیک سر فہرست ہے۔ان تشکیکات کا آغاز مستشرقین کی تحریروں سے ہوا اور عالم اسلام کے جدید تعلیم یافتہ اور مغرب کی فکری، علمی اور سائنسی بالا دستی سے مرعوب طبقے تک پہنچ گیا، اور بالآخر عالم اسلام کے بعض اہم مفکرین بھی اس کے لپیٹ میں آگئے اور یوں حدیث و سنت پر تشکیکی گفتگو اہم ترین مباحث میں شامل ہوگئی۔ حدیث و سنت پر جملہ اعتراضات کی اگر ہم درجہ بندی کریں تو تین بڑے دائرے سامنے آتے ہیں : 
۱۔ حدیث و سنت کی تدوین میں تشکیک کہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صدیوں بعد مدون ہوئیں، اس لیے موجودہ ذخیرہ ناقابل اعتبار ہے۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت کو چیلنج کرنا کہ آپ علیہ السلام کے اقوال و افعال بعد والوں کے لیے قرآن کی طرح حجت نہیں ہیں،بلکہ یہ اسی زمانے کے لوگوں کے لیے تھے۔
۳۔ حدیث و سنت پر مختلف قسم کے اعتراضات جیسے کثیر الروایہ صحابہ کی کردار کشی،فقہی احادیث کی وضعیت کا پروپیگنڈا،محدثین پر مختلف قسم کے اعتراضات وغیرہ
اس لیے دفاع حدیث میں جو لٹریچر سامنے آیا وہ بھی بنیادی طور پر تین قسموں پر مشتمل تھا :

۱۔حدیث کی تاریخ تدوین و کتابت

۲۔حجیت سنت اور آپ علیہ السلام کی تشریعی حیثیت 
۳۔ شبہات متنوعہ اور ا ن کا رد 
اب ہم ان تینوں جہات سے متعلق مواد کا مختصر تعارفی جائزہ لیتے ہیں :

۱۔ حدیث کی تاریخ تدوین و کتابت

حدیث کی تاریخ تدوین و کتابت پر عالم اسلام میں وسیع پیمانے پر کام ہوا اور مسلم مفکرین نے بڑے ٹھوس اور ناقابل تردید دلائل سے اس بات کو ثابت کیا کہ احادیث کے متعدد مجموعے زمانہ نبوت میں ہی تیار ہوئے تھے۔ پھردور صحابہ وتا بعین میں اس پر مزید کام ہوا اور مصادر حدیث کے مدونین نے انہی صحائف و مجموعوں کو سامنے رکھ کر ا پنی کتب تیار کیں۔ اس سلسلے کے چند اہم کا ملاحظہ ہوں :
۱۔ عربی میں اس پر سب سے تفصیلی اور ٹھوس کام ڈاکٹر مصطفی اعظمی کا پی ایچ ڈی مقالہ ہے جس پر کیمبرج یونیورسٹی سے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔یہ مقالہ Studies in Early Hadith Literature کے نام سے انگریزی زبان میں تھا ،جسے بعد میں مصنف نے خود دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ کے نام سے عربی میں منتقل کیا۔
۲۔ دوسری کتاب ڈاکٹر امتیاز احمد کا ضخیم مقالہ دلائل التوثیق المبکر للسنۃ و الحدیث ہے۔ یہ بھی اصلاً پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے ،اور انگریزی زبان میں لکھا گیا، جسے بعد میں عربی میں منتقل کیا گیا۔ ان دو کتب کو اگر اس موضوع پر سب سے بہترین کتب کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔
۲۔ اردو میں اس پر سب سے جامع کام مولانا مناظر احسن گیلانی کی ضخیم کتاب تدوین حدیث ہے جسے اگر اس موضوع پر حرف آخر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
۳۔مذکورہ بالا کتب کے علاوہ بے شمار کام اس موضوع پر سامنے آئے ہیں۔ ذیل میں عربی اور پھر اردو کی اہم کتب کی ایک فہرست پیش کی جاتی ہے :
۱۔ السنۃ قبل التدوین از عجاج الخطیب ،مکتبہ وہبہ قاہرہ 
۲۔ بحوث فی تاریخ السنہ المشرفۃ از ڈاکٹر ضیا العمری، مطبعۃ الارشاد بغداد 
۳۔ مباحث فی تدوین السنۃ المطھرۃ ازعطیہ الجبوری ،المطبعۃ العربیہ الحدیثہ قاہرہ 
۴۔ عبد اللہ بن عمر و بن العاص و الصحیفۃ الصادقۃ از محمد سیف الدین علیش، الہیءۃ المصریہ العامہ للکتاب قاہرہ 
۵۔ صحائف الصحابۃ وتدوین السنۃ النبویہ المشرفۃ از احمد عبد الرحمان الصویان قاہرہ 
۶۔ السنۃ فی عصر النبوۃ از الاحمدی عبد الفتاح خلیل قاہرہ 
۷۔ السنۃ بعد عصر النبوۃ للمصنف المذکور
۸۔ صحیفتا عمر و بن شعیب و بھز بن حکیم عند المحدثین و الفقھاء ازمحمد علی بن الصدیق، وزارۃ الشوون الاسلامیہ و الاوقاف 
۹۔ الصحابۃ وجھودھم فی خدمۃ الحدیث النبوی از محمد نوح دار الوفا مصر 
۱۰۔ مشکلۃ تدوین الحدیث فی العھد النبوی از حسن شا بندر، دار العلم و التحقیق بیروت 
۱۱۔ منھجیۃ تدوین السنۃ وجمع الاناجیل: دراسۃ مقارنۃ ازعزیہ علی طہ مصر 
۱۲۔ السنۃ النبویۃ فی عصر الرسول و الصحابۃ از سعید مصطفی عسکر مصر
۱۳۔ وحی السنۃ الی نبی الامۃ،مراحل حفظ السنۃ النبویۃ از عبد الرحمان الرافعی مصر 
۱۴۔ کتابۃ الحدیث النبوی و جمعہ و تدوینہ از کمال الدین المرسی دار المعرفہ مصر
۱۵۔ تاریخ التدوین السنہ و شبھات المستشرقین از حاکم العبیسا ن المطیری، مجلس النشر العلمی کویت 
۱۶۔ السنۃ النبویہ و علومھا از احمد عمر ہاشم قاہرہ

اردو کتب

۱۔تاریخ تدوین حدیث از ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی 
۲۔تاریخ تدوین حدیث از مولانا ہدایت اللہ ندوی 
۳۔تاریخ حفاظت حدیث و اصول حدیث از ڈاکٹر فضل احمد
۴۔حدیث کی تدوین عہد صحابہ و تابعین از حکیم عبد الشکور
۵۔حفاظت و حجیت حدیث از مولانا محمد فہیم عثمانی 
۶۔صحیفہ ہمام بن منبہ، ترجمہ و تشریح از ڈاکٹر حمید اللہ ،اس کا مبسو ط مقدمہ تاریخ تدوین حدیث پر انتہائی قیمتی مباحث پر مشتمل ہے۔
۷۔کتابت حدیث ازمولانا منت اللہ رحمانی 
۸۔کتابت حدیث عہد نبوی میں از مولانا سید ابو بکر غزنوی
۹۔کتابت حدیث عہد رسالت و عہد صحابہ میں از مفتی رفیع عثمانی 
۱۰۔علم حدیث اور اس کا ارتقا از قاری روح اللہ المدنی
۱۱۔روایت و وتدوین حدیث در عہد بنی امیہ از رضیہ سلطانہ (پی ایچ ڈی مقالہ پنجاب یو نیورسٹی )
۱۲۔تاریخ حدیث از ڈاکٹر غلام جیلانی برق
۱۳۔حفاظت حدیث از ڈاکٹر خالد علوی 
۱۴۔عہد بنو امیہ میں محدثین کی خدمات، فنی فکری اور تاریخی مطالعہ از عبدالغفاربخاری
۱۵۔تاریخ تدوین حدیث از مولانا عبد الرشید نعمانی 
۱۶۔تدوین حدیث کے اسالیب ومناہج آغازِ اسلام سے ۵۷ھ تک از عبد الحمید عباسی 
۱۷۔تدوین حدیث از اطہر بن جعفر 

۲۔حجیت حدیث اور پیغمبر علیہ السلام کی تشریعی حیثیت 

منکرین حدیث کا دوسرا بڑا ہدف نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت تھی، کہ احادیث آپ علیہ السلام کے ذاتی اقوال وآرا ہیں،جو نہ تو وحی پر مبنی ہیں اور نہ قرآن کی رو سے اس کو ماننا لازم ہے، اور وحی الٰہی صرف اور صرف قرآن کی شکل میں ہے۔ مسلم مفکرین نے اس نکتہ پر بڑی تفصیل سے بحث کی اور آپ علیہ السلام کی تشریعی حیثیت کو دلائل نقلیہ و عقلیہ سے ثابت کیا۔ اس پہلو پر درجہ ذیل کام ہوئے ہیں :
۱۔عربی میں اس پر سب سے جاندار کام ڈاکٹر مصطفی السباعی کی ضخیم کتاب السنۃ و مکانتھا فی التشریع الاسلامی ہے جس میں مصنف نے تفصیل سے اس پہلو پر کلام کیا ہے اور اس حوالے سے ہونے والے تمام اہم اشکالات کا جواب دیا ہے ۔ 
۲۔معروف مصری عالم اور جامعہ ازہر کے پروفیسر ڈاکٹر عبد الغنی عبد الخالق کی مفصل کتاب حجیۃ السنۃ دوسرا اہم ترین کام ہے۔ یہ دنوں کتب اپنی اہمیت اور موضوع پر حرف آخر ہونے کی وجہ سے اردو میں بھی ڈھل چکے ہیں۔
۳۔اردو میں بے شمار کا م سامنے آئے ہیں، بالخصوص مولانا مودودی کی ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘،نعیم صدیقی کی ’’رسول اور سنت رسول‘‘،پیر کرم شاہ الازہری کی ’’سنت خیر الانام‘‘،مولانا محمد ادریس کاندھلوی کی ’’حجیت حدیث‘‘، مولانا فضل احمد غزنوی کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب ’’صحیح مقام حدیث‘‘، مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی ’’نصرۃ الحدیث‘‘، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ’’حجیت حدیث‘‘ اور ڈاکٹر مظہر یاسین صدیقی کی کتاب ’’وحی حدیث‘‘ سر فہرست ہیں۔
اس موضوع پر عربی و اردو کی اہم کتب کی فہرست ذیل میں دی جارہی ہے :

عربی کتب

۱۔ السنۃ النبویہ و مکانتھا فی ضوء القرآن الکریم از ڈاکٹر حبیب اللہ مختار 
۲۔ حجیۃ السنہ و وتاریخھا از حسین شواط
۳۔ السنۃ النبویۃ و مکانتھا فی التشریع از عباس دار القومیہ قاہرہ متولی حمادہ 
۴۔ حفظ اللہ السنۃ از احمد بن فارس السلوم، دار البشائر الاسلامیہ بیروت
۵۔ السنۃ النبویۃ جمعا و تدوینا، ازمحمد صالح الغرسی، موسسہ الریان بیروت
۶۔ السنۃ حجۃ علی جمیع الامۃ از محمد بکار زکریا، دا ر البشائر الاسلامیہ بیروت
۷۔ السنۃ النبویۃ المطہرۃ مبینۃ للقران و مثبتۃ للاحکام از محمد بکر اسماعیل، دار النھضہ بیروت
۸۔ مکانۃ السنۃ فی التشریع الاسلامی از ڈاکٹر سلمان سلفی، دار الوعی 
۹۔ حجیۃ السنۃ النبویۃ و دور الاصولیین فی الدفاع عنھا از عبد الحی عزت قاہرہ
۱۰۔ الدرر البھیۃ فی بیان حجیۃ السنۃ النبویۃ ومکانتھا فی الاسلام از عبد الواحد خمیس قاہرہ
۱۱۔ السنۃ النبویۃ المطھرۃ قسم من الوحی الالھی المنزل از محمد علی الصابونی ، رابطۃ العالم الاسلامی مکہ 
۱۲۔ التلازم بین الکتاب و السنۃ من خلال الکتب الستۃ از صالح بن سلیمان البقعاوی، دار المعراج ریاض
۱۳۔ السنۃ النبویۃ وبیا نھا للقرآن الکریم از محمد احمد حسین، دار خضر بیروت 
۱۴۔ مکانۃ السنۃ فی الاسلام از محمد محمد ابو زہو، دار الکتاب بیروت
۱۵۔ السنۃ المطہرۃ و التحدیات از نور الدین عتر، دار الفلاح شام 
۱۶۔ السنۃ مع القرآن از سید احمد رمضان، دار الطباعہ قاہرہ
۱۷۔ الرسول و سنتہ التشریعیۃ از عبد الحلیم محمود، مجمع البحوث الاسلامیہ قاہرہ
۱۸۔ الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد والاحکام از ناصر الدین الالبانی 
۱۹۔ السنۃ النبویۃ: حجیتھا و تدوینھا از عبد الماجد غوری 

ا ردو کتب

۱۔اسلام میں سنت کا مقام از مولانا عبد الغفار حسن 
۲۔بصائر السنہ (دو جلد) از مولانا محمد امین الحق 
۳۔حجیت حدیث از مولانا محمد اسماعیل سلفی 
۴۔حجیت حدیث از مولانا بدر عالم میرٹھی (ترجمان السنہ سے انتخاب ہے )
۵۔حدیث اور قرآن از ابو الاعلیٰ مودودی
۶۔حدیث رسول کا قرآنی معیار از مولانا قاری محمد طیب 
۷۔سنت کا تشریعی مقام از مولانا محمد ادریس میرٹھی
۸۔سنت رسول کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ از عاصم الحداد
۹۔شوق حدیث از مولانا محمد سرفراز خان صفدر
۱۰۔ضرب حدیث از حکیم محمد صادق سیالکوٹی 
۱۱۔ضرورت حدیث از قاضی زاہد الحسینی 
۱۲۔علم حدیث از مولانا اشفاق الرحمان کاندھلوی 
۱۳۔عظمت حدیث از مولانا عبد الغفار حسن
۱۴۔فہم حدیث از حافظ عبد القیوم ندوی 
۱۵۔مطالعہ حدیث از مولنا حنیف ندوی 
۱۶۔مقام حدیث از مشتاق احمد چشتی 

۳۔ شبہات متنوعہ اور اس کا رد

مستشرقین اور منکرین حدیث نے حدیث کو مشکوک بنانے اور اس کے ا نکار کی فضا ہموار کرنے کے لیے متعدد دلائل کا سہارا لیا اور حدیث کی ثقاہت پر متنوع پہلوووں سے حملہ کیا ۔حجیت حدیث کے لٹریچر کا تیسرا بڑا دائرہ ان اشکالات واعتراضات کا جواب ہے،اس سلسلے میں درجہ ذیل اہم کام سامنے آئے ہیں:
۱۔عرب دنیا میں حدیث کے ا نکار کی سب سے توانا آواز معروف مصری مفکر ڈاکٹر ابوریہ نے اٹھائی، جس نے اضواء علی السنۃ المحمدیۃ لکھ کر حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کو نئے انداز سے دہرایا اور خاص طور پرحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ہدف تنقید بنایا۔ اس کے علاوہ ذخیرہ احادیث کو سیاسی ،اعتقادی ،فقہی اور صدر اول کے دیگر اختلافات کا نتیجہ بتانے کی کوشش کی،کتب حدیث سے لے کر جرح و تعدیل تک مختلف پہلوؤں سے حدیث پر اعتراضات کیے۔ ابو ریہ کی کتاب نے علمی حلقوں میں اضطراب کی نئی لہر پیدا کی اور عالم عرب سے ابو ریہ کی کتاب کے متعدد جوابات لکھے گئے،جن میں عبد الرزاق حمزہ کی ظلمات ابی ریۃ امام اضواء السنۃ المحمدیۃ، عبد الرحمان المعلمی کی الانوار الکاشفۃ لما فی کتاب اضواء السنۃ من الزلل والتضلیل والمجازفۃ، عجاج الخطیب کی ابو ہریرہ راویۃ الاسلام، علی احمد سالوس کی قصۃ الھجوم علی السنۃ، محمد ابو شہبہ کی دفاع عن السنۃ اہم کتب ہیں۔
۲۔ برصغیر میں انکار حدیث کو باقاعدہ ایک منہج کے طور پر پروان چڑھانے کے سرخیل غلام احمد پرویز ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے بھی حدیث پر متعدد پہلوؤں سے اعتراض کیا، اگرچہ بعد میں وہ انکار حدیث سے تائب ہوگئے۔ ہر دو حضرات کے کے اشکالات و اعتراضات کے جواب میں عبد الرحمان کیلانی کی ضخیم کتاب ’’آئینہ پرویزیت‘‘، حافظ محمد گوندلوی کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب ’’دوام حدیث‘‘،مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کی ’’انکار حدیث کے نتائج‘‘، جناب مسعود احمد صاحب کی ’’برہان المسلمین‘‘ اور ’’تفہیم اسلام‘‘،محمد خالص راز کی ’’خالص اسلام بجواب دو اسلام‘‘، مولانا عبد الروف رحمانی کی ’’صیانۃ الحدیث‘‘، علامہ ایوب دہلوی کی ’’فتنہ انکار حدیث‘‘ اور افتخار احمد بلخی کی ’’انکار حدیث کا پس منظر اور پیش منظر‘‘ اہم کتب ہیں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر درجہ ذیل کتب اہم ہیں :

عربی کتب

۱۔ ابو ھریرۃ وعاء العلم از ہاشم عقلیل عزوز دار ارلقبلہ جدہ 
۲۔ السنۃ النبویۃ فی کتابات اعداء الاسلام: مناقشتھا والرد علیھا از عماد سید الشربینی، دار الیقین مصر
۳۔ دفع الشبھات عن السنۃ النبویۃ ازعبد المھدی عبد القادر، قاہرہ
۴۔ شبھات وشطحات منکری السنۃ از ابو اسلام احمد عبد اللہ، المرکز الاسلامی قاہرہ 
۵۔ الشبہات الثلاثون المثارۃ لانکار السنۃ النبویۃ ،عرض وتفنید و نقض از عبد العظیم ابراہیم، مکتبہ وہبہ قاہرہ
۶۔ السنۃ النبویۃ ومطاعن المبتدعین فیھا از مکی شامی، دار عمان اردن
۷۔ موقف المستشرقین من السنۃ از امامہ الحبال، دار الفیحا دمشق
۸۔ المستشرقون و الحدیث النبوی از محمد بہاء الدین، دار النفائس دمشق
۹۔ البرھان فی تبرءۃ ابی ھریرۃ من البھتان ازعبد اللہ بن عبد العزیز، دار النصر قاہرہ
۱۰۔ موقف المدرسۃ العقلیۃ الحدیثۃ من الحدیث النبوی ازشفیق بن عبد اللہ، المکتب الاسلامی بیروت
۱۱۔ موقف المدرسۃ العقلیۃ من السنۃ النبویۃ از الامین الصادق، مکتبہ الرشد ریاض
۱۲۔ رد شبہ المنکرین لحجیۃ السنۃ از حمدی صبح، دار النہضہ قاہرہ
۱۳۔ زوابع فی السنۃ قدیما وحدیثا از صلاح الدین مقبول احمد، دار عالم الکتب ریاض
۱۴۔ دفاع عن السنۃ النبویۃ الشریفۃ از عزیہ علی طہ، دار القلم کویت
۱۵۔ القرآنیون وشبھاتھم حول السنۃ از منشی الٰہی بخش، مکتبہ الصدیق طائف
۱۶۔ اھتمام المحدثین بنقد الحدیث سندا و متنا ودحض مزاعم المستشرقین واتباعھم از لقمان السلفی، الریاض 
۱۷۔ السنۃ المفتری علیھا از سالم علی البھنساوی، دار البحوث العلمیہ کویت
۱۸۔ دفاع عن ابی ھریرۃ از عبد المنعم صالح، دارالشروق بیروت
۱۹۔ منکرو السنۃ فی میزان العقل والشرع از محمد نعیم ساعی، مکتبہ ام القری قاہرہ

اردو کتب

۱۔ احادیث بخاری و مسلم کو مذہبی داستانیں بنانے کی ناکام کوشش از مولانا ارشاد الحق اثری
۲۔انکار حدیث ایک فتنہ ایک سازش از محمد فرمان
۳۔انکار حدیث حق یا باطل از صفی الرحمان الاعظمی
۴۔برق اسلام بجواب طلوع اسلام از مولانا شرف الدین دہلوی 
۵۔پرویز نے کیا سوچا؟ از ڈاکٹر سبطین لکھنوی 
۶۔دلیل الفرقان بجواب اہل الاسلام از مولانا ثنا اللہ امرتسری 
۷۔صحیح قرآنی فیصلے از مولانا فضل احمد غزنوی
۸۔فتنہ انکار حدیث از مفتی ولی حسن خان ٹونکی 
۹۔فتنہ انکار حدیث اور اس کا پس منظر از مولانا عاشق الٰہی
۱۰۔فتنہ پرویزو حقیقت حدیث از منشی عبد الرحمان خان 
۱۱۔قرآنی خرافات بجوا ب پرویزی خرافات از منور حسین سیف الاسلام دہلوی 
۱۲۔قول فیصل از ماہر القادری 
۱۳۔مسئلہ انکار حدیث کا تاریخی و تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر فضل احمد 
۱۴۔منکرین حدیث کے مغالطے از جسٹس ملک غلام علی 
۱۵۔نصرۃ الباری فی بیان صحۃ البخاری از مولانا عبد الروف جھنڈا نگری
۱۶۔نصرۃ القرآن از مولانا عبد لحمید ارشد

دوسری جہت: تاریخ حدیث و محدثین

دور جدید میں علم حدیث کی مفصل ،مرحلہ وار اور مرتب تاریخ پر قابل قدر کتب سامنے آئی ہیں۔ ان تاریخی کتب کو تین دائروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
۱۔ علم حدیث کی عمومی تاریخ 
۲۔علم حدیث کی خصوصی تاریخ 
۳۔ائمہ حدیث کی سوانحات

۱۔ علم حدیث کی عمومی تاریخ 

عمومی تاریخ سے مراد علم حدیث کی ابتدا سے لے کر دور حاضر تک کی تاریخ ہے،جس میں دور تدوین سے لے کر دور جدید تک حدیث، اصول حدیث اور اس کے مختلف پہلووں پر ہونے والے کام کا تعارف ہو ۔ اس حوالے سے درج ذیل کام سامنے آئے ہیں :
۱۔علم حدیث کی مفصل تاریخ پر محمد محمد ابوزھو کی الحدیث و المحدثون اہم کتاب ہے ،جس میں علم حدیث کی تاریخ کو سات ادوار میں تقسیم کر کے ان ادوار کے حدیثی ذخیرے کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ معروف ہندوستانی محقق عبد الماجد غوری کی ضخیم کتاب مصادر الحدیث و مراجعہ دراسۃ و تعارف، ڈاکٹر محمد المختار کی مفصل کتاب تاریخ علوم الحدیث فی المشرق و المغرب اور عبد العزیز الخولی کی کتاب تاریخ فنون الحدیث بھی تاریخ حدیث کی اہم کتب میں سے ہیں۔
۲۔اصول حدیث کی جامع تاریخ معروف ہندوستانی محقق اور علم حدیث کے حوالے سے عصر حاضر کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر نور الدین عتر کے شاگرد علامہ عبد لماجد غوری کی ضخیم کتاب موسوعۃ علوم الحدیث و فنونہ کا طویل مقدمہ اور علم مصطلح الحدیث نشاتہ ،تطورہ و تکاملہ ہے۔ ہر دو کتب میں مولف نے دور تدوین سے لے کر عصر حاضر تک علم مصطلح الحدیث کی مفصل تاریخ بیان کی ہے اور برصغیر میں علو م الحدیث پر ہونے والے کام کابھی تفصیل سے تعارفی جائزہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ معروف سعودی محقق شیخ حاتم بن عارف کی کتاب المنھج المقترح لفھم المصطلح ایک اچھی کاوش ہے ،جس میں علم مصطلح الحدیث کا ارتقائی جائزہ لیا گیا ہے۔
۳۔ اردو میں علم حدیث کی تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر محمد ابو زھو کی کتاب کا ترجمہ ’’تاریخ حدیث و محدثین‘‘ ہے جو غلام احمد حریری نے کیاہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر اقبال احمد بسکوری کی کتاب تاریخ تحفظ سنت اور خدما ت محدثین‘‘ اور قاضی عبد الصمد صارم کی ضخیم کتاب ’’حسنات الاخبار المعروف تاریخ الحدیث‘‘ اہم کتب ہیں۔
۴۔اصول حدیث کی تاریخ پر اردو میں سب سے مفصل اور جامع کتاب عبد لماجد غوری اور سید احمد زکریا غوری کی مشترکہ کتاب ’’علوم الحدیث، تعارف و تاریخ‘‘ ہے۔ علم مصطلح الحدیث کی تاریخ پر اگر اسے اردو میں سب سے ممتاز کام کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عبد الروف ظفر صاحب کی مفصل کتاب ’’علوم الحدیث فنی ،فکری اور تاریخی مطالعہ‘‘ میں بھی اصول حدیث کی تاریخ پر عمدہ مواد موجود ہے۔
ان کتب کے علاوہ اردو و عربی میں تاریخ حدیث و مصطلح الحدیث پر اہم کتب کی فہرست ذیل میں دی جارہی ہے:

عربی کتب

۱۔ السنۃ عبر العصور از طالب عبد الرحمان، دیوان المطبوعات الجزائر
۲۔ لمحات من تاریخ السنۃ و علوم الحدیث از عبد الفتاح ابو غدہ
۳۔ مصادر السنۃ ومناھج مصنفیھا از حاتم بن عارف العونی 
۴۔ بحوث فی تاریخ السنۃ المشرفۃ از ڈاکٹر اکرم العمری
۵۔ الحدیث النبوی،مصطلحاتہ، بلاغتہ وکتبہ از الدکتور محمد الصباغ 
۶۔ تاریخ السنۃ النبویۃ از عبد المہدی بن عبد القادر، قاہرہ
۷۔ تاملات منھجیۃ فی تاریخ السنۃ واصول الحدیث از موسی ابراہیم، قطر 
۸۔ تاریخ السنۃ وبیا ن حالھا فی جمع عصورھا از عبد العزیز نور، القاہرہ
۹۔ تاریخ الحدیث و مناھج المحدثین از محمود سالم عبیدات، دار المناہج عمان
۱۰۔ علوم السنہ و علوم الحدیث، دراسۃ تاریخیۃ از عبد اللطیف عامر، مکتبہ وہبیہ قاہرہ
۱۱۔ لمحات فی اصول الحدیث از محمد ادیب صالح، المکتب الاسلامی بیروت
۱۲۔ اصول الحدیث: علومہ ومصطلحہ از عجاج الخطیب 
۱۳۔ علم الرجال: نشاتہ و تطورہ از محمد بن مطر الزہرانی، دارالہجرہ ریاض
۱۴۔ علم الرجال: تعریفہ و کتبہ از عبد الماجد غوری
۱۵۔ الحدیث النبوی: تاریخہ و علومہ و مصطلحہ از محمد عمر الحاجی دار الحافظ دمشق

اردو کتب

۱۔تاریخ حدیث از غلام جیلانی برق
۲۔تاریخ حدیث و اصول حدیث ڈاکٹر مصطفی طاہر
۳۔ابحیثیتِ فن، اصولِ حدیث کا ارتقائی وتحقیقی مطالعہ از ارشاد علی، کلیہ معارف اسلامیہ کراچی یونیورسٹی 

۲۔علم حدیث کی خصوصی تاریخ 

خصوصی تاریخ سے مراد کسی خاص صدی، ملک یا طبقے کی خدمات حدیث کی تاریخ ہے۔ یہ چونکہ وسیع الاطراف موضوع ہے، اس لیے اس کا احاطہ تو نہیں کیا جاسکتا،البتہ چند اہم کاوشوں کی نشاندہی کی جاتی ہے :
۱۔خصوصی تاریخ میں خاص طور پر علم حدیث پر ہونے والے جدید تصنیفات کا تعارفی مواد زیادہ ہے ،اس حوالے سے ڈاکٹر خلدون احدب کی دو جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب التصنیف فی السنۃ النبویۃ وعلومھا قابل ذکر ہے ،جس میں مصنف نے ۱۳۵۱ھ سے لے کر ۱۴۲۵ھ تک علم حدیث پر ہونے والے کاموں کی فہرست دی ہے۔اس کے علاوہ محمد عبد اللہ صعیلیک کی جھود المعاصرین فی خدمۃ السنۃ المشرفۃ، فاروق حمادہ کی تطور دراسات السنۃ النبویۃ و نھضتھا المعاصرۃ وآفاقھا قابل ذکر کتب ہیں۔
۲۔ ہندوستان میں علم حدیث کی تاریخ کے حوالے سے عبد الرحمان عبد الجبار الفریوائی کی کتاب جھود مخلصۃ فی خدمۃ السنۃ المطھرۃ اہم کتاب ہے ،جس میں فتح ہند سے لے کر دور جدید تک علم حدیث کی جامع و مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر سہیل حسن کی جھود محدثی شبہ القارۃ الھندیۃ فی خدمۃ الکتب المسندۃ المشھورۃ فی القرن الرابع عشر الھجری، ڈاکٹر تقی الدین ندوی کی اعلام المحدثین فی الھند، ڈاکٹر عبد الماجد غوری کی اعلام المحدثین فی الھند فی القرن الرابع عشر الھجری وآثارھم فی الحدیث وعلومہ اور مساھمۃ علماء الھند فی الحدیث النبوی فی القرنین الرابع والخامس عشر الھجریین: دراسۃ استقرائیۃ نقدیۃ، خالدہ ریحانہ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ تطور علم الحدیث فی الھند اور ڈاکٹر ولی اللہ کا پی ایچ ڈی مقالہ علماء الحدیث فی بلاد الھند وجھودھم فی الحدیث فی القرن الثالث عشر والرابع عشر الھجریین اہم کتب ہیں۔
۳۔ اردو میں اس حوالے سے قاضی اطہر مبارک پوری کی ’’ہندوستان میں علم حدیث کی اشاعت‘‘، مولانا ارشاد الحق اثری کی ’’پاک وہند میں علمائے ہل الحدیث کی خدمات حدیث‘‘، ڈاکٹرمحمداسحاق کی ’’علم حدیث میں پاک وہند کا حصہ‘‘ (یہ کتاب اصلاً انگریز میں لکھی گئی ہے)، ڈاکٹر سعد صدیقی کی ’’علم حدیث اور پاکستان میں اس کی خدمت‘‘، عبد الرشید عراقی کی ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ اہم کتب ہیں۔
۴۔ عورتوں کی علم حدیث میں خدمات اور اس کی مفصل تاریخ پر معاصر سطح پر قابل قدر کتب لکھی گئی ہیں۔ آما ل حسین کی دور المراۃ فی خدمۃ الحدیث فی القرون الثلاثۃ الاولی، محمد بن عزوز کی صفحات مشرقۃ من عنایۃ المراۃ بصحیح البخاری، صالح یوسف کی جہود المراۃ فی روایۃ الحدیث فی القرن الثامن الھجری، عبد العزیز الاہل کی طبقات النساء المحدثات اور مشہور حسن آل سلمان کی عنایۃ النساء بالحدیث النبوی اہم کتب ہیں۔
۵۔خاص خطوں اور مخصوص ادوار میں اہل علم کی خدمات حدیث اور ذخیرہ حدیث کی تاریخ پر مشتمل کتب سامنے آئی ہیں، جیسے مصطفی بیسونی کی ضخیم کتاب مدرسۃ الحدیث فی مصر،حسین شواط کی قابل قدر کتاب مدرسۃ الحدیث فی القیروان من الفتح الاسلامی الی منتصف القرن الخامس الھجری، مصطفی الاعظمی کی المحدثون من الیمامۃ الی ۲۵۰ھ، امین القضاۃ کی مدرسۃ الحدیث فی البصرۃ حتی القرن الثالث الھجری، عبد اللہ الحمیری کی الحدیث و المحدثون فی الیمن فی عصر الصحابۃ، محمد بن عزوز کی مدرسۃ الحدیث فی بلاد الشام خلال القرن الثامن الھجری، یوسف الکتان کی مدرسۃ الامام البخاری فی المغرب اور عبد الہادی احمد الحسین کی مظاھر النھضۃ الحدیثیۃ فی عھد یعقوب المنصور الموحدی جیسی کتب ہیں۔ اس طرز پر دنیا کے مختلف خطوں اور اسلامی تاریخ کے اہم ادوار کے ذخیرہ حدیث کی تاریخ لکھی گئی ہے ۔ اس طرز کی تاریخی کتب عام طور پر جامعات کی سطح پر پی ایچ ڈی و ایم فل مقالات کی شکل میں سامنے آئی ہیں۔

۳۔ ائمہ حدیث کی سوانح 

علم حدیث کی تاریخ کا تیسرا دائرہ نامور محدثین کی سوانح اور ان کی خدمات حدیث پر مشتمل کتب ہیں۔ صحاح ستہ سے لے کر دیگر محدثین اور رواۃ کی مفصل سوانح لکھی گئی ہیں ،جن میں صاحب سوانح کے مفصل حالات ،اساتذہ ،کتاب حدیث ،منہج اور اس کی کتاب کی خصوصیات کا تذکرہ شامل ہے۔چند کتب کے نام پیش خدمت ہیں :
۱۔ ابو جعفر الطحاوی و اثرہ فی الحدیث از عبد المجید محمود، الہیءۃ المصریہ قاہرہ
۲۔ الحافظ الخطیب البغدادی و اثرہ فی علوم الحدیث از محمود طحان، دار القرآن الکریم بیروت
۳۔ معمر بن راشد الصنعانی: مصادرہ و منھجہ واثرہ فی روایۃ الحدیث از محمد رافت سعید، عالم الکتب ریاض 
۴۔ الامام الزہری و اثرہ فی السنۃ از حارث سلیمان الضاری، مکتبہ البسام عراق
۵۔ الحافظ ابن حجر العسقلانی، امیر المومنین فی الحدیث از عبد الستار شیخ، دار القلم دمشق
۶۔ الامام النووی و اثرہ فی الحدیث و علومہ از احمد عبد العزیز الحداد، دار البشائر الاسلامیہ بیروت
۷۔ مکانۃ الامام ابی حنیفہ فی الحدیث از عبد الرشید النعمانی، مکتب المطبوعات الاسلامیہ حلب 
۸۔ الا مام البخاری فقیہ المحدثین ومحدث الفقھاء: سیرتہ، صحیحہ، فقھہ از نزار بن عبد الکریم جامعہ ام القری مکہ 
۹۔ الامام البخاری سید الحفاظ و المحدثین از تقی الدین ندوی، دار القلم دمشق
۱۰۔ ابو داود الامام الحافظ الفقیہ از تقی الدین ندوی، دار القلم دمشق
۱۱۔ الامام مسلم بن الحجاج صاحب المسند الصحیح و محدث الاسلام الکبیر از مشہور حسن ال سلیمان، دار لقلم دمشق
۱۲۔ ائمۃ الحدیث الشریف البخاری ،مسلم ،ابو داود ،الترمذی، النسائی ،ابن ماجہ از محمد علی قطب دار القلم بیروت (مزید التصنیف فی السنۃ النبویہ ص ۲۳۸ تا ۲۴۰)
۱۳۔ امام ابو حنیفہ امام الائمہ فی الحدیث از طاہر القادری 
۱۴۔ امام دار قطنی از مولانا ارشاد الحق اثری
۱۵۔سیرہ البخاری از مولانا عبد السلام مبارکپوری 
۱۶۔مشہور محدثین کرام از رفیق بلند شہری 

تیسری جہت: علوم الحدیث 

مصطلح الحدیث پر معاصر سطح پر متنوع کام ہوا ہے اور بلا شبہ کمیت و کیفیت میں قابل قدر اور قابل ذکر تصانیف لکھی گئی ہیں۔ علم اصول حدیث پر ہو نے والے جدید کام کو چار جہات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
۱۔علم اصول حدیث کی جدید ترتیب و تدوین 
۲۔ متون قدیمہ کی تشریح و توضیح 
۳۔اصول حدیث کے مختلف موضوعات پر خصوصی تصنیفات
۴۔مصطلح الحدیث پر تطبیقی کام 

۱۔ علم اصول حدیث کی جدید ترتیب و تدوین 

دور جدید میں علو م اسلامیہ کی تجدید اور نئے طرز پر ترتیب و تدوین کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں ،اور ہر علم و فن میں اس حوالے سے متعدد کاوشیں منظر عام پر آئی ہیں۔ اصو ل حدیث کے مباحث کی ترتیب جدید اور تہذیب وتنقیح پر بھی معاصر سطح پر قابل قدر کام ہوا ہے ۔چند اہم کاوشو ں کی نشان دہی کی جاتی ہے :
۱۔ معروف شامی عالم ڈاکٹر نور الدین عتر کی کتاب منہج النقد فی علوم الحدیث بلا شبہ مصطلح الحدیث کی ترتیب جدید کی نمائندہ کتا ب ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اصول حدیث کے جملہ مباحث کو اولاً بڑے دائروں میں تقسیم کر کے پھر ہر ایک دائرے کی ذیلی شاخیں اور فروعات نکالی ہیں ،اس طرح سے مکمل علم کو ایک مرتب و مربوط شکل دی ہے۔
۲۔معروف مصری محقق ڈاکٹر محمد محمد السماحی نے اصول حدیث کو بسط و تفصیل کے ساتھ موسوعاتی شکل میں بیان کرنے کے لیے کئی جلدوں پر مشتمل مفصل کتاب المنہج الحدیث فی علو م الحدیث لکھی ہے جس میں تفصیل کے ساتھ مصطلح الحدیث کو بیان کیا ہے۔
۳۔ شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب کی کتاب قواعد فی علوم الحدیث، مصطلح الحدیث کی کتب میں بیا ن کردہ قواعد و اصول کی تنقیح و تہذیب کے اعتبار سے ایک تجدیدی کاوش ہے۔ یہ کتاب در اصل اعلاء السنن کا طویل مقدمہ ہے جس میں مصنف نے خاص طور پر فقہا کے طرز پر قواعد حدیث کو بیان کیا ہے اور حدیث کے قبول و رد میں فقہا و محدثین کے مناہج کے فرق کو واضح کیا ہے۔
ان کے علاوہ اس موضوع پر بے شمار کام سامنے آئے ہیں ،اور اصول حدیث پر جدید ترتیب ،تسہیل اور تدوین کے ساتھ مختصر و ضخیم کتب لکھی گئیں ہیں۔ چند اہم کتب کی فہرست دی جاتی ہے :
۱۔ قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث از جمال الدین القاسمی، موسسہ الرسالہ بیروت 
۲۔ المصباح فی اصول الحدیث از سید قاسم الترکی ،مکتبہ الزمان المدینہ المنورہ 
۳۔ توجیہ النظر الی اصول الاثر از شیخ طاہر الجزائری، مکتب المطبوعات حلب
۴۔ الوسیط فی علوم الحدیث از ڈاکٹر محمد ابو شہبہ، دار المعرفہ جدہ 
۵۔ علوم الحدیث و مصطلحہ از ڈاکٹر صبحی صالح، دار العلم بیروت
۶۔ لمحات فی اصول الحدیث از محمد ادیب صالح، دار العلم بیروت 
۷۔ تیسیر مصطلح الحدیث از محمود الطحان 
۸۔ الایضاح فی علوم الحدیث و الاصطلاح از مصطفی سعید الخن و الدکتور سید اللحام، دار الکلم الطیب دمشق
۹۔ تحریر علوم الحدیث از عبد اللہ بن یوسف الجدیع، دار الریان بیروت
۱۰۔ المنہاج الحدیث فی علوم الحدیث از الدکتور شرف القضاۃ، الاکادیمیون للنشر و التوزیع عمان 
۱۱۔ المنہج الحدیث فی تسہیل علوم الحدیث از الدکتور علی نائف البقاعی، دار البشائر الاسلامیہ بیروت (موسوعہ علوم احدیث و فنونہ از عبد الماجد غوری ۸۶ تا ۲۸)
۱۲۔ الموجز فی علوم الحدیث از محمد علی احمدین، قاہرہ
۱۳۔ الاسلوب الحدیث فی علوم الحدیث از محمد امین، قاہرہ
۱۴۔ تبسیط علوم الحدیث وادب الروایۃ از محمد نجیب المطیعی، مطبعہ حسان قاہرہ
۱۵۔ علوم الحدیث از عبد الکریم زیدان و عبد القہار داود عبد اللہ، مکتبہ جامعہ بغداد
۱۶۔ منھج التحدیث فی علوم الحدیث از رجب ابراہیم صقر، دار الطباعہ قاہرہ
۱۷۔ النھج الحدیث فی مختصر علوم الحدیث از علی محمد نصر، رابطہ العالم الاسلامی مکہ مکرمہ 
۱۸۔ المختصر الوجیز فی علوم الحدیث از محمد عجاج الخطیب، موسسہ الرسالہ بیروت
۱۹۔ اصول الحدیث النبوی، علومہ ومقاییسہ از عبد المجید ہاشم، دار الشروق قاہرہ
۲۰۔ قواعد مصطلح الحدیث از محمود عمر ہاشم قاہرہ 
۲۱۔ النھج المعتبر فی مصطلح اھل الاثر از عبد الموجود عبد اللطیف، دار الطباعہ قاہرہ
۲۲۔ علوم السنۃ وعلوم الحدیث، دراسۃ تاریخیۃ حدیثیۃ اصولیۃ از عبد اللطیف محمد عامر، مکتبہ وہبہ قاہرہ
۲۳۔ مھمات علوم الحدیث از ابراہیم آل کلیب ،دار الوراق ریاض
۲۴۔ قطف الثمر من علم الاثر از محمد احمد سالم قاہرہ 
۲۵۔ المنھل الحدیث فی علوم الحدیث از تو فیق احمد سالمان قاہرہ 

اردو کتب

۱۔ التحدیث فی علوم الحدیث از ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر 
۲۔ علوم الحدیث مطالعہ و تعارف از رفیق احمد سلفی 
۳۔علوم الحدیث ایک تعارف از مبشر نذیر
۴۔علوم حدیث رسول از ڈاکٹر رانا محمد اسحاق
۵۔ آسان اصول حدیث از خالد سیف اللہ رحمانی 
۶۔علوم الحدیث مصطلحات و علوم از ڈاکٹر خالد علوی 
۷۔فوائد جامعہ بر عجالہ نافعہ از ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی

۲۔ متون اصول حدیث کی تشریح و توضیح 

مصطلح الحدیث پر دور جدید میں ہونے والے کام کا بڑا حصہ اصول حدیث کی بنیادی کتب کی تشریح ،تو ضیح اور ان پر تعلیقات ہیں۔اس سلسلے میں مصطلح الحدیث کی جملہ بنیادی کتب پر شروحات لکھی گئی ہیں ، الرامہرمزی کی المحدث الفاصل، حاکم نیسابوری کی معرفہ علوم الحدیث ،خطیب بغدادی کی کفایہ ،قاضی عیاض کی الالماع،ابن الصلاح کا مقدمہ، ابن کثیر کی اختصار علوم الحدیث ،ابن دقیق العید کی الاقتراح ،علامہ ذہبی کی الموقظہ ،جرجانی کی المختصر حافظ الدنیا حافظ ابن حجر کی نخبہ ،عراقی کی الفیہ اور علامہ سیوطی کی تدریب الراوی سمیت اصول حدیث کی جملہ بنیادی کتب، متون و منظومات کی شروحات و تعلیقات منظر عام پر آئی ہیں،چند اہم کاوشو ں کی فہرست دی جارہی ہے :
۱۔ شرح اختصار علوم الحدیث از احمد محمد شاکر، دار العاصمہ ریاض
۲۔ تسھیل شرح نخبۃ الفکر از محمد انور البدخشانی، ادارۃ القرآن کراتشی
۳۔ تقریب التدریب از صلاح محمد عویضہ، دار الکتب العلمیہ بیروت
۴۔ السعی الحثیث الی شرح اختصار علوم الحدیث از عبد العزیز بن الصغیر دخان، موسسہ الرسالہ بیروت
۵۔ اسعاف ذوی الوطر بشرح نظم الدرر فی علم الاثر للسیوطی از محمد بن علی الاثیوبی، مکتبہ ابن تیمیہ جدہ
۶۔ شرح البیقونیہ فی مصطلح الحدیث از محمد بن صالح عثیمین، مکتبہ السنہ قاہرہ
۷۔ ظفر الامانی بشرح مختصر السید شریف الجرجانی از عبد الحی اللکنوی، دار الکتب العلمیہ بیروت
۸۔ المنھل الروی من تقریب النووی از سعید مصطفی الخن دار الملاح دمشق
۹۔ کفایۃ الحفظۃ شرح المقدمۃ الموقظۃ از سلیم بن عید الھلالی
۱۰۔ شرح نزھۃ النظر از محمد بن صالح العثمین، مکتبہ السنہ، قاہرہ
۱۱۔ منحۃ المغیث شرح الفیۃ الحدیث از مولانا محمد ادریس کاندھلوی 
(جاری)

دینی مدرسہ میں استاد کا کردار (۱)

مولانا محمد رفیق شنواری

اپنے اہل خانہ کے بعد طالب علم جس شخصیت سے زیادہ متا ثر ہوتا ہے، وہ اس کا استاد ہے۔ طالب علم اپنے استاد سے تہذیبی اقدار اور اخلاقیات کے وہ اسالیب سیکھتا ہے جو اس کی زندگی کا رُخ بدل دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ استاد کی ’’شخصیت‘‘ سے مراد کیا ہے ؟ آسان لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’شخصیت‘‘ سے مراد اس کا رویہ اور ظاہری تصویر مثلاً لباس، چال ڈھال، لب و لہجہ اور برتاؤ ہے۔ ’’مثالی‘‘ کا سابقہ ساتھ لگا کر استاد یعنی ’’مثالی استادکی شخصیت‘‘ کے مفہوم میں چند دیگر امور بھی شامل ہوتے ہیں۔ استاد کی شخصیت تب کامل ہوگی جب اعلیٰ اخلاق، حسین ظاہر ی تصویر کے ساتھ تدریسی عمل میں اخلاصِ نیت، ذاتی شوق و دلچسپی اور تدریسی عمل کے ذریعے طالبِ علم کی اصلاح و تربیت کا اور اسی طرح مثالی طلبہ کے ذریعے پورے معاشرے کی تعمیر کا جذبہ شامل ہو۔ دینی مدارس کے اساتذہ کرام کے لیے اپنی شخصیت میں نکھار ، حسن اور شائستگی پیدا کرنے کے لیے بہترین نمونہ تو سیرت طیبہ ہی ہے، اس کے بعد اسلاف کی عظیم تاریخ ہے ۔ جس میں شخصیت کی تکمیل و تحسین کا پورا سامان موجود ہے۔ عصر حاضر کے تناظر میں بات کی جائے تو واضح رہنا چاہیے کہ استاد کا کام طالب علم کو محض چند اسباق یا کتب پڑھا دینا نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل کام اپنے طلبہ میں علم کا شوق پیدا کرنا، مزید جاننے کی لگن پیدا کرنا اور تحقیق و جستجو کے لیے ان کی استعداد میں اضافہ کرنا ہے۔

استاد کا ظاہر

استاد جتنی دلکش اور اچھی شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس کا اتنا ہی اچھا اور مثبت اثر طالب علم پر پڑتا ہے ۔ طالب علم اپنی شخصیت کی تعمیر میں اس کا اتباع کرتا ہے اور حصول علم میں اس کی زبان سے ادا ہونے والے ایک ایک لفظ پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دیتا ہے ۔استاد کا ظاہر کافی وسیع مفہوم رکھتا ہے جس پر مسلمان اہل علم، بالخصوص محدثین کے قدیم ادوار ہی کی تحریر یں موجود ہیں۔ جو عام طور پر ’’سامع و متکلم‘‘ یعنی حدیث لینے والے طالب علم اور حدیث بیان کرنے والے استادکے لیے آداب کے عنوان سے معروف ہیں۔ بطور مثال یہاں چند آداب کا ذکر غیر ضروری نہ ہوگا۔

استاد کا جذبِ دروں

ایک استاد مثالی تب کہلاتا ہے جب اس کے عمل تدریس میں ضروری مثالی عوامل و محرکات موجود ہوں۔ مثلاً : نیت کا اخلاص، علمی رسوخ، معاشرے کی تعمیر کا جذبہ وغیرہ۔

خالص نیت

یہ ایک نہایت تاکیدی امر ہے کہ تعلیم و تدریس کا عمل ریا سے خالی ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم ا سے نقل کرتے ہیں کہ قیامت کے دن عالم کو اللہ تعالیٰ طلب فرمائیں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ میں نے تجھے علم دیا تھا تونے اس کا کیا حق ادا کیا؟ وہ کہے گا یا رب میں نے آپ کی رضا کے لیے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھا یا تاکہ آپ راضی ہو جائیں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جھوٹ بولتا ہے اور فرشتے بھی اُسے کہیں گے کہ تو جھوٹ بولتا ہے ، تونے اس لیے سیکھا اور سکھایا تاکہ تو بڑا عالم کہلائے، سو تجھے دنیا میں وہ کہا جاچکا اور پڑھنے پڑھانے سے جو غرض تھی وہ پوری ہوگئی، پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیں گے اور وہ اس کو جہنم کی آگ میں اوندھے منہ پھینک دیں گے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ حدیث سناتے ہوئے تین بار غش کھا کھا کر گرے تھے اور پانی کے چھینٹے ڈال کر آپؓ کی طبیعت کو بحال کیا گیا تھا۔(الترغیب و الترہیب)

اپنے مضمون اور اس کی تدریس کے ساتھ شوق اور دلچسپی

کسی بھی استاد کو اپنا عملِ تدریس مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مضمون اور تخصّص کے ساتھ گہری دلچسپی اور شوق رکھتا ہو۔ کیونکہ شوق اور جذبہ وہ بنیادی چیز ہے جس کی بنیاد پر ایک انسان کوئی بھی کام بے لوث ہو کر احساس ذمہ داری کے ساتھ کرسکتا ہے۔ 

معاشرے کی تعمیر کا جذبہ

کوئی بھی عمل تدریس اس وقت تک مفید اور موثر نہیں ہوسکتا جب تک اس کے پیچھے قومی تعمیر نو کا جذبہ نہ ہو۔ استاد کی ذمہ داری صرف اس حد تک نہیں کہ وہ درس گاہ میں آئے، پڑھائے اور بس۔ بلکہ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ تدریس کے ذریعے معاشرے میں مصلحین پیدا کرے۔ تدریس کے لیے ضروری ہے کہ استاد کے اندر خود معاشرے کی تعمیر کا جذبہ ہو، معاشرے کی کمزوریوں اور تقاضوں اور ضروریات کا ادراک ہو۔ وہ انہی کی روشنی میں اہداف کا تعین کرے اور پھر اس کے مطابق اپنی تدریس کی طرف متوجہ ہو۔

سیرت طیبہ اور اسلاف سے مثالیں

جیساکہ اوپر ذکر ہوا، مدارسِ دینیہ میں تدریسی عمل کو مؤثر بنانے کے لیے بہترین نمونہ سیرت طیبہ اور اپنے اسلاف کی تاریخ ہے ۔ استاد کے سامنے اپنے لیے ضابطہ اخلاق کے تعین کا مسئلہ ہو، یا رویے اور برتاؤ کے اصول درکار ہوں، یا تدریس کے لیے آداب و قواعد وضع کرنے کا معاملہ ہو، تدریسی عمل کے تمام پہلوؤ ں کی بنیادیں سیرت طیبہ اور قدیم مسلمان اہل علم و فکر کے یہاں ملتی ہیں۔ اس لیے دینی مدارس کے استاد کے لیے بالخصوص اور اسلامی نظام تعلیم کے ہر استاد کے لیے بالعموم سیرت طیبہ اور تاریخ اسلام کی اہمیت کبھی بھی کم نہیں ہوسکتی۔ یہ حقیقت بھی ذہنوں میں مستحضر رہے کہ زمانے کے ’’عرف‘‘ بدل جانے اور نئی ایجادات اور مفید انسانی تجربات کو اختیار کرنے سے تدریس کی دنیا میں جو انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں، دینی مدرسے کا استاد اس سے اجنبی نہ رہے، بلکہ اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ (حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے۔ ترمذی) کے مصداق نئے مفید طریقوں کو اختیار کرنے کو سیرت پر عمل کا تقاضا ہی سمجھے۔
نبی کریم ا کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے (تخریج الاحیاء) ۔ آپؐ کی عمر کا آخری تیئس سالہ عہدِ نبوت مکمل تعلیم و تربیت میں گزرا ہے۔ وہ ایسے معلم تھے جن کی تعلیم و تربیت نے اس مختصر مدت میں نہ صرف پورے جزیرہ عرب کی کایا پلٹ کر رکھ دی بلکہ پوری دنیا کے لیے رشد وہدایت کی وہ ابدی قندیلیں بھی روشن کردیں جو رہتی دنیا تک انسانیت کو عدل و انصاف، امن و سکون اور عافیت و اطمینان کی راہ دکھاتی رہیں گی۔ یہ آپؐ کی تعلیم و تربیت کا حیرت انگیز کرشمہ تھا کہ تیئس سال کی مختصر مدت میں صحرائے عرب کے جنگجو قبائلی جو علم و معرفت اور تہذیب و تمدن سے بالکل کورے تھے، وہ پوری دنیا میں علم و حکمت اور تہذیب و شائستگی کے چراغ روشن کرنے لگے ۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کا جو سو فیصدکامیاب نتیجہ دنیا نے دیکھا ہے ، تاریخ انسانیت کے کسی اور معلم کے یہاں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آج کا استاد ذرا غور تو کرے کہ آنحضرت ا کی تعلیم و تربیت کی وہ کیا بنیادی خصوصیات تھیں جنہوں نے دنیا بھر میں یہ حیرت انگیز انقلاب برپا کردیا! (۲)

تدریسی اور فنی مہارتیں

اپنے مضمون پر مکمل عبور

علم وفن کو دوسروں کی طرف منتقل کرنے بلکہ پورے تعلیمی عمل کی کامیابی اور مؤثر حکمت عملی کا انحصار اس پر ہے کہ استاد اعلیٰ استعداد کا مالک ہو اور خود نفسِ مضمون پر عبور رکھتا ہو۔ چنانچہ استاد کا فرض ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور استعداد کو مسلسل مزید جلا بخشے ، اس میں پختگی پیدا کر ے، اپنے مضمون اور شعبۂ علم میں جدید تحقیقات اور نئے علمی کام سے باخبر رہے، کیونکہ آج دنیا میں علم ایک تیز رفتار چشمے کی طرح پھوٹ رہا ہے، جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے یہ پھیلتا چلا جاتاہے ۔آج مسلسل مطالعہ ایک معلم کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کھیتوں اور باغوں کے لیے پانی ۔اس سلسلے میں غفلت برتنے سے علمی پیش رفت رُک جاتی ہے ، سوچیں محدود ہوجاتی ہیں، حال کا اطمینان غارت اور مستقبل کا یقین متزلزل ہوجاتا ہے۔ علم بڑا غیور واقع ہوا ہے۔ اگر اُسے ذوق و شوق ، محنت، قلبی لگاؤ اور رضا کار انہ محنت و مشقت کے جذبے کے بغیر محض مطلب برآری اور کسب معاش کے لیے پڑھا اور پڑھا یا جائے تو اس کی حقیقی روح پر دسترس ممکن نہیں رہتی ۔مشہور عربی کہاوت ہے: اَلْعِلْمُ لَایُعْطِیْکَ بَعْضَہٌ حَتّٰی تُعْطِیْہِ کُلَّکَ (اپنی جان و مال پوری کی پوری علم کے حصول کے لیے استعمال کی جائے تب تھوڑا سال علم حاصل ہو تا ہے ) ۔ مضمون پر دسترس نہ ہوتو معلم علم و فضلیت کے لاکھ لبادے اوڑھے علمی بدذوقی کے داغ نہیں چھپتے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ زمین سے ابلنے والا چشمہ اتنی ہی قوت اور رفتار سے ابلتا ہے جتنا زمین کی سطح کے نیچے پانی کا دباؤ ہوتا ہے ۔ اگر ایک معلم علمی لحاظ سے تہی دامن ہے ، دین و دانش کی بنیادی قدروں سے محروم ہے ، اسے صحیح اسلامی عقائد و اعمال، اخلاق و کردار اور تاریخ کا علم نہیں تو وہ کسی بھی صورت اپنے شاگرد کے قلب و نظر میں گیرائی اور گہرائی پیدا نہیں کرسکتا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ایک اچھا معلم ایک اچھے معاشرے کی پہچان ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں خود بھی اپنے اندر حصول علم کا ذوق و شوق پیدا کرنا چاہیے، اور یہی ذوق اپنے متعلمین کے اندر پیدا کرنے کا متمنی ہونا چاہیے۔ اپنے مضمون پر مکمل دسترس اور اس کی گہرائیوں تک رسائی جہدو کاوش، محنت و سعی اور طلب و جستجو کی متقاضی ہے۔
دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے تمام علوم۔ تفسیر و اصولِ تفسیر، حدیث و اصولِ حدیث، فقہ و اصول فقہ، عربی ادب ۔ پر دنیا بھر میں کام ہورہا ہے ۔ مختلف علوم میں مختلف زاویوں سے بحث و تحقیق کا عمل جاری ہے۔ ہر علم کے نئے پہلوؤں اور جدید مسائل پر عصری مباحث کے ساتھ ساتھ قدیم کتب کا ذخیرہ بھی ایڈیٹنگ، فہرست سازی اور اصولِ تحقیق پر پورا اترنے والے جدید معیارات کے ساتھ آراستہ کیا جا رہا ہے۔ دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے بھی ان تمام کاوشوں اور محنتوں سے باخبر رہنا ضروری ہے جس کا فائدہ علم میں اضافہ، اس میں وسعت اور گہرائی اور رسوخ حاصل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ فائدہ بھی ہے کہ اگر اسلامی علوم میں غلطی سے یا بدنیتی کی بنا ء پر کوئی خلاف حقیقت دخیل سازی اور پیوندکاری کا ارتکاب کرے تو اس کا ادراک بھی ہوگا اور بروقت اس کا راستہ روکنے کے لیے موقع بھی میسر ہوگا۔

طلبہ کی نفسیات سے آگہی

معیاری تدریس کے لیے یہ بات بھی انتہائی ضروری ہے کہ تدریس بچے کی نفسیات کے مطابق ہو۔ اگر تعلیمی عمل میں طلبہ کی نفسیات کا لحاظ نہ رکھا جائے تو طلبہ کا تعلیم سے متنفر اور بیزار ہونے کا خدشہ رہتا ہے اور ان کی صلاحتیں نکھر کرسامنے نہیں آسکتیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کلاس میں موجود طلبہ کی فطرت، ضرورت اور صلاحیت کے مطابق تدریسی تقاضوں کو پورا کیا جائے ان کی کسی طور پر حوصلہ شکنی نہ کی جائے ۔ ان کے اندر موجود صلاحیت کی صحیح طور پر راہنمائی کی جائے ۔ پیا ر اور محبت سے ان کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرکے ان کی صلاحیتوں کو مزید جلا مل سکتی ہے ۔
استاد کے لیے تمام طلبہ کی نفسیات کا لحاظ رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ طالب علم عمر، علاقہ، ماحول، کلچر اور خاندان وغیرہ کئی پہلوؤں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان اعتبارات کی بنیاد پر اختلاف کے نتیجے میں ان کے احساسات، جذبات، خیالات اور تقاضوں میں بھی بڑا اختلاف موجود ہوتا ہے۔ اس لیے ان سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا جہاں مشکل ہے وہاں یہ صحیح بھی نہیں ہے۔ اس لیے استاد کو تعلیم و تربیت دونوں میں طلبہ کی نفسیات کا خیال رکھنا ہوگا۔
تربیت کے پہلو سے اگر دیکھا جائے تو ہر انسان کے عمل سے پہلے اس کا ارادہ ہوتا ہے۔ ارادے سے پہلے خیالات اور خیالات پیدا ہونے کے اسباب ہوتے ہیں۔ ترتیب یوں ہو گی: (۱)اسباب، (۲) خیالات، (۳) ارادے، (۴) اعمال، (۵) اور پھر ان اعمال پر مرتب ہونے والے نتائج۔
تعلیم و تربیت کے پہلو سے استاد کو سب سے پہلے شاگردوں کے خیالات کو جنم دینے والے عوامل اور اسباب پر نظر کرنی چاہیے۔ اسباب میں سب سے پہلا طالب علم کی فطرت ہے۔ استاد کے لیے طلبہ کی فطرت کو بالکل بدل دینا تو ممکن نہیں لیکن محنت کے ساتھ اس فطرت کو سنوارا ضرور جاسکتا ہے۔ دوسرا اہم پہلو طلبہ کے ’’مادی مزاج‘‘ سے آگہی ہے۔ جس پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں کھانا پینا اور مختلف لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا شامل ہیں۔ حلال اور کم کھانے اور صالح لوگوں کی صحبت کا اثر اچھا ہوتا ہے ۔ استاد کو ان عوامل پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ تیسرا سبب بعض اتفافات ہوتے ہیں جو اچھے یا بُرے خیالات کا سبب بن جاتے ہیں۔ مثلاً کوئی گناہ کا عادی اتفاقاً کسی نیک مجلس یا اصلاحی موقع پر پہنچ گیا تو فوراً خیال بدل گیا اور گناہ سے تائب ہوگیا۔
تربیت کے پہلو کے ساتھ ساتھ تعلیم کے دوران بھی استاد کو طلبہ کی نفسیات جاننا ضروری ہے۔ تعلیم کی دو صورتیں ہیں: انفرادی اور اجتماعی۔ انفرادی تعلیم کی مثال حفظِ قرآن ہے۔ اس صورت میں استاد کو چاہیے کہ طالب علم کی ذہنی سطح اور شوق معلوم کرکے اس کے مطابق حفظ کرائیں۔ تعلیم کی دوسری صورت اجتماعی تعلیم ہے ۔ جس کا عمومی رواج ہے، یعنی ایک کلاس میں مختلف طلبہ ایک استاد سے ایک وقت میں ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں، جبکہ کلاس میں شریک طالب علم عمر، ذاتی شوق اور اپنی فطری صلاحیت کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ استاد کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ و ہ کتاب کی تدریس اس طریقہ سے کرے کہ تمام طلبہ اس کو اپنی صلاحیت کے برابر پائیں، کوئی طالبِ علم اسے اپنی سمجھ سے بالاتر محسوس نہ کرے۔ استاد کو چاہیے کہ اپنی پوری کلاس کی نفسیات جان کر تدریس کا فریضہ ادا کرے۔ تدریسی مہارت کے ساتھ جب نفسیاتی مہارت بھی ہوتو پوری جماعت کی تعلیمی ترقی آسان اور بہتر ہوجاتی ہے۔ استاد کی ذمہ داری ہے کہ تدریس کے ساتھ طلبہ کی راہنمائی بھی کریں، مثلاً:مطالعہ کا وقت اور طریقہ بتلائیں، کسی خاص متعلقہ مفید کتا ب کی نشاندہی کریں، طالب کو احساس کمتری سے بچائیں اور خود اعتماد بنائیں۔(۳)

ابلاغ کی صلاحیت

عمل تعلم تمام تعلیمی سرگرمیوں کا مرکزی نکتہ ہے ۔ تعلم ہی کو مؤثر اور جاندار بنانے کے لیے تعلیمی مقاصد طے کیے جاتے ہیں، نصاب مرتب کیا جاتا ہے ، ماہرین اساتذہ کا تقرر کیا جاتا ہے وغیرہ۔ وہ جگہ جہاں طالب علم تعلّم کی شعوری کوششوں کا اصل ہدف ہوتا ہے، کمرۂ جماعت ہے اور در اصل کمرۂ جماعت میں معلم اور متعلم کے درمیان وقوع پذیر ہونے والا ابلاغ تعلّم کی جان ہے ۔ اس عمل ابلاغ کا مقصد معلم اور متعلم کی معلومات اور احساسات میں شراکت پیدا کرنا ہے ۔اس کا براہِ راست اثر متعلم کی ذات پر ہوتا ہے اور یہ اثر سطحی اور وقتی نہیں ہوتا بلکہ اس کا نقش ہمیشہ کے لیے ثبت ہوجاتا ہے ۔ کمرہ جماعت کے اندر استاد اور شاگرد کے تعامل کے نتیجے میں طالب علم کی شخصیت کی پوری عمارت تعمیر ہوتی ہے اور اسی طرح یہ تعامل طالب علم کی ذہنی نشو و نما پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ ’’ابلاغ‘‘ کئی عناصر رکھتا ہے اور وہ سب باہم مل کر ایک مخصوص تسلسل کے ساتھ ابلاغ کا عمل مکمل کرتے ہیں۔

مبدائے پیغام

کمرہ جماعت میں ابلاغ عموماً استاد کی طرف سے شروع کیا جاتا ہے ، عمل ابلاغ کی ابتدا دماغ میں کسی خیال کے آنے سے ہوتی ہے ۔ پس استاد کو متعلقہ مضمون کے بارے میں اپنے افکار و خیالات میں وسعت، گہرائی و گیرائی، جامعیت اور رسوخ پیدا کرنا چاہیے جس کا ایک بہترین طریقہ مسلسل مطالعہ ہے ۔

پیغام کو معانی پہنانے کا عمل

پیغام کو معانی پہنانے کا عمل، ذہن میں موجود خیالات و افکار کو الفاظ یا جسمانی حرکات و سکنات اور یا چہرے کے اتار چڑھاؤ میں بدلنے کا عمل ہے جس کو ’’تعبیر‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ کمرہ جماعت میں استاد کی مہارت کا یہ بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ اپنے پیغام کو عام فہم انداز میں طلبہ تک منتقل کرے۔ اس کے لیے استاد کے پاس اپنے طلبہ کی ذہنی سطح کے بارے میں بھی معلومات ہونی چاہییں۔ نبی اکرم صلی اللہ علہ وسلم کا ایک فرمان بھی اس طرف ہماری راہنمائی کرتا ہے: حَدِّثُوْا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْن (لوگوں سے ان کی عقل و فہم کے مطابق بات کیا کرو)۔ (بخاری)
اس لیے استاد کو چاہیے کہ اپنی تعبیر آسان انداز میں اور سادہ لفظوں میں پیش کریں تا کہ طلبہ سہولت کے ساتھ سمجھ سکیں۔

پیغام کا ذریعہ

پیغام کو لفظی یا غیر لفظی صورت میں پیغام وصول کرنے والے تک پہنچانے کے لیے کسی نہ کسی ذریعے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ ذریعہ سمعی یا بصری ہوسکتا ہے ۔ لفظی ابلاغ میں استاد کی تقریر طلبہ تک پہنچتی ہے ، جبکہ غیر لفظی ابلاغ میں آنکھوں کے اشارے ، ہاتھوں کی جنبش، چہرے کا اتار چڑھاؤ اور جسمانی حرکات ہوتی ہیں۔اس کا دارومدار استاد کی شخصیت پر ہوتا ہے۔ استاد کو خوش خلقی اور نرم خوئی کے ساتھ اپنی شخصیت میں سنجیدگی اور متانت برقرار رکھنی چاہیے ۔ 

پیغام میں مداخلت

ابلاغ میں عموماً کسی نہ کسی طرف سے مداخلت ہورہی ہوتی ہے جس کا نتیجہ ابلاغ میں رکاوٹ کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ مداخلت یا رکاوٹ فرد کے اندر سے بھی ہوسکتی ہے، مثلاً تھکاوٹ، بیماری وغیرہ اور باہر سے بھی مثلاً کمرۂ جماعت میں شور پہنچ رہا ہے، طلبہ آپس میں غیرضروری گفتگو میں مشغول ہیں یا تختہ تحریر پر غیر ضروری مواد لکھا ہوا ہے جس کا سبق سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کل موبائل بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ استاد جب بھی محسوس کرے کہ ان میں سے کسی قسم کی مداخلت ہورہی ہے تو اُسے اس کا تدارک کرنا چاہیے۔

پیغام کی ترسیل

کمرۂ جماعت کے اندر ابلاغ کا عمل جاری رہتا ہے۔ استاد اپنی استعداد کے مطابق پیغام رسانی کررہا ہوتا ہے اور طلبہ اپنی اپنی بساط کے مطابق اس کو وصول کررہے ہوتے ہیں۔ اس عمل ابلاغ کے اندر جو الفاظ یا اشارے مل رہے ہوتے ہیں ہر طالب علم اُنہیں اپنی فطری صلاحیت کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔استاد کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے شاگردوں تک جو پیغام پہنچانا چاہتا ہے، وہ درست طور پر ان تک پہنچ سکے۔

جدید و سائل تعلیم کا استعمال

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں تعلیم دینے کے عمل پر نظر ڈالی جائے تو اس میں خطبات، تمثیلات، زمین پر بنائے گئے اشارات اور متعدد دیگر اشیاء کے استعمال کا ذکر ملتا ہے ۔ ان سب سے مقصود جناب نبی کریم ا کے پیشِ نظر یہ تھا کہ امت ان ارشادات کو آسانی کے ساتھ اور اچھی طرح سمجھ سکے۔ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ’’تعلیمی سنتیں‘‘ امت کے اساتذہ کے تعلیمی و تربیتی عمل میں مشعل راہ ہیں۔ہر استاد کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کون سا طریقہ ہے جس کو اختیار کرنے سے اس کے طلبہ اچھی طرح سبق سمجھیں اور تعلیم کے عمل میں ان کے ذوق و شوق میں اضافہ ہو۔ اساتذہ کو اُن تمام وسائل اور مواد پر غور کرنا چاہیے جو تدریسی عمل میں جدّت اور بہتری پیدا کرے اور ان کی تعلیمی و تدریسی سرگرمی کو اعلیٰ معیار کی طرف لے کر جائے۔ ان وسائل سے واقفیت ابتدائی درجہ ہے، اس سے بڑھ کر انہیں مفید اور موثر طریقے سے استعمال کرنے کا سلیقہ بھی آنا چاہیے ۔ قرآن کریم کی تحفیظ و تجوید کے دوران میں اگر استاد کمپیوٹر، موبائل فون یا سی ڈی سے مدد لیں اورطلبہ کو سنوائیں اور پھر طلبہ کو ان معروف قراء کی طرح تجوید کے قواعد کے التزام اور لب ولہجہ کے ساتھ ترتیل کی مشق کرائیں تو طلبہ کی حفظ اور قرآن خوانی کی صلاحیت میں خاطر خواہ بہتری پیدا کی جاسکتی ہے ۔ کئی مدارس میں یہ طریقہ آزمودہ ہے جس کی افادیت اور تاثیر واضح ہے۔اسی طرح عربی زبان کی تعلیم میں اگر انگریزی زبان کی تعلیم کا مروجہ طریقہ اختیار کیا جائے، مختصر جملوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی کہانیاں طلبہ کو ویڈیو کے ذریعے سکھائی جائیں، جس میں سکرین پر آواز کے ساتھ ساتھ وہی بولے جانے والے الفاظ تحریر شدہ بھی دکھائے جاتے ہیں۔ ان ویڈیوز کو دیکھ کر طالبِ علم صحیح اور درست لہجوں کو سیکھ سکتا ہے۔ نیز وہ یہ بھی جان سکتا ہے کہ اہلِ زبان خوشی، رنج، تعجب یا غصے کی حالت میں اپنے جذبات کا اظہار کن اشاروں یا چہرے کے تأثرات کے ساتھ کرتے ہیں۔ انگریزی زبان کی تعلیم میں یہ طریقہ رائج ہے جو مفید اور موثر ہونے کی وجہ سے مقبول بھی ہے۔ اہل مدارس کو بھی عربی زبان کی تعلیم کے لیے یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اور ماہرینِ لسانیات نے عربی کی تعلیم کے لیے جو بھی ایسی ویڈیوز وغیرہ بنائی ہوئی ہیں ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔

دینی مدارس میں باہمی تعلقات

عربی کہاوت ہے ’’اَلْمُعَاصَرَۃُ اَصْلُ الْمَنَافَرَۃُ‘‘ یعنی ( ہم زمانہ ہونا باہمی نفرت کی جڑ ہے)۔ ماضی کی شخصیات کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے میں کوئی مشکل محسوس نہیں ہوتی، بلکہ اچھے لفظوں میں ان کے تذکرے آسان ہوتے ہیں۔ تاہم کسی معاصر کو قبول کرنا اور ایک بڑے مقام پر اس کو تسلیم کرنے میں کافی مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے آپس میں مباحثے اور علمی نوک جھونک بھی رہتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی کے ایک بزرگ عالمِ دین جب ایک معاصر عالم سے مناظرہ ہار گئے تو شدتِ غم سے نڈھال ہو کر انتقال کر گئے، واللہ اعلم ۔معاصرانہ چشمک کی مثالوں سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ایسی مثالیں ہمیں اپنے ارد گرد بھی نظر آجاتی ہیں، جو بہرحال اچھی مثالیں نہیں ہیں۔ غور کیا جائے تو اس کیفیت کی بنیاد دل میں پیدا ہونے والی حسد کی بیماری ہے، جس کی پیدائش تو غیرفطری نہیں ہے، لیکن اس کی افزائش انسان خود کرتا ہے۔ یاد رہے کہ حسد کی کیفیات کو دل سے نکال پھینکنا ہی تقویٰ کا اعلیٰ مقام ہے۔ تاہم یہ بھی یاد رہے کہ شریعت کی رو سے فقط اس فطری حسد پرکوئی مؤاخذہ نہیں، لیکن اس فطری حسد کی بنیاد پر ایک دوسرے کی غیبت کرنا، کسی بھی اعتبار سے کسی کی شخصیت کو مجروح کرنا یا کسی کے متعلق بے جا تبصروں اور تذکروں میں اس کی توہین کی حد تک پہنچنا وغیرہ یہ سب امور مستوجبِ گناہ ہیں اور اس کا طلبہ پر منفی اثر پڑنا ایک ناگزیر نتیجہ ہے۔ مثبت سوچ کا زاویۂ نظر یہ ہے کہ جب تمام دینی تعلیمی اداروں کا اور ایک ادارے کے اندر موجود تمام اساتذہ کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ سب مل کر ایک ہی ہدف کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل فریضہ بھی ان سب کا ایک ہی ہے۔ تو مشترک کام میں جو بھی شریک جتنا زیادہ کام کرے دیگر شرکاء کو خوش ہونا چاہیے اور اس کام کو کرنے والے رفیق کا رکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ اس کی محنت کی وجہ سے ان سب کا کام آسان ہو جاتا ہے اور اس طرح ان کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ قرآن و سنت نے ویسے بھی ایک دوسرے کی غیبت اورایک دوسرے کی بے جا تنقیص سے بصراحت منع کیا ہے۔ اگر اساتذہ ایک دوسرے کا احترام کریں، ان کا آپس میں حوصلہ افزائی اور مساعدت و معاونت کا جذبہ ہو تو طلبہ کے ذہن و قلب پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور وہ بھی تمام اساتذہ کا یکساں طور پر احترام کریں گے۔ اس باہمی احترام اور تعاون کی مدد سے تعلیم و تربیت کا عمل مؤثر اور صحیح سمت میں جاری رہے گا۔

طلبہ کے ساتھ شفقت کا برتاؤ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ تو سراسر تعلیم و تربیت سے عبارت ہے جو بے پناہ خصوصیات کی حامل ہونے میں اپنی نظیر آپ ہے۔ ان میں ایک خصو صیت جس نے شاید ان نبوی تعلیم و تربیت میں معجزانہ تاثیر رکھی وہ آپ ا کی شفقت و رحم دلی، دل سوزی اور خیر خواہی اور نرم خوئی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے آپؐ کی اس خصوصیت کا ذکر فرما کر اسے آپؐ کی کامیابی کا بہت بڑا سبب قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔
پس یہ اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا ء پر آپؐ لوگوں کے لیے نرم خو ہو گئے اور اگر درشت مزاج و سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپؐ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ (آل عمران:۱۵۹)
سیرت کا طالب علم بخوبی جانتا ہے کہ آپؐ کو کس قدر اذیتیں پہنچائی گئیں، آپؐپر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی تھی لیکن آپؐ ان لوگوں پر غضب ناک ہونے کے بجائے ان پر ترس کھاتے تھے۔ اور آپؐ کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ وہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے حق بات ان کے دل میں اتر جائے اور یہ ہدایت کے راستے پر آجائیں۔(۴)
نبوی تعلیم و تربیت کی خصوصیت اگر آج کے مدرسین و معلمین اپنے سامنے اصول کے طور پر رکھیں اور ہر طالب علم کے ساتھ اپنی اولاد کی طرح مشفقانہ رویہ رکھیں، کتاب کی تدریس سے بڑھ کر ان کے دکھ درد میں شریک اور ہر لمحے ان کی فلاح و بہبود کے لیے فکر مند ہوں تو تدریس و تعلیم کا یہ عمل محض ایک وقتی مشغلہ نہیں رہے گا بلکہ طلبہ کی علمی و فکری ترقی، ان کی صلاحیتوں میں نکھار اور ان کی شخصیت میں حسن و جاذ بیت پیدا کرے گا۔ مشاہدہ ہے کہ طلبہ نرم خو اور مشفق استاد سے زیادہ قربت محسوس کرتے ہیں۔ شخصیت عالمانہ ہوتو طلبہ اُس کی اداؤں کو اپناتے ہیں اور اس استاد کے اثرات جلدی ان پر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ استاد اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ طالبِ علم سے لغزش صادر ہونے پر تنبیہ بھی کریں لیکن ایسے کسی بھی موقع پر زیادہ غیظ و غضب اور ڈانٹ ڈپٹ سے اپنے مشتعل جذبات کی تسکین نہ کریں بلکہ تنبیہ میں بھی طالبِ علم کی عزتِ نفس کا خیال رکھیں اور آئندہ کے لیے اس کے حق میں اس قسم کے لغرشوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگیں۔

طالب علم کی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت تیار

طلبہ کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں استاد کی ذمہ داری محض کمرۂ جماعت تک محدود نہیں بلکہ درسی امور کے علاوہ ان کے شب و روز کے معمولات پربھی نظر رکھنی چاہیے ۔ طلبہ جب گھر بار چھوڑ کر مدرسے میں آکر مسافر بنتے ہیں تو استاد کی ذمہ داریوں میں تدریسی ذمہ داری کے ساتھ تربیتی ذمہ داری بھی لازماً شامل ہوجاتی ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان پڑھنے اور پڑھانے والے سے بڑھ کر باپ اور بیٹے کا روحانی رشتہ بھی قائم ہوتا ہے۔ اس مقدس رشتے کے ناطے استاد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ طالبِ علم کی زندگی کے ہر شعبے میں اس کے قول و فعل اور نقل و حرکت کی خبر لیں اور اس طرح وہ ہمہ وقت طلبہ کی تربیت اور رہنمائی کے عمل میں مصروف ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر اگر غور کیا جائے تو آپؐ اس قسم کے معلم نہ تھے کہ محض کوئی کتاب پڑھا کر یا درس دے کر فارغ بیٹھتے ہوں اور یہ سمجھتے ہوں کہ میں نے اپنا فریضہ ادا کردیا بلکہ اس کے بجائے آپؐ اپنے زیر تربیت افراد کی زندگی کے ایک ایک شعبے کے بارے میں متوجہ رہتے تھے ۔ ان کے ہر دکھ درد اور غمی خوشی میں حصہ لیتے اور اس کے ساتھ ہر لمحے ان کی فلاح و بہبود کے لیے فکر مند رہتے تھے ۔ آپؐ کے اس وصف کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْل’‘ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْز’‘ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْص’‘ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْف’‘ رَّحِیْم’‘
بلاشبہ تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک ایسا رسول آیا ہے جس پر تمہاری تکلیف گراں گزرتی ہے اور جو تمہاری بھلائی کی لیے بے حد حریص ہے اور مسلمانوں پر بے حد مہربان ہے۔ (سورۃ التوبہ:۱۲۸)

حواشی

۱۔ اس موضوع پر تفصیلی مصادر کی طرف مراجعت کی جائے تو دیگر آداب کا ذکر بھی ملتا ہے مثلاً خطیب بغدادی کی معروف کتاب الجامع لأخلاق الراوی و آداب السامع دو جلدوں میں، اور ابن جماعہ الکنانی کی تذکرۃ السامع و المتکلم فی آداب العالم و المتعلم اور ابن عبد البر کی جامع بیان العلم وفضلہ وغیرہ۔ ثانی الذکر کتاب کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے۔
۲۔ مزید مطالعہ کے لیے دیکھیے: محمد حنیف عبدالمجید، ’’مثالی استاد‘‘، (ص ۱۷۔۱۸)
۳۔ مزید مطالعہ کے لیے دیکھیے، ’’رہنمائے معلمین‘‘، مولانا مفتی ذاکر حسن نعمانی، حذف و اضافے اور ترمیم کے ساتھ۔
۴۔ مزید مطالعے کے لیے دیکھیے، ’’مثالی استاد‘‘ (ص ۱۸۔۱۹، بحوالہ ’ہمارا تعلیمی نظام‘)۔
(جاری)

دستور سازی، سوشل کنٹریکٹ اور اسلام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ اسلام کے فکری مسائل میں دستور سازی، قانون سازی اور معاہدہ عمرانی (سوشل کنٹریکٹ) کی اصطلاحات علمی و فکری حلقوں میں مسلسل زیربحث ہیں اور ان کے حوالہ سے مختلف افکار و نظریات سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کی صورت میں اسلامی احکام و قوانین کا وسیع ترین ذخیرہ موجود ہے اس لیے کسی قسم کی دستور سازی، قانون سازی اور عمرانی معاہدات کی ضرورت نہیں ہے۔ اور چونکہ ایک اسلامی ریاست قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کی ہدایات کے مطابق مملکت و حکومت کا نظام چلانے کی پابند ہے اس لیے مزید قانون سازی محض تکلف ہے۔ جبکہ دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ جب سے قومی ریاستوں کا دور چلا ہے تب سے کسی بھی ریاست کے لیے دستور سازی اور قانون سازی ایک ناگزیر امر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور ریاست کے شہریوں کے درمیان معاشرت کے بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے کے اظہار کے لیے سوشل معاہدہ اس کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
معاہدہ عمرانی سے مراد یہ ہے کہ ایک ملک کے شہری کچھ بنیادی اصولوں اور اخلاقیات پر اتفاق کر لیں تاکہ ان کے مطابق ان کے ملک کا سیاسی، مالیاتی، انتظامی، عدالتی اور معاشرتی نظم چلایا جا سکے۔ ان اصولوں کی روشنی میں حکومت چلانے کے لیے جو اصول و ضوابط طے پاتے ہیں وہ دستور کہلاتے ہیں اور دستور کے عملی اطلاق و تنفیذ کے لیے جو قوانین و ضوابط تشکیل دیے جاتے ہیں انہیں قانون سازی کے دائرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘‘ کو ’’معاہدہ عمرانی‘‘ کی حیثیت حاصل ہے جس کی بنیاد پر دستورِ پاکستان ترتیب پایا ہے۔ اور دستور کی روشنی میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں اس پر عملدرآمد کے لیے قانون سازی کرتی ہیں۔
قراردادِ مقاصد تین بنیادی اصولوں پر مشتمل ہے:
  1. حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔
  2. حکمرانی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے۔
  3. حکومت اور پارلیمنٹ اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے پابند ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ حضرات جو ان اصولوں سے اتفاق نہیں رکھتے اور دستور و نظام کو اللہ تعالیٰ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور وحی الٰہی کے حوالہ سے خالی دیکھنا چاہتے ہیں، ان کی طرف سے یہ مطالبہ وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے کہ نئے عمرانی معاہدہ کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کی دیگر بہت سی قومی ریاستوں کی طرح پاکستان کے دستور و قانون کو بھی آسمانی تعلیمات کے دائرے سے الگ کیا جا سکے۔ یا اگر قرآن و سنت کا تذکرہ ضروری ہو تو اس کی حیثیت برطانیہ کی بادشاہت کی طرح محض علامتی سی ہو اور آسمانی تعلیمات کا ملک کے دستور و قانون اور نظام و معاشرت میں کوئی عملی کردار باقی نہ رہے۔
ایک دور تھا جب دنیا میں حکومت و قانون کی دو بنیادیں ہوتی تھیں:
حضرات انبیاء کرام کی حکومت عام طور پر دعوت و اصلاح کی محنت کے ذریعہ قائم ہوتی تھی جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پر طاقت کے زور سے قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ دعوت و اصلاح کے ساتھ ساتھ یثرب کے دو بڑے قبائل اوس اور خزرج کے ساتھ کم و بیش تین سال کے طویل مذاکرات کے بعد ان کی حکومت تشکیل پائی تھی۔ جبکہ خلافت کا آغاز بھی طاقت کے بل پر نہیں ہوا تھا کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق نے حکومت جنگ کے ذریعہ حاصل نہیں کی تھی بلکہ امت کی اجتماعی صوابدید حضرت ابوبکر کے حق حکمرانی کی اساس بنی تھی۔ اس لیے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ اسلامی ریاست و حکومت کی اصل بنیاد طاقت و قوت نہیں بلکہ دعوت و اصلاح اور مکالمہ و مذاکرہ ہے۔ اور اس ذریعہ سے وجود میں آنے والی ریاست و حکومت ہی ایک مثالی اور آئیڈیل اسلامی حکومت کہلا سکتی ہے۔
چنانچہ قرآن و سنت کی بالادستی سے ہٹ کر کسی نئے عمرانی معاہدہ کی تو اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن کیا قرآن و سنت کی بالادستی پر ایمان رکھتے ہوئے ان کی روشنی میں کی جانے والی قانون سازی کا بھی کوئی جواز نہیں ہے؟ ہمارے خیال میں اس بات سے اتفاق ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ قانون سازی قرآن و سنت کے احکام سے انحراف نہیں بلکہ انہی احکام و قوانین کے نظام و ترویج کی عملی صورتیں پیدا کرنے کے لیے کی جاتی ہے کیونکہ حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ ہر زمانہ میں ان عملی صورتوں پر نظر ثانی کی ضرورت سامنے آتی رہتی ہے جسے نظر انداز کردینا ممکن نہیں ہوتا۔ صحابہ کرام کی جماعت اور ان کا زمانہ اس حوالہ سے ہمارے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہے اس لیے کہ حضرات خلفاء راشدین اور ان کے ساتھ حضرت امیر معاویہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر نے اپنے اپنے دورِ خلافت میں احکام شرعیہ پر عملدرآمد کے لیے اپنے ماتحتوں کو جو ہدایات جاری کیں وہ کم و بیش سبھی حدیث و تاریخ کے ذخیرہ میں محفوظ ہیں۔ انہیں اگر ترتیب کے ساتھ جمع کر لیا جائے تو دورِ صحابہ کی قانون سازی کا ایک مسلسل عمل ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ ان میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کی عملی صورتیں خلفاء کرام نے متعین فرمائیں اور اسی کو قانون سازی کہا جاتا ہے۔ ان میں وہ بیسیوں فیصلے بھی موجود ہیں جو اجتماعی مشاورت کے ساتھ طے پائے اور اگر ان مشاورتی مجالس کو قانون سازی کی مجالس سے تعبیر کر دیا جائے تو یہ کوئی خلافِ واقعہ بات نہیں ہوگی۔
پھر امام ابوحنیفہ نے تو اس قانون سازی کو مستقل فقہی عمل کی حیثیت دے دی تھی۔ ان کی فقہی مجلس میں باہمی مشاورت و مذاکرہ کے ذریعہ جو قوانین مرتب کیے گئے وہ ایک لاکھ کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں اور وہ صدیوں تک خلافت عباسیہ، خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت میں نافذ العمل رہے۔ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کی ایک علمی مجلس میں اس منظم اور مرتب قانون سازی کا میں نے ذکر کیا تو ایک فاضل دوست نے کہا کہ یہ پرائیویٹ عمل تھا جسے قبولیت عامہ حاصل ہوگئی جبکہ سرکاری سطح پر اس طرح کا کوئی باضابطہ کام اس دور میں نہیں ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ مغالطہ ہے کیونکہ سرکاری سطح پر بھی اسی دور میں یہ کام ہوگیا تھا۔ نامور عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے چیف جسٹس قاضی ابویوسف سے فرمائش کر کے اسلام کے مالیاتی قوانین مرتب کروائے تھے جو نافذ العمل رہے، اور یہ مجموعہ قوانین ’’کتاب الخراج‘‘ کے نام سے اب بھی ہر بڑے دینی ادارہ کی لائبریری میں موجود ہے۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ امام ابویوسف کی اس کتاب کا نام ’’الخراج‘‘ ہے او رکہنے کو یہ مالیاتی قوانین کا مجموعہ ہے جو عباسی دور میں باقاعدہ نافذ العمل تھا۔ لیکن اس میں صرف مالیاتی قوانین نہیں ہیں بلکہ
میں کتاب پر نظر ڈالتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ دور اگرچہ آج کی طرح کی منظم دستور سازی کا زمانہ نہیں تھا لیکن اگر کسی فرد یا جماعت کو دستور سازی کا کام سونپا جاتا تو وہ بھی کم و بیش وہی کچھ کرتا جو امام ابویوسف نے کیا ہے۔ اس لیے قرآن و سنت کے اصول و ضوابط کی روشنی میں احکام شرعیہ کو عملی قوانین کی شکل دینا، نہ صرف ان پر عملدرآمد کا تقاضا ہے بلکہ صحابہ کرام، خلفاء راشدین، اور فقہاء عظام کی علمی خدمات کا تسلسل بھی ہے جس کی افادیت و ضرورت سے کسی دور میں صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ہے۔

دیوبندی بریلوی اختلافات : سراج الدین امجد صاحب کے تجزیے پر ایک نظر (۲)

کاشف اقبال نقشبندی

تقدیس الوکیل پر ایک نظر

صاحب مضمون نے جس دوسری کتاب کا ذکر کیا ہے اور جس کے پڑھنے کی قارئین کو تلقین کی ہے، وہ ہے’’ تقدیس الوکیل‘‘۔ کتاب کے متعلق کچھ لکھنے سے قبل اس کے پس منظر کا جاننااشد ضروی ہے۔ 
بہاولپور میں نواب آف بہاولپور نے جامعہ عباسیہ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کررکھا تھا۔ نواب صاحب آف بہاولپور خواجہ غلام فریدؒ چاچڑاں شریف والے کے مرید تھے۔نواب صاحب نے خواجہ ؒ صاحب کو مشورہ دیاتھا کہ صدر مدرس دیوبند سے منگوائیں ۔ یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ علمی حلقوں میں آج کی طرح اس وقت بھی دیوبند ہی کانام چلتا تھا۔ چنانچہ مولانا خلیل احمد سہارنپوری شارح ابو داؤدجامعہ عباسیہ تشریف لائے۔آپ کے یہاں آنے سے علمی زندگی میں بہار آگئی۔ علاقہ کے بعض علماء حسد کی آگ میں جلنے لگے اور نواب صاحب آف بہاولپورکو اس پہلو سے بدگمان کیا کہ آپ کی علمائے دیوبند سے وابستگی آپ کو انگریز حکومت کے ہاں مشکوک بنا دے گی اور ہمارے سیاسی و سماجی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے ، آپ ان سے ہر طریق سے بچیں۔
مولانا غلام دستگیر قصوری کے ایک شاگردمولانا زمان شاہ ہمدانی بہاولپور رہتے تھے۔ آپ مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے بھی شاگرد تھے اور ان سے اکتساب علم کیا تھا۔ مولانا غلام دستگیر قصوری جب کبھی بہاولپور جاتے تو مولانا سید زمان شاہ کے ہاں قیام فرماتے، سو ان کی ذات اس جہت سے مجمع البحرین بنی ہوئی تھی۔ تاہم یہ صحیح ہے کہ آپ پر ریاست کے سیاسی تقاضوں کا خاصا اثر تھا۔ ریاست میں مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے خلاف ایک طوفان اٹھا اور ہر طرح سے کوشش کی گئی کہ جس طرح بن پڑے مولانا یہاں سے ہندوستان واپس چلے جائیں ۔ بات چلتے چلتے مناظرہ تک پہنچی۔مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب سے اجازت بھی لے لی۔
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ صاحب کی سرپرستی میں مناظرہ شروع ہوا۔ مولانا غلام دستگیر صاحب خود منا ظر نہ بنے، آپ نے اپنی طرف سے تلیری(ضلع مظفر گڑھ ) کے مولانا سلطان محمود صاحب کو کھڑا کیا۔ امکان کذب کا موضوع زیر بحث آیا کہ مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے عقیدہ سے ذات باری تعالیٰ کی توہین لازم آتی ہے۔ علماء تو جانتے ہیں کہ لزوم اور التزام میں کیا فرق ہے۔ کسی عبارت سے کسی عبارت کا لازم آنا اور بات ہے، اور قائل کی طرف سے اس معنی کا التزام امردیگر ہے۔ جب تک قائل اس جہت کا التزام نہ کرے، اس کا عقیدہ نہیں کہا جاسکتا۔ بہر حال مولانا غلام دستگیر صاحب اس لزوم کے مدعی قرار پائے اور مولانا سلطان محمود مناظر قرار پائے۔
مناظرہ کے بعد کس کا پلہ بھای رہااور کس کا کمزور؟ یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں۔ مناظرہ کے بعد خواجہ غلام فرید صاحب کا مولانا خلیل احمد صاحب کو اپنے ساتھ لے جانا اور اپنی مہمانی میں رکھنا اور نواب صاحب کا انہیں بصد عزت و احترام واپس بھیجنا، اصل صورت حال کی خبر دے رہا ہے۔خواجہ غلام فرید نے مولانا سہارنپوری کی کتاب ’’ہدایۃ رشید‘‘ پر جو تقریظ لکھی ہے، اس سے بھی مولانا خلیل احمد صاحب سے خواجہ صاحب کی عقیدت کا پتہ چلتا ہے۔
مناظرہ کی فتح شکست کی اصل صورت حال کا اندازہ مولانا سید زمان شاہ ہمدانی جو مولانا غلام دستگیر قصوری کے بھی شاگرد تھے، کے ایک خط سے ہوتا ہے ۔ یہ خط فارسی میں ہے اور تین پائی(ایک پیسہ) کے پوسٹ کارڈ(جس پر ملکہ وکٹوریہ کی تصویر والی ٹکٹ ہے) پر لکھا ہوا ہے۔ یہ قصور کے حضرت مولانا سید محمد عبدالحق شاہ صاحب کے نام ہے۔موصوف مولانا سید زمان شاہ ہمدانی کے بہنوئی تھے اور خالہ زاد بھائی بھی۔مولانا سید عبدالحق صاحب مولانا غلام دستگیر صاحب کے شاگرد بھی تھے اور اس مناظرہ کی اصل صحیح صورت حال جاننا چاہتے تھے۔ یہاں خط کا ترجمہ ہدیہ قائین کیا جاتا ہے:
’’وہ جو آپ نے انجام مباحثہ کی اصل حقیقت کے بارے میں پوچھا ہے، زمانے کی دگرگونی کے باعث میرے لیے یہ تکلیف مالایطاق ہے، تاہم جناب کے حکم کو مقدم سمجھتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ عالمان باانصاف کی نظر میں سہارنپوری مولوی کا غلبہ تامہ رہااور کسی قسم کی ان میں کمزوری نہ رہی، بلکہ یہ بات ممکنات میں سے نہ رہی کہ دوسرافریق غالب آسکے، مگر چونکہ یہاں کے کچھ لوگوں کو مولانا سہارنپوری سے ذاتی عداوت ہوگئی ہے، اس لیے وہ مولاناکو ناحق اور بے موجب شکست کا الزام دینے لگے اور آپ کی ایذا رسانی کے درپے ہوئے۔ لیکن الحق یعلوولایعلی کے مطابق دشمنوں کے برے ارادے پورے نہ ہونے پائے اور اللہ عزاسمہ نے مولانا سہارنپوری کو حفظ وشان اور عافیت سے وطن واپس پہنچایا۔ اس تحریر کو قسم اور حلف سے موکد تصور کریں اور ساری بات کومولانا غلام دستگیرصاحب سے پوری طرح مخفی رکھیں اور اس سلسلہ میں تاکید مزید عرض ہے اور خبر دینے والے تمام لاگوں سے اسے چھپائے رکھیں، بلکہ پڑھنے کے بعد اسے پھاڑ دیں۔‘‘
دستخط سید محمد زمان شاہ
یہ اصلی خط حضرت مولانا سید مبارک علی شاہ ہمدانی کے پاس محفوظ تھاجوآپ کے صاحبزادہ مولانا محمد طیب ہمدانی نے مکہ مکرمہ میں شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ کو دیا۔
مولانا غلام دستگیر قصوری نے مناظرہ بہاولپور کے بعد’’ تقدیس الوکیل عن توہین الرشید والخلیل‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس میں آپ کا زور کلام لزوم سے آگے نہیں چلتا، التزام تو ایک بڑی بات ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کا فتوی ’’فتاوی رشیدیہ‘‘ میں موجود ہے جو اس بیجا الزام کی کھلے بندوں تردید کررہا ۔ہے(مطالعہ بریلویت ج ۳، از علامہ خالد محمودمانچسٹروی)
تقدیس الوکیل کی کارروائی خانہ ساز تھی، اس کا اندازہ’’ تذکرۃ الخلیل‘‘ ص ۱۴۵ کی اس روایت سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ مولانا عاشق الہی میرٹھی صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ بلفظہ مناظرہ جس طرح تحریر ہوا تھا، اس لیے ہم نہیں لکھ سکے کہ جو مناظرہ مولوی عبدالمالک صاحب لکھتے تھے، ہم نے اس کی نقل لینے کی درخواست بخدمت جناب میر ابراہیم علی صاحب، جناب سید غلام مرتضی شاہ صاحب کی تھی اور انہوں نے ہم کو اس کی نقل کی اجازت دے دی تھی اور وہ کاغذات سرکاری طور پر بتوسط جناب مرزاجنڈوڈہ خان صاحب، جناب میا ں صاحب کی خدمت میں محفوظ رکھے تھے اور جناب سید غلام مرتضی شاہ صاحب نے فرمایا تھا کہ کل صبح کو کسی کو بھیج دینا نقل کر کے لے جائے گا۔ دوسرے روز مولانا خود مع چند طلبہ دولت خانہ بخدمت جناب شاہ صاحب گئے اور نقل کے لیے کہا۔ جناب شاہ صاحب نے براہ مہربانی اسی وقت آدمی کو بھیج کر میاں صاحب کے ایک خلیفہ کو بلایا اور کاغذات مناظرہ کے لانے کے واسطے حکم کیا۔ چنانچہ وہ گیا اور واپس آکر یہ جواب لایا کہ جناب میاں صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس کاغذات نہیں ہیں۔ خلیل احمد کا آدمی لکھتا تھا، اسی کے پاس ہو ں گے۔میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا واقعی میاں یہ میاں صاحب کا ہی جواب ہے بلکہ کچھ عجیب نہیں، یہ بیچ میں حضرت غلام دستگیر ہی کی کاروائی ہے‘‘....الخ
مناظرہ کی بلفظہ تحریر نہ دینے میں خدا جانے کو ن سے عوامل کار فرماتھے ، لیکن اگر اس مناظرہ کی بلفظہ تحریر فریقین کو مل جاتی تو اس سے فریقین کے موقف کا بہتر طور پر اندازہ کیا جاسکتا تھا۔
خواجہ غلام فرید ؒ جن کی سرپرستی میں مناظرہ ہوا تھا، کا مناظرہ کے بعد بھی علماء دیوبند کے بارے میں عقیدت و محبت قائم رکھنا ایک عام قار ی کو’’ تقدیس الوکیل ‘‘کا مطالعہ ضرور الجھن میں ڈال دیتا ہے ۔ خواجہ غلام فرید ؒ کی دیوبندی مکتب فکر کے علماء سے محبت و عقیدت کے حوالے سے ان کے ملفوظات ’’اشارات فریدی ‘‘کا مطالعہ اس ضمن میں کافی مفید رہے گا۔ایک حوالہ اس ضمن میں پیش کیے دیتا ہوں۔اشارات فریدی کے مقدمہ میںیوں لکھا ہے :
’’ تمام اکابر دیوبند میں سے مولانا رشید احمد گنگوہی زیادہ سخت مطبع تھے۔ آپ کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی ہجرت کے بعدان کے تمام مریدین اور خلفاء ہندوستان میں سرپرست اور سربراہ مولانا رشید احمد گنگوہی مانے جاتے ہیں۔ آپ پر شریعت کے معاملہ میں سخت احتیاط کا پہلو غالب تھا‘‘ (اشارات فریدی ص ۱۷۳)
آگے ایک اور مقام پر خواجہ صاحب کے حوالے سے لکھا ہے: 
مولانا رشید احمد گنگوہی بھی حاجی صاحب کے مرید اور خلیفہ اکبر ہیں ۔ ان کے اور خلفاء بھی بہت ہیں چنانچہ مولوی محمد قاسم صاحبؒ اور مولوی محمد یعقوب صاحب وغیر ہم.....اگرچہ دارلعلوم کے بانی مبانی مولانا محمد قاسم نانوری مشہور ہیں لیکن دراصل یہ دارلعلوم حضرت حاجی امداد اللہ قدس سرہ کے حکم پرجاری ہوا۔‘‘ (اشارات فریدی ص ۳۵۲)
حاشیہ پر لکھا ہے:
’’حضرت خواجہ صاحب کے اس ملفوظہ سے ثابت ہواکہ مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی وغیرہم علمائے دیوبند صحیح معنوں میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خلیفہ اور اہل طریقت تھے حالانکہ بعض صوفی حضرات ان کو غلط فہمی سے وہابی کہتے تھے۔‘‘ (ایضاً)
دیوبند مکتب فکرکے اکابرین علماء کی اپنے ہم عصر غیر دیوبندی علماء کے ساتھ محبت و عقیدت کے حوالے سے ’’علماء دیوبند معاصرین کی نظر میں‘‘ اور شیخ الحدیث مولانا منیر احمد منور کی کتاب ’’اکابرین علماء دیوبند کیا تھے‘‘ کا مطالعہ کافی مفید رہے گا۔

حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ کے جواب میں

دیوبندی، بریلوی اختلاف کی اصل وجہ اگر دیکھی جائے تو مولانا احمد رضاخان بریلوی کا وہ تکفیری فتوی ہے جو حسام الحرمین کے نام سے چھپا ۔بریلوی مکتب فکر کے تمام بڑے علماء دیوبندی بریلوی اختلاف کو حسام الحرمین میں درج علماء دیوبند کی عبارات ہی کو گردانتے ہیں۔صاحب مضمون کو بھی اقرار ہے کہ طرفین کے علماء(دیوبندی و بریلی) کا اختلاف اور اس میں انتہائی شدت حسام الحرمین کے منظر عام پر آنے کے بعد ہوئی۔
مولانا احمد رضاخان صاحب بریلوی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ انتہائی متشدد تھے اورمخالفین کے بارے میں انتہائی سخت زبان استعما ل کرتے تھے۔چنانچہ مولانا نعیم الدین مرادآبادی جو آپ کے شاگرد خاص تھے اور انہوں نے ہی مولانا احمد رضاخان کے ترجمہ ’’کنزالایمان‘‘ کا حاشیہ بھی لکھا جو’’ خزائن العرفان‘‘ کے نام سے مشہور ہے، مولانا احمد رضاخان صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے:
’’حضور! آپ کی کتابوں میں وہابیوں دیوبندیوں اور غیر مقلدوں کے عقائد باطلہ کا رد ایسے سخت الفاظ میں ہوا کرتا ہے کہ آج کل جو تہذیب کے مدعی ہیں، وہ چند سطریں دیکھنے کے بعد ہی حضور کی کتابوں کو پھینک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان میں تو گالیاں بھری ہیں۔‘‘ (سوانح امام احمد رضاص ۱۳۱ بحوالہ فیضان اعلی حضرت ص ۲۷۵)
مولانا احمد رضاخان بریلوی کے بارے میں ممتا زبریلوی علماء کی کتب پڑھیں تو ایک بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا احمد رضاخان بریلوی کا مزاج حددرجہ اختلافی تھا۔ مفتی سید شجاعت علی قادری کی تصریح سے جو حقائق شرح صحیح مسلم و دقائق تبیان القرآن میں ہے، اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ؛چنانچہ لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے علمی ذخائر میں یہ تلاش کرناکچھ مشکل نہیں کہ آپ نے کس سے اختلاف نہ کیابلکہ اصل دقت طلب کام یہ ہے کہ وہ کون سا فقیہ ہے جس سے مولانا نے بالکل اختلاف نہ کیا ہو۔ اگر ایسا کوئی شخص نکل آئے تو یہ ایک بڑی تحقیق ہوگی۔‘‘ (ص ۱۷۰) 
آگے ایک اور مقام پر ہے:
’’مجدد برحق امام احمد رضانے اکابر صحابہ اور ائمہ مجتہدین(امام اعظم ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل) رضی اللہ تعالی علیہم اجمعین کے موقف سے اختلاف فرمایا ہے‘‘ (ص ۱۷۳)
یہ حقیقت ہے کہ دیوبندی و بریلی اختلاف کی اصل بنیاد احمد رضاخان کی حسام الحرمین بنی ۔مولانا احمد رضاخان بریلوی کے ایک معتقد و سوانح نگارقاری احمد پیلی بھیتی ’’سوانح اعلیٰ حضرت‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
’’۱۲۹۷ ھ میں مولانا شاہ احمد رضاخان نے قلم اٹھایا، کثرت سے کتابیں لکھیں، فتوے صادر کیے ، حرمین شریفین کے سفر میں مشاہیر علماء حرمین سے علماء دیوبندکے خلاف تصدیقات حاصل کیں جن کو حسام الحرمین کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا۔ مولانا احمد رضاخان بریلوی پچاس سال مسلسل اسی جدوجہد میں منہمک رہے یہاں تک کے مستقل دو مکتبہ فکرقائم ہوگئے، بریلوی اور دیوبندی۔دونوں جماعتوں علماء اور عوام کے درمیان تخالف وتصادم کا یہ سلسلہ آج بھی بند نہیں ہوا ہے‘‘ (سوانح اعلیٰ حضرت، ص ۸)
ایک غیر جانبدار شخص جب اس عبارت کو پڑھتا ہے تو یہ ضرور سوچتا ہے کہ تفریق بین المسلمین آخر اتنا بڑا کارنامہ کیوں تھا کہ اس پر زندگی کے پچاس سال لگا دیے جائیں؟ مولانا احمد رضاخان بریلوی نے۱۹۰۲ء ؁ میں پہلی بار اپنی کتاب ’’المعتمد المستند‘‘ شائع کی جس میں پہلی دفعہ علماء دیوبند کی تکفیر کی علماء دیوبند جن میں مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور مولانا اشرف علی تھانوی کی بعض عبارات کو ہدف تنقید بنا کر تکفیر کی گئی۔ رسالہ چونکہ عربی میں تھا تو عوامی سطح پر اسے زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔ علماء دیوبند کی طرف سے بھی اس کو اہمیت نہ دی گئی کیونکہ اس سے پہلے مولانا احمد رضاخان بریلوی ندوۃ العلماء کے خلاف بھی کافی کچھ سخت لکھ چکے تھے۔ جیسا کہ ماقبل میں سیرت مولانا محمد علی مونگیری کے حوالہ سے لکھا جاچکا ہے کہ مولانا احمد رضاخان نے ندوہ کے بعض علماء کی تکفیر بھی کی تھی۔علماء دیوبند نے اس تکفیری مہم کو اسی کے قبیل سے سمجھا؛تا ہم بعض علماء نے اس کاجواب دینا شروع کیا اور وعظ و تقاریر میں علی الاعلان کہا جانے لگا کہ مولانا احمد رضاخان بریلوی کا ہم پر بہتان و افتراء ہے، ہمارے عقیدے ہرگز ایسے نہیں۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی نے۱۹۰۵ ء ؁ میں ایک منظم فتویٰ مرتب کیاجن میں علماء دیوبند کی بعض نامکمل عبارتوں کو نقل کرکے حجاز مقد س کا سفر کیا۔مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے علماء و مفتیان کرام سے مولانا احمد رضاخان بریلوی نے کہا کہ ’’ہندوستان میں اسلام پر بڑا سخت وقت آگیا ہے۔ مسلمانوں میں سے ہی بعض ایسے کافرانہ عقائد رکھنے والے پیدا ہوگئے ہیں جن کا عام مسلمانوں پر اثر پڑرہا ہے۔ ہم غرباء اس فتنہ کی روک تھام کررہے ہیں، مگر اس میں ہم کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے کیونکہ آپ حضرات مکہ و مدینہ کے رہنے والے ہیں تو دینی رہنمائی میں ہمیں آپ پر پورا اعتماد ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس فتوی پر آپ کی مہریں ہندوستان کے عام مسلمانوں کوکفرو بددینی کے سلاب سے روک سکتی ہیں وگرنہ یہ فتنہ اتنا شدید ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا ایمان پر قائم رہنا مشکل ہے۔المدد!المدد! اے لشکر محمدی کے شہسوارو!۔ (ملخصاً حسام الحرمین تمہید)گویا ہندوستانی مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت اس فتوی پر علماء حرمین کے دستخطوں اور مہروں پر مشروط تھی ۔
مولانا احمد رضاخان بریلوی نے تمہید میں فرقہ مرزائیہ وغیرہ کا ذکر بھی کیا جس سے عام تاثر یہ ملا کہ یہ فرقہ اسماعیلیہ (شاہ اسماعیل دیلوی کی طرف منسوب) اور فرقہ قاسمیہ (مولانا قاسم نانوتوی کی طرف منسوب)وغیرہ جدیدفرقہ بمثل مرزائیہ کے ہیں، چونکہ ان دنوں مرزائی فتنہ بام عروج پر تھا۔ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کے بہت سے نیک دل علماء نے مولانا احمد رضاخان بریلوی کی ان باتوں کو واقعہ سمجھا اور اس فتوی پر تصدیقیں لکھ دیں، بعض علماء نے احتیاط فرمائی اور اپنی بات مشروط کردی کہ اگر واقعی ان علماء کی طرف جو عقائد منسوب کیے ہیں اور ان میں ہیں تو یہ علماء کافر ہیں۔مولانا احمد رضاخان بریلوی نے مولانا قاسم نانوتوی پر انکار ختم نبوت اور مولانا رشید احمد گنگوہی پرتکذیب رب العز ت اور مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور مولانا اشرف علی تھانوی پر تنقیص و اہانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا الزام لگا کرتکفیر کی ۔
ہندوستان میں ایک شور برپا ہوگیا کہ ہندوستان کے ان علماء کرام کے متعلق مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے علماء و مفتیان کرام نے بھی کفر کا فتوی دیا ہے اور جو ان کے کفر میں شک کرے گا، وہ بھی کافر۔علماء حرمین کی تصدیقات نے ہندوستان کے سادہ لوح مسلمانوں کو بھی اس فتوی سے متاثر کیا۔اب جب علماء دیوبند نے دیکھا کہ سادہ لوح مسلمان حرمین کے علماء کے نام سے متاثر ہورہے ہیں تو ان حضرات نے اصل حقیقت کا اظہار ضروری سمجھا۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور مولانا اشرف علی تھانوی اس وقت بقیدحیات تھے، جب کہ مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی وفات پاچکے تھے۔ان دو حضرات نے اسی زمانے میں اپنے بیانات دے کر اپنی طرف منسوب کفریہ عقائد سے براء ت ظاہر کی اور صاف لکھا کہ’’ حسام الحرمین‘‘ میں جو عقائد ہماری طرف منسوب کیے گئے ہیں، وہ محض افتراء ہے، ان بزرگوں کے یہ بیانات اس دور کے رسائل’’السحاب المدار اور قطع الوتین ‘‘وغیرہ میں چھپ گئے تھے۔ مولانا تھانوی نے تو ایک مستقل رسالہ ’’بسط البنان ‘‘ شائع کیا۔
مولانا قسم نانوتوی پر انکار ختم نبوت کا الزام لگایا گیا،’’ تحذیر الناس‘‘ کی عبارت جو تین مختلف مقامات سے لی گئی ان کو ایک مستقل عبارت بنایا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ان تین مختلف فقروں کی ترتیب بھی بدل دی گئی یعنی تین فقرے جن میں ایک فقرہ صفحہ۳ کا ، ایک فقرہ ۱۴ کا ور ایک سفحہ ۲۸ کا تھا، ان کو ایسے کیا کہ صفحہ ۱۴ والے فقرے کو پہلے لکھا اور پھر صفحہ ۲۸ والے فقرے کو، صفحہ نمبر ۳ والے فقرے کو سب سے آخر میں لکھا۔اور صفحات کا نمبر تو درکنار ، فقروں کے درمیان امتیازی خط (ڈیش) تک نہ دیا گیا جس سے پڑھنے والا یہی سمجھنے پر مجبور ہو کہ یہ ایک مستقل عبارت ہے۔مولانا احمد رضاخان کی ترتیب بدلنے کایہ اثر ہوا کہ’’ تحذیر الناس‘‘ کے تینوں فقرے جو اپنے مفہوم میں واضح تھے اور جن کو علیحدہ علیحدہ اپنی جگہ دیکھنے پر انکار ختم نبوت کا وہم بھی نہیں ہوتا تھا، اس طرح عبارات کی ترتیب بدلنے سے انکار ختم نبوت کا مفہوم معلوم ہونے لگا۔ تکفیر جیسے مسئلہ میں اس بے احتیاطی پر مولانا احمد رضاخان بریلوی کے متعلق ہر گز یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتاکہ ان سے لاعلمی یا ناسمجھی کی وجہ سے ہوابلکہ مولاا حمد رضاخان بریلوی نے دانستہ طور پر ایسا کیا جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مولانا احمد رضاخان بریلوی نے تکفیر کے مسئلہ پر شرعی احتیاط کو ہر گز ملحوظ نہیں رکھا۔بہرحال یہ حقیقت بالکل ظاہر ہے کہ بعض اوقات کلام میں معمولی سی تحریف کردینے سے یا اس کی ترتیب الٹ دینے سے مضمون بدل جاتا ہے اور اس میں آسمان زمین کا فرق ہو جاتا ہے۔
مولانا قاسم نانوتوی کی تحذیر الناس اور دیگر تصنیفات کا مطالعہ کریں تو مولانااحمد رضاخا ن بریلوی کا یہ دعویٰ کہ مولانا نانوتوی ختم نبوت زمانی کے منکر ہیں، باطل ہوجاتا ہے ۔ یہاں ایک حوالہ پیر کرم شاہ الازہری کا پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو انہوں نے ’’تحذیر الناس میری نظر میں‘‘ مولانا نانوتوی کے متعلق لکھا ہے:
’’یہ کہنا درست نہیں سمجھتا کہ کہ مولانا ناتوی عقیدہ ختم نبوت کے منکر تھے کیونکہ یہ اقتباسات بطور عبارۃ النص اور اشارۃ النص اس امر پر بلا شبہ دلالت کرتے ہیں کہ مولانا ختم نبوت زمانی کو ضروریات دین سے یقین کرتے تھے اور اس کے دلائل کوقطعی اور متواتر سمجھتے تھے۔ انہوں نے اس بات کوصراحۃً ذکر کیا ہے کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت زمانی کا منکر ہے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (تحذیر الناس میری نظر میں ص ۵۸)
مولانا رشید احمد گنگوہی پر تکذیب رب العزت کا الزام لگایا اور کہا کہ ان کا فتوی مع مہر خود مولانا احمد رضاخان بریلوی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جس میں ہے کہ ایسا شخص جو خدا کو بالفعل جھوٹا مانے تو ایسے شخص کو کافر تو درکنار، فاسق بھی نہ کہو۔مولانا احمد رضاخان بریلوی نے حسام الحرمین میں مولانا رشید احمد گنگوہی کی طرف منسوب کرکے جس فتوے کا ذکرکیا ہے، اس کی کوئی اصل نہیں اور فتاوی رشیدیہ میں اس کے برعکس ہے۔چنانچہ ۱۳۲۳ھ ؁ میں مولانا سید مرتضی حسن چاند پوری نے مولانا احمد رضاخان کے ایک عقیدت مندمیاں جی عبدالرحمن کے ایک رسالہ میں اس فتوی کا ذکر دیکھا تو اسی وقت مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں گنگوہ عریضہ لکھا کہ مولانا اس مضمون کے فتوے کی نسبت کی جارہی ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟ تو جواب آیا کہ 
’’یہ سراسر افتراء اور بہتان ہے ۔بھلا میں ایسے کیسے لکھ سکتا ہوں؟‘‘
مولانا رشید احمد گنگوہی کے اس جواب کا ذکر مولانا سید مرتضی حسن چاند پوری نے اپنے متعدد رسائل ’’اسحاب المدار‘‘ اور’’ تزکیۃ الخواطر‘‘ وغیرہ میں کیا جو مولانا احمد رضاخان صاحب کی زندگی میں ا ن تک پہنچائے گئے۔
ادھر جب حرمین کے علماء کو یہ معلوم ہوا کہ ہندوستان میں جن علماء کے کفر کی تصدیقیں کروائی ہیں، وہ حضرات اور ان کے متبعین ان عقائد سے براء ت کا اظہار کررہے ہیں اور مولانا احمد رضاخان بریلوی نے اس ضمن میں غلط بیانی سے کام لیا ہے تو ایسی صورت حال میں عرب کے علماء نے دیوبند مکتب فکر کے علماء سے رجوع کرکے معاملہ کی تحقیق کرنا ضروری سمجھا۔ ان حضرات نے ۲۶؍ سوالات مرتب کیے اور علماء دیوبند سے ان کا جواب چاہا۔ یہ سب سوالات علماء دیوبند کے عقائد اور ان کے مسلک و مشرب کے متعلق تھے۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے ان کا مفصل و مدلل جواب تحریر فرمایا جس پر اس دور کے جماعت دیوبند کے قریباً سب ہی اکابرو مشاہیر نے تصدیقات لکھیں اورحرمین شریفین کے علما ء اور ان کے علاوہ مصر و شام کے ممالک کے اہل فتاوی کے پاس وہ جواب بھیجا گیا جس پر ان علماء نے تصدیق و تائید فرمائی کہ یہی عقیدے جو علماء دیوبند نے تحریر فرمائے ہیں، اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدے ہیں اور ان میں کوئی عقیدہ بھی اہل سنت کے خلاف نہیں۔یہ سارے سوالات وجوابات اور حرمین شریفین اور دوسرے ممالک کے لگ بھگ ۴۶؍ علماء کی تصدیقات اسی زمانہ میں جب کہ حسام الحرمین کو شائع ہوئے، کچھ زیادہ دن نہیں ہوئے تھے، ایک ضخیم رسالہ کی صورت میں ’’التصدیقات لدفع التلبیسات ‘‘کے نا م سے شائع ہوگئی تھیں۔واقعہ یہ ہے کہ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مولانا احمد رضاخان بریلوی اور ان کے متبعین ’’حسام الحرمین‘‘ میں موجود فتوی سے باز آتے؛ لیکن ایک غیر جانبدار شخص یہ سو چنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آیا وہ کون سے عوامل کارفرما تھے کہ علماء دیوبند کی طرف سے اتنی واضح وضاحت آنے کے باوجود دوسری طرف سے تکفیری مہم میں بال برابر بھی فر ق نہ آیا؟
مولانا حشمت علی خان پیلی بھیتی کی’’ الصوام الہندیہ‘‘ کے جواب میں مولانا حشمت علی کی ہی تکفیری سرگرمیوں کے طفیل دیوبندی مکتب فکر کے مولانا عبدالرؤف جگن پوری کی طرف سے ایک استفتاء ہندوستان بھر کے علماء کے سامنے پیش کیا گیا کہ مولانا حشمت علی پیلی بھیتی کے نزدیک مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور شاہ اسماعیل دہلوی معاذاللہ کافر ہیں تو جواب طلب امر یہ ہے کہ کیا واقعی بقول مولانا حشمت علی پیلی بھیتی کے حضرات اکابر علماء دیوبند کافر ہیں؟ جواب میں ہندوستان بھر کے تمام بڑے بڑے دینی مراکز کے تقریباً ۶۱۶ علماء نے علماء دیوبند کے بارے میں لکھا کہ علما ء دیوبند مسلمان اور مسلمانوں کے پیشوا ہیں۔ان تمام علماء کے ناموں کی فہرست مولانا عبدالرؤف جگن پوری نے ’’براء ت الابرار عن مکائد الاشرار‘‘ نامی کتاب میں شائع کی جو کہ ۱۹۳۴ء  میں طبع ہوئی۔
صاحب مضمون نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی، علامہ معین الدین اجمیری اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے متعلق یہ لکھا کہ یہ حضرات علماء دیوبند کی عبارات کو غلط ،گستاخانہ اور کفریہ تو سمجھتے تھے، لیکن علماء دیوبند کو کافر کہنے سے زبان کو روکے رکھا تھا۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس ضمن میں صاحب مضمون نے صحیح معنی میں بریلوی ہونے کا حق ادا کیا ہے کیونکہ ان حضرات کا موقف بالکل اس کے برعکس ہے جیسا کہ ان کی کتب اور ان کے شاگردں کی کتب سے ان کے بارے میں معلوم ہوتا ہے، چنانچہ بریلوی مکتب فکر کے ممتاز علماء کے استاذ جناب مولانا عطا ء محمد بندیولوی گولڑوی ’’سیف العطاء ‘‘ نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پیر مہر علی شاہ گولڑی علماء دیوبندکی تکفیر نہیں کرتے تھے۔ مولانا عبدالباری فرنگی محلی لکھتے ہیں ’’ہمارے اکابر نے اعیان دیوبند کی تکفیر نہیں کی ، اس واسطے جو حقوق اہل اسلام کے ہیں، ان سے ان کو کبھی محروم نہ رکھا‘‘ (الطاری الداری حصہ اول ص ۱۶)۔ جبکہ مولانا معین الدین اجمیری مرحو م معمولات میں مولانا احمد رضاخان بریلوی سے حد درجہ اختلاف رکھتے تھے، اس کا اندازہ مولانا معین الدین اجمیری کی ’’تجلیات انوارالمعین‘‘ کے مطالعہ سے بخوبی ہوتا ہے۔ یہ کتاب خاص مولانا احمد رضاخان بریلوی کو مخاطب کرکے لکھی گئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ مولانا معین الدین اجمیری کے سامنے جب علماء دیوبند کی تکفیر کا سوال آیا تو آپ نے علماء دیوبند کے متعلق فرمایا کہ
’ یہ حضرات مسلمان اور مسلمانوں کے پیشوا ہیں‘‘ (مولانا حکیم سید برکات احمد، سیرت اور علوم )
مذکورہ بالا مشائخ کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ حضرات علماء دیوبند کی بعض عبارات کو گستاخانہ ہی مانتے تھے لیکن تکفیر سے کف لسان کرتے تھے، صاحب مضمون کی حد درجہ غلط بیانی ہے ۔

