جنوری ۲۰۱۶ء
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی ادارتی ذمہ داریوں کی منتقلی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں نے اپنے والد ماجد امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صاحب صفدر قدس سرہ کی ہدایت کے مطابق تعلیم و تربیت پائی ہے، اور تقلیداً بھی اور تحقیقاً بھی انہی کے مسلک و مشرب کے مطابق اس بات کا قائل ہوں اور رہا ہوں کہ ہدایت و سلامتی جمہور امت کے ساتھ منسلک رہنے میں ہے، اور کوئی بھی ایسا نظریہ جو جمہور امت کے مسلمات کے خلاف ہو، درست نہیں ہے اور جمہور امت کے مسلمات کے خلاف کوئی انفرادی رائے ہرگز قابل اتباع نہیں ہے۔ میں نے اپنی متعدد تحریروں اور تقریروں میں یہ بات پوری طرح واضح کی ہے اور جن لوگوں نے جمہور امت کے مسلمات کے خلاف کوئی راستہ اختیار کیا ہے، میں نے اس کی تردید میں الحمد للہ اپنی دانست کی حد تک کسی مداہنت سے کام نہیں لیا۔ البتہ میں مخالف نظریات پر تنقید میں سنجیدگی، متانت اور علمی اسلوب کا قائل ہوں اور اسی کو اپنے اکابر کا طریقہ سمجھتا ہوں۔ چنانچہ اسی اسلوب کے ساتھ میں نے جناب جاوید غامدی صاحب کے متعدد افکار پر بھرپور تنقید کی ہے جو شائع ہو چکی ہے۔
البتہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں، میں نے ایک ایسا فورم مہیا کرنے کی کوشش کی تھی جس میں ایسے مخالف افکار کے لوگ بھی اپنا مدعا اپنے الفاظ میں بیان کر سکیں تاکہ جب ان پر کوئی تنقید ہو تو یہ نہ کہا جا سکے کہ ان کی بات پوری طرح نہیں سنی گئی یا اسے سیاق و سباق سے کاٹ کر بیان کیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں ’’الشریعہ‘‘ کے مدیر اور میرے بیٹے حافظ عمار ناصر سلّمہ کے متعدد مضامین بھی ایسے شائع ہوئے ہیں جن میں انہوں نے بعض مسائل میں جناب غامدی صاحب کی تائید کی ہے یا انہی کا نقطہ نظر اپنایا ہے۔ اس بنا پر بعض حضرات کو یہ شبہہ پیدا ہوگیا کہ میں ان افکار میں ان کا ہم نوا ہوں، حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر وضاحت کرتا ہوں کہ میرا مسلک و مشرب جمہور امت کے مسلمات کی اتباع ہے، اور اس کے خلاف میرے بیٹے سمیت جس کسی نے کچھ کہا یا لکھا ہے، مجھے اس سے شدید اختلاف ہے اور میں اس سے اپنی مکمل براء ت کا اظہار کرتا ہوں۔
اگرچہ ’’الشریعہ‘‘ میں نے مذکورہ بالا مقصد کے تحت خود جاری کیا تھا، لیکن اس کا مقصد جدید لکھنے والوں کا یہ شکوہ دور کرنا تھا کہ ان کی بات سنجیدگی سے نہیں سنی جاتی۔ لیکن چونکہ میرے مسلک و مشرب کے بارے میں مغالطے اسی رسالے کے مضامین کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں یا کیے گئے، اس لیے بزرگوں نے جن کی رائے میری نظر میں قابل صد احترام ہے، مجھے یہ مشورہ دیا ہے کہ میں یہ بیان جاری کرنے کے ساتھ ’’الشریعہ‘‘ سے علیحدگی اختیار کر لوں تاکہ اس میں شائع ہونے والے مضامین کی کسی بھی طرح میری طرف نسبت نہ کی جا سکے۔ میں ان بزرگوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ’’الشریعہ‘‘ سے علیحدگی اختیار کرتا ہوں اور اپنے بیٹے حافظ عمار خان ناصر سلّمہ کو بھی، جو آئندہ ’’الشریعہ‘‘ کے ذمہ دار ہوں گے، یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جمہور امت کے مسلمات سے کسی بھی مسئلے میں علیحدہ روش اختیار نہ کریں۔ لیکن چونکہ وہ خود صاحب قلم ہیں، اس لیے اگر وہ ایسا کوئی رویہ اختیار کریں گے تو یہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا، میری طرف اس کی نسبت کسی طرح درست نہیں ہوگی۔
ابوعمار زاہد الراشدی، گوجرانوالہ
۱۴ نومبر ۲۰۱۵ء
مذکورہ تحریر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری زید مجدہم اور مولانا مفتی کفایت اللہ مانسہروی زید مجدہم کے مشورہ کے مطابق مرتب کر کے حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کی خدمت میں بھجوائی گئی جس کے جواب میں حضرت شیخ مدظلہ نے مندرجہ ذیل مکتوب گرامی ارسال فرمایا ہے:
باسمہ سبحانہ
مکرم و محترم جناب مولانا ابوعمار زاہد الراشدی حفظہ اللہ و رعاہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک عرصہ سے ’’ماہنامہ الشریعہ‘‘ کا قضیہ تشویش و اضطراب کا سبب بنا ہوا تھا، آپ نے ہمت و حوصلے اور وسعت قلب سے کام لے کر اس کو حل فرما دیا۔ احقر جناب کو ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہے۔ جناب کے اس فیصلے سے بے حد خوشی ہوئی اور بے اختیار دل سے آپ کے لیے، مع جملہ متعلقین حسنات و خیرات کی دعا نکلی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو والد ماجد ابوالزاہد سرفراز خان صفدر کا سچا اور حقیقی جانشین بننے کی توفیق سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔
احقر ہمیشہ آپ کی اعلیٰ و عمدہ صلاحیتوں کا قائل و معترف رہا ہے۔ میرے دل میں کبھی بھی اس میں تردد پیش نہیں آیا۔
مجھ جیسے محروم کو حق نہیں کہ نصیحت کرے، بزرگوں کا ارشاد نقل کر رہا ہے۔ ’’عافیت اور فتنوں سے حفاظت کا ذریعہ بزرگوں (جن کا برحق ہونا مسلمات میں شمار ہوتا ہے) کی اتباع و پیروی میں منحصر ہے اور سکون و طمانیت کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ ‘‘
سلیم اللہ خان
خادم جامعہ فاروقیہ کراچی
۴ صفر ۱۴۳۷ھ /۱۷؍ نومبر ۲۰۱۵ء
چنانچہ زیر نظر شمارہ سے میں ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی ادارتی ذمہ داری مکمل طور پر عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلّمہ کے سپرد کر رہا ہوں جس کی علمی صلاحیت، تحقیقی ذوق اور دینی صلابت پر، ذاتی طور پر بعض مسائل میں اختلاف رائے کے باوجود، مجھے مکمل اعتماد ہے اور قوی امید ہے کہ وہ ’’الشریعہ‘‘ کو اس کے اہداف، دائرۂ کار اور معیار کے مطابق زیادہ بہتر طور پر آگے بڑھا سکے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
بھارتی وزیر اعظم کا دورۂ پاکستان
محمد عمار خان ناصر
علاقائی امن اور ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات، اس خطے کی ضرورت ہیں۔ سیاست دانوں اور افواج اور انتہا پسند پریشر گروپس کی نہ سہی، عوام کی بہرحال ضرورت ہیں۔ انسانی قدریں بھی اسی کا تقاضا کرتی ہیں اور مسلمانوں کی مذہبی ودعوتی ذمہ داریاں بھی۔
تنازعات پرامن تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہوا کرتے ہیں۔ تاہم پر امن تعلقات کی طرف بڑھنے کو تنازعات کے پیشگی حل سے مشروط کرنا ایک غیر عملی سوچ ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت سے تنازع کو حل کرنے کا آپشن موجود نہیں تو پھر پہلے وہ سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں فریقین کے پاس سیاسی لین دین کی گنجائش اور لچک موجود ہو۔
پاکستان اور بھارت، طاقت کے راستے سے تنازعات کے حل کا آپشن بار بار آزما چکے ہیں اور اب یہ طریقہ واضح طور پر ’’نو آپشن’’ کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ مذاکرات اور سیاسی مکالمہ کے ذریعے سے حل تلاش کرنے کے لیے جس ماحول کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے موجودہ صورت حال میں وہ میسر نہیں۔ سو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ تنازعات کو اپنی جگہ تسلیم کرتے ہوئے وہ ماحول بنانے کی کوشش کی جائے جس میں خطے کی عمومی ذہنی فضا خود یہ تقاضا کرے کہ تنازعات کا تصفیہ کیا جائے (اور تقاضا نہ بھی کرے تو کم سے کم اس کی راہ میں حائل نہ ہو)۔
سازگار ماحول بنانے کے لیے ان دائروں میں باہمی تعلقات کو آگے بڑھانا ہوگا جن میں دونوں ملکوں کے مفادات مشترک ہیں۔ پون صدی سے جاری دائرے کے سفر سے اگر باہر نکلنا ہے تو یہ قدم اٹھانا ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی امید افزا پیش رفت کا خیر مقدم کرنا ہمارے نزدیک سیاسی فکر کی پختگی کی علامت ہے۔ خطے کی تاریخ اہل سیاست اور اہل صحافت، دونوں سے مثبت اور تعمیری کردار کی توقع کر رہی ہے۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۴)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۷۴) امداد کا ترجمہ
عربی میں لفظ ’امداد‘ کا مطلب مدد بہم پہونچانا بھی ہوتا ہے، اور محض عطا ونوازش کے لیے بھی لفظ ’امداد‘ آتا ہے۔
فیروزآبادی لکھتا ہے:
والاِمْدادُ: تأخیرُ الأجَلِ، وأَن تَنْصُرَ الأجْنادَ بِجَماعَۃٍ غیرَکَ، والاِعْطاءُ، والاِغاثَۃُ.۔ (القاموس المحیط.)
فیروزآبادی کی اس بات پر یہ اضافہ مناسب ہوگا کہ تطویل وتوسیع کے معنی میں دراصل ’مدد‘ ثلاثی مجرد آتا ہے، اور ’امداد‘ ثلاثی مزید اس معنی میں ’فی‘ کے ساتھ آتا ہے۔
قرآن مجید میں یہ لفظ دونوں معنوں میں آیا ہے، موقع ومحل سے مفہوم متعین ہوتا ہے، لیکن مترجمین سے اس لفظ کے مفہوم کو متعین کرنے میں غلطی بھی ہوجاتی ہے۔
امداد بمعنی مدد پہونچانا
لفظ ’امداد‘ کے مذکورہ ذیل تینوں استعمالات مدد پہونچانے کے معنی میں ہیں، میرے علم کی حد تک مختلف زبانوں کے تمام مترجمین نے ان کا ترجمہ مدد کرنے کا کیا ہے، اور کسی نے مدد کے علاوہ کوئی اور ترجمہ نہیں کیا ہے:
(۱) إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ أَلَن یَکْفِیْکُمْ أَن یُمِدَّکُمْ رَبُّکُم بِثَلاَثَۃِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِکَۃِ مُنزَلِیْن۔ بَلَی إِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ وَیَأْتُوکُم مِّن فَوْرِہِمْ ہَذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُم بِخَمْسَۃِ آلافٍ مِّنَ الْمَلآئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ۔ (آل عمران: ۱۲۴، ۱۲۵)
’’(یاد کرو) جب تم مسلمانوں سے کہہ رہے تھے کہ کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب، تین ہزار تازہ دم اتارے ہوئے فرشتوں سے، تمہاری مدد فرمائے؟ ہاں اگر تم ثابت قدم رہو گے اور بچتے رہو گے اور وہ (دشمن) تمہارے اوپر آدھمکے، تو تمہارا رب، پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد فرمائے گا، جو اپنے خاص نشان لگائے ہوں گے‘‘(امین احسن اصلاحی)
(۲) إِذْ تَسْتَغِیْثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّیْ مُمِدُّکُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلآئِکَۃِ مُرْدِفِیْن۔ (الانفال:۹)
’’اور (یاد کرو) جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سنی کہ میں ایک ہزار فرشتے تمھاری کمک پر بھیجنے والا ہوں جن کے پرے کے بعد پرے نمودار ہوں گے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
امداد بمعنی عطیہ اور نوازش
مذکورہ ذیل تمام آیتوں میں امداد نوازش کے معنی میں ہے، تاہم بعض مترجمین نے ان تمام آیتوں کا اور بعض نے ان میں سے بعض آیتوں کا ترجمہ مدد پہونچانے کا کیا ہے، جو قرین صواب نہیں ہے۔
(۱) وَاتَّقُوا الَّذِیْ أَمَدَّکُم بِمَا تَعْلَمُونَ۔ أَمَدَّکُم بِأَنْعَامٍ وَبَنِیْنَ۔ (الشعراء : ۱۳۲،۱۳۳)
’’اور اس اللہ سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمھیں مدد پہنچائی، جن کو تم جانتے ہو، اس نے تمھاری مدد کی چوپایوں اور اولاد سے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ میں ایک اور غلطی یہ ہوئی کہ الذی کا ترجمہ اللہ کیا ہے، جو لفظ کے مطابق نہیں ہے، صحیح ترجمہ ہوگا: ’’اس ہستی سے ڈرو‘‘، اور چونکہ اللہ کا ذکر پہلے صراحت کے ساتھ آچکا ہے، اس لیے الذی اسی کی صفت ہے)
’’اور اس (اللہ) سے ڈرو جس نے تمہاری ان چیزوں سے امداد کی جن کو تم جانتے ہو، (یعنی) مواشی اور بیٹوں اور باغوں اور چشموں سے تمہاری امداد کی‘‘ (اشرف علی تھانوی) (وجنات وعیون کا بھی ترجمہ شامل ہے۔)
مذکورہ بالا دونوں ترجموں کے مقابلے میں ذیل کے ترجمے درست ہیں،
’’اور ڈرو اس سے جس نے تم کو پہنچایا ہے جو کچھ جانتے ہو، پہنچائے تم کو چوپائے اور بیٹے۔‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’ڈرو اُس سے جس نے وہ کچھ تمہیں دیا ہے جو تم جانتے ہو۔ تمہیں جانور دیے، اولادیں دیں۔‘‘(سید مودودی)
Freely has He bestowed on you cattle and sons,-(Yousuf Ali)
مذکورہ بالا ترجموں میں (اتقوا) کا ترجمہ ’’ڈرو‘‘ کیا گیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ اصل مادہ اور کلام کے موقع ومحل کے لحاظ سے صحیح ترجمہ ڈرو نہیں ہے، بلکہ ’’ناراضگی اور نافرمانی سے بچنے کی کوشش کرو‘‘ ہے۔
(۲) ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْْہِمْ وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیْراً۔ (الاسراء :۶)
’’پھر ہم نے تمھاری باری ان پر لوٹائی اور تمھاری مال اور اولاد سے مدد کی۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’پھر ہم ان پر تمہارا غلبہ کردیں گے، اور مال اور بیٹوں سے ہم تمھاری امداد کریں گے۔‘‘ (اشرف علی تھانوی)
مذکورہ بالا دونوں ترجموں کے مقابلے میں ذیل کا ترجمہ درست ہے،
’’پھر ہم نے پھیری تمہاری باری ان پر اور زور دیا تم کو مالوں سے اور بیٹوں سے‘‘ (شاہ عبدالقادر)
مذکورہ تینوں ترجموں میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک میں’ رددنا‘ کا ترجمہ مستقبل کا کیا گیا ہے، جبکہ دیگر دونوں ترجمے ماضی کے ہیں، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں ’رددنا‘ کا مستقبل کا ترجمہ زیادہ قرین صواب ہے، گو کہ فعل ماضی ہے مضارع نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ (رددنا) گذشتہ آیت میں وارد (بعثنا) پر عطف ہے، جو ’اذا‘ کے تحت آیا ہے، ’اذا‘ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ حال اور مستقبل کے لیے آتا ہے، جبکہ ’لما ‘ماضی کے لیے آتا ہے، مزید یہ کہ سیاق کلام کے لحاظ سے یہ وعدے کا بیان ہے جیسا کہ کان وعدا مفعولا بتا رہا ہے، نہ کہ وعدہ پورا ہونے کا بیان ہے کہ ماضی کا ترجمہ کیا جائے۔
(۳) أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّہُم بِہِ مِن مَّالٍ وَبَنِیْنَ۔ (المومنون:۵۵)
’’کیا گمان کرتے ہیں یہ کہ جو کچھ مدد دیتے ہیں ہم ان کو ساتھ اس کے مال سے اور بیٹوں سے۔‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’کیا یہ خیال کررہے ہیں کہ وہ جو ہم ان کی مدد کررہے ہیں مال اور بیٹوں سے‘‘ (احمد رضا خان)
’’کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال و اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں‘‘ (سید مودودی)
’’کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں‘‘ (جالندھری)
مذکورہ بالا ترجموں کے مقابلے میں ذیل کے ترجمے زیادہ صحیح ہیں، کیونکہ سیاق کلام مدد دینے کا نہیں بلکہ مال اور بیٹوں سے نوازنے کا ہے۔
’’کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو ان کے مال واولاد میں اضافہ کررہے ہیں۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’کیا خیال رکھتے ہیں یہ جو ہم ان کو دیے جاتے ہیں مال اور اولاد‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’کیا یہ لوگ یوں گمان کررہے ہیں کہ ہم ان کو جو کچھ مال اولاد دیتے چلے جاتے ہیں‘‘(اشرف علی تھانوی)
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ بالا تینوں آیتوں کے ترجموں میں بعض لوگوں نے بنین کا ترجمہ اولاد کیا ہے جو درست نہیں ہے، بنین کا درست ترجمہ بیٹوں ہے۔ اولاد بیٹے اور بیٹی دونوں کے لیے آتا ہے، جبکہ ابن بیٹے کے لیے آتا ہے جس کے پانے پر عرب خوش ہوتے تھے، جبکہ بیٹی کو عار خیال کرتے تھے۔
(۴) فَلَمَّا جَاء سُلَیْْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ۔ (النمل: ۳۶)
’’تو جب سفیر سلیمان کے پاس پہنچا، اس نے کہا کیا تم لوگ میری مدد مال سے کرنا چاہتے ہو؟‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’جب وہ (ملکہ کا سفیر) سلیمان کے ہاں پہنچا تو اس نے کہا:کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟‘‘(سید مودودی)
آیت مذکورہ میں ملکہ کا قول انی مرسلۃ الیہم بھدیۃ مذکور ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ کا سفیر ہدایا لے کر پہونچا تھا، نہ کہ کوئی مدد لے کر گیا تھا، اس لیے سیاق عطیہ اور تحفے کا ہے، مدد کا نہیں ہے۔
مذکورہ بالا اردو ترجموں کے بالمقابل انگریزی کے حسب ذیل دونوں ترجمے درست ہیں:
Then when he came unto Sulaiman, he said: are ye going to add riches to me. (Daryabdi)
So when [the envoy] came to Solomon he said, "What! Are you offering me wealth? (Wahiduddin Khan)
(۵) کُلاًّ نُّمِدُّ ہَؤُلاء وَہَؤُلاء مِنْ عَطَاء رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاء رَبِّکَ مَحْظُوراً۔ (الاسراء :۲۰)
’’ہم تیرے پروردگار کی بخشش سے ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی بھی اور ان کی بھی، اور تیرے رب کی بخشش کسی پر بند نہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’آپ کے رب کی (اس) عطا (دنیوی) میں سے تو ہم ان کی بھی امداد کرتے ہیں اور ان کی بھی‘‘ (اشرف علی تھانوی)
آیت میں عطاء ربک کا صاف ذکر ہے ، اس لیے مذکورہ بالا دونوں ترجموں کے مقابلے میں ذیل کے ترجمے درست ہیں:
’’ہر ایک کو ہم پہنچائے جاتے ہیں ان کو اور ان کو تیرے رب کی بخشش میں سے‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اِن کو بھی اور اُن کو بھی، دونوں فریقوں کو ہم (دنیا میں) سامان زیست دیے جا رہے ہیں، یہ تیرے رب کا عطیہ ہے، اور تیرے رب کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے‘‘(سید مودودی)
(۶) وَأَمْدَدْنَاہُم بِفَاکِہَۃٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَہُونَ۔ (الطور: ۲۲)
’’اور مدد دیں گے ہم ان کو ساتھ میووں کے اور گوشت کے اس چیز سے کہ چاہتے ہیں‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اور ہم نے ان کی مدد فرمائی میوے اور گوشت سے جو چاہیں‘‘ (احمد رضا خان)
’’اور ہم ان کی پسند کے میوے اور گوشت ان کو برابر دیتے رہیں گے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اور ہم ان کو میوے اور گوشت جس قسم کا ان کو مرغوب ہو روز افزوں دیتے رہیں گے‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے‘‘(جالندھری)
اس مقام پر تو امداد کے لیے نوازش کا معنی بالکل یقینی ہے، کیونکہ جنت کی ساری نعمتیں دراصل اللہ کی نوازش اور عطیہ بتائی گئی ہیں، ان کی نوعیت امداد والی قرار نہیں پاتی۔ اور یہاں تو جنت کے پھلوں اور گوشت کا ذکر ہے، سیاق واضح طور سے نوازش کا ہے امداد کا نہیں ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ فتح محمد جالندھری جو ایسے ہر مقام پر مدد کا ترجمہ کرتے ہیں، اس مقام پر عطا کرنے کا ترجمہ کرتے ہیں، وہیں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض مترجمین نے بشمول اس مقام کے ہر جگہ اس کا التزام کیا ہے کہ جہاں بھی امداد کا لفظ آتا ہے وہ مدد پہنچانا یا مدد کرنا ترجمہ کرتے ہیں۔ شاہ رفیع الدین اور احمد رضا خان کے ترجموں میں ہم کو یہی التزام نظر آتا ہے۔ جبکہ شاہ عبدالقادر کے ترجمے میں ہمیں مدد اور نوازش کے درمیان فرق کی بہت خوب رعایت ملتی ہے۔ اشرف علی تھانوی، سید مودودی اور امین احسن اصلاحی کے یہاں ہم کو اس فرق کی با ضابطہ رعایت نظر نہیں آتی، چنانچہ شروع کے تین مقامات جن میں مال اور بنین سے نوازنے کا ذکر ہے،وہاں یہ تینوں بزرگ کبھی نوازش کا ترجمہ کرتے ہیں اور کبھی مدد کا، حالانکہ ان تینوں مقامات میں موقع کلام نوازش کا ہے نہ کہ مدد دینے کا۔
(جاری)
اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(۲۵ نومبر کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے امام ابوحنیفہؒ ہال میں ’’اسلام اور سائنس‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پیش کی گئی گزارشات کا خلاصہ۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ! اسلام اور سائنس کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر آپ حضرات نے فاضل مقررین کے ارشادات سماعت فرمائے ہیں۔ اس موضوع پر گفتگو کے بیسیوں دائرے ہیں، میں ان میں سے ایک صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ کیا اسلام اور سائنس آپس میں متصادم ہیں؟ اس لیے کہ عام طور پر یہ بات دنیا میں کہی جاتی ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ان کے درمیان بعد اور منافاۃ ہے۔ میں آج کی گفتگو میں اس سوال کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے اس بات پر غور فرمائیں کہ مذہب اور سائنس کے باہم مخالف اور متصادم ہونے کا جو تاثر عام طور پر پایا جاتا ہے اس کے بڑے اسباب دو ہیں۔ ایک نظری اور اصولی ہے جبکہ دوسرا سبب تاریخی اور واقعاتی ہے۔
اصولی پہلو یہ ہے کہ سائنس کائنات کی اشیاء پر غور و فکر کرنے، ان کی حقیقت جاننے، ان کی افادیت و ضرورت کو سمجھنے، ان کے استعمال کے طریقے معلوم کرنے، ان سے فائدہ اٹھانے اور تجربات کے ذریعہ انہیں زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کا نام ہے، اور سائنس اسی دائرہ میں ہر دور میں متحرک رہی ہے۔ جب تک کائنات کی بیشتر اشیاء تجربات و مشاہدات کے دائرے میں نہیں آئی تھیں، ان پر غور و فکر کا سب سے بڑا ذریعہ عقلیات کا ہوتا تھا، اس لیے سائنس بھی معقولات کا ایک شعبہ اور فلسفے کا حصہ سمجھی جاتی تھی۔ خود ہمارے ہاں درس نظامی میں فلکیات کو معقولات کے مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا تھا لیکن جب کائنات کی متعدد اشیاء انسان کے محسوسات، مشاہدات اور تجربات کے دائرہ میں شامل ہونے لگیں تو سائنس کو معقولات اور فلسفہ سے الگ ایک مستقل مضمون کا درجہ حاصل ہوگیا اور فلسفہ اور سائنس کا رخ الگ الگ سمتوں کی طرف ہوگیا۔ اسی طرح سائنس اس دور میں تجربات و مشاہدات کے بغیر محض معقولات کا حصہ سمجھی جاتی تھی اور آسمانی تعلیمات اور فلسفہ و معقولات کے درمیان مسلسل کشمکش رہتی تھی۔ خاص طور پر اس تناظر میں یہ بحث زیادہ شدت اختیار کر جاتی تھی کہ وحی اور عقل کا باہمی تعلق کیا ہے اور ان میں سے کس کو فائنل اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے؟ یہ دور عقل اور وحی کے درمیان کشمکش کا دور تھا جو آج بھی جاری ہے۔ چونکہ سائنس معقولات کے دائرہ کی چیز تھی اس لیے سائنس کو بھی مذہب سے الگ بلکہ اس سے متصادم تصور کیا جاتا تھا، لیکن جب سے عملی تجربات، مشاہدات اور تحقیقات کے ذریعہ سائنس کا دائرہ فلسفہ سے الگ ہوا ہے صورت حال بالکل مختلف ہوگئی ہے۔
ایک اور بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وحی کائنات کے حقائق کی نشاندہی کرتی ہے اور سائنس بھی انہی حقائق و اشیاء پر تجربات کرتی ہے۔ اس لیے ان دونوں کے درمیان تصادم کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ بلکہ میری طالب علمانہ رائے میں دونوں میں باہمی تقسیم کار کا ماحول سا بن گیا ہے۔ مثلاً انسانی جسم جو کہ میڈیکل سائنس کا موضوع ہے اور وہی وحی الٰہی کا موضوع بھی ہے۔ میڈیکل سائنس اس سوال کا جائزہ لیتی ہے کہ انسانی باڈی کی ماہیت کیا ہے، اس کے اعضاء کا آپس میں جوڑ کیا ہے، ان کا نیٹ ورک کیا ہے، میکنزم کیا ہے اور یہ کس طرح صحیح کام کرتے ہیں؟ جبکہ وحی الٰہی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسانی وجود کس نے بنایا ہے اور اس کا مقصدِ وجود کیا ہے؟ میں سائنس دانوں سے کہا کرتا ہوں کہ ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ ہمارا دائرہ کار ہی الگ الگ ہے۔ انسانی باڈی کے بارے میں دو سوالوں پر آپ بحث کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی ماہیت اور نیٹ ورک کیا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ کیسے صحیح کام کرتی ہے ، اور خرابی پیدا ہوجائے تو اسے صحیح کیسے کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ ہمارا یعنی وحی الٰہی کی بات کرنے والوں کا موضوع اس سے الگ دو سوال ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو بنایا کس نے ہے اور دوسرا یہ کہ کس مقصد کے لیے بنایا ہے؟
کسی بھی چیز کے مکمل تعارف کے لیے چار سوال ضروری ہوتے ہیں۔ (۱) یہ کیا ہے؟ (۲) یہ کیسے کام کرتی ہے؟ (۳) یہ کس نے بنائی ہے؟ اور (۴) کس مقصد کے لیے بنائی ہے؟ پہلے دو سوال سائنس کا موضوع ہیں جبکہ دوسرے دو سوال مذہب کا موضوع ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان کوئی اختلاف اور تنازعہ نہیں ہے۔
مذہب اور سائنس کے درمیان اختلاف اور تنازعہ کے عوامی تاثر کی دوسری وجہ تاریخی اور واقعاتی ہے۔ وہ یہ کہ جس دور میں یورپ میں سائنسی تجربات کا کام شروع ہوا اور سائنس دانوں نے کائنا ت کی متعدد اشیاء پر عقلی بحثوں سے آگے بڑھ کر عملی تجربات اور مشاہدات کا آغاز کیا اس وقت یورپ میں مسیحی مذہب کی فرمانروائی تھی اور ریاست و حکومت میں مذہبی قیادت کو فیصلہ کن درجہ حاصل تھا۔ مسیحیت کی اس دور کی مذہبی قیادت نے ان سائنسی تجربات و مشاہدات کو مذہب سے متصادم قرار دے کر ان کی مخالفت کی اور سائنسی تجربات پر الحاد اور ارتداد کا فتویٰ لگا کر ایسا کرنے والوں کو سزائیں دینا شروع کر دیں۔ اس کا سلسلہ بہت طویل اور افسوسناک رہا ہے جس سے یہ تاثر عام ہوگیا کہ مذہب سائنس کا مخالف ہے اور مذہبی تعلیمات میں سائنسی تجربات و مشاہدات کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو بھی اسی پر قیاس کر لیا گیا کہ مسیحیت کی پاپائی تعبیر کی طرح اسلام بھی سائنس کا مخالف ہے۔ حالانکہ اسلام نے سائنس اور سائنسی تجربات کی کبھی مخالفت نہیں کی، بلکہ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر کائنات پر غور و فکر کی دعوت دی ہے ان میں سے ایک کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ سورۃ آل عمران کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق اور شب و روز کے اختلاف میں ارباب دانش (اولوالالباب) کے لیے آیات اور نشانیاں ہیں اور ارباب فکر و دانش یتفکرون فی خلق السماوات والارض آسمان و زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں، البتہ اس غور و فکر کا ہدف ’’مقصدیت‘‘ کو قرار دیا ہے کہ وہ زمین و آسمان کی تخلیق پر غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ربنا ما خلقت ھذا باطلاً، یا اللہ! تو نے اسے بے مقصد پیدا نہیں کیا۔
اسلام نے کائنات کے نظام پر غور و فکر کی دعوت دی ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اس غور و فکر یعنی سائنسی مشاہدات و تجربات کی اصل بنیادیں مسلمانوں نے ہی فراہم کی ہیں جن پر آج پوری سائنس کی عمارت کھڑی ہے۔ اس لیے اسلام کو مسیحیت کے اس دور پر قیاس کرنا درست نہیں ہے اور یہ کہنا قطعی طور پر خلاف حقیقت ہے کہ اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم ہے۔ اس کے اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سائنس ہماری مخالف نہیں بلکہ معاون اور مؤید ہے کہ قرآن و حدیث کے بیان کردہ بہت سے حقائق کو سائنس نے عمل و تجربہ کے ساتھ ثابت کیا ہے جس سے قرآن و حدیث کی صداقت مزید واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ اس کے بیسیوں پہلو ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی مختصر گفتگو میں ان میں سے دو تین کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔
قرآن کریم نے قیامت کے دن اعمال کے وزن کی بات کی ہے کہ انسان کے اعمال و اقوال کا وزن کیا جائے گا۔ اس پر اعتراض کیا گیا بلکہ ا س کی تعبیر و تشریح میں اہل سنت اور معتزلہ وغیرہ کے مابین ایک عرصہ تک اختلاف رہا کہ قول اور عمل تولنے کی چیز نہیں ہے، اس لیے کہ قول اور عمل صادر ہونے کے بعد معدوم ہو جاتے ہیں، چنانچہ بات اور عمل کا وزن نہیں کیا جا سکتا اور نہیں کیا جائے گا۔ مگر سائنس نے قول اور عمل دونوں کو محفوظ کر کے بلکہ ان کی مقدار کا تعین کر کے اس اعتراض کو ختم کر دیا، اور قرآن کریم نے اعمال کے وزن کی جو بات کی ہے اسے صحیح ثابت کر دیا۔
دوسری مثال یہ عرض کروں گا کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں حمل قرار پاتا ہے تو اس کے ساتھ ایک فرشتے کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے جو ہر چالیس روز کے بعد رپورٹ پیش کرتا ہے کہ اب یہ کس کیفیت میں ہے۔ اور جب تین چلے پورے ہو کر اس میں روح ڈالنے کا وقت آتا ہے تو فرشتہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے کہ ما أجلہ اس کی عمر کتنی ہوگی؟ ما کسبہ اس کا کسب و عمل کیا ہوگا؟ ما رزقہ اس کے رزق کا کوٹہ کتنا ہوگا؟ اور اشقی ام سعید یہ نیک بختی یا بدبختی میں سے کس کھاتے میں شمار ہوگا، وغیر ذلک۔یہ سوال و جواب مکمل کرنے کے بعد اسے روح کا کنکشن دے دیا جاتا ہے۔ میں جب اس حدیث مبارکہ کو پڑھتا ہوں تو میرے ذہن میں سائنس کے بیان کردہ جین (Gene) کا تصور آجاتا ہے کہ جس جین کی بات سائنس دان کرتے ہیں کہیں یہ وہی فائل تو نہیں جو فرشتہ انسان کے جسم میں روح ڈالے جانے سے پہلے مکمل کر کے سیل کر دیتا ہے؟
ایک اور مثال بھی دیکھ لیں کہ بخاری شریف ہی کی ایک اور روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان مرنے کے بعد جب قبر میں جاتا ہے اور مٹی میں مل جاتا ہے تو اس کے جسم کا ہر عضو بوسیدہ ہو کر خاک ہو جاتا ہے۔ اِلاعجب ذنبہ فیہا یرکب مگر اس کی دُمچی کا مہرہ فنا نہیں ہوتا، وہ باقی رہتا ہے اور اسی سے اس کی دوبارہ تشکیل و ترتیب ہوتی ہے۔ میرے خیال میں آج کی سائنس جس کلون (Clone) کی بات کرتی ہے اور جس پر کلوننگ کے ایک مستقل کام کی بنیاد رکھی گئی ہے غالباً وہی عجب ذنبہ یعنی دُمچی کا مہرہ ہے جو انسان کی دوبارہ تخلیق کی بنیاد بنے گا۔ اور وہ پہلے سے الگ وجود نہیں ہوگا بلکہ اسی کی نشاۃ ثانیہ ہوگی۔
ایک اور مثال بھی سامنے رکھ لیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج کے مشاہدات بیان کرتے ہوئے ایک مجرم کو سزا دیے جانے کا ذکر کیا اور اس کا جرم یہ بتایا کہ وہ جھوٹ گھڑتا تھا اور یبلغ بہ الأفاق اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دیتا تھا۔ یہ جھوٹ گھڑنے والی بات سمجھ میں آتی تھی لیکن اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دینے کی بات آج سے ڈیڑھ صدی قبل سمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی۔ مگر سائنس نے اسے بھی حقیقت ثابت کر دیا ہے کہ سچ ہو یا جھوٹ کسی بات کو آناً فاناً دنیا کے مختلف کناروں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
حضرات محترم! میں نے چند ارشادات آپ کے سامنے اس حوالہ سے کیے ہیں کہ اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں ہے بلکہ اسلام سائنسی تحقیقات کی دعوت دیتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جبکہ سائنس وحی الٰہی کے بیان کردہ حقائق کی تائید کرتی ہے اور مسلسل کرتی جا رہی ہے۔ اس لیے سائنس کے علم سے جہاں انسانی سوسائٹی کو نت نئی سہولتیں اور فوائد حاصل ہو رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ، اسی طرح یہ آسمانی تعلیمات کی مؤید اور معاون بھی ہے۔ البتہ اسے محض معروضیت کے دائرہ میں رکھنے کی بجائے ’’مقصدیت‘‘ کا پہلو بھی اس کے حوالہ سے اجاگر کرنا ہوگا اور یہی اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام علوم و فنون سے صحیح استفادے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
’’اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق‘‘
محمد زاہد صدیق مغل
(فیس بک پر جناب زاہد صدیق مغل کا تبصرہ)
جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کا 'اسلام اور سائنس' پر کالم پڑھا، مختصر تبصرہ یہ ہے:
’’سائنس کائنات کی اشیاء پر غور و فکر کرنے، ان کی حقیقت جاننے، ان کی افادیت و ضرورت کو سمجھنے کا نام ہے، ان کے استعمال کے طریقے معلوم کرنے کا نام ہے۔‘‘
نہ جانے وہ کون سی سائنس ہے جو ’’حقیقت تلاش‘‘ کررہی ہے۔ جدید سائنس، جس کا ظہور تاریخ میں ہوا، وہ تو کائنات کے ذرے ذرے کو سرمایے میں تبدیل کرکے نفع میں اضافے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔
سائنس کا دائرہ کار ’’(1) یہ چیز کیا ہے؟ اور (2) کیسے کام کرتی ہے‘‘ ہے جبکہ مذہب کا دائرہ کار ’’(3) اسے کس نے بنایا ہے‘‘ اور ’’(4) اس کا مقصد کیا ہے‘‘ ہے۔ ۔۔۔
نجانے اس دنیا کی وہ کون سی سائنس ہے جو ’’اشیاء کی مقصدیت‘‘ فرض کیے بغیر ہی کام کیے جارہی ہے۔
’’وحی کائنات کے حقائق کی نشاندہی کرتی ہے، سائنس بھی انہی حقائق و اشیاء پر تجربات کرتی ہے، اس لیے ان دونوں کے درمیان تصادم کی کوئی وجہ نہیں۔‘‘
اوپر کہا کہ ان دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے، مگر ایک بھی ہے۔
مجھے تو آج تک ایسا سائنس دان نہیں ملا جو یہ کہتا ہو کہ ’’میں حقیقت تلاش کررہا ہوں‘‘، نہ ہی کوئی ایسے والدین جو اپنے بچے کو کسی سائنسی شعبے میں داخلہ دلاتے ہوئے یہ کہتے ہوں: ’’جاؤ بیٹا حقیقت تلاش کرو‘‘۔ بھائیو! یہ ’’پروفیشن‘‘ ہے، ملین بلین ڈالر پروفیشن جس کے پیچھے کارپوریٹ، ریاست و مارکیٹ اکانومی کا سٹرکچر کھڑا ہے۔ ان تینوں کے Nexus کے بغیر ٹیکنالوجیکل ترقی کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ شاید ہم پاکستانی برے لوگ ہیں، اس لئے سائنس کے ذریعے حقیقت تلاش نہیں کرتے بلکہ یورپ و امریکہ ہر جگہ لوگ اسے پروفیشن اور کیرئیر کے طور پر ہی لیتے ہیں۔
سائنس سے حاصل ہونے والے مادی فوائد کو مد نظر رکھ کر اسے اپنی طرف سے تھیورائز کرلینا کہ سائنس ایسی ہوتی ہے یا ویسی، کوئی علمی طریقہ نہیں۔ سائنس کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟ اس کے لیے فلاسفی آف سائنس میں اس سے متعلق مباحث کی ڈویلپمنٹ کو دیکھنا چاہیے۔ انہیں نظر انداز کرکے سائنس کے بارے میں اپنی طرف سے وضع کردہ نظریات کی روشنی میں کی جانے والی گفتگو بے معنی ہے۔
بیل ۔ سینگوں کے بغیر؟
خورشید احمد ندیم
انسان تسخیر کائنات کے اگلے مرحلے، تسخیر فطرت میں داخل ہو چکا۔ صدیوں سے قائم ما بعد الطبیعیاتی تصورات اور عقائد کے پاؤں تلے سے زمین سرک رہی ہے۔ مذہب بھی اپنی حقیقت میں مابعد الطبیعیاتی تصور ہے،اگرچہ وہ طبیعات کی دنیا سے اپنے حق میں دلائل کشید کر تا ہے۔ تسخیر کائنات کا مر حلہ درپیش تھا تو مسیحیت مذہب کی نمائندگی کر رہی تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ اہل کلیسا اس چیلنج سے عہدہ برآ نہ ہو سکے۔ تسخیر فطرت کے مر حلے میں، مذہب کی نمائندگی اسلام کر رہا ہے۔ کیا اہل اسلام اس چیلنج کا سامنا کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
۲۸۔ نومبر کو ’نیو یارک ٹائمز‘ کے صفحہ اوّ ل پر ایک خبر شائع ہوئی۔’جین ایڈیٹنگ‘ سے بیل کے تخلیقی فارمولے کوبدل دیا گیا ہے۔ دو ایسے بیل پیدا کیے جاچکے جن کے سینگ نہیں ہیں۔ اسی علم سے، اس سے پہلے ایک مچھلی بھی پیدا کی گئی جو اب امریکہ میں دستر خوان کا حصہ ہے۔ایک ایسا مچھر’پیدا‘کر لیا گیا ہے جو ملیریا پھیلانے کی ’صلاحیت‘ سے محروم ہے۔ اس علم سے سور اور مویشیوں کی ایسی نسلیں پیدا کی جا رہی ہیں جو کم خوراک لیکن زیادہ فربہ ہوں گی اور یوں زیادہ گوشت کی فراہمی کاباعث ہوں گی۔چینی محققین نے بونے سور پیدا کر دیے ہیں جنہیں گھروں میں پالتو جانوروں کی طرح رکھا جا سکے گا۔ وہ ایسی بھیڑیں بھی پیدا کرہے ہیں جو زیادہ گوشت فراہم کریں گی اور ان کے بال بھی کہیں لمبے ہوں گے جن سے زیادہ گرم کپڑابنایا جا سکے گا۔اس نوعیت کے ان گنت تجربات ہیں جو جانوروں پر جاری ہیں۔
’پیوند کاری‘ کوئی نیا عمل نہیں۔ عالمِ نباتات و حیوانات پر اس کے تجربات قدیم سے ہورہے ہیں۔تاہم یہ بہت سست اور محدود عمل تھا۔ایک تجربے کے نتائج کے لیے کئی عشروں تک انتظار کر نا پڑتا تھا۔’جین ایڈیٹنگ‘کامعاملہ مختلف ہے۔اس نے تبدیلیء ہیت کے عمل کو مہمیز دے دی ہے۔وہ تخلیقی فارمولہ اب اس کی دست رس میں ہے جوایک صنف کی صورت میں حسب خواہش و ضرورت تبدیلی لا سکتا ہے۔انزائمزکے استعمال سے اب ڈی این اے کے حسب خواہش مقام پر چرکہ لگا کر، کوئی جین نکالی اور کوئی ڈالی جا سکتی ہے۔ یوں اپنی مرضی کا جانور تخلیق کیا جا سکتا ہے۔کیا معلوم کب بولنے والے جانور پیدا ہو جائیں اور سوچنے والے بھی؟اگر جانوروں میں سوچ آگئی تو کیاپھربھی وہ جانور ہی شمار ہوں گے؟کچھ دیر کے لیے ذہن کے گھوڑے کو اس سمت میں دوڑائیے اور پھر سوچیے کہ مستقبل کا کیسا منظر آپ کے سامنے ہے؟
مذہب مظاہر فطرت سے دلیل اٹھاتا ہے۔ انہیں خدا کے وجود کے لیے بطور استدلال پیش کرتا ہے۔مثال کے طور پروہ اونٹ کی تخلیق پر غور کی دعوت دیتا ہے ۔انسان اب اس صناعی میں شریک ہونے کا دعویٰ کرنے لگا ہے۔ اُس نے پہلی بارایسا نہیں کیا۔نمرود نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ میں زندگی دیتاہوں اورموت بھی۔اللہ کے ایک رسول نے اس کے استدلال کی کمزوری طشت ازبام کر دی۔ہم ختم نبوت کے عہد میں زندہ ہیں۔اب آسمان سے کوئی وحی نہیں اترنے والی جو آج کے نمرود کو جواب دے۔یہ جواب تو وحی کے وارثوں کو دینا ہے۔یہ امت جس پر آ خری رسول سیدنا محمد ﷺ نے شہادت دی اور اسے تمام عالم انسانیت کے سامنے یہ شہادت دینی ہے۔
آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے!
ابراہیم ؑ کی صلبی اور معنوی اولاد، جسے امتحان کا سامنا ہے، کیا اس کے لیے تیار ہے؟
یہ چیلنج گھمبیر ہونے والا ہے جب معاملہ جانوروں تک محدود نہیں رہے گے۔’جین ایڈیٹنگ‘ کا ہاتھ حریم آ دم کی طرف بڑھ رہا ہے۔کیا معلوم مستقبل کے پردے سے ابھرنے والا آ دم کیسا ہو؟اس کے خدو خال کیسے ہوں؟سوچ کیسی ہو؟ ابھی تو سائنس دانوں کو روک دیا گیا ہے لیکن کب تک؟یہ پابندی زیادہ عرصہ باقی نہیں رہ سکے گی۔ لوگوں نے اس مقصد کے لیے اربوں8 ڈالر مختص کر دیے ہیں۔یہ روبوٹ کی بات نہیں ،جیتے جاگتے انسان کا معاملہ ہے۔وہ انسان جس کے بارے میں مذہب کا مقدمہ ہے کہ اسے روز جزا اپنے رب کے حضور میں پیش ہو نا ہے۔بزعمِ خویش ،نئے انسان کا خالق،ا س دنیا میں انسان اور اس کے حقیقی خالق کے مابین آ کھڑا ہوا ہے،نمرود کی طرح۔آ خری الہام کے وارثوں کوکیا اس کا اندازہ ہے؟
علم بالحواس اور علم بالو حی کی بحث سے بات آگے نکل چکی۔ یہ بات طے ہے کہ جنہوں نے سائنس کی زبان میں مذہب کا مقدمہ پیش کیا، انہیں شکست ہوئی۔انہوں نے یقین کے لیے گمان کی دلیل پر انحصار کیا۔یوں یقین کو نقصان پہنچایا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ما بعد الطبیعیات کا مقدمہ طبیعیات کے میدان میں لڑا۔ سائنس دریافت کا ایک مسلسل عمل ہے۔کیا معلوم اس کی اگلی منزل کیا ہے؟اس کے نتائج سے محکمات پر استدلال نہیں کیا جا سکا۔ تاہم ایک دائرہ ایسا ہے جہاں اس سے گریز ممکن نہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مذہب اپنے حق میں مظاہر فطرت سے استنباط کر تا ہے۔ یہاں لازم ہے کہ فطرت کے جن مظاہر کی طرف مذہب اشارہ کرتا ہے، وہ تحقیق کے پیمانے پر پورا اترتے ہوں۔ ’جین ایڈیٹنگ‘ کے بعد، میرااحساس ہے کہ ان نصوص کی قدیم تفسیر اور شرح شاید نئے ذہن کے اطمینان کے لیے کافی نہ ہوجہاں فطرت کے مظاہر پر مذہب کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔
اس بحث کا ایک پہلو اور بھی ہے۔مذہب کا مقدمہ یہ بھی ہے کہ پیغمبر دراصل ان باتوں کی یاد دہانی کے لیے تشریف لاتے ہیں جوانسانی فطرت میں الہام کر دی گئی ہیں۔وہ فطرت کو ایک محکم بنیاد فرض کر تا ہے۔وہ آفاق ہی نہیں، انفُس کی نشانیوں سے بھی دلیل لا تا ہے۔ ’جین ایڈیٹنگ‘کے تحت فطرت اب قابل تغیر ہے۔اگر انسان کی یاداشت ہی کو کھرچ ڈالا جائے توعہدِ الست کی گواہی کا کیا ہوگا؟یہ درست ہے کہ مذہب کی دنیا میں روح زندگی کا محور ہے۔جو اس پر رقم ہے، ’جین ایڈنٹنگ‘ کی اس تک رسائی نہیں۔ عہد الست اگر اس پر محفوظ ہے تواس ٹیکنالوجی کے دسترس سے باہر ہے۔ بات لیکن یہاں ختم نہیں ہو جا تی۔اس کے بعد یہ بتانا پڑے گا کہ فطرت کیا ہے؟مثال کے طور پر اب یہ کہا جا رہا ہے کہ جرم جینز میں ہو تاہے۔اگر جینز میں تبدیلی ممکن ہے تویہ بھی ممکن ہے کہ ’جین ایڈیٹنگ‘ سے جرم کر نے کی صلاحیت ہی سلب کر لی جائے۔ سوال یہ ہے کہ جس فطرت میں فجور اور تقویٰ الہام کر دیے گئے ہیں،اگراس میں تبدیلی ممکن ہے تو پھر قانونِ آ زمائش کی معنویت کیا ہوگی؟
’جین ایڈیٹنگ‘ آج کے علمِ جدید کا چیلنج ہے۔انیسویں صدی میں جب علم بالحواس نے اسی نوعیت کا چیلنج اٹھایا تھا تو سر سید نے ایک نئے علم کلام کی ضرورت کو نمایاں کیا تھا۔علامہ اقبال نے بھی اسی بات کو آگے بڑھایا۔اب سر سید کا علم کلام بھی ہماری مدد نہیں کر سکے گا۔ انہوں نے مذہب کو فطرت سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی تھی۔اب تو فطرت ہی تبدیلی کی زد میں ہے۔بنیادی سوا ل پھر اپنی جگہ کھڑا ہے کہ محکم کے لیے متغیر کو معیار کیسے مانا جا سکتا ہے؟
میں مذہب کی سخت جانی سے واقف ہوں۔اس نے ہر دور کے ’علم جدید‘ کا سامنا کیا ہے اور میری نظرمیں،دلیل کے میدان میں اسے شکست نہیں دی سکی۔یقیناًوہ اس معرکے میں بھی فاتح ہوگا۔اس وقت ایک جانب توصف بندی ہو چکی۔ آج بیل کے سر سے سینگ غائب ہوئے ہیں۔کل کچھ اور غائب ہو جائے گا۔یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔کیا اہلِ مذہب نے بھی صف بندی کا سوچ لیا ہے؟کیا ان کے پاس وہ علم کلام مو جود ہے جو بیل کے سر پر سینگ اگا دے یا پھراسے اپنے حق میں انفس وآفاق کی ایک نئی دلیل میں بدل ڈالے؟
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)
جدید علم الکلام
مولانا مفتی منیب الرحمن
روزنامہ دنیا کے فاضل کالم نگار جناب خورشید ندیم نے اپنے کالم میں ’’جین ایڈیٹنگ‘‘ کو موضوع بنایا اور بتایا کہ جنیٹک انجینئرنگ کے ذریعے حیوانات کی بعض خصوصیات پر مشتمل نئی نسلیں تیار کی جا رہی ہیں جن میں بغیر سینگ کے بیل، ایک خاص قسم کی مچھلی اور Malaria free مچھر بھی پیدا کیا گیا ہے۔ الغرض اجناس اور حیوانات کی نسلوں میں تنوع پر تجربات ہورہے ہیں اور کسی حد تک اس کی اصل تابیر یا تلقیح ہے۔ اسے درختوں میں قلمیں لگانے اور جانوروں میں مخلوط نسل سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ جانوروں کی مخلوط نسلوں کے حوالے سے ہمارے فقہی سرمایے میں پہلے سے اس کا حل موجود ہے۔ ذیل میں سوال وجواب کی صورت میں ایک مسئلہ درج کیا جاتا ہے جو ہم نے عید الاضحی کے موقع پر آسٹریلوی گائے کی قربانی کے حوالے سے لکھا تھا:
’’سوال: کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے؟ اس کے بارے میں یہ افواہ بھی ہے کہ اسے حرام جانور کے مادہ منویہ سے حاملہ کرایا جاتا ہے تاکہ اس سے دودھ کی زیادہ مقدار حاصل ہو۔ ایسی گایوں کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے۔ فقہی رائے کا مدار افواہوں یا سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، صرف ان باتوں پر ہوتا ہے جو قطعی ثبوت یا مشاہدے سے ثابت ہوں۔ اسی لیے مسلمہ اصول ہے کہ ’’یقین شک سے زائل نہیں ہوتا‘‘۔ تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو، تب بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے۔ اس لیے کہ جانور کی نسل کا مدار ماں (یعنی مادہ جانور) پر ہوتا ہے۔ علامہ برہان الدین لکھتے ہیں: ترجمہ ’’اور جو بچہ پالتو جانور اور وحشی جانور کے ملاپ سے پیدا ہو، وہ (بچہ) ماں کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، یہاں تک کہ اگر بھیڑیے نے بکری پر جفتی کی تو اس ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا، اس کی قربانی جائز ہے ۔‘‘ اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود ’’عنایہ‘‘ شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں: ترجمہ (کیونکہ بچہ ماں کا جزء ہوتا ہے اور اسی لیے آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے۔ (یہ اس دور کی بات ہے جب غلامی کا رواج تھا)۔ یہ اس لیے کہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے اور ماں کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے۔‘‘ (فتح القدیر جلد ۹ ص ۵۳۲)‘‘
اور آج کل تو مغرب میں انسانوں کو اسی حیوانی درجے میں پہنچا دیا گیا ہے، اسی لیے باپ کے بجائے ماں کا نام پوچھا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں کو اپنے باپ کا پتہ ہی نہیں ہوتا، جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانوں میں نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے۔ پس بیل کا بغیر سینگ کے ہونا جبکہ گائے نے اسے جنم دیا ہو، مذہب کی رو سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مچھلی کی مثال جناب خورشید ندیم نے دی ہے، جبکہ برائلر مرغی سے مسلمانوں سمیت پوری انسانیت ایک مدت سے استفادہ کر رہی ہے۔
اسلام میں جمود نہیں ہے، توسع ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی مفاد میں تجربات کے لیے راستہ کھلا چھوڑا ہے۔ حدیث پاک میں ہے، رافع بن خدیج بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم (ہجرت کر کے) مدینے تشریف لائے تو لوگ وہاں کھجوروں میں پیوند کاری کرتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، یہ تم کیا کرتے ہو؟ انھوں نے عرض کیا، ہم یہ کام (قلمیں لگانا) کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تم یہ نہ کرتے تو بہتر ہوتا۔ سو انھوں نے (قلمیں لگانا) چھوڑ دیا تو درخت جھڑ گئے یا پیداوار کم ہو گئی۔ راوی بیان کرتے ہیں، صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا، ’’میں صرف بشر ہوں۔ جب میں دین کے بارے میں (جو وحی ربانی پر مشتمل ہوتا ہے) تمھیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے قبول کر لو اور اگر میں اپنی رائے سے کسی بات کا حکم دوں تو میں بشر ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، ۲۳۶۲) دوسری حدیث میں فرمایا ’’اگر (پیوند کاری) ان کے لیے مفید ہے تو وہ اسے اختیار کریں۔ میں نے ظن پر مبنی بات کی تھی اور ظنی (یا قیاسی) بات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے، لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب کر کے کوئی بات کہوں تو اسے لازم پکڑو۔‘‘ (صحیح مسلم، ۲۳۶۱)
اسی طرح ماضی قریب میں ایک بھیڑ کے خلیے (Cell) سے دوسری بھیڑ ڈولی کو تخلیق کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو سوال یہ ہے کہ اس سلسلے کو آگے جاری کیوں نہ رکھا گیا، اس کا سبب معلوم نہیں ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں یہ سارے نظائر (Precedents) موجود ہیں۔ عام سنت الٰہیہ یہ ہے کہ توالد وتناسل یعنی افزائش نسل حیوانات میں نر ومادہ اور انسانوں میں مرد اور عورت کے اشتراک سے وجود میں آتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مرد کے واسطے کے بغیر، حضرت حوا کو عورت کے واسطے کے بغیر اور حضرت آدم علیہ السلام کو دونوں کے واسطے کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اسباب قدرتِ باری تعالیٰ کے تابع ہیں اور اس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مانند ہے۔ انھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے فرمایا : ہو جا، سو وہ ہو گیا۔‘‘ (آل عمران: ۵۹) اسی طرح فرمایا: ’’اے لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہا کرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا ہے اور اسی سے اس کی زوج (حوا) کو پیدا کیا اور ان دونوں سے کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا۔‘‘ (النساء: ۱) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرتِ حوا کو آدم علیہ السلام کے وجود سے پیدا کیا اور اپنی حکومت سے اس تخلیق کی عملی صورت کو بیان نہیں فرمایا۔ قرآن مجید اصول اور کلیات بیان کرتا ہے، اس کی صورت وہیئت کی تحدید نہیں فرماتا تاکہ آنے والے زمانے میں انسانی علم کے ارتقاء کے سبب جو بھی صورت اختیار کی جائے، اس پر اصول کی تطبیق (Application) میں دشواری پیش نہ آئے۔
جناب خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ نئے علم الکلام کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے، اس لیے کہ انسان کے علمی، عقلی اور فکری ارتقا کا سفر جاری وساری ہے۔ فلسفہ یونان تو اب از کار رفتہ ہو چکا۔ نئے فلسفے اور ما بعد الطبیعیاتی (Metaphysical) نظریے وجود میں آتے رہیں گے۔ آج اباحت کلی (Total Permissibility) کا فلسفہ کار فرما ہے۔ انسان کے لیے کیا مفید ہے اور کیا نقصان دہ؟ اس بارے میں مغرب کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کی اجتماعی دانش ہی حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو انھوں نے دیس نکالا دے دیا ہے۔ آج ہم جنس پرستی (Homosexuality)، مردوں کے باہم جنسی تلذذ (Gay)، عورتوں کے باہم جنسی تلذذ (Lesbians) اور ہیجڑوں کے باہم جنسی تلذذ (Transgender) کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ قانون الٰہی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
علم الکلام سے مراد یہ ہے کہ اسلامی عقائد پر وارد ہونے والے عقلی اور فکری اعتراضات کا ایسا مدلل اور مفصل جواب دیا جائے جو ایک سلیم الفطرت اور عقل سلیم رکھنے والے انسان کو مطمئن کرسکے۔ جہاں تک ہٹ دھرم لوگوں کا تعلق ہے، وہ ہمیشہ قاطع حجتوں کو بھی رَد کرتے رہے ہیں، عصبیت جاہلیہ سے کام لیتے ہوئے دین آبا سے جڑے رہے ہیں۔ ایسے کٹ حجت اور ہٹ دھرم لوگ تاریخ کے ہر دور میں موجود رہے ہیں اور رہیں گے۔ اسلام کے حاملین کو عقلی اور فکری جمود کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اہل دین کو اپنے عہد کے عقلی اور فکری فتنوں اور ان کی فکری اساس کو سمجھ کر ان کا تشفی بخش جواب دینا چاہیے۔ یہ بھی درست ہے کہ عقلی، فکری اور سائنسی ارتقا کے اس دور میں آیات الٰہیہ کی نئی تعبیرات آتی رہیں گی۔ ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ نصوص قرآنی کو ہر دور میں سائنس کے تابع کریں، بلکہ ہماری ذمے داری یہ ہے کہ یہ ثابت کریں کہ قرآن وسنت اور اصول دین کا سائنس سے کوئی تصادم نہیں ہے۔ اگر ہم آج کی کسی تعبیر کو حرفِ آخر قرار دے دیں تو کل اس کے برعکس بھی کوئی صورت سامنے آ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات اور اس میں سربستہ رازوں کو دریافت کرنا یا انھیں مختلف شکلیں دینا تو ممکن ہے اور یہ دین کے منافی نہیں ہے۔ خلق اور ایجاد اللہ تعالیٰ کی شان ہے اور روح یا حقیقت حیات، یہ قدرت کا راز ہے اور تاحال یہ انسانی عقل کی رسائی سے ماوَرا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ہم نے آسمان کو اپنے دست قدرت سے بنایا اور ہم (ہر آن) اسے وسعت دینے والے ہیں۔‘‘ (الذاریات ۴۷)۔ سائنس دان بھی کہتے ہیں کہ ہماری کہکشاں (Galaxy) کی طرح کئی ارب کہکشائیں (Galaxies) ایسی ہیں جو ابھی دریافت نہیں ہوئیں۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)
بین المذاہب مکالمہ کی ایک نشست کے سوال و جواب
محمد عمار خان ناصر
مورخہ ۸ دسمبر ۲۰۱۵ء کو فیصل آباد کے ہوٹل وَن میں کرسچین اسٹڈی سنٹر اسلام آباد کے زیر اہتمام بین المذاہب مکالمہ کی ایک نشست میں شرکت اور حاضرین کے درجنوں سوالات کے جواب میں اپنے فہم کے مطابق گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ بڑے اچھے ماحول میں سوالات اور ان کے جوابات کا تبادلہ ہوا۔ مجلس کی منتظم محترمہ فہمیدہ سلیم نے آخر میں سب کا شکریہ ادا کیا اور تحمل وبرداشت کے حوالے سے کہا کہ ’’آپ کا ریموٹ کنٹرول آپ ہی کے پاس ہونا چاہیے’’، مطلب یہ کہ مکالمہ ومباحثہ میں کوئی دوسرا شخص اپنی کسی غیر محتاط یا اشتعال انگیز بات سے آپ کو بھڑکانے میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ ایک اور بزرگ نے پتے کی بات کی کہ اس طرح کی مخلوط مجالس میں ہم جن اچھے اچھے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں، تبدیلی اس وقت آئے گی جب ہم یہی باتیں اپنے اپنے ماحول میں واپس جا کر بھی کرنے لگیں گے۔
اس نشست میں جن سوالات کے جوابات دیے گئے، ان میں سے بعض اہم سوال وجواب موضوع سے متعلق بعض دیگر سوالات کے اضافے کے ساتھ یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
سوال۔ اسلام کا تصور توحید کیا ہے؟
جواب۔ اسلام میں توحید کا تصور یہ ہے کہ اس کائنات کی خالق ومالک ایک ہی ہستی ہے جو اپنے اقتدار واختیار اور اپنے خاص حقوق میں کسی کو شریک نہیں کرتی اور نہ ایسی شرکت کو گوارا کرتی ہے۔
سوال۔ کافر کس کو کہتے ہیں؟
جواب۔ کافر کا لفظ قرآن میں ان لوگوں کے لیے بولا گیا ہے جنھوں نے پیغمبر علیہ السلام کی طرف سے حق کو پوری طرح واضح کر دیے جانے کے باوجود اسے قبول نہیں کیا۔ یہ چونکہ دل کی کیفیت ہے، اس لیے اس مفہوم میں کسی کو کافر (یعنی جانتے بوجھتے حق کا انکار کرنے والا) کہنا اللہ تعالیٰ کی تصریح کے بغیر کسی انسان کے لیے روا نہیں۔ البتہ ایک عمومی مفہوم میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذہبی گروہوں کو جو اسلام کی مبنی برحق تعلیم کو قبول نہیں کرتے، ’’کفار‘‘ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ ان کے دل کی کیفیات کا فیصلہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہی کریں گے۔ دنیا میں انھیں ظاہری احکام کے لحاظ سے ’’کافر‘‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم ہر مذہب کے ماننے والے چونکہ اپنے خیال میں حق ہی کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے لیے ’’کافر‘‘ کی تعبیر پسند نہیں کرتے، اس لیے فقہائے اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی کہ کسی غیر مسلم کو طعن کے انداز میں ’’کافر‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جائے۔ فقہ اسلامی کی رو سے ایسا کرنے والے کو دوسروں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی پاداش میں تعزیری سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
سوال۔ مختلف مسلمان فرقے آپس میں ایک دوسرے کو کافر کیوں کہتے ہیں؟
جواب۔ فرقہ واریت صرف مسلمانوں میں نہیں، ہر مذہب کے پیروکاروں میں پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں میں کچھ نہ کچھ مذہبی اختلافات بہرحال پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب ان مذہبی اختلافات میں ہر گروہ اپنی ہی تعبیر کو عین حق اور مخالف تعبیر کو عین باطل تصور کرتا ہے تو اس سے باہمی تکفیر کا رویہ پیدا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ مذہبی تعبیر کے اختلاف کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں، اصل مذہب کی طرف نسبت اگر موجود ہے تو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ اس لحاظ سے جب تک کوئی گروہ خود کو ازخود اسلام سے لاتعلق قرار نہ دے یا اسلام کے کسی بنیادی عقیدے کا یہ کہہ کر انکار نہ کرے کہ میں اس عقیدے کو قبول نہیں کرتا یا پیغمبر علیہ السلام کے بعد کسی نئے نبی سے اپنے آپ کو وابستہ کر کے کوئی نئی مذہبی شناخت اختیار نہ کر لے، اسے دائرۂ اسلام میں ہی شمار کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلمان فرقے عموماً اس اصول کو ملحوظ نہیں رکھتے جس کی وجہ سے وہ باہمی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہتے ہیں۔
سوال۔ اگر سب کا خالق و مالک ایک ہے تو مذاہب کا اختلاف کیسے پیدا ہوا؟
جواب۔ مذہبی عقائد کا اختلاف پیدا ہونے کا سبب بھی انسان کو ملنے والی وہی ارادہ واختیار کی آزادی ہے جس کی وجہ سے دنیا میں اخلاقی خیر وشر وجود میں آیا ہے۔ یعنی انسان اپنے عمل میں بھی آزمائش سے دوچار ہے اور فکر ونظر میں بھی، بلکہ فکر ونظر کی آزمائش زیادہ سنگین ہے، کیونکہ اس دائرے میں انسان کو ایک طرف حق وباطل کے التباس کو الگ الگ کرنے اور حق کی پہچان کا امتحان درپیش ہے اور اس کے بعد حق کو عملاً قبول کر لینے کا۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ یہ مذہبی اختلاف اللہ تعالیٰ کی اسکیم کا حصہ ہے اور اس دنیا میں اسی طرح ہمیشہ برقرار رہے گا۔
سوال۔ کیا مذہبی اختلاف کے ہوتے ہوئے احترام انسانیت فروغ پا سکتا ہے؟
جواب۔ جہاں دوسرے اسبابِ اختلاف انسانوں کے مابین نفرت اور بے توقیری کا رویہ پیدا کرتے ہیں، وہاں مذہبی اختلاف بھی اس کا سبب بن سکتا ہے اور بنتا ہے۔ لیکن اصولی طور پر اگر مذہب کی تعلیم کو درست طور پر سمجھ کر اس کے مطابق رویے اپنائے جائیں تو مذہبی اختلاف کے باوجود یہ ممکن ہے کہ انسان، ایک ہی رب کے بندے اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کا احترام کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمارے لیے اس کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ ایک یہودی کے جنازے کے احترام میں کھڑے ہو گئے تھے اور لوگوں کے تعجب ظاہر کرنے پر فرمایا تھا کہ ’’کیا وہ ایک انسان نہیں ہے؟‘‘ آپ نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ اگر کسی نے کسی غیر مسلم معاہد کے ساتھ زیادتی کی تو قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس کے خلاف آپ خود استغاثہ کریں گے۔ آپ نے یہ تعلیم دی کہ میدان جنگ میں اگر بدترین دشمن بھی مارا جائے تو اس کی لاش کو بگاڑنا اور اس کی توہین کرنا جائز نہیں۔ یہ سب باتیں واضح کرتی ہیں کہ مذہبی اختلاف کے باوجود انسانی سطح پر سارے انسانوں کی یکساں تکریم واحترام کا رویہ اپنایا جا سکتا ہے۔
سوال۔ جب اسلام لا اکراہ فی الدین پر یقین رکھتا ہے تو اسلام چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنے والوں کے لیے موت کی سزا کیوں رکھی گئی ہے؟
جواب۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ قوانین اور ضابطے اس دنیا کے عمومی حالات کے لحاظ سے مقرر کیے ہیں اور کچھ ضابطے بعض مخصوص حالات میں اختیار کیے جاتے ہیں۔ مذہبی آزادی کے حوالے سے اللہ کا عمومی قانون یہی ہے کہ اس دنیا میں انسان پر کسی مخصوص عقیدے یا مذہب کے حوالے سے جبر نہ اللہ نے خود کیا ہے اور نہ انسانوں کو اس کی اجازت دی ہے۔ البتہ جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت کسی قوم میں اپنا پیغمبر بھیجتا ہے اور اس کے ذریعے سے حق ان لوگوں کے سامنے واضح فرما دیتا ہے تو پھر اس کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم اسے لازماً قبول کرے، ورنہ اس دنیا میں ہی عذاب الٰہی کا شکار ہو جائے گی۔ اسی اصول کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے براہ راست مخاطب گروہوں کے متعلق یہ قانون بیان فرمایا کہ ان میں سے جو اسلام قبول کر لینے کے بعد اسے چھوڑنا چاہے تو اسے اس کی اجازت نہ دی جائے بلکہ ایسا کرنے والے کو قتل کر دیا جائے۔
دور جدید میں یہ مسئلہ مسلمان علماء کے درمیان خاصا زیر بحث ہے۔ جہاں ایک بڑا طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ ارتداد کی مذکورہ سزا کا نفاذ ہمیشہ اسی طرح واجب العمل ہے، وہاں کچھ مختلف نقطہ ہائے نظر بھی سامنے آ رہے ہیں جن کی رو سے اِس دور میں شکوک وشبہات کا شکار ہو کر اسلام کو چھوڑنے والے مسلمانوں پر موت کی سزا کا لازمی نفاذ شریعت کا منشا نہیں۔ ایسے لوگوں کو حکمت اور دانش کے ساتھ ہی واپس دائرۂ اسلام میں لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سوال۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو اہل کتاب کے ساتھ دوستی کرنے سے کیوں منع کیا گیا ہے؟
جواب۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ وہ غیر مسلموں کے کسی بھی گروہ کے ساتھ تعلقا ت کی نوعیت کا فیصلہ خود اس گروہ کے رویے کی روشنی میں کرتا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں قرآن مجید میں مختلف گروہوں کے اختیار کردہ رویے کے مطابق ان کے ساتھ تعلقات رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۂ عرب میں قرآن کی دعوت پیش کی تو اس کا رد عمل مختلف گروہوں کی طرف سے مختلف انداز میں سامنے آیا۔ بعض نے کھلم کھلا دشمنی کا طریقہ اختیار کیا، بعض نے اہل اسلام کے ساتھ ہمدردی اور مشکل حالات میں ان کی مدد کا رویہ اپنایا، جبکہ بہت سے گروہوں نے غیر جانب دار رہنے کو ترجیح دی۔
ان میں سے جو گروہ اسلام اور مسلمانوں کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور موقع ملنے پر انھیں نابود کر دینے کے خواب دیکھ رہے تھے، ان کے ساتھ کوئی ہمدردی یا تعلق خاطر رکھنے کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے منافی قرار دیا اور ان کے لیے محبت اور دوستی کے جذبات ظاہر کرنے والے مسلمانوں کو سخت تنبیہ فرمائی۔ اس کے برخلاف جو گروہ اسلام کی دعوت کو قبول نہ کرتے ہوئے بھی مسلمانوں کی جان ومال یا ان کے مذہب کے دشمن نہیں بنے، ان کے ساتھ مصالحانہ تعلقات اور اچھے برتاؤ کی تلقین کی گئی۔ (سورۂ ممتحنہ، آیت ۸) اسی طرح اس دور کے اہل کتاب میں کچھ گروہ ایسے بھی تھے جو دیانت داری اور خدا خوفی جیسے اوصاف سے متصف تھے اور مذہبی تعلیمات کے اشتراک کی وجہ سے اسلام او رمسلمانوں کے ساتھ تعلق خاطر بھی محسوس کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے گروہوں کا ذکر تحسین کے انداز میں کیا ہے۔ (سورۂ مائدہ، آیت ۸۲)
عہد نبوی میں ہمیں ایسے اہل کتاب بھی ملتے ہیں جنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ہمدردانہ اور دوستانہ طرز عمل اختیار کیا، بلکہ نازک مواقع پر مسلمانوں کی مدد بھی کی۔ اس حوالے سے سب سے نمایاں مثال حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی ہے جس نے کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مظلوم مسلمانوں کو اپنے ملک میں نہ صرف پناہ فراہم کی، بلکہ مشرکین کے مطالبے کے باوجود ان مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً مکہ سے ہجرت کر کے جانے والے بہت سے مسلمان کئی سال تک امن وعافیت کے ساتھ حبشہ کی سرزمین میں مقیم رہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی تناظر میں صحابہ کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ آپ کے بعد جب مسلمان ارد گرد کے ممالک کو فتح کرنے کے لیے نکلیں تو اہل حبشہ جب تک مسلمانوں کے خلاف جنگ میں پہل نہ کریں، ان کے خلاف جنگ نہ کی جائے۔ (سنن ابی داود، کتاب الملاحم، حدیث ۴۳۰۲)
سوال۔ کیا مسلمان اور مسیحی مردوں کو ایک ہی قبرستان میں دفن کیا جا سکتا ہے؟
جواب۔ اس معاملے میں شریعت کی رو سے کوئی لازمی پابندی تو مسلمانوں پر عائد نہیں کی گئی۔ ابتدائی دور میں مدینہ میں ایک ہی مشترک قبرستان تھا جہاں مشرکین اور مسلمانوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں ایسے آثار بھی منقول ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے دور میں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا اور اہل کتاب کے بعض مردوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے دیا گیا۔ البتہ کچھ باتوں کا اہتمام عملی مصلحت کے لحاظ سے کیا جاتا ہے اور اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ مختلف مذہبی گروہ جن کے اعتقادات اور عملی احکام وقوانین باہم مختلف ہوں، وہ جب ایک جگہ اکٹھے رہتے ہیں تو باہمی نزاع سے بچنے کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر رفتہ رفتہ اختیار کر لی جاتی ہیں جو مفید ہوتی ہیں۔ اس پہلو سے عموماً ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ مختلف مذہبی گروہوں نے اپنے مردوں کے لیے قبرستان بھی الگ الگ کر لیے۔ یہی طریقہ مسلمانوں نے بھی اختیار کیا ہے اور اس کی پابندی کرنے میں بہت سے مصالح مضمر ہیں۔
سوال۔ مسلمانوں یا مسیحیوں کا ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں عبادت کرنا یا مشترکہ عبادت میں شریک ہونا کیسا ہے؟
جواب۔ مسلمانوں کے لیے ساری زمین کو مسجد قرار دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے وہ کسی بھی جگہ جہاں کوئی اضافی شرعی مانع موجود نہ ہو، نماز ادا کر سکتے ہیں۔ جہاں تک اہل کتاب کے، مسلمانوں کی مسجد میں عبادت کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بھی اسلام اصولاً بہت روادارانہ رویہ رکھتا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے نجران کے مسیحیوں نے مسجد نبوی میں ہی اپنے طریقے پر اپنی نماز ادا کی تھی۔ تاہم اس معاملے کو ایک عمومی عمل کی حیثیت سے اختیار کرنا بہت سے عملی مصالح کی روشنی میں مشکل ہے۔ عبادت گاہوں کے حوالے سے مذہبی گروہوں میں خاصی حساسیت پائی جاتی ہے اور سب لوگوں کی ذہنی سطح بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اس لیے کسی موقع پر اس اجازت سے فائدہ یہ دیکھ کر ہی اٹھانا چاہیے کہ اس سے کوئی اور بڑا مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے۔ حضرت عمر نے بیت المقدس میں ایک کلیسا میں نماز ادا کرنے سے اسی لیے انکار کر دیا تھا کہ آگے چل کر کہیں مسلمان یہ کہہ کر اس جگہ اپنا حق نہ جتا دیں کہ یہاں ہمارے خلیفہ نے نماز ادا کی تھی۔
جہاں تک مشترکہ عبادت ادا کرنے کا تعلق ہے تو دیکھیے، ہر مذہب میں عبادت کے اپنے کچھ مخصوص مراسم اور طریقے ہوتے ہیں جن کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔ مثلاً نماز کا طریقہ اہل اسلام کے ہاں اس طریقے سے بہت مختلف ہے جو مسیحیوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں مشترکہ عبادت کی ادائیگی نہیں ہو سکتی۔ البتہ عبادت کے ایسے طریقے جن کا تعلق مخصوص مراسم سے نہیں، مثلاً اللہ کے سامنے دعا کرنا یا اس کی حمد ومناجات کرنا، ان میں اگر مختلف مذاہب کے ماننے والے باہم شریک ہونا چاہیں اور مذہبی نقطہ نظر سے اس میں کوئی مانع موجود نہ ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
سوال۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی باہمی شادیوں سے متعلق اسلام کی تعلیم کیا ہے؟
جواب۔ اس حوالے سے اسلامی شریعت میں اہل کتاب اور ان کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے الگ الگ احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت کھانا اسلام میں حرام ہے اور ان میں سے کسی مرد یا عورت کے ساتھ نکاح کرنا بھی مسلمانوں کے لیے جائز نہیں رکھا گیا، لیکن اہل کتاب کے متعلق یہ اجازت دی گئی ہے کہ ان کے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت بھی کھایا جا سکتا ہے اور ان کی پاک دامن عورتوں سے مسلمان مرد نکاح بھی کر سکتے ہیں۔ (سورۂ مائدہ، آیت ۵) یہ اجازت اسلامی شریعت میں یک طرفہ ہے، یعنی مسلمان مرد تو اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کر سکتے ہیں، لیکن مسلمان عورتوں کو شریعت نے اس کو روا نہیں رکھا کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی بھی دوسرے مذہب کے مردوں سے شادی کریں۔
سوال۔ حضرت مسیح کے پیروکاروں کو عیسائی کہا جائے یا مسیحی؟
جواب۔ قرآن میں چونکہ ’عیسیٰ’ کا نام آیا ہے، اس لیے مسلمانوں میں اس نسبت سے عام طور پر ’’عیسائی‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس میں تحقیر یا توہین کا کوئی پہلو مسلمانوں کے ذہن میں نہیں ہوتا۔ البتہ مسیحی حضرات اپنے لیے ’’مسیحی‘‘ کا لفظ استعمال کرنے کو ہی پسند کرتے ہیں جو ان کا حق ہے اور اگر انھیں کسی وجہ سے ’’عیسائی‘‘ کے لفظ کے استعمال سے توحش ہوتا ہے یا انھیں ناگوار گزرتا ہے تو ہمیں بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے انھیں ’’مسیحی’’ کے نام سے ہی یاد کرنا چاہیے۔
سوال۔ سابقہ آسمانی صحائف کو پڑھنا اسلام کی نظر میں کیسا ہے؟
جواب۔ قرآن مجید نے سابقہ آسمانی صحائف کی عظمت وفضیلت واضح کی ہے اور بتایا ہے کہ قرآن بھی انھی تعلیمات کا تسلسل ہے، کوئی نیا دین نہیں لے کر آیا۔ قرآن اپنی تعلیمات کے، سابقہ صحائف کے موافق ہونے کو اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس پہلو سے قرآن مجید کی تعلیم کو تاریخی تناظر میں سمجھنے کے لیے علمی سطح پر سابقہ آسمانی صحائف کا مطالعہ اور ان سے استفادہ ایک بہت مفید چیز ہے۔ مسلمان علماء اس حقیقت سے واقف رہے ہیں اور اپنی علمی ومذہبی تحقیقات میں کتب سماویہ سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔
مسلمانوں کے نقطہ نظر سے بائبل میں موجود تمام صحائف اور ان کے تمام مندرجات تاریخی طور پر ایسے محفوظ نہیں کہ انبیاء کی طرف ان کی نسبت پورے اعتماد کے ساتھ کی جا سکے۔ پھر بھی اگر دینی تعلیمات کے حوالے سے قرآن اور صحائف انبیاء کا تقابل کیا جائے تو حیرت انگیز مشابہت اور مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ ماضی قریب میں بعض بڑے علماء مثلاً مولانا ثناء اللہ امرتسری مرحوم نے دین کی اہم تعلیمات کے حوالے سے ان تمام صحائف کا تقابلی مطالعہ کیا ہے اور اس سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔
سوال۔ قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر اور پندرہ اگست کا بیان بظاہر متضاد دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے کس کو ترجیح دی جائے؟
جواب۔ گیارہ اگست کی تقریر میں قائد اعظم نے اس ملک کی غیر مسلم اقلیتوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ ان کے مذہبی وسیاسی حقوق پوری طرح محفوظ ہوں گے اور ریاست پاکستان اس ضمن میں کوئی جانب دارانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی۔ پندرہ اگست کے بیان میں انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ مسلمانوں کے لیے ملکی نظام اور قانون کے دائرے میں راہ نمائی کا سرچشمہ اسلام کی ابدی تعلیمات ہیں جن کا بہترین نمونہ حضرت عمر کے عہد میں ملتا ہے۔ میرے نزدیک ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ بالکل درست ہیں۔ اسلام چونکہ دین ومذہب کے معاملے میں کسی قسم کے جبر کا قائل نہیں، اس لیے وہ مسلمان مملکت میں بسنے والے غیر مسلم گروہوں کو مکمل مذہبی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ غیر مسلم اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر قسم کی معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں اور ملکی فلاح وبہبود میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلامی شریعت کے مخصوص قوانین ان پر لاگو نہیں ہوتے اور وہ اپنے معاملات اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق انجام دینے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔
یہی حق ملک کی مسلمان اکثریت کو بھی حاصل ہے۔ چنانچہ جب اکثریت ملک کے نظام اور قانون کی تشکیل کرے گی تو ملک کی اکثریتی آبادی کے لیے ان کے مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہی کرے گی۔ نہ اکثریت کو یہ حق ہے کہ وہ اقلیت پر اپنے مذہبی خیالات کی پابندی مسلط کرے اور نہ اقلیتوں کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اکثریت سے اپنے مذہبی حقوق اور اختیارات سے دست برداری کا مطالبہ کریں۔ قائد اعظم نے یہی دونوں پہلو اپنی مذکورہ تقریروں میں واضح کیے ہیں۔ گیارہ اگست کی تقریر اقلیتوں کے مذہبی وسیاسی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے اور پندرہ اگست کا بیان یہ بتاتا ہے کہ مسلمان اکثریت جب اپنی سیاست ومعاشرت اور معیشت کی تشکیل کرے گی تو اپنے مذہب سے صرف نظر یا اس سے دست بردار ہو کر نہیں کریں گی۔
حسینہ واجد کی انتقامی سیاست
محمد اظہار الحق
’’آدم بو، آدم بو‘‘ ۔۔۔
چڑیل نے اپنے بے حد چوڑے نتھنے سیکڑے، پھر پھیلائے۔ اس کے پر چمگادڑ کے پروں کی طرح تھے۔ پھیلے ہوئے اور ڈراؤنے۔ آسمانی بلا کی طرح زمین پر اتری۔ جو سامنے آیا اسے کھا گئی، کھاتی گئی۔ خلق خدا نے پناہ مانگی۔ لوگ چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے لگے۔ ماؤں نے بچوں کو گھروں سے باہر بھیجنا بند کر دیا۔ خاندانوں کے خاندان تہہ خانوں میں جا چھپے!
حسینہ واجد کی پیاس ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے! بلور کے بنے ہوئے ساغر اور ان میں انسانی خون۔ مگر آہ! پیاس بجھ نہیں رہی۔ تاریخ نے بڑے بڑے ظالم دیکھے ہیں۔ سولہویں صدی میں ملکہ میری نے پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھنے والوں کو آگے میں جلانے کا حکم دیا۔ پادریوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ملکہ کا نام ’’خونی میری‘‘ پڑ گیا۔ سٹالن خلق خلق خدا کے لیے عذاب بنا۔ آج ملکہ میری ہے نہ سٹالن۔ حسینہ واجد بھی تاریخ کے گمنام صفحے پر خون کے ایک بدنما دھبے کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ بہت جلد! بہت جلد! جب پنڈلی سے پنڈلی جڑے گی! جھاڑ پھونک کرنے والوں کو بلایا جائے گا! آنکھوں کے سامنے فلم چلے گی! حسینہ واجد کی رحم طلب نگاہوں کے سامنے پروفیسر غلام احمد، قمر الزمان، عبد القادر ملا، صلاح الدین چودھری اور علی احسن مجاہد کے چہرے ابھریں گے۔ وہ چیخے گی، مگر چہرے بار بار نظر آئیں گے۔ موت کی غشی اس اذیت سے نجات نہیں دے گی۔ یہ تومحض آغاز ہوگا! آغاز جس کا کوئی انت، کوئی آخر نہیں ہوگا۔
۱۹۶۹ء کا اگست تھا جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم عبد المالک کو شہید کیا گیا۔ ٹیچر سٹوڈنٹ سنٹر میں تعزیتی اجتماع تھا۔ یہ کالم نگار بھی سامعین میں موجود تھا۔ عبد المالک سے ہماری اچھی علیک سلیک او ر خوب گپ شپ تھی۔ تمام مغربی پاکستانی طلبہ سے وہ محبت سے ملا کرتا۔ اجتماع میں پروفیسر غلام اعظم نے تقریر کی اور رُلا کر رکھ دیا۔ پروفیسر صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی، انھیں تبسم کے ساتھ ہی پایا۔ نرم ملائم ہاتھ جن میں ملنے والے کے ہاتھوں کووہ تھامے رکھتے! پھر وہ خبر پڑھی کہ عمر رسیدہ غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا سنائی گئی۔ پروفیسر نے زنداں کا مرہون احسان ہونا گوارا نہ کیا اور جان، جلد ہی جان آفریں کے سپرد کر دی۔ یہی غلام اعظم تھے جنھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سنٹرل سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سامنے بنگلہ کو اردو کے شانہ بشانہ قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایک دن کے لیے، نہیں! ایک دن تو بہت لمبی مدت ہوتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس اٹل سچائی میں کبھی شک نہیں کیا کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتیجہ میں عوامی لیگ جیتی تھی اور وفاق میں حکومت کی تشکیل اس کا حق تھا۔ کچھ لوگوں نے اس وقت کہا کہ عوامی لیگ کی نشستیں یہاں نہیں ہیں اور مغربی پاکستان میں جیتنے والوں کی وہاں نہیں ہیں اور یہ تو پولرائزیشن ہوگی! یعنی دو انتہائیں۔ پولرائزیشن، کون سی پولرائزیشن! ع
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
آج کے پاکستان میں پولرائزیشن کے سوا کہیں کچھ نظر ہی نہیں آ رہا۔ وسطی پنجاب میں جیتی ہوئی پارٹی وفاق میں حکومت کر رہی ہے۔ سندھ میں اس کی حیثیت صفر ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں اس کی موجودگی تبرک سے بڑھ کر نہیں۔ وفاقی کابینہ میں پشتو بولنے والے کتنے ہیں؟ دل پرہاتھ رکھ کر سوچیے! دفاع، خزانہ، داخلہ، ریلوے، بجلی، توانائی، تجارت، اطلاعات، ترقی ومنصوبہ بندی، جہاز رانی سب وزارتیں کیسے بانٹی گئی ہیں؟ ایوان اقتدار میں ریٹائرڈ ضعیف بیورو کریٹ کہاں کہاں سے ہیں؟ مشرقی پاکستان علاقہ نہ ہوتا، انسان ہوتا تو آج قہقہہ لگا کر کہتا ’’دیکھا، کیسی بد دعا لگی ہے! اب بتاؤ کیسی ہے پولرائزیشن!‘‘
مگر جب پاکستان ایک ملک تھا تو اس وقت سیاسی اختلاف کرنے والوں پر یا فوج کا ساتھ دینے والوں پر، آج غداری کا الزام کیسے لگ سکتا ہے؟ کیا یہ آسمانی کتاب میں لکھا ہے کہ عوامی لیگ سے سیاسی اختلاف نہیں ہو سکتا تھا؟ اگر پاکستان متحد رہ جاتا تو کیا اختلاف کرنے پر عوامی لیگ کو مطعون کیا جا سکتا تھا؟ نہیں، ہرگز نہیں! تو پھر صلاح الدین چودھری، علی احسن مجاہد اور دوسرے سیاست دانوں کو کس طرح قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اس وقت بنگلہ دیش کا وجود کہیں نہ تھا۔ ملک ایک تھا، سیاسی رائے کچھ بھی ہو سکتی تھی۔ حسینہ واجد غداری کے عذر لنگ پر سیاست دانوں کو قتل کرا رہی ہیں، بلکہ کر رہی ہیں۔ یہ ایک بھیانک روایت ہے جس کا آغاز اس عورت نے کیا ہے۔ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوگا۔ یہ خون اپنا حساب لے گا۔ مجیب الرحمن آخری آدمی نہیں ہیں جو گھر کی سیڑھیوں پر قتل ہوئے!
رہا بہت سے ان دوستوں کا شکوہ جو ایک مذہبی سیاسی جماعت کی اس معاملے میں خاموشی کا رونا رو رہے ہیں، ان حضرات کا شکوہ ناروا ہے۔ وہ کس سے شکوہ کر رہے ہیں؟ امید ہی کیوں رکھی تھی؟ کچھ جماعتوں کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے کہ ہمیشہ صحیح وقت پر غلط فیصلہ اور صحیح فیصلہ غلط وقت پر کریں۔ اُس وقت عوامی امنگوں کے سامنے بند باندھنا بھی سیاسی کم نظری (Political Myopia) تھا اور اِس وقت شور محشر بپا نہ کرنا بھی افسوس ناک ہے۔ فارسی کے شاعر نے انھی کا ماتم کیا ہوگا۔ ع
زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت
کم کوشی ان ہمراہیوں کے خمیر میں گوندھ دی گئی ہے! دل جیسے مٹھی میں جکڑا جا رہا ہے!!
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)
رفیق احمد باجوہ ۔ ایک بھولا بسرا کردار
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لاہور کے رہائشی علاقے شاد باغ میں رفیق احمد باجوہ ایڈووکیٹ (مرحوم) کے گھر پر ملک بھر کے سیاسی راہنماؤں کا ایک اجلاس ہوا ۔ یہ 10 جنوری 1977کی اک سہ پہر تھی۔ میں LLB کے امتحان سے فارغ ہو کر ہمہ وقت تحریک استقلال کے لیے کام کرتا تھا ۔ نہ دن کا پتہ نہ رات کا، بس سیاست کا سودا ہی ذہن میں سمایا رہتا۔ ہم کچھ لوگ رفیق باجوہ صاحب کے دروازے پر کھڑے ہو کر آنے والوں کا استقبال کرتے ۔ جمعیت علما ء پاکستان کے سربراہ شاہ احمد نورانی اور مولانا عبد الستار نیازی پہلے سے ہی وہاں موجود تھے ۔ پھر ایئر مارشل (ر) اصغر خاں، بیگم نسیم ولی خان، خاکسار لیڈر اشرف خاں، آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم و صدر سردار عبد القیوم خاں، جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد، ایک شیعہ مکتب فکر کے راہنما اور آخر میں مولانا مفتی محمود اجلاس میں شرکت کے لیے آئے۔ پیر صاحب پگارہ شریف اگرچہ لاہور میں موجود تھے مگر ان کی نمائندگی کسی اور نے کی۔ باجوہ صاحب کے گھر کے باہر ہجوم اکٹھا ہو گیا جو مطالبہ کر رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے خلاف تمام جماعتیں متحد ہو کر مقابلہ کریں۔ پھر شام کے وقت پروفیسر غفور احمد نے چھت پر آ کر اعلان کیا کہ مارچ میں ہونے والے قومی انتخابات میں تمام جماعتیں مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابات میں حصہ لیں گی۔ ساتھ ہی دوسرا اعلان کیا کہ دو دن کے بعد تمام راہنماؤں کا اعلیٰ سطح کا اجلاس مسلم لیگ ہاؤس ڈیوس روڈ پر ہو گا۔
دودن کے بعد جب ہم مسلم لیگ ہاؤس پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ انسانوں کا ایک ہجوم وہاں در آیا ہے۔ اجلاس ہو ا اور پروفیسر غفور کی بجائے رفیق باجوہ نمودار ہوئے اور انہوں نے چند فیصلوں کا اعلان کیا کہ تحریک استقلال، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ، جمعیت علماء اسلام،جمعیت علماء پاکستان، جماعت اسلامی، مسلم کانفرنس، خاکسار تحریک اور شیعہ الائنس (غالباً یہی نام تھا) پر مشتمل اتحاد تشکیل پا چکاہے۔ مفتی محمود اس کے سربراہ اور میں رفیق احمد باجوہ اس کے جنرل سیکرٹری ہوں گے۔ اس سیاسی اتحاد کا نام ’’ پاکستان قومی اتحاد‘‘ ہو گا جسے انگریزی میں P.N.A کہا جائے گا۔ تمام جماعتوں کے لیے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کا فارمولا اگلے اجلاس میں طے کیا جائے گا جو گلبرگ میں چوہدری ظہور الٰہی کی رہائش گاہ پر ہو گا۔ تاہم تحریک استقلال اور J.U.P کے لیے 34% کوٹہ مقرر کیا گیا ہے۔
پھر چوہدری ظہور الٰہی کی کوٹھی ’’قومی اتحاد‘‘ کا مرکز بن گئی۔ پاکستان قومی اتحاد کا پہلاجلسہ عام کراچی کے نشتر پارک میں ہو اجس کی آڈیو کیسٹ ریکارڈنگ لاہور پہنچی جو چینیزلنچ ہوم میں حبیب جالب، میں نے اور دیگر کارکنوں نے سنی۔ اس ریکارڈ نگ میں کسی مقرر نے بھی ’’نظام مصطفی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔ دوسرا جلسہ لاہور کے ناصر باغ میں احسان وائیں کی صدارت میں ہوا۔ ناصر باغ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ ملحقہ سٹرکیں ، مال روڈ ، پوسٹ آفس جنرل کے دفتر سے لے کر ضلع کچہری کے آخری سرے تک اور اولڈ کیمپس کے انار کلی والے سرے تک پر جوش لوگوں کا ایک جم غفیر تھا۔ اس جلسہ میں ایئرمارشل اصغر خاں اور بیگم نسیم ولی خاں کو بہت پذیرائی ملی۔ دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ اب تک نو جماعتوں کے یہ سربراہ ’’نو ستاروں‘‘ کا عوامی لقب اختیار کر چکے تھے۔ ایک صحیح معنوں میں عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ یہاں بھی ہمیں ’’نظام مصطفی‘‘ کا کوئی مطالبہ سننے کو نہیں ملا۔
پھر ایک روز کسی شہر میں رفیق باجوہ نے ’’نظام مصطفی‘‘ کا نعرہ بلند کر دیا اور اسٹیج پر سے ہی اللہ ہو اللہ ہو کا ورد بھی شروع کر کے اس سوال کی بنیاد رکھی جو سید افضل حیدر ایڈووکیٹ نے اپنی حالیہ شائع ہونے والی کتاب " M.D.R " میں اٹھا یاہے اور یہی سوال فرخ سہیل گوئیندی نے بھی اپنی کتاب ’’ ترکی ہی ترکی‘‘ میں اٹھایا ہے۔ تاریخ کو درست کرنا میرا کام نہیں۔ ایک کوشش اس لیے کر رہا ہوں کہ میں پاکستان قومی اتحاد اور تحریک استقلال کی ہائی کمان کے نزدیک رہا ہوں۔ بہت کچھ جانتا ہوں۔ کئی گفتنی اورنا گفتنی حقائق ہیں جنہیں ابھی تک خوف فساد خلق کی بنا پر سامنے نہیں لایا گیا ۔ قومی اتحادکی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک سراسر سیاسی تحریک تھی۔ اس پر دورانِ تحریک اصغر خاں اور بیگم نسیم ولی خاں کا ہی غلبہ رہا۔ عوامی طور پر رفیق باجوہ نے اسے ’’نظام مصطفی‘‘ کا نام دے کر اپنی تقریروں کی مقبولیت کی سند تو حاصل کر لی مگر یہ اتحاد کے کسی منشور وغیرہ کا حصہ نہیں تھا۔ یہ صرف دھاندلی کے خلاف چلائی گئی ایک سیاسی تحریک تھی جسے بعد میں ضیاء الحق نے شب خون مار کر یرغمال بنا لیا اوراپنی پہلی ہی تقریر میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک میں جو ’’ اسلامی جذبہ‘‘ دیکھنے کو ملا، وہ قابل تعریف ہے ۔ اور پھر اس کے بعد ضیا ء الحق نے اسلام کے نام پر کیا کیا ظلم وزیادتیاں اس نے ’’ ایجاد‘‘ نہ کیں۔ تاریخ اس کی گواہ ہے ۔
پروفیسر غفور احمد نے بھی اپنی کتاب ’’اور مارشل لاء آگیا‘‘ کے آخری ابواب میں پاکستان قومی اتحاد کے وہ تمام آخری مطالبات پیش کیے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کیے گئے اور جن پر اتفاق ہو گیا تھا۔ ان مطالبات کو دیکھ کربخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں بھی ایسا کوئی مطالبہ شامل نہیں تھا۔ سب مطالبات سیاسی نوعیت کے حامل تھے۔
اب آخر میں رفیق باجوہ کے انجام کا بھی ذکر کرتا چلوں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے چیف سیکرٹری پنجاب بریگیڈیئر مظفر کے ذریعے انہیں وزیر اعظم ہاؤس میں دعوت پر بلایا ۔ ایک غیر سیاسی شخص جو صرف دو ماہ میں ہی قومی سطح کا لیڈر بن چکا تھا، اس دعوت کے ملنے پر اتنا خوش ہوا کہ بغیر کسی کو بتلائے وزیر اعظم ہاؤس کھانا کھانے چلا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اتنا احمق تو نہیں تھا کہ اتنی بڑی تحریک کو ختم کرنے کے لیے صرف ایک شخص سے ہی مذاکرات کرتا۔ بس رفیق باجوہ کو اوجِ ثریا سے زمین پر گرانا تھا، سو گرا دیا۔
ملاقات کی خبر عوام تک پہنچی تو وہ غم وغصہ میں آگئے۔ باجوہ صاحب نے چند دن تو تردید میں گزار دیے۔ اس دوران ایک روز میں میاں محمود علی قصوری کے فین روڈ والے بنگلے پر گیا جہاں ایئر مارشل اصغر خاں اور مولانا شاہ احمد نورانی موجود تھے۔ ایئرمارشل صاحب نے مجھے کہا کہ باہر دروازے پر کھڑے ہو جاؤاور جب تک میں نہ کہوں، کسی کو اندر نہ آنے دینا۔ دونوں نے دوپہر کا کھانا اکٹھے کھا یا اور رفیق باجوہ کو پاکستان قومی اتحاد اور جمعیت علماء پاکستان دونوں جماعتوں سے فارغ کر دیا۔ رفیق باجوہ نے پھر سیاست کی طرف منہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی سیاستدانوں نے انہیں اپنے پاس بٹھایا۔ ’’ سیاسی مرزائی‘‘ بن کر رہ گئے۔ اور تو اور ہائیکورٹ بار میں بھی جانا چھوڑ دیا۔ ایسی تنہائی کا شکار ہوئے کہ خدا کی پناہ! اور اسی عالم میں ایک دن اپنے فکری اعمال کا جواب دینے اُس کے پاس پہنچ گئے جو سب کا حساب رکھتا ہے۔
پروانہ جمعیت صوفی خدا بخش چوہانؒ
ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی
میرے مربی، میرے محسن اور میرے والد گرامی پروانہ جمعیت صوفی خدا بخش بن اللہ بخش بن خدا بخش چوہان (بانی مدرسہ دارالتعلیم حمادیہ) ان شخصیات میں سے تھے جنہوں نے اپنے اعمال صالحہ، کریمانہ اخلاق اور بے شمار خوبیوں کی وجہ سے اپنا نیک نام چھوڑا ہے۔
ان کی ولادت 1944 میں گوٹھ راجو چوہان، تحصیل لکھی غلام شاہ، ضلع شکارپورمیں ہوئی۔ دنیوی تعلیم پانچ جماعتوں تک اپنے گاؤں راجو گوٹھ میں حاصل کی۔ قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم بھی اپنے اسی گاؤں میں حاصل کی۔ والد محترم باضابطہ عالم نہ تھے، البتہ علماء صلحاء کے صحبت یافتہ ضرورتھے۔ فقط ناظرہ قرآن اور اسکول کی پانچ جماعتیں پڑھ کر قابل رشک خدمات سرانجام دیں۔ اپنے رب سے قوی امید ہے کہ ان خدمات کی وجہ وہ بخشے جائیں گے۔
اللہ پاک نے بہت خوبیوں سے نوازا تھا۔ صوم وصلاۃ کے پابند تھے اور تہجد کی ادائیگی ان کا معمول تھی۔ جب سے ہوش سنبھالا، والد محترم کو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتے دیکھا۔ قادری طریقہ سے ذکر اذکار کرتے، اپنے رب کے حضور میں دعائیں مانگتے دیکھا۔ مستجاب الدعوات تھے، کسی بھی مسئلہ میں پریشان ہوتے تو اللہ رب العالمین کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ ان کا اصلاحی تعلق قطب الاقطاب حضرت مولانا حماداللہ ہالیجویؒ کے جانشین حضرت مولانا حافظ محمود اسعد سے تھا۔ ان سے خوب کسب فیض کیا۔ اسی فیض وصحبت کی برکت تھی کہ خود تو کسی سبب سے عالم نہ بن سکے، لیکن اپنی اولاد کو دینی تعلیم کے لیے وقف کیا۔
آپ نے مجاہدانہ زندگی گذاری۔ اخلاص اور راست گوئی میں ضرب المثل تھے۔ ان کے اندر دینی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جمعیت علماء اسلام کے فعال کارکن تھے۔ 2007 کے بلدیاتی الیکشن میں جمعیۃ علماء اسلام یوسی طیب ضلع شکار پور تحصیل لکھی غلام شاہ میں جنرل کاؤنسلر کے امیدوار بھی بنے جس کی وجہ وڈیروں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ والد صاحب کو ڈرایا دھمکایا گیا لیکن وہ اپنے مشن وپروگرام سے دستبردار نہیں ہوئے۔ جتنے بھی جماعتی، سماجی، اور مذہبی کام کیے، ان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن تمام کام مخالفت کے باوجود استقامت اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیے۔
ان کی زندگی کا سب سے اہم ترین مقصد مساجد ومدارس کی تعمیر تھا۔ اپنے گاؤں میں دو مساجد اور ایک مدرسہ تعمیر کرایا جو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ جامع مسجد اقصیٰ، یہ مسجد ہمارے گاؤں کی سب سے پرانی مسجد ہے جو گاؤں کے بالکل اندر ہے۔ جیسے جیسے گاؤں کے مکانات کی تعمیرات ہوتی گئی، مسجد کی سطح نیچی ہوتی گئی اور برسات وغیرہ کا پانی مسجد میں آنے لگا۔ والد گرامی کو خیال ہوا کہ مسجد کی از سر نو تعمیر کی جائے۔ گاؤں والوں سے مشورہ کیا کہ مسجد کی نئی تعمیر کی جائے۔ اخراجات کی وجہ سے کسی نے بھی حمایت نھیں کی۔ کسی نے کہا کہ آپ کے پاس اگر ایک لاکھ کی رقم ہے تو پھر مسجد کا کام شروع کریں۔ والد صاحب نے فرمایا کہ میرے پاس اتنی رقم تو نہیں البتہ مجھے اپنے خالق حقیقی اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے۔ اسی کا نام لے کر کام شروع کروں گا، وہی ذات اس کام کو پایہ تکمیل تک پھچائی گی۔ چنانچہ اللہ رب العالمین کا نام لے کر کام شروع کر دیا اور دس بارہ سال کی محنت اور لگن سے ایک شاندار مسجد بن گئی۔ اسی مسجد میں بندہ نے دینی تعلیم کا آغاز کیا ۔
مچ والی مسجد بھی بہت پرانی تھی۔ (مچ سندھی زبان میں آگ کو کہتے ہیں اس مسجد کے قریب لوگ آگ جلا کر مجلس کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اس کا نام ہی "مچ والی مسجد" پڑ گیا)۔ زمانے کی گردش سے منہدم ہو گئی تھی۔ اس مسجد کو بھی نئی سرے سے والد صاحب نے تعمیر کروایا۔ یہاں وہ امامت بھی خود ہی کراتے تھے۔
مساجد کی تعمیر کے بعد والد صاحب کو فکر لاحق ہوا کہ گاؤں میں ایک دینی مدرسہ بھی ہونا چاہیے جو نئی نسل کی دینی و مذہبی تربیت کر سکے اور لوگوں کے عقائد کی اصلاح ہوسکے۔ مدرسہ کے لئے ایک موزوں جگہ والد گرامی کی نظر میں تھی، لیکن اس میں کچھ رکاوٹ تھی۔ جگہ کے مالکان جگہ دینے پر راضی نہ تھے۔ والد گرامی نے رات کو اٹھ اٹھ کر تہجد میں دعائیں مانگیں۔ اللہ تعالیٰ نے وہ دعائیں قبول کیں اور جگہ کے مالکان میں سے مرحوم بنگل فقیر خود والد صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ ہم یہ جگہ آپ کو مدرسہ کے لیے وقف کرنے آئے ہیں۔ والد صاحب نے فرمایا کہ اب زندگی کا سورج غروب ہونے والا ہے، اب میرے اس کمزور جسم میں اتنی طاقت کہاں کہ مدرسہ تعمیر کراؤں۔ مرحوم بنگل فقیر نے بہت اصرار کیا کہ آپ کو جگہ لینی ہے اور مدرسہ تعمیر کرنا ہے۔ والد صاحب نے اللہ کا نام لے کر کام شروع کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم الشان ادارہ ’’مدرسہ عربیہ دارالتعلیم حمادیہ گلشن امام سندھی‘‘ تعمیر ہو گیا۔ یوں ان کی زندگی میں سب سے محبوب عمل ان آخری عمل اور "انما الاعمال بالخواتیم" کی عملی تصویر بن گیا۔ یہ بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
والد گرامی نے اپنے گاؤں میں دینی جلسے کرانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو 1981ء سے ان کی وفات تک جاری رہا۔ ان جلسوں میں سندھ اور پنجاب کے مشہور خطباء تشریف لاتے ہیں جن میں کچھ یہ قابل ذکر ہیں: امام المجاہدین حضرت مولانا سید محمد شاہ امروٹی، مناظر اسلام حضرت مولانا سید عبداللہ شاہ بخاری، شہید اسلام حضرت مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو، حضرت مولانا عبدالغفور حقانی شجاع آباد پنجاب، حضرت مولانا سید سراج احمد شاہ امروٹی مدظلہ، حضرت مولانا میر محمد میرک والے حضرت مولانا عبدالغنی پنجاب، وغیرہ۔
وفات حسرت آیات: جس طرح آپ نے زندگی شاندار اور مجاہدانہ گذاری، وفات بھی قابل رشک تھی کہ نماز پڑھتے اپنا سر سجدے میں رکھتے ہوئے جان جان آفریں کے حوالے کر دی۔ وفات ۲؍ اگست ۲۰۱۵ء کو مغرب کی نماز پڑھتے ہوئے پہلی رکعت کے سجدے میں ہوئی۔ حضرت والد گرامی کے غسل میں راقم الحروف اور میرے چھوٹے بھائی عطاء اللہ شریک تھے۔ نماز جنازہ ان کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ عربیہ دارالتعلیم میں حضرت مولانا حافظ سعید احمد شاہ بخاری نے پڑھائی۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت انہیں اپنی جوار رحمت جگہ دے آمین۔
سود، کرایہ و افراط زر: غلط سوال کے غلط جواب کا درست جواب
محمد زاہد صدیق مغل
صدر مملکت کے حالیہ بیان کے بعد بعض اہل علم احباب ایک مرتبہ پھر سود کے جواز کے لیے وہی دلائل پیش کرنے میں مصروف ہیں جو اپنی نوعیت میں کچھ نئے نہیں۔ اس ضمن میں پیش کئے جانے والے بعض دلائل کی نوعیت تو دلیل سے زیادہ غلط فہمیوں کی ہے۔ مثلاً ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سود لینا اس لیے معقول ہے کیونکہ وقت کے ساتھ افراط زر کی وجہ سے کرنسی کی قدر میں کمی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور دلیل میں سود کو اثاثوں کے کرایے پر قیاس کرلیا جاتا ہے۔ اس مختصر تحریر میں سود کے حق میں دیے جانے والے ان دو دلائل کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
جدید محققین نے کرایے کے جواز اور سود و کرایے میں فرق بیان کرنے کے لیے کرایے کی توجیہات مختلف انداز میں بیان کی ہیں۔ چنانچہ اس تھیورائزیشن میں کرائے کے جواز میں ایک عمومی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کرایہ لینا اس لئے جائز ہے کیونکہ اثاثہ استعمال کرنے سے اس کی کی "قدر" میں "ٹوٹ پھوٹ یا فرسودگی" (depreciation) کی وجہ سے کمی آجاتی ہے، لہٰذا مکانوں ودیگر اثاثہ جات کا کرایہ لینا جائز ہے۔ کرائے کے جواز کے لئے یہ ایک غلط دلیل ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس غلط دلیل کی آڑ میں سود کے حامی حضرات بھی ایک غلط دلیل قائم کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر دیگر اثاثوں کا کرایہ اس لیے جائز ہے کہ اثاثے کی قدر میں استعمال کی وجہ سے کمی آجاتی ہے تو زر یعنی کرنسی کی قدر میں بھی وقت کے ساتھ "افراط زر کی وجہ" سے کمی آجاتی ہے، لہٰذا اس کا کرایہ بھی جائز ہونا چاہیے۔ اس دلیل اور جواب دلیل میں قدر، اثاثے کی فرسودگی،کرائے و افراط زر جیسے مختلف معاشی تصورات کو خلط ملط کردیا گیا ہے۔ پہلے افراط زر اور سود کے تعلق سے سہو نظر کرتے ہوئے کرائے و سود کے فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کرایہ اور سود
پہلی بات یہ کہ کرائے کا جواز اثاثے کی فرسودگی نہیں۔ اگر مکان کے کرائے کا جواز فرسودگی کی وجہ سے اس کی قدر میں کمی ہوجانا ہے تو پھر مکان کا کرایہ صرف اسی صورت میں جائز ہونا چاہیے جب اس کی قدر کم ہوجائے، لیکن اگر وقت کے ساتھ اس کی قدر بڑھ جائے تو اس صورت میں اس کا کرایہ لینا جائز نہیں ہونا چاہیے۔ نیز اس تعبیر کی رو سے مکان کا کرایہ صرف اتنا ہی ہونا چاہیے جس شرح سے اس میں فرسودگی ہوتی ہو مگر عموما ایسا نہیں ہوتا۔ 9/11 کے بعد اسلام آباد میں دیگر شہروں کے مقابلے میں کرایوں میں زیادہ اضافہ ہوا، تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ 9/11 کے بعد اسلام آباد میں فرسودگی کے قوانین فطرت دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ تیز ہوگئے تھے؟ دراصل کسی شے کی قدر پر فرسودگی کے علاوہ بازار کی قوتیں بھی اثر انداز ہوتی ہیں، چنانچہ عین ممکن ہے کہ کسی اثاثے مثلاً مکان کی قدر فرسودگی کے باوجود وقت گزرنے کے ساتھ ان قوتوں کی وجہ سے کم ہونے کے بجائے بڑھ جائے لیکن پھر بھی اس کا کرایہ لینا جائز ہوگا۔ کسی شے میں فرسودگی کا عمل کائنات کے مادی قوانین کی وجہ سے بہرحال جاری و ساری رہتا ہے، چاہے کوئی اسے استعمال کرے یا نہ کرے، چاہے وہ اثاثہ اپنی ملکیت میں رکھ کریوں ہی رکھ چھوڑ دیا جائے یا کسی کو کرائے پر دے دیا جائے۔ ہرصورت میں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکررہے گا ،مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی "مارکیٹ قدر" بھی لازما کم ہوجائے گی۔ الغرض کرائے کا جواز نہ تو استعمال کے بعد قدر میں کمی آجانا ہے (کیونکہ یہ لازما کم نہیں ہوتی) اور نہ ہی فرسودگی ہوتا ہے کہ وہ تو بہرحال ہوکر رہتی ہے (صرف رفتار کا فرق ہوسکتا ہے)۔ اگر کسی شے میں نفع ہے تو باوجود اسکے کہ دوران استعمال اس میں کوئی خاطر خواہ فرسودگی نہ ہو تب بھی اسکا کرایہ بہرحال جائز ہوگا۔
کرایہ دراصل "نفع کی بیع" ہے، یعنی ایک شے میں جو نفع ہے اس نفع کو حاصل کرنے کی قیمت ادا کی جائے۔ کسی شے سے منفعت اٹھانے کی دو صورتیں ممکن ہیں، ایک یہ کہ جب اس سے منفعت لی جائے تو وہ شے اپنی اصل پر برقرار نہ رہے جیسے آلو کھا کر اس سے نفع اٹھانے کے عمل میں آلو ختم ہوجاتاہے۔ اس کے مقابلے میں بعض اشیاء کا وجود دیرپا (durable) ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی منفعت فوری نہیں بلکہ دیرپا اور طویل المدت نفع (stream of benefits) کی صورت میں ہوتی ہے۔ مثلاً گاڑی یا فرج کہ یہ اشیاء صرف ایک مرتبہ نفع اٹھانے سے ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ ایک طویل مدت تک نفع آور رہتی ہیں۔ پہلی صورت میں شے کے نفع کی قیمت ایک ہی مرتبہ ممکن ہے، ایک آلو کو ایک مرتبہ کھانے کی باربار قیمت لینے کا کوئی معنی نہیں کیونکہ شے اور اس کا نفع صرف کرنے کے بعد معدوم ہوجائے گا۔ دوسری صورت میں شے کا نفع چونکہ یک بار نہیں بلکہ بار بار حاصل کرنا ممکن ہے لہذا ہر مرتبہ نفع اٹھانے کی قیمت لینا ممکن ہے۔ اصطلاحا اول الذکر اشیاء کے نفع کی خرید و فروخت کو بیع کا معاہدہ کہتے ہیں جبکہ مؤخر الذکر کو کرائے کا۔
اس گفتگو سے ظاہر ہے کہ اسی شے کے نفع کا کرایہ لینا ممکن ہے جو نفع اٹھانے کے عمل کے باوجود اپنی ’’منجمد صورت‘‘ برقرار رکھ سکے۔ اگر کوئی شخص کسی سے آلو اس لئے مانگے کہ انہیں وقتی طور پر کسی تصویر میں پیوست کر کے تصویری نمائش میں دکھانا ہے اور چند گھنٹوں بعد آلو واپس کردئیے جائیں گے تو اب آلو والا ان کا کرایہ طلب کرسکتا ہے کہ اس صورت میں نفع اٹھانے کے بعد آلو برقرار رہا۔ اس کے مقابلے میں "کھانے کے لئے دئیے گئے آلو" کا کرایہ نہیں ہوسکتا۔پس واضح ہوا کہ کرایہ کسی "منجمد اثاثے" کے "منجمدنفع" کی بیع کہلاتی ہے۔ اثاثہ جب منجمد صورت میں ہو تو اس کا نفع چونکہ ماقبل طور پر منجمد ( معین) ومعلوم ہوتا ہے (اسی لئے تو اثاثہ کرائے پر لیا جاتا ہے) نیز دوران استعمال اثاثے کی صورت بھی نہیں بدلتی جو اس سے متوقع مخصوص نفع کے برقرار رہنے کی علامت ہوتی ہے لہذا "نفع کی اس بیع" کی قیمت دیگر بیوع کی طرح پہلے طے کی جاتی ہے۔ کسی انسان کی اجرت بھی اسی اصول پر سمجھی جاسکتی ہے کہ چونکہ انسان کی پیداواری صلاحیت بھی طویل المدت نفع کے طور پر ہوتی ہے لہذا اس سے ہر مرتبہ نفع اٹھانے کے لئے ہر مرتبہ اجرت (یعنی کرایہ) ادا کرنا پڑتی ہے۔
درج بالا گفتگو کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ کرنسی کا کرایہ ممکن نہیں کیونکہ کرنسی کو جب تک خرچ نہ کرلیا جائے (یعنی اسے کسی دوسری صورت میں تبدیل نہ کرلیا جائے) اس سے نفع اٹھانا ممکن نہیں۔ کرنسی کی صورت میں یہ تو ممکن ہے کہ کرنسی سے جو دیرپا شے یا منجمد اثاثہ خریدا جائے اس منجمد اثاثے کے نفع کا کرایہ لیا جائے لیکن بذات خود کرنسی کا کرایہ کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ کرنسی "بذات خود" نفع آور نہیں، اس کی نفع آوری ان اشیاء4 پر منحصر ہے جو اس سے خریدی جاتی ہیں۔ کرنسی منجمد نہیں بلکہ سیال سرمایہ ( liquid capital) ہے جسے سرمایہ کاری کے بعد کسی "منجمد سرمائے" میں تبدیل ہوکر نفع آور ہونا ابھی باقی ہے۔ جو حضرات کرنسی کے کرائے کی بات کرتے ہیں ان کی اس دلیل پر معاشی نکتہ نگاہ سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیال سرمائے پر "منجمد نفع کا تعین" چہ معنی دارد؟ یعنی جو ہے ہی "غیر منجمد" اسکے نفع کے "تعین" کا کیا مطلب؟ الغرض کرایہ ایک "معین منجمد سرمائے" کے نفع کی بیع ہے جبکہ نقدی قرض پر طلب کیا جانے والا نفع (سود) سیال سرمائے پر مانگا جانے والا ایک قیاسی (speculative) نفع ہے۔ دوسرے لفظوں میں کرایہ ایک معین اثاثے ( formed capital) کے نفع کی معین قیمت ہے جبکہ نقدی قرض پر مانگا جانے والا سود ایک غیر منجمد شے ( unformed capital) کی معین قیمت طلب کرنا ہے جبکہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ غیر منجمد اثاثے کی قیمت (نفع) بھی غیر منجمد ہی ہونی چاہئے۔ شماریات کی زبان میں سیال سرمائے سے حاصل ہوسکنے والا نفع ایک random variable (غیر منظم طور پر بدلنے والی شے) ہے، جبکہ منجمد سرمائے کا کرایہ ایک fixed variable(معین طور پر بدلنے والی شے)۔ جو حضرات نقدی قرض کے سود کو اثاثوں کے کرائے پر قیاس کرکے سود کا جواز دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ دو مختلف قسم کے تصورات یا variables کو خلط ملط کردیتے ہیں۔
افراط زر اور سود
سود کے حامی حضرات ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ زر یعنی کرنسی کی قدر میں وقت کے ساتھ "افراط زر کی وجہ" سے کمی آجاتی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص کسی کو رقم قرض پر رقم دے تو لازم ہے کہ اس کی نقدی کی قدر میں اس کمی کی تلافی کی جائے، یعنی اسے کم از کم افراط زر کے مساوی سود دیا جائے۔ سود کے حق میں دی جانے والی یہ معاشی دلیل اصولاً غلط ہے کیونکہ کسی بھی معاشی نظری کی رو سے افراط زر سود کا وجہ جواز نہیں۔ "سود کیوں دیا جانا چاہئے" اور "سود کا تعین کیسے ہوتا ہے"، یہ دو الگ سوالات ہیں۔ سود کے جواز کے دلائل کی بحث کا تعلق پہلے سوال سے ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل نظریات مشہور و معروف ہیں:
1) ) سود positive time preference (مستقبل کے مقابلے میں زمانہ حال کے لئے ترجیح) کی وجہ سے طلب کیا جانا چاہئے ، یعنی یہ آج روپیہ صرف کرسکنے کے امکان کی قربانی دینے کی قیمت ہے۔قرض دینے کا عمل رقم کو آج خرچ کرسکنے کی صلاحیت سے دستبردار ہوکر اسے مستقبل میں منتقل کرنے کا نام ہے اور مستقبل میں اسے صرف کرنا چونکہ غیر یقینی ہے لہٰذا آج خرچ کرنے کی قربانی دینے کی قیمت ہونی چاہئے۔ مستقبل کے مقابلے میں زمانہ حال کے لئے یہ ترجیح مستقبل کے غیر یقینی ہونے نیز زر کے افادہ مختتم (marginal utility of money) کم ہوجانے کی وجہ سے ہے۔ (اس دلیل سے سود کے تعین کی supply and demand for loanable funds theory وجود میں آتی ہے)۔
2) ) سود سرمائے کی پیداواری صلاحیت کی وجہ سے طلب کیا جاتا ہے، یعنی زر سے چونکہ نفع آور کاروبار کیاجاتاہے لہذا اس قرض پر لی گئی رقم کا منافع لیاجانا چاہئے (اس دلیل سے سود کے تعین کی theory of marginal productivity of capital وجود میں آتی ہے)
3 ) سود اس لیے لیا جانا چاہیے کیونکہ زر (liquidity) بذات خود لذت (utility) کا ذریعہ ہے اور اس سے دور رہنے کی قیمت ہونی چاہیے۔ ( اس نظرئیے کی رو سے سود کے تعین کی liquidity preference theory وجود میں آتی ہے)۔
درج بالا نظریات سود کے جواز کے تین بڑے نظریات ہیں۔ ان تینوں میں سے کسی ایک بھی دلیل کا افراط زر سے کوئی واسطہ نہیں۔ جو حضرات افراط زر کو سود ادا کرنے کا جواز قرار دیتے ہیں، انہیں بتانا چاہئے کہ کس معاشی نظرئیے کی رو سے سود کا وجہ جواز افراط زر ہوتا ہے نیز اس سے سود کے تعین کا کونسا نظریہ وجود میں آتا ہے۔
اس ضمن میں یہ کہنا کہ جدید میکرو اکنامکس ماڈل یا اعداد و شمار کے مطابق افراط زر اور سود میں تعلق پایا جاتا ہے، نفس مسئلہ میں درست دلیل نہیں کیونکہ کسی شے کی طلب کا وجود کس بنا پر متحقق ہوتا ہے اور اس شے کی مارکیٹ قیمت کے تعین میں کون کون سے عناصر کردار ادا کرسکتے ہیں، یہ دو الگ سوالات ہیں۔ "سود کی وجہ جواز کیا ہے" اور "مارکیٹ سود کن کن عناصر سے متعین ہوتا ہے" یہ دو الگ سوالات ہیں۔پہلے سوال کا تعلق اس امر سے ہے کہ سود طلب کرنا کس بنیاد پر جائز ہے، یعنی جس شے کا سود لیا جارہا ہے اس میں ایسی کونسی معاشی صفت ہے جس کی بنا پر اس کا سود لیا جانا چاہئے۔ معاشی نکتہ نگاہ سے سود طلب کرنے کی بنیاد اوپر دی گئیں تین میں سے کوئی ایک وجہ ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے سوال کا تعلق اس امر سے ہے کہ مارکیٹ میں اس شے کی خرید و فروخت کس قیمت (شرح سود) پر ہوگی۔ کسی شے کی مارکیٹ قیمت پر بہت سے ایسے امور بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں جو اس شے کی قیمت طلب کرنے کا وجہ جواز نہیں ہوتے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ مارکیٹ اجرت پر اثر انداز ہونے والے تمام عناصر اجرت کی ادائیگی کا جواز نہیں ہوتے۔ چنانچہ افراط زر اور سود کے ایک ساتھ گھٹنے یا بڑھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ افراط زر سود ادا کرنے کی 'بنیاد' ہے، یہ دلیل پیش کرنا نفس مدعا میں دو مختلف امور کو خلط ملط کردینے کے مترادف ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں، مگر معاشیات دان اس امر سے بھی واقف ہیں کہ معروف میکرواکنامک ماڈل کی رو سے سود افراط زرکا تعین کرتا ہے نہ کہ افراط زر سود کا۔ اس اعتبار سے افراط زر کو سود کا جواز قرار دینا غلط ٹھرتا ہے۔ الغرض یہ کہنا کہ نقدی قرض پر اضافی رقم (سود) افراط زر کی وجہ سے ملنی چاہیے اصولاً معاشی نظریات کی رو سے کوئی متعلقہ دلیل نہیں۔
دوسری بات یہ کہ افراط زر کی وجہ قرض لینے والے کا عمل نہیں ہوتا کہ اس کی ادائیگی اس کے ذمے لگادی جائے۔ موجودہ معاشی نظریات کی رو سے افراط زر کا اہم سبب ریاست و کمرشل بکور ں کا بلا کسی عوض کرنسی کو تخلیق کرتے رہنا ہے۔ گویا اگر قرض کی صورت میں افراط زر کی بنا پر نقدی کی قوت خرید کم ہوجانا اضافی رقم کا جواز ہے، تو قوت خرید میں اس کمی کا ازالہ ریاست کے ذمے ڈالنا چاہیے نہ کہ مقروض کے۔ پھر فرض کریں زید اپنی یہ اضافی رقم کسی کو قرض پر نہ دے بلکہ اپنے ہی پاس محفوظ کرلے تو کیا اس صورت میں افراط زر کی بنا پر اسکی نقدی کی قدر کم نہ ہوگی؟ اگر ہوگی، تو آخر محض اس "قرض دینے کے عمل" میں ایسا کیا ہے جو اس کی نقدی کی قوت خرید کو برقرار رکھنے کی ضامن ہو؟ رقم زید کی ملکیت میں رہے یا صہیب کو ادھار پر دے دی جائے، افراط زر دونوں صورتوں میں اس پر یکساں طور پر اپنا عمل دکھاتا ہے۔ اب یہ تو کوئی منطقی بات نہ ہوئی کہ اپنی نقدی کو "نقدی کی صورت میں رکھ کر" جس افراط زر کے اثرات سے میں خود محفوظ نہیں کرسکتا اسکا حل یہ بتایا جائے کہ اس نقدی کو کسی دوسرے کے حوالے کردو! چنانچہ معاملہ بالکل واضح ہے، قرض دینے کے بعد زید کو اپنی اصل رقم مستقبل میں "اسی طرح" واپس لینے کا حق تو ہے جس طرح یہ خود اس کی اپنی ملکیت میں رہتے ہوئے موجود رہتی مگر کسی کو صرف قرض دینے کے بعد یہ تقاضا کرنا کہ نہیں تم مجھے مستقبل میں اس کے ساتھ وہ اضافی رقم بھی دو گے جسے میں خود محفوظ نہیں رکھ سکتا تھا ایک غیر منطقی بات ہے۔
اب فرض کریں زید اور صہیب بارٹر اکانومی کے باشندے ہیں جہاں اشیاء کا تبادلہ براہ راست اشیاء سے ہوتا ہے۔ اگر زید کے پاس صرف کرنے کے بعد کچھ زائد دولت بچ جائے تو زید اسے کسی مادی اثاثے کی صورت میں محفوظ کرسکتا ہے۔ اس صورت میں زید کو اثاثہ سٹور اور محفوظ کرنے کے کچھ اخراجات بھی لازماً اٹھانا ہوں گے۔ اس کے علاوہ کائنات کے مادی قوانین کی رو سے اس کا اثاثہ لازماً فرسودگی کا شکار ہوگا جس کا تعلق اس امر سے ہے کہ اس نے اضافی دولت کو کس قسم کے اثاثے کی صورت میں محفوظ کیا ہے۔ اس کے علاوہ زید کے پاس ایک آپشن یہ ہے کہ وہ یہ اثاثہ (مثلاً کلہاڑی) کام کرنے کے لیے صہیب کو ادھار پر دے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ زید خود یا صہیب بطور مقروض اس کلہاڑی سے کام بھی کرے مگر اس کے باوجود بھی کلہاڑی عین اپنی "اصل حالت" (با اعتبار عمر اور معیار) پر قائم رہے؟
چنانچہ موجودہ کرنسی نظام میں قرض پر افراط زر کے مساوی رقم مانگنے کا جواز ثابت کرنے والوں کے اس دعوے کو اگر بارٹر اکانومی پر منطبق کیا جائے تو اس کا مطلب اس مفروضے کے سوا کچھ نہیں کہ کائنات کے مادی قوانین کی رو سے یہ ممکن ہے کہ کلہاڑی استعمال کرنے سے مزید پیدوار بھی حاصل ہوجائے مگر اس کے باوجود کلہاڑی پوری عمر یکساں حالت پر برقرار بھی رہے! مگر کائنات پر لاگو مادی قوانین کی رو سے ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ اس کائنات میں ایسی کوئی شے نہیں جو فرسودگی (decay) کے عمل کا شکار نہ ہو۔ یہاں اس بات پر بھی دھیان رہے کہ قرض دینے کے اس عمل میں قرض دینے والا اپنے ذمے اثاثے کو سٹور اور محفوظ رکھنے کی لاگت کو بھی قرض خواہ پر منتقل کردیتا ہے، ایک ایسی لاگت جسے اثاثہ اپنے پاس رکھنے کی صورت میں کسی بھی طرح ختم کرنا ممکن نہیں۔ یوں سمجھئے کہ افراط زر کو کرنسی پر سود کا جواز بتانے والے حضرات کرنسی (سیال سرمائے) کو کائنات کے مادی قوانین سے ماوراء4 بتانا چاہتے ہیں، یعنی جو اصول اثاثے (منجمد سرمائے) کی ملکیت و قرض پر لاگو ہوتے ہیں انہیں سیال سرمائے پر لاگو نہیں ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے اس کائنات میں اس مفروضے کی کوئی دلیل نہیں۔
درج بالا بات سمجھنے کے لئے سودی حساب کتاب پر مبنی ایک مثال پر غور کرتے ہیں۔ فرض زید آج صہیب کو ایک کلہاڑی قرض پر دیتا ہے۔ زید اس پر 10 فیصدسالانہ (ماہانہ کے لحاظ سے جواب مختلف آتا ہے) افراط زر کے حساب سے سود طلب کرتا ہے۔ اگر صہیب قرض نہ اتارے تو ایک سال بعد صہیب پر 1.1 کلہاڑی واجب الاداء ہوگی جبکہ دو سال بعد 1.21۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ زید پر کتنی کلہاڑیاں واجب الاداء ہوں گی، اس کا حساب کچھ ہوں ہے:
5 سال بعد : 1.61
10 سال بعد: 2.59
50 سال بعد: 117.4
100 سال بعد: 13,780
200 سال بعد: 189,905,276.46
300 سال بعد: 2,617,010,996,188.45
400 سال بعد: 36,064,014,027,525,400
500 سال بعد: 496,984,196,731,244,000,000
1000 سال بعد: 246,993,291,800,599,000,000,000,000,000,000,000,000,000 (یہ عدد کئی کئی کئی کئی کئی بلین ہے)
یہ حساب 10 فیصد سالانہ شرح سود کے حساب سے ہے۔ اگر 10 فیصد سالانہ سود ماہانہ کے حساب سے لاگو کیا جائے، تو جواب یہ ہوگا:
1000 سال بعد:
17,761,973,832,231,500,000,000,000,000,000,000,000,000,000
سالانہ و ماہانہ حساب کے جواب میں فرق یہ ہے:
17,514,980,540,430,900,000,000,000,000,000,000,000,000,000
اس حساب کتاب کا معنی یہ ہے کہ مثلاً سو سال بعد زید پر 13,780 کلہاڑیاں واجب الاداء ہوں گی، اس لئے کہ مجوزین کی دلیل کے مطابق اس دس فیصد شرح سود کے حساب سے آج کی ایک کلہاڑی سو سال بعد 13780 کلہاڑیوں کے مساوی ہے۔ مگر یہ کہتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو کلہاڑی ابتدا میں ادھار دی گئی تھی نیز ایک سال اور پھر ہر گزرتے سال کے بعد اس پر جو اضافی کلہاڑی واجب الاداء ہوتی گئی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ وہ کائناتی قوانین کی رو سے لازماً بوسیدگی (decay) کا شکار ہوکر رہے گی۔ نیز انہیں محفوظ رکھنے کی بھی قیمت ہے جو کلہاڑیوں کی تعداد بڑھنے سے بڑھتی چلی جائے گی۔ یعنی فزیکل اثاثہ بوسیدگی کا شکار ہوکر رہتا ہے۔
زر پر افراز زر کے مساوی سود کا جواز دینے والے حضرات کا کہنا ہے کہ ادھار پر دئیے گئے ایک روپے کے بدلے 100 سال بعد 13,780 روپے جبکہ 1000 سال بعد
246,993,291,800,599,000,000,000,000,000,000,000,000,000
روپے ادا کی جانا چاہئیں۔ گویا ان حضرات کے مطابق سیال سرمائے کو مادی کائنات کے قانون بوسیدگی سے ہرصورت ماوراء ہونا چاہیے، یعنی اس کی قوت خرید ہر صورت برقرار رہنی چاہیے۔ زر کے کائناتی قوانین سے ماوراء4 ہونے کا یہ مفروضہ "یتخبطہ الشیطان من المس" کا ایک پہلو ہے کیونکہ اس کائنات میں کسی شے کو دوام نہیں۔ درحقیقت سود کائنات کے مادی وجود ( ontological structure) سے ہم آہنگ نہیں۔ سودی حساب اس مفروضے پر مبنی ہے کہ سرمایہ وہ شے ہے جو کائنات میں کار فرما بوسیدگی کے عمل سے ماوراء ہے، یعنی یہاں ایک ایسے عمل کا وجود ہے جو سرمائے میں ہر لمحے و لحظے مسلسل اضافے کا باعث بنتا رہتا ہے۔
سید احمد شہید کی تحریک اور تحریک طالبان کا تقابلی جائزہ
مولانا محمد انس حسان
محترم ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب کا مضمون ’’سید احمد شہید کی تحریک جہاد:ایک مطالعہ‘‘ ماہنامہ الشریعہ (دسمبر ۲۰۱۵ء) میں شائع ہوا ہے۔ فاضل مضمون نگار نے سید احمد شہید کی تحریک اور تحریک طالبان کے مابین مماثلت پر مبنی یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر سید احمد شہید اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے مسلح جدوجہد کرتے ہیں تو اس جدوجہد کو جہاد کا نام دیا جاتا ہے اور یہی عمل اگر طالبان کرتے ہیں تو اسے دہشت گردی سے موسوم کیا جاتا ہے۔ فاضل مضمون نگار نے اپنے مضمون کے آخری نوٹ میں تحریر کیا ہے کہ:
’’یہاں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم پہلے فریق (سید احمد شہید) کو درست قرار دیتے ہیں تو اس دوسرے فریق (طالبان )کو غلط نہیں کہہ سکتے۔ اگر دوسرا غلط ہے تو پہلے کی تغلیط کی ہمت بھی لامحالہ کرنا ہوگی۔ ہمیں اس دوغلے پن سے براءت کااعلان کرنا ہوگا‘‘۔ (ص۴۰)
یہ وہ سوال ہے جس پر گذشتہ کچھ عرصے میں موافق و مخالف بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اس تناظر میں بنیادی طور پر دو سوچیں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ پہلی سوچ کے حامل طبقے نے اپنے نظریات کو اصولی طورپر سید ین کی تحریک سے مماثل قراردے کر مسلح جدوجہد کا جواز پیدا کیا۔ جبکہ دوسرے طبقے نے اس بیانیے پر تحقیق کرنے کی بجائے مسلح جدوجہد کی مماثلت کی بنیاد پر دونوں تحریکات کو باطل قرار دینے کی کوشش کی۔ تاہم اب تک کوئی سنجیدہ کوشش اس بابت کم ازکم ہماری نظر سے نہیں گزری کہ جس میں ان دونوں تحریکات کا جذباتیت اور قلبی وابستگی سے بالاتر ہو کر حقیقت پر مبنی تجزیہ کیا گیا ہو۔
یہ موضوع اپنی ماہیت اور حیثیت کے اعتبار سے تفصیل کا متقاضی ہے اور اس پر متوازن مباحثے کی ضرورت بھی ہے۔اس ضمن میں محترم عرفان شہزاد کی بات کو قدرے وسعت دیتے ہوئے ان تحریکات کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے چند طالب علمانہ نکات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
بنیادی طور پر ان تحریکات کے تقابلی جائزے کے لیے دوپہلوؤں پر غور وفکر کی زیادہ ضرورت ہے۔پہلی یہ کہ فکری و نظریاتی اعتبار سے ان دونوں تحریکات میں کیا مماثلت ہے؟دوسرے یہ کہ ناکامی و نتائج کے اعتبار سے ان دونوں تحریکات میں کیا مماثلت ہے؟
کسی بھی تحریک کے مطالعے کے لیے اس دور کے حالات اور تقاضے سامنے ہونا ضروری ہیں ۔اگر اس اصول کو نظر انداز کیا جائے گا تو بہت سی تحریکات کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لیں گے اور کسی بھی تحریک کو دوسری تحریک کے مماثل قراردینے کے حوالے سے متعدد قرآئن بہ آسانی مل جائیں گے۔سید احمد شہید کی تحریک جس دور میں بپا ہوئی وہ برصغیر میں انگریز سامراج کا دور استبداد تھا۔مسلمان غالب سے مغلوب ہوئے تھے اور ان میں اس سوچ کا پیدا ہونا فطری تھا کہ اس اس بدیسی قوت کے خلاف ہمیں جدوجہد کرنا ہوگی ورنہ ہماری حالت بھی اندلس سے مختلف نہ ہوگی۔ اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سید احمد شہید کی تحریک ایک قومی تحریک تھی۔ البتہ ان کی تحریک میں یمن ونجدکے علماء کے شاگردوں کا جو محدود طبقہ شامل ہوگیا تھا،اس نے اس قومی تحریک کو نقصان پہنچایا۔ اس کے برعکس تحریک طالبان (جو روس کی پسپائی سے قبل تحریک مجاہدین کے نام سے ملقب تھی )میں محض روس سے نجات مقصد نہیں تھا ۔اگر ایسا ہوتا تو روس کے جانے کے بعد آپس کی خانہ جنگی کی نوبت نہ آتی۔نیز اس تحریک میں تمام دنیا سے جذباتیت کی حدتک اسلام سے وابستگی رکھنے والے مسلمانوں کو دعوت دی گئی،جس سے یہ تحریک قومیت کے عصری رجحانات سے ہٹ گئی اور دنیا کے مختلف خطوں سے آئے لوگوں نے اپنے ملکوں میں بھی اسلامائزیشن کے رجحانات کو ہوا دی۔
سید احمد شہید کی تحریک دراصل اپنا ایک سیاسی پس منظر رکھتی تھی اور فکری طور پر امام شاہ ولی اللہ کی فکر سے متاثر تھی۔چنانچہ اس تحریک کاایک فکری تسلسل تھا جو اس تحریک کی ناکامی کے بعد بھی جاری رہا۔(اس حوالے سے راقم کا ایک مقالہ’’ الایام‘‘ کراچی میں شائع ہوا ہے جس میں تفصیل ملے گی)۔ سیدین کی تحریک کی ناکامی کے بعد ان کی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ چنانچہ مولانا شاہ محمد اسحاق دہلویؒ حجاز تشریف لے گئے مگر وہاں رہ کر تحریکی کام کو نیا رخ دینے میں مصروف عمل رہے۔ جبکہ مولانا ولایت علی نے ہندوستان میں رہ کراپنی الگ جماعت تشکیل دی اور ان کی جماعت میں یمنی اور نجدی ذہنیت کا حامل وہ طبقہ بھی شامل ہوگیاجس کے پرتشدد مزاج اورمسلکی تعصب کے باعث افغان مخالف ہوگئے تھے اور سیدین کی تحریک ناکام ہوئی تھی۔ چونکہ سید ین کے بعد ان کی جماعت کابرصغیر کی حد تک تعارف اسی جماعت کے سبب تھا اس لیے اس جماعت کے پر تشدد مزاج نے سیداحمد شہید کے تصور جہاد کو سخت نقصان پہنچایا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں مولانا ولایت علی کی جماعت کے لوگوں نے بھی کانگرس میں شمولیت اختیار کرکے عدم تشدد کا راستہ اپنایا۔سید احمد شہید کے تصور جہاد میں عوامی بہبود،اصلاح معاشرت اور عقائد کی درستگی سب شامل تھیں۔چنانچہ ان کے تصور جہاد سے محض مسلح جدوجہد مراد لینااس کی وسعت کو محدود کرنے کے مترادف تھا۔ اس کے برعکس تحریک طالبان کا وہ طبقہ جس کے پیش نظر سید احمد شہید کی محض مسلح جدوجہد تھی،اسے شاید یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ جس تحریک سے وہ خود کو منسوب کررہے ہیں اس کا ایک فکری تسلسل تھا جو اس تحریک کی ناکامی کے بعد بھی جاری رہا۔چنانچہ تحریک کی ناکامی کے بعد مولانا اسحاق دہلوی ؒ اورمولانا امداد اللہ مہاجر مکی ؒ نے مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کو تیار کیاجنہوں نے اس تحریک کو تعلیمی وتربیتی شکل دی اور شیخ الہندمولانامحمود حسنؒ جیسے انسان کو تیار کیا جنہوں نے برصغیر کی تاریخ آزادی میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تحریک ریشمی رومال تک اس جماعت کی پالیسی انگریز سامراج کے خلاف مزاحمتی جد وجہد کی تھی کیونکہ اس دور میں اسی طریقے کو رواج تھا۔ نیزچونکہ خلافت عثمانیہ کی مرکزیت کمزور ہی سہی مگر موجود تھی اس لیے اس جدوجہد میں بین الاقومی تعاون سے بھی دریغ نہیں کیا گیا تھا۔تاہم سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد عالمی منظرنامہ تبدیل ہوا۔ چنانچہ تحریک ریشمی رومال کی ناکامی کے بعدشیخ الہندمولانا محمود حسن ؒ جب مالٹا کی قید سے واپس ہوئے تو انہوں نے جماعت کی پالیسی تبدیل کی اورعدم تشدد ،قومی سیاست، عصری ودینی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تربیت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر اس تحریک کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔ چنانچہ ان کی اس پالیسی کو جمعیۃ العلمائے ہند نے جاری رکھا اور بعد کے حالات میں عدم تشدد کے اصول پر قومی جدوجہد کا آغاز کیا۔اس لیے اسی پالیسی کو حتمی سمجھا جانا چاہیے تھا۔ تحریک پاکستان کی مخالفت بھی جمعیۃ العلمائے ہند نے اسی بنا پر کی تھی کہ ان اصولوں پر زد پڑتی تھی اور اسی اختلاف پر دیوبندی جماعت مدنی اور تھانوی گروپ میں تقسیم ہوئی تھی۔
تحریک پاکستان کے حوالے سے دیوبندیت دو حصوں یعنی مکتب تھانوی اور مکتب مدنی میں تقسیم ہوئی ۔ان دونوں مکاتب فکر میں بنیادی طور پر سیاسی اختلاف تھا جو بعد میں بڑے دور رس نتائج پر منتج ہوااور کوئی مانے یا نہ مانے اس سیاسی اختلاف کا اثراب تک محسوس کیا جاسکتا ہے۔گو اس ضمن میں تطبیق اور اتفاق رائے کی بہت سی کوششیں بھی ہوئیں۔تحریک پاکستان سے قبل حضرت تھانویؒ مکتب فکرکا کوئی سیاسی کردار نہیں تھا ۔چنانچہ حضرت شیخ الہند ؒ نے جب حضرت تھانوی ؒ کو تحریک آزادی میں شمولیت کی دعوت دی تھی تو حضرت تھانوی ؒ نے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ ان کا مزاج سیاست سے مناسبت نہیں رکھتا۔شاید یہی حضرت تھانویؒ کا عمومی مزاج تھا جبکہ ان کے فکر وعمل کی اصل جولان گاہ تصنیف وتالیف کا میدان تھا۔ مگر نہ صرف تحریک پاکستان میں بلکہ پاکستان بن جانے کے بعد بھی ایک عرصے تک حضرت تھانوی ؒ کے نام لیواؤں نے سیاسی تحریکات میں برابر حصہ لیا۔ سیاسی ناتجربہ کاری وعدم پختگی کے باعث حضرت تھانوی ؒ سے اس مکتب فکر کی نسبت محض نام کی حد تک تھی۔مدنی مکتب فکر نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی اور اس سبب بہت کچھ خود کو مطعون بھی کیا تھا۔جمعیۃ ہی نہیں خود حضرت مدنی ؒ کی ذات پر بہت کیچڑ اچھالا گیا مگر ان کی طرف سے عدم تشدد کا مظاہرہ کیا گیا۔تقسیم کے بعد بھی حضرت مدنی ؒ اور ان کی جماعت ہمیشہ عدم تشدد پر بڑی سختی سے کار بند رہے اور تقسیم کو دل وجان سے قبول کیا۔تقسیم کے بعد شروع میں تو مکتب تھانوی نے ایک عرصے تک تو سیاست میں حصہ لیا مگرجب اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہوتے نہ دیکھا تو ایک حد تک کنارہ کشی اختیار کی اوراپنی سیاسی غلطی پر سوال کے ڈر سے درس وتدریس کی جانب متوجہ ہوگئے۔مکتب مدنی کا اصل جوہر ہندوستان میں رہ گیا تھا مگر مکتب تھانوی کی سیاسی کنارہ کشی نے مکتب مدنی کو یہ خلا پر کرنے پر ابھارا اور ستر کی دہائی تک پاکستان کے معروضی حالات میں جمعیۃ نے بھرپور سیاسی کردار ادا کیا۔تاہم پاکستان کی جمعیۃ اور ہندوستان کی جمعیۃ دونوں کی سیاسی ترجیحات میں نمایاں فرق رہا۔
ستر کی دہائی کے بعد جب امریکہ بہادر نے سرد جنگ کے لیے ماحول بنانا چاہا توضیاء الحق کے ذریعے پاکستان میں موجود جمعیۃ کے مذہبی اثر ور سوخ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔چنانچہ ایک طرف مکتب مدنی کے نام لیوا علماء (جمعیۃ)کی ایک بڑی تعداد بھی حالات کی رو میں بہہ گئی اور تحریک طالبان کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئی۔ اس دور میں مکتب مدنی کے بعض علماء نے اسے شیخ الہندؒ اور مولانا مدنی ؒ کے اصولوں سے رو گردانی قرار دیتے ہوئے مخالفت بھی کی مگر انہیں دیوار کے ساتھ لگادیاگیا۔ دوسری طرف مکتب تھانوی کے نام لیواء علماء جو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے تھی ایک مرتبہ پھر سیاست میں آئے اور تحریک طالبان کی حمایت میں متعددفتاوی جاری کیے اور کتب لکھیں۔ اس کا معاوضہ انہیں مدارس کی بڑ ی بڑی عمارت اور لاکھوں مالیت کے چندوں سے نوازا گیا۔ پاکستان میں ان دونوں مکاتب فکر نے تحریک طالبان کی مکمل حمایت کی اور سرمایہ دارانہ نظام کا آلہ کار بن کر سوشلسٹ نظام کو شکست دینے میں اپناکردار اداکیا۔لیکن جب عالمی منظرنامہ تبدیل ہوا اور وقت کے مجاہد وطن کے غدار ٹھہرے تو ان دونوں مکاتب فکر نے بڑی چابک دستی سے اپنی پالیسی تبدیل کی ۔چنانچہ ایک مکتب فکر اپنا ماضی کا ٹریک ریکارڈ اٹھاکرثابت کرنے لگا کہ ان کا تو کبھی سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا اور مسجد ومدرسہ کی گوشہ نشینی اور تعلیم وتعلم ہی ہمیشہ ان کا شعار رہا ہے۔جبکہ دوسرے مکتب فکر نے سیاست کی چھتری کے نیچے اپنے حواریوں سمیت پناہ لی ۔البتہ مطعون مدنی فکر کو اپنے سیاسی پس منظر کے باعث ہونا پڑا۔
اس دور میں پاکستانی مدارس کے طالبان کی ریکروٹمنٹ کے لیے ضروری تھا کہ ان کی مناسب ذہن سازی کی جائے اور ماضی کے کرداروں کو نئے روپ میں پیش کرکے ان کے جذبے کو مہمیز دی جائے۔اس ضمن میں ماضی کی قریب ترین مثال سید احمد شہید اور ان کی تحریک کی شکل میں موجود تھی۔پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ اس تحریک کا تعلق بھی قریب اسی خطے سے تھا جس خطے میں یہ تحریک برپا ہونے جارہی تھی۔اسی بنا ء پر سید احمد شہید کی تحریک کو پاکستانی طالبان کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا اور تھانوی و مدنی مکتب فکر کے نام لیواؤں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی اور متعدد دوسری جماعتوں کے سرکردہ علماء نے اس کی سرپرستی کی۔قطع نظر اس بات کے کہ حضرت تھانویؒ اور حضرت مدنیؒ کی اصولی فکر سے ان دونوں مکاتب فکر کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔ایک مخصوص دور تک تو اس ترکیب نے کام کیا لیکن جب عالمی منظرنامہ تبدیل ہوا اور سامراج کی ضروت پوری ہوگئی اورانہی طالبان کو دہشت گردوں کے خطاب سے نوازا گیا تو ان تحریکوں کی سرپرستی کرنے والے مقدس ہاتھوں نے بھی ان کے سروں سے ہاتھ کھینچ کر انہیں تحریکی یتیمی کا شکار کردیا۔چنانچہ جس مائنڈ سیٹ کی تخلیق میں دہائیاں صرف ہوئی تھیں چونکہ اس کو یکایک تبدیل کیاجانا ممکن نہیں رہاتھا،اس لیے اس کے آفٹر شاکس سے قوم اب تک دوچار ہے۔
آج عالمی سامراج خود اس بات کا اعتراف کر رہا ہے کہ ہم نے روس کے خلاف طالبان کو استعمال کیا اور متعدد ثبوت اس کے سامنے بھی آچکے ہیں۔ اس ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جن علماء عظام اور مفتیان کرام نے دینی مدارس کے مخلص طلباء کے جذبات کو استعمال کیا اور انہیں سیدین کی تحریک جیسی آزادی پسند تحریکوں کا جانشین قرار دے کر عالمی سامراج کی جنگ میں جھونکا،کیا وہ اب بھی اپنے اسی مؤقف پر قائم ہیں؟ہمارے وہ علماء وشیوخ جنہوں نے افغانستان کے حوالے سے جہاد کے فتاویٰ شائع کروا کر بلکہ اس میں خود عملاً شریک ہو کر ’’ شیخ المجاہدین ‘‘ اور ’’ سرپرست مجاہدین ‘‘ کے القابات پائے اور اس عمل کو ’’ اعلاء کلمۃ الحق ‘‘کا عظیم فریضہ قرار دیا، آج پاکستان کے معروضی حالات میں ان کی فقہی بصیرت نے انہیں خاموش کیوں کرا رکھا ہے ۔
اس سب کے باوجود یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ تحریک سیدین اور تحریک طالبان میں نتیجے کے اعتبار سے بعض چیزیں مماثل بھی نظر آتی ہیں ۔مثلاًتشدد کا جوعنصر سیدین کی تحریک میں شامل ہوا وہ ہمیں تحریک طالبان میں بھی نظر آتا ہے۔فرق یہ ہے کہ پہلی تحریک میں یہ عنصر مسلکی وفروعی تھا جبکہ دوسری تحریک میں یہ قبائلی اور لسانی تھا۔تاہم نتیجہ دونوں کا یکساں تھا۔اسی طرح حالات و زمانہ کی رعایت کوجس طرح سیدین کی تحریک میں نظر انداز کیا گیا،وہی طرز عمل ہمیں تحریک طالبان میں بھی نظر آتا ہے۔سیدین کی تحریک کی ناکامی کے نتیجے میں جو تشددپسندانہ ذہنیت الگ ہوئی وہی تشدد پسندانہ ذہنیت ہمیں تحریک طالبان میں بھی نظر آتی ہے،جس نے عالم اسلام میں ایک طوفان بدتمیزی بپا کر رکھا ہے۔اگر غور کیا جائے تو جنگ صفین میں بھی اس طرح کی تشدد پسند ذہنیت خوارج کی شکل میں الگ ہوئی تھی۔بہرحال جوعسکری اغلاط سیدین کی تحریک کے ناکام ہونے کا سبب بنیں ان میں سے اکثر اغلاط تحریک طالبان میں بھی دہرائی گئیں۔ اس پہلو پر سید احمد شہید کی تحریک پر لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے جس کا اعادہ سعی لاحاصل ہے۔
خلاصہ یہ کہ سیدین کی تحریک کی ناکامی کے بعدمولانا ولایت علی اور ان کی جماعت نے اپنی نسبت سید احمد شہیدکی طرف منسوب کی اور سید احمد شہید کے تصور جہاد کی ہمہ گیریت کو قتل وغارت گری اور تشددوتعصب کے ذریعے مسخ کیا۔ تاہم سید احمد شہیدکی جماعت کے حقیقی حاملین نے اسے پیش آمدہ قومی و جمہوری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور تشدد کی بجائے عدم تشدد کا اصول اپنایا۔اس بناء پر اب کوئی بھی تحریک جو اپنی نسبت سید احمد شہید کی طرف کرتی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اگروہ تشدد کی راہ پر ہے تو اس کی نسبت سید ین کی تحریک سے وہی ہوگی جو مولانا ولایت علی اور ان کی جماعت کی تھی۔اس ضمن میں برصغیر کی کوئی بھی اسلامی تحریک اس فکری تسلسل کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔بہر کیف سیدین کی تحریک ایک قومی تحریک تھی جس نے برصغیرکی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا جبکہ تحریک طالبان عالمی سامراج کی جنگ تھی جس میں ہماری حیثیت محض کرایے کے سپاہی کی تھی ۔اس کرایے کی جنگ کوحقیقی آزادی پسند قومی تحریک سے کیونکر نسبت ہو سکتی ہے۔
بنا بریں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نتائج کے اعتبار سے تو بعض جگہ دونوں تحریکات میں مماثلت ہے مگر فکری و نظریاتی اعتبار سے تحریک طالبان کو سیدین کی تحریک سے دور کی بھی کوئی نسبت نہیں ۔جو علماء کرام حقیقی دیوبندیت بالخصوص مدنیت وتھانویت کے تناظر میں تحریک طالبان کو سیدین کی تحریک کے مماثل قرار دینے کی تاویل کرتے رہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ان کی فکر کا تعلق کم از کم اس دیوبند سے تو نہیں ہے جو حضرت مدنی اور حضرت تھانوی کا دیوبند تھا۔
ممتاز قادری کی سزا ۔ ڈاکٹر شہباز منج کے خیالات پر ایک نظر
مولانا قاضی نثار احمد
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے دسمبر کے شمارے میں ممتاز قادری کی سزا کے حوالے سے ڈاکٹر محمد شہباز صاحب کا مضمون پڑھا۔ موصوف نے تحفظ شریعت کانفرنس کے ایک فیصلے پر نظر ڈالتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے، اس کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ ہم لوگ مغربی اور یورپی ممالک کے پروپیگنڈے سے اتنے مرعوب ہوچکے ہیں کہ ان کو خوش کرنے اور انھی کی زبان بولنے کو اپنا فریضہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ جناب موصوف نے تحفظ شریعت کانفرنس کی طرف سے عدالت کی طرف سے ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت کو غیر شرعی قراردیتے ہوئے سپریم کورٹ کو سزاواپس لینے کے مطالبے پر لکھا ہے۔ ان سے یہ ہضم ہی نہیں ہورہا کہ اس قدر غلط اور غیر معقول فیصلے کی بڑے بڑے مذہبی ستونوں نے تائید کردی ہے۔ موصوف نے اپنی جس حیرت اور تعجب کا اظہار کیا ہے، پورا مضمون پڑھ کر ہمیں ان کی حیرت اور تعجب پر حیرت اور تعجب ہورہا ہے۔ موصوف نے ایک طرف توہین رسالت کی سزا کی حمایت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اس سزا کے حامی ہیں اور اس قانون کو کسی بھی طور پر ختم نہیں ہونا چاہیے اور دوسری طرف قادری کی سزا کو غلط قرار دینے کے خلاف اپنے مزعومہ دلائل دیتے ہوئے اس سزا کے حق میں لکھا ہے۔موصوف نے سارا زور اس بات پر لگایا ہے کہ ممتاز قادری نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر نہ صرف ناجائز کام کا ارتکاب کیا ہے بلکہ وہ سلمان تاثیر کے قتل ناحق کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے نقصانات کے حوالے سے جو مثالیں دی ہیں اور جن پر قیاس کیا ہے، بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔ موصوف نے توہین رسالت کے جرم کی نوعیت اور سنگینی کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ یہ سمجھ نہیں سکے کہ ایک مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے مگر اپنے نبی کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔ نیز یہ کہ اس کی ایمانی غیرت اس موقع پر کیا تقاضا کرتی ہے؟ انہوں نے اس جرم کو بھی ان عام جرائم کی طرح سمجھا ہے جن میں مظلوم قانون کو ہاتھ میں لے لے تو اس سے معاشرے میں گوناگوں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہاں ہمار ا مقصد توہین رسالت کی شرعی حیثیت کو واضح کرنا نہیں ہے کیونکہ اس سے موصوف بخوبی واقف ہیں۔ طنز کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ تحفظ شریعت کانفرنس کے فیصلے کی عبارت سے یوں لگ رہا ہے کہ خدانخواستہ کتاب و سنت، اسوہ رسول وصحابہ رضی اللہ عنہم اور چودہ سو سالہ اجماع کا بنیادی مسئلہ اور مقصد وحید ممتاز قادری کیس کا فیصلہ کرنا تھا کہ کہیں کسی کو اس سزا کے شریعت کے خلاف ہونے میں شک باقی نہ رہ جائے۔ حقیقت یہی ہے کہ ممتاز قادری کو دی جانے والی سزائے موت کے غیر شرعی ہونے میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔
ممتاز قادری نے کسی معصوم مسلمان کے قتل کا ارتکاب نہیں کیا ہے کہ اس کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا جاتا، بلکہ اس نے ایک مباح الدم گستاخ رسول کو قتل کیا تھا جس کے سلسلے میں بس اتنا شکوہ کر لیا جاتا کہ ا س نے قانون کو کیوں اپنے ہاتھ میں خود لے لیا تو بات کسی حد تک معقول ہوتی، مگر موصوف نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے ’’جرم‘‘ اور قتل کے جرم، دو الگ الگ چیزوں کو خلط کرتے ہوئے ممتازقادری کی گردن پر دونوں ڈال دیے ہیں، جبکہ حقیقت میں ممتاز قادری پر شرعاً قتل کا جرم عائد ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس نے ایک واجب القتل، مباح الدم شخص کو قتل کیا ہے جس کا خون شریعت کی نظر میں رائیگاں ہے۔ رہی بات قانون کو ہاتھ میں لینے کی تو یہ الگ بات ہے جس پر بحث کی گنجائش ہے کہ اس کو جرم کے زمرے میں لانا درست ہے یا نہیں؟ بہر حال اس پر ممتاز قادری کو سزائے موت سنانا اور اس فیصلے کے خلاف تحفظ شریعت کانفرنس کے فیصلے کو خلاف عقل اور غلط کہنا سراسر بے انصافی اور ظلم ہے۔
موصوف نے ایک طرف خود عدالتی نظام میں موجود ان خامیوں کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے عدالت سے عموماً انصاف نہیں ملتا۔ دوسری طرف ممتاز قادری اور مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا ہے کہ وہ عدالت پر اعتبار کریں اور اسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہیں۔ اس طرح موصوف کی باتوں میں کافی حد تک تضاد نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر محمد شہباز صاحب نے عدالتی نظام میں جن خرایبوں کی خود نشاندہی کی ہے، انھی خرابیوں کی بنا پر ہم ممتاز قادری کو قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور و معذور سمجھتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موصوف اس موقع پر عدالتی نظام اور ہمارے قانون میں موجود ان خرابیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے جن کی بنیاد پر ممتاز قادری کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینا پڑا، مگر موصوف نے اپنی متضاد کڑوی باتوں کا رخ سارا کا سارا ممتاز قادری اور ان کے حمایتی علماء کے طرف موڑا ہوا ہے۔
موصوف نے لکھا ہے کہ ’’اگر عدالتی پروسیجر میں پڑنے کے سبب بڑے اور بااثر ملزموں کے اپنے اثر ورسوخ کی وجہ سے سزا سے بچے رہنے کے اندیشے کے تحت توہین رسالت کے ملزم کو ذاتی حیثیت میں قتل کرنا جائز کہا جائے تو بااثر قاتلوں اور ظالموں کے ٹرائل میں پڑ کر چھوٹ جانے کے خدشے کی وجہ سے ایک مقتول کے غریب اور بے سہارا ورثہ اور مظلوموں کے اس سے خود انصاف لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کو کس دلیل کی بنا پر ناجائز کہا جائے گا؟‘‘ نیز ۔لکھا ہے کہ ’’شریعت دراصل لوگوں کی اصلاح کے لیے ہے اور سزادینا اس کی ضرورت اور مجبوری ہے ، خوشی اور دل لگی نہیں۔ عجب ستم ظریفی یہ ہے کہ جس شریعت کی خوشی لوگوں پر سے سزائیں ٹالنے میں ہے، ہم ایسی سزائیں زبردستی نافذ کرکے خوش کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ موصوف نے اس طرح قیاس مع الفارق کرنے سے قبل اس نکتے پر غور نہیں کیا کہ عام قتل اور توہین رسالت کے جرم میں بہت بڑا فرق ہے۔ نیز ایک جرم قابل معافی ہے تو دوسرا نا قابل معافی۔ اس لیے موصوف کا جب سوال ہی درست نہیں ہے تو اس کے جواب کے درپے ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
دراصل اسلام ایک دین اعتدال ہے جو ہر مزاج کے لوگوں کے لیے ہے، چاہے فطرتاً سخت مزاج کے ہوں یا نرم مزاج کے۔ دونوں طبائع کے لحاظ سے اسلام نے کچھ جرائم کو قابل معافی رکھا ہوا ہے اور کچھ کو ناقابل معافی۔ اگر دین اسلام میں ہر جگہ ہی عفوو درگزر کی تعلیم ہوتی تو یہ ان طبایع کے لیے ناقابل قبول ہوسکتا تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے خلق سختی کی طرف مائل پیدا فرمایا ہے اور اگر ہر جگہ سزا ہی سزا ہوتی تو یہ ان طبایع کے لیے گراں گزرسکتا تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے نرم مزاج پیدا فرما یا ہے۔ اس لیے اسلام میں سزا و جزا ، معافی و نامعافی دونوں کا تصور ہے۔ سلمان تاثیر کے جرم کا تعلق ناقابل معافی سزا سے تھا چنانچہ اس پر خوش ہونے کی بجائے افسوس کا اظہار کرنا نادانی اور حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی اور المیہ یہ ہے کہ کنویں کے مینڈک کی طرح اسی کنویں کو دنیا سمجھ بیٹھے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جو چیز ہماری سمجھ کو صحیح لگے، وہ صحیح ہے اور جو غلط لگے، وہ غلط ہے حالانکہ دنیا بہت وسیع ہے اور یہاں ہر طرح کے مزاج کے لوگ ہیں۔ کبھی اپنے ذاتی خول، پسند اور ناپسند سے باہر نکل کر بنظر انصاف شرعی حدود اور سزاؤں اور ان کی حکمتوں میں غور کرلیا ہوتا تو یہود و نصاریٰ کے پروپیگنڈے کے اثر سے آزاد ہوکرہمیں حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملتی۔
مگر ایسا نہ کرنے کی وجہ سے موصوف جیسے حضرات آخر میں یہ لکھتے نظر آتے ہیں کہ ’’ذاتی حیثیت میں ایسے قتل کو سند جواز عطاکرنا سوسائٹی کو انارکی اور تباہی کی طرف دھکیلنا ہے۔ کیا دینی قوتوں کو سامنے کی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ چیز تو ان کے اپنے کاز کو نقصان پہنچانے والی ہے؟ اس نوع کے مواقف کو اپنانے کے نتیجے میں اہل مذہب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔۔۔۔قانون توہین رسالت کے خاتمے کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے۔‘‘ اس کے جواب میں ہم اتنا عرض کر سکتے ہیں کہ تحفظ شریعت کانفرنس کی طرف سے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی حمایت ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ شرعی حیثیت سے کی گئی ہے اور اگر یہ شرعی حیثیت موصوف کو سمجھ نہ آسکی تو ہم اس کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں۔ نیز اس طرح کا قتل سوسائٹی کو انارکی اور تباہی سے نکالنا ہے تاکہ ایسے جرائم کا آئندہ سد باب ہوسکے۔
موصوف نے اہل مذہب کو جس شدیدتنقید کا نشانہ بنانے کے ڈر کا اظہار کیاہے اور اس قانون توہین رسالت کے خاتمے کی آواز اٹھائے جانے پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا ہے جس کے بقول ان کے وہ خود بھی حمایتی ہیں تو اس طرح کامضمون لکھ کر وہ اسلام اورمسلمانوں پر اغیار کی طرف سے متوقع تنقید سے کبھی نہ خود بچ سکتے ہیں اور نہ ہی مسلمان ممتاز قادری کو سنائی جانے والی سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کرکے نکل سکتے ہیں۔اگر اس تنقید سے شدید گھبراہٹ ہورہی ہے جس سے نکلنا بہت ضروری ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ معاذ اللہ یہود ونصاریٰ کی پیروی کر لی جائے تاکہ وہ خوش ہوسکیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق یہود ونصاریٰ کی تنقید سے بچنے اور ان کو خوش کرنے کا کوئی اور طریقہ کامیاب نہیں ہے۔ وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الیَھُودُ وَلَا النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ۔
مکاتیب
ادارہ
(۱)
آج کل سوشل میڈیا پر’داعش‘ کے متعلق مولانا سید سلمان صاحب ندوی کا ایک مضمون بڑے پیمانے پر نشرکیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے مذکورہ تنظیم کو سلفیت سے منسلک کرتے ہوئے سلفی منہاج فکر اور سلفی علما کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ قبل ازیں انھوں نے اس تشدد پسند گروہ کی تحسین و ستایش کرتے ہوئے اس کے سربراہ ابو بکر البغدادی کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں ان سے مختلف اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔ بہ ظاہر یہ مضمون اپنے اسی سابقہ موقف کے کفارے کے طور پر لکھا گیا ہے جس میں سلفیت خواہ مخواہ زیر عتاب آگئی ہے۔ ہم نے بعض احباب کے توجہ دلانے پر موصوف کی اس تحریر کا مطالعہ کیا تو بے حد افسوس ہوا کہ ان کا تجزیہ غیر جانب دارنہ نہیں ہے بلکہ غلطی ہاے مضامین کا شاہ کار ہے۔ اس پرمفصل نقدکی خاطر تو ایک مبسوط مضمون ہی کی ضرورت ہے جس کا فی الحال موقع نہیں؛ البتہ چندمختصر نکات کی صورت میں ایک اجمالی تبصرہ پیش خدمت ہے:
1) تشدد اور بدامنی کا رشتہ سلفیت سے جوڑنا صریح ناانصافی اور خلاف حقیقت ہے۔ سلفیت نام ہے: نصوص کتاب و سنت کو فہم سلف کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کا اور اپنے تمام تر افکار و اعمال کو ان کے مطابق ڈھالنے کا اور بس! قرون مفضلہ کے اسی نظریے کوقرون متوسطہ میں شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ نے اور عہدِ متاخر میں امام محمد بن عبدالوہابؒ نے پیش کیا؛ فی زمانہ عرب کے سلفی علما اور برصغیر کے اصحاب الحدیث اسی کے پر چارک ہیں۔
2)شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ عظیم مجدد،مصلح اور داعیِ توحید تھے جنھوں نے قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات اور سلف صالحین کے طرز عمل کی اتباع میں عقیدۂ توحید اور اس کے تقاضوں کو شرح و بسط سے اجاگرکیا اور معاشرے میں دَر آنے والی بدعات اور مزخرفات پر تنقید کی۔ ان پر کفر سازی یا قتل مسلمین کے الزامات غلط فہمی پر مبنی ہیں جن کے ازالے کے لیے مولانا مسعود عالم صاحب ندویؒ [ایک وہ ندوی تھے اور ایک ہمارے ممدوح ہیں!] کی وقیع کتاب’’شیخ محمد بن عبدالوہابؒ : ایک مظلوم اور بدنام مصلح ‘‘کا مطالعہ بے حد مفید رہے گا۔ برصغیر میں بعض علماے دیوبند نے بھی ان پر اعتراضات کیے تھے لیکن اس کی وجہ ان کے احوال کی تفصیلات سے عدم واقفیت تھی جیسا کہ معروف دیوبندی عالم اور مناظر مولانا منظور احمد صاحب نعمانی نے اپنی کتاب’’شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کے خلاف پراپیگنڈا اور علماے حق پر اس کے اثرات‘‘ میں اس امر کی وضاحت کی ہے۔ واضح رہے کہ دارالافتا، دارالعلوم دیوبند کی آفیشل ویب سائٹ پر ایک سوال کے جواب میں اس کتاب کی تائید و تصدیق کرتے ہوئے امام محمد بن عبدالوہاب کو اہل سنت قرار دیا گیا ہے۔
3) داعش کا ناتا سلفیت سے ملانا اور پھر پورے سلفی مدرسہ فکر کو اس کا ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے اسے مطعون کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے بعض لوگ پاکستانی طالبان ،لشکر جھنگوی اور بعض دیگر متشدد گروہوں کو حنفی دیوبندی قرار دے کر پورے دیوبندی مکتب خیال کو نشانہ جرح بنالیتے ہیں اورخطے میں بپا قتل و غارت اور بد امنی و فساد کا منبع حنفیت اوردیوبندیت کو گردانتے ہیں!!ہماری رائے میں دونوں رویے نامنصفانہ اور افراط و تفریط کے مظہر ہیں کیوں کہ کسی بھی مسلک کے عقائد و افکار کی نمایندگی اس کے معتبر اور کبار علماسے ہوتی ہے جب کہ یہاں عالم یہ ہے کہ سعودی عرب کے مفتیِ اعظم اپنے خطبہ حج میں ’داعش‘کو گم راہ کہتے اور اس سے اظہارِ براء ت کرتے ہیں اور آج تک کسی بھی معروف سلفی عالم نے اس تنظیم کی تائید و حمایت نہیں کی؛ اس کے باوجود داعش کا نام لے کر سلفیت اور سلفیوں کو رگیدتے چلا جانا عدل و انصاف کے کون سے پیمانوں پر پورا اترتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے ایک منحرف گروہ کا بہانہ بنا کر تجزیے کے عنوان سے دل کا پرانا بخار نکالا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں ایسے ارباب دانش بھی موجود ہیں جو موجودہ صورت حال کی تمام تر ذمہ داری شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مفتی تقی عثمانی اور مولانا زاہدالراشدی سمیت پورے مذہبی حلقے پر ڈالتے ہیں!!
4) مولاناسید سلمان صاحب ندوی عالم دین ہیں؛ اس پہلوسے ان کا احترام واجب ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ وہ موقع بہ موقع سلفیت پرتند وتیز لہجے اور سخت الفاظ میں ناروا تنقید کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیاسی مسائل ہوں یا دیگر فکری و مذہبی امور، ان میں اختلاف کی گنجایش ہمیشہ رہتی ہے اور صحت مند تنقیدسے معاملے کے نئے گوشے سامنے آتے ہیں جس کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن محترم موصوف اکثر و بیش تر حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں؛ پھرجذباتی انداز اور فکر کا الجھاؤ تحریر کی سلاست، روانی اور ادبی چاشنی کو بھی سلب کر لیتا ہے اورقلم سے اس نوع کے جملے صفحہ قرطاس پر آتے ہیں:’’یہ ساری تنظیمیں سلفیت کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہیں۔۔‘‘، ’’اس کے فکری دھماکے۔۔۔‘‘، ’’اس کی شرعی ماں القاعدہ ہے!!‘‘بہ ہر حال ان کا اسلوب جارحانہ اور جانب دارانہ ہوتا ہے اور وہ مسائل یا نظریات پر گفتگو کے بجاے پورے مکتب فکر کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں جو علمی تنقید کے معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
مولانا موصوف کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک عجلت پسند اور متلون مزاج انسان ہیں؛ کل تک وہ داعش کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور آج اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ مناسب نہ تھا کہ وہ اس تنظیم سے متعلق پہلے ہی اچھی طرح تحقیق کر لیتے اور پھر اپنی رائے قائم کرتے جب کہ سلفی علما اول روزسے اس کی حقیقت آشکار کر چکے تھے! لیکن انھوں نے غالباً طلب شہرت کے پیش نظر’امیر المومنین‘ کے نام مکتوب لکھا اور اسے عام شائع کیا۔ ہمیں تسلیم ہے کہ انسان سے اندازے کی غلطی ہو جاتی ہے اور وہ تفاصیل و جزئیات سے بے خبری کے سبب کوئی غلط رائے بنا لیتا ہے، لیکن یہ کیا انداز ہے کہ اپنی غلطی سے رجوع کرتے ہوئے غیر متعلق نکات پربحث شروع کر دی جائے اورسارا ملبہ اْن لوگوں پر ڈال دیا جائے جن کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں!!گویا مولاناے محترم ایک مرتبہ پھر وہی غلطی دہرا کر اپنی عجلت پسندی اور ناعاقبت اندیشی کا ثبوت بہم پہنچا رہے ہیں!!
5) آخر میں ہماری دردمندانہ گزارش ہے کہ آج جب کہ امت کو کفر ونفاق اور الحادو لادینیت کے خلاف متحد اور متفق ہونے کی اشد ضرورت ہے ،اس نوع کی تحریریں ہر گز سود مند نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ حنفیت اور سلفیت میں فاصلوں کو بڑھانے کا باعث ہوں گی؛ جب کہ ہماری نگاہ میں یہ دونوں مکاتب اپنے اپنے انداز سے اسلام کی تشریح و تعبیر کرتے ہیں جن میں علمی مکالمہ جاری رہنا چاہیے؛ پس ہر دو کی توقیر لازم ہے اور ان سے وابستہ افراد کو ایک دوسرے سے قریب کرنا نہ صر ف یہ کہ مذہب کا ضروری مطالبہ ہے بلکہ حالات کا بھی اولین تقاضا ہے۔ جو احباب ندوی صاحب کے اس مضمون کو بہت ہی نادر اور قیمتی سوغات سمجھ کر اس کی اشاعت عام رہے ہیں، اگرچہ یہ اْن کا حق ہے لیکن ہماری استدعا ہے کہ یہ ہر گز کوئی مستحسن عمل نہیں ہے کہ اس کی افادیت توشاید ایک فی صد بھی نہ ہو، البتہ مضر اثرات بہت زیادہ ہیں؛اس لیے اس سے گریز ہی فرمائیں تو بہتر ہو گا:ع
مانیں، نہ مانیں، آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں!
حافظ طاہر اسلام عسکری
(مدیر،سہ ماہی نظریات،لاہور)
(۲)
تاریخ اسلام کا مطالعہ ہمیں اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ مسلمانوں میں آج تک جتنے فتنوں نے سراُٹھایا ،وہ سب اسلام کی غلطی تشریح و تعبیر کا نتیجہ تھے۔ ایسے ادارے، ایسی تحاریک اور ایسے افراد جنھوں نے اسلام کو منہج سلف سے ہٹ کر سمجھنے کی کوشش کی ،گمراہی و ضلالت ان کا مقدر ٹھہری۔ جہمیہ، مرجۂ، کرامیہ، خلاسفہ، قراطہ، سوفسطائیہ، باطنیہ، لاادریہ، خوارج ،روافص و نواصب، یہ سب اسلام کی غلط تشریح و تعبیر کے نتیجے میں پیدا ہوء۔
عصر حاضر میں دو فتنے ایسے ہیں جو منہج سلف سے ہٹے ہوئے ہیں۔ ایک فتنۂ خوارج (جس کی نمائندگی پاکستانی طالبان، القاعدہ و داعش جیسی تنظیمیں کررہی ہیں) اور دوسرا فتنہ غامدیت(جس کی قیادت جاوید احمد غامدی اور ان کا ادارہ کررہا ہے)۔ یہ دونوں تحاریک دراصل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ عہدِ حاضر کا فتنۂ خوارج ان افکار و نظریات کی ضد میں پیدا ہوا ہے جو افکارو نظریات آج جاوید احمد غامدی پیش کررہے ہیں یا پھر ان کے اعلانیہ و غیر اعلانیہ حامیان۔ ان میں سے ایک فکر گمراہی کے ایک دہانے پر ہے اور دوسری فکر گمراہی کے دوسرے دہانے پر۔ جبکہ اسلام کی فکری ونظریاتی شاہراہ ان کے درمیان ہے جو کہ سلف صالحین کی راہ ہے۔ فتنۂ خوارج و غامدیت کا حال کچھ ایسا ہے کہ بقول مفتی تقی عثمانی مدظلہم :
’’جب ایک مرتبہ کوئی صاحبِ فکر جمہورامت کے مسلمات سے آزاد ہوکر اپنی راہ الگ اختیار کرلیتا ہے اور یہ تصور کرلیتا ہے کہ وہ اِن مسلمات کے بارے میں پہلی بار اصابتِ فکر سے محروم رہے ہیں ،توان کے اوپر کوئی روک باقی نہیں رہتی۔ ماضی میں یہی طرزِ فکر نہ جانے کتنی گمراہیاں پیدا کرچکا ہے۔ طہٰ حسین سے لے کر سرسید تک اور وحید الدین خان سے لے کر جاوید احمد غامدی تک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اپنے اپنے وقت میں اس طرزِ فکر نے دلائل کا زور بھی باندھا ،لیکن امتِ اسلامیہ کا اجتماعی ضمیر رفتہ رفتہ اسے رَد کرکے اس طرح آگے بڑھ گیا کہ اس کا ذکر صرف کتابوں میں باقی رہ گیا۔ بالخصوص آج کے دور میں جس طرح کے افکار،دین میں تحریف کے درپے ہیں، اس کے سواسلامتی کا کوئی راستہ نہیں کہ انسان علماءِ امت کے سوادِ اعظم سے اور جمہور امت کے مسلمات سے وابستہ رہے۔ بے شک انبیاء کرام ؑ کے سوا کوئی معصوم نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہ ہونا چاہیے کہ انسان جمہور علماءِ امت کے مقابلے میں خود کو معصوم سمجھنے لگے اور یہ سمجھے کہ اُن سب سے بیک وقت غلطی ہوئی ہے،مجھ سے نہیں۔‘‘ (ماخوذ از مجلہ صفدر، فتنہ غامدی نمبر، جلد اول)
برِصغیر احیائے اسلام کی ایک عظیم تحریک ،جو کہ امیر المومنین مجاہدِ کبیر سید احمد شہیدؒ کی امارت میں اٹھی تھی، صحابہ کرامؓ کے بعد اخلاص و للہیت، زہد وتقویٰ ،ایما ن و عزیمت اور جرأت و استقلال کے باب میں اپنا ثانی کوئی نہیں رکھتی۔ یہ تحریک سندالہند حضرت الامام شاہ ولی اللہ نوراللہ مرقدہٗ کے افکار ونظریات سے مولود ہوئی اور امام شاہ ولی اللہؒ کے افکار و نظریات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اسلام اپنا غلبہ اور اقتدار چاہتا ہے اور غلبہ اسلام کے لیے جدوجہد کرنا مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے۔ امام شاہ ولی اللہؒ کی یہ فکر ان کی ذاتی و اختراعی فکر نہیں بلکہ آپ کے تمام فکری ڈانڈے سلف صالحین سے جڑے ہوئے ہیں اور سلف صالحین کا راستہ ہی ہدایت کا راستہ ہے۔ عہدِ حاضر کے خوارج اپنا فکری و نظریاتی رشتہ فکرِ سیداحمد شہیدؒ سے جوڑتے ہیں یا نہیں، لیکن غامدی افکارونظریات کے اعلانیہ و غیر اعلانیہ حامیان اپنے تئیں پاکستانی طالبان کا فکری ونظریاتی رشتہ فکر سید احمد شہیدؒ سے جوڑنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے انھیں بہت دور کی کوڑ لانی پڑے، مختلف و متنوع تحریکات کا، جو کہ مختلف ومتنوع حالات میں چلی تھیں، آپس میں رشتہ جوڑنا پڑے، یا پھر مختلف تحاریک کو اپنے ذہنی تخیلات کی بنیاد پر اپنا مَن چاہا مفہوم پہنانا پڑے تو وہ کسی بھی بات سے نہیں چوکتے۔
راقم الحروف کے مطابق، اگر کسی شخص نے پاکستانی طالبان کا فکری و نظریاتی رشتہ سید احمد شہیدؒ کی تحریک سے جوڑنا ہے تو وہ اِن دنوں تحریکات کے افکار ونظریات میں باہمی یکسانیت پیش کرے کہ کیا سید صاحبؒ فاسق و فاجر مسلمانوں کی تکفیر کرتے تھے اور کیا سید صاحبؒ نے کبھی بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل کو جائز سمجھا۔ ہمیں ان سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے ،جبکہ پاکستانی طالبان (خوارج) فاسق و فاجر مسلمانوں کی تکفیر بھی کرتے ہیں اور بے گناہ انسانیت کو ’’انصارانِ طاغوت‘‘ جیسے القاب سے ملقب کرکے مباح الدّم قرار دیتے ہیں ۔اس لیے اُن حضرات کے دلائل میں کوئی وزن نہیں جو پاکستانی طالبان کو نفاذِ شریعت کا دعوے دار قرار دے کر ان کو فکر سید احمد شہیدؒ کا تسلسل قرار دیتے ہیں، کیونکہ غلبۂ اسلام کے لیے جدوجہد کا نظریہ صحابہ و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم، ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین کے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ اگر غامدی افکار کے اعلانیہ و غیر اعلانیہ حامیان نے محض غلبۂ اسلام کی جدوجہد کے نام پر پاکستانی طالبان کا سید صاحبؒ سے رشتہ جوڑنا ہے تو پھر انھیں پاکستانی طالبان کا فکری ونظری رشتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرات سلف صالحین سے بھی جوڑنا ہوگااوراگر سلف صالحین سے ان کا رشتہ نہیں جوڑتے تو پھر لامحالہ سید صاحبؒ سے بھی نہیں جوڑ سکتے، کیونکہ پاکستانی طالبان بھی اسی طرح منہج سلف سے ہٹے ہوئے ہیں جس طرح فکرِ غامدی منہج سلف سے ہٹی ہوئی ہے۔
محمد یاسر الحسینی
ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان : بین المذاہب اور بین المسالک تناظرات کی نئی تشکیل
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
مرکز برائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانانِ ہند( CEPECAMI)، علی گڑھ پلیٹ فارم اورفیوچراسلام ڈاٹ کام کے اشتراک سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں 17دسمبر2015کوایک یک روزہ عالمی کانفرنس بین المذاہب اوربین المسالک تناظرات کی تشکیل نوکے موضوع پر منعقدہوئی۔اس کانفرنس میں خصوصی خطاب پیش کرتے ہوئے خصوصی مہمان وزیرخارجہ ملائشیااوراوآئی سی کے خصوصی ایلچی سیدحامدالبرسابق نے کہاکہ موجودہ زمانہ میں مسلمان ہرجگہ محاصرہ کی حالت میں ہیں۔ ان کا دین ہی نہیں، ان کی نقل وحرکت ،آمدورفت اورگفتگوسب پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ 9/11کے واقعہ نے مسلمانوں اورمغرب کے تعلقات پر زبردست منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہم ایک بحرانی حالت میں ہیں لہٰذاہمیں اپنے مسائل کوحل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی جس کے لیے دوسر ی قوموں سے زیادہ سے زیادہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ قرآن نے قوموں اور قبیلوں کے درمیان بہتر تعلقات پر زور دیا ہے، انسانیت کا احترام سکھایا ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم دوسروں سے اپنے آپ کو اعلیٰ اور برتر سمجھتے ہیں، ان سے کچھ سیکھتے نہیں۔ہمیں سوچناچاہیے کہ ہم ناکام کیوں ہیں کیونکہ ہم جمودپسندہیں۔
امریکہ سے آئے ہوئے ورلڈ پارلیمنٹ کے صدرپروفیسرگلن ٹی مارٹن نے اسلام کے تصورخودی پرایک پُرمغزخطبہ پیش کیا۔ انہوں نے حاضرین سے سوال کیاکہ آج اسلام فرانس،امریکہ اورہرجگہ محاصرہ میں کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کے تصورخودی کوبھلادیاگیاہے۔انہوں نے 9/11کے بارے میں اپنی یہ رائے بھی ظاہرکی کہ وہ خودامریکہ کی اندرونی ایجنسیوں کا ہی کیا دھرا تھا۔ اپنے طویل خطبہ میں پروفیسرمارٹن نے پوری دنیاکے امن وسلامتی کے لیے عالمی شہریت کا ایک دستوربھی پیش کیا۔
آریہ سماج کے متحرک رہنماسوامی اگنی ویش نے کہاکہ لاالہ الااللہ ایک انقلابی کلمہ ہے اورتمام انسانوں کوجوڑنے والاہے۔انہوں نے کہاکہ ہم سب انسان ایک ہی فیملی ہیں، ہم نقلی بحثوں میں کیوں پڑے ہوئے ہیں۔
پروفیسرراشدشازنے اپنے مختصرکلمات میں بین المذاہب اوربین المسالک مذاکرات کی اہمیت کو اجاگرکیا۔ نیز بین المسالک مذاکرات کے لیے نئے زاویوں سے سوچنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ امت مسلمہ پر اس کی طویل تاریخ میں چار بڑے بحران آئے ہیں۔پہلابحران قتلِ عثمانؓ سے شروع ہوتاہے ،دوسرابڑابحران سقوط بغداد تھا اور تیسرا بڑا بحران خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ تھاجس کے بعدامت مسلمہ اپنی چھتری سے محروم ہوکرکھلے آسمان کے نیچے آگئی۔ چوتھا بحرانی دور آج کا ہے جس میں شرق اوسط میں مسلسل خانہ جنگی کی کیفیت ہے جس میں قاتل بھی مسلمان اورمقتول بھی مسلمان۔ آج مسلم دنیاکے مرکزی علاقہ سے اس کا Depopulation ہو رہا ہے۔
مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے امیرمولانااصغرعلی امام مہدی سلفی نے بھی اپنے خیالات کا اظہارکیااورعالمی امن کی کوششوں کی تائیدکی۔ اس نشست کی نظامت ڈاکٹرمحمدزکی کرمانی کررہے تھے۔ کانفرنس کے اغراض ومقاصدکا تعارف راحیل احمدنے کرایااوراحمدفوزان نے ایسسکوکے چیئرمین عبدالعزیزعثمان التویجری اوردوسری شخصیات کے پیغامات پڑھ کر سنائے۔
ا س کانفرنس کا دوسراسیشن بہت اہم تھاجس کوٹاؤن ہال سیشن کا نام دیاگیا۔اس کا اندازراؤنڈٹیبل کانفرنس کا تھا۔ تقریباً دو درجن شرکائے بحث ایک گول دائرہ میں بیٹھے تھے،سب کوان کی جگہ ہی مائک مہیا کیے گئے تھے۔ شرکاء میں علما، پروفیسرز، محققین ،سماجی ایکٹوسٹ، رضاکار، صحافی دانشور، نوجوان اسکالر مردوخواتین سبھی شامل تھے۔ تقریباً 18 شرکاء نے اس بحث میں پورے جوش وخروش اورسنجیدگی سے حصہ لیا۔ اس سیشن کومرکزبرائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانانِ ہند کے ڈائرکٹر پروفیسر راشد شاز نے چلایا۔ ان کے ساتھ شیعہ تھیولوجی کے صدر پروفیسر علی محمد نقوی، ڈاکٹر زکی کرمانی، سید حامدالبر اور مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی بھی ڈائس پر موجود رہے۔ سوال اصل یہ تھاکہ وہ کیااسباب وحالات تھے کہ امت افتراق اورانتشارکا شکارہوگئی اورمتبعینِ محمدﷺمیں سے کٹ کٹ کرکتنے ہی لوگ قافلہ سے جداہوکرنئے نئے فرقے بناتے چلے گئے۔ اور اب کیاکیاجائے کہ امت پھرسے ایک پلیٹ فارم پر آجائے۔
مولانا محمد میاں قاسمی سنبھلی نے جوایک بڑے مدرسہ کے مہتمم ہیں، بحث کا آغازکرتے ہوئے کہاکہ میں قرآن کا مطالعہ موجودہ حالا ت کے تناظرمیں بغیرشان نزول اورتفاسیرکی محتاجی کے کرتاہوں اور قبلہ، نماز اور حج کی بنیادپر اہل قبلہ کے لیے وحدت کا ایک پروگرام بنایاجاسکتا ہے، بلکہ حج پوائنٹ پرتوتمام انسانیت کوجمع کیا جا سکتا ہے، کیونکہ قرآن حج، مسجد نبوی اورمسجد حرام کا باربارذکرکرتاہے اورکہیں پر بھی غیرمسلموں کوداخلہ سے نہیں روکتا بلکہ وہ ہر جگہ الناس کا تذکرہ کرتا ہے۔
مسلم یونیورسٹی کے استاد اور ڈبیٹر ڈاکٹرمحب الحق نے موجودہ دورمیں مسلمانوں کے تین رویوں کا ذکرکیا۔
۱۔ مسلم علما کے مذہبی جدا ل سے تنگ آکرمذہب بیزاری جس میں سیکولرحلقہ معاشرہ کو Deislamize کرنے کی آوازلگارہاہے۔
۲۔دوسرارویہ مذہب پسندحضرات کا یہ سامنے آرہاہے کہ قرآن پر basedاسلام کواختیارکیاجائے اورمذاہب فقہ اورروایات سے پیچھا چھڑایا جائے۔
۳۔تیسرارویہ جمع وتطبیق کا ہے۔ یہ رویہ تیونس کے ماڈل کو، جس کو اسلامی سیکولرزم کہا جا سکتا ہے، اختیار کرنے کی بات کہتاہے۔ڈاکٹرمحب الحق نے بھی اسی تیسری رائے کی وکالت کی ۔
دہلی سے آئے جناب نظام الدین صاحب نے کہاکہ قرآن کے ترجموں اورتفاسیرسے قرآ ن کے بہت سے الفاظ کی پوری وضاحت نہیں ہوتی، ا س لیے قرآن فہمی پر زیادہ زوردینے کی ضرورت ہے۔
پروفیسررحیم اللہ نے کہاکہ اگرچہ مدارس میں 4فیصدہی بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اوران میں بھی ایک فیصدلوگ ہی معاشرہ کی مذہبی قیادت میں آتے ہیں، مگرمعاشرہ کے سوفیصدلوگ انھی ایک فیصدکوfollow کرتے ہیں جس کی وجہ سے پورامعاشرہ مسلکی جھگڑوں میں جی رہا ہے۔ کوئی بھی آدمی الاماشاء اللہ اس سے باہرنہیں۔
شعبہ فلسفہ کے صدرپروفیسرمحمدمقیم الدین نے وحدت امت کے لیے چندتجاویزدیں:
۱۔تاریخ کے حوالہ سے جوبات ہوگی، وہ کامیاب نہ ہوگی ۔جوکچھ تاریخ میں ہوگیا، اب اس کو درست نہیں کیا جا سکتا۔
۲۔سب فرقوں کا تعلق شخصیا ت سے ہے، اس لیے ان شخصیات پرجارحانہ تنقیدیاحملہ نہ کیاجائے۔
۳۔اب جو کچھ ہو سکتا ہے، وہ یہ کہ انسان کو انسان بنایا جائے۔ اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنانے کے لیے عقل کو معیار بنایا جائے۔ عقل کا استعمال ہواورایکReasonalble اورحقیقت پسندمسلمان بنایاجائے۔
ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی نے براہ راست موضوع پر گفتگوکی کہ امت فرقوں اور ٹکڑوں میں کیوں بٹتی چلی گئی۔ اس بات پرغورکرتے ہیں تواس کے بہت سے اسباب میں سے ایک بڑاسبب یہ بھی نظرآتاہے کہ امت میں اظہارخیال اور اظہار رائے کی آزادی چھین لی گئی۔ اشخاص اورجماعتوں کی تکفیرکی باقاعدہ مہمیں مذہبی طبقہ نے چلائیں، بات بات پر تکفیرکے فتوے دیے جانے لگے۔ ڈاکٹر غطریف ندوی نے تاریخ سے اورحا ل کے دنوں سے کئی مثالیں بھی دیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں جوآدمی بھی سلف سے اختلاف کرتا یا لکیر سے ہٹ کرکچھ سوچتایاتحقیق پیش کرتا ہے، اس پر کفرکے فتوے لگ جاتے ہیںیااُسے یہودی وصہیونی ایجنٹ قراردیاجانے لگتا ہے۔ حقیقت پسندی کی اتنی کمی ہے کہ ہمارا ہر لکھنے بولنے والاشروعات ہی مغرب کوگالیوں اورلعن طعن سے کرتا ہے۔ سازشی تھیوری میں ہم جیتے ہیں۔ جب تک ہم اس جمودِفکرسے باہرنہیں آئیں گے، چیزوں کو حقیقت پسندی سے نہیں دیکھیں گے، تب تک ہمارے مسائل حل نہ ہوں گے۔
پروفیسرگلریزاحمدنے کہاکہ موجودہ زمانہ میں multiculturalسوچ کوآگے بڑھاناچاہیے اوراسی کوبنیادبناکرہم اپنی بات کوآگے بڑھائیں۔ کرنل سراج الحق نے سوامی اگنی ویش کی تقریرچندسوالات اٹھائے۔ پروفیسرصوفی نے بھی وحدت امت کے سلسلہ میں اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے اس اصول کی طرف بلایاکہ ’’اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں، دوسرے کے مسلک کوچھیڑونہیں‘‘۔
شرکاء سے سوال کیاگیاکہ مسلمان کسے کہیں گے اورامت مسلمہ سے کون خارج سمجھاجائے گا؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسرعلی محمدنقوی نے کہا کہ مسلمان ہونے کے لیے’’ توحید،رسالت وآخرت پر ایمان ،ختم نبوت اورقرآن کے محفوظ وغیرمحرف ہونے پر ایمان ویقین رکھنا‘‘یہ اصول ہیں۔پھریہ بھی دیکھاجائے گاکہ وہ فردیافرقہ خود کو اسلام کا پیروکارکہتاہے یانہیں۔ تمام شرکاء نے اسلام کی اس تعریف کوجامع ومانع قراردیا۔
اس کے بعدایک خاتون پروفیسرنے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ ’’ہم میں بحث کے آداب نہیں۔ ادب اختلاف نہیں، عدم تحمل ہے ،برداشت نہیں ہے۔جومسالک ہیں، وہی دین بن گئے ہیں۔ اس وجہ سے نئی نسل دین سے برگشتہ ہورہی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ دعوت کا نصب العین کیاہو،اقامتِ دین اورغلبۂ دین یاکچھ اور؟انہوں نے مشورہ دیاکہ ایک ایسی جامعہ بنائی جائے جوNeutral ہواورصرف اسلام کوRepresentکرے۔
بزرگ دانشورجنا ب عابدرضابیدارنے وحد ت امت پر گفتگوکرتے ہوئے رائے دی کہ حدیثوں کی بجائے قرآن کوبنیادبنائیں توبہت سے مسئلے حل ہوجائیں گے کیونکہ ہرفرقہ اپنے مطلب کی حدیثیں بیان کردیتاہے۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ مسلمانوں کے درمیان جوفرقے بن گئے ہیں، ان کے درمیان مذاکرا ت کے لیے اہل قبلہ کے بجائے کوئی اوراصطلاح استعمال کی جائے توبہترہوگا۔
مولاناضیاء الرحمان علیمی کے نزدیک قادیانیوں اوربہائیوں سے بھی کلمہ سواء کی بنیادپر مکالمہ کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ یہ سوال جب مولاناذیشان رضامصباحی سے پوچھاگیاتواصولی طور ،پر پروفیسرعلی محمدنقوی کی تعریف سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ فقہاء کا طریقہ تحفظی ہے۔ وہ کفرکی لسٹ بناتے ہیں کہ جویہ کرے، وہ کافروہ، کرے توکافر،جبکہ متکلمین کی اپروچ زیادہ مناسب ہے جن کی رائے ہے کہ جو ضروریاتِ دین کا انکارنہ کرے، وہ مسلمان ہوگا۔
ڈاکٹرعبدالرؤف نے کہاکہ میراعلماسے سوال ہے کہ اگرکسی کے اندراجتہادکی صلاحیت ہے توکیاوہ اجتہاد کر سکتا ہے؟ انہوں نے مزیدکہاکہ امت عالمی طورپرپروپیگنڈے کا بھی شکارہے، اس پر بھی ہماری نظرہونی چاہیے۔
سنی تھیولوجی کے چیئرمین مفتی زاہدصاحب نے فرمایاکہ اصولِ دین میں شیعہ وسنی دونوں مشترک ہیں۔ جہاں تک قیاسی مسائل کی بات ہوتی ہے تووہ لازمی نہیں ہوتے، انفرادی ہوتے ہیں۔ البتہ ہمیں مسائل میں تشدد نہیں برتنا چاہیے۔
پروفیسرمبارک علی نے رائے دی کہ تاریخی اسلام میں Rebuildکرنے کی ضرورت ہے۔
مولانااصغرعلی امام مہدی سلفی نے کہاکہ ہم اس کانفرنس کے روحِ رواں راشدشازکی دردمندی کوسمجھیں اوراپنے دل میں یہی درد لے کر جائیں۔
پروفیسرعلی محمدنقوی کی رائے تھی کہ ہمیں اسلامی فکرمیں موجودکثرت کا اعتراف کرتے ہوئے وحدت ملی قائم کرنی چاہیے کیونکہ چودہ سو سال کے تاریخی سفرمیں جوفرقے اورمسالک بن گئے ہیں، نہ توان کوختم کیاجاسکتاہے اورنہ کسی ایک مسلک پر سب کو لایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد زکی کرمانی مدیر’’آیات‘‘ نے طلبہ وطالبات کوخاص طورپر مشورہ دیاکہ ہم کوقرآن پاک سے براہ راست مربوط ہوناچاہیے اوراسی سے اپنے مسائل کا جواب مانگناچاہیے۔
اس سیشن میں برج کورس کے کئی طلبہ وطالبات عائشہ ،آرزوفاطمہ ،روشنی امیر،سرورعالم ،شرافت ندوی، ارشد احمد وغیرہ نے بہت اختصارکے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مترجم قرآن اورکئی کتابوں کے مصنف جناب سکندر احمد کمال اور وکیل خالد احمد نے بھی مختصراًا س موضوع پر گفتگوکی۔
اس سیمینارکی مجموعی اپروچ لکیر سے ہٹ کر اورغیرروایتی اندازمیں سوچنے کی تھی ۔عام سیمیناروں میں لوگ اپنے اپنے پیپرپڑھ کرچلے جاتے ہیں، گھسی پٹی باتیں دہراتے ہیں جن پر کوئی سوال جواب اوربحث ومباحثہ نہیں ہوتا۔اس سیمینارمیں شرکاء اورحاضرین نے کھل کر ہر چیز پر بحث کی۔ یہ توممکن نہیں کہ ایک نشست میں پیچیدہ مسئلے حل ہو جائیں، تاہم اس کا فائدہ یہ ہوگاکہ لوگوں میں غیر روایتی طورپر سوچنے کی اورغوروفکرکرنے کی عاد ت پروان چڑھے گی۔ ایک Rationalاورحقیقت پسندانہ رویہ ترقی پائے گا۔ اِس کانفرنس کی یہی سب سے بڑی دین امت کوہوگی جس کی وہ موجودہ بحرانی دورمیں سب سے زیادہ محتاج ہے۔ضرورت اس کا فولواپ کرنے اوراس قسم کے مذاکرات زیادہ سے زیادہ کرنے کی ہے۔
سانحہ ہائے ارتحال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
- مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبالؒ گزشتہ ماہ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ فرزند اقبال ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی مستقل فکری شناخت بھی رکھتے تھے اور مختلف ملی ودینی مسائل پر اظہار خیال کرتے رہتے تھے۔ ان کی فکر کے بعض زاویوں سے ہمیں بھی اختلاف رہا ہے اور ہمارے درمیان مکالمہ چلتا رہا ہے، لیکن نظریہ پاکستان اور نفاذ اسلام کے حوالے سے ان کے جذبات واحساسات کا اندازہ دو واقعات سے کیا جا سکتا ہے: ایک یہ کہ جب سابق صدر پاکستان اسکندر مرزا نے انھیں کسی قومی منصب کی پیش کش کی تو انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، اس لیے انھیں قوانین کی اسلامائزیشن کے حوالے سے قائم دستوری ادارے کی ذمہ داری دے دی جائے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اور دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جب وہ طالبان کے دورِ حکومت میں چند روز کے لیے افغانستان گئے تو واپسی پر اپنے ان تاثرات کا کھلے بندوں اظہار کیا کہ وہ اسلامی قوانین کے معاشرتی اثرات اور برکات کا خود مشاہدہ کر کے آئے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے پاکستان کے علمی وتجزیاتی ماحول کے علاوہ عدالتی شعبہ میں بھی جج کے طور پر ایک عرصہ خدمات سرانجام دی ہیں۔ راقم الحروف کو مختلف فکری مجالس میں ان کے ساتھ شرکت کا موقع ملا ہے اور اسلام اور پاکستان کے ساتھ ان کی محبت نے ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ - بزرگ اہل حدیث عالم دین، محقق اور مورخ مولانا محمد اسحاق بھٹی ؒ گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ صاحب مطالعہ محقق اور معتدل مزاج مصنف تھے۔ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور کے مدیر بھی رہے ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ اور حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے قافلہ کے آدمی تھے۔ علمی ودینی شخصیات کا تعارف ان کا خصوصی ذوق تھا اور اس حوالے سے ان کی متعدد تصانیف اور سیکڑوں مضامین ان کی یادگار ہیں۔ ان کی وفات سے تحقیق ومطالعہ اور تاریخ وتجزیہ کے ماحول میں جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ قحط الرجال کے اس دور میں علمی دنیا کو بہت شدت کے ساتھ محسوس ہوتا رہے گا۔
- خطیب اسلام مولانا سید عبد المجید شاہ ندیمؒ کا بھی گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ پاکستان میں اہل سنت کے عقائد وحقوق کے تحفظ کی جدوجہد کے ایک اہم راہ نما تھے اور صاحب طرز خطیب تھے۔ کم وبیش نصف صدی تک پاکستان کے طول وعرض اور دیگر ممالک کی فضاؤں میں وہ اپنی سحر انگیز خطابت کا جادو جگاتے رہے ہیں اور انھوں نے ہزاروں لوگوں کی عقیدت ومحبت سمیٹی ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ وابستہ رہے ہیں، جبکہ مجلس تحفظ حقوق اہل سنت پاکستان کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ راقم الحروف کا دوستانہ بلکہ برادرانہ تعلق ہمیشہ قائم رہا ہے اور سیکڑوں مجالس میں رفاقت رہی ہے۔
- سنی بینک، مری کے ایک معروف بزرگ محترم حاجی محمد شعیب گزشتہ دنوں انتقال کر گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ خدا ترس اور عبادت گذار بزرگ تھے۔ سنی بینک میں ان کے گھر کے ساتھ مہمانوں بالخصوص علماء کرام کے لیے ایک مستقل مہمان خانہ تھا جہاں ملک کے بزرگ علماء کرام وقتاً فوقتاً قیام کیا کرتے تھے۔ والد گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ متعدد بار حاجی صاحب مرحوم کے کئی روز تک اپنے رفقاء سمیت مہمان رہے ہیں۔ بہت مہمان نواز اور خدمت گذار بزرگ تھے۔ راقم الحروف بھی متعدد بار ان کی میزبانی سے فیض یاب ہوا ہے۔ ان کا تقاضا ہوتا تھا کہ جب بھی مری کے علاقہ میں حاضری ہو، قیام ان کے ہاں ہو جس کی بعض مواقع پر تعمیل بھی ہوتی رہتی تھی اور وہ بہت دعاؤں سے نوازتے رہے ہیں۔
- جمعیۃ اشاعت التوحید والسنہ پاکستان کے امیر مولانا محمد طیب طاہری کے جواں سال فرزند یمان طیبی گذشتہ دنوں ٹریفک کے ایک حادثے میں شہید ہو گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جواں سال بیٹے کی حادثاتی موت ماں باپ اور اہل خاندان کے لیے جس دہرے صدمے کا باعث ہوتی ہے، اس کی شدت کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں۔ اس صدمہ میں ہم مولانا محمد طیب طاہری اور ان کے خاندان کے ساتھ شریک ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت شہید نوجوان کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور اپنے خاندان کے لیے اجر وذخر بنائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کی حسنات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگذر کریں، ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین ثم آمین۔
ایک سفر کی روداد
محمد بلال فاروقی
25 نومبر کو UNITE) Universal Nexus for Interfaith Trust and Engagement) کے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس برائے مذہبی ہم آہنگی میں شرکت کے لئے اسلام آباد جانا تھا۔صبح نو بجے میں گاڑی لے کر مدرسہ نصرۃ العلوم پہنچا جہاں سے استاد محترم مولانا زاہد الراشدی اور جامعہ میں زیر تعلیم دورہ حدیث کے ایک ساتھی مولانا عبدالمتین عباسی کے ساتھ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے۔ ہماری پہلی منزل انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی تھی جہاں اسلام اور سائنس کے موضوع پہ یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک پروگرام منعقد کیا ہوا تھا۔ مولانا وقاص احمد اس کے روح ورواں تھے۔ دعوۃ فیکلٹی کے سربراہ ڈاکٹر احمد جان ازہری کی صدارت میں پروگرام شروع تھا۔ استاد محترم نے اسلام اور سائنس میں تصادم کے موضوع پر گفتگو کی (جس کا خلاصہ اسی شمارے میں شامل اشاعت ہے)۔
مولانا زاہد الراشدی کے بیان کے بعد ڈاکٹر احمد جان ازہری نے شرکاء اور مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے آفس میں گئے جہاں ڈاکٹر سراج الاسلام حنیف مردان یونیورسٹی سے ملاقات ہوئی۔ یونیورسٹی سے آگے ہمیں اسلام آباد کے سیکٹر جی 10/1 جانا تھا جہاں مولانا محمد رمضان علوی منتظر تھے۔مولانا وقاص احمد ہمارے ہمراہ تھے۔ انہوں نے استاد محترم سے سوال کیا کہ آپ تحریک انصاف کے علماء کنونشن میں گئے تھے جس سے ہمارے لوگوں میں تشویش ہے۔ مولانا نے فرمایا !بھئی ہمیشہ سے یہ اصول ہے کہ جاؤ ہر کسی کے پاس، لیکن بات اپنی کرو۔ لوگوں نے میرا وہاں جانا تو دیکھا لیکن میں نے جو باتیں وہاں کیں، وہ نہیں سنیں۔
مولانا محمد رمضان علوی کے ہاں پہنچے تو وہاں ورلڈ اسلامک فورم کے رابطہ سیکرٹری اور ابو الحسن علی ندوی اکیڈمی کے چیئر مین جناب جعفر بھٹی بھی موجود تھے جو بین الاقوامی مذاہب کانفرنس کے لیے برطانیہ سے تشریف لائے تھے۔ نماز ظہر ادا کرنے کے بعد مولانا رمضان علوی ،جناب جعفر بھٹی ،مولانا وقاص احمد وغیرہم کے ساتھ عصر تک نشست رہی۔ مختلف موضوعات پہ گفتگو ہوئی۔ استاد محترم نے ہمارے اور یورپ کے تحقیقی ذوق کا تقابل کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دفعہ میں یو کے میں تھا تو وہاں میں نے امام نسائی کی کتاب "کتاب المصاحف" دیکھی۔ نیچے ناشر کا نام چرچ آف انگلینڈ لکھا تھا۔ میں حیران رہ گیا کہ امام نسائی کی کتاب کا ناشر چرچ آف انگلینڈ۔ معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ یہ کتاب مسیحی پادریوں کو نصاب میں پڑھائی جاتی ہے، اس لیے کہ قرآن مجید میں لفظی اختلاف ثابت کیا جا سکے، جبکہ ہمارے ہاں کے بہت سے مدرسین کو بھی اس کتاب کا علم نہ ہوگا۔
مولانا وقاص احمد نے پوچھا کہ اسی طرح کی ایک کتاب کا ذکر آپ نے تحریک ریشمی رومال کے حوالے سے بھی کیا تھا۔ مولانا نے تفصیل بتائی کہ میں نے لندن میں خبر پڑھی تھی کہ جرمن وزارت خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری اولف شمل کی مرتب کردہ سرکاری دستاویزات کتابی صورت میں شائع ہوئی ہیں۔تحریک ریشمی رومال برطانوی سی آئی ڈی میں "سلک لیٹرز سازش کیس" کہلاتی ہے جبکہ جرمن انٹیلی جنس اس کو " برلن پلان'' کے نام سے جانتی ہے، کیونکہ بنیادی پلان تو برلن میں بیٹھ کے بنایا گیا تھا۔یہ کتاب جرمن زبان میں ہے، لیکن مل نہیں رہی۔ دو تین دوستوں کے ذمہ لگایا، لیکن نہیں ملی۔اس کتاب کی خبر لندن کے روزنامہ جنگ میں چھپی تھی۔اس خبر کو ہم نے الشریعہ میں شائع کیا تھا۔ہم اس تحریک کے آدمی ہیں۔ مجھے اس رپورٹ سے پتہ چلا کہ جاپان بھی اس پلان میں شریک تھا اور جاپان نے قبائلی علاقوں میں ٹریننگ کیمپ قائم کیا تھا اور ایک جاپانی نے یہاں آکر ٹریننگ دی۔ استاد جی نے فرمایا کہ ہمارا ذوق نہیں ہے۔ ہم شیخ الہند کانفرنس میں گئے تھے۔ وہاں میں نے مولانا محمود مدنی کو بھی کہا ، مولانا سلمان بجنوری کو بھی کہا، لیکن بات بنی نہیں۔
اسی سلسلے میں بات کرتے ہوئے فرمایا کہ جاپان پر اگر ایٹم بم نہ گرایا جاتا تو جاپان ہرگز ہتھیار نہ ڈالتا۔مجھے یہ ڈر لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جب یہ دیکھیں گے کہ ان کا بس نہیں چل رہا تو یہاں بھی وہ ایٹم بم گرادیں گے۔(29 نومبر کی تاریخ میں روسی سیاستد ان نے روسی صدر کو ترکی پہ ایٹم بم گرانے کی تجویز دی ہے۔بحوالہ خبر اردو پوائنٹ نیوز)
جعفر بھٹی صاحب نے سوال کیا کہ مولانا! آپ یورپ میں مسلمانوں کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟ مولانا نے کہا کہ ٹکراؤ نظر آرہا ہے۔ جو کچھ یہ مڈل ایسٹ میں کررہے ہیں، اس کا ردعمل تو آنا ہے اور ردعمل وہیں آئے گا جہاں آزادی ہوگی۔ جعفر صاحب نے برطانوی اخبار ڈیلی سن کی رپورٹ کا تذکرہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ یوکے میں مقیم مسلمانوں میں سے ہر پانچواں مسلمان دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے۔
جعفر بھائی نے پوچھا کہ جان کائزر کی کتاب کے اردو ترجمہ پر آپ کا مقدمہ ہے، لیکن اس پہ مترجم کا نام نہیں ہے۔استاد جی نے فرمایا، مجھے بھی معلوم نہیں، لیکن مترجم کا نام چھپنا چاہیے تھا۔ میں نے عرض کیا، الجزائری صاحب کے حوالے سے ہمارے ہاں کے اشکالات اور ہیں جبکہ عرب کے کچھ علماء ان پر وحدۃ الوجود کے حوالے سے اشکالات کرتے ہیں۔ استاد جی نے تصدیق کی کہ سلفی علماء اس وجہ سے انہیں ملحد کہتے ہیں۔ اس پراستاد جی نے واقعہ سنایا کہ مجھے اہل حدیث عالم دین نے سوال کیا کہ وحدۃ الوجود کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جو مولانا میاں نذیر حسین دہلوی کا ہے، وہی میرا نظریہ ہے۔جو نواب صدیق حسن خان صاحب کا نظریہ ہے، وہی میرا ہے۔ کہنے لگا، انہوں نے بھی یہ نظریہ اپنایا ہے؟ میں نے کہا، ہاں بھئی۔ پڑھ لو جا کر۔اس کے بعد دوبارہ اس نے نہیں پوچھا۔ حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی نے اس حوالے سے بڑے مزے کی بات کہی۔کسی نے کہا کہ حضرت مجدد الف ثانی نے وحدۃ الوجود کے بارے میں یہ یہ باتیں کی ہیں۔صوفی صاحب نے فرمایا کہ بھئی جو نہیں سمجھے گا، وہ یہی کہے گا۔
جعفر بھائی نے مولانا کو بتایا کہ میرا ارادہ ہے کہ مغرب میں جو مدارس ہیں، ان پہ کام کروں کہ ان کا نصاب و نظام کیا ہے۔ ہمارے ہاں کے مدارس پرتو بات ہوتی ہے کہ ان کے نصاب کو بدلا جائے اور نظام کو درست کیا جائے لیکن مغرب میں جو مدارس ہیں، ان پر کام کیا جائے۔استاد محترم نے فرمایا کہ بہت اچھی بات ہے، اس پر کام ہونا چاہیے۔
مولانا محمد رمضان علوی کی خواہش پر مولانا نے نماز عصر کے بعد مختصر بیان فرمایا اور صحابہ کرام کا ایک واقعہ بیان کیا کہ صحابہ کی ایک جماعت جہاد کے لیے جارہی تھی۔دشمن کے علاقہ میں تھی کہ انہیں ایک چرواہا نظر آیا۔ مجاہدین نے یہ سمجھا کہ یہ کافر ہے۔ اسی اثنا میں اس نے انہیں السلام علیکم کہا۔صحابہ سمجھے کہ یہ سلام کر کے جان بچانا چاہتا ہے۔یہ سمجھ کر انہوں نے اس چرواہے کو قتل کردیا۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی آیات نازل کیں۔
ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقآی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا، تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا، فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃ’‘ (النساء، آیت ۹۴)
’’اے ایمان والو ! جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو (دشمن کو پہچاننے کے لئے ) اچھی طرح تحقیق کرلیا کرواور جو شخص تمہیں سلام کرے ، اس کو دنیوی سامان کی خاطر فورا یہ نہ کہہ دو کہ تم مومن نہیں۔اللہ کے پاس (تمہارے لیے ) بہت مال غنیمت ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے اس بات پر ڈانٹا کہ تحقیق کی بغیر ایک آدمی کو کیوں قتل کردیا۔
یہ بات میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ آج ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا ہے کہ کام پہلے کرگزرتے ہیں اور تحقیق بہت بعد میں جا کر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک چیز سنی، موبائل میں محفوظ کی، آگے دس بیس بندوں کو بھیجی۔ انہوں نے آگے دس بیس بندوں کو بھیجی۔ اس کے نتیجے میں اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے اور کوئی نقصان وغیرہ ہوجاتا ہے، تب جاکر پتہ چلتا ہے کہ وہ بات تو غلط تھی۔وہ میسج فیک تھا۔ آج کل اس پہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔آج کل یہ وبا پھیل چکی ہے۔ میسجنگ ، سوشل میڈیا وغیرہ پر سنی سنائی بات کو پھیلا دیا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں اچھا خاصا نقصان ہوجاتا ہے۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ بات غلط تھی اور ہمیں اس پر شرمندگی ہوتی ہے۔تو اس بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ پہلے تحقیق کرلو۔ جب اچھی طرح بات واضح ہوجائے، تب کوئی فیصلہ کرو۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
دعا کے بعد جمعیت علماء اسلا م، اسلام آباد کے امیر اور بزرگ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب استادجی سے ملے اور اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ان کے گھر کی جانب چل پڑے۔راستے میں جعفر بھائی سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ ابوالحسن علی ندوی اکادمی کی جانب سے مفکر اسلام مولانا علی میاں کے افکارو خدمات پر مقالات لکھوائے جائیں۔ایک مقابلہ مضمون نویسی تو شروع ہے، لیکن تحقیقی مقالہ جات جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے ہوں، لکھوائے جائیں۔ میں نے ایک تجویز دی کہ ہمارے مدارس کے طلباء مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی سے صرف القراء ۃ الراشدہ اور قصص النبیین کے حوالے سے واقف ہیں۔ اگر ممکن ہو تو آپ مختلف مدارس میں دو دن یا تین دن کی ورکشاپ رکھیں اور وہاں حضرت کی خدمات و افکار کا کچھ تعارف ان کے سامنے رکھیں۔جب یہ چیز سامنے ہوگی تو اس صورت میں آپ کو مولانا علی میاں پر کام کرنے والے ملیں گے۔
مولانا عبد الروف صاحب کے گھر پہنچے۔ استاد جی نے ان کا احوال پوچھا تو انہوں نے کہا جی بس ہمارا ہاتھ اور زبان سلامت رہے، کام چل جاتا ہے۔اس پہ استاد جی نے حضرت ابی ابن کعبؓ کا واقعہ سنایا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک کہ ’’آدمی کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ اس کے گناہوں کے لیے کفارہ بنتی ہے‘‘ سنا تو دعا کی کہ یا اللہ مجھے ہمیشہ اس حد تک بخار میں مبتلا رکھیے کہ مجھ سے فرض نماز، رمضان کے روزے، حج بیت اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ نہ چھوٹے۔اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی کہ اور ان کو ہمیشہ اندورنی طورپہ بخار رہا کرتا تھا۔
اسی گفتگو کے دوران استاد جی نے امام نسائی کی کتاب المصاحف کا واقعہ سنایا اور ساتھ ہی ایک اور واقعہ بھی سنایا کہ جب کچھ مسلمان خلاباز خلا میں جانے لگے تو وہاں نماز کے بارے میں سوال ہوا تو اس کا جواب سب سے پہلے انٹرنیٹ پر ایک یہودی نے دیا کہ خلا باز کا حکم معذور جیسا ہے، جیسے ممکن ہو پڑھ لے۔ اس یہودی نے البحرالرائق کا حوالہ دیا۔
اس مختصر نشست کے بعد ہم یونائٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی مذاہب کانفرنس کے لیے روانہ ہوئے اور مغرب کی نماز جناح کنونشن سینٹر میں ادا کی۔ نماز کے بعد کی نشست میں جعفر بھائی نے سوال کیا کہ مدارس کی کریم (یعنی ہونہار اور قابل علماء) کہاں جاتی ہے۔استاد محترم نے جواب دیا کہ ڈاکٹر مشیر الحق مرحوم نے بڑا دلچسپ تجزیہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے فضلاء کی چار قسمیں ہیں۔ایک وہ جو مدارس کے مزاج کے ہوتے ہیں، وہ مدارس میں کھپ جاتے ہیں۔اس کے بعد دوسراطبقہ بیرون ملک یونیورسٹیز میں اپنا آموختہ دوہرانے کا معقول وظیفہ پاتا ہے۔ تیسرا طبقہ کوشش کرتا ہے کہ وہ یونیورسٹی، کالج یا اسکول کہیں ایڈجسٹ ہو کر کام کرے۔اس کے بعد چوتھا طبقہ مسجد کی امامت وغیرہ کی جانب رخ کرتے ہیں۔
اسی دوران ایک فون پہ کسی نے مسئلہ پوچھا تو استاد محترم نے بتایا کہ جائزہے لیکن علماء کو احتیاط کرنی چاہیے۔اس پر یہ واقعہ سنایا کہ میں اور مولانا منظور احمد چنیوٹی ہم اکٹھے سفر کرتے تھے تو جہاز میں نماز کا مسئلہ ہوتا تھا۔میں قضا کر لیا کرتا تھا۔ مولانا پڑھ لیتے تھے اور بعد میں قضاء کرلیتے تھے۔ میں نے ایک دن والد صاحب سے پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ نے نہیں پڑھنی۔ میں نے پوچھا، کیا وجہ ہے ؟ جواب دیا، آپ تو دوہرا لو گے لیکن آپ اچھے خاصے مولوی لگتے ہو۔ آپ کو دیکھ کر جو پڑھے گا، وہ نہیں دوہرائے گا۔ اس لیے میرا جہاز میں پڑھنے کا معمول نہیں ہے۔
اس کے بعد استاد محترم نے بین الاقوامی مذاہب کانفرنس سے خطاب کیا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ عدم برداشت، شدت پسندی میں ایک کردار مذہب کا بھی ہے، لیکن کیا انسانی معاشرہ کے باقی مسائل بھی مذہب کے پیدا کردہ ہیں؟کیا کرپشن، اباحیت، طاقت کی بالادستی، فحاشی، عریانی اور خاندانی نظام کا بکھرنا، کیا یہ بھی مذہب کے پیداکردہ ہیں؟ میرے خیال میں ہمیں توازن قائم کرنا ہوگا۔مذہب کا غلط استعمال معاشرے میں مسائل پیدا کررہا ہے، لیکن مذہب سے انحراف اس سے زیادہ مسائل پیدا کررہا ہے۔ہمیں بات حقیقت پسندی کی بنیاد پر کرنا ہوگی۔ جتنے مسائل مذہب نے پیدا کیے ہیں، مذہب سے بغاوت، مذہب سے انحراف اور مذہب سے بے پروائی نے اس سے زیادہ مسائل پیدا کیے ہیں۔ اس لیے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم مذاہب کے نام پر جمع ہیں، ہمیں ان مسائل کا مذاہب کی بنیاد پر جائزہ لینا ہوگا اور میں آج کی کانفرنس سے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ ہمیں انسانی سوسائٹی کو درپیش عملی مسائل، پریکٹیکل ایشوز پر مذاہب کی مشترکہ تعلیمات سے آج کے اسلوب میں ان کا حل پیش کرنا ہوگا۔ مذہب کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے لوگوں کو آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کی دعوت دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
خطاب کے بعد استاد محترم نے چیئرمین یونائٹ مفتی ابو ہریرہ محی الدین صاحب سے یادگاری شیلڈ وصول کی۔ جعفر بھائی اور مولانا محمد ادریس صاحب نے ہمیں الوداع کہا اور ہم واپس گوجرانوالہ کی جانب روانہ ہوگئے۔
فروری ۲۰۱۶ء
دولت اسلامیہ اور قیام خلافت : ایک سنگین مغالطہ
محمد عمار خان ناصر
دولت اسلامیہ (داعش) کے وابستگان کا یہ کہنا ہے کہ اس کے سربراہ اس وقت شرعی لحاظ سے سارے عالم اسلام کے ’’خلیفہ ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی اطاعت قبول کرنا تمام مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔ اس ضمن میں ان حضرات کی طرف سے پیش کردہ استدلال کے مقدمات حسب ذیل ہیں:
۱۔ خلافت کا قیام مسلمانوں پر فرض ہے اور اس کا اہتمام نہ کرنے کی صورت میں ساری امت گناہ گار قرار پاتی ہے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے اب تک عالم اسلام اس فریضے کا تارک تھا، لیکن اب دولت اسلامیہ کی صورت میں اس فریضے کی ادائیگی کا اہتمام کر دیا گیا ہے، اس لیے اس کی اطاعت قبول کرنا مسلمانوں پر شرعاً لازم ہے۔
۲۔ اس خلافت کا قیام شرعی اصول کے تحت یعنی ارباب حل وعقد (جس سے مراد عراق وشام کی جہادی تنظیموں کے ذمہ داران ہیں) کے مشورے سے ہوا ہے اور ان کی بیعت، خلافت کے انعقاد کے لیے کافی ہے، کیونکہ فقہاء کی تصریح کے مطابق ’’خلیفہ‘‘ کے انتخاب پر سارے عالم اسلام کے ارباب حل وعقد کا اتفاق نہ ضروری ہے اور نہ عملاً ممکن ہے۔
۳۔ بالفرض یہ کہا جائے کہ دولت اسلامیہ مشورے کے بجائے طاقت کے زور پر قائم ہوئی ہے تو بھی تغلب اور تسلط کے ذریعے سے قائم ہونے والی حکومت جب اپنی رِٹ قائم کر لے اور لوگ اس کی بیعت کر لیں تو شرعی طور پر اس کا اقتدار قائم ہو جاتا اور اس کی اطاعت لازم ٹھہرتی ہے۔
ہمارے نزدیک یہ سارا استدلال سرتا سر کج فہمی اور مغالطوں پر مبنی ہے۔ آئیے، اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔
پہلے نکتے کو دیکھیے:
فقہاء نے جس مفہوم میں خلافت کے قیام کو فرض قرار دیا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے اجتماعی معاملات کی انجام دہی کے لیے ایک باقاعدہ نظام حکومت قائم کریں اور اس کے تحت زندگی بسر کریں، کیونکہ شریعت نے بحیثیت جماعت مسلمانوں کو جو احکام دیے ہیں، ان میں سے بہت سے احکام پر عمل درآمد قیام حکومت پر موقوف ہے جبکہ افراد اپنی انفرادی حیثیت میں ان پر عمل نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے اگر مسلمان کسی علاقے میں آزاد اور خود مختار ہوں اور اس کے باوجود اپنا کوئی نظم اجتماعی قائم نہ کریں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی اجتماعی زندگی میں شریعت کے بہت سے احکام پر عمل نہیں کر سکیں گے اور یوں ایک شرعی فریضے کے تارک اور گناہ گار قرار پائیں گے۔ فقہاء اسی کو ’’نصب امام‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی مسلمانوں پر اپنا کوئی حکمران منتخب کرنا لازم ہے جو ان کے اجتماعی معاملات کی انجام دہی کی ذمہ داری ادا کر سکے۔
اگر کسی علاقے کے مسلمان اس کا اہتمام کر لیں تو وہ اس فرض کی ادائیگی سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں اور انھیں شریعت کے ایک فرض کا تارک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ حکمرانی کے لیے کسی نااہل کا انتخاب کر لیں یا کوئی نااہل ازخود طاقت کے زور پر ان پر مسلط ہو جائے یا ارباب اقتدار اپنے اوپر عائد ہونے والی شرعی ذمہ داریوں کو کماحقہ انجام نہ دیں، لیکن ان سب خامیوں کے باوجود اگر مسلمانوں نے اپنا کوئی نظم حکومت قائم کر لیا ہو اور وہ ایک منظم گروہ کے طور پر زندگی بسر کر رہے ہوں تو فقہاء کے زاویہ نظر سے ان پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ ’’نصب امام‘‘ کے شرعی فریضے کے تارک اور گناہ گار ہیں۔ وہ حسب استطاعت نظام حکومت کی اصلاح کے لیے کوشش اور جدوجہد کے تو مکلف ہوں گے، لیکن شریعت اس صورت حال میں انھیں اس بات کا مجرم قرار نہیں دیتی کہ انھوں نے اصل حکم یعنی ’’نصب امام‘‘ پر ہی عمل نہیں کیا۔
عصر حاضر کے معروف فقیہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اس نکتے کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
’’تمام فقہاء اور اہل عقائد اس بات پر متفق ہیں کہ امام کا نصب کرنا مسلمانوں پر واجب ہے، یعنی مسلمانوں کی پوری جماعت کے ذمہ داجب ہے کہ وہ کسی کو اپنا امام بنائیں، ایسے شخص کو امام بنائیں جو ان صفات کا حامل ہو جس کا حاصل یہ ہے کہ نصب الامام ایک طرح سے فرض کفایہ ہوا۔ لیکن یہاں یہ فرق سمجھ لیجیے کہ نصب الامام کا واجب ہونا، اس کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کا کوئی سربراہ نہ ہو، یعنی مسلمان بغیر کسی سربراہ کے زندگی گزار رہے ہوں۔ کوئی ان کا حاکم نہ ہو، کوئی ان کا سربراہ نہ ہو۔ اس وقت میں مسلمانوں میں سے کسی ایک کو امام بنانا واجب ہے۔ لیکن اگر کوئی ان کا سربراہ بنا ہوا ہے، خواہ زبردستی یا تغلب سے بنا ہو، اور وہ امام صفات مطلوبہ کا حامل نہ ہو، جیسا کہ اس وقت اسلامی ممالک میں سربراہ موجود ہیں لیکن وہ ان صفات کے حامل نہیں ہیں جو سربراہ کے لیے مطلوب ہیں تو اس وقت میں مسلمانوں کا کیا کام ہونا چاہیے؟ اس کا تعلق اس مسئلے سے ہے کہ موجودہ سربراہ کو معزول کر کے کسی صحیح سربراہ کو لانے کا کیا طریق کار ہونا چاہیے۔‘‘ (’’اسلام اور سیاسی نظریات‘‘، ص ۲۲۶)
اس وضاحت کی روشنی میں دولت اسلامیہ کے اس دعوے کا جائزہ لیجیے کہ ’’دولت اسلامیہ کے قیام سے پہلے تک پورا عالم اسلام ’’نصب امام‘‘ کے فریضے کا اجتماعی طور پر تارک تھا‘‘ تو صاف معلوم ہوگا کہ اس میں ایک حقیقت واقعہ کی نفی کی جا رہی ہے، اس لیے کہ عالم اسلام کا کوئی بھی خطہ ایسا نہیں جہاں مسلمان اپنے آزاد علاقوں میں ’’نصب امام‘‘ یعنی کسی نظم اجتماعی کے قیام کے بغیر زندگی بسر کر رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اس دعوے کا جواز پیدا کرنے کے لیے ان حضرات کو اس کے ساتھ ایک دوسرا مقدمہ شامل کرنا پڑتا ہے، یعنی یہ کہ اس وقت پورے عالم اسلام میں کہیں بھی کوئی جائز شرعی حکومت موجود نہیں، کیونکہ تمام مسلمان حکمران فلاں اور فلاں وجوہ سے کافر اور مرتد ہو چکے ہیں۔ اس دوسرے دعوے کا الگ سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ یہاں صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ فقہاء کی سند پر یہ دعویٰ کرنا کہ مسلمانوں کی اکثریت اس وقت ایک بنیادی شرعی فریضے یعنی نصب امام کی تارک ہے، فقہاء کے نقطہ نظر کی بالکل غلط ترجمانی ہے اور اس کی کوئی علمی یا شرعی بنیاد موجود نہیں۔
دوسرے اور تیسرے نکتے کے متعلق گزارش یہ ہے کہ علماء وفقہاء جب انعقادِ خلافت کے لیے بعض ارباب حل وعقد کے اتفاق کو کافی تصور کرتے اور سب کے اتفاق واجماع کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں یا غلبہ وتسلط کے ذریعے سے قائم ہونے والی حکومت کو بالفعل ایک قانونی حکومت کا درجہ دیتے ہیں تو ان کے پیش نظر اس اصول کا اطلاق کسی مخصوص مسلم ریاست یا سلطنت کے عملی دائرۂ اختیار کے اندر ہوتا ہے نہ کہ علی الاطلاق سارے عالم اسلام کے مسلمانوں پر۔ اگر عالم اسلام کے سارے مسلمان، بالفرض، کسی وقت ایک ہی مرکزی حکومت کے تحت مجتمع ہوں تو فقہاء کے بیان کردہ مذکورہ اصول کا دائرۂ اطلاق سارا عالم اسلام ہوگا، لیکن اگر کسی وقت سیاسی حالات اس سے مختلف ہوں اور مسلمان مختلف علاقوں میں اپنی اپنی جداگانہ حکومتیں قائم کر کے ان کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں تو پھر اس اصول کا اطلاق ہر حکومت یا سلطنت کے اپنے مخصوص دائرۂ اختیار اور اس کی عمل داری میں واقع علاقوں کے اندر ہوگا۔
ہم جانتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے ایک مخصوص مرحلے پر جب اندلس میں مسلمانوں کی ایک مستقل خلافت قائم ہو گئی جس کا مرکزی خلافت کے ساتھ کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا تو اس کے بعد اہل اندلس نے حکمرانی کے تسلسل اور انتقال اقتدار کے لیے اپنا سیاسی نظام بھی الگ وضع کیا اور اس علاقے کے مسلمان آئندہ تاریخ میں مرکزی خلافت سے آزاد رہ کر اپنے سیاسی معاملات کی انجام دہی کرتے رہے۔ تاریخ اسلام میں اندلس کے فقہاء نے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ جب بغداد میں ایک خلیفہ پہلے سے موجود ہے تو اس سے ہٹ کر اندلس میں ایک دوسرا خلیفہ کیوں حکومت کر رہا ہے۔ دونوں حکومتوں کے اپنے اپنے دار الحکومت اور اپنے اپنے ارباب حل وعقد تھے اور دونوں سلطنتوں میں خلیفہ کے انتخاب کے لیے مقامی ارباب حل وعقد کا اتفاق اسی علاقے کے لیے اور انھی جغرافیائی حدود میں موثر مانا جاتا تھا جن میں ان میں سے ہر ایک سلطنت عملاً قائم تھی۔ تاریخ میں کسی بھی مرحلے پر یہ بحث نہیں اٹھائی گئی کہ بغداد کے ارباب حل وعقد نے جس خلیفہ کے انتخاب پر صاد کیا ہے، اندلس کے مسلمان بھی اسی کی اطاعت قبول کرنے کے پابند ہیں یا اس کے برعکس یہ کہ اندلس میں ارباب حل وعقد نے جس حکمران کی بیعت کر لی ہے، باقی عالم اسلام کے مسلمانوں پر بھی اسی کی بیعت کرنا واجب ہے۔
یہی معاملہ عالم اسلام کے ان دوسرے خطوں کا بھی رہا ہے جہاں تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں نے مرکزی خلافت سے الگ اپنا نظام حکمرانی قائم کیا۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں مختلف مسلمان حکمرانوں کے جوازِ حکمرانی کو کبھی مرکزی خلافت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا گیا اور نہ یہ تصور ہی پیش کیا گیا کہ ہندوستان کی مسلم حکومتوں کو لازمی طور پر بغداد کی مرکزی حکومت کے تابع ہونا چاہیے یا یہاں کے حکمران کا تقرر مرکزی خلافت کی طرف سے کیا جانا چاہیے۔ یہاں یکے بعد دیگرے مختلف مسلمان خاندان آتے رہے اور اپنے زورِ بازو سے جو بھی اپنا اقتدار جن زمینی حدود میں قائم کرنے میں اور مقامی ارباب حل وعقد کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا، اس کی حکمرانی کو قبول کر لیا گیا۔ یہی صورت حال ہمیں عالم اسلام کے دور دراز خطوں مثلاً انڈونیشیا اور ملائشیا وغیرہ کی تاریخ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
اس سے واضح ہے کہ فقہاء جب ایک علاقے کے ارباب حل وعقد کے اتفاق، یا طاقت کے زور پر اپنا تسلط قائم کر لینے کی بنیاد پر کسی حکمران کی حکومت کو منعقد قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے تمام علاقوں کے ارباب حل وعقد کے اتفاق کو ضروری قرار نہیں دیتے تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ کوئی مسلم ریاست یا سلطنت جن جغرافیائی حدود میں قائم ہے، ان کے اندر یہ فیصلہ نافذ تصور کیا جائے گا اور مرکز حکومت یا دار الخلافہ میں موجود ارباب حل وعقد جس حکمران کے انتخاب پر متفق ہو جائیں، اس کی اطاعت اس سلطنت کے دائرۂ اختیار اور زمینی حدود میں بسنے والے مسلمانوں پر لازم ہو جائے گی۔ اس اصول کو مذکورہ قید سے آزاد کرتے ہوئے علی الاطلاق بیان کرنا نہ تو عقل عام کی رو سے درست ہے اور نہ یہ فقہاء کی مراد اور منشا کی صحیح ترجمانی ہوگی، کیونکہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ خود مختار مسلم ریاستوں کے جواز کی نہ تو علماء وفقہاء نے عملاً کبھی نفی کی ہے اور نہ دو الگ الگ سلطنتوں کے سیاسی معاملات کو گڈ مڈ کرتے ہوئے ایک سلطنت کے سیاسی فیصلوں کی بنیاد پر دوسری سلطنت کے سیاسی معاملات میں مداخلت کو سند جواز دی ہے۔
اس وضاحت کی روشنی میں اب دیکھیے، یہ ایک حقیقت ہے کہ عالم اسلام اس وقت ساٹھ کے قریب الگ الگ اور خود مختار مسلم ریاستوں میں تقسیم ہے جن میں سے ہر ملک کے اپنے جغرافیائی حدود متعین ہیں اور ہر ملک کے باشندوں نے اپنے اپنے حالات کے لحاظ سے اپنے سیاسی معاملات کی انجام دہی کا کوئی نہ کوئی نظام وضع کررکھا ہے۔ یہ تمام مسلمان ملک باہمی معاہدات میں بندھے ہوئے ہیں جن کی رو سے ہر ملک کے ارباب حل وعقد جو بھی فیصلے کرتے ہیں، ان کا تعلق اسی ملک کے معاملات سے ہوتا ہے اور کوئی بھی ملک اپنے سیاسی دائرۂ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے ملک کے معاملات میں دخل اندازی کرنے یا ان پر اپنے سیاسی فیصلوں کی پابندی لازم کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس وجہ سے اگر عراق اور شام کے بعض علاقوں میں کسی جماعت نے مفروضہ طور پر وہاں کے ارباب حل وعقد کے مشورے سے یا طاقت کے زور پر اپنا تسلط قائم کر کے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا ہے، اسے بالفرض ایک جائز حکومت تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس کا قانونی جواز اور دائرۂ اختیار اس علاقے تک محدود ہے جہاں اس نے بالفعل اپنی رِٹ قائم کر رکھی ہے۔ اس کی طرف سے یا اس کے وابستگان کی طرف سے عالم اسلام کے باقی مسلمانوں سے یہ مطالبہ کہ وہ اپنی اطاعت اسی کے ساتھ وابستہ کر لیں اور خاص طور پر یہ کہ ایسا کرنا ان کا شرعی اور دینی فریضہ ہے، کسی بھی شرعی یا قانونی یا اخلاقی اصول کی رو سے کوئی معنی نہیں رکھتا۔
عالم اسلام کی سیاسی وحدت اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے، لیکن اس کا راستہ یہ نہیں کہ موجودہ آزاد اور خود مختار مسلم حکومتوں کے جواز کی نفی کی جائے اور قدیم شہنشاہیت کے طریقے پر پورے عالم اسلام کو کسی ایک حکمران کے زیر حکمرانی متحد کرنے کی کوشش کی جائے۔ تاریخ وتہذیب کے ارتقا کے اس مرحلے پر ایسی کوششیں پتھر سے سر پھوڑنے کے مترادف تو ہوں گی ہی، اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں اتحاد واتفاق کے بجائے افتراق وانتشار اور باہمی خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے کا بھی اس سے بڑھ کر تیر بہدف نسخہ کوئی اور نہیں ہوگا۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۵)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۷۵) سعر کا مطلب
قرآن مجید میں جہنم کے عذاب کے لیے لفظ سعیر متعدد مقامات پر آیا ہے، البتہ سورہ قمر میں دو جگہ لفظ سعر آیا ہے، اور دونوں ہی جگہ یہ لفظ ضلال کے ساتھ آیا ہے۔ مترجمین ومفسرین میں اس پر اختلاف ہوگیا کہ ان دونوں مقامات پر سعر کا کیا مطلب لیا جائے، کیونکہ لغت کے لحاظ سے سعر سعیر کی جمع بھی ہوسکتا ہے، اور واحد کے صیغے میں بطور مصدر جنون کا ہم معنی بھی ہوتا ہے ہم ذیل کی سطور میں دونوں آیتوں کے مختلف ترجمے پیش کریں گے۔
(۱) کَذَّبَتْ ثَمُودُ بِالنُّذُرِ۔ فَقَالُوا أَبَشَراً مِّنَّا وَاحِداً نَّتَّبِعُہُ إِنَّا إِذاً لَّفِیْ ضَلَالٍ وَسُعُرٍ۔ (القمر: ۲۳،۲۴)
’’ثمود نے بھی انذار کی تکذیب کی، سو انھوں نے کہا کیا ہم اپنے ہی اندر کے ایک بشر کی پیروی کریں گے؟ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم کھلی گمراہی اور جہنم میں پڑے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
یہ تو پوری آیت کا ترجمہ ہے، صرف (إِنَّا إِذاً لَّفِیْ ضَلَالٍ وَسُعُرٍ) کے مزید کچھ ترجمے بھی ملاحظہ ہوں:
’’تحقیق ہم اس وقت البتہ بیچ گمراہی کے ہیں اور جنون کے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
تو تو ہم غلطی میں پڑے اور سودا میں ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’تو اس صورت میں ہم بڑی غلطی اور (بلکہ) جنون میں پڑجاویں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
(۲) إِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ ضَلَالٍ وَسُعُرٍ۔ (القمر: ۴۷،۴۸)
’’بے شک مجرمین گمراہی میں ہیں اور دوزخ میں پڑیں گے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
’’تحقیق گناہ گار بیچ گمراہی کے اور جلنے کے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’جو لوگ گناہ گار ہیں غلطی میں ہیں اور سودا میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’یہ مجرمین بڑی غلطی اور بے عقلی میں ہیں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
توجہ طلب بات یہ ہے کہ شاہ رفیع الدین نے پہلے مقام پر جنون اور دوسرے مقام پر جلنا ترجمہ کیا ہے، اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ تفسیر جلالین میں بھی پہلے مقام پر سُعُرٍ کا مطلب الجنون اور دوسرے مقام پرالنار بتایا گیا ہے۔ تاہم خود تفسیر جلالین میں یہ فرق کیوں کیا گیا اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، اسلوب کی مکمل یکسانیت کا تقاضا ہے کہ دونوں جگہ ایک ہی مفہوم مراد ہو، اور اتنا بڑا فرق نہ ہو۔
سیاق کو دیکھیں تو ضَلَال کے ساتھ سُعُرٍ کے تذکرے سے معلوم ہوتا ہے کہ سُعُرٍ سے مراد دنیا میں پیش آنے والی کوئی حالت ہے، اورمعنوی لحاظ سے بھی ضَلَال کی مناسبت سے جنون کا مفہوم لینا ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، سورہ قمر کے مذکورہ دونوں مقاموں میں سے پہلے مقام پر سُعُرٍ سے مراد جہنم اس لیے نہیں لے سکتے کیونکہ رسول کی تکذیب کرنے والی قوم ثمود کا آخرت اور جنت وجہنم پر ایمان ہی ثابت نہیں ہے، پھر وہ کیسے کہیں گے کہ ایسا کرکے ہم جہنم میں جائیں گے؟ اسی طرح دوسری آیت میں جہنم کا تذکرہ جس طرح اس کے بعد والی آیت میں آرہا ہے اس سے بھی قرین قیاس یہی لگتا ہے کہ اس سُعُرٍ سے مراد دنیا کی کوئی حالت ہے۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جہنم کے لیے جتنے بھی نام قرآن مجید میں آئے ہیں، وہ سب واحد کے صیغے سے آئے ہیں، کوئی جمع کے صیغے میں کہیں نہیں آیا، جبکہ جنت کا ذکر زیادہ تر جمع کے صیغے کے ساتھ آیا ہے۔ خود لفظ سعیر جہاں بھی آیا ہے، واحد کے صیغے میں آیا ہے، اس لیے ان دونوں جگہوں پر سُعُرٍ کو سعیر کی جمع ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جبکہ دوسرے قرائن بھی اس لفظ کو جنون کے معنی میں لینے کے حق میں ہوں۔
(۷۶) باء برائے سبب اور باء بطور صلہ میں اشتباہ
لفظ (بما) کبھی سبب کو بیان کرتا ہے تو کبھی محض صلہ کے طور پر آتا ہے، قرآن مجید میں دونوں اسلوب کثرت سے آئے ہیں، جیسے صلہ کی مثال ہے:
والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ۔ (البقرۃ: ۴)
اور سبب کی مثال ہے:
وَلَہُم عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ۔ (البقرۃ: ۱۰)
پہلی آیت میں (ب) یؤمنون کا صلہ ہے اور( ما) موصولہ ہے، جبکہ دوسری آیت میں (ب) عذاب کا سبب بیان کرنے کے لیے ہے اور( ما) مصدریہ ہے۔
لیکن بعض مقامات پر مترجمین کو اشتباہ ہوجاتا ہے اور (بما) سے ان کا ذہن سبب کی طرف چلاجاتا ہے حالانکہ وہاں صلہ کا محل ہوتا ہے۔ ذیل کی دونوں آیتوں کے ترجموں میں یہی ہوا، ذیل کی دونوں آیتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ مترجمین نے دونوں طرح سے ترجمہ کیا ہے، حالانکہ ترجمہ(ب) کوصلہ مان کر ہونا چاہئے تھا۔:
(۱) فَمَا کَانُواْ لِیُؤْمِنُواْ بِمَا کَذَّبُواْ مِن قَبْلُ۔ (الاعراف:۱۰۱)
’’پس نہ بودند کہ ایمان آرند بآنچہ بہ دروغ شمردند پیش ازیں‘‘۔(شیرازی)
’’پھر ہرگز نہ ہوا کہ یقین لاویں اس بات پر جو پہلے جھٹلاچکے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’تو وہ ایمان لانے والے نہ بنے بوجہ اس کے کہ وہ پہلے سے جھٹلاتے رہے تھے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
but they could not believe because they had before denied. (Pickthal)
(۲) فَمَا کَانُواْ لِیُؤْمِنُواْ بِمَا کَذَّبُواْ بِہِ مِن قَبْلُ۔ (یونس: ۷۴)
’’پس نبود قوم کہ ایمان آرند بہ سبب آنچہ بدروغ داشتند اورا پیش ازیں‘‘۔ (شیرازی)
’’سو ہرگز نہ ہوئے کہ یقین لاویں جو بات جھٹلاچکے پہلے سے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’لیکن وہ اس چیز پر ایمان لانے والے نہ بنے جس کو پہلے جھٹلاچکے تھے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
But they were not ready to believe in that which they before denied. (Pickthal)
غور طلب بات یہ ہے کہ شیرازی نے فارسی ترجمہ میں دوسرے مقام پر سبب کا ترجمہ کیا، اور پہلے مقام پر صلے کا ترجمہ کیا، جبکہ صاحب تدبر قرآن نے اس کے برعکس پہلے مقام پر سبب اور دوسرے مقام پر صلے کا ترجمہ کیا ہے۔ درست طریقہ شاہ عبدالقادر کا ہے، انہوں نے دونوں مقامات پر صلے کا ترجمہ کیا ہے۔ اسلوب میں یکسانیت کے باوجود دونوں مقامات کے ترجموں میں فرق کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے سبب کا ترجمہ غلطی سے ہوا ہے۔
(۷۷) افعل صرف صفت کے مفہوم میں
یوں تو افعل کا صیغہ عام طور سے تفضیل کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم کبھی کبھی وہ تفضیل کے مفہوم کے بجائے مبالغے کا یا صرف صفت کا مفہوم دیتا ہے، جس میں تفاضل نہیں بلکہ تقابل کا مفہوم ہوتا ہے، یعنی یہ نہیں بتانا ہوتا ہے کہ فلاں کے اندر یہ صفت فلاں کے مقابلے میں زیادہ پائی جاتی ہے، بلکہ یہ بتانا ہوتا ہے کہ جو دو فریق سامنے ہیں، ان میں سے صرف ایک میں یہ صفت پائی جاتی ہے اور اس کے بالمقابل دوسرے میں یہ صفت نہیں پائی جاتی ہے۔ بعض ترجموں میں اس کا لحاظ نہیں نظر آتا، اور جہاں موقع ومحل صفت کے ترجمہ کا تقاضا کرے وہاں بھی تفضیل کا ترجمہ کردیا جاتا ہے۔ ذیل کی مثالوں سے اسے سمجھا جاسکتا ہے:
وَإِذَا رَأَوْکَ إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ہُزُواً أَہَذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُولاً۔ إِن کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ آلِہَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَیْْہَا وَسَوْفَ یَعْلَمُونَ حِیْنَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِیْلاً۔ (الفرقان: ۴۱،۴۲)
’’اور جب بھی یہ تمھیں دیکھتے ہیں بس تمہیں مذاق بنالیتے ہیں، اچھا یہی ہیں جن کو اللہ نے رسول بناکر بھیجا ہے؟ اس شخص نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے برگشتہ ہی کردیا ہوتا اگر ہم ان پر جمے نہ رہتے۔ اور عنقریب جب یہ عذاب دیکھیں گے، جان لیں گے کہ سب سے زیادہ بے راہ کون ہے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
’’کہ کون زیادہ گمراہ تھا‘‘ (طاہر القادری)
سیاق کلام سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ کون زیادہ بے راہ ہے، بلکہ یہ بتایا جارہا ہے کہ کون گمراہ ہے اور کون گمراہ نہیں ہے۔
(مَنْ أَضَلُّ سَبِیْلاً) کے بعض درست ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’کون شخص بہت گمراہ ہوا ہے راہ سے‘‘۔(شاہ رفیع الدین)
’’کون بہت بچلا ہے راہ سے‘‘۔(شاہ عبدالقادر)
’’کہ کون شخص گمراہ ہے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’کہ کون گمراہ تھا‘‘۔ (احمد رضا خان)
قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلَی شَاکِلَتِہِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ أَہْدَی سَبِیْلاً۔ (الاسراء :۸۴)
’’کہہ دو کہ ہر ایک اپنی کاوش پر کام کرے گا تو تمہارا رب ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو صحیح تر راستے پر ہیں۔‘‘ (اصلاحی)
آیت کے زیر گفتگو حصے (بِمَنْ ہُوَ أَہْدَی سَبِیْلاً) کے بعض ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’جو زیادہ ٹھیک رستہ پر ہوا‘‘۔(اشرف علی تھانوی)
’’کون زیادہ راہ پر ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اس شخص کو کہ وہ بہت پانیوالا ہے راہ کو‘‘۔(شاہ رفیع الدین)
’’کون خوب سوجھا ہے راہ‘‘۔(شاہ عبدالقادر)
’’جو سب سے زیادہ سیدھے رستے پر ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
یہاں بھی محل موازنے اور تفضیل کا نہیں ہے، کیونکہ کوئی یا تو ہدایت پر ہوگا اور یا نہیں ہوگا، اول الذکر تینوں ترجموں میں موازنے اور تفضیل کا مفہوم لیا گیا ہے، جو درست نہیں ہے۔ سید مودودی نے یہاں تفضیل کے بجائے موازنے کے طور پر صفت کا ترجمہ کیا ہے، اور یہ ترجمہ درست ہے: ’’سیدھی راہ پر کون ہے"(سید مودودی)
(۷۸) أَفَمَن یَمْشِیْ مُکِبّاً عَلَی وَجْہِہِ کا مفہوم
أَفَمَن یَمْشِیْ مُکِبّاً عَلَی وَجْہِہِ أَہْدَی أَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیّاً عَلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ (الملک: ۲۲)
اس آیت کے مختلف ترجمے کئے گئے ہیں، اور وہ سب محل نظر ہیں،
’’کیا وہ جو اوندھے منہ چل رہا ہے راہ یاب ہونے والا بنے گا یا وہ جو سیدھا ایک سیدھی راہ پر چل رہا ہے؟‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’بھلا ایک جو چلے اوندھا اپنے منہ پر وہ سیدھی راہ پاوے یا وہ جو چلے سیدھا ایک سیدھی راہ پر‘‘۔(شاہ عبدالقادر)
’’سو کیا جو شخص منہ کے بل گرتا ہوا چل رہا ہووہ منزل مقصود پر زیادہ پہنچنے والا ہوگا، یا وہ شخص جو سیدھا ایک ہموار سڑک پر چلا جارہا ہو‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’تو کیا وہ جو اپنے منھ کے بل اوندھا چلے زیادہ راہ پر ہے یا وہ جو سیدھا چلے سیدھی راہ پر‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اچھا وہ شخص ہدایت والا ہے جو اپنے منہ کے بل اوندھا ہو کر چلے یا وہ جو سیدھا (پیروں کے بل) راہ راست پر چلے‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)
’’بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گر پڑتا ہے وہ سیدھے رستے پر ہے یا وہ جو سیدھے رستے پر برابر چل رہا ہو؟‘‘(فتح محمد جالندھری)
ان تمام ترجموں میں اس امر پر اتفاق نظر آتا ہے کہ آیت میں دو طرح سے چلنے کے طریقوں میں موازنہ ذکر کیا گیا ہے، ایک منہ کے بل اوندھا ہوکر چلنا اور دوسرا پیروں کے بل سیدھا ہوکر چلنا۔
اوندھے ہوکر منہ کے بل چلنے کا مفہوم لوگوں کے ذہن میں غالبا اس وجہ سے آیا کیونکہ انہوں نے(علی وجھہ) کو (مکبا) سے متعلق سمجھ لیا، اور اس سے منہ کے بل اوندھا ہونے اور اسی حال میں چلنے کا مفہوم پیدا ہوا جسے تصور کرنا اپنے آپ میں ایک مشکل امر ہے۔یہاں یہ بات یاد رہنا چاہئے کہ دو فریقوں میں اس پہلو سے تقابل نہیں ہے کہ کون سا فریق اس پوزیشن میں ہے کہ چل سکے اور کون سا فریق ایسی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہے کہ اس پوزیشن میں رہ کر ٹھیک سے نہیں چل سکے یا چل ہی نہیں سکے، بلکہ تقابل اس میں ہے کہ کون سا فریق چلنے کی ایسی پوزیشن میں ہے کہ منزل پر پہونچ سکتا ہے، اور کون فریق چلنے کی ایسی پوزیشن میں ہے کہ منزل پر پہونچ ہی نہیں سکتا ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ(علی وجھہ) کا تعلق (مکبا) سے نہیں ہے بلکہ (یمشی) سے ہے، (یمشی علی وجھہ) کا مطلب ہوتا ہے جدھر رخ ہوجائے چلتا چلا جائے، اور صرف (مکبا) کا مطلب ہوتا ہے سر جھکائے ہوئے، لسان العرب میں (رجل مکب) کا مطلب بتایا گیا ہے: کَثِیرُ النَّظَرِ الی الأَرض۔ زمین کی طرف زیادہ دیکھنے والا۔ مزید برآں (مکبا) کے مقابلے میں (سوی) کا مطلب ہوتا ہے سر اٹھائے ہوئے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ (علی وجھہ) دراصل (علی صراط مستقیم) کے مقابلے میں ذکر کیا گیا ہے، ان ساری باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا امانت اللہ اصلاحی پوری آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں:
’’کیا وہ جو سر جھکائے جدھر رخ ہوجائے چل پڑے راہ یاب ہونے والا بنے گا یا وہ جو سر اٹھاکر ایک سیدھی راہ پر چل رہا ہے‘‘۔
سید مودودی کے ذیل کے ترجمے میں (سویا) کا مفہوم درست بتایا گیا ہے، لیکن (مکبا)، (علی وجھہ) اور (أھدی) کا ترجمہ درست نہیں ہے۔
’’بھلا سوچو، جو شخص منہ اوندھائے چل رہا ہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہا ہو؟‘‘(سید مودودی)
آیت زیر بحث میں (أھدی) کا ترجمہ بھی توجہ طلب ہے، جن لوگوں نے زیادہ کہہ کر تفضیل کا مفہوم ادا کیا ہے وہ درست نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ (أھدی) یہاں بطور صفت تقابل کے مفہوم کے ساتھ استعمال ہوا ہے، یعنی یہ سوال زیر غور نہیں ہے کہ کون زیادہ ہدایت پر ہے اور کون کم ہدایت پر ہے، بلکہ تقابل اس پہلو سے ہے کہ کون ہدایت پر ہے اور کون ہدایت پر نہیں ہے۔
(۷۹) اللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ کا مفہوم
لفظ (وکیل) قرآن مجید میں مختلف معنوں میں آیا ہے، تاہم اس کا اول ترین معنی ہے، وہ ذات جس پر بھروسہ کیا جائے۔ حسبنا اللہ ونعم الوکیل کا مطلب ہے ’’اللہ ہمیں کافی ہے اور وہ بھروسہ کرنے کے لیے کیا ہی بہترین ہستی ہے‘‘۔
قرآن مجید میں دو مقامات پر اللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ آیا ہے، اس کے مختلف ترجمے کیے گئے ہیں، لیکن ان دونوں مقامات پر اس لفظ کے اصل مفہوم کی طرف کم لوگوں کا ذہن گیا ہے، عام طور سے گواہ اور نگہبان کا مفہوم اختیار کیا گیا ہے، جبکہ مناسب ترین مفہوم وہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا یعنی وہ ذات جس پر بھروسہ کیا جائے۔
(۱) قَالَ لَنْ أُرْسِلَہُ مَعَکُمْ حَتَّی تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِّنَ اللّٰہِ لَتَأْتُنَّنِیْ بِہِ إِلاَّ أَن یُحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّا آتَوْہُ مَوْثِقَہُمْ قَالَ اللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ۔ (یوسف: ۶۶)
’’اس نے جواب دیا کہ میں اس کو تمہارے ساتھ ہرگز نہ بھیجوں گا جب تک تم مجھ سے خدا کے نام پر یہ عہد نہ کرو کہ تم اس کو میرے پاس ضرور واپس لاؤگے الا آنکہ تم کہیں گھر ہی جاؤ۔ تو جب انھوں نے اس کو اپنا پکا قول دے دیا، اس نے کہا جو قول وقرار ہم کر رہے ہیں اللہ اس کا نگہبان ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
متعلقہ ٹکڑے کے کچھ اور ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’کہا اللہ اوپر اس چیز کے کہ کہتے ہیں ہم کارساز ہے‘‘۔(شاہ رفیع الدین)
’’بولا ذمہ اللہ کا ہے جو باتیں ہم کہتے ہیں‘‘۔(شاہ عبدالقادر)
’’تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ جو کچھ بات چیت کررہے ہیں یہ سب اللہ ہی کے حوالے‘‘۔(اشرف علی تھانوی)
’’دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے‘‘۔(سید مودودی)
’’کہا کہ جو قول وقرار ہم کر رہے ہیں اس کا خدا ضامن ہے‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’جو ہم کہہ رہے ہیں اللہ کے بھروسے پر کہہ رہے ہیں‘‘۔
(۲) قَالَ ذَلِکَ بَیْْنِیْ وَبَیْْنَکَ أَیَّمَا الْأَجَلَیْْنِ قَضَیْْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّ وَاللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ ۔ (القصص: ۲۸)
’’اس نے جواب دیا کہ یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہے۔ دونوں میں سے جو مدت بھی پوری کردوں تو اس معاملے میں مجھ پر کوئی جبر نہ ہوگا اور اللہ ہمارے اس قول وقرار پر جو ہم کررہے ہیں گواہ ہے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
متعلقہ ٹکڑے کے کچھ اور ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’اور اللہ اوپر اس چیز کے کہ کہتے ہیں کارساز ہے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’اور اللہ پر بھروسا اس کا جو ہم کہتے ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور ہم جو (معاملہ) کی بات چیت کررہے ہیں اللہ تعالی اس کا گواہ (کافی) ہے‘‘۔(اشرف علی تھانوی)
’’اور جو کچھ قول قرار ہم کر رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے‘‘۔(سید مودودی)
’’اور ہم جو معاہدہ کرتے ہیں خدا اس کا گواہ ہے‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’اللہ پر بھروسہ ہے ہمیں اس قول وقرار میں جو ہم کررہے ہیں‘‘۔
گویا جس طرح ہم توکلنا علی اللہ کہتے ہیں، اسی طرح اللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ بھی توکل کے اظہار کی ایک خوب صورت قرآنی تعبیر ہے، اور جب دو فریق کسی کام کو کرنے کا باہم معاہدہ کرتے ہیں تو اس تعبیر کی ادائیگی اس معاہدے میں اللہ کے توکل کی ایک کیفیت کا اضافہ کردیتی ہے۔ امام زمخشری لکھتے ہیں: الوکیل: الذی وکل الیہ الأمر۔
(جاری)
اسلام عصری تہذیبی تناظر میں ۔ ممتاز دانشور جناب احمد جاوید کا فکر انگیز انٹرویو (۱)
اے اے سید
(کراچی کے معروف جریدہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ نے ۲؍ جنوری کی اشاعت میں ملک کے ممتاز مفکر اور دانش ور جناب احمد جاوید کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس کے مندرجات کی اہمیت اور بلند فکری سطح کے پیش نظر مذکورہ جریدہ کے شکریہ کے ساتھ اسے ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
فرائیڈے اسپیشل: آپ کی شخصیت اور فکر مذہب، فلسفے، ادب اور تصوف سے متعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کا اصل تشخص کیا ہے؟ یعنی آپ اپنے آپ کو کیا کہلوانا پسند کرتے ہیں؟
احمد جاوید: یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ میں خود کو ایک مفید مسلمان کہلوانا یا بنانا پسند کرتا ہوں۔ میرے ذہن میں آدمی کا اصل تشخص وہ ہوتا ہے جو اُس کے ذہن میں ترجیح کے طور پر ہو۔ اس سوال کا اگر میں بے تکلفی سے جواب دوں تو وہ یہ ہے کہ میرے ذہن میں خود میری پہچان صوفی، ادیب وغیرہ کے عنوان سے نہیں ہے، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ ’’اللہ سے تعلق کی نسبت پر تشخص کے تمام زاویے تیار ہوجائیں‘‘۔ اپنی ذات کے لیے یہ میرا وہ آئیڈیل تشخص ہے جسے میں اپنے عمل اور خیالات سے حاصل کرنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہوں کہ بندگی میرا تشخص بن جائے۔ اور آدمی کے تشخص میں اس کے نظام تعلق کا بہت دخل ہوتا ہے، اس کا بہت حصہ ہوتا ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ جس نظام تعلق میں انسان کو پیدا کیا گیا ہے میرے لیے اس نظام تعلق کا زندہ مرکز، اللہ کے ساتھ میرا تعلق بنے۔ میں اپنا مطلوبہ تشخص تو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکوں لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا اصل تشخص شخصیت کے مستقبل میں ہوتا ہے، شخصیت کے حال میں نہیں۔ اس لیے میرا مطلوبہ تشخص تو یہ ہے کہ اللہ سے میرا تعلق، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ حق میرا بنیادی تناظر بن جائے، اور اس تناظر سے میں خود کو اور اپنی دنیا کو دیکھنے کی عادت ڈالوں۔ لیکن اگر آپ عملی تشخص پوچھ رہے ہیں تو میں ایک عام آدمی ہوں، جس کی کچھ میدانوں میں تھوڑی بہت کچھ صلاحیتیں ہیں، لیکن مجھے عام آدمی بن کر رہنا پسند ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت کے بارے میں کچھ بتائیں اور یہ فرمائیں کہ آپ کی فکر کی تشکیل میں کن شخصیات اور عوامل کا زیادہ اور اہم کردار رہا ہے؟
احمد جاوید: یہ اللہ رب العزت کی بڑی مہربانی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری زندگی میں معنویت پیدا کرنے کا سارا سہرا میرے استادوں اور دوستوں کے سر جاتا ہے۔ ادب میں سلیم احمد میرے مربی، میرے معلم رہے۔ اسی طرح ایک اور شخصیت ہے جن سے میں شاگردی کا دعویٰ تو نہیں کرتا، ہاں البتہ استفادہ کی بات کرسکتا ہوں، ان کا میری شخصیت اور فکر پر غالباً سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ وہ مولانا ایوب دہلویؒ ہیں۔ اسی طرح کراچی کے ایک شاعر تھے رئیس فروغ صاحب، وہ میرے بزرگ اور دوست تھے۔ اگر میری شخصیت میں کچھ ادبی عناصر موجود ہیں تو وہ سلیم احمد، قمر جمیل اور رئیس فروغ کی صحبتوں کی وجہ سے ہیں، اور محمد حسن عسکری کو جم کر شوق سے پڑھنے کے نتیجے میں۔ باقی یہ کہ اگر میری شخصیت میں کوئی مذہبی عناصر ہیں تو ان کا دارومدار مولانا ایوب ؒ کے ساتھ اس تعلق پر ہے جو اُن کے لیے میں محسوس کرتا ہوں۔ مولانا ایوب تو بہت پہلے فوت ہوگئے تھے لیکن سلیم احمد کے ساتھ برسوں تعلق رہا، رئیس فروغ صاحب اور قمر جمیل کے ساتھ برسوں کا تعلق تھا۔ میرا تعلق کراچی سے ہی ہے اور 1980ء میں مَیں نے کراچی چھوڑا۔
فرائیڈے اسپیشل: جیسا کہ آپ نے بتایا، آپ کی مذہبی فکر کے سلسلے میں مولانا ایوب دہلویؒ اور ادبی تربیت کے سلسلے میں حسن عسکری اور سلیم احمد کا کردار ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان شخصیتوں کی ہماری اجتماعی زندگی میں اہمیت کیا ہے؟
احمد جاوید: محمد حسن عسکری اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ اس بات پر شبہ کرنے والا ادب اور تنقید سے نابلد ہے۔ عسکری صاحب نے ادب کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ عسکری صاحب نہ ہوتے تو ہمارا ادب وہ اصول دریافت نہ کرپاتا جس کی بنیاد پر ادب خودمختار اور خودکفیل حیثیت سے خود کو استوار اور قائم رکھ سکتاہے۔ ادب کی پوری روایت میں یہ عسکری صاحب کا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ وہ نہ ہوتے تو ہم ادب کو خالص ادبی معیار پر پرکھنے کے اصول حاصل نہ کرپاتے۔ وہ جامع الکمالات شخص تھے، ان پر گفتگو کے لیے بہت وقت چاہیے۔ سلیم احمد، عسکری صاحب کے شاگردِ رشید تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ عسکری صاحب کے جانشین تھے۔ سلیم احمد عسکری اسکول کے سب سے بڑے آدمی تھے۔ سلیم احمد نے عسکری صاحب کے ادبی اصول کو قبول کرکے انہیں عملی تنقید کا حصہ بنانے میں جو بے مثل کامیابی حاصل کی اس نے بھی خصوصاً ہماری ادبی تنقیدی روایت پر بہت اثر ڈالا۔ سلیم احمد ایک اعتبار سے عسکری اسکول کو پھیلانے والی سب سے بڑی قوت کا نام ہے۔ لیکن چونکہ سلیم بھائی کے شعبے زیادہ تھے، وہ میڈیا سے متعلق بھی تھے، ڈراما نگاری بھی کرتے، ریڈیو، ٹی وی اور تھیٹر کے ڈرامے بھی لکھتے تھے، اخبار میں کالم نگاری بھی کرتے تھے، تو ان کے ہاں موضوعات زیادہ ہیں۔ اپنی ہر حیثیت میں سلیم احمد نے ایک پرنسپل کو ملحوظ رکھ کر دکھایا۔ وہ پرنسپل یہ ہے کہ سیاست سے لے کر ادب تک میں ہماری تہذیب کے بنیادی اصول حاکمانہ حیثیت سے باقی رہنے چاہئیں۔ سلیم احمد نے ادب اور تنقید وغیرہ میں ایک ضروری مقصدیت جو درکار ہوتی ہے وہ اپنی شاعری سے بھی اور اپنی تنقید سے بھی پیدا کرکے دکھائی۔ ان کی شخصیت کا دوسرا بڑا پہلو ان کا شاعر ہونا ہے۔ وہ بہت زبردست شاعر تھے۔ ہم اپنے ذوق اور فہم کی کمی، یا اپنے تہذیبی اضمحلال کی وجہ سے ان کی شاعری کی معنویت کو نہیں سراہ پائے۔ ان کی شاعری اپنی تہذیب کے انہدام کا نوحہ ہے، اور ان کی تنقید اپنی تہذیب کی تعمیرنو کا عمل ہے۔ یہ تھے سلیم احمد۔
رہی بات مولانا ایوب دہلوی کی، تو بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہماری روایت کے آخری متکلم تھے۔ ان کے زیادہ موضوعات کلامی تھے، معقولی تھے۔ اگر کبھی متکلم کی حیثیت سے ان کا جائزہ لیا گیا تو وہ ہماری علم الکلام کی روایت میں سب سے آگے کے لوگوں میں شمارکیے جائیں گے۔ مذہبی فکر کے جو مسائل لاینحل چلے آرہے تھے ان میں ایک مسئلہ جبر و قدر تھا۔ اس طرح کے مسائل کو مولانا ایوب دہلوی صاحب نے اس طرح حل کیا کہ ان کی مسلسل جو دشواری پڑھنے یا سننے والے کی نظر سے غائب ہوگئی۔ عقل اپنے آپ کو پورے کا پورا ایمان کے تابع رکھنے کا ارادہ رکھنے کے باوجود اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے عاجز رہ جائے تو جو شخص عقل کی اس نارسائی کو دور کرے گا وہ اصل میں متکلم ہوگا۔ متکلم کہتے ہی اسے ہیں جو عقل کے ایمانی کردار کو اس کے دیگر وظیفوں پر غالب رکھ کر دکھا دے۔ مولانا ایوب دہلوی گزشتہ سو، دو سو برس کی روایت میں شاید سب سے بڑا مذہبی ذہن ہیں، جنہوں نے عقل کی نارسائی کا ازالہ کیا اور عقل کو ایمانی بننے کے لیے جن دلائل کی ضرورت تھی، وہ دلائل فراہم کیے۔ لیکن افسوس، چونکہ بڑے موضوعات سے ہماری مناسبت ختم ہوچکی ہے اور مولانا کے مخاطبین معمولی لوگ تھے اور اس کے بعد اس معمولی پن میں اضافہ ہوتا چلا گیا، تو اب تو نہ کسی کو جبر و قدر مشکل محسوس ہوتا ہے، اور نہ آسان۔۔۔ کیونکہ وہ اس سے واقف ہی نہیں ہے۔ اس کا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے ان کی تعریف و توصیف سامنے نہیں آسکی، ورنہ اگر وہ اچھے زمانوں میں پیدا ہوتے تو ان کا درجہ اُن متکلمین جیسا ہوتا جو مشکلات کو حل کرنے کی ضمانت ہوتے ہیں۔ مولانا پر مجھے یہ اعتماد رہا ہے اور ہے کہ ایمانیات میں، عقل کی ہر مشکل میں، اسے قائل کرنے کی جیسی قوت اُن میں تھی وہ میں نے کسی کی تحریر میں دیکھی نہ تقریر میں۔ یہ ان کا امتیاز تھا۔ شخصیت کے اعتبار سے وہ بہت بڑے آدمی تھے، یعنی بلند کردار اور عمیق علم کو اگر ایک شخص میں جمع دیکھنا ہے تو جب تک آپ مولانا ایوب دہلوی کو دیکھیں یہ تھے مولانا ایوب دہلویؒ ۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے جس انحطاط کا ذکر کیا ہے اُس کے اسباب کیا ہیں؟
احمد جاوید: ہمارا جو سب سے بڑا اجتماعی مرض یا اُم الامراض ہے وہ یہ ہے کہ ہم گھٹیا لوگ بن کر رہ گئے ہیں۔ ذوق میں، فہم میں، ذہن میں، اخلاق میں۔۔۔ ہر معاملے میں ہم اوسط سے نیچے ہیں۔ یہ ہمارے انحطاط کا سب سے بڑا سبب ہے، اور اسی سے ذہنی اور اخلاقی انحطاط پیدا ہوا ہم بہت چھوٹے لوگ ہیں اور اس چھوٹے پن کو دور کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔ ہم بہت معمولی لوگ ہیں اور اس معمولی پن سے نکلنے کی کوئی طلب نہیں رکھتے۔ معمولی پن پیدا ہوجانا مرض ہے۔ معمولی پن پر راضی ہوجانا موت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: قحط الرجال ہے کہ نہ کوئی بڑا ادیب پیدا ہورہا ہے، نہ بڑا شاعر پیدا ہورہا ہے۔ علماء کے شعبہ میں بھی بہت اچھی صورت حال نہیں ہے۔آپ کے خیال میں یہ حالات کس طرح ختم ہوسکتے ہیں؟
احمد جاوید: بڑے لوگ کیوں نہیں پید ا ہورہے؟ اس کا سبب میں نے بتادیا۔ خواہ شاعری ہو یا دین، دونوں جگہ یہی صورت حال ہے۔ ہم جب تک اپنی کمزوریوں کی ذمہ داری غیروں پر ڈالتے رہیں گے اُس وقت تک ہم ان کمزوریوں سے نہیں نکل سکتے۔ پھر آپ کا پورا نظام تعلیم عمومی لوگ پیدا کرنے کی مشین ہے، کیونکہ ہر تہذیب کا ایک ذہن ہوتا ہے جو اس کے نظام تعلیم سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر کسی معاشرے یا سماج کا نظام تعلیم اس کے اپنے تصورِ علم سے مناسبت نہ رکھتا ہو اور مانگے تانگے پر مبنی ہو، تو ظاہر ہے کہ اس تعلیم سے اس تہذیب کے اجتماعی شعور تقویت کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا۔ہر تہذیب کا ایک اجتماعی شعور، ایک اجتماعی قلب اور ایک اجتماعی ارادہ ہوتا ہے۔ اجتماعی شعور کو حالتِ تسکین، حالتِ سیرابی بلکہ حالتِ نمو میں رکھنے کے لیے وہ تہذیب اپنا نظام تعلیم بناتی ہے۔ اسی طرح ہر تہذیب کا ایک اجتماعی ارادہ ہوتا ہے جو اس کی مراد کو پہنچانے میں مددکرتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی تہذیب اپنی اوریجنل مراد سے دست بردار ہوکر دوسروں کے مقاصد کو اپنا مقصد بنانے کا فیصلہ کرلے تو اس کا وہ اجتماعی، فطری ارادہ جو اس کی اپنی مراد سے مناسبت رکھنے کی حالت ہی میں عمل میں آسکتا تھا، وہ معطل ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ تخلیقی اعمال بجا نہیں لاسکتے۔ آپ بڑے مقاصد کو حاصل کرنے والی اجتماعی محنت نہیں کرسکتے، وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح ایک اجتماعی قلب ہوتا ہے جو اس تہذیب کے محبت اور نفرت اور اس تہذیب کے احساسات اور جذبا ت کو ایک خاص ہیئت، رنگ اور حالت میں رکھتا ہے۔ ہر تہذیب اپنا نظام احساسات رکھتی ہے۔ اگرتہذیب اپنے نظام احساسات سے خالی اور غیر مطمئن ہوجائے تو ا س کا قلب دھڑکنا بند کردیتا ہے۔ اس کا قلب معطل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان تین سطحوں پر اگر دیکھیں تو نظر یہ آتا ہے کہ ہم ان تینوں سطحوں پر بانجھ پن کا شکار ہیں۔ اب ہم یہ کہنے کے لائق نہیں ہیں کہ یہ رہا ہماری تہذیب کا اجتماعی ذہن اور یہ اس کے افکار و اقدار۔یہ رہی ہماری منزل، اور یہ رہی ہماری پسند و ناپسند۔۔۔ اور ہم اس قدر سے وفادار ی رکھتے ہوئے چیزوں کو پسندو نا پسندکرتے ہیں۔ تو جس تہذیب کے اندر اس کی آبیاری، اس کی نگہداشت کا نظام ختم ہوجائے، اس تہذیب کی باطنی قوت کو طاقت فراہم کرنے والا نظام تعلیم کی شکل میں، نظام اخلاق کی شکل میں،نظام انصا ف کی شکل میں وغیرہ وغیرہ، تو پھر وہ تہذیب بڑا آدمی پیدا کرنے سے معذور ہوجاتی ہے۔ بڑا آدمی کہتے ہیں اپنی تہذیب کے ذہن اور قلب کا مظہر بن جانے والے کو۔ اس لیے جس تہذیب کے اندر خلا پیدا ہو جائے گا وہ پھر خالی لوگ ہی پیدا کرے گی، اس لیے ہم اس بحران میں مبتلا ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کا اس کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے فرمایا کہ بلحاظِ نظام تعلیم، نظام اخلاق اور نظام انصاف ہم بانجھ پن کا شکار ہیں۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تبدیلی کے حوالے سے تین قسم کے ماڈل ہمارے سامنے آئے ہیں۔ ان میں اول تبلیغی جماعت کا ماڈل ہے، دوسرا ماڈل جمہوریت کا ہے، تیسرا ماڈل یہ ہے کہ آپ کے پاس طاقت ہو اور اس کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے خلافت قائم کرلیں۔ آپ ان ماڈلز کو کس طرح دیکھتے ہیں اور کیا کوئی چوتھا طریقہ یا ماڈل بھی موجود ہے جس کے ذریعے تبدیلی آسکتی ہے؟
احمد جاوید: دیکھیے اتفاق یہ ہے، بلکہ اتفاق کیا شاید ہم سب کا یہ مشاہدہ ہے کہ یہ تینوں ماڈل (یعنی تبلیغی جماعت، جمہوریت اور طاقت سے خلافت قائم کرنے کے خواہش مند) اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرلینے کے باوجود بے اثر، بے نتیجہ اور ناکام ہیں۔ اس وقت دنیا کے کسی بھی مذہب میں تبلیغی جماعت سے بڑا دعوتی نیٹ ورک نہیں، لیکن اس کے کام کا مسلمانوں کے اجتماعی وجود پر کوئی اثر نہیں پڑا اور مسلم زندگی کو چلانے والے نظام کی تبدیلی کی شکل میں نظر نہیں آتا۔ ہم اسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بڑے دائرے میں ناکام ہے، چھوٹے چھوٹے دائروں میں کامیاب ہے۔ اسی طرح دین کی سیاسی تعبیر کرکے غلبہ دین کی وہ جدوجہد جس میں جمہوریت کو ذریعہ مان لیا گیا ہے، جسے آج کل کی اصطلاح میں مذہبی سیاسی جماعتیں کہتے ہیں، یہ جماعتیں مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکی ہیں۔ مثال کے طور پر اس کا بڑا اور شاید سب سے مضبوط نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس ایک بڑی فکر بھی ہے، کارکنوں کا اخلاص اور عمل کی قوت بھی ہے۔ جو ایک سیاسی جماعت کی خوبیاں ہوسکتی ہیں وہ ان کے پاس ہیں۔ ان کا ایک بیانیہ بھی ہے، اس بیانیے کو عمل میں لانے کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کی فوج بھی موجود ہے، اور اپنی جماعت کو بچانے والا ایک فیئر ڈسپلن بھی حاضر ہے، مگر یہ سب خوبیاں رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی پہلے دینی شناخت یا تشخص رکھنے میں کامیاب ہوئی، اس کے بعد اس میں غائب ہوگئی۔ سیاسی وجود یا شناخت کچھ حاصل ہوئی، لیکن اب سیاست سے بھی غائب ہوگئی ہے۔ اب موجودہ صورت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی نہ کوئی دینی وقعت رہ گئی ہے، نہ سیاسی اہمیت۔ یہ گویا ایک ماڈل کی مکمل ناکامی کا ایک نمونہ ہے۔
اور تیسرا ماڈل جس کا آپ نے ذکر کیا کہ غلبہ بذریعہ طاقت برائے قیام خلافت، تو یہ desperation میں اٹھی ہے، یہ گویا احتجاج میں اٹھی ہے، یہ پچھلے دو ماڈلز کی مسلسل اور مکمل ناکامی کے مشاہدے سے پیدا ہوئی ہے، کیونکہ یہ ردعمل ہے۔ ہر زمانے میں عالمگیر سطح پر تبدیلی کا ایک میکنزم ہوتا ہے جس کی حق اور باطل دونوں کے ترجمانوں کو پابندی کرنا پڑتی ہے۔ یہ جو تیسرا گروپ ہے، ان کا المیہ یہ ہے کہ جو موجودہ Universal mechanics of change ہیں، ان سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ایک عالمگیر مزاج کی تبدیلی اور نظام کی تبدیلی سے خود کو بالکل لاتعلق رکھ کر دنیا میں تبدیلی لانے کا خواب دیکھنا گویا ناممکن کو ممکن فرض کرلینا ہے۔ جو عسکریت پسند جماعتیں ہیں یا خلافت کے قیام کی پُرامن جدوجہد کرنے والی تحاریک ہیں، یہ دونوں اپنے زمانے کی روح سے لڑرہی ہیں اور روحِ عصر سے لڑائی کامیاب نہیں ہوتی۔ اسلام نے غلامی وغیرہ کے رد میں خود بھی یہ کچھ نہیں کیا۔ کیونکہ جمہوریت پوری دنیا کے اجتماعی لاشعور کا عقیدہ بن چکی ہے، اب اس سے بلاوجہ کی لڑائی چھیڑ کر لوکل تبدیلی لانے کے لیے پوری دنیا کو اس کی اساس سے ہٹانے کی کوشش کرنا ایک ناسمجھی کا کام ہے۔ یہ ایسا کام ہے کہ ذہن میں آتے ہی ناکام ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس پر جو عمل ہورہا ہے، افسوس کہ وہ عسکریت پسندی کی شکل میں ہورہا ہے۔ عسکریت پسندی جو ہے، وہ قدیم زمانے کی بناوٹ کے مطابق تو تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی تھی، لیکن جدید دنیا کی ساخت یہ ہے کہ کسی گروپ کی عسکریت پسندی سوشل یا ریاستی سطح کے چیلنج کا باعث کبھی نہیں بن سکتی اور نہ کبھی بنی ہے۔ اس لیے جو لوگ عسکریت میں ملوث نہیں مگر ان کے مقاصد سے متفق ہیں، ان کے لیے یہ ایک المیہ بھی ہے۔ دوسرا یہ ایک دہشت کا سا تصور ہے کہ آپ اپنے تصور میں کھلے ہوئے پھول کو باہر کی زمین میں اگانے کے لیے اس زمین میں آگ لگا رہے ہیں اور پہلے سے کھلے ہوئے پھولوں کو پاؤں تلے روند رہے ہیں۔ یہ بہت پست ذہنی اور کمی کی علامت ہے۔
میرے خیال میں ہمیں حقیقت میں جس ماڈل کی ضرورت ہے وہ بنیادی طور پر تو دعوتی ہے۔ اس میں کچھ طاقتور عناصر ظاہر ہے کہ سیاسی ہوں گے۔ تو دعوت اور سیاست کو ملا کر معاشرے کو اپنی بنیادی اقدار پر ری اسٹرکچر کرنے کی کوشش کرنا ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری جو غالب مذہبی قوتیں ہیں وہ ریاستی اسٹرکچر میں تبدیلی لانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں بہ نسبت معاشرتی دروبست میں انقلاب لانے کے، جبکہ انسانوں میں دیرپا انقلاب کی ہر قسم فرد سے شروع ہوتی ہے، معاشرے میں اپنے حق پر ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور معاشرے کی تبدیلی کے نتیجے میں ریاستی نظام خودبخود بدلنے لگتا ہے۔ تو ہمارے یہاں معاشرے کو بدلنے کا کوئی مربوط تصور موجود نہیں ہے۔ فرد کو بدلنے کا تصور ہے جسے تبلیغی جماعت بہت اچھی طرح استعمال کررہی ہے۔ لیکن یہ مسلم معاشرہ کسے کہتے ہیں؟ مسلم معاشرے کے قیام کو اپنا مقصد بناکر اس کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کرنا، اس کی تحریک چلانا، یہ دستیاب مذہبی جماعتوں کا موضوع یا مقصد نہیں ہے جو میرے خیال میں ایک بہت بڑی کمی ہے۔ اب اگر ہماری تہذیب یعنی مسلم تہذیب کی تجدید یا بقا کا کوئی بھی کام ہوگا تو وہ اپنی صورت اور معنویت میں معاشرتی ہوگا، سیاسی یا ریاستی نہیں ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا آپ کے خیال میں پاکستان میں اسلامی نظام کے لیے کام کرنے والی جماعت یا جماعتیں ناکام ہوگئی ہیں؟ تو پھر تبدیلی کیسے آئے گی، جماعتوں میں اصلاحات کے ذریعے؟ یا پھر کسی نئی جماعت یا تحریک کی ضرورت ہے؟
احمد جاوید: یہ ثانوی باتیں ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دینی جماعتیں اپنے اندر بنیادی اور مؤثر تبدیلی لائیں۔ جیسے مسلم لیگ۔ جس مسلم لیگ نے پاکستان بنایا ہے، یہ پہلے جاگیرداروں کا کلب تھا، اس نے خود کو بدل کر پاکستان بنایا تھا۔ لیکن یہ ثانوی باتیں ہیں کہ یہ خود کو بدلیں یا اس کی جگہ نئی جماعت بنائیں، دونوں صورتوں میں نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔ اصل میں سب سے زیادہ ضروری یہ سمجھنا ہے کہ دین کس طرح کی اجتماعیت ہم سے طلب کرتا ہے۔ اس طلب کو درست انداز میں سمجھ کر اسے اپنی ذہنی اور اخلاقی قوتوں سے عمل میں لانا۔۔۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ مسلم معاشرے کا اگر ایک نمونہ بھی مسلمان پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ان پر مغرب کی یلغار ہی نہیں رک جائے گی بلکہ مغرب میں اسلام پھیلنا شروع ہوجائے گا۔ کیونکہ مغرب کو ایک روحانی معاشرے کی پیاس لگی ہوئی ہے جو وہاں کے حساس اور ذہین طبقات محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم روحانی بنیادوں پر ایک فلاحی اور انسانی معاشرہ بناکر دکھادیں تو مغرب ایک گولی چلائے بغیر فتح ہوسکتا ہے۔ لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم اس کو تو روتے ہیں کہ عالم اسلام میں کوئی حکومت اسلامی نہیں ہے، لیکن اس طرف نظر نہیں کرتے کہ عالم اسلام میں کوئی معاشرہ اسلامی ہے یا نہیں؟ ہمیں اس بات کی کسک محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت عالم اسلام میں کوئی ایک معاشرہ بھی اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ معاشرے میں تبدیلی آجائے تو ریاست میں خود بخود آجاتی ہے۔میرے خیال میں تبدیلی کا یہ نظریاتی طریقہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: عالم اسلام میں کئی اسلامی تحریکیں کام کررہی ہیں، آپ ان کی جدوجہد کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
احمد جاوید: سب کی خامیاں ایک جیسی ہیں۔ اخوان المسلمون ہے، الجزائر کی اسلامک فرنٹ ہے وغیرہ وغیرہ، جو بھی سیاسی جدوجہد کرنے والی جماعتیں ہیں، وہ ایک جیسی ہیں۔ وہ سب نظام بدلنے کی بات کرتی ہیں۔ جبکہ تبلیغی جماعت کے مقابلے میں دعوتی جماعتیں بہت کم ہیں اور چھوٹی ہیں۔ تو اس میں ہمیں اسی ماڈل کو سامنے رکھ کر عالم اسلام کی دعوتی فضا پر اپلائی کرنا ٹھیک لگتا ہے۔ ہمارے ہاں دین کی دعوت کا ایک نظام ہے، دین کو دعوت بنانے کی ایک تحریک ہے، اور یہ دونوں ناکام ہیں۔ پورے عالم اسلام میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے کہ کوئی مذہبی، اسلامی سیاسی تحریک کامیاب ہوئی ہو۔
فرائیڈے اسپیشل: اب ہم ادب سے متعلق کچھ گفتگو کرلیتے ہیں۔ ادب کے دائرے میں مختلف نکتہ ہائے نظر موجود ہیں۔ کچھ لوگ ادب برائے ادب کے قائل ہیں، کچھ لوگ ادب برائے مقصدیت کے قائل ہیں۔ آپ کی نظر میں ایک انسانی معاشرے میں ادب کا حقیقی کردار اور اس کی اہمیت کیا ہے؟
احمد جاوید: اب یہ سوال موجود ہی نہیں ہے کہ ادب برائے زندگی ہوتا ہے کہ ادب برائے ادب ہوتا ہے۔ وہ تنازع کی فضا گزر چکی ہے۔ اب وہ ہمارا ماضی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اشتراکیت اور جدیدیت سے پیدا ہونے والی تحریک میں تصادم کی فضا تھی۔ اشتراکی کہتے تھے کہ ادب مقصد کے تحت ہوتا ہے، جبکہ جدیدیت پسند کہتے تھے کہ نہیں ادب کا مقصد ادب ہی ہوتا ہے۔ یعنی ادب ایک جمالیاتی مشغلہ ہے، اس کا کوئی سیاسی اور اخلاقی پہلو نہیں ہوتا۔ وہ دور اب گزر گیا۔ آج کے ادیب کو ان دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔اب فضا یہ ہے کہ ادب زندگی میں انسان کی داخلی اور خارجی صورت حال میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے: اگر میرا جمالیاتی شعور اور احساس نظرانداز ہوجائے تو میرے شعور اور میرے وجود میں ایک بنیادی نقص رہ جائے گا۔ یعنی یہ کہ آپ کا مذہبی شعور بھی بہت پختہ ہو، آپ کا عقلی شعور بھی بہت پختہ ہو، آپ کا اخلاقی شعور بھی بہت پختہ ہو لیکن آپ چیزوں کو خوبصورتی اور بدصورتی میں تقسیم اور اس کا فیصلہ نہ کرسکتے ہوں تو گویا آپ کا ادراک اور آپ کی سطح وجود کم تر ہے۔ جمالیاتی شعور یعنی چیزوں کو خوبصورتی اور بدصورتی کے تناظر میں دیکھنا اور ان میں فرق کرنا، جیسے عقل کرتی ہے کہ یہ صحیح ہے اور یہ غلط ہے، یہ مفید ہے یا مضر ہے۔ مذہبی شعور کہتا ہے کہ حق ہے یا باطل ہے، یہ حلال ہے یا حرام ہے۔ اخلاقی شعور کہتا ہے کہ یہ بھلا ہے یا برا ہے، خیر ہے یا شر ہے۔ یہ سب ان کے وجودِ کار ہیں۔
تو اگر ہم حق و باطل، حلال و حرام، مفید و مضر اور خیر و شر تک ہیں تو ہم تعمیر ہوئے۔ لیکن چیزیں اپنا جمیل ہونا اور بدصورت ہونا میرے اندر پیدا نہ کریں تو ان چیزوں کے بارے میں میرا فہم، ان چیزوں سے میرا تعلق ناقص رہ جائے گا۔ اور میری عقل نے ان چیزوں کا جس طرح ادراک کیا ہے اس میں کمی رہ جائے گی۔ یعنی میری عقل بھی سیرابی کے تجربے سے محرو م رہ جائے گی، میری مذہبیت بھی اطمینان کے تجربے سے خالی رہ جائے گی، میرے اخلاق بھی دل کی نرمی سے، دل کی حرارت سے منقطع حالت میں رہ جائیں گے۔ تو گویا جمالیاتی شعور اور طرزِ احساس کی یہ اہمیت ہے کہ یہ انسان کے شعور اور وجود دونوں کی تکمیل میں لازمے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اگر یہ کمزور یا معدوم حالت میں ہیں تو انسان شعور اور وجود دونوں سطح پر ایک کم تر ہستی رہ جائے گا۔ یہ تو رہا اصولی مطلب۔ اب دوسرا مطلب یہ ہے کہ میری سب سے بڑی آرزوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ جو جانے، جو مانے، جو کرے اس میں اس کا دل لگے۔ اس میں اسے تسکین محسو س ہو۔وہ اسے ایک خوبصورتی کی فضا میں رکھے۔کہ جس مورتی کو اس نے ڈھونڈ کرنکالا ہے اسے ٹاٹ کے بورے میں جمع نہ کرے بلکہ اس کے لیے اچھا صندوق بنائے۔اخلاق بھی یہ چاہتا ہے کہ عمل صرف مبنی بر خیر نہ ہو، بلکہ میرے خیر میں ایک کشش اور جمال بھی ہو۔ مذہبی شعور بھی یہ چاہتا ہے کہ اللہ آپ کی طرف یکسو ہوں۔احسان کے ساتھ ہو۔خوبصورتی کے ساتھ ہو۔ حسن کے ساتھ ہو۔گویا حسن ہر شعورکے ہر حاصل میں ایک نئی چمک دمک پیدا کرتا ہے، ایک کشش پیدا کرتا ہے، وہ عقل کے لیے معقول کو،مذہبی ذہن کے لیے عقیدے کو پر کشش بناتا ہے جو ان عقائد اور ان نظریات سے تسکین پانے کے لیے ضروری ہے۔
تو جمالیاتی شعور میرے عقائد،نظریات اور اعمال کو پرکشش بنانے کا کام کرتا ہے۔ان کو بدلے بغیر، ان کو چھیڑے بغیر۔لیکن اگر فرض کیا کہ خدا میرے لیے پرکشش نہ رہے تو خدا کو ماننے کی تمام تفصیلات رکھنے کے باوجو د مجھے اس سے تسکین نہیں حاصل ہوگی، مجھے اس سے ایک زندہ تعلق کا تجربہ نصیب نہیں ہوگا۔ ان معنوں میں جمالیات علم الحضور ہے۔یہ حضوری کا احساس ہے۔یہ غیب میں حضوری کی لگن پید اکرنے کی قوت ہے۔ اگر یہ نہ رہے تو اس کے نتیجے میں پھر شعور کی اور طبیعت کی حالتیں، اندرخام اور ناتمام رہ جائیں گی۔بڑا ادب یہ کام کرتا ہے کہ وہ انسانی شعور اور اس کی طبیعت کو بلند کرتا ہے۔ اس کی تمام صلاحیتوں کو، تمام قابلیتوں کو حالتِ تسکین میں کرتے ہوئے اس کے تمام عقائد و تصورات کو حسین اور پرکشش بناتا ہے۔ جمالیات مجھے کوئی نظریہ نہیں دیتی، جمالیات میرے مانے ہوئے نظریے کی تزئیین کردیتی ہے۔ اسے خوبصورت بنادیتی ہے۔ تو ادب اگر واقعی تخلیقی ادب ہے تو اس کا یہ کردار، اس کا یہ کارنامہ سامنے کی چیز ہے۔ اسی وجہ سے افلاطون نے کہا تھا کہ ’’یونانی تہذیب کا بانی ہومر ہے‘‘۔ اس نے کسی فلسفی کا نام نہیں لیا کیونکہ اس نے یونانی تہذیب کے جو آئیڈیلز تھے انہیں پُرکشش بنادیا تھا، انہیں خوبصورت کردیا تھا۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ’’احسان کیا ہے؟‘‘ کا جواب دیتے ہیں تو فرماتے ہیں: ’’اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔‘‘ تو گویا اللہ کو دیکھنے کا حال ایک پختہ جمالیاتی شعور کے بغیر ناممکن ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے بڑے ادب کا ذکر کیا۔ بڑا ادب کس طرح تخلیق پاتا ہے؟ یا بڑا ادیب کیسے پیدا ہوتا ہے؟
احمد جاوید: جب کوئی زبان اور تہذیب بڑائی کی سطح پر ہو یا بڑائی سے تازہ تازہ گری ہو تو بڑا ادیب اور بڑا ادب پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر تہذیب اور زبان میں مادہ عظمت رہ ہی نہ جائے اور اس مادہ کو دیر ہوگئی ہو تو پھر بڑے ادیب اور بڑے ادب کا پیدا ہونا محال ہے۔ زبان اور تہذیب میں بڑائی کا جوہر عملی حالت میں موجود نہ ہو تو بڑا ادب نہیں پیدا ہوسکتا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے ادبی استاد سلیم احمد ؒ نے آج سے تیس، پینتیس سال پہلے ’’ادب کی موت‘‘ کا اعلان کیا تھا۔ اس جملے کی معنویت کیا ہے اور اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟کیا ادب کی واقعی موت واقع ہوگئی ہے؟
احمد جاوید: جب انہوں نے یہ بات کہی تھی تو اُس وقت میں بھی موجود تھا۔ اُن کے یہاں ہونے والی نشستوں میں یہ ایک موضوع بھی تھا کہ ’’ادب کی موت‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ ظاہر ہے کہ جس نے یہ بات کہی ہے اگر اُس شخص نے اس کی تشریح کردی ہے تو اسی بات کو حتمی کہیں گے۔ سلیم احمد نے ایک سلسلہ کلام میں یہ بات کہی تھی۔ وہ سلسلہ کلام شروع ہوتا ہے نطشے سے، نطشے نے کہا تھا کہ ’’خدا مر گیا ہے‘‘۔ اس پر سلیم احمد کی تعبیر کے مطابق نطشے کہہ رہا ہے کہ وہ آدمی فنا ہوگیا ہے جس کا سب سے بڑا مسئلہ ’’خدا‘‘ تھا، تو نطشے نے اصل میں خداپرست آدمی کی موت کا اعلان کیا۔ اسی طرح اگلا نعرہ لگا کہ ’’انسان مر گیا ہے‘‘۔ اس پر سلیم بھائی فرماتے تھے کہ وہ انسان مرگیا ہے جو خود کو اپنا مقصود سمجھتا تھا، یا خود کو مرکزِ کائنات سمجھتا تھا۔ ایک شفٹ آیا نا کہ پہلے خدا مرکز کائنات تھی، اس کی موت کا اعلان نطشے نے کردیا اور اس کی جگہ آدمی کو مرکز کائنات بنایا، پھر پتا چلا کہ اب آدمی بھی مر گیا ہے یعنی اب آدمی بھی کائنات کا مرکز نہیں رہا تو اس تسلسل میں سلیم احمد نے کہا کہ ’’ادب مرگیا ہے‘‘۔ یعنی وہ آدمی غائب ہوگیا ہے جس کے لیے ادب ایک سنجیدہ مسئلہ اور مشغلہ تھا۔ یہ اُن کے اس اعلان کا انہی کے بیان کردہ الفاظ میں براہِ راست مطلب ہے۔ اس لیے میرے نکتہ نگاہ سے یہ بات بالکل درست ہے کہ ادب کی موت واقع ہوگئی ہے۔
اس بات کو دو چیزوں پر غور کرکے بہت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے: (1) کیا ہماری تہذیب اپنے اصول پر زندہ رہنے کا دعویٰ کرسکتی ہے؟کیا ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہماری تہذیب اپنے اصول پر زندہ ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ ہم کہیں گے ہماری تہذیب مر گئی ہے۔ (2) کیا ہماری زبان اپنے سیمنٹکس(semantics) معنویاتی کے ساتھ، اپنے لسانیاتی اسٹرکچرز کے ساتھ، اپنی علامات (symbolism) کے ساتھ زندہ رہ گئی ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ نہیں۔ تو جب ہم اپنی تہذیب اور اپنی زبان کی زندگی کا انکار کررہے ہیں تو ادب انہی دونوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ تہذیب مر گئی ہے کہنا درست ہو، زبان فوت ہوگئی ہے کہنا درست ہو، اور ان دونوں اموات کی موجودگی میں ہم یہ امکان روا رکھیں کہ ادب زندہ رہ جائے گا۔ یہ ناممکن ہے۔ تو ادب بھی مر گیا۔
فرائیڈے اسپیشل: ہمارے مذہب اور ہماری تہذیب میں انسان کی فضیلت دو چیزوں کی بنیاد پر ہے: تقویٰ اور علم۔ اس کا کیا سبب ہے؟ اور کیا یہ دو فضیلتیں ہمارے معاشرے میں فضیلتوں کی حیثیت میں موجود ہیں؟
احمد جاوید: آپ علم و تقویٰ کے جو اصول بتارہے ہیں، بلاشبہ ہماری روایت میں انسانی فضیلت کی یہ دو بنیادیں ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہماری روایت میں اس کے معنی ہیں: حق کا علم، علم ہے اور اس علم سے نفس پر مرتب ہونے والا حال تقویٰ ہے۔ علم اللہ کی معرفت ہے اس کی تخلیقی قدرت سے آگاہی کے ساتھ۔ اللہ کو جاننا ہے اس کی تخلیق کے اندر تک جھانک لینے کی صلاحیت کے ساتھ۔ یہ علم ہے۔ اس میں دونوں طرح کے علم آگئے۔ لیکن اس علم کا مادہ معرفتِ الٰہی ہے۔ معرفتِ کائنات کا بھی مادہ اصل میں معرفتِ خداوندی ہے۔ تو ایسا علم جو حضور حق رکھتا ہے اور کائنات کے اندر تک جھانکنے کی صلاحیت فراہم کرسکتا ہے، میری طبیعت اور میری نبض پر جو اثر چھوڑے گا، میری نبض کی جو conditioning کرے گا، جس حالت کو میری نبض کی بنیادی حالت بنائے گا اُس بنیادی حالت کا نام تقویٰ ہے۔ یعنی یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ آدمی اللہ کو جانتا ہو اور اللہ سے ڈرتا نہ ہو۔ تقویٰ اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ ڈر ہے جو اللہ کی معرفت کے پیڑ کی سب سے اونچی شاخ پر لگنے والا پھل ہے۔ اس سے توازن قائم ہوتا ہے۔ تہذیب کا نفس تقویٰ پر ہے۔ تہذیب کاذہن (mind) علم پر ہے۔ انسان بہ اعتبارِ نفس اگر کامل ہے تو متقی ہے، اور بہ اعتبارِ شعور اگر پختہ ہے تو صاحبِ علم ہے، یعنی علم کائنات کے حساب سے عارفِ خداوندی ہے۔ یہ جو ہم پیچھے نوحہ پڑھتے آرہے ہیں، اسی سے جوڑ کر دیکھ لیں کہ علم و تقویٰ کی یہ فضیلتیں موجود نہیں ہیں، جبھی تو ہم اس حال کو پہنچے ہوئے ہیں۔ آخر علم کیا ہے؟ جس میں ایمان بالغیب یقینی ہو اور حضور خداوندی بھی حتمی ہو، یہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ حضور سے پیدا ہوتا ہے، علم غیب سے پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح حضور و غیب کے توازن سے بننے والا انسان، اس کا ذہن، اس کا معاشرہ، اس کی انفرادیت وہ سارا عمل مکمل طور پر رکا ہوا ہے جبھی تو ہم یہ نوحہ پڑھ رہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کا تعلق فلسفے اور اس کی تفہیم سے بھی ہے، مگر ہماری تاریخ میں فلسفہ کو علم کی ایک خطرناک شاخ کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ امام غزالی ؒ نے فلسفے کو بالادست علم کی حیثیت سے رد کیا۔ آپ ہمیں یہ بتائیے کہ ہمارے لیے فلسفے کا جاننا کتنا اہم ہے؟ اور کیوں؟
احمد جاوید: امام غزالی ؒ نے جس نکتے کے تحت فلسفے کو رد کیا ہے اس کی ایک بہت مضبوط بنیاد ہے۔ وہ یہ کہ فلسفہ عقل کو حاکم مانتا، عقل کی حکومت تسلیم کرتا، اور وحی سے بے نیاز رہنا چاہتا ہے۔ اس بنیاد پر انہوں نے فلسفے کو رد کیا ہے۔ اس کی تفصیلات تکنیکی ہیں۔ اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ اب اس سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ فلسفہ ایمان کے لیے خطرناک ہے لہٰذا اسے نہیں پڑھنا چاہیے۔ اس میں واقعی صورت حال یہ ہے کہ بغیر تیاری کے اور جوشِ تقلید میں فلسفہ پڑھنا ایمان کے لیے خطرناک ہے۔ ایمان کو نقصان پہنچا سکتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پہنچاتا آیا ہے۔ اب اس کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ اس کے باوجود ایک مذہبی آدمی جو ذہین ہے، وہ فلسفہ پڑھتا ہے تو اس کی نظر میں فلسفے کی کیا افادیت ہے؟ یعنی اتنے ضرر کے پہلو اس علم میں ہیں، اس کے باوجود اگر کوئی مذہبی آدمی فلسفہ پڑھتا ہے تو وہ فلسفے سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ یا فلسفے میں کیا افادیت دیکھتا ہے؟ کہ وہ اس خطرے کو خاطر میں لائے بغیر اسے پڑھ رہا ہے۔ میرے خیال میں اگر اس کا ایک جملے میں جواب دوں تو وہ یہ ہوگا کہ ’’فلسفے کو جاننا بہتر ہے، فلسفے کی ماننا خطرناک ہے‘‘۔ فلسفے کو جاننے سے ذہنی سطحیت دور ہوتی ہے۔ فلسفے کو ماننے سے ایمانی ذہن کمزور پڑتا ہے۔ اس لیے جو لوگ فلسفے کو تقلید کی نظر سے نہیں بلکہ حقیقت تک پہنچانے والے علم کی حیثیت دے کر پڑھتے ہیں انہیں یہ فائدہ حاصل ہوجاتا ہے کہ ان کے ذہن میں سطحیت پیدا نہیں ہوتی۔ ان کے ذہن میں گراوٹ نہیں پیدا ہوتی۔ ان میں ذہانت کا ملکہ ضرور بڑھتا ہے۔ تو فلسفہ ذہانت کا ملکہ بڑھاتا ہے، حقائق کا علم فراہم نہیں کرتا۔ فلسفہ جاننا ان لوگوں کے لیے بہت ضروری ہے جو اپنے دین کا عقلی دفاع کرنے کی ذمہ داری ادا کرنا چاہتے ہیں، اور اگر یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر نہیں ہے تو میرے لیے فلسفہ پڑھنا ایک خطرناک عمل زیادہ ہے، مفید ہونے کے امکانات کم ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: مغربی فکر سے متاثر لوگ تنقید کرتے ہیں کہ فلسفے سے متعلق غزالیؒ کے رد سے مسلمانوں میں ارتقا کا عمل رک گیا ہے اور اس کی وجہ سے مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ گئے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
احمد جاوید: یہ تنقید ذرا جلدی میں کی گئی ہے۔ آپ نے غزالی ؒ کو اتنا بڑا بنادیا کہ اُن کے اتنا کچھ کہنے پر تو کچھ ہوا نہیں، لیکن ایک خرابی ہی ان کے کہنے پر آپ میں پیدا ہوگئی۔ آپ نے غزالی ؒ کو ایک scape goat بنا دیا ہے، اور وہ تہذیب کتنی بھولی ہے جو ایک آدمی کے کہنے پر اپنے ارتقا کے عمل کو روکنے پر تیار ہوگئی! حالانکہ غزالی ؒ کی سب سے کم پڑھی جانے والی کتاب ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ ہے۔ یہ سب بہانے بازیاں ہیں۔ اور غزالی ؒ نے فلسفے کے تین یا چار مسائل پر کہا کہ یہ کفر ہے۔ مادہ قدیم ہے۔ یہ ماننا کفر ہے۔ کلاسیکل فلسفہ اس عقیدے پر کھڑا ہوا ہے کہ مادہ قدیم ہے، زمانہ قدیم ہے۔ اٹھائیس یا بتیس میں سے چار مسائل ہیں جن پر انہوں نے کہا کہ یہ کفر ہیں، باقی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس میں یہ فلسفہ مفید ہے۔ پھر یہ کہ غزالی ؒ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ فلسفے کی کتاب کی طرف آنکھ اٹھانا بھی منع ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسفہ پڑھتے وقت یہ احتیاطیں کرو۔ یہ جو اتنے بڑے بڑے جدید تعلیم یافتہ لوگ ہیں،کیا آج پرویز ہود بھائی کو طبیعات کی کوئی تھیوری پیش کرنے سے غزالی ؒ نے روک رکھا ہے؟ یہ بہانے بازیاں ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ مسلم تہذیب میں ارتقا کا عمل رکنے کے عوامل کچھ اور ہیں، لیکن ان میں سے کسی ایک کی ذمہ داری بھی غزالی ؒ پر نہیں جاتی۔ابن رشد نے تہافت فلاسفہ کا رد لکھا ہے۔وہ تو پچاس، ساٹھ صفحات کا ایک رسالہ ہے، اس کا رد اس سے دس گنا ضخیم ہے۔اس میں ابن رشد نے کہا ہے کہ غزالی پر مجھے اس بات کا شک نہیں ہے کہ وہ فلسفہ جانتے نہیں تھے،اس لیے ان کی کتاب پر اعتراض کیا، مجھے تو غزالی ؒ سے شکوہ یہ ہے کہ وہ فلسفہ مجھ سے زیادہ جانتے تھے لیکن متعصب تھے۔
فرائیڈے اسپیشل: کہا یہ جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی میں ترقی نہ کرنامسلمانوں کے زوال کا سبب۔ کیا آپ کے خیال میں تہذیب کے ارتقا میں ٹیکنالوجی کوئی معیار ہے؟
احمد جاوید: آج ٹیکنالوجی نے جدید دنیا کی بناوٹ میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کرلی ہے، یعنی آپ کا آرام اور آپ کی طاقت یہ ٹیکنالوجی ہے،آپ ٹیکنالوجی کے بغیر طاقت ور قوم نہیں بن سکتے، اور اسی طرح ٹیکنالوجی کے بغیر معاشرے کے لوگوں کو راحت فراہم نہیں کرسکتے۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ معاشرے کی ضرورت ہے کہ اس کے باشندے راحت میں رہیں، یہ معاشرے کا مقصود ہے۔ اسی طرح ریاست کی ضرورت ہے کہ وہ طاقتور ہو، اس کے بغیر ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔ تو ہماری ریاست اور معاشرے میں زوال کے جو عوامل ہیں ان میں ایک یقیناًٹیکنالوجی میں پسماندہ رہ جانا بھی ہے۔ یعنی فزیکل سائنسز میں پیچھے رہ جانا۔ لیکن یہ سبب اصولی نہیں ہے۔ یہ بہت سے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ ہم جب اپنی ترقی اور پسماندگی کو ناپیں گے تو اس میں معیار مغرب کو نہیں بنائیں گے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی سوسائٹی کو بنائیں گے۔ ہم اپنی تہذیب کو ترقی یا تنزل کے معیارات پر دیکھنے کا جب آغاز کریں گے تو ترقی یافتہ تہذیب کیا ہوتی ہے، اس کا ماڈل مغرب سے نہیں بلکہ اپنے ماضی سے لیں گے جب ہم مسلم معاشرہ یا ریاست بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
لیکن ہمارے یہاں ایک اور مصیبت جو پیدا ہوگئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے مغرب کو کامیابی اور ترقی کا لازمی ماڈل سمجھ لیا ہے اور ہماری تہذیب کے اسبابِ مرگ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی ترقی کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ویسی ترقی ہوگی جیسی کہ مغرب نے کی ہے۔ جب بھی ہم طاقت کا لفظ استعمال کریں گے تو وہی طاقت جو مغرب کے پاس ہے۔ جیسے ہی ہم ایک فلاحی معاشرے کا تصور قائم کریں گے تو یہ کہیں گے کہ وہی فلاحی معاشرہ جو ناروے نے قائم کیا، یا مغرب میں قائم ہوا، وغیرہ وغیرہ۔ تو جو تہذیب اپنے آئیڈیلزکی حفاظت کرنے سے قاصر رہ جائے وہ پھر اسی طرح کیمرہ لیے لیے پھرتی رہے کہ کہیں کوئی ترقی نظر آجائے تو اس کی تصویر اتار سکے۔ اس لیے ہماری تہذیب اس وقت کیمرہ بردار آدمی کی طرح ہے جو دوسروں کے دروازوں کی، دیواروں کی تصاویر کھینچ رہا ہے کہ میں اپنا گھر بنواؤں گا تو اس نقشے پر بنواؤں گا، یا اس ڈیزائن پر بنواؤں گا۔یہ تو مکمل طور پر دست نگری کو تسلیم کرلینا ہے جوہماری موت کا سب سے بڑا مظہرہے۔ ہم مکمل طور پر دست نگر ہوگئے ہیں، یعنی اپنے تصورِ خدا کو بھی مغربی ذہن کے مطابق بنانا چاہتے ہیں، یعنی سائنسی بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے تصورِ انسان کو بھی مغرب سے اخذ کرنے کی عادت ڈال چکے ہیں۔ ہم اپنے تصورِ دنیا میں بھی مغرب کی نقالی کے جنون میں مبتلا ہیں۔ مطلب یہ کہ اتنے زیادہ انحصار کی حالت میں کوئی تہذیب اپنے امتیازات کے ساتھ قائم کیسے رہ سکتی ہے؟
(جاری)
مولانا فراہیؒ اور مدرسۃ الاصلاح کی علمی خدمات
مولانا سید متین احمد شاہ
کچھ عرصہ پہلے کراچی کے ماہ نامہ ’’بینات‘‘ میں ایک مضمون غامدی صاحب پر تنقید کے سلسلے میں نظر سے گزرا۔ پہلی قسط میں فراہی مکتب فکر کے شجرۂ نسب کی تحقیق پیش کی گئی ہے۔ اس کی رو سے مولانا حمید الدین فراہی لارڈ کرزن کے وفادار اور انگریز کے ایجنٹ تھے۔
ہمارے برصغیر کے نوآبادیاتی عہد میں یہاں انگریز کے وجود کے باعث مختلف مسالک کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف لکھی گئی کتابوں میں ان کے تعلقات انگریزوں کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ عوام میں انہیں بے اعتبار ثابت کیا جائے۔ اس طرح کی کوششوں کو شاید دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز کے اصولوں کے تحت درست سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں ان کے فائدے کے مقابلے میں نقصان کا تناسب زیادہ ہے۔
بات مولانا فراہی کی ہو رہی تھی۔ غامدی صاحب سے فکری اختلاف کا درست طریقہ یہ ہے کہ جس تناظر میں وہ جو بات پیش کر رہے ہیں، پہلے اس تناظر کا پورا ادراک حاصل کیا جائے اور پھر ان کی فکر میں جو اجزا قابل نقد نظر آئیں، ان کا مطالعہ کر کے علمی دلائل کے ذریعے تنقید کی جائے۔ یہ بات درست نہیں کہ کسی سے اختلاف کے باعث اس سے وابستہ شخصیات کو انگریز کا ایجنٹ ثابت کرنا ضروری سمجھا جائے۔ مولانا فراہی کے بارے میں اس طرز کا آغاز ایک مفتی صاحب کے ایک کالم سے ہوا اور یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے۔ اگر کسی انگریز شخصیت سے کوئی تعلق یا اس کے ساتھ سفر اسے انگریز کا ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے تو پھر اس کی بنیاد پر بہت سی شخصیات کا کردار محل نظر ٹھہر سکتا ہے، چنانچہ یہی ظلم بہت سے لوگوں نے اکابر علمایدیوبند کے ساتھ بھی کیا اور آج ہم خود اسی منہج پر چل نکلے ہیں۔
ان سطور سے مقصود غامدی صاحب کی وکالت ہرگز نہیں بلکہ ایک غلط رویے پر تنقید ہے جس کے باعث ہم اپنا آپ بے اعتبار بناتے چلے جا رہے ہیں۔ مولانا فراہی پر ایسے الزامات سے پہلے ہمیں اپنے ہی اکابر علامہ سید سلیمان ندویؒ ، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں سید عبد الحی حسنی جیسی عظیم شخصیات کی ان کے بارے میں آرا کا جائزہ لے لینا چاہیے۔ نیز انگریز کے خلاف مولانا فراہی کی حمیت ان کی سوانح کے تناظر میں دیکھ لینی چاہیے۔ ایسی چیزوں کو آخرت کی جواب دہی کے احساس سے بھی دیکھنا چاہیے۔
ہمارے دیوبندی علماء میں اس وقت یہ رجحان بنتا جا رہا ہے کہ اس فکر کو بالکل شروع سے ایک ہی انداز سے دیکھا جائے۔ یہ اپروچ خلط مبحث کا باعث ہے اور تحقیقی نقطہ نظر سے غلط بھی۔ مولانا فراہی کے بارے میں ہمارے علماء غلطیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں اور غامدی صاحب پر رَد کے جوش میں ایک خدا ترس شخصیت پر ایسی باتیں تیزی سے پھیل رہی ہیں جن پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں یہاں سید سلیمان ندوی، سید ابوالحسن علی ندوی اور ان کے والد مولانا عبدالحی حسنی رحمہم اللہ کی تحریروں سے مولانا فراہی کے بارے میں اقتباس نہیں دیتا، صرف حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی کچھ باتیں پیش کرنا مقصود ہیں۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے خطوط کا مجموعہ چار جلدوں میں مدرسۃ الاصلاح کے فاضل عالم مولانا نجم الدین اصلاحی نے مرتب کیا ہے جو مولانا حمید الدین فراہی کے شاگرد تھے۔ یہ مجموعہ حضرت کی زندگی میں مرتب ہوا تھا ، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک ’’اصلاحی‘‘ کی کوئی ’’دسیسہ کاری‘‘ اس میں شامل ہو سکتی ہے۔حضرت مدنی فرماتے ہیں:
’’مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے مجھ کو جو قدیم سے تعلق ہے،وہ آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے۔مدرسہ مذکور کے روح رواں مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو قرآنِ شریف کے مسلّم عالم تھے، اور ایک خاص فکروخیال رکھتے تھے۔ضرورت تھی کہ مدرسہ مذکور کے اساتذہ اور طلبہ مولانا مرحوم کی زندگی کو اپناتے اور سلف صالحین اور اکابر اہل سنت والجماعت کے طریقہ کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے مولانا مرحوم کے اصول کے مطابق جدوجہد جاری رکھتے، لیکن یہ معلوم کر کے سخت صدمہ ہوا کہ اب اس مدرسہ میں مودودی جماعت کا زور ہے۔‘‘ (مولانا حسین احمد مدنی، "مکتوباتِ شیخ الاسلام"، مرتبہ، مولانا نجم الدین اصلاحی،کراچی، مجلس یادگار شیخ الاسلام، ۱۹۹۴ء، ج ۲، ص ۳۱۹، ۳۲۱)
یہ اقتباس کسی حاشیے کا محتاج نہیں کہ حضرت مدنی کے نزدیک مولانا فراہی کا کیا مقام تھا اور انھیں وہ کس نظر سے دیکھتے تھے۔ مولانا نجم الدین اصلاحی (جو حضرت مدنی کے نہایت عقیدت مند اہل تعلق تھے) نے اس خط کے حاشیے میں مدرسۃ الاصلاح کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں بعض اہم باتوں کی طرف اشارات کیے ہیں جنھیں یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ضلع اعظم گڑھ کے بعض روشن دل مسلمانوں نے ایک مجلس کی داغ بیل بنام انجمن اصلاح قوم و برادری ضلع اعظم گڑھ ۱۳۳۱ھ میں ڈالی تھی۔یہی مجلس انجمن اصلاح اعظم گڑھ ترقی کر کے مدرسہ اصلاح المسلمین سرائے میر کی شکل اختیار کر گئی جس کے اصلی روح رواں مولانا محمد شفیع صاحب مرحوم سیدھا اور مولانا عبدالاحد صاحب مرحوم فاضل دیوبند تھے۔ اس مدرسہ کا سنگ بنیاد حضرت شیخ الہند کے شاگرد، حضرت مولانا میاں اصغر حسین دیوبندی نے رکھا تھا اور اس کی کامیانی کے لیے اللہ سے رو کر دعا ئیں کی تھیں۔گو بعد کوقوم وبرادری کے دیگر علمائے کرام تکمیل کے نقشے مرتب کرتے رہے، لیکن اولیت اور الفضل للمتقدم کا طغرائے امتیاز اول الذکر حضرات ہی کے بے لوث ایثار اورخلوص کا مرہونِ منت ہے اور اب اس مدرسہ کا نام بدل کر مدرسۃ الاصلاح ہو گیا ہے۔
’’حضرت مولانا مدنی مدظلہ العالی کا مدرسہ مذکور سے پہلا تعلق تو یہ ہے کہ اس کا سنگ بنیاد ایک دیوبندی عالم اور شیخ الہند ؒ کے شاگرد نے رکھا ہے۔‘‘ (دیکھیے: ’’مکتوبات‘‘ ، حاشیہ مکتوب نمبر ۱۳۷، ج ۲، ص ۳۱۸)
مدرسۃ الاصلاح کی تاریخ کے ان بالعموم مخفی گوشوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اس کے آغاز و پرداخت میں اکابر دیوبند ہی کا فیض شامل ہے۔ ۱۹۳۶ء میں مدرسۃ الاصلاح کے مجلے "الاصلاح" کے ایک مضمون پرایک مولوی صاحب کی طرف سے پھیلائی گئی غلط فہمی کی بنا پر مولانا شبلی نعمانی اور مولانا فراہی کی تکفیر کی گئی۔اس پر حضرت مدنی نے وہ مضمون منگوایااور سختی سے اس کی تردید کی اور ان مولوی صاحب کے اس اقدام کو ناپاک طریقہ قرار دیا۔ حضرت مدنی کی وضاحت پر جن علما نے فتویٰ دیا تھا، انھوں نے رجوع کر لیا۔حضرت مدنی نے یہ وضاحت خود مدرسۃ الاصلاح پہنچ کر تحقیق کے بعد شائع فرمائی۔ حضرت نے اس سلسلے میں تحریر فرمایا:
’’محترم المقام زید مجدکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ حضرات کے منسلکہ جوابات دیکھ کر مجھے کلی اطمینان ہوگیا اور جو شکوک وشبہات مجھے مولوی محمد فاروق صاحب کے کھلے معروضہ کو دیکھنے اور دیگر حضرات کے کلمات کی بنا پر پیدا ہوئے تھے، وہ سب رفع ہوگئے۔ مجھے سخت تعجب ہے کہ ان حضرات نے ایسے سخت گذار خطرناک راستہ یعنی تکفیر مومنین کو کیوں اختیار فرمایا ہے، حالانکہ اس کے اور اس کے مماثل امور کے لیے نہایت شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ کیا فقد باء بہ احدھما الحدیث اور کل المسلم علی المسلم حرام وغیرہ احادیث قویہ انزجار کے لیے کافی نہیں ہیں؟ کیا آپس کے نزاعاتِ نفسانیہ اس کی اجازت دیتے ہیں کہ افتراء ات اور بہتانوں کا طومار باندھ کر تکفیر کے فتاویٰ حاصل کیے جائیں؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں نے مدرسۃ الاصلاح کے پرچے دیکھے، مجھ کو ان میں ایسی کوئی چیزنہیں ملی جس کا کوئی صحیح محل نہ ہو سکتا ہو۔۔۔‘‘ (مصدرِ سابق، ص ۳۱۹، ۳۲۰)
مولانا نجم الدین اصلاحی، حضرت کے اس مکتوب کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی مدظلہ العالی کے اس قولِ فیصل نے قصرِ تکفیر کے ایک ایک ستون اور ایک ایک اینٹ کو منتشر کر دیا ، غوغاتکفیر اور کافر گری کاناس ہوگیا۔حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا شبیر احمد عثمانی زید مجدہم وغیرہم اکابر علماء اور مفتیانِ ہند نے بعض تشریحی مضامین پڑھے اور مولانا مدنی کے محاکمہ پر تکفیر سے رجوع کر لیا۔‘‘ (مصدرِ سابق، ص ۳۱۹، ۳۲۰)
اس کے بعد مولانا اصلاحی نے کچھ مزید روشنی حضرت مدنی کے مدرسۃ الاصلاح سے تعلق پر ڈالی ہے۔
مولانا فراہیؒ کے علمی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا اصلاحی نے لکھا ہے کہ وہ مولانا فضل حق خیر آبادی کے ممتاز شاگردوں میں سے مولانا فیض الحسن سہارنپوری کے شاگرد تھے اور اس اعتبار سے وہ اور حضرت تھانوی ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں۔ مولانا فراہی نرے الفاظ کے عالم ہی نہ تھے بلکہ انھیں بیعت ارادت حضرت شاہ وارث حسن صاحب کوڑا جہاں آبادی خلیفہ مجاز حضرت قطب گنگوہی سے حاصل تھی۔ (دیکھیے: مصدرِ سابق، ص ۳۲۱)
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غامدی صاحب کی فکر کے جو اجزا قابل نقد ہیں، ان پر ضرور تنقید اور علمی محاسبہ ہونا چاہیے کہ ہماری روایت کا یہی اصول رہا ہے جس نے اس دین کا وہ حشر نہ ہونے دیا جو پولوس کے ہاتھوں مسیحیت کا ہوا، لیکن کہیں یہ نقد ’شنآن قوم‘ کے دائرے میں داخل ہو کر ’عدل‘کے تقاضے پامال ہونے کا سبب نہ بن جائے اور ہم ایسی باتیں کہ بیٹھیں جو نہ صرف مسلمہ تاریخی حقائق کے منافی ہوں، بلکہ اللہ کے ہاں تقویٰ اور دیانت کے باب میں بھی مشکوک ہو جائیں، نیز وہ خود ہمارے اکابر کے اسوہ کے بھی خلاف ہوں۔ کسی خدا ترس اور صاحب تقویٰ شخصیت پر غلط الزامات کی سزا یقیناًسنگین ہے اور اس کے عواقب پر غور کرنا چاہیے۔
ایک طالب علم کی یہ عرض غامدی صاحب کی وکالت کے طور پر ہرگز نہ لی جائے۔ راقم خود ان کی فکر کا ناقد ہے اور اس کو اپنے جملہ اجزا کے ساتھ صحیح نہیں سمجھتا اور امت کے لیے ان کے نتائج بھی درست نہیں سمجھتا۔اس کے کچھ آثار ان سے منسوب آج کے نوجوانوں میں واضح ہیں اور اللہ کرے، مستقبل میں امت ان کے ذریعے کسی اور ابتلا کا شکار نہ ہو۔ مقصود یہ ہے کہ ہمارے زبان وقلم اول و آخر جذبہ دعوت سے سرشار ہوں اور ایسے امور سرزد نہ ہوں جو ایک فتنے کو دبانے کے لیے دوسرے فتنے کو ہوا دینے کا سبب بن جائیں۔ ان ارید الاصلاح ما استطعت!
گذشتہ دنوں ’’مدرسۃ الاصلاح کی تفسیری روایت‘‘ کے موضوع پر آئی آر ڈی اور دعوہ اکیڈمی (اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد) کے تعاون و اشتراک سے علی گڑھ سے آئے ہوئے مہمان ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کا ایک عمدہ اور معلومات افزا لیکچر ہوا جس میں مقرر نے اس تفسیری روایت اور اس سے وابستہ شخصیات پر جامع گفتگو کی جس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
مدرسۃ الاصلاح ہندوستان اعظم گڑھ میں واقع ہے جس کی بنیاد مولانا محمد شفیع نے ۱۹۰۸ء میں رکھی۔ علامہ شبلی اور مولانا حمید الدین فراہی کا شروع سے اس ادارے سے تعلق قائم ہوا اور انھی کے تعلیمی افکارکی چھاپ اس پر گہری ہوئی جو آج تک قائم ہے۔ اس کی بنیادی خصوصیت جملہ علومِ اسلامیہ میں قرآن فہمی کو مرکزی اور اولین حیثیت دینا ہے۔ فاضل مقرر نے اس روایت سے وابستہ شخصیات میں سے مولانا حمیدا لدین فراہی، مولانا اختر احسن اصلاحی، مولانا امین احسن اصلاحی،مولانا داؤد اکبر اصلاحی، مولانا ابواللیث اصلاحی ، مولانا صدر الدین اصلاحی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، مولانا وحید الدین خان، مولانا عبدالرحمان پرواز اصلاحی، مولانا الطاف اعظمی، مولانا عنایت اللہ سبحانی، مولانا اجمل ایوب اصلاحی، مولانا بدرالدین اصلاحی اور دیگر حضرات کی قرآنی خدمات پر عمدہ روشنی ڈالی۔
مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کے کام سے تو علمی حلقے واقف ہی ہیں، لیکن اس مدرسے کے دیگر فضلا کا کام بھی اپنی جگہ غیر معمولی اور علمی لحاظ سے قدروقیمت کا حامل ہے۔ ابواللیث اصلاحی کا زیادہ وقت اگر جماعت اسلامی کی ذمے داریوں میں نہ گزرتا تو وہ مولانا امین احسن اصلاحی سے زیادہ آگے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کے بعض مقالات "قرآنی مقالات" میں موجود ہیں۔ ان کے مقالات کو عمیر منظر صاحب نے جمع کر کے شائع کر دیا ہے۔
مدرسہ فراہی کی ایک اہم شخصیت داؤد اکبر اصلاحی ہیں۔انھوں نے قرآنِ کریم کے بعض مشکل مقامات پر بہت عمدہ گفتگو کی ہے جو ان کی تفسیری بصیرت کا پتا دیتی ہے۔اس کتاب کا نام ’’مشکلات القرآن‘‘ ہے، جس میں قرآن کے تقریباً بارہ مقامات پر عمدہ اور عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔ مولانا صدر الدین اصلاحی کے تفسیری کام میں ٹھہراؤ اور متانت کی شان ملتی ہے۔ یہ تفسیر صرف سورۂ فاتحہ اور البقرہ پر مشتمل ہے اور ماہ نامہ "زندگی" رام پور سے قسط وار شائع ہوئی۔اس تفسیر کی تحریر کا آغاز مولانا امین احسن کی تفسیر سے پہلے ہوا تھا۔سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ پر مشتمل یہ تفسیر ’’تیسیر القرآن‘‘ کے نام سے مرتب کی گئی ہے۔
مولانا فراہی کے ایک غیر معمولی اور بہت کمال شاگرد مولانا اختر احسن اصلاحیؒ تھے جن کا زیادہ تعارف لوگوں کے سامنے نہیں ہے۔ڈاکٹر اصلاحی نے بتایا کہ مولانا امین احسن نے مولانا فراہی کی کتابوں کے جو اردو تراجم کیے اور ۱۹۳۶ء میں جاری ہونے والے مجلے ’’الاصلاح‘‘ میں جو تحریریں شائع ہوتی تھیں، وہ مولانا اختر کے قلم سے گزر کر شائع ہوتی تھیں۔ اس طرح مولانا امین احسن کی تراش خراش میں ان کا بڑا ہاتھ ہے، اگرچہ مولانا اصلاحی نے اس کا اعتراف کم ہی کیا ہے۔ان کے مقالات ’’مباحث قرآن‘‘ کے نام سے عبدالرحمان پرواز اصلاحی نے شائع کر دیے ہیں۔
مولاناامین احسن اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ بلاشبہ فکر فراہی کا ایک اعلیٰ شاہکار ہے جس میں مولانا فراہی کی ’’تعلیقات‘‘ سے غیر معمولی استفادہ کیا گیا ہے۔
مدرسۃ الاصلاح کے ایک نامور فاضل مولانا نجم الدین اصلاحی ہیں جنھوں نے مولانا حسین احمد مدنی کے مکتوبات کو اعلیٰ حواشی کے ساتھ مدون کیا ہے۔یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ مولانا فراہی کے مبسوط تذکرے ’’ذکرِ فراہی‘‘ میں ان کا نام بالکل نہیں آسکا۔یہ دیوبند سے ’’القاسم‘‘ نامی رسالہ نکالتے تھے جس میں ان کے قرآنیات پر عمدہ مقالات شائع ہوتے تھے جو اب چھپ بھی چکے ہیں۔
اس ادارے کے ایک فاضل عبدالرحمان اعظمی نے صوفیانہ تصور عشق پر ایک مختصر لیکن بہت عمدہ مقالہ قلم بند کیا جو اس موضوع پر خاصے کی چیز ہے۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی ، مجلہ "معارف" سے وابستہ رہے ہیں اور" ایضاح القرآن "جیسی تصانیف کے ذریعے فکر فراہی کے کئی گوشوں کا بہت عمدہ تعارف و تجزیہ پیش کیاہے۔
مولانا وحید الدین خان کی تمام تعلیم بھی اسی ادارے سے ہوئی اگرچہ وہ اپنی فکری اپج میں اس کے طرز سے بہت دور چلے گئے۔اس ادارے کے ایک فاضل عبدالرحمان پرواز اصلاحی کا علامہ مہائمی پر کام ہے۔ الطاف احمد اعظمی بھی اسی ادارے کے فاضل ہیں۔ خود ایک صاحب فکر انسان ہیں اور فکر فراہی سے استفادے کے ساتھ اپنے افکار کو بھی پیش کرتے ہیں۔ آپ کی تفسیر ’’میزان‘‘ ہے جس کی پہلی جلد مقدمہ تفسیر ہے اور عمدہ مباحث پر مشتمل ہے۔عنایت اللہ سبحانی نے ایم فل اور پی ایچ ڈی میں نظم قرآن کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور اس باب میں ’’البرہان‘‘ وغیرہ کی شکل میں قابل قدر کام کیا ہے۔اجمل ایوب اصلاحی عربی زبان و ادب کے نہایت فاضل آدمی ہیں جنھوں نے مولانا فراہی کی عربی تصانیف کو تعلیقات کے ساتھ ایک نئی آن بان عطا کی ہے۔ مولانا بدرالدین اصلاحی کا کام بھی اسی نوعیت کا ہے۔ فاضل مقرر نے اپنی تصانیف ’’مطالعاتِ قرآن‘‘ اور مولانا فراہی پر دیگر کاموں کا تعارف بھی کروایا۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان میں جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر مکمل طور پر وہ نہیں جو مولانا فراہی کے ہاں ہے۔ یہاں ان کے حقیقی معنوں میں جانشین جناب خالد مسعود تھے جو علمی لحاظ سے ایک قابل اور اخلاقاً ایک سادہ اور شریف انسان تھے۔
آخر میں جناب ڈاکٹرسہیل حسن نے اپنے والد گرامی مولانا عبدالغفار حسن کے حوالے سے کہا کہ وہ تفسیر ’’تدبرقرآن‘‘ کی تعریف بھی کرتے تھے، لیکن اس کے تسامحات کی بھی، خصوصاً حدیث کے باب میں، نشان دہی کیا کرتے تھے، اس لیے فکر فراہی سے استفادے میں اس کے محل نظر پہلوؤں پر بھی نظر رہنی چاہیے۔
بحیثیت مجموعی یہ لیکچر عمدہ تھا۔ ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کا تعارف تو عرصے سے ان کی تحریروں کی وجہ سے رہا ہے، لیکن یہ دوسرا موقع انھیں براہ راست سننے کا ملا۔ آپ ایک محنتی محقق ہیں اور مطالعے میں وسعت نظر کے حامل ہیں۔ سرسید کے بہت مداح اور عقیدت مند ہیں اور ان کے کام کو ایڈٹ کر کے سامنے لا رہے ہیں۔حال ہی میں ’’فکرونظر‘‘ (ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد) میں ان کا ایک اچھا مقالہ علامہ شبلی کی عربی ادب کے میدان میں خدمات پر شائع ہوا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تحریر و تقریر سے ذرا یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مولانا امین احسن اصلاحی کی خدمت کے صحیح اعتراف میں کچھ متامل ہیں۔ مثلاً انھوں نے گذشتہ گفتگو میں کہا کہ انہیں بنانے میں مولانا اختر احسن اصلاحی کا بہت ہاتھ ہے، لیکن انھوں نے کبھی اس کا اعتراف نہیں کیا۔ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ مولانا اصلاحی کی وفات کے بعد ان پر جو خاص نمبر مختلف مجلات نے شائع کیے، ان میں مولانا اصلاحی کی ذاتی یادداشتیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ حال ہی میں ماہنامہ ’’شمس الاسلام‘‘ کی جو مولانا اصلاحی پر خصوصی اشاعت آئی ہے، اس میں بھی ان چیزوں کے ایک بڑے حصے کا اعادہ کیا گیا ہے۔ ایک تحریر میں مولانا اصلاحی نے مولانا اختر احسن کے بارے میں لکھا ہے کہ :
’’طالب علمی کے دور میں ہم دونوں کے درمیان ایک قسم کی معاصرانہ چشمک و رقابت رہی، تعلیم کے میدان میں بھی اور کھیل کے میدان میں بھی، لیکن مولانا فراہی کے درس میں شریک ہونے کے بعد ہم میں ایسی محبت پیدا ہو گئی کہ اگر میں یہ کہوں تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ ہماری یہ محبت دو حقیقی بھائیوں کی محبت تھی۔ وہ عمر میں مجھ سے غالباً سال ڈیڑھ سال بڑے رہے ہوں گے۔ انھوں نے اس بڑائی کا حق یوں ادا کیا کہ جن علمی خامیوں کو دور کرنے میں مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہوئی، اس میں انھوں نے نہایت فیاضی سے میری مدد کی۔ بعض فنی چیزوں میں ان کو مجھ پر نہایت نمایاں تفوق حاصل تھا۔ اس طرح کی چیزوں میں ان کی مدد سے میں نے فائدہ اٹھایا۔ اس پہلو سے اگر میں ان کو اپنا ساتھی ہی نہیں بلکہ استاذ بھی کہوں تو شاید بے جا نہ ہو۔‘‘ (ص ۲۴۵)
اتنے بلند الفاظ میں اعتراف کے بعد شاید مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں۔ ڈاکٹر اصلاحی کی ان باتوں کی ایک نفسیاتی اور فکری وجہ بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وہ سرسید کے نہایت عقیدت مند ہیں، جبکہ مولانا اصلاحی سرسید کے سخت ناقد ہیں اور مولانا فراہی کا سرسید پر موقف بھی انھوں نے ہی تحریروں میں محفوظ کیا ہے۔ چنانچہ اپنے ایک مضمون ’’سرسید احمد خان مرحوم بحیثیت ایک لیڈر ، مصلح اور نجات دہندہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’میرے استاذ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ ، سرسید مرحوم کی تفسیرِ قرآن کو ایک فتنہ سمجھتے تھے، لیکن ان کے قومی خلوص اور ان کے کردار کی بلندی کے بڑے مداح تھے۔‘‘ ( امین احسن اصلاحی، ’’تفہیم دین‘‘، لاہور، فاران فاؤنڈیشن ۲۰۰۰ء، ص ۱۷۵، ۱۷۶)
اسی طرح مولانا فراہی کے بعض تفسیری اجزا کو مولانا اصلاحی نے ’’مجموعہ تفاسیر فراہی‘‘ کے نام سے اردو میں منتقل کیا ہے اور شروع میں ان کے حالاتِ زندگی پر ایک جامع روشنی ڈالی ہے۔ اس میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’مولانا [فراہی] نے قرآنِ مجید پر غور کرنے کا کام باضابطہ طور پر ، جیسا کہ انھوں نے اپنے مقدمہ نظام القرآن میں خود ظاہر فرمایا ہے، اس زمانہ سے شروع کیا ہے جب وہ علی گڑھ میں بحیثیت ایک طالب علم کے مقیم تھے۔یہ وہ زمانہ ہے جب سرسید مرحوم مغربی نظریات سے مرعوبیت کے سبب سے قرآنِ مجید کی من مانی تاویلات کر رہے تھے اور مسلمانوں کا وہ طبقہ جو انگریزوں اور انگریزوں کے لائے ہوئے افکارونظریات سے مرعوب تھا، بری طرح ان من مانی تاویلات کا شکار ہورہا تھا۔ مولانا نے اس فتنہ کو جہاں انگریزوں کے تسلط کا ایک قدرتی نتیجہ خیال کیا، وہاں اس حقیقت پر بھی ان کی نظر گئی کہ مذہبی علوم خصوصا قرآن کے سمجھنے سمجھانے کا جو طریقہ مسلمانوں میں رائج اور مقبول رہا ہے، وہ بالکل ہی غلط اور فرسودہ ہے۔‘‘ (حمید الدین فراہی، ’’مجموعہ تفاسیرِ فراہی‘‘، مصنف کے مختصر حالاتِ زندگی، لاہور، فاران فاؤنڈیشن، ۱۹۹۸ء، ص ۱۳)
اسی طرح مولانا فراہی کے علی گڑھ کے زمانہ قیام کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے مولانا اصلاحی لکھتے ہیں :
"غالباً اسی زمانہ میں سرسید مرحوم کی تفسیر قرآن کا عربی میں ترجمہ کرانے کا خیال پیدا ہوا اور اس کام کے لیے لوگوں کی نظر انتخاب مولانا [فراہی] پر پڑی، لیکن جب مولانا کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو مولانا نے فرمایا کہ ’’ میں اشاعت معصیت میں کوئی حصہ لینا نہیں چاہتا۔‘‘ ( مصدرِ سابق، ص ۱۱)
سرسید کی تفسیری فکر کے حوالے سے مولانا فراہی کا یہ موقف اس لیے پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ آج کئی ذہنوں میں یہ غلط فہمی موجود ہے کہ فکر فراہی، فکر سرسید ہی کا تسلسل ہے۔
جہادِ افغانستان اور موجودہ صورتحال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ ہم نے جہاد افغانستان میں فریق بن کر غلطی کی تھی اور پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہو کر بھی غلطی کی ہے، آئندہ یہ غلطی نہیں دہرائیں گے۔ انہوں نے یہ بات سعودی عرب ایران کشمکش کے تناظر میں کہی ہے۔
جہاں تک اپنی غلطیوں کو محسوس کرنے، ان کا اعتراف کرنے اور آئندہ غلطی نہ دہرانے کے عزم کا تعلق ہے، خواجہ صاحب کا یہ ارشاد خوش آئند ہے اور قومی سیاست میں اچھی پیش رفت کی علامت ہے کہ حکمران طبقات میں بھی اپنی غلطیوں کے اعتراف کی روایت آگے بڑھنے لگی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ان دونوں حوالوں سے حالات و واقعات اور اپنے رویوں پر تفصیلی بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کا صحیح طور پر اندازہ ہو سکے کہ ہم نے اصل غلطی کہاں کی ہے۔
جہاد افغانستان کا پس منظر یہ تھا کہ سوویت یونین نے افغانستان میں اثر و رسوخ بڑھاتے بڑھاتے اپنا نظام و فلسفہ مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ کے لیے مسلح لشکر کشی بھی کر دی تھی جس کے رد عمل میں افغان علماء کرام اور عوام نے مسلح مزاحمت کا آغاز کیا جو بالآخر ایک بڑی اور بین الاقوامی جنگ میں تبدیلی ہوگئی۔ بہت سے پاکستانی راہ نماؤں کو یہ خدشہ تھا کہ کمیونسٹ نظام اور اثر و رسوخ کا افغانستان میں استحکام اس کے پاکستان تک وسیع ہو جانے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں سوویت یونین کی مسلح لشکر کشی کی آخری منزل گوادر دکھائی دینے لگی تھی۔ وہ گوادر جہاں تک سوویت یونین کی رسائی کو روکنے کے لیے طویل جنگ لڑی گئی، مگر وہی رسائی چین کو مہیا کرنے کے لیے تجارتی راہداری کی تعمیر میں ہمارے قومی راہ نما ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال اس دور میں پاکستان تک کمیونسٹ نظام کی وسعت اور گوادر تک سوویت یونین کی رسائی کے خطرات نے نہ صرف حکمران طبقات کو چوکنا کر دیا تھا بلکہ مذہبی عناصر بھی متحرک ہوگئے تھے اور ریاستی قوت کے ساتھ مل کر مذہبی حمیت نے جہاد افغانستان میں پاکستانی عوام کی براہ راست شرکت کا ماحول پیدا کر دیا تھا۔
بات یہاں تک رہتی تو سمجھ میں آرہی تھی جیسا کہ اس دور میں مولانا مفتی محمودؒ بار بار یہ کہتے رہے کہ افغان مجاہدین صرف افغانستان کی آزادی کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھی برسر پیکار ہیں، لیکن جب افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف افغان مجاہدین کی جنگ کو کامیابی کی طرف بڑھتے دیکھ کر امریکی استعمار نے اپنا ’’لچ‘‘ تلنا شروع کر دیا تو معاملات میں بگاڑ پیدا ہونے لگا۔ ہمیں یاد ہے کہ جہاد افغانستان میں امریکہ کی عملی دلچسپی اور کردار کے بعد افغان مجاہدین کے آٹھ گروپوں کا اتحاد قائم ہوا اور مولانا نصر اللہ منصور شہیدؒ کو اس کا سیکرٹری جنرل چنا گیا تھا تو مولوی نصر اللہ منصورؒ نے اس بات سے اختلاف کیا تھا کہ امریکہ کو جنگ کی کمان میں حصہ دار بنایا جائے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ حمایت اور امداد قبول کرنے میں حرج نہیں ہے، مگر معاملات کو بیرونی کنٹرول میں دے دینا جہاد افغانستان کے مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس اختلاف کی وجہ سے انہیں جہاد افغانستان کا باقی دورانیہ بیرون ملک جلا وطنی کی حالت میں گزارنا پڑا تھا۔ سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی اور حضرت صبغۃ اللہ مجددی کی صدارت میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد انہیں افغانستان واپس آنا نصیب ہوا تھا اور اسی دوران وہ جام شہادت نوش کر گئے تھے۔
امریکہ کو جہاد افغانستان میں اس درجہ کا عمل دخل دلوانے میں کن لوگوں کا ہاتھ رہا ہے اور اس کے لیے کس کس سطح پر کام ہوا ہے؟ اس کی تفصیل مناسب موقع پر بیان کی جا سکتی ہے ، البتہ اس کے نتائج ہم سب بھگت رہے ہیں اور خدا جانے کب تک بھگتتے رہیں گے۔
ہمیں خواجہ محمد آصف صاحب کے اس ارشاد سے اتفاق ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی، البتہ یہ غلطی افغان مجاہدین کی حمایت و امداد میں نہیں بلکہ پورے جہاد افغانستان کی باگ ڈور امریکہ بہادر کے ہاتھ میں دینے کے موقع پر ہوئی تھی۔ اور پھر یہی غلطی ہم نے مشرف دور میں دہرائی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ خود لڑنے کی بجائے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہم نے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان عناصر کو بھی اپنا دشمن قرار دے دیا جو امریکہ کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور خطہ میں امریکہ کے خود ساختہ مفادات کی مخالفت کر رہے ہیں جس سے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ خود ابہامات اور شکوک و شبہات سے دوچار ہوگئی۔
البتہ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر امور خارجہ جناب سرتاج عزیز کی اس بات میں وزن ہے کہ خطہ کی موجودہ صورت حال امریکی پالیسیوں کی وجہ سے رونما ہوئی ہے اور سب کچھ خود امریکہ کا کیا دھرا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ محترم سرتاج عزیز کے اس موقف کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، چنانچہ جہاد افغانستان کے آغاز سے اب تک کی صورت حال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ قومی تقاضے کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اصل حقائق تک رسائی اور ان کے غیر جانبدارانہ جائزہ کی سوچ اپنائی جائے۔ خدا کرے کہ ہم اس قومی ضرورت کی تکمیل کے لیے اپنی لابیوں اور حلقوں کے دائروں سے ہٹ کر ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی علمی و فکری کام کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔
خلافت اور عالم اسلام کی سیاسی قیادت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سعودی عرب کے مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ داعش اسرائیلی فوج کا حصہ ہے اور ان خوارج کی ہی ایک شکل ہے جنہوں نے قرن اول میں اسلامی خلافت کے خلاف بغاوت کر کے ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا تھا۔ شیخ محترم نے اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلم ممالک کا فوجی اتحاد داعش کو کچلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
داعش اسرائیلی فوج کا حصہ ہے یا نہیں، یہ ایک بحث طلب بات ہے، مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ داعش نے طور طریقے وہی اختیار کر رکھے ہیں جو امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف بغاوت کرنے والے خارجیوں نے اپنائے تھے اور ایک عرصہ تک وہ مسلمانوں کا ہی خون بہاتے رہے۔ جہاں تک ۳۴ مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کا تعلق ہے، اس کی کوئی واضح عملی شکل ابھی تک سامنے نہیں آئی، البتہ اس سے یہ توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں کہ وہ داعش اور اس طرز کے دیگر دہشت گرد گروہوں کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو جائے گا جو اسلام کے نفاذ کے نام پر بہت سی مسلم حکومتوں کے خلاف ہتھیار بکف ہیں اور تکفیر و قتال کے نام پر زیادہ تر مسلمانوں کو ہی قتل و قتال کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ مسلم ممالک کا کوئی اتحاد سیاسی ہو، معاشی ہو، صنعتی ہو، تہذیبی ہو یا عسکری ہو، خود ہماری خواہش چلا آرہا ہے بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے بہت سے حلقے اس کے لیے آواز بھی اٹھاتے رہے ہیں، لیکن کیا سعودی عرب کی قیادت میں قائم کیا جانے والا یہ اتحاد عالم اسلام کی اس خواہش کو پورا کر سکے گا؟
ملت اسلامیہ کی اصل ضرورت عالمی سطح کی مضبوط سیاسی قیادت ہے جو خود مسلمانوں کے جذبات و مفادات کی نمائندگی کرتی ہو اور اندرونی و بیرونی سازشوں کے موجودہ حصار سے امت مسلمہ کو نکالنے کا حوصلہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔ اب سے ایک صدی پہلے تک خلافت عثمانیہ کی صورت میں اس عالمی قیادت کا احساس کسی نہ کسی درجہ میں موجود تھا اور اس کی افادیت بھی بہرحال قائم تھی۔ اگرچہ خلافت عثمانیہ کو ’’یورپ کا مرد بیمار‘‘ کہا جاتا تھا لیکن جب تک یہ ’’مرد بیمار‘‘ سامنے دکھائی دیتا رہا، مسلمانوں کی امیدوں اور حوصلوں کا چراغ جلتا رہا۔ مگر اس کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی امت مسلمہ خلفشار اور مایوسی کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔بعض تاریخی روایات کے مطابق خلافت عثمانیہ کے بعد سعودی عرب کی حکومت قائم ہوئی تو شاہ عبد العزیز آل سعود رحمہ اللہ تعالیٰ کو سرکردہ علماء کرام کے ایک وفد نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ آپ مملکت کی بجائے خلافت کا اعلان کر دیں تاکہ یہ خلا کسی حد تک پر ہو جائے، مگر یہ تجویز قبول نہ کی گئی۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ تجویز قبول کر لی جاتی تو گزشتہ ایک صدی کے دوران خلافت کے نام پر جتنے فتنے کھڑے ہوئے ہیں، ان سے بچا جا سکتا تھا اور خلافت کے مقدس ٹائٹل کو بہت سے طالع آزماؤں کا تختۂ مشق بننے سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔
ہمارے نزدیک آج بھی اس مسئلہ کا حل یہی ہے کہ سعودی عرب، پاکستان، ترکی، مصر یا کوئی بھی بڑا مسلم ملک خلافت کے ٹائٹل کے ساتھ امت مسلمہ کو عالمی قیادت فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کرے اور خلافت کی غیر موجودگی سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے ختم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ ایک واقعی ضرورت کو صحی طریقہ سے پورا نہ کیا جائے تو اسے غلط طریقہ سے حصول مقصد کا ذریعہ بنانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس لیے ۳۴ مسلم ملکوں کے فوجی اتحاد سے ہم یہ درخواست کریں گے کہ وہ اپنے اسی اتحاد کو صرف منفی اہداف تک محدود رکھنے کی بجائے اسے مثبت رخ فراہم کریں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ خلافت کے ٹائٹل کو دہشت گردوں کے ہاتھوں سے چھین کر اس کا پرچم خود سنبھالیں، ورنہ خلافت کے نام پر فتنے کھڑے ہوتے رہیں گے اور اس مقدس عنوان کو کسی بھی دہشت گردی کا ذریعہ بننے سے روکا نہیں جا سکے گا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لاہور موچی دروازہ میں اصغر خاں نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ یہ 1976 کا آغاز تھا۔ جلسے سے پہلے تحریک استقلال کی اعلیٰ سطح کی قیادت کا اجلاس میاں محمود علی قصوری کی رہائش گاہ 4 فین روڈ پر ہوا۔ ابھی تک اصغر خاں کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کے پورے دور حکومت میں کسی دیگر راہنما نے عوامی جلسوں سے خطاب کرنے وہ طرح نہیں ڈالی تھی جو ہزاروں لاکھوں لوگوں کو جمع کر سکے۔ البتہ چوہدری ظہور الٰہی مرحوم نے مسلم لیگ میں قدرے جان ڈالے رکھی۔ جماعت اسلامی بھی پیپلز پارٹی کے خلاف صف آرا رہی ، مگر بڑے جلسوں کی بجائے ان کا ہدف تعلیمی ادارے تھے جہاں سوشلزم کا مقابلہ کرنے کے لیے وقتاًفوقتاً کسی معصوم طالب علم کی جان بھی لے لیتے اور ثواب دارین حاصل کرتے۔ خاں عبد الولی خاں کو پنجاب میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص پذیرائی ملتی تھی۔ مگر حکومت انہیں پنجاب کے عوام سے ملنے میں ہر طرح سے رکاوٹیں ڈالتی۔ بالآخر انہیں حبیب جالب اور دیگر ساتھوں کے ہمراہ حیدر آباد ٹربیونل میں اس وقت تک قید رکھا گیا جب تک ذوالفقا ر علی بھٹو کی جگہ ضیاء الحق نے اقتدار نہیں سنبھالا۔ دیگر سیاسی جماعتیں بس ایسے ہی کسی پریس کانفرنس، کسی بیان یا کسی بار روم میں خطاب کے سہارے ہی چل رہی تھیں۔ ایسے میں اصغر خاں کے عوامی جلسوں نے جہاں حکمرانوں کو للکارا وہیں عوام کو بھی ایک سیاسی زندگی دی ۔
موچی دروازہ جہاں لاہور کی سیاست کا دل دھڑکتا تھا، یہ جلسہ حکومت اور اپوزیشن کے لیے ایک بڑ ا معرکہ تھا۔ ملک وزیر علی تحریک استقلال کے نائب صدر تھے جو بڑے منتظم آدمی تھے ۔ انہوں نے مختلف پارٹی ورکرز کی ٹولیاں بنا کر انہیں مختلف راستوں سے موچی دروازہ پہنچے کو کہا۔ ایک گروپ جس نے موچی دروازہ میں ان ورکرز کا استقبال کرنا تھا، اس کی سربراہی تحریک استقلال کے سیکرٹری اطلاعات علامہ احسان الٰہی ظہیر نے کی جبکہ ان کے ساتھ مجھے نائب کے طور پر مقرر کیا گیا۔ ہم فین روڈسے نکل کر مال روڈ، بیڈن روڈ اورنسبت روڈ سے ہوتے ہوئے چیمبر لین روڈ کے اس سرے تک پہنچے جہاں سے موچی دروازہ ہمارے سامنے تھا۔ ذاتی مقاصد کے لیے بنائی گئی ذوالفقار علی بھٹو کی " فیڈرل سیکیورٹی فورس" سڑک پر سیدھی گولی کی پوزیشن لیے ہوئے صف آرا تھی۔ ہم دونوں دائیں بائیں کی گلیوں سے نکل کر اسٹیج کے عقب میں پہنچ گئے۔ علامہ صاحب فوراً سٹرھیاں چڑھ کر اسٹیج پر پہنچ گئے اور ہاتھ ہلا کر کارکنوں کو تسلی دی۔ انہیں اسٹیج پر موجود پا کر چاروں اطراف سے تحریک استقلال کے کارکن اور عوام کا ایک جم غفیر جلسے میں آگیا ۔ اس سے قبل کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر اپنی تقریر شروع کرتے، اوپر تلے تین چار کریکر چلائے گئے۔ لوگ ہراساں ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ پیپلز پارٹی کے ایک طالب علم راہنما جسے " فتنہ" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، اُس نے یہ شرارت کی ہے جو ا س کام میں ماہر گنا جاتا ہے اور یہی اُس کا " افتخار " ہے، تاہم اس کے بعد علامہ صاحب نے ایسی پر جوش تقریر کی کہ سہما ہوا ہجوم جم گیا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر برس ہابرس تک تحریک استقلال کے سیکرٹری اطلاعات رہے۔ وہ غایت درجہ آتش نوا مقرر تھے۔ ان کی آواز کا طنطنہ کمال کا تھا۔ رعدکی گونج اور بجلی کی کڑک تھے۔ انہوں نے تلوار کا لہجہ اپنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان میں ایک بلند مقام کے خطیب ٹھہرے۔ انہیں سعودی عرب میں ایک بڑا مقام حاصل تھا، اسی لیے ایک بار حج کے دوران خانہ کعبہ میں جنرل ضیاء الحق سے ملاقات ہو گئی تو ضیاء الحق نے پوچھا کہ علامہ صاحب! آپ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جنرل صاحب آپ نے الیکشن تو کروانے نہیں، کم ازکم قوم سے جھوٹ تو نہ بولیں۔ میں خانہ کعبہ میں کھڑے ہو کر وعدہ کرتا ہوں کہ آپ اسلام کا نام لینا چھوڑ دیں تو میں آپ کی مخالفت کرنا چھوڑ دوں گا۔ اس پر جنرل ضیاء الحق نے اپنے مخصوص انداز میں اپنا دایاں ہاتھ سینے کی بائیں جانب رکھتے ہوئے پھر ایک جھوٹا وعدہ کیا کہ وہ جلد از جلد انتخابات کروادیں گے۔ ضیاء الحق تو حسب توقع الیکشن کروانے سے پھر مکر گیا، مگر علامہ صاحب نے اس کی مخالفت میں مزید تیزی او ر شدت پیدا کر دی ۔ اس وقت تک علامہ صاحب تحریک استقلال سے علیحدہ ہو کر اپنی قیادت میں مسلک اہلحدیث کی ایک بڑی جماعت تشکیل د ے چکے تھے ۔ شہر شہرقریہ قریہ فوجی جنتا کے خلاف خطاب کیا ۔ ضیا ء الحق نے برا محسوس کیا۔ کینہ پرور آدمی تھا، اس لیے علامہ صاحب کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کر لیا۔
پھر ایک روز جب علامہ احسان الٰہی ظہیر قلعہ لچھمن سنگھ لاہور کے چوک میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے آئے تو یہ ان کی زندگی کا آخری جلسہ ثابت ہوا۔ ابھی خطاب شروع کیا ہی تھا کہ ایک بم نے اسٹیج کے بخیے ادھیڑ دیے۔ لوگ لہولہان ہو گئے۔ کچھ موقع پرہی دم توڑ گئے۔ سارا ملک سوگوار ہو گیا۔ علامہ صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہوں نے اپنے نزاعی بیان میں کہا کہ انہیں جنرل ضیاء الحق نے مروانے کی کوشش کی ہے۔ آخری سانس تک بھی یہ ہی کہتے رہے کہ اگر وہ مر گئے تو ان کا خون جنرل ضیاء الحق کی گردن پر ہو گا۔ یار لوگوں نے ان کی موت کے ڈانڈے شاہدرہ کی ایک امام بارگاہ سے ملانا چاہے مگر ناکام لوٹے۔ شدید زخمی حالت میں سعودی عرب نے بڑے اہتمام سے اپنے ہاں لے جا کر ان کا علاج کرنے کی تمام کوشش کیں، مگر وہ زندگی ہار چکے تھے۔ انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا اور وطن عزیز کی پر آشوب سیاست کا ایک اور باب ختم ہوا۔
روایتی مسلم ذہن میں مسئلہ الحاد کی غلط تفہیم
عاصم بخشی
روایتی مسلم ذہن میں موجود سماج کا تصور چونکہ الہامی روایت کی مختلف تعبیرات سے معاشرتی معیارات اخذ کرتا ہے، لہٰذا ایسے غیرمذہبی ذہن کو بھی الحادی یا ’ نیم الحادی‘ گردانتا ہے جس کے لیے الہامی روایت سماجیات کی ذیل میں اپنے اندر کوئی نظری یا عملی دلچسپی نہیں رکھتی۔ اگر تاریخی تناظر میں مسلم سماج کے حال پر ایک نظر ڈالی جائے تو اٹھارویں صدی کے یورپ کی تنویری یا روشن خیال تحریک کی ایک سطحی سی جھلک نظر آتی ہے۔ سطحی اس لئے کہ چاہے بنگلہ دیش میں اپنے شدت پسند مذہبی حریفوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ’فری تھنکر‘ انٹرنیٹ ادیب اور کالم نگار ہوں یا پاکستانی سوشل میڈیا پر برسرپیکار مختلف عقلیت پسند الحادی و نیم الحادی آوازیں، اپنی سیاسی و سماجی تعبیرات کے کوئی ایسے چشمے نہیں رکھتیں جو اسی زمین سے پھوٹیں جس کی سیرابی کے سماجی حق کے لئے وہ جدوجہد میں مشغول ہیں۔ ہمارے ہاں روایتی مذہبی ذہن اور روشن خیال عقلیت پسند ذہن کی باہمی کشمکش کے لئے ابن سینا یا ابن طفیل کی بجائے گیلیلیو کو استعاراتی ترجیح دینا اس لئے حیرانی کی بات نہیں کہ اٹھارویں صدی کی روشن خیال تحریکوں، صنعتی و سائنسی انقلاب اور دورِ استعماریت کے بعد پوری دنیا سکڑ کر کچھ ایسے ملفوظ یا ناملفوظ سماجی معیارات کو تیزی سے ہمہ گیر تسلیم کر نے کے دور سے گزر رہی ہے جن کی بنیادوں میں سائنس طریقہ استدلال سے جڑی تاریخِ فکر کو بلاشبہ روایتی فلسفیانہ استدلال کے مقابلے میں اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا کشمکش کے اس پورے منظرنامے میں اگر روایتی اور تجدد مخالف مذہبی ذہن کے پاس کچھ ایسی منجمد الہامی تعبیرات کا سہارا ہے جو قرونِ وسطیٰ کی تعبیری روایت سے منسلک ہیں تو غیرمذہبی عقلیت پسند ذہن کی پشت پرجدید سائنس کی کم و بیش تین سو سالہ طویل مستحکم روایت کھڑی ہے جو مسلسل اپنے پھیلاؤ کے ذریعے ذہن سازی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔
عقلیت پسند ذہن سازی کے اس مسئلے کو کسی مثال سے سمجھنا ہو تو بنگلہ دیشی ’فری تھنکر‘ تحر یک کے ۱۳ سالہ کارکن محی الدین کی ذہنی کشمکش پر ایک نظر دوڑائیے جو مذہبی شدت پسندوں کے متعدد حملوں کے بعد بالآخر جرمنی میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے اور آج کل وہاں سے بذریعہ انٹرنیٹ سرگرمِ عمل ہیں۔ ایک مسلم خاندان میں پیدا ہونے والے محی الدین کا کہنا ہے کہ انہیں جنت و جہنم کے واقعات سے بھرپور مذہبی’’ قصے کہانیاں ‘‘کسی دیومالا کی طرح مضحکہ خیز معلوم ہوتی تھیں لہٰذا تیرہ سال کی عمر سے ہی وہ اپنے آپ کو ملحد سمجھنے لگے۔ ان کے بقول اس ردعمل پر ان کے والد بہت شرمسار تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے اسٹیفن ہاکنگ کی مشہورِ زمانہ کتاب ’بریف ہسٹری آف ٹائم‘ (اردو ترجمہ: وقت کا سفر) کا مطالعہ کیا جس نے ایک نئے جہان کی طرف ان کی راہنمائی کی۔ سولہ سال کی عمر میں ان کا تعارف ایک ایسے بنگلہ دیشی مجلے سے ہوا جو نظریہ اضافت اور دوسرے سائنسی اصولوں کی مدد سے قرآن کریم میں موجود معجزوں کی تعبیرات پیش کرتا تھا۔ محی الدین نے اپنے کڑے تنقیدی خطوط میں یہ نکتہ اٹھایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ سائنسی طور پر ناممکن تھا کہ کسی گھوڑے پر سوار ہو کر آسمانوں کا سفر کر آتے۔یوں ڈھاکہ سے شائع ہونے والے مختلف اخبارات میں ان مختلف مذہب پسندوں سے ان کا کڑا مناظرہ جاری رہا۔ ۲۰۰۸ء میں کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کے بعد انہوں نے مستقل طور پر لکھنا شروع کیا اور یوں وہ تحریک برپا ہوئی جس کے نتیجے میں ان کے چار ساتھی مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور وہ خود بنگلہ دیش سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔
آپ کے سامنے یہ نہایت مختصر سوانحی منظرنامہ رکھنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول تو یہ منظرنامہ ہمیں ایک روایتی مذہبی ذہن کا ردعمل سمجھنے میں ناگزیر مدد فراہم کرتا ہے اور دوسرا ایک روایتی عقلیت پسند ذہن کی ماہیت اور جدید دنیا میں اس کے ارتقاء پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اپنے ایک اخباری مضمون میں ایک عالم دین کے مشہور مغربی مفکر کارل ساگاں کی کتاب ’کاسموس‘ پر پابندی کے مطالبے کو مثال بنا کر راقم نے روایتی مذہبی ذہن کے ایک مخصوص متشدد ردعمل کی کی جانب نشان دہی کی تو کچھ محترم مذہب پسند دوستوں نے یہ سوال اٹھایا کہ پھر کیا چپ سادھ لی جائے اور سماج کو فکری طور پر آزاد چھوڑ دیا جائے؟ ایک اور مشہور اہلِ علم نے مجھ طالب علم پر یہ اعتراض اٹھایا کہ یہ ایک خطرناک فکری نراجیت پسندی معلوم ہوتی ہے اور کوئی بھی مذہبی یا غیرمذہبی سماج فکر کو بالکل آزاد کیسے چھوڑ سکتا ہے؟
ذاتی نوعیت کے یہ دونوں اعتراضات پیش کرنے کا مقصد بھی روایتی مذہبی ذہن کے ردعمل کی اس مخصوص جہت ہی کو مزیدواضح کرنا ہے کیوں کہ راقم کی سوچی سمجھی رائے میں فی زمانہ اسلام کی مذہبی سماجی روایت کے سامنے ردعمل کے مباحث ترتیب دینے کا مسئلہ تو سرے سے درپیش ہے ہی نہیں کیوں کہ اس کا تعلق تو بہرحال کسی نہ کسی طرح مسئلے کے حل سے ہے۔ یہاں تو فی الحال مسئلے کے خدوخال پر ہی اتفاق زیرِ التوا ہے۔ جب ایسے سوال ہی سامنے موجود نہ ہوں جن پر ایک سماج میں باہمی اتفاق پایا جاتا ہو تو جواب چہ معنی دارد؟ ظاہر ہے اگر کوئی روایتی مذہبی ذہن مسئلے کے خدوخال ہی یوں مرتب کرتا ہے کہ ہمارے نام نہاد مذہبی سماج کا مسئلہ اخلاقیات کا جنازہ نکلنا، باہمی محبت و احترام کا ایک سماجی قدر کے طور پر ناپید ہو جانا، اور روشن خیالی و خرد افروزی کو ایک طنز و دشنام کے طور پر رواج دینا نہیں بلکہ فلسفہ و سائنس کے ذریعے بڑھتا ہوا الحاد ہے تو اس کے نزدیک یہ سادہ لوح ردعمل یقیناًمعقول ٹھہرے گا کہ ’کاسموس‘ اور ’بریف ہسٹری آف ٹائم‘ جیسی کتابوں پر سرے سے پابندی ہی لگا دی جائے۔ لیکن اگر پھر بھی ہم جیسے ’نیم ملحدین‘ باز نہ آئیں اور ریاست یہ نیک کام کرنے میں سستی کرے تو پھر ہمارے پیٹ میں خنجر گھونپ دینا بھی یقیناًاسی ردعمل کا اگلا معقول ترین مذہبی قدم ہونا چاہیے جسے تائیدِ غیبی حاصل ہو۔
لیکن ہماری رائے میں اس ہولناک سماجی سانحے سے بچنے کی واحد معقول ترین صورت یہی ہے کہ اس روایتی مذہبی ذہن کے مقابل کھڑے ایک غیرمذہبی عقلیت پسند ذہن کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کیا یہ واقعی کوئی مسئلہ بھی ہے یا سادہ طور سے ایک مستقل ذہنی ارتقاء کا ہی تسلسل ہے جس کے ساتھ اب ہماری روایتی مذہبی روایت کو کئی داخلی و خارجی وجوہات کے باعث قدم ملا کر چلنے میں مشکل پیش آ رہی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مشکل پر قابو پانے کا کوئی دوسرا نفیس طریقہ نہ ہونے کے باعث یہ مخصوص روایتی مذہبی شعوراب اپنی داخلی سماعت کے پردوں سے خدا کی یہ تحکمانہ آواز ٹکراتے سن رہا ہے کہ دوڑ میں آگے نکلنے والے حریف کو اڑنگا دے کر گرا دیا جائے؟ چونکہ ہماری روایت میں مذہبی کے ساتھ ساتھ غیرمذہبی روایت کے سوتے بھی عرصے سے خشک پڑے ہیں لہٰذا کیوں نہ مغربی عقلیت پسند ذہن کی ماہیت کو براہِ راست سمجھنے کی کوشش کی جائے تاکہ جہاں روایتی مذہبی ذہن کو اس کی خطرناک سادہ لوحی کا یقین دلایا جا سکے وہی ہمارے ہاں کے عقلیت پسند مقلدین و نیم ملحدین کو بھی واضح ہو سکے کہ وہ اپنے مخصوص تعصبات کے لئے کتنا معقول جواز رکھتے ہیں جس پر ان کو خود بھی غیرمتزلزل یقین ہو۔
چونکہ اس مختصر مضمون کو اس حد تک طویل نہیں کیا جا سکتا کہ نظر خراشی کا الزام معقول ٹھہرے لہٰذا کتابوں کے اقتباسات کی بجائے آپ کی توجہ کے لیے ۸۰ء کی دہائی کے اواخر میں نشر کی جانے والی ایک گھنٹے کی نادر دستاویزی فلم کا انتخاب کیا ہے جس کا عنوان ہے ’خدا، کائنات اور باقی سب کچھ‘۔ یہ وہ سال ہے جب اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ راقم کی رائے میں یہ مکالمہ اس جاری بحث کے تناظر میں اس لیے دلچسپ ترین ہے کہ مکالمے کے تینوں شرکاء یعنی اسٹیفن ہاکنگ، کارل سیگاں اور آرتھر سی کلارک نہ صرف چوٹی کے سائنسی مفکرین تھے بلکہ زمانہ جدید کی تاریخ فکر میں بھی ان کے نام سائنسی تفکر کو عوامی طور پر متعارف کروانے کے لحاظ سے سرفہرست ہی رہیں گے۔ پوری فلم تو انٹرنیٹ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے اوراپنے آپ کو اب تک مجھ سے متفق پانے والے قاری یقیناًاس کے ذریعے وہ تقابلی نفسیاتی جائزہ لینے کے قابل ہوں گے جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا۔ اس نفسیاتی جائزے میں تجسس، جستجو، تخیل کی جست، منطقی استدلال کی نوعیت، شعور کی حقیقت مطلق کو جان لینے کی داخلی کشمکش وغیرہ جیسی جہتوں پر تو سیر حاصل بحث ہو سکتی ہے، لیکن یہاں اس کے اختتامی حصے کے کم وبیش دس منٹ کے مکالمے کا ترجمہ پیش کرنا بہت ضروری ہے۔ اپنے سوالات کے ذریعے گفتگو کو آگے بڑھانے والے مشہور صحافی میگن میگنسن تھے۔
’’میگن: پروفیسر ہاکنگ، اپنی کتاب کے بالکل آخر میں آپ لکھتے ہیں کہ اگر ہم کائنات کا ایک مکمل نظریہ دریافت کر لیں تو پھر آخرکار وہ کچھ وقت میں(عوامی سطح پر) قابلِ فہم مانا جائے گا اور نہ صرف سائنسدانوں بلکہ ہر ایک کو اصولی طور پر متفق کر دے گا۔ اور جب یہ ہو جائے گا تو ہم ’کیسے ‘ کی بجائے ’کیوں‘ کے بارے میں بحث کرنے کے قابل ہوں گے۔ میں آپ کا اقتباس پیش کرتا ہوں کہ ’’اگر ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیں تو یہ انسانی عقل کی حتمی فتح ہو گی کیوں کہ پھر ہمیں خدائی ذہن کا علم حاصل ہو جائے گا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے خیال میں خدا جیسے چاہے کائنات میں دخل دے سکتا ہے؟ یا خدا بھی قوانین سائنس کے دائرے میں محدود ہے؟
اسٹیفن ہاکنگ: یہ سوال کہ آیا خدا قوانین سائنس کے دائرے میں محدود ہے، اسی قسم کے سوال کی طرح ہے کہ کیا خدا ایک ایسا بھاری پتھر بنا سکتا ہے جسے وہ خود بھی نہ اٹھا سکے؟ میں نہیں سمجھتا کہ یہ تفکر کچھ خاص مفید ہو سکتا ہے کہ خدا کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں بلکہ ہمیں اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ و ہ واقعتا اس کائنات کے ساتھ کیا کرتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ ہمارے تمام مشاہدات یہ تجویز کرتے ہیں کہ وہ کچھ اچھی طرح متعین قوانین کے مطابق کام کرتا ہے۔ و ہ قوانین شاید خدا نے خود ہی متعین کیے ہوں، لیکن یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ قوانین توڑنے کے لیے کائنات میں دخل نہیں دیتا، کم از کم جب ایک دفعہ کائنات اپنے راستے پر چل پڑے۔ تاہم اب تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ تمام قوانین کائنات کے نقطہ آغاز پر ہر صورت ٹوٹ جاتے ہیں جس کا مطلب یہی تھا کہ کائنات کے آغاز کی حد تک خدا کو انتخاب کی مکمل آزادی تھی۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں ہمیں اندازہ ہوا کہ قوانین سائنس وقت کے نقطہ آغاز پر بھی شاید متعین ہی ہیں۔ اس صورت میں تو خدا کو یہ آزادی نہیں ہو گی اور کائنات کا نقطہ آغاز بھی سائنسی قوانین کے ذریعے ہی متعین ہو گا۔
میگن: بہت شکریہ۔ کارل ساگاں، اس کتاب کے تعارف میں آپ نے تبصرہ کیا کہ یہ کتاب خدا کے بارے میں بھی ہے بلکہ شاید خدا کے نہ ہونے کے بارے میں، کیوں کہ ہاکنگ نے خدائی تخلیق کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ لیکن ظاہر ہے، خدا مختلف لوگوں کے لیے مختلف معنی رکھتا ہے۔ جب ہم ذہن خداوندی تک جست کی بات کرتے ہیں تو ہم کس قسم کے خدا کا تصور قائم کر رہے ہوتے ہیں؟
کارل ساگاں: بھئی میرے خیال میں تو یہ ایک اعلیٰ ترین سوال ہے اور میں اسٹیفن ہاکنگ کا جواب جاننا چاہوں گا۔ لیکن صرف حدودِ امکان کا احاطہ کرنے کی خاطر میں دو متبادل قیاسات پر غور کی دعوت دیتا ہوں۔ایک تو مغرب کا مشہور تصورِ خدا ہے جہاں خدا ایک بہت جسیم سفید فام مرد ہے جو اپنی لامبی سفید ریش کے ساتھ تخت آسمانی پر براجمان ہر گرتی چڑیا کے بارے پیشین گوئی کر رہاہے۔ اس کے متبادل وہ تصورِ خدا ہے جو مثال کے طور پر اسپینوزا یا آئن سٹائن کے ذہن میں موجود ہے جو کم از کم کائنات کے کل مجموعہ قوانین کے بہت قریب ہے۔ اب کائنات میں متعین طبیعی قوانین کا انکار کرنا پاگل پن ہی ہو گا اور اگر آپ کی خداسے یہی مراد ہے تو خدا کے نہ ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ لیکن یہ ایک بہت ہی دوردراز بیٹھا خدا ہے جسے فرانسیسی روایت میں ’ کاہل بادشاہ‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس کے برعکس پہلے والا تصور جو کائناتی مظاہر میں روز مرہ کی بنیاد پر دخل اندازی کرتا ہے، ڈاکٹر ہاکنگ کے بقول اس کے کوئی شواہد نہیں پائے جاتے۔ میرا ذاتی رجحان یہی ہے کہ ان معاملات میں انسان کو ذرا عاجزی کا مظاہرہ ہی کرنا چاہیے کیوں کہ ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم اصولی طور پر کچھ ایسے پیچیدہ معاملات کے بارے میں رائے قائم کرنا چاہ رہے ہیں جو انسانی تجربے سے سب سے زیادہ فاصلے پر ہیں۔اور شاید ہم ان پراسرار رازوں کی جانب ذرا سا رینگنے کے قابل ہی ہو پائیں۔
میگن: شاید پروفیسر ہاکنگ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
اسٹیفن ہاکنگ:میں خدا کا نام اسی طرح استعمال کرتا ہوں جیسے آئن سٹائن نے کیا کہ وہ کائنات کے اس طرح ہونے کی اولین توجیہ ہے جس طرح کہ وہ ہمارے سامنے ہے اور اس کے موجود ہونے کی اولین علت بھی وہی ہے۔
میگن: آرتھر کلارک، کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ اس بات کا کیا مطلب تھا جب آپ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں خدا پر ایمان نہیں رکھتا لیکن اس میں شدید دلچسپی رکھتا ہوں۔
آرتھر کلارک: (مسکراتے ہوئے) خیر میں نے تو اب تک اپنی شرط ہی نہیں باندھی۔ اسٹیفن اور کارل کے تبصروں سے مجھے نپولین اور لاپلاس کا نظریہ کائنات کے ضمن میں دو سو سال پرانا مکالمہ یاد آ گیا جب نپولین نے اس سے پوچھا کہ ’’اس میں خدا کہاں ہے؟‘‘ تو لاپلاس نے جواب دیا کہ ’’جناب، مجھے اس قیاس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔‘‘ میں اس سلسلے میں پنڈت نہرو کے اس قول کا بہت معترف ہوں کہ سیاست اور مذہب کا زمانہ گزر گیا، یہ زمانہ سائنس اور روحانیت کا ہے۔‘‘
پوری گفتگو ہی نہایت دلچسپ ہے لیکن یہ اقتباس پیش کرنے کا مقصد ایک طرف تو روایتی مذہبی ذہن اور دوسری طرف پچھلی دو دہائیوں سے تیزی سے بڑھتے ایک متشدد سائنس پرست الحادی ذہن کو اپنی ردعمل کی نفسیات پر نظر ثانی کی دعوت دینا ہے۔جہاں اسی گفتگو کے اختتام پر ایک سوال کے جواب میں اسٹیفن ہاکنگ کا یہ تبصرہ کہ فزکس ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ ہمسائے سے کیسے سلوک کرنا ہے، الحادی روایت کے شدت پرست حامیوں کے لیے چشم کشا ہے، وہیں اس میں روایتی مذہبی ذہن کے فہم کے لیے نہایت اہم اشارے ہیں۔ ان میں اہم ترین اشارہ یہی ہے کہ ایک اعلیٰ ٰجدید عقلیت پسند ذہن کی ماہیت نہایت پیچیدہ طور پر سائنسی استدلال اور سائنسی تاریخ فکر کی روایت سے نہ صرف نظری طور پر مربوط ہے بلکہ عملی میدان میں ایسے نتائج بھی پیدا کرنے کے قابل ہے جن کے لیے کسی نظری استدلال کی ضرورت نہیں۔ یہ پیچیدہ جدید ذہن آج ایک ایسے نئے تناظر میں ایستادہ ہے جہاں عوامی طور پر سائنس پر ایمان لانے کی صورت کم وبیش وہی ہے جو خدا پر ایمان لانے کی ہے۔ یہ انسان خدا کو اس کے تصور کی بجائے اس کی فعالیت سے تو پہچانتا ہی تھا، لیکن آج سائنس پر ایمان لانے کی کیفیت بھی کم وبیش ایسی ہی ہے۔ ایک کسان جہاں سجدے میں بارش کی دعا کرتا ہے اور آسمان سے پانی کے نزول کو خدائی قوت کا مظہر سمجھتا ہے، وہیں اسے یہ ایمان بھی ہوتا ہے کہ موسمی پیشین گوئی کے مطابق اگلے تین دن بارش کے امکانات معدوم ہیں۔ یہ اب نفسیاتی طور پر ایک شدید تجربیت پسند انسانی شعور ہے جسے تجربے سے بہت فاصلے پر موجود حقائق پراسرار معلوم ہوتے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ ہر لمحہ کائنات کے اسرار و رموز پر سے پردہ اٹھاتے، ابدی پیاس سے نڈھال، زمانہ جدید کے اس انسان کی جستجو بھی روایتی مذہبی ذہن میں ایک ہیبت سے بھرپور محبت پیدا کرنے کی بجائے نفرت اور ردعمل پر اکساتی ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ یہ کیسی مذہبی نفسیات ہے جو ہر لمحہ اپنے خدا کے آگے پردہ تانے کھڑی ہے اور اسی خدا تک پہنچنے کے متلاشی انسان کو حملہ آور سمجھ بیٹھی ہے کیوں کہ وہ اپنی زندگی میں خدا کو کوئی ’معنی خیز‘ جگہ دینے سے قاصر ہے۔
یہ اب ایک صریح نتائجیت پسندی پر استوار منظر نامہ ہے جس میں ایسی روایتی مذہبی فکر کو جو جدیدیت سے سمجھوتے کے بعد ایک معقول اور جامع تجدیدِ فکر کے نتیجے میں انسانیت کی عالمگیر فکری روایت میں اپنا حصہ نہیں ڈالنا چاہتی، سائنسی تفکر کے خلاف استبدادی محاذ آرائی کی بجائے اخلاقیات و مابعدالطبیعات کے میدان میں اپنے رہے سہے اختیار کو اس طرح قائم رکھنے کی فکر کرنی چاہیے کہ ایک ایسا فرد جسے الٰہامی تعبیرات کی بنیاد پر کھڑے مذہب کے مجموعی اعتقادی ڈھانچے پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے تو وہ اس ایمانیات کوجبرِ محض کی بجائے دنیا میں نوعِ انسانی کی فلاح اور آخرت میں نجات کے ساتھ ایک مربوط فکری و عملی نظام کے طور پر اپنانے کے لیے تیار ہو۔ دوسرے لفظوں میں روایتی مذہبی فکر کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ استبداد اور جبر سے دورِ جدید کی مذہبی سماجیات میں سوائے مزید ردعمل اور شدت پسند الحادی فکر پیدا کرنے کے کوئی اور خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں کیا جا سکتا جو خدا کی بارگاہ میں بھی پسندیدہ ٹھہرے اور انسانوں کے لئے بھی کسی مجموعی خیر کا ضامن ہو۔
اوپر پیش کی گئی گفتگو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ سوال اٹھانا ہر گز مشکل نہیں کہ ہمارے وقت کے یہ اعلیٰ ترین اذہان جن کی فکر کو ہمارے تیسری دنیا کے مذہبی سماج میں مسئلہ الحاد کی جڑ سمجھا جا رہا ہے، ان سوالات میں سرے سے دلچسپی ہی نہیں رکھتے جوہمارے ہاں کی روایتی مذہبی فکر کا موضوع ہیں۔شاید یہ خدا کوماننے کا نہیں بلکہ ایک مخصوص تصورِ خدا سے ایسا ذاتی تعلق پیدا کرنے کا مسئلہ ہے جو یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے۔ جہاں دو دہائیاں قبل ویٹی کن میں آرتھر کلارک جیسوں کے خطاب کے بعد کیتھولک کلیسا کی روایت اپنی ساڑھے تین سو سالہ پرانی غلطی تسلیم کرنے کے بعد گلیلیو کو بری الذمہ قرار دے چکی ہے، وہاں ہمارے ہاں کی روایتی مذہبی فکر ابھی صرف اس پیچیدہ جدید نفسیات کے فہم سے مسئلے کے خدوخال متعین کر نے کی جانب اولین قدم ہی اٹھا سکتی ہے۔ اسے اپنے اوپر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر انسان کو اپنی کامل ابدی تسکین کے لیے خدا کی ضرورت ہے تو اسی روایتی مذہبی ذہن کی تعبیرات کے مطابق خدا بھی تو کمالِ بے نیازی سے اپنے آپ کو مانے جانے کا مطالبہ لیے کھڑا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مذہبی فکر اپنی اٹل تعبیرات پر ’غیرمعقول‘ پیرایے میں اصرار کی دیوار کے ذریعے بندے اور خدا کے درمیان موجود ہے؟
(مضمون میں مذکورہ دستاویزی فلم کا انگریزی عنوان God, the Universe and Everything Else ہے اور اسے انٹرنیٹ پر بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔)
مکاتیب
ادارہ
(۱)
ممتاز قادری کی سزا کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے راقم نے دسمبر 2015ء کے ’’الشریعہ‘‘ میں دلائل سے ثابت کیا کہ توہین رسالت پر سزائے موت کے قانون کے ہوتے ہوئے، کسی شخص کا توہینِ رسالت کے کسی ملزم کوماورائے عدالت قتل کرنا ،شرعی نقطہ نظرسے غلط ہے؛ لہٰذازیر بحث کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بے جواز نہیں۔ اس پر بعض کرم فرماؤں کی جانب سے کچھ اختلافات واعتراضات سامنے آئے ہیں۔
کچھ حضرات نے فرمایا ہے کہ آپ جیسے لوگ اس طرح کے دلائل سے یہود و نصاریٰ کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ان کی پیروی ہی کیو ں نہیں کر لیتے تاکہ وہ خوش ہو جائیں!؛ لیکن قرآن کا فیصلہ ہے کہ وہ خوش نہیں ہوں گے۔
سچ یہ ہے کہ ہم خود کو ، اس معاملے پر کوئی دلیل پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں پاتے، اس لیے کہ کس کی کس کو خوش کرنے کی نیت ہے؟ اس کی دریافت اتنا مشکل کام ہے کہ ہمارے کرم فرما ہی اتنی آسانی سے کر سکتے ہیں! ہم لوگوں کے باطن میں اتر کر ان کے مسائل اور بیماریوں کی تشخیص کا(اگر کچھ جان بھی سکیں تو ) اتنا فن نہیں جانتے کہ آدمی کو دیکھے، ملے اور جانے بغیر اس کے باطن پر حکم لگا سکیں۔ہاں ! اپنی صفائی کی بات ہو سکتی ہے، لیکن وہ بھی معترضین ایسے مسکت دلائل سے رد کر سکتے ہیں جن کا ہمارے پاس، ہمیں اقرار ہے، کہ کوئی جواب نہیں ہو گا۔ مثلاً وہ کہہ سکتے ہیں: تم اوپر اوپر سے صفائیاں پیش کر رہے ہو، اندر تمھارے وہی کچھ ہے جو ہم عرض کر رہے ہیں۔ سو دوسری اور پہلی بات ہی کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہماری بساط میں ہے۔
جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ توہینِ رسالت کا مر تکب، فقہا کے نزدیک مباح الدم ہے جس کے قتل کرنے والے کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ تادیباً کوئی تعزیر ی سزا دی جائے گی؛ لہٰذا ممتاز قادری کو سزاے موت دینا غلط ہے، کوئی تعزیری سزا دی جا سکتی ہے تو اس کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ مقدمے، ثبوت اور عدالتی کاروائی سے متعلق ایک بے مثل عجوبہ ہے۔ یعنی کسی کے جرم کے حق میں دلائل اس کا کام تمام کرنے کے بعد فراہم کیے جا سکتے ہیں ! بعد میں اگر پتہ چلے کہ ملزم مجرم تھا، اور اس کی بنا پر کسی شخص نے اسے قتل کر دیا تھا تو اب قاتل کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی! ثبوتِ جرم کا یہ طریقہ عدالتوں کو بہ طورِ رہنما اصول اپنانا چاہیے اور قاتل کو اس وقت تک مہلت دینی چاہیے جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ قاتل، مقتول کو قتل کرنے میں حق بہ جانب تھا؛ اور قاتل کو مقتول کے قتل پر سزا دینے اور سزا کے حق میں دلائل تلاش کرنے کی بجائے ان شواہد پر نظر رکھنی چاہیے جو مقتول کے خلاف مرورِ زمانہ سے مہیا ہوئے ہیں۔ کیا قانون ، عدالت اور مقتول کے ساتھ اس سے بڑا مذاق ممکن ہے! ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہوں : بھلا یہ دلیل بھی کوئی دے سکتا ہے!، لیکن یہ دلیل دی گئی ہے ؛ اور ایک مشہور صاحب ’’ ماہنامہ‘‘ کی جانب سے دی گئی ہے۔
اس دلیل کی لغویت کو ایک طرف رکھیں اور صرف اس زمینی حقیقت ہی کو دیکھ لیں کہ زیر نظر کیس میں جب قاتل نے مقتول کو قتل کیا، اس وقت قاتل کے حق میں فضا زیادہ تھی ، یا بعد میں زیادہ ہوئی! ہمارا دعویٰ ہے کہ بعد میں فضا قاتل کے مخالف ہوتی گئی اور ان لوگوں کی طرف سے بھی اس کے اقدام کو غلط قرار دیا گیا جو واقعے کے ابتدائی دنوں میں اس کے حق میں دلائل دیتے اور نعرے لگاتے تھے۔ راقم ایسے بیسیوں صاحبانِ علم کو جانتا ہے جو ابتدا میں یہ کہتے تھے کہ سلیمان تاثیر کا قتل درست تھا؛ لیکن بعد میں اس کے قائل ہو گئے کہ یہ قتل غلط تھا۔ اس کے بر عکس میں ایک بھی بندے کو نہیں جانتا جو پہلے ممتاز قادری کے اقدام کو غلط سمجھتا تھا، لیکن بعد میں اس کا جواز پیش کرنے لگا۔ گویا بعد کے حالات نے تو یہ ثابت کیا کہ مقتول کو ایک فرضی اور غیر ثابت شدہ الزام پر، بہت سے دیگر محرکات اور اس کے خلاف ایک خاص فضا پیدا ہوجانے کے نتیجے میں، رد عمل کی نفسیات کے تحت موت کے گھاٹ اتارا گیا، نہ کہ ایک صحیح الزام پر قتل کیا گیا!؛ تو اگر بعد کے ثبوتوں پر ہی جانا ہے، تو بھی مذکورہ کیس میں کورٹ کا فیصلہ درست قرار پاتا ہے، نہ کہ اس کے بر عکس۔
خود عدالت نے بھی اپنے تفصیلی فیصلے میں یہ کہا ہے کہ ملزمِ توہین رسالت کو ایک فرضی توہین کے پیش نظر قتل کیا گیا، اس بات کا کوئی تشفی بخش ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ مقتول نے واقعی توہین رسالت کی تھی۔ عدالت چاہتی تو صرف اس بنیاد پر بھی سزا سناسکتی تھی کہ قاتل نے قانون ہاتھ میں لیا، لیکن اس نے اس بات کو بہ طورِ خاص پیش نظر رکھا کہ قاتل نے بلا ثبوت اور بے جواز اقدام کیا؛ مقتول کے معاملے میں توہین کا کوئی واضح ثبوت نہیں تھا۔
اب آئیے مباح الدم کے مسئلے کی طرف۔ مرتد یا گستاخِ رسول کے مرتد اور اس کے نتیجے میں مباح الدم ہو جانے میں علما کے اختلاف سے قطع نظر، سوال یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے ، کسی شرعی امر کے تحت کسی کے مباح الدم ہو جانے کا، بہ طورِ خاص ایک نظمِ ریاست میں ، اور وہ بھی وہاں ، جہاں ایسے مسئلے پر باقاعدہ قانون موجود ہو،یہ مطلب کیسے لیا جا سکتا ہے کہ اس کو کوئی بھی شخص قتل کر سکتا ہے اور ایسے قاتل کو عدالت سزاے موت نہیں دے سکتی؟ فقہا کے مطابق تو کسی بھی قانونی وجہ کے تحت مباح الدم قرار پانے والے کسی شخص کو سزائے موت دینے کا اختیار، انفرادی طور پر کسی فرد کے پاس نہیں ہے؛ بلکہ یہ امراسلامی حکومت یا نظم ریاست کے دائرہ کار میں آتا ہے۔اصولی طور پر ان وجوہ میں سے کسی بھی وجہ کے تحت مباح الدم ہونے والے کو انفرادی حیثیت میں قتل کرنا اسی طرح قتلِ نا حق ہے جیسے کسی بھی شخص کو ناحق قتل کرنا۔
اس ضمن میں عہد رسالت کے جس واقعے سے عام طور پر استدلال کیا جا سکتا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک آدمی نے بار بار سمجھانے پر نہ سمجھنے والی اپنی ایک باندی کو توہین رسالت پر قتل کیا۔ معاملہ رسول اللہ کی عدالت میں لایا گیا۔ ملزم ڈر تا کانپتا پیش ہوا ( جس سے مترشح ہے کہ اسے حضور کی جانب سے سزا نافذ کیے جانے کا اندیشہ تھا)۔ آپ نے صورتِ حال کے تجزیے سے فیصلہ فرمایا کہ متعلقہ کیس میں باندی کا خون بے بدلہ ہے۔
اس واقعے سے یہ کس منطق کے تحت ثابت ہوا کہ قیامت تک جس بھی شخص کے بارے میں بعض لوگ یہ کہیں ، یا کوئی بھی شخص خود سے یہ سمجھے کہ اس نے توہین کی ہے، اور اس کو بلا کسی زجر وتوبیخ اور سمجھانے بجھانے اور یہ تحقیق کرنے کے کہ اس سے متعلق سنی سنائی بات کی کیا حقیقت ہے، توہین رسالت کا مجرم قرار دے کر قتل کر دے، تو وہ مذکور واقعے کے ذیل میں آتا ہے اور اس پر قیاس کرتے ہوئے ہر ایسے مقتول کے خون کو بے بدلہ قرار دینا چاہیے؟ کیا شریعت اور اس کے فلسفہ جرم و سزا اور نفاذِ و حدود و تعزیرات پر اس سے بڑا ظلم ہو سکتا ہے؟ اگر ایک یا چند مثالیں قیامت تک کے ہر رنگ کے واقعات پر سزا کے معاملے کو دو اور چار کی طرح طے کر دیتی ہیں تو یہ ثبوت، گواہیاں ، عدالتیں ، قاضی کس مرض کی دوا ہیں؟
یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اقدامات استثنائی ہیں اور استثنا سے قانون ثابت نہیں ہوتا۔ حضور اور مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے مختلف اعمال کے حوالے سے بہت سی استثنائی مثالیں ملتی ہیں جو محدود تناظر کی حامل ہیں؛ ساری امت اور اس کے تمام افراد کے لیے نہیں ہیں اور نہ ہی آفاقی ہیں کہ انہیں قیامت تک ہر شخص کے معاملے تک ممتد قرار دیا جائے۔ ہماری عام مذہبی ذہنیت کا عجیب المیہ ہے کہ بعض استثنائی مثالوں کو لے کر اس پر ساری شریعت کا مدار رکھ لیتی ہے، لیکن اس کے برعکس شریعت کے عام اور معلوم ومعروف اصول و قانون کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔ شریعت کا یہ اصول مسلمہ ہے کہ ملزم کو صفائی اور اپنی پوزیشن کی وضاحت کا موقع ملنا چاہیے اور عدالت کو معاملے کی تحقیق کے بعد ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر اسے سزا دینی چاہیے۔یہ وہ اصول ہے جو قرآن و حدیث سے بھی واضح ہے اور عہدِنبوی و خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ملزموں سے متعلق فیصلوں اور عدالت و قضا کی مسلسل اور ان گنت کاروائیوں سے بھی۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ بعض صحابہ کے انفرادی فیصلے تو ابدی قانون ہیں، لیکن قرآن و حدیث کے بیسیوں فرامین اور نبی اکرم اور خلفائے راشدین کے مسلسل اور ان گنت عملی فیصلے کوئی شرعی ضابطہ ہی نہیں!
فرض کریں، اس واقعے سے کوئی اصول اخذ کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی یہ ہوگا کہ اگر مقتول کا جرم خود عدالت کی نظر میں بھی ثابت ہو جائے تو وہ قاتل کو سزائے موت سے بری کر سکتی ہے۔ زیر بحث کیس میں، قاتل کو ازروئے شرع قصاص میں قتل کرنے کے عدم جواز کا فتویٰ اگر درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ مقتول نے توہین کی بھی تھی یا نہیں؟ جب توہین پر ناقابل تردید ثبوت ہی پیش نہ ہو سکا ہو تو نہ مقتول کا مباح الدم ہونا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی قاتل سے قصاص نہ لینے کے مطالبے کی کوئی حقیقت رہتی ہے۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ بعض معترضین ممتاز قادری کے لیے تعزیری سزا کی گنجائش کا ذکر کر رہے ہیں، ورنہ اصل کرم فرماؤں کا موقف تو یہ ہے کہ قاتل نے کوئی جرم کیا ہی نہیں، اس نے تو اعلیٰ ترین نیکی انجام دی ہے۔ وہ سرے سے کسی سزا کا مستحق ہی نہیں، وہ تو انعام و اکرام کا مستحق ہے۔
ڈاکٹر محمد شہباز منج
شعبہ اسلامیات، یونی ورسٹی آف سرگودھا، سرگودھا
(۲)
ان دنوں ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر سید احمد شہید کی تحریک جہاد، افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین اور موجودہ دور کے طالبان کے فکری وعملی اشتراکات وامتیازات کے حوالے سے مختلف اہل قلم اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اسی حوالے سے ہم بھی چند حقائق کی طرف قارئین کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔
سید احمد شہیدؒ کی تحریک کا فکری اور سیاسی پس منظر کیا تھا؟ اس کے پیچھے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور ان کے بیٹوں کا مضبوط فکری اور سیاسی تسلسل تھا اور وقت کے دو بڑے علماء مولانا عبد الحئی فرنگی محل لکھنویؒ او رشاہ اسماعیل شہیدؒ ، سید احمد شہیدؒ کے نائبین میں سے تھے۔ وہ اور ان کے ساتھی اس دور میں پھیلی ہوئی شرک و بدعت اور فسق و فجور کے خلاف بھی نبرد آزما تھے۔ لوگوں میں تبلیغ کے ذریعے اصلاح رسوم و رواج بھی کرتے رہے اور اسلامی قوانین کو ان جگہوں پر نافذ کرنے کی کوششیں بھی کیں جہاں ان کی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ کہیں ثبوت نہیں ملتا کہ انہوں نے لوگوں کی گردنیں کاٹیں، بلکہ انہوں نے بار بار لوگوں کو معاف کیا جنہوں نے آگے چل کر انہیں سخت نقصان پہنچایا اور تحریک کی ناکامی کا باعث بنے۔
جہاں تک یمن کے شافعی اور نجد کے حنبلی علماء کے شاگردوں کا اور ان کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی بات ہے تو یہ انگریزوں اور ان کے ایجنٹوں کی پھیلائی ہوئی باتیں تھیں۔ ڈاکٹر صادق حسین اپنی مشہور تحقیقی کتاب میں، جو تقریباً ۹۰۰ صفحات پر مشتمل ہے اور جس میں سید احمد شہیدؒ کے خطوط بھی شامل ہیں، لکھتے ہیں:
’’سید احمد شہیدؒ سے پہلے کئی ایک درد دل رکھنے والے اصحاب نے حالات کو سدھارنے کی کوشش کی تھی۔ البتہ ان کی کوششوں کا رخ دانشوروں اور حاکموں کی طرف ہوتا تھا اور ان سے حمایت کے طلب گار ہوتے تھے یا فوج کو اپنا طرف دار بنا کر مقصد کے حصول کی سعی کرتے تھے۔ لیکن سید احمد شہیدؒ نے ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی تھی جس کا روئے سخن عوام کی طرف تھا اور وہ ایک ایسی سیاسی اور مذہبی تنظیم کو بروئے کار لائے تھے جو سربر آوردہ لوگوں سے بے نیاز تھی۔ چنانچہ بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں سید شہید ہی نے سب سے پہلے ہر دل عزیز سیاسی رہنما کا اعزاز حاصل کیا تھا۔‘‘ ( سید احمد شہید اور ان کی تحریک مجاہدین۔ صفحہ ۱۹)
یہ افواہ بھی انگریزوں اور ان کے ایجنٹوں کی پھیلائی ہوئی تھی کہ سید احمد شہیدؒ کی تحریک جہاد وہابیوں کی تحریک سید عبد الوہاب نجدیؒ کی تحریک کے زیر اثر ہے۔ ڈبلیو ہنٹر اپنی کتاب انڈین مسلمانز کے صفحہ ۵۲، ۵۳ پر لکھتا ہے:
’’اس مخالف جماعت نے اپنی تائید میں یہ من گھڑت افسانہ بھی نشر کیا کہ 1823ء اور 1822ء میں جب سید احمدؒ کا قافلہ حج کی غرض سے مکہ مکرمہ میں مقیم تھا تو اپنے عقائد کی بنا پر جو وہابیوں سے ملتے جلتے تھے حکومت حجاز نے ان سے بڑی سختی سے باز پرس کی تھی اور پھر اسی بنا پر انہیں مکہ سے نکال دیا گیا تھا۔ اس سے وہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں جب ہندوستان واپس آئے تو وہ اب بری رسومات کی اصلاح کرنے والے نہ تھے بلکہ محمد بن عبد الوہابؒ کے پکے مریدوں میں سے تھے اور اس وہم میں گرفتار ہوگئے تھے کہ وہ ہندوستان کے ہر قلعے میں ہلالی جھنڈا گاڑ دیں گے اور صلیب کو انگریزوں کی لاشوں کے ساتھ دفن کر دیں گے۔‘‘
سید احمد شہیدؒ کا نجد کے موحدین کی تحریک سے کچھ تعلق نہ تھا۔ مسلمانوں کے اندر جب کوئی اصلاحی تحریک اٹھے گی، اس کا لازمی سر چشمہ کتاب و سنت ہی ہوگا۔ اس لیے ایسی ہر تحریک میں مماثلت کا پایا جانا ضروری ہے۔ محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ کی کتاب ’’التوحید‘‘ میں ان کے عزائم کی جھلک سامنے آجاتی ہے۔ محمد بن عبد الوہابؒ کی تحریک ’’توحید و اصلاح‘‘ تھی، لیکن سید احمد شہیدؒ کی تحریک تجدید جہاد تھی۔ کتاب توحید کے مطالعہ سے ان دونوں کے مسلک، اہم بنیادی مسئلوں میں بھی اختلاف رائے کی جھلک نظر آتی ہے، طریق کار تو دونوں کا مختلف تھا۔ محمد بن عبد الوہابؒ کی دعوت میں توحید اور ترکِ بدعات کو زیادہ اہمیت حاصل تھی، اور اس کتاب میں جہاد پر کوئی علیحدہ باب سرے سے موجود نہیں۔ لیکن اس کے برعکس سید احمد شہیدؒ کی کوئی تحریر، مکتوب یا وعظ جہاد کے ذکر سے خالی نہیں۔ اگرچہ سید احمد شہیدؒ کی دعوت میں بھی توحید خالص کی تبلیغ، قبر پرستی کا استیصال اور نکاح بیوگان کی ترویج وغیرہ دعوت کے اہم اجزاء تھے۔ اب تک پاک و ہند میں جو کچھ اصلاح و تجدید ہو سکی، وہ اس جماعت کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔
ترجمان وہابیہ صفحہ ۱۷، ۱۸ میں نواب صدیق حسن خان قنوجی لکھتے ہیں:
’’علاوہ ازیں یہ بیان کہ مجاہدین نے ’’جہاد‘‘ کا خیال وہابی تحریک سے حاصل کیا تھا، تاریخی اعتبار سے بے بنیاد معلوم ہوتا ہے۔‘‘
مجاہدین کا جہاد اور وہابیوں کا قتال دو مختلف صورتیں تھیں۔ بنیادی طور پر یہ دونوں تحریکیں بڑی فعال تحریکیں تھیں۔ وہابیوں کی تحریک ’’مرتد مسلمانوں‘‘ کے خلاف قتال تھا اور مجاہدین کی جنگ ’’کفار‘‘ کے خلاف جہاد تھا۔ وہابیوں کا عندیہ، یہ تھا کہ گمراہ مسلمانوں کو اسلام کا ہیرو بن جانے پر مجبور کیا جائے اور ان کو بدعات اور غیر اسلامی رسوم و شعار سے، جن کو وہ اختیار کرتے چلے جا رہے تھے، زبردستی روکا جائے، لیکن مجاہدین کا مقصد اس سے بالکل جدا تھا۔ انہوں نے جہاد کو ایک علیحدہ اسلامی شعار کے طور پر تسلیم کیا تھا اور انہوں نے جس قدر ادب تخلیق کیا، اس میں زیادہ تر جہاد کی فضیلت ہی بیان کی جاتی تھی۔ اس کی بنیاد انہوں نے اس امر اور حالت پر رکھی تھی کہ ہندوستان ’’دار الحرب‘‘ ہے نہ کہ ’’دار الاسلام‘‘۔
اس بحث میں حصہ لینے والے فرنگیوں بالخصوص ہنٹر اور رہتک وغیرہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سید احمد شہیدؒ کی تحریک ابتدا ہی سے انگریزوں کے خلاف تھی۔ ان کو ۱۸۵۰ء سے ۱۸۶۳ء تک ان مجاہدین کے خلاف ایسی تباہ کن مہموں سے واسطہ پڑا جن میں مالی اور جانی نقصان کے علاوہ انگریزوں کی قوت، عزت اور آبرو خاک میں مل گئی تھی۔ یہ وہ طاقت تھی جس سے رنجیت سنگھ خائف تھا اورا س طاقت نے سکھوں کو ختم کر دیا تھا۔ یہ وہ قوت تھی جس کا مقابلہ والیان کابل بھی نہ کر سکے، لیکن مجاہدین نے نہ صرف ان کا مقابلہ کیا بلکہ ان کے دانت بھی کھٹے کیے۔ وہ فوجی کارروائیوں پر مجبور ہوگئے تھے۔ تاریخ ان کی عزیمت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔
بعض حلقے روس کو شکست دینے والے مجاہدین کو ہی موجودہ دور کے طالبان سمجھ رہے ہیں اور ان کو منظم گروہ کی شکل میں برسراقتدار لانے کا الزام جنرل ضیاء الحقؒ پر عائد کر رہے ہیں۔ یہ سراسر غلط نظریہ ہے اور اس میں تاریخی حقائق وواقعات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
بھٹو دور کے اخبارات نکال لیں، جب ظاہر شاہ کا تختہ الٹنے کے بعد سردار داؤد برسر اقتدار ہوئے تو بھٹو افغانستان گئے اور ان سے تعلقات بہتر ہوئے۔ سردار داؤد روس کے چنگل سے نکلنا چاہتے تھے اور بھٹو سے مدد کے طالب تھے۔ انہی دنوں گلبدین حکمت یار اور دوسرے کچھ جہادی لیڈر پاکستان آئے۔ ان دنوں میجر جنرل نصیر اللہ بابر مرحوم انسپکٹر جنرل فرنٹیئر فورس تھے۔ درہ خیبر کے قریب کوئی جگہ تھی جہاں کچھ مجاہدین کو روس کے خلاف جنگ میں تربیت بھی دی گئی تھی۔ جنرل حمید گلؒ ٹی وی کے ایک دو پروگراموں میں تفصیل بیان کر چکے ہیں۔ اس وقت ان کے ساتھ شریک قمر الزمان کائرہ بھی تھے۔ وہ سر عام کہہ چکے ہیں کہ یہ جنگ ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کی تھی، ضیاء الحق بہت بعد میں شریک ہوئے۔
روس نے جب افغانستان پر قبضہ کیا تو اسے (روس کو) نکالنے کے لیے عالم اسلام کی تمام قوتیں متحد تھیں۔ سعودی عرب، ایران، مصر، پاکستان، شیعہ، سنی، حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی، شامی، عراقی، تمام قوتوں کا مطالبہ تھا کہ روس افغانستان سے نکل جائے اور یہ تمام علمائے کرام کا فتویٰ تھا۔ عالم اسلام کی جدوجہد جب کامیاب ہوتی نظر آئی تب امریکہ نے امداد دینی شروع کی۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ افغان جہاد کی حامی کوئی جماعت، کوئی مفتی اور ملا شرمندہ نہیں ہے بلکہ اسے اس پر فخر ہے۔
آج جن طالبان کو ان جہادی لیڈروں کا تسلسل بتایا جا رہا ہے، یہ دراصل ان کے وہ حریف اور دشمن ہیں جو ان کی نااتفاقی کے سبب افغانستان اور پاکستان میں چھا گئے اور بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین سات پارٹیوں پر منظم گروہ تھے جن کے سربراہ صبغت اللہ مجددی بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ مولوی یونس خالصؒ مولانا عبد الحقؒ اکوڑہ خٹک والوں کے شاگرد تھے۔ عبد الرب سیاف حنبلی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ گل بدین حکمت یار، احمد شاہ مسعودؒ یہ دونوں انجینئر تھے۔ استاد ربانیؒ کابل یونیورسٹی میں استاد تھے اور ان آخری تینوں کا تعلق مولانا مودودیؒ سے تھا اور اس کا وہ اقرار بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ سب پڑھے لکھے لوگ تھے اور دین اسلام کو بہتر طریقے سے جانتے تھے۔ صبغت اللہ مجددی، استاد ربانیؒ ، انجینئر احمد شاہ مسعودؒ ، اور انجینئر گلبدین حکمت یار دین کا علم رکھنے والے لوگ تھے۔ قرآن مجید اور بائبل کے متعلق گلبدین حکمت یار کی تقریباً ایک ہزار صفحے پر مشتمل کتاب نہایت اعلیٰ تحقیق پر مشتمل ہے اور انہوں نے قرآن مجید کی نہایت اچھی تفسیر بھی لکھی ہے جس کا ترجمہ ادارہ معارف اسلامی نے شائع کیا ہے۔
بہرحال صبغت اللہ مجددی افغانستان کے صدر بنائے گئے۔ پھر چھ ماہ بعد استاد ربانیؒ افغانستان کے صدر بن گئے۔ زیادہ تر اختیارات احمد شاہ مسعودؒ کے پاس تھے۔ حکمت یار سے شدید جنگیں ہوئیں۔ آخر کار صلح ہوگئی اور یہ طے ہوا کہ ربانیؒ افغان صدر ہوں گے، گلبدین حکمت یار وزیر اعظم ہوں گے اور احمد شاہ مسعودؒ وزیر دفاع اور نائب وزیر اعظم ہوں گے، اور اختیارات بھی تینوں کے درمیان تقسیم ہوگئے۔ یہ انتظام عارضی تھا۔ اسی دوران جنرل نصیر اللہ بابر نے بے نظیر دور حکومت میں جہادی گروپوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہیں منظم کیا اور ان کی ہر طرح سے امداد کی۔ یہ لوگ ابھی تک صرف طالب علم تھے، مکمل عالم دین نہیں تھے اور واجبی سا علم رکھتے تھے، لیکن جہادی لیڈروں کی نا اتفاقی کی وجہ سے طالبان افغانستان کے وسیع علاقے پر قابض ہوگئے۔ مولانا سمیع الحق یا مولانا فضل الرحمن نے صرف مشورے کی حد تک ان کی مدد کی۔ بعد میں مولانا فضل الرحمن ان سے الگ تھلگ رہے اور سمیع الحق صرف بیانات کی حد تک ان کے ساتھ رہے۔ انہیں راہ راست پر لانے کے لیے کبھی مفتی ڈاکٹر شامزئیؒ کو، کبھی مفتی رفیع عثمانیؒ کو، کبھی سمیع الحق صاحب کو بھیجا جاتا، مگر یہ کسی کی مانتے کم ہی تھے۔ ان میں بہت سے غیر ملکی ایجنٹ بھی شامل ہوگئے جن کی کاروائیوں کی وجہ سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچا۔ عوام میں ان کی حمایت کم ہوتی چلی گئی۔
جماعت اسلامی شروع شروع میں طالبان کے خلاف بیانات دیتی رہی جس کا جواب جمعیۃ العلماء اسلام (فضل الرحمن گروپ اور سمیع الحق گروپ) کی طرف سے آتا رہا۔ پھر اخبارات میں جنرل نصیر اللہ بابرؒ کا بیان موجود ہے کہ افغانستان پر پہلے جماعت اسلامی کے حامیوں کا کنٹرول تھا۔ اب جبکہ طالبان کی صورت میں جمعیۃ علماء اسلام کا کنٹرول ہے تو جماعت اسلامی کو سخت کوفت ہو رہی ہے۔ حکیم اللہ محسود کا ایک سخت بیان قاضی حسین احمدؒ کے خلاف موجود ہے۔ قاضی صاحب کے جلوس پر ایک خودکش حملہ بھی ہوا اور کچھ لوگ شہید بھی ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن جو کہ طالبان کے حامیوں میں تھے بلکہ بانیوں میں سے تھے، جب طالبان سے اپنی باتیں نہ منوا سکے تو ایک فاصلے پر ہوگئے۔ تب جماعت اسلامی کے ذہین و فطین لیڈروں، خاص طور پر منور حسن اور سراج الحق نے یہ بوجھ اپنے سر لے لیا اور طالبان کے ترجمان بن گئے۔ سیکولر اور لبرل حلقوں نے اس پر جماعت کو آڑے ہاتھوں لیا اور جماعت اسلامی کا گراف مزید گر گیا۔
ایک وقت وہ تھا کہ پاکستان نے دنیا کی سب سے بڑی مہاجر آبادی کا بوجھ سنبھالا ہوا تھا۔ یہ عوام کے لاڈلے تھے، جہادی لیڈر پاکستان میں بھی مقبولیت کی معراج پر تھے۔ نسیم حجازیؒ جیسے عظیم ناول نگار گلبدین حکمت یار کے قدموں میں بیٹھ کر رونے لگے اور کہنے لگے کہ مجھے میرے ناولوں کے مجاہد مل گئے ہیں۔ یہ میرے وہ ہی ہیرو ہیں۔ اب ان کی جگہ لینے والے جو طالبان آئے ہیں، عوام ان سے ان کی کاروائیوں کی وجہ سے شدید برہم ہیں۔
خواجہ امتیاز احمد
سابق ناظم اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ
(۳)
محترمی ومکرمی مدیر ماہنامہ الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
جنوری کے الشریعہ میں حافظ طاہر اسلام عسکری کا مکتوب نظر سے گزرا جس میں انھوں نے داعش اور سلفیت کے باہمی تعلق کے حوالے سے مولانا سید سلمان الحسینی ندوی کی تحریر پر تنقید فرمائی ہے۔ راقم نے مولانا ندوی کا مضمون نہیں دیکھا، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی تنظیموں کا فکری اور مذہبی بیانیہ صرف اور صرف ’’سلفیت‘‘ سے کیوں ملتا ہے؟ آج کل داعش کھل کر علماء دیوبند کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہے۔ داعش کے خراسان ونگ نے ’’رسالۃ الی دیوبند‘‘ کے نام سے سوشل میڈیا اور اپنے رسالہ DABIQ میں سلسلہ وار مضامین شائع کیے اور علماء دیوبند کو گمراہ، کافر اور بے دین قرار دیا ہے۔ علماء دیوبند کی تصوف وسلوک سے وابستگی سمیت دیگر اہم مسائل میں موقف، خصوصاً المہند علی المفند مولفہ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کو تنقید وتشنیع کا نشانہ بنایا ہے۔ وہی پرانے گھسے پٹے مسلکی مسائل ہیں جن کی بنیاد پر علماء دیوبند کی تکفیر کی گئی ہے۔ تمام حوالے اور دلائل پڑھ لیجیے، بات ’’سلفیت‘‘ سے آگے نہیں بڑھتی۔
فقہ الجہاد وغیرہ کے نام سے سب سے زیادہ کام علامہ عبد اللہ عزام مرحوم کا ہے مگر مولانا عزام، ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش، سب کا بیانیہ ایک ہے جو سلفیت کی کوکھ سے جنم لے رہا ہے۔ القاعدہ نے صرف اور صرف سیاسی اختلافات کی بنا پر خود کو داعش سے الگ رکھا ہوا ہے۔
عسکری صاحب نے تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کا تعلق دیوبندی فکر سے ہونے کی بات کی جو درست نہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے سرکردہ قائدین تو داعش میں شامل ہو گئے ہیں کیونکہ دونوں کی فکری اساس ایک ہی تھی، جبکہ لشکر جھنگوی، جو سپاہ صحابہ سے الگ ہو کر صرف اور صرف شیعہ کے خلاف میدان میں اتری، اس کے پاس کوئی ٹھوس علمی یا فکری بیانیہ نہیں، بلکہ نفرت کے جذبات ہی اس کا اصل سہارا ہیں۔
بہرحال داعش اب ہمارے خطے میں بھی باقاعدہ مسلح طور پر میدان میں آ چکی ہے۔ ایسے حالات میں علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کھل کر سامنے آئیں اور داعش کے موقف اور استدلال کے حوالے سے اپنا موقف بیان کریں۔ یقیناًاسلامی خلافت اپنی اصلیت میں ایک بہت اچھی چیز ہے، مگر جس خلافت کا تصور داعش پیش کر رہی ہے، وہ امت مسلمہ کے لیے ایک انتہائی تاریک اور بھیانک تصور ہے۔
ابو حسان مدنی
(۴)
جناب مجاہد کامران، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور
بعد از سلام مسنون عرض یہ ہے کہ میں جناب کی تحریروں کا مداح ہوں۔ آپ گوجرانوالہ میں چند سال پہلے ہماری بار میں تشریف لائے۔ آپ کی ایک کتاب Grand Deception میں نے خرید کر پڑھی۔ اس سے متاثر ہو کر ایک مضمون لکھ کر فرائیڈے سپیشل میں چھپوایا۔ یہ مضمون مذکورہ جریدے کی ۲۴۔اگست ۲۰۱۲ء میں چھپا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مضمون آپ کے علم میں ہو۔ پھر بھی مضمون کی نقل منسلک ہے۔ اپنے بارے میں میرے احساسات اس مضمون سے واضح ہوتے ہیں۔ ان کا یہاں اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے خاندانی پس منظر اور جرات مندانہ کردار کا مجھے کھل کر اعتراف کرنا پڑا۔ مضمون میں، میں نے جو کچھ لکھا تھا، وہ اس سے بڑھ کر تھا۔ فرائڈے سپیشل والوں نے اپنی پالیسی کے لحاظ سے اسے ایڈٹ کیا۔ میں نے عنوان رکھا تھا ’’مجاہد بھی اور کامران بھی‘‘، جب کہ رسالے والوں نے عنون بدل کر اس طرح کر دیا تھا کہ’’ امریکی ضمیر و دانش کی تلاش؟‘‘ میرے لئے وائس چانسلر کے منصب پر فائز شخص کی حیثیت سے امریکہ کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا، وہ خلاف توقع تھا۔ آپ یونیورسٹی کو جس طرح پر سکون تعلیم کی طرف لائے، اس کا اعتراف صوبائی حکومت کو رہا۔ اسی وجہ سے آپ کو توسیع بھی ملی۔ آپ کا سیکوریٹی کے بغیر کام کرنا بڑا ہی حوصلہ مندانہ طرز عمل ہے۔
میں آپ کے جراتِ کردار کا اب بھی معترف ہوں۔ چند دن پہلے آپ کی یونیورسٹی کے دو پروفیسروں کو حساس ادراوں والے رات گئے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ان کے نام ڈاکٹر غالب عطا اور ڈاکٹر عامر سعید ہیں۔ اس دیدہ دلیری کے نتیجہ میں ڈاکٹر غالب عطا کے کم سن بچے کی جو نفسیاتی حالت ہوئی ہے، اس کا تذکرہ اخبارات میں آ چکا ہے۔ آپ تمام تر صورت حال سے یقیناًآگاہ ہوں گے۔ طلبہ خاموش نظر آتے ہیں۔ اساتذہ کی تنظیموں نے باقاعدہ قراردادیں پاس کی ہیں۔ میں ایک معمولی شہری کے طور پر آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی ڈومین میں یہ جو کچھ ہوا ہے، اس کے بعد آپ کا وائس چانسلر کے طور پر کام کرنا بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے تو واضح کریں کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اساتذہ آپ سے یہ سوال کریں یا نہ کریں، میں آپ کے ایک مداح کے طور پر ضرور پوچھوں گا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ ہمارے ملک کے حساس ادارے عام شہریوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کے بارے میں اخبارات اور اسکرین میڈیا پر بہت آتا رہا ہے۔ عام مشاہدہ بھی اس پر گواہ ہے۔ پنجاب کی حد تک میں ذاتی طور پر بہت کچھ جانتا ہوں۔ تفصیلات یہاں غیر متعلق ہوں گی۔ ہمارے ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے لائق فائق اساتذہ بھی اگر حساس اداروں کی چیرہ دستیوں سے بچ نہ سکیں گے تو پھر کیا بننے والا ہے؟ اس پر اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معاشرے میں مقتدر طبقات خاموش رہیں تو پھر یہ بے حسی کی انتہا ہو گی۔
میں تو دکھ سے کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں (بلا کسی استثنا) تو پہلے سپہ سالار فوج کے سامنے سپر انداز ہو چکی ہیں۔ زیادہ تر لیڈر بک چکے ہیں۔ جو بکے نہیں، وہ جھک گئے ہیں۔ جھکے بھی ایسے کہ کھڑے ہونے کی جرات نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ بھی فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دے چکی ہے۔ بہر حال چند ججوں نے اختلاف کیا مگر سردست انصاف کے سول اداروں کی ناکامی پر جو مہر لگ چکی ہے، اس اختلاف سے اس مہرگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مذہبی طبقات بھی اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ میرے لیے یہ امر انتہائی دکھ کا باعث ہے کہ جس ملک میں لاکھوں مساجد موجود ہوں، ان میں کروڑوں درس، خطبات جمعہ اور تقریریں ہوتی ہوں، اس کے باوجود ملک میں قبرستان جیسی بے حسی پائی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ بیکار ہے۔ کرپشن، دہشت گردی، ظلم و بے انصافی اور بد امنی اپنے جوبن پر ہے۔ امن کی راہ پر لے جانے والے اداروں کی بے حکمتی اس سے ظاہر ہے کہ وہ خود خوف کا شکا رہیں۔ امن قائم کرنے والی قوتیں خوف کا شکار ہو کر جو کچھ بھی کریں گی، اس کا نتیجہ امن کا قیام نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں ایجنسیاں عدم پتہ لوگوں کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہیں، وہ سخت تشویشناک ہے۔ بنیادی حقوق کی انجمنیں بھی کم بیش خاموش ہیں۔ واقعی
قحط آشفتہ سراں ہے یارو
شہر میں امن و اماں ہے یارو
میری دعا ہے کہ امن وامان ہوجائے، جیسے بھی ہو۔ مگر یہ کام دعاؤں سے ہونے والا نہیں، اصحاب تدبیر کے حسن تدبیر پر منحصر ہے۔ اس بارے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مقتدر طبقات اور آپ جیسے ذمہ دار لوگوں کو صورت حال میں احساسِ جواں سے کام لینا ہو گا، وگرنہ مظلوموں کا کیا بنے گا! اس کے لیے اللہ کے ہاں ہر ایک کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔
راقم کے خط میں اگر کہیں جذباتیت اور رد عمل کا عنصر محسوس ہو تو اسے مہربانی کر کے نظر انداز کر دیں۔ امید ہے کہ آپ کی طرف جواب سے محروم نہیں رہوں گا۔
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
سیرت کانفرنس پی سی بھوربن کے لیے سفر
محمد بلال فاروقی
استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی کو ۷ جنوری ۲۰۱۶ کو پرل کانٹی نینٹل ہوٹل بھوربن میں منعقدہ سیرت کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔ ۶ جنوری کو دوپہر کے وقت ہم اسلام آباد روانہ ہوئے۔ وہاں مولانا سید علی محی الدین کے ہاں قیام تھا۔ مولانا علی محی الدین چند دن پہلے عمرہ کی سعادت حاصل کر کے لوٹے تھے جس پر مولانا زاہد الراشدی نے انہیں مبارکباد پیش کی۔ عصر کی نماز کے بعد ایک نشست میں، میں نے سوال کیا کہ آپ نے اسلام اور سائنس کے حوالہ سے جو کالم لکھا ہے، اس پر جناب زاہد صدیق مغل نے اشکال کیا ہے کہ ’’ نہ جانے وہ کون سی سائنس ہے جو حقیقت تلاش کر رہی ہے۔ جدید سائنس، جس کا ظہور آج کی تاریخ میں ہوا، وہ کائنات کے ذرے ذرے کو سرمایے میں تبدیل کرکے نفع میں اضافے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ مجھے تو آج تک کوئی سائنس دان نہیں ملا جو اشیاء کی حقیقت تلاش کررہا ہو۔‘‘
استاذ محترم نے فرمایا: میں نے سائنس کی تعریف نہیں بیان کی بلکہ سائنس کا فنکشن بیان کیا ہے کہ سائنس کرتی کیا ہے۔ کائناتی قوانین کو دریافت کرنا، اشیاء کی حقیقت جاننا، ان کے استعمال کا طریقہ اور ان کی افادیت کے مختلف پہلو دریافت کرنا، اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچانا یہی سائنس کا فنکشن ہے اور اس سے اسلام کا کسی قسم کا کوئی تصادم نہیں۔ استعمال کرنے والے اگر غلط استعمال کرتے ہیں تو اس سے سائنس کے فنکشن کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ مثلاً چاقو کا فنکشن کاٹنا ہے۔ اب یہ کاٹنے والے پر منحصر ہے کہ سیب کاٹتا ہے یا کسی کا ہاتھ۔ کاٹنے والے کے ناجائز استعمال کی بنیاد پر چاقو کی افادیت سے انکار کیونکر ہوسکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ دریافتوں سے نفع کا حصول بالکل جائز عمل ہے۔ شریعت نفع کے حصول سے ہرگز منع نہیں کرتی بلکہ ضرر پہنچانے سے منع کرتی ہے۔ سائنس کی بنیادیں تو ہم نے اپنے دورِ عروج میں فراہم کی ہیں۔ مغرب اسے غلط رخ پر لے گیا ہے تو کیا مغرب کے غلط رخ پر جانے کی وجہ سے ہم اپنی بنیادوں کا انکار کر دیں ؟
دوسرا سوال میں نے یہ کیا کہ الشریعہ کے اہداف، دائرء کار اور معیار کیا ہے؟
استاد محترم نے فرمایا: الشریعہ کا پہلے دن سے یہ ہدف طے ہے کہ علمی وفکری مسائل پر مکالمہ کا ماحول فراہم کیا جائے، وہی ماحول جو امام ابو حنیفہ کی مجلس میں تھا، جو فقہاء اور متکلمین کے ہاں تیرہ سو سال سے چلا آرہا ہے، وہی ماحول جو عقائد میں ماتریدیہ واشاعرہ کے مابین اور فقہ میں فقہاء کے درمیان ہمیشہ سے رہا ہے اور میرے نزدیک اس کا سب سے بہتر نمونہ طحاوی شریف ہے۔ طحاوی فقہی مکالمہ ومجادلہ کا اعلیٰ ترین معیار ہے۔خصوصا جدید مسائل پر مکالمہ کا ماحول فراہم کرنا الشریعہ کا ہدف ہے اور مجھے امید ہے کہ ’’الشریعہ‘‘ کی نئی ادارت اس کو قائم رکھے گی۔ الشریعہ کا دائرہ کار اہل سنت کے مسلمات ہیں۔ اہل سنت کے کلامی دائرہ میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظاہریہ، فقہی دائرہ میں احناف، شوافع، حنابلہ، مالکیہ اور ظواہر جبکہ تصوف کے دائرہ میں نقشبندیہ ،قادریہ، سہروردیہ اور چشتیہ یہ سب اہل سنت میں شامل ہیں۔ مکالمہ میں علمی، فکری تنقید، سنجیدہ مجادلہ کو ہم نے ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے اور اس کو الشریعہ میں جگہ دی ہے، لیکن غیر سنجیدہ ، غیر علمی اور ’’مان نہ مان‘‘ قسم کا نقد، اس کا ہم نے نہ کبھی نوٹس لیا ہے، نہ جواب دیا ہے اور نہ ایسی تحاریر نوٹس لینے کے قابل ہوتی ہیں۔
اس پر میں نے سوال کیا کہ جدید مسائل پر بہت سی آرا ایسی ہیں جوالشریعہ میں شائع ہوتی ہیں اور وہ آپ کے بیان کردہ دائرہ کار سے ہٹ کر ہیں۔ استاد محترم نے جواب دیا کہ ان آرا کاآنا کوئی قابل اشکال بات نہیں، البتہ میں اہل سنت کے مسلمات سے ہٹ کر نئے اصولِ استدلال وضع کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔
اسی دوران مولانا سید علی محی الدین نے گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل میں زیر بحث آنے والے اس مسئلے کے متعلق سوال کیا کہ ’’قادیانیوں کی حیثیت کیا ہے؟‘‘ مولانا نے فرمایا کہ یہ بحث پہلے ہوچکی ہے اور علماء کا متفقہ فیصلہ آچکا ہے کہ قادیانی غیر مسلم اقلیت ہیں۔ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کا مؤقف تھا کہ یہ مرتد ہیں یا کم از کم زندیق اور واجب القتل ہیں، جبکہ علامہ اقبال کا خیال تھا کہ یہ صورت آج کے دور میں قابل عمل نہیں ہے، اس لیے ان کو امت مسلمہ کے وجود سے الگ کرکے ایک غیر مسلم اقلیت کی حیثیت دے دی جائے۔ چنانچہ تمام علماء نے ۵۳ء میں متفقہ طور پر ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے اتفاق کیا اور اسی پر تمام مکاتب فکر کا اجماع ہو گیا۔ میرے خیال میں اس موضوع کو دوبارہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ نقصان کا خدشہ موجود ہے۔
نمازِ عشاء کے بعد جامع مسجد ہمک ماڈل ٹاؤن میں مولانا زاہد الراشدی صاحب کا بیان تھا جس میں استاد محترم نے اس نکتے کو واضح فرمایا کہ جس طرح رسول اللہ، اللہ کا پیغام قرآن مجید امت تک پہنچانے والے ہیں، ایسے ہی قرآن مجید کی تشریح کی بھی مطلق اتھارٹی ہیں۔ فرمایا، کامن سینس کی بات ہے کہ جب کسی کی بات سمجھ میں نہ آئے اور بات کرنے والا موجود ہو تو اس کی بات سمجھنے کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ یا متکلم نے کوئی بات کی ہے اور آپ اس کا کچھ مطلب سمجھے ہیں جبکہ متکلم کا کہنا ہے کہ میرا یہ مطلب نہیں ہے تو متکلم کی بات ہی معتبر ٹھہرے گی۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارے لیے نازل ہوا ہے۔ اب قرآن مجید کی کوئی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی یا پھر مغالطہ لگتا ہے تو متکلم اللہ تعالیٰ ہے، ان تک ہماری رسائی نہیں، لیکن ان کے نمائندہ رسول اللہ تک ہماری رسائی ہے۔ ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے اس بات کو کیسے سمجھا ہے ؟ کیسے اس پر عمل کیا ہے؟ اس تک ہماری رسائی ممکن ہے اور چونکہ رسول اللہ، اللہ کے نمائندہ ہیں لہٰذا رسول اللہ آیت قرآنی کا جو مطلب سمجھائیں گے، وہی اللہ کی منشا ہوگی۔
صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست سامع تھے۔ صحابہ کو کئی مواقع پر بات سمجھ میں نہیں آئی یا مغالطہ لگ گیا یا کسی نے غلط فہمی ڈال دی تو صحابہ رسول اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اس پر چند واقعات سنائے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ جلیل القدر صحابی تھے۔ بہت منجھے ہوئے ڈپلومیٹ،سفارتکار اور بہادر جرنیل تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نجران بھیجا تاکہ ان کو اسلام کی دعوت دیں اور قرآن کریم سنائیں۔ حضرت مغیرہ سے جب نجران کے عیسائیوں نے قرآن کریم سنا تو حضرت مغیرہ کو مغالطہ میں ڈال دیا۔ اشکال کیا کہ قرآن مجید میں حضرت مریم کو حضرت ہارون کا بھائی کہاگیا ہے: یا اخت ھارون، جبکہ حضرت ہارون اور حضرت مریم کے زمانہ میں صدیاں حائل ہیں۔ حضرت مغیرہ پریشان ہوگئے اور جواب نہ دے سکے۔ واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے او ر بتایا کہ حضور! انہوں نے اشکال کیا اور میں جواب نہیں دے سکا۔ نبی کریم نے فرمایا کہ خدا کے بندے ! سادہ سی بات تھی۔ وہ ہارون اور ہیں جبکہ یہ ہارون اور ہیں۔ بنی اسرائیل کا یہ رواج تھا کہ وہ انبیاء کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھتے تھے۔ مریم کے بھائی کا نام بھی حضرت ہارون کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اب یہ الجھن حضرت مغیرہ کو پیش ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی اور آپ نے اس الجھن کو صحیح معنی و مطلب سمجھا کر حل کر دیا۔
قرآن مجید نے رمضان المبارک میں سحری کی حد بیان کرتے ہوئے ایک محاورہ استعمال کیا: وَ کُلُوا وَ اشْرَبُوا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیطُ الاَبْیَضُ مِنَ الخَیْطِ الاَسْوَدِ مِنَ الفَجر۔ اب جن کا محاورہ تھا، وہ تو سمجھ گئے کہ اس سے مراد پوپھٹنا ہے، لیکن جو اس محاورہ سے ناواقف تھے، انہوں نے سفید اور سیاہ دھاگے کا مطلب حقیقی دھاگہ سمجھ لیا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ بعض صحابہ نے کالی اور سفید ڈوریاں ٹانگوں کے ساتھ باندھ لیں اور جب تک ان میں فرق نظر نہیں آیا، تب تک سحری کھاتے رہے۔ ایک صحابی حضرت عدی بن حاتم نے اپنے سرہانے کے نیچے سفید اور کالے رنگ کی دو ڈوریاں رکھ لیں۔ ایک دن صبح موسم ابر آلود تھا اور کافی دیر بعد ان میں فرق نظرآیا تو اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ آج سحری بہت لمبی تھی۔ حضور نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یوں سرہانے کے نیچے رکھے سفید و کالے دھاگے میں فرق دیر سے نظر آیا۔ آپ نے فرمایا کہ بھئی! اس کا مطلب پوپھٹنا تھا، سفید اور کالا دھاگہ مراد نہیں تھا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر دل لگی کا جملہ بھی فرمایا کہ: اذا لوسادتک عریض یا عدی۔ عدی! تیرا سرہانہ تو بہت چوڑا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی کا جو معنی متعین کردیا، وہی حتمی ہے۔اب اس کے بعد یہ کہنا کہ میں یہ سمجھا ہوں، اس کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔
اگلے دن صبح فجر کے بعد مولانا ثناء اللہ غالب کی مسجد میں استاذِ محترم نے درس قرآن ارشاد فرمایا اور ان کے ہاں ناشتہ کرنے کے بعد مولانا قاسم عباسی کے ہاں ان کے والد محترم کی تعزیت کے لیے گئے۔مولانا قاسم عباسی کے والد محترم حاجی محمد شعیب صاحب سنی بینک مری کے معروف بزرگ تھے۔ خدا ترس، عبادت گزار اور انتہائی مہمان نواز بزرگ تھے۔ ان کا گھر مہمانوں بالخصوص علماء کرام کے لیے ایک مستقل مہمان خانہ تھا۔ امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر بھی ان کے ہاں کئی روز تک مہمان رہے۔ گزشتہ دنوں اس دار فانی سے انتقال فرماگئے۔ ان کے صاحبزادے مولانا محمد قاسم عباسی آجکل روالپنڈی میں رہائش پذیر ہیں۔ان کے گھر حاضر ہو کر حاجی شعیب صاحب کی تعزیت کی۔
اس کے بعد مولانا نوید عباسی کے ساتھ مری کے لیے روانہ ہوئے۔سنی بینک مری سے مولانا سیف اللہ سیفی صاحب بھی ہمراہ ہو گئے۔ راستہ میں مرکزی جامع مسجد مری کے خطیب مولانا مفتی محمد خالد صاحب سے ان کے والد گرامی کی وفات پر تعزیت کی جس کے بعد پرل کانٹی نینٹل ہوٹل بھوربن پہنچے جہاں پی سی کے مینیجر ذوالفقار ملک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ساتھ کانفرنس ہال میں پہنچے۔ یہ سیرت کانفرنس ہر سال پی سی کی انتظامیہ کی طرف سے منعقد کی جاتی ہے جس میں اس سال مہمان خصوصی مولانا زاہد الراشدی تھے۔
استاذِ محترم نے رسول اللہ کے طرز حکمرانی پر بات کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ فلاحی ریاست کی خصوصیات کو بیان فرمایا۔ فرمایا کہ نبی کریم نے صرف ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور نہیں دیا، صرف اس کی تعلیمات نہیں بیان کیں، بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیئس سال کی محنت کے بعد اس دنیا سے تشریف لے گئے تو ایک فلاحی ریاست قائم ہوچکی تھی جسے آج کی دنیا بھی فلاحی ریاست مانتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا کہ جب کسی مسلمان کی وفات ہوتی اور آپ سے تقاضا ہوتا کہ آپ اس کا جنازہ پڑھائیں تو رسول اللہ اس میت کے متعلق کچھ سوالات پوچھتے تھے۔ ایک سوال یہ ہوتا تھا کہ اس کے ذمہ کوئی قرضہ تو نہیں؟ اگر جواب نہ میں ہوتا تو جنازہ پڑھا دیتے۔ اگر مقروض ہوتا تو صحابہ سے پوچھتے کہ قرض کی ادائیگی کا کوئی بندو بست ہے؟ اگر ہوتا تو آپ جنازہ پڑھا دیتے۔ اگر ایسی کوئی صورت نہ ہوتی تو خود جنازہ نہیں پڑھاتے تھے، صحابہ کو فرماتے کہ وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ ایک صحابی کی وفات پر یہی واقعہ ہوا تو پتہ چلا کہ میت مقروض ہے اور قرضہ اتارنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ صحابہ سے فرمایا، بھئی! اس کی نمازِ جنازہ پڑھ لو۔ ایک صحابی ابو قتادۃ نے عرض کی، یا رسول اللہ!ہمارا مسلمان بھائی ہے۔ اسے آپ اس سعادت سے محروم نہ کیجیے۔ آپ جنازہ پڑھائیں، قرضہ میں ادا کر دوں گا۔ حضور نے جنازہ پڑھا دیا۔ جنازہ پڑھانے کے بعد حضور نے ایک اعلان کیا جو ویلفیئر اسٹیٹ کی بنیاد ہے۔ فرمایا :
ما من مومن الا وانا اولی الناس بہ فی الدنیا والآخرۃ، اقرء وا ان شئتم (النبی اولی بالمومنین من انفسھم)، فایما مومن ترک مالا فلیرثہ عصبتہ من کانوا، فان ترک دینا او ضیاعا فلیاتنی فانا مولاہ۔
اگر کوئی مسلمان قرضہ یا بے سہارا خاندان چھوڑ کر فوت ہوا ہے، فالی وعلی، وہ میرے پاس آئے گا، وہ میری ذمہ داری ہے۔ تاریخ کے طالب علم کے طور پر میری رائے ہی کہ ’’الی‘‘ کی بات تو بہت لوگوں نے کی ہے کہ کوئی ضروت مند ہو تو میرے پاس آئے، لیکن ’’علی‘‘ کہ اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے، یہ بات تاریخ میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی ہے۔ رسول اللہ نے یہ پالیسی دی کہ ریاست کے نادار، معذور، غریب اور ضرورت مند لوگ ریاست کی ذمہ داری ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کا ماحول یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی شخص آتا اور کسی ضرورت کا تقاضا کرتا تو رسول اللہ ارشاد فرماتے! بھئی، اس کو بیت المال میں سے دے دو۔ رسول اللہ نے ایسا سسٹم بنا لیا تھا کہ جو بھی ضرورت مند آتا، اس کی ضرورت پوری ہوتی تھی۔اس حوالے سے دو واقعات بیان کیے۔
ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور عرض کی، یا رسول اللہ! میرا اونٹ فوت ہوگیا ہے۔ گھر سے دور ہوں۔ مجھے سواری عنایت فرمائیں تاکہ میں گھر جا سکوں۔ رسول اللہ نے فرمایا! بیٹھو، تمہیں اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں۔ وہ حیران ہوا کہ مجھے سواری چاہیے، اونٹنی کا بچہ میرے کس کام کا؟ صحابی نے دوبارہ عرض کی، یا رسول اللہ! مجھے سواری چاہیے، میں نے گھر جانا ہے۔ فرمایا، بھئی کہا تو ہے کہ تمہیں اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں۔ وہ پھر پریشان ہوئے اور عرض کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا، بھئی اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں۔اور پھر ایک اونٹ منگوا کر ان کے حوالے کیا اور فرمایا کہ یہ بھی کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوش مزاج بزرگ تھے اور کبھی کبھی اس قسم کی دل لگی فرما لیا کرتے تھے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر ہمارے خاندان والوں نے سفر پر جانا تھا۔ ہمیں اونٹوں کی ضرورت تھی۔ اس وقت کا ماحول دیکھیے! ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ ہمیں کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی۔ ہمیں پتہ تھا کہ رسول اللہ کی بارگاہ میں جائیں گے تو مایوس نہیں لوٹیں گے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور عرض کی، یارسول اللہ! سواری کے لیے اونٹ چاہییں۔ آپ نے انکار فرما دیا اور قسم اٹھا لی کہ نہیں دوں گا۔ ابو موسیٰ اشعری خود فرماتے ہیں کہ مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے جاتے ہی مجلس کے ماحول کا لحاظ کیے بغیر اپنی ضرورت پیش کردی۔ رسول اللہ کسی وجہ سے غصے میں تھے، اس لیے انکار فرما دیا۔ یہ واپس آگئے اور خاندان والوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرما دیا ہے۔ اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور ابوموسیٰ اشعری کو بتایا کہ آپ کو رسول اللہ یاد فرمارہے ہیں۔ یہ پہنچے تو دیکھا کہ رسول اللہ کے سامنے اونٹوں کی دو جوڑیاں کھڑی تھیں۔ آپ نے فرمایا یہ لے جاؤ۔میں نے اونٹ پکڑے اور چل پڑا۔ راستے میں خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو قسم اٹھا لی تھی۔ اب اس حالت میں اگر میں نے اونٹ لے لیے تو اس میں کیا برکت ہوگی۔ میں واپس گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے پاس تو اونٹ نہیں تھے اور آپ نے مجھے اونٹ نہ دینے کی قسم اٹھا لی تھی۔ فرمایا کہ اس وقت میرے پاس اونٹ نہیں تھے۔ یہ قیس بن سعد کے باڑے سے ادھار منگوائے ہیں۔ انہوں نے پھر سوال کیا کہ آپ نے تو قسم اٹھا لی تھی۔ فرمایا کہ مجھے قسم یاد ہے، لیکن میرا معمول ہے کہ اگر کوئی قسم اٹھا لوں اور مجھے خیال ہو کہ جس کام کے نہ کرنے کی قسم اٹھائی ہے، وہ خیر کا کام ہے تو میں قسم کو خیر کے کام میں رکاوٹ کا ذریعہ نہیں بننے دیتا اور کفارہ ادا کرتا ہوں۔
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور کا یہ ماحول تھا۔فلاحی ریاست کی یہ صورتحال تھی۔
سیرت کانفرنس میں مری کے علاقہ کے سرکردہ علماء کرام بڑی تعداد میں شریک تھے جنھوں نے اس خطاب پر خوش گوار تاثرات کا اظہار کیا اور کہا کہ آج کے ماحول میں انسانی سوسائٹی کی ضروریات کے حوالے سے اس قسم کے خطابات کی زیادہ ضرورت ہے۔
الشریعہ اکادمی کی ہم نصابی تعلیمی سرگرمیاں
ڈاکٹر حافظ محمد رشید
دورۂ جغرافیہ قرآنی
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ دینی مدارس کے مقامی طلبہ کے لئے مختصر دورانیہ کے کورسز بھی ہیں جن کا انعقاد عام طور پر دوسری سہ ماہی میں جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں کیا جاتا ہے۔ تقریباً دس سال سے ’’ عربی بول چال‘‘ اور ’’انگلش بول چال‘‘ کے کورسز منعقد ہو رہے ہیں جن کا دورانیہ ایک ماہ یا چالیس روز ہوتا ہے۔ اس سال اکادمی کی مجلس نے یہ طے کیا کہ مختلف علمی وفکری موضوعات پر تین روزہ ورکشاپس منعقد کی جائیں گی۔ اس سلسلے میں پہلی ورک شاپ کا موضوع ’’ جغرافیہ قرآنی‘‘ طے ہوا ، جبکہ آئندہ سہ ماہی میں دوسری ورک شاپ ’’ذرائع ابلاغ‘‘ کے عنوان پر منعقد کی جائے گی۔
دورۂ جغرافیہ قرآنی کا انعقاد ۲۵ تا ۲۷ دسمبر ۲۰۱۵ء کیا گیا۔ ۲۵ ؍ دسمبر کو افتتاحی تقریب میں شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد صاحب نے خطاب فرمایا۔ تدریس کے لیے عصر تا عشاء کا وقت مختص کیا گیا تھا۔ گوجرانوالہ شہر سے اسکول و کالج اور مدارس کے چالیس سے زائد طلبہ نے شرکت کی۔ مولانا فضل الہادی نے تدریس کی ذمہ داری انجام دی اور تمام اسباق پروجیکٹر پر پڑھائے۔ تینوں دن شرکاء کے لیے ریفریشمنٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ جناب شاہد اقبال، جناب حافظ صفوان محمد چوہان اور جناب محمد ریاض کے مالی تعاون، جبکہ اکادمی کے رفقاء مولانا بلال فاروقی، مولانامحمد وقار اور ان کے معاونین کے حسن انتظام کی بدولت سباق تین روزہ دورہ بحمداللہ کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔
اس کورس میں قرآنی جغرافیہ کے حوالے سے جو موضوعات زیر درس رہے، وہ یہ تھے :
۱۔ جغرافیہ کا تعارف ، ۲۔ نقشہ پڑھنے کا طریقہ ، ۳۔ انبیاء قرآنی کا تعارف ، ۴۔ شخصیات قرآنی کا تعارف ، ۵۔ اقوام قرآنی کا تعارف ، ۶۔ ارض قرآن کا تعارف اور ۷۔ ارض سیرت کا تعارف۔
طلبہ نے بڑی دلچسپی اور ذوق و شوق کا مظاہر ہ کیا اور بروقت تشریف لاتے رہے۔ آخری دن شرکاء کا زبان امتحان بھی لیا گیا۔ دورہ میں پنجاب کالج کے شعبہ جغرافیہ کے استاد جناب جاوید الرحمان بھی شریک تھے جنھوں نے اختتامی نشست میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
’’مجھے بالکل آخری دن اس دورہ کی اطلاع ملی اور میں حیران ہوا کہ قرآن کریم کو سمجھنے میں جغرافیہ قرآنی کا کتنا اہم کردار ہے، اس سے میرے سامنے قرآن فہمی کی ایک نئی جہت سامنے آئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی میں مولانا فضل الہادی کے انداز تدریس سے بہت متاثر ہوا ہوں کہ انہوں نے اتنی تفصیل سے اور اتنی محنت سے پڑھایا کہ ایک لحاظ سے خشک سمجھا جانے والا مضمون بڑی آسانی سے طلبہ کے ذہن میں اترتا چلا گیا۔ میرے لیے جہاں اس دورہ میں قرآن فہمی کی ایک نیا در وا ہوا ہے، وہاں طرز تدریس کا ایک موثر پہلو بھی اجاگر ہوا ہے اور میں اس پر الشریعہ اکادمی کے احباب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘‘
اختتامی نشست میں مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف فرما تھے جنہوں نے طلبہ کو اسناد عنایت فرمائیں اور اپنے خطاب میں قرآن فہمی میں جغرافیہ قرآنی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ایسے مختصر دورانیہ کے کورسز تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
سیرت کوئز مقابلہ
الشریعہ اکادمی کی طرف سے ماہ ربیع الاول میں سیر ت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایسی تعلیمی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جو طلبہ میں سیرت کے مطالعہ کا ذوق و شوق پیدا کرنے کا باعث ہوں۔ گزشتہ سالوں میں سیرت کے متنوع پہلوؤں پر مضمون نویسی کے مقابلے کروائے گئے جس میں شہر کے دینی مدارس کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور اول ، دوم ، سوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کونقد انعامات سے نوازا گیا۔ اس سال اکادمی کی مجلس تعلیمی میں یہ بات طے پائی کہ مضمون نویسی کے بجائے ’’ سیرت کوئز مقابلہ‘‘ کے عنوان سے اسکول و کالج اور مدارس کے طلبہ کے مابین مقابلے کا انعقاد کیا جائے تاکہ مقابلہ میں شریک طلبہ سیرت کے بھر پور مطالعہ کی سعادت حاصل کر لیں۔
گزشتہ ربیع الاول میں منعقد ہونے والے اس سیرت کوئز مقابلہ میں شہر کے آٹھ دینی مدارس کی سولہ ٹیموں نے حصہ لیا۔ ہر مدرسے سے تین ارکان پر مشتمل دو دو ٹیمیں حصہ لے سکتی تھیں۔ جن مدارس کے طلبہ نے حصہ لیا، ان کے نام حسب ذیل ہیں : مدرسہ نصرۃ العلوم ، جامعہ عربیہ ، جامعہ حقانیہ ، جامعہ مدینۃ العلم ، جامعہ نعمانیہ ، جامعہ مظاہر العلوم ، جامعہ علوم الاسلامیہ ، دار العلوم گوجرانوالہ ۔
مقابلہ کے دو مراحل تھے۔ پہلا مرحلہ مورخہ ۳۱ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز جمعرات مکمل ہوا۔ اس مرحلے میں سب ٹیموں سے دس دس سوالات پوچھے گئے اور پہلی آٹھ پوزیشنز پر آنے والی ٹیموں کو اگلے مرحلے کے لیے منتخب کیا گیا۔ عصر کی نماز کے بعد قرعہ اندازی کے ذریعے سب ٹیموں سے سوالات پوچھنے کی باری مقرر کی گئی۔ پھر سیرت کوئز مقابلہ کی آرگنائزنگ کمیٹی (حافظ محمد رشید، مولانا عبد الغنی اور مولانا عبد اللہ )کے مرتب کردہ سوالات کے پیکٹ میز پر رکھ دیے گئے اور ہر ٹیم کو اس کی باری پر اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی پسند کا پیکٹ اٹھا کر میزبان کے حوالے کر دے۔ ہر پیکٹ میں تیرہ سوالات تھے جس میں سے دس سوالات متعلقہ ٹیم سے جبکہ باقی سوالات عام سامعین سے پوچھے گئے اور صحیح جواب دینے والے سامعین کو بطور انعام ایک کتاب دی گئی۔ ۔اس مقصد کے لیے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی کتاب’’ تراشے ‘‘اور مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کی کتاب ’’ پا جا سراغ زندگی ‘‘ منتخب کی گئی تھیں ۔ ہر ٹیم کے حاصل کردہ نمبر وائٹ بورڈ پر سب کے سامنے لکھ دیے جاتے تھے۔ میزبان کے فرائض مولانا عبد الغنی نے انجام دیے اور عمدگی سے سارے پروگرام کو آگے بڑھایا۔
دوسرے مرحلے کا انعقاد ۷جنوری ۲۰۱۶ء بروز جمعرات کیا گیا جس میں پہلے مرحلے سے منتخب شدہ آٹھ ٹیموں کے درمیان مقابلہ کروایا گیا۔ اس مرحلے میں ٹیموں کے دو گروپ بنائے گئے اور قرعہ اندازی کی مدد سے پہلے گروپ کی مختلف ٹیموں کا دوسرے گروپ کی ٹیموں سے مقابلہ طے کیا گیا۔ طلبہ نے خوب تیاری کی ہوئی تھی، اس لیے بڑا دلچسپ مقابلے دیکھنے میں آیا ۔ اس مرحلے میں بھی وہی ترتیب رکھی گئی کہ پیکٹ میں سوالات میز پر رکھ دیے گئے اور پیکٹ کا انتخاب طلبہ کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔ اس مرحلے میں سات مقابلے ہوئے جن میں چار کوارٹر فائنل، دو سیمی فائنل اور ایک فائنل شامل تھا۔ استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی دامت دام ظلہ مری سے طویل سفر کر کے مقابلہ کے اختتامی مراحل میں شریک ہوئے اور سیرت کوئز مقابلے کا فائنل مقابلہ ان کی موجودگی میں منعقد ہوا۔
فائنل تک رسائی کے لیے سخت مقابلہ ہوا اور بالآخر جامعہ مدینۃ العلم اور الشریعہ اکادمی کے سال سوم کے طلبہ کی ٹیمیں فائنل تک رسائی حاصل کر سکیں۔ فائنل میں بھی سخت مقابلہ ہوا اور جامعہ مدینۃ العلم کی ٹیم دس نمبروں کے فرق کے ساتھ اول پوزیشن کی حق دار قرار پائی۔ سامعین میں بڑا جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ خصوصاً انعامی سوالات کے وقت سامعین میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ میں اس سوال کا جواب دے کر انعام حاصل کر لوں۔ جیتنے والی ٹیم کے حمایتی نعروں سے اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ مقابلوں کے دوران وقفہ کے لمحات میں نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور حمد باری تعالیٰ سے سامعین کے دلوں کو گرمایا گیا۔
سیرت کوئز مقابلہ میں سب شرکا کو کتابوں کے تحائف پیش کیے گئے، جبکہ اول ، دوم اور سوم پوزیشنز حاصل کرنے والی ٹیموں کے لیے کتابوں (مولانا ندوی کی ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ مکمل اور مولانا محمد تقی عثمانی کی ’’دنیا میرے آگے‘‘) کے تحائف کے ساتھ بالترتیب چھ ہزار روپے، پینتالیس سو روپے اور تین ہزار روپے کے نقد انعامات اور یادگاری شیلڈز بھی دی گئیں۔
مولانا زاہد الراشدی دام ظلہ نے اپنی اختتامی خطاب میں فرمایا کہ اس سال ربیع الاول میں سیرت کوئز مقابلہ منعقد کروانے کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ ذوق اور توجہ سے سیرت کا باریک بینی سے مطالعہ کریں اور مقابلہ کی نوعیت دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ سیرت کے مطالعہ کے حوالے سے ہر طرح کی کوشش باعث برکت بھی ہے اور اس دور کی اشد ضرورت بھی ۔ مجھے مقابلے میں شریک طلبہ کی تیاری، سوالات کی بناوٹ میں باریک بینی اور سامعین کی دلچسپی دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر اد ا کرتا ہوں کہ ہمارے طلبہ میں سیرت کے مطالعہ کا شوق و ذوق موجود ہے۔ ہم اس سلسلے کو جاری رکھیں گے اور تاریخ کے دیگر پہلوؤں مثلاً سیرت خلفائے راشدینؓ ، سیرت ائمہ کرام ؒ اور سیرت صحابہؓ جیسے موضوعات پر بھی مقابلہ جات منعقد کروائے جائیں گے،ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جمع ہونا قبول فرمائیں۔
دِل کے بہلانے کو شوقِ رائیگاں رکھتا ہوں میں
محمد عمار خان ناصر
خود بھی بے خود ہوں کہ یہ سارا جہاں رکھتا ہوں میں؟
ایک لمحہ ہوں کہ عمر جاوِداں رکھتا ہوں میں؟
گو کہ اب باقی نہیں وہ حیرتوں کی جستجو
دِل کے بہلانے کو شوقِ رائیگاں رکھتا ہوں میں
بے غرض رہتا ہے بس تفریقِ خویش وغیر سے
اپنے سینے میں جو احساسِ زیاں رکھتا ہوں میں
حسرتوں کے ساتھ اب یہ نفرتوں کے بوجھ بھی؟
اتنی طاقت اے دلِ ناداں! کہاں رکھتا ہوں میں
جس کا ہر اک رَاہرو تنہا ہوا گرمِ سفر
اَن گنت صدیوں میں پھیلا کارواں رکھتا ہوں میں
اِس کے صدقے دیکھ سکتا ہوں اُفق میں دُور تک
دل میں اِک جو یادِ خاکِ رَفتگاں رکھتا ہوں میں
مارچ ۲۰۱۶ء
جدید معاشرہ اور اہل مذہب کی نفسیات
محمد عمار خان ناصر
اہل دین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انبیا کی نیابت کرتے ہوئے دین کے پیغام کو معاشرے تک پہنچائیں، دین کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کو دور کریں اور دینی واخلاقی تربیت کے ذریعے سے معاشرے کو درست نہج پر استوار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کا سب سے بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اپنے معاشرے اور ماحول کے لیے اہل دین کا رویہ سر تا سر ہمدردی اور خیر خواہی پر مبنی ہو اور اس میں حریفانہ کشاکش اور طبقاتی وگروہی نفسیات کارفرما نہ ہو۔ انسانی معاشرے میں یہ کردار ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اصلاً انبیا اور رسولوں کو مبعوث کیا اور انھی کی سیرت وکردار اس سلسلے میں نمونے اور آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس تناظر میں اگر ہم اپنے معاشرے میں علمائے دین اور مذہبی طبقات کے کردار کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے ایک ایسی نفسیات ابھر کر آتی ہے جس کی تشکیل داعیانہ ہمدردی اور انسانی خیر خواہی کے زیر اثر نہیں، بلکہ طبقاتی مخاصمت اور حریفانہ کشاکش کے اصول کے تحت ہوئی ہے۔ اہل مذہب اور معاشرے کے دیگر طبقات کے مابین ایک گہرا ذہنی ونفسیاتی بعد پایا جاتا ہے۔ مذہب سے وابستہ طبقوں اور معاشرے کے مابین اجنبیت کی ایک دیوار حائل دکھائی دیتی ہے اور ارباب مذہب کی فکر اور حکمت عملی میں اصلاح کے ہمدردانہ اور داعیانہ جذبے کے بجائے شکوہ شکایت اور تنافر کا عنصر بالعموم غالب ہوتا ہے۔ گرد وپیش کے ناسازگار ماحول کے خلاف اس نفسیاتی رد عمل کا اظہار ہمیں اہل مذہب کے رویوں میں مختلف پہلووں سے دیکھنے کو ملتا ہے۔
مثال کے طور پر معاصر مذہبی ذہن اپنے اظہار کے سانچوں میں رنگا رنگی اور تنوع کے باوصف، مجموعی حیثیت سے ایک ہی ذہنی رویے کی نمائندگی کرتا اور معاشرے میں اسی کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ رویہ معاشرے سے گریز اور فرار (escapist attitude) اور معاشرے کے دوسرے طبقات سے اجنبیت اور بے گانگی کا رویہ ہے۔ ان میں سے جن عناصر کی penetration ہر طرح کے طبقات میں ہے، ان کے پاس بھی معاشرے میں رہ کر مثبت طور پر مواقع اور امکانات کو دریافت کرنے اور اپنا کردار ادا کرنے کا نہیں، بلکہ عموماً معاشرے سے ہٹ کٹ کر ایک خاص روحانی ماحول میں تسکین پانے ہی کا پیغام ہے۔
اسی طرح اختلاف اور تنقید کے حوالے سے اہل مذہب ’علمی رویے‘ کے تصور سے، بالعموم، ناآشنا ہو چکے ہیں۔ علمی رویے کے تحت کسی بھی مسئلے کو نہایت ہم دردی اور معروضیت کے ساتھ اس کی علمی بنیاد میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر اس میں کوئی سقم نظر آئے تو علمی دلائل ہی کے ساتھ اس کی غلطی کو واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم موجودہ مذہبی ذہن مخالف نقطہ ہائے نظر کے فکری وذہنی پس منظر کو سمجھے بغیر اور ان کو استدلال سے متاثر کرنے کے بجائے ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کی نفسیات کے تحت تحکم کے انداز میں اپنی رائے اس پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے۔
تحفظاتی نفسیات کے زیر اثر مذہبی طبقات نے وسیع تر علمی وفکری استفادے کو اپنے ہاں شجرممنوعہ کی حیثیت دے رکھی ہے۔ جدید علمی وفکری مسائل کا تجزیہ اور ان کے حوالے سے معاشرے کی راہ نمائی سرے سے موجودہ دینی تعلیم کا نظام کا مسئلہ ہی نہیں۔ اہل مذہب کا مطمح نظر اس نظام سے صرف یہ ہے کہ وہ معاشرے اپنی space کو محفوظ رکھیں اور ایک سماجی طبقے طورپر اپنی حیثیت منوانے اور اپنے دائرۂ اثر کو وسیع تر اور پائیدار بنانے کی جدوجہد کرتے رہیں۔ اس کے لیے معاشرے میں مذہب کے ساتھ ایک عمومی وابستگی اور اس کی بنیاد پر ملنے والی تائید وحمایت انھیں پیش نظر مقصد کے لیے کافی محسوس ہوتی ہے، جبکہ معاشرے کو علم وعقل اور اخلاقی تربیت کے میدان میں جن سوالات کا سامنا ہے، وہ اہل مذہب کی توجہ سے خارج ہیں۔ یہ نظام پورے معنوں میں ایک گروہی، حزبی اور طبقاتی نفسیات کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ہر مذہبی طبقہ فکر اس کو ضروری سمجھتا ہے کہ وہ اپنے وابستگان کے علمی وفکری استفادے کو ایک خاص دائرے کا پابند رکھے اور چند مخصوص فکری ترجیحات اور علمی شخصیات سے ہٹ کر، جو اس طبقہ فکر کے جداگانہ فکری تشخص کی علامت ہیں، ان کے لیے اخذ واستفادہ کا دروازہ بند رکھا جائے۔
اہل مذہب کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ اس صورت حال کے پیدا ہونے کی ذمہ داری کافی حد تک خود ان پر عائد ہوتی ہے۔ علم کلام اور فقہ وشریعت کے دائروں میں نئے پیدا ہونے والے مباحث کے حوالے سے علمی خلا کو موثر طریقے سے پر کرنے سے صرف نظر کا رویہ آخر کس نے اختیار کیے رکھا؟ اگر ان کے اس اعراض کے نتیجے میں بعض نئے فکری طبقات کو آگے بڑھنے اور اس میدان میں اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا ہے تو کس بنیاد پر ان طبقوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ روایتی اہل مذہب کے بالمقابل تعبیر دین کے حق سے دست بردار ہو جائیں ؟
روایتی مذہبی طبقے نے مغربی فکر وتہذیب کے چیلنج کے نمودار ہونے کا نہ پیشگی اندازہ کیا اور نہ اس کے لیے کسی قسم کی تیاری کی ضرورت محسوس کی، بلکہ جب یہ چیلنج اپنے تمام تر مضمرات سمیت ان کے سامنے آکھڑا ہوا تو بھی وہ، اپنی علمی وذہنی حالت کے پیش نظر، اس سے مسلسل صرف نظر کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقائد وکلام سے لے کر تعلیم ومعاشرت اورمعیشت اور تہذیب کے دائروں میں پیدا ہونے ان گنت نئے مباحث میں داد تحقیق دینے کے لیے روایتی علمی طبقہ سے باہر کے کچھ لوگ متوجہ ہوئے اور انہوں نے اپنے اپنے ذوق اور فہم وفراست کے مطابق ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے اہل علم کے روایتی طبقہ کو ماضی میں جو بلاشرکت غیرے (Exclusive) مرجعیت حاصل تھی، وہ ختم ہو گئی۔ ان کی حیثیت اب اس میدان کے ’’ایک‘‘ فریق کی ہو گئی جسے اپنی تعبیر دین، بہرحال، ایک ’’تعبیر‘‘ ہی کی حیثیت سے پیش کرنی اور استدلال ہی کے زور پر مخالف تعبیرات پر تنقید کرنی ہے۔ تاریخی، تہذیبی، معاشرتی اور علمی لحاظ سے طبقہ علما کو جو برتری ماضی میں حاصل تھی، اس کے کھو جانے کے بعد اب علمی استدلال کی قوت ہی ان کا واحد سہارا ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے لیکن طبقہ علما اس پوزیشن کو قبول کرنے کے لیے نفسیاتی طور پرتیار نہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ مختلف عوامل کے نتیجے میں ایک نیا پراسس شروع ہو کر ملت کے فکری دھارے میں شامل ہو چکا ہے اور قدیم وجدید کی یہ فکری Polarityاب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ نظری طور پر بے شک یہ بحثیں اٹھائی جا سکتی ہیں کہ فقہ واجتہاد کی مطلوبہ علمی شرائط کیا ہیں اور تعبیر دین کا اختیار مانگنے والے نئے فکری طبقات ان کو پورا کرتے ہیں یا نہیں، لیکن تاریخ کا جبر اس استدلال کو وزن دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ کوئی بھی تعبیر دین، خواہ وہ علما کی نظر میں کتنی ہی غلط، بے بنیاد اور مسلمات کے خلاف کیوں نہ ہو، اگر اسے معاشرے کے فہیم طبقات میں پذیرائی حاصل ہے تو محض علما کی خواہش یا مطالبے پر اسے نابود نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس نئی صورت حال کو شعوری طور پر قبول کرنا، اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر اس سے ہم آہنگ کرنا اور سنجیدہ علمی مزاج کو اجتماعی طور پر اپنے اندر پروان چڑھانا ہی بہتری اور اصلاح حال کے لیے کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ نکتہ بھی اہل مذہب کے سنجیدہ غور وفکر کا مستحق ہے کہ اگر دین کی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں غزالی، ابن رشد، ابن تیمیہ، ابن خلدون، ابن عربی اور شاہ ولی اللہ کی سطح کے مفکرین پیدا ہوں جو علم وعقل کے میدان میں درپیش چیلنج سے نبرد آزما ہو سکیں تو ظاہر ہے کہ وہ ان فکری قدغنوں کے ماحول میں پیدا نہیں ہو سکتے جہاں تقلید آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہو اور اجتہاد اور آزادئ فکر کو طعنے بلکہ گالی کا درجہ دے دیا جائے۔ یقیناًآزادئ فکر میں خطرات بھی ہیں، لیکن یہ خطرہ تو مول لینا ہی پڑے گا کیونکہ یہ قیمت ادا کیے بغیر اعلیٰ سطح کی وہ فکری وتخلیقی دانش پیدا نہیں کی جا سکتی جس کا فقدان اس وقت بانجھ پن کی حدوں کو چھو رہا ہے۔
علما کو یہ حقیقت بھی سمجھنا ہوگی کہ ماضی میں انھیں حاصل معاشرتی قدر ومنزلت اور مرجعیت کوئی خدائی استحقاق نہیں بلکہ اس حقیقت کا نتیجہ تھی کہ معاشرے کے عوام وخواص کو ان کی علمی لیاقت اور فہم وبصیرت پر اعتماد تھا اور وہ اپنے دور کے علمی وعملی سوالات کا ادراک کرنے اور ان کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ نتیجہ اب بھی اس شرط کو پورا کیے بغیر ممکن نہیں۔ علما اگر اپنے علم وفہم کا معیار بہتر کریں گے، جدید ذہن کے سوالات اور جدید معاشرے کے مسائل کا ادراک کریں گے اور علم وفکر کی سطح پر معاشرے کی قیادت کی اہلیت اپنے اندر پیدا کریں گے تو انھیں وہ احترام اور وقار خود بخود حاصل ہو جائے گا جس کے حاصل نہ ہونے کے وہ اس وقت شاکی ہیں۔ ان میں سے اس معیار پر پورے اترنے والے اہل علم کو انفرادی سطح پر یہ مقام اب بھی حاصل ہے۔ وہ اگر بحیثیت طبقے کے اس کے خواہاں ہیں تو اس کے تقاضوں کو بھی پورے طبقے ہی کی سطح پر پورا کرنا ہوگا۔
مذہبی طبقے کو اس حقیقت کو بھی پوری طرح مد نظر رکھا ہوگا کہ مسلم معاشرہ اس وقت فکری، تہذیبی، نفسیاتی اور اخلاقی اعتبار سے شدید شکست وریخت کا شکار ہے۔ وہ بے حد ہمدردی، داعیانہ اخلاص اور لطف وملائمت کے ساتھ تعمیر نو کا محتاج ہے۔ وہ کوئی ہٹا کٹا اور تنومند معاشرہ نہیں جس پر اندھا دھند شرعی حدود نافذ کر دی جائیں۔ وہ ایسا بیمار ہے کہ اس مرحلے پر اگر اسے علامتی طور پر جھاڑو کے تنکے مار دیے جائیں تو بھی شریعت کا منشا پورا ہو جائے گا۔ اس کی مثال اس ماں کی سی ہے جسے بدکاری کی سزا دینے کے لیے اس وقت کا انتظار کرنا پڑے گا جب وہ اپنے بچے کو جنم دینے کے بعد اس کی پرورش کے ضروری مراحل سے فارغ ہو جائے۔ وہ اس وقت ایک فقیہ اور قاضی کے دروں سے زیادہ ایک صوفی کی دل گداز باتوں اور ایک مسیحا کے پھاہوں کا محتاج ہے۔ اس کا علاج فقیہوں اور فریسیوں کے بے لچک ضابطوں میں نہیں، بلکہ سیدنا مسیح کے دل نواز وعظوں میں ہے۔
کوئی بھی طبقہ اپنی بقا اور اپنے کردار کے مفید تسلسل کے لیے خو دتنقیدی اور داخلی احتساب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بد قسمتی سے اہل دین اس وقت اپنی ترجیحات اور اپنے متعین کردہ کردار کے حوالے سے سخت حساسیت کا شکار ہیں اور کسی بھی قسم کا تنقیدی تجزیہ سننے اور اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ اس کی وجہ قابل فہم ہے، کیونکہ جب کوئی طبقہ چاروں طرف سے یلغار کا شکار ہو اور ہر طرف سے جائز یا ناجائز اعتراضات سخت اور تیز وتند لہجے میں وارد کیے جا رہے ہوں تو وہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر کیموفلاج کرنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ تاہم اگر اہل مذہب اپنے کردار کو دفاع سے اقدام میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو تنقید کے حوالے سے ’ذکاوت حس‘ کی یہ کیفیت نہایت منفی اور مضر ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ نہ صرف خارج اور داخل سے ہونے والی مختلف تنقیدوں کو پوری توجہ سے سنیں اور ان پر غور کریں بلکہ ازخود تنقیدی سوالات اٹھانے کا رجحان بھی پیداکریں۔ مدارس کے اساتذہ آپس میں ان موضوعات پر گفتگو کریں، تنقیدوں کا سنجیدہ تجزیہ کریں، ان کے مثبت اور منفی پہلووں کو متعین کریں اور اس طرز فکر کو مدارس کے ماحول کا حصہ بنائیں۔ اس سے چیزیں نکھریں گی اور خیالات اور ترجیحات میں وضوح پیدا ہوگا جو اہل دین کو اپنے آئندہ کردار کے تعین میں مدد دے گا۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۶)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۸۰) تنازع کے دو مفہوم
قرآن مجید میں تنازع کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے، فیروزآبادی نے لکھا ہے کہ اس لفظ کے دو مفہوم ہیں، باہم جھگڑا کرنا اور ایک دوسرے کو کچھ پیش کرنا۔
والتَّنازُعُ: التَّخاصُمُ والتَّناوُل. (القاموس المحیط، ص: ۷۶۶)
زبیدی کا خیال ہے کہ حقیقی مفہوم جھگڑا کرنا اور مجازی مفہوم ایک دوسرے کو پیش کرنا ہے، زبیدی نے مثالیں دے کربتایا ہے کہ قرآن مجید میں دونوں مفہوم کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔
والتَّنازُعُ فِی الأصلِ: التَّجاذُبُ، کالمُنَازَعَۃِ، ویُعَبَّرُ بِھِمَا عَن التَّخَاصُمِ والمُجَادَلَۃِ، ومِنہُ قَوْلُہُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَا تَنازَعوا فتَفْشَلُوا، وقَوْلُہُ تعالَی: فَاِنْ تَنازَعْتُمْ فِی شَیءٍ فرُدُّوہُ اِلَی اللّٰہِ. وَمن المَجَازِ: التَّنَازُعُ: التَّناوُلُ والتَّعَاطِی، وَالأَصْلُ فیہِ التَّجَاذُبُ، قالَ اللّٰہُ تَعَالَی: یَتَنَازَعُونَ فِیھَا کأساً، أَیْ: یَتَنَاوَلُونَ. (تاج العروس، ۲۲/۲۴۷)
تاہم بہت اہم سوال ہے کہ یہ معلوم کیسے ہو کہ لفظ تنازع کہاں کس معنی میں آیا ہے؟ اس سلسلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ایک بہت قیمتی نکتہ بیان فرمایا جس سے اس لفظ کے مفہوم کو متعین کرنے میں بڑی آسانی ہوجاتی ہے، مولانا کے افادات کے مطابق اگر تنازع کے بعد (فی) کا صلہ آئے تو جھگڑا کرنے اور اختلاف کرنے کا مفہوم ہوتا ہے، جبکہ اگر اس کے بعد مفعول بہ آجائے تو جھگڑنے کا مفہوم نہیں بلکہ تبادلے اور باہم لین دین کرنے کا مفہوم ہوتا ہے، اور اگر فعل ان دونوں کے بغیر ہو تو بھی اختلاف اور جھگڑے کا مفہوم ہوتا ہے۔ گویا تنازع فی الامر کا مطلب ہوگا کسی مسئلے میں اختلاف کرنا اور جھگڑا کرنا، جبکہ تنازع الامر کا مطلب ہوگا کسی مسئلے کے اوپر باہم گفتگو اور تبادلہ خیال کرنا۔
مذکورہ ذیل آیتیں ملاحظہ فرمائیں، ان میں تنازع کے بعد (فی) آیا ہے، اور آیت کا مجموعی مفہوم خود گواہی دے رہا ہے کہ یہاں اختلاف اور جھگڑے کا مفہوم مراد ہے۔
لِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً ہُمْ نَاسِکُوہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِیْ الْأَمْرِ۔ (الحج:۶۷)
’’ہر فرقے کو ہم نے ٹھیرادی ہے ایک راہ بندگی کی کہ وہ اسی طرح کرتے ہیں بندگی سو چاہیے تجھ سے جھگڑا نہ کریں اس کام میں‘‘ (شاہ عبدالقادر)
وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُم بِإِذْنِہِ حَتَّی إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِیْ الأَمْرِ وَعَصَیْْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاکُم مَّا تُحِبُّونَ۔َ (آل عمران: ۱۵۲)
’’اور اللہ تو سچ کرچکا تم سے اپنا وعدہ جب تم لگے ان کو کاٹنے اس کے حکم سے جب تک کہ تم نے نامردی کی اور کام میں جھگڑا ڈالا اور بے حکمی کی بعد اس کے کہ تم کو دکھا چکا تمہاری خوشی کی چیز‘‘ (شاہ عبد القادر)
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُولِ۔ (النساء: ۵۹)
’’اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور جو اختیار والے ہیں تم میں سے، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو اللہ اور رسول کی طرف۔‘‘ (شاہ عبدالقادر)
إِذْ یُرِیْکَہُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلاً وَلَوْ أَرَاکَہُمْ کَثِیْراً لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِیْ الأَمْرِ وَلَکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ إِنَّہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُور۔ (الانفال:۴۳)
’’جب اللہ نے ان کو دکھلایا تیرے خواب میں تھوڑے اور اگر وہ تجھکو بہت دکھاتا تو تم لوگ نامردی کرتے اور جھگڑا ڈالتے کام میں لیکن اللہ نے بچالیا اس کو معلوم ہے جو بات ہے دلوں میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر، قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں اذ کے ساتھ مضارع آیا ہے، اس لیے ترجمہ ماضی استمراری کا ہوگا، جب اللہ تم کو دکھارہا تھا)
ذیل کی آیت میں مجرد تنازع استعمال ہوا ہے، نہ اس کے بعد (فی) ہے اور نہ ہی مفعول بہ ہے، اور یہاں بھی مفہوم بالکل واضح ہے کہ اہل ایمان کو باہم اختلاف اور جھگڑے سے منع کیا گیا ہے۔
وَأَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْن۔ (الانفال:۴۶)
’’اور حکم مانو اللہ کا اور اس کے رسول کا اور آپس میں نہ جھگڑو پھر نامرد ہوجاؤگے اور جاتی رہے گی تمہاری باؤ۔ اور ٹہیرے رہو اللہ ساتھ ہے ٹہرنے والوں کے۔‘‘ (شاہ عبدالقادر)
مذکورہ بالا اسلوب سے ہٹ کر درج ذیل آیتوں میں تنازع کا فعل (فی) کے بجائے براہ راست مفعول بہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے، بہت سے مترجمین نے یہاں بھی اختلاف اور جھگڑے کا مفہوم اختیار کیا ہے، لیکن جب ہم ان میں سے ہر آیت کے سیاق اور مجموعی مفہوم کو دیکھتے ہیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں اختلاف اور جھگڑے کا مفہوم نہیں ہے۔ اور یہ اصول ثابت اور مدلل ہوجاتا ہے کہ تنازع جب (فی) کے ساتھ آئے تو جھگڑے کے مفہوم میں ہوگا، اور جب براہ راست مفعول بہ کے ساتھ آئے تو تبادلے کے مفہوم میں ہوگا۔ درج ذیل آیتوں کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
(۱) وَکَذَلِکَ أَعْثَرْنَا عَلَیْْہِمْ لِیَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیْْبَ فِیْہَا، إِذْ یَتَنَازَعُونَ بَیْْنَہُمْ أَمْرَہُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَیْْہِم بُنْیَاناً، رَّبُّہُمْ أَعْلَمُ بِہِمْ، قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوا عَلَی أَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْْہِم مَّسْجِداً۔ (الکہف: ۲۱)
اس طرح ہم نے اہل شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بیشک آکر رہے گی۔ (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اس وقت وہ آپس میں اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ ان (اصحاب کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا ’’ان پر ایک دیوار چن دو ان کا رب ہی ان کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے‘‘ مگر جو لوگ ان کے معاملات پر غالب تھے انہوں نے کہا ’’ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے‘‘ (سید مودودی)
آیت کے زیر نظر ٹکڑے: إِذْ یَتَنَازَعُونَ بَیْْنَہُمْ أَمْرَہُمْ کے مزید کچھ ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’جب لوگ آپس میں ان کے معاملے میں جھگڑ رہے تھے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’جس وقت کہ جھگڑتے تھے وہ آپس میں بیچ کام اپنے کے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’جب جھگڑ رہے تھے آپس میں اپنی بات پر‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’جبکہ اس زمانہ کے لوگ ان کے معاملے میں باہم جھگڑ رہے تھے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’جب وہ لوگ ان کے معاملے میں باہم جھگڑنے لگے‘‘ (احمد رضا خان)
’’جبکہ وہ اپنے امر میں آپس میں اختلاف کررہے تھے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے یہاں تبادلہ خیال، باہم گفتگو اور مشاورت کا مفہوم لیا ہے، ان کا ترجمہ یوں ہے:
’’جس وقت وہ آپس میں ان کے بارے میں گفتگو کررہے تھے‘‘
سیاق کلام سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے کہ موقعہ آپس میں جھگڑے کا نہیں بلکہ مشاورت اور تبادلہ خیال کا ہے، ان لوگوں نے اصحاب کہف کے عقیدت مند بن جانے کے بعد باہم مشاورت کی کہ یہاں پر کیا کیا جائے۔
(۲) یَتَنَازَعُونَ فِیْہَا کَأْساً۔ (الطور: ۲۳)
’’ایک دوسرے سے چھین لیویں گے بیچ اس کے پیالہ‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’جھپٹتے ہیں وہاں پیالہ‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’وہاں آپس میں (بطور خوش طبعی کے) جام شراب میں چھینا جھپٹی کریں گے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’(خوش طبعی کے ساتھ) ایک دوسرے سے جام (شراب) کی چھینا جھپٹی کریں گے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
واضح رہے کہ یہ بات جنت اور اہل جنت کے بارے میں کہی جارہی ہے، مذکورہ بالا ترجموں میں چھین جھپٹ کا ترجمہ کیا گیا، جبکہ ذیل کے ترجموں میں ایک دوسرے کوجام پیش کرنے اور ایک دوسرے سے جام قبول کرنے کا مفہوم ذکر کیا گیا ہے۔ یہ دوسرا مفہوم ہی یہاں درست ہے، کیونکہ چھین جھپٹ خواہ وہ خوش طبعی کے ماحول میں ہو قابل تعریف چیز نہیں ہے، قرآن مجید میں کسی بھی مقام پر جنت میں ایسی کسی چھین جھپٹ کا تذکرہ نہیں ہے، اس کے بجائے جام کے پیالوں کا تبادلہ بہت معنی خیز مفہوم ہے، اس میں محبت اور دلداری کا بھرپور اظہار پایا جاتا ہے۔ اس دوسرے مفہوم کے مطابق درج ذیل ترجمے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
’’وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے‘‘(سید مودودی)
’’ان کے درمیان شراب کے پیالوں کے تبادلے ہورہے ہوں گے‘‘(امین احسن اصلاحی)
ایک دوسرے سے لیتے ہیں وہ جام (احمد رضا خان، لیتے ہیں کے بجائے لے رہے ہیں کہنا زیادہ مناسب ہے)
(۳) فَتَنَازَعُوا أَمْرَہُم بَیْْنَہُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَی۔ (طہ:۶۲)
’’یہ سن کر ان کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا اور وہ چپکے چپکے باہم مشورہ کرنے لگے‘‘۔ (سید مودودی)
’’پھر جھگڑے اپنے کام پر آپس میں اور چھپ کر کی مشورت‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’پس جادوگر (یہ بات سن کر) باہم اپنی رائے میں اختلاف کرنے لگے اور خفیہ گفتگو کرتے رہے‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’تو اپنے معاملے میں باہم مختلف ہوگئے اور چھپ کر مشورت کی‘‘ (احمد رضا خان)
’’پس یہ لوگ آپس کے مشوروں میں مختلف رائے ہوگئے اور چھپ کر چپکے چپکے مشورہ کرنے لگے۔‘‘(محمد جونا گڑھی)
مذکورہ بالا ترجموں میں اختلاف اور جھگڑے کا مفہوم لیا گیا ہے، جبکہ سیاق کلام سے اس کی تائید نہیں ہوتی ہے، تذکرہ فرعون کے درباریوں کا ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ کی تذکیر وتنبیہ سننے کے بعد کیا رد عمل اختیار کیا، اسی آیت میں (وَأَسَرُّوا النَّجْوَی) سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان حضرت موسیٰ کی مخالفت کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ حضرت موسی کی مخالفت کے باب میں ان میں اتفاق پایا جاتا تھا۔ورنہ آپس میں سرگوشی بھی کرنا، اور آپس میں جھگڑا بھی کرنا ایک دوسرے کے مناسب حال معلوم نہیں ہوتے ہیں۔ اس آیت کا ترجمہ صاحب تدبر قرآن نے درست کیا ہے:
’’پس انھوں نے آپس میں اپنے معاملے میں مشورت اور سرگوشی کی‘‘ (امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا: ’’انہوں نے آپس میں خاموشی سے مشورہ کیا‘‘
(۸۱) کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحاً کا مفہوم
کدح کے معنی ہیں تگ ودو کرنا، راغب اصفہانی لکھتا ہے: الکدح: السّعي والعناء۔ (المفردات)
قرآن مجید میں یہ لفظ ایک مقام پر آیا ہے:
یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْہِ۔ (الانشقاق: ۶)
زیادہ تر مترجمین نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ تگ ودو کا مفہوم غائب ہوگیا اور بس تیز تیز جانے کا مفہوم حاوی ہوگیا۔
’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے خداوند ہی کی طرف جارہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’اے آدمی بیشک تجھے اپنے رب کی طرف ضرور دوڑنا ہے پھر اس سے ملنا‘‘ (احمد رضا خان)
بعض ترجموں میں لفظ کے اصل مفہوم کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے جیسے:
’’اے آدمی تجھے پچنا ہے اپنے رب تک پہنچنے میں پچ پچ کر پھر اس سے ملنا ہے‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اے انسان تو اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کرکے اس سے ملاقات کرنے والا ہے‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)
’’اے انسان! تو اپنے پروردگار کی طرف (پہنچنے میں) خوب کوشِش کرتا ہے سو اس سے جا ملے گا‘‘ (جالندھری)
’’اے انسان تو اپنے رب کے پاس پہنچنے تک (یعنی مرنے کے وقت تک) کام میں کوشش کررہا ہے پھر (قیامت میں) اس (کام کی جزا) سے جا ملے گا‘‘ (اشرف علی تھانوی)
پکتھال کا انگریزی ترجمہ بھی اس مفہوم کا ہے:
Thou, verily, O man, art working toward thy Lord a work which thou wilt meet (in His presence).
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’اے انسان، تیری تگ ودو تیرے رب کے پاس پہنچ رہی ہے، تو تجھے اس کا سامنا کرنا ہے‘‘۔
مولانا کی رائے ہے کہ یہاں انسان کے رب تک جانے کی بات نہیں ہے بلکہ انسان کی تگ ودو اور سعی ومحنت کے رب تک جانے کی بات ہے، اصل جملہ اِنَّکَ کَادِحٌ کَدْحًا ہے، یعنی تم بہت محنت اور تگ ودو کررہے ہو، اِلَی رَبِّکَ کے اضافے سے یہ مفہوم پیدا ہوگیا کہ یہ محنت اور تگ ودو تمہارے رب کے پاس پہنچ رہی ہے، یہ ویسے ہی ہے جیسے اِنّی کاتبٌ الی الملک کتاباً جس کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ میں لکھتے ہوئے بادشاہ کے پاس پہنچ رہا ہوں بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں خط لکھ رہا ہوں جو بادشاہ کے پاس پہنچنے والا ہے۔ فملاقیہ کا مطلب عام طور سے لوگوں نے یہ لیا ہے کہ انسان کی رب سے ملاقات کا بیان ہے، مولانا کے مطابق یہ بتایا گیا ہے کہ انسان اپنی تگ ودو کا سامنا کرے گا جو اس وقت اس کے رب کے پاس لحظہ بہ لحظہ پہنچ رہی ہے۔
(جاری)
اسلام عصری تہذیبی تناظر میں ۔ ممتاز دانشور جناب احمد جاوید کا فکر انگیز انٹرویو (۲)
اے اے سید
فرائیڈے اسپیشل: مغربی دنیا اگرچہ باطل کی پرستش کرتی ہے لیکن اس کے باوجود اُسے عالمگیر غلبہ حاصل ہے۔ آخر مغرب کے عالمگیر غلبے کی وجوہات کیا ہیں؟
احمد جاوید: اس کی دو ہی وجوہات ہیں: اول طاقت اور دوم علم۔ غلبے اور مغلوبیت کے جو اسباب ہوتے ہیں وہ قانونِ قدرت میں ہیں، قانونِ ہدایت میں نہیں ہیں۔ تو یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا بنایا ہوا ایک نظام قدرت ہے، جس میں کافر بھی اس کے مطابق ہوجائے گا تو غالب ہوجائے گا، اور مومن اس کی خلاف ورزی کرے گا تو مغلوب ہوجائے گا۔ تو طاقت اور علم، یہ مغرب کے غلبے کے مکینکس کے دو پارٹ ہیں۔ غلبہ اُس قوم کو حاصل نہیں ہوسکتا جس کے پاس طاقت نہ ہو۔ اس قوم کو حاصل نہیں ہوسکتا جس کے پاس دنیا کا علم نہ ہو۔ جو معاصر دنیا ہے اس کا علم، یہ عروج و زوال کا معیار ہے۔ اس کا تیسرا معیار اخلاقی ہے، کہ وہ معاشرہ اپنے آپ کو مربوط رکھنے، اپنے آپ کو ایک نظام میں ڈھالنے کے لائق ہو۔ یہ تینوں ضرورتیں مغرب نے پوری کردیں۔ یہ تینوں چیزیں جب تک کسی قوم میں موجود ہیں اُس وقت تک اس قوم کو زوال نہیں ہوگا، چاہے وہ کافر ہو یا مومن۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا مغرب کمزور پڑرہا ہے؟
احمد جاوید: مغرب کمزور پڑتا رہتا ہے، لیکن اس کے ہاں رپیئرنگ کا نظام بہت مضبوط ہے۔ وہ اپنی کمزوری کو فوراً بھانپ لیتا ہے اور اس کا علاج کرلیتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ مغرب میں کتنے بڑے بڑے معاشی زلزلے آئے، کتنے بڑے بڑے معاشرتی زلزلے آئے، انہوں نے سب کو ایک ڈھب سے رام کرلیا، کیونکہ ان کا تو کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں ہے۔ جب بھی کوئی ایشو اٹھا تو مغربی معاشرے میں ایک ہلچل پیدا ہوئی۔ اس سے بالادست قوتوں نے بھانپ لیا کہ اس کے نتیجے میں مغربی معاشرے کا جو تانا بانا ہے، وہ کمزور پڑجائے گا تو انہوں نے اسے لیگل کور دے دیا کہ قانوناً یہ جائز ہے۔ تو وہ ہرچیز کو رپیئر کرلیتے ہیں کیونکہ وہ کسی کمٹمنٹ پر نہیں ہیں۔ ان میں خدا کو جواب دینے کا تصور نہیں ہے، ان کے ماڈلز یا محرکاتِ عمل دینی، مذہبی یا ایمانی نہیں ہیں۔ ان کا ماڈل تو یہ ہے کہ ہمیں طاقتور رہنا ہے اور اپنے لوگوں کو آرام سے رکھنا ہے، اس کے لیے ہمیں جو جو کمپرومائز کرنے پڑیں، جیسی جیسی لچک دکھانی پڑے، جتنا جتنا قانون کو، تعلیم کو بدلنا پڑے ہم بدلتے رہیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ امریکہ کے معروف دانشور سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے 1990 کی دہائی میں تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا تھا، لیکن تہذیبوں کے تصادم کی باتیں اقبالؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ بھی بہت پہلے کرچکے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال ؒ اور مودودی ؒ اور سیموئیل پی ہن ٹنگٹن کے تناظر میں کیا کوئی فرق پایا جاتا ہے اور اس نظریے کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہے؟
احمد جاوید: تہذیبوں کے تصادم کا آئیڈیا بہت قدیم ہے۔ یونان میں بھی تھا۔ یہ ان لوگوں (اقبال اور مودودی صاحب) کا اندازہ تھا، اور یہ نظریاتی نوعیت کا زیادہ تھا۔ یہ قیاس تھا، تصور تھا۔مغرب یہ کرنے جارہا ہے۔ ہم یہ کرنے جارہے ہیں۔ اگلے تیس سال بعد زمین پر یہ صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ تو دونوں کے یہاں یہ تصور آئیڈیلسٹک تھا کہ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ اسلامی نظریہ زندگی مغربی نظریہ حیات سے بالآخر تصادم کی صورت میں نہ آئے۔ ظاہر ہے کہ اُن کا تصورِ انسان الگ، بنیادی تصورات الگ۔۔۔ ہمارے بنیادی تصورات الگ۔۔۔ تو علمی تصادم تو جاری ہے، اس لیے یہ عملی تصادم بھی بن سکتا ہے۔ پیش گوئی نہیں صرف ایک قیاس تھا۔ ہن ٹنگٹن کا کام یہ ہے کہ اس نے اس نظریے کو بالکل clinically بناکر دکھادیا ہے۔ اس پر ورک آؤٹ کرکے دکھادیا ہے۔ دنیا میں بعد میں آنے والے نظریے میں اس نظریے کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔ اس لیے ہن ٹنگٹن کا تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ واقعی ایک نظریہ ہے، اور اقبالؒ وغیرہ کا تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ ایک تصور ہے جو اپنی بنیادوں پر بالکل درست ہے۔ ہن ٹنگٹن تصور سازی نہیں کررہا، وہ مستقبل کی دنیا کی پیشگی تصویر کھینچ رہا ہے۔ وہ کوئی نظریاتی باتیں نہیں کررہا، وہ واقعات بیان کررہا ہے۔ جہاں تک ہمارے نزدیک اہمیت کی بات ہے، اقبالؒ اور ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا جو پیراڈائم ہے، اس کے مطابق ہم اس تصادم سے گزر رہے ہیں، اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ تصادم زندگی کی تمام سطحوں پر عملی حالات میں برپا ہوکر رہے گا بشرطیکہ ہم، ہم کہلانے کے لائق تو بنیں۔ آپ کی امت اپنی تہذیبی، اخلاقی اور نظریاتی قوت کے ساتھ مغرب کے سامنے صف آرا تو نہیں ہوسکی اور نہ ہی ہونے کا کوئی منصوبہ دکھائی دیتا ہے، نہ تیاری نظر آرہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ جو امت کا منصوبہ یا تصور ہے یہ کیسے اور کہاں بنے گا؟ کسی ایک جگہ بنے گا؟ امت تو کہیں نظر بھی نہیں آرہی! اس کا وجود کہاں ہے؟پاکستان میں بنے گا، ترکی میں یا سعودی عرب میں؟ اور پوری دنیا کے لیے یہ نظریۂ امت کیسے قابل قبول ہوگا؟یا یہ کہ آج کے جغرافیائی دور میں تبدیلی کس طرح آئے گی؟
احمد جاوید: امتِ مسلم اجتماعیت اور قومیتوں کے مجموعے کو کہتے ہیں، یعنی مسلم تہذیبیں، قومیں اور ممالک ہم عقیدہ ہونے کی بنیاد پر، ہم مقصد ہونے کی اساس پر ایک دائرۂ وحدت کے اندر ہیں۔ اس دائرۂ وحدت کا نام امت ہے۔ اور اس امت کو پاکستانی اور ملائشین ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم مختلف قوموں، معاشروں، ریاستوں اور ثقافتوں کے ہوتے ہوئے بھی متحد ہوسکتے ہیں۔ یہ اتحاد جب برپا ہوجائے گا تو ہم قوم کے ساتھ ساتھ امت کا تشخص بھی حاصل کرلیں گے۔ امت کا تشخص قومیت کی نفی سے نہیں ہے، قومیت کو اپنے اندر جذب کرلینے سے ہے۔ ان معنوں میں مسلمان عملاً اب بھی امت ہیں، لیکن امت کا یہ تصور کہ اس کا سیاسی نظم، اس کا ریاستی اسٹرکچر ایک حاکم کے تابع ہو، ایک حکومت کے تحت ہو تو یہ اب محالات میں سے ہے، نہ ہی یہ اسلام کا مطالبہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کو اس وقت دنیا میں وہ نرم زمین کہاں نظر آرہی ہے جہاں سے تبدیلی کے امکانات ہیں؟
احمد جاوید: اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ترکی وہ خطۂ زمین ہے جہاں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ وہ مرحلہ شروع ہوگیا ہے، اور اگر یہ کامیابی سے چلتا رہا تو ترکی سینٹر آف امہ بننے کی قابلیت رکھتا ہے، کیونکہ طاقت، علم، اخلاق،کمٹمنٹ اور آزادی کا جذبہ۔۔۔ یہ تمام چیزیں ان میں موجود ہیں۔ وہ نفسیاتی طور پر آزاد لوگ ہیں۔ یہ سب عناصر مل کر کسی قوم کو اپنی ہم خیال اقوام کے لیے نمونہ یا لیڈر بناسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: جب ہم اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کا ذکر کرتے ہیں تو تین نقطہ ہائے نظر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ مغرب قابلِ تقلید ہے اور مسلمانوں کو آنکھ بندکرکے مغربی فکر کی تقلید کرنی چاہیے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے جو علماء کا ہے کہ مغرب کو یکسر مستردکردیا جائے، اور وہ کہتے ہیں کہ مغرب باطل ہے اور باطل کی پیروی ممکن نہیں۔ تیسرا نقطہ نظر ہے جو درمیان کی راہ نکالتا ہے اور مغرب اور مشرق کے اندر امتزاج تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے ذریعے اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان جو تصادم ہے اس کی راہ روکی جاسکتی ہے اور اس سے دونوں تہذیبوں کو بڑا فائدہ ہوسکتا ہے۔ ان تین نقطہ ہائے نظر کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
احمد جاوید: یہ ایک پرانا منظرہے جس میں یہی تین باتیں مغرب کے بارے میں کہی جارہی تھیں۔ سرسید کے دور کے فوراً بعد مغرب کے حوالے سے یہ تین رویّے پیدا ہوئے تھے۔ ان تینوں رویوں کے پیچھے ایک مفروضہ قائم کرنے کی غلطی ہے، یعنی ان تینوں کی پشت پر بنیادی مفروضہ ہی غلط ہے کہ تہذیبیں معاہدوں کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتیں۔ تہذیبوں کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ آرگینک (Organic) ہوتا ہے۔ وہ کسی مذاکرات، ناپ تول یا سیاسی فیصلوں کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ سارے فیصلے اور منصوبہ بندیاں اثرانداز تو ہوتی ہیں لیکن یہ تصور کرلینا کہ ہم مغرب کی تہذیب کو مکمل طور پر روکنے کا ایک پلان بناکر اس کی پابندی کریں یا اس کو مکمل طور پر قبول کرنے کا منصوبہ تیار کرکے اس کے پیچھے رہیں، اس کو عمل میں لائیں، یا یہ کرلیں کہ دین کا تعلق رکھیں، یہ چیزیں کسی طرح کے فیصلوں سے نہیں پیدا ہوتیں۔ مغربی تہذیب سے ہمارے تعلق کی جیسی بھی نوعیتیں بنیں گی وہ یکطرفہ نہیں ہوں گی، وہ ایسی نہیں ہوں گی کہ جیسے ہم نے پہلے کوئی فیصلہ کیا، اب تعلق کا سارا نظام ہمارے پہلے کیے گئے فیصلے پر چل رہا ہے۔ گویا یہ ایک مصنوعی سوچ ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ مغرب اس وقت عالمگیر تہذیب بننے کے عمل میں ہے۔ جس چیز کو ہم ستّر اسّی برس پہلے مغربی تہذیب کہتے تھے اُس کا ایک جغرافیہ تھا مغربی یورپ اور امریکہ ملاکر۔ لیکن اب جو مغربی تہذیب ہے وہ مغرب کے جغرافیہ میں محصور نہیں ہے۔ اب مغربی تہذیب ہندوستان اور چین میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس وقت موجود تہذیبی مظاہر میں ایک مغرب ہی ہے جو عالمگیر تہذیب بننے کے عمل سے سردست کامیابی کے ساتھ گزر رہا ہے اور اس کو جو چیلنج پیش آرہے ہیں وہ معمولی نوعیت کے ہیں۔ اب حقیقی اور برسرزمین صورت حال یہ ہے۔ اس طغیانی اور مغرب کے اس تہذیبی طوفان میں، مغرب کے اس عالمگیر اخلاقی، علمی، عقلی غرض ہر طرح کے تہذیبی غلبے کے ماحول میں ہم یہ فکر کررہے ہیں کہ ہم بطور مسلمان اپنے تہذیبی امتیاز کی حفاظت کیسے کریں؟ ہم خود کو مغربی تہذیب میں ضم اور جذب ہوجانے سے کیسے بچائیں؟ یہ اس وقت کا مسلم سولائزیشن کو درپیش ایک مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو کچھ طریقوں سے حل کرنے یا اس مسئلے سے نکلنے کے لیے کچھ راستے ہم اپنے سامنے ایسے موجود پاتے ہیں جن سے یہ امید باندھی جاسکے کہ یہ ہمیں مغرب کے تہذیبی غلبے سے بچانے کی قوت رکھتے ہیں۔ ان میں ایک راستہ یہ ہے کہ ہم اس کے ساتھ تصادم کا رویہ اختیار کریں، اور کیوں کہ مغربی تہذیب کے پھیلاؤ میں اس کی قوت کا بہت عمل دخل ہے لہٰذا اس پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قوت ہی کا استعمال ضروری ہے۔ مسلم تہذیب اپنے کچھ پاکٹس میں طاقت کے خلاف مزاحمت ((Power Resistance کررہی ہے کہ اس کا راستہ ہم طاقت سے روک لیں گے، جس کی ایک موجودہ صورت حال جنگجوئی (Milintancy) ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کچھ تنکے آپس میں اتحاد کرکے سونامی کو روکنے کا منصوبہ بنائیں۔یہ انتہائی لغو خیال اور بے معنی طرزعمل ہے۔ یہ جنگجوئی مغرب کے غلبے کی قبولیت میں اضافہ کررہی ہے، یعنی مغربی تہذیب کو اخلاقی جواز فراہم کررہی ہے۔ تہذیبوں کے پھیلاؤ میں جو سب سے بڑے جواز ہوتے ہیں ان میں سے ایک جواز ان کی اخلاقی برتری ہوتا ہے۔ تو داعش وغیرہ کے مقابلے میں مغربی تہذیب یا داعش کا ہر ہدف اخلاقی طور پر ان سے بلند ہوگا۔ اب مغرب کے خلاف تشدد کا رویہ اور دہشت گردی کے واقعات جتنے بڑھتے چلے جائیں گے، ان سے مغرب کے جسم پر خراش تک نہیں آئے گی بلکہ ان کی طرف ہمارا رویہ بدلنے لگے گا اور ہم ان کی اخلاقی برتری کے قائل ہونے لگیں گے۔ تو اس سے ان کے پھیلاؤ کا راستہ اور زیادہ ہموار ہوجائے گا۔
دوسرا رویہ یہ ہے کہ ہم مغرب کی وہ اقدار، مغربی نظام کے وہ عناصر جن کی عالمگیریت مسلم ہوچکی ہے، جو اس وقت دنیا کا قانون بن چکے ہیں اور ان کا موجد مغرب ہے، مثلاً جمہوریت، مائلڈ کیپٹلزم (mild capitalism)، انسانی حقوق کا تصور، آزادئ اظہار کا آئیڈیا، دین بدلنے کی آزادی وغیرہ، تو ہم مغرب کی یہ جو قدریں آفاقی اقدار کی صورت اختیار کرتی جارہی ہیں، ہم ان میں سے کچھ قدریں منتخب کرکے اختیار کرلیں۔ دو راستے ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم جمہوریت اختیار کرلیں، کیونکہ جمہوریت کے نتائج اچھے ہیں۔ ہم آزادئ اظہار اختیار کرلیں، ہم انسانی حقوق کی وہی فہرست مان لیں جو مغرب نے بنائی ہے اور اقوام متحدہ سے منظور کروائی ہے، تو اس کے ساتھ ساتھ ہم نماز، روزہ جاری رکھیں۔ ہم اپنا آئین نیا بنادیں کہ جس میں لکھ دیا جائے کہ قرآن و سنت سے ٹکراؤ رکھنے والا کوئی قانون نہیں بن سکتا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو ہم اسلام کو آئینی طور پر غالب رکھیں اور زندگی کا پورا مزاج جو ہے، وہ مغرب سے نزدیک رہ کر بنائیں۔ مغرب میں ضم ہوئے بغیر اپنی بعض شناختوں کو برقرار رکھتے ہوئے، یا یوں کہیں کہ اپنی اُن شناختوں کو برقرار رکھتے ہوئے، جن پر مغرب کو اعتراض نہیں ہے، ہم اپنے ان تہذیبی امتیازات کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی کو چلانے والا اجتماعی نظام ،چاہے وہ سیاست کے دائرے میں ہو، اخلاق کے دائرے میں ہو، چاہے معیشت میں ہو، چاہے تعلیم میں ہو، چاہے انصاف میں ہو، وہ ہم مغرب سے نقل کریں، مغرب سے پورا پیکیج لے لیں اور اس پیکیج کو لے کر بس اس پر عنوان یہ لگادیں کہ یہ ہماری ہی تہذیب کے بنیادی عناصر ہیں جو مغرب نے ہم سے لیے تھے۔ تو ہم گویا اپنی دی ہوئی چیز اُن سے واپس لے رہے ہیں۔ تو دوسرا رویہ یہ ہے، ٹھیک ہے نا! مغرب کی بنائی ہوئی دنیا کو مغرب ہی کا ایجاد کیا ہوا نظام چلا سکتا ہے۔ ہم اس وقت مغرب کی بنائی ہوئی دنیا میں رہتے ہیں اور اس دنیا میں رہنے کے لیے انھی کے بنائے ہوئے نظام کے محتاج ہیں۔ یہ دنیا کسی اور نظام سے چل نہیں سکتی۔
تیسرا رویہ ابھی تصور کی سطح پر ہے، ابھی اس کے مظاہر پیدا نہیں ہورہے۔ وہ رویہ ہے مغرب سے لاتعلق ہوکر مثبت انداز میں اپنی تہذیب کو اس کی بنیادی اقدار پر چلانے کا عمل شروع کیا جائے۔ جیساکہ دنیا میں کئی خطے ہیں جو مغرب سے لاتعلق ہوکر اپنی تہذیبی اقدار کو بچانے، برقرار رکھنے اور برسرعمل رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب ہیں، تو اس ماڈل کو ہم بھی اپنالیں۔ تو یہ تین ممکنہ راستے ہیں جن سے ہم یہ امید باندھ رہے ہیں کہ شاید یہ ہمارے دینی اور تہذیبی بقا میں ہمارے معاون ثابت ہوں۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی راستے کو سفر کے قابل بنانے کا جو سامان ہوتا ہے، وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ ہم نے ریل کی پٹری کے تین نقشے بنالیے ہیں، لیکن اس نقشے پر پٹری بچھانے کا سامان ہمارے پاس نہیں ہے۔ تو ان تینوں تصورات پر عمل کرنے کے لیے جو چیزیں درکار ہیں، وہ ہمارے پاس نہیں ہیں، اس وجہ سے ہم ایک طرح سے عادی ہوگئے ہیں کہ تصور میں اپنے امتیاز کی حفاظت کرتے ہیں اور عملاً مغرب کی پیروی میں چلتے رہیں۔ ہماری موجودہ صورت حال یہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آئیڈیل طریقہ کیا ہے؟
احمد جاوید: آئیڈیل طریقہ مغرب سے تصادم کی فضا ختم کرکے اپنے prospective سے ترقی اور کامیابی کے تصورات کو عمل میں لانا ہے۔ ہمیں یہ کہنے کے لائق ہونا چاہیے کہ ترقی کا مغربی ماڈل ہمیں قبول نہیں، کامیابی کا مغربی نظام ہمیں قبول نہیں، ہم انسانی فضائل اور انسانی زندگی کی آسانیوں اور راحتوں کا اپنا ایک تصور رکھتے ہیں اور اس تصور کو عمل میں لانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری خوشحالی سود سے پاک ہونی چاہیے۔ ہمارا یہ آئیڈیل ہے، ہم اس کے پابند ہیں کہ ہمارا مال سود سے پاک ہو، ہمارے اخلاق حیا کی بنیاد پر ہوں، آزادی یا کاروبارکی بنیاد پر نہیں۔ ہماری شخصیت انکسار کے جوہر سے تعمیر ہو، کسی اور تصور سے نہیں۔ میں صرف مثال دے رہا ہوں۔ تو جب تک ہم اسلام کا ورلڈ ویو بنانے یا بتانے اور اسے عمل میں لانے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گے اُس وقت تک ہمیں مغرب کے تسلط سے بچانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ ہر امت، قوم، تہذیب کی پہلی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ بتائے کہ اس کا ورلڈ ویو کیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ورلڈ ویو سے آپ کی کیا مراد ہے؟
احمد جاوید: ورلڈ ویو سے مراد ہے: اس کا تصورِ علم کیا ہے؟ اس کا تصورِ دنیا کیا ہے؟ اس کا تصورِ انسان کیا ہے؟ جب تک ہم اپنے ورلڈ ویو کو فراموشی کی دھند سے نکال کر سب سے پہلے خود اپنے ذہن میں لانے اور اپنی زبان سے اظہار دینے کے لائق نہیں ہوں گے اُس وقت تک مغرب کے تسلط سے نکلنے کا کوئی نقشہ تیار نہیں ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: اس آئیڈیل تصور کا شعور ہمارے معاشرے میں کس طبقے کو ہونا چاہیے یا ہوگا؟
احمد جاوید: اس کا شعورتو آ پ کے حاکم طبقے کو ہونا چاہیے آپ کے علماء کو ہونا چاہیے آپ کے تعلیم یافتہ لوگوں کو ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا احساس عام ہونا چاہیے۔ حقیقت کی دو نسبتیں ہوتی ہیں۔ اس کا شعور اُن طبقات کو ہونا چاہیے جو سوسائٹی کو چلانے کی قوت رکھتے ہیں۔ جو اپنے فیصلوں کو نتیجہ خیز بنانے کے اسباب رکھتے ہیں یا جن کی ذمہ داری ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ احساس اور شعور تو ہمیں کسی طبقے میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ علماء کی صورت حال بھی مختلف نہیں بلکہ ان کے بارے میں ایک طبقے کی رائے ہے کہ علماء مغرب کے بارے میں ہی نہیں جانتے، اس کا شعور وہ کیسے رکھ سکتے ہیں!
احمد جاوید: یہ صحیح بات ہے۔ یہ اعتراف صحیح ہے کہ ہمارے علماء مغرب کو نہیں سمجھتے۔ لیکن صرف اتنی سی بات نہیں ہے، ہمارے پی ایچ ڈی بھی مغرب کو نہیں سمجھتے۔ یہ جو مکاری کی جاتی ہے نا کہ زوال کی ساری ذمہ داری مذہبی طبقے پر ڈال دی جائے، یہ چالاکی اور عیاری ہے۔ مغرب کو نہ سمجھنا اگر ایک جرم ہے تو اس کے بڑے مجرم علماء نہیں ہیں، کیونکہ ان کی ذمہ داریوں میں مغرب کو سمجھنا ثانوی ذمہ داری ہے۔ اس کے ذمہ دار جدید مغربی تعلیم یافتہ طبقات ہیں جنہوں نے مغربی نظام تعلیم میں اپنی تحصیلات مکمل کی ہیں اور مغرب کے حوالے سے اتنے ہی جاہل ہیں جتنے گاؤں کا کوئی مولوی۔ تو فہم مغرب جو ہے نا یعنی وہ فہم جوان کی تہذیب کے اثرات، ان کی تہذیب کے مزاج، ان کی تہذیب کے چھپے ہوئے (Hidden) مقاصد کو سمجھ سکے، وہ شعور ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں بالکل نہیں ہے اور اپنی تہذیب کی عائد کردہ ذمہ داریوں کا کوئی احساس ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقات میں نہیں ہے۔ مولویوں میں کم از کم اپنی تہذیب کے تحفظ کا احساس تو ہے۔ جدید تعلیم یافتہ آدمی اپنی تہذیب کا غدار ہوتا ہے، وہ اپنی تہذیب کی وفاداری کی رمق سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ یہ مغرب کا سب سے کامیاب حربہ ہے کہ وہ اپنے سے مختلف تہذیبوں کے تعلیمی نظام میں سرایت کرکے انجام دیتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ جو علم کی بات کرتے ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جتنا بھی فساد ہے وہ تعلیم یافتہ لوگوں کا پھیلایا ہوا ہے اور اس میں جدید تعلیم یافتہ اور دینی تعلیم یافتہ دونوں ہی شامل ہیں بدنام جاہل ہیں ان کا کیا قصور؟
احمد جاوید: جاہلوں کا قصور یہ ہے کہ وہ جاہل نہ رہتے تو علم کا غلط استعمال نہ ہوتا جہل اپنی جگہ جرم ہے۔جو بھی مقتدا اس کا رہنے پر راضی ہے وہ اپنے انسان رہنے پر انکار کرنے پر راضی ہے۔ یہ الگ بات ہے ہم دوسری بات جو آپ کہہ رہے ہیں وہ بات بھی ٹھیک ہے۔علم کے بغیر نہ گمراہی کو قوت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ ہدایات کو، یہ نیچرل اصول ہے یعنی ابوجہل بننے کے لیے بھی ذہین ہونا ضروری ہی اور ابوبکر بننے کے لیے بھی صاحب علم ہونا ضروری ہے ۔ جھوٹا شعور نہ ابوجہل بن سکتا ہے نہ ابوبکرؓبن سکتا ہے وہ ایک نیچرل نظام ہے لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہماری مذہبی تعلیم سے فساد زیادہ پھیل رہا ہے اور ہماری جدید تعلیم سے الحاد پھیل رہا ہے؟ یہ کیا وجہ ہے؟ کوئی تہذیب ان دو سوالوں کا جواب دیے بغیر وجود ہی میں نہیں آسکتی۔ علم کیا ہے اور علم کس لیے ہوتا ہے؟ مغرب کہتا ہے علم محسوسات کا علم ہے اور علم آرام سے، آزادی اور سلامتی ‘ خوشحالی کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے ہے۔ علم دنیا کو اپنے لیے آسان اور پرآسائش بنانے کے لیے ہے۔ان کے پاس دنوں کا واضح جواب ہے اوروہ ان دنوں جوابات کو عملی جامہ پہنانے میں بھی کامیاب ہیں۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ علم محسوساتی (Empirical) ہوتا ہے، اس سے انہوں نے فزکس، میتھی میٹکس اور تمام علوم جو دنیا اورانسان سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایک لائن پیدا کرکے دکھادی پھر اس علم کو نتیجہ خیز بنا کر دکھادیا انہوں نے کہا کہ ہم صرف یہ نہیں کہتے کہ ایٹم ہوتا ہے۔ ہم ایٹم کو پکڑ کر استعمال بھی کرسکتے ہیں اور استعمال کرکے دکھادیا، انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ خوشحالی ہونی چاہیے ہم وہ خوشحالی لاکر دنیا کے لیے دکھابھی چکے ہیں۔ یہ خوشحالی ہمارا تصور ہے او ریہ دیکھ لو کہ اس تصور کو ہم نے کس طرح عملی روپ دے دیا۔
تو وہ (مغرب) واضح ہیں انہوں نے پوری طرح یکسو ہوکر اپنی تہذیب کی تعمیر میں ان دو جوابات سے مدد لی اور ان دو جوابات کو زندگی کے تمام گوشوں میں جاری کرکے دکھادیا اورنہ صرف اپنے اندر کی زندگی میں بلکہ جوان کے اس نظریے کو قبول کرلے وہ بھی ان کے معیار پر خوشحال ہوسکتا ہے ترقی یافتہ ہوسکتا ہے عالم اسلام میں جتنی بھی ترقی اور خوشحالی ہے وہ مغربی اصول کی تقلید کے نتیجے میں ہے۔ اسلامی تعلیم کے نتیجے میں نہیں ہے۔ یہ مغرب کے تسلط کا ناقابل تردید ثبوت ہے ۔آپ کو بھی ترقی کرنے کے لیے دنیاوی معاملات میں مسلمان ہونا چھوڑنا پڑتا ہے یہ ہے مغرب کا غلبہ ،کہ تمہیں ترقی کرنی ہے تو خدا کو چھوڑ کر کرنی ہے اور اس پر انہوں نے ہمیں قائل کرلیا ہے چاہے زبان سے اعتراف نہ کریں چاہے اس کا ہمیں ادراک نہ ہو لیکن عالم اسلام میں جہاں جہاں چھوٹی موٹی ترقیاں نظر آتی ہیں ان سب کا سرچشمہ مغرب کے یہ دو اصول ہیں۔وہ اسلام کی کوئی تعلیم نہیں ہے۔ ملائیشیا نے اگر کچھ ترقی کی ہی تو کس اسلامی تعلیم سے کی ہے؟ مغربی ماڈل پہ کی ہے ترکی اگر کچھ ترقی کررہا ہے تو کس اسلامی تعلیم سے کررہاہے؟ مغر ب کے اصول ترقی کی تقلید کرکے کررہاہے تو اتنے غلبے میں پسے ہوئے ہم لوگ ہیں تو اس میں سے نکلنے یا اس میں مسلمان کی حیثیت سے سانس لینے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم ان دو سوالوں کا جواب پہلے بتائیں اپنے جواب میں خود کو کلیئر کریں اور پھر اس جواب کو عمل میں لانے کی اجتماعی سرگرمیوں کا پورا ایک مربوط نظام بنائیں اب اس میں چاہے سو سال لگیں چاہے پچاس سال لگیں لیکن یہ کیے بغیر ہم تہذیبی بقا حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ ہے اس سوال کاجواب کہ علم کیا ہوتا ہے؟ علم کس لیے ہوتا ہے؟
فرائیڈے اسپیشل: اب اس میں ایک سوال تحریکوں کی کامیابی اور ناکامی کے پس منظر میں اٹھتا ہے کہ کیا تحریکوں کی ناکامی واقعی ان کی ناکامی ہوتی ہے تحریکوں اور جماعتؤں کا کام تو جدوجہد کرنا ہے آپ سے سوال جدوجہد کا ہوگا؟ آپ کا پیغام قبول ہوا یا نہیں ہوا لوگ تبدیل ہوئے نہیں ہوئے یہ مطلوب نہیں۔ اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
احمد جاوید: نہیں اس کو دوسری طرح بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک تحریک اگر پچاس سال سے ناکام ہے، اپنے مقاصد حاصل نہیں کرپارہی اور اپنے کام میں لگی ہوئی ہے تو اسے ناکام نہیں کہا جائے گا۔ بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اسے دینی معنوں میں بھی ناکام نہیں کہا جائے گا دنیاوی معنوں میں بھی ناکام نہیں کہا جائے گا۔ اسے ناکام کہنے کا کوئی دینی یا عقلی جواز نہیں ہے، لیکن ا گر کوئی تحریک اس طرح کی ہو، وہ سکڑنے لگے، اس کا ایکٹی وزم کم ہونے لگے، اس کے مقاصد بدلنے لگیں تو پھر کہا جائے گا کہ یہ ناکام ہوگئی ہے ۔ ہمارے یہاں مشکل یہ ہے کہ وہ ناکامی کے احساس سے بچانے والی چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بھی اب تیزی سے کم ہوتی جارہی ہیں۔جدوجہد تو کررہے ہیں، بس جدوجہد کرتے رہنے پر ہم راضی ہیں۔ اپنی جدوجہد کو نتیجہ خیزبنانے کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہے، ان سے غافل ہیں۔ یہ مذہبی طبقے کا ایک ڈایلیما ہے کہ آپ انقلاب لانے کی جدوجہد میں مخلص بھی ہیں، سرگرم بھی ہیں، لیکن انقلاب لانے کے لیے جو قوت اور صلاحیت لازماً درکا ہے، اس قوت و صلاحیت کو حاصل کرنے کی کوئی سنجیدہ اور مربوط کوشش نہیں کررہے۔
اب جماعت اسلامی یا کوئی بھی معروف سیاسی ذریعہ سے غلبہ دین کی جدوجہد کرنے والی مخلص جماعت، اس طرح کی کوئی بھی جماعت ہو، ان سے یہ پوچھا جائے کہ تم جو اسلامی نظام لانے کے لیے اپنے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہو، اس میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے۔ وہ اسلامی نظام عمل میں کس طرح آئے گا؟ سودی نظام سے نکلنے کا کوئی لٹریچر ہے تمہارے پاس سے؟ تمہارے پاس موجودہ نیشن اسٹیٹ کے جو شہری مساوات کا حق ہے، اس کو اسلام سے کس طرح جوڑوگے، اس کا کوئی narativeہے تمہارے پاس ؟ کیپٹلسٹ معیشت میں جو باریکیاں، پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں، ان کا کوئی احساس ہے تمہارے پاس؟ کیپٹلزم کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ مغرب کے بارے میں تمہاری کیا انڈر اسٹیڈنگ ہے؟ اور پھر اسلامی نظام ‘ اللہ کی حاکمیت‘ حاکمیت اعلیٰ ‘ اللہ کا قانون‘ شریعت کا طریقہ ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا‘ یہ سب تمہاری وجہ سے بے معنی نعرے لگنے لگے ہیں۔ کیونکہ تم اس کے معنی بتاتے ہی نہیں ہو‘ اللہ کی حاکمیت کس اسٹرکچر میں ہوگی؟ جیسے مغرب نے کہا ناں؟ مغرب نے ایک ڈسکورس (Discourse) کیا جمہوریت کا، جمہوریت ایک مغربیوں کے لیے دین ہے۔ انہوں نے بتادیا جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کے لیے۔ انہوں نے ایک لائن بنائی ناں۔ اس طرح اللہ کی حاکمیت ‘ اللہ کے بندوں کے لیے یہ ان کا سلوگن ہے جمہوریت نے اپنے سلوگن کو عمل میں لانے کے لیے تمام وسائل تمہاری نظروں کے سامنے رکھ دیے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: مولانا مودودیؒ نے معیشت‘ اسلامی معیشت پر بہت لکھا سود کے حوالے سے ’’سود‘‘ کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب لکھی اور آج اگر دیکھا جائے تو دوسری طرف مولانا تقی عثمانی نے اسلامی بینک کا نظام متعارف کروادیا کام تو ہوا ہے اور ہورہا ہے؟
احمد جاوید: پہلی مثا ل لے لیتے ہیں، مولانا مودودی کا ’’مسئلہ سود‘‘۔اس کتاب کا بڑا فائدہ اوربڑی برکت یہ ہے کہ اس سے مسلمان کو یہ پتا چل جاتا ہے کہ سود حرام ہے، بس۔ بلاسودی معیشت کا ایک نظام کے طو رپر کیسے پتہ چلے گا، اس کی کوئی رہنمائی ہے اس کتاب میں؟ سرمایہ دارانہ capitalisticسودی معیشت کی متبادل معیشت کے ضروری خدوخال اور ورکنگ پیپر ہے اس کتاب میں ؟ یا کسی بھی عالم کی کتاب میں؟ اس طرح تھوڑی ہوتا ہے۔ ایڈم اسمتھ کو پڑھیں تو آپ کو کیپٹلزم کی بائبل نظر آجائے گی۔ تو بلاسودی معیشت اپنی ورک ایبل حالت میں کہاں ہے؟ پھر یہ کہ کسی بھی مسلمان ملک میں کسی بھی اسلامی مملکت کہلانے والے ملک میں بلاسودی نظام معیشت سرے سے موجود نہیں ہے۔ تو اس کا کیا سبب ہے؟ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ علماء کے ذہن میں معیشت کا نظام بنانے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ وہ موجودہ معیشت کے دروبست کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ وہ کیپٹلزم کا سامنا کرکے معیشت کا ایک ڈھانچہ بنانے کی قابلیت ہی نہیں رکھتے۔ وہ بس ہوا میں احکام کی سطح پر بات کررہے ہیں کہ یہ حکم قرآن میں ہے، یہ حکم حدیث میں ہے، یہ حکم اخلاقی طور پر ضروری ہے۔ اخلاق بھی کتابی، قرآن و حدیث بھی کتابی، یہ سارے احکام اپنی تعاملی صورتوں میں ایک نظام کو چلانے والے کیسے بنیں گے؟یہ سب کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھے بھی معلوم ہے، سود حرام ہے۔
اب دوسرا ماڈل تقی عثمانی صاحب کا ہے۔ تقی عثمانی بڑے عالم ہیں، میں عالم نہیں ہوں۔ میرے ایک دوست ہیں، سینئر بینکر ہیں اور انٹلکچول بینکر ہیں۔ وہ نظام معیشت اور عالمی نظام معیشت کو تقی عثمانی سے ایک ارب گنا زیادہ جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا، یہ رام کا نام رحیم رکھ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، جو ہم ان سے فرمائش کرتے ہیں کہ اس کو جائز بنا دیں، اس کو اسلامی بنادیں، وہ ہمارے مفادات کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ ہمیں کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے، اسے اسلامی اصطلاحات میں بدل دیتے ہیں اور تھوڑا سا اس میں (ضابطے) Procedural change لے آتے ہیں۔عمل اور اس کی بنیاد اور اس کا نتیجہ وہی رہتا ہے۔ یہ وہی تصور ہے کہ مغرب پر ہم غالب نہیں آسکتے، مغرب سے ہم لڑ نہیں سکتے تو اب بعض مغربی اقدار میں کچھ جزوی اور غیر موثر آرائشی تبدیلیاں کرکے اسے مشرف بہ اسلام کرلو۔ یہ مذاق ہے اور یہ ہماری طرف سے ایک مکمل اعتراف شکست ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کی شہرت ماہر اقبالیات کی بھی ہے۔ آپ نے اپنی عمر کا طویل عرصہ فکر اقبال کو عام کرنے میں بسر کیا۔ سوال یہ ہے کہ اقبال کی فکر ہمارے لیے اور بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ کے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے؟
احمد جاوید: اقبال ہماری جدید روایات میں وہ آدمی ہیں جن کے یہاں ہم اسلامی ورلڈ ویو کو زیادہ کامل حالت تلاش کرسکتے ہیں۔ اقبال معاصرین میں غالباً عالم اسلام میں سب سے ممتاز اور منفرد آدمی ہیں جنہوں نے اس ضرورت کا ادراک کیا کہ اسلامی ورلڈ ویو جو ہے وہ پہلے تشکیل دینا چاہیے اسلامی تہذیب کے اصول ومبادی کو پہلے بیان ہونا چاہیے واضح ہونا چاہیے ورلڈ ویو کی میں نے تعریف کردی کہ تصور خدا‘ تصور انسان‘ تصور کائنات اور تصور علم‘ اقبال کے علاوہ یہ ورلڈ ویو اتنی اونچی ذہنی سطح اور اتنی مضبوط جذباتی سطح دونوں سطح پر ظاہر ہوا ہے وہ ان کے معاصرین کو اس کا شعور اور احساس نہیں تھا۔ اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ اور افادیت یہ ہے کہ جب بھی ہم ہوش میں آکر اپنا ورلڈ ویو بنانے کی کوشش کریں گے تو اس میں اقبال سے مدد لینی ناگزیر ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اقبال کے بارے میں آپ کے استاد سلیم احمد سمیت کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال کی شاعری اور اقبال کے خطبات میں تضاد پایا جاتا ہے آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
احمد جاوید: اقبال کی شاعری اور خطبات میں تضاد نہیں ہے، موضوعات کا فرق ہے اور موضوعات کا بیان کرنے کا فرق ہے۔ تضاد کہیں نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: وضاحت فرمایئے؟
احمد جاوید: وضاحت تو اس بات کی ہونی چاہیے کہ کہاں تضاد دیکھا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: جی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں عشق اور اپنے خطبات میں عقل کی فوقیت کے قائل نظر آتے ہیں۔ شاعری میں ایک مذہبی انسان کو ہم دیکھتے ہیں تو خطبات میں مغربی فکر سے متاثر دکھائی دیتے ہیں؟
احمد جاوید: نہیں وہ شاعری میں بھی مغربی فکر سے متاثر ہیں اور خطبات میں بھی ہیں۔ لیکن خطبات میں وہ مغربی فکر کا سامنا کرکے مغربی ذہن کے لیے قابل قبول تصور اسلام بتانے کی کوشش کررہے ہیں۰ شاعری میں ان کا مخاطب مسلمان ہے جس میں وہ اپنے ہی ورلڈ ویو سے آشنا کرنے کی جذبے اور عقل دونوں سطحوں پر کوششیں کررہے ہیں۔ تو مخاطب بدل جانے کے فرق سے طریقۂ کلام بدل گیا ہے اور استدلال کا نظام بدل گیا ہے اور وہ بدلنا ضروری تھا۔ غیر مسلم کے سامنے یا غیر مسلم طبیعت کی سامنے اسلام کو جس طرح پیش کیا جائے گا، وہ اس سے مختلف ہوگا جیسا کہ مسلمانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔تضاد کی نسبت نہیں ہے، تنوع کہہ سکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: سلیم احمد صاحب نے جب اس رائے کا اظہار کیا تو ان کے سامنے آپ نے اپنی رائے کا اظہار کیا؟ ان سے بات ہوئی؟
احمد جاوید: ’’اقبال ایک شاعر‘‘ انہوں نے لکھی وہ بہت جلدی میں لکھی، انہوں نے وہ کتاب ایک مہینے میں لکھی تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے جب سلیم بھائی نے یہ کہا تھا تو ہم اس بات کے قائل تھے کہ خطبات کا اقبال کوئی اور ہے شاعری کا اقبال کوئی اور ہے خطبات کا اقبال مغرب سے مغلوب ہوچکا ہے اور شاعری کا اقبال مغرب سے لڑنے پر اکساتا ہے۔ اس وقت میری بھی یہی رائے تھی جو استاد کی رائے ہے اوریہ فطری بات ہے لیکن جب میرا خود اقبالیات سے عملی تعلق سلیم احمد کے انتقال کے دو سال بعد پیدا ہوا ہے تو جب میں اقبالیات کے شعبے سے متعلق ہوا اور جب میں نے اقبال کو تفصیل سے اور زیادہ سنجیدگی سے پڑھا تو پھر مجھے یہ معلوم ہوا کہ سلیم احمد کی اس رائے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اقبال ایک بہت منضبط آدمی تھے۔ تضاد چھوٹے ذہن کے افکار میں ہوتا ہے ایک آدمی چیزوں کا holistic View کلی نقطہ نظر کھتا ہو اس میں غلطی ہوسکتی ہے کہ مغرب کی وجہ سے ترقی کررہاہے عالم اسلام علم نہ ہونے کی وجہ سے تنزل میں ہیں یہی وہ خطبات ہیں بھی کہتے ہیں۔شاعری مغرب کے تصور وجود کے مقابلے میں اسلام کا تصور وجود پیش کرتی ہے اور خطبات مغرب کے تصور علم کے سامنے اسلام کا تصور علم پیش کرتے ہیں تو اتنے بڑے بنیادی تھیمز(موضوعات) کا ادراک اور کلام کے دو ذرائع اختیار کرنا بڑے آدمی کاکام ہے ۔
فرائیڈے اسپیشل: آج کل سیکولرزم اور لبرل ازم کی اصطلاح ایک بار پھر موضوع بحث بنی ہوئی ہے اس موضوع پر بہت بات کی جارہی ہے اورلکھا بھی جارہا ہے یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا سیکولرزم کفر ہے؟آخر ان کا مطلب کیا ہے؟ ذرا ہمیں سمجھایئے؟
احمد جاوید: سیکولرزم اور لبرل ازم دونوں جڑواں بہنیں ہیں لبرلزم ایک رویہ ہے سیکولرازم ایک نظام ہے ان میں فرق یہ ہے کہ سیکولرزم کا مطلب ہے کہ دنیا کے معاملات انسان چلائے گا اس کی لیے کسی خدا ئی ہدایات نامے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ سیکولرزم ہے لبرل ازم کا مطلب ہے کہ کفر بھی ٹھیک ہے ایمان بھی ٹھیک ہے آدمی کو کافر ہونے کا بھی کھلا موقع ملنا چاہیے مومن ہونے کا راستہ بھی صاف رہے یہ رویہ ہے کہ کافر سے اس کی کفر کی بنیاد پر دوری نہ محسوس کرنا اور مومن سے اس کی ایمان کی بنیاد پر خصوصی محبت محسوس نہ کرنا یہ لبرل ازم ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک شخص اگر مسلمان ہے او روہ خود کو سیکولر کہے تو کیا اس نے اسلام کی جس بنیاد کا حلف لیا ہے اس کی خلاف ورزی کررہاہے؟
احمد جاوید: خلاف ورزی ہے ‘ مذہبی آدمی سیکولر نہیں ہوسکتا۔ سیکولزم کا مطلب ہے دنیا میں خدا کے اختیارات کو سلب کرلینا‘ خدا کو غیر متعلق کردینا تو سیکولر ازم مذہب کی اور خاص طور پر اسلام کی نفی ہے۔ عیسائیت نے تو اپنی اس پوزیشن کو قبول کرلیا کہ چلو دین انفرادی معاملہ ہے لیکن اسلام کا تو دعویٰ ہی اس پر ہے کہ انسان اس کی انفرادیت اور اجتماعیت سب کی سب اسلام کے دائرے میں ہونی چاہیے یعنی اسلام کو انسان کی اجتماعی انفرادی سرگرمیوں کا مرکز ہونا چاہیے اور سیکولرازم اس کو مانتا ہی نہیں۔ کہتا ہے، مرکز انسان خود ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے جو اساتذہ ہیں وہ اپنی بات کو آسان اسلوب میں بیان کرنے والے ہیں مثلا ایوب دہلوی، سلیم احمد وغیرہ لیکن بہت سے لوگوں کو آپ کے اظہار کا سانچہ بہت مشکل، ادق اور پیچیدہ محسوس ہوتا ہے اس کا کیا سبب ہے؟
احمد جاوید: میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں صداقت ہے یا نہیں ہے کیونکہ میں اپنے اوپر غور نہیں کرتا۔ لیکن اگر مجھ سے پوچھا جائے تو اپنی دفاع کی نیت کیے بغیر میں یہ کہوں گاکہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ سلیم احمد کے اسٹائل میں ایک سلاست تھی لیکن مولانا ایوبؒ کی گفتگو آسان نہیں تھی۔ مولانا ایوب صاحب کی گفتگو میں بہت اصطلاحات تھیں وہ گفتگو عالموں کے لیے تھیں۔ میں یہ سمجھتا ہو کہ مخاطب میں فرق پیدا ہو جانے کی وجہ سے مجھے مشکل پسندی کا چارج سننا پڑتا ہے کیونکہ سامعین وہ نہیں رہے۔ اگرہمارے سامعین بھی مولانا ایوب صاحب اور سلیم احمد اور حسن عسکری جیسے ہوتے تو میرا خیال ہے کہ میرا طرز کلام ان کے لیے سہل تھا اب صورت یہ ہے کہ اخبار پڑھنے کی صلاحیت لے کر لوگ حقائق کی کھوج میں نکلتے ہیں۔ یعنی آپ جن سے بات کر رہے ہیں انہوں نے بمشکل اخبار کو پڑھ کر سمجھنا سیکھا ہے اب آپ ان سے بات کرتے ہیں حیات و کائنات کے مسائل کی یا کچھ گہرے مسائل کی تو وہ انہیں مشکل لگتے ہیں۔ لیکن وہ مشکل ہوتے نہیں ہیں میرے خیال میں، میں چیزوں کو واضح کرنے کا مزاج رکھتا ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں پہلے دو فقرے یا تمہیدی جملے ایسے بولتا ہوں جو اصطلاحی ہو اور جس میں بات پوری ہو جائے اور جو اس علمی معیار کے مطابق ہوں تو اس کے بعد زیادہ وقت انہی کی وضاحت میں لگاتا ہوں تو جس کی گفتگو میں وضاحت کرنے کا عمل زیادہ ہو اس کو مشکل کہنا ٹھیک نہیں ہے۔ دوسرا مجھے ایک چیز کا جیسے بہت احساس رہتا ہے کہ علم کی اور علم کے بیان کی سطح کو گرنے نہ دیا جائے مخاطب کو دعوت دی جائے تم اوپراٹھو خود کو اس کاپابند نہ کیا جائے کہ میں علم کو اس کی سطح فہم پر گرا دوں،ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم ہمالیہ کو کہتے ہیں کہ اپنا قد چھوٹا کرو تو میں تم سے معانقہ کروں گا۔ اگر تم نے اپنی بلندی برقرار رکھی تو میں چلا، تو یہ ذہن اونچائی کی کشش سے محروم ہو گیا ہے۔ مشکل میں ایک ذہین آدمی کے لیے دلکشی ہوتی ہے اس کو سوچ اس پر غور کرے اور اس کو حل کرے تو جن لوگوں نے مجھ سے کہا تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ مشکل ہے تو میں نے ان سے ایک سوال کیا اور سب کا جواب مشترک تھا۔ مطلب یہ میں رپورٹ کر رہا ہوں۔ میں نے کہا تم نے غورکرنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد یہ کہہ رہے ہو۔ غور کر کے کہہ رہے ہو۔ تمہاری بات مشکل ہے انہوں نے کہا غور کرنے میں نہیں سننے میں مشکل لگی۔ یعنی پہلا تاثر مشکل لگا۔ تو اس کے اندر یہ ارج نہیں پیدا ہوئی کہ ایک آدمی کی یہ بات سننے میں مجھے مشکل لگی ہے تو میں اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش تو کروں نا۔ اس جملے پردو مرتبہ غور تو کر کے دیکھو۔ اب آپ کسی کی بات پر دوسری مرتبہ غور تو کر کے دیکھو۔ اب آپ کسی کی بات پر دوسری مرتبہ غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور پہلے تاثر اس پر فیصلہ کر لیں کہ یہ بات مشکل ہے، لہٰذا میں اس کا مخاطب نہیں بنتا، میں اس پر غور نہیں کروں گا تو یہ تو بہت ہی لکڑی کے دماغ کا کام ہے نا۔ ورنہ ہم بھی چھوٹے تھے، اپنے استادوں کی باتیں نہیں سمجھتے تھے تو وہ حافظے میں رکھتے تھے، کاغذ پر لکھتے تھے اور پھر اگلی ملاقات تک اس پر غور کرتے تھے اور انہیں یہ بات فخریہ بتاتے تھے کہ ہمیں یہ بات آپ کی مشکل لگی اور ہم نے دو دن غور کر کے اس کواس طرح سمجھا ہے یہ درست ہے؟ تو کبھی درست ہوتی تو کہتے تھے، درست ہے۔ کبھی غلط ہوتی تھی تو کہتے تھے، یہاںیہ غلطی تھی اور بات واضح ہو جاتی تھی۔
حل تنازعات کے طریقے سیرت نبوی کی روشنی میں
محمد حسین
تنازعات کا علم جدید سماجی علوم میں بہت ہی اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ یہ ایک مستقل شعبہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ دنیا بھر کی یونیور سٹیوں اور تحقیقاتی و پالیسی ساز اداروں میں اس پر تدریسی و تحقیقی پروگرامات اور مطالعات اور تحقیقات کا ایک وسیع سلسلہ جاری ہے۔ اس علمی شعبے میں ہونے والی پیش رفت کے نتیجے میں تنازعات کے تجزیات، اصول، اساب و اثرات، مراحل و صورتیں اور تنازع سے نمٹنے کے اسالیب اور تنازع کے نتائج پر بہت کام کیا جا چکا ہے اور بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ چونکہ دنیا میں اس وقت جاری تنازعات یا تو مسلم ممالک میں ہیں یا ان سے مسلمان وابستہ ہیں، اس لیے اس میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کا خصوصی مطالعہ کیا جارہا ہے اور دہشت گردی، امن، تنازعات سے اسلام کے تعلق کی نوعیت کو جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گزشتہ چار سال کے دوران میں مجھے امن، تنازعات کا حل، اور سماجی ہم آہنگی کے اسلامی تناظرات و موضوعات پر ایک طرف کچھ تحقیقی کام کا موقع ملا اور دوسری طرف پاکستان کے متعدد شہروں میں مختلف مسالک و مذاہب سے وابستہ تقریباً دو ہزار اساتذہ اور قائدین کو ان موضوعات پر ٹریننگ دینے کے پراجیکٹس پر کام کا موقع ملا۔ اس دوران میں جب ہم نے سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی مطالعہ کیا تو ہمیں بہت مسرت ہوئی کی اتنی علمی پیش رفت کے بعد تنازعات کے علم پر کام کرنے والے ماہرین نے تنازعات سے نمٹنے کے جو اسالیب و طریقے پیش کیے ہیں، اْن سے متعلق سیرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں واضح رہنمائی ملتی ہے۔ یہاں ہم انتہائی اختصار کے ساتھ تنازع سے نمٹنے کے مختلف اسالیب کو سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہاں صرف وہی واقعات بطور مثال پیش کر یں گے جو بہت مشہور ہیں اور جنھیں اسلامی تاریخ و سیرت النبی کی تقریباً ساری کتب میں بیان کیا گیا ہے۔
تنازع سے کیا مراد ہے؟ ’’تنازع‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور ’’نزع‘‘ سے مشتق ہے۔ نزع کا معنی کھینچنا ہے۔ پس دو یا دو سے زائد افراد کا کسی چیز کو اپنی طرف کھینچنا تنازع کہلاتا ہے، جبکہ عام بول چال میں تنازع اختلاف، جھگڑے یا کشمکش کو کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ’’تنازع سے مراد کم سے کم دو افراد یا گروہوں کے درمیان ایسا تعلق ہے جن کے مفادات، مقاصد،نظریات یا ضروریات میں حقیقی طور پر یا تصوراتی طور پر تصادم یا عدم مطابقت پائی جاتی ہے۔
مفادات یا نظریات کے تصادم کی بنیاد پر تنازع کے فریق ایک دوسرے کے خلاف رد عمل دکھاتے ہیں‘‘۔ عام طور پر تنازع کو امن کا متضاد سمجھا جاتا ہے، حالانکہ امن کا ضد خوف ہے اور تنازع خوف کا ایک اہم سبب ہے۔
کسی بھی تنازع کی صورت حال سے نمٹنے کے طریقے یا اسالیب مختلف ہو سکتے ہیں۔ صورت حال کے مطابق نمٹنے کے انداز مختلف ہو سکتے ہیں اور ان کے تحت تنازع کے نتائج بھی مختلف نکل سکتے ہیں۔ ذیل میں تنازع سے نمٹنے کے مختلف طریقوں اور اسالیب کو بیان کیا جارہا ہے:
ا) تنازع پر قابو پانا (Conflict Management )
سب سے پہلے ضروری ہے کہ تنازع کو تشدد اور نقصان سے بچانے کے لیے اس پر قابو پالیا جائے۔ متحارب افراد اور گروہوں کو ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے روکنے کے لیے ان کے درمیان قانونی، سماجی اور اخلاقی رکاوٹیں پیدا کی جائیں جس کے نتیجے میں عارضی طور پر امن قائم ہو جاتا ہے۔
ایک موقع پر اہل قبا کے مابین جھگڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا:
’’ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم ان کے درمیان صلح کروائیں۔‘‘ (مسندابی یعلی الموصلی : ۷۵۴۵)
اس طرح ایک جاری تنازع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہاں جا کر قابو پا لیا، تاکہ نقصان اور تشدد سے بچا جا سکے۔
ب) تنازع کا حل نکالنا (Conflict Resolution )
تنازع پر وقتی طور پر قابو پانے کے بعد تنازع کا کوئی نہ کوئی وقتی حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ تنازع کے حل کا مقصد فریقین کی مدد کرنا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کی ضروریات، مسائل اور تنازع کی وجوہات کو سمجھ کر پائیدار حل تلاش کر سکیں۔ اس مرحلے/طریقے کا مقصدفریقین کو کسی ایسے معاہدے یا حل پر راضی کرنا ہوتا ہے جس پر دونوں فریق پر مطمئن ہو تاکہ تنازع کا مستقل حل نکالا جا سکے۔
بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کعبۃ اللہ میں حجر اسود نصب کرنے کے مسئلے پر قریش کے قبائل کے درمیان کھڑا ہونے والا تنازع اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیش کردہ حل ایک بہترین مثال ہے۔ تمام قبائل یہ سعادت خود حاصل کرنے کے خواہش مند تھے اور اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنازع کو بہترین انداز میں حل کرنے کے لیے یہ تجویز پیش کی کہ حجر اسود کو ایک چادر کے درمیان میں رکھا جائے اور ہر قبیلے کا سردار ایک کونا پکڑ کر اْسے مطلوبہ مقام پر لے جائے جہاں اْسے نصب کرنا مقصود تھا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور تنازع حل ہوگیا جس سے خطرناک لڑائی کا خطرہ ٹل گیا۔
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختلف تنازعات کے لیے مختلف اور مؤثر حل سامنے لائے۔
ج) تنازعات کو بہتر مواقع میں بدل دینا (Conflict Transformation )
تنازع کو بہتر مواقع میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ تنازع کا کثیر الجہت تجزیہ کیا جائے اور اس کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ تنازع کی وجہ سے فریقین کے مابین متاثر ہونے والے تعلقات کو بحال کیا جائے، نقصانات اگر ہوئے ہوں تو ان کا ازالہ کیا جائے، نفرتوں کو معافی اور عفو و درگزر کے ذریعے خوشگوار تعلقات میں تبدیل کیا جائے تاکہ فریقین افہام و تفہیم کے نتیجے میں ایک دوسرے کی صلاحیتوں، استعداد اور وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ایک ایسے دور کا آغاز کر سکیں جس میں مذکوہ مسئلہ پر کسی تشدد یا تنازع کا خدشہ نہ رہے۔ دونوں گروہ تنازع کی وجوہات دور کر کے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے بعد تنازع کو عناد اور دشمنی کے بجائے مستقل بنیادوں پر مفاہمت اور دوستی میں بدل دیں۔ اس کے علاوہ اس کا مقصد فریقین کی مدد کرنا ہے کہ وہ تنازع کے صحت مند اور مفید اثرات قبول کرتے ہوئے اس قابل ہوجائیں کہ باہمی تنازعات کے ذیلی مسائل کا حل خود تلاش کر سکیں۔
یہ وہ مرحلہ ہے جب تنازع کے بعد بحالی اور تعمیرِ نو کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلہ میں تعمیرِ نو کا مقصد صرف تباہ شدہ عمارت کی از سر نو تعمیر نہیں بلکہ سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچے کی تعمیرِ نو اور تنازع کے شکار فریقین کے درمیان پہلے سے مضبوط اور پائیدار تعلقات استوار کرنا ہے اور نئے امکانات اور مواقع کا آغاز ہے۔ اس کا مقصد تنازع کی بنیادی وجہ کو سامنے لانا اور فریقین کو کسی ایسے حل کی طرف لے جانا بھی ہے جس کے بعد تنازع کا خدشہ نہ رہے۔
فتح مکہ (۸ ہجری ) کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فاتح بن کر شہر میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہی لوگ تھے جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار ظلم ڈھائے، جس کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور ان کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں۔ ان سب باتوں کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کو معاف فرمایا۔ اس معافی کے بعد ماضی کے دشمن اب ہر قسم کی تلخیاں بھلا کر مکمل طور پر آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور ایک نئی اجتماعی زندگی کا آغاز فرمایا۔
اسلامی تاریخ میں ہجرت کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ کے انصار اور مکہ مکرمہ سے آنے والے مہاجرین کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیا۔ نسل، قوم و قبیلہ، خاندان، شہر، سوچ و بچار وغیرہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود انصار اور مہاجرین ایک پائیدار رشتہ میں بندھ گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کی عظیم مثال قائم کی۔
مذکورہ بالا مثالوں میں تنازعات کا نہ صرف حل پیش کیے گئے بلکہ ان کو بہتر مواقع میں تبدیل کرتے ہوئے ان سے مثبت، دیرپا اور مفید اثرات برآمد کیے۔
د) تنازعات سے بچاؤ (Conflict Prevention)
تنازع سے بچاؤ بھی ایک ایسی حکمت عملی ہے جس سے معاشرے کو تنازعات سے بچایا جا سکتا ہے۔ تنازع سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ان وجوہات کا پہلے ہی جائزہ لیا جائے جو تنازع کا سبب بن سکتی ہوں، یعنی ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ تنازع پیدا ہونے ہی نہ پائے۔ تنازعات سے بچاؤ کے لیے معاشرے کے اندر لوگوں کے مابین ایسی کوششیں اور اقدامات کیے جا سکتے ہیں جو تنازع کا راستہ روکیں اور تنازع اور تشدد کا مرحلہ پیش ہی نہ آئے۔ معاشرتی اقدار جیسے باہمی احترام، عدل و انصاف، مساوات، باہمی افہام و تفہیم، حسن معاشرت اور حسن اخلاق وغیرہ کے فروغ سے تنازعات کا بچاؤ ممکن ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ’’ سدّ ذرائع ‘‘ (برائی کا راستہ روکنے کا) کی صورت میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ سد ذرائع تنازعات سے بچاوکی اسی حکمت عملی کو واضح کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک کبیرہ گناہوں میں سے ایک اپنے والدین کو گالی دینا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ! کیا کوئی شخص اپنے والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ،وہ دوسرے شخص کے باپ کو گالی دے گا اور دوسرا رد عمل میں اس کے باپ کو گالی دے گا، وہ دوسرے کی ماں کو گالی دے گا تو وہ اس کی ماں کو گالی دے گا۔ (صحیح مسلم: ۱۳۰)
یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سد ذرائع کی تعلیم دی کہ اگر تم نے اپنے ماں باپ کی ناموس کو بچانا ہے ، تو دوسرے کے ماں باپ کی توہین نہ کرو۔
حل تنازعات کی ممکنہ صورتیں
فریقین چاہے وہ افراد ہوں، گروہ یا ممالک، ان کے درمیان تنازع مندرجہ ذیل چار مختلف صورتوں میں ختم ہو سکتا ہے:
ا) یک فریقی جیت ( win۔lose)
ایک فریق ،جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہونے یا مالی لحاظ سے زیادہ طاقتور ہونے یا اسے کسی بااختیار ادارے یا ملک کی حمایت کی وجہ سے جیت جاتا ہے اور دوسرا ہار جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہارنے والا مطمئن نہ ہواور اسے تشدد اور نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑے۔
مختلف غزوات اس کی مثال ہیں۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو جیت اور مشرکین کو شکست اور غزوہ احد میں اس کے برعکس مسلمانوں کو شکست اور مشرکین کو جیت ملی۔
ب) دست برداری (lose۔win)
تنازع کو کم از کم عارضی طور پر ختم کرنے کا ایک اور طریقہ دست برداری ہے جس کے مطابق ایک یا دونوں فریق پیچھے ہٹ جاتے ہیں، البتہ اس کے ذریعے کوئی بھی فریق صحیح معنوں میں مطمئن نہیں ہوتا۔
سن ۶ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کرنے کا فیصلہ فرمایا اور مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس فیصلہ کا جب مکہ کے قبائل اور سرداروں کو پتا چلا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی صورت مسلمانوں کو عمرہ کرنے نہیں دیں گے۔ قریش مکہ نے مسلمانوں کو مکہ سے باہر حدیبیہ کے مقام پر ہی روک دیا۔ اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدہ کی چند شرائط سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بظاہر متفق نہیں تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان شرائط کو منظور فرمایا۔ صلح حدیبیہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے موقف (عمرہ کی ادائیگی)سے دست بردار ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ جانے کے بجائے واپس مدینہ منورہ لوٹے۔
ج) سمجھوتہ (lose۔lose)
یہ تنازع کے حل کا آغاز ہے۔ دونوں فریق کم و بیش کسی چھوٹی سی تبدیلی پر مثلاً ان وسائل میں شراکت جن پر ان کے درمیان جھگڑا ہوا، یا براہ راست لڑائی سے گریز پر رضا مند ہوجاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سمجھوتہ فریقین کے لیے مکمل طور پر منصفانہ، نہ ہو لیکن یہ کم از کم عارضی طور پر اطمینان بخش ہوتا ہے۔
میثاق مدینہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے یہودی قبائل کو ریاست سے وفاداری کے عوض تمام شہری حقوق عطا کیے۔
د) ہر ایک کی جیت (win۔win)
حقیقی مشترکہ سوچ (یا اعلیٰ تر سوچ) کے حامل فریق ایک دوسرے کے نقصان یا ہار کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ ہر ایک کی بھلائی اور جیت کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس میں دونوں فریق اپنی اصل ضروریات پر ایک نئی مفاہمت پیدا کر لیتے ہیں اور تعاون کے ثمرات آپس میں بانٹنے کا ایک نیا طریقہ تلاش کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے اختلافات کا احترام کرتے اور اپنے مشترکہ مسائل کا تعین کرتے ہیں۔ وہ اپنے مشترکہ مقصد کی خاطر مل کر کام کرتے ہیں۔ اس حل کے مطابق’’ پْرتشدد تنازع‘‘ فریقین کی نظر میں اختلافات کے حل کا تقریباً غیر مطلوب طریقہ بن کر رہ جاتا ہے۔
حجر اسود کے نصب کرنے کے معاملے پر پیش آنے والے تنازع کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا حل پیش فرمایا، جسے آج کے جدید دور میں ’’طرفین کی جیت‘‘ (win۔win) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسا حل جس میں سب کی جیت ہوتی ہے اور کسی کی ہار نہیں ہوتی۔
فتح مکہ بھی ہر فریق کی جیت کی ایک بہترین مثال ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فتح مکہ کے موقع پر عفوو درگزر کی عظیم مثال قائم کی اور فرمایا: اے قریش کی جماعت! آپ کیا کہتے ہیں کہ آج آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ انھوں نے کہا: آپ ہمارے بھتیجے اور عم زاد اور رحم کرم کرنے والے ہیں، اس لیے ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ ہمیں معاف فرمائیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھر ان سے یہی سوال پوچھا ۔ انھوں نے پھر یہی جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف (علیہ السلام )نے کہی تھی: آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمھیں معاف کر دے گااور وہ سب سے بڑا رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
تنازعات کے دوران تین قسم کے رویے
تنازعات و فسادات کے دوران انسانوں کے رویے مختلف نوعیت کے سامنے آتے ہیں۔ ان رویوں کا ایک مجموعی جائزہ لیا جائے تو وہ تین طرح کے ہوتے ہیں۔
(1) بھڑکاؤ کا رویہ:
بعض لوگ تنازعات وفسادات کو مزید بھڑکاتے ہیں۔ وہ یا تو خود ایک فریق کا حصہ بن جاتے ہیں یا دور رہ کر جارحانہ یا دفاعی پوزیشن لینے والے کے ساتھ مدد کرتا ہے۔ شاید اس رویے سے بعض انسان اپنا مفاد حاصل کریں لیکن انسانی جان اور دیگر وسائل زندگی کے ضیاع کی صورت میں اس رویے کا نقصان انسانی معاشرے کو اٹھانا پڑتا ہے
(2) سلجھاؤ کا رویہ:
بعض لوگ تنازع کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھتے ہوئے اور تنازع کا فریق بنائے بغیر دونوں فریق کو کسی حل پر آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں تاکہ تنازع کسی حل کی طرف بڑھے اور اس کے نتیجے میں نقصانات کم سے کم ہوں۔ کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ اپنا اخلاقی، سیاسی اور سماجی قوت کی بدولت دونوں فریق یا کسی ایک فریق کو طاقت سے ایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے روکیں۔
(3) لا تعلقی کا رویہ:
بعض لوگ بھڑکانے اور سلجھانے دونوں کاموں میں حصہ نہیں لیتے۔ یہ رویہ بعض صورتوں میں بہت تکلیف دہ اور نقصان د ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب تنازع رشتوں پر مبنی ہو تو لاتعلقی کا رویہ بھڑکاؤ کی مانند نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ یہ وہ تین رویے ہیں جو تنازع کے نتائج کو اثرانداز کرتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ، ہمارا مظلوم کی مدد کرنا تو قابل فہم ہے، (کہ اسے ظلم سے بچائیں)، لیکن ہم ظالم کی مدد کیسے کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کا ہاتھ ظلم سے روک دو۔ (یعنی درحقیقت یہ اس کی مدد ہے کہ وہ ظلم کے برے انجام سے محفوظ رہے گا)۔ (صحیح بخاری: ۲۳۱۲)
یہ حدیث مبارکہ ہمیں تنازع کی صورت میں بھڑکانے یا لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے منہ پھیرنے کے بجائے تنازع کو حل کرنے میں کردار ادا کرنے کی رہنمائی کرتی ہے۔ موجودہ دور میں تنازعات ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ اس کے مناظر اپنی گلی محلے کے فسادات سے لے کر قومی ، علاقائی اور بین الاقوامی فسادات میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس دور میں ہماری آزمائش یہ ہے کہ ہم کون سا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم فسادات کو درآمد کرنے یا بر آمد کر کے بھڑکانے والوں میں شامل ہوں اور دوسروں کے مظالم کی بھی سزا ہم بھگتیں!
اسلامو فوبیا ۔ کیا ہم خود بھی ذمہ دار نہیں؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
چند دن پہلے امریکہ میں آنے والے صدارتی انتخابات کے ایک امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ مطالبہ کر کے امریکیوں سمیت بہتوں کوحیران کر دیا کہ مسلمانوں کو امریکہ میں داخلہ کی اجازت نہ دی جائے۔ ان کے بیان کی شدید مذمت امریکہ میں بھی ہوئی ہے اور برطانیہ میں تو اب تک تیس ہزار لوگوں نے ان کے خلاف ایک دستخطی مہم پر اپنے دستخط ثبت کیے ہیں، تاہم ان کے بیان سے مغرب میں اسلامو فوبیا کا وجود عیاں ہو کر سامنے آگیا ہے۔ اسلامو فوبیا کا لفظی مفہوم ہے: اسلام سے خطرہ محسوس کرنا یا مسلمانوں سے نفرت کا اظہار۔ اس اصطلاح کوپہلے پہل مغرب کے بعض لکھنے والوں نے استعمال کیااور اب مغربی میڈیاکے ذریعے اس کا استعمال بہت عام ہوگیاہے۔اس پر ریسرچ ہورہی ہے، اس کے بڑھتے ہوئے مظاہر پر مغربی مسلمانوں کے ساتھ خود مغرب کی حکومتیں بھی تشویش کا اظہارکررہی ہیں اوراس کا مقابلہ کرنے کے طریقوں پر غور کیا جا رہا ہے۔
ویسے توجب مسلمان اپنے دور عروج میں تھے، مغرب میں اسلامو فوبیا اس وقت بھی شباب پر تھا۔ متعصب عیسائی پادری اور رہنما پورے یورپ میں گھوم گھوم کر اسلام، پیغمبر اسلام اورمسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے اور انھیں بتاتے تھے کہ مسلمان ’’محمد‘‘ نام کے بت کی پوجاکرتے ہیں۔یہ بدقماش نبی اکرم کا نام بگاڑکر اس کو Mohmed, Mohamet یا Mohamend بولتے تھے اور آپ کو(نعوذباللہ) ظالم وجابربادشاہ، جھوٹانبی، شہوت پرست حاکم باور کراتے تھے۔ صلیبی جنگیں انھی جھوٹے پروپیگنڈوں کی بنیادپر مذہبی جوش وخروش سے لڑی گئیں۔ استشراق کی کلاسیکل تحریروں میں اس گمراہ کن پروپیگنڈے کی تفصیل موجودہے۔ پھراستشراق کا دوسرادورآیااوراُس نے علمی وتحقیقی رنگ اختیارکرلیاتواِس گمراہ کن پروپیگنڈے کی شدت میں کمی آئی۔ پھرجب مسلمان زوال کا شکارہوئے اور مغربی سامراج کوعروج ملا تو مختلف اسباب سے مسلمانوں نے مغرب کا رخ کرناشروع کردیا۔ نئی دنیا امریکہ میں اسپین اور افریقہ سے جبری مزدوری کے لیے ہزاروں مسلمان (مورسکو)لے جائے گئے تھے جن کی نسلیں وہیں کی باشندہ ہوگئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعدجرمنی کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیاگیا۔ جرمنی کے لوگوں کواپنے ملک کی تعمیرنوکے لیے غیرممالک سے افرادی قوت کی ضرورت پڑی جس کو ترکی کے مزدوروں نے پوراکیا۔ یہ مزدورجرمنی میں ہی رہ پڑے۔ اسی طرح الجزائراپنی آزادی سے پہلے فرانس کے مقبوضات میں تھا، اس لیے الجزائرسے بھی بڑی تعدادمیں مزدورپیرس وفرانس میں جاکرآبادہوگئے۔ پھرشام ومصراورعراق کے بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں سے تنگ آکران ملکوں سے مذہب پسند نیز اشتراکی لوگ اور انقلابی عناصر سیاسی پناہ، امن وسکون، بہترتعلیمی، رہائشی اورروزگار کے مواقع کی تلاش میں عام طور پر مغرب کا رخ کرنے لگے۔ برصغیرسے بھی بہت سے لوگ تعلیم اور ملازمت کے لیے وہاں پہنچے۔ اس کے بعد فلسطین کے المیہ، اسرائیل کے قیام اور اس سے مسلمانوں کے جبری انخلا کے بعدمغرب کی طرف اس مہاجرت میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔
امریکہ، انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے ممالک میں پہنچنے والے یہ تارکین وطن جب تک اپنی مزدوری یا ملازمت میں لگے رہے، کوئی مسئلہ وہاں کے لوگوں کوپیش نہیں آیا، مگر چونکہ ان تارکین وطن میں مذہب پسندبھی بڑی تعدادمیں تھے لہٰذاجب انہوں نے مسجدوں اور اسلامک مراکزکے قیام کے ذریعے اپنے مذہبی وتہذیبی تشخص کا اظہارشروع کردیا، تب سے مسئلہ پیداہونے لگا۔ تاہم چونکہ مغرب کا پورامعاشرہ سیکولر، جمہوری اورآزادی پسندہے (جس کی بعض اقدارسے یقیناًاختلاف ہو سکتاہے) لہٰذا اپنے انھی اصولوں کی بنیادپر اہل مغرب مجبورتھے کہ مشرق اورخاص کرعرب دنیا سے آنے والے مسلمانوں کومذہبی وکلچرل آزادیاں دیں اور انہوں نے دیں۔ لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ تارکین وطن کا مذہبی اورتہذیبی تشخص کا Aggressive اظہار ہی وہ پوائنٹ تھاجب مغرب میں شدت سے اسلاموفوبیاکا ظہور ہونا شروع ہوا۔
حقیقت تویہ ہے کہ انتہا پسندی ہر سماج میں اور ہر مذہبی اکائی میں موجود ہے۔ مسلمانوں میں بھی ہے اور غیر مسلموں میں بھی۔ مغرب میں مسلمانوں کے خلاف اسی انتہاپسندی کی ایک شکل اسلاموفوبیا ہے جس کے مظاہر مختلف صورتوں میں سامنے آرہے ہیں۔ جرمنی میں اس کا ظہور نیو نازی ازم کی تحریک میں ہوا ہے توامریکہ میں ایونجلیکل فرقہ اس کی نمائندگی کرتاہے۔ ڈنمارک اورانگلینڈمیں بعض سیاسی پارٹیاں اورلیڈراس کی آوازاٹھاتے ہیں۔ اونجلیکل چرچ سے وابستہ کئی گروپ اورپادری اسرائیل کے ہم نوا ہیں اور عربوں اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہارکرتے ہیں۔ اور بھی گروپ ہیں جو اس کے لیے سرگرم ہیں۔ کئی مسیحی پادری قرآن کو جلانے کی مہم میں پیش پیش ہیں۔ کئی پادری اور خواتین ڈبیٹر اپنی اسلام مخالف تقریروں کے لیے مشہورہیں اوریوٹیوب پر ان کی ہرزہ سرائیاں سنی جاسکتی ہیں۔ 9/11کے المیہ کے بعدامریکہ میں ایک اسلاموفوب گروپ نے Bomb The Caaba (کعبہ کوبم سے اڑادو)کا مکروہ نعرہ بھی لگایا تھا۔ فرانس میں الٹرا سیکولر گروپوں اورحکومت کومسلمان عورت کے حجا ب(اسکارف )سے ڈرلگتاہے۔ ڈنمارک میں ان کو مساجدکے میناروں سے خوف آتاہے۔ سویڈن اورپیرس میں پیغمبراسلام کے استہزائیہ کارٹون بناکراس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانہ پرمفلس اور خانماں بربادشامی مہاجرین کی یورپ کومنتقلی سے بھی مغرب میں بعض لوگوں پر نہ جانے کیوں دہشت طاری ہے! اس لے میں میڈیاکے بڑ ے بڑے گروپ، فرائیڈمین جیسے اسرائیل نوازصحافی، جیری فالویل جیسے پادری،ڈینیل پائپس اور برنارڈلویس جیسے بڑے مستشرق سر میں سر ملائے ہوئے ہیں۔ ٹرینڈاڈ میں مقیم ہندنژادنوبل انعام یافتہ مصنف وی ایس نائپال کی تحریریں مسلمانوں کے بارے میں متعصبانہ ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کے فوکس نیوز، CNBC ,CNN وغیرہ اپنی رپورٹوں اورتجزیوں میں ان کے بارے میں جانب دار نہیں ہیں۔ ان کے اکثراینکر اور رپورٹرز مسلمانوں اور عربوں سے عناد اور اسرائیل کے لیے نر م گوشہ رکھتے ہیں۔
اسلاموفوبیاکے علمبردارگروپ عام طورپراسلام اورمسلمانوں کے خلاف وہی الزام لگاتے ہیں جوہندوستان میں فسطائی قوتیں لگاتی ہیں۔ یہ کہ مسلمان کئی کئی شادیاں کرتے اورزیادہ بچے پیداکرتے ہیں، اگران کی یورپ کونقل مکانی نہ روکی گئی تویہ کچھ ہی دنوں میںآبادی کا حلیہ اورتناسب بدل دیں گے ،ان کی اکثریت ہوجائے گی تویہ Rule کریں گے اورہماری آزادیوں اورتہذیب کوبربادکردیں گے۔ یہ امن عالم کے لیے خطرہ ہیں کیونکہ یہ اپنے مذہب کی روسے دوسرے مذاہب کے ساتھ امن اور چین سے نہیں رہ سکتے۔ یہ مغربی تہذیب وتمدن کے لیے اورمغربی اقدارکے لیے خطرہ ہیں۔ عورت کویہ غلام بناکررکھتے ہیں، انسان کواظہارخیال کی آزادی یہ نہیں دیتے، تہذیب کے ارتقا میں اِن کا کوئی کردار نہیں ہے ،وغیرہ۔ بلاشبہ بعض لوگوں کواسلام کے بارے میں غلط فہمیاں بھی ہوں گی مگراکثریہ پروپیگنڈاجان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلاموفوبیاکا ایک مستقل ہتھیار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شخصیت کی اہانت ہے جس کے لیے وہ کارٹون بناتے ہیں، سیرت پر کتابیں شائع کرتے ہیں اورچن چن کرایسے واقعات پر فوکس کرتے ہیں جن سے رسو ل اللہ کی شخصیت مجروح ہواوربدقسمتی سے سارامسالہ ان کومسلمانوں کے ہاں رائج اورجعلی روایات پر مبنی سیرت لٹریچرسے مل جاتاہے۔ مغرب میں بہت سی کتابیں ایسی بھی لکھی گئی ہیں اورلکھنے والے اہم مصنف اورناول نگار ہیں جن میں مغرب کے زوال کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ان کا کہناہے کہ اگرعربوں کی پیش قدمی نہ روکی گئی تویورپ، یورپ نہیں رہے گا، یوروسلام بن جائے گا۔
9/11کے حادثہ سے پہلے ہی اسلاموفوبیامغرب میں موجودتھا، چنانچہ مراکش کے ایک ریسرچ اسکالرنے اس مسئلہ کا جائزہ لیا تو پایا کہ صرف دو دہائیوں کے عرصہ میں تقریباً پچیس ہزار کتابیں، کتابچے، فلمیں، کارٹون اور ہینڈبل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شائع کیے گئے۔ البتہ یہ بات ضرورکہی جاسکتی ہے کہ گیارہ ستمبرکے بعداس میں تیزی آئی اور اب القاعدہ اورداعش جیسے دہشت گردمسلمان گروپوں کی مجنونانہ، غیراسلامی، غیرانسانی وغیرعقلی حرکتوں، دہشت گردی اور معصوموں کے قتل عام کی وارداتوں سے اِس لے میں بہت ہی شدت آگئی ہے۔حدتویہ ہے کہ دولت اسلامیہ کے مقابلہ میں دولت مسیحیہ کے عنوان سے ایک شدت پسند تنظیم کانام بھی سامنے آیاہے۔
اسلاموفوبیاکے ان خارجی مظاہرکے ساتھ کچھ داخلی اسباب بھی ہیں اوران کوبھی لازماًقارئین کے سامنے لایا جانا چاہیے۔ مثال کے طورپر کئی مسلمانوں نے نہ صرف مغرب میں بلکہ انڈیامیں بھی جمہوریت اورسیکولرزم کے خلاف لفظی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ بعض سرپھرے سیکولرجمہوریت کوکفروشرک بتاتے ہیں اوراپنے اس مطلق فتوے میں وہ بدلے حالات وزمانہ کی رعایت یامسلم اکثریت یااقلیت کے حالات کے اختلاف کی بھی کوئی پروانہیں کرتے۔ روایتی مسلم علما، اسلام کے قانون جہادکی معقول عصری تشریح کرنے میں ناکام ہیں جو جدید ذہن کو اپیل کر سکے۔ ان میں سے بہت سے آج بھی تبدیلئ مذہب پر لوگوں کی گردن ناپنے کے لیے تیارہیں، آج بھی لونڈی غلام کے پرانے عرف ( جس کی آج کوئی گنجائش نہیں) کی وکالت کرتے ہیں۔ اور بعض لوگ تومغرب میں بیٹھ کر، اس کی آزادیوں سے فیض یاب ہو کر وہاں اسلامی خلافت کے قیا م کی بے وقت کی راگنی گاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غیرمسلموں سے نفرت اسلام کا تقاضا ہے، شوکت کفر( Power) کو توڑنامسلمانوں کا فرض ہے۔ یہ اسلامی حجاب کی بھی یک رخی تشریح کرتے ہیں۔ جہاد کی غلط تشریح کرنے والے یہ لوگ اگرچہ زیادہ نہیں، لیکن یہی مٹھی بھرلوگ اپنی انتہاپسندانہ سوچ اوراقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کی غلط ترجمانی کاسبب بن جاتے ہیں کیونکہ میڈیااِنھی کی باتیں اچک لیتااوران پرمباحثے کرنے بیٹھ جاتا ہے جن میں اسلام کا صحیح فہم رکھنے والوں کو اکثر نہیں بلایا جاتا۔
مذہب کے اِنھی ٹھیکہ داروں کی غیرعقلی، غیراسلامی، من مانی، یک رخی، غیرحقیقت پسندانہ تشریحِ دین ہی اسلام ومسلمانوں کی منفی شبیہ بنانے کی سب سے بڑی ذمہ دارہے۔ برطانیہ میں مذکورہ باتوں کی تبلیغ کرنے والے دوعرب شیوخ ابوحمزہ المصری اورعمرالبکری کے چرچے تواخبارات میں بھی آئے۔ جمہوریت کی مخالفت کرنے والے اورعالمی خلافت کے نعرے لگانے والے یہ شعورنہیں رکھتے کہ وہ اپنے زمانہ کی روح سے لڑرہے ہیں اورزمانہ کی روح سے لڑنا صرف اپنے آپ کوشکست دیناہے۔ اس وقت جمہویت پوری دنیاکے اجتماعی شعورکا حصہ بن چکی ہے اوراس کی خواہ مخواہ کی مخالفت اپنے آپ کوصرف نکو بناناہے اورایسی مہم ہے جس کامقدرہی ناکامی ہے۔ اسلام سراسرحقیقت پسندی کا دین ہے اور اسوہ نبوی میں ہمیں قدم قدم پر حقیقت پسندی کی تعلیم ملتی ہے، لیکن آج ہم نے گویاقسم کھارکھی ہے کہ حقیقت پسندی سے کوئی ناتا نہ رکھیں گے ۔
ہمارے بیشتراقدامات ردعمل میں اور جذباتی اور ’’غیر‘‘ سے نفرت پرمبنی ہوتے ہیں۔ شریعت کی تفہیم ہمارے علما عموماً ایسے بے لچک اورRigid انداز میں کرتے ہیں جس سے نئی نسل اورجدیدذہن کو لگتا ہے کہ شریعت بھی چرچ ہی کی ایک شکل ہے، خاص کرجب ان کے سامنے عملی نمونہ وہ ہوجوطالبان کا ہے یادولت اسلامیہ کا۔خالص اسلام کی دعوت چھوڑ کر مسلک ومشرب کی دعوت دی جارہی ہے جوبڑی مصیبت بن رہی ہے۔ کوئی سیاسی اسلام کی طرف بلارہاہے، کوئی صوفی اسلام کی طرف اورکوئی کسی اوراسلام کی طرف۔ ان مختلف طرح کے اسلاموں کے وکیلوں کی تحریریں کل حزب بما لدیہم فرحون (ہرگروہ اپنے ہی خیالات پر نازاں ہے) کی تصویرہوتی ہیں۔
سچ ہمیشہ کڑواہوتاہے، مگرمجھے کہنے دیجیے کہ اکثرمسلمان علماودانشوروں کی تحریروں میں مغرب والوں کے لیے جو نفرت وکراہیت پائی جاتی ہے، وہ مسلمانوں میں انتہاپسندی اورجذباتی ردعمل کوہوادیتی ہے۔ہمارے ہاں بہت سے لکھنے بولنے والے شروعات ہی مغرب کولعن طعن اورصلواتیں سنانے سے کرتے ہیں، حالانکہ مغربی تہذیب کے منفی پہلوؤں کے ساتھ بہت سے پہلویقیناًمثبت اور اچھے بھی ہیں جن کوappreciate کرنا چاہیے۔ دوسری قوموں اور انسانوں سے ہمارا مذہبی طبقہ کتنی نفرت کرتا ہے، اس کے لیے ان کی تحریروں اورتقریروں پر ایک سرسری سی نظرڈال لینا کافی ہوگا۔ ایک ندوی عالم وادیب نے اپنی ضخیم عربی کتاب میرے پاس تبصرہ کے لیے بھیجی۔ آٹھ سو صفحہ سے زیادہ کی اس کتاب میں جگہ جگہ یہودیوں کو اولاد وحفدۃ الخنازیر (سورکے بچے ) لکھا گیا ہے۔ راقم نے اپنے تبصرہ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ پوری قوم یہودکے لیے ایسے الفاظ استعمال کرناشائستگی اورتہذیب کے خلاف توہے ہی، اسلامی روایات کے اور حقیقت واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ کیونکہ اسرائیل کتنا ہی ظالم سہی، بہت سے یہودی دانشور بلکہ مذہبی راہ نما بھی اس کے شدیدناقداورفلسطینی کازکے حامی ہیں۔ اور علما وداعیوں کو تو خاص کرایسی زبان استعمال کرنے سے بچنا چاہیے۔
پڑھے لکھے مسلمانوں کا ایک بڑاحلقہ سازشی تھیوری میں جیتاہے اور ہر واقعہ کی توجیہ اسی تھیوری سے کرتا اور اپنوں کی تمام غلطیوں ونادانیوں سے صرف نظرکر لیتا ہے۔ چنانچہ پیرس میں دہشت گردی کے واقعہ کوبھی اردوکے کئی بڑے کالم نگار یک گونہ جوازدیتے نظر آئے۔ ہمارے بہت سے علمابھی بالعموم مسلم عناصرکے ذریعہ انجام دی جانے والی دہشت گردی کو اپنے ’’اگرمگر‘‘ سے جوازدیتے رہے ہیں اور اگر کبھی اس کی مذمت بھی کرتے ہیں تومسلکی رنگ میں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارایہ رویہ کیاغیروں کوہم سے اور زیادہ برانگیختہ نہیں کرے گا؟
ایک اورپہلوبھی غورکرنے کا ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے جان بوجھ کراوربڑی پلاننگ سے عالمی سطح پر بھی اور وطن عزیزمیں بھی مسلمانوں کوچھوٹے چھوٹے مسئلوں اور نان ایشوز میں الجھایا اور پھنسا دیا جا تا ہے۔ ان کی ساری قوتیں بے سرے احتجاجوں، ناکام مظاہروں اوربے نتیجہ دھرنوں اورمشتعل جلوسوں اورتشددکی نذرہوجاتی ہیں۔ اہانت رسول کے بدبختانہ واقعات، ملعون زمانہ کارٹون اوراسی قسم کے شوشے اسلاموفوبیاکا ضروری حصہ ہیں۔ ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ہماری دینی وملی قیادت زیادہ بیدارمغزی کا ثبوت دیتی اورقوم کوبے فائدہ مظاہروں میں لگانے کی بجائے وہ ناموس رسالت کی حفاظت کے کچھ مثبت اورمتحرک متبادل ڈھونڈتی اورقوم کی تربیت ان خطوط پر کی جاتی کہ اِس طرح کے شوشوں کونظرانداز کرنابھی اسو ۂ نبوی کا ہی ناگزیرحصہ ہے ،اورموجودہ زمانہ میں تواِس کی پہلے سے بھی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو شاید حالات آج اتنے خراب نہ ہوتے جن کا عالمی وملکی سطح پر آج ہم کو سامنا ہے!
معاہدۂ حدیبیہ کے چند اہم سبق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں جہاں یہ طے ہوا تھا کہ مسلمانوں اور قریش کے درمیان دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، وہاں دوسری شرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ سے قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرے گا تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا (نعوذ باللہ) ساتھ چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلا جائے گا تو اس کی واپسی ضروری نہیں ہوگی۔ اس شرط پر مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب کا پیدا ہونا فطری امر تھا کہ یہ برابری کی شرط نہیں تھی اور معاہدات کی روح کے خلاف تھی۔ حضرت عمرؓ نے تو اس اضطراب کا کھلم کھلا اظہار بھی کر دیا تھا لیکن حضورؐ نے نہ صرف اس شرط کو منظور کر لیا بلکہ اس موقع پر قریش کی طرف سے مذاکرات کرنے والے نمائندہ سہیل بن عمروؓ کا اپنا بیٹا ابو جندلؓ زنجیروں میں جکڑا ہوا مسلمانوں کے ساتھ جانے کے لیے کسی طرح حدیبیہ تک آ پہنچا تو سہیل بن عمروؓ کے مطالبہ پر آنحضرتؐ نے اسے اسی طرح پابجولاں اس کے والد کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس بھجوا دیا۔ جبکہ حضرت عمرؓ اور دیگر مسلمانوں کی اس حوالہ سے بے چینی اور اضطراب میں انہیں تسلی دیتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ فرمایا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کر رہے ہیں، اس لیے اسی میں خیر ہوگی۔
اس معاہدہ کو تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ ایک قریشی نوجوان ابو بصیرؓ مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچ گئے جس پر مکہ والوں نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا اور دو آدمی انہیں واپس لانے کے لیے بھجوائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے ابو بصیرؓ کو ان دو نمائندوں کے ہمراہ واپس بھجوا دیا۔ راستہ میں ایک جگہ ابوبصیرؓ نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور انہی میں سے ایک کی تلوار لے کر اسے قتل کر دیا اور مدینہ منورہ واپس آکر حضورؐ سے کہا کہ آپ نے تو معاہدہ کی پابندی کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، اب میں ان سے جان چھڑا کر واپس آگیا ہوں۔ اس پر نبی کریمؐ نے شدید رد عمل کا اظہار فرمایا اور اس کے بارے میں کہا کہ ویل لأمہ مسعر حرب، ( اس کی ماں کے لیے ہلاکت ہو! یہ لڑائی کی آگ بھڑکائے گا۔) اتنے میں راستہ میں ابو بصیرؓ کے وار سے بچ جانے والا دوسرا شخص بھی بھاگ کر مدینہ منورہ آگیا اور حضورؐ کو سارا ماجرا سنا دیا۔ جب حضرت ابو بصیرؓ نے اپنی کاروائی پر حضورؐ کا سخت رد عمل دیکھا تو چپکے سے وہاں سے نکل گئے اور مکہ مکرمہ واپس جانے کی بجائے راستہ میں ’’سیف البحر‘‘ کے مقام پر ڈیرہ لگا لیا۔ یہ مکہ مکرمہ سے شام جانے والے تجارتی قافلوں کی گزرگاہ میں تھا۔ چند دنوں کے بعد حضرت ابو جندلؓ بھی کسی طرح جان بچا کر ان کے پاس وہاں آگئے جنہیں صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن عمروؓ کے ساتھ پابجولاں واپس کر دیا تھا ۔
اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ مکہ مکرمہ کے علاقہ سے جو شخص بھی مسلمان ہوتا، وہ مدینہ منورہ جانے کی بجائے حضرت ابوبصیرؓ کے کیمپ میں پہنچ جاتا۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد ستر تک پہنچ گئی، جبکہ بعض روایات میں تین سو کی تعداد بھی مذکور ہے۔ انہوں نے قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنا اور ان کا سامان چھیننا شروع کر دیا اور کچھ افراد ان کے ہاتھوں قتل بھی ہوئے۔ اس پر قریش میں تشویش پیدا ہوئی مگر وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اس لیے کہ حضورؐ نے ان میں سے کسی شخص کو قبول نہیں کیا تھا، بلکہ مدینہ منورہ پہنچنے والوں کو واپس کر دیا تھا اور ڈانٹ بھی پلائی تھی۔ یہ کیمپ آزاد علاقہ میں تھا جس کی ذمہ داری آنحضرتؐ پر عائد نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ان لوگوں سے نمٹنا قریش کے بس میں رہا تھا۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے طے کیا کہ اس ساری صورت حال کی اصل وجہ معاہدۂ حدیبیہ کی وہ شرط ہے جو یک طرفہ تھی اور جس کے نتیجے میں یہ حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس لیے قریش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بھجوا کر پیش کش کی کہ اگر یہ کیمپ ختم ہو جائے تو وہ معاہدہ کی اس شق سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اس پر حضورؐ نے قریش کی پیش کش قبول کر کے حضرت ابوبصیرؓ کو خط بھجوایا کہ انہیں معاہدۂ حدیبیہ کی جس شق کی وجہ سے پریشانی تھی، وہ ختم ہوگئی ہے، اس لیے وہ احتجاجی کیمپ ختم کر کے مدینہ منورہ آجائیں، انہیں قبول کر لیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیمپ ختم کر کے واپس آنے والوں کے لیے ’’عام معافی‘‘ کا اعلان کر دیا تھا۔
تاریخی روایات میں ہے کہ آنحضرتؐ کا یہ گرامی نامہ حضرت ابو بصیرؓ کوپہنچا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کر کے انہیں سنایا، لیکن ابھی وہ خط پڑھ ہی رہے تھے کہ اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے ان کا انتقال ہوگیا اور وہ اس کیفیت میں فوت ہوئے کہ نبی کریمؐ کا نامۂ مبارک ان کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت ابو جندلؓ ان کے جنازہ اور تدفین کے بعد حضورؐ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مدینہ منورہ آگئے اور دوسرے سب ساتھی بھی کیمپ ختم کر کے اپنی اپنی محفوظ جگہوں پر چلے گئے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو مسلمان سوسائٹی کے حصہ کے طور پر قبول فرمایا اور کسی کو دوبارہ سرزنش نہیں کی۔ جبکہ حضرت ابو جندلؓ خلافت راشدہ کے دور میں ایک جہاد کے دوران شہید ہوئے۔
سیرت النبیؐ کے اس اہم واقعہ اور اسوۂ نبویؐ کے اس اہم پہلو سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ:
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ معاہدہ کی مکمل پاسداری کی اور اس میں کوئی لچک نہیں دکھائی۔
- معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں اور ان کے کسی عمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا، ڈانٹ پلائی اور لا تعلقی کا اظہار کیا۔
- معاہدہ کی ناجائز اور یک طرفہ شق کا فریق مخالف میں احساس پیدا ہونے پر ان کی طرف سے اس شق سے دست برداری کو قبول فرمایا۔
- خراب ہو جانے والے حالات کو صحیح سمت لے جانے کے لیے ان کے اسباب و عوامل کو بھی سامنے رکھا گیا اور ان کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔
- کیمپ ختم کر کے مدینہ منورہ یا اپنے اپنے محفوظ ٹھکانوں پر چلے جانے والوں کو واپسی کا راستہ دیا گیا او ران سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔
اس قسم کے حالات میں اسوۂ نبوی میں ہمارے لیے یہ راہ نمائی موجود ہے، لیکن کیا ہمارے پالیسی ساز اس پر غور کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟
قرآن مجید کے موجودہ نسخے اور ان کا رسم الخط
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مل کر کی تھی اور اس وقت سے اس کا تسلسل چلا آرہا ہے۔ مگر بیت اللہ شریف کی موجودہ عمارت ابراہیمی بنیادوں پر نہیں ہے کیونکہ جب قریش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ان کی بعثت سے قبل بیت اللہ تعمیر کیا تھا تو ابراہیمی بنیادوں میں کچھ تبدیلیاں کر دی تھیں۔ اس تعمیر میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حصہ لیا تھا بلکہ تعمیر کے دوران جب حجر اسود کو اس کے مقام پر نصب کرنے کا شرف حاصل کرنے پر قریش کے سرداروں میں اختلاف ہوا اور بات تنازعہ تک جا پہنچی تو اس تنازعہ کو جناب حضورؐ نے ہی کمال حکمت عملی کے ساتھ نمٹایا تھا جس پر قریش کے مختلف خاندان باہمی جھگڑے سے بچ گئے تھے۔
قریش نے اس تعمیر میں تین تبدیلیاں کی تھیں۔ ایک یہ کہ اس کے آمنے سامنے دو دروازے تھے جس سے بیت اللہ شریف کی زیارت اور طواف کرنے والوں کو سہولت حاصل تھی کہ وہ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے باہر نکل جائیں اور انہیں بیت اللہ کے اندر جانے کی سعادت بھی مل جائے۔ مگر اس تعمیر کے دوران ایک دروازہ بند کر دیا گیا۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ پہلے دونوں دروازے زمین کے ساتھ تھے اور آسانی کے ساتھ اندر جایا جا سکتا تھا مگر اس موقع پر ایک دروازہ بند کر کے دوسرے دروازے کو زمین کی سطح سے اتنا بلند کر دیا گیا کہ کوئی شخص آسانی کے ساتھ اندر نہ جا سکے۔ جبکہ تیسری تبدیلی یہ کی گئی کہ ایک حصہ کو چھت سے نکال دیا گیا جو اب حطیم کہلاتا ہے۔ اسے ایک چھوٹی دیوار سے گھیرا گیا ہے مگر وہ بیت اللہ شریف کا حصہ ہونے کے باوجود اس کی چھت کے نیچے نہیں ہے۔
بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ام المومنین حضرت عائشہؓ کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بیت اللہ کی قریش کی تعمیر کردہ بلڈنگ کو شہید کر کے اسے از سرِ نو ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کر دیا جائے، لیکن رسول اکرمؐ نے خواہش کے باوجود ایسا نہ کیا اور اسے اسی حالت میں یہ فرما کر چھوڑ دیا کہ قریشی قوم نئی نئی مسلمان ہوئی ہے، وہ اس بات کو محسوس کریں گے کہ ابھی چند سال قبل تو ہم نے بیت اللہ تعمیر کیا تھا، اب اسے دوبارہ تعمیر کیوں کیا جا رہا ہے؟
ام المومنین حضرت عائشہؓ نے حضورؐ کا یہ ارشاد روایت کیا تو وہ ان کے بھانجے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے علم میں بھی آیا۔ حضرت امام حسینؓ کی کربلا میں شہادت کے بعد جب مدینہ منورہ کے لوگوں نے یزید کی بیعت توڑ کر اس کی اطاعت میں رہنے سے انکار کر دیا تو اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ بہت سے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کی حکومت کافی سالوں تک مکہ مکرمہ سمیت مختلف علاقوں پر قائم رہی۔ اموی خلیفہ عبد الملک بن مروانؒ کے دور میں حجاج بن یوسفؒ کو حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے خلاف جنگ پر مامور کیا گیا تو انہوں نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا جو اس وقت حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کا پایۂ تخت تھا۔ حجاج بن یوسفؒ نے مکہ مکرمہ کے محاصرہ کے دوران گولہ باری کی جس سے بیت اللہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تو حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے بیت اللہ شریف کو ازسرِنو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مذکورہ روایت کی دوبارہ تصدیق کر کے بیت اللہ شریف کو ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کر کے وہ تینوں تبدیلیاں ختم کر دیں جو قریشی تعمیر کے موقع پر کی گئی تھیں۔ اور جن تبدیلیوں کو ختم کر دینے کی خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش ظاہر کی تھی مگر مصلحتاً اس سے گریز کیا تھا۔
لیکن جب حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اس جنگ میں شہید ہوگئے اور مکہ مکرمہ کا کنٹرول حجاج بن یوسفؒ کے ہاتھ میں آگیا تو اس نے خلیفہ وقت عبد الملک بن مروانؒ کو یہ رپورٹ بھجوائی کہ عبدا اللہ بن زبیرؓ نے بیت اللہ کی عمارت بھی تبدیل کر دی ہے جس پر خلیفہ نے حکم دیا کہ اسے گرا کر دوبارہ قریشی بنیادوں پر تعمیر کر دیا جائے۔ چنانچہ حجاج بن یوسفؒ نے بیت اللہ کو شہید کر کے قریشی بنیادوں پر از سرِنو تعمیر کر دیا جس سے وہ تینوں تبدیلیاں واپس لوٹ آئیں جنہیں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ختم کر دیا تھا۔ اور اس وقت سے آج تک وہ تعمیر اسی حال میں چلی آرہی ہے۔ اس کے بعد جب بنو امیہ کی حکومت ختم ہوگئی اور خلافت کی زمام کار ان کے سیاسی حریفوں بنو عباسؓ نے سنبھالی تو انہوں نے بیت اللہ کی اس عمارت کو امویوں کی تعمیر کردہ قرار دے کر اسے پھر سے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے طریقے پر تعمیر کرنے کے پروگرام بنا لیا جس پر اہل سنت کے امام حضرت امام مالکؒ نے فتویٰ جاری کیا کہ بیت اللہ کی تعمیر میں بار بار اس طرح کے ردوبدل سے کعبۃ اللہ سیاسی حریفوں کی باہمی محاذ آرائی کی آماجگاہ بن جائے گا جو بیت اللہ کے تقدس اور حرمت کے منافی ہوگا۔ اس لیے اب بیت اللہ کو شہید کر کے اسے ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کرنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اس فتوے پر آج تک عمل ہو رہا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے باوجود امت مسلمہ کعبۃ اللہ کی بلڈنگ کو ابراہیمی بنیادوں کی بجائے قریش کی بنیادوں پر قائم رکھے ہوئے ہے، کیونکہ بیت اللہ کی حرمت و تقدس اور امت مسلمہ کی اجتماعیت و وحدت کا تقاضہ یہی ہے۔
یہ سارا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ قرآن کریم کی طباعت و اشاعت کے حوالہ سے ہم آج کل کم و بیش اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ مصحف عثمانی کے دو نمونے اس وقت عالم اسلام میں اشاعت پذیر ہو رہے ہیں جو قرأت میں تو ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں ہیں مگر رسوم و علامات کے حوالہ سے الگ الگ ہیں۔ عرب دنیا میں قرآن کریم کی طباعت ان رسوم و علامات کے ساتھ ہوتی ہے جو وہاں معروف ہیں، جبکہ جنوبی ایشیا یعنی بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت وغیرہ میں مطبوعہ قرآن کریم کی رسوم و علامات ان سے الگ ہیں جو اس قدر متعارف اور عام فہم ہو چکی ہیں کہ یہاں کے عام مسلمان کے لیے کسی دوسرے نسخہ سے قرآن کریم کی تلاوت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے حرمین شریفین میں دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں مسلمانوں کے لیے قرآن کریم کے جو نسخے تلاوت کی غرض سے سرکاری طور پر مہیا کیے جاتے ہیں، ان میں دونوں طرح کے نسخوں کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی مسلمان کو تلاوت میں دقت نہ ہو۔
مگر اب بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ہاں یعنی پاکستان وغیرہ میں چھاپے جانے والے قرآن کریم کے نسخوں میں بہت سی اغلاط موجود ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے جبکہ اس کے ساتھ ان کی رسوم و علامات کو بھی عرب نسخوں کے مطابق تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس پر بحث و مباحثہ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا ہے، حتیٰ کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور پنجاب قرآن بورڈ میں بھی اس پر گفتگو جاری ہے اور اس پر علمی و فنی دلائل دیے جا رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ مسئلہ علمی و فنی مکالمہ و مباحثہ کی حدود سے آگے نکل کر عرف و تعامل کے دائرہ میں آچکا ہے، اس لیے اسے علمی بحث و تمحیص کی بجائے عرف و تعامل کے حوالہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک قرأت کی ناقابل قبول غلطیوں کا تعلق ہے وہ جہاں بھی موجود ہوں، ان کی اصلاح بہرحال ضروری ہے۔ لیکن رسوم و علامات کا معاملہ منصوص نہیں بلکہ اجتہادی ہے۔ اس لیے جو رسوم و علامات متعارف ہو چکی ہیں اور صدیوں سے عوام ان سے مانوس ہو کر ان کے مطابق تلاوت کرتے آرہے ہیں، وہ اگر ’’خطائے اجتہادی‘‘ قرار دے دی جائیں، تب بھی امت کو کسی نئے مخمصے سے دوچار کرنے کی بجائے انہیں اسی حالت میں رہنے دینا چاہیے۔ اگر امت کو کسی فکری یا نفسیاتی خلفشار سے بچانے کے لیے بیت اللہ کی عمارت میں ابراہیمی بنیادوں سے ’’عدول‘‘ کو برقرار رکھا جا سکتا ہے تو قرآن کریم کی طباعت و اشاعت میں بھی عجمی رسوم و علامات کو برقرار رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کی عمومی مصلحت کا تقاضا یہی ہے۔
میخانے کا محروم بھی محروم نہیں ہے
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی
(یہ عمرہ کے سفر کی کچھ روداد ہے۔اس کا اگر کوئی فائدہ ہو تو اس کا ثواب برادرِ عزیز حسان نعمانی کے حساب میں کہ یہ تحریر محض ان کی فرمائش پر ہے۔)
بسم اللہ حمداً وَّسلاماً۔
چالیس برس ہوتے ہیں جب شمالی برطانیہ کے شہر ڈیوز بری میں سکونت پذیر محترم مولانا یعقوب قاسمی زید مجدہم نے راقم کی صحت کے حوالہ سے اپنے یہاں کچھ وقت گزارنے کی دعوت دیتے ہوئے آمد و رفت کاایسا ٹکٹ ارسال فرمایا کہ واپسی براہِ جدہ تھی، یعنی اسی سفر میں حج کی سعادت بھی حاصل کی جا سکتی تھی۔اللہ مولانا کو ہردوعالم میں جزائے خیر سے نوازے،یہ سعادت حاصل ہوئی۔یہ دسمبر۱۹۷۵ء تھا۔ ۱۹۷۶ء سے سکونت ہی برطانیہ میں ہو گئی۔ مگر حالات کی نامساعد ت کہیے یا بے توفیقی کہ اس کے بعد اپنی طرف سے کوئی کوشش اس ارضِ مقدس کی زیارت کے لیے عمل میں نہ آئی، خواہش البتہ رہی اور بڑھتی رہی، حتیٰ کہ گزشتہ سال توفیق شامل حال ہوئی اور عمرے کے ارادہ کا ’’احرام ‘‘ باندھ لیا، مگر اس سال یہ سعادت مقدر نہ نکلی۔ ویزا کے حصول کا مرحلہ اتنا دیر طلب ہوا کہ ارادہ کو آئندہ سال پر محول کرنا ناگزیر ہوگیا۔ کرم اُس گھر والے کا کہ زندگی نے ساتھ دیا اور امسال ۱۰ تا ۱۸؍جنوری( ۲۰۱۶ء )میںیہ ایک دیرینہ آرزو بر آنے کی سبیل بنی۔ رفاقت سفر کا قرعہ برادر زادۂ عزیز ہارون نعمانی کے نام پڑا۔ اور حسنِ اتفاق کہ نعمانی برادر زادگان میں سب سے بڑے، شمعون نعمانی، جو مدت سے مدینۂ منورہ کی سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں اور اپنی بھانجی کی شادی کے سلسلہ میں لکھنؤ آئے ہوئے تھے وہ بھی اسی( لکھنؤ۔جدہ) سعودی فلائٹ سے ہم سفر(بلکہ جدہ تک )امیر قافلہ ہوگئے۔
فلائٹ لکھنؤ سے چار بجے دن کو چل کر بفضل خدا ۱۰؍ بجے جدہ میں بسلامت اتری۔ معلوم ہوا کہ یہاں سے عام مسافروں اور عمرہ کے مسافروں میں تفریق کردی جاتی ہے۔ پس شمعون سلمہ یہاں سے جداہو گئے اور اگلے مراحل، کسٹم وغیرہ، اب ہم میاں ہارون سلمہ کی رہنمائی میں طے کرتے ہوئے ،جو اپنے حج کے بعد ابھی ایک دوسال پہلے عمرہ بھی کرچکے تھے اور واقف راہ و منزل تھے، عازمِ مکہ ہوئے۔ اس کے لیے جدہ سے بس لینا تھی۔بس اسٹیشن پر پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ میاں شمعون موجود ہیں جبکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ ان سے ملاقات اب مدینۂ منوّرہ ہی میں ہوگی۔وہ ہم سے جدا ہوکر جدہ میں مقیم اپنی بہن (عالیہ سلمہا) کے گھر چلے گئے تھے اور وہاں سے بہنوئی (ذیشان سلمہ ) کو لے کر جدہ کے بس اسٹاپ پر آگئے تاکہ مکہ معظمہ کا ہمارا سفر کار سے ہو۔دل سے دعا نکلی کی عزیز بچوں نے کیسی راحت کا سامان کردیا۔ لیکن یہ لوگ اس ارادہ سے آئے تھے کہ ہم پہلے عالیہ و ذیشان کے گھر جائیں اور وہاں کچھ سستا کے عازمِ بیت اللہ ہوں۔ ارادہ بے شک بڑا سعادتمندانہ تھا، مگر اپنے لیے آزمائش ہوگئی ۔چالیس برس کے بعد اُس گھر کے لیے نکلنے کی توفیق پائی تھی جسے اللہ نے لوگوں کے لیے پروانہ وار لوٹ لوٹ کر آنے کی جگہ(مَثابَۃّ لِلنّاس) فرمایا ہے ،پھر بھی آستاں بوسی سے پہلے کسی اور گھر میں سستانے کو جا اُتریں! چنانچہ ہم نے ان کا یہ نیک ارادہ جاننے کے بعدمعذوری ظاہر کی کہ ہم کو سیدھے مکہ مکرمہ جانا ہے۔ لیکن وہ دونوں یہ پروگرام بنا کر آئے تھے کہ ہمیں گھر لے جائیں گے اور گھر سے ابن ذیشان، فرحان سلمہ، ہمیں لے کر مکہ مکرمہ جائیں گے۔ پس گھر جانا تو نا گزیر ہوا جس نے آزمائش دو آتشہ کردی کہ وہاں عالیہ سلمہا ہمیں اپنے گھر خوش آمدید کہنے کو دروازہ پر کھڑی تھیں۔اب اللہ جانے ہم نے اچھا کیا یا برا، دل پتھر کرلیا اور دروازہ کے اندر قدم رکھنے کو تیار نہ ہوئے، جبکہ یہ بھتیجی جدہ کی ساکن ہوکر شاذ و نادر ہی مل پانے کی بناپر ہمیں توعزیز تر ہو ہی گئی ہے، خوداس کے لگاؤکا حال بھی اس سے کمتر نہیں ہے۔آرزومند رہتی رہی ہے کہ کبھی تایا ابا کا بھی ادھر پھیرا ہو کیونکہ خاندان کے لوگوں کا سلسلہ کچھ نہ کچھ لگا ہی رہتا ہے۔
الغرض اس آزمائش سے گزر کر عالیہ کے دروازے ہی سے مکہ مکرمہ کے لیے روانگی ہو گئی۔اب ہمیں فرحان سلمہ اپنی کار میں لے کر چلے تھے۔شب کے کوئی ڈیڑھ بجے منزلِ مقصود ہاتھ آئی، لیکن کیا خوب کسی نے کہا ہے
حسرت پہ اس مسافرِ بیکس کی روئیے
جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے
منزل پہ پہنچے تو یہ مسافر تھکن سے ایسا چور تھا کہ عمرہ کے ادائیگی تھوڑے آرام پر مؤخر کرنا پڑی۔ ہوٹل میں اُتر کرکچھ کھا کر اور ایک دو گھنٹے آرام کر کے ہمت ہوئی کہ کم از کم طواف کرلیا جائے،پھر چاہے سعی صبح پر مؤخر ہو۔اور ایسا ہی ہوا۔ سعئ صفا و مروہ صبح پر مؤخر ہوئی۔یہاں اس کم ہمت کو بتا دینا چاہیے کہ عمر کے ۸۸ سال اس نے پورے کر لیے ہیں اورطوارف و سعی میں کلیتاً نہیں تو جزوی طور پر وہیل چیئر کی مدد ناگزیر تھیِ۔طواف الحمد للہ ہوگیا۔زہے قسمت ،زیارتِ بیت اللہ ایک بار پھر اس عاصی کے لیے مقدر تھی۔
نازم بچشمِ خویش کہ روئے تو دیدہ است
لیکن چالیس برس کے فاصلہ نے بڑا فرق اس وقت کے اور اُس وقت کے طواف کے درمیان کردیا۔اسِ دفعہ صحن مطاف میں تل دھرنے کی جگہ نہ پائی، سہ روزہ قیام میں تمام طواف بالائی منزل پر ہی کرنا پڑے، جبکہ اُس وقت موسم حج والااژدہام ہونے کے باوجود سارے طواف صحنِ مطاف ہی میں میسر آئے تھے۔چالیس برس میں عالم اسلام کی آبادی بھی کچھ سے کچھ ہوگئی ہے اورلوگوں میں استطاعت بھی بحمد اللہ اضعافاًمضاعفہ۔اب وہاں شاید سال بھر یہی عالم رہتا ہے اور حج کا اژدہام تو پھر حج کا اژدہام۔
عالیہ سلمہا کے علاوہ ہمارے گھرانے کی ایک اور بیٹی(عالیہ اور ہارون کی خالہ زاد بہن اورمیرے چچا زاد کی بیٹی) بھی اس دیار میں عین سرزمین مکہ پر سکونت پائے ہوئے ہے۔ہمیں مکہ مکرمہ میں قیام کے لیے جو ہوٹل میسر آیا ،جو ایک طرف نہایت اعلیٰ درجہ کا اور دوسری طرف عین حرم شریف سے لگا ہو، یہ کارنامہ اسی نسرین سلمہا کے بیٹے محمد مکی کا تھا جو اس ہوٹل کے اسٹاف میں ہیں۔ ہم تواس سطح کے ہوٹل میں قیام کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے مگر مکی سلمہ کی بدولت اللہ عمّ نوالہ نے اس شاندار ہوٹل میں تین دن قیام کی سہولت عطا فرمائی۔ اور مکی جو بالکل ہی سادہ عام مؤمنانہ وضع میں رہتے ہیں، اللہ نے ایسا رسوخ انھیں اس ۲۸ منزلہ ہوٹل میں بخشا ہے کہ کمرہ انھی کے نام پر بک ہوا اور مدینہ کے لیے رخصت ہوتے و قت جب کمرہ چھوڑا گیا تو مکی ہارون سلمہ کو لے کر بل کی ادائیگی کو چلے اور واپسی پر جو ادائیگی ہارون میاں نے بتائی، وہ کسی کم سے کم معیار کے ہوٹل میں بھی نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کے لیے صحیح لفظ ’’ایک غریبا مؤ بل‘‘ ہوسکتا ہے۔ مکی کو تو دعا ملنی ہی چاہیے، ہوٹل کی انتظامیہ کی شرافت کے لیے بھی جو کچھ کہا جائے کم ہے۔ ہوٹل مغربی مگر برتاؤ عرب سرزمین پر بالکل عربی اور مشرقی۔
ہم اتوار اور دوشنبہ کی درمیان شب میں مکہ مکرمہ پہنچے تھے اور اگلے اتوار ہی تک کا وقت ہمارے پاس تھا۔ خود میرے اپنے پا س تو وقت ہی وقت تھا، مگر عزیزی ہارون نے محض میری خاطر اپنی کارو باری مصروفیت سے وقت نکالا تھا جس کے لیے ایک ہفتہ ہی بہت تھا۔ بہر حال ہمیں اتوار کو واپس ہو جانا تھا، پس مدینہ منورہ کے لیے بدھ کو روانگی کا پروگرام بنا کہ شب میں وہاں پہنچ جائیں اورجمعہ کی شام تک رہ کر مکہ مکرمہ کو واپسی ہو اورہفتہ کے دن ایک عمرہ کی اور سعادت حاصل کرکے جدہ کی راہ لے لیں جہاں ہفتہ اتوار کی درمیانی شب عالیہ سلمہا کے گھر گزار کر اس سفر کا آخری ’’رکن‘‘ ادا کردیا جائے۔ مغرب کے قریب مدینۂ منورہ کے لیے بذریعۂ ٹیکسی روانگی ہوئی۔ پانچ چھ گھنٹے کی مسافت تھی۔ کوئی گیارہ بجے اس شہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخلہ کی عزت پائی جسے اس زمین کا آسماں کہیے۔ عزیزی شمعون نے وہاں ہم لوگوں کی خواہش کے مطابق مسجدِ نبوی کے بالکل قریب ایک ہوٹل میں کمرہ بک کرایا تھامگر وہاں بیسیوں ہوٹلوں کے ہوتے ہوئے رش کا یہ عالم تھا کہ کمرہ صرف اگلی دوپہر تک کے لیے ملا۔ تاہم اتنے وقت کے لیے بھی یہ قربت میسر آنی بڑی چیز تھی،مگر افسوس کہ جیسا فائدہ اس قرب سے اُٹھایا جا سکتا تھا، یہ عمر رسیدہ ہڈیاں اس کی متحمل نہ ہو پائیں۔ مزید برآن پروانوں کے ہجوم کا وہ عالم کہ روضۂ مقدسہ کی جالی کے قریب ہوکر عرضِ سلام کا موقع بھی ایک ہی بار مل سکا۔ بعد ازاں تو دورہی سے رسمِ سلام ادا ہوئی۔اور ریاض الجنّہ میں قدم رکھنے کی سعادت تو کجا، اس کی دید سے بھی آنکھیں شاد کام نہ ہو سکیں۔ مگر شکر کہ سلام کے لیے جالی(مواجہہ شریف) پر حاضری میسر فرمادی گئی، ورنہ احساسِ محرومی نے کہیں کا نہ رکھا ہوتا۔اگرچہ رحمۃٌللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے در سے محروم لوٹنے کا سوال کہاں ؟طوافِ کعبہ کے لیے میرے جیسے جانے والوں سے بیشک کہا جاسکتاہے کہ’’ برونِ در چہ کردی کہ درونِ خانہ آئی؟‘‘ (کس منہ سے طواف کو آئے ہو؟) مگر رسول اللہ کی ردائے رحمت میں تو عبد اللہ بن اُبی جیسے سردارِ منافقین کے لیے بھی وہ گنجائش تھی کہ زمین و آسمان حیرت سے تکیں۔
اور لیجیے حرمِ مکی کے بعد حرمِ مدنی (مسجد نبوی)زادہُ اللہ تعظیماً وَّ تکریماً میں جس تبدیلی سے آنکھیں چار ہوئیں، اس کے بیان کے لیے تو الفاظ اپنے پاس نہیں، مختصر کہیے کہ بقعۂ نور بنادیا گیا ہے ۔ جدھر کو نگاہ اُٹھتی ہے ’’کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست‘‘ کا مضمون بنتا ہے۔پھر اس پر وسعت، کہ ہر چہار سمت کا کنارہ ڈھونڈھتے نگاہ تھک جائے۔ یاد آتا ہے کہ توسیع کے اس کام کی بنا اس وقت پڑرہی تھی جب چالیس برس پہلے حاضری ہوئی تھی۔اب کہا جا سکتا ہے کہ بظاہر مکمل ہوگئی۔یہاں توسیع اور تزئین و آرائش پر جو بے اندازہ دولت خرچ ہوئی ہوگی، اس کا خیال کرکے ایک بار پھر شاہانِ سعود کے لیے دعا گوئی کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ اور دعا ہے کہ اللہ ان کو بقدرِ اخلاص پوری پوری جزا اپنی شانِ کریمی کے مطابق دے۔ لیکن ایک بات دونوں جگہ(حرمِ مکی اور مدنی) کھٹکی، کہ اس توسیع اور تزئین کا کام جن شاہانِ سعود کے ہاتھوں ہوا ہے، دونوں جگہ ان کے نام نمایاں کیے جانے کا اہتمام رہا۔یہ دو بالخصوص ملک فہد اور ملک عبد اللہ تھے۔ہر دو حرمین میں داخلہ کے دروازے ان کے نام سے بڑے جلی طور پر موسوم ہوئے ہیں ، بابُ ملک فہد۔ باب ملک عبد اللہ۔ جبکہ ان مقامات پر توحق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ساتھیوں اور جانشینوں کا تھا۔ بابُ سیدنا ابوبکر الصدیقؓ ہوتا، بابُ سیدنا عمربن الخطابؓہوتا،باب سیدنا عثمان بن عفانؓ ہوتا اور بابُ سیدنا علی المرتضیٰ ہو۔ ہاں کسی جگہ تختی لگی ہوتی تو مضائقہ نہ تھا کہ اس توسیع و تزئین کی خدمت فلاں اور فلاں خادمِ حرمین کے ہاتھوں انجام پائی ۔اور افسوس کہ یہ تکدر یہیں نہیں رکتا۔ مدینہ منورہ سے لوٹتے میں سڑکوں کے ناموں پر نظر گئی تو بصد رنج دیکھا کہ ابو بکرِ صدیقؓ اور عمر الفاروقؓ کے مقدس ناموں کو طریق ابوبکر اور طریق عمر بن الخطاب کر کے سڑکوں کے ناکوں پہ ٹانگ دیا ہے۔ کیسے کہا جائے اور کیسے نہ کہا جائے
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
جی ہاں ،توجمعرات کی ظہر آگئی جس تک کے لیے مسجد کے قریب ہوٹل کا کمرہ بک تھا اور ’’حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد‘‘ کے مصداق ظہر مسجد نبوی میں پڑھ کر کمرہ خالی کردیا گیا اور میاں شمعون اپنی گاڑی لے کر ہمیں دوسرے ٹھکانے پر لے جانے کے لیے آگئے۔ یہ ماشاء اللہ بڑا وسیع آرام دہ مکان تھا ، البتہ مسجد شریف سے فاصلہ پر۔میاں شمعون کے دوست جناب سلیمان ظفر صاحب فقط اپنے صاحبزادہ کے ساتھ اس کے مکین تھے۔اس کے زیادہ آرام دہ ہونے ہی کی وجہ سے شمعون سلمہ نے اس کا انتخاب کیا اور واقعی بہت آرام دہ رہا۔ پھر صاحب خانہ کا حسن اخلاق اور مخلصانہ پذیرائی اس پر مستزاد۔ خدا ہر طرح کی برکتوں سے نوازے کہ زائرین شہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پذیرائی کو سعادت جانا۔ وہاں سے عصر کے لیے تو حرمِ نبوی جانے کا موقع نہ تھا، مغرب عشاء الحمد للہ وہیں میسر آگئی۔ پھرجمعہ کی فجر حرمِ نبوی میں ادا کرکے شمعون اور ہارون سلمہما نے توجہ دلائی کی جنۃ البقیع کی زیارت کی جائے۔ اسے پایا کہ یہ تو چالیس سال پہلے کے مقابلہ میں کلیتاً بدل گئی ہے۔ قبریں نہیں رہیں ۔ ہر قبر کے سرہانے ایک پتھر گاڑ کر قبر کا نشان کردیا گیا ہے اور ان کی تعداد بے شمار۔ پھر وہاں جانے کے ڈھلوان راستہ کی دونوں طرف سے حد بندی کردی گئی ہے۔ نیز بس فجر کے بعد ہی کچھ وقت کے لیے یہ قبرستان کھولاجاتا ہے۔ بظاہر یہ وجہ تھی کہ راستہ زائرین کے لیے لمحہ بہ لمحہ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ ایک کشمکش کی صورت تھی۔ اسی میں ہارون سلمہ کا ساتھ بھی چھوٹ گیا تھا اور میں جب تن تنہا جد و جہد کرتا ہوا اوپر قبرستان کے سطح کے قریب ہونے کو ہوا، تب تو تنگی کی وہ کیفیت ہوئی کہ بس دم گھٹ جائے گا، مگر اللہ نے دستگیری فرمائی اور پہرے پر متعین ایک شرطی نے اپنی طرف بڑھا ہوا میراہاتھ تھام کے اوپر آجانے کا سہارا مجھے دے دیا۔ فللہ الحمد۔ ضرورت ہے کہ سعودی حکام کو اس طرف توجہ دلائی جائے کہ زیارتِ بقیع کے لیے وقت بڑھایا جانا چاہیے۔
اس زیارت کے بعد بخیر واپسی ہوئی توضرورت تھی کہ کچھ ٹانک ملے۔ شمعون سلمہ جن کے پاس وہیل چیئر تھی، انھوں نے جلد ہی اندازہ کرکے کہ وہ اس بھیڑ میں پار نہ ہو سکیں گے، واپسی اختیار کرلی تھی اورپیچھے جوکھجوریں بیچنے والے اس عرصہ میں آگئے تھے، ان سے ایک ڈبہ خرید لیا تھا۔ وہ اس ضرورت کے وقت بہترین ٹانک بن گیا۔ نہایت نفیس رسیلی کھجوریں تھیں۔ تازہ دم کردیا اور ہمت ہوئی کہِ قبا چل کر مسجد ’’اُسِّسَ علیٰ التقویٰ مِنْ اوّلِ یومٍ ‘‘ میں دو رکعت نماز کے فضیلت حاصل کریں ا ور شہدائے اُحد کی بھی زیارت سے ان شہیدانِ راہِ خدا کی یاد تازہ کی جائے۔ اللہ نے یہ ارادہ بھی اپنے کرم سے پورا کرادیا۔اللہ ان شہدائے کرام کے درجے بڑھائے او ر اس مسجد کی عظمت ورونق۔ یہ خاصا لمبا پروگرام تھا۔واپس قیام گاہ پر آئے ،کچھ سستائے اور پھر جمعہ کی نمازکے لیے مسجد نبوی،مگر بڑاافسوس رہے گا کہ اپنے بعض اعذار کی مجبوری سے نماز کے لیے نکلنے میں دیر ہوئی اوربہت پچھلی صفوں میں جگہ مل سکی۔ افسوس اپنی جگہ مگر تسلی بھی تھی کہ
میخانے کا محروم بھی محروم نہیں ہے
مجمع غالباً جمعہ کی وجہ سے اتنا تھا کہ مسجد سے باہر بھی صفیں بنیں۔ہم بہر حال اندر تھے۔
لیجیے ایک جمعہ بھی خانۂ کعبہ کے بعد کے درجہ کی اس مسجد نبی اُمی میں نصیب ہوگیا۔اس سے کیا زیادہ ایک نا لائق کو چاہیے؟ اب تیاری واپسی کے سفر کی ہے۔قیام گاہ پر پہنچے،کھانا کھایا اوراگلے سفر کی تیاری میں کچھ دیر کے لیے لیٹنا اور سو لینا ضروری ہوا۔ عصر پڑھ کر لیٹ رہے۔ مغرب سے فراغت کرکے ایک ٹیکسی مکہ مکرمہ کے لیے لی اور ایک بار پھر دربارِ الٰہی میں حاضری کو چل دیے۔ راستے میں مسجد میقات پر رک کر احرام باندھا، عشاء کی نماز سے فراغت کی اور اب سفر تلبیہ کے ساتھ حالت احرام میں شروع ہوا۔عزیزم محمد مکی کو اطلاع دی جا چکی تھی اور انھوں نے پھر اپنے ہوٹل میں کمرہ بک کرا لیا تھا۔ اور اس دفعہ ہوٹل نے ہمیں اپنا مہمان بنالیاتھا، یعنی نام کو بھی کچھ لینا دینا نہ تھا۔ ایک طرف اپنی گناہوں بھری زندگی تھی اور ایک طرف مالک کے گھر میں یہ پذیرائی کی جیسی باتیں!ایک معمہ تھا سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔
خدا نہ کرے کہ آزمائش رہی ہو۔
مکہ مکرمہ میں عمرہ کرنے بعد پروگرام چونکہ سیدھے جدہ جانے کا تھا، اس لیے فرحان (ابن ذیشان) سلمہ پیشوائی کے لیے مع کچھ ما حضر پہنچے ہوئے تھے۔ معدہ کی ضیافت کی ،کچھ دیر آرام کیا اور فجر ہو گئی۔ میرا تو جی آرام کو چاہتا تھا مگر ہارون سلمہ نے تھوڑا سا چائے پانی کرکے جب کہا کہ چلیں عمرہ کرلیں تو عذر کرنے کو جی نہ چاہا۔ پس نو بجے کے اندر یہ فریضہ بھی ادا ہوگیا۔اورپھر ناشتہ کرکے جو ہوٹل کی طرف سے بڑے شاندار پیمانے پر ہوتا تھا، اس سفر کے آخری ’’رُکن‘‘ (یعنی ایک شب عالیہ سلمہا کے گھر گزارنا) کی ادائیگی کے لیے جدہ کو چل پڑے۔ مگر افسوس رہے گاکہ یہ ادائیگی بس نام کی ہو ئی۔مدینہ منورہ سے روانگی کے وقت گلے میں کچھ خراش شروع ہوئی تھی،عمرہ کی ادائیگی تک تو وہ د بی رہی مگراس کے بعد جیسے اسے آزادی مل گئی۔جدہ پہنچتے پہنچتے اس نے کافی پر پرزے نکال لیے۔ اور دوسرے صبح تک سینہ پر نزلہ کی تکلیف نے پوری شدت اختیار کرلی جبکہ اسی صبح کو لکھنؤ کا سفر بھی کرنا۔ اسی حال میں ایر پورٹ پہنچے۔مگر وہاں پتہ چلا کہ ہم لیٹ ہوگئے، پس گھر واپس جانا ہے۔بہت گرانی ہوا ۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ اس میں اس گنہگار کے لیے بھلائی تھی۔ طبیعت کی خرابی تیزی سے بڑھتی جارہی تھی اوراس کی بنا پر ضرورت تھی کہ ڈاکٹر سے رابطہ ہو۔سفر ملتوی ہوجانے کی بناپر جدہ ہی میں یہ کام ہوگیا اور پتہ چلا کہ نزلہ کا معاملہ تو اتنا نہ تھا، بلڈ پریشر تھا جو خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا ۔اس کے بعدضرورت تھی کہ سفر ختم ہو تو پوری طرح آرام و راحت کی جگہ ملے۔ اس کا انتظام اس طور پر ہوا کہ اگلے دن کے لیے لکھنؤ کی سیٹ بہت مہنگے داموں مل رہی تھی اور اس کا بدل یہ تھا کہ جدہ سے لکھنؤ کا سفر براستہ دلّی کیا جائے۔ چنانچہ اس کو اختیار کیا گیا اور اس کے نتیجہ میں اللہ نے مجھے دلی پہنچانے کا انتظام کردیا ،جومیرے اس حال میں میرے لیے بہترین نتظام تھا کہ دلّی بڑے بیٹے عبیدسلمہ کا گھر ہونے کی وجہ سے میرا گھر اور علاج کی بھی بہترین سہولت گویا دروازہ ہی پر میسر۔
شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدیؒ
مولانا مفتی منیب الرحمن
۴ فروری ۲۰۱۶ء جمعۃ المبارک کی شب کو آفتاب علم غروب ہو گیا۔ اردو کا محاورہ ہے ’’اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے‘‘، لیکن یہ آفتاب علم تو غروب ہو گیا، مگر تفسیر تبیان القرآن، تفسیر تبیان الفرقان، شرح صحیح مسلم او ر نعمۃ الباری یعنی علوم قرآن وحدیث کے فیضان کی صورت میں اپنا نور پیچھے چھوڑ گیا ہے جو ان شاء اللہ العزیز آنے والی صدیوں تک تشنگان علم کو فیض یاب کرتا رہے گا۔
فارسی کا مقولہ ہے ’’ہر گلے را رنگ وبوئے دیگر است‘‘، یعنی ہر پھول کی اپنی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر شخص کا استحقاق ہے کہ وہ علم کی دنیا میں جسے چاہے اپنا آئیڈیل قرار دے، کیونکہ ہر شخص کی پسند وناپسند، ترجیحات اور معیارات اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ میری دیانت دارانہ رائے کے مطابق اردو بولنے، لکھنے اور پڑھے جانے والے ہمارے اس خطے میں تفسیر وحدیث کے میدان میں جتنا کام علامہ غلام رسول سعیدی نے تیس سال میں کیا ہے، گزشتہ نصف صدی میں اتنا تحقیقی، وقیع اور علمی کام کسی اور کا نظر نہیں آتا۔ ہمیں تسلیم ہے کہ ہر دور میں اصحاب علم اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے گئے ہیں اور ہر صاحب علم کے کام میں ان کے منہج اور مزاج کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی تفرد، تفوق اور امتیاز ضرور ہوتا ہے، لہٰذا یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کسی ایک صاحب کمال کی تحسین وتعریف سے دوسروں کی نفی یا ان پر تنقید یا ان کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی، صرف ایک حقیقت واقعی کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔
اردو زبان میں علامہ صاحب کی تفسیر تبیان القرآن سب سے مبسوط، مفصل او رمدلل تفسیر ہے۔ آج کی تاریخ تک یہ اردو زبان کی واحد تفسیر ہے کہ جس میں تفسیر القرآن بالقرآن اور تفسیر القرآن بالحدیث کو بالترتیب درجہ اولیٰ اور ثانیہ میں رکھا گیا ہے۔ اس کے بعد آثار صحابہ وتابعین، پھر ائمہ مجتہدین کے اجتہادات وآرا کو ترجیح دی گئی ہے۔ جدید تحقیقی ، طبی اور سائنسی تحقیقات کے بھی آپ نے دوران تفسیر حوالے دیے ہیں۔ تمام احادیث اصل مآخذ کے حوالہ جات اور رقم الحدیث کے ساتھ درج ہیں اور یہ سارا کام انھوں نے اپنی علمی ریاضت اور مشقت سے (Manually) کیا ہے، انھیں کمپیوٹر تک رسائی (Access) نہیں تھی۔ صحیح بخاری کی احادیث کی ترقیم (Numbering) اور ان احادیث کے دیگر کتب حدیث میں حوالہ جات کے ساتھ جدید صحیح بخاری ابھی بیروت سے چھپ کر نہیں آئی تھی کہ آپ نے اپنے زیر تربیت طلبہ کے ذریعے نہ صرف صحیح بخاری بلکہ بعض دیگر کتب احادیث کی ترقیم خود کرائی۔ آپ کی دیگر تصانیف میں تذکرۃ المحدثین، مقالات سعیدی، توضیح البیان، مقام ولایت ونبوت، تاریخ نجد وحجاز، ذکر بالجہر اور متعدد دیگر وقیع کتب شامل ہیں۔
آپ کی تفاسیر اور شروح حدیث میں جا بجا ایسی معرکۃ الآرا علمی وتحقیقی ابحاث شامل ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کو مستقل رسائل کی صورت میں ایڈٹ کر کے طبع کرایا جا سکتا ہے اور ہم ان کے نام سے منسوب ’’سعید ملت فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے ایک علمی، تحقیقی اور تصنیفی ادارہ قائم کرنے کی تدبیر کر رہے ہیں۔ وسائل کی دست یابی کی صورت میں ان شاء اللہ العزیز اس کام کو منظم، مربوط اور خوب صورت انداز میں سامنے لانے کی سعی کی جائے گی۔
حضرت کا جنازہ پاکستان کے بڑے تاریخی، منظم اور علمی وروحانی شکوہ سے بھرپور جنازوں میں سے ایک تھا۔ مجھے سیکڑوں علما ومشائخ اور لاکھوں عوام کی موجودگی میں ٹی گراؤنڈ فیڈرل بی ایریا کراچی میں آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کی تدفین جامع مسجد اقصیٰ کے احاطے میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی بے پایاں مغفرت سے نوازے اور آپ کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت مقبولہ اور قربت نصیب ہو اور رب کریم آپ کے درجات کو بلند اور آپ کی گراں قدر دینی خدمت کو تاقیامت صدقہ جاریہ فرمائے۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)
شیخ الحدیث حضرت مولانا صدیق احمدؒ
سبوح سید
گذشتہ برس بہاؤالدین زکریا یونی ورسٹی ملتان میں ماس کمیونی کیشن میں ایم فل کے لیے داخلہ لیا تو ملتان جانا ہوا۔ ہفتہ اور اتوار کلاس ہوتی تھی۔ ایک روز جامعہ خیر المدارس کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری برادر بزرگوار محترم قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کو فون کیا کہ ملتان میں ہوں، ملنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کراچی ہیں، لیکن حکم دیا کہ ’’آپ کو ہر صورت خیر المدارس جانا ہے‘‘۔ ہم حکم کی تعمیل میں جامعہ خیر المدارس گئے اور رات وہیں قیام کیا۔
خیر المدارس ملتان شیخ الحدیث مولانا خواجہ خیر محمد جالندھری کا لگایا ہوا پودا ہے جس کے سایے میں ہمہ وقت قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں گونجتی ہیں۔ والد محترم نے کچھ عرصہ خیر المدارس میں پڑھا تھا۔ جامعہ کے ناظم حضرت مولانا نجم الحق صاحب نے مدرسے کا دورہ کرایا۔ وہ خود ایک باکمال شخصیت ہیں۔ میری خواہش تھی کہ میں ان کے حوالے سے ایک مضمون لکھوں ۔ پاکستان میں وہ پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے خود کش حملوں کے خلاف ۲۰۰۴ء میں تحقیقی مقالہ لکھا ۔ یہ مقالہ عالمی فورمز پر پڑھا گیا۔ آج لوگ اس مقالے سے اہنے مقالے تیار کرتے ہیں، لیکن انہیں اس وقت اچھا نہیں کہا گیا۔ جامعہ خیر المدارس کا بہت خوبصورت اور صاف ستھرا ماحول دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ اساتذہ سے ملے۔ اتنا بہترین نظم و نسق آپ کو کم ہی کہیں دکھائی دیتا ہے۔ مدرسے میں واقع قرآن ہال دیکھا۔ درختوں کے سایے میں خوبصورت تالاب اور تالاب کے کنارے قدیم طرز تعمیر کی عالیشان مسجد اور مسجد کے سامنے دارلحدیث واقع ہے۔ ہم نے مولانا خیر محمد جالندھری اور مولانا محمد شریف جالندھری کی مرقد پرفاتحہ خوانی کی۔
میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ جہاں جاؤں ، صاحبان علم سے خاص طورعلم کی خیرات ضرور حاصل کروں، یہی توشہ آخرت ہے۔ مولانا نجم الحق صاحب نے بتایا کہ دار الحدیث حدیث کے عقب میں شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق صاحب رہائش پزیر ہیں۔ مولانا تقریباً ساٹھ برس سے جامعہ خیر المدارس میں پڑھا رہے ہیں۔ ان کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ انہوں نے یہیں سے تعلیم حاصل کی اور پھر تدریس بھی یہاں ہی کی۔ ملاقات کی خواہش کی تو انہوں نے طلب فرمایا۔ مولانا منظور احمد صاحب، اقبال بالاکوٹی صاحب، مولانا نجم الحق صاحب کے فرزند عداس نجم صاحب، دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ناصر فرید صاحب، ہم سب ان کی خدمت میں اکٹھے حاضر ہوئے۔ ان کے پاس بیٹھے، کئی باتیں کی۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی کے قصے سنائے۔ میں نے ان سے مدرسے کی خوبصورت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’ حضرت آپ ضرور خیر المدارس کے رومانوی ماحول کا شکار ہوئے ہیں جو یہاں سے گئے نہیں۔ کندھے پر تھپکی دی اور ہنس پڑے۔
میری خواہش پر حصول برکت کے لیے انہوں نے بخاری شریف کتاب الایمان سے دو احادیث پڑھائیں۔ اصرار کے ساتھ چائے پلائی۔ مجھے لگا کہ ان کا کمرہ محبتوں کا ایک حصار تھا جہاں سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا! جی ہاں یہ وہی کمرہ تھا جہاں صبح و شام رسول اللہ کی باتیں ہوتی تھیں ، اس سادہ سے کمرے میں اتنا سکون تھا کہ اگر اسے تقسیم کیا جائے تو پورے ملتان میں بٹ جائے، لیکن ہم جیسے دماغ کے سودوں کو دل کے سودوں پر ترجیح دے دیتے ہیں اور ساری زندگی خسارے میں گذارتے ہیں۔
فرمایا: پاکستان مسجد کی طرح مقدس ہے. اس میں کسی قسم کا انتشار اور تفرقہ پھیلانا خود اپنے وجود کو عذاب میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ پھر پاکستان کے حوالے سے اپنا رقم کردہ ایک کتابچہ دیا۔ (جامعہ خیر المدارس کے منتظمین کو چاہیے کہ وہ اس کتابچے کو کثیر تعداد میں شائع کروا کے تقسیم کروائیں۔ ) نصف گھنٹہ سے زیادہ ان کے صحبت میسر رہی ۔ ان سے دعاؤں کی درخواست کی تو انہوں نے محبت سے بار گاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھا کر ہمارے لیے دعا کی اور مجھے وہ قبول ہوتی نظر آ نے لگی۔ ہم نے دست بوسی کی سعادت حاصل کی، انہوں نے سر پہ اپنا ہاتھ پھیرا اور ہم باہر چلے آئے۔ میں اس جگہ حاصل ہونے والے سکون کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔
آج صبح جاگا تو موبائل پر پیغام تھا کہ یادگار اسلاف ، استاذ العلماء شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق صاحب اس عارضی دنیا کو اپنے علم و عرفان سے مہکانے کے بعد الوداع ہو چکے ہیں۔ ذہن میں اتنا سا خیال آیا کہ جانا تو سب نے ہے، لیکن کاش ان کے جانے سے پہلے ایک ملاقات اور ہو جاتی۔ ان کے جنازے میں پورا شہر امڈ آیا تھا۔ نہ کوئی عہدہ اور نہ سلطنت، صدیق کی صداقت کی گواہی ملتان کی سوگوار فضا، آہیں اور سسکیاں دے رہی تھیں۔
برادر مولانا عبد القدوس محمدی صاحب نے لکھا کہ ان کے جانے کے بعد ہم دعاؤں کے ایک اور دَر سے محروم ہو گئے۔ واقعی اتنی بے لوث اور محبت بھری دعائیں اور کون دے سکتا ہے۔ اللہ حضرت کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے متعلقین اور اقربا کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
بابائے سوشلزم
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ
یادش بخیر! ایک شیخ رشید ہوا کرتے تھے، بابائے سوشلزم۔ پہلے "آزاد پاکستان پارٹی" میں تھے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس کے بانی رکن بنے ۔ تب لوگ پیپلز پارٹی کو ایک مزاحیہ فلم سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ شیخ صاحب مرحوم سوشلزم کا درس پہ درس دیتے رہتے۔ مگر کم علم اور ان پڑھ لوگوں کو کیا پتہ کہ سوشلزم کیا ہوتا ہے۔ ا ستحصال کسے کہتے ہیں۔ اضافی پیداوار وآلات پر کسی کا حق ہونا چاہیے۔ انہیں تو بس ذوالفقار علی بھٹو نے مسحور کر رکھا تھا۔ ایسا جاوو سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ کسی کو سوشلزم کا پتہ وتہ کچھ نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کا مطلب ذوالفقار علی بھٹو اور بس بھٹو تھا ۔ ۷۰ء میں جب عام انتخابات کا اعلان ہوا تو لوگ دنگ رہ گئے کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب اور سندھ میں کس طرح جھاڑو پھیر کر مغربی پاکستان میں اتنی بڑی اکثریت حاصل کر لی ہے، حالانکہ جماعت اسلامی ان انتخابات کے نتیجے میں اپنی آنے والی حکومت کی کابینہ بھی مکمل کر چکی تھی۔ مگر اس کے میاں طفیل محمد صاحب کو شیخ رشید نے چاروں شانے چت کر دیا۔ اور ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ ان کی کابینہ میں وزیر صحت مقرر کیے گئے۔
پیپلز پارٹی نے جہاں آئین بنایا، وہاں دیگر معاملات میں بھی بہت قانون سازی کی جن میں ایک شاہکار کا رنامہ دوائیوں کا "جنرک " نام بھی تھا۔ یعنی اگر ایک کمپنی کوئی دوائی بناتی ہے اور اُسے اپنے نام سے اگر دس روپے میں فروخت کرتی تو "جنرک" نام کی بدولت اسی فارمولے کا استعمال کرتے ہوئے کمپنی کے نام کی بجائے دوائی ایک یا دو روپے کی ہوتی۔ کمپنیوں کی لوٹ مار ختم ہو گئی۔ کمپنیوں کے سرمایہ دار مالکان نے بہت شور کیا مگر جس قانون کو عوام کی تائید حاصل ہو، بھلا وہ کب ختم ہوتا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں پیپلز پارٹی نے " ڈرگ ایکٹ" پار لیمنٹ سے منظور کروا کے نافذ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد جو چند قوانین عوامی فلاحی وبہبود کے لیے بنائے گئے، ان میں یہ ایکٹ بڑا اہم اور جامع ہے۔ ۷۷ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب ضیا ء الحق نے اقتدار سنبھا لا تو جہاں ہیروئین کے سوداگروں، ناجائز اسلحہ کے بیوپاریوں، لاکھوں شرپسند افغانیوں اور علمائے سو کی موجیں لگ گئیں، وہیں مالکان کی بھی، خواہ و مکانوں اور دکانوں کے تھے یادواساز کمپنیوں کے، خوب سنی گئی ۔ دوائیوں کی قیمتیں دن بدن بڑھنا شروع ہو گئیں۔ اوراُس کے بعد پھر آج تک رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ دواساز کمپنیوں کے مالکان نے اب اطمنان سے اپنا اگلا وار کیا اور جعلی دوائیاں بنا بنا کر لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ اور پاپڑ منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بنا دیا ۔ یہ ایک دلچسپ واقعہ بھی ہے اور المیہ بھی کہ پنجاب کے ایک گورنر چوہدری الطاف حسین مرحوم جب دل کے علاج کے لیے امریکہ گئے تو ہسپتال میں جب ان کے زیر استعمال دوائیوں کا لیبارٹری میں معائنہ کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ گورنر صاحب کو جو دوائیاں سپلائی کی جاتی تھیں، وہ تو جعلی تھیں۔ اس جعلی اور اصلی کے چکر میں ہی گورنر الطاف دل کی بازی ہار کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔
پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں محکمہ صحت کی جانب بڑی توجہ دی گئی۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے علاوہ صوبہ بھر میں وکلاء صاحبان کا علاج آدھے سے بھی کم خرچے پر ہوتا تھا ۔ عام آدمی کو مفت اور معیاری دوائیاں اورٹیسٹ دستیاب تو تھے ہی، مگر 1122 بنا کر خلق خدا کر ہمیشہ کے لیے اپنا ممد وح بنا لیا۔ انتخابات میں فتح وشکست اصلاحات کی بنا پر تھوڑی ہوتی ہے، یہ تو ایک طر ح کی MANAGEMENT ہوتی ہے جو بساط بچھا کر عالمی طاقتیں پاکستان میں کھیل رچاتی ہیں اور یہ بساط الٹا بھی دیتی ہیں۔ پھر دنیا کے چند امیر ترین لوگوں میں شامل ایک "خادم " پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا تو اس کی برادری کے لوگوں کی بھی سنی گئی۔ وہ بھی نیچے سے نے نکل کر اوپر آگئے اور پارلیمنٹ سمیت نوکر شاہی اور دیگر اداروں پر قبضہ کر لیا جو تاحال جاری ہے۔ پہلے پہل تو لوگوں کو اس سے نجات کی کوئی توقع تھی، مگر گزشتہ دنوں اخبارات میں چھینے والی ایک تصویر نے ان کے ارمانوں کا خون کر دیا اور وہ مایوسی کی اندھیر نگری میں چلے گئے۔
اس وقت جعلی، زائد المیعاد، بلاوجہ مہنگی اور غیر ملکی موت بانٹنے والی جعلی دوائیوں سے گوداموں کے گودام بھرے پڑے ہیں۔ کوئی گلی ایسی نہیں جس کی نکڑ پر یہ مکروہ دھندا نہ ہورہا ہو ۔ ایسے بھی کئی ہنر مند ہیں جو ایسی جنسی دوائیوں کی ہوم ڈیلیوری بھی کرتے ہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ اسپتالوں کے اردگرد میڈیکل سٹور اور لیبارٹریاں کیوں اتنی زیادہ ہوتی ہیں؟ اس لیے کہ لوگوں کو ہسپتالوں سے مفت دوائی اورٹیسٹ دستیاب نہیں۔ محکمہ صحت میں ایک افسر ہوتا ہے جسے "ڈرگ انسپکٹر" کہا جاتا ہے جو دودھ کے دھلے تو ہر گز نہیں ہوتے، پھر بھی کوئی نہ کوئی دیانتدارانسپکٹر قسم توڑنے کے لیے ہی سہی، ان سٹوروں، عطائیوں اور لیبارٹریوں پر چھاپے مار ہی لیتا ہے۔کچھ ایسے ہیں جو کبھی نہ کبھی کچھ کارکردگی دکھانے کے لیے ہی سہی کاروائی کرتے ہیں اور کیس درج کر کے متعلقہ اتھارٹی یعنی DCO کو ارسال کر دیتے ہیں۔ یہیں سے اصل برائی شروع ہوتی ہے۔ جب کیس DCO کے پاس جاتا ہے تو موت کے سوداگر عوامی نمائندے فون کرتے ہیں اور DCO موت بانٹنے والوں کو چائے پلائے بغیر دفتر سے نہیں جانے دیتا اور کام بھی کر دیتا ہے ۔
آج ان حالات میں قدم قدم پر بابائے سوشلزم شیخ رشید مرحوم کی بہت یاد آتی ہے۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو معاشروں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ اللہ کروٹ کروٹ انہیں جنت نصیب کرے ۔ ان سے آخری ملاقات نیویارک میں ہوئی تھی جہاں امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک کے انسانی حقوق کے ایک بڑے عالمی پروگرام میں وہ مہمان خصو صی کے طورپر شریک ہوئے اور ایک عالم کو اپنے خیالات کا قائل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔
مکاتیب
ڈاکٹر محمد شہباز منج
محترم المقام جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
گستاخی معاف !"الشریعہ "کے فل فلیج مدیر بننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو مضامین کی عبارتوں میں کان کی جگہ آنکھ اور آنکھ کی جگہ کان لگانے کی اجازت مل گئی ہے۔ مدیر کا یہ اختیار تسلیم کہ وہ ضرورت کے تحت ایڈٹنگ کر لے ، لیکن یہ اختیار تو کوئی معقول آدمی قبول نہ کرے گا کہ متعلقہ مضمون میں سوال گندم اور جواب چنا کی کیفیت پیدا کر دی جائے۔ راقم الحروف نے "ممتاز قادری کی سزا: اپنی معروضات پر اعتراضات کا جائزہ" کے عنوان سے فروری 2016ء کے "الشریعہ" کے لیے جو مضمون بھیجا، اسے مکاتیب میں جس حالت میں شائع کیا گیا، اس پر (نرم سے نرم الفاظ میں) سخت کوفت ہوئی۔ ایک طرف تو مضمون کی عبارتوں کی عبارتیں حذف کر دی گئیں اور دوسری طرف ان کو باہم جوڑتے ہوئے یہ بھی خیال نہ رکھا گیا کہ معترضین کے کس سوال کا کیا جواب ہے! (الفاظ کے" حسن استعمال" کی "مہربانی" الگ ہے۔ پہلے ہی جملے سے مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ مضمون کا کیا حشر کیا گیا ہوگا: "ممتاز قادری کی سزا کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے" ایک جملے میں "کے حوالے سے" کی اس تکرار نے ہی میرے کانوں سے دھواں نکال دیا تھا)۔ شائع شدہ مضمون دیکھ کر مضمون نگار کے بارے میں جو تاثر پید ہوتا ہے، وہ حرف و تحریر سے انس رکھنے والا کوئی فرد برداشت نہیں کر سکتا (حتی کہ آپ اپنے بارے میں بھی نہیں)۔ "الشریعہ" ایسے موقر رسالے میں اپنی تحریر کا یہ حال دیکھ کر پہلی دفعہ احساس ہوا کہ کاش میں نے یہ مضمون نہ بھیجا ہوتا یا آپ نے اسے شائع نہ کیا ہوتا! پوچھ ہی لیا ہوتا کہ جگہ کی تنگی کے باعث مختصر شائع کرنا ہے تو میں اختصار بھیج دیتا یا عرض کر دیتا کہ فلاں فلاں جگہ کو حذف کر دیں! میرا آپ سے پر زور مطالبہ ہے کہ اس خط اور وضاحت کے ساتھ مضمون کا درج ذیل حصہ دوبارہ شائع کریں، اور یہ اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ "الشریعہ" پر اپنے حق کا مان رکھتا ہوں۔
"ممتاز قادری کے حوالے سے سپریم کورٹ نے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس پر تحفظ شریعت کانفرنس کے عنوان سے، بعض علما کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ سزاقرآن و سنت اور چودہ سو سالہ اجماع کے خلاف ہے۔ راقم نے ان علما کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے ، دسمبر 2015ء کے 'الشریعہ " میں، "ممتاز قادری کی سزا: تحفظ شریعت کا نفرنس کے فیصلے پر ایک نظر" کے عنوان سے ایک مضمون میں دلائل سے ثابت کیا کہ توہین رسالت پر سزائے موت کے قانون کے ہوتے ہوئے، کسی شخص کا توہینِ رسالت کے کسی ملزم کوماوراے عدالت قتل کرنا ،شرعی نقطہ نظرسے غلط ہے؛ لہٰذا زیر بحث کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بے جواز نہیں۔اس پر بعض کرم فرماؤں کی جانب سے کچھ اختلافات واعتراضات سامنے آئے۔ان سطور میں ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جا رہی ہے۔میرے موقف سے متعلق معترضین کے افکار و دلائل کچھ اس طرح سے ہیں:
1) توہینِ رسالت کا مر تکب، فقہا کے نزدیک مباح الدم ہے جس کے قتل کرنے والے کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ تادیباً کوئی تعزیر ی سزا دی جائے گی؛ لہٰذا ممتاز قادری کو سزائے موت دینا غلط ہے؛ کوئی تعزیری سزا دی جا سکتی ہے۔
2) مقدمہ چلنے کے بعد، قرائن سے، جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ سلیمان تاثیر نے توہین رسالت کی تھی، تو اس کے قاتل کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔
3) آپ ایسے لوگ، اس طرح کے دلائل سے، یہود و نصاریٰ کو خوش کرنا چاہتے ہیں؛ آپ ان کی پیروی ہی کیو ں نہیں کر لیتے تاکہ وہ خوش ہو جائیں!؛ لیکن قرآن کا فیصلہ ہے کہ وہ خوش نہیں ہوں گے۔
اب ہم ان اعتراضات و دلائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
جہاں تک آخری بات کا تعلق ہے، تو سچ یہ ہے کہ ہم خود کو ، اس معاملے پر کوئی دلیل پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں پاتے؛ اس لیے کہ کس کی کس کو خوش کرنے کی نیت ہے؟ اس کی دریافت اتنا مشکل کام ہے کہ ہمارے کرم فرما ہی اتنی آسانی سے کر سکتے ہیں!؛ہم لوگوں کے باطن میں اتر کر ان کے مسائل اور بیماریوں کی تشخیص کا(اگر کچھ جان بھی سکیں تو) اتنا فن نہیں جانتے کہ آدمی کو دیکھے ، ملے اور جانے بغیر اس کے باطن پر حکم لگا سکیں۔ہاں ! اپنی صفائی کی بات ہو سکتی ہے۔لیکن وہ بھی معترضین ایسے مسکت دلائل سے رد کر سکتے ہیں جن کا، ہمارے پاس، ہمیں اقرار ہے، کہ کوئی جواب نہیں ہو گا۔ مثلا: وہ کہہ سکتے ہیں: تم اوپر اوپر سے صفائیاں پیش کر رہے ہو؛ اندر تمھارے وہی کچھ ہے،جو ہم عرض کر رہے ہیں۔سو دوسری اور پہلی بات ہی کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہماری بساط میں ہے۔
دوسری دلیل کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ مقدمے، ثبوت اور عدالتی کاروائی سے متعلق ایک بے مثل عجوبہ ہے۔ یعنی کسی کے جرم کے حق میں دلائل اس کا کام تمام کرنے کے بعد فراہم کیے جا سکتے ہیں !بعد میں اگر پتہ چلے کہ ملزم مجرم تھا،اور اس کی بنا پر کسی شخص نے اسے قتل کر دیا تھا، تو اب قاتل کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی!۔ثبوتِ جرم کا یہ طریقہ عدالتوں کو بہ طورِ رہنما اصول اپنانا چاہیے اور قاتل کو نہ صرف اس وقت تک مہلت دینی چاہیے، جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ قاتل مقتول کو قتل کرنے میں حق بہ جانب تھا؛ اور قاتل کو مقتول کے قتل پر سزا دینے اور سزا کے حق میں دلائل تلاش کرنے کی بجائے ان شواہد پر نظر رکھنی چاہیے، جو مقتول کے خلاف مرورِ زمانہ سے مہیا ہوئے ہیں۔کیا قانون ، عدالت اور مقتول کے ساتھ اس سے بڑا مذاق ممکن ہے!۔ ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہوں : بھلا یہ دلیل بھی کوئی دے سکتا ہے!، لیکن یہ دلیل دی گئی ہے ؛ اور ایک مشہور صاحبِ" ماہنامہ" کی جانب سے دی گئی ہے۔
اس دلیل کی لغویت کو ایک طرف رکھیں اور صرف اس زمینی حقیقت ہی کو دیکھ لیں کہ زیر نظر کیس میں جب قاتل نے مقتول کو قتل کیا ؛ اس وقت قاتل کے حق میں فضا زیادہ تھی ، یا بعد میں زیادہ ہوئی!۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ بعد میں فضا قاتل کے مخالف ہوتی گئی؛ اور ان لوگوں کی طرف سے بھی اس کے اقدام کو غلط قرار دیا گیا ،جو واقعے کے ابتدائی دنوں میں اس کے حق میں دلائل دیتے اور نعرے لگاتے تھے۔راقم ایسے بیسیوں صاحبانِ علم کو جانتا ہے، جو ابتدا میں یہ کہتے تھے کہ سلیمان تاثیر کا قتل درست تھا؛ لیکن بعد میں اس کے قائل ہو گئے کہ یہ قتل غلط تھا؛ اس کے بر عکس میں ایک بھی بندے کو نہیں جانتا ، جو پہلے ممتاز قادری کے اقدام کو غلط سمجھتا تھا، لیکن بعد میں اس کا جواز پیش کرنے لگا۔ گویا بعد کے حالات نے تو یہ ثابت کیا کہ مقتول کو ایک فرضی اور غیر ثابت شدہ الزام پر،بہت سے دیگر محرکات اور اس کے خلاف ایک خاص فضا پیدا ہوجانے کے نتیجے میں ،رد عمل کی نفسیات کے تحت ،موت کے گھاٹ اتارا گیا؛ نہ کہ ایک صحیح الزام پر قتل کیا گیا!؛ تو اگر بعد کے ثبوتوں پر ہی جانا ہے، تو بھی مذکورہ کیس میں کورٹ کا فیصلہ درست قرار پاتا ہے، نہ کہ اس کے بر عکس۔
خود عدالت نے بھی ،اپنے تفصیلی فیصلے میں، یہ کہا ہے کہ ملزمِ توہینِ رسالت کو ایک فرضی توہین کے پیش نظر قتل کیا گیا؛ اس بات کا کوئی ثقہ ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ مقتول نے واقعی توہین رسالت کی تھی۔میں نے اپنے محولہ مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ایک مسلمان جج، جو قانون کے مطابق توہین رسالت پر سزائے موت دینے کا اختیار رکھتا ہے، وہ صرف اسی صورت میں سزاے موت کو ٹال سکتا ہے، جب اس کو یقین ہو کہ توہین نہیں ہوئی؛ یا اس میں شک ہے؛ اور صرف اسی صورت میں توہین سالت کے ملزم کو مار دینے والے کو سزاے موت دے سکتا ہے، جب اسے یقین ہو جائے کہ قاتل نے بغیر کسی یقینی بات کے کسی کو توہینِ رسالت کا مجرم سمجھ کر قتل کیا ہے۔ ایک مسلمان جج ،کتنا گیا گزرا بھی ہو، قانون کے ہوتے ہوئے توہین رسالت کے معاملے میں سمجھوتا نہیں کر سکتا! عدالت چاہتی تو صرف اس بنیاد پر بھی سزا سناسکتی تھی کہ قاتل نے قانون ہاتھ میں لیا؛ لیکن اس نے اس بات کو بہ طورِ خاص پیش نظر رکھا کہ قاتل نے بلا ثبوت اور بے جواز اقدام کیا؛ مقتول کے معاملے میں توہین کا کوئی واضح ثبوت نہیں تھا۔
اب آئیے مباح الدم کے مسئلے کی طرف۔مرتد یا گستاخِ رسول کے مرتد اور اس کے نتیجے میں مباح الدم ہو جانے میں علما کے اختلاف سے قطع نظر ، سوال یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے ، کسی شرعی امر کے تحت کسی کے مباح الدم ہو جانے کا، بہ طورِ خاص ایک نظم ریاست میں ، اور وہ بھی وہاں ، جہاں ایسے مسئلے پر باقاعدہ قانون موجود ہو،یہ مطلب کیسے لیا جا سکتا ہے کہ اس کو کوئی بھی شخص قتل کر سکتا ہے!؛اور ایسے قاتل کو عدالت سزاے موت نہیں دے سکتی!
کسی مسلم کے مباح الد م ہونے کے حوالے سے، شریعت کا عام طور پر بیان ہونے والا معروف ضابطہ یہ ہے کہ تمام مسلمان محفوظ الدم ہیں ، بغیر کسی شرعی سبب کے ان میں کسی کا خون حرام ہے۔وہ شرعی وجوہ جن سے کسی مسلمان کا خون حلال ہوتا ہے، حدیث کی رو سے تین بیان کی جاتی ہیں:
1۔ کسی کو نا حق قتل کرنا۔
2۔شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا ارتکاب کرنا۔
3۔کسی مسلمان کا مرتد ہو جانا۔
حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
عَنِ ابنِ مَسعْودٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسْولْ اللہِ صَلَّی اللہْ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: لا یَحِلّْ دَمْ امرِئ مْسلِمٍ اِلاَّ باِحدی ثَلاثٍ: الثَّیِّبْ الزَّانِی، وَالنَّفسْ بِالنَّفسِ، وَالتَّارک لِدِینِہِ المْفَارِقْ للجمَاعَۃِ (مسلم)
"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جومسلمان اس بات کی گواہی دیتا ہوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اس کی جان بس ان تین وجوہ میں سے کسی ایک وجہ سے لی جا سکتی ہے: (1) جان کے بدلے جان۔ (2) شادی شدہ زانی۔ (3) دین کو ترک کرنے والا؛ جماعت سے الگ ہو جانے والا۔"
فقہا کے مطابق ان میں کوئی بھی وجہ ہو تو مسلمان محفوظ الدم نہیں رہتا؛مباح الدم ہو جاتا ہے۔لیکن ان میں سے کسی بھی وجہ کے تحت آنے والے کسی شخص کو سزاے موت دینے کا اختیار، انفرادی طور پر کسی فرد کے پاس نہیں ہے؛ بلکہ یہ امراسلامی حکومت یا نظم ریاست کے دائرہ کار میں آتا ہے۔اصولی طور پر ان وجوہ میں سے کسی بھی وجہ کے تحت مباح الدم ہونے والے کو انفرادی حیثیت میں قتل کرنا؛ اسی طرح قتلِ نا حق ہے ؛ جیسے کسی بھی شخص کو ناحق قتل کرنا۔
گستاخِ رسول کو عام مرتد سے مختلف بتا کر اس کے قاتل سے رعایت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر گستاخ پر حد لاگو ہوتی ہے، تو حد کو انفرادی حیثیت سے میں کس دلیل سے جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے!۔اس ضمن میں آں جناب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانب سے توہین رسالت کے مجرموں کو انفرادی حیثیت میں قتل کرنے اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، قاتل کوکسی سزا کا مستحق نہ ٹھہرانے کی، بعض مثالوں سے جو استدلال کیا جاتا ہے، اس استدلال کی غلطی کی طرف راقم نے اپنے محولہ مضمون میں اشارہ کیا تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ توہین رسالت پر قتل کے ایسے تمام واقعات اسلامی نظم و قانون سے ماورا اور ذاتی حیثیت میں اقدام ثابت ہی نہیں کیے جا سکتے!۔ اس سلسلے میں سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ایک شخص کو قتل کر دینے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پر نکیر نہ فرمانے والے واقعے کے علاوہ، جو روایت کثرت سے پیش کی جاتی ہے، وہ ابوداود کی یہ روایت ہے:
"حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی ام ولد باندی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کے شان میں گستاخیاں کرتی تھی، یہ نابینا اس کو روکتا اور زجر وتو بیخ کرتا تھا،مگر وہ نہ رکتی تھی۔ یہ اسے ڈانٹتا تھا، مگر وہ نہیں مانتی تھی۔راوی کہتا ہے کہ جب اس نے ایک رات پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں اور آپ کو گالیاں دینا شروع کیں، تو اس نابینا نے ہتھیار لیا اور اسکے پیٹ پر رکھا اور اس پر اپنا وزن ڈال کر دبا یا اور مار ڈالا، عورت کی ٹانگوں کے درمیان بچہ نکل آیا، جو کچھ وہاں تھا ، خون آلود ہوگیا۔جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر ہوا۔آپ نے لوگوں کو جمع کیا ، پھر فرمایا : اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے یہ کام کیا، جو کچھ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے،تو نابینا کھڑا ہوگیا؛ لوگوں کو پھلانگتا ہوا ، اس حالت میں آگے بڑھا کہ وہ کانپ رہا تھا، حتی کہ حضور کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا : یارسول اللہ! میں ہوں اسے مارنے والا!؛ وہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی؛ میں اسے روکتا تھا؛ وہ نہ رکتی تھی ؛ میں دھمکاتا تھا، وہ باز نہ آتی تھی ؛ اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں ایسے ہیں ؛اور وہ مجھ پر مہربان بھی تھی؛لیکن آج رات جب اس نے آپ کو گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا اور اس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اسے مار ڈالا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! گواہ رہو، اس کا خون بے بدلہ ہے۔"
اب ذرا تصور کیجیے! ،اس سے ثابت کیا ہو رہا ہے!: ایک آدمی نے بار بار سمجھانے پر نہ سمجھنے والی اپنی ایک باندی کو توہین رسالت پر قتل کیا؛ معاملہ رسول اللہ کی عدالت میں لایا گیا؛ ملزم ڈر تا کانپتا پیش ہوا ( جس سے مترشح ہے کہ اسے حضور کی جانب سے سزا نافذ کیے جانے کا اندیشہ تھا)۔ آپ نے صورتِ حال کے تجزیے سے فیصلہ فرمایا کہ متعلقہ کیس میں باندی کا خون بے بدلہ ہے۔ اس سے یہ کس منطق کے تحت ثابت ہوا کہ اب قیامت تک،جس بھی شخص کے بارے میں، بعض لوگ یہ کہیں ، یا کوئی بھی شخص خود سے یہ سمجھے کہ اس نے توہین کی ہے، اور اس کو بلا کسی زجر وتوبیخ اور سمجھانے بجھانے اور یہ یقین کرنے کے کہ اس سے متعلق سنی سنائی بات کی کیا حقیقت ہے، توہین رسالت کا مجرم قرار دے کر قتل کر دے، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حدیث میں مذکور واقعے کے ذیل میں آتا ہے!؛ اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے، اس میں بھی مقتول کے خون کو بے بدلہ قرار دینا چاہیے! کیا شریعت اور اس کے فلسفہ جرم و سزا اور نفاذِ و حدود و تعزیرات پر، اس سے بڑا ظلم ہو سکتا ہے!اگر ایک یا چند مثالیں قیامت تک کے ہر رنگ کے واقعات پر سزا کے معاملے کو دو اور چار کی طرح طے کر دیتی ہیں،تو یہ ثبوت، گواہیاں ، عدالتیں ، قاضی کس مرض کی دوا ہیں؟
اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی فلاطونی عقل کی ضرورت نہیں کہ جو اقدام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا ہو اور آپ نے اس پر نکیر نہ فرمائی ہو، وہ انفرادی اور ماورائے عدالت قرار ہی نہیں دیا جا سکتا! کیا عدالت و حکومت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی چیز تھی! بدیہی حقیقت ہے کہ کسی اقدام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جائز قرار دینا، ریاست اور عدالت کا اسے جائز قرار دینا ہے۔اگر زیرِ بحث کیس میں بھی ریاست قاتل کے اقدام کو درست قرار دے ، تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے!؛ یہ رسول اللہ کے طریقے کے مطابق ہو گا۔ لیکن ماورائے ریاست ایسا اقدام آں جناب کی سنت و ہدایت کی پیروی نہیں؛ واضح طور پر اس کی مخالفت ہے۔"
بہ الفاظِ دیگر توہینِ رسالت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیانفرادی اقدامات کو یا اس تو حوالے سے قانونی تصور کرنا چاہیے کہ آں جناب نے خود اس پر نکیر نہ کر کے یا انہیں برداشت کرکے قانونی بنا دیا اور یا سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اقدامات استثنائی ہیں؛ اور استثنا سے قانون ثابت نہیں ہوتا۔ حضور اور مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے مختلف اعمال کے حوالے سے بہت سی استثناآت ملتے ہیں جو خاص افراد کے لیے اور محدود تناظر کی حامل ہیں؛ساری امت اور اس کے تمام افراد کے لیے نہیں ہیں اور نہ ہی آفاقی ہیں کہ انہیں قیامت تک ہر شخص کے معاملے تک ممتد قرار دیا جائے۔ہماری عام مذہبی ذہنیت کا عجیب المیہ ہے کہ بعض استثنائی مثالوں کو لے کر اس پر ساری شریعت کا مدار رکھ لیتی ہے ،لیکن اس کے برعکس شریعت کے عام اور معلوم ومعروف اصول و قانون کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔شریعت کا یہ اصول مسلمہ ہے کہ ملزم کو صفائی اور اپنی پوزیشن کی وضاحت کا موقع ملنا چاہیے ؛اور عدالت کو معاملے کی تحقیق کے بعد ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر اسے سزا دینی چاہیے۔یہ وہ اصول ہے جو قرآن و حدیث سے بھی واضح ہے اور عہد نبوی و خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے ملزموں سے متعلق فیصلوں اور عدالت و قضا کی مسلسل اور ان گنت کاروائیوں سے بھی۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ بعض صحابہ کے انفرادی فیصلے تو ابدی قانون ہیں، لیکن قرآن و حدیث کے بیسیوں فرامین اور نبی اکرم اور خلفائے راشدین کے مسلسل اور ان گنت عملی فیصلے کوئی شرعی ضابطہ ہی نہیں!
یہ فیصلہ کہ مباح الد م کون ہے، کون کرے گا؟ یعنی کون یہ طے کرے گا کہ کسی مسلمان نے شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہے!؛ قتلِ ناحق کا ارتکاب کیا ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے کی بنا پر یا کسی اور سبب سے مرتد ہو گیا ہے!؛ تا کہ اسے قتل کی سزا دی جائے؟ ظاہر ہے کہ یہ کام ریاست اور اس کا مجاز ادارہ ہی کر سکتا ہے۔ علما یا شریعتِ اسلامی کے ماہرین کوئی تجویز یا مشورہ ہی دے سکتے ہیں؛ خود کوئی اقدام کر سکتے ہیں اور نہ کسی کو از خود اقدام کا کَہ سکتے ہیں۔خود اقدام کرنے والا قانونی اعتبار سے مجرم ہے ؛ اور اس کی قسمت کا فیصلہ ریاست کے سپرد ہے؛ جو اپنی سمجھ ، تحقیق اور قانون کے مطابق اس کو سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
اگرچہ یہ بات اپنی جگہ محل نظر ہے کہ مباح الدم کو ماوراے عدالت قتل کرنے پر قصاص نہیں ہو سکتا؛اس لیے کہ شریعت سے اس کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔لیکن زیر بحث کیس میں،قاتل کو ازروئے شرع قصاص میں قتل کرنے کے عدم جواز کا فتویٰ، اگر درست بھی تسلیم کر لیا جائے، تو بھی یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ مقتول نے توہین کی بھی تھی یا نہیں؟ جب توہین پر ناقابلِ تردید ثبوت ہی پیش نہ ہو سکا ہو، تو مقتول کا مباح الدم ہونا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی قاتل سے قصاص نہ لینے کے مطالبے کی کوئی حقیقت رہتی ہے۔
جہاں تک کوئی تعزیری سزا دینے کا تعلق ہے تو سوال ہے کہ تعزیری سزا کیا ہوتی ہے!؛ یہ عدالت اپنی مرضی سے نہیں دیتی کیا!؛ تو اگر عدالت ایک بندے کو سزاے موت دے دے؛ بلکہ اس پر کوئی جرمانہ وغیرہ بھی عائد کر دے ، تو آپ یہ کہیں گے کہ: نہیں! آپ کی یہ تعزیر ہم نہیں مانتے!؛ اس کو دوسال قید رکھ لیں؛ دس ہزار جرمانہ کر دیں! مزید برآں تادیب کیا صرف قاتل کی مطلوب ہے!؛ سوسائٹی اور ایسی ذہنیت رکھنے والے دیگر افراد اور ان کے محرکین کی نہیں!۔ تعزیر کو تو بہر حال، آپ کو عدالت پر ہی چھوڑنا پڑے گا کہ وہ جو سزا مناسب سمجھے دے دے۔لیکن تعزیری سزا کے موقف والوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے اصل کرم فرماؤں کا موقف تو یہ ہے کہ قاتل نے کوئی جرم کیا ہی نہیں؛ بلکہ اعلیٰ ترین نیکی انجام دی ہے؛ وہ سرے سے کسی سزا کا مستحق ہی نہیں؛ وہ تو انعام و اکرام کا مستحق ہے۔
فیصل آباد کا تین روزہ دعوتی و تبلیغی سفر
مولانا محمد عبد اللہ راتھر
حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کا ہر سال عیدالاضحی کی چھٹیوں میں تبلیغی احباب کے ساتھ سہ روزہ لگانے کا معمول ہے۔ اس سال سفر حج کے باعث اس سہ روزہ کی ترتیب ماہ جمادی الاولیٰ میں بنائی گئی اور ۱۶ تا ۱۸ مارچ تین دن کے لیے فیصل آباد میں مفتی زین العابدین رحمہ اللہ والی مسجد میں تشکیل ہوئی۔ منگل کے روز گوجرانوالہ مرکز میں حاجی اسحق صاحب کی ہدایات سننے کے بعد صبح نو بجے بیس علما کا قافلہ مختلف سواریوں پر گوجرانوالہ سے فیصل آبادروانہ ہوا۔ راقم الحروف اسی گاڑی میں تھا جس میں شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی تشریف فرماتھے۔
بات چل نکلی مصحف عثمانی کی تو حضرت نے فرمایاکہ یہ کل چھ نسخے تھے جن میں سے اس وقت دنیا میں صرف تین مصحف پائے جاتے ہیں: ایک ترکی میں، ایک لندن میں اور ایک تاشقند میں۔ فرمایا، کئی برس پہلے صنعاء (یمن) سے مصحف علوی کے دریافت ہونے کی خبر آئی تو مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: یہ خبر پڑھی ہے؟ میں نے لاعلمی ظاہر کی تو مجھے وہ خبر نکال کر دکھائی اور فرمایا: یہ کہیں مولیٰ علی کے نام پہ سازش نہ ہو۔ میں نے کہا: ہاں، یہ بھی ہو سکتا ہے۔ کہنے لگے: کیا پھر میں اس معاملہ کو دیکھوں؟ میں نے کہا: دیکھ لیں۔ مولانا چنیوٹی بڑے باذوق آدمی تھے۔ وہ سفر کر کے یمن (صنعا) گئے۔ایک ہفتہ وہاں رہ کر اس مصحف علی کو دیکھتے رہے۔ جن جن مقامات پر شبہ ہو سکتا تھا، انہیں خوب اچھی طرح دیکھا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ واقعی یہ مصحف علی ہی ہے، کوئی ڈراما نہیں، اور اس میں اور مصحف عثمانی میں کوئی فرق نہیں۔ جرمن تحقیق کار بھی وہاں ریسرچ کر رہے تھے۔ ان کی تحقیق کا طریقہ یہ ہے کہ سیاہی دیکھتے ہیں، کاغذ پر تحقیق کرتے ہیں، رسم الخط کی جانچ کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق بھی یہ مصحف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی نے فرمایا کہ چند ماہ قبل برمنگھم سے ان سب سے قدیم ’’مصحف صدیقی‘‘ دریافت ہوا ہے، یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کامصحف، لیکن وہ مکمل نہیں ہے۔ وہ لوگ اس کے باقی اوراق کو تلاش کر رہے ہیں۔
قاری ریاض احمد صاحب نے ایران کے سفر کے دوران آیت اللہ جنتی کے ساتھ حضرت مولانا زاہدالراشدی کے مکالمے کی تفصیل سننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ ایک مکالمہ مولانا چنیوٹی رحمہ اللہ کا آیت اللہ خزعلی کے ساتھ ہواتھا جبکہ دوسرا مکالمہ میرا آیت اللہ جنتی کے ساتھ ہوا تھا۔ پھر حضرت نے ان مکالموں کی تفصیل بیان کی۔ فرمایا کہ ان دنوں علامہ احسان الٰہی ظہیررحمہ اللہ کی کتاب "الشیعۃ والقرآن" کا عالم عرب میں کافی شور تھا جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ شیعوں کا موجودہ قرآن پر ایمان نہیں ہے۔ عراق کے صدر صدام حسین نے اس کتاب کے ایک ملین نسخے چھپوا کر تقسیم کروائے تھے۔ یہیں سے علامہ کے، صدر صدام سے تعلقات کی ابتدا ہوئی۔ علامہ احسان الٰہی ظہیرعراق کے اعزازی سفیرتھے۔
جب ۱۹۸۷ء میں پاکستان سے ایک وفد ایرانی حکومت کی دعوت پر ایران گیا تو ایک نشست میں آیت اللہ خزعلی نے کتاب"الشیعۃ والقرآن"ہاتھ میں لے کر کہا کہ یہ ہم پر بڑا بہتان ہے۔ ہم قرآن کو مانتے ہیں اور ہمارا اس قرآن پر پورا یقین ہے۔ چنیوٹی صاحب نے میرے کان میں کہا :مڑ چھیڑاں ایہنوں؟ (چھیڑوں پھر اس کو؟) میں کہا: چھیڑیں! تو مولانا چنیوٹی کھڑے ہوئے اور کہا: ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ ایک شیعہ عالم کی زبان سے ہم سن رہے ہیں کہ یہ قرآن برحق ہے اور ہمارا اس پر پورا یقین ہے، لیکن آپ کی روایات اس کے خلاف کہتی ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ آیت اللہ خزالی مسکرانے لگے اور کہا کہ آپ کے ہاں بھی تو علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ قرآن پاک کی آیات سترہ ہزار تھیں، جبکہ اب صرف چھ ہزار سے کچھ اوپر پائی جاتی ہیں۔ تو جیسے آپ علامہ سیوطی کی اس روایت کو نہیں مانتے، اسی طرح ہم بھی ان روایات کو نہیں مانتے۔ علامہ چنیوٹی کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ تو ایک روایت ہے، ہم اس کو نہ مانیں بلکہ پورے سیوطی کو بھی نہ مانیں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، جبکہ آپ کی تو صحاح اربعہ(جن کی حیثیت ان کے ہاں ہماری صحاح ستہ جیسی ہے) میں دو ہزار سے زائد روایات قرآن کا انکار کرتی ہیں، ان کاآپ کیا کریں گے؟ مولانا چنیوٹی نے دو چار روایات سنا بھی دیں جو انہیں زبانی یاد تھیں۔ اس پر آیت اللہ صاحب تھوڑا ٹھٹھکے۔ پھر فوراً سنبھل کر کہنے لگے کہ امام جعفر سے روایت ہے کہ جو بھی روایت قرآن سے ٹکرائے، اسے دیوار پہ دے مارو۔ لہٰذا ہم ان سب روایات کو دیوار پر مارتے ہیں۔ علامہ چنیوٹی پھر کھڑے ہوئے اور فرمایا: بہت اچھا۔ ہمیں آپ کا موقف سمجھ آگیا ہے۔ لیکن ایک بات بتا دیجیے، ہمارے ہاں جوتحریف قرآن کا قائل ہو، ہم اسے دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر مانتے ہیں۔ آپ کا ان روایات کے راویوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آیت اللہ خزعلی ڈائس چھوڑتے ہوئے کہنے لگے، آئیے چائے پییں۔ چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے اور مجھے کہیں جانا بھی ہے۔
فیصل آباد میں تقریباً چالیس چھوٹے بڑے مدارس میں گشت کے دوران علماء وطلبہ سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جامعۃ الحسنین، دارالقرآن، مدینۃ العلم، جامعہ عبیدیہ، کاشف العلوم اور جامعہ امدادیہ میں مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم کے بیانات ہوئے۔ بہت سے علماء اور شخصیات دور ونزدیک کے علاقوں سے حضرت سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے رہے۔ کئی ایک کے پاس آپ خودملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ تیسرے روز نماز ظہر کے بعد جامع مسجد عثمانیہ میں علماء کے ایک بڑے مجمع سے مولانا زاہد الراشدی نے خطاب فرمایا جس میں علماء کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے اور جدوجہد کا دائرہ وسیع کرنے کی ترغیب دی۔ فرمایا کہ اس وقت کے حالات بتاتے ہیں کہ اللہ جل شانہ ہم سے ناراض ہیں، چنانچہ ہمیں مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ اللہ جل شانہ کو راضی کرنے اور اس کے احکامات کی پیروی کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ آخر میں مفتی زین العابدین رحمہ اللہ کے صاحبزادے مولانا یوسف ثالث صاحب نے (جو مدینہ منورہ میں مقیم ہیں اور اِن دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں) تشکیل کے فرائض انجام دیتے ہوئے علماء کو اللہ کے راستے میں نکلنے کی ترغیب دی۔
’’مولانا محمد حسن امروہوی ۔ ایک تعارف، ایک تجزیہ‘‘
ادارہ
مصنف: مولانا محمد اورنگزیب اعوان۔
ناشر: کتاب محل، دربار مارکیٹ لاہور۔
ہندوستان میں ایک عالم تھے، محمد احسن امروہوی جن کا تعلق مسلکِ اہلحدیث سے تھا۔ انہوں نے بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی ایک کتاب ’’ادلہ کاملہ‘‘ کا جواب ’’مصباح الادلہ‘‘ کے نام سے لکھا تھا۔ اِس کا جواب شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے ’’ایضاح الادلہ‘‘ کے نام سے لکھا۔ یہی محمد احسن امروہوی مرزا غلام احمد قادیانی کے حلقہ بگوش ہو گئے اور قادیانیت کا ہی طوق گلے میں ڈالے آخرت کو سدھارے۔
اِسی زمانہ میں ایک اور عالم تھے، مولانا محمد حسن امروہویؒ جو نہ اہلحدیث تھے اور نہ ہی قادیانی ہوئے۔ جید عالم اور زاہد و عابد بزرگ تھے۔ مولانا فضل حق خیرآبادیؒ ، مفتی صدرالدین آزردہ دہلویؒ اور حکیم امام الدین دہلویؒ کے مایہ ناز شاگرد تھے۔ قرآن کریم کی فارسی اور اردو میں تفسیر لکھی۔ اس کے علاوہ تصوف اور دیگر موضوعات پر اُ ن کی گیارہ تصانیف موجود ہیں۔ بدقسمتی سے محمد احسن امروہوی قادیانی سے ملتے جلتے نام کی وجہ سے بعض اہلِ علم کو شبہ ہو گیا کہ یہ محمد حسن امروہوی، محمد احسن امروہی قادیانی ہیں، یہاں تک کہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیر ی بھی اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے۔ ان کے مایہ ناز شاگر مولانا محمد یوسف بنوری بھی مولانا محمد حسن امروہی مرحوم کو قادیانی ہی سمجھتے رہے اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی بھی ان کی تفسیر کے متعلق غلط فہمی کا شکار رہے۔
مولانا محمد اورنگ زیب اعوان نے مولانا محمد حسن امروہی کی وفات کے ۱۱۰ سال کے بعد بیسیوں کتابوں اور ہزاروں صفحات کی ورق گردانی کے بعد اس گرد کو صاف کرنے کا فریضہ سر انجام دیا اور ناقابل تردید حوالہ جات سے یہ ثابت کیا ہے کہ مولانا محمد حسن امروہی قادیانی نہیں تھے۔ مصنف نے ڈاکٹر شاہد علی، ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم، ڈاکٹر شکیل اوج، ڈاکٹر محمد حبیب اللہ چترالی، مولانا قاضی زاہد الحسینی، مولانا عبدالصمد صارم الازہری، جناب خلیق نظامی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا عبدالحی لکھنوی ندوی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی اور دیگر مشاہیر کی تحریروں کی کہکشاں سجا کر مولانا محمد حسن امروہی مرحوم کا تعارف پیش کیا ہے۔مولانا مناظر احسن گیلانی ایک مضمون ’’ہندوستان کا ایک مظلوم مولوی‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ میں مولانا محمد حسن امروہی کے دفاع میں لکھا تھا، اسے بھی شامل کتاب کر دیا گیا ہے۔
کتاب جہاں مصنف کی شبانہ روز محنت کا ثمرہ ہے، وہاں ناشر کے اعلیٰ ذوق کی بھی عکاس ہے۔ عمدہ کاغذ اور شاندار جلد سے مجلدیہ کتاب اپنے قدردانوں کی منتظر ہے۔
(قیمت: 300/- روپے۔ مکتبہ امام اہل سنت پر دستیاب ہے)
اپریل ۲۰۱۶ء
تعمیر معاشرہ اور احتجاج و مخاصمت کی نفسیات
محمد عمار خان ناصر
دہشت گردی یا انتہا پسندی کی سوچ کو عمومی طور پر اس طرز فکر کے حامل عناصر کے بعض اقدامات مثلاً خود کش حملوں وغیرہ کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی بھی اوسط سطح کے باخبر آدمی سے دہشت گردی کی سوچ کے متعلق سوال کیا جائے تو غالباً اس کا جواب یہی ہوگا کہ یہ وہ سوچ ہے جو بے گناہ لوگوں کا خون بہانے اور لوگوں کے اموال واملاک کو تباہ کرنے کو نیکی کا کام سمجھتی ہے۔ تاہم فکری سطح پر اس سوچ کا تجزیہ کرنے کے لیے مذکورہ تعریف ناکافی ہے، کیونکہ خون بہانا اور اموال واملاک کی تباہی اصل فکر نہیں، بلکہ اس فکر کا ایک نتیجہ اور ایک اظہار ہے۔ انتہا پسندی یا دہشت گردی کی اصل فکر ایک پورا بیانیہ ہے جس کی بنیاد ایک مخصوص ورلڈ ویو پر اور خاص طور پر دنیا کے موجودہ نظام طاقت (Power Structure) کے بارے میں ایک متعین نقطہ نظر پر ہے۔
اس فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ دور جدید کے جمہوری تصورات کے تحت قائم مسلم ریاستیں کسی بھی لحاظ سے اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات کی حامل نہیں، بلکہ معاشرے کی تشکیل میں ان مغربی اقدار اور تصورات کو تحفظ اور تقویت فراہم کر رہی ہیں جو خیر وشر کے اسلامی پیمانے سے مختلف اور متصادم ہیں۔ نیز یہ کہ مسلمانوں کے مقتدر طبقات نے اپنے شخصی وطبقاتی مفادات کی خاطر مغربی تہذیب کے غلبے اور مغربی جمہوری نظام کے سامنے نہ صرف سر تسلیم خم کر دیا ہے بلکہ نفاذ شریعت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے حلیف کا کردار بھی قبول کر لیا ہے اور اس ساری صورت حال کا حل اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور اس کی جگہ خالص اسلامی وشرعی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس طرز فکر کے حق میں بہت سے نظری وشرعی استدلالات بھی پیش کیے جاتے ہیں، تاہم بنیادی طور پر اس فکر کا ذہنوں میں پیدا ہونا شرعی دلائل پر کسی غور وفکر کا نتیجہ نہیں۔ اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے یہ ایک نفسیاتی ردعمل ہے جس میں انسانی ذہن ارد گرد کے ماحول کے ساتھ ایک خاص طرح کا منفی تعلق متعین کرتا ہے اور پھر اس کے اظہار کے لیے ایسے وسائل اور ذرائع تلاش کرتا ہے جو اس کے احتجاج، نفرت اور بے زاری کا ابلاغ شدت اور جارحیت کے ساتھ کر سکیں۔
اہم بات یہ ہے کہ سوچ کا یہ زاویہ ان عناصر کے ساتھ خاص نہیں جنھیں ہم ’’انتہا پسند‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کی پوری پوری عکاسی ہمیں اپنے یہاں کی عام مذہبی سوچ میں بھی ملتی ہے، اگرچہ عام مذہبی فکر کے مسائل وموضوعات اور ’’انتہا پسند‘‘ عناصر کے مسائل وموضوعات میں ظاہری طور پر کئی فرق موجود ہیں۔
دونوں میں مشترک چیز یہ ذہنی رویہ ہے کہ ماحول کے منفی اور ناپسندیدہ پہلوؤں پر حد سے بڑھی ہوئی حساسیت اور جھنجھلاہٹ کی عکاسی کرنے والا رد عمل ظاہر کیا جائے اور یہ فرض کر لیا جائے کہ گویا مثبت اور تعمیری طور پر کرنے کے لیے کوئی کام یا کام کے مواقع اور امکانات بالکل ناپید ہیں۔ اس ذہنی رویے کے نتیجے میں مذہبی ذہن ماحول کے صرف منکرات اور منفی پہلوؤں پر ارتکاز کرتا ہے اور اپنے طرز اظہار سے اس احساس کو مسلسل تقویت پہنچاتا ہے کہ یہاں مثبت طور پر کرنے کے لیے کوئی کام نہیں، ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں اور خاص طور پر اہل اقتدار کے خلاف احتجاج ہی واحد راستہ ہے جو موثر ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حکمران طبقوں، حتیٰ کہ آئینی وقانونی اداروں پر بے اعتمادی کی فضا کو فروغ دینا اور ہر معاملے میں تنقید کا ایسا اسلوب اختیار کرنا اس طرز فکر کا ایک لازمی تقاضا قرار پاتا ہے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہو کہ حکومت کا کوئی بھی اقدام جو مذہبی طبقات کے نزدیک غلط ہو، لازماً خلاف اسلام ہے، اسلام دشمن ایجنڈا کو آگے بڑھانے والا ہے اور اس کے پیچھے صرف اور صرف عالمی طاقتوں کا دباؤ یا انھیں خوش کرنے کا جذبہ کام کر رہا ہے۔ یہ طرز فکر چونکہ طبقاتی وگروہی سیاست کے قائدین کے لیے بے حد مفید مطلب ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنی سیاسی ضروریات کے لیے اس کا بھرپور استعمال کرتے ہیں اور قومی سطح پر اس کے ترجمان اور وکیل بن کر ہر طرح کے فکری، قانونی، سماجی اور سیاسی بحث ومباحثہ کو اس کا یرغمال بنا لیتے ہیں۔
یوں کسی تردد کے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری عمومی مذہبی فکر اپنے اظہاری رویوں کے ذریعے سے انتہا پسند فکر کو نہ صرف مسلسل غذا بہم پہنچاتی ہے، بلکہ اس کے پیش کردہ مقدمے کو بھی بالواسطہ بلکہ بعض صورتوں میں کھلی کھلی تائید فراہم کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شریعت اور اسلامی فقہ کا مزاج اور ترجیحات جس قدر anti-anarchist ہیں، ہمارے یہاں کی مذہبی فکر اور بالخصوص مذہبی سیاست میں گزشتہ تین چار دہائیوں سے اتنا ہی anarchist رجحانات نے فروغ پایا ہے۔ اس حوالے سے بعض طبقوں کے متعلق اس سے مختلف جو تاثر پایا جاتا تھا، حالیہ چند واقعات نے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ محض سطحی اور ظاہری تھا، ورنہ ہر طبقہ اپنی ترجیحات کے دائرے میں اصلاً اسی طرز فکر کا حامل ہے کہ اگر کسی خاص معاملے میں کوئی حکومتی یا ریاستی اقدام اس کے مذہبی فہم کے خلاف ہے تو پھر اس کے لب ولہجہ اور اسلوب تنقید میں اور ریاست کے ساتھ برسر پیکار انتہا پسند عناصر کے طرز استدلال میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔
ہمارے نزدیک ریاست، قانون اور معاشرتی نظم سے متعلق اس ذہنی رویے کی بنیاد طبقاتی پچھڑے پن کا وہ شدید احساس ہے جو عموماً اہل مذہب کے تحت الشعور میں کام کر رہا ہے اور انھیں یہ باور کراتا رہتا ہے کہ جس معاشرہ کی تشکیل ان کی پسند وناپسند کے مطابق نہیں ہوئی، وہ ان کی تعمیری کوششوں کا سزاوار ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ اگر کوئی کار خیر انجام دے سکتے ہیں تو بس یہی کہ اپنا وزن تخریب، انتشار اور بد نظمی پھیلانے والی طاقتوں کے پلڑے میں ڈالے رکھیں۔ اس نفسیاتی خول سے باہر نکلنا شاید اس وقت اہل مذہب کے لیے سب سے بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس نفسیات کے ساتھ تو ایک فرد، چند افراد کے ساتھ معمول کی زندگی نہیں گزار سکتا، چہ جائیکہ ایک پورا طبقہ، معاشرے میں کوئی مثبت اور تعمیری کردار ادا کر سکے۔ معاشرے کی قیادت وہی لوگ کر سکتے ہیں جو خود پر امید ہوں، لوگوں کو امید دلائیں اور مایوسی کی تاریکیوں میں امید کی کرنیں جلاتے چلے جائیں۔ جو حالات سے پیدا ہونے والی منفی ذہنیت کو مثبت رخ دیں اور لوگ ان کی باتوں میں اپنے دکھوں کا درمان پائیں۔ یہ کام سب سے بڑھ کر اہل مذہب کے کرنے کا ہے۔ اگر وہ خود ہی اس ذہنی کیفیت کا شکار ہو جائیں تو معاشرے کو دینے کے لیے ان کے پاس مایوسی، جھنجھلاہٹ اور انتہا پسندی کے علاوہ کچھ نہیں رہ جائے گا۔ وہ اگر اس نفسیات سے باہر نکل کر دیکھیں گے تو انھیں ماحول میں کرنے کا اتنا کام اور کام کے لیے اتنے ان گنت مواقع نظر آئیں گے کہ مایوسی، رنجش اور شکایت کی فرصت ہی نہیں ملے گی۔
مولانا وحید الدین خان نے معاشرے اور ماحول کو دیکھنے کے ان دونوں انداز ہائے نظر کو کیا خوبی سے واضح کیا ہے:
’’ایک صاحب سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی کہ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی میں کیا فرق ہے۔ میں نے کہا کہ تبلیغی جماعت مبنی بر مسجد (Masjid-based) تحریک ہے۔ اس کے مقابلہ میں جماعت اسلامی ایک مبنی بر پارلیمنٹ (Parliament-based) تحریک ہے۔ اس فرق کا نتیجہ یہ ہے کہ تبلیغ کو فوراً ہی اپنا میدان کار مل جاتا ہے، کیونکہ صرف ہندوستان میں اس وقت تین لاکھ مسجدیں ہیں اور ہر مسجد میں آڈینس (audience) بھی موجود ہے، جبکہ جماعت اسلامی کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ اس کا میدان عمل ابھی حاصل نہیں ہوا۔ اس کے نزدیک اصل میدان عمل پارلیمنٹ ہے اور پارلیمنٹ ابھی تک دوسروں کے قبضہ میں ہے۔
اس فرق کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ تبلیغ میں مثبت ذہن بنتا ہے اور جماعت اسلامی میں احتجاجی ذہن۔ تبلیغی جماعت کا آدمی ’پائے ہوئے‘ ذہن کے ساتھ جیتا ہے اور جماعت اسلامی کا آدمی ’کھوئے ہوئے‘ ذہن کے تحت۔ تبلیغی آدمی کے لیے ساری دنیا کے لوگ اپنے نظر آتے ہیں اور جماعتی آدمی کو ساری دنیا کے لوگ رقیب اور غیر دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۷)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۸۲) بأیمانھم کا مطلب
یمین کی جمع أیمان ہے۔ یمین کے معنی داہنے ہاتھ کے بھی ہیں اور داہنی جانب کے بھی ہیں۔ قرآن مجید میں یمین بھی آیا ہے اور أیمان بھی آیا ہے۔ یمین کا لفظ قرآن مجید میں دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اپنے افادات میں ایک قیمتی نکتہ ذکر کیا ہے کہ اگر یمین سے پہلے حرف (باء) ہو تو مطلب ہوگا داہنے ہاتھ میں اور اگر یمین سے پہلے حرف (عن) ہو تو مطلب ہوگا داہنی جانب۔ ذیل کی قرآنی مثالوں سے یہ نکتہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے:
وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَا مُوسَی۔ (طہ: ۱۷)
’’اور اے موسیٰ تمہارے داہنے ہاتھ میں وہ کیا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ یہاں جار مجرور بطور حال آیا ہے، اس کے ساتھ کسی فعل کا ذکر نہیں ہے۔ مَا مبتدا اور تِلْکَ خبر ہے، اس سے حال بِیَمِیْنِکَ ہے۔
فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِیْنِہِ۔ (الانشقاق:۷) اور (الحاقۃ: ۱۹)
’’تو جس کو اس کی کتاب اس کے داہنے ہاتھ میں دی گئی۔‘‘
مذکورہ بالا ان دونوں آیتوں میں یمین کے ساتھ حرف (باء ) آیا ہے، اور دونوں ہی جگہ اس کا مطلب داہنا ہاتھ ہے۔ جبکہ مذکورہ ذیل دونوں آیتوں میں یمین کے ساتھ حرف (عن) آیا ہے، اور دونوں ہی جگہ داہنی جانب کے معنی میں ہے۔
فَمَالِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا قِبَلَکَ مُہْطِعِیْنَ۔ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِیْنَ۔ (المعارج: ۳۶،۳۷)
’’تو ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ داہنے بائیں سے تم پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں، گروہ در گروہ۔ ‘‘
لَقَدْ کَانَ لِسَبَإٍ فِیْ مَسْکَنِہِمْ آیَۃٌ جَنَّتَانِ عَن یَمِیْنٍ وَشِمَال۔ (سبا:۱۵)
’’اہل سبا کے لیے بھی، ان کے مسکن میں، بہت بڑی نشانی موجود تھی۔ داہنے اور بائیں دونوں جانب باغوں کی دو قطاریں۔‘‘
اسی طرح مذکورہ ذیل آیت میں یمین کی جمع لفظ أیمان آیا ہے، یہ بھی داہنی جانب کے معنی میں ہے۔
ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَن شَمَآئِلِہِمْ۔ (الاعراف:۱۷)
ہم مترجمین کے یہاں دیکھتے ہیں، کہ وہ قرآن مجید کے ان تمام مقامات پر جہاں یمین یا أیمان کے ساتھ باء یا عن آیا ہے وہاں مذکورہ بالا اصول کے مطابق ہی ترجمہ کیا ہے، البتہ دو مقامات ایسے ہیں جہاں یمین کی جمع أیمان کے ساتھ حرف (باء ) آیا ہے، اور اس لحاظ سے ترجمہ داہنے ہاتھ کا ہونا چاہیے تھا، لیکن عام طور سے ترجمہ کرنے والوں نے داہنے جانب کا ترجمہ کیا، چند ترجمے یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:
(۱) یَسْعَی نُورُہُم بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَبِأَیْْمَانِہِم۔ (الحدید: ۱۲)
ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔(سید مودودی)
دوڑتی چلتی ہے ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے داہنے۔(شاہ عبدالقادر)
ان کا نور ان کے آگے اور ان کی داہنی طرف دوڑتا ہوا۔ (اشرف علی تھانوی)
their light shining forth before them and on their right hands,. (Pickthal)
their light running forward before them and by their right hands. (Hilali & Khan)
مولانا امانت اللہ اصلاحی آیت کے مذکورہ ٹکڑے کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’ان کا نور ان کے آگے آگے رواں دواں اور ان کے دائیں ہاتھ میں ہوگا‘‘ ۔
نحوی ترکیب کے پہلو سے نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ فعل ’’یسعی‘