2017

جنوری ۲۰۱۷ء

دینی مدارس اور غیر حکومتی تنظیموں کے باہمی روابطمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۶)ڈاکٹر محی الدین غازی
حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کی وفاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جنید جمشیدؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلام کا دستوری قانون اور سیاسی نظام ۔ برعظیم پاکستان و ہند کے فتاویٰ کا تجزیاتی مطالعہ (۲)ڈاکٹر محمد ارشد
’’علوم اسلامیہ میں تحقیق: عصری تناظر‘‘ / مجلس یادگار شیخ الاسلام کے زیر اہتمام مولانا سندھیؒ پر سیمینارڈاکٹر حافظ محمد رشید
فرزند جھنگویؒ اور جمعیۃ علماء اسلاممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا مسرور نواز کی کامیابی کے متوقع مثبت اثراتمحمد عمار خان ناصر
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام اسوۂ حسنہ سیمینارحافظ محمد شفقت اللہ

دینی مدارس اور غیر حکومتی تنظیموں کے باہمی روابط

محمد عمار خان ناصر

دینی مدارس اور غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کے باہمی روابط کا معاملہ ان دنوں اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت کے ہاں زیر بحث ہے اور ماہنامہ ’’وفاق المدارس‘‘ کے گذشتہ شمارے میں صدر وفاق مولانا سلیم اللہ خان نے جبکہ ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ کے حالیہ اداریے میں مولانا عزیز الرحمن نے اس ضمن میں اپنے خدشات وتحفظات کی تفصیلی وضاحت کی ہے۔ بحث کا فوری تناظر دو واقعات ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دینی جامعہ میں کسی غیر ملکی تنظیم کے اشتراک سے ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں مبینہ طور پر کچھ ایسی باتیں کہی گئیں جن سے دینی قیادت کے مسلمہ اعتقادی موقف پر زد پڑتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اسلام آباد کی ایک غیر حکومتی تنظیم، ادارہ برائے امن وتعلیم (PEF) کی جانب سے، جس کے ساتھ گذشتہ کئی سال سے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان (ITMP) کی قیادت کا قریبی رابطہ ہے اور وہ مختلف سطحوں پر دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے تربیتی ورک شاپس بھی منعقد کر رہی ہے، مرتب کردہ ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں رائج نصابی کتب کا اس حوالے سے تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے کہ ان میں مذہبی منافرت کو فروغ دینے والا مواد کس قدر اور کہاں کہاں پایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں ایسے موادکی نشان دہی کے ساتھ ساتھ نصاب کی اصلاح کے لیے کچھ سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں جن میں سے، مثال کے طور پر، ایک قابل اعتراض سفارش یہ ہے کہ نصابی کتابوں میں اسلام کو واحد سچے مذہب کی حیثیت سے پیش نہ کیا جائے۔
دینی مدارس کے تشخص اور کردار کی حفاظت کے حوالے سے دیوبندی قیادت کی حساسیت بدیہی طور پر قابل فہم ہے اور اگر کوئی ایسی پیش رفت ہو رہی ہے یا ہوئی ہے جس سے اس تشخص پر زد آنے کا خطرہ ہے تو اس پر قیادت کا فکر مند ہونا بالکل فطری ہے۔ بظاہر مذکورہ دونوں واقعات میں فریق ثانی کی طرف سے بھی اپنی پوزیشن کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ چنانچہ یہ کہا گیا ہے کہ متعلقہ دینی ادارے میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کوئی ایسی بات سرے سے کہی نہیں گئی جو موجب اعتراض ہو (اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ قیادت کے تحفظات کسی خاص نکتے کے حوالے سے نہیں، بلکہ فی نفسہ مدرسے کی چار دیواری میں کسی این جی او کے اشتراک سے اجلاس منعقد کرنے پر ہیں)، جبکہ ادارہ برائے امن وتعلیم کی جانب سے ایک تفصیلی وضاحت سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ہے جس کے مطابق قابل اعتراضات سفارشات اس رپورٹ کا حصہ نہیں تھے جو ادارہ برائے امن وتعلیم نے مرتب کی تھی اور یہ کہ اس میں ان نکات کا اضافہ بعد میں اس بین الاقوامی ادارے نے اپنی طرف سے کیا ہے جس کے لیے مذکورہ رپورٹ کا مواد جمع کیا گیا تھا۔ مذکورہ وضاحت کے مطابق، PEF کی طرف سے اس پر متعلقہ ادارے سے احتجاج بھی کیا گیا ہے جس کے بعد اس ادارے نے معذرت کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ سے یہ رپورٹ ہٹا دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں وضاحتیں ناظرین کے سامنے ہیں اور ان کو وزن دینے یا نہ دینے کا معاملہ بہرحال کسی بھی شخص کی اپنی رائے اور صواب دید پر منحصر ہے۔
اس فوری اور وقتی واقعاتی تناظر سے ہٹ کر، زیر نظر سطور میں ہمارے پیش نظر اس معاملے کے چند مستقل اور بنیادی پہلوؤں پر اپنی معروضات پیش کرنا ہے۔ 
صورت حال یہ ہے کہ نائن الیون کے واقعے نے پوری دنیا اور خاص طور پر مسلم معاشروں میں واقعاتی وفکری سطح پر جو شدید اضطراب پیدا کیا، اس نے دین کی تعبیر اور دور جدید میں اہل دین کے معاشرتی کردار کے حوالے سے درجنوں سوالات کھڑے کر دیے جن سے سنجیدہ اعتنا خود دینی قیادت کی ذمہ داری بنتی تھی، لیکن ہم نے دیکھا کہ حالات کے دباؤ کے تحت وقتاً فوقتاً سیاسی نوعیت کے بعض بیانات جاری کرنے کے علاوہ درپیش فکری سوالات پر سنجیدہ غور وفکر کی کوئی تحریک دینی قیادت نے اپنے ماحول میں پیدا نہیں کی۔ جمہوریت اور اسلام کا باہمی تعلق، جہاد اور دہشت گردی، خلافت کا تصور اور قومی ریاستیں، مذہبی ومسلکی فرقہ واریت، نجی سطح پر جہادی سرگرمیوں کی تنظیم، مسلم معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق ومسائل، مسلم ریاستوں کے خلاف خروج، مسلمان طبقات کی گروہی واجتماعی تکفیر، مذہبی رواداری، بین المذاہب مکالمہ، دینی مدارس کا نصاب ونظام، قیام امن اور سماجی ہم آہنگی، خواتین کے حقوق ومسائل، توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال، غیر ذمہ دارانہ فتوے بازی کا رجحان، مذہبی مزاج میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کا نفوذ، معاشرے کے مختلف طبقات کے مابین مکالمہ اور میل جیل، عسکری تحریکوں کا پیش کردہ مذہبی بیانیہ ۔۔ یہ وہ سب موضوعات ہیں جو پچھلے پندرہ سال کے عرصے میں سماج میں ہر سطح پر زیر بحث ہیں، لیکن چند استثنائی مثالوں کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پورے عرصے میں دینی قیادت نے خود اپنے فورمز پر اور اپنے ماحول میں ان موضوعات کو سنجیدہ غور وفکر کا موضوع بنانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ 
دینی قیادت کی فکری اور معاشرتی ترجیحات کے محدود اور یک رخا ہونے اور دینی ذمہ داری کے نہایت اہم دائروں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے وہ خلا پیدا ہوتا ہے جس کو کچھ دوسرے فورم، ادارے اور تنظیمیں آگے بڑھ کر پر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ چنانچہ گزشتہ عرصے میں، مذکورہ موضوعات پر سوچ بچار اور غور وخوض کی جو بھی کاوشیں ہوئی ہیں، ان کا محرک اصلاً دینی قیادت نہیں، بلکہ معاشرے کے کچھ دوسرے ادارے ہیں جو اس حوالے سے فکرمندی ظاہر کرتے ہوئے طبقہ علماء کو متوجہ کرنے اور اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی ایسا نمائندہ فورم موجود نہیں جہاں درپیش فکری وعملی سوالات پر سنجیدہ غور وخوض کیا جاتا ہو اور اس کا قیام دینی قیادت کی دلچسپی سے یا اس کی تحریک پر عمل میں آیا ہو۔ ملی مجلس شرعی اور اس جیسے بعض دوسرے فورمز کے کار پردازان، دینی قیادت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ایسے سب فورمز دینی قیادت کے دائرے سے باہر کھڑے چند حضرات نے اس ضرورت کا احساس کر کے قائم کیے ہیں کہ بہت سے غور طلب مسائل موجود ہیں جن میں مذہبی ودینی موقف کا سامنے لایا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ 
اس سلسلے میں گزشتہ چند سال میں درپیش فکری سوالات اور دینی قیادت کی متوقع ذمہ داری اور کردار کے حوالے سے نمایاں علمی وفکری سرگرمیوں کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ منظر سامنے آتا ہے:
دینی مدارس کے فضلاء، اساتذہ اور ائمہ وخطباء کے لیے مختلف سطحوں اور دائروں میں ایسے تربیتی پروگراموں کا انعقاد جن کا مقصد ان کو علمی وفکری ضروریات کا احساس دلانا، ان کے فکری افق کو وسیع کرنا، ان کے اور دوسرے معاشرتی طبقات کے مابین فاصلوں کو کم کرنا اور فضلائے مدارس کو نئے تعلیمی مواقع اور امکانات سے متعارف کروانا ہو، نہ صرف معاشرے کی بلکہ خود دینی مدارس کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے بھی ہمیں بنیادی طور پر وہی ادارے سرگرم نظر آتے ہیں جن کا مدارس کے روایتی دائرے سے تعلق نہیں۔ اس ضمن میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ذیلی اداروں: دعوہ اکیڈمی، شریعہ اکیڈمی، اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ کے علاوہ بعض قومی جامعات کے شعبہ ہائے علوم اسلامیہ اور کچھ غیر حکومتی تنظیموں مثلاً انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز، ادارہ برائے امن وتعلیم اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بالمقابل اس سارے عرصے میں مختلف دینی اداروں کے نمائندہ مذہبی جرائد کی فائل اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو پوری دنیا میں اسلام کے خلاف ہونے والی ہر سازش اور مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم کا ذکر ملے گا، لیکن جو سوالات مذہبی قیادت سے کسی جواب یا کردار کا تقاضا کرتے ہیں، ان کا بھولے سے بھی کوئی ذکر نظر نہیں آئے گا۔ مذہبی قیادت کا ذہنی رویہ، یہ ہے کہ چند سال قبل جب انٹر نیشنل ریڈ کراس کمیٹی کے زیر اہتمام بین الاقوامی قانون انسانیت اور اسلامی قوانین کے موضوع پر ایک علمی مجلس میں، جس میں شرکاء کی غالب تعداد علماء اور اسلامی قانون کے اساتذہ کی تھی، راقم نے بعض روایتی فقہی تعبیرات پر کچھ سوالات غور وفکر کے لیے پیش کیے تو صدر مجلس جناب مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنے صدارتی کلمات میں اس پر باقاعدہ رد عمل ظاہر فرمایا اور کہا کہ اس طرح کے سوالات صرف اکابر علماء کی کسی محدود مجلس میں زیر غور لائے جا سکتے ہیں، اس طرح کھلی مجالس میں (یعنی دینی اداروں کی مستند چار دیواری سے باہر) ان پر گفتگو کرنا درست نہیں۔ اسی طرح چند ماہ قبل جب یہ اطلاع کسی ذریعے سے سوشل میڈیا پر پہنچ گئی کہ جامعہ دار العلوم کراچی کی تحریک پر یہ مسئلہ چند بڑے مراکز افتاء کے زیر غور ہے کہ کیا قربانی کے وجوب کے لیے فقہی نصاب کی تعیین میں چاندی کے بجائے سونے کو معیار قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں تو دار العلوم کے ذمہ داران نے اس پر ایک گونہ ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ اہل افتاء کے کسی نتیجے تک پہنچ جانے سے پہلے اس بحث کی اطلاع عوام تک کیوں پہنچائی گئی۔ گویا یہ ایک علمی وفقہی مسئلہ نہیں بلکہ کوئی پر از خطر سیاسی قضیہ تھا جسے بیک ڈور ڈپلومیسی کے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے پر جناب مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنے درس حدیث میں ایک سوال کے جواب میں ایسی بات ارشاد فرمائی جس سے سلمان تاثیر کے قتل کا ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے تو اس کی اطلاع سوشل میڈیا پر آ جانے پر بھی دار العلوم کے متعلقین نے خفگی کا اظہار کیا اور یہ کہا گیا کہ یہ بات میڈیا پر تشہیر کے لیے نہیں، صرف درس گاہ کے ماحول کو مد نظر رکھ کر کہی گئی تھی۔
دینی قیادت کا یہی ذہنی رویہ ہے جس کے زیر اثر وہ ماحول کے دباؤ کے تحت سیاسی ضرورتوں کی حد تک بالائی سطح پر تو بعض ایسے اقدامات کر لیتی ہیں جن سے مسلکی رواداری کا اظہار ہوتا ہو، لیکن اس چیز کو خود اپنی ترجیحات میں کوئی جگہ دینے یا اپنے داخلی ماحول میں ان موضوعات پر غور وفکر کو فروغ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ مثلاً مختلف مکاتب فکر سے وابستہ تعلیمی وفاقوں کی قیادت بالائی سطح پر تو اتحاد واشتراک اور مسلکی رواداری کا اظہار کرتی ہے اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے عنوان سے پانچوں وفاقوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم بھی قائم کیا گیا ہے، لیکن رواداری، باہمی میل ملاپ اور مکالمہ کا ماحول زیریں سطح پر پیدا کرنے میں دینی قائدین نے اب تک کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دینی قائدین خود تو ایک دوسرے کے ساتھ شخصی اور دوستانہ روابط بھی رکھیں اور تحفظ ودفاع کے مشترکہ مقصد کے لیے مل جل کر جدوجہد کرنے کا طریقہ بھی اختیار کریں، لیکن خود ان دینی اداروں کی چار دیواری کے اندر بین المسالک مکالمہ اور تبادلہ خیال کی گنجائش روا نہ رکھی جائے؟ اگر قائدین مل بیٹھ کر اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے تبادلہ خیال کر سکتے ہیں اور سوسائٹی کے سامنے مسلکی رواداری کا پیغام پیش کرنے کو درست سمجھتے ہیں تو نچلی سطح پر مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے اسی قسم کا ماحول شجر ممنوع کیوں ہے؟ 
ہمارے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دینی قیادت اپنے حلقوں کا ایک روادارانہ چہرہ معاشرے کے سامنے پیش کرنے کو محض ایک عملی مجبوری یا ضرورت سمجھتی ہے اور اس درجے میں ان کے Constituent حلقے بھی ان کے مل بیٹھنے اور دنیا کے سامنے ایک مثبت تصویر پیش کرنے کو گوارا کر لیتے ہیں، لیکن اپنی داخلی نفسیات کے لحاظ سے ان سب حلقوں میں مسلکی اور گروہی سوچ بے حد پختہ ہے اور دوسرے مسالک کے لوگوں کے ساتھ اختلاط یا کھلے ماحول میں گفتگو اور مکالمہ کو مسلکی پختگی کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ 
اسی ذہنی رویے کا اظہار ہم اس پہلو سے بھی دیکھتے ہیں کہ دینی قیادت مختلف سماجی موضوعات (مثلاً خواتین کے حقوق، اقلیتوں کو درپیش مسائل، مذہبی رواداری، مکالمہ بین المذاہب وغیرہ) پر دوسرے اداروں اور تنظیموں کی طرف سے منعقد کردہ پروگراموں میں تو شریک ہوتی ہے اور اپنے زاویہ نظر سے ان مسائل پر اسلامی نقطہ نظر بھی پیش کرتی ہے، تاہم ایسے موضوعات پر خود اپنے اداروں میں سوچ بچار کو فروغ دینے یا کسی مکالماتی مجلس کے انعقاد میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں کرتی، بلکہ یہ مسائل چونکہ عموماً معاشرے کے لبرل حلقوں کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں، اس لیے مدارس کے ماحول میں ان عنوانات پر زیادہ گفتگو کو بھی شک وشبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ مسائل واقعتا غور طلب ہیں اور ان میں کوئی کردار ادا کرنا دینی طبقے کی ذمہ داری بنتا ہے اور اس حوالے سے کسی دوسرے فورم کی طرف سے منعقدہ مجالس میں مختلف الخیال حضرات بلکہ دوسرے مذاہب کی نمائندگی کرنے والے قائدین کے ساتھ شرکت میں بھی کوئی مضائقہ نہیں تو ایسی کوئی مجلس کسی دینی مدرسے کے حدود میں کیوں منعقد نہیں ہو سکتی؟ 
مثلاً ناروے کی ایک تنظیم ورلڈ کونسل آف ریلیجنز کے اشتراک سے ۲۰۰۴ء میں اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ایک بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مذہبی رواداری کے اظہار کے لیے ہال میں آویزاں بینرز پر قرآن مجید کے ساتھ ساتھ بائبل کی آیات بھی درج تھیں اور جہاں تک یاد پڑتا ہے، نشست کے آغاز میں قرآن مجید کے علاوہ بائبل کی آیات کی بھی تلاوت کی گئی تھی۔ اس مجلس میں پورے ملک سے نہ صرف دینی مدارس کے علماء وطلبہ کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی، بلکہ مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا محمد تقی عثمانی سمیت اعلیٰ ترین دیوبندی قیادت نے بھی شرکت کی۔ (اس پر ایک مختصر تبصرہ برادرم میاں انعام الرحمن کے قلم سے الشریعہ کے اکتوبر ۲۰۰۴ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا)۔ سوال یہ ہے کہ اگر مذہبی رواداری کے اظہار کا یہ انداز درست اور وقت کی ضرورت ہے اور اس میں دینی قیادت کی شرکت ایک مثبت پیغام کا درجہ رکھتی ہے تو یہی نیک کام انھی التزامات کے ساتھ کسی دینی ادارے کی چار دیواری کے اندر کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ 
آپ تجزیہ کر لیجیے، فرق کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں نکلے گی کہ دینی قیادت اس طرح کے معاملات کو اپنی اصولی ذمہ داری یا سماجی ضرورت کے نقطہ نظر سے نہیں، بلکہ صرف سیاسی مصلحت کے نقطہ نظر سے دیکھتی ہے جس کا تقاضا دوسری جگہوں پر جا کر میٹھی میٹھی باتیں کر دینا تو بنتا ہے، لیکن اپنے گھر میں دوسروں کو بلا کر ان کی کڑوی کڑوی باتیں سننا اور اپنے اساتذہ وطلبہ کے ذہنوں میں سوالات کی پیدائش کا خطرہ مول لینا ہرگز نہیں بنتا، کیونکہ انھیں ارادتاً ایک محدود فکری ماحول میں قید رکھنا دینی قیادت کی بنیادی ترجیح ہے۔
مدارس اور این جی اوز کے باہمی روابط کا مختلف پہلوؤں سے ایک معروضی جائزہ لینا بہت اہم ہے اور اس ضمن میں غیر مستحسن فکری اثرات (اگر کوئی ہوں) کے علاوہ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ان روابط کے ساتھ وابستہ بعض مادی مفادات دینی طبقوں اور خاص طور پر ان کی نمائندہ قیادت پر کس طرح کے اثرات مرتب کر رہے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس کے داخلی ماحول میں معاشرے کے زندہ فکری وعملی مسائل پر غور وخوض اور دوسرے معاشرتی طبقات کے ساتھ مکالمہ اور تعامل کی فضا قائم کی جائے اور اس خلا کو پر کیا جائے جسے اس وقت دوسرے علمی وفکری ادارے یا بعض غیر حکومتی تنظیمیں پر کر رہی ہیں۔ جب تک دینی قیادت خود اس ضرورت کا ادراک اور اس کی تکمیل کا اہتمام نہیں کرتی، اس وقت تک ہمارے زاویہ نظر سے یہ ادارے اور تنظیمیں، طریق کار اور ترجیحات کے بہت سے پہلوؤں سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود، ایک اہم معاشرتی ضرورت کو پورا کر رہی ہیں اور ان کی سرگرمیوں کا تنقیدی واصلاحی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کے کام کے مفید اور مثبت پہلوؤں کا بھی پورا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ ان تنظیموں کی سرگرمیوں کے اگر کچھ مبینہ خطرات ومضرات ہیں تو اس پر ان کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے یہ ضروری ہے کہ دینی قیادت خود درپیش فکری سوالات پر مشاورت اور مکالمہ ومباحثہ کا اہتمام کرے۔ ظاہر ہے کہ جہاں خلا ہوگا، وہاں اس کو پر کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی طبقہ آگے بھی بڑھے گا۔ اگر دینی قیادت حقیقی مفہوم میں اور کھلے ذہن کے ساتھ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے آمادہ ہو جائے تو کسی اور سے شکایت کا موقع ہی پیدا نہیں ہوگا۔ 

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۵) من نفس واحدۃ کا ترجمہ

من نفس واحدۃ کی تعبیر قرآن مجید میں چارآیتوں میں آئی ہے،ان میں سے تین آیتوں میں منھا زوجھا کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ عربی تفاسیر میں خلقکم من نفس واحدۃ کا عام طور سے ایک ہی مفہوم ملتا ہے، یعنی ’’ایک جان سے پیدا کیا‘‘ اور خلق منھا زوجھا کے دو مفہوم ملتے ہیں ’’اس سے اس کے جوڑے کو بنایا‘‘ اور اس کی جنس سے اس کے جوڑے کو بنایا‘‘ اردو تراجم میں شاہ عبد القادر کے ترجمہ کو لوگوں نے عام طور سے اختیار کیا ہے جس میں ’’ایک جان سے پیدا کیا‘‘ اور ’’اس سے اس کے جوڑے کو بنایا‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔ البتہ دوسرے جملے کے ترجمہ میں بعض لوگوں نے دوسری رائے بھی اختیار کی ہے۔ ذیل میں درج ترجموں سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے: 

(۱) یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاءً ا۔ (النساء:۱)

’’اے لوگو ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے بنایا تم کو ایک جان سے اور اسی سے بنایا اس کا جوڑا اور بکھیرے ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں۔ (شاہ عبدالقادر)
اے لوگو اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلادیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مردوعورت دنیا میں پھیلادیئے‘‘۔ (سید مودودی)

(۲) ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ إِلَیْْہَا فَلَمَّا تَغَشَّاہَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفاً فَمَرَّتْ بِہِ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللّہَ رَبَّہُمَا لَءِنْ آتَیْْتَنَا صَالِحاً لَّنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ۔فَلَمَّا آتَاہُمَا صَالِحاً جَعَلاَ لَہُ شُرَکَاء فِیْمَا آتَاہُمَا فَتَعَالَی اللّہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ۔ (الاعراف: ۱۸۹۔۱۹۰)

’’وہی ہے جس نے تم کو بنایا ایک جان سے اور اسی سے بنایا اس کا جوڑا کہ اس پاس آرام پکڑے پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانکا حمل رہا ہلکا سا حمل پھر چلتی گئی اس کے ساتھ پھر جب بوجھل ہوئی دونوں نے پکارا اللہ اپنے رب کو اگر تو ہم کو بخشے چنگا بھلا تو ہم تیرا شکر کریں پھر جب دیا ان کو چنگا بھلا ٹھیرانے لگے اس کے شریک اس کی بخشی چیز میں‘‘۔ (شاہ عبد القادر)
’’وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ایک ہی جان سے اور اسی سے پیدا کیا اس کا جوڑا کہ وہ اس سے تسکین پائے۔ تو جب وہ اس کو چھالیتا ہے تو وہ اٹھالیتی ہے ایک ہلکا سا حمل، پھر وہ اس کو لیے (کچھ وقت گزارتی ہے) تو جب بوجھل ہوتی ہے دونوں اللہ، اپنے رب، سے دعا کرتے ہیں اگر تونے ہمیں تندرست اولاد بخشی، ہم تیرے شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔ تو جب اللہ ان کو تندرست اولاد دے دیتا ہے تو اس کی بخشی ہوئی چیز میں وہ اس کے لیے دوسرے شریک ٹھہراتے ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ پھر مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔ مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح وسالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی اس بخشش وعنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھیرانے لگے۔‘‘(سید مودودی، اس ترجمہ میں ’’دونوں نے مل کر‘‘ کے بجائے ’’دونوں نے‘‘ ہونا چاہئے۔ ’’مل کر‘‘ زائد ہے)

(۳) خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَأَنزَلَ لَکُم مِّنْ الْأَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَ أَزْوَاجٍ یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ خَلْقاً مِن بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ۔ (الزمر:۶)

’’بنایا تم کو ایک جی سے پھر بنایا اسی سے اس کا جوڑا اور اتارے تمہارے واسطے چوپاؤں سے آٹھ نرومادہ بناتا ہے تم کو ماں کے پیٹ میں طرح پر طرح بنانا تین اندھیروں کے بیچ‘‘۔(شاہ عبد القادر)
’’اسی نے پیدا کیا تم کو ایک ہی جان سے، پھر پیدا کیا اسی کی جنس سے اس کا جوڑا اور تمہارے لیے (نرومادہ) چوپایوں کی آٹھ قسمیں اتاریں۔ وہ تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں میں پیدا کرتا ہے۔ ایک خلقت کے بعد دوسری خلقت میں، تین تاریکیوں کے اندر۔‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ میں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ آٹھ قسمیں ترجمہ کیا ہے، درست ترجمہ ہے: آٹھ جوڑیاں۔ یعنی چار قسموں کی آٹھ جوڑیاں، جس کی تفصیل سورہ أنعام میں ہے)
’’اسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نرومادہ پیدا کیے۔ وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ ‘‘(سید مودودی)

(۴) وَہُوَ الَّذِیَ أَنشَأَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ قَدْ فَصَّلْنَا الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَفْقَہُونَ۔ (الأنعام :۹۸) 

’’اور وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ایک ہی جان سے۔ پھر ہر (ایک کے لئے) ایک مستقر اور ایک مدفن ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
مستودع کا ترجمہ مدفن کیا ہے۔ مستقر کا مطلب عارضی قیام گاہ اور مستودع کا مطلب آخری قیام گاہ ہے، اس لئے مدفن ترجمہ کرنا مناسب نہیں ہے۔
مذکورہ بالا ترجموں میں ہم دیکھتے ہیں کہ صاحب تدبر نے پہلے اور تیسرے مقام پر منھا کا ترجمہ ’’اس کی جنس سے‘‘ کیا، جبکہ دوسرے مقام پر ’’اسی سے‘‘ کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صاحب تفہیم نے اس کے برعکس پہلے اور تیسرے مقام پر ’’اس جان سے‘‘ اور دوسرے مقام پر ’’اسی کی جنس سے‘‘ ترجمہ کیا۔ غرض یہ کہ جنس والا ترجمہ دونوں کے پیش نظر رہا لیکن دونوں متعلقہ تینوں مقامات پر اس کا یکساں التزام نہیں کرسکے۔
ان آیتوں میں جب ہم خلقکم من نفس واحدۃ کا ترجمہ کرتے ہیں ’’اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا‘‘ تو بہت سارے اشکالات پیدا ہوتے ہیں، خواہ منھا زوجھا کا ترجمہ دونوں میں سے کوئی بھی کیا جائے۔ ان اشکالات کو تفسیروں میں تفصیل سے ذکر بھی کیا گیا ہے، اور ان کا جواب دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ تفسیر المنار میں اس مشہور مفہوم پر وارد ہونے والے اشکالات کو تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد ایک دوسرے مفہوم تک پہونچنے کی کوشش ملتی ہے جو اشکالات سے خالی ہو۔
ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے زوج بنایا یا پہلے ذریت پیدا کی؟ کیونکہ آیتوں کے مذکورہ مفہوم کے لحاظ سے تو یہ نکل رہا ہے کہ پہلے ذریت بنائی پھر زوج بنایا۔
ایک دوسرا اشکال یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم کا ذکر متعدد مقامات پر کیا ہے لیکن کہیں یہ نہیں ذکر کیا کہ تم سب کی تخلیق آدم اور حوا سے ہوتی ہے۔ آدم اور حوا کی ذریت ہونا ایک بات ہے اور آدم اور حوا سے انسانوں کی تخلیق کرنا ایک دوسری بات ہے، اور اس دوسری بات کے لیے ہمیں کوئی دلیل نہیں ملتی ہے۔ صراحت صرف اس کی ملتی ہے کہ انسان کو مٹی ’’طین‘‘ سے پیدا کیا گیا یا اس کی تخلیق پانی ’’ماء‘‘ سے کی گئی۔ لیکن کوئی اپنے ماں باپ سے تخلیق کیا گیا ہو ، یہ بات کہیں نہیں ملتی ہے۔ قرآن مجید میں نہ آدم وحوا کی تخلیق کے سیاق میں یہ کہا گیا کہ انسانوں کی تخلیق آدم وحوا یا ذکر اور انثی سے ہوئی ہے، اور نہ ہی انسانوں کی تخلیق کے سیاق میں یہ بات کہی گئی۔
خاص طور سے سورہ اعراف والی متعلقہ آیتوں میں عام مفہوم لینے سے ان آیتوں کی تفسیر بے حد مشکل ہوجاتی ہے، یا تو تفسیر تکلف سے دوچار ہوتی ہے، یا یہ ماننا پڑتا ہے کہ آدم وحوا شرک کے مرتکب ہوگئے تھے۔ ضعیف تفسیری روایتوں سے اس دوسرے مفہوم کی تائید بھی مل جاتی ہے، حالانکہ سیاق کلام کی رو سے وہ مفہوم ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے۔اس آیت میں مشہور مفہوم لینے کی صورت میں کتنی دشواریاں پیش آتی ہیں اس کا اندازہ تفسیر رازی کا متعلقہ مقام پڑھ کر ہوسکتا ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی ان چاروں مقامات پر ایک مختلف ترجمہ تجویز کرتے ہیں جس سے وہ سارے اشکالات بھی دور ہوجاتے ہیں جن کا ذکر تفاسیر میں ملتا ہے اور وہ اشکالات بھی جو ان آیتوں پر تدبر کرنے والے کے ذہن میں آتے ہیں۔ ان کی رائے کے مطابق خلقکم من نفس واحدۃ میں ’’من‘‘ تجرید کا ہے، یعنی خلقکم فی صورۃ نفس واحدۃ یا خلقکم نفسا واحدۃ اور اس کا ترجمہ ہوگا ’’اس نے تم کو ایک جان کی صورت میں (یعنی تن تنہا) پیدا کیا‘‘ اور خلق منھا کا زوجھا کا ترجمہ ہوگا ’’اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا‘‘ گویا ہر انسان تنہا پیدا کیا گیا، اور ہر انسان کا جوڑا اسی کی جنس سے بنایا گیا۔ ہر انسان تن تنہا پیدا کیا گیا، اس مفہوم کی تائید قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے بھی ہوتی ہے، جیسے: 

وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَی کَمَا خَلَقْنَاکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ۔ (الانعام:۹۴) 

ترجمہ: ’’اور بالآخر تم آئے ہمارے پاس اکیلے اکیلے جیسا کہ ہم نے تم کو اول بار پیدا کیا‘‘ اور: 

ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْداً۔ (المدثر:۱۱) 

ترجمہ: ’’چھوڑ مجھ کو اور اس کو جس کو میں نے پیدا کیا اکیلا‘‘۔
اسی طرح خلق منھا زوجھا کا ترجمہ ان کے نزدیک اس طرح ہے: ’’اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا‘‘ یعنی ہر انسان کو تنہا پیدا کیا ، اور اس کا جوڑا اسی کی جنس سے بنایا۔ اسی مفہوم کی تائید قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں یہ کہیں نہیں ہے، کہ نسل انسانی کی خاتون اول کو مرد اول سے تخلیق کیا گیا ہے۔ لیکن ایسی آیتیں موجود ہیں جو صراحت کے ساتھ یہ بتاتی ہیں کہ ہر انسان کے جوڑے کو اس کی جنس سے بنایا، انسان سے مراد صرف مرد نہیں بلکہ مرد بھی ہے اور عورت بھی ہے، یعنی دونوں ایک ہی جنس سے بنائے گئے۔ ذیل کی دو آیتیں ملاحظہ ہوں:

(۱) وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً۔ (الروم ۲۱)

’’ واز نشانہائے خدا آن است کیا بیا فرید برائے شما از جنس شما زنان را ‘‘(شاہ ولی اللہ، اس ترجمہ میں أزواج کا ترجمہ زنان محل نظر ہے، کیونکہ مردوں کے أزواج عورتیں ہیں اور عورتوں کے أزواج مرد ہیں)
’’اور اس کی نشاینوں سے یہ کہ بنادئے تم کو تمہاری قسم سے جوڑے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۲) فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً۔ (الشوری ۱۱)

’’آفرینندہ آسمانہا وزمین است پیدا کرد برائے شما از جنس شما زنان را ‘‘(شاہ ولی اللہ)
’’وہ آسمان وزمین کا پیدا کرنے والا ہے، اس نے تمہارے لئے تمہارے جنس کے جوڑے بنائے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
ان دونوں آیتوں کا اسلوب وہی ہے جو خلق منھا زوجھا کا ہے۔ لیکن ان دونوں آیتوں کا ترجمہ عام طور سے یہی کیا جاتا ہے کہ تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے بنائے، چونکہ یہاں جمع کا صیغہ ہے، اور عام انسانوں سے خطاب ہے، اس لئے یہ مفہوم نہیں لیا جاسکتا کہ حوا کو آدم سے تخلیق کیا گیا، اور یہ مفہوم تو کوئی نہیں لے گا کہ ہر عورت کو اس کے شوہر کے جسم سے تخلیق کیا گیا، لہذا یہ مفہوم لینا ضروری ہوگا کہ انسانوں کے جوڑے انسانوں کی جنس سے بنائے گئے۔ دراصل یہی مفہوم مذکورہ بالا ان تمام آیتوں کا بھی ہے جہاں نفس اور زوج جمع کے بجائے واحد آئے ہیں، فرق بس یہ ہے کہ یہاں انسانوں کی پوری جماعت سے ایک ساتھ خطاب ہے، اور وہاں انسانوں کی جماعت کے ہر فرد سے فردا فرداخطاب ہے۔
اس تفصیل کی روشنی میں اس مبحث کی ابتدا میں مذکور چاروں آیتوں کا ترجمہ بالترتیب اس طرح ہوگا:
(۱) ’’اے لوگو اپنے اس رب کی نافرمانی سے بچو جس نے تم کو تن تنہا پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کی جوڑی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلادیں۔‘‘
(۲) ’’وہی ہے جس نے تم کو تن تنہا پیدا کیا اور اسی جنس سے اس کی جوڑی بنائی کہ وہ اس سے تسکین پائے۔ تو جب وہ اس پر چھاگیا تو اس نے اٹھالیا ایک ہلکا سا حمل، پھر وہ اس کو لیے پھری جب بوجھل ہوگئی دونوں نے اللہ، اپنے رب، سے دعا کی اگر تونے ہمیں تندرست اولاد بخشی، ہم تیرے شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔ تو جب اللہ نے ان کو تندرست اولاد دے دی تو اس کی بخشی ہوئی چیز میں وہ اس کے لیے دوسرے شریک ٹھہرانے لگے۔ اللہ برتر ہے ان کے شرک سے جو یہ مانتے ہیں‘‘۔
(۳) ’’اس نے پیدا کیا تم کو تن تنہا، پھر پیدا کیا اسی کی جنس سے اس کی جوڑی اور تمہارے لیے (نرومادہ) چوپایوں کی آٹھ جوڑیاں اتاریں۔ وہ تمھیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کرتا ہے، تین تاریکیوں کے اندر۔‘‘
(۴) ’’اور وہی ہے جس نے تم کو تن تنہا پیدا کیا ۔ پھر ہر ( ایک کے لئے ) ایک عارضی قیام گاہ اورآخری قیام گاہ ہے‘‘
ا س مفہوم کو اختیار کرنے کے بعد پھر یہ بات بے وزن ہوجاتی ہے، کہ عورت کی تخلیق مرد سے کی گئی، اور تخلیق کے پہلو سے عورت مرد کا ضمیمہ ہے۔بلکہ درست بات یہ ہے کہ جس طرح مرد مستقل طور پر ایک نفس واحدۃ کے طور پر تخلیق کیا گیا ہے اسی طرح عورت بھی مستقل طور ایک نفس واحدۃ کے طورپر تخلیق کی گئی، اور جس طرح مرد عورت کا زوج ہے، اسی طرح عورت مرد کا زوج ہے، دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں، اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

(۱۰۶) من ذکر وأنثی کا ترجمہ

من نفس واحدۃ کے ترجمہ سے متعلق ایک اور بحث یہ ہے کہ ذیل کی آیت میں إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی کا ترجمہ کیا ہوگا؟:

یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا۔ (الحجرات: ۱۳)

عام طور سے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ہم نے تم کو ایک ہی نر اور ناری سے پیدا کیا، جیسا کہ ذیل کے ترجموں میں ہے:
’’اے آدمیو ہم نے بنایا تم کو ایک نر اور ایک مادہ سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اور گوتیں تا آپس کی پہچان ہو‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’تحقیق ہم نے پیدا کیا تم کو ایک مرد سے اور عورت سے اور کیا ہے ہم نے تم کو کنبے اور قبیلے تو کہ ایک دوسرے کو پہچانو‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’اے لوگو ہم نے تم کو ایک ہی نر اور ناری سے پیدا کیا ہے اور تم کو کنبوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے کہ تم باہم دگر تعارف حاصل کرو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘۔ (سید مودودی، اس میں ’’پھر‘‘ زائد ہے)
تاہم مولانا امانت اللہ اصلاحی کو اس ترجمہ سے اتفاق نہیں ہے، ان کے مطابق قرآن مجید میں یہ بات تو ایک سے زائد مقامات پر کہی گئی ہے کہ نطفہ سے نر اور مادہ کی تخلیق کی گئی، لیکن یہ صراحت کہیں نہیں ملتی ہے کہ نر اور مادہ سے انسان کی تخلیق کی گئی۔ وجہ یہی ہے کہ انسان نر اور ناری کے توسط سے توتخلیق پاتا ہے، لیکن اس کی تخلیق نر اور ناری سے نہیں ہوتی ہے۔ ہر انسان ایک منفرد تخلیق ہے، وہ کسی دوسرے انسان یا دو انسانوں سے تخلیق نہیں کیا گیا ہے۔ ان کی رائے ہے کہ من ذکر وأنثی میں ’’من‘‘ بیانیہ ہے، مفہوم یہ ہوگا کہ مرد وعورت سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ان کے نزدیک اس آیت میں من ذکر وأنثی کا وہی ترجمہ کیا جائے گا جو ذیل کی آیت میں من ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی کا ہے:

فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّیْ لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنکُم مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی۔ (آل عمران ۱۹۵)

ترجمہ:’’ تو اُن کے رب نے اُن کو دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو، مرد ہو یا عورت، ضائع نہیں کرتا‘‘ 
یوں زیر نظر آیت کا ترجمہ ہوگا:’’اے لوگو ہم نے تم کو پیدا کیا وہ نر ہو یا ناری، اور تم کو قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے کہ تم باہم دگر تعارف حاصل کرو۔‘‘
اس مفہوم کی تائید درج ذیل آیات سے بھی ہوتی ہے، 

وَأَنَّہُ خَلَقَ الزَّوْجَیْْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی۔ (النجم:۴۵) 

ترجمہ:’’اور یہ کہ وہ ہے جس نے جوڑے کے دونوں فرد ، نر اور ناری، پیدا کئے‘‘ 

فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی۔ (القیامۃ: ۳۹) 

ترجمہ:’’پھر بنایا اس سے جوڑا، نر اور مادہ‘‘ 

وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی۔ (اللیل: ۳) 

ترجمہ:’’اور شاہد ہے نر ومادہ کی آفرینش‘‘۔
مذکورہ بالا ترجموں میں ایک بات اور توجہ طلب ہے کہ بعض لوگوں نے شعوبا کا ترجمہ ’’کنبے‘‘ کیا ہے، یہ درست نہیں ہے۔ شعوبا کا ترجمہ ’’قومیں‘‘ ہوگا، شعب قبیلے سے بڑا ہوتا ہے جبکہ کنبہ جب قبیلہ کے ساتھ بولا جاتا ہے تو کنبہ قبیلہ سے چھوٹا ہوتا ہے۔
(جاری)

حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کی وفات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ گزشتہ ماہ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق تونسہ شریف کے قریب لتڑی جنوبی سے تھا لیکن ان کی زندگی کا بیشتر حصہ گوجرانوالہ میں گزرا۔ وہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ابتدائی فضلاء میں سے تھے جب نصرۃ العلوم کے شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ تھے۔ بخاری شریف انہوں نے حضرت قاضی صاحبؒ سے پڑھی جبکہ دورۂ حدیث کے دیگر اسباق حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ ، اور حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ سے پڑھے۔ حضرات شیخینؒ اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے تھے اور ایک عرصہ تک نصرۃ العلوم کے دارالافتاء کے سربراہ رہے۔ ان کا شمار ملک کے معروف مفتیان کرام میں ہوتا تھا اور حضرت مولانا عبد الواحدؒ کی وفات کے بعد گوجرانوالہ کے علماء کرام اور اہل دین کا فتویٰ کے بارے میں عام طور پر رجوع انہی کی طرف رہتا تھا۔ 1975ء میں جب جمعیۃ علمائے اسلام کے تحت لوگوں کے تنازعات شریعت کے مطابق نمٹانے کے لیے پرائیویٹ سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا گیا تو وہ ضلع گوجرانوالہ کے نائب قاضی مقرر کیے گئے جبکہ ضلعی قاضی مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ تھے۔ کتاب اور تحقیق سے گہرا تعلق تھا، وہ میرے دورۂ حدیث سے فارغ ہو جانے کے بعد مدرسہ نصرۃ العلوم میں استاذ اور مفتی کے طور پر تشریف لائے جبکہ ہمارے دور میں استاذ محترم حضرت مولانا مفتی جمال احمد بنویؒ یہ ذمہ داری سر انجام دیتے تھے۔ 
مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ کے ساتھ زندگی بھر میرا ربط و تعلق رہا۔ ہمارے درمیان عام طور پر مختلف دینی مسائل کی تحقیق اور نادر کتابوں کے حوالہ سے گفتگو چلتی رہتی تھی۔ نوشہرہ سانسی کی مسجد توحیدی میں امامت و خطابت کے ساتھ ان کی رہائش تھی اور اسی علاقہ میں جامعہ فتاح العلوم کے نام سے ایک درسگاہ بھی انہوں نے قائم کر رکھی تھی جس میں اپنی صحت کے زمانہ میں افتاء کا کورس کراتے تھے۔ بہت سے فاضل علماء کرام نے ان سے استفادہ کیا اور فقہ و افتاء کی تربیت حاصل کی۔ جب بھی ملاقات ہوتی کسی نایاب کتاب یا کسی مسئلہ پر نئی تحقیق پر بات چیت ہوتی، کوئی نئی کتاب ان کے علم میں آتی یا مجھے معلوم ہوتی تو باہمی معلومات کا تبادلہ ہو جاتا اور مسائل پر گفتگو ہوتی۔ ملاقات میں زیادہ دیر ہو جاتی تو پیغام بھیجتے تھے کہ کسی روز آکر مل جاؤ، میں جاتا اور ان کی مسجد میں کسی نماز کے بعد درس دیتا، پھر کچھ دیر نشست رہتی، وہ مجھے کوئی کتاب ہدیہ کے طور پر مرحمت فرما دیتے۔ الشریعہ اکادمی میں بہت دفعہ تشریف لائے اور دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھتے۔ 
جمعہ سے قبل گیارہ بجے جامعہ فتاح العلوم کے قریب کھلے میدان میں ان کی نمازہ جنازہ برادر عزیز مولانا عبد القدوس قارن حفظہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں ادا کی گئی جس میں حضرت مولانا فضل الرحمن درخواستی، حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ، اور حضرت مولانا محب النبی بھی شریک تھے جبکہ شہر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بڑی تعداد نے جنازہ میں شرکت کی اور اس کے بعد ان کی میت تونسہ شریف روانہ کر دی گئی۔ 
حضرت مفتی صاحب مرحوم کے اساتذہ میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ بھی شامل تھے جن کا ذکر وہ اکثر کیا کرتے تھے جبکہ مولانا فضل الرحمانؒ مولانا مفتی محمد عیسیٰ خانؒ کے شاگرد ہیں اور انہوں نے صرف و نحو کی ابتدئی تعلیم ان سے حاصل کی ہے۔ مولانا مفتی عیسیٰ خانؒ مسائل کی تحقیق و تجزیہ کا ذوق رکھتے تھے اور مسئلہ کی تمام جزئیات تک رسائی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ وسیع المطالعہ بزرگ تھے، نادر کتابوں اور نئی نئی تحقیقات کے حوالہ سے ان کے ساتھ میری اکثر گفتگو رہتی تھی۔ کوئی نئی تحقیق سامنے آتی تو مجھے ضرور آگاہ کرتے اور رائے بھی طلب کرتے تھے۔ حضرت مولانا عبد العزیز پرھارویؒ کی کچھ تصانیف میں نے طالب علمی کے دور میں دیکھ رکھی تھیں لیکن ان کے علوم و معارف اور فیوض و کمالات سے زیادہ تر واقفیت حضرت مفتی صاحبؒ کے ذریعہ ہوئی جو حضرت مرحوم کی تحقیقات اور نادر رسائل کی جستجو میں رہتے تھے اور مجھ سمیت بہت سے دوستوں کو اس سے باخبر رکھتے تھے۔ 
بعض فقہی مسائل میں وہ اپنی مستقل رائے رکھتے تھے اور اس کا بلاجھجھک اظہار بھی کرتے تھے لیکن دوسروں کی رائے کا احترام ان کے ہاں پوری طرح پایا جاتا تھا۔ وہ سنجیدہ اہل علم کی طرح اختلاف کرتے تھے مگر مخالفت کے ماحول سے گریز کرتے تھے۔ اپنے اساتذہ میں مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا اکثر ذکر کرتے تھے اور ان کے علمی نکات بیان کیا کرتے تھے۔ افتاء و تدریس کی عمومی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دورۂ تفسیر قرآن بھی ان کا خاص ذوق تھا۔ دارالعلوم مدنیہ رسول پارک لاہور میں حضرت مولانا محب النبی کے مدرسہ میں انہوں نے کئی سال تک مسلسل دورۂ تفسیر پڑھایا۔ قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کا یہ ذوق انہوں نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ سے پایا تھا اور اپنے ان تین اساتذہ کے علمی نکات سے اپنے طلبہ کو بڑے ذوق کے ساتھ آگاہ کرتے تھے۔ 
مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ کے حوالہ سے میں ایک ذاتی واقعہ بھی ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ ۱۹۹۰ء کے دوران میں نے اپنے معاشی حالات و مشکلات سے تنگ آکر ترک وطن کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لندن میں میرا آنا جانا تو رہتا ہی تھا، میں نے اس دوران لندن جا کر وہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا اور ساؤتھال کی ابوبکر مسجد کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ گوجرانوالہ کے بہت سے دوستوں سے میں نے کہہ دیا کہ اب میں یہاں شاید واپس نہ آسکوں گا۔ حضرت والد محترم قدس اللہ سرہ العزیز سے بھی اجازت لے لی تھی، وہ میرے حالات اور مجبوریوں سے آگاہ تھے، اس لیے انہوں نے خاموش سی اجازت دے دی تھی۔ میں لندن گیا تو کم و بیش چھ ماہ تک وہاں قیام کیا، جبکہ مستقل قیام کی تیاریاں کر رہا تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ کا ایک درد بھرا خط موصول ہوا جس کا لہجہ یہ تھا کہ اتنا بڑا مرکز (مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ) کس کے حوالے کر کے چلے گئے ہو؟ اس مرکز کی رونقوں اور آبادی کو اب کون بحال کرے گا؟ اس لہجے میں کم و بیش دو صفحے کے تفصیلی خط نے مجھے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور کر دیا اور چند روز کے تردد کے بعد بالآخر میں واپس آگیا۔ اس کے بعد کم و بیش بیس سال تک مسلسل لندن جاتا رہا ہوں، مگر وہاں مستقل رہنے کا خیال پھر کبھی نہیں آیا جس کے پیچھے مفتی صاحب مرحوم کے اس خلوص اور سوز کا یقیناًبڑا حصہ ہے۔ 
مفتی صاحب مرحوم کی وفات سے چند روز قبل ان کے فرزند مولانا حافظ احمد اللہ گورمانی نے فون پر کہا کہ اباجی یاد کر رہے ہیں، میں نے ڈائری دیکھ کر چند روز کے بعد حاضری کا وعدہ کر لیا کہ مغرب آپ کے پاس پڑھوں گا، درس بھی دوں گا اور حضرت مفتی صاحب کی زیارت بھی کروں گا۔ مگر اس سے کچھ دن قبل ہی حضرت مفتی صاحبؒ ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مفتی صاحب مرحوم کے فرزندان گرامی مولانا حافظ امداد اللہ (فاضل نصرۃ العلوم)، مولانا پروفیسر حافظ عنایت اللہ، مولانا حافظ احمد اللہ اور دیگر اہل خاندان نے مدرسہ کے اہتمام کے لیے مفتی صاحب کے بڑے فرزند مولانا حافظ امداد اللہ پر اتفاق کر لیا ہے جو ایک اچھا فیصلہ ہے اور شہر کے سرکردہ علماء کرام نے اس کی تائید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحبؒ کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور ان کے بیٹوں، اہل خاندان، اور تلامذہ و رفقاء کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ 

جنید جمشیدؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جنید جمشیدؒ اپنے دوستوں اور ماحول سے رخصت ہو کر اللہ رب العزت کے حضور پیش ہو چکے ہیں مگر ان کی یاد اور تذکرہ کسی نہ کسی حوالہ سے مسلسل چل رہا ہے۔ طیارہ کے حادثہ میں جاں بحق ہونے والے شہداء کا غم قومی سطح پر منایا گیا ہے، وہ سب ہمارا قیمتی سرمایہ تھے اور ان سب کے لیے پوری قوم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاگو ہے کہ اللہ رب العزت ان کے ساتھ کرم کا معاملہ فرمائیں اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ 
جنید جمشید مرحوم کی جدائی کا غم جس طرح ہر طبقہ اور ہر سطح پر محسوس کیا گیا ہے اس کا رنگ ہی جدا ہے۔ دراصل یہ جنید جمشید نامی ایک شخص کو خراج عقیدت نہیں ہے بلکہ اس کردار اور طرز عمل کی پذیرائی ہے جس کے باعث جنید جمشید نے لاکھوں مداحوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔ اس کردار اور طرز عمل کو مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ عیش و عشرت ترک کر کے اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع، اس رجوع کے لیے خود آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی دعوت دینے اور مخلوقِ خدا کو خدا کے دروازے پر واپس لانے کا عمل ہے۔ انسان کی فطرتِ سلیمہ یہ ہے کہ وہ دنیا کی عیش و عشرت میں جس قدر بھی آگے بڑھ جائے اس کے دل کے اندر کہیں نہ کہیں وہ تار موجود ہوتا ہے جسے اگر بروقت اور سلیقے سے چھیڑ دیا جائے تو انسان کا ضمیر بیدار ہوتا ہے اور اسے اپنے خالق و مالک کی طرف واپس لوٹنے کے لیے آمادہ کر لیتا ہے۔ 
جنید جمشیدؒ نے ایک مقبول گلوکار سے دین کے ایک فکرمند داعی کے مقام کی طرف جو سفر کیا اسے دیکھ کر امت کے عظیم علمی و روحانی بزرگ حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو اتباع تابعین کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ حضرت امام بخاریؒ کے استاذ گرامی اور حضرت امام ابوحنیفہؒ کے مایۂ ناز شاگرد تھے اور علمی دنیا میں انہیں ’’امیر المومنین فی الحدیث‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں تاریخ کے صفحات یہ بتاتے ہیں کہ نوجوانی کے دور میں وہ موسیقی اور ناچ گانے کی محفلوں کے دلدادہ تھے، ان کے شب و روز اپنے جیسے دوستوں کے ہمراہ اسی قسم کی سرگرمیوں میں گزرتے تھے، اور بے تکلف دوستوں کا یہ طائفہ اکثر اوقات ناچ گانے کے ماحول میں مگن رہتا تھا۔ عبد اللہ بن مبارکؒ بتاتے ہیں کہ ایک روز کسی باغ میں اسی طرح کی محفل بپا تھی اور وہ دوستوں کے ساتھ خاصی دیر تک ان مشاغل میں مگن رہنے کے بعد سو گئے۔ خواب میں انہوں نے دیکھا کہ باغ کے ایک درخت پر خوبصورت سی چڑیا بیٹھی ہے اور مترنم آواز میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ رہی ہے: الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ کہ کیا ابھی ایمان والوں پر وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے نازل کردہ احکام کی طرف جھک جائیں؟ جب ان کی آنکھ کھلی تو ان کی زبان پر اس جملہ کا تکرار تھا کہ وہ وقت آگیا ہے، وہ وقت آگیا ہے۔ 
اس پر حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دین اور علم دین کی طرف آگئے۔ اور پھر انہوں نے علم، روحانیت اور جہاد کے محاذوں پر وہ خدمات سرانجام دیں کہ انہیں اتباع تابعین کے پورے طبقے کا امام کہا جاتا ہے اور ’’امیر المومنین فی الحدیث‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ اور امام سفیان ثوریؒ کی مجلس اختیار کی اور علم حدیث کے بڑے ائمہ میں شما رہونے لگے۔ رقص و سرود کی محفلوں کا رسیا شخص علم حدیث کے ماحول میں ایسا گم ہوا کہ ایک دن کسی دوست نے پوچھ لیا کہ آپ اس تنہائی سے بور نہیں ہوتے؟ جواب دیا کہ میں تنہا کب ہوتا ہوں، میں تو ہر وقت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے ماحول میں ہوتا ہوں اور میری گفتگو حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت انس بن مالکؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ جیسے بزرگوں سے ہر وقت ہوتی رہتی ہے۔ 
حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ کا دور تو بہت پرانا ہے ہم نے حال ہی میں حق کی طرف رجوع کرنے والی ایک اور شخصیت کو دیکھا ہے جسے دنیا ’’یوسف اسلام‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ وہ پاپ سنگر تھے اور موسیقی کی دنیا میں بڑا نام رکھتے تھے مگر جونہی اسلام قبول کیا ذہن و قلب کا رخ دین کی خدمت اور دعوت کے میدان کی طرف پھر گیا۔ میری ان سے پہلی ملاقات ڈیوزبری برطانیہ کے تبلیغی مرکز میں ایک بڑے تبلیغی اجتماع کے دوران ہوئی تھی۔ جبکہ بعد میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا مفتی محمد عیسیٰ منصوری کے ہمراہ میں نے لندن میں یوسف کے اسلامک سکول کا وزٹ بھی کیا ۔ وہ دین کی دعوت اور تعلیم دونوں میدانوں میں مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں اور برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی نئی نسل کو دین اور دینی اقدار کے ساتھ وابستہ رکھنا ان کا سب سے بڑا مشن بن گیا ہے۔ 
جنید جمشید اسی صف کے لوگوں میں سے تھے، جب زندگی کا رخ بدلا تو حمد و نعت کے ساتھ ساتھ دعوتِ دین کی محنت ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی، حتی کہ اپنے آخری سفر میں چترال کے تبلیغی مرکز میں اسی خدمت کو سرانجام دینے کے بعد وہ اس طیارے پر سوار ہوگئے جو ان کے لیے اپنے رب کی بارگاہ میں حضوری کا پروانہ ثابت ہوا۔ جنید جمشید کی جدائی پر وسیع پیمانے پر محسوس کیا جانے والا یہ غم دراصل ہمارے اس قومی اور معاشرتی جذبہ و احساس کا عکاس ہے کہ اپنے اللہ کی طرف رجوع، عیش و عشرت کے ماحول سے واپسی، اور آخرت کی تیاری کے لیے ہر مسلمان کے دل میں تڑپ کسی نہ کسی درجہ میں ضرور موجود ہے جسے بے ثبات دنیا کی رنگا رنگ آسائشوں نے گھیر رکھا ہے۔ اسے صرف صحیح راہنمائی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، یہ کام اگر سلیقے سے کیا جا سکے تو جنید جمشید کا غم محسوس کرنے والے لاکھوں افراد خود بھی جنید جمشید بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ طیارے کے حادثہ کے تمام شہداء کو جنید جمشید شہید سمیت جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور ان کے پسماندگان کو صبر و حوصلہ کے ساتھ اس صدمہ سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

اسلام کا دستوری قانون اور سیاسی نظام ۔ برعظیم پاکستان و ہند کے فتاویٰ کا تجزیاتی مطالعہ (۲)

ڈاکٹر محمد ارشد

(۶) عورت کی سربراہی

وہ واحد دستوری مسئلہ جس کی بابت اہل سنت کے تینوں مکاتبِ فکر (دیوبندی، اہلحدیث اور بریلوی) کے مفتیان کرام کے فتاویٰ کثرت سے دستیاب ہیں وہ مسئلہ عورت کی حکمرانی کا ہے۔ اس امر پر تینوں مکاتب فکر کے ہاں ایک طرح کا اجماع پایا جاتا ہے کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں اور اسلامی مملکت ؍حکومت کے سربراہ کا مرد از روئے شریعت مسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہور یا ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔ اسلامی مملکت میں سربراہی کے منصب کی ذمہ داریاں کسی خاتوں کو سونپی نہیں جا سکتیں۔ لہٰذا کسی اسلامی حکومت میں عورت کو سربراہ بنانا ہرگز جائز نہیں اور اگر کہیں ایسا ہو جائے تو مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جلد از جلد سربراہی کی تبدیلی کے لیے ممکنہ کوششوں کو بروئے کار لائیں(۲۶)۔ 
عورت کی حکمرانی کے عدم جواز میں مفتی محمد اشرف القادری نے بھی تفصیلی دلائل بیان کیے ہیں۔ ان کی رائے میں اسلام میں عورت سربراہ مملکت بوجوہ ذیل نہیں ہو سکتی:
۱: اسلام میں سربراہ مملکت کے تقرر سے دو باتیں مقصود ہوتی ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ اسلام میں سربراہ مملکت کی دو اہم ترین ذمہ داریاں ہوتی ہیں: اول اعلائے دین و تنفیذ و اشاعت شریعت؛ دوم سیاست مدن یعنی انتظام و دفاع مملکت و فلاح و نجاح رعیت۔اور ظاہر ہے کہ یہ کٹھن ذمہ داریاں ، اعلیٰ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں مثلا جسمانی قوت و علمی وسعت، کمالِ عقل و بصیرت، حسنِ تدبیر و جودتِ عزم و حزم، معاملہ فہمی و اصابتِ رائے جذبات پر قابو اور خود اعتمادی، مصائب میں صبر و استقامت، شدائد میں جوانمردی و ثابت قدمی وا ستقلال اور کمال شجاعت کے بغیر قطعاً پوری نہیں کی جا سکتیں۔اور یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان خداداد خوبیوں اور خلقی و قدرتی صلاحیتوں میں بلا شبہ مرد فطری طور پر عورت سے بڑھ کر اور اس کے مقابلے میں عورت ان صفات سے کمتر موصوف ہے۔ لہٰذا حکومت و سربراہی مملکت کا بار گراں عورت کے کمزور کاندھوں پہ ڈال دینا خلاف فطرت و ناانصافی ہے۔ ہاں اسلام کی نگاہ میں ان عظیم اور کٹھن ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہوناصرف اور صرف مرد ہی کا منصب ہے اور یہی فطرت و انصاف کا تقاضاہے(۲۷)۔ 
اہل حدیث عالم مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف کی رائے میں: ’’عورت امامت کی اہل ہے (عورتوں کی جماعت کے لیے) مگر حکمرانی ناجائز ہے‘‘ (۲۸)۔ 
ان فتاویٰ میں قطعی اور واضح طور پر اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ عورت امامت کبریٰ یعنی امارت عامہ کی اہل نہیں۔البتہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ منصب قضا پر بھی فائزہ ہو سکتی ہے کہ نہیں؟ اس سلسلے میں مفتی محمود (۱۹۱۹۔۱۹۸۰ء) کی رائے یہ ہے کہ ’’ ضروری طور پر بعض مسائل میں حدود و قصاص کے علاوہ اگر اس کو حکم (ثالث) بنایا جائے تو گنجائش ہے، اور اس میں بھی کامیابی مشکل ہے، لیکن کسی ملک کی تمام ذمہ داریوں کو اس کے حوالے کر دینا خلافِ عقل و نقل ہے‘‘۔ (۲۹)

(۷) طریق انتخابِ امیر/ سربراہ مملکت و حکومت

جیسا کہ سطورِ بالا میں مغربی جمہوریت اور اسلام کے سیاسی نظام کے مابین جوہری فرق کے بیان میں مفتی رشید احمد کی رائے نقل کی جا چکی ہے کہ اسلام کے نظام سیاست میں سربراہ مملکت ؍حکومت کے انتخاب و تقرر کے ضمن میں مملکت کے تمام شہریوں کو حق رائے دہی حاصل نہیں ہے بلکہ یہ حق صرف اور صرف اہل حل و عقد کو حاصل ہے۔ مفتی رشید احمد کی اس رائے کی تائید حافظ عبداللہ روپڑی کے فتویٰ سے بھی ہوتی ہے۔ حافظ عبداللہ روپڑی کی رائے میں بھی رائے عامہ کو اسلام کے سیاسی نظام میں کوئی اہمیت حاصل نہیں، بلکہ اصل اہمیت اہل حل و عقد کی رائے کو ہے۔ چنانچہ اسلامی مملکت ؍ حکومت کے سربراہ کا انتخاب و تقرر رائے عامہ سے نہیں بلکہ اہل حل وعقد کی رائے کے ذریعے ہو گا : 
’’انتخاب مجلس شوریٰ کے ارکان حل و عقد کرتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت علی کو جب باغیوں نے امیر بنانا چاہا تو فرمایا یہ تمہارا کام نہیں بلکہ مہاجرین وانصار کا کام ہے، جس کو وہ امیر بنائیں گئے وہ امیر ہو گا۔ مجموعی ووٹنگ اور رائے عامہ کوئی چیز نہیں۔ موقعہ محل کے لحاظ سے جس طرح انتخاب ہو جائے کر لینا چاہیے۔ جیسے ابو بکر صدیق کا انتخاب ہوا‘‘ (۳۰)۔ 
مفتی رشید احمد کی رائے میں’’ عوام پر یہ فرض ہے کہ انتخاب امیر کا مسئلہ خود طے کرنے کی بجائے ایسے اہل حل و عقد کے سپرد کریں جن میں انتخاب کی اہلیت ہو۔نصوص شرعیہ کے علاوہ عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ انتخاب امیر ہر کس و ناکس کا کام نہیں بلکہ اس کے لیے عقل کی ضرورت ہے اور علم دین و تقویٰ کے بغیر عقل کامل نہیں ہو سکتی‘‘ (۳۱)۔ 
سربراہ مملکت ؍ حکومت کے انتخاب کے طریق کے بارے میں مفتیان کرام نے بالعموم قرونِ وسطیٰ کے سیاسی مفکرین کی آراء کو من و عن قبول کر لیا ہے۔ اور اس کا مطلق خیال نہیں رکھا کہ دور جدید کے ایک غیر قبائلی معاشرے میں جدید ریاستی نظاموں کے تجربات سے اخذو استفادہ کرتے ہوئے انتخاب سربراہِ مملکت کے کون کون سے جائز طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ مفتی رشید احمد کی رائے میں اسلام میں انتخاب امیر کے تین طریقے ہیں:
۱ : بیعت اہل و عقد ، کما وقع لسیدنا ابی بکر ۔
۲ : استخلاف، خلیفۂ وقت چند اہل حل و عقد سے مشورہ کر کے کسی کے بارے میں وصیت کر دے کہ میرے بعد یہ خلیفہ ہوگا، جیساکہ حضرت ابو بکر نے حضرت عثمان، عبدالرحمن بن عوف،سعید بن زید، اسید بن حضیر اور مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کو منتخب فرمایا (۳۲) ۔
استخلاف ابو بکر کی تفصیل مذکور سے ثابت ہوا کہ بذریعۂ استخلاف انعقاد خلافت کے لیے تین شرائط ہیں:
(ا) خلیفۂ اول میں خلافت کی سب شرائط موجود ہوں؛ (ب) خلیفہ ثانی بھی سب شروط خلافت کا مستجمع ہو؛ (ج)خلیفہ اول نے خلیفہ ثانی کے انتخاب میں اہل حل و عقد سے مشورہ کیا ہو۔
۳: شوریٰ، خلیفۂ وقت چند اہل حل و عقد کی شوریٰ متعین کر کے یہ وصیت کر دے کہ میرے بعد یہ لوگ اتفاق رائے سے اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کریں، جیسا کہ حضرت عمر نے چھ رکنی مجلس متعین فرمائی، اس کے ذریعے حضرت عثمان کا انتخاب عمل میں آیا (۳۳)۔ 
مفتی رشید احمد کی رائے میں اگرچہ خلافت راشدہ کے سیاسی نظائر سے انتخاب امیر کے یہی تین طریقے ثابت ہیں، البتہ انعقادِ خلافت کا ایک جوتھا طریقہ استیلاء و تغلب کا بھی ہے، یعنی خلیفہ وقت کی موت کے بعد کوئی شخص جبراً و قہراً مسلط ہو جائے۔ مفتی رشید احمد کے نزدیک ایسے شخص کی خلافت منعقد ہو جائے گی، اس لیے اس کی اطاعت واجب ہے۔ مفتی رشید کے نزدیک استیلاء و تغلب کے ذریعے انعقادِ خلافت کی بھی دو قسمیں ہیں:
۱) یہ شخص شروط خلافت کا مستجمع ہو اور لوگوں کو صلح و حسن تد بیر سے مائل کرے، کوئی ناجائز اقدام نہ کرے۔ یہ قسم جائز ہے، حضرت معاویہ کی خلافت اسی طرح منعقد ہو ئی تھی۔
۲) اس شخص میں شروط خلافت نہ ہوں، اور اپنے مخالفین کو قتال اور دوسرے ناجائز حربوں سے تابع کر لے، یہ جائز نہیں، ایسا شخص فاسق اور سخت گنہگار ہے، مگر اس کے باوجود اس کے تسلط کے بعد اس کی اطاعت واجب ہے، بشرطیکہ اس کا حکم خلافِ شرع نہ ہو، اس کی مخالفت اور اسے معزول کرنے کی کوشش جائز نہیں(۳۴)۔ 
مفتی رشید احمد کے اس فتوے کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے انعقادِ خلافت (خلیفہ کے انتخاب و تقرر) میں متقدمین مسلم سیاسی مفکرین میں سے الماوردی اور متاخرین میں سے شاہ ولی اللہ دہلوی کے نقطۂ نظر کو پورے طور سے اختیار کر لیا ہے (۳۵)۔ 
اہلحدیث علماء نے بالعموم انتخاب امیر مملکت کے طریق سے متعلق اس نقطۂ نظر سے اختلاف کیا ہے۔ مولانا محمد اسماعیل سلفی کی رائے میں’’ قرون خیر میں انتخابات کی مختلف صورتیں سامنے آئی ہیں لیکن آئینی طور پر انتخاب کو نہ ان چار صورتوں میں حصر کیا گیا ہے اور نہ کسی ایک ہی کو پسند کیا گیا ہے بلکہ کوشش کی گئی ہے کہ کوئی ایسا آدمی اس بوجھ کو اٹھائے جومساکین کو اونچا کر سکے اور خود مساکین کی سی زندگی بسر کرے‘‘(۳۶) ۔ایک دوسرے اہل حدیث عالم ابومحمد حافظ عبدالستار الحمادکی رائے میں بھی سربراہ مملکت کے انتخاب کے لیے اسلام نے کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کیا ہے۔ جدید مغربی دنیا میں انتخابات کے جو طریقے رائج ہیں اسلام کے سیاسی نظام میں اس کی گنجائش موجود ہے ۔چنانچہ وہ سربراہ مملکت کے منصب کے لیے اہل فرد کے انتخاب و تقرر کے لیے جدید طریق انتخابات (الیکشن) کو جائز قرار دیتے ہیں۔ان کی رائے میں ’’ واضح رہے کہ موجودہ الیکشن جمہوریت کی پیداوار ہیں، اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہے کیوں کہ اس میں سربراہ مملکت کے انتخاب کے لیے کوئی لگا بندہ قاعدہ مقرر نہیں ہے بلکہ حالات وظروف کے پیش نظر اسلام میں اس کی گنجائش ہو سکتی ہے‘‘ (۳۷)۔ تاہم ایک تیسرے سلفی عالم حافظ عبدالمنان نور پوری موجودہ جمہوریت وطریق انتخابات کو بدعت تصور کرتے ہیں کیونکہ ان کی رائے میں یہ سب قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔ ان کی رائے میں ’’رائج جمہوریت و الیکشن کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ ۔ ۔ مروجہ الیکشن کتاب و سنت سے ثابت نہیں‘‘ (۳۸)۔ 

(۸) سربراہِ مملکت / حکومت کی مدت انتخاب

زیرِ بحث مجموعہ ہائے فتاویٰ کے مطالعہ سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مفتیان کرام سربراہِ مملکت ؍حکومت کے انتخاب و تقرر کے لیے کسی معینہ مدت کو غیر ضروری تصور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مدت انتخاب سے زیادہ اہمیت اس منصب کے لیے منتخب ہونے والے فر د میں پائے جانے والے اوصاف کو حاصل ہے۔ اگر منصب سربراہی پر فائز ہونے والا شخص مطلوبہ شرائط پر کماحقہ پورا اترتا ہو تو اس کے عہدے کی میعاد مقرر کرنا نا مناسب ہو گا۔ چنانچہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی رائے میں: 
’’انتخاب ہر پانچ سال بعد کرانا کوئی شرعی فرض نہیں، لیکن حکمران میں کوئی بھی ایسی خرابی نہ پائی جائے جو اس کی معزولی کا تقاضا کرتی ہو تو اس کو بدلنا بھی جائز نہیں۔ دراصل اسلام کا نظریہ اس بارے میں یہ ہے کہ وہ حکومت تبدیل کرنے کے مسئلہ کو اہمیت دینے کے بجائے منتخب ہونے والے حکمران کی صفاتِ اہلیت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اسلامی ذوق سے قریب تر بات یہ ہے کہ قوم کے اہل رائے حضرات صدر یا امیر کاچناؤ کریں اور پھر وہ اہل الرائے کے مشورے سے اپنے معاونین و رفقاء کو خود منتخب کرے‘‘ ۔ (۳۹)

(۹) مجلس شوریٰ /مجلس اہل حل و عقد کی تشکیل

مجلس شوریٰ ؍مجلس اہل حل و عقد نیز اس کے ارکان کی اہلیت کے شرائط و اوصاف نیز مجلس شوریٰ ؍مجلس اہل حل و عقد کی تشکیل و تقرر کے بارے میں فتاویٰ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتیان کرام ارکان شوریٰ(اہل حل و عقد) کے لیے چند معینہ شرائط و اوصاف کو تو ناگزیر خیال کرتے ہیں البتہ شوریٰ کو ایک ادارے کی شکل میں منظم کرنے نیز ارکان شوریٰ کے انتخاب کے لیے کسی نوع کے استصواب رائے کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ ارکان شوریٰ کے انتخاب کو رئیسِ مملکت ؍حکومت کا صوابدیدی اختیار تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ مجلس شوریٰ کے ارکان کی تعداد کی تعیین کو بھی غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ان کی رائے میں ارکان شوریٰ کی اہلیت کے شرائط و اوصاف کو انتہائی اہمیت حاصل ہے، البتہ بقیہ امور چنداں اہمیت نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں مفتی رشید احمد اور مفتی محمد شفیع کے فتاویٰ کو بطورمثال پیش کیا جا سکتا ہے (۴۰)۔ مفتی محمد شفیع ارکانِ شوریٰ کے انتخاب کو امیر مملکت کی ذاتی رائے پر منحصر خیال کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں’’ ارکان مجلس شوریٰ کا انتخاب بھی اسلامی سیاست میں اس طوفان بے تمیزی کے ساتھ نہیں ہوتا جو موجودہ جمہوریت کا طغرائے امتیاز ہے اور جس کی بدولت تمام ملک جنگ و جدل بغض و عناد کی آماجگاہ بنا ہوا ہے بلکہ یہ انتخاب عموماً امیر خود اپنی رائے سے کرتا ہے‘‘ (۴۱)۔ 

(۱۰)  اصول مشورہ ۔ مشورہ کا فیصلہ کثرت رائے پر ہے یا امیر مجلس کی رائے پر

امور مملکت و حکومت کے باب میں مجلس شوریٰ ؍ مجلس اہل حل و عقد کے مشورہ کے ردو قبول میں سربراہ مملکت؍حکومت کے اختیارات کیا ہیں اور ان اختیارات کے استعمال کی حدود کیا ہیں؟ جدید مغربی نظام سیاست میں امور مملکت میں فیصلہ سازی کا معاملہ ہو یا مہمات امور میں قانون سازی کا عمل ہو ، ان سب امور میں مقننہ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ ان اداروں میں بحث مباحثہ کے بعد اصول اکثریت (اکثریت کی رائے) کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ جبکہ مذکورہ مجموعہ ہائے فتاویٰ کے مؤلفین کی آرا سے یہ آشکارا ہوتا ہے کہ ’’ مشورہ میں اگر اختلاف رائے پیش آئے تو فیصلہ کثرت رائے کے سپرد نہیں، بلکہ امیر کی رائے پر ہے اور اس کو اختیار ہے کہ اقلیت کو اکثریت پر ترجیح دے دے‘‘ (۴۲)۔ گویا سربراہ مملکت ؍حکومت ہر معاملے میں مجلس شوریٰ کے ارکان کی اکثریت کی رائے کو ویٹو کر کے تنہا اپنی رائے کے موافق فیصلہ کرسکتاہے۔ اس ضمن میں مفتی محمد شفیع قرآن حکیم کی آیت: وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ سے استدلال کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں قرآن عزیز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کا حکم فرمانے کے بعد: فاذا عزمت فتوکل علی اللہ (پھر جب آپ عزم کریں تو اللہ تعالیٰ پر توکل کریں)، بصیغہ واحد حاضر فرما کر اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مشورہ کے بعد کسی جانب کو ترجیح دے کر اس کا عزم کرنا فقط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے پر ہوگا۔ خود آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے بہت سے معاملات اس کے شاہد ہیں‘‘ (۴۳)۔ اس مسئلے میں مفتی محمد شفیع کی تفصیلی رائے ملاحظہ ہو:
’’ اصولی طور پر اس بحث میں بھی ہمیں سب سے پہلے قرآن عزیز کو حکم بنانا چاہیے اور اسی کے فیصلہ کو محکم اور مختتم فیصلہ سمجھنا چاہیے۔ مشورہ کے متعلق قرآن عزیز کی سب سے زیادہ مشہور آیت یہ ہے: وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ( آپ (معاملات میں ) صحابہ اور مسلمانوں سے مشورہ لیجیے اور جب پختہ ارادہ کریں تو اللہ تعالیٰ پر توکل کیجیے)۔ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا یا ہے کہ اہم معاملات میں (جن میں صریح وحی نہ آئی ہو) صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا کریں لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ مشورہ کے بعد جب آپ کسی ایک جانب کا عزم فرمائیں تو اس میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد کریں، اپنی رائے یا مشورہ پر بھروسہ نہ کریں۔ جس سے صاف معلوم ہوا کہ مشورہ کے بعد کسی ایک جانب کو ترجیح دینا اور اس کا عزم کرنا یہ فقط امیر مجلس کی رائے پر موقوف ہے۔ اور اگر مشورہ کا فیصلہ کثرت رائے کے سپرد ہوتا تو مناسب تھا کہ عزم کے لیے بھی جمع کا صیغہ استعمال کر کے یوں فرمایا جاتا: ’’فاذا عزموا‘‘ (یعنی جب صحابہ کسی کام کا عزم کریں)‘‘ (۴۴)۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی کا موقف بھی اسی رائے کے مماثل ہے۔ ان کی رائے میں بھی ’’حکومت کا سربراہ اہل مشورہ سے مشورہ لینے کا پابند ہے مگر کثرت رائے پر عمل کرنے کا پابند نہیں، بلکہ قوتِ دلیل پر عمل کرنے کا پابند ہے‘‘ (۴۵)۔ حافظ عبداللہ روپڑی بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں بھی مجلس شوریٰ کی حیثیت صرف یہی ہے کہ مشورہ طلب امور میں رائے پیش کردے اور بس۔ اس کی رائے حاکمہ(سربراہ مملکت؍حکومت )کے لیے واجب التعمیل ہر گز نہیں۔ حافظ عبداللہ روپڑی کی رائے ملاحظہ ہو:
’’ مجلس شوریٰ کی حیثیت صرف مشورہ کی ہوتی ہے مختلف آرائیں ہو جائیں تو فیصلہ امیر کرتا ہے خواہ قلت کی طرف کرے یا کثرت کی طرف اور مجلس شوریٰ کے ممبر اہلِ حل و عقد ہوتے ہیں جس معاملہ میں مشورہ کرنا ہو اس معاملہ میں جو مہارت رکھتے ہوں ان سے امیر مشورہ لے تعداد کوئی مقرر نہیں ۔ چنانچہ حضرت عمر نے ملک شام کو جانے کے موقع پر پہلے مہاجرین سے مشورہ لیا پھر انصار سے مشورہ کیا پھر پرانے مہاجرین سے مشورہ لیا۔ معاملہ یہ تھا کہ راستے میں خبر پہنچی کہ شام میں طاعون ہے اس حالت میں جانا چاہیے یا واپس ہو جانا چاہیے۔ حضرت عمر نے اس پر فیصلہ دے دیا‘‘۔ (۴۶)
اسلامی مملکت میں مجلس شوریٰ کے کردار اور اس کے اختیارات سے متعلق اس معروف نقطۂ نظر کے بر خلاف مولانا محمد اسماعیل سلفی کے نزدیک مشورہ کے ردو قبول میں امیرِ مملکت کا اختیار کوئی امر منصوص ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک ایسا دستوری مسئلہ ہے جسے ہر دور میں ارباب فکر کی صواب دید کے مطابق طے ہونا چاہیے ۔۔ مولانا محمداسماعیل سلفی کی رائے میں:
’’مشورہ کے ردو قبول میں امام کے اختیارات کیا ہیں اور ان اختیارات کے استعمال کی حدود کیا ہیں یہ ایک دستوری مسئلہ ہے جسے ہر دور میں ارباب فکر کی صوابدید کے مطابق طے ہونا چاہیے۔ نصوص میں نہ اس کی تصریح ہے اور نہ ہی ایسی چیزیں نصوص میں آنا ضروری ہیں۔ البتہ ایسے واقعات ضرور ملتے ہیں جہاں امیر نے شورٰی کو مسترد کر دیا۔ یہ دستوری مسائل ہر دور اور ہر ملک کے دانش مندوں کی رائے سے طے ہونے چاہئیں‘‘۔ (۴۷)

(۱۱) امیر کا مجلس شوریٰ کے سامنے جواب دہ ہونا 

مجلس شوریٰ کے کردار اور اختیارات کے سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کا امیر مجلس شوریٰ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے یا نہیں؟ علمائے برصغیر میں سے صرف حافظ عبداللہ روپڑی نے اس مسئلہ سے تعرض کیا ہے اور وہ بھی انتہائی اختصار کے ساتھ۔ ان کے رائے میں امیر مملکت’’ اگر بے انصافی کرے تو جواب دہ ہوتا ہے‘‘ (۴۸)۔ 

(۱۲) ووٹ اور ووٹر (حق رائے دہی اور رائے دہندگان)

امیر مملکت ؍سربراہِ حکومت کے انتخاب کے علاوہ دیگر انتخابی عہدوں(مجالس قانون ساز، کونسل وغیرہ) کے لیے ووٹ کے صحیح استعمال کو علماء و مفتیان کرام نے بڑی اہمیت دی ہے۔ علماء نے ووٹ کو ایک امانت قرار دیا ہے اور اسے صر ف اور صرف دیانت و امانت، عدل و قسط اور تقویٰ جیسی صفات سے متصف اور اچھے سیرت و کردار کے حامل امیدواروں کے حق میں استعمال کرنے نیز اس سلسلہ میں کسی بھی ترغیب و ترہیب ، لالچ، طمع اور رشوت سے اجتناب کو شرعی فریضہ قرار دیا ہے۔ ووٹ کی شرعی حیثیت کے بارے میں مفتی کفایت اللہ دہلوی(۴۹) ، مفتی محمد شفیع اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے تفصیل سے اظہار رائے کیا ہے۔ مفتی محمد شفیع کی رائے میں کسی امیدوارِ ممبری کو ووٹ دینے کی از روئے قرآن و حدیث چند حیثیتیں ہیں۔ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت و امانت بھی۔ اور اگر واقع میں ا س شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں، اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے ، جو سخت کبیرہ گناہ اور وبال دنیا و آخرت ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کا ذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر بلکہ اکبر کبائرمیں شمار فرمایا ہے ۔ جس حلقہ میں چند امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں فلاں آدمی قابلِ ترجیح ہے، تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اس اکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے۔ اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے، محض رسمی مروت یا کسی طمع و خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اس وبال میں مبتلا نہ کرے ۔ ووٹ کی ایک شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے۔ لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی ، اوراس کا نفع نقصان صرف اس کی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا، مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لئے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر رہا۔ اگر امید وار بے دین و نااہل اور ظالم ہے تو اس کو ووٹ دینا سخت گناہ ہے، کیونکہ ووٹ دینا ایک امانت ہے، امانت کو جو اس کا اہل ہو اس کے حوالے کیا جائے (۵۰)۔
ان فتاویٰ میں امیدواروں کی طرف سے ووٹوں کے حصول کے لیے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے، ووٹروں کو دنیوی لالچ دینے، اسی طرح کسی امیدوار کا رقم لے کر دوسرے امیدوار کے حق میں دست بردار ہونے کو صریحاً ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے۔ووٹروں کا ووٹ کے معاوضہ میں اپنی ذات کے لیے روپیہ لینا رشوت اور ناجائز بتایا گیا ہے (۵۱)۔ دیوبند مکتب فکر کے مفتیان کرام امیدواروں کے مسلک و عقیدہ کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک ’’شیعہ کو ووٹ دینا سخت گناہ ہے۔ جس شخص کے مرزائی ہونے کے شواہد موجود ہوں، اس کو ووٹ دینا قطعاً جائز نہیں۔ ووٹروں پر لازم ہے کہ مرزائی کے بجائے کسی مسلمان کو منتخب کیا جائے‘‘ (۵۲)۔ 
اس موضوع پر فتاویٰ کا خلاصہ یہ کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام ، اس پر کو ئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس کو محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔ ووٹر جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعاً وہ اس کے بارے میں اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم اور عمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے، جس کام اور منصب کے لیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں (۵۳)۔ 

(۱۳) عورت کا حق ووٹ (حق رائے دہی)

پاکستان و ہند کے مجموعہ ہائے فتاویٰ میں اس موضوع پر بہت ہی کم فتاویٰ ملتے ہیں۔ البتہ مفتی محمو د نے ، جو پاکستان کی انتخابی سیاست میں طویل عرصے تک سرگرم عمل رہے، اپنے ایک فتویٰ میں اس پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی رائے میں دینی و ملی مصالح کا اگر تقاضا ہو تو عورت کو حق رائے دہی تفویض کیا جا سکتا اور وہ اپنے اس حق کو استعمال کر سکتی ہے۔ ’’عورتوں کا ووٹ بنانا جائز ہے، ضروری نہیں۔ اور اگر دینی مفاد کے پیشِ نظر ہو تو وہ اپنا ووٹ بے پردگی سے بچتے ہوئے استعمال کر سکتی ہے۔ اور اگر کوئی اہم دینی مصلحت پیش نظر نہ ہو تو عورتوں کے لیے ووٹ کا استعمال کرنا قباحت سے خالی نہیں‘‘۔ (۵۴)

(۱۴) ووٹر کی اہلیت کے شرائط

ووٹ کی اہمیت کے پیش نظر علماء نے ووٹرکی اہلیت کے شرائط بھی مقرر کیے ہیں۔ ان کی رائے میں ووٹر کیے لیے ضروری ہے کہ وہ کھوٹے اور کھرے، نیک اور بد میں تمیز کا شعور رکھتا ہو تاکہ نیک اور صالح نیز اہل اور فرض شناس افراد قیادت کے منصب کے لیے منتخب ہوں۔ اہل حدیث عالم مفتی عبدالستار الحماد کی رائے میں جس طرح ’’ سربراہ مملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کبائر سے گریزاں اور اس کا ماضی داغ دار نہ ہو، اسی طرح ووٹر کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ صاحب شعور اور کھرے کھوٹے کی تمیز کر سکتا ہو۔ کسی کو نمائندہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے متعلق اس قدر لیاقت ، معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو نمٹانے کی صلاحیت رکھنے کی گواہی دینا ہے۔ اس لیے گواہی دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے برے کے درمیان تمیز کر سکتا ہو اور امیدوار کے کردار کو اچھی طرح جانتا ہو اگر ان باتوں کا خیال نہ رکھا گیا تو فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جب معاملات کی بھاگ ڈور نالائقوں کے سپرد کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا‘‘۔ (۵۵)

(۱۵) اسلامی مملکت میں شہریوں کے حقوق

ا) مسلم شہریوں کے حقوق : برعظیم پاکستان و ہند کے مجموعہ ہائے فتاویٰ میں شہریوں کے حقوق کے متعلق فتاویٰ کالمعدوم ہیں۔ صرف مفتی محمد شفیع نے اپنے کتا بچہ دستور قرآنی میں، جو اب ان کے مجموعہ فتاویٰ جواھر الفقہ میں شامل ہے، شہریوں کے حق آزادی و حریت پر بھی مختصرا کلام کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی ۱۹۵۱ء میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے نفاذ اورحکومت کی طرف سے قومی سلامتی کے نام پر شہریوں کی پکڑ دھکڑ اور قید و بند کی سزاؤں کو غیر شرعی قرار دیا۔ مفتی محمد شفیع نے اپنے ایک فتوے میں حکومت کی طرف سے شہریوں کی آزادی سلب کرنے کے بارے میں برملا طور پر کہا: 
’’حکومت کا فرض ہے کہ کسی باشندۂ ملک کی جائز آزادی کو سلب نہ کرے جب تک اس پر کوئی جرم ثابت نہ ہو اور اس کو صفائی کا موقع نہ دیا جائے، اس لیے مروجہ سیفٹی ایکٹ اصول اسلام کیخلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ بلا اثبات جرم کسی شخص کو سزا دینا یا قید کرنا عدل و انصاف کے خلاف ہے اور قرآن مجید کی بیشمار آیات عدل و انصاف کی تاکید کے لیے نازل ہوئی ہیں ۔۔۔ محض پولیس کی رپورٹ پر کسی کو قید نہیں کیا جا سکتا جب تک اس پر باقاعدہ عدالت میں ثقہ اور قابل اعتماد شہادتوں سے جرم ثابت نہ کر دیا جائے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ ملزم کو حراست میں نہ لیا جائے اور اس کو بھاگ جانے کا موقع دیا جائے بلکہ حاصل یہ ہے کہ حراست میں لینے کے بعد اس کے جرم کی تحقیقات کر کے کسی باقاعدہ عدالت کے سامنے اس کا جرم ثابت کرنے سے پہلے اس کو کسی معینہ مدت کے لیے قید نہیں کیا جا سکتا، تا تحقیقات حراست میں رکھنا اس کے منافی نہیں‘‘۔ (۵۶)
ب) غیر مسلموں کے حقوق : زیر بحث فتاویٰ کے مطالعہ سے یہ امر بھی بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ علماء نے بلحاظ شہریتی حیثیت اور حقوق کے ا سلامی مملکت کے مسلم اور غیر مسلم شہریوں میں فرق و امتیاز قائم رکھا ہے۔ ان فتاویٰ کی رو سے بہت سے معاملات میں غیر مسلموں کا درجہ مسلمان شہریوں کے مقابلے میں کم تر ہوگا ، ان کو حکومت کی کلیدی اسامیوں پر تعینات نہیں کیا جائے گا، قضا اور افتاء کا کام ان کے سپرد نہیں کیا جائے گا (۵۷)۔ 
مفتیانِ کرام کی رائے میں اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو ان کی جان ، مال اورآبرو کے تحفظ و سلامتی کا ویسا ہی حق حاصل ہوگا جیسا کہ مملکت کے مسلم شہریوں کو حاصل ہے۔ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ غیر مسلم باشندگان ملک کی جان، مال، آبرو کی اسی طرح حفاظت کریں جس طرح مسلمان کی کی جاتی ہے(۵۸)۔ البتہ سیاسی اور مذہبی معاملات میں غیر مسلم شہریوں کو کھلے مقامات پر تبلیغی اجتماعات منعقد کرنے اور کفر و شرک کی تبلیغ کی اجازت حاصل نہ ہوگی۔ اسی طرح مملکت کے غیر مسلم شہریوں کو نہ صرف یہ کہ نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرنے کی اجازت نہ ہوگی ۔ وہ پرانی عبادت گاہیں کی مرمت تو کرسکتے ہیں البتہ قدیم عمارت پر اضافہ نہیں کر سکتے۔ اس باب میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے یہ رائے ظاہر کی ہے:
’’دارالاسلام میں غیر مسلموں کو تبلیغی اجتماع کی اجازت نہیں: دارالاسلام میں غیر مسلمین اپنے گھروں یا عبادت گاہوں میں مذہبی تبلیغ کر سکتے ہیں، کھلے مقامات پر انہیں تبلیغی اجتماع کی اجازت نہیں دی جا سکتی، حتیٰ کہ وہ اپنی مذہبی کتاب بھی بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتے ۔۔۔ غیر مسلمین کو دارالاسلام میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں، پرانی عبادت گاہیں باقی رکھ سکتے ہیں، ان کی مرمت بھی کر سکتے ہیں، مگر قدیم عمارت پر اضافہ نہیں کر سکتے، اسی طرح ان کا کوئی شہر فتح ہونے کے وقت اس میں اگر کوئی عبادت گاہ ویران تھی تو اسے از سرِ نو آباد کرنے کی اجازت نہیں۔‘‘ (۵۹)
مولانا ظفر احمد عثمانی کی اس رائے کو مکمل طور سے مفتی رشید احمد نے احسن الفتاویٰ میں اختیار کیا ہے۔ (۶۰) اہل حدیث مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف کی رائے میں بھی اسلامی مملکت کی ’’ذمی رعایا (ہندو، عیسائی اور قادیانی)نیا عبادت خانہ تعمیر نہیں کر سکتی‘‘ (۶۱)۔ 

اختتامیہ

اسلام کے دستوری قانون اور سیاسی نظام سے متعلق برعظیم پاکستان و ہند کے علماء کے مذکورہ فتاویٰ کے جائزہ سے یہ امر الم نشرح ہو جاتا ہے کہ ان( علماء و مفتیان کرام ) کا سیاسی تفکر عمیق طور سے مسلم کلاسیکی قانونی و سیاسی فکر میں رچا بسا ہوا ہے۔ دستوری و سیاسی مسائل خصوصاًخلیفہ؍ امیر؍رئیس مملکت کی اہلیت کے شرائط، اس کے انتخاب و تقرر کے طریق کار، مجلس شوریٰ کی تشکیل ، اور اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی حیثیت اور حقوق وغیرہ امور میں گزشتہ صدیوں میں علماء و فقہا نے جو آراء پیش کی تھیں، ان فتاویٰ میں ان آراء کو کامل طور سے اختیار کر لیا گیا ہے (۶۲)۔ بالفاظ دیگر ان فتاویٰ میں تقلیدی رجحان کامل طور سے کار فرما ہے ، اجتہاد ی آرا سے گریز کیا گیا ہے۔ فن مملکت داری (statecraft) میں معاصر اقوام کے تجربات و اختراعات کے بارے میں یہ فتاویٰ بالعموم خاموش ہیں۔ ان فتاویٰ میں اسلامی دستور اور سیاسی نظام کے بعض اہم مسائل کے بارے میں بیان کی گئی آراپاکستان میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے داعی و علمبرداروں (خصوصاً سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی اور علامہ محمد اسد، جنہوں نے اسلامی دستور اور سیاسی نظام کے خدوخال کی تنقیح کا قابل ذکر کام انجام دیا) کے آرا سے بھی مختلف نظر آتی ہیں (۶۳)۔ علمائے اہل سنت کے مجموعہ ہائے فتاویٰ کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امیر مملکت کے انتخاب و تقرر کے معاملہ میں جمہور مسلمانوں کی رائے کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ وہ امور مملکت بالخصوص سربراہ مملکت و حکومت اور مجلس شوریٰ کے ارکان کے انتخاب میں جمہور مسلمین کی رضا مندی اور رائے کے حصول کا کوئی قابل عمل میکینزم تجویز ہی نہیں کرتے۔
علماء حکومت کے مروجہ نظاموں میں سے صدارتی طرزِ حکومت کو اسلام کے مزاج اور اصول سے قریب تر گردانتے ہیں،کیونکہ ان کی نظر میں حکم و فیصلہ کی ذمہ داری خلیفہ ؍ امیر مملکت پر ڈالی گئی ہے جو صرف صدارتی طرزِ حکومت ہی میں ممکن ہو سکتی ہے، جب کہ پارلیمانی طرز حکومت میں امیر مملکت پر ایسی کوئی ذمہ دار ی عائد نہیں ہوتی۔ مزید براں وہ شوریٰ کو ایک غیر متعین ادارہ سمجھتے ہیں، وہ مجلس شوریٰ کے مدت انتخاب (tenure) کے بارے میں با لکل خاموش ہیں۔
ان فتاویٰ میں سربراہ مملکت و حکومت کے لیے مجلس شوریٰ کے ارکان کے انتخا ب و تقرر نیز فیصلہ سازی کے عمل میں شوریٰ کی اکثریتی رائے کے ردو قبول میں ویٹو کا اختیارتسلیم کیا گیا ہے۔ یہ فتاویٰ رئیس مملکت کو مطلق العنان اختیارات سونپ دیتے ہیں۔دستوری و سیاسی مسائل پر ان فتاویٰ میں اسلامی مملکت کے مسلم اور غیر مسلم شہریوں کی حیثیت اور ان کے حقوق میں واضح فرق و امتیاز قائم کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان فتاویٰ کی رو سے اسلامی ریاست میں غیر مسلم قومیں جزیہ ادا کریں گی اور مذہبی حقوق نیز سیاسی و انتظامی معاملات میں ان کا درجہ مسلمان شہریوں سے کم تر ہوگا (۶۴)۔ ان فتاویٰ کے جائزہ سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ علماء جدید دور کی اسلامی مملکت کے دستور اور اس کے اداروں کی تشکیل و تنظیم (Statecraft) کے باب میں معاصر نظاموں کے تجربات سے اخذو استفادے سے بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

حوالہ جات و حواشی

۲۶) دیکھیے: مولانا مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود (لاہور: جمعےۃ پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء)، جلد ۱۱، ص۳۷۴۔۳۷۵؛ مفتی محمد رفیع عثمانی و مولانا سلیم اللہ، ’’عورت کی حکمرانی :اکابر علماء کا فیصلہ‘‘، مشمولہ مفتی رشید احمد، احسن الفتاویٰ، جلد ۶، ص ۱۸۲۔ اس مفصل فتویٰ کے متن کے لیے دیکھیے: احسن الفتاویٰ، جلد۶، ص ۱۴۹۔۱۸۲؛ ’’عورت کی ولایت بالاجماع جائز نہیں‘‘، احسن الفتاویٰ، جلد ۶، ص ۱۸۳۔۱۹۲۔
۲۷) مفتی محمد اشرف القادری، امارۃ المرأۃ : عورت کی حکمرانی کے مسئلہ پر محققانہ شرعی فتویٰ (نیک آباد، گجرات: اہلسنت اکیڈمی ، جون۱۹۸۸ء)، ص ۳۔۵۔ عورت کی حکمرانی کے بارے میں جدید الخیال اہل قلم کے نقطۂ نظر کے بارے میں ملاحظہ ہو: مشیر الحق، ’’عورت کی حکمرانی: ایک اسلامی نقطۂ نظر‘‘، صحیفہ (لاہور)، شمارہ اپریل، جون ۱۹۸۹ء، ص ۱۔۱۲ ۔
۲۸) مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف، فتاویٰٰ محمدیہ: منہج سلف صالحین کے مطابق (مرتبہ: ابوالحسن مبشر احمد ربانی) (لاہور: مکتبۂ قدوسیہ، ۲۰۱۰ء)، ص ۴۱۴۔۴۱۷۔مزید دیکھیے: حافظ صلاح الدین یوسف، عورت کی سربراہی کا مسئلہ اور شبہات ومغالطات کا ایک جائزہ (لاہور: دارالدعوۃ السلفیہ، ۱۴۱۰ھ؍۱۹۹۰ء)؛ علامہ محمد اشرف سیالوی، اسلام اور عورت کی حکمرانی (لاہور:عالمی دعوتِ اسلامیہ، ۱۹۹۶ء)۔
۲۹) مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود، جلد ۱۱، ص ۴۷۵۔
۳۰) حافظ عبداللہ روپڑی، فتاویٰ اہل حدیث (تحقیق و تدوین: محمد صدیق بن عبد العزیز) ( سرگودھا: ادارۂ احیاء السنۃ النبوےۃ، س۔ ن)، جلد ۳، ص ۴۰۲۔۴۰۳۔ حافظ عبداللہ روپڑی نے اپنی ایک دوسری کتاب مرزائیت اور اسلام میں بھی اس موضوع پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔
۳۱) مفتی رشید احمد، احسن الفتاویٰ، جلد ۶، ص ۱۴۴۔
۳۲) ایضاً ، جلد ۶، ص ۱۴۵۔
۳۳) ایضاً ، ص ۱۴۵۔۱۴۶۔
۳۴) ایضاً ، جلد۶، ص۱۴۵۔۱۴۷۔
۳۵) انتخاب امام کے طریق کار کے بارے میں شاہ ولی اللہ کے آراء کے بارے میں ملاحظہ ہو: ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء (مترجمہ: مولانا عبدالشکور فاروقی و مولانا اشتیاق احمد ) (کراچی: قدیمی کتب خانہ، س۔ ن۔)، جلد ۱، ص ۱۷۔۲۶، ۳۳۔۳۵، ۵۳۱۔۵۳۶۔ خلیفہ کے انتخاب و تقرر کے طریق کارخصوصاً امارۃ الاستیلاء کے بارے میں شاہ ولی اللہ کے خیالات و آراء کے جائزہ کے لیے ملاحظہ ہو: عبیداللہ فہد، ’’شاہ ولی اللہ کے سیاسی افکار‘‘، مشمولہ محمد ےٰسین مظہر صدیقی (مرتب)، حجۃ اللہ البالغہ: ایک تجزیاتی مطالعہ ( علی گڑھ: شاہ ولی اللہ ریسرچ سیل، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ۲۰۰۲ء)، ص۲۱۹۔۲۲۸۔
۳۶) مولانا محمد اسماعیل سلفی،’’ افتتاحیہ‘‘، فتاویٰ ثنائیہ، جلد۲ ،ص ۵۸۵۔
۳۷) ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد، فتاویٰ اصحاب الحدیث، جلد دوم، ص ۴۵۸۔ ۴۵۹۔
۳۸) حافظ عبدالمنان نور پوری، قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل، جلد ۲، ص۶۹۲۔۶۹۳۔
۳۹) محمد یوسف لدھیانوی، آپ کے مسائل اور اُن کا حل جلد ۸، ص ۲۰۲۔
۴۰) مفتی رشید احمد، احسن الفتاویٰ، ص ۱۴۳۔ 
۴۱) مفتی محمد شفیع، جواہر الفقہ، جلد پنجم، ص ۴۶۷۔مولانا محمد ادریس کاندھلوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کے خلیفہ مفتی سید نعیم الدین مراد آبادی دونوں کی رائے میں شوریٰ کے تقرر و انتخاب کا اختیار امیر مملکت کو حاصل ہے۔ مؤخرالذکر کی رائے میں جماعت شوریٰ امیر کے ماتحت ہوگی۔ دیکھیے: محمد ادریس کاندھلوی، دستورِ اسلام مع نظام اسلام (لاہور: مکتبۂ عثمانیہ، س۔ ن؍ لاہور: تعلیمی پریس، ۱۹۶۸ء)، ص ۵۳۔۵۸ ؛ سید غلام معین الدین نعیمی، حیات صدر الافاضل: حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے حالات زندگی (لاہور: فرید بک سٹال، ۲۰۰۰ء)، ص ۱۹۴۔۱۹۵۔
۴۲) مفتی محمد شفیع، جواہر الفقہ، کتاب الحظر والاباحۃ، جلد پنجم، ص ۴۶۱۔
۴۳) ایضاً ، جلد ۵ ، ص ۴۶۱۔
۴۴) ایضاً ، جلد ۵،ص ۴۶۸۔۴۶۹۔
۴۵) مولانا محمدیوسف لدھیانوی، آپ کے مسائل اور ان کا حل ، جلد۸، ص ۲۰۲۔ متعدد علمائے دیوبند نے شوریٰ کے ردو قبول کے بارے میں امیر مملکت کے اختیارات کے متعلق اسی نقطۂ نظر کو اپنایا ہے۔ دیکھیے: مولانا محمد تقی عثمانی، حکیم الامت کے سیاسی افکار (کراچی: مکتبۂ دارالعلوم، ۱۴۱۳ھ)، ص۳۱۔۳۶؛ مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی و مولانا مفتی محمد شفیع، اسلام میں مشورہ کی اہمیت ( لاہور: ادارۂ اسلامیات، ۱۹۷۶ء)، ص ۱۵۲۔۱۵۳؛ مولانا محمد مسیح اللہ خان شروانی، اہتمام وشوریٰ (کراچی: زمزم پبلشرز، ۲۰۰۳ء)، ۲۶، ۴۷۔۴۸؛ مصنف؍مرتب (نا معلوم)، شوریٰ ہیئتِ حاکمہ نہیں: علمائے دیوبند کی واضح تصریحات (جلال آباد ، ضلع مظفر نگر: شعبۂ نشر و اشاعت، مدرسۂ مفتاح العلوم، س۔ ن)۔
۴۶) عبداللہ روپڑی،فتاویٰ اہل حدیث، جلد ۳، ص ۴۰۲۔
۴۷) مولانا محمد اسماعیل سلفی،’’ افتتاحیہ‘‘، مشمولہ فتاویٰ ثنائیہ، کتاب الامارۃ، ص ۵۸۹۔مولانا ریاست علی بجنوری نے بھی علماء کی اکثریتی رائے سے مختلف موقف ظاہر کیا ہے۔ان کی رائے میں شوریٰ کی اکثریتی رائے سربراہ مملکت کے لیے واجب التعمیل ہے۔ وہ مجلس شوریٰ کی حاکمہ؍تنفیذیہ پربالادستی کے نظریے کے علمبردار نظر آتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: مولانا ریاست علی بجنوری، شوریٰ کی شرعی حیثیت (لاہور: مکتبۂ لاہور ، ۱۹۹۶ء)۔
۴۸) حافظ عبداللہ روپڑی، فتاویٰ اہل حدیث، جلد ۳، ص ۴۰۲۔
۴۹) دیکھیے مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی، کفایت المفتی (جامع مؤلف: حفیظ الرحمٰن واصف) (دہلی: مطبع نعمانی، ۱۳۹۷ھ؍ ۱۹۷۷ء)، جلد ۹: کتاب السیاسیات، فصل ہفتم، ص ۲۹۴۔۳۸۱۔ 
۵۰) مفتی محمد شفیع، جواھر الفقہ، جلد ۵، ص۵۳۲۔۵۳۴؛ مولانا مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود، جلد ۱۱، ص ۳۶۷۔۳۶۸، ۳۸۰۔
۵۱) مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود، جلد ۱۱، ص ۳۸۰۔
۵۲) ایضاً ، جلد ۱۱، ص ۳۶۶۔۳۶۷، ۳۶۹،۳۷۰، ۳۷۵۔۳۷۷، ۳۸۰۔
۵۳) مفتی محمد شفیع، جواہر الفقہ، جلد ۵، ص ۵۳۵۔
۵۴) مولانا مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود، جلد۱۱، ص۳۶۹۔
۵۵) ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد، فتاویٰ اصحاب الحدیث (لاہور: مکتبہ اسلامیہ، ۷۰۰۲ء)، ص ۴۵۸۔ ۴۵۹۔ 
۵۶) مفتی محمد شفیع، جواھر الفقہ، جلد ۵، ص ۴۸۶۔۴۸۸۔
۵۷) مفتی محمود، فتاویٰ مفتی محمود، جلد ۱۱، ص ۳۱۳ ۔
۵۸) مفتی محمد شفیع، جواھر الفقہ، جلد ۵، ص ۴۹۰۔
۵۹) مولانا ظفر احمد العثمانی، اعلاء السنن (کراچی: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ، ۱۴۱۵ھ) ، جلد ۱۲، ص ۵۱۵۔۵۱۷۔
۶۰) مفتی رشید احمد، احسن الفتاویٰ، جلد ۶، ص ۱۸۔۱۹۔ 
۶۱) مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف، فتاویٰ محمدیہ، ص ۸۶۶۔۸۶۸۔
۶۲) مسلم کلاسیکی سیاسی افکار کے جائزہ کے لیے ملاحظہ ہو:رشید احمد، مسلمانوں کے سیاسی افکار (لاہور: ادارۂ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۹۹ء)؛ص ۱۔۱۵۰۔ مزید دیکھیے:
E. I. J. Rosenthal, Political Thought in Medieval Islam (Cambridge: Cambridge University Press, 1958; Antony Black, The History of Islamic Political Thought: From the Prophet (PBUH) to the Present (Karachi: Oxford University Press, 2001).
۶۳) تفصیل کے لیے دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست (مرتبہ: خورشید احمد) (لاہور: اسلامک پبلی کیشنز ،۲۰۰۰ء)؛ مولانا امین احسن اصلاحی، اسلامی ریاست (لاہور: دارالتذکیر، ۲۰۰۲ء)۔ مزید دیکھیے:
 Muhammad Asad, The Principles of State and Government in Islam (Berkeley, CA: University of California Press, 1961).
۶۴) اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں لبرل اور آزادی روی پر مبنی نقطۂ نظر کے بارے میں ملاحظہ ہو:
Fahmi Huweidi, "Non-Musliims in Muslim Society", in Abdelwahab(ed.), Rethinking Islam and Modernity: Essays in Honour of Fathi Osman (Leicester: The Islamic Foundation, 2001/1422 A. H.), pp. 84-91.
(بشکریہ مجلہ ’’الاضواء‘‘، شیخ زاید اسلامک سنٹر، جامعہ پنجاب، لاہور)

’’علوم اسلامیہ میں تحقیق: عصری تناظر‘‘ / مجلس یادگار شیخ الاسلام کے زیر اہتمام مولانا سندھیؒ پر سیمینار

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

(اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ اور الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام دو روزہ ورکشاپ کی روداد۔)

الشریعہ اکادمی میں 5، 6 دسمبر 2016ء کو اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے اشتراک سے ایک دو روزہ قومی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان تھا : علوم اسلامیہ میں تحقیق: عصری تناظر ۔ اس ورکشاپ کا مقصد نوجوان محققین کو مختلف سطحوں پر علوم اسلامیہ میں ہونے والے تحقیقی کام کی جہات اور معاصر رجحانات سے روشناس کرانا تھا۔ ورکشاپ میں متنوع موضوعات پر گفتگو ہوئی اور مقررین نے جہاں ملک میں تحقیق اور تحقیقی اداروں کی موجودہ صورتحال پر بات کی، وہیں تحقیق کے ضروری اور نئے میدانوں کی طرف بھی توجہ دلائی تاکہ طلبہ تحقیق اپنی تحقیقی سمت کا درست انداز سے تعین کر سکیں۔ شرکاء میں مدارس کے مدرسین ، کالج اور یونیورسٹی کا اساتذہ اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ شامل تھے جنہوں نے دو دن ہونے والی گفتگو کو بڑے غور اور انہماک سے سنا۔ 

مولانا محمد عمار خان ناصر

مولانا محمد عمار خان ناصر نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ:
علوم اسلامیہ میں تحقیق ایک ایسا دائرہ ہے جس میں حسن اتفاق سے اور کئی عوامل کے اشتراک سے شاید پہلی مرتبہ یہ موقع و امکان پیدا ہو رہا ہے کہ روایتی دینی تعلیم کے اداروں سے فیض یاب ہونے والوں اور جدید عصری تعلیمی ادارو ں میں اسلامیات پر غورو فکر اور تحقیق کی روایت سے استفادہ کرنے والوں کے آپس میں اختلاط و اشتراک اور تبادلہ خیالات کا موقع پیدا ہو رہا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسی تناظر میں جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں وقتاً فوقتاً ایسی تقریبات اور نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں دونوں رَووں (streams) سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک ہوں اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں ۔ یہ نشست بنیادی طور پر انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ذیلی ادارہ اقبال مرکز برائے تحقیق و مطالعہ کا ترتیب دیا ہوا پروگرام ہے اور ہمیں ان سے تعاون کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ اس کے شرکاء دینی مدارس، کالجز اور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے وہ احباب ہیں جو یا تو وہاں کے اساتذہ ہیں اور یا پھر ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرامات میں زیر تعلیم ہیں اور تحقیق کر رہے ہیں۔ مقررین میں جن حضرات کو دعوت دی گئی ہے، وہ بھی انھی اداروں سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار اور کہنہ مشق افراد ہیں ۔میں آج کی نشست میں اپنے مہمانان گرامی اور شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جس مقصد کے لیے ہم ان نشستوں کا انعقاد کر رہے ہیں، وہ کامیابی کے ساتھ حاصل ہو گا ان شاء اللہ۔
اس کے بعد IRDکے اسسٹنٹ دائریکٹر جناب محمد اسماعیل صاحب نے خیر مقدمی کلمات کہے اور اپنے ادارے اور اس کی سرگرمیوں کا مختصر تعارف کروایا۔
ورکشاپ میں دیگر مقررین کی طرف سے پیش کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

ڈاکٹر تنویر احمد

ڈاکٹر تنویر احمد (اسسٹنٹ پروفیسر ادارہ تحقیقات اسلامی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد) نے ’’علوم اسلامیہ کے اہم انگریزی تحقیقی جرائد کا تعارف‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی اور کہا:
سب سے پہلے میں شکر گزار ہوں ادارہ اقبال مرکز برائے تحقیق و مکالمہ اور الشریعہ اکادمی کا کہ انہوں نے ہمیں یہ موقع عطا کیا کہ ہم علوم اسلامیہ میں تحقیق پر اپنے خیالات کا اظہار کریں کہ وہ کیسے کرنی ہے اور اس کی بنیادی معلومات کیا ہیں۔ میں آپ کو ان تحقیقی مجلات کا تعارف کرواؤں گا جن کی حیثیت انگریزی میں ہونے والی تحقیق کے حوالے سے اہم اوربنیادی ماخذ کی ہے۔ اس سے اہم بات یہ ہے کہ جو مضامین ان مجلات میں چھپتے ہیں، وہ کس طرح ہمارے ہاں اردو دنیا میں چھپنے والے مجلات کے مضامین سے مختلف ہیں اور ان سے سیکھنے کی چیزیں کیا ہیں۔ 
انگریزی دنیا میں یونیورسٹی کی سطح پر ہونے والی Academicتحقیق کا ظہور تین صورتوں میں ہوتا ہے۔ پی ایچ ڈی کی سطح پر لکھے جانے والے تحقیق مجلات کی شکل میں، مختلف پروجیکٹس کی صورت میں جو کتابی شکل میں شائع ہوتے ہیں، اور انھیں آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی پبلشنگ کمپنیز چھاپتی ہیں ۔ یہ کمپنیز جو کتابیں چھاپتی ہیں، ان کا دنیا بھر میں ایک خاص مقام ہوتا ہے۔ اور تیسری قسم آرٹیکلز یا بحوث ہیں جو تحقیقی مجلات میں چھپتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم آرٹیکلز ہی ہوتے ہیں جو کسی علمی طور پر مضبوط مجلے میں چھپیں، کیونکہ ان میں تحقیق و جستجو کے معیارات کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ کوئی بھی مقالہ اس وقت تک شائع نہیں کیا جاتا جب تک کہ دو یا تین لوگ اس کا peer review نہ کریں۔ ریویو کرنے والوں کے پاس لکھنے والوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہوتیں، وہ آزادی سے اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس کی ایڈیٹنگ کے لیے پور اعملہ ہوتا ہے جو اس کی نوک پلک سنوارتا ہے اور نقائص کو دور کرتا ہے۔
اسی سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کوئی مجلہ کس طرح استنادی حیثیت حاصل کرتا ہے، اس کی بین الاقوامی رینکنگ کیسے بنتی ہے؟ اس کا ایک معیار تو یہ ہے کہ اس میں چھپے ہوئے مقالات کتنی دفعہ بطور مصدر حوالے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کو جانچنے کا ایک پورا سسٹم ہے جسے citation system کہا جاتا ہے۔ مثلاً ایک مقالہ لکھا گیا ہے، وہ دیکھیں گے کہ اس موضوع پر لکھے جانے والے مقالات میں اس کا حوالہ کتنی مرتبہ آیا ہے۔ اس سے اس کا impact factor بڑھتا ہے اور اسی سے اس کی رینکنگ طے ہوتی ہے۔ 
پچھلے تین چار سال سے ایک مجلے کی ادارت میرے پاس ہے، اس لیے میں تجربے کی بنیاد پر کچھ چیزیں یہاں شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ جب آپ کوئی مقالہ لکھتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک رپورٹ اورریسرچ پیپر کا فرق باقی رہے۔ رپورٹ کہتے ہیں کہ کسی چیز کے بارے میں آپ نے کچھ حقائق جمع کیے، ان میں آپ نے حک و اضافہ کیا اور ان کو ترتیب دے دیا۔ یہ بہت اچھی معلومات تو ہو سکتی ہیں، لیکن کوئی ریسرچ پیپر نہیں ہو سکتا۔ ریسرچ participation ہے، recordingنہیں ہے۔ اسی طرح کسی کتاب کا خلاصہ یا کسی بڑے مقالے کا خلاصہ بھی research paper نہیں ہوتا۔ وہsummary ہوتی ہے ۔اسی طرح ہمارے ہاں ایک رواج ترتیب کا بھی ہے۔ لوگ آیات، احادیث اور اقتباسات کو ترتیب دے دیتے ہیں اور بہت خوبصورتی سے ترتیب دیتے ہیں، لیکن سوال وہی ہوتا ہے کہ اس میں آپ کی اپنی بات کیا ہے ؟ یہ ایک بہت عمدہ چیز تو ہو سکتی ہے، لیکن ریسرچ پیپر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اکثر اوقات مضامین میں ایسے جملے لکھے جاتے ہیں ، کہ ’’اس پر تو اتفاق ہوتا آیا ہے‘‘، ’’ یہ چیز سب کے ہاں متفق ہے‘‘ ، ’’ اس چیز میں تو دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں‘‘، حالانکہ اس میں دو رائے ہوتی ہیں۔ اس طرح کے بے دلیل جملے اگر لکھے ہوں تو بھی ہم اس کو ریسرچ پیپر نہیں سمجھتے۔ اچھا ریسرچ پیپر لکھنے کے لیے اس کو سیکھنا پڑتا ہے کہ کیسے اچھا ریسرچ پیپر لکھا جائے، اس کے لیے آسان اور عملی طریقہ یہ ہے کہ ابتدا میں آپ کسی اچھی کتاب کا ریویو لکھیں۔ اس سے آپ کو ریسرچ سیکھنے میں بہت مدد ملے گی ۔
ڈاکٹر تنویر احمد نے انگریزی دنیا کے قدیم و جدید اور بہت اہم مجلات کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ انگریزی دنیا میں اسلامیات کا وہ تصور نہیں ہے جو ہمارے ہاں ہے۔ ان کے ہاں Islamic Studies میں قرآن و حدیث تو ہے ہی، اس کے ساتھ مسلم سوسائٹی اور اس کے مسائل بھی آتے ہیں، مسلم ممالک کے قوانین بھی آتے ہیں خواہ وہ اسلامی ہوں یا سیکولر۔ وہاں کا تاریخی پس منظر اور معاشی و معاشرتی حالات و نظریات بھی اسی میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً دہشت گردی کا مسئلہ اس وقت ان کے ہاں بڑا اہم سمجھ کر پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے۔ اسی طرح مختلف ممالک میں اقلیتیں اور ان کے حقوق، خواہ وہ غیر مسلم اقلیتیں ہوں یا مسلم اقلیتیں، ان پر بھی اسلامیات کے عنوان سے ہی گفتگو ہوتی ہے ۔

مولانا سید متین احمد شاہ

مولانا سید متین احمد شاہ (نائب مدیر مجلہ ’’فکر ونظر‘‘، ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد) نے ’’ عصری یونیورسٹیز میں عمرانی علوم اور تصور تحقیق‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ:
مجلات تو پوری دنیا میں کثیر تعداد میں شائع ہو رہے ہیں، ان میں سے سب کا تعارف کروانا تو ممکن نہیں ، انتخاب ہی کیا جا سکتا ہے ، اس لیے میں کچھ منتخب مجلات کا تعارف آپ حضرات کے سامنے پیش کروں گا۔ ان کو میں نے موضوعاتی طرز پر تیار کیا ہے۔ سب سے پہلے علوم اسلامیہ میں برصغیر کے کچھ تحقیقی مجلات ہیں، پھر ایچ ای سی سے منظور شدہ اردو اور عربی کے کچھ مجلات ہیں۔ مخصوص تخصصات میں کون کون سے تحقیقی مجلات معاون ہو سکتے ہیں، ان میں قرآنیات سے لے کر تبصرہ کتب تک معاون مجلات شامل ہیں ۔
تحقیق کے بارے میں آپ پڑھتے ہیں کہ یہ دو قسم کی ہوتی ہے، مکینیکل ریسرچ اور اوریجنل ریسرچ۔ اوریجنل ریسرچ کو ہی حقیقی ریسرچ کہا جا تا ہے۔ یہ علم کو پیدا کرنے کا عمل ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے کہ دنیا میں ایسے وجود نادر ہی ہوتے ہیں جو علم کو نئے سرے سے پیدا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی فرد کسی حوالے سے اپنی تحقیق پیش کرتا ہے تو وہ تحقیق آرٹیکلز کی شکل میں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح ہم بہت سنتے ہیں جو سموئیل پی ہنٹنگن کی طرف یہ منسوب ہے۔ اس فکر کو اس نے ابتدائی طور پر پچیس تیس صفحات کے آرٹیکل کی شکل میں پیش کیا تھا ۔ اسی طرح آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت جس نے نیوٹن کی سائنس کو گرا کر نئے سائنسی نظریہ کو وجود دیا، یہ بھی ابتدا میں ایک تحقیقی آرٹیکل کی شکل میں ہی پیش کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں یک موضوعاتی مقالات کو مدون کر کے شائع کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اسی کے اثر سے عربی و اردو دنیا میں اس رجحان کو تقویت مل رہی ہے۔ کتابوں میں بہت سی باتیں تکرار محض کی قبیل سے ہوتی ہیں۔ نپولین کا وظیفہ پڑھنا لکھنا تھا، وہ اپنے پاس بہت سی کتابیں جمع کر لیتا اور جلد ہی ان کو فارغ کر کے واپس کر دیتا۔ کسی نے پوچھا کہ آپ اتنی جلدی کیسے ان کو پڑھ لیتے ہیں؟ تو اس نے کہا کہ ان کتابوں کے بنیادی نظریات میں نے کسی دوسری جگہ پڑھے ہوتے ہیں، اس لیے ان کو دوبارہ پڑھنا تحصیل حاصل ہوتا ہے، اس لیے میں جلدی ان کو اپنی نظر سے گزار لیتا ہوں۔ گویا کتاب کا پیٹ بھرنے کے لیے بہت سی دہرائی ہوئی باتیں اس میں شامل کر دی جاتی ہیں، لیکن ریسرچ آرٹیکل میں آپ کو یہ چیز نہیں ملے گی۔ اگر واقعی کسی خلاق ذہن نے آرٹیکل لکھا ہے تو آپ کو شروع سے آخر تک اس میں ایسے نظریات اور خیالات ملیں گے جو اس سے پہلے سامنے نہیں آئے ہوتے۔ یہ ریسرچ آرٹیکلز کی بڑی غیر معمولی قدر و قیمت ہے جس کی وجہ سے بڑے محققین مقالات اور کتابوں کو پڑھنے کی بجائے ریسرچ آرٹیکلز کو پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ ریسرچ سیکھنے میں معاونت ہو سکے اور اس کی بہترین صورت مجموعہ ہائے مقالات ہیں جو علمی دنیا میں مرتب ہو رہے ہیں۔ 
ہماری علمی دنیا میں بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔ شنید ہے کہ ایچ ای سی نے اب یہ لازم کر دیا ہے کہ آپ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسی موضوع سے متعلق آپ کے دو آرٹیکلز کسی ایسے مجلے میں چھپے ہوئے نہ ہوں جس کو ایچ ای سی اپنے ہاں معتبر تسلیم کرتا ہے۔ اسی لیے مجلات اپنی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی کے بیٹے ہیں، علی عثمان قاسمی۔ ان کی ایک کتاب Questioning the athority of the past کے نام سے آکسفورڈ سے چھپی ہے۔ اس کے مقدمے میں انہوں نے لکھا ہے کہ گوجرانوالہ کے ایک صاحب ہیں، ان کے پاس انیسویں صدی سے لے کر آج تک کے تمام مجلات کا ذخیرہ محفوظ ہے اور اس نے مجھے اپنی تحقیق میں غیر معمولی مدد فراہم کی ہے۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ذخیرے میں کیا کچھ محفوظ اور چھپا ہوا ہو گا جس کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیز میں بھی اس کی طرف توجہ ہو رہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے دار المصنفین کے مجلہ معارف میں 1916ء سے لے کر آج تک تحریک استشراق پر جتنے بھی مقالات چھپے ہیں، ان کومحض موضوعاتی ترتیب سے مرتب کیا ہے اور اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ اسی طرح بعض یونیورسٹیز ان مجلات کی اشاریہ سازی پر بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جاری کرتی ہیں۔
اس کے بعد انہوں نے برصغیر کے قدیم و جدید علمی مجلات کا بہت اچھا تعارف کروایاجس کی پوری پریزینٹیشن ان سے بذریعہ ای میل حاصل کی جا سکتی ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے ایچ ای سی سے منظور شدہ مجلات کے حوالے سے بڑی عمدہ معلومات فراہم کیں جو ریسرچ کے ان طلبہ کے لیے انتہائی مفید ہیں جو اپنی تحقیقات ایچ ای سی سے منظورشدہ مجلات میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ ایچ ای سی نے مجلات کی درجہ بندی کی ہوئی ہے۔ اردو اور عربی میں چھپنے والے مجلات میں سے کوئی بھی ابھی تکY کیٹگری سے اوپر نہیں جا سکا۔ فکر و نظر کے حوالے سے کوشش ہو رہی ہے کہ وہ Xکیٹیگری میں چلاجائے۔ طلبہ تحقیق کو چاہیے کہ اپنے مضامین Y کیٹگری میں شامل مجلات میں اشاعت کے لیے بھیجیں کیونکہ Zکیٹگری میں شامل مجلات کی وہ اہمیت نہیں سمجھی جاتی اور ہو سکتا ہے کہ اس درجہ کو ختم ہی کر دیا جائے۔

مولانا مفتی محمد زاہد

مولانا مفتی محمد زاہد (شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ امدادیہ ، فیصل آباد) کی گفتگو کا عنوان ’’علوم اسلامیہ میں تحقیق، توجہ طلب پہلو ‘‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ:
اس سے پہلے دو حضرات کی گفتگو سے تحقیق کے نئے پہلو اور تحقیق کے نمونے کہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں بڑی اچھی راہنمائی حاصل ہوئی۔ اس گفتگو کے دوران جو چیز مجھے محسوس ہوئی، وہ یہ کہ ہو سکتا ہے کہ انگریزی زبان میں کوئی بہت اچھی تحقیق چھپی ہو، لیکن میرے جیسے لوگ جن کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہے، وہ اس سے واقف نہ ہوں۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عربی میں کوئی اچھی تحقیق چھپی ہو، لیکن کچھ لوگ عربی چیزوں کا زیادہ مطالعہ نہ کرتے ہوں۔ یہی معاملہ اردو کا بھی ہے۔ مجھے ان تازہ چیزوں کے ترجمے کی کوئی مضبوط روایت نظر نہیں آتی۔ اگر کوئی ادارہ ان چیزوں کے معیاری ترجمے کی ذمہ داری بھی اپنے ذمہ لے لے تو ان تحقیقات کا فائدہ اور دائرہ کافی وسیع ہو جائے گا۔ سید متین شاہ صاحب کی گفتگو سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ برصغیر میں علمی تحقیق کی روایت کتنی زندہ، کس قدر تازہ ، بھر پور اور کس درجے اپ ڈیٹ رہی ہے اور اس میں علماء کا کتنا سر گرم کردار رہا ہے ۔ ان مجلات کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اس کا پتہ چل جاتا ہے۔
ایچ ای سی کی بات آئی تو پتہ چلا کہ بعض مجلات بہت معیاری ہیں، لیکن ایچ ای سی کی لسٹ میں نہیں ہیں یا وہاں سے Approvedنہیں ہیں ۔ایچ ای سی کو یہ تجویز جانی چاہیے کہ کچھ مجلات تو ایسے ہیں جو ایچ ای سی سے اس حوالے سے خود رابطہ کرتے ہیں کہ ان کو اس فہرست میں شامل کیا جائے یا ان کی کیٹگری بڑھائی جائے، لیکن بہت سے مجلات ایسے ہیں جو اس کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے، مثلاً بین الاقوامی مجلات اس کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے لیکن وہ بہت معیاری ہوں گے۔ انڈیا کے کچھ مجلات کی مثال دی جا سکتی ہے۔ تو جس طرح ادارے اور مجلات اپنے آپ کو ایچ ای سی کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ایچ ای سی ان کو اپنی فہرست میں شامل کر لیتا ہے، اسی طرح ایچ ای سی کو خود بھی یہ چیزیں ڈھونڈنی چاہییں اور مارکیٹ میں جا کر دیکھنا چاہیے کہ کون کون سی چیزیں اور مجلات ہیں جو ان کے معیار پر پورا اترتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا۔ ان کو بھی وہ اپنی فہرست میں لائیں، اس سے تحقیقی دنیا کا بھی فائدہ ہو گا اور ملازمت کی دنیا کے لوگوں کو بھی اس میں بہت ساری آسانیاں مل جائیں گی۔
میرا موضوع علوم اسلامیہ کے وہ دائرے ہیں جن میں تحقیق کی ضرورت ہے اور ان میں تحقیق ہو سکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایم فل کے طلبہ میں سے چند ایک ہی ایسے ہوتے ہیں جن سے ہم بہت ہی اوریجنل ریسرچ کی توقع کر سکتے ہیں۔ اکثر کم عمری اور ناقص تجربہ کی بنیاد پر محض معلومات اکٹھی کرنے یا مواد جمع کرنے کا کام ہی کر سکتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو اگر ہم کسی طرح منظم کر لیں اور پروجیکٹس کی شکل میں ان سے مواد جمع کرنے کا کوئی ایسا کام کروا لیں جو کسی اچھے تحقیقی کام کی بنیاد بن سکے تو یہ بہت مفید ہو گا۔ مثلاً امام ابوبکر الجصاص ؒ فقہائے احناف میں بہت بڑا نام ہیں۔ وہ بہت بڑے فقیہ اور اصولی ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ وہ بہت بڑے محدث بھی ہیں۔ وہ اپنی کتابوں میں اپنی سند کے ساتھ احادیث ذکر کرتے ہیں۔ اب مسند الجصاص کے نام سے کوئی یونیورسٹی ایک پروجیکٹ لے لے اور ان کی سند سے ساری احادیث جمع کر لی جائیں۔ لیکن اس ساری جمع بندی میں پیش نظر اس سے اگلا مرحلہ ہو، یعنی یہ دیکھنا ہو کہ اس صدی کے محدثین احناف کس طرح حدیث لے رہے تھے اور حدیث سے استدلال اور اس کے رد و قبول میں ان کا انداز کیا تھا۔ جب یہ مقصد پہلے سے پیش نظر ہو گا تو پھر جمع مواد کا منہج میں بھی یہ طالب علم کے ذمے ہو گا کہ اس حدیث کی سند اور اس سے استدلال کا تھوڑا سا خلاصہ بھی اس کے ساتھ ذکر کرے ۔ اس طرح یہ کوئی اتنا اوریجنل کام تو نہیں ہو گا، لیکن ایک اچھے تحقیقی کام کی بنیاد فراہم کر دے گا ۔ 
اس طرح کا ایک کام مجمع الزوائد کے رجال پر کسی یونیورسٹی نے کروایا ہے ، میرے علم میں نہیں کہ یہ کس نوعیت اور درجے کا کام ہے، لیکن اگر اس کو اسی طرز پر کروایا جائے کہ اس کام سے ان کے حدیث پر حکم لگانے کے اصول مستنبط ہو سکیں تو یہ بہت مفید ہوگا، جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں محدث متساہل ہیں، فلاں متشدد ہیں وغیرہ۔ اس سے ہمیں بحیثیت مجموعی جمع مواد کی بنیاد پر حدیث پر حکم لگانے میں مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کی صلاحیت سے بھی استفادہ کی راہیں تلاش کرنی چاہییں کہ وہ حدیث کے اس علم میں ہماری کس حد تک مدد کر سکتے ہیں، اور اگر ان سے مدد لینی ہے تو ہمیں ابتدا ہی سے اس کام کا منہج یہ رکھنا چاہیے کہ اس کے لیے سہولت ہو۔ وہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ آپ اس کام کو اس طرز پر کریں گے تو زیادہ مفید اور کمپیوٹنگ میں زیادہ آسان ہو گا۔ اسی طرح کا کام اسی دور کے دیگر محدثین کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے جو حدیث پر حکم لگاتے ہیں۔ ان پر اسی طرز کا کام کر کے ہم اس دور کے حدیث پر حکم لگانے کے مناہج کو جاننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ تاثر ہے اور ایک حد تک درست ہے کہ اسلامی دور کی ابتدائی چار پانچ صدیاں تو علمی عروج کی صدیاں ہیں، تخلیق علم کی صدیاں ہیں، تحقیق و جستجو کا دور ہیں، لیکن اس کے بعد کا زمانہ جمود اور تکرار کا زمانہ ہے ،Repeatition ہے، ان میں کوئی نیا کام نہیں ہو سکا ۔ یہ تاثر ایک حد تک درست ہے اور اس کی وجوہات بھی ہیں کہ ضرورت باقی نہیں رہی تھی کیونکہ زندگی ایک جگہ پر رک گئی تھی تو اس کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ تحقیق نے بھی رکنا تھا۔ آپ شروحات دیکھ لیں، ان میں ایک ہی جیسی عبارتیں ہوتی ہیں اور ایک ہی طرح سے نقل ہو رہی ہوتی ہیں۔اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہے کہ اسلامی دور کے قرون وسطیٰ اس طرح علمی عروج اور حرکت کا دور نہیں تھا۔ لیکن انھی ادوار کے اندر ہی بہت سے ایسے مفکر بھی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے نئی چیزیں پیش کی ہیں جن میں سے کچھ بہت مشہور ہوئے، جیسے ابن تیمیہ ؒ کی مثال دی جا سکتی ہے ۔ ان ادوار میں بھی اس تلاش کی ضرورت ہے کہ کس کس نے کون کون سی نئی چیزیں متعارف کروائی ہیں ۔ آپ ان ادوار کو صدیوں میں تقسیم کر لیں یا مرحلوں میں تقسیم کر لیں، ان ادوار میں ہماری تراث میں آرٹیکلز کے مترادف رسائل کے عنوان سے بہت سی چیزیں ملتی ہیں اور اس دور کے مفکرین کی اصل فکر بھی انہیں رسائل میں مل سکتی ہیں۔ اس ضمن میں رسائل ابن نجیم، رسائل ابن عابدین ہیں، رسائل عبد الحئی لکھنوی ہیں وغیرہ ۔ اس کام کے لیے بھی بہت اوریجنل تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔
تیسری چیز جس سے اسلامی معاشرے کو فرار نہیں ہو سکتا، وہ دو چیزیں ہیں ۔ ایک فتویٰ کا شعبہ اور دوسرا دینی مقتدائیت کا شعبہ۔ اگر لوگ چاہیں بھی تو ان سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔ ان کو بہتر بنانے کی بھی گنجائش موجود ہے۔ ہمارے ہاں فقہ کی کتابوں میں کتاب الحظر و الاباحۃ کا باب ہوتا ہے، کتاب الکراہیۃ ہوتا ہے، اس کے بہت سے مسائل کا تعلق ہماری روز مرہ کی سماجی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے، مثلاً حجاب کا مسئلہ اور مرد و زن کے اختلاط کا مسئلہ ہے، انفرادی طور پر ان پر بہت کام ہو سکتا ہے ۔میں جو چیز عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اوامر و نواہی تھے کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا، درجہ بندی نہیں تھی ۔اور ابتدا میں صحابہ کرامؓ کے سامنے بس یہ ہوتا تھا کہ اللہ اور رسول نے کہہ دیا کرنا ہے تو بس کرنا ہے اور اللہ و رسول نے کہہ دیا کہ نہیں کرنا تو نہیں کرنا ۔لیکن جب زندگی آگے بڑھی تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ کسی کام کے بارے میں شریعت کہتی ہے کہ کرنا ہے، لیکن معاشرے میں بہت سے لوگ نہیں کریں گے اور کچھ کاموں کے بارے میں ہدایت ہے کہ وہ نہیں کرنے، لیکن سماج میں بہت سے لوگ ہوں گے جن کو یہ کرنا پڑے گا۔ اب یہاں آ کر احکام کی درجہ بندی کی گئی کہ یہ فرض ہے، یہ واجب ہے، یہ سنت ہے، یہ مستحب ہے وغیرہ۔ یہ درجہ بندی تو نفس حکم کے اعتبار سے کی گئی، لیکن یہاں مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے ’’مقدمہ تدوین فقہ‘‘ میں مخاطبین کے اعتبار سے درجہ بندی کی بات کی ہے جسے وہ فقہ العامۃ اور فقہ الخاصۃ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل پر ہمیں کچھ دائرے کھینچنے ہوں گے کہ یہ گرین ہے، یہ وائٹ ہے، یہ گرے ہے ، یہ بلیک ہے اور یہ ریڈ ہے۔ امام احمد ابن حنبل ؒ کے پاس ایک آدمی آیا اور ایک مسئلہ دریافت کیا۔کوئی ایسا حلال و حرام کا مسئلہ نہیں تھا ، انہوں نے پوچھا کہ کس نے بھیجا ہے ؟ اگر بشر حافی نے بھیجا ہے تو اس کو جا کر بتا دو کہ یہ حرام ہے۔ یہ مخاطب کے اعتبار سے انہوں نے درجہ بندی کی۔ ایک صاحب نے ایک عالم سے پوچھا کہ آپ فلاں یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، وہاں تو مخلوط تعلیم ہوتی ہے، وہاں آپ نظر کی حفاظت کیسے کرتے ہوں گے؟ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے کبھی اپنے علماء سے پوچھا کہ آپ اسمبلی میں جاتے ہیں، بلکہ خواتین کو بھی منتخب کراتے ہیں ، وہاں بھی تو مخلوط ماحول ہوتا ہے بلکہ پچھلی حکومت میں تو میڈم سپیکر سامنے بیٹھی ہوتی تھیں، اور اس کو میڈم اسپیکر کہہ کر مخاطب بھی کرتے تھے۔ اب ایسا ہوتا تو ہے، اب یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے لیے گرین لائن سے نیچے آنا مناسب نہ ہو اور ایک کو اس کے مخصوص حالات کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تم نے ریڈ لائن میں نہیں آنا، اس سے پیچھے تم رہ سکتے ہو۔ ہماری سماجی زندگی کے اس طرح کے مسائل میں از سر نو غور وفکر اور دائرہ بندی کرنا بھی ایک میدان ہے جس میں کام کی ضرورت ہے جو ہماری بہت ساری عملی الجھنوں کو دور کرے گا اور خاص طور پر اہل فتویٰ اور دینی مقتدا حضرات اس سے استفادہ کر سکیں گے ۔

ڈاکٹر سمیع اللہ فراز

ڈاکٹر سمیع اللہ فراز (خطیب ڈی ایچ اے لاہور) نے ’’اسلامی تحریکات : مغربی زاویہ نگاہ ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی جس کا خلاصہ یہ ہے:
آج کی یہ ورکشاپ طلبہ تحقیق کو اسلا می تحقیق کے مختلف تناظر اور پہلوؤں سے روشناس کرانے اور ان کے ذہنی کینوس کو وسیع کرنے کی کوشش ہے۔ میں اپنے موضوع پر چار حوالوں سے مختصراً گفتگو کروں گا۔
پہلی چیز کہ اسلامی تحریک کسے کہتے ہیں اور جس کو ہم مغرب کہتے ہیں، اس سے کیا مراد ہے؟
دوسری چیز یہ کہ اسلامی تحریکوں کے ساتھ عسکریت پسندی، تشدد پسندی کے جو ٹائٹل جڑ چکے ہیں، اس کے اسباب کیا ہیں؟
تیسری چیز یہ کہ اسلامی تحریکوں کے حوالے سے مغربی دانش کے دیکھنے، سوچنے اور پالیسی بنانے کا انداز کیا ہے؟
چوتھا یہ کہ طلبہ تحقیق کے لیے اس حوالے سے کون سے پہلو قابل توجہ ہیں؟ 
اس ذہنی وسعت کے دور میں مغرب سے مراد وہ لوگ یا وہ دانش ہے جو غیر مسلم دانش کہلاتی ہے۔ مغرب کو کسی جغرافیائی حد بندی میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اسرائیل مشرق وسطیٰ کا ملک ہے، جغرافیائی طور پر مغرب میں نہیں ہے، لیکن اس سے اٹھنے والے فکر کو بھی ہم مغربی فکر سے تعبیر کرتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ مغرب کے لفظ کو انگریزی میں west ہی لکھیں گے، لیکن اس سے مراد امریکہ، برطانیہ یا کینیڈا وغیرہ نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد غیر مسلم دانش ہے۔ اس دانش میں شدت پسند دانش بھی ملے گی اور معتدل دانش بھی۔ 
مغربی دانش میں ہر لڑنے والا اور ہر کوشش کرنے والا گروہ تحریک نہیں کہلاتا۔ مغرب کے ہاں اسلامی تحریک وہ تحریک کہلائی گی جو مسلم معاشرے میں گہری جڑیں رکھتی ہو، اس کے وجود کا سبب کوئی مقامی مسئلہ نہ ہو بلکہ اس کی تشکیل کا مقصد اسلامی احیاء ہو، اور اس تحریک سے وابستہ لوگ دعوت اسلامی کے طریق سے منسلک ہوں، یعنی اگر اس تحریک کے مقاصد میں اسلامی قانون کو نافذ کرنا ہے تو اس کو اسلامی تحریک کہا جا سکتا ہے، وگرنہ نہیں ۔اس طرح اسلام کے اوائل کی قابل ذکر تحریکیں یہ ہو سکتی ہیں: حضرت عثمانؓ کے خلاف بغاوت کی تحریک، خوارج، مختار ثقفی کی تحریک، عباسی انقلاب اور اسماعیلی اور فاطمی تحریکات وغیرہ۔ گزشتہ تین سو سال میں مسلم دنیا میں جو تحریکات اٹھیں اور جن کے مطالعہ سے مغرب نے اپنی پالیسیوں کو ترتیب دیا ، ہم ان پر بات کریں گے۔ ان میں محمد بن عبد الوہاب کی تحریک تھی جو عرب علاقوں میں اٹھی اور اسی کے زیر اثر 1932ء میں سعودی عرب وجود میں آیا۔ اسی طرح ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تحریک، سید احمد شہید ؒ کی جہاد موومنٹ،افریقہ کی سنوسی موومنٹ، ایران کا شیعہ انقلاب ۔ ان تحریکات کو وہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کا مطالعہ کر کے آئندہ کی پالیسیوں کو ترتیب دیتے ہیں۔
ان تحریکوں کا مزاج وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا ۔ خاص طور پر ایشیا میں، مثلاً برصغیر میں پہلے پہل صوفیا کی تحریک مؤثر رہی، پھر شاہ ولی اللہ کے دور میں تعلیمی و علمی تحریک بن گئی اور تیسرے مرحلے میں یہ انقلاب پسندی کا روپ دھار لیتی ہے، جس کا مظہر سید احمد شہید کی تحریک ہے۔ اور چوتھے مرحلے میں یہ سیاسی پس منظر اور سیاسی فکر کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔عرب علاقوں کی تین تحریکوں کو مغرب اہمیت دیتا ہے۔ پہلی محمد بن عبد الوہاب کی تحریک جو اس وقت سلفی تحریک کی شکل میں موجود ہے۔ دوسری تحریک اخوان المسلمون ہے جس کی فکر سے ہم آہنگ جماعت اسلامی اور روسی ریاستوں میں حزب التحریر ہے۔ اسی فکر کی حامل مسلح تحریکوں میں حماس کا نام سب سے نمایاں ہے ۔ تیسری تحریک شیعہ انقلاب ہے۔ لبنان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں موجود شیعہ مسلح تحریکوں کو وہ انقلاب ایران سے ہی متعلق سمجھتے ہیں ۔
ڈاکٹر سمیع اللہ فراز نے اسلامی تحریکوں میں روایت پسندی سے شدت پسندی کے ارتقا کو بیان کرتے ہوئے ان مختلف اصطلاحات پر بات کی جو مغرب میں اسلامی تحریکوں کے حوالے سے مستعمل و متداو ل ہیں۔ مثلاً روایت پسندی (Traditionalism)، بنیاد پرستی (Fundametalism)، انتہا پسندی (Extremism)، انقلاب پسندی (Radicalism)وغیرہ ۔ اور جو لفظ کثرت سے استعمال ہوا، وہ انقلاب پسندی یا Radicalism ہے ۔مغرب کے نزدیک Radicals وہ لوگ ہیں جو مغرب کی بالا دستی کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں اور کسی بھی درجے میں مغرب کے نظریات کو اپنے ہاں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔اسلامی تحریکوں کے حوالے سے ریسرچ کا ایک موضوع یہ ہو سکتا ہے کہ روایت پسند اسلامی تحریکوں میں شدت پسندی در آنے کے داخلی و خارجی اسباب کیا ہیں ۔ 
اسلامی تحریکوں سے متعلق مغربی طرز مطالعہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغرب کسی بھی تحریک کا مطالعہ کرنے کے لیے تقسیمی طریقہ کار اپناتے ہیں۔ تحریک کوتاریخی ، فکری اور اس کے اہداف کے حوالے سے مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر دور کو اس کے پس منظر میں رکھ کر مطالعہ کرتے اور نتائج اخذ کرتے ہیں۔ ان کے ہاں تین بڑی کلاسیفی کیشنز نظر آتی ہیں جن کو مغربی دانش میں قبول عام حاصل ہوا ہے۔ پہلی ہرئیر ڈیک میجا کی، دوسری برنارڈ لیوس کی اور تیسری رینڈ کارپوریشن کی۔ رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ میں مذہبی تقسیم کی گئی ہے جو اس وقت عملی طور پر ان کے ہاں ہر پالیسی کی بنیاد ہے۔ دوسری تقسیم سیاسی ہے ، جو ہرئیر ڈیک میجا اور برنارڈ لیوس نے کی ہے۔ مغرب کے اس تقسیمی طرز مطالعہ پر مستقل حوالے سے تحقیقی کام ہو سکتا ہے۔ اسی طرح برنارڈ لیوس کی کتابیں اور آرٹیکلز بھی تحقیق کا موضوع ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح ایک شخص جان لوئس اسپوزیٹو ہے جو کہ اسلامی تحریکوں کے حوالوں سے ایک معتدل نام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ موجودہ مسلح تحریکیں اسلام کی نمائندہ نہیں ہیں، اسلام کی نمائندگی اس کے اوائل دور کی تحریکیں کرتی ہیں اور انھی کو اسلام کا موقف سمجھنے کے لیے مطالعہ کرنا چاہیے۔اس کے نظریات پر بھی کام ہو سکتا ہے ۔اسی طرح مغربی فکر کے نقائص کی نشاندہی بھی تحقیق کا موضوع ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تحریکات کا ہدف ریاست ہو یا معاشرہ ، یہ بھی تحقیق کا موضوع ہے ۔ اسی طرح ایک اہم موضوع اسلامی تحریکات کا فکری تقارب ہے ۔ یہ لفظ علامہ یوسف القرضاوی نے استعمال کیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں وحدت کا لفظ استعما ل نہیں کرتا اور نہ یہ کہتا ہوں کہ ساری دنیا کی اسلامی تحریکیں ایک ہو جائیں۔ یہ فطری و جغرافیائی لحاظ سے ناممکن ہے، لیکن فکری اعتبار سے یہ قریب تو ہو سکتی ہیں ۔ اس بات پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ اس فکری تقارب کا فقدان کیوں ہے اور اس کے اثرات کیا مرتب ہو رہے ہیں ۔

جناب آصف افتخار

جناب آصف افتخار (LUMSیونیورسٹی ، لاہور) کی گفتگو کا عنوان تھا ’’مغرب میں مطالعہ اسلام ، معاصر تناظر اور موضوعات ‘‘۔ انھوں نے کہا کہ:
میں نے آٹھ سال اس ماحول میں گزارے ہیں جس کو آپ مغرب کہتے ہیں اور بہت سے ان بڑے اساتذہ سے براہ راست پڑھنے کا موقع ملا جن کا ڈاکٹر سمیع اللہ فراز صاحب نے تذکرہ کیا اور شاید اسی لیے عمار ناصر صاحب نے مناسب سمجھا کہ میں اس موضوع پر گفتگو کروں ۔ عام طورپر ان موضوعات پر لوگ کتابی مطالعہ کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ وہ بھی ٹھیک ہے، لیکن میں کیونکہ ایک عرصہ ان لوگوں کے درمیان رہا ہوں اور ان سے براہ راست پڑھنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے، اس لیے میں اسی تناظر میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ بزنس کی زبان میں ایک ٹرم ہوتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کتاب میں نہیں لکھا ہوتا، وہ بھی بڑا اہم ہوتاہے اور اس کو بھی شیئر کرنا ضروری ہے۔ کرنے کو تو کافی باتیں ہیں لیکن میں چند باتیں کروں گا۔ ایک تو مغرب کا تقسیمی مطالعہ کا طریقہ کار ہے۔ بنیادی باتیں سمیع اللہ فراز صاحب نے کردی ہیں، میں ان پر کچھ اضافے اور کچھ مؤدبانہ اختلافات کروں گا ۔دوسرا ان کا منہج تحقیق کیسے ہم سے مختلف ہے اور اس کے استعمال سے تحقیق میں کیسے جوہری فرق پیدا ہوتا ہے۔اور تیسری اور آخری بات، وہ چیزیں جو مجسم نہیں ہوتیں لیکن ان کا اثر ہوتا ہے ، جیسے تحقیق کے پیچھے جو روح ہے ، جو مقصد اور پلاننگ ہے ، وہ کیا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے درمیان رہنے اور تھوڑا سا فارمل مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی فکر کوئی حجر واحد نہیں ہے جو ہر رخ اور ہر سمت سے ایک جیسا ہو، بلکہ اس کو ایک فکر کہنا بھی مناسب نہیں۔ یہ ایک مغالطہ ہے۔ بہت سے منتشر افکار ہیں جن میں اختلافات بھی ہیں اور تضادات بھی ہیں ۔ جو چیز ان کو ایک پلیٹ پر جمع کردیتی ہے، وہ تصورات ہیں جو حقیقی بھی ہوتے ہیں اور مصنوعی بھی اور محض تصورات ہی نہیں ہوتے، کچھ مفادات بھی ہوتے ہیں۔ اس مجموعے کے ظاہر کو ہم مغربی فکر کہہ دیتے ہیں۔یورپ بالکل ایک الگ دنیا ہے، اس کے اندر جرمن فکر بالکل الگ ہے، فرانسیسی فکر بالکل اور ہے، برطانیہ جس کو انگلش فلاسفی کہا جاتا ہے، وہ اور زاویہ سے چیزوں کو دیکھتی ہے۔ امریکہ میں خاص طور پر Pragmatism کے بعد جو دور آیا، اس کے اپنے Focal points ہیں ، ان میں کچھ مشترک عناصر بھی ہیں۔ میری یہ خوش نصیبی تھی کہ میں نے کینیڈا میں وقت گزارا۔ یہ ایک پل ہے یورپی اور امریکی فلسفے کے درمیان، اس پر انگلش افکار کا بڑا اثر ہے۔ افکار میں اسی لیے کہہ رہا ہوں اور دانستہ اس کے لیے صیغہ واحد استعمال نہیں کرنا چاہ رہا تاکہ وہاں کے تمام تر تنوع اور اختلافات سمیت ذہن میں تصور آئے کہ وہ ایک فکر نہیں ہے۔اس طرح کینیڈا میں آپ کو دونوں traditions کا بہت اچھا امتزاج مل جاتا ہے ۔ جن مشترک اقدار و مفادات پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک قدر کہ جس کو وہ خود ایک قدر کہتے اور مانتے ہیں اور جس کے بارے میں ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ہمارے ہاں نہیں ہے ، وہ Freedom of thought اور freedom of expression یعنی سوچ اور اظہار کی آزادی ہے ، جس کو وہ ایک انفرادی و امتیازی چیز سمجھتے ہیں اور جس پر جمع ہو جاتے ہیں۔
مغرب کی تقسیم ان کے ہاں تھوڑی سی مختلف ہے۔ وہ اس کو Hellenic culture اور Semitic Culture کہتے ہیں۔ یعنی یونانی اور رومی تہذیب سے جو چیزیں آئی ہیں، وہ مغرب ہیں اور prophetic cultureیعنی بنی اسماعیل و بنی اسرائیل سے جو چیزیں آئی ہیں، وہ مشرق ہیں۔اس اعتبار سے وہ جس چیز کو اپنا ورثہ legacyکہتے ہیں، وہ سوچ اور اظہار کی آزادی ہے۔
دوسری اہم بات ان کی وہ تقسیم ہے جو وہ ہمارے حوالے سے کرتے ہیں۔ ان کا اپنے بارے میں یہ زعم ہے اور ہمارا بھی ان کے بارے میں یہی خیال ہے کہ ان کے اصول تحقیق اور مناہج ہم سے بہتر ہیں، زیادہ دقت نظر سے تجزیاتی انداز میں وہ چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ بات تحقیق کے طلبہ کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ ان کے ہاں اس بات کا کوئی ٹھوس تصور نہیں ہے کہ جو Traditionalist ہے، وہ Modernist نہیں ہوسکتا اور نہ صرف یہ تصور ٹھوس شکل میں نہیں ہے بلکہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ان کے ہاں خلط مبحث بھی بہت ہوتا ہے۔ جو سیاسی تقسیم ہوتی ہے جیسے کہ رینڈ رپورٹ کی تقسیم، اس کو علمی حلقوں میں رد کر دیا جاتا ہے، اس کو مضحکہ خیز سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً Extremistکا لفظ Academia میں نہیں بولا جاتا۔ جب آپ یونیورسٹیز میں جاتے ہیں تو تقسیم میں بہت زیادہ complexity پائی جاتی ہے ۔اس لیے صحافیانہ لٹریچر کو Academic literatureسے جدا رکھنا چاہیے ۔ان کے ہاں Typology مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔ مثلاً کسی چیز میں ان کی دلچسپی ماہیئت و نوعیت یا اس کی ظاہری حالت کے اعتبار سے نہیں ہوگی ، بلکہ ان کی دلچسپی اپسٹمالوجی سے ہے کہ یہ بندہ سوچتا کیسے ہے ۔ مثلا مجھے وہ مجھے کہتے ہیں کہ آپ جینز پہنتے ہیں، لیکن آپ بڑے fundamentalist ہیں۔ گویا ان کی دلچسپی سوچ و فکر سے ہوتی ہے، ظاہری ہیئت سے نہیں۔ خاص طور پر جو چیز ان کے ہاں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے، وہ ہے hermeneutics، چیزوں کو دیکھا کیسے جاتا ہے ، ان کی تعبیر و تشریح کیسے کی جاتی ہے۔ مثلاً تاج محل کو ایک آدمی دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ محبت کی علامت ہے، اور دوسرا کہتا ہے کہ :
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
کس چیز نے ان کو ایک ہی شے کے بارے میں مختلف کر دیا ، یہ بات ان کے ہاں انتہائی اہم ہے۔ ان کے ہاں یہ بات اہم ہے کہ ان میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو ان تصورات کو آخری اور حتمی مانتے ہیں جو روایت میں موجود ہیں، اصول کے حوالے سے ہوں یا فتاویٰ کے حوالے سے۔ اور وہ ان کی Truth valueکو چیلنج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنی اصطلاح میں بات کریں تو اس کا مطلب بنے گا کہ روایت میں موجود اجماع کو جو چیلنج نہیں کرتا، وہ ان کے ہاں Traditionalist ہے۔ اسی سے آپ Modernism کو سمجھ لیں۔ ان کے ہاں جو Academiaکے لوگ ہیں، وہ بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ Modernism کا bent ان کے ہاں جدید پڑھے لکھے لوگوں کے ذریعے سے بہت کم درجے میں آیا ہے، یہ مدارس کے ان فضلاء کی کاوشوں سے زیادہ آیا ہے جن کو آپ عام اصطلاح میں Traditionalist کہہ دیں گے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر فضل الرحمن شکاگو یونیورسٹی والے جن کے شاگردوں سے پڑھنے کا مجھے موقع ملا ، وہ اپنی methodology پر جس کو ڈبل ہرمنیوٹکس کہتے ہیں، بہت بات کرتے ہیں اور جب وہ اس منہج کی ابتدا کرتے ہیں تو شاہ ولی اللہ ؒ کی الفوز الکبیر سے کرتے ہیں ۔وہ Historical cotextualisation کے لیے شاہ عبد العزیز ؒ کے دار الحرب اور دار الکفر کے متعلق دیے جانے والے فتاویٰ کو استعمال کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے ان کے ہاں ابو الاعلیٰ مودودی ؒ اتنے ہی Modernistہیں جتنے کہ ڈاکٹر فضل الرحمن ہیں حالانکہ ان کے درمیان کئی حوالوں سے اختلافات رہے ہیں ۔ان کے ہاں یہ لوگ نیا اسلام لے کر آئے ہیں۔
تیسری اہم چیزان کا منہج تحقیق ہے، اس حوالے سے بھی ان کے ہاں مختلف طریقہ ہائے کار ہیں، کوئی ایک طریقہ نہیں ہے۔ کچھ چیزیں سائنسی طریقہ کار سے لی گئی ہیں، عمرانی علوم میں انہوں نے بہت کام کیا ، اس کو انہوں نے شامل کیا ہوا ہے ، یہ سروے وغیرہ ان کے ہاں کم تر سائنس ہے، کیوں کہ ان پر سوالات بہت زیادہ ہوتے ہیں کہ یہ سروے کیسے کیا، کن سے کیا، کس علاقے میں کیا وغیرہ ۔ ان کے ہاں جو منہج ہے، وہ مواد جمع کرنا ، اس کا آزادانہ تجزیہ کرنا، rethinking، پھر اسے باہر نکل کر دوبارہ out of the boxسوچنا ، یہ ان کا طریقہ ہے۔ اسی طریقے سے ان کے ہاں Modernism آیا ، پھر Post Modernismآیا۔ان کے اس منہج کا اثر ان لوگوں پر بھی ہوا جو مغرب میں جا کر پڑھتے ہیں اور پھر ان کے طریقہ کار سے اپنی چیزوں کو دیکھتے ہیں ، جیسے علی شریعتی، ڈاکٹر فضل الرحمن وغیرہ۔ان چیزوں نے ہمارے لوگوں کو بہت متاثر کیا اور اب مدارس کے وہ لوگ بھی اس کو استعمال کر رہے ہیں جو یونیورسٹیز میں ایم فل اور پی ایچ ڈی میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ بھی اب انھی کی اصطلاحات بول رہے ہیں اور ان کے طریقہ کار کے مطابق چیزوں کی وضاحت کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس میں کچھ خدشات بھی ہیں کہ اس Freethinking کو کس حد تک جانے دیا جائے اور اس کے کیا اثرات نکلیں گے ۔ کچھ اثرات نکل بھی رہے ہیں جیسے Feminismوغیرہ ۔ 
میں اپنے طالب علموں کو یہ بات کہا کرتا ہوں کہ میرے مشہور و معروف استاد ہیں وائل حلاق، انہوں نے ایک بات بالکل ٹھیک لکھی ہے کہ ایسے لوگوں کا اثر ابھی بھی مدارس کے علماء کے مقابلے میں مسلم دنیا میں بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی علمی credibilityاور ان کے طور طریقہ کی credibility مسلم معاشروں میں مدارس کے پرانے علماء کی علمی و عملی وثاقت کا مقابلہ نہیں کر سکی اور میرا ذاتی خیال ہے کہ کر بھی نہیں سکے گی۔صرف زبان اور فلسفہ کی کچھ رکاوٹیں ہیں ، وگرنہ واقعی یہ لوگ اس میدان میں ان علماء کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے ۔اگر کوئی بھی تبدیلی آئی ہے جس کی مغرب کے مسلم و غیر مسلم سکالرز بھی تعریف کرتے ہیں، وہ بھی مدارس کے اندر سے ہی آئی ہے۔ان کے نزدیک بھی مسلم معاشروں میں حقیقی Modernismمدارس کے علماء نے زیادہ create کیا ہے اور ان کی credibility بھی ان سے زیادہ ہے جو باہر سے آئے تھے۔
اس سارے علمی رعب کے حوالے سے آخری بات بہت اہم ہے۔ وہاں علم کا مقصد اور خاص طور پر دینی علوم کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ آپ کو خدا سے متعارف کروائے اور اس کے قریب کرے۔ وہاں علم طاقت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ ان کا Bentہے ۔ ان کا مسئلہ حق نہیں ہے، ان کا مسئلہ Truthہے تاکہ ان کو طاقت حاصل ہو۔ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں علم کا مقصد خدا کا تقرب ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں برصغیر میں درس نظامی کے بانی ملا نظام الدین ؒ کے طلبہ پر یہ پابندی ہوتی تھی کہ وہ ہفتے میں پانچ گھنٹے شیخ عبد الرزاق بانسوی ؒ کے ساتھ گزاریں جو بالکل ان پڑھ آدمی تھے، جس طرح سید احمد ؒ پڑھ نہیں سکتے تھے ۔طلبہ کو ان کے پاس بیٹھانا تعلق باللہ کے لیے تھا۔ علم برائے طاقت کا اثر اب مغرب سے ہمارے ہاں بھی آ رہا ہے اور کئی وجوہات کی بنا پر ہمارے طالب علم کے لیے بھی پر کشش بن رہا ہے۔میں یہ کہا کرتا ہوں کہ ہمیں ان سے بہت کچھ لینا ہے ، منہج تحقیق وغیرہ ، کیونکہ الحکمۃ ضالۃ المؤمن۔لیکن مدرسہ میں اپنی فنون میں مہارت کی بنیاد اور تعلق باللہ والی بنیاد کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔یہ دونوں چیزیں ان کے ہاں نہیں پائی جاتیں اور یہی ہمارا سرمایہ ہیں ۔ 
اس کے بعد آصف افتخار صاحب کے ساتھ سوال و جواب کی بہت عمدہ نشست ہوئی جس میں مغرب کے حوالے سے بہت سے تفصیل طلب امور زیر بحث آئے اور بہت سی الجھنیں دور ہوئی ۔ 

مولانا سمیع اللہ سعدی

مولانا سمیع اللہ سعدی (سابق مدرس جامعہ فریدیہ ، اسلام آباد) نے ’’اسلامی علوم میں تحقیق کی اہم جہات اور اس کے ذرائع ‘‘ پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ:
میرے موضوع کے دو جز ہیں۔ ایک، علوم اسلامیہ میں تحقیق کی جہات اور دوسرا، اس کے ذرائع۔ ذرائع کو آپ لوازمات تحقیق بھی کہہ سکتے ہیں۔ پہلے میں ذرائع تحقیق ذکر کروں گا۔ 
اس حوالے سے پہلی چیز علوم اسلامیہ کے قدیم ذخیرہ کی اشاریہ سازی اور اس کی مفصل تاریخ کی ترتیب ہے۔ یہ معاجم کی شکل میں ہوں یا زمانی، موضوعاتی یا حروف تہجی کی ترتیب سے۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹر مظہر یاسین صدیقی صاحب کی کتاب ’’ مصادرسیرت‘‘ ہے ۔ اس طرز پر قدیم ذخیرہ کی اشاریہ سازی یا معاجم تیار ہونے چاہییں۔ اسی طرح تاریخ میں ہر علم کا ارتقا بھی ہمارے پیش نظر ہو۔ دوسری چیز اس علم میں ہونے والے کام کی درجہ بندی ہے۔آج کے دور کا دور زوال ہونا ایک حقیقت ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسی دور میں امت نے بڑے بڑے عبقری علماء پیدا کیے ہیں، ان کے کام کی درجہ بندی ہونی چاہیے ۔ تیسری چیز مخطوطات کی اشاعت ہے۔ بیروت کے ایک محقق ڈاکٹر یوسف المراشلی نے اپنی کتاب ’’اصول البحث العلمی وتحقیق المخطوطات‘‘ میں لکھا ہے کہ اس وقت بھی یورپ اور امریکہ کی لائبریریوں میں ایک لاکھ سے زیادہ اسلامی مخطوطات اشاعت کے منتظر پڑے ہوئے ہیں ۔ ان کی یہ کتاب 2003ء میں شائع ہوئی ہے۔ انہوں نے ترکی کی سات لائبریریوں کے مخطوطات کی تعداد ستر ہزار لکھی ہے۔ 
چوتھی چیز لائبریریز کا قیام ہے ، اس سے معاشرے میں تحقیق کا ذہن بنتا ہے اور تحقیق پروان پاتی ہے۔ پانچویں بات تخصصات کا رواج ہے ۔ اس حوالے سے معاصر جامعات میں کام ہوا ہے، لیکن مدارس میں ابھی تک بہت گنجائش باقی ہے ۔ ہمارے حلقے میں ابھی تک جب تخصص کا لفظ آتا ہے تو اس سے مراد تخصص فی الافتاء مراد لیا جاتا ہے ۔ یہ ایک المیہ ہے، مختلف میادین میں تخصصات کا رواج ہونا چاہیے ۔ چھٹی چیز جو ضروری ہے، وہ نصاب کی تدوین نو ہے۔ ہمارے ہاں مدارس اور یونیورسٹیز میں پڑھایا جانے والا اسلامیات کا نصاب طلبہ میں علم کی بنیادی صلاحیت پیدا کرنے سے قاصر ہے اور بنیادی صلاحیت کے بغیر تحقیق ممکن نہیں، اس لیے نصاب کی تدوین نو بھی انتہائی ضروری ہے۔ ساتویں چیز قدیم ذخیرہ کی تسہیل اور کمپیوٹرائزیشن ہے۔ قدیم ذخیرہ کی جدید اشاعت کا کام بہت حد تک ہو چکا ہے لیکن معاصر زبان و بیان کے اعتبار سے اس کی تسہیلات بھی انتہائی ضروری ہیں۔
جہات کے ضمن میں پہلی چیز علوم اسلامیہ کی تطہیر و تنقیح ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہر علم میں بہت ساری ایسی چیزیں شامل ہو چکی ہیں جو اس علم کا حصہ نہیں ہیں۔ ان چیزوں سے علم کی تطہیر یا تنقیح کرنا اس علم سے حقیقی استفادے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔دوسری جہت علوم اسلامیہ کی تشکیل جدید، یعنی عصر حاضر کے اسلوب اور چیلنجز کے مطابق ان میں حک و اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دو علموں میں تجدید کی اشد ضرورت ہے۔ ایک علم الکلام، آج کے سوالات و حالات کے تناظر میں علم الکلام کی تجدید بہت ضروری ہے اور جب ہم اس حوالے سے اس کو دیکھیں گے تو علم الکلام ماضی سے بالکل مختلف شکل میں سامنے آئے گا ، کیوں کہ یہ ایک دفاعی علم ہے۔ جیسے سوالات ہوں گے، ویسے ہی اس کی صورت گری ہو جائے گی ۔دوسرا علم الفقہ ہے ۔اس میں جب ہم عصر حاضر کے حوالے سے غور و فکر کریں گے تو ہمیں امت کو آسانی بھی فراہم کرنی ہو گی اور اس کو اباحیت سے بھی بچانا ہو گا۔یہ ایک پل صراط ہے ، اور محقق کی ذمہ داری ہے کہ وہ تیسیر اور اباحیت کے درمیان رہتے ہوئے جدید مسائل کا حل تلاش کر کے امت کی صحیح راہنمائی کرے ۔تیسری جہت علوم اسلامیہ کا دفاع ہے ۔ اس پر گزشتہ دو تین صدیوں میں مستشرقین کے جوابات کے ضمن میں بہت کام ہوا ہے ، اس لیے یہ ایک پائمال موضوع ہے۔ چوتھی جہت اسلامی و مغربی علوم کا تقابلی مطالعہ ہے ۔ اسلامی اور مغربی علوم میں رد و قبول کا تعلق، تطبیق و ترجیح کا تعلق وغیرہ ، ان پر بات کرنے کی ضرورت ہے ۔پانچویں جہت اسلامی علوم کے مخفی گوشوں کی توضیح ہے ۔ ہر علم میں بہت سارے گوشے مخفی ہوتے ہیں جو مرور زمانے کے ساتھ بقدر ضرورت واضح ہوتے جاتے ہیں، ان گوشوں کو واضح کرنا بہت ضروری ہے ۔اس ضمن میں ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب کے کام کو دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی زندگی، عرب کے پیشوں اور رسم و رواج پر بات کی ہے جس سے سیرت کے بہت سے پہلو واضح ہوئے ہیں جو پہلے واضح نہیں تھے۔ اسی طرح دیگر علوم میں بھی کئی گوشے ابھی تک مخفی ہیں، ان کی توضیح کی ضرورت ہے ۔

مولانا حافظ محمد بلال فاروقی

مولانا حافظ محمد بلال فاروقی (لیکچرار یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب، لاہور) نے ’’استعمار کے خلاف مزاحمت : امیر عبد القادر الجزائری بطور مثالی نمونہ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ اٹھارویں صدی میں فرانس نے الجزائر پر مختلف وجوہات کی بنا پر حملہ کیااور وہاں اپنی حکومت قائم کی۔ اس وقت الجزائر کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی، اس لیے قبائل نے مزاحمت کی ابتدا کی۔ امیر عبد القادر الجزائری کے والد ایک قبیلے کے سربراہ تھے۔ مختلف قبائل مل کر ان کے پاس آئے او ران سے جہاد کی قیادت سنبھالنے کی درخواست کی ۔ کبر سنی کی وجہ سے انہوں نے خود تو قیادت کی ذمہ داری نہ لی، لیکن اپنے بیٹے امیر عبد القادر کو پیش کیا جن پر اتفاق ہوا اور قبائل نے فرانس کے خلاف گوریلا مزاحمت شروع کر دی۔ الجزائری نے فوج کو منظم کیا، اسلحہ سازی کے کارخانے لگائے اور وہاں کام کرنے کے لیے جرمنی، ہسپانیہ اور دیگر ممالک سے ماہرین بلوائے۔ فوج کے لیے قوانین مرتب کیے جو آج بھی طبع شدہ مل جاتے ہیں۔ یہ گوریلا جنگ تھی کیوں کہ ان کی فوج کا اور فرانس کی فوج کے تناسب میں بہت فرق تھا۔ یہ دشمن پر حملہ کرتے اور چھپ جاتے تھے۔ اسی وجہ سے جوابی حملوں سے حفاظت کے لیے الجزائری نے اپنے زیر نگیں قبائل کو ایک متحرک شہر کی صورت میں منظم کیا جو خیموں پر مشتمل ہوتا تھا اور مسلسل نقل مکانی کرتا رہتا تھا۔ انہوں نے دیگر ممالک سے معاہدات بھی کیے اور اپنے مختصر عرصہ جدوجہد میں خود کو فرانس سے الجزائر کے دو تہائی حصے کا حاکم تسلیم کروا لیا۔ اپنی جدوجہد کے لیے سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس وقت کی ہر قابل ذکر طاقت سے رابطہ کیا اور بات چیت کی۔انہوں نے ایک مجلس شوریٰ قائم کی جو حکومت کے ہر قسم کے معاملات کا فیصلہ کرتی تھی۔ عدلیہ کا محکمہ قائم کیا۔ تعلیمی نظام پر بہت زیادہ توجہ دی، مساجد کے ساتھ مکاتب قائم کیے، اپنے ملک میں دو بڑی یونیورسٹیز بنائیں اور اپنے تیس طلبہ کو وظائف دے کر فرانس میں بھیجا تاکہ وہ وہاں تعلیم حاصل کر سکیں اور پھر ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔
امیر عبد القادر نے انسانی کی جان کی اہمیت وحفاظت کو اپنے طرز جدوجہد میں بنیادی اہمیت دی۔ انہوں اپنے فوجیوں کی جان بچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جب بھی موقع ملا، معاہدات کے ذریعے لڑائی روکنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی فوج میں یہ اعلان کر رکھا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی فرانسیسی فوجی کو زندہ پکڑ کر لائے گا تو اس کو زیادہ انعام دیا جائے گا۔اسلامی جنگی اخلاقیات پر عمل کے اعتبار سے ان کا کردار بہت روشن ہے۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں انہوں نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ قیدی کو جس کے پاس رکھا جائے، اگر اس کی قیدی کوئی شکایت کرے گا تو اس کا روزینہ بھی بند کر دیا جائے گا اور اس کو ملنے والے انعاما ت بھی واپس لے لیے جائیں گے۔ان کے معاصر غیر مسلم افراد اور حکومتوں کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے ۔ ان کی ریاست میں غیر مسلموں کو دوسرے درجے کا شہری نہیں سمجھا جاتا تھا، بلکہ امیر کے کئی سفیر غیر مسلم تھے ۔اسی طرح مذاکرات میں بھی وہ کسی نہ کسی غیر مسلم کو شریک رکھتے تھے ۔

حافظ محمد سلیمان اسدی

حافظ محمد سلیمان اسدی (لیکچرار، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج ، گوجرانوالہ) کی گفتگو کا عنوان ’’فقہائے احناف کے حدیث کے رد و قبول کے معیارات ‘‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ:
روایات کی تحقیق کے حوالے سے قرآن کریم کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ اسی طرح احادیث میں بھی تحقیق روایت کے بارے میں واضح تعلیمات دی گئی ہیں، جیسے حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت علیؓ یمن سے اونٹ لینے گئے۔ جب واپس آئے تو گھر میں دیکھا کہ حضرت فاطمہؓ نے احرام کھولا ہوا ہے، جبکہ دوسرے افراد نے ابھی احرام نہیں کھولا تھا۔ حضرت علیؓ کو کچھ ناگواری محسوس ہوئی تو حضرت فاطمہؓ نے ان کو بتایا کہ میرے والد گرامی نے اسی طرح حکم دیا ہے۔ حضرت علیؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے توآپ نے حضرت فاطمہؓ کی بات کی توثیق کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی تردد پیش آتا تو صحابہ کرامؓ براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق کر لیتے اور یہ بات ان کے لیے اطمینان کا باعث ہوتی اور تشفی ہو جاتی ۔اسی طرح حضرت ابو موسی ٰ اشعری ؒ ، حضرت عمرؓ کے بلانے پر ان کے گھر گئے اور اجازت نہ ملنے پر واپس آگئے تو حضرت عمرؓ نے اس بات کی ان سے دلیل بھی مانگی اور اس دلیل کے بارے میں گواہ بھی مانگے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد دو علاقے صحابہ کرامؓ کے علمی مراکز تھے، مدینہ منورہ اور عراق میں کوفہ۔ مستقبل میں انھ دو مراکز سے مسلمانوں کی علمی راہنمائی ہوتی رہی۔ اسی سے فقہاء کے دو گروہ بنے ، اہل حجاز اور اہل عراق۔ اہل عراق کو بعد میں فقہائے احناف کا نام دیا گیا ۔ان کے احادیث کو رد و قبول کرنے کے معیارات میں سے ایک معیار یہ تھا کہ وہ روایت نقل کرنے والے صحابہ کرامؓ کے درجات کا خیال رکھتے تھے، یعنی صحابہ کرامؓ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طول صحبت، یا کبر سنی یا فہم فراست اور رتبے میں بلندی کو ملحوظ رکھتے تھے اور درجہ صحابیت میں اعلیٰ فرد کی روایات کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد سمجھتے تھے۔

مولانا محمد عمار خان ناصر

مولانا محمد عمار خان ناصر (ڈپٹی ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی ، گوجرانوالہ) نے ’’فکری وتہذیبی سوالات اور اسلامی تحقیق کا باہمی ربط ‘‘ کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:
جامعات میں جب تحقیق ہوتی ہے تو دو طرح کے رجحانات کے درمیان کشمکش ہوتی ہے۔ ایک رجحان یہ ہوتا ہے کہ تحقیق کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جائے جو ہماری رویات اور تراث سے متعلق ہوں۔ کسی کتاب پر، کسی علمی شخصیت پر یا کسی علم و فن کے کسی پہلو پر تحقیق کی جائے۔ جبکہ اسلامیات کے علاوہ یونیورسٹی کے دیگر شعبہ جات کے افراد کا خیال یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا موضوع لیا جائے جو عصر جدید سے متعلق ہو ، موجودہ دور کا کوئی مسئلہ ہو جس کا حل تلاش کیا جائے، آج کے کسی سوال کا جواب ہو ۔ کوئی ایسا موضوع ہو جس کا موجودہ زمانے میں معاشرے کو کوئی فائدہ ہو۔ ان دونوں رجحانات کے ملاپ اور امتزاج سے ہی ایسی تحقیق وجود میں آ سکتی ہے جس کا ہماری روایت کے ساتھ بھی تعلق ہو اور موجودہ دور کے سوالات کا جواب بھی دے سکتی ہو۔
مختصر وقت میں کچھ ایسے عنوانات ذکر کروں گا جن سے ایک نمونہ ہمارے سامنے آئے گا کہ کیسے ہم اپنے روایتی ذخیرے سے بھی ایسے موضوعات نکال سکتے ہیں جن کا مطالعہ ہمیں اپنی روایت کی گہرائیوں کو سمجھنے اور ان تک رسائی میں بھی مدد دے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے آج کے فکری تناظر کے ساتھ بھی متعلق ہو ۔ ایسے ہی موضوعات کو تدریجی طور پر رواج دینے کی ضرورت ہے ۔
آج ہم جس ماحول میں، جس دنیا میں کھڑے ہیں، ظاہر بات ہے کہ وہ آج سے ڈیڑھ، دو سو سال کے ماحول سے مختلف ہے۔ آج کی سیاسی صورتحال بھی مختلف ہے، تہذیبی صورت حال بھی مختلف ہے۔ آج کے دور کے علمی و عقلی سوالات بھی ان سوالات سے مختلف ہیں جو آج سے دو سو سال پہلے لوگوں کے سامنے تھے۔مسلمان معاشروں کی اندرونی توڑ پھوڑ کی جو صورتحال آج ہے، وہ دو سو سال پہلے نہیں تھی ۔اس طرح ہر دور اپنے تناظر بھی بدلتا ہے، حالات بھی بدلتا ہے اور اسی کی مناسبت سے موضوعات کی نوعیت و اہمیت بھی بدلتی ہے ۔ جو عنوانات میں ذکر کرنے والا ہوں، ان میں سے کچھ عنوانات ہم نے گفٹ یونیورسٹی میں طلبہ کو دیے بھی ہیں اور کچھ میرے ذہن میں ہیں۔ ان کو ذکر کرنے کا مقصد اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ ہماری روایت کے جو نظری اور کتابی قسم کے موضوعات ہیں، ان کی بھی بڑی اہمیت ہے اور ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ایسے موضوعات کو بھی پوری اہمیت دینی چاہیے جن میں دونوں پہلو شامل ہوں۔ روایت کا مطالعہ بھی ہو اور معاصر تناظر کے سوالات بھی ان میں شامل ہوں۔
ابھی ہمارے دو دوستوں نے اپنے مقالات کا خلاصہ پیش کیا ہے، ان میں آپ یہ دونوں پہلو دیکھ سکتے ہیں۔ روایات کے رد و قبول کے حنفی معیارات، یہ بالکل ایک روایتی سا موضوع ہے جس میں اب بھی تحقیق کی کافی گنجائش ہے۔ امیر عبد القادر الجزائری والا موضوع دوسرے دائرے کی چیز ہے۔ اس میں تاریخ کا مطالعہ بھی ہے اور اس سے آج کے دور کی جدوجہد میں کچھ اہم چیزیں ہم سیکھ سکتے ہیں۔ 
ایک عنوان ہم نے ایک طالب علم کو دیا ہے، تکفیر کے مسئلہ میں امام غزالی ؒ کا نقطہ نظر۔ اس سوال سے بہت ابتدا میں مسلمان اہل علم کو سابقہ پیش آ گیا تھا کہ اسلام کے دائرے میں میں مختلف ایسے افراد اور گروہ بھی شامل ہو رہے ہیں جو دنیا کی بعض دوسری فکری اور مذہبی روایتوں کے زیر اثر خالص اسلامی عقائد ونظریات کے حامل نہیں، بلکہ ان سے منحرف ہیں۔ سوال یہ تھا کہ ہم کس مقام پر یہ فیصلہ کر یں گے کہ یہ فرد یا گروہ اسلام کے دائرے کے اندر نہیں رہا اور اب یہ اسلام کے دائرے سے باہر چلا گیا ہے۔ امام غزالی ؒ تقریباً پانچ سو سال کی علمی روایت کے وارث ہوئے اور انہوں نے ایک رسالے میں اس بحث کا مفصل محاکمہ پیش کیا ہے۔ یوں اس مطالعے میں تکفیر کے حوالے سے روایتی ذخیرے کی بھی تفہیم ہوگی اور آج مسلمان معاشروں کو بھی درپیش اسی سوال پر غور کرنے کی مختلف جہتیں سامنے آئیں گی۔
تکثیری معاشرہ آج کی ایک مقبول اصطلاح ہے، یعنی ایسا معاشرہ جس میں مختلف اور متنوع ثقافتیں اور تہذیبیں رہ رہے ہوں، ان سب کو قبولیت بھی حاصل ہو اور ان سب کے لیے مواقع بھی یکساں موجود ہوں۔ ابتدائی اسلامی تاریخ میں جب فتوحات کا زمانہ آیا اور اسلامی سلطنت پھیلی تو صحابہ کرامؓ کو بھی اسی طرح کے معاشروں سے واسطہ پیش آیا تھا۔ اب اگر اس دور کی تاریخ کا اس زاویے سے مطالعہ کیا جائے تو اس سے یہ راہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے کہ آج کے تکثیری معاشرے کے چیلنجز کا ہم کس طرح سامنا کریں۔
اسی طرح سیرت نبوی سے متعلق ہمارے مصادر ومآخذ میں مدنی دور کا مطالعہ زیادہ وسعت و گہرائی سے کیا جاتا ہے، اس کا زیادہ مواد ملتا ہے، جبکہ مکی دور کا مطالعہ اس طرح وسعت کے ساتھ نہیں کیا جا تا، حالانکہ اس کی بھی بڑی اہمیت ہے، خود مطالعہ سیرت کے حوالے سے بھی اور اس پہلو سے بھی کہ آج مسلمانوں کو مختلف علاقوں میں کئی طرح کے حالات کا سامنا ہے اور ان میں سے بعض حالات میں مکی دور کا اسوہ زیادہ راہنمائی دیتا ہے۔ اس پر ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب نے کچھ کام کیا بھی ہے اور ایک اچھی کتاب لکھی ہے، لیکن اب بھی کئی پہلو ایسے ہیں جن پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
امام ذہبیؒ کی ایک کتاب ہے ’’سیر اعلام النبلاء‘‘، یہ بظاہر رجال و تذکرہ کی کتاب ہے، لیکن اس میں خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کلامی تقسیمات سے اٹھ کر تمام مسالک و گروہوں کی شخصیات کا ذکر کیا ہے اور جس شخصیت کا علم و فضل کے لحاظ سے جو حق بنتا ہے، اس کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اس کے ، ساتھ ساتھ مسلمانوں کے آپس کے اختلافات کے حوالے سے بھی بہت اہم چیزیں بیان کی ہیں، تاریخی واقعات کے انداز میں بھی اور اپنے تبصروں کی صورت میں بھی ۔ہمارے ایک طالب علم اس پر کام کر رہے ہیں کہ ہم اس پورے مواد کا مطالعہ کریں اور اس سے یہ سمجھیں کہ ہر طرح کے اختلاف کے باوجود اسلامی معاشرے میں تنوع، قبولیت اور رواداری کی کیا روایت رہی ہے۔
اسلامی تہذیب کی دوسری تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کی کیا نوعیت رہی ہے، اس میں رد و قبول اور اخذ و استفادہ کے کیا معیارات مقرر کیے گئے، کس طرح کی چیزیں لے کر ان کو اپنے نظام میں ڈھالا گیا، اور کس طرح کی چیزیں قبول نہیں کی گئیں، اس موضوع کا بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ روایت و تاریخ کا مطالعہ بھی ہو گا اور آج ہمیں پھر اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ ہمیں دوسرے نظام ہائے فکر اور تہذیبوں سے واسطہ ہے، اس میں بھی راہنمائی ملے گی۔
ایک اور موضوع بھی بہت اہم ہے اور میں اس میں خاصی دلچسپی محسوس کرتا ہوں، وہ یہ کہ حنفی فقہی فکر آج کئی حوالوں سے از سر نو مطالعہ کا موضوع بن رہی ہے۔ مثال کے طور پر اس حوالے سے اس کا مطالعہ بہت اہم ہو گا کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے تلامذہ اپنے دور میں جو تہذیبی تبدیلی دیکھ رہے تھے،اس کو انھوں نے اپنے نظام فکر میں کیسے جگہ دی۔ ان کے ہاں جو اصول ان کے نظام فکر پر اثر انداز ہوئے، وہ سارے نظری قسم کے نہیں تھے۔ وہ معاشرتی تبدیلیوں کو ، بدلتے ہوئے حالات و ضروریات کو دیکھ رہے تھے اور نئے نئے معاشرے جو اپنا اپنا پس منظر لے کر اسلام میں آ رہے تھے، ان پر اسلامی قانون کے نفاذ میں جو پیچیدگیاں تھیں، اس کا بھی بہت گہرا ادراک ان کے ہاں ملتا ہے۔ اس حوالے سے اگر ان کے اجتہادات کا دوبارہ مطالعہ کریں تو عصر حاضر کے اعتبار سے ہمیں بڑی روشنی اور راہنمائی ملے گی۔ 
ایک موضوع یہ ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں سیاسی و حکومتی معاہدات اور ان کے تہذیبی اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ اسلامی تہذیب ایک اخلاقی تصور رکھتی تھی جس میں معاہدات کی پاسداری بڑی اہم اخلاقی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی۔ اسلامی سلطنت کے پھیلنے میں ان اخلاقی اصولوں کا بڑا غیر معمولی اثر ہے۔ ہمارے دور عروج میں دنیا میں عمومی تاثر یہ تھا کہ مسلمان جب معاہدہ کرتے ہیں تو اس کی پاسداری کرتے ہیں۔ اس پہلو کا بھی تاریخی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک دلچسپ عنوان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تاتاری جب اسلامی ممالک پر حملہ آور ہوئے اور آخر کار انہوں نے اسلام قبول کر لیااور اسلام کے سپاہی بن گئے تو یہ transformation کیسے ہوئی؟ وہ کیا عوامل تھے اور مسلمانوں نے کیا حکمت عملی اپنائی کہ اسلام کو مٹانے والے، اسلام کا حصہ بن گئے۔

ڈاکٹر عبد اللہ صالح صاحب

ڈاکٹر عبد اللہ صالح صاحب ( ایسوسی ایٹ پروفیسر، شیخ زاید اسلامک سنٹر ، جامعہ پنجاب ، لاہور) نے ’’علو م اسلامیہ میں تحقیق: چیلنجز اور امکانات ‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا:
مجھے یہاں آ کر سب سے پہلے تو اس بات کی خوشی ہے کہ کوئی ایسا فورم، کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو علوم اسلامیہ کے بارے میں سو چ بچار اور غورو فکر کرتے ہیں، مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور ان کا حل تلاش کرتے ہیں ۔یہ فورم اور ایسے لوگ آج کے دور میں غنیمت ہیں۔جہاں تک علوم اسلامیہ میں تحقیق ہے، اس حوالے سے نہ ہی کوئی خوش فہمی ہے کہ ہم کسی آئیڈیل پوزیشن پر کھڑے ہیں اور نہ ہی کوئی مایوسی کی بات ہے کہ ہم سر پکڑ کر بیٹھ جائیں کہ ہمارے ادارے اور محققین کوئی تحقیقی کام نہیں کر رہے۔علوم اسلامیہ میں اگر سو مقالات لکھے جاتے ہیں ان میں سے پانچ بھی اگر کام کے نکل آئیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا سفر جاری ہے اور ہم جمود کا شکار نہیں ہیں۔پاکستان میں ہندوستان سے مختلف اسکالرز اور علماء آتے رہتے ہیں۔ میں جہاں بھی موقع ملے، ان سے یہ سوال ضرور پوچھتا ہوں کہ ہمارے ہاں اور آپ کے ہاں ہونے والی تحقیق میں کیا فرق ہے؟یہ سوال میں نے علامہ نور الحسن راشد کاندھلوی، ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی اور ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی صاحب سے کیا جو پچھلے دنوں تشریف لائے ہوئے تھی اور الحمد للہ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات بجا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی سیاسی مسائل نہیں ہیں، لیکن پاکستان میں بھی تحقیقی کام ہو رہا ہے ، ادارے بھی کر رہے ہیں اور افراد بھی۔یہی علماء اکثر اوقات پی ایچ ڈی کے مقالات کے ممتحن بھی ہوتے ہیں اور بہت سے مقالات کے بارے میں ان کی رائے ہوتی ہے کہ یہ معیاری ہیں، اس لیے ان کو شائع کیا جائے ۔اس سے ایک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ ہم بالکل اندھیرے میں نہیں بیٹھے، کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے اور ہم آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
تحقیق کے ضمن میں ایک اچھی پیش رفت پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کا قیام بھی ہے۔ پہلے صرف پبلک سیکٹر یونیورسٹیز اعلیٰ تحقیق کرواتی تھیں اور اس میں داخلہ بہت کم لوگوں کو ملا کرتا تھا۔ اب پرائیویٹ یونیورسٹیز کی وجہ سے طلبہ کے لیے اعلیٰ تحقیق کے زیادہ مواقع ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ طلبہ کی اکثر تعداد ان مفادات کے حصول کے لیے آتی ہے جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں، لیکن بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو محض علمی پیاس بجھانے اور پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔ان پرائیویٹ یونیورسٹیز میں پیسہ کمانے کے لیے پیدا ہونے والا ایک رجحان کوئی اچھا اور مثالی رجحان نہیں ہے۔ اب یہ یونیورسٹیز طلبہ کو یہ آپشن بھی دیتی ہیں کہ وہ مقالہ لکھنے کی بجائے اگر اضافہ کورس پڑھ لیں تو ان کو ڈگری جاری کر دی جائے گی۔ علوم اسلامیہ میں تحقیق کے حوالے سے یہ کوئی اچھا رجحان نہیں ہے ۔ایم فل کی ڈگری ریسرچ اور تحقیق کی ڈگری ہے، اس لیے اس میں طالب علم کے لیے مقالہ لکھنا لازمی ہونا چاہیے۔
یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم کے لیے آنے والے دو قسم کے طلبہ ہوتے ہیں۔ ایک درس نظامی پڑھے ہوئے مدارس کے فضلاء اور دوسرے عام عصری اداروں کے ذریعے ایم اے کی ڈگری کے حاملین ۔ ان میں مدارس کے فضلاء کو بنیادی ماخذسے براہ راست استفادے کی صلاحیت کے پیش نظر سبقت حاصل ہوتی ہے اور یہی اس نظام کے اصل شناور ہیں، لیکن ان کو عصری علوم اور معاصر زبانوں سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
جامعات میں ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ تحقیق کے لیے موضوعات کون دے۔ جامعات میں کوشش یہ ہوتی ہے کہ موضوع طالب علم خود دے، کیوں کہ وہی تحقیق مؤثر ہوتی ہے جو طالب علم کے اندر سے نکلے اور وہ خود اس کا انتخاب کرے۔ لیکن اکثر طلبہ ایسا نہیں کرسکتے، اس کی مختلف وجوہات ہیں ۔ ایک وجہ تو ہمارے ادارے ہیں کہ انہوں نے کوئی ترجیحات متعین نہیں کی ہوتی قومی یا بین الاقوامی طور پر کہ جس پر ہمیں تحقیق کرنے کی اور راہنمائی کی ضرورت ہے ۔ اس وجہ سے موضوع تلاش کرنا پڑتا ہے اور ظاہری طور پر موضوعات کی کمی کا سامنا نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کام کرنے والوں کے لیے موضوعات کی کمی نہیں ہوتی۔ یہ موضوعات کا قحط وہیں نظر آتا ہے جہاں استاد و طالب علم میں مطالعہ کی کمی اور نقص ہوتا ہے ۔اب کتنے ایسے اساتذہ ہیں جو اچھے مقالات لکھتے ہیں، اچھی کتابیں لکھتے ہیں اور مختلف میدانوں میں اپنے مطالعہ کو وسعت دینے کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ بہت سے موضوعات جامعات میں اس لیے بھی نہیں دیے جاتے کہ اس موضوع پر تحقیق کروانے والے اساتذہ ہی نہیں ملتے، اس لیے دانستہ ایسا موضوع طالب علم کو نہیں دیا جاتا۔
ایک سوال تحقیق کی نوعیت کا ہے۔ ہماری زیادہ تر تحقیق کتابی قسم کی ہو رہی ہے جو لائبریریوں میں ہی پڑی رہ جاتی ہے۔ تحقیق ایسی ہونی چاہیے جو معاشرے، قومی و بین الاقوامی مسائل اور متحرک زندگی کے ساتھ تعلق بھی رکھتی ہو۔ جامعات میں دینی مدارس کے جو فضلاء آ رہے ہیں، وہ بنیادی مہارتوں کے اعتبار سے تو بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن ان کی تقریباً ساری توجہ عبارتی موشگافیوں اور عبارت کی ترکیب وغیرہ کی طرف ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ان کو ہدایہ کی کوئی عبارت دی جائے تو وہ اس کی ترکیب تو بہت اچھی کر دیں گے، لیکن اگر ان سے یہ پوچھا جائے کہ اس عبارت میں جو لکھا ہے، اس کے بارے میں دیگر علماء کا کیا موقف ہے، امام شافعی ؒ ، امام مالک ؒ وغیرہ کا تو وہ کچھ نہیں بتا پاتے، حتیٰ کہ جس کتاب کو انہوں نے بالاستیعاب پڑھا اور سمجھا ہوتا ہے، بسا اوقات وہ اس کے مصنف کا نام اور اس کے حالات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ یہ میرا تقریباً پندرہ سال کا تجربہ ہے۔ دینی اداروں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کمی کو ختم کیا جاسکے۔اسی طرح ان کا نصوص کا مطالعہ تو بہت اچھا ہوتا ہے، لیکن حالات حاضرہ سے اکثر اوقات وہ بالکل نابلد ہوتے ہیں۔ اگر ان سے پوچھ لیا جائے کہ اس وقت فلسطین کا یا عراق کا کیا مسئلہ ہے تو وہ نہیں بتا سکتے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ علوم اسلامیہ کے حوالے سے تو ان کی صورتحال کسی حد تک قابل اطمینان ہوتی ہے، لیکن دیگر علوم مثلاً سوشل سائنسز کے حوالے سے وہ کچھ نہیں جانتے ہوتے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ علوم اسلامیہ کو سیاسیات کے نئے رجحانات، اقتصادیات کے نئے پہلوؤں اور اسی طرح دیگر معاشرتی علوم کے ساتھ Interlinkکیا جائے ۔ اسی لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ درسیات یا کتابی علوم سے متعلق ہی ان کو کام دیا جائے ۔ اگر مدارس کے فضلاء ان چیزوں پر کچھ توجہ مرکوز کر لیں تو ان کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ ہمارا ماضی اس بات پر گواہ ہے اور ابھی بھی مدارس کے فضلاء جو ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں، ان کی تحقیق میں جو گہرائی ہوتی ہے، وہ مروجہ جامعات کے فاضلین کی تحقیق سے کئی حوالوں سے زیادہ ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے ادارے کی اشد ضرورت ہے جو مستقبل کے حالات و امکانات کے حوالے سے ملک میں ہونے والی تحقیق کی سمت متعین کر ے۔ ایچ ای سی نے کچھ اصول تو دیے ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسے اقداما ت بھی کیے ہیں جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تحقیق کا معیار بلند ہونے کی بجائے مزید گر گیا ہے ۔ اس چیز کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں یونیورسٹیز کے اندر اصول تحقیق اور معیار تحقیق میں یکسانیت ہو۔ اس وقت ہر یونیورسٹی کا اپنا اپنا معیار اور اصول تحقیق ہیں، اسی وجہ سے تکرار تو عام ہو گیا ہے حالانکہ اب ITکے شعبہ میں ترقی کی وجہ سے وسائل بھی آ گئے ہیں کہ کسی موضوع پر دیکھا جائے کہ آیا کسی یونیورسٹی نے اس پر پہلے کام تو نہیں کروا دیا، لیکن عام طور پر اس بات کا اہتمام نہیں کیا جاتا اور اگر کیا بھی جاتا ہے تو بہت سرسری سا ہوتا ہے۔یہ چند معروضات ہیں جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی (ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ) نے اختتامی کلمات میں کہا کہ:
میں آپ سب حضرات کا اور بالخصوص ڈاکٹر عبد اللہ صالح صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ تشریف لائے اور اچھے موضوعات پر اچھی محفل دو دن جمتی رہی۔ میں اس بات پر بھی اطمینا ن کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ الشریعہ اکادمی کا جن عزائم اور جن مقاصد کے تحت ہم نے آغاز کیا تھا، الحمد للہ مجھے وہ مقاصد اب پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں اور یہ نظم اصل ٹریک پر چڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے الحمد للہ۔ میرے ذہن میں ایک خواب تھا جو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے پورا فرما رہے ہیں۔ اس کے ساتھ میں حصہ ڈالنے کے لیے ایک بات عرض کرنا چاہوں گا ۔ ڈاکٹر صاحب نے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے اکثر خدشات میرے ذہن میں بھی ہیں۔ موجودہ صورتحال کے حوالے سے ایک بات میں بھی کہنا چاہتا ہوں۔
پچھلے دنوں وزارت مذہبی امور نے ایک قومی علماء ومشائخ کونسل بنائی جس کا میں بھی ممبر ہوں۔ اس کونسل نے ایک قومی نصاب کمیٹی برائے دینی مدارس تشکیل دی ہے جس کی دو تین میٹنگز ہو چکی ہیں۔ میں نے ایک میٹنگ میں سوال کیاکہ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم قومی سطح پر تعلیم کی عمومی صورتحال کا جائزہ لے کے ایک رپورٹ پیش کر دیں کہ اس وقت ملک میں تعلیم کی کیا صورتحال ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ دینی مدارس کے نصاب سے فرقہ وارانہ مواد کیسے خارج کرنا ہے۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور اس پر فوکس کریں۔ یہ ضمناً ایک بات ہے۔
میں تحقیق کے نتائج کے حوالے سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تحقیق کر چکنے کے بعداس کے نتائج کو پیش کرتے ہوئے ماحول کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ معاشرے پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ بخاری کی روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا۔ آپ نے حضرت عائشہؓ کو ایک روز بتایا کہ مجھے پتہ چل گیا ہے، فرشتوں نے بتایا ہے کہ مجھ پر جادو ہوا ہے، فلاں چیز پر کیا گیا ہے اور فلاں نے کیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق کی، وہ کنواں بھی مل گیا جہاں جادو کیا گیا تھا، وہ چیز بھی برآمد ہو گئی اور جس نے کیا تھا، اس کا بھی پتہ چل گیا ۔آج کی اصطلاح میں یہ کہیں کہ کیس بھی ثابت ہو گیا اور آلہ واردات بھی مل گیا۔ اس سب کچھ کے بعد حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ھلا نشرتہ؟ یارسول اللہ ! مسجد میں جا کر اعلان فرمائیں، آپ نے اعلان کیوں نہیں کیا ؟ یہ بات دو چار بندوں تک ہی محدود کیوں ہے ؟آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے بتا دیا ہے اور میرا مسئلہ حل ہو گیا ہے، اب میں لوگوں میں شر کیوں پیدا کروں؟
اس واقعے سے میں اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ تحقیق کرنا تو ٹھیک ہے، لیکن کیا ہر تحقیق کا نشر کرنا بھی ضروری ہے؟ یا اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے، مثبت ہوں گے یا منفی ؟ میرے خیال میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
ایک بات میں ڈاکٹر صاحب کی تائید میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں ہر ادارہ ایڈ ہاک ازم پر چل رہا ہے، جامعات بھی، ادارے بھی ، اور افراد بھی ۔ ہمیں چاہیے کہ قومی پالیسی طے کریں، تقسیم کار کریں اور سمت طے کریں ۔ جو کام ہو رہا ہے، اگر یہی کام پلاننگ کے تحت ہو تو اس کی افادیت دو گنا نہیں بلکہ کئی گنا بڑھ جائے گی ۔ 
ورکشاپ کے اختتام پر مقررین کو اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ او رالشریعہ اکادمی کی طرف سے شیلڈز دی گئی اور شرکاء کو شرکت کی اسناد پیش کی گئیں ۔
آئی آر ڈی کے احباب (محمد اسماعیل صاحب، محمد فرقان اور محمد یونس قاسمی) کے ساتھ الشریعہ اکادمی کی ٹیم (مولانا محمد عثمان، حافظ محمد رشید، مولانا محمد طبیب، مولانا محمد عبد اللہ راتھر، مولانا عبد الوہاب، حافظ شفقت اللہ) نے مل جل کر اس دو روزہ ورکشاپ کے انتظامات کیے اور بحمد اللہ حسن وخوبی سے دو دنوں میں تین نشستوں کا کامیاب انعقاد کیا گیا۔

مجلس یادگار شیخ الاسلام کے زیر اہتمام مولانا سندھیؒ پر سیمینار

گزشتہ نومبر کے دوران میں لاہور کی قدیمی دینی درسگاہ جامعہ مدنیہ ، کریم پارک میں "مجلس یادگار شیخ الاسلام " کے زیر اہتمام مولانا عبید اللہ سندھی کی شخصیت اور افکار کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیاگیا۔ عشاء کی نماز کے بعد سیمینار کا تلاوت قرآن کریم سے باقاعدہ آغاز ہوا ۔ 
پہلا مقالہ پروفیسر امجد علی شاکر کا تھا۔ انہوں نے "مولانا عبید اللہ سندھی بطور صوفی " کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور قبول اسلام کے بعد ان کی مختلف بزرگوں اور مختلف خانقاہوں کے ساتھ وابستگی کو تفصیل سے بیان کیا ۔ ان کے مقالے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ حضرت سندھی نے علم حاصل کرنے سے پہلے تصوف کے مراحل طے کیے۔ انہوں نے حضرت سندھی کا ایک واقعہ سنایا کہ کیسے انہوں نے دہلی کا ایک سفر بغیر زاد راہ کے کیا اور کیسے اللہ تعالیٰ نے دوران سفر ان کی دستگیری فرمائی۔ انہوں نے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت سندھی اپنی ذاتی زندگی میں تیسرے گروہ کے صحابہ کرام کے مزاج کے حامل تھے جو اس بات کے قائل تھے کہ اگلے دن کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے سونے سے پہلے تمام مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے تھے۔ (پروگرام کے بعد ہماری اس حوالے سے گفتگو ہوئی تو ایک دوست نے کہا کہ یہ واقعہ حضرت سندھی کی مجموعی فکر سے میل نہیں کھاتا۔ کیونکہ حضرت سندھی اپنے نصائح میں متعلقین کو نہ صرف معاشی ذرائع اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں بلکہ معاشی طور پر تفوق کے حصول کے داعی ہیں اور اس کو اس زمانے میں اسلام کی سر بلندی کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔) بہر حال مجموعی طورپر انہوں نے حضرت سندھی کے سفر تصوف و علم کو بہت عمدگی سے بیان کیا۔ 
دوسرا خطاب استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی کا تھا ۔ استاد گرامی نے فرمایا کہ ہمارے ہاں یہ عمومی مزاج بنتا جا رہا ہے کہ اکابر میں سے کسی بزرگ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ گفتگو چند باتوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ کوئی بھی بڑا شخص جب مسائل پر اظہار خیال کرتا ہے یا ان کے لیے عملی کوشش کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ دو چار باتیں ایسی ضرور ہوتی ہیں جن میں انفرادیت ہوتی ہے اور وہ عام روٹین اور روایت سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔ ایسی باتیں ناقدین کے ہاں تو موضوع بحث بنتی ہی ہیں مگر ہم نوا حلقے بھی انہی کے دفاع میں مصروف ہو جاتے ہیں اور پھر اس شخصیت کے بارے میں سارا تذکرہ انہی باتوں کے گرد گھومتا رہتا ہے جس سے شخصیت کے مثبت ارشادات و اعمال نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ایسے طرز عمل سے بہت سی بڑی شخصیات اعتراضات و جوابات کے گرد ہی گھوم کر رہ جاتی ہیں۔ چنانچہ ہمیں اپنے بزرگوں سے صحیح استفادہ کے لیے اس نفسیات اور مزاج کے ماحول سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اکابر کی زندگیوں کے ان پہلوؤں کو سامنے لانا چاہیے جن کا تعلق امت کی اجتماعی راہنمائی سے ہے اور جن سے نئی نسل کو اس کی تربیت و اصلاح کے لیے آگاہ کرنا زیادہ ضروری ہے۔ 
اس کے بعد استاد گرامی نے حضرت سندھی کے حوالے سے تحقیقی کام کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا۔ (ان کی گفتگو کا خلاصہ ’الشریعہ‘ کے گزشتہ شمارے میں شائع کیا جا چکا ہے)۔ آخر میں کہا کہ آج کے علماء کرام اور دانش وروں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ تہذیبوں کے تصادم اور ثقافتوں کے اس ٹکراؤ کو سمجھنے کی کوشش کریں، آج کے عصر کا ادراک حاصل کریں، اور اس سولائزیشن وار میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں امت مسلمہ بلکہ نوع انسانی کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں جس کے لیے ولی اللہی فکر و فلسفہ کی روشنی آج بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ میرے نزدیک آج کی نسل کے لیے مولانا عبید اللہ سندھی کا پیغام یہی ہے۔ 
استاد گرامی کے خطاب کے بعدسینیٹر حافظ حمداللہ کا خطاب تھا، لیکن بعض وجوہ کی بنا پر اس میں شرکت نہ ہو سکی۔ ان کے بعد قاری تنویر احمد شریفی صاحب نے گفتگو کی، لیکن وقت کی قلت کے باعث انہوں نے انڈیا سے مولانا ارشد مدنی صاحب کا بیان پڑھ کر سنانے پر اکتفا کی۔
ان کے بعد شیخ ابوبکر صاحب نے گفتگو کی اور مولانا سندھی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بطریق احسن نمایاں کیا اور اس بات پر زور دیا کہ حضرت سندھی کے اصل افکار ان کے وطن واپسی کے بعد کے ہیں، اس لیے ان کو زیادہ اہمیت کے ساتھ بحث و تحقیق کا موضوع ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں جس عبید اللہ سندھی کو پڑھ کر شعوری طور پر مسلمان ہوا ہوں، وہ ہجرت کے بعد کے عبید اللہ سندھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید دور میں جو اشکالات پیدا ہو رہے ہیں، ان کے جوابات اور تسلی بخش جوابات تلاش کرنے کے لیے ہمیں حضرت سندھی کو پڑھنا پڑے گا۔ انہوں نے آج سے 75 سال پہلے جن خیالات کا اظہار کیا تھا، وہ آج بھی اسی طرح تازہ ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے عصر حاضر کا کوئی دانش ور اپنے دور کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال ان کے وہ نصائح ہیں جو انہوں نے مولانا عبید اللہ انور کو ان کے دورہ حدیث کے سال کی تھیں ۔
جس سال مولانا عبید اللہ سندھی وطن پہنچے، وہ سال مولانا عبید اللہ انور کا دورہ حدیث کا سال تھا۔ مولانا عبید اللہ انور ان سے ملنے گئے تو انہوں نے جو نصائح فرمائے، ان میں سے چند کچھ اس طرح ہیں: فرمایا کہ تمہیں چاہیے کہ حضرت مدنی سے لطیفہ قلبی سیکھو، یعنی ذکر اللہ سیکھو۔ اس کے ساتھ انگریزی زبان سیکھو اور اسے سیکھنے میں ڈائریکٹ میتھڈ استعمال کرو۔ جب تم کوئی کام کرنے لگو تو اس کو عقل و خرد کے ترازو میں تولو، اور جب کسی کام کا فیصلہ کر لو تو اس وقت تک ڈٹے رہو جب تک تمہیں اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ اب تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ جو تم نے گھروندے بنا رکھے ہیں، وہ نہیں بچیں گے ، یعنی زمانے کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔
ان کے خطاب کے بعد وقت کی کمی کی وجہ سے مولانا عبد الوحید اشرفی کو ان کے اصرار پر ایک منٹ کے لیے گفتگو کا وقت دیا گیا جس میں انہوں نے حضرت سندھی پر ہونے والے اعتراضات کے صحیح تناظر کو واضح کرنے کی کوشش کی ، لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکے۔ 
آخر میں ڈاکٹر اویس شاہد صاحب، جو کہ صدر مجلس بھی تھے، کی دعا پر سیمینار کا اختتام ہوا۔ 
مولانا عبید اللہ سندھی پر سیمینار کا انعقاد ایسا مبارک کام ہے کہ ساری کمزوریوں کے باوجود یہ کاوش انتہائی مستحسن ہے۔ اس سیمینار کو مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کی فکر کی طرف توجہ کا آغاز کہا جا سکتا ہے جس کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے، لیکن عصر حاضر میں سیمینار کے عنوان سے منعقد کیے جانے والے پروگرامات کے کچھ لوازمات ہیں جو ایسے پروگرامات کو بارآور کرنے میں انتہائی معاون ہوتے ہیں ، مثلاً عام جلسے اور سیمینار میں فرق ہونا چاہیے۔ سیمینار میں شرکاء کی زیادہ تعدا دنہ بھی شریک ہو تو کوئی مضائقہ نہیں، تعداد کی بجائے معیار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیمینار میں سوال و جواب کی نشست بات کی درست تفہیم کے لیے انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر اس کا کما حقہ فائدہ وصول نہیں کیا جا سکتا۔ سیمینار کا ایک اور لوازمہ غیر رسمی نشستیں ہوتی ہیں جس میں شرکاء ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں اور زیر بحث موضوع پر بے لاگ تبصرے اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں جس سے موضوع کے پوشیدہ پہلو بھی سامنے آجاتے ہیں اور مستقبل میں اس حوالے سے کام کی راہیں واضح ہوتی ہیں۔ سیمینار میں صدر مجلس کی ذمہ داری محض بیٹھ کر سننا ہی نہیں ہوتا بلکہ مقررین کی گفتگو کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی اور مضبوط پہلوؤں کی تحسین بھی ان کے فرائض میں شامل ہوتا ہے تاکہ اگر کسی بات سے سامعین میں کوئی غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کو دور کیا جا سکے اور مقصود پر توجہ مرکوز رکھنے کی تاکید کی جا سکے۔ وقت کی پابندی آج کل کے پروگرامات کا خاصہ سمجھی جاتی ہے، اس کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔
بہر حال حضرت سندھی کے حوالے سے اس سیمینار کے انعقاد پر مجلس یاد گار شیخ الاسلام پاکستان کے ذمہ داران ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ دعا ہے کہ اس موضوع پر یہ سیمینار بارش کے پہلے قطرے کی حیثیت حاصل کر لے اور حضرت سندھی کی فکر کے فروغ کا سبب بنے۔

فرزند جھنگویؒ اور جمعیۃ علماء اسلام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا مسرور نواز جھنگوی کی الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی اور اس کے بعد جمعیۃ علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان دونوں اچھی اور حوصلہ افزا خبریں ہیں جن پر دینی حلقوں میں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور جھنگ کی صورتحال میں اس تبدیلی کا خیرمقدم کیاجا رہا ہے۔ ہمارے جذبات بھی اس حوالہ سے یہی ہیں اور ہم اپنے عزیز محترم مولانا مسرور نواز کو مبارک باد دیتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ 
موصوف کے ساتھ کوئی ملاقات تو یاد نہیں ہے مگر ان کے والد محترم حضرت مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کے ساتھ ایک عرصہ تک ملاقاتیں اور دینی جدوجہد میں رفاقت رہی ہے۔ ہم دونوں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سرگرم حضرات میں سے تھے اور مختلف مراحل میں باہمی مشاورت اور رفاقت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمن گروپ میں تقسیم ہوئی تو ہم دونوں بھی اس تقسیم کا شکار ہوئے۔ میں درخواستی گروپ کا فعال کردار تھا اور وہ فضل الرحمن گروپ میں متحرک تھے۔ دونوں ورکر تھے اور سیاسی بیانات کے علاوہ پبلک اجتماعات کے خطابات دونوں کا میدان کارزار تھا اس لیے آپس میں نوک جھونک بھی چلتی رہتی تھی۔ لیکن باہمی ملاقاتیں، مشاورت اور مختلف معاملات میں تعاون کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ 
مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ نے جھنگ کی وڈیرہ سیاست کے خلاف محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے عقائد و مفادات کے تحفظ کا مورچہ سنبھالا تو ان کے موقف سے اصولی اتفاق رکھتے ہوئے بوقت ضرورت ان کو سپورٹ کرنے کی سعادت مجھے بھی حاصل ہوتی رہی۔ البتہ ان کے طریق کار سے خود کو کبھی متفق نہیں پا سکا اور اس کے اظہار میں بھی کبھی مجھے حجاب نہیں رہا۔ ان کے ساتھ میں نے بارہا اس سلسلہ میں گفتگو کی حتیٰ کہ ان کی شہادت کے روز اس سانحہ سے ایک گھنٹہ قبل بھی فون پر ان سے اسی حوالہ سے میری گفتگو ہوئی تھی جو ان کے ساتھ میری آخری گفتگو ثابت ہوئی۔ وہ سپاہ صحابہؓ کے نام سے نئی تنظیم قائم کرتے ہوئے بھی جمعیۃ علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کے صوبائی نائب امیر تھے لیکن دھیرے دھیرے وہ جمعیۃ علماء اسلام میں غیر متحرک ہوتے ہوئے اپنی قائم کردہ تنظیم کے لیے ہی وقف ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے دفاع صحابہؓ کے لیے ملک بھر کے ہزاروں نوجوانوں کو اپنے ذوق کے مطابق منظم کیا، پرجوش اور متحرک کیا، جذبہ و قربانی کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور پھر اسی مشن کے لیے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا۔ 
مولانا جھنگویؒ کی شہادت کے بعد کیا ہوا اور کیا ہوتا رہا، میں اس مرحلہ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ میں نے یہ ساری تمہید اس لیے باندھی ہے کہ ان کے فرزند مولانا مسرور نواز جھنگوی نے جمعیۃ علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کیا ہے تو کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ اپنے پرانے گھر میں ہی واپسی کی ہے۔ جبکہ جمعیۃ کے امیر مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے بھتیجے کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ کر بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔ 
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا اصل میدان ملک میں نفاذ اسلام ہے۔ البتہ ایک دور میں جمعیۃ مسلکی معاملات بالخصوص سنی شیعہ کشمکش سے اس قدر لاتعلق نہیں ہوتی تھی جتنی اس وقت بظاہر دکھائی دے رہی ہے۔ بلکہ ان امور میں متعلقہ حلقوں کو سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ جمعیۃ کا اپنا بھی ایک موقف اور کردار ہوتا تھا اور وہ مسلکی محاذ کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے حلقوں کے درمیان کوآرڈی نیشن اور سرپرستی کا فریضہ سرانجام دیا کرتی تھی۔ یہ پہلو جوں جوں دھیما پڑتا گیا مسلکی مسائل پر محنت کرنے والی جماعتیں خودمختار اور آزاد ہوتی چلی گئیں جس سے مسلکی حلقوں میں باہمی عدم تعاون بلکہ خلفشار کا ماحول پیدا ہوگیا۔ میرے خیال میں آج بھی اگر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اجتماعی دینی و ملی معاملات کے حوالہ سے تمام مذہبی مکاتب فکر کے درمیان جبکہ مسلکی مسائل کے حوالہ سے متعلقہ جماعتوں کے درمیان حقیقی اور عملی کوارڈینیٹر کا کردار سنبھال لے تو ملک بھر کے دینی حلقوں میں دن بدن بڑھتے چلے جانے والے خلفشار کی سنگینی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ 
اہل سنت کے حقوق و مفادات اور صحابہ کرامؓ کی عظمت و مقام کے تحفظ کا محاذ ان میں سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے، اس لیے کہ اس دائرہ میں مستقبل کے خدشات و خطرات کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے اور مشرق وسطیٰ کے وسعت پذیر تغیرات پاکستان کی صورتحال پر براہ راست اثر انداز ہوتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ میرے خیال میں یہ محاذ پہلے بھی جوش و خروش سے زیادہ حکمت و تدبر کا متقاضی تھا اور اب تو اس میں کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے حکمت و تدبر اور دانش و حوصلہ ہی واحد ذریعہ اور آپشن باقی رہ گیا ہے۔ اس پس منظر میں مولانا مسرور نواز جھنگوی کی اپنے پرانے گھر میں واپسی خوش آئند ہے اور یہ بات مزید خوش کن ہے کہ اس سارے عمل کو مولانا محمد احمد لدھیانوی کی سرپرستی حاصل ہے۔ 
ملک بھر میں مختلف دینی محاذوں پر کام کرنے والے دیوبندی علماء کرام اور کارکن اصل میں جمعیۃ علماء اسلام ہی کا اثاثہ ہیں جنہیں اپنا حقیقی اور قیمتی اثاثہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ دو طرفہ اعتماد اور تعلقات کار بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ یہ ضروری ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمن اور حضرت مولانا سمیع الحق مل بیٹھ کر اس کا راستہ نکالیں۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اگلے سال اپریل کے دوران صد سالہ تقریبات کا انعقاد کرنے جا رہی ہے، اگر اس سے قبل اس سلسلہ میں کوئی مشترکہ حکمت عملی اور روڈ میپ طے کیا جا سکے تو نہ صرف تقریبات کا لطف دوبالا ہو جائے گا بلکہ علماء اور کارکنوں کو بہت حوصلہ ملے گا۔ اس سے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر دین اور دینی حلقوں کے خلاف مصروف عمل سیکولر قوتوں کو مؤثر پیغام جائے گا اور علماء حق کا یہ قافلہ نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ اگلی صدی کے سفر کا آغاز کر سکے گا۔ 
دلی دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے عزیز بھتیجے مولانا مسرور نواز جھنگوی کو اس کارِ خیر کا نقطۂ آغاز بنا دیں اور اہل حق کو آج کے تقاضوں اور ضروریات کے ادراک کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مولانا مسرور نواز کی کامیابی کے متوقع مثبت اثرات

محمد عمار خان ناصر

(جھنگ کی صوبائی نشست پر مولانا مسرور نواز کی کامیابی کے حوالے سے سوشل میڈیا کے لیے لکھی گئی مختصر تحریر) 
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہ کامیابی ایک بہت بڑے حلقے کو، جو صحیح یا غلط وجوہ سے گزشتہ تین دہائیوں سے حکومتی وسیاسی پالیسیوں سے نالاں تھا اور بڑی حد تک مین اسٹریم کی مذہبی جدوجہد سے کٹ چکا تھا، دوبارہ اس میں واپس لانے اور جمہوری طرز جدوجہد پر اس کا اعتماد بحال کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت نے بھی یقیناًایسے عناصر کو اکاموڈیٹ کرنے کی پالیسی اپنائی ہے جو ہر لحاظ سے درست اور دانش مندانہ ہے۔ ناراض عناصر کو مین اسٹریم میں واپس لانا اور انھیں سیاسی space دینا، نہ کہ انھیں دور سے دور تر کرتے چلے جانا، ہی مدبرانہ سیاسی حکمت عملی ہے۔ انتہا پسندانہ رجحانات کو اعتدال پر لانے کا واقعاتی دنیا میں یہی ایک طریقہ ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس کامیابی پر پورے دیوبندی حلقے میں بحیثیت مجموعی خوشی محسوس کی گئی ہے اور اس تقسیم کو، جو سپاہ صحابہ کے ظہور کے بعد جمعیت علماء اسلام اور سپاہ صحابہ کے مابین پیدا ہوئی اور رفتہ رفتہ شدید منافرت تک جا پہنچی، کم کرنے میں بھی یقیناًمدد ملی ہے اور مزید مل سکتی ہے۔ جمعیت کا رویہ اور طرز فکر پہلے بھی روادارانہ رہا ہے اور اس کامیابی میں جمعیت کی تائید کا بھی حصہ ہے۔ اس لیے توقع کی جانی چاہیے کہ باہمی منافرت کی فضا میں مزید کمی آئے گی اور ترجیحات کے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور مشترکہ امور میں تعاون کی فضا دوبارہ قائم ہو سکے گی۔
بعض اطلاعات کے مطابق اس کامیابی میں جھنگ کے بعض شیعہ ووٹرز نے بھی مولانا مسرور نواز کی تائید کی ہے، اس بنیاد پر کہ ان کا تعلق کسی جاگیردار خاندان سے نہیں، بلکہ عوامی طبقات سے ہے۔ یہ بھی ایک بہت اہم پہلو ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سپاہ صحابہ جھنگ میں خود کو ایک حقیقی عوامی جماعت کی حیثیت سے منظم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو نہ صرف سیاسی لحاظ سے بلکہ شیعہ اور سنی کی مذہبی تفریق کو کم کرنے کے لحاظ سے بھی اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام اسوۂ حسنہ سیمینار

حافظ محمد شفقت اللہ

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ۷دسمبر ۲۰۱۶ء کو اسوۂ حسنہ کے عنوان سے ایک سیمینارمنعقد کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹرعبدالماجد حمید المشرقی صاحب نے فرمائی۔ خصوصی خطاب کے لئے فاضل نوجوان مولانا شاہ نواز فاروقی صاحب مدعو کیے گئے۔سیمینار کا آغازاستاذ القراء قاری سعید احمد صاحب کی تلاوت سے ہوا ۔بعد ازاں الشریعہ اکادمی کے طالب علم عبدالرحمن نے نعت رسول مقبولؐ پیش کی۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے رہنما جناب احمد حسین زید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں برے نتائج سے بچنے کے لئے زندگی کے تمام شعبوں میں تمام معاملات کواسوۂ حسنہ کے مطابق چلانا ہوگا۔انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کوڈاکٹر عبد السلام کے نام سے منسوب کرنے کی مذمت کی اور کہا کہ جو شخص امریکہ میں بیٹھ کر کہتا ہے کہ میں ایک ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پسند نہیں کرتا، ایسے شخص کو اعزاز سے نوازنا افسوس ناک ہے۔
راقم الحروف (حافظ شفقت اللہ) نے چند معروضات پیش کرتے ہوئے کہا کہ کامیابی و کامرانی تعلیماتِ نبویؐ، اسوۂ حسنہ سے ہی وابستہ ہے۔ اسوۂ حسنہ سے ہٹ کر اگر کوئی کسی دوسرے راستے کا انتخاب کرے گا تو وہ گمراہی کی پاتال میں جا گرے گا۔
مولانا شاہ نواز فاروقی صاحب نے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بنیادی طور پر دو پہلو ہیں: (۱)کمالاتِ نبوی اور (۲)تعلیماتِ نبوی۔ کمالات آپ کی خصوصیات کہلائے اور تعلیمات آپؐ کا اسوۂ کہلائے۔ 
آپ ؐ کے کمالات کے بارے میں علامہ انور شاہ کشمیری ؒ اپنی زندگی کی آخری کتاب خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ جس طرح روشنی کے تمام مراتب کی سورج پر انتہا ہے، ایسے ہی کمالات کے بھی تمام مراتب کی آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہا ہے۔ آپ کی ذات کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ آپ کی نبوت وجوداً اول ہے، ظہوراً آخر ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وجود میں تقدیم باعثِ افضلیت ہے اور ظہور میں تاخیرباعث افضلیت ہے۔
مولانا فاروقی نے کہا کہ سیرت النبیؐ کے دوسرے پہلو کی چار خصوصیات ہیں:
(۱) آپؐ کی تعلیمات کامل و مکمل محفوظ ہیں۔ جوفیضانِ نبوت آپ کے در سے چلا، اس کو اصحابِ پیغمبرؓ نے اور جو گھر سے چلا، اس کو ازواجِ پیغمبر نے امت تک منتقل کرکے عظیم احسان کیا ہے۔
(۲) آپ کی تعلیمات جامع ہیں جو زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود کوئی متجددایسا کوئی مسئلہ نہیں پیش کر سکا جس کا حل چودہ سو سال پہلے آپؐ نے اپنی تعلیمات میں نہ پیش کیا ہو۔
(۳) اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی تعلیمات کو کاملیت عطا فرمائی۔ نبی کی تعلیمات کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو مخفی ہو حتیٰ کہ آپؐ نے ازدواجی زندگی کا نازک ترین مرحلہ بھی امت سے مخفی نہیں رکھا ۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی نبی کا نام لیواخفا کی وجہ سے کشکولِ گدائی لے کر غیر کے دروازے پر نہ چلا جائے۔
(۴) آپ کی تعلیمات کو عملیت بھی عطا فرمائی۔ آپ کی شریعت میں قول ہی نہیں فعل بھی ہے، قال ہی نہیں حال بھی ہے،علم ہی نہیں عمل بھی ہے،تھیوری ہی نہیں پریکٹیکل بھی ہے۔
ہماری عملی زندگی کا تعلق کمالاتِ نبوی سے نہیں تعلیماتِ نبوی سے ہے۔ تعلیماتِ نبوی ہی کو علماء نے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالماجد حمید المشرقی صاحب نے صدارتی کلمات کہتے ہوئے سامعین کی فرمائش پر اپنی انگریزی میں کہی ہوئی نعت: if you want to go to Madeena, let us go to Madeena اردو ترجمے کے ساتھ سماعتوں کی نذر کی۔ دوسری نعت (اب میری نگاہوں کا خوب یہ قرینہ ہے،بس اس طرف یہ اٹھتی ہیں جس طرف مدینہ ہے) کے دوران ڈاکٹر صاحب کے فی البدیہہ اشعار نے سامعین کو مزید محظوظ کیا۔
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے دعائیہ کلمات کے ساتھ اس تقریب کا اختتام ہوا۔

فروری ۲۰۱۷ء

اختلاطِ مرد وزن، پردہ اور سماجی حقوق و فرائض / دینی مدارس کا نصاب ونظام۔ قومی پالیسی وضع کرنے کی ضرورتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۷)ڈاکٹر محی الدین غازی
’’سفر جمال: نبی مکرمؐ کی جمالیاتی مزاحمت کی پر عزم داستان‘‘پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک
حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ اور حضرت قاری محمد انورؒ کا انتقالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری تحدیاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس کے فضلا کا یورپی ممالک کا مطالعاتی دورہ ۔ مختصر روداد اور تاثراتمولانا محمد رفیق شنواری
دینی مدارس اور عصری رجحاناتغازی عبد الرحمن قاسمی
احمدی اور تصورِ ختم نبوت : ایک احمدی جوڑے سے گفتگوڈاکٹر محمد شہباز منج
مولانا محمد بشیر سیالکوٹیؒ ۔ چند یادیں، چند باتیںمحمد عثمان فاروق
’’فقہائے احناف اور فہم حدیث ۔ اصولی مباحث‘‘ڈاکٹر حافظ مبشر حسین

اختلاطِ مرد وزن، پردہ اور سماجی حقوق و فرائض / دینی مدارس کا نصاب ونظام۔ قومی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت

محمد عمار خان ناصر

اسلامی شریعت میں خواتین کے لیے پردے سے متعلق کیا احکام دیے گئے ہیں؟
مرد وزن کے میل جول کے ضمن میں وہ کون سے حدود وآداب ہیں جن کی پابندی شرعاً ضروری ہے؟
خواتین اجنبی مردوں کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہیں یا نہیں؟ جب عورت کا چہرہ ہی جسم کا سب سے زیادہ پرکشش حصہ ہوتا ہے تو کیا فتنے سے بچنے کے لیے اس کو چھپانا ضروری نہیں ہونا چاہیے؟
ذیل کی سطور میں ہم ان سوالات کے حوالے سے اپنے فہم کے مطابق اسلامی شریعت کے زاویہ نظر کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی معاملے کے صرف ایک پہلو کو مد نظر رکھ کر احکام طے نہیں کرتی، بلکہ تمام متعلقہ پہلوؤں کی پوری رعایت کرتے ہوئے اور ہر ہر پہلو کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے وزن دیتے ہوئے حدود اور پابندیوں کا تعین کرتی ہے۔ مرد وزن کے اختلاط کے حوالے سے احکام شرعیہ کے مجموعی مطالعے سے بھی یہی نکتہ واضح ہوتا ہے۔ 
اس میں شبہ نہیں کہ دونوں صنفوں میں قدرت نے ایک دوسرے کے لیے فطری کشش رکھی ہے جس کی وجہ سے دونوں کا ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہونا اور ربط وتعلق کی خواہش کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ اگر اس فطری کشش کو حدود وآداب کا پابند نہ بنایا جائے اور دونوں صنفوں کے آزاد اور بے قید تعلق کو قبول کر لیا جائے تو معاشرے میں اخلاقی انارکی کا پھیلنا لازم ہے جس کا آخری نتیجہ جنسی جبلت کے، اعلیٰ انسانی واخلاقی اوصاف پر غالب آ جانے اور معاشروں اور تہذیبوں کی اخلاقی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ 
دوسری طرف انسانی معاشرت کا یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ خواتین اپنی فطری وخلقی صلاحیتوں کے لحاظ سے اس طرح کی معاشرتی ذمہ داریاں اپنے سر نہیں لے سکتیں جو مرد انجام دیتے ہیں۔ اس طرح ناگزیر طور پر خواتین کا معاشرتی کردار کئی پہلوؤں سے مردوں کے مقابلے میں محدود ہو جاتا ہے اور اپنے تحفظ اور دیگر معاشرتی حقوق کے لیے انھیں بنیادی طور پر مردوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں خواتین بطور ایک طبقے کے عموماً زیادتی ، جبر اور استحصال کا شکار رہی ہیں اور دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں انھیں ان کے بہت سے معاشرتی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے باقاعدہ نظری فلسفے اور جواز گھڑے گئے ہیں۔
اسلامی شریعت نے ان مختلف پہلوؤں میں توازن کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے معاشرتی نظام میں خواتین کے کردار، حدود اور حقوق وفرائض کی تعیین کی ہے۔ چنانچہ اس نے صنفین کی باہمی کشش، پسندیدگی اور تعلق کی خواہش کو بنیادی طور پر درست اور جائز تسلیم کرتے ہوئے اسے کچھ حدود اور آداب کا پابند بنایا ہے اور نکاح کو اس کا جائز طریقہ ٹھہراتے ہوئے خفیہ یاری آشنائی یا بے قید جنسی تعلق کو غیر اخلاقی قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ باہمی اختلاط کے ماحول میں بہت سی ایسی اخلاقی ہدایات اور احتیاطی تدابیر تجویز کی ہیں جن کی پابندی معاشرے کو بحیثیت مجموعی عفت مآب بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ قرآن وحدیث کے نصوص کی روشنی میں ان ہدایات وتدابیر کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
  1. مرد اور عورت خلوت میں تنہا جمع ہونے سے حتی الامکان اجتناب کریں اور اس معاملے میں گھر کے قریبی، لیکن غیر محرم رشتہ داروں، مثلاً دیور وغیرہ کے معاملے میں بھی بے احتیاطی سے کام نہ لیں۔ (ترمذی، رقم ۱۱۵۳)
  2. خواتین، غیر محرم مردوں کے سامنے حتی الامکان اپنی زیب وزینت کی نمائش نہ کریں اور نہ کسی بھی انداز سے مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں۔ بالخصوص گھر سے باہر نکلتے ہوئے انھیں تیز خوشبو کے استعمال یا دیدہ زیب، شوخ رنگ اور بھڑکیلے لباس پہننے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ لوگ خواہ مخواہ ان کی طرف متوجہ نہ ہوں۔(سورۃ النور، آیت ۳۱۔ ابو داود، رقم ۳۶۹۹)
  3. اگر مرد اور عورتیں کسی مجلس میں اکٹھے ہوں تو فریقین اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، کیونکہ غلط نگاہ، زنا کی طرف پہلا قدم ہے۔ غلط نگاہ بے اختیار اور بلا ارادہ پڑ جائے تو فوراً متنبہ ہو کر نظر پھیر لینی چاہیے اور قصداً وارادتاً نظر لوٹانے سے خود کو روک لینا چاہیے۔(سورۃ النور، آیت ۳۱۔ ابوداود، رقم ۱۸۷۵)
  4. لباس ایسا ہونا چاہیے جو جسم کے مستور اعضا کو اچھی طرح چھپا لے۔ ایسا باریک یا چست لباس جو جسم کو چھپانے کے بجائے اعضا کو نمایاں کرنے کا ذریعہ ہو، گویا برہنہ پھرنے کے مترادف ہے۔ اس سے بطور خاص اجتناب کرنا چاہیے۔(سورۃ النور، آیت ۳۱۔ مسلم، رقم ۴۰۸۷۔ ابو داود، ۳۶۳۶)
  5. بلوغت کی عمر میں ہاتھ پاؤں اور چہرے کے علاوہ، عورت کے جسم کا کوئی حصہ اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر نہیں ہونا چاہیے۔ خواتین بالخصوص اپنے سر کی اوڑھنی سے اپنے سینے کو ڈھانپے رکھنے کا اہتمام کریں۔ (سورۃ النور، آیت ۳۱۔ ابو داود، ۳۶۳۶)اسی طرح سر کے بالوں کو کھلا رکھنا، خاص طور پر جب کہ ان کی زیب وزینت کا اہتمام کیا گیا ہو، خواتین کے لیے مناسب نہیں۔ 
  6. ایک ہی ماحول میں کام کرتے ہوئے غیر محرم مردوں اور خواتین کے میل جول اور باہمی گفتگو کو حیا اور وقار کا مظہر ہونا چاہیے۔ اس میں بے تکلفی، لگاوٹ اور دوستانے کا انداز، دلوں میں غلط خیالات پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے، اس لیے درمیان میں مناسب فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔ اسی طرح حتی الامکان اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ مشترک مجالس میں مردوں اور عورتوں کی نشستیں الگ الگ ہوں اور صنفین کے جسمانی قرب کا موقع کم سے کم پیدا ہو۔
  7. قرآن مجید نے سورۂ احزاب کی آیت ۵۹ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ، آپ کی بیٹیوں اور عام مسلمان خواتین کو منافقین کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ تدبیر بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ایک بڑی چادر لے کر اپنے جسم پر ڈال لیا کریں تاکہ ان کے لباس کی یہ خاص وضع انھیں دوسری خواتین سے ممتاز کر دے اور منافقین مختلف بہانوں سے ان کے قریب جانے اور گفتگو کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش نہ کر سکیں اور مسلمانوں کی خواتین تک ان کی رسائی کا دروازہ ہی بند ہو جائے۔ قران کی اس ہدایت سے یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ خواتین کو اپنی حفاظت اور عرفی تشخص وامتیاز کے پہلو سے ماحول کے اتار چڑھاؤ سے بھی چوکنا اور خبردار رہنا چاہیے۔ چنانچہ اگر ماحول میں فتنہ انگیز عناصر موجود ہوں اور ماحول کا عمومی بگاڑ خواتین کو ایذا پہنچانے اور ان کی عزت وآبرو پر حملہ کرنے میں ان کا مددگار بن رہا ہو تو ایسے حالات میں مسلمان خواتین کو اپنے لباس اور ظاہری وضع قطع میں امتیاز پیدا کرنے اور عام معمول سے بڑھ کر اپنے جسم کو ڈھانپنے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ فتنہ انگیز عناصر کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے کوئی عذر یا جواز نہ پیش کر سکیں۔ 
مذکورہ اخلاقی ہدایات اور احتیاطی تدابیر کے علاوہ شریعت نے ایسی کوئی غیر فطری پابندی مسلمان معاشرے پر عائد نہیں کی جس کے نتیجے میں مرد اور عورت بطور ایک صنف کے، نکاح کے رشتے کے علاوہ، ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی اور دو الگ الگ دنیاؤں کی مخلوق نظر آنے لگیں۔ اس کے بجائے شریعت نہ صرف صنفین کو اس کا حق دیتی ہے کہ وہ نکاح کے لیے اپنی پسند کے مرد یا عورت کا انتخاب کریں، بلکہ اس کی ترغیب بھی دیتی ہے کہ نکاح سے پہلے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ہو اور باہمی رغبت اور پسند پر اس رشتے کی بنیاد رکھی جائے۔چنانچہ احادیث میں نکاح کی غرض سے نہ صرف مردوں کے لیے اس کی ترغیب بیان ہوئی ہے کہ وہ متعلقہ خاتون اور اس کے جسمانی محاسن کا جائزہ لیں تاکہ نکاح پوری رغبت کے ساتھ کیا جا سکے، بلکہ روایات میں سبیعہ اسلمیہ کا دلچسپ واقعہ بھی ملتا ہے۔ یہ بدری صحابی، سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں جن کا حجۃ الوداع میں انتقال ہو گیا۔ اس وقت سبیعہ حاملہ تھیں، لیکن وفات کے پندرہ دن بعد ہی وضع حمل سے فارغ ہو گئیں اور اس کے بعد نکاح کی خواہش رکھنے والوں کے لیے بن سنور کر اپنے گھر میں بیٹھ گئیں (فتجملت للخُطّاب)۔ مختلف لوگ آتے اور آکر ان سے نکاح کے لیے بات چیت کرتے اور یہ گفتگو براہ راست ہوتی تھی۔ خواہش مندوں میں ایک، ابو السنابل بن بعکک بھی تھے جو ذرا ادھیڑ عمر تھے۔ تاہم سبیعہ کا میلان ایک دوسرے خواہش مند ابو البشر ابن الحارث العبدری کی طرف ہو گیا جو جوان تھے۔ اس وقت سبیعہ کے اہل خاندان وہاں موجود نہیں تھے۔ چنانچہ ابو السنابل نے یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ وہ سبیعہ کے خاندان والوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور اگر ان کے آنے تک انتظار کیا جائے تو سبیعہ کو اپنے حق میں راضی کیا جا سکتا ہے، سبیعہ سے کہا کہ تم اس وقت نکاح نہیں کر سکتیں۔ تمھیں چار ماہ دس دن کی عدت پوری کرنی ہوگی۔ سبیعہ یہ سن کر سیدھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلی گئیں اور صورت حال بتائی۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بچہ جننے کے بعد تمھاری عدت پوری ہو چکی ہے۔ اب تم جس سے چاہو، نکاح کر سکتی ہو۔ (یہ تفصیلات موطا امام مالک اور صحیح بخاری کی روایات میں بیان ہوئی ہیں)۔ 
اس واقعے میں دو تین باتیں بہت اہم اور قابل توجہ ہیں:
ایک یہ کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل آخری ایام (حجۃ الوداع کے بعد) کا واقعہ ہے۔ گویا اس میں اس طرح کی کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی کہ اس وقت ابھی پردے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔
دوسرا یہ کہ سبیعہ نے باقاعدہ زیب وزینت کے ساتھ نکاح کے خواہش مندوں کو ملنے اور بات چیت کا موقع دیا اور یوں یہ واضح کیا کہ اگر اپنی پسند کے رفیق حیات کا انتخاب مرد کی طرح عورت کا بھی حق ہے تو اس کا موقع اسے بھی میسر ہونا چاہیے کہ وہ نکاح کے ممکنہ خواہش مندوں کو اپنی طرف راغب (woo)کر سکے۔ 
تیسرا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ساری صورت حال پر نہ صرف یہ کہ کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ سبیعہ کو اس کا بھی پابند نہیں کیا کہ وہ اپنے اہل خاندان کی مرضی کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی یا یہ کہ ان کا انتظار کر لینا مناسب ہے۔ آپ نے اسے فیصلہ کرنے اور اس کے مطابق نکاح کی فوری اجازت دے دی۔ ویسے بھی آپ نے اس ضمن میں جو عمومی ہدایت بیان فرمائی، وہ یہی تھی کہ کنواری لڑکی کا سرپرست اس کی رضامندی سے اس کا نکاح کرے، جبکہ مطلقہ یا بیوہ اپنے معاملے میں بالکل خود مختار ہے۔ (الثیب احق بنفسھا من ولیھا والبکر تستامر فی نفسھا)۔
اس واقعے سے عبد نبوی میں خواتین کے سماجی حقوق اور آزادیوں کی جو شکل سامنے آتی ہے، ظاہر ہے کہ وہ پردے کے ایسے ماحول میں ممکن نہیں جس میں مردوں اور عورتوں کے مابین مکمل معاشرتی علیحدگی ہو اور صنفین کو ایک دوسرے کو دیکھنے تک کی اجازت نہ ہو۔ 
اس میں شبہ نہیں کہ خواتین، حیا کے فطری احساس کے تحت نیز مردوں کی غلط نگاہوں سے بچنے کے لیے ازروئے احتیاط اپنے چہرے کو چھپا کر رکھنا چاہیں تو شریعت اس جذبے کو یقیناًپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے، خاص طور پر جب کہ کسی جگہ ماحول میں خرابی اور بگاڑ کا عنصر نمایاں ہو اور خواتین اپنے تحفظ کے پہلو سے ایسا کرنے کو مناسب محسوس کریں۔ تاہم شریعت نے چونکہ ایسی کوئی لازمی پابندی خواتین پر عائد نہیں کی، اس لیے ایسا کرتے ہوئے توازن اور اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور خاص طور پر گھر کے داخلی ماحول میں اس حوالے سے ایسا بے لچک رویہ نہیں اپنانا چاہیے جو خود خواتین کے لیے یا دیگر متعلقین کے لیے بے جا زحمت کا باعث بن جائے۔ چنانچہ عہد رسالت اور عہد صحابہ میں لونڈیاں مسلم معاشرت کا ایک اہم حصہ تھیں اور گھریلو کام کاج انجام دینے کے علاوہ، وہ بازار کی ضروریات اور پیغام رسانی کے فرائض بھی انجام دیا کرتی تھیں۔ مردوں کے ساتھ اختلاط کی عام ضرورت کے تحت ان کے لیے لباس کی وہ پابندیاں لازم نہیں کی گئیں جو شریعت میں آزاد خواتین کے لیے بیان کی گئی ہیں، کیونکہ ایسا کرنا صریحاً حرج اور مشقت کا باعث ہوتا۔ 
ستر وحجاب کی بحث میں ایک اور پہلو بھی بطور خاص توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ یہ کہ شریعت نے خواتین کی جسمانی ساخت اور خلقی صلاحیتوں کی رعایت سے انھیں اکتساب مال اور اس طرح کی دوسری ذمہ داریوں سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان کی کفالت اور حفاظت کا فریضہ خاندان کے مردوں پر عائد کیا ہے۔ تاہم گھر کے ماحول سے باہر نکل کر سماجی سرگرمیوں میں شرکت یا مردوں کے ساتھ معاشرتی میل جول کے حوالے سے کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی جس کے نتیجے میں معاشرتی سطح پر ان کی انفرادی شناخت ہی باقی نہ رہے اور وہ اپنے سماجی کردار کی انجام دہی یا معاشرتی حقوق کے حصول کے لیے سر تا سر اپنے گھر کے مردوں کی محتاج بن جائیں۔ 
پردے سے متعلق اسلامی شریعت کے زاویہ نظر کو ہمارے نزدیک اس پہلو سے سمجھنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ کسی فرد یا طبقے کے سماجی کردار یا معاشرتی حقوق کے معاملے میں سب سے بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں اس کی شناخت کیا ہے اور اسے دوسرے طبقوں کے ساتھ میل جول اور اختلاط کے مواقع اور کسی حق تلفی کی صورت میں اپنی آواز ذمہ دار افراد یا طبقات تک پہنچانے کی سہولت کتنی میسر ہے۔ اگر کوئی طبقہ کلی طور پر کسی دوسرے طبقے پر انحصار کر رہا ہو، حتیٰ کہ اس کے افراد اپنی انفرادی شناخت بھی معاشرے میں ظاہر نہ کر سکتے ہوں تو بدیہی طور پر اس کے لیے کوئی فعال معاشرتی کردار ادا کرنے یا زیادتی اور حق تلفی کی صورت میں داد رسی کے مواقع اور امکانات بہت محدود ہو جاتے ہیں اور کتابی طور پر اس کے حق میں جتنی بھی باتیں کر لی جائیں، عملاً اس پہلو کا رو بہ عمل ہونا خارج از امکان رہتا ہے۔

دینی مدارس کا نصاب ونظام۔ قومی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت

دینی تعلیم کے نصاب میں اصلاح کی بات کم وبیش ڈیڑھ صدی سے ہمارے ہاں چل رہی ہے اور کم سے کم اصولی طور پر نصاب میں تبدیلی کے مسئلے پر ارباب مدارس نے جمود کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مثال کے طور پر وفاق المدارس العربیہ کا موجودہ نصاب اپنی تفصیلات اور ترجیحات کے لحاظ سے ستر اسی فی صد تک درس نظامی کے اصل نصاب سے مختلف ہو چکا ہے، اور اب اسے محض ایک تاریخی نسبت سے ہی ’’درس نظامی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اصلاحات کی گنجائش آج بھی اتنی ہی محسوس ہوتی ہے جتنی پہلے دن تھی۔ اس کی بنیادی وجہ اصل میں نصاب کے اہداف ومقاصد کی تعیین میں زاویہ نظر کا اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک اس ضمن میں بنیادی نکتہ اس امر کو متعین کرنا ہے کہ آج کی علمی وتعلیمی ضروریات کے تناظر میں ہمارے معاشرے کو کس طرح کے دینی علما اور اسکالرز کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہماری رائے میں نصاب میں نہ صرف مسلمانوں کی مجموعی علمی روایت اور اس کی نمایاں شاخوں کا غیر جانب دارانہ تعارفی مطالعہ شامل ہونا چاہیے، بلکہ ایسے عصری علوم اور مباحث سے بھی علماکو واقفیت ہونی چاہییے جو دور جدید کے غالب نظریہ حیات کو سمجھنے اور اس کے تناظر میں اسلام کا زاویہ نظر واضح کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ 
اس کے برعکس ارباب مدارس کا بنیادی مطمح نظر اپنے بزرگوں اور اکابر کی قائم کردہ تعلیمی روایت کو لے کر آگے چلنا ہے جس کے بنیادی ڈھانچے اور مزاج میں کوئی تبدیلی ان کے لیے قابل قبول نہیں اور جزوی وفروعی تبدیلیاں بھی حد درجہ ہچکچکاہٹ اور تردد کے بعد بامر مجبوری قبول کی جا رہی ہیں۔ گویا داخلی طور پر نصاب کے اہداف کو ازسر نو متعین کرنے اور پھر اجتہادی زاویہ نظر سے نصاب کی تشکیل کا داعیہ ارباب مدارس میں نہیں پایا جاتا جس کی وجہ سے اس ضمن میں کی جانے والی اچھی سے اچھی کوششیں اور تجاویز سرد خانے میں ہی پڑی رہتی ہیں۔
چنانچہ مدارس کے نظام ونصاب میں اصلاح کے خواہش مند حلقوں کو یہ پہلو بہرحال مد نظر رکھنا چاہیے کہ یہاں نقطہ نظر کا ایک جوہری اختلاف موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے اس سمت میں کوئی حقیقی پیش رفت ممکن نہیں۔ اس لیے اصلاحی مساعی کو اس نکتے پر زیادہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ مدارس کے ماحول میں فکری طور پر وہ تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جس کی روشنی میں نصاب ونظام میں مطلوبہ اصلاحات کے لیے آمادگی پیدا ہو سکے۔ اس کے لیے موجودہ تناظر میں بنیادی ضرورت مذہبی فکر اور نفسیات کو موضوع بنانے کی ہے، جبکہ نصاب پر گفتگو کی اہمیت ثانوی ہے، کیونکہ نصاب، سوچ کو نہیں پیدا کر رہا، بلکہ سوچ نصاب اور اس کی ترجیحات کو متعین کر رہی ہے۔
اس ضمن میں ریاست کی دلچسپی کا محوری نکتہ اب تک یہ رہا ہے کہ مدارس کے نظام کے ساتھ فرقہ واریت یا مذہبی انتہا پسندی جیسے جو مسائل وابستہ ہیں، ان سے انتظامی سطح پر کیسے نمٹا جائے۔ جہاں تک مدرسے کے مجموعی کردار اور اس میں مطلوب اصلاحات کا تعلق ہے تو ارباب حکومت کو ابھی تک اس سے کوئی خاص دلچسپی پیدا نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک وفاقوں کے ساتھ رابطے اور اصلاح نصاب کے ضمن میں مذاکرات وغیرہ کا فریضہ عموماً وزارت داخلہ کے ذمہ داران ہی انجام دیتے ہیں۔ وزارت تعلیم نے کبھی اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔یہ ایک المیہ ہے اور جب تک حکومتیں اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ اپنی ذمہ داری کے طور پر قبول نہیں کرتیں، وہ اس حوالے سے کوئی مفید کردار ادا نہیں کر سکتیں۔
اگر ریاست واقعتا مدرسے کے معیار اور کردار کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے تو دینی تعلیم کے مسئلے پر قومی سطح پر ایک جامع اور سنجیدہ بحث ومباحثہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بحث ومباحثہ کی روشنی میں ایک جامع قومی پالیسی وضع کی جائے اور تیسرے مرحلے پر اس پالیسی کو رو بہ عمل کرنے کے لیے جامع قانون سازی کی جائے۔ اس حوالے سے وقتاً فوقتاً محض نیم دلی سے کی جانے والی حکومتی کوششیں معاملے کو درست سمت میں آگے بڑھانے اور مطلوب اصلاحات کو رو بہ عمل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۷) القول علی اللہ کا مفہوم

قرآن مجید میں قول علی اللہ کی تعبیر مختلف صیغوں میں استعمال ہوئی ہے، اس تعبیرکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف کسی بات کو منسوب کرکے یہ کہنا کہ اللہ نے یہ بات کہی ہے ، جب کہ کہی نہ ہو، یا یہ کہنا کہ اللہ ایسا کرتا ہے یا کرے گا، جب کہ ایسا نہ ہو۔ بعض مترجمین نے بعض مقامات پر اس کا ترجمہ اللہ پر تہمت لگانا اور بہتان باندھنا کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ اس تعبیر کے اندر اللہ پر کسی طرح کی تہمت لگانے کا مفہوم نہیں پایا جاتا ہے۔ بعض مترجمین نے اللہ کی شان کے خلاف بات کہنے کا مفہوم بھی لیا ہے، وہ بھی اس لفظ کا اصل مفہوم نہیں ہے، اسی طرح بعض لوگوں نے اللہ کے ذمہ کوئی بات ڈالنے کا ترجمہ کیا ہے، یہ بھی الفاظ کے مطابق نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے اللہ کے بارے میں کہنے کا ترجمہ کیا ہے، یہ بھی موزوں نہیں ہے۔

(۱) وَقَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَیَّاماً مَّعْدُودَۃً، قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللّٰہِ عَہْداً فَلَن یُّخْلِفَ اللّٰہُ عَہْدَہُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُون۔ (البقرۃ:۸۰)

’’اور وہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔ پوچھو کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمہیں کچھ علم نہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمہ لیا ہے‘‘۔ (سید مودودی، اللہ کی طرف منسوب کرکے کہ اس نے وہ باتیں کہی ہیں) 
’’یا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی کوئی علمی سند اپنے پاس نہیں رکھتے ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’بلکہ تم خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں مطلق علم نہیں‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’یا تم اللہ پر یونہی (وہ) بہتان باندھتے ہو جو تم خود بھی نہیں جانتے‘‘ (طاہر القادری)
درست ترجمہ ہوگا: ’’یا تم اللہ کی طرف منسوب کرکے وہ باتیں کہہ رہے ہو جن کاتم کو علم نہیں ہے‘‘ 

(۲) إِنَّمَا یَأْمُرُکُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُواْ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ۔ (البقرۃ: ۱۶۹)

’’اور یہ (بھی تعلیم کرے گا) کہ اللہ کے ذمہ وہ باتیں لگاؤ کہ جس کی سند ہی نہیں رکھتے ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’وہ تو بس تمہیں برائی اور بے حیائی (کی راہ) سجھائے گا اور اس بات کی کہ تم خدا کی طرف وہ باتیں منسوب کرو جن کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہیں ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
دوسرا ترجمہ زیاد ہ مناسب ہے۔

(۳) بِأَنَّہُمْ قَالُوا لَیْْسَ عَلَیْْنَا فِی الأُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ وَیَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ۔ (آل عمران: ۷۵)

’’یہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان امیوں کے معاملے میں ہمارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے۔ اور یہ جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)

(۴) وَیَقُولُونَ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَمَا ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَیَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ۔ (آل عمران: ۷۸)

’’اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے حالانکہ وہ اللہ کے پاس سے نہیں ہے۔ اور وہ اللہ پر جانتے بوجھتے جھوٹ باندھتے ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)

(۵) یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لاَ تَغْلُوا فِی دِیْنِکُمْ وَلاَ تَقُولُوا عَلَی اللّٰہِ إِلاَّ الْحَقَّ۔ (النساء:۱۷۱)

’’اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کوئی اور بات نہ ڈالو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اے اہل کتاب! تم اپنے دین میں حد سے زائد نہ بڑھو اور اللہ کی شان میں سچ کے سوا کچھ نہ کہو‘‘(طاہر القادری)
پہلا ترجمہ زیادہ مناسب ہے۔یہاں اللہ کی شان میں کہنا مراد نہیں بلکہ کسی بات کو جو اللہ نے نہیں کہی ہے اسے اللہ کی طرف منسوب کرکے کہنا مراد ہے۔

(۶) اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ غَیْْرَ الْحَقِّ۔ (الانعام:۹۳)

’’آج تم ذلت کا عذاب دیے جاؤ گے، بوجہ اس کے کہ تم اللہ پر ناحق تہمت جوڑتے تھے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے‘‘ (سید مودودی)
’’ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ تم خدا پر جھوٹ بولا کرتے تھے‘‘ ( فتح محمد جالندھری)
یہاں تیسرا ترجمہ درست ہے، پہلے اور دوسرے ترجمہ میں تہمت جوڑنے اور رکھنے کا ترجمہ کیا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔

(۷) وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَۃً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَیْْہَا آبَاءَ نَا وَاللّٰہُ أَمَرَنَا بِہَا قُلْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَتَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ۔ (الاعراف:۲۸)

’’اور جب یہ لوگ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں، کہتے ہیں ہم نے اسی طریق پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور خدا نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ کہہ دو اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا ہے۔ کیا تم لوگ اللہ پر وہ تہمت جوڑتے ہو جس کے باب میں تم کو کوئی علم نہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’کیا خدا کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’بھلا تم خدا کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ‘‘(فتح محمد جالندھری)
یہاں بھی اللہ پر تہمت جوڑنے یا اللہ کی نسبت کوئی بات کہنے کے بجائے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرکے کہنا مراد ہے۔

(۸) قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِکُوا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً وَّأَنْ تَقُولُوا عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ۔ (الاعراف: ۳۳)

’’کہہ دو میرے رب نے حرام تو بس بے حیائیوں کو ٹھہرایا ہے، خواہ کھلی ہوں خواہ پوشیدہ، اور حق تلفی اور ناحق زیادتی کو۔ اور اس بات کو حرام ٹھہرایا ہے کہ تم اللہ کا کسی چیز کو ساجھی ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ پر کسی ایسی بات کا بہتان لگاؤ جس کا تم علم نہیں رکھتے ‘‘(امین احسن اصلاحی)
یہاں بھی اللہ پر بہتان لگانا غلط ترجمہ ہے، صحیح ترجمہ ہے: اور یہ کہ تم اللہ کی طرف منسوب کرکے وہ بات کہو جس کے بارے میں تم کو علم نہیں ہے۔

(۹) وَقَالَ مُوسَی یَا فِرْعَوْنُ إِنِّیْ رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ حَقِیْقٌ عَلَی أَن لاَّ أَقُولَ عَلَی اللّٰہِ إِلاَّ الْحَقَّ۔ (الاعراف:۱۰۴،۱۰۵)

’’اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون میں خداوند عالم کا فرستادہ ہوں سزاوار اور حریص ہوں کہ اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی اور بات منسوب نہ کروں ‘‘(امین احسن اصلاحی، اس میں حریص کا لفظ زائد ہے)
’’مجھے یہی زیب دیتا ہے کہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا (کچھ) نہ کہوں‘‘(طاہر القادری)
یہاں پہلا ترجمہ درست ہے۔

(۱۰) أَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْْہِم مِّیْثَاقُ الْکِتَابِ أَن لاَّ یِقُولُوا عَلَی اللّٰہِ إِلاَّ الْحَقَّ۔ (الاعراف: ۱۶۹)

’’کیا ان سے درباب کتاب یہ میثاق نہیں لیا گیا کہ وہ اللہ پر حق کے سوا کوئی اور بات نہ جوڑیں ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’کیا ان سے کتابِ (الٰہی) کا یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں حق (بات) کے سوا کچھ اور نہ کہیں گے؟ ‘‘(طاہر القادری)
یہاں بھی پہلا ترجمہ درست ہے۔

(۱۱) قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً سُبْحَانَہُ ہُوَ الْغَنِیُّ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَات وَمَا فِی الأَرْضِ إِنْ عِنْدَکُم مِّن سُلْطَانٍ بِہَذَا أَتقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ۔ (یونس: ۶۸)

’’یہ کہتے ہیں کہ خدا کے اولاد ہے۔ وہ ایسی باتوں سے پاک ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ تمھارے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ کیا تم اللہ پر وہ بات لگاتے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
یہ ترجمہ درست ہے، البتہ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً کا ترجمہ یہ نہیں ہوگا کہ ’’ یہ کہتے ہیں کہ خدا کے اولاد ہے‘‘ بلکہ یہ ہوگا کہ ’’یہ کہتے ہیں کہ خدا نے کسی کو اولاد بنالیا ہے‘‘۔

(۱۲) وَأَنَّہُ کَانَ یَقُولُ سَفِیْہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطاً۔ وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّنْ تَقُولَ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِباً۔ (الجن:۴،۵)

’’اور یہ کہ ہمارا بے وقوف (سردار) اللہ کے بارے میں حق سے بالکل ہٹی ہوئی باتیں کہتا رہا ہے اور یہ ہم نے گمان کیا کہ انسان اور جن خدا پر ہرگز کوئی جھوٹ نہیں باندھ سکتے‘‘(امین احسن اصلاحی۔ القول علی اللہ کی تعبیر دونوں آیتوں میں آئی ہے، دونوں آیتوں میں الگ الگ ترجمہ کیا گیا ہے، جب کہ دوسری آیت کا ترجمہ زیادہ صحیح ہے، ایک چوک مترجم سے یہ ہوگئی ہے کہ دوسری آیت میں لن کا ترجمہ مستقبل سے نہیں کیا ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا’’ہرگز کوئی جھوٹ نہیں باندھیں گے‘‘) 
’’اور ہم میں جو احمق ہوئے ہیں وہ اللہ کی شان میں حد سے بڑھی ہوئی باتیں کہتے تھے اور ہمارا (پہلے) یہ خیال تھا کہ انسان اور جنات کبھی خدا کی شان میں جھوٹ بات نہ کہیں گے‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتا ہے. اور ہمارا (یہ) خیال تھا کہ انسان اور جن خدا کی نسبت جھوٹ نہیں بولتے ‘‘( فتح محمد جالندھری، جھوٹ نہیں بولتے کے بجائے جھوٹ نہیں بولیں گے ہونا چاہئے، کیونکہ ’’لن‘‘ مستقبل کے لئے ہوتا ہے )
’’اور یہ کہ ہم میں سے کوئی اَحمق ہی اللہ کے بارے میں حق سے دور حد سے گزری ہوئی باتیں کہا کرتا تھا،اور یہ کہ ہم گمان کرتے تھے کہ انسان اور جن اللہ کے بارے میں ہر گز جھوٹ نہیں بولیں گے‘‘ (طاہر القادری)
اس آیت کے مذکورہ ترجموں میں خدا پر جھوٹ باندھنے کا ترجمہ زیادہ صحیح ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ بعض مترجمین کے یہاں ایک ہی لفظ کے مختلف مقامات پر مختلف ترجمے ملتے ہیں، یا تواسے تسامح سمجھا جائے،یا پھر ممکن ہے کہ ان کو ترجمے کے سلسلے میں تردد ہو، اور کسی ایک تعبیر پر اطمینان نہ ہو۔
(جاری)

’’سفر جمال: نبی مکرمؐ کی جمالیاتی مزاحمت کی پر عزم داستان‘‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

(میاں انعام الرحمن کے مجموعہ مقالات پر ایک نظر)

اسلامی ادبیات کے سدا بہار موضوعات میں سے ایک سیرت نگاری ہے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت نگاروں کی فہرست میں جگہ پانا ایک عظیم سعادت ہے۔ سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا تو آپ کی ولادت باسعادت سے بھی پہلے کا ہے۔ تاہم علومِ اسلامیہ میں بطور فن ،سیرت نگاری کامنظم آغاز پہلی صدی ہجری میں ہوا۔ تاریخِ علوم میں کسی انسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اس کثرت کے ساتھ نہیں لکھا گیا جتنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر لکھا گیا ہے ،لیکن اس کے باوجود عجائباتِ سیرت لا متناہی ہیں ،سیرت کے کتنے ہی گوشے ہنوز پردۂ مستور میں ہیں اور محققین کے لئے چیلنج ہیں ۔
قدیم ادبِ سیرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصولِ روایت اور اصولِ درایت کو پوری طرح بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے کتب سیرت میں کمزور اور موضوع روایات داخل کردی گئیں ،جن کی کوئی معقول توجیہ ممکن نہیں ۔یہی روایات مستشرقین کی مرغوب غذا ہیں جن کو بنیاد بنا کر سیرت پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ سترھویں صدی کے آغاز سے موجودہ دور تک سیرت پر مستشرقین کی جو کتابیں منصہ شہود پر آئیں، ان میں سے بیشتر کتب میں انہی کمزور روایات کو تحقیقات کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ مشہور مستشرق سر ولیم میور(م ۱۹۰۵ء) (Sir William Muir) کی کتاب The Life of Muhammad بڑی تہلکہ خیز ثابت ہوئی۔ اس کتاب میں علمی انداز میں رسول اللہ ؐ کی ذات کو ہدفِ تنقید بنایا گیا اس کتاب کی پذیرائی نے مسلمان اہلِ علم کو شدید اضطراب میں مبتلا کردیا ۔ سر سید احمد خانؒ (م ۱۸۹۸ء ) ، اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے، وہ اوّلین شخص تھے جنھوں نے۱۸۷۰ء میں ’’ خطباتِ احمدیہ‘‘ میں مستشرق مذکور کے اعتراضات کاعلمی اسلوب میں جواب دیا ۔ سر سید کے اسلوبِ نگارش اور طرزِ استدلال سے برصغیر میں سیرت نگاری کے ایک نئے رجحان نے جنم لیا ۔روایات سیرت کو تنقیدی نظر سے دیکھا جانے لگا ۔
علامہ شبلی نعمانی ؒ (م ۱۹۱۴ء ) نے سر سید کی روایت کو ایک منظم تحریک میں بدل دیا۔ علامہ موصوف نے سیرت نگاری میں غیر مستند موادکو الگ کرنے کے لئے اپنی قابلِ قدر تصنیف ’’ سیرۃ النبی‘‘ کے مقدمے میں سیرت نگاری کے گیارہ اصول بیان کئے۔علامہ شبلی نے سیرت نگاری کے جو اصول بیان کئے ہیں، ان کا تنقیدی جائزہ لیا سکتاہے، ان سے اتفاق یا اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے، تاہم ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ علامہ شبلی نے سیرت نگاری کے جن اصولوں کو متعارف کروایا، اس نے مابعد ادبِ سیرت پر اتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں کہ تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی سیرت نگار، علامہ شبلی کے اسلوب نگارش اور اصولِ سیرت نگاری کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے۔علامہ شبلی نے سیرت نگاری کے جو اصول متعین کئے ہیں، ان اصولوں پر محدثین کے اصولوں کی گہری چھاپ ہے۔روایاتِ سیرت کو محدثین کی کڑی شرائط پر پر کھنا کس حد تک درست ہے، یہ بہر حال ایک الگ بحث ہے ،تاہم ان اصولوں کے عملی اطلاق کے بعد سیرت پر موجود مواد کے ایک معقول حصے سے محرومی لازم تھی ،لیکن اس سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اہلِ علم نے روایاتِ سیرت کی جانچ پرکھ میں مزیداحتیاط کی روش اختیار کی۔
علامہ شبلی کے بعد، راقم الحروف کے علم کی حد تک، اصولِ سیرت نگاری پر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی کی کتاب ’’اصولِ سیرت نگاری‘‘ کے علاوہ اردو ادبِ سیرت میں کوئی دوسری مثال نظر نہیں آتی لیکن اس کتاب کی علمی قدروقیمت کا اعتراف کرنے کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کتاب میں بھی اصولِ سیرت نگاری کے نام پر فاضل مصنف نے زیادہ گفتگو سیرت کے مصادر و مراجع پر ہی کی ہے ۔ فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے جو پچیس اصول ذکرکئے ہیں، وہ اصول کم ،سیرت کے مصادر و مراجع زیادہ ہیں ۔
پروفیسر میاں انعام الرحمن ان خوش بخت لوگوں میں سے ہیں جن کو سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس موضوع پر قلم اٹھانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔فاضل مصنف کی زیر نظر کتاب’’سفر جمال :نبی مکرم ؐ کی جمالیاتی مزاحمت کی پر عزم داستان ‘‘ اردو ادبِ سیرت میں ایک خوبصورت اور نادر اضافہ ہے۔یہ کتاب، تالیف نہیں ’’تصنیف ‘‘ ہے جس میں فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے لگے بندھے انداز سے ہٹ کر ایک منفرد اسلوب اختیار کیا ہے۔ ہماری محتاط رائے میں اردو ادبِ سیرت میں زیر نظر کتا ب ایک نئے اورمنفردرجحان کی نمائندہ کتاب ثابت ہو گی ۔ فاضل مصنف نے قرآن مجید پر گہرے تدبر کے بعد سیرت نگاری کے اصول اخذ کئے ہیں۔ اس مختصر کتاب کا مقدمہ خاصے کی چیز ہے۔ مقدمہ بائیس (۲۲) صفحات پر مشتمل ہے جس میں فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے ان اصولوں کی نشان دہی کی جن کو پیشِ نظر رکھنے سے سیرت نبوی کے آفاقی پہلو کی تفہیم ممکن ہے۔ کتاب کا مقدمہ مصنف کی اجتہادی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ کتاب کے قارئین سے درخواست ہے کہ وہ کتاب کا مقدمہ پوری توجہ سے ملاحظہ فرمائیں۔ کتاب کا امتیاز یہ ہے کہ مصنف نے سیرت نگاری کے جن اصولوں کی نشاندہی کی ہے، زیر نظر کتاب میں ان اصولوں کا اطلاق کرکے سیرت کے ایسے گوشوں کو منکشف کیا ہے جس کی طرف سیرت نگاروں نے کم ہی توجہ دی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ سیرت نگاری کے اس اسلوب سے ہمارے روایتی مذہبی حلقے میں برپا نوروبشر اور حاضر وناظر جیسی لا ینحل بحثوں کی گتھی بھی سلجھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ فاضل مصنف نے سیرت نگاری کے جن اصولوں کا تعین کیا ہے، ان میں سے چند ایک کا مختصر تعارف ہم ذیل کی سطور میں پیش کر یں گے ۔

پہلا اصول

قرآن مجید کی موجودہ ترتیب نزولی نہیں بلکہ توقیفی ہے اوریہ ترتیب اللہ تعالیٰ کے منشا اور حکم کے مطابق ہے ۔ فاضل مصنف نے حضرت عائشہؓ کے قول: ’’کان خلقہ القرآن‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے سیرت نگاری کا بڑا اہم اصول اخذ کیا ہے ۔پروفیسر میاں انعام الرحمن لکھتے ہیں :
’’جب قرآن مجید کی نزولی ترتیب کو اٹھالیا گیا، اسے باقی نہیں رکھا گیا اور اسی وجہ سے قرآن مجید اپنے نزول کے مخصوص دور سے ماورا ہو کر آفاقی اور قیامت تک کے لیے ہدایت کا آخری سرچشمہ قرار پایا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو زمانی ترتیب سے منسوب کر کے ایک مخصوص دور کے لیے محدود کیوں کیا جائے؟‘‘ (ص: ۳۲)
ہماری رائے میں اگر اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو سوانح نگاری اور سیرت نگاری میں جو فرق ہے ، وہ بالکل نمایاں ہوجائے گا۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کے خدا کا تعارف’’رب العالمین‘‘کی صفت سے کروایا ہے اور اپنا تعارف ’’ذکر للعالمین‘‘سے کروایا ہے۔ اور اگر سیرت نگاری میں اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو سیرت نبویہ کس اس آفاقی پہلو کا جسے قرآن مجید نے’’ رحمۃ للعالمین‘‘کہا ہے، صحیح معنوں میں ظہور ہو گا۔ سیرت نگاری میں اس اصول کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت کیوں ہے ؟ میاں صاحب لکھتے ہیں :
’’چوں کہ محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزمان ہیں، نبی خاتم ہیں، اس لیے آپ کی سیرت طیبہ کا بیان محض مسلمانوں کا داخلی معاملہ نہیں کہ آپ تو نوع انسانی کے ہر فرد بشر کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس لیے سیرت نگاری صرف مسلم مخاطبین کو پیش نظر رکھ کر نہیں کرنی چاہیے۔ یہ صرف اور صرف مسلم مخاطبین کو پیش نظر رکھ کر کی گئی سیرت نگاری ہے جو نہ صرف زندگی کی واقعیت سے دور جاپڑتی ہے بلکہ مطالعہ سیرت کے غیر مسلم قاری کوشش و پنج میں مبتلا کردیتی ہے۔ اسی اپروچ کا نتیجہ ہے کہ مطالعہ سیرت کا روایتی بیانیہ، آپ کے رحمۃ للعالمین او رخاتم النبیین ہونے سے لگا نہیں کھاتا۔‘‘ (ص: ۳۸)
روایتی مذہبی حلقے میں سیرتِ طیبہ کی تفہیم کے محدود اور سطحی تصور پر گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’بعض لوگ سیرت نگاری کے باب میں غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں جب وہ (نزولی ترتیب سے مربوط ارتقائی مراحل کی بناپر) کہتے ہیں کہ ہم ابھی مکی دور سے گزر رہے ہیں۔ انہیں جاننا چاہیے کہ اگر قرآن مجید کی حتمی ترتیب اپنے موضوعاتی بکھراؤ کے جلو میں، ایک ہی موضوع کے متعلق مختلف احکامات کو ارتقا کے (پرانے مراحل کے) بجائے نظامِ تناسبا ت کے اثبات کے ساتھ نئے زمانی احوال، سماجی مقتضیات اور تقافتی متغیرات کے حوالے سے دیکھتی ہے تو پھر صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کیوں کر (پرانے ارتقائی مراحل کی ) پابند رہ سکتی ہے؟ سیرتِ مطہرہ کے باب میں ، قرآن مجید کی حتمی ترتیب سے وابستہ حکمت اور قرآنی نظامِ تناسبات کا لحاظ نہ رکھنے کا نتیجہ ہے کہ علمی و عملی میدان میں ’غلو‘ کی نت نئی عجیب و غریب صورتیں ظہور پارہی ہیں۔‘‘ (ص: ۴۹، ۵۰)
ابتدائی صدیوں کی سیرت نگاری میں یہ گوشہ دب جانے کی وجہ سے ہی یہ تاثر پیدا ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف عربوں کے نبی ہیں۔ غالباً اسی پس منظر میں ایران میں نقطوی تحریک کا ظہور ہوا جن کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام صرف ایک ہزارسال کے لیے ہی تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت آفاقی نہیں بلکہ صرف عربوں کے لیے تھی۔ اس تحریک نے برصغیر کو بھی متاثر کیا اور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اسی تحریک کے زیرِ اثر ’’دینِ الٰہی‘‘ کی بنیاد رکھی۔

دوسرا اصول

:سیرت نگاری کا دوسرا اصول جس کی طرف فاضل مصنف نے توجہ دلائی، وہ قرآن مجید میں سابقہ انبیاء کی سیرت کا تدبر سے مطالعہ کرتے ہوئے نمایاں ہوتا ہے ۔ قرآن مجید نے انبیاء کی سیرت نگاری میں نبوت و رسالت کے مرکز ی پیغام کو کسی بھی جگہ پر متاثر نہیں ہونے دیا ۔ قرآن مجید نے بعض انبیاء کا ایک سے زائد مقامات پر تذکرہ کیا ہے، لیکن تمام مقامات پر نبی کے پیغام کی مرکزیت پوری طرح نمایاں رہی ہے۔ انبیاء کرام ؑ کی بعثت کا بنیادی مقصد معاشرے کی اخلاقی تطہیر ہے، اس لیے انبیاء کرام کی سیرت نگاری میں دعوتی اور تذکیری پہلو بہت نمایاں ہے۔ فاضل مصنف نے اس سے یہ اصول مستنبط کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بھی اسی انداز سے بیان کیا جانا چاہیے کہ آپ کی زندگی کا دعوتی اور تذکیری پہلو نمایاں ہواور کسی بھی جگہ پیغامِ محمدی کی روح متاثر نہ ہونے پائے۔ میاں انعام الرحمن رقمطراز ہیں :
’’ قصص الانبیاء کے بیان میں خدا نے جو اسلوب اور منہج اختیا رکیا، سیرت نگاری میں اس سے بھرپور استدلال کرنا چاہیے کہ سیرت طیبہ کا بیان ایک اعتبار سے قصے کا بیان بھی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اس کا رائٹر انسان ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ (قرآن میں مذکور) ہر نبی کا قصہ ایک اعتبار سے اس کی سیرت کا بیان ہے اور کسی کی بھی سیرت کو مکمل اور زمانی ترتیب سے پیش نہیں کیا گیا بلکہ ہر ایک کی سیرت میں سے ایسا ’انتخاب‘ کیا گیا ہے جو ابدی ہونے کے باعث تاقیامت انسانوں کی راہنمائی کرسکتا ہے ۔ایک لحاظ سے یہ انتخاب ’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت پر سابقہ انبیا کی تاریخی مہر‘ثبت کرنے کی علامت بھی ہے۔‘‘ (ص: ۳۳)
ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاں سیرت نگاری میں فضائل و کمالات کا تذکرہ اس اسلوب میں کیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور شان نمایاں ہو اور بس، لیکن اس قسم کی سیرت نگاری میں قارئین کے لیے کوئی عملی پیغام عام طور پر موجود نہیں ہوتا۔یہی حال ان کتابوں کابھی ہے جومحض معلوماتِ سیرت (Database) پرمبنی ہیں، اگرچہ اس نوعیت کی سیرت نگاری کی جزوی افادیت کا انکار ممکن نہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں چونکہ رسالتِ محمدیؐ کا مرکزی پیغام پیشِ نظر نہیں ہوتا لہٰذا سیرت کا آفاقی پہلو پردۂ اخفا ء ہی میں رہتا ہے ۔ 

تیسرا اصول

عربوں کو اپنی زبان دانی پر بڑا فخر تھا ۔ عرب شعراء نے فنِ شاعری اور خطباء نے مقفع و مسجع گفتگو اور نثرنگاری کو نکتہ کمال تک پہنچا دیا تھا اور اپنے مقابلے میں پوری دنیا کو عجمی سمجھتے تھے۔ قرآن مجید عرب شعراء اور خطباء دونوں کے لیے چیلنج کے طورپر نازل ہوا۔ فصحائے عرب کو اعتراف کرنا پڑا کہ قرآن نہ تو شاعری ہے اور نہ ہی محض مقفع ومسجع نثر نگاری، بلکہ قرآن صرف قرآن ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک جداگانہ صنف ہے۔ قرآن مجید میں اصل غلبہ اس کے پیغام کو حاصل ہے ۔ قرآن مجید نے عربوں کو اس بحث میں پڑنے ہی نہیں دیا کہ وہ قرآن مجید کو فن شاعری اور نثر کے اصولوں پر ہی پرکھنے کے چکر میں پڑے رہیں۔ قرآن نے اپنے اسلوب کو عربوں کے لیے چیلنج تو ضرور قرار دیا لیکن اپنی دعوت پر اس نئے اور منفرد اسلوب کو غالب نہیں آنے دیا۔ میاں انعام الرحمن چونکہ سیرت رسولِ عربی ؐ کو قرآن مجید کا پر توسمجھتے ہیں، اس لیے وہ اس نوعیت کی سیرت نگاری کے شدید ناقد ہیں جس میں’’ فن‘‘ سیرت نگاری پر غالب ہو،چنانچہ لکھتے ہیں :
’’سیرت نگاری کو ’’فن‘‘ کے اظہار کا ذریعہ ہرگز نہیں بنانا چاہیے، مثلاً بغیرنقطوں کے سیرت کی کتاب۔ سیرت نگاری کے باب میں فن کو مخدوم نہیں ، خادم ہونا چاہیے۔ ورنہ فن کے مخدوم ہونے کی صورت میں سیرت کے پیغام کی روح اور اس سے چھلکتی تاثیر، ہم سے غیر محسوس انداز میں چھنتی چلی جائے گی۔‘‘ (ص: ۳۱)
تاریخ گواہ کہ مسلمانوں کے دورِ زوال میں اس طرح کے لطائف ہماری علمی تاریخ کا حصہ رہے ہیں کہ ایک شخص کسی موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھتا ،پھر خود ہی’’ اختصار نویسی‘‘ کے فن کے اظہار کے لیے اس کا اختصار لکھتا اور پھر خود ہی اس کی شرح لکھنے بیٹھ جاتا۔ اس قسم کی’’قلمی عیاشیاں‘‘ اس وقت کی جاتی ہیں جب آپ کے پاس کہنے کو کچھ باقی نہ بچے۔ ہماری نظر میں میاں صاحب کی یہ رائے کہ سیرت نگاری کو اپنے فن کے اظہار کا ذریعہ بنانا، فن کی خدمت ہے ، سیرت کی ہرگز نہیں ،قابلِ توجہ ہے ، کیونکہ اگر غلبہ فن کو حاصل ہو گا تو خدشہ ہے کہ فن کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے سیرت سے وابستہ بعض حقائق تشنہ رہ جائیں گے اور پھر اس نوعیت کی سیرت نگاری پر اہم سوال یہ ہے کہ کیا سیرت کا متحرک پہلو ختم ہو گیا ہے ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیرت کے عجائبات کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں۔

چوتھا اصول

سیرت نگاری کے جدید رجحانات میں جزئیات نگاری ایک جدید اور قابل قدر رجحان ہے ۔ اس وقت محققین کا ایک بڑا طبقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے انفرادی پہلوؤں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنائے ہوئے ہیں ، مثلاً: طبِ نبویؐ،رسول اللہ ؐکی جنگی حکمت عملی، رسولِ اکرمؐ بطور معلم، رسول اللہ ؐ بطور ماہر نفسیات، نبی اکرم ؐ بطور تاجر، وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن پر کثرت کے ساتھ لکھا جارہا ہے۔ سیرتِ نبوی ؐکے بیان میں جزئیات نگاری کا اسلوب قابلِ تعریف ہے ،لیکن اس نوعیت کی سیرت نگاری میں رسالتِ محمدی ؐ کا مجموعی تاثرنظر انداز ہو رہا ہے ۔میاں انعام الرحمن جدیدسیرت نگاری میں اس خلا کی نشاندہی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : 
’’سیرت کی کسی ایک جہت پر قلم اٹھانے والے سیرت نگار کو اسوۂ حسنہ کی ’’کلیت‘‘ دھیان میں رکھنی چاہیے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ اس طبی ماہر جیسا ہوگا جو پورے جسم کا لحاظ رکھے بغیر صرف متعلقہ عضو کی دیکھ بھال کرنے کی کوشش کرے ۔اس کے نتیجے میں دیگر اعضا تو متاثر ہوتے ہی ہیں ، متعلقہ عضو بھی آخر کار مزیدبگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ سیرت کے باب میں خوامخواہ کے اعتراضات اٹھانے والے مستشرقین و مستغربین و دیگر افراد اسی نوع کے ’ماہر‘ ہیں کہ اسوۂ حسنہ کی کلیت ان کی نظروں میں سما نہیں پاتی۔‘‘ (ص: ۳۴، ۳۵)
جزئیات نگاری کے ’’نقصانات ‘‘ کی ایک مثال قرآن مجید کی سائنسی تفسیر کا رجحان ہے۔ معروف مستشرق ڈاکٹر موریس بوکائے نے قرآن مجید اور بائبل کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد جب اپنی معروف کتاب"The Bible, The Quran and The Science"مرتب کی تو چونکہ موصوف علوم القرآن پر گہری نظر نہ رکھتے تھے اور محض ایک سائنسدان اور ڈاکٹر ہی تھے، اس لیے اپنی تحقیق میں قرآن مجید کے موضوع اور اس کے نزول کے حقیقی مقصد کو پیش نظر نہ رکھ سکے۔ فاضل مستشرق نے تمام سائنسی حقائق کو قرآن مجید سے ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ ان کی اس تحقیق کے نتیجہ میں تفسیری ادب میں بوکائے ازم کی صورت میں قرآن مجید کی سائنسی تعبیر و تشریح کے ایک نئے رجحان نے جنم لیا۔ یہ کوشش کتنی ہی اخلاص پر مبنی کیوں نہ ہو ، بہرحال نزولِ قرآن کا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ اس سے سائنسی حقائق کو ثابت کیا جائے یا سائنسی حقائق کی سچائی کو قرآن مجید کی روشنی میں پرکھا جائے۔ قرآن مجید کا موضوع انسان ہے اور اس کا مقصدِ نزول انسان کی ہدایت ہے۔لہٰذا قرآن مجید کا مطالعہ اسی تناظر میں کرنا چاہیے، ورنہ لوگ قرآن مجید کو فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کی کتاب بنا کر رکھ دیں گے اور قرآن مجید کا اصل پیغام دب جائے گا۔ 
میاں صاحب نے سیرتِ محمدی میں جس ’’کلیت ‘‘ کو سیرت نگاری کا اصول قرار دیا ہے ، جزئیات نگاری میں اس کا لحاظ لازم ہے تاکہ کس بھی مرحلہ پر سیرت کا مرکزی پیغام متاثر نہ ہو۔ مثلاً بطور جرنیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی حکمت عملی پر لکھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی اخلاقیات پر مبنی تعلیمات کو نمایاں کر نا اصل سیرت نگاری ہوگی نہ کہ جنگ کے مختلف طریقے۔ اسی طرح بطور تاجر آپ کی زندگی پر لکھتے ہوئے کاروباری اخلاقیات (Business Ethics) کے پہلو کو اجاگر کرنا اصل سیرت نگاری ہوگی نہ کہ محض کاروباری زندگی کی تاریخ،لہٰذا جزئیات نگاری میں دروس و عبر اور دعوتی پہلو کو نمایاں کیا جانا چاہیے۔

پانچواں اصول

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ یہ دور مغربی فکروفلسفہ کے غلبہ کا دور ہے، اسلام پر اہلِ مغرب کے اعتراضات کے پس منظر میں ہمارے اہلِ علم نے جب سیرت پر قلم اٹھایا تو سیرتِ طیبہ پر مغرب کے سوالا ت ان کے پیشِ نظر تھے ۔مغرب نے طویل علمی وفکری ارتقاء اور مسلسل تجربات کے بعد جس تہذیب کو جنم دیا ،اس کے فوائدو ثمرات بھی ان لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے ،چنانچہ اس دور میں لکھی گئی کتبِ سیرت زیادہ تر تحفظات پر مبنی ہے۔ ان کتبِ سیرت میں مغرب کے اعتراضات کا رد بھی ہے اور اس کے ساتھ واقعاتِ سیرت کی ایسی تعبیرات بھی ہیں جن کا مقصد سیرت کا دفاع بھی ہے ۔اخلاص پر مبنی ان اہلِ علم کی بعض تعبیرات سے فاضل مصنف مطمئن نظر نہیں آتے، مثلاً ہمارے اہلِ علم نے بعض مستشرقین کے اعتراضات ، ’’انٹر نیشنل ہیومینٹیرن لاء‘‘ اور’’ بنیادی انسانی حقوق کا عالمی منشور ‘‘ سے ا ثر پذیر ہوتے ہوئے رسول اللہ ؐ کی جہادی زندگی کی ایسی تعبیرات کی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کی جنگی مہمات دفاع پر مبنی تھیں۔ ان کی نظرمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمۃ للعالمین ہونا اس تعبیر کی بنیاد ہے ۔میاں صاحب نہ صرف اس تعبیر کو سرے سے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ سیرتِ طیبہ کے کسی پہلو کی تعبیر میں اس قسم کی معذرت خواہی کے قائل نہیں ہی ہیں ،موصوف لکھتے ہیں :
’’اخلاق عالیہ، رحم دلی اور انسان دوستی وغیرہ کے نام پر سیرت نگاری میں معذرت خواہانہ اسلوب ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ زندگی کا جمالی پہلو ہی زندگی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جلال و جمال ایک وحدت میں ڈھلتے ہیں یا کسی وحدت کے دو اجزاء بنتے ہیں تو زندگی کی ایک توانا اور نظر نواز صورت جنم لیتی ہے ۔ پوری انسانی تاریخ میں ایک بھی قوم ایسی نہیں گزری جس نے کبھی جنگ نہ کی ہو۔ یہ اس دنیاوی زندگی کی واقعیت ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ اس لیے اخلاق اور رحم بھی تلوار اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف بشیر ہوتے، نذیر نہ ہوتے تو کیا پھر بھی خلقِ عظیم سے متصف ہوتے ؟ محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام میں للکار نہ ہوتی تو آپ ؐ کا اسوہ،کیاپھر بھی اسوہ حسنہ قرار پاتا ؟ خدا کی قسم ! اگر محمد رسول اللہ ؐ بدر واحد کے میدان میں تلوار اٹھائے نہ نکلتے تو اللہ رب العزت آپ ؐ کو رحمۃ للعالمین قرار نہ دیتے۔‘‘ (ص: ۴۲)
یہی رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کی ناگزیریت کو تسلیم کرتے ہوئے رسول اللہ ؐ کی جہادی زندگی میں جنگی اخلاقیات کے پہلو کو اجاگر کیا جائے۔ سیرت کے قارئین پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آپؐ نے دنیا کوجنگ برائے امن کا تصور دیا۔آپ نے ؐ ’’ جنگ نہیں، جنگ کی تیاری ‘‘کا حکم دیا ہے تاکہ ظالم کا ہاتھ روکا جا سکے ۔یہ تعبیر تبھی ممکن ہے جب سیرت کے اس باب کو اس تناظر میں پڑھا جائے جس کی طرف فاضل مصنف نے اشارہ کیا ہے ۔ 

چھٹا اصول

تزکیہ نفس مذہب کا بنیادی ہدف ہے ، انسان کی شخصیت روح اور بدن کی تالیف اور امتزاج سے عبارت ہے۔ ایساکوئی مذہب اورنظریہ کامیاب نہیں ہو سکتا جو روح اور بدن میں سے ایک کو ابھارے اور دوسرے کو کچل دے۔ عیسائیت ، ہندو مت ، بدھ مت، اور دیگر مذاہب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ انہوں نے ترک دنیا اور رہبانیت کے تیشے سے انسانی جسم کو صرف اس لیے گھائل کر دیا ہے تاکہ انسانی روح کو بیدار کیا جا سکے۔ لیکن اس غیر طبعی تعلیم اور جان سوزی کے نتیجے میں روح کی شمع بھی گل ہو کر رہ گئی۔ اہل کلیسا نے خانقاہوں میں بسیرا کر لیا، ہندؤوں او ر بدھوں نے جنگلوں کا رخ کر لیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد تزکیہ نفس بھی تھالیکن آپ ؐ نے نہ صرف رہبانیت کی مذمت کی بلکہ روحانی ترقی کے لئے بھر پور سماجی زندگی کو لازم قرار دیا۔ نکاح جیسے ’’دنیوی عمل ‘‘ کو ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری قرار دیا۔ اعلانِ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھر پور خاندانی اور معاشرتی زندگی گزاری۔ اسلام نے تجرد اوررہبانیت کو رمضان کے دس روزہ اعتکاف اور حج تک محدود کریا ، اعلانِ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعض مواقع پر غارِ حرا ضرورگئے ہیں لیکن اعلانِ نبوت کے بعد حضور پھر کبھی غار حرا نہیں گئے۔ سماجی زندگی کے کڑے معیار پر پورا اترنا ہی سیرت طیبہ کا آفاقی پہلو تھا جس کو اس امت نے گم کردیا ہے۔میاں انعام الرحمن سیرت محمدیؐ کے اس تابناک پہلو کی عصری معنویت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
’’پوری انسانی تاریخ میں انسان اور سماج کے ہمیشہ دو بڑے مسائل رہے ہیں؛ازدواجی رشتہ اور معاشی رشتہ ۔ کتنی لطیف بات ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی اور سماجی دونوں اعتبارات سے دونوں رشتے مثالی انداز میں نبھائے ہیں۔ سیرت نگاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے اسی نوع کے پہلو (بات کو غلط انداز میں نہ لیا جائے ) سیکولر منہج بیان کرنے چاہییں تاکہ کثیر مذہبی دنیا کے عام بشر کو راہنمائی مل سکے کہ وہ کیسے اور کیوں کر ازدواجی و معاشی رشتوں سے انصاف کرسکتا ہے۔‘‘ (ص: ۳۰)
صحابہ کرامؓ کے ذہنی رویوں کی تشکیل میں نبوی تعلیمات کابہت گہرااثر تھااس لئے وہ بجا طور پر سمجھتے تھے کہ سماجی زندگی ہی روحانی ترقی کی بنیاد ہے ،چنانچہ منقول ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک شخص کے حال کی تحقیق کے لئے گواہ طلب کئے تو ایک آدمی نے گواہی دی کہ موصوف ایک شریف آدمی ہیں ۔حضرت عمر فارقؓ نے اس سے سوال کیا: کیاآپ اس کے پڑوسی ہیں ؟ اس نے عرض کی کہ نہیں ۔پھر پوچھا: کیا آپ نے اس کے ساتھ کبھی لین دین کیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ۔پھر فرمایا کہ کبھی اس کے ساتھ سفر کیا ہے ؟ اس نے عرض کی کہ نہیں ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا : تم نے اسے رکوع ،سجدے ،ذکر اذکار اور تلاوت میں مشغول دیکھا ہوگا ؟ اس نے کہا : ہاں ۔اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: تم اسے نہیں جانتے اورپھر آپؓ نے اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:کسی ایسے شخص کو بلاؤ جو تمہیں جانتا ہو۔ 
امام محمد بن حسن الشیبانی فقہ حنفی کے مدونِ اول تھے۔ ان سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے زہد اور رقاق کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی کہ لوگ اس کو پڑھتے اور ان کے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ۔آپ نے فرمایا کہ میں نے کتاب البیوع لکھ دی ہے۔یعنی جو شخص کتاب البیوع میں حلال و حرام کے احکام پر مسلسل عمل کرے گا، اس میں تدین ضرور پیدا ہوگا ۔دنیا دار العمل ہے اورعمل کا ’’معیاری اظہار ‘‘ حلال و حرام کی تمیز اور مثبت سر گرمیوں سے ہوتا ہے ۔

ساتواں اصول

فاضل مصنف کی رائے میں سیرت نگار کے لئے رسالتِ محمدی ؐ کی آفاقیت اور عصری معنویت کے پرت کب کھلیں گے، ملاحظہ فرمائیں:
’’سیرت نگار کو آثار و تاریخ اور روایات کے علاوہ ایسی قرآنی تفسیرات و تعبیرات سے بھی باہر جھانکنے کی جرأت کرنی چاہیے جو اسوۂ حسنہ کے باب میں واقعیت پر مبنی کسی سچائی کی راہ میں مزاحم ہوں۔ زمانے کی تحریک انگیز قوت ، تکوینی سطح پر علم و ہنر کے گلستان میں جو نت نئے پھول کھلاتی ہے سیرت نگار کو ان کی خوشبو سے محفوظ ہوتے رہنا چاہیے۔‘‘ (ص: ۳۹، ۴۰)
صدیوں کے علمی فکری اور تمدنی سفر میں مختلف معاشروں اور تہذیبوں نے عمرانی علوم میں کئی تجربات کئے ہیں۔ سوشل سائنسز کے عنوان سے سماجی زندگی کے مختلف گوشوں پر تحقیقات اب باقاعدہ درس گاہوں میں نصاب کا حصہ ہیں۔ سیرت نگار کے لئے لازم ہے کہ وہ جدید سماجی علوم وفنون سے واقفیت حاصل کرے تاکہ سیرت نگاری میں ’’سفرجمال‘‘ کی عزم داستان رقم کرنا اس کا نصیب بن سکے ۔ 
راقم الحروف کو اعتراف ہے کہ زیر نظر کتاب ’’سفر جمال :نبی مکرم ؐ کی جمالیاتی مزاحمت کی پر عزم داستان ‘‘پر جس طرح نظر ڈالنے کا حق تھا، وہ ادا نہیں ہو سکا، بلکہ درست بات تو یہ ہے کہ کتاب کے مقدمہ کا،جس میں سیرت نگاروں کے لئے ’’فکری غذا ‘‘ کا دریا موجزن ہے،مکمل تعارف بھی نہیں کروایا جا سکا، لیکن مجھے امید ہے کہ کتاب کا قاری جب کتاب میں غوطہ زن ہو گا تو اس کا دامن ان جواہر پارو ں سے خالی نہیں رہے گا ، جو سیرت کے قارئین کا نصیب ہوا کرتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ کتاب کے مطالعہ میں محبت و عقیدت کے ساتھ اپنی فکری صلاحیت کو بھی پوری طرح بروئے کار لائے ۔کتاب کے مقدمے میں مصنف نے عصر حاضرمیں سیرت نگاری کے لئے جن اصولوں کی نشاندہی کی ہے ، خودمصنف نے اپنے منفرد طرز استدلال اور اسلوب نگارش کا استعمال کرتے ہوئے سیرت طیبہ کی عصری معنویت کو خوب اجاگر کیا ہے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور ان کے لئے توشۂ آخرت بنائے ۔ (آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسین ﷺ)

حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ اور حضرت قاری محمد انورؒ کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ ماہ کے دوران دو تین دنوں میں یکے بعد دیگرے تین محترم بزرگوں، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ اور استاذ محترم حضرت قاری محمد انورؒ کی وفات کا صدمہ دینی حلقوں کو سوگوار کر گیا۔ تینوں بزرگوں کا تذکرہ خاصی تفصیل کا متقاضی ہے مگر سرِدست ابتدائی تاثرات ہی پیش کر سکوں گا۔ 
حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ علماء حق کے قافلہ کے سالار تھے اور انہوں نے علمی، عملی اور مسلکی محاذ پر جو خدمات سرانجام دیں، وہ تاریخ کے ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے اور اپنے استاذِ گرامی سے انہوں نے اپنے اردگرد ماحول پر ہر طرف نظر رکھنے کا ذوق بھی پایا تھا۔ ان کے اس ذوق کو دیکھتے ہوئے مجھے حضرت خالد بن ولیدؓ کا وہ واقعہ یاد آجاتا ہے جو ابن عساکرؒ نے ’’تاریخِ دمشق‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ دمشق کی فتح کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ نے حمص میں رہائش اختیار کر لی تھی اور یوں سمجھ لیں کہ ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ دمشق کے تین فاتحین حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت یزید بن ابی سفیانؓ میں اول الذکر بزرگ فوت ہوگئے تھے، حضرت یزیدؓ کو امیر المومنین حضرت عمرؓ نے شام کا گورنر مقرر کر دیا تھا جبکہ حضرت خالد بن ولیدؓ حمص میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایک مجلس میں ذکر کیا کہ حضرت عمرؓ نے اب شاید غزوۂ ہند کا ارادہ کر لیا ہے اور انہیں یعنی حضرت خالد بن ولیدؓ کو اس کی تیاری کے لیے کہا جا رہا ہے۔ اس پر مجلس میں موجود کسی صاحب نے کہا کہ آپ اس سے معذرت کر دیں۔ ایک اور صاحب نے یہ سن کر کہا کہ اس طرح معذرت کرنے سے تو فتنہ پیدا ہوگا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان صاحب کو یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ ’’امّا فی عہد عمر فلا‘‘ کہ اس بات کی تسلی رکھو، حضرت عمرؓ کی زندگی میں کوئی فتنہ کھڑا نہیں ہوگا۔ چنانچہ حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ کی ہر طرف نظر دیکھ کر یہ اطمینان رہتا تھا کہ کوئی فتنہ ان کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکے گا اور وہ اس کی نشاندہی اور روک تھام کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ 
حضرت مولانا قاری محمد انورؒ میرے حفظ قرآن کریم کے استاذ تھے، میں نے ان سے گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں 1960ء میں حفظ قرآن کریم مکمل کیا تھا۔ وہ خاصا عرصہ گکھڑ میں رہے اور ہم سب بہن بھائی ان کے شاگرد ہیں۔ بڑے مشفق استاذ تھے، کم و بیش چالیس سال سے مدینہ منورہ میں مقیم تھے اور تحفیظ القرآن کی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کی بہت سی یادیں ذہن میں تازہ ہو رہی ہیں جن میں سے ایک کا سرِدست تذکرہ کرنا چاہتا ہوں کہ 1977ء میں تحریک نظام مصطفی کے دوران پاکستان قومی اتحاد کے ایک جلوس کی قیادت والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کر رہے تھے، ان کے ساتھ استاذ محترم قاری محمد انورؒ اور جے یو پی کے راہنما حاجی سید ڈارؒ بھی تھے۔ جلوس کو روکنے کے لیے فیڈرل سکیورٹی فورس کے کمانڈر نے ایک جگہ لائن لگا کر اعلان کیا کہ اس سے آگے بڑھنے والے کو گولی مار دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی چاروں طرف سنگینیں تن گئیں جن کا رخ اس لائن کی طرف تھا۔ حضرت والد محترمؒ یہ سن کر اپنے ان دونوں ساتھیوں کے ہمراہ کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے سرخ لائن عبور کر گئے اور فرمایا کہ ’’مسنون عمر پوری کر چکا ہوں اور اب شہادت کے لیے تیار ہوں‘‘۔ ان تینوں حضرات کی اس جرأت رندانہ پر سنگینوں کا رخ زمین کی طرف ہوگیا اور فیڈرل سکیورٹی فورس نے پسپائی اختیار کر لی۔
حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کے ساتھ تحریک ختم نبوت کے محاذ پر گزشتہ تین عشروں سے میری مسلسل رفاقت چلی آرہی تھی۔ انہوں نے 1985ء میں لندن میں پہلی انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس منعقد کرنے کا پروگرام بنایا تو ان کے رفقاء کی ٹیم میں حضرت مولانا علامہ خالد محمود، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ تب سے تحریک ختم نبوت کے محاذ پر ہماری باہمی رفاقت و تعاون کا سلسلہ چلا آرہا تھا اور میں نے ان کی دعوت و اہتمام پر اسی سلسلہ میں جنوبی افریقہ کا بھی دو دفعہ سفر کیا۔ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی خدمت میں کافی عرصہ رہے اور ان کے خلیفہ مجاز تھے۔ حضرت شیخؒ کا رنگ ان کی زندگی میں نمایاں دکھائی دیتا تھا۔ وہ مکہ مکرمہ کی معروف دینی درسگاہ مدرسہ صولتیہ میں حدیث و فقہ کی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور تحریک ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’’انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ‘‘ کے سربراہ ہونیکے ساتھ ساتھ اپنے شیخؒ کی طرز پر خانقاہی نظام میں خاصے متحرک و فعال تھے۔ 
یہ صدمہ تمام اہل دین کا مشترکہ صدمہ ہے اور قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ اہل علم یکے بعد دیگرے اٹھتے جا رہے ہیں مگر ان کی جگہ سنبھالنے کے لیے نعم البدل تو کجا کوئی بدل بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہم سب کو ان کی حسنات کی پیروی کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری تحدیات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ نے سالِ گزشتہ کا اختتام ’’معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری تحدیات‘‘ کے موضوع پر دو روزہ قومی کانفرنس سے کیا جو ۳۰ و۳۱ دسمبر ۲۰۱۶ء کو منعقد ہوئی اور اس کی مختلف نشستوں سے ڈاکٹر محمد ضیاء الحق، پروفیسر ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء، ڈاکٹر مستفیض احمد علوی، ڈاکٹر غلام عباس، ڈاکٹر عاصم ندیم، ڈاکٹر ریاض محمود، ڈاکٹر شہباز احمد منج، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، ڈاکٹر محمد حماد لکھوی، ڈاکٹر عبد القدوس حبیب، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، ڈاکٹر حافظ محمود اختر، ڈاکٹر محمد اکرم ورک، غازی عبدا لرحمن قاسمی، جناب محمد مجتبیٰ، ڈاکٹر سلطان شاہ، حافظ محمد عمار خان ناصر اور دیگر ارباب فکر و دانش نے خطاب کیا۔ جبکہ گفٹ یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر قیصر شہریار درانی کی نگرانی میں کانفرنس اختتام کو پہنچی۔ راقم الحروف کو آخری نشست میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا جس کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔ 
بعد الحمد والصلاۃ۔ گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کو اس کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں جو یونیورسٹی کی علمی و فکری سرگرمیوں میں ایک اچھی پیش رفت ہے۔ مجھے چند سالوں سے یہ دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ملک کی جامعات میں علمی و فکری سرگرمیوں کے حوالہ سے اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر ان جامعات کے شعبہ ہائے علوم اسلامیہ دینی و ملی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کانفرنسوں اور سیمینارز کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اور ایک طرح سے صحت مندانہ مقابلہ کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے جو یقیناًخوش آئند ہے کہ قرآن کریم نے بھی خیر کے اعمال میں وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اسلامی علوم کے ان شعبوں میں علمی و فکری سرگرمیوں میں اضافہ کے ساتھ دوسری بات جو خوشی اور اطمینان کا باعث بن رہی ہے، یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے فضلاء اور دینی مدارس کے فضلاء میں میل جول بڑھ رہا ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان سرگرمیوں میں شریک ہونے والے اور ان کا اہتمام کرنے والے اساتذہ و طلبہ میں دونوں طرف کے فضلاء شریک ہیں۔ پی ایچ ڈی اسکالرز میں دینی مدارس کے فضلاء کی تعداد روز افزوں ہے اور دینی مدارس کے اساتذہ و فضلاء کی دلچسپی اس میں مسلسل بڑھ رہی ہے جو ہمارے پرانے خواب کی تعبیر ہے کہ قدیم و جدید علوم کے ماہرین یکجا بیٹھیں اور مل جل کر دینی، قومی، علمی اور ملی مسائل میں قوم کی راہنمائی کریں۔ 
حضراتِ محترم! ہماری اس قومی کانفرنس کا بنیادی موضوع وہ فکری تحدیات اور چیلنجز ہیں جو اس وقت امت مسلمہ کو درپیش ہیں اور جن میں صحیح سمت راہ نمائی کے لیے پوری امت ارباب فکر و دانش اور اصحابِ علم و فضل کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ہمارے بہت سے فاضل دوستوں نے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے۔ میں گفتگو کے آغاز سے پہلے سوچ رہا تھا کہ فکری چیلنجز کے کون سے دائرے میں بات کروں گا؟ اس لیے کہ فکری چیلنجز کا ایک دائرہ یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی کے عالمی ماحول میں امت مسلمہ کو متعدد اہم فکری چیلنجز درپیش ہیں، جبکہ ملت اسلامیہ کو داخلی سطح پر بھی بہت سی فکری تحدیات کا سامنا ہے اور ہم اپنے قومی ماحول یعنی پاکستانی قوم کے اندرونی دائروں میں مختلف فکری چیلنجز سے نبرد آزما ہیں۔ مجھ سے پہلے ڈاکٹر محمد اکرم ورک صاحب نے اپنی گفتگو میں ’’گلوبل سوسائٹی‘‘ کی بات کر کے میری یہ مشکل آسان کر دی ہے اس لیے میں بھی اسی حوالہ سے چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ 
پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے متعدد فاضل مقررین نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ ہمیں ان فکری تحدیات کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت سے راہنمائی حاصل کرنا ہوگی، اس لیے کہ راہنمائی کے لیے ہمارا اصل علمی و فکری سرچشمہ وہی ہے اور اسی سے فیض حاصل کر کے ہم نہ صرف اپنے بلکہ نسل انسانی کے مسائل و مشکلات کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ 
جناب نبی اکرمؐکی سیرت و سنت کے بارے میں ایک پہلو کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں کہ (۱) حدیث (۲) سنت (۳) سیرت کے تینوں شعبوں کا سرچشمہ جناب رسول اللہؐکی ذات گرامی ہے۔ لیکن ان تینوں میں باہمی طور پر فرق موجود ہے جس کی وجہ سے محدثین کرام اور ائمہ عظام نے ان تینوں کے حوالہ سے علمی ذخیرہ الگ الگ عنوانات کے ساتھ جمع و مرتب کیا ہے۔ احادیث نبویہؐکا دائرہ الگ ہے، سنت و شریعت کا دائرہ مستقل ہے، اور سیرت و سوانح کا دائرہ ان دونوں سے مختلف ہے۔ ہماری علمی و فکری راہنمائی کا سرچشمہ یہ تینوں دائرے ہیں مگر میں اپنے اس طالب علمانہ تاثر اور احساس کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ مسائل و احکام کے استنباط اور استدلال میں حدیث اور سنت سے جس قدر استفادہ کیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے، سیرت کی طرف ہماری اس قدر توجہ نہیں ہے۔ ممکن ہے میرا یہ احساس درست نہ ہو، لیکن ایک طالب علم کے طور پر میں یہی محسوس کر رہا ہوں اور اس رائے کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ حدیث اور سنت کی طرح سیرت کو بھی ہمارے استنباط و استدلال کی مستقل بنیاد ہونا چاہیے۔ خصوصاً آج کی انسانی سوسائٹی کو درپیش مشکلات و مسائل کے حل کے لیے اس طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
میرا تاثر یہ ہے کہ جناب رسول اکرمؐنے جس طرح اپنے قول اور عمل کے ساتھ امت کی راہنمائی فرمائی ہے، اسی طرح خاموش حکمت عملی اور طرز و رویہ کے ساتھ بھی بہت سے مسائل حل کیے ہیں جو ہمارے لیے قیامت تک مشعل راہ ہیں۔ اس طرز عمل اور مسلسل رویہ کی تلاش سیرت کے علمی ذخیرہ میں زیادہ آسانی کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر میں دو باتوں کا ذکر کروں گا۔ 
ایک مثال یہ کہ جناب رسول اللہؐہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے ماحول میں یہ تبدیلی سب نے دیکھی کہ آنحضرتؐکی تشریف آوری کے بعد باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی جس کے سربراہ رسول اکرمؐخود تھے اور اس کے بعد دس سال تک آپؐنے ایک حاکم کے طور پر مدینہ منورہ میں زندگی گزاری۔ یہ مدینہ منورہ کے ماحول میں بہت بڑی تبدیلی تھی جس نے پورے جزیرالعرب کے مستقبل کا رخ ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا۔ لیکن اس دوران ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ قسم کا کوئی خطاب حدیث و تاریخ کے ذخیرے میں کہیں دکھائی نہیں دیتا، البتہ آنحضرت کی وہ خاموش ڈپلومیسی ضرور دکھائی دے گی جس کے نتیجے میں نہ صرف حکومت کا وجود قائم ہوا بلکہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے عنوان سے دستوری خاکہ بھی تشکیل پا گیا۔ 
دوسری قابل توجہ مثال یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں جناب رسول اکرمپر ایمان کا اظہار کرنے والوں میں منافقین کا وہ گروہ بھی شامل تھا جسے قرآن کریم نے وماھم بمؤمنین اور انھم لکاذبون کا خطاب دیا ہے۔ آپ کو اس گروہ کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم قرآن کریم میں ان الفاظ میں ہوا کہ جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم۔ مگر نبی اکرمنے پورے دس سال تک اس گروہ کے خلاف معروف معنوں میں کوکئی جہاد نہیں کیا، نہ عسکری کارروائی کی اور نہ ہی کوئی اجتماعی ایکشن لیا۔ البتہ حکمت عملی ایسی اختیار کی کہ وہ بتدریج سوسائٹی میں تحلیل ہوتے چلے گئے، حتیٰ کہ خلافت راشدہ کے دور میں اس قسم کے کسی گروہ کا مدینہ منورہ میں سراغ نہیں ملتا۔ 
جناب رسول اللہؐ کی یہ حکمت عملی اگر ظاہری نصوص میں تلاش کی جائے تو شاید استدلال و استنباط کے معروف دائروں میں نہ ملے، لیکن آپ کے مسلسل طرزِ عمل کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا ایک ایک مرحلہ ترتیب کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔ یہ دو باتیں میں نے بطور مثال پیش کی ہیں ورنہ اس پہلو سے سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سے امور ایسے ملیں گے جن کی بنیاد آنحضرتؐ کے کسی صریح ارشاد یا متعین عمل پر نہیں بلکہ مسلسل طرز عمل اور رویہ پر دکھائی دے گی۔ اس لیے میں یہ گزارش کر رہا ہوں کہ حدیث و سنت کی طرح سیرت کو بھی استنباط و استدلال کا مستقل ماخذ بنانے کی ضرورت ہے جو اصلاً تو حدیث و سنت کے دائرہ میں ہی شامل ہے، لیکن وہ امتیاز و فرق جس کی وجہ سے سیرت کو حدیث و سنت سے الگ کر کے علمی ذخیرہ میں مستقل طور پر پیش کیا گیا ہے، وہ استنباط و استدلال میں بھی نمایاں ہونا چاہیے۔ اور فقہ القرآن، فقہ الحدیث اور فقہ السنکی طرح ’’فقہ السیرۃ‘‘ کو بھی علمی حلقوں میں موضوع بحث بنایا جانا چاہیے۔ 
دوسری بات یہ عرض کروں گا کہ اس وقت انسانی سوسائٹی میں فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی جو کشمکش جاری ہے، وہ رفتہ رفتہ فیصلہ کن مراحل کی طرف بڑھ رہی ہے اور اگرچہ دیگر تہذیبیں اور فلسفے بھی اس کشمکش میں شریک نظر آتے ہیں، لیکن فائنل راؤنڈ اسلام اور مغربی تہذیب و فلسفہ کے درمیان ہی ہوگا۔ مغرب کا فلسفہ و تہذیب اس وقت غالب و قابض فلسفہ ہے جبکہ اسلامی فکر و فلسفہ نہ صرف مزاحمت کر رہا ہے بلکہ انسانی سوسائٹی کی قیادت حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان دونوں فلسفوں اور تہذیبوں کے درمیان اس بات پر کشمکش جاری ہے کہ مستقبل میں گلوبل انسانی سوسائٹی کی قیادت کون کرے گا؟ مغرب تو موجودہ کیفیت کو ’’اینڈ آف دی ہسٹری‘‘ قرار دے کر اپنے دائمی قبضے کا اعلان کر رہا ہے، لیکن اسلامی تہذیب و ثقافت نے دست برداری اور سپر اندازی قبول نہیں کی اور ابھی ان دونوں کے درمیان جنگ جاری ہے جس کا حتمی نتیجہ آخری راؤنڈ کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ مغرب کے پاس قبضہ اور قوت ہے جس کے باعث وہ خود کو فاتح سمجھ رہا ہے جبکہ مسلمانوں کے پاس دلیل اور حسین ماضی ہے جس کے سہارے وہ یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ 
ہمارا موضوع چونکہ فکری تحدیات ہیں، اس لیے دلیل کی دنیا میں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ مغرب کی دانش کو اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ وجدانیات، وحی اور آسمانی تعلیمات سے مکمل دستبرداری کے انسانی سوسائٹی پر منفی نتائج سامنے آئے ہیں، اس لیے اس پر نظر ثانی کی بہرحال ضرورت ہے۔ یہ بات سابق برطانوی وزیر اعظم جان میجر ’’بیک ٹو بیسکس‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ کہتے رہے ہیں، شہزادہ چارلس ’’وجدانیات کی طرف واپسی‘‘ کی ضرورت کا احساس دلاتے رہتے ہیں، جبکہ امریکی یونیورسٹیوں میں وحی اور عقل کے درمیان توازن کی تلاش تحقیقی سرگرمیوں کا اہم عنوان بن چکی ہے۔ میں سیاست اور طاقت کے میدان کی بات نہیں کر رہا کہ وہاں تو مغرب کی مکمل اجارہ داری ہے مگر دلیل کی دنیا میں مغربی دانش کی ایک سطح اپنے فکر و فلسفہ کی بنیادوں کا ازسرِنو جائزہ لے رہی ہے۔ اس سلسلہ میں ریورس گیئر لگ چکا ہے اور الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے جو ہمارے لیے ایک بہت بڑے علمی و فکری مشاہدہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ کیا ہم مغرب کو اس واپسی کے لیے ’’باعزت راستہ‘‘ دینے کے لیے تیار ہیں؟ ہمارا مزاج اور نفسیات کم و بیش اس طرح کی بن چکی ہیں کہ ناک کی لکیریں نکلوائے بغیر کسی کو واپسی کا راستہ دینا ہمارے لیے مشکل عمل ہوتا ہے۔ جبکہ میرے خیال میں اب اس کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے کہ ہم دلیل و دانش کی دنیا میں مغرب کو واپسی کا باعزت راستہ دینے کی فکر کریں، اس کی راہ نمائی کرتے ہوئے اس کے سامنے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو آج کی زبان اور مغرب کی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے پیش کریں، اور عقل اور وحی کے مابین توازن کے مکالمہ میں شریک ہو کر وحی کی ضرورت و برتری کو ثابت کریں۔ میری طالب علمانہ رائے میں اس وقت ہمارے جامعات اور دینی مدارس کو سب سے زیادہ اس بات کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ جس طرح مغرب نے ’’استشراق‘‘ کے نام سے اسلام اور مسلمانوں کا وسیع اور گہرا مطالعہ کیا ہے اور اسے ہمارے خلاف پوری مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے، اسی طرح ہم بھی مغرب کے فلسفہ و تہذیب اور معاشرت کا مطالعہ کریں اور تحقیق و تجزیہ کے ذریعہ اس کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسلامی احکام و قوانین کی برتری کو واضح کریں۔ یہ کام بہت محنت طلب ہے اور جگر کاوی کا عمل ہے کہ اس کے لیے دماغ کی اعلیٰ صلاحیتوں کے استعمال میں قلب و جگر کا خون بھی جلانا ہوگا۔ یہ سطحی اور جذباتی کام نہیں ہے لیکن اس کے بغیر اب بات آگے نہیں بڑھے گی، یہ کام بہرحال کرنا ہوگا اور جامعات کو دینی مدارس و مراکز کے ساتھ مل کر کرنا ہوگا۔ 
موجودہ عالمی ماحول میں فکری تحدیات کا تیسرا دائرہ میری طالب علمانہ رائے میں یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں حکومتوں کی نہیں بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی حکومت ہے۔ معاہدات نے پوری دنیا کو جکڑ رکھا ہے۔ میرے نزدیک صرف وہ پانچ ملک اس وقت آزاد ملک کہلانے کے مستحق ہیں جن کے پاس سلامتی کونسل میں ’’ویٹو پاور‘‘ ہے، ان کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک اس طرح کا آزاد اور خودمختار ملک نہیں ہے کہ وہ اپنی پالیسی اپنی اور اپنے عوام کی مرضی سے خود طے کر سکے۔ سب کے سب بین الاقوامی معاہدات کے اسیر اور پابند ہیں جن سے انحراف کی صورت میں وہی کچھ ہوتا ہے جو افغانستان اور عراق میں ہو چکا ہے۔ ان معاہدات کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے سیاسی طور پر حکومتوں کو جکڑ رکھا ہے اور ان کی خودمختاری کو قبضے میں لیا ہوا ہے۔ جبکہ اس کا دوسرا پہلو علمی، فکری اور تہذیبی ہے کہ یہ معاہدات مغربی تہذیب و فلسفہ کے علاوہ باقی سب کی نفی کر رہے ہیں اور ان کی زد میں سب سے زیادہ اسلام کے احکام و قوانین ہیں۔ قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو بین الاقوامی معاہدات کی چھلنیوں سے گزار کر ان کی نفی کی جا رہی ہے، استہزاء کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مسلمانوں پر ان سے دستبردار ہونے کے لیے ہر طرح کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ 
اس صورت حال کا علمی و فکری تقاضا یہ ہے کہ ان کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے، اسلامی عقیدہ و ثقافت کے ساتھ ان معاہدات کے ٹکراؤ اور تضادات کی نشاندہی کی جائے اور اسلام کا موقف واضح کیا جائے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سب معاہدات کو یکسر مسترد کر دیا جائے اور نہ ہی یہ کہ انہیں من و عن قبول کر لیا جائے۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہوں گی، اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی معاہدات اور اسلامی تعلیمات کا تقابلی جائزہ لے کر بتایا جائے کہ کون سی باتیں قابل قبول ہیں اور کون سی قابل قبول نہیں ہیں۔ کن باتوں پر کسی درجہ میں مفاہمت ہو سکتی ہے اور کون سے امور ہیں جنہیں کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالہ سے مغرب کو ایک متوازن موقف سے دوٹوک طور پر آگاہ کرنا ضروری ہے اور اس سلسلے میں امت مسلمہ کی راہنمائی ضروری ہے جو ہماری یونیورسٹیوں اور دینی مراکز کے کرنے کا کام ہے اور سنجیدہ علمی شخصیات کی نگرانی میں کرنے کا کام ہے۔ 
آخر میں گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کی اس علمی و فکری کاوش پر ایک بار پھر یونیورسٹی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو اسلام اور امت مسلمہ کی صحیح خدمت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ 

دینی مدارس کے فضلا کا یورپی ممالک کا مطالعاتی دورہ ۔ مختصر روداد اور تاثرات

مولانا محمد رفیق شنواری

جرمنی کی ایرفرٹ یونی ورسٹی کی طرف سے دینی مدارس کے طلبہ کے بعد وہاں کے ایک تحقیقی ادارے میکس پلانک فاؤنڈیشن (Max Foundation۔Planck ) کی دعوت پر دینی مدارس کے فضلا بھی یورپ کے دورہ سے ہو آئے ہیں۔ اس دورے کی مختصر روداد ، تاثرات اور اس کے انتظام و انصرام کے بارے چند گزارشات پیش کی جاتی ہیں۔ 

میکس پلانک فاؤنڈیشن کا تعارف اور دورے کا مقصد 

سب سے پہلے میکس پلانک سوسائٹی کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں جرمنی، بکھرنے کے بعد جب دوبارہ لڑکھڑاتے وجود کے ساتھ ابھرنے لگا تو مختلف شعبوں میں حکومت کو رہنمائی فراہم کرنے کی خاطر 1948ء میں اس ادارے کو قائم کیا گیااور اس سے پہلے 1911ء میں قائم ہونے والا ادارہ Kaiser Wilhelm Society بھی اس میں ضم کر دیا گیا۔ کارکردگی اور کام کے معیار کی بدولت میکس پلانک اس وقت ایک ادارے کی شکل میں ایک عمارت کے اندر محصور نہیں بلکہ جرمنی سے باہر دیگر یورپی ممالک اور امریکہ تک اس کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے اوراس وقت سو سے زائد ادارے اس سوسائٹی کے زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔ ان سب اداروں کو تین بنیادی شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے: میڈیکل سائنسز ، کیمسٹری و ٹیکنالوجی اور ہیومینیٹیز۔ پھر ہر کیٹگری میں مزید کئی ادارے کام کر رہے ہیں۔ یہ تمام ادارے انتظامی طور پر ایک دوسرے سے آزاد ہیں اور وسائل کی فراہمی میں اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے ہیں۔ لیکن ان سب کا معیار میکس پلانک سوسائٹی کی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے ان سب کی کڑی نگرانی ہوتی رہتی ہے۔ Kaiser Wilhelm Instituteکے تحت 1924ء میں Kaiser Wilhelm Institute for Comparative Public Law and International Law کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ 1948ء میں یہ ادارہ بھی میکس پلانک میں ضم ہو گیا جس کا نام MaxPlanck Institute for Comparative Public Law and International Law پڑ گیا جسے مختصر کر کے میکس پلانک فار انٹرنیشنل لا (MPIL)بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا دفتر ہائیڈل برگ یونی ورسٹی کے نیو کیمپس میں قائم ہے اور اور اس کے اجلاسات بھی اسی یونیورسٹی کے لا سکول میں ہی منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ میکس پلانک فار انٹرنیشنل پیس اینڈ رول آف لا (MPIL) کے کچھ لوگوں نے 2013ء میں ایک نیا ادارہ Max-Planck Foundation for International Peace and the Rule of Law (جس کی طرف آگے میکس پلانک فاؤنڈیشن کے الفاظ کے ساتھ اشارہ کیا جائے گا) قائم کیا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد کسی بھی ملک کے لیے دستورسازی یا آئین میں ترامیم و اصلاحات لانے یا کسی بھی مسئلے سے متعلق قانون سازی میں تعاون مہیا کرنا ہے۔ دینی مدارس کے لیے ورکشاپ اور جرمنی کے دورے کا انتظام اسی میکس پلانک فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔ 
ایک دور دراز اور خوش حال ملک کے ادارے کا پاکستان کے ستم زدہ اداروں کے تعلیم یافتگاں کے ساتھ مل بیٹھنے سے آخر کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت دہشت گردی بلا شبہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ دوسری طرف عالمی سطح پر اسلام، اسلامی تعلیمات ، روایات و اقدار کے مراکز یعنی دینی مدارس اور ان سے نکلنے والے علما و فضلا کے ساتھ اس مسئلے کو پیوستہ کرنے کی کوششیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وطن عزیز میں بھی بین الاقوامی دباؤ کے تحت ہر حکومت مدارس کے بارے میں کوئی نہ کوئی قدم اٹھاتی رہی ہے۔ اس تناظر میں مدارس اور مدارس کے فضلا ملکی و بین الاقوامی دونوں پہلوؤں سے چھان بین اور تحقیق کا موضوع بن گئے جس پر کافی حد تک لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ دیگر اداروں کی طرح اس ادارے نے بھی ایک مستقل پروجیکٹ کی شکل میں اس پر کام کا آغاز کیا۔ اس دورے کا مقصد بھی یہ بتایا گیا کہ مدارس میں تعلیم و تربیت پانے والے فضلا کے بارے میں میڈیا کے پراپیگنڈا اور دیگر تعصب اور دین دشمنی پر مبنی نام نہاد تحقیقی رپورٹس پر اندھے اعتماد کی بجائے براہ راست ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی سوچ، اندازِ فکر، اور ان کے ہاں صحیح اور غلط میں تمیز کے پیمانوں کو دیکھا جائے اور اسی طرح یہ کہ انھیں بین الاقوامی اداروں میں لے جا کر عالمی سطح کے سیاسی و قانونی فیصلوں میں کلیدی کردار ادا کرنے والے لوگوں اور وہاں کے طریقہ کار کا مشاہدہ کرایا جائے تاکہ دنیا کو ان کی حقیقی تصویر اور تعمیری کردار کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی اداروں اور مدارس کے درمیان ایک براہِ راست رابطہ پیدا ہونے سے ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع میسر ہوگا۔ 
ظاہر ہے، اتنا بڑا مقصد ایک ہی دورے سے حاصل کرنا اور محض بارہ افراد سے ہزاروں اداروں اور لاکھوں افراد کی سوچ اور ذہنی رویوں کے متعلق جاننا مشکل بلکہ ناممکن ہے؛ اسی لئے اس ادارے نے اس کام کو ایک سلسلہ وار پروجیکٹ کے طور پر انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ اس کا صرف پہلا حصہ تھا۔ اس ادارے کے لوگوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ مسلم معاشرے میں عام علما کی بہ نسبت مفتیانِ کرام کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور عوام اپنے ہر طرح کے مسائل میں انھی سے رہنمائی لیتے ہیں اور انھی کی بتلائی ہوئی باتوں (فتاویٰ) پر عمل کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس پروگرام کا اگلا حصہ سند یافتہ مفتیانِ کرام کے لیے ہوگا۔ 

پاکستان میں ورکشاپ

اس پروگرام کا آغاز بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارے شریعہ اکیڈمی کے تعاون سے ایک ورک شاپ کے انعقاد سے کیا گیا۔ ملک کے مختلف حصوں سے پانچوں مسالک کے مدارس سے تقریباً پچاس فضلا اس میں شریک ہوئے۔ تمام فضلا کے رہنے کا انتظام اسلام آباد کے ایک فور سٹار ہوٹل میں کیا گیااور کلاسز فیصل مسجد کے احاطے میں واقع شریعہ اکیڈمی میں ہوتی رہیں۔ 
یہاں ایک بات کی وضاحت مناسب ہوگی۔ وہ یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو بشمول ہمارے چند شرکا کے، اتنے مہنگے ہوٹلوں میں رہائش نیز بڑے پیمانے پر کیے جانے والے اخراجات سے اس ورک شاپ کے مقاصد اور اس ادارے کی نیت پر شک سا ہونے لگا کہ مدارس کے فضلا پر اس قدر اخراجات سے آخر ان کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ راقم کا ذاتی تاثر یہ ہے کہ اس شک کی وجہ شاید ترقی یافتہ یورپ کے ایک مضبوط اکانومی پر قائم ملک کے ادارے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے مدارس کے طرز معاشرت کے درمیان پایا جانے والا فیصلہ ہے۔ مدارس کا طرز زندگی کم وسائل پر قائم ہے، پاکستان کے عام شہری کے طرز زندگی سے بھی فروتر ہے۔ میرے خیال میں مالی وسائل سے مالامال ادارے کے لیے ایک بیرونی ملک میں ایک حساس مسئلے پر ورکشاپ پر اتنے اخراجات شاید ان کے نقطہ نظر سے معمول کی بات ہے۔
بہرحال پانچ ہفتوں پر مشتمل ورکشاپ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے دو حصوں میں تمام شرکا کو Public International Law اور Constitutional Law پڑھائے گئے۔ تدریس کی ذمہ داری اٹھانے والے ہر مضمون پر اتھارٹی سمجھے جانے والے قومی و بین الاقوامی سطح کے مشہور و معروف پروفیسرز نے اٹھائی ، جن میں سے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے نائب صدر اور شریعہ اکیڈمی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد منیر، پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے بین الاقوامی قانون اور فقہ السیر کے مضامین پڑھائے، پروفیسرڈ اکٹر عزیز الرحمن، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل جناب حامد خان اور پروفیسر ڈاکٹر محمد زبیر عباسی نے کانسٹی ٹیوشنل لا، کانسٹی ٹیوشنلزم، ان کے اسلامی تعلیمات سے تقابل اور پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ کے مطالعہ کی ذمہ داری اٹھائی۔ ان حضرات کے ساتھ میکس پلانک فاؤنڈیشن کی جانب سے تشریف لائے Dr. Mixmalion Sphor نے ہیومن رائٹس لا کا مضمون پڑھایا۔ دو ہفتے کا یہ دورانیہ یقیناًہمارے لئے خرد افروزی اور فکر کی تازہ کاری کا ایک بہترین موقع تھا جس سے سب شرکا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ 
تدریسی دورانیہ ختم ہونے کے بعد ایک ہفتہ کی چھٹی کی سہولت کے ساتھ آخری ہفتے میں ہر شریک کورس کوایک موضوع پردس سے بارہ صفحات پر مشتمل تحقیقی مضمون تیار کر کے پریزینٹیشن دینے کے لیے کہا گیا۔ ہر شریک کو پریزینٹیشن کے لیے پچیس منٹ کا وقت دیا گیا، دیگر تمام شرکا کی طرف سے سوالات جوابات کا سلسلہ بھی ہوا اور آخر میں پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمداورمیکس پلانک فاؤنڈیشن کے سربراہ Dr. Tillman Roder کی جانب سے اسے مزید بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی دی گئیں۔ 
اس کے بعد دو ہفتے کے وقفے کے ساتھ اپنے مضامین کو حتمی شکل دے کر بھیجنے کے لیے کہا گیا اور اس ادارے کے اسکالرز کی طرف سے تمام مضامین کا جائزہ لینے کے بعد جرمنی کے دورے کے لیے بارہ منتخب شرکاء کے ناموں کا اعلان کیا گیا۔ ان بارہ افراد کے اسمائے گرامی یہ ہیں :
۱۔ مفتی محمد تاج ، فاضل جامعہ دارلعلوم کراچی 
۲۔ مفتی احمد افنان ، فاضل جامعہ دارلعلوم کراچی
۳۔ مولانا محمد صادق کاکڑ، فاضل جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی
۴۔ مولانا محمدمعین الدین شاہ جمالی ، فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف سرگودھا
۵۔ مولانا محمد رفیق شنواری ، فاضل جامعہ امداد العلوم الاسلامیہ پشاور
۶۔ مولانا ذیشان حیدر ، فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور
۷۔ مولانا بہرام خان ، فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی
۸۔ مولانا عثمان اکبر ، فاضل جامعۃ الرشید کراچی
۹۔ مولانا محمد شہزاد، فاضل جامعہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ 
۱۰۔ مولانا ڈاکٹر نعیم الدین ، فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف سرگودھا
۱۱۔ مولانا عبدالحمید ، فاضل مرکز الدعوۃ السلفیۃ، فیصل آباد
۱۲۔ مولانا محمد یوسف، فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ،گجرات

جرمنی میں ورکشاپ 

ای میل کے ذریعے ہمیں پاسپورٹ لے کر جرمن ایمبیسی جانے، ویزا لے کر فلائیٹ کی تاریخ اور وہاں کی تمام مصروفیات کی ترتیب سے متعلق معلومات ملتی رہیں۔ ویزا لینے کے بعد کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے ٹرکش ایئر لائن کی چھبیس اکتوبر صبح چھ بجے والی فلائیٹ سے استنبول روانہ ہوئے۔ استنبول میں ہم سب ساتھی ایک ہی طیارے کے ذریعے جرمنی کے فرانکفرٹ شہر ظہرکے وقت پہنچے، اور وہاں سے بس کے ذریعے جرمنی کے دوسرے شہر ہائیڈل برگ روانہ ہوئے جہاں میکس پلانک فاونڈیشن ہے اور وہیں ہمارا قیام طے تھا۔ اگلے روز یعنی پیر کے دن سےAdam Walker کے ساتھ جو خود یونی ورسٹی آف ہالینڈ میں علوم الحدیث میں پی ایچ ڈی اسکالر تھے، ہماری ورکشاپ شروع ہوئی۔ Adam Walker کا تعلق برطانیہ سے ہے، ہائیڈل برگ یونی ورسٹی کے شعبہ قانون کے پی ایچ ڈی اسکالرز کے ساتھ فاؤنڈیشن کی عمارت میں فاؤنڈیشن ہی کی درخواست پر ریسرچ میتھڈالوجی کا مضمون پڑھاتے ہیں۔ عربی زبان پر عبور کے ساتھ ساتھ عربی الفاظ بھی خوب صورتی کے ساتھ ادا کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے حدیث المنزلہ پر تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ اب تک آغاز سے لے کر امام سیوطی تک اس حدیث کے ایک سو چوہتر طرق جمع کر چکے ہیں۔ خود ایک پاکستانی اسکالر جناب ڈاکٹر افتخار زمان کے کام کے بڑے مداح تھے، اور جہاں تک میں نے ان کے اور ڈاکٹر افتخار زمان کے کام کا جائزہ لیا تو ان کا انداز اور اسلوبِ تحقیق بھی جناب ڈاکٹر افتخار زمان سے مشابہ تھا۔ طبقات ، رجال، مصطلح الحدیث اور حدیث کی کتابوں پر ہونے والے کام پر گہری نظر رکھتے تھے۔ 
ہم ان کے ساتھ چائے اور کھانے کے وقفے میں بھی اکثر علمی موضوعات پر گفتگو کرتے تھے۔ ہمارے بعض ساتھیوں کی صلاحیت اور کتب شناسی سے کافی متاثر ہوئے۔ اپنی گفتگو میں بہ تکرار یہ کہتے رہے کہ آج تحقیق کی دنیا میں مغربی معیاراور اسلوب کو ہر جگہ اپنایا جاتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ چند موضوعات یا سائنسی علوم میں یہ درست ہو، لیکن کلی طور پر اور تمام علوم میں بے جا انفعالیت کے ساتھ اس کو تسلیم کرنا ہر گز درست نہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مغرب باقی دنیا کی مرعوبیت اوربے جا انفعالیت والی سوچ اور ذہنیت سے فائدہ اٹھا کر اسلامی علوم کو بھی دلیرانہ موضوعِ تحقیق بنا رہا ہے اور دنیا میں اسلام کی من مانی تعبیر پیش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں شاید مغرب میں کچھ مثبت اور صحیح معنوں میں تحقیقی کام بھی ہوئے ہیں۔ اس کی مثال میں جناب ڈاکٹرافتخار زمان کے کام کا حوالہ دیتے۔ مزید یہ بھی کہتے کہ جناب ڈاکٹرافتخار زمان کا مقالہ غیر مطبوعہ ہونے کے باوجود مغربی دنیا میں علوم الحدیث میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے پی ایچ ڈی کے مقالوں میں سے ہے، اور مسکرا کر کہتے کہ میرا نہیں خیال کہ ان کو اس بات کا پتہ بھی ہو۔ اسلامی علوم میں تحقیق کے مغربی اصول و اسلوب پر گفتگو کے دوران ہمیں اس بات کی ترغیب دیتے رہے کہ آپ لوگوں کو شریعت اور تمام اسلامی علوم کو براہِ راست مصادر سے سمجھنے پر قدرت حاصل ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاکر مغربی زبان و اسلوب میں ساری دنیا میں مانے جانے والے تحقیق کے اس فورم پر اپنا کردار ادا کریں۔ تحقیق کے اس مسلمہ فورم پر اسلامی علوم کے اعتبار سے نااہل لوگوں کے کام کو تنقید کا نشانہ بنا کر اور ہمیں آگے بڑھ کر اس فورم پر کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے انہوں نے دو روزہ ورکشاپ میں تحقیق و تنقید کے اصول و قواعد تفصیل سے پڑھائے اور اس کے بعد واشنگٹن لاء ریویو میں اسلام پر شائع شدہ دو تحقیقی مقالے ہمیں دیے اور کہا کہ تحقیق و تنقید کے اصولوں کی بنیاد پر آپ لوگ ان مقالوں کا تنقیدی نگاہ سے مطالعہ کریں اور یہ سامنے رکھتے ہوئے کہ تحقیق کی دنیا میں اس رسالے کا کیا مقام و مرتبہ ہے، دیکھیں کہ یہ مقالے کس حد تک اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ 
تین دن تک تحقیق و تنقید کے اصول و قواعد پڑھنے کے بعد ہمیں مغربی مصنفین کے دو تحقیقی مقالوں کا اجتماعی تنقیدی مطالعہ کرایا جن سے ایک تو ان قواعد کی تمرین ہوئی اور دوسرا تحقیق کی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے والے مغربی فورمز پر کچھ متعصب اور نا اہل لوگوں کا تسلط بھی دیکھا اور یہ احساس ہوا کہ مدارس کی چار دیواری سے باہر بھی تحقیق کی دنیا میں اسلام اور شریعت کو اصل مصادر و مراجع سے براہِ راست سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے علما کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد انھی اصولوں پر بعض شرکا کے تحقیقی مضامین کا جائزہ لیا گیا اور فرداً فرداً ہر ایک کو اس کے مضمون سے متعلق تجاویز دی گئیں۔ 

میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے مرکزی کتب خانے کا دورہ 

ورکشاپ کی صورت میں مقالہ جات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لینے کے بعدمیکس پلانک فار انٹرنیشنل پیس اینڈ رول آف لا (MPIL) کے مرکزی کتب خانے کے دورے کا پروگرام طے تھا۔ بدھ، یکم دسمبر کی یخ بستہ سہ پہر کو صاف ستھری سڑک پر بیس منٹ تک پیدل چل کر ہم ایک پر شکوہ عمارت میں داخل ہوئے۔ یہ دفاتر، ریڈنگ ہال اور بعض خفیہ و اہم دستاویز ات کے لیے مخصوص مکانات پر مشتمل میکس پلانک فار انٹرنیشنل پیس اینڈ رول آف لا کا مرکزی کتب خانہ تھا۔ پاکستانی علما کا سن کر اس لائبریری کے پرانے اور ریٹائرڈ لائبریرئن جوشم شوائتسکے ہمارے وفد کا استقبال کرنے اور کتب خانے کا وزٹ کرانے کے لیے ذاتی دلچسپی سے تشریف لائے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ سقوطِ برلن کے بعد جرمنی جب دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں تھا تو میکس پلانک فار انٹرنیشنل پیس اینڈ رول آف لا کو جرمنی کے سرکاری اداروں کو ملکی استحکام اور بین الاقوامی سطح کے معاملات طے کرنے نیز اس سب میں مذہب کا کردار متعین کرنے میں مدد مہیا کرنے کا فرض سونپا گیا تھا۔ اس لیے اس ادارے کو عالمی سطح کی کتابیں، مجلات اور خفیہ و تاریخی رپورٹیں جمع کرنے میں ریاستی وسائل فراہم تھے۔ ادارے کی اس ذمہ داری کو دیکھتے ہوئے اس کے کتب خانے کے لیے بنیادی طور پر چار طرح کی کتابیں اور معلومات اکٹھی کرنا اولین ترجیح ٹھہرا:
1. Public International Law
2. Constitutional Law
3. Theory of Law (Jurisprudence)
4. Religion
مذہب کی کتابیں جمع کرنے کا مقصد صرف دینیات اور مذاہب کی تعلیمات میں تحقیق نہیں تھا، بلکہ ہر مذہب کو اصل بنیادوں اور اس کی تعلیمات کی روح کے ساتھ سمجھ کر ان کے ریاست کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو متعین کرنے اور اس بارے میں اپنے عوام کے ساتھ اعتماد و اطمینان کا رشتہ قائم کرنے میں ریاستی اداروں کو سہولت فراہم کرنا تھا۔اسی طرح ملک کے داخلی نظام میں استحکام پیدا کرنے اور اپنی ترجیحات کے حصول کی خاطر قانون اور دستور سازی میں کوئی خاص اور موافق منہج ڈھونڈھنے اور اختیار کرنے کے لیے اصولِ قانون کی کتابیں بھی جمع کی گئیں تاکہ قانون سازی اور قانون کی تعبیر و تشریح کے لیے مختلف قانونی نظریات (Legal theories) کا مطالعہ و تحقیق بھی کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستوں کے ساتھ معاملات طے کرنے میں مدد فراہم کرنے کی خاطر بین الاقوامی قانون کی کتابیں بھی اکٹھی کی گئی۔ اسی سلسلے کی ایک انتہائی اہم اور تاریخی دستاویز 1648 کی پیس آف ویسٹ فالیہ بھی تھی جس کی بنیاد پر یورپی اقوام کی تقسیم ہوئی تھی اور نیشن اسٹیٹ کا تصور بھی اسی سے پھوٹا تھا۔ اس دستاویز کو تاریخی اور غیر معمولی اہمیت کے حامل ہونے کی وجہ سے انتہائی محفوظ جگہ پر رکھا گیا تھا۔ کتب خانے میں کافی پرانی کتابیں، رسائل اور خفیہ اور نایاب رپورٹیں انتہائی اہتمام کے ساتھ، دل فریب ترتیب اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنٹیفک انداز میں رکھی گئی تھی۔ میری ذاتی دلچسپی قانون سے تھی، اس لئے قانون سے متعلق کوئی شیلف سرسری طور پر ہی سہی، دیکھے بغیر آگے نہیں گزرا۔ بالخصوص امریکی جامعات کے مجلات ہارورڈ لاء ریویو، واشنگٹن لاء ریویو ، نیو یارک لاء ریویو وغیرہ اور عرب لاء کوارٹرلی کے علاوہ بھی کافی وقیع جرائد و مجلات کی پرانی فائلیں مکمل پڑی ہوئی نظر آئیں۔ یہیں پہلی بار ہم نے سلطنت عثمانیہ کا آئین قدیم اردو نما ترکی رسم الخط میں دیکھا۔ 
اس لائبریری میں مختلف خفیہ ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹس بھی موجود تھیں۔ ہمیں چائنیز ایجنسیوں کی کچھ رپورٹس بھی دکھائی گئیں۔ پی ایل ڈی اور دیگر کئی درجن پاکستانی مطبوعات دیکھ کر دل میں ایک خوشگوار حیرت کا احساس ناگزیر تھا۔ کتابوں کی کثرت کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ جگہ کو استعمال میں لانے کے لیے شیلفوں کو ایک بٹن دباکر آگے پیچھے دھکیلنے کا انتظام کیا گیا ہے اور صفائی کا عالم یہ ہے کہ ایسی شیلفیں جہاں میرے خیال میں شاید ہی کوئی جاتا ہو، وہاں ہاتھ پھیر کر بھی کہیں گرد محسوس نہیں کی گئی۔ سچ یہ ہے کہ یہاں کتاب دوستی کا عالم دیکھ کر بہت تعجب بھی ہوا اور اپنے یہاں کے حالات اور اس باب میں اپنی پستی پر افسوس بھی۔
میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے مرکزی کتب خانے کے دورے کے بعد ہم نے جمعرات اور جمعہ کے دو دن اپنے مقالات پر نظر ثانی اور مزید بہتر کرنے پر صرف کیے۔ اس دوران ہم نے انسٹی ٹیوٹ اور فاؤمڈیشن دونوں کے کتب خانوں سے استفادہ کیا۔ ٰاؤنڈیشن میں کتابوں کا ذخیرہ کم مگر عالمی طباعتی اداروں کی گراں قدر اور بیش قیمت نیز اعلیٰ معیار کی تحقیقی کتابوں پر محیط تھا۔ اسی طرح اس دورے کا پہلا ہفتہ جو ورکشاپ اور اپنے مقالات پر نظر ثانی اور مزید بہتر کرنے کے لیے مختص تھا، جمعے کو ختم ہوا۔ 
ہفتے اور اتوار کے دو دن ہمیں ذاتی طور پر سیر و تفریح یا کسی دوست عزیز سے ملنے کے لیے دیے گئے۔ اکثر دوست سیر تفریح کے لیے سوٹزرلینڈ چلے گئے۔ سوٹزرلینڈکی خوب صورتی واقعی بے مثال ہے۔ سرسبز پہاڑ ہیں اور بہتی نہریں جن کے کناروں پر صاف ستھری اور کشادہ سڑکوں کا جال بچھایا گیا ہے۔ پہاڑوں پر چڑھ کر برف پوش چوٹیوں، ان کے درمیاں اڑتے بادل کے ٹیلوں اور نیچے زمین کی ہریالی اور درختوں کا نظارہ کرنے کے لیے حکومت نے بجلی سے چلنے والی ریل کا نظام بنایا ہے جو سطح زمین سے اوپر پہاڑ پر چڑھتی ہے۔ نہروں اور ان میں آبشاروں سے گرتے پانیوں کے منظر سے محظوظ ہونے کے لیے کشتیاں چلائی گئی ہیں جن کو کسی بھی مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لیے تین سے چار منٹ میں پہنچنے والے ہیلی کاپٹرز سے جوڑا گیا ہے۔ سب سے اہم اور بنیادی چیز یہ کہ زائرین کے لیے امن کو یقینی بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ ملک ساری دنیا سے سیاحوں کا مرکز بن چکا ہے جو اس ملک کی آمدنی میں غیر معمولی اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اس حسین اور خوب صورت ملک میں انتہائی نظم و ضبط، صفائی ستھرائی کے غیر معمولی اہتمام اور اس کو حسین و محفوظ رکھنے کے لیے یہاں کے رہائشیوں میں احساس و شعور نے یقیناًاس کے قدرتی حسن کو زیادہ پر کشش اور قابل دید بنا دیا ہے۔ قدرتی حسن کی یہاں پاکستان میں بھی کمی نہیں اور نہ بھر پور طریقے سے محظوظ ہونے کے لیے انتظامات ناممکن ہیں، لیکن امن کے فقدان نے ساری دنیا کے سیاحوں کو اس ملک کے حسن سے لطف اندوز ہونے سے محروم کر دیا ہے۔ اگر امن کی نعمت اس ملک کے نصیب میں آ جائے تو یہ ملک بھی عالمی سیاحوں کا مرکز بن سکتا ہے۔ حکومتی انتظامات اور نظام کی بہتری تو کافی حد تک اس کی آمدنی میں اضافے کا سبب بھی بنیں گے۔ 
بہرحال دو دن سوٹزرلینڈ میں گذارنے کے بعد اتوار کو تقریباً رات دس بجے واپس جرمنی پہنچ گئے۔ 

فیڈرل کا نسٹی ٹیوشنل کورٹ آف جرمنی کا دورہ 

ہمارا دوسرا ہفتہ مختلف اداروں کے وزٹ کے لیے طے تھا۔ اس سلسلے میں پہلا دورہ جرمنی کے کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کا کیا گیا۔ کانسٹی ٹیوشنل کورٹ ہائیڈل برگ سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر کارلسرو شہر میں واقع ہے۔ چھ دسمبر بروزِ پیر صبح آٹھ بجے ریل کے ذریعے کارلسرو کے لیے روانہ ہوئے۔ ہماری ملاقات کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کے جسٹس ڈاکٹر میڈاؤسکی کے ساتھ طے تھی۔ فاضل جسٹس انتہائی خوش مزاج اور متواضع انسان تھے۔ ہماری آمد کی اطلاع ملتے ہی خود استقبال کے لیے آئے اور جب اپنا تعارف کروایا تو ہم سب اعلیٰ عدلیہ کے ایک جسٹس کے یوں استقبالیہ پر آنے پر ایک دوسرے کوتعجب سے دیکھنے لگے۔ استقبالیہ سے جسٹس صاحب خود ہی ہمیں عدالت کا وزٹ کرانے لے گئے، بالخصوص کورٹ روم جہاں کیسز کی سماعت اور فیصلے ہوتے ہیں۔ کورٹ کی ساری عمارت شیشے کی بنی ہوئی ہے جس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ چونکہ ہماری ساری کارروائی پبلک ہوتی ہے، اس لیے کسی کا بھی حق ہے کہ جب چاہے ہماری کارروائی دیکھ سکتا ہے جس کے لیے کورٹ کے اندر جانے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ شیشے کی دیوار سے بھی دیکھ سکتا ہے۔ کر انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ پچھلے مہینے رات دس بجے میں اپنے چیمبر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ ایک بندہ سامنے سڑک پر گزرا۔ وہ شراب کے نشے میں تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے زوردار آواز میں کہا کہ Thank you for working for me this hour ( اتنی دیر تک ہماری خدمت کرنے کے لیے آپ کا شکریہ )۔ 
اس کے بعد ہمیں ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں فاضل جسٹس نے جرمنی کے عدالتی نظام، اسٹرکچر اور Hierarchy (عدالتوں کے مراتب) کے بارے میں بریفنگ دی۔ عدلیہ کی آزادی کا بار بار فخر کے ساتھ ذکر کرتے رہے۔ جرمنی سول لاء کے نظام پر قائم ملک ہے، اس لئے وہاں کا عدالتی نظام پاکستان اور کامن لا نظام پر قائم ملکوں سے مختلف ہے۔ جرمنی میں عدلیہ Inquisitorial system پر قائم ہے جہاں عدالت خود بھی کسی کیس کے حقائق تک پہنچنے میں شامل ہوتی ہے جب کہ کامن لا کے نظام پر قائم ملکوں میں Adversarial System پر عمل ہوتا ہے جہاں عدلیہ کی حیثیت فریقین کے درمیان ایک غیر جانب دار منصف کی ہوتی ہے اور وہ خود کیس کے حقائق معلوم کرنے میں مشغول نہیں ہوتی۔ جسٹس صاحب نے ہم سے بھی کافی سوالات پوچھے۔ فتویٰ کے بارے میں انہوں نے تفصیلی بریفنگ لی۔ بالخصوص بہ تکرار یہ پوچھتے رہے کہ پاکستان کے اندر ملکی قانونی نظام کے ساتھ ساتھ علما کا فتوے کا نظام یکساں کیسے چلتا ہے؟ نیز ان فتاویٰ پر عمل درآمد کروانے کا کیا نظام ہے؟ ہمارے کچھ شرکا نے جو شعبہ افتا سے منسلک ہیں، اس سوال کا تفصیلی جواب دیا کہ افتاء اور قضاء میں کئی اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے۔ عدالتی فیصلے تو دو یا زیادہ فریقوں میں کوئی تنازع ہو تو دیے جاتے ہیں جبکہ فتویٰ عقائد وعبادات میں بھی دیا جاتا ہے جہاں دو فریقین کے درمیان نزاع نہ ہو بلکہ معاملہ خالص ذاتی نوعیت کا ہو اور کسی کو رہنمائی درکار ہو۔ دوسرا یہ کہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے ریاستی طاقت ہوتی ہے جبکہ فتوے کی حیثیت کوئی شرعی حکم جاننے میں مدد لینے کی حد تک ہے، اس پر زبردستی عمل نہیں کروایا جاتا۔ اس کے ساتھ انھیں شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ سے بھی آگاہ کیا گیا۔ 
دورانِ گفتگو ہمارے بعض ساتھیوں کی قرآن و سنت کی نصوص کی تلاوت سے کافی متاثر دکھائی دینے لگے۔ پشتو ، پنجابی یا کسی بھی مادری زبان کے علاوہ اردو کے ساتھ عربی اور انگریزی پر عبور کو بھی انہوں نے کافی سراہا۔ فاضل جج کے ساتھ ہماری ملاقات کا طے شدہ دورانیہ صرف ایک گھنٹہ تھا لیکن انھوں نے ہمیں ڈھائی سے تین گھنٹے تک وقت دیا۔ دورانِ گفتگو پر تکلف چائے کے ساتھ ہماری ضیافت بھی ہوتی رہی۔ تین گھنٹے پر محیط یہ محفل تقریباً ساڑھے بارہ بجے اختتام کو پہنچی اور ہم واپس ہائیڈل برگ کے لیے روانہ ہوئے۔ 

یورپی عدالت برائے انسانی حقوق اورکاؤنسل آف یورپ کا دورہ

اگلے دن یعنی سات دسمبر بروزِ منگل ہم نے فرانس کے لیے رخت سفر باندھا جہاں یورپ کے دو بڑے اداروں کا دورہ طے تھا۔ یہ دونوں ادارے فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں واقع ہیں۔ سات دسمبر کی صبح ہائیڈل برگ سے جرمنی کے ایک دوسرے شہر کالسرو تک اور وہاں سے ایک تیز ترین ٹرین کے ذریعے ریاستی حدود کو محسوس کیے بغیر فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں داخل ہوئے۔ یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس کی ایک جسٹس صاحبہ نے، جن کا تعلق جرمنی سے تھا، اس عدالت کی تاریخ، ساخت اور دائرہ اختیار کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ شامی مہاجرین کے بارے میں اس عدالت کے کردار کو خاص طور پر وضاحت کے ساتھ اجاگر کیا اور فخر سے کہا کہ ہم نے تمام یورپی ریاستوں کوشامی مہاجرین کو اپنے ملک واپس بھیجنے سے منع کیا ہے۔ اس کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوئی جس میں زیادہ تر موضوع گفتگو سزائے موت کا خاتمہ ، مرد و عورت کی کلی مساوات اور اسکارف کے مسائل رہے۔ اسلوب بیان اور تعبیر پر قدرت کے علاوہ جج صاحبہ اپنی گفتگو کے دوران اس عدالت کے مختلف کیسز کا حوالہ دیتی رہیں جس سے قانونی نظائر (Precedents) کے ساتھ ان کے تعامل کا اندازہ ہوتا رہا۔ یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس میں ایک فریق لازماً کوئی یورپی ریاست ہوتی ہے جب کہ دوسرا فریق کوئی شکایت کنندہ ہوتا ہے جو اپنی کسی حق تلفی کی تلافی کے لیے اس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ یہ عدالت بنیادی طور پر یورپین کنونشن آن ہیومن رائٹس، اور خصوصی حالات میں دوسرے بین الاقوامی معاہدات کی روشنی میں فیصلے کرتی ہے۔ عدالت کا فیصلہ آخری اور حتمی ہوتا ہے اور اس کے پچانوے فیصد فیصلوں پر عمل در آمد بھی ہوتا ہے۔ تاہم بعض حالات میں کوئی ریاست فیصلے کو ماننے سے انکار بھی کر دیتی ہے۔ 
اس عدالت میں کاؤنسل آف یورپ کی ممبر یورپی ریاستوں سے ایک ایک جج آتا ہے جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے نامزد کردہ تین ججز میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جاتا ہے جو نو سال کے ناقابل تجدید عرصے کے لیے یہاں پر کام کرتا ہے۔ اس وقت، فی ریاست ایک جج کے حساب سے، کل ۴۷ ججز یہاں کام کر رہے ہیں۔ عدالت میں دو چیمبر ہوتے ہیں۔ نچلے درجے کے چیمبر میں ۷ جج ہوتے ہیں اور اگر یہاں کے فیصلے پر مزید غور کی ضرورت ہو یا اس کے خلاف اپیل کی جائے تو ۱۷ ججز کا دوسرا بینچ بیٹھتا ہے جس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور اس کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہوتا۔ عجیب بات یہ تھی کہ یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس کو جج صاحبہ ایک معجزے سے تعبیر فرما رہی تھیں اور بجا طور پر یہ ۱۹۵۰ کی دہائی کے حساب سے ایک سیاسی معجزہ ہی تھا۔ تاہم یورپینز میں سے ہی کچھ لوگوں کو اس عدالت سے شکایت ہے۔ عین عدالت کے دروازے پر ایک برطانوی شہری پتہ نہیں کتنے عرصے سے احتجاج میں لگا ہوا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ یہ عدالت انصاف فراہم نہیں کر رہی۔ یہ عدالت ہٹلر کی وجہ سے بنائی گئی تھی، لیکن یہاں سے بھی ظلم ہی تقسیم ہوتا ہے۔کمال کی بات یہ تھی کہ اس برطانوی شخص کے حق احتجاج کا احترام کیا جا رہا تھا اور اس کو عدالت کے دروازے پر شور مچانے اور تماشا لگانے سے روکنے کے لیے کوئی پولیس والا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ بھی عدالت کے دروازے کے سامنے دیواروں پر احتجاجی پوسٹرز آویزاں تھے۔ 
ریسٹورنٹ سے لنچ کے بعد ہمیں کاؤنسل آف یورپ میں لے جایا گیا۔ کاؤنسل ہی کے استقبالیے میں ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی۔ کاؤنسل آف یورپ ۴۷ممالک پر مشتمل، ۲۷ریاستوں پر محیط یورپین یونین سے الگ ایک ادارہ ہے۔ اس ادارے کی تاریخ ، فرائض اور قیام کے مقاصد کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد یورپ کے خونریز اور سیاہ دور سے نکلنے کے بعد تمام ممبر ریاستوں کو آئین سازی، جمہوریت کے استحکام ، انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں تعاون فراہم کرنا تھا اور ہے۔ کوئی بھی ریاست سزائے موت کے قانون کے ساتھ اس یونین کی ممبر نہیں بن سکتی۔ اس کاؤنسل کی عمارت کے مختلف حصوں کا دورہ کروایا گیا بالخصوص ڈیبیٹ روم جو کہ ایک فرانیسیی آرکیٹیکٹ کا ڈیزائن کردہ ایک خوب صورت اور وسیع ہال ہے۔ حال بین الاقوامی سیاست اور قانون کے منظرنامے پریہ دو نمایاں ادارے تھے جن کا وزٹ یقیناًہمارے سیاست و قانون کے فہم میں اضافے کا سبب بنا۔ ان دو اداروں کے دورے سے تقریباً عصر کے وقت فارغ ہونے کے بعد ہم جرمنی کے لیے واپس روانہ ہوئے۔ 

نیدر لینڈز میں بین الاقوامی اداروں، STL ، ICTYاور ICJ کا دورہ

جرمنی کے ملکی اور یوروپی اداروں کے ساتھ ساتھ چند بین الاقوامی اداروں کا دورہ بھی ہمارے پروگرام میں شامل تھا۔ جن اداروں میں ہم نے جانا تھا، وہ سب نیدرلینڈز کے ایک خوب صورت شہر ہیگ میں واقع ہیں۔ ہم آٹھ دسمبر بروزِ بدھ، صبح فجر پڑھتے ہی بس کے ذریعے ہیگ کے سفر پر نکلے۔ جرمنی کی ہائی وے پر بس تیز رفتاری کے ساتھ دوڑ رہی تھی اور فرانس اورجرمنی کی طرح ہمیں یہاں بھی دو مختلف ملکوں کی سرحدوں کا پتہ نہیں چلا۔ میکس پلانک فاؤنڈیشن کے نمائندے نے ہمیں نیدرلینڈز کے حدود میں داخل ہونے کی خبر دی۔ ابھی ہم نیدرلینڈز کی خوبصورت شاہراہوں کا دوڑتی بس سے نظارہ کر رہے تھے کہ ایک ساتھی کو واٹس ایپ پر پیغام موصول ہوا کہ پاکستان میں پی آئی اے کا طیارہ تباہ ہوا ہے جس میں دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ جنید جمشید بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ شہید ہو گئے ہیں۔ دیارِ غیر میں وطن عزیز سے یہ جان گسل اطلاع ملتے ہی سب ساتھیوں پر رنج و الم کی کیفیت چھا گئی اور فوراً حدیث نبوی اکثروا ذکر ھاذم اللذات(کہ لطف ختم کرنے والی شے یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو) یاد آ گئی۔ اللہ پاک تمام شہداء کی کامل مغفرت فرمائے۔ اس قوم کو ہر طرح کی آفات و مصائب سے آزمائش اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔ 

خصوصی ٹربیونل برائے لبنان (STL) کا دورہ 

چھ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد ہم دکھی دلوں کے ساتھ ظہر کو ہیگ پہنچے جہاں سب سے پہلے Special Tribunal for Lebanon (STL) خصوصی ٹریبونل برائے لبنان کا دورہ طے تھا۔ ٹریبونل کے استقبالیے پر مامور سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی گارڈ سے ملاقات ہوئی۔ ان سے تعارف اور کچھ دیر تک باتیں کرنے کے بعد ایک خاتون ہمیں لینے کے لیے آئیں۔ وہ ہمیں اوپر ایک اال میں لے گئیں اور ایک دوسری خاتون نے اس عدالت کے قیام، طریقہ کار اور اب تک ہونے والے کام کے بارے میں بریفنگ دی۔ ۱۴ فروری جسے دنیا بھر میں عید محبت کی حیثیت سے منایا جاتا ہے، 2005 میں یہ دن لبنان کی سیاسی تاریخ کو ایک نیا موڑ دے گیا جب بیروت میں ایک کار بم دھماکے میں اس وقت کے وزیر اعظم رفیق الحریری اور ان کے علاوہ بائیس لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ دہشت گردی کی اس واردات کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ نے لبنان کی درخواست اور امریکہ و فرانس کے اصرار پرتیس مئی 2007 کو ہالینڈ کے شہر ہیگ میں باقاعدہ ٹربیونل قائم کیا جس کو 10جنوری 2007میں مؤثر قرار دینے کے بعدخصوصی طور پر اس واردات کی تحقیقات سونپی گئیں اور ٹربیونل کو ’سپیشل ٹربیونل فار لبنان‘کا نام دیا گیا۔ اس ٹربیونل کے مرکزی دفتر کے علاوہ بیروت میں ایک ذیلی دفتر بھی واقع ہے۔ ٹربیونل کے ججز میں لبنان کے ججز کے علاوہ بین الاقوامی ججز بھی شامل ہیں جن کا انتخاب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تین سال کے دورانیے کے لیے کرتا ہے۔ 
اس ٹربیونل کی خاص بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کسی دہشت گردی کی عدالتی تحقیقات کرنے والا یہ واحد ٹربیونل ہے۔ ابتدائی طور پر یہ ٹربیونل تین سال کے عرصے کے لیے قائم کیا گیا تھا تاہم جب تک اس کا کام ختم نہ ہو، یہ اگلے کئی سال تک کام کرتا رہے گا۔اس خاتون کی عمومی اور تعارفی بریفنگ کے بعد جانبین کے وکلاء نے فریفنگ دی اور اپنے شواہد و دلائل کا خلاصہ پیش کیا۔ ان تینوں تفصیلی بریفنگز اور سوال و جواب کی نشستوں کے بعد یہی تاثر قائم ہوا کہ یہ اقوامِ متحدہ کا قائم کردہ سہی مگر ایک کمزور و ناتواں ادارہ ہے۔ اکثر کوئی مشکل سوال پوچھے جانے پر یہی جواب ملتا کہ اس ادارے کا قیام اقوامِ متحدہ کا ایک سیاسی فیصلہ ہے اور ہم اس ادارے کے قائم ہونے کے بعد اس کے قانونی امور کو دیکھنے پر مامور ہیں۔ اس ٹریبونل کو ICTY جس کا ذکر آگے آرہا ہے ، کے ایک جج نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس کا قیام محض امریکہ اور فرانس کی خواہش ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کے لیے سب سے زیادہ فنڈنگ بھی یہی دو ملک کر رہے ہیں۔ اس ادارے کے دورے سے فراغت کے بعدیاس و نا امیدی کے ساتھ ڈھلتی شام کو تھکے ہارے ہم نے ہوٹل کا رخ کیا اور اس طرح ہمارا آج کا یہ دن آدھا سفر اور آدھا اس ادارے کی نذر ہوگیا۔ 

انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل فار دی فارمر یوگوسلاویہ (ICTY) کا دورہ

یوگوسلاویہ کی نوے کی دہائی انسانی بحران، نسل کشی اور جنگی جرائم کا استعارہ ہے۔ 1991سے 1999 تک سابقہ یوگوسلاویہ میں لاکھوں انسان خانہ جنگی میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں ایک بڑی تعداد بوسنیا کے مسلمانوں کی بھی تھی جو سربیا کے درندوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے تھے۔ ان جنگی جرائم میں ملوث افراد کو International Criminal Law (یاد رہے کہ اس شعبہ قانون کے وضع کرنے والوں میں تین سو سے زائد تحقیقی کتب و مقالات کے مصنف مسلمان مصری نژاد امریکی پروفیسر محمود شریف بسیونی بھی شامل ہیں) کے اصولوں کے تحت مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور ان کو سزا دینے کے لیے اقوام متحدہ نے ایک ٹربیونل قائم کیا تھا جس کو International Criminal Tribunal for The Former Yugoslavia یا مختصر طور پر ICTY کہا جاتا ہے۔ اس سانحے کو سمجھنے کے لیے اس ٹربیونل کی بعض کار روائیوں ، تحقیقاتی رپورٹوں کے بعض حصوں ، متاثرہ افراد اور خاندانوں کے بیانات اور صحافیوں کے تبصروں پر مشتمل ایک لمبی ڈاکومنٹری دکھائی گئی۔ اس کے بعد اس ٹربیونل کے کردار اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایک فاضل جج نے پریزینٹیشن دی۔ خصوصی ٹربیونل برائے لبنان کی بہ نسبت یہ ٹربیونل بہت کچھ کر چکا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں عرب ممالک میں ہونے والے جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ذکر آیا تو موصوف جج نے مسکراہٹ کے ساتھ عرب لیگ کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھیں بھی ایک ایسی عدالت قائم کرنی چاہیے، لیکن بدقسمتی سے عرب مما لک ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔اس خانہ جنگی میں ملوث ہزاروں افراد پر مختلف عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے تھے تاہم ان میں سے با اثر 161 افراد پر مقدمہ آئی سی ٹی وائی میں چلایا گیا۔ ان افراد میں اس دور کا وزیر اعظم بھی شامل ہے۔ یہ ٹربیونل زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا دے سکتی ہے اور اب تک کچھ افراد کو عمر قید کی سزا دی بھی جا چکی ہے۔ یہاں سے سنائی گئی سزا پر عمل در آمد مختلف ممالک میں کیا جاتا ہے۔اس ٹربیونل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر کسی قسم کے استثنا کا کوئی تصور نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس عدالت سے نامزد کوئی بھی ملزم اپنی کسی بھی حیثیت کی بنیاد پر ماورائے قانون نہیں۔ 
عدالت کا دائرہ اختیار چار قسم کے جرائم تک محدود ہے جن کا 1991 سے 1999 تک ارتکاب کیا گیا ہو۔ یہ جرائم نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی قوانین کی خلاف ورزی اور جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ عدالت کے اعداد و شمار کے مطابق 38 افراد کو سزا دی جا چکی ہے جن پر عمل در آمد 41 مختلف ممالک میں ہو رہا ہے۔ 31افراد کا کیس مختلف عدالتوں کی طرف بھیجا جا چکا ہے۔ 19 افراد کو بری کر دیا گیا ہے۔ 37 افراد کا کیس کسی وجہ سے درمیان میں ہی ختم کر دیا گیا تھا۔ ایک کیس چل رہا ہے جبکہ 6 افراد نے اپنی سزا کے خلاف اپیل کی۔ اس تمام کارروائی میں عدالت نے چار ہزار سے زیادہ افراد کی گواہیاں قلم بند کی ہیں، دس ہزار سے زیادہ دن عدالت کی کارروائی چلی ہے اور پچیس لاکھ سے زیادہ صفحات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کارروائی کے لیے خصوصی کمرہ بنایا گیا ہے جہاں مختلف نوعیت کی گواہیاں لینے اور ملزموں کے بیانات قلمبند کرانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک خوب صورت نظام بنایا گیا ہے۔ اس کے تعارف کے لیے بھی ایک تفصیلی پریزینٹیشن دی گئی۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کا دورہ

پچھلی صدی کے نصف آخر میں بین الاقوامی فوجداری قوانین میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ انہی میں سے ایک بین الاقوامی فوجداری عدالت International Criminal Court یا آئی سی سی کا قیام بھی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ایسی کسی عدالت کے قیام کی تجویز دینے والوں میں ایک نمایاں نام عالم اسلام کا ایک نہایت مؤقر نام محمود شریف بسیونی کا بھی ہے جن کے ذکر کے بغیر بین الاقوامی فوجداری قانون کبھی مکمل نہیں ہوگا ۔ کافی کوششوں اور مذاکرات کے بعد 1998 میں اٹلی کے شہر روم میں ایک معاہدہ طے پایا جس کو روم سٹیٹیوٹ کہا جاتا ہے۔ 2002 میں روم سٹیٹیوٹ کے موثر ہوتے ہی آئی سی سی کا وجود عمل میں آ گیا جو بین الاقوامی فوجداری قانون کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ یہ عدالت صرف ان ممالک تک دائرہ اختیار رکھتی ہے جو روم سٹیٹیوٹ کے فریق ہیں۔ عالمی سطح پر بڑی طاقتیں مثلاً روس، امریکا اور چین اور عالم اسلام کے اہم ملک پاکستان نے اب تک اس بین الاقوامی معاہدے کو تسلیم نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے اس عدالت کی تاثیر میں کافی کمزوری محسوس ہو رہی ہے کیونکہ عالمی سطح پر جنگی جرائم کے مرتکبین اس عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ فی الوقت اس عدالت میں جن ۳۹ افراد پر مقدمات چل رہے ہیں، وہ سب افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ افریقہ سے ہی تعلق رکھنے والے ممالک جنوبی افریقہ، برونڈی اور گھیمبیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب اس عدالت کے فریق نہیں رہے۔ اسی طرح بین الاقوامی قانون کی وسعت پذیری کے ساتھ بین الاقوامی عدالت سکڑتی اور کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اس عدالت کی کمزوری کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس عدالت میں کیس لے جانے کے اخراجات کافی زیادہ ہیں، اس لیے اکثر ممالک اس میں کیس لے جانے کو دولت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ یہ عدالت بنیادی طور پر جنگی جرائم، نسل کشی اور جارحیت جیسے جرائم پر مقدمات چلانے کا اختیار رکھتی ہے اور بالعموم ان افراد پر مقدمہ چلاتی ہے جن پر مقامی عدالتوں میں مقدمات نہ چلائے جاتے یا نہ چلائے جا سکتے ہوں۔گو کہ فی الوقت آئی سی سی کافی کمزور عدالت ہے، لیکن بین الاقوامی فوجداری قانون، جو تیزی سے قوت پکڑتا جا رہا ہے، کے مضبوط ہونے پر آہستہ آہستہ مزید مؤثر ہوتی رہے گی۔ 
انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ICJ اور اس عدالت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ICJ اقوامِ متحدہ کے چھ بنیادی اداروں میں سے ایک ہے جب کہ ICC اقوامِ متحدہ کا ادارہ نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی معاہدے کی بنیاد پر وجود میں آیاتھا اور اس کا اختیارِ سماعت صرف ممبر ممالک تک محدود ہے۔ ICC کے اقوامِ متحدہ سے آزاد ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ویٹو پاورز کو ایسی عدالت پر تحفظات تھے۔ یہی وجہ ہے کہ روس ، امریکا اور چین نے روم سٹیٹیوٹ (جس کی بنیاد پر یہ عدالت وجود میں آئی ہے ) کی توثیق نہیں کی ہے۔ 
اس ادارے کے دورے سے فراغت کے ساتھ ہی ہمارا یہ یورپ کا دورہ بھی اختتام کو پہنچا اور ہم جمعرات کے دن ظہر کے بعد ہیگ کو الوداع کہتے ہوئے جرمنی کے لیے روانہ ہوئے۔ تقریباً رات گیارہ بجے ہائیڈل برگ پہنچے۔ جمعہ کا دن آرام اور پاکستان واپسی کے لیے تیاری میں گزرا۔ فرانکفرٹ سے تین بجے والی فلائیٹ سے عشاء کو استنبول پہنچے۔ استنبول میں ٹرکش ائیرلائن کی اسلام آباد جانے والی فلائیٹ موسم کی خرابی کی وجہ سے کینسل ہو گئی تھی۔ اس طرح ای ویزا لے کر استنبول شہر دیکھنے کا بھی موقع مل گیا۔ میری ذاتی طور پر زیادہ دلچسپی نیلی مسجد اور سلاطینِ ترک کے آثار دیکھنے میں تھی، اس لیے صبح ناشتے کے بعد نیلی مسجد پہنچا اور وہاں نزدیک ہی واقع سلاطین ترک کا قبرستان دیکھنے چلا گیا۔ قبرستان کی پرانی اور خاموش عمارتوں کے نیچے چشم تخیل سے ان بادشاہوں اور ان کے درباروں میں لوگوں اور غلاموں کی آمد و رفت کے ہجوم کا نظارہ کرنے اور ہر شے کے زوال اور فنا کے قانون پر کچھ دیر غور و فکر کرنے کے بعد ائیرپورٹ کے لیے روانہ ہوا۔ رات بارہ بجے کی فلائیٹ سے ہم اتوار کی صبح کو بخیر و عافیت جب اسلام آباد پہنچے تو بارہ ربیع الاول کو اپنا منتظر پایا۔ 
پاکستان میں ورکشاپ سے لے کر واپسی تک بارہا یہ خیال آتا رہا کہ میکس پلانک فاؤنڈیشن کے اس پروگرام کی طرح یورپ اور امریکا کے دیگر اداروں کو بھی مدارس کے فضلا کے ساتھ مل بیٹھنے اور اپنے ملکوں میں بلا کر تبادلہ خیال کے مواقع پیدا کرنے چاہییں۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ ایسے پروگراموں میں عموماً مدارس کے ایسے تعلیم یافتگان کو شرکت کا موقع ملتا ہے جو مدارس سے پڑھے ہوئے تو ہیں، لیکن فراغت کے بعد عملی زندگی میں ان کا مدارس کے ماحول سے کوئی تعلق نہیں رہ جاتا۔ جبکہ فکر و نظر کے اعتبار سے مکمل طور پر مدارس کے سانچے میں ڈھلے ہوئے فضلا یا مدارس کے نوجوان مدرسین انگریزی زبان پر قدرت نہ ہونے یا ایسے پروگرامات کی سرے سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں شرکت نہیں کر پاتے۔ ظاہر ہے، ایسی صورت میں جہاں ایک طرف مدارس کی نمائندگی نہیں ہو پاتی، وہاں ان اداروں کا مقصد بھی پورا نہیں ہوتا جو دراصل مدارس کے لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں ایسے پروگراموں میں مدارس کے فضلاء کو انفرادی طور پر شرکت کرنے کے بجائے اداروں کی سطح پر شرکت کا وقع دیا جائے اور ہر مدرسہ مشاورت سے نسبتاً زیادہ فائق اور باصلاحیت افراد کو ایسے پروگراموں میں بھیجے، نیز ہر مرحلے پر اساتذہ سے رہنمائی لی جاتی رہے تو اس سے نہ صرف مدرسے کی حقیقی تصویر دنیا تک جائے گی، بلکہ ان اداروں کا اصل مقصد بھی پورا ہوگا۔

دینی مدارس اور عصری رجحانات

غازی عبد الرحمن قاسمی

بر صغیر پاک وہند میں دینی مدارس کی بے مثال خدمات ہیں ۔اور ایسے مدارس کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے بے سروسامانی کی حالت میں دین متین کی تبلیغ واشاعت میں اہم کردار ادا کیا اور ان اداروں سے ایسی نامور علمی شخصیات تیار ہوئیں جن کی دینی روایات اور اسلامی اقدار کے لیے مساعی جمیلہ قابل ستائش اور وجد آفرین ہیں ۔ دور جدید میں نئے مسائل اور عصری تقاضے ہیں جن کی رعایت رکھتے ہوئے اگر دینی مدارس میں علوم اسلامیہ کی تعلیم وتدریس ہو توا س عظیم الشان کا م کو مزید بہتر انداز میں کیا جاسکتاہے ۔زیر نظر مقالہ میں بالعموم پاکستان کے دینی مدارس اور بالخصوص وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ملحقہ دینی مدارس کو جن عصری تقاضوں کا سامناہے ان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

پاکستانی مدارس کا پس منظر

پاکستان میں اس وقت علوم اسلامیہ کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں ہزاروں چھوٹے وبڑے مدارس اپنی اپنی بساط کے مطابق کام کررہے ہیں ۔جن کا تعلق مختلف مکاتب فکر سے ہے چنانچہ اس سلسلہ میں علماء دیوبند ،علماء بریلی،علماء اہل حدیث ،اورجماعت اسلامی کے مختلف شہروں میں قائم کردہ دینی مراکز ہیں جن میں علوم دینیہ کی تعلیم دی جارہی ہے۔اور ان تمام مدارس کا تعلق مدینہ منورہ سے قائم صفہ کے اس عظیم مدرسہ سے ہے جہاں سے دینی علوم کے چشمے جاری ہوئے اور وہاں کے فضلاء نے پوری دنیا میں اسلام کے پیغام کو پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور یوں شمع سے شمع روشن ہوتی گئی اور آج دینی مدارس کا جال ہمیں عالم اسلام اور دنیا کے مختلف خطوں میں نظرآرہاہے ۔
قیام پاکستان کے بعداولاً تو حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست میں ایسا نظام تعلیم رائج کرتی جو دینی اور دنیاوی تعلیم کا جامع ہوتا ۔ جس میں قرا ن وسنت کی مکمل تعلیم اور جدید علو م وفنون کو مد نظر رکھتے ہوئے مشترکہ نصاب تشکیل دیا جاتا جس کو پڑھنے کے بعد ہر مسلمان دینی تعلیم میں بھی مہارت ولیاقت رکھتا اور دنیاوی علوم پر بھی اس کی اچھی خاصی دسترس ہوتی،مگر افسوس کہ بعض ایسی وجوہات جن کے تذکرے کا نہ یہ موقع ہے اور نہ ہی وقت کی قلت اس کی گنجائش دیتی ہے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔چنانچہ جب حکومتی سطح پر یہ اقدامات نہیں ہوئے تو ارباب مدارس نے آپس میں اتفاق واتحادپیدا کرنے کے لیے اور نصاب میں ہم آہنگی اور طریقہ تدریس کو یکساں بنانے کے لیے کوششیں شروع کیں ۔
پاکستان میں مدارس کے مختلف بورڈزہیں جن میں ایک اہم تعلیمی بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان (علماء دیوبند) کے نام سے معروف ہے ۔جس کے تحت ایک بہت بڑی تعداد مدارس کی اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہے ۔
اسی سلسلہ میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔چنانچہ ان مدارس میں باہمی ربط اور نصاب تعلیم کو منظم کرنے کے لیے ایک اجلاس جامعہ خیرالمدارس ملتان میں 20 شعبان المعظم 1376ھ بمطابق 22 مارچ 1957ء کو مولانا خیرمحمد جالندھری ؒ کی زیر صدارت منعقدہوا اور ایک تنظیمی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ تنظیمی کمیٹی کے اجلاس منعقدہ 14-15ربیع الثانی 1379ھ مطابق 18-19اکتوبر 1959ء میں باقاعدہ طور پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نام سے ایک ہمہ گیر تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ اورملک گیر سطح پر تمام دینی مدارس کی ایسی فعال اور مربوط تنظیم کی مثال دیگر اسلامی ممالک میں نہیں ملتی۔ یہ امتیاز صرف پاکستان کے دینی مدارس کو حاصل ہے کہ وہ ایک مربوط تعلیمی نظام سے وابستہ ہیں۔وفاق المدارس سے اب تک فارغ التحصیل ہونے والے علماء کی تعدادایک لاکھ انیس ہزار آٹھ سو بانوے (119892)، عالمات کی تعدادایک لاکھ پچاس ہزار اٹھائیس(150028) اور حفاظ کی تعداد نولاکھ پچیس ہزار ایک سو بانوے(925192) ہے۔(1)
یہ تو صرف ایک مکتبہ فکر (علماء دیوبند )کے مدارس کے فضلاء اور فاضلات کی تعداد ہے جب کہ دیگر مکاتب فکر کے دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے فضلاء اور فاضلات کے اعداد وشمار کو بھی اگر اکھٹا کرلیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی تعداد ہوگی جو ان مدارس سے دینی تعلیم وتربیت حاصل کررہی ہے ۔
اس وقت دینی مدارس صرف خالصتاً علوم اسلامیہ کی تعلیم کے ساتھ مختص ہوگئے ہیں اور سکول وکالجز اور یونیورسٹیز میں جدید علوم وفنون کی تدریس ہونے لگی ۔سکول وکالجز اور دینی مدارس میں نصاب تعلیم کی یہ دوری بڑھتی گئی بدقسمتی سے اس وقت دونوں طرفوں سے ایک دوسرے کے نصاب اور طریقہ تدریس پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔اور ہرطبقہ صرف خود کو ہی درست اور مبنی برحق سمجھتا ہے ۔جہاں تک ہے اصلاحات کا تعلق اس کی گنجائش تو یہ دونوں طرف رہے گی ۔اور ماہرین تعلیم اس ضرورت کو پورا کرتے رہیں گے ۔دینی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دینی مدراس کا نصاب نہایت جامع اور مفید ہے۔اس پر تو بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔دنیاوی اور جدید عصری ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اس میں اگر اصلاحات ہوتی ہیں تو یہ اہم کام ہوگاجس پر اہل علم کی توجہ درکارہے ۔ 
عصر حاضر میں دینی مدارس کوبہت سے مسائل ، چیلنجزاور عصری تقاضوں کا سامنا ہے جن سے نبرد آزما ہوئے بغیر صحیح خطوط پر کام جاری رکھنا دشوار ہے ۔چند اہم مسائل کی نشاندہی اور اس کے لیے لائحہ عمل پیش کیا جاتاہے ۔

1۔انگریزی زبان کی تعلیم

اس وقت انگریزی زبان انٹرنیشنل زبان بن چکی ہے ۔اور مغربی علماء واسکالر ز کی بہت سی اہم کتب انگریزی زبان میں موجود ہیں ۔اور اسلام پر جو فکری اور نظریاتی بنیادوں پر اہل مغر ب کی طرف سے اشکالات واعتراضات کیے جارہے ہیں وہ سب انگریزی زبان میں ہیں ۔اسلام دشمنی اور مخالفت میں ہرروز کوئی نہ کوئی نیا مضمون،کتاب شائع ہو رہی ہے یا انٹر نیٹ پر اس قسم کا مواد آن لائن کیا جارہاہے ۔جب کہ جن علماء واسکالرز کاشرعی ودینی فریضہ ہے کہ وہ اسلام کی ترجمانی کرتے ہوئے ان شبہات واشکالات کا ازالہ کریں، ان میں اہل علم کی اکثریت چونکہ اس زبان سے نا آشنا ہے اس لیے کماحقہ یہ فریضہ ادا نہیں ہورہا ۔اور اگر یہ کہا جائے کہ علماء کو انگریزی زبان وغیرہ کو سیکھنا چاہیے تو اس پر بڑا شدید ردعمل سامنے آتاہے ۔
اب ایک تاریخی حقیقت کو دیکھیے آج یورپ اور مغرب کی امامت کا طلسم قائم ہے ۔کسی بھی چیز کے مستنداور معیار کے لیے مغرب کی مہر تصدیق لازمی سمجھی جاتی ہے ۔ایک وہ وقت تھا جب یورپ دور تاریک سے گزر رہا تھا ۔علم ومعرفت کی اصطلاحات سے ناواقف تھا ۔مسلمان علماء واسکالرز قرطبہ اور اندلس کی تعلیمی درسگاہوں میں تحقیقی اور علمی کام کررہے تھے، یورپ جہالت کے اندھیروں میں غائب تھا ۔مسلمان دانشور و علماء اس وقت کے رائج علوم وفنون کی تدوین کررہے تھے اور مختلف موضوعات پر تحقیقات کرکے کتابیں لکھ رہے تھے اور مغرب کاغذ وقلم کے استعمال سے کوسوں دور تھا ۔جس دور میں مسلمانوں کے علاقے اور شہر صفائی وستھرائی ،نظم وضبط اور عد ل وانصاف کے قیام میں اس وقت کی تہذیبوں کو شرمندہ کررہے تھے اس وقت مغرب اور یورپ پر غلاظت کے بادل منڈلارہے تھے ۔جس وقت مسلمانوں کے علمی وتحقیقی کارناموں سے ایک دنیا مستفید ہورہی تھی اس وقت یورپ اور مغرب مسلمانوں کے ان کارناموں پر حسرت ویاس سے انگلیاں مروڑ رہے تھے ۔پھر اچانک کیا ہوا کہ یورپی اقوام میں تبدیلیاں شروع ہوئیں اور وہ لوگ مادی ودنیاوی ترقی میں آگے بڑھتے گئے۔اس کے پیچھے کیا راز ہے ؟
یور پ نے اپنے طور طریقوں پر غور وفکر کیا اور ان اسباب کو تلاش کیا جن کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے آگے پسماندہ تھے ۔چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی کامیابیوں اور عظمتوں کے راز جاننے کے لیے اولا ان کی زبان عربی کو سیکھا اور پھر جتنے اس وقت کے اہم علوم وفنون تھے ان کو انگریزی زبان میں منتقل کرنے لگے ۔اور وہ تمام روشنیاں حاصل کرنے میں کوششیں شروع کردیں جنہوں نے مسلمانوں کو جگمگایا تھا ۔اور دوسری طرف مسلمانوں کی بدقسمتی کے انہوں نے اپنے اسلاف واکابر کے طرز فکر وعمل کو پس پشت ڈال دیا اور اس کا وہ نتیجہ نکلا جو ہم سب دیکھ رہے ہیں ۔
مغرب کی اقوام نے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عربی زبان کو سیکھا اور جہاں تک ان سے ممکن ہوا انہوں نے مسلمانوں کے علوم وفنون کا مطالعہ کیا اور اس کے مطابق اصلاحات کیں اور اس طرز پرکام کیا اپنی تہذیب کوبھی زندہ رکھا۔آج مغر ب اور یورپ کی طرف سے اسلام کو جو فکری ونظریاتی طور پر جن مسائل کا سامناہے اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہم انگریزی زبان کو پڑھیں اور ان کے طرز استدلال کو سمجھیں اور انہی کے سکوں میں ادائیگی کی کوشش کریں ۔
آج مغربی افکار مسلمانوں میں انتشار کا باعث بن رہے ہیں اور اسی طرح دیگر غیرمسلموں تک اسلام کی صحیح ترجمانی کے لیے انگریزی زبان کا سیکھنا منع نہیں ہونا چاہیے ۔بلکہ دینی مدارس میں ایسے طلباء اور علماء کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے جو انگریزی سیکھنے کے خواہاں ہیں۔اس مقصد کے لیے نصاب میں چند ایسی کتب شامل کرلی جائیں جو مفید ثابت ہوں یا سپیشل کورسز تیار کرائے جائیں جو ان کے لیے معاون ہوں۔اوردینی مدارس کے فضلا ء کے بارے میں یہ تاثر ختم ہو کہ یہ لوگ جدید معاشرتی تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوتے ہیں۔

2۔کتب اصول تحقیق کاخصوصی مطالعہ

عصر حاضر میں نت نئے چیلنجزر اور درپیش مسائل کے حل لیے تحقیق کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے ۔کسی بھی چیز کی اہمیت کااندازہ اس کی ضرورت سے ہوتاہے ۔اور موجودہ زمانہ میں انسان کی ضروریات دن بدن بڑھ رہی ہیں اس لیے مختلف شعبوں میں ضروریا ت کے پیش نظر تحقیق کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ۔
اس وقت تحقیق وتدوین کے حوالہ سے مختلف یونیورسٹیز اور ادارے کام کررہے ہیں ۔جن میں طلباء کو پہلے باقاعدہ اور باضابطہ طور پر تحقیق اور مبادیات تحقیق کے حوالہ سے مطالعہ کرایا جاتاہے ۔قران وسنت سے استدلال واستنباط کے اصول وقواعد ،موضوع کا انتخاب،عنوان سازی،امہات الکتب سے مراجعت،حوالہ دینے کے طرق وغیرہ سے واقفیت کرائی جاتی ہے۔ اس کے بعد انہی تحقیقی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے کسی بھی علوم اسلامیہ سے متعلقہ موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھوایا جاتاہے ۔نگران مقالہ اس کی رہنمائی کرتاہے ۔اس طرح طلباء اور طالبات کو تحقیق کا طریق کار سکھایا جاتاہے۔ مگر دینی مدارس میں تحقیقی مقالہ جات کی کسی قسم کی کوئی مشق نہیں ہے ۔اور نہ اس حوالے سے کوئی کتب شامل نصاب ہیں جن سے مقالہ کی تیاری کے دوران رہنمائی حاصل کی جاسکے ۔حالانکہ اس وقت عرب کے علماء نے بہت سی شاندار کتب لکھی ہیں جو اسلامی تحقیق کے اصول ومبادی پر مشتمل ہیں ۔جن کو شامل نصاب کرکے فائدہ اٹھا یا جاسکتاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی مدارس کے فضلاء کے میں عام طلباء کی نسبت لیاقت اور استعداد بہتر ہوتی ہے ۔اور وہ علمی وتحقیقی کام عمدہ انداز میں کرسکتے ہیں ۔ مگر کتنی ہی پائیدار اور مضبوط عمارت کیوں نہ ہو۔اگر اس میں رنگ وروغن اور آرائش وزیبائش کی رعایت نہ کی گئی ہو تو وہ اصل قدروقیمت کھودے گی ۔اسی طرح کتنی ہی علمی تحریر ہو اگر تحقیقی اصولوں کے مطابق پیش نہ کی گئی ہو تو وہ اتنی جاذب نظر اور موثر ثابت نہیں ہوگی جتنا کہ اس کو ہونا چاہیے ۔
اس لیے ان حالات میں ارباب مدارس کو مضمون نویسی ،مقالہ نگاری کی فضا قائم کرنی چاہیے اور اصول تحقیق کو بطور موضوع پڑھایا جائے تاکہ آٹھ دس سال لگاکر علم دین حاصل کرنے والے طلباء دوران تحقیق ومطالعہ حاصل ہونے والے اس علمی سرمایہ کوجدید تحقیقی اصولوں کے مطابق پیش کر سکیں۔اور دوران تدریس استاد کا انداز تدریس بھی تحقیقی ہو۔ایک مناظرانہ اور ایک تحقیقی انداز میں فرق کرنا چاہیے ۔ہاں اگر موضوع کا تقاضا ہی مناظرانہ اسلوب کا ہو تو یہ صورت مستثنیٰ سمجھی جائے گی ۔

3۔کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کا استعمال

موجود ہ دور میں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے علم کے حصول اور ماخد ومصادر تک رسائی اتنی آسان کردی ہے کہ اس سے زیادہ آسانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔مکتبہ الشاملہ،الفیہ وغیرہ سافٹ ویئر کمپیوٹر میں انسٹال کرکے ،ایک ہی جگہ بیٹھے ہوئے مختلف تفاسیر،کتب حدیث وکتب فقہ وغیرہ کا نہ صرف مطالعہ کیا جاسکتاہے بلکہ ان سے مکمل حوالہ جات بھی دیے جاسکتے ہیں۔کوئی بھی عربی عبارت لکھ کر مطلوبہ حوالہ تلاش کیا جاسکتاہے ۔ جامعۃ الرشید کراچی، دارالعلوم کراچی،جامعہ اشرفیہ لاہور میں اس سلسلے میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے جو کہ بہت ہی مستحسن قدم ہے تاہم یہ سلسلہ دیگر مدارس میں جاری ہونا چاہیے ۔صرف کمپیوٹر کی لیب بنانا کافی نہیں ہے ۔بلکہ اس میں علوم اسلامیہ سے متعلقہ عربی ،اردو ،انگلش،لغات وغیرہ ہوں اور ان کے استعمال کا طریقہ بھی بتا یا جائے ۔تاکہ علماء ان جدید سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ بہتر انداز میں اپنی خدمات سرانجام دے سکیں ۔
اور یہ اعتراض کافی نہیں ہے کہ ہمارے بزرگوں نے کیا کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی بدولت ہی علمی کام کیاتھا ؟اس لیے کہ ان بزرگوں کے پاس جو قوت حافظہ اور یادداشت تھی وہ آج نہیں ہے ؟اور جس قدر ان میں محنت ومشقت اٹھانے کا جذبہ تھا، وہ بھی مفقود ہے ۔آج ہمتیں پست ہیں ،اور ذہن خالی ہیں ۔اور نہ ویسی استعدادیں ہیں ،اس لیے اگر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھایا جائے تو بہت کم وقت میں بہت زیادہ حوالے تلاش کیاجاسکتے ہیں ۔ایک ہی جگہ بیٹھ کر تمام کتب کا مطالعہ کیا جاسکتاہے ۔اور بھی بہت سے فوائد ہیں جو کام کی نوعیت پر منحصر ہیں ۔

4۔میڈیا سیل کا قیام

عصر حاضر میں میڈیا کی ضرورت واہمیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ،ذہن سازی اور خاص مقاصد کے حصول کے لیے میڈیا نہایت موثر کردار ادا کرتاہے ۔اس وقت میڈیا نے جہاں ایک طرف فحاشی ،عریانی کو فروغ دیاہے وہاں دینی مدارس اور علماء کے بارے میں بھی مختلف ٹی وی چینلز پر بہت سے دانشور اور مفکر حضرات کے تجزیوں نے عوام الناس میں بہت سے شبہات پیدا کردیے ہیں ۔
اسی طرح بہت سے لوگوں کے حصول علم کا اہم ذریعہ ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے مذہبی پروگرا م ہیں ۔مثلاً چند چینلز اسلامی نقطہ سے مختلف پروگرام کرنے میں شہرت رکھتے ہیں ۔مگر متعددبار ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ ایسے پروگرام بھی کررہے ہوتے ہیں جن کو اسلامی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
اگر ایسے حالات میں دینی مدارس میڈیا سیل قائم نہیں کرتے، اور علماء وطلباء کو میڈیا کی تعلیم نہیں دیتے اور اس میدان کو کھلا چھوڑ تے ہیں تو پھر میڈیا ہماری نئی نسلوں کو جس رخ پر لے کر جارہا ہے، اس نقصان عظیم کا خمیازہ بھگتنے کے لیے ابھی سے تیار ہوجا ناچاہیے ۔ غیر ملکی میڈیا ہماری معاشرتی ، سماجی اور دینی اقدار کو آہستہ آہستہ ختم کر رہا ہے اس کے تدراک کے لیے بھی لائحہ عمل ضروری ہے ۔محض یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ میڈیا برائیوں کی جڑ ہے ۔آج زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسکالر ز کی ایسی جماعت تیار کرنے کی ضروت ہے جوکسی بھی عالمی یا ملکی مسئلہ پر اسلامی نقطہ نظر کو واضح کر سکیں۔اور شرعی حدود وقیود میں رہتے ہوئے میڈیا پرآئیں اور اسلام کی ترجمانی کریں اگر ہم نے ماضی کے ورثہ کی حفاظت اور اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنا نا ہے تو عصری تقاضوں کی رعایت ضروری ہے ۔

5۔فارغ التحصیل علماء کے معاشی مسائل کا حل

الحمدللہ اس وقت مختلف دینی مدارس سے ایک بڑی تعداد ہرسال فارغ التحصیل ہورہی ہے ۔جو الشہادۃ العالمیہ کی سند حاصل کرتے ہیں ۔عملی زندگی میں آنے کے بعد ان کو جہاں اور مسائل درپیش ہیں وہاں ایک اہم مسئلہ معاش سے متعلق ہے ۔معاشی مشکلات کا شکار کوئی بھی ذی استعداد پوری یکسوئی سے کام نہیں کرسکتا ۔بلکہ حدیث مبارکہ میں تو یہاں تک ہے ’’کہ فقر وفاقہ سے کفرتک نوبت جاسکتی ہے ۔‘‘(2) اس سلسلہ میں ارباب مدارس کو مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہیے کہ فارغ التحصیل علماء کے معاشی مسائل کو کیسے حل کیا جاسکتاہے اور فارغ ہونے والے علماء کو کن میدانوں میں بھیجنا ہے ۔
چند ایک ہی علماء کی کسی مدرسہ میں درس وتدریس کی جگہ بنتی ہے اور وہ بھی معمولی سے وظیفہ پر کا م کرتے ہیں،اکثریت ٹیوشن وغیرہ کی تلاش میں رہتی ہے اورایک نہایت محدود آمدنی میں گزر بسر کرنے پرمجبور ہوتی ہے۔ حالانکہ خوشی وغمی اور بیماری بیسیوں ایسے مسائل درپیش ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بہت سے اہل علم بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کرپاتے ۔چند ہی لوگوں کا سکول وکالجز میں بطور معلم تقرر ہوتاہے ۔یہ لوگ قدرے آمدنی کے لحاظ سے دوسروں سے بہتر ہوتے ہیں یا پھر وہ علماء جن کومخیرحضرات کی معاونت سے اپنا ادارہ قائم کرنے کا موقع مل جاتاہے ۔
بہرکیف اکثریت اہل علم کی معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوتی ،2003میں دینی مدارس کے ملازمین کی تنخواہوں کے بارے میں ایک سروے ہوا جس کی رپورٹ درج ذیل ہے :
’’حفظ وقراۃ کے مدارس کے ایک عام معلم کی تنخواہ 2500سے لے کر 6000ہزار روپے تک ہوتی ہے ۔اور مدارس کے ائمہ کی تنخواہیں بھی اسی رینج میں ہوتی ہیں ۔جبکہ مساجد کے موذن اور خادم حضرات کو500 روپے سے لے کر 3000 ہزار روپے تک ادا کیے جاتے ہیں۔درس نظامی کے فارغ التحصیل علماء بطور خطیب تقریباً4000 سے 8000 ہزار روپے تک تنخوہ پاتے ہیں ۔اور مدارس میں بطور معلم بھی زیادہ سے زیادہ اتنی ہی رقم حاصل کرتے ہیں ۔یہ اعدادوو شمار بھی بڑے شہروں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں عام لوگ مساجد اور مدارس کو اچھی خاصی رقم بطور چندہ ادا کرتے ہیں۔‘‘(3)
ملک بھر میں چھوٹے بڑے مدارس کا اتنا بڑا جال پھیلا ہوا ہے کہ اس سے ہر سال فارغ التحصیل ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں شمار کی جاسکتی ہے۔ ملک میں اتنی بڑی تعداد میں نہ تو مساجد کی تعمیر ہو رہی ہے اور نہ ہی نئے مدارس وجود میں آ رہے ہیں۔ مدارس کے ذہین طلباء عموماً دین پر ریسرچ کا ذوق رکھتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسے ادارے بہت کم ہیں جہاں دین پر ریسرچ کی جارہی ہو۔ ان حالات کے پیش نظر اس طبقے میں بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کا حل سوچنا نہ صرف ارباب حکومت کا کام ہے بلکہ مدارس کے منتظمین اور علماء کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے پر خوب غور و خوض کرکے اس کا کوئی حل نکال سکیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ عوا م کی ذمہ داری ہے کہ وہ علماء کی معاشی ضروریات کو پوراکریں ،تو بظاہر یہ بہت اچھی بات ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر عوام ا س ذمہ داری کو کماحقہ پورا نہ کرے تو متبادل کیا حل ہے ؟
اور یہ کہنا بھی کافی نہیں ہے کہ کیا عصری اداروں کے فضلاء میں ہرایک کو جاب اور روزگار مل جاتاہے ۔؟اس لیے کہ علماء سے کام لینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کو معاشی فکر سے آزاد کیا جائے ۔

6۔اسلامی بینکاری کی خصوصی تعلیم

اس وقت ایک اہم کام سود سے پاک بینکاری نظام کا قیام ہے جو عصری اور شرعی تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔اس بارے میں بعض علماء نے اپنی فہم وفراست سے شرعی حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے مگر دیگر معاصر علماء اس سے مطمئن نہیں ہیں گو اختلاف رائے شرعا باعث اشکال نہیں ہے تاہم عوام کو اس کشمکش سے نکالنا ضروری ہے ۔تمام جید علماء مل کر اس مسئلہ کا حل نکالیں ،کسی بھی چیز کو حرام قرار دینا کافی نہیں ہے ،بلکہ اس کا متبادل شرعی حل بھی پیش کرنا اہل علم کی ذمہ داری ہے ۔سود کی حلت کا تو کوئی مسلمان قائل نہیں ہے مگر اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ سود کی تعریف اور دائرہ کار میں کونسی صورتیں داخل ہیں ،اور یہ فیصلہ صرف چندعلماء کانہ ہو بلکہ اس میدان کے ماہر علماء وفقہاء تمام پہلوؤں ،جزئیات اور اشکالات کو سامنے رکھیں اور باہمی اتفاق رائے سے حل پیش کریں اور یہ بھی ضروری ہے کہ اختلاف رائے کرنے والے محض اس بات کا سہارا نہ لیں کہ ان کو مذکورہ صورتوں پر ’’شرح صدر‘‘ نہیں ہورہاہے یااس عمومی اصو ل’’جب حلت وحرمت میں تعارض ہو تو حرمت کو ترجیح ہوگی ‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ قول اختیار کریں کہ اس معاملہ میں سود کا احتمال اور اندیشہ ہے لہٰذا ’’حرمت ‘‘کا فتویٰ دے یدیا جائے ۔اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ اصول اس صورت میں کار آمد ہوتاہے جب حلت وحرمت کے اسباب جمع ہوں مگر ان کے تقدم وتاخر کا علم نہ ہو تووہاں احتیاطاً حرمت کو ترجیح ہوگی ۔لہذا قائلین اور مانعین دونوں کے دلائل اپنے موقف کی تائید میں صحیح وصریح ہوں اور ان پرجو اعتراضات ہوں ان کا بھی کافی وشافی دفاع ہو۔ 
اس حوالہ سے آخری بات یہ ہے کہ جب چند ایسے ممالک ایک دوسرے سے لین دین کریں جن میں مختلف فقہاء کے پیروکار ہوں تو وہاں حرمت کی سود کی علت کا تعین کیسے ہوگا ؟اس لیے کہ ہرامام نے نصوص پر گہری سوچ وبچار کے بعد جو علت مستنبط کی ہے وہ دیگر ائمہ کی بیان کردہ علتوں سے مختلف ہے تو پھر علی سبیل الفرض چار ایسے ملک جن میں ائمہ اربعہ کے متبعین ہوں تو وہاں اس مسئلہ کا کیاحل ہوگا ۔؟اس لیے دینی مدارس کو اسلامی بینکاری کی خصوصی تعلیم دینی چاہیے اور اس حوالہ سے کچھ جدید کتب شامل نصاب کرنی چاہئیں۔اس بارے میں زیادہ بہتر رہنمائی وہ اہل علم کرسکتے ہیں جو معاشیات پر کام کررہے ہیں ۔

7۔مذہبی انتہا پسندی اورفرقہ واریت کاخاتمہ

اس وقت مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور فرقہ واریت کے تسلسل نے بہت سے نئے مسائل سے دوچار کیاہے۔ انتہا پسندی فی نفسہ مذموم ہے خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ،اس لیے کہ کسی بھی کام اس انتہا تک چلے چا نا جو شرعاً اورعقلاً غیر مطلوب ہے، منع ہے ۔اس وقت پورے عالم اسلام کو بالعموم اور وطن عزیز پاکستان کو جن تباہ کن مسائل سے دور چار ہے، ان میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت بھی شامل ہے۔ آج کل ایک دوسرے کا قتل عین ثواب سمجھ کیا جارہاہے ۔ معمولی سے اختلاف رائے اور اظہار رائے کرنے پر ایک دوسرے پر سخت قسم کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور بسا اوقات معاملات حد سے زیادہ سنگینی اختیار کرلیتے ہیں ۔ان حالات میں ضرورت ہے مذہبی انتہاء پسندی کے پس منظر،اسباب کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے خاتمہ کے لیے کوئی لائحہ عمل بنایا جائے اور دینی مدارس اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کریں جس سے معاشرہ میں وسعت نظری اور برداشت وتحمل پیدا ہو۔

خلاصہ بحث

علوم اسلامیہ کی ترویج واشاعت میں دینی مدارس کا کردار نہایت نافع اور مستحسن ہے ۔اوران مدارس سے تعلیم یافتہ علماء کی قران وسنت کے ساتھ گہری بصیرت اور علوم اسلامیہ کے ساتھ اچھی مناسبت ہوتی ہے ۔اور انہی مدارس سے بڑی بڑی علمی شخصیات پیدا ہوئیں جن کے علمی کام کو عرب وعجم میں سراہا گیا ۔ مگر آج ان اداروں میں سے ویسی شخصیات پیدا نہیں ہورہیں جوامت مسلمہ کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکیں،اور جن حالات سے امت مسلمہ گزررہی ہے ان مسائل کا حل پیش کرسکیں۔ا س کی وجہ محض نصاب نہیں ہے ۔بلکہ کچھ عصری تقاضے ہیں جن کو نظر انداز کیا جارہاہے ۔آج اگر ان عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے دینی مدارس اپنے اہداف ومقاصد میں مزید وسعت پیدا کرلیں تو یقیناًمطلوبہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں ۔

سفارشات

  1. مغربی افکار سے واقفیت اور غیر مسلموں تک اسلام کی موثر ترجمانی کے لیے دینی مدارس کے طلباء اورعلماء جو انگر یزی سیکھنے کے خواہاں ہیں ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ۔
  2. نصاب میں چند ایسی کتب شامل کرلی جائیں جو مفید ثابت ہوں یا سپیشل کورسز تیار کرائے جائیں جو انگریزی زبان سیکھنے اور سمجھنے میں معاون ہوں۔
  3. مدارس میں اصول تحقیق کو بطورموضوع پڑھا یا جائے تاکہ اسلاف کے علمی سرمایہ کو جدید تحقیقی اصولوں کے مطابق پیش کیا جاسکے ،اور مناظرانہ و تحقیقی انداز میں فرق کو ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔
  4. کمپیوٹر ،علوم تک رسائی کا بہت بڑا موثر ذریعہ بن چکاہے ،برقی کتب خانے موجود ہیں جس میں دینی علوم کی بے شمار کتب کے آن لائن مطالعہ کی سہولت موجود ہے اس تناظر میں کمپیوٹر کی تعلیم ہر فاضل کے لیے لازمی قرار دی جائے اورمدارس میں کمپیوٹر کی تعلیم کااہتمام ہونا چاہیے ۔
  5. مدارس میں اسلامی بینکاری کی تعلیم کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے اور اس حوالہ سے کچھ جدید کتب شامل نصاب کرنی چاہییں تاکہ سود کے خلاف جذباتی گفتگو کی بجائے کسی ٹھوس حل کی طرف پیش رفت ہو ۔
  6. مذہبی انتہا پسندی کے پس منظر ،اسباب کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے خاتمہ کے لیے کوئی لائحہ عمل بنایا جائے ،دینی مدارس معاشرہ میں وسعت نظری اور برداشت وتحمل کا ماحو بنا کر معاشرہ کو اس المناک صورت حال سے نکالنے میں خصوصی کردار ادا کریں ۔
  7. مدارس کو اپنے میڈیا سیل قائم کرنے چاہییں ،نیز زمانے کے بدلتے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے اسکالرز تیار کیے جائیں جو کسی بھی عالمی یا قومی مسئلہ پر اسلامی نقطہ نظر کو واضح کرسکیں ۔
  8. ملک بھر میں ہزاروں چھوٹے بڑے مدارس ہر سال ہزارو ں کی تعداد میں علماء وفاضلین تیار کررہے ہیں اس تعداد کی نسبت سے روزگار کا اہتمام موجود نہیں ،جن کے لیے روزگار کا بندوبست ہے انہیں چندہ کے لیے مالدار طبقہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے جو ایک عالم کی شان اورعظمت سے تضاد رکھتا ہے چنانچہ اس پر ارباب مدارس کو غور کرنا چاہیے کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا اہتمام کریں نیز ایسے وسائل مہیا کریں جس سے فاضل علماء کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

حوالہ جات و حواشی 

(1) http://www.wifaqulmadaris.org/intro.php
(2) البیہقی،احمد بن الحسین،ابوبکر،شعب الایمان،ریاض ،مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیغ ،1423ھ،جلد،صفحہ12
(3) http://www.mubashirnazir.org/ER/L0010-00-Career.htm

احمدی اور تصورِ ختم نبوت : ایک احمدی جوڑے سے گفتگو

ڈاکٹر محمد شہباز منج

ایک یونی ورسٹی کی احمدی طالبہ میری نگرانی میں ایم فل کا تھیسز لکھ رہی ہے۔ وہ اپنے کام کے سلسلے میں اپنے خاوند کے ساتھ میرے پاس آتی ہے۔ پہلی دفعہ تو وہ دونوں بہت گْھٹے گْھٹے سے لگے،تاہم میں نے روٹین کے مطابق ان سے بساط بھر عام نرم و مہمان نواز لہجے اور ٹون میں بات کی ، اور کام سے متعلق لڑکی کی رہنمائی بھی کی۔ دی گئی رہنمائی کے مطابق کا م کرنے کے بعد وہ دونوں میاں بیوی گذشتہ روز پھر آئے۔رسمی ملاقات اور مقالے سے متعلق گفتگو کے بعد میں نے کہا: میں ایک تحقیقی ذہن کا آدمی ہوں اور آپ بھی محقق ہیں، میری کسی بات کو مائینڈ نہیں کرنا، نہ میں آپ کی کوئی بات مائینڈ کروں گا۔ میں تفہیم کی خاطر آپ سے آپ کے مذہب کے حوالے سے ایک اہم سوال کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ میں اپنے طور پر اس ضمن میں کچھ معلومات رکھتا ہوں ، لیکن میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں یا نہیں؟لڑکی نے کہا: ہم نے مرزا صاحب کی کتابوں میں تو کہیں نہیں پڑھا کہ انھوں نے اس طرح خود کو نبی لکھا ہو جس طرح عام لوگ سمجھتے ہیں! میں نے کہا: تو پھر مطلب یہ ہوا کہ مرزا کے ساتھیوں اور پر وکاروں نے خود سے انھیں نبی کہنا شروع کر دیا! اگر ایسا ہے تو ان لوگوں نے خود سے بھی اور مرزا صاحب سے بھی زیادتی کی! 
لڑکی کہنے لگی : نہیں سر! انھوں نے تو دراصل مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کے بارے میں حدیثیں بھی موجود ہیں۔ میں نے کہا: تو پھر یوں کہیے کہ مرزا صاحب نے نبی نہیں مہدی یا مسیحِ موعود ہونے کا دعوی کیا، تو پھر ان کو نبی کہنا غلط ہوا۔ لڑکی بولی: نہیں سر! دراصل ان کی نبوت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے تابع ہے، آپ کی نبوت کے اندر رہتے ہوئے آپ نے دین کی سربلندی اور تجدید کے لیے کام کیا۔ میں نے کہا: تو مجدد تو اور بھی بہت ہوئے ہیں امت میں ، مرزا صاحب بھی اگر اسی طرح کے مجدد تھے، تو اس کے لیے نبوتِ محمدی کے تابع نبوت کی کیا ضرورت تھی؟ فقط مجددیت سے کام چل سکتا تھا۔ لاہوری جماعت نے ان کو مجدد مانا بھی ہے، اور اسی بنا پر مین سٹریم احمدیوں سے ان کا اختلاف بھی ہے۔ پھر اگر آپ مرزا صاحب کو مجدد ہی مانتے ہیں تو آپ کا لاہوریوں سے کیا اختلاف ہے؟نیز مجددیت اور نبوت میں جو کنفیوڑن پیدا ہورہی ہے ، اس کو آپ کیسے حل کریں گے؟ مجھے فقط یہ سمجھا دیں کہ آپ کے نزدیک مرزا صاحب کا سٹیٹس، مجددیت ، نبوت اور مہدویت وغیرہ میں سے فی الواقع کیا ہے؟
لڑکی احمدیت اور اسلام کے بارے میں قابل ذکر معلومات رکھتی تھی ،لیکن مجھے وہ دوٹوک یہ بتانے میں ناکام رہی کہ ان کے نزدیک مرزا صاحب کا اصل سٹیٹس کیا ہے! وہ مختلف طریقوں سے مذکورہ تینوں چیزوں کو مرزا صاحب سے متعلق قرار دے رہی تھی۔میں نے کہا، اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں محض ایک دو باتیں کر لوں ! وہ بولے، ضرور سر! میں نے کہا: دیکھیے: مرزا صاحب کا خود کو کھل کر نبی نہ کہنا یا اپنی نبوت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے تابع قراردینا یا اپنی نبوت کی تعبیریں ظلی و بروزی نبوت وغیرہ سے کرنا، اور آپ لوگوں کا کھل کر مرزا صاحب کو نبی نہ کہنا اور اس کی مختلف تعبیریں کرنا، اس حقیقت کا عکاس ہے کہ مرزا صاحب کو اس بات کا یقینی علم تھا کہ اسلام کے اندر نئی نبوت کی کوئی گنجایش نہیں۔ اگر انھوں نے کھل کر خود کو نبی کہا، تو وہ مسلمان ہوکر نہیں رہ سکیں گے، اور نہ اس معاملے میں ان کو کوئی مقبولیت مل سکتی ہے۔ یعنی وہ مسلمانوں میں ختم نبوت کے واضح سٹیٹس کو جانتے تھے، جبھی تو وہ اس کی تاویلیں کرتے تھے، اور جبھی آپ لوگ اس کی تاویلیں کر رہے ہیں! مزید یہ کہ یہ جو بات کی گئی کہ خاتم النبیین کے قرآنی الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے خاتم الاولیاء یا خاتم المفسرین وغیرہ کے الفاظ ، تو اس سے ثابت تو یہ کیا جاتا ہے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی اور آپ کے بعد بھی نبی آ سکتا ہے، جیسا کہ خاتم الاولیا یا خاتم المفسرین کے بعد بھی ولی یا مفسر ہو سکتے ہیں ، لیکن دوسری طرف مرزاصاحب خود کو کھل کر نبی بھی نہیں کہہ رہے۔سوال یہ ہے کہ جب شرعاً نیا نبی آ سکتا ہے، تو اس میں شرمانے اور کان کو اِدھر اْدھر سے پکڑنے کی ضرورت کیا ہے، بلا کسی تاویل اور خوف و جھجک کے مرزا صاحب کو بھی کہنا چاہیے تھا کہ وہ نبی ہیں اور آپ لوگوں یا ان کے پیروکاروں کو بھی ڈنکے کی چوٹ کہنا چاہیے کہ وہ نبی ہیں! بہ الفاظِ دیگر مرزا صاحب اور ان کے پیروکاروں کا رویہ خود بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک خاتم النبیین کی مذکورہ تعبیر درست نہیں اوروہ جانتے ہیں کہ اسلام میں کسی نئے نبی کی کوئی گنجایش نہیں ، ورنہ، نہ مرزا صاحب اپنے سٹیٹس کو یوں کنفیوز رکھتے اور نہ ان کے پیروکار ہمیشہ کے لیے کنفیوژن میں پڑے رہتے۔
وہ میاں بیوی میری باتوں پر کافی غور کر رہے تھے، اور اکثر جگہ اثبات میں سر ہلا رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ پتہ نہیں میری کسی بات سے وہ اپنے کسی نظریے پر نظرثانی کریں گے یا نہیں۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر ان کا خوف اتار کر کھلے ماحول میں ان سے مکالمہ اور گفتگو ہو تو قادیانیت کی تفہیم بھی صحیح ہو سکے گی، اور ان کے بہت سے لوگ دائرۂ اسلام میں واپس بھی آ جائیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کے اپنے خول میں بند ہونے کے بہت حد تک ذمے دار مسلمان ہیں۔ واللہ! ان لوگوں کے پاس ایک دلیل ایسی نہیں جو کسی ذرا سے سنجیدہ مسلمان کو قائل کر سکتی ہو اور ایک عام سے سنجیدہ مسلمان کے پاس سو دلیلیں ہیں ، جو ان کو قائل کر سکتی ہیں ،یا کم ازکم سوچنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ 
یہ جوڑا ذرا کھلا تو ایک عجیب بات سامنے آئی۔لڑکی کے خاوند نے کہا : سر! میرا تو خود اس سے اختلاف رہتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ قادیانیت غلط ہے،لیکن یہ نہیں مانتی۔ میں نے ان کی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، مرزا صاحب ایک جگہ خود کو نبی کہتے ہیں اور کچھ آگے جاکر اس کا انکار کر دیتے ہیں۔لڑکی بولی سر! ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ انھوں نے میرے بھائی سے کہا کہ میں نے بیعتِ خلافت کر لی ہے، اور میرے خاندان والوں نے مجھ سے تعلق توڑ لیا ہے، مجھے کوئی رشتہ نہیں دیتا۔ انھوں نے جماعت میں بات کی تو لوگوں نے کہا کہ آپ اپنے گھر سے ابتدا کریں ، اپنی بہن اس سے بیاہ دیں۔ یوں (گویا تالیف قلب کے طور پر)ان سے میری شادی ہو گئی۔شادی کے کچھ دن بعد ہی انھوں نے مجھ سے اختلاف کرنا شروع کر دیا۔دراصل ان کا خیال تھا کہ رشتہ تو کریں ، مذہب تو مرد کا ہی ہوتا ہے، وہ عورت کو قائل کر لیتا ہے، لہذا یہ مجھے قائل کر کے گھر لے جائیں گے اور بڑا ثواب پائیں گے،لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اس کو میرے پاس آنا پڑا ہے۔ ہمارے دو بچے ہیں۔ یہ ہماری رسمیں بھی ادا کرتا ہے ، اور بیچ بیچ میں ہمیں غلط بھی کہنے لگتا ہے۔ہمارا اختلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔واضح رہے کہ لڑکے کی تعلیم واجبی سی ہے اور لڑکی ایم فل اسلامیات کر رہی ہے۔

مولانا محمد بشیر سیالکوٹیؒ ۔ چند یادیں، چند باتیں

محمد عثمان فاروق

عربی زبان کے استاذ، متعدد کتابوں کے مولف مولانا بشیر سیالکوٹیؒ (۱۹۴۰۔۲۰۱۶ء) طویل علالت کے بعد ۱۶ اکتوبر کو انتقال کر گئے۔ ان کی پوری زندگی علوم اسلامیہ کی تدریس بالخصوص عربی زبان کی تعلیم میں گزری۔ مولانا سیالکوٹی عربی نظم و نثر دونوں میں یکساں اور کمال مہارت رکھتے تھے۔ ان کی دیرینہ آرزو اور والہانہ لگن تھی کہ ملک پاکستان میں لسان القرآن کو فروغ ملے تاکہ لوگوں کا خدا کی کتاب اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے زندہ تعلق قائم ہو۔ مولانا سیالکوٹی کی خدمات کے پیش نظر عالم عرب کے تین جید علماء( دکتور ف عبدالرحیم، دکتور عبدالغفور البلوشی، محمد عزیر شمس) نے انہیں شیخ العربیہ کا لقب دیا۔
جولائی ۲۰۱۳ ء میں راقم کو الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں دورہ تفسیر قرآن میں شرکت کا موقع ملا۔ دورہ کے اختتام پر شرکاء کو اکیڈمی کی طرف سے جن کتابوں کا سیٹ تحفے میں دیا گیا، ان میں سے ایک کتاب مولانا سیالکوٹی کی ’’ درس نظامی کی اصلاح اور ترقی‘‘ بھی تھی۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد مولانا سیالکوٹی کی خدمت میں نیاز مندانہ حاضری دینے کا شوق پیدا ہوا، چنانچہ میں نے خط لکھ کر ملاقات کی خواہش کی اظہار کیا جسے مولانا نے بڑی محبت اور شفقت سے قبول کیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی اور استفادے کا موقع ملتا رہتا۔ 
مولانا سیالکوٹی سے جب بھی ملاقات ہوتی، ان کی گفتگو کا مرکزی نکتہ ہمیشہ دینی تعلیم کا نصاب، عربی زبان کی تدریس اور طریقہ تدریس ہوتا۔ اپنی کتاب’’ درس نظامی کی اصلاح اور ترقی‘‘ کے بارے میں بتایا کہ میں نے اس کا عنوان ’’ درس نظامی کا محاسبہ ‘‘ سوچ رکھا تھا، لیکن پھر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ عنوان تو مخاطب کو رد عمل کی نفسیات میں مبتلا کر دے گا اور یوں کتاب کے مقصد کو نقصان پہنچے گا، لہٰذا میں نے کتاب کا عنوان تبدیل کر دیا اور انداز نگارش کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کی۔ مولانا سیالکوٹی ارباب مدارس بالخصوص طبقہ علماء کے جمود اور اور قدیم نصاب و طریقہ تدریس پر اصرار کے حوالے سے شکوہ کناں رہتے تھے۔ ایک مرتبہ( تاسف سے) کہنے لگے ہم لوگوں نے درس نظامی کو منزل من اللہ سمجھ لیا ہے اور کسی نئی اور مثبت تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ جو کوئی یہ کام کرنے کی کوشش کرے تو اسے گردن زدن قرار دے دیا جاتا ہے۔ مولانا کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ مروجہ دینی نصاب اور طریقہ تدریس دونوں ہی ناقص، فرسودہ ہیں اور دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ مولانا سیالکوٹی کا یہ مفصل تنقیدی جائزہ کوئی عجلت میں نہیں کیا گیا، بلکہ ان کے چالیس سالہ تجربے ، غور فکر کا حاصل تھا۔ وہ ہمارے دینی علم کی روایت سے ہٹے ہوئے آدمی بھی نہیں تھے بلکہ اسی مر وجہ نظام تعلیم سے گزر کر آئے تھے۔ اس لحاظ سے ان کی آرا گہرے غور فکر کی مستحق ہیں۔ ان کی تنقید کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تو جدیدیت سے مرعوب کسی روشن خیال دانشور کی ذہنی اختراعات ہیں جو استعمار کی ایجنڈے کو تقویت پہنچا رہا ہے، جو دینی علمی کی مبادیات سے واقف ہے نہ دینی علم کی روایت سے۔
مولانا سیالکوٹی نے محض مروجہ نصاب و نظام تدریس پر تنقید کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ عملاً ایک متبادل نصاب اور عصری اسلوب تدریس اپنے قائم کردہ ادارے معہد اللغۃ العربیہ اسلام آباد میں نافذ کر کے دکھایا ۔ مولانا سیالکوٹی کی اولاد اور تلامذہ اس مشن میں ان کے دست و بازو ہیں ۔ اب اس ادارے کی ذیلی شاخیں بھی کام کر رہی ہیں۔ گویا جو پودا مولانا سیالکوٹی نے لگایا تھا، وہ اب تن آور درخت بن چکا ہے۔ 
عربی زبان میں مہارت کے علاوہ وہ فارسی ور انگریزی بھی اچھی جانتے تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کی فارسی کتاب ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء‘‘ کا عربی ترجمہ کرنے کی سعادت بھی آپ کو حاصل ہے۔ ایک مرتبہ مولانا نے تحدیث نعمت کے طور پر بتایا کہ ۱۹۷۳ء میں قادیانی حضرات کے خلاف پارلیمنٹ میں علماء کے متفقہ فیصلے کا انگریزی ترجمہ میں نے ہی کیا تھا۔
نج کی ایک مجلس میں مولانا سیالکوٹی اردو تفاسیر پر گفتگو کر رہے تھے۔ جب تدبر قرآن کا ذگر آیا تو بلند تعریفی کلمات کہے اور اسے نمائندہ تفسیر قرار دیا۔ مولانا نے کہا کہ مولانا اصلاحیؒ کی بعض تفسیری آرا پر میرے ملاحظات ہیں جن میں مسئلہ رجم بھی شامل ہے۔ اس مسئلے پر خاصی لے دے ہوئی اور مولانا اصلاحی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور بعض علماء نے تو انہیں منکرین حدیث کی صف میں کھڑا کر دیا، لیکن میرے نزدیک یہ زیادتی ہے۔ مولانا کے موقف پر نقد ضرور ہونا چاہیے، لیکن تنقید اور تنقیص میں فرق بہرحال ملحوظ رہنا چاہیے۔
ایک مرتبہ بر سبیل تذکرہ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ذکر آیا تو مولانا سیالکوٹیؒ نے کہا کہ غازی صاحب فکر اسلامی کے ممتاز اور متوازن شارح تھے، میرے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے، قدیم اور جدید پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اکثر ہمارے اشاعتی ادارے دارالعلم، آبپارہ اسلام آباد تشریف لائے، کتابیں خریدتے اور مختلف علمی ، فکری اور ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل پر تبادلء خیال کرتے تھے۔ اعلیٰ انتظامی عہدوں (غازی صاحب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر رہے اور پرویز مشرف صاحب کے دور میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور بھی رہے) پر ہونے کے باوجود ان کے عجز و انکسار میں فرق آیا، نہ قلم و کتاب سے رشتہ کمزور ہوا۔ ایک مرتبہ غازی صاحب نے کتابیں خریدیں۔ جب جانے لگے تو میں نے ملازم سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی کتابیں ان کی گاڑی میں رکھ دو تو غازی صاحب نے منع کر دیا اور صاحب الحاجۃ احق بھا کہتے ہوئے خود کتابوں کا تھیلا اٹھایا اور چل دیے۔ 
مولانا سیالکوٹی نے اپنے متعلق کہا کہ بہت سے لوگ مجھے اہل حدیث سمجھ کر کنی کتراتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں مسلکی تعصبات اور گروہی مفادات اتنے غالب ہو چکے ہیں کہ اپنے حلقے سے باہر کے اہل علم کی بات سننے اور ان سے استفادے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ مولانا نے مزید بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ میری تعلیم و تربیت سلفی ماحول میں ہوئی ہے اور ظاہر سی بات ہے، انسان قریبی شخصیات اور ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ میرا رجحان مسلک اہل حدیث کی جانب ہے اور ان کی بہت سی چیزیں مجھے اپیل کرتی ہیں، لیکن میں نے کبھی اس لیبل کو اپنے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ مسلکی و گروہی تنگ نائیوں سے اٹھ کر اسلام اور ملت اسلامیہ کے لیے جدو جہد کروں۔
راقم کے اس سوال پر کہ وہ کون سی شخصیات ہیں جنہوں نے آپ کی فکر و نظر پر اثر ڈالا، مولانا نے بتایا کہ ویسے تو بہت سے علماء سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا، لیکن میں اپنے آپ کو تین اہل علم کی فیض تربیت کا نتیجہ سمجھتا ہوں:
۱۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ۲۔مولانا عبدالغفارحسنؒ ۳۔ مولانا محمد حنیف ندویؒ 
مولانا سیالکوٹی ابتدا میں سعودی سفارتخانے میں ملازمت کرتے رہے، لیکن کچھ عرصے بعد تصنیف و تالیف اور درس و تدریس میں یکسو ہو گئے۔ بعد میں بھی متعدد مرتبہ انہیں سفارتخانے کی طرف سے پیش کش کی گئی، لیکن وہ ایک ہی جواب دیتے کہ میں مبعوث ہو کر محبوس نہیں ہونا چاہتا۔
مولانا سیالکوٹیؒ کی تصنیفات میں سے چند یہ ہیں:
۱۔ الامام المجدد والمحدث الشاہ ولی اللہ الدھلوی، حیاتہ ودعوتہ 
۲۔ اقرا  ( یہ کتاب چار اجزاء پر مشتمل ہے جو عربی کا جدید اور با تصویر ریڈر ہے)
۳۔ آسان عربی ( دو اجزاء پر مبنی یہ کتاب جس میں صرف و نحو کو عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے)
۴۔ مفتاح الانشاء ( یہ کتاب بھی دو اجزاء میں ہے جو اعلیٰ جماعتوں کے طلبہ کو عربی زبان میں ترجمہ ، تحریر اور انشاء کی تعلیم دیتی ہے)
۵۔ الصرف الجمیل ( دو اجزاء، جس میں عربی افعال کی تفصیلی گردانوں اور ان کے روز مرہ استعمالات کا باتصویر بیان ہے)
۶۔ اساس الصرف (تین اجزاء، علم صرف کے قواعد کا موثر دلچسپ اور آسان پیرائے میں بیان ہے)
۷۔ ھیا غنوا یا اطفال (عربی کی دلچسپ نظموں کا مجموعہ جس میں اسلام کے بنیادی عقائد و تعلیمات اور ملی نغمے شامل ہیں)
اس کے علاوہ مولانا نے متذکرہ بالا درسی کتابوں کی راہنمائے اساتذہ(مرشد المعلمین/Teacher's Guide) بھی تیار کر رکھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولانا سیالکوٹ کی مساعی کو شرف قبول عطا کرے، ان کے مشن کو ترقی حاصل ہو اور ہمیں بھی دین کی خدمت کرنے کی توفیق حاصل ہو۔ (آمین)

’’فقہائے احناف اور فہم حدیث ۔ اصولی مباحث‘‘

ڈاکٹر حافظ مبشر حسین

حدیث کے ردو قبل کے اصول مخصوص نہیں ، بلکہ خیر القرون میں علمائے امت نے اپنے فہم اور علم کی روشنی میں انہیں منضبط کیا ہے۔ چنانچہ انسانی کاوش ہونے کے ناطے بعض اصولوں پر اختلاف رائے بھی پیدا ہوا۔ اس اختلاف رائے کے اولیں مظاہر حجازی و عراقی مکاتب فکر کی شکل میں وقوع پذیر ہوئے جبکہ آگے چل کر اس اختلاف کی خلیج نے محدثین اور فقہا کے دو مستقل اور ایک دوسرے کے حریف گروہوں یا طبقوں کی شکل اختیار کر لی۔ اس اختلاف کے یوں تو کئی علمی ، سیاسی اور معروضی اسباب تھے مگر ایک بڑا علمی سبب، میرے ناقص مطالعہ کے مطابق ، وہ اصول تھے جو حدیث کے ردو قبول اور اس کے معنی و مفہوم کی تعیین سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی تفصیل امام ابو یوسف اور امام محمد کی کتابوں بالخصوص امام محمد کی کتاب الحجۃ علی اھل المدینتہ اور امام شافعی کی کتاب الام میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ 
مذکورہ بالا علمی معرکہ آرائیوں میں محدثین کا مد مقابل فریق اگرچہ فقہا کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے، مگر بنیادی طور پر فقہا کے فریق میں حنفی فقہاہی زیادہ تر زیر بحث رہے ہیں اس لیے کہ حنفی فقہاء نے حدیث بالخصوص خبر واحد کے رد و قبول کے بعض اصولوں ( جنہیں اردو اصطلاح میں’’ درایتی اصول ‘‘ بھی کہا جانے لگا ہے) پر بھر پور تنقید کی اور بہت سے اہل علم بالخصوص محدثین آپ کی تنقید سے متاثر ہوئے اور انہوں نے ایسی بہت سے اخبار آحاد کو مستند تسلیم کر کے اپنے مجموعہ ہائے حدیث میں درج کیا جو حنفی فقہاء کے اصولوں کی روشنی میں غیر مستند قرار پاتی تھیں، بلکہ ایسا کرتے ہوئے محدثین کا حنفی فقہا کے خلاف رد عمل یا منفی تاثر بعض مواقع پر خاصا شدید ہو جاتا ہے ، مثلاً محدث ابن ابی شیبہ جو امام بخاری و امام مسلم وغیرہ جیسے محدثین کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، نے اپنے حدیث کی جامع کتاب ’’ المصنف‘‘ میں امام ابو حنیفہ کے رد میں ایک باب قائم کیا جس کا عنوان ہے:
ھذا ما خالف بہ ابو حنیفہ الاثر الذی جاء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
’’ ابو حنیفہؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی جس جس اثر(حدیث) کی مخالفت کی ہے یہ باب اسی بارے میں ہے‘‘۔
اس باب کے تحت انہوں نے تقریباً سوا سو ایسے مسائل کی نشاندہی کی ہے جن میں ان کے بقول امام صاحب کی رائے حدیث کے خلاف ہے۔
زیر نظر کتاب’’ بنیادی طور پر دوسری صدی ہجری کے عظیم محدث حضرت امام ابن ابی شیبہؒ کی طرف سے ان کی معرکۃ الآرا تصنیف مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ پر اس حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات کا نا قدانہ جائزہ ہے‘‘ (ص12 )تاہم مصنف کے بقول اس کتاب میں مذکورہ بالا موضوع کے علاوہ ان کی بعض وہ تحریریں بھی نظر ثانی کے بعد شامل اشاعت ہیں جو ماہنامہ الشریعہ، اشراق اور معارف وغیرہ میں’’ احادیث و آثار کے حوالے سے ائمہ احناف کا زاویہ نظر اور اصولی موقف کی وضاحت‘‘(ص 17)کے سلسلے میں شائع ہوئی ہیں۔
زیر نظر کتاب درج ذیل تین ابواب پر مشتمل ہے:
باب 1۔ حنفی منہج اجتہاد میں احادیث و آثار کی اہمیت
باب 2۔ احادیث کی تحقیق اور ردو قبول کے معیارات
باب3۔ حدیث کی تعبیر و تشریح کے اصول
کتاب کا پیش لفظ(ص 13-7 )جناب مصنف کے والد محترم مولانا زاہدالراشدی صاحب کا تحریر کردہ ہے جس میں انہوں نے مصنف کے کام کی تائید کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، جب کہ کتاب کے آخر میں اہم علمی اصطلاحات (ص 253-251)اور مصادر و مراجع (ص 264-254)کی فہرستیں بھی شامل اشاعت ہیں۔
زیر نظر کتاب، جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے، بنیادی طور پر حنفی فقہا کے حدیث کے سلسلہ میں اختیار کیے جانے والے مخصوص علمی اسلوب پر ہونے والے نقد کے دفاع اور حنفی مکتب فکر کے بارے میں اس سلسلہ میں مشہور ہوجانے والی بعض غلط فہمیوں کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ایک ایسی بحث کا تسلسل ہے جو فقہ حنفی کے آغاز سے آج تک جاری ہے ، اور بالخصوص بر صغیر پاک و ہند میں تو خدا جانے یہ بحث کب اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔ ماضی میں علامہ ابن تیمیہ جیسے عبقری بھی اس بحث کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینے میں ناکام رہے ہیں!
زیر نظر کتاب میں مصنف نے حنفی فقہ کی وکالت بہت اچھے طریقے سے انجام دی ہے، تاہم اس سلسلہ میں کچھ چیزیں مزید غور و فکر کی متقاضی ہیں۔
پاک و ہند میں زیر بحث مسئلے میں حنفی مکتب فکر کا مد مقابل حریف عموماً غیر مقلد طبقہ رہا ہے جس میں اہل حدیث سب سے نمایاں ہیں اور انہی کے اعتراضات ، خواہ وہ تحریری شکل میں ہوں یا تقریری، سے ماحول میں جو تناؤ پیدا ہوا، اسے زائل کرنے کے لیے بالعموم اس نوعیت کی کتابیں حنفی مکتب فکر کی طرف سے وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔زیر نظر کتاب اس اعتبار سے اسی کا تسلسل ہے جیسا کہ کتاب کے دیباچہ اور پیش لفظ میں خود مصنف اور ان کے والد محترم نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ تاہم کتاب کے مطالعہ کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں، اور ہو سکتا ہے کہ میری رائے غلط ہو ، کہ اس کتاب میں دیے گئے نتائج تحقیق سے حنفی مکتب فکر تو خوش ہوگا مگر مد مقابل فریق ، جو اس کاوش کا غالباً اصل مخاطب ہے یا ہونا چاہیے، بالکل متاثر نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مخاطب فریق کی طرف سے جو اصولی نوعیت کے اعتراضات حدیث کے ردو قبول اور فہم حدیث کے سلسلہ میں فقہ حنفی پر کیے جاتے ہیں، انہیں صحیح معنوں میں بحث کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
مثال کے طور پر زیر تبصرہ کتاب کے پہلے باب’’ حنفی منہج اجتہاد میں احادیث وآثار کی اہمیت‘‘ میں مختلف ذیلی عنوانات قائم کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ فقہ حنفی میں حدیث کو اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ ضعیف حدیث ، خواہ وہ مرسل ہو یا اس میں کوئی راوی مجہول ہو یا وجہ ضعف کچھ اور ہو، کو بھی قبل کیا جاتا ہے بلکہ قیاس و رائے پر بھی فوقیت دی جاتی ہے، اس طرح آثار صحابہ کی بھی یہی اہمیت بیان کی گئی ہے۔(دیکھیے،ص33تا99)۔ لیکن مخاطب فریق کا موقف یا اعتراض حنفی مکتب فکر پر یہ ہے کہ جہاں اپنے حنفی فقہا کی فقہی رائے بچانی ہو، وہاں اس رائے کی تائید میں موجود ضعیف حدیث بھی یقیناًقبول کر لی جاتی ہے اور جہاں حدیث واضح طور پر فقہ حنفی کے خلاف ہوتی ہے، وہاں اسے قبول نہیں کیا جاتا، خواہ وہ کتنی ہی مستند ہو اور اسے بخاری و مسلم جیسی مستند کتب حدیث میں کیوں نہ روایت کیا گیا ہو!
یہ اعتراض یا موقف اہل حدیث مکتب فکر میں بہت عام ہے اور ضروری ہے کہ اس حوالے سے فقہ حنفی سے انطباقی مثالوں کے ساتھ بھر پور علمی اور غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کیا جاتا۔ اور میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اس بحث میں ابن حزم کی آرا کو ضرور زیر بحث لایا جائے جس کے بعض حوالہ جات مصنف نے زیر نظر کتاب میں مختلف مقامات پر اپنی تائید میں پیش کیے ہیں، حالانکہ علامہ ابن حزم جتنا حنفی مکتب فکر کے خلاف شدید تھے، اتنا کوئی اور عالم شاید ہی رہا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ ابن حزم کو اہل حدیث مکتب فکر میں خاص قبولیت حاصل ہے۔اسی طرح مصنف لکھتے ہیں،’’ احناف کے ہاں روایات کی جانچ پرکھ اور تحقیق کا ایک خصوصی معیار ہے جو بعض اہم پہلوؤں سے محدثین کے اختیار کردہ منہج سے مختلف ہے اور اس کے زیر اثر بہت سی روایات کے ردو قبول کے ضمن میں بھی احناف کا موقف محدثین کے موقف سے مختلف ہو جاتا ہے‘‘۔(ص105)
اگرچہ مصنف نے مذکورہ مخصوص معیار کی حنفی کتب فقہ سے مثالوں کے ساتھ تفصیلات فراہم کی ہیں، مگر یہاں بھی فریق مخاطب مخالف کے نقطہ نظر کو سمجھ کو موضوع بحث بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ فریق مخالف کی رائے یہاں یہ ہے کہ حدیث کے ردوقبول کا یہ مخصوص معیار اختراعی یا الحاقی نوعیت کا ہے، یعنی ان کی رائے میں موسسین فقہ حنفی اس مخصوص معیار کے بانی خود نہیں، بلکہ متاخرین حنفی اصولیوں نے فقہ حنفی کو حدیث کی مخالفت کے الزام سے بچانے کے لیے اس ضمن میں مختلف اصول اور معیارات قائم کر کے انہیں اپنے ائمہ موسسین کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ اس کی تائید میں شاہ وہلی اللہ مرحوم کی بعض تحریروں کو بھی بطور سند پیش کیا جاتا ہے۔ اس مخصوص معیار کو قبول یا رد کرنا تو ایک الگ علمی بحث رہی ہے اور رہے گی ، مگر یہ کہنا کہ یہ مخصوص معیار الحاقی ہے، اس بارے میں زیر نظر کتاب کا مطالعہ کئی جہتوں سے تشنگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔
اسی ضمن میں مصنف نے لکھا ہے کہ’’ اخبار آحاد کی تحقیق اور جانچ پرکھ کا معاملہ سر تا سر ایک اجتہادی معاملہ تھا اور محدثین اور فقہا کے مختلف گروہوں نے اپنے اپنے اجتہادی ذوق کے تحت ہی روایات کی تحقیق کے لیے مختلف معیارات وضع کیے۔‘‘ (ص108) مجھے ذاتی طور پر اس رائے سے اختلاف نہیں، لیکن چونکہ بہت سے اہل حدیث علما کی رائے اس باب میں مختلف ہے، اس لیے اگر مصنف اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال کرتے تو شاید قارئین کے لیے اس موقف پر مزید غور و فکر کا سامان میسر آتا۔
میں اس بات پر فاضل مصنف کو مبارکباد پیش کروں گا کہ انہوں نے یہ کتاب لکھ کر فقہ حنفی کی نمائندگی، یا دوسرے لفظوں میں، فقہ حنفی پر حدیث کے حوالے سے پائے جانے والے شبہات کا ازالہ کی کوشش خوب عمدگی سے کی ہے، قطع نظر اس سے کہ فریق مخالف اس سے متاثر یا مستفید ہوتا ہے یا نہیں، تاہم جاوید احمد غامدی صاحب کے ساتھ مصنف کا جو سلسلہ تلمذ رہا ہے، کتاب کے بعض مندرجات مصنف پر جناب غامدی صاحب سے اثر پذیری کی غمازی بھی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب مذکور کے صفحات 106 یا 107 پر ’’ دائرہ اختلاف کی تعیین‘‘ کے عنوان کے تحت مصنف نے جو کچھ لکھا ہے ،غامدی صاحب کے تصورِ حدیث،تصورِ سنت،تصورِ اُسوہ سے واقفیت رکھنے والے اہل علم اس کی بو یہاں محسوس کر سکتے ہیں، تاہم کتاب کے موضوع کے اندر رہتے ہوئے مصنف نے یہاں کھل کر کوئی بات نہیں کی جو جناب غامدی صاحب کی فکر کی عکاسی کرتی ہو، اس لیے شک کے فائدے کی گنجائش بہرحال انہیں حاصل ہے، مگر درج ذیل عبارت کی کیا توجیہ کی جائے ، میرے فہم سے بالا ہے۔
مصنف لکھتے ہیں، ’’کتاب اللہ اور سنت متواترہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث دین کا تیسرا بنیادی ماخذ ہیں جنہیں فکر و تدبر کا موضوع بنانا دین کے مکمل اور جامع فہم کے لیے ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ (ص 167)
کیا حنفی فقہ اور اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن، سنت اور حدیث کی شکل میں شریعت کے تین بنیادی مصادر الگ الگ حیثیت میں بیان کیے گئے ہیں، یا اس کی تہہ میں کہیں فکر غامدی کے اثرات کار فرما ہیں؟ اس سوال کا جواب میں مصنف اور اپنے حنفی دوستوں پر چھوڑتا ہوں!
(بشکریہ ماہنامہ ’’البرہان‘‘ لاہور)

مارچ ۲۰۱۷ء

مسلمانوں کے خلاف جنگ میں غیر مسلموں کی معاونت ۔ تکفیری مکتب فکر کے ایک اہم استدلال کا تنقیدی جائزہمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۸)ڈاکٹر محی الدین غازی
استاذ القراء حضرت قاری محمد انور قدس اللہ سرہ العزیزمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اقلیتوں سے متعلق مسلمانوں کے فکری تحدیاتڈاکٹر محمد ریاض محمود
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ
DNA کے بارے میں چشم کشا حقائقمولانا مفتی منیب الرحمن
دیو بند و بریلی : اختلافات سے مشترکات تکسراج الدین امجد

مسلمانوں کے خلاف جنگ میں غیر مسلموں کی معاونت ۔ تکفیری مکتب فکر کے ایک اہم استدلال کا تنقیدی جائزہ

محمد عمار خان ناصر

موجودہ مسلم حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے گروہوں کی طرف سے ایک اہم دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ان حکمرانوں نے بہت سی ایسی لڑائیوں میں کفار کے حلیف کا کردار ادا کیا ہے جو انھوں نے دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف شروع کی ہیں اور اسلامی شریعت کی رو سے یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا مرتکب کافر اور مرتد قرار پاتا ہے۔
یہ نقطہ نظر ہمارے ہاں سب سے پہلے غالباً انگریزی دور اقتدار میں جنگ عظیم اول کے موقع پر اس وقت پیش کیا گیا جب برطانوی فوج میں شامل مسلمانوں کے لیے ترکی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا سوال سامنے آیا۔ تحریک خلافت کے قائدین نے اس پر ایک سخت مذہبی موقف اختیار کیا اور مولانا ابو الکلام آزاد نے اس کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’تیسری صورت قتل مسلم کی یہ ہے کہ کوئی مسلمان کافروں کے ساتھ ہو کر ان کی فتح ونصرت کے لیے مسلمانوں سے لڑے یا لڑائی میں ان کی اعانت کرے اور جب مسلمانوں اور غیر مسلموں میں جنگ ہو رہی ہو تو وہ غیر مسلموں کا ساتھ دے۔ یہ صورت اس جرم کے کفر وعدوان کی انتہائی صورت ہے اور ایمان کی موت اور اسلام کے نابود ہو جانے کی ایک ایسی اشد حالت ہے جس سے زیادہ کفر وکافری کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے وہ سارے گناہ، ساری معصیتیں، ساری ناپاکیاں، ہر طرح اور ہر قسم کی نافرمانیاں جو ایک مسلمان اس دنیا میں کر سکتا ہے یا ان کا وقوع دھیان میں آ سکتا ہے، سب اس کے آگے ہیچ ہیں۔ جو مسلمان ایسے فعل کا مرتکب ہو، وہ قطعاً کافر ہے اور بد ترین قسم کا کافر ہے۔ اس کی حالت کو قتل مسلم کی پہلی صورت پر قیاس کرنا درست نہ ہوگا۔ اس نے صرف قتل مسلم ہی کا ارتکاب نہیں کیا ہے، بلکہ اسلام کے برخلاف دشمنان حق کی اعانت ونصرت کی ہے اور یہ بالاتفاق وبالاجماع کفر صریح وقطعی مخرج عن الملۃ ہے۔ جب شریعت ایسی حالت میں غیر مسلموں کے ساتھ کسی طرح کا علاقہ محبت رکھنا بھی جائز نہیں رکھتی تو پھر صریح اعانت فی الحرب اور حمل سلاح علی المسلم کے بعد کیونکر ایمان واسلام باقی رہ سکتا ہے؟‘‘ (مسئلہ خلافت، ص ۹۷، مکتبہ جمال لاہور، ۲۰۰۶ء)
مولانا سید حسین احمد مدنی نے بھی اس موقف کی تائید کی، چنانچہ مولانا آزاد کا مذکورہ اقتباس ان کی ’’تقریر ترمذی‘‘ میں باللفظ مولانا مدنی کے موقف کے طور پر نقل کیا گیا ہے۔ معاصرتکفیری گروہوں کی طرف سے بالعموم اپنے موقف کے حق میں اسی اقتباس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
یہ معاملہ شرعی نقطہ نظر سے تفصیل طلب ہے۔ اس ضمن میں بنیادی اور فیصلہ کن نکتے دو ہیں: ایک یہ کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی باہمی جنگ میں لڑائی کا اصل باعث کیا ہے اور اس سے کس مقصد کا حصول کفار کے پیش نظر ہے؟ اور دوسرا یہ کہ غیر مسلموں کا ساتھ دینے والے مسلمان، کس محرک کے تحت اس جنگ میں کفار کے ساتھ شریک ہو رہے ہیں؟ اگر وجہ قتال نفس اسلام ہے، یعنی کفار صرف اس لیے مسلمانوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور انھیں اسلام سے برگشتہ کرنا یا اسلام کو مٹا دینا اس جنگ کا مقصد ہے، جبکہ جنگ میں غیر مسلموں کا ساتھ دینے والے مسلمانوں کا محرک بھی اسلام کو زک پہنچانا ہے تو بلاشبہ یہ کفر ہے، اس لیے کہ کوئی مسلمان حالت ایمان میں یہ طرز عمل اختیار نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر لڑائی کی وجہ عام دنیاوی مفادات کا تصادم ہے اور کفار، مسلمانوں کے کسی علاقے پر قبضہ کرنے یا ان کی دولت ہتھیانے یا ان پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ان پر حملہ آور ہوتے ہیں جبکہ اس جنگ میں کچھ دوسرے مسلمان بھی کچھ دنیوی مفادات کے حصول کے لیے، کفار کے ساتھ شریک جنگ ہونے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس عمل کو فی نفسہ کفر نہیں کہا جا سکتا، اگرچہ اس کا مذموم اور قابل اجتناب ہونا واضح ہے۔ گویا لڑائی کا واقعاتی تناظر اور جنگ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی نیت اور ارادہ یہ طے کریں گے کہ ان کے اس عمل کی حیثیت کیا متعین کی جائے۔ اگر لڑائی کفر اور اسلام کے تناظر میں لڑی جا رہی ہے اور لڑائی میں شریک ہونے والے بھی اسی نیت سے لڑ رہے ہیں کہ اسلام بطور دین کمزور جبکہ کفر اس پر غالب ہو جائے تو بلاشبہ یہ عمل کفر وارتداد کے ہم معنی ہے، لیکن کفار اور مسلمانوں کے مابین ہر جنگ کو نہ تو کفر واسلام کی جنگ کہا جا سکتا ہے اور نہ یہ قرار دینا ممکن ہے کہ کسی دنیوی مفاد کے تناظر میں، جنگ میں کفار کا ساتھ دینے والے مسلمان فی نفسہ اسلام ہی کے دشمن ہیں اور ان میں اور کھلے کافروں میں کوئی فرق ہی باقی نہیں رہا۔
اس حوالے سے فقہاء کا بیان کردہ یہ بنیادی اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ اگر مسلمان کا کوئی قول یا عمل ایک سے زیادہ احتمال رکھتا ہو اور ان میں سے بعض احتمال اس کی تکفیر کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ کچھ احتمال اسے تکفیر سے بچاتے ہوں تو اس کی نیت اور ارادہ فیصلہ کن ہوگا۔ اگر اس نے اس عمل کا ارتکاب ایسی نیت سے کیا ہو جو کفر کو مستلزم ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی، جبکہ اس کے برعکس صورت میں تکفیر سے گریز کیا جائے گا۔ فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’المحیط البرہانی‘‘ میں ہے:
یجب ان یعلم انہ اذا کان فی المسئلۃ وجوھا توجب التکفیر ووجھا واحدا یمنع التکفیر فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم، ثم ان کان نیۃ العامل الوجہ الذی یمنع التکفیر فھو مسلم، وان کانت نیتہ الوجہ الذی یوجب التکفیر لا ینفعہ فتوی المفتی ویومر بالتوبۃ والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین امراتہ (المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، ج ۵، ص ۵۵۰)
’’یہ جاننا لازم ہے کہ اگر کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ احتمالات تکفیر کا تقاضا کرتے ہوں جبکہ صرف ایک احتمال تکفیر سے مانع ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ وہ مسلمان کے ساتھ حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اسی احتمال کو اختیار کرے جو تکفیرسے مانع ہے۔ پھر اگر اس عمل کا ارتکاب کرنے والے کی نیت وہی احتمال ہو جو تکفیر سے مانع ہے تو وہ مسلمان شمار ہوگا، لیکن اگر خود اس کی نیت وہ احتمال ہو جو تکفیر کا موجب ہے تو ایسی صورت میں اسے مفتی کا فتویٰ کوئی فائدہ نہیں دے گا اور اسے کہا جائے گا کہ وہ توبہ کر کے اس عمل سے رجوع کرے اور اپنی بیوی کے ساتھ نکاح کی تجدید کرے۔‘‘
’’المحیط البرہانی‘‘ میں اس اصول کے انطباق کی ایک عمدہ مثال بھی نقل کی گئی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
المسلمون اذا اخذوا اسیرا وخافوا ان یسلم فکغموہ ای سدوا فمہ بشیء حتی لا یسلم او ضربوہ حتی یشتغل بالضرب فلا یسلم فقد اساء وا فی ذلک، ولم یقل فقد کفروا ۔۔۔ وذکر شیخ الاسلام رحمہ اللہ فی شرح السیر ان الرضا بکفر الغیر انما یکون کفرا اذا کان یستجیز الکفر ویستحسنہ، اما اذا کان لا یستجیزہ ولا یستحسنہ ولکن احب الموت او القتل علی الکفر لمن کان شریرا موذیا بطبعہ حتی ینتقم اللہ منہ فھذا لا یکون کفرا (المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، ج ۵، ص ۵۵۱)
’’مسلمان اگر (جنگ میں) کسی قیدی کو گرفتار کریں اور اس ڈر سے کہ کہیں وہ (زبان سے) اسلام کا اقرار نہ کر لے، اس کے منہ کو کسی چیز سے بند کر دیں یا اسے مارنا شروع کر دیں تاکہ وہ مار سے بد حواس ہو جائے اور قبول اسلام کا اعلان نہ کر پائے تو ایسا کرنے والوں نے غلط کام کیا، لیکن اس سے وہ کافر نہیں ہو جائیں گے۔ شیخ الاسلام نے شرح السیر میں واضح کیا ہے کہ دوسرے کے کفر پر راضی ہونا صرف اس صورت میں کفر ہے جب ایسا کرنے والے کفر کو اچھا اور جائز سمجھتا ہو۔ لیکن اگر وہ کفر کو نہ تو جائز سمجھتا ہو اور نہ اسے پسند کرتا ہو، بلکہ صرف یہ چاہتا ہو کہ ایک شریر اور طبعاً موذی کافر، کفر پر ہی مرے یا اسے قتل کر دیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے (ان اذیتوں کا جو اس نے مسلمانوں کودیں) انتقام لے تو اس نیت سے ایسا کرنے والا کافر نہیں ہوگا۔‘‘
مذکورہ مثال میں دیکھیے، کچھ مسلمان ایک کافر کو کلمہ پڑھنے سے روکنا چاہتے ہیں جس کا مطلب بظاہر یہ بنتا ہے کہ وہ اس کو کافر ہی رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے اسلام قبول کرنے پر راضی نہیں۔ اب ظاہر کے اعتبار سے کسی کے کفر پر راضی ہونا اور اسے قبول اسلام سے روکنا کفر ہے، لیکن فقہاء یہ قرار دے رہے ہیں کہ یہاں چونکہ اسلام سے روکنے والوں کی نیت فی نفسہ کفر کو پسند کرنا اور اسے جائز سمجھنا نہیں، بلکہ وہ اس نیت سے ایسا کر رہے ہیں کہ ایک موذی اور شرپسند دشمن اللہ کے انتقام سے بچنے نہ پائے، اس لیے ان کے اس عمل کو ان کی نیت کا اعتبار کرتے ہوئے کفر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہی اصول زیر بحث سوال کے حوالے سے بھی پیش نظر رہے تو صاف واضح ہوگا کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار کا ساتھ دینے والے مسلمانوں کو صرف اسی صورت میں کافر قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ فی نفسہ کفر کو اسلام کے مقابلے میں پسند کرتے ہوں اور اسلام پر کفر کو غالب کرنے کی نیت اور ارادے سے جنگ میں کفار کا ساتھ دے رہے ہوں۔ اگر ان کا محرک اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہو تو فقہی اصول کے لحاظ سے انھیں محض مسلمانوں اور کفار کی لڑائی میں کفار کا ساتھ دینے کی بنا پر کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مذکورہ اصولی نکتے کے علاوہ فقہی ذخیرے میں متعدد ایسے نظائر موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہائے اسلام مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار کے ساتھ شرکت کو مطلقاً یعنی ہر حال میں کفر قرار نہیں دیتے، بلکہ ایسا کرنے والے مسلمانوں کومسلمان ہی شمار کرتے ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر بعض حالات میں اس کی باقاعدہ اجازت دیتے ہیں۔ یہاں چند اہم نظائر کا مطالعہ مفید ہوگا:
۱۔ فقہاء کے مابین اس بات میں اختلاف ہے کہ اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ حکومت کے خلاف بغاوت کر دے تو اس کے خلاف جنگ میں کفار سے مدد لی جا سکتی ہے یا نہیں؟ ایک گروہ کے نزدیک ایسا کرنا درست نہیں، کیونکہ اس سے کفار کو مسلمانوں پر مسلط کرنا لازم آتا ہے جو کہ شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔ (یہاں یہ بات بطور خاص ذہن میں رہے کہ ممانعت کرنے والے فقہاء نے اس کی دلیل یہ نہیں بیان کی کہ ایسا کرنا فی نفسہ کفر ہے)۔ اس کے برخلاف امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا موقف یہ ہے کہ مسلمانوں باغیوں کے خلاف جنگ میں اہل حرب یا اہل ذمہ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے، بشرطیکہ لشکر کی کمان اہل اسلام کے ہاتھ میں ہو اور وہ جنگ کی ترجیحات طے کرنے میں آزاد ہوں۔ سرخسی لکھتے ہیں:
ولا باس بان یستعین اھل العدل بقوم من اھل البغی واھل الذمۃ علی الخوارج اذا کان حکم اھل العدل ظاھرا (المبسوط ۱۰/ ۱۳۴)
’’اس میں کوئی حرج نہیں کہ مسلمان حکومت، خوارج کے خلاف جنگ میں باغیوں کے کسی گروہ یا اہل ذمہ کی مدد حاصل کریں، بشرطیکہ مسلمان حکومت کا فیصلہ غالب ہو۔‘‘
۲۔ یہ اس صورت میں ہے جب مسلمان حکومت، باغیوں کے خلاف کفار کی مدد لینے پر مجبور نہ ہو۔ اگر صورت حال ایسی پیدا ہو جائے کہ باغیوں کا زور توڑنے کے لیے مدد لینا ناگزیر ہو جائے تو یہاں دلچسپ صورت حال پید اہو جاتی ہے۔ فقہائے احناف تو اپنے اصول کے مطابق اس صورت میں باغیوں کے خلاف کفار کی مدد لینے کو جائز قرار نہیں دیتے، چنانچہ سرخسی لکھتے ہیں:
وان ظھر اھل البغی علی اھل العدل حتی الجاوھم الی دار الشرک فلا یحل لھم ان یقاتلوا مع المشرکین اھل البغی، لان حکم اھل الشرک ظاھر علیھم ولا یحل لھم ان یستعینوا باھل الشرک علی اھل البغی من المسلمین اذا کان حکم اھل الشرک ھو الظاھر (المبسوط ۱۰/ ۱۳۴)
’’اگر باغی حکومت کے مقابلے میں غالب آ جائیں اور انھیں اہل شرک کے علاقے کی طرف دھکیل دیں تو اس حالت میں حکومت کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف جنگ کرے، کیونکہ اہل شرک کا اقتدار غالب ہے جبکہ ایسی صورت میں مسلمانوں کے لیے حلال نہیں کہ وہ مسلمان باغیوں کے خلاف اہل شرک کی مدد حاصل کریں۔‘‘
لیکن فقہا کا دوسرا گروہ جو عام حالات میں باغیوں کے خلاف کفار کی مدد لینے کو ناجائز کہتا ہے، ان میں سے بعض اہل علم مذکورہ صورت حال میں مجبوری کے تحت کفار کی مدد لینے کی اجازت دیتے ہیں، چنانچہ علامہ ابن حزم تصریح کرتے ہیں کہ باغیوں کے خلاف کفار سے مدد لینے کی ممانعت اس صورت میں ہے جب مسلمان خود باغیوں کے خلاف لڑنے کی قدرت رکھتے ہوں۔ اگر حکومت اتنی کمزور ہو جائے کہ کفار کی مدد لیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو پھر اہل حرب یا اہل ذمہ کا سہارا لے کر اور ان کی مدد سے باغیوں کے خلاف جنگ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ جن کفار سے وہ مدد لے رہے ہیں، ان کی طرف سے یہ خدشہ نہ ہو کہ وہ کسی مسلمان یا ذمی کی جان ومال کو نقصان پہنچائیں گے۔ لکھتے ہیں:
ھذا عندنا ما دام فی اھل العدل منعۃ، فان اشرفوا علی الھلکۃ واضطروا ولم تکن لھم حیلۃ فلا باس بان یلجؤا الی اھل الحرب وان یمتنعوا باھل الذمۃ، ما ایقنوا انھم فی استنصارھم لو یوذون مسلما ولا ذمیا فی دم او مال او حرمۃ مما یحل (المحلی، ۱۱/ ۳۵۵)
’’ہمارے نزدیک یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب حکومت اپنے دفاع پر قادر ہو۔ اگر مسلمان ہلاکت کے قریب پہنچ جائیں اور حالت اضطرار سے دوچار ہو جائیں اور کوئی چارہ باقی نہ رہے تو پھر (باغیوں کے خلاف) اہل حرب کا سہارا لینے میں یا اہل ذمہ کے ساتھ مل کر دفاع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، بشرطیکہ انھیں یہ یقین ہو کہ ان سے مدد لینے کے نتیجے میں وہ وہ کسی مسلمان یا ذمی کی جان ومال یا کسی حرمت پر دست درازی نہیں کریں گے۔‘‘
فقہ شافعی کی کتاب ’’الاقناع‘‘ میں ہے:
ولا یستعان علیھم بکافر لانہ یحرم تسلیطہ علی المسلم الا لضرورۃ (۲/۵۴۹)
’’مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں کسی کافر سے مدد نہ لی جائے، کیونکہ انھیں مسلمانوں پر مسلط کرنا حرام ہے، الا یہ کہ مجبوری ہو۔‘‘
’’مغنی المحتاج‘‘ میں ہے:
فی التتمۃ صرح بجواز الاستعانۃ بہ ای الکافر عند الضرورۃ وقال الاذرعی وغیرہ انہ المتجہ (۵/۴۰۷)
’’تتمہ میں ضرورت اور مجبوری کے تحت کفار سے (مسلمانوں کے خلاف) مدد لینے کے جواز کی تصریح کی گئی ہے۔ اذرعی اور دوسرے اہل علم نے کہا کہ یہی بات درست ہے۔‘‘
یہی بات فقہ حنبلی کی کتاب شرح منتہی الارادات (۳/۳۹۰) میں بھی کہی گئی ہے۔ 
۳۔ فقہاء اس کی بھی تصریح کرتے ہیں کہ اگر مسلمان باغی، حکومت کے خلاف جنگ میں کفار سے مدد لیں تو ایسا کرنے سے باغی، کافر نہیں ہو جائیں گے۔ چنانچہ امام شافعی لکھتے ہیں:
ولو استعان اھل البغی باھل الحرب علی قتال اھل العدل وقد کان اھل العدل وادعوا اھل الحرب فانہ حلال لاھل العدل قتال اھل الحرب وسبیھم ۔۔۔ وقد قیل: لو استعان اھل البغی بقوم من اھل الذمۃ علی قتال المسلمین لم یکن ھذا نقضا للعھد لانھم مع طائفۃ من المسلمین (الام ۴/ ۲۳۴)
’’اگر باغی، حکومت کے خلاف جنگ میں اہل حرب کی مدد حاصل کریں ، جبکہ ان اہل حرب کے ساتھ اس سے پہلے حکومت نے صلح کا معاہدہ کر رکھا ہو تو اب نئی صورت حال میں حکومت کے لیے ان اہل حرب کے ساتھ جنگ کرنا اور انھیں قیدی بنانا جائز ہو جائے گا۔ ۔۔۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ اگر باغی، مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں اہل ذمہ کی مدد حاصل کریں تو ایسا کرنے والے اہل ذمہ کا معاہدہ نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ وہ (مسلمانوں کے خلاف) مسلمانوں ہی کے ایک گروہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔
یہی بات ابن قدامہ نے المغنی (ج ۹، مسئلہ ۷۰۸۱) میں اور امام نووی نے روضۃ الطالبین (۷/۲۸۰، ۲۸۱) میں لکھی ہے۔ 
امام سرخسی نے شرح السیر الکبیر کی ایک مستقل فصل میں اس صورت حال کے فقہی احکام پر بحث کی ہے جب مسلمانوں کا کوئی باغی گروہ اہل حرب کے ساتھ مل کر مسلم ریاست کے خلاف جنگ کرے۔ سرخسی نے اس کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اہل حرب، خوارج کی کمان میں مسلمانوں کے ساتھ لڑیں یا یہ کہ خوارج، اہل حرب کی کمان میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ کریں یا یہ کہ دونوں کی کمان اپنی اپنی ہو اور وہ مختلف محاذوں سے مسلمانوں کے خلاف حملہ آور ہوں۔ اس ساری بحث کے فقہی احکام اس نکتے پر مبنی ہیں کہ خوارج ایسا کرنے کے باوجود مسلمان ہی شمار ہوں گے اور ان پر مسلمانوں ہی کے احکام جاری ہوں گے۔ کہیں بھی سرخسی نے اشارۃً بھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے یہ مترشح ہوتا ہو کہ وہ اس عمل کو، خاص طور پر اہل حرب کی کمان میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کو کفر وارتداد کے ہم معنی سمجھتے اور اس کے نتیجے میں خوارج کو ان مخصوص رعایتوں سے محروم تصور کرتے ہیں جو انھیں بطورمسلمان حاصل ہیں:
ولو سال الخوارج من اھل الحرب ان یعینوھم علی اھل العدل فقالوا لا نعینکم الا ان یکون الامیر منا ویکون حکمنا ھو الجاری ففعلوا ذلک ثم ظھر علیھم اھل العدل فاھل الحرب واموالھم فیء، اما اذاکانت الخوارج لم یومنوھم فالجواب ظاھر لانھم اھل حرب لاامان لھم، واما اذا کانوا امنوھم حتی خرجوا فلانھم نقضوا ذلک الامان حین قاتلوا اھل العدل لمنعتھم وتحت رایتھم بخلاف ما تقدم فھناک انما قاتلوا تحت رایۃ الخوارج وکان حکم الخوارج ھو الجاری فلم یکن ذلک نقضا لامانھم (شرح السبیر الکبیر، باب النفل من اسلاب الخوارج واہل الحرب یقاتلون معہم بامان او بغیر امان، ص ۲۷۲)
’’اگر خوارج، اہل حرب سے اہل عدل کے خلاف مدد کا مطالبہ کریں اور اہل حرب اس کے لیے یہ شرط عائد کریں کہ امیر لشکر ہم میں سے ہوگا اور ہمارے فیصلے جاری ہوں گے اور خوارج یہ شرط قبول کر لیں تو اس کے بعد اگر اہل عدل، جنگ میں غالب آ جائیں تو اہل حرب اور ان کے اموال کا حکم مال فے کا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تو خوارج نے ان کو امان نہ دی ہو تو پھر تو جواب ظاہر ہے کہ یہ لوگ اہل حرب ہیں جنھیں امان حاصل نہیں تھی۔ اور اگر خوارج نے ان کو امان دی ہو اور اس کے تحت وہ (اپنے علاقے سے) نکلے ہوں تو جب انھوں نے اپنے لشکر کی حفاظت میں اور اپنی کمان کے تحت اہل عدل کے خلاف جنگ شروع کی تو خود ہی اس امان کو باطل کر دیا، بخلاف سابقہ صورت کے کہ وہاں انھوں نے خوارج کی کمان میں لڑائی کی تھی اور خوارج کا حکم ان پر غالب تھا، اس لیے اس صورت میں ان کر لڑنا، ان کی امان کو باطل کرنے والا نہیں تھا۔‘‘
دیکھ لیجیے، اس بحث میں بھی فقہاء، مسلمان حکومت کے خلاف کفار کی مدد سے جنگ کرنے والے باغیوں کو کافر قرار نہیں دیتے، بلکہ انھیں مسلمان شمار کرتے ہوئے ہی ان کے احکام بیان کرتے ہیں۔
ابن حزم کی رائے یہ ہے کہ اگر کمان مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو یا مسلمان اور کفار اپنے الگ الگ لشکروں میں دوسرے مسلمانوں کے خلاف مل کر لڑائی کریں تو ایسا کرنا بہت بڑا فسق تو ہے، لیکن انھیں کافر نہیں کہا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:
واما من حملتہ الحمیۃ من اہل الثغر من المسلمین فاستعان بالمشرکین الحربیین واطلق ایدیہم علی قتل من خالفہ من المسلمین او علی اخذ اموالہم او سبیلہم فان کانت یدہ ہی الغالبۃ وکان الکفار لہ کاتباع فہو ہالک فی غایۃ الفسوق ولا یکون بذلک کافرا لانہ لم یات شیئا اوجب بہ علیہ کفرا قرآن او اجماع ۔۔۔۔۔۔ فان کانا متساویین لا یجری حکم احدہما علی الآخر فما نراہ بذلک کافرا (المحلی ۱۱؍۲۰۰، ۲۰۱)
’’سرحدوں پر رہنے والے مسلمانوں میں سے اگر کچھ لوگ (مسلمان حکومت سے) ناراض ہو کر حربی مشرکین سے ان کے خلاف مدد حاصل کریں اور اپنے مخالف مسلمانوں کو قتل کرنے یا ان کے اموال لوٹنے میں مشرکین کا ساتھ دیں تو اگر تو ان مسلمانوں کو غالب حیثیت حاصل ہو اور کفار ان کے بالتبع ہوں تو ایسے لوگ انتہائی درجے کے فاسق ہیں، لیکن اس سے وہ کافر نہیں ہو جائیں گے، کیونکہ انھوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کو قرآن یا اجماع نے مستوجب کفر قرار دیا ہو۔ اسی طرح اگر مسلمانوں اور کافروں کو برابر کی حیثیت حاصل ہو اور کوئی بھی دوسرے پر بالادست حیثیت نہ رکھتا ہو تو بھی کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے والے مسلمان، کافر نہیں ہوں گے۔‘‘
علامہ ابن حزم نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ اگر مسلمانوں کا کوئی محارب گروہ اہل حرب کے ساتھ مل کر مسلمان باغیوں کا مال لوٹنے کے لیے ان پر حملہ کرے تو اس کے باوجود وہ مسلمان ہی رہے گا، البتہ دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان حملہ آوروں کے خلاف باغی مسلمانوں کا دفاع کریں۔ لکھتے ہیں:
ولو ترک اھل الحرب من الکفار واھل المحاربۃ من المسلمین علی قوم من اھل البغی ففرض علی جمیع اھل الاسلام وعلی الامام عون اھل البغی وانقاذھم من اھل الکفر ومن اھل الحرب لان اھل البغی مسلمون ۔۔۔ واما اھل المحاربۃ من المسلمین فانھم یریدون ظلم اھل البغی فی اخذ اموالھم والمنع من الظلم واجب (المحلی ۱۱/ ۳۶۱)
’’اگر اہل حرب کفار اور مسلمانوں میں سے کچھ محاربین، باغیوں پر حملہ کریں تو تمام اہل اسلام اور مسلمان حکمران پر لازم ہے کہ وہ باغیوں کی مدد کریں اور انھیں اہل کفر اور محاربین سے بچائیں کیونکہ یہ باغی مسلمان ہیں۔ جہاں تک (کفار کے ساتھ مل کر حملہ کرنے والے) مسلمان محاربین کا تعلق ہے تو (ان سے لڑنا اس لیے ضروری ہے کہ) وہ باغیوں کے مال چھین کران پر ظلم کرنا چاہتے ہیں اور ظلم سے روکنا واجب ہے۔‘‘
۴۔ مذکورہ نظائر کا تعلق اس صورت سے ہے جب مسلمانوں (حکومت یا باغیوں) کے خلاف جنگ کا بنیادی فریق خود مسلمان ہوں اور کفار کو اس جنگ میں ایک مددگار فریق کے طور پر شریک کیا جائے۔ اگر صورت حال اس کے برعکس ہو، یعنی مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اصل فریق کفار ہوں اور کچھ مسلمان ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں تو فقہاء کے ہاں اس کے حکم کے متعلق قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ علامہ ابن حزم اس کے قائل ہیں کہ اگر مسلمانوں کے خلاف لڑائی کی کمان کفار کے ہاتھ میں ہو تو ان کے ساتھ مل کر لڑنا مسلمانوں کے لیے مستوجب کفر عمل ہے۔ 
لکھتے ہیں:
وان کان حکم الکفار جاریا علیہ فہو بذلک کافر علی ما ذکرنا (المحلی ۱۱؍۲۰۰، ۲۰۱)
’’اگر کفار کا حکم ان پر غالب ہو تو ان کی کمان میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے والا کافر ہو جائے گا۔‘‘
تاہم یہ ابن حزم کا انفرادی نقطہ نظر ہے۔ جمہور فقہاء کی تصریحات کے مطابق مسلمانوں کے، کفار کی کمان میں دوسرے مسلمانوں کے خلاف لڑنے یا اپنی کمان میں ان سے مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں مدد لینے سے معاملے کی شرعی حیثیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا اور ایسے مسلمان اس عمل کے بعد بھی مسلمان ہی تصور کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے چند تصریحات درج ذیل ہیں:
امام سرخسی نے لکھا ہے کہ اگر کسی مرتد کا مسلمان غلام کفار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہو اور گرفتار ہو جائے تو اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے قیدی نہیں بنایا جائے گا بلکہ آزاد کر دیا جائے گا:
ان کان خرج لیقاتل المسلمین فظھروا علیہ فان کان مسلما فھو حر لانہ مراغم لمولاہ ولو کان ذمیا فھو فیء لمن اخذہ لان قتالہ المسلمین نقض منہ للعھد (شرح السیر الکبیر ج ۵ ص ۲۰۸)
’’اگر مرتد کا غلام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے دار الحرب سے نکلا ہو اور پھر مسلمان اسے پکڑ لیں تو اگر وہ مسلمان ہو تو اسے آزاد کر دیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے آقا کی مرضی کے برخلاف آیا ہے، اور اگر وہ غلام ذمی ہو تو جو لوگ اسے گرفتار کریں گے، وہ ان کی ملکیت بن جائے گا کیونکہ ذمی کا، مسلمانوں کے ساتھ قتال کرنا معاہدہ کو توڑ دیتا ہے۔‘‘
یہاں واضح طور پر کفار کی طرف سے شریک جنگ ہونے والے مسلمان اور غیر مسلم غلام میں فرق کیا جا رہا ہے اور محض جنگ میں شریک ہونے کی بنا پر مسلمان غلام کو کافر اور مرتد شمار نہیں کیا جا رہا۔
امام سرخسی لکھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ کفار کے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرے تو مسلمانوں کے لیے بھی ان کو جواباً قتل کرنا جائز ہے، لیکن اس کے باوجود ان کا شمار مسلمانوں میں ہی ہوگا:
ولو لقوا فی صف المشرکین قوما من المسلمین معھم الاسلحۃ فلا یدرون امکرھون علی ذلک ام غیر مکرھین فانی احب لھم الا یعجلوا فی قتالھم حتی یسالوھم ان قدروا علی ذلک، وان لم یقدروا فلیکفوا عنھم حتی یروھم یقاتلون احدا منھم فحینئذ لا باس بقتالھم وقتلھم، لان موافقتھم فی الدین تمنعھم من محاربۃ المسلمین وھذا منھم معلوم للمسلمین۔ فما لم یتبین خلافہ لا یحل لھم ان یقتلوھم وبمجرد وقوفھم فی صف المشرکین لا یتبین خلاف ذلک، لان ذلک محتمل وقد یکون عن اکراہ وقد یکون عن طوع، فالکف عن قتالھم احسن حتی یتبین منھم القتال، فحینئذ لا باس بقتالھم لان مباشرۃ القتال فی منعۃ المشرکین مبیح لدمھم وان کانوا مسلمین، الا تری ان اھل البعی یقاتلون دفعا لقتالھم وان کانوا مسلمین (شرح السیر الکبیر ۴ /۲۰۶، ۲۰۷)
’’اگر مسلمان، مشرکین کی صفوں میں کچھ مسلمانوں کو دیکھیں جن کے پاس ہتھیار ہوں تو اب یہ معلوم نہیں کہ وہ مجبوراً آئے ہیں یا اپنے اختیار سے، اس لیے مجھے یہ پسند ہے کہ اگر وہ ایسا کر سکیں تو جب تک ان سے دریافت نہ کر لیں، ان کے خلاف لڑنے میں جلدی نہ کریں۔ اور اگر ان سے دریافت نہ کر سکتے ہوں تو بھی ان کے خلاف اقدام نہ کریں جب تک کہ انھیں اپنے خلاف لڑتا ہوا نہ دیکھ لیں۔ اس صورت میں ان سے لڑنے اور انھیں قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (پہلے مرحلے پر انھیں قتل کرنا) اس لیے درست نہیں کہ ان کا مسلمان ہونا انھیں مسلمانوں ہی کے خلاف لڑنے سے روکتا ہے اور یہ بات مسلمانوں کو معلوم ہے، اس لیے جب تک معاملے کا اس کے برخلاف ہونا بالکل واضح نہ ہو جائے، ان کے محض مشرکوں کی صف میں کھڑے ہونے کی وجہ سے انھیں قتل کرنا جائز نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ وہ جبراً لائے گئے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی مرضی سے آئے ہوں۔ اس لیے جب تک وہ صاف طور پر لڑائی میں شریک نہ ہو جائیں، ان کے خلاف جنگ سے گریز کرنا ہی اچھا ہے۔ البتہ دوسری صورت میں ان کے خلاف لڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ مشرکین کی کمان میں (مسلمانوں کے خلاف) جنگ کرنا ان کے خون کو مباح کر دیتا ہے، اگرچہ وہ مسلمان ہی ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ باغیوں کی لڑائی کے سد باب کے لیے ان کے خلاف جنگ کی جاتی ہے، حالانکہ وہ مسلمان ہوتے ہیں۔‘‘
یہ تو اس ضمن میں کلاسیکی فقہی ذخیرے کی تصریحات تھیں۔ علمائے اسلام کے زاویہ نظر میں اس کی تائید وتوثیق کی مثال ہمیں ماضی قریب کی بعض بحثوں میں بھی ملتی ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے نصف اول میں جب برصغیر سے انگریزی اقتدار کے خاتمے کے لیے سیاسی جدوجہد کی جا رہی تھی تو یہاں کے مذہبی سیاسی قائدین کی اکثریت کا رجحان متحدہ قومیت کے تصور کے تحت ایک ایسی آزاد جمہوری ریاست کے قیام کی طرف تھا جس میں مسلمانوں، ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو یکساں سیاسی وشہری حقوق حاصل ہوں۔ اس ضمن میں ان حضرات کے سامنے ایک اہم سوال یہ آیا کہ اگر کسی وقت ہندوستان اور کسی بیرونی مسلمان حکومت کے مابین جنگ کی نوبت آ جائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کا شرعی موقف کیا ہوگا یا کیا ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں ممتاز ترین اہل علم نے دوٹوک انداز میں یہ بات واضح کی کہ ہندوستان کے مسلمان ایسی صورت میں کسی بھی غیر ملکی طاقت کے خلاف، چاہے وہ مسلمانوں ہی کی کیوں نہ ہو، ہندوستان کا دفاع کرنے کے پابند ہوں گے اور یہ نہ صرف ان کا وطنی وقومی فریضہ بلکہ ان کی شرعی واخلاقی ذمہ داری بھی ہوگی۔
اس ضمن کی چند اہم تصریحات یہاں نقل کی جا رہی ہیں۔
علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ نے جمعیۃ علمائے ہند کے اجلاس منعقدہ پشاور (۱۹۲۷ء) میں خطبہ صدارت ارشاد فرماتے ہوئے کہا کہ:
’’اگر آج مسلمانوں کو اکثریت کی تعدی کے خطرے سے محفوظ کر دیا جائے تو وہ ہندوستان کی طرف سے ایسی ہی مدافعانہ طاقت ثابت ہوں گے جس طرح اپنے وطن کی کوئی مدافعت کرتا ہے۔ یہ خطرہ کہ آزادی کے وقت اگر کسی مسلمان حکومت نے ہندوستان پرحملہ کر دیا تو مسلمانوں کا رویہ کیا ہوگا؟ نہایت پست خیالی ہے اور اس کا نہایت سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ اگر مسلمان اپنے ہمسایوں کی طرف سے کسی معاہدے کی وجہ سے مطمئن ہوں گے اور ہمسایوں کی زیادتیوں کا شکار نہ ہوں گے تو ان کا رویہ اس وقت وہی ہوگا جو کسی شخص کا اس کے گھر پر حملے کرنے کی حالت میں ہوتا ہے، اگرچہ حملہ آور اس کا ہم قوم اور ہم مذہب ہی ہو۔‘‘ (بحوالہ ’’ہند پاکستان کی تحریک آزادی اور علمائے حق کا سیاسی موقف‘‘، از مولانا سعید احمد اکبر آبادی، جمعیۃ پبلی کیشنز لاہور، جنوری ۲۰۰۷ء، ص ۹۷)
مولانا سعید احمد اکبر آبادی نے اس موضوع پر علامہ انور شاہ کشمیری کے مختلف بیانات اور تصریحات کا حاصل ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
’’ازروئے معاہدہ مسلمانوں پر اس ملک کی، جو خود ان کا بھی وطن ہے، خیر خواہی اور اس کی حفاظت ومدافعت ایسی ہی واجب اور ضروری ہوگی جیسی کہ ہندوؤں پر ہے، چاہے وہ حملہ آور کوئی بیرونی مسلم طاقت ہی ہو اور یہ سب کچھ محض ڈپلومیسی نہیں بلکہ ازروئے شرع واحکام دین مسلمانوں کو کرنا ہوگا۔‘‘ (’’ہند پاکستان کی تحریک آزادی اور علمائے حق کا سیاسی موقف‘‘، ص ۱۰۳)
مولانا عبید اللہ سندھی لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی بیرونی طاقت ہندوستان پر حملہ آور ہو تو خواہ وہ مسلمان کیوں نہ ہو، ہم اس کا پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی مسلمان طاقت کا بھی یہ حق نہیں ہے کہ ہماری موجودگی میں وہ اسلام کے نام پر ہندوستان کی سرزمین کو پامال کرنے کی کوشش کرے۔ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا ہمیں اپنے وطن میں حکومت قائم کرنے کا حق نہیں ہے؟ اس میں شک نہیں کہ بیرونی مسلم ممالک کو اپنی حکومتوں کو مستحکم اور منظم کرنے کا حق حاصل ہے، مگر ہم ان کے اس حق کو ہرگز قبول نہیں کر سکتے کہ وہ ہندوستان پر حملہ کر کے اسے فتح کرنے کی کوشش کریں۔ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم ہندوستان میں ہندوستانی حکومت قائم کریں۔‘‘ (خطبات ص ۱۹۶)
تقسیم ہند کی بحث کے تناظر میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا تو مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے اس کے جواب میں لکھا:
’’عموماً پاکستان کے حامیوں کی جانب سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کی خارجی پالیسی میں اس کی کیا گارنٹی ہوگی کہ جنگ وصلح اور دیگر معاہدات میں مسلمان حکومتوں کے ساتھ مسلمانان ہند کے اتحاد اسلامی کا لحاظ رکھا جائے گا؟ سو اس کے متعلق بھی کانسٹی ٹیوشن بناتے وقت طے کیا جا سکتا ہے اور اس سے متعلق تفصیلات کو تسلیم کرایا جا سکتا ہے۔ اور میرے خیال میں یہ مسئلہ ایسا پیچیدہ بھی نہیں ہے، خصوصاً جبکہ ہندوستان کی حکومت اس اصول پر قائم کی جائے گی کہ وہ استعمارانہ ہو اس میں خود کسی پر بھی جارحانہ حملہ نہیں کرے گی۔ ہاں، اس سلسلہ میں اگر کوئی پیچیدگی پیش آ سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ دنیا کی مختلف حکومتوں کی باہمی جنگ میں اگر جمہوریت کی حمایت میں ہندوستان کو ایسی حکومت کا ساتھ دینا پڑے جس کے برعکس کوئی مسلمان حکومت کسی سرمایہ پرست، جمہوریت کے مخالف، یورپین یا کسی ایشیائی حکومت کے ساتھ ہو تو اس صورت میں مسلمانان ہند کیا رویہ اختیار کریں گے؟ تو ظاہر ہے کہ جب ہم ہندوستان میں صاحب حکومت ہوں گے تو جس طرح ہمارا فرض ہے کہ مسلمان حکومتوں کے ساتھ اتحاد کرنا ضروری سمجھیں، اسی طرح اس مسلمان حکومت کا بھی یہی فرض ہوگا اور اگر وہ خدا نخواستہ اس فرض کو قصداً نظر انداز کر دے تو مسلمانان ہند بھی مجبور ہوں گے کہ اپنے ملک اور خود اپنی حفاظت کے لیے جو صورت مناسب سمجھیں، اختیار کریں۔ جس طرح آج ترکی، ایران، افغانستان، عراق، شام او رمصر میں ہو رہا ہے اور اگر یہ بات بھی دل میں کھٹکتی ہو تو ترکی اور دوسری مسلمان حکومتوں کے حالات کو پیش نظر رکھ کر اور جذبات سے الگ ہو کر بعینہ اس پوزیشن کو اس حالت میں بھی سوچیے اور حل کیجیے کہ جب پاکستان کو اپنی حفاظت کے لیے کسی دوسری مسلمان حکومت کے خلاف جنگ آزما ہونا پڑ جائے اور جو حل آپ اس کے لیے تجویز فرمائیں، وہی حل وحدت ہند کی صورت میں بھی اختیار کرنے کی تجویز فرمائیں۔‘‘ (’’پاکستان پر ایک نظر‘‘، نئی زندگی الہ آباد، خاص (پاکستان) نمبر، ۱۹۴۶ء، جلد ۶، شمارہ ۱، کتاب دوئم، ص ۴۵)
اس بحث سے واضح ہے کہ مختلف جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم قوتوں کا ساتھ دینے کی بنیاد پر مطلقاً تکفیر کا موقف ایک انتہائی غیر محتاط اور علمی وشرعی لحاظ سے بے بنیاد موقف ہے۔ نہ تو شرعی نصوص میں ایسی کوئی تصریح موجود ہے اور نہ فقہاء نے ایسا مطلق اور کلی نوعیت کا کوئی شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس موقف میں کفر واسلام کی جنگ اور مسلمانوں اور کفار کی باہمی جنگ کو ایک ہی شمار کرتے ہوئے سنگین نوعیت کا خلط مبحث پیدا کیا گیا ہے اور اس اہم نکتے کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ دنیا میں مختلف گروہوں کے مابین جنگ کے اسباب مذہبی اختلاف سے ہٹ کر بھی کئی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی جنگ میں محض ایک فریق کے مسلمان اور دوسرے فریق کے کافر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ جنگ، مذہبی تناظر میں، کفر اور اسلام کی جنگ بھی ہو جس میں ایک طرف یا دوسری طرف فریق بننے کو ایمان یا کفر کا معیار قرار دیا جا سکے۔ ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۰۸) القاء کا ترجمہ

القاء کا مطلب ڈالنا اور رکھنا ہوتا ہے، پھینکنا اس لفظ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا ہے، بعض لوگوں نے جگہ جگہ اس لفظ کا ترجمہ پھینکنا کیا ہے، کہیں کہیں اس سے مفہوم میں فرق نہیں پڑتا، لیکن کہیں تو اس ترجمہ سے مفہوم میں واضح طور پر خرابی آجاتی ہے۔
ہم پہلے وہ آیتیں ذکر کرتے ہیں جہاں القاء کا ترجمہ پھینکنا ہوہی نہیں سکتا ہے، اس لئے کسی نے یہ ترجمہ نہیں کیا ہے، خاص طور سے سید مودودی نے بھی نہیں، جو کہ اکثر جگہ القاء کا ترجمہ پھینکنا کرتے ہیں:

(۱) وَأَلْقَی فِی الأَرْضِ رَوَاسِیَ۔ (النحل:۱۵)

’’اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں‘‘ (سید مودودی)
’’اور اس نے زمین میں لنگر ڈالے ‘‘(احمد رضا خان)

(۲) وَأَلْقَی فِی الْأَرْضِ رَوَاسِیَ۔ (لقمان: ۱۰)

’’اس نے زمین میں پہاڑ جمادئے ‘‘(سید مودودی)

(۳) فَلَوْلَا أُلْقِیَ عَلَیْْہِ أَسْوِرَۃٌ مِّن ذَہَبٍ۔ (الزخرف: ۵۳)

’’کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے‘‘ (سید مودودی)
اس کے بعد ہم وہ آیتیں ذکر کرتے ہیں، جہاں القاء کا ترجمہ پھینکنا کرنے سے مفہوم میں بظاہر کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی، گوکہ لفظ کی رعایت سے یہاں بھی پھینکنے کے بجائے ڈالنا ترجمہ کرنا زیادہ بہتر ہے:

(۱) فَأَلْقَی عَصَاہُ فَإِذَا ہِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْن۔ (الاعراف: ۱۰۷)

’’موسی نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اڑدہا تھا‘‘ (سید مودودی)
’’موسیٰ نے اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دی تو وہ اسی وقت صریح اڑدھا (ہوگیا) ‘‘(فتح محمد جالندھری)

(۲) قَالُوا یَا مُوسَی إِمَّا أَن تُلْقِیَ وَإِمَّا أَن نَّکُونَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ۔ قَالَ أَلْقُوْا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ وَجَاءُ وا بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ۔ وَأَوْحَیْْنَا إِلَی مُوسَی أَنْ أَلْقِ عَصَاکَ فَإِذَا ہِیَ تَلْقَفُ مَا یَأْفِکُون۔ (الاعراف:۱۱۵۔ ۱۱۷)

’’پھر انہوں نے موسی سے کہا ’’تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟ موسی نے جواب دیا تم ہی پھینکو۔ انہوں نے جو اپنے انچھر پھینکے تو نگاہوں کو مسحور اور دلوں کو خوف زدہ کردیا اور بڑا ہی زبردست جادو بنالائے۔ ہم نے موسی کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا۔ اس کا عصا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا‘‘ (سید مودودی)
’’(جب فریقین روزِ مقررہ پر جمع ہوئے تو) جادوگروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم (جادو کی چیز) ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں. (موسیٰ نے) کہا تم ہی ڈالو۔ جب انہوں نے (جادو کی چیزیں) ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا (یعنی نظربندی کردی) اور (لاٹھیوں اور رسیوں کے سانپ بنا بنا کر) انہیں ڈرا دیا اور بہت بڑا جادو دکھایا. (اس وقت) ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ تم بھی اپنی لاٹھی ڈال دو۔ وہ فوراً (سانپ بن کر) جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو (ایک ایک کرکے) نگل جائے گی‘‘(فتح محمدجالندھری)
دوسرے ترجمہ سے لگتا ہے کہ فَإِذَا ہِیَ تَلْقَفُ مَا یَأْفِکُون اس جملے کا جزء ہے جو حضرت موسی سے کہا گیا، جب کہ یہ ایک مستقل جملہ ہے ، جیسا کہ پہلے ترجمہ میں ہے، کہ ’’اس کا عصا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا‘‘ البتہ اس دوسرے ترجمہ کی خامی یہ ہے کہ تلقف جو کہ فعل مضارع ہے اس کا ترجمہ ماضی سے کیا گیا، اس کے بجائے اس کا ترجمہ حال یہ ماضی مستمر سے ہوگا، یعنی نگلتا جارہا ہے، یا نگلتا جارہا تھا۔ نہ کہ مستقبل سے کیا جائے گا جیسا کہ پہلے ترجمہ میں کیا گیا)

(۳) فَلَمَّا جَاء السَّحَرَۃُ قَالَ لَہُم مُّوسَی أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ۔ فَلَمَّا أَلْقَوا قَالَ مُوسَی مَا جِءْتُم بِہِ السِّحْر۔ (یونس: ۸۰،۸۱)

’’جب جادو گر آگئے تو موسی نے ان سے کہا جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے پھینکو۔ پھر جب انہوں نے اپنے انچھر پھینک دیے، تو موسی نے کہا یہ جو کچھ تم نے پھینکا ہے یہ جادو ہے‘‘ (سید مودودی)
’’پھر جب آئے جادوگرکہا ان کو موسی نے ڈالو جو تم ڈالتے ہو پھر جب انہوں نے ڈالا موسی بولا کہ جو تم لائے ہو سو جادو ہے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۴) وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَا مُوسَی۔ قَالَ ہِیَ عَصَایَ أَتَوَکَّأُ عَلَیْْہَا وَأَہُشُّ بِہَا عَلَی غَنَمِیْ وَلِیَ فِیْہَا مَآرِبُ أُخْرَی۔ قَالَ أَلْقِہَا یَا مُوسَی۔ فَأَلْقَاہَا فَإِذَا ہِیَ حَیَّۃٌ تَسْعَی۔ (طہ: ۱۷ ۔۲۰)

’’اور اے موسی یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟ موسی نے جواب دیا یہ میری لاٹھی ہے، اس پر ٹیک لگاکر چلتا ہوں، اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں، اور بھی بہت سے کام ہیں جو اس سے لیتا ہوں ۔ فرمایا پھینک دے اس کو موسی۔ اس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دوڑرہا تھا۔ (سید مودودی، اس پر ٹیک لگاکر چلتا ہوں ‘‘ کے بجائے کہنا چاہئے ’’اس کا سہارا لیتا ہوں‘‘ کیونکہ الفاظ میں صرف ٹیکنے کی بات ہے چلنے کی بات نہیں ہے، سہارا لینے کی ضرورت کھڑے رہنے کے لئے بھی ہوسکتی ہے، اور بھی کام ہوسکتے ہیں، جیسا کہ بعد میں ذکر ہے)
’’اور یہ کیا ہے تیرے داہنے ہاتھ میں اے موسی ۔ بولایہ میری لاٹھی ہے اس پر ٹیکتا ہوں اور پتے جھاڑتا ہوں اس سے اپنی بکریوں پر اور میرے اس میں کتے کام ہیں۔ اور فرمایا ڈال دے اس کو اے موسی۔ تو اس کو ڈال دیا پھر تب ہی وہ سانپ ہے دوڑتا ۔ (شاہ عبدالقادر، دونوں ترجموں میں ایک توجہ طلب بات یہ ہے کہ غَنَمِی کا ترجمہ بکریوں کے بجائے بھیڑ بکریوں کرنا چاہئے)

(۵) قَالُوا یَا مُوسَی إِمَّا أَن تُلْقِیَ وَإِمَّا أَن نَّکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَی۔ قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ إِلَیْْہِ مِن سِحْرِہِمْ أَنَّہَا تَسْعَی۔ فَأَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہِ خِیْفَۃً مُّوسَی۔ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّکَ أَنتَ الْأَعْلَی۔ وَأَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِکَ۔ (طہ:۶۵ ۔۶۹)

’’جادوگر بولے موسی تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟۔ موسی نے کہا نہیں تم ہی پھینکو۔ یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے موسی کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، اور موسی اپنے دل میں ڈر گیا۔ ہم نے کہا مت ڈرو، تو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے‘‘ (سید مودودی)
’’بولے اے موسی یا تو ڈال اور یا ہم ہوں پہلے ڈالنے والے۔ کہا نہیں تم ڈالو۔ پھر تب ہی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں اس کے خیال میں آئیں ان کے جادو سے کہ دوڑتے ہیں۔ پھر پانے لگا اپنے جی میں ڈر موسی۔ ہم نے کہا تو نہ ڈر ، مقرر توہی رہے گا اوپر۔ اور ڈال جو تیرے داہنے میں ہے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۶) قَالَ لَہُم مُّوسَی أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُون۔ فَأَلْقَوْا حِبَالَہُمْ وَعِصِیَّہُمْ وَقَالُوا بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ۔ فَأَلْقَی مُوسَی عَصَاہُ فَإِذَا ہِیَ تَلْقَفُ مَا یَأْفِکُون۔ (الشعراء: ۴۳ ۔۴۵)

’’موسی نے کہا پھینکو جو تمہیں پھینکنا ہے۔ انہوں نے فورا اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے۔ پھر موسی نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جارہا تھا‘‘ (سید مودودی)
’’کہا ان کو موسی نے ڈالو جو تم ڈالنے آئے ہو۔ پھر ڈالیں انہوں نے اپنی رسیاں اوراپنی لاٹھیاں اور بولے فرعون کے اقبال سے ہم ہی زبر رہے۔ پھر ڈالا موسی نے اپنا عصا پھر تبھی وہ نگلنے لگا جو سانگ انہوں نے بنایا تھا‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۷) إِذَا أُلْقُوا فِیْہَا سَمِعُوا لَہَا شَہِیْقاً وَہِیَ تَفُورُ۔ تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْْظِ کُلَّمَا أُلْقِیَ فِیْہَا فَوْجٌ سَأَلَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ نَذِیْرٌ۔ (الملک: ۷،۸)

’’جب وہ اس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دہاڑنے کی ہولناک آواز سنیں گے۔ اور وہ جوش کھارہی ہوگی، شدت غضب سے پھٹی جاتی ہوگی۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا‘‘ (سید مودودی)
’’جب وہ اس میں جھونکے جائیں گے اس کا دہاڑنا سنیں گے اور وہ جوش مارتی ہوگی۔ معلوم ہوگا کہ غصہ سے پھٹی پڑ رہی ہے۔ جب جب ان کی کوئی بھیڑ اس میں جھونکی جائے گی اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے کیا تمھارے پاس (اس دن سے) کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟‘‘ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا مقامات وہ ہیں جہاں القاء کا ترجمہ پھینکنا کرنے سے مفہوم میں کوئی واضح خرابی پیدا نہیں ہوتی ہے، گو کہ لفظ کی رعایت نہیں ہوپاتی ہے۔
اب آخر میں ہم وہ مقامات ذکر کریں گے، جہاں القاء کا ترجمہ پھینکنا کرنے سے مفہوم میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ جبکہ ڈالنا ترجمہ کرنے سے کسی طرح کی خرابی پیدا نہیں ہوتی ہے، اور مفہوم اچھی طرح اور اچھے پیرائے میں واضح ہوجاتا ہے:

(۱) وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَی إِلَی قَوْمِہِ غَضْبَانَ أَسِفاً قَالَ بِءْسَمَا خَلَفْتُمُونِیْ مِن بَعْدِیَ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّکُمْ وَأَلْقَی الألْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِیْہِ یَجُرُّہُ إِلَیْْہِ۔ (الاعراف: ۱۵۰)

’’اور جب موسی رنج اور غصہ سے بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف لوٹا، بولا تم نے میرے پیچھے میری بہت بری جانشینی کی۔ کیا تم نے خدا کے حکم سے پہلے ہی جلد بازی کردی؟ اور اس نے تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر اس کو اپنی طرف گھسیٹنے لگا‘‘(امین احسن اصلاحی) 
ألْـقَی الألْوَاح کے کچھ اور ترجمے بھی ذکر کئے جاتے ہیں:
’’اور تختیاں پھینک دیں‘‘ (سید مودودی)
’’اور ڈال دیں وہ تختیاں ‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اور ڈال دیں وہ تختیاں‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اور (جلدی سے) تختیاں ایک طرف رکھیں ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں ‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’اور تختیاں ڈال دیں ‘‘(احمد رضا خان)
یہاں تختیاں پھینک دینے کا ترجمہ بالکل درست نہیں ہے، کسی کی حرکت پر غصہ آجانے پر بھی ایک نبی تختیاں ایک طرف رکھ کر اپنے غصہ کا اظہار کرے یہ تو درست ہے، لیکن تختیاں پھینک دینے کا کوئی جواز نہیں نکلتا ہے، یہ ترجمہ بے محل بھی ہے، اور نامناسب بھی ہے۔ تختیاں رکھ دیں یا ڈال دیں کہیں تو یہ قباحت دور ہوجاتی ہے۔

(۲) أَنِ اقْذِفِیْہِ فِی التَّابُوتِ فَاقْذِفِیْہِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَأْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّہُ وَأَلْقَیْْتُ عَلَیْْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ۔ (طہ:۳۹)

’’کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے، دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے کا دشمن اٹھالے گا۔ میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کردی‘‘ (سید مودودی، القاء پھینکنے کے لئے نہیں آتا ہے، اور نہ ہی طاری کرنے کے لئے آتا ہے، تجھ پر محبت طاری کرنے کا مفہوم ہوگا کہ تو محبت کرے، نہ کہ تجھ سے محبت کی جانے لگے، اور یہاں یہ مراد نہیں ہے، بلکہ یہ مراد ہے کہ تجھ سے محبت کی جانے لگے، ترجمہ ہوگا: اور اپنی طرف سے تیری محبت ڈال دی)
’’کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دے تو دریا اسے کنارے پر ڈالے کہ اسے وہ اٹھالے جو میرا دشمن اور اس کا دشمن اور میں نے تجھ پر اپنی طرف کی محبت ڈالی ‘‘(احمد رضا خان)
’’کہ تو اسے صندوق میں بند کرکے دریا میں چھوڑ دے، پس دریا اسے کنارے لا ڈالے گا اور میرا اور خود اس کا دشمن اسے لے لے گا اور میں نے اپنی طرف کی خاص محبت ومقبولیت تجھ پر ڈال دی‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’(وہ یہ تھا) کہ اسے (یعنی موسیٰ کو) صندوق میں رکھو پھر اس (صندوق) کو دریا میں ڈال دو تو دریا اسے کنارے پر ڈال دے گا (اور) میرا اور اس کا دشمن اسے اٹھا لے گا۔ اور (موسیٰ) میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی ہے ‘‘(فتح محمد جالندھری)
اس آیت میں اس کا محل نہیں ہے کہ سمندر صندوق کو ساحل پر پھینک دے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت اختیار کرنا مراد نہیں ہے جس سے بچے کو اذیت پہنچ سکتی ہو، یا اس سے بے اعتنائی کا اظہار ہوتا ہو۔ اس آیت میں رکھنا اور ڈالنا ہی مراد ہے نہ کہ پھینک دینا۔ آخری جملے وَأَلْقَیْْتُ عَلَیْْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّی کا مفہوم یہ نہیں ہے آپ اللہ کے محبوب بن گئے، وہ تو آپ تھے ہی، اور نہ یہ ہے کہ آپ لوگوں سے محبت کرنے لگے، بلکہ یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ نے اپنی طرف سے لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دی۔ آپ اللہ کے محبوب تو تھے ہی، اللہ نے آپ کو لوگوں کا محبوب بھی بنادیا۔اور اس وقت فرعون کے دربار میں اور ملک کے اس ماحول میں بحفاظت نشوونما کے لئے یہ بہت ضروری انتظام تھا۔

(۳) اذْہَب بِّکِتَابِیْ ہَذَا فَأَلْقِہْ إِلَیْْہِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانظُرْ مَاذَا یَرْجِعُونَ۔ (النمل:۲۸)

’’میرے اس خط کو لے جاکر انہیں دے دے پھر ان کے پاس سے ہٹ آ، اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں‘‘ (محمد جونا گڑھی)
’’یہ میرا خط لے جا اور اسے ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے پھر آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ‘‘(فتح محمدجالندھری)
’’میرا یہ خط لے اور اسے ان لوگوں کی طرف ڈال دے، پھر الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں‘‘ (سید مودودی)

(۴) قَالَتْ یَا أَیُّہَا المَلَأُ إِنِّیْ أُلْقِیَ إِلَیَّ کِتَابٌ کَرِیْمٌ۔ (النمل: ۲۹)

’’ملکہ بولی اے اہل دربار، میری طرف ایک بڑا اہم خط پھینکا گیا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’وہ کہنے لگی اے سردارو میری طرف ایک باوقعت خط ڈالا گیا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’ملکہ نے کہا کہ دربار والو! میری طرف ایک نامہ گرامی ڈالا گیا ہے‘‘ (فتح محمدجالندھری)
مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں پھینکنے کا ترجمہ کسی طرح مناسب حال نہیں ہے، نہ تو پرندہ خط پھینکتا ہے، اور نہ باوقعت اور کریم خط کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ میری طرف پھینکا گیا۔

(۵) قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا وَلَکِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَاراً مِّن زِیْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاہَا فَکَذَلِکَ أَلْقَی السَّامِرِی۔ (طہ:۸۷)

’’انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے آپ سے کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزی اپنی مرضی سے نہیں کی۔ بلکہ قوم کے زیورات کا بوجھ جو ہمارے حوالہ کیا گیا تھا ہم نے اس کو پھینک دیا اور اس طرح سامری نے ڈھال کر پیش کردیا‘‘ (امین احسن اصلاحی، یہاں لفظ ’’موعد‘‘ وعدہ وعہد کے لئے نہیں ہے، بلکہ طے کردہ وقت اور جگہ کے لئے ہے، کہ جس وقت جس جگہ پہونچنے کے لئے کہا گیا تھا وہاں نہیں پہونچے )
’’بولے ہم نے خلاف نہیں کیا تیرا وعدہ اپنے اختیار سے ولیکن اٹھالئے ہم نے بوجھ گہنے سے اس قوم کے گہنے کے سو ہم نے وہ پھینک دئیے پھر یہ نقشہ ڈالا سامری نے‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’وہ کہنے لگے ہم نے جو آپ سے وعدہ کیا تھا اس کو اپنے اختیار سے خلاف نہیں کیا ولیکن قوم (قبط) کے زیور میں سے ہم پر بوجھ لد رہا تھا سو ہم نے اس کو (سامری کے کہنے سے آگ میں) ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے (بھی) ڈال دیا‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’انہوں نے جواب دیا ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے اور ہم نے بس ان کو پھینک دیا تھا۔ پھر اسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا‘‘ (سید مودودی)
’’وہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے اختیار سے تم سے وعدہ خلاف نہیں کیا۔ بلکہ ہم لوگوں کے زیوروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے اس کو (آگ میں) ڈال دیا اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا‘‘ (فتح محمد جالندھری)
اس آیت میں فَکَذَلِکَ أَلْقَی السَّامِرِیُّ کے مختلف مطلب لئے گئے ہیں، مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ سامری نے کچھ نہیں ڈالا، اور یہاں اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ کیا وہ سامری کے سجھانے پر کیا، وہ ترجمہ کرتے ہیں:
’’انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے آپ کے مقرر کئے ہوئے وقت کی خلاف ورزی اپنے اختیار سے نہیں کی۔ بلکہ قوم کے زیورات کا بوجھ جو ہمارے حوالہ کیا گیا تھا ہم نے اس کو ڈال دیا اور اس طرح سامری نے سجھایا ‘‘(امانت اللہ اصلاحی)

(۱۰۹) ألقی ساجدا کا ترجمہ

قرآن مجید میں جادوگروں کے سجدے میں جانے کا تذکرہ تین مقامات پر ہے، تینوں جگہ اس مفہوم کے لیے ألقي فعل مجہول کے صیغے میں استعمال ہوا ہے۔ مفسرین کے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جادوگر تو اپنی مرضی سے سجدے میں گئے تھے، پھر یہ فعل اور یہ صیغہ کیوں استعمال ہوا؟ اس کی مختلف توجیہیں بھی ملتی ہیں، ترجمہ کرنے والوں میں سے بعض لوگوں نے سب جگہ ڈالے گئے ترجمہ کیا، بعض لوگوں نے تینوں جگہ گرگئے ترجمہ کیا، جبکہ بعض لوگوں نے کہیں یہ ترجمہ کیا اور کہیں وہ ترجمہ کیا۔

(۱) وَأُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سَاجِدِیْنَ۔ (الاعراف: ۱۲۰)

’’اور ڈالے گئے جادو گر سجدے میں‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’اور ڈالے گئے ساحر سجدے میں ‘‘(شاہ عبد القادر)
’’اور جادوگر سجدے میں گرادئے گئے ‘‘(احمد رضا خان)
’’اور وہ جو ساحر تھے سجدہ میں گرگئے ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’اور وہ جو ساحر تھے سجدہ میں گرگئے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرادیا‘‘ (سید مودودی)
’’اور ساحر سجدے میں گرپڑے ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’(یہ کیفیت دیکھ کر) جادوگر سجدے میں گر پڑے‘‘ (فتح محمدجالندھری)

(۲) فَأُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّداً۔ (طہ:۷۰)

’’پس ڈالے گئے جادوگر سجدہ کرتے ہوئے‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’پھر گرپڑے جادوگر سجدہ میں ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’تو سب جادوگر سجدے میں گرادئے گئے ‘‘(احمد رضا خان)
’’سو جادوگر سجدہ میں گرگئے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’اب تو تمام جادوگر سجدے میں گرپڑے‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’تو جادوگر سجدے میں گرپڑے ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’آخر کو یہی ہوا کہ سارے جادوگر سجدے میں گرادئے گئے ‘‘(سید مودودی)
’’(القصہ یوں ہی ہوا) تو جادوگر سجدے میں گر پڑے ‘‘(فتح محمدجالندھری)

(۳) فَأُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سَاجِدِیْن۔ (الشعراء: ۴۶)

’’پس ڈالے گئے جادوگر سجدہ کرتے ہوئے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’پھر اوندھے گرے جادوگر سجدے میں‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اب سجدے میں گرے جادوگر ‘‘(احمد رضا خان)
’’یہ دیکھتے ہی جادوگر بے اختیار سجدے میں گرگئے ‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’تو ساحر بے تحاشا سجدے میں گرپڑے‘‘ (امین احسن اصلاحی، بے تحاشا کا محل نہیں ہے)
’’اس پر سارے جادوگر بے اختیار سجدے میں گرپڑے‘‘ (سید مودودی)
’’تب جادوگر سجدے میں گر پڑے‘‘(فتح محمدجالندھری)
عربی زبان کے لحاظ سے مناسب اور اردو محاورے کے لحاظ سے فصیح ترجمہ گرادئے جانے کا نہیں بلکہ گرپڑنے کا ہوگا۔ صورت واقعہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہے، جن لوگوں نے گرادئے جانے کا ترجمہ کیا ہے، انہوں نے یہ دیکھا کہ فعل مجہول استعمال ہوا ہے، لیکن یہ ایک اسلوب ہے، اس کا ترجمہ معروف لازم ہی کا ہوگا، دراصل ألقي یہاں ویسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح توفي مجہول استعمال ہوتا ہے، تاج العروس میں ہے تُوفِّیَ فلانٌ: اِذا ماتَ.توفي کا ترجمہ یہ نہیں کیا جاتا کہ اس کو وفات دی گئی، بلکہ یہ ہوتا کہ اس نے وفات پائی۔ تینوں آیتوں کا مناسب ترجمہ ہے جادوگر سجدے میں گرپڑے۔ اس اسلوب کی اور بھی مثالیں مل سکتی ہیں۔
علامہ ابن عاشور نے توجیہ یہ کی ہے کہ یہ تعبیر بے اختیارتیزی سے گرپڑنے کے لئے استعمال ہوتی ہے، اور چونکہ انہوں نے خود اپنے آپ کو سجدے میں گرایا تھا، اس لیے ألقي مجہول استعمال ہوا۔ 

والاِلْقاءُ: مستعملٌ فی سُرعۃِ الھُویِّ الی الأرضِ، أی: لمْ یتمالکوا أن سجدوا بدون تریث ولا ترددٍ۔ وبُنِیَ فعلُ الالقاءِ للمجھولِ لظھور الفاعلِ، وھو أنفسُھم، والتقدیرُ: وألقوا أنفسھم علی الأرض۔ (التحریر والتنویر: ۹؍۵۲)

(جاری)

استاذ القراء حضرت قاری محمد انور قدس اللہ سرہ العزیز

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ۱۴؍ فروری کو منعقد ہونے والی پندرہ روزہ فکری نشست میں مولانا زاہد الراشدی نے استاذ القراء حضرت قاری محمد انور صاحبؒ کے بارے میں گفتگو کی جو مولانا زاہد الراشدی کے حفظ کے استاذ تھے اور ابھی پچھلے دنوں ان کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا ہے۔ اس نشست میں ان کے حوالے سے کچھ یادداشتیں بیان کی گئیں اور آخر میں ان کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن کریم کی تلاوت اور دعا کی گئی۔)

بعدالحمدوالصلوٰۃ ! 
استاذالحفاظ، استاذا لقراء حضرت قاری محمدانور صاحبؒ کا چند روز پہلے مدینہ منورہ میں انتقال ہو گیا ہے ۔آپ ؒ میرے حفظ کے استاذتھے اور صرف میرے ہی نہیں بلکہ ہمارے پورے خاندان کے استاذ تھے۔ ہم سب بھائی بہنیں ان کے شاگردہیں۔الحمدللہ نو بھائیوں نے اورتین بہنوں نے حفظ کیا ہے۔ ایک بڑی بہن کے سواباقی سب کے استاذ وہی تھے، جبکہ گکھڑ میں اور گکھڑ کے ارد گرد سیکڑوں حفاظ کے استاذ تھے۔ گکھڑسے افریقہ کے ایک ملک میں تشریف لے گئے، وہاں بھی بیسیوں حفاظ کے استاذ ہیں۔ پھر مدینہ منورہ میں تقریباًپینتیس سال انہوں نے قرآن پاک پڑھایا ہے۔ وہاں بھی سیکڑوں حفاظ نے ان سے قرآن کریم حفظ کیا ہے۔ آج کی تقریب میں ان کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کروں گا۔
ان کے تعارف کے لیے دو تین باتوں کاتذکرہ ضروری ہے۔گکھڑمیں حضرت والدمحترم مولانامحمدسرفرازخان صفدرؒ ۱۹۴۳ء  میں آئے تھے۔ ۴۱،۴۲ء میں دارالعلوم دیوبندمیں دورۂ حدیث کیا تھا اور ۱۹۴۳ء میں گکھڑ بوہڑ والی مسجد میں بطورامام وخطیب کے تشریف لائے تھے اور ۲۰۰۹ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ساراعرصہ انہوں نے گکھڑ میں گزارا ۔جب تک صحت نے اجازت دی، وفات سے سات آٹھ سال پہلے تک، تو پانچوں نمازیں خود پڑھاتے تھے،صبح درس بھی دیتے تھے، جمعہ بھی پڑھاتے تھے ۔وہاں درس نظامی کامدرسہ تو تھا جس میں حضرت والدصاحبؒ جب سے آئے تھے، پڑھارہے تھے ۔ملک کے مختلف حصوں سے علماء آتے تھے ،وہاں رہتے تھے، پڑھتے تھے، لیکن حفظ کاکوئی باضابطہ مدرسہ نہیں تھا۔ حفظ کاباضابطہ مدرسہ تقریباً ۱۹۵۷ء میں بنا ہے۔ اس کاپس منظر یہ ہے کہ راہوالی سے گکھڑ جاتے ہوئے رستہ میں ایک گتہ فیکٹری ہوتی تھی۔ اب تووہ ختم ہوچکی ہے، لیکن بلڈنگ وغیرہ موجود ہے۔ اس کے ساتھ سیٹھی کالونی ہے۔ یہ گتہ فیکٹری کسی زمانے میں پاکستان کی بڑی گتہ فیکٹری ہوتی تھی۔ ایک مردان میں تھی، دوسری یہ تھی۔ اس کے مالک سیٹھی محمدیوسف صاحب ؒ نومسلم باپ کے بیٹے تھے۔ سیالکوٹ روڈ پر ایک قصبہ ہے ترگڑی، وہاں کے رہنے والے تھے ۔ان کے والد ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ حضرت مولانااحمدعلی لاہوری ؒ کے والدجلال کے تھے۔ ہمارے ایک اور بزرگ گزرے ہیں باوا جی عبدالحق ، ؒ یہ تلونڈی کھجور والی کے تھے۔ تلونڈی کھجور والی،جلال اورترگڑی، یہ تینوں قریب قریب علاقے ہیں، دو دوتین تین میل کافاصلہ ہے۔ یہ تینوں حضرات ایک ہی دورمیں مسلمان ہوئے تھے۔ حضرت لاہوریؒ کے والد سکھ سے مسلمان ہوئے تھے، باواجی عبدالحق ؒ ہندو پنڈت سے مسلمان ہوئے تھے اورسیٹھی صاحب کے والد ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ سیٹھی محمدیوسف صاحبؒ کے والد صاحب کو قرآن پاک سے بڑالگاؤ تھا، اپنے بیٹے کو بھی انہوں نے قرآن پاک کی طرف توجہ دلائی ۔ 
سیٹھی محمدیوسف صاحب گتہ فیکٹری کے مالک تھے اوراپنے زمانے میں ضلع گوجرانوالہ کے چند امیرترین لوگوں میں سے تھے ۔ذوق قرآن پاک کی خدمت کاتھا۔ ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ مدرسے بنائے جائیں۔ اس زمانے میں حفظ اورتجوید کے مدارس اکا دکا کہیں ہوتے تھے۔ ملتان ،کراچی،چنیوٹ سائڈ پر جہاں حضرت قاری رحیم بخش صاحبؒ اورحضرت قاری فتح محمدصاحبؒ کے کچھ شاگرد تھے،ہمارے اس علاقے میں حفظ کاکوئی مدرسہ نہیں تھا ۔سیٹھی محمدیوسف صاحب کاطریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ ان کے ساتھ ایک قاری صاحب ہوتے تھے، مولاناقاری عبدالحفیظ صاحبؒ ۔ اکوڑہ خٹک کے ساتھ شیدوشریف ایک جگہ ہے، یہ و ہاں کے تھے ۔سیٹھی صاحب قاری صاحب کو مختلف علاقوں میں لے کرجاتے ، مجمع کے سامنے قاری صاحب کوقرآن سنانے کاکہتے۔ قاری صاحب تلاوت کرتے ۔قاری صاحب قرآن پاک اچھا پڑھتے تھے پھر سیٹھی صاحب لوگوں کو کہتے ایسے ہی تم بھی پڑھا کرو ۔لوگ کہتے، ہم ایسے کس طرح پڑھیں؟ سیٹھی صاحب کہتے کہ اس کا بندوبست کرو، میں بھی حصہ ڈالتا ہوں۔یہاں کوئی مدرسہ بناؤ ،قاری صاحب رکھو، میں بھی حصہ ڈالتا ہوں۔ یہ ان کا طریقہ تھا۔
اب بھی وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ غالباً ۵۶ یا ۵۷ء کی بات ہے۔ میں اس وقت آٹھ نوسال کاتھا۔ سیٹھی صاحب ہماری مسجد میں تشریف لائے۔ جمعے کے دن حضرت والدصاحب ؒ سے کہا کہ خطبے سے پہلے مجھے پانچ سات منٹ دیں گے ؟انہوں نے کہا، ٹھیک ہے ۔سیٹھی صاحب نے قاری صاحب سے کہا، تلاوت کریں ۔انہوں نے مختصر سی تلاوت فرمائی۔ پھر سیٹھی صاحب نے کھڑے ہوکر دوتین منٹ بات فرمائی کہ قرآن پاک اچھے طریقے سے پڑھانا چاہیے، صحیح پڑھنا چاہیے،یاد کرنا چاہیے۔ جیسے قاری صاحب نے پڑھا ہے، تم بھی کوئی شوق پیداکرو اورکہاکہ جیسا قاری صاحب نے صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن پڑھا ہے، مولوی صاحب (مراد والدگرامیؒ )کے علاوہ یہاں کے مقامی لوگوں میں سے اگر کوئی اسی طرح ایک رکوع پڑھ کرسنادے تو پچاس روپے انعام دوں گا۔ اس زمانے کے پچاس روپے آج کے پانچ ہزار تھے۔ ایک بزرگ مہاجر تھے حافظ احمدحسن صاحبؒ (زاہداقبال خوشنویس کے والد)۔ انہوں نے کہا: میں سناتا ہوں۔ کہا:سنائیں ۔جب سنا چکے تو سیٹھی صاحب نے کہا، آپ مقامی نہیں ہیں ۔کہا: جی میں مقامی تو نہیں ہوں، مہاجر ہوں۔ سیٹھی صاحب نے کہا: میں نے مقامی حضرات سے کہا تھا۔ یہ کہہ کرسیٹھی صاحب نے ایک شوق پیدا کیا۔ فرمایا: ایسا کرو کہ کسی قاری صاحب کابندوبست کرو۔ قاری صاحب کو جو تنخواہ دو گے، آدھی تنخواہ میں دیاکروں گا۔ اسی پرفیصلہ ہوگیا کہ اب قاری صاحب رکھیں گے اور قرآن پاک حفظ ناظرہ کی کلاس شروع ہوگئی۔اس فیصلے کے تحت ہمارے پہلے استاذِ محترم قاری اعزازالحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ تھے جو امروہہ کے مہاجر تھے۔ ان کومقررکیا گیا۔ میں پہلی کلاس کا طالب علم تھا،مجھے اسکول سے اٹھاکر مدرسے میں ڈال دیاگیا۔ تب میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ چوتھی جماعت پڑھی تھی، امتحان نہیں دیا تھا ۔ گیارہ بارہ لڑکوں کی کلاس تھی۔ ہمیں قرآن پاک حفظ شروع کروادیا گیا۔ ناظرہ میں نے پہلے والدہ مرحومہ سے اوروالد صاحبؒ سے پڑھا ہوا تھا۔بات میں نے قاری صاحبؒ کی کرنی ہے، لیکن سیٹھی صاحب کا تعارف ضروری ہے۔ سیٹھی صاحب سارے ملک میں ایسا ہی کرتے تھے۔ فیکٹری کماتی تھی ،وہ خرچ کرتے تھے۔ اسی طرح ترغیب دلا کرمدرسہ بنواتے تھے، کہیں تجوید کا،کہیں حفظ کا۔ کہیں آدھی تنخواہ دیتے ،کہیں تیسراحصہ اور کہیں تو پوری تنخواہ خوددیتے تھے کہ تم قاری صاحب کورکھو ،تنخواہ میں دوں گا۔ 
ان کی گتہ فیکٹری کاایک مستقل شعبہ تھا، شعبہ تعلیم القرآن۔ اس شعبہ کے انچارج محمدحسین صاحب مرحوم تھے۔ایک مرتبہ شاید ۱۹۶۵ء کی بات ہے، میں نے ان سے پوچھا کہ ملک کے کتنے مدرسے ہیں جن کی سیٹھی صاحب اس طرح مدد کرتے ہیں؟ انہوں نے سیکڑوں میں تعداد بتائی جن کی سیٹھی صاحب اس طرح معاونت اور نگرانی کرتے ہیں ۔ پھرآہستہ آہستہ مدرسے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے اورسیٹھی صاحب کامقصد بھی یہی ہوتا تھاکہ میں ان کو سہارا دوں، یہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں۔ جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجاتے تو آپ پیچھے ہٹ جاتے کہ میراکام یہی تھا ۔سیٹھی صاحب مرحوم نے افریقہ میں اورسعودی عرب میں بھی بہت سے مدرسے بنوائے ہیں۔ہمارے استاذِمحترم قاری محمد انور صاحبؒ کویہ گکھڑ سے افریقہ لے گئے تھے، قاری صاحبؒ چند سال وہاں پڑھاتے رہے ۔
سیٹھی صاحب ؒ کے اللہ پاک درجات بلند فرمائیں، اللہ پاک جس سے کام لینا چاہیں ۔یہ بات شایدآپ کی سمجھ میں نہ آئے کہ سعودی عرب میں حفظ کاکوئی مدرسہ نہیں تھا اورتراویح میں قرآن مجید سننے سنانے کا سوائے حرمین کے کہیں رواج نہیں تھا۔ سعودی عرب میں حفظ کا پہلا مدرسہ حرمِ مکہ میں سیٹھی صاحب نے قائم کیا تھاجس کے پہلے طالب علم امامِ کعبہ شیخ عبداللہ بن السبیلؒ تھے جو بعد میں امام الحرمین بنے۔ حرمین شریفین کے حفظ کے پہلے استاذ زندہ ہیں، قاری خلیل احمدصاحب۔اب معذورہیں، آزادکشمیر کے ہیں۔ قاری خلیل احمدصاحب کاایک بیٹاحرمین کے ائمہ میں شامل ہے جن کانام غالباً محمد ہے۔ سیٹھی صاحب نے مدرسے بنوانے شروع کیے ۔جب تعدادخاصی بڑھ گئی توسعودیہ والوں کو خیال آیا کہ باہر کے آدمی خرچہ کر کے مدرسے بنوارہے ہیں۔ پیسے تو ہمارے پاس بہت ہیں، ہم خود یہ کام کیوں نہ کریں۔ اس طرح ان کوخیال آیااورانہوں نے نظام سنبھال لیا، لیکن آغازسیٹھی صاحب نے کیااورکئی سال تک کئی مدارس کاخرچہ یہاں سے بھجواتے رہے۔ ائمہ حرمین میں الشیخ حذیفی اورالشیخ السدیس بھی پاکستانی قاری صاحبان کے شاگردہیں اور قاری انور صاحبؒ کے تو وہاں سیکڑوں شاگردہیں۔ یہ وہاں کے ائمہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے پاکستانی قاریوں سے پڑھا ہے۔اس وقت بھی وہاں حضرت قاری بشیراحمدصاحب ملتانی ہیں، مدینہ منورہ میں عشاء کے بعدبیٹھتے ہیں اوربڑے بڑے لوگ ان کے پاس آکراپنا تلفظ صحیح کرتے ہیں۔
یہ ہمارے گکھڑ کے مدرسے کاپس منظر تھا، لیکن اتفاق کی بات تھی اوریہ ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ مزاج نہیں ملتے۔ ہم نے قرآن پا ک شروع توکردیا، لیکن کوئی قاری صاحب یہاں ٹکتے نہیں تھے یا محلے والے ٹکنے دیتے نہیں تھے۔ دونوں باتیں ہوتی ہیں، یاتو قاری صاحب کاا پناموڈ ٹکنے کانہیں ہوتا یا وہ ٹکنا چاہتا ہے، لیکن محلے والے ٹکنے نہیں دیتے۔ یہی سلسلہ چلتا رہا ۔ایک قاری صاحب آئے، وہ چلے گئے۔ دوسرے آگئے ،وہ چلے گئے۔ اسی طرح کئی قاری صاحبان ہمارے تبدیل ہوئے اورمسئلہ یہ تھا کہ جو قاری صاحب آتے، وہ نئے سرے سے شروع کرواتے کہ تم نے صحیح نہیں پڑھاہوا ،تمہاراتلفظ صحیح نہیں ،تمہارالہجہ صحیح نہیں ہے۔ ہم اسی الجھن میں تھے کہ کریں کیا ؟ہر پانچ چھ مہینے کے بعد نئے قاری صاحب آجاتے ہیں۔ بالآخراللہ پاک نے ہمیں حضرت قاری محمدانور صاحب ؒ عطا فرمائے۔ لاہور میں حفظ اور تجویدکا مدرسہ تجویدالقرآن سب سے قدیمی مدرسہ ہے۔ حضرت قاری فضل کریم صاحبؒ اورقاری محمدحسن شاہ صاحب ؒ ،قاری محمدظریف صاحب کامدرسہ تھا۔ ان سے حضرت والدصاحب ؒ نے کہا کہ کوئی اچھا ساقاری دو ،ہم نے مدرسہ چلانا ہے۔ حضرت قاری محمدانور صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہنے والے تھے، ابتدائی تعلیم انہوں نے دارالعلوم ربانیہ میں حاصل کی تھی۔ حفظ مکمل کیا تجویدالقرآن لاہور میں، تجوید قاری محمدحسن شاہ صاحب ؒ سے پڑھی تواس تعلق سے قاری محمدانور صاحبؒ یہاں تشریف لائے۔ یہ پھر ٹک کر بیٹھے، ایسے ٹک کر بیٹھے کہ الحمدللہ ہرطرف حافظ ہی حافظ ہوگئے۔
آپؒ بڑے اچھے استاذتھے۔ میں نے پھر ان سے حفظ کرنا شروع کیا۔ آپؒ بڑی شفقت فرماتے تھے ،اورڈنڈا بھی خوب چلاتے تھے۔ یہ تو ہوتا ہی ہے۔ویسے آج کا ماحو ل بدل گیا ہے، ورنہ ڈنڈا ہی انسان کو سیدھا رکھتاہے، لیکن زیادہ بھی نہ مارا جائے، ہلکی پھلکی مار میں کوئی حرج نہیں۔ ہم نے توخیر والد صاحبؒ سے بھی بہت ڈنڈے کھائے ہیں اورقاری صاحبؒ سے بھی بہت ڈنڈے کھائے ہیں ۔میں اس پرطلبہ کواپنا قصہ سنایا کرتا ہوں کہ ایک دفعہ ایساہوا کہ مجھے سبق یاد نہیں تھا، قاری صاحبؒ نے میرے دائیں ہاتھ پر پانچ ڈنڈے ٹکاکر مارے جو اَب تک مجھے یادہیں۔ میں آخر صاحبزادہ تھا، منہ بسورااوراٹھ کر گھر چلاگیا ۔والدہ مرحومہ اللہ پاک غریق رحمت کریں۔ وہ بھی گھر میں بچیوں کو ناظرہ اورحفظ پڑھاتی تھیں، اگرچہ خود حافظ نہیں تھیں ۔میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ اماں جی آپ سے کتنی بچیوں نے حفظ کیا ہے؟کہنے لگیں تیئس بچیوں نے۔ حالانکہ خود حافظ نہیں تھیں، نیم معروف پڑھتی تھیں۔ اس زمانے میں یہی ہوتا تھا۔ گھرمیں روزانہ ان کامدرسہ ہوتا تھااوروہ پڑھاتی تھیں۔ انہوں نے بھی ڈنڈا رکھاہواتھا۔ میں قاری صاحبؒ سے مار کھاکر گھر آگیا۔ والدہ مرحومہ نے دیکھا کہ سبق کے وقت میں یہ گھر پھررہا ہے۔ مجھے بلاکر پوچھا۔ میں نے منہ بسور کر جواب دیا :قاری صاحب نے مارا ہے ۔میرے ذہن میں تھا کہ ماں مجھے سینے سے لگائے گی ، دلاسہ دے گی اورقاری صاحب کودوچارسنائے گی کہ قاری کون ہوتاہے میرے بچے کومارنے والا ۔مجھ سے پوچھا:اچھا بیٹے! کیوں ماراتھا؟ میں نے کہا: سبق یادنہیں تھا۔ کس چیز سے مارا تھا ؟میں نے کہا :ڈنڈے سے۔کتنے ؟ پانچ ۔کہاں مارا ؟ دائیں ہاتھ پر۔ والدہ مرحومہ نے اپناڈنڈاپکڑااور میرے بائیں ہاتھ پر چھ ڈنڈے مارے اور کہا، چلوپہنچو مدرسے۔
اس وقت مجھے بہت غصہ آیا اورآنابھی تھا، لیکن آج اماں جان کودعائیں دیتا ہوں کہ اگراس وقت میری ماں مجھے سینے سے لگاکر سہارادے دیتی اورگھر میں بٹھالیتی تو ہم آج یہ کچھ نہ ہوتے جوہیں۔ پتہ نہیں کدھر کدھر پھرتے ، کیا ہوتا اور کہاں ہوتا۔میں کہتا ہوں کہ سارا کمال ان چھ ڈنڈوں کاہے۔ ایمانداری کی بات ہے، بزرگوں کی دعائیں اور ماں کے ہاتھ سے کھائے ہوئے ڈنڈے یہی دوچیزیں کام آگئیں، ورنہ میراکانٹا بدل چکاہوتا اور گاڑی کا کانٹا ہی بدلنا ہوتا کہ وہ اِدھر سے اُدھر ہوجاتی ہے۔قاری صاحب ؒ مارتے بھی تھے، لیکن اگر کبھی سمجھتے کہ زیادہ مار لیا ہے تو بلا کر چائے بھی پلاتے تھے۔ ایک دن مجھے ڈنڈے زیادہ لگ گئے تو میں پریشان بیٹھا تھا کہ قاری صاحب نے مارا بہت ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد چائے منگوائی ،مجھے بلایا اوئے مولوی! ادھر آ (مجھے مولوی ہی کہتے تھے)،چائے پی لے۔میں حیران کہ ابھی مار رہے تھے اوراب چائے پلا رہے ہیں ۔مجھ سے فرمایا: بیٹا !ہم مارتے ہیں تو کسی وجہ سے مارتے ہیں۔یہ ان کاانداز تھا۔ میں قاری صاحب سے حفظ کرتا رہا۔ میراحفظ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۶۰ ؁ ء کو مکمل ہوا۔ قاری صاحبؒ مجھ پر بہت مہربان تھے۔ بڑی شفقت فرماتے تھے۔ قاری صاحبؒ نے دوتین سال اپنے ساتھ مجھے قرآن کریم کادورکروایا ہے۔ آپ گکھڑ کی مسجد میں قرآن مجید سنایا کرتے تھے،میں ان کاسامع ہوتا تھا ۔پھراپنی نگرانی میں پہلا مصلیٰ سنانے کے لئے مجھے بھیجا ۔میں نے پہلا مصلیٰ بدوکے گوسائیاں کینٹ میں سنایا تھا۔
گکھڑ ہی کی دو باتیں اور ذکر کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ استاذ، استاذ ہوتا ہے اور جس طالب علم پر استاد کی نظر ہو، اسے کیمیا بنادیتا ہے۔ مجھے تقریر کرنابھی حضرت قاری صاحبؒ نے سکھایاہے، ورنہ قاری صاحب ؒ کاتقریر سے کیا تعلق ؟قاری صاحب ؒ نے ہمیں حفظ کے دوران تجویدکا رسالہ زینۃالقرآن سبقاًسبقاًپڑھایا اور مجھے کھڑاکر کے کہتے، اوئے مولوی! کیا سبق پڑھا ہے؟ بیان کرو ۔مجھ سے تقریر کرواتے تھے ۔ گکھڑ میں کبھی کبھی مولانا قاری سیدحسن شاہ صاحبؒ تشریف لایا کرتے تھے۔ آپؒ قاری بھی بہت اچھے تھے اورخطیب بھی بہت اچھے تھے ۔ قاری محمدانور صاحبؒ کبھی جلسہ کرواتے تو شاہ صاحب ؒ کو بلاتے تھے ۔مجھے کچھ جملے رٹا کر،کچھ چیزیں یاد کرا کر پہلے کھڑا کردیتے کہ تقریر کرو۔ کبھی لکھ کر دیتے، میں یاد کرتا اور پھر مجمع کے سامنے تقریرکے اندازمیں بیان کرتا۔ 
ایک واقعہ میں عموماً سنایا کرتا ہوں کہ روڈ پر جلسہ تھا، شاہ صاحبؒ کی تقریر تھی، ان سے پہلے قاری صاحبؒ نے مجھے تقریر کرنے کے لئے کھڑا کردیا ۔میں مائیک پر کھڑا ہوا اوربازو چڑھاکر قادیانیوں کے خلاف تقریر کرنا شروع کردی اور مرزاقادیانی کو پنجابی میں دوچار گالیاں دیں کہ مرزابے ایمان ،مرزایہ، مرزا وہ ۔دوچارجوسنائیں تو والد صاحبؒ نے پیچھے گردن سے مجھے پکڑا اور پیچھے بٹھا دیا۔ خود مائیک پر آکر ارشاد فرمایا :بچہ ہے ،جذبات میں غلط باتیں کرگیا ہے ،میں معافی مانگتا ہوں ۔حالانکہ میں نے جو کچھ کہا تھا، مرزا کو کہا تھا۔ میں کہا کرتا ہوں کہ ہم آج کل مائیک پر کھڑے ہوکر کیا کچھ نہیں کہتے؟ میں اپنی بات کیا کرتا ہوں کہ میری تربیت اس ماحول میں ہوئی ہے، اس لیے میری زبان سے سخت لفظ کی کسی شدید ترین مخالف کے لیے بھی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ الحمدللہ !میں آج اپنے کسی شدید ترین مخالف کانام بھی لیتا ہوں تو احترام کے ساتھ لیتا ہوں۔ خیر، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جو بولنے اور تقریر کرنے کی صلاحیت اور ذوق ہے، اس کی ابتدا بھی حضرت قاری صاحب ؒ نے کی تھی ۔
ایک اور واقعہ حضرت قاری صاحبؒ کا ذکرکرناچاہتا ہوں۔ ۱۹۷۷ء میں تحریک نظامِ مصطفی چلی جو بہت بڑی تحریک تھی۔ گکھڑ میں حکومت کے خلاف تحریک نظامِ مصطفی کا جلوس تھا۔ ایک فورس ہوتی تھی، فیڈرل سیکورٹی فورس (ایف ایس ایف کہلاتی تھی) جلوسوں کوکچلنے کے لئے۔حضرت والدصاحبؒ نے قیادت کرنی تھی ،گورنمنٹ نے پابندی لگادی کہ جلوس نہیں نکالیں گے، لیکن جمعہ کے بعد والدصاحبؒ کی قیادت میں لوگ جلوس کے لئے جمع ہوگئے کہ جلوس نکالیں گے۔ جلوس جب آگے بڑھا تو فورس کے کمانڈر نے ایک لکیر کھینچ دی اور چاروں طرف سپاہی کھڑے کردیے اورکہا کہ جو اس لکیر کوعبور کرے گا، اسے گولی ماردیں گے ۔اس زمانے میں ایسے ہوتا تھا۔ اب بغیروارننگ کے مارتے ہیں، اس وقت وارننگ دے کر مارتے تھے ۔اس کایہ اعلان سن کر سناٹا چھاگیا کہ یہ کیا ہوا اورچاروں طرف سپاہی گنیں نشانہ پرلیے ہوئے کھڑے تھے کہ کون لکیر عبور کرتاہے اور پھر کیا ہوتا ہے۔ اُدھر فورس کھڑی ہے، اِدھر یہ ہیں ۔حضرت والدصاحبؒ اوروالد گرامی کے ساتھ دو آدمی اورایک حضرت قاری محمد انور صاحبؒ اور ایک گکھڑ کے حاجی سیدڈارتھے، یہ تین آدمی جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ آگے بڑھے اورکلمہ شہادت پڑھتے ہوئے لکیر عبور کرگئے اوروالد صاحبؒ نے ایک جملہ کہا کہ مسنون عمر پوری کر چکا ہوں، اگر اب شہادت مل جائے تو بڑی سعادت کی بات ہے۔ کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے لکیر عبور کرگئے،سب سناٹے میں آگئے ،کسی کو کچھ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔یہ بھی قاری صاحبؒ کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے کہ انہوں نے اس طرح اپنی جان کی پروا کیے بغیر ساتھ نبھایا۔
حضرت قاری صاحبؒ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو میں کبھی کبھی جایا کرتا تھا۔ بہت واقعات ہیں، دو تین عرض کرتا ہوں۔
پہلی دفعہ ۱۹۸۴ء میں جب میں مدینہ منورہ گیا توآپؒ وہاں پڑھاتے تھے۔ میں نے آپ ؒ کواطلاع دی تھی کہ میں فلاں وقت آرہا ہوں۔ میرازندگی میں مدینہ منورہ جانے کا پہلا موقع تھا۔ راستے کا پتہ نہیں تھا، اس لئے جووقت بتایا تھا، اس سے دو تین گھنٹے لیٹ پہنچا ۔قاری صاحبؒ میرے بتائے ہوئے وقت پر آئے، اڈے پر ڈیڑھ، دو گھنٹے تلاش کرتے رہے۔ میں نہ ملا توپریشان واپس چلے گئے ۔میں مدینہ منورہ دیرسے پہنچا ۔وہاں عصر سے مغرب تک کلاس ہوتی ہے ،وہ عصر اول وقت میں پڑھتے ہیں، جیسے ہمارے ہاں اہل حدیث حضرات پڑھتے ہیں۔ عصراور مغرب کے درمیان خاصا وقت ہوتا ہے۔ میں نے عصر کی نماز پڑھی اورتلاش کرتے کرتے قاری صاحبؒ کی کلاس تک پہنچ گیا ۔مجھے جونہی دور سے دیکھا تو بے ساختہ فرمایا:اوئے مولوی !کان پکڑ لے۔میں نے بیگ نیچے رکھا اورمرغا بن گیا ۔آپؒ اٹھ کر آئے اور کہا :ارے میں نے یہ تو نہیں کہا تھا ۔ میں نے عرض کیا یہ نہیں کہا تھا تواور کیا کہا تھا ؟ فرمایا :اللہ کے بندے! میں دو گھنٹے پریشان رہا ،تمہیں ڈھونڈتا رہا، تم نہیں ملے تو میں واپس آگیا۔ میں نے معذرت کی کہ مجھے راستے کاعلم نہیں تھا، اس لئے دیر ہوگئی ۔سچی بات ہے حضرت قاری صاحبؒ کووہاں پڑھاتے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی تھی کہ میرے استاذِمحترم ہیں اورمدینہ منورہ میں بیٹھے پڑھا رہے ہیں ۔فجرکی نمازکے بعد مسجد نبوی کے برآمدے میں بیٹھ کر طلبہ کی منزلیں سنا کرتے تھے اور میں قریب کسی ستون کی اوٹ میں کھڑا دیکھتا اورخوش ہوتارہتاکہ کیا خوش نصیبی ہے کہ مسجد نبوی کے برآمدے میں بیٹھے شاگردوں کی منزلیں سن رہے ہیں۔ بڑی خوشی ہوتی تھی اور بڑا رشک آتا تھا۔ میں اپنااعزازسمجھتا کہ میرے استاذِ محترم ہیں اور یہاں بیٹھے پڑھا رہے ہیں۔
میراہرسال، دو سال بعدوہاں چکر لگ ہی جاتا ہے۔ میں ان کے پاس جاتا ،ملتا، کچھ دیر ان کے پاس ٹھہرتا ۔کوئی ساتھی ملتا تو میں اسے تعارف کرواتا کہ یہ میرے استاد محترم ہیں۔ ایک دن کہنے لگے : اس طرح نہ کہا کرو ۔میں نے کہا: کیوں؟ فرمایا :مجھے شرم آتی ہے۔ میں نے بے تکلفی میں کہا :مجھے شرم نہیں آتی،آپ کوکیوں آتی ہے ۔میں تو ایسے ہی کہوں گا، کیاآپ مجھے ڈنڈے نہیں مارتے رہے؟ مجھے وہ ڈنڈے یادہیں۔ ان کی ڈاڑھی دیر سے سفید ہوئی ہے ۔ایک دور وہ بھی گزرا ہے کہ میری ڈاڑھی سفید تھی، ان کی کالی تھی ۔میں یہ کہتا کہ یہ میرے استاذ ہیں تو لوگ حیران ہوتے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے ۔ میراجب بھی مدینہ منورہ جانا ہوتا توان کااصرار ہوتا تھا کہ میرے پاس ٹھہرو ۔ہمارا ان کے ساتھ محبت وعقیدت کاگہراتعلق تھا اور ان کابھی صرف میرے ساتھ ہی نہیں، ہمارے پورے خاندان کے ساتھ شفقت کاتعلق تھا۔ ہمارے خاندان کاکوئی آدمی عمرے یاحج پر جاتا تو قاری صاحبؒ کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔ بہت خوش ہوتے کہ مولوی صاحبؒ کے بچے آئے ہیں، بیٹے آئے ہیں، بھانجے آئے ہیں اوربڑی خدمت اور بڑااعزاز فرماتے تھے۔ ایک دفعہ میں گیا تو بتایا نہیں اور قاری ریاض انصاری صاحب کے بیٹے حافظ محمد یحییٰ ابوبکر فاضل نصرۃالعلوم کے پاس ٹھہر گیا۔مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد نبوی میں حضرت قاری صاحبؒ کی چھتری متعین ہوتی تھی۔ پہلی صف کی دوسری چھتری کے ساتھ بیٹھاکرتے تھے ۔قاری صاحبؒ سے جاکر ملا۔ انہوں نے پوچھا :کب آئے ہو؟ میں نے بتایا: کل آیا تھا۔کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا: ابوبکر کے پاس ۔ فرمایا:سامان اٹھاکرگھر آجاؤ۔ابوبکر کو کہا :چلو جاؤ، مولوی کاسامان اٹھا کرابھی یہاں لے آؤ۔اس شفقت اور عنایت کا برتاؤ فرماتے تھے۔
ہمارے ہاں الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں ایک دفعہ تشریف لائے۔ آخر عمر میں بیمار ہوگئے تھے ۔میں نے پروگرام بنایا کہ ان کے اس علاقے میں بہت سے شاگرد ہیں تو قاری صاحبؒ کے جو شاگرد میرے علم میں تھے، ان کو یہاں اکٹھا کیا، ایک نشست کی اور قاری صاحبؒ کو دعوت دی۔ قاری صاحبؒ تشریف لائے اوربہت زیادہ خوش ہوئے کہ یہ تو تم نے بڑا کام کردیا ،میں کس کس کے پاس جاتا،کس کس سے ملتا۔تم نے اکثر شاگردوں سے اکٹھے ملاقات کروا دی ۔
پچھلے سال سعودی حکومت کی دعوت پر میراحج پر جانا ہوا۔ وہ پروٹوکول کاحج تھا۔ مدینہ منورہ میں ہم تین چار دن ٹھہرے تھے ۔شام کو میں حسبِ معمول ملنے کے لیے گیا تو قاری صاحب مسجد میں نہیں آرہے تھے،معذور تھے۔ ان کے گھر گیااورملاقات کی۔ان سے مل کر ،تھوڑی دیربیٹھ کر واپس اپنے ساتھیوں کے پاس آگیا۔ دوسرے دن برادرم محمداشفاق (یہ ان کے بیٹے ہیں ،ہمارے بھائی ہیں) کا فون آگیا کہ ابوجی آپ سے ملنے کے لیے آنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مولوی کو ملنے ہوٹل میں جانا ہے ۔ میں نے کہا :کیوں ،وہ کیوں آئیں،میں خود حاضرخدمت ہوں گا ۔یہ غلطی نہ کرناکہ قاری صاحب مجھے ملنے میرے پاس آئیں،میں خود حاضر ہو ں گا ۔ شام کو پھر میں آپؒ کے گھر گیا اور ملاقات کی۔ آپ ؒ بڑی محبت، عزت کرتے تھے، بڑی شفقت سے نوازتے تھے ۔
آپؒ کافی عرصے سے وہاں رہ رہے تھے کچھ عرصہ پہلے ایک الجھن پیدا ہوگئی کہ سعودیہ نے کچھ ایسے قوانین نافذ کیے کہ لگتا تھا کہ شایدان کو واپس آنا پڑے گا کہ وہاں کی شہریت نہیں تھی۔ سعودیہ والے شہریت نہیں دیتے ۔ میں ان کے پاس گیا تو کہنے لگے کہ سعودیہ والے اب شاید نکال دیں گے، میں تو یہاں دفن ہونے کی نیت سے آیا ہوں۔ دعاکرومیرے لئے۔میں نے کہا: اللہ پاک مہربانی فرمائیں گے، نیتوں کو اور نیتوں کے خلوص کواللہ پاک جانتے ہیں ۔اس سال میں وہاں نہیں جاسکا ۔استاذِمحترمؒ حج کے موقع پرساتھیوں سے پوچھتے رہے کہ مولوی نہیں آیا،کیوں نہیں آیا؟ مجھے بھی حسرت رہی کہ پچھلے سال ہی ملاقات ہوئی تھی ۔جی چاہتا تھا کہ کوئی موقع مل جائے اورملاقات کا کوئی وسیلہ بن جائے ۔سچی بات ہے کہ میں تو ان کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ میرا دعاؤں کا خزانہ مسجد نبوی میں بیٹھاہواہے اتنی زیادہ دعائیں دیتے تھے کہ ان کے چلے جانے کے بعد میں دعاؤں کے کنکشن سے محروم ہو گیا ہوں اورجب کبھی روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دیتے تو میری طرف سے سلام کہتے اور بے شمار دعائیں دیتے تھے۔
پچھلے دنوں ہمارے لیے دو تین صدمے اکٹھے ہی آگئے۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحبؒ کا انتقال ہوا، ابھی ان کا جنازہ بھی نہیں ہوا تھا کہ مدینہ منورہ سے فون آگیا کہ حضرت قاری صاحبؒ فوت ہوگئے ہیں۔ ابھی اسی صدمے میں تھے کہ تیسری خبرآگئی کہ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی ؒ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ یہ دو دن میں تین ایسی خبریں سن کر میری عجیب کیفیت تھی کہ یا اللہ کیا کریں۔بہت صدمہ تھا اپنے بزرگوں کی جدائی کا۔ سچی بات ہے کہ باپ ہی کی طرح تھے،باپ ہی کی جگہ تھے۔ بہرحال اللہ پاک ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور ہمیں ان کے صدقہ جاریہ کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اقلیتوں سے متعلق مسلمانوں کے فکری تحدیات

ڈاکٹر محمد ریاض محمود

(شعبہ علوم اسلامیہ، گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ۳۰، ۳۱ دسمبر ۲۰۱۶ء کو ’’معاصر مسلم معاشروں کو درپیش فکری تحدیات‘‘ کے عنوان سے منعقدہ قومی کانفرنس کے لیے لکھا گیا۔)

اسلام روحانی اورمادی اعتبارسے ایساانسان دوست دین ہے جس میں تمام طبقات کے لئے امن،محبت، ترقی، خوشحالی، رواداری اوراحترام کی ہدایات ملتی ہیں۔(۱) یوں اسلامی فکروفلسفہ سے وابستہ کسی بھی سیاسی،معاشی یاسماجی نظام میں ظلم، تعصب،جانبداری، حق تلفی یاکسی قسم کے امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں۔اسی اعلیٰ ظرفی اور شانداربصیرت کی کرشمہ سازی تھی کہ مختلف ادوارمیں قائم ہونے والی مختلف علاقوں کی مسلم حکومتوں نے غیرمسلم اقلیتوں کو بڑی فراخ دلی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ برداشت کیا بلکہ ان کی سیاسی حیثیت اور نسلی شناخت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں مختلف شعبہ ہائے حیات میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دیا۔مختلف مذاہب کے حاملین سے عدل اورمساوات کی بنیاد پرمعاملات کوطے کیاگیا،مذہبی اختلافات کو ہوادینے کے بجائے تحمل،ایثاراوربات چیت کے ذریعے مسائل کوحل کرنے کی راہ ہموارکی گئی،عقائدکے اختلاف کی وجہ سے گالی اوربلاتحقیق الزام تراشی کوناپسندکیا گیا۔(۲)حل تنازعات کے لیے مثبت رویے اپنانے کی تعلیم دی گئی۔(۳) مسلم فکرپران تعلیمات کااثریہ ہوا کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی گئی، ان کی تعلیم وتربیت کوترجیحی بنیادوں پراہمیت دی گئی،ان کواپنے مذہبی وسماجی تہوارمنانے میں آزادی فراہم کی گئی اورانہیں عبادت گاہیں تعمیرکرنیکی اجازت دی گئی۔غیرمسلموں کے ساتھ مسلمانوں کی رواداری اوراُن کے حسن سلوک کی تصدیق وتحسین معروف مستشرقین نے بھی کی ہے۔سرولیم میورکے الفاظ کامفہوم ملاحظہ ہو: 
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بشپوں، پادریوں اور راہبوں کویہ تحریردی کہ اُن کے گرجاگھروں اورخانقاہوں کی ہر چیز ویسے ہی برقرار رہے گی۔ کوئی بشپ اپنے عہدہ،کوئی راہب اپنی خانقاہ اورکوئی پادری اپنے منصب سے معزول نہیں کیا جائے گا۔ اُن کے ا ختیارات وحقوق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی نیزجبروتعدی سے کام نہیں لیا جائے گا۔‘‘ (۴) 
معروف ہندومحقق ونقادشری سندرلال جی کے الفاظ اس طرح ہیں: 
’’حکمران کی حیثیت سے محمدصاحب نے غیرمسلموں کویہاں تک کہ بت پرستوں کوبھی اپنی ریاست کے اندررہتے ہوئے اپنے مذہبی مراسم اداکرنے کی پوری پوری آزادی بخشی اوراُن کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرناہرمسلمان کافریضہ قراردیا۔لااکراہ فی الدین مدنی آیت ہے اورمحمدصاحب کی پوری زندگی اس آیت کی جیتی جاگتی تصویرہے‘‘۔ (۵) 
ساری اسلامی تاریخ مسلمانوں کے غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے شواہدپرمشتمل ہے خصوصاً برصغیرمیں سلاطین دہلی اورمغل حکمرانوں کامذہبی رواداری کوفروغ دینے کے ضمن میں کردارنہایت شاندار اور قابل فخر ہے۔ (۶) یہ مثالی صورتِ حال اُس وقت قائم نہ رہ سکی جب بعض انتہاپسندعناصرنے مذہبی اختلافات کی بنیادپرتشدداورتوہین آمیز رویوں کواختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ایسے غیرذمہ دارانہ اورناعاقبت اندیش رویوں کاہی نتیجہ ہے کہ آج ایسی فضا پیدا ہو گئی ہے کہ جس میں نہ صرف یہ کہ مذہبی اقلیتیں خوف وہراس کاشکار ہو کر رہ گئی ہیں بلکہ مسلمانوں میں موجودبہت سے سنجیدہ حلقے بھی اس پرافسوس،پریشانی،حیرت اورتشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ شدت پسندی پرمبنی اس ہلاکت خیز بیان نے مسلم اُمہ کوابہام اورفکری انتشار سے دوچار کردیاہے،اسلامی ریاست کی نوعیت وحیثیت کی تشریح و توضیح پر اختلافات سامنے آئے ،(۷) قوم اسلامی ریاست، مسلم ریاست،دینی ریاست،قومی ریاست اورجدیدریاست کی لفظی موشگافیوں میں پھنس کررہ گئی ہے،(۸) بعض علماء نے اس ضمن میں قدیم فقہی اصطلاحات کااستعمال کیا ہے، اُنہوں نے دار الاسلام اور دارالحرب کی تقسیم کرکے جدیدسیاسی، عالمی اورجغرافیائی حقائق اوراِن کے پس منظر کو نظرانداز کردیا ہے۔(۹) جہاد جو ایک مقدس فریضہ ہے اس کی عصری تعبیرات نے قوم کونظریاتی طورپرپریشانی اورابہام میں مبتلا کر دیا ہے، اب قوم کااس معاملے پر متفقہ موقف سامنے آنامحال نظرآرہاہے۔(۱۰)
مسلم ریاستوں کے غیرمسلم باشندگان اہل ذِمہ،اہل صلح،معاہدین اور محاربین کی اصطلاحات کے الجھاؤ میں اپنا وجود تلاش کررہے ہیں،اُن کی وفاداریوں پربلاوجہ شک کیاجارہاہے،بعض حلقہ یہ تاثردینے کی کوشش میں ہیں کہ اِن غیرمسلموں کے مغربی طاقتوں سے خفیہ روابط ہیں اوروہ مسلمانوں کے زیر انتظام علاقوں اور ممالک کے خلاف کسی بین الاقوامی منصوبہ بندی اورسازش کاحصہ ہیں۔بعض طبقات ایک عجیب قسم کی نفسیاتی کیفیت میں مبتلاہیں جس کے مطابق حقیقی دشمن پرقابونہ پانے کی صورت میں کسی امکانی یافرضی دشمن کوہدف بنا کر ذہنی تسکین حاصل کی جاتی ہے،چونکہ دورِ حاضر میں ترقی یافتہ مغربی ممالک کے خلاف کسی قسم کاقدم اُٹھانامسلم حکومتوں اورتشددپریقین رکھنے والے بعض مسلم طبقات کے بس کی بات نہیں،اس لئے وہ اپنے ممالک میں موجودکمزوراوربے بَس اقلیتوں کوہدف بناتے اوراپنا غصہ نکالتے ہیں۔ 
ایک مخصوص مذہبی طبقہ اپنے آپ کوبرصغیرکے نوآبادیاتی دورمیں رواج پانے والی مختلف المذاہب مناظرانہ کشمکش کا آج بھی حصہ سمجھتاہے،(۱۱) دیگر مذاہب کے علمی مصادرسے کسی بھی درجے میں اخذ واستفادہ کونامناسب خیال کیا جاتا ہے۔ توہین رسالت جوکسی بھی مذہب میں ایک ناپسندیدہ اورقابل مذمت فعل ہے(۱۲) خصوصاً مسلمان اس حوالے سے اپنی ایک شانداراورغیرت مندانہ تاریخ رکھتے ہیں، اس تصور کوضد،انااورناسمجھی کی بھینٹ چڑھادیاگیاہے۔ دنیا کے ا یک بڑے حصے پراسلام کے فروغ کا واحد ذریعہ تبلیغ، دعوت،حسن اخلاق اورتصوف رہا ہے، مگرآج نوبت یہ آگئی ہے کہ غیرمسلموں کے قبولِ اسلام پرسوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں ایسی قانون سازی کی جارہی ہے کہ ایک مخصوص عمر تک کوئی شخص اپنامذہب تبدیل نہ کر سکے۔ 
مذہبی اقلیتیں سیاسی میدان میں اپنی شناخت کوکس طرح قائم رکھیں،اِن کاقانون سازاداروں میں پہنچنے کا طریقہ کار کیا ہو،؟ اِن معاملات پرعجیب ابہام پایاجاتاہے،اقلیتوں کے طریقہ انتخاب میں باربارتبدیلیاں کی جا رہی ہیں، کبھی وہ براہِ راست اپنے ہم مذہبوں کیے ووٹ لے کرمنتخب ہوتے ہیں اورکبھی وہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے رحم وکرم پرہوتے ہیں کیونکہ اُنہیں بالواسطہ طورپرمنتخب ہوناہوتاہے،سیاسی جماعتیں اپنے غیرمسلم نمائندوں کی فہرست ترجیحی بنیادوں پر ترتیب دیتی ہیں جن کے مطابق حاصل کردہ کل ووٹوں کے تناسب سے یہ نمائندے اسمبلی کی رکنیت حاصل کرتے ہیں۔اقلیتوں میں موجودسیاسی بصیرت کے بہت سے حاملین اس سرگرمی کوالیکشن کے بجائے سلیکشن خیال کرتے ہیں۔ (۱۳)یوں اقلیتیں تسلسل کے ساتھ تجربات کی زد میں ہیں، کبھی انہیں ایک ووٹ کاحق دیاجاتاہے اورکبھی دُہرے ووٹ کا۔(۱۴)علاوہ ازیں قانون سازی کے مختلف مراحل میں اقلیتوں کونظراندازکئے جانے کی شکایات بھی عام ہیں، مذہبی میدان میں یہ ایک اہم سوال ہے کہ اقلیتوں سے متعلق قانون سازی کرتے وقت مسلمانوں کی رائے کوکس حدتک دخل حاصل ہے اور خود اقلیتوں کی رائے کو کتنی اہمیت دی جائے،آج تک کوئی اصول اورضابطہ اس ضمن میں طے نہیں کیاجاسکا۔یہ امربھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ مذہبی اقلیتوں کی مقدس کتب اوراُن کی تاریخ کوتعلیمی نصاب کاحصہ بنایاجائے یااس سے گریز کیا جائے۔ 
مسلم اُمہ اقلیتوں سے متعلق فکری طورپردوطبقات میں تقسیم ہے،ایک طبقہ قدامت پسندجب کہ دوسراروشن خیال ہے۔ مسلمانوں کی یہ داخلی فرقہ بندی کسی ایک مؤقف پرامت مسلمہ کوجمع نہیں ہو نے دیتی۔یہ سوال وضاحت طلب ہے کہ پاکستان میں شریعت اسلامیہ غالب ہے یاملکی وغیرملکی قوانین کی پاسداری کی جائے گی۔ علاوہ ازیں اقلیتوں سے متعلق مختلف علمی موضوعات پرگفتگوکے بارے میں بہت سے ذہنی الجھاؤ موجود ہیں مثلاً علمی میدان میں اختلاف کرنے کی حدود کیا ہیں؟ کون کس معاملہ میں کتنا اختلاف کرسکتا ہے اور کیوں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کے لیے برداشت کی بڑی قوت درکارہے۔مسلم امہ فکری اورنظریاتی طورپر اسی نوعیت کے بہت سے سوالات، ابہامات اورعلمی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ اس پس منظرمیں یہ سوال بڑااہم ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے بارے میں معاملات کوطے کرتے وقت کیاحکمت عملی اختیارکی جائے۔اسلامی ریاست، جہاد، دہشت گردی،توہین رسالت، قبولِ اسلام کی حدودوشرائط،حق اختلاف، اقلیتوں کی مذہبی شناخت اوراُن کاحق تبلیغ مذہب،مختلف قومیتوں کاوجوداوراستحکام،اقلیتوں کاقانون سازی میں کرداراورمختلف المذاہب طلبہ کے لیے نصابِ تعلیم ایسے معاملات ہیں جن پردرست اوریک سومسلم فکرکیاہے اوراس کے تقاضوں کو کس طرح روبہ عمل لایا جا سکتا ہے۔ (۱۵) ایسے ہی علمی وفکری اورنظریاتی سوالات کے جوابات تلاش کرنے اور اس ضمن میں درپیش چیلنجز کو سمجھنے اوراُن کی حساسیت کااندازہ کر نے کے لئے موضوعِ تحقیق کے طور پر ’’اقلیتوں سے متعلق مسلمانوں کودرپیش فکری تحدیات‘‘ کا انتخاب کیاگیاہے۔ذیل میں اُن فکری چیلنجز کا تجزیہ پیش کیاجاتاہے جومسلمانوں کواقلیتوں سے متعلق درپیش ہیں۔ 

۱۔ مذہبی تکثیریت کی اہمیت وحساسیت کاعدم احساس

تنوع کائنات کاحسن اورقدرت کی تخلیق کاایک بنیادی اصول ہے،انسانی زندگی میں موجودرنگارنگی کا شعوراوراس کی حکمتوں کی تفہیم خدا شناسی میں معاون ہے۔آسمانوں اورزمین کوپیداکرنا،انسانوں کے درمیان زبانوں اوررنگوں کے مختلف ہونے کوقرآن مجیدنے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں قرار دیاہے۔(۱۶) شکل وصورت اوررنگ ونسل کی انفرادیت کے باعث انسانوں کے درمیان میلانات،جذبات،رجحانات،خیالات اور ترجیحات کااختلاف ہے۔یہ اختلاف قدرت الٰہی کا کرشمہ اورایک اہم معاشرتی ضرورت ہے۔اس تنوع اور رنگارنگی کی حکمتوں سے واقف ہونامعاشرتی اورمذہبی میدان میں نہایت مفیدہے۔دنیامیں مختلف المذاہب لوگ رہتے ہیں ان کی مذہبی ونسلی شناخت کااحترام،ان کے حقوق اوران کی ترجیحات کاعلم خوش گوارمعاشرت کاایک لازمی تقاضاہے۔کثیرالعقائدیامذہبی تکثیریت پرمبنی معاشرے کس طرح بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرتے ہیں، اس حقیقت کاادراک مذہب سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔پاکستان مذہبی،نسلی،لسانی، جغرافیائی،معاشی اورسماجی تنوع کاحامل ملک ہے۔اس تنوع کو ایک فلاحی اورصحت مندمعاشرے کی بنیادرکھناتھی، لیکن فہم اورتربیت کے فقدان نے ایساممکن نہ ہونے دیا۔ علم وفکر اور شعور وآگہی کے اسی زوال نے پاکستان کواپنے حقیقی مسائل کے حل سے دوررکھا۔مذہبی تکثیریت کی نوعیت، اہمیت، فوائد اور محاسن کاعدم شعورہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جوکسی قوم کواقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کوقومی دھارے میں شامل کرنے سے روکے رکھتاہے۔مختلف المذاہب لوگوں کاباہم مل جل کررہنا، اعتدال وتوازن کے رویوں کوجنم دیتاہے۔اوراگرلوگ دیگر افراد معاشرہ کی اہمیت سے ہی آگاہ نہ ہوں توانواع واقسام کے تضادات اورعدم برداشت کے رویے پاتے ہیں۔اس پس منظرمیں مذہبی تکثیریت کے مختلف پہلوؤں کافہم نہایت ضروری ہے۔کثیرالعقائدمعاشر ے علمی وفکری اعتبارسے بڑے زرخیز واقع ہوتے ہیں۔اس زرخیزی کامشاہدہ وتجربہ مسلمانوں نے عباسی اوراُندلسی ادوارِ حکومت میں خوب کیا،ان مثالی ادوار میں مسلم 150غیرمسلم تعلقات اس حدتک خوشگوارتھے کہ اعلیٰ ترین سطح کی تعلیم وتحقیق کیلئے قائم کئے گئے اداروں کی سربراہی کئی مرتبہ غیرمسلم ماہرین علم وفن کوسونپی گئی۔دورِجدیدمیں مسلم معاشروں کویہ چیلنج درپیش ہے کہ مذہبی وثقافتی تنوع کی اہمیت کااحساس رکھنے والوں کی تعدادبہت کم ہے۔تنوع ایک قوت ہے،اسے دبانے کے بجائے قبولیت سے نوازا جائے اوردوسروں کوجگہ بنانے کاموقع فراہم کیاجائے۔ 

۲۔اقلیتوں کے حقوق سے متعلق احساسِ ذمہ داری کافقدان

مذہبی،سماجی اورسیاسی اعتبارسے اقلیتوں کاوجودکسی بھی ملک کیلئے ایک اہم اورحساس معاملہ ہے۔کسی بھی ملک کی آزادی، ترقی اوراستحکام کااندازہ اس امرسے لگایاجاتاہے کہ اس میں بسنے والی اقلیتیں،کتنی مطمئن اورخوشحال ہیں،انہیں کس حدتک قومی دھار ے میں شامل کیاگیاہے(۱۷)، ان کے تعلیمی ادارے کتنے بااختیار اور مؤثرہیں، ریاست کے ساتھ اُن کی وابستگی کی گہرائی کتنی ہے اوراُن کے حقوق کی ادائیگی کیلئے اکثریتی آبادی کیانقطہ نظررکھتی ہے ؟نیزاس نقطہ نظرکاعملی اظہار اُن میں کس درجے تک پایاجاتاہے؟یہ تمام سوالات ساری پاکستانی قوم سے تقاضاکرتے ہیں کہ اقلیتوں سے متعلق نہایت مثبت اورحوصلہ افزا رویہ رکھاجائے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ اس ضمن میں کوئی قابل ذکرکارنامہ منظر عام پرنہیں آیا بلکہ احساسِ ذمہ داری کے فقدان نے منصوبہ سازوں کی منفی کارکردگی سے پردہ اٹھادیاہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم آج تک بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کی ۱؍۱اگست ۱۹۴۷ ء کی اُس تقریرکی مبہم تشریحات میں پھنسے ہو ئے ہیں جس میں اُنہوں نے پاکستان کی غیرمسلم اقلیتوں کویہ یقین دلایاتھاکہ اُن کے مذہبی وسیاسی حقوق پوری طرح محفوظ ہوں گے اور ریاست پاکستان اس ضمن میں کوئی جانب دارانہ رویہ اختیارنہیں کرے گی۔(۱۸)اس پس منظرمیں یہ امر نہایت ضروری ہے کہ اقلیتوں کے وجودکودلی طورپرنہ صرف یہ کہ تسلیم کیاجائے بلکہ اُن کی خوشحالی وترقی کیلئے شعوری کوششیں کی جائیں۔ 

۳۔ اسلامی ریاست اوراقلیتوں کی حیثیت کے بار ے میں ابہامات

فکری میدان میں مسلم امہ کوآج جن چیلنجزکاسامناہے اُن میں اسلامی ریاست کاوجوداور اُس کی نوعیت وتشکیل بڑے نمایاں ہیں۔آج تک یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے،مسلم ریاست ہے،قومی ریاست ہے، اسلامی جمہوریہ ہے یادارالاسلام ہے۔(۱۹)اسی طرح اس ملک میں رہنے والے غیرمسلم فقہ اسلامی کی رُو سے کس حیثیت اور درجے کے مالک ہیں،اہل کتاب اورغیر اہل کتاب کی بحث اس ضمن میں نمایاں اہمیت کی حامل ہے،(۲۰)علاوہ ازیں معاہدین، اہل ذِمہ،اہل صلح اورمحاربین ایسی فقہی اصطلاحات کی مددسے اُن کی قانونی حیثیت کاتعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ (۲۱) علم وفکراورفہم ودانش کے میدان میں یہ عجیب وغریب الجھاؤقوم کواقلیتوں کے بار ے میں یک رُخ ہونے سے روکے رکھتے ہیں۔ 

۴۔جہادسے متعلق نامناسب تعبیرات وتاویلات

جہادکی حیثیت اوراس کے مقاصدوطریقہ ہائے کارکواسلام میں کیااہمیت حاصل ہے، یہ وہ بنیادی سوال ہے جو اہل مغرب مسلمانوں سے تکرارکیساتھ کرتے آئے ہیں۔کیونکہ مسلمانوں کی طرف سے جہادسے متعلق مختلف الجہات تشریحات منظرعام پر آچکی ہیں۔ان تعبیرات و تشریحات نے علمی دنیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے کام کرنیوالی تنظیموں کو بھی ایک عجیب اُلجھن میں مبتلا کر دیا ہے۔ عصر حاضر میں ’’جہاد‘‘ ایک حساس موضوع قرارپایاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی وسعت وقبولیت کاسہرا دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ جہادی سرگرمیوں کے سر ہے۔اس مخصوص تاریخی ونظریاتی پس منظرمیں جہادنہ صرف یہ کہ اجروثواب کے حصول کا باعث ہے بلکہ اقوام عالم کیساتھ مسلمانوں کے تعلقات کی نوعیت کا تعین بھی کرتاہے۔مخمصہ یہ ہے کہ عصر حاضرمیں تصورِجہادکی مختلف تعبیرات سامنے آئی ہیں۔ایک حلقہ اسے ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ سمجھتے ہوئے کفارکودعوت اسلام کی جانب راغب کرتاہے اورکفاراس دعوت کوقبول نہ کریں تواُن کے خلاف جہادی سرگرمیوں کاآغازکر کے اُنہیں اپنازیرنگیں بنالیناچاہتاہے۔ایک دوسراحلقہ جہادکومحض مسلمانوں کے دفاع اور غیرمسلموں کے ظلم کے خاتمے کی ایک تدبیرقراردیتاہے۔سیدمودودی ؒ نے اس تصورکوپوری دنیا پر اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کر نے سے تعبیرکیاہے۔ (۲۲) ان کی رائے میں اسلام شخصی اعتقادمیں توکفروشرک کو گوارا کرتا ہے، لیکن کسی ایسے نظامِ حکومت کاوجوداسے قبول نہیں جس میں خدائی قانون کے علاوہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کیا گیا ہو۔ (۲۳)
مولاناامین احسن اصلاحی کاموقف ہے کہ اللہ تعالیٰ باطل نظام کے انتشارکوبھی اُس وقت تک پسند نہیں کرتاجب تک اس بات کاامکان نہ ہو کہ جولوگ اس باطل نظام کودرہم برہم کررہے ہیں وہ اس کی جگہ پرکوئی نظامِ حق بھی قائم کرسکیں گے۔ انارکی اور بے نظمی کی حالت ایک غیرفطری حالت ہے بلکہ انسانی فطرت سے اس قدرپیچیدہ کہ تعمیر انسانیت کے لیے زہر قاتل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی جماعت کوجنگ چھیڑنے کااختیارنہیں دیاہے جوبالکل مبہم اورمجہول ہو، جس کی اطاعت ووفاداری کاامتحان نہ ہواہو،جس کے افراد منتشر اورپراگندہ ہوں،جوکسی قائم نظام کوتودرہم برہم کرسکتے ہوں، لیکن اس بات کاکوئی ثبوت اُنہوں نے بہم نہ پہنچایاہوکہ وہ کسی انتشارکومجتمع بھی کرسکتے ہیں۔(۲۴)
یعنی وہ جہادوقتال کے عمل کواتنی زیادہ پابندیوں کے ساتھ مشروط کرتے ہیں کہ جن کااہتمام کرنا،فی نفسہٖ ایک پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے۔ان مختلف تعبیرات نے جہادکے نام پرکام کرنے والی مختلف تنظیموں کو جہادکے نت نئے مفاہیم اور اسالیب اختیار کرنے کی گنجائش فراہم کردی ہے۔یہ غیرمحدودگنجائش اقلیتوں سے متعلق مسلم طرزِ فکرکوبعض اوقات منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔ مسلم ممالک میں بعض مسلمان تنظیموں کی طرف سے اقلیتوں کے ساتھ روارکھے جانے والے نامناسب سلوک کو اسی پس منظرمیں سمجھنے اوراس کاحل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ 

۵۔قانون توہین رسالت کے استعمال پراقلیتوں کے تحفظات

مقدس ہستیوں،مقدس کتب خصوصاً انبیاء ورُسل سے متعلق نازیباکلمات واندازکسی بھی معاشر ے میں برداشت نہیں کئے جاتے مگر پاکستان میں ایک مخصوص قانون نے اس ساری صورتِ حال کواقلیتوں سے وابستہ کر دیا ہے۔ اقلیتیں اس قانون کے حوالے سے شدیدعدم تحفظ کاشکار ہیں،اس قانون سازی کاپس منظریہ ہے کہ برصغیرکی انگریزحکومت نے اس ضمن میں کچھ اقدامات کئے۔کسی مذہب کی عبادت گاہ کونقصان پہنچانایااس کے تقدس کوکسی بھی طریقے سے پامال کرنا، 1860ء کے قانون کی دفعہ 295کے تحت قابلِ تعزیرجرم قرارپایا، قیامِ پاکستان کے بعداسی قانون میں کئی ترامیم کی گئیں۔ ان ترامیم میں مذہبی شعائر،قرآن مجید اور انبیاء ورسل کی توہین پربھی سزاؤں کااعلان کیاگیا۔نظریاتی پس منظراپنی جگہ پر، عمل کے میدان میں اس قانون کاشکاراقلیتیں ہی ہوتی آئی ہیں۔اس حقیقت کاایک افسوسناک پہلویہ ہے کہ جن پرتوہین مذہب یا توہین رسالت کاالزام لگتا ہے، اُن پرعدالت میں جاکرجرم ثابت کرنے کے بجائے حملے کئے جاتے ہیں اور انہیں ماورائے عدالت قتل کردیاجاتاہے۔اس پرتشدداورخوفناک ماحول کے پیشِ نظرجج اوروکلاء ایسے مقدمات کی سماعت اور کاروائی کوآگے بڑھانے سے قصداً گریزکرتے ہیں۔ اس قتل وغارت میں ملوث انتہاپسند ذہنیت رکھنے والے لوگ کسی قانونی کاروائی سے محفوظ رہتے ہیں۔مذہبی اقلیتوں کاتاثریہ ہے کہ اصولی ونظریاتی طورپراگریہ قانون درست بھی ہے تو اس کے عمل درآمدمیں بہت سی ناانصافیاں موجود ہیں۔ (۲۵) اِن حالات میں عدالتیں دباؤمیں کام پرمجبورہیں اورذرائع ابلاغ اپنی غیرجانب داریت کوقائم رکھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔افسوس کامقام یہ ہے کہ اس خطرناک اورگمبھیر صورتِ حال کی اصلاح کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ابھی تک منظر عام پرنہیں آئی ہے۔کسی بھی مہذب معاشرے میں بلاتحقیق وتفتیش کسی شخص کو کسی جرم کا مرتکب قراردینا،قطعاً ظلم اورناقابل برداشت فعل ہے۔اس رویے کی تائیدوحمایت مسلم تاریخ ومصادر سے بھی نہیں ہوتی ہے۔اقلیتوں سے متعلق اس فکری چیلنج کوسمجھے اور اس پرمناسب فیصلہ سازی کئے بغیرامن، خوشحالی اور فراہمی انصاف کے کسی دعوے کی تصدیق وتائید نہیں ہوسکتی۔ 

۶۔تبدیلی مذہب سے متعلق حالیہ قانون سازی

اقلیتوں کی طرف سے یہ شکایات اکثرموصول ہوئی ہیں کہ اُن کی لڑکیوں کوزبردستی مسلمان بناکرشادیاں کرلی جاتی ہیں، نیزاُن کے نا بالغ بچوں کے مذہب بھی تبدیل کئے جاتے ہیں۔(۲۶) اگریہ سب کچھ درست ہے تونہایت قابل افسوس ہے، اس ظالمانہ اورغیراسلامی روش کاسدباب مسلم اُمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اسی پس منظرمیں گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی نے اقلیتوں کے حقوق کے عنوان سے ایک بل منظورکیاہے جس کے مطابق کسی غیرمسلم کے اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے اسلام لانے پرپابندی عائدکردی گئی ہے اوراسے قابل تعزیر جرم قراردیاگیاہے۔اس بل کی منظوری حقائق کومسخ کرنے کی کوشش ہے ا وریہ ساری کاروائی عدل کے تقاضوں کے خلاف ہے۔امر مسلمہ ہے کہ اسلام میں کسی کوزبردستی مسلمان بناناقطعاً جائز نہیں اورایسی کسی کوشش کو روکنابھی درست ہے جس میں کسی شخص پرتبدیلی مذہب کے لیے دباؤ ڈالا جائے، لیکن دوسری طرف اپنی مرضی سے ا سلام لانے پرپابندی لگاکرکسی کو دوسرے مذہب پرباقی ر ہنے کے لئے مجبورکرنا بھی بدترین زیادتی ہے۔ اگرکوئی نابالغ بچہ مسلمان ہوناچاہے تواُسے ر وکنابنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اس قابل اعتراض قانون کومنسوخ کیاجا ئے، البتہ اگرتبدیلی مذہب کے لیے کسی زبردستی یا جبر کا ارتکاب کیاجائے تو اس کے مرتکب افرادیااداروں کے خلاف موثرکاروائی ضرورکی جائے۔ 

۷۔ آئینی تضادات

اقلیتوں کے حقوق اوراُن کے سماجی رُتبہ کابراہ راست تعلق آئین اورقانون سے ہے۔بہت سے ایسے قانونی اور سماجی معاملات ہیں جن کے بارے میں آئین میں تضادات ہیں۔آئین ایک طرف شریعت کی پاسداری کی ضمانت دیتاہے تودوسری طرف بین الاقوامی اداروں کے بیان کردہ انسانی حقوق کی ادائیگی کایقین دلاتاہے۔ دلچسپ اورقابل غورنکتہ یہ ہے کہ شریعت کے کئی امورایسے ہیں جوکہ مختلف اداروں کے بیان کردہ انسانی حقوق سے مختلف بلکہ متصادم ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم نظریاتی واصولی طورپرایسی چیزیں طے کرلیں کہ کہاں شریعت پرعمل ہوگااورکہاں بین الاقوامی قوانین پر۔ یہ فیصلہ ہوناچاہئے کہ موجودہ بین الاقوامی قانون کی حیثیت کیاہے،کیونکہ تمام مسلم ممالک نے مختلف بین الاقوامی معاہدات کوتسلیم کررکھاہے اورانہوں نے بین الاقوامی عرف کی پابندی کی یقین دہانی کرارکھی ہے۔اس پس منظرمیں بین اقوامی معاملات میں چنداصولوں کو قانونی طورپر مسلمات کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، (۲۷) یوں جب تک معاصربین الاقوامی قانون کی حجیت یاعدمِ حجیت کا فیصلہ نہ کر لیا جائے، اُس وقت تک اقلیتوں کے بار ے میں واضح حکمت عملی کاتعین کرنا ایک نہایت مشکل معاملہ ہے۔ 

۸۔ دورِ جدیدکے مسلمات سے عدم واقفیت

اقلیتوں سے متعلق عدم برداشت کے رویوں کے بہت سے نفسیاتی وجذباتی اسباب بھی ہیں، بعض لوگ جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اورتحقیق وتنقیدکوبالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی دینی ترجیحات کاتعین کرتے ہیں۔ وہ ایسے قدیم لٹریچرکی بنیادپررائے قائم کرتے ہیں جوکہ دورِ جدیدمیں اپنی حیثیت گنواچکاہے۔ زمانے کے تغیرات نے مسلمات کوبدل کررکھ دیا ہے، اس علمی وفکری اورسماجی ارتقاء کوسمجھے بغیرمعاملات دنیاکی تفہیم ناممکن نہیں توازحدمشکل ضرورہے۔افسوس کامقام یہ ہے کہ ہم آج تک مذہبی اقلیتوں کے بار ے میں ذمی، معاہد، اہل صلح،محارب اورمفتوح ایسی مخصوص فقہی اصطلاحات کے معانی ومفاہیم کے تعین میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اقلیتوں سے متعلق غوروفکرکرتے ہوئے ہمیں تغیرپذیرعالمی حالات کی نوعیت وحساسیت کو سمجھناہوگا۔عالمی اداروں اوران کے چارٹرز کو نظر انداز کر کے ہمیں کیامشکلات پیش آسکتی ہیں، اُن پربھی نظرکرنے کی اشدضرورت ہے۔ 

۹۔اقلیتوں سے متعلق امورمیں غیرتحقیقی رویے

اقلیتوں کے لیے مسائل پیداکرنے میں اکثریتی آبادی کے جذباتی اورغیرتحقیقی رویوں کوبڑادخل حاصل ہے۔ مذہبی اشتعال پیداکرنے والے اکثر واقعات کی تحقیق وتفتیش جب بھی کی گئی تومعلوم ہواکہ اصل مسئلہ وہ نہیں جس کاشہرہ تھا۔ توہین رسالت اورقرآن مجیدکونذرِ آتش کرنے کے بہت سے واقعات کی حقیقت یہ ہے کہ ان کے پس منظرمیں ذاتی انتقام، غصہ اورتعصب کارفرماتھا۔(۲۸) اقلیتوں سے متعلق امورمیں غیرتحقیقی رویوں کو اختیار کرنا ایک ایسا مذہبی وسماجی مسئلہ ہے جس کے اثرات پاکستان مسلسل بھگت رہاہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ بحیثیت قوم تمام معاشرتی طبقات کو عدل، مساوات اورتحقیق کاپابندکیاجائے۔ 

۱۰۔علمی مکالمات کافقدان

قومی وبین الاقوامی مسائل کے حل میں علمی مکالمہ کاکردارانتہائی اہمیت کاحامل ہوتاہے، مذہبی اقلیتوں کے مسائل کیا ہیں؟ ان کے اسباب ومحرکات کیاہیں؟مذہبی اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں کون سے عوامل وعناصرموثر ہوسکتے ہیں؟ اس ضمن میں مذہب ہماری کیارہنمائی کرتاہے؟یہ وہ سوالات ہیں جن کاجواب ایک موثرعلمی مکالمہ ہی فراہم کرسکتاہے۔ کیونکہ مکالمہ دوطرفہ عمل ہے جس میں مسئلہ کے تمام پہلوؤں پربحث ہوتی ہے۔ مکالمہ سے گریز، ضد، اشتعال اورغیرسنجیدگی کی علامت ہے۔مکالمے کی عدم موجودگی کامطلب یہ ہوتاہے کہ افرادواقوام نے اپنے تمام مسائل حل کرلئے ہیں یاپھریہ کہ تمام طبقات کی علمی صلاحیتیں کمزورپڑگئی ہیں۔ اس علمی کمزوری کافائدہ مخصوص مفاداتی طبقات اٹھاتے ہیں۔یہ طبقات تشدد اور عدم برداشت کی راہ ہموارکرتے ہیں اورمعاشرے میں شکست وریخت کاباعث بنتے ہیں۔مذہبی اقلیتوں کے وجود، ان کے تشخص اور اُن کے سیاسی ومذہبی حقوق پربات چیت سے گریزکرنا،پاکستانی مسلمانوں کیلئے ایک اہم نفسیاتی اور فکری چیلنج ہے۔علمائے کرام،اہل دانش، پالیسی سازشخصیات اورعام لوگوں کواس چیلنج کی حساسیت کااحساس کرتے ہوئے اقلیتوں کے سماجی،علمی،سیاسی اورمذہبی معاملات میں گنجائش اوروسعت کا پہلوتلاش کرناہوگاجوکہ مؤثرمکالمہ کے بغیر ممکن نہیں۔ 

۱۱۔اپنے دائرہ اختیارسے تجاوزکرنے کے رجحانات

اقلیتوں سے عدم رواداری کاایک اہم سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے دائرہ اختیار سے لاعلم ہیں،وہ ہرچیزکو انفرادی اور ذاتی حیثیت میں اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگراس کوشش میں وہ ناکام ہوجائیں تو انتہائی اقدام کرنے سے گریزنہیں کرتے،اس بات کی فکرکم ہی ہوتی ہے کہ یہ عمل یاردعمل میرے دا ئرہ اختیارمیں بھی ہے یا نہیں۔ توہین رسالت اور قرآنی اوراق جلانے کے ردعمل میں جتنے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، اُن میں کبھی کسی نے یہ نہیں خیال کیاکہ ان واقعات پرردعمل دینااس کے دائرہ اختیارسے باہرہے نیزوہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس عمل کا جواب دہ نہیں ہے۔اگرعدالتی نظام کومضبوط بنایاجائے اوراس نظام پر اعتمادکیاجائے توریاست ایسے واقعات سے زیادہ بہترطورپرنمٹ سکتی ہے۔ریاستی نظام کی تمام ترکمزوریوں کے باوجودکسی فردکویہ حق نہیں دیاجاسکتاکہ وہ قانون کواپنے ہاتھ میں لے اورکسی قسم کی مذہبی اشتعال انگیزی کاباعث بنے۔ 

۱۲۔اختلافِ رائے کے اصول وآداب کی عدمِ تفہیم

مختلف معاملات میں افرادِمعاشرہ کامختلف نقطہ ہائے نظرکاحامل ہوناایک فطری امر ہے۔تمام لوگوں کی علمی وفکری اور ذہنی وجسمانی صلاحیتیں ایک جیسی نہیں ہوسکتیں کیونکہ ان کی معلومات،مشاہدات اورتجربات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگر اختلافِ رائے کے اظہار کے لیے مناسب مواقع فراہم نہ کئے جائیں تویہ اختلاف اپنی حدودسے تجاوزکرجاتاہے جس کے منفی اور برے نتائج بھگتناپڑتے ہیں۔اختلافِ رائے کا مقصد بلاوجہ اپنی رائے پراصرارنہیں ہے بلکہ دستیاب وسائل کی روشنی میں ٹھوس ثبوت کی بنیادپراپنی رائے خوبصورت اندازمیں دوسرے کے سامنے پیش کرناہے۔اگر دوسروں کے پاس بہتر ثبوت اوردلائل موجودہوں توان کو سناجائے اور انہیں اپنی رائے پرقائم رہنے کاحق دیاجائے۔اختلافِ رائے کے اصول وآداب کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔اختلافِ رائے کی صورت میں تحقیقی رویوں کوفروغ دیاجائے،مخالف اوراس کی رائے کااحترام کیا جائے اوریہ تسلیم کیاجائے کہ غلطی کاامکان ہر وقت موجود رہتاہے۔ ان اصول وآداب کوسمجھنااورانہیں استعمال کرناکثیرالمذاہب معاشروں کے افراد کیلئے بہت ضروری ہے۔مسلم امہ کا ایک المیہ عہد حاضرمیں یہ ہے کہ اختلافِ رائے کے معنی ومفہوم پرتوجہ نہیں دی جاتی نیزاس کے آداب و شرائط کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ رجحان مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی اور اس ضمن میں مناسب ذہن سازی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ 

۱۳۔متوازن نصابِ تعلیم

تعلیمی نصاب کسی قوم کی نظریاتی اساس کے تحفظ کاضامن ہوتاہے،اسے متوازن ومعتدل اورمختلف معاشرتی طبقات کے لیے یکساں طورپر قابل قبول ہوناچاہئے۔نصاب میں کسی مذہب کی توہین ایک نامناسب بات ہے،اکثریتی آبادی کے مذہبی فلسفہ کوہی اگرنصاب قرارپاناہے تومتحدہ ہندوستان میں ’’بندے ماترم‘‘ کے گیت پرمسلمانوں نے جواحتجاج کیا تھا، اس کی کیاحیثیت رہ جاتی ہے؟ہندواکثریت میں تھے،مسلمانوں نیاکثریت کیاس طرزِعمل کوکیوں قبول نہیں کیا تھا؟ یقیناً اس سوال کا جواب صرف یہ ہے کہ ہرطالب علم کاحق ہے کہ اسے برابری کے اصول پرتعلیم وتربیت کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ جو عقائدو افکاراس کے مذہب سے مناسبت نہ رکھیں، اُسے اُنہیں پڑھنے پرمجبورنہ کیاجائے۔یہ ہمارافکری تضاد ہوگا کہ ہم غیرمسلم بچوں کو اسلام پڑھنے کاپابندکریں اورجہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں دیگرمذاہب کی تدریس پر احتجاج کریں اور ناراضگی کااظہارکریں۔ معقولیت اسی میں ہے کہ اکثریت اپنی رائے دوسروں پرٹھو نسنے سے گریز کرے۔ 

۱۴۔تنازعات کے خاتمے میں غیرسنجیدگی کامظاہرہ

ایک ہی ماحول ومعاشرہ میں مختلف العقائدلوگوں کی موجودگی سے کسی نہ کسی تنازعہ یا تناؤکاپیداہوجانافطری امر ہے لیکن اربابِ فکرودانش افراداوراقوام کے د رمیان تنازعات کوسنجیدگی کے ساتھ ختم کر نے کے لیے پرعزم ہوں تومعاشرہ مذہبی ہم آہنگی کی بہترین تصویرپیش کرسکتاہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ مختلف اوقات میں پیش آنے وا لے نامناسب سلوک کے نتیجے میں جوتنازعات سامنے آیا ان کے حل کر نے میں بہت زیادہ سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آئی۔قومی سطح پراس احساس کی بیداری اشدضروری ہے کہ اگرکسی معاملہ میں کوئی مذہبی اختلاف اشتعال کی شکل اختیار کرنے لگے توفوراًایسے اقدامات کئے جائیں جن سے ماحول پرامن منزل کی طرف بڑھ سکے۔ حل تنازعات کے ضمن میں اختیارکی جانیوالی غیرسنجیدگی کی روش اقلیتوں سے متعلق امورمیں مایوسی کی فضا کوپیداکرتی ہے۔زندہ اوربیدارمغزقوم کی حیثیت سے ہمیں اقلیتوں سے متعلق تنازعات کوحل کرنے کیلئے مستقل بنیادوں پرمنصوبہ بندی کرناہوگی کیونکہ ان تنازعات پرعدمِ توجہ کے نتیجے میں معاشرہ تشدد، ضد، خوف،احساسِ کمتری اور اجتماعیت سے دوری ایسے منفی رجحانات کاشکارہورہاہے۔ تنازعات کاعلم جدید سماجی علوم میں بڑی اہمیت اختیارکرچکاہے(۲۹)،اس شعبہ علم سے بھرپوراستفادہ عصر حاضر کی ایک اہم ضرورت ہے۔ 
اقلیتوں کی حیثیت کوتسلیم کرنے اوراُنہیں حقوق عطاکرنے کے ضمن میں مسلم اُمہ کوعصر جدیدمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے، اُن کامناسب اورشریعت اسلامیہ کی حدودکے اندررہتے ہوئے حل تلاش کرناازحدضروری ہے۔مسلم اُمہ کودرپیش فکری چیلنجزکی تفہیم کویقینی بنانے کے لیے دینی مدارس اورعصری تعلیمی اداروں میں ہم آہنگی پیداکرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ان اداروں میں تحقیقی مقالات، سیمینارز، کانفرنسوں اور کلاس روم لیکچرزکے ذریعے اقلیتوں سے متعلق شعور کو بیدار کیا جائے۔ نیزسماجی وسیاسی ڈھانچے کومعتدل ومتوازن بنانے کے لئے ہرقسم کے تعصب کوبالائے طاق رکھا جائے۔ اس ضمن میں نہایت ضروری ہے کہ نصابِ تعلیم میں اقلیتوں اورمذہبی تکثیریت سے متعلق مختلف مباحث کوشامل کیاجائے، اس ضمن میں مختلف مذاہب کی تعلیمات سے مدد لی جائے اور ان کے نمائندوں کومختلف نصابی کمیٹیوں میں نمائندگی دی جائے۔ اقلیتوں سے متعلق شعورکی بیداری میں ذرائع ابلاغ کوبھی استعمال کیاجائے۔ علاوہ ازیں اختلاف اورتنقیدکی اخلاقیات کی پابندی کوہرطبقہ فکرمیں رواج دیا جائے۔مذہبی اشتعال انگیزی کوریاستی اداروں کے ذریعے کنٹرول کیاجائے اور اس ضمن میں کسی بھی طبقہ کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے۔اقلیتوں سے متعلق معاملات میں عدل، احتیاط اور تحقیق سے کام لیا جائے، نیز کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے۔پاکستان میں اقلیتوں کی حیثیت اوراُن کے حقوق کی ادائیگی سے متعلق عالمی سطح پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔اسلام کے سیاسی نظام کی وضاحت میں اعتدال وتوازن سے کام لیاجائے۔ 
اسلامی ریاست، اقلیتوں، جہاد اور توہین رسالت ایسے حساس موضوعات پرغیرذمہ دارانہ تبصرہ سے گریز کیا جائے۔ پاکستان میں موجودمذہبی اقلیتوں کواہل مغرب کاہم خیال اورہم نواسمجھنے کے بجائے محبِ وطن شہری تصور کیا جائے، اگرکسی معاملے میں کوئی تنازعہ سامنے آئے تواختلافِ رائے کے اصول وآداب کوملحوظِ خاطررکھاجائے نیز اُس مسئلہ کوحل کرنے کی غیر جانبدارانہ اورموثر کوششیں کی جائیں۔ 

حواشی وحوالہ جات 

۱۔سیدصباح الدین عبدالرحمن، اسلام میں مذہبی رواداری،دارالشعور،۷۳۔مزنگ روڈ، بُک سٹریٹ، لاہور، ۲۰۱۰ء، ص: ۱تا۷۱ 
۲۔الانعام۶:۸۰۱ 
۳۔النحل۵۲۱:۶۱ 
4- William Muir, The Life of Mahomet, Smith Elder & Company, London, 1958, P:158
۵۔شری سندرلال جی،آنحضرت کی زندگی،ششماہی وشال،کلکتہ،بھارت،نومبر۱۹۳۳ء،ص:۵۱۴ 
۶۔ملاحظ ہو:سیدصباح الدین عبدالرحمٰن،ہندوستان کے عہدِ ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، یوپی،۲۰۰۹ء،مجلدات:۳ 
۷۔سیدمحمدمیاں،پاکستان گورنمنٹ کی اسلامی حیثیت،ماہنامہ برہان،دہلی،جون۱۹۵۰ء،مشمولہ،برصغیرپاک وہندکی شرعی حیثیت از ابوسلمان شاہجہانپوری،ڈاکٹر، مجلس یادگارِ شیخ الاسلام، قاری منزل، پاکستان چوک، کراچی، ۱۹۹۳ء، ص:۹۱۱ تا ۳۲۱، نیز ملاحظہ ہو:مجتبیٰ محمدراٹھور، جہاد، جنگ اور دہشت گردی، نیریٹوز پرائیویٹ لمیٹڈ، پوسٹ بکس نمبر: ۲۱۱۰، اسلام آباد، جون۲۰۱۲ء، ص: ۹۰تا۹۱ 
۸۔ابوسلمان شاہجہانپوری،ڈاکٹر،برصغیرپاک وہندکی شرعی حیثیت، ص:۹۳تا۹۷ 
۹۔محمدمشتاق احمد،جہاد،مزاحمت اوربغاوت،الشریعہ اکادمی،گوجرانوالہ،جون۲۰۱۲ء،ص:۸۳تا۱۴۸ 
۱۰۔محمدشہبازمنج،ڈاکٹر،مباح الدم اور ’’جہادیوں‘‘ کا بیانیہ، ماہنامہ الشریعہ،گوجرانوالہ، ستمبر۲۰۱۶ء،ص:۳۰تا۳۵ 
۱۱۔ڈاکٹرمحمدریاض محمود(راقم)،برصغیرمیں مسلم۔مسیحی مناظرانہ ادب(۱۸۵۷ ء تا۱۹۴۷ء): تحقیقی وتنقیدی جائزہ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی علومِ اسلامیہ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد،سیشن:۲۰۰۸ء تا۲۰۱۰ء،ص: ۹۲ تا ۱۰۵ 
۱۲۔سیف الحق چکیسری،اسلام کاتصورِجہاداورالقاعدہ،شعیب سنز،مینگورہ،سوات،۲۰۱۰ء،ص:۵۶۵تا۵۷۲
۱۳۔طارق کرسٹوفرقیصر،کتابچہ:صُلح کُل،سلسلہ:۲۱فلیٹ نمبر:۸،آربی۔I،عوامی کمپلیکس،گارڈن ٹاؤن، لاہور، ص: ۱۔۲ 
۱۴۔ نذیرناجی،اب دھاندلی نہیں ہوگی،روزنامہ نوائے یوقت،اسلام آباد،۴مارچ۱۹۹۶ء،مشمولہ پاکستان کی پہچان: جے سالک، اہل بصیرت کی نظر میں، تدوین، جبارمرزا، شہریارپبلی کیشنز، پوسٹ بکس نمبر:۱۶۹۲،جی پی او، اسلام آباد، ۷مئی ۲۰۰۶ء، ص:۲۰۶ 
۱۵۔خورشیدندیم،صدارتی خطبہ،سماجی ہم آہنگی،رواداری اورتعلیم:پاکستان کی جامعات کے اساتذہ کے ساتھ نشستوں کی روداد، مرتبین: سجاد اظہر، احمداعجاز، پاکستان انسٹی ٹوٹ فارپیس سٹڈیز، جولائی ۲۰۱۶ء، ص:۴۵تا۴۸، نیز ملاحظہ ہو: شہزاداقبال شام، ڈاکٹر، دساتیرپاکستان کی اسلامی دفعات۔ایک تجزیاتی مطالعہ، شریعہ اکیڈمی،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام، آباد، ۲۰۱۱ء، ص: ۲۹۱ تا ۲۲۲ 
۱۷۔ الروم۲۲:۳۰ 
۱۷۔ جنیدقیصر،پاکستانی اقلیتوں کانوحہ،فکشن ہاؤس،۱۳مزنگ روڈ،لاہور،۲۰۰۷ء،ص:۳۱تا۵۱ 
۱۸۔محمدعمارخان ناصر، بین المذاہب مکالمہ کی ایک نشست کے سوال وجواب، ماہنامہ الشریعہ،گوجرانوالہ، جلد:۲۷، شمارہ:۱، جنوری۲۰۱۶ء، ص: ۲۵ 
۱۹۔جاوید احمدغامدی،ریاست اورحکومت،ماہنامہ اشراق، لاہور، جلد:۲۷، شمارہ:۴، اپریل۲۰۱۵ء، ص:۱۷تا۲۰، نیز ملاحظہ ہو: محمد عمارخان ناصر، ریاست،معاشرہ اورمذہبی طبقات،ماہنامہ الشریعۃ، گوجرانوالہ، جلد:۲۴، شمارہ:۳، مارچ ۲۳۱۰ء، ص:۱۸تا۲۳ 
۲۰۔ ابوسلمان شاہجہانپوری،ڈاکٹر،برصغیرپاک وہندکی شرعی حیثیت،ص:۹۹تا۱۰۳
۲۱۔محموداحمدغازی، ڈاکٹر،اسلام کاقانون بین الممالک،شریعہ اکیڈمی،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد، ۲۰۰۷ء، ص: ۲۱۷ تا ۳۱۳، نیزملاحظہ ہو:محمدعمارخان ناصر،بین المذاہب مکالمہ کی ایک نشست کے سوال وجواب، ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ، جلد: ۲۷، شمارہ:۱، جنوری ۲۰۱۶ء، ص:۲۲تا۲۵ 
۲۲۔سیف الحق چکیسری،اسلام کاتصورِجہاداورالقاعدہ،ص:۱۱۳تا۱۱۴ 
۲۳۔محمدعمارخان ناصر،جہاد:ایک مطالعہ،المورد،لاہور،۲۰۱۰ء،ص:۱تا۱۰ 
۲۴۔ سیف الحق چکیسری،اسلام کاتصورِجہاداورالقاعدہ،ص:۱۱۵تا۱۱۹ 
۲۵۔ رازشتہ سیتھنا، پاکستان میں اقلیتوں کی حالت زار،سہ ماہی تجزیات،اسلام آباد،شمارہ:۷۳،اپریل 150 جون ۲۰۱۵ء، ص: ۹۰۔۹۱ 
۲۶۔ روزنامہ جنگ،لاہور،۲۶نومبر۲۰۱۵ء،پاکستانی سینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس، ص:۱،۵ 
۲۷۔محمدمشتاق احمد،جہاد،مزاحمت اوربغاوت،ص:۱۴۹تا۱۷۵
۲۸۔ اداریہ، ماہنامہ ہم سخن انٹرنیشنل،لاہور،جولائی۲۰۱۳ء،جلد:۱۷،شمارہ:۵،ص:۴تا۵ 
۲۹۔ محمدحسین، حل تنازعات کے طریقے سیرتِ نبوی کی روشنی میں، ماہنامہ الشریعہ،گوجرانوالہ، جلد:۲۷، شمارہ:۳، مارچ ۲۰۱۶ء، ص: ۲۲تا۲۷

ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘

محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ

1970ء کا آغاز ہوا تو میں میٹرک سے فارغ ہو چکا تھا۔ ابھی کالج میں داخلہ نہیں لیا تھا۔ ہر سو سیاست ہی سیاست ہی تھی۔پیپلز پارٹی کی کامیابیوں کے ڈنکے بج رہے تھے۔جماعت اسلامی کے لوگ ابھی تک انتخابی شکست کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکے تھے۔مسلم لیگ بھی شکستہ دیوار کی مانند گرچکی تھی۔اخبارات میں صرف شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو اور انہیں ڈیرہ اسماعیل خاں میں شکست دینے والے مفتی محمود کے تذکرے اور ان پر تبصرے شائع ہوتے۔ جمعیۃ علماء اسلام والے خوش تھے کہ ناقابل تسخیر بھٹو کو مفتی محمودنے ڈیرہ اسماعیل خاں میں انتخابی شکست سے دوچار کیا ہے۔گوجرانوالہ میں جناب زاہد الراشدی جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے ایک بڑا نام تھا۔ہم اس سفر میں ان کے رفیق بھی رہے پھر وقت کے ساتھ ساتھ جب ان کی شہرت اور علمی مقام ومرتبہ ملکی سطح تک پہنچا تو پہلے ایک حد تک اورپھر مکمل طور پر سیاست سے کنارہ کش ہوکر علمی مشاغل میں مصروف ہوگئے اپنے والد مولانا سرفراز خاں صفدر اور چچا صوفی عبدالحمید سواتی سے ورثے میں علم وفضل خوب حاصل کیا۔آج کل "الشریعہ"کے نام سے ایک رسالہ جاری کرتے ہیں۔ اس ماہنامہ کی خوبی یہ ہے کہ پچاس کے لگ بھگ صفحات جو آپ ایک نظر میں نہیں پڑھ سکتے ان کا مختصر نچوڑ وہ ٹائٹل کے صفحے پر کچھ اس طرح بکھیر دیتے ہیں کہ ایک بار ہی میں پڑھنے والا اسے محسوس کئے یا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔آج میں نے ماہنامہ "الشریعہ"کے ٹائیٹل اکٹھے کرکے فکرونظر کے تانوں بانوں کو جوڑ کرکالم مکمل کیا ہے۔لگ بھگ گذشتہ پانچ سالوں کے یہ چھوٹے چھوٹے فکر پارے کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں:
(1) دورحاضر میں داعیان اسلام نہ صرف اپنے مخاطبین کی زبان اور محاورے سے ناواقف ہیں۔بلکہ اس فکری پس منظر سے بھی نابلد ہیں جس میں آج کی نئی نسل کی ذہنی تشکیل ہورہی ہے اور یہی چیز ان کی دعوت کے غیر موثر ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔دور حاضر میں وارثان منبرو محراب پر اصحاب کہف کی مثال صادق آتی ہے ۔جن کی زبان اور سکہ دونوں ہی لوگوں کے لئے اجنبی تھے۔(آراء وافکار۔از ڈاکٹر محمد اکرم ورک شعبہ علوم اسلامیہ ۔گورنمنٹ ڈگری کالج پیپلز کالونی گوجرانوالہ مارچ 2009ء )
(2) ہمارے ارباب علم ودانش حضرات کے لیے یہ بات سوچنے اور ہمارے نوجوانوں ایک طبقے کو سمجھانے کی ہے کہ کب تک ہم دنیا بھر کے تنازعات کو اپنے ہاں درآمد کرتے رہیں گے۔ہمارے لئے یہ لمحہ ء فکریہ ہے کہ بے تحاشہ درآمد کی اس پالیسی نے ہمارے ملک کو کس حد تک پہنچا دیا ہے۔ (حالات وواقعات از مولانا مفتی محمد زاہد۔ شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ امدادیہ۔فیصل آبادنومبر2011)
(3) فرقہ واریت اور تفریق کے نتیجے میں مطلع ابرآلود اور فضاء مکدر ہوجاتی ہے ۔اس کو اسلام کی بہت بڑی خدمت تصور کیاجاتا ہے ۔یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ اگر کوئی مقرر مخالف فرقے کے لئے نرمی سے کام لے یا تہذیب کے دائرے میں رہ کر تقریر کرے تو کہا جاتا ہے کہ اس نے اچھی تقریر نہیں کی اور دوبارہ اسے بلانے سے توبہ کرلی جاتی ہے (آراء وافکار۔از محمدبدر عالم ۔اپریل 2014)
(4) یہ جو بہت زیادہ تقریریں سننا ہے یہ بھی ہمارے عمل کی حس کو بہت حدتک دبادیتا ہے۔اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے میں ایک ہی دن وعظ ونصیحت فرماتے تھے۔جب ہم ہروقت باتیں سنتے اور کرتے رہتے ہیں تو ہماری حس مردہ ہوجاتی ہے اور ہم بے پرواہ ہوجاتے ہیں کہ یہ باتیں تو ہم ہر وقت سنتے رہتے ہیں۔ (حالات وواقعات از مولانا مفتی محمد زاہد اپریل 2013ء)
(5) خلیق ابراہیم سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " شاہ صاحب تین چار بار ہمارے ہاں آئے۔وہ بڑی دلچسپ باتیں کرتے تھے۔ہندوستانی مسلمانوں کے قومی مزاج کی بات ہورہی تھی کہنے لگے ۔اس سے زیادہ جذباتی قوم دنیا کے پردے پر نہیں ہوگی۔اس کے دین نے اسے اعتدال اور حقیقت پسندی کا رستہ دکھایا ہے۔ اور رسول کریم کا ارشاد ہے کہ دین میں غلو نہ کرو۔مگر ہندوستان کی مسلمان قوم نے دین کو مشعل راہ بنانے کی بجائے اسے اپنے اعصاب پر سوار کرلیا ہے۔اس کے جذبات میں کنکری ڈالوتولہریں پیدا نہیں ہوتیں بلکہ ایک دم ابال آجاتا ہے۔ (حالات وواقعات از مولانا مفتی محمد زاہد ۔جون 2013)
(6) جہاد کی حقیقی روح یہ ہے کہ جہاد کو ذاتی اقتدار یادولت یا اثرورسوخ کے حصول کا ذریعہ نہ بنایا جائے ۔یہ ایک فریضہ ہے جو مسلمانوں کو مخصوص حالات میں ایک ذمہ داری کے طور پر ادا کرنا ہوتا ہے۔اگر اس میں دولت واقتدار کی خواہش شامل ہوجائے تو اللہ کی نظر میں وہ جدوجہد اپنی روح کے لحاظ سے بے وقعت قرار پاتی ہے "(حالات وواقعات از ۔محمد عمار خان ناصر مارچ2014)
(7) جس طرح شریعت رحمی رشتہ داروں سے حسن سلوک کی مسلسل تلقین کے باوجود ان سے مشترکہ خاندانی نظام کا تمدنی تقاضہ نہیں کرتی اسی طرح مسلمانوں کو اخوت ومحبت واتحاد کی تلقین کے باوجودعالمگیر متحدہ سلطنت کا تقاضہ بھی نہیں کرتی۔ 
(8 ) دینی مزاج رکھنے والے کروڑوں متشرع تاجروں اور دکانداروں کی موجودگی کے باوجود ملاوٹ ناجائزمنافع خوری ،ذخیرہ اندوزی وعدہ خلافی اور ٹیکس چوری اس طبقے میں از حد نمایاں ہے ۔خوراک تو خوراک ہے ادویات اور معصوم بچوں کا دودھ بھی ملاوٹ سے پاک نہیں ہے (حالات واقعات از ۔محمد اظہار الحق ستمبر2015)
(9) تکفیر وقتال کی روش اور نفسیات کی تازہ لہرنے عالم اسلام کے بہت سے حساس علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس سے عالمی اسلام دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھانے کی ایسی منظم منصوبہ بندی کررکھی ہے کہ ملت اسلامیہ کی اجتماعی دانش کرب واضطراب کی شدت سے تلملا کررہ گئی ہے۔(کلمہ حق از مولانا زاہد الراشدی ۔مارچ2015)
(9) دہشت گردی کے واقعات جتنے بڑھتے چلے جائیں گے ان سے مغرب کے جسم پر خراش تک نہیں آئے گی بلکہ ان کی طرف ہمارا رویہ بدلنے لگے گا اور ہم ان کی اخلاقی برتری کے قائل ہونے لگیں گے۔اس سے ان کے پھیلاؤ کا راستہ اور زیادہ ہموار ہوجائے گا (آراء وافکار احمد جاوید /اے ۔اے سیدمارچ 2016)

DNA کے بارے میں چشم کشا حقائق

مولانا مفتی منیب الرحمن

گزشتہ سال اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے قرار دیا کہ DNA کی فارنزک لیبارٹری رپورٹ کو حدِّزنا جاری کرنے کے لیے حتمی اور قطعی شہادت (Absolute Evidence)کے طورپر تسلیم نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے عینی شہادت(Eye Witness)کا مطلوبہ شرعی معیار لازمی ہے،ا لبتہ اسے ظنّی شہادت ،قرائن کی شہادت اور تائیدی شہادت کے طورپر لیا جا سکتا ہے اور عینی شہادت کی عدم دستیابی کی صورت میں عدالت مطمئن ہو تو تعزیر۱ًسزا دے سکتی ہے۔ اس پر ہمارے آزاد الیکٹرانک میڈیا، لبرل عناصر نے کہرام مچا دیا، ان میں حقوق نسواں اور حقوق انسانی کے نام پر تنظیمیں چلانے والی NGOsاور دیگر فعال عناصرسب شامل ہیں۔چونکہ مغربی ممالک کی اقدارکے پرچارک ان طبقات کو زنا بالرضا (Adultery)پرکوئی اعتراض نہیں ہے، اس لیے ان کا اصرار ہے کہ زنا بالجبر (Rape)کے ثبوت کے لیے DNAکا لیبارٹری ٹیسٹ اگر مثبت آجائے تواسے حتمی اور قطعی شہادت قرار دے کر اس جرم کے مرتکب پر سزائے موت جاری کردی جائے۔
میں 12تا30جنوری امریکہ کے دورے پرتھا اور مختلف ریاستوں میں دوستوں نے دینی پروگرام ترتیب دے رکھے تھے، نیو جرسی اسٹیٹ سے جماعت اہل سنت نارتھ امریکا کے رہنماعلامہ مقصود احمد قادری یہ پروگرام ترتیب دیتے ہیں، ا ن میں ایک پروگرام ٹینیسی اسٹیٹ کے شہر نیو جانسن سٹی میں جناب ڈاکٹر شہرام ملک کے مکان پر ہوتاہے، جو دین دار،علم دوست اور مہمان نواز شخص ہیں۔ یہ ڈاکٹر صاحبان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کا ایک حلقہ احباب ہے جو کافی دور دور سے سفر کرکے یکجا ہوتے ہیں۔چونکہ تعلیم وتعلّم ہمارا مشن ہے، اس لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے ساتھ مجلس کا انعقاداورتبادلۂ خیال بے حد مفید ثابت ہوتاہے، ان میں کئی احباب میاں بیوی دونوں ڈاکٹرہوتے ہیں۔ ممتاز عالمی شہرت یافتہ آئی سرجن جناب ڈاکٹرخالد اعوان اس حلقۂ احباب کا نقطۂ اتصال ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کا قرآن وحدیث کا وسیع مطالعہ، یادداشت اور استدلال قابل رشک ہے۔ وہ راسخ العقیدہ ہیں، محض روایتی اور نسلی مسلمان نہیں ہیں کہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے اور وراثت میں اسلام کی نعمت بھی مل گئی، بلکہ اُس خوش نصیب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے اسلام کو پڑھا،سمجھا اور شعوری طورپر قبول کیا اورعمل بھی کیا۔ ان کے اپنے شعبۂ طب Opthalmology میں ان کے 250سے زیادہ ریسرچ پیپرز معتبر عالمی طبی جرائدمیں طبع ہو چکے ہیں۔امراضِ چشم کے علاج کے حوالے سے ان کی ایک تحقیق ’’Awan Syndrome‘‘کے عنوان سے ان کے نام سے منسوب ہے اور بلاشبہ یہ ایک بڑااعزازہے، اسی طرح لیزر ٹیکنالوجی سے جو آنکھوں کا علاج ہوتاہے، ان میں سے بھی ایک خاص’’ لیزر‘‘کے موجد چونکہ ڈاکٹرخالد اعوان ہیں،ا س لیے یہ بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔ امریکا اور دیارِمغرب میں مقیم قابل فخر کارنامے انجام دینے والے ایسے پاکستانیوں کو قومی اعزازکے لیے منتخب کیا جاناچاہیے اورامریکا میں مقیم پاکستانی صحافیوں کو ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔
میں ایک عرصے سے متلاشی تھا کہ آیا امریکا اور یورپی ممالک میں DNAٹیسٹ کی مثبت رپورٹ کو ایسے جرائم کے ثبوت کے لیے، جن کی سزا موت ہے، قطعی اور حتمی شہادت کے طورپرتسلیم کیاجاتا ہے یا اسے زیادہ سے زیادہ ہمارے فقہائے کرام کے اقوال کے مطابق ایک ظنّی اور مشتبہ شہادت یا تائیدی شہادت کے طورپر ہی لیا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے عہد مبارک میں مختلف مواقع پر قرائن کی شہادت کواپنے قیاس کی بنیاد بھی بنایا اور اسے تائیدی شہادت کے طور پر استعمال بھی فرمایا،لیکن اسے کسی بھی وقوعے کے بارے میں قطعی اور حتمی شہادت کا درجہ نہیں دیا کہ اس کی بنا پر شرعی حد جاری کی جاسکتی ہے،ذیل میں ہم اس کی مثالیں پیش کر رہے ہیں:
ابورافع سَلَّام بن ابوالحُقَیق ایک مشہور دشمنِ رسول تھا،وہ آپ کو ایذاپہنچاتا تھا ۔آپ ﷺ نے عبداللہ بن عَتِیْک کی قیادت میں انصار کے پانچ افراد کو اُسے قتل کرنے کے لیے بھیجا ۔عبداللہ بن اُنَیس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے واپس آکررسول ا للہ ﷺ کو اُس کے قتل کی خبر دی۔ہم میں اختلاف پیدا ہوا کہ وہ شخص کس کی ضرب سے قتل ہوا ہے ،کیونکہ ہم میں سے ہر ایک اس اِعزاز کا دعوے دار تھا،پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ سب اپنی تلواریں لے آؤ‘‘،چنانچہ ہم اپنی اپنی تلواریں لے آئے۔آپ ﷺ نے سب تلواروں کو دیکھا اور عبداللہ بن اُنَیس کی تلوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’وہ اِس تلوار سے قتل ہوا ہے ،کیونکہ مجھے اس پر خوراک کے ذرّات نظر آرہے ہیں،( سیرتِ ابن ہشام، ج:2،ص:275،روایت کا خلاصہ)‘‘۔
آپ ﷺ کے اس ارشادکامطلب یہ تھا کہ عبداللہ بن اُنیس کی تلوار ابن ابوالحُقیق کے بد ن میں زیادہ گہرائی یعنی معدے تک گئی ہے اوراس کا ثبوت یہ ہے کہ اس پر لگے ہوئے خون کے دھبوں میں خوراک کے ذرات کی آمیزش نظر آتی ہے۔ لہٰذا معلوم ہواکہ ان کا وار زیادہ گہرائی تک گیااور جان لیواثابت ہوا۔ یہ فراستِ نبوت کا فیضان تھا کہ آپ ﷺنے قرائن کی شہادت (Circumstantial Evidence)کا اعتبار کیا اور اسے کسی وقوعے کے ثبوت کے لیے تائیدی شہادت اور قرینے کے طورپراستعمال فرمایا۔
حدیث پاک میں ہے:’’ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ!(صلی اللہ علیک وسلم)، میرے ہاں ایک سیاہ فام بیٹے نے جنم لیا ہے (غالباً وہ شخص سفید رنگ کا تھا اور اس بنا پر اُسے اپنے بیٹے کے نسب کے بارے میں شبہ لاحق ہوا)،آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ ،اُس نے جواب دیا: جی ہاں !، آپ نے پوچھا: اُن کے رنگ کیسے ہیں ؟، اُس نے عرض کی: سرخ۔ آپ نے فرمایا: کیا اُن میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے ؟ ، اُس نے عرض کی: جی ہاں !، آپ ﷺ نے فرمایا: تووہ (یعنی سرخ اونٹوں میں خاکستری رنگ کا اونٹ)کہاں سے آگیا ؟، اُس نے عرض کی: شاید(اُس کے نسبی آباء میں سے) کسی کی رگ نے اُسے کھینچ لیا ہو ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تمہارے بیٹے کو بھی (تمہارے آباء کی )کسی رگ نے کھینچ لیا ہو، (بخاری: 5305)‘‘۔ یہاں رسول اللہ ﷺ نے قیاس کو صحیح نسب کے لیے تائید کے طور پراستعمال فرمایا۔ اس کومندرجہ ذیل حدیث سے مزید تقویت ملتی ہے:
علی بن ابی رباح اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے اُن سے پوچھا: تمہارے ہاں کیا پیدا ہوا؟، اُس نے جواب دیا:میرے ہاں جو بھی پیدا ہوگا بیٹاہوگا یا بیٹی ،آپ ﷺ نے پوچھا: وہ بچہ (صورت میں )کس سے مشابہ ہوگا؟، اُس نے عرض کی: یارسول اللہ!(صلی اللہ علیک وسلم)، یقینااپنے باپ یا ماں میں سے کسی کے مشابہ ہوگا ، آپ ﷺ نے فرمایا: ذرا رکو، اس طرح نہ کہو، (بات یہ ہے کہ )جب نطفہ ماں کے رحم میں قرار پاتا ہے ،تو اللہ تعالیٰ (اپنی قدرت سے )اُس کے اورآدم علیہ السلام کے درمیان تمام رشتوں(یعنی اُن کی صورتوں) کو حاضر فرمادیتا ہے (اور وہ اُن میں سے کسی سے مشابہت اختیار کرلیتا ہے) پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھا: ’’وہ جس صورت میں چاہتا ہے ،تمہارے وجود کی تشکیل فرمادیتا ہے ،(المعجم الکبیر للطبرانی: 4624)‘‘۔اس کی مزید تائید اس حدیث پاک سے ہوتی ہے:
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ بہت خوش تھے ۔آپ ﷺ نے فرمایا: (عائشہ!)تمہیں معلوم ہے کیا ہوا؟،مُجَزِّز مُدْلِجی میرے پاس داخل ہوا ،اُس نے دو اشخاص (زید بن حارثہ اور اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما)کو چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے اس طرح دیکھا کہ اُن کے سر(اور بدن کا بالائی حصہ) ڈھکا ہواتھااور پاؤں کھلے تھے۔اُس نے کہا:یہ پاؤں ایک دوسرے سے ہیں (یعنی یہ دونوں اشخاص آپس میں باپ بیٹا ہیں) ، (صحیح بخاری:6771)‘‘۔ حضرت اسامہ بن زیدکا نسب اپنے باپ زید بن حارثہ سے ثابت تھا ،لیکن باپ بیٹے کے رنگ میں تفاوُت کی وجہ سے کسی منافق نے اُن کے نسب پر طعن کیا تھا ،تو رسول اللہ ﷺ نے قیافے کے ماہر مُجَزِّزمُدلِجی کے اس مشاہدے کو تائیدی شہادت کے طور پر لیا اور خوشی کا اظہار فرمایا کہ ایک غیر جانبدار ماہرشخص نے ان دونوں کے حقیقی باپ بیٹا ہونے کی تصدیق کردی۔
اب جاکر سائنس اورجدید علم نے اس کی توثیق کی ہے ۔چنانچہ اب فارنزک لیبارٹری کی مثبت رپورٹ اور وڈیو ریکارڈنگ یعنی مُتحرک تصاویر کو کسی جرم کے ثبوت کے لیے ایک حدتک قبول کیاجارہاہے ۔لیکن کسی سنگین نوعیت کے جرم ،جس کی قانون اور شریعت میں سزا موت مقرر ہے،کے ثبوت کے لیے ڈی این اے کی مثبت لیبارٹری رپورٹ اور ویڈیو ریکارڈنگ کو،خواہ وہ کتنی ہی معیاری ہو ، واحد حتمی اور قطعی ثبوت مان کر سزائے موت کا فیصلہ نہیں دیاجاسکتا ۔یعنی محض اس مثبت فارنزک رپورٹ کی بناپر شریعت کی مقرر کی ہوئی ’’حَدِّ زنا‘‘جاری نہیں کی جاسکتی ،کیونکہ اس میں ملاوٹ اورکسی چیز کی آمیزش کا امکان موجود ہے ۔اسی طرح وڈیو ریکارڈنگ اور متحرک تصاویر میں بھی ایڈٹنگ کے امکان کو کلی طورپر مستردنہیں کیاجاسکتا ۔یہ تو ہمارے ہاں روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ٹیلیویژن کوریج کرنے والے اپنے کسی من پسند سیاسی رہنما یا پارٹی کے جلسے کو بڑا کرکے دکھاتے ہیں اور ناپسندیدہ لیڈر یا پارٹی کے اُتنے ہی یا اُس سے بھی بڑے اجتماع کو چھوٹا کرکے دکھاتے ہیں،اِسے ہمارے مُحاورے میں کیمرے یا ہاتھ کا کمال کہتے ہیں ۔یعنی ذاتی پسند وناپسند ، ترغیب وتحریص ،دباؤ اور تعصُّب کی بناپر حقائق وواقعات میں تغیروتبدل یا کمی بیشی یا مؤثر یا غیر مؤثر بناکر پیش کرنا ممکن ہے ۔اسی طرح تمام تر دیانت اورنیک نیتی کے باوجود بشری خطا کے امکان کو بھی کلی طورپر رَد نہیں کیاجاسکتا ۔یہ ضروری نہیں کہ ہر کیس میں ایساہو ،لیکن خطا کا امکان قطعیت کی نفی کے لیے کافی ہے ۔ہمارے ہاں میڈیکولیگل رپورٹ اور میّت کے پوسٹ مارٹم میں ردّوبدل کے شواہد بہت ہیں۔
الغرض ان اسباب کی بناپر ڈی این اے کی مثبت رپورٹ یا فارنزک شواہد ظنّی اور مشتبہ (Doubtful)قرار پاسکتے ہیں ،قطعی ہرگز نہیں ہوسکتے ،جبکہ حد زناجاری کرنے یا قتل کی سزا نافذ کرنے کے لیے ثبوت کا قطعی اورلاریب ہونا ضروری ہے اوروہ مطلوبہ عینی شہادت ہی سے ممکن ہے۔خون کے دھبے ،بندوق کی گولیاں اورانسانی دانت سے کاٹنا اسی زمرے میں آتاہے ،تاہم ان شواہد کی بناپر جج یا قاضی اگر مطمئن ہو توتعزیر کے طورپر سزادے سکتاہے اوراس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔امریکہ کے حالیہ سفر میں ڈاکٹر خالد اعوان صاحب نے امریکہ اور جرمنی کی عدالتوں اور تفتیشی اداروں کے حوالے سے ڈی این اے رپورٹ کے غیر یقینی ہونے کے بارے میں وہاں کے اخبارات کے حوالوں سے ہمیں یہ شواہد فراہم کیے،جوہمارے لبرل عناصر کے لیے یقیناًحجت ہوں گے:
امریکہ کے نہایت مشہور ایتھلیٹ اوجے سمپسن پر اپنی بیوی اوراس کے آشنا کے دُہرے قتل کاالزام تھا ،وکیل صفائی نے موقف اختیار کیاکہ ڈی این اے کے حاصل کیے ہوئے نمونے میں لیبارٹری میں کسی آمیزش کے امکان کو رَد نہیں کیاجاسکتا ۔اسی طرح 2009ء میں ایک واضح ابہام رپورٹ کیاگیا ۔اس کی رُو سے محض ڈی این اے کی مثبت رپورٹ پر اس حد تک انحصار کو شک کی نظر سے دیکھاگیا کہ اسے قطعی شہادت مان کر مجرم پر سزائے موت نافذ کردی جائے۔
پندرہ سال تک جرمنی کی ایک اسٹیٹ کی پولیس ایک عادی قاتلہ خاتون کو شدت سے تلاش کرتی رہی،جس کی ڈی این اے کے مثبت شواہد چالیس جرائم کے وقوعوں میں پائے گئے ،ان میں سے چھ قتل کے جرائم تھے۔ 2007ء میں انہوں نے متبادل امکانات پر غور شروع کیا،پھر مارچ 2009ء میں اسٹیٹ منسٹر نے اعلان کیا کہ کیس کو حل کرلیاگیا ہے،وہ یہ کہ جس فیکٹری سے نمونہ لینے کے لیے روئی کا پھایا لیاجارہاتھا،وہاں ایک خاتون ورکر کی لاپرواہی سے آمیزش (Contamination) ہورہی تھی ،(Kingport Times-News,Monday, May11 ,2009)‘‘۔
اسی طرح Amanda knoxنامی ایک امریکی خاتون کو اٹلی میں اپنے ساتھ کمرے میں رہنے والی دوسری خاتون کو قتل کرنے کے الزام میں 25سال کی سزا سنائی گئی ۔اس پر الزام ثابت کرنے کے لیے ڈی این اے لیبارٹری رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کیاگیا ۔تقریباً ایک سال بعد اس فیصلے کو چیلنج کردیاگیا اورامریکہ کے ایک اخبار میں رپورٹ شائع ہوئی :’’ Amanda knox- Romeکوایک فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی ۔ ایک غیرجانبدار فارنزک رپورٹ نے بتایا کہ اس امریکی طالب علم اوراس کی ساتھی کے مقدمے میں جو ڈی این اے رپورٹ بطورشہادت استعمال کی گئی ،وہ قابل اعتماد نہیں تھی اوراس میں آمیزش تھی۔اس رپورٹ سے معلوم ہواکہ پہلے ٹرائل میں جوڈی این اے ٹیسٹ استعمال کیاگیا ،وہ بین الاقوامی معیار سے کم تر درجے کاتھا اوراس کے سبب اَمنڈا ناکس کی سزا کو ختم کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں،(Bristol Herald Courier,Thursday,June 30,2011)‘‘۔پس شرعی حد جاری کرنے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کو حتمی اور قطعی ثبوت ماننے والوں کواس رپورٹ کا مطالعہ ضرورکرنا چاہیے ۔
اسی طرح امریکی ریاست ٹیکساس میں فوجداری عدالتِ مُرافعہ نے16جولائی کوClifton Williamsکی سزائے موت کو نفاذ سے محض چند گھنٹے قبل ملتوی کردیا ،کیونکہ استغاثہ کے وکلاء نے یہ موقف اختیار کیاکہ Williamsنامی ایک اور سیاہ فام شخص کے ڈین این اے پروفائل سے اس کے مشابہ ہونے کا امکان ہے اوراس امکان کاتناسب ایک کے مقابلے میں 43 Sextilion ہے ،یعنی 43کے آگے اکیس صفر لگانے سے جو عدد بنتا ہے، اس کے برابر ہے یااسے ایک بہ نسبت 43بلین ٹریلین سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ٹیکساس کی انتظامیہ نے حال ہی میں ایف بی آئی کے تیارکردہ ڈیٹابیس پر انحصارکر کے نتیجہ اخذکیاکہ ایک اورسیاہ فام ولیم نامی شخص کے ڈی این اے پروفائل سے اس نمونے کے ملنے کے امکانات One in 40 Billions Trillionہیں ، (Kingsport Times-News,Monday,August 10,2015)‘‘۔
ہمارے ہاں بعض لوگ قتل یا آبروریزی کے مقدمات ( یعنی ایسے جرائم جن کی سزا موت یا عمر قید ہے) میں صرف ڈی این اے کی مثبت لیبارٹری رپورٹ کو حتمی اور قطعی شہادت کے طور پر قبول کرنے پر مُصر ہیں اوراِسے حتمی اورقطعی ثبوت نہ ماننے والوں کو دقیانوسی فکر کا حامل قرار دیتے ہیں۔ایسے تمام لبرل حضرات سے گزارش ہے کہ وہ آبروریزی کے مقدمات میں ڈی این اے کی شہادت کو قطعی ثبوت نہ ماننے کی بابت Univercity of Michigans Innocene Clinicکے 56سالہ کارل ونسن کے مقدمے کا مطالعہ کریں، جسے جبری آبروریزی کے مقدمے میں25سال کی جیل گزارنے کے بعد اس بناپر رہاکردیاگیا کہ جج ایزن براؤن نے کہا:’’عدالت سائنسی شواہد کی بجائے عینی شہادت پر انحصار کرے گی،(Kingport Times-News,Monday,July16,2011)‘‘۔
الغرض ڈی این اے ٹیسٹ کی مثبت رپورٹ کے قطعی ثبوت نہ ہونے کے بارے میں امریکہ اور مغربی ممالک کی عدالتیں یک آواز نہیں ہیں ، بعض اسے حتمی اور قطعی ثبوت مانتے ہیں اور بعض عدالتوں اور ایف بی آئی نے اسے تسلیم نہیں کیا۔اسی حقیقت کو علمِ نبوت نے چند الفاظ میں بیان فرمادیا:’’جس قدر ہوسکے مسلمانوں سے حدود کو ساقط کردو،(سنن ترمذی:1424)‘‘۔امام ابن ماجہ نے اپنی سُنَن میں باب باندھا:’’مومن کی پردہ پوشی اور حدود کو شبہات کے سبب دور کرنے کا بیان‘‘ ۔ امید ہے میری یہ عاجزانہ کاوش ان شاء اللہ جج صاحبان، مفتیانِ کرام ،وکلاء حضرات اورقانون کے طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوگی۔

دیو بند و بریلی : اختلافات سے مشترکات تک

سراج الدین امجد

امت مسلمہ آج جن گونا گوں مسائل کا شکار ہے ان میں ایک فرقہ واریت بھی ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر اس کی تباہ کاریوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کے دور میں یہ الحاد اور بے دینی سے بھی بڑا فتنہ اور عفریت ہے۔ آج اگر ملت اسلامیہ کا بدن لہو لہان ہے تو جہاں اغیار کی ریشہ دوانیاں ہیں، وہیں اپنوں کی کارستانیاں بھی کم نہیں۔ کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ آج شرق سے غرب تک جہاں بھی مسلمان پس رہے ہیں، وہاں عالمی سامراج کے ناپاک عزائم کے ساتھ ساتھ اندرونی خلفشار اور باہمی تنازعات کی شر انگیزی بھی کارفرما ہے۔ گویا خارجی محاذ پر اگر کفر و الحاد کی فتنہ سامانیاں ہیں تو داخلی محاذ پر تکفیری ذہنیت اور فرقہ واریت کی شر انگیزیاں۔یہ مسائل اس وقت مزید گھمبیر اور اندوہناک معلوم ہوتے ہیں جب بین المذاہب تو کجا، خود اہل سنت کے مکاتبِ فکر کے اندربھی مسلکانہ شدت پسندی اور تفسیق و تضلیل کا بازار گرم ہو۔ اگر کہیں باہمی رواداری ،یگانگت، اتحاد او ریکجہتی کی فضا قائم کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو جلد ہی دیرینہ تعصبات کی زہر ناکی اور قلبی منافرت عود کر آئے۔ اور امن و آشتی اور مسلکانہ رواداری کے سارے دعوے کھو کھلے محسوس ہو نے لگیں۔ تو کیا اس دیرینہ بیماری کا علاج اور تدارک کا ساماں ہی نہ کیا جائے؟ نہیں، قطعاً نہیں بلکہ زیادہ قوت، یکسوئی اور تن دہی کے ساتھ اس کی زہر ناکیوں کو بجھانے کی ضرورت ہے۔اس خطے میں جس طرح آج سنی مکتبہ فکر کے دو بڑے گروہ یعنی دیوبند اور بریلی آپس میں دست و گریباں ہیں، اس پر ہر درد مند دل افسردہ اور پریشاں ہے۔
اس باہمی آویزش کی کچھ وجوہ ہیں۔تاہم اس کے حل کی کوئی کوشش اس تمام صورتِ حال کے معروضی جائزہ اور غیر متعصبانہ تفہیم کے بغیر شاید ممکن نہ ہو۔جو لوگ فطرت انسانی میں کارفرما گوناگوں نفسیاتی مہیجات اور تعصبات کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں، وہ اس بات کی بر ملا تائید کریں گے کہ باہمی نفرت و کدورت کم علمی، بے جا تعصبات، ناگوار انانیت اور معاملات کا درست تجزیہ نہ ہونے سے ہی پھیلتی ہے۔پھر دینی اور مذہبی معاملات میں چونکہ اپنے موقف پر اصرار کو تصلب، للٰہیت اور پرہیزگاری کا لبادہ اوڑا دیا جاتا ہے، لہٰذا معروضی تناظر اور بے لاگ تبصرہ و تحقیق کی نوبت آتی ہے نہ خیال گزرتا ہے۔ اور یوں فکر و نظر کا اختلاف بھیانک مسلکانہ پیکار کا روپ دھار لیتا ہے۔اس مضموں میں دیوبند اور بریلی کی علمی اور فکری آویزش کے پس منظر کا تعارف بھی ہے، طرفین کی جانب سے ایک دوسرے کے رد و خلاف کی وجوہات کا تذکرہ بھی۔ نیز ہر ایک کے جدا ذوقی رنگ اور طرزِفکر کا بیان بھی۔ آخر میں طرفین کے معتدل فکر علماء کا اجمالی تعارف اور مشترکات کا بیان، تاکہ آنے والے دنوں میں جداگانہ مسلکانہ تشخص کے باوجوددونوں طبقات میں باہمی رواداری اور حسن ظن کی خوشبو بکھرتی رہے۔ 

دیوبندی بریلوی مناقشہ: بحث مباحثہ سے مناظرہ بازی تک

علماء اہل سنت کے درمیان شرک و بدعت کے مسائل ہوں یا تقدیسِ الوہیت اور عظمتِ رسالت سے متعلقہ ابحاث، یہ تو دیوبند اور بریلی کے مدارس کے قیام سے بھی بہت پہلے کی ہیں۔ مسئلہ امتناعِ نظیر کے حوالے سے شاہ اسماعیل صاحب دہلوی اورعلامہ فضلِ حق خیرآبادی کے درمیان بحث مباحثہ تو مشہور و معروف ہے۔ خاص دیو بندی وغیر دیوبندی (بریلوی ) تنازعہ کے تناظر میں بھی دیکھنا ہو تو ساری بحث اثر ابن عباس کے حوالے سے مولانا احسن نانوتوی کی کتاب سے شروع ہوئی۔ اس کی تائید میں مولانا قاسم نانوتوی نے ۲۲۹۰ھ /۱۸۷۲ء میں تحذیر الناس لکھی۔ اس پر اہل سنت کے حلقوں میں خوب شور اٹھا۔اور ہندوستان بھر میں علماء نے مخالفت کی۔ بلکہ خود مولانا تھانوی نے کہا ہے کہ جب مولانا نانوتوی نے تحذیر لکھی تو ہندوستان بھر میں کسی نے موافقت نہ کی سوائے مولانا عبد الحئی لکھنوی کے ( دیکھیے الافاضات الیومیہ ، جلد چہارم )۔ یہ الگ بات کہ مولانا لکھنوی نے بھی بعد میں رسالہ ’’ابطالِ اغلاطِ قاسمیہ (۱۳۰۰ھ/۱۸۸۳ء )‘‘ کی تائید کر کے پہلے موقف سے رجوع کر لیا۔یہ رسالہ بھی کسی بریلوی عالم کی کاوش نہ تھی۔ بلکہ شروع میں مخالفت دیگر سنی علماء کی طرف سے سامنے آئی۔اور وہیں سے بات آگے بڑھی۔ 
اسی طرح اس دورمیں ایک اور تصنیف جو بعد میں علماء دیوبند اور سنی علماء کے مابین وجہ بحث بنی ، وہ " انوار ساطعہ" ہے جس کے مصنف مولانا عبد السمیع رامپوری تو حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے خلیفہ تھے۔ کوئی بریلوی نسبت نہ تھی۔ بلکہ یہ کتاب آپ نے ۲۰۳۱ھ میں لکھی، جبکہ دارالعلوم منظرِ الاسلام بریلی کا قیام ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء میں عمل میں آیا۔ اس کے ردّ میں براہین قاطعہ ۱۳۰۴ھ میں آئی۔ان موضوعات پر پہلا بڑا مناظرہ علامہ غلام دستگیر قصوری (خلیفہ حضرت مولانا محی الدین قصوری جو معروف نقشبندی مجددی شیخ یعنی شاہ غلام علی دہلوی کے خلیفہ تھے ) اور مولاناخلیل احمد سہارنپوری کے درمیان بہاولپور میں ۱۳۰۶ھ میں ہوا۔ مولانا قصوری کی زندگی بھر مولانا احمد رضا خاں بریلوی ( م ۱۳۴۰ ھ/۱۹۲۱ء)سے ملاقات تک ثابت نہیں، چہ جائیکہ انہیں بریلوی کہا جائے۔ بلکہ زمانی لحاظ سے بھی انہیں مولاناکے والد، مولانا نقی علی خان کا معاصر کہنا زیادہ درست ہو گا۔ گویا علماء دیوبند کے مقابل علمی بحث اور مناظرہ بازی سنیوں میں جن دو بڑی قد آور شخصیات نے شروع کی، دونوں کا بریلویت سے کوئی تعلق نہیں ، یعنی ایک ان کے اپنے شیخ حضرت مہاجر مکی کے خلیفہ مولانا عبد السمیع رامپوری اور دوسرے علامہ قصوری۔
گویا یہ عقائد و معمولات کا اختلاف اور مناظرے مولانا احمد رضا بریلوی کے فتاویٰ سے بھی دو دہائیاں پہلے کے ہیں۔ تاہم یہ درست ہے کہ حسام الحرمین (۱۹۰۶ء) نے دیوبندی بریلوی تنازع کو بہت اجاگر کیا اور طرفین کے رویوں میں شدت آنے لگی۔ تاہم دیوبندی بریلوی تنازع کو سمجھنے کے لیے اس کا تاریخی پس منظر سمجھنا ناگزیرہے اور اس کے لیے دو کتب کا مطالعہ از حد ضروری ہے اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، یہ دونوں کتابیں کسی بریلوی عالم کی نہیں۔ ایک حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے خلیفہ اجل کی ہے۔ میری مراد ’انوار ساطعہ‘ از علامہ عبد السمیع رامپوری (م۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء) سے ہے، جبکہ دوسری معرکہ آراء تصنیف ’ تقدیس الوکیل‘ علامہ غلام دستگیر قصوری نقشبندی (م ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء) کی ہے جو خواجہ غلام محی الدین قصوری نقشبندی مجددی (خلیفہ شاہ غلام علی دہلوی) کے خلیفہ اور شاگرد تھے۔ لہٰذا ان اکابر کی کتب کا مطالعہ بڑی حد تک اس علمی و فکری پس منظر کو واضح کردیتا ہے۔ ان دو کے علاوہ اکابر دیوبند کے پیر و مرشد سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (م ۱۳۱۷ھ/۱۸۹۹ ء ) کا رسالہ " فیصلہ ہفت مسئلہ " ( شائع شدہ ۱۳۱۲ ھ) بھی لائق مطالعہ ہے جو دراصل انوار ساطعہ اور براہین قاطعہ کی مباحث کے بعد خود ان کے نامی گرامی خلفاء میں باعث تفریق و تشویق مسائل کا حل ڈھونڈنے کی ایک اہم کاوش تھی۔ 
مزید حیران کن بات یہ ہے کہ علماء دیوبند کی مویدہ’ براہین قاطعہ ‘ کے مقابل ’انوار ساطعہ‘ کو بریلوی علماء کی بجائے استاذ الکل مولانا لطف اللہ علی گڑھی (م ۱۳۳۴ھ۔ سید ابوالحسن علی ندوی نے انہیں استاذ الکل لکھا ہے) ،مولانا عبد الحق حقانی صاحب تفسیر حقانی(م ۱۳۳۵ ھ) ،مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی ( م ۱۳۰۸ھ)، ادیب الہند مولانا فیض الحسن سہارنپوری( م ۱۳۰۴ھ)، مفتی ارشاد حسین رامپوری مجددی ( م ۱۳۱۱ھ)، مولانا مفتی عبد المجید فرنگی محلی لکھنوی (م ۱۳۴۰ھ ) اور مولانا وکیل احمد حنفی سکندر پوری ( م ۱۳۲۲ھ/ ۱۹۰۴ء ۔ شاگرد خاص علامہ ابو الحسنات عبد الحئی لکھنوی) ایسے اجلہ علماء کی تائید حاصل تھی۔لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں ایک بھی بریلوی یا بدایونی علماء کا شاگرد نہیں۔ 
گویا اہل سنت کے ما بین مباحث میں اختلاف بریلی کے کسی عالم کی فکر کا شاخسانہ نہیں بلکہ علماء دیوبند کے کچھ تفردات اور زعم توحید میں شان رسالت کے حوالے سے تنقیص و سوء ادب پر مشتمل کچھ افکار تھے جس کی گرفت پہلے اور لوگوں نے کی۔ہاں حسام الحرمین (۱۳۲۵ھ/ ۱۹۰۶ء ) کے فتاویٰ سے بڑے پیمانے پر ردِّ دیوبند کا غلغلہ بلند ہوا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ حسام کی تائید جہاں بہت سے علماء اہل سنت نے کی۔(کم و بیش ۲۷۰ کے قریب علماء کی فہرست الصوارم الہندیہ میں مولانا حشمت علی لکھنوی نے دی ہے۔یہ کتاب ۱۳۴۵ھ/ ۱۹۲۶ء میں طبع ہوئی) وہاں کئی اکابر مثلاً حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی، حضرت شاہ ابو لخیر دہلوی ( شاگرد شاہ عبد الغنی مجددی )، خواجہ حسن جان سرہندی ( شاگرد شیخ احمد بن زینی دحلان مکی و شیخ رحمۃ اللہ مہاجر مکی ) ،شیخ الاسلام مولانا انواراللہ فاروقی ، مولانا عبد الباری فرنگی محلی ،مولانا مشتاق احمد چشتی انبیٹھوی اور علامہ معین الدین اجمیری ایسے علماء نے اگرچہ عبارات کو غلط، گستاخانہ اور کفریہ کہا تاہم تکفیر سے کفِّ لسان رکھا اور اسی کو احوط جانا۔گو یہ وضاحت اپنی جگہ اہم ہے کہ حسام الحرمین کے فتاویٰ تکفیر کی حمایت نہ کرنے کے باوجودیہ اکابر علماء و مشائخ معتقدات و معمولات میں مولانا بریلوی سے کلی موافقت رکھتے ہیں۔اور دیوبندی عقائد کے ہمنوا نہیں۔ فاضل بریلوی کے فتویٰ تکفیر کی عدم تائید کو دیوبندی عقائد و نظریات کی موافقت سے تعبیر کرنا صریحاًغلط اور دورازکار تاویل کی قبیل سے ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ دیوبند کے عمومی حلقے تو کجا ان کے بڑے بڑے علماء بھی ان شخصیات سے متعارف نہیں۔ حالانکہ دیوبندی مورخین نے اپنے مکتب فکر کے تمام فضلاء و رجال کار کے سوانحی خاکے بڑی دقت نظرسے قلمبند کیے ہیں۔ اگر کہیں اشتراک فکر ہوتا تو حلقہ دیوبند میں ان کا بھی بھرپور تعارف ہوتا۔ 

رد بریلویت کی وجوہات اور پس منظر 

اس ساری بحث میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آج جس طرح بریلوی عقائد کو شرک و بدعت سے آلودہ قرار دیا جا رہا ہے اور مولانا احمد رضا کو ایک فرقہ کا بانی، تو کیا فی الواقع ایسا ہی ہے؟ نہیں بلکہ تاریخی حقائق کچھ اور ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ فاضل بریلوی نے تو علماء دیوبند کے خلاف فتوے دیے تاہم اکابرین دیوبند کی طرف سے کوئی فتویٰ ان کے( عقائد و معمولات کے ) خلاف نہ تھا۔ بلکہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب علامہ انور شاہ کشمیری سے مناظرہ بہالپور کے دوران پوچھا گیا کہ آپ تو بریلوی علماء کی تکفیر کرتے ہیں تو انہوں نے باقاعدہ بیان قلمبند کروایا کہ وہ کسی صورت بریلویوں کی تکفیر نہیں کرتے۔ یہ عدالتی بیان ۰۵۳۱ھ کے لگ بھگ ہے جب فاضلِ بریلوی کے وصال (۱۳۴۰ھ) کو بھی دس گیارہ سال ہو چکے تھے۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ چند فروعی مسائل کے علاوہ تو کسی بات پر شرک و کفر کے فتویٰ کا مطلب اپنے اکابرین کو متہمّ کرنے کے مترادف تھا کیو نکہ ارواح ثلاثہ ، سوانح قاسمی اور اشرف السوانح جیسی کتب میں درج واقعات کسی طور بھی مروجہ سنی عقائد و معمولات سے ہٹ کر نہیں تھے۔ہاں یہ درست ہے کہ حلقہ دیوبند میں بریلویوں کے خلاف شدت فاضل بریلوی کے تکفیری فتویٰ سے شروع ہوئی تاہم رد بریلویت پر جم کر کام فاضل بریلوی کی وفات کے بھی ۲۵، ۳۰ سال بعد ہوا۔ اس میں دو شخصیات کا کردار اہم ہے۔ ہندوستانی علماء میں مولانا منظور نعمانی چونکہ مناظرانہ ذوق اور طبیعت رکھتے تھے تو وہ کھل کر لکھنے لگے اور مناظرے کیے، اگرچہ آخری عمر میں انہوں نے معارف الحدیث ایسے علمی کاموں کی طرف توجہ دی۔ دوسری شخصیت مولانا سرفراز صفدر کی ہے۔
پاکستان میں بریلوی مکتبہ فکر کے خلاف اصل نفرت اور آواز مولانا حسین علی ( واں بھچراں / تفسیر بلغۃ الحیران والے) کے ہاں سے اٹھی۔ ان کے شاگردوں نے اس میں کافی جوش دکھایا جس میں سر فہرست مولانا غلام اللہ خان، مولانا سرفراز صفدر اور مولانا ضیاء القاسمی وغیرہ تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس انداز فکر کا معروضی تجزیہ نہیں کیا گیا۔ ایک تو مو لانا حسین علی صاحب بڑی متشدد اور تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ اگرچہ خاندان نقشبندیہ مجددیہ موسیٰ زئی شریف کے مجاز تھے، تاہم صوفیاء کی روش کے برعکس مناظرہ جو طبیعت پائی تھی، لہٰذا مشائخ و صوفیاء بالخصوص چشتیہ نظامیہ ( پاکستان میں کثرت ہے) سے بڑی کد تھی۔ اس دور میں پنجاب کے تمام بڑے علماء یا علمی گھرانے خانقاہ سیال شریف سے وابستہ تھے۔ ان چشتی مزاج علماء کے ساتھ جو کہ بریلوی نہ تھے، مولانا حسین علی کی نوک جھوک لگی رہتی۔ اندازہ کریں کہ حضرت پیر مہر علی شاہ گو لڑوی جیسے بزرگ صوفی اور عالم سے بھی موصوف مناظرہ کرنے سے باز نہ آئے۔ تو یہ وہ ذہن تھا جس نے سنی مشائخ اور علماء ( پنجاب کے زیادہ علماء دار العلوم نعمانیہ لاہور کے فاضل تھے اور خیر آبادی منہج رکھتے، گو بگوی خاندان میں حدیث کا ذوق زیادہ تھا) کے خلاف ذہن سازی کی۔ مولانا بھچرانوی کے شاگردوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بعد میں دیوبندیوں میں مماتی فکر بھی اسی مولانا حسین علی کی فکر کا شاخسانہ تھی۔ 
مولانا حسین علی کی متشدد طبیعت کا شاہ عبد القادر رائے پوری علیہ الرحمۃ جیسے بزرگوں کو بڑا احساس تھا۔ ( حضرت کے ’ملفوظات ‘ مرتبہ از مولانا محمد انوری اور ’حیات طیبہ‘ از صاحبزادہ محمد حسین انصاری تمیمی للّہی دیکھیے) بلکہ خودمولانا حسین علی کے پیر بھائی اور بانی خانقاہ سراجیہ، مولانا ابو السعد احمد خان علیہ الرحمۃ ( جن کے علو مقام کے مولانا انورشاہ کشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے بزرگ قائل تھے۔ دیکھیے کتاب " تحفہ سعدیہ ") کو اس تکفیری اورمتشدد طبیعت سے بڑی نفرت تھی۔ ( دیکھیں 'حیات صدریہ'۔سوانح قاضی صدرالدین نقشبندی ) اب چونکہ پچاس / ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کے سنی علماء میں سے علماء دیوبند کے ساتھ بحث مباحثہ کے لیے جو علماء اٹھے وہ زیادہ تر بریلوی اور مرادآبادی سلسلہ کے لوگ تھے، لہٰذا فتویٰ بریلویوں پر لگنا شروع ہوا۔حالانکہ خود سنی حلقوں میں فاضل بریلوی کی کتب کا تعارف اور پڑھنے کا ذوق کہیں بعد میں شروع ہوا، بلکہ بیشتر سنی علماء دیوبندیوں کی فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے خلاف سخت کلامی سے ہی متاثر ہو کر ادھر متوجہ ہوئے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فاضل بریلوی پر جن دو شخصیات نے پاکستان میں سب سے پہلے علمی اور تحقیقی انداز میں کام کیا، وہ دونوں بریلوی نہ تھے نہ بریلوی علماء کے شاگرد۔ میری مراد ڈاکٹر مسعود احمد نقشبندی اور حکیم محمد موسیٰ امرتسری سے ہے۔جیسے پہلے عرض کیا ہے، پنجاب کے سنی علماء کا تعارف بریلویوں سے زیادہ نہ تھا۔ یہاں تو علامہ فضل حق رامپوری ( م ۱۹۴۰ء)، علامہ غلام محمد گھوٹویؒ (م ۱۹۴۰ء)، علامہ معین الدین اجمیری ( م ۱۹۴۰ء )، مولانا مہر محمد اچھروی (م ۱۹۵۴ء) اور مولانا یار محمد بندیالوی ( م ۱۹۴۷ء)، قاضی محمد دین بدھوی (م ۱۹۶۴ء) اور علامہ غلام محمود پپلانوی( م ۱۹۴۸ء) وغیرہ کے شاگرد زیادہ تھے اور یہ سب سنی تھے۔ بریلویوں سے کوئی بھی براہ راست نہ پڑھا تھا۔تاہم جب مولانا حسین علی اور ان کے شاگردوں نے ان علماء کے شاگردوں سے مناظرے شروع کیے تو سارے غیر دیوبندی اب بریلویوں کی چھتری تلے جمع ہونا شروع ہو گئے جن میں مختفو مراکز علمی ( رامپور، فرنگی محل،لکھنو، کانپور، خیرآباد، دارالعلوم نعمانیہ لاہور، بدایوں اور بریلی کے) کے وابستگان تھے۔
اس پس منظر میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ بریلوی عقائد و معمولات کے بڑے حصے کو انیسویں اور بیسویں صدی کے علماء اہل سنت کے بڑے طبقے کی تائید رہی ہے۔ رہاحسام الحرمین کے بعد کے ادوار میں دیوبندی بریلوی شدید منافرت اور دونوں کے اندازو مزاج میں واضح فرق جس میں تطبیق کی کوئی صورت آج دینی مزاج کے لوگوں کے لیے ہضم کرنا مشکل ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ علماء دیوبند نے علمی و تحقیقی اور درس و تدریس پر توجہ دی اور دینی مدارس کے فروغ اور دعوتی کام کی وجہ سے عوام کے بڑے طبقے کو متاثر کیا۔ یوں شعوری طور پر دینی ذوق رکھنے والے لوگ ان کے پاس آتے گئے۔ دوسری طرف بریلوی علماء مولانا حشمت علی لکھنوی ، مولانا اجمل سنبھلی وغیرہ ہندوستان جبکہ پاکستان میں مولانا سردار احمد فیصل آبادی، مولانا عمر اچھروی اور مولانا ابوالبرکات وغیرہ نے اور ان کے شاگردوں نے "رد دیوبندیت" کو ہی موضوع بنایااور ٹھوس علمی کام نہ کرسکے۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ جدید موضوعات تو کجا، روایتی خرافات و رسومات کے آگے بھی بند نہ باندھا جا سکا۔ مزید نقصان یہ ہوا کہ فاضل بریلوی ،جنہوں نے رد بدعات میں بہت کام کیا تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمعصر مشائخ و علماء میں رد بدعات کے حوالے سے شاید ہی کسی نے اتنا کام کیا ہو ،کی اصل فکراور اصلاحی تعلیمات دب گئیں اور نیم خواندہ بریلوی مولوی نورو بشر کے موضوعات پر ہی تقریریں کرکے سنیت کا تعارف کروانے لگے۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ فاضل بریلوی کی اصلاحی تعلیمات کے فروغ میں رکاوٹ میں اہم کردار یہاں کے چشتی نظامی، چشتی صابری اور سہروردی اور قادری مشائخ کی خانقاہوں اور گدیوں کا بھی رہا۔ انہوں نے ان پڑھ مریدوں کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک طرف تو دیوبندیوں کے خلاف ان کے حسام الحرمین کے فتاویٰ کو خوب اچھالا لیکن فاضل بریلوی کی اصل تعلیمات خاص کر رد بدعات کو سامنے ہی نہ آنے دیا۔ یوں علمی کم مائیگی، وعظ پسندی اور جہال کی خرافات و بدعات کوگویا بریلویت کے مترادف سمجھاجانے لگا۔ 
ماضی قریب میں بہت سارے اہل علم اپنے آپ کو اس رد دیوبندیت کی شدت پسند بریلویت سے نہیں جوڑتے۔ متاخرین میں شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی، مولانا محمد عالم آسی امرتسری ، پیر کرم شاہ الازہری، خواجہ غلام سدید الدین مرولوی، مولانا محمد ذاکر بانی جامعہ محمدی شریف جھنگ، شاہ ابوالحسن زید فاروقی، شاہ وجیہ الدین احمد خاں رامپوری ، خواجہ محمد عمر بیر بلوی، قاضی صدر الدین نقشبندی ، علامہ حافظ ایوب دہلوی ، علامہ جمال میاں فرنگی محلی، سید محمد ہاشم فاضل شمسی، علامہ حکیم محمود احمد برکاتی، پروفیسر مولانا شاہ منتخب الحق ، ڈاکٹر فضل الرحمٰن انصاری، محدث دکن شاہ عبد اللہ قادری ، ڈاکٹر پیر محمد حسن، مولانا سعید احمد مجددی،علامہ علی احمد سندھیلوی اور سید نصیر الدین نصیر گیلانی ایسے کئی جید علماء و مشائخ نے خیر آبادی ،فرنگی محلی اور خانوادہ اللٰہی سے منسوب سنیت کو ہی فروغ دیا ہے۔ ذرا دیکھیے، ذیل کے الفاظ میں کس درد مندی اور اخلاص کے ساتھ ایک بڑے سنی عالم نے اس طرف توجہ دلائی ہے:
’’دین کے اصولی مسائل میں دونوں متفق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید ذاتی اور صفاتی، حضور نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بسا اوقات رسالت اور ختم نبوت، قرآن کریم، قیامت اور دیگر ضروریات دین میں کلی موافقت ہے۔ لیکن طرزتحریر میں بیاحتیاطی اور انداز تقریر میں بے اعتدالی کے باعث غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اور باہمی سوءِ ظن ان غلطیوں کو بھیانک شکل دے دیتا ہے۔ اگر تقریرو تحریر میں احتیاط و اعتدال کا مسلک اختیار کیا جائے اور اس بد ظنی کا قلع قمع کر دیا جائے تو اکثر و بیشتر مسائل میں اختلاف ختم ہو جائے۔ اور اگر چند امور میں اختلاف باقی رہ بھی جائے تو اس کی نوعیت ایسی نہیں ہوگی کہ دونوں فریق عصر حاضر کے سارے تقاضوں سے چشم پوشی کیے آستینیں چڑھائے، لٹھ لیے ایک دوسرے کی تکفیر میں عمریں برباد کرتے رہیں۔‘‘
یہ آراء معروف سنی عالم اور صوفی حضرت پیر کرم شاہ صاحب الازہری کی ہیں جس کا اظہار ٹھیک پچاس برس قبل تفسیر ضیاء القرآن کے مقدمہ میں کیا۔ اس میں شک نہیں کہ باہمی تکفیر و تفسیق کے اس دور میں اس جرات مندانہ موقف اور امت کے اجتماعی مسائل کے لیے دلسوزی اور دردمندی کے جذبہ رفیعہ سے پیر صاحب اتحاد بین المسالک کی کوششوں میں اپنے معاصرین سے سبقت لے گئے۔ بعد کے ادوار میں مجاہد ملت مولانا عبد الستار خان نیازی ایسے بزرگوں نے عملی کوششیں بھی کیں جو بوجوہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں۔ تاہم اس کا سنی حلقوں بڑا فائدہ یہ ہوا کہ فہیم و ذی شعور عناصر مذہبی مسائل میں ٹھیٹھ بریلویت اور دیوبندیت کی بجائے اہل سنت کی پرانی معتدل روش کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔پیر کرم شاہ سے کم وبیش بیس سال بعد ہندوستان میں رامپور ،جو دیوبند و بریلی کے مدارس دینیہ سے پہلے کا مشہور دبستان علمی ہے ، کے ایک نہایت قابل فرزند مولانا وجیہ الدین احمد خاں رامپوری نے "مسلک ارباب حق" لکھ کر یہاں احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ سر انجام دیا اور طرفین کی درست باتوں کی تائید اور غلط عقائد و نظریات کا علمی رد کیا، وہیں اتحاد بین المسالک کی دعوت بھی دی۔ اس کتاب کی ثقاہت اور اہل علم و فضل کے ہاں وقعت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ معروف محقق و دانشور پروفیسر نثاراحمد فاروقی ( صدر شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی) نے پیش لفظ لکھا۔ وہ لکھتے ہیں: 
’’حضرت مولانا شاہ وجیہ الدین احمد خاں علیہ الرحمۃ نے دیوبندی اور بریلوی دونوں مدرسہ ہائے فکر کے بارے میں متوازن اور معتدل رائے کا اظہار کیا ہے۔ اور عام مسلمانوں کیلئے جو دین کی بنیادی کتابوں سے براہ راست اور گہری واقفیت نہیں رکھتے، یہی مسلک اعتدال مناسب ہے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ علمائے دیوبند کے بعض اکابر سے لغزشیں ہوئی ہیں۰ مولانا المولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی نے ان لغزشوں پر مدلل نکتہ چینیاں کی ہیں اور وقت نکتہ چینی وہ اکابر موجود تھے۔ لیکن اپنے اقوال کی تفسیریں اور تعبیریں انہوں نے بیان کی ہیں، قول سے رجوع نہیں کیا۔ کاش یہ دیوبندی اکابر اپنے اقوال سے رجوع کر لیتے تو آج ہندوستان کا بہت بڑا اختلاف مٹ جاتا ۔ لیکن نہ اکابر نے رجوع کیا نہ اصاغر نے لغزش کا اقرا ر کیا۔نتیجے میں دیوبندی بریلوی محاذ قائم ہو گیا۔ دوسری طرف بریلوی علماء کے بارے میں حضرت خطیب اعظم فرماتے ہیں کہ حضرات علمائے بریلی نے سخت تشدد اختیار کیا اور لغزشوں کے کرنے والوں کو ہی فقط کافر نہیں کہا بلکہ ان کے کفر میں جو شک کرے، اس کو بھی کافر کہا ہے ۔ اس غلو آمیز عموم سے ہندوستان میں کوئی بھی مسلمان نہیں رہ سکتا ‘‘۔ 
سچی بات ہے کہ آج غیر جانبدار اور تحقیقی ذوق کے علماء اور مفکرین کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف عوامی مزاج کے لیے خاطر خواہ طریقے سے دینی تربیت کا اہتمام ہو سکے۔اس کے لیے بریلوی فکر کی اہمیت سے انکار نہیں۔نیز سلاسل تصوف اور بزرگوں کے عقائد و معمولات سے وابستہ افر اد بھی ان سنی بریلویوں سے ہی قربت محسوس کرتے ہیں اور انہی سے ذوقی مناسبت کی وجہ سے فیض اٹھا سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ طبقات جو شرک و بدعت کے حوالے سے شاہ اسمٰعیل دہلوی اور ان کے اَتباع کی سی حساسیت رکھتے ہیں، علماء دیوبند کی دینی راہنمائی میں شرک و بدعت کے حوالے سے محتاط روی کو حرزِ جان بنا سکتے ہیں۔ جیسے بریلوی علماء کے لیے رد دیوبند سے بڑھ کر رد بدعات اور احیائے دین پر کام کرنا زیادہ ضروری ہے، وہاں پر دیوبندی علماء کوبھی اس فکر سے نکلنا ہو گا کہ امت کے ایک بڑے طبقہ کے معمولات گویا شرک سے آلودہ ہیں۔نیز انہیں اپنے آپ کو یزیدی فکر کے فروغ اور خارجیت جدیدہ کے دست و بازو بننے سے رکنا ہوگا تاکہ دیوبندی بریلوی مسالک صحیح معنوں میں ذوقی چیز ہی رہیں نہ کہ تکفیر و تضلیل سے اپنا شیرازہ بکھیرتے رہیں۔ مسلک ذوقی ترجیح کی حد تک توشاید قابل قبول ہو، لیکن اسے امت میں تشتت و افتراق کی دستاویز کسی صورت نہیں بننے دیا جا سکتا۔

ذوقی رنگ اور متنوع اسالیب 

دیوبند سے مراد مدرسہ دیوبند اور ان کے ہم خیال مدارس اور علمی خانوادے ہیں جبکہ غیر دیوبند اب سارا بریلوی کہلایا جانے لگا ہے۔ اگرچہ بریلوی کی اصطلاح دیوبندی اور وہابی مورخین نے طعنہ آمیزی کے طور پر استعمال کی تاہم اب اسکو دیوبندی بریلی عقائد و معمولات کے عمومی تناظر میں دیکھا جا نے لگا ہے۔ بریلی اور دیگر سنی خانوادہائے علمی کے مقابلے میں دیوبند دعوتِ دین، علمی وتحقیقی کام ،شروح کتب احادیث ودرسیات ، مدارس دینیہ کے قیام اور اتباع سنت میں محتاط روی کی بنا پر خاص مقام کا حامل ہے۔دوسری طرف بریلوی یا غیر دیوبندی ( فرنگی محل، رامپور، خیر آباد، بدایوں اور بریلی علمی گھرانے) امت کے بڑے طبقے کے ساتھ خیر خواہی ، دینی اقدار کے تحفظ کے لیے ترغیب کو ترہیب پر ترجیح دینا، علماء ہند مثلاً شیخ عبد الحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ایسے بزرگوں کی آراء کو دیگر علماء پر فوقیت ، اثبات عقائد و توضیحِ احکامِ فروعی میں معقولات پر زور جبکہ منقولات پر کم توجہ ، صوفیہ کے عقائد و معمولات کی شرعی توجیہ اور ان کے بظاہر غیر محتاط اعمال کی مؤدبانہ حسن تاویل ، مزاجاً خانقاہی نظام سے تمسک و وابستگی کو اہمیت دینا ، ’کثرت عمل ‘کی بجائے ’حسن عمل ‘ پر نگاہ ، علمی و تحقیقی کام کی بجائے صدقہ و خیرات اور عوام الناس کے عرف کی رعایت کرتے ہوئے رسوم و رواج میں شراکت وغیرہ وغیرہ بہت سے اعمال ایسے ہیں جو اس طبقے کی پہچان ہیں۔

طرفین میں معتد ل فکر کے علماء

بریلوی ذہن کے لیے علماء دیو بند میں مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا مناظر احسن گیلانی ، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا ادریس کاندھلوی ، مفتی محمد حسن امرتسری ، مولانا عبد الرشید نعمانی، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی، مفتی تقی عثمانی وغیرہ اور شاہ عبد القادر رائے پوری، مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب نقشبندی، ابو السعد مولانا احمد خان، حضرت مولانا اللہ یار خان اور خواجہ خان محمد جیسے مشائخ میں کشش کا بڑا سامان ہے۔ اسی طرح دیوبندی ذہن کے لیے شیخ الاسلام علامہ انواراللہ فاروقی ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی،علامہ مشتاق احمد چشتی انبیٹھوی، حضرت خواجہ حسن جان سرہندی ، مولانا نور احمد پسروری ثم امرتسری ،حضرت میاں شیر محمد شرقپوری ، خواجہ محمد عمر بیر بلوی ، شیخ الجامعہ علامہ غلام محمد گھوٹوی ، پروفیسر نور بخش توکلی، پیر کرم شاہ الازہری، مفتی محمد حسین نعیمی، مولانا شاہ ابو الحسن زید فاروقی الازہری ، محدث دکن سید عبد اللہ قادری ، مولانا شاہ وجیہ الدین ا حمد خاں رامپوری، مولانا سعید احمد مجددی، محدث عصر علامہ غلام رسول سعیدی، علامہ سید فاروق القادری، مفتی محمد خان قادری اورقاضی عبد الدائم دائم ایسے علماء اور مشائخ کے ہاں کشش کے کئی پہلو ہیں۔اللہ پاک ہمیں دونوں مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کے نوادرات علمی اور اسالیب طریقت سے بہرہ مند فرمائے اورہمیں مسالک سے بڑھ کر دین سے محبت نصیب فرمائے۔آمین 

اپریل ۲۰۱۷ء

دینی مدارس میں عقلی علوم کی تعلیممحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۹)ڈاکٹر محی الدین غازی
اسلامی دنیا میں عقلی علوم کا زوال ۔ عہد زریں اور عہد تاریک کا افسانہپروفیسر اسد احمد
علمِ سماجیات : دعوت نامے کی باز طلبی؟پیٹر برجر
مختلف نظام ہائے قوانین کے اصولوں میں تلفیق : چند اہم سوالاتڈاکٹر محمد مشتاق احمد
قومی بیانیہ اور اہل مدارسمولانا مفتی منیب الرحمن
جوابی بیانیہ اور قومی بیانیہ ۔ ایک تقابلی جائزہعدنان اعجاز
وزیراعظم اور ’’متبادل بیانیہ‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ‘‘مولانا سید متین احمد شاہ

دینی مدارس میں عقلی علوم کی تعلیم

محمد عمار خان ناصر

برصغیر میں اکبری عہد میں ملا فتح اللہ شیرازی کے زیراثر معقولات کی تعلیم کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس نے مقامی تعلیمی روایت پر گہرا اثر ڈالا، چنانچہ اس کے قریبی زمانے میں ملا قطب الدین اور ملا نظام الدین نے ’’درس نظامی‘‘ مرتب کیا تو اس میں یونانی فلسفہ، یونانی منطق اور علم الکلام کے علاوہ ریاضی اور ہیئت کے مضامین بطور خاص نصاب کا حصہ بنائے گئے۔ پورے نصاب پر معقولی رنگ بے حد غالب تھا اور معقولات کے عنوان سے کم وبیش ہر شعبہ علم میں ایسی اعلیٰ سطحی کتابیں شامل کی گئیں جن پر یونانی منطق کی اصطلاحات میں مباحث کی تنقیح کا رنگ کا غالب تھا۔ اس رجحان کے خلاف، شاہ ولی اللہ کی فکری مساعی کے زیر اثر، اصلاح نصاب کی ایک عمومی لہر پیدا ہوئی جس میں منطق وفلسفہ کے مضامین کی فی نفسہ اہمیت نیز ان کی تدریس کے لیے دقیق اور غامض متون کی افادیت پر سوالات اٹھائے گئے اور نتیجتاً نقلی علوم، بالخصوص ترجمہ وتفسیر، حدیث اور زبان وادب سے متعلق تدریسی مواد کا تناسب بڑھتا چلا گیا۔ نصاب میں مختلف مراحل پر ہونے والی تدریجی اصلاحات کے نتیجے میں موجودہ نصاب تعلیم میں معقولی علوم کا تناسب بہت کم ہو چکا ہے اور منطق، فلسفہ اور کلام کے مضامین سے متعلق نصاب سکڑتا ہوا چند مختصر کتابوں تک محدود ہو گیا ہے۔ 
اصلاح نصاب کی یہ تحریک اس زاویے سے یقیناًمفید اور ضروری تھی کہ تشحیذ اذہان کے لیے دقیق اور غامض متون کے حل کی لفظی مشقیں دراصل نفس مضمون اور اس کے مباحث کی تفہیم کی قیمت پر ہوتی ہیں اور عبارتوں کو حل کر لینا ہی ساری تدریسی ریاضت کا منتہائے مقصود بن جاتا ہے۔ مزید یہ کہ کلی طور پر متن پر مبنی طریقہ تدریس میں پڑھنے والوں کا جو ذہنی سانچہ اور اس ذہنی سانچے میں کسی علم کا جو مجموعی تصور بنتا ہے، وہ بڑی حد تک جامد اور بے لچک ہو جاتا ہے جس میں فکری جدلیات اور کسی بھی علم کے دائرے میں فکر انسانی کے ارتقاء اور تغیرات کو سمجھنے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ تاہم ان خامیوں کے تناظر میں اصلاح نصاب کا جو رجحان پیدا ہوا، اس کا نتیجہ سرے سے عقلی علوم اور عقلی مباحث ہی کو نظر انداز کر دینے کی صورت میں نکلا، حالانکہ اصل ضرورت اس چیز کی تھی کہ طریقہ تدریس کو متوازن بنایا جائے اور دور قدیم کے عقلی مباحث کی جگہ ان علوم ومباحث کو شامل نصاب کیا جائے جو آج کی فکری دنیا میں زیر بحث ہیں اور فکر وذہن کے سانچے بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ 
اسی طرح کسی خاص علم کے زیر عنوان چند مخصو ص متون یا نظریات پڑھا دینے کے بجائے یہ ضروری ہے کہ اس علم کے مجموعی ارتقائی سفر اور اس دائرے کے مختلف فکری رجحانات سے طلبہ کو روشناس کرایا جائے۔ مثال کے طور پر درس نظامی میں فلسفہ کے مباحث کی تعلیم وسیع تر تناظر میں دیے جانے کے بجائے ان چند مخصوص کتابوں مثلاً ہدایۃ الحکمۃ، میبذی، الشمس البازغہ اور ملا صدرا وغیرہ کا انتخاب کیا گیا جو اس دور میں مختلف وجوہ سے ایرانی درس گاہوں میں زیادہ مقبول تھیں۔ ان کتابوں کے مضامین یونانی فلسفے کے ان مباحث کے گرد گھومتے ہیں جن سے عباسی دور میں یونانی علوم کے عربی زبان میں ترجمہ کی وساطت سے مسلمان واقف ہوئے۔ ان چند مخصوص کتابوں پر انحصار اور فلسفے کی بنیادی ماہیت اور اس کی عمومی تاریخ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے ذہنوں میں عموماً فلسفہ کا جو تصور پایا جاتا ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ فلاسفہ یا حکماء نام کی کوئی ایک جماعت ہے جس کے کچھ مخصوص ومتعین نظریات ہیں جو ان کے ہاں عقائد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان نظریات کو ’’فلسفہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 
فلسفہ کا یہ تصور، ظاہر ہے کہ بے حد ناقص ہے، کیونکہ فلسفہ چند متعین اور طے شدہ نظریات کا نہیں، بلکہ عقلی بنیادوں پر غور وفکر کی ایک مسلسل روایت کا نام ہے جس میں بے شمار مختلف ومتنوع بلکہ متضاد رجحانات ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ خود مسلمانوں کی فکری روایت اس تنوع اور تغیر وارتقا کی ایک رنگا رنگ داستان ہے۔ عرب ابتداءً ا یقیناًاس طرح کی عقلی بحثوں سے یونانی علوم کے ترجمہ کی وساطت سے واقف ہوئے تھے، لیکن اس کے بعد ان تصورات ونظریات کی تنقیح، تشریح وتوضیح اور تردید واثبات کی ایک مستقل علمی روایت قائم ہو گئی جس میں اگر ایک طرف یونانی فلسفے کے ان تصورات کو اسلامی عقائد کے مطابق ڈھالنے اور انھیں اسلامی عقائد کی عقلی تفہیم کے لیے استعمال کرنے کا رجحان سامنے آیا تو دوسری طرف اس کے برعکس فلسفہ یونان کے اساسی تصورات پر نقد ومحاکمہ کا فکری رجحان بھی پیدا ہوا، چنانچہ دور متوسط میں غزالی اور بعد ازاں ابن تیمیہ وغیرہ نے یونانی منطق وفلسفہ پر جان دار تنقیدیں کیں اور ان عقلی معیارات کو چیلنج کیا جن کی بنیاد پر فلاسفہ کے خلافِ اسلام نظریات کی تائید کی کوشش کی جا رہی تھی۔ 
یونانیوں سے ورثے میں ملنے والے تصورات ومباحث کے علاوہ مسلمانوں میں ایسے جلیل القدر اہل فکر بھی پیدا ہوئے جنھوں نے نئے اور طبع زاد مباحث پر داد فکر دی اور مابعد الطبیعیات کے علاوہ انسانی نفسیات، علم اخلاق، عمرانیات، سیاسیات اور فلسفہ تاریخ جیسے موضوعات پر اپنے نتائج فکر پیش کیے۔ ان میں الکندی، الفارابی، ابن سینا، ابن باجہ، ابن طفیل، ابن رشد، ابن خلدون اور نصیر الدین طوسی وغیرہ کے نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ عقل اور شریعت کے باہمی تعلق جیسے دقیق سوالات پر علم کلام اور اصول فقہ میں معرکہ آرا بحثیں اٹھائی گئیں اور اس حوالے سے مختلف فکری رجحانات معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیرہ مکاتب فکر کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے آئے۔ مسلم صوفیہ نے اہم ترین فلسفیانہ مباحث کے حوالے سے ایک مستقل روایت کی بنیاد ڈالی جس کا بنیادی ماخذ کشف وعرفان اور روحانی سیر ومشاہدہ تھے۔ 
ان معروضات کا حاصل یہ ہے کہ دینی علوم کے نصاب میں عقلیات کو دوبارہ مناسب اہمیت دینے اور منتہی طلبہ کو کلاسیکی عقلی روایت کے ساتھ ساتھ معاصر فکری و فلسفیانہ بحثوں سے متعارف کروانے کی طرف سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۰) ولد اور ابن میں فرق کی رعایت

عربی زبان میں جب ولدکا لفظ آتا ہے تو اس میں بیٹا اور بیٹی دونوں اور ان کی اولاد شامل ہوتے ہیں، یہ مفرد کے لیے بھی آتا ہے اور جمع کے لیے بھی۔ جبکہ ابن کے مفہوم میں صرف نرینہ اولاد یعنی بیٹا ہوتا ہے، علامہ ابوھلال عسکری (چوتھی صدی ہجری) اپنی شہرہ آفاق کتاب الفروق اللغویۃ میں لکھتے ہیں: یقال الابن للذکر والولد للذکر والأنثی۔ قرآن مجید میں دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جہاں ولد استعمال ہوا ہے وہاں اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے اولاد ترجمہ کرنا چاہیے، اور جہاں ابن یا ابن کی جمع بنین یا أبناء استعمال کی گئی ہے، وہاں بیٹا اور بیٹے ترجمہ کرنا چاہیے، دونوں الفاظ یعنی ولد اور ابن کے استعمال کے مواقع پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ولد استعمال ہوا ہے وہاں مفہوم کے لحاظ سے بھی مطلق اولاد ہی کا محل ہے خواہ وہ نرینہ ہو یا نہ ہو، اور جہاں ابن یا بنین استعمال ہوا ہے وہاں مفہوم بھی نرینہ اولاد کے خصوصی تذکرے کا تقاضا کررہا ہے۔ مگر اکثر مترجمین قرآن سے اس فرق کی رعایت ہر جگہ نہیں ہوسکی، ذیل کی مثالوں سے صورت حال واضح ہوجاتی ہے:

ولد کا ترجمہ

(۱) قَالَتْ رَبِّ أَنَّی یَکُونُ لِیْ وَلَدٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ۔ (آل عمران: ۴۷)

’’وہ بولی کہ اے پروردگار میرے کس طرح لڑکا ہوگا جبکہ کسی مرد نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’بولی اے رب کہاں سے ہوگا مجکو لڑکا اور نہ مجہکو ہاتھ لگایا کسی آدمی نے ‘‘(شاہ عبد القادر)
اس آیت میں ولد آیا ہے، اس کا ترجمہ لڑکا کرنے کے بجائے اولاد کرنا چاہیے۔ یہاں بشارت ابن کی تھی، لیکن اظہار تعجب میں ولد کا ذکر ہے، کیونکہ مطلق اولاد ہونے پر تعجب ہوا قطع نظر کہ وہ لڑکا ہوگا یا لڑکی۔

(۲) إِنَّمَا اللّٰہُ إِلَہٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَہُ أَن یَکُونَ لَہُ وَلَدٌ۔ (النساء: ۱۷۱)

’’اللہ تو بس ایک خدا ہے۔ وہ بالاتر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو‘‘ (سید مودودی)
’’سو ایک معبود ہے اس لائق نہیں کہ اس کے اولاد ہو‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’سوائے اس کے نہیں کہ اللہ معبود اکیلا ہے پاکی ہے اس کو کہ ہو واسطے اس کے اولاد‘‘ (شاہ رفیع الدین)

(۳) وَجَعَلُوا لِلّٰہِ شُرَکَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَخَرَقُوا لَہُ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یَصِفُونَ۔ بَدِیْعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ أَنَّی یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُن لَّہُ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْْءٍ وہُوَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ۔ (الانعام: ۱۰۰،۱۰۱)

’’اس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرادیا، حالانکہ وہ ان کا خالق ہے، اور بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کردیں، حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں، وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’کہاں سے ہو اس کے بیٹا‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’کیونکر ہو واسطے اس کے اولاد‘‘ (شاہ رفیع الدین)
دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ یہاں پہلی آیت میں صراحت ہے بنین وبنات کی، پھر دوسری آیت میں مشرکوں کی اسی بات کی تردید کرتے ہوئے ولد لفظ لایا گیا، جو عام ہے اور اس میں بنین اور بنات دونوں شا مل ہوتے ہیں۔ غرض ولد کا بیٹا ترجمہ کرنا درست نہیں ہوگا، اولاد ترجمہ کرنا درست ہے۔

(۴) مَا کَانَ لِلّٰہِ أَن یَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَہُ۔ (مریم: ۳۵)

’’اللہ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ذات ہے‘‘ (سید مودودی، مناسب ترجمہ ہوگا’’اللہ کے شایان شان نہیں ہے‘‘)
’’اللہ ایسا نہیں کہ رکھے کوئی اولاد وہ پاک ذات ہے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۵) مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِن وَلَدٍ (المؤمنون: ۹۱)

’’اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’اللہ نے کوئی بیٹا نہیں کیا‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۶) قُلْ إِن کَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِیْن۔ (الزخرف: ۸۱)

’’ان سے کہو اگر واقعی رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا‘‘ (سید مودودی) 

(۷) وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً سُبْحَانَہُ۔ (البقرۃ: ۱۱۶)

’’اور کہتے ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے، اس کی شان ان باتوں سے ارفع ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی، مناسب ترجمہ ہوگا’’نے اولاد بنارکھی ہے‘‘)
’’اور کہتے ہیں اللہ رکھتا ہے اولاد وہ سب سے نرالا ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اللہ پاک ہے ان باتوں سے ‘‘(سید مودودی)

(۸) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً۔ (الاسراء:۱۱۱)

’’اور کہہ سرا ہے اللہ کو جس نے نہیں رکھی اولاد‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اور کہو تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا‘‘ (سید مودودی)

(۹) وَیُنذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً۔ (الکہف:۴)

’’اور ان لوگوں کو ڈرادے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے‘‘ (سید مودودی، ’’ڈرادے کے‘‘ بجائے’’ خبردار کرے ‘‘مناسب ترجمہ ہوگا)
’’اور ڈر سنادے ان کو جو کہتے ہیں اللہ رکھتا ہے اولاد‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۱۰) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً۔ (مریم: ۸۸)

’’وہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ‘‘(سید مودودی)
’’اور لوگ کہتے ہیں رحمن رکھتا ہے اولاد ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۱۱) أَن دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَداً۔ (مریم: ۹۱)

’’کہ لوگوں نے رحمان کے لیے اولاد ہونے کا دعوی کیا ‘‘(سید مودودی)

(۱۲) وَمَا یَنبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَداً۔ (مریم:۹۲)

’’رحمان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے‘‘ (سید مودودی)
’’اور نہیں بن آتا رحمن کو کہ رکھے اولاد‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۱۳) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَداً سُبْحَانَہُ۔ (الانبیاء: ۲۶)

’’یہ کہتے ہیں رحمان اولاد رکھتا ہے، سبحان اللہ‘‘ (سید مودودی)
’’اور کہتے ہیں رحمن نے کرلیا کوئی بیٹا وہ اس لائق نہیں ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اور کہا انہوں نے کہ پکڑی ہے رحمن نے اولاد پاک ہے وہ ‘‘(شاہ رفیع الدین)

(۱۴) وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً۔ (الفرقان: ۲)

’’جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ‘‘(سید مودودی)
’’اور نہ پکڑی اولاد ‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اور نہیں پکڑا اس نے بیٹا‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۱۵) لَوْ أَرَادَ اللّٰہُ أَنْ یَتَّخِذَ وَلَداً لَّاصْطَفَی مِمَّا یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ سُبْحَانَہُ۔ (الزمر: ۴)

’’اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا برگزیدہ کرلیتا، پاک ہے وہ اس سے ‘‘(سید مودودی)
’’اگر اللہ چاہتا کہ اولاد کرلے تو چن لیتا اپنی خلق میں جو چاہتا وہ پاک ہے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۱۶) وَأَنَّہُ تَعَالَی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَلَا وَلَداً۔ (الجن: ۳)

’’اور یہ کہ اونچی ہے شان ہمارے رب کی نہیں رکھی اس نے جورو نہ بیٹا‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے، اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا‘‘ (سید مودودی)
’’اور یہ کہ بہت بلند ہے عزت پروردگار ہمارے کی، نہیں پکڑی اس نے بی بی اور نہ اولاد ‘‘(شاہ رفیع الدین)
مذکورہ بالا تمام آیتوں میں ولد کا ترجمہ لڑکا یا بیٹا کرنے کے بجائے اولاد کرنا درست ہے۔

بَنِیْنَ کا ترجمہ

(۱) وَجَعَلَ لَکُم مِّنْ أَزْوَاجِکُم بَنِیْنَ وَحَفَدَۃً۔ (النحل: ۷۲)

’’اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لئے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’ان نیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کئے‘‘(سید مودودی)

(۲) الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔ (الکہف:۴۶)

’’مال وپسران آرائش زندگانی دنیا را‘‘ (شیخ سعدی)
’’مال وفرزندان آرائش زندگانی دنیا است‘‘ (شاہ ولی اللہ)
’’مال واولاد دنیوی زندگی کی زینت ہیں ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’مال واولاد تو دنیا کی ہی زینت ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’مال واولاد حیات دنیا کی ایک رونق ہے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے‘‘(سید مودودی)
’’مال اور بیٹے رونق ہیں دنیا کے جیتے‘‘ (شاہ عبدالقادر)

(۳) وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ۔ (الاسراء:۶)

’’اور تمہاری مال واولاد سے مدد کی ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’اور مال واولاد سے تمہاری مدد کی‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی ‘‘(سید مودودی)
’’اور زور دیا تم کو مالوں سے اور بیٹوں سے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۴) أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّہُم بِہِ مِن مَّالٍ وَبَنِیْنَ۔ (المؤمنون: ۵۵)

’’کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو ان کے مال واولاد میں اضافہ کررہے ہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جو بھی ان کے مال واولاد بڑھارہے ہیں‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’کیا خیال رکھتے ہیں کہ یہ جو ہم ان کو دئے جاتے ہیں مال اور اولاد ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’کیا گمان کرتے ہیں یہ کہ جو کچھ مدد دیتے ہیں ہم ان کو ساتھ اس کے مال سے اور بیٹوں سے‘‘ (شاہ رفیع الدین)

(۵) أَمَدَّکُم بِأَنْعَامٍ وَبَنِیْنَ۔ (الشعراء: ۱۳۳)

’’اس نے تمھاری مدد کی چوپایوں اور اولاد سے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اس نے تمہاری مدد کی مال اور اولاد سے ‘‘(محمد جونا گڑھی)
’’تمہیں جانور دئے، اولادیں دیں‘‘ (سید مودودی)
’’پہنچائے تم کو چوپائے اور بیٹے ‘‘(شاہ عبدالقادر)
یہاں ایک بات اور واضح رہے کہ مذکورہ بالا کچھ آیتوں میں امداد کی تعبیر استعمال ہوئی ہے، اس کا صحیح ترجمہ عطا کرنا ہے، نہ کہ مدد کرنا یا اضافہ کرنا۔اس موضوع پر تفصیلی گفتگو اس لفظ کے تحت ہوئی ہے۔

(۶) أَن کَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِیْنَ۔ (القلم: ۱۴)

’’یہ کردار اس وجہ سے ہوا کہ وہ مال واولاد والا ہے ‘‘(امین احسن اصلاحی، ’’یہ کردار اس وجہ سے ہوا‘‘ کے بجائے مناسب ترجمہ ہوگا ’’اس وجہ سے کہ‘‘ یعنی یہ علت ہے اس رویہ کی جس کا ذکر آگے آرہا ہے نہ کہ اس کردار کی جس کا ذکر پہلے ہوا )
’’اس بنا پر کہ وہ بہت مال واولاد رکھتا ہے ‘‘(سید مودودی)
’’اس سے کہ رکھتا ہے مال اور بیٹے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۷) وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ۔ (نوح: ۱۲)

’’اور مال واولاد سے تمہیں فروغ بخشے گا ‘‘(امین احسن اصلاحی، مناسب ترجمہ ہوگا: ’’اور مال اور بیٹوں سے تمہیں نوازے گا‘‘)
’’تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا ‘‘(سید مودودی)
’’اور تمہیں خوب پے در پے مال اور اولاد میں برکت دے گا‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور بڑھنے دے گا تم کو مال اور بیٹوں سے ‘‘(شاہ عبدالقادر)

(۸) وَبَنِیْنَ شُہُوداً۔ (المدثر: ۱۳)

’’اور بیٹے حاضر ہونے والے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دئے‘‘ (سید مودودی)

(۹) زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِیْنَ۔ (آل عمران: ۱۴)

’’لوگوں کے لئے مرغوبات نفس عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنادی گئی ہیں ‘‘(سید مودودی)
’’رجھایا ہے لوگوں کو مزوں کی محبت پر عورتیں اور بیٹے ‘‘(شاہ عبدالقادر)
مذکورہ بالا تمام آیتوں میں بنین کا ترجمہ اولاد کرنے کے بجائے بیٹے کرنا درست ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ وہ بہت سی آیتیں جن میں لفظ ولد آیا ہے، دراصل وہاں قرآن مجید نے کافروں کے اس جھوٹے دعوے کی تردید کی ہے ، جو وہ کیا کرتے تھے کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد اختیار کی ہے، یہاں اصل مسئلہ اولاد اختیار کرنے کا ہے، خواہ وہ نرینہ اولاد ہو یا غیر نرینہ اولاد ہو۔ ویسے بھی منسوب کرنے والوں نے اللہ کی طرف دونوں طرح کی اولاد کو منسوب کیا، چنانچہ اللہ کی طرف سے تردیدکے لیے وہ لفظ اختیار کیا گیا جس سے بیک وقت دونوں باتوں کی تردید ہوجائے۔اس کی بہت واضح مثال اوپر مذکور سورہ انعام کی آیت نمبر ۱۰۰ اور ۱۰۱ ہیں، جہاں پہلے بنین اور بنات کے الفاظ آئے اور پھر انہیں ولد کہہ کر ایک لفظ میں بیان کردیا۔
دوسری طرف تنہا بنین کا لفظ زیادہ تر اس پس منظر میں آیا ہے کہ لوگ نرینہ اولاد کو باعث قوت اور سامان شان وشوکت سمجھتے ہیں، اور اس پر اتراتے ہیں جبکہ یہ سب اللہ کی نوازش ہے۔ غرض جس سیاق میں بنین کا لفظ آیا ہے، وہ سیاق اسی خاص لفظ کا مقتضی ہے۔ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ایسے بیشتر مقامات پر بنین کا لفظ مال یا اس کے ہم معنی لفظ کے ساتھ آیا ہے۔
اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ ترجمہ میں اس فرق کی رعایت بہت ضروری ہے جس فرق کا اہتمام خود قرآن مجید میں بہت خاص طریقے سے کیا گیا ہے۔
(جاری)

اسلامی دنیا میں عقلی علوم کا زوال ۔ عہد زریں اور عہد تاریک کا افسانہ

پروفیسر اسد احمد

ترجمہ: عاطف حسین

(پروفیسر اسد کیو احمد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے سے منسلک ہیں۔ پیش جدیدی مسلم معاشروں کی سماجی اور فکری تاریخ ان کی تحقیق کے خاص میدان ہیں۔ یہ تحریر اکتوبر 2013ء کی ہے۔ مترجم)

کوئی دو ماہ قبل مجھے امیریکن اسلامک کانگریس نامی ایک این جی او کی طرف اسلام اور سائنس کے موضوع پر ایک مباحثے میں شمولیت کی دعوت ملی۔ مجھے بتایا گیا کہ اس میں میرے ساتھ ایک پاکستانی عوامی اسپیکر بھی شرکت کریں گے (یہ اسپیکر پروفیسر ہودبھائی تھے۔ مترجم) جو اسلامی فکر کی تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مسلم دنیا میں سائنس اور دوسرے عقلی علوم کی اشاعت و ترویج کے لیے کوشاں ہیں۔ مجھے اس مباحثے میں فوری طور پر دلچسپی محسوس ہوئی کیونکہ ماقبل جدید (800۔1900ء) مسلم دنیا میں عقلی علوم جیسے کہ فلسفہ،منطق اور فلکیات وغیرہ کی تاریخ میرے مطالعے کا خصوصی موضوع ہے۔
کئی سالوں سے میں آہستہ آہستہ مگر بڑی محنت سے مسلم عقلی علوم کے متعلق مباحث کی مختلف تہوں کو پلٹ رہا ہوں تاکہ مسلم دنیا میں سائنس کی تاریخ کے متعلق ایک ذمہ دارانہ بیانیہ تشکیل دے سکوں۔ مجھے اپنے کام اور پوری دنیا میں انفرادی حیثیتوں اور ٹیموں کی شکل میں اسی علمی مشغلے میں مصروف اپنے ساتھیوں کے کام سے ماضی کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے۔ اگرچہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے، لیکن اب تک اپنی دریافتوں کے نتیجے میں ہم سب متفقہ طور پر ایک عرصے سے درست تسلیم کی جانے والی مسلم عہد زریں اور اس کے بعد مسلم دنیا میں علومِ عقلی کے زوال کی کہانی کو مسترد کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
چونکہ اب تک اس موضوع پر کچھ اہم کام ہوچکا ہے، اس لیے میں نے عام لوگوں کے ساتھ اب تک ہونے والی تحقیقات کے نتائج پہنچانے کے موقعے کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مباحثے میرے ساتھ شریک دوست کو پہلے بولنے کا موقع ملا اور انہوں اپنی گفتگو کا آغاز ایک ایسی بات سے کیا جس سے مجھے مکمل اتفاق ہے۔ وہ یہ کہ فی زمانہ مسلم دنیا میں سائنس اور باقی عقلی علوم کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور اسے جلد از جلد بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ عمدہ آغاز تھا لیکن اس کے بعد انہوں نے اس صورتِ حال کے جو اسباب گنوائے، وہ محل نظر تھے۔ کچھ دلچسپ ذاتی تجربات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے فرمایا کہ اس صورت حالات کی تاریخی وجوہات مسلم عہدزریں کے اختتام اور تاریک دور کے آغاز میں، جس میں مسلم روایت پرستی کو عروج حاصل ہوا، تلاش کی جانی چاہیے۔
ان کی بیان کی ہوئی کہانی کے مطابق سنی ماہر الہٰیات غزالی کے حملوں کے نتیجے میں مسلم دنیا میں علوم عقلی زوال آشنا ہوگئے۔ فلسفیوں پر برا وقت آیا اور ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، فطری مظاہر کی توجیہ معجزوں سے کی جانے لگی، اجرام فلکی کی حرکت کے ذمہ دار فرشتے قرار دیے گئے اور اس طرح مسلمان سائنسی ترقی کے قابل ہی نہ رہے کیونکہ انہوں نے سببیت کا ہی انکار کردیا تھا۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اس تناظر میں یہ بالکل بھی تعجب خیز نہیں ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں نے علم کی دنیا میں مزید کوئی ترقی نہیں کی۔ اور آج جو ہم صورتِ حالات دیکھ رہے ہیں، یہ اسی کا نتیجہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ عقل دشمنی کی اسی صدیوں پرانی روایت کا تسلسل ہے۔
تاہم یہ سب ایسے نہیں ہوا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ تہافت الفلاسفہ میں غزالی کا نشانہ عقل یا فلسفہ تھے ہی نہیں۔ غزالی کا اعتراض جیسا کہ انہوں نے ایک سے زائد ابتدائیوں اور پھر پوری کتاب میں باربار واضح کیا ہے، اسلامی عقائد کے متعلق بحثوں میں ناقص منطق سے استدلال کرنے والے مابعد الطبیعیاتی مفکروں پر ہے۔ غزالی نے بڑی صراحت سے لکھا ہے کہ عقائد کے علاوہ دوسرے معاملات یعنی ایسی چیزیں جو سائنسی نوعیت کی ہیں، ان میں فلاسفہ سے نہیں جھگڑنا چاہیے۔ وہ (غزالی) تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر کسی چیز کی سائنسی توجیہ اور حدیث میں تعارض ہو تو زیادہ بہتر رویہ یہ ہے کہ حدیث کو ضعیف قرار دے کر رد کردیا جائے۔ اسی طرح اگر الہامی متن اور سائنسی طور پر ثابت شدہ کسی چیز کے درمیان تعارض واقع ہوجائے تو متن کے استعاراتی معنی مراد لیے جائیں گے۔ درحقیقت یہ بات بالکل واضح ہے کہ غزالی عقل کو روایت پر ترجیح دیتے ہیں۔ فقہی معاملات میں انہوں نے اندھی تقلید پر شدید تنقید کرتے ہوئے عقل کو ہی نقلی علوم کی بنیاد قراردیا ہے۔
غزالی کے بعد بھی مسلم دنیا میں عقل کے متعلق یہ رویہ جاری رہا۔ اس روایت کو زندہ رکھنے والے بے شمار مفکروں میں سے نصیرالدین طوسی (وفات 1274 ) ، قطب الدین شیرازی (وفات 1311)، عضدالدین ایجی (وفات 1355)، سید شریف جرجانی (وفات 1413) اور محب اللہ بہاری (وفات 1707) کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک فلکیات سے مابعد الطبیعات تک مختلف علوم میں مسلم علماء کا موقف بالعموم یہی رہا کہ عقل ہی وہ سائنسی تمثیلات مہیا کرتی ہے جن سے کائنات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم ریاضیاتی اور منطقی طور پر درست ہونے کے بعد باوجود یہ طے کرنا کئی دفعہ ممکن نہیں ہوتا کہ ان میں کونسی تمثیل دوسروں سے برتر ہے۔ بالفاظ دیگر مسلم علماء نے سائنس کے بارے میں بعینہ وہی رویہ اختیار کیا جو ڈیوڈ ہیوم کے بعد مغربی دنیا میں اختیار کیا گیا۔ اتفاق سے ہیوم ہی وہ شخص ہے جس نے سببیت اور استقرائی منطق کے مابعد الطبیعاتی پہلووں کے متعلق بہت اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ درحقیقت غزالی کے بعد کے دور میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں علماء نے بڑی صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ سائنسی تحقیق عقائد کے لیے بالکل مضر نہیں ہے۔
مبادا کہ قارئین کو ان علماء کی اہمیت کے بارے میں کوئی شک ہو، میں بیان کرتا چلوں کہ جن علماء کا میں ذکر کررہا ہوں، وہ کوئی ایرے غیرے نہیں بلکہ تفسیر، حدیث، فلکیات، طب اور ریاضی جیسے علوم پر دسترس رکھنے والے غیر معمولی لوگ تھے جو پیچیدہ پیش جدیدی معاشرے میں ایک سے زائد کردار نبھا رہے تھے۔ یہ کوئی ایسی حیرانی کی بات نہیں کیوں کہ بیسویں صدی کے آغاز تک مدرسے کے نصاب میں نقلی علوم کے مقابلے میں عقلی علوم کے متعلق زیادہ کتابیں شامل ہوتی تھیں۔ درحقیقت اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ الہامی متون کے درست اور ذمہ دارانہ مطالعے کے قابل بننے کے لیے پہلے عالم کو منطق و خطابت، حتیٰ کہ طب جیسے علوم میں مہارت پیدا کرنی چاہیے۔ گویا اس طرح سے ہماری تحقیق کے بالکل آغاز میں ہی واضح ہوگیا ہے کہ عقل و وحی، عقلیت پسند و روایت پسند، عہدزریں و عہد تار اور فلسفی و ملا جیسی سادہ و سطحی ثنائیات کو سرے سے ترک کردینا چاہیے۔ اور اسلامی تناظر میں "آرتھوڈوکسی’’، "کلیرک "اور "سیمینری’’ جیسی اصطلاحات کا استعمال تو ہے ہی بالکل بے جا اور غلط۔۔
تو پھر ہمارا یہ حال کیسے ہوا؟ اور اس کے متعلق کسی تحقیق کی آخر کیا ضرورت ہے؟ میں دوسرے سوال سے شروع کروں گا کیوں کہ اس کا جواب آسان ہے۔ اگر تو روشن خیال اور لبرل دانشوروں کی طرف سے بار بار دہرایا جانے والا بیانیہ جو میرے ساتھ مباحثے میں شریک میرے دوست نے بھی پیش کیا، درست ہے، یعنی یہ کہ اسلامی دنیا میں عقلی علوم کی موجودہ حالت زار عقل کے متعلق مین اسٹریم اسلام کے رویے کا براہ راست نتیجہ ہے تو پھر میں تو مسلمانوں کو یہی مشورہ دوں گا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑدیں۔ کیونکہ میرے خیال میں جو مذہب عقل جیسی بنیادی ترین ذہنی استعداد کا انکارکرتا اور اسے دباتا ہو، وہ سچا مذہب نہیں ہوسکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عہدزریں اور زوال کے بیانیے کا فوری نتیجہ بالکل وہی ہے جو اسلامو فوبیا میں مبتلا لوگوں کا موقف بھی ہے یعنی یہ کہ مسلمانوں کو اپنا مذہب ترک کر دینا چاہیے۔ یہ لوگ ہمیں باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مین اسٹریم روایت پرستانہ اسلام کی وجہ سے 900 سال سے علوم عقلی اسلامی دنیا میں اجنبی ہیں۔ تو یہ مذہب ہے ہی غلط اور اسے اب ناپید ہوجانا چاہیے۔ اب اسے ستم ظریفی کہیے کہ اس بیانیے سے کچھ اسلام پسند گروہوں جیسی ہی شدت پسندی پیدا ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک بھی اسلام کی ابتدائی صدیوں کا دور مثالی تھا جس کی طرف وہ لوٹ کرجانا چاہتے ہیں۔ رہے ہم جیسے لوگ تو وہ معقولیت کی تلاش میں ان دونوں انتہاؤں کے درمیان پس رہے ہیں۔
یہ مقبول بیانیہ انتہائی خطرناک تو ہے، لیکن خوش قسمتی سے یہ بالکل ہی غیر علمی اور بودا بھی ہے اور علوم عقلی کے متعلق اسلامی دنیا میں تخلیق کردہ قلمی نسخوں کے بحر ذخار میں سے محض چند قطرے دیکھنے کے بعد ہی مغربی علمی حلقوں میں اب کوئی بھی اب اس بیانیے پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ تو پھر آخر اسلامی دنیا میں علوم عقلی کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا؟ سچ تو یہ ہے کہ ابھی ہم پورے یقین کے ساتھ کوئی جواب دینے کے قابل نہیں ہوئے، لیکن میں اپنی تحقیق کے دوران کئی ایسے عوامل کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوا ہوں جو اسلامی دنیا میں فلسفے، فلکیات اور طب جیسے علوم کے زوال کا باعث بنے ہیں۔ میں ان میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کرتا ہوں، لیکن مکمل تصویر کے لیے ہمیں ابھی مزید تحقیق کا انتظار کرنا ہوگا۔
ایک وجہ تو یہ رہی کہ انیسویں صدی کے وسط میں علو م عقلی میں تربیت یافتہ علماء کو شاہی سرپرستی میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے ایسے علماء مختلف درباروں سے قاضیوں، شاعروں، تحصیل داروں، سفارت کاروں ، طبیبوں اور نقشہ نویسوں کی حیثیت سے منسلک ہوتے تھے اور یہیں سے ا ن کی سرپرستی ہوتی تھی۔ تاہم برطانوی راج کے عروج کے نتیجے میں جب ایسے دربار ختم ہونے شروع ہوئے تو ایسے علماء بھی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ اس سے پیدا ہونے والے خلا کو بین العلاقائی مصلحین کے گروہوں سے تعلق رکھنے والے عوامی مبلغوں نے پر کرنا شروع کردیا جن کی تربیت بالکل ہی الگ ڈھنگ پر ہوئی تھی۔
جنوبی ایشیا کی حد تک علوم عقلی کے زوال کی ایک اور وجہ اردو کو مسلمانوں کے ہاں ادب کی بنیادی زبان کا درجہ حاصل ہوجانا بھی تھی۔ عقلی علوم کے متعلق قریب قریب کل تصانیف عربی ( اور کچھ فارسی میں ) تھیں۔ ان زبانوں (عربی اور فارسی) میں عقلی علوم کی لمبی تاریخ کے دوران وجود میں آنے والا فنی اصطلاحات کا ایک پورا ذخیرہ موجود تھا، لیکن ان زبانوں کے متروک ہوجانے اور ان سے اردو میں ترجمے کی کسی منظم کوشش کی عدم موجودگی میں اس ذخیرے کے ضیاع کے نتیجے میں علومِ عقلی کا معیار بڑی حد تک گر گیا۔
اسی طرح ، اگرچہ یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے ، لیکن علوم عقلی کے زوال میں کچھ کردار شاید پرنٹنگ ٹیکنالوجی میں ترقی نے بھی ادا کیا ہو۔ مسلم علماء مخطوطات پر ہاتھ سے حاشیے اور تشریحات لکھنے کے عادی تھے۔ اس طرح ہر شعبہ علم میں ایک ایسی داخلی جدلی روایت وجو د میں آئی جو اس شعبہ علم کی ترقی کی براہِ راست ذمہ دار تھی۔ تاہم پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی آمد کے باعث صورتِ حالات بدل گئی۔ اب نہ قلمی نسخے رہے اور نہ ان پر لکھے ہوئے حاشیے۔ اس طرح کسی موضوع پر تاریخی مباحث سے براہ اکتساب کی روایت بھی دم توڑ گئی۔ درحقیقت (مین اسٹریم اسلام کی عقل دشمنی کے بجائے) ان چند ایک عوامل کے ساتھ اور بے شمار سماجی، سیاسی، ثقافتی، ادارہ جاتی اور ٹیکنالوجیکل عوامل دراصل آج مسلم دنیا میں علوم عقلی کی زبوں حالی کے ذمہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ تشخیص درست ہو یعنی یہ کہ مین اسٹریم ‘روایتی’ اسلام عقل کا دشمن نہیں ہے تو پھر اس زبوں حالی کا حل بھی کہیں اور تلاش کرنا پڑے گا۔ میں یہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس پر غور و فکر کریں کہ وہ حل کیا ہوسکتے ہیں اور ان کو کیسے روبعمل لایا جاسکتا ہے۔
اب میں آخر میں کچھ روشنی اس چیز پر ڈالنا چاہتا ہوں کہ نام نہاد عہد تاریک کے دوران ہونے والے کام کے وسیع ذخائر کو نظر انداز کرتے ہوئے عہد زریں و عہِ تاریک کا بیانیہ پیدا ہی کیونکر ہوا، کیوں یہ اب بھی مقبول ہے اور شاید آگے بھی باوجود ہمارے جیسے لوگوں کی کوششوں کے مقبول ہی رہے گا۔ اس کو جس خوبصورتی سے کولمبیا یونیورسٹی کے جنوبی ایشیائی مطالعات کے اروند رگوناتھ پروفیسر شیلڈن پولاک نے واضح کیا ہے، میں اس سے بہتر طور پر نہیں کرسکتا۔ پروفیسر صاحب ہندوستانی دانش کی تاریخ پر ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
"سائنس اور اسکالر شپ کے متعلق ، خصوصاً دور جدید کے ابتدائی دنوں میں مختلف علوم کی تاریخ کے متعلق گہری تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ مخطوطات کی لائبریریوں کی لائبریاں یوں ہی پڑی ہیں جن کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ایسا کیوں ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب ان مخطوطات کو پڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ ہی کم ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے علماء کی کمی جدیدیت اور نوآبادی نظام کے بدترین نتائج میں سے ایک ہے، اگرچہ اس بارے میں بات بہت کم کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی اس کے علاوہ اور وجوہات بھی ہیں جن میں سے ایک مستشرقین کا یہ رومانوی نظریہ بھی ہے کہ کسی بھی ہندوستانی مصنوع، کتاب یا خیال کی اہمیت و وقعت اس کی قدامت سے طے ہوتی ہے۔ اسی طرح نوآبادیاتی دور کا یہ بیانیہ بھی، جس کو برطانوی سامراجی منصوبے کے تحت شروع کیے جانے والے ‘مہذب بنانے‘ اور ‘جدید بنانے‘ کے پراجیکٹ میں بنیادی حیثیت حاصل تھی، کہ ہندوستانی تہذیب 1800ء سے پہلے ہی زوال آشنا ہوچکی تھی اس صورتِ حالات کا ذمہ دار ہے۔ اس کا ایک مظہر وہ تحقیر اور بے اعتنائی ہے جس کے ساتھ’دیسی ‘ علماء نے اپنے سامراجی آقاؤں کی طرح عظیم ہندی لٹریچر کو ٹھکرایا ہے۔‘‘
یہ بیانیہ نوآبادیاتی استشراقی افسانے کے طور پر شروع ہوا جو اب ایک طرح کے نواستشراقی مظہر کے طور پر اپنے ماضی سے کٹ جانے والے لوگوں میں رائج ہوگیا ہے۔ اس تناظر میں میرے خیال میں اب مسلمانوں کے پاس صرف دو ہی انتخابات ہیں۔ یا تو وہ یہی استشراقی راگ الاپتے ہوئے اپنی بیماری کی غلط تشخیص کرتے اور اس طاقتور افسانے کے زورپر شدت پسندی کی پرورش کرتے رہیں یا پھر وہ اپنی زبانوں کو ازسر نو زندہ کریں، ایسے تاریخ دان پیدا کریں جو اصل مصادر میں غواصی کرسکیں ، ایسے فلسفی پیدا کریں جو سطحی ثنائیات سے آگے بڑھ کر مہارت اور خلوص کے ساتھ ان مباحث کو آگے بڑھا سکیں۔ اگر ایسا ہو سکے تو تبھی شاید مسلمان تاریخ کے نام پر سنی ہوئی کہانیوں کو ازسر نو لکھنے اور اپنے پیچیدہ مسائل کے حل دریافت کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے۔
(بشکریہ http://daanish.pk/2582)

علمِ سماجیات : دعوت نامے کی باز طلبی؟

پیٹر برجر

ترجمہ: عاصم بخشی

زندگی کے اس موڑ پر ایک ماہر سماجیات کے طور میرے تشخص میں ایسا کچھ خاص داؤ پر نہیں لگا ہوا۔ اگر علمی تخصص کی بابت پوچھا جائے تو میں خود کو ماہر سماجیات ہی کہوں گا، لیکن اِس تخصیص کا اِس سے کچھ خاص لینا دینا نہیں جو میں کرتا ہوں یا خود کو سمجھتا ہوں۔ میں اِس علمی دائرے سے منسلک محققین کے کام پر سرسری توجہ ہی دیتا ہوں اور یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ بھی میرے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال کچھ ایسی بری بھی نہیں۔لیکن مجھے کبھی کبھار یاد آتا ہے کہ میں اپنی پرجوش جوانی میں دوسروں کو کافی جذباتی انداز میں اپنی تحریروں (جو خوش قسمتی سے آج بھی اشاعت میں ہیں) اور تدریس سے علم سماجیات کی دعوت دیتاتھا۔ کیا مجھے اپنے اس عمل پر پشیمان ہونا چاہئے؟ کیا مجھے متانت سے دعوت کے منسوخ ہونے کا اعلان کر دینا چاہئے تاکہ ایک دیوالیہ ادارے کا رخ کرتے مزید معصوم طلباء کی گمراہی کا الزام مجھ پر نہ لگے؟ میرا خیال ہے کہ ان دونوں سوالوں کا جواب ایک شکستہ دل سی ’’نہیں‘‘ ہے۔ ’’نہیں‘‘ کیوں کہ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ و ہ علم سماجیات جس کی میں نے کبھی وکالت کی تھی آج بھی اتنا ہی مستند ہے ، اور’’ شکستہ دل‘‘ کیوں کہ خود کو ماہر سماجیات کہنے والے بہت سے لوگ واقعتا یہ نہیں کر رہے۔ کیا ان حالات کے بدلنے کا کوئی امکان ہے؟ شاید نہیں جس کی محکم سماجیاتی وجوہات ہیں۔تاہم اس سے پہلے کہ علاج کے امکانات کا جائزہ لیا جائے، واضح تشخیص ضروری ہے۔
یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ ایک عظیم اور تیزرفتار تبدیلیوں کا دور ہے۔ یہ محض اس وسیع قلب ماہیت کا ایک سرعت پذیر دور ہے جو پہلے یورپ اور پھر تیز رفتاری سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جدیدیت کا بہاؤ تھا۔یہ یاد دہانی چشم کشا ہے کہ علم سماجیات اس عظیم بہاؤ کے کسی نہ کسی حد تک فہم اور اس پر ممکنہ طور پر قابو پانے کی کوشش کے نتیجے میں وضع ہوا۔ یہ صورتِ حال واضح طور پر ان تین ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں واضح طور پر علم سماجیات کے تین ممیز روایتی دھارے ظہور میں آئے، یعنی فرانس، جرمنی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ۔ جدیدیت کا فہم بلکہ شاید اس کو قابو میں لینے کی خواہش! کیا ہی رعب دار تجویز ہے! لہٰذا اس میں حیرا نی کی کوئی بات نہیں کہ اولین سماجی گرو قابل رشک ذہنی اور زیادہ تر مثالوں میں انفرادی صلاحیتیں رکھنے والے اہل علم تھے۔ کئی علمی نسلوں بعد آنے والے متاخرین سے اسی قسم کی قابل موازنہ خصوصیات کی توقع خام خیالی ہو گی۔ لیکن کم از کم فکری رویوں میں ایک مخصوص تسلسل کی توقع تو کی جا سکتی ہے، یعنی ماہیت نہیں تو کم از کم ایک قسم کا جوہری تسلسل ہی سہی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ منظر نامہ ایسا ہی ہے۔اپنے کلاسیکی دور یعنی تقریباً ۱۸۹۰ سے ۱۹۳۰ کے درمیان علمِ سماجیات نے زمانے کے ’’عظیم سوالوں‘‘ سے تعلق رکھا، لیکن آج یہ زیادہ تر ان سوالوں سے کتراتا نظر آتا ہے اور جب نہیں کتراتا تو انہیں بہت مجرد انداز میں موضوع بناتا ہے۔
کلاسیکی ماہرین سماجیات اپنی خواہشات و تعصبات سے اوپر اٹھ کر سماجی منظرنامے پر ایک معروضی نظر ڈالنے میں بہت محتاط تھے(جس کی تعریف میکس ویبر نے اپنے بدنامِ زمانہ تصور ’’آزاد قدری‘‘ سے کی)، جب کہ آج ماہرین سماجیات کی ایک بڑی تعداد بہت فخر سے اپنی غیر معروضیت یعنی حزبی فرقہ واریت کا اعلان کرتی ہے۔ ایک زمانے میں امریکہ میں علم سماجیات ٹھوس تجربیت پسندی کی فضا پیدا کرنے پر مائل تھا جسے لوئس ورتھ نے ’’تحقیق سے اپنے ہاتھ میلے کرنے‘‘ سے تشبیہ دی اور جسے ایک سماجیاتی قوتِ شامہ بھی کہا جا سکتا ہے۔آج زیادہ تر ماہرین سماجیات اپنی تحقیق کی مجرد عفونت ربا خاصیت پر فخر کرتے ہیں جو نظری معاشیات کے ماڈل وضع کرنے جیسی ہے۔تعجب ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے کبھی کسی جیتے جاگتے انسان کا انٹرویو لیا یا کسی سماجی تقریب میں ذوق و شوق سے شرکت بھی کی۔ 
کہاں کیا غلط ہوا؟ اور کیا اب بھی یہ صورتِ حال سدھارنے کے لئے کچھ کیا جا سکتا ہے؟ میں اعتماد سے کوئی مستند تشخیص یا علاج پیش کرنے سے قاصر ہوں۔ نہ ہی یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اس تمام عرصے میں علم سماجیات کو لاحق عارضوں سے خود بھی محفوظ رہ سکاہوں۔لیکن کامل تشخیص نہ سہی، میں ایک امید افزا علاج کی اپنی سی کوشش ضرور کروں گا تاکہ کم از کم بیماری کی علامتوں کا کچھ بیان ممکن ہو سکے۔ اور میں یہ کام چار ایسی اہم واقعاتی تبدیلیوں کے تناظر میں کروں گا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد رونما ہوئیں۔ ان میں سے ہر ایک تبدیلی نے اگر تمام نہیں تو زیادہ تر ماہرین سماجیات کو حیران کر کے رکھ دیا۔ یہی نہیں بلکہ ان تبدیلیوں کے واضح طور پر منصہ شہود پرآنے کے بعد ماہرین سماجیات کسی سماجیاتی تناظر میں ان کے فہم او ربیان سے قاصر رہے۔ ان تبدیلیوں کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سماجیاتی تھیوری کی ان کے ادراک یا پیشین گوئی میں ناکامی اسی بات کی علامت ہے کہ کوئی نہ کوئی اہم بگاڑ ضرور واقع ہوا ہے۔

پہلی مثال:

۱۹۶۰ کے اواخر اور ۷۰ کے اوائل میں اہم مغربی صنعتی معاشروں میں ایک ثقافتی اور سیاسی زلزلہ برپا ہوا۔ سب کچھ بہت اچانک تھا۔ رسمی سماجیات کی عینک سے دیکھا جائے تو یہاں ایک عاجز کر دینے والا سوال سامنے آیا: کیسے ممکن ہے کہ روئے زمین پر بلکہ پوری تاریخ میں سب سے زیادہ خوش حال افراد اسی سماج کے خلاف تشدد پر آمادہ ہوں جس نے انہیں خوش حال کیا؟ اگر ہم امریکی سماجیات کی جانب دیکھیں تو اس وقت بھی آج کل کی طرح کئی کالجوں کے نصاب میں یہی قضیہ پڑھایا جاتا تھا کہ لوگ خوش حالی کے ساتھ زیادہ قدامت پسند ہو جاتے ہیں۔ یہ قضیہ شاید مذکورہ بالا واقعے تک بہت مستند ہو۔ لیکن اس سیاسی و ثقافتی زلزلے کے بعد یقیناًدرست نہیں رہا اور آج بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس سیاست و ثقافت دونوں میں ’’ترقی پسند‘‘ تحریکیں سماجی طور پر خوش حال بالا مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں یعنی نیا بایاں بازو، سیاست نو کے دھارے، جنگ مخالف، حقوقِ نسواں ، ماحولیات اور سبز نظریات کی تحریکیں وغیرہ۔ دوسری طرف، چاہے ان کے روحِ رواں رانلڈ ریگن، مارگریٹ تھیچر یا ہیلمٹ کوہل ہوں، نئی قدامت پسند تحریکوں نے خود کو زیریں مڈل کلاس اور محنت کش طبقات کے ایسے دھارے سے منسلک کیا جو ساتھ ہی ساتھ ایک چارو ناچار پرانی قدامت پسند اسٹیبلشمنٹ کو بھی گھسیٹ رہا تھا۔ امریکہ میں (اسی قسم کے ردعمل برطانیہ اور اس وقت کے مغربی جرمنی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں) پرانی طرز کے مضافاتی کلب رپبلی کنز نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے غیر ترقی یافتہ علاقوں کے اناجیلی مبلغین، ثقافتی غضب سے بھرے ہوئے مقامی لوگوں، اسقاطِ حمل کے مخالفین اور کئی دوسرے نام نہاد سماجی طبقات سے مصافحہ کیا۔ دوسری طرف مڈل کلاس کے انتہا پسند مفکرین نے اگر ثقافتی نہیں تو سیاسی طور پر خود کو اپنی نظریاتی وابستگی سے منسلک’’محنت کش عوام‘‘ کے ساتھ نہیں بلکہ نچلے ترین طبقات کے نام نہاد نمائندوں اور دوسرے حاشیائی طبقات کے ساتھ کھڑا پایا۔ 
مجھے آج بھی بروکلن کے مضافات کا ایک منظر بخوبی یاد ہے جہاں ہم ساٹھ کی دہائی کے وسط سے ستر کے اواخر تک رہے۔ یہ علاقہ تیزی سے اشرافیہ میں تبدیل ہو رہا تھا (ہم اس تبدیلی کا حصہ تھے) یعنی ایک مقامی محنت کش طبقہ ایک پیشہ ور بالا مڈل کلاس میں ڈھل رہا تھا۔ گلی میں تقریباً ہر گھر میں اس زمانے کی سیاسی سنجیدہ روی کے مطابق امن کے اشتہار چسپاں تھے جیسے ’’امریکہ ، ویت نام سے باہر‘‘، ’’جنگ نہیں محبت‘‘، ’’وہیل مچھلیوں کو بچاؤ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ صرف ایک استثناء تھا: ایک گھر نے اس قسم کے پیغام لگا رکھے تھے کہ ’’ ویت نام میں فوجیوں کی ہمت بندھاؤ‘‘، ’’اپنی مقامی پولیس کا ساتھ دو‘‘ اور ’’بندوقوں کا نہیں کمیونسٹوں کا اندراج کرو‘‘۔ اس گھر میں ایک عمر رسیدہ معذور اور رنڈوا پرانا فوجی رہتا تھا۔ ایک دن اس آدمی کو بے دخل کر دیا گیا۔ سپاہی آئے اور ا س کا سامان گلی میں رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد اسے بھی اپنی وہیل چیئر پر بٹھا کر ایک امریکی فوجی ٹوپی پہنے گلی میں چھوڑ دیا گیا۔ اس کے کچھ دوست اسے ساتھ لے گئے اور پھر اس کا سامان بھی کسی گاڑی میں کہیں چلا گیا۔ اگلے ہی ہفتے اس گھر میں کچھ نئے لوگ آ گئے۔ فوراً کھڑکیوں میں امن کے پیغامات لگا دیے گئے۔
آج کا رائج نظریہ یہ ہے کہ’’ساٹھ کی دہائی کا آخر‘‘ تاریخِ رفتہ ہے جو بس یادِ ایام کی بازگشت کے طور پر واپس لوٹ آیا ہے۔یہ صریحاً ایک غلط تعبیر ہے:ساٹھ کی دہائی کا آخر محو نہیں ہوا بلکہ سیاسی اور ثقافتی دونوں طریقوں سے ایک اداراتی صورت میں ڈھل گیا ہے۔ اس تبدیلی کی کسی حد تک ایک نیم مؤثر سماجیاتی وضاحت وہ نام نہاد ’’نئی طبقاتی تھیوری ‘‘ تھی جو ستر کی دہائی میں ایک مختصر سے عرصے کے لئے منظر عام پر آئی اور اس کے بعد سے تقریباً فراموش کر دی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وضاحت بائیں اوردائیں بازو کی دونوں تعبیرات رکھتی ہے جو بالترتیب ایلون گولڈنر اور ارونگ کرسٹول نے پیش کیں۔ دونوں تعبیرات ہی کلی طور پر حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں اور ترقی یافتہ صنعتی معاشروں کے لیے طبقاتی سماجیاتی تھیوری کی تشکیل نو ایک کٹھن چیلنج ہے۔ لیکن یہاں میرے پیش نظر یہ مسئلہ نہیں۔ہمارا سوال یہ ہے کہ ماہرین سماجیات کس طرح اتنے عظیم مظہر کے ادراک سے بے خبر رہے؟ شاید کسی حد تک یہ جانے مانے روایتی سماجیاتی مناہج کو تبدیل کرنے کی جھجک ہے۔
بائیں بازو کے سماجیاتی مفکرین نے خاطر خواہ ناکامی سے کوشش کی کہ اس سماجی مظہر کو’’مڈل کلاس کی پرولتاریت‘‘ جیسے مارکسی مقولات میں سکیڑ دیا جائے۔ ہمارے کچھ ’’بورژوا‘‘ ہم عصروں نے ’’منصبی سیاست‘‘ کے بارے میں کچھ بڑبڑانے کی کوشش کی۔لیکن شاید سب سے بہتر تعبیر یہی ہے کہ زیادہ تر سماجی مفکرین خود بھی اسی مظہر کا ایک حصہ تھے۔ اس زمانے میں اس پیشے کو اپنانے والی نسل جو آج تدریسی وابستگی کی ایک عمر گزار چکی ہے، سینوں پر امن کے چمکتے تمغے چپکائے پھر رہی تھی۔ ان کے لئے یہ حق و باطل کی جنگ تھی اور آج بھی ہے، گو اب سیاسی سنجیدہ روی کی علامات کسی حد تک جگہ بدل چکی ہیں۔ چاہے وہ پیشہ ور ماہرین سماجیات ہی کیوں نہ ہوں، لوگ اپنی وابستگیوں کی سماجیاتی وضاحتیں قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ باالفاظِ دیگر، اس تبدیلی کے ادراک کی حد تک علم سماجیات کی ناکامی کی وجہ نظریاتی اندھیارے ہیں۔ 

دوسری مثال:

آج کی دنیا میں ایک بنیادی پیش رفت جاپان اورمشرقی ایشیا کے دوسرے ممالک کی تیز رفتار معاشی سبقت ہے۔ یہ محض نہایت تیزرفتاری سے برپا ہونے والا ایک عظیم معاشی معجزہ نہیں بلکہ غیر مغربی سماجی سیاق و سباق میں کامیاب جدیدیت کا وہ پہلا واقعہ ہے جو ماہرین سماجیات کے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث ہونا چاہیے۔ میں کچھ عرصے سے یہی استدلال پیش کر رہا ہوں کہ یہ سرمایہ دارانہ جدیدیت کا دوسرا واقعہ ہے جو یقیناًفی نفسہ اپنے اندر بہت سے دلچسپی کے سامان تو رکھتا ہی ہے لیکن جدید سماج کے نظری تناظر میں مزید اہمیت رکھتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ جاپان خود اپنی خاطر نہیں بلکہ ہماری خاطر ہی فہم کا تقاضا کرتا ہے۔یہ بھی بالکل غیر متوقع واقعہ تھا۔ پچاس کی دہائی میں جب جدیدیت کی تھیوری تشکیل پا رہی تھی، اگر اس کے وکلاء سے یہ سوال کیا جاتا کہ معاشی ترقی کے اعتبار سے کون سا ایشیائی ملک سب سے زیادہ کامیابی کا احتمال رکھتا ہے تو گمان یہی ہے کہ جواب فلپائن ہوتا جو کہ اب اس خطے کے سرمایہ دارانہ حصے میں واحد معاشی حادثہ ہے۔ اس زمانے میں ہونے والی ایک کانفرنس میں، جسے آج کچھ مندوبین ذرا اضطراب سے یاد کرتے ہیں، ایک وسیع اتفاق ظاہر کیا گیا کہ کنفیوشی مذہب کوریائی اور چینی سماج کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج اس ثقافتی ورثے کو مشرقی ایشیائی معاشی کامیابی کی ایک علت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
جدیدیت کی تھیوری ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں متزلزل ہو گئی تھی جب اسے عمومی طورتحقیر کی نیت سے مغربی سامراج کا نظریہ کہا جاتا تھا۔ اس عرصے میں بائیں بازو کے ماہرین سماجیات نام نہاد نظریہ انحصاریت کو وضع کرنے میں مصروف تھے جس کی رو سے سرمایہ داریت ناگزیر طور پر پسماندگی کے تسلسل کو بڑھاوا دیتی ہے، ظاہر ہے کہ جس کا حل اشتراکیت ہے۔ یہاں تجربے اورنظریے میں ایک اوٹ پٹانگ سی ہم عصری پائی جاتی ہے۔ عین اس وقت جب سرمایہ دارانہ مشرقی ایشیا ایک عظیم معاشی ترقی اور خوشحالی کے دور سے گزر رہا تھا اور ہندچین تا جزائر غرب الہندتمام اشتراکی معاشرے ایک مایوس کن ٹھہراؤ میں دھنس رہے تھے ، زیادہ سے زیادہ ماہرین سماجیات ایک ایسے نظریے کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے جس کے مطابق حالات الٹ ہونے چاہئے تھے۔ مزاحیہ ترین تقریب جس میں کچھ سال قبل شریک ہونے کا اتفاق ہوا، زمانہ جدید کے ایک عظیم معاشی معجزے تائیوان میں ہونے والی ایک کانفرنس تھی۔کانفرنس تائیوان کے بارے میں تھی یعنی اسے کیسے سمجھا جائے۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر مدعو کئے جانے والے زیادہ تر امریکی اہل علم ایسے انحصاریت پسند مفکرین تھے جو اس سے قبل لاطینی امریکہ میں سرگرمِ عمل رہ چکے تھے۔ وہ پوری دلیری سے تائیوان کے واقعات کو اپنے نظرئیے میں گھسیڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کانفرنس کی سب سے بڑی نظری کامیابی ’’منحصر ترقی‘‘ کا ایک تصور تھا جو قیاساً تائیوان کی صورت حال کی وضاحت کر تاتھا۔یہ بات تو خیر قابل فہم ہے کہ اس سے قبل لاطینی امریکہ سے باہر کی دنیا کے بارے میں نا تجربہ کار نومارکسیوں نے شاید اسے معقول مان لیا ہو، لیکن ان سر ہلاتے تائیوانی سماجی سائنسدانوں کو کیا کہا جائے جن کے سامنے dependencia کا مستشرقی ترجمہ پیش کیا جا رہا تھا۔ ایک ممکنہ وضاحت یہ ہے: جہاں انحصاریت پسندی کا نظریہ عالمی معاشیات کے تناظر میں بری طرح رد کیا جا چکا ہے، وہاں شاید عالمی ثقافت کے تناظر میں اس کی کوئی پیش گویانہ قدر وقیمت باقی ہو، آخر ’’دنیائے اولیٰ ‘‘ کے مفکرین کے پاس اعلیٰ و ارفع وسائل اور سرپرستیاں ہوتے ہوئے کم ترقی یافتہ ملکوں میں ان کا ایک ’’نمائندہ طبقہ‘‘ وجود میں آ ہی جاتا ہے۔ 
سچ پوچھیے تو میرا دوسرا دعویٰ ہر گز دعویٰ اول جیسا نہیں کیوں یہاں ماہرینِ سماجیات کی جانب سے مسئلے کو سمجھنے کی قرار واقعی کوشش کی گئی ہے گو وہ اس کی پیشین گوئی میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مذکورہ بالا مابعد کنفیوشیائی مفروضہ پہلے پہل ماہرین سماجیات کی جانب سے ہی وضع کئے جانے کے بعد خطے اور خطے سے باہر کے ماہرین سماجیات کے درمیان خاطر خواہ علمی مباحث کا موضوع رہا ہے۔ بایاں بازو تو ظاہر ہے اپنی نظریاتی وجوہات کے باعث اس بحث میں شریک نہیں ہوا، لیکن بائیں بازو سے تعلق نہ رکھنے والے ماہرین سماجیات بھی اس میں کچھ خاص حصہ لیتے نظر نہیں آئے سوائے ان کے جو خطے کے معاملات پر تخصیص رکھتے ہیں۔ ایک اور اہم کام نئی غیر مغربی جدیدیت سے حاصل شدہ بصیرت کی بنیاد پر میکس ویبر سے ٹیلکوٹ پارسنز تک پہنچتے جدید سماج کے تصور میں تبدیلی ہے۔
یہ یقیناًایک بہت ’’عظیم سوال‘‘ ہے۔ لیکن یہ ان لوگوں کے مزاج کے موافق نہیں جن کا تناظر شدید قوم یا نسل پرستانہ ہو اور وہ ایسے ضوابط سے منسلک ہوں جو ’’عظیم سوالات‘‘ سے سروکار نہیں رکھتے۔آج کلاسیکی قسم کے علم سماجیات کی ضرورت ہے جس کی بنیادیں تاریخ کے علم میں ہوں ، جو اپنے ضابطوں میں لچک رکھتا ہو اور ایک ایسی وسیع المشرب روح رکھتا ہو جو ہمہ وقت انسانی زندگی کے مظاہر کے بارے میں متجسس رہے۔ ظاہر ہے اس قسم کے ماہرین سماجیات تو ذرا مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت اور صلے کا نظام چالاکی سے ( چاہے غیر ارادی ہی سہی) اس طرح وضع کیا گیا ہے کہ اس قسم کے ماہرین نہ ابھر سکیں۔ 

تیسری مثال:

ایک اور تھیوری جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پختہ معلوم ہوتی تھی، سیکولرائزیشن کی تھیوری تھی۔ مختصراً دیکھا جائے، اس کے مطابق جدیدیت اپنے ساتھ انسانی زندگی میں سماجی اداروں اور انفرادی شعور کی دونوں تہوں پر مذہب کا تنزل لاتی ہے۔ مغربی فکر میں اس تصور کی تاریخ طویل ہے جو کم از کم زیادہ دور نہیں تو اٹھارہویں صدی کی تنویری(یا روشن خیالی ) تحریک تک ضرور جاتی ہے۔ لیکن اگر مکمل غیرجانبدار ہو کر دیکھا جائے تو اسے مذہبی سماجیات بالخصوص یورپ کے ماہرین کی تحقیقی کاوشوں سے ہی قوت ملی۔ خام قومی پیداوار میں بڑھوتری اور خداؤں کے تنزل کے درمیان متوقع مطابقتوں کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر تعمیر کی گئی جدیدیت اپنے ساتھ ایک ایسی حددرجے معقولی سوچ لائی جس کے نزدیک دنیا کی غیرمعقولی مذہبی تعبیرات فی زمانہ نامعتبر ٹھہری تھیں۔ 
مذہب کی غیرمعقولیت کے اس قابل اعتراض مفروضے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ذرا آگے بڑھئے جو یقیناًتنویری فلسفے پر قائم ہے۔ گمان غالب ہے کہ یہ تھیوری تجرباتی شواہد پر قائم کی گئی تھی، لہٰذا اس کی تردید بھی تجرباتی بنیادوں پر ممکن تھی۔ سن ستر کے اواخر تک بہت شدت سے اس کی تردید کی جا چکی تھی۔ لیکن پھر یہ معلوم ہوا کہ اس تھیوری میں شروع دن سے ہی کچھ خاص تجرباتی مواد نہیں تھا۔ یہ درست تھی اور آج بھی درست ہے، لیکن دنیا کے صرف ایک خطے یعنی یورپ کے لئے، اس کے علاوہ کچھ بکھرے ہوئے خطے جیسے کیوبک جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سیکولرائزیشن کے ایک حیران کن دور سے گزرا، اور اس کے علاوہ ہر جگہ پھیلا ہوا مغربی تعلیم یافتہ مفکرین کا ایک چھوٹا سا طبقہ۔باقی تمام دنیا اسی جوش و جذبے کے ساتھ مذہبی ہے جیسے کبھی بھی تھی اور غالباً بیسویں صدی کے اوائل سے تو زیادہ ہی ہے۔ 
ستر کی دہائی کے اواخر میں پیش آنے والے دو واقعات اس حقیقت کو عوام کے سامنے لائے۔ امریکہ میں تو پچاس کی دہائی کے الموسوم مذہبی احیاء اور ساٹھ کی دہائی کی برعکس ثقافت (counter culture) نے اس تھیوری پر اعتراضات کھڑے کر دیے،گو مذہبی سماجیات کے ماہرین اول الذکر کو مبہم طور پر مذہبی اور آخر الذکر کو ضمنی طور پر مذہبی گردانتے رہے۔ جس واقعے نے اس تھیوری کو بالکل ناقابل دفاع کر دیا، وہ ا ناجیلی جوش و جذبے کا احیاء تھا جو پہلے پہل جمی کارٹر کی امیدواری اور کچھ عرصہ بعد’’اخلاقی برتری ‘‘ کے غوغے اوراسی قسم کے دوسرے طبقات کے ظہور سے سامنے آیا۔ اچانک یہ ظاہر ہوا کہ فکری ماحول میں نمایاں نہ ہونے کے باوجود امریکی سماج میں لاکھوں حیاتِ نو یافتہ عیسائی ہیں جو خطر انگیز طور پر بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں جب کہ کلیسا کے مرکزی دھارے ایک گہرے آبادیاتی تنزل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مذہبی جوش و جذبے کے اس مظہر نے ایک مزید بنیادی حقیقت پر روشنی ڈالی: امریکہ اور یورپ مذہبی خدوخال میں ہی تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ 
امریکہ سے باہر جسے واقعے نے جدیدیت کو سیکولرائزیشن سے جوڑنے والی تھیوری کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ، وہ ایرانی انقلاب تھا۔ ایک بار پھر ایک ایسا عظیم واقعہ رونما ہوا جو نظری طور پر خارج از امکان تھا۔اس وقت سے دنیا میں قسم قسم کے مذہبی احیاء رونما ہو رہے ہیں۔ نوروایتی یا بنیاد پرست اور پروٹسٹنٹ مذہبیت اور اسلام عالمی منظر نامے پر منعقد ہونے والے دو بڑے کھیل ہیں، لیکن دنیا میں تقریباً ہر مذہبی روایت نے کم و بیش اسی قسم کی حیاتِ نو کی تحریکیں برپا کی ہیں۔ اور رنگا رنگ سماجیاتی مفکرین مسلسل ورطہ حیرت میں ہیں۔ 
میرا ایران کا واحد دورہ اس واقعے اسے دو سال قبل تھا۔ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر دانشوروں سے ہی ملاقاتیں رہیں جن میں سے زیادہ تر شاہ کی حکومت سے دل سے نالاں تھے اور اس کے جانے کے منتظر تھے۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ یہ سب کچھ اسلامی سرپرستی میں ہو گا۔ نہ ہی کہیں خمینی کا نام تک سنائی دیا۔تقریباً اسی وقت جب میں ایران کے دورے پر تھا، بریجٹ برجر دروس کے سلسلے میں ترکی میں تھیں، ایک ایسی جگہ جہاں وہ پہلے کبھی نہیں گئی تھیں اور نہ ہی وہاں کی زبان سے واقف تھیں۔ استنبول میں انہیں کئی گاڑیوں اور گلی کی مساجد کی دیواروں پر سبز جھنڈے لگے نظر آئے جو ان کے خیال میں کسی اسلامی تہوار کی مذہبی علامتیں تھی۔ جب انہوں نے اس مشاہدے میں اپنے ترک میزبانوں کو شریک کیا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ یا تو انہوں نے یہی اصرار کیا کہ انہیں کوئی غلطی لگی ہے کہ آج کل کوئی مذہبی تہوار وغیرہ منعقد ہو رہا ہے یا پھر یہ کوئی غیر اہم سا چھوٹا موٹا مظاہرہ ہو گا۔یہ تمام سماجیاتی سائنسدان جو زیادہ تر سیکولر دانشور تھے، ایک بار پھر اپنی آنکھوں کے سامنے موجود حقیقت کو دیکھنے میں ناکام رہے کیوں کہ اس کے ظہور کی کوئی توقع نہیں تھی۔ 
ماہرین سماجیات کو عصر حاضر کی دنیا کے شدید مذہبی رجحان سے مطابقت پیدا کرنے میں کافی مشکل پیش آئی ہے۔ چاہے سیاسی تناظر میں بایاں بازو ہو یا نہیں، مذہب کی مد میں یہ نظریاتی مغالطوں میں گرفتار رہتے ہیں اور پھر یہی رجحان ہوتا ہے کہ ایک ایسے سماجی مظہر کی فوراً کوئی وضاحت پیش کر دی جائے جس کی وضاحت ممکن ہی نہیں۔ لیکن نظریاتی وابستگی کے علاوہ تنگ نظری بھی اہم عوامل میں سے ایک ہے۔ ماہرین سماجیات حقیقی سیکولر ماحول یعنی علمی درسگاہوں اور پیشہ ورانہ علمی صنعت سے متعلقہ دوسرے اداروں کے باسی ہوتے ہیں ، لہٰذا یوں لگتا ہے کہ وہ سماجی علوم میں غیر تربیت یافتہ لوگوں کی طرح ہی اس عمومی غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ دنیا پر اپنی ننھی سی نکڑ سے نظر ڈال کر ایک عمومی سماجی منظرنامہ تشکیل دیا جائے۔ 

آخر میں چوتھی مثال:

یہ سوویت سلطنت کے ڈھیر ہو جانے کا عظیم واقعہ تھا اور کم از کم فی الحال یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ عالمی منظرنامے پر بطور ایک حقیقت اور بطور ایک تصور بھی اشتراکیت کا ڈھیر ہو جانا ہے۔ اس عظیم تاریخی واقعے کی شروعات تک ابھی ماضی قریب ہی کی بات ہیں اور نتائج اب تک نہایت سرعت کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ لہٰذا کسی کو بھی اس کی وضاحت کے لئے کوئی معقول تھیوری پیش نہ کرنے کا دوش دینا ناانصافی ہو گی۔ ماہرین سماجیات کو علیحدہ کر کے موردِ الزام ٹھہرانا بھی اتنی ہی بڑی ناانصافی ہو گی کیوں کہ تقریباً کسی نے بھی اس کی توقع نہیں کی تھی (بشمول سند یافتہ ماہرین سماجیات کے جتھوں کے) اور ہر کوئی کسی بھی معقول نظری ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے اس کے فہم کی مشکل سے نبرد آزما ہو رہا ہے۔پھر بھی یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ماہرینِ سماجیات ،یہاں تک کہ و ہ بھی جو اس خطے کے معاملات پر متعلقہ مہارت رکھتے ہیں، اس واقعے کی پیشین گوئی میں کسی سے بھی بہتر نہیں تھے اور نہ ہی اب اس کے فہم میں کسی سے افضل ہیں۔ تعجب ہے کہ آنے والے سالوں میں وہ کیا کریں گے۔
بائیں بازو والے بھی اس نظریاتی طبقے میں موجود دوسروں کے ساتھ یقیناًاس عمومی ابہام (اسے ایک ’’گیانی عدم رسمیت ‘‘ کیوں نہ کہہ لیں؟) میں شریک ہیں۔ بائیں بازو سے متعلق ان دانشوروں کو چھوڑ دیجئے جن کے خیال میں سوویت یونین اور اس کے نقال کسی اخلاقی فضیلت کے حامل تجربے میں مشغول تھے۔غلطیاں وغیرہ تو ہوئیں، لیکن یہ مفروضہ تو قائم تھا کہ ایک ناقص اشتراکیت بھی کم از کم سرمایہ دارانہ نظام سے زیادہ امید رکھتی ہے جو ان کے دعوے کے مطابق لاعلاج طور پر گلا سڑا ہواہے۔ لیکن بائیں بازو کے وہ لوگ بھی جو بہت عرصہ قبل سوویت تجربے سے وابستہ تمام امیدیں ترک کر بیٹھے تھے، مسلسل افق پر اس ’’حقیقی اشتراکیت‘‘ کی تلاش کر رہے تھے جو کسی نہ کسی وقت نمودار ہونی ہی تھی کیوں کہ یہ منطقِ تاریخ کی مشیت ہے۔ یہ صرف قلبی جھکاؤ کی بات نہیں تھی بلکہ یہ ذہن تھا جو اپنے بنیادی ادراکی مفروضوں میں بائیں جانب تھا۔ اور سب سے بنیادی تو یہی مفروضہ تھا کہ تاریخ کا سفر سرمایہ دارانہ نظام سے اشتراکیت کی جانب ہوا ہے۔ اب اشتراکیت سے سرمایہ دارانہ نظام کی جانب تبدیلی سے کیسے نمٹا جائے؟آج کل بائیں بازو کے مجلے یورپ اور دوسرے علاقوں میں پچھلے چند سال میں ہونے والی پیش رفت کی درد انگیز تعبیرات سے بھرے پڑے ہیں جن کی کثیر تعداد سامنے موجود منظرنامے کی تردید کی کوششوں سے عبارت ہے۔ مجھے بھرپور توقع ہے کہ ماہرین سماجیات نظریہ انحصاریت کے کہنہ مشق دستوں کی دلیر کمان میں اس سرگرمی میں پورے ذوق و شوق سے شریک ہوں گے۔ کیوں نہ ہم ایسے کسی اور زبردست تصور مثلاً ’’خود مختار پسماندگی‘‘ کی جانب پیش قدمی کریں جو کسی نہ کسی طرح تھیوری کو مشکل سے نکال لے؟
سوویت یونین کا بکھراؤ اور اشتراکیت کا عالمی بحران جدیدیت کے سماجیاتی فہم کے لئے ایک عظیم چیلنج ہے۔ پھر یہ صرف بائیں بازو کے ماہرینِ سماجیات نہیں جو اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ، یعنی وہ جو ان واقعات کی اپنے بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والے رفقاء کی بہ نسبت کچھ زیادہ پیشین گوئی نہ کر سکے۔ جس چیز کی ضرور ت ہے، وہ ایک ایسی فکر نو ہے جو جدید سماج میں معاشی، سیاسی اور سماجی اداروں کے بیچ تعلقات کو ازسر نو دریافت کرے۔ مجھے ایک پرانی کہاوت یاد آتی ہے جو آس پاس کی خوش مزاج دکانوں پر آج بھی لکھی نظر آ جاتی ہے، ’’اگر آپ کسی اور چیز کے قابل نہیں تو کم از کم ایک بری مثال کے طور پر تو پھر بھی کارآمد ہیں۔‘‘ سماجیاتی نظریہ بندی کے لئے ’’بری‘‘ مثالیں اتنی ہی مفید ہیں جتنی ’’اچھی‘‘۔ زیادہ دلچسپ سوال یہ نہیں کہ ’’وہ ‘‘ کیوں بکھر گئے بلکہ یہ ہے کہ ’’ہم‘‘ کیوں نہیں بکھرے۔ یہ ایک بنیادی نظری نکتہ ہے جس سے زیادہ تر سماجیاتی نظریہ بندی نے مسلسل صرفِ نظر کیا ہے۔ ’’مسئلہ‘‘ سماجی بدنظمی نہیں بلکہ سماجی نظم ہے، یعنی شادی نہ کہ طلاق، قانون کی پاسداری نہ کہ جرم، نسلی ہم آہنگی نہ کہ نسلی فساد وغیرہ۔ہم کسی شک و شبہ کے بغیر یہ فرض کر سکتے ہیں کہ جان رومین کی کارآمد عبارت ’’مشترکہ انسانی نمونہ‘‘ بے ایمانی ، تشدد اور نفرت ہے۔ انسانی فطرت کے ان مظاہر کو وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں سوائے شاید ماہرین حیوانیات کے۔ وضاحت کی ضرورت ان صورتوں میں ہے جن میں معاشرے حیرت انگیز طور پر ان فطری میلانات پر قابو پاتے ہیں اور انہیں مہذب کرتے ہیں۔ 
یہ مثالیں علم سماجیات کی کن بیماریوں کو ظاہر کرتی ہیں؟ چار علامات کی جانب اشار ہ ممکن ہے: تنگ نظری، فکری ناتوانی، عقلیت پسندی اور نظریاتی وابستگی۔ان میں سے ہر ایک معذور کر دینے والی ہے۔ ان کا مجموعہ ہلاکت خیز ہے۔ اگر عظیم کلاسیکی ماہرین سماجیات کے کام پر نظر ڈالی جائی جن میں میکس ویبر اور ایملی ڈرک ہائیم سرِ فہرست ہیں تو ویزلے کا مقولہ ذہن میں آ جاتا ہے کہ ’’دنیا میر اکلیسائی حلقہ ہے۔‘‘ کم ہی ماہرینِ سماجیات آ ج یہ دعویٰ کر سکتے ہیں اور جو کرتے بھی ہیں، و ہ شرمناک طور پر تاریخی سطحیت سے دوچار نظر آتے ہیں۔ 
زیر نظر معاملہ نفیس قسم کی کسی مخصوص وسیع المشربیت کی حمایت میں جانبداری سے کہیں بڑا ہے۔ اپنے سماج سے باہر ایک قدم نکالے بغیر ایک اعلیٰ ماہر طبیعات بننا ممکن ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ ماہر سماجیات کے لئے ایسا ممکن نہیں۔ اور اس کی وجہ بہت ساد ہ ہے۔ جدیدیت آج دنیا میں ایک عظیم تبدیلی لانے والی قوت ہے، لیکن یہ ہر جگہ جاری و ساری کوئی ایک سا میکانی ضابطہ نہیں۔ یہ مختلف شکلیں بدلتا ہے اور مختلف ردعمل پر اکساتا ہے۔ اسی لیے علم سماجیات یعنی ایک ایسی نوعِ علم جو جدیدیت کے فہم کے لئے بہترین ہے، بہرصورت تقابلی ہونی چاہیے۔ 
یہ یقیناًویبر کی بنیادی بصیرتوں میں سے ایک ہے اور آج بھی ہمیشہ کی طرح اتنی ہی معنی خیز۔ لہٰذا ماہرین سماجیات کو مغرب کو سمجھنے کے لئے جاپان پر نظر ڈالنی چاہئے، سرمایہ داریت کے فہم کے لئے اشتراکیت پر غور کرنا چاہئے، بھارت کو دیکھنا چاہئے اگر برازیل کو سمجھنا ہو، وغیرہ وغیرہ۔ سماجیات میں تنگ نظری کسی ثقافتی کمزوری سے کہیں زیادہ ہے، یہ تو ادراک کی معذوریوں کا باعث ہے۔ یہ کسی بھی ماہر سماجیات کی تربیت کا لازمی حصہ ہونا چاہئے کہ وہ ایک ایسے سماج کے بارے میں تفصیلی علم حاصل کرے جو اس سے حد درجہ مختلف ہو، ایک ایسی مہم جوئی جو یقیناًکئی طالبعلموں کو ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتی ہے: یعنی بدیسی زبانوں کا سیکھنا۔ 
فکری ناتوانی بھی تنگ نظر ی ہی کا ایک پھل ہے، لیکن سماجیات کی حد تک زیادہ اہم جڑ علمی ضوابط سے تعلق رکھتی ہے۔اس علمی میدان میں اس عارضے کی جڑیں کم از کم پچاس کی دہائی تک جاتی ہیں۔ طبعی علوم کی نقالی کرنے کی ایک بے کار اور نظری طور پر بے سمت کوشش میں ماہرین سماجیات نے تحقیق کے نت نئے اور پہلے سے زیادہ نفیس مقداری طریقے وضع کیے۔اس میں فی نفسہ تو کچھ غلط نہیں کیوں کہ آخر علمِ سماجیات کئی ایسے سوالوں سے متعلق ہے جن کے لئے سروے قسم کی تحقیق ناگزیر ہے اور مقداری طریقے جتنے بہتر ہوں گے، دریافت شدہ نتائج اتنے ہی معتبر ہوں گے۔ لیکن تمام سماجیاتی سوالات کے لئے یہ طریقہ موزوں نہیں اور کئی مسائل اس سے بہت مختلف تحلیلی تجزیے مانگتے ہیں۔ سائنسی بااصولیت کو مقداریت تک محدود کر کے سماجیات کا دائرہ اکثر بس ان سکڑے ہوئے موضوعات تک محدود کر دیا گیا جو مقداری طریقوں کے لئے موزوں ہیں۔ نتیجے میں پیدا ہونے والی فکری ناتوانی پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ 
ایک سائنس کے طور پر علم سماجیات عقلی استدلال ہی کی ایک کوشش ہے۔ لیکن یہ اس مفروضے سے بہت مختلف ہے کہ سماجی فعالیت عقلی استدلال کی راہنمائی میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ کلاسیکی سماجیات میں یہ بات اچھی طرح سمجھی جا چکی تھی، شاید سب سے زیادہ ڈرامائی انداز سے ول فریڈو پریٹو کے ہاں جو ریاضیاتی رجحان رکھنے والا ایک ایسا ماہر معاشیات تھا جو سماجیات کی جانب اپنی اسی دریافت کے باعث آیا کہ زیادہ تر انسانی افعال اس کے مطابق غیرمنطقی تھے۔ افسوس ہے کہ علم معاشیات نے تو اس بصیرت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور homo oeconomicus کے ایک شدید عقلی ماڈل کے تحت کام کرنے کو ترجیح دی۔ نتیجتاً حرکی پیشین گوئیوں کا تو ذکر ہی کیا، وہ تو بار بار معاشی منڈی کے فہم میں بھی ناکام ہوتی رہی۔ 
ماہرین سماجیات کی ایک بڑی تعداد معاشیات کی نقالی کرتے ہوئے ’’مبنی بر عقل فعالیت کے منہج‘‘ پر مبنی نظری نمونوں کو اپنی علمیات سے مطابقت دینے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ ہم اعتماد سے پیشین گوئی کر سکتے ہیں کہ اس رجحان کے فکری نتائج کافی حد تک معاشیات ہی سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جی ہاں، سماجیات ایک عقلی علم ہے جس طرح ہر ایک تجرباتی علم ہے۔ لیکن اسے اپنی عقلیت کو دنیا کی عقلیت سمجھ لینے کی ہلاکت خیز غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ 
یہ تنقیدیں کسی حد تک سی رائٹ ملز کی کتاب ’’سماجیاتی تخیل‘‘ سے مطابقت رکھتی ہیں۔ ملز نے ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں علم سماجیات کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والے نظریاتی طوفان کے بعد لکھا۔ ہم نہیں جان سکتے کہ اگر ملز ہمارے دور میں ہوتا تو کیا کرتا۔ نہ ہی ہم یہ جانتے ہیں کہ اس کے اتنے سارے قارئین خاص طور پر وہ جو اس کی تنقیدوں سے بہت متاثر ہوئے تھے، کیا کرتے۔ وہ مارکسی اور نیم مارکسی مفروضوں سے تشکیل پاتی ایک ایسی نظریاتی سراسیمگی کے عالم میں تھے جو سماجیات کی تمام بیماریوں کا علاج تجویز کرتی محسوس ہوتی تھی۔ اس نے ایک ایسا نظری رجحان پیش کیا جو یقیناً’’عظیم سوالوں‘‘ سے متعلق تھا ، یہ سب کچھ ایک بین الاقوامی تناظر (نظامِ عالم سے کم کوئی بات نہیں کی گئی) میں پیش کیا گیا، یہاں مقداری طریقوں کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ نہیں تھا اور آخری بات یہ کہ خود کو پوری طرح سائنسی مانتے ہوئے یہاں یہ بھی فرض کر لیا گیا کہ اپنے علاوہ تقریباً ہر کوئی ’’شعورِ باطل‘‘ لئے اِدھر اْدھر ڈگمگا رہا ہے۔ 
بدقسمتی سے ’’عظیم سوالوں‘‘ کے جواب غلط ثابت ہوئے اور دنیا نے تھیوری کے مطابق عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ مارکسزم کے خاتمے کا دعویٰ تو خیر قبل از وقت ہو گا ہی، یہاں تو کتنے ہی ایسے نیم مارکسی نظریات ہیں جو کامیابی سے کل مارکسی روایت سے مکمل طور پر کٹ کر ایک علیحدہ دھارا تشکیل دے چکے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں علم سماجیات کو نظریاتی لبادہ اوڑھانے کا بدترین نتیجہ یہ غیرمتزلزل اعتقاد ہے کہ معروضیت اور ’’اقداری آزادی‘‘ ناممکنات میں سے ہیں اور ماہرین سماجیات کو یہ جانتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر کسی نظریے کے وکلا کے طورپر اظہارِ رائے کرنا چاہیے۔
یہ سوچ صرف بائیں بازو تک محدود نہیں۔ علم سماجیات کے کلاسیکی دور کی طریقیاتی جھڑپوں، خاص طو ر پر جرمنی میں یہ دائیں بازو کے مفکرین ہی تھے جو پوری قوت کے ساتھ اس محاذ پر کھڑے تھے۔معروضیت کے ’’باطل آدرش‘‘ کا تریاق ’’جرمن سائنس‘‘ تھی اور سائنس کا سب سے شاندار مقدمہ جس شخصیت نے لڑا، وہ کوئی اور نہیں بلکہ مرحوم ڈاکٹر گوئبلز تھے :’’حق وہی ہے جو جرمن عوام کا مفاد ہے۔‘‘
جوں جوں امریکی فکر ی منظرنامے پر بایاں بازو تنزل کی جانب گامزن رہے گا، اور بالفرض اگر ایسا ہے تو دوسرے نظریات بھی یہی سوچ اپناتے نظر آئیں گے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو سائنس کو پروپیگنڈے میں بدل دیتی ہے اور جہاں جہاں اسے اپنایا جاتا ہے، وہاں یہ سائنس کے خاتمے کی علامت بن جاتی ہے۔ امریکی سماجی علوم میں تحریکِ نسواں اور تکثیری ثقافت کے علمبردار اس سوچ کے سب سے بڑے نمائندہ ہیں لیکن ہم توقع کر سکتے ہیں کہ اوروں کا ظہور بھی ہو گا۔ ان میں سے کچھ دائیں بازو کے بھی ہو سکتے ہیں۔ 
علم سماجیات کی حالت کی تشخیص کے لئے اسے علیحدگی میں نہیں دیکھنا چاہئے۔ اس کی علامات وہ ہیں جو عمومی طور پر ہی فکری منظرنامے کا حصہ ہیں۔ دوسرے سماجی علوم بھی کچھ خاص اچھی حالت میں نہیں۔ زیادہ تر معیشت دان اپنے عقلیت پسند مفروضوں کے قیدی ہیں اور ماہرین سیاسیات کا جمِ غفیر بھی جیسے تیسے آخر کار اسی کھائی میں گرتا نظر آتا ہے۔ ماہرین بشریات شاید سماجی علوم کی کسی بھی شاخ سے زیادہ نظریاتی وابستگیاں رکھتے ہیں اور تاریخ اور بقیہ سماجی علوم کسی بھی ایسے نظریاتی فیشن کے آگے ڈھیر ہوتے محسوس ہوتے ہیں جو عام طور پر ائیر فرانس کے ذریعے بحر اوقیانوس پر سے اڑتا ہوا یہاں آن پہنچے، ہر ایک اپنے سے پہلے والے کی نسبت زیادہ ابہام پسند اور فکری سفاک۔
شاید ماہرین سماجیات سے اس سے بہتر کی امید لگانا بہت بڑی توقع باندھنا ہے۔ لیکن ماہرین سماجیات کا ایک مخصوص مسئلہ ایسا ہی ہے جو(ممکنہ طور پرماہرین بشریات کے استثنا کے ساتھ) اور کسی بھی سماجی علم میں نہیں پایا جاتا۔ علم سماجیات ایک نوعِ علم سے کہیں زیادہ ایک زاویہ نگاہ یعنی ایک تناظر ہے اور اگر یہ تناظر ناکام ہو جائے تو کچھ باقی نہیں بچتا۔ لہٰذا معیشت کا مطالعہ ہو یا سیاسی نظام یا ساموئی قوم کے جنسی ملا پ کے میلانات ، ممکنہ تناظر متعدد اور مختلف ہوتے ہیں جن میں سے ایک علم سماجیات ہے۔ زیادہ تر سماجی علوم کے فکری آلات میں سماجیاتی تناظر بہت کامیابی سے داخل ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی تاریخ دان ہوگا جس نے کسی نہ کسی طرح اپنے کام میں سماجیاتی تناظر کو جگہ نہ دی ہو۔ سماجی علوم کے بہت سے دوسرے اہل علم کے برعکس ماہرین سماجیات کسی مخصوص تجرباتی منطقے کو اپنا قرار نہیں دے سکتے۔ زیادہ تر ان کے پاس پیش کرنے کے لئے اپنا تناظر ہی ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا روگ دراصل اسی تناظر کو توڑ پھوڑ کر علمِ سماجیات کو متروک کر دیتا ہے۔ 
یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ یہ منسوخی کوئی بڑا فکری حادثہ نہیں کیوں کہ جو علم سماجیات نے اپنی اصل میں پیش کرنا تھا، اس میں سے بہت کچھ تو دوسرے علوم میں سما چکا ہے۔ لیکن جب ان علوم پر نظر ڈالی جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انہیں اس سماجیاتی دوا کی اچھی خاصی ضرورت ہے جو اس نوعِ علم کی کلاسیکی صورت تھی اور سماجیاتی روایاتِ علم کے وہ بچے کھچے ٹکڑے نہیں جنہیں اب اکٹھا کر لیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سماجیات کے ممکنہ زوال پر خوش نہ ہونے کی اچھی خاصی فکری وجوہات موجود ہیں۔ 
لیکن کیا قسمت کا پانسہ پلٹ سکتا ہے؟ میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بیماری کی جڑیں اب بہت گہری ہو چکی ہیں۔ واپسی کے لئے کچھ شرائط تجویز کی جا سکتی ہیں۔ دیکھا جائے تو اوپر دیے گئے مشاہدات پہلے ہی ضروری خدوخال سامنے رکھ چکے ہیں: ہم ایک ایسے علمِ سماجیات کی بات کر رہے ہیں جو کلاسیکی دور کے عظیم سوالوں کی جانب لوٹ جائے، ایک ایسا علم سماجیات جو وسیع المشرب اور طریقیاتی لچک رکھتا ہو، اور پرزور بلکہ پرتشدد طور پر نظریاتی جبر کے خلاف ہو۔ لیکن ایسی واپسی کے لئے اداراتی مطالبات کیا ہوں گے؟ ظاہر ہے یہ کام کانفرنسوں، منشوروں اور اسی قسم کی دوسری فرار آمادہ سرگرمیوں سے تو نہیں ہو سکتا۔ اس نوعِ علم کا احیاء تو شاید بڑی جامعات میں (چاہے پچھتاتے ہوئے ہی سہی) ایک یا ایک سے زیادہ ایسے درسی منصوبوں سے ہی ممکن ہے جن میں ماہرین سماجیات تربیت یافتہ ہیں۔ مزید برآں یہ سارا کام ایسے نوجوان لوگوں کے ذریعے ہونا چاہیے جن کے آگے دو یا دو سے زیادہ دہائیوں کی پیشہ ورانہ زندگی باقی ہو، کیوں کہ اس میں اتنا وقت لگنا تو لازمی ہے۔ کیا اس کا احتمال ہے؟ شاید نہیں۔ لیکن کلاسیکی علم سماجیات کی ایک بنیادی بصیرت یہی ہے کہ انسانی افعال حیران کن ہوتے ہیں۔

مختلف نظام ہائے قوانین کے اصولوں میں تلفیق : چند اہم سوالات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

(کسی ایک فقہی مذہب کی پابندی اور مختلف مذاہب کے مابین تلفیق کے حوالے سے فیس بک پر ہونے والی بحث کے تناظر میں لکھی گئی توضیحات۔)

پہلی گزارش یہ ہے کہ میرے استاد محترم نیازی صاحب اور مجھے تلفیق پر جو اعتراض ہے، وہ اس بات پر نہیں ہے کہ مختلف مذاہب سے آرا کیوں اکٹھی کی جارہی ہیں؟ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ آرا اکٹھی کی جارہی ہیں یہ فکر کیے بغیر کہ ان آرا کے پیچھے جو اصول کارفرما ہیں، وہ آپس میں ہم آہنگ ہیں بھی یا نہیں؟ اگر اصولی ہم آہنگی یقینی بنائی جائے اور اصولی تضادات دور کیے جائیں ، تو بے شک آرا اکٹھی کرکے نئی رائے قائم کی جائے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ فقہائے کرام نے مذاہب کی تشکیل اسی طرح کی ہے۔ امام محمد ، مثال کے طور پر ، امام ابوحنیفہ کے شاگرد رہے ، پھر امام ابویوسف کے شاگرد رہے، پھر امام مالک اور امام اوزاعی سے استفادہ کیا ، اور پھر انھوں نے علیٰ وجہ البصیرت ایک موقف اختیار کیا۔ 

آرا کے تنوع میں "مذہب" کی حیثیت کسی ایک رائے کو ہی حاصل ہوتی ہے

جو اصول امام محمد نے اپنائے اور ان کی روشنی میں فقہی جزئیات مرتب کیں، وہی بعد کے فقہائے کرام کے لیے فقہ حنفی ہو گئی۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ خود امام محمد کی کتب میں بسا اوقات آپ کو ایک سے زائد آرا مل جاتی ہیں۔ ایسے میں "حنفی مذہب" کیا ہے اور اس کا تعین کیسے کیا جائے؟ میں یہ بحث نہیں کروں گا کہ کئی آرا میں کسی ایک رائے کا تعین کیوں ضروری ہے؟ ضرورت تو اس لیے مسلم ہے کہ خود امام محمد نے ہی الجامع الصغیر اور السیر الصغیر میں یہی کوشش کی کہ صرف "مذہب" ہی متعین کرکے دکھایا جائے۔ امام محمد کے بعد امام طحاوی اور امام کرخی نے "مختصر" لکھ کر اس کام میں مزید حصہ ڈالا۔ امام جصاص نے مختصر الکرخی کی شرح کرکے توضیح کا سلسلہ آگے بڑھایا۔ دوسری طرف ان فقہی جزئیات سے اصولوں کی تخریج کا کام بھی ان بزرگوں نے کیا۔ امام سرخسی کو اللہ تعالیٰ نے یہ شرف بخشا کہ انھوں نے اصولوں کی تدوین کا کام بھی پورا کیا اور فقہی جزئیات کی شرح بھی اس انداز سے کی کہ ان کی المبسوط ہی مذہب کی نمائندہ کتاب بن گئی۔ یہاں تک کہ فقہائے کرام نے تصریح کی کہ مذہب کے تعین کے لیے لا یعول الا علیہ ؛ بلکہ یہاں تک کہا کہ لا یعمل بما یخالفہ۔ (دیکھیے علامہ شامی کی شرح عقود رسم المفتی۔ ) 
بعد میں خواہ امام کاسانی ہوں یا امام مرغینانی ، دونوں نے المبسوط پر بہت زیادہ انحصار کیا۔ امام مرغینانی نے مختصر القدوری اور الجامع الصغیر کو اکٹھا کرکے بدایۃ المبتدی کا متن تشکیل دیا اور یہی متن آئندہ کے تمام فقہائے کرام کے لیے حنفی مذہب کا مستند ترین متن بن گیا۔ خود امام مرغینانی نے اس متن کی جو مختصر تشریح کی اور اسے ہدایہ کا نام دیا ، وہ شرح حنفی مذہب کا بنیادی ماخذ بن گیا۔بعد کی تمام شروح ، حواشی بلکہ متون بھی اسی ہدایہ سے ماخوذ اور ان پر تکیہ کیے ہوئے ہیں بلکہ ان کے رطب و یابس کی تمییز کے لیے بھی ہدایہ ہی معیار قرار پائی۔ 
عصر حاضر میں مسئلہ یہ ہوا کہ ہدایہ پڑھتے پڑھاتے ہوئے متن اور شرح میں فرق کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ہدایہ میں بھی تو دو دو ، تین تین اور بعض اوقات زیادہ آرا پائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ پائی جاتی ہیں۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے؟ لیکن جسے "حنفی مذہب" کہا جاتا ہے، وہ ان کئی آرا میں صرف ایک رائے ہی ہے 150 وہی جو بدایۃ المبتدی کے متن میں ہے۔ 
یہاں میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ بعض اوقات حالات کے تبدیل ہونے سے فتویٰ تبدیل بھی ہوسکتا ہے اور مذہب کے مشائخ مذہب کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فتوی تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔البتہ یہ ضرور یاد دلاؤں گا کہ جب حالات کی تبدیلی کے بعد فتوی تبدیل ہوجائے تو ہی تبدیل شدہ فتوی ہی اب "مذہب" بن جاتا ہے اور وہ پہلے سے موجود کئی آرا میں کوئی "ایک رائے "ہوتی ہے۔ مزارعت و مساقات ، وقف، زنا میں سلطان کے بجائے کسی اور شخص کی جانب سے اکراہ، تعلیم قرآن پر اجرت ، یہ اور اس طرح کے اور کئی مسائل یہاں مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ان میں میرے جیسے کسی ناپختہ فکر والے شخص کی رائے یہ ہوسکتی ہے کہ مزارعت و مساقات اور وقف کے باب میں امام ابوحنیفہ کی رائے لی جائے لیکن جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو ان مسائل میں وہ صاحبین ہی کی رائے ہے اور یہ رائے تب تک مذہب کی حیثیت سے رائج رہے گی جب تک مذہب کے مشائخ اسے ترک کرکے امام کی رائے پر فتوی دینا شروع نہ کردیں۔ یہ ایک لمبا پروسس ہے اور ایک دو دن یا چند سالوں میں نہیں ہونے والا۔ مذہب کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ فتوی تبدیل ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے اور کسی اور رائے کو مذہب بننے میں کتنی محنت لگتی ہے۔ 
تنقید کا شوق رکھنے والے احباب فوراً ہی لپک کر ، یا شاید لہک کر ، کہہ دیں گے کہ یہ جمود کی علامت ہے ! یہ تقلید جامد ہے ! وغیرہ وغیرہ۔ ایسا نہیں ہے، حضور! کسی نے بھی مذہب کے خلاف رائے کے حق میں دلیل دینے سے نہیں روکا ، نہ ہی مذہب کے خلاف رائے کو دبانے کی کسی نے کوشش کی ہے۔ یہ ایک شورائی اور 'لبرل' قسم کی مشق ہے۔ آپ کو جو رائے مناسب لگتی ہے اس کے حق میں دلائل اکٹھے کیجیے ؛ دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کیجیے ؛ لیکن دوسروں پر اپنی رائے مسلط نہ کریں ؛ دوسروں کے لیے بھی یہ حق مانیے کہ وہ جس رائے کو مناسب سمجھتے ہیں اس کے حق میں دلائل دیں اور آپ کو اور دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کریں ؛ اس طریقے سے بالآخر ہوسکتا ہے کہ جس رائے کو آپ بہتر سمجھتے ہیں اسی کو قبولیت عامہ حاصل ہوجائے اور اسی پر مذہب کا فتوی ہوجائے۔ یہ رہی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے مشائخ جب مذہب کے اندر موجود کئی آرا میں کسی ایک رائے کو مذہب قرار دیتے ہیں تو یہ کوئی الل ٹپ بات نہیں ہوتی ؛ بلکہ مذہب کے تمام اصولوں اور ان کی آپس میں ہم آہنگی اور تعامل کو دیکھ کر ہی وہ ایسا کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ عملی حالات کے تقاضوں کو بھی لازماً مد نظر رکھتے ہیں۔ یہاں سے ہم واپس اصولی مسئلے کی طرف لوٹتے ہیں۔ 

مسئلہ اصولی ہے

جی ہاں۔ مسئلہ اصولی ہے ، نہ کہ فقہی۔ اس لیے قواعد فقہیہ کی طرف جانے کے بجائے قواعد اصولیہ کی طرف رجوع ضروری ہے۔ پہلے تو ذرا امام شاطبی کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ "اصول فقہ قطعی ہیں۔"وہ یہ کیوں کہتے ہیں؟ میں وضاحت کرنے کے بجائے مثال کے ذریعے سوال "داغنے" کو ترجیح دیتا ہوں۔ چنانچہ ایک سوال ملاحظہ کیجیے۔ ایک فقیہ نے جب مان لیا کہ مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا تو کیا وہ اس اصول کو کسی وقت چھوڑ سکتا ہے؟ امام شاطبی نے جو کچھ کہا ہے اس کی روشنی میں تو یہ ناجائز ہوگا۔ اگر مثال کے طور پر جناب غامدی صاحب ایک جگہ یہ کہیں کہ سنت صرف عملی شے کو کہتے ہیں اور دوسری جگہ کہیں کسی قول کو بھی سنت کہہ دیں ، تو ان کے ناقدین کیا کہیں گے؟ گویا امام شاطبی کی بات کہ اصول قطعی ہیں ، ہر شخص نے مانی ہے۔ 
چلیں آپ نے ایک اصول اپنا لیا تو اب اس کی پابندی آپ پر لازم ہوگئی ، الا یہ کہ آپ وہ اصول ترک کردیں۔ لیکن جب ترک کردیں تو اس صورت میں کسی جگہ بھی آپ اس اصول کا اطلاق نہیں کرسکیں گے۔ ہاں، ایک گنجایش ہوسکتی ہے۔ وہ یہ کہ ایک جگہ آپ ایک اصول مان رہے ہیں اور دوسری جگہ اسے ترک کررہے ہیں تو دونوں مسائل میں فارق واضح کریں۔ (اسے اصول قانون کی اصطلاح میں distinguishing کہتے ہیں۔ ) گویا یہاں بھی اطلاق یا ترک کا فیصلہ کسی اصول پر ہی ہوتا ہے۔ 
آگے بڑھیں اور اب مختلف اصولوں کے تعلق پر غور کریں۔ حنفی اصول یہ ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا (جب تک چند مخصوص شرائط پوری نہ ہوں)؛ شافعیہ کا موقف اس کے برعکس ہے۔ اسی طرح حنفی اصول یہ کہ عام کی دلالت قطعی ہے ؛ شافعیہ اسے ظنی مانتے ہیں۔ اب کیا یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص ایک اصول حنفی لے ( کہ مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا) اور دوسرا شافعی ( کہ عام کی دلالت ظنی ہے)؟ اس سوال کا جواب اثبات میں تبھی ہوسکتا ہے جب دونوں اصولوں کے درمیان ہم آہنگی ہو ، ورنہ نہیں۔ اس کی وضاحت نیچے دی جارہی ہے۔ 

کیا تلفیق کبھی صحیح بھی ہوسکتی ہے؟ 

اب ہم ا س مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔ 
ایک فقہی مذہب دراصل اسلامی قانون کے متعلق ایک مخصوص تصور رکھتا ہے ؛ اس کے نزدیک اس مخصوص تصورِ قانون کے مطابق قانون اخذ کرنے کے لیے کچھ مخصوص مصادر اور کچھ مخصوص طرقِ استدلال و استنباط ہوتے ہیں ؛ اور اس مقصد کے لیے اس کے وضع کردہ یا قبول کردہ تمام اصول باہم ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اس پورے "فکری نظام" میں اچانک ہی باہر سے کوئی اصول کیسے داخل کیا جاسکتا ہے جب تک پہلے سے موجود اصولوں کے ساتھ اس "اجنبی" اصول کی ہم آہنگی یقینی نہ بنائی جائے؟ فقیہ کا کام ہی یہی ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ یہ اصول اس نظام میں چل سکتا ہے یا نہیں؟ یا اگر اسے قبول کرنا ہے تو کن شرائط کے ساتھ قبول کیا جاسکتا ہے؟ یا اس میں کیا تبدیلیاں لائی جائیں جن کے بعد یہ قابلِ قبول ہوسکے گا؟ 
امام غزالی نے جب "مصلحت مرسلہ" کو ، یعنی اس مصلحت کو جس کے شرعاً قابلِ قبول ہونے کے لیے کوئی مخصوص دلیل جزئی نہ ملے ، قبول کرنے کے لیے درج ذیل تین شرائط لگائیں تو یہی ان کا مقصود تھا : 
1۔ یہ کہ وہ کسی نص کے خلاف نہ ہو (جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس مخصوص فقہی مذہب کے اصولِ تعبیر کی رو سے نص کا جو مفہوم بنتا ہو اس کے خلاف نہ ہو ) ؛ 
2۔ یہ کہ وہ "تصرفاتِ شرع" کے خلاف نہ ہو (جس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ اس مخصوص فقہی مذہب نے اسلامی شریعت کے جو قواعد عامہ متعین کیے ہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو ) ؛ اور 
3۔ یہ کہ وہ "غریب" نہ ہو ( یعنی اس مخصوص فقہی مذہب کے تصورِ قانون میں وہ بالکل ہی اجنبی نہ ہو بلکہ اس سے ملتا جلتا کوئی تصور ، کوئی قاعدہ ، کوئی ضابطہ ملتا ہو )۔ 
یہ تین شرائط اسی compatibility کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔ 
تلفیق کے جواز و عدم جواز پر معاصراہل علم کی بحث میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس بحث میں ہم آہنگی یقینی بنانے والی یہ بات بالکل ہی نظرانداز کردی گئی ہے۔ ہمارا موقف اس سلسلے میں یہ ہے کہ تلفیق اگر یہ ہم آہنگی یقینی بنانے کے بعد کی جائے تو صحیح ہے ، ورنہ غلط ہے۔ 
قرآن وسنت کی نصوص سے اسلامی قانون کے استنباط و استخراج کے لحاظ سے فقہی احکام کو ہم تین مراتب میں تقسیم کرتے ہیں : 
1۔ وہ احکام جو نصوص کی تعبیر و تشریح ، اصول فقہ کی اصطلاح میں "بیان"، کے ذریعے اخذ کیے گئے ہیں؛ 
2۔ وہ احکام جو اس پہلے مرتبے میں موجود احکام کی علت پر غور کرکے "قیاس" کے ذریعے اخذ کیے گئے ہیں؛ اور 
3۔ وہ احکام جو پہلے دو مراتب میں موجود احکام کے مقاصد اور حکمتوں پر غور کرنے کے بعد ، یعنی "مقاصدِ شریعت" پر غور کرنے کے بعد ، اخذ کیے گئے ہیں۔ 
پہلے مرتبے میں موجود احکام میں تلفیق کی گنجایش کم سے کم ہے اور تیسرے مرتبے کے احکام میں تلفیق کی گنجایش زیادہ سے زیادہ ہے لیکن کسی بھی جگہ تلفیق صرف اسی صورت میں صحیح قرار پائے گی جب پہلے ان اصولوں کے درمیان ہم آہنگی یقینی بنائی جائے جن پر ان احکام کا دارومدار ہے۔ 
فقہی احکام کا جو یہ تیسرا مرتبہ ہے ، یعنی جہاں مقاصدِ شریعت پر غور کرکے احکام اخذ کیے جاتے ہیں ، یہاں مختلف مذاہب فقہ کے درمیان بہت حد تک پہلے ہی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جسے فقہائے کرام "سیاسہ شرعیہ" کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں۔ سیاسہ شرعیہ اور مقاصد شریعت کے باہمی تعلق پر بعد کے فقہائے کرام کے کام کو اگر چھوڑ بھی دیں اور صرف امام دبوسی کی "تقویم الادلہ "میں متعلقہ مباحث دیکھ لیے جائیں تو اس بات کی پوری وضاحت مل جائے گی۔ 

امام محمد نے دوسرے مذاہب کے اصول کیسے استعمال کیے؟ 

اب ان مسائل پر غور کریں جہاں امام محمد نے محدود پیمانے پر دیگر مذاہب کے اصول استعمال کیے ہیں۔ 
پہلی بات یہ ہے کہ سیر کے بیش تر احکام ، اور بالخصوص وہ احکام جو "السیر الکبیر" میں مذکور ہیں ، سیاسہ شرعیہ کے دائرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے وہاں پہلے ہی تلفیق کی گنجایش تھی۔ 
دوسری بات جو زیادہ اہم ہے یہ ہے کہ امام محمد نے جو دوسرے اصول یہاں قبول کیے ہیں ان میں کچھ ایسے ہیں جو پہلے بھی حنفی مذہب کی رو سے مقبول ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں نے کسی کو امان دی ، یا کسی سے امان لی ، تو امان کے الفاظ میں وہ مفہوم مخالفہ کو معتبر قرار دیتے ہیں تو یہ حنفی مذہب کی رو سے بھی صحیح ہے کیونکہ مفہوم مخالفہ کو وہ صرف شرعی نصوص کی تعبیر میں معتبر نہیں مانتے اور وہاں بھی چند شرائط پوری ہوں تو اس کے بعد معتبر مانتے ہیں۔ دیگر اصول جو انھوں نے استعمال کیے ہیں وہاں امام سرخسی نے ہر جگہ واضح کیا ہے کہ حنفی مذہب کی رو سے وہ کیسے قابل قبول "بنائے گئے "ہیں۔ اس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ہم آہنگی یقینی بنائی۔ 
تیسری بات ان دونوں سے زیادہ اہم ہے اور وہ یہ کہ ایسے مسائل میں امام محمد کی رائے اور حنفی "مذہب" ہمیشہ ایک نہیں ہیں اگرچہ السیر الکبیر کا شمار "ظاہر الروایہ" میں ہوتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو ذرا ان مسائل پر امام سرخسی کی شرح ، امام کاسانی کا موقف اور بدای? المبتدی کا متن دیکھ لیجیے۔ 

کیا یہ Positivism ہے؟ 

میرے لیے عمار بھائی کا یہ کمنٹ نہایت حیران کن تھا کہ جو موقف ہم پیش کررہے ہیں وہ positivism سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ موقف positivism سے ایک سو اسی درجے مختلف ہے۔ 
ایک تو positivism کا تو یہ کہنا ہے کہ قانون بس وہی ہے جو ریاست نے ، یا کسی انسانی نظام نے ، باقاعدہ طور پر وضع کرکے دیا اور اس کا اخلاقیات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کم از کم اس لحاظ سے تو عمار بھائی ہمارے موقف کو positivism قرار نہیں دے رہے۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ مقننہ /شارع کی جانب سے دیے گئے قانون میں جہاں خلا پایا جائے ، جس معاملے میں "حکم" نہ ملے، وہاں positivism جج کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنی قانونی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا حکم "وضع" کردے جو اسے اس مسئلے میں مناسب محسوس ہوتا ہو۔ میں نے کئی دفعہ وضاحت کی ہے اور آج پھر تصریح کرتا ہوں کہ ہم جج کے لیے ایسے کسی اختیار کے قائل نہیں ہیں۔ یہی تو ہمارے موقف اور جناب غامدی صاحب کے موقف میں بنیادی فرق ہے۔ 
غامدی صاحب اس کے قائل ہیں کہ "جہاں شریعت خاموش ہو "وہاں انسانوں کو "عقل و فطرت" کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ براہ کرم اس موقف کو فوراً ہی positivism نہ قرار دیں۔ درحقیقت یہ naturalism ہے کیونکہ naturalists کا یہی موقف ہے کہ قانونِ فطرت میں تمام مسائل کے لیے حکم موجود ہے اور انسان اسے عقل کے ذریعے معلوم کرسکتے ہیں ، اگر وہ معلوم کرنا چاہیں۔ اس موقف اور positivism میں بظاہر یکسانیت ہے لیکن دراصل دونوں میں جوہری فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ positivism کی رو سے ایسے مقام پر جج قانون "وضع" کرتا ہے جبکہ naturalism کی رو سے وہ قانون "دریافت" کرتا ہے۔ 
ہمارے نزدیک یہ دونوں موقف صحیح نہیں ہیں۔ ہمارے موقف کی رو سے حنفی اصول سے قریب ترین موقف مغربی فلاسفہ قانون میں کسی کا اگر ہے تو وہ رونالڈ ڈوورکن ( Ronald Dworkin) کا ہے جس نے تفصیل سے دکھایا ہے کہ جہاں آپ قرار دیتے ہیں کہ قانون خاموش ہے ، وہاں بھی قانون خاموش نہیں ہوتا ؛ نہ ہی جج وہاں قانون وضع کرتا ہے ، نہ ہی وہ "قانونِ فطرت" اپنی "عقل" کے ذریعے "دریافت" کرکے اس پر فیصلہ سناتا ہے ؛بلکہ ایسے مواقع پر جج قانون کے قواعدِ عامہ general principles of law) کی روشنی میں فیصلہ سناتا ہے۔ ان قواعدِ عامہ کے لیے جج کو دکھانا پڑتا ہے کہ قانون کی مختلف جزئیات کے پیچھے کون سا قاعدہ کارفرما ہے جس کا اطلاق یہاں بھی ہوتا ہے جہاں بظاہر آپ کو کوئی دلیل جزئی نہیں مل رہی۔ 

کیا ہم کسی ایک منہج کو لے کر باقی مناہج کی نفی کرتے ہیں؟ 

کہنے دیجیے کہ ہمارے موقف کے متعلق یہ اعتراض بھی قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔ ہم بالکل بھی اس کے قائل نہیں ہیں کہ اسلامی قانون کے اصول اور قواعد کا ارتقا امام سرخسی پر آکر رک گیا ہے ؛ نہ ہی ہم وقت کا پہیہ واپس گھمانا چاہتے ہیں۔ 
اس کے برعکس ہم اس کے قائل ہیں کہ ظاہر الروایہ پر مستند ترین شرح امام سرخسی کی ہے اور حنفی فقہائے کرام کے اصولوں کی بہترین وضاحت امام سرخسی نے کی ہے۔ امام سرخسی کے بیان کردہ کسی اصول کی مزید بہتر تہذیب ، تعبیر یا توضیح اگر کی جاسکتی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ امام سرخسی سے قبل کے فقہائے احناف کے کام ، بالخصوص امام محمد کی کتب ، سے جزئیات بیان کرکے بتایا جائے کہ کون سا جزئیہ امام سرخسی کے بیان کردہ اصول کے خلاف جاتا ہے اور اس اصول میں کیا تبدیلی کی جائے کہ وہ اس جزئیے پر بھی محیط ہوجائے اور باقی جزئیات بھی اس کے اطلاق سے نہ نکلیں؟ یہ بالکل وہی طریقہ ہے جس پر امام سرخسی مثال کے طور پر امام کرخی یا امام عیسی بن ابان یا متقدمین فقہائے کرام میں کسی اور کے بیان کردہ اصول کی تصحیح کرتے ہیں۔ 
جیسا کہ اس مضمون کی ابتدا میں ذکر کیا گیا ، امام سرخسی کے لیے یہ مقام ہم نے "تخلیق" نہیں کیا بلکہ حنفی مذہب کے مشائخ نے ان کے لیے بالاتفاق یہ حیثیت تسلیم کی ہے۔ 
مزید برآں ، ہم اس کے بھی قائل ہیں کہ جدید مسائل کے حل کے لیے حنفی مذہب کے ان اصولوں کی روشنی میں نئے اصول بھی وضع کیے جاسکتے ہیں؛ دیگر مذاہبِ فقہ سے بھی اصول لیے جاسکتے ہیں ، بالخصوص سیاسہ شرعیہ کے میدان میں ؛ اور دیگر نظام ہائے قوانین سے بھی اصول لیے جاسکتے ہیں ؛ لیکن اس سب کچھ میں بس یہ لحاظ رکھنا لازمی ہوگا کہ وہ نیا اصول جو آپ وضع کریں ، کسی اور فقہی مذہب سے لیں ، یا کسی اور نظامِ قانون سے لیں، وہ اصول پہلے سے موجود اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو ؛ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس اصول میں کچھ ایسی تبدیلیاں کرنی ہوں گی جن کے بعد وہ ان اصولوں سے ہم آہنگ ہوجائے ؛ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر وہ اصول قبول نہیں کیا جاسکتا۔ 
ہذا ما عندی ، و العلم عند اللہ۔ 

قومی بیانیہ اور اہل مدارس

مولانا مفتی منیب الرحمن

بیانیہ یا Narrative ہماری سیاست و صحافت کی نئی اصطلاح ہے جو اکیسویں صدی میں متعارف ہوئی، اس سے پہلے شاید کہیں اس کا ذکر آیا ہو، لیکن ہمارے مطالعے میں نہیں آیا۔ البتہ ایک نئے ’’عمرانی معاہدے‘‘ (Social Contract) کی بات کی جاتی رہی ہے، حالانکہ کسی ملک کا دستور ہی اس کا عمرانی معاہدہ ہوتا ہے اور پاکستان کا دستور اتفاقِ رائے سے 14 اگست 1973ء کو نافذ ہوا اور اْس کے بعد سے اب تک اس میں 22 ترامیم ہوچکی ہیں۔ اٹھارھویں ترمیم نے اِسے فیڈریشن سے کنفیڈریشن کی طرف سرکا دیا ہے۔
7 ستمبر 2015ء کو وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں قومی بیانیہ ترتیب دینے کے لیے ایک مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی: مفتی منیب الرحمن، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا یاسین ظفر اور مولانا عبدالمالک۔
میں نے بنیادی مسودہ ترتیب دیا، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری شریک کار تھے، پھر اسے پانچوں تنظیمات کے اکابر کے پاس بھیجا، انہوں نے اس کا مطالعہ کیا، بعض نے کچھ ترامیم تجویز کیں، کچھ حذف و اضافہ کیا اور پھر میں نے حتمی مسودہ 22 اکتوبر 2015ء کو کوآرڈی نیٹر نیکٹا جناب احسان غنی کو ارسال کیا کہ وہ متعلقہ اہل اقتدار کو اِسے دکھا دیں اور اگر وہ اس میں کوئی ردّوبدل چاہیں تو اس کی نشان دہی کردیں۔ میں نے اِسے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جناب جنرل رضوان اختر کو بھی ارسال کیا کہ اگر اس میں وہ اپنا کوئی حصہ ڈالنا چاہیں یا کوئی اضافہ مطلوب ہو تو مطلع کریں، ہم باہمی مشاورت سے اسے حتمی شکل دیں گے۔ اس دوران میڈیا پر وقتاً فوقتاً بیانیہ کا ذکر آتا رہا، لیکن سرکار کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت وقت کے لیے آئے دن کوئی نیا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے یا کوئی نئی افتاد نازل ہوجاتی ہے، انہیں ان چیزوں پر غور کی فرصت ہی نہیں ملتی اور نہ ہی وہ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ چونکہ ہمارے میڈیا کے کرم فرما حضرات کا ہدف مدارس اور اہل مدارس ہوتے ہیں، اس لیے وہ مشقِ ستم فرماتے رہتے ہیں۔ ان پر نہ کوئی ذمے داری عائد ہوتی ہے، نہ ان کے لیے حب الوطنی کا کوئی معیار ہے، نہ ہی ملکی سلامتی کے حوالے سے ان پر کوئی قید و بند عائد کی جاسکتی ہے، اْن کی زبان کی کاٹ سے ویسے ہی اہل اقتدار لرزاں و ترساں رہتے ہیں، خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار کی آرزو میں بیٹھے ہوں۔ سو ایک کمزور طبقہ مدارس و اہلِ مدارس کا رہ جاتا ہے جس پر مشقِ ناز کی جائے اور یہ بھی ان کی خواہش رہتی ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا جائے اور جتنا ہوسکے ان کی مشکیں کَسی جائیں۔ لہٰذا ہم نے اپنے تناظر میں یہ بیانیہ ترتیب دیا۔ دو تین ماہ قبل بیانیہ ترتیب دینے کے لیے اہلِ عقل و دانش کی کوئی مجلس ترتیب دی گئی اور ظاہر ہے کہ بنیادی قرطاسِ عمل اِسی عاجز کا ترتیب دیا ہوا تھا، بیرونِ ملک سفر کی وجہ سے میں خود اِن دانائے روزگار اشخاص کی دانش سے مستفید نہ ہوسکا اور محروم رہا۔
البتہ طیور کی زبانی جو اڑتی سی خبر ملی، وہ یہ تھی کہ نفاذِ شریعت کے مطالبے کا بیانیے سے تعلق نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ایسی کوئی ہوا اسے لگنی چاہیے۔ ہمیں حیرت ہے کہ جمہوریت کے نام پر کوئی بھی مطالبہ کیا جا سکتا ہے، لیکن نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے کی جمہوریت میں بھی اجازت نہیں ہے، سو جمہوریت اور جمہوری اَقدار کس چڑیا کا نام ہے، یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ ویسے تو اسرائیل میں بھی مذہبی جماعتیں سیاسی دوڑ میں شامل ہیں، جرمنی میں کرسچین ڈیموکریٹس کے نام سے جماعت قائم ہے اور اِن سے اْن کے نظام کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے سے ریاست کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
ہمارا مرتبہ بیانیہ درج ذیل ہے:
ہمارے وطن عزیز میں گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے داخلی طور پر تخریب وفساد، دہشت گردی اور خروج و بغاوت کی صورتِ حال ہے اور اس کے بار ے میں دینی لحاظ سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے ابہامات اور اشکالات وارد ہو رہے ہیں۔ بعض حضرات یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ اس ذہنی نہاد کے پیچھے مذہبی محرکات کارِفرما ہیں اور انھیں دینی مدارس و جامعات سے بھی کسی نہ کسی سطح پر تائید یا ترغیب ملتی رہی ہے۔ لہٰذا ہماری دینی اور ملی ذمہ داری ہے کہ اس کے ازالے اور حقیقت حال کی وضاحت کے لیے اپنا شرعی مؤقف واضح کریں اور اسی بنا پر ہم نے اسے قومی بیانیے کا عنوان دیا ہے، پس ہمارا موقف حسب ذیل ہے:
(1) اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، جس کے دستور کا آغاز اس قومی و ملی میثاق سے ہوتا ہے: ’’اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہے، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔ نیز دستور میں اس بات کا اقرار بھی موجود ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا۔ اگرچہ دستور کے ان حصوں پر کماحقہ عمل کرنے میں شدید کوتاہی رہی ہے، لیکن یہ بے عملی ہے اور اس کوتاہی کی بنا پر ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک، حکومت وقت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔
(2) پاکستان کے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذِ شریعت کی پرامن جدوجہد کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے، یہ پاکستان کے دستور کا تقاضا بھی ہے اور اس کی دستور میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ہماری رائے میں ہمارے بہت سے ملکی اور ملّی مسائل کا سبب اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد سے روگردانی ہے۔ حکومت اس حوالے سے پیش رفت کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کو فعال بنائے اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پر مبنی قانون سازی کرے، جو کہ دستوری تقاضا ہے۔ نفاذِ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے، حرام قطعی ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ ریاست، ملک و قوم اور وطن کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں، عدمِ استحکام سے دوچار کر رہی ہیں، تقسیم در تقسیم اور تفرقے کا باعث بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لیے ضربِ عضب کے نام سے جو آپریشن شروع کر رکھا ہے اور قومی اتفاقِ رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا ہے، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اب ہماری مسلّح افواج نے ایک نئی مہم شروع کی ہے، جس کا عنوان ہے: ’’رَد الفَسَاد‘‘، ہم اس کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
(3) اکیسویں آئینی ترمیم میں جس طرح دہشت گردی کو ’’مذہب و مسلک کے نام پر ہونے والی دہشت گردی‘‘ کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہمارے تحفظات ہیں۔ دہشت گردی اور ملک کے اندر داخلی فساد کی باقی تمام صورتوں کو یکسر نظرانداز کر دینا مذہب کے بارے میں نظریاتی تعصب کا آئینہ دار ہے، اور اس امتیازی سلوک کا فوری تدارک ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم ریاست اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سے ملک میں قیامِ امن کے لیے ہمارے عزم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کے بعد بھی معلوم ہوا ہے کہ ہماری لبرل جماعتیں مذہب اور اہلِ مذہب کو ہدفِ خاص بنانے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو آمادہ نہیں ہیں، اوراِسی لیے تیئسویں ترمیم پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا، اگرچہ اس اختلاف کا سبب دراصل ان کی ایک دوسرے سے شکایات، گلے شکوے اور کچھ خدشات ہیں۔
(4) تمام مسالک کے نمائندہ علماء نے 2004ء میں اتفاقِ رائے سے شرعی داائل کی روشنی میں قتل ناحق کے عنوان سے خود کش حملوں کے حرامِ قطعی ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا تھا، ہم اس کی مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں۔ نیز لسانی علاقائیت اور قومیت کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروفِ عمل ہیں، یہ بھی قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب ہیں اور شریعت کی رو سے یہ بھی ممنوع ہے، لہٰذا ضربِ عضب کا دائرہ ان سب تک وسیع کیا جائے۔
(5) مسلمانوں میں مسالک و مکاتبِ فکر قرونِ اولیٰ سے چلے آرہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گی۔ لیکن یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں اور ان کا اصل مقام درس گاہ ہے۔ اِن کو پبلک یا میڈیا میں زیرِ بحث لانا بھی انتشارپیدا کرنے اور وحدتِ ملی کو نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔ اِن کو انتظامی اور انضباطی اقدامات سے کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق یا قانون بنا کر اسے سختی سے نافذ کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے وہ کوئی تعزیری اقدام بھی تجویز کر سکتی ہے۔
(6) فرقہ وارانہ نفرت انگیزی، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت اور آئین و قانون کی رو سے ناجائز ہے اور یہ ایک قومی اور ملی جرم ہے۔
(7) تعلیمی اداروں کا، خواہ وہ دینی تعلیم کے ادارے ہوں یا عصری تعلیم کے، ہر قسم کی عسکریت اور نفرت انگیزی پر مبنی تعلیم یا تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی فرد یا ادارہ اس میں ملوث ہے، تو اس کے خلاف ثبوت و شواہد کے ساتھ کارروائی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
(8) دینی مدارس پر مبہم اور غیر واضح الزامات لگانے کا سلسلہ ختم ہوناچاہیے۔ دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات حکومت کو لکھ کر دے چکی ہیں کہ اگر اس کے پاس ثبوت و شواہد ہیں کہ بعض مدارس عسکریت، دہشت گردی یا کسی بھی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث ہیں، تو ان کی فہرست جاری کی جائے۔ وہ خود نتائج کا سامنا کریں یا اپنا دفاع کریں، ہم ان کا دفاع نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کی حمایت کریں گے۔
(9) ہم بلا استثنا تمام دینی مدارس میں کسی منفی سرگرمی کی مطلقاً نفی نہیں کر سکتے، ہماری نظر میں انتہا پسندانہ سوچ اور شدت پسندی کومحض دینی مدارس سے جوڑنا غیرمنصفانہ سوچ کا مظہر ہے۔ گزشتہ عشرے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے شواہد سا منے آئے ہیں کہ یہ روش جدید عصری تعلیمی اداروں اور دیگر اداروں میں بھی فروغ پا رہی ہے، اس کے نتیجے میں مغرب کے پر تعیش ماحول سے نکل کر لوگ وزیرستان آئے، القاعدہ اور داعش سے ملے، جبکہ یہ جدید تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ پس تناسب سے قطعِ نظر یہ فکر ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ سو یہ فکری نہاد جہاں کہیں بھی ہو، ہماری دشمن ہے۔ یہ لوگ دینی مدارس یا جدید تعلیمی اداروں یا کسی بھی ادارے سے متعلق ہوں، ہمارے نزدیک کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
(10) دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات اس بات کا عہد کرتی ہیں کہ دینی تعلیم کھلے ماحول میں ہونی چاہیے اور طلبہ و طالبات پر کسی قسم کا جسمانی یا نظریاتی تشدد یا جبر روا نہیں ہے۔ الحمدللہ ہمارے دینی مدارس کا ماحول کھلا ہے اور اس میں عوام بلا روک ٹوک آسکتے ہیں اور کوئی چیز مخفی نہیں ہے، یہ ادارے ملکی قانون کے تحت قائم ہیں اور ملکی قانون کے پابند ہیں اور رہیں گے۔
(11) ہر مکتب فکر اور مسلک کو مثبت انداز میں اپنے عقائد اور فقہی نظریات کی دعوت و تبلیغ کی شریعت اور قانون کی رو سے اجازت ہے، لیکن اہانت آمیز اور نفرت انگیزی پر مبنی اندازِ بیان کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح صراحت، کنایہ، تعریض، توریہ اور ایہام کسی بھی صورت میں انبیائے کرام ورسل عظام علیہم السلام، اہل بیتِ اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور شعائر اسلام کی اہانت کے حوالے سے ضابطہ فوجداری کے آرٹیکل 295 کی تمام دفعات کو لفظاً اور معناً نافذ کیا جائے، اور اگر اس قانون کا کہیں غلط استعمال ہوا ہے، تو اس کے اِزالے کی احسن تدبیر کی جاسکتی ہے۔ فرقہ وارانہ محاذ آرائی کے سد باب کی یہی ایک قابلِ عمل صورت ہے۔
(12) عالم دین اور مفتی کا منصبی فریضہ ہے کہ کلماتِ کفر کو کفر قرار دے اور سائل کو شرعی حکم بتائے، البتہ کسی شخص کے بارے میں فیصلہ صادر کرنا کہ آیا اس نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا کلمہ کفر کہا ہے، یہ قضا ہے اور عدالت کا کام ہے۔ مفتی کا کام صرف شرعی حکم بتانا ہے، اس سے آگے ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔ اسی لیے ہمارے فقہائے کرام نے ’’لزومِ کفر‘‘ اور ’’التزام کفر‘‘ کے فرق کو واضح کیا ہے۔
(13) اس وقت پاکستان میں جدید تعلیم ایک انتہائی منفعت بخش صنعت بن چکی ہے۔ پلے گروپ اور نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک پرائیویٹ تعلیمی ادارے ناقابل یقین حد تک غیر معمولی فیسیں وصول کر رہے ہیں۔ اعلیٰ معیاری تعلیم قابلِ فروخت جنس بن چکی ہے اور مالی لحاظ سے کمزور طبقات کی پہنچ سے دور ہے، اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو مستقل حیثیت حاصل ہے، کیونکہ پبلک سیکٹر میں تعلیم کا معیار انتہائی حد تک پست ہے۔ ہمیں تعلیم کے پرائیویٹ سیکٹر میں ہونے پر اعتراض نہیں ہے، اعتراض یہ ہے کہ تعلیم کو صنعت کے بجائے سماجی خدمت کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک قومی کمیشن قائم کیا جائے جو پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کے لیے’’نہ نفع نہ نقصان‘‘ یا مناسب منفعت کی بنیاد پر فیسوں کا تعین کرے اور انہیں اس بات کا پابند کرے کہ وہ کم از کم پچیس فیصد نادار طلبہ کو میرٹ پر منتخب کر کے مفت تعلیم دیں۔ عصری تعلیم کے پرائیویٹ اداروں میں کئی قسم کی درآمد کی ہوئی نصابی کتب پڑھائی جا رہی ہیں اور ان کا نظامِ امتحان بھی بیرونِ ملک اداروں سے وابستہ ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کے نصاب پر مؤثر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان میں تعلیم پانے والی ہماری نئی نسل اسلامی اور پاکستانی ذہن کی حامل ہو اور سب سے آئیڈیل بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح اسکول گریجوایشن کی سطح تک یکساں نصابِ تعلیم اور نظامِ امتحان رائج ہو۔
(14) پاکستان میں رہنے والے پابند آئین و قانون تمام غیرمسلم شہریوں کو جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ اور ملکی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے وہی تمام شہری حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ ہم حقوقِ انسانی کی مکمل پاسداری کا عہد کرتے ہیں۔ اِسی طرح پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
(15) اسلام خواتین کو احترام عطا کرتا ہے اور ان کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے۔ اسلام کے قانونِ وراثت میں خواتین کے حقوق مقرر ہیں۔ ان کو جاگیرداری، سرمایہ داری اور قبائلی رسوم پر مبنی سماجی روایات کی بنیاد پر وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں اخلاقی اور معاشرتی دباؤ ڈال کر وراثت سے دست برداری حاصل کی جاتی ہے۔ قرآن سے شادی کا تصور بھی وراثت سے محروم کرنے کی غیر شرعی رسم ہے۔ وراثت کا استحقاق محض دست برداری سے ختم نہیں ہوتا، قرآن و سنت کی رو سے تقسیمِ وراثت شریعت کا لازمی قانون ہے۔ شریعت کی رو سے اگر کوئی وارث اپنا حصہ رضا و رغبت سے اور کسی جبر و اکراہ کے بغیر کسی کو دینا چاہے، تو بھی محض دست برداری کافی نہیں ہے۔ جائیداد مالکانہ طور پر اس کے نام پر منتقل کرنا اور اسے اْس پر قبضہ دینا لازمی ہے، اس کے بعد ہی وہ مالکانہ حیثیت سے تصرف کرسکتا ہے۔ عورتوں پر تشدد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں عورتوں کے حقوق کی پاسداری پر نہایت تاکید کے ساتھ متوجہ فرمایا ہے۔ خواتین کی جبری شادی ہمارے دیہی اور جاگیردارانہ سماج کی ایک خلافِ شرع روایت ہے، اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اسے قانون کی طاقت سے روکے۔ اسلام عورت کے حق رائے دہی پر بھی کوئی قدغن نہیں لگاتا اور نہ ہی عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی ہے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ شرعی حدود کی پابندی کی جائے۔
ہم نے دینی مدارس و جامعات کی رجسٹریشن کا میکنزم بھی بنا کر دیا، تمام ضروری کوائف ومعلومات اس میں شامل کی گئیں اور تفصیلی کوائف کے لیے اصل کیفیت نامہ کے ساتھ ضمنی فارم مرتب کر کے دیے۔ اسی طرح ڈیٹا فارم بھی مرتب کر کے دیا اور طے پایا کہ پہلے سے قائم سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ مدارس کو قانونی تصور کیا جائے گا، اور ان سے دوبارہ رجسٹریشن کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ یہی اصول سابق صدر جناب جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کے ساتھ طے پایا تھا اور اْن کے دور میں اس پر عمل رہا۔ یہ بھی طے پایا کہ پہلے سے رجسٹرڈ مدارس اور نئی رجسٹریشن حاصل کرنے والے مدارس سالانہ ڈیٹا بھی فراہم کریں گے اوراس کے لیے وفاقی وزارتِ مذہبی امور یا وزارتِ تعلیم میں ایک سیل قائم کیا جائے گا یا صوبے اس ذمہ داری کو انجام دیں گے۔ ہماری معلومات کے مطابق ہمارے تیارے کیے گئے اس مسودہ قانون کی صوبوں سے منظوری بھی لی گئی، لیکن پھر اس پر قانون سازی نہ ہوسکی۔ 
ماضی قریب میں صوبہ سندھ کی اسمبلی نے ایک متنازعہ بل بنایا، لیکن وہ اب تک معرضِ التوا میں ہے، کیونکہ صوبائی وزیرِ اعلیٰ جنابِ سید مراد علی شاہ متعدد وعدوں کے باوجود اتفاقِ رائے کے لیے اب تک کوئی اجلاس منعقد نہیں کرسکے اور حکومت کے اِسی شعار کی وجہ سے ’’تبدیلی مذہب ‘‘ کا قانون جو دراصل ’’قانونِ امتناعِ قبولِ اسلام ‘‘ ہے، صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے کے باوجود قانون نہ بن سکا اور اس کے بارے میں بھی اتفاقِ رائے کے لیے جنابِ آصف علی زرداری کے وعدے اور ہدایت کے باوجود کوئی اجلاس منعقد نہ ہوسکا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو ملامت کرنے میں لگی رہتی ہیں، لیکن ہمیں سنجیدگی کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی اور سب پنجابی محاورے کے مطابق ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)

جوابی بیانیہ اور قومی بیانیہ ۔ ایک تقابلی جائزہ

عدنان اعجاز

حال ہی میں وزیر اعظم کی جانب سے 'جوابی بیانیے' کے تجدید مطالبہ کے نتیجے میں چھڑنے والی بحث کے استقصا سے پتہ چلا کہ مفتی منیب الرحمن صاحب کی جانب سے ایک 'قومی بیانیہ' 2015 میں ہی تیار ہو چکا تھا۔ بنیادی ڈھانچہ اگرچہ مفتی صاحب ہی کا تھا تاہم ان کی روداد کے مطابق تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علما کی جانب سے حذف و اضافے کی تضمیم و توثیق کے بعد متفقہ مسودہ متعلقہ وفاقی اداروں کو ارسال بھی کر دیا گیا تھا۔ ہماری بدقسمتی کہ یہ اہم ترین پیشرفت شاید گمنامی اور شاید کوتاہ بینی سے اب تک علم میں نہ آسکی تھی۔ خیر اب چونکہ یہ مسودہ جس کا بے چینی سے انتظار تھا، جسے مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانیوں کو درپیش مہلک عالمگیر نظریاتی وباؤں کے لیے نسخہ کیمیا بننا تھا، جب نمودار ہو چکا تو اب یہ ایک دیانتدارانہ علمی تجزیے کا متقاضی ہے۔
2015 ہی کے آغاز میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کا مسودہ ’’اسلام اور ریاست۔ ایک جوابی بیانیہ‘‘ اس سے پہلے ہی شائع ہو چکا تھا۔ چنانچہ اب جبکہ یہ دونوں بیانیے 150 یعنی علما کا قومی بیانیہ اور غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ150منظر عام پرآ چکے، ان دونوں کا تقابل و تجزیہ آسان بھی ہو گیا ہے اور ضروری بھی، تاکہ یہ پرکھا جا سکے کہ کون سے وہ نظریات ہیں جو اب اس منتشر قافلے کی شیرازہ بندی کے لیے بانگ درا بننے کے اہل ہیں۔ 
یہ بات محتاجِ بیان نہیں کہ حکومت یا اہل علم و دانش جس بیانیے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس کے موضوعات و مندرجات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ تو آپ سے ہویدا ہے کہ ان کی مراد ان بنیادی مذہبی نظریات 150 جن کا پرچار دہشتگرد اور انتہا پسند کرتے ہیں 150 کے جواب میں ایسے نئے یا درست دینی نظریات ہیں جو قوم اور امت کی سمت و احوال میں بہتری کی طرف گامزن کرنے کا موجب بنیں۔ بہر حال اس بات کا بیان یہاں کر دینا مناسب معلوم پڑا۔
تجزیے کے لیے آئیے پہلے مفتی منیب صاحب کے قومی بیانیے کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں، کہ غامدی صاحب کے جوابی بیانے پر تو بعض پہلوؤں سے بہت کلام (ہرچند ناکافی) اب تک ہو چکا ہے، اور پھر یہ دیکھتے ہیں کہ جس تناظر میں اور جن امراض کے علاج کے لیے یہ لکھے گئے ہیں، یہ دونوں بیانیے کس حد تک ان کی رگِ معدن معین اور ان کی تشخیص کر پائے ہیں، اور کس تشخیص کے نتیجے میں قافلے کے رخ میں درستگی کے لیے کس قدر راہنمائی مل پائے گی۔

خلاصہ قومی بیانیہ 

مفتی صاحب نے مملکت پاکستان کی اسلامی اساسوں کی نشاندہی کے بعد موجودہ ملکی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کا مطالبہ دہرایا اور نفاذِ شریعت کی جدوجہد کا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہونے کی یاددہانی بھی کرائی۔ تاہم انہوں نے یہ واضح فرمایا کہ نفاذِ شریعت کی یہ جدوجہد پرامن ہونی چاہیے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے، حرامِ قطعی ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ ریاست ان متشدد تحریکوں کو کچلنے کے لیے جو فوجی آپریشن کر رہی ہے، علما ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ علما کو اکیسویں آئینی ترمیم پر جس میں دہشت گردی کو ’’مذہب و مسلک کے نام پر ہونے والی دہشت گردی‘‘ کے ساتھ خاص کر دیا، تحفظات تھے۔ انہوں نے خودکش حملوں کے حرامِ قطعی ہونے کا اعادہ بھی فرمایا اورضربِ عضب کا دائرہ لسانی، علاقائی اور قومیت کے نام پر مصروفِ عمل مسلح گروہوں تک وسیع کرنے کا مطالبہ کیا۔ فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت انگیزی اور مسلح تصادم کو ناجائز و جرم قرار دیتے ہوئے انہیں مسالک و مکاتبِ فکر سے ممیز کیا،اور مؤخرالذکر کو تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہونے کی وجہ سے اسلامی علمی سرمائے کا حصہ بتلایا۔ اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ میڈیا کے لیے ایک ضابطہ اخلاق بنا کر انہیں ان موضوعات پر گفتگو کے لیے قانونی حدود کا پابند کیا جائے تا کہ انتشار نہ پھیلے۔
پھر مفتی صاحب نے بالعموم درسگاہوں کے حوالے سے حکومت کو ذمہ داری کا احساس دلایا کہ اگر کہیں بھی عسکریت یا نفرت انگیزی کی تعلیم دی جارہی ہو تو اس کے خلاف اقدام کیا جائے۔ جہاں تک مدرسوں کا معاملہ ہے، مفتی صاحب نے اْن کا دفاع کیا، ہر قسم کی حکومتی آڈٹ کی پیشکش کی اور شکوہ کیا کہ ان پر بے جا الزامات بند ہونے چاہییں۔ انہوں نے دعوت و تبلیغ اور اظہارِ رائے کی آزادی کی توثیق کرتے ہوئے آرٹیکل 295 کا حوالہ دے کر اس آزادی کو قانون کے دائرے میں رکھنے کی تاکید فرمائی۔ مفتی صاحب نے صریح الفاظ میں واضح کیا کہ مفتیان اور علما کا اختیار کفر کو کفر کہنے اور سائل کو شرعی حکم بتانے تک محدود ہے۔ کسی شخص پر اس کے اطلاق اور اس کے کفر و اسلام کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف حکومت و عدالت کو ہے۔ پھر دنیاوی تعلیم کے پرائیویٹ اداروں کے لیے کچھ اصلاحات تجویز فرمائیں۔ مفتی صاحب نے یہ نکتہ بھی واضح فرمایا کہ علما غیر مسلم شہریوں کے انسانی، شہری اور مذہبی حقوق کی توثیق اور ان کے تحفظ کی پاسداری کا عہد کرتے ہیں۔ آخری نکتے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے اْن کی وراثت، تعلیم، شادی اور حق رائے دہی جیسے حقوق کی پاسداری کی تاکید کی اور حکومت کو قانون کی طاقت سے ان کی رکھوالی کی نصیحت فرمائی۔

قومی بیانیے کا طائرانہ جائزہ

سب سے پہلے مفتی منیب الرحمن صاحب مع مساعد علما شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے حکومت و عوام کی معاونت کی خاطر یہ مفصل بیانیہ مرحمت فرمایا۔ اْن کی یہ کاوش قابلِ ستائش و توصیف ہے۔ پھر جس دو ٹوک، بلااستثنا اور بے لاگ انداز میں محارب گروہوں کی قتل و غارت گری کو حرام لکھا ہے، یہ بھی لائق تحسین ہے۔
اب آئیے اس کے تجزیے کی طرف۔
اس بیانیے کا سب سے پہلا اور اہم ترین پہلویہ سامنے آتا ہے کہ علما کی رائے میں روایتی مذہبی فکر یا اس پر مبنی مروّجہ مذہبی بیانیہ اور اس دور کے مفسدین کے نظریات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ یعنی وہ اس کے قائل ہیں کہ مروّجہ مذہبی بیانیے میں کوئی شے ایسی نہیں جو اِنتہاپسندی یا دہشتگردی کا باعث بن رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایسے مذہبی نظریے یا استدلال سے تعارض جو متشدد تحریکیں اپنی تائید میں اکثر پیش کرتی رہتی ہیں، اس بیانیے میں سرے سے جگہ ہی نہ بنا سکا۔ ہاں، مفسدین کے اعمال کی مذمت انہوں نے دہرائی ہے،تاہم شاید ہی کوئی حلقہ دانش یا مکتب فکر ایسا ہو جس نے اس کی مذمت بارہا نہ دہرائی ہو؛ الغرض تحصیل حاصل۔ شاید اسی لیے انہوں نے اس کا نام مذہبی بیانیہ کے بجائے قومی بیانیہ رکھا ہے۔ چنانچہ یہ واضح ہوا کہ علما کے نزدیک محارب گروہوں کے مذہبی بیانیے کا کوئی پہلو لائقِ تنقیح نہیں۔ اہل علم و دانش کے لیے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں پھر کچھ مانع نہیں کہ اِن محارب گروہوں کے نظریات و اہداف کی تو علما توثیق کرتے ہیں، فقط طریقہ کار سے اختلاف ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ بنیادی نظریات پر بحث یا ان کی وضاحت کے بجائے یہ بیانیہ مختلف شعبہ ہائے ریاست و حکومت سے متعلق مجوزہ اصلاحات پر مرتکز نظر آتا ہے۔ پس اپنے مقصد کے اعتبار سے یہ بیانیہ کم اور مسودۂ انتظامی اصلاحات زیادہ معلوم پڑتا ہے۔ باوجود اس کے، حکومت کو تجویز کردہ اِن گراں قدر اصلاحات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ یہ خیر کا باعث بہر حال بن سکتی ہیں۔ جیسے مثلاً فتووں کے لزومی و التزامی تخصیص کے باب میں کسی مفتی کی حدود کا تعین اور حکومت و عدالت کے اختیارات کی توضیح موجب اصلاح تجویز ہے۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ یہ بیانیہ بین السّطور اور مبہم الفاظ میں اِن باغی گروہوں کے تولد و وجود کی اصل ذمہ داری حکومت پر ڈالتا ہے، اور اس کا سبب شریعت کے نفاذ سےْ وگردانی یا کوتاہی کو قرار دیتا ہے۔ اسی لیے اس بیانیے کی مجوزہ اصلاحِ اقدامات کابشکل کبیر رخ حکومت کی طرف ہے اور متشدد گروہوں کی جانب نسبتاً کہیں کم۔
چوتھا پہلو یہ ہے کہ یہ بیانیہ باغی گروہوں کے ظالمانہ اعمال کی مذمت و تحریم تو کرتا ہے، پر اس کے لیے بھی کوئی دینی استدلال فراہم نہیں کرتا۔ بیانیے کا مقصد ہر کوئی جانتا ہے کہ فقط یہ تو نہیں تھا کہ مفسدین کی لفظاً مذمت کر دی جائے، یا حرام کو حرام اور حلال کو محض حلال کہہ دیا جائے، بلکہ یہ تھا کہ ایسے مذہبی استدلال، خواہ اجمال سے ہی سہی، پیش کیے جائیں جن سے ان کے فاسد نظریات 150 جو ان کے مہلک افعال کا سر چشمہ ہیں 150 کی تصحیح اور سادہ لوح عوام اور مخلص مسلمانوں کی رہنمائی ممکن ہو سکے۔ جیسے مثلاً پہلے ہی نکتے میں قرآن و سنت کے مطابق قوانین بنانے میں 'کوتاہی' کے نتیجے میں حکومت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کی ممانعت تو لکھی، پر اِس کے لیے کوئی شرعی جواز فراہم نہیں کیا؛ باوجود اس کے کہ یہ 'کوتاہی' کا دعوی سراسر ایک موضوعی رائے ہے جسے کوئی دوسرا 'سرکشی' پر محمول کر کے ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون کے زمرے میں لے آسکتا ہے، اور جبکہ باغی گروہ اس استدلال کا سہارا ہر حملے کے فوراً بعد نشر کیے جانے والے بیانات میں بہ تکرار لیتے بھی نظر آتے ہیں۔ پس کسی قسم کے دینی استدلال سے خالی یہ بیانیہ علمی طور سے کمزوری کا مظہر نظر آتا ہے۔
پانچواں اور آخری اہم پہلو یہ ہے کہ بیانیہ تحریر و پیش کرنے والے قابل صد احترام مفتی صاحب کا تعلق جس مسلک سے ہے، سب اہلِ علم جانتے ہیں کہ اِس مسلک کے عقائد و نظریات اور پیروکار 150 ایک تحفظ ناموسِ رسالت کے زمرے کے کچھ متجاوز اقدامات کے ماسوا 150کبھی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث و منسوب نہیں پائے گئے۔ یہ تو چند اور مسالک ہیں جس کے کچھ متبعین اس ناسور سے گھائل ہوئے اور ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ چنانچہ اِن کے قلم سے تسوید خیالات سے مخاصمین کی اصلاح کی امید کچھ اتنی ہی ہے جتنی اس خط سے ہونی چاہیے جو پوپ (pope) نے تعددِ ازواج کی مذمت پر مبنی مورمنوں (Mormons) کے نام ارسال کیا ہو۔ اگرچہ مفتی صاحب نے دوسرے مسالک کے پیشواؤں اور ان کے نمائندوں کے موثق و ہم نوا ہونے کا دعویٰ کیا ہے، تاہم فدوی کو یہ خوف ہے کہ کہیں غائبانہ توثیق اس اہم معاملے میں ناکافی نہ سمجھی جائے۔ پس انہیں ببانگ دہل اس کی تائید میں سامنے آنا ہو گا۔
اب آئیے، ان نکات کے ذیل میں دونوں بیانیوں کی تشخیص کی موزونیت ماپتے ہیں جن کو مخاصمین مذہبی بیانیے کی حیثیت سے اپنائے ہوئے ہیں اور وقتاً فوقتاً پوری قوت و چیلنج کے ساتھ ان کی نمائش بھی کرتے رہتے ہیں۔ نظریات کی یہ تالیف ظاہر ہے کہ میرا انتخاب ہے اور اس میں حذف و اضافہ ممکن، تاہم مجھے اپنی تحقیق کے جامع ہونے پر اعتماد ہے۔

دہشت گردوں کا بیانیہ

نکتہ 1: اسلام کا نظام فقط خلافت ہے جو یہ تقاضاکرتا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی ایک ہی سلطنت اور ان کا ایک ہی خلیفہ ہونا چاہیے۔ ہر مسلمان پر اس کے قیام کی جدوجہد کرنا واجب ہے۔ موجودہ دَور کی متفرق ریاستوں کے عوام اور اِن کے حکمران اس حکم کی صریح خلاف ورزی کر کے، اور خلافت کے مقابل میں جمہوریت جیسے کفریہ نظام کو اپنا کے، شدید گنہگار ہو رہے ہیں۔ پس جو کوئی اس ’’ایک اسلامی خلافت‘‘ کے قیام میں حائل ہو رہا ہو یا اس گناہ پر مطمئن ہو، وہ گمراہ، بعض صورتوں میں فاسق اور بعض میں کافر اور حلال الدم بھی ہو جاتا ہے۔ ہمارے سب جارحانہ اقدامات اسی تناظر میں ہیں۔
نکتہ 2: تمام مسلمان ایک قوم ہیں۔ اسلام میں قومیت کی بنیاد صرف ہمارا مذہب ہی ہو سکتا ہے۔ موجودہ دَور کی ریاستیں چونکہ مذہب کے علاوہ دوسرے مشترکات 150 جیسے زبان، رنگ، نسل، علاقہ وغیرہ 150 کی بنیاد پر بنی ہیں، اس لیے حرام ہیں، اور اِن سرحدوں کا مٹا دینا دین کا تقاضا۔ویسے بھی سرحدوں کی یہ لکیریں کافروں کی کھینچی ہوئی ہیں، اس لیے باطل منذ البدایۃ (void ab initio) اور ناقابل قبول ہیں۔ لہٰذا اللہ کی زمین کو اِن ناجائز و بدعی سرحدوں سے پاک کر دینا یا کم از کم اس کی جدو جہد کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے۔جو مسلمان یہ نہیں کر رہے، وہ شدید گنہگار ہیں۔
نکتہ 3: کفر و شرک کو دنیا میں رہنے کی اجازت تو دی جا سکتی ہے، پر کسی خطہ ارض پر حکومت کرنے کی نہیں۔ یہ زمین جس طرح صرف خدائے واحد کی ملک ہے، اسی طرح یہاں امر (حکومت) کا اختیار بھی صرف اسی کو ہے۔ پس مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ پوری زمین کو خدائے واحد کی حکمرانی میں لانے کے لیے ہر لمحہ کافر و مشرک اقوام سے برسرِ پیکار رہیں، اور اس مقصد کے حصول کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے مثال پکڑتے ہوئے دعوت، تبلیغ، مجادلہ اور جارحانہ اقدامات سب اپنائے جا سکتے ہیں۔ ایک دِن تو ایسا آنے ہی والا ہے جب پوری زمین پر صرف اسلام کا بول بالا ہو گا، پر اِس دن کو لانے کی جدو جہد کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔
نکتہ 4: اسلام کی رو سے کافر کی جان کو فی الحقیقۃ کوئی حرمت حاصل نہیں۔ ہاں، اگر انہیں کسی مسلمان یا معاہد قوم یا ان کے اربابِ اقتدار نے امان دے رکھی ہو تو ایک طرح کی عارضی حرمت اِن کے باب میں بھی قائم ہو جاتی ہے۔ تاہم، چونکہ کوئی ایسی اسلامی حکومت نہ تو پاکستان میں اور نہ ہی دوسرے اسلامی ممالک میں قائم ہے جو اسلامی حکومت کہلانے کی لائق یا اہل ہو تو اس سبب سے اِن کی دی ہوئی امان بھی باطل و ناکارہ ہے۔ پس کہیں بھی غیر مسلموں کی بے دریغ گردن زنی کرنا دینی اعتبار سے بالفعل جائز ہے۔
نکتہ 5: ارتداد کی سزا اسلام میں موت ہے۔ یہ سزا دینے کا اصل اختیار اور ذمہ داری حکومت ہی کے پاس ہے۔ پر جب نہ تو حکومت خود ہی اسلامی کہلانے کی اہل ہو اور/یا اس سزا کے اطلاق میں ناکامی یا عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہو، تو مخلص مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اللہ کی اس حد کی پاسداری و نفاذ کریں۔ اس سبب سے وہ فرقے جو اپنے بعض عقائد (جیسے اسلاف سے شرکیہ عقیدت، تحقیر صحابہ وغیرہ)، یا افعال (جیسے ہجو رسول، مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کی اعانت وغیرہ)کے باعث مرتد ہو چکے ہیں، اْن کی گردن زنی جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہو جاتی ہے۔
نکتہ 6: نفاذِشریعت کی جدوجہد ہر مسلمان پر دینی فریضہ ہے۔ پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا۔ پس جو حکمران اور معاون حکومتی ادارے، یہاں تک کہ ان کی معاونت کرنے یا ان کے ساتھ اس انحراف میں تسامح برتنے والے علما، جو کوئی بھی پاکستان یا دنیا کے کسی اور مسلم ملک میں نفاذِ شریعت (جس میں نماز، زکوٰۃ، حدود، داڑھی، پردہ، آلاتِ موسیقی کی ممانعت، غیر مسلموں کی اذلّ شہریت اور ان سے جزیہ کی وصولی جیسے اسلامی قوانین اور شعائر کی پابندی شامل ہے) سے انحراف یا پس وپیشی سے کام لے رہا ہے وہ اللہ کا مجرم ہے اور سورہ مائدہ کی آیات 44، 45 اور 47 کے تحت سرکش و کافر ہو چکا ہے۔
نکتہ 7: جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یہ اصلاً دین اسلام کو تمام دنیا پر نافذ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے (کلمۃ اللہ ھی العلیا)۔ پھر مزید اِس وقت جو صورتحال مسلم ممالک پر غیر مسلم عالمی قوتوں کے ہاتھوں حملوں اور قبضوں کے باعث درپیش ہے، یہ بھی اِن حربیوں کے خلاف قتال اور 'ہلکے ہو یا بوجھل، اللہ کی راہ میں نکلو' کا تقاضا کرتی ہے۔پس ہر سالم عقل و بدن مسلمان کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف غیر مسلم قوتوں کے ہر ہر معاون (فوجی، حکمران، ریاستی اداروں، جنگ پر گرمانے والے لکھاریوں حتی کہ ٹیکس کے ذریعے بالواسطہ معاونت کرنے والے عوام) کے خلاف ہر جلی و خفی طریقے سے جنگ کریں بلکہ جو مسلمان افراد یا ممالک بھی معاونت علی الاثم کے اس جرم میں ان کے شریک کار ہیں، اِن سب کو بھی غیر مسلموں میں سے ہی شمار کر تے ہوئے اِن کی بھی بیخ کنی سر انجام دیں، اور فقط نام کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان سے کوئیْ و رعایت نہ برتیں۔ یہی آیت ومن یتولھم منکم فانہ منھم کا تقاضا ہے۔
یہ ہے وہ بیانیہ اور بالعموم وہ بنیادی نظریات جن کے دہشت گرد قائل ہیں اور جن کی اشاعت و تبلیغ ان کی جانب سے بارہا ہو چکی ہے۔ اور کوئی محقق بھی بشکل مستقل ذاتی طور پر یہ باور کر سکتا ہے کہ دہشت گردوں کے ہر ظالمانہ فعل کا اصولی کھرا انہی نکات میں سے کسی ایک تک پہنچتا ہے۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ علماء اور غامدی صاحب کے پیش کردہ بیانیے اِن سے کس طور پر تعارض کرتے ہیں۔

تعارض

نکتہ 1: جوابی بیانیہ کا نکتہ نمبر 2 خلافت کے نظریے کو اپنی بنیاد سے ہدف بنا کر یہ واضح کرتا ہے کہ نہ تو خلافت دین اسلام کی کوئی اصطلاح ہے اور نہ ہی اس کا کسی عالمگیر سطح پر قیام مسلمانوں سے کوئی دینی تقاضا۔ خلافت کا اصطلاح بننا اور اس کے لوازمات کا شمار بعد کے ادوار میں ہوا۔ اوّلین ماخذوں میں حکم تھا تو فقط اتنا کہ اگر کسی قطعہ ارض میں حکومت مسلمانوں کے پاس آ جائے تو ان کی ذمہ داری ہے کہ اللہ کے احکامات کی پاسداری کریں، انصاف سے معاملات چلائیں، اور اپنے پورے نظام کو باہمی مشاورت پر استوار کریں۔ اسی طرح نکتہ نمبر 8 جمہوریت کو گناہ تو کجا باہمی مشاورت اور منشائے الٰہی کی ایک مجسم اور قابل عمل موجودہ صورت بتاتا ہے اور اس کے لیے دلائل بھی فراہم کرتا ہے۔ پھر اِن دونوں نکات کی مزید وضاحت اور علما کے اعتراضات کے جوابات کے لیے دو پورے مضامین بھی اس جوابی بیانیے کے ضمیمہ کے طور پر فراہم کرتا ہے۔ الغرض یہ بیانیہ دہشت گردوں کے نظریے کی بنیاد ہی کا استیصال کر دیتا ہے۔ پس مسلمانوں کا مجرم یا گنہگار ہونا تو درکنار، ان کے دورِ حاضر کی ریاست و جمہوریت کا وفادار بن کے رہنے کو ہی عین مطلوبِ اسلام ثابت کرتا ہے۔
قومی بیانیہ: قومی بیانیہ اس نکتے سے تعرض ہی نہیں کرتا۔
نکتہ 2: جوابی بیانیہ کا نکتہ نمبر 3 پورے ارتکاز سے اس خیال کی تردید کرتا ہے کہ مسلمانوں کا متفرق اقوام میں بٹ جانا دین کے کسی حکم یا ہدایت کی خلاف ورزی ہے۔ اسلام کی تعلیم فقط یہ ہے کہ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں، ایک دوسرے کے ہمدرد اور مددگار ہیں، ایک جسم کی مانند ہیں۔ چنانچہ چاہے وہ ایک سلطنت کے باسی ہوں اور چاہے سینکڑوں، چاہے مشرق میں رہتے ہوں اور چاہے مغرب میں، ان کا ایک دوسرے کو بھائی سمجھنے میں اور دکھ درد میں شریک ہونے میں کوئی شے مانع نہیں۔ اسی طرح وطن اور ملک کا قیام جس طرح مذہب کے اشتراک کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے، اسی طرح دوسرے مشترک خصائص جیسے رنگ، نسل، زبان، جغرافیہ کی بنیاد پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر قرآن و حدیث میں اس کے بر عکس کوئی حکم ہے تو پیش کیا جائے۔
قومی بیانیہ: اس اہم نظریے پر بھی یہ بیانیہ سکوت اختیار کیے ہوئے ہے۔
نکتہ 3: جوابی بیانیے کا کوئی نکتہ براہِ راست اس نظریے کو موضوع نہیں بناتا۔ تاہم، اس سے تعارض کے لیے اصل بنیادی مقدمہ وہی ہے جسے جوابی بیانیے کے نکتہ نمبر 5 اور 6 پیش کرتے ہیں۔ یعنی اسلام کی رو سے یہ باور کرایا جائے کہ اگرچہ کفر و شرک ابدی جرائم ہیں مگر اِن جرائم کو اختیار کرنے کی اللہ نے اس زندگی میں ہر کسی کو کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ اس دنیا کی حد تک یہ قابل دست اندازی جرائم سرے سے ہیں ہی نہیں۔ کافر و مشرک یہاں فقط مخاطب دعوت ہیں۔ ان جرائم پر محاسبہ صرف آخرت میں اللہ خود کرے گا۔ اور اگر دنیا میں مثال بنانے کے لیے اللہ نے اس پر محاسبہ کیا بھی ہے تو ایک پورا نظام اس کے لیے وضع فرما کر قرآن میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے، جس کے تحت یہ دروازہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔پس جس طرح ان کفار و مشرکین کو دنیا میں اپنے مذاہب پر قائم رہنے کی پوری آزادی ہے، اسی طرح حکومت بنانے کی بھی پوری اجازت ہے۔ اور رہی بات اسلام ان تک پہنچانے کی تو اس مقصد کے لیے صرف دعوت و تبلیغ کا رویہ اپنایا جا سکتا ہے۔ جہاد و قتال دینی اعتبار سے صرف اور صرف ظلم و عدوان، جسے شرعی اصطلاح میں فتنہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، کے خلاف جائز و روا ہے۔تاہم، یہ تبصرہ ضروری ہے کہ جوابی بیانیہ اس نظریے سے پورے ارتکاز اور شد و مد سے تعارض کرنے اور استدلال کو سینگوں سے پکڑنے میں کچھ ناقص دِکھتا ہے۔
قومی بیانیہ: اس نظریے سے تعارض بھی قومی بیانیے میں جگہ نہ بنا سکا۔
نکتہ 4: جوابی بیانیے کا نکتہ نمبر 5 اس نظریے سے بھی مماسی تعارض اس طرح کرتا ہے کہ جب کفر و شرک وغیرہ ایسے جرائم ہی نہیں جو اس دنیا میں قابل دست اندازی و سزا ہوں تو پھر کفارو مشرکین کی جان کی حرمت اس طرح کے اٹکل پچوؤں سے حلال کرنا سراسر زیادتی اور اللہ کے دین کے ساتھ مذاق ہے۔ تاہم یہاں بھی جوابی بیانیہ انسانی جان کی مطلق حرمت پر مبنی کسی دلیل کے ذریعے جو اس فاسد نظریے کا استیصال کر دیتی، براہِ راست تعارض میں کمزور ہے۔
قومی بیانیہ: قومی بیانیے نے اس نکتے کو کسی حد تک براہِ راست اور کسی حد تک مماسی موضوع بنایا ہے، اور نکتہ نمبر 1 میں بتا یا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اگر اسلام کے نفاذ میں ان سے کوتاہی ہو رہی ہے تو یہ بے عملی ہے اور اس کوتاہی کی وجہ سے سے ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک، حکومت وقت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ پس اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اِن کی دی ہوئی امان پوری طرح سالم اور قائم ہے۔ پھر نکتہ 14 میں غیر مسلموں کے کچھ حقوق کے تحفظ اور مذہب پر عمل کرنے کے پورے حق کی توثیق فرمائی۔ تاہم کافر کی جان کو فی الحقیقت حرمت حاصل نہ ہونے جیسے سنگین نظریے سے کسی قسم کا کوئی تعارض یہاں بھی مفقود ہے۔
نکتہ 5: جوابی بیانیہ کا نکتہ نمبر 4 اور 5 اس نظریے کو مرکز پارہ بنا کر پوری طرح نابود کر دیتے ہیں۔ یہ نکات یہ بات واضح کرتے ہیں کہ اوّل تو کفر و شرک کی طرح ارتداد بھی اس دنیا کی حد تک قابل سزا جرم ہی نہیں۔ اِس کا محاسبہ بھی موضوعِ آخرت ہے۔ اور دوم، یہ حق اللہ نے کسی انسان کو دیا ہی نہیں کہ وہ دوسروں کے کفر و اسلام کا فیصلہ کر سکیں، کجا کہ اس پر سزا کا موقع آئے۔ جو مسلمان اپنے اقرار سے مسلمان ہوں مگر کچھ گمراہ عقائد یا اعمال اپنائے ہوئے ہوں تو ان کے متعلق علما کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ ان کو علمی انداز میں ان کی غلطی کا احساس دلایا جائے اور بس۔ اور رہا اللہ کے حدود کا نفاذ تو نکتہ نمبر 9 اور 10 یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ اجتماعی احکامات اربابِ حل و عقد ہی سے متعلق اور وہی ان کے مخاطب ہیں۔ اسی لیے اگر وہ کسی ثابت شدہ حد (نہ کہ ارتداد کی سزا جس کا حد ہونا ہی ان کے مطابق بے بنیاد ہے) کے نفاذ میں بھی کوتاہی یا سرکشی کریں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ جتھہ بندی کر کے خود حدود کا نفاذ شروع کر دیں۔
قومی بیانیہ: ارتداد جیسے اہم موضوع سے بھی کوئی اصولی تعارض نہیں کیا گیا۔ ہاں ارتداد کے اطلاق میں نکتہ نمبر 1 اور 12 کے ذیل میں یہ بات البتہ واضح کی گئی ہے کہ نہ تو حکومت پاکستان کو مرتد کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی فرد یا ادارے پر اس کا اطلاق عدالت کے سوا کوئی کر سکتا ہے۔ تاہم، اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی شرعی دلیل مرحمت نہیں فرمائی۔ بایں ہمہ، اس طرزِ گفتگو سے انہوں نے اس تاثر کو قوت بخشی ہے کہ کسی کو مرتد قرار دینا مذہبی اعتبار سے بر حق ہے اور اس کی سزا موت ہی ہے، مگر اس کا طریقہ کار وہ نہیں ہے جو مفسدین اپنائے ہوئے ہیں۔
نکتہ 6: جوابی بیانیہ شاید اس نفاذِ شریعت کے نظریے پر سب سے زیادہ تفصیل سے کلام کرتا ہے اور اس کے نکات9 اور 10 مختلف جہتوں سے اس کی مفصل وضاحت کرتے ہیں۔ یہ نکات بتاتے ہیں کہ نفاذِ شریعت کی اصطلاح ہی مغالطہ انگیز ہے، اِس لیے کہ اِس سے یہ تاثر پیدا ا ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام ریاست کی طاقت سے لوگوں پر نافذ کر دے، دراں حالیکہ قرآن و حدیث میںیہ حق کسی حکومت کے لیے بھی ثابت نہیں ہے۔ اس لیے اسے شریعت پر عمل کی دعوت کہنا چاہیے۔پھر مزید یہ بیانیہ تفصیل کے طور پر پورے تعین اور تحدید کے ساتھ ایک فہرست بنا کر بتا تا ہے کہ وہ کون سے انفرادی اور اجتماعی دینی احکامات ہیں جن کے نفاذ کا اختیار اسلام کی رو سے حکومت کو حاصل ہے اور جن کے نفاذ کا مطالبہ وعظ، نصیحت اور انذار کے ذریعے حکمرانوں سے عوام کر سکتے ہیں۔ پھر اس پر ایک مزید توضیحی مضمون 'قانون کی بنیاد'کے عنوان سے بھی مرحمت فرمایا جو اس سلسلے میں اساسی اشکالات رفع کرتا ہے۔ میری رائے میں اس نظریے سے تعارض جوابی بیانیے کا ذروۂ سنام ہے۔
قومی بیانیہ نفاذِ شریعت کی تعبیر یا تفصیل کے متعلق خاموش ہے، البتہ علما کی جانب سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ حکومت سے اس بیانیے میں بھی دہرایا گیا ہے، اس تخصیص کے ساتھ کہ اس نفاذ کی جدوجہد صرف پر امن طریقوں ہی سے ممکن ہے۔ اور جو طاقت کا استعمال وہ کر رہے ہیں اور اس کے نام پر قتل و غارت گری مفسدین نے مچا رکھی ہے، وہ قطعی حرام ہے۔تاہم، حسب معمول کوئی شرعی دلیل اس حرمت پر بھی غیر مذکور ہے۔
نکتہ 7: جوابی بیانیہ کے نکات 6 اور 7 جہاد کے اس طرح کے نظریات کے تفصیلی ردّ پر مشتمل ہیں اور باحسن و خوبی اس کی انجام دہی کرتے ہیں۔ یہ بیانیہ بتاتا ہے کہ جہاد فقط ظلم و عدوان کے خلاف ممکن ہے۔ یہ صرف مقاتلین (combatants) کے خلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس کے دوران اخلاقیات ہمیشہ مقدم ہیں۔ اور جہاں تک اختیار کا تعلق ہے تو قرآن و حدیث میں جہاد کا اختیار صرف نظم اجتماعی کو حاصل ہے۔ وہی اِن احکامات کے مخاطب ہیں۔ اس لیے کوئی فرد یا گروہ جہاد کے فیصلے کا ذاتی اختیار رکھتاہی نہیں۔ البتہ مسلمانوں کا غیر مسلم اقوام کو مسلمان اقوام کے خلاف معاونت مہیا کرنے کی صورت میں یہ بیانیہ امکان، جواز، عدم جوازوغیرہ جیسے موضوعات پر بحث کے معاملے میں کچھ تشنہ رہ گیا ہے۔میرے نزدیک یہ ایک بڑی تشنگی ہے۔
قومی بیانیہ: جہاد کے موضوع سے بھی کوئی قابل ذکر تعارض اس بیانیے میں نہیں۔ نکتہ نمبر 4 اور 6 میں خود کش حملوں کی حرمت کی تکرار اور فرقہ وارانہ مسلح تصادم کو ناجائز و جرم لکھا ہے۔ پر یہ اس نظریہ جہاد کے چند اطلاقات سے تعارض سے زیادہ کچھ نہیں۔

اختتامیہ

دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے جو بیانیہ نظریات ہر غیر جانبدار محقق کے مطابق مولد فساد ہیں، ان کے مقابل میں ایک ایسے بیانیے کی ضرورت تھی جو ان فاسد نظریات کے متعلق دین اسلام کے صحیح نظریات مدلل انداز میں پیش کر کے مفسدین، امت مسلمہ اور غیر مسلم اقوام کے سامنے اسلام کے بے داغ نظریات پیش کر دیں، اور امت مسلمہ کو وہ فکری ہتھیار مہیا کریں جن کی ترویج و اشاعت سے مفسدین کو متواتر بہم پہنچنے والی انسانی کمک تھم سکے اور اس جاری و صاری مذہب کے نام پر فساد کا خاتمہ ممکن ہو۔ 
غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ تقریباً ان سارے ہی نظریات سے تعارض کرتا اور بڑے پر مغز انداز میں ان کی غلطی واضح کرتا اور ان کی فری بنیادیں منہدم کرتا ہے۔ اور امت مسلمہ اور ان کی حکومتوں کو وہ دلائل فراہم کرتا ہے جن کی بنیاد پر وہ اپنے قافلے کو دشت ہلاکت سے شاہراہِ ہدایت پر لا سکتے ہیں۔ اس میں اگرچہ بہتری کی گنجائش موجود ہے، پر بنیادی مسودے کی حیثیت سے یہ پوری طرح جامع ہے۔
اس کے مقابل میں قومی بیانیے کے متعلق حیرانی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس نے تقریباً ان سارے ہی نظریات کو نظرانداز کر دیا ہے جو صرف یہی نہیں کہ محققین فساد کی رگِ معدن بتا رہے ہیں، بلکہ مفسدین خود بھی پورے خلوص و یقین سے اس کا اقرار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اِن نظریات سے دامن بچا کر علما نے 'تقوٰی' کا مظاہرہ کیا ہے یا 'تقیہ' کا، پر یہ معلوم ہے کہ یہ موقع اِن دونوں کا نہیں تھا۔ اس سے تو یہ تاثر ناقابل تجاہل ہو جائے گا کہ علما چاہے طریقہ کار کی درستگی پر کچھ نصیحتیں کررہے ہیں، پر مفسدین کے بنیادی نظریات کی خاموش توثیق کرتے ہیں۔
بہر حال اب یہ دو بیانیے عیاں ہو چکے۔ اب حکومت کو چاہیے کہ اپنی سرپرستی اور حفاظت میں بحث و مباحثہ کا ماحول اور فورم مہیا کرے، تاکہ ان بیانیوں کی بحث کے نتائج سے وہ اپنے لیے ایک حتمی بیانیہ تسوید کر سکے۔ یہ صرف چند لفظوں کی جنگ نہیں، مسلمانوں کے بقا کی جنگ ہے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس معاملے میں اضمحلال، عدم دلچسپی یا تاخیر سے حکومت اللہ کے سامنے مجرم قرار پا رہی ہے۔
یہ یاد رہے کہ مذہب اس فساد کے سکے کا مگر ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ سیاست ہے۔ ہمیں اپنی داخلی و خارجہ پالیسی پر بھی نظر ثانی کرنی ہے اور اس کے لیے بھی ایک ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو ہمیں عالمی قوتوں کی طاقت سے مجبور ہو کر بھی اندرونی یا بیرونی کسی ایسی پالیسی کا حصہ نہ بننے دے جو پاکستان کے شہریوں کو مذہب سے لاتعلق ہونے یا اس کا غلط استعمال کرنے یا اخلاقی ضوابط کو طاقِ نسیاں کے سپرد کرنے پر مجبور کرے۔ کسی اصولی اخلاقی وجہ سے نہیں تو کم از کم اس کے مہلک نتائج سے ہی کچھ سبق سیکھ کر ہمیں اپنی پیمانہ بندی کرنی ہے۔

وزیراعظم اور ’’متبادل بیانیہ‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ دنوں جامعہ نعیمیہ لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دینی حلقوں کی طرف سے ’’متبادل بیانیہ‘‘ کی جس ضرورت کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں مختلف حلقوں میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور ارباب فکر و دانش اپنے اپنے نقطہ? نظر کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کی یہ تقریر الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ براہ راست سننے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ انہوں نے موجودہ عالمی اور قومی تناظر میں جس ضرورت کا اظہار کیا ہے وہ یقیناً موجود ہے لیکن ’’بیانیہ‘‘ کی اصطلاح اور ’’متبادل‘‘ کی شرط کے باعث جو تاثر پیدا ہوگیا ہے وہ کنفیوڑن کا باعث بن رہا ہے، ورنہ یہ بات زیادہ سیدھے اور سادہ انداز میں بھی کی جا سکتی تھی۔
ہمارے نزدیک وزیراعظم کی تقریر کا مجموعی اور عمومی مفہوم یہ بنتا ہے کہ دہشت گردی کے مبینہ جواز کے لیے اسلامی تعلیمات کا جس طرح غلط طور پر حوالہ دیا جا رہا ہے، علماء کرام کو اس کا جواب دینا چاہیے، ملک کے امن و استحکام کے لیے دینی تعلیمات کو مثبت انداز میں وضاحت کے ساتھ سامنے لانا چاہیے اور معاشرہ کی فرقہ وارانہ تقسیم کو ختم کرنے کے لیے دینی مدارس کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ان باتوں سے کسی بھی مکتب فکر کے سنجیدہ حضرات کو اختلاف نہیں ہو سکتا لیکن ’’نئے قومی بیانیہ‘‘ کی اصطلاح کچھ عرصہ سے جس فکری تناظر میں عام کی جا رہی ہے اس کے پس منظر میں وزیراعظم کی زبان سے ’’متبادل دینی بیانیہ‘‘ کے جملہ نے ذہنوں میں سوالات کی ایک نئی لائن کھڑی کر دی ہے جو ہمارے خیال میں شاید وزیراعظم کے مقاصد میں شامل نہیں ہوگی۔ لیکن اب چونکہ یہ سوالات سامنے آگئے ہیں اور انہیں مختلف حوالوں سے دہرایا جا رہا ہے اس لیے اس کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنے کی ضرور ت ہم بھی محسوس کر رہے ہیں۔
’’قومی بیانیہ‘‘ سے مراد اگر ملک و قوم کی بنیادی پالیسی اور ریاستی تشخص کے بارے میں ’’قوم کی متفقہ رائے‘‘ ہے تو یہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی ’’قرارداد مقاصد‘‘ کے عنوان سے طے شدہ ہے جو ملک کے ہر دستور میں شامل رہی ہے اور موجودہ دستور کا بھی باقاعدہ حصہ ہے۔ حتیٰ کہ چند برس پہلے جب پارلیمنٹ نے پورے دستور پر نظر ثانی کی تھی تو قرارداد مقاصد کو متفقہ طور پر دستور کے باضابطہ حصہ کے طور پر برقرار رکھا گیا تھا جو اس کی پوری قوم کی طرف سے از سر نو توثیق اور تجدید کے مترادف ہے۔ اس لیے ملک کے نظریاتی تشخص اور اس کے نظام و قوانین کی اسلامی بنیادوں کو ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی کوئی بھی بات دستور سے انحراف کی بات ہوگی جو ملک کی دستوری وحدت اور معاشرتی استحکام کو ایک ایسے خلفشار کا شکار بنا سکتی ہے جسے سمیٹنا عالمی قوتوں کی مسلسل اور ہمہ نوع مداخلت کے موجودہ ماحول میں شاید کسی کے بس میں نہ رہے۔ اس لیے ملک کے نظریاتی تشخص کے حوالہ سے کسی نئے قومی بیانیہ کا نعرہ اپنے اندر فکری اور تہذیبی خلفشار بلکہ تصادم کے جن خطرات کو سموئے ہوئے ہے ان سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی ملک و قوم کو فکری طالع آزماؤں کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر ’’قومی بیانیہ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ معاشرہ کی فرقہ وارانہ تقسیم اور دہشت گردی کے لیے دینی تعلیمات کا غلط اور مسلسل حوالہ دیے جانے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس دلدل سے قوم کو نجات دلانے کے لیے علمی اور عملی جدوجہد کی جائے تو یہ بلاشبہ آج کی سب سے بڑی قومی ضرورت ہے، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں اب تک کی جانے والی اجتماعی کوششیں وزیراعظم کے سامنے نہیں ہیں، مثلاً
1951ء میں تمام مکاتب فکر کے 31 اکابر علماء کرام نے 22 متفقہ دستوری نکات قوم کے سامنے رکھے تھے جو دینی حلقوں کی طرف سے پیش کیا جانے والے ’’قومی بیانیہ‘‘ ہی تھا۔ جبکہ 2013ء4 میں تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء4 کرام کے مشترکہ علمی فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ نے مختلف مکاتب فکر کے 57 اکابر علماء کرام کو ازسرنو جمع کر کے 15 وضاحتی نکات کے اضافہ کے ساتھ ان 22 نکات کی ازسرنو توثیق کرائی تھی جس کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ملک میں نفاذِ اسلام ضروری ہے مگر اس کے لیے مسلح جدوجہد اور ہتھیار اٹھانے کا طریق کار شرعاً درست نہیں ہے، اور اسلامی قوانین و نظام کا صحیح نفاذ پرامن قانونی جدوجہد کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔
جب امریکی تھنک ٹینک ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ کی طرف سے دیوبندی مکتب فکر کو موجودہ دہشت گردی کا پشت پناہ قرار دیا گیا تو اپریل 2010ء میں دیوبندی مکتب فکر کے تمام حلقوں اور مراکز کی قیادتوں نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں جمع ہو کر متفقہ طور پر اس دہشت گردی سے برا?ت کا اعلان کیا اور نفاذِ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانے کو شریعت کے منافی قرار دیا جسے رینڈ کارپوریشن اور اس کے ہمنوا اب تک قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ستمبر 2015ء کے دوران وزیراعظم ہاؤس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے اجلاس میں طے کیا گیا کہ دہشت گردی سے براء ت کے بارے میں اجتماعی موقف کا ایک بار پھر اظہار کیا جائے تو مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمان، مولانا عبد المالک، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا محمد یاسین ظفر اور مولانا قاضی نیاز حسین نقوی پر مشتمل کمیٹی نے وقت کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ’’متفقہ قومی بیانیہ‘‘ مرتب کر کے وزیراعظم ہاؤس کو بھجوایا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے صرف اس لیے ’’داخل دفتر‘‘ کر دیا گیا کہ اس میں شریعت کے نفاذ کی بات بھی شامل تھی۔
یہ چند حوالے جو ہم نے پیش کیے ہیں قومی پریس کے ریکارڈ میں موجوود و محفوظ ہیں جنہیں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور زمینی حقائق سے آنکھیں بند کر کے نئے دینی اور قومی بیانیہ کا مطالبہ بار بار دہرایا جا رہا ہے جس پر کم از کم الفاظ میں افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے گزارش ہے کہ دہشت گردی کی مذمت اور ملک میں کسی بھی حوالہ سے ہتھیار اٹھانے کو ناجائز قرار دینے پر آج بھی تمام مکاتب فکر کے علماء کرام پوری طرح متحد ہیں اور ان کا دوٹوک موقف یہ ہے کہ
پاکستان کی نظریاتی اساس ’’قرارداد مقاصد‘‘ ہے جس سے انحراف کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
شریعت کا نفاذ ریاست کے مقاصد اور فرائض میں سے ہے لیکن اس کی جدوجہد دستور و قانون کے دائرہ میں ہونی چاہیے اور اس کے لیے ہتھیار اٹھانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لیے تمام دینی حلقے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جبکہ ملک کے نظریاتی تشخص، سیاسی استحکام، قومی وحدت اور امن کے قیام کے لیے بیرونی مداخلت کی روک تھام بھی ناگزیر ہے۔

’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘

گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی کے چند اساتذہ کے ساتھ ایک غیر رسمی گفتگو میں مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کی بات چل پڑی، ایک دوست نے کہا کہ مذہب اور ریاست میں تعلق کبھی نہیں ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں تو ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک ریاست کی بنیاد مذہب رہا ہے۔ خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ، خلافت عباسیہ اور خلافت عثمانیہ کا مجموعی دورانیہ تیرہ صدیوں کو محیط ہے اور ان سب کا ٹائٹل ہی ’’خلافت‘‘ تھا جو خالصتاً ایک مذہبی اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ امت مسلمہ کے اجتماعی معاملات کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کرتے ہوئے قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق چلانے کا نام ’’خلافت‘‘ ہے۔ اور یہ خلافت مختلف ادوار اور دائروں سے گزرتی ہوئی اب سے ایک صدی قبل تک قائم رہی ہے۔
پھر سوال ہوا کہ برصغیر میں مغل سلطنت مذہبی نہیں تھی۔ میں نے عرض کیا کہ بے شک اس کا ٹائٹل خلافت کی بجائے سلطنت تھا لیکن اس کی پالیسیوں کا حوالہ ہمیشہ اسلام ہی رہا ہے جبکہ قانون و نظام کا ماخذ و سرچشمہ قرآن و سنت اور فقہ اسلامی تھے۔ غزنوی?، لودھی?، غوری?، التمش?، ایبک? اور مغل خاندانوں میں عمومی طور پر عدالتی اور معاشرتی احکام و قوانین کا سب سے بڑا حوالہ اسلامی فقہ رہا ہے۔ حتٰی کہ مغل اعظم اکبر بادشاہ نے، جسے سب سے بڑا سیکولر حکمران کہا جاتا ہے، جب معاشرتی نظام میں تبدیلیوں کا پروگرام بنایا تو اپنے خود ساختہ مذہبی اور معاشرتی نظام کے لیے ’’دین الٰہی‘‘ کا عنوان اختیار کیا اور درباری علماء سے ’’مجتہد اعظم‘‘ کا خطاب حاصل کر کے یہ سارا کام ’’اجتہاد‘‘ کے نام سے کیا۔ چنانچہ جب 1857ء کی جنگ آزادی میں غلبہ پانے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاج برطانیہ نے اس خطہ کا نوآبادیاتی نظام براہ راست اپنے کنٹرول میں لیا اور نئے تعلیمی، عدالتی اور انتظامی سسٹم کا آغاز کیا تو اس کے لیے جس نظام کو منسوخ کیا گیا وہ درس نظامی اور فتاویٰ عالمگیری پر مبنی تھا۔ اس لیے یہ کہنا تاریخی حقائق کے منافی ہے کہ مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق نہیں رہا یا نہیں ہوتا، اور ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے کا مسلم ماضی اس دعویٰ کی نفی کرتا ہے۔ اس پر مجلس میں شریک ایک اور استاذ محترم کہنے لگے کہ ہم اپنے اس ماضی سے نہ کٹ سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے دستبردار ہو سکتے ہیں۔
ریاست اور مذہب کا تعلق کیا ہوتا ہے؟ یہ بحث اب اس قدر عام ہوگئی ہے اور ہر سطح پر گفتگو کا حصہ بن گئی ہے کہ اپنے عقائد، ماضی اور تہذیب و معاشرت کی پروا کیے بغیر میڈیا، لابنگ اور این جی اوز کے بیشتر ذرائع مسلسل یہ راگ الاپے جا رہے ہیں کہ مذہب اور ریاست کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا اس لیے مذہب کو ریاست اور حکومت کے معاملات سے الگ رکھنا چاہیے۔ مغربی فلسفہ کی نمائندہ یہ سوچ سیاسی حلقوں میں کہاں تک سرایت کیے ہوئے ہے اس کی ایک مثال مولانا مفتی منیب الرحمان کی طرف سے جاری کردہ ’’قومی بیانیہ‘‘ کا وہ متن ہے جو ابھی چند روز پہلے اخبارات کی زینت بنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب سے دو برس قبل وزیراعظم ہاؤس میں دینی مدارس کے تمام وفاقوں کے قائدین کے ساتھ ایک میٹنگ میں ان قائدین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی کہ وہ موجودہ حالات کی روشنی میں ایک ’’قومی بیانیہ‘‘ مرتب کریں۔ تمام مذہبی مکاتب فکر اور دینی مدارس کے وفاقوں کے قائدین نے مل کر اس قومی بیانیہ کے لیے مشترکہ متن مرتب کر کے حکومتی حلقوں کو بھجوایا جو ’’داخل دفتر‘‘ کر دیا گیا اور وجہ یہ ظاہر کی گئی کہ اس میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ شامل ہے جبکہ حکومتی حلقوں کے خیال میں قومی بیانیہ میں شریعت کا ذکر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم اس پر مفتی صاحب موصوف کے شکر گزار ہیں کہ ان کے اس مضمون سے دینی حلقوں اور حکومتی اداروں کے درمیان جاری کشمکش کی اصل وجہ سامنے آگئی ہے۔
مسئلہ اصل میں یہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کی بنیاد اسلامی تہذیب کی حفاظت اور اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدوں پر رکھی گئی تھی اور جس کے دستور میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کا واضح اعلان کیا گیا ہے، اس وطن عزیز کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے یہ تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام اور شریعت کو قومی معاملات سے الگ رکھا جائے۔ ہم اب تک یہ سمجھتے رہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت کو ختم یا کمزور کرنے کا مطالبہ صرف بیرونی ہے جس کے لیے عالمی ادارے دباؤ ڈال رہے ہیں اور بین الاقوامی سیکولر لابیاں مہم جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے حکمران اس دباؤ کا سامنا نہیں کر پا رہے۔ لیکن اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اس میں ’’سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کا بھی اچھا خاصا عنصر شامل ہے۔ اور اس ’’شوق‘‘ کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ اسلامی نظام حکومت میں قناعت پسندی، عوامی خدمت اور اقتدار کو خدائی امانت سمجھنے کی جو خصوصیات موجود ہیں، ان کے لیے ہمارا حکمران طبقہ خود کو تیار نہیں پاتا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تاج برطانیہ کے دور میں جو ریاستیں نیم خودمختار حیثیت سے برطانوی نوآبادیاتی نظام کا حصہ تھیں انہیں یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنے داخلی، قانونی اور عدالتی نظام کو شریعت اسلامیہ کے مطابق چلاتی رہیں جیسا کہ قلات، بہاولپور، سوات اور بہت سی دیگر ریاستوں میں ان کے پاکستان کے ساتھ باقاعدہ الحاق تک یہ نظام چلتا رہا لیکن اب آزاد پاکستان میں اس کی گنجائش موجود نہیں رہی۔ ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ اسے عالمی دباؤ اور بیرونی مداخلت کا نتیجہ قرار دیا جائے یا ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ کی روایتی نفسیات کا ثمرہ سمجھا جائے لیکن یہ بات اب واضح ہوگئی ہے کہ قومی معاملات اور شریعت اسلامیہ کے درمیان فاصلہ قائم رکھنے کی ’’ڈپلومیسی‘‘ کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں۔ اس لیے وطن عزیز کے اسلامی تشخص، نفاذ شریعت اور مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ کی جدوجہد کرنے والوں کو اب اپنی محنت کے دائروں اور ترجیحات کا ازسرِنو جائزہ لینے کا راستہ تلاش کرنا چاہے۔

’’جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ‘‘

مولانا سید متین احمد شاہ

مسلمانوں کی فکری تاریخ میں جب بھی دیگر تہذیبوں سے تصادم ہوا ہے تو اس کے نتیجے میں فکرونظر کے نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ صدرِ اول کی تاریخ میں یونانی افکار کے نتیجے میں مسلم دنیا کئی سوالات سے دوچار ہوئی۔اسی نوعیت کا ’انتقالی مرحلہ‘فکر مغرب کے عمومی اور ہمہ گیر استیلا کے نتیجے میں درپیش آیا جو فکر یونان کے مقابلے میں کئی درجے ہمہ گیر تھا۔ علامہ محمد اسد کے الفاظ میں ’’انسانیت شاذ ہی ایسے فکری انتشار سے گزری ہے، جیسی ہمارے دور سے گزر رہی ہے۔نہ صرف یہ کہ ہم بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن کے لیے نئے اور عدیم النظیر حل کی ضرورت ہے، بلکہ یہ مسائل ایسے انداز سے ظاہر ہو رہے ہیں، جن سے ہم واقف بھی نہیں۔‘‘ (۱) اس دور میں مغربی فکر کی طرف سے پیدا کردہ سوالات اور استشراقی مطالعات نے مسلم دنیا میں عمومی طور پر ماضی کی علمی روایت پر نظرثانی (Rethinking) کا ذہن پیدا کیا۔نظر ثانی کا یہ دائرہ تفسیر قرآن کے اسالیب، حدیث وسنت کی حجیت، فقہ اسلامی کی تشکیل جدید وغیرہ تمام اسلامی علوم پر پھیلا ہوا ہے۔مستشرقین کا حدیث پر کام ایک تو وہ ہے جو ایجابی نوعیت کا ہے جس میں بعض اصل عربی متون کی تدوین، ترجمہ، اشاریہ سازی اور جدید اسالیب تحقیق کے مطابق اشاعت ہے۔(۲) اس میں سے بعض افراد نے تو نقد حدیث کے وہی معیارات استعمال کیے جو مسلم اہل علم نے وضع کیے تھے، جب کہ بعض نے دیگر معیارات بھی وضع کیے۔(۳) ان معیارات میں بنیادی دخل ادبی اور تاریخی تنقید کے مناہج کا ہے۔ اس رجحان کا آغا Aloys Sprenger سے ہوا تاہم اس کو عروج تک پہنچانے میں سب سے مؤثر شخصیت معروف جرمن مستشرق گولڈ زیہر (Ignaz Goldziher) کی ہے۔گولڈ زیہر کا معاملہ اسلام کے حوالے سے عجیب ہے کہ ایک طرف اس کا اعتراف ہے کہ:
I truly entered into the spirit of Islam to such an extent that ultimately I became inwardly convinced that I myself was a Muslim, and judiciously discovered that this was the only religion which, even in its doctrinal and official formulation, can satisfy philosophical minds. My ideal was to elevate Judaism to a similar rational level.(4)
’’میں اس حد تک روحِ اسلام میں اتر گیا کہ داخلی طور پر مجھے یقین سا ہو چلا کہ میں خود مسلمان ہی ہوں اور شعوری سطح پر میں نے دریافت کیا کہ یہ وہ واحد مذہب ہے جو عقیدے اور فکری تشکیل کی سطح پر فلسفیانہ دماغوں کو مطمئن کر سکتا ہے۔میرا مطمح نظر یہ تھا کہ یہودیت کو بھی اسی طرح کے عقلی معیار تک پہنچاؤں۔‘‘
لیکن دوسری طرف اپنے استادVembery کے سامنے ایک گفت گو میں اس نے ایمان کے اقرار سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ غالباً اس کا وہی تعصب تھا جو اسے استشراقی روایت سے ورثے میں ملا تھا۔ نقد حدیث کے لیے اس نے وہی منہج اختیار کیا جسے بائبل کی تنقید کے سیاق میں Higher Criticismسے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس نے اسے بعض عبرانی دستاویزات کے نقد کے لیے بھی بروئے کار لایا تھا۔ اس کے اثرات مسلم اہل قلم نے (براہ راست مطالعے یا تراجم کے ذریعے) بھی قبول کیے۔ اس نے یہ دعویٰ کیا کہ بیشتر احادیث جعلی اور فرضی ہیں جنھیں حکم رانوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے وضع کیا۔ اس تحریک نے برصغیر کے بہت سے ذہنوں کو بھی اپنی گرفت میں لیا۔حدیث و سنت کی حیثیت کو چیلنج کرنے اور اس پر مختلف پہلوؤں سے سوال اٹھانے والی شخصیات میں سب سے اولین حیثیت سرسید احمد خان (م 1898ء) کی ہے اور پھر یہ سفر طے ہوتا ہوا جناب غلام احمد پرویز (م 1985ء) پر اپنے عروجِ کمال کو پہنچا۔ پرویز، حافظ اسلم جیراج پوری(م1955ء ) کے فیض یافتہ تھے۔ 1938ء میں جب علامہ اقبال کی وفات ہوئی تو ان کی یادگار کے طور پر سید نذیر نیازی نے مجلہ ’’طلوعِ اسلام ‘‘ جاری کیا جس کی سرپرستی کچھ عرصے بعد پرویز صاحب کے حصے میں آئی اور انھوں نے اس میں جہاں فکر اقبال کی نشرواشاعت کی، وہیں اپنے افکار بھی اس کے ذریعے پھیلانے شروع کیے۔ قیام پاکستان کے موقع پر پاکستان آئے تو یہاں اپنے افکار کا کھل کر پرچار کیا۔ فکری طور پر ماضی کے مبتدع فرقوں میں معتزلہ سے عقیدت رکھتے تھے جس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں :’’اگر مسلک اعتزال باقی رہتا تو یہ جمود وتعطل جو آج مسلمانوں میں نظر آ رہا ہے، وجود میں نہ آتا اور علم وفکر کی دنیا میں مسلمان آج ایسے مقام پر کھڑے ہوتے جہاں ان کا کوئی مقابل نہ ہوتا۔‘‘ ( ۵) 
حدیث وسنت کے بارے میں جناب پرویز کے جمہور امت سے ہٹے ہوئے افکار سامنے آتے ہی ان پر نقد ونظر کا سلسلہ علماء کی طرف سے شروع ہوگیا اور دلائل وبراہین سے اس فکر کی علمی کمزوریوں اور داخلی تضادات واضح کیا گیا۔ اس موضوع پر تیار ہونے والا لٹریچر اس فکر کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب اصل میں فکر پرویز پر لکھی گئی تحریروں کا ایک انتخاب ہے۔ کسی موضوع پر نمائندہ تحریروں کا انتخاب اس اعتبار سے آسان ہے کہ اس میں مرتب خود تحقیق وتخلیق کے مرحلے سے نہیں گزرتا، لیکن اس پہلو سے مشکل ہے کہ اس انتخاب میں خوب سے خوب تر کی تلاش کے بغیر انتخاب جامع اور جان دار نہیں ہو پاتا۔علمی مواد کی تنگ دامانی جہاں تصنیف کے کام میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہے، وہیں علمی مواد کی فراوانی بھی کچھ کم مشکل کا باعث نہیں ہوتی۔ ایک مؤلف کے سامنے معلومات کا ایک سیلاب ہوتا ہے اور اس نے اپنے ذوقِ سلیم کی مدد سے بہت سا مواد پڑھ کر ایسی تحریروں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو متعلقہ موضوع کی جملہ جہات کا احاطہ کرتی ہوں۔ یہ کام ظاہر ہے موضوع کے وسیع مطالعے اور اس پر ناقدانہ نظر کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
زیر تبصرہ کتاب کے انتخاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ جناب مرتب (محترم شکیل عثمانی) کی نظر فکر پرویز پر لکھے گئے لٹریچر پر غیر معمولی ہے اور انھوں نے اس انتخاب میں اپنے عمدہ ذوقِ سلیم ، تجربے اور وسعت مطالعہ کو کام میں لایا ہے۔ اس وقت مغربی دنیا میں مختلف موضوعات پر Anthologies ترتیب دینے کا چلن روز افزوں ہے۔ کیمبرج ، آکسفرڈ، راؤٹلج اور کئی دیگر اشاعتی ادارے مجموعہ ہاے مقالات شائع کر رہے ہیں، جو اپنے موضوع پر لکھنے والے اعلیٰ سطح کے قلم کاروں کی تخلیقات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ اس طرح کے مجموعوں کی افادیت یہ ہوتی ہے کہ ان میں وہ سقم نہیں ہوتا، جو طبع زاد تصنیف کا پیٹ بھرنے کے لیے بسا اوقات ایک مصنف کی کتاب میں معروف اور تکرار شدہ مواد کے ذریعے پیدا ہوا جاتا ہے اور کہیں بہت بعد میں جا کر اصل موضوع کی باری آتی ہے۔ آج کتابوں کی مارکیٹ میں جو جامعات کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سندی مقالات شائع ہو کر سامنے آ رہے ہیں، ان میں سے بیش تر کا حال یہی ہے۔تبصرہ نگار کی راے میں اس طرح کی کتابوں کے بجائے اعلیٰ سطح کے اہل علم کے مقالات کے انتخابات علمی لحاظ سے زیادہ سود مند ہوتے ہیں، وللناس فیما یعشقون مذاھب۔
اس خوب صورت مجموعہ انتخاب میں نو تحریریں شامل ہیں: 1۔تحریک انکارِ سنت پر ایک نظر، مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی، 2۔ جناب پرویز کی فکر کے بنیادی خدوخال، پروفیسر خورشید احمد، 3۔ فکر پرویز کا علمی جائزہ، مولانا قمر احمد عثمانی، 4۔ پرویز صاحب اورا ن کے ’’قرآنی‘‘ نظریات، ماہر القادری، 5۔ تضاداتِ فکر پرویز، ڈاکٹر محمد دین قاسمی، 6۔پرویز صاحب کی اصل غلطی، خورشید احمد ندیم، 7۔ پرویز صاحب اور کفر کا فتویٰ، مولانا امین احسن اصلاحی، 8۔ مقتدر ’’باس‘‘اور غرض مند خوشامدی، پروفیسر وارث میر، 9۔ پرویز صاحب اور طلوعِ اسلام کا سیاسی کردار، شکیل عثمانی(مرتب کتاب)
اس انتخاب پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آخری دو مضامین جناب پرویز کی ’شخصیت وکردار‘ کا احاطہ کرتے ہیں، جب کہ باقی مضامین ان کی فکرسے بحث کرتے ہیں۔ ’شخصیت‘ سے بحث کرنے والے مضامین پاکستانی سیاست کی گردشوں اور اقتدار کے بدلتے چہروں کے سامنے ’’طلوعِ اسلام‘‘ کی ’سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ‘ کا مصداق پالیسی اور ’کشتہ سلطانی‘ مزاج کوعیاں کرتے ہیں۔ گورنز جنرل غلام محمد کی منفی پالیسیوں او رسیاست کا واضح نقشہ پروفیسر وارث میر نے اپنے مضمون میں کھینچ کر ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے ان کو خطاب کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:’’اے پیکر عزم وبسالت کہ دنیا تجھے غلام محمد کہتی ہے، ہم ملت شریفہ پاکستان کی طرف سے ادب و احترام سے جھکی ہوئی آنکھوں، لرزتے ہوئے ہونٹوں، کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہزار عقیدت وصد ہزار سپاس گزاری کے گلہائے تازہ تیری خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ یقین مانیے کہ فرطِ جذبات سے اس وقت ہمارے دل کی یہ حالت ہے کہ : آبگینہ تندیِ صہبا سے پگھلا جائے ہے‘‘(۶) اسی طرح جناب شکیل عثمانی نے اپنے مضمون ’’ پرویز صاحب اور طلوعِ اسلام کا سیاسی کردار ‘‘ میں غلام محمد، صدر ایوب اور بھٹو وغیرہ کے دور میں ’’طلاعِ اسلام‘‘ کے خوشامدانہ طرز اور سیاسی موقف کی تبدیلیوں کو اقتباسات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ دینی امور میں کسی کے افکار کو سامنے رکھتے ہوئے محض یہ دیکھنا کافی نہیں ہوتا کہ ’کیا کہہ رہا ہے‘ بلکہ ’کون کہہ رہا ہے‘ کو بھی اس لیے یکساں اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ دینی پیشوائی محض الفاظ کا لطف لینے کا نام نہیں، بلکہ یہ منصب سب سے پہلے صاحبِ منصب سے اعلیٰ کردار کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہردور کے اصحابِ دعوت وعزیمت کے ہاں ہمیں زبان، دل کی رفیق ملتی ہے اور ان کے ہاں زہد فی الدنیا، اصحابِ جاہ وثروت سے دوری، بغیر کسی خوشامد کے کلمہ حق کہنے کی صدا بلند ہوتی ملتی ہے اور ان کے یہی اوصاف ان کے اخلاص للہ کی ظاہری علامت ہوا کرتے ہیں۔ 
بقیہ مضامین جناب پرویز کی فکر کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں۔ پہلا مضمون مولانا مودودی کا ہے جس میں انھوں نے معتزلہ کے عہد میں انکارِ سنت کی تحریک پر نظر ڈالتے ہوئے اس فتنے کے سدِ باب کے مختلف اسباب ذکر کیے ہیں اور پھر تہذیب مغرب کے استیلا کے نتیجے میں اس فتنے کی نئی اٹھان کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔انھوں نے انکارِ سنت کے اس نئے فتنے کے فروغ کے چھے اسباب بیان کیے ہیں اور ساتھ ہی پرویز صاحب کے نظامِ ربوبیت کو اختصار کے ساتھ چند نکتوں میں عمدگی سے سمو دیا ہے۔ 
دوسرا مقالہ پروفیسر خورشید احمد کا ہے جو مؤلف کی تصریح کے مطابق ایک طویل مقالے ’’دینی ادب ‘‘ سے لیا گیا ہے۔یہ مقالہ پنجاب یونی ورسٹی کی شائع کردہ کتاب ’’تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند‘‘ میں شامل ہے۔اس مقالے میں پرویز صاحب کی موضوعی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ ، ’’لغات القران‘‘، ’’نظامِ ربوبیت‘‘، ’’سلیم کے نام‘‘ وغیرہ کتابوں پر گفتگو کی ہے۔ مصنف کے مطابق ’’پرویز صاحب اور علامہ مشرقی کے بنیادی افکار میں کوئی فرق نہیں۔ان کے ہاں جو کچھ فرق ہے، فروعات اور تفصیلات کا ہے۔مشرقی صاحب نے گفتگو زیادہ تر عمومی کی ہے۔پرویز صاحب نے فلسفیانہ اور سماجی نقطہ نظر سے اپنے تصورات کو نسبتاًزیادہ واضح کیا ہے۔ ۔۔۔مشرقی صاحب زیادہ نظری اور بین الاقوامی معلوم ہوتے ہیں جب کہ پرویز صاحب کے نقطہ نظر پر سماجی اور معاشی پہلو کو غلبہ حاصل ہے۔‘‘(۷)
تیسرا مقالہ مولانا قمر احمد عثمانی کا ہے(۸) اور ان کی کتاب ’’ہماری مذہبی جماعتوں کا فکری جائزہ‘‘ کا ایک باب ہے۔ اس میں مولانا عثمانی نے پرویز صاحب کے اطاعت رسول،نظامِ ربوبیت،مسلمات کو تبدیل کرنے والی خود ساختہ اصطلاحات اور شعائر اسلامی کے استخفاف وغیرہ کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ 
چوتھا مقالہ جناب ماہر القادری کا ’’پرویز صاحب اور ان کے قرآنی نظریات ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ مضمون پرویز صاحب کی فکر کا کافی جامعیت کے ساتھ احاطہ کرتا ہے۔اس میں پرویز صاحب کے قرآنی اصطلاحات و مفاہیم کو خود ساختہ اور چودہ سو سال میں امت کے لیے اجنبی معانی کا جامہ پہنانے پر گرفت کی گئی ہے۔ 
پانچواں مضمون ’’تضاداتِ فکرِ پرویز ‘‘ کے نام سے ڈاکٹر محمد دین قاسمی کے قلم سے ہے اور ان کی کتاب ’’جناب غلام احمد پرویز اپنے الفاظ کے آئینے میں‘‘ سے لیا گیا ہے۔اس مضمون میں بڑی محنت اور دقت نظر کے ساتھ پرویز صاحب کی فکر میں پندرہ تضادات کی بطور نمونہ نشان دہی کی گئی ہے۔ اس میں ایک دلچسپ تضاد پرویز صاحب کا مولانا مودودی?کے بارے میں راے بھی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ مولانا مودودی کے علمی اور فکری کمالات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں، لیکن جب ان کے محل نظر افکار سامنے آتے ہیں اور مولانا مودودی ان کی غلطیوں پر گرفت کرتے ہیں تو انھیں قرآن کی ابجد سے بھی ناواقف قرار دیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دوسرے کے بارے میں اچھی یا بری راے قائم کرنے میں بڑی حد تک داخلی پسند ناپسند کااسیر ہوتا ہے اور یہ جذبہ اس کی فکر کا رخ متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کے کئی مظاہر آج ہمارے سماج میں نظر آتے ہیں۔ 
چھٹے مضمون ’’پرویز صاحب کی اصل غلطی‘‘ میں جناب خورشید احمد ندیم نے واضح کیا ہے کہ پرویز صاحب کی اصل غلطی ان کے فہم قرآن کے اصول ہیں جو بنیادی طور پر غلط ہیں۔ یہ مضمون اچھا عمدہ اور فکری مضمون ہے اور اصل میں مؤلف کتاب ہی کے مرتب کردہ ایک چھوٹے سے کتابچے کا مقدمہ ہے جس میں جناب جاوید احمد غامدی نے پرویز صاحب کی قرآنی فکر پر نقد کیا ہے۔ پرویز صاحب کی قرآنی فکر کی کم زوریوں پر یہ ایک عمدہ گفتگو ہے۔ 
ساتویں مضمون ’’پرویز صاحب اور کفر کا فتویٰ‘‘ میں مولانا امین احسن اصلاحی نے پرویز صاحب پر علما کی طرف سے فتواے کفر پر گفت گو کی ہے اور اس کو اصولاً درست قرار دیا ہے۔ یہ مضمون مولانا اصلاحی کی کتاب ’’تفہیم دین‘‘میں شامل ہے۔
جناب غلام احمد پرویز کی فکر کے مختلف پہلوؤں کے احاطے کے لیے یہ مجموعہ مختصر ہونے کے باوجود کافی جامع اور عمدہ ہے اور قاری کو بہت کچھ دے جاتا ہے۔، تاہم اگر اس میں حجیت حدیث اور تدوین حدیث کی تاریخ پر جامع تحریرات بھی شامل ہو جاتیں تو تو اس پروپیگنڈے کی ایک مرکزی غلطی پر بھی روشنی پڑ جاتی۔ اسی طرح اس طرح کے مجموعہ مضامین میں فکر پرویز کے بارے میں مزید مطالعے کے لیے کتابوں، مجلات، مقالات وغیرہ کی بھی ایک فہرست فراہم ہو جاتی تو اس کی افادیت مزید بڑھ جاتی۔ 
کتاب، معروف اشاعتی ادارے کتاب سراے (لاہور) سے عمدہ معیار پر شائع ہوئی ہے۔ جب سے کتابوں کی اشاعت کمپیوٹر کمپوزنگ کے ذریعے ہونا شروع ہوئی ہے، ان میں اغلاط کی بھرمار نظر آتی ہے۔ اس کتاب کے ساتھ بھی یہ مسئلہ درپیش ہوا ہے ، جس کے لیے کتاب کے آغاز میں مؤلف کو ’صحت نامہ‘ شامل کرنا پڑا ہے۔

حواشی

۱ ۔ محمد اسد،’’ ملتِ اسلامیہ دو راہے پر‘‘ ، ترجمہ ، محبوب سبحانی(لاہور:دارالسلام، 2004ء)، 15۔
۲ ۔ اس نوعیت کا ایک جامع اور عمدہ اشاریہ Concordance and Indices of Muslim Tradition (Leiden, 1936) ہے۔اس میں صحاح ستہ کے علاوہ بعض دیگر مجموعے بھی شامل ہیں۔اس منصوبے کا آغاز ونسنک ، ہارویز اور دیگر مستشرقین نے کیا تھا۔ بعد میں اس کام کی تکمیل میں معروف محقق فؤاد عبدالباقی نے بھی حصہ لیا۔ 1936ء میں اس کی پہلی اور 1988ء میں اس کی آٹھویں اور آخری جلد شائع ہوئی، تاہم اس میں کئی فاش اغلاط بھی تھیں جن کی تصحیح اور کمپیوٹر ایڈیشن کی تیاری کے لیے جامعہ ازہر میں ایک بورڈ تشکیل دیا گیا۔
۳ ۔ برٹش اسکالر جے رابسن اور امریکی اسکالر این ایبٹ حدیث کے روایتی فریم ورک کو تسلیم کرتے ہیں ، جب کہ گولڈ زیہر اور جوزف شاخت کا پیش کردہ منہج تشکیکی ہے۔ یورپی زبانوں میں حدیث لٹریچر پر ایکاچھے مطالعے کے لیے دیکھیے: 
Denffer, Ahmad, Literature on Hadith in European Languages (Leicester, 1981)
4- See. Siddiqi,op.cit ,125.
۵ ۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘،30 جولائی 1955ء بحوالہ، عبدالرحمن کیلانی ،’’آئینہ پرویزیت حصہ اول، معتزلہ سے طلوعِ اسلام تک‘‘(لاہور: مکتبۃ السلام، 1987ء )، 112۔
۶ ۔ وارث میر،’’مقتدر باس اور غرض مند خوشامدی‘‘ مشمولہ ’’جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ‘‘، مرتب، شکیل عثمانی(لاہور:کتاب سرائے ، 2016ء)، 161۔ 162۔
۷ ۔ خورشید احمد، ’’جناب پرویز کی فکر کے بنیادی خدوخال‘‘، نفس مرجع، 28۔
۸ ۔ مولانا قمر احمد عثمانی ، معروف دیوبندی عالم مولانا ظفر احمد عثمانی کے بیٹے ہیں۔ ان کے دوسرے بیٹے ’’فقہ القرآن‘‘ کے مصنف مولانا عمر احمد عثمانی ہیں۔ ان دونوں حضرات کے بارے میں عام طور پر مشہور ہے کہ وہ منکر حدیث ہیں، لیکن بظاہر یہ بات درست نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ تدبر حدیث کے حوالے سے ان کا منہج عام اسلوب سے ذرا مختلف ہے، لیکن اسے انکارِ حدیث سے موسوم نہیں کیا جاسکتا۔ جنوری 1968ء کے ’’البلاغ‘‘میں مولانا ظفر احمد عثمانی اور ان کے ایک شاگرد کے درمیان ایک مکالمہ شائع ہوا جس پر اہل حدیث مکتب فکر کے معروف مجلے ’’الاعتصام ‘‘ نے بہت سخت نقد کیا اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ مولانا ظفر احمد عثمانی کے بیٹے منکر حدیث ہیں۔مولانا ظفر احمد عثمانی نے مولانا عمر احمد عثمانی کے ایک مختصر رسالے ’’خاتمۃ الکلام فی القراء ۃ خلف الامام ‘‘ کے پیش لفظ میں اس بات کو محض الزام قرار دیا ہے کہ ان کے بیٹے حجیت حدیث کے منکر ہیں۔ (دیکھیے: عمراحمد عثمانی، ’’خاتمۃ الکلام فی القراء ۃ خلف الامام ‘‘، دیباچہ مولانا ظفر احمد عثمانی (حیدر آباد: العزیز پبلی کیشن ہاؤس، س ن)، 2،3۔)

مئی ۲۰۱۷ء

اقلیتوں کے حقوق کے لیے علماء و فقہاء کا عملی کردارمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۰)ڈاکٹر محی الدین غازی
اختلاف رائے اور رواداری ۔ اکابرین امت کے اسوہ کی روشنی میںمولانا محمود خارانی
جمعیۃ علماء اسلام کا صد سالہ عالمی اجتماعمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مذہبی قوتوں کے باہمی اختلافات اور درست طرز عملمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امام عیسیٰ بن ابانؒ : حیات و خدمات (۱)مولانا عبید اختر رحمانی
جہادی بیانیے کی تشکیل میں روایتی مذہبی فکر کا کردارڈاکٹر عرفان شہزاد
علامہ اقبال اور شدت پسندی کا بیانیہ: ان کی جہادی اور سیاسی فکر کی روشنی میںمولانا سید متین احمد شاہ
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پہلا عالمی اسلامی مفاہمتی اجلاسڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اقلیتوں کے حقوق کے لیے علماء و فقہاء کا عملی کردار

محمد عمار خان ناصر

مذاہب عالم کی تعلیمات میں آزادئ مذہب کا اصول اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی تعلیم جس قدر وضاحت اور تاکید کے ساتھ اسلام میں ملتی ہے، کسی دوسری جگہ شاید نہیں ملتی۔ مسلم فقہاء نے اسی تعلیم کی روشنی میں غیر مسلم اقلیتوں کے شہری ومذہبی حقوق کے تحفظ سے متعلق نہایت واضح قانونی اور اخلاقی ضابطے مرتب کیے ہیں اور اسلامی تاریخ میں ایسی روشن مثالیں بکثرت ملتی ہیں جب علماء وفقہاء نے اللہ کے پیغمبر کی وراثت اور نیابت کا حق ادا کرتے ہوئے اقلیتی گروہوں پر کی جانے والی کسی بھی قسم کی زیادتی کے خلاف کلمہ حق بلند کیا اور زیادتی کی تلافی کے لیے حتی الوسع کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔
اس حوالے سے تاریخ کے چند معروف اور مستند واقعات پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہوگا:
۱۔ اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اپنے عہد حکومت میں مسیحیوں کا گرجا ان سے چھین کر اسے زبردستی دمشق کی جامع مسجد کا حصہ بنا دیا۔ تاہم جب عمر بن عبد العزیز کا دور حکومت آیا اور مسیحیوں نے ان کے سامنے یہ معاملہ دوبارہ اٹھایا تو انھوں نے حکم دیا کہ مسجد کا وہ حصہ جو گرجے کی جگہ پر بنا ہوا ہے، ڈھا دیا جائے اور یہ جگہ دوبارہ مسیحیوں کے تصرف میں دے دی جائے۔ اس موقع پر مسلمانوں نے مسیحیوں کے ساتھ مذاکرات کیے اور انھیں اس پر آمادہ کر لیا کہ وہ غوطہ کے تمام گرجے لے لیں اور اس کے بدلے میں دمشق کی جامع مسجد میں شامل اس حصے سے دست بردار ہو جائیں۔ چنانچہ مسیحیوں نے اپنی رضامندی سے یہ پیش کش قبول کر لی جس پر عمر بن عبد العزیز نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ (بلاذری، فتوح البلدان ص ۱۳۲)
۲۔ اسی طرح خلیفہ ہادی کے زمانے میں مصر کے گورنر علی بن سلیمان نے کچھ گرجوں کو منہدم کرا دیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد جب ہارون الرشید کا دور حکومت آیا اور مصر کی گورنری موسیٰ بن عیسیٰ کے سپرد کی گئی تو موسیٰ نے گرجوں کے انہدام کا مسئلہ علماء کے سامنے پیش کیا۔ علماء نے مسیحیوں کے حق میں فتویٰ دیا اور زبردستی گرجے منہدم کرنے کو ناجائز قرار دیا۔ چنانچہ حکومت نے اپنے خرچ پر ان منہدم شدہ گرجوں کو دوبارہ تعمیر کروایا اور انھیں مسیحیوں کے حوالے کر دیا۔ (الخطط المقریزیہ ۲/۵۱۱ بحوالہ رسائل شبلی ص ۷۰)
۳۔ عباسی دور کے معروف فقیہ قاضی ابو یوسف نے خلیفہ ہارون الرشید کی فرمائش پر امور سلطنت سے متعلق شرعی احکام ان کے لیے مرتب کیے تو اس میں خلیفہ کو یہ نصیحت بھی کی کہ
وقد ینبغی یا امیر المومنین ایدک اللہ ان تتقدم فی الرفق باہل ذمۃ نبیک وابن عمک محمد صلی اللہ علیہ وسلم والتفقد لہم حتی لا یظلموا ولا یؤذوا ولا یکلفوا فوق طاقتہم ولا یؤخذ شیء من اموالہم الا بحق یجب علیہم (الخراج، ص ۱۲۴)
’’اے امیر المومنین، اللہ آپ کی تائید ونصرت فرمائے، یہ مناسب ہوگا کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ جنھیں آپ کے نبی اور آپ کے چچازاد بھائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (جان ومال اور مذہب کی حفاظت کا) ذمہ دیا، حد درجہ نرمی سے کام لیں اور ان کی خبر گیری کرتے رہیں تاکہ ان پر نہ تو ظلم کیا جا سکے نہ انھیں اذیت پہنچائی جائے، نہ ان پر ان کی طاقت سے بڑھ کر کوئی بوجھ ڈالا جائے اور ان کے مال سے کسی واجب حق کے علاوہ کوئی چیز وصول کی جائے۔‘‘
۴۔ شام اور حجاز کی سرحد پر عیسائیوں کا ایک مشہور طاقت ور قبیلہ بنو تغلب تھا جس کے ساتھ حضرت عمر نے جان ومال کے تحفظ پر ایک پرامن معاہدہ کیا تھا۔ ہارون الرشید اپنی سیاسی مصلحت کی بنا پر اس کو توڑ دینا چاہتا تھا۔ ایک دن دربار میں جبکہ امام محمد بھی وہاں موجود تھے، ہارون الرشید آیا اور امام محمد کو تخلیہ میں بلا کر لے گیا اور کہا کہ میں بنو تغلب کے عیسائیوں کا معاہدہ ختم کر کے انھیں قتل کرا دینا چاہتا ہوں۔ امام محمد نے فرمایا کہ حضرت عمر نے انھیں امان دی ہے، اس لیے معاہدہ توڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ حضرت عمر نے انھیں اس شرط پر امان دی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا بپتسمہ نہیں کریں گے (یعنی انھیں عیسائی بنانے کی رسم نہیں ادا کریں گے)۔ امام محمد نے کہا کہ بپتسمہ کے باوجود حضرت عمر نے ان سے معاہدۂ امن برقرار رکھا تھا۔ اس پر ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت عمر کو ان سے جنگ کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ امام محمد نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو اس کے بعد حضرت عثمان اور حضرت علی کو ان سے جنگ کرنی چاہیے تھی، حالانکہ ان لوگوں نے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے بلا شرط ان کو امان دی تھی۔ جب ہارون سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو ان کو دربار سے نکلوا دیا مگر وہ معاہدہ نہ توڑ سکا۔ (بحوالہ ’’اسلام کے بین الاقوامی اصول وتصورات‘‘ از مولانا مجیب اللہ ندوی)
۵۔ ولید بن یزید نے قبرص کے مسیحیوں کو اس خدشے سے وہاں سے جلا وطن کر دیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف رومی حکومت کی مدد کریں گے۔ مورخین بتاتے ہیں کہ اس فیصلے کو مسلمانوں نے بہت برا سمجھا اور فقہاء نے اس کو سخت نا انصافی قرار دیا۔ چنانچہ ولید کے بعد اس کا بیٹا یزید بن الولید حکمران بنا تو اس نے جلا وطن کیے جانے والے لوگوں کو دوبارہ قبرص میں آبا د کر دیا اور اس فیصلے کو مسلمانوں نے عدل وانصاف تصور کرتے ہوئے اس کی بہت تحسین کی۔ (بلاذری، فتوح البلدان، ص ۱۵۶)
۶۔ سیدنا معاویہ کے دور مسلمانوں اور جزیرہ قبرص کے باشندوں کے مابین اس بات پر صلح کا معاہدہ ہوا کہ وہ مسلمانوں اور سلطنت روم، دونوں کے ساتھ تعلقات رکھیں گے اور دونوں کو سالانہ خراج ادا کرتے رہیں گے۔ عبد الملک بن صالح کے زمانے میں قبرص کے کچھ لوگوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو عبد الملک نے اسے علی الاطلاق نقض معاہدہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف جنگ کا ارادہ کیا۔ تاہم اس نے اس سلسلے میں شرعی پہلو سے وقت کے نامور فقہا سے رائے طلب کی جن میں لیث بن سعد، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، موسیٰ بن اعین، اسماعیل بن عیاش، یحییٰ بن حمزہ، ابو اسحاق فزاری اور مخلد بن حسین شامل تھے۔ ان میں سے سفیان بن عیینہ اور لیث بن سعد نے عبد الملک کی رائے سے اتفاق کیا، لیکن اکثریت کی رائے اس سے مختلف تھی۔ انھوں نے خلیفہ کو ان کے خلاف جنگ کرنے سے منع کیا اور کہا کہ چند لوگوں کی طرف سے خلاف ورزی کرنے پر سب لوگوں کو معاہدہ توڑنے کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ (ابو عبید، کتاب الاموال، ص ۲۶۸)
۷۔ امام اوزاعی کے زمانے میں جبل لبنان میں مقیم مسیحیوں میں سے کچھ لوگوں نے بعبلبک کے افسر محصولات سے کسی شکایت کی بنا پر بغاوت کر دی۔ مسلمان حاکم صالح بن علی بن عبد اللہ نے ان میں سے شر پسند عناصر کی سرکوبی کے بعد آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو، جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہاں سے جلا وطن کر دیا۔ (بلاذری، فتح البلدان، ص ۱۶۹) اس پر امام اوزاعی نے اسے تفصیلی خط لکھا جس کا کچھ حصہ امام ابوعبید نے اپنی کتاب ’’الاموال‘‘ میں نقل کیا ہے۔ امام صاحب نے فرمایا:
’’جبل لبنان کے جن اہل ذمہ کو جلا وطن کیا گیاہے، ان کے بغاوت کرنے پر ساری جماعت متفق نہیں تھی، اس لیے ان میں سے ایک گروہ کو (جس نے بغاوت کی) قتل کرو اور باقی لوگوں کو ان کی بستیوں کی طرف واپس بھیج دو۔ کچھ افراد کے عمل کی پاداش میں سارے گروہ کو کیونکر پکڑا جا سکتا اور انھیں ان کے گھر بار اور اموال سے بے دخل کیا جا سکتا ہے؟ .... یہ لوگ غلام نہیں ہیں کہ تمھیں ان کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ وہ آزاد اہل ذمہ ہیں (جو بہت سے قانونی حقوق اور ذمہ داریوں میں ہمارے برابر ہیں، مثلاً) ان میں سے کوئی شادی شدہ فرد زنا کرے تو اسے رجم کیا جاتا ہے اور ان کی جن عورتوں سے ہمارے مردوں نے نکاح کیا ہے، وہ دنوں کی تقسیم اور طلاق وعدت میں ہماری عورتوں کے ساتھ برابر کی شریک ہوتی ہیں۔‘‘ (ابوعبید، کتاب الاموال، ص ۲۶۳، ۲۶۴)
۸۔ آٹھویں صدی کے عظیم مجدد اور مجاہد امام ابن تیمیہ کے زمانے میں جب تاتاریوں نے دمشق پر حملہ کر کے بہت سے مسلمانوں اور ان کے ساتھ دمشق میں مقیم یہودیوں اور مسیحیوں کو قیدی بنا لیا تو امام صاحب علما کا ایک وفد لے کر تاتاریوں کے امیر لشکر سے ملے اور اس سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ تاتاری امیر نے ان کے مطالبے پر مسلمان قیدیوں کو تو چھوڑ دیا، لیکن یہودی اور مسیحی قیدیوں کو رہا نہیں کیا۔ ا س پر امام صاحب نے اس سے کہا کہ :
’’تمھیں ان تمام یہودیوں اور مسیحیوں کو جو ہمارے اہل ذمہ ہیں اور تمھارے قبضے میں ہیں، چھوڑنا ہوگا۔ ہم تمہارے پاس اپنا کوئی قیدی نہیں چھوڑیں گے، خواہ وہ مسلمان ہو یا اہل ذمہ میں سے۔ اہل ذمہ کے وہی حقوق ہیں جو ہمارے ہیں اور ان کے فرائض بھی وہی ہیں جو ہمارے ہیں۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ ۲۸/۶۱۷، ۶۱۸)
چنانچہ تاتاری امیر کو یہودی اور مسیحی قیدیوں کو بھی رہا کرنا پڑا۔
۹۔ بعض مسلم حکمرانوں نے بیت المقدس کی زیارت کے لیے جانے والے اہل ذمہ پر ایک خاص ٹیکس عائد کیا تو فقہا نے صراحتاً اس کے عدم جواز کا فتویٰ دیا۔ معروف حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
’’بیت المقدس کی زیارت کے لیے مسیحیوں سے جو ٹیکس لیا جاتا ہے، وہ حرام ہے۔ یہ بات خیر الدین الرملی نے کہی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کل عمال جو حربی یا ذمی سے جزیہ کے علاوہ رقم لیتے ہیں تاکہ اسے بیت المقدس کی زیارت کرنے دیں، وہ حرام ہے۔‘‘ (رد المحتار، ۲/۳۱۳۔ ۴/۱۶۹)
۱۰۔ ماضی قریب میں ہمیں اسی کردار کا ایک نمونہ انیسویں صدی میں الجزائر کے جلیل القدر عالم اور مجاہد امیر عبدالقادر الجزائری کے ہاں دکھائی دیتا ہے جنھوں نے ۱۸۶۰ء میں دمشق میں ہونے والے مسلم مسیحی فسادات کے موقع پر اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے جاں نثار ساتھیوں کی مدد سے ہزاروں بے گناہ مسیحیوں کو مسلمانوں کے مشتعل ہجوم سے بچانے کے لیے نہایت ذمہ دارانہ کردار ادا کیا تھا۔ 
الجزائری کے معاصر اور وسطی ایشیا کے عظیم مجاہد امام شامل نے اس واقعے میں الجزائری کے کردار کی تحسین اور مسلمانوں کے عمومی طرز عمل کی پرزور الفاظ میں مذمت کی تھی: 
’’میں ان حکام کی کور چشمی پر بھونچکا رہ گیا جنھوں نے ایسی زیادتیاں کیں اور اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث فراموش کردی کہ: ’’جس کسی نے بھی اپنے زیر امان رہنے والے کے ساتھ ناانصافی کی، جس کسی نے بھی اس کے خلاف کوئی غلط حرکت کی یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی، وہ جان لے کہ روز محشر میں خود اس کے خلاف مدعی بنوں گا۔‘‘ (جان کائزر، امیر عبد القادر الجزائری: سچے جہاد کی ایک داستان (اردو ترجمہ)، ص ۴۲۷)

اگر مذہبی معاشرہ یہی ہے تو ہمیں سیکولرزم کی ضرورت ہے

مشال خان کے دل دوز واقعے کی کچھ تفصیلات سوشل میڈیا پر دیکھیں، لیکن ویڈیو دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ گزشتہ دنوں ایک مجلس میں جناب افراسیاب خٹک، ڈاکٹر قبلہ ایاز، وسعت اللہ خان اور حسن خان (خیبر ٹی وی) جیسے باخبر حضرات کی زبانی صورت حال کے جو پہلو معلوم ہوئے، ان کی روشنی میں، واقعہ یہ ہے کہ اس قوم کی اجتماعی اخلاقی پستی بالکل ننگی ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ چند پہلو ملاحظہ ہوں:
یہ تو اب سب کو معلوم ہے کہ یہ قتل مشتعل طلبہ کے کسی ہجوم نے heat of the moment کے زیر اثر نہیں کیا، بلکہ اس میں یونیورسٹی کے اساتذہ، انتظامیہ اور اس سے بھی بڑھ کر مقامی پولیس ملوث ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے یہ اقدام کیا گیا۔ یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ توہین مذہب کا الزام بے بنیاد تھا۔ قتل کے اصل محرک کے متعلق بعض واقفان حال کی رائے یہ ہے کہ مشال خان متعلقہ یونیورسٹی کے نظام، تعلیم کے معیار، اساتذہ وانتظامی عملہ کی تقرری میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی اقربا نوازی کا ناقد تھا اور انتظامیہ واساتذہ اس کے سوالوں کا جواب دینے سے خود کو عاجز پاتی تھی، چنانچہ اس سے نمٹنے کے لیے توہین مذہب کے الزام کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔
واقعے کے بعد میڈیا کی طرف سے خیبر پختون خوا کی ذمہ دار سیاسی قیادت سے (جس میں نہ صرف مذہبی بلکہ سیکولر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں) تبصرے کے لیے رجوع کیا گیا تو سب کا ابتدائی رد عمل، تبصرے سے اعراض کا تھا بلکہ بعض نے رابطہ کرنے والے رپورٹر کو بھی یہ ناصحانہ مشورہ دیا کہ بہتر ہے، آپ اس معاملے سے دور رہیں۔ وزیر اعلیٰ کو اس کی مذمت پر آمادہ ہونے میں بارہ گھنٹے لگے، جبکہ جناب وزیر اعظم کو (اطلاعات کے مطابق) کوئی تین دن کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ملک میں اس قسم کا کوئی واقعہ ہوا ہے۔
میڈیا پر واقعہ کی اطلاع آنے کے ساتھ ہی مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے فوری طور پر اس قسم کی بے محل بیان بازی شروع کر دی گئی کہ توہین مذہب کے قانون میں کوئی تبدیلی قبول نہیں کی جائے گی، جو دراصل دوسری طرف کے دباؤ کو تحلیل کرنے اور واقعے کی سنگینی کو ہلکا بنانے کا ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ مزید یہ کہ مقامی طور پر تمام مذہبی جماعتوں نے ایک مشترکہ فورم تشکیل دیا اور انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ مشال کے قاتلوں نے چونکہ مذہب کی محبت میں یہ اقدام کیا ہے، اس لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی نہ کی جائے۔
اور اب واقعے کی ناقابل بیان وحشت ناکی کے تناظر میں رائے عامہ کے دباؤ کے تحت بظاہر انتظامی وقانونی کارروائی تو کی جا رہی ہے، لیکن چونکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نیز مقامی پولیس کی سطح پر ملوث تمام افراد ایسے ہیں جنھیں کسی نہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی پشت پناہی میسر ہے، اس لیے درون خانہ تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کی ترجیح یہی ہے کہ ان افراد کو کیفر کردار تک پہنچنے سے بچایا جائے۔
وسعت اللہ خان نے کہا کہ اس سارے معاملے میں امید کا ایک ہی پہلو سامنے آیا ہے، اور وہ یہ کہ جب قتل کے بعد مشال خان کے گاؤں کی مساجد میں مولوی حضرات نے یہ اعلان کروا دیا کہ مقتول کی نماز جنازہ پڑھنا حرام ہے تو مقتول کے والد کے چند دوستوں نے، جن کا تعلق اس گاؤں سے نہیں تھا، یہ طے کیا کہ جنازہ ہر حال میں پڑھا جائے گا اور اس کے لیے وہ اپنے گاؤں سے جنازہ پڑھنے کے لیے افراد کو لے کر آئے اور ان کی جرات اور حوصلے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ نماز جنازہ پڑھی گئی، بلکہ لوگوں کو اصل حقیقت حال سے باخبر کرنے کی راہ بھی ہموار ہوئی، ورنہ شاید پہلے مرحلے پر ہی یہ بات ہمیشہ کے لیے طے ہو جاتی کہ مقتول واقعی توہین مذہب کا مرتکب تھا اور یہ کہ اسے قتل کرنے والوں نے، ایسے ہر واقعے کی طرح، مذہبی حمیت میں یہ کار خیر انجام دیا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، اس نوعیت کا ہر واقعہ ہماری اجتماعی اخلاقی صورت حال کے حوالے سے آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہوتا ہے، لیکن اس واقعے نے تو اتمام حجت میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی۔ اس کا سب سے افسوس ناک پہلو، ہمارے معاشرے میں پست اخلاقیات اور غیر انسانی بلکہ حیوانی رویوں کے ساتھ نام نہاد مذہبی جذبات کا مل جانا اور مذہب کے نام پر سیاسی مفادات کے کھیل کو مقبولیت کا حاصل ہو جانا ہے۔ ہمیں سیکولر ریاست اور سیکولر معاشرے سے اصولی اور نظریاتی طور پر شدید اختلاف ہے، لیکن اگر ’’مذہبی معاشرے‘‘ کا نقشہ یہی ہے تو خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اب سیکولرزم کی ضرورت ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۳۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(۱۱۱) علقۃ اور مضغۃ کا ترجمہ

قرآن مجید میں علق کا لفظ ایک بار اور علقۃ کا لفظ متعدد بار آیا ہے، دونوں کا مطلب ایک ہے، اور وہ ہے جما ہوا خون، راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والعَلَقُ: الدّم الجامد ومنہ: العَلَقَۃُ التی یکون منھا الولد.المفردات۔ علقہ کی اردو تعبیر کے لیے مترجمین نے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں، جیسے، جنین، لوتھڑا، خون کا لوتھڑا، خون کی پھٹک، خون کی پھٹکی، خون کا تھکا۔ علقہ کے لیے جنین کا لفظ کسی طرح مناسب نہیں ہے، کیونکہ جنین کا عمومی اطلاق عربی میں بھی اور اردو میں بھی پیٹ کے بچے پر ہوتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مرحلے میں ہو، جبکہ اردو میں وہ مضغہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، راغب اصفہانی کے الفاظ میں، ’’والجنین: الولد مادام فی بطن أمہ‘‘. المفردات. اردو کی مستند لغت فرہنگ آصفیہ میں ہے: ’’جنین: مضغہ ، لوتھڑا‘‘۔
علقہ کے لیے لوتھڑا بھی مناسب لفظ نہیں ہے، کیونکہ اردو میں لوتھڑا گوشت کے لیے استعمال ہوتا ہے، جمے ہوئے خون کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں ہے: لوتھڑا: گوشت کا بڑا ٹکڑا جس میں ہڈی نہ ہو، مضغہ، گوشت پارہ، پارچہ، مچا۔ خون کا لوتھڑا بھی مناسب لفظ نہیں ہے، کیونکہ لوتھڑا گوشت کا ہوتا ہے، جمے ہوئے خون کو لوتھڑا نہیں کہتے۔ خون کی پھٹک یا پھٹکی سے علقہ کا مفہوم کسی قدر ادا ہوجاتا ہے، فرہنگ آصفیہ میں ہے: ’’پھٹکی: گٹھلی، گرہ، گانٹھ، کسی خشک چیز کے گھولنے سے جو گٹھلیاں پڑ جاتی ہیں‘‘۔
بعض مترجمین نے جما ہوا خون ترجمہ کیا ہے، یہ لفظی ترجمہ ہے۔
مضغۃ کا لفظ گوشت کی بوٹی کے لیے آتا ہے، زمخشری لکھتے ہیں: والمضغۃ: اللحمۃالصغیرۃ قدر مایمضغ۔ مضغۃ کا ترجمہ بعض لوگوں نے لوتھڑا کیا ہے اور بعض لوگوں نے بوٹی کیا ہے، لوتھڑا چونکہ گوشت کے بڑے ٹکڑے کو کہتے ہیں، اس لحاظ سے بوٹی کا لفظ زیادہ مناسب ہے۔غرض یہ کہ دونوں الفاظ کے لئے ایسے اردو متبادل کی جستجو ہونی چاہئے جو ان الفاظ کاواقعی مفہوم ادا کرتے ہوں۔ اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل ترجموں کا جائزہ مفید ہوگا :

(۱) یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِن کُنتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَغَیْْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ۔ (الحج:۵)

’’لوگو اگر تم کو دھوکہ ہوا ہے جی اٹھنے میں تو ہم نے تم کو بنایا مٹی سے پھر بوند سے پھر پھٹکی سے پھر بوٹی سے نقشہ بنے اور بن نقشہ بنے، اس واسطے کہ تم کو کھول کر سنادیں‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ یہ ہم اس لیے بتارہے ہیں تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں‘‘ (سید مودودی)
’’اے لوگو، اگر تمہیں قیامت کے دن جینے میں کچھ شک ہو تو یہ غور کرو کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا مٹی سے پھر پانی کی بوند سے پھر خون کی پھٹک سے پھر گوشت کی بوٹی سے نقشہ بنی اور بے بنی، تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر فرمائیں‘‘(احمد رضا خان)
’’اے لوگو، اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے باب میں شبہ میں ہو تو دیکھو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر منی کے ایک قطرے سے، پھر ایک جنین سے، پھر ایک لوتھڑے سے، کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص، ایسا ہم نے اس لیے کیا تاکہ تم پر (اپنی قدرت وحکمت) اچھی طرح واضح کریں‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس میں علقہ کے لیے جنین کا لفظ مناسب نہیں) 
اس آیت میں لنبین لکم کا مفہوم عام طور سے یہ لیا گیا ہے کہ اللہ تعالی تخلیق کے ان مراحل سے یا ان کے تذکرے سے اپنی قدرت وحکمت کو واضح کرتا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کے مطابق اس کا اصل مفہوم تو یہ ہے کہ جنین مخلقۃ اور غیر مخلقۃ اس لیے ہوتا ہے تاکہ انسانوں پر حقیقت واضح ہوجائے، یعنی غیر مخلقۃ جنین کے ساقط ہوجانے سے انسانوں پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ تخلیق کے کتنے مرحلوں سے جنین کا گزر ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا تو اس وقت کے انسانوں کو ان مراحل کا علم بھی نہیں ہوتا۔البتہ اس کا ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے یہ واضح ہوجائے کہ ان سب مراحل میں اللہ کی قدرت کام کررہی ہوتی ہے، اس کے بغیر یہ سب کچھ نہیں ہوسکتا تھا، ہر مرحلہ میں اللہ کی مشیت کار فرما ہوتی ہے۔
اس آیت میں مترجمین نے عام طور سے (من ) کا ترجمہ ’’سے‘‘ کیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ ترجمہ اس طرح ہونا چاہئے: ’’پھروہ پھٹکی بنا، پھروہ بوٹی بنا‘‘ ۔

(۲) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَاماً فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْن۔ (المؤمنون: ۱۴)

’’پھر بنائی اس بوند سے پھٹکی پھر بنائی اس پھٹکی سے بوٹی پھر بنائی اس بوٹی سے ہڈیاں، پھر پہنایا ان ہڈیوں پر گوشت پھر اٹھا کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں۔ (شاہ عبدالقادر)
پھر ہم نے پانی کی بوند کو ایک جنین کی شکل دی، پھر جنین کو گوشت کا لوتھڑا بنایا، پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنایا، پھر اس کو ایک بالکل ہی مختلف مخلوق میں متشکل کردیا‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ میں علقہ کا ترجمہ جنین کیا گیا ہے، جو درست نہیں ہے، مزید یہ کہ فخلقنا المضغۃ عظاما کا ترجمہ کیا گیا پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں۔ الفاظ کی رو سے بھی اور امر واقع کے لحاظ سے بھی ترجمہ ہوگا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا۔)
’’پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔(سید مودودی)
پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا، پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی‘‘ (احمد رضا خان)
’’پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا‘‘ (فتح محمد جالندھری)

(۳) ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ۔ (غافر: ۶۷)

’’وہی ہے جس نے بنایا تم کو خاک سے پھر پانی کی بوند سے پھر لہو کی پھٹکی سے‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا مٹی سے، پھر نطفے سے، پھر خون کی ایک پھٹکی سے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے‘‘(سید مودودی)
’’وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے بنایا پھر پانی کی بوند سے پھر خون کی پھٹک سے‘‘ (احمد رضا خان)
اس آیت میں مترجمین نے عام طور سے تینوں جگہ (من ) کا ترجمہ ’’سے‘‘ کیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ تیسرے من کا ترجمہ اس طرح ہونا چاہئے: ’’پھروہ پھٹکی بنا‘‘ ۔

(۴) ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً۔ (القیامۃ: ۳۸)

’’پھر تھا لہو کی پھٹکی‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’پھر وہ بنا خون کی ایک پھٹکی‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’پھر خون کی پھٹک ہوا‘‘ (احمد رضا خان)
’’پھر وہ ایک لوتھڑا بنا‘‘ (سید مودودی)

(۵) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ (العلق: ۲)

’’بنایا آدمی لہو کی پھٹکی سے‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’جس نے پیدا کیا انسان کو خون کے تھکے سے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا‘‘ (اشرف علی تھانوی)
(جاری)

اختلاف رائے اور رواداری ۔ اکابرین امت کے اسوہ کی روشنی میں

مولانا محمود خارانی

علم و تحقیق کے سفر میں اختلاف رائے ایک ناگزیر امر ہے جو تحقیق و جستجو کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، مسائل و مباحث کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں، تحقیق طلب امور کے نئے گوشے وا ہوتے ہیں، فکر و نظر کے نئے زاویے کھل جاتے ہیں۔ مگر اس اختلاف رائے میں ان سلف صالحین اور اکابرین امت کا درخشاں طرز واسلوب اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے جن کے منہج و طرز فکر سے وابستگی دینی طبقے میں ایک لازمی امر کے طور پر متعارف ہے۔ یہ بجا طور پر آج کے پرفتن دور میں ایک محتاط اور قابل تحسین حکمت عملی ہے۔ دینی طبقہ کے "اکابر سے وابستگی" کے اس رجحان کے پیش نظر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سلف صالحین اور اکابر علماء کے ’’اختلاف رائے اور رواداری‘‘ کے چند اصول و آداب اور ان کے منہج و اسلوب کے کچھ نمونے سامنے لائے جائیں تاکہ موجودہ دور میں باہمی علمی و سیاسی اختلافات کے موقع پر نقوش اکابر کے مطابق ہم اپنے طرز فکر و عمل میں تبدیلی لاسکیں۔