رد بریلویت کی وجوہات اور پس منظر پر ایک نظر

سارے پس منظر سے ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ مولانا احمد رضاخان بریلوی نے تکفیر جیسے مسئلہ پر جس شرعی احتیاط کو ملحوظ رکھناتھا، وہ نہ رکھا اوراپنی عمر کے پچاس سال ہندوستان کے احناف کو دو گروہوں میں تقسیم کرنے پر برباد کر دیے۔ صاحب مضمون نے دیوبندی مکتب فکرکے متعلق یہ لکھا کہ علماء دیوبند کی طرف سے کوئی فتوی عقائد میں یا معمولات میں مولانا احمد رضاخان بریلوی کے خلاف نہیں شائع ہو،اگر ہوا بھی تو فاضل بریلوی کی وفات کے ۲۵، ۳۰ سال بعد ؛حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ دیوبند مکتب فکر کی طرف سے مولانا سید مرتضی حسن چاند پوری کے رسائل ہی کا مطالعہ کرلیا جائے تو اس کذب کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ مولانا سید حسین احمد مدنی نے مولانا احمد رضاخان بریلوی کی زندگی میں ہی ’’الشہاب الثاقب علی المسترق الکاذب‘‘ لکھی۔ مولانا سید مرتضی حسن چاند پوری نے متعدد رسائل فاضل بریلوی کی حیات میں لکھے اور مناظروں کا چیلنج دیا ۔ فاضل بریلوی کے اصرار کہ مناظرہ کے لیے مدمقابل مولانا سید مرتضی حسن چاند پوری کی بجائے مولانا اشرف علی تھانوی اگر تقریری مناظرہ کریں گے تو وہ مناظرہ کریں گے، کے جواب میں مولانا اشرف علی تھانوی جیسے معتدل مزاج شخصیت نے بریلوی دیوبندی قضیہ کے حل کے لیے مولانا احمد رضاخان بریلوی کی اس رائے کو منظور کرلیا اور تقریری مناظرہ کے لیے رضامندی کی تحریر بھی دے دی۔ لیکن افسوس! مولانا احمد رضاخان بریلوی کی مناظرہ سے پہلو تہی کی وجہ سے یہ مناظرہ منعقد نہ ہوسکا۔ اس پورے واقعہ کی روداد ’’ القاصمتہ الظہرفی بلند شہر‘‘ نامی رسالہ میں اسی زمانہ میں چھپ گئی تھی۔
مولانا انور شاہ کشمیری کے متعلق مضمون نگار نے یہ لکھا ہے کہ انہوں نے مقدمہ بہاولپور میں بریلوی حضرات کے متعلق اپنے بیان میں لکھا کہ وہ کسی صورت بریلویوں کی تکفیر نہیں کرتے تو مولانا انور شاہ کشمیری کے اس بیان کا مقصد جو سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ تھا کہ بریلوی عوام کی وہ تکفیر نہیں کرتے کیونکہ خاص علم غیب کے رد کے عنوان پر تومولانا کا اپنا رسالہ ’’سہم الغیب فی کبد اہل الریب‘‘ موجود ہے۔ (یہ بھی یاد رہے کہ مقدمہ بہاولپو میں شیخ الجامعہ غلام محمد گھوٹوی، خلیفہ مجاز جناب پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے قادیانیوں کے مقابل علماء بریلویہ کی بجائے علماء دیوبند کے چوٹی کے علماء کو مدعوکیا جن میں علامہ انور شاہ کشمیری ، مفتی محمد شفیع اور مولانا سید مرتضی حسن چاند پوری وغیرہ شامل تھے)۔
اس کے علاو بریلوی مکتب فکر کی کتب کی بعض عبارات، مثلاً مولانا احمد رضاخان بریلوی کی وصیت جو کہ وصایا شریف کے نام سے چھپی تھی، میں مولانا حسنین رضاخان کی عبارت اور سید ایوب علی رضوی(سید ایوب علی رضوی بریلوی مولانا احمد رضاخان بریلوی کے خلفاء میں سے تھے ) کی نغمتہ الروح کی بعض عبارات پر ہندوستان بھر سے ۳۹۰ ؍کے لگ بھگ علماء نے کفر کا فتویٰ جاری کیا تھا ۔ مولانا عبدالرؤف جگن پوری صاحب نے ان ناموں کی فہرست ’’خنجر ایمانی بر حلقوم رضاخانی‘‘ کے نام سے شائع کی تھی۔ہاں البتہ دیوبندی بریلوی نزاع کو ختم کرنے کی دوسری اور بڑی کاوش۱۳۵۴ھ ؁ میں فاضل بریلوی کی وفات کے بعدمولانا منظور نعمانی نے کی۔ مولانا منظور نعمانی اور مولانا حشمت علی خان خلیفہ مولانا احمد رضاخان بریلوی کے درمیان عبارات کے موضوع پر لاہور میں مناظرہ ہونا طے پایا تھا جس کے لیے علامہ اقبال ؒ ،پروفیسر علامہ اصغر علی روحی اور شیخ صادق حسن امرتسری حکَم طے پائے تھے۔افسوس دیوبندی، بریلوی نزاع کے خاتمے کی یہ کاوش بھی رائیگاں گئی۔مکمل تفصیل مولانا منظور نعمانی کے رسالہ ’’فیصلہ کن مناظرہ‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے)
پاکستان میں بریلوی مکتب فکر کی صحیح نمائندگی مفتی احمد یار خان نعیمی اور مولانا محمد عمر اچھروی نے کی۔ ان دو حضرات نے بریلوی مکتب فکر میں رائج باطل عقائد ومعمولات اور خرافات کو دلائل سے مزین کیا۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ مفتی احمد یار نعیمی کی جاء الحق اور مولانا محمد عمر اچھروی کی مقیاس حنفیت نے بریلوی مذہب کو مدون کیا۔ مولانا سرفراز خان صفدر کی جملہ کتب ان دو کتب جا ء الحق اور مقیاس حنفیت میں درج مسائل کو بنیاد بنا کر ہی لکھی گئی ہیں۔ اس سے ایک بات اور بھی معلوم ہوئی کہ قیام پاکستان کے بعد ان دو حضرات کی کتب ہی دیوبندی، بریلوی نزاع (جو تقسیم کے وقت کہیں دب چکا تھا) کو اجاگر کرنے کا باعث بنی۔جواباً علماء دیوبند کی طرف سے مولانا غلام اللہ خان اور مولانا سرفراز خان صفدر کی صورت میں رد عمل آنا فطری تھا۔
صاحب مضمون نے مولانا حسین علی واں بھچراں کے متعلق یہ لکھا کہ انہوں نے اور بعد میں ان کے شاگردوں نے پاکستان میں دیوبندی، بریلوی اختلاف کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور یہ بھی کہ مولاناحسین علی واں بھچراں، پیر مہر علی شاہ جیسے صوفی مست بزرگ کو مناظرہ کا چیلنج دیتے رہے۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ مولانا حسین علی واں بھچراں اور پیر مہر علی شاہ کے درمیان علمی مسائل پر بحث کو دیوبندی ، بریلوی نزاع پر قیاس نہیں کیا جاسکتااور مولانا غلام محمد گھوٹوی اس سارے واقعہ میں آپ کے ساتھ تھے اور مولانا حسین علی واں بھچراں سے بات کرنے کے لیے پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے آپ ہی کو منتخب کیا تھا، لیکن اس کے باوجود جب مولانا غلام محمد گھوٹوی سے علماء دیوبند کے اکابر اربعہ کے کفرو ایمان کے متعلق پوچھا گیا تو آپ (مولانا غلام محمد گھوٹوی) نے فرمایا کہ
’’یہ اکابر علماء دیوبند ہرگز کافر نہیں، بلکہ بڑے اولیاء اللہ ہیں‘‘ (براء ۃ الابرار ص۹۸)
پھر مقدمہ بہاولپور میں شہادت دینے کے لیے دیوبند کے فاضلین کا انتخاب بھی اس تاثر کو غلط ثابت کرتا ہے کہ خانقاہ گولڑہ شریف سے وابستہ حضرات کاعلماء دیوبند سے اختلاف مولانا احمد ضاخان بریلوی اور ان کے متبعین کے طرز کا تھا۔ مولانا حسین علی واں بھچروی کے متعلق یہ کہنا کہ ’مماتی فکر آنجناب کی فکر کا شاخسانہ تھی ‘قطعاً درست نہیں جس کا جواب مولانا بھچروی ہی کے شاگرد مولانا سرفراز خان صفدر نے تفصیلاًاپنی کتاب’’ سماع موتی‘‘ میں دے دیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ پیر مہر علی شاہ صاب مرحوم علم غیب کے متعلق نظریہ میں علماء دیوبند کے ساتھ ہیں ۔ اعلاء کلمتہ اللہ میں پیر صاحب لکھتے ہیں کہ جس خبر کی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسم خبر دیتے ہیں، وہ وحی،کشف، الہام کے ذریعہ سے دیتے ہیں اور یہ علم غیب نہیں(مخلصاً)۔ دوسرا ایک جگہ مرزا قادیانی کے اس قول کا کہ قیامت سات ہزار سال سے پہلے نہیں آسکتی، کا رد کرتے ہوئے ان نصوص کے منافی قرار دیا جن میں ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اب دیکھا جائے تو فاضل بریلوی اور اس کے متبعین کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وقوع قیامت کا کہ کب آئے گی، اس کا بھی علم تھا۔
صاحب مضمون نے لکھا ہے کہ پاکستان میں فاضل بریلوی پر تحقیقی انداز میں سب سے پہلے ڈاکٹر مسعود نقشبندی اور حکیم محمد موسیٰ امرتسری نے کام کیا۔ جب کہ ہم ماقبل میں یہ لکھ آئے ہیں کہ فاضل بریلوی کی فکری ، نظریاتی اور اعتقادی سوچ کوپاکستان میں سے پہلے مولانا عمر اچھروی اور مفتی احمد یار خان نعیمی کتابی شکل میں مدون کرچکے تھے اور اسی کے رد عمل کے طور پرمولانا سرفراز خان صفدر جیسی شخصیات نے ہندوستان کے اکابر علماء کی تعلیمات کے تحفظ کے لیے علمی اندازمیں قلم اٹھایا۔مولانا عمر اچھروی اور مفتی احمد یار خان نعیمی کے متعلق ہم ماقبل میں لکھ چکے ہیں کہ ہندوستان کے اکابرعلماء سے ان حضرات نے اختلاف کیا۔
پنجاب کے دیگر مشائخ کے موقف کا ہم اگر باغور جائزہ لیں تو پیر مہر علی شاہ مرحوم سمیت پنجاب کے بڑے علمی گھرانے خانقاہ سیال شریف سے منسلک تھے۔مولانا ذاکر صاحب بانی جامعہ محمدی شریف جھنگ (جن کا تذکرہ خیر صاحب مضمون نے بھی کیا ہے) خواجہ ضیاء الدین سیالوی مرحوم جو کہ خواجہ قمرالدین سیالوی کے والد تھے، کے متعلق فرماتے ہیں کہ جب خواجہ صاحب دیوبند تشریف لائے تو آپ نے فرمایا کہ ’’یہاں آکر میں نے اصلی حنفیت دیکھی ہے‘‘ (ملاحظہ کیجیے ہوالمعظم اور جامعہ محمدی کا مجلہ الجامعہ ستمبر۱۹..) معلوم ہوا کہ ہنددوستان میں اصل حنفیت کے علمبردار دیوبندی مکتب فکر کے علماء تھے۔ خانقاہ سیال شریف کے ہی خواجہ قمرالدین سیالوی کا مولانا قاسم نانوتوی کے متعلق یہ کہنا کہ میں ان کو اعلیٰ درجہ کا مسلمان مانتا ہوں (ملاحظہ کیجیے ڈھول کی آواز ) اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ فاضل بریلوی کے فتوی حسام الحرمین کی خانقاہ سیال شریف والوں کے ہاں کتنی قدرو قیمت تھی۔ اس کے علاوہ خانقاہ شرقپور شریف، خانقاہ جلال پور شریف ، خانقاہ سراجیاں وغیرہما کے مشائخ نے بھی احمد رضاخان بریلوی کی تکفیری مہم کا ساتھ نہ دیا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مطالعہ بریلویت جلد۱)
اس سارے پس منظر میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ دیوبندی معمولات و عقائد کو دیوبندی بریلوی نزا ع سے پہلے اور بعد کے علماء کی تائید حاصل تھی اور پنجاب کے مشائخ کا بعض جزئیات میں علماء دیوبند سے اختلاف کے باوجود آپس میں باہمی محبت و پیار کا تعلق قائم تھا ۔

عددی اکثریت

بریلویت کا مدار مولانا احمد رضاخان بریلوی کی اصولی نسبت پر ہے۔پس جو لوگ بعض معمولات میں مولانا احمد رضاخان کے ہم نوا ہوں، لیکن دوسرے فرقوں کو مسلمان جانتے ہوں تو ایسے لوگ بریلوی نہیں۔ کیوں کہ بریلوی مکتب فکر کے علماء نے جو بریلوی سنی ہونے کا معیا ررکھا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ عقائد و نظریا ت میں فاضل بریلوی کا ہم نوا ہو۔ اگر کوئی شخص فاضل بریلوی کے عقائد ونظریات سے اتفاق نہیں کرتا تو ایسا شخص بریلوی مکتب فکر کے علماء کے نزدیک مسلمان نہیں جیسا کہ ان کی معتبر کتابوں الصوارم الہندیہ، فتاوی صدرالافاضل وغیرہ میں درج ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ایک بریلوی وہ ہے جو’’ حسام الحرمین‘‘ کے فتوی کو مانتا ہو، اور موجودہ حرمین کے علماء کو مسلمان نہ جانتا ہو۔ اس معیار کو مدنظر رکھیں تو بہت سے لوگ معمولات میں توشاید بریلوی مکتب فکر کے ہم نوا ہوں، لیکن نظریات میں یکسر اختلاف کرتے ہیں۔ مشائخ و عوام میں سے وہ جو دیوبندی مکتب فکر کے علماء کی تکفیرنہیں کرتے، احمد رضاخان بریلوی کے ہم نوا نہیں ہیں۔ جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے اماموں کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں، ہرگز بریلوی نہیں۔
مثال کے طور پر مولوی حشمت علی پیلی بھیتی صاحب الصوارم الہندیہ کا سید محمدکچھوچھوی پر فتوی تکفیر محض اس بنا پر تھا کہ انہوں نے جمعہ کی نماز ایک دیوبندی امام کی اقتداء میں پڑھی تھی۔ یہ فتوی بعد میں انہوں نے ’ ’ ستر باادب سوالات‘‘ نام کے رسالہ میں چھاپ کر تقسیم کیا ۔ دوسری مثال جسٹس پیر کر م شاہ الازہری ہیں جنہوں نے ایک مکتوب میں دیوبندی مکتب فکر کے مولانا قاسم نانوتوی کی تحذیر الناس کی تعریف کی تھی۔جواباً بریلوی مکتب فکرکے بہت سے علماء کی جانب سے آپ کی تکفیراور رد میں کتابیں لکھی گئیں، جیسا کہ’’ علمی محاسبہ اور جسٹس کرم شاہ کا تنقیدی جائز ہ‘‘ وغیرہ کتابیں قابل ذکر ہیں۔تیسری مثال مفتی خلیل احمد خان صاحب برکاتی کی ہے۔آپ نے علماء دیوبند کے بارے اپنے تکفیری موقف سے رجوع کیا اور ایک کتاب بنام ’’انکشاف حق‘‘ لکھی جس میں مولانا احمد رضاخان بریلوی کے تکفیری فتوی پر عالمانہ و فاضلانہ بحث کی۔ کتاب ہی کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ محض احمد رضاخان کے تکفیری موقف سے رجوع کی بابت جماعت بریلویہ کی طرف سے ان پرکیسے کفر کے فتوے صادر کیے گئے۔
اس سارے پس منظر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بریلوی صرف وہی لوگ ہیں جو مولانا احمد رضاخان سے اپنی نسبت جوڑتے ہیں اور فتوی تکفیر میں مولانا کے ہم نوا ہیں۔ اب جتنے بھی علماء کے نام صاحب مضمون نے اپنے مضمون میں لکھے ہیں جیسا کہ مفتی مظہر اللہ شاہ دہلوی ، پیر کرم شاہ الازہری ، مولانا سلطان محمود پپلانوالی ،مولانا غلام محمد گھوٹوی، مولانا محمد ذاکر بانی جامعہ محمدیہ جھنگ، علامہ حکیم محمود احمد برکاتی، خواجہ محمد عمر بیر بلوی ، پیر سید نصیرالدین گولڑوی ، وغیر ہ اور مشائخ میں سے پیر مہر علی شاہ گولڑوی وغیرہم، ان کو اس معیار پرپرکھ لیں؛ اگر وہ حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ کے علماء دیوبند کے متعلق تکفیری فتوی سے متفق ہیں تو بریلوی ہیں، وگرنہ انہیں بریلوی فکر کا تو کجا حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ کے فتوی کی رو سے مسلمان بھی نہیں کہا جاسکتا جس کا ادراک ہر صاحب ذی روح کے علاوہ صاحب مضمون کو بھی ہے اور اس ضمن میں وہ مولانا شاہ وجیہ الدین کا ایک اقتباس بھی اپنے مضمون میں نقل کرتے ہیں جس کے آخر کی سطر میں یہی لکھا ہے۔

دیوبندی بریلوی نزاع کیسے ختم ہو؟

حسام الحرمین کے جواب میں لکھی جانے والی کتاب ’’المہندعلی المفند‘‘جسے مولانا عبدالستار خان نیازی مفید کتاب لکھتے ہیں۔ (دیکھیے اتحاد بین المسلمین ص ۱۰۶ ) اسی کتاب میں ایک ااور جگہ لکھتے ہیں کہ
’’المہند کی اشاعت کے بعد تمام غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں اور موافقت کی راہ کھل جاتی ہے۔‘‘ (ایضاً) 
مولانا عبدالستار خان نیازی کی طرح دیگر بریلوی علماء بھی اس قسم کی جرأت کا مظاہرہ کریں تو اہل سنت کے دو دھڑوں کو قریب آنے میں مدد ملے گی ۔ اس کے علاوہ نزاعی معاملات کو مجدد الف ثانیؒ ، شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ کے افکارو نظریات کی روشنی میں حل کریں ۔
ہم نے اختصار کے ساتھ دیوبندی بریلوی نزاع کے موضوع پر لکھے جانے والے مضمون کی بعض خامیوں پرحقیقت پسندانہ تبصرہ کیا ہے اور بعض ایسے عوامل جن کا صاحب مضمون نے دانستہ یا نادانستہ طور پر تذکرہ نہیں کیا، یا کیا بھی تو حقائق سے چشم پوشی کرکے، ہم نے اس مضمون میں مناسب الفاظ میں تذکرہ کردیا ہے ۔ صاحب مضمون نگار جناب سراج الدین امجد کی طرف سے اس پرمزید کچھ لکھاگیا تو ان شاء اللہ اس پر ہم مزیدکچھ عرض کردیں گے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ دونوں مکاتب فکر کے علماء کے درمیان محبت و اخوت کی وہ فضا پھر سے قائم کردے جو مولانا احمد رضاخان بریلوی سے پہلے تھی۔ آمین!

ستمبر ۲۰۱۷ء

نصوص کی تحدید و تخصیص اور قرآن کی آفاقیتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۴)ڈاکٹر محی الدین غازی
سورہ یونس اور سورہ ہود کے مضامین : ایک تقابلڈاکٹر عرفان شہزاد
دور جدید کا حدیثی ذخیرہ۔ ایک تعارفی جائزہ (۲)مولانا سمیع اللہ سعدی
دینی مدرسہ میں استاد کا کردار (۲)مولانا محمد رفیق شنواری
چینی زبان کی آمدمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس کا نصاب، جہاد افغانستان اور عسکریت پسندیمحمد عرفان ندیم
مذہب اور سائنس کے موضوع پر ایک ورکشاپ ۔ چند تاثراتمحمد عثمان حیدر

نصوص کی تحدید و تخصیص اور قرآن کی آفاقیت

محمد عمار خان ناصر

(ایک صاحب علم کے سوالات کے جواب میں لکھی گئی۔)

سوالات

نظم قرآن کا تصور اور تفسیر میں مخاطب کے تعین کا مسئلہ (اور اس کے ساتھ اتمام حجت کا قانون بھی) سامنے آنے کے بعد احکام کی تحدید وتعیین اور تعمیم کے مسئلے پر ذہن کافی الجھا ہوا ہے۔ رہ نمائی فرمائیں۔
اس سلسلے میں ہمارے پاس کون سے ایسے قطعی اصول ہیں جن کی رو سے ہم بعض احکام کو عہد رسالت کے ساتھ خاص اور بعض کو عمومی مانیں گے؟مولانا اصلاحی کے ہاں "تدبر قرآن" میں تخصیص کی وہ صورتیں نظر نہیں آتیں جو غامدی صاحب کے ہاں اور آپ کی کتاب "جہاد ایک مطالعہ" میں نظر آتی ہیں۔ آپ کی جہاد کی کتاب میں "خیر امت" کے خطاب کی بھی مجھے بظاہر ایسے لگتا ہے کہ صرف عہدِ صحابہ کے لیے ہے، جب کہ امت میں ہمیشہ اس اطلاق کو عمومی مان کر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اس امت کی ذمہ داری باور کیا گیا ہے۔ مولانا اصلاحی بھی ’’کذلک جعلناکم امۃ وسطا‘‘ کے تحت آیت کو ایک تو تاویل خاص کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور پھر اس سے عمومی طور پر امت محمدی کی ذمے داری پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ مولانا فراہی اور اصلاحی (جو ان اصولوں کے بانی اور مؤسس ہیں) کے مقابلے میں ان اصولوں کے استعمال میں زیادہ تخصیص کا پہلو نمایاں ہو رہا ہے۔ اس سے بسا اوقات یہ خدشہ سا دل میں اٹھتا ہے کہ یہ اطلاقات کی تخصیص اسلام کے تصورِ آفاقیت ہی کو محدود کر کے اسے ایک زمانی اور مکانی دین کے طور پر پیش نہ کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ اور ابن عاشور کا کہنا ہے کہ آیت جن معانی کو محتمل ہو، وہ اس سے مراد ہوں گے۔ یہ بات محض لغت کی اساس پر نہیں، بلکہ ابن عاشور نے اپنی تفسیر کے مقدمے کے آٹھویں باب میں اس مسئلے کو زیر بحث لایا ہے اور روایات اور آثارِ صحابہ کی رو سے ایسی کئی مثالیں دی ہیں کہ آیت کو سیاق وسباق کے بغیر عمومی طور پر دیکھا گیا ہے اور پھر فقہاء کے ہاں تو اس کی مثالیں بے شمار ہیں جہاں استنباطِ حکم کو لفظی دلالتوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ شاید اسی بنیاد پر ہمارے اصولیین ، خصوصاً حنفیہ، نے دلالتِ معنی کی درجہ بندی پیش کی ہے۔اس کو اگر پیش نظر نہ رکھا جائے تو پھر قرآن ہرعہد میں کس طرح ہماری رہ نمائی کرے گا؟

جواب

میرے خیال میں پہلے سوال کے کسی جواب تک پہنچنے کے لیے درج ذیل نکات کو پیش نظر رکھنا مناسب ہوگا:
۱۔ کلام کے اولین مخاطب اور اس واقعاتی سیاق کی تعیین جس میں کلام کیا جا رہا ہے، اور اسی طرح ان معہودات ذہنیہ کا تعین جو متکلم اور کلام کے اولین مخاطب کے مابین پائے جاتے ہیں، کسی بھی کلام کی صحیح تفسیر کی ایک بنیادی شرط ہے۔ ہر کلام کچھ معہودات خارجیہ اور کچھ معہودات ذہنیہ پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے کوئی کلام ایسا نہیں ہو سکتا جو کسی آفاقی مخاطب کو فرض کر کے کیا جائے، یہاں تک کہ کلام الٰہی بھی نہیں۔ یہ خدا کے کلام کا نقص یا قدرت الٰہی کا عجز نہیں، بلکہ انسان کے ذہن کی ایک خلقی محدودیت سے پیدا ہونے والی ناگزیر ضرورت ہے جسے اس کے ساتھ کلام اور تخاطب میں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
۲۔ یہ بھی بدیہی ہے کہ کلام کی مذکورہ تحدیدات اس کو مستلزم نہیں کہ کلام کی معنوی آفاقیت اس سے منتفی ہو جائے۔ انسانی ذہن عموماً آسانی کے ساتھ کلام کی اصل روح اور پیغام میں اور اس کے ان لوازم وعناصر میں جو اولین مخاطب اور اس کے معہودات ذہنیہ یا عادات بیانیہ سے متعلق ہوتے ہیں،امتیاز کر کے کلام کو مختلف ومتنوع سیاقات میں بامعنی اور relevant بنا لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 
۳۔ قرآن کے فہم کے معاملے میں مذکورہ دونوں پہلووں کا با معنی ہونا صدر اول کے اہل علم کے لیے بہت واضح تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اسباب النزول سے کافی اعتنا ملتا ہے اور وہ اس پہلو کو کلام کے مصداقات کی تعیین اور مشکلات کے حل کے لیے ایک بنیادی وسیلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ چیز کلام الٰہی کی روح، پیغام اور تعلیمات کی آفاقیت کے حوالے سے ان کے ذہنوں میں کوئی سوال پیدا کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
۴۔ بعد کے ادوار میں کلام الٰہی کی تفسیر میں ان دونوں پہلووں کے مابین توازن بعض پہلووں سے متاثر ہوا، خاص طور پر اسباب النزول سے استفادہ کا دائرہ تدریجاً محدود تر ہوتا چلا گیا اور ناگزیر ضرورت کے مقامات کے علاوہ عمومی طور پر کلام کی تفسیر اس مفروضے پر کی جانے لگی جیسے اس کا مخاطب کوئی آفاقی انسان ہے۔ رجحان کی اس تبدیلی کے اثرات ہدایت الٰہی کے بعض بنیادی مشمولات مثلاً عقائد، اخلاق، امثال وغیرہ کے فہم میں تو نمایاں نہیں ہوتے اور اس دائرے میں عموماً کوئی بنیادی الجھن اس کے علاوہ اہل تفسیر کو پیش نہیں آتی کہ بعض باتوں کا مصداق پوری طرح واضح نہیں ہو پاتا یا بلاغت کلام کے بعض پہلو نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ تاہم قرآن کے بعض دوسرے اہم مضامین کے فہم اور تفسیر میں اس رجحان کی وجہ سے کئی الجھنیں اور پیچیدگیاں پیدا ہوئیں اور تفسیری منہج میں ایک نوع کا تضاد بھی رونما ہوا۔ 
۵۔ اس کی سب سے نمایاں مثال قرآن کے مخاطب اولین گروہوں سے متعلق اجزاء کی تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان میں سے مشرکین مکہ اور منافقین چونکہ عملاً عہد رسالت کے بعد اپنی گروہی حیثیت میں ختم ہو گئے، اس لیے ان سے متعلق اجزاء کی تفسیر میں مفسرین مکمل طور پر عہد رسالت کے واقعاتی سیاق پر انحصار کرتے اور اسی کی روشنی میں کلام کے مصداقات اور اس کی اطلاقی حدود متعین کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اہل ایمان کی جماعت اور یہود ونصاریٰ سے متعلق حصوں میں، اس کے برعکس، خطاب کی آفاقیت کا مفروضہ مفسرین کے انداز نظر پر غالب دکھائی دیتا ہے، حالانکہ اصول تفسیر کی رو سے ایک خاص واقعاتی صورت حال میں فریق کی حیثیت رکھنے والے سبھی گروہوں سے متعلق خطابات کی تفسیر ایک ہی منہج کے تحت ہونی چاہیے۔چنانچہ اگر مشرکین پر عذاب اور وعید اور ان کی داروگیر کے مضامین منکرین کے کچھ مخصوص گروہوں سے متعلق تھے تو فتح ونصرت، فضیلت ومنقبت اور ذمہ داری ومنصب کی وضاحت کے ضمن میں وارد بیانات بھی اہل ایمان کی اس مخصوص جماعت سے متعلق ہونے چاہییں جو اس معرکے کا دوسرا فریق تھی۔ (دونوں فریقوں کے بعض لوازم اور اوصاف جزوی طور پر بعد میں آنے والے گروہوں سے بھی متعلق ہو سکتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ انھیں کلام کا براہ راست مصداق نہیں کہا جا سکتا۔ اس توسیعی انطباق کے الگ اصول ہیں جن کی طرف اگلے نکات میں اشارہ کیا جائے گا)۔
۶۔ اسی نوع کی الجھن احکام وقوانین کے باب میں پیش آئی۔ یہاں بھی فہم کلام کا درست منہج یہی تھا کہ اس کے اولین تخاطب کا ماحول پیش نظر رکھا جاتا، اس کی روشنی میں ہدایات کی براہ راست اطلاقی شکلوں اور مصداقات کو سمجھا جاتا، اور پھر بعد کے ادوار میں اس ذخیرہ ہدایات کی relevance کو اسی طرح متعین کیا جاتا جیسے عقائد واخلاق اور قصص وامثال، نیز اولین مخاطب گروہوں کے باب میں کیا گیا۔ شاطبی نے الموافقات میں کسی جگہ لکھا ہے کہ آج ہم جو قرآن میں مذکور احکام شرعیہ پر عمل کرتے ہیں تو یہ قیاس کے اصول پر کرتے ہیں۔مراد یہ ہے کہ قرآن ان احکام کو بیان کرتے ہوئے براہ راست ہمیں مخاطب نہیں کر رہا۔ اس کا اولین تخاطب انھی لوگوں سے ہے جن کے درمیان اس کا نزول ہوا۔ بعد کے لوگوں کے لیے ان احکام کا relevant ہونابراہ راست تخاطب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ جس معاملے سے متعلق اولین مخاطبین کو کوئی ہدایت دی گئی تھی، بعد کے لوگوں کو بھی اسی سوال سے سابقہ پیش آ رہا ہے اور یوں اشتراک علت کی وجہ سے قرآن کی ہدایت ان کے لیے بھی واجب الاتباع ہے۔
۷۔ احکام وقوانین کے باب میں خطاب کو اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے عمومی وآفاقی فرض کرنے سے جو الجھنیں پیدا ہوئیں، ان کی نمایاں ترین مثال جہاد وقتال سے متعلق احکام ہیں۔ قرآن کے سیاق کی روشنی میں ان احکام کی framing کے حوالے سے راقم نے اپنی ایک تحریر میں جو کچھ لکھا تھا، اسے یہاں نقل کرنا چاہوں گا۔
’’بعض احکام اپنی علت کے لحاظ سے اصلاً واساساً خاص ہوتے ہیں اور ان میں دلیل کی ضرورت تخصیص کے لیے نہیں، بلکہ تعمیم کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال پیغمبر کا براہ راست مخاطب بننے والے گروہوں اور قوموں کا معاملہ ہے۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایمان کے معاملے میں جبر واکراہ کا طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ انسانوں کو ایمان یا کفر کا راستہ اختیار کرنے کی آزادی دی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد کسی انسان کو بھی دین وایمان کے معاملے میں کسی دوسرے انسان پر جبر کا حق حاصل نہیں۔ چنانچہ قرآن میں خود انبیا کی ذمہ داری کا دائرہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے ذمے بس حق بات کو واضح طریقے سے پہنچا دینا ہے اور اس سے آگے وہ کوئی اختیار نہیں رکھتے: ’فَذَکِّر اِنَّمَآ اَنتَ مْذَکِّر لَستَ عَلَیہِم بِمْصَیطِرٍ‘، البتہ قرآن نے اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر حق کو پوری طرح واضح کر دیتے ہیں اور اس کے باوجود وہ قوم ایمان نہیں لاتی تو اللہ تعالیٰ اس پر عذاب نازل کر کے اسے عبرت کا نمونہ بنا دیتے ہیں۔ یہ کسی انسان کا نہیں، بلکہ خدا کا فیصلہ ہوتا ہے جس کا وقت متعین کرنے کا اختیار کسی انسان، حتیٰ کہ خود پیغمبر کو حاصل نہیں ہوتا۔ 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جزیرۂ عرب میں مبعوث کیا گیا تو خدائی قانون کے یہ دونوں پہلو پوری طرح واضح کر دیے گئے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ ’اِنَّمَا عَلَیکَ البَلٰغُ وَعَلَیَنا الحِسَابُ‘، یعنی خدا کا پیغام پہنچانا تو پیغمبر کی ذمہ داری ہے، جبکہ منکرین سے حساب لینا خدا کاکام ہے، البتہ سابقہ قوموں کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کے لیے عذاب کی صورت یہ تجویز کی گئی کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں تو انھیں کسی آسمانی آفت کا نشانہ بنانے کے بجاے خود اہل ایمان کی تلواروں کے ذریعے سے جہنم رسید کیا جائے۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ اہل کفر کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی یہ جنگ دراصل خدا کا عذاب تھا۔ چنانچہ فرمایا: ’وَلَو یَشَآءُ اللّٰہُ لَانتَصَرَ مِنھُمْ وَلٰکِن لِّیَبْلُوَ بَعْضَکْم بِبَعْضٍ‘،یعنی اللہ چاہتا تو اپنے دین کا انکار کرنے پر ان کفار سے خود انتقام لے لیتا، لیکن اس نے اپنی خاص حکمت کے تحت اہل ایمان کو جانچنے کے لیے انھیں اہل کفر کے مقابلے میں معرکہ آرا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی بات ’قَاتِلُوھُمْ یُعَذِّبھُمُ اللّٰہُ بِاَیدِیکُمْ‘ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے، یعنی تم ان کے خلاف قتال کرو، اس طرح اللہ تعالیٰ تمھارے ہاتھوں سے انھیں عذاب دینا چاہتے ہیں۔ اس جنگ کے آخری مرحلے میں مشرکین عرب کے لیے قتل کی سزا تجویز کی گئی، جبکہ اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا کہ انھیں محکوم بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیا جائے جو اس دورمیں محکومی اور تحقیر وتذلیل کی ایک علامت تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی اہل کفر کے بارے میں فرمایا کہ ان میں سے جو ایمان لانے کے بعد دوبارہ اسلام کی طرف پلٹ جائے، اسے قتل کر دیا جائے۔ فقہائے صحابہ نے اسی پہلو سے ان کی جان کی حرمت کو مسلمانوں کے برابر تسلیم نہیں کیا اور یہ رائے قائم کی کہ مسلمان کو کافر کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ کافر کی دیت بھی مسلمان کی دیت کے مساوی نہیں ہوگی۔ 
دین کے معاملے میں جبر واکراہ کو جائز تسلیم نہ کرنے اور منکرین حق کو دنیا میں سزا دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص قرار دینے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہل کفر کو قتل کرنے یا جزیہ عائد کر کے توہین وتحقیر کی سزا دینے کے اس معاملے کو انھی کفار سے متعلق مانا جائے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول کی طرف سے اجازت موجود ہے۔ اس تناظر میں جو قرآن سے باہر کسی تاریخی سیاق سے نہیں، بلکہ خود قرآن کے نصوص سے معلوم ہوتا ہے، ان احکام کے نفاذ اور اطلاق کے معاملے میں تحقیق طلب چیز یہ نہیں تھی کہ ان میں تخصیص یا استثنا کس دلیل کی بنیاد پر کی جائے، بلکہ یہ تھی کہ علت کی رو سے یہ تعمیم کے کس حد تک متحمل ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمر نے اہل کتاب کے علاوہ مجوس پر جزیہ عائد کرنے کا فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا جب تک ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں آ گیا۔ سیدنا عمر نے ہی اپنے دورمیں مرتد ہونے والے بعض افراد کو قتل کرنے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا اور ان کے لیے قید کی متبادل سزا تجویز کی۔ فقہائے احناف نے اسی بنیاد پر یہ راے قائم کی کہ مشرکین کو قتل کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطب بننے والے مشرکین عرب کے ساتھ خاص ہے اور اس کا اطلاق دنیا کے دوسرے مشرک گروہوں پر نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
گویا ہر حکم اولاً واصلاً ایک خاص دائرہ تخاطب میں دیا گیاجسے نظر انداز کر کے حکم کی درست framing نہیں ہو سکتی۔اس پورے سیاق کی روشنی میں حکم کی نوعیت متعین ہوگی اور اسی کی روشنی میں یہ طے ہوگا کہ کون سا حکم کتنا اولین دائرہ تخاطب تک محدود ہے اور کتنا اس سے باہر تعمیم کا متحمل ہے۔ حنفی فقہاء کے فہم نصوص کے منہج میں تو یہ چیز بہت نمایاں ہے۔ اسی کی بنیاد پر وہ مشرکین کے قتل عام اور مسجد حرام میں ان کے داخلے کی ممانعت کو اولین مخاطبین تک محدود مانتے ہیں۔ اسی طرح ان کے نزدیک مال غنیمت میں بیان کیا جانے والا ذوی القربیٰ کا حصہ عمومی نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کرنے والے اولین ذوی القربیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ جو فقہاء اشہر حرم کی حرمت کو ابدی نہیں مانتے، ان میں سے بھی بعض نے اس پابندی کی توجیہ اسی اصول کے تحت کی ہے۔ مال غنیمت کی تقسیم کے متعلق پورے حکم (یعنی خمس کو بیت المال میں جمع کرنے کے بعد باقی حصوں کو مجاہدین کا حق قرار دینے) کو بھی بعد میں امت کی فقہی دانش نے اپنی ظاہری صورت میں واجب الاتباع نہیں سمجھا اور اس کی توجیہ یہ کی گئی کہ اس وقت چونکہ جنگی اخراجات اور مجاہدین کی تنخواہ وغیرہ کی ذمہ داری نظم اجتماعی کے سپرد نہیں تھی، اس لیے مال غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کر دینے کی ہدایت دی گئی۔
۸۔ جہاں تک اس اشکال کا تعلق ہے کہ تحدید وتخصیص کے اس تصور سے قرآن یا اسلام کی آفاقیت مجروح ہونے کا خدشہ ہے تو میرے خیال میں اس کا تعلق علمی اصول کے غلط اور بے جواز استعمال سے ہے اور اس امکان سے کوئی بھی علمی اصول محفوظ نہیں۔ صحیح علمی رویہ، یہ ہے کہ فی نفسہ اصول کے درست اور محکم ہونے یا نہ ہونے پر غور کیا جائے۔ اگر کوئی علمی اصول فی نفسہ محکم ہے تو اس کے غلط اطلاق کے امکان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ ایسی غلطیوں کی exclusion کے لیے خود نصوص اور اس کے بعد امت کی مجموعی علمی روایت کافی وشافی ہے۔ اگر ایسا کوئی اطلاق بالکل بے بنیاد ہوگا تو امت کا اجتماعی فہم اسے رد کر دے گا۔ اگر فی الواقع وزنی ہوگا تو اسے قبول کر لیا جائے گا، اور اگر معاملہ ذو الوجہین ہوگا تو اہل علم کے مابین ایک اختلافی بحث کی صورت اختیار کر لے گا جو کہ ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے۔ اس کی حالیہ مثالوں میں زکوٰۃ کی شرح یا حدود شرعیہ کو غیر ابدی واجتہادی قرار دینے کا نقطہ نظر ہے جسے امت کے راسخ اہل علم نے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ اس کے برخلاف جزیہ کے نفاذ اور دیت کی مقدار کو غیر آفاقی قرار دینے کے نقطہ ہائے نظر بھی اسی دور میں پیش کیے گئے جنھیں ان کے ٹھوس علمی استدلال کے پیش نظر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ 
میں اس حوالے سے جصاص کے نقطہ نظر کا قائل ہوں جن کا کہنا ہے کہ احکام شرعیہ میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کے خلاف، شریعت کا وارد ہونا عقلاً جائز نہیں اور یہی دراصل ہدایت الٰہی کے محکمات اور اس کے بنیادی مشمولات ہیں، جبکہ کچھ ایسے ہیں کہ ان کے متعلق شریعت کا حکم مختلف عقلی امکانات میں سے کسی بھی امکان کے مطابق وارد ہو سکتا ہے۔اس دوسرے دائرے میں اصل فیصلہ کن چیز حکم الٰہی ہے اور چونکہ اصلاً ان کے متعلق شریعت کا حکم مختلف امکانی صورتوں میں سے کچھ بھی ہو سکتا تھا، اس لیے ان کے فہم میں بھی مجتہدین کے لیے پوری گنجائش ہے۔ اسی بنیاد پر جصاص ایسے امور میں کل مجتھد مصیب کے نقطہ نظر کے قائل ہیں۔ 
یہ گذارشات تو آپ کے پہلے سوال سے متعلق تھیں۔ دوسرے سوال سے متعلق یہ عرض ہے کہ قرآن کے الفاظ کو کسی ایسے مفہوم پر محمول کرنے کی مثالیں جس کی تائید سیاق وسباق سے نہیں ہوتی، یقیناًمرفوع روایات اور آثار صحابہ میں موجود ہیں اور ان کے فی نفسہ جواز پر مجھے کوئی اشکال نہیں۔ تاہم میرے فہم کے مطابق اس طرز تعبیر کی نوعیت تفسیر کی نہیں، بلکہ استشہاد کی ہے۔ اصل یہ ہے کہ کوئی بات اگر علمی وعقلی پہلو سے فی نفسہ درست ہو یا کم سے کم علم وعقل کی کسی واضح دلیل کے منافی نہ ہو تو کلام الٰہی کے ظاہری الفاظ کو توسعاً اور استشہاداً اس پر محمول کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے کلام کو اس مفہوم سے ہٹانے کے لیے جو سیاق وسباق سے واضح ہو رہا ہے، بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ کلام کی اصل مراد وہی ہوگی جو اس کے داخلی قرائن اور سیاق وسباق سے مفہوم ہے۔ اس سے زائد کوئی بات اگر روایات وآثار میں بیان ہوئی ہویا مفسر اور فقیہ کا ذہن اس کی طرف متوجہ ہو رہا ہو تو ثانوی درجے میں اس کے حق میں آیت سے استشہاد کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس سے قوی تر کوئی دلیل اس کے معارض نہ ہو۔ اسے ’الفال الحسن‘ کی قبیل سے سمجھا جا سکتا ہے۔اس نوع کی روایات وآثار کے متعلق علامہ انور شاہ کشمیری نے یہی بات لکھی ہے اور میرا طالب علمانہ فہم بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۶) یولج کا ترجمہ

ایلاج کے معنی داخل کرنا ہوتا ہے، قرآن مجید میں رات اور دن کے حوالے سے یہ فعل پانچ آیتوں میں ذکر ہوا ہے۔ ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔
ان پانچ آیتوں میں سے ایک آیت کا ترجمہ صاحب تفہیم القرآن نے داخل کرنے کے بجائے نکالنا کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔
پہلی بات کہ یہ ترجمہ آیت کے الفاظ کے خلاف ہے، ایلاج کے معنی داخل کرنا ہے نکالنا نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس مفہوم کی تائید میں کوئی اور نظیر بھی نہیں ہے، قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں آیا ہے کہ اللہ دن سے رات کو اور رات سے دن کو نکالتا ہے۔ صرف ایک مقام پر آیا ہے: وَآیَۃ لَّہُمْ اللَّیْْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَإِذَا ہُم مُّظْلِمُونَ۔ (یس:۳۷) یہاں اندر سے نکالنے کی بات نہیں بلکہ سلخ یعنی رات کے اوپر سے دن کو کھینچ لینے کی بات ہے۔
تیسری ایک بات یہ بھی ہے کہ خود صاحب تفہیم نے باقی چار آیتوں کا ترجمہ دیگر مترجمین کی طرح داخل کرنا کیا ہے، جیسا کہ ذیل میں دیکھا جاسکتا ہے، اس لیے بلا تردد کہا جاسکتا ہے کہ پانچ میں سے اس ایک مقام پر ان سے ترجمہ کرتے ہوئے سہو ہوگیا ہے۔

(۱) ذَلِکَ بِأَنَّ اللّٰہَ یُولِجُ اللَّیْْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْْلِ وَأَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ۔ (الحج: ۶۱)

’’یہ اس لیے کہ رات سے دن اور دن سے رات نکالنے والا اللہ ہی ہے‘‘ (سید مودودی)
’’یہ سبب اس کے ہے کہ اللہ داخل کرتا ہے رات کو بیچ دن کے اور داخل کرتا ہے دن کو بیچ رات کے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’یہ اس لیے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ رات کو ڈالتا ہے دن کے حصہ میں اور دن کو لاتا ہے رات کے حصہ میں‘‘ (احمد رضا خان)
’’یہ اس لیے کہ خدا رات کو دن میں داخل کردیتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے‘‘ (فتح محمد جالندھری)

(۲) تُولِجُ اللَّیْْلَ فِی الْنَّہَارِ وَتُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْْلِ۔ (آل عمران: ۲۷)

رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں (سید مودودی)

(۳) أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰہَ یُولِجُ اللَّیْْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْْلِ۔ (لقمان:۲۹)

’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں؟‘‘ (سید مودودی)

(۴) یُولِجُ اللَّیْْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْْلِ۔ (فاطر: ۱۳)

’’وہ دن کے اندر رات کو اور رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتا ہے‘‘ (سید مودودی)

(۵) یُولِجُ اللَّیْْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْْل۔ (الحدید:۶)

’’وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے‘‘(سید مودودی)

(۱۱۷) باء برائے تجرید

جس طرح حرف من تجرید کے لیے آتا ہے اسی طرح حرف باء بھی تجرید کے لیے آتا ہے، امام لغت ابن جنی نے اس کی مثال دی ہے، لقیت بہ الاسد، وجاورت بہ البحر۔ (الخصائص ۲؍۴۷۷)
قرآن مجید کے بعض مقامات پر اگر تجرید کا اسلوب سامنے رہے تو مفہوم بہت واضح ہوکر سامنے آتا ہے، اور اس میں کوئی اشکال نہیں رہ جاتا۔ ذیل میں دو آیتوں پر گفتگو کی جائے جہاں باء کو برائے تجرید ماننا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

(۱) مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہِ سَامِراً تَہْجُرُونَ۔ (المومنون: ۶۷)

اس آیت کا ترجمہ عام طور سے اس طرح کیا گیا ہے کہ مستکبرین اور تھجرون کا جو فاعل ہے، وہی سامرا کا فاعل بھی ہے یعنی رسول کی باتوں کا انکار کرنے والے۔ ذیل کے ترجمے ملاحظہ ہوں:
’’اپنے گھمنڈ میں اُس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے اپنی چوپالوں میں اُس پر باتیں چھانٹتے اور بکواس کیا کرتے تھے‘‘ (سید مودودی)
’’خدمت حرم پر بڑائی مارتے ہو رات کو وہاں بیہودہ کہانیاں بکتے‘‘ (احمد رضا خان)
’’ان سے سرکشی کرتے، کہانیوں میں مشغول ہوتے اور بیہودہ بکواس کرتے تھے‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’اکڑتے اینٹھتے افسانہ گوئی کرتے اسے چھوڑ دیتے تھے‘‘(محمد جوناگڑھی)
اس مفہوم کو مراد لینے پر ایک اشکال یہ سامنے آتا ہے کہ سامر واحد ہے، تو اس سے مراد جمع کیوں لیا جائے؟ 
مزید یہ کہ جب مستکبرین اور تھجرون جمع استعمال ہوئے ہیں تو درمیان میں سامرا واحد کیوں استعمال کیا گیا؟
مفسرین اس اشکال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان جوابوں میں تکلف پایا جاتا ہے۔
دوسرا اشکال یہ ہے کہ اگر سامر سے مراد منکرین رسول کو لیا جائے تو سامر کا مفہوم اس پورے سیاق میں کوئی خاص معنویت نہیں ادا کرتا۔ استکبار اور ھجر تو واضح طور پر مذموم رویے ہیں، اور منکرین سے ان کا تعلق بھی واضح ہے لیکن دونوں کے بیچ میں سمر یعنی قصہ گوئی کی مناسبت واضح نہیں ہوپاتی۔
اس کے علاوہ یہ مفہوم لینے کے بعد (بہ) میں ضمیر کا مرجع متعین کرنے میں بھی لوگوں کو دشواری پیش آتی ہے۔
اگر (بہ) میں باء کو تجرید کا مان لیں، اور ھاء ضمیر کو رسول کے لیے مان لیں جیسا کہ آگے کی آیتوں سے واضح ہوتا ہے، اور سامرا کو ھاء ضمیر سے حال مان لیں تو مفہوم بخوبی واضح ہوجاتا ہے اور تمام اشکالات دور ہوجاتے ہیں۔ اس توجیہ کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول کا انکار کرنے والے گھمنڈ میں مبتلا ہیں، وہ رسول کی بات سننے کے بجائے یہ کہہ کر اس سے دور ہٹ جاتے ہیں کہ یہ تو محض قصہ گو اور بکواس کررہا ہے۔
آیت کا ترجمہ اس طرح ہوگا:
’’گھمنڈمیں اُس کو چھوڑ دیتے تھے، گویا وہ بکواس کررہا ہے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
’’گھمنڈ کرتے ہوئے گویا کسی افسانہ گو کو چھوڑ رہے ہو‘‘ (امین احسن اصلاحی، یہ ترجمہ درست ہے،البتہ اس کی تفسیر میں بہ میں باء کو تجرید کا ماننے کے بجائے استہزاء کو محذوف مان کر باء کو اس سے متعلق مانا گیا ہے، ایک تو اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے، پھر لفظ تھجرون سے خود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ موقعہ مذاق اڑانے کا نہیں بلکہ اعراض کرنے کا ہے۔ مزید یہ کہ خود ترجمہ سے استہزاء کے مفہوم کا اظہار نہیں ہوتا ہے)
’’غرور میں آ کر اسے کہانی سمجھ کر چلے جایا کرتے تھے‘‘ (احمد علی، اس ترجمہ میں سامر کے لیے کہانی کا لفظ درست نہیں ہے، کہانی سنانے والے کے لیے سامر آتا ہے)
’’اس سے بڑائی کر کر ایک کہانی والے کو چھوڑ کر چلے گئے‘‘ (شاہ عبدالقادر، سامر کا ترجمہ درست ہے، البتہ بہ کو مستکبرین سے متعلق مانا ہے جو محل نظر ہے)
علامہ فراہی مفسرین کی معروف توجیہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

ولا یخلو من تکلف۔ والأولی من کل ذلک أن یکون (سامرا) مفعولا ل(تھجرون)۔ أی نکوصکم عن استماع آیاتی مستکبرین کان علی حالۃ کأنکم تترکون بفعلکم ھذا سامرا لا تعبأون بقولہ۔ والآیۃ التالیۃ تبین ذلک۔ ویقرب من ھذا التأویل أن یکون (بہ) متعلقا ب(سامرا)۔ وفی جعل الضمیر مذکرا دلالۃ علی أنھم لم یظنوا أنھا آیات اللہ، وانما ظنوھا قولا من السامر. فھذان تأویلان متقاربان۔ واللہ أعلم. (التعلیقات)

مولاناامانت اللہ اصلاحی اس اہم گفتگو پر یہ قیمتی اضافہ کرتے ہیں کہ یہاں باء برائے تجرید ہے۔اور ھاء کا مرجع رسول ہے۔

(۲) الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ الرَّحْمٰنُ فَاسْأَلْ بِہِ خَبِیْراً۔ (الفرقان: ۵۹)

’’وہ بڑی مہر والا ہے، سو پوچھ اس سے جو اس کی خبر رکھتا ہو‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’وہ رحمان ہے پس اس کی شان باخبر سے پوچھو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’رحمن، اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو‘‘ (سید مودودی)
’’وہ بڑی مہر والا تو کسی جاننے والے سے اس کی تعریف پوچھ‘‘ (احمد رضا خان)
اس آیت کے ترجمے کی یہ چند مثالیں ہیں، عام طور سے لوگوں نے اسی طرح ترجمہ کیا ہے، جس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ اللہ کے بارے میں اس سے پوچھو جو اللہ سے باخبر ہو۔
اس مفہوم میں ایک اشکال یہ ہے کہ اللہ کے بارے میں خبیر ہونے کا دعویٰ کون کرسکتا ہے، اور کس کے بارے میں یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ سے باخبر ہے۔ 
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر خبیر کا لفظ آیا ہے اور ہر جگہ اللہ کے لیے آیا ہے، کسی اور کے لیے یہ لفظ نہیں آیا ہے۔
مزید ایک بات یہ ہے کہ سأل بہ کے معنی ’’اس کے بارے میں پوچھنا‘‘عام استعمالات کے مطابق نہیں ہے۔عام استعمال کے مطابق سأل کے ساتھ جب ب آتا ہے تو مطالبہ کرنے کے معنی میں ہوتا ہے ، پوچھنے کے معنی میں نہیں ہوتا ہے۔ اور جب عن آتا ہے تو پوچھنے کے معنی میں آتا ہے۔ اور اگر کوئی صلہ نہیں ہو تو مانگنے کے معنی میں ہوتا ہے۔ 
اگر باء کو برائے تجرید مان لیں تو یہ سارے اشکالات دور ہوجاتے ہیں، اور ترجمہ اس طرح ہوتا ہے:
’’تم مانگو، اسے باخبر پاؤ گے‘‘ (امانت اللہ اصلاحی) 
اس توجیہ کے مطابق خبیر اللہ کی صفت قرار پاتی ہے جس طرح قرآن مجید میں باقی تمام مقامات پر خبیر کی صفت اللہ کے لئے آئی ہے، اور فاسأل کامفہوم یہاں اللہ سے مانگنا ہے، جو ہر چیز سے باخبر ہے۔ بہ میں باء تجرید کے لئے ہے اور ھاء کی ضمیر کا مرجع اللہ ہے۔
اس آیت کی توجیہ میں اہل نحو کو جو دشواریوں پیش آئی ہیں اس کا اندازہ ابن ہشام کی درج ذیل عبارت سے ہوسکتا ہے:

وَتَأَول البصریون (فاسأل بِہِ خَبِیرا) علیَ أن البَاء للسَّبَبِیَّۃ وَزَعَمُوا أنَّھَا لَا تکون بِمَعنی عَن أصلا وَفیہ بعد لِأَنہُ لَا یَقتَضِی قَولک سأَلت بِسَبَبہ أَن المَجرُور ھُوَالمسؤول عَنہُ۔ (مغنی اللبیب،ص:۱۴۲)

کوفی نحاۃ کے نزدیک باء عن کے معنی میں ہے، جب کہ بصری نحاۃ اسے عن کے معنی میں لینا درست نہیں سمجھتے اور برائے سبب قرار دیتے ہیں۔ ابن ہشام ان کی رائے کو بھی غیر موزوں قرار دیتے ہیں، ایسی صورت میں ان بعض نحویوں کی بات زیادہ مضبوط لگتی ہے جو اسے تجرید کے لیے مانتے ہیں، الباقولی لکھتے ہیں:

 (فَسْئَلْ بہِ خَبِیراً): أی اسأل اللہ خبیرا۔ (اعراب القرآن للباقولی)

(جاری)

سورہ یونس اور سورہ ہود کے مضامین : ایک تقابل

ڈاکٹر عرفان شہزاد

علامہ حمید الدین فراہی نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ قرآن مجید کی سورتیں جوڑا جوڑا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بعض سورتوں کے جوڑا جوڑا ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً سورۃ البقرہ اور سورہ آل عمران، اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے بارے میں جنھیں معوذتین بھی کہا گیا ہے۔ اس نقطہ نظر سے جب قرآن کی سورتوں کا مطالعہ کیا گیا تو یہ نظریہ درست معلوم ہوتا ہے۔
اس تناظر میں سورہ یونس اور سورہ ہود کا ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ مطالعہ کس حد تک درست ہے، اس میں مزید کیا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اور قرآن کی سورتوں کے بارے میں جوڑا جوڑا ہونے کا نظریہ کتنا صائب ہے، نیز، قرآن مجید کی تفہیم میں اس پر کیا اثر پڑتا ہے۔
مکتب فراہی کے مطابق قرآن مجید کی سورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دین کے مختلف مراحل کا بیان ہیں: کہیں پر قوم کے خاص لوگوں کو انذار کیا گیا ہے، جب کہ کہیں یہ انذار عام ہو گیا ہے، کہیں انذار کے سارے دلائل اور براہین آخری درجے مکمل ہو گئے ہیں اور مرحلہ اتمام حجت تک پہنچ گیا اور کہیں اس کے بعد ہجرت کا وقت آ گیا ہے، اور کہیں سب سے آخری مرحلہ آ جاتا ہے کہ اب منکرین کی تباہی اور مومنین کی کامیابی اور ان کے غلبے کا وقت آ گیا ہے۔ درج ذیل دونوں سورتیں، مرحلہ اتمام حجت میں نازل ہوئی ہیں۔ یہ چیز ان کے مضامین سے عیاں ہے۔ اتمام حجت کا مطلب ہے کہ رسول، دین کی دعوت اپنے تمام دلائل، براہین، معجزات غرض تمام ممکنہ وسائل سے اس طرح مکمل کر دیتا ہے کہ مخاطبین کے پاس اس کی صداقت کو جھٹلانے کا کوئی عذر باقی نہیں رہتا، لیکن پھر بھی اگر وہ انکار پر مصر رہتے ہیں تو اس کی وجہ ان کی ضد، عناد اور تعصب ہوتا ہے۔
اب دونوں سورتوں کے تقابلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے:
دونوں سورتیں الر کے حروف سے شروع ہوتی ہیں۔ حروف مقطعات کے بارے میں علامہ فراہی کے پیش کردہ نظریہ پر جناب عدنان اعجاز صاحب کی تحقیق کے مطابق، ا ل ر سے مراداللہ کی طرف سے نازل کردہ حکمت ہے۔ ان دونوں ہی سورتوں میں آغاز کلام میں بھی حکمت کی طرف اشارہ ہے: سورہ یونس میں کہا گیا ہے کہ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں اور سورہ ہود میں کہا گیا ہے کہ یہ آیت خدائے حکیم کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔اسی لحاظ سے دونوں سورتوں کا مضمون بھی حکیمانہ پیغام کا حامل ہے۔ مخاطبین سے کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ رسولوں کے انذار اور اتمام حجت کے بعد دنیا میں جو حال ان کی قوموں کا ہوا اور اسی بنا پر آخرت میں جو انجام ان کا ہوگا،اس سے عبرت حاصل کرو اور خود کو دنیا اور آخرت کے اس خسران سے بچاؤ، اور رسول کی دعوت کی اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے، خود کو خدا کے انعام کا مستحق بناؤ۔ (عدنان اعجاز صاحب کے مضمون کے لیے دیکھیے، 'حروف مقطعات اور نظریہ فراہی کے اطلاقات، اشراق ،ستمبر اور اکتوبر' 2016)
علامہ فراہی کے نقطہ نظر سے ہٹ کر بھی، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حروف مقطعات، اپنی سورت کے مضامین کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ا ل ر کے یکساں نام کے لحاظ سیدیکھا جائے تو دونوں سورتوں کے مضامین بھی ایک جیسے ہیں، یعنی انذار و بشارت۔ انذار یعنی مخاطبین کو دین حق پر ایمان لانے کی دعوت دینا اور ان کے انکار پر عذاب کی دھمکی سنانا کہ وہ عذاب دنیا میں بھی آ جائے گا اور آخرت میں بھی پیش آئے گا، اور بشارت کا مطلب مومنین کو دنیا اور آخرت میں انعام کی بشارت دینا۔ اس انذار اور بشارت کے لیے دونوں سورتوں میں استدلال بھی یکساں ہے، یعنی انبیا کی تاریخ سے استدلال۔سورہ یونس میں البتہ آفاق اور انفس سے بھی دلائل لائے گیے ہیں۔
دونوں سورتوں کے آغاز ہی میں انذار اور بشارت ایک ساتھ مذکور ہوئے ہیں۔ سورہ یونس میں ہے:
اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمْ، قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ (آیت 2)
کیا اِن لوگوں کو اِس پر حیرانی ہو گئی کہ ہم نے اِنھی میں سے ایک شخص پر وحی کی ہے کہ لوگوں کو خبردار کرو اور جو مان لیں، اْنھیں خوش خبری پہنچا دوکہ اْن کے لیے اْن کے پروردگار کے پاس بڑا مرتبہ ہے۔ (اِس حقیقت کو سمجھنے کے بجاے) اِن منکروں نے کہہ دیا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے۔
سورہ ہود میں ہے:
۱ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ، اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ (سورہ ہود، آیت 2)
کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ میں اْس کی طرف سے تمھیں خبردار کرنے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں۔
چنانچہ دونوں سورتوں میں یہ دونوں مضامین پوری سورہ میں ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ تاہم، دونوں سورتوں میں انذار کا مضمون غالب ہے، کیونکہ معاملہ اتمام حجت کی طرف جا رہا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورہ یونس میں انذار عام سے اتمام حجت تک کے دو مراحل بیان ہوئے ہیں۔ یعنی پہلے مرحلے پر بات سمجھائی جا رہی ہے اور آخر میں جان بوجھ کر انکار پر مصر رہنے والوں کو عذاب کی دھمکی سنا دی گئی ہے۔سورہ یونس میں اتمام حجت ابھی ابتدائی طور پر ہوا ہے یعنی کچھ لوگوں پر اتمام حجت ہو گیا اور کچھ پر ابھی ہو رہا ہے، اس لیے انہیں بار بار سمجھایا جا رہا ہے۔ جب کہ سورہ ہود میں اتمام حجت اگلے مراحل میں داخل ہو گیا ہے۔ اس سورہ میں معاملہ سمجھانے سے زیادہ منکرین کے لیے دھمکی آمیز ہو گیا ہے۔ مثلاً دونوں سورتوں میں آسمان اور زمین کی تخلیق کے تذکرے کے بعد نتیجے کے بیان میں لب و لہجے کا فرق ملاحظہ کیجیے:
سورہ یونس:
اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ، مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنِہٖ، ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ، اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ۔ اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا، وَعْدَ اللّٰہِ حَقًا، اِنَّہٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ، وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ (آیت 3۔4)
’’(لوگو)، حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر معاملات کا نظم سنبھالے ہوئے اپنے عرش پر قائم ہو گیا۔ اْس کی اجازت کے بغیر کوئی (اْس کے حضور میں) سفارش کرنے والا نہیں ہے۔ تمھارا پروردگار وہی اللہ ہے، لہٰذا اْسی کی بندگی کرو۔ کیا تم سوچتے نہیں ہو؟ تم سب کو (ایک دن) اْسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہی خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا، اِس لیے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اْنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اْن کو انصاف کے ساتھ (اْن کے عمل کا) بدلہ دے اور جنھوں نے انکار کر دیا ہے، اْن کے انکار کے بدلے اْن کے لیے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے۔‘‘
سورہ ہود:
وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً، وَلَءِنْ قُلْتَ اِنَّکُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ۔ وَلَءِنْ اَخَّرْنَا عَنْھُمُ الْعَذَابَ اِلآی اُمَّۃٍ مَّعْدُوْدَۃٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُہٗ، اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْھِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْھُمْ وَحَاقَ بِھِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُ وْنَ (آیت 7۔8)
’’اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ہے اور (تمھاری پیدایش سے پہلے) اس کا عرش پانی پر تھا ۔۔۔ اِس لیے (پیدا کیا ہے) کہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اب (اے پیغمبر)،اگر تم اِن سے کہتے ہو کہ (لوگو)، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے تو یہ منکرین فوراً بول اٹھیں گے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ اور اگر کچھ مدت کے لیے ہم اِن سے عذاب کو ٹال دیں گے تو ضرور پوچھیں گے کہ اِسے کیا چیز روکے ہوئے ہے؟سنو، جس دن وہ اِن کے اوپر آ پڑے گا تو اِن سے پھیرا نہ جاسکے گا اور وہی چیز اِن کو آ گھیرے گی جس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔‘‘
یعنی سورہ یونس میں بات اصولی اعتبار سے کی گئی ہے کہ نیکو کار مومنوں کو اجر جب کہ منکرین کو سزا ملے گی، جب کہ سورہ ہود میں بات دھمکی آمیز ہو گئی ہے، ساتھ میں قیامت سے پہلے دنیاوی عذاب کی دھمکی بھی دے ڈالی گئی ہے۔ 
سورہ ہود میں چونکہ انذار پر زیادہ زور ہے، اسی مناسبت سے اس میں بشارت کا مضمون کم ہو گیا ہے۔
سورہ یونس کی آیت 47 میں دنیاوی عذاب آنے کا اصول بتایا گیا ہے کہ کسی قوم پر اگر رسول آ جائے تو ان کے مسلسل انکار کی صورت میں اس قوم کا فیصلہ دنیا میں ہی کر دیا جاتا ہے:
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ، فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُھُمْ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ (آیت 47)
’’(اس کا قانون یہی ہے کہ) ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب ان کا رسول آ جاتا ہے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘
سورہ یونس اور سورہ ہود میں اسی اصول کی تفصیل اور اطلاقات دکھائے گیے ہیں۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ سورہ یونس کے آغاز میں عذابِ آخرت کا ذکر پہلے ہے اور دنیاوی عذاب کا بعد میں جب کہ سورہ ہود میں دنیاوی عذاب کا ذکر آخرت کے عذاب سے پہلے کیا گیا ہے جب کہ سورہ ہود میں دنیاوی عذاب کا ذکرپہلے ہے اور آخرت کے عذاب کا بعد میں۔ مثلاً دیکھیے:
سورہ یونس:
اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا، وَعْدَ اللّٰہِ حَقًا، اِنَّہٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ، وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ (آیت 4)
’’تم سب کو (ایک دن) اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہی خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا، اِس لیے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اْنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان کو انصاف کے ساتھ (ان کے عمل کا) بدلہ دے اور جنھوں نے انکار کر دیا ہے، ان کے انکار کے بدلے اْن کے لیے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے۔‘‘
سورہ ہود:
وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلآی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ، وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ (آیت 3)
’’اور یہ کہ تم اپنے پروردگار سے معافی چاہو، پھر اْس کی طرف رجوع کرو، وہ تمھیں ایک متعین مدت تک اچھی طرح بہرہ مند کرے گا اور ہر اْس شخص کو جو اْس کے فضل کا مستحق ہے، اپنے فضل سے نوازے گا۔ لیکن اگر منہ پھیرو گے تو میں تمھارے اوپر ایک بڑے ہول ناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔‘‘
چنانچہ اسی مناسبت سے سورہ یونس میں آگے جا کر بھی پہلے آخرت کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے، پھر اس آخرت کے عذاب کے نمونے کے طور پر دنیاوی عذاب کے چند نمونے بتائے گیے ہیں، جب کہ سورہ ہود میں دنیاوی عذاب کا ذکر کرنے کے بعد آخرت کے عذاب پر ان سے استدلال کیا گیا ہے۔ مثلاً دیکھیے سورہ ہود میں قوم عاد پر عذاب کا ذکر کرنے کے بعد قیامت کے عذاب کا ذکر یوں کیا گیا:
وَاُتْبِعُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لَعَنَۃً وَّیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (آیت 60)
’’(آخر کار) اِس دنیا میں بھی اِن کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی۔‘‘
اسی طرح فرعو ن پر آنے والے دنیاوی عذاب کا ذکر کرنے کے بعد یہ کہا گیا:
یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَھُمُ النَّارَ، وَبِءْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ (آیت 98)
’’قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہو گا اور انھیں دوزخ میں لے جا اتارے گا۔ کیا ہی برا گھاٹ ہے جس پر وہ اتریں گے۔‘‘
پھر دنیاوی عذاب کے سار ے قصے سنا کر یہ کہا گیا:
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَۃِ، ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْھُوْدٌ (ہود، 103)
’’اِس میں یقیناًان لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈریں۔ وہ ایک ایسا دن ہے جس کے لیے سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے اور وہ حاضری کا دن ہو ۔‘‘
سورہ یونس میں نوح علیہ السلام کے تذکرے کے بعد اور موسیٰ علیہ السلام کے تذکرے سے پہلے ان دونوں کے درمیان کے رسولوں کو اجمالًا ذکر کیا گیا ہے (آیت 74)، پھر اس اجمالی بیان میں آنے والے رسولوں کا تفصیلی تذکرہ سورہ ہود میں آ گیا ہے۔ اس طرح دونوں سورتیں مل کر انذار کی قرآنی تاریخ کی تکمیل کرتی ہے۔
سورہ یونس میں نوح علیہ السلام کا قصہ مختصر ہے اور موسیٰ علیہ السلام کا مفصل، جب کہ سورہ ہود میں نوح علیہ السلام کا قصہ مفصل ہے اور موسیٰ علیہ السلام کا بالکل مختصر ہے۔ اس طرح دونوں سورتیں مل کر ایک دوسرے کو مکمل کرتی ہیں۔
دونوں سورتوں میں نعمت اور نکبت کی حالتوں کے بارے میں انسان کے ناشکر گزار رویے کا ذکر ہے، لیکن دونوں میں ایک فرق ہے: سورہ یونس میں مصیبت کا بیان ہے کہ جب ناشکرے انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اٹھتے بیٹھے خدا کو پکارنے لگتا ہے، اور جب مصیبت دور ہو جاتی ہے تو خدا کو ایسے بھول جاتا ہے جیسا کبھی پکارا ہی نہ تھا:
وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖٓ اَوْقَاعِدًا اَوْ قَآءِمًا، فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ، کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (آیت 12) 
’’حقیقت یہ ہے کہ اِنھیں کوئی عذاب دکھا بھی دیا جائے تو ایمان نہ لائیں گے۔ اِس لیے کہ) انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو لیٹے اور بیٹھے اور کھڑے وہ ہم کو پکارتا ہے۔ پھر جب اس کی تکلیف ہم ٹال دیتے ہیں تو اِس طرح چل دیتا ہے گویا جو تکلیف اسے پہنچی، اس میں کبھی اْس نے ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ حد سے گزرنے والوں کے لیے اْن کے اعمال اِسی طرح خوش نما بنا دیے گئے ہیں۔‘‘
جب کہ سورہ ہود میں اس ناشکر گزار رویے کو نعمت کے باب میں بیان کیا گیا ہے کہ جب ایسے انسان سے نعمت چھین لی جائے تو فورا مایوس ہو جاتا ہے:
وَلَءِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنٰھَا مِنْہُ اِنَّہٗ لَیَءُوْسٌکَفُوْرٌ (آیت 9)
’’انسان کا معاملہ یہ ہے کہ ہم اس کو اپنے کسی فضل سے نوازتے ہیں، پھر اس سے اسے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہو جاتا ہے اور نا شکری کرنے لگتا ہے۔‘‘
اور دوسرا یہ کہ اگر اسے مصیبت کے بعد نعمت ملتی ہے تو اترانے لگتا ہے لیکن خدا کا شکر گزار نہیں بنتا:
وَلَءِنْاَذَقْنٰہُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ذَھَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیْ، اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ (آیت 10)
’’اور اگر کسی تکلیف کے بعد جو اس کو پہنچی تھی، ہم اسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ میری مصیبتیں مجھ سے دور ہوئیں۔ (پھر) وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے والا بن جاتا ہے۔‘‘
دونوں سورتوں کی اس موضوع کی آیات کو ملا کر دیکھا جائے تو ناشکر گزاری کے اس انسانی رویے کی تصویر مکمل ہوتی ہے۔ گویا دونوں سورتوں کے یہ دونوں مقامات ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔
دونوں سورتوں میں قرآن کے بارے میں کفار کے رویے پر بات ہوئی ہے کہ وہ اسے من گھڑت قرار دے رہے تھے، اس پر دونوں سورتوں میں قرآن جیسا کلام لانے کا چیلنج دیا گیا ہے۔ سورہ یونس میں کہا گیا ہے کہ اگر تم قرآن کو من گھڑت سمجھتے ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ (آیت 38) جب کہ سورہ ھود میں کہا گیا ہے کہ اس جیسی دس سورتیں لے آؤ۔ (آیت 13)
دونوں سورتوں کے اس تقابلی مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ قرآنی سورتوں کے جوڑا جوڑا ہونے کا نظریہ درست ہے اور اس تناظر میں یہ قرآن فہمی کا ایک نیا دریچہ کھولتا ہے۔

دور جدید کا حدیثی ذخیرہ۔ ایک تعارفی جائزہ (۲)

مولانا سمیع اللہ سعدی

۳۔اصول حدیث کے مختلف موضوعات پر خصوصی تصنیفات

عصر حاضر تخصص و سپیشلائزیشن کا دور ہے، علوم و فنون کے شعبہ جات پر مستقل کام ہوا ہے ۔مصطلح الحدیث کی انواع پر بھی مستقل تصنیفات لکھی گئی ہیں۔ یہ تصنیفات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں ایک نوع سے متعلق تفصیلی مواد موجود ہوتا ہے اور اس کے جوانب و اطراف کا احاطہ ہوتا ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے چند اہم کاوشیں ذکر کی جاتی ہیں۔ ان کتب کے تذکرے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ جدید دور میں انواع علوم الحدیث پر ہونے والے کام کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ اصول حدیث کی اہم انواع سے متعلق بعض اہم اور تفصیلی کتب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ چھوٹے رسائل اور مختصر کتب سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ نیز جن کتب کا انتخاب کیا گیا ہے ،وہ تفصیلی اور موضوع سے متعلق اہم مباحث پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ذکر کی گئی ہیں ،ان کے ذکر سے ان کتب کے مباحث سے کلی اتفاق مراد نہ لیا جائے۔
۱۔سعودی عرب کے معروف داعی و مصنف عائض بن عبد اللہ قرنی نے مبتدع کی روایت پر البدعۃ واثرھا فی الدرایۃ و الروایۃ کے نام سے ایک تفصیلی کتاب لکھی ہے ،جس میں بدعتی کی روایت ،حکم اور اس حوالے سے علما کے مذاہب بیان کئے ہیں۔
۲۔اسعد سالم تیم نے علم طبقات پر ایک ضخیم کتاب علم طبقات المحدثین: اھمیتہ وفوائدہ کے نام سے لکھی ہے ،جس میں علم طبقات کی تاریخ ،اہم کتب اور اس علم کی اہمیت پر تفصیلی مواد موجود ہے۔
۳۔علم جرح و تعدیل پر اہم کتب سامنے آئی ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ضیاء الرحمان الاعظمی کی مفصل کتاب دراسات فی الجرح و التعدی،شیخ نور الدین عتر کی اصول الجرح والتعدیل،سید عبد الماجد غوری کی المدخل الی دراسہ علم الجرح والتعدیل اور شیخ محمد بن عبد العزیز کی ضوابط الجرح والتعدیل قابل ذکر ہیں۔
۴۔محمد بن طلعت نے معجم المختلطین کے نام سے ان رواۃ کو جمع کیا ہے جو آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے۔
۵۔سید کسروی حسن نے ھدی القاصد الی اصحا ب الحدیث الواحد کے نام سے سات جلدوں پر مفصل کتاب میں ان رواۃ کا تذکرہ کیا ہے ،جن سے صرف ایک حدیث مروی ہے۔
۶۔احمد محمد نور یوسف نے آداب الحدیث پر ایک ضخیم کتاب من ادب المحدثین فی التربیۃ والتعلیم کے نام سے لکھی ہے۔
۷۔عبد المجید بیرم نے الروایۃ بالمعنی فی الحدیث النبوی و اثرھا فی الفقہ الاسلامی کے نام سے روایت بالمعنی اور اس کے اثرات پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے ۔
۸۔عبد الکریم اسماعیل صباح نے حدیث صحیح اور اس کے مختلف مباحث پر ایک ضخیم کتاب الحدیث الصحیح و منھج علماء المسلمین فی التصحیح کے نام سے لکھی ہے جس میں حدیث صحیح سے متعلق اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے۔
۹۔المرتضی زین احمد نے مناھج المحدثین فی تقویۃ الاحادیث الحسنۃ والضعیفۃ کے نام سے ایک اہم کتاب لکھی ہے ،جس میں حدیث کے شواہد ،متابعات اور حدیث کی تقویت کے دیگر طرق پر بحث کی ہے۔
۱۰۔معروف محقق عمرو بن عبد المنعم سلیم نے حدیث حسن پر الحسن بمجموع الطرق فی میزان الاحتجاج بین المتقدمین والمتاخرین کے نام سے ایک نفیس کتاب لکھی ہے۔
۱۱۔عبد الکریم بن عبد اللہ الخضیر نے حدیث ضعیف پر ایک مفصل کتاب الحدیث الضعیف و حکم الاحتجاج بہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں حدیث ضعیف کے مختلف مباحث پر نظر ڈالی ہے۔
۱۲۔محمد عزت حسین نے الحدیث الضعیف و انواعہ کے نام سے حدیث ضعیف پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔
۱۳۔ماہر منصور عبد الرزاق نے الحدیث الضعیف: اسبابہ و احکامہ کے نام سے ایک مفصل کتاب لکھی ہے ،جس میں حدیث ضعیف کے مختلف گوشے نمایاں کیے گئے ہیں۔
۱۴۔ڈاکٹر عمر بن حسن بن عثمان فلاتہ نے حدیث موضوع پر تین جلدوں پر مفصل کتاب الوضع فی الحدیث لکھی ہے۔ موضوع حدیث کے مباحث پر اگر اسے عصر حاضر کی سب سے تفصیلی کتاب کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ کتاب دراصل پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس پر مقالہ نگار کو جامعہ ازہر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔
۱۵۔ معروف مصنف عمر سلیمان الاشقر نے حدیث موضوع کے مباحث پر ایک جامع کتاب الوضع فی الحدیث النبوی: تعریفہ، خطورتہ، اسبابہ وطرق الکشف عنہ کے نام سے لکھی ہے۔
۱۶۔عصام الدین بن سید الصبابطی نے احادیث قدسیہ پر تین جلدوں پر ایک ضخیم موسوعہ جامع الاحادیث القدسیۃ: موسوعۃ جامعۃ مشروحۃ ومحققۃ کے نام سے تیار کیا ہے۔ اس میں حدیث قدسی پر اہم مباحث کے ساتھ ساڑھے گیارہ سو احادیث قدسیہ کا ذکر کیا ہے۔
۱۷۔معروف مصنف محمد متولی الشعراوی نے الاحادیث القدسیۃ کے نام سے چھ جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔
۱۸۔شعبان محمد اسماعیل نے حدیث قدسیہ سے متعلق حدیثی و فقہی مباحث پر الاحادیث القدسیۃ ومنزلتھا فی التشریع لکھی ہے ،جس میں اس موضوع کے مختلف گوشوں پر نظر ڈالی ہے۔
۱۹۔عبد اللہ ابو سعود بدر نے المرفوع وصیغ الرفع کے نام سے حدیث مرفوع کے مباحث پر ایک مفصل کتاب لکھی ہے۔
۲۰۔طارق اسعد حلمی نے علم ورود الحدیث پر ایک عمدہ کتاب علم اسباب ورود الحدیث و تطبیقاتہ عند المحدثین و الاصولیین کے نام سے لکھی ہے۔ساڑھے پانچ سو صفحات کی اس کتاب میں ورود الحدیث سے متعلقہ مباحث کا عمدہ احاطہ کیا گیا ہے۔
۲۱۔مشکل الحدیث اور احادیث نبویہ میں ایسی احادیث جو متنوع سوالات اور اشکالات کا باعث ہیں ،ان کے جواب پر مبنی متعدد کتب سامنے آئی ہیں ،جن میں عبد اللہ بن علی النجدی کی مشکلات الاحادیث النبویۃ و بیانھا اور احمد رضوان کی مسائل فی تاویل الاحادیث قابل ذکر ہیں۔
۲۲۔علم مختلف الحدیث معاصر مصنفین کا خصوصی موضوع رہا ہے۔ ان میں خاص طور پر اسامہ عبد اللہ خیاط کی مختلف الحدیث وموقف النقاد والمحدثین منہ، نافذ حسین حماد کی مختلف الحدیث بین الفقھاء والمحدثین اور عبد المجید محمد اسماعیل السوسوہ کی ضخیم کتاب منھج التوفیق والترجیح بین مختلف الحدیث واثرہ فی الفقہ الاسلامی قابل ذکر ہیں۔
۲۳۔حدیث مرسل کی حجیت کا مسئلہ قدیم زمانے سے معرکۃ الآرا رہا ہے۔ معاصر سطح پر اس مسئلے کا بھی مختلف جوانب سے جائزہ لیا گیا ہے۔ ان کتب میں حفصہ بنت عبد العزیز کا دو جلدوں پر مشتمل ضخیم مقالہ الحدیث المرسل بین القبول و الرد، ابودور سید حامد کی الخبر المرسل عند الاصولیین: دراسۃ و تطبیق، علاء الدین حسن کی الاحتجاج بالمرسل واثرہ فی الفقہ الاسلامی اور فوزی محمد البتشتی کی ضخیم کتاب حجیۃ المرسل عند المحدثین والاصولیین والفقھاء قابل ذکر ہیں۔
۲۴۔تدلیس اور اس کی اقسام و احکام پر بھی اہم کتب لکھی گئیں ہیں۔ ان میں سید عبد الماجد غوری کی التدلیس والمدلسون: دراسۃ عامۃ، محمود عبد الوہاب عبد الحفیظ کی القول النفیس فی المقبول والمردود من التدلیس، صالح الجزائری کی التدلیس و احکامہ اور مسفر بن غرم اللہ الدمینی کی مفصل کتاب التدلیس فی الحدیث: حقیقتہ واقسامہ واحکامہ ومراتبہ والموصوفون بہ سر فہرست کتب ہیں۔
۲۵۔دور جدید میں خبر واحد کا مسئلہ بعض وجوہ سے اہمیت اختیار کرگیا ہے اور افراط و تفریط کا شکار ہوا ہے۔ اہل تجدد کے نزدیک خبر واحد سے دین کا کوئی نیا حکم اخذ نہیں کیا جاسکتا، جبکہ سلفی حضرات کے نزدیک خبر واحد سے عقائد کا بھی اثبات ہوسکتا ہے۔ اس لیے خبر واحد پر متعدد کتب لکھی گئی ہیں،ان کتب میں شیخ نور الدین عتر کی الاتجاھات العامۃ للاجتھاد ومکانۃ الحدیث الآحاد الصحیح فیھا اور ابو عبد الرحمان القاضی کی دو جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب خبر الواحد فی التشریع الاسلامی وحجیتہ قابل ذکر ہے۔
۲۶۔ علم علل الحدیث معاصر سطح پر خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے ،اور اس سلسلے میں مفید کتب سامنے آئی ہیں۔ ان میں شیخ نور الدین عتر کی لمحات موجزۃ فی اصول علل الحدیث، سید عبد الماجد غوری کی المیسر فی علم علل الحدیث، ہمام عبد الرحیم کی العلل فی الحدیث، حمزہ عبد اللہ الملیباری کی الحدیث المعلول: قواعد وضوابط، ماہر یاسین فحل کی اثر علل الحدیث فی اختلاف الفقھاء،علی بن عبد اللہ الصیاح کی جھود المحدثین فی بیان علل الحدیث اور مقبل بن ہادی الوادعی کی احادیث معلۃ ظاھرھا الصحۃ قابل ذکر کتب ہیں۔
۲۷۔احادیث پر حکم لگانے اور سند و متن پر نقد کے اصول و قواعد پر معاصر سطح پر قابل قدر کام ہوا ہے۔ ان میں معروف محقق ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی کی منھج النقد عند المحدثین نشاتہ وتاریخہ، معروف مصنف مسفر غرم اللہ دمینی کی مقاییس نقد متون السنۃ،محمد طاہر الجوابی کی جھود المحدثین فی نقد متن الحدیث الشریف، محمد علی قاسم العمری کی دراسات فی منھج النقد عند المحدثین اور حسین الحاج حسن کی دو جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب نقد الحدیث فی علم الروایۃ وعلم الدرایۃ قابل ذکر کتب ہیں۔
۲۸۔عربی کی بہ نسبت اردو میں اصول حدیث پر خصوصی تصنیفات بہت کم ہیں،کیونکہ اردو میں طبع زاد کتب کی بجائے عربی کتب کے ترجمہ و تشریح کی روایت زیادہ ہے۔ طبع زاد کتب کا جو سرمایہ موجود ہے،وہ خصوصیت کی بجائے عمومیت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اصول حدیث اور اس کی مختلف شاخوں پر معدودے چند کتب میں اصول حدیث اور علم حدیث کے تعارف پر ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کی محاضرات حدیث، ڈاکٹر تقی الدین ندوی کی فن اسماء الرجال، غازی عزیر مبارکپوری کی ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت، ڈاکٹر سہیل حسن کی معجم اصطلاحات حدیث اور علم جرح و تعدیل،ڈاکٹر اقبال احمد اسحاق کی جرح و تعدیل،محمد ایوب رشیدی کی احناف حفاظ حدیث کی فن جرح و تعدیل میں خدمات ،محمد اکرم رحمانی کی حدیث موضوع اور ان کے مراجع،ڈاکٹر محمد اکرم ورک کی متون حدیث پر جدید ذہن کے اشکالات،ایک تحقیقی مطالعہ اور مولانا تقی امینی کی حدیث کا درایتی معیار قابل ذکر ہیں۔ اردو میں اصول حدیث پر خصوصی تصنیفات زیادہ تر ایم فل اور پی ایچ ڈی مقالات کی صورت میں ہیں جن کا ذکر مقالات کے عنوان کے تحت آئے گا۔

۴۔مصطلح الحدیث پر تطبیقی کام 

معاصر سطح پر اصول حدیث پر ہونے والے کام میں ایک جدت کا پہلو یہ آیا ہے کہ مصطلح الحدیث اور اس کے قواعد و ضوابط پر تطبیقی و تمرینی کتب لکھنے کا رواج پڑگیا ہے۔ اس طرز کی کتب میں اصول حدیث اور اس کی مختلف شاخوں کے لئے کتب حدیث و کتب رجال سے امثلہ و تمارین کا ذکر کیا جاتا ہے ،متنوع اسئلہ درج کی جاتی ہیں تاکہ مسائل اور اصول مثالوں سے ذہن نشیں ہو اور ان کی وضاحت ہوجائے۔جدید طرز کی یہ کتب بلا شبہ علم مصطلح الحدیث میں تجدیدی کارنامہ ہے،کیونکہ قدیم متون میں معدود ے چند مثالیں ہیں جنہیں بعد میں آنے والے ہر مصنف نے دہرایا ہے۔ اس سلسلے کی چند اہم کتب کی فہرست دی جارہی ہے :
۱۔ الواضح فی مصطلح الحدیث للمبتدئین مع اسئلۃ وتمارین للمناقشۃ، ابراہیم النعمہ ، دارالنفائس ،عمان 
۲۔ الجد الحثیث لتیسیر مسائل وفنون علم الحدیث بطریقۃ تطبیقیۃ وامثلۃ عملیۃ، ابراہیم محمود عبد الراضی ،دارالایمان ،اسکندریہ 
۳۔ علم مصطلح الحدیث التطبیقی، علی بن ابراہیم حشیش ،دار العقیدہ ،قاہرہ
۴۔ تحریر علوم الحدیث، شیخ عبد اللہ بن یوسف الجدیع
۵۔ المنھج الحدیث فی تسھیل علوم الحدیث، علی نایف بقاعی ،دارالبشائر ،بیروت 
۶۔ تیسیر و تخریج الاحادیث للمبتدئین، عمر وعبد المنعم سلیم ،دار عفان 
۷۔ تحریر علوم الحدیث، عمر عبد المنعم سلیم ،دار ابن قیم 
۸۔ المعلم فی معرفۃ علوم الحدیث وتطبیقاتہ العلمیۃ والعملیۃ، عمرو عبد المنعم سلیم ،دار ابن قیم 
۹۔ اربعون تدریبا فی نقد الاسانید والمتون، عمرو عبد المنعم سلیم 
۱۰۔ اصول التخریج ودراسۃ الاسانید، محمود طحان،دار القران الکریم ،بیروت 

چوتھی جہت :شروحات حدیث 

عصر حاضر کے حدیثی ذخیرے کا ایک بڑا حصہ کتب حدیث کی شروحات ، تعلیقات اور تراجم پر مشتمل ہے،ان میں زیادہ تر کتب ستہ اور موطا کی شروحات شامل ہیں ،یہ شروحات و تعلیقات مفصل بھی ہیں اور مختصر بھی ، بعض میں پوری کتاب کی اول تا آخر شرح کی گئی ہے جبکہ بعض شروحات کتاب کے مخصوص مقامات اور خاص حصوں کی تشریحات پر مشتمل ہیں۔ بعض کتاب پر متنوع دراسات و تحقیقات کی صورت میں ہیں ،جیسے اعلام کی تحقیق،الفاظ غریبہ کی تحقیق، کتاب کا متنوع پہلووں سے تجزیہ و تحلیل وغیرہ۔ اس عنوان کو درجہ ذیل چار ذیلی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
۱۔عربی شروحات و تعلیقات 
۲۔اردو شروحات 
۳۔درسی تقریرات و افادات 
۴۔کتب حدیث کے تراجم 

۱۔ عربی شروحات و تعلیقات 

عرب ممالک میں سلفیت کی لہر چلنے سے کتب حدیث خاص طور پر توجہ کا مرکز بن گئیں اور صحاح ستہ سمیت حدیث کی دیگر کتب پر کما و کیفا دونوں اعتبار سے ممتاز کام ہوا ہے ،ذیل میں اہم کتب حدیث پر ہونے والے جدید کاموں کا ایک جائزہ لیا جاتا ہے :

۱۔صحیح بخاری

صحیح بخاری کی علمی حلقوں میں مقبولیت ایک مسلم امر ہے ،کتب حدیث میں بعض حوالوں سے ممتاز ہونے کی وجہ سے ہر دور میں اس پر ہونے والا کام بقیہ کتب کی بہ نسبت زیادہ رہا ہے ،دور جدید میں بھی صحیح بخاری پر متنوع دراسات و تحقیقات ہوئی ہیں۔ چند اہم کاموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے :
۱۔صحیح بخاری پر جدید دور میں ہونے والا ممتاز کام نویں صدی ہجری کے معروف عالم ابن ملقن کی مفصل شرح التوضیح شرح الجامع الصحیح کی اشاعت و تحقیق ہے۔ قطر کی وزارت اوقاف نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور خالد الرباط اور جمعہ فتحی کی سربراہی میں بیس کے قریب محققین نے سات مخطوطات کے تقابل سے شرح ابن ملقن کی تحقیق کی اور صحیح بخاری کی یہ عظیم شرح چھتیس جلدوں میں منظر عام پر آگئی۔
۲۔صحیح بخاری کی جدید شروحات میں مفصل ترین شرح ترکی کے معروف عالم اور اٹھارویں صدی کے ممتاز محقق علامہ یوسف زادہ آفندی کی نجاح القاری فی شرح صحیح البخاری ہے، یہ شرح ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوسکی۔ چار ہزار لوحات پر مشتمل اس کا مفصل مخطوطہ اگر طبع ہوا تو ایک اندازے کے مطابق پچاس جلدوں میں منظر عام پر آئے گا۔ یہ مخطوطہ مکتبہ الاثار و امخطوطات ترکی میں محفوظ ہے ،اور معروف ویب سائٹ ملتقی اہل الحدیث پر بھی تیس جلدوں میں موجود ہے۔اس مخطوطہ کے بعض حصوں کی پی ایچ ڈی مقالات کی صورت میں تحقیق ہوئی ہے ،لیکن مکمل شرح ابھی تک محقق طباعت کی منتظر ہے۔
۳۔صحیح بخاری کے ابواب و تراجم پر مفصل کام شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ کے افادات ہیں ،جو آپ کے مختلف تلامذہ کی تحقیق کے ساتھ متعدد جلدوں میں چھپے ہیں ،ان افادات میں صحیح بخاری کے جملہ تراجم پر مفصل بحث شامل ہے ،صحیح بخاری کے ابواب و تراجم پر یہ اپنی نوعیت کی پہلی مفصل کاوش ہے۔
۴۔صحیح بخاری کی متعدد محققانہ طبعات منظر عام پر آئی ہیں ،ان میں سے دو طبعات بعض وجوہ سے اہم ہیں :
الف:صحیح بخاری کی صحیح ترین طباعت عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید کی نگرانی میں ہونے والی طبعہ امیریہ کی اشاعت ہے۔ سلطان عبد الحمید نے جید علما کی مجلس اس کام کے لئے تشکیل دی اور صحیح بخاری کے معروف ناسخ اور آٹھویں صدی ہجری کے معروف حنبلی عالم حافظ یونینی کے نسخے کو اصل قرار دیا اور دیگر نسخوں کے ساتھ تقابل و تصحیح بھی کی۔ یوں دو سال کی تحقیق کے ساتھ نو جلدوں میں یہ نسخہ شائع ہوا ،سلطان نے اشاعت سے پہلے جامعہ ازہر کے سولہ جید علما کی موجودگی میں اس کی خواندگی کروائی ،اس نسخہ کے حاشیے میں صحیح بخاری کے دیگر نساخ و رواۃ کے فروق کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔ تقریباً پندرہ سال پہلے بیروت کے معروف ادارے دار طوق النجاۃ نے اسی اشاعت کو دوبارہ شائع کیا۔
ب:ممتاز شامی محقق ڈاکٹر مصطفی دیب البغا کی تحقیق و تعلیق کے ساتھ اشاعت متنوع خوبیوں کی حامل ہے ،اس میں محقق نے احادیث کی ترقیم ،مکرر احادیث کی نشاندہی اور مشکل الفاظ کی تحقیق سمیت متنوع اطراف سے تحقیق کی ہے۔صحیح بخاری کی یہ اشاعت علمی حلقوں میں مرکزیت کی حامل ہے ۔
۵۔صحیح بخاری میں موجود صحابہ کی مرویات مسانید کی ترتیب پر معروف محقق فواد عبد الباقی نے جمع کی ہیں ،یہ تحقیق جامع مسانید صحیح البخاری کے نام سے دار الحدیث قاہرہ سے چھ جلدوں میں چھپ چکی ہے۔
۶۔صحیح بخاری میں حدیث کی تلاش ایک مشکل مرحلہ ہے ،کیونکہ امام بخاری ادنی مناسبت سے حدیث کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے کئی مقامات پر ذکر کرتے ہیں۔ اس مشکل کا حل سید عنبر عبد الرحیم نے ھدایۃ الباری الی ترتیب احادیث البخاری کی شکل میں نکالا ہے ،مصنف نے صحیح بخاری کی تمام احادیث کو حروف تہجی کی ترتیب سے جمع کیا ہے ،اور ہر حدیث کے ساتھ اصل کتاب کے باب اور راوی کا حوالہ دیا ہے۔ تین ضخیم جلدوں میں مطبعہ الاستقامہ قاہرہ سے چھپ چکا ہے۔
صحیح بخاری پر ہونے والے بعض اہم شروح و دراسات کی کی ایک فہرست دی جارہی ہے :
۱۔ الفجر الساطع علیٰ صحیح الجامع، محمد الفضیل بن الفاطمی ،مکتبہ الرشد ،بیروت (۱۷ مجلدات)
۲۔ عون الباری لحل ادلۃ البخاری، نواب صدیق حسن خان القنوجی ،دار الرشد ،شام (۵مجلدات)
۳۔ منار القاری شرح مختصر صحیح البخاری، حمزہ قاسم ،مکتبہ دارالبیان ،شام (۵مجلدات)
۴۔ ھدایۃ الساری الیٰ دراسۃ البخاری (مقدمہ صحیح بخاری)،مولنا امداد الحق السلہٹی ،دار الفکر الاسلامی، ڈھاکہ( مجلدین)
۵۔ روایات و نسخ الجامع الصحیح: دراسۃ وتحلیل، ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم ،دار امام الدعوہ، ریاض
۶۔ کوثر المعانی الدراری فی کشف خبایا صحیح البخاری، محمد الخضر الشنقیطی ،موسسہ الرسالہ ،بیروت (۴۱ مجلدات)
۷۔ المدلسین و مرویاتھم فی صحیح البخاری، فہمی احمد عبد الرحمان ،دار الکتب العلمیہ ، بیروت (مجلدین)
۸۔ شرح صحیح البخاری، محمد بن صالح العثیمین ،المکتبہ الاسلامیہ ،قاہرہ (۱۰ مجلدات)
۹۔ روایات الجامع الصحیح ونسخہ: دراسۃ نظریۃ تطبیقیۃ، جمعہ فتحی عبد الحلیم ،وزارہ الاوقاف ،قطر(مجلدین )
۱۰۔ منحۃ الملک الجلیل شرح محمد بن اسماعیل، عبد العزیز بن عبد اللہ الراجحی ،دار التوحید (۱۴ مجلدات)
۱۱۔ النظر الفسیح عند مضائق الانظار فی الجامع الصحیح، محمد طاہر بن عاشور ،الدار العربیہ، تیونس
۱۲۔ المنھل العذب الفرات فی شرح الاحادیث الامھات من صحیح البخاری، عبد العال احمد ،المکتبہ الازہریہ ،قاہرہ (۴مجلدات)
۱۳۔ معجم الامکنہ الواردہ ذکرہا فی صحیح البخاری، سعد بن عبد اللہ ،ادارہ الملک عبد العزیز، ریاض
۱۴۔ تیسیر صحیح البخاری، موسی شاہین لاشین ،مکتبہ الشروق ،قاہرہ (۳مجلدات)
۱۵۔ اتحاف القاری بمعرفہ جھود واعمال العلماء علی صحیح البخاری، محمد عصام عرار الحسینی، الیمامہ للطباعہ والنشر ،بیروت
۱۶۔ النور الساری من فیض صحیح الامام البخاری، حسن عدوی حمزاوی ،مطبعہ المصریہ ،قاہرہ (۵مجلدات)
۱۷۔ الحلل الابریزیۃ من التعلیقات البازیۃ علی صحیح البخاری، عبد العزیز عبد اللہ بن باز ،دار التدمیریہ (۴مجلدات)
۱۸۔ تحفہ القاری بحل مشکلات البخاری، مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ 
۱۹۔ نبراس الساری فی اطراف البخاری، محمد عبد العزیز محمد نور ،المطبع الکریمی ،لاہور
۲۰۔ فہارس البخاری، رضوان محمد رضوان ،دارلکتاب العربی،قاہرہ
۲۱۔ الکوثر الجاری فی حل مشکلات البخاری، محمد ابوالقاسم البنارسی 
۲۲۔ عون الباری لحل عویصات البخاری، شیخ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی 

۲۔صحیح مسلم

۱۔صحیح مسلم کی سب سے مفصل شرح معروف شافعی عالم ،مصنف اور حرم مکی کے معروف مدرس محمد امین بن عبد اللہ الھرری کی الکوکب الوہاج و الروض البہاج فی شرح صحیح مسلم بن الحجاج ہے ،یہ شرح چھبیس جلدوں میں دار طوق النجاۃ بیروت سے شائع ہوچکی ہے۔
۲۔ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی معروف شرح فتح الملھم اور اس کا تکملہ جو شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب کی تصنیف ہے ،کا شمار بلا شبہ جدید دور میں صحیح مسلم پر ہونے والے ممتاز کاموں میں ہوتاہے۔
۳۔ڈاکٹر محمد محمدی نورستانی نے المدخل الی صحیح الامام مسلم بن الحجاج کے نام سے ایک مفید کتاب لکھی ہے جس میں امام مسلم اور صحیح مسلم کا مکمل تعارف شامل ہے ،صحیح مسلم کے نسخے ،شروحات ،تحقیقات ،صحیح مسلم کے رواۃ کے طبقات اور امام مسلم کے منہج سمیت دیگر مباحث کا خوب استقصا کیا ہے۔یہ کتاب مکتب الشوون الفنیہ کویت سے شائع ہوئی ہے۔
۴۔صحیح مسلم کی متعدد طبعات منظر عام پر آئی ہیں ،ان میں سب سے معروف اور اہل علم کے درمیان متداول نسخہ معروف محقق فواد عبد الباقی کی تحقیق و تعلیق کا حامل نسخہ ہے جو دارالکتب العلمیہ بیروت سے چھپ چکا ہے۔اس کے علاوہ معروف محدث اور صحیح مسلم کے شارح موسی شاہین لاشین اور احمد عمر ہاشم کا محقق شدہ نسخہ ہے جو موسسہ عزالدین بیروت سے پانچ جلدوں میں شائع ہوا ہے۔
صحیح مسلم پر ہونے والی اہم تحقیقات و دراسات کی ایک فہرست پیش خدمت ہے :
۱۔ السراج الوھاج من کشف مطالب صحیح مسلم بن الحجاج، صدیق حسن خان القنوجی ،الشوون الدینیہ ،قطر (۱۱ مجلدات)
۲۔ فتح المنعم شرح صحیح مسلم، موسی شاہین لاشین، دار الشروق، بیروت (۱۰ مجلدات)
۳۔ منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم، صفی الرحمان مبارکپوری ،دارلسلام ،ریاض (۴مجلدات)
۴۔ قرۃ عین المحتاج فی شرح مقدمہ صحیح مسلم بن حجاج، محمد بن علی بن آدم الاثیوبی ،دار ابن جوزی ،سعودیہ (مجلدین)
۵۔ الامام مسلم ومنھجہ فی صحیحہ، محمد عبد الرحمان طوالبہ ،دار عمار ،عمان
۶۔ دراسات علمیۃ فی صحیح مسلم، علی حسن بن عبد الحمید ،دارالہجرہ ،ریاض
۷۔ روایات المدلسین فی صحیح مسلم،جمعھا وتخریجھا و الکلام علیھا، عواد حسین الخلف، دار البشائر الاسلامیہ ،بیروت
۸ ۔ عبقریۃ الامام مسلم فی ترتیب احادیث مسندہ الصحیح، دراسۃ تحلیلیۃ، حمزہ عبد اللہ الملیباری ،دار ابن حزم ،بیروت
۹۔ منھج الامام مسلم فی ترتیب کتابہ الصحیح ودحض شبھات حولہ، ربیع بن ہادی المدخلی ،مکتبہ الدار ،المدینہ المنورہ
۱۰۔ تنبیہ المسلم الی تعدی الالبانی علی صحیح مسلم،محمود سعید ممدوح ،مکتبہ الامام الشافعی، الریاض
۱۱۔ البحر المحیط الثجاج فی شرح صحیح الامام مسلم بن الحجاج، محمد بن علی بن آدم الاثیوبی، دار ابن جوزی ،سعودیہ (۲۴ مجلدات)
۱۲۔ شرح صحیح مسلم، محمد بن صالح العثیمین ،دار الرشد (۱۰ مجلدات)
۱۳۔ فھارس صحیح مسلم، محمد فواد عبد الباقی ،دار احیاء الکتب العربیہ ،قاہرہ

۳۔جامع ترمذی

۱۔جامع ترمذی کی سب سے مفصل معاصر شرح معروف اہل لحدیث عالم علامہ عبد الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ کی تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی ہے ،حل کتاب اور حدیثی مباحث میں بلا شبہ یہ شرح لا جواب ہے، مبارکپوری صاحب نے اس کے شروع میں ایک مفصل مقدمہ بھی لکھا ہے ،جو مستقل جلد میں شائع ہوا ہے۔ اس مقدمہ میں جامع ترمذی اور حدیث سے متعلقہ مباحث کا خوب استقصا کیا ہے۔یہ شرح بیروت سے دس جلدوں میں چھپ چکی ہے۔
۲۔محدث العصر حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ کی معارف السنن شرح جامع السنن عمدہ شرح ہے ،حضرت بنوری نے خاص طور پر اس شرح میں اپنے استاد اما م العصر حضرت انورشاہ کشمیری کے افادات کو جمع کر نے کی کی کوشش کی ہے ،یہ شرح کتاب الحج تک ہے ، اگر یہ شرح مکمل ہوتی تو بلاشبہ دور جدید میں جامع ترمذی کی مفصل اور جامع شروح میں شمار ہوتی۔
۳۔ معارف السنن کا تکملہ استاد محترم اور جامعہ امدادیہ کے نائب صدر حضرت مولانا زاہد صاحب دامت برکاتہم نے لکھنا شروع کیا ہے ،ابھی تک اس کی ایک ضخیم جلد منظر عام پر آئی ہے ،جو صرف کتاب الجنائز پر مشتمل ہے ،حدیث کی تشریح میں جدید مباحث کے حوالے سے ایک عمدہ کاوش ہے۔ اللہ کرے ،استاد محترم اس شرح کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
۳۔امام ترمذی عموماً حدیث کے ذکر کرنے کے بعد اس کے متابعات و شواہد کی طرف اشارہ کرنے کے لئے وفی الباب کہہ کر ان صحابہ کا ذکر کرتے ہیں ،جن سے حدیث کے متابعات و شواہد مروی ہیں۔ وفی الباب کی احادیث کی تخریج پر معاصر سطح پر عمدہ کام ہوا ہے ،جن میں دو کتب قابل ذکر ہیں :
الف:حسن بن حیدر الوائلی کی چھ جلدوں پر مشتمل مفصل کتاب نزھۃ الالباب فی قول الترمذی وفی الباب جامع کتاب ہے ،یہ کتاب در ابن جوزی ریاض سے چھپی ہے۔
ب:ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ کی کتا ب کشف النقاب عما یقولہ الترمذی و فی الباب اس سلسلے کی ایک عمدہ کتاب ہے ،لیکن یہ کتاب نامکمل ہے ،پانچ جلدوں میں مجلس الدعوہ و التحقیق کراچی سے چھپی ہے۔
۴۔معروف سلفی محدث ناصر الدین البانی نے متعدد کتب حدیث پر صحت و ضعف کے اعتبار سے تحقیقات کی ہیں، علامہ البانی نے جامع ترمذی پر بھی اسی نوعیت کا کام کیا اور جامع ترمذی کو صحیح سنن لاترمذی اور ضعیف سنن الترمذی میں تقسیم کرکے جامع ترمذی کے صحیح و ضعیف احادیث پر مبنی دو الگ نسخے تیار کئے۔اگرچہ بہت سے اہل علم نے علامہ البانی کی اس تحقیق سے اختلاف کیا ہے ،لیکن علمی و حدیثی حوالے سے اس کام کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔
۵۔جامع ترمذی کی متعدد طبعات منظر عام پر آئی ہیں ،ان میں درجہ ذیل طبعات تحقیق کے حوالے سے اہم شمار ہوتی ہیں :
الف: جامع ترمذی بتحقیق شعیب الارناووط، موسسہ الرسالہ ،بیروت(۶مجلدات)
ب: جامع ترمذی بتحقیق بشار اعواد معروف، دار الغرب الاسلامی (۶مجلدات)
ج: جامع الترمذی بتحقیق احمد محمد شاکر، مکتبہ مصطفی البابی الحلبی (۵ مجلدات )
۶۔جامع ترمذی پر معاصر سطح کی سب سے مفصل تحقیق ،تعارف ، جامع ترمذی کے رواۃ اور امام ترمذی کے منہج پر تفصیلی بحث معروف شامی عالم ڈاکٹر عداب محمود الحمش نے کی ہے ،ڈاکٹر صاحب نے الامام الترمذی ومنھجہ فی کتابہ الجامع کے نام سے تین جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب لکھی ہے جو دراصل ان کا پی ایچ ڈی مقالہ ہے ،اس کتاب میں جامع ترمذی سے متعلق جملہ مباحث کا عمدہ استقصا کیا گیا ہے ،یہ کتاب دار الفتح للدراسات والنشر عمان سے چھپی ہے۔
جامع ترمذی پر ہو نے والی بعض اہم تحقیقات و دراسات کی ایک فہرست پیش کی جارہی ہے :
۱۔ فقہ الحدیث عند الائمہ السلف بروایہ الامام الترمذی، محمد بن احمد کنعان ،موسسہ المعارف، بیروت (مجلدین )
۲۔ فقہ الامام الترمذی فی سننہ و دراسۃ نقولہ للمذاھب، مازن عبد العزیز الحارثی ،جامعہ ام القری (مجلدین )
۳۔ الردود و التعقیب علی بعض الشارحین من المعاصرین لجامع الترمذی، عبد الرحمان بن یحییٰ المعلمی ،المکتبہ الملکیہ، مکہ مکرمہ
۴۔ حاشیۃ علیٰ جامع الترمذی، احمد علی سہارنپوری ،مطبعہ احمدیہ ،دہلی
۵۔ جامع الترمذی فی الدراسات المغربیۃ، روایۃ ودرایۃ، محمد حسین صقلی ،جامعہ محمد الخامس،رباط
۶۔ المدخل الی جامع الامام الترمذی، ڈاکٹر طاہر الازہر،مکتب الشوون الفنیہ ،کویت
۷۔ الامام الترمذی والموازنۃ بین جامعہ وبین الصحیحین، ڈاکٹر نور الدین عتر ،مطبعہ لجنہ التالیف 
۸۔ جائزۃ الاحوذی فی التعلیقات علی سنن الترمذی، ابی النصر ثناء اللہ المدنی ،ادارہ البحوث الاسلامیہ ،بنارس (۴ مجلدات)
۹۔ حسن صحیح فی جامع الترمذی دراسۃ و تطبیق، اعداد طلبہ قسم التخصص فی الحدیث دار العلوم دیوبند ،اکادیمیہ ،شیخ الہند ،دیوبند (مجلدین )
۱۰۔ تھذیب جامع الامام الترمذی، عبد اللہ التلیدی ،دار المعرفہ و الفکر ،بیروت(۳مجلدات)
۱۱۔ العطر الشذی فی حل الفاظ الترمذی، محمد منیر عبدہ الدمشقی 
(جاری ہے)

دینی مدرسہ میں استاد کا کردار (۲)

مولانا محمد رفیق شنواری

تعلیمی ماحول کی تشکیل میں استاد کا کردار

تعلیمی عمل کا ایک اساسی بلکہ اہم ترین رکن استاد ہے ۔ لیکن تعلیم کو فروغ دینے کے سلسلے میں استاد کے علاوہ تعلیمی وسائل کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے ۔ تعلیم کے وسائل پورے اور بہتر ہوں تو استاد کو عمل تدریس میں لگن پیدا ہوگی ، اس طرح بہتر اور معیاری تدریس اپنے مثبت اور اچھے اثرات کے باعث عملِ تعلیم کو خوش گوار اور پرکشش بنا دیتی ہے۔ اس لیے تعلیمی ماحول کی تشکیل میں اولین ذمہ داری اداروں کے سربراہان یا مدارس کے مہتممین حضرات پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مدارس کے بادشاہ یا سلاطین بننے کے بجائے طلبہ اور بالخصوص مدرسین کے خدام بنیں۔ کیونکہ اگر وہ تدریس کے عمل میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹوں کو دور کریں اور تدریس کے لیے امکانی حد تک تمام وسائل مہیا کریں تو ہر استاد محبت اور محنت کے ساتھ تعلیم و تربیت میں بھرپور کردار ادا کرے گا۔
تاہم تدریس کے وسائل خواہ جتنے بھی بہتر ہوجائیں، تعلیمی ماحول کی تشکیل میں کلیدی کردار استادہی کا ہے کیونکہ وسائل کے پورا ہونے کے بعد بھی تدریس کا عمل ازخود بہتر نہیں ہوسکتا بلکہ استاد کو اسے بہتر اور معیاری بنانا پڑے گا۔ اس سلسلے میں استاد اولاً اپنی یہ ذہن سازی کرے کہ عمل تدریس کو ایک فن کے طور پر تسلیم کرے جس میں تربیت اور تجربے کی روشنی میں بہتری لائی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد استاد ماہرین تعلیم کی تجاویز اور کہنہ مشق اساتذہ کی راہنمائی حاصل کریں۔ اپنے حقوق اور اپنی ذمہ داریاں پہچانیں، حقوق اور مراعات کے حصول پر توجہ کم دیں، اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی پر زیادہ توجہ دیں۔ ہر وقت اپنا احتساب خود کریں۔ طلبہ کو اپنی اولاد کی طرح سمجھیں۔ ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اٹھانہ رکھیں اور عمل تدریس کو مؤثر بنانے کے لیے فکر مند رہیں۔ سوچنا چاہیے کہ اگر عمل تدریس معیاری ہے، اس سے اہداف و مقاصد کا حصول ہورہا ہے اور طلبہ مصلحین بن کر معاشرے میں جا رہے ہیں تو وہ معاشرے کے دیگر افراد کے لیے نمونہ اور آئیڈیل ثابت ہوں گے ، اور لوگ اپنی اولاد کو تعلیم کے لیے بھیجتے رہیں گے اور مدارس کے ساتھ ان کا تعلق مزید مضبوط ہوگا ۔

ہم نصابی سرگرمیوں کی اہمیت اور استاد کی رہنمائی

تعلیم و تربیت کا عمل مدرسے کی چار دیواری یا کمرۂ جماعت تک محدود و مقید نہیں کرنا چاہیے بلکہ طلبہ کی ذہنی، جسمانی، اخلاقی اور فکری تربیت کے لیے باقاعدہ نصاب سے ہٹ کر کچھ تفریحی ، ہم نصابی سرگرمیوں اور تربیت جسمانی کے عمل کو بھی بروئے کار لانا چاہیے ۔ کیونکہ نصابی تعلیم و تدریس کے ساتھ طلبہ کی طبعی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ طلبہ کی تربیت میں ان سرگرمیوں کو بھی بے حد اہمیت حاصل ہے ۔ اس تصور کو بالعموم مغرب سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن نبوی تعلم و تربیت کے تصورات کا اگر جائزہ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ آپؐ نے چودہ سو سال قبل بھی تعلیم کے اس پہلو پرکس قدر توجہ دی تھی۔ آپؐ نے جہاں بچوں اور نوجوانوں کو عقائد، اخلاق اور فنون کی تعلیم دی، وہیں ان کی جسمانی نشوونما اور ان کی تفریح کا بھی پورا پورا خیال رکھا۔ آپؐ نے جاہلیت کے ان تمام مشاغل کو جو اخلاقی اعتبار سے مفید ہوسکتے تھے یا ان کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ذریعے مفید بنایا جاسکتا تھا، عموماً برقرار رکھا۔ مثلاً گھڑ دوڑ، کشتی، تیراندازی ، تیراکی، دوڑ کے مقابلے ، سیر و تفریح وغیرہ۔
تعلیم و تربیت کے نظام کو کتابوں تک محدود یا تعلیمی مراکز کے اندر مقید رکھنے کے بجائے خارجی دنیا کو سمجھنے کے لیے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ یوں ہم نصابی سرگرمیوں کو صلاحیتوں کے اُجا گر کرنے اور جسم کو تندرست و توانا رکھنے کا وسیلہ بنایا جاسکتا ہے ۔ تاہم ان تمام سرگرمیوں کو مفید بنانے کے لیے اور ان میں ایک حسین ربط اور توازن برقرار رکھنے کے لیے استاد کی راہنمائی ضروری ہو گی۔ (۵) بہترین معاون نبوی تعلیم و تربیت کے اصول ہی بہترین معاون ہوسکتے ہیں۔چنانچہ ذیل کی سطور میں ان میں سے چند اہم اصولوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

حدود اللہ کی پابندی

طلبہ کو تفریحی، ادبی، کھیل کود یا ہم نصابی سرگرمی کے اُن تمام انواع سے دور رکھنا ضروری ہے جن میں حدود شرعیہ سے تجاوز کا خطرہ ہو۔ ہم نصابی سرگرمی کے بنیادی مقاصد سے کبھی بھی صرفِ نظر نہ کیا جائے۔ نبی کریم ا کا ارشاد مبارک ہے:
إن لکل ملک حمیً ألا إن حمی اللہ محارمہ 
ہر بادشاہ کے لیے ایک مخصوص چراگاہ ہوا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ محرمات ہیں۔(مسلم)

اسلامی ثقافت کا فروغ

طلبہ کو ان تمام ہم نصابی سرگرمیوں سے دور رکھنا چاہیے جو اپنا اسلامی تشخص کھو کر غیروں کی ثقافت کی آئینہ دار ہوں، یا ایسی سرگرمیاں جو اسلامی اقدار کو فروغ دینے کا ذریعہ نہ ہوں، یا وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کرنے اور دلوں کو مردہ بنانے والی ہوں۔ حدیث میں نبی اکر م ا کا ارشاد گرامی ہے:
کُلُّ شَيْءٍ لَیْسَ مِنْ ذِکْرِاللّٰہِ فَھُوَ سَھْوٌ أَوْ لَھْوٌ، إِلاَّ أَرْبَعَ خِصَالٍ: رَمْيُ الرَّجُلِ بَیْنَ الْغَرْضَیْنِ، وَتَادِیْبِہٖ فُرُسَہٌ، وَتَعَلُّمِہٖ السَّبَاحَۃَ، وَمَلَاعِبَتِہٖ اأھْلَہٌ 
ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ کی یاد نہیں رہتی وہ لہو ہے یا درست نہیں ہے سوائے چار چیزوں کے، ۱۔دو نشانوں کے درمیان تیراندازی کرنا، ۲۔ گھوڑے کو جہاد کی غرض سے سدھانا، ۳۔ اپنی اہل کے ساتھ کھیل کود کرنا، ۴۔ اور تیراکی سیکھنا۔(السنن الکبری للبیہقی)

اخلاقی بگاڑ سے اجتناب

طلبہ کو کسی بھی ہم نصابی سرگرمی یا کھیل کود کی اجازت دینے میں ان کا علمی معیار، فکری بلندی اور اخلاقی تربیت مدنظر رکھنا چاہیے ۔ ایسے لہو و لعب سے اجتناب کرانا چاہیے جس سے اخلاقی بگاڑ کا خطرہ ہو یا حیا وعفت کے آنچل پر حرف آنے کا اندیشہ ہو۔ طلبہ کو ایسی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا چاہیے جن میں ان کے بہادری، حیاو عفت، صبر و استقامت، ضبط نفس، حسنِ تدبر، انتظام و انصرام کی صلاحیت، ٹیم ورک، ایثار، چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کی تکریم، ہمدردی اور باہمی تعاون کو فروغ ملے۔

صلاحیتوں کا فروغ

طلبہ کو ایسی ہم نصابی سرگرمیوں کی طرف لے جانا چاہیے جہاں ان کو نصابی یا تعلیم کے عمل کی تھکاوٹ سے تفریح کا سامان ملے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی، ذہنی و فکری صلاحیتوں کو فروغ ملے اور ان میں تخلیقی استعداد پروان چڑھے اور مینجمنٹ اور تنظیمِ عمل کا سلیقہ سیکھنے کا موقع ملے۔

اعتدال

نبی کریم ا کی تعلیمات میں اعتدال ایک ایسا بہترین اصول ہے جس کو اگر کسی بھی عمل میں اپنایا جائے تو افراط کی ندامت اور یا تفریط کی حسرت کا موقع باقی نہیں رہتا۔ تعلیماتِ نبوی میں اس کو تعلیم و تربیت سے بڑھ کر زندگی کے ہر شعبے میں عام کردیا گیاہے ۔ چنانچہ ایک متعلقہ حدیث کے مطابق آپؐ کا ارشاد ہے:
خَیْرُالْاُمُوْرِ اأوْسَاطُھَا 
بہترین کام وہ ہیں جو اعتدال اور میانہ روی سے سرانجام دیے جائیں۔(السنن الکبری للبیہقی)
اس اصول کے پیش نظر اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کے اوقات اور تمام مشاغل مناسب طریقہ سے تقسیم کریں۔ ہم نصابی سرگرمیوں پر ضرورت سے زیادہ توجہ نہ دی جائے کہ وہ بنیادی مقصد نہیں ہے، اور نہ تعلیمی اور نصابی عمل میں ہر وقت مشغول رکھا جائے ، کہ اس میں صلاحیتوں کے ضیاع کا خطرہ ہوتا ہے ایک حدیث میں وار دہے:
إِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقّاً، وَلِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقّاً، وَلِضَیْفِکَ عَلَیْکَ حَقّاً، وَ إِنَّ لِاأھْلِکَ عَلَیْکَ حَقّاً
بے شک تم پر تمہارے نفس، تمہارے رب، تمہارے مہمان اور تمہاری بیوی کا حق ہے۔ پس ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو۔ (ترمذی)
ان تمام حقوق کی ادائیگی اعتدال کے اصول پر مبنی تقسیمِ عمل اور تقسیمِ کار ہی کی صورت میں ممکن ہے۔(۶)

مطالعے کا شوق بڑھانا

اساتذہ کے لیے ہمیشہ نہایت اہم سوال یہ رہا ہے کہ طلبہ میں مطالعے کا شوق کیسے پیدا کیا جائے؟ مشاہدہ ہے کہ طلبہ میں آج جہاں صلاحیت اور استعداد کی کمی شدت اختیار کرتی جارہی ہے وہاں مطالعے کا شوق اور بحث وتحقیق کا ذوق بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اساتذہ کو ’’تعلیمی تحریک‘‘ کا فارمولا بروے کار لانا پڑے گا۔ ’’تحریک‘‘ کسی بھی انسان کی وہ اندرونی کیفیت ہے جو اس کے خیالات، احساسات اور افعال کی سمت متعین کرتی ہے۔ یہ چند اسباب و علل سے پیدا ہونے والی ایسی قوت ہے جو فرد کو مخصوص سرگرمی سے ثابت قدمی کے ساتھ وابستہ رکھ کر اس کی تکمیل تک مصروف رکھتی ہے۔ عبادت میں مخصوص الفاظ کہلوانے والی طاقت وہ اندرونی ’’تحریک‘‘ ہے، مخصوص سمت مثلاً مسجد کی طرف چلنے پر مجبور کرنے والی قوت وہ اندرونی ’’تحریک‘‘ ہے۔ چنانچہ ’’تعلیمی تحریک‘‘ سے مراد وہ اندرونی قوت ہے جو طالب علم کو استقلال و استقامت سے سیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ طالبِ علم کی اس اندرونی طاقت میں رکاوٹ ڈالنے والے اسباب تین ہیں۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ ان کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔

(i) اُکتاہٹ یا لاتعلقی

مثلاً طالبِ علم کسی کتاب یا مخصوص فن پڑھنے سے اکتاجائے یا لاتعلق ہو جائے۔ یہی اکتاہٹ طالب علم کی اس اندرونی قوت کو جو اس کو اس کتاب کے پڑھنے یا اُس فن کو سیکھنے پر مجبور کر رہی تھی، متاثر کرتی ہے جس کے نتیجے میں طالبِ علم اس کتاب یااُس مخصوص فن سے لاپروا ہو جاتا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ طلبہ کے اندر تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی کو فروغ دیا جائے۔ تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی کو فروغ دینے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔

(ii) نااہلی کا احساس

کبھی کبھار طالبِ علم کو اچھے امتحانی نتائج نہ ملنے پر یا ایک دوبار مسلسل کوئی مسئلہ نہ سمجھنے پر یہ احساس تنگ کرنا شروع کردیتا ہے کہ میں تو نااہل ہوں اورمیں کبھی یہ کام نہیں کرسکتا اور نہ کبھی کر پاؤں گا۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ استاد ہر طالب علم کے اندر خود اعتمادی پیدا کرے اور اس کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھائے کہ ’’میں یہ کام کرسکتا ہوں‘‘۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں کے آغاز پر خود کو یا سینئر طلبہ کو یا دیگر معروف شخصیات کو نمونے کے طور پر پیش کرے کہ اپنے ابتدائی عہد طالب علمی میں یہ بھی آپ ہی کی طرح تھے۔ مسلسل محنت کے بعد اس مقام پر پہنچے۔ اسی طرح طلبہ کو تعلیم کی طرف راغب کیا جائے۔ تھوڑے سے کام پر حوصلہ افزائی اور مزید ترقی کے لیے ترغیب و راہنمائی سے کام لے۔ امید ہے کہ اس طریقہ پڑھائی میں ان کی رغبت بڑھے گی۔

(iii) مایوسی

نااہلی کا احساس یا احساس کمتری کا اگر بر وقت تدارک نہ کیا جائے تو یہ طالب کو مایوسی کی طرف لے جاتا ہے جس کے بعد طالب علم پڑھائی ترک کرکے تعلم کے عمل سے دور بھاگنے کے راستے تلاش کررہا ہوتا ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ طالبِ علم کے اندر خوداعتمادی اور اطمینان پیدا کیا جائے اور استاد اس کو یہ یقین دلائے کہ اس کے اندر سیکھنے کی صلاحیت ہے تاہم مزید بہتری کے لیے بس اس میں ذرا نکھار پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کلاس میں کچھ طلبہ سیکھنے کے عمل سے مایوسی کا شکار ہیں تو استاد عمدہ نمونے پیش کرنے اور ترغیب کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل کام کرے:
اولاً : ایسی کلاس کے اندر استاد تسلسل سے ایک ہی نوعیت کے مقابلوں کا انعقاد اور تقسیم انعامات کا سلسلہ ترک کرے کہ قابل طلبہ کے مسلسل جیتنے اور انعامات حاصل کرنے سے مایوسی کے شکار طلبہ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور ان کی مایوسی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ استاد کو اس پہلو پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ جو طلبہ کسی ایک مضمون میں یا کسی ایک پہلو سے پڑھائی میں کمزور ہیں تو وہ کسی دوسرے پہلو سے اپنے ہم جماعت ساتھیوں سے مقابلۃً بہتر بھی ہوں گے۔ یا ان کی کچھ پوشیدہ صلاحیتیں بھی ہوسکتی ہیں کہ انہیں اجاگر کیا جائے، اور ان کی دلچسپی کے میدان میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو ان کی مایوسی کی کیفیت دور ہوسکتی ہے۔
ثانیاً: استاد ایسی کلاس میں سیکھنے کے عمل میں باہمی تعاون پر زور دیں اور کمزور طلبہ کی یہ ذہن سازی کریں کہ قابل طلبہ سے تعاون حاصل کرنے میں کوئی عار نہیں اور نہ قابل طلبہ کے لیے اس میں کوئی فوقیت کی بات ہے۔ مختلف گروپوں میں طلبہ کو اس طریقہ پر تقسیم کریں کہ ہر گروپ میں استعداد والے طلبہ شامل ہو اسی طرح کلاس کے اندر باہمی تعاون کی فضا بنائیں۔
ثالثاً: کمزور طلبہ کے اوپر سے آمرانہ کنٹرول ختم کیا جائے اور انہیں ممکن حد تک اختیار دیا جائے کہ مثلاً آپ کو اس باب کے دس مسائل میں سے اب تک چار مسائل یاد ہیں۔ اگلے ٹیسٹ کے لیے کتنا وقت درکار ہے اور اس کے لیے کتنے مسائل کی تیاری کرسکتے ہیں۔ اسی طرح طالب علم کو عملِ تعلم میں مزید پیش رفت کے لیے تربیت اور راہنمائی کے تحت بااختیار بنائیں۔اس طریقے سے طالب علم اپنے اندر تعلم میں پیش رفت اور استمرار محسوس کرتا جائے گا، جس کے ساتھ ساتھ مایوسی کا عنصر بھی ختم ہوتا جائے گا۔

تعلیمی ادارے کے ساتھ وابستگی

بعض اوقات طالب علم اپنی ذات کی حد تک کتنا ہی بد ذوق اور پس ماندہ کیوں نہ ہو لیکن اس کی ناکامی کی ذمہ داری اس کے ادارے، ادارے کے سربراہ اور وہاں کے اساتذہ پر ڈالی جاتی ہے۔ شکایت کنند گان اس معاملے میں ایک حد تک حق بجانب بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر طالبِ علم کی ذات اور فطرت میں شوق تعلم نہیں، تو اگرچہ اس فطرت کو یکسر تبدیل کرنا ایک نہایت مشکل اور بظاہر ناممکن عمل ہے لیکن اساتذہ اور متعلقہ ادارے کا سربراہ مل کر ادارے کے تعلیمی ماحول کے ذریعے سے کافی حدتک اُس طالبِ علم کی فطرت کو متأثر کر سکتے ہیں۔ کسی بھی وقت ایسی نا خوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے ایک طالبِ علم کے مثالی ہونے کی تمام تر ذمہ داریاں نہ تو استاد پر عائد ہوتی ہیں اور نہ سربراہ ادارہ یا تنہا مہتمم اس کا مسؤل ہو سکتا ہے۔ لیکن تمام اساتذہ اور مہتمم کو مل کر اجتماعی صورت اور بہتر ماحول اختیار کرنے کے لیے کچھ اقدامات ضرور کرنے ہوں گے، جن میں کچھ ذمہ داریاں مہتمم کے ذمہ آتی ہیں اور کچھ کے متعلق اساتذہ جواب دہ ہوتے ہیں۔
تدریس کے لیے درکار وسائل اور ضروریات کا فراہم کرنا تو بظاہر مہتم کا کام ہے لیکن استاد کی ذمہ داری بھی صرف کتاب کی تدریس یا کمرہ جماعت تک محدود نہیں بلکہ کمرۂ جماعت سے باہر اور نصابی کتاب کی تدریس سے بڑھ کر بھی عمل تعلیم جاری رہنا چاہیے۔ اسی طرح استاد کتاب پڑھانے کے علاوہ طلبہ کی عملی تربیت اور اصلاح بھی اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ کیونکہ نبی کریمؐ کے طرزِ تعلیم پر اگر غور کیا جائے تو آپؐ صحابہ کرامؓ کی تعلیم صرف صفہ یا مسجد تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ مسجد سے باہر بھی سفر و حضر دونوں میں آپؐ کی تعلیم کا عمل جاری رہتا تھا ۔ اسی طرح آنحضرت ا قرآن کریم کی آیات کی تشریح پر اکتفا نہیں فرماتے تھے بلکہ احادیث کی بھی تعلیم دی گئی ہے اور اسی طرح آپؐ کی تعلیم کا عمل تو اتنا عام اور صحابہؓکی زندگیوں کے ہر شعبے میں اتنا زیادہ تھا کہ ان کو معمولی معمولی معاملات میں، حتیٰ کہ استنجا تک کے طریقہ کی تعلیم بھی دی گئی۔ لہٰذا اس اصول کے پیش نظر اساتذہ کا فرض ہے کہ ان کی تعلیم نصاب اور کمرہ جماعت سے بڑھ کر ہم نصابی سرگرمیوں اور طلبہ کی زندگی کے ہر شعبے تک عام ہو۔ہر استاد کے لیے یہ بھاری ذمہ داری اٹھانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تمام اساتذہ اور مہتمم کے درمیان مضبوط وابستگی اور رابطہ کار ہو ۔سب مل کر ایک دوسرے کو طلبہ کی صورت حال کے بارے میں آگاہ کیا کریں۔ مناسب وقت کے بعد ان کا باہمی مشورہ ہو اس میں ہر استاد اپنی حاضری یقینی بنائیں۔ اور ادارے اور طلبہ کے انتظامی اور تعلیمی سب امور کا بنظرِ غائر جائزہ لے کر غور و فکر کرکے تیاری کے ساتھ آئیں ، نیز ادارے اور طلبہ کی ترقی کے لیے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے مثبت اور با معنی تجاویز پیش کریں۔ 
اگر تما م اساتذہ اور ادارے کے مہتمم کے درمیان باہمی تعاون اور مشوروں کا یہ رشتہ استوار نہ ہو اور مہتمم تعلیم کی تمام تر ذمہ داری استاد کا فرض سمجھتا رہے اور اساتذہ اپنے فرائض صرف کتاب کی تدریس اور کمرہ جماعت تک محدود تصور کرلیں اور ادارے کی انتظامی اور تعلیمی امور میں حصہ نہ لیں تو طلبہ کی اصلاح و تربیت اور تعلیم میں اعلیٰ کردار کے حامل ہونے کے خواب کا شرمندۂ تعبیر ہونا ناممکن نہیں تومشکل امر ضرور بن جائے گا۔

جدید وسائل و مسائل سے واقفیت

تعلیم کے جدید وسائل سے آگاہی

تعلیمی وسائل سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عملِ تعلیم میں حسن، جودت، بہتری اور عملِ تعلّم میں سہولت اور آسانی پیدا کرے۔ یعنی وہ چیز جس سے استاد کی تدریس معیاری ہوجائے اور جو طالب علم کوسبق پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی پیدا کرنے کا باعث ہو۔ یہ چیز استاد کے خطبات، تعبیرات وتمثیلات کے علاوہ دیگر مادی و حسی اشیا بھی ہو سکتی ہیں۔استاد کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو چیز وہ تعلیم و تدریس کے عمل میں طلبہ کو منتقل کررہا ہے طالب علم اس کوسمجھ لے اور ذہن میں بٹھائے اور اس دوران اس کو کوئی مشکل نہ ہو۔ استاد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تدریس اور تعلیم ایک تسلسل کے ساتھ رواں تقریر اور خطبے کی شکل میں نہ ہو بلکہ اس میں تعبیر کا حسن بھی چاہیے ،کبھی مثالوں سے وضاحتیں بھی، اور بعض اوقات تختہ تحریر پر جدول سازی اور صورتوں کی بناوٹ بھی۔ اسی طرح بعض اوقات حسی اور مادی اشیاء کے ذریعے بھی وہ توضیحِ مزید کرسکتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے لیے ان سب سے چیزوں سے واقفیت ضروری ہے، کیونکہ ان سب کی بنیاد نبی کریم ا کی تعلیمات میں موجود ہے۔ مثالیں تو حدیثوں کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے اندر بھی پائی جاتی ہیں۔ نبی کریم ا نے یتیم کی کفالت کرنے والے کو جنت میں اپنے ساتھ ملنے والی قربت کو دو انگلیوں کی قربت سے سمجھا دیا تھا۔ عذاب قبر کے باعث پسلیوں کے آپس میں ایک دوسرے کے اندر تداخل کو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے تداخل کی صورت کے ذریعے سمجھا دیا تھا۔ اسی طرح اپنے اور قیامت کے درمیان قربت کو بھی دو انگلیوں کی قربت کے ذریعے سمجھایا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی مختصر زندگی ، لمبی امید یں اور موت کے نزدیک ہونے کو زمین پر ایک تصویر اور جدول سازی کے ذریعے سمجھایا ہے۔ایک موقع پر اس معنی کو تین کنکریوں کے ذریعے بھی سمجھایا ہے کہ دو کنکریوں کو قریب یکے بعد دیگرے رکھ دیا اور تیسری کو دور پھینکا، پھر فرمایا کہ یہ دو قریب کنکریاں انسان اور اس کی موت ہے جب کہ تیسری کنکری اس کی لمبی لمبی امیدیں ہیں۔ الغرض ذخیرہ احادیث کے اندر اسّی سے زائد ایسے مواقع ہیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الفاظ کے علاوہ مختلف مثالوں، اشیاء یا اشکال کے ذریعے کوئی تصور یا بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اتنی ٹھوس بنیادوں کے ہوتے ہوئے اور عصر حاضر کی تعلیمی ضروریات کے پیش نظر کسی بھی استاد کے لیے اُن عصری وسائل کا جاننا بہت ضروری ہے جو اس کے عمل تعلیم میں نکھار، حسن، اور جان پیدا کریں۔

عصری تعلیمی مباحث

علمی دنیا میں جب سے تدریس کو ایک فن کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اس وقت سے اس کی تربیت کے عمل کو بھی دیگر فنون و علوم کی طرح ہی سمجھا گیا اور اس پر مختلف کتابیں لکھی گئیں اور جرائد و مجلات کا اجراء کیا گیا۔ اساتذہ کی تربیت و رہنمائی کے لیے تعلیمی کا نفرنسیں، سیمینارز اور کورسز کا انعقاد کیا گیا اور یوں اب تک تدریس بطور فن پر دنیا کی مختلف زبانوں میں خاصا لٹریچر جمع ہوگیا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس میں دینی مدارس کے بعض علماء کا بھی حصہ ہے ان کی بھی اس موضوع سے متعلق کئی کتابیں دستیاب ہیں اور متعدد مجلات میں بھی دینی مدارس کے اساتذہ کے مقالات چھپتے رہتے ہیں۔ اس موضوع پر اس سرعت کے ساتھ اتنی وافر مقدار میں کام کا ہونا اور جاری رہنا اس بات کا غماز ہے کہ استاد کو اپنے تدریسی عمل میں مزید بہتری لانے اور نکھار پیدا کرنے کی ضرورت ہر لمحہ محسوس ہوتی رہی ہے۔ لہٰذا اساتذہ بالخصوص نو آموز اساتذہ کو بھی اس فن میں مہارت حاصل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ معاشرے میں عمومی طور پر نئے نئے اسباب و وسائل کے سیلاب سے طلبہ کی نفسیات اور ان کی فطرتیں متأثر ہوتی جارہی ہیں۔ ماضی میں انہیں جس انداز سے کوئی بات سمجھائی جاسکتی تھی یا تربیت کے حوالے سے وہ اپنی کسی عادت کو بُرا خیال کرتے ہوئے اُسے تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کر سکتے تھے شائد آج کے طلبہ کو اسی طریقے اور انداز سے وہ بات نہیں سمجھائی جاسکتی۔ آج اُس بات کو باور کرانے اور نوعمروں کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے نئے ڈھنگ اور نئے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ تعلیم و تدریس کو بطور فن تسلیم کریں اور پھر ماہرین فن کی تحریروں، مباحث، کتابوں اور تجربات سے آگاہی حاصل کریں اور ان معلومات کی روشنی میں اپنے طریقۂ تعلم و تربیت کو مؤثر بنائیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ زندگی میں آسانیاں فراہم کرنے کے نئے نئے اسباب و وسائل کے عام ہوجانے سے طلبہ کی نفسیات اور مزاج پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ان اسباب اور وسائل میں روز بروز جدت بھی آتی رہتی ہے اور اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی نفسیات اور فطرتیں بھی تنوع اور تغیر کا اثر لیتی رہتی ہیں۔ اس صورت حال میں عملِ تعلم اور تربیت میں ان کی عادات اور دلچسپیوں میں بھی تغیر واقع ہوگیا ہے۔ ماہرین تعلیم وقت کے ساتھ ساتھ اس پر لکھتے رہتے ہیں،سیمینار کراتے ہیں، اور کانفرنسوں اور تعلیمی محفلوں میں اساتذہ کو بلایا جاتا ہے تاکہ انہیں اس تغیر کا اندازہ ہو اور طبیعتوں اور عادتوں کے مختلف ہونے کا ادراک و شعور ہو جس کی روشنی میں وہ اپنی تدریس کے عمل میں مزید بہتری پیدا کرتے رہیں۔ اس بنیاد پر تمام اساتذہ کو اس موضوع پر تسلسل کے ساتھ جاری اس کام سے واقفیت رکھنا ضروری ہے جس کے لیے کانفرنسوں اور سیمینارز میں جانا اور اس موضوع پر لکھی جانے والی مختلف تحریروں اور رسالوں کا مطالعہ مفید ہوگا۔

مستقبل کی امکانی تبدیلیوں سے آگہی

اس سے پہلے ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر چکے ہیں کہ طرق تدریس یا عمل تعلیم و تربیت کے اسالیب و مناہج انگلیوں پر گنے جانے والے چند امور کا مجموعہ نہیں، کہ استاد ان کی ایک فہرست بنا کر اپنے پاس رکھ کر تدریس کے میدان میں اپنی تربیت مکمل سمجھیں، بلکہ عملِ تعلیم و تدریس کے اسالیب و مناہج وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ تغیر پذیر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تدریس کی اساس اور بنیاد جو تدریس کے مؤثر یا غیر مؤثر قرار دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے وہ طلبہ کی نفسیات، عادات، ذہنی سطح اور فکری طاقت ہے کہ تدریس اگر ان امور کے ساتھ ہم آہنگ ہے تو بلاشبہ عمل تدریس مفید ہے ورنہ دوسری صورت میں تدریس کی ناکامی میں بھی کوئی شک نہیں۔ طلبہ کی نفسیات اور ان کی عادتیں اور اسی طرح ان کی سوچ کی سطح اور طاقت و رفتار ان کی زندگی میں موجود حالات، واقعات اور تعیش کے اساب و وسائل سے کافی حد تک متأثر ہوتی ہیں۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ حالات اور واقعات مسلسل کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح انسانی زندگی بہتر اور معیاری بنانے کے لیے اساب اور وسائل کی بھی فراوانی ہے جس میں جدّت کے ساتھ ساتھ اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب امور اپنے طبعی تغیر کا طلبہ کی نفسیات اور عادتوں اور خیال و فکر پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ اس شدتِ اتصال اور تلازم کے باعث طلبہ کی عادتوں اور ان کی نفسیات کا متغیر ہوتے رہنا ایک فطری اور بدیہی امر ہے جس کے لیے اساتذہ کواپنی تدریس اور عملِ تعلیم و تربیت کے اسالیب اور مناہج کے اندر متوافق اور ہم آہنگ تغیر اور تبدیلی کرتے رہنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ جب ہم نے یہ جان لیا کہ عمل تعلیم و تربیت اور طرق تدریس مسلسل تغیر پذیر عمل ہے، ماضی میں ایک طرح تھا،حال میں اس کی نوعیت بدل چکی ہے اور مستقبل میں مزید تبدیلی کے امکانات ہیں؛ تو پھر ہمیں حال کی ضروریات اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کے خدوخال کوسمجھنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
اس سلسلے میں اساتذہ ذاتی طور پر بھی غور و فکر سے کام لیں کہ طلبہ کی نفسیات کس سمت جارہی ہے یا مدرسے کے اندر کسی خاص طالب علم کی صورتِ حال تعلم میں ابتری کی طرف جارہی ہے تو ایسی صورت میں فوراً تبدیلی کے لیے جبر کی راہ اختیار نہ کریں بلکہ اس طالب علم کی نفسیات اور اردگرد کے حالات وواقعات میں جھانکیں اور طالب علم کا مستقبل جاننے کی کوشش کریں۔ اگر یہ محسوس ہو کہ ابتری کی کیفیت معروضی اور وقتی ہے، طالب علم کچھ وقتی رکاوٹ کا سامنا کر رہا ہے تو استاد اس رکاوٹ کو دور کرے اور طالب علم کی ہمت افزائی اور حوصلہ افزائی کرے۔ لیکن اگر یہ محسوس ہو کہ طالب علم مختلف قسم کی رکاوٹوں کے حصار میں قید ہے اور ایسی صورت حال کی روک تھام اگر بروقت نہ کی گئی تو اس طالب علم کا مستقبل مستقل طور پر خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہے، تو پھر استاد کی حکمت عملی یکسر مختلف ہونی چاہیے۔ دیگر اساتذہ کی مشاورت اور اُن کا تعاون حاصل کیا جائے اور مستقبل میں ایسی صورتوں سے نمٹنے کے لیے مستقل تجاویز مرتب کی جائیں۔ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی اگر ایسی ہی یا اس سے ملتی جلتی صورتِ حال میں سوچ بچار کا عمل کیا گیا ہو اور کچھ تجاویز مرتب کی گئی ہوں تو ان سے بھی استفادہ کیا جائے۔ نیز دیگر ماہرین امورِ تعلیم کی تحریروں، رپورٹوں اور ان کے تجربات سے بھی استفادہ ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں آنے والی عمومی تبدیلیوں اور حالات و واقعات پربھی گہری نظر ہو، ان کی رفتار کا اور جس رخ کی طرف یہ جارہے ہیں اس رخ کا ادراک و شعور ہو تو مستقبل میں رونما ہونے والے چیلنجز اور مقاصد و اہداف کا تعین آسان ہوجاتاہے۔ اہداف و مقاصد متعین ہوں، ضروریات اور تقاضوں کا ادراک ہو تو عمل تدریس کے راستے سے ان کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اولاًتدریس کو ایک زندہ اور متحرک فن کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا، وقت اور حالات کا ادراک اورمختلف لوگوں کے تجربات سے استفادے کی ضرورت کا احساس ہونا چاہیے۔
اس کے بعد ہم مستقبل میں رونما والی تبدیلیوں کا ادراک و شعور بھی حاصل کرسکتے ہیں اورممکنہ ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بر وقت مؤثر حکمت عملی بھی وضع کرنے کے قابل ہوں گے۔

حواشی

۵۔ ’’اسلامی نظامِ تعلیم‘‘ (ص ۶۹۲۔۳۰۸)۔
۶۔ ملاحظہ ہو، ’’اسلامی نظامِ تعلیم‘‘، ترتیب و ادارت ڈاکٹر ابراہیم خالد، طبع: پاکستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن، اسلام آباد (ص ۳۴۱۔۳۵۲)۔

چینی زبان کی آمد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

چین آبادی کے لحاظ سے اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور ہمارا مخلص پڑوسی ہے جس نے ہر آڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور ہمیں ہر مشکل میں چین کی دوستی اور اعتماد سے فائدہ ملا ہے۔ اور اب جبکہ چین سے گوادر تک سی پیک کا منصوبہ روز بروز آگے بڑھ رہا ہے اور چین کے ساتھ دوستانہ کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات ایک نیا اور ہمہ گیر رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں، سرکاری اور پرائیویٹ دونوں دائروں میں اس ضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے کہ ہمیں چینی زبان سے اس حد تک ضرور واقف ہونا چاہیے اور خاص طور پر نئی نسل کو اس سے متعارف کرانا چاہیے کہ مستقبل قریب میں ہم چینی تاجروں اور عوام کے ساتھ مختلف النوع تعلقات کے وسیع تناظر میں اپنی ذمہ داریاں بہتر طور پر پوری کر سکیں۔ چنانچہ چینی زبان کی تعلیم و تدریس کے لیے متعدد ادارے مختلف سطحوں پر مصروف عمل ہیں اور علماء کرام میں بھی چینی زبان سیکھنے کا ذوق پیدا ہو رہا ہے۔
دنیا کی زبانوں میں بولنے والوں کی تعداد کے حوالہ سے چینی زبان سب سے بڑی شمار کی جاتی ہے جبکہ اس کے بعد دوسری بڑی زبان اردو بتائی جاتی ہے، اور بین الاقوامی رابطوں کے موجودہ ماحول میں ان دونوں زبانوں کی اہمیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ان فاضل علماء کی اس سوچ کو بلاضرورت قرار نہیں دیا جا سکتا جو پاکستان کے دینی حلقوں میں چینی زبان کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں اور اس کے لیے محنت کو منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کا یہ خطہ طویل عرصہ سے مختلف زبانوں کی جولانگاہ چلا آرہا ہے اور ان میں کشمکش کے دائرے بھی ہر دور میں نمایاں رہے ہیں۔
ہمایوں بادشاہ نے ایران کے صفوی حکمرانوں کی مدد سے شیرشاہ سوری کے خاندان کو شکست دے کر مغل بادشاہت کو دوبارہ بحال کیا تو اس کی مدد کے لیے ایران سے آنے والے مددگاروں کے جلو میں ان کے افکار و نظریات کے ساتھ ساتھ فارسی زبان نے بھی یہاں جگہ بنا لی تھی۔ اور طویل عرصہ تک دفتری و عدالتی اور علمی زبان کے طور پر فارسی نے یہاں حکمرانی کی ہے۔ حتیٰ کہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے بعد تاج برطانیہ نے مغل حکمرانوں کے صدیوں پر محیط دورِ اقتدار کے خاتمہ پر برصغیر میں حکمرانی کی زمام ہاتھ میں لی تو یہاں ہر طرف فارسی کا دور دورہ تھا جسے دفتر و عدالت میں ختم کر کے انگریزی کو اس کی جگہ رائج کیا گیا۔ اور علم و حکومت کے دائروں میں صدیوں راج کرنے والی فارسی کو بالآخر اس محاورے سے دوچار ہونا پڑا کہ ’’پڑھیں فارسی اور بیچیں تیل‘‘ یعنی فارسی پڑھنے والوں کے لیے اس سرزمین پر تیل بیچنے کے سوا کوئی روزگار باقی نہیں رہا۔
برصغیر میں انگریزی آئی تو بدیشی، سامراجی اور مشکل زبان ہونے کی وجہ سے وہ دینی اور عوامی حلقوں میں قبولیت حاصل نہ کر سکی۔ اور تعلیم یافتہ حلقوں میں بھی صرف انگریزی کی اجارہ داری کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ہندی او ر اردو میں محاذ آرائی کا بازار گرم ہوگیا۔ اگر اردو اور ہندی باہمی کشمکش سے بچ جاتیں تو ہمارے خیال میں شاید انگریزی زبان دفتری اور عدالتی ماحول میں اجارہ داری قائم نہ کر پاتی۔ لیکن اقتدار اور قوت کے ذریعہ انگریزی نے اپنا سکہ جما لیا۔ اس دور میں عام طور پر یہ تاثر بن گیا تھا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے اور ہندی ہندوؤں کی زبان ہے، اس لیے مسلمانوں نے اردو کے تحفظ و فروغ کے لیے سر سید احمد خان کی قیادت میں منظم جدوجہد کی اور دوسری طرف ہندی کے رواج کے لیے بھی اسی طرح کی تحریک جاری رہی۔ اس فضا میں تقسیم ملک تقسیم ہوا تو پاکستان میں اردو کو اور ہندوستان میں ہندی کو قومی زبان درجہ دیا گیا، جبکہ دفتری زبان دونوں ملکوں میں زیادہ تر انگریزی ہی رہی۔ البتہ پاکستان میں اردو زبان کے فروغ اور اسے سرکاری و دفتری زبان کا درجہ دلانے کے لیے ارباب دانش مسلسل محنت کر رہے ہیں جسے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کی حمایت بھی حاصل ہے۔
مختلف زبانوں کی باہمی کشمکش کا یہ پس منظر مختصراً اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اس دوڑ میں اب چینی زبان بھی شامل ہونے جا رہی ہے تو اسے اس کشمکش سے الگ نہیں رکھا جا سکے گا جو اس وقت پاکستان کے قومی ماحول میں اردو اور انگلش کے درمیان جاری ہے۔ اس لیے چینی زبان کے فروغ کی محنت کرنے والوں کو یہ صورتحال بہرحال سامنے رکھنا ہوگی۔ اس موضوع پر ہم نے سردست چند ابتدائی گزارشات کی ہیں جس کا مقصد اہل علم کو اس کے مختلف پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا ہے اور اس ضرورت کا احساس اجاگر کرنا ہے کہ اس سلسلہ میں ہر سطح پر متنوع اور وسیع مکالمہ ضروری ہوگیا ہے جس کے لیے علمی، ادبی اور فکری اداروں کو ابھی سے متحرک ہو کر سنجیدہ بحث و مباحثہ کا اہتمام کرنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں مکالمہ کا موجودہ تناظر یہ ہے کہ قومی سطح پر اردو اور انگریزی میں کشمکش عروج پر ہے، اس کے ساتھ دینی حلقوں میں عربی زبان کے تحفظ اور فروغ کا وسیع نیٹ ورک کام کر رہا ہے اور چینی زبان اس ماحول میں داخل ہونے جا رہی ہے، جبکہ علاقائی زبانوں کے تحفظ اور بقا کا سوال بھی ملک کے ہر علاقے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ موجود ہے۔
ہم آنے والے حالات اور تغیرات پر نظر رکھتے ہوئے چینی زبان کے ضرورت کے مطابق فروغ کے حق میں ہیں اور تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی حوالوں سے دینی حلقوں کی اس طرف توجہ کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ بات اس کے ساتھ پیش نظر ہے کہ چینی زبان کی اہمیت صرف تجارت کے ماحول تک محدود نہیں رہے گی بلکہ دنیا کی ہر زبان کی طرح اس زبان کے ساتھ بھی اس کے تہذیبی اثرات اور ثقافتی لوازمات اس کے جلو میں کار فرما ہوں گے۔ چنانچہ ان سب کے درمیان توازن قائم کرنا ایک ناگزیر قومی تقاضے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس کی نشاندہی اور حد بندی میں دینی حلقوں کا بھی بہت اہم کردار بنتا ہے، اور دینی حلقوں کی علمی و فکری قیادت کو اس ذمہ داری کا بروقت احساس کر لینا چاہیے۔

دینی مدارس کا نصاب، جہاد افغانستان اور عسکریت پسندی

محمد عرفان ندیم

سر سیداحمد خان کے بیٹے سیدمحمود احمد ہندوستان کے مشہور وکیل تھے۔ ان کی یاد داشت بڑی کمزور تھی۔ ایک دفعہ ایک مقدمے میں پیش ہوئے اور یہ یا دہی نہ رہا کہ وہ استغاثہ کے وکیل ہیں یا وکیل صفائی۔ انہوں نے موقع ملتے ہی وکیل صفائی کے دلائل دینا شروع کر دیے اور بڑی مہارت سے ملزم کی صفائی میں دلائل پیش کیے۔ موکل اور جج دونوں پریشان ہو گئے۔ موکل نے انہیں ایک چٹ پیش کی جس میں انہیں یاد کر وایا کہ آپ وکیل صفائی نہیں بلکہ استغاثہ کے وکیل ہیں۔ محمود احمد نے بڑے اطمینان سے چٹ پر نظر دوڑائی اور ذرہ بھر توقف کیے بغیر اسی جوش و خروش سے دوبارہ بولنا شروع کیا ’’می لارڈ ! یہ سب وہ دلائل تھے جو وکیل صفائی زیادہ سے زیادہ اس کیس کے حق میں دے سکتے تھے، مگر می لارڈ ! ان دلائل میں کوئی جان نہیں۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے استغاثہ کے حق میں دلائل دینا شروع کیے اور اپنے ہی دلائل کو جھوٹا ثابت کر دکھایا ۔ جج سمیت تمام حاضرین دنگ رہ گئے اور سید محمود احمد کیس جیت گئے۔ 
اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کرنا اہل علم کے ہاں کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ ایک ہی بات کو قوت بیان کے ساتھ بیک وقت سچا اور جھوٹا ثابت کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ اصل کمال نہیں۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ آپ پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے مخالف کے نقطہ نظرکو بیان کریں۔ اس کے اصل موقف کو ٹھیک انداز میں پیش کریں اور اس پر ایسی باتوں کا الزام نہ دھریں جس کا اس کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہ ہو۔
ہمارے ہاں عسکریت پسندی اور جہادی بیانیے کے حوالے سے بحث ایک عرصے سے چل رہی ہے۔ پہلے پہل یہ بحث اخبارات تک محدود تھی،وہاں سے یہ ٹی و ی چینلز پر آئی اور اب اس کا مرکز سوشل میڈیا ہے۔ اس بحث کے حوالے سے ایک گروہ کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ عسکریت پسندی اور جہادی بیانیے کو فروغ دینے والے اصل عوامل جہاد افغانستا ن اور دینی مدارس ہیں۔ یہ موقف اس بنیاد پر قائم ہے کہ افغانستان میں جب روس نے چڑھائی کی تو ضیا ء الحق نے امریکہ کی فہمائش پر اس جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے پاکستان کی دینی جماعتوں اور دینی مدارس کو استعمال کیا۔اسی اور نوے کی دہائی میں پاکستان میں جہادی بیانیے کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور یہ وہ وقت تھا جب سرکاری سطح پر " جہاد" کی سرپرستی کی گئی اور ایسے عناصر کو خوب نوازا گیا اور انہیں سو سائٹی میں ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ اس موقف کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ عسکریت پسندی اور جہادی بیانیے کے فروغ میں دوسرا اہم ترین عامل دینی مدارس ہیں اور دینی مدارس میں باقاعدہ اس نظریے اور بیانیے کو پڑھایا جاتا ہے۔دینی مدارس میں باقاعدہ جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے اور جہاد کے حوالے سے قرآنی آیات، کتب احادیث ، فقہ اور معاصر اسلامی اسکالرز کے فکر کی روشنی میں طلباء کو باقاعدہ جہادکا درس دیا جاتا ہے۔ خصوصاً ضیاء الحق کے دور میں دینی مدارس کے طلباء نے باقاعدہ میدان جنگ میں جا کر جہاد میں حصہ لیا اور ایسے سینکڑوں نوجوان اس جنگ میں شہید ہوئے۔ یہ وہ بنیادی استدلال ہے جو اس موقف کے قائلین کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے۔ 
کچھ عرصہ پہلے الشریعہ کے صفحات پر ڈاکٹر عرفان شہزاد نے بھی اسی طرح کے موقف کا اظہار کیا اوربزعم خود حوالوں کے ساتھ اس موقف کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جہاد افغانستان کے حوالے سے انہوں نے اس دور کی منظر کشی کرتے ہوئے یہ سین پیدا (create ) کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح اس دور میں جہاد کی آواز بلند کی جاتی تھی، مجاہدین کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا تھا،مساجد میں اعلانات ہوتے تھے ،چندہ جمع کرنے کے لیے باقاعدہ مہم چلائی جاتی تھی ، عوام خصوصاً نوجوانوں کو جہا د کا شوق اور رغبت دلائی جاتی تھی اور شہید ہونے والوں کو جنت کی بشارت دی جاتی تھی۔ محترم ڈاکٹر عرفان شہزاد کا کہنا ہے کہ آج بھی دینی مدارس عسکریت پسندی کے جہادی بیانیے کے فروغ میں پیش پیش ہیں اور آج بھی دینی مدارس میں باقاعدہ اس بیانیے کو پڑھایا جا رہا ہے۔ قرآن کی تفاسیر اور احادیث کی روشنی میں نوجوان طلباء کی ذہن سازی کی جاتی ہے اور جہاد کے ساتھ ساتھ انہیں خلافت کے قیام کا بھی درس دیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ فقہ اور معاصراسلامی فکر کی روشنی میں انہیں کفار کو نیست و نابود کرنے اور سارے عالم میں اسلامی نظام کے نفاذ کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ ماضی میں دینی مدارس نے عسکریت پسندی کا جو بیج بویا تھا، آج پورا ملک اس کی فصل کاشت کر رہا ہے۔ الغرض یہ اور اس جیسے دیگر دلائل پیش کر کے محترم ڈاکٹر عرفان شہزاد نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عسکریت پسندی کے جہادی بیانیے کے فروغ میں اصل کردار جہاد افغانستان اور دینی مدارس کا ہے، لیکن آج اہل مدارس عسکریت پسندی کے اس یتیم بچے کو گود لینے کے لیے تیار نہیں۔
جہاں تک بات ہے اس یتیم بچے کو گود میں لینے کی، اس کی طرف ہم بعد میں آئیں گے۔ پہلے ہم جہاد کی بنیادی اور اصولی حیثیت کو واضح کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ شریعت کے احکام معلوم کرنے کے لیے ہمارے پاس سب سے بنیادی اور اہم ذریعہ قرآن کریم اور اس کے بعدصحیح حدیث ہے۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ اورحج کی طرح جہاد کا حکم بھی اسلام میں بڑی صراحت ووضاحت سے بیان ہوا ہے۔ جہاد کا مسئلہ جتنا اہم ہے اتنا ہی صاف ،شفاف اور غیر مبہم بھی ہے۔ شاہ ولی اللہ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ تمام شریعتوں میں سب سے کامل شریعت وہ ہے جس میں جہاد کا حکم نازل ہوا ہو۔ قرآن پاک نے جس قدر تفصیل سے جہاد کے مسئلے کو بیان فرمایا، اتنی تفصیل کسی اور فریضے کی بیان نہیں فرمائی۔ قرآن میں جہاد فی سبیل اللہ کا صیغہ62 اور قتال کا صیغہ 97 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ سورہ توبہ اور انفال سمیت قرآن کی آٹھ سورتیں مکمل طور پر جہاد کے بارے میں نازل ہوئیں۔ بعض سورتوں کے تو نام ہی جہاد کے موضوع پر ہیں جیسے سورہ احزاب، سورہ محمد،سورۃ الفتح، سورۃ الصّف۔ مولانا احمد علی لاہوریؒ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کا موضوع ہی جہاد ہے۔ قران کی مختلف سورتوں میں آیات جہاد کی تعداد کچھ اس طرح ہے : سورہ بقرہ میں 35، آلِ عمران میں 26، النساء میں 24، المائدہ میں 2، الانفال مکمل سورہ، التوبہ مکمل سورہ، الحج میں 71، النور میں 4، الاحزاب میں 22، محمدمکمل سورہ، اکفتح مکمل سورہ، الحجرات میں 5، الحدید میں 4، المجادلہ میں 9، الحشر میں 17، الممتحنہ مکمل سورہ، الصف مکمل سورہ، المنافقون مکمل سورہ، التحریم میں 1، العادیات میں 8، اور النصر مکمل سورہ۔ 
اس کے علاوہ احادیث کی کتب میں محدثین کرام نے " کتاب السیر" کاایک باب باندھا ہے۔ سیر، سیرت کی جمع ہے لیکن اس میں جہاد کے متعلق احادیث ذکر کی گئی ہیں۔ اس کی وجہ علماء کرام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا غالب حصہ جہاد، غزوات و سرایا پر مشتمل ہے، اس لیے اس باب کا نام " کتاب السیر" رکھ دیا گیا۔ کتب احادیث میں جہاد کے بارے میں سینکڑوں احادیث اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم  ’’حَرِّضِ المُومِنِینَ عَلَی القِتَالِ‘‘ یعنی مسلمانوں کو جہاد کاشوق دلائیے ،کا حق ادا فرما دیا۔ جہاد کے بارے میں مسلمانوں کی عملی کوتاہیوں اور اسے ناپسند کرنے کی نفسیات کے پیش نظر قرآن نے واضح طور پر اعلان کر دیا تھا 
کْتِبَ عَلَیکُمُ القِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ، وَعَسٰی اَنْ تَکْرَھُوا شَیْءًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، وَعَسٰی اَنْ تُحِبُّوا شَیْءًا وَّھُوَ شَرٌّ لَّکُم، وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (البقرہ:216)
’’تم پرقتال فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو برا لگتا ہے، ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے، تم ایک کام کو اچھا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں برا ہو اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں، تم نہیں جانتے۔‘‘
جہاد کے حوالے سے قرآن و حدیث میں مذکور ان تعلیمات سے واضح ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم صرف جہاد کی فرضیت اور احکام بیان فرمانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ ایک مسلمان کو مختلف پیرایوں میں جہاد کی ترغیب دے کر جہاد کے لیے کھڑا کرتا ہے، جہاد کے لیے تحریض کے الفاظ استعمال کر کے اسے گھر سے باہر نکالتا ہے اور پھر اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے جہاد کے میدان میں لے جاتا ہے، مسلمانوں کی تسلی کے لیے پہلی امتوں کی مثالیں اور جہاد کے قصص بیان کر کے اُن کے جذبہ جہاد و شہادت کو بیدار کرتا ہے، ترک جہاد پر وعیدیں سناتا ہے، مشکلات پر اُس کو صبر اور ثابت قدمی کی تلقین کرتا ہے، جہاد کے احکام و فضائل سناتا ہے اور اجرو ثواب کے وعدے کرتا ہے۔مجاہد ین کے گھوڑوں کی قسمیں کھاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فرشتوں کے اُترنے کی بشارتیں سناتا ہے، جنگ کا طریقہ بیان کرتا ہے، دشمنوں کی چالیں اور حیلے بتا کر اُن سے خبردار کرتا ہے، مجاہدین اگرڈرجائیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کرام کے واقعات بیان کرکے اُس کے حوصلے بلند کرتا ہے اور ظاہری شکست پر اں ن کو تسلیاں دیتا ہے۔ 
اس ساری وضاحت کے ساتھ ضمناً یہ بات بھی سمجھ لی جائے کہ موجودہ دور میں اکثر اہل مدارس اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر اقدامی جہاد کا حکم نہیں دیا جا سکتا بلکہ مسلمانوں کے وہ خطے جہاں کفار کی طرف سے جنگ مسلط کی گئی ہے، انہیں اپنے دفاع کا مکمل حق ہے اور اس کے لیے وہ جو طریقہ بھی اپنائیں، ان کے حق میں جائز ہے۔ اور جہاں مسلمان اس قدر کمزور ہوں کہ اپنا دفاع بھی نہ کر سکیں، وہاں یہ فرض ان کے قریبی مسلمانوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی مدد کریں اور انہیں کفار کے شر سے محفوظ رکھیں۔ اسی اصول کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ 1979 میں جب روسی فوجوں نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پاکستانی مسلمانوں نے اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے افغانستان جا کر جہاد میں حصہ لیا۔اس جہاد میں حصہ لینے والے کون لوگ تھے؟ بلاشبہ یہ دینی مدارس کے طلباء اور پاکستان کے وہ نوجوان تھے جنہوں نے معاصر جہادی تنظیموں کے ساتھ وابستگی اختیار کی تھی اور اپنی مرضی اور شوق جہاد کی وجہ سے افغانستان گئے تھے۔ 
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کے لیے جہاد افغانستان میں حصہ لینے کی شرعی حیثیت کیا تھی؟ اس حوالے سے یہ اہم بات ذہن میں رہے کہ جہاد کے وجوب کے لیے امام کا ہونا ضروری ہے اور امام سے مراد وقت کا حکمران اور خلیفہ ہے۔ اب یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جہاد افغانستان اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادت کی نہ صرف مرضی سے ہوا بلکہ مجاہدین کو اس سیاسی و عسکری قیادت کی مکمل سرپرستی حاصل تھی ۔ یہ اعتراض کہ یہ جہاد امریکی شہ پر ہوا تھا اور اس کے پیچھے امریکی مفادات کار فرما تھے، یہ ایک الگ پہلو ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ امریکہ ہمیں اپنے مفادات کے تحت استعمال کر رہا تھا اور ہم اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ اس کے اپنے مقاصد تھے اور ہماری اپنی ترجیحات، اور قوموں اور ملکوں کے درمیان یہ سیاست ہمیشہ سے چلی آرہی ہے اور اس سے اس جہاد کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوسری بات یہ کہ اگر اس جہاد کے پیچھے امریکی مفادات کار فرما تھے اور پاکستان استعمال ہو رہا تھا تو اس کا وبال حکمرانوں پر ہے نہ کہ ان مجاہدین اور جہادی تنظیموں پر جو میدان جنگ میں برسر پیکار تھیں کیونکہ رعایا اپنے امام اور حکمران کی پابند اور ماتحت ہوتی ہے، خواہ یہ پابندی مرضی سے ہو یا بادل نخواستہ۔ آسان لفظو ں میں ہم اسے یہ تعبیر دے سکتے ہیں کہ سیاسی و عسکری قیادت صرف بظاہر اور سیاسی مفادات کے تحت اس جنگ میں حصہ لے رہی تھی اور مجاہدین اور جہادی تنظیمیں مکمل اخلاص اور جہاد سمجھ کر اس جنگ میں حصہ لے رہے تھے۔ اب ان دونوں کی نیتوں کا فیصلہ اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ وہ جس کو چاہے نواز دے، جس کو چاہے اپنی پکڑ میں لے لے۔ 
اس بات کی وضاحت کے بعد کہ افغانستان کا جہاد شرعی و فقہی اصطلاح کے مطابق وقت کے امام اور خلیفہ کی اجازت بلکہ اس کی بھرپور سرپرستی سے ہوا، اس بات کی قطعا گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس جہاد کو پرائیویٹ جہاد کا نام دیا جائے یا اس پر عسکریت پسندی کے لیبل چسپاں کیے جائیں۔ ایک ایسا جہاد جو شرعی اور فقہی اصطلاح کے مطابق وقت کے امام اور خلیفہ کی اجازت اور سرپرستی سے ہوا ، اگر وہ بھی جہاد نہیں تو آج کے دور میں جہاد کی اور کون سے صورت باقی رہ جاتی ہے؟ اور اگر یہ جہاد ہے اور یقیناًجہاد ہے تو پھر اس پر کسی قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ 
اب ہم آتے ہیں محترم عرفان شہزاد کے مضمون کی طرف ۔ انھوں نے اپنی بات کا آغاز انتہائی نامناسب الفاظ کے ساتھ کیا ہے، حالانکہ ان کے نام کے ساتھ لگے ہوئے ڈاکٹر کے سابقے سے اس طرح کے الفاظ کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو ’’جہاد افغانستان‘‘ کی ترکیب قبول نہیں اور وہ اسے عسکریت پسندی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہوا، وہ جہاد نہیں بلکہ عسکریت پسندی کی شروعات تھیں اور ہماری ہاں موجودہ عسکریت پسندی کی جو شکل پائی جاتی ہے، اس کے بیج افغانستان کی سرزمین پر بوئے گئے تھے۔ ان کے اس موقف کے پیچھے کوئی واضح دلائل نہیں بلکہ وہ خاص ذہنی سانچہ ہے جس میں ان کا ذہن ڈھل گیا اور اب انہیں ہر بات اسی خاص زاویہ کے تحت دیکھنی پڑتی ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی بھی استدلال خواہ کتنا ہی مضبوط ہو، وہ ان کے اس ذہنی سانچے کے مطابق فٹ نہیں بیٹھتا۔ کافی عرصہ پہلے ڈاکٹر عرفان شہزاد کے بارے میں فیس بک پر محترم ڈاکٹر طفیل ہاشمی کی وال پر ایک جملہ پڑھا تھا ، اس وقت سمجھ نہیں آیا، لیکن ان کی اس تحریر سے اس جملے کا مفہوم واضح ہو گیا۔ طفیل ہاشمی صاحب نے لکھا تھا کہ جس طرح کچھ لوگوں کا ذہن ایک خاص نکتے پر جا کر رک جاتا ہے، اسی طرح موصوف کی سوئی بھی ایک امام پر ہی اٹکی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے اگر میرے ہم نام کو ’’ جہاد افغانستان‘‘ کی ترکیب ہضم نہیں ہوئی اور انہوں نے اس کا جی بھر کر مذاق اڑایا تویہ کوئی عجیب بات نہیں کیونکہ ان کا ذہنی سفر انہیں جس جگہ پر لے گیا ہے، وہاں شعائر اسلام کا مذاق اڑانا کوئی بری بات نہیں سمجھا جاتا۔ 
جہاد افغانستا ن کے دنوں میں جہادی تنظیموں کی طرف سے جس طرح جہاد کی ترغیب دی جاتی تھی(حالانکہ اس سے پہلے ثابت کیا جا چکا ہے کہ یہ جہاد باقاعدہ شرعی اور فقہی اصطلاح کے مطابق تھا)، اس کا تمسخر اڑاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ’’ مساجد اور مدارس میں جہادی پروگرام منعقد کیے جاتے تھے، جہادی مقررین اپنی شعلہ بار تقاریر سے نوجوان طلبہ کے جذبات کو برانگیختہ کیا کرتے تھے، جہادیوں کے شانوں تک چھوڑے ہوئے لمبے بال، گھنی داڑھیاں، کسرتی جسم، فولادی ہاتھ اور ان ہاتھوں میں اسلحہ، طلبہ کے لیے ہیروازم جیسی کشش رکھتے تھے، جہادی تنظیموں کے چندے کی مہم ایسی شان سے چلائی جاتی تھی جیسے عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے چلائی تھی، جہادی تربیتی کیمپ لگائے جاتے تھے جن میں جذبہ جہاد سے سرشار نوجوانوں کی تربیت کی جاتی اور پھر محاذ پر بھیج دیا جاتا تھا۔ مدارس کی چھٹیوں میں طلبہ کو جہادی کیمپوں میں جانے کی ترغیب دی کی جاتی تھی، دارالعلوم کراچی سے لے کر خیر المدارس ملتان تک سب مدارس کے طلبہ جہادی کیمپوں میں آتے تھے۔‘‘
دیکھیں اس عبارت میں موصوف نے اپنا سارا زور اس بات کا تمسخر اڑانے پر صرف کیا ہے کہ نوجوانوں کو کس طرح جہاد کی ترغیب دی جاتی تھی، حالانکہ جہاد کی ترغیب کا حکم خود قرآن نے دیا ہے ، اللہ کے نبی خود میدان میں نکل کر جہاد کی ترغیب دیا کرتے تھے اور ان بیسیوں آیات اور سینکڑوں احادیث کا کیاکیا جائے جو جہاد کی ترغیب کے حوالے سے قرآن و سنت میں مذکور ہیں۔کیا انہیں بھی طعن و تشنیع کا مرکز بنا لیا جائے اور ان پر آرٹیکلز لکھے جائیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح میدان جنگ میں نکل کر اپنے صحابہ کو جہاد کی ترغیب دیا کرتے تھے؟ بات پھر وہی ہے کہ اصل مسئلہ اس ذہنی ساخت کا ہے جس میں موصوف کا ذہن ڈھل چکا ہے اور انہیں اس جراء ت پر آمادہ کر رہا ہے۔ 
اس کے بعد موصوف لکھتے ہیں ’’جمعہ و عیدین کی نمازوں میں افغانستان، فلسطین، کشمیر اور چیچنیا میں برسرپیکار مجاہدین کے غلبہ و نصرت کی دعائیں مانگی جاتی تھیں (دعاؤں کا تسلسل اب بھی جاری ہے)، جہادی نغمے اور ترانے جگہ جگہ اونچی آواز میں بجائے جاتے تھے۔‘‘ دیکھیں ان جملوں میں موصوف کے اندر کاتعصب کس طرح واضح ہو کر سامنے آ گیا ہے کہ انہیں امت مسلمہ کے حق میں ہونے والی دعائیں بھی ہضم نہیں ہوئیں۔ چلیں افغانستان کو چھوڑیں ، کیا فلسطین ، چیچنیا اور کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم نہیں ہو رہا اور کیا ان مسلمانوں کے حق میں دعا کرنا بھی جرم اور عسکریت پسندی ہے؟ کیا ان ملکوں کے مسلمان ظالم کے خلاف اگر ہتھیار اٹھا کر مزاحمت کر رہے ہیں تووہ بھی عسکریت پسند ہیں کہ ان کے حق میں دعا بھی نہیں کی جا سکتی؟ فیا للعجب! میں یہ سمجھنے سے قا صر ہوں کہ آخر موصوف کس قسم کے دین اور مذہب کے پیرو کار ہیں کہ دین محمدی تو ہمیں یہ تعلیم نہیں دیتا۔ اس دین میں تو ایک مسلمان کی تکلیف کو پوری امت کا درد مانا گیا ہے اور موصوف کو یہاں دعا تک گوارا نہیں اور انہیں امت مسلمہ کے لیے دعا کرنے سے بھی چڑ ہے اور اس سے انہیں عسکریت پسندی کی بو آتی ہے۔ 
میں نے پہلے عرض کیا کہ اصل مسئلہ عسکریت پسندی نہیں بلکہ اصل خار جہاد اور جہادی تعلیمات سے ہے اور اس خار کے پیچھے وہ خاص ذہنی سانچہ کار فرما ہے جو اصل حقائق کو پرکھنے نہیں دیتا۔ کیونکہ یہ سانچہ ایک خاص فکر کے تحت وجود میں آیا ہے اور اس کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ کس طرح امت کے اجتماعی تعامل کو پس پشت ڈال کر ایک نیا، جدید اور ماڈرن اسلام پیش کیا جائے، خواہ اس کے لیے امت کے مسلمہ عقائد کا انکار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ آپ موصوف کی مزید جراء ت دیکھیں، وہ کیا لکھتے ہیں :
’’انہیں (دینی مدارس کے طلبہ کو) یہ بتایا جاتا ہے کہ جس نے جہاد نہ کیا اور نہ اپنے آپ کو جہاد کے لیے تیار کیا، وہ منافقت کے درجے پر مرے گا۔ ان کا بیانیہ ایک شاعر کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے:
نماز اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا، زکوٰۃ اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا‘‘
میں موصوف کی جراء ت پر انہیں داد دیتا ہوں، لیکن خدا گواہ ہے کہ مجھے ان کی اس جراء ت پر ڈر لگ رہا ہے۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ مدارس کے طلباء کو بتایا جاتا ہے کہ جس نے جہاد نہ کیا اور نہ اپنے آپ کو جہاد کے لیے تیار کیا، وہ منافقت کے درجے پر مرے گا، اگر میں غلط نہیں کہہ رہا تو یہ ایک حدیث کا مفہو م ہے اور موصوف ڈائریکٹ حدیث پر اعتراض کر رہے ہیں۔ ایک امتی ہونے کے ناتے ہمارا اس حدیث پر مکمل ایمان اور یقین ہے اور ہم اس پر عمل کواپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔ ہاں جہاد کی صورت اور نوعیت میں فرق ہو سکتا ہے۔اگر موصوف کو اس حدیث سے عسکریت پسندی کے بیانئے کی بو آتی ہے تو ہمارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں بلکہ موصوف کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔
جہاں تک تعلق ہے دوسری بات کا جس میں موصوف نے ایک شعر پیش کر کے کہا ہے کہ دینی مدارس کے طلباء کا بیانیہ یہ شعر ہوتا ہے، میں آپ سے حلفیہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کا ایمان اس شعر کے مطابق نہیں؟ کیا اس شعر کا کسی بھی طرح سے عسکریت پسندی سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے ؟ دوسرے لفظوں میں کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی عسکریت پسندی ہے ؟ اگر یہ شعر عسکریت پسندی کا بیانیہ ہے تو اس شعر کے خالق مولانا ظفر علی خان سب سے بڑے عسکریت پسند ہیں ۔ مولانا ظفر علی خان کون ہیں؟ یہ بتانے کی البتہ ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس ملک کی بنیاد رکھنے والے لوگ ہی عسکریت پسند تھے اور اس ملک کی بنیاد ہی عسکریت پسندی پر رکھی گئی۔ حیران ہوں کہ موصوف کس دین اورکس مذہب کے پیرو کار ہیں کہ جس میں نبی اکرم کی محبت بھی عسکریت پسندی کا عنوان بن جاتی ہے۔ اور اس شعر میں جو بات کہی گئی ہے، وہ سورہ احزاب کی اس آیت کا مفہوم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نبی مومنین کی جانوں سے زیادہ ان پر حق رکھتے ہیں۔ اور یہ شعر اس حدیث کا مفہوم ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ کوئی مومن اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاوں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اگر مذکورہ شعر عسکریت پسندی کا بیانیہ ہے تو قرآن کی یہ آیت اور اور حدیث اس سے زیادہ شدت کے ساتھ عسکریت پسندی کا عنوان بن رہی ہیں، کیا ان کو قرآن و حدیث سے نکال دیا جائے؟
بعض اوقات ایک بات مکمل طور پر بدیہی اور واضح ہوتی ہے، لیکن مخاطب کا ذہن اسے اس لیے قبول نہیں کرتا کہ وہ اس کے مخصوص ذہنی سانچے کے مطابق فٹ نہیں بیٹھتی اور اسے ڈر ہوتا ہے کہ اگر اس نے اس بات کو قبول کر لیا تو وہ اس مخصوص ذہنی سانچے سے باہر نکل جائے گا اور اس سے اس کے مفادات پر زد پڑے گی۔اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک بات مکمل طور پر واضح اور غیر مبہم ہوتی ہے، لیکن مخاطب کسی خاص گروہ سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے اس بات کو قبول نہیں کرتا کیونکہ اس گروہ سے اس کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔اورکبھی خود کو ماڈرن اور جدت پسند ثابت کرنے کے لیے مسلمہ اور متفقہ مسائل پر چھیڑ خانی شروع کر دی جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ جراء ت اس لیے کی جاتی ہے کہ مخاطب اپنے حالات اور زمانے سے اس قدر متاثر ہوجاتا ہے کہ صحیح اور غلط کی پہچان ہی کھو دیتا ہے۔ اس کی اپنی علمی پختگی، اپنے موقف پر ثابت قدمی اور اپنے عقائد و نظریات پر تصلب محض ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے۔ اس کے عقائد و نظریات موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں، جہاں جدت پسندی کا کوئی نیا علمبردار اٹھا، یہ جمپ لگا کر فوراً اس کیمپ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ان کی اپنی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ انہیں خود اپنے نظریات اور عقائد کی پہچان نہیں ہوتی کہ یہ کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، یہ خود اپنے نظریات اور تفردات کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوتے ہیں۔
میرے ہم نام کا پورا مضمون غلط تجزیے اور غلط حقائق پر مبنی ہے۔ وہ اپنے مخالف فریق کے موقف کو اپنی مرضی کا جامہ پہناتے ہیں اور اس کی ایسی تشریح کرتے ہیں جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔ 
جہاد افغانستان کے بعد موصوف کا دوسرا دعویٰ یہ تھا کہ عسکریت پسندی کے جہادی بیانیے کے فروغ میں دوسرا اہم ترین عامل دینی مدارس اور ان میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے۔ اس سے بھی پہلے وہ برصغیر کی قدیم جہادی تحریکوں اور خلافت کے قیام کے حوالے دیتے ہیں۔ پہلے وہ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ خلافت کے قیام کا انکار کوئی عام مسلمان بھی نہیں کر سکتا، لیکن اس سے اگلی سطر پر وہ قیام خلافت کے لیے کی جانے والی کوششوں پرعسکریت پسندی کا لیبل چسپاں کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ تحریر داخلی تضادات کا بہترین شاہکار ہے جس میں خود انہیں معلوم نہیں کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں اور ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں ۔ بس اندر کا ایک تعصب ہے جس نے انہیں بے چین کر رکھا ہے اور انہیں خود معلوم نہیں کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں اور ان کا اصل مدعا کیا ہے۔ سید احمد شہید کی تحریک جہاد کا حوالہ دیتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں ’’ اگرچہ کفار اور سرکشوں سے ہر زمانے اور ہر مقام میں جنگ کرنا لازم ،ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ اس زمانے میں کہ اہل کفر و طغیان کی سرکشی حد سے گزر چکی ہے، مظلوموں کی آہ و فریاد کا غلغلہ بلند ہے، شعارِ اسلام کی توہین ان کے ہاتھوں صاف نظر آ رہی ہے، اس بنا پر اب اقامت رکن دین، یعنی اہل شرک سے جہاد، عامہ مسلمین کے ذمے کہیں مؤکد اور واجب ہو گیا ہے۔‘‘ (ابو الحسن علی ندوی ، سیرتِ سید احمد شہید، جلد دوم، ص 388)
سید احمد شہید کی اس عبارت کا حوالہ دینے کے بعد موصوف اس پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ بیانیہ غلط ہے کہ اس میں ’’ہر حال اور ہر مقام‘‘ پر کفار سے جنگ کا داعیہ پایا جاتا ہے اور یہی بیانیہ موجودہ جہادی تنظیموں کا بنیادی ماخذ ہے۔ میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ اگرموصوف ذرا سی عقلمندی کا مظاہرہ کرتے اور اس بیانیے کو اس دور اور ان حالات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے تو شاید انہیں بات کی پوری طرح تفہیم ہو جاتی لیکن چونکہ ان کا مقصد محض تنقید برائے تنقید ہے، اس لیے انہوں نے یہ زحمت کرنا گوارا نہ کیا۔ اس لحاظ سے تو موصوف ہمیں اسی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں جن کا موقف تھا کہ 1857 کی جنگ آزادی جہاد نہیں بلکہ غدر تھا اور مسلمانوں کو حکومت برطانیہ کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھانے چاہیے تھے۔ 
اس کے بعد موصوف کا اگلا استدلال دیکھیں ’’جو حکومت اور سیاست کے مردِ میدان تھے، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس لیے مجبوراً چند غریب و بے سروسامان کمر ہمت باندھ کر کھڑے ہو گئے اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے۔‘‘ (سیرتِ سید احمد شہید، جلد دوم، ص 389)
اس عبارت سے بھی میرے ہم نام کو عسکریت پسندی کے بیانیے کی بو آتی ہے اور وہ انہیں موجودہ حالات پر فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر اس عبارت کو ان حالات کے تناظر میں دیکھاجائے جب یہ عبارت لکھی گئی تھی تو کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ مثلاً انیسویں صدی کے آغاز میں جب سید احمد شہید جہاد کی دعوت لے کر اٹھے تھے، اس وقت تک مغلیہ سلطنت محض دہلی کے لال قلعے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی ، قلعے کے اندر بھی بادشاہ کی بات نہیں سنی جاتی تھی اور یہ محض برائے نام بادشاہت تھی، اصل حکومت انگریز سرکار کے پا س تھی۔ اب ان حالات میں اگر کوئی اللہ کا بندہ برصغیر کے مسلمانوں کی عظمت گزشتہ کی بحالی اور خلافت کے قیام کے لیے جد جہد کرتا ہے تو اس میں کیا برائی تھی؟ اس وقت کون سا امام یا خلیفہ موجود تھا جس کی طرف سے اعلان جہاد کا انتظار کیا جاتا؟ فرض کریں اگر آج پاکستان برطانیہ کے قبضے میں چلا جائے اور پورے ملک پر انگریز کا قبضہ ہو جائے تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ اس لیے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں گے کہ جہاد کا حکم خلیفہ دے گا اور وہ موجود نہیں، لہٰذا ہم انگریزوں کی غلامی کو قبول کرلیں، یا آپ اپنے طور پر انگریزوں کو اس ملک سے نکالنے کے لیے جد وجہد کریں گے۔ سید احمد شہید نے بھی یہی کیا تھا کہ جب انہیں نظر آیا کہ مغلیہ سلطنت محض لال قلعے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے تو انہوں نے اپنے طور پر دفاعی جہاد کی ایک شکل پر عمل کرتے ہوئے یہ حکمت عملی اختیار کی۔ اگر موصوف کے دعوے کو سچ مان لیا جائے تو اس طرح تو برصغیر میں آزادی کے نام پر ہونے والی ہر جد وجہد عسکریت پسندی کا عنوان بن جائے گی۔ کیا آپ اپنی ساری تاریخ کو یہ عنوان دینے اور اس پر عسکریت پسندی کا لیبل چسپاں کرنے کے لیے تیار ہیں؟
موصوف کے دعوے کا دوسرا جز یہ تھا کہ عسکریت پسندی کے جہادی بیانیے کے فروغ میں دوسرا اہم ترین عامل دینی مدارس اور ان میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے۔ موصوف نے دینی مدارس میں پڑھائی جانے والی مختلف کتب کے حوالے دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عسکریت پسندی کا جہادی بیانیہ ان کتب سے ماخوذ ہے۔ میں پہلے موصوف کے وہ حوالے نقل کرتا ہوں جو انہیں نے اپنے مضمون میں پیش کیے ہیں :
’’کفار سے جنگ کرنا واجب ہے، خواہ وہ ہم سے جنگ کرنے میں ابتدا نہ کریں۔‘‘ 
’’جن لوگوں تک دین کی دعوت نہ پہنچی ہو، ان سے جنگ کرنا جائز نہیں، البتہ دعوت کے بعد جنگ کرنا جائز ہے۔ بہتر ہے کہ جس تک دعوت پہنچ چکی ہو، اسے بھی دعوت دی جائے، تاہم یہ واجب نہیں ہے۔ پھر اگر مخاطبین دعوت کا انکار کر دیں تو مسلمان اللہ کی مدد طلب کریں، ان منکرین پر جنگ مسلط کر دیں، ان پر منجنیقیں نصب کریں، آگ لگا دیں، ان پر پانی چھوڑ دیں، ان کے درخت کاٹ دیں، ان کے کھیت برباد کر دیں۔ ان منکرین پر تیر چلانے میں بھی کوئی حرج نہیں، چاہے وہاں مسلمان قیدی یا تاجر بھی ہوں، یا مسلمانوں کے بچوں یا مسلمان قیدیوں کو انہوں نے ڈھال بنایا ہوا ہو، مسلمان تیر چلانے سے ہاتھ مت روکیں، البتہ تیر چلاتے ہوئے کفار کو مارنے کی نیت کر لی جائے۔‘‘ (کتاب السیر، 52، مختصر القدوری)
قدوری کا یہ حوالہ نقل کرنے کے بعد موصوف اپنے فاسد خیالات کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ دیکھیں یہاں دینی مدارس کے طلباء کی ذہن سازی کی جا رہی ہے اور انہیں یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ وہ کفار پر حملہ کردیں، ان کی فصلوں کو تباہ کردیں، ان کے درخت کاٹ دیں ۔۔۔الخ۔پہلی بات یہ ہے کہ اگر موصوف کو صاحب قدوری کی یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تو قرآن تو اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں کہتا ہے کہ اگر کفار سے مڈ بھیڑ ہو جائے تو ان کی گردنیں اڑا دو اور ان کے پور پور پر ضرب لگاؤ۔ (سورہ انفال، 12)، اس کے علاوہ قرآن کی سینکڑوں آیات اور سینکڑوں احادیث جہاد کی ترغیب دیتی ہیں بلکہ ہاتھ پکڑ کر اسے میدان جنگ میں لا کر کھڑا کر دیتی ہیں، لہٰذا موصوف کو چاہیے کہ قرآن کی ان سینکڑوں آیا ت اور احادیث کو بھی عسکریت پسندی کے جہادی بیانیے کا بنیادی ماخذ قرار دے دیں اور پھر اس کا تمسخر اڑائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ موصوف اگر ذرا سی بھی علمی دیانت کا مظاہرہ کرتے اور بات کو پورے سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرتے تو انہیں نظر آجاتا کہ صاحب قدوری یہاں اقدامی جہاد کی بات کر رہے ہیں اور اس دور میں مسلمان اقدامی جہاد کے قابل تھے، لہٰذا یہ عبارت اقدامی جہاد سے متعلق ہے۔ اور آج جب مدارس میں یہ عبارت پڑھائی جاتی ہے تو اس کی وضاحت کر دی جاتی ہے کہ یہ سب تعلیمات اقدامی جہاد سے متعلق ہیں۔اور یہ تعلیمات اس وقت قابل عمل ہوں گی جب مسلمان اس قابل ہوئے کہ وہ اقدامی جہاد کے لیے قدم بڑھا سکیں۔ میں اسے موصوف کی کم ظرفی سمجھوں کہ وہ عبارت کو اصل سیاق و سباق میں پیش کرنے کی بجائے اپنے مطلب کا جامہ پہنا رہے ہیں یا موصوف کی کم علمی کہ جنہیں عبارت کا اصل مفہوم سمجھ ہی نہیں آیا؟ موصوف جمع خاطر رکھیں کہ ان کی فرمائش پر دینی مدارس کے نصاب سے یہ عبارات نکالی نہیں جا سکتی۔
موصوف کا اگلا حوالہ دیکھیں : ’’قتال کی نصوص کے عموم کی رو سے کفار سے قتال واجب ہے، اگرچہ جنگ کی ابتدا ان کی طرف سے نہ ہو۔‘‘ (کتاب السیر، الہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی)
یہ عبارت پیش کرنے کے بعد بھی موصوف وہی پہلے والا اعتراض دہراتے ہیں لیکن یہاں بھی موصوف کی کم علمی اور کم ظرفی پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کہ یہاں بھی اقدامی جہاد کی بات ہو رہی ہے۔ 
آگے موصوف امام سرخسی کی کتاب المبسوط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال جاری رکھوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں، جب وہ ایسا کر لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جان اور مال بچا لیا، سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘
’’اگر صلح مسلمانوں کے حق میں بہتر نہ ہو تو صلح نہیں کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو تم ہی غالب رہنے والے ہو۔ نیز اس وجہ سے بھی صلح نہیں کرنی چاہیے کہ مشرکین سے جنگ کرنا فرض ہے اور بلا عذر فرض کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ (باب صلح الملوک و الموادعۃ، المبسوط ج 10 ص 86)
دیکھیں امام سرخسی کی یہ عبارت بھی اقدامی جہاد سے متعلق ہے۔ امام سرخسی نے پہلے ایک حدیث اور بعد میں قرآن کی آیت پیش کی ہے اور ان دونوں عبارات سے صاف واضح ہے کہ یہ اقدامی جہاد سے متعلق ہیں لیکن موصوف کو قرآن کی اس آیت اور حدیث سے عسکریت پسندی کے بیانیے کی بو آتی ہے۔میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آیا موصوف کی علمی قابلیت ہی اتنی ہے کہ وہ اس صاف اور واضح بات کو نہیں سمجھ سکے یا اس میں موصوف کے کچھ ذاتی مفادات وابستہ ہیں جو انہیں اس تجاہل عارفانہ پر مجبور کر رہے ہیں۔ 
اس کے بعد موصوف اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں ’’ مدرسے کا ایک طالب علم جب فقہ کا یہ بیانیہ پڑھتا ہے اور دوسری طرف یہ دیکھتا ہے کہ مسلم حکومتیں غیر مسلم ریاستوں پر جنگ مسلط نہیں کرتیں اور نہ اس کا کوئی ارادہ ہی رکھتی ہیں، بلکہ الٹا بلا عذر ان کے ساتھ صلح کر کے جہاد کے فریضے کو ہی ترک کرنے کی مرتکب ہو چکی ہیں، تو وہ اس مثالی اسلامی خلافت کے قیام کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے، جس کا بیانیہ وہ فقہ میں پڑھتا ہے، یعنی ایسی خلافت جو آگے بڑھ کر اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ سر انجام دے اور غلبہ حق کے لیے غیر مسلموں پر جنگ مسلط کر دے اور انہیں محکوم بنا لے۔‘‘
ویسے میرے ہم نام ہوائی باتیں چھوڑنے میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔ پہلے اپنے ذہن میں کچھ چیزیں فرض کرتے ہیں، ذہن میں ایک خاکہ بناتے ہیں، پھر اس میں رنگ بھرنا شروع کر دیتے ہیں اور ان کی مفروضہ تصویر بن کر منصہ شہود پر آجاتی ہے۔ اس فن کا استعمال انہوں نے مذکورہ بالاعبارت میں خوب کیا ہے۔ موصوف کی مذکورہ بالا عبارت دوبارہ پڑھیں جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ایک مدرسے کا طالب علم جب یہ بیانیہ پڑھتا ہے تو ۔۔۔الخ۔ ڈاکٹر صاحب، آپ حوصلہ رکھیں، گزشتہ عرصے میں شدت پسندی اور عسکریت پسندی کے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں، ان میں دینی مدرسے کا کوئی طالبعلم ملوث نہیں اور نہ مستقبل میں ایسا ہو گا۔ آپ نے جو نقشہ کھینچا ہے، یہ محض آپ کی ذہنی اختراع ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کے بعد موصوف شاہ ولی اللہ اور مولانا مودودی کی جہادی تعلیمات کا تذکرہ کر کے اپنے تعصب کا اظہار کرتے ہیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ موصوف کس مکتبہ فکر کی جہادی تعبیر کو مانتے ہیں ،کم از کم انہیں اتنا تو واضح کرنا چاہیے تھا۔جہاں تک ان کے مضمون کا تعلق ہے، اس سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ سرے سے جہاد کے ہی قائل نہیں یا انہیں جہاد سے خدا واسطے کا بیر ہے۔
اس کے بعد موصوف جمہوریت کے بارے میں اصحاب مدارس کے نقطہ نظر کے حوالے دیتے ہیں۔آپ پہلے وہ حوالے دیکھیں: 
قاری طیب قاسمی اپنی کتاب ’’فطری حکومت‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’یہ (جمہوریت) رب تعالیٰ کی صفت ملکیت میں بھی شرک ہے اور صفت علم میں بھی شرک ہے۔‘‘
احسن الفتاویٰ میں مفتی رشید احمد،ج 6 ص 26 میں لکھتے ہیں : ’’یہ تمام برگ و بار مغربی جمہوریت کے شجرہ خبیثہ کی پیداوار ہے۔ اسلام میں اس کافرانہ نظام کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
مولانا یوسف لدھیانوی آپ کے مسائل اور ان کا حل، ج 8 ص 176 میں لکھتے ہیں: ’’جمہوریت کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریے کی ضد ہے (ظاہر ہے اسلام کی ضد کفر ہی ہے)۔‘‘
مولانا عاشق الٰہی بلند شہری، تفسیر انوار البیان ، ج 1 ص 518 میں لکھتے ہیں : ’’ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
مولانا فضل محمد، اسلامی خلافت، ص 117 میں لکھتے ہیں: ’’اسلامی شرعی شوریٰ اور موجودہ جمہوریت کے درمیان اتنا فرق ہے جتنا آسمان اور زمین میں۔ وہ مغربی آزاد قوم کی افراتفری کا نام ہے جس کا شرعی شورائی نظام سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔‘‘
مولانا تقی عثمانی دور حاضر کے معتدل ترین علما میں سے ہیں، لکھتے ہیں: ’’جمہوریت میں عوام خود حاکم ہوتے ہیں، کسی الٰہی قانون کے پابند نہیں تو وہ خود فیصلہ کریں گے کیا چیز اچھی ہے یا بری۔ ۔۔۔جمہوریت سیکولرازم کے بغیر نہیں چل سکتی۔‘‘ (اسلام اور سیاسی نظریات، مولانا تقی عثمانی، ص 146)
پہلی بات یہ کہ موصوف نے جمہوریت کے حوالے سے احباب مدارس کی جو عبارات اور حوالے نقل کیے ہیں، ان کا تعلق مغربی جمہوریت سے ہے کہ مغرب میں جمہوریت نے جو گل کھلائے ہیں، ان کے پیش نظر اسلام میں اس تصور کی کوئی گنجائش نہیں۔ کیا موصوف کے علم میں نہیں کہ مغرب میں اس جمہوریت نے ہم جنس پرستی ، زنا کو قانونی درجہ دینے، والدین کو اولڈ ہومز میں بھیجنے ، والدین کو جیلوں میں بند کر وانے ، خاندانی نظام ختم کرنے اور اس جیسے دیگر قوانین کو صرف اس بنیاد پر قانون کا درجہ دے دیا کہ اس کو جمہوریت نے سپورٹ کیا تھا۔ اب جب ان علماء اور اصحاب مدارس کے سامنے یہ مسائل تھے اور یہ صرف اور صرف جمہوریت کا ثمر تھے تو آپ ایک سلیم الفطرت انسان سے اس تصور کو غلط قرار دینے کے سوا کیا توقع کر سکتے ہیں۔ مغربی جمہوریت کے بارے میں یہی بات تو قرآن نے بھی کہی ہے، ’’ان الحکم الا للہ‘‘  کہ اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کے پاس ہے جبکہ جمہوریت کے تصور میں اقتدار اعلیٰ کا مالک عوام کو مانا جاتا ہے۔ جو بات قرآن کہتا ہے، ان اصحاب مدارس نے قرآن کی اسی بات کو مد نظر رکھ کر اس کے خلاف اپنی آرا ء کا اظہار کیا ہے ، اب موصوف کو چاہیے کہ قرآن کی اس آیت کو بھی جمہوریت کے خلاف چارج شیٹ کے طور پر پیش کردیں اور اس کا تمسخر اڑائیں۔ 
جہاں تک بات ہے اس جمہوریت کی جو پاکستان اور بعض دیگر اسلامی ممالک میں رائج ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ اب اصحاب مدارس اس تصور جمہوریت کو قابل قبول قرار دیتے ہیں بایں طور کہ اس تصور جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ اللہ کے پاس ہو گا اور اس جمہوریت کے نتیجے میں منتخب افراد قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں کریں گے۔ اگرچہ ابھی تک اس پر ٹھیک طرح سے عمل نہیں ہو رہا، لیکن بہر حال علماء اس تصور کی گنجائش کے قائل ہیں مگر ان شرائط و ضوابط کے ساتھ جو انہوں نے اس کے ساتھ عائد کیے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اقتدار اعلیٰ اللہ کے پاس ہونے کی صورت میں ایسا کوئی بھی قانون جو خلاف شریعت ہو گا اسے منظور نہیں کیا جائے گا اور ہم ممکنہ طور پور مغربی جمہوریت کے ان ثمرات سے محفوظ رہیں گے جن کا مظاہرہ ہم آئے روز دیکھتے ہیں۔ موصوف ان اہل مدارس سے کیا توقع کر رہے ہیں کہ مغربی تصور جمہوریت کی غلطیوں اور برائیوں کوکھلی آنکھوں دیکھنے اور جاننے کے باوجود اس کے حق میں فتویٰ دیں اور اس کے حق میں جلسے اور جلوس نکالیں۔ ایسا کام صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں نہ خدا کا ڈر ہو نہ احادیث رسول کا کوئی احترام۔ جنہیں اسلام کے سیدھے سادھے نظام میں بھی غلطیاں دکھائی دیں لیکن مغربی کا غیر انسانی اور غیر اخلاقی نظام انہیں آئیڈیل دکھائی دے یا جن کے پیش نظر ذاتی مفادات ہوں اور انہیں آخرت کی فکر نہ ہو۔ 
یہ حوالے اور عبارات نقل کرنے کے بعد موصوف نے انتہائی تعصبانہ تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ اب جب طلبہ کو یہ بتایا جائے گا کہ جمہوریت غیر اسلامی نظام ہے تو وہ اس نظام حکومت اور آئین کے بارے میں جو موقف اپنائیں گے، وہ ظاہر ہے۔ علما تو اپنی دو عملی کے لیے گنجائش نکال لیتے ہیں یعنی ایک طرف وہ جمہوریت کو بھی غلط کہتے ہیں، لیکن آئین سے وفاداری کا اعلان بھی کرتے ہیں، لیکن ان کے سادہ مزاج طلبہ پوچھتے ہیں کہ کیا آئین بھی انسانوں نے جمہوریت کے اکثریتی رائے کے اصول پر نہیں بنایا ہے؟ کل اگر اکثریتی رائے سے اس میں غیر اسلامی شقیں ڈال دی جائیں یا پورے آئین کو ہی سیکولر بنا دیا جائے تو کیا جمہوری اصولوں پر اسے بھی مان لیا جائے گا؟ اگر نہیں، تو پھر آج اس کی حمایت کیوں کی جا رہی ہے؟ اس لیے نہ جمہوریت درست ہے نہ انسانوں کا بنایا ہوا آئین۔ یہ طلبہ اپنے اساتذہ کو ان کا ہی پڑھایا ہوا سبق سنانے لگتے ہیں اور اساتذہ کے پاس کوئی جواب بھی نہیں ہوتا۔‘‘
اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ان کے اس تعصبانہ تجزیے پر ماتم کرنے کے لیے عرب کے کسی جاہلی شاعر کو بلاتا اور اس سے درخواست کرتا کہ وہ اپنے پورے جلال و کمال کے ساتھ موصوف کی اس عبارت کا ماتم کرے۔ مدارس میں طلبہ کو جمہوریت کے اسی تصور سے روشناس کرایا جاتا ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا، اس لیے موصوف کو چاہیے کہ اپنا ذہن کلیئر کر لیں اور اگر چاہیں تو کسی دن میرے ساتھ جا کر کسی مدرسے کا وزٹ کر لیں۔ اگر وہ سلیم الفطرت انسان ہیں اور ان میں بات کو سمجھنے کی صلاحیت ہے تو یقیناًوہ اپنی اس بات سے رجوع کر لیں گے۔ اور اس سے اگلی بات کہ علماء کو اپنی دوعملی کے لیے گنجائش مل جاتی ہے، یہ مقدمے کے پہلے قضیے پر موقوف ہے اور جب مقدمے کا پہلا قضیہ ہی غلط ہے تو اس سے برآ مد ہونے والا نتیجہ کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ یعنی علماء پاکستان میں رائج جمہوریت کو( اس کی شرائط کے ساتھ ) غیر اسلامی نہیں مانتے اور نہ ہی اس کے خلاف فتوے دیتے ہیں تو اس سے اگلی بات کہ وہ طلبہ کو کچھ بتاتے ہیں خود کسی اورموقف کا اظہار کرتے ہیں، یہ بات کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ 
موصوف کی ان سطروں کو پڑھنے کے بعد مجھے گمان ہو نے لگا ہے کہ شاید موصوف ماضی کی الف لیلہ داستان کے قصہ گو رہے ہیں کہ جنہیں قصہ گوئی اور خود سے کہانیاں گھڑنے کا بہت شوق اور مہارت حاصل ہے۔ وہ کسی بھی راہ چلتے انسان کے متعلق کوئی بھی کہانی بآسانی گھڑ کر اس کے سر تھونپ سکتے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اہل مدارس نے عسکریت پسندی کے خلاف جوابی بیانیہ جار ی نہیں کیا تو موصوف کے علم میں ہونا چاہئے کہ جب سے یہ مسائل پیش آئے، علماء کی جانب سے حکومت کی غلط پالیسیوں پر مثبت تنقید کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں بڑا واضح موقف اختیار کیا گیا کہ پاکستان میں مسلح جدوجہد ناجائز ہے ، قرآن و حدیث میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ یہی کاؤنٹر نیریٹو تھا جو علماء کے بس میں تھا کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلے پر اپنی رائے کو واضح کریں۔ ار باب مدارس کا کام کسی چیز کا ابلاغ اور اس کو پہنچا دینا ہی تھا، کسی کو زبردستی اس پہ لانا ان کے اختیار میں تھا اور نہ ان کے لیے ایسا ممکن تھا۔ 
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض ارباب مدارس کو عسکریت پسندوں کے گروپوں تک رسائی تھی تو عسکریت پسند گروپوں نے اربا ب مدارس کی یہ بات مانی کیوں نہیں، یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس مسئلے کے پس پردہ جو محرکات ہیں، وہ مذہبی نہیں سیاسی یا کچھ اور ہیں۔ اور اب اس راز سے بھی پردہ اٹھ گیا ہے ، حال ہی میں خود کو رضا کارانہ طور پر پاک فوج کے حوالے کرنے والے ٹی ٹی پی کے ترجمان احسان اللہ احسان کے یہ انکشافات اس حوالے سے چشم کشا ہیں :
’’ہم اسلام کا نعرہ لگاتے تھے مگر اس پر عمل نہیں کرتے تھے، طالبان نے خاص طور پر اسلام کے نام پر نوجوان طبقے کو گمراہ کر کے اپنے ساتھ ملایا، میں نے ان تنظیموں کے اندر رہ کر بہت کچھ دیکھا، یہ لوگوں کو اسلام کے نام پر ورغلا کر بھرتی کرتے تھے جبکہ یہ خود اس تعریف پر پورا نہیں اترتے تھے۔ ایسے لوگ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اور نہ ہی کر سکتے ہیں۔شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوا تو ہم سب افغانستان چلے گئے۔را نے ہر کارروائی کی قیمت ادا کی، جب ہم افغانستان پہنچے تو میں نے وہاں دیکھا کہ ٹی ٹی پی کے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ تعلقات بڑھنے لگے ہیں۔ را نے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں مالی معاونت فراہم کی اور ٹی ٹی پی کو اہداف دیے اور پاکستان میں کی جانے والی ہر کارروائی کی قیمت بھی ادا کی۔ جب ٹی ٹی پی نے بھارت سے مدد لینی شروع کی تو میں نے عمر خالد خراسانی کو کہا کہ یہ تو ہم کفار کی مدد کر رہے ہیں، اس سے ہم اپنے لوگوں کو مروائیں گے جو کہ کفار کی خدمت ہو گی ،عمر خالد خراسانی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں تخریب کاری کرنے کے لیے مجھے اسرائیل سے بھی مدد لینی پڑی تو میں لوں گا۔ ان تنظیموں نے مختلف کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں جو بھارتی خفیہ ایجنسی را سے روابط رکھتے ہیں۔ بھارت نے ان لوگوں کو"تذکرہ" دیا تھا۔ یہ تذکرہ افغانستان کے قومی شناختی کارڈ کی طرح استعمال ہوتا ہے اور اس کے بغیر سفر کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی تمام تر نقل و حمل کا عمل افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کو بھی ہوا کرتا تھا اور این ڈی ایس ہی ٹی ٹی پی کو پاکستان میں داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتی تھی۔‘‘
کیا ان انکشافات کے بعد بھی موصوف عسکریت پسندی کا دوش ار باب مدارس کو دیں گے ؟ 
ویسے میں موصوف سے پوچھنا چاہوں گا کہ عسکریت پسندی کا یہی مسئلہ عراق، شام، لیبیا اور مصر میں بھی موجود ہے تو سوال یہ ہے کہ وہاں پر کون سے مدارس ہیں جن کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے یا جنہوں نے عسکریت پسندی کے بیانیے کو فروغ دیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب بین الاقوامی طاقتوں کا کھیل ہے، سامراجی طاقتیں دنیا کے نئے جغرافیے بنارہی ہیں، اسلامی ملکوں کو میدان جنگ بنا کر انہیں ڈی سٹیبلائز کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پورا عالم اسلام اسی قسم کے حالات سے دوچار ہے، وگرنہ عسکریت پسندی سمیت اس وقت ہم جن مسائل کا شکار ہیں، ان کی مدت زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس سال ہے اور مدارس اس خطے میں سو ڈیڑھ سو سال سے موجود ہیں تو اس وقت سے یہ مسائل کیوں پیدا نہیں ہوئے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی مسئلے میں سامراجی طاقتوں کے مفادات شامل ہوجائیں تو وہاں صرف مقامی افراد کو گناہگار ڈکلیئر نہیں کیا جا سکتا۔ان مسائل کے پیچھے یقیناًبہت سے عناصر ہیں جن میں کچھ عالمی اور کچھ مقامی ہیں جن میں سے ایک عنصر مذہب کا بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ جن کے اس مسئلے سے مفادات وابستہ ہیں، انہوں نے جہاں اور بہت ساری چیزوں کو استعمال کیا، وہاں انہوں نے مذہب کو بھی استعمال کیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مذ ہب کو ہی آڑے ہاتھوں لے لیا جائے اور سارے الزام مذہب اور اہل مذ ہب کے سر تھوپ دیے جائیں۔ 
اس لیے ڈاکٹر عرفان شہزاد سے گزارش ہے کہ حالات کو ان کے اصل تناظر میں دیکھیں۔ تجزیہ کرتے وقت زمینی حقائق کو مد نظر رکھیں۔ اب ساری چیزیں واضح ہو چکی ہیں ، بار بار گڑے مردے اکھاڑنے اور لکیر کو پیٹتے رہنے سے اب کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ اس لیے اپنا اور قوم کا وقت ضائع نہ کریں۔ آگے بڑھیں اور پہلے سے طے شدہ امور اور بار بار ڈسکس ہونے والی بحثوں سے کنفیوڑن نہ پھیلائیں۔ بات اب آگے بڑھ چکی ہے ، دینی مدارس ان عسکریت پسند گروہوں سے اعلان براء ت کر چکے ہیں اور اس حوالے سے ان کا کردار واضح ہے۔ تفرقہ پھیلانے کی بجائے ایسی بحثوں کا آغاز کریں جن میں اجتماعی او رقومی مفاد کی بات کی گئی ہو۔ اور اگر اب بھی آپ کی سوئی اسی مقام پر اٹکی ہوئی ہے تو پھر آپ اپنا منجن بیچتے رہیں، یہ سمجھ کر کہ شاید آپ کی قسمت میں یہی لکھا ہے۔

مذہب اور سائنس کے موضوع پر ایک ورکشاپ ۔ چند تاثرات

محمد عثمان حیدر

راقم کو ۳ تا ۵ جولائی ۲۰۱۷ء، میرین ہوٹل گوجرانوالہ میں ایک سہ روزہ ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا جو الشریعہ اکادمی اور خوارزمی سائنس سوسائٹی کے باہمی اشتراک سے منعقد کی گئی تھی۔ ورکشاپ کا عنوان تھا: ’’مذہب اور سائنس: تنازعات کی وجوہات اور مفاہمت کی اساسیات‘‘۔
ورکشاپ میں معلم کی ذمہ داری ڈاکٹر باسط بلال کوشل صاحب نے انجام دی اور تین دن ان سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ ورکشاپ جس موضوع کے تحت منعقد کی گئی تھی، وہ دور حاضر میں بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سائنسی ایجادات اور ان کے فوائد نے سبھی طبقات کو اپنے اثر میں لے لیا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً سبھی شعبے اور قدریں اب اسی کے زیر اثر جانچی جا رہی ہیں۔ 
غورو فکر کا موجودہ عمل یا طرز انھی کے تشکیل کردہ ماحول میں پروان چڑھ رہا ہے اور یہ غور و فکر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ترقی چوں کہ حسیات سے تعلق رکھتی ہے، دوسرے الفاظ میں مادہ سے متعلق، ہے، اس لیے دوسری اقدار ہوں یا اشیاء، وہ اسی پہلو سے جانچی جا رہی ہیں کہ آیا وہ ظاہری فوائد کی حامل ہیں یا نہیں ؟ اگر ظاہری فوائد جن کا باقاعدہ کوئی وجود ہو ، نہیں ہیں تو پھر اس کی ضرورت کیا ہے ؟
اس پوری سوچ کو واضح انداز میں یوں پیش کیا جاتا ہے کہ آیا دور حاضر میں جب ہر چیز عقلی دنیا سے نکل کر تجرباتی دنیا میں آگئی ہے اور اپنی افادیت ثابت کر چکی ہے تو کیا اب کسی آسمانی تعلیم کی ضرورت باقی بچتی ہے جو سراسر غیر مرئی ہے اور اصلاً اقدار کے تعین اور دنیوی و اخروی رویوں کی تہذیب کو موضوع بناتی ہے؟ کیا اس سائنسی ترقی کے دور میں بھی ہمیں کسی آسمانی کتاب سے اصول اخذ کرنے کی ضرورت ہے؟
اس سوال کا براہ راست ایسا جواب ہر گز نہیں دیا جاسکتا جو معاملہ کو فوری طور پر حل کردے اور اس میں پنہاں تہہ در تہہ گتھیوں کو سلجھا دے بلکہ اس سوال کو سمجھنے سے پہلے بہت سے مراحل ہیں جو ذہن میں موجود ہونا ضروری ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کے آغاز میں ہی فرما دیا " سب سے پہلے ہم اس بات پر غور کریں گے کہ کسی ٹھوس منطقی بنیاد پر باہمی تنازع بنتا بھی ہے یا نہیں ؟ اگر ٹھوس بنیاد پر تنازع موجود ہوگا تو ہی ہم اس کی نوعیت ، دائرہ کار اور عملی حل پر غور کریں گے۔ انھوں نے فرمایا کہ ہمیں اس سوال کے جواب کے لیے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ تینوں بڑے گروہوں یعنی اہل مذہب، فلسفیوں اور سائنس دانوں کے ہاں غور وفکر کا موضوع کس چیز کو بنایا گیا ہے ؟ غور و فکر کی اساس کسے ٹھہرایا گیا ہے ؟ اور اس پورے عمل میں کیسا انداز فکر کار فرما ہے؟
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کا موضوع روح ہے جس پر وحی کے ذریعے غورو فکر ہوتا ہے، سائنس کا موضوع جسم ہے جس پر حواس خمسہ کے ذریعے غور و فکر ہوتا ہے اور فلسفہ عقل کے ذریعے زندگی کے مسائل پر غور و فکر ہوتا ہے۔ تینوں گروہوں نے اپنے نصوص سے اپنے اصول وضع کیے اور پھر اس سے نتائج برآمد کیے اور انھیں نتائج کو قطعیت کا درجہ دے دیا۔ اب وہ کسی اور کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں، لہٰذا ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ تنازع پوری شدومد کے ساتھ موجود ہے۔ اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ تنازع آیا آج پیدا ہوا ہے یا ماضی میں بھی اس کی کوئی جھلک موجود ہے ؟ اس کے لیے ہمیں اپنی علمی روایت کا بنظر غائر جائزہ لینا پڑے گا اور اگر ہم اس عمل میں کامیاب ہوگئے تو بطریق احسن جان لیں گے کہ معاملہ نہیں بلکہ پرانا ہے ۔ البتہ اب معاملہ صرف علمی درس گاہوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔
یہ مسئلہ پرانا چلا آرہا ہے، اس پر بطور استشہاد انھوں نے حاضرین کے سامنے قرون وسطیٰ کے نامور یہودی فلسفی اور عالم موسیٰ بن میمون کا ایک خط پیش کیا جس میں وہ اپنے شاگرد کوفرمارہے ہیں کہ" میں نے علوم عقلیہ کی بحثوں میں پہنچ کر یہ محسوس کیا کہ تمھیں وہ متوحش کر رہے ہیں اور تم گاہے اضطراب میں چلے جاتے ہو اور گاہے حیران و پریشان ہو جاتے ہو۔ میں کوشش کروں گا ان معاملات میں تمھاری درست رہ نمائی کر دوں اور ایسے اشارے کر دوں جو تمھیں مقصود تک پہنچا دیں۔‘‘
معاملہ کو مزید واضح کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے امام غزالی علیہ الرحمہ کی سرگزشت کا وہ حصہ پیش کیا جس میں وہ خود اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ ’’مجھ پر بھی ایک عرصہ ایسا بیتا کہ ذہن تشکیک میں مبتلا ہو گیا اور قلب میں اضطراب ہی اضطراب تھا۔‘‘ وہ ’’ خواب اور موجودہ دنیا کے حقائق ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک الجھن کا ذکر کرتے ہیں جو انھیں اس زمانے میں لاحق ہوگئی تھی ۔ انھیں یہ بات کھٹکتی تھی کہ جیسے خواب کے حقائق بیداری عالم میں محض وہم اور خیال لاطائل کی کرشمہ سازی ہے، اسی طرح جس دنیا کو ہم عالم بیدار گردانتے ہیں، ہو سکتا ہے ، یہ بھی کسی دن ایک ایسا ہی جہان ثابت ہو جو محض وہم ہو اور اس کی حقیقت بھی محض ایک خواب جیسی ہی ہو ۔
امام غزالی فرماتے ہیں کہ ’’ جب اس طرح کے اندیشے دل میں ابھرے اور اس انداز کے جذبات شکوک و شبہات کا باعث بنے تو میں نے ہر چند چاہا کہ اس بیماری کا علاج کروں یہ نہ ہو سکا کیوں کہ اس بیماری کا علاج تو دلائل ہی سے ممکن ہے اور دلیل اسی پر موقوف ہے کہ اولیات سے مرکب ہو، مگر اولیات جب اعتبار کھو بیٹھے تو دلیل قائم کرنا اور ثبوت مہیا کرنا سخت دشوار ہو گیا، لہٰذا میں دو ماہ اس سو فسطائیہ تشکیک میں مبتلا رہا۔‘‘
یہ استشہاد بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہ دونوں استشہاد اس بات پر گواہ ہیں کہ ماضی میں بھی یہ مسئلہ موجود تھا ۔ 
ورک شاپ میں مولانا عبد الماجد دریا آبادی کی سرگزشت الحاد کا خصوصی پر مطالعہ اور تجزیہ کیا گیا۔ مولانا ٹھیٹھ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ایسے علمی ماحول میں آنکھ کھولی تھی کہ 12،13 سال کہ عمر میں ہی آریوں ،مسیحیوں اور نیچریوں کے جواب میں لکھنے لگے تھے اور سولہ سال کی عمر تک کافی علمی پختگی پیدا ہو چکی تھی، لیکن کالج میں داخل ہوتے ہی دو کتابیں ہاتھ لگیں جو براہ راست مذہب کے موضوع پر نہیں تھیں اور نہ ہی ان کا تعلق ابطال اسلام یا ابطال مذہب سے تھا بلکہ ایک اصول معاشرت اور آداب معاشرت پر تھی اور دوسری آداب و محاضرہ کی تھی۔ لیکن ان دو کا اثر ہی یہ ہوا کہ خود فرماتے ہیں "لیجیے ! برسوں کی محنت اور تیاری کا قلعہ بات کی بات میں ڈھے گیا اور بغیر کسی آریہ سماجی یا کسی اور دشمن اسلام سے بحث و مناظرہ میں مغلوب ہوئے ذات رسالت سے اعتقاد بحیثیت رسول کیا معنی ،نہ بحیثیت ایک بزرگ یا اعلی انسان کے بھی دیکھتے دیکھتے دل سے مٹ گیا ! اسلام و ایمان کی دولت عظیم بات کہتے ارتداد کے خس و خاشاک میں تبدیل ہو گئی ۔‘‘
اس مقام پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ مولانا کی واپسی کی روداد بہت دلچسپ ہے۔ آدمی حیران ہوتا ہے کہ بظاہر خود جو ہدایت پر نہ تھے اور ابھی ظلمتوں میں ہی سرگرداں تھے، وہ ایک ایک کر کے معاون ثابت ہوتے ہیں اور بتدریج ان کے ایمان کا سفر مکمل ہو جاتا ہے ۔ وہ سب سے پہلے حکیم کنفیوشس کی تعلیمات سے متاثر ہوئے جس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں روحانیت سے جا ملتے تھے۔ ساتھ میں ایک اور کتاب کے ذریعے بدھ مت،جین مت اور تھیاسوفی سے بھی تعارف ہو گیا۔ بدھ مت چوں کہ نرے مجموعہ اوہام کا نام نہیں بلکہ اس کے اندر نفس بشری اور روح سے متعلق کچھ گہری حقیقتیں اور بصیرتیں بھی ہیں اور تھیا سوفی ہندو تصوف اور فلسفہ کی ہی ایک شکل ہے جس میں سارا زور روح پر ہے، اس لیے ان تعلیمات سے واقف کاری کا اثر یہ ہوا کہ مادیت ،لاادریت و تشکیک کی جو سر بفلک عمارت برسوں میں تعمیر ہوئی تھی، بتدریج منہدم ہوتی چلی گئی۔
ورک شاپ میں سائنس، فلسفہ اور مذہب کے تنازع کے حوالے سے بہت سے اہم نکات زیر بحث آئے اور شرکاء کی طرف سے سوال وجواب کا سلسلہ بھی ہوا۔ ایک نشست میں الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے خصوصی طور پر شرکت کی، جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر تینوں دن مسلسل ورک شاپ میں شریک رہے۔ ورکشاپ کے انتظامی امور کی دیکھ بھال خوارزمی سائنس سوسائٹی کے رفقاء اور الشریعہ اکادمی کی ٹیم نے مل کر کی اور یوں ایک پرسکون اور علمی ماحول میں شرکاء کو ایک اہم موضوع پر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

اکتوبر ۲۰۱۷ء

ظلم و جبر کے شکار مسلمان۔ حکمت عملی کیا ہو؟محمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۵)ڈاکٹر محی الدین غازی
دور جدید کا حدیثی ذخیرہ۔ ایک تعارفی جائزہ (۳)مولانا سمیع اللہ سعدی
ترکی کی وزارت برائے مذہبی امور اور دینی وقف کا موضوعاتی حدیث منصوبہ: مختصر تعارفانعام الحق
فقاہت راوی کی شرط اور احناف کا موقف (۱)مولانا عبید اختر رحمانی
یکبارگی تین طلاقوں کے نفاذ کا مسئلہڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
برما میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ڈاکٹر قبلہ ایاز
مظلوم کی مدد کیجیے، لیکن کیسے؟ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
اراکان کے مسلمان: بنگلہ دیش کا موقفمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلامی ریاست کا خواب: کچھ جدید مباحثعاصم بخشی

ظلم و جبر کے شکار مسلمان۔ حکمت عملی کیا ہو؟

محمد عمار خان ناصر

قومیت کا جدید سیاسی تصور مخصوص جغرافیائی خطوں میں بسنے والے انسانوں کے لیے اپنی سرزمین پر سیاسی خود مختاری کو ایک بنیادی حق قرار دیتا ہے اور بلاشبہ اس تصور نے دنیا میں قوموں اور ممالک کے مابین جارحیت پر مبنی تنازعات کے سدباب میں اہم کردار ادا کیا ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سیاسی یا نظریاتی تصور کی طرح اس کی عملی تنفیذ بھی بالادست سیاسی قوتوں کے ارادے اور طاقت کی وساطت سے ہی ممکن ہوئی ہے اور جہاں یہ ارادہ مفقود ہے، وہاں اس تصورکی عملی تنفیذ بھی نہیں ہو سکی۔ بدقسمتی سے اس دوسری نوعیت کی صورت حال کا سامنا دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی ہے اور فلسطین، کشمیر اور برماکے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل اس نوعیت کے عالمی تنازعات کی فہرست میں نمایاں ہیں۔
دور جدید کے سیاسی تغیرات کو گہرائی کے ساتھ نہ سمجھنے یا انھیں بطور ایک امر واقعہ قبول نہ کرنے کی وجہ سے مذکورہ تنازعات سے دلچسپی اور مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والے بعض عناصر میں حکمت عملی کے حوالے سے جو عمومی رجحان پیدا ہوا، وہ پر تشدد تصادم کا رجحان تھا اور اسے دور جدید سے ماقبل کے سیاسی تصورات یا کچھ مذہبی ہدایات کے تناظر میں ایک آئیڈیل حکمت عملی تصور کیا گیا۔ اس کی ابتدا پہلے مقامی سطح پر، پر تشدد تحریکوں کی صورت میں ہوئی اور پھر جب تجربے سے یہ واضح ہوا کہ اصل مقابلہ مقامی سیاسی طاقتوں سے نہیں، بلکہ پورے عالمی سیاسی نظام کے ساتھ ہے تو اسی جوش وجذبہ کے ساتھ محاذ جنگ کو براہ راست عالمی طاقتوں کی سرحدوں پر منتقل کرنے کی کوشش کی گئی، اور یہ سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ جب مقامی سطح پر غالب نظام طاقت کے مقابلے میں یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی تو پورے عالمی سیاسی نظام کے مقابلے میں کیونکر ہوگی، جبکہ معروضی حالات میں فیصلہ کن حیثیت سیاسی وعسکری طاقت ہی کو حاصل ہے۔
طاقت کے توازن کو نظر انداز کرنے کے علاوہ تشدد اور تصادم کی مذکورہ حکمت عملی کے نتیجے میں کئی اہم مذہبی واخلاقی اصول بھی مجروح ہوئے۔ مثال کے طور پر زیادہ تر مثالوں میں عسکری تصادم کے فیصلے کو قوم کی اجتماعی نمائندگی حاصل نہیں تھی، بلکہ چند گروہوں نے اپنے تئیں یہ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر کے اس کے نتائج کو پوری قوم پر مسلط کر دیا، حالانکہ اسلامی شریعت کی رو سے کسی علاقے میں مسلح مزاحمت کا حق چند افراد یا کسی ایک گروہ کا حق نہیں، بلکہ پوری قوم کا اجتماعی حق ہے اور ایسے کسی بھی اقدام کے جواز کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے قوم کی اجتماعی تائید اور پشت پناہی حاصل ہو اور قوم اس کے لازمی نتائج کا سامنا کرنے اور اس کے لیے درکار جانی ومالی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔ اگر قوم اپنی مجموعی حیثیت میں ایسے کسی فیصلے اور اس کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو یا اس کے لیے آمادہ نہ ہو تو کسی گروہ کا ازخود کوئی فیصلہ کر کے اسے عملی نتائج کے اعتبار سے ساری قوم پر تھوپ دینا شرعاً واخلاقاً درست نہیں ہے۔ خاص طور پر اگر مقبوضہ علاقے کے مسلمان داخلی طو رپر اتحاد اور یک جہتی سے محروم اور باہم برسرپیکار ہوں تو دین وشریعت کا تقاضا یہ نہیں ہوگا کہ کوئی ایک گروہ اٹھ کر ازخود مسلح جدوجہد کا آغا زکر دے۔ دین اور عقل عام دونوں کا پہلا مطالبہ اس صورت میں یہ ہوگا کہ مسلمان باہمی اختلاف وعناد اور نزاعات کو ختم کر کے ایک متحد قوم کی شکل اختیار کریں اور اس کے بعد ’امرھم شوریٰ بینھم‘ کے اصول کے تحت حصول آزادی کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کریں جو میسر حالات میں زیادہ قابل عمل، مفید اور نتیجہ خیز ہو اور اسے قوم کی اجتماعی تائید بھی حاصل ہو۔ محکوم قوم کی باہمی تقسیم وافتراق کی معروضی صورت حال کو نظر انداز کر کے کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ نہ تو مذکورہ شرعی واخلاقی اصول کے لحاظ سے درست ہوگا، نہ عملی طو رپر ایسی کسی کوشش کے مفید نتائج نکل سکتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ایسی صورت میں نصرت اور تائید کی توقع کی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید نے سورۂ آل عمران کی آیت ۱۵۲ (حتی اذا فشلتم وتنازعتم فی الامر) اور سورۂ انفال کی آیت ۴۶ (لا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم) میں نصرت الٰہی کے اس اخلاقی اصول کی وضاحت کی ہے۔
ارد گرد کے ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی طرف سے ان مسلح تحریکات میں شرکت اور ان کی نصرت وتعاون کا عمل بھی متعدد شرعی واخلاقی قباحتوں پر مشتمل تھا۔ قرآن مجید نے سورۂ انفال میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کے ضمن میں یہ شرط عائد کی ہے کہ اس کے لیے مسلمانوں کی طرف سے کیے گئے کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ جب غزوۂ بدر کے زمانے میں سیدنا حذیفہ اور ان کے والد کو مشرکین نے مدینہ جانے سے روک دیا اور صرف اس شرط پر اجازت دی کہ وہ ان کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہوں گے تو مدینہ پہنچنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات کو جنگ میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ انھیں اپنے کیے ہوئے معاہدے کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس وجہ سے یہ دین وشریعت کا ایک لازمی تقاضا ہے کہ جو لوگ اپنی انفرادی حیثیت میں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا چاہتے ہوں، وہ یہ دیکھیں کہ وہ جس ملک کے شہری ہیں، آیا ریاست کی سطح پر اس کی طرف سے ایسا کوئی معاہدہ تو موجود نہیں جو اس کے شہریوں کو جنگ میں شریک ہونے سے روکتا ہو۔ اگر ایسا ہو تو پھر اس ملک کے کسی شہری کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس ملک کا شہری ہوتے ہوئے نظم اجتماعی کے فیصلوں سے ہٹ کر کوئی فیصلہ کرے۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتا ہے تو اخلاقی اور شرعی طور پر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ملک کی شہریت سے دست بردار ہو کر وہاں کی سکونت چھوڑ دے تاکہ اس کے کسی فعل کی ذمہ داری ریاست پر عائد نہ ہو۔ تاہم عسکری حکمت عملی میں اس اصول کی عموماً پاس داری نہیں کی گئی جس سے چند در چند اخلاقی اور قانونی پیچیدگیوں نے جنم لیا۔
اس پوری صورت حال میں سب سے اہم بات یہ سمجھنے کی ہے کہ کسی بھی دور میں سیاسی نوعیت کے تنازعات میں اس وقت کے غالب نظام طاقت اور رائج سیاسی تصورات سے باہر نکل کر کوئی اقدام کرنے یا ان کے ساتھ تصادم اختیار کرنے کا راستہ کبھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ یہ نظام طاقت اور سیاسی تصورات فی نفسہ منصفانہ ہیں یا نہیں یا نظریاتی بنیادوں پر کسی گروہ کے لیے قابل قبول ہیں یا نہیں، یہ ایک بالکل الگ بحث ہے جس کے ساتھ حکمت عملی کو نتھی نہیں کیا جا سکتا۔ حکمت عملی کا بنیادی اصول نتیجہ خیزی کے بہترین امکانات کو مد نظر رکھنا اور ان امکانات کو وقوع میں بدلنے کے بہترین وسائل کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ 
ہمارے ہاں دو متوازی حکمت عملیوں کی بحث میں ہاں عموماً مکی دور اور مدنی دور کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ دونوں نقطہ ہائے نظر کا اپنا اپنا استدلال اور حالات کے تجزیے کا اپنا اپنا پیراڈائم ہے۔ ہمارے خیال میں پون صدی کے تجربات اپنا وزن مکی دور والے استدلال کے پلڑے میں ڈالتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، اہم بات یہ ہے کہ مکی دور کا تصور اس استدلال میں ادھورا ہے۔ اس کا مطلب عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ظلم وجبر کو تقدیر الٰہی سمجھ کر خاموشی سے اسے برداشت کیا جائے اور دفاع اور تحفظ کے لیے نیک اعمال پر توجہ مرکوز کرنے اور دعا کرنے کے علاوہ کوئی اقدام عمل میں نہ لایا جائے، حالانکہ سیرت نبوی کے سرسری مطالعہ سے بھی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی اس دور میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی ہرگز نہیں تھی۔ اس دور میں بھی ظلم سے تحفظ اور مظلوموں کی نصرت کے لیے وہ تمام وسائل اور تدابیر استعمال کی گئیں جو اس صورت حال میں ممکن اور موثر تھیں۔ ان میں مظلوموں کے لیے سماج کے بااثر افراد (جو عموماً مشرکین تھے) کی امان اور پناہ حاصل کرنا اور ظلم کے خلاف اجتماعی اخلاقی ضمیر کو اپیل کرنا بہت اہم تدابیر تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی حکمت کے ساتھ عرب سماج کی اس اعلیٰ اخلاقی روایت سے پورا فائدہ اٹھایا۔ اس کے ساتھ مظلوم مسلمانوں کے لیے سکونت کے متبادل مقامات تلاش کرنا اور انھیں ہجرت پر آمادہ کرنا بھی مکی دور کی حکمت عملی میں بہت نمایاں ہے۔ حبشہ کی طرف دونوں ہجرتیں اسی حکمت عملی کے تحت وقوع پذیر ہوئیں۔
عالم اسلام کی مذہبی وسیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک طرف مختلف خطوں کے مظلوم مسلمانوں کی نہ صرف خیر خواہی اور دیانت داری کے ساتھ درست راہ نمائی کرے، اور دوسری طرف طاقت کے عالمی ایوانوں میں ان کا مقدمہ حکمت اور دانائی کے ساتھ پیش کرنے کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادی ترجیحات کا حصہ بنائے۔ اس ضمن میں قرآن مجید کا یہ ارشاد ہر حال میں ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے: الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر (اگر تم مظلوموں کی مدد نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد رونما ہو جائے گا)۔ 

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۸) جنوب کا ترجمہ

جنوب، جنب کی جمع ہے، اس کے معنی پہلو کے ہیں، امام لغت فیروزآبادی لکھتے ہیں:

الجَنْبُ والجانِبُ والجَنَبَۃُ، مُحَرَّکَۃً: شِقّْ الاِنْسانِ وغیرہِ، ج: جْنْوبٌ وجوانِبُ وجَنَائِبُ. القاموس المحیط۔

عربی میں پیٹھ کے لیے ظھر اور پہلو کے لیے جنب آتا ہے، مذکورہ ذیل آیت میں دونوں الفاظ ایک ساتھ ذکر کیے گئے ہیں:

(۱) یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنوبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ ہَذَا مَا کَنَزْتُمْ لأَنفُسِکُمْ فَذُوقُواْ مَا کُنتُمْ تَکْنِزُونَ۔ (التوبۃ: ۳۵)

’’ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو ‘‘(سید مودودی) تمام مترجمین نے یہاں جنوب کا ترجمہ پہلو یا کروٹ اور ظھور کا ترجمہ پیٹھ کیا ہے۔
اس آیت کے علاوہ دو اور مقامات پر جنوب کا لفظ آیا ہے، مذکورہ بالا آیت کی طرح وہاں بھی مترجمین نے عام طور سے پہلو اور کروٹ ترجمہ کیا ہے، تاہم صاحب تفہیم نے اوپر والی آیت میں جنوب کا ترجمہ پہلو کرنے کے باوجود ذیل کی دونوں آیتوں میں جنوب کا ترجمہ پیٹھیں کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے، تینوں مقامات پر جنوب کا ترجمہ پہلو ہی ہونا چاہئے۔

(۲) تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ خَوْفاً وَطَمَعاً وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون۔ (السجدۃ: ۱۶)

’’اْن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اْنہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ (سید مودودی)
’’ان کے پہلو بستروں سے کنارہ کش رہتے ہیں ‘‘(امین احسن اصلاحی) 
’’ان کے پہلو بستروں پر ٹکتے نہیں ہیں‘‘ (امانت اللہ اصلاحی، تتجافی کا صحیح مفہوم ٹکتے نہیں ہیں کہنے سے ادا ہوتا ہے) 
آیت میں جنوبھم کا لفظ آیا ہے، ظھورھم کا لفظ نہیں آیا ہے، اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ عام طور سے انسان کروٹ لیٹتا ہے نہ کہ چت لیٹتا ہے۔

(۳) وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاہَا لَکُم مِّن شَعَائِرِ اللَّہِ لَکُمْ فِیْہَا خَیْْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیْْہَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُہَا فَکُلُوا مِنْہَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ کَذَلِکَ سَخَّرْنَاہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون۔ (الحج: ۳۶)

’’اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اْن میں بھَلائی ہے، پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو اْن میں سے خود بھی کھاؤ اور اْن کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اْن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو‘‘ (سید مودودی)
’’اور قربانی کے ڈیل دار جانور اور اونٹ اور گائے ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے کیے تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے تو ان پر اللہ کا نام لو ایک پاؤں بندھے تین پاؤں سے کھڑے پھر جب ان کی کروٹیں گرجائیں تو ان میں سے خود کھاؤ اور صبر سے بیٹھنے والے اور بھیک مانگنے والے کو کھلاؤ، ہم نے یونہی ان کو تمہارے بس میں دے دیا کہ تم احسان مانو‘‘ (احمد رضا خان)
’’اور قربانی کے اونٹ اور گائے (اور اسی طرح بھیڑ اور بکری کو بھی) ہم نے اللہ کے دین کی یادگار بنایا ہے ان جانوروں میں تمہارے اور بھی فائدے ہیں سو تم ان پر کھڑے کر کے (ذبح کرنے کے وقت) اللہ کا نام لیا کرو، پس جب وہ کسی کروٹ کے بھل گر پڑیں (اور ٹھنڈے ہوجائیں) تو تم خود بھی کھاؤ اور بے سوال اور سوالی محتاج کو بھی کھانے کو دو (اور) ہم نے ان جانوروں کو اس طرح تمہارے زیر حکم کردیا تاکہ تم (اس پر) اللہ اللہ تعالی کا شکر کرو‘‘ (اشرف علی تھانوی)
اس آیت میں ظھورھم کا لفظ نہیں آیا ہے، جنوبھم کا لفظ آیا ہے، اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ قربانی کا جانور پہلو کے بل گرتا ہے نہ کہ پیٹھ کے بل۔جنوب کا ترجمہ پیٹھ درست نہیں ہے، جبکہ پہلو درست ترجمہ ہے۔
اس آیت میں دو اور لفظوں کی تحقیق میں اختلاف ہوا ہے، وہ الفاظ حسب ذیل ہیں:
البدن کے سلسلے میں مفسرین اور اہل لغت کے یہاں دو رائیں ملتی ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد اونٹ اور گائے دونوں ہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد صرف اونٹ ہیں۔
ابن عطیہ نے دونوں رائیں ذکر کی ہیں:

البدن جمع بدنۃ وھی ما أشعر من ناقۃ أو بقرۃ، قالہ عطاء وغیرہ وسمیت بذلک لانھا تبدن أی تسمن، وقیل بل ھذا الاسم خاص بالابل. تفسیر ابن عطیۃ.

دوسری رائے مضبوط معلوم ہوتی ہے ، اس لئے کہ قربانی کا یہ طریقہ اونٹ کے لئے خاص ہے۔ گائے اور دوسرے جانوروں کی قربانی لٹا کر کی جاتی ہے، جب کہ اونٹ کی قربانی کھڑے کھڑے کی جاتی ہے، نحر کے بعد وہ اپنے پہلو کے بل گرتے ہیں۔
صواف کے سلسلے میں تین رائیں ہیں: بندھے ہوئے، کھڑے ہوئے، صف بستہ کھڑے ہوئے۔ 

صَوافَّ أی عَلَی نَحْرِھَا. قَالَ مُجَاھِد: مَعْقُولَۃ. وَقَالَ ابنُ عُمَرَ: قَائِمَۃ قَدْ صَفَّت أیدِیھَا بِالقُیُودِ. وَقَالَ ابنُ عیسَی: مُصْطَفَّۃٌ. البحر المحیط فی التفسیر۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے کے مطابق ’’کھڑے ہوئے‘‘ کرنا درست ہے۔ صف بستہ کے لئے جمع سالم آتی ہے، جبکہ صواف کے لفظ میں بندھے ہونے کا مفہوم شامل نہیں ہے۔

(۱۱۹) اشحۃ علی کا مفہوم

شح کا مطلب حریص ہونا ہے، کہ آدمی کو جو چیز حاصل ہو اسے بچا کر رکھنا چاہے، اور جو چیز حاصل نہیں ہو اسے حاصل کرنا چاہے۔ 

والشّْحّْ: البُخل وھوالحِرصُ. وھما یَتَشاحّان علی الأمر: لایُریدُ کلّْ واحدٍ منھما أن یفوتہ. (العین)

حریص علی الشیء اور شحیح علی الشیء دونوں میں علی کا ایک ہی استعمال ہوتا ہے، یعنی جس چیز کی حرص ہو اس پر علی داخل ہوتا ہے۔ مذکورہ ذیل آیت میں ایک بار اشحۃ علیکم آیا ہے، اور اسی آیت میں پھر اشحۃ علی الخیر بھی آیا ہے۔ 

أَشِحَّۃً عَلَیْْکُمْ فَإِذَا جَاء الْخَوْفُ رَأَیْْتَہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ تَدُورُ أَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشَی عَلَیْْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذَا ذَہَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوکُم بِأَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ أَشِحَّۃً عَلَی الْخَیْْرِ۔ (الاحزاب: ۱۹)

جب ہم اردو تراجم کا جائزہ لیتے ہیں تو صورت حال یہ نظر آتی ہے کہ وہ اشحۃ علی الخیر کا ترجمہ تو ’’دولت کا حریص‘‘ ہونا کرتے ہیں، لیکن اشحۃ علیکم کا ترجمہ ’’تمہارے حریص‘‘ ہونا نہیں کرتے، عربی تفاسیر میں بھی اکثر تفسیروں کا حال یہی ہے۔ دراصل وہ أشحۃ علیکم کی تفسیر بخلاء علیکم سے کرتے ہیں، جب کہ أشحۃ علیکم، بخلاء بکم کا ہم معنی ہے۔آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جب خطرہ سر پر ہوتا ہے توخود کو تمہارا خیرخواہ اور حریص ظاہر کرتے ہیں، اور جب خطرہ ٹل جاتاہے تو مال کے حریص بن جاتے ہیں۔پہلی حالت میں تم کو ھلم الینا کہتے ہیں، اور دوسری حالت میں تم کو اپنی تیز زبانوں کا نشانہ بناتے ہیں۔اس آیت میں أشحۃ علیکم کے مفہوم کی وضاحت گذشتہ آیت کے لفظ ھلم الیناسے ہورہی ہے۔ أشحۃ علیکم حال ہے ھلم الیناسے، یعنی تمہارے خیر خواہ بن کر تمہیں اپنی طرف بلاتے ہیں۔
اس وضاحت کے بعد چند اردو ترجمے ملاحظہ ہوں:
’’تمہاری مدد میں (پورے) بخیل ہیں، پھر جب خوف ودہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی انکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو۔ پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی حریص ہیں‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’تمہاری مدد میں گئی کرتے (کمی کرتے) ہیں پھر جب ڈر کا وقت آئے تم انہیں دیکھو گے تمہاری طرف یوں نظر کرتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھوم رہی ہیں جیسے کسی پر موت چھائی ہو پھر جب ڈر کا وقت نکل جائے تمہیں طعنے دینے لگیں تیز زبانوں سے مال غنیمت کے لالچ میں‘‘ (احمد رضا خان)
’’(یہ اس لئے کہ) تمہارے بارے میں بخل کرتے ہیں۔ پھر جب ڈر (کا وقت) آئے تو تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں (اور) اْن کی آنکھیں (اسی طرح) پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آرہی ہو۔ پھر جب خوف جاتا رہے تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں زبان درازی کریں اور مال میں بخل کریں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’تم سے جان چراتے ہوئے، پس جب خطرہ پیش آجاتا تو تم ان کو دیکھتے کہ وہ تمھاری طرف اس طرح تاک رہے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی آنکھوں کی طرح گردش کررہی ہیں جس پر سکرات موت کی حالت طاری ہو، پھر جب خطرہ دور ہوجاتا تو وہ مال کی طمع میں تم سے بڑی تیز زبانی سے باتیں کرتے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، اس میں زمانہ ماضی کا ترجمہ کیا گیا ہے، اذا کے ترجمہ میں ماضی کا استعمال درست نہیں ہے)
’’جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آ جاتے ہیں‘‘ (سید مودودی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’تمہیں چاہنے والے بن کر، پس جب خطرہ پیش آجاتا ہے تو تم ان کو دیکھتے ہو کہ وہ تمھاری طرف اس طرح تاک رہے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی آنکھوں کی طرح گردش کررہی ہیں جس پر سکرات موت کی حالت طاری ہو، پھر جب خطرہ دور ہوجاتا ہے تو وہ مال کی طمع میں تم سے بڑی تیز زبانی سے باتیں کرتے ہیں‘‘۔ امام زمخشری نے اس آیت کا بالکل صحیح مفہوم بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

اَشِحَّۃً عَلَیکُمْ فی وقت الحرب أضناء بکم، یترفرفون علیکم کما یفعل الرجل بالذاب عنہ المناضل دونہ عند الخوف یَنظُرُونَ اِلَیکَ فی تلک الحالۃ کما ینظر المغشی علیہ من معالجۃ سکرات الموت حذرا وخورا ولواذا بک، فاذا ذھب الخوف وحیزت الغنائم ووقعت القسمۃ: نقلوا ذلک الشحّ وتلک الضنۃ والرفرفۃ علیکم الی الخیر۔ وھو المال والغنیمۃ۔ ونسوا تلک الحالۃ الاولی، واجترء وا علیکم وضربوکم بالسنتھم وقالوا: وفروا قسمتنا فانا قد شاھدناکم وقاتلنا معکم، وبمکاننا غلبتم عدوّکم وبنا نصرتم علیہ. الکشاف۔

(۱۲۰) سلقوکم بألسنۃ کا مطلب

مذکورہ بالا آیت میں سلقوکم بألسنۃ حداد کا ترجمہ عام طور سے تیز زبانی، زبانی درازی اور طعنے دینا کیا گیا ہے۔ اہل لغت اور اہل تفسیر میں دو رائیں ہیں کہ اس کا مطلب زور زور سے بولنا ہے، یا تکلیف دہ باتیں کہنا ہے۔

وسَلَقَہ بِلِسَانہِ یَسلقہ سلقاً: أَسمعہ ما یکرہ فأکثر. وسَلَقۃ بِالکَلَامِ سَلقاً اِذا آذَاہُ، وَھُوَ شِدَّۃُ الْقَوْلِ بِاللِّسَانِ. وَفِی التَّنْزِیلِ: سَلَقُوکُمْ باَلْسِنَۃٍ حِدادٍ،

أی بالَغُوا فِیکُم بِالکَلَامِ وخاصَمُوکم فی الغَنِیمَۃِ أشَدَّ مخاصمۃٍ وأَبلَغَھا، أَشِحَّۃً عَلَی الخَیرِ، أی خَاطَبُوکُم أَشَدَّ مُخاطبۃ وھُمْ أشِحَّۃ عَلی المَالِ وَالغَنیمَۃِ، الفَرَّاءُ: سَلَقُوکُمْ بأَلسِنَۃٍ حِدادٍ مَعنَاہُ عَضّْوکم، یَقُولُ: آذَوکم بِالکَلَامِ فِی الاَمر باَلسِنۃ سَلِیطۃ ذَرِبَۃَ۔ لسان العرب

صاحب تفہیم نے سلقوکم کا ترجمہ استقبال کرنا کیا ہے، اور تفسیر میں بڑے تپاک سے استقبال کرنا لکھا ہے۔ 
انہیں یہ غلط فہمی غالبا تفسیر طبری کی ایک عبارت سے ہوئی ہے جس میں ابن عباس کے حوالے سے استقبلوکم کا لفظ روایت کیا گیا ہے۔ تفسیر طبری کی پوری عبارت دیکھیں تو یہ غلط فہمی دور ہوجاتی ہے، پوری عبارت اس طرح ہے:

وقال آخرون: بل ذلک سلقھم ایاھم بالأذی. ذکر ذلک عن ابن عباس: حدثنی علیّ، قال: ثنا ابوصالح، قال: ثنی معاویۃ، عن علیّ، عن ابن عباس قولہ: (سَلَقُوکُمْ بألسِنَۃٍ حِدادٍ) قال: استقبلوکم. تفسیر الطبری۔

ابن عباس سے مروی ایک دوسری عبارت سے ان کی مراد اور واضح ہوجاتی ہے، وہ اس طرح ہے:

وأخرج الطستی عَن ابن عَبَّاس رَضِی اللہ عَنہُمَا أَن نَافِع بن الأرزق قَالَ لہُ اَخبرنی عَن قَولہ عزَّوَجل (سلقوکم بألسنۃحداد) قَالَ الطعن بِاللِّسَانِ قَالَ وَھل تعرف العَرَب ذَلک قَالَ نعم أما سَمِعت الأَعشَی وھُوَ یَقُول فیھم الخطب والسماحۃ والنجدۃ فیھم والخاطب المسلاق. الدرالمنثور۔

عربی کا استقبال اردو کے استقبال یعنی خیر مقدم سے مختلف ہوتا ہے، اور اس کا مطلب سامنا کرنا ہوتا ہے، ابن عباس کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ وہ طعن گوئی کے ساتھ تمہارا سامنا کرتے ہیں۔یوں تو سلق کا مطلب سامنا کرنا بھی نہیں ہوتا ہے، سلق باللسان کا مطلب تکلیف دہ بات کہنا ہوتا ہے۔ ابن عباس کی منشا یہ ہے کہ وہ تمہارے سامنے زبان درازی کرتے ہیں۔
لغت کی رو سے سلق کا مطلب استقبال کرنا اور وہ بھی تپاک سے کرنا کسی صورت میں نہیں ہوسکتا ہے۔ صاحب تفہیم نے تفسیری حاشیے میں دوسرا مفہوم بھی ذکر کیا ہے، جو عام رائے کے مطابق ہے اور وہ صحیح مفہوم ہے۔
(جاری)

دور جدید کا حدیثی ذخیرہ۔ ایک تعارفی جائزہ (۳)

مولانا سمیع اللہ سعدی

۴۔ سنن ابی داود

۱۔سنن ابی داود کی اہم ترین شرح معروف مصری عالم محمود محمد خطاب سبکی مالکی کی المنھل العذب المورود شرح سنن ابی داود ہے ، دس ضخیم جلدوں میں مصر سے چھپی ہے، ترتیب کے اعتبار سے نفیس شرح ہے۔ مصنف ہر حدیث کے تحت شرح السند،معنی،فقہ اور آخر میں حدیث کی تخریج کے عنوانات باندھ کر حدیث کی تشریح و توضیح کرتے ہیں۔یہ شرح نامکمل تھی، اس کا تکملہ مصنف کے صاحبزادے امین محمود سبکی نے فتح الملک المعبود کے نام سے چار جلدوں میں لکھا ہے۔
۲۔سنن ابی داود کی دوسری اہم شرح مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ کی بذل المجھود فی حل ابی داود ہے ۔ کتاب اختصار و جامعیت کا عمدہ نمونہ ہے،یہ شرح شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ کے حواشی کے ساتھ بیس جلدوں میں دار الکتب العلمیہ سے چھپی ہے۔
۳۔ معروف اہلحدیث عالم مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ نے ابو داد شریف پر ایک مفصل شرح غایۃ المقصود اور ایک مختصر حاشیہ عون المعبود کے نام سے لکھا ہے۔ غایۃ المقصود نامکمل ہے، صرف تین جلدیں المجمع العلمی کراچی سے چھپی ہیں،جبکہ عون المعبود دار الکتب العلمیہ سے خالد عبد الفتاح شبل کی تحقیق و تعلیق کے ساتھ نو جلدوں میں چھپ کر آئی ہے۔
۴۔ سنن ابی داود پر دور جدید میں ہونے والے کاموں میں سے اہم کام نویں صدی ہجری کے معروف شافعی عالم و صوفی ابن رسلان کی شرح ابن رسلان کی اشاعت ہے،یہ شرح تحقیق کے ساتھ دار الفلاح رباط سے بیس جلدوں میں چھپی ہے۔ابو داود شریف کی مفصل شروحات میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
۵۔ سنن ابی داود کی اہم طبعات منظر عام پر آئی ہیں ،ان میں درجہ ذیل طبعات تحقیق کے لحاظ سے اہم سمجھی جاتی ہیں:
۱۔سنن ابی داود ،تحقیق شعیب الارناووط و محمد کامل بللی ،دار الرسالہ العالمیہ ،دمشق (۷مجلدات)
۲۔ سنن ابی داود ،تحقیق محمد عوامہ ،موسسہ الریان ،بیروت(۵مجلدات)
۳۔سنن ابی داود مع احکام الالبانی ،مکتبہ المعارف ،ریاض (مجلد ضخیم)
۴۔ سنن ابی داود ،تحقیق عصام ہادی ،دار الصدیق السعودیہ (مجلد ضخیم)
۵۔سنن ابی داود ،تحقیق ابی تراب عادل ابن محمد ،ابی عمرو عماد الدین ،دار التاصیل ،قاہرہ (۸ مجلدات)
موخر الذکر تازہ ترین اشاعت ہے ،یہ دو سال پہلے شائع ہوئی ہے ، سنن بی داود کے اٹھارہ مخطوطات کی مدد سے یہ نسخہ تیار کیا گیا ہے ، شروع میں ساڑھے چار سو صفحات کا طویل مقدمہ بھی ہے جس میں سنن ابی داود سے متعلقہ مباحث کا خوب استقصا کیا گیا ہے۔
۶۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے کثیر التصانیف عالم اور مدینہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل ڈاکٹر محمد محمدی نورستانی نے المدخل الی سنن الامام ابی داود السجستانی کے نام سے ایک مفصل کتاب لکھی ہے ،جس میں سنن ابی داود اور اس سے متعلقہ مباحث پر عمدہ روشنی ڈالی ہے ،یہ کتاب مکتب الشوون الفنیہ کویت سے چھپی ہے۔
۷۔سنن ابی داود پر معاصر سطح کی سب سے ممتاز اور انوکھی تحقیق معاصر مصری محقق ابو عمرو یاسر بن محمد فتحی نے کی ہے۔ مصنف نے سنن ابی داود کی مفصل تخریج کا کام شروع کیا ہے جس میں ہر حدیث کی تخریج، رواۃ پر مفصل کلام، حدیث سے متعلق محدثین کا کلام اور دیگر مباحث کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ قابل قدر تحقیق فضل الرحیم الودود تخریج سنن ابی داود کے نام سے دس جلدوں میں دار ابن جوزی سے چھپی ہے۔ ان دس جلدوں میں سنن ابی داود کی صرف ایک ہزار احادیث پر کلام کیا گیا ہے۔ اگر یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا تو ایک اندازے کے مطابق ساٹھ جلدوں میں منظر عام پر آئے گا۔اللہ تعالیٰ مولف کو اس کام کی تکمیل کی توفیق دے۔
۸۔جامع ترمذی کی طرح شیخ البانی نے سنن ابو داود کو بھی صحیح و ضعیف دو قسموں میں تقسیم کر کے اس کی روایات کی فرداً فرداً تحقیق کی ہے،یہ تحقیق صحیح سنن ابی داود اور ضعیف سنن ابی داود کے نام سے الگ الگ چھپی ہے۔
سنن ابی داود پر دور جدید میں ہونے والے اہم کاموں کی فہرست پیش خدمت ہے:
۱۔ افادۃ المقصود باختصار و شرح سنن ابی داود، شیخ مصطفی دیب البغا
۲۔ انجاز الوعود بزوائد ابی داود علی الکتب الخمسۃ، کسروی حسن،دار الکتب العلمیہ ،بیروت (مجلدین)
۳۔ تغلیق التعلیق علی سنن الامام ابی داود، علی بن ابراہیم عجین ،مکتب الرشد ،ریاض (۴مجلدات)
۴۔ ما سکت عنہ الامام ابوداود مما فی اسنادہ ضعف، الدکتور محمد بن ہادی المدخلی ،جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
۵۔ مقولا ت ابی داود النقدیۃ فی کتابہ السنن،محمد سعید حوی ،الجامعہ الاردنیہ
۶۔ الامام ابو داود و مکانۃ کتابہ السنن، الدکتور تقی الدین الندوی ،مکتبہ الامدادیہ ،مکہ مکرمہ
۷۔ الامام ابو داود السجستانی و کتابہ السنن، شیخ عبد اللہ بن صالح البراک
۸۔ بذل المجھود فیما حکم علیہ ابن الجوزی بالوضع من سنن ابی داود، محمد زکی عبد المجید، دار الطباعہ ،قاہرہ
۹۔ حاشیۃ علیٰ سنن ابی داود، شیخ احمد علی سہارنپوری
۱۰۔ سنن ابی داود فی الدراسات المغربیۃ، روایۃ و درایۃ، ادریس الخرشفی ،جامعہ محمد الخامس،رباط
۱۱۔ عون الودود شرح سنن ابی داود، ابو الحسنات محمد بن عبداللہ الفنجانی ، اصح المطابع ،لکھنو(مجلدین )
۱۲۔ سکوت ابی داود فی سننہ ،مفہومہ و آثارہ، نہاد عبد الحلیم عبید
۱۳۔ زوائد سنن ابی داود علی الصحیحین والکلام علی علل بعض حدیثہ، عبد العزیز من مرزوق الطریفی ، مکتبہ الرشد، ریاض (مجلدین)

۵۔سنن نسائی

۱۔ سنن نسائی کی سب سے مفصل اور ضخیم شرح حرم مکی کے معروف مدرس و مصنف محمد بن علی بن آدم الاثیوبی نے لکھی ہے، یہ شرح ذخیرۃ العقبی فی شرح المجتبی کے نام سے دار المعراج ریاض سے چالیس جلدوں میں چھپی ہے۔
۲۔ شیخ البانی نے سنن نسائی کی احادیث پر بھی فرداً فرداً تحقیق کر کے صحیح سنن النسائی، ضعیف سنن النسائی دو الگ الگ نسخے تیار کیے۔ صحیح سنن النسائی تین جلدوں میں جبکہ ضعیف سنن نسائی ایک جلد میں مکتبہ المعارف ریاض سے چھپی ہے۔
۳۔معروف عالم سید بن کسروی حسن نے بقیہ کتب خمسہ پر سنن نسائی کے زوائد کو جمع کیا ہے ،یہ تحقیق اسعاد الرائی بافراد زوائد النسائی علی الکتب الخمسۃ کے نام سے دار الکتب العلمیہ بیروت سے دو جلدوں میں چھپی ہے۔
۴۔ سنن نسائی کی درجہ ذیل طبعات قابل ذکر ہیں :
۱۔ سنن نسائی بشرح السیوطی وحاشیہ السندی، تحقیق عبد الفتاح ابو غدہ، مکتب المطبوعات الاسلامیہ، حلب (۹ مجلدات)
۲۔سنن نسائی، تحقیق و اشراف صالح عبد العزیز ال شیخ ،دار السلام ،ریاض (مجلد ضخیم)
۳۔سنن نسائی، تحقیق بیت الا فکار الدولیہ ،ریاض(مجلد ضخیم )
۴۔ سنن نسائی باحکام الالبانی،تحقیق مشہور بن حسن ال سلیمان،مکتبہ المعارف ،ریاض (مجلد ضخیم)
۵۔ سنن نسائی ،طبع دار التاصیل ،قاہرہ (۹مجلدات)
موخر الذکر محقق ترین اشاعت ہے، دار التاصیل کا یہ نسخہ سنن نسائی کے آٹھ مخطوطات کو سامنے رکھ کر تیارکیاگیا ہے۔ دار التاصیل کے محققین کی ایک ٹیم نے یہ تحقیق کی ہے۔
۵۔ امام نسائی کی فقہی آرا ء اور ترجیحات پر حمید سید حسن علی نے الاتجاہ الفقھی للامام النسائی من خلال سننہ فی ضوء المذاھب کے نام سے ایک ضخیم مقالہ لکھا ہے جس میں تمام فقہی ابواب میں امام نسائی کی ترجیحات و مواقف پر بحث کی ہے ،یہ مقالہ دارالکلیہ قاہرہ سے چھپا ہے۔
۶۔ معروف مصنف ڈاکٹر محمد محمدی نورستانی نے امام نسائی اور سنن نسائی کے مفصل تعارف پر مشتمل المدخل الی سنن الامام النسائی کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی ہے ،یہ کتاب مکتب الشون الفنیہ کویت سے چھپی ہے۔
سنن نسائی پر اہم دراسات و تحقیقات کی فہرست پیش خدمت ہے :
۱۔ الاحادیث التی اعلھا النسائی بالاختلاف علی الرواۃ فی کتابہ المجتبی جمعا و دراسۃ، عمر ایمان ابو بکر ،جامعہ الامام محمد بن سعود
۲۔ الا مام النسائی ومنھجہ فی السنن، الہادی روشو،جامعہ الزیتونیہ
۳۔ تقریب النائی من مراسیل النسائی، ابو عبد اللہ سیدکسروی حسن ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت
۴۔ حاشیۃ علیٰ سنن النسائی، محمد بن عبد اللہ تھانوی
۵۔ زوائد الامام النسائی علی الکتب الاربعۃ: البخاری، مسلم، ابوداود، الترمذی، جمعا ودراسۃ، جامعہ القاہرہ (مجلدین)
۶۔ سنن الامام النسائی فی الدراسات المغربیہ :روایۃ و درایۃ، مریم بربور ،جامعہ محمد الخامس، الرباط
۷۔ شروق انوار المنن الکبری الالھیۃ بکشف اسرار السنن الصغری النسائیۃ، محمد المختار الشنقیطی، مطبعہ المدنی ،قاہرہ (۳ مجلدات)
۸۔ مختصر سنن النسائی ،مصطفی دیب البغا،الیمامہ للطباعہ و النشر،دمشق
۹۔ بذل الاحسان بتقریب سنن النسائی ابی عبد الرحمن، ابو اسحاق الحوینی الاثری،حجازی بن محمد ،مکتبہ التربیہ الاسلامیہ، قاہرہ (مجلدین )
۱۰۔ التعلیقات السلفیۃ علی سنن النسائی، عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ،مکتبہ سلفیہ ،لاہور (۵مجلدات)
۱۱۔ الرجال الذین تکلم فیھم النسائی بجرح او تعدیل، ڈاکٹر قاسم علی سعد ،جامعہ الامام محمد بن سعود (۵ مجلدات)
۱۲۔ الامام النسائی و کتابہ المجتبی، الدکتور عمر ایمان ابی بکر ،مکتبہ المعارف ،ریاض
۱۳۔ الرواۃ الذین ترجم لھم النسائی فی کتابہ الضعفاء والمتروکین واخرج لھم فی سننہ، الدکتور عواد الخلف،جامعہ الشارقہ
۱۴۔ التعریف بالامام النسائی والصناعۃ الحدیثیۃ فی کتابہ السنن، سعد بن ضیدان السبیعی، موقع صید الفوائد
۱۵۔ الکمتفی بحل المجتبی، احمد حسین بن داود پٹنی مظاہری ،مکتبہ الحرم ،گجرات (مجلد ضخیم )
۱۶۔ الامام النسائی ومنھجہ فی السنن، ثابت حسین مظلوم الخزرجی،جامعہ بغداد

۶۔سنن ابن ماجہ

۱۔ سنن ابن ماجہ کی مفصل شرح سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے معروف اہل حدیث عالم شیخ محمد علی جانباز رحمہ اللہ نے لکھی ہے،یہ شرح انجاز الحاجۃ شرح سنن ابن ماجہ کے نام سے دار النوادر بیروت سے نو جلدوں میں چھپی ہے۔
۲۔سنن ابن ماجہ کی ایک اور اہم شرح مراکش کے معروف عالم عبد الحفیظ کنون نے لکھی ہے،یہ شرح اتحاف ذوی التوشف والحاجہ الی قراء سنن ابن ماجہ کے نام سے موسوم ہے، وزارۃ الاوقاف المغربیہ مراکش سے بارہ جلدوں میں چھپی ہے۔
۳۔ سنن ابن ماجہ کی ایک متوسط و جامع شرح معروف محدث شیخ صفا عدوی نے لکھی ہے،یہ شرح دار الیقین بحرین سے اھداء الدیباج بشرح سنن ابن ماجہ کے نام سے پانچ جلدوں میں چھپی ہے۔
۴۔ سنن ابن ماجہ اور امام بن ماجہ کا مفصل تعارف معروف محدث علامہ عبد الرشید نعمانی صاحب نے اپنی کتاب ما تمس الیہ الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجہ کے نام سے لکھا ہے ،یہ ضخیم کتاب معروف محقق عبد الفتاح ابوغدہ کی تحقیق کے ساتھ الامام ابن ماجہ وکتابہ السنن کے نام سے مکتب المطبوعات الاسلامیہ حلب سے چھپی ہے۔یہ کتاب حدیث کی تاریخ و تدوین اور دیگر حدیثی مباحث کا عمدہ خزانہ ہے۔
۵۔ سنن ابن ماجہ کی درجہ ذیل طبعات اہم سمجھی جاتی ہیں :
۱۔سنن ابن ماجہ ،تحقیق بشار اعواد معروف ،دار الجیل ،بیروت (۵مجلدات)
۲۔سنن ابن ماجہ ،تحقیق شعیب الارناوط و رفقا ء ہ،الرسالہ العالمیہ ،بیروت(۵مجلدات)
۳۔سنن ابن ماجہ،تحقیق عصام موسی ہادی ، موسسہ الریان ،بیروت (مجلد ضخیم)
اس اشاعت میں سات مخطوطات کو سامنے رکھ کر تحقیق کی گئی ہے۔
۴۔سنن ابن ماجہ ،تحقیق فواد عبد الباقی ،دار احیا ء الکتب العربیہ ،قاہرہ (مجلدین )
یہ اشاعت عمومی طور پر متداول ہے۔
۵۔سنن ابن ماجہ ،تحقیق محمد مصطفی الاعظمی ،شکر الطباعہ السعودیہ ،ریاض (۴مجلدات)
۶۔سنن ابن ماجہ مع احکام الالبانی ،تحقیق مشہور بن حسن ال سلیمان ،مکتبہ المعارف ریاض (مجلد ضخیم )
۷۔سنن ابن ماجہ ،تحقیق بیت الافکار الدولیہ ،ریاض
۸۔سنن ابن ماجہ ،تحقیق شیخ خلیل مامون شیحا ،دار المعرفہ بیروت
۹۔سنن ابن ماجہ ،دار التاصیل ،قاہرہ (۴مجلدات)
موخر الذکر اشاعت دار التاصیل کے بیس محققین کی تحقیق و کاوش ہے ،شروع میں تقریباً دو سو صفحات کا مفصل مقدمہ ہے جس میں ابن ماجہ کے مخطوطات ، سابقہ طبعات میں اغلاط و اخطاء اور دیگر متعلقہ مباحث تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔
۶۔شیخ البانی نے سنن ابن ماجہ کی احادیث کو بھی فرداً فرداً تحقیق کی بھٹی سے گزارا اور صحیح سنن ابن ماجہ و ضعیف سنن ابن ماجہ دو نسخے تیار کئے ،صحیح سنن ابن ماجہ المکتب الاسلامی بیروت سے دو جلدوں اور ضعیف سنن ابن ماجہ اسی مکتبہ سے ایک جلد میں شائع ہوئی ہے۔
۷۔نور الدین بن عبد السلام مسعی نے امام ابن ماجہ اور سنن ابن ماجہ کا جامع تعارف المدخل الی سنن الامام ابن ماجہ کے نام سے لکھا ہے جس میں سنن ابن ماجہ سے متعلق اہم مباحث کو اختصار و جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے، ڈیڑ ھ سو صفحات کی یہ کتاب مکتب الشوون الفنیہ کویت سے شائع ہوئی ہے۔
سنن ابن ماجہ پر اہم دراسات و تحقیقات کی فہرست پیش خدمت ہے :
۱۔ اتمام الحاجۃ الی سنن ابن ماجہ، عبد اللہ الصالح ،دار المنار ،السعودیہ
۲۔ الامام ابن ماجہ وکتابہ المسند، دراسہ و تقویم ،محمد فقیر التمسمانی،جامعہ محمد الخامس رباط
۳۔ مختصر سنن ابن ماجہ، مصطفی دیب البغا ،الیمامہ للطباعہ والنشر،بیروت
۴۔ مسائل العقیدۃ فی سنن ابن ماجہ، طارق بن عبد الرحمان الحواس،جامعہ الامام محمد بن سعود (۳مجلدات)
۵۔ نور مصباح الزجاجۃ علی سنن ابن ماجہ، علی سلیمان المغربی ،مطبعہ الوہبی (مجلد ضخیم )
۶۔ الکواکب الوھاجۃ شرح سنن ابن ماجہ، محمد المنتقی الکشناوی ،دار العربیہ ،بیروت(مجلدین)
۷۔ مشارق الانوار الوھاجۃ ومطالع الاسرار البھاجۃ فی شرح سنن ابن ماجہ، محمد بن علی الاثیوبی، دار المغنی (۴مجلدات)
۸۔ احادیث العقیدۃ فی شرح سنن ابن ماجہ ،شرح و دراسۃ، شیخ صفا عدوی ،
۹۔ انجاح الحاجۃ شرح سنن ابن ماجہ، شیخ عبد الغنی مجددی ،مطبع حسین محمد ،دہلی
۱۰۔ مفتاح الحاجۃ بشرح سنن ابن ماجہ، محمد بن عبد اللہ العلوی ،اصح المطابع ،لکھنو
۱۱۔ المتروکون الذین لھم انفرد بھم ابن ماجہ، عبد اللہ مراد علی، جامعہ ام القری
۱۲۔ ابن ماجہ و سننہ، فواد عبد الباقی
۱۳۔ منھج الامام ابن ماجہ، حمادہ الرقی ،دار اطلس الخضرا ،ریاض
۱۴۔ التعلیق علی سنن ابن ماجہ، شیخ عبد العزیز الطریفی
۱۵۔ آراء الامام ابن ماجہ الاصولیۃ من خلال تراجم ابواب سننہ، الدکتور سعد بن ناصر الشسری

۷۔موطا امام مالک

موطا امام مالک اگرچہ جمہور کے نزدیک صحاح ستہ میں شامل نہیں ہے ،لیکن حدیث کی اولین تصنیفات میں شامل ہونے کی وجہ سے ہر دور میں محققین کی توجہ کا مرکز رہا ہے ۔ موطا امام مالک پر دور جدید میں حسب ذیل کام قابل ذکر ہیں:
۱۔موطا امام ملک کی مفصل شرح شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ نے اوجز المسالک کے نام سے لکھی ہے،اس کے شروع میں ایک طویل مقدمہ بھی شامل ہے ،جس میں امام مالک اور موطا کے تعارف پر عمدہ مواد موجود ہے ،یہ ضخیم شرح تقی الدین ندوی کی تحقیق و تعلیق کے ساتھ دار القلم دمشق سے اٹھارہ جلدوں میں چھپی ہے ،موطا امام مالک پر کسی بھی حنفی کی یہ سب سے پہلی مفصل شرح ہے۔
۲۔ مراکش کے معروف عالم ڈاکٹر عز الدین معیار نے موطا کے متداول نسخے روایت یحییٰ مصمودی میں موجود اخطاء اوہام کا ایک جائزہ لیا ہے ،یہ ضخیم کتاب المطبعہ و الوراقہ مراکش سے اوھام واخطاء منسوبہ الی یحیی بن یحیی اللیثی فی روایتہ للموطا کے نام سے چھپی ہے۔
۳۔ شیخ البانی کے شاگرد اور معروف سلفی عالم سلیم بن عید الہلالی نے موطا کی آٹھ معروف روایات (یحییٰ اللیثی، القعنبی، الزہری، الحدثانی، ابن بکیر، ابن القاسم، ابن زیاد، محمد ابن الحسن الشیبانی )کو جمع کیا اور تحقیق، تخریج اور ان روایات میں اختلافات کی نشاندہی کی ،یہ قابل قدر کام الموطا برویاتہ الثمانیۃ، بزیاداتھا و زوائدھا و اختلاف الفاظھا کے نام سے مکتبہ الفرقان التجاریہ سے چار ضخیم جلدوں میں چھپا ہے۔
۴۔معروف مالکی فقیہ و مفسر شیخ طاہر بن عاشور نے موطا پر ایک مختصر لیکن مفید شرح لکھی ہے ،جس میں احادیث کی توضیح کے ساتھ الفاظ حدیث اور موطا کی روایات میں اختلافات کی نشاندہی کی ہے ،یہ جامع کام دار سحنون تیونس سے کشف المغطا من المعانی و الالفاظ الواقعۃ فی الموطا کے نام سے ایک ضخیم جلد میں چھپا ہے۔
۵۔ڈاکٹر طاہر الازہری نے موطا کے مفصل تعارف ، رواۃ،نسخ ،شروح اور دیگر متعلقہ مباحث پر ایک مفید کتاب لکھی ہے ،یہ کتاب المدخل الی موطا مالک بن انس کے نام سے مکتب الشوون الفنیہ کویت سے چھپی ہے۔
۶۔معروف مالکی عالم سید محمد علوی مالکی نے موطا پر قابل قدر کام کیا ہے ،محقق مذکور نے موطا پر درجہ ذیل کتب لکھی ہیں: 
(۱) دراسات حول الموطا
(۲) انوار السالک الی روایات موطا امام مالک، دار الکتب العلمیہ ،بیروت
(۳) فضل الموطا و عنایۃ الامۃ الاسلامیہ بہ، مطبعۃ السعادۃ، قاہرہ
(۴) شبھات حول الموطا و ردھا
۷۔حسان عبد المنان نے موطا کی تیئیس روایات کو یکجا کر کے ان میں اختلافات و زوائد کی نشاندہی کی ہے ،یہ کتاب الموطا للاما م مالک بن انس تحقیق حسان عبد المنان کے نام سے بیت الافکار الدولیہ ریاض سے ایک ضخیم جلد میں چھپی ہے۔
۸۔ موطا کی درجہ ذیل طبعات تحقیق کے اعتبار سے اہم سمجھی جاتی ہیں:
(۱) الموطا (روایۃ اللیثی )تحقیق مصطفی اعظمی ،موسسہ زاید بن سلطان ،ابو ظہبی (۸ مجلدات)
(۲) الموطا(روایۃ اللیثی) تحقیق فواد عبد الباقی ،دار احیا التراث العربی ،بیروت (مجلدین)
(۳) الموطا (روایۃ ابی مصعب الزہری )تحقیق بشار عواد معروف و محمود خلیل،موسسہ الرسالہ ،بیروت(مجلدین )
(۴) الموطا (روایۃ اللیثی ) تحقیق بشار عواد معروف ،دار الغرب الاسلامی ،تیونس (مجلدین)
(۵) الموطا (روایۃ الشیبانی ) تحقیق تقی الدین ندوی ،دار القلم (۳ مجلدات)
(۶) الموطا (روایۃ القعنبی ) تحقیق عبد المجید ترکی ،دار الغرب الاسلامی ،تیونس (مجلد ضخیم)
(۷) الموطا (روایۃ ابن القاسم )تحقیق سید علوی المالکی ، المجمع الثقافی ،ابوظہبی
(۸) الموطا (روایۃ اللیثی و زیادات الزہری و الشیبانی )تحقیق کلال حسن علی ،موسسہ الرسالہ ،بیروت(مجلد ضخیم)
(۹) الموطا (روایۃ عبد اللہ بن وہب )تحقیق ،ہشام اسماعیل الصینی ،دار ابن جوزی ،دمام
(۱۰) الموطا (روایۃ اللیثی )تحقیق لجنۃ المحققین (دس محققین ) ،المجلسی العلمی الاعلی ،مراکش (مجلدین )
(۱۱) الموطا (روایۃ محمد بن الحسن الشیبانی )تحقیق ،عبد الوہاب عبد اللطیف ،وزارۃ الاوقاف ،قاہرہ
۹۔ موطا امام مالک اور مسند احمد بن حنبل کی صحاح ستہ پر زوائد کو صالح احمد شامی نے جمع کیا ہے ،یہ تحقیق زوائد الموطا والمسند علی الکتب الستۃ کے نام سے دار کنوز اشبیلیا سے تین جلدوں میں چھپی ہے۔
۱۰۔ احمد عبد اللہ فرہود نے موطا کے مشکل الفاظ کی لغوی تحقیق پر ایک مفید معجم تیار کیا ہے ،یہ معجم المضی فی شرح الموطا کے نام سے دار القلم حلب سے دو جلدوں میں چھپا ہے۔
۱۱۔ نذر حمدان نے موطا کے تعارف ،روایات ،نسخ ،منہج ،خصوصیات و دیگر متعلقہ مباحث پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے، یہ کتاب الموطآت للام مالک کے نام سے دار القلم دمشق سے چھپی ہے۔
موطا پر اہم تحقیقات و دراسات کی فہرست پیش خدمت ہے :
۱۔ اسالیب الانشاء والدلالۃ البلاغیۃ فی احادیث الموطا للامام مالک، محمد براہیم طیاش ، الجامعۃ الاسلامیہ ،مدینہ منورہ
۲۔ اسالیب الطلب فی الحدیث النبوی الشریف،دراسۃ لغویۃ بیانیۃ فی الموطا، محمد سعید عبد اللہ ،دار الثقافہ ،قاہرہ
۳۔ اسانید الحدیث النبوی فی ضوء نظم المعلومات المعاصرۃ،دراسۃ تطبیقیۃ بالحاسب الآلی علی موطا الامام مالک، کمال الدین عبد الغنی المرسی ،دار المعرفہ الجامعیہ ،قاہرہ (مجلدین)
۴۔ اضاء ۃ الحالک من الفاظ دلیل السالک الی موطا الامام مالک، محمد حبیب اللہ الشنقیطی، دار البشائر الا سلامیہ، بیروت
۵۔ اقرب المسالک الی موطا الامام مالک، محمد تہامی کنون ،وزارۃ الاوقاف،رباط
۶۔ قراآت فی مجتمع المدینہ المنورہ من خلال الموطا، محمد طاہر رزقی ،مکتبہ الرشد ،ریاض
۷۔ الموطا فی الدراسات المغربیۃ، روایۃ ودرایۃ، الحسن الہمساس الیوبی ،جامعہ محمد الخامس، رباط
۸۔ الموطا قیمتہ العلمیہ وروایاتہ، محمد حسن بن علوی المالکی
۹۔ یحییٰ بن یحییٰ اللیثی وروایتہ الموطا، محمد شرحبیلی ،دار الحدیث الحسنیہ ،رباط
۱۰۔ مقدمہ موطا الامام مالک، محمدعلی السنوسی الادریسی ،مطبعہ حجازی ،قاہرہ
۱۱۔ موسوعۃ شروح الموطا، تحقیق عبد اللہ الترکی ،دار ہجر
۱۲۔ الا مام مالک وعملہ بالحدیث من خلال کتابہ الموطا، محمد یحییٰ مبروک،دار ابن حزم
۱۳۔ زوائد الموطا علی الصحیحین، عبد السلام محمد العامر، دار الصمیعی
۱۴۔ صحیح و ضعیف الموطا، سلیم الہلالی ،دار ابن حزم (مجلدین)

۸۔دیگر کتب حدیث پر ہونے والا کام

صحاح ستہ و موطا کی بہ نسبت دیگر کتب حدیث پر ہونے والا کام کم ہے،اگرچہ متون حدیث میں سے تقریباً ہر ایک پر کام ہوا ہے ،ذیل میں دیگر متون حدیث پر ہونے والے کام کا ایک تعارفی جائزہ پیش کیا جاتا ہے :
۱۔مسند امام احمد بن حنبل پر معاصر سطح کا سب سے بڑا کام مسند کی جوامع و سنن کے مطابق تبویب ہے ،اس سلسلے میں سب سے پہلا کام احمد عبد الرحمان الساعاتی نے کیا،الساعاتی نے الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل الشیبانی کے نام سے مسند کی جملہ احادیث کو ابواب کی ترتیب سے جمع کیا ،یہ قابل قدر تحقیق دار الشہاب قاہرہ سے بارہ ضخیم جلدوں میں چھپی ہے۔
۲۔ الساعاتی کے کام کو مزید منقح و مرتب انداز میں سعودی عرب کے معروف عالم عبد اللہ بن ابراہیم القرعاوی نے پیش کیا ،القرعاوی نے الفتح الربانی کی تہذیب و تنقیح کی،مکرر احادیث کو یکجا کیا ،ابواب و فصول کا اضافہ کیا ،یہ کام المحصل لمسند الامام احمد بن حنبل کے نام سے دار العاصمہ ریاض سے پچیس جلدوں میں چھپا ہے۔
۳۔ مسند احمد کی متعدد محقق طبعات منظر عام پر آئی ہیں ،جن میں درجہ ذیل قابل ذکر ہیں :
۱۔المسند ،تحقیق احمد محمد شاکر ،حمزہ احمد زین ،دار الحدیث قاہرہ (۲۰ مجلدات)
۲۔ المسند ،تحقیق شعیب الارناوط ،عادل مرشد،موسسہ الرسالہ ،بیروت (۵۰ مجلدات)
یہ تحقیق کے اعتبار سے سب سے اہم اشاعت ہے۔
۳۔المسند ،تحقیق محمد عبد القادر عطا ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت (۱۲ مجلدات)
۴۔المسند ،تحقیق لجنۃ المحققین ،عالم الکتب ،بیروت (۸ مجلدات)
۵۔المسند ،تحقیق جمعیۃ المکنز الاسلامی باشراف الدکتور احمد معبد عبد الکریم، دار منہاج، جدہ (۱۵ مجلدات)
کتاب کی لجنۃ تحقیق کے بقول اس کی تحقیق میں سولہ سال لگے اور تینتیس مخطوطات کی مدد سے یہ نسخہ تیار کیا گیا۔یہ مسند احمد کی تازہ ترین طباعت ہے، ۲۰۱۱ میں دار منہاج جدہ سے چھپی ہے۔
۴۔ مسند احمد پر دور جدید کی ایک اہم کاوش بارہویں صدی ہجری کے معروف عالم ابو الحسن محمد بن عبد الہادی السندی کی لکھی ہوئی شرح کی اشاعت ہے ،یہ شرح شیخ نور الدین طالب کی تحقیق کے ساتھ دار النوادر سے سترہ جلدوں میں چھپی ہے۔
۵۔مسند احمد پر ایم فل و پی ایچ ڈی مقالات کی شکل میں عمدہ تحقیقات و دراسات ہوئی ہیں،جن میں مختلف موضوعات کی احادیث کی جمع و ترتیب ،معروف صحابہ کے مسانید کی تحقیق و توضیح وغیرہ شامل ہیں،ان مقالات کی فہرست کے لئے المعجم المصنف لمولفات الحدیث الشریف اور دلیل المولفات الحدیث المطبوعۃ کی طرف رجوع کیا جائے۔
۶۔محمد ضیاء الرحمن الاعظمی نے امام بیہقی کی السنن الصغری پر ایک تفصیلی شرح لکھی ہے ،یہ شرح المنۃ الکبری شرح و تخریج السنن الصغری کے نام سے مکتبۃ الرشد ریاض سے نو جلدوں میں چھپی ہے۔
۷۔مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ نے شرح معانی الاثار پر ایک مفصل شرح لکھی ہے ،اس شرح کی صرف چار جلدیں امانی الاحبار شرح معانی الآثار کے نام سے مکتبہ یحیویہ سہارنپور سے چھپی ہیں ،جبکہ باقی مخطوط کی شکل میں ہے۔ اس کے شروع میں ایک مفصل مقدمہ بھی شامل ہے ، جس میں امام طحاوی اور شرح معانی الاثار سے متعلق عمدہ مباحث ہیں۔
۸۔مسند دارمی کی تحقیق ،تشریح ،فہارس ،رجال کی تحقیق اور دیگر مباحث پر نبیل بن ہاشم الغمری نے قابل قدر تحقیق کی ہے ،مصنف نے سنن دارمی پر دو قابل قدر کتب لکھی ہیں ،ایک فتح المنان کے نام سے ،جس میں سنن دارمی کی شر ح وتوضیح ہے ،یہ کتاب دار البشائر الاسلامیہ بیروت سے دس جلدوں میں چھپی ہے ، دوسری اتمام الاھتمام بمسند ابی محمد بن بھرام الدارمی کے نام سے ہے،جس میں سنن دارمی کے اطراف ،رجال اور دیگر مباحث شامل ہیں ،یہ دار قرطبہ بیروت سے ایک ضخیم جلد میں چھپی ہے۔
۹۔مشکوۃ المصابیح پر شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ نے التعلیق الصبیح علی مشکوۃ المصابیح کے نام سے عمدہ شرح لکھی ہے ،یہ شرح دار احیاء التراث العربی بیروت سے سات جلدوں میں چھپی ہے۔ دوسری مفصل شرح مولانا عبید اللہ بن محمد مبارکپوری نے مرعاۃ المفاتیح کے نام سے لکھی ہے، یہ شرح مکتبہ السلفیہ بنارس سے نو جلدوں میں چھپی ہے۔
۱۰۔ عالم عرب میں خاص طور پر ریاض الصالحین، اربعین نووی، عمدۃ الاحکام اور بلوغ المرام پر قابل قدر شروحات لکھی گئی ہیں۔ان کتب کی احادیث چونکہ زیادہ تر صحاح ستہ سے ماخو ذ ہیں، اس لئے ان کی شروحات کی الگ تفصیل درج کرنے کی ضرورت نہیں۔ نیز یہ کتب اصلی متون حدیث میں شمار نہیں ہوتیں،زیر نظر مضمون میں شروحات حدیث کے سلسلے میں زیاد ہ تر اساسی متونِ حدیث کی شروحات و دراسات ذکر کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ 
(جاری ہے)

ترکی کی وزارت برائے مذہبی امور اور دینی وقف کا موضوعاتی حدیث منصوبہ: مختصر تعارف

انعام الحق

اس تحریر میں صرف منصوبے اور کتاب کے تعار ف پر اکتفا کیا گیا ہے، تفصیلی نقد وتبصرہ ان شاء اللہ مستقبل میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس تعارف کے لیے تین مصادر سے استفادہ کیا گیا ہے:
۱) HIKEM ڈیٹا بیس کی ویب سائٹ: http://www.hikem.net/index.html
۲) مطبوعہ کتاب اور 
۳) اس کی ویب سائٹ : http://hadislerleislam.diyanet.gov.tr
ترکی وزارت مذہبی امور ، اور دینی اوقاف کی جانب سے ۲۰۰۶ میں موضوعاتی حدیث منصوبے پر کام شروع کیا گیا، اور اس کی تکمیل ۲۰۱۳ء میں ہوئی۔ اس منصوبے کی مختصر روداد و تعارف قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔ 
شرح حدیث کے باب میں اپنی نوعیت کا یہ منفرد منصوبہ جس کو "موضوعاتی حدیث منصوبہ" نام دیا گیا، دراصل گیارہ سال قبل، ترکی حدیث کمیٹی کے پانچویں اجلاس منعقدہ ۲۲، ۲۳ جولائی ۲۰۰۶ میں پیش کی گئی ایک رائے کی عملی شکل ہے جس میں ترکی جامعات میں علوم حدیث سے منسلک پچاسی(85) اساتذہ کرام نے حصہ لیا، اور اس کی تکمیل میں چھ سال کا عرصہ صرف ہوا، جس کے نتیجے میں ترکی زبان میں ایک منفرد نوعیت کی کتاب " اسلام: احادیث کی روشنی میں/ شرح احادیث بذریعہ احادیث" سات جلدوں کی صورت میں ۲۰۱۳ میں قارئین کی خدمت میں پیش کی گئی۔
منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں مواد کی دستیابی کے لیے HIKEM کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی، یہ ویب سائٹ اب بھی کام کر رہی ہے۔ اس ویب سائٹ پر مکمل قرآن کریم ، صحیحین، موطا مالک، سنن اربعہ، سنن دارمی، مسند احمد بن حنبل، مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند طیالسی، السنن الکبیر للبیہقی ، شمائل ترمذی،الادب المفرد، المعجم الکبیر للطبرانی، سنن الدارقطنی، مستدرک حاکم، معرفۃ السنن والاثار للبیہقی، انیس کتب حدیث کے مکمل متون کو جمع کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ مزید ۲۳۰ کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے جن میں تفاسیر، کتب حدیث، سیر اور مغازی کی کتب شامل ہیں۔ ۲۰۱۲ کے اعداد وشمار کے مطابق ویب سائٹ پر موجود ان متون کی تعداد دو لاکھ پانچ ہزار ہے، جن کو چار ہزار پانچ سو عناوین کے تحت جمع کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ویب سائٹ پر شرکا کا مختصر تعارف، مفید ڈاونلوڈز اور علوم الحدیث سے متعلق بعض کارآمد ویب سائٹوں کے لنک بھی موجود ہیں۔
منصوبے کا دوسرا اور مرکزی مرحلہ" اسلام : احادیث کی روشنی میں/ شرح احادیث بذریعہ احادیث" کے نام سے ایک عوامی نصاب کی تشکیل و طباعت تھی، جس کے مواد کی دستیابی کے لیے مذکورہ بالا ڈیٹا بیس تیار کیا گیا۔ کتاب میں مذکورہ بالا چار ہزار پانچ سو عناوین میں سے تین سو باون (352)مناسب ترین عناوین کو شامل کیا گیا ہے اور اس میں کتب احادیث کے عناوین کی پیروی کی گئی ہے۔ کتاب کی ترتیب کچھ یوں ہے:
استدعا، اکیڈمک کمیٹی ، اصطلاحات اور مخففات، پیش لفظ ،مقدمہ اور تمہید۔ 
اس کے بعد یہ آٹھ باب ہیں :۱۔ اللہ ، عالم،انسان اور دین ۲۔ علم ۳۔ ایمان ۴۔ عبادات ۵۔ اخلاق ۶۔ اجتماعی زندگی ۷۔ تاریخ اور تہذیب ۸۔ آخرت۔
اکیڈمک کمیٹی کے عنوان کے تحت ان تمام افراد کا مختصر تعارف ہے جن کا کتاب میں تحریری حصہ موجود ہے۔ کتاب کے پuS لفظ میں : کتاب کا مختصر تعارف، اس کی تصنیف کے ادوار کا جامع بیان ، اورموضوعات کے انتخاب وغیرہ کے حوالے سے کافی معلومات درج کی گئی ہیں۔ خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ترکی میں نشر ہونے والی شروحات حدیث میں سے کوئی بھی ایسی شرح نہیں ہے جو : مسجد میں جماعت اور گھر میں گھر والوں کے لیے ایک نصاب کی حیثیت سے پیش کی جا سکے۔ ترکی زبان میں احادیث کے مرتب کردہ مجموعہ جات میں ضعیف حتی موضوع روایات کا انبار جمع کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو مبارک تعلیمات اس امت کے لیے ہیں، ان کو اپنے معاشرے کی زبان میں خوبصورت اور سہل انداز میں بیان کیا جائے جس کا بیڑا اس منصوبے کی شکل میں اٹھایا گیا ہے۔
کتاب کے شروع میں سو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک مقدمہ ہے جس میں اصطلاحات (نبوت، سنت، حدیث، وغیرہ )، تاریخ حدیث، حدیث و سنت کی تفہیم کے بنیادی اصول، فہم حدیث و سنت، اور موضوعاتی حدیث منصوبے کے بارے میں معلومات درج کی گئی ہیں۔ پہلے یونٹ سے قبل مختصر تمہید ہے جس میں استعاذہ، بسم اللہ، الحمد للہ، اور صلوۃ علی النبی کی فہم کے حوالے سے عمدہ تحریریں شامل کی گئی ہیں۔
ہر موضوع کی داخلی ترتیب کچھ یوں ہے: شروع میں موضوع کے حوالے سے ایک عمومی نوعیت کی حدیث مع ترجمہ لائی جاتی ہے جس کو سر لوح حدیث کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے بعد موضوع کے مختلف پہلووں کو شامل اوسطاً پانچ احادیث اور پھر ان کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے۔ موضوع کے اس حصہ میں درج احادیث کی صحت اور جامعیت ہر دو کو اہمیت دی گئی ہے۔ اس حصہ میں احادیث کی ان انیس کتب سے استفادہ کیا جاتا ہے جن کا تذکرہ اوپر کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد رواں متن کی صورت میں قرآن، حدیث، سیر کے حوالہ جات سے متعلقہ موضوع کی تشریح و تبیین ہوتی ہے۔ ہر موضوع کی تشریح کا آغاز قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک مناسب واقعے سے ہوتا ہے۔ یہ واقعہ احادیث میں ذکر کردہ تفصیل، موقعہ محل، اور سبب ورود سے ماخوذ ہوتا ہے۔
تشریح پر مبنی یہ رواں متن اوسطاً تیس حوالہ جات کا ماحصل ہوتا ہے۔ متن کے الفاظ کی ایک حد: دو ہزار الفاظ سے ساڑھے تین ہزار الفاظ ہونے کے باعث طویل اقتباسات کو نقل کرنے کے بجائے ان کا خلاصہ اور مغز ذکر کیا جاتا ہے، تاکہ متن کی روانی برقرار رہے، اور طوالت بھی پیدا نہ ہو۔ ایسے میں صرف حوالہ دینے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔البتہ اس کتاب کی مطبوعہ صورت کے لیے مرتب کی گئی ویب سائٹ پر ہر حوالہ نمبر کے ساتھ لنک پر ماوس لے کر جانے سے متعلقہ اقتباس مع حوالہ سکرین پر ظاہر ہوجاتا ہے، جس سے استفادہ مزید سہل ، اور حوالے تک رسائی آسان ہوجاتی ہے۔ 
احادیث و موضوع کی تشریح کے لیے مذکورہ بالا کتب حدیث کے علاوہ جن کتب حدیث سے استفادہ کیا گیا ہے، وہ یہ ہیں : شعب الایمان للبیہقی، مسند الحمیدی، معجم الاوسط، معجم الصغیر للطبرانی، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، مسند ابی یعلی۔
کتاب میں قرآن ، اور احادیث کے کل حوالہ جات کی تعداد پچیس ہزار ایک سو سینتالیس ہے جبکہ مکررات نکالی جائیں تو تعداد نو ہزار سات سو بیاسی بنتی ہے۔تفسیر کی سترہ کتب سے ڈیڑھ سو، شروحات حدیث کی پچیس کتب سے دوسو ستائیس، اور تاریخ و سیر کی ۴۰ کتب سے آٹھ سو اڑسٹھ حوالہ جات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ 
کتاب کی تحریر میں جن بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے، ان میں سے کچھ یہ ہیں: متن کتاب میں قرآن، سنت اور سیرت تینوں میں یکسانیت اور ہم آہنگی کی عکاسی، قرآن و سنت کی باہمی تکمیل، سنت کی داخلی باہمی تکمیل، احادیث کا ربط و ماحول، سبب ورود تک حتی الامکان رسائی، اور اسی روشنی میں تشکیل حدیث کے مراحل کا بیان، متون کی باہمی تکمیل کی کوشش، موجودہ زمانے کی زبا ن و ضروریات، مزاج اور حساسیت کو پیش نظر رکھنا، قرن اول کو موجودہ دور کی نظر سے دیکھنے سے اجتناب البتہ علوم جدیدہ سے استفادہ، لغوی مباحث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے استفادہ کرنے کی کوشش وغیرہ۔
چونکہ یہ ایک عوامی نصاب ہے اس وجہ سے تفسیر کے خالص علمی مباحث، حدیث کے رواۃ اور سند اور ان سے متعلقہ مباحث سے گفتگو نہیں کی گئی۔ فقہی احادیث کی تشریح میں فقہی مسائل سے بحث کرنے کے بجائے ان سے ماخوذ حکمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان تمام پہلووں کو دیکھ کر یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک فکری اور تربیتی نصاب ہے۔
ابواب کے عناوین کے ساتھ ہی علیحدہ سے تشریحی نام بھی دیے گئے ہیں جو کافی دلچسپ ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں: 
۱۔ زمانہ : موجودات کی نبض، ۲۔ دنیا: آخرت کی کھیتی، ۳۔ سورج چاند اور تارے: آسمانوں کے چراغ
۴۔ہدایت: اسلام کا نورانی راستہ، ۵۔خواب: نیند کی دنیا، ۶۔نفس: اچھائی اور برائی کا میدان جنگ وغیرہ
مراحل: سب سے پہلے ویب سائٹ کا قیام، ویب سائٹ پر متون کی جمع و تدوین، کتاب کے لیے موضوعات کا انتخاب، تحاریر کے اصول و ضوابط کی ترتیب۔۔۔ اس کے بعد منتخب پچاسی اساتذہ کرام کو موضوعات فراہم کیے گئے جس پر انہوں نے مقالات جات تحریر کیے، جس کو اعلیٰ سطحی کمیٹی نے مواد اور اسلوب تحریر کے لیے مقرر کردہ قوانین کے مطابق پرکھا، اس کے بعد علمی چانچ کی گئی جس میں حوالہ جات کا مکمل طور پر جائزہ لیا گیا اور ان کااصل مراجع سے تقابل کیا گیا ، صحت حدیث کو متعلقہ اصولوں کی روشنی میں جانچا کیااور اس کی مطابق اصلاح کی گئی، اس کے بعد ادبی جانچ ہوئی جس میں زبان اور اسلوب تحریر کا جائزہ لیا گیا اور اصلاح کی گئی۔ اس کے بعد اعلیٰ سطحی کمیٹی نے از سر نو تحاریر کا مطالعہ کیا اور مکمل تشفی ہونے کے بعد طباعت کا کام شروع کیاگیا۔ مقالات جات اگرچہ مختلف لکھاریوں کی ہیں لیکن کتاب ایک اجتماعی تحریر کی صورت میں پیش کی گئی ہے۔ اس وقت کتاب میں کسی بھی تحریر کے ساتھ لکھاری کا نام نہیں ہے، اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی تحریر کس کی ہے۔ 
دینی اور سماجی علوم میں اختلاف نکتہ نظر ایک بالکل عام سی بات ہے ، ایسے میں ترکی کی فکری سطح میں بھی اختلافات کا ہونا یقینی بات ہے۔ جملہ تحاریر کو ایک اجتماعی تحریر قرار دینے کی وجہ سے جہاں ایک طرف اچھائیاں سب کی سانجھی قرار پاتی ہیں، وہیں خامیاں بھی سانجھی بن جاتی ہیں، ایسے میں سب مصنفین اس قول، عقیدے اورفکر کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں جن میں سے کسی ایک یا زیادہ کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں ہوتا، حتی وہ مصنف کی سوچ کے بالکل مخالف ہوتی ہے۔
اگرچہ کتاب ایک عام شہری کے ذہنی معیار کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے، لیکن اس کے اسلوب تحریر کی شستگی، انتخاب حدیث کی نزاکت، اور موضوعات سے وابستہ حکمتیں اور دروس اتنے اعلیٰ ہیں جن سے اہل علم اور داعیان اسلام کے لیے اس کتاب کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ اس اعتبار سے یوں کہاں جاسکتا ہے کہ یہ کتاب اسلام کا جامع تعارف، ایک بے نظیر عوامی نصاب اور انمول علمی تحفہ ہے۔

فقاہت راوی کی شرط اور احناف کا موقف (۱)

مولانا عبید اختر رحمانی

تمہید

احناف پر مختلف قسم کے اعتراض کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک توہین صحابہ یاصحابہ کی تنقیص کا بھی اعتراض ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ بعض فقہائے احناف نے حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ کو فقہ میں غیر معروف یاغیرفقیہ کہاہے، اس سے انہوں نے یہ نتیجہ استخراج کرلیاکہ کسی صحابی کو غیرفقیہ کہنا ان کی توہین وتنقیص ہے؛ چونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی قدر کو بعض مستشرقین اورآزاد خیال افراد نے تنقید کا نشانہ بنایاہے، اس بناء پربعض حضرات اس طرح کا تاثرپیش کرنے لگے کہ ایسے تمام لوگ جنہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پرطعن وتشنیع کیا ہے، ان کو یہ ہمت اورحوصلہ احناف سے ہی ملاہے، یاپھر احناف نے حضرت ابوہریرہ کو غیرفقیہ کہہ کر دشمنان دین کے مقصد کو پورا کیا ہے اور اس طرح پورے ذخیرہ احادیث کو مشتبہ بنادیاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتراضات کم علمی بلکہ لاعلمی اورجہالت کی پیداوار ہیں اوراحناف کے موقف کو صحیح طورپر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اگراحناف کے موقف کو صحیح طورپر سمجھاجاتاتوپھر یہ اعتراض نہ کیاجاتاکہ حضرت ابوہریرہ کو غیرفقیہ کہہ کر ان کی توہین کی گئی ہے یاغیرفقیہ کی روایت کو قبول نہ کرنے کی بات کہہ کر پورے ذخیرہ احادیث کو مشتبہ بنایا گیا ہے۔ چونکہ مسلکی طورپر احناف اور اورشوافع ہمیشہ مدمقابل رہے ہیں، لہٰذا بعض شوافع حضرات نے بھی احناف پر صحابہ کرام کی توہین وتنقیص کا الزام لگایا، اس کے جواب میں شیخ ابوالفضل کرمانی کہتے ہیں:
ذکر الشیخ ابو الفضل الکرمانی فی اشارات الاسرار ان بعض اصحاب الشافعی شنع علینا ونسب اصحابنا الی الطعن علی ابی ھریرۃ وامثالہ من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکان ذلک منہ سلوکا للمعاندۃ (کشف الاسرار ۲/۳۸۳)
’’شیخ ابوالفضل الکرمانی نے اشارات الاسرار میں ذکر کیاہے کہ بعض شافعیہ نے ہم پر اس مسئلہ میں طعن وتشنیع کی اورہمارے ائمہ کو ابوہریرہ پر طعن سے اوراسی جیسی دوسری باتوں سے منسوب کیا،ان کاایساکرنا (علمی تحقیق نہیں بلکہ) بطور عناد تھا۔‘‘
بعض صحابہ کرام کے غیرفقیہ ہونے اور اس بناء پر ان کی روایات کو خلاف قیاس ہونے کی صورت میں روایت پر قیاس کو مقدم کرنے کی بات سب سے پہلے عیسیٰ بن ابان نے کہی تھی، لہٰذا ان کی ذات پر بھی مخالف صحابہ ہونے اورصحابہ کی توہین کاالزام لگایاگیا؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان پر بے بنیاد جھوٹے الزامات اورتہمتیں بھی لگائی گئیں ۔ امام جصاص رازی نے الفصول میں عیسیٰ بن ابان کا پرزور دفاع کیا ،چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
حکی بعض من لا یرجع الی دین ولا مروء ۃ ولا یخشی من البھت والکذب ان عیسی ابان رحمہ اللہ طعن فی ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ انہ روی عن علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہ انہ قال: سمعت النبی علیہ السلام یقول: انہ یخرج من امتی ثلاثون دجالا وانا اشھد ان ابا ھریرۃ منھم، وھذا کذب منہ علی عیسی رحمہ اللہ، ما قالہ عیسی ولا رواہ ولا نعلم احدا روی ذلک عن علی فی ابی ھریرۃ وانما اردنا بما ذکرنا ان نبین عن کذب ھذا القائل وبھتہ وقلۃ دینہ (الفصول فی الاصول ۳/۱۳۰)
’’بعض ایسے لوگوں نے کہ جن کے اندر نہ دینداری ہے اورنہ مروت اورنہ وہ کسی پر بہتان اورجھوٹاالزام لگانے سے بازرہتے ہیں، عیسیٰ بن ابان کے بارے میں نقل کیاہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن کیاہے اوریہ روایت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے نقل کی ہے کہ’’ میں نے سناہے کہ میری امت میں تیس دجال ہوں گے اورمیں گواہی دیتاہوں کہ ان میں سے ایک ابوہریرہ ہے‘‘۔یہ حضرت عیسیٰ بن ابان پر گڑھاہواجھوٹ ہے۔ نہ عیسیٰ بن ابان نے یہ بات کہی اورنہ ایسی کوئی روایت کی ،اورنہ ہم جانتے ہی کہ کسی نے بھی اس مکذوب روایت کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کیاہو ،ہماراارادہ اس کے ذکر سے صرف اتناہے کہ ہم اس جھوٹے اوردروغ گو شخص کاپول کھولیں ،اس کے بہتان کو نمایاں کریں اوربتائیں کہ وہ دین کے اعتبار سے کس کمتر حیثیت کاہے۔‘‘

حضرت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا موقف

حقیقت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا مسلک صاف سیدھا اورواضح رہاہے کہ اولاً کتاب اللہ سے استدلال کیا جائے، ثانیاً رسول پاک کے اقوال وفرمودات اوراعمال وتقریر کو دلیل بنایاجائے۔ ثالثاً اگرصحابہ کسی قول پرمتفق ہیں تواس متفق علیہ قول کو اختیار کیاجائے۔ رابعاً اگرصحابہ میں کسی مسئلہ میں اختلاف ہو تواس کو لیاجائے جو زیادہ مدلل ہو۔ ہاں، اگربات تابعین جیسے مجاہد،سعید بن جبیر ،سعید بن المسیب اوردیگر کی ہوتوان کے اقوال کو امام ابوحنیفہ حجت نہیں مانتے۔اورکہتے ہیں جس طرح انہوں نے اجتہاد کیاہے اسی طرح ہمیں بھی اجتہاد کاحق حاصل ہے۔
یحیی بن الضریس یقول: شھدت الثوری واتاہ رجل فقال ما تنقم علی ابی حنیفۃ؟ قال: وما لہ؟ قال سمعتہ یقول: آخذ بکتاب اللہ، فما لم اجد فبسنۃ رسول اللہ والآثار الصحاح عنہ التی فشت فی ایدی الثقات عن الثقات، فان لم اجد فبقول اصحابہ آخذ بقول من شئت، واما اذا انتھی الامر الی ابراھیم والشعبی والحسن وعطاء فاجتھد کما اجتھدوا (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ ۱/۲۴)
’’یحییٰ بن الضریس کہتے ہیں کہ میں امام سفیان ثوری کی مجلس میں حاضر تھاکہ ایک شخص آیا،اوراس نے کہاکہ آپ کو امام ابوحنیفہ پر کیااعتراض ہے یاپھر کیوں نکتہ چینی کرتے ہیں؟ سفیان ثوری نے پوچھا،اس اعتراض کا مقصد کیا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا: میں نے ابوحنیفہ کو کہتے ہوئے سناہے کہ میں کسی مسئلہ میں اولاً کتاب اللہ سے دلیل حاصل کرتا ہوں، پھر اللہ کے رسول کی سنت اور ان آثار سے جو ثقات سے ثقات تک منتقل ہوکر ہم تک پہنچتی ہے۔ اگرکتاب اللہ اورسنت وآثاررسول میں دلیل نہ ملے تومیں صحابہ کرام میں سے کسی ایک کاقول لے لیتا ہوں۔ ہاں، جب معاملہ ابراہیم، شعبی،حسن،عطاء تک پہنچتاہے تومیں ان کا پابند نہیں رہتا بلکہ میں بھی اسی طرح اجتہاد کرتاہوں جیساان لوگوں نے کیاہے۔‘‘
اس اقتباس میں دیکھاجاسکتاہے کہ امام ابوحنیفہ نے اختصار کے ساتھ اپنااصولی منہج بیان کیاہے لیکن اس میں سنت وحدیث میں فقہ راوی کاکوئی ذکر موجود نہیں ہے۔علاوہ ازیں امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ سے کہیں بھی منقول نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ نے یہ کہاہو کہ فلاں صحابی چونکہ غیرفقیہ ہے اس لئے اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔
ولم ینقل ھذا القول عن اصحابنا ایضا بل المنقول عنھم ان خبر الواحد مقدم علی القیاس ولم ینقل التفصیل (کشف الاسرار ۲/۳۸۳)
’’(ابوالحسن الکرخی کہتے ہیں)یہ قول(کہ خلاف قیاس کی صورت میں غیرفقیہ راوی کی روایت پر قیاس مقدم کیاجائے گا)ہمارے اصحاب سے منقول نہیں ہے بلکہ ان سے تویہ منقول ہے کہ خبرواحد قیاس پر مقدم ہوگی اوراس سلسلے میں کوئی تفصیل منقول نہیں ہے۔‘‘

علامہ ابن ہمام کی رائے

علامہ ابن ہمام اوران کے شارحین نے تو (التقریر والتحبیر علی تحریرالکمال ابن الھمام ۲/۲۹۸) میں صاف سیدھالکھاہے کہ امام ابوحنیفہ مطلقاً قیاس پرخبرواحد کو مقدم کرتے ہیں،چاہے خلاف قیاس ہونے کی صورت میں حدیث کا راوی فقیہ ہویاغیرفقیہ، اور اس مسئلے میں ان کو امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کا ہم نواقراردیاہے۔
مسالۃ اذا تعارض خبر الواحد والقیاس بحیث لا جمع بینھما ممکن قدم الخبر مطلقا عند الاکثر منھم ابو حنیفۃ والشافعی واحمد (التقریر والتحبیر ۲/۲۹۸)
’’ مسئلہ:جب خبرواحد اورقیاس میں تعارض ہو کہ دونوں کے درمیان تطبیق کی کوئی صورت نہ نکل سکتی ہو تو اکثرائمہ کے نزدیک ہرحال میں خبر کو قیاس پر مقدم کیاجائے۔ ان ائمہ میں سے امام ابوحنیفہ،امام شافعی اورامام احمد بھی ہیں۔‘‘

فقیہ راوی کی روایت کو غیرفقیہ پر ترجیح

ہاں امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کایہ طریق کار ضرور تھاکہ وہ دوراویوں کی روایت میں اس کو اختیار کرتے تھے ،جس کا راوی فقیہ ہواور غیرفقیہ پر اس کو ترجیح دیتے؛لیکن یہ امام ابوحنیفہ کااختراع نہیں تھابلکہ محدثین کرام بھی اسی روش اورطرز کے قائل تھے،جیساکہ حازمی نے بھی کتاب الاعتبار می وجوہ ترجیحات میں سے اس کو ذکر کیاہے، وہ لکھتے ہیں:
الوجہ الثالث والعشرون: ان یکون رواۃ احد الحدیثین مع تساویھم فی الحفظ والاتقان فقھاء عارفین باجتناء الاحکام من مثمرات الالفاظ، فالاسترواح الی حدیث الفقھاء اولی، وحکی علی بن خشرم قال قال لنا وکیع ای الاسنادین احب الیکم، الاعمش عن ابی وائل عن عبد اللہ او سفیان عن منصور عن ابراھیم عن علقمۃ عن عبد اللہ؟ فقلنا الاعمش عن ابی وائل عن عبد اللہ، فقال یا سبحان اللہ، الاعمش شیخ وابو وائل شیخ وسفیان فقیہ ومنصور فقیہ وابراھیم فقیہ وعلقمۃ فقیہ، وحدیث یتداولہ الفقھاء خیر من ان یتداولہ الشیوخ (الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الآثار للحازمی، ص ۱۵)
’’تیئیسویں وجہ روایت کی ترجیح کی یہ ہے کہ حفظ اورضبط میں راوی برابر ہوں لیکن ایک روایت کا راوی فقیہ ہو، الفاظ سے احکام کے استنباط کا طریقہ جانتاہو تو فقیہ راوی کی روایت کواختیار کرنا زیادہ بہتر ہے۔ علی بن خشرم کہتے ہیں ہم سے وکیع نے کہا کہ تمہیں کون سی سند زیادہ محبوب ہے؟اعمش عن ابی وائل عن عبداللہ (اس میں حضرت عبداللہ تک صرف دوراوی ہیں)یاپھر سفیان عن منصور عن علقمہ عن عبداللہ ؟ اس پر ہم نے کہاکہ اعمش والی سند توفرمایا: سبحان اللہ! اعمش شیخ ہیں، ابووائل شیخ ہیں جب کہ اس کے بالمقابل سفیان فقیہ ہیں، منصور فقیہ ہیں، ابراہیم فقیہ ہیں، علقمہ فقیہ ہیں اورفقہاء کی سند والی حدیث شیوخ کی سند والی حدیث سے بہتر ہے۔‘‘

فقاہت راوی کی شرط تخریج کردہ ہے

ہاں یہ ضرور ہے کہ امام ابوحنیفہ نے احادیث کے ردوقبول میں بعض اصول کو اختیار کیاہے ،ان اصول کو دیکھ کر بعد کے اہل علم نے ان کے اجتہادات سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ جس راوی کی روایت قبول کی جائے اس کے لیے فقیہ ہونا ضروری ہے یانہیں، اوراگرغیرفقیہ کی روایت قیاس کے خلاف ہو توقیاس کو ترک کرکے حدیث پر عمل کیا جائے، یاغیرفقیہ راوی کی روایت کو ترک کرکے قیاس پر عمل کیاجائے،امام ابوحنیفہ کے بعد کے عہد میں اصول فقہ پر لکھنے والی جلیل القدر شخصیت امام کرخی کی ہے، امام کرخی امام طحاوی کے ہم عصر ہیں اور امام ابوالحسن الکرخی توصاف سیدھی یہ بات کہتے ہیں کہ راوی کی روایت قبول کرنے کے لیے فقاہت کوئی شرط نہیں ہے اورراوی فقیہ ہویانہ ہو، اس کی روایت بہرحال قبول کی جائے اوراس روایت کی موجودگی میں چاہے راوی غیرفقیہ ہو، قیاس کو ترک کردیاجائے گا۔چنانچہ امام کرخی اس تعلق سے وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’عیسیٰ بن ابان کا نظریہ ہمارے اصحاب سے منقول نہیں ہے، بلکہ ان سے یہ قول روایت کی گئی ہے کہ خبرواحد علی الاطلاق قیاس سے مقدم ہے۔اس ضمن میں کوئی تفصیل مذکور نہیں کہ راوی فقیہ ہے یاغیرفقیہ۔‘‘
اس کے بعد عیسیٰ بن ابان کے دلائل کامثلاً حدیث مصراۃ اورحدیث عرایا پر عمل نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ہمارے اصحاب ان احادیث پر اس لئے عمل نہیں کرتے کہ یہ کتاب اللہ اورسنت مشہورہ کے خلاف ہیں نہ کہ اس لئے کہ راوی فقیہ نہیں۔ حدیث مصراۃ کتاب وسنت دونوں کے خلاف ہے جیساکہ قبل ازیں بیان ہوچکاہے۔ حدیث عریہ سنت مشہورہ کے خلاف ہے۔ راوی کا فقیہ نہ ہونا اس کا سبب نہیں اور وہ سنت مشہور ہے: التمر بالتمر مثل بمثل کیل بکیل۔ہم یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے۔ آپ یقیناًایک بڑے فقیہ تھے اور آپ میں پوری طرح اسباب اجتہاد جمع تھے۔ صحابہ کے زمانہ میں آپ فتویٰ دیاکرتے تھے، حالانکہ اس زمانہ میں ایک مجتہد فقیہ کو ہی فتویٰ نویسی کا اہل سمجھاجاتاتھا۔ آپ رسول اکرم کے جلیل القدر صحابہ میں سے تھے۔ آپ نے ان کے حق میں دعائے خیرفرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاقبول فرمائی۔ آپ نے بڑانام پایااور آپ سے روایت کردہ احادیث کا بڑاچرچاہوا۔‘‘ (حیات امام ابوحنیفہ اردو ص ۵۰۲۔۵۰۳،بحوالہ کشف الاسرار ۲/۷۰۳)
اس نتیجہ سے بات صاف ہوگئی کہ امام ابوالحسن الکرخی جو فقہ حنفی کے ایک معتبر امام ہیں، وہ اپناااوراپنے اصحاب کے بارے میں یعنی ائمہ احناف کے بارے میں صاف سیدھے لفظوں میں یہ بات کہتے ہیں کہ ان سے راوی کی عدم فقاہت کے وقت قیاس کو خبر پر مقدم کرنے کی کوئی نص موجود نہیں ہے۔

امام عیسیٰ بن ابان کا موقف

ہاں امام عیسیٰ بن ابان سے اوران سے متاثردیگر کچھ فقہائے احناف نے یہ بات ضرور کہی ہے کہ جب خبرواحد اورقیاس میں تعارض ہوگاتو راوی کی فقاہت کو دیکھاجائے گا۔بعض لوگ توکہتے ہیں کہ عیسیٰ بن ابان علیہ الرحمہ کایہ قول ایجادبندہ ہے، لیکن یہ کہنادرحقیقت لاعلمی اورجہالت ہے۔ ماقبل میں یہ بات کہی گئی ہے کہ امام ابوحنیفہ اوردیگر کبارائمہ احناف سے اس بارے میں کچھ بھی منقول نہیں ہے، نہ نفی میں اورنہ اثبات میں۔

عیسیٰ بن ابان نے یہ نظریہ تخریج کیاہے

امام عیسیٰ بن ابان علیہ الرحمہ نے جب امام ابوحنیفہ کے اجتہادات میں غورکیاتوبعض نظائر سے ان کو یہ لگاکہ امام ابوحنیفہ فقہ راوی کوشرط مانتے ہیں جب کہ خبرواحد قیاس کے خلاف ہو۔ توعیسیٰ بن ابان کایہ کہنادرحقیقت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے اجتہادات میں غوروفکر کے بعد ممکن ہوسکاہے۔یہ ان کی اپنی گڑھی ہوئی بات نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے غوروفکر کے بعد جونتیجہ نکالا، وہ درست ہے یانہیں ہے۔لیکن اس کو عیسیٰ بن ابان کا اختراع کہناظلم ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام جصاص رازی لکھتے ہیں:
قال ابوبکر رحمہ اللہ: قد حکیت جملۃ ما ذکرہ عیسی فی ھذا المعنی، وھو عندی مذھب اصحابنا وعلیہ تدل اصولھم (الفصول فی الاصول ۳/۱۲۲)
’’امام جصاص رازی کہتے ہیں کہ اس مفہوم کی بات کا کچھ حصہ جوعیسیٰ بن ابان نے ذکر کیاہے، اس کو میں نے نقل کیاہے اوروہ میرے نزدیک ائمہ احناف کا موقف ہے اوراسی پران کے اصول دلالت کرتے ہیں۔‘‘

عیسیٰ بن ابان کافقہ راوی میں کیاموقف ہے؟

باوجود اس قیل وقال کے عیسیٰ بن ابان سے بھی یہ بات مطلقاً مروی نہیں ہے کہ اگرراوی غیرفقیہ ہے تواس کی روایت ہرحال میں رد کردی جائے گی اوراس کی روایت کو کسی حال میں قبول نہیں کیاجائے۔ بلکہ اس کے لیے انہوں نے جو شروط اورقیود لگائے ہیں، اس کو دیکھنے کے بعد میراتوخیال یہی ہے کہ یہ صرف لفظی بحث رہ جاتی ہے۔ کیونکہ ان شروط وضوابط کے بعد کسی روایت کو محض اس لئے رد کردیناکہ اس کا راوی غیرفقیہ ہے، ناممکن سے رہ جاتاہے اورذخیرہ حدیث میں میرے علم کی حد تک ایسی روایت باوجود تلاش کے نہیں ملتی اوراگرہوگی بھی تومجھے امید ہے کہ محدثین کرام نے پہلے ہی اس پر سندی اعتبار سے جرح کررکھی ہوگی۔ ہذاماعندی واللہ اعلم بالصواب

ایک اہم بات کی طرف توجہ

(نوٹ)امام عیسیٰ بن ابان نے تعارض کے وقت غیرفقیہ راوی کی روایت رد کرنے کے لیے جن شرائط کا ذکر کیاہے، اس پر تفصیلی کلام کرنے سے پہلے ہم یہ واضح کردیناچاہتے ہیں کہ جن مصنفین نے، چاہے اصول الشاشی کے مصنف کی طرح قدیم ہو یاپھر ہمارے زمانے سے قریب تر ،اگران کی عبارت میں فقاہت کا ذکر مطلقاً ہے توبھی وہ ساری قیود اور شرائط جوامام عیسیٰ بن ابان نے خبر کے رد کے لیے ٹھہرائی ہیں، ان کو شامل ماناجائے، کیونکہ اکثرکتبِ اصولِ فقہ متون کے طورپرلکھی گئیں اورمتون میں اختصار ملحوظ ہوتا ہے۔ مثلاً اصول الشاشی کے مصنف لکھتے ہیں:
وَالقسم الثَّانِی من الروَاۃ ھم المعروفون بِالحِفظِ وَالعَدَالَۃ دون الِاجتَِھاد وَالفَتوَی کابی ھریرۃ وانس بن مَالک، فاِذا صحت رِوَایَۃ مثلھمَا عندک، فَاِن وَافق الخَبَر القیَاس فَلَا خَفَاء فِی لزوم العَمَل بِہ، وَاِن خَالفہ کَانَ العَمَل بالقیاس اولی (اصول الشاشی ۱/۲۷۵)
’’ راویوں کی دوسری قسم وہ ہے جو حفظ اورعدالت میں تو مشہور ہیں لیکن بطور مجتہد اورمفتی مشہور نہیں تھے جیسے حضرت ابوہریرہ اورانس بن مالک رضی اللہ عنہما،توجب ان کی روایت صحیح ہو تواگران کی روایت قیاس کے موافق ہو تواس پر عمل کیا جائے اور اگر قیاس کے مخالف ہو تو قیاس پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے۔‘‘
یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اصول الشاشی کے مصنف نظام الدین ابوعلی احمد بن محمدبن اسحاق الشاشی (متوفی344) نے بغیر کسی شرط کے راوی کے فقیہ نہ ہونے کی صورت میں قیاس پر عمل کرنے کی بات کہی ہے۔اسی طرح کچھ دوسری کتابوں میں بھی یہ بات ہے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ تمام کتابیں یاتومتون کے طورپر لکھی گئی ہیں لہذا اس میں شرائط کا ذکر نہیں کیاگیا۔یاپھر امام جصاص رازی کی کتاب جس میں انہوں نے عیسی بن ابان کی کتاب سے براہ راست نقل کیاہے ان کی رسائی نہ ہوسکی اس لئے وہ ان شرائط سے آگاہ نہ ہوسکے۔
اسی لئے ہم نے کوشش کی ہے کہ عیسی بن ابان علیہ الرحمہ کے خیالات خود ان کے اپنے الفاظ مین ذکر کردیے جائیں کیونکہ مصنف اپنے مقصد سے زیادہ واقف ہوتاہے۔ کوئی شخص اپنے مراد اورمطلب کو جس طرح واضح کرسکتاہے دوسرانہیں کرسکتا۔اورچونکہ متقدمین کی بات اس باب میں زیادہ لائق اعتماد ہے اس لئے ہم نے اولا امام جصاص رازی کی کتاب الاصول فی الفصول اورامام سرخسی علیہ الرحمہ کی کتاب اصول السرخسی کو اپنے بحث کی بنیاد بنایاہے۔

امام سرخسی کی وضاحت

چونکہ امام سرخسی بھی اس مسئلہ پر امام عیسی بن ابان کے ہم خیال ہیں؛ لہذا بہتر ہے کہ اولاامام سرخسی کی رائے نقل کی جائے،امام سرخسی لکھتے ہیں:
اعلم بان الرواۃ قسمان: معروف ومجھول، فالمعروف نوعان: من کان معروفا بالفقہ والرای فی الاجتھاد، ومن کان معروفا بالعدالۃ وحسن الضبط والحفظ ولکن قلیل الفقہ (اصول السرخسی ۱/۳۳۹)
’’ جان لو کہ راویوں کی دوقسمیں ہیں۔ معروف اورمجہول،پھر معروف کی دوقسمیں ایک تویہ کہ راوی فقہ اوراجتہاد میں مشہور ہودوسری قسم یہ ہے کہ عدالت اورضبط وحفظ میں تومشہور ہو لیکن فقہ مین اس کا حصہ تھوڑاہو۔‘‘
امام سرخسی معروف کی پہلی قسم پر کلام کرنے کے بعد اوراس میں خلفاء اربعہ اوردیگر ممتاز فقہائے صحابہ کرام کو گنوانے کے بعد لکھتے ہیں:
فاَما المَعروف بِالعَدَالَۃِ والضبط وَالحِفظ کابی ھریرَۃ وانس بن مَالک رَضِی اللہ عَنھمَا وَغیرھمَا مِمَّن اشتھر بالصحبۃ مَعَ رَسول اللہ صلی اللہ عَلَیہ وَسلم وَالسَّمَاع مِنہ مدَّۃ طَوِیلَۃ فِی الحَضَر وَالسّفر فَان اَبَا ھریرۃ مِمَّن لَا یشک احد فِی عَدَالَتہ وَطول صحبتہ مَعَ رَسول اللہ صلی اللہ عَلیہ وَسلم حَتَّی قَالَ لَہ (زر غبا تَزدَد حبا) وکذالک فِی حسن حفظہ وَضَبطہ۔ (اصول السرخسی ۱/۳۳۹)
’’ ایسے راوی جو عدالت اورضبط وحفظ میں مشہور ہیں جیسے کہ حضرت ابوہریرہ وانس بن مالک رضی اللہ عنہما جن کا رسول پاک کاصحابی ہونامشہور ہے اورانہوں نے رسول پاک سے ایک مدت تک ان کے اقوال وفرامین سنے سفر وحضر میں سنے بھی ہیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی عدالت اوررسول پاک کے ساتھ طویل وقت گزارنے میں کسی کو شک نہیں ہے یہاں تک کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہاایک دن ناغہ کرکے ملاکر تاکہ محبت زیادہ ہو،اسی طرح ان کے حافظہ اورباتوں کو یاد رکھنے کے بارے میں بھی کسی کو شک نہیں ہے۔‘‘
(جاری)

یکبارگی تین طلاقوں کے نفاذ کا مسئلہ

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

انڈیا میں سپریم کورٹ نے یکبارگی دی جانے والی تین طلاقوں کے بارے میں متبادل قانون سازی کی ہدایت کی ہے جس پر مختلف طبقات کی طرف سے ملا جلا ردعمل آیا۔ کچھ اہل علم نے اسے دین میں مداخلت قرار دیا جبکہ کچھ دوسرے حضرات نے مختلف فقہی آراء میں سے ایک رائے کو ترجیح دینے کا کورٹ کا جائز حق بتایا۔ بالعموم مسلم سماج میں مسائل کو فقہی مذاہب کی روشنی میں زیر بحث لایا جاتا ہے اور نظری طور پر فریق مخالف کے درست ہونے کے امکان کو ماننے کے باوجود عملاً ہر فریق صرف اپنے فقہی موقف کو ہی درست مانتا ہے۔ ہمارے سماج میں ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ کسی مسئلہ کے حل کی تلاش میں واپس اصلی مآخذ تک رسائی اور ان سے استفادہ کا منہج اختیار کیا جائے۔ ہر فریق اپنے مکتب فکر کے متداول فتاوی کو ہی آخری سند کا درجہ دیتا ہے۔ تاہم درست علمی منہج یہ ہے کہ نئی مشکلات میں ہمیں واپس کتاب و سنت سے رجوع کر کے اپنی مشکلات کا قابل عمل حل تلاش کرنا چاہیے۔
طلاق کے حوالے سے اگر کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ نے نکاح و طلاق کے ادارے کی از سر نو تنظیم کی ہے۔ جہاں تک طلاق کا تعلق ہے تو :
طلاق کی ضرورت پیدا ہونے کی ابتدا میں ہی میاں بیوی کے درمیان اختلافی امور پر تبادلہ خیال، عارضی ترک تعلق، معمولی تنبیہ اور ان کوششوں کے کامیاب نہ ہونے کی صورت میں دونوں خاندانوں سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کے مدارج بیان کئے گئے۔ (النساء ۴: ۳۴، ۳۵) گویا طلاق کوئی ناگہانی آفت کی طرح نازل ہونے والی شے نہیں بلکہ طویل غور وخوض اور مشاورت کے بعد کیا جانے والا ایک آخری اور نا پسندیدہ اقدام ہے۔
طلاق دینے کا وقت طے کیا گیا کہ ایسے وقت میں طلاق دی جائے جب میاں بیوی ایک دوسرے کی طرف شدید رغبت کی کیفیت میں ہوں۔ (الطلاق ۶۵: ۱)
ایک وقت میں ایک ہی طلاق دی جائے۔ ضرورت ہو تو دوسری اور تیسری دی جا سکتی ہے۔
طلاق کی زیادہ سے زیادہ تعداد مقرر کر دی گئی۔ 
یکبارگی طلاقوں کی کوئی پروویژن نہیں رکھی گئی۔
آخری اور تیسری طلاق کے سوا ہر طلاق کے بعد مصالحت یا تجدید طلاق کی گنجائش دی گئی۔ 
خاتون کو خلع کی صورت میں حق طلاق دیا گیا۔ (البقرۃ ۲: ۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۱)
ایلاء اور ظہار کو طلاق کے دائرے سے نکال کر ان کے ایسے احکام دیے گئے جن کے باعث کسی خاتون سے ظلم ہونے کا امکان نہ رہے۔ (البقرۃ ۲: ۲۲۶۔ المجادلہ ۵۸: ۱ تا ۴)
قرآن حکیم میں یکبارگی دی گئی تین طلاقوں کے حوالے سے کوئی حکم نہیں ہے بلکہ یکے بعد دیگرے اور الگ الگ طہر میں طلاق دینے کا حکم یکبارگی تین طلاقوں کی اجازت نہیں دیتا۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو مختلف احادیث کی بنا پر مختلف فقہی مکاتب فکر الگ الگ موقف رکھتے ہیں۔ ایک فریق کے نزدیک یکبارگی کی تین طلاق تین ہو جاتی ہیں۔ دوسرے فریق کے نزدیک یکبارگی کی تین طلاق ایک ہی ہوتی ہے۔ تیسرے فریق کے مطابق یکبارگی کی تین طلاق سرے سے ایک بھی نہیں ہوتی۔
ہر فریق احادیث سے استدلال کرتا ہے اور دوسرے فریق کی مستدل احادیث کو ضعیف قرار دیتا ہے. اس صورت حال میں احادیث کی بنا پر کوئی قطعی فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں یکبارگی دی جانے والی تین طلاقوں کو تین قرار دے کر نافذ کر دیا تھا جسے بیشتر صحابہ کرام کی تائید حاصل تھی اور اہل سنت کے چاروں ائمہ نے اپنی اپنی فقہ میں اسی فیصلے کو برقرار رکھا اس لیے اسے زیادہ مستند قرار دیا جاتا ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دور خلافت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو سال تک تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھیں سو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس حکم میں جو انہیں مہلت دی گئی تھی، جلدی شروع کر دی ہے۔ پس اگر ہم تین ہی نافذ کردیں تو مناسب ہوگا چنانچہ انہوں نے تین طلاق ہی واقعہ ہو جانے کا حکم دے دیا۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۱۴۷۲)
لیکن اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سابقہ طرز عمل میں تبدیلی کی ضرورت کیوں محسوس کی اور وہ کیا اسباب تھے جن کی بنا پر انہوں نے ایک گنجائش ختم کردی اور کیا اب بھی حالات و واقعات اسی فیصلہ کے متقاضی ہیں یا حالات و زمانے کی تبدیلی سے اس فیصلے میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہے؟
آئیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی مذہبی اور سماجی اساسیات کا جائزہ لیتے ہیں :
قرآن نے یکے بعد دیگرے طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ یکبارگی تین طلاق دے کر شوہر جرم کا ارتکاب کرتا ہے، اس لیے اسے اس کی سزا ملنا چاہیے تھی۔
عرب معاشرے میں اس وقت بھی اور آج بھی خواتین کو بھاری مقدار میں مہر دینے کا رواج تھا۔ قرآن نے ڈھیروں سونا چاندی دینے کا ذکر کیا، (النساء ۴:۲۰) اور حدیث میں مہر میں باغات دینے کا تذکرہ ملتا ہے:
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ثابت بن قیس سے کسی بری عادت یا دینداری کی وجہ سے ناراض نہیں ہوں، لیکن میں حالت اسلام میں ناشکری نہیں کرنا چاہتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اس کا باغ اس کو واپس کرنے کو تیار ہے ، اس نے کہا ہاں! آپ نے ثابت بن قیس سے فرمایا کہ اس کا باغ لے لو اور اس کو ایک طلاق دے دو۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: ۵۲۷۳)

مہر کی ادائیگی اور اس پر عورت کا قطعی حق:

مہر نکاح کے وقت یا نکاح سے قبل ادا کر دیا جاتا تھا۔ بیوی مہر میں ملنے والی جائداد کی قطعی مالک ہوتی تھی اور شوہر یا کسی دوسرے فرد کا اس سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہوتا تھا۔ (النساء ۴: ۳۲) اگر بیوی کو طلاق ہو جاتی تو وہ اپنا مہر لے کر شوہر سے الگ ہو جاتی۔

طلاق کے بعد بچوں کی ذمہ داری:

اگر اس کے بچے ہوتے تو ان کی تمام تر ذمہ داری شوہر کی ہوتی، ان کے تمام اخراجات، تعلیم اور دیگر ضروریات شوہر نے پورے کرنے ہوتے۔ اگر چھوٹے بچے ہوتے جنہیں مطلقہ ماں پال رہی ہوتی تو نہ صرف ان کے اخراجات بلکہ ماں کی مصروفیات کی اجرت بھی شوہر کے ذمے تھی۔ (البقرۃ ۲: ۲۳۳)

عرب معاشرے میں مطلقہ اور بیوہ سے شادی کرنے کا عام رواج:

اس سماج میں مطلقہ یا بیوہ کے لیے دوبارہ شادی کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا، بلکہ ان کے لیے مواقع وسیع اور انتخاب کا تجربہ مستزاد ہوتا۔ یہ رواج اس قدر عام تھا کہ قرآن کو کہنا پڑا کہ ایسی خواتین سے عدت کے دوران عہد و پیمان نہ لے لیا کرو اور انہیں سکون سے عدت پوری کرنے دیا کرو۔ (البقرۃ ۲: ۲۳۵)

عرب معاشرے میں طلاق اور دوسری شادی کا بھار مرد پر پڑنا:

دوسری شادی پر عورت کو مزید بھاری بھر کم مہر ملتا جب کہ سابقہ شوہر کو نئی شادی کرنے کے لیے مزید مالی وسائل کی ضرورت ہوتی۔ یہی وجہ تھی کہ عرب سماج میں بیوہ یا مطلقہ خواتین خاصی مال دار ہوجایا کرتی تھیں۔

قرونِ اولیٰ میں تین طلاق کو نافذ کرنے کا نقصان کس فریق کو ہوتا؟

اس ساری صورت حال میں یکبارگی تین طلاق کو نافذ کرنے کا نقصان عورت کو نہیں بلکہ مرد کو تھا اور اکٹھے تین طلاق دینے کا جرم اسی نے کیا تھا، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اسے اس جرم کی سزا ملنی چاہیے تاکہ لوگ یکبارگی تین طلاق دینے سے باز رہیں۔ اس فیصلے کے وقت ان کے الفاظ بھی یہی تھے کہ جس کام کو بہت غور و فکر کے بعد کرنا چاہیے تھا، اسے یک دم کرنے والے کو کیوں نہ سزا دی جائے۔ عرب سماج کے لیے تب بھی یہی فیصلہ قرین انصاف تھا اور آج بھی یہی فیصلہ معقول ہے لیکن ہمارے سماج میں صورت حال بالکل اس کے بر عکس ہے :
  1. بیوی کو یا تو نقد مہر دیا ہی نہیں جاتا اور اگر دیا جاتا ہے تو اس کی مقدار اتنی کم ہوتی ہے کہ اس سے ایک مہینے کے یوٹیلیٹی کے بلز تک ادا نہیں کئے جا سکتے۔
  2. خواتین اپنے مال پر آزادانہ تصرف کا اختیار نہیں رکھتیں۔
  3. کسی بھی شام بیوی کو مار پیٹ کر بچوں سمیت گھر سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور بہت دفعہ اس پر نیلی چھتری کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوتا۔
  4. بچوں کی ذمہ داری باپ نہیں اٹھاتا۔
  5. ہمارے سماج میں جس لڑکی کی منگنی ٹوٹ جائے، اس کی شادی ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ بیوہ یا مطلقہ کو کہاں شوہر مل سکتا ہے۔
اس سماجی تفاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سماج میں طلاق کی صورت میں سزا مرد کو نہیں بیوی کو ملتی ہے۔
مزید یہ کہ جہالت، دین سے بے بہرہ ہونے اور اجڈ پن کی وجہ سے طلاق اچانک اور یکبارگی تین دے دی جاتی ہیں جو ایک خاندان، دو گھرانوں اور بچوں کے لیے تباہ کن ہوتی ہے۔ ایسے میں یکبارگی تین طلاق کو نافذ کرنا مجرم کو سزا دینا نہیں بلکہ مظلوم پر مزید ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہماری رائے یہ ہے کہ حالات و زمانے کی تبدیلی کی رعایت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے سماج میں یکبارگی دی جانے والی تین طلاق کو ایک قرار دیا جائے جیسا کہ عہد نبوی اور عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دو سالوں میں یہی قانون تھا، نیز کئی ایک صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ کرام کی بھی یہی رائے ہے۔ نیز اگر حکومت مختلف فقہی آراء میں سے کسی ایک رائے کو قانون کا درجہ دے دے تو وہ رائے مرجوح ہو، تب بھی فتوے اور فیصلے اسی کے مطابق کیے جائیں گے۔
یوں بھی نکاح و طلاق کے قوانین سول لا کا حصہ ہیں اور نصوص کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے حکومت کو سول لا میں تبدیلی کا اختیار ہوتا ہے۔

برما میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ کیا ہے؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز

میانمار (برما) کے 12 لاکھ آبادی پر مشتمل روہنجیا مسلمانوں کا قضیہ عرصہ دراز سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سامنے آتا رہتا ہے۔ کبھی اس کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور کہیں یہ عدم توجہی کا شکار بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اور بہت سارے مسائل کی طرح اس مسئلے کو بھی سطحی اور جذباتی طریقے سے پیش کیا جاتا ہے اور مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روہنجیا مسلمان میانمار (برما) میں بہت مشکل وقت گزار رہے ہیں اور میانمار کی آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کی حکومتوں نے روہنجیا لوگوں کے مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس پورے قضیے کا پیچیدہ ترین پہلو یہ ہے کہ آغاز جس مسئلے کا خالصتاً نسلی بنیادوں پر ہوا، اب اس نے مذہبی شکل اختیار کرلی ہے۔ اب یہ معاملہ روہنجیا کمیونٹی کے لئے میانمار کی شہریت کے حق کے حصول سے زیادہ وہاں کی ایک مسلمان اقلیت اور اکثریتی مذہب (بدھ مت) کے پیروکاروں کے درمیان مذہبی تصادم کا رخ اختیار کر گیا ہے۔ اس پہلو کی وجہ سے عالمی تناظر میں بھی یہ قضیہ انسانی حقوق کی فہرست سے نکل کر مذاہب کے درمیان کشمکش کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس صورتِ حال نے تنازع کے حل کی کوششوں کے پورے منظر نامے کو تبدیل کردیا ہے۔
روہنجیا مسلمان میانمار کے صوبے اراکان کے باشندے ہیں جس کی سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ ملتی ہے۔ روہنجیا کے علاوہ یہاں راکھائن لوگ بھی رہتے ہیں جو بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ تقریباً 20 لاکھ راکھائن اکثریتی آبادی ہے۔ بدقسمتی سے روہنجیا اور راکھائن کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ دونوں نسلی گروپوں کے درمیان تنازعے نے معاملے کو حد درجہ گھمبیر بنا دیا ہے۔ دونوں قبیلے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا انحصار زراعت اور ماہی گیری پر ہے۔ ان کے درمیان معاشی رقابت بھی ہے جس کی وجہ سے مسئلے کی شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
روہنجیا مسلمانوں اور میانمار کی اکثریتی بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان نفرت اور غلط فہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک پاکستان کے عروج کے زمانے میں روہنجیا نے تحریک چلائی تھی کہ اراکان صوبے کو مجوزہ پاکستان کے مشرقی بازو (مشرقی پاکستان، اب بنگلہ دیش) کا حصہ بنایا جائے۔ اس تحریک نے مختلف موقعوں پر تشدد کا رنگ بھی اختیار کیا تھا۔
بدھ مت میں ترکِ دنیا پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ چنانچہ میانمار میں ہر شہر میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے مرد اور خواتین نظر آتے ہیں جو ازدواجی بندھنوں سے الگ رہ کر اپنے آپ کو عبادت کے لئے مخصوص کرچکے ہوتے ہیں اور کشکول ہاتھ میں لے کر لوگوں کے گھروں سے خوراک کا سامان حاصل کرتے ہیں۔ بال ترشواکر مخصوص نارنجی لباس میں ملبوس مرد عبادت گزار (بھکشو/ مونک) اور خواتین (تیشالین) سڑکوں پر قطار بنائے نظر آتے ہیں یہ میانمار کے شہروں کے عمومی مناظر ہیں۔ ترکِ دنیا کرنے والے ایسے افراد کی تعداد اس وقت تقریباً دس لاکھ (ایک ملین) بتائی جاتی ہے۔ بدھ مت میں اس مذہبی رحجان کی وجہ سے ان کے پیروکاروں کی آبادی میں کمی ایک لازمی امر ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے ہاں زیادہ بچے پیدا کرنے کو باعث ثواب سمجھا جاتا ہے۔ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی مذہبی رعایت کی وجہ سے ان کی آبادی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
میانمار میں کچھ ہندسے بھی خاصے متنازعہ ہیں اور انہوں نے مسلم بدھ کشمکش میں حیران کن کردار ادا کیا ہے۔ مسلمان عام طورپر اپنے گھروں یا دکانوں پر 786 لکھتے ہیں۔ کچھ نامعلوم وجوہات کی وجہ سے بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ 786 میں الگ الگ ہندسوں کو جمع کرکے 21 بنتا ہے۔ بدھ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا کوڈ لفظ ہے، جس کے اندر پیغام ہے کہ 21 ویں صدی میں میانمار کو مسلمانوں کا اکثریتی ملک بنانا ہے۔ چنانچہ اب 786 کا ہندسہ میانمار میں اس کی اکثریتی آبادی کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔ بدھ مت کے پیروکاروں نے اس کے مقابلے میں 969 کا ہندسہ عام کردیا، جو ان کے مطابق گوتم بدھ کے بتائے ہوئے اصولِ حیات کی تعداد اور ان کے ساتھ مذہبی وابستگی کا نمائندہ ہندسہ ہے۔
روہنجیا مسلمانوں کا اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ حکومت ان کو فرزندان وطن (Sons of the Soil) نہیں سمجھتی۔ یہ مسئلہ اس وقت زیادہ گہرا ہوگیا ہے جب آئین میں ان کو شہریت کے حق سے محروم کردیا گیا۔ چنانچہ حکومت ان کو این آر سی (National Registration Card) دینے سے انکاری ہے اور اس کی بجائے ان کو ٹی آر سی (Temporary Registration Card) لینے پر مجبور کررہی ہے۔ این آر سی سے محرومی کا مطلب یہ ہے کہ روہنجیا کو مکمل شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ علاوہ ازیں اس کے نتیجے میں یہ جائیداد اور ووٹ کے حق سے بھی محروم ہوں گے۔ حکومت ان سے کہتی ہے کہ وہ روہنجیا کے متبادل کے طورپر اپنے آپ کو چٹاگانگ کے بنگالیوں کے طورپر متعارف کرائیں۔
بلاشبہ روہنجیا ان سرکاری پابندیوں کی وجہ سے اپنے وجود کے حوالے سے ایک مشکل دوراہے پر کھڑے ہیں۔ موجودہ مسلم بدھ کشمکش سے بدھ مت کے پیروکاروں میں ان کے انتہا پسند مذہبی قائد موتک دیراتو کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ دیراتو کو بین الاقوامی جریدہ ٹائمز نے جولائی 2013 کے شمارہ میں اپنے ایک مضمون میں برما کے دہشت گرد کے نام سے موسوم کیا تھا (The Face of Buddhist Terror by Hannah Beech)اور سرورق پر اس کی تصویر شائع کی تھی۔ دیراتو کا مرکز میانمار کے ایک بڑے شہر منڈالے میں ہے، جہاں وہ بدھ مت کے ایک دینی ادارے میں استاد ہے۔ اس وقت اس کے ادارے میں 3000 سے زیادہ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ ان کا ادارہ دماتیریا سجاسیہا دما سیریا کے نام سے ڈگری جاری کرتا ہے جسے سرکاری طورپر مذہبی علوم میں ایم اے کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اکتوبر 2013 میں مونک ویراتو کے ساتھ ان کے مذہبی ادارے کے دفتر میں ہمارے ایک بین الاقوامی وفد کی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس وفد میں انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل انگیجمنٹ (واشنگٹن) کے سربراہ ڈاکٹر کریس سائیبل کے علاوہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز (PIPS) کے ڈائریکٹر عامر رانا اور شیخ زاید اسلامک سنٹر کے پروفیسررشید احمد بھی شامل تھے۔ فلپائن اور سنگاپور کے مدنی معاشرے کے بعض مؤثر سربراہان بھی اس وفد کا حصہ تھے۔
موتک دیراتو کے دفترکے آس پاس دیواروں پر متعدد پوسٹر چسپاں تھے، جن پر مسلمانوں کے خلاف مقامی زبان میں اشتعال انگیز مواد تحریر تھا۔ ادارے کے ہزاروں نوجوان طالب علم بال ترشوائے نارنجی لباس میں ملبوس مصروف تعلیم تھے۔ ہمیں میانمار کے لوگوں پر بڑا افسوس ہو اکہ اگر نفرت اور باہمی کشمکش کے اس منظر نامے میں ان نوجوانوں کی اس طرح ذہنی تشکیل جاری رہی تو معلوم نہیں اس خوب صورت نسل کا کیا مستقبل بنے گا۔ مونگ ویراتو نے شکایت کی کہ مسلمانوں کے ایک عالم شعیب دین نے 1938 میں ایک کتاب میں لکھا کہ 21 ویں صدی میں میانمار میں مسلمان غالب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان آبادی بڑھا رہے ہیں اور ہمیں خطرہ ہے کہ وہ میانمار پر قابض ہوجائیں گے۔ اراکان کے تین شہر بوتی ٹانگ، میڈاؤ، اور پیتیڈ رنگ میں روہنجیا 98 فی صد ہیں اور ہمیں خطرہ ہے کہ وہ ان شہروں پر قبضہ کرکے اپنی اسلامی ریاست قائم کریں گے۔
ہمارے وفد نے انہیں بتایا کہ کسی کی خواہش کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کا عملی طورپر وقوع بھی یقینی ہو۔ میانمار بدھ اکثریت کا ملک ہے اور آپ کو اعتماد ہونا چاہئے کہ مفروضوں کی بنیاد پر ردعمل کے نتائج معکوس اور نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ہم نے انہیں بتایا کہ مسلمان مذہبی معاملات میں ہجری تقویم استعمال کرتے ہیں، اس لئے یہ ناممکن ہے کہ انہوں نے 21 ویں عیسوی صدی کے حوالے سے میانمار کے قبضے کی کوئی خفیہ منصوبہ بندی کی ہو۔ عملی حقائق بھی اس کے برعکس ہیں کیوں کہ اب تک مسلمانوں کی آبادی میں کوئی بڑا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ 786 کا ہندسہ ابتدائی ادوار میں مسلمانوں نے اس لئے استعمال کرنا شروع کیا تھا تاکہ کھانے پینے کے اشیاء کے حلال و حرام کی نشان دہی ہو۔ مونگ ویراتو کے ساتھ تفصیلی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ مسلسل اور بامقصد مکالمے کے ذریعے ان کے ردعمل کو کم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے مذہبی اور معاشرتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے افراد کی ضرورت ہے۔
اکتوبر 2013 میں دورۂ میانمار کے دوران ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صالح کے نام سے ایک روہنجیا مسلمان بنگلہ دیش سے اسلامی امارت اراکان کے خود ساختہ سربراہ کے طورپر کام کرتا ہے۔ علاوہ ازیں بدھ مت کے ایک فاضل عالم جو آکسفورڈ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکے تھے، نے یہ بھی بتایا کہ طالبان کے دور میں بامیان میں گوتم بدھ کے مجسمے کے ساتھ جو اہانت آمیز سلوک کیا گیا تھا، اس کی وجہ سے بدھ مت کے پیروکاروں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ میانمر کی صورت حال میں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ ان متعدد عوامل نے میانمار میں اسلامو فوبیا (اسلام اور مسلمانوں سے خوف) کی کیفیت پیدا کی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ تنازعہ مزید سنجیدگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حل کی کوئی صورت فی الحال سامنے نہیں آرہی۔

خدشات و امکانات

میانمار کے روہنجیا مسلمانوں کی مشکلات کا مستقبل قریب میں کوئی آسان حل نظر نہیں آرہا۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ہاں تعلیم کی سخت کمی ہے اور وسیع النظر اور مستقبل بین قیادت کا فقدان ہے۔ چنانچہ جذباتی تقریروں اور نعروں کے ذریعے ان کو اشتعال دلایا جاتا ہے اور نتیجتاًراکھائن مخالفین اور ریاستی جبر کے اشتراک سے ان کے مصائب میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ روہنجیا بین الاقوامی طورپر مسلمہ لابنگ کے اصولوں سے استفادہ کریں اور اپنے ہمدردوں کی تعداد میں اضافہ کریں۔ اس وقت تو صورتِ حال یہ ہے کہ میانمار کے اندر خود غیر روہنجیامسلمان بھی ان کے حق میں آواز بلند نہیں کرتے۔ منڈالے میں مسلمانوں کا ایک گروپ پنتھے (Panthay) کے نام سے موجود ہے۔ ان کی آبادی 30 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں تعلیم بھی ہے اور یہ تجارت بھی کرتے ہیں۔ یہ چینی نسل کے مسلمان ہیں۔ ان کے پاس میانمار کی مکمل شہریت موجود ہے۔ ان کی مسجد کے ساتھ کانفرنس ہال بھی ہے۔ ان کے نمائندوں کے ساتھ ہمارا تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ روہنجیا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ شہریت کے حصول کے لئے اپنی جدوجہد کے طریقہ کار کو تبدیل کریں۔
میانمار میں موجودہ حکمرانوں کے متبادل کے طورپر عوام آنگ سانگ سوچی کی طرف دیکھ رہے ہیں اور وہ خاصی مقبول ہیں، لیکن وہ بھی روہنجیا کی حمایت میں ایک لفظ کہنے کے لئے تیار نہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ایسا کرکے وہ اپنی عوامی حمایت میں کمی کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ تبت کے بدھ رہنما (دلائی لامہ) نے حال ہی میں ان سے ملاقات کی ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ روہنجیا لوگوں کی مشکلات کم کرنے میں تعاون کریں۔
میانمار میں مونک ویراتو کے حامیوں اور پیروکاروں کی تعداد میں اضافے سے انکار ممکن نہیں، لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ میانمار کے عام لوگ بے حد نرم خو، پرامن اور تحمل مزاجی کی صفات سے مالا مال ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ایسے بدھ مونک موجود ہیں جو ویراتو سے اتفاق نہیں کرتے اور میانمار کو ایک پرامن کثیرالنسلی اور کثیر المذہبی ملک کے طورپر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی قیادت ڈاکٹر آشین سیتاگو سیاگو کے ہاتھوں میں ہے۔ ڈاکٹر آشین کے پیروکاروں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے اور ان کے تعلیمی ادارے ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ روہنجیا کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر آشین سیتاگو سیاگو کے ساتھ بہتر تعلقات کار قائم کریں اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں۔
میانمار کے صدر مقام ینگون میں ایک غیرروہنجیا مسلمان یو یے یی لوین (UA Ye Lwin)مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان بہتر تعلقات کار کے لئے بہت مفید کام کر رہے ہیں۔ وہ بین المذاہب مکالمے کے پلیٹ فارم سے خاصے فعال ہیں۔ ان کی کوششوں کی حمایت کی جانی چاہئے۔ ینگون کے بدھ حلقوں اور پالیسی سازوں میں ان کو بہت احترام حاصل ہے۔
میانمار میں 88 Generation Group ایک بہت مضبوط گروپ ہے۔ یہ ان سیاسی کارکنوں پر مشتمل ہے جنہوں نے 1988 میں فوجی حکمرانوں کے خلاف تحریک چلائی اور بے انتہا مظالم کا نشانہ بنے۔ اس گروپ کے قائدین کی جوانیاں میانمار میں قانون کی حکمرانی کی بحالی کی تحریک میں صرف ہوئیں اور وہ اب بھی ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ روہنجیا لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس گروپ کا حصہ بنیں اور ان کی جدوجہد میں تعاون کرکے اپنے لئے مقام (space) پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
میانمار میں اکثریتی گروپ (برمن) کے رویّے سے غیرمطمئن گروپوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ان میں مونگ، کوکن، شان، چن، کائن اور کیچن خاص طورپر نمایاں ہیں۔ ان کو شکایت ہے کہ برمن اکثریتی گروپ دوسرے گروپوں کی ثقافت، تاریخ اور سیاسی جدوجہد کو نظر انداز کررہا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں صرف برمن ہیروز کا ذکر کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے نسلی گروہوں کو نمائندگی نہیں دی جاتی۔ ان گروپوں میں مسلمان اور مسیحی شامل ہیں۔ روہنجیا کو چاہیے کہ وہ ان گروپوں کے ساتھ قریبی تعلقات کار قائم کریں اور اپنے لئے سیاسی و معاشرتی ہمدردی کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کریں۔
میانمار کے سیاسی نظام میں فوج کو فیصلہ کن بالادستی حاصل ہے۔ فوج فی الحال اندرونی اور بیرونی دباؤ کے بارے میں بڑی حدتک غیر حساس ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ تاہم چین واحد ملک ہے جو میانمار کی پالیسیوں پر صحیح معنوں میں اثرانداز ہوسکتا ہے۔ سفارتی کوششوں میں اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ چین کی کاشغر گوادر راہداری کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہیں، لیکن چین کی ایک اور راہداری چین، برما، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان بھی ہے۔ یہ راہداریاں مکمل ہوں تو یہ پورا خطہ ایک تجارتی زنجیر میں بندھ جائے گا۔ ان بڑے منصوبوں کی تکمیل کے لئے علاقائی امن کی شدید ضرورت ہے۔ چین کی خاموش سفارت کاری میں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ روہنجیا کی قیادت کو اس صورتِ حال کا بہتر ادراک کرنا ہوگا۔ روہنجیا کی مکمل شہریت کا حق ہمیشہ کے لئے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ وہ سینکڑوں سال سے میانمار میں آباد ہیں اور عالمی قوانین کے تحت ان کو شہریت کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس مقصد کے حصول کے لئے ان کو مؤثر اور صحیح لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ اشتعال کے نتیجے میں تشدد اور ردّعمل کے ذریعے ان کے جائز مطالبے کو فائدہ کی بجائے نقصان ہوگا۔ حال ہی میں ہزاروں روہنجیا انسانی سمگلروں کے مکروہ کارروبار کا نشانہ بنے، جن میں کچھ مجبور اور بے کس بنگالی بھی شامل تھے۔ سینکڑوں کی تعداد میں روہنجیا اور بنگالی سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگئے۔ روہنجیا کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ کوئی بھی ملک اب غیرقانونی مہاجرین کو پناہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ سوشل میڈیا میں روہنجیا پر غیرانسانی مظالم کی جو تفصیلات سامنے آئیں، تحقیق پر معلوم ہوا کہ وہ مبالغہ آمیز اور غیر حقیقی تھیں۔ ینگون میں مسلمان سفارت خانوں نے ان کی تصدیق نہیں کی۔
روہنجیا کو ان کا حق مل کر رہے گا، لیکن اس کے لئے صحیح راستے کا انتخاب ضروری ہے کیوں کہ غلط راستے پر چل کر سینکڑوں سال کے سفر سے بھی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔
(بشکریہ مجلہ ’’تجزیات‘‘، اسلام آباد)

مظلوم کی مدد کیجیے، لیکن کیسے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

روہنگیا مظلوموں پر ظلم کے خلاف سوشل میڈیا پر بہت کچھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس لحاظ سے یہ امر خوش آئند ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے سوشل میڈیا کی اہمیت تسلیم کی گئی ہے۔ تاہم کئی پہلووں سے تشنگی محسوس ہورہی ہے اور بعض پہلووں سے اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے ہی چند امور یہاں سنجیدہ غور و فکر کے لیے پیش کیے جاتے ہیں : 
سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ روہنگیا کے بارے میں حقائق کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔ بالعموم ایک جذباتی فضا نظر آتی ہے جس کے زیر اثر ایک عمومی اتفاقِ رائے تو پایا جاتا ہے کہ ان پر شدید ترین مظالم ڈھائے جارہے ہیں لیکن حقائق اور اعداد و شمار کی بات کریں تو شاید ہی کہیں ان کا ذکر ہو۔ 
اس کا ایک نتیجہ مایوسی کی صورت میں نکلا ہے۔ اکثر پوسٹس میں اس طرح کے گلے شکوے نظر آتے ہیں کہ فلاں جگہ ظلم ہو تو پوری دنیا اٹھتی ہے لیکن مسلمانوں پر ہو تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ شاید یہ مایوسی بے جا بھی نہیں ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس 'کیوں' کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے سنجیدہ غور وفکر کی ضرورت ہے۔ جذباتی ردعمل اور نعروں سے اس مسئلے کا کوئی حل نہ پہلے نکلا ہے، نہ اب نکلنے کا کوئی امکان ہے۔ 
حقائق معلوم کیے بغیر جذباتی نعرے بلند کرنے کا ایک دوسرا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پہلے سے موجود سازشی نظریات کو مزید تقویت ملی ہے۔ کوئی عالمی استعمار، یا عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بات کرتا ہے ، کوئی الکفر ملۃ واحدۃ کا استدلال پیش کررہا ہے ، کوئی میانمار کے ساتھ چین اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلق کی بنیاد پر ملکی اسٹیبلشمنٹ پر تبرا کررہا ہے ، لیکن مسئلے کا حل کوئی نہیں بتارہا۔ 
ان سازشی نظریات کو مزید تقویت بعض ایسی تصاویر اور ویڈیوز سے مل رہی ہے جن کی صحت مشتبہ ہے۔ فوٹو شاپ اور دیگر سوفٹ ویئرز کے ذریعے جو کرشمے پیش کیے جاتے ہیں ان کے بارے میں تو اب سکول جانے والے بچے بھی جانتے ہیں۔ نتیجتاً کئی لوگ ان تصاویر اور ویڈیوز کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں جن صحت مسلم ہے اور جن سے بجا طور پر ان مظالم کی شدت کا علم ہوتا ہے۔ ایسے میں پھر یہی ہوتا ہے کہ لوگ ان تصاویر اور ویڈیوز کے متعلق ایک طرح کی بے حسی یا لاتعلقی کا رویہ اپنا لیتے ہیں۔ اس لیے ایک گزارش یہ ہے کہ کسی بھی تصویر یا ویڈیو کو شیئر کرنے سے قبل اس کی صحت کے بارے میں ذرا تحقیق ضرور کیجیے تاکہ مظلوم کی مدد کرنے کے بجاے کہیں اس کے خلاف مزید ظلم کا باعث نہ بن جائیں۔ 
مایوسی اور سازشی نظریات کے ملغوبے سے ہی وہ ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو انسان کو انتہاپسندی اور عسکریت کی طرف دھکیلتی ہے۔ جب مفروضہ یہ ہو ہک نہ صرف یہ کہ سسٹم کام ہی نہیں کررہا بلکہ سسٹم ظالم کی مدد کررہا ہے اور اس کے ساتھ سازش میں شریک ہے تو پھر مظلوم کی مدد کے لیے سسٹم سے باہر ہی کوئی راستہ ڈھونڈا جاتا ہے اور اگر ہمت زیادہ ہو ، یا جذبہ شدید ہو ، تو پھر سسٹم کو ہی جڑ سے اکھاڑنے کا عزم کیا جاتا ہے۔ 
دوسری گزارش سوچنے سمجھنے والے دوستوں سے یہ ہے کہ روہنگیا کے مسئلے پر حقائق اکٹھے کرکے لوگوں کو آگاہ کریں کہ یہ مسئلہ ہے کیااور اس کا ممکن حل کیا ہے ؟ انھیں سمجھائیے کہ اس مسئلے کا پس منظر کیا ہے؟ اس وقت کیا ہورہا ہے؟ کیوں ہورہا ہے؟ اسے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ مسئلے کے فریق کون ہیں؟ ان کا الگ الگ موقف کیا ہے؟ ان مختلف فریقوں کے مختلف مواقف میں کم سے کم بنیادی انسانی سطح پر قدر مشترک کیا ہے جس کو بنیاد بنا کر مسئلے کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے؟ یہ ضرور سوچیے کہ "منصفانہ حل" کیا ہے؟ اس منصفانہ حل کو حاصل کرنے کی کوشش بھی ضرور کیجیے لیکن اس دوران میں "ممکن حل" کو نظرانداز نہ کریں۔ ایسا ممکن حل جسے وقتی طور پر ہی سہی قبول کرنے سے صورتِ حال کسی حد تک بہتر ہوسکتی ہے۔ یاد رکھیے کہ محض جذباتی نعرے بلند کرنے سے آپ مظلوم کی مدد نہیں کررہے بلکہ مزید ظلم کا باعث بن رہے ہیں۔ 
تیسری گزارش یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم کی اس کشمکش میں مہاتما گوتم بدھ اور بدھ مت کو بخش دیجیے۔ کئی لوگوں کی وال پر اس طرح کے کمنٹس دیکھے کہ بدھ مت کو ہم امن کا مذہب سمجھتے تھے لیکن اب معلوم ہوا کہ بدھ مت کے پیروکار کتنے ظالم ہیں! اسی طرح کے استدلال کے ذریعے جب دہشت گردی کا تعلق اسلام کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تو ہمارا رد عمل کیا ہوتا ہے اور ہم اس استدلال کا کیا جواب دیتے ہیں؟ 
چوتھی گزارش یہ ہے کہ عالمی استعمار یا سازشی عناصر کے خلاف نعرے بلند کرنے کے بجاے یہ سوچیے کہ ہم کیا ایسا کریں کہ ہماری حکومت اس معاملے میں مناسب اور مؤثر کردار ادا کرسکے؟ اس بات کی وضاحت کے لیے ایک واقعہ پیش کرنا مناسب ہوگا۔ 
میں ایل ایل بی کا طالب علم تھا۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اس وقت واقعی بین الاقوامی بھی تھی اور اسلامی بھی۔ چنانچہ دنیا کے جس خطے میں بھی مسلمانوں پر تکلیف ہوتی تو یونی ورسٹی میں، بالخصوص کویت ہاسٹل میں، ضرور احتجاج ہوتا۔ کویت ہاسٹل کے رہائشی دنیا کے کونے کونے ہونے والے واقعات (حادثات زیادہ مناسب لفظ ہے) سے واقف ہوتے۔ انھی دنوں (1996ء کے لگ بھگ) ایک دن میں اپنے کمرے سے نکلا تو میرے کمرے کے باہر دیوار پر بڑا اسٹکر لگا ہوا تھا جس پر سرخ رنگ کا غلبہ تھا اور جلی حروف میں اس پر لکھا ہوا تھا: "امریکیو! جزیرۂ عرب سے نکل جاؤ۔"
مجھے تھوڑی حیرت تو ہوئی کہ میرا کمرہ تو جزیرۂ عرب نہیں ہے، نہ ہی میں امریکی ہوں، نہ ہی میرا کوئی روم میٹ امریکی ہے؛ ہاں ایک جنوبی افریقہ کا تھا اور ایک چین کا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد میں نے بہ آواز بلند کہا: "آپ کا کہنا مانتے ہوئے ہم نکل جاتے ہیں۔" اور اپنے کمرے سے نکل آیا!

اراکان کے مسلمان: بنگلہ دیش کا موقف

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی آہستہ آہستہ عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی اداروں کی توجہ حاصل کر رہی ہے اور ان کی داد رسی و حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکی اور برطانوی وزرائے خارجہ، ہیومن رائٹس واچ کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں اور شخصیات کی زبانوں پر اب میانمار میں کٹنے جلنے والے مسلمانوں کے حق میں کلمہ خیر بلا جھجھک آنے لگا ہے۔ جبکہ ہمیں سب سے زیادہ اطمینان اس سلسلہ میں بنگلہ دیش کی پیش رفت سے حاصل ہوا ہے اس لیے کہ اس مسئلہ پر فطری طور ترتیب اور راستہ یہی بنتا ہے کہ بنگلہ دیش اسے اپنا مسئلہ سمجھ کر ڈیل کرے اور اس کی پشت پر پورا عالم اسلام سپورٹ کے لیے کھڑا ہو جائے۔
بنگلہ دیش حکومت کے حالیہ اقدامات اور پالیسی کا ذکر کرنے سے قبل 1978ء کے دوران اس مسئلہ پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے آرگن ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں 28 اپریل کو شائع ہونے والا ایک ادارتی شذرہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے جو راقم الحروف کا ہی تحریر کردہ ہے۔ اس سے روہنگیا مسلمانوں کے اس المیہ کی قدامت، سنگینی اور حساسیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
’’بعض اخباری اطلاعات کے مطابق برما میں مسلمانوں پر عرصہ حیات ایک بار پھر تنگ کر دیا گیا ہے اور انہیں وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے تین کونسلروں نے برمی حکومت کے نام ایک عرضداشت میں مطالبہ کیا ہے کہ برمی مسلمانوں کا قتل عام فورًا بند کیا جائے۔ ان کونسلروں کا کہنا ہے کہ برما کے صوبہ اراکان میں گزشتہ تیس برس سے مسلمانوں پر مسلسل مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور انہیں حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ کا سفر کرنے حتیٰ کہ خود برما میں بھی آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے کی اجازت نہیں ہے اور برمی مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد عملاً نظر بند ہو کر رہ گئی ہے۔
ان اطلاعات سے برما کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار کی جو عکاسی ہوتی ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ برما میں مسلمان قوم کے وجود اور تشخص کو ختم کرنے کی ایک منظم کوشش کی جا رہی ہے اور یہ بات پورے عالم اسلام بالخصوص رابطہ عالم اسلامی، مؤتمر عالم اسلامی اور دیگر مسلم عالمی اداروں کی فوری اور مؤثر توجہ کی مستحق ہے۔رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے صرف تین کونسلروں کا برمی حکومت کو عرضداشت بھجوانا ایک مستحسن کارروائی ہونے کے باوجود ناکافی اقدام ہے اور ہم رابطہ عالم اسلامی کے راہنماؤں سے گزارش کریں گے کہ وہ اس سلسلہ میں مؤثر اور ٹھوس قدم اٹھائیں تاکہ برما کے مظلوم مسلمانوں کو وحشیانہ مظالم سے نجات دلائی جا سکے۔‘‘
عالمی مسلم اداروں کی خدمت میں یہ گزارش 1978ء کے دوران پیش کی گئی تھی مگر چار عشرے گزر جانے کے باوجود صورتحال میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ اس دوران مسلمانوں کے قتل عام اور بے دخلی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ برما کے فوجی حکمران جنرل نیون کی فوجی حکومت نے اراکان کو روہنگیا مسلمانوں سے خالی کرانے کے لیے گیارہ باقاعدہ فوجی آپریشن کیے تھے جن میں ہزاروں افراد نے جام شہادت نوش کیا تھا اور لاکھوں لوگ ہجرت کر کے بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش کی حکومت شروع سے ہی اس مسئلہ کے ساتھ منسلک ہے۔ 1978ء کے خوفناک آپریشن کے بعد برما کے فوجی حکمران جنرل نیون کے ساتھ بنگلہ دیشی حکومت نے ہی معاہدہ کر کے لاکھوں روہنگیا مہاجرین کی ان کے گھروں میں واپسی کی راہ ہموار کی تھی۔
اس پس منظر میں بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے یہ اعلان خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اراکان سے بے دخل کیے جانے والے مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دے رہی ہے اور ان کے لیے چودہ ہزار کے لگ بھگ پناہ گاہیں بنائی جا رہی ہیں لیکن اس کے نزدیک یہ اس مسئلہ کا صرف عارضی حل ہے جو انسانی ہمدردی کے حوالہ سے ناگزیر ہے، جبکہ اصل حل یہ ہے کہ اراکان سے مسلمانوں کی جبری بے دخلی کو رکوانے اور اب تک بے دخل کیے جانے والوں کو ان کے گھروں میں دوبارہ آباد کرانے کے لیے میانمار کی حکومت پر دباؤ ڈالا جائے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے گزشتہ دنوں روہنگیا پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کا دورہ کر کے امدادی سامان تقسیم کیا اور اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اپنی پالیسی ان الفاظ میں بیان کی:
’’وزیراعظم حسینہ واجد نے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر میانمار (برما) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار بنگلہ دیش آنے والے اور یہاں پہلے سے موجود روہنگیا مسلمانوں کو واپس لے۔ ہم ان کی بحالی میں تعاون کریں گے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ میانمار کے حکمرانوں نے ایک مخصوص کمیونٹی پر اتنے مظالم کیوں ڈھائے ہیں جبکہ ان کا ملک مختلف کمیونیٹیز کے افراد پر مشتمل ہے۔ بنگلہ دیش طویل عرصہ سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کر رہا ہے لیکن پھر بھی روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش روانہ کیا جا رہا ہے۔ خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے ،رکھائن (اراکان) علاقے کے گھروں کو آگ لگائی جا رہی ہے۔ حسینہ واجد نے اس موقع پر بتایا کہ بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ نے قرارداد منظور کی ہے کہ میانمار کی حکومت کو اپنے تمام شہریوں کو اپنے ملک واپس لے جانا چاہیے جس کے لیے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے بھی میانمار حکومت پر ضابطے کے مطابق کاروائی کرنے اور انہیں واپس لینے پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور ہم بھی میانمار حکومت کے ساتھ اس کام میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جب تک وہ انہیں واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہمیں انہیں پناہ دینی ہے تاکہ وہ خوراک اور ادویات حاصل کر سکیں۔ وہ انسان ہیں، ہم انہیں واپس نہیں دھکیل سکتے، ہم ایسا نہیں کر سکتے ہم بھی انسان ہیں۔‘‘
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے صورتحال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا ہے جس پر عالمی راہنماؤں بالخصوص مسلم حکومتوں کو سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔ مظلوم او ربے بس مسلمانوں کو سنبھالنا اور انہیں امداد و تعاون فراہم کرنا دنیا بھر کے مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور ہمارے دینی فرائض میں شامل ہے۔ لیکن اراکان سے روہنگیا مسلمانوں کی جبری بے دخلی کو مسلسل قبول کرتے چلے جانا درست نہیں ہے اس لیے کہ برما کی حکومت اور دہشت گرد گروپوں کا اصل مقصد یہی نظر آتا ہے کہ وقتاً فوقتاً اس طرح کی کاروائیاں کر کے اراکان سے مسلمانوں کو وہاں سے کلی?ً بے دخل کر دیا جائے اور علاقہ خالی کروا لیا جائے۔ اس لیے ہمارے خیال میں بنگلہ دیش کے موقف پر سب کو توجہ دینی چاہیے اور بالخصوص عالمی مسلم اداروں اور حکومتوں کو اس سلسلہ میں بنگلہ دیش حکومت سے مکمل تعاون کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ رکوانے اور انہیں اپنے وطن میں دوبارہ آباد کرانے کے لیے منظم اور ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اگر مسلم سربراہ کانفرنس اس حوالہ سے کوئی قابل عمل پروگرام اور روڈ میپ طے کرنے کا اہتمام کر سکے تو ہمارے خیال میں برمی حکومت کے لیے اسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔

اسلامی ریاست کا خواب: کچھ جدید مباحث

عاصم بخشی

(طلال اسد کے اپنے والد کے ساتھ مکالمے کی روشنی میں)

میدانِ صحافت میں روایتی مذہب پسند دوستوں کی رائج تعریفات کے مطابق دایاں بازو مملکت خداداد کو ایک اسلامی فلاحی ریاست دیکھنا چاہتا ہے جبکہ بایاں بازو سیکولرازم کا پرچارک ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر یہاں ایک طرف سے اسلامی فلاحی ریاست کی تعریف پر سوال اٹھتے ہیں تو دوسری طرف سیکولرازم کی تعریف و تعبیر اور اطلاق پر سوالات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں جو حضرات کسی بھی نظریاتی گروہ کو ایک ٹھوس اکائی ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہیں درمیان میں ڈولتے رہنے کا نظریہ اپناتے ہوئے کچھ بنیادی اصولوں پر سمجھوتے کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں، وہ اس میدانِ جنگ میں منمنانے کے سوا کر ہی کیا سکتے ہیں۔ ان منمنانے والی آوازوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مذہب کو بھی اپنی زندگی میں اہم اور دلچسپ حقیقت مانتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل بھی چاہتے ہیں جہاں مذہب کو اہمیت نہ دینے یا اپنی ذات تک محدود کرنے کا اصول اپنانے والا فرد بھی مساوی حقوق کے ساتھ ایک بامقصد اور فعال زندگی گزار سکے۔ اگر ایسی آوازوں کو بائیں بازو کی جانب دھکیل کر دیکھا جائے تو وہ مساوی حقوق اور مذہب و ریاست کی علیحدگی کے دعوے میں یقیناًسیکولرازم کے ہم نوا ہیں اور اگر دائیں بازو کی جانب دھکیلا جائے تو وہ سماج میں مذہب کی تمام آفاقی جہتوں سے استفادے کے لئے راہیں ہموار کرنے کے حامی ہیں۔
ہماری رائے میں ان روایتی مذہب پسند دوستوں کے عدم تحفظات اس لئے بے بنیاد ہیں کہ اسلامی فلاحی ریاست کی طرح سیکولرازم کے حق میں کھڑی آوازیں بھی متنوع ہیں اور اس سارے تنوع کو کسی ثنائی منطق کی رو سے علیحدہ کر کے دائیں اور بائیں جانب دھکیل دینا ہمارے سماجی منظر نامے اور اس میں ہوتے مثبت مکالمے کو مصنوعی قطبین پر وضع کرنے کی فاش غلطی ہے۔سمجھ سے باہر ہے کہ پہلے سے قائم شدہ مفروضوں پر اٹل اصرار کے بعد ان کے حق میں فکری اسلحہ جمع کرنے پر صلاحیتیں ضائع کرنا کہاں کی متانت و سنجیدگی اور روشن فکری ہے۔ اس کے برعکس ہمیں تو مکالمے کو اس طرح آگے بڑھانا چاہیے کہ تمام موجود آراء میں فکری ابہام اور پیش کئے جانے والے تجزیوں کے منطقی سقم دور ہو سکیں۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں دو قطبین فرض کر کے باہمی مناظرے نہیں بلکہ مخلوط فکری رویے رکھنے والا ایک سماج فرض کر کے باہمی مکالمے کی روایت کو فروغ دینا چاہئے۔ آخر یہ فرض کرنے میں کیا مانع ہے کہ ہم اپنی اپنی سرحدی چوکیاں چھوڑ کر ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں اور مثبت مکالمے کے ذریعے اپنی تجزیوں کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں اور اپنے فکری ابہام آشکار ہو جانے کی صورت میں ایک جرات قلبی کے ساتھ اپنی آراء سے رجوع کر سکتے ہیں؟ ہم میں سے کون ہے جس نے آج تک اپنی کسی رائے پر نظر ثانی نہیں کی؟ کون اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتا؟ مثال کے طور پر اگر تصوراتی بائیں بازو کے دوست قراردادِ مقاصد کو مساوی شہری حقوق کی راہ میں ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں تو اسلامی فلاحی ریاست کے دعویدار کیا کسی ایسی مذہبی تعبیر کی جانب پیش قدمی کر سکتے ہیں جہاں ایک عیسائی یا ہندو کو اپنے مذہبی عقائد کی ترویج و تبلیغ کی اجازت ہو، مذہبِ اسلام کے علاوہ باقی تمام مذاہب کی بنیادی اہمیت پر اتفاق کرتے ہوئے جامعات میں بین المذاہب مکالمے کی بنیاد ڈالی جا سکے، یا مختلف فرقوں کی باہمی تکرار سے بالاتر ہو کر کسی کاسموپولیٹن مدرسے کی جانب پیش قدمی کی جا سکے؟ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر کیا مان لیا جائے کہ ہمارے دوستوں کے ذہن میں موجود اسلامی ریاست کے خدوخال ایک ایسی ریاست کے ہیں جو شہریوں میں ان کے مذہب کی بنیاد پر فرق کرنے کی قائل ہے اور ریاست میں موجود دوسرے مذہب اور اقلیتی فرقوں کو کسی ایسے مغربی ملک میں ہجرت کی کوشش جاری رکھنی چاہئے جہاں وہ نفسیاتی طور پر کوئی جبر محسوس نہ کریں؟
دائیں اور بائیں بازو کی تاریخی تعبیرات خواہ کچھ بھی ہوں، سرسری مطالعہ بھی یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت اسلامی فلاحی ریاست کے وکلاء کے ذہن میں یہ تمام سوالات مختلف شکلوں میں موجود تھے جن کے جوابات تاحال تشنہ ہیں۔ دائیں بازو کے لکھاریوں کو محمد اسد کی فکر سے رجوع کرنے کا مشورہ اس تناظر میں دیا جاتا ہے کہ وہ ان کی فکر میں سے کسی مناظرے کی تیاری کی طرح دلائل تلاش کریں۔ ہم ان لکھاریوں کا کام آسان کرنے کے لئے وہ سارے دلائل اس مشورے کے ساتھ پیش کئے دیتے ہیں کہ وہ اپنے تناظر کو کسی فکری جنگ جیتنے کے مقصد تک محدود کرنے کی بجائے محمد اسد کی فکر کا مطالعہ کھلے ذہن سے کریں، ضرورت پڑے تو ان سے اختلاف بھی کریں اور نئے مباحث کی روشنی میں اسی فکری روایت کا ارتقاء کریں جس کے امین محمد اسد اور علامہ اقبال جیسے مفکرین تھے۔محمد اسد کی کل فکر عقل، اسلامی روایت یعنی نقل اور انسانی ارادے کو ایک باہم اکائی میں پرونے کی جدوجہد سے عبارت تھی۔ وہ کوئی سیاست دان یا فلسفی نہیں بلکہ مذہبی مفکر تھے اور مذہب کے بارے میں ان کا بنیادی مفروضہ یہی تھا کہ الہامی روایت انسانی عقل کو اپنا مخاطب کرتی ہے اور محض کچھ مابعدالطبیعیاتی دعووں پر اصرار کی بجائے ایسے سوالات اٹھا دیتی ہے کہ انسانی وجدان انہیں اہم مانتے ہوئے جواب کی تلاش میں نہ صرف خود اسی روایت بلکہ نفس انسانی اور کائنات میں موجود مختلف حقائق کی جانب رجوع کرتا ہے۔ 
سیاست کے باب میں ان کے کتابچے ’’اسلامی مملکت و حکومت کے بنیادی اصول‘‘ میں عقل، نقل اور ارادے کی اس طلسماتی اکائی کی تلاش واضح ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اپنے کتابچے کی ابتداء ہی میں وہ ہمیں سیکولرازم کی ایک تعریف فراہم کرنے کے بعد اس سوال سے بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ آخر ایک سیکولر ریاست کیوں نہیں؟ ان کے نزدیک دورِ حاضر کی سیکولر ریاست میں ’’کوئی ایسا مستقل معیار موجود نہیں جس کی بناء پر حق و باطل اور نیک و بد کے درمیان فیصلہ کیا جا سکے ۔۔۔ معاصر مغربی سیاسی نظاموں جیسے اقتصادی آزادی، اشتمالیت (کمیونزم)، قومی اشتراکیت (نیشنل سوشلزم)، عمرانی جمہوریت وغیرہ میں کوئی بھی اس کشیدگی اور ابتری کو کسی ایسی چیز میں نہیں بدل سکا جو نظم سے مشابہ ہو۔ وجہ صرف یہ ہے کہ کسی نے بھی سیاسی اور عمرانی مسائل پر مستقل اخلاقی اصول کی روشنی میں غور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس ان میں سے ہر نظام میں نیکی اور بدی کے تصور کی بنیاد اس طبقے یا اس طبقے، اس گروہ یا قوم کے مفروضہ مفاد پر ہے۔‘‘ (ترجمہ: مولانا غلام رسول مہر)
یاد رکھنا چاہئے کہ صرف یہی وہ واحد مفروضہ نہیں جس پر محمد اسد کا پورا اسلامی ریاستی ڈھانچہ کھڑا ہے بلکہ یہ ذکر کرنے کے بعد کہ کوئی مستقل اخلاقی اصول نہ ہونے کے باعث اخلاقی ضوابط کی قطعیت متاثر ہوتی ہے، وہ ہمیں اپنے دوسرے اہم ترین مفروضے سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ مفروضہ اصولِ راحت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’کوئی قوم یا جماعت اس وقت تک راحت سے ہمکنار نہیں ہو سکتی جب تک اس میں حقیقی اتحاد موجود نہ ہو۔ کوئی قوم اس وقت تک متحد نہیں ہو سکتی جب تک نیک و بد کے متعلق اس کے اندر وسیع ہم آہنگی پیدا نہ ہو جائے۔ اس قسم کی ہم آہنگی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ قوم یا جماعت کسی دائمی اور مستقل اخلاقی قانون سے پیدا ہونے والے اخلاقی ضابطے پر متفق نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ صرف مذہب اس قسم کا قانون فراہم کر سکتا ہے اور یہی قانون کسی گروہ کے اندر اس اخلاقی ضابطے پر اتفاق کی بنیاد بن سکتا ہے جو گروہ کے تمام افراد پر واجب و لازم ہو۔ ‘‘(ترجمہ: مولانا غلام رسول مہر)
یہ ہیں اس فکری اسلحے کے وہ دو اہم ستون جس کی طرف ہمارے کچھ صحافی دوست اپنے دائیں بازو کی لکھاریوں کی توجہ مبذول کروا رہے ہیں۔ ہماری گزارش صرف اتنی ہے کہ اگر آپ واقعی کسی اسلامی فلاحی ریاست میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اگلے دو تین سو سال تک مملکت خداداد پاکستان کے کسی قدیم آئینی مخطوطے پر قراردادِ مقاصد کی خشک سیاہی کو تبرک کے طور پر محفوظ رکھنا ہی آپ کا ہدف نہیں تو پھر بحیثیت مذہب پسند مفکرین آپ کے وقت کا بہتر مصرف اپنے تصوراتی فریق سے مجادلہ و مناظرہ کی تیاری کی بجائے جدید مباحث کی روشنی میں رائج مذہبی تعبیرات پر تنقید و تجزیہ ہونا چاہئے۔ محمد اسد ہوں یا اقبال، اپنے تئیں صرف کچھ ایسے اشارے فراہم کر گئے ہیں جو جدید مسلم سماج ا ور ریاست کی تشکیل میں ایک فکری پڑاؤ کا سا درجہ رکھتے ہیں کیوں کہ سماجی تشکیل کے سفر میں کبھی کوئی حتمی منزل نہیں آتی۔ نت نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ان کے حل کے لئے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کئے بغیرفکری ارتقا بھی جاری رہتا ہے۔پھر اگر آپ دائیں بازو کے مجاہد ہیں اور آپ کی نگاہ میں آج کے دور میں محمد اسد کی فکری میراث کی اہمیت برقرار ہے تو کیوں نہ لگے ہاتھوں ان کے روشن فکر پسر طلال اسد کے کام پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے؟ 
یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ طلال اسد جدید لبرل نیشن اسٹیٹ اور سیکولرازم کے صف اول کے نقاد ہیں اور سیکولر ثقافت اور بشریات کے علوم میں ان کا تنقیدی کام چارلس ٹیلر کی طرح ایک ناگزیر حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم یہاں ان کے اپنے والد پر ایک طویل مضمون کے نصف آخر کا ترجمہ پیش کر تے ہیں تاکہ محمد اسد اور طلال اسد کے مابین اس مکالمے کے ذریعے اہم اسلامی ریاست کے اس خواب کو کل اور آج کے تنقیدی مباحث کی روشنی میں تجزیاتی عمل سے گزار سکیں۔ مضمون کے پہلے حصے میں انہوں نے اپنے والد کی حیات و فکر کا ایک مختصر احاطہ کیا ہے۔اقتباس طویل ہے اور محمد اسد کی فکر کی جانب تمام اشارے ذرا سی تگ و دو سے محولہ بالا کتابچے میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔ ہماری رائے میں یہ صرف بنیادی مباحث کا ایک خاکہ ہے جس کو پیش کئے جانے کے اور اس کی ناگزیر تفہیم کے بعد ہی تجزیہ و تنقید کا عمل مزید آگے بڑھ سکتا ہے۔ 
طلال اسد لکھتے ہیں:
’’میرے والد کے لئے قانون اور اخلاقی ڈھانچے میں رتی برابر فرق نہیں، خاص طور پر مسلمانوں کے لئے جنہیں ارادہ خداوندی کے سامنے سر جھکا دینے کا حکم ہے۔ میرے والد کا ماننا تھا کہ مذہبی بنیادوں پر ایک ریاست کی تشکیل ضروری ہے کیوں کہ صرف ایک ریاست ہی قانونِ خداوندی کو وہ طاقت دے سکتی ہے جو اسے واقعتا ایک قانون بنائے اور قانونِ خداوندی ہی تمام مستند اخلاقیات اور مسرتوں کا منبع ہے۔ لیکن یہاں میں ذرا ٹھٹک کر ان سے یہ سوال پوچھتا ہوں: کیا غیرمسلموں کے لئے کسی اسلامی ریاست میں اخلاقی طور پر رہنا ممکن ہے؟ اگر ان کو ریاستی قانون کی اخلاقی طاقت کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور نہ کیا جائے تو ان پر اعتبار کر نے کی کیا حدود ہیں؟ 
اسلامی ریاست کے کئی طرفداروں کی طرح میرے والد کا بھی ماننا تھا کہ غیر مسلموں کی مکمل حفاظت ممکن بنانا تو ریاست کی ذمہ داری ہو گی، لیکن وہ اسلامی ریاست کے اہم عہدوں پر فائز نہیں کئے جا سکیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ کوئی ناانصافی نہیں بلکہ اس کے برعکس اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ غیرمسلموں کو کسی ایسی ریاست کے ساتھ ’کامل وفاداری‘ (ان کے اپنے الفاظ) کے عہد میں باندھنا ناانصافی تصور کیا جاناچاہئے جس کا نظریہ ان کے نظریے سے مختلف ہو۔ بالفاظِ دیگر ریاست اہم عہدوں پر فائز افراد سے کامل وفاداری کا مطالبہ کرتی ہے اور پھر ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ قومی قانون کے دائرہ کار میں ریاست کے باقی تمام شہریوں کو لائیں گے۔ چونکہ کسی اسلامی ریاست میں غیر مسلم یہ دہرا فریضہ سرانجام نہیں دے سکتے، لہٰذا اس حقیقت کا اقرار کرنا لازم ہے۔ اس سے زیادہ معقول بات او ر کیا ہو سکتی ہے؟ 
میں اپنا تبصرہ یوں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے شہریوں سے حتمی وفاداری اور اتحاد کا یہ ریاستی مطالبہ کلی طور پر جدید ہے۔ تمام شہریوں کا سیاسی اتحاد اور ریاست سے غیرمشروط وفاداری کا مطالبہ ’نیشن اسٹیٹ‘ کے وہ اصول ہیں جو اپنے دشمنوں سے دفاع کی خاطر وضع کئے گئے ہیں، چاہے وہ دوسری دشمن ریاستیں ہوں یا اپنے ہاں کے غدار۔ یہ وہ اصول ہیں جو ماقبل جدید دور کی ریاستیں نہ تو طلب کر سکتی تھیں اور نہ ہی طلب کرنا چاہتی تھیں۔ ماقبل جدید دور کی شاہی ریاستوں کے لئے عام شہریوں کی بجائے شرفاء، جرنیلوں اور گورنروں کی وفاداری اہم تھی۔ چونکہ جدید ریاست کی اساسی علت اندرونی و بیرونی دشمنوں کا خوف ہے، لہٰذا وہ اتحاد کے مطالبے کے لئے طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ جہاں کوئی بھی فرد یا شہری وفاداری کے اس معیار پر پورا نہیں اترتا، ریاست اس فرد کے شکوک و شبہات اور اختلافات سے قطع نظر اسے بزورِ طاقت وفاداری پر مجبور کرتی ہے۔ اس حالت میں دوسرے سیاسی سماج اس کے واقعی یا امکانی دشمن بن جاتے ہیں اور کوئی بھی ایسی ریاست جس کی بقا بالاترین اہمیت کی حامل ہو،اپنے دفاع کے لئے ہر ممکن اقدام کر گزرے گی۔
اب جدید ریاست کی ہر جہت بھی اتنی شاندار نہیں۔
جدید لبرل ریاست ایک ایسا ڈھانچہ ہے جو ایک ہی وقت میں بہت سے مشترکہ مفادات کا حصول بھی ممکن بناتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہر ممکن ظلم و جبر کا منبع بھی ہے۔ حاکم اور محکوم ریاست سے علیحدہ کھڑے نظر آتے ہیں، وہ آتے جاتے رہتے ہیں لیکن ریاست لافانی رہتی ہے۔ حکومتی ڈھانچہ ریاست کے اتحاد کی دیکھ بھال کرتا ہے اور ان شہریوں کی نمائندگی کرتا ہے جن کی وہ ریاست ہوتی ہے۔ شہریوں کو مخاطب کرتے وقت ریاست انہیں قائل کرنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ قوانین کے ذریعے ’قومی مفاد‘ کو لاگو کرتی ہے اور ان تمام وسائل کی مالک ہوتی ہے جو نافرمانوں کی سرکوبی کرنے کے لئے درکار ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس قانون کی تقریباً لاانتہا تعبیرات کی جا سکتی ہیں لیکن لاگو کی جانے والی تعبیر ریاست کے عدالتی بازو کے حکم کے مطابق ہوتی ہے۔ یہاں کسی مخصوص تعبیر کا بطور قانون نفاذ ہی تشدد کی کسی بھی شکل کو جواز بخشتا ہے۔ ریاست کا تشدد پر اختیار اور نظم و ضبط قائم رکھنے والا مرکزی انتظامی ڈھانچہ اسے وہ طاقت مہیا کرتے ہیں جو کوئی شہری کسی بھی طور مجتمع کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔یہ سچ ہے کہ لبرل سیکولر ریاست اختلافِ رائے اور مشترکہ رائے عامہ کی ہمواری کا حق دیتی ہے، لیکن کوئی بھی ریاست (اپنے حکومتی ڈھانچے ) کے ذریعے اضطراب انگیز توہین کی اجازت نہیں دیتی کیوں کہ یہ اس کے مقدس وجود کے لئے ایک خطرہ ہوتا ہے۔
یہ بالکل حیران کن نہیں کہ کچھ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست سے کامل وفاداری (اور جدید ریاست کامل غیر مشروط وفاداری کا مطالبہ کرتی ہے) اس حتمی وفاداری سے باہم متناقض ہے جو وہ صرف اور صرف خدا کو دینے کے مجاز ہیں۔ بہت سے دوسرے مسلمانوں کی طرح میرے والد بھی خدا کو اس کی مخلوق میں تلاش کرنے کو شرک سمجھتے تھے۔ اور جدید ریاست تو اس کی مخلوق کی تخلیق ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی مخلوق کی تخلیق سے حتمی وفاداری خود خدا سے وفاداری سے مقدم ٹھہرے؟ لہٰذا مجھ پر کبھی پوری طرح واضح نہیں ہو سکا کہ میرے والد نے کیسے اسلامی ریاست کو حتمی وفاداری طلب کرنے کا حق دیا، خاص طور پر اس وقت جب کلمہ شہادت، خدا اور اس کے رسول سے حتمی وفاداری کے علاوہ ارضی حکمرانوں اور ارضی تنظیموں کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ 
کارل شمٹ کے ’مقتدر اعلیٰ‘ کے مشہور نظریے کے برعکس جو ایک سیاسی الٰہیات کی تشکیل کرتا ہے، سلف صالحین کی روایت میں تو ریاست کو کسی سیکولر الٰہیاتی تصور کے ذریعے جواز مہیا نہیں کیا جا سکتا۔یہ وہی علت قیاس ہے جو شمٹ کے مقتدر حکمران کے قانون میں استثناء متعین کرنے اور خدا کے قوانینِ فطرت میں دخل انداز ہو کر معجزے برپا کر دینے کی قابلیت کے درمیان ہے۔ اس اسلامی روایت میں خدا کو ایک آسمانی بطریق (جیسے جدید یوروپی روایت کے دورِ اول میں بادشاہوں کو ظلِ الٰہی کا حق دیا جاتا) یا کسی آسمانی عہد کے خالق (جیسے جدید سیاسی فکری تشکیل کے اوائل میں سماجی معاہدہ تھا)کے طور پرمتصور نہیں کیا جا سکتا۔ کلاسیکی اسلامی روایت میں ’مقتدرِ اعلیٰ‘ کے سیاسی نظریے کی غیرموجودگی ہی کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ جدید ریاست اپنے شہریوں سے حتمی غیر مشروط وفاداری کا تقاضا نہیں کر سکتی۔ عصر حاضر میں اسلامی ریاست کے کئی طرفدار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ریاست خدا کے نام پر حتمی مقتدر اعلیٰ ہو سکتی ہے۔ لیکن چونکہ نص قرآنی سے ثابت ہے کہ پوری کائنات خدائی اقتدار کے تابع ہے، کوئی ریاست ایک سماجی معاہدہ ہوتے ہوئے کیوں کر یہ خاص حق رکھ سکتی ہے کہ اپنے شہریوں سے حتمی وفاداری کا تقاضا کرے؟ ظاہر ہے کہ جب کوئی ریاست ہی الٰہیاتی مقتدرِ اعلیٰ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی تو پھر کسی اسلامی ریاست کا نمائندہ کیوں کر ایسے کر سکتا ہے؟ ریاست یقیناًہماری عصر حاضر کی دنیا میں کئی ایسے افعال کے باعث ناگزیر ہو گی جو صرف وہی انجام دے سکتی ہے، اور اس حد تک بھی کہ وہ فعال اور منصفانہ طریقوں سے اپنے شہریوں کی تائید حاصل کرے بلکہ ان غیرملکیوں سے بھی جو اس کے علاقے میں رہ رہے ہو یا سفر میں ہوں۔ لیکن اسلامی روایت کی رو سے ریاست کوئی الٰہیاتی منصب نہیں اپنا سکتی کیوں کہ شمٹ کے استدلال کے برعکس، جو عیسائی تاریخ سے دلیل لاتا ہے، اسلامی ریاست خدا کے منہ سے بولنے پر اصرار نہیں کر سکتی۔ یہ مخلوق ہے، نہ کہ خالق۔
یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی ریاست کے غیرمسلم شہری اس سے حتمی طور پر وفادار نہیں ہو سکتے، جب کہ میرا استدلال ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ وفادار ہو سکتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ کسی اسلامی ریاست میں ایسی حتمی وفاداری کا تصور ہی مشکوک ہے۔ لیکن آخر اس کے علاوہ اور ایسا کیا ہے جو ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلم نہیں کر سکتے؟ میرے والد کا کہنا تھا کہ اسلامی ریاست میں تمام شہریوں بشمول غیرمسلموں کو کھلم کھلا اختلافِ رائے اور حکومت پر تنقید کا حق ہو گا۔ لیکن ایک اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری کس حد تک اس حکومت پر تنقید کر سکتے ہیں جو صحیح معنوں میں ان کی حکومت ہی نہیں؟ یہ صرف خوف کا نہیں بلکہ ان کے ریاست میں عمل دخل کا بھی معاملہ ہے۔ ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اسلامی ریاست پر فرض ہے کہ وہ اپنے غیر مسلم شہریوں کی حفاظت کرے اور انہیں رائے اور ’عقیدے‘ کی اجازت دے۔لیکن ہر شہری کو یکساں تحفظ دینے کے معنی عوامی زندگی میں یکساں طور پر کردار ادا کرنے کے نہیں ہیں۔اسی لئے جب ہم کہتے ہیں کہ بالغوں پر بچوں کی حفاظت فرض ہے تو اس کے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بچے کو بڑوں کی طرح زندگی گزارنے کا حق دے دیا گیا ہے۔ کیا اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کو بچوں جیسا تحفظ دیا جائے گا؟ یا ان کی کسی ایسی ریاست کی جانب ہجرت کے لئے حوصلہ افزائی کی جائے گی جہاں مسلمان اکثریت میں نہ ہوں؟ بات یہی ہے کہ ریاست ’ان‘ کی تو نہیں، کیوں کہ غیرمسلم شہری ہونے کے ناتے وہ حقیقت میں تو اس کی نمائندگی نہیں کر سکتے، بالکل اسی طرح جیسے اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کی نمائندگی ایک یہودی ریاست نہیں کر سکتی، چاہے وہ مسلمان ہوں یا عیسائی۔
لہٰذا میں پورے احترام کے ساتھ اس معاملے پر اپنے والد سے اختلاف کرتا ہوں اور اپنے اختلاف کے لئے اسی حدیث مبارکہ کو پیش کرتا ہوں کہ ’’میری امت میں علماء کا اختلاف رحمت ہے‘‘، کیوں کہ ہم دونوں ہی اسلامی روایت کے عالم ہیں ،گو وہ یقیناًمجھ سے علم و فضل میں کہیں آگے تھے۔
لیکن میری رائے میں اس کے باوجود میرے والد کے ایک اسلامی ریاست کے لئے استدلال میں ایک ایسا اہم پہلو تھا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا: یہ سیاسی زندگی میں مذہب اور اخلاقیات کا عمل دخل ہے۔ اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے ریاست اور سیاست میں امتیاز قائم کرنا ہو گا، جہاں اول الذکر کا تعلق طاقت کے استعمال اور وفاداری کے مطالبے (جہاں سے غداری کے خلاف قوانین کا استدلال کیا جاتا ہے) یعنی ناگزیر طور پر خوف سے ہے۔ یہ خارجی و داخلی تشدد کا خوف ہے۔ قانونی سزائیں اور جنگ مقتدر ریاست کے مرکزی افعال ہیں۔سب جانتے ہیں کہ ریاست کا یہ تصور تھامس ہوبس کا دیا ہوا ہے اور جدید ریاست کے بارے میں یوروپی روایت کا نکتہ آغاز ہے۔ دوسری طرف سیاست کے معنی مباحثے، جدوجہد اور مساوات کے حصول کے ہیں، کیوں کہ جو بھی میرے کسی دعوے سے اختلاف کرتا ہے، وہ دراصل میرے برابر ہونے کا دعویٰ ہی کرتا ہے۔ سیاست کے لئے ریاستی طاقت کے حصول کو مرکز و محور مان لینا ضروری نہیں۔ صرف اقتدارِ اعلیٰ کا تصور ہی یہ مطالبہ قائم کرتا ہے کہ سیاست کا مرکز و محور ریاست ہی ہو۔ 
کیا صرف مادی مفاد اور طاقت کا حصول ہی ارفع رہے گا یا اخلاقیات اور مذہب کو بھی عوامی زندگی میں کوئی جگہ مل سکے گی؟ یہاں تک کہ’’امربالمعروف‘‘ کا مشہور عقیدہ بھی کسی ریاست کو پیش قیاس نہیں کرتا اور ’’لااکراہ فی الدین‘‘ کا مطلب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ریاست کو مسلمانوں پر جبری عقیدے اور رسوم و قیود کے نفاذ کا حق مل گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تاریخِ اسلام میں حکمران اکثر اپنی حکومت کا یہی جواز پیش کرتے رہے ہیں کہ وہ اندر اور باہر اسلام کے دفاع کے قابل ہیں، لیکن تاریخ کی ہر چیز اس لئے تو تسلیم نہیں کر لی جاتی کہ وہ تاریخی ہوتی ہے۔ تاریخِ اسلام میں امر بالمعروف کو اکثر ریاست کی ذمہ داری مانا جانا خود بخود اس پر دلالت نہیں کرتا کہ مسلمانوں کے پکے مسلمان ہونے کے لئے آج بھی اس انتظامی معاملے کو ماننا ضروری ہے۔ اخلاقیات ریاست کا فعل بنے بغیر بھی سیاست کا حصہ رہ سکتی ہے۔
عصر حاضر کے لبرل سیاسی فلسفے میں ذاتی اور عوامی دائرے ایک دوسرے سے واضح طور پر ممیز ہیں (اس وقت بھی جب حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا)، بالکل اسی طرح جیسے قانون اور اخلاقیات میں ایک دوسرے سے فرق کیا جاتا ہے (حالانکہ اصل زندگی میں وہ ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں)۔ نتیجتاً سیاست کو اخلاقی تناظر میں ایک ایسا غیرجانبدار ضابطہ مانا جاتا ہے جو سیکولر ریاست کے ذریعے پابندیوں کے تابع کیا جاتا ہے اور مذہب کو خیال و عمل کا ایک ایسا میدان جہاں حتمی وابستگیاں اور اقدار ذاتی دائروں میں محدود ہوتی ہیں۔ اخلاقی اور مذہبی اقدار کو ان بنیادوں پر ریاستی انتظام سے باہر رکھا جاتا ہے۔ باہمی اختلافات عقلی استدلال کے ذریعے حل نہیں کیے جا سکتے اور ناقابل ضبط تشدد کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ لہٰذا لبرل تھیوری اخلاقی اور مذہبی اقدار کو ذاتی اقلیم تک محدود کر دیتی ہے جہاں باارادہ شہریوں سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق اخلاقیات پر عمل پیرا رہیں۔ لیکن میں ان نقادوں کے ساتھ ہوں جو اس مفروضے کو چیلنج کرتے ہیں کہ ایک سیکولر ریاست امن کی ضامن ہے اور سیاست میں مذہبی مداخلت جنگ اور امن عامہ کے مسائل پیدا کرتی ہے۔
میرا ان سب لوگوں سے یہ سوال ہے جو ریاست کو عوام کی اخلاقیات میں دخل اندازی کا حق دینے میں تو متامل ہیں لیکن جو پھر بھی اس لبرل اصول سے اختلاف رکھتے ہیں کہ قومی سیاست میں مذہب اور اخلاقیات کو داخل نہ کیا جائے: کیا اخلاقیات اور مذہب کو عوامی زندگی میں اس طرح داخل کیا جا سکتا ہے کہ وہ اقتدار اعلیٰ کے تحت نہ ہوں، لہٰذا نہ تو ریاست کو قابو میں کر لیں اور نہ ہی اس میں حصے دار ہوں؟ میری رائے یہی ہے کہ یہ مسئلہ بھی جزوی طور پر میرے والد کے پیش نظر تھا۔اسلامی ریاست کے متعلق ان کے خیالات کی تہہ میں اخلاقیات سے ان کی دلچسپی ہی کارفرما تھی۔ لیکن میری رائے میں وہ سیاست اور ریاست میں فرق کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر نہیں کر سکے۔
سیاست کو ’قومی مفادات‘ متعین کرنے سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اسے سماج میں ایسے فکری و عملی اقالیم کی تخلیق کو ممکن بنانا چاہیے جو مقتدر ریاست کے اختیار سے باہر ہوں اور ایسی اصولی وابستگیوں سے راہنمائی حاصل کرنی چاہئے جو ’قوم‘ کے تصور سے بالا ہوں۔ ان اقالیم میں موجود محکوم شہری نہ صرف ریاست سے فرار حاصل کر سکیں بلکہ اگر ضرورت پڑے تو مذہبی یا اخلاقی اصولوں کی روشنی میں اس کی نافرمانی اور سامنا بھی کر سکیں۔ یہ اصول ریاست کے سیاست پر اثرانداز ہونے کے اصرار کا انکار کرتا ہے۔
مذہب تاریخی اعتبار سے ہمیشہ اصولی طرزِ عمل کا ایک اہم منبع رہا ہے اور آج بھی ہے۔ لہٰذایہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے سیاسی اسلام کے امکانات ریاستی طاقت کے حصول اور ریاستی قانون کے اطلاق کی خواہشات میں نہیں بلکہ عوامی بحث وتمحیص اور تحریک و ترغیب میں ہیں، یعنی ایک ایسی جدو جہد جس کی راہنمائی وہ گہری وابستگیاں کر رہی ہوں جو نیشن اسٹیٹ کی حدود سے ماورا ہوں۔ اس تناظر میں سیاست کچھ پہلے سے متعین آراء کے مابین دنگل نہیں بلکہ ایک دریافت (دریافتِ نو) کا اقداری سلسلہ ہے۔ یہ ایک ایسی کشادگی اور خطرہ مول لینے کی تیاری کو پیش قیاس کرتی ہے جس کو جدید نیشن اسٹیٹ برداشت نہیں کر سکتی۔ میں اپنے والد کی اخلاقی بصیرت اور اس کے ریاست و سیاست سے تعلق کے بارے میں ایک ایسے بنیادی نکتے پر بات ختم کرتا ہوں جو مجھے خاص طور پر اہم محسوس ہوتا ہے۔
انہوں نے ایک سے زیادہ بار بہت جذباتی انداز میں میرے سامنے سورۃ التکاثر کی تلاوت کی: ’’الھاکم التکاثر حتی زرتم المقابر۔۔۔‘‘ وہ کہتے تھے کہ یہ آیات بے انتہا صارفیت (کنزیومرزم) اور حرص کی ملامت کرتی ہیں جس میں انسان (خاص طور پر ہمارے زمانے میں) پھنس چکا ہے۔ وہ آیات جو علم الیقین اور لترون الجحیم کی بات کرتی ہیں، ان کا مقصد ہمیں صرف آخرت کی سزا سے ڈرانا نہیں بلکہ اس جہنم سے بھی خبردار کرنا ہے جو اس دنیا میں ہے۔ میرے والد ان آیات سے یہ استدلال کرتے تھے کہ اگر ہم واضح طور پر حق کو دیکھ لیں تو ہمیں اپنی گروہی زندگی کی جہنمی جہت کا ادراک ہو جائے گا یعنی وہ نقصان جو ہم خود کو اور دوسروں کو پہنچاتے ہیں۔ یہ ان کے لئے ایک مرکزی اخلاقی نکتہ تھا اور یہ شاید ایک اسلامی سیاست کا نکتہ آغاز بھی ہے: مسلمانوں کے لئے یہ ایمان لانا ضروری ہے کہ حرص بطور ایک گروہی طرزِ حیات (یعنی زیادہ سے زیادہ کی خواہش) اور نمود ونمائش بطور ایک انفرادی طرزِ حیات (جہاں نفس انسانی اور صارفانہ انتخابات کے ڈرامائی مظاہر کو اخلاقی خودمختاری سے خلط ملط کر دیا جاتا ہے) نے مل جل کر لوگوں کو اس چیز سے دور کر دیا ہے جسے وہ ’خدا خوفی‘ یا ’تقویٰ‘ کہتے تھے، یعنی ہمارے ایک خاص طرح زندگی گزارنے کے معروضی نتائج کی آگہی (معاشروں میں بڑھتی ہوئی عسکریت، امیر اور غریب میں بڑھتے ہوئے فاصلے، ماحول کی تباہی وغیرہ)۔
تاہم یہ حقیقت ہمیشہ نظرانداز کر دی جاتی ہے کہ عصر حاضر میں ہمارے طرزِ حیات کی مرکزی شرطِ لازم ایک مخصوص قسم کی ریاست پر منحصر ہے جو نہ صرف حتمی وفاداری کا تقاضا کرتی ہے بلکہ صارفیت اور انفرادیت پسندی کو باقاعدگی سے بڑھاوا دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولر لبرل ریاست ایک ایسی متناقضہ قدر کی پشت پناہی کرتی ہے جس کے مطابق مارکیٹ کی شکل میں ’آزادی‘ اور اس کے پھیلاؤ کو ممکن بنانے والے قوانین ، ہر لمحہ زندگیوں میں دخل انداز ہوتے ان باہمی سلامتی کے قوانین سے پوری طرح مطابق رہتے ہیں۔ لہٰذا ریاست ’آزادی‘ کے تحفظ کی خاطر اس پر قدغن لگاتی ہے۔ جہاں تک ریاست کی ایک نیو لبرل معیشت (مارکیٹ کے اصولوں کا پورے سماج پر اطلاق، ملکیت کی نج کاری، مفادات کی آزادانہ تقسیم، اور ایک بڑھتی ہوئی غیرمتوازن دنیا میں منافع کی بے قابو طلب) کی پشت پناہی کا سوال ہے، اسلامی سیاست ریاست کو کسی مخصوص’’ مذہبی‘‘ نظریے سے بدلنے کی بجائے اس کی حدوں سے باہر، بلکہ اس کے مخالف فکری اقالیم میں قدم رکھنے کی جستجو کر سکتی ہے۔ عالمگیر سرمایہ دارانہ رجحانات کے نام نہاد ’مقتدر‘ ریاست کے دائرہ کار پر بہت زیادہ اثرات ہیں، چاہے ریاست اسلامی ہو یا سیکولر۔ اس حالت میں اسلامی سیاست کی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ وہ چنیدہ غیر اسلامی تحریکوں اور ایسی فکری روایات سے اتحاد قائم کرے جو ریاست کی قومی حدود کے اندر بھی ہوں اور باہر بھی۔ 
عدل و انصاف اور اخلاقی بنیادوں پر عوامی مفاد کا حصول حد سے بڑھے ہوئے ایسے مادی فوائد کے حصول سے متضاد ہے جن کی بنیاد یہ ہو کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنی ملکیت میں بڑھوتی کی جائے۔ یہ ایک ایسی پر امن سیاسی جدوجہد ہو گی جس کی بنیاد اس اصول پر ہو کہ موت کے خوف کے باوجود بھی اخلاقی اصولوں پر جمے رہنا لازم ہے۔ اس قسم کی سیاست لبرل ریاست کے سیکولر غیرجانبداری کے دعوے کو قبول نہیں کرے گی۔ اس تناظر میں سیاست لبرل جمہوری ریاست کے اقتدار اعلیٰ اور طاقت کی بجائے جمہوری اخلاقی روایت کی بنیادی قدر کے دفاع اور پھیلاؤ کی خواہش سے جنم لے گی۔
اس ’جمہوری اخلاقی روایت‘ اور ’حقیقی جمہوریت‘ میں کیا فرق ہے جس کے بارے میں آج کل بہت بات ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہاں مکمل طور پر تو نہیں دیا جا سکتا، لیکن ان کا فرق ظاہر کرنے کے لئے کچھ نکات ضرور پیش کئے جا سکتے ہیں: جب ہم جمہوری اخلاقی روایت کی بات کرتے ہیں تو اکثر ہماری مراد ایک باہمی مروت اور لحاظ کی ہوتی ہے، یعنی دوسروں پر محض حکم نہ چلانا بلکہ ان کی رائے کا احترام اور جذبہ ایثار۔ جمہوری اخلاقی روایت میں فرد کو ہر لمحہ اپنی متناہیت، زدپذیری اور بکھر جانے کا احساس ہوتا ہے۔ دوسروں کے کرب اور بکھراؤ کا منظر دردمندی کو دعوت دیتا ہے۔ یہاں اپنا کرب صرف مشکل میں ہونے کی علامت نہیں بلکہ درد و کرب کو عظمت بخشے بغیر ایک مثبت زندگی کی علامت بھی ہے۔ دوسری طرف جب ہم لبرل جمہوری ریاست کو دیکھتے ہیں تو اس کی شکل میں ہمیں حقوق کا ایک ایسا محافظ نظر آتا ہے جس کی توجہ کا مرکز گروہی شناخت ہے۔ یہاں ہمیں ایک ٹھوس اکائی، تمام شہریوں کے قانونی تحفظ اور ریاست کے بنیادی طور پر اصولِ تحفظ کے گرد گردش کرنے کا ادراک ہوتا ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ریاست حاکموں اور محکوموں سے الگ کھڑا ایک ڈھانچہ ہے جو قومی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دے سکتی ہے اور اپنے قومی مفادات کے دفاع میں جنگ چھیڑ سکتی ہے۔ ایک عوام کی نمائندہ جمہوریت میں فرد، فطرت اور دوسرے افراد کے تشدد سے محفوظ رکھے جانے کی ایک شے ہے اور مقتدر اعلیٰ کا تشدد پر کلی اختیار مقاصد کی رسائی کا ایک طریقہ کار۔ نیشن اسٹیٹ تمام شہریوں کے خوف سے نمٹنے کے لئے انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ’ریاست کے ارفع مقصد‘ کی خاطر قربانی کے ذریعے ایک قسم کی لافانیت بھی عطا کر تی ہے۔ یہاں فرد کی ذات کی قربانی ریاست کا وہ مطالبہ ہے جو وہ کسی فرد کے دوسروں کے لئے اخلاقی جذبہ ایثار کے اصول کے تحت نہیں بلکہ تمام شہریوں کی بالادست نمائندگی کے ذریعے کرتی ہے۔ میں دہراتا ہوں: یقیناًیہ جدید نیشن اسٹیٹ کا واحد فعل نہیں، ظاہر ہے کہ وہ امن عامہ اور قوانین کا نفاذ اور فلاح و بہبود (اکثر آخرالذکر کی نسبت اول الذکر زیادہ ہوتا ہے)بھی کرتی ہے، لیکن صرف ایک غیرمسلح جدوجہد ہی بطور ایک مذہبی و اخلاقی فعل (جہاد) کے، درست طور پر مشترکہ مفادات کے تحفظ کا بار اٹھا سکتی ہے اور عصر حاضر کی عالمگیر تباہیوں کا مقابلہ کر سکتی ہے، ایک ایسی جدوجہد جو موت کے خوف کے بغیر کی جائے، لیکن موت کے لئے نہ ہو۔ 
اس تناظر میں سیاست کوئی ایسا سماجی ضابطہ نہیں جس کا مقصد مشہور لبرل نظریہ ساز جان رالز کے مطابق ’’انصاف بطور حسن توازن‘‘ ہو۔ میری رائے میں ایک اسلامی سیاست کے ممکنہ مقاصد اپنے ہم سخنوں کو یہ دعوت دینے پر منحصر ہیں کہ وہ اپنی انفرادی اور گروہی زندگی کو بہتر اخلاقی سمت میں لے کر جائیں۔سیاسی ترغیب کا عمل اپنے سامعین میں کچھ مخصوص جذبات و احساسات کو پیش قیاس کرتا ہے اور اس شخص کے کردار کا عکس ہوتا ہے جو ترغیب و تبلیغ کی جستجو کر رہا ہے اور اس کا بھی جو واقعتا کہا، کیا اور دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ جذبات و احساسات اور کردار کی خصوصیات مل جل کر فیصلہ کریں گی کہ ایک اسلامی سیاست کے ممکنہ امتیازی اہداف کیا ہیں۔ یہ ریاستی تعریف کے تناظر کی طرح کوئی سکڑی ہوئی ’’سیاست‘‘ نہیں اور نہ ہی اس کا تعلق محض کچھ قومی پالیسیاں وضع کرنے سے ہے جو شہریوں پر بطور قوانین نافذ کر دی جائیں۔ یہ کسی رسمی لفظی بحث تک بھی محدود نہیں۔ یہ سیاست تو غیرمسلموں اور مسلمانوں سے شائستہ تعلقات اور دوستی کے رشتوں کی تشکیل سے متعلق ہے، اس میں مکالمے و مباحثے کے ساتھ سماعت اور اس کے نتیجے میں اپنی رائے کی تبدیلی کی قابلیت بھی شامل ہے۔ یہ سیاست نام کے مسلمانوں اور نام کے غیرمسلموں دونوں کو اپنا مخاطب بناتی ہے اور انہیں دعوت دیتی ہے کہ وہ ایک حالت سے دوسری کی جانب تبدیلی ممکن بنائیں۔ 
اس سیاست کے بارے میں اولین اہم مشاہدہ اس کا، کارل شمٹ کی بااثر تعریف سے فرق ہے جو ’’دوست یا دشمن‘‘ والی ثنویت کے تناظر میں کی گئی ہے اور مقتدر ریاست کے تصور کے ساتھ مضبوطی سے منسلک ہے۔ مجھے یہ واضح محسوس ہوتا ہے کہ ایک اسلامی سیاست کا تصور ہماری توجہ ایک ایسی اسلامی ریاست کے پراجیکٹ سے دوسری جانب مبذول کرا دے گا جو اپنی ماہیت میں جدید ریاست سے کسی درجے میں مختلف نہیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ یہ تناظر بھی میرے والد کی حیات و افکار میں مضمر ہے۔ اسی لئے یہ بھی ان کی علمی میراث کا ایک اہم جزو ہے۔ یقیناًیہ ’اسلام اور مغرب کے درمیان مکالمے‘ کے تصور سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس کا آج کل بہت فیشن ہے۔ اس نام نہاد ’تہذیبی مکالمے‘ کی بنیاد دو مفروضوں پر ہے: (الف) کہ مسلمان یوروپی اقوام اور شمالی امریکیوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کریں کہ اسلام تشدد کا منبع نہیں اور (ب) مغربی اقوام اسلام کی تشکیل نو میں مدد کریں۔ یہ ایک بہت منکسر تصور ہے۔ یقیناًمسلمانوں کو دوسرے معاشروں اور روایات کی جانب توجہ کرنی چاہئے اور ان سے سیکھنا چاہئے، بالکل اسی طرح جیسے ہمیں امید ہے کہ مغربی اقوام بھی اسلامی فکر اور تجربے سے کچھ سیکھیں گی (حالانکہ ان میں سے بہت سے اس کی خواہش نہیں رکھتے)۔ جہاں تک تشکیلِ نو کی بات ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی تشکیل نو کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود مذہب اسلام۔ ظاہر ہے کہ عصر حاضر میں بھی یہ سلسلہ جاری رہنا ضروری ہے۔ لیکن میرے ذہن میں اس تشکیل نو کی تاثیر جزوی طور پر عین اسی وقت مغرب میں ہونے والی تشکیل نو پر منحصر ہے۔ آخرکار ہم ایک باہم مربوط دنیا کے باسی ہیں۔‘‘ (ترجمہ : عاصم بخشی)
ہماری رائے میں طلال اسد اور ان کے والد کے درمیان یہ فکری مکالمہ کئی اعتبار سے چشم کشا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کچھ مزید ٹھوس سوالوں پر مشتمل ایک ایسا ہی فکری مکالمہ جاوید اقبال بھی اپنے والد کے ساتھ ایک خط میں کر چکے ہیں۔ پھرجہاں ایک جانب اس میں مولانا مودودی جیسوں کی’’تعبیر کی غلطی‘‘ پر مولانا وحید الدین خان کے نصف صدی قبل اٹھائے گئے اعتراضات کی خالص مذہبی بنیادوں پر بازگشت سنائی دیتی ہے، وہیں ریاست و سیاست کے مغربی فلسفوں میں ایک ناگزیر ارتقاء کی روایت کے بارے میں بھی معلوم ہوتا ہے۔ مغرب میں یہ وقت ایک سیکولر بشریات ( Secular Anthropology) کی فکری تشکیل کے اولین ادوار کے بعد اب ایک اسلامی بشریات (Islamic Anthropology ) کی تشکیل کا دور ہے، جہاں پسِ استعمار اٹھنے والے مباحث و نظریات کی روشنی میں نئے سوالات مرتب کئے جا رہے ہیں۔ اس زمانے میں ہمارے ہاں مباحثے کے غالب موضوعات اس قسم کے ہیں کہ کیا لبرل ازم کے معنی ’فحاشی و عریانی‘ اور مادر پدر آزادی کے ہیں اور کیا سیکولرازم کی بات کرنا سماج میں لادینیت کو فروغ دینے کے مترادف ہے؟ہمارے فکری بانجھ پن کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ ہمیں اب تک سماجی مباحثے کے درست موضوع کے انتخاب کا مسئلہ درپیش ہے۔ 
ایسے میں اگرمذہب پسندوں کے ایک مخصوص طبقے کی تعریفوں کے مطابق بایاں بازو سیکولرازم کو بطور نظریہ اپنانے کی بات کرتا ہے تو شاید اس کے بنیادی معنی صرف جدید ریاست کی ایک مخصوص مغربی تعریف یعنی’’ لبرل جمہوریت‘‘ کو فرض کرتے ہوئے مساوی شہری حقوق اور ریاست کے کسی خدائی تعبیر کو اپنا کندھا فراہم نہ کرنے کا مطالبے سے زیادہ کچھ نہیں۔ جواب میں دائیں بازو کے دوستوں کے پاس مودودی صاحب وغیرہ جیسے بزرگوں کے اقتباسات کے علاوہ کچھ نہیں جو ان میں سے کچھ کے بقول دندان شکن استدلال کی معراج ہیں۔ مکالمے کا یہ اسلوب اگر نہایت مضحکہ خیز نہیں تو حیرت انگیز ضرور ہے جس پر کسی فکری دنگل کا سا گمان ہوتا ہے۔دائیں بازو کے کچھ دوست ایسے ہیں جو ہمارے سماج میں لبرل ازم اور سیکولرازم کی وکالت کو کسی ایسی قیامت کے برابر تصور کرتے ہیں جس کے بعد روئے زمین پر کوئی خدا کا نام لیوا نہ بچے گا اورگھر گھر اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے گا۔ نتیجتاً ایک فکری جنگ کا سا ماحول پیدا ہوتا ہے جہاں ایک فریق فوراً خدا کا نام لیوا بن جاتا ہے اور دوسرے کو مذہب و اخلاقیات کے اصولوں سے منحرف گردانتا ہے۔
ایک ہی سماج میں اس قسم کی فکری جنگ و مناظرے سے کسی خیر کے برآمد ہونے کی رتی برابر امید نہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سماج کو دوخانوں میں بانٹ کر فکری اسلحہ جمع کرنے اور اپنے فکری مخالفین کو دندان شکن جواب دینے کی بجائے، کچھ مشکل سوالوں پر سمجھوتہ کیا جائے ۔اگر ہمارے دائیں بازو کے دوست واقعی کسی ایسی فلاحی مملکت کی تشکیل میں دلچسپی رکھتے ہیں جس میں مذہب سے حاصل کئے گئے مستقل اخلاقی اصولوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہو تو پھر انہیں کم از کم اس اصرار سے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا کہ تمام مشکل سوالوں کے جواب ان کے پاس پہلے سے ہی موجود ہیں اور مسئلہ صرف گزرے ہوؤں کی کتابوں سے دلائل کی تلاش ہے۔ 

نومبر ۲۰۱۷ء

اہل کتاب سے متعلق اسلام کا زاویہ نظرمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۶)ڈاکٹر محی الدین غازی
دور جدید کا حدیثی ذخیرہ ۔ ایک تعارفی جائزہ (۴)مولانا سمیع اللہ سعدی
فقاہت راوی کی شرط اور احناف کا موقف (۲)مولانا عبید اختر رحمانی
دینی مدارس، دہشت گردی اور عالمی پالیسی ساز طاقتیںڈاکٹر ابراہیم موسٰی
جنرل باجوہ اور بلوچستانمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس کو درپیش آزمائشمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پاکستان پیپلز پارٹی کا تحفظ ختم نبوت سیمینارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اہل کتاب سے متعلق اسلام کا زاویہ نظر

محمد عمار خان ناصر

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ کو دنیا کی اقوام تک اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت اور اس کا پیغام پہنچانے کا جو منصب اور ذمہ داری سونپی گئی ہے، وہ دراصل اسی ذمہ داری کا ایک تسلسل ہے جو اس سے پہلے یہود یوں اور مسیحیوں کو دی گئی تھی، لیکن یہ دونوں گروہ رفتہ رفتہ راہ راست سے ہٹ گئے اور دین کی اصل اور حقیقی تعلیمات ان کے ہاتھوں بگاڑ کا شکار ہو گئیں۔
مذکورہ دونوں گروہوں سے متعلق قرآن مجید نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے، اس کے مختلف پہلو ہیں اور ان کو سامنے رکھا جائے تو مذہبی اختلافات کے حوالے سے توازن اور اعتدال کا ایک حسین نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے جس کی ہمارے دین نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ 
ان سطور میں ہم قرآن وسنت کی روشنی میں اس بات پر غور کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو اپنے پیش رو ان دونوں گروہوں کے متعلق کیا ہدایات دی ہیں اور ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ 

انبیاء اور صحف سماوی کی طرف نسبت 

سب سے پہلی بات تو ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ قرآن نے ان گروہوں کے ’’اہل الکتاب‘‘ کی تعبیر اختیار کی ہے جس کا مطلب ہے اللہ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان رکھنے والے لوگ۔ یہ بڑی اہم اور قابل غور بات ہے، کیونکہ قرآن مجید نے ان دونوں گروہوں پر جو بنیادی تنقید کی ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کر دیا ہے اور گمراہی اور انحراف کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود جب قرآن ان کے لیے ’’اہل الکتاب‘‘ کی تعبیر استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بگاڑ اور انحراف کے باوجود آسمانی کتابوں کی طرف ان کی اس نسبت کو اصولی طور پر تسلیم کرتا ہے۔
ان گروہوں کے لیے قرآن نے جو بعض دوسری تعبیریں استعمال کی ہیں، ان سے بھی یہی پہلو سامنے آتا ہے۔ مثال کے طو رپر سورۃ الحدید کی آیت ۲۷ میں نصاریٰ کا ذکر ’’الذین اتبعوہ‘‘ (جنھوں نے مسیح کی پیروی اختیار کی) کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورۂ آل عمران میں حضرت مسیح سے رفع آسمانی کے وقت ان سے جو وعدے کیے گئے، ان میں سے ایک وعدے کا ذکر ان الفاظ سے کیا گیا ہے کہ ’’میں تمھارے پیروکاروں (یعنی نصاریٰ) کو قیامت تک منکروں (یعنی یہود) پر غالب رکھوں گا۔‘‘ (آیت ۵۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مسیح علیہ السلام کی تعلیم سے انحراف کی نشان دہی کرتے ہوئے بھی نصاریٰ کی اس نسبت کو اصولاً قبول کرتا ہے کہ وہ مسیح علیہ السلام کے پیروکار ہیں۔ 
قرآن مجید کے بیان کے مطابق قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ مسیحیوں کے اس عقیدے کی بابت اپنے پیغمبر حضرت مسیح علیہ السلام سے بازپرس فرمائیں گے تو حضرت مسیح اس مشرکانہ عقیدے سے تو صاف صاف براء ت کا اعلان کریں گے، لیکن اپنی پیروی کا دعویٰ کرنے والی امت سے لاتعلقی ظاہر نہیں کریں گے، بلکہ بڑے ہی لطیف انداز میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی امت کی مغفرت کی درخواست پیش کریں گے۔ سورۂ مائدہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا مسیح کی درخواست یوں نقل فرمائی ہے:
مَا قُلْتُ لَھُمْ إِلاَّ مَا أَمَرْتَنِیْ بِہِ أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ، وَکُنتُ عَلَیْْھمْ شَھیْداً مَّا دُمْتُ فِیْھمْ، فَلَمَّا تَوَفَّیْْتَنِیْ کُنتَ أَنتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْْھِمْ، وَأَنتَ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ شَھِیْدٌ، إِن تُعَذِّبْھُمْ فَإِنَّھُمْ عِبَادُکَ، وَإِن تَغْفِرْ لَھُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (آیت ۱۱۶، ۱۱۷)
’’میں نے تو ان سے وہی بات کہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی۔ اور جب تک میں ان میں رہا، ان پر نگران رہا، لیکن جب تو نے مجھے اپنے پاس بلا لیا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا اور تو تو ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ اگر تو انھیں عذاب دے تو (تیرا اختیار ہے)، یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انھیں معاف کر دے تو (کون تجھے پوچھنے والا ہے)، بے شک تو تو غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘ 

مشرکین اور اہل کتاب میں فرق 

قرآن مجید نے اہل کتاب میں سے نصاریٰ کے اس عقیدے کی پرزور تردید فرمائی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام معاذ اللہ الوہیت میں شریک تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُو إِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ، وَقَالَ الْمَسِیْحُ یَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ، إِنَّہُ مَن یُشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ، وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنصَارٍ (المائدہ، آیت ۷۲)
’’یقیناًکفر کیا ان لوگوں نے جنھوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے، حالانکہ مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل، اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی۔ بے شک جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اس پر اللہ نے جنت کو حرام قرار دیا ہے اور ظالموں کو (قیامت کے روز) کوئی مددگار نہیں ہوں گے۔‘‘ 
حقیقت کے لحاظ سے نصاریٰ کا یہ عقیدہ شرک ہی ہے، لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہی دوسری جگہ عقیدۂ توحید کو مسلمانوں اور اہل کتاب کے مابین ایک متفقہ اور مشترکہ اساس بھی قرار دیا ہے۔ چنانچہ سورۂ آل عمران میں فرمایا:
قُلْ یَا أَھْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاءٍ بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّٰہِ، فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْھَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (سورۂ آل عمران، آیت ۶۴)
’’کہہ دو کہ اے اہل کتاب، آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے مابین مشترک ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کچھ لوگ اللہ کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں کو رب نہ بنا لیں۔ پھر اگر یہ پھر جائیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو اللہ کے فرماں بردار ہیں۔‘‘ 
غور کیا جائے تو قرآن مجید کا یہ اسلوب دو بڑے اہم نکات کی طرف ہماری راہ نمائی کرتا ہے:
اس سے ایک بات تو یہ واضح ہوتی ہے کہ اگرچہ اہل کتاب، خاص طور پر نصاریٰ مشرکانہ عقائد اختیار کیے ہوئے تھے، لیکن چونکہ وہ اصولاً توحید کے قائل اور علم بردار تھے اور اپنے ان عقائد کو شرک سمجھتے ہوئے اقراری طو رپر ’’مشرک‘‘ نہیں تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں ’’مشرکین‘‘ سے الگ شمار کرتے ہوئے ’’توحید‘‘ کو ان کے اور مسلمانوں کے مابین ایک مشترک نکتہ تسلیم فرمایا ہے۔
قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے دوسرا انتہائی اہم نکتہ یہ واضح ہوتا ہے کہ دعوت دین کے میدان میں داعی کی اصل توجہ اس پر ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اور مدعوکے مابین مشترک طور پر مسلمہ نکات کو تلاش کرے اور انھیں اپنی دعوت کی بنیاد بنائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشترک اساسات کے بغیر دعوت کے عمل کو آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوتا۔ اگر فریقین کے مابین کوئی بھی نکتہ اشتراک نہ ہو تو گفتگو، مکالمہ اور دعوت کا عمل شروع ہی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ قرآن نے یہاں ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ مخاطب اگر کسی اصول کو لفظی طور پر مان رہا ہو، جبکہ عمل کے لحاظ سے اس کی نفی کر رہا ہو تو اس کے دعوے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر گفتگو کی بنیاد رکھی جائے اور اسے سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ تم جس بات کو اصولاً تسلیم کرتے ہو، تمھارے فلاں اور فلاں نظریات واعمال اس کی نفی کر تے ہیں۔
یہاں یہ بات سمجھنا بڑا اہم ہے کہ قرآن نے اہل کتاب کے، توحید سے ٹکرانے والے عقائد اور رویوں کو یہاں الزامی انداز میں بیان نہیں کیا اور یوں نہیں کہا کہ تم تو غیر اللہ کی عبادت بھی کرتے ہو، اللہ کے ساتھ شریک بھی ٹھہراتے ہو اور انسانوں کو اپنا رب بھی بناتے ہو، اس لیے تمھارے دعوائے توحید کی کیا وقعت ہے؟ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے مثبت پہلو سے بات کی ہے اور عقیدۂ توحید میں مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان اصولی اشتراک کو بنیاد بنا کر انھیں یہ دعوت دی ہے کہ آؤ، اس عقیدے کو لفظاً ومعناً اور اس کی حقیقی روح کے مطابق تمام تر لوازم کے ساتھ اختیار کر لیں۔
قرآن مجید نے اہل کتاب کے، اصولی طور پر عقیدۂ توحید کو ماننے کا لحاظ شرعی احکام کے دائرے میں بھی کیا ہے اور اس ضمن میں مشرکین اور اہل کتاب کے لیے الگ الگ احکام مقرر فرمائے ہیں۔ چنانچہ اسلامی شریعت میں کسی مشرک کے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت کھانا حرام ہے اور کسی مشرک مرد یا عورت کے ساتھ نکاح کرنا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں رکھا گیا، لیکن اس کے برخلاف اہل کتاب کے متعلق یہ اجازت دی گئی ہے کہ ان کے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت بھی کھایا جا سکتا ہے اور ان کی پاک دامن عورتوں سے مسلمان مرد نکاح بھی کر سکتے ہیں۔ (سورۂ مائدہ، آیت ۵)

اہل کتاب کے ساتھ مذہبی رواداری 

اہل کتاب کے ساتھ دین ابراہیمی کی اساسی تعلیمات میں اشتراک نیز دعوت دین کی حکمت کے ان اصولوں کے تحت ہم دیکھتے ہیں کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ وتابعین میں ہمیں اہل کتاب کے ساتھ ہمدردی و تعلق خاطر اور رواداری و احترام کی بڑی عمدہ اور غیر معمولی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً دیکھیے:
مکی عہد نبوت میں جب روم کے مسیحیوں اور فارس کے مجوسیوں کے مابین جنگ میں رومیوں کو شکست ہوئی تو مسلمان بہت غمگین ہوئے۔ رومیوں کے ساتھ اس ہمدردی کو قرآن مجید نے بنظر استحسان دیکھا اور سورۃ الروم کی ابتدائی آیات میں مسلمانوں کی تسلی کے لیے یہ وعدہ فرمایا کہ عنقریب رومیوں کو ایرانیوں پر غلبہ حاصل ہوگا اور اس دن مسلمانوں کو خوشی حاصل ہوگی۔ 
روایات میں منقول ہے کہ اس موقع پر مشرکین مکہ اور مسلمان نے گویا دو کیمپوں کی صورت اختیار کر لی اور مشرکین نے اہل فارس کو اپنے بھائی قرار دے کر اس فتح پر خوشی منائی،جبکہ مسلمانوں نے ان کے مقابلے میں اہل کتاب کو اپنے بھائی کہہ کر ان کی شکست پر اظہار غم کیا۔ تفسیر طبری میں عکرمہ سے روایت ہے:
’’مشرکین نے مسلمانوں سے کہا کہ تم لوگ بھی اہل کتاب ہو اور نصاریٰ بھی اہل کتاب ہیں، جبکہ ہم امی ہیں اور ہمارے بھائی یعنی اہل فارس تمھارے اہل کتاب بھائیوں پر غالب آ گئے ہیں۔ اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نکل کر کفار کے پاس گئے اور کہا کہ کیا تم اپنے بھائیوں کے ہمارے بھائیوں پر غالب آنے پر خوش ہو رہے ہو؟ خوش مت ہو، اللہ تمھاری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا نہیں کرے گا۔ بخدا، اہل روم اہل فارس پر غالب آ کر رہیں گے۔‘‘ (تفسیر طبری، تفسیر سورۃ الروم، آیت ۲)
سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے بنائے جانے والے گھروں میں مسجدوں کے ساتھ ساتھ اہل کتاب کی قائم کردہ عبادت گاہوں کا بھی ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ وہ جگہیں ہیں جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُم بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً (آیت ۴۰)
’’اور اگر اللہ نے انسانوں (کے فتنہ وفساد) کو دوسرے انسانوں کے ذریعے سے دفع کرنے کا قانون نہ بنایا ہوتا تو راہب خانوں، کلیساؤں، گرجوں اور مسجدوں تک کو گرا دیا جاتا جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے۔‘‘
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو یہاں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے۔ ان کی تالیف قلب کی خاطر اور انھیں اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے سولہ سترہ ماہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان کعبہ کے بجائے اہل کتاب کے قبلہ یعنی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان، حدیث ۴۱)
فرعون کی غلامی سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کی خوشی میں مدینہ منورہ کے یہود محرم کی دس تاریخ کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موافقت میں عاشورا کا روزہ رکھنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا اور فرمایا کہ ’’میں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ان سے زیادہ تعلق رکھتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، حدیث ۳۱۶۸)
ایک انصاری نے یہ جملہ زبان سے ادا کرنے پر ایک یہودی کو تھپڑ مار دیا کہ: ’’اس اللہ کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا کی ہے‘‘ اور کہا کہ تم موسیٰ علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل قرار دیتے ہو؟ یہودی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس کی شکایت سن کر انصاری سے شدید ناراض ہوئے اور یہود کے مذہبی جذبات کی رعایت سے صحابہ کو اس بات سے منع فرما دیا کہ وہ ان کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ علیہ السلام سے افضل قرار دیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الخصومات، حدیث ۲۲۸۰)
۹ ہجری میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے انھیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ جب عصر کی نماز کا وقت آیا اور انھوں نے نماز پڑھنی چاہی تو صحابہ نے ان کو روک دیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں نماز پڑھنے دو۔ چنانچہ انھوں نے مسجد نبوی ہی میں مشرق کی سمت میں اپنے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۴/۱۰۸)
ایک موقع پر آپ اپنے صحابہ کے ساتھ راستے میں کسی جگہ تشریف فرما تھے۔ ایک شخص کا جنازہ وہاں سے گزرا تو آپ اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے تو آپ نے فرمایا: ’’کیا وہ انسان نہیں ہے؟‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، حدیث ۱۳۱۲)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ جن معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے کوئی واضح ہدایت نہیں ملی ہوتی تھی، ان میں آپ اہل کتاب کے قوانین اور طریقوں کے مطابق فیصلہ کرنا پسند فرماتے تھے۔ اسی طرح اہل کتاب کی تالیف قلب کی غرض سے آپ نے وضع قطع سے متعلق امور میں بھی مشرکین کے مقابلے میں اہل کتاب کے طریقے کی موافقت کو پسند فرمایا۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، رقم ۵۵۷۳)
حضرت عمر کے عہد خلافت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو شہر کا دورہ کرتے ہوئے آپ نے کلیسائے مریم کے قریب نماز ادا کی۔ اس موقع پر انھیں تھوکنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو انھوں نے اپنے کپڑے میں تھوکا۔ آپ سے کہا گیا کہ آپ اسی گرجے میں ہی تھوک دیتے، کیونکہ یہاں تو اللہ کے ساتھ شرک کیا جاتا ہے۔ سیدنا عمر نے جواب میں فرمایا کہ اگر یہاں اللہ کے ساتھ شرک کیا جاتا ہے تو کثرت سے اللہ کو یاد بھی تو کیا جاتا ہے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ترجمہ ابو شعیب، ۷/ ۲۱۲)
عہد صحابہ میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ اگر کسی مسلمان کا کوئی یہودی یا مسیحی عزیز وفات پا جاتا تو صحابہ اس کے جنازے کے ساتھ جاتے اور تجہیز وتکفین میں شریک ہوتے تھے۔ چنانچہ جلیل القدر تابعی شعبی بیان کرتے ہیں کہ حارث بن ابی ربیعہ کی والدہ کا انتقال ہو گیا جو مسیحی تھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اس کے جنازہ میں شریک ہوئے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجنائز، رقم ۱۱۹۶۴)
اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے جب اپنے دور میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ مسجد (ہیکل سلیمانی) میں موجود مقدس کے اوپر گنبد (قبۃ الصخرہ) کی تعمیر کا فیصلہ کیا تو اس کے انتظام وانصرام میں یہودیوں کو بھی شریک کیا اور مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہودیوں کو یہاں بطور مجاور خدمت انجام دینے کا موقع فراہم کیا۔ پندرہویں صدی کے عرب مورخ قاضی القضاۃ مجیر الدین الحنبلی (۱۴۹۶ء) نے اپنی کتاب میں اس کی حسب ذیل تفصیل نقل کی ہے:
’’مسجد اقصیٰ کے لیے دس یہودی خادم مقرر کیے گئے جن سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ اگلی نسلوں میں ان کی تعداد بڑھ کر بیس ہو گئی۔ ان کے ذمے گرمی سردی کے موسم اور زیارت کے ایام میں مسجد اور اس کے ارد گرد طہارت خانوں کے کوڑا کرکٹ کو صاف کرنا تھا۔ اسی طرح دس مسیحی خاندانوں کو نسل در نسل مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا۔ یہ مسجد کے لیے چٹائیاں تیار کرنے کے علاوہ ان چٹائیوں اور اس نالی کی صفائی کرتے تھے جس سے گزر کر پانی حوضوں تک آتا تھا۔ دیگر کاموں کے علاوہ پانی کے حوضوں کی صفائی بھی انھی کے ذمے تھی۔ مسجد کے یہودی خادموں کی ایک جماعت شیشے کے چراغ، پیالے اور فانوس وغیرہ تیار کرتی تھی اور ان سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ اسی طرح وہ خادم بھی جزیہ سے مستثنیٰ تھے جنھیں چراغوں کی بتیوں کی دیکھ بھال پر مامور کیا گیا تھا۔ ان کو یہ ذمہ داری عبد الملک کے زمانے سے لے کر ہمیشہ کے لیے نسل در نسل سونپ دی گئی تھی۔‘‘ (’’الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل‘‘ ص ۲۸۱)
فقہا تصریح کرتے ہیں کہ اہل کتاب اگر مسجد اقصیٰ کے لیے مال وقف کرنا چاہیں تو ان کی مذہبی وابستگی کے تناظر میں ایسا کرنا درست ہوگا اور ان کا وقف کیا ہوا مال قبول کیا جائے گا۔ ابن الہمام ’’فتح القدیر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اگر ذمی مسجد اقصیٰ کے لیے مال وقف کرے تو جائز ہے ، کیونکہ یہ ان کے نزدیک بھی کار ثواب ہے اور ہمارے نزدیک بھی۔‘‘ (فتح القدیر، کتاب الشرکہ، ۶/۲۰۱)

اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ ومجادلہ 

قرآن مجید نے ایک عام اصول کے طور پر اس کی تلقین کی ہے کہ دوسرے مذہبی گروہوں کے ساتھ بحث ومباحثہ کرتے ہوئے اور ان کی غلطی کو واضح کرتے ہوئے شائستہ اور حکیمانہ اسلوب اختیار کیا جائے اور کسی کے جذبات کو مجروح کرنے سے گریز کرتے ہوئے ہمدردی اور خیر خواہی سے اسے صحیح بات سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ سورۃ النحل میں فرمایا:
اُدْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُم بِالَّتِیْ ھِیَ أَحْسَنُ، إِنَّ رَبَّکَ ھُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیْلِہِ وَھُوَ أَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ (آیت ۱۲۵)
’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے سے بلاؤ اور ان لوگوں کے ساتھ ایسے طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو۔ بے شک رب خوب جانتا ہے ان کو جو اس کی راہ سے بھٹک گئے اور خوب جانتا ہے ان کو بھی جو ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ 
قرآن مجید نے یہی حکیمانہ ہدایت اہل کتاب کے ساتھ مجادلہ کے حوالے سے بھی بطور خاص بیان کی ہے۔ چنانچہ سورۃ العنکبوت میں ارشاد ہے:
وَلَا تُجَادِلُوا أَھْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ أَحْسَنُ، إِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوا مِنْھُمْ، وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِیْ أُنزِلَ إِلَیْْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْْکُمْ، وَإِلَھُنَا وَإِلَھُکُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ (آیت ۴۶)
’’اور اہل کتاب کے ساتھ مجادلہ نہ کرو مگر اسی طریقے سے جو سب سے اچھا ہو۔ ہاں، ان میں سے جو لوگ ظالم ہیں (ان کے ساتھ بحث کی ضرورت نہیں)۔ اور یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اس پر بھی جو ہماری طرف اور تمھاری طرف اتارا گیا اور ہمارا اور تمھارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔‘‘
سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے احکام الٰہی کے حوالے سے یہود کے مبنی بر خیانت رویے کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ اسی طرز عمل کے حامل ہیں اور ان کی خیانت کی مثالیں مسلسل تمھارے سامنے آتی رہیں گی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہود کے عیب کھولنے اور ان کی خیانتوں کو زیادہ موضوع نہ بنایا جائے، بلکہ درگزر سے کام لیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَیَ خَآءِنَۃٍ مِّنْہُمْ إِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمُ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (آیت ۱۳)
’’اور تم مسلسل ان کی خیانتوں پر مطلع ہوتے رہو گے، ان میں سے تھوڑے ہی لوگ ہیں جو اس سے پاک ہوں۔ سو ان کو معاف کرتے رہو اور درگزر کرو۔ بے شک اللہ اچھا برتاؤ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

اہل کتاب کے ساتھ دوستی یا دشمنی؟

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۂ عرب میں قرآن کی دعوت پیش کی تو اس کا رد عمل مشرکین اور اہل کتاب کے مختلف گروہوں کی طرف سے مختلف انداز میں سامنے آیا۔ بعض نے کھلم کھلا دشمنی کا طریقہ اختیار کیا، بعض نے اہل اسلام کے ساتھ ہمدردی اور مشکل حالات میں ان کی مدد کا رویہ اپنایا، جبکہ بہت سے گروہوں نے غیر جانب دار رہنے کو ترجیح دی۔ 
اسلام کا اصول یہ ہے کہ وہ غیر مسلموں کو علی الاطلاق اسلام یا مسلمانوں کا دشمن قرار نہیں دیتا، بلکہ کسی بھی گروہ کے ساتھ تعلقا ت کی نوعیت کا فیصلہ خود اس گروہ کے رویے کی روشنی میں کرتا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں قرآن مجید میں مختلف گروہوں کے اختیار کردہ رویے کے مطابق ان کے ساتھ تعلقات رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ چنانچہ مشرکین عرب کے جو گروہ اسلام اور مسلمانوں کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور موقع ملنے پر انھیں نابود کر دینے کے خواب دیکھ رہے تھے، ان کے ساتھ کوئی ہمدردی یا تعلق خاطر رکھنے کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے منافی قرار دیا اور ان کے لیے محبت اور دوستی کے جذبات ظاہر کرنے والے مسلمانوں کو سخت تنبیہ فرمائی۔ اس کے برخلاف جو گروہ اسلام کی دعوت کو قبول نہ کرتے ہوئے بھی مسلمانوں کی جان ومال یا ان کے مذہب کے دشمن نہیں بنے، ان کے ساتھ مصالحانہ تعلقات اور اچھے برتاؤ کی تلقین کی گئی۔ سورۂ ممتحنہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
لَا یَنْھَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّنْ دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوھُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْھِمْ، إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ، إِنَّمَا یَنْھَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاھَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْھُمْ، وَمَن یَتَوَلَّھُمْ فَأُوْلَءِکَ ھُمُ الظَّالِمُونَ (آیت ۸، ۹)
’’اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تمھارے ساتھ لڑائی نہیں کی اور نہ تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے، تم ان کے ساتھ حسن سلوک کرو اور انصاف سے کام لو۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تو تمھیں صرف ان لوگوں کے ساتھ دوستی بڑھانے سے منع کرتا ہے جنھوں نے دین کے معاملے میں تمھارے ساتھ جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا اور تمھارے نکالنے پر ایک دوسرے کی مدد کی۔ اور جو ایسے لوگوں سے دوستی رکھیں، وہی ظالم ہیں۔‘‘
مشرکین کی طرح اہل کتاب کے بیشتر گروہ بھی جزیرۂ عرب میں ایک نئے دین کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، خاص طو رپر ایسا دین جو ان کے غلط عقائد کی تردید اور احکام الٰہی سے ان کے انحرافات پر تنقید کرتا ہو۔ قرآن نے ان کے اسی رویے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’یہود ونصاریٰ تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے دین کی پیروی اختیار نہ کر لو۔‘‘ (البقرہ، آیت ۱۲۰) اپنے اسی رویے کی وجہ سے ان گروہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کو اپنا وتیرہ بنا لیا اور انھیں نقصان پہنچانے اور کمزور کرنے کی ہر ممکن سعی میں مصروف ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو ایسے گروہوں سے چوکنا رہنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ بعض کمزور مسلمانوں نے ان گروہوں کے اثر ورسوخ سے مرعوب ہو کر یا بعض دوسرے اسباب کے تحت ان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانا چاہیں تو قرآن نے سخت الفاظ میں انھیں متنبہ کیا اور فرمایا کہ اسلام او رمسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے برعکس ان گروہوں سے دوستیاں بنانے والوں کا شمار اللہ کے نزدیک انھی میں ہوتا ہے اور ایسے لوگ یقیناًظالم ہیں۔ (سورۃ المائدہ، آیت ۵۱) 
تاہم عہد نبوی میں ہمیں ایسے اہل کتاب بھی ملتے ہیں جنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ہمدردانہ اور دوستانہ طرز عمل اختیار کیا، بلکہ نازک مواقع پر مسلمانوں کی مدد بھی کی۔ اس حوالے سے سب سے نمایاں مثال حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی ہے جس نے کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مظلوم مسلمانوں کو اپنے ملک میں نہ صرف پناہ فراہم کی، بلکہ مشرکین کے مطالبے کے باوجود ان مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً مکہ سے ہجرت کر کے جانے والے بہت سے مسلمان کئی سال تک امن وعافیت کے ساتھ حبشہ کی سرزمین میں مقیم رہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی تناظر میں صحابہ کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ آپ کے بعد جب مسلمان ارد گرد کے ممالک کو فتح کرنے کے لیے نکلیں تو اہل حبشہ جب تک مسلمانوں کے خلاف جنگ میں پہل نہ کریں، ان کے خلاف جنگ نہ کی جائے۔ (سنن ابی داود، کتاب الملاحم، حدیث ۴۳۰۲)
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے اہل کتاب میں کچھ گروہ ایسے بھی تھے جو دیانت داری اور خدا خوفی جیسے اوصاف سے متصف تھے اور مذہبی تعلیمات کے اشتراک کی وجہ سے اسلام او رمسلمانوں کے ساتھ تعلق خاطر بھی محسوس کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے گروہوں کا ذکر تحسین کے انداز میں کیا ہے۔ چنانچہ سورۂ مائدہ میں مسلمانوں کے بارے میں رویے کے حوالے سے یہود اور نصاریٰ کا تقابل کرتے ہوئے فرمایا:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا الْیَھُودَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُوا، وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَھُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوَا إِنَّا نَصَارَی، ذَلِکَ بِأَنَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُھْبَاناً وَأَنَّھُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ (آیت ۸۲)
’’تم لوگوں میں اہل ایمان کے لیے دشمنی میں سب سے بڑھ کر یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے، جبکہ اہل ایمان کے لیے سب سے زیادہ قلبی محبت رکھنے والا ان کو پاؤ گے جنھوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں علماء اور عبادت گزار لوگ ہوتے ہیں اور یہ کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘ 
مفسر زمخشریؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے نرم رویے اور مسلمانوں کے ساتھ تعلق خاطر کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ان میں علماء اور عبادت گزار لوگ ہوتے ہیں اور وہ ایسی قوم ہیں جن میں تواضع اور عجز ہوتا ہے اور تکبر سے پاک ہوتے ہیں، جبکہ یہودیوں کی حالت اس کے برعکس ہے۔ اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ علم کا حصول، یہاں تک کہ مسیحی علماء کا حصول علم، سب سے زیادہ نفع بخش اور خیر کی طرف راہ نمائی کرنے والا اور کامیابی کے راستے کی طرف لے جانے والا عمل ہے۔ یہی معاملہ آخرت کی فکر اور انجام کو یاد رکھنے کا ہے، چاہے وہ کسی راہب میں ہو۔ اسی طرح تکبر سے پاک ہونا ہے، چاہے یہ صفت کسی نصرانی میں ہو۔‘‘ ( الکشاف، )
خاص طور پر حضرت مسیح کے پیروکاروں میں نرم دلی اور ہمدردی کا جو وصف پایا جاتا ہے، اس کا قرآن مجید نے اچھے الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً سورۃ الحدید میں فرمایا کہ ’’ہم نے مسیح کی پیروی کرنے والوں کے دلوں میں نرم دلی اور رحمت رکھ دی۔‘‘ (آیت ۲۷)
سورہ آل عمران میں جہاں مالی خیانت کے معاملے میں بعض یہودیوں کے طرز عمل کو بے نقاب کیا گیا ہے، وہاں ان میں سے دیانت دار لوگوں کا ذکر بھی ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ ’’اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس تم خزانے کا ایک ڈھیر بھی امانت رکھو تو وہ تمھیں پورا پورا واپس کر دیں گے۔‘‘ (آیت ۷۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ سطور میں قرآن وحدیث کی روشنی میں اہل کتاب کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق اور برتاؤ کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اہل کتاب کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچانے میں ان تعلیمات اور اصولوں کا پورا پورا لحاظ رکھیں اور اللہ، اللہ کے پیغمبروں، آسمانی صحائف اور یوم آخرت پر ایمان کو ایک قیمتی اور مشترک اساس تصور کرتے ہوئے معاشرتی سطح پر اہل کتاب کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کا خصوصی برتاؤ کریں۔ خاص طور پر مسلم معاشروں میں اہل کتاب کی عبادت گاہوں اور ان کے مذہبی جذبات کے احترام کو یقینی بنائیں اور اختلافی امور پر بحث ومباحثہ کی نوبت آئے تو تہذیب و شائستگی اور حکمت وموعظہ حسنہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی غلطی کو ان پر واضح کرنے کی کوشش کی جائے۔ 
اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہ ہدایت پر قائم رکھے۔ آمین

شدت پسندی کا مقابلہ اور ریاستی ترجیحات

۶ ستمبر کی اخباری اطلاعات کے مطابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے وائس چانسلر جامعہ کراچی کو ایک خط لکھا ہے جس میں یونیورسٹی طلبہ کا ریکارڈ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دینے اور طلبہ کو داخلے کے وقت مقامی پولیس اسٹیشن سے حاصل کردہ کیرکٹر سرٹیفکیٹ پیش کرنے کی تجویز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس فیصلے سے طلبہ میں بے چینی اور خوف پھیلے گا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ دونوں ادارے ریاست کے سخت ادارے ہیں اور ان اداروں سے طلبہ کے رابطے کے باعث طلبہ میں خوف اور بے چینی بڑھے گی۔ چیئرمین سینٹ نے تجویز کیا ہے کہ نوجوانوں میں انتہا پسندی اور تشدد کے مسائل حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جانے چاہئیں اور اس سلسلے میں طلبہ یونینز کی بحالی اور ادبی اور تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ سے (انتہا پسندانہ رجحانات کے مقابلے میں) ایک مختلف موقف جنم لے گا۔ 
ہمارے نزدیک چیئرمین سینیٹ نے ایک اہم اور نازک معاملے میں بر وقت توجہ دلا کر اپنے منصب کے ساتھ وابستہ ذمہ داریوں کے احساس کا ثبوت دیا ہے اور اس حوالے سے ان کی جرات قابل داد ہے، تاہم یہ ایک جزوی اور وقتی مسئلہ نہیں، بلکہ بنیادی آئینی حقوق کا مسئلہ ہے۔ ملک پہلے ہی ’’سیکیورٹی اسٹیٹ‘‘ کے بااعزاز لقب سے ملقب اور گم شدہ افراد (missing persons) جیسے سنگین آئینی وانسانی مسئلے سے نبرد آزما ہے، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے اس صورت حال کی سنگینی بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں وضع کی جانے والی پالیسیوں کو قومی فورمز پر ہر جگہ زیر بحث لائے جانے کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ سیکیورٹی اداروں کا جبر اور خوف ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ 

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۲۱) یستعتبون کا ترجمہ

قرآن مجید میں لفظ یستعتبون تین مقامات پر آیا ہے، اور ایک مقام پر یستعتبوا آیا ہے۔ مختلف ترجموں کو سامنے رکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کو اس سلسلے میں کسی ایک مفہوم پر اطمینان نہیں تھا، اس لیے ایک ہی مترجم کے یہاں ایک ہی لفظ کے مختلف مقامات پر مختلف ترجمے ملتے ہیں۔
عربی لغات دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ استعتب کے لفظ میں وسعت ہے۔ اس لفظ کا مطلب فیروزآبادی یوں بیان کرتے ہیں: 

استَعتَبَہ: أعطاہ العُتبی،کأَعتَبہ، وطَلَبَ الیہ العُتبَی، ضِدٌّ. القاموس المحیط.

اس لفظ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کسی سے کسی کی ناراضگی دور کرنے کو کہا جائے، ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کوئی کسی سے راضی ہوجائے، اور ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کوئی کسی سے اس کی ناراضگی دور کرنے کا موقع مانگے۔
اس تیسرے مفہوم کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: وَلَا بَعدَ الموتِ مِن مُستَعتَبٍ؛ یعنی مرنے کے بعد ناراضگی دور کرنے کا موقع نہیں رہے گا۔ علامہ ابن منظور اس حدیث کی بہت مناسب تشریح کرتے ہیں:

أی لَیسَ بَعدَ المَوتِ مِنِ استِرضاءٍ ، لأَن الأَعمال بَطَلَت، وانقَضَت زَمانُھا، وَمَا بَعدَ الموت دارُ جزاءٍ لَا دارُ عَمَلٍ. لسان العرب۔

جہاں لفظ کے مفہوم میں وسعت ہو وہاں موقع ومحل کے لحاظ سے مناسب مفہوم کی تعیین ضروری ہوتی ہے۔
تینوں آیتوں میں ’’لا یستعتبون‘‘ کا بعض لوگ ترجمہ کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ان سے توبہ واستغفار کا اور رب کو راضی کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ مفہوم قیامت کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، کسی عمل کا مطالبہ اس سے کیا جاتا ہے جو وہ عمل کر نہیں رہا ہو، مجرموں کا حال تو یہ ہوگا کہ قیامت برپا ہوتے ہی معافی مانگنے میں لگ جائیں گے، اور چلا چلا کر توبہ واستغفار کریں گے، ایسے لوگوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان سے توبہ واستغفار کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا، مناسب حال معلوم نہیں ہوتا ہے۔
بعض لوگ ترجمہ کرتے ہیں کہ وہ منائے نہیں جائیں گے، یہ بھی مناسب حال ترجمہ نہیں ہے، کیونکہ وہاں سوال مجرموں کو منائے جانے کا ہوگا ہی نہیں، سوال تو خود مجرموں کے سامنے ہوگا کہ وہ رب کو کیسے منائیں۔
بعض لوگ ترجمہ کرتے ہیں کہ ان کی معافی یا معذرت قبول نہیں کی جائے گی، اس مفہوم میں کمزوری یہ ہے کہ استعتب، عتبی سے نکلا ہے، جس کا مطلب محض معافی اور معذرت نہیں بلکہ منانا اور راضی کرنا ہے۔ اس میں پچھلی غلطیوں کی تلافی کرنا اور خوش کرنے والے عمل کرنا شامل ہے۔
قیامت کے دن اور عذاب کی حالت کو سامنے رکھیں تو مناسب حال مفہوم یہ سامنے آتا ہے کہ مجرمین بار بار درخواست کریں گے کہ انہیں ایک بار اللہ کی ناراضگی دور کرنے کا موقعہ دیا جائے، لیکن انہیں ایسا کوئی موقعہ نہیں دیا جائے گا۔
اس وضاحت کے بعد مندرجہ ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

(۱) وَیَوْمَ نَبْعَثُ مِن کُلِّ أُمَّۃٍ شَہِیْداً ثُمَّ لاَ یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَلاَ ہُمْ یُسْتَعْتَبُون۔ (النحل: 84)

’’اور (خیال کرو اس دن کا) جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اٹھائیں گے، پھر جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا نہ ان کو عذر پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے یہ فرمائش ہوگی کہ وہ خدا کو راضی کریں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’(اِنہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کیا بنے گی) جبکہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائیگا نہ ان سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا‘‘ (سید مودودی)
’’’’اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ کھڑا کریں گے پھر کافروں کو نہ اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا ‘‘(محمدجوناگڑھی)
’’اور جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ اٹھا کر کھڑا کریں گے پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ان سے اللہ کو راضی کرنے کی فرمائش کی جائے گی‘‘(محمد حسین نجفی)
’’اور جس دن ہم اٹھائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ پھر کافروں کو نہ اجازت ہو نہ وہ منائے جائیں‘‘(احمد رضا خان)
’’اور جس دن ہم ہر اْمت میں سے گواہ (یعنی پیغمبر) کھڑا کریں گے تو نہ تو کفار کو (بولنے کی) اجازت ملے گی اور نہ اْن کے عذر قبول کئے جائیں گے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
مولانا امانت اللہ اصلاحی متعلقہ حصے کا ترجمہ کرتے ہیں:’’ اور نہ انہیں ناراضگی دور کرنے کا موقعہ دیا جائے گا‘‘۔

(۲) فَیَوْمَئِذٍ لَّا یَنفَعُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُہُمْ وَلَا ہُمْ یُسْتَعْتَبُون۔ (الروم: 57)

’’پس اس دن ان لوگوں کو ان کی معذرت کچھ نفع نہ دے گی جنھوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہوگا اور نہ ان سے یہ چاہا جائے گا کہ وہ خدا کو راضی کریں ‘‘(امین احسن اصلاحی) 
’’پس وہ دن ہو گا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا ‘‘(سید مودودی)
’’تو اس دن ظالموں کو نفع نہ دے گی ان کی معذرت اور نہ ان سے کوئی راضی کرنا مانگے ‘‘(احمد رضا خان)
’’پس اس دن ظالموں کو ان کا عذر بہانہ کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان سے توبہ اور عمل طلب کیا جائے گا‘‘(محمدجوناگڑھی)
’’سو اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہیں دے گی اور نہ ہی ان سے (توبہ کرکے) خدا کو راضی کرنے کیلئے کہا جائے گا‘‘(محمد حسین نجفی)
’’تو اس روز ظالم لوگوں کو ان کا عذر کچھ فائدہ نہ دے گا اور نہ اْن سے توبہ قبول کی جائے گی‘‘ (فتح محمدجالندھری)
مولانا امانت اللہ اصلاحی متعلقہ حصے کا ترجمہ کرتے ہیں: ’’اور نہ انہیں ناراضگی دور کرنے کا موقعہ دیا جائے گا‘‘۔

(۳) ذَلِکُم بِأَنَّکُمُ اتَّخَذْتُمْ آیَاتِ اللّٰہِ ہُزُواً وَغَرَّتْکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا فَالْیَوْمَ لَا یُخْرَجُونَ مِنْہَا وَلَا ہُمْ یُسْتَعْتَبُونَ۔ (الجاثیۃ: 35)

’’یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا لہٰذا آج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کرو" (سید مودودی)
’’یہ اس لیے کہ تم نے اللہ کی آیتوں کا ٹھٹھا (مذاق) بنایا اور دنیا کی زندگی نے تمہیں فریب دیا تو آج نہ وہ آگ سے نکالے جائیں اور نہ ان سے کوئی منانا چاہے ‘‘(احمد رضا خان)
’’یہ اس لیے ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی ہنسی اڑائی تھی اور دنیا کی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا، پس آج کے دن نہ تو یہ (دوزخ) سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے عذر و معذرت قبول کیا جائے گا‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’یہ اس لئے کہ تم نے خدا کی آیتوں کو مخول بنا رکھا تھا اور دنیا کی زندگی نے تم کو دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ سو آج یہ لوگ نہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان کی توبہ قبول کی جائے گی‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’یہ اس وجہ سے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا اور دنیا کی زندگی نے تم کو دھوکے میں ڈالے رکھا۔ پس آج نہ تو وہ اس سے نکالے جائیں گے اور نہ ان کو معذرت پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’یہ سب اس لئے ہے کہ تم نے آیات الہٰی کا مذاق بنایا تھا اور تمہیں زندگانی دنیا نے دھوکے میں رکھا تھا تو آج یہ لوگ عذاب سے باہرنہیں نکالے جائیں گے اور انہیں معافی مانگنے کا موقع بھی نہیں دیا جائے گا ‘‘(جوادی)
’’یہ اس لئے کہ تم نے اللہ کی آیتوں کامذاق اڑایا تھا اوردنیاوی زندگی نے تمہیں دھوکہ میں مبتلا کیا۔ پس وہ آج نہ تو اس (دوزخ) سے نکالے جائیں گے اور نہ ان کو معذرت (خدا کو راضی) کرنے کاموقع دیا جائے گا‘‘(محمد حسین نجفی)
آخر الذکر تینوں ترجموں میں یہ مفہوم اختیار کیا گیا ہے کہ انہیں موقع نہیں جائے گا، جو درست ہے۔ البتہ معافی اور معذرت کی بجائے راضی کرنے کا مفہوم زیادہ درست ہے۔

(۴) فَإِن یَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًی لَّہُمْ وَإِن یَسْتَعْتِبُوا فَمَا ہُم مِّنَ الْمُعْتَبِیْن۔ (فصلت: 24)

’’پس اگر وہ صبر کریں تو دوزخ ہی ان کا ٹھکانا ہے اور اگر وہ معافی مانگیں گے تو ان کو معافی نہیں ملے گی‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اب اگر یہ صبر کریں گے تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اور اگر توبہ کریں گے تو ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی‘‘ (جالندھری)
’’اس حالت میں وہ صبر کریں (یا نہ کریں) آگ ہی ان کا ٹھکانا ہو گی، اور اگر رجوع کا موقع چاہیں گے تو کوئی موقع انہیں نہ دیا جائے گا‘‘ (سید مودودی)
مذکورہ بالا ترجموں میں آخر الذکر ترجمہ زیادہ درست ہے۔ البتہ رجوع کے بجائے راضی کرنے کا مفہوم زیادہ مناسب ہے۔

(۱۲۲) قِطَعًا مِنَ اللَّیلِ مُظلِمًا کا ترجمہ

وَالَّذِیْنَ کَسَبُواْ السَّیِّئَاتِ جَزَاء سَیِّئَۃٍ بِمِثْلِہَا وَتَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ مَّا لَہُم مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ کَأَنَّمَا أُغْشِیَتْ وُجُوہُہُمْ قِطَعاً مِّنَ اللَّیْْلِ مُظْلِماً أُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ۔ (یونس: 27)

مذکورہ بالا آیت میں قطعا من اللیل کے بعد مظلما آیا ہے، عام طور سے مظلما کو اللیل کا حال قرار دیا گیا ہے، اور اسی کے لحاظ سے ترجمہ بھی کیا گیا ہے، یعنی تاریک رات کے ٹکڑے۔ بعض لوگوں نے مظلما کو قطعا کی صفت قرار دیا ہے، اس دوسری توجیہ پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ قطعا جمع ہے، اس کی صفت کو مذکر کی بجائے مونث یعنی مظلما کی بجائے مظلمۃ ہونا چاہئے تھا، اس اشکال کا جواب بھی دیا گیا ہے جو تکلف سے بھر پور ہے۔ اس دوسری توجیہ کے مطابق جملے کا مطلب ہوتا ہے رات کے تاریک ٹکڑے۔ لغت کے عام قاعدے کے مطابق پہلی توجیہ درست ہے۔ عام طور سے مترجمین نے اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے، البتہ صاحب تفہیم نے دوسرا ترجمہ کیا ہے۔
’’اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں ان کی بْرائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے، ذلّت ان پر مسلّط ہو گی، کوئی اللہ سے ان کو بچانے والا نہ ہو گا، ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہو گی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘ (سید مودودی)
جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی کہ مظلما (تاریک) کا لفظ رات کے سلسلے میں آیا ہے نہ کہ ٹکڑوں کے سلسلے میں، اس لئے رات کے سیاہ پردے درست ترجمہ نہیں ہے سیاہ رات کے ٹکڑے درست ترجمہ ہے۔
اسی سے ملتی جلتی ایک غلطی مذکورہ ذیل ترجمے میں بھی نظر آتی ہے:
’’جیسے ڈھانک دیا ہے ان کے مونھ پر ایک اندھیرا ٹکڑا رات کا ‘‘(شاہ عبدالقادر)
یہاں ترجمہ میں ٹکڑا واحد ہے، جب کہ آیت میں قطع جمع کا صیغہ ہے، احساس ہوتا ہے کہ شاہ عبدالقادر کو قرأت کے سلسلے میں اشتباہ ہوگیا، اور انہوں نے غلطی سے دوسری قرأت کا ترجمہ یہاں کردیا۔ اس امر کی مزید تفصیل یہ ہے کہ قطع میں اگر ط پر فتحہ (زبر) ہو تو جمع کے معنی میں ہوتا ہے، اور اگر ط پر سکون (جزم) ہو تو واحد کے معنی میں ہوتا ہے، آیت کی ایک قرأت سکون کی بھی ہے، اس کے لحاظ سے مظلما اس کی صفت بھی بن سکتا ہے، اور اس قرأت کے لحاظ سے شاہ عبدالقادر کا ترجمہ درست بھی ہوجائے گا، لیکن جو قرأت ہمارے اور خود ان کے سامنے رہی ہے، اس کے لحاظ سے یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔

کَأَنَّمَا أُغْشِیَتْ وُجُوہُہُمْ قِطَعاً مِّنَ اللَّیْْلِ مُظْلِماً ۔

کے بعض درست ترجمے بھی ملاحظہ ہوں:
’’گویا کہ اڑھائے گئے ہیں مونھ ان کے ٹکڑے رات اندھیری کے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’گویا ان کے چہروں پر اندھیری رات کے پرت کے پرت لپیٹ دئے گئے ہیں ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’گویا ان کے چہروں پر اندھیری رات کے ٹکڑے چڑھا دیے ہیں‘‘.(احمد رضا خان)

(۱۲۳) فَزَیَّلنَا بَینھُم کا ترجمہ

عربی لغات کے مطابق زیّل کا مطلب ہوتا ہے ایک دوسرے سے الگ کرنا، اور ایک دوسرے سے جدا کرنا۔
اسی سے فعل لازم تزیّل ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہوجانا۔ قرآن مجید میں دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں،تزیّل کا مطلب سب لوگوں نے الگ ہونا کیا ہے، جیسا کہ مذکورہ ترجمہ سے ظاہر ہے:

وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوہُمْ أَن تَطَؤُوہُمْ فَتُصِیْبَکُم مِّنْہُم مَّعَرَّۃٌ بِغَیْْرِ عِلْمٍ لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہِ مَن یَشَاءُ لَوْ تَزَیَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً۔ (الفتح: 25)

’’ اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے‘‘ (سید مودودی)
البتہ زیّل کے ترجمے میں صاحب تفہیم نے ایک الگ راہ نکالنے کی کوشش کی ہے، مذکورہ ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ مَکَانَکُمْ أَنتُمْ وَشُرَکَآؤُکُمْ فَزَیَّلْنَا بَیْْنَہُمْ وَقَالَ شُرَکَآؤُہُم مَّا کُنتُمْ إِیَّانَا تَعْبُدُونَ۔ (یونس: 28)

’’جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں) اکٹھا کریں گے، پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھیر جاؤ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی، پھر ہم ان کے درمیان سے اجنبیّت کا پردہ ہٹا دیں گے اور ان کے شریک کہیں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے‘‘(سید مودودی)
صاحب تفہیم اپنے اس ترجمہ کی تشریح میں لکھتے ہیں: اس کا مفہوم بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ ہم ان کا باہمی ربط وتعلق توڑ دیں گے تاکہ کسی تعلق کی بنا پر وہ ایک دوسرے کا لحاظ نہ کریں، لیکن یہ معنی عربی محاورے کے مطابق نہیں ہیں۔ محاورہ عرب کی رو سے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان تمیز پیدا کردیں گے۔ یا ان کو ایک دوسرے سے ممیز کردیں گے، اس معنی کو ادا کرنے کے لئے ہم نے یہ طرز بیان اختیار کیا ہے کہ ’’ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹادیں گے‘‘۔ یعنی مشرکین اور ان کے معبود آمنے سامنے کھڑے ہوں گے اور دونوں گروہوں کی امتیازی حیثیت ایک دوسرے پر واضح ہوگی۔ (تفہیم القرآن)
عربی محاورے کے حوالے سے یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ درست نہیں ہے، فزیلنا بینھم کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین اور ان کے معبود الگ الگ کردئے جائیں گے، یہ تو ممکن ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوں، لیکن اجنبیت کا پردہ ہٹادینا اس جملے کا مطلب نہیں ہے۔ یوں بھی شرک کرنے والوں کو تو پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کن چیزوں کو معبود بنا رکھا ہے، ان کے لئے ان کے معبود اجنبی تو ہوتے نہیں ہیں۔ صحیح ترجمہ وہی ہے جو عام مترجمین نے کیا ہے، اور جس پر دلیل سورہ فتح والی مذکورہ بالا آیت کا ترجمہ بھی ہے۔ وہاں خود صاحب تفہیم نے الگ الگ ہوجانا ترجمہ کیا ہے۔
فزیلنا بینھم کے بعض دوسرے ترجمے یوں ہیں:
’’پس قسم قسم کردی ہم نے درمیان ان کے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’پھر توڑادیں گے آپس میں ان کو‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’تو ہم انہیں مسلمانوں سے جدا کردیں گے‘‘ (احمد رضا خان، آیت میں نہ مسلمانوں کا ذکر ہے، اور نہ تفسیر میں اس کا کوئی محل بنتا ہے)
’’تو ہم ان میں تفرقہ ڈال دیں گے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
’’پھر ہم ان (عابدین ومعبودین) کے آپس میں پھوٹ ڈالیں گے ‘‘(اشرف علی تھانوی)
(جاری)

دور جدید کا حدیثی ذخیرہ ۔ ایک تعارفی جائزہ (۴)

مولانا سمیع اللہ سعدی

۲۔ اردو تراجم، شروحات وتعلقات اور درسی افادات وتقریرات

برصغیر میں کتب حدیث پر ہونے والا کام زیادہ تر اردو تراجم وشروحات(عربی شروحات کا بیان پچھلی قسط میں ہوچکا ہے ) اور درسی افادات و تقریرات پر مشتمل ہے ،ان میں درسی افادات و تقریرات زیادہ تعداد میں ہیں ،کیونکہ صحاح ستہ، موطا م امام مالک ،موطا امام محمد اور مشکوۃ المصابیح مدارس دینیہ کے نصاب میں داخل ہیں ،اس لئے ہونہار تلامذہ شیوخ الحدیث کی درسی تقاریر کو منضبط کرتے ہیں ،اور اسے مرتب کر کے افادہ عام کی خاطر شائع کرتے ہیں ۔
برصغیر میں کتب حدیث پر ہونے والے کاموں کا ایک جائزہ لیا جاتا ہے۔

۱۔ اردو تراجم و شروحات 

کتب حدیث کے تراجم میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ تراجم میں معروف علماء کے تراجم کا ذکر کیا گیا ہے جو اپنے اپنے حلقوں میں مستند مانے جاتے ہیں۔ حالیہ سالوں میں مختلف مکتبات نے کتب حدیث کے تراجم شائع کیے ہیں جو مختلف مترجمین (اکثر غیر معروف حضرات) نے کیے ہیں۔ اس مجموعے میں ان تازہ تراجم کی کثرت کی وجہ سے ذکر نہیں کیا گیا۔ ان تراجم کے لیے کراچی، لاہور، پشاور کے معروف مطابع اور ہندوستان کے ناشرین کی شائع کردہ فہرستیں ملاحظہ کی جائیں۔ نیز شروح میں ان کا ذکر کیا گیا ہے جو باقاعدہ تالیف کے قبیل سے ہیں، درسی افادات وتقریرات کا ذر مستقل عنوان کے تحت آئے گا۔
۱۔کتب حدیث کے اردو تراجم کے سلسلے میں معروف اہل حدیث عالم مولانا وحید الزمان رحمہ اللہ کا نام سنہری حروف سے لکھنے کے لائق ہے ،موصوف نے متعدد امہات حدیث کا ترجمہ کیا اور جگہ جگہ مفید حواشی بھی تحریر کیے۔ آپ کے تحریر کردہ تراجم یہ ہیں :
۱۔تیسیر الباری ترجمہ صحیح بخاری 
۲۔المعلم ترجمہ صحیح مسلم
۳۔جائزہ الشعوذی ترجمہ جامع ترمذی (اس کی تالیف میں ان کے بھائی بھی ساتھ شریک رہے )
۴۔روض الربی من ترجمہ المجتبی
۵۔الہدی المحمود ترجمہ سنن ابی داود
۶۔رفع العجاجہ عن ترجمہ سنن ابن ماجہ 
۷۔کشف المغطا عن الموطا
۲۔اردو تراجم کے سلسلے میں دوسرا بڑا نام مولنا اشفاق الرحمان کاندھلوی اور ان کے صاحبزادگان کا ہے ،اس خاندان نے درجہ ذیل کتب حدیث کے تراجم کیے ہیں:
۱۔ترجمہ جامع ترمذی ،مولنا حامد الرحمن صدیقی 
۲۔ترجمہ نسائی شریف ،مولنا حبیب الرحمن صدیقی 
۳۔ترجمہ ابن ماجہ ،مولنا حبیب الرحمن صدیقی
۴۔ترجمہ صحیح مسلم ،مولنا عابد الرحمن صدیقی
۳۔معروف بریلوی عالم مولنا عبد الحکیم شاہ جہاں پوری نے بھی تراجم حدیث کے سلسلے میں اہم خدمات سر انجام دی ہیں۔ آپ نے صحیح بخاری ،سنن ابی داود ،سنن ابن ماجہ اور مشکوۃ المصابیح کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
۳۔شروحات حدیث کے سلسلے میں معروف بریلوی عالم مولانا غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ آپ نے مسلم شریف کی سات جلدوں میں ایک ضخیم شرح لکھی ہے جو اردو میں اب تک مسلم کی مفصل ترین شرح شمار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نعمۃ الباری فی شرح البخاری کے نام سے چودہ جلدوں میں بخاری شریف کی عمدہ شرح لکھی ہے۔
۴۔اردو شروحات میں میاں نذیر حسین دہلوی کے شاگرد مولانا ابو الحسن سیالکوٹی کی فیض الباری ترجمہ و شرح صحیح بخاری ایک اہم شرح ہے ۔یہ مفصل شرح دس ضخیم جلدوں میں شائع ہوچکی ہے۔
۵۔بخاری شریف کی اردو میں سب سے مفصل شرح لکھنے کا اعزاز شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کے افادات پر مبنی کشف الباری شرح صحیح بخاری کو حاصل ہے ۔یہ شرح حضرت شیخ کے اجل تلامذہ کی تدوین و تالیف کا نتیجہ ہے اور بائیس ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔
۶۔اردو شروحات میں ایک اہم شرح شاہ اسحاق صاحب کے شاگرد رشید نواب قطب الدین خان کی مشکوہ شریف پر لکھی ہوئی شرح ’’مظاہر حق‘‘ ہے ،یہ عمدہ شرح پانچ ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔
۷۔معروف اہل حدیث عالم مولانا ابو القاسم سیف بنارسی نے صحیح بخاری پر متنوع اعتراضات کے جواب میں متعدد کتب لکھیں ۔ ان کتب کا مجموعہ دفاع صحیح بخاری کے نام سے ایک ہزار صفحات کی ضخیم جلد میں شائع ہوا ہے۔ ان میں بعض مقامات پر اگرچہ سلفی شدت موجود ہے ،لیکن بخاری شریف کے دفاع میں فی الجملہ ایک اچھی اور قابل قدر کاوش ہے۔
کتب حدیث پر اردو تراجم و شروح کی ایک فہرست پیش خدمت ہے :

۱۔بخاری شریف کے اردو تراجم و شروحات:

۱۔نصرۃ الباری ترجمہ صحیح بخاری، ،مولانا عبد الاول غزنوی 
۲۔ترجمہ و شرح بخاری، مولانا محمد داود راز 
۳۔مشارق الانوار شرح صحیحین و موطا ، مولانا عبد الحق بہاولپوری (۱۴ مجلدات)
۴۔ترجمہ صحیح بخاری ،مولانا عبد التواب ملتانی 
۵۔ترجمہ صحیح بخاری ،مرزا حیرت دہلوی 
۶۔ترجمہ و شرح بخاری ،امیر علی لکھنوی 
۷۔فضل الباری ترجمہ صحیح بخاری ،،مولانا فضل حق دلاوری 
۸۔منح الباری ترجمہ صحیح بخاری ،محمد حسین بٹالوی 
۹۔نزہۃ الباری ترجمہ صحیح بخاری،شریف الحق امجدی 
۱۰۔نصرۃ الباری و شرح صحیح بخاری ،،مولانا عبد الستار دہلوی
۱۱۔فیوض الباری ترجمہ و شرح صحیح بخاری ،،مولانا سید محمود رضوی (۷مجلدات)
۱۲۔تسہیل القاری شرح صحیح بخاری، ،مولانا وحید الزمان 
۱۳۔الاسوہ ترجمہ و شرح صحیح بخاری،،مولانا حنیف ندوی (نامکمل)
۱۴۔فضل الباری شرح ثلاثیات البخاری،شمس الحق ڈیانوی
۱۵۔انعام المنعم الباری بشرح ثلاثیات البخاری،مولانا عبدالصبورملتانی
۱۶۔شرح تراجم بخاری، ،مولانا محمود حسن دیو بندی
۱۷۔انعام الباری فی شرح اشعار البخاری ،مولانا عاشق الہی
۱۸۔نصر الباری شرح البخاری، ،مولانا محمد عثمان غنی صاحب 
۱۹۔تفہیم الباری ترجمہ صحیح بخاری، ،مولانا ظہور الباری اعظمی 
۲۰۔ترجمہ بخاری شریف مع حواشی ،مولانا سبحان محمود و دیگر رفقاء،دار الاشاعت (اس ترجمہ پر مفید و مختصر حواشی استاد محترم مفتی محمد عبد اللہ صاحب( استاد الحدیث جامعہ دار القرآن فیصل آباد) نے تحریر کئے ہیں )
۲۱۔غنیۃ القاری ترجمہ ثلاثیات بخاری، مولانا صدیق حسن خان 
۲۲۔تفہیم البخاری شرح بخاری،مولانا غلام رسول رضوی 
۲۳۔منہاج البخاری ،علامہ معراج الاسلام 
۲۴۔الخیرالجاری شرح بخاری،مولانا صوفی سرور
۲۵۔بشیر القاری شرح صحیح بخاری ،مولانا غلام جیلانی 
۲۶۔توفیق الباری شرح صحیح بخاری ،عبد الکبیر محسن(۱۲ جلدیں)
۲۷۔فتوحات جہانگیری شرح صحیح بخاری ،علامہ محی الدین جہانگیر (۷جلدیں)
۲۸۔انعام الباری شرح بخاری ،شیخ محمد امین چاٹگامی

۲۔صحیح مسلم کے اردو تراجم وشروحات:

۱۔ترجمہ وشرح صحیح مسلم،مولانا محمد داود راز (نامکمل)
۲۔ترجمہ صحیح مسلم،مولانا عبدالعزیز صمدانی (جلداول )
۳۔انعام المنعم بترجمہ صحیح مسلم، مولانا عبدالاول غزنوی
۴۔ترجمہ وتشریح صحیح مسلم،مولانا عبدالعزیزعلوی
۵۔المعلم ترجمہ صحیح مسلم،مولانا وحید الزمان 
۶۔تجرید مسلم اردو ترجمہ مسلم،محمدمالک کاندھلوی،ملک دین محمد اینڈ سنز لاہور (مجلدان)
۷۔ترجمہ صحیح مسلم،مولاناعابد الرحمان صدیقی،ادارہ اسلامیات ،لاہور (اس ترجمہ پر مختصر و مفید حواشی استاد محترم مفتی محمد عبد اللہ صاحب نے تحریر کیے ہیں)
۸۔تحفۃ المنعم ترجمہ و شرح صحیح مسلم ،،مولانا فضل محمد یوسف زئی ،مکتبہ اویس القرنی ،کراچی (۳مجلدات)
۹۔کشف الملہم ترجمہ و شرح مقدمہ صحیح مسلم ،مولانا عبد السلام بستوی
۱۰۔تفہیم المسلم ترجمہ و شرح صحیح مسلم ،مولانا زکریا اقبال 
۱۱۔شرح صحیح مسلم ،مولانا عبد القیوم حقانی (۵ جلدیں، بقیہ زیر تکمیل )
۲۱۔انعامات المنعم لطالبات المسلم ،مولانا محبوب احمد 
مقدمہ مسلم کی شروح:
۱۔عمدۃالمفہم فی حل مقدمۃ مسلم ،محمدطاہررحیمی۔
۲۔فیض المنعم شرح مقدمۃ مسلم،شیخ سعید احمد پالن پوری
۳۔نعمۃ المنعم شرح مقدمۃ مسلم،شیخ نعمت اللہ اعظمی
۴۔ایضاح المسلم شرح مقدمۃ مسلم،شیخ محمدغانم دیوبندی
۵۔فیض الملہم شرح مقدمۃ مسلم، شیخ اسلام الحق کوپاگنجی۔
۶۔نصرۃ المنعم شرح مقدمۃ مسلم،شیخ عثمان غنی

۳۔سنن نسائی کے اردو تراجم و شروح:

۱۔روضۃ الربی من ترجمۃ المجتبی، ،مولانا وحید الزمان 
۲۔ترجمہ سنن نسائی،مولانا دوست محمد شاکر،حامداینڈکمپنی،لاہور (۳مجلدات)
۳۔ ترجمہ سنن نسائی ،،مولانا خورشید حسن قاسمی استاد دار العلوم دیوبند
۴۔ترجمہ سنن نسائی ،،مولانا خلیل الرحمان ،زمزم پبلشرز
۵۔ترجمہ سنن نسائی ،،مولانا حبیب الرحمان صدیقی 

۴۔جامع ترمذی کے اردو تراجم و شروحات:

۱۔جائزۃ الشعوذی ترجمہ جامع ترمذی، مولانا وحید الزمان
۲۔ترجمہ جامع ترمذی، مولانا فضل حق دلاوری
۳۔ترجمہ جامع ترمذی،مولانا بدیع الزمان حیدرآبادی
۴۔ترجمہ وتشریح جامع ترمذی،مولانا عبدالعزیز علوی
۵۔شرح جامع ترمذی،شیخ فضل احمد انصاری
۶۔شرح جامع ترمذی،شیخ وجیہ الزمان لکھنوی
۷۔ترجمہ جامع ترمذی،مولانا صدیق ہزاروی
۸۔ترجمہ جامع ترمذی ،مولانا فضل احمد ،دار الاشاعت
۹۔ترجمہ جامع ترمذی ،مولانا حامد الرحمان صدیقی
۱۰۔الدرس الشذی شرح جامع ترمذی ،مولانا صوفی سرور 
۱۱۔روضۃ الاحوذی شرح ترمذی ثانی،محمد حسین صدیقی

۵۔سنن ابی داود کے اردو ترجم و شروحات:

۱۔ الہدی المحمود ترجمہ سنن ابی داود، مولانا وحید الزمان
۲۔ فلاح وبہبود ترجمہ سنن ابی داود، محمد حنیف گنگوہی
۳۔ترجمہ سنن ابی داود ،مولانا عبد الحکیم شاہ جہاں پوری 
۴۔ترجمہ سنن ابی داود ،،مولانا خورشید حسن قاسمی 
۵۔فضل المعبود ترجمہ و شرح سنن ابی داود ،،مولانا منظور احمد صاحب 

۶۔سنن ابن ماجہ کے اردو تراجم و شروح:

۱۔ رفع العجاجہ عن سنن ابن ماجہ، مولانا وحید الزمان
۲۔ رفع الحاجہ فی ترجمۃ سنن ابن ماجہ، مولانا عبد السلام بستوی
۳۔ ترجمہ سنن ابن ماجہ، مولانا بدیع الزمان حیدر آبادی
۴۔ ترجمہ وحواشی سنن ابن ماجہ، مولانا یحییٰ گوندلوی
۵۔ترجمہ سنن ابن ماجہ ،،مولانا حبیب الرحمان صدیقی 
۶۔ترجمہ سنن ابن ماجہ ،مولانا عبد الحکیم شاہ جہاں پوری 

۷۔ مشکوۃ المصابیح کے تراجم وشروح:

۱۔ترجمہ مشکوٰۃ مع حواشی، مولانا عبد الاول غزنوی
۲۔ترجمہ وشرح مشکوٰۃ، مولانا عبد التواب ملتانی
۳۔ترجمہ وحواشی،،مولانا اسماعیل سلفی
۴۔انوار المصابیح ترجمہ وشرح مشکوٰۃ المصابیح، مولانا عبد السلام بستوی
۵۔سطعات التلقیح بترجمہ مع فوائد مشکوٰۃ المصابیح، مولانا محمد صادق خلیل
۶۔مظہرالنکات شرح مشکوۃ،محدث عبداللہ روپڑی
۷۔ترجمہ مشکوۃ،،مولانا ابو الحسن سیالکوٹی
۸۔مرآۃ المناجیح اردو ترجمہ وشرح مشکوۃ المصابیح، مفتی احمد یار خان نعیمی
۹۔اردوترجمہ وفوائدمشکوٰۃ المصابیح، مولانا شیخ الحدیث محمد رفیق الاثری
۱۰۔اردوترجمہ مشکوٰۃ، مولانا محمد یونس گوہر
۱۱۔الملتقات علیٰ ترجمۃ المشکوٰۃ، شیخ محی الدین قصوری
۱۲۔طریق النجاۃ ترجمۃ الصحاح من المشکوٰۃ،مولانامحمدابراہیم آروی

دیگر کتب حدیث:

۱۔ترجمہ مسند امام احمد بن حنبل ،محمد بن عبد اللہ ہزاروی 
۲۔ترجمہ و توضیح مسند ،عبد الستار حماد (زیر تکمیل )
۳۔ترجمہ مسند دارمی ،شیخ عبد الرشید حنیف 
۴۔فیض الستار فی ترجمہ کتاب الاثار، ،مولانا ابو الحسن سیالکوٹی
۵۔المصطفی ترجمہ المنتقی لابن جارود ،عبد الحمید اٹاوی
۶۔الروض البسام ترجمہ بلوغ المرام ،نواب صدیق حسن خان(بلوغ المرام پر اہل حدیث مکتب فکر کی طرف سے فارسی ،عربی اور اردو تینوں زبانوں میں کافی کام ہوچکا ہے )
۷۔ترجمہ نیل الاوطار،،مولانا محمد داود رحمانی
۸۔ترجمہ عمد الاحکام ،،مولانا حافظ محمد اسحاق
۹۔ترجمہ صحیح ابن خزیمہ ،حافظ محمد ادریس
۱۰۔ ترجمہ موطا امام مالک ،حافظ زبیر علی زئی 
۱۱۔المختار اردو شرح کتاب الاثار ،ڈاکٹر حبیب اللہ مختار

۲۔درسی افادات و تقریرات 

برصغیر پاک وہند میں متون حدیث پر ہونے والے کام کا ایک بڑا حصہ درسی افادات پر مشتمل ہے ، معروف شیوخ الحدیث کی درسی تقاریر ان کے تلامذہ کی ترتیب و تدوین کے ساتھ چھپ چکی ہیں ،ان درسی افادات میں بڑی عمدہ ابحاث ہوتی ہیں۔ ذیل میں اس سلسلے کی اہم کاوشوں کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے :
۱۔صحیحین:
۱۔صحیح بخاری کی عربی میں مرتب شدہ درسی تقاریر میں حضرت انور شا ہ کشمیری رحمہ اللہ کے دروس پر مشتمل فیض الباری اہم ترین شرح ہے،آپ کے شاگرد رشید مولانا بدر عالم میرٹھی نے اسے مرتب کیا ،یہ شرح عرب و عجم میں معروف ہے ۔دوسری اہم تقریر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کے درسی افادات کا مجموعہ لامع الدراری فی شرح البخاری ہے ،یہ شرح مولانا یحییٰ کاندھلوی رحمہ اللہ نے دوران درس لکھی ہے ،جسے آپ کے با کمال صاحبزادے شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ نے اپنے قابل قدر حواشی کے ساتھ مرتب کر کے شائع کروایا۔اس کا مقدمہ حدیثی مباحث کا عمدہ خزانہ ہے۔
۲۔اردو میں صحیح بخاری کی درسی افادات پر مبنی شروح میں سے اہم شرح حضرت انور شاہ رحمہ اللہ کی درسی تقاریر پر مشتمل انوار الباری شرح صحیح بخاری(۱۹ ؍اجزاء) ہے جو ان کے شاگرد احمد رضا بجنوری نے مرتب کی ہے ،بے جا طوالت کے باوجود عمدہ مباحث پر مشتمل ہے ۔اس کے علاوہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب کے دروس کا مجموعہ فضل الباری، شیخ فخر الدین مراد آبادی کی ایضاح البخاری (دس جلدیں)، مولانا سعید احمد پالن پوری کی تحفہ القاری (گیارہ جلدیں) اور شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی مدظلہ کی انعام الباری (۷ جلدیں ) اہم شروح میں شمار ہوتی ہیں۔
۳۔صحیح مسلم کی اہم درسی تقاریر میں مولانا رشید احمد گنگوہی کی تقریر ہے ،جو مولانا یحییٰ کاندھلوی رحمہ اللہ نے قلمبند کی ہے ۔یہ تقریر شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ کے وقیع حواشی کے ساتھ الحل المفہم لصحیح مسلم کے نام سے دو جلدوں میں چھپی ہے۔
صحیحین کی اہم درسی تقاریر کی فہرست پیش خدمت ہے :
۱۔الخیر الساری ،مجموعہ افادات ،مولانا صدیق احمد باندوی(۵جلدیں )
۲۔تقریر بخاری شریف، مجموعہ افادات ،شیخ الحدیث ،مولانا زکریا (۵جلدیں)
۳۔تشریحات بخاری ،مجموعہ افادات حضرت گنگوہی و شیخ الحدیث (۷جلدیں)
۴۔دروس بخاری ،مجموعہ افادات ،مولانا حسین احمد مد نی 
۵۔فضل الباری فی فقہ البخاری ،مجموعہ افادات مولانا انور شاہ کشمیری (عربی ۵ مجلدات)
۶۔ارشاد القاری الی صحیح بخاری ،مجموعہ افادات مفتی رشید احمد 
۷۔درس بخاری،مجموعہ افادات مفتی نظام الدین شامزئی 
۸۔نفع المسلم شرح صحیح مسلم ،مجموعہ افادات ،مولانا اکرام علی بھاگلپوری
۹۔درس مسلم ،مجموعہ افادات مفتی محمد رفیع عثمانی 
۲۔جامع ترمذی:
۱۔جامع ترمذی کی عربی میں مرتب شدہ درسی افادات میں سے حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی درسی تقریرالکوکب الدری علی جامع الترمذی اور حضرت انورشاہ صاحب رحمہ اللہ کی درسی تقریر العرف الشذی شرح سنن ترمذی الترمذی اہم شروح میں شمار ہوتی ہیں۔
۲۔اردو میں جامع ترمذی کی متعدد درسی شروحات و تقاریر چھپی ہیں۔ ان میں درسی حوالے سے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی رحمہ اللہ کے افادات پر مشتمل ’’درس ترمذی‘‘ اور ’’تقریر ترمذی‘‘ زیادہ متداول اور مشہور ہے۔
جامع ترمذی کی اہم درسی تقاریر و شروح کی فہرست پیش خدمت ہے :
۱۔تقریر ترمذی ،افادات: حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی
۲۔الورد الشذی علی جامع ترمذی ،افادات: شیخ الہند مولانا محمود الحسن
۳۔تشریحات ترمذی، ،مولانا کمال الدین المسترشد (۷ جلدیں )
۴۔تقریر ترمذی ،مجموعہ افادات ،مولانا حسین احمد مدنی 
۵۔الخیر الجاری شرح جامع ترمذی ،افادات :شیخ الحدیث مولانا عبد الرحمان مینوی 
۶۔الورد الطری علی جامع الترمذی ،افادات :مولانا یاسین صابر 
۷۔دروس ترمذی ،افادات :مولانا رئیس الدین شیخ الحدیث مظاہر العلوم
۸۔حقائق السنن شرح جامع السنن ،افادات :مولانا عبد الحق اکوڑہ خٹک
۹۔انعامات رحمانی شرح ترمذی ثانی ،مولانا محبوب احمد صاحب
۱۰۔مجمع البحرین فی جمع الافادات عن الاستاذین ،افادات: مفتی نظام الدین شامزئی ومولانا زیب صاحب 
۱۱۔معارف ترمذی ،مفتی طارق مسعود 
۱۲۔ریاض السنن ،افادات :مولانا موسیٰ خان روحانی بازی 
شمائل ترمذی کی شروح:
۱۔خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی ،شیخ الحدیث مولانا زکریا 
۲۔شرح شمائل ترمذی، ،مولانا عبد القیوم حقانی 
۳۔زبدۃ الشمائل شرح شمائل، مولانا الیاس گھمن 
۴۔ شرح الوصائل فی شرح الشمائل، شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ
۵۔انوار غوثیہ شرح شمائل نبویہ ،محمد امیر شاہ گیلانی 
۶۔شرح شمائل ترمذی، مولانا صوفی عبدا لحمید سواتی 

۳۔سنن ثلاثہ ابو داود ،نسائی و ابن ماجہ:

۱۔سنن ابی داود کی درسی تقاریر میں شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ کے شاگرد رشید اور مظاہر العلوم سہارنپور کے استاد الحدیث مولانا محمد عاقل صاحب کی الدر المنضود علی سنن ابی داود قابل ذکر ہے ،یہ درسی شرح چھ ضخیم جلدوں میں چھپی ہے۔
۲۔ مولانا ریاست علی بجنوری کے افادات پر مشتمل شرح مصباح الزجاجہ شرح ابن ماجہ بھی اہم درسی شروح میں سے ہیں۔
۳۔ مولانا محبوب احمد صاحب کی انعام المعبود لطالبات سنن ابی داود اور مولانا صوفی سرور صاحب کی خیر المعبود بھی اہم درسی شروح شمار ہوتی ہیں۔
۴۔ مولانا اخترحسین بہاولپوری نے موطین ،نسائی و ابن ماجہ کی درسی شرح احسان الہی کے نام سے لکھی ہے ،یہ ایک ضخیم جلد میں چھپی ہے جس میں مذکورہ چار کتب کے درسی مقامات کی توضیح و شرح کی گئی ہے۔اس کے علاوہ استاد محترم مولانا خلیل الرحمان صاحب (استاد جامعہ دار القرآن فیصل آباد) کی درسی تقریر خیر الحاجہ شرح سنن ابن ماجہ بھی قابل ذکر ہے۔

۴۔مشکوۃ المصابیح و طحاوی:

۱۔بخاری و ترمذی کے بعد مشکوۃ المصابیح پاک وہند کے مدرسین کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے ،اس لئے مشکوۃ کی متعدد درسی شروحات و افادات منظر عام پر آئی ہیں ،ان میں شیخ الحدیث ،مولانا زکریا رحمہ اللہ کے افادات پر مبنی التقریر الرفیع (عربی )قابل ذکر ہے جو آپ کے شاگرد رشید مولانا شاہد سہارنپوری نے مرتب کی ہے۔
۲۔ مشکوۃ کی اردو تقاریر میں مولانا فضل احمد یوسف زئی کی تشریح وتوضیحات (۸جلدیں) جو ان کے استاد مولانا فضل احمد سواتی صاحب کے درسی افادات پر مشتمل ہے) اور جامعہ خیر المدارس کے استاد الحدیث مولانا شبیر الحق کشمیری کے افادات پر مبنی خیر المفاتیح (۶ جلدیں) مفصل درسی شروح میں شمار ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جامعہ امدادیہ کے بانی شیخ الحدیث،مولانا نذیر احمد صاحب کی درسی تقاریر پر مشتمل شرح اشرف التوضیح بھی مشکوۃ کی متداول شروح میں سے ہیں، اس کی پہلی دو جلدیں حضرت شیخ الحدیث صاحب اور آخری دو جلدیں آپ کے صاحبزادے مفتی محمد زاہد صاحب مدظلہم کے افادات پر مبنی ہے ،موخر الذکر جلدوں میں جدید مسائل پر عمدہ ابحاث شامل ہیں۔
مشکوۃ و طحاوی کی اہم درسی تقاریر و شروح کی فہرست پیش خدمت ہے :
۱۔اسعد المفاتیح ،افادات :مولانا عبد الغنی جاجروی (۲جلدیں )
۲۔درس مشکوۃ، افادات :شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق (۳جلدیں )
۳۔ضیا ء الصبیح ،افادات :مولانا فضل احمد سواتی 
۴۔تہذیب الطحاوی، مولانا شمس الحق 
۵۔ایضاح الطحاوی، مولانا شبیر الحق قاسمی 
۶۔تلخیص الطحاوی، مولانا عبد الباسط چلاسی 

چند ملاحظات

۱۔برصغیر میں متون حدیث پر ہونے والے کام کا ایک مختصرخاکہ پیش کیا گیا۔ اس خاکے سے بادی النظر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ برصغیر کے تین بڑے مکاتب فکر اہلحدیث، مکتب دیوبند اور مکتب بریلی میں سے مکتب اہل حدیث میں متو ن حدیث کے تراجم کا رجحان زیادہ رہا ہے اور مکتب دیوبند میں درسی افادات و تقریرات مرتب کرنے کی شرح زیادہ رہی ہے، جبکہ مکتب بریلی دونوں حوالوں سے نسبتاً کم تصنیفات کی حامل ہے۔ اس کے لیے علامہ عبدالحکیم شرف قادری کی ضخیم کتاب" تذکرہ اکابر اہل سنت "کا بالاستیعاب جائز لیا گیا جس میں مصنف نے مکتب بریلی کے تقریباً ایک سو اسی اکابرین کا مع ان کی تصانیف کے تذکرہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بریلی مکتب فکر کی کتب پر مشتمل ڈائریکٹری مرآۃ التصانیف سے بھی مدد لی گئی۔ تاہم مکتب بریلی میں متون حدیث پر قابل قدر کام کرنے کے حوالے سے علامہ غلام رسول سعیدی ،مفتی احمد یا ر خان نعیمی ،غلام رسول رضوی جیسے چند بڑے نام موجود ہیں۔
۲۔ تینوں مکاتب فکر کے حوالے سے ایک یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مکتب اہل حدیث نے اپنے اکابرین کی خدمات حدیث کو محفوظ کرنے کے حوالے سے خاصا کام کیا ہے ،چنانچہ معروف مورخ مولانا اسحاق بھٹی کی دبستان حدیث، عبد الرشید عرقی کی برصغیر میں علم حدیث ،مولانا ابو یحییٰ نوشہروی کی علمائے اہل حدیث کی علمی خدمات اور مولانا ارشاد الحق اثری کی پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث برصغیر میں مکتب اہل حدیث کی حدیثی خدمات پر مشتمل قابل ذکر کتب ہیں۔جبکہ مکتب دیوبند اور مکتب بریلی میں اس حوالے سے منظم کام نہیں ہوا ہے۔ مکتب دیوبند میں حدیث کے حوالے سے چند بڑے نام جیسے حضرت گنگوہی ،حضرت شیخ الہند ،حضرت انورشاہ کشمیری ،حضرت حسین احمد مدنی ،مولانا شبیر احمد عثمانی،مولانا ظفر احمد عثمانی اور کچھ دیگر حضرات کی خدمات حدیث پر مواد موجود ہے اور مکتب بریلی میں زیادہ تر مواد اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کی خدمات حدیث پر مشتمل ہے ۔دونوں مکاتب میں بحیثیت مکتب خدمات حدیث کو بیان کرنے پر کوئی مفصل کتاب (میر ی معلومات کی حد تک )موجود نہیں ہے۔اس لئے ان دونوں مکاتب کو صرف اپنے چند اکابرین پر توجہ دینے کی بجائے اپنے اپنے مکاتب میں حدیث پر ہونے مکمل کام کی مفصل دستاویز تیار کرنی چاہیے ۔
۳۔اس سلسلے کی پچھلی اقساط میں کتب کے بیان کرنے کے ساتھ ناشر کے ذکر کرنے کی کوشش کی گئی تھی ،جبکہ اس قسط میں صرف کتب اور ان کے مصنفین کے ناموں پر اکتفا کیا گیا ،جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہاں ناشر کی بجائے مصنف کے نام سے کتاب کی شہرت زیادہ ہوتی ہے اور کتاب کو طلب کرنے کے لئے بھی مصنف کا نام عمومی طور پر کافی ہوتا ہے ،نیز ایک کتاب کو متعدد ناشرین نے چھاپا ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے کسی ایک ناشر کو ترجیح دینے کی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آئی ، شاید یہی وجہ ہے کہ علمائے برصغیر کی خدمات حدیث پر جتنا مواد ہے ،اس میں بھی ناشر کو بیان کرنے کا خاص اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔
۴۔عالم عرب میں علم حدیث پر ہونے والے کام پر مفصل معاجم تیار ہوئی ہیں ،جب کہ برصغیر کے حدیثی ذخیرے پر چند مختصر کتب و مضامین کے علاوہ کوئی تفصیلی کام نہیں ہوا ہے ،اس لئے تحقیق کرنے والے اداروں سے درخواست ہے کہ بلا امتیاز مسلک و مشرب بحیثیت مجموعی برصغیر میں علم حدیث کے ذخیرے کے تعارف پر توجہ دیں اور مفصل معاجم و فہارس تیار کریں ،تاکہ اگلی نسلیں اسلاف کے قابل قدر ذخیرے سے واقف رہیں۔ڈاکٹر سعد صدیقی صاحب کی کتاب ’’علم حدیث اور پاکستان میں اس کی اشاعت‘‘ ایک اچھی کاوش ہے ،اسی طرز پر مفصل معاجم تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
۵۔ برصغیر میں متون حدیث پر ہونے والے کام کے بیان میں مسلک و مشرب سے قطع نظر کوشش کی گئی ہے کہ امہات حدیث کے اردو تراجم و شروح کا ذکر ہوجائے اور حتی الا مکان کوشش رہی کہ تینوں مکاتب میں ہونے والے قابل ذکر کام کا تذکرہ ہوجائے ،لیکن اس کا دعویٰ نہیں کہ سارے اہم کام اس سلسلے میں ذکرہوئے ہیں ،اس لئے کوئی اہم کام رہ گیا ہو تو قارئین سے درخواست ہے کہ مقالہ نگار کو مطلع فرمائیں تاکہ اس سلسلے پر نظر ثانی کے وقت وہ اضافہ جات شامل ہوسکیں۔
۶۔ عالم عرب میں متون حدیث پر متنوع قسم کی تحقیقات و دراسات ہوئی ہیں (جن کا ذکر اس سلسلے کی پچھلی دو اقساط میں ہوا ہے )جبکہ برصغیر میں تراجم و شروح سے سلسلہ آگے نہیں بڑھا ،اس لئے یہاں کے علمی حلقوں کو کتب حدیث پر تحقیقات و دراسات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں متون حدیث کی محققانہ اشاعت ،سابقہ طبعات میں اغلاط و اخطاء کی نشاندہی ، حدیث پر جدید فکری نظاموں کے پیدا کردہ متنوع اشکالات و اعتراضات کے جوابات،کتب حدیث کے مناہج ،حدیث کی کمپیوٹرائزیشن ،حدیث کے فقہی مطالعے کے ساتھ سماجی ،معاشی، تربیتی، ادبی پہلو سے مطالعہ اور اردو میں علم حدیث کی مفصل تاریخ و تعارف جیسے مباحث پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

فقاہت راوی کی شرط اور احناف کا موقف (۲)

مولانا عبید اختر رحمانی

فقہ راوی کی شرط کی بنیاد کیا ہے؟

رہ گئی یہ بات کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو قلیل الفقہ کیوں کہاگیاہے۔اوران کی روایت کیوں مطلقاً قابل قبول نہیں ہے تواس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام سرخسی کہتے ہیں۔
مع ھذا قد اشتھر من الصحابۃ رضی اللہ عنھم ومن بعدھم معارضۃ بعض روایاتہ بالقیاس، ھذا ابن عباس رضی اللہ عنھما لما سمعہ یروی ’’توضؤوا مما مستہ النار‘‘ قال: ارایت لو توضات بماء سخن اکنت تتوضا منہ؟ ارایت لو ادھن اھلک بھن فادھنت بہ شاربک اکنت تتوضا منہ؟ فقد رد خبرہ بالقیاس حتی روی ان ابا ھریرۃ قال لہ: یا ابن اخی، اذا اتاک الحدیث فلا تضرب لہ الامثال، ولا یقال انما ردہ باعتبار نص آخر عندہ، وھو ما روی ان النبی علیہ السلام اتی بکتف مؤربۃ فاکلھا وصلی ولم یتوضا لانہ لو کان عندہ نص لما تکلم بالقیاس ولا اعرض عن اقوی الحجتین او کان سبیلہ ان یطلب التاریخ بینھما لیعرف الناسخ من المنسوخ، او ان یخصص اللحم من ذلک الخبر بھذا الحدیث، فحیث اشتغل بالقیاس وھو معروف بالفقہ والرای من بین الصحابۃ علی وجہ لا یبلغ درجۃ ابی ھریرۃ فی الفقہ درجتہ عرفنا انہ استخار التامل فی روایتہ اذا کان مخالفا للقیاس، ولما سمعہ یروی ’’من حمل الجنازۃ فلیتوضا‘‘ قال: ایلزمنا الوضوء فی حمل عیدان یابسۃ؟ ولما سمعت عائشۃ رضی اللہ عنھا ان ابا ھریرۃ یروی ان ولد الزنا شر الثلاثۃ قالت: کیف یصح ھذا وقد قال اللہ تعالیٰ ’’ولا تزر وازرۃ وزر اخری‘‘ (المصدر السابق)
’’ باوجود اس کے کہ حضرت ابوہریرہ شرف صحابیت میں مشہور ہیں حضورپاک کے ساتھ سفر وحضر میں طویل وقت گزاراہے،صحابہ کرام اوربعد کے لوگوں نے ان کی روایتوں کا قیاس کے ساتھ معارضہ کیاہے۔یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ جب انہوں نے سناکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جس چیز کو آگ نے چھولیاہے اس کو استعمال کرنے کے بعد وضو کرو توانہوں نے کہا کہ اگرمیں گرم پانی سے وضو کروں تو کیامیں پھر سے وضو کروں؟ اس کے علاوہ دیکھئے اگرآپ کی بیوی کو کوئی تیل ہدیہ کرے اوروہ یہ تیل آپ کی مونچھوں کو لگادیں توکیاآپ اس سے وضو کریں گے؟ خلاصہ کلام کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کی روایت کو قیا س سے رد کردیا۔ اس پر ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ نہ نے کہا: اے بھتیجے، جب تم سے کوئی حدیث بیان کی جائے تواس کے لیے مثالیں نہ بیان کرو۔اس مثال پر کوئی یہ نہ کہے کہ حضرت ابن عباس نے اس کو دوسری حدیث سے رد کیاہے اوروہ حدیث یہ ہے کہ حضورپاک کے ساتھ دستی کا گوشت لایاگیاتواس کو کھایا اوروضو نہیں کیا، کیونکہ اگران کے پاس نص ہوتاتووہ قیاس سے کام نہ لیتے اور دو حجتوں میں سے زیادہ مضبوط حجت سے اعراض نہ کرتے یاپھر وہ یہ کرتے کہ دوحدیثوں کی تاریخ معلوم کرتے تاکہ ناسخ اورمنسوخ کو جان سکیں یااس حدیث سے گوشت کو خاص قراردیں، لیکن یہ سب نہ کرکے جب انہوں نے قیاس سے کام لیا۔ اور حضرات صحابہ کے درمیان حضرت ابن عباس فقہ وافتاء میں جتنے مشہور تھے، اس مقام تک حضرت ابوہریرہ نہیں پہنچتے ہیں۔ تواس سے ہم نے یہ بات جان لیاکہ انہوں نے روایت سننے کے بعد جب کہ وہ قیاس کے خلاف تھا، غوروفکر سے کام لیا۔اسی طرح حضرت ابن عباس نے جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے سناکہ جو کوئی جنازہ کو کاندھادے تو وہ وضو کرے، اس پر انہوں نے کہاکہ کیاخشک لکڑیوں کو ڈھونے سے بھی ہم پر وضو لازم ہوگا؟ اسی طرح جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے سناکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ زناسے پیداہونے والا بچہ تینوں میں سب سے برا ہے توانہوں نے کہا: یہ کیسے درست ہوسکتاہے، جب کہ اللہ کاارشاد ہے کہ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘
اس کے علاوہ امام سرخسی اس کو بھی ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کثرت حدیث سے سختی سے منع کیاتھا اورتنبیہ کی تھی بلکہ خود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بھی اعتراف ملتاہے کہ اگراس دور میں ہم نے حدیث کثرت سے بیان کی ہوتی تو ہم کو عمر کے درے کا خوف تھا۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر کثرت سے حدیث بیان کرنے پر انکار کیاہے۔علاوہ ازیں خود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس کا اعتراف تھاکہ ان کی جانب سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کثرت سے احادیث بیان کرنے پر لوگ متعجب ہیں۔ اس پر انہوں نے وضاحت بیان کی کہ میں چونکہ کسی اورمشغلہ میں الجھاہوانہیں تھا جب کہ مہاجرین کو تجارت اورانصار کو کھیتی باڑی کا مشغلہ رہتاتھااورمیں ہروقت حضورپاک کے ساتھ چمٹارہتاتھا۔اسی بنا پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں مجھ کو زیادہ یاد ہیں۔(المصدرالسابق)

حضرت ابوہریرہ پر حضرت عائشہ کے استدراکات

واضح رہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے اس کے علاوہ بھی استدراکات ہیں جس میں انہوں نے ان پر اعتراض کیاہے اورجواب میں کوئی حدیث نہیں بیان کی ہے بلکہ کبھی توقیاس سے کام لیاہے اورکبھی عمومات قرآن سے کام لیاہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے استدراکات کا دائرہ صرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تک نہیں بلکہ اس کے علاوہ دیگر صحابہ کرام پر بھی ہواہے جس کو زرکشی نے’’الاجابۃ لایراد ما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ‘‘ میں جمع کردیاہے۔ اس سے بھی فی الجملہ امام سرخسی اورامام عیسیٰ بن ابان کے قول کی تائید ہوتی ہے۔
فقہ راوی کے ساتھ دیگر شرائط:
یہ سب بیان کرنے کے بعد امام سرخسی کہتے ہیں:
فلمکان مَا اشتھر من السّلف فی ھذا البَاب قلنَا: مَا وَافق القیاس من رِوَایتہ فھو معمول بہ، وما خالف القیاس فان تلقتہ الامۃ بالقبول فھو معمول بہ، والا فالقیاس الصحیح شرعا مقدم علی روایتہ فی ما ینسد باب الرای فیہ (اصول السرخسی 1/341)
’’اسی وجہ سے جو ہم نے ماقبل میں بیان کی ہے کہ سلف نے حضرت ابوہریرہ کی بعض روایات پر انکار کیاہے۔ ہم نے کہاکہ ان کی جوروایتیں قیاس کے موافق ہوں گی اس پر عمل کیاجائے گا اورجوروایتیں خلاف قیاس ہوں گی تواگرخلاف قیاس روایت ایسی ہے جس کو امت نے قبول کرلیاہے تواس پر عمل کیاجائے، ورنہ قیاس صحیح جو شریعت کے موافق ہو،ان کی ایسی روایت پر مقدم کیاجائے جوبالکلیہ قیاس اوررائے کے خلاف ہو اوراس میں قیاس اوررائے کی کوئی بھی گنجائش نہ رہ گئی ہو۔‘‘
امام سرخسی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ کسی بات کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں،ایک چیز ایک لحاظ سے خلاف قیاس ہوتی ہے اوردوسرے لحاظ سے موافق قیاس ، توحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کوئی ایسی روایت جس پر امت نے عمل نہ کیا، صرف ایک پہلو سے نہیں بلکہ ہرپہلو سے خلاف قیاس ہوتواس وقت قیاس کو ان کی حدیث پر مقدم کیاجائے گا۔
امام سرخسی نے غیرفقیہ صحابی کی روایت کو خلاف قیاس ہونے کی صورت میں رد کرنے کیلئے چارشرطیں بیان کی ہیں:
اگر یہ تمام شرطیں پائی جائیں تب اس وقت قیاس کو مقدم کیاجائے گا۔ (ہم آگے چل کر اس پر بھی بات کریں گے کہ قیاس سے کون ساقیاس مراد ہے)۔

عدل وضبط کے بعد فقہ کی شرط کیوں؟

ایک سوال پھر پیداہوتاہے کہ جب وہ عادل ہیں اورجوسنتے ہیں وہ یاد رکھتے ہیں توپھر آپ ان کی روایت کو مطلقاً قبول کیوں نہیں کرتے۔خلاف قیاس اورموافق قیاس کے پھیر میں کیوں پڑتے ہیں؟ کیوں اس کے لئے کچھ الگ شرائط اورضوابط بناتے ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے امام سرخسی علیہ الرحمہ کہتے ہیں:
ولکن نقل الخبر بالمعنی کان مستفیضا فیھم، والوقوف علی کل معنی ارادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکلامہ امر عظیم، فقد اوتی جوامع الکلم علی ما قال: اوتیت جوامع الکلم واختصر لی اختصارا، ومعلوم ان الناقل بالمعنی لا ینقل الا بقدر ما فھمہ من العبارۃ، وعند قصور فھم السامع ربما یذھب علیہ بعض المراد، وھذا القصور لا یشکل عند المقابلۃ بما ھو فقہ (لفظ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فلتوھم ھذا القصور قلنا: اذا انسد باب الرای فی ما روی وتحققت الضرورۃ بکونہ مخالفا للقیاس الصحیح فلا بد من ترکہ، لان کون القیاس الصحیح حجۃ ثابت بالکتاب والسنۃ والاجماع، فما خالف القیاس الصحیح من کل وجہ فھو فی المعنی مخالف للکتاب والسنۃ المشھورۃ والاجماع (اصول السرخسی 1/341)
’’بات یہ ہے کہ حدیث کو لفظ کے بجائے معنی کے ساتھ روایت کرناحضرات صحابہ کرام میں جاری وساری تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد میں کیاکیامراد لیاہے اس کااحاطہ کرنا مشکل اوربڑاکام ہے کیونکہ ان کو جوامع الکلم (بات مختصر لیکن مختصر بات میں معنی کی ایک دنیا فروزاں ہو)دیاگیاتھااوریہ سب کو معلوم ہے کہ جب بات کو معنی کے ساتھ نقل کیاجائے توآدمی اپنے عقل اورفہم کے اعتبار سے ہی نقل کرتاہے اور کبھی کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ سننے والے کو سمجھنے میں غلطی ہوتی اورمطلب کا بعض پہلو اس سے اوجھل ہوتا ہے۔ اور یہ بات تب ظاہرہوتی ہے جب روایات کا مقابلہ کیاجائے اس کی روایت سے جس نے اس کو بہتر طور پر سمجھا ہے۔ اسی بنا پر کہ بعض دفعہ مطلب اورمراد کے کچھ پہلو وہم کی بنیاد پر یاکسی اوروجہ سے چھوٹ جاتے ہیں، جب کوئی ایسی روایت سامنے آئے جس سے قیاس ورائے کا ہرپہلوختم ہوجائے اور یہ بات بالبداہت ثابت ہوجائے کہ مذکورہ روایت خلاف قیاس ہے توایسی صورت میں روایت کو ترک کردیاجائے گا، کیونکہ قیاس صحیح کا حجت اوردلیل ہوناکتاب اللہ،سنت رسول اللہ ،اوراجماع سے ثابت ہے۔توجب کوئی روایت ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو توگویا وہ کتاب اللہ، سنت مشہور اورجماع کے خلاف ہے۔‘‘
امام سرخسی نے جوبات کہی ہے،وہ امام عیسیٰ بن ابان سے ہی مستفاد ہے۔ عیسیٰ بن ابان علیہ الرحمہ نے اپنی بات تفصیل سے کہی ہے اوراپنی رائے کودلائل سے بیان کیاہے اس کے علاوہ انہوں نے راوی کی عدم فقاہت کے سبب قیاس کیخلاف اس کی روایت کورد کرنے میں مزید شرائط بیان کیے ہیں۔یہ افسوس کی بات ہے کہ امام عیسیٰ بن ابان کی کوئی کتاب ہم تک نہیں پہنچ سکی یاتاحال نہیں پہنچی ہے،بہرحال اس مسئلہ پر ان کے خیالات کا بڑاحصہ امام جصاص رازی نے اپنی تالیف الفصول فی الاصول میں نقل کردیاہے، لہٰذا اس بارے میں امام عیسیٰ بن ابا ن کی رائے ہم ان کے الفاظ میں اوران کے عہد سے بہت قریب امام جصاص رازی کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں۔

عیسیٰ بن ابان کا موقف

امام عیسیٰ بن ابانؒ خلاف قیاس ہونے کی صورت میں راوی کے فقیہ ہونے کے قائل ہیں اورغیرفقیہ کی مثال میں انہوں نے حضرت ابوہریرہ کانام پیش کیاہے۔حضرت ابوہریرہ کا نام اس لئے پیش کیاہے کہ انہوں نے دیکھاکہ متعدد صحابہ کرام نے ان کی روایت غوروفکر کے بعد لی ہیںیاان پر قیاس کے ذریعہ اعتراض کیاہے۔اس کے علاوہ انہوں نے دیکھاکہ ان پر امام ابراہیم نخعی نے بھی اعتراض کیاہے۔امام نخعی کہتے ہیں کہ لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بعض حدیث پر عمل کرتے اوربعض پر نہ کرتے۔ ایک دوسرے موقع سے امام ابراہیم نخعی زیادہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ لوگ یعنی تابعین کرام ان کی وہ روایتیں جو جنت وجہنم کے تعلق سے ہوتیں اس کو تولیتے اورجواس کے علاوہ ہوتیں اس کو نہ لیتے۔(الفصول فی الاصول3/127)

ابراہیم نخعی کا قول

امام نخعی کا یہ قول ثابت شدہ ہے، اس کو مشہور محدث ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں(67/3600) بھی ذکر کیاہے اورحافظ ذہبی نے سیراعلام النبلاء میں بھی ذکر کیاہے۔ابن عساکر نے اس مفہوم کی متعدد روایتیں ذکر کی ہیں۔ امام اعمش سے مروی ہے:
وکان ابو صالح یحدثنا عن ابی ھریرۃ قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)، فکنت آتی ابراھیم فاحدثہ بھا، فلما اکثرت علیہ قال لی ما کانوا یاخذون بکل حدیث ابی ھریرۃ۔
’’ابوصالح ہم سے حضرت ابوہریرہ کے واسطے سے حدیث بیان کرتے تھے کہ رسول پاک نے فرمایا،رسول پاک نے فرمایا ،میں ابراہیم کے پاس آتااوران سے وہ حدیث بیان کرتا(امام اعمش کا ہی قول ہے کہ ابراہیم حدیث کے پرکھنے والے تھے الفاظ ہیں(کان ابراھیم صیرفیا فی الحدیث) جب میں ایسازیادہ کرنے لگایعنی حضرت ابوہریرہ کی احادیث ان کو زیادہ سنانے لگاتوانہوں نے مجھ سے کہا،ماقبل کے لوگ یعنی حضرات صحابہ وتابعین عظام حضرت ابوہریرہ کی تمام احادیث پر عمل نہیں کرتے تھے۔‘‘
سفیان عن منصور عن ابراھیم قال: ما کانوا یاخذون من حدیث ابی ھریرۃ الا ما کان من حدیث جنۃ او نار
’’ ابراہیم نخعی کہتے ہیں حضرات صحابہ وتابعین عظام حضرت ابوہریرہ کی وہی احادیث قبول کرتے تھے جس میں جنت اورجہنم کا ذکر ہوتا(حلال وحرام کے متعلق ان کی احادیث قبول نہ کرتے۔)‘‘
عن الاعمش قال: کان ابراھیم صیرفیا فی الحدیث، فکنت اذا سمعت من احد من اصحابہ اتیتہ بہ فاعرضہ علیہ، فحدثتہ ذات یوم بحدیث من حدیث ابی صالح عن ابی ھریرۃ فقال ابراھیم: کانوا یترکون شیئا من قولہ
اس کا مفاد بھی وہی ہے ماقبل میں ذکر کیاجاچکاہے۔ بس اتنا اضافہ ہے کہ ماقبل کے لوگ ان کے اقوال میں سے کچھ چھوڑ بھی دیاکرتے تھے۔
حافظ ذہبی سیراعلام النبلاء میں نقل کرتے ہیں:
شریک عن مغیرۃ عن ابراھیم قال: کان اصحابنا یدعون من حدیث ابی ھریرۃ (2/608)
’’ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب یعنی فقہائے کوفہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث کو یاحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث میں سے کچھ کو چھوڑدیتے تھے۔‘‘
من حدیث ابی ھریرۃ میں دوبات ہوسکتی ہے۔ یا تو من کو تبعیضیہ ماناجائے یعنی یہ بعض افراد کوبتانے کے لیے ہے یاپھر من کو زائد ماناجائے۔ اگر من کو زائد ماناجائے تو ترجمہ ہوگا کہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث کو مطلقاً رد کردیاکرتے تھے۔ اور اگرتبعیض کے معنی میں لایاجائے تومعنی ہوگا کہ بعض احادیث کو رد کرتے تھے۔میری رائے میں من یہاں حدیث کے بعض جزء پر دلالت کرنے کے لیے ہے اوراس کی دلیل یہ ہے کہ کتاب العلل میں امام احمد بن حنبل کے واسطہ سے یہ روایت مذکور ہے جس میں واضح ہوجاتاہے کہ یہاں پر من تبعیض کے لیے ہے، زائد نہیں ہے:
حدثنا ابو اسامۃ عن الاعمش قال: کان ابراھیم صیرفیا فی الحدیث اجیۂ بالحدیث، قال: فکتب مما اخذتہ عن ابی صالح عن ابی ھریرۃ، قال: کانوا یترکون اشیاء من احادیث ابی ھریرۃ (کتاب العلل لاحمد، ص 140)
ان اقوال کو حافظ ذہبی نے بھی سیراعلام النبلاء میں ذکر کیاہے اور پھر رد کیاہے۔حافظ ذہبی یہ قول اوردوسرے اقوال امام ابراہیم نخعی سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
قلت: ھذا لا شیء، بل احتج المسلمون قدیما وحدیثا بحدیثہ لحفظہ وجلالتہ واتقانہ وفقھہ، وناھیک ان مثل ابن عباس یتادب معہ ویقول: افت یا ابا ھریرۃ (سیر اعلام النبلاء 1/41)
’’ میں کہتاہوں ،یہ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ مسلمان ہمیشہ سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادث سیا ستدلال کرتے چلے آئے ہیں اوران کے حفظ،جلالت قدر ،پختگی اورفقہ کے قائل رہے ہیں۔ ان کی فقاہت کے لیے اتنا کافی ہے کہ حضرت ابن عباس جیسافقیہ ان کے ساتھ ادب کا معاملہ کرتاتھااورکہتاتھااے ابوہریرہ فتویٰ دیجئے۔‘‘

عیسیٰ بن ابان کے دلائل

بہرحال اس وقت ہماراموضوع حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کی فقاہت نہیں بلکہ امام عیسی بن ابان ہے۔ لہٰذا پھر سے اصل بحث کی جانب رخ کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کوفقہ وفتویٰ میں غیرمعروف کہنے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت خلاف قیاس ہونے کی صورت میں مطلقاً رد کردی جائے گی بلکہ اس کے لیے کچھ شرائط ہیں ،کچھ ضوابط ہیں۔
امام عیسیٰ بن ابان کہتے ہیں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی عدالت اورحفظ وضبط میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن یہ بات ہے کہ ان کا فقہی مقام ومرتبہ وہ نہیں تھا جودیگر فقہ واجتہاد میں معروف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کاتھا۔ علاوہ ازیں بعض صحابہ کرام نے ان کی روایت کو قیاس کے ذریعہ رد کیاہے، جیسے حضرت عباس سے جب یہ بات کہی گئی کہ آگ کو مس کی ہوئی چیز استعمال کرنے سے وضو کرو تواس کا رد انہوں نے قیاس کے ذریعہ کیا۔ جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیاکہ زناسے پیدا ہونے والا بچہ تینوں میں سے براہے (ماں باپ کے بعد)توحضرت عائشہ نے فرمایاکہ اگربات ایسی ہی ہے توپھر بدکاری کے الزام میں قابل حد حاملہ عورت کو بچہ جننے کی مہلت کیوں دی جاتی ہے؟ اس موقع سے حضرت عائشہ نے کوئی دوسری روایت نہ پیش کرکے قرآن کی آیت لاتزر وازرۃ وزر اخری کے عموم سے استدلال کیا۔ اسی طرح روایت میں آتاہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نیایک پاؤں میں موزہ پہن کر چلنے سے ممانعت کی روایت کی توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے اس کو تسلیم نہیں کیا۔
اس کے علاوہ عیسیٰ بن ابان دوسرے نظائر پیش کرتے ہیں جہاں صحابہ کرام نے ان کی کثرت روایت پر انکار کیااورتعجب کیا اورحضرت عائشہ نے توٹوکابھی کہ رسول پاک تمہاری طرح جلدی جلدی بات نہیں کرتے تھے ،وہ تواتنے ٹھہر کر بیان کرتے تھے کہ کوئی ان کی باتوں کو شمار کرناچاہے توشمار کرلے۔(الفصول فی الاصول 3/128)
یہ سب مثالیں عیسیٰ بن ابان سے نقل کرنے کے بعد امام جصاص رازی عیسی بن ابان رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
قال ابوبکر رحمہ اللہ: جعل عیسی رحمہ اللہ ما ظھر من مقابلۃ السلف لحدیث ابی ھریرۃ بقیاس الاصول وتثبیتھم فیہ علۃ لجواز مقابلۃ روایاتہ بالقیاس، فما وافق القیاس منھا قبلہ وما خالفہ لم یقبلہ، الا ان یکون خبرا قبلہ الصحابۃ فیتبعون فیہ (الفصول فی الاصول3/129)
’’امام جصاص رازی کہتے ہیں سلف سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کاقیاس کے اصول سے معارضہ کرنے اوراس میں مزید غوروفکر نے اس پر آمادہ کیاکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کا قیاس سے مقابلہ کیاجائے توان کی جوروایت قیاس کے موافق ہوئی ،اسے انہوں نے قبول کرلیااورجوروایت قیاس کے خلاف ہوئی، اسے قبول نہیں کیا۔ہاں، اگر ان کی کسی خلاف قیاس خبر کو صحابہ وتابعین نے قبول کیاہے تواس کو قبول کیاجائے گا۔‘‘

غیرفقیہ راوی کی روایت کو رد کرنے کے لیے مزید شرائط

عیسیٰ بن ابان کے نزدیک کسی روایت کے خلاف قیاس ہونے کی صورت میں رد کے لیے حسب ذیل شرائط وضوابط ہیں:
یقبل من حدیث ابی ھریرۃ ما لم یردہ القیاس ولم یخالف نظائرہ من السنۃ المعروفۃ الا ان یکون شیء من ذلک قبلہ الصحابۃ والتابعون ولم یردوہ (الفصول فی الاصول 3/127)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سے وہ حدیث قبول کی جائے گی جو قیاس کے خلاف نہ ہواوراس حدیث کے خلاف اس کی نظیر دوسری مشہور احادیث نہ ہوں۔ہاں اگران سب کے باوجود ایسی روایت کو صحابہ اورتابعین نے قبول کیاہوگاتوخلاف قیاس ہونے کے باوجود اس روایت کو قبول کیاجائے۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر عیسی بن ابان کہتے ہیں:
ویقبل من حدیث ابی ھریرۃ ما لم یتم وھمہ فیہ لانہ کان عدلا (المصدرالسابق)
’’ اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث قبول کی جائے گی جس کے بارے میں مکمل طورپر پتہ چلے کہ ان کو وہم لاحق نہیں ہواہے، کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ عادل تھے۔ ‘‘
اگریہ تمام شرائط پائی جائیں گی، تب جاکر ایسی روایت خلاف قیاس ہونے کی وجہ سے رد کردی جائے گی:
ان چارشرائط کے اجتماع کے بعد ہی کسی روایت کو محض اس لئے رد کردیاجائے گاکہ وہ خلاف قیاس ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عیسیٰ بن ابان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فقہ میں غیرمعروف یاغیرفقیہ مانتے ہیں ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے شرف صحابیت کا پوراخیال رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ان کے عدل اورحفظ وضبط میں کوئی شبہ نہیں ہے اور فقاہت کے ہونے نہ ہونے سے کسی کے عدل وحفظ میں کوئی کمی نہیں آتی۔
بل الذی ذکر عیسی فی کتاب المشھور ھو ما قدمنا ذکرہ، مع تقدیمہ القول فی مواضع من کتبہ بانہ عدل مقبول القول والروایۃ، غیر متھم بالتقول علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الا ان الوھم والغلط لکل بنی آدم منہ نصیب، فمن اظھر من السلف تثبتا فی روایۃ تثبتنا فیھا واعتبرناھا بما وصفنا (الفصول فی الاصول 3/130)
’’ بلکہ عیسیٰ بن ابان نے اپنی مشہور کتاب(کتاب الحجج)میں جوکچھ کہاہے وہ وہی ہے جو ہم نے ماقبل میں ذکر کیاہے(کہ حضرت ابوہریرہ عادل اورحفظ وضبط میں ممتاز ہیں)یہ بات انہوں نے اپنی مختلف کتابوں میں متعد د مقام پر کہی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ عادل ہیں، قول اورروایت میں مقبول ہیں۔ رسول پاک پر جھوٹی بات گڑھنے والے نہیں ہیں۔ ہاں یہ ہے کہ وہم اورغلطی بنی آدم کا خاصہ ہے توان کی جن روایتوں پر سلف نے انکار کیاہے اورتثبت سے کام لیاہے ،ہم بھی انہی اسلاف کے نقش قدم پر چلیں گے۔‘‘

ایک اعتراض کا جواب

اب یہاں پر ایک اعتراض ہوسکتاہے۔وہ اعتراض یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رسول اللہ سے بہت زیادہ احادیث بیان کرتاہے۔ بات یہ ہے کہ میں مسکین آدمی تھا، ہمیشہ رسول پاک سے چمٹارہتاتھا۔ انصار کو اپنے مشاغل تھے اورمہاجرین کو بازاروں کی مشغولیت رہتی تھی۔ اورمیں ایک مرتبہ رسول پاک کی مجلس میں حاضر تھا اور وہ فرمارہے تھے کہ کون اپنی چادر پھیلائے گا تاکہ میں اپنی بات پوری کرلوں، پھر وہ اس کو لے لے تووہ کوئی ایسی بات نہ بھولے جومجھ سے سناہو۔تومیں نے اپنے اوپرپڑی چادر کو بچھایا، یہاں تک کہ نبی پاک نے اپنی بات پوری کرلی، پھر میں نے چادر کو لیا تو اس کے بعد میں کچھ بھی نہیں بھولا۔ حضرت ابوہریرہ نے حضورپاک کی باتوں کو یاد رکھاتھااوراس کی گواہی نبی پاک نے بھی دی ہے، اسی لئے ان کی روایتیں دوسروں سے زیادہ ہیں تواس کو ان پر وجہ طعن اوروہم کی بنیاد نہیں بناناچاہئے۔ (الفصول فی الاصول3/130)
اس کا جواب دیتے ہوئے امام جصاص رازی کہتے ہیں کہ اگرایسی ہی بات ہوتی کہ حضرت ابوہریرہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی بات نہ بھولنے والے ہوتے توان کی روایت کو تمام صحابہ کرام کی روایت پر مطلقاً ترجیح دی جاتی، کیونکہ تمام صحابہ کرام پر بہرحال بھول چوک اوروہم ونسیاں کا خطرہ برقرارتھا سوائے حضرت ابوہریرہ کے ؛لیکن ہم صحابہ کرام اورتابعین عظام کے حالات کاجب مطالعہ کرتے ہیں توپاتے ہیں کہ بات یہ نہیں تھی۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایتوں کو اکابرصحابہ پر کبھی ترجیح نہیں دی ؛ بلکہ بسااوقات ایسابھی ہواہے کہ ان کی روایتوں کا معارضہ کیاگیاہے، خود ان پر رد کیاگیاہے۔حضرت عباس نے رد کیا،حضرت عائشہ نے رد کیا،ابراہیم نخعی نے رد کیا ،اس سے پتہ چلتاہے کہ بات وہ نہیں ہے جو معترض سمجھاہے، بلکہ یہ ہے کہ نہ بھولنے کی بات صرف اورصرف اس ایک مجلس کی تھی جس میں یہ واقعہ پیش آیا ،نہ کہ پوری زندگی پر محیط اورکسی بھی بات کے نہ بھولنے کی ضمانت۔
امام جصاص رازی لکھتے ہیں:
اما قولہ: انھم یزعمون ان ابا ھریرۃ یکثر الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فانہ یدل علی انھم قد کانوا انکروا کثرۃ روایتہ، واما حفظہ لما کان سمعہ حتی لا ینسی منہ شیئا فانہ لو کان کذلک لکانت ھذہ فضیلۃ لہ قد اختص بھا وفاز بحظھا من سائر الصحابۃ، ولو کانت ھذہ لعرفوا ذلک منہ واشتھر عندھم امرہ حتی کان لا یخفی علی احد منھم منزلتہ، ولرجعت الصحابۃ الیہ فی روایتہ، ولقدموھا علی روایات غیرہ لامتناع جواز النسیان علیہ وجوازہ علی غیرہ، ولکان ھذا التشریف والتفضیل الذی اختص بہ متوارثا فی اعقابہ کما خص جعفر بان لہ جناحین فی الجنۃ وخص حنظلۃ بان الملائکۃ غسلتہ (الفصول فی الاصول 3/131)
’’بہرحال حضرت ابوہریرہ کا یہ قول کہ "لوگ یہ گمان کرتے ہیں"یہ خود بتارہاہے کہ ان کے ہم عصروں نے ان کی کثرت روایت کو عجیب بات سمجھاہے۔یہ کہناکہ ان کاحافظہ ایساہوگیاہے کہ پھر وہ کچھ نہیں بھولتے تھے تواگرایساہی ہوتا تویہ ان کی خاص فضیلت ہوتی جس میں وہ دیگر تمام صحابہ کرام سے ممتاز ہوتے اوراس کی شہرت ہوتی یہاں تک کہ سبھی اس کو جان لیتے اورصحابہ کرام کے درمیان جب کوئی اختلاف ہوتاتووہ حضرت ابوہریرہ کی جانب رجوع کرتے اوران کی روایات کو دیگرتمام کی روایات پر ترجیح دیتے کیونکہ وہ نسیان اوربھول چوک سے بری ہوگئے تھے۔اوران کی یہ فضیلت خاص کاذکر ہردور میں جاری رہتا اورلوگوں میں شہرہ ہوتا جیساکہ حضرت جعفر ذوالجناحین کے لقب سے مشہور ہیں اورحضرت حنظلہ کو غسیل الملائکہ کہا جاتا ہے۔‘‘
فلما وجدنا امرہ عند الصحابۃ بضد ذلک لانھم انکروا کثرۃ روایتہ علمنا ان ما روی فی انہ لا ینسی شیئا سمعہ غلط، وکیف یکون کذلک وقد روی عنہ حدیث رواہ عن النبی علیہ السلام وھو قولہ فی ما اخبر: ’’لا عدوی ولا طیرۃ‘‘، ثم روی: ’’لا یوردن ممرض علی مصح‘‘، فقیل لہ: قد رویت لنا عن النبی علیہ السلام قبل ذلک لا عدی ولا طیرۃ فقال: ما رویتہ (المصدر السابق)
’’لیکن جائزہ کے بعد معاملہ برعکس ملتاہے کیونکہ متعدد صحابہ کرام نے ان کی کثرت روایت پر انکار کیاہے۔اس سے ہم نے جان لیاکہ یہ بات کہ وہ کچھ نہیں بھولیں گے غلط ہے اور ایساکیسے ہوسکتاہے جب کہ ان سے ہی منقول ہے کہ انہوں نے لاعدوی ولاطیرۃ کی حدیث نقل کی، پھر یہ حدیث نقل کی: لایوردن ممرض۔پھر جب لوگوں نے کہاکہ آپ نے توپہلے ایسی حدیث بیان کی تھی توکہاکہ نہیں، میں نے ایسی کوئی حدیث بیان نہیں کی ۔‘‘
اس کے بعد امام جصاص رازی یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے لیے نہ بھولنے کی دعا صرف ایک مجلس سے متعلق تھی۔(الفصول فی الاصول3/131)
امام جصاص رازی کی یہ تاویل کوئی بے جا اوردورازکار تاویل نہیں ہے کیونکہ اسی حدیث کے متعدد دیگر طرق میں اس کا ذکر موجود ہے کہ بات صرف اسی ایک مجلس کی تھی۔ہم بحث کو زیادہ نہ پھیلاتے ہوئے صرف بخاری اورنسائی کی روایت پیش کرتے ہیں جس میں تصریح ہے کہ اس ایک خاص مجلس کی بات نہ بھولنے کے بارے میں حضورپاک نے فرمایاتھا:
وقد قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی حدیث یحدثہ انہ لن یبسط احد ثوبہ حتی اقضی مقالتی ھذہ ثم یجمع الیہ ثوبہ الا وعی ما اقول، فبسطت نمرۃ علی حتی اذا قضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقالتہ جمعتھا الی صدری، فما نسیت من مقالۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلک من شیء (صحیح البخاری، الناشر: دار طوق النجاۃ3/52،رقم الحدیث:2047)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،میری بات مکمل ہونے تک جو کوئی اپنے کپڑے کو پھیلائے رکھے اور بات ختم ہونے پر اسے سمیٹ لے تو جوکچھ میں نے کہاہے اسے یاد رہے گا۔یہ سن کر میں نے اپنی چادر بچھائی ،جب رسول پاک نے اپنی بات مکمل فرمالی تو میں نے اس کو سمیٹ کر اپنے سینے سے لگالیا ،اس کے بعد رسول پاک کی وہ بات میں کبھی نہیں بھولا۔‘‘
یہی روایت نسائی 5/372،رقم الحدیث:5835،ابن حنبل فی مسندہ ج 2/ ص 240 حدیث رقم: 7274 اور حلیۃ الاولیاء 1/381 وغیرہ میں بھی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن حضرات نے یہ موقف اختیار کیاہے کہ غیرفقیہ صحابہ کرام کی روایت خلاف قیاس ہونے کی صورت میں رد کردی جائے گی۔انہوں نے اسے مطلقاً قابل رد نہیں کہاہے بلکہ اس کے لیے کچھ دیگر شرائط اورضوابط کابھی لحاظ رکھا ہے۔ امام عیسیٰ بن ابان اورامام سرخسی سے مستفاد اصولوں کو ہم ترتیب وار پیش کرتے ہیں اور سبھی کی مختصر تشریح بھی کردیتے ہیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو:
1: وہ روایت صرف اسی ایک غیرفقیہ راوی کے واسطے سے منقول ہو۔
مثلاً ایک روایت صرف حضرت ابوہریرہ ہی سے مروی ہے۔وہ حضرات جن کے نزدیک فقاہت راوی بھی ایک شرط ہے۔ اگرغیرفقیہ راوی کی روایت کے ساتھ دوسرے صحابی کی روایت مل جائے تواس وقت یہ روایت خبرواحد نہ رہ کر مشہور ہوجائے گی اورایسی روایت کو قیاس پر مطلقاً مقدم کردیاجائے گا
2: ثانیاً امت نے اس پر عمل نہ کیاہو۔ اگرفقہاء اورمجتہدین نے اس سے استدلال کیاہے اوراس روایت پر عمل کیاہے توبھی روایت قیاس پر مقدم ہوگی۔
3: صحابہ کرام اورتابعین عظام نے اس پرنکیر کیاہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جن احادیث پر حضرت صحابہ کرام نے اعتراض کیاہے، اس کی وجہ سے وہ حدیث اب اس لائق ہوگئی ہے کہ ایک مجتہد اس مین غوروفکر کرے اورغوروفکر کے بعداس کو قبول کرنے اورقبول نہ کرنے کا فیصلہ کرے۔
4: اس مفہوم کی دوسری روایات اس کی تائید نہ کرتی ہوں۔
اس میں اورشرط نمبر 1 میں باریک سافرق ہے کہ اگرکسی دوسری روایت کے عموم سے یامفہوم سے بھی غیرفقیہ راوی کی روایت کی تائید ہوتی تو اس روایت کو قیاس پر مقدم کردیاجائے گا۔
5: کتاب وسنت کے دوسرے نظائر اس مروی حدیث کے خلاف ہوں۔
مثلاً حدیث مصراۃ کو ہی لیتے ہیں۔اب دوسری مشہور اورمقبول احادیث کا جومفہوم اورعموم ہے،وہ اس حدیث کے خلاف ہے۔ مثلاً الخراج بالضمان یاپھر اس مفہوم کی احادیث کہ سامان اورقیمت میں توازن ہوناچاہئے۔
6: ہرپہلوسے خلاف قیاس ہو، قیاس اوررائے کی ا س میں کوئی گنجائش نہ ہو۔ 
فقہ میں قیاس کی دوبنیادی قسمیں ہیں: قیاس جلی اورقیاس خفی۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ صرف ایک پہلو ہی اپنے اندر نہیں رکھتا بلکہ متعدد پہلواپنے اندر رکھتاہے،خلاف قیاس ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ قیاس ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو۔کسی بھی پہلو سے اس حدیث کا موافق قیاس ہونا ثابت نہ ہو۔
7: قیاس عقلی نہیں بلکہ قیاس شرعی کے خلاف ہو۔
قیاس کی دوقسمیں ہیں: قیاس عقلی اورقیاس شرعی۔ قیاس عقلی تو عقل سے اندازہ لگاناہے یہ دنیاوی چیزوں کے بارے میں ہوتاہے۔فلاں چیز ایسی ہے اور وہی خصوصیات فلاں چیز میں ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہوگی یاہونی چاہئے، جبکہ قیاس شرعی کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک مسئلہ ایک مجتہد کے سامنے آتاہے تو وہ دیکھتاہے کہ آیا یہ حکم کتاب اللہ میں ہے۔ اگرہے توٹھیک ،نہیں ہے توسنت رسول میں دیکھتاہے۔ اگروہاں بھی نہیں ہے توحضرات صحابہ کرام اورماقبل کے مجتہدین کا متفقہ قول تلاش کرتاہے۔ اگرنہیں ملتاتووہ دیکھتاہے کہ اس مسئلہ کی بنیادی علت کیاہے۔پھر اس علت کو دیکھنا شروع کرتاہے کہ قرآن کریم کی آیتوں، فرامین رسول پاک اوراجماع صحابہ وتابعین میں میں سے کسی میں یہ علت پائی جا رہی ہے یانہیں۔ اگرپائی جارہی ہے تو وہ اس علت کو اس مسئلہ کی بنیاد بناکروہی حکم اس مسئلہ میں بھی جاری کرتاہے۔ اس کوقیاس شرعی کہتے ہیں کیونکہ یہ صرف کتاب اللہ ،سنت رسول اوراجماع پر ہی ہوتاہے۔

خبر پر قیاس کے مقدم کرنے کے لیے کیساقیاس معتبر ہے؟

قیاس شرعی میں بھی کچھ اقسام ہیں اور یہ اقسام علت کے اعتبار سے ہیں کہ قیاس کے لیے جس علت کو بنیاد بنایا گیا ہے، اس علت کی خود پوزیشن کیاہے۔ کبھی علت منصوص ہوتی اوردلیل پر قطعی ہوتی ہے۔ کبھی علت منصوص ہوتی ہے اور دلالت پر ظنی ہوتی ہے، لیکن یہ علت جو منصوص اورظنی ہے، یہ اس خبر پر جس کے خلاف ہے، راجح ہوتی ہے۔ کبھی منصوص علت ظنی ہوتی ہے اور خبر کے مقابلے میں مرجوح ہوتی ہے۔کبھی ایساہوتاہے کہ دلیل کی قوت کے لحاظ سے منصوص علت اور خبر دونوں ہی برابرہوتے ہیں، ان حالات میں کہ اگر قیاس کی علت منصوص ہواوردلالت پر قطعی ہوتو پھر وہ خبرواحد پر مقدم ہوگی۔ اگرقیاس کی علت منصوص ہواورظنی ہو، لیکن دوسری وجوہات سے وہ خبرواحد پر رجحان رکھتی ہوتواس وقت بھی وہ خبرواحد پر مقدم ہوگی۔ اگرقیاس کی علت منصوص اورظنی ہے اورخبرواحد بھی ظنی ہے اوردلیل کی قوت کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں توایسے وقت میں مجتہد اس میں اجتہاد کرے گااوراس کا جس جانب رجحان ہو، اس کو مقدم کرے گا۔ اگرقیاس کی علت منصوص ہونے کے باوجود خبرواحد کے مقابلے میں مرجوح ہے توخبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
علامہ ابن ہمام تحریر میں اوران کے شارح لکھتے ہیں:
(ان کان) ثبوت العلۃ (بقاطع) لان النص علی العلۃ کالنص علی حکمھا فحینئذ القیاس قطعی والخبر ظنی والقطعی مقدم قطعا، (فان لم یقطع) بشیء (سوی الاصل) ای بحکمہ (وجب الاجتھاد فی الترجیح) فیقدم ما یرجح اذ فیہ تعارض ظنین: النص الدال علی العلۃ وخبر الواحد، ویدخل فی ھذا ما اذا کانت العلۃ منصوصا علیھا بظنی، وما اذا کانت مستنبطۃ (والا) ان انتفی کلا ھذین (فالخبر) مقدم علی القیاس لاستواءھما فی الظن، وترجح الخبر علی النص الدال علی العلۃ بانہ یدل علی الحکم بدون واسطۃ، بخلاف النص الدال علی العلۃ فانہ انما یدل علی الحکم بواسطۃ العلۃ (التقریر والتحبیر علی تحریر الکمال ابن الھمام 2/299)
’’اگرعلت کا ثبوت قطعی ہو کیونکہ علت کی نص ویسی ہی ہوتی ہے جیسے نص کسی حکم پر ہوتی ہے توایسی حالت میں علت کے قطعی ہونے کی صورت میں قیاس قطعی ہوگا اورخبرظنی ہوگی توقیاس کو خبرپرمقدم کیاجائے گا۔ اوراگرقطعی نہ ہو اوراصل کے اعتبار سے دونوں برابر ہوں تواس وقت ترجیح کے لیے اجتہاد کیاجائے گا۔ اور اس کو مقدم کیاجائے گا جو راجح ہو کیونکہ یہاں پر دوظن میں تعارض ہے۔ ایک خبرواحد اورایک قیاس کی منصوص علت۔ علت کے منصوص ہونے میں شامل ہے کہ وہ براہ راست نص سے ثابت ہو یانص سے مستنبط کیا گیا ہو۔ اگریہ دونوں صورتیں نہ ہوں یعنی نہ علت قطعی ہو اورنہ منصوص اورظنی ہوتو خبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔‘‘
علامہ ابن ہمام ایک سوال کا جواب دے رہے ہیں کہ خبرواحد کو آپ ظنی مانتے ہیں اورقیاس بھی ظنی ہے تو پھر آپ قیاس اورخبرواحد کے تعارض کی صورت مین مذکورہ دوبالاشرط کیوں لگارہے ہیں کہ ایساایساہوگاتو قیاس مقدم ہوگا اور ایسانہیں ہوگاتو خبرمقدم ہوگی۔ اصول کا تقاضا تویہ ہوناچاہئے تھاکہ جب دونوں ظنی ہیں توچاہے قیاس کی علت منصوص ہویانہ ہو قطعی ہو یانہ ہو، ہرحال میں وجہ ترجیح دیکھی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ قیاس میں کسی حکم کااثبات علت کے واسطے سے ہوتاہے اورخبرواحدمیں اسی حکم کااثبات بغیر علت کے اوربراہ راست ہوتاہے، لہٰذا جب ایک جانب صرف قیاس اوردوسری جانب خبرواحد ہوتوخبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
8: خبر سے حلال وحرام کی بات کا اثبات ہورہاہے۔ اگرصرف استحباب ،سنت یاافضل وغیرافضل کی بات ہو توبھی قیاس پر خبرواحد کو مقدم کیاجائے گا خواہ راوی فقیہ ہویاغیرفقیہ، چنانچہ امام جصاص رازی لکھتے ہیں:
انما قصد عیسی رحمہ اللہ فی ما ذکرہ الی بیان حکم الاخبار الواردۃ فی الحظر او الایجاب او فی الاباحۃ ما قد ثبت حظرہ بالاصول التی ذکرھا او حظر ما ثبت اباحتہ مما کان ھذا وصفہ، فحکمہ جار علی المنھاج الذی ذکرنا فی القبول او الرد۔ واما الاخبار الواردۃ فی تبقیۃ الشیء علی اباحۃ الاصل او نفی حکم لم یکن واجبا فی الاصل او فی استحباب فعل او تفضیل بعض القرب علی بعض، فان ھذا عندنا خارج عن الاعتبار الذی قدمنا، وذلک لانہ لیس علی النبی علیہ السلام بیان کل شیء مباح ولا توقیف الناس علیہ بنص یذکرہ، بل جائز لہ ترک الناس فیہ علی ما کان علیہ حال الشیء من الاباحۃ قبل ورود الشرع، وکذلک لیس علیہ تبیین منازل القرب ومراتبھا بعد اقامۃ الدلالۃ لنا علی کونھا قربا، کما انہ لیس علیہ ان یبین لنا مقادیر ثواب الاعمال (الفصول فی الاصول 3/122)
’’ عیسیٰ بن ابان علیہ الرحمہ نے احادیث کے قبول وعدم قبول کا ماقبل میں جو معیار بتایاہے، وہ ان احادیث کے لیے ہے جوکسی چیز کو حرام کرتی یاحلال کرتی ہیں یاکسی چیز کو فرض وواجب کرتی ہیں۔جواحادیث ایسی ہوں گی تواس کو اسی معیار پر پرکھاجائے جس کو ہم نے ذکر کیاہے۔باقی رہ گئی وہ حدیثیں جو کسی چیز کو اصل پر باقی رکھتی ہیں یعنی وہ پہلے بھی حلال تھی اورحدیث میں بھی اس کی حلت کا ذکر ہے یاکسی چیز سے منع کیاگیاہے جو پہلے بھی واجب نہیں تھی یاکسی فعل کے استحباب کے بارے میں یابعض اعمال کو بعض پر فضیلت دینے کے بارے میں تو وہ ہماری بحث سے خارج ہے یعنی ایسی حادیث پر ان شرائط کا اطلاق نہیں ہوگا۔ا س کی وجہ یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ذمہ داری نہی ہے کہ وہ تمام مباحات کو بتائیں اورنہ یہ کہ تمام لوگوں کو اس کے بارے میں نص کے ذریعہ باخبرکرائیں، بلکہ ان کے لیے جائز ہے کہ لوگوں کو اس حال پر چھوڑ دیں جس پر وہ شریعت کے نزول سے پہلے تھے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بھی ضروری نہیں کہ بعض اعمال کے درجات اورمراتب کے بارے میں بتائیں جب کہ آپ نے اس کے عبادت ہونے کو بیان کردیاہو جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعمال کے ثواب کے درجات کا بتاناضروری نہیں ہے۔‘‘

خلاصہ کلام

فقاہت راوی کی شرط اور قیاس کے خبر واحد پر مقدم ہونے کانظریہ ائمہ احناف سے منقول نہیں،یہ عیسیٰ بن ابان کا تخریج کردہ نظریہ ہے اور بعد کے بعض فقہاء نے اس معاملے میں ان کی پیروی کی ہے، عیسیٰ بن ابان کا یہ نظریہ بھی مطلقاً نہیں ہے، بلکہ وہ راوی کے فقیہ نہ ہونے کی صورت میں خبر واحد پرقیاس کو مقدم کرنے کے لیے چند شرائط وضوابط کالحاظ کرتے ہیں اور ان شرائط وضوابط کے لحاظ اورخیال کے بعد فقاہت راوی کی شرط کے ماننے والے اورنہ ماننے والے عملی طورسے ایک ہی صف میں ہوجاتے ہیں۔

دینی مدارس، دہشت گردی اور عالمی پالیسی ساز طاقتیں

ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

اردو ترجمہ: ڈاکٹر وارث مظہری
(مصنف کی کتاب ?What is a Madarasa کی ایک فصل)

اکثر پالیسی ساز افراد اور ادارے جو فیصلے کرتے ہیں وہ یا تو ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں پر مبنی ہوتے ہیں یا پھر انٹیلی جنس کی گمراہ کن رپورٹوں پر۔ مسلمانوں کی مذہبی زندگی میں مدارس کا کردار کیا ہے، اگر مجھے اس کی تشریح و وضاحت کا موقع دیا جائے اور مجھے صدر امریکہ، امریکی کانگریس کے ارکان اور دنیا کی کسی بھی حکومت کو مدارس کے تعلق سے مشورہ دینا ہو تو میں اپنی کتاب ’’دینی مدارس:عصری معنویت اورجدید تقاضے‘‘ کا ایک نسخہ اس مکتوب کے ساتھ انھیں ارسال کرنا چاہوں گا:
محترم صدر امریکہ اور امریکی کانگریس کے معزز ارکان!
تصور کیجیے کہ جنوبی ایشیا میں تعینات امریکی فوج پر یا خدانخواستہ امریکہ کے مرکزی مقام پر ایک ایسا دہشت گردانہ حملہ، جس کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی ہو، کامیاب ہوجائے، تو کیا امریکہ اس کے ردِ عمل میں آکر افغانستان اور پاکستان (افغان۔پاک سرحدی علاقے) میں قائم مدارس کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا؟ یا مدارس کی عمارتوں پر ڈرون حملے کرے گا؟ یہ منظر نامہ یقینی طور پر امکان کے دائرے میں ہے۔ ماضی کے مشاہدات گواہ ہیں کہ امریکہ کو جب کبھی شکست کا زخم لگا تو اس کے اندمال کے لیے امریکی سیاسی قیادت نے کسی نہ کسی کو قربانی کا بکرا بنانے کو آسان اور ضروری سمجھا۔ چناں چہ Bay of Pigsکی مہم کی ناکامی کے بعد ویتنام کو اور گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد عراق پر حملے کے ذریعہ امریکہ نے اپنی جھینپ مٹانے کی کوشش کی۔ بنا بریں افغان پاک سرحدی علاقے میں ڈرون بموں کے ذریعہ کیے جانے والے ایک پرشور حملے کے امکان کو کاملاً مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے بھی کہ کم درجے کے ڈرون حملے وہاں پہلے سے ہی جاری ہیں۔
بدقسمتی سے انٹیلی جنس کے ذرائع اور گھاگ قسم کے ماہرین نے اپنی شطارت و مہارت کے ساتھ جنوبی ایشیا کے مدارس کی یہ تصویر کشی کی کہ وہ نہ صرف امریکہ کے ازلی دشمن ہیں بلکہ وہ مغرب اور پوری متمدن دنیا کے بدترین دشمن ہیں۔ بغیر کسی ثبوت و شہادت کے متعدد کالم نگاروں اور صحافیوں نے مدارس اور دہشت گردی کے مابین رابطہ پیدا کرنے کے عمل کے ذریعہ اپنی جیبیں بھرنے کی کوشش کی۔
مجھے امید ہے کہ کوئی بھی حادثاتی منظر نامہ وہائٹ ہاؤس، قانون سازوں اور امریکی عوام کو اس بات پر مائل نہیں کرے گا کہ وہ اس طرح مدارس کو اپنے حملوں کا نشانہ بنانے کی راہ اختیار کریں۔ میری کتاب ’’دینی مدارس:عصری معنویت اورجدید تقاضے‘‘ یقینی طور پر آپ کو اصل حقائق سے مطلع کرے گی۔ لیکن اسی کے ساتھ آپ کو ڈونالڈ رمس فیلڈ اور حتی کہ کولن پاویل جیسے سنجیدہ و بردبار سیاست دانوں کے اقوال کو بھی نظر انداز کرنا پڑے گا جنھوں نے مدارس کی شبیہ کو نہایت ہیبت ناک اور لرزہ خیز بنادیا۔ آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ ان دونوں افراد نے جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں عراق پر جنگ مسلط کرنے کے فیصلے میں اور پھر جنگ کے دوران فاش غلطیاں کیں۔
اس میں شک نہیں کہ طالبان نے مدارس اور علما کی شبیہ کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ طالبان وابستگانِ مدارس کا محض ایک طبقہ یا گروہ ہے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اکثریت مدارس کو دینی علوم کی دانش گاہ کی شکل میں دیکھتی ہے، نہ کہ دہشت گردی کے مراکز کی شکل میں۔ وہ مدارس کے ساتھ تعاون کرتی ہے کیوں کہ وہ بجا طور پر یہ سمجھتی ہے کہ وہ مسلم سماج کی خدمات میں مصروف ہیں۔ عام طور پر مسلمان مدارس کو امریکی اور یورپی باشندوں کی طرح سے خطرے کی علامت تصور نہیں کرتے۔
اب امریکی انتظامیہ کے لیے وہ وقت آگیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر پھیلے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ تعامل کے بارے میں اپنے موقف کو درست کرے۔ مسلم معاشروں کے خلاف ثقافتی جنگ چھیڑ دینامسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس سے صورت حال مزید سنگین ہوگی۔ افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں نے عالمی سطح پر مسلم اقوام کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔ اور اس زمرے میں متوسط اور اعلیٰ دونوں طبقات شامل ہیں۔ مسلمان خاص طور پر نوجوان مسلم طبقے کا احساس ہے کہ بین الاقوامی برادری نے اسے جیسے اچھوت سمجھ لیا ہے، جس کے ساتھ اس کے مذہب کی بنیاد پر تفریق و امتیاز برتا جارہا ہے۔ اب مسلم مخالف احساسات نے اسلام فوبیا کی شکل اختیار کرلی ہے۔
مدارس کے ساتھ معاندانہ برتاؤ امریکہ کی پبلک ڈپلومیسی کی ایک تاریخی ناکامی ہوگی۔ اس نوع کے برتاؤ سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے ساتھ تعلقات مزید بد سے بدتر ہوجائیں گے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں، خاص طور پر یورپ، شمالی امریکہ اور افریقہ میں مقیم مسلمانوں پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔
مسلم ممالک کے اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے سیکولر افراد یا فوج سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی باتوں کو محض ان کے ذاتی مفادات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ اعلیٰ طبقے کے افراد دو رخی باتیں کہنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں اگر وہ مدارس سے متعلق زبان کھولتے ہیں تو ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ مدارس اور اہل مدارس دنیا سے منقطع اور دقیانوسیت کے شکار ہیں، جب کہ خود اپنے متعلقہ ممالک میں وہ اہل مدارس یا راسخ العقیدہ طبقے کی خوشامد و چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں۔ دوسرے درجے کے وسیلۂ معلومات پر انحصار نہ کرتے ہوئے وقت کا تقاضا ہے کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ مدارس سے تعلق رکھنے والے امریکہ کے مخالف یہ کون لوگ ہیں؟ ان سے متعلق مکمل معلومات بہم پہنچائی جائے اور ثقافتوں کے درمیان پیدا شدہ خلیج کو کم کرنے کے لیے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔
ایک فیصلہ ساز کی حیثیت سے آپ کو اچھی طرح یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مسلم معاشروں میں مدارس اور علما کی اہمیت اور ان کاکردار کیا ہے؟ علما مذہبی تعلیم یافتہ افراد کا وہ طبقہ ہے، جو مسلم سماج کی خدمت کو حرزِ جان بنائے ہوئے ہے۔ علما کا یہ طبقہ مدارس کے فضلا پر مشتمل ہوتا ہے جن کی تربیت اسی طرح ہوتی ہے جس طرح امریکہ یا بعض دوسرے ممالک کے مذہبی اسکولوں میں عیسائی مذہبی علما کی تربیت کی جاتی ہے۔ آپ غور کرسکتے ہیں کہ اگر ملک ’’الف‘‘ ملک ’’ب‘‘ کے مذہبی طبقے کو اس وجہ سے اپنی جنگ کا نشانہ بنائے کہ اس کے مذہبی طبقے کے بعض لوگ تخریب کارانہ سیاسی سرگرمیوں میں مشغول ہیں تو اس نوع کی حرکت کے نتیجے میں اس مذہب سے تعلق رکھنے والا مذہبی طبقہ عالمی سطح پر الگ تھلگ ہوکر رہ جائے گا۔ امریکہ نے افغان پاک سرحدی علاقے میں فوجی اور ثقافتی سطح پر جو جنگی مہم چھیڑ رکھی ہے، اس کے نتیجے میں ایسے ہی مظاہر سامنے آرہے ہیں۔
مسلم آبادی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں مسلمانوں کی کل آبادی کا تخمینہ 489ملین ہے۔ یہ آبادی تین ممالک 151 ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بکھری ہوئی ہے۔ اندازہ ہے کہ 2030تک جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تعداد بڑھ کر 679ملین ہوجائے گی۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ظاہر ہے مذہبی طبقے میں وسعت آئے گی۔ یہ بات آپ کے ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کروڑوں افراد پر مشتمل مسلم آبادی علما سے وابستہ ہے اور روز مرہ کی زندگی میں ان کی پیروی کرتی ہے۔ دنیا میں چوبیس گھنٹوں میں پانچ وقت وہ انھی علما کے پیچھے نماز اداکرتی ہے۔ وہ ان کے جمعہ اور عید کے خطبات سنتی ہے۔ اخلاقی و شرعی امور و معاملات میں وہ انھی سے رجوع کرتی ہے۔ مصائب و حوادث کی گھڑی میں وہ ان سے دعاؤں کے لیے التماس کرتی ہے۔ تجہیز و تکفین میں یہ علما ہی ہیں، جنھیں لوگ پیش پیش رکھتے ہیں۔ اسی طرح مسلم عوام کو خانگی زندگی کے معاملات 151 نکاح و طلاق، آمدنی کے صحیح استعمال اور وراثت سے لے کر عالمی سیاست کے معاملات تک میں علما کی رہنمائی شامل ہوتی ہے۔ انتخابات اور سیاسی اجتماعات میں بھی علما پیچھے نہیں رہتے۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو، انٹرنیٹ نیز اپنی تحریروں اور کتابوں کے ذریعے وہ دور دراز اور مختلف النوع علاقوں: باندونگ (انڈونیشیا) بالٹی مور (امریکہ) کیشاگار (چین) اور کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ) کے عوام کی بہت بڑی تعداد کو اپنا مخاطب بنالیتے ہیں۔
ملیشیا یا ’’مالی‘‘ کے ایک عالم ،یا بسا اوقات ایک عالمہ، نے خواہ قاہرہ میں تعلیم حاصل کی ہو، تاہم وہ جنوبی ایشیا کے کسی مدرسے کے فاضل کے کائناتی نظریے سے بخوبی واقفیت رکھتا / رکھتی ہے۔ اس کے برعکس کو بھی اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ مدارس اور علما اپنا عالمی نیٹ ورک رکھتے ہیں اور ایک مشترکہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہ مشترکہ زبان فقہ اور دینیات کی زبان ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سے مسلمان علما کے بارے میں یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اُن کے اندرمطلوبہ تفقہ اور دینی بصیرت کی کمی ہے جس کے نتیجے میں نکاح و طلاق، جنسی معاملات اور خانگی زندگی کے تعلق سے ان کے بہت سے تصورات و نظریات حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے اور جو معاصر حساس ذہنیتوں کو زک پہنچاتے ہیں، تاہم یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ علما میں روشن فکر اور تاریک الخیال دونوں طرح کے افراد شامل ہیں۔
بعض علما اپنی عوامی مقبولیت میں کسی ’’راک اسٹار‘‘ سے کم نہیں۔ شیخ یوسف القرضاوی کا شمار انھی میں ہوتا ہے جن کا تعلق اصلاً مصر سے ہے، لیکن وہ قطر میں مقیم ہیں۔ یہ ان علما میں سے ایک ہیں جن کے افکار و نظریات، ان کے خطبات و مواعظ کے حوالے سے عالم اسلام کے ہزاروں ریڈیو اسٹیشن اور ٹی وی چینلوں سے نشر کیے جاتے ہیں۔(1) ہاں! یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان علما میں سے سب کے سب امریکہ یا مغرب کے تئیں دوستانہ ذہنی تعلق نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے ان علما کے ساتھ مکالمے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس مکالمے کے فکر و احساس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کانگریس کے ارکان، وہائٹ ہاؤس اور غیر ملکی حکومتوں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے مشیر کاروں میں سے ان لوگوں کے مشوروں کو خاطر میں نہ لائیں جو اس قسم کے مکالمے کی اہمیت کے منکر ہیں اور جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کو اس کام میں لگائیں جو اس کی حقیقت اور فائدوں سے واقف ہیں۔
یہاں اس حقیقت کا تذکرہ کرنا بجا ہوگا کہ مسلم ممالک کے ارباب حل وعقد کا وطیرہ علما سے متعلق یہ ہے کہ وہ انھیں ’’داخلی جلاوطنی‘‘ کاشکار بناکر رکھتے ہیں۔ انھیں علما کی ضرورت اس وقت محسوس ہوتی ہے اور وہ اس وقت ان کی طرف نظر التفات کرتے ہیں جب انھیں انتخابات میں ووٹوں کی فکر ستاتی ہے یا جب کوئی بڑا عالمی بحران سامنے آتا ہے۔ ایسے میں ان علما کو عوامی حلقے میں لایا جاتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ ووٹوں کی کاشت کی جاسکے یا عوامی جذبات کو دبایا جاسکے۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی نظام تزلزل کا شکار ہے، علما اس معاشرے کے تشویش ناک پہلوؤں سے واقفیت کا ثبوت دیتے ہیں۔(2) 2008میں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگی مہم میں پاکستانی فوج کی شرکت کو انھوں نے ’’دھوکے‘‘ اور’’ شرمناکی‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ علما کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اعلیٰ طبقہ اسراف پسند، بدعنوان اور عدالت کی حیثیت کو کم کرنے میں اپنی کوششوں میں بے حیائی کا ارتکاب کرنے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر پاکستان کی محبت میں سرشار لوگ علما کے حلقوں کی طرف سے دئے گئے بیانات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ علما ایک طرف مغرب کے اسلامی معاشرے پر پڑنے والے اثرات کی مذمت کرتے ہیں، دوسری طرف وہ مذہبی انتہا پسندی کی اشاعت کے راستے میں روک کا کام کرتے ہیں۔ 
علما کی نگاہ میں تعلیم ثقافت کا میدان کارزار ہے۔ وہ لارڈ میکالے کا ذکر نہایت ناپسندیدگی کے ساتھ کرتے ہیں کہ اس نے کہا تھا کہ ہمیں ایک ایسے طبقے کو وجود میں لانا چاہیے جو اپنے خون کے اعتبار سے ہندوستانی لیکن اپنے اسلوب فکر اور رجحان کے لحاظ سے انگریز ہو۔(3) علماسمجھتے ہیں کہ اگر سیکولر تعلیم پر کوئی بندش نہ ہوتو وہ ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس سے مسلمانوں کی مذہبی شناخت محفوظ نہیں رہتی۔ اس سے اس بات کا خدشہ ہے کہ مستقبل کی اسلامی نسل یورپ اور امریکہ کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہوجائے۔ حال میں کیے گئے ایک مطالعے کی روشنی میں یوسف قرضاوی جیسا عالم بھی یہ تصور رکھتا ہے کہ گلوبلائزیشن کا مقصد پس پردہ دنیا میں مغربی تہذیب کی اشاعت اور بالادستی کا قیام ہے۔(4) مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگوں کی نگاہ میں یوسف قرضاوی کی شخصیت اشتباہ کے دائرے میں ہے، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا معا ملہ ہے تو وہ انھیں ایک راسخ العقیدہ عالم و مفکر تصور کرتے ہیں۔ البتہ وہ اسی کے ساتھ یہ خیال بھی رکھتے ہیں کہ ان کے یہاں کسی حد تک آزاد خیالی یا تجدد کی روش پائی جاتی ہے۔
بعض مسلم جماعتوں، جن میں طالبان سرفہرست ہیں، نے مغربی خصوصاً خواتین کی تعلیم کے تعلق سے انتہا پسندانہ نقطۂ نظر اختیار کیا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ طالبان کا معاملہ استثنائی ہے، ان کے خیالات کو مسلمانوں کی وسیع تعداد مسترد کرتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کے مدارس اور ریگولر اسکولوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ مزید برآں، مدارس سے تعلق رکھنے والے اصحابِ علم ودانش کی اکثریت اس نقطۂ نظر کی حامل ہے کہ اس حدتک جس حد تک سیکولر تعلیم ان کے طریق زندگی اور اخلاق و اقدار کو متاثر نہیں کرتی؛ مسلمان اس سے فائدے حاصل کرسکتے ہیں۔
مدارس اور علما جس دینیات کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ ایک ذرا آپ اس کو نگاہ میں رکھیں تو اس سے حقیقت کو سمجھنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ توحید یا ایک خدا میں یقین رکھنا مسلمانوں کے ایمان کی اساس ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف خاتم الانبیا ہی نہیں بلکہ افضل الانبیا بھی ہیں۔ صدیوں قبل پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے اصحاب نے شرک و کفر کے خلاف جنگیں لڑیں۔ ظلم و بے انصافی کے خلاف جہاد کیا اور انسانیت کی عظمت کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ علما کے مطابق، دین کی روح اور اس کا جوہر پیغمبر اسلام کے نمونۂ زندگی کے مطابق، زندگی گزارنا ہے۔ پیغمبر محمد کی زندگی کے ماڈل اور دوسری شخصیات 151 شری رام، حضرت عیسیٰ اور گوتم بدھ151 کی زندگی کے ماڈل میں فرق پایا جاتا ہے۔ اسلام میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رول کے صحیح ادراک کے لیے مسلمانوں کی عبادات اور مذہبی اعمال کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ چنانچہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے ساتھ حساسیت کے ساتھ تعامل بین ثقافتی مکالمے اور مذہبی رواداری و قیام امن کی کوششوں کو کامیابی کے ساتھ ہم کنار کرنے کے لیے ضروری ہے۔
مدارس قدیم فقہی مکاتب کی تقلید کا دم بھرتے ہیں اور اس حوالے سے معاصر دنیا کے سماجی تقاضوں کے تحت اپنے دینیاتی (theological) نقطۂ نظر میں تبدیلی بھی لاتے رہتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اس عمل میں ان پر قدامت پرستی کی ذہنیت غالب رہتی ہے اور وہ اس کو تعمیری ومثبت انداز میں انجام نہیں دے پاتے۔ یہی حال اسلامی قانون یا شریعت پر عمل کا ہے۔ اس تعلق سے علما کی مختلف جماعتیں لچک یا شدت پسندی پر مبنی رویہ رکھتی ہیں۔ یعنی اس حوالے سے علما کے یہاں یکساں کے بجائے متنوع رویہ پایا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر تمام علما و اہل مدارس اپنے پیروکاروں کی اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے کہ وہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ کی مسخ کاری کے واقعات پر مشتعل ہوں۔ اکثر بین مسلکی کشمکش کی صورتحال اور تنگ ذہن رکھنے والے چھوٹے درجے کے مولویوں کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے قطع نظر کہ ایسے معاملات میں شریعت کا حکم کیا ہے، لٹھ لے کر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ تقریباً ایک صدی پیشتر علمائے دیوبند کے سرخیل مولانا محمود حسن نے گستاخی رسول کے واقعات پر مسلمانوں کے آتش زیر پا ردعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی حرکتیں مسلمان رسول کی محبت میں نہیں بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ اس سے ان کی انا کو چوٹ لگتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے اکثر مسلمانوں کی مذہبی قیادت مغرب اور مغربی اقدار کو اسلامی تہذیب و اقدار کے لیے خطرہ تصور کرتی ہے۔ مدارس کو وہ مغربیت کے مقابلے میں ڈھال تصور کرتی ہے۔(5) جس طرح اٹھارویں صدی میں مدارس کے نیٹ ورک نے استعماری منصوبوں کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا، اسی طرح آج مدارس مغرب کی نئی استعماری ترک تازیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ثقافتی قلعے کی حفاظت پر کمر بستہ ہیں۔ ایک معتدل فکر ونظر رکھنے والے عالم لکھتے ہیں: ’’مدارس اسلام کے بقائے حیات کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘(6) ایک دوسری شخصیت کی نظر میں مدارس ’’پاور ہاؤس‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے مسلمانوں کی اجتماعی وثقافتی شناخت باقی ہے۔ مسلم معاشرے کی مذہبی واخلاقی اقدار انھی کی رہین منت ہیں۔(7) سردجنگ کے خاتمے کے بعد مدارس کے علما برملا یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اب مغربی طاقتوں کا اصل حریف اسلام رہ گیا ہے۔(8)
یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ اہلِ مدارس دنیا کے سیاسی حالات سے واقف نہیں ہیں۔ بین الاقوامی خبروں اور تجزیوں پر ان کی نگاہیں رہتی ہیں اور امریکہ جس انداز میں خود کو عالمی سطح پر پیش کرتا رہتا ہے، وہ اس سے طیش میں آتے اور بل کھاتے رہتے ہیں۔ ان کے جذبات و احساسات کو جو چیز ٹھیس پہنچاتی اور برانگیختہ کرتی ہے، وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا کردار، عراق و افغانستان پر امریکہ کی طرف سے جنگ کو مسلط کرنا اور فلسطینیوں کے ساتھ انصاف نہ کیا جانا ہے۔
عالمی سطح پر سیاسی طاقتوں کے درمیان عدم توازن کی جو کیفیت پیدا ہوگئی ہے، اس نے بہت سی مرضیاتی نفسیات کو پروان چڑھنے کا موقع دیا ہے۔ افغان پاک سرحدی علاقے کے بہت سے مذہبی علوم کے حاملین کا مزاج بدقسمتی سے تخریب کاری کی صفت رکھتا ہے۔
آپ کو اس بات کے لیے ذہنی طور پر آمادہ رہنا چاہیے کہ افغان پاک سرحدی علاقے اور عالم اسلام کے دوسرے حصوں میں مذہب، ثقافت اور سیاست کا ایک بڑا الجھا ہوا اورپیچیدہ منظر نامہ سامنے آنے والا ہے۔ یہ بات بھی آپ کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ مذہبی رنگ میں رنگا ہوا تشدد جغرافیائی و سیاسی صورتِ حال کی ابتری سے تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان میں عدمِ استحکام کی صورتِ حال میں اصلاً کشمیر کے مسئلے کو دخل ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں ایک ایسی مستحکم اور شمولیت پسند حکومت وجود میں آپائے گی جو علاقے میں امن و سلامتی کی صورتِ حال کو یقینی بناسکے؟علاحدگی پسند تحریکات اور نسل پسندی کا نظریہ رکھنے والے عناصر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کی طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔ اس بنا پر یہ موضوع گہری تحقیق و مکالمے کا متقاضی ہے۔
اب میں چند ایسے امور کی نشان دہی کرنا چاہوں گا، جن سے پالیسی سازوں کے لیے احتراز لازمی ہے، تاکہ مسلم راسخ العقیدگی کے ساتھ مکالمہ کامیابی سے ہم کنار ہوسکے۔ مسلمانوں کے ساتھ تمام تر تعلقات پر پانی پھیردینے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ راسخ العقیدہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی جائے اور مدارس کے نصاب، اقدار اور طرزِ حیات کے بارے میں کوئی چیز اُن پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے۔ مدارس کی قبیح اور پر ہیبت شبیہ سازی کا مطلب ہے: مسلمانوں کے مذہبی و ثقافتی اقدار وادارات کو مسترد کردینا جسے مسلم حلقوں میں شدت کے ساتھ مسترد کردیا جاتا ہے۔ لوگوں سے مدارس کی حمایت و اعانت سے دست کش ہوجانے کی بات کہنے کا مطلب ہے، مسلمانوں کی مذہبی و ثقافتی ترجیحات کو خود سے طے کرنا۔
راسخ العقیدہ مسلم طبقے کے ساتھ مکالمے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جنو بی ایشیا اور دوسرے مسلم خطوں میں ڈرون حملوں کے سلسلے کو بند کردیا جائے۔ مبینہ دہشت گردوں کو ملکی قانون کو خاطر میں لائے بغیر ہدف بنانا نہایت خطرناک ہے اور اس کا نتیجہ معصوم اور بے گناہوں کے قتل و ہلاکت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ مزید برآں اس طرح کی کاروائیاں امریکہ کی معتبریت کو نقصان پہنچاتی ہیں اورحقوق انسانی کے تئیں اس کے التزام عہد کی اہمیت کو کم کردیتی ہیں۔
علم وشعور کے ساتھ مکالمہ ہی اصل مسئلے کا حل ہے، بالکل اسی طرح جس طرح اعتماد سازی کا عمل مسئلے کے حل میں بنیادی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکی و یورپی قیادت کو اس خطے کے مستقبل کے ساتھ تعامل کرنے میں متعدد چیلنجز درپیش ہیں۔ سب سے چیلنج آمیز مسئلہ یہ ہے کہ ایسی جماعتوں کے ساتھ جن کا کائناتی نظریہ مغرب سے مختلف ہے، کس طرح باہمی احترام کے ماحول میں گفتگو کی جائے؟ کیا یورپ و امریکہ کسی ایسی دنیا کا تصور کرسکتے ہیں جہاں مضبوطی کے ساتھ تکثیری اقدار پائے جاتے ہوں؟ بامعنی گفتگو کی اساس اقدار پر باہم متفق نہ ہونا ہے۔ مدارس کے ساتھ مکالمے کے عمل سے اختلاف کو برداشت کرنے کا ہنر آئے گا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں نے یہ بات محسوس کی کہ اہل مدارس صرف یہ چاہتے ہیں کہ انھیں چھیڑا نہ جائے۔ وہ اسلام کے مطابق نیکی و پارسائی کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور دانش وری کے روایتی سلسلے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے مذہبی ایقان کو استحکام عطا کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ انھیں یہ برداشت نہیں کہ کوئی دوسرا ان کے طرزِ حیات کو تبدیل کردے۔ ایک شخص کو دوسرے کے طرزِ حیات میں تبدیلی کا مسئلہ گیارہ ستمبر کے بعد کی دنیا میں امریکیوں کے لیے نامانوس نہیں رہ گیا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے ہوئے لوگوں کی سوچ یہی ہے کہ دوسرے لوگ ان کے اپنے اسلوبِ حیات کا احترام کریں۔
ان شرائط کی تکمیل کا تقاضا ہے کہ اس تعلق سے امریکی سیاسی قیادت کی ذہنیت میں تبدیلی آئے کہ دوسری اقوام، ثقافتوں اور اقدار کے ساتھ کس طرح تعامل کیا جائے؟ بغیر اس بنیادی تبدیلی کے آگے کی راہ نہایت دشوار گزار ہوگی۔ آج کی گلوبلائزیشن کی دنیا کا ماحول اپنے اندر بہت زیادہ نزاکت رکھتا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ سے ہواؤں میں در آنے والی آلودگی سے لے کر بین الاقوامی تعلقات، سفارت کاری، جنگ اور انسانی تعلقات تک یہ ساری چیزیں علم پر مبنی شعور و حساسیت کی متقاضی ہیں۔ یعنی یہ ادراک کرنا کہ ہماری بقا دوسروں کی بقا و ارتقا میں ہے نہ کہ انھیں ہلاک وتباہ کرنے میں۔ اصل نقطۂ آغاز اس اصول پر عمارت کی تعمیر ہے کہ دوسروں کی تہذیب و ثقافت بھی اتنی ہی قابل قدر ہے جتنی کہ اپنی۔ اس طرح کے بقائے باہم کو یقینی بنانے کے لیے مغرب کے لیے اصل آزمائش کی بات یہ ہے کہ طبقۂ علما کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر اور نارمل ہوں۔
مخلص:
ابراہیم موسیٰ
پروفیسر اسلامک اسٹڈیز
کروک انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل پیس اسٹڈیز،
یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم،انڈیانا،امریکہ

حواشی

(1) یوسف قرضاوی کو ان کو استشہادی حملوں کے جواز کے نظریے کی وجہ سے برطانیہ اور امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ کچھ دنوں قبل قرضاوی کے صاحبزادے نے سابق مصری صدر محمد مرسی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی اپنے والد کی کوششوں کی مخالفت کی دیکھئے: ’’اسامہ عبدالرحمن القرضاوی إلی أبیہ یوسف القرضاوی‘‘ ۔
(2) The News, "Ulema Open Their Heart to MPs on Terror."
(3) Macaulay's Minute on Indian Education, 
http://www/english.ucsb. edu/faculty/rraley/research/english/macaulay.html
(4) Zaman, Modern Islamic Thought, 156-57.
(5) عثمانی (تقی) : ہمارا نظام تعلیم، 77، مظہری (وارث) ’’فضلائے مدارس۔۔۔‘‘ 199-206، منصوری، محمد عیسیٰ ’’مغرب‘‘105-9
(6) مظہری(وارث): ’’فضلائے مدارس‘‘ ، 199
(7) مصباحی،یسن اختر: قرآن اور جہاد، 63
(8) منصوری،: ’’مغرب‘‘108

جنرل باجوہ اور بلوچستان

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز بلوچستان کے مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے پونے دو سو کے لگ بھگ طلبہ کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے انہیں تلقین کی ہے کہ وہ مختلف بیرونی ایجنسیوں اور اداروں کی طرف سے پاکستان کے بارے میں کیے جانے والے منفی پراپیگنڈا سے متاثر نہ ہوں اور وطن عزیز کی سلامتی و استحکام اور فلاح و ترقی کے لیے تعلیمی میدان میں آگے بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے اور وہ بلوچستان کے شہریوں اور نوجوانوں سے محبت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرون ملک بہت سے ادارے اور ایجنسیاں بلوچستان کے حوالہ سے مخالفانہ پروپیگنڈا کر کے وطن عزیز پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں جس کا جواب ہمیں متحد اور منظم ہو کر دینا ہوگا۔
محترم باجوہ صاحب کے یہ ارشادات حرف بہ حرف درست ہونے کے ساتھ ساتھ برموقع بھی ہیں کہ بلوچستان کے حوالہ سے پاکستان کے خلاف بیرونی سرگرمیوں میں تیزی آرہی ہے اور سوئٹزرلینڈ میں اس سلسلہ میں آویزاں کیے جانے والے بینروں کے علاوہ بھارتی دانشوروں کا ایک حلقہ اپنی حکومت پر زور دے رہا ہے کہ وہ بلوچستان میں نام نہاد آزادی کی تحریک کو سپورٹ کرے جیسا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے چند دن قبل ایک تقریر میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ گزشتہ روز یوٹیوب پر ایک ڈاکومنٹری دیکھنے کا موقع ملا جس میں کسی بھارتی تجزیہ نگار نے سی پیک منصوبے کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے اس سے مبینہ طور پر بھارت کو پہنچنے والے نقصانات کا ذکر کیا ہے اور اس کا حل یہ تجویز کیا ہے کہ بھارت بلوچستان کا کارڈ استعمال کرے اور وہاں آزادی کے نام سے اٹھائی جانے والی آواز کو مضبوط کرے۔ بھارتی حکومت کو دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جن سوالات اور الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے جواب میں بھی وہ بلوچستان کا حوالہ دیتے ہیں، حالانکہ بلوچستان دیگر علاقوں کی طرح ’’قانونِ آزادی ہند 1947ء ‘‘ کے تحت پاکستان میں شامل ہوا تھا اور کشمیر نے بھی اسی قانون کے تحت پاکستان میں شامل ہونا تھا لیکن بھارت نے کشمیری عوام کی خواہشات کے علی الرغم اس پر بزورِ طاقت قبضہ جما لیا جبکہ اس قبضہ کو طوالت دینے میں عالمی قوتوں کے مفادات آج تک کارفرما ہیں۔
سی پیک منصوبے سے کس کس کو فائدہ ہوگا اور کون کون نقصان میں رہے گا یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس سے خطہ میں طاقت و معیشت کا توازن کن تبدیلیوں سے دوچار ہوگا یہ بھی ایک مستقل گفتگو کا متقاضی ہے۔ لیکن سرِدست اتنی بات واضح ہے کہ یہ عظیم معاشی منصوبہ چونکہ پاکستان سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے پاکستان کی بے پناہ ترقی کے واضح امکانات دکھائی دے رہے ہیں اس لیے یہ پاکستان کے روایتی حریف بھارت کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی طاقتوں کو کھٹک رہا ہے۔ اور یہ ظاہر و پوشیدہ قوتیں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے سے خدانخواستہ روکنے کے لیے اپنے اپنے دائروں میں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن کا منظر دن بدن واضح ہوتا جا رہا ہے۔
سی پیک میں مرکزی کردار بلوچستان اور اس کی بندرگاہ گوادر کا ہے اس لیے ظاہر ہے کہ منفی سرگرمیوں کا سب سے بڑا ہدف بھی وہی ہوگا۔ بلوچستان میں آزادی کی محدود اور مصنوعی تحریک ان سرگرمیوں کا ایک اہم دائرہ ہے اور بلوچستان کو قیام پاکستان کے بعد سے ہی اس قسم کی منفی سرگرمیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے: ایک دور میں بلوچ اور پختون قوموں کے درمیان غلط فہمیاں بڑھانے اور انہیں منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی مہم چلتی رہی۔ پھر بلوچوں کو قومیت کے حوالہ سے آزادی اور خودمختاری کا خواب دکھلا کر اسے آگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ ایک موقع پر کوئٹہ میں پنجابی اور غیر پنجابی کا سوال بھی ابھارا گیا، جبکہ ہزارہ قوم کے معاملہ میں باہمی قتل و قتال کو بھی اس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن ان میں سے کوئی کارڈ بھی کامیابی کے ساتھ نہیں کھیلا جا سکا اور اس قسم کی ہر مہم میں اس کے منصوبہ کاروں کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام پاکستان سے محبت رکھتے ہیں اور پاکستانی کہلانا ہی پسند کرتے ہیں۔ لیکن ایک وجہ اور بھی ہے کہ 1970ء کے انتخابات میں اور اس کے بعد کم و بیش ہر الیکشن کے موقع پر جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان کی ایک اہم سیاسی اور عوامی قوت کے طور پر سامنے آتی رہی ہے جو حوصلہ مند اور محب وطن علماء کی قیادت سے بہرہ ور ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کو ایک مضبوط و مستحکم اسلامی ریاست کے طور پر ترقی دینے کی خواہش مند ہے اور بلوچستان کے تمام علاقوں اور قومیتوں میں یکساں اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ اگر کوئی منصف مزاج تجزیہ نگار خالصتاً سیاسی اور سماجی نقطہ نظر سے قیام پاکستان کے بعد سے اب تک کی صورتحال کا جائزہ لے تو اس کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہوگا کہ بلوچستان میں خدانخواستہ علیحدگی یا تقسیم کی کسی بھی تحریک کے مقابلہ میں سب سے مضبوط رکاوٹ یہی دینی و سیاسی قوت ثابت ہوئی ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہوگا۔
اس لیے آرمی چیف محترم کے ارشادات و جذبات کی تائید کرتے ہوئے ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ بلوچستان کے حوالہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی طور پر منظم کی جانے والی سازشوں سے نمٹنے کے لیے جہاں ان اقدامات کی ضرورت ہے جو فوج سمیت ریاستی ادارے اس وقت کر رہے ہیں، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ مختلف قومیتوں کے حامل بلوچستان کے شہریوں کے درمیان عقیدہ و دین کے رشتہ کو اور زیادہ مضبوط کیا جائے اور دینی وحدت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔ کیونکہ یہی وہ وحدت اور رشتہ ہے جو کسی بھی منفی تحریک کا راستہ روکنے کے لیے سب سے زیادہ مؤثر رکاوٹ بن سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی محترم جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایک اور گزارش بھی کرنا چاہتا ہوں۔وہ یہ کہ بیرون ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف بہت سے دیگر مورچے بھی مصروف عمل ہیں جنہیں مختلف بیرونی ایجنسیاں اور ادارے سپورٹ کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک مورچہ قادیانیوں کا ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کے متفقہ دستوری فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے دستور و قانون پر عملدرآمد کا بائیکاٹ کر کے بلکہ اسے چیلنج کر کے اس کے خلاف بین الاقوامی فورموں پر مورچہ لگائے ہوئے ہیں جس سے ریاست کی ’’دستوری رٹ‘‘ سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے جبکہ ریاست کی رٹ قائم کرنا اور دستور کی بالادستی کا احترام کروانا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اس مسئلہ پر ہم نے مسلح افواج سمیت تمام ریاستی اداروں کی ہمیشہ حمایت کی ہے حتیٰ کہ ’’اسلامی شریعت‘‘ کے نام پر ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو بھی ہماری دوٹوک مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ اسلامی شریعت کے نام سے ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف اگر کاروائی ہو سکتی ہے، جو کہ حکومت کا دستوری و قانونی حق ہے، تو عقیدہ? ختم نبوت سے انکار کے نام پر دستور کی بالادستی کو چیلنج کرنے اور اس کے لیے بین الاقوامی فورموں پر پاکستان کے خلاف مسلسل ’’مورچہ بندی‘‘ کا عمل بھی فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کی توجہ کا مستحق ہے۔
ان گزارشات کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سالمیت و استحکام اور فلاح و ترقی کے لیے آری چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے جذبات و احساسات اور اقدامات کے ساتھ مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے ہم ان کی کامیابی کے لیے بارگاہِ ایزدی میں خلوص دل کے ساتھ دعا گو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

دینی مدارس کو درپیش آزمائش

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اس سال عید الاضحی کے موقع پر قربانی کی کھالوں کے حوالہ سے دینی مدارس کے ساتھ جو طرزِ عمل اختیار کیا گیا وہ غیر متوقع نہیں تھا۔ اور کافی عرصہ سے سرکاری پالیسیوں کا رخ اسی طرف نظر آرہا تھا کہ دینی مدارس کی میڈیا پر مسلسل کردار کشی کے ساتھ ساتھ ان کے ذرائع آمدن پر قدغنیں لگا کر ان کی ’’سپلائی لائن‘‘ کاٹ دی جائے تاکہ دینی مدارس کے موجودہ معاشرتی کردار کو محدود کرنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔ امریکی تھنک ٹینک ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ کی رپورٹ کے بعد اس بات میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ گیا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے مسلم معاشرہ میں دینی علوم کے تحفظ و فروغ کا مسلسل اور مؤثر کردار ادا کرنے والے دینی مدارس کا یہ پرائیویٹ نظام کون سے طبقات اور عناصر کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اور کون سی قوتیں اور لابیاں ان مدارس کی تعلیمی و فکری جدوجہد کو اپنے اہداف و مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے انہیں غیر مؤثر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ’’شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار‘‘ کا ذوق و مزاج رکھنے والے عناصر نے ’’پنڈ کاھلی‘‘ کا جو منظر پیش کیا ہے وہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ دن بدن مضحکہ خیز بھی ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے قربانی کی کھالوں کو دینی مدارس کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ تصور کرتے ہوئے اسے محدود کرنے کے لیے دو طرفہ عمل دھیرے دھیرے جاری تھا۔ ایک طرف کھالوں کی قیمت کو منصوبہ بندی کے ساتھ گراتے چلے جانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی جبکہ دوسری طرف دینی مدارس کو اس بات کا پابند کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے لیے باقاعدہ اجازت حاصل کریں، اور اس طرح اس مقصد کے لیے ڈپٹی کمشنر کے اجازت نامے کو بالآخر ضروری قرار دے دیا گیا۔
اس سال عید الاضحی سے کافی روز قبل جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف سے ملاقات کر کے ان سے اس مسئلہ پر بات کی تو انہیں یقین دلایا گیا کہ درخواست دینے والے مدارس کو اجازت دے دی جائے گی۔ چنانچہ وفاق المدارس کی طرف سے مدارس کو ہدایات جاری کر دی گئیں کہ وہ ڈپٹی کمشنر کو درخواست دے کر اجازت حاصل کرلیں۔ لیکن جب یہ درخواستیں دی گئیں تو انہیں عید الاضحیٰ سے دو روز قبل تک ٹال مٹول میں رکھا گیا اور عین وقت پر بہت سے مدارس کو اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اور پھر کہا گیا کہ اپیل کی جائے تو اپیل پر اجازت مل جائے گی۔
دینی مدارس کے ساتھ یہ رویہ صرف قربانی کی کھالوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق پنجاب کی حکومت ’’چیریٹی ایکٹ‘‘ کے نام سے جو مجوزہ قانون لا رہی ہے، اس میں دینی مدارس کو اس بات کا پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ زکوٰۃ و صدقات بھی سرکاری منظوری کے بغیر وصول نہیں کر سکیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ و صدقات کے معاملہ میں بھی دینی مدارس اور سرکاری اداروں کے درمیان ’’آنکھ مچولی‘‘ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے والا ہے بلکہ ہمارے خیال میں اس سال قربانی کی کھالوں کے بارے میں اس قدر سختی کا معاملہ مجوزہ چیریٹی ایکٹ کی کامیابی کے امکان کا جائزہ لینے کے لیے بطور ’’ٹیسٹ کیس‘‘ کیا گیا ہے تاکہ اس کے نتائج کی روشنی میں پابندیوں کا نیا جال بچھایا جا سکے۔
اس پس منظر میں متعلقہ حلقوں سے مختصراً چند گزارشات پیش کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
’’رینڈ کارپوریشن‘‘ کی رپورٹ مرتب کرنے والوں اور اس پر اپنی پالیسیوں کی بنیاد رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ یہ بات صحیح طور پر سمجھے ہیں کہ مغرب کے استعماری ایجنڈے اور مادر پدر آزاد ثقافت کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جنوبی ایشیا کے یہ دینی مدارس ہیں۔ ہمیں اپنے اس کردار کا اعتراف اور اس پر فخر ہے۔ اور ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ تمام تر رکاوٹوں اور مخالفتوں کے باوجود دینی مدارس کا یہ معاشرتی، تعلیمی اور تہذیبی کردار بہرصورت جاری رہے گا اور مغربی فکر و فلسفہ کو بالآخر اسی کے آگے سرنڈر ہونا پڑے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مسلمان حکمرانوں اور افسران سے گزارش ہے کہ اگر وہ اس علمی، فکری اور تہذیبی جنگ کا ادراک نہیں رکھتے تو اس کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لیں، مطالعہ کریں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں تو اپنے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچ لیں کہ وہ تنخواہ و مراعات کے چند سال گزار لینے کے بعد دنیا و آخرت میں کون سے کیمپ میں شمار ہونا پسند کریں گے۔
دینی مدارس کے وفاقوں اور ان کی قیادتوں سے گزارش ہے کہ وہ مجموعی صورتحال کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے اپنی حکمت عملی اور ترجیحات کا ازسرنو تعین کریں، لیپاپوتی کے ماحول سے نکلیں اور ان معامالت میں اپنے پیش رو بزرگوں کی حکمت عملی اور طرز عمل کا احیاء کرتے ہوئے دوٹوک لائحہ عمل اختیار کریں۔
دینی مدارس کے منتظمین، اساتذہ اور طلبہ سے گزارش ہے کہ وہ اس سے زیادہ مشکل اور پریشان کن حالات کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیں۔ ہمارے خیال میں سہولتوں میں اپنی حدود کا لحاظ نہ رکھنے کی روش ہمیں راس نہیں آئی اور پھر سے سادگی، قناعت، جفاکشی اور توکل کے اب سے نصف صدی قبل کے ماحول میں واپس جانا شاید ہمارے لیے ضروری ہوگیا ہے، فافہم وتدبر۔
معاونین اور بہی خواہوں سے گزارش ہے کہ حالات ان کے سامنے ہیں اور بدلتی ہوئی صورتحال ان سے مخفی نہیں ہے۔ مدارس محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ چل رہے ہیں جبکہ آپ جیسے معاونین اور ہمدردوں کو اللہ تعالیٰ نے اس فضل و کرم میں ذریعہ کے طور پر قبول کر رکھا ہے جو کہ بہت بڑی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے۔ آپ حضرات کو سب سے زیادہ محتاط رہنا ہوگا کہ زمانے کی چالیں، مخالفین کی تدبیریں اور میڈیا کی کردارکش سرگرمیاں کہیں آپ کو اس مقام سے پھسلا نہ دیں۔ اسباب کی دنیا میں مدارس کے ساتھ تعاون جاری رکھنا، انہیں ضروریات فراہم کرتے رہنا، اور منفی حیلوں کے ذریعے انہیں پہنچائے جانے والے نقصانات کی تلافی کرنا آپ حضرات کی دینی ذمہ داریوں میں سے ہے جس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بے پناہ اجر و ثواب ہے۔ اس لیے اپنے تعاون اور توجہات کو مسلسل جاری رکھیں اور اس میں کوئی کمی نہ آنے دیں۔
اللہ اللہ کرنے والے بزرگوں اور راتوں کو نماز و دعا کے لیے جاگنے والے اہل اللہ سے گزارش ہے کہ وہ اپنی پرخلوص دعاؤں میں مزید اضافہ کریں کہ ہمارا اصل ہتھیار اور اساس یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا اپنا کام صحیح طور پر کرنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا تحفظ ختم نبوت سیمینار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

23 ستمبر کو اپنے آبائی شہر گکھڑ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے زیراہتمام منعقدہ ’تحفظ ختم نبوت سیمینار‘‘ میں حاضری زندگی کا ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی گکھڑ کے صدر میاں راشد طفیل کے والد گرامی میاں محمد طفیل مرحوم مجاہد ختم نبوت آغا شورش کاشمیری کے حلقہ احباب میں شامل اور تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد میں ان کے سرگرم معاون تھے۔ جبکہ میاں محمد طفیل مرحوم کے بڑے بھائی میاں فاضل رشیدی مرحوم پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں شمار ہوتے تھے اور ایک عرصہ تک پیپلز پارٹی گوجرانوالہ کے چیئرمین رہے ہیں۔ اور ان کے والد محترم ماسٹر کرم دین مرحوم میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے۔ اس حوالہ سے یہ خاندان پاکستان پیپلز پارٹی میں متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ دینی معاملات میں شروع سے ہمارا معاون چلا آرہا ہے۔
میاں راشد طفیل نے چند روز قبل مجھے بتایا کہ وہ گکھڑ میں تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں سیمینار منعقد کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں تو بے حد خوشی ہوئی اور حاضری کا وعدہ کر لیا۔ وہاں حاضر ہو کر پتہ چلا کہ یہ کوئی رسمی سا پروگرام نہیں بلکہ باقاعدہ ’’کل جماعتی ختم نبوت کانفرنس‘‘ تھی جو ایک بڑے شادی ہال میں منعقد ہوئی جس میں پورے علاقہ سے مختلف مذہبی مکاتب فکر اور سیاسی جماعتوں کے راہنما و کارکن بڑی تعداد میں شریک تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی اور ضلعی قیادت بھی موجود تھی، پارٹی کے صوبائی صدر جناب قمر الزمان کائرہ مہمان خصوصی تھے اور ان کے علاوہ جناب تنویر اشرف کائرہ، میاں اظہر حسن ڈار، چودھری محمد اشرف سندھو، راؤ اکرام علی خان اور دیگر پارٹی راہنما بھی شریک محفل تھے۔ مختلف مکاتب فکر کے راہنماؤں میں مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا پروفیسر عبد الرحمن جامی، مولانا قاری محمود اختر عابد، مولانا فہیم الرحمان، قاری خالد محمود اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔
میں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی اور ضلعی قیادت کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی مسئلہ کے حل میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور دیگر راہنماؤں کے کردار کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان کو دستوری طور پر اسلامی ریاست کا درجہ دینے اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ختم نبوت کے مسئلہ کو حل کرنے میں بھٹو مرحوم اور ان کی پارٹی کا کردار بہت اہم ہے جو تاریخ کا حصہ ہے۔ اور صرف ایک بار نہیں بلکہ دوسری بار پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی پورے دستور پر نظر ثانی کے دوران ان فیصلوں کا تحفظ کر کے اور انہیں بعینہ برقرار رکھ کر پاکستان کے اسلامی تشخص کے تسلسل اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ نے پوری قوم کی طرف سے اس موقف کی جو تجدید کی تھی، اس کا سہرا بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے سر ہے۔
مگر آج قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان قومی فیصلوں کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ قادیانیوں نے ان فیصلوں کو آج تک تسلیم نہیں کیا بلکہ بین الاقوامی فورمز پر وہ ان دستوری اور جمہوری فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے ان خلاف مورچہ بندی جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ دستور پاکستان کی اسلامی اساس اور دفعات کو بھی مختلف دائروں میں چیلنج کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ہم پاکستان پیپلز پارٹی سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان اہم قومی، جمہوری اور دستوری فیصلوں کے تحفظ کے لیے بھی سرگرم کردار ادا کرے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر جناب قمر الزمان کائرہ نے اس حوالہ سے پرمغز اور بامقصد گفتگو کی جس سے مجھے یہ اطمینان ہوا کہ پارٹی میں ایسے حضرات موجود اور مؤثر ہیں جو ان مسائل کا ادراک رکھتے ہیں اور انہیں حل کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ کائرہ صاحب نے ملکی و عالمی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ ہمیں ایک ملت اور قوم کے طور پر وطن عزیز اور عالم اسلام کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا اور گروہی و فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہو کر قومی جذبہ کے ساتھ ملی وحدت اور قومی سلامتی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ دستور پاکستان کے اسلامی تشخص اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے قانون کے خلاف مختلف حلقوں میں جاری منفی سرگرمیوں سے آگاہ ہیں اور قوم کے ان تاریخی فیصلوں کی پاسداری کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دیگر راہنماؤں نے بھی اپنے خطابات میں اسی قسم کے جذبات پیش کیے اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ گکھڑ کی پیپلز پارٹی نے ایک اہم دینی و قومی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے اس مشترکہ سیمینار کا اہتمام کیا ہے۔ سیمینار میں پاکستان مسلم لیگ (ن) گکھڑ کے صدر اور بلدیہ گکھڑ کے چیئرمین میر مظہر بشیر نے علالت کے باعث اپنے نمائندہ کے ذریعے سیمینار کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا اور اس اہم سیمینار کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔

دسمبر ۲۰۱۷ء

رشتہ نکاح میں عورت کا اختیار اور معاشرتی رویےمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۷)ڈاکٹر محی الدین غازی
دور جدید کا حدیثی ذخیرہ ۔ ایک تعارفی جائزہ (۵)مولانا سمیع اللہ سعدی
تعبیر قانون کے چند اہم مباحثڈاکٹر محمد مشتاق احمد
مسئلہ ختم نبوت: حالیہ بحران کے چند اہم پہلومولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جنوبی ایشیا کے دینی مدارس، عالمی تناظر میںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سرسید اور ان کے روایت پسند مخالفینمحمد ابوبکر
ظلماتِ وقت میں علم و آگہی کے چراغ (۱)پروفیسر غلام رسول عدیم
دینی مدارس میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائجمولانا حافظ عبد الغنی محمدی

رشتہ نکاح میں عورت کا اختیار اور معاشرتی رویے

محمد عمار خان ناصر

اسلامی تصور معاشرت کی رو سے نکاح ایسا رشتہ ہے جو مرد اور عورت کی آزادانہ مرضی اور فیصلے سے قائم ہوتا ہے اور اس کے قائم رہنے کا جواز اور افادیت اسی وقت تک ہے جب تک دونوں فریق قلبی انشراح اور خوش دلی کے ساتھ اس کوقائم رکھنے پر راضی ہوں۔ کسی وجہ سے ناچاقی پیدا ہونے کی صورت میں قرآن مجید نے ہدایت کی ہے کہ دونوں خاندانوں کے ذمہ دار حضرات مل کر معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں اور موافقت کے امکانات تلاش کریں۔ (النساء، آیت ۳۵) تاہم اگر یہ واضح ہو جائے کہ رشتہ نکاح سے متعلق حدود اللہ کو قائم رکھنا میاں بیوی کے لیے ممکن نہیں تو قرآن نے ہدایت کی ہے کہ ایسی صورت میں اگر طلاق لینے کے لیے بیوی کو شوہر کے کیے ہوئے مالی اخراجات کی تلافی کے لیے کچھ رقم بھی دینی پڑے تو اس میں کوئی مضایقہ نہیں۔ (البقرۃ، آیت ۲۲۹) دوسری جگہ قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر علیحدگی کے فیصلے میں ہی بہتری نظر آ رہی ہو تو فریقین کو مستقبل کے متعلق بے جا خدشات میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی وسعت اور حکمت سے دونوں کے لیے مناسب بندوبست کر دے گا۔ (النساء ، آیت ۱۳۰)
قرآن کی ان تعلیمات کی روشنی میں ہمارے ہاں کئی طرح کے معاشرتی رویے اصلاح کے متقاضی ہیں۔سب سے پہلے تو رشتے کے انتخاب میں خاتون کی پسند اور مرضی کو بنیادی اہمیت دینے کو ابھی تک ہمارے ہاں معاشرتی قدر کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی اور اس حوالے سے عموماً جاگیردارانہ سماج کے بنائے ہوئے رویے اور روایات مستحکم ہیں۔ پھر اگر رشتہ نکاح میں کوئی رخنہ پیدا ہوجائے اور میاں بیوی کے لیے نباہ کرنا مشکل ہوجائے تو بھی ایک انسانی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہوئے فریقین کو خوش اسلوبی سے علیحدگی کا موقع دینے کے بجائے دونوں خاندانوں کا پورا زور اور دباو اس پر مرکوز ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہونے دیا جائے۔ خاص طور پر اگر رشتہ خاندان اور برادری کے اندر قائم ہوا ہو تو دونوں خاندانوں کے باہمی تعلقات کے جڑنے یا ٹوٹنے کو اس ایک رشتے کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر اگر خاتون علیحدگی کے بعد واپس ماں باپ یا بھائیوں کے گھر آ جائے تو اسے ایک غیر ضروری پر گلے پڑ جانے والی ذمہ داری تصور کیا جاتا اور اسی کے مطابق مطلقہ کے ساتھ برتاو اختیار کیا جاتا ہے۔
یہ تینوں رویے دینی واخلاقی لحاظ سے غلط اور قابل اصلاح ہیں۔
خاتون کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح کرنے کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ ایسا نکاح اگر جبراً کیا جائے تو وہ قانوناً منعقد ہی نہیں ہوتا یا عورت کی درخواست پر عدالت اسے فی الفور کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ عموماً اس ضمن میں والدین معاشرتی دباو سے کام لیتے ہوئے بچیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے فیصلے کو ان کا حق سمجھتے ہوئے قبول کر لیں، ورنہ ان کی طرف سے معمول کے تعلقات اور حسن معاشرت کی امید نہ رکھیں۔ یہ دباؤ عموماً موثر ثابت ہوتا ہے اور بے شمار خواتین اپنی زندگی کے ایک نہایت بنیادی حق سے اس دباؤ کے تحت دست بردار ہو جاتی ہیں۔
اسی رویے کا اظہار نکاح کے بعد علیحدگی کے امکان کے حوالے سے بھی کیا جاتا ہے اور خواتین کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے لیے کسی بھی طرح کی جائز یا ناجائز صورت حال سے سمجھوتا کیے اور کسی بھی طرح کی زیادتی یا نا انصافی کو قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، اور یہ کہ علیحدگی کی صورت میں خود خاتون کا خاندان اس فیصلے میں اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔
قرآن مجید نے اہل خاندان کے اس رویے کو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کے منافی قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ایک دفعہ طلاق ہو جانے کے بعد میاں بیوی دوبارہ گھر بسانے پر باہم رضامند ہوں تو عورت کے اہل خانہ کو اس میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ (البقرۃ، آیت ۲۳۲) ظاہر ہے کہ اس اخلاقی اصول کا اطلاق خاتون کی طرف سے علیحدگی کے فیصلے پر بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ اصلاح وسازگاری کی بساط بھر کوششوں کے باوجود اگر خاتون رشتے کو قائم نہ رکھنا چاہتی ہو تو خاندان کی طرف سے اس پر بے جا دباو ڈالا جانا ایک غیر اخلاقی اور غیر شرعی رویہ ہے۔
مطلقہ خواتین کے ضروری اخراجات کو بوجھ اور اپنی ذمہ داری کے دائرے سے خارج تصور کرنا بھی اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی رو سے ایک ناروا انداز فکر ہے۔ سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ اے سراقہ، کیا میں تمھیں سب سے افضل صدقہ کے متعلق نہ بتاوں؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ، ضرور بتائیے۔ آپ نے فرمایا کہ تمھاری وہ بیٹی جو (شوہر کی وفات یا طلاق کے بعد) واپس تمھارے پاس آ جائے اور تمھارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا نہ ہو۔ (ابن ماجہ، حدیث ۳۶۹۰)
اس ضمن میں صحیح اخلاقی رویے کی عکاسی درج ذیل دومثالوں سے ہوتی ہے:
چند سال قبل ایک دوست نے اپنی ہمشیرہ کے متعلق مشورہ طلب کیا جو اپنے سسرال میں ناروا سلوک کا شکار تھی، لیکن تمام تر مشقت اور تذلیل اس لیے گوارا کر رہی تھی کہ والدین کے وفات پا جانے کے بعد اسے دوبارہ بھائیوں پر بوجھ نہ بننا پڑے۔ دوست نے کہا کہ ہمشیرہ کی طرف سے علیحدگی کی خواہش یا مطالبہ ظاہر نہیں کیا گیا، لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ صرف یہ خوف ہے، سو ایسی صورت میں انھیں کیا کرنا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو ایک بھائی کی حیثیت سے انھیں مکمل اخلاقی حمایت دینی چاہیے اور یہ اعتماد دلانا چاہیے کہ اگر ان کے لیے اپنی عزت نفس اور عرفی حقوق کے ساتھ اس رشتے کو قائم رکھنا ممکن نہیں تو اس فیصلے میں آپ پوری طرح ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔انھوں نے ایسا ہی کیا اور مجھے یقین ہے کہ یہ فیصلہ ان کے اور ان کی ہمشیرہ کے لیے کہیں بہتر ثابت ہوا ہوگا۔
میں اپنے جوار میں ایک کنبے کو جانتا ہوں جس کے سربراہ کے، نشے کا عادی ہونے کی وجہ سے کھانے کمانے کی ساری ذمہ داری گھر کی خواتین پر ہے۔ ماں اور اس کی جوان بیٹیاں سارا دن لوگوں کے گھروں کا کام کاج کر کے اپنی ضروریات کا بندوبست کرتی ہیں۔ ایک بیٹی شادی کے بعد شدید علالت کا شکاراور اپنے ماں باپ ہی کے گھر میں زیر علاج ہے۔ اس کا شوہر تقاضا کرتا ہے کہ وہ واپس آ کر اس کے ساتھ رہے اور گھریلو ذمہ داریاں سنبھالے، لیکن یہ غریب خواتین اسے واپس نہیں بھیج رہیں کہ ان کی بچی کو خود دیکھ بھال اور تیمار داری کی ضرورت ہے جو اسے شوہر کے گھر میں میسر نہیں ہوگی۔
یہ دونوں مثالیں اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا درست نمونہ ہیں اور معاشرے کی دینی واخلاقی تربیت کے ذمہ دار طبقوں کو اس طرح کے اچھے نمونے لوگوں کے سامنے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

تاریخ اور روایت کی معروضی تعبیر 

تاریخ کا مطالعہ اور تعبیر معروضی نہیں ہو سکتی، یہ ایک پیش پا افتادہ حقیقت ہے۔ یہی بات روایت کے مطالعہ کے بارے میں درست ہے، کیونکہ وہ بھی تاریخ ہی کی ایک جہت ہے۔ ہم تاریخ کا مطالعہ اپنے حال کو ایک تناظر دینے اور اپنے موجودہ مواقف کو جواز فراہم کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ، ول ڈیوراں کے بقول، تاریخ سے ہر نقطہ خیال کے حق میں یا اس کے خلاف یکساں طور پر استدلال کشید کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ کا عمومی مطالعہ کرنے والا ایک مورخ نسبتاً زیادہ غیر جانب دار ہو سکتا ہے، لیکن فکری، نظریاتی، سیاسی اور مذہبی بحثوں میں استعمال کی جانے والی تاریخی تعبیرات ہمیشہ اور بلا استثناء مذکورہ حقیقت کا مظہر ہوتی ہیں۔
اس کے دو مضمرات اہم ہیں۔
ایک یہ کہ کسی بھی بحث میں تاریخ کی (اور اسی طرح روایت کی) جو تعبیر پیش کی جا رہی ہو، اس کو سمجھنے کے لیے پیش کردہ تاریخی استدلال کی اہمیت ثانوی اور پیش کرنے والے کے موجودہ موقف کی اور ان نتائج واثرات کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے جو اس تعبیر سے حال میں حاصل کرنا مقصود ہے۔ چونکہ حاملین تعبیر کا موجودہ موقف اور مطلوبہ نتائج یہ طے کرتے ہیں کہ وہ تاریخ کو کس طرح دیکھیں، اس لیے ان کے استدلال کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے والوں کے لیے بھی اس نکتے کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے منفک کرنا زیر بحث تعبیر اور استدلال کی تفہیم کو اس کے ایک بنیادی عنصر سے محروم کر دیتا ہے۔
دوسرا یہ کہ تاریخی تعبیر جس موقف کی تائید میں پیش کی جا رہی ہے، اس موقف کی قدر پیمائی اصلاً ان دلائل کی روشنی میں کی جانی چاہیے جو وہ وضع موجود میں اپنے حق میں رکھتا ہے یا پیش کر سکتا ہے۔ فیصلہ کن حیثیت انھی دلائل کو حاصل ہوگی، جبکہ ان کے ساتھ ضمنی موید کے طور پر تاریخی تعبیر پر مبنی استدلالات کو بھی وزن دیا جا سکتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ تاریخی تعبیرات پر بہت زیادہ انحصار کرنے والے مواقف وہ ہوں گے جو وضع موجود سے اپنے حق میں زیادہ قائل کن دلائل پیش نہیں کر سکتے۔ چونکہ کسی بھی موقف کو ایک واقعاتی وعملی تناظر درکار ہوتا ہے، اس لیے اس نقصان کی تلافی کی غرض سے تاریخ کی طرف رجوع کیا جاتا اور ایک بڑی حد تک فرضی تناظر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاہم جیسا کہ واضح کیا گیا ہے، ایسی کسی بھی بحث میں تاریخ کی تعبیر کو متعین رخ دینے والی اصل چیز وہ پوزیشن ہوتی ہے جو حال میں اختیار کی گئی ہے اور اپنی بنیادی توضیح کا تقاضا وضع موجود میں ہی کرتی ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۲۴) لأول الحشر کا ترجمہ

یہ لفظ قرآن مجید میں مندرجہ ذیل ایک مقام پر آیا ہے:

ہُوَ الَّذِیْ أَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مِن دِیَارِہِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ۔ (الحشر: 2)

مفسرین ومترجمین کو اس کا مفہوم متعین کرنے میں الجھن پیش آئی ہے، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل ترجمے دیکھ کر کیا جاسکتا ہے:
’’وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے میں اْن کے گھروں سے نکال باہر کیا‘‘ (سید مودودی،’’پہلے ہی حملے‘‘ اس وقت درست ہوتا جب اول حشر یا الحشر الاول ہوتا، اس کی بجائے ’’حملہ کے آغاز ہی میں‘‘ درست ترجمہ ہوسکتا ہے)
’’وہی ہے جس نے ان کافر کتابیوں کو ان کے گھروں سے نکالا ان کے پہلے حشر کے لیے‘‘ (احمد رضا خان، ’’پہلے حشر‘‘ اول الحشر کا ترجمہ نہیں ہوگا)
’’وہی ہے جس نے اہلِ کتاب کے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلا لشکر جمع کرنے کے وقت نکال دیا ‘‘(احمد علی، ’’پہلا لشکر‘‘ اس وقت درست ہوتا جب الحشر الاول ہوتا)
’’وہی ہے جس نے نکالا ان لوگوں کو جنھوں اہل کتاب میں سے کفر کیا، ان کے گھروں سے حشر اول کے لیے‘‘ (امین احسن اصلاحی، لام کو برائے تعلیل ماننے سے ترجمہ کمزور ہوگیا، اول الحشر کا ترجمہ ’’حشر اول‘‘ یعنی موصوف وصفت والا ترجمہ کرنا بھی غلط ہے)
’’وہی ہے جس نے (ان) کفار اہل کتاب (یعنی بنی نظیر) کو ان کے گھروں سے پہلی ہی بار اکٹھا کرکے نکال دیا ‘‘(اشرف علی تھانوی، یہ ترجمہ لغت کے اعتبار سے درست نہیں ہے)
مذکورہ بالا ترجموں میں کچھ لوگوں نے لام کو برائے تعلیل مانا ہے، جس سے انہیں صحیح ترجمے تک پہونچنے میں دشواری ہوئی ہے، یہاں لام کو تعلیل کے بجائے ظرف و توقیت کے لئے مان لیں تو مفہوم تک پہونچنا آسان ہوجاتا ہے۔
ایک دوسری غلطی یہ ہوئی کہ اول الحشر جو مضاف اور مضاف الیہ ہے، اس کا ترجمہ انہوں نے موصوف وصفت والا کیا ہے، یعنی پہلا حشر۔ اس مفہوم کے لیے یا تو الحشر الاول ہوتا، یا پھر مضاف اور مضاف الیہ ہوتا مگر اول حشر (حشر نکرہ) ہوتا۔ اول الحشر والی ترکیب کا مفہوم ہے حشر کے آغاز میں۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ لاول الحشر میں لام ظرف کے لیے ہے نہ کہ تعلیل کے لیے، اور اول الحشر کا مطلب ہے لشکر کا جماوڑا ہوتے ہی۔اس کے مطابق ترجمہ ہوگا: ’’وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو لشکر کا جماوڑا ہوتے ہی اْن کے گھروں سے نکال باہر کیا‘‘
مطلب یہ ہوا کہ ان کے ساتھ جنگ لڑنے کی نوبت ہی نہیں آئی، جیسے ہی وہ جنگ لڑنے کے لیے جمع ہوئے، اللہ نے انہیں نکال دئے جانے کا فیصلہ نافذ کردیا۔ اس مفہوم کو اختیار کرنے سے کلام کی معنویت بہت بڑھ جاتی ہے، اللہ کی قدرت کا بھرپور مشاہدہ ہوتا ہے کہ انہوں نے حملہ کرنے کے لیے لشکر جمع کیا مگر اللہ نے جماوڑے کی ابتدا ہی میں ان کے دلوں میں ہیبت ڈال کر انہیں نکلنے پر مجبور کردیا۔ اس سے اللہ کے فیصلے کے سامنے اللہ کے دشمنوں کی بے بسی کا بھرپور اظہار ہوتا ہے، اور الفاظ کا پورا پورا حق بھی ادا ہوجاتا ہے۔ 

(۱۲۵) قعید کا ترجمہ

قعید کا لفظ قرآن مجید میں ایک جگہ مندرجہ ذیل آیت میں آیا ہے:

إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۔ (ق: 17)

قعید، قعد سے مشتق ہے، قاعد بھی اسی سے مشتق ہے، قاعد کا لفظ قرآن مجید میں کئی جگہ آیا ہے، اور ہر جگہ اس کا مفہوم ’’بیٹھا ہوا‘‘ ہے، سوال یہ ہے کہ کیا قاعد اور قعید کے مفہوم میں کوئی فرق ہے، اردو تراجم کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عام طور سے لوگوں نے قعید کا ترجمہ ’’بیٹھے‘‘ کیا ہے۔
’’(اور ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں‘‘(سید مودودی)
’’اور جب اس سے لیتے ہیں دو لینے والے ایک داہنے بیٹھا اور ایک بائیں‘‘(احمد رضا خان)
’’جب کہ ضبط کرنے والے دائیں اوربائیں بیٹھے ہوئے ضبط کرتے جاتے ہیں‘‘ (احمد علی)
’’جب (وہ کوئی کام کرتا ہے تو) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں، لکھ لیتے ہیں‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے ‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’(دھیان رکھو) جبکہ دو اخذ کرنے والے اخذ کرتے رہتے ہیں، ایک دائیں بیٹھا اور دوسرا بائیں بیٹھا ‘‘(امین احسن اصلاحی)
لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ قاعد کے بجائے قعید کیوں کہا، اور کیا فرشتوں کے لیے بھی بیٹھنے کا لفظ استعمال ہوتا ہے؟
عربی لغات اور تفاسیر دیکھیں تو قعید کے مختلف مفہوم سامنے آتے ہیں، البتہ علامہ ابن عاشور نے اس لفظ کا بہت مناسب مفہوم ذکر کیا ہے، 

وَالقَعید مُستَعاَارٌ لِلمُلَازِمِ الَّذِی لَا یَنفَکُّ عَنہُ کَمَا أَطلَقُوا القَعیدَ عَلَی الحَافِظِ لِأَنَّہ یُلَازِمُ الشّیء َ المُوکَّلَ بِحِفظہ۔ (التحریروالتنویر : 26/ 302) 

دوسری جگہ مزید وضاحت کرتے ہیں:

وَالقعُود کِنَایَۃٌ عَنِ المُلَازَمَۃِ،کَمَا فِی قَول النَّابِغَۃِ: قْعْودًا لَدَی أَبیَاتِھِم یَثمِدُونَھُمْ ... رَمی اللّہُ فِی تِلکَ الأکُفِّ الکَوَانِعِ اَی مُلَازِمِینَ أبیاتا لغَیرھمْ یرد الجُلُوسَ، اِذْ قَد یَکُونُونَ یَسأَلُونَ وَاقِفِینَ، وَمَاشِینَ، وَوَجہُ الکِنَایۃِ ھُوَأَنَّ مُلَازَمَۃَ المَکَانِ تَستَلزِمُ الاِعیَاءَ مِنَ الوُقُوفِ عِندَہُ، فیَقعُدُ المُلَازِمُ طَلَبًا لِلرَّاحَۃِ، وَمِن ثَمَّ أُطلِقَ عَلَی المُستَجِیرِ اسمُ القَعِیدِ، وَمِن اِطلَاقِ القَعیدِ عَلَی المُلَازِمِ قَولُہُ تَعَالَی: إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۔ (ق: 17) أی مُلَازِمٍ اِذِ المَلَکُ لاَ یُوصَفُ بِقُعُودٍ وَلَاقِیامٍ. (التحریروالتنویر: 8/47)

ابن عاشور کی توجیہ کے مطابق ترجمہ ہوگا’’ ہر وقت ساتھ لگے ہوئے‘‘۔
علامہ ابوحیان نے بھی ایک رائے یہ ذکر کی ہے کہ قاعد کے مقابلے میں قعید میں مبالغہ پایا جاتا ہے، جس طرح عالم کے مقابلہ میں علیم میں مبالغہ ہے۔ 

وأنْ یکونَ عَدلٌ مِنْ فَاعِلٍ اِلی فَعِیلٍ لِلمُبَالَغَۃِ،کَعَلِیمٍ. (البحرالمحیط فی التفسیر: 9/ 534)

ایک بات تو یہ ہے کہ فاعل کے مقابلے میں فعیل میں مبالغہ ہوتا ہے، دوسری بات یہ بھی ہے کہ فعیل میں دوام واستمرار کا مفہوم بھی نمایاں طور سے پایا جاتا ہے، اس کے پیش نظر ابن عاشور کی رائے وزنی ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی قعید کا ترجمہ بیٹھے ہوئے کے بجائے ڈٹے ہوئے کرتے ہیں:
’’عین اس وقت جبکہ دو وصول کرنے والے وصول کرتے رہتے ہیں، ایک دائیں اور ایک بائیں ڈٹے ہوئے‘‘

(۱۲۶) اخذ عزیز مقتدر کا ترجمہ

آیت کے مندرجہ ذیل ٹکڑے میں فَأَخَذْنَاہُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِر کا ترجمہ توجہ طلب ہے:

کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا کُلِّہَا فَأَخَذْنَاہُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ۔ (القمر: 42)

مترجمین نے اس کا ترجمہ مختلف طرح سے کیا ہے:
’’انہوں نے ہماری تمام نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو اس طرح پکڑ لیا جس طرح ایک قوی اور غالب شخص پکڑ لیتا ہے‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’مگر انہوں نے ہماری ساری نشانیوں کو جھٹلا دیا آخر کو ہم نے انہیں پکڑا جس طرح کوئی زبردست قدرت والا پکڑتا ہے‘‘(سید مودودی)
’’انہوں نے ہماری تمام نشانیاں جھٹلائیں پس ہم نے انہیں بڑے غالب قوی پکڑنے والے کی طرح پکڑ لیا‘‘(محمد جوناگڑھی)
مذکورہ بالا ترجموں میں ایک کمزوری ہے، ان ترجموں سے لگتا ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی عزیز اور مقتدر ہے جو پکڑتا ہے، اور گویا اللہ اس کی طرح پکڑتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی اور نہ عزیز (زبردست) ہے اور نہ مقتدر (قدرت والا) ہے، کہ جس کی پکڑ سے اللہ کی پکڑ کو تشبیہ دی جائے۔ درست بات یہ ہے کہ یہاں اللہ کی پکڑ کی صفت اور نوعیت بیان کی گئی ہے کہ اس نے پکڑا زبردست اور قدرت والے کی پکڑ۔ ایک ضعف اور کمزوری والے کی پکڑ ہوتی ہے، جس سے چھوٹ جانے کا امکان رہتا ہے، اور ایک عزیز اور مقتدر کی پکڑہوتی ہے کہ جس سے چھوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ مندرجہ ذیل ترجمہ اس مفہوم کو صحیح طور سے ادا کررہا ہے:
’’جھٹلایا انہوں نے نشانیوں ہماری کوسب کو پس پکڑا ہم نے ان کو پکڑنا غالب قدرت والے کا‘‘ (شاہ رفیع الدین)
ذیل میں درج دوسرے مزید ترجموں میں مذکورہ بالا کمزوری تو نہیں ہے، البتہ عزیز مقتدر کے الفاظ کی مکمل اور صحیح ترجمانی نہیں ہو پارہی ہے:
’’انہوں نے ہماری سب نشانیوں کو جھٹلایا پھر ہم نے انہیں بڑی زبردست پکڑ سے پکڑا‘‘(احمد علی، عزیز اور مقتدر پکڑ کی صفت نہیں پکڑنے والے کی صفت ہے)
’’جھٹلائیں ہماری نشانیاں ساری پھر پکڑی ہم نے ان کو پکڑ زبردست کی قابو میں لے کر‘‘ (شاہ عبدالقادر، مقتدر کا ترجمہ ’’قابو میں لے کر‘‘ درست نہیں ہے)
’’سو ہم نے ان کو زبردست قدرت کا پکڑنا پکڑا‘‘ (اشرف علی تھانوی، عزیز مقتدر کا ترجمہ ’’زبردست قدرت‘‘ کیا ہے جو درست نہیں ہے)

(۱۲۷) تواصی کا ترجمہ

تواصوا کا لفظ قرآن مجید میں تین مقامات پر آیا ہے، سورہ بلد اور سورہ عصر میں جملہ خبریہ ہے جب کہ سورہ ذاریات میں جملہ استفہامیہ ہے۔ اول الذکر دونوں مقامات پر سب نے ملتا جلتا ترجمہ کیا ہے، اور کوئی قابل ذکر اختلاف نظر نہیں آتا ہے۔البتہ مذکورہ ذیل تیسرے مقام پر ترجمے مختلف طرح سے ہوئے ہیں۔ 

أَتَوَاصَوْا بِہِ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ۔ (الذاریات: 53)

’’کیا ایک دوسرے کو نصیحت کرتے آئے ہیں ساتھ اس کے، بلکہ وہ ایک قوم ہیں سرکش ‘‘(شاہ رفیع الدین) 
’’کیایہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’کیا یہ کہ ایک دوسرے کو اسی بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’کیا آپس میں ایک دوسرے کو یہ بات کہہ مرے ہیں بلکہ وہ سرکش لوگ ہیں‘‘ (احمد رضا خان)
’’کیا ایک دوسرے سے یہی کہ مرے تھے نہیں بلکہ وہ خود ہی سرکش ہیں ‘‘(احمد علی)
’’کیا یہی کہہ مرے ایک دوسرے کو، کوئی نہیں، پر یہ لوگ شریر ہیں‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’کیا اِن سب نے آپس میں اِس پر کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے؟ نہیں، بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں ‘‘(سید مودودی)
پہلے تینوں ترجموں میں ایک دوسرے کو نصیحت کرنے کی بات ہے، اس کے بعد کے تینوں ترجموں میں ایک دوسرے کو کہہ مرنے کی بات ہے، اور آخری ترجمے میں سمجھوتہ کرنے کی بات ہے۔
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ تواصی میں مرنے کا مفہوم شامل نہیں ہے، سورہ بلد اور سورہ عصر میں تواصوا آیا ہے اور مرنے کے مفہوم کے بغیر آیا ہے۔ اس لیے ’’کہہ مرے‘‘ ترجمہ کرنا محل نظر ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آخر الذکر ترجمہ میں تواصوا کا ترجمہ ’’سمجھوتہ کرنا‘‘ کیا گیا ہے، لغت کے لحاظ سے یہ درست نہیں ہے، تواصی کا مطلب ایک دوسرے کو نصیحت کرنا ہے، سمجھوتہ کرنا اس لفظ کے مفہوم میں شامل نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ صاحب تفہیم کو بعض مفسرین کے تفسیری بیان سے غلط فہمی ہوگئی۔

(۱۲۸) سرر مصفوفۃ کا ترجمہ

مندرجہ ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ کریں:

مُتَّکِئِیْنَ عَلَی سُرُرٍ مَّصْفُوفَۃٍ۔ (الطور: 20)

’’تختوں پر تکیہ لگائے جو قطار لگا کر بچھے ہیں‘‘(احمد رضا خان)
’’تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے جو قطاروں میں بچھے ہوئے ہیں‘‘(احمد علی)
’’تختوں پر جو برابر برابر بچھے ہوئے ہیں تکیہ لگائے ہوئے‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’برابر بچھے ہوئے شاندار تختے پر تکیے لگائے ہوئے‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے‘‘(سید مودودی)
آخر الذکر ترجمے میں ’’آمنے سامنے‘‘ اضافہ ہے، مصفوفۃ صف سے ہے اور اس کا مطلب ’ ’قطار میں بچھے ہوئے ‘‘ہوتا ہے، لگتا ہے مترجم کے ذہن میں مُتَّکِئِیْنَ عَلَیْْہَا مُتَقَابِلِیْن۔ (الواقعۃ: 16) والی آیت تھی، جس کی وجہ سے ترجمہ میں وہ اضافہ ہوگیا۔
(جاری)

دور جدید کا حدیثی ذخیرہ ۔ ایک تعارفی جائزہ (۵)

مولانا سمیع اللہ سعدی

پانچویں جہت : اعجازِحدیث 

معاصر سطح پر حدیث کے حوالے سے اعجازِ حدیث یا اعجازِ سنت کی نئی اصطلاح رائج ہوئی ہے۔ اعجاز کی اصطلاح متقدمین کے ہاں عموماً قرآن پاک کے ساتھ خاص تھی۔ عصر حاضر میں قرآن پاک کے اعجاز اور اس کی وجوہ پر قابل قدر کام ہوچکا ہے، اسی کام کو بعض حضرات نے حدیث نبوی کی طرف متعدی کیا، اور اعجاز کی جن وجوہ کا بیان اعجاز قرآن کے ضمن میں ہوتا تھا، انہی کو حدیث پر منطبق کیا جانے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ احادیث مبارکہ جو بلفظہا ثابت ہیں،بلا شبہ بلاغت و فصاحت کے اعلیٰ معیار پر ہیں، لیکن کلام رسول (جو اگرچہ وحی غیر متلو پر مبنی ہے )کو قرآن پا ک کی طرح معجز قرار دینا بالکل نئی روش ہے۔ اعجاز کی اصطلاح کو حدیث پر لاگو کرنا علمی اعتبار سے کتنا درست ہے،یہ ایک مستقل بحث ہے جسے سر دست چھوڑتے ہیں۔ ذیل میں ہم اعجاز حدیث پر ہونے والے کاموں کا ایک جائزہ لیتے ہیں :

۱۔حدیث کا لغوی و ادبی اعجاز 

کلام نبوی کے مختلف اسالیب، ان اسالیب میں مستور بلاغی نکات اور اس کے ادبی پہلووں پر کافی زیادہ کام ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے توانا آواز معروف ادیب مصطفی صادق رافعی کی ہے ،جنہوں نے اعجاز القرآن الکریم و البلاغۃ النبویہ لکھ کر کلام نبوی کے ادبی اسالیب پر دل نشین گفتگو کی۔ اس کے علاوہ معروف عالم عبد الرحمان حبنکہ نے ایک ضخیم کتاب روائع من اقوال الرسول: دراسات لغویۃ فکریۃ وادبیۃ کے نا م سے لکھی جو دار القلم دمشق سے شائع ہوئی ہے۔ معروف ادیب محمد بن لطفی الصباغ نے التصویر الفنی فی الحدیث النبوی کے نام سے ایک مفصل کتاب لکھی ہے جس میں حدیث نبویہ کے مختلف اسالیب پر گفتگو کی ہے۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر یہ کتب قابل ذکر ہیں :
۱۔ الحدیث النبوی الشریف من الوجھۃ البلاغیۃ، کمال عزالدین ،دار اقرا ،بیروت
۲۔ الاعجاز فی البیان النبوی، عبد الباسط احمد علی حمودہ،قاہرہ
۳۔ البیان النبوی، محمد البیومی ،دار الوفا ،قاہرہ
۴۔ من کنوز السنۃ: دراسۃ ادبیۃ و لغویۃ من الحدیث الشریف، محمد علی صابونی، دار القلم، دمشق
۵۔ فنون ادبیۃ فی البیان النبوی، متولی محمد الباسطی ،مصر
۶۔ من بلاغۃ الحدیث النبوی، محمد احمد سحلول، دار الاصالہ ،قاہرہ (مجلدین)
۷۔ الخصائص الفنیۃ فی الادب النبوی، محمد بن سعد الدبل،مکتبہ العیبکان ،ریاض
۸۔ الروائع و البدائع فی البیان النبوی، محمد نعمان الدین ندوی ،دار الشہاب، بیروت
۹۔ الصورۃ الفنیہ فی الحدیث النبوی، احمد زکریا یاسوف،دار المکتبی ،دمشق
۱۰۔ دراسۃ ادبیۃ لاحادیث نبویۃ مختارۃ، کامل سلامہ الدقس،دار الشروق ،جدہ
۱۱۔ الملامح الفنیۃ فی الحدیث النبوی، نور الدین عتر،دار المکتبی ،دمشق
۱۲۔ البیان النبوی: مدخل و نصوص، عدنان زرزور،دار الفتح دمشق
۱۳۔ من بلاغۃ الحدیث الشریف، عبد الفتاح لاشین ،مکتبات عکاظ ،جدہ

۲۔حدیث کا سائنسی اعجاز 

عصر حاضر میں قرآن پاک کے سائنسی پہلو پر کافی کام ہوا ہے، قرآنی آیاتِ کونیہ میں بیان شدہ حقائق کو جدید سائنس کی روشنی میں ثابت کرنے کے حوالے سے ایک ضخیم مکتبہ وجود میں آیا ہے ،اس کو اعجازِ علمی کا نام دیا گیا ہے۔ اعجازِ علمی کے اس دائرے میں احادیث کو بھی شامل کیا گیا اور احادیث میں بیان شدہ کائناتی حقائق کو جدید سائنس کی کسوٹی پر پرکھنے کی قابل قدر کوششیں ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے معروف مصری ڈاکٹر احمد شوقی ابراہیم کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ موصوف نے چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل موسوعۃ الاعجاز العلمی فی الحدیث النبوی کے نام سے لکھی ہیں۔ اس کے علاوہ مصری محقق زغلول نجار نے بھی اس میدان میں اہم خدمات سر انجام دی ہیں۔ آپ نے الاعجاز العلمی فی السنۃ النبویۃ کے نام سے تین ضخیم جلدیں لکھی ہیں۔ اس موضوع پر لکھی گئی اہم کتب کی فہرست پیش خدمت ہے :
۱۔ موسوعۃ الاعجاز العلمی فی القرآن و السنۃ، محمد راتب نابلسی ،دار المکتبی ،دمشق
۲۔ موسوعۃ الاعجاز العلمی فی القرآن الکریم والسنۃ المطھرۃ، یوسف الحاج احمد ،مکتبہ ابن حجر، دمشق
۳۔ الاعجاز العلمی فی السنۃ النبویۃ ونبوءات تتحقق، محمد حسن قندیل ،مکتبہ بستان المعرفہ ،مصر
۴۔ موسوعۃ الاعجاز العلمی فی الحدیث النبوی الشریف، عبد الرحیم ماردینی ،دار المحبہ، دمشق
۵۔ الاعجاز العلمی فی السنۃ النبویۃ، صالح احمد رضا ،مکتبہ العبیکان ،ریاض
۶۔ الاعجاز العلمی فی السنۃ النبویۃ، رزق عامر حسن ،مطبعہ رشوان ،مصر
۷۔ صور لاعجاز العلمی فی السنۃ النبویۃ، عبد الحمید محمود طہماز،دار القلم ،دمشق
۸۔ حقائق العلم فی القرآن والسنۃ، غازی عنایہ ،دار الکتب العلمیہ۔،بیروت
۹۔ الاعجاز العلمی فی الاسلام : السنۃ النبویۃ، محمد کامل عبد الصمد،الدار المصریہ ،قاہرہ
۱۰۔ السنۃ و العلم الحدیث، عبد الرزاق نوفل،مطبوعات الشعب ،قاہرہ
۱۱۔ دلائل النبوۃ المحمدیۃ فی ضوء المعارف الحدیثۃ مصحوبۃ بتوجھات وطرائف ھامۃ، محمود مہدی الاستانبولی، مکتبہ المعلا، کویت
۱۲۔ من اعجاز السنۃ المشرفۃ، محمد فواد شاکر ،خاص ،مصر
۱۳۔ وجوہ متنوعۃ من الاعجاز العلمی فی القرآن والسنۃ، عبد البدیع حمزہ زللی ،مطابع دار البلاد، جدہ

۳۔حدیث کا طبی اعجاز 

طب نبوی قدیم زمانے سے اہل علم کا موضوع رہا ہے۔ معاصر سطح پر جدید طب کی روشنی میں طبی احادیث و روایات پر کام ہوا ہے، اسے اعجاز حدیث کی باقاعدہ ایک قسم قرار دیا گیا اور طب نبوی کو جدید طبی حقائق پر پرکھ کر اس سے دلائل نبوت اخذ کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں معروف شامی طبیب حسان شمسی پاشا نے قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ آپ نے طب نبوی پر ایک درجن کے قریب کتب لکھی ہیں جن میں الطب النبوی بین العلم والاعجاز: قبسات من الطب النبوی والادلۃ العلمیۃ الحدیثۃ اور الشفاء بالحبۃ السودا ء بین الاعجاز النبوی والطب الحدیث قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ محمود ناظم نسیمی نے الطب النبوی والعلم الحدیث کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی ہے جو موسسۃ الرسالہ بیروت سے تین جلدوں میں چھپی ہے۔ عبد اللہ عبد الرازق السعید نے بھی اس حوالے سے اہم کتب لکھی ہیں، آپ نے من الاعجاز الطبی فی الاحادیث النبویۃ الشریفۃ کے نام سے کتب کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں مختلف احادیثِ طب پر بحث کی ہے۔ اس سلسلے کی اب تک چھ کتب منظر عام پر آئی ہیں۔اعجاز طبی پر اہم کتب کی فہرست پیش خدمت ہے :
۱۔ معجزات فی الطب للنبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، محمد سعید البوطی ،بیروت
۲۔ السنۃ النبویہ و الطب الحدیث، صادق عبد الرضا ،دار المورخ ،بیروت
۳۔ اعجاز الطب النبوی، السید عبد الحکیم عبد اللہ ،دار الافاق،قاہرہ
۴۔ الاعجاز الطبی فی السنۃ النبویۃ، کمال المویل ،دار ابن کثیر ،دمشق
۵۔ الاعجاز الطبی فی الکتاب و السنۃ، حسن یاسین عبد القادر ،مکتبہ وہبہ ،قاہرہ
۶۔ الاعجاز الطبی فی القرآن و السنۃ، محمد داود الجزائری ،دار الہلال ،بیروت
۷۔ اعجاز الطب النبوی، السید الجمیلی ،دار ابن زیدون ،بیروت
۸۔ العدوی بین الطب و حدیث المصطفی، محمد علی البار ،دا ر الشروق،جدہ
۹۔ الابداعات الطبیۃ لرسول الانسانیۃ، مختار سالم ،موسسہ المعارف ،بیروت
۰۱۔ الحقائق الطبیۃ فی الاسلام، عبد الرزاق اشرف کیلانی ،مکتبہ الرسالہ ،عمان
۱۱۔ الطب النبوی فی ضوء العلم الحدیث، غیاث حسن احمد ،دار المعاجم ،دمشق
طب نبوی پر اردو میں بھی کافی کام ہوا ہے، (جس میں اکثر غیر معیاری ہے)۔ اس حوالے سے ڈاکٹر خالد غزنوی کی ’’طب نبوی اور جدید سائنس‘‘، ’’دل کی بیماریاں اور علاج نبوی‘‘، ’’امراض جلد اور علاج نبوی‘‘، حکیم طارق محمود چغتائی کی ’’سنت نبوی اور جدید سائنس‘‘، ڈاکٹر امجد حسن علی اور آپ کے رفقاء کی مشترکہ کتاب ’’حجامہ، علاج بھی سنت بھی‘‘، ڈاکٹر اقتدار فاروقی کی ’’طب نبوی اور نباتات‘‘، نگہت ہاشمی کی ’’طب نبوی‘‘، حکیم محمد اسلم کی ’’فیضانِ طب نبوی‘‘ قابل ذکر ہیں۔

۴۔حدیث کا فکری ،ثقافتی، تربیتی اور اقتصادی پہلو

حدیث پاک کے اعجاز کے ضمن میں احادیث کے فکری ،ثقافتی، تربیتی اور اقتصادی پہلوؤں پر بھی کافی کام ہوا ہے۔ یہ کام خصوصیت سے عالم عرب میں ہوا ہے،چنانچہ محققہ خدیجہ النبراوی نے ایک ضخیم کتاب موسوعۃ اصول الفکر السیاسی والاجتماعی والاقتصادی من نبع السنۃ الشریفۃ وھدی الخلفاء الراشدین کے نام سے لکھی ہے ۔یہ مفصل کتاب پانچ جلدوں اور ساڑھے چودہ ہزار احادیث و آثار پر مشتمل ہے۔ یہ قابل قدر کتاب دار السلام قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ عبد الجواد سید بکر نے فلسفۃ التر بیۃ الاسلامیۃ فی الحدیث النبوی کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی ہے جو دار الفکر العربی قاہرہ سے چھپی ہے۔ احادیث کے اقتصادی مطالعہ پر محمد بن عبد اللہ الشبانی نے المختار من احادیث المصطفی علیہ الصلوۃ والسلام فی التنظیم الاقتصادی و المالی و الاجتماعی کے نام سے لکھی ہے ۔یہ کتاب دو جلدوں میں دار عالم الکتب ریاض سے چھپی ہے۔ احادیث کے ثقافتی و فکری پہلووں پر معروف ادیب محمد بن لطفی الصباغ نے الحیاۃ الاجتماعیۃ فی ضوء السنۃ (دار المثل، ریاض)عماد الدین خلیل اور حسن احمد الرزو کی مشترکہ ضخیم تصنیف دلیل التاریخ و الحضارۃ الاسلامیۃ فی الاحادیث النبویۃ (دار الرازی ،عمان)اور عبد اللہ شعبان علی کی السنۃ ودورھا فی الحفاظ علی الوحدۃ الفکریہ للامۃ (المکتب العلمی، مصر) قابل ذکر ہیں۔ ان موضوعات پر اہم کتب کی فہرست پیش خدمت ہے :
۱۔ بعض قضایا التربیۃ فی السنۃ النبویۃ، احمد محمود عبد المطلب،دار محسن، مصر
۲۔ وصایا الرسول للاطفال، مجدی فتحی السید، دار الصحابہ، مصر (مجلدین)
۳۔ اسس التر بیۃ الاسلامیۃ فی السنۃ النبویۃ، عبد الحمید الصید الزنتانی، الدار العربیہ للکتاب، لیبیا
۴۔ الرسول المعلم و اسالیبہ فی التعلیم، عبد الفتاح ابو غدہ ،مکتب المطبوعات الاسلامیہ ،حلب
۵۔ دراسات تربویۃ فی الاحادیث النبویۃ، محمد لقمان الاعظمی ،مکتبۃ العبیکان،ریاض
۶۔ تربیۃ الاطفال فی ضوء القرآن والسنۃ، یوسف بدیوی ،محمد قاروط،دار المکتبی ،دمشق(مجلدین)
۷۔ الکشاف الاقتصادی للاحادیث النبویۃ الشریفۃ، محیی الدین عطیہ ،دار البحوث العلمیہ، کویت
۸۔ المال: ملکیتہ واستثمارہ وانفاقہ، دراسۃ موضوعیۃ فی الاحادیث النبویۃ الشریفۃ، محمد رافت سعید،مکتبۃ المدارس ،قطر
۹۔ النصوص الاقتصادیۃ فی القرآن و السنۃ، منذر قحف،مرکز النشر العلمی ،جدہ
۱۰۔ الانشطۃ المصرفیۃ وکمالھا فی السنۃ النبویۃ، حسن صالح عنانی ،المعہد الدولی للبنوک ،قبرص
۱۱۔ المنھج النبوی والتغییر الحضاری، برغوث عبد العزیز بن مبارک،وزارۃ الاوقاف والشوون الاسلامیہ، قطر
۱۲۔ ثلاثون حدیثا لتنظیم حضارۃ الاسلام الاجتماعیۃ، محمد فریز منفیخی ،الدار العلمیہ ،دمشق
۱۳۔ الوصیۃ النبویۃ للامۃ الاسلامیہ فی حجۃ الوداع، فاروق حمادہ ،دار القلم ،دمشق
۱۴۔ فی ظلال السنہ، قراء ۃ فکریۃ ادبیۃ تستشرف الفقہ الحضاری للسنۃ النبویۃ فی مختلف جوانب الحیاۃ الانسانیۃ والقضایا الاستراتیجیۃ، محمد رافت زنجیر، دار التوفیق، دمشق
۱۵۔ نظرات فی خطبۃ الوداع، صلاح احمد ابو زید السید ،مطبعۃ الشروق ،مصر

چھٹی جہت :موسوعات و معاجم

علم حدیث کے جدید ذخیرے کا ایک بڑا حصہ موسوعات و معاجم کی شکل میں ہے۔ مختلف قسم کے موسوعات و معاجم منظر عام پر آئے ہیں، ان موسوعات و معاجم کی درج ذیل قسمیں بنتی ہیں:

۱۔موسوعات الحدیث بحسب الموضوع

موسوعات کی پہلی قسم وہ کتب ہیں جن میں ایک یا ایک سے زیادہ موضوعات سے متعلق احادیث کا استقصاء کیا گیا ہو، خواہ مستقل تصنیف کی شکل میں ہو یا کئی کتبِ حدیث کی جمع و تالیف پر مشتمل ہو۔ اس سلسلے میں متعدد کاوشیں ہوئی ہیں۔ محقق بشار معروف نے اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ مل کر صحاح ستہ سمیت مزید چھ کتب کی روایات کو مسانید اور موضوعات کی ترتیب پر جمع کیا ۔یہ قابل قدر کاوش المسند الجامع کے نام سے دار الجیل کویت سے بائیس جلدوں میں چھپی ہے ۔ عبد الملک بن بکر قاضی نے مختلف موضوعات کی احادیث کو جمع کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ،یہ سلسلہ موسوعۃ الحدیث النبوی کے نام سے سعودی عرب سے آٹھ جلدوں میں چھپا ہے۔ منصور علی ناصف نے صحاح ستہ کی احادیث کو التاج الجامع للاصول فی احادیث الرسول کے نام سے جمع کیا ہے۔یہ کتاب پانچ جلدوں میں مطبعہ عیسی البابی قاہرہ سے چھپی ہے ۔ سید کسروی حسن نے صحابہ کے آثار کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا ،یہ قابل قدر کاوش موسوعۃ آثار الصحابۃ کے نا م سے دار الکتب العلمیہ بیروت سے تین جلدوں میں چھپی ہے۔ عباس احمد صقر اور احمد عبد الجواد نے علامہ سیوطی کی جامع صغیر،جامع کبیر اور اس کے زوائد کو جمع کیا ،یہ کتاب جامع الاحادیث کے نام سے دار الفکر بیروت سے اکیس جلدوں میں چھپی ہے ۔
اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر مشتمل احادیث کی جمع و تدوین پر کثیر کتب منظر عام پر آئی ہیں ،ذیل میں اہم موضوعات سے متعلق چند جوامع کا ذکر کیا جاتا ہے :

ایمانیات و عقائد 

ایمان اور اس کے شعبہ جات ،اسماء و صفات اور معاد سے متعلق مروی احادیث کے مجموعے پر مشتمل کثیر تعداد میں کتب لکھی گئی ہیں ،ان میں سے اکثر ایم فل و پی ایچ ڈی مقالات کی شکل میں ہیں ۔ذیل میں اس حوالے سے مستقل تصانیف کی ایک فہرست پیش کی جاتی ہے :
۱۔ دعائم الایمان فی ضوء السنۃ، محمد علی فرحات ،دار الطباعہ ،قاہرہ
۲۔ المختار من الاحادیث الشریفۃ، الایمان و العلم ،محمود حامد نبراوی ،قاہرہ (مجلدین)
۳۔ الجامع الصحیح فی القدر، مقبل بن ہادی الوداعی ،مکتبہ ابن تیمیہ ،قاہرہ
۴۔ الصحیح المسند فی عذاب القبر و نعیمہ، عکاشہ عبد المنان الطیبی ،مکتبہ التراث الاسلامی ،قاہرہ
۵۔ الصحیح من النفخ فی الصور، علی بن داود، دار الصحابہ ،طنطا مصر
۶۔ القیامۃ، مشاھدھا وعظاتھا فی السنۃ النبویۃ، محمد ادیب صالح ،المکتب الاسلامی ،بیروت (۳ مجلدات)
۷۔ موسوعۃ الاحادیث الصحیحۃ فی الجنۃ واحوال اھلھا فی الدنیا والآخرۃ، عصام الدین بن غلام حسین، موسسۃ الکتب الثقافیہ ،بیروت 
۸۔ مشاھد القیامۃ فی الحدیث النبوی، احمد محمد عبد اللہ العلی ،دار الوفا ء،مصر

عبادات و اذکار 

عبادات سے متعلقہ احادیث کی جمع و ترتیب پر مشتمل کتب کی تعداد سب سے زیادہ ہیں۔ ان میں وضو،نماز،روزہ، زکوۃ اور حج سے متعلقہ احادیث و روایات کی جمع و ترتیب شامل ہے ،خاص طور پر فقہی مسائل کے لئے احادیث سے دلائل جمع کرنے کی مباحثانہ روش کی وجہ سے اس نوع کی تصانیف کافی تعداد میں ہیں۔ ذیل میں اس حوالے سے چند تصانیف کی ایک فہرست پیش کی جاتی ہے :
۱۔ وضوء الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، عبد العزیز الشناوی ،مکتب للاعلام العربی ،مصر
۲۔ احادیث مختارۃ من کتاب الطھارۃ، اسماعیل عبدالواحد مخلوف، قاہرہ
۳۔ اتحاف الانام باحادیث الاحکام فی العبادات، محمود عبد اللہ العکازی، قاہرہ
۴۔ الجامع فی احادیث العبادات ،عبد السلام علوش، دار ابن حزم ،بیروت(۳مجلدات)
۵۔ المشکاۃ من احادیث الطہارۃ و الصلاۃ، احمد ابراہیم قاسم ،دار الطباعہ المحمدیہ ،قاہرہ
۶۔ جامع الاحادیث الصحیحۃ فی الصیام و القیام و الاعتکاف، حمدی حامد صبح، دار ابن حزم، بیروت
۷۔ الجواہر المنتقاۃ فی احادیث الزکوۃ، حسین عبد الحمید الترکی ،مصر
۸۔ تیسیر الاطلاع علی اخبار حجۃ الوداع، نافذ حسین حماد،دار الوفاء
۹۔ احادیث الصیام کما روتھا الصحاح وامھات المسانید والمعاجم للسنۃ الشریفۃ، عبد المجید ہاشم حسینی ،الہیءۃ العامۃ للشون المطابع،قاہرہ
۱۰۔ حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کما رواھا عنہ جابر، محمد ناصر الدین البانی ،المکتب الاسلامی، بیروت
۱۱۔ الصحیح المسند من اذکار الیوم و اللیلۃ، مصطفی العدوی ، مکتبہ التوعیہ ،قاہرہ
بطور نمونہ صرف چند کتب کا ذکر کیا، ورنہ نماز کے طریقے، رفع یدین، فاتحہ خلف الامام، ہاتھ باندھنے کا مقام، عیدین و جنائز، مسح علی الجوربین، مفسدات صوم، زکوۃ اور حج و عمرہ سمیت جملہ اختلافی مسائل میں احادیث کی جمع و ترتیب پر مشتمل ایک ضخیم مکتبہ وجود میں آیا ہے۔ برصغیر میں اہل حدیث اور حنفی مکتب جبکہ عالم عرب میں سلفی اور حنفی وشافعی و مالکی مکاتب کے درمیان مناظروں و مباحثوں کی وجہ سے ہر مکتب نے اپنے مواقف کے لیے احادیث کی صورت میں فقہی مستدلات پر مشتمل کثیر کتب لکھی ہیں۔

نکاح وطلاق

۱۔ الصحیح المسند من احکام النکاح ، مصطفی العدوی ،مکتبہ ابن تیمیہ ،قاہرہ
۲۔ المرویات الواردۃ فی احکام الصبیان فی الکتب الستۃ وموطا الامام مالک ومسند احمد ومسند الدارمی، عبد اللہ بن مساعد الزہرانی ،دار ابن عفان ،قاہرہ (مجلدین)
۳۔ المنہاج فی احادیث الزواج، ایمن محمود مہدی ،مطبعہ الایمان
۴۔ الزواج وآداب الزفاف فی ضوء السنۃ المشرفۃ، انور علی عاشور ،مکتبہ الاعتصام ،قاہرہ
۵۔ منھج السنۃ فی الزواج ، محمد الاحمدی ابو النور، دار السلام ،قاہرہ
۶۔ احادیث الرضاع، سعد المرصفی ،موسسہ الریان ،بیروت
۷۔ احکام المولود فی السنۃ المطھرۃ، سالم علی راشد ،محمد خلیفہ الرباح ،المکتب الاسلامی بیروت
برصغیر میں خاص طور پر طلاق ثلاثہ کے موضوع پر احادیث و آثار پر مشتمل کتب اہل حدیث اور حنفی دو نوں مکاتب کی طرف سے لکھی گئی ہیں۔بوجہ شہرت و کثرت فرداً فرداً ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۲۔معاملات و بیوع 

معاملات کی احادیث و روایات کی جمع و ترتیب پر مشتمل متعدد کتب منظر عام پر آئی ہیں ،چند اہم کتب کی فہرست پیش خدمت ہے :
۱۔ المختار من احادیث المعاملات، ہشام ابراہیم فرج ،خاص ،قاہرہ
۲۔ الاحادیث الواردۃ فی البیوع المنھی عنھا، سلیمان بن صالح الثنیان ،عمادۃ البحث العلمی ،مدینہ منورہ (مجلدین )
۳۔ تحریم الربا فی السنۃ، السید نشات ابراہیم، دار الطباعہ للہدی ،مصر
۴۔ جنی الثمرات من احادیث البیوع و المعاملات، ابراہیم عبد الفتاح حلیبہ،خاص ،مصر
۵۔ الجامع لاحادیث البیوع، سامی بن محمد الخلیل، دار ابن جوزی ،دمام
۶۔ احکام السنۃ النبویۃ فی المعاملات المالیۃ، عبد الرحمان الرفاعی، قاہرہ
۷۔ احادیث الاحتکار، حجیتھا واثرھا فی الفقہ الاسلامی، عبد الرزاق خلیفہ الشایجی ،عبد الروف محمد الکمالی ،دار ابن حزم، بیروت
۸۔ احادیث البیوع فی الکتب الستۃ، تخریجا ودراسۃ، محمد شکور بن محمود الحاجی،جامعہ القرآن الکریم، ام درمان (سوڈان )

فتن و اشراط الساعۃ

۱۔ اتحاف الجماعۃ بما جا ء فی الفتن والملاحم واشراط الساعۃ، حمود بن عبد اللہ التویجری، ریاض (مجلدین)
۲۔ الاحتجاج بالاثر علی من انکر المھدی المنتظر، حمود بن عبد اللہ التویجری ،مکتبہ دار العلیان، سعودی
۳۔ الاحادیث الواردۃ فی المھدی فی میزان الجرح والتعدیل، عبد العلیم عبد العظیم البستوی، دار ابن حزم ،بیروت (مجلدین )
۴۔ قصۃ المسیح الدجال ونزول عیسی علیہ السلام، محمد ناصر الدین البانی ،المکبتہ الاسلامیہ، عمان 
۵۔ المھدی المنتظر فی روایات اھل السنہ والشیعۃ الامامیۃ، عداب محمود الحمش،دار الفتح، عمان
۶۔ اشراط الساعۃ فی مسند الامام احمد وزوائد الصحیحین، خالد بن ناصر الغامدی ،دار ابن حزم، بیروت (مجلدین )
۷۔ صحیح اشراط الساعۃ، مصطفی ابو النصر الشلبی، مکتبہ السوادی ،جدہ
۸۔ الصحیح المسند من احادیث الفتن و الملاحم و اشراط الساعۃ، مصطفی العدوی ،دار لہجرہ، ریاض
۹۔ اخبا ر الدجال و ابن صیاد، مصطفی العدوی، دار السنہ ،السعودیہ 
۱۰۔ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح، محمد انور شا ہ الکاشمیری ،مکتب المطبوعات الاسلامیہ ،حلب
۱۱۔ مختارات من احادیث الفتن، محمد بن عبد اللہ الشبانی ،سعودی
برصغیر میں خاص طور پر قادیانی فتنے کی وجہ سے احادیث مہدی اور نزول عیسیٰ علیہ السلام پر کافی کام ہوا ہے ،ان رسائل و کتب کی تفصیل مولانا اللہ وسایا صاحب کی مرتب کردہ دستاویز ’’احتساب قادیانیت‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

فضائل و مناقب

۱۔ الاحادیث النبویۃ فی فضل الامۃ العربیۃ، فہد الحاج خضر عباس ،بغداد
۲۔ الصحیح المسند من فضائل اھل بیت النبوۃ، ام شعیب الوداعیہ ،دار الاثار ،صنعا ء
۳۔ الصحیح من فضائل الساعات والایام والشھور وما ابتدع منھا، عمر و عبد المنعم،دار الصحابہ للتراث، طنطا
۴۔ علیؓ فی الاحادیث النبویۃ، السید محمد ابراہیم الموحد،موسسہ الوفا ، بیروت
۵۔ مناقب امھات المومنین فی السنۃ النبویۃ، محمد بن سلیمان الربیش ،جامعہ الامام محمد بن سعود ،مکہ مکرمہ (مجلدین )
۶۔ موسوعۃ فضائل السور و آیات القرآن، محمد بن رزق بن طرہونی ،دار بن قیم ،السعودیہ(مجلدین )
۷۔ الاحادیث الواردۃ فی فضائل الصحابۃ فی الکتب التسعۃ ومسند البزار وابی یعلی والمعاجم الثلاثۃ للطبرانی ، سعود بن عید الصاعدی ،الجامعہ الاسلامیہ مدینہ منورہ (۲۱ مجلدات)
۸۔ الصحیح المسند من فضائل الصحابۃ، مصطفی العدوی ،دار الہجرہ ،صنعا
۹۔ فضائل المدینۃ المنورۃ، خلیل ابراہیم ملا خاطر ،دار القبلہ، جدہ (۳ مجلدات)
۱۰۔ فضائل مکۃ الواردۃ فی السنۃ، محمد بن عبد اللہ الغبان ،دار ابن الجوزی ،السعودیہ (مجلدین)
۱۱۔ السمو الی العنان بذکر صحیح فضائل البلدان، احمد بن سلیمان بن ایوب ،الفاروق الحدیثہ للطباعہ و النشر، قاہرہ
۱۲۔ فضائل الحجر الاسود ومقام ابراھیم، سائد بکداش ،دار البشائر االاسلامیہ ،بیروت

سیرت و شمائل و معجزات 

موجودہ صدی کو عمومی طور پر علوم سیرت میں تجدید کی صدی کہا جاتا ہے ،سیرت پر جو متنوع کام ہوئے ہیں ،ان میں ایک جہت (ہمارے موضوع سے متعلق )صحیح احادیث کی روشنی میں سیرت مرتب کرنے کی کاوشیں ہیں ،اس کے علاوہ سیرت کے بعض گوشوں جیسے شمائل ،غزوات ،معجزات ،مشہور واقعات وغیرہ کی روایات کی جمع و تدوین کی قابل قدر کوششیں ہیں ،ذیل میں بطور نمونہ چند جوامع کا ذکر کیا جاتا ہے :
۱۔ مرویات غزوۃ بدر، احمد محمد العلیمی ،مکتبہ طیبہ ،مدینہ منورہ 
۲۔ الذھب المسبوک فی تحقیق روایات غزوۃ تبوک، عبد القادر حبیب اللہ السندی ،مکتبہ العلا، کویت
۳۔ مرویات غزوۃ حدیبیۃ، حافظ بن احمد الحکمی ،مدینہ منورہ
۴۔ احادیث الھجرۃ ، سلیمان بن علی السعود ،مرکز الدراسات الاسلامیہ ،برطانیہ
۵۔ السیرۃ النبویہ کما جاء ت فی الاحادیث النبویۃ الصحیحۃ، محمد الصویانی ،موسسہ الریان، بیروت (۳ مجلدات)
۶۔ مرویات غزوۃ بنی المصطلق، ابراہیم بن ابراہیم القریبی ،مرکز البحث العلمی ،مدینہ منورہ
۷۔ مرویات غزوہ حنین وحصار الطائف، ابراہیم بن ابراہیم القریبی ،مرکز البحث العلمی، مدینہ منورہ (مجلدین )
۸۔ الصحیح المسند من دلائل النبوۃ، مقبل بن ہادی الوداعی ،دار الارقم ،کویت
۹۔ الاسراء و المعراج وذکر احادیثھما وتخریجھا وبیان صحیحھا من سقیمھا، محمد ناصر الدین البانی ،المکتبہ الاسلامیہ ،عمان
۱۰۔ خطبۃ الفتح الاعظم، فاروق حمادہ ،دار البیضاء
۱۱۔ الصحیح من معجزات المصطفی علیہ السلام، خیر الدین وانلی، دار ابن حزم بیروت
۱۲۔ دلائل نبوتہ علیہ السلام فی ضوء السنۃ، احمد محمود شیمی، دار الکتب العلمیہ، بیروت
۱۳۔ وصف الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کانک تراہ ، ر بیع عبد الروف الزواوی ،دار الثقافہ ،قطر
۱۴۔ جامع الروایات فی تحقیق نبوء ات النبی صلی اللہ علیہ وسلم، محمود نصار ،دار الکتب العلمیہ۔بیروت
۱۵۔ ضحک النبی و تبسمہ ومزاحہ، رضوان اللہ ریاضی ،دار الکتاب و السنہ ،لاہور

اخلاق وآداب و رقاق 

۱۔ الرقائق من کتب الحدیث الستۃ، سعید اللحام ،دار الفکر ،بیروت
۲۔ الاخلاق الاسلامیۃ فی ضوء السنۃ النبویۃ، یحییٰ ظاہر جمعہ محمد ،مطبعہ دار الہلا ل ،اسیوط
۳۔ کنز الاخلاق لاھل الافاق، عبد الرحمان خان کلیانی، مراد آباد
۴۔ من کنوز السنۃ فی الاخلاق والسلوک والاسرۃ، رجا ء طہ محمد احمد، مصر
۵۔ الاحادیث المختارۃ فی الاخلاق والاداب، عبد اللہ بن محمد صدیق غماری ،مکتبہ قاہرہ ،قاہرہ
۶۔ وصایا الرسول ونمط وارشاد، توحید، سلوک، اخلاق، محمد ادریس،دار االحکمہ ،دمشق
۷۔ بشری المتقین وانذار الفاسقین بکلام سید المرسلین، صالح بن احمد الخریصی،المطبعہ السلفیہ ،قاہرہ
۸۔ الاخلاق فی ضوء السنۃ، شعبان المرسی الدقرہ ،دار ر بیع ،طنطا
۹۔ فتح الوھاب من احادیث البر والصلۃ والاداب، ماہر منصور عبد الرزاق ،مصر
۱۰۔ احکام وآداب من السنۃ النبویۃ المطھرۃ، صالح یوسف معتوق ،دار البشائر الاسلامیہ ،بیروت
آداب وا خلاق اور اس کے مختلف شعبہ جات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر کثرت سے مقالات لکھے گئے ہیں جن میں فرداً فرداً جملہ معاشرتی و سماجی آداب، رہن سہن اور اخلاق کی احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔

تفسیر و تاویل 

تفسیری احادیث و روایات کی جمع و تدوین پر قابل قدر کاوشیں منظر عام پر آئی ہیں، دار طیبہ ریاض سے محققین کی ایک جماعت کی مشترکہ تصنیف جامع التفسیر من کتب الاحادیث چھپی ہے ،جس میں صحاح ستہ اور مسند احمد سے تفسیری روایات کو جمع کیا گیا ہے۔یہ موسوعہ چار ضخیم جلدوں میں چھپا ہے۔ اس کے علاوہ حکمت بن بشیر یاسین نے صحیح تفسیری روایات کو موسوعۃ الصحیح المسبور من التفسیر بالماثور کے نام سے جمع کیا ۔یہ کتاب دار الماثر مدینہ منورہ سے چار جلدوں میں چھپی ہے۔ اس کے علاوہ قرآنیا ت سے متعلقہ احادیث پر درج ذیل کام ہوئے ہیں :
۱۔ صحیح الحدیث النبوی ومواضع تفسیرہ لفاتحہ الکتاب، محمد العفیفی ،دار البحوث العلمیہ ، کویت
۲۔ الصحیح المسند من التفسیر النبوی للقرآن الکریم، السید ابراہیم بن ابی عمہ، دار الصحابہ للتراث، مصر
۳۔ الاحادیث والاثار الواردہ فی فضائل سور القرآن الکریم، دراسۃ ونقد، ابراہیم علی عیسی، دا السلام، قاہرہ
۴۔ صحیح التفسیر النبوی من الکتب الستۃ، یوسف عمر مبیض ،موسسہ علوم القرآن،بیروت
۵۔ صحیح اسباب النزول، ابراہیم محمد العلی ،دار القلم ،دمشق
۶۔ موسوعۃ علمیۃ محققۃ فی اسباب نزول آی القرآن الکریم، سلیم بن عید الہلالی ،محمد بن موسی ال نصر،دار ابن الجوزی، سعودیہ (۳مجلدات)
۷۔ الکواکب الدریہ فی ما ورد فی انزال القرآن علی سبعۃ احرف من الاحادیث النبویۃ، محمد الحداد المالکی الازہری، قاہرہ
۸۔ ماذا قال الرسول الکریم عن سور القرآن الکریم، بہجت عبد الواحد الشخیلی ،دار الفکر ،عمان
۹۔ من صحیح التفسیر النبوی للقرآن الکریم، خالد عبد الرحمان ،دار ثابت ،قاہرہ
۱۰۔ الماثور من تفسیر الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ابو عمرو نادی بن محمود حسن الازہری ،قاہرہ 

سیر و احکام سلطانیہ 

۱۔ الجہاد فی السنۃ النبویۃ، انور عبد الفتاح العطافی ،دار الطباعہ المحمدیہ ،قاہرہ
۲۔ صفات المجاھدین کما وردت فی الکتب الستۃ، عدنان محمود الکحلوت،جامعہ ام درمان 
۳۔ احادیث الامامۃ ،روایۃ و درایۃ، فہد بن عبد العزیز العامر ،جامعہ الامام محمد بن سعود ،ریاض (مجلدین)
۴۔ الخلافۃ فی الاسلام وما ورد فیھا من السنۃ، یوسف بن محمد الصدیق ،جامعہ الامام ،ریاض
۵۔ احادیث الامراء المسندۃ، صالح بن سلیمان البقعاوی، دار المعراج، الریاض
۶۔ سبیل الرشاد من احادیث الجھاد، ابراہیم عبد الفتاح حلیبہ ،مصر
اہم اور بڑے موضوعات سے متعلق احادیث کی جمع و تدوین پر مشتمل تصانیف کا ایک خاکہ پیش کیا گیا، ورنہ ان موضوعات کی ذیلی اقسام و انواع کو اگر دیکھا جائے تو موضوعات کہیں زیادہ بن جاتے ہیں ،ان جملہ موضوعات کی احادیث کو ایک لڑی میں پرویا گیاہے، چنانچہ آج کسی بھی موضوع پر اگر روایات وآثار کا جائزہ لینا ہو تو ایسی کتاب ضرور مل جائے گی جس میں اس موضوع کی جملہ احادیث مذکور ہوں،یہ کتب تحقیق میں کافی ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں، نیز یہ کتب دو رجدید کے مزاج و مذاق سے بھی ہم آہنگ ہیں ،کیونکہ دور حاضر تخصص و اسپیشلائزیشن کا دور ہے، جامعیت کی بہ نسبت خصوصیت بازارِ علم میں زیادہ قیمتی و قابل توجہ ہے۔

۲۔ موسوعات الحدیث بحسب الانواع 

موسوعاتِ حدیث کی دوسری قسم ان موسوعات کی ہیں جن میں حدیث کی انواع و اقسام کے اعتبار سے احادیث کو جمع کیا گیا ہو۔صحت و ضعف کے اعتبار سے، رفع و وقف کے اعتبار سے، وصل و قطع کے اعتبار سے، الغرض حدیث کی جملہ اقسام کو الگ الگ موسوعات و معاجم کی شکل میں جمع کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ معروف کاوشیں مشہور محدث ناصر الدین البانی کی کتب ہیں۔ آپ نے ایک کام تو یہ کیا کہ اہم متونِ حدیث کی صحیح و ضعیف روایات کو الگ الگ جمع کیا، سنن اربعہ (ترمذی، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ)سمیت الترغیب وال ترہیب، الادب المفرد اور امام سیوطی کی الجامع الصغیر میں سے ہر ایک کے صحیح و ضعیف احادیث پر مبنی دودونسخے مرتب کیے۔ دوسرا کام یہ کیا کہ صحیح احادیث پر مشتمل ایک موسوعہ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ کے نام سے لکھا جو سات جلدو ں میں مکتبہ المعارف سے چھپا ہے۔ اس کے علاوہ ضعیف و موضوع احادیث پر مشتمل سلسلہ الاحادیث الموضوعۃ والضعیفۃ کے نام سے ایک ضخیم موسوعہ تیار کیا ہے جو چودہ ضخیم جلدوں میں چھپا ہے۔ احادیث کی تصحیح و تضعیف میں علامہ البانی کی تحقیق سے بہت سے حضرات نے اختلاف کیا ہے،لیکن اختلاف کے باوجود ان موسوعات کی فی الجملہ افادیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ محقق علی حسن علی حلبی نے اپنے دو ساتھیوں سمیت موسوعۃ الاحادیث والاثار الضعیفۃ والموضوعۃ کے نام سے تیار کیا ہے ،یہ موسوعہ مکتبہ المعارف ریاض سے پندرہ جلدوں میں چھپا ہے۔ صحیح احادیث کو جمع کرنے کے حوالے سے معروف ہندوستانی محدث ڈاکٹر ضیاء الرحمان اعظمی نے قابل قدر تحقیق کی ہے۔ آپ نے الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی ہے جس میں تمام متون حدیث سے صحیح السند احادیث کو جمع کیا۔ یہ تحقیق دار السلام ریاض سے بارہ جلدوں میں چھپی ہے۔ ذیل میں اہم انواع حدیث سے متعلق موسوعات و معاجم کی ایک فہرست پیش کی جاتی ہے :

احادیث قدسیہ:

۱۔ الاحادیث القدسیۃ، لجنۃ القرآن و الحدیث فی المجلس الاعلی للشون الاسلامیہ ،قاہرہ (مجلدین)
۲۔ جامع الاحادیث القدسیۃ، عصام الدین بن سید الصبابطی ،دار الریان للتراث ،قاہرہ(۳مجلدات)
۳۔ الاحادیث القدسیۃ الضعیفۃ والموضوعۃ، احمد بن احمد العیسوی، دار الصحابہ للتراث، مصر
۴۔ الصحیح المسند من الاحادیث القدسیۃ، مصطفی العدوی ،دار الصحابہ للتراث، مصر
۵۔ معجم الاحادیث القدسیۃ الصحیحۃ، کمال بن بسیونی،موسسہ الکتب الثقافیہ ،بیروت 
۶۔ الاحادیث القدسیۃ، محمد متولی الشعراوی ،دار الروضہ ،قاہرہ(۶مجلدات)
۷۔ الجامع فی الاحادیث القدسیۃ، جمال عبد الغنی مدغمش،دار الاسراء،عمان
۸۔ موسوعۃ الاحادیث القدسیۃ الصحیحۃ والضعیفۃ، یوسف الحاج احمد ،مکتبہ ابن حجر دمشق

احادیث مشہورہ ومتواترہ:

متواتر و مشہور حدیث پر مبنی متعدد موسوعات لکھی گئیں ہیں ،اس سلسلے کی اہم کتب کی فہرست پیش خدمت ہیں :
۱۔ عیون الآثار فیما تواتر من الاحادیث والآثار، محمد ناصر الکتانی ،الدار البیضاء 
۲۔ نظم المتناثر من الاحادیث المتواتر، محمد بن جعفر الکتانی ،دار الکتب السلفیہ ،مصر
۳۔ معجم الاحادیث المشتھرۃ، محمد رضوان الدایہ ،دار الفکر ،دمشق
۴۔ احادیث مردودہ مشتھرۃ علیٰ السنۃ الناس، سعید بن صالح الرقیب ،دار القاسم ،ریاض
۵۔ احادیث مقبولۃ مشتھرۃ علی السنۃ الناس، سعید بن صالح الرقیب ،دار القاسم،ریاض

احادیث صحیحہ و ضعیفہ:

۱۔ الصحیح المسند مما لیس فی الصحیحین، مقبل بن ہادی الوداعی ،دار ابن حزم، بیروت (مجلدین)
۲۔ الجامع الصحیح فیما کان علی شرط الشیخین او احدھما و لم یخرجاہ، یوسف بن جودہ الداودی ،دار قباء،قاہرہ (مجلدین)
۳۔ النافلۃ فی الاحادیث الضعیفۃ والباطلۃ، ابو اسحاق الحوینی ،حجازی بن محمد ،دار الصحابہ ،مصر (مجلدین)
۴۔ المجموع فی الضعیف و المنکر و الموضوع، سمیر البحر، دار البیان، دمشق(۳ مجلدات)
۵۔ المنتقی من الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ علی المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، یوسف الحاج احمد ،دار الفارابی ،دمشق
۶۔ صون الشرع الحنیف ببیان الموضوع والضعیف، عمرو بن عبد المنعم سلیم،مکتبہ الضیاء، مصر(مجلدین)

احادیث موضوعہ:

۱۔ تحذیر المسلمین من الاحادیث الموضوعۃ علی سید المرسلین، محمد بشیر الظافر الازہری، مطبعہ جریدہ ،قاہرہ
۲۔ المغیر علی الاحادیث الموضوعۃ فی الجامع الصغیر، احمد بن محمد الصدیق الغماری ،دار الرائد العربی، بیروت
۳۔ الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ، عبد الحی لکھنوی ،دار الکتب العلمیہ۔،بیروت
۴۔ الاحادیث الموضوعۃ، عباس احمد صقر، احمد عبد الجواد،دار الاشراق،بیروت
۵۔ جمع الاحادیث الموضوعۃ المتفق علیھا والمختلف فیھا علی ترتیب حروف المعجم، عدنان عبد الرحمان بن محمد بارلادی 
۶۔ النخبۃ البھیۃ فی الاحادیث الموضوعۃ علی خیر البریۃ، محمد الامیر الکبیر ، المکتب الاسلامی، بیروت
۷۔ اللولو المرصوع فیما قیل لہ لا اصل لہ او باصلہ الموضوع، محمد بن خلیل مشیشی ،المطبعہ البارونیہ ،قاہرہ
(جاری ہے)

تعبیر قانون کے چند اہم مباحث

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

(16 نومبر 2017ء کو اس موضوع پر فیکلٹی آف شریعہ اینڈ لا کے طلبہ کے ساتھ کی گئی گفتگو مناسب حذف و اضافے کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ )

پہلا سوال: تعبیر قانون کی ضرورت کیوں؟ 

ایک عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ مقننہ نے قانون میں سب کچھ واضح طور پر پیش کردیا ہے تو اس کے بعد "تعبیر قانون" یا قانون کا مفہوم متعین کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ وہ سوچتا ہے کہ جج کا کام صرف یہ ہے کہ مقننہ کے وضع کردہ قانون کی مقدمے میں موجود حقائق پر تطبیق کردے۔ کاش یہ معاملہ اتنا سیدھا سادہ ہوتا! 

جہاں قانون بظاہر خاموش ہو 

پہلی بات یہ ہے کہ اگرچہ مقننہ اپنے طور پر پوری کوشش کرتی ہے کہ موجودہ حالات اور آئندہ پیش آنے والے ممکنہ واقعات سے متعلق ایک جامع قانون بناکر پیش کردے، لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے۔ بسا اوقات ایسے نئے مسائل سامنے آجاتے ہیں جن کے متعلق قانون سازی کے وقت سوچا بھی نہیں گیا ہوتا۔ ایسے حالات میں جب جج کے سامنے ، جس نے مقدمے کے کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کرنا ہے ، کیا آپشن ہیں؟ 
ایک آپشن یہ ہوسکتا ہے کہ وہ مقدمے کی سماعت سے یہ کہہ کر انکار کردے کہ 'قانون اس معاملے پر خاموش ہے'۔ (بہ الفاظِ دیگر، غامدی صاحب کی اپروچ اختیار کرتے ہوئے قرار دے کہ یہ معاملہ قانون کا موضوع ہی نہیں ہے !) 
دوسرا آپشن یہ ہوسکتا ہے (جو پہلے آپشن ہی کی ایک دوسری صورت ہے) کہ معاملہ مقننہ کی طرف واپس بھیج کر اسے کہے کہ اس موضوع پر قانون سازی کرے۔ 
تیسرا آپشن یہ ہوسکتا ہے کہ وہ سامنے موجود قانون کی رو سے مقدمے کا فیصلہ کسی ایک فریق کے حق میں کرے۔ 
واضح رہے کہ پہلی دو صورتوں میں بھی جب وہ مقدمہ خارج کرتا ہے اور نتیجتاً مقدمے کا فیصلہ مدعی کے بجاے مدعا علیہ کے حق میں کرتا ہے تو وہ اصلاً یہ قرار دیتا ہے کہ قانون مدعا علیہ کے حق میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ 'قانون خاموش ہے' کا آپشن جج کے پاس ہوتا ہی نہیں ہے کیونکہ عملاً صورت حال یہ ہوتی ہے کہ جج کے سامنے جب مقدمہ آیا تو اسے لازماً کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
اب آئیے تیسرے آپشن کی طرف ، یعنی سامنے موجود قانون کی رو سے مقدمے کا فیصلہ۔ 
یہاں الجھن یہ پیش آتی ہے کہ جن صورتوں کا قانون میں ذکر ہوتا ہے ، مقدمے میں ان کے بجائے کوئی اور صورت ہوتی ہے۔ اس نئی صورت پر قانون کا اطلاق کیسے کیا جائے ؟ ایسے مقدمات کو اصولِ قانون کی اصطلاح میں Hard Cases، یعنی مشکل مقدمات، کہا جاتا ہے۔ ان مقدمات میں جب 'بظاہر' قانون 'خاموش' معلوم ہوتا ہے ، مقدمے کا فیصلہ کیسے کیا جائے؟ 
اصولِ قانون کے ایک مکتب فکر Legal Positivism کا موقف یہ ہے کہ ایسے مقدمات میں جج اپنی قانونی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے نیا قانون وضع کرتا ہے اور یوں گویا وہ مقننہ کے نائب کا کردار ادا کرتے ہوئے ان خلاؤں کو پر کرتا ہے جو مقننہ سے رہ گئے تھے۔ اس موقف پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر جج آج قانون وضع کرتا ہے تو اس قانون کا اطلاق وہ اس مقدمے پر کیسے کرتا ہے جو اس قانون کے وضع کیے جانے سے قبل دائر کیا گیا تھا؟ قانون کا مؤثر بہ ماضی ہونا اخلاقی لحاظ سے معیوب امر سمجھا جاتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس مکتب فکر کے نزدیک اخلاقی ضوابط کا قانون پر اطلاق نہیں ہوتا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک قانون قانون ہوتا ہے ، خواہ وہ اخلاقی لحاظ سے اچھا ہو یا برا ! 
اصولِ قانون کے ایک دوسرا مکتبِ فکر Naturalism کا موقف یہ ہے کہ وضعی قانون میں تو خلا پایا جاتا ہے، لیکن قانونِ فطرت ایک جامع قانون ہے اور وہی اصل قانون ہے ؛ اس لیے جج کو چاہیے کہ قانونِ فطرت کے اصول معلوم کرکے سامنے موجود مقدمے کا فیصلہ کرلے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عملاً یہ مکتب فکر بھی جج کو discretion دیتا ہے لیکن نظری طور پر فرق یہ ہے کہ Positivists کے نزدیک جج نیا قانون وضع کرتا ہے جبکہ Naturalists کے نزدیک جج پہلے سے موجود قانون دریافت کرتا ہے۔ یوں Naturalists پر وہ اخلاقی سوال نہیں اٹھتا جو Positivists پر قائم ہوتا ہے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود رہتا ہے کہ 'قانونِ فطرت' ہے کیا اور یہ کیسے دریافت کیا جاتا ہے؟ 
مایہ ناز امریکی فلسفیِ قانون رونالڈ ڈوورکن کا موقف یہ ہے کہ جج کے پاس discretion نہیں ہوتی ، یہاں تک کہ جنھیں Hard Cases کہا جاتا ہے، ان میں بھی جج قانون کے اصولوں کا پابند ہوتا ہے۔ اس لیے جج نہ ہی نیا قانون بناتا ہے ، نہ ہی کسی موہوم قانونِ فطرت کے اصول دریافت کرتا ہے، بلکہ جج پر لازم یہ ہوتا ہے کہ اپنے سامنے موجود قانون کے قواعد عامہ معلوم کرکے ان کی روشنی میں مقننہ کا عمومی ارادہ (general intention of the legislature)متعین کرے اور پھر اس کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ کرے۔ (یہ اپروچ حنفی فقہائے کرام کے طریق کار سے بہت زیادہ قریب ہے اور اسی اپروچ کو امام جوینی اور امام غزالی کے بعد شافعی مکتب فکر نے بھی قبول کرلیا اور بعد میں دیگر مذاہبِ فقہ نے بھی اسے کسی حد تک اپنالیا۔ ) 

جہاں قانون خاموش نہ ہو

یہاں تک تو اس صورت حال پر بحث ہوئی جس میں قانون بظاہر خاموش ہو۔ تاہم 'تعبیر قانون' کی ضرورت وہاں بھی پیش آتی ہے جہاں قانون خاموش نہیں ہوتا۔ 
یہاں پہلی بحث تو الفاظ کی دلالت کی آجاتی ہے۔ مقننہ کی کوشش ہوتی ہے کہ قانون سازی میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں تو اپنی دلالت میں واضح ہوں۔ تاہم مختلف امور کی بنا پر لفظ کی دلالت میں کئی امکانات موجود ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ ۔ جیسا کہ مایہ ناز فلسفیِ قانون ایچ ایل اے ہارٹ نے واضح کیا ہے ۔ وہ الفاظ بھی جنھیں 'قطعی الدلالہ' سمجھا جاتا ہے، ظنیت کے کئی پہلو رکھتے ہیں اور ان مختلف پہلووں میں جج کو کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ 
مثال کے طور پر اگر کسی قانون میں یہ قرار دیا جائے کہ اس کا اطلاق 'گاڑیوں' (vehicles) پر ہوگا تو یہ تو بات واضح ہوگی کہ اس کا اطلاق کار اور جیپ پر ہوگا، لیکن کیا اس کا اطلاق بائیسکل ، بچوں کی ٹرائیسکل ، گدھاگاڑی یا تانگے پر بھی ہوگا؟ ان صورتوں میں جج کو قانون کے اندر اور باہر بہت سے عوامل کا جائزہ لینے کے بعد یہ متعین کرنا پڑے گا کہ مقننہ ان چیزوں پر بھی قانون کا اطلاق کرنا چاہتی تھی یا نہیں؟ 
الفاظ کی دلالت کے علاوہ اور بھی کئی امور ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر الفاظ قانون کی جس دفعہ میں وارد ہوئے ہوں، اس دفعہ کا دیگر دفعات کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ ایک جانب کسی لفظ کی اپنی مخصوص دلالت ہوتی ہے اور دوسری طرف قانون کی اس مخصوص دفعہ کا اس قانون میں ایک مخصوص مقام ہوتا ہے۔ کیا جج لفظ کی مخصوص 'قطعی' دلالت کو دیکھے گا یا اس قانون کو ایک مکمل وجود (organic whole)قرار دے کر پورے قانون کے کلی تصور کی روشنی میں اس لفظ پر قیود و حدود عائد کرے گا؟ لفظ بظاہر عام ہوتا ہے لیکن قانون میں اس کا مخصوص مقام اسے خاص کردیتا ہے۔ لفظ بظاہر مطلق ہوتا ہے، لیکن قانون میں اس کا مخصوص سیاق اسے مقید کردیتا ہے۔ پھر بات صرف اس ایک قانون کی نہیں ہوتی، بلکہ یہ قانون بھی پورے قانونی نظام کا ایک جزو ہوتا ہے اور اسی لیے جج کو اس ایک قانون کے اس ایک لفظ کے مفہوم کے تعین کے لیے دوسرے قوانین کا بھی جائزہ لینا پڑتا ہے اور پورے قانونی نظام میں اس مخصوص قانون کا مقام بھی متعین کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ہی وہ اس مخصوص قانون میں وارد شدہ کسی مخصوص لفظ کا صحیح قانونی مفہوم متعین کرسکتا ہے۔ 

دوسرا سوال: تعبیر قانون کون کرے؟ 

اب جبکہ تعبیر قانون کی ضرورت واضح ہوگئی ہے تو اگلا سوال یہ ہے کہ تعبیر قانون کا اختیار کسے ہے؟ 

اختیارات کی تقسیم کا نظریہ 

مونٹیسکو نے یہ نظریہ دیا تھا کہ اختیارات کا ارتکاز کرپشن اور ظلم کا باعث بنتا ہے اور اس لیے سیاسی اختیارات کی تقسیم ضروری ہے۔ اس نے حکومت کی تین شاخیں ذکر کرکے ان کو الگ الگ تین طرح کے اختیارات دینے کی بات کی: مقننہ قانون وضع کرے، عدلیہ اس قانون کی تعبیر و تشریح کرے ؛ اور انتظامیہ اس قانون کی تنفیذ کرے۔ 
نظری طور پر اس نے قرار دیا کہ یہ تینوں شاخیں ایک دوسرے سے الگ ہوں، لیکن عملاً جب اس نظریے کو ریاست ہاے متحدہ امریکا کے دستور میں برتنے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اس دستور میں قرار دیا گیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی صدر کا اختیار ہے، حالانکہ وہ انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے۔ نیز ان ججز کی تعیناتی کی منظوری سینیٹ دیتی ہے حالانکہ سینیٹ کانگرس کا ، یعنی مقننہ کا ، جزو ہے۔ پھر صدر انتظامی سربراہ ہونے کے باوجود جو انتظامی احکامات ( executive orders)جاری کرتا ہے، وہ قانون ہی کی حیثیت سے نافذ ہوتے ہیں ، جب تک عدلیہ انھیں دستور سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار نہ دے۔ اسی طرح قانون سازی کا اختیار کانگرس کے لیے مان لیا گیا، لیکن سپریم کورٹ کا یہ اختیار مان لیا گیا کہ کانگرس کے وضع کردہ قانون کو دستور سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دے۔ 
یوں اختیارات کی علیحدگی ( separation of powers) کے ساتھ اس کا بھی بندوبست کیا گیا کہ حکومت کی یہ تینوں شاخیں ایک دوسرے پر نظر رکھ توازن قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اسے system of checks and balances کہا گیا۔ بعض اوقات یہ نظام توازن قائم کرنے کے بجائے تینوں شاخوں کے درمیان تصادم کی طرف بھی لے جاتا ہے۔ (ٹرمپ نے کچھ عرصہ قبل امیگریشن کے حوالے سے آرڈر جاری کیا جسے ایک فیڈرل جج نے کالعدم قرار دیا اور پھر ابتدائی جارحانہ ردرعمل کے باوجود ٹرمپ کو نیا آرڈر جاری کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ) 
برطانیہ میں بھی اصولی طور پر تو یہ مانا گیا ہے کہ قانون کی تعبیر کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے، لیکن وہاں عدلیہ نسبتاً مختلف حیثیت رکھتی ہے کیونکہ وہاں اس کا بنیادی کام "مقننہ کے ارادے کا تعین (determining the intention of the legislature) ہے اور اس کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ مقننہ کے وضع کردہ کسی قانون کو کالعدم قرار دے۔ البتہ یورپی یونین میں شمولیت اور بالخصوص یورپی معاہدہ براے حقوقِ انسانی کی توثیق کے بعد معاملہ تھوڑا مختلف ہوگیا کیونکہ برطانیہ نے خود پر لازم کردیا کہ وہ اپنے اس معاہدے کا نفاذ یقینی بنائے۔ چنانچہ اس معاہدے کے بعد برطانوی پارلیمنٹ نے حقوقِ انسانی کا قانون (Human Rights Act) منظور کیا جس کے تحت یہ اصول طے پایا کہ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ کوئی برطانوی قانون اس معاہدے سے متصادم ہے تو وہ اس کے بارے میں سرٹیفیکیٹ دے اور معاملہ پارلیمنٹ کی طرف بھیج دے جو مناسب سمجھے تو قانون میں تبدیلی کرلے گی۔ گویا عدالتیں قانون کو کالعدم تو قرار نہیں دے سکتیں، لیکن مخصوص حالات میں پارلیمنٹ کو کسی قانون پر نظر ثانی کے لیے کہہ سکتی ہے۔ (یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے 150Brexit150 کے بعد صورت حال کیا ہوگی ؟ یہ سوال بہت دلچسپ ہے لیکن سردست اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ) 
عدلیہ کے پاس مقننہ کے وضع کردہ قانون کو کالعدم قرار دینے کا اختیار کہاں سے آیا؟ اس پر ذرا تفصیل سے بحث کی ضرورت ہے۔ 

وفاقی ریاست میں دستور اور سپریم کورٹ کی حیثیت 

برطانوی دستور کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ بالادستی پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ اس مفروضے کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے جس پر بحث کا موقع نہیں ہے لیکن مختصراً اتنا بتادینا کافی ہے کہ ابتدا میں بادشاہ کو مطلق اختیارات حاصل تھے جو صدیوں کے قانونی ارتقا کے نتیجے میں پارلیمنٹ کو منتقل ہوگئے جس کے بعد پارلیمنٹ کو مطلق اختیارات کا حامل مانا گیا۔ 
امریکا نے جب برطانیہ سے آزادی حاصل کی تو ابتدا میں چند ریاستوں نے ایک 'نیم وفاقی' (confederation) طرز کی ترتیب اپنائی جس میں ہر ریاست کو خودمختاری حاصل تھی، لیکن چند اہم امور، بالخصوص دفاع، میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ بندھی ہوئی تھیں۔ اس نظام کے پیچھے اصل مقصد برطانیہ عظمیٰ کی طاقت کا مقابلہ کرنا تھا۔ چند سالوں میں معلوم ہوا کہ یہ نظام قابل عمل اور مقصد کے حصول کے لیے مفید نہیں ہے۔ چنانچہ اسے 'وفاقی' ریاست (federal state) میں تبدیل کیا گیا۔ اس نئی ریاست کی تشکیل میں ایک جانب الگ الگ ریاستوں کی اندرونی خودمختاری کو بھی مناسب اور ممکن حد تک محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی اور دوسری طرف ان ریاستوں کے اجتماع سے وجود میں آنے والی 'وفاقی ریاست' کو دفاع اور دیگر متعلقہ امور کے لیے مناسب اختیارات بھی دیے گئے۔ ان دوطرفہ مصالح کے تحفظ کے لیے ان ریاستوں نے آپس میں باقاعدہ تحریری معاہدہ کرکے اپنی آزادی پر کچھ قدغن قبول کیے اور 'وفاق' کے لیے کچھ اختیارات مان لیے۔ اس تحریری معاہدے کو 'دستور' (Constitution) کہا گیا۔ 
اس دستور/تحریری معاہدے کے ذریعے وفاق اور اس کی 'اکائیوں '( federating units)کے درمیان قانون سازی کے اختیارات تقسیم کیے گئے اور پھر حکومت کی تین شاخوں 150 مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ 150 کے اختیارات الگ کیے گئے۔ یوں امریکی دستور کی دو بنیادی خصوصیات یہ قرار پائیں: 
وفاق اور اکائیوں کے درمیان قانون سازی کے اختیارات کی تقسیم (distribution of legislative powers)؛ اور
حکومت کی شاخوں کی الگ حیثیت (separation of powers)۔ 
نیز اس نظام میں بالادستی مقننہ کے بجاے اس تحریری معاہدے ، یعنی دستور ، کے لیے تسلیم کی گئی جس کے نتیجے میں یہ وفاقی ریاست وجود میں آئی۔ یہ امریکی دستور کی سب سے اہم خصوصیت قرار پائی جس نے اسے برطانوی نظام سے ممیز کیا ، یعنی پارلیمنٹ کی بالادستی کے بجاے دستور کی بالادستی۔ 
اس دستور کی تعبیر و تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کے لیے مان لیا گیا۔ اسی تعبیر و تشریح کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اگر مقننہ یا انتظامیہ دستور میں مقررہ حدود سے تجاوز کرکے کوئی قانون بنائے ، یا کوئی انتظامی حکم جاری کرے، تو اس قانون یا حکم کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی کیونکہ وہ حدود سے متجاوز ( ultra vires)ہونے کی وجہ سے غیر دستوری ہوگا۔ یوں سپریم کورٹ کو "دستور کے محافظ" (Custodian of the Constitution)کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس حیثیت سے سپریم کورٹ کو مقننہ اور انتظامیہ کے افعال پر "عدالتی نظر ثانی" (Judicial Review)کا حق مل گیا۔ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ ، یا ریاستی اکائی کی سطح پر فیڈرل کورٹ ، کسی قانون یا انتظامی حکم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ 
پاکستان کے قانونی نظام میں صورت حال کیا ہے؟ اس پر الگ بحث کی ضرورت ہے۔ 

تیسرا سوال: پاکستان کے قانونی نظام میں تعبیر قانون کیسے کی جائے؟ 

نصابی کتب میں پاکستان کے قانونی نظام کی تاریخ ایسٹ انڈیا کمپنی کے چارٹر سے شروع کی جاتی ہے اور پھر مختلف قانونی دستاویزات سے ہوتے ہوئے بالآخر بات 1857ء کی جنگ تک آجاتی ہے جس کے بعد ہندوستان کو برطانیہ کی سلطنت میں شامل قرار دیا گیا اور اسے "برطانوی ہند"کہا جانے لگا۔ اس کے بعد انگریز حکومت کے دور میں نافذ کردہ مختلف قوانین کا ذکر کیا جاتا ہے جن کے ذریعے ایک طویل عرصے میں حکومتی اختیارات ٹکڑوں ٹکڑوں میں ہندوستان کے لوگوں کو منتقل کیے گئے۔ اس ساری کہانی میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی جب ہندوستان آئی تو یہاں کا نظامِ حکومت کس دستور پر قائم تھا اور اس کو کیسے بتدریج ختم کیا گیا۔ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ بہرحال ہم انگریز دور پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ 

پاکستانی قانونی نظام کی مخصوص حیثیت 

انگریز دور میں خصوصاً ذکر کیا جاتا ہے 1909ء کے 'منٹو 150مارلے ریفارمز' کا اور پھر 1919ء کے 'قانونِ حکومتِ ہند' کا۔ اس مؤخر الذکر قانون کی رو سے ہندوستان میں 'صوبوں' کی سطح پر 'دوہری حکومت' (Diarchy) قائم کی گئی جس میں ایک طرف انگریز گورنر اور اس کی مجلس مشاورت ہوتی تھی اور دوسری طرف وزیر اعلی اور اس کی کابینہ ہوتی تھی۔ 'قانونِ حکومت ہند 1935ء ' کے ذریعے اس نظام کو صوبوں سے تو ختم کیا گیا لیکن اسے 'وفاق'کی سطح پر نافذ کیا گیا۔ 1935ء کے اس قانون کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس نے ہندوستان کو 'وفاقی ریاست' بنا دیا اور صوبوں اور 'شاہی ریاستوں' ( princely states)کو اس کے اجزا اور اکائیاں مان لیا گیا۔ اس قانون کے تحت ہندوستان میں ایک 'وفاقی عدالت' ( Federal Court)بھی بنادی گئی۔ نیز مختلف علاقوں میں قائم ہائی کورٹس اور چیف کورٹس کو اس فیڈرل کورٹ کے ماتحت لایاگیا۔ 1947ء کے 'قانونِ آزادیِ ہند' کے ذریعے اسی 1935ء کے قانون کو نئی ریاستوں ، بھارت اور پاکستان، کا عبوری دستور بنادیا گیا۔ یوں پاکستان ابتدا سے ہی 'وفاقی ریاست ' ہے۔ 
پاکستان کی دستور سازی اسمبلی نے 1949ء میں ایک اہم دستاویز منظور کی جسے 'قراردادِ مقاصد' کہتے ہیں۔ اس قرارداد کے ذریعے پاکستان کے دستور کے عمومی خدوخال واضح کیے گئے۔ دیگر امور کے علاوہ یہ بات بھی اس قرارداد میں کہی گئی کہ پاکستان کا دستوری نظام وفاقی ہوگا۔ یہی بات 1956ء کے دستور میں دہرائی گئی ؛ پھر ریاست کی وفاقیت کو 1962ء کے دستور نے بھی برقرار رکھا اور 1973ء کے دستور نے بھی۔ 1956ء کے دستور کے بعد سے 'فیڈرل کورٹ' کو 'سپریم کورٹ' اور 'چیف کورٹ' کو 'ہائی کورٹ' کہا جانے لگا۔ 
بہرحال پاکستان چونکہ وفاقی ریاست ہے ، اس لیے یہاں بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مقننہ (پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی) کے وضع کردہ قانون کو اس بنیاد پر کالعدم قرار دے کہ مقننہ نے اپنے دستوری حدود سے تجاوز کیا ہے۔ اس لیے پاکستان میں 'پارلیمنٹ کی بالادستی' کا نعرہ قانونی لحاظ سے بالکل ہی غلط ہے۔ وفاقی ریاست ہونے کی وجہ سے پاکستان میں پارلیمنٹ نہیں ، بلکہ دستور بالادست ہے اور سپریم کورٹ کو دستور کے محافظ کی حیثیت حاصل ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ برطانوی نظام کی حد تک قابل قبول ہے، لیکن وفاقی ریاست میں یہ بات نہیں مانی جاسکتی۔ پاکستان میں رائج زیادہ تر قوانین چونکہ برطانوی ہند سے وراثت میں ملے ہیں، اس لیے ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ پورے خلوص سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں کہ برطانیہ کی طرح یہاں بھی بالادستی پارلیمنٹ کو حاصل ہے، لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ پاکستان کا دستور برطانیہ کے بجاے امریکا کے دستور کے قریب ہے کیونکہ برطانیہ وحدانی ریاست (unitary state)ہے جبکہ امریکا وفاقی ریاست ہے۔ 
پھر پاکستان صرف وفاقی ریاست ہی نہیں ہے بلکہ 'اسلامی جمہوریہ' بھی ہے۔ ملک کے دستور کی رو سے ملک کا نام 'اسلامی جمہوریہ پاکستان' ہے؛ یہاں کا 'ریاستی مذہب' اسلام ہے ؛ یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے اقتدارِ اعلی تسلیم کیا گیا ہے اور مانا گیا ہے کہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کی مقررہ حدود کے اندر استعمال کیے جائیں گے ؛ یہ بھی مانا گیا ہے کہ یہاں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو اسلام سے متصادم ہو ؛ نیز موجودہ تمام قوانین سے وہ امور ختم کیے جائیں گے جو اسلام سے متصادم ہوں۔ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی عدالت 'وفاقی شرعی عدالت' بھی قائم کی گئی ہے جسے یہ اختیار حاصل ہے کہ معدودے چند قوانین کے سوا دیگر تمام قوانین کا جائزہ لے کر ان کی ان دفعات کو کالعدم قرار دے جو اسلام سے متصادم ہوں۔ 
پس پاکستان کے قانونی نظام میں کسی قانون کی تعبیر کرتے ہوئے تین بنیادی امور عدالت کے سامنے مد نظر رہتے ہیں ، یا رہنے چاہئیں : 
ایک یہ کہ یہ بیش تر قوانین برطانوی ہند کا ورثہ ہیں اور ان کی تعبیر و تشریح کے لیے انگریزی کامن لا کے تصورات کا فہم ضروری ہے ؛ 
دوسرا یہ کہ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے جہاں مقننہ اور انتظامیہ کے افعال پر نظرثانی اور ان کی دستوری حیثیت کا اختیار ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کو حاصل ہے ؛ اور 
تیسرا یہ کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جہاں تمام قوانین 150 جی ہاں ، تمام قوانین 150 کی ایسی تعبیر ضروری ہے جو اسلامی احکام سے ہم آہنگ ہو۔ 
اس آخری نکتے کی مزید توضیح ضروری ہے۔ 

چوتھا سوال: "اسلامی جمہوریہ" میں تعبیر قانون کیسے کی جائے؟ 

انگریزوں نے جب ہندوستان کے مختلف علاقوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرنا شروع کیا تو اس کے ساتھ انھوں نے عدالتی اور قانونی نظام پر بھی بتدریج قبضہ کرلیا۔ البتہ انھوں نے 'شخصی امور' میں عدم مداخلت کو ہی بہتر پالیسی سمجھا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے ان امورمیں بھی مداخلت شروع کی اور مسلمان قاضی کے بجاے انگریز جج کو عدالتوں میں بٹھادیا، البتہ اس کی مدد کے لیے مفتی ہوتے تھے۔ پھر انھوں نے ہدایہ اور عالمگیری کے منتخب ابواب کا انگریزی میں ترجمہ کروایا تو مفتی بھی غیر ضروری ٹھہرے۔ اب ہوتا یہ تھا کہ مسلمانوں کے خانگی امور کا تصفیہ انگریز جج ہدایہ یا عالمگیری کے انگریزی ترجمے کی مدد سے کرتا اور اسلامی قانون کی تعبیر و تشریح کے لیے انگریزی قانون کے اصول استعمال کرتا۔ نتیجتاً جو قانون عدالتی نظائر کی صورت میں وجود میں آیا اسے 'اینگلو۔محمڈن لا' کہا جانے لگا۔ یہی اینگلو۔محمڈن لا اب بھی ہماری عدالتوں کے لیے بنیادی ماخذ ہے جس کی روشنی میں وہ عائلی امور کے مسائل کا تصفیہ کرتے ہیں۔ 
آزادی حاصل کرنے کے بعد معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا۔ اب ہمارے سامنے انگریزوں کے چھوڑے ہوئے بے شمار قوانین تھے جن کی تعبیر و تشریح 'اسلامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں ' ہونی چاہیے تھی۔ تاہم ہماری عدالتیں بدستور انگریزی کامن لا کے مفروضات پر عمل کرتی رہیں۔ قراردادِ مقاصد 1949ء کی منظوری کے بعد یہ سلسلہ رک جانا چاہیے تھا کیونکہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے لیے اقتدارِ اعلی تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان کرلیا۔ 1956ء، 1962ء اور 1973ء کے دساتیر میں ہم نے باقاعدہ اعلان کیا کہ پاکستان کے تمام قوانین کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ تاہم بدقسمتی سے آج تک یہ کام باقاعدہ طور پر شروع بھی نہیں کیا جاسکا۔ 
1991ء میں 'قانونِ نفاذِ شریعت' کی دفعہ 4 کے تحت قرار دیا گیا کہ پاکستان میں تمام قوانین کی تعبیر و تشریح 'قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام' کی روشنی میں کی جائے گی۔ یہ بھی قرار دیا گیا کہ اگر کسی قانون کی دو تعبیرات ممکن ہوں تو وہ تعبیر اپنائی جائے گی جو اسلامی احکام سے ہم آہنگ ہو۔ اس قانون کے بعد تمام عدالتوں کی قانونی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہر قانون کی تعبیر اسلامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں کریں۔ تاہم وکلا بھی کبھی عدالت سے یہ نہیں کہتے کہ اس قانون پر عمل کریں ، نہ ہی عدالتوں نے اس قانون پر عمل کی طرف توجہ دی ہے۔ 
اس عمومی قانون کے علاوہ کئی قوانین میں خصوصی طور پر لازم کیا گیا ہے کہ اس قانون کی تعبیر و تشریح اسلامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں کی جائے گی، لیکن اس کے باوجود عدالتیں اس طرف متوجہ نہیں ہوتیں۔ ایک اہم مثال قصاص و دیت کا قانون ہے جو اس وقت مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے باب 16 میں مذکور ہے۔ اس قانون کی دفعہ 338 150 ایف میں تصریح کی گئی ہے کہ اس باب کے احکام اور دیگر متعلقہ احکام کی تعبیر و تشریح اسلامی احکام کے مطابق کی جائے گی لیکن اس کے باوجود عدالتیں اس سے پہلو تہی کرتی ہیں۔ 
عام طور پر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے سامنے جب اس طرح کا مسئلہ آجاتا ہے تو ہمارے فاضل جج یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ کسی قانون کے اسلامی احکام سے تصادم یا عدم تصادم کا فیصلہ کرنا وفاقی شرعی عدالت کا اختیار ہے اور یہ معاملہ وہاں اٹھایا جانا چاہیے۔ یہ محض ایک عذرِ لنگ ہے کیونکہ سوال کسی قانون کے اسلامی احکام کے ساتھ تصادم (repugnancy) کا نہیں بلکہ اس قانون کی تعبیر (interpretation) کا ہے۔ یقیناًاسلامی احکام کے ساتھ تصادم یا عدم تصادم کا فیصلہ کرنا وفاقی شرعی عدالت کا کام ہے لیکن جہاں تک اسلامی قانون کی روشنی میں قانون کی تعبیر کا تعلق ہے تو یہ سپریم کورٹ وہائی کورٹس سمیت تمام عدالتوں کی قانونی ذمہ داری ہے۔

مسئلہ ختم نبوت: حالیہ بحران کے چند اہم پہلو

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملک کے انتخابی قوانین میں ترامیم کا بل پاس ہونے پر اس میں ختم نبوت سے متعلق مختلف دستوری و قانونی شقوں کے متاثر ہونے کی بحث چھڑی اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ دینی حلقوں اور سوشل میڈیا میں بھی خاصی گرما گرمی کا ماحول پیدا ہوگیا تو حکومت نے عقیدہ ختم نبوت کے حلف نامہ کو سابقہ پوزیشن میں بحال کرنے کا بل اسمبلی میں پاس کر لیا۔ مگر دفعہ ۷ بی اور ۷ سی کے بارے میں مطالبہ جاری ہے اور حکومتی حلقے یقین دلا رہے ہیں کہ ان کو بھی عوامی مطالبہ کے مطابق صحیح پوزیشن میں لایا جائے گا۔ اس حوالہ سے اپنے احساسات کو تین چار حوالوں سے عرض کروں گا:
ایک یہ کہ حلف نامہ کی عبارت میں ردوبدل طویل پارلیمانی پراسیس سے گزر کر ہوا اور اس دوران ایک آدھ دفعہ توجہ دلانے کے علاوہ کسی کو اندازہ نہیں ہوا کہ یہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے صحیح کہا ہے کہ یہ ہم سب کی اجتماعی غفلت سے ہوا ہے، مگر یہ بات بہرحال توجہ طلب ہے کہ یہ سب کچھ آخر کیوں ہوا ہے اور ہمارے پارلیمانی ماحول میں حساس قومی و دینی معاملات کے حوالہ سے اس قدر بے پروائی کیوں پائی جاتی ہے۔ یہ تمام دینی جماعتوں اور پارلیمانی حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
دوسری بات اس سے زیادہ سنگین ہے کہ شق ۷ بی اور ۷ سی کے بارے میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ انتخابی قوانین کے حالیہ ترمیمی بل کے موقع پر نہیں بلکہ اس سے قبل ۲۰۰۲ء کے دوران جنرل پرویز مشرف کی نافذ کردہ ترامیم سے متاثر ہوئی تھیں اور گزشتہ پندرہ سال سے اسی کیفیت میں چلی آرہی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ صرف لمحہ فکریہ نہیں بلکہ المیہ ہے کہ قادیانی مسئلہ کے حوالہ سے ان قانونی شقوں میں رد و بدل کا معاملہ پندرہ سال تک مسلسل ابہام میں رہا ہے اور ملک کی دینی، سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں میں سے کسی کو احساس نہیں ہوا کہ یہ کیا کچھ ہوگیا ہے۔ میں خود تحریک ختم نبوت کے شعوری کارکنوں میں شمار ہوتا ہوں، لیکن میرے پاس اس حیرت اور افسوس کا کوئی جواب نہیں ہے کہ مسئلہ ختم نبوت کے ساتھ اس سنگین واردات کا مجھے بھی علم نہیں ہو سکا۔ فیا اسفاہ و یا ویلاہ۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیرقانون کے ان ریمارکس نے سب کو پریشان کر دیا کہ قادیانی ہماری طرح نمازیں پڑھتے ہیں اور دیگر مذہبی معاملات میں بھی ہم جیسے ہیں، صرف ایک ختم نبوت کے عقیدہ کا فرق ہے۔ ہم صوبائی وزیرقانون کو جتنا بھی کوس لیں کم ہے، لیکن اس کے ساتھ اس معاملہ میں ہمیں اپنی کوتاہی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ آج کے جدید تعلیم یافتہ ماحول کے عمومی تاثرات و محسوسات کم و بیش اسی طرح کے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عقیدہ ختم نبوت اور قادیانیت کے بارے میں عوامی آگاہی اور بیداری کا وہ ماحول قائم رکھنے میں کامیاب نہیں رہے جو ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۴۸ء کی تحریکات تک دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ دیگر قومی شعبوں میں بھی موجود تھا اور میرا خیال ہے کہ اس میں ہم سب قصور وار ہیں۔
جبکہ چوتھی بات اس مسئلہ کے حوالہ سے ان حلقوں کے بارے میں کرنا چاہتا ہوں جو ۱۹۷۴ء کے بعد سے مسلسل مسئلہ ختم نبوت کے دستوری اور قانونی معاملات کو سبوتاڑ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ بین الاقوامی ادارے ہوں، عالمی سیکولر لابیاں ہوں یا ملک کے اندر قادیانیت نواز حلقے ہوں، جب یہ ان کے علم میں ہے اور انہیں اس بات کا پوری طرح اندازہ ہے کہ وہ اس مسئلہ پر پاکستان کی رائے عامہ، سول سوسائٹی اور منتخب اداروں میں سے کسی کا کھلے بندوں سامنا نہیں کر سکتے اور ہر بار انہیں درپردہ سازشوں کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے تو وہ پاکستانی قوم کے اجتماعی فیصلے کو تسلیم کرنے اور زمینی حقائق کا اعتراف کر لینے سے مسلسل کیوں انکاری ہیں؟ یہ انصاف، جمہوریت، اصول پرستی اور حقیقت پسندی کی کون سی قسم ہے کہ پاکستانی قوم نے اجتماعی طور پر ایک فیصلہ کیا ہے اور وہ اس پر قائم رہنا چاہتی ہے تو اسے اس سے ہٹانے کے لیے دباؤ، سازش اور درپردہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اپنے اجماعی عقیدہ اور موقف سے ہٹنے پر بلاوجہ مجبور کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ان بین الاقوامی اور اندرون ملک حلقوں کو ان کی اس غلط روی بلکہ دھاندلی کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔

جنوبی ایشیا کے دینی مدارس، عالمی تناظر میں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(نوٹرے ڈیم یونیورسٹی، انڈیانا، امریکہ میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر، ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کی کتاب ?What is a Madrasa کے اردو ترجمہ ’’دینی مدارس: عصری معنویت اور جدید تقاضے‘‘ (از قلم: ڈاکٹر وارث مظہری) کے لیے لکھا گیا پیش لفظ۔)

جنوبی ایشیا کے دینی مدارس اس وقت علمی دنیا میں مختلف سطحوں پر گفتگو ومباحثہ کا اہم موضوع ہیں اور ان کے تعلیمی ومعاشرتی کردار کے مثبت ومنفی پہلوؤں پر بحث وتمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ آج کے تعلیمی وتہذیبی ماحول میں ان دینی مدارس کی ڈیڑھ سو سالہ جدوجہد کے اثرات مثبت اور منفی دونوں حوالوں سے بتدریج واضح ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی افادیت وضرورت کے ساتھ ساتھ مضرات ونقصانات پر بھی بات چیت چل رہی ہے۔ خود ان دینی مدارس کے ارباب حل وعقد بھی کچھ عرصہ سے اس بحث ومباحثہ میں شریک ہیں اور اپنے دفاع کے ساتھ ساتھ نظام کو بہتر بنانے اور اس کی افادیت کو بڑھانے کے لیے ان کی طرف سے تجاویز واقدامات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
دینی مدارس کی افادیت وضرورت اور اثرات وثمرات کا سب سے بڑا پہلو یہ سامنے آیا ہے جو ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم معاشرہ میں قرآن وسنت کے علوم وروایت اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کی حفاظت میں گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور ان کی صبر آزما جدوجہد کے باعث اسلامی علوم ماضی کا حصہ بننے اور آثار قدیمہ میں شامل ہونے سے نہ صرف محفوظ رہے ہیں بلکہ ایک زندہ، متحرک اور فعال نظام کی صورت میں آج کے تعلیمی نظام کا باقاعدہ حصہ ہیں، جبکہ فکری محدودیت، مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے فروغ کو بھی غلط یا صحیح ان مدارس کے کھاتے میں ہی ڈالا جا رہا ہے اور تہذیبی وفکری کشمکش کے اس دور میں یہی دائرہ سب سے زیادہ موضوع بحث ہے۔
اس تناظر میں بہت سے ارباب دانش اس کوشش میں ہیں کہ بحث ومباحثہ کے اس ماحول کو معروضی صورت حال، زمینی حقائق اور اوریجنل معلومات سے آگاہ کرنے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وقت اور تاریخ کو صحیح نتائج تک پہنچنے میں سہولت حاصل ہو اور یہ کسی بھی مباحثہ ومکالمہ کے لیے سب سے زیادہ ضروری اور مفید ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ صاحب نے دینی مدارس میں ایک عرصہ گزار کر ان کے اندرونی ماحول کو دیکھا بلکہ بھگتا ہے جبکہ مغربی دنیا کے تعلیمی اداروں میں بیٹھ کر ان مدارس کے بارے میں دنیا کے تاثرات ومشاہدات کا جائزہ لیا ہے جسے انھوں نے زیر نظر کتاب کی صورت میں پیش کر کے اپنی شہادت ریکارڈ کرائی ہے۔ وہ اس کاوش پر تاریخ وسماج کے میرے جیسے طالب علموں کے شکریہ کے مستحق ہیں اور میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس محنت کو قبول فرماتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مقصدیت سے نوازیں اور اس موضوع کے طلبہ کے لیے راہ نمائی کا موثر ذریعہ بنائیں۔ آمین یا رب العالمین

سرسید اور ان کے روایت پسند مخالفین

محمد ابوبکر

عالمی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں گذشتہ دنوں سرسید احمد خان کے حوالے سے ایک سیمینار وقوع پذیر ہوا۔ ایک سیشن کا کلیدی خطبہ جناب احمد جاوید نے دیا۔ میں دلی خواہش کے باوجود اس تقریب میں شریک نہ ہو سکا۔بعد ازاں فیس بک پر احمد جاوید صاحب کے خطاب کے حوالے سے بحث چھڑ گئی۔ خورشید ندیم نے ایک کالم میں اس خطاب کا خلاصہ پیش کیا۔جاوید صاحب کی شخصی تواضع اور شائستگی کے برملا اعتراف کے باوجودخورشید ندیم ان کے پیش کردہ معروضات سے غیر مطمئن نظر آئے، اگرچہ انہوں نے اس پرکوئی تجزیہ پیش نہ کیا۔اظہار الحق صاحب نے دو کالمز میں اس تقریب کو موضوع بنایا، لیکن جذباتیت میں بہہ گئے جس سے موضوع تشنہ رہا۔ محمد دین جوہر صاحب نے ایک جوابی کالم میں جاوید صاحب کے خطبے کی تفہیم پیش کی اورسرسید پربھی گفتگو فرمائی۔ ان بزرگان سے ہمارا نیاز مندی کا رشتہ ہے اور یہی رشتہ کچھ زیادہ شدت کے ساتھ سرسید کی ذات سے بھی ہے۔ یہ تحریر اسی باہمی مناسبت کا اظہارہے جس میں نیاز مندی بھی ہے اور ناز آفرینی بھی۔
سرسید ہماری جدید تاریخ کا نقطہ آغاز ہیں اور ان کی اس حیثیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ سرسید کی شخصی عظمت اور ان کے کار نمایاں کی تاریخی اہمیت سے انکار ان کے مخالفین کے بس میں بھی نہیں ہے۔سرسید کے تمام ناقدین انہیں ہندوستان میں جدید تہذیب کا نقیب قرار دیتے ہیں۔ سرسید اور جدید تہذیب کا باہمی رشتہ ایک پیچیدہ موضوع ہیاورسرسید کے تمام مخالفین اس مخصوص مسئلہ پر رائے قائم کرنے کے بعد ہی آگے بڑھتے ہیں۔ چنانچہ ملائیت نے سرسید کو جدید تہذیب کا پٹھو اور ایجنٹ قرار دیا جبکہ اہل روایت کے نفیس طبقے نے سرسید کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے اپنے اعتراض کو مختلف شکل میں پیش کیا۔ ان حضرات کے نزدیک سرسید اپنی قوم کے حقیقی خیرخواہ تھے اور یہ جان چکے تھے کہ اب جدید تہذیب کو اپنائے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔ گویا سرسید کی نیت پر شک ممکن نہیں ہرچند ان کی عملی تدبیر قوم کے حق میں مضر ثابت ہوئی۔ سرسید کے ان روایت پسند مخالفین کا ایک مکمل تناظر موجود ہے جو اکبر آلہ آبادی ، حسن عسکری اور سلیم احمد سے ہوتا ہوا احمد جاوید اور جوہر صاحب تک آتا ہے۔ہمارا مکالمہ اسی روایت کی مجموعی فکر کے ساتھ ہے۔ 
ملائیت اور روایت پسندی میں اہم فرق موجود ہیں جن میں ایک بنیادی یہ ہے کہ ملائیت جس جگہ ’’خالص اسلام‘‘ کا لفظ استعمال کرتی ہے، روایت پسند وہاں ’’ تہذیب اور تہذیبی فعالیت‘‘ جیسے ا لفاظ استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ملائیت کے نزدیک ہند میں مسلمانوں کا زوال اس لیے ہوا کیونکہ ان کا اسلام خالص نہیں رہا تھا جبکہ روایت پسند احباب کا خیال ہے کہ ’’ ہند اسلامی تہذیبی فعالیت‘‘ میں وہ جان باقی نہ رہی تھی۔ بہرحال دونوں مکاتب کے نزدیک یہ سیاسی زوال نہایت اہم واقعہ تھا اور اس نکتے پر ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن دونوں مکاتب کے نزدیک یہ واقعہ یکایک ہو گیا تھا۔ اسے عظیم تہذیبی انقطاع کا واقعہ بھی کہا جاتا ہے۔ ملائیت اور روایت پسندی کے دونوں مکاتب تاریخ کو تصور کے تابع سمجھتے ہیں اور مادی حالات میں تسلسل اور تغیر کو ثانوی اہمیت دیتے ہیں۔ اس یکایک عظیم واقعے کے بعد ملائیت اور روایت نے اس کا حل بھی اسی مجرد اور تصوارتی انداز میں پیش کیا۔ ہمارے نزدیک اس حل کی مثال آفت پڑنے پر ختم خواجگان پڑھانے جیسی ہے۔ ہندوستان میں جدیدیت کے ورود اور سرسید کے حوالے سے روایت پسندوں کی پوزیشن واضح ہے۔ وہ سرسید کی بنیادی خدمات کا انکار کرنے کے باوجود روایتاً ان کی عزت کرتے ہیں اور اس روایت کے دل سے قائل ہیں۔
سرسید اور جدید و قدیم کا یہ جھگڑا اپنی مکمل صورت میں 1857 کے ہنگامے اور ہند پر مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے اختتام کے بعد کی صورتحال سے شروع ہوتا ہے۔ ہندوستان کئی بار فتح ہوا تھا اور ہر بار حاکم بدل جاتے تھے لیکن انگریزوں کی فتوحات کے بعد ہندوستان کی تہذیب کو بھی براہ راست چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس سے پہلے ترک ، منگول اور افغان مسلم فاتحین سمیت تمام غیر ملکی حاکم بننے کے بعد برصغیر کی تہذیب کا حصہ بن جاتے تھے۔یہ تہذیب کئی ہزار سالوں سے جامد اور محفوظ چلی آرہی تھی۔ جدید دور میں دخانی جہاز رانی کی وجہ سے تجارت کے سمندری راستے کھلے۔ یورپی تاجر بن کر آئے لیکن حاکم بن گئے۔ انگریز ان میں سب سے کامیاب رہے اور پورے ہند کے حکمران بن گئے۔ ریل گاڑی اور ٹیلی گراف جیسی ایجادات نے برصغیر کو ایک وحدت میں پرو دیا۔ وسیع و عریض نہری نظام نے مرکزیت کا یہ تصور اور بھی مضبوط کیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار پریس متعارف ہوا اور وافر پیمانے پر کتابوں کی اشاعت شروع ہوئی۔ اس سے نہ صرف ہندوستان میں شامل دوردراز کے علاقے اور اقوام آپس میں مل گئے بلکہ خود ہندوستان باقی دنیا سے بھی منسلک ہوگیا۔ اس تمام عمل میں ہندوستان کی وہ مخصوص تنہائی ختم ہوگئی جس کی وجہ سے اس کی اندرونی تہذیب صدیوں سے جامد اور محفوظ چلی آرہی تھی۔
اس سے پہلے ہندوستان ایک خود کفیل اور خود مرتکز کلیت تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں سے لے کر سلطنت تک امور زندگی کی طے شدہ شکلیں اور انتظام موجود تھے۔روزگار اور پیشے ذات پات پر مبنی تھے جس سے معاشرتی طبقات وجود میں آتے تھے۔ ان طبقات کی حدود شروع سے واضح اور طے شدہ تھیں۔سلطنت اور مذہب کا باہمی رشتہ بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک جیسا ہی چلتا آرہا تھا۔ گاؤں سے لے کر سلطنت تک کے انتظام میں مذہب کی ایک مخصوص جگہ متعین تھی۔ انگریزوں سے پہلے ہزار سال تک مختلف مسلم اقوام نے یہاں حکومت کی لیکن وہ سب برصغیر کی تہذیب کا حصہ بنتے گئے اور کاروبار زندگی اسی طرح چلتا رہا۔ انگریز کی آمد سے یہ سلسلہ ٹوٹ گیا کیونکہ وہ ایک جدید نظام کے نمائندے تھے۔انگریزوں کو ہندوستان فتح کرنے میں زیادہ وقت اور مشکل نہیں ہوئی۔ ان کے لیے فتح سے زیادہ انتظام چلانا مشکل تھا۔ اسی انتظام کا بنیادی مقصد تو بلاشبہ یہی تھا کہ ہندوستان پر قبضہ برقرار رکھتے ہوئے بطور حاکم اس ملک سے زیادہ سے زیادہ نفع کمایا جائے۔ لیکن زیادہ نفع کیسے کمایا جائے یہ بنیادی سوال تھا۔ اولین طور انہوں نے زیادہ سے زیادہ لوٹنا چاہا۔ اس کوشش میں قحط بنگال جیسے واقعات سامنے آئے تو انگریزوں کو پتہ چلا کہ کسان سے مالیہ تب ہی لیا جا سکتا ہے اگر اسے کاشت کے لیے زمین اور پانی کی سہولیات دی جائیں۔ ہندوستان کے وسیع علاقوں سے خام مال اکٹھا کیا جانا بھی ضروری تھا اور انتظام کے لیے فوج کے نقل و رسد کے ذرائع بھی لازم تھے۔ ریل نے یہ دونوں مقاصد پورے کیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ برصغیر میں صنعت کا دروازہ بھی کھول دیا اور پھر ریل بنانے کے کارخانے بھی لگنے لگے۔
برطانوی دارالعوام میں 1857 کے ہنگامے پر بحث شروع ہوئی تو کارل مارکس مہمانوں کی گیلری میں بیٹھ کر کارروائی نوٹ کرتا رہتا۔ انہی نوٹس سے بعد ازاں اس نے ہندوستان پر ایک مقالہ تحریر کیا جس میں ہندوستان کی تاریخ و تہذیب ، انگریزوں کی حکومت اور استعماری پالیسی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مارکس کے خیال میں استعمار کے مقاصد کا منفی اور مثبت پہلو موجود ہوتا ہے۔ منفی اور تخریبی پہلو وہ لوٹ کھسوٹ ہے جو انگریز استعمار نے ہندوستان میں کی۔ مثبت اور تعمیری پہلو سے مراد ہندوستان کے مادی حالات میں وہ بنیادی تبدیلیاں تھیں جو ہرچند منفی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کی گئیں لیکن ان سے وہ نتائج پیدا ہوئے جس سے خود ہندوستان جدید دور میں داخل ہوگیا۔ مارکس اس حوالے سے نہایت پرامید تھا کہ ریل ، ٹیلی گراف ، پریس ، نہری نظام ، جدید تعلیم ، صنعت سازی اور مرکزی حکومت جیسے عوامل کی بنیاد پر جلد ہی ہندوستان میں وہ مقامی طبقہ پیدا ہوجائے گا جو سیاسی آزادی بھی حاصل کر لے گا۔ روایت پسند حضرات استعمار کے صرف منفی پہلو تک محدود رہتے ہیں اور اس تاریخی تحرک کو نہیں سمجھتے جو جدیدیت کے بطن میں موجود ہے جس کے نتیجے میں یہ اپنی ضد میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
تاریخی تبدیلی کے اس اصول کو خاطر میں نہ لانے کی وجہ سے ہی روایت پسند جدیدیت کو مجرد انداز میں دیکھتے ہیں اور اس پر سراسر منفی ہونے کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ سرسید چونکہ استعمار کے تخریبی پہلو کے اندر ایک نیا راستہ دیکھ رہے تھے لہٰذا انہوں نے دریا میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے برعکس روایت پسند صرف ساحل پر بیٹھ کر رزم خیر و شر ملاحظہ کرتے ہیں اور فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ حضرات کسی انجانے میں تغیر اور روانی کو بھول بیٹھے ہوں بلکہ ان کے یہاں سکون کی طرف رجحان شعوری طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ جس ریل کو کارل مارکس ہندوستان میں جدید صنعت کی بنیاد قرار دیتا ہے اسی ریل کی تعریف کرنے پر عسکری اور سلیم احمد غالب اور سرسید کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ روایت پسند اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہاں تک کہتے ہیں کہ مشرق اور مغرب میں کسی قسم کا کوئی تعامل ہو ہی نہیں سکتا اور مغرب سے کوئی لین دین نہیں رکھنا چاہیے۔
اردو روایت میں اس مشرق سے مراد اسلامی مشرق یا ہند اسلامی تہذیب ہے۔ چنانچہ ہمیں صرف ہند اسلامی تہذیب کی طرف رجعت اختیار کرنی چاہیے۔ تہذیب کو محفوظ رکھنے کی غرض سے اجتہاد کو ناپسند کیا جاتا ہے اور تقلید کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔تہذیبی روایت کو خالص رکھنے اور اس کی نمائندگی کرنے کے لیے ایک خاص طبقے کو منتخب کیا جاتا ہے جو تہذیبی رکھ رکھاؤ کا امین ہوتا ہے۔ اپنی انتہائی صورت میں یہ رجحان آرتھوڈوکسی کی طرف لے جاتا ہے جہاں سلیم احمد جیسا شخص بھی ذات پات کے معاشرتی ڈھانچے کا جواز پیش کرتا نظر آتا ہے۔ جدیدیت کے اسی محدود اور مجرد جائزے کی وجہ سے روایت پسندوں کی جدیدیت کی ہرشے میں برائی نظر آتی ہے۔ جدید علوم کی بات ہو تو الحاد کے خطرے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ جدید نظام سیاست کی بات ہو تو سیکولر ازم اور پارلیمانی جمہوریت کو پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔
سرسید پر یہ الزام لگایا جا تا ہے کہ انہوں نے مقامی لوگوں کو وحشی قرار دیا اور ہند اسلامی تہذیب کو کمتر قرار دیا نیز یہ کہ سرسید نے استعمار کے مقابلے میں ’’ Other‘‘ کی تشکیل نہیں کی یا سرسید نے یورپی تہذیب کی نقالی کرتے ہوئے صرف ظاہری اجزا کو قبول کیا۔ ایسا تب ہی سمجھا جا سکتا ہے اگر جدیدیت کا محدود اور منفی پہلو ہی سامنے رکھا جائے۔ سرسید نے ہندوستانی تہذیب کے جس پہلو کو وحشی قرار دیا وہ صدیوں سے اپنی شکل پر منجمد حالت میں موجود تھا اور اس شکست کا براہ راست ذمہ دار تھا جو ہندوستان کو انگریزوں سے اٹھانا پڑی۔ ہندوستان ایک پکے ہوئے پھل کی طرح ہر فاتح کی جھولی میں گرنے کو تیار رہتا تھا۔ مارکس نے اسی نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہندوستان پر برطانوی تسلط کو قائم رکھنے کے لیے مقامی وسائل سے ہی ایک مقامی فوج قائم کی گئی ہے جو اپنے ملک کو غلام بنائے رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ تہذیب کا یہ جامد حصہ جسم کا وہ عضو تھا جسے کاٹ دینا مناسب تھا۔ انگریزی استعمار وہی نشتر تھا جس کے بغیر برصغیر کا جامد معاشرہ جدید تاریخ میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔
سرسید اس عظمت کے گھمنڈ میں نہ آئے جو قصہ ماضی بن چکی تھی۔ آپ نے جدید کے ساتھ قدم رکھا اور اس میں شان خلاقی کا پورا لحاظ رکھا۔ سرسید کی تعلیمی تجاویز و تدابیر سے وہ مسلم طبقہ پیدا ہوا جو سرکاری نوکری کا اہل تھا۔ اس طبقے کے تاریخی کردار کے باعث مسلمان دو قومی نظریے تک پہنچتے ہوئے ایک علیحدہ وطن بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ سرسید کی جدیدیت کا مکمل رد کرنے کے باوجود روایت پسند احباب دو قومی نظریہ پر مکمل حق جتاتے ہیں۔ ہمیں اس معجز آرائی کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔
کہا جاتا ہے کہ سرسید کی تعلیمی تجاویز دراصل لارڈ میکالے کی پالیسی کا تسلسل تھیں۔ لارڈ میکالے کی شخصیت بذات خود بہت اہم ہے اور ایک علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے۔ ڈاکٹر ساجد علی اس حوالے سے دو مضامین تحریر کر چکے ہیں۔ میکالے وہ شخص ہے جس کی مخالفت میں سوشلسٹ اور جماعت اسلامی ایک صف میں آکھڑے ہوتے ہیں۔ میکالے سے منسوب وہ مشہور اقتباس جس میں پورے ہندوستان کی سیر کرنے کے بعد اسے وحشی قرار دینا شامل ہے تاریخی طور پر درست نہیں ہے۔ ایسا کوئی اقتباس میکالے سے سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔
میکالے کی ایک تقریر ضرور موجود ہے جس میں وہ ہندوستان کے تعلیمی نظام پر رائے دیتا نظر آتا ہے۔ میکالے کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ کمپنی نے ہندوستانیوں میں شرح تعلیم بلند کرنے کے لیے جو فنڈ مقرر کیا ہے اس سے جدید علوم کی اشاعت کی جائے کیونکہ قدیم علوم ایک تو جدید دنیا میں کارگر نہیں ہیں دوسرا یہ کہ قدیم علوم کے طالب علموں کو ہم وظیفہ دیکر پڑھاتے تو ہیں لیکن ان کے کرنے کو کوئی نوکری موجود نہیں ہوتی کیونکہ سنسکرت اور عربی میں موجود سائنس ، طب ، فلکیات وغیرہ اب کہیں استعمال نہیں ہوتیں۔ اس کا خیال تھا کہ برصغیر میں جدید علوم انگریزی میں پڑھائے جائیں تاکہ یہاں وہ طبقہ پیداہوسکے جو ان جدید علوم کو مقامی زبانوں میں منتقل کرسکے تاکہ باقی عوام کی تعلیم ممکن ہو۔ اس حوالے وہ پندرہویں صدی کے برطانیہ اور انیسویں صدی کے روس کی مثال دیتا ہے جسے ترقی کرنے کے لیے ایک عبوری وقت میں غیرملکی زبانوں کا آسرا لینا پڑا۔ میکالے کے خیال میں ہندوستان میں بھی اب انگریزی کو پڑھانا ضروری ہوگا تاکہ یہ معاشرہ جدید دور میں داخل ہوسکے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ احباب اسلام کے غلبے کے بعد عربی زبان کے غلبے پر بات نہیں کرتے لیکن انگریزوں کے غلبے کے بعد انگریزی زبان پر اعتراض کرتے ہیں۔ میکالے نے دلچسپ اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں کہ کیسے عربی اور سنسکرت کی ہزاروں کتابیں سرکاری خرچے پر چھاپی گئیں لیکن کوئی خریدتا نہیں ہے جبکہ ہندوستان میں ہی انگریزی کا قاعدہ دھڑا دھڑ بک رہا ہے اور مقامی لوگ خود سے خرید رہے ہیں۔ میکالے کی تعلیمی پالیسی سے ہندوستان میں جدید علوم انگریزی میں پڑھائے جانے لگے۔ فزکس ، بیالوجی ، طب اور فلکیات سمیت جدید علوم کے ادارے قائم ہوئے۔ اس نے وہ ہنرمند پیدا ہوئے جو جدید نظریات سے واقف تھے۔ انہی حضرات نے بعد ازاں نے سیاسی آزادی کی جدوجہد چلائی۔ میکالے پر اعتراض کرتے ہوئے اس کا متبادل نہیں بتایا جاتا اور بتایا جانا ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے برصغیر میں مرکزی سطح پر کوئی منظم تعلیمی نظام موجود ہی نہیں تھا۔ ہندو اور مسلمان اپنی مذہبی علوم کو روایتی انداز سے مندروں اور مسجدوں ، مدرسوں میں پڑھاتے تھے۔ میکالے کے چیلنج کا جواب بھی نو آبادیاتی پس منظر میں دیا جاتا ہے حالانکہ نوآبادیاتی تناظر اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک استعمار اور جدیدیت کو متحرک انداز میں منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں سمیت سامنے نہ رکھا جائے۔
اس حوالے سے یہ کہنا بھی درست نہیں کہ سرسید نے جو اینٹی تھیسس استعمال کیا، وہ بیرونی تھا۔ اندرونی اور بیرونی کے یہ تعینات دور جدید سے پہلے بامعنی تھے، لیکن اب نہیں۔ جدید دور ایک بڑا نظام ہے جو ہرغیر کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور یوں اس کی نفی بھی اس کے بطن سے برآمد ہوتی ہے۔ مارکسیت ، وجودیت اور مابعدجدیدیت اسی طرح جدیدیت کی نفی خود جدیدیت کی اندرونی حرکیات سے نکالتے ہیں۔ روایت پسندی چونکہ جدیدیت کا محدود پہلو سامنے رکھتی ہے لہذا اس کا منشا رہتا ہے کہ منفی جدیدیت کے مقابلے کے لیے اپنے ماضی کی مثبت روایت سامنے لائی جائے۔ یہ ایک بنیادی غلطی ہے۔ دور جدید کو اسی وجہ سے دور جدید کہاجاتا ہے کہ اس کی نفی بھی اسی کے اندر موجود ہے اور من و تو کے قدیم تعینات اب باقی نہیں رہے۔ سرسید نے ماضی پرستی کی بجائے جدیدیت کے تضاد کو پہچان لیا اور اس پرخطر راستے پر سورما کے انداز میں چلے۔
سر سید اپنی جدت پسندی کے باوجود وضع قطع اور اظہار میں روایتی شخص تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ ان کے تجویز کردہ جدید علوم کے بعد الحاد پھیلے گا، لہٰذا انہوں نے خود سے ہی ایک جدید علم الکلام کی بنیاد بھی ڈالی۔ ہمارے خیال میں جدید علم الکلام کی ضرورت خود ان علوم کے ’’آغاز‘‘ کی ضرورت تھی نہ کہ ان علوم کے ’’نتیجے‘‘ سے نمٹنے کی کوشش۔ سنسکرت اور عربی پر مشتمل مقامی علوم اور ان سے پیدا ہوئے روایتی شعور کی سطح ابھی ان علوم کے آغاز سے بھی خوفزدہ تھی اور علوم تو کیا، انگریزی زبان تک سے خائف تھی۔ سرسید کے علم الکلام کا ایک بڑا حصہ عملی معاملات سے متعلق تھا جن کی وجہ علوم نہیں بلکہ انتظامی مسائل تھے۔ مثلاً اہل کتاب کے ساتھ مل کر کھانا پینا یا ان سے تعلق رکھنے جیسے معاملات۔ سرسید کا علم الکلام بالفرض اگر الحاد کو روکنے کی نیت سے ہی تھا تو اس حقیقت کو مان لینا زیادہ بہتر ہے کہ ہمارا روایتی فہم دین جدید علم اور جدید ذہن کے ساتھ چلنے کا اہل ہی نہیں ہے اور ہمیں اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ نتیجے اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ جدید علوم اور سرسید کی تجویز کو ہی سرے سے رد کر دیا جائے۔ ہر چند سرسید اس جہت سے روایتی شخص تھے، لیکن روایت پسند انہیں سمجھ نہیں سکے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سرسید کے بعد کے جدیدیت پسند دیکھ کر روایت پسند زیادہ جھنجھلا گئے۔ میری مراد ترقی پسند تحریک ہے۔
یہاں مارکس کا سوال دوہرانے کی ضرورت ہے۔ آپ ایک سرمایہ دار سے آخر کیا امید رکھتے ہیں ؟ سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہے کہ اپنے منافع کے لالچ میں وہ مادی حالات پیدا کردے جن کی ترویج سے ایک دن عوام بھی سیاسی آزادی پا جائیں۔ لیکن یہ کام سرمایہ دار کا سردرد نہیں ہے کہ وہ عوام کے انبوہ عظیم کو خود سے اٹھا کر بلند کردے۔ یہ کام عوام کو خود کرنا پڑتا ہے۔ روایت پسند اس سوال کے ساتھ وہ خدائی قانون بھی شامل کرلیں کہ خدا بھی ایک قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود بدلنے پر راضی نہ ہو۔ پھر آخر سرسید کی جدت پسندی اور تغیر شناسی پر کیا اعتراض بچتا ہے؟ اگر استعماری سرمایہ دار کی کمزوریوں ( مادی حالات میں تبدیلی ) اور طاقت ( علوم و فنون ) دونوں سے استفادہ منع ہے تو پھر محکوم قوم کو صرف خدائی مدد کا انتظار ہی کرنا چائیے۔ روایت پسندی دراصل اسی انتظار کی مصروفیت کا دوسرا نام ہے۔ اس انتظار کے دوران ماضی کو مثالی صورتوں میں یاد رکھنے کی سرگرمی اختیار کی جاتی ہے اور کسی ایسے اوتار کا انتظار کیا جاتا ہے جو پیکار اور تضاد کے اس دور میں نازل ہو اور تمام ناپسندیدہ چیزوں کا خاتمہ کردے۔
روایت پسندی کی جدید شکل کو ایک اور تضاد کا سامنا بھی درپیش ہے۔ روایت پسندی کی عالمی تحریک مغرب اور جدیدیت سے مقابلہ کرتے ہوئے ہندو مت کی تہذیبی روایت کو بطور مثال پیش کرتی رہی۔ تاہم یہ تحریک اپنی مجموعی صورت میں جمع ادیان کی قائل ہے جس میں تمام مذاہب چھوٹے بڑے اختلافات کے باوجود بطور ذریعہ حقیقت کی طرف لے جانے میں یکساں مفید سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم اردو روایت پسندی ایک خاص اعتبار سے ’’ ہند اسلامی تہذیب‘‘ کی رومانویت میں مبتلا رہنے کے بعد روایتی اسلامی سیاست میں بھی بنیاد پرستی اور شدت کا شکار ہوچکی ہے۔ جمع ادیان اور سیاسی اسلام کی روایتی شکل کا آپس میں کوئی تال میل نہیں ہے۔ روایت پسندی سیکولر ازم کی مخالفت سے سیاسی میدان میں جمع ادیان سے پیچھے ہٹ چکی ہے لیکن جدیدیت کے مقابلے میں ایک تہذیبی روایت کو فرض کرتے ہوئے جمع ادیان اور روایت کے وسیع تر تناظر میں تمام مذہبی مظاہر سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
(بشکریہ https://www.mukaalma.com)

ظلماتِ وقت میں علم و آگہی کے چراغ (۱)

پروفیسر غلام رسول عدیم

(زیرِ نظر مقالہ، جو گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے ادبی مجلہ ’’مہک‘‘ کی خصوصی اشاعت کے لیے لکھا گیا، دو خصوصیات سے زیادہ قابلِ التفات ہے:
(۱) یہ کم وبیش ۳۰ برس پہلے کا لکھا ہوا ہے۔ ان مدارس دینیہ کے ماضی کی جھلک جھمک، قارئین کو ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرے گی اور ان کے ماضی و حال کا یوں بہتر موازنہ کر سکیں گے۔ 
(۲) راقم ہر جگہ جا کر رُو در رُو مدرسے کی انتظامیہ اور اساتذہ کرام سے مستفید ہوا۔ یوں یہ تحریر محض سماعی اور بالواسطہ معلومات کا نہیں، شفاہی اور Direct Approachکا درجہ رکھتی ہے۔) (عدیم ؔ )

تعلیم وہ عظیم کام ہے جس پر خداکے سب سے زیادہ برگزیدہ بندے مامور ہوئے۔ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء اس منصبِ جلیل پر فائز رہے ہیں اور تعلیم وہ اعلیٰ کام ہے جس کے ذریعے رسولانِ برحق کے سچے فرمانبرداروں نے ہر دور میں نورِ نبوت سے فیضیاب ہو کر اپنی زندگیوں کو منور کیا۔ فضیلت علم کے باب میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات میں خاصا وقیع مواد موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسانی زندگی مختلف خانوں میں بٹتی گئی تو تعلیم وتعلم کا عمل بھی الگ الگ خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ ایک طرف دنیوی علوم کی مہارت ایک ناگزیر ضرورت خیال کی گئی تو دوسری طرف دینی علوم کا بھی برابر چرچا رہا۔ 
ہمارے عظیم مفکرین نے تقسیمِ علوم میں بڑی دانش و بینش سے کام لے کر معاشرے میں توازن اور ہم آہنگی کی راہیں تلاش کیں ۔ مثال کے طور پر امام غزالیؒ نے علم کی جو تقسیم کی ہے وہ یوں ہے۔ 
علم کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں۔ علوم محمودہ اور علوم مذمومہ ۔ علوم محمودہ میں کچھ فرضِ عین ہیں اور کچھ فرضِ کفایہ ۔ فرضِ عین میں اصول( علوم حدیث)، فروع(علومِ فقہ)، مقدمات ( صرف ، نحو، بیان و معانی اور ادب) ، اور قرات وتفسیر ۔ علومِ مذمومہ : اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ (۱) جن سے دوسروں کو ضرر پہنچے جیسے سحر و طلسمات۔ (۲) جس کے دونوں پہلو ہوں مگر مضرت کا پہلو غالب ہو جیسے علم نجوم جو انسانی طبائع پر موثر مانا گیا ہے۔ (۳) اسرارِ الہیہ ، عوام کو اس سے تعرض بہتر ہے کہ وہ انبیاء و خواص ،اولیاء کا کام ہے۔ 
اسلام میں تعلیم کا مقصد اسلامی نظریہ حیات سے مطابقت، اعانت اور ان تمام عناصر کی نمود ہے جن سے اس دنیا کی زندگی متوازن رہے اور اگلی زندگی میں فوز وفلاح کے دروازے وا ہوں۔ 
قرنِ اول میں تحصیل علم اور ابلاغ ایک مذہبی فریضہ تھا اگرچہ کتابوں کی کمی تھی تاہم علم سینہ بسینہ آئندہ نسلوں کو منتقل ہوتا رہا ۔ اموی دور میں خالص دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم کی طرف بھی خاصی توجہ دی جانے لگی۔ خالد بن یزید کا نام اس ضمن میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ عباسی دور آیا تو فرمانروایانِ بنوعباس کی خصوصی توجہ سے قرآن وحدیث اور فقہ کے علوم باقاعدہ شکل میں مدون ہو گئے۔ ساتھ ہی کیمیا ، نباتات، ارضیات ، ہیئت ، طب ، جراحت وغیرہ میں ماہرانہ کارنامے انجام دیے گئے۔
اسلامی سلطنت کی حدود تو اموی دور ہی میں چین سے اندلس تک پھیل چکی تھیں۔ اب اس عظیم مملکت کے کئی حصے سیاسی طور پر خود مختار ہو گئے مگر مسجد کی مرکزی حیثیت اپنی جگہ قائم رہی۔ 
یہی مساجد تھیں جن سے اسلامی فکر وعمل کے تابناک نگینے ڈھلتے اور چار دانگ عالم کو منور کرتے تھے اور برصغیر نے تو صدیوں مسجد ومکتب کو اپنی معاشرتی زندگی کا محور بنائے رکھا۔ ڈبلیو ،ڈبلیو کیش اپنی کتاب ’’عیسائیت اور اسلام‘‘ میں لکھتا ہے : اسلام کی قوت کا راز تلوار اورعساکر سے زیادہ اس کی مساجد و مکاتب میں پنہاں تھا ۔ مستعد خان ساقی صاحب ’’مآثر عالمگیری ‘‘ میں رقمطراز ہیں:’’ درجمیع بلاد و قصبات ایں کشور وسیع فضلاء مدرساں رابہ وظائف لائقہ از روزانہ و املاک موظف برائے طلبِ علم وجوہ معیشت در خور حالت و استعداد او مقرر فرمودند‘‘۔ڈاکٹر لائٹنز ’’ دیسی مدارس کی تاریخ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ پنجاب میں کم وبیش ۲۸۸۷۹ گاؤں ہیں ۔ ہر گاؤں میں مسجد ہے جو مکتب کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔ برطانوی شہنشاہت کے ساتھ وہ مدارس ختم ہو گئے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں انگریزی عملداری کے دوران میں تعلیم و تعلم کے کام میں دو عملی آ گئی۔ مغربی تہذیب کے زیرِ اثر دینی علوم کو بے کار خیال کیا جانے لگا۔ سرکاری اعانت سے چلنے والے ادارے حکومتی کل پرزے اور کھوکھلے مگر تجدد پسند ذہن تیار کرنے لگے۔ دینی علوم کی تحصیل کو مشغلہ بیکاراں سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا۔ سالہا سال سے چلنے والے یہ مدارس ایک طرف تو سرکاری اعانت سے محروم رہے ، دوسرے ان کا نصاب جدید عصری تقاضوں سے کچھ فاصلے پر رہ گیا۔ تاہم دینی اقدار کے پاسباں اوراسلاف کے تبحر علمی سے فیضیاب لوگ اس متاعِ بے بہا کو معاشرے میں لٹاتے رہے اور مفت لٹاتے رہے۔ خیر القرون کی درخشندہ روایات کے یہ محافظ آج بھی برصغیر کے کونے کونے میں موجود ہیں ۔ ہمارا موضوعِ سخن انہی خدامست بزرگوں اور ان کے اداروں کا تذکرہ ہے جس سے تہذیب جدید کے دلدادوں کو معلوم ہو جائے کہ بغیر حکومتی اعانت کے توکل بخدا محض خلوص کے بل پر کس قدر علمی وتعلیمی کام ہو رہا ہے ۔ سردست زیرِ نظر مجلہ ’مہک‘ کے خصوصی شمارے کی رعایت میں صرف ضلع گوجرانوالہ کے اہم دینی وتعلیمی اداروں کا ذکر مطلوب ہے۔ 
گوجرانوالہ ایک مردم خیز خطہ ہے ۔ اپنی اقتصادی ، زرعی اور صنعتی خصوصیات کی بنا پر پنجاب کے اعضائے رئیسہ میں سے ایک ہے۔ مگر یہ بات بھی فراموش کرنے کے قابل نہیں کہ اس مشینی دور اور اقتصادی ترقی کے زمانے میں بھی ہوس و زر کے باوجود ضلع گوجرانوالہ دینی مدارس کا ایک روح پرور نظارہ پیش کرتا ہے۔ بازاروں کی ہاؤ میں، دفاتر کی گہما گہمی ، فرائض سے کوتاہی اور حقوق کے لیے دوڑدھوپ ، کارخانوں کی دھواں اگلتی آلودہ فضا ،حکومتی تعلیمی اداروں کی ادھ کچری تعلیم اور کچہریوں کے تکدر آلود احاطوں سے نکل کر مدارس دینیہ کے قناعت بخش ، پرسکون اور تسکین افزا فضا میں چلے آئیے۔ بقول غالب ؔ آپ پر واضح ہو جائے گا ۔
از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ 
آپ باور کریں یا نہ کریں سچی بات یہ ہے کہ اکبر الہ آبادی بڑے پتے کی بات کہہ گیا تھا۔ 
کالج و اسکول و یونیورسٹی 
قوم بے چاری اسی پر مرمٹی 
جب ان مقدس فضاؤں میں قال اللہ و قال الرسول ﷺکی دلکش صدائیں گونجتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے گویا آسمانوں سے قطار اندر قطار فرشتے اتر رہے ہیں۔ رسوخ فی العلم کے دھارے بہ رہے ہیں پھر ان خدامستوں کی قناعت کا یہ عالم ہے کہ ظاہری اسباب پر نظر ہی نہیں رکھتے۔ 
؂ قناعت بھی بہار بے خزاں ہے
بس ایک اور صرف ایک ہی دھن کہ توحید الٰہی کا پرچم اونچا رہے اور سرور کائنات ﷺ کا اسوہ زندہ رہے۔ اس بات سے غرض نہیں کہ ان جانفشانیوں کا نتیجہ کیا ہو گا۔ ۔
آس کھیتی کے پنپنے کی انہیں ہو یا نہ ہو
ہیں اسے پانی دئے جاتے کسانوں کی طرح
یہاں یہ ہنگامے ہیں نہ احتجاج ، نہ ہلڑبازی نہ شورہ پشتیاں ، نہ شوخ چشمیاں نہ نگاہوں کی بے باکیاں ، ظاہری شستہ روی نہیں تو اندرون تیرہ وقار بھی تو نہیں ۔ جب کہ بقول اقبال عصر حاضر انہیں تحفوں سے عبارت ہے۔ 
یہی زمانہ حاضر کی کائنات ہے کیا 
دماغ روشن و دل تیرہ و نگاہ بے باک

مدرسہ انوار العلوم ( شہر کا قدیم ترین مدرسہ)

یہ مدرسہ گوجرانوالہ کے تاریخی باغ شیرانوالہ کے عقب میں مرکزی جامع مسجد سے ملحق ہے۔ ۱۹۲۲ء میں اس وقت خطیبِ شہر اور اجل عالم دین مولانا عبدالعزیز کی کوششوں سے مدرسے کا انتظام انجمن اہل السنت والجماعت گوجرانوالہ کے سپرد تھا۔ مولانا سید انور شاہ کشمیری کو تاسیس مدرسہ کے لیے خصوصی دعوت پر دیوبند سے بلایا گیا ۔ انہی کے نام کی مناسبت سے مدرسہ کا نام ’ انوار العلوم ‘ قرار پایا۔ مولانا عبدالعزیز قبل ازیں گورنمنٹ اسکول گوجرانوالہ میں مدرس کے فرائض بھی انجام دیتے تھے مگر بعد میں مکمل طور پر مدرسے سے وابستہ ہو گئے۔ وہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اورمولانا سید انور شاہ کشمیری کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔ ان کی عربی تصانیف: نبراس الساری علیٰ اطراف البخاری، نصب الرایہ للزیلعی پر حاشیہ اور طحاوی شریف پر تخریج اس بات کی گواہی ہیں کہ وہ بجا طور پر محدثِ پنجاب کہلانے کے مستحق تھے۔ 
۱۹۴۰ء میں ایک احاطہ خرید کر باقاعدہ مدرسے کی عمارت بنائی گئی ۔ اس وقت کمروں کی مجموعی تعداد بارہ ہے۔ درس نظامی کی موقوف علیہ تک تعلیم ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک دورہ حدیث بھی ہوتا تھا مگر اب نہیں۔ مختلف درجوں میں ۵۰ کے قریب بیرونی طلبہ تعلیم پا رہے ہیں ۔ اخراجات کا مجموعی تخمینہ ایک لاکھ روپے سالانہ ہے ۔ مدرسین میں مولانا قاضی حمیداللہ صدر مدرس ہیں جو منقولات کے ساتھ معقولات میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے فارغ التحصیل ہیں۔ 
مولانا عبدالمتین زاہد الراشدی ملک کے نامور محقق شیخ الحدیث مولانا سرفراز صفدر کے خلف الرشید ہیں اور فاضل نصرۃ العلوم ہیں۔ وہ مرحوم مفتی عبدالواحد کے زمانے ہی سے مسجد کے خطیب تھے۔ وہ درس و تدریس کے علاوہ ملکی سیاست میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا سید عبدالمالک فاضل نصرۃ العلوم اور مولانا حق نواز فاضل نصرۃ العلوم بھی مدرسے میں فرائض تدریس انجام دیتے ہیں۔ ناظم مدرسہ حافظ عبدالقدوس کشمیری ہیں ۔ شعبہ حفظ وناظرہ میں قاری عبدالصمد مصروفِ کار ہیں۔ پرانے مدرسین میں مولانا عبدالقدیر ، مولانا نور محمد، مولانا محمد شکیل، مولانا محمد چراغ، مولاناقاضی شمس الدین اور مولانا عبدالواحد کے نام قابل ذکر ہیں۔ مدرسے کے ہزاروں ممتاز فاضلین میں درج ذیل اصحاب خاصے معروف ہیں: 
۱۔ مولانا محمد سرفراز خان صفدر ، شیخ الحدیث و صدر مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
۲۔ مولانا صوفی عبدالحمید سواتی، مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
۳۔ مولانا قاضی عصمت اللہ ، مہتمم و صدر مدرس مدرسہ محمدیہ قلعہ دیدار سنگھ
۴۔ مولانا عبدالرحمن جامی، سابق خطیب شاہی مسجد لاہور
۵۔ مولانا مفتی عبدالمتین ، سابق قاضی ضلع پونچھ
۶۔ مفتی جعفر حسین مجتہد ( پاکستان میں شیعہ مکتب فکر کے امام اور سابق مہتمم جامعہ جعفریہ) 
۷۔ مفتی بشیر حسین ، ( بریلوی مکتب فکر کے مشہور عالم دین)
مدرسے کا مسلک حنفی دیوبندی ہے۔ دارالافتاء میں رجسٹر اور نقل کا انتظام نہیں۔ 

مدرسہ حنفیہ رضویہ سراج العلوم 

محلہ اسلام آباد گوجرانوالہ میں زینت المساجد سے ملحق گوجرانوالہ کی ایک اہم دینی درسگاہ ہے۔ مہتمم مولانا ابوداود محمد صادق ہیں۔ مولانا موصوف جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ ایک جید عالم دین ، ایک اعلیٰ درجے کے مصنف اور فصیح اللسان مقرر ہیں۔ مدرسے میں ان کی ذات گرامی محو ر و مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ برہان صادق، پیغام صادق، نورانی حقائق ، روحانی حقائق کے علاوہ دیگر بہت سی کتب ان کی تصنیفی کاوشوں کی شاہکار ہیں۔ ماہنامہ ’ رضائے مصطفی‘ ان کی زندہ اور شگفتہ تحریروں کا حسین مرقع ہے۔
یہ مدرسہ مسلک حنفی بریلوی کی گوجرانوالہ میں اولین اور سب سے بڑی درسگاہ ہے جس کا انتظام انجمن خدام الصوفیہ کے سپرد ہے۔ مدرسے کا نام امام ابوحنیفہ ، مولانا احمد رضاخاں بریلوی اور شاہ سراج الحق گورداسپوری کے اسمائے گرامی کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ مولانا ابوداود محمد صادق کے استاد اور پیر ومرشد مولانا سردار محمد لائل پوری نے ۱۹۵۵ء میں افتتاح فرمایا۔ مدرسے کا نصاب درس نظامی پر مشتمل ہے تاہم مثنوی مولائے روم بھی سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی ہے۔ افتاء کا انتظام ہے ، مولانا موصوف خود ہی یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ مدرسہ دو عمارتوں پر مشتمل ہے۔ طلبہ کے قیام وطعام کاعمدہ بندوبست ہے۔
فاضلین میں مولانا سعید احمد مجددی، مولانا خالدحسن مجددی، مولانا سید مراتب علی شاہ، مولانا محمد اکرم رضوی ، مولانا سید شبیر حسین حافظ آبادی ، مولانا صداقت علی حنفی اور مولانا فیض القادری کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ اس وقت ڈیڑھ سو طالب علم زیر تعلیم ہیں ، جن میں ۸۰ طلبہ مستقل طور پر مدرسہ میں رہائش پذیر ہیں۔ مدرسے کا کتب خانہ دینی کتب کا نہایت عمدہ ذخیرہ ہے۔ مدرسے کے ابتدائی مدرسین میں مولانا محمد احسان الحق اور مولانا عبداللطیف کے نام سرفہرست ہیں۔ مدرسے کا تبلیغی شعبہ نہایت فعال ہے۔ پچھلے ۲۵ برس سے ماہنامہ ’ رضائے مصطفی‘ بریلوی مکتب فکر کی ترجمانی کا فرض انجام دے رہا ہے۔ مدرسے کی ایک شاخ حافظ آباد روڈ پر کلر آبادی میں بھی ہے ۔ مدرسے میں شعبہ حفظ وناظرہ بھی موجود ہے۔ اس وقت پانچ مدرسین فرائض تدریس انجام دے رہے ہیں۔ 
اس ادارے کے بانی مولانا ابوداود محمد صادق ہیں۔ ۱۹۲۹ء بمقام کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق اعوانوں کے ایک معزز خاندان سے ہے۔ آپ کے والد کانام شاہ محمد ہے۔ قرآن مجید ناظرہ اور پرائمری تک اردو تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کے علوم عربیہ کے منتخب نصاب درس نظامی کی کتب جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف، مدرسہ نقشبندیہ علی پور شریف اور جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد میں پڑھیں۔ ۱۵؍ شعبان المعظم ۱۳۶۹ھ کو سندِ فراغت حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا محمد شریف کوٹلوی ، مولانا حاجی عبدالغنی، قاری یوسف علی بریلوی، مولانا محمد آل حسن سنبھلی، مولانا عبدالرشید جھنگوی اور مولانا سردار احمد فیصل آبادی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
مولانا محمد صادق نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد سے کیا۔ ایک سال بعد گوجرانوالہ چلے آئے اور جامع مسجد زینت المساجد میں خطابت کے فرائض انجام دینے لگے۔ اہل دل جذباتِ شوق لیے آپ کے خطاب سے خوشہ چینی کرنے لگے ۔ آج تک آپ اسی جامعہ مسجد میں خطابت کی ذمہ داریوں سے عہد برآ ہو رہے ہیں ۔ ان دنوں آپ کے ہم مسلک علماء کسی معیاری دینی درسگاہ کے قیام کے لیے کوشاں تھے ۔ آپ نے اس خلا کو پر کرنے کے لیے جامعہ حنفیہ رضویہ سراج العلوم کے نام سے دینی ادارہ قائم کیا ۔ جس کی تفصیلات اس مضمون میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
آپ نظریہ پاکستان کے فدائی عاشق ناموسِ رسالت اور محبِ وطن عالم دین ہیں۔ آپ نے اپنی تقاریر اور خطبات میں ہمیشہ اسلام اور وطنِ عزیز سے غیر متزلزل وابستگی کا درس دیاہے۔ آپ سنت رسول ﷺپر سختی سے کاربند ہیں اوراپنے متعلقین ، تلامذہ اور عقیدت مندوں کو بھی عشق رسول ﷺ کے تقاضوں کی بجاآوری کی خاطر تعلیمات مصطفوی پر دل و جان سے عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ آپ مولانا سردار احمد فیصل آبادی کے شاگرد رشید ہونے کے علاوہ انہی سے بیعت بھی تھے۔ انہوں نے آپ کو خلافت بھی عطا فرمائی۔ آپ نے رشد وہدایت کے ایمان افروز سلسلے کی بدولت بہت سے گم گشتگانِ منزل کی راہنمائی فرماتے ہوئے انہیں صراطِ مستقیم پر گامزن کیا ہے۔ آپ تبلیغ اسلام کے شیدائی اور ترویجِ اقدار اسلامی کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔ اصلاح معاشرہ اور انسدادِ رسوم باطلہ کے سلسلہ میں آپ کی تقاریر ہمیشہ موثر ثابت ہوئی ہیں ۔ آپ کے پر تاثیر مواعظ عوام کے دلوں پر اثر کرتے اور انہیں گدازِ ایمانی سے آشنا کرتے ہیں۔ 
آپ معروف خطیب ، مبلغ اور استاد ہی نہیں بلکہ صاحبِ قلم بھی ہیں۔ آپ کی سرپرستی میں ماہنامہ ’ رضائے مصطفی‘ تبلیغِ دین کے سلسلہ میں شاندار کردار ادا کر رہاہے۔ آپ نے متعدد تصانیف کے علاوہ مختلف تبلیغی اور علمی موضوعات پر درجنوں تبلیغی اشتہارات بھی تحریر فرمائے ہیں جو ایک لاکھ سے زائد تعداد میں شائع ہو چکے ہیں۔ قرطاس وقلم کے سلسلے میں آپ کی یہ تبلیغی کاوشیں بلاشبہ لائق ستائش ہیں۔ آپ کے بہت سے تلامذہ مذہبی و دینی حلقوں میں نام پیدا کر چکے ہیں جن میں مولانا سید مراتب علی شاہ، مولانا محمد اکرم رضوی، مولانا محمد صدیق، مولانا محمد شریف، مولانا سید شبیر حسین حافظ آبادی، مولانا صداقت علی فیضی اور مولانا فیض القادری خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ مولانا محمد صادق کی زندگی کا محور یہ شعر ہے:
تمنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام کر جائیں
اگر کچھ ہو سکے تو خدمتِ اسلام کر جائیں 
( کوائف ماخوذ از تعارف علمائے اہل سنت : مرتبہ مولانا محمد صدیق ہزاروی) 

مدرسہ اشرف العلوم

باغبانپورہ حافظ آباد روڈ پر جامع مسجد اشرفیہ سے ملحق شہر کی اہم دینی درسگاہ ہے۔ مدرسے کا مسلک حنفی دیوبندی ہے۔ مدرسے کا انتظام ایک مجلس متنظمہ کے ماتحت مہتمم مدرسہ محمد نعیم اللہ کی ذاتی نگرانی میں ہے۔ ناظم مدرسہ حافظ محمد معین ہیں۔ 
۱۔مولانامحمود حسن ، صدر مدرس فاضل جامعہ اشرفیہ 
۲۔ مولانا محمد ہاشم ، فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم 
۳۔ مولانا خلیل احمد ، فاضل نصرۃ العلوم 
۴۔ مولانا عبدالخالق، فاضل جامعہ اشرفیہ 
۵۔ مولانا قاری عبدالصمد ، فاضل جامعہ اشرفیہ 
۱۹۵۲ء میں مولانا مفتی محمد حسن ( جامعہ اشرفیہ لاہور) خلیفہ مجاز مولانا اشرف علی تھانوی کی سرپرستی میں مولانا محمد خلیل کی زیر نگرانی مدرسے کا اجراء ہوا۔ ابتداءً مسجد شیخاں گوجرانوالہ میں تدریس کا کام شروع ہوا بعدازاں یہ درسگاہ مسجد عبداللہ خونی میں منتقل ہوئی۔ امتدادِ وقت کے ساتھ ساتھ توسیع مدرسہ کے لیے مختلف مقامات زیر غور آئے۔ ایک تجویز سول لائنز میں منتقل کرنے کی تھی مگر کثرت رائے سے بعد میں مدرسہ اپنی موجودہ جگہ پر باغبانپورہ میں شروع کیا گیا۔ بانی مدرسہ مفتی محمد خلیل کو مفتی محمد حسن سے شرفِ بیعت حاصل تھا اورمفتی محمد حسن برصغیر کے نامور فقیہ مولانا اشرف علی تھانوی سے بیعت تھے۔ انہی کے نام پر مدرسے کا نام اشرف العلوم رکھا گیا ۔ مدرسے کا نصاب درس نظامی ہے، مگر یہاں دورۂ حدیث نہیں ہوتا۔ زیادہ زور حفظ وناظرہ اور تجوید وقرات پر دیا جاتا ہے۔ یہ اقامتی ادارہ ہے ۔ طلبہ کودیگر مراعات کے ساتھ ۵ روپے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ طلبہ کی مجموعی تعداد ۱۲۲ ہے۔
مدرسے نے اہم سیاسی خدمات بھی انجام دی ہیں ۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں مرحوم مفتی محمد خلیل گرفتار ہوئے۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں اہم خدمات انجام دیں۔ جس میں مفتی صاحب اور مولانا محمد نعیم مضرو ب بھی ہوئے۔
اہم فاضلین یہ ہیں: ۱۔ مولانا عبدالحکیم ( گلگت اسمبلی کے سابق رکن)، ۲۔ مولانا عبدالقیوم ( سکردو)۔
مدرسہ وفاق المدارس سے منسلک ہے۔ مدرسہ کے ارباب بست وکشاد درس نظامی میں اصلاح کے نہیں ترمیم کے قائل ہیں۔ دارالافتاء تو ہے مگر رجسٹر کا انتظام نہیں ۔ مدرسے کا کتب خانہ نہایت وقیع ہے جس میں چند نایاب قلمی نسخے بھی ہیں ۔

جامعہ اسلامیہ چاہ شاہاں والا

آبادی حاکم رائے چاہ شاہاں والا حافظ آباد روڈ کے قریب گنجان آبادی میں مسلک اہل حدیث کی ایک شاندار درسگاہ ہے۔ مدرسے کا انتظام ایک مجلس منتظمہ چلاتی ہے۔ ۱۳۷۰ھ بمطابق ۱۹۵۰ء میں شیخ الجامعہ حافظ محمد گوندلوی نے جامعہ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت ایک کمرہ ، دو استاد اور ۱۰ طلبہ تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگرچہ کمروں میں اضافہ ہو چکا ہے ، ایک ہال بھی ہے مگر تعلیمی افادیت کے مقابلے میں جگہ قلیل ہے ۔ مستقل طلبہ کی تعداد ۷۵ ہے ۔ دارالاقامہ میں ۵۶ طلبہ رہائش پذیر ہیں۔ حفظ وناظرہ اور تجوید کا نہایت مناسب انتظام ہے۔ جامعہ کی لائبریری میں کل ۳۵۰۰ کتابیں ہیں جن میں چند قلمی نسخے بھی ہیں۔
جامعہ کے سرپرست حافظ محمد گوندلوی ہیں۔ مہتمم اور صدر مدرس کے فرائض مولانا ابوالبرکات احمد مدراسی انجام دیتے ہیں جو فاضل دارالکتاب والسنہ دہلی ، فاضل مدرسۃ العالیہ مدراس، فاضل افضل العلماء مدراس یونیورسٹی ہیں۔ 
حافظ محمد گوندلوی جو آغاز کار میں مدارس عربیہ کے فارغ التحصیل علماء کو درس اعظم کے نام سے درس دیتے تھے، اب پیرانہ سالی کے باوجود گاہ گاہ بحیثیتِ سرپرست اپنے فیوض سے نوازتے رہتے ہیں۔ حافظ صاحب دورِ حاضر کے عظیم محدثین میں سے ہیں۔ آپ سلف صالحین کی زہد پرور زندگی کا نمونہ اور علمائے اسلام کی عظیم نشانی مسلک اہل حدیث کے ممتاز عالم دین ہیں۔عصرِ حاضر میں کم بلکہ کم لوگ ایسے ہیں جن کی نگاہ علوم الحدیث کی ان گہرائیوں تک جاتی ہے جہاں تک موصوف کی نگاہ دور رس پہنچی ہے۔ آپ کا مولد گوجرانوالہ کے مضافات میں موضع گوندانوالہ ہے۔ تاریخ پیدائش قطعی طورپر تو معلوم نہیں ہو سکی۔ قرائن وشواہد سے ۱۸۸۵ء کے لگ بھگ ہے۔ 
تعلیم کے سلسلے میں پہلے مرحلے میں آپ امرتسر تشریف لے گئے ، وہاں صرف ، نحو ،منطق جیسے علوم مولوی محمد حسین ہزاروی سے پڑھے اور علوم حدیث کے لیے مولانا عبدالجبار غزنوی ( والد مولانا داود غزنوی) اور مولانا عبدالاول کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ یہ سلسلہ تعلیم کوئی ۵ سال تک رہا۔
بعد ازاں طبیہ کالج سے طب میں اول آئے ، یہیں مولوی عبدالرزاق سے منطق بھی پڑھی اور ۱۹۱۹ء میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ واپسی پر گوندانوالہ میں مدرسہ نصرۃ العلوم قائم کر کے تدریس کا آغاز کیا۔ جن جن اداروں میں آپ فرائض تدریس انجام دیتے رہے، ان کے نام یہ ہیں: مسجد رحمانی دہلی، مدرسہ اوڈانوالہ ضلع فیصل آباد، جامعہ محمدیہ چوک نیائیں گوجرانوالہ ، جامعہ سلفیہ فیصل آباد، جامعہ اسلامیہ شاہانوالہ ، اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ ، جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ ۔ 
علامہ موصوف برصغیر کے نامور اساتذہ حدیث میں سے ہیں۔ ان کے بے شمار تلامذہ میں مولانا عبیداللہ مبارک پوری ( صاحب مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح) ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا محمد اسماعیل سلفی ، حافظ عبدالجبار بڈھی مالوی، حافظ محمد اسحاق مدرس تقویۃ الاسلام لاہور، مولانا محمد عمر اچھروی، مولانا مفتی محمد بشیر گوجرانوالہ اور علامہ احسان الٰہی ظہیر شامل ہیں۔ 
آپ نے تین مختلف سندوں سے علم حدیث کی تحصیل کی ۔ ایک واسطہ تو حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تک پہنچتا ہے ، دوسرے دو واسطے قاضی شوکانی صاحب نیل الاوطار تک جاتے ہیں۔
آپ نے عربی اور اردو میں بلند پایہ علمی کتابیں لکھی ہیں۔ عربی کتابوں کے نام یہ ہیں۔ زبدۃ البیان فی حقیقۃ الایمان، تحفۃ الاخوان(عقائد) ، بغیۃ الفحول( فقہ)، شرح مشکوۃ ( نامکمل و غیر مطبوعہ )۔ اردو کتابیں یہ ہیں: اثبات التوحید فی ابطال التثلیث ( پادری عبدالحق کی کتاب کا رد) ،ختم نبوت، تنقید المسائل، الاصلاح( ۴ حصے) ، ابداء الثواب۔التحقیق الراسخ۔
مولانا کم و بیش ۱۰۰ سال کے پیٹے میں ہیں ۔ بوجہ سالمندی اور ضعف پیری تو ایک فطری امر ہے اور بڑھاپے کے آثار وعوارض سے بھی مفر نہیں تاہم طبیعت میں شگفتگی اور مزاج میں حد درجہ کی سادگی ہے۔ 
علم کا کوہِ گراں اور قرآن وحدیث پر ماہرانہ دسترس رکھنے والا یہ عربیت کا بحر بے کنار ہر طرح کے کھوکھلے پن سے یکسر عاری ہے ۔ نہ تکلف نہ تصنع نہ شملہ بمقدار علم ، نہ جھوٹا علمی رعب، انکسار کا پیکر مگر وقار کی تصویر ۔ مدینہ منورہ میں رات کو اس کے درس بخاری میں شیوخ حرم بیٹھتے تو دراز دامن ہو کر بیٹھتے ۔ یہ فصیح عربی میں گھنٹوں بخاری کا درس دیتا اور اہلِ زبان انگشت بدنداں رہ جاتے ۔ زبان حال سے پکار اٹھتے۔ 
؂ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں ہے
کسی کو مسلک کا اختلاف ہوتو ہو مگر اہل علم میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ان کی علمی سطوت کا معترف نہ ہو۔ ان کی صحبت میں بیٹھ کر یوں لگتا ہے کہ تفقہ فی الدین اور رسوخ فی العلم کا ہمالہ ہے جس کی بلندیوں کو دیکھتے ہی بڑے بڑوں کو پگڑی سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ 
اس ادارے کے شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمد مدراسی ، مدراس کے مشہور قصبہ چمناڈ (chemnad) میں مولانا محمد اسماعیل کے ہاں ۱۹۲۶ء کو تولد ہوئے۔ آپ کا خاندان اگرچہ زراعت کے پیشہ سے متعلق تھا مگر اپنے علم وتقویٰ کی بنا پر پورے علاقہ میں خاص شہرہ رکھتا تھا۔ آپ کے جد امجد مولانا محمد صاحب اور ماموں مولانا محمد زکریا صاحب کا جید علماء میں شمار ہوتا تھا ۔ آپ کی والدہ علوم قرآن کی ماہرہ تھیں اور خواتین کے لیے حلقہ ارشاد وتدریس قائم کر رکھا تھا۔ 
آپ انگریزی طرز کے اسکول میں مڈل تک رسمی تعلیم کے بعد علوم دینیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ المدرسۃ العالیہ چمناڈ یعنی عربک کالج سے عربی درسیات اور علوم متداولہ کی تکمیل کی۔ غیر منقسم ہندوستان المدرسۃ العالیہ چمناڈ شافعی مسلک کی درسیات کا عظیم ترین مرکز تھا۔ 
تفسیر وحدیث ، منطق وفلسفہ اور تاریخ میں آپ کے استاد محمد ابوالصلاح تھے جو اپنے دور کے وحید العصر عالم تھے۔ صرف ونحو ، بلاغت اور عربی ادب کی تکمیل مولانا محمد عباس جیسے بلندپایہ عالم سے کی۔ فقہ و اصول فقہ میں مہارت کے لیے علامہ محمد کانن گاڈی کے خوان علم سے استفادہ کیا۔ اس کے بعد حنفی مسلک کے عدیم النظیر استاد مہر محمد سے حنفی فقہ ، علم الکلام ، منطق وفلسفہ کے اسباق پڑھے۔ فقہ احناف ، منطق و فلسفہ اور علم الکلام میں مہارت تامہ حاصل کی۔ 
؂ تمتع زہر گوشہ یافتم 
فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک سال تک مدرسۃ العالیہ چمناڈ میں تدریس کے فرائض انجام دیے ۔ اس کے بعد جامعہ الازہر قاہرہ میں عربی زبان پر تحریر و تکلم کی مکمل استعداد کے لیے رختِ سفر باندھا ۔ پاسپورٹ وغیرہ کے مراحل طے ہوجانے کے بعد آپ بمبئی پہنچے مگر اس دوران میں الازہر کے طلبہ نے شاہِ فاروق کے خلاف اخوان کی حمایت میں تحریک کا اعلان کیا تو الازہر کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا۔اس طرح الازہر کے علمی گہوارہ میں تحصیل علم کی آرزو تشنہ تکمیل رہی۔ چند ماہ بعد پاکستان معرض وجود میںآیا تو وطن مالوف جانے پر دشواری ہوئی۔ آپ نے پاکستان ہجرت کی اور ماموں کانجن اوڈاں والا کے معروف علمی مدرسہ میں وارد ہوئے۔ چند ماہ تک تدریس کے فرائض انجام دیے ۔ اس اثنا میں گوجرانوالہ میں مولانا محمد گوندلوی کے رسوخ فی العلم اور درس حدیث کی شہرت سن کر گوجرانوالہ میں منتقل ہوگئے اور حافظ محمد گوندلوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ان سے اصولِ تفسیر ، اصول حدیث ، علوم القرآن ، علوم الحدیث ، فلسفہ اور اسرار الشریعۃ میں استفادہ کے بعد سند فراغت حاصل کی۔ 
حضرت مولانا محمد گوندلوی الجامعۃ الاسلامیہ چاہ شاہاں والا میں مہتم اعلیٰ اور صدر مدرس تھے۔ آپ نے ۱۹۵۰ء میں درس نظامی اور علوم اسلامیہ کے محنتی طلبہ کی تدریس کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور حافظ محمد گوندلوی کے مدینہ منورہ لے جانے اور پھر گوشہ نشین ہوجانے کے بعد آپ اس معروف علمی ادارہ کے سربراہ اور صدر مدرس مقرر ہوئے اور تادمِ تحریر یہ ذمہ داریاں خوش ا سلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔ 
مولانا ابوالبرکات احمد الجامعۃ الاسلامیہ کے دارالافتاء کے صدر مفتی ہیں اور گذشتہ ۲۵ سال کے دوران میں ہزاروں فتاوی صادر کر چکے ہیں۔ مولانا ابوالبرکات احمد علم وعمل کی ایک جامع اور زندہ تصویر ہیں۔ نامور اور صاحبِ بصیرت عالم ہونے کے ساتھ آپ زاہد مرتاض حد درجہ متوکل انسان ہیں۔ زہد وقناعت ، فقر و غنا ، انکسار و تواضع ، ایثار وعلم ، متانت و ثقاہت اور خوش خلقی اور شرینی گفتار میں آپ فی الواقعہ اس زمانے میں آیۃ من آیات اللہ کا مصداق ہیں۔ آپ اپنے کردار و اوصاف میں سلف صالحین کا چلتا پھرتا پیکر ہیں۔ (سوانحی خاکہ پروفیسر بشیر احمد تمنا نے فراہم کیا) 

جامعہ محمدیہ 

جی ٹی روڈ پر سرفراز کالونی سے شہر گوجرانوالہ کی جانب شاہراہ کے مغربی جانب مسلک اہل حدیث کی عظیم درسگاہ ہے۔ ابتدا میں درسگاہ مدرسہ محمدیہ کے نام سے چوک نیائیں کے قریب تھی۔ بانی مولانا محمد اسماعیل سلفی تھے جنہوں نے ۱۹۲۱ء میں اس کی بنیاد رکھی۔ مولانا حافظ محمد گوندلوی نے روزِ اول ہی سے فرائض تدریس سنبھالے اور آج تک جامعہ سے وابستہ ہیں۔ صرف وہ وقفہ مستثنیٰ ہے جس میں کچھ دیر کے لیے وہ تدریس حدیث کے لیے فیصل آباد اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ 
۱۹۶۸ء میں مولانا سلفی کی وفات پر مدرسے کا بار انصرام مولانا عبداللہ کے کندھوں پر آ گیا۔ جامعہ کی عمارت وسیع رقبہ پر ہے جس میں ایک مسجد بھی ہے ۔ اقامت کے لیے ۳۵ کمرے ہیں۔ ۲۵ نچلی منزل میں اور ۱۰ بالائی منزل پر ۔ ۸ تدریسی کمرے ہیں ۔ کھیل کود کے لیے ایک وسیع گراؤنڈ بھی ہے۔ آغاز سال میں ۱۵۰ طلبہ ہوتے ہیں اور آخر میں عموماً ۱۲۵ طلبہ کامیاب ہوتے ہیں۔ دورہ تفسیر وحدیث میں ۱۰ طلبہ ہوتے ہیں۔ 
جامعہ کا نصاب تو درس نظامی ہی ہے مگر ادب و انشاء اورا نگریزی زبان کی تدریس پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ تفسیر ، حدیث، فلسفہ اسلامی، فرائض ، ہیئت ، بلاغت وغیرہ کے ساتھ ساتھ تاریخ ، ادب عربی، انٹر میڈیٹ تک کی انگریزی بھی پڑھائی جاتی ہے۔ 
اساتذہ : صدر مدرس مولانا محمد عبداللہ، حافظ عبدالمنان ، مولانا عبدالحمید، مولانا محمد اعظم ، مولانا حافظ محمد الیاس، مولانا حافظ محمد یحییٰ ، مولانا رحمت اللہ ، مولانا قاری سیف اللہ۔ 
اکثر اساتذہ اسی جامعہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ جامعہ میں دارالافتاء تو ہے مگر رجسٹر نہیں۔ مدرسے کاسیاسی مسلک تحریکوں سے علیحدگی اختیار کرنا ہے۔ طلبہ کی جمعیت بھی ہے ۔ ۸ سالوں پر محیط تدریسی پروگرام میں درس نظامی کس حد تک حک واضافے کے ساتھ رائج ہے تاہم فقہی مسالک کا اختلاف اور ان پر نقد ونظر جامعہ کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ کتب خانے میں ایک ہزار سے زیادہ علمی کتابیں ہیں۔ 
فاضلین میں اہم ترین کے اسمائے گرامی ہیں:
مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا محمدحنیف ( رکن ادارہ ثقافت اسلامیہ ) ، مولانا حافظ محمد عبداللہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد، مولانا امام خاں نوشہروی ، علامہ احسان الٰہی ظہیر، مولانا عبدالمجید سوہدری ( مدیر مجلہ اہل حدیث)، مولانا معین الدین لکھوی، ( امیر جمعیت اہل حدیث پاکستان)، مولانا محمد عبداللہ ( موجودہ صدر مدرس) ، پروفیسر محمد ( پروفیسر سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور)، قاری احم دین ( معہد علمی مکہ مکرمہ) ، مولانا محموداحمد میرپوری ( انگلستان) ۔
مولانا سلفی ایک بلند پایہ عالم تھے۔ ان کی کتابوں میں ذیل کے علمی کارنامے ان کے مرتبہ علمی کے شاہد عادل ہیں:
اثبات التوحید فی ابطا ل التثلیث( پادری عبدالحق کی کتاب کا رد) ،،سنت خیر الانام، درسہ وتر بیک سلام، ارشاد القاری الیٰ نقد کتاب فیض الباری، باعانت مولانا عبدالمنان، تحریک آزادی فکر، رسول اکرم ﷺ کی نماز، حجیت حدیث، ترجمہ مشکوۃ المصابیح نصف اول، سبعہ معلقہ کی شرح۔ 
جہاں تک جامعہ کے مہتمم مولانا محمد عبداللہ کا تعلق ہے، وہ فی الواقع علم وعمل کی چلتی پھرتی تصویر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت لالہ وگل کی حنا بندی بھی خود کرتی ہے اور گلستان کے نکھار و وقار کا سامان بھی۔ اسی طرح علمی اور دینی افق درخشندہ ستاروں سے کبھی محروم نہیں رہا۔ پھلنا ، پھولنا اور پھیلنا شاخ ہاشمی کا مقدر ہے اور ملتِ بیضا کی عظمت و رفعت ہماری تاریخ کی ایک درخشاں روایت بھی ہے اور روشن حقیقت بھی۔ گوجرانوالہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے فطرت کی طرف سے بہترین دینی دماغ عطا ہوئے۔ انہی میں مولانا محمد عبداللہ کا شمار ہوتا ہے جو مولانا محمد اسماعیل سلفی کے بعد دین حق کی تبلیغ واشاعت میں پوری تندہی سے مصروف عمل ہیں۔ 
آپ ۱۹۲۰ء کو چک نمبر ۱۶ شاخ جنوبی تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ۱۹۳۴ء میں مدرسہ محمدیہ چوک نیائیں گوجرانوالہ میں داخل ہوئے۔ یہیں مولانا محمد اسماعیل سلفی اور مولانا حافظ محمد گوندلوی سے قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کی اور درس نظامی کی تکمیل کی۔ اسی تعلیم کے دوران میں، آپ نے ۱۹۳۸ء میں پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۴۲ء میں مولوی فاضل کیا اور شہر کی مختلف مساجد میں درس و خطابت کا سلسلہ جاری کیا اور ساتھ ہی جامعہ محمد یہ میں بطور مدرس کام کرتے رہے۔ ۱۹۶۰ء میں علماء اکیڈمی کوئٹہ سے سپیشل کورس پاس کیا۔ بعد ازاں اخوان اہل حدیث کے نام سے ایک تنظیم اور جامعہ شرعیہ کے نام سے ایک دینی ادارہ قائم کیا ۔ یہی ادارہ بعدازاں جی ٹی روڈ پر منتقل ہوا۔ بعد میں اخوان اہل حدیث کو جمعیت اہل حدیث میں جامعہ شرعیہ کو جامعہ محمدیہ میں مدغم کر دیا گیا اور مولانا سلفی کی وفات کے بعد مرکزی جامع مسجد میں خطیب مقرر ہوئے۔ 
آپ کی زیرنگرانی جامعہ محمدیہ اپنی روایتی شان کے ساتھ رواں دواں ہے ۔ رسالہ الاسلام، مجلس علماء اہل حدیث اور اسلامی دارالمطالعہ آپ ہی کی فکرِ رسا کے شاہکار ہیں۔ علم وعرفان کے اس چشمہ صافی سے سیراب ہونے والوں کی صحیح تعداد کا تو اندازہ نہیں مگر چند نام در ج ذیل ہیں:
حافظ عبدالغفور جہلمی، مولانا خالد گرجاکھی، پروفیسر قاضی مقبول احمد ، مولانا بشیر الرحمن، مولاناعبدالرحمن الواصل، مولانا حافظ عبدالمنان ، مولانا محمد یوسف ضیا، مولانا محمد مدنی، مولانا عطاء الرحمن شیخوپوری، مولانا عبدالقیوم سیالکوٹی، علامہ فضل الٰہی ( ریاض یونیورسٹی)، مولانا حبیب الرحمن یزدانی، مولانا حافظ محمد قاسم ، مولانا محمد رفیق دین پوری۔ 
(معلومات جناب پروفیسر حافظ محمد ارشد کی وساطت سے ملیں) 

جامعہ عربیہ

آغاز کار میں کھیالی گیٹ گوجرانوالہ کی مسجد آرائیاں میں مدرسہ عربیہ کے نام سے ۱۹۳۶ء میں مدرسہ جاری ہوا۔ خان بہادر مولانا امام الدین نے مدرسہ کی بنیاد رکھی ۔ مہتمم چودھری نیاز علی تھے اور صدر مدرس مولانا محمد چراغ ( فاضل دارالعلوم دیوبند)۔ مولانا موصوف مولانا انور شاہ کشمیری کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔ ان کی شرح جامع ترمذی ’العرف الشذی‘ دنیائے علم ودانش میں خاص شہرت کی حامل ہے۔ عرصہ دراز تک اس مختصر سی عمارت میں تشنگانِ علم افغانستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے علم کی پیاس بجھانے کے لیے آتے رہے۔ مولانا ہمیشہ اس فکر میں رہتے کہ علماء کی ایک ایسی جماعت تیار ہوجولا دینی طاقتوں اور الحادی نظریات کا مقابلہ کر سکے ۔ اس مقصد کے لیے در س نظامی کی عام ڈگر سے ہٹ کر نصاب میں اہم اور بنیادی تبدیلیاں کیں جہاں ایک طرف تو عصری تقاضوں سے ہم آہنگی پر زور دیا جاتا ہے، دوسرے ادب وا نشاء کو نصاب کا ایک اہم حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ۲۵ جمادی الثانیہ ۱۳۸۷ھ بمطابق یکم اکتوبر ۱۹۴۶ء کو پاکستان کی شاہراہ پر گوجرانوالہ شہر کے جنوب میں حضرت مولانا شاہ ولی اللہ کے ہاتھوں جامعہ کا سنگ بنیاد رکھوایا۔ 
دعوت وارشاد کے سلسلے میں مولانا موصوف نہایت قابل ہیں۔ ہزارہا لائق اور فاضل تلامذہ تیار کیے۔ برصغیر کے مختلف مقامات کے دورے کر کے شرک وبدعت ، قادیانیت ، عیسائیت اور فتنہ انکارِ حدیث کے خلاف نتیجہ خیز کام کیا۔ آج بھی جامعہ کے فضلاء کے پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، انگلستان، یوگنڈا، موریشس میں تعلیم اور تبلیغ اسلام میں منہمک ہیں۔ شیخ الجامعہ نے فرنگی دور میں آزادی وطن کی تحریک میں بارہا قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ادب وانشاء کے میدان میں ہفت روزہ ’’ گلدستہ ‘‘ اور ہفت روزہ ’’ صوت الجامعہ ‘‘ طلبہ کے مضامین سے طلبہ ہی کی ادارت میں ترتیب پاتے ہیں جن میں دینی، سیاسی، معاشرتی اور علمی موضوعات پر عام فہم اور شگفتہ تحریریں پیش کی جاتی ہیں۔ جمعیت طلبہ کے نام سے ایک انجمن بھی قائم ہے۔ 
۱۹۴۷ء سے پنجاب یونیورسٹی لاہور اور ثانوی تعلیمی بورڈ کے امتحانات مولوی ، مولوی عالم، مولوی فاضل کی تدریس کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔ جامعہ کا دارالکتب نہایت شاندار ہے جس میں سراجی اور شریفیہ شرح سراج جیسی بلند پایہ کتابوں کے قلمی نسخے بھی موجود ہیں۔ گوجرانوالہ کے نامور عالم دین اور محقق مرحوم پروفیسر عبدالحمید صدیقی کی گراں مایہ کتب کا ذخیرہ بھی اسی دارالکتب کی زینت ہے۔ اولاً مولانا حافظ مفتی محمد خلیل ( یہ اشرف العلوم والے مفتی صاحب نہیں) افتاء کی خدمت انجام دیتے رہے۔ 
جامعہ کے نصابِ تدریس میں علوم القرآن، علوم الحدیث، فقہ، افتاء، مذاکرہ عربی ادب، فلسفہ وکلام، ادیان و فرق ، فلسفہ تاریخ ، انگریزی زبان اور طب یونانی شامل ہیں۔ شعبہ حفظ وتجوید بھی قابل قدر ہے۔ 
جامعہ کی انتظامیہ حسبِ ذیل ہے: مولانا محمد چراغ (مہتمم) ، مولانا حافظ محمد انور ( ناظم اعلی)، مولانا حافظ نذیر احمد ( ناظم مالیات)، مولانا محمد عارف (ناظم تعلیمات)، مولانا سید عبدالخالق شاہ گیلانی، ( نائب ناظم اعلیٰ) ۔
فاضلین کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے جن میں چند ایک کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔:
مولانا عبدالخالق طارق( پرنسپل اسلامک انسٹی ٹیوٹ جنجا ،(یوگنڈا)،مولانا منور حسین شاہ مشہدی صدر پیغام اسلام ٹرسٹ ( انگلینڈ)، مولانا محمد حیات (فاتح قادیاں) مولانا منظور احمد چنیوٹی ،( مہتمم جامعہ عربیہ چنیوٹ)، مولانا مفتی جعفر حسین ( سابق پرنسپل جامعہ جعفریہ)، مولانا محمد زکریا ( مہتمم مدرسہ انوارالعلوم کراچی)، مولانا حافظ محمد انور ( مدرسہ باب الاسلام کراچی)، قاضی عصمت اللہ ( مہتمم مدرسہ محمدیہ قلعہ دیدار سنگھ)، مولانا قاضی عبداللطیف ( قاضی حکومت آزاد کشمیر) ، مولانا غازی شاہ نصرۃ العلوم، مولانا عبدالشکور ( کامونکے) 
مدرسہ کا میزانیہ ۴ لاکھ ہے ۔ تعمیر کا خرچ اس کے علاوہ ہے۔ وفاق المدارس سے الحاق نہیں۔ مسلک میں راہِ اعتدال کو مناسب سمجھا گیا ہے۔ 

مولانا محمد چراغ ؒ 

مولانا محمد چراغ ، کاموضع دھکڑ تحصیل کھاریاں، ضلع گجرات مولد ومنشاء ہے۔آپ کا خانوادہ مدتوں سے دور و نزدیک تک علم و آگہی کا منارِ نور رہاہے۔ 
اس گوہر شب چراغ نے ۱۴جمادی اخری ۱۳۱۴ھ حافظ کرم دین بن غلام رسول کے گھر میں آنکھ کھولی۔ حافظ صاحب موصوف ایک فرشتہ صفت انسان تھے اور کاشتکاری ذریعہ معاش تھا۔ انہیں مولانا رشید احمد گنگوہی سے والہانہ عقیدت تھی۔ فارسی زبان کا نہایت ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ مثنوی رومی اور دیوانِ حافظ جیسی کتابیں عموماً پاس رہتیں۔
بچپن ہی سے حضرت مولانا محمد چراغ پر اپنے والد گرامی کے تدین وتقویٰ کا رنگ گہرا تھا۔ گھر پر ہی ختم قرآن کے بعد آپ اپنے بڑے بھائی سراج الدین کے پاس لاہور چلے آئے۔ اس دوران میں مدرسہ نعمانیہ میں تحصیلِ علم کرتے رہے ۔ فارسی اپنے برادر بزرگ سراج الدین اور مولانا محمد عالم آسی ( صاحب الکاویۃ علی الغاویۃ) سے پڑھی ۔ انہی سے خوشنویسی بھی سیکھی۔ چار پانچ برس لاہور میں رہنے کے بعد موضع گنجہ تحصیل کھاریاں میں مولانا سلطان احمد گنجوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ علم صرف کی تکمیل کی ۔ علم نحو شرح ملا جامی تک اور علم منطق شرح تہذیب تک پڑھا۔ 

سفرِ دیوبند و سہارنپور

علمی تشنگی دور کرنے کے لیے آپ نے سفر دیوبند اختیار کیا مگر بوجوہ وہاں دل نہ لگا تو آپ عازم سہارنپور ہو گئے۔ مدرسہ مظاہر العلوم میں حضرت مولانا محمد الیاس ( بانی تبلیغی جماعت) اور مولانا عبدالرحمن سے شرفِ تلمذ رہا۔ یہیں مولانا خلیل احمد ( صاحب بذل المجہود) کی زیارت بھی ہوئی۔ 

مراجعت

مظاہر العلوم سہارنپور میں مختصر قیام کے بعد واپس وطن تشریف لے آئے اور حضرت ولی اللہ کی خدمت میں دندہ شاہ بلاول ضلع کیمبل پور میں رہنے لگے۔ حضرت مولانا ولی اللہ اپنے دور کے اجل عالم دین تھے۔ تین سال تک علومِ متداولہ سے بہرہ یاب ہونے کے بعد پھر دارالعلوم دیوبند کا ارادہ کیا۔ 

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ

دندہ شاہ بلاول سے فارغ ہو کر دیوبند پہنچے تو شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی نے میبذی میں داخلے کا امتحان لیا اور آپ کو دورۂ حدیث میں شرکت کی اجازت مل گئی۔ 
آپ کے اساتذہ کرام میں وہ عظیم نام ہیں جن پر زمانہ ناز کرتا اور دنیائے علم و دانش مفتخر ہے۔

بخاری وترمذی

حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری ۔ مسلم شریف: مولانا محمد احمد والد گرامی قاری محمد طیب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند۔ سنن ابو داود: مولانا سید اصغر حسین شاہ ۔ سنن ابن ماجہ: مولانا رسول خاں ( جو بعد میں جامعہ اشرفیہ لاہور میں بھی حدیث پڑھاتے رہے )۔ سنن نسائی: مولانا شبیر احمد عثمانی۔ موطین ( موطاامام مالک اور موطاامام محمد): مفتی عزیز الرحمن برادر مولانا شبیر احمد عثمانی۔ 
یوں تو آپ نے ہر گوشے سے تمتع کیا اور ہر خرمن سے خوشہ چینی کی مگر خصوصیت کے ساتھ اپنے وقت کے نہایت جید عالم حدیث مولانا انور شاہ کشمیری سے جی بھر کر فیض اٹھایا۔ آپ ان کی تقریر بخاری کو عربی میں منتقل کرتے جاتے جس کا غیر مطبوعہ نسخہ آج بھی موصوف کے پاس محفوظ ہے۔ اس کا نام آپ نے’’ الشیخ الجاری الی جنۃ البخاری ‘‘ تجویز فرمایا ہے۔ بعدازاں اپنے شیخ کی تقریر ترمذی کو بھی عربی میں منتقل کر دیا۔ 
مولانا کا کہنا ہے کہ اس سال حضرت شاہ صاحب سے کوئی گہرا اور خصوصی تعارف نہیں ہوا تھا ۔ بس اتنا ہے کہ میں اور مولانا مظفر جہلمی حضرت شاہ صاحب کے سامنے بیٹھا کرتے ۔ ایک بار میں نے حضرت کے سامنے ترمذی کی عبارت پڑھی ۔ میری زبان چونکہ انتہائی تیز تھی ، اس لیے عبارت بھی تیز تیز پڑھی۔ حضرت نے فرمایا بھائیں( بھائی) اگر تم نماز بھی اس طرح پڑھتے ہو تو تمہاری نماز بھی صحیح نہ ہوگی اور نہ تمہارے ساتھ بیٹھنے والے کی(اشارہ تھا مولوی مظفر جہلمی کی طرف)۔دورہ حدیث کے اختتام کے قریب ایک عراقی شیخ عبدالغفور موصلی نے حضرت سے بخاری وترمذی کی کاپی دیکھی تو بخاری کی کاپی نقل کرنے کی درخواست کی ۔ حضرت نے از رہ دلداری تقریر نقل کر دی۔ 

العرف الشذی

آپ دورہ حدیث کے بعد واپس گھر آ گئے ۔ سالانہ تعطیلات میں اتفاقاً شیخ موصلی سے حضرت شاہ صاحب نے تقریر بخاری دیکھی ، انہوں نے کہا یہ شیخ سراج فنجابی( شیخ چراغ پنجابی) سے نقل کروائی ہے۔ اس پر حضرت شاہ صاحب متاثر ہوئے اور فرمایا اچھا میں تو نہیں سمجھتا تھا کہ اس زمانے میں بھی کچھ لوگ ذی سواد ہوتے ہیں۔ 
انہی دنوں مولانا مظفر جہلمی کی وساطت سے مولانا کو دیوبند بلوایا اور ترمذی کی پوری تقریر نوٹ کروائی۔ آپ نے دو نسخے تحریر کیے ۔ ایک حضرت شاہ صاحب کے لیے اور دوسرا اپنے لیے۔ حضرت شاہ صاحب نے اپنے نسخے میں کچھ حک واضافہ فرمایا جو بعد میں دوسرے ایڈیشن میں شامل اشاعت کر لیا گیا۔ 
تیسرے سال حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ حضرت شیخ الہند رہا ہو کر تشریف لا رہے ہیں، یہاں رہ کر ان کی تقریر لکھو۔ آپ وہیں ٹھہر گئے، مگر دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے حضرت شیخ الہند ترمذی نہ پڑھا سکے ( یہ ان کی زندگی کا آخری سال تھا)۔

تدریس

بعدازاں حضرت شاہ صاحب نے آپ کو میرٹھ میں بطور مدرس مقرر فرمایا۔ ایک سال تدریس کے بعد پنجاب لوٹ آئے۔ جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور اور مدرسہ انوارالعلوم شیرانوالہ گوجرانوالہ کے علاوہ کئی دوسری جگہوں پر علم ودانش کے چراغ جلائے۔ اس کے بعد ۱۹۳۱ء میں مسجد آرائیاں گوجرانوالہ میں مدرسہ عربیہ کی بنیاد رکھی ۔ یہاں بھی علم دین کے پروانے ٹوٹ پڑے تو یکم اکتوبر ۱۹۶۷ء کو جامعہ عربیہ ( موجودہ مقام) پر آغاز کار کیا گیا۔ تادمِ تحریر حضرت شیخ الحدیث مدظلہ العالی چراغ ہدایت سے قریب وبعید کو منور کر رہے ہیں۔ 

تصانیف

(۱) الشیخ الجاری الی جنۃ البخاری، (۲) العرف الشذی ( عالم اسلام میں معرکے کی شرح ترمذی)، (۳) رد مرزائیت کے بارے میں غیر مطبوعہ مواد ،(۴) رد عیسائیت پر مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحریریں۔
(جاری)

دینی مدارس میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائج

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

۱۴ نومبر ۲۰۱۷ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ اور اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ اسلام آباد کے اشتراک سے مغل محل گوجرانوالہ میں ’’مدارس دینیہ میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائج‘‘ کے عنوان پر ایک روزہ سیمینار منعقد ہوا جس میں پچاس کے قریب دینی مدارس کے سینئر اساتذہ اور منتظمین نے شرکت کی، جبکہ الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد زاہد اور دار العلوم کبیر والا کے استاذ الحدیث مولانا مفتی حامد حسن نے مختلف سیشنز کی صدارت کی۔ نقابت کے فرائض الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے جوائنٹ سیکرٹری حافظ محمد رشید اور اقبال انسٹی ٹیوٹ کے نمائندہ مولانا محمد یونس قاسمی نے انجام دیے۔ 
موضوع کی مناسبت سے راقم نے بعض نکات جو تحریری طور پر منتظمین کو پیش کیے گئے، حسب ذیل ہیں: 
  1. ہم کوئی بھی کام مجبوری کے حالات میں کرتے ہیں، سر سے پانی گزرنے سے قبل ہم منصوبہ بندی سے کسی بھی چیز کو اختیار نہیں کرتے۔ عصری تعلیم کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح ہے۔ ہم آج تک عصری تعلیم کے حوالے سے مختلف تجربات سے گزر رہے ہیں، کوئی حتمی منصوبہ بندی ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قیام پاکستا ن کے بعد ہم منصوبہ بندی سے کوئی جامع تعلیمی نظام وضع کرتے جس میں ہمارے فضلا ء دین، دنیا اور معیشت و مذہب دو نوں کو جمع کر سکتے، لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ آج سے دس ، پندرہ سال قبل مجبوری کی حالت میں بعض مدارس نے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے تجربات کیے اور پھر رفتہ رفتہ ان کو دیگر مدارس بھی اختیار کرتے گئے اور اب ہم اس نظام تعلیم کو ہی اب ہم اپنا مستقل سمجھ بیٹھے ہیں اور اس میں ہی مزید پیوند کار ی کرتے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح نظام چلانا بہت مشکل ہے۔ دونوں تعلیموں کے تقاضے بیک وقت نباہنا خاصا مشکل ہے۔ 
  2. اصل میں ہم کس قسم کے فضلاء پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اس حوالے سے کوئی منظم سوچ نہیں ہے۔جن مدارس میں عصری تعلیم ہے اور جن میں نہیں ہے، دونوں میں مقاصد کا کوئی واضح شعور نہیں ہے۔ فضلاء سے اگر نماز روزہ کے مسائل بتانے کا کام ہی لینا ہے تو کم از کم دنیا کی قیادت و سیادت کے خواب نہیں دیکھنے چاہییں۔ 
  3. وہ مدارس جن میں مشتر ک نظام تعلیم نہیں ہے، ان میں طلبہ کو ملک اور معاشرہ کے متعلق بنیادی چیزیں بھی نہیں پڑھائی جاتیں، حالانکہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ان چیزوں کا جاننا انتہائی ضروری ہے۔ پھر ان مدارس میں اگر کوئی طالب علم ذاتی شوق کے تحت فارغ اوقات میں خود سے عصری تعلیم حاصل کرنا چاہتاہو تو اس کو نہ صرف اجازت نہیں دی جاتی بلکہ مختلف اداروں میں کتابیں ضبط اور داخلہ کینسل کرنے کے قوانین بھی موجود ہیں۔ میرے خیال میں جو طلبہ خود سے ذاتی وقت میں ایسا کرنا چاہتے ہوں، ان کوصرف اس دلیل سے کہ ’’کھاتے مدرسے کا ہیں، تعلیم دوسری پڑھتے ہیں‘‘ روک دینا قوم کی امانت میں عظیم خیانت کا ارتکاب ہے۔ ان میں بہت سے طلبہ ایسے ہیں جنہوں نے اس طرح تعلیم حاصل کی اور پھر اچھے عہدوں پر فائز ہو کر پابندیاں عائد کر نے والوں کے لیے باعث فخر بن گئے۔
  4. مدارس میں عصری تعلیم دینے والے عام طور پر پوری طرح ماہر نہیں ہوتے۔ انگریزی کو عربی یا پنجابی میں پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ مدارس میں عصری تعلیم کے لیے نہ صرف ماہر اساتذہ کا ہونا ضروری ہے، بلکہ اسکو ل و کالج والا ما حول جو کہ عصری تعلیم کے لیے ضروری ہے، وہ بھی ہونا چاہیے۔ مزید برآں مدارس میں عصری تعلیم دینے والوں کے ذہن میں عام طور ایک فرض کفایہ کی ادائیگی مقصود ہوتی ہے۔ ان کو نہ عصری تعلیم کی اہمیت کا پتہ ہوتا ہے اور نہ یہ اندازہ ہوتاہے کہ طلبہ کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے گریڈ میں ڈگر ی حاصل کریں۔ اس لیے وہ طلبہ کو عصری تعلیم دینے کے باوجوو مطلوبہ مقام تک پہنچانے میں ان کی مدد نہیں کر رہے ہوتے۔ 
  5. عام طور پر مدارس میں طلبہ کو صرف میٹر ک، ایف اے کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان طلبہ کی عصری تعلیم کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی۔ طلبہ کو ابتدائی اور اختتامی تعلیم نہ دینے کی وجہ سے طلبہ کی ابتداء ا ، بنیاد اور اختتام ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتے ہیں۔ 
  6. وہ طلبہ جو آگے کسی وجہ سے پڑھائی نہ جاری رکھ سکیں، اور مدرسے کی ڈگری ان کو آٹھ سال سے قبل کوئی فائدہ نہ دے، وہ اسکول کی چھوٹی موٹی ڈگریوں کی بنیاد پر کہیں ملازمت کے قابل ہو جاتے ہیں۔ 
  7. ہم طلبہ کو مخصو ص عصری تعلیم دیتے ہیں جوکہ صرف مخصوص اداروں میں ہی کام آسکتی ہے۔ اگر ان اداروں میں دین دار لوگوں کی ضرورت ہم محسوس کرتے ہیں تو دیگر اداروں میں بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔ 
  8. ہم طلبہ کو عصری تعلیم دیتے وقت مسلکی ذہن بناتے ہیں اوریہ سمجھاتے ہیں کہ آپ نے اس تعلیم کے ذریعے مسلک کے تحفظ و اشاعت کی جنگ لڑنی ہے، جبکہ ہمارا مقصود علم کے میدان میں پیشرفت کی راہوں کو کھولنا ہونا چاہیے۔ ہمارا مقصود اسلام کے آفاقی پیغام کو لوگوں کی زبان و فہم کے مطابق ان تک پہنچانا ہونا چاہیے۔ ہمیں طلبہ کی ان تحقیقات تک رسائی کرانی چاہیے جو کہ دنیا میں کی جا رہی ہیں۔ ہمیں مسالک کی جنگ سے نکل کر مذہب اور اس کے دفاع اور اس کو لاحق خطرات کی پر مر کوز کرنی ہوگی۔ 
  9. ہمیں قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے مدارس کی طرز پر فری اسکو ل، کالج اور یونیورسٹیز کھولنی چاہییں جن کو مدارس کی طرز پر اصحاب خیر کے تعاون سے چلایا جائے اور قوم کو باکردار اور باصلاحیت افراد مہیا کیے جا سکیں۔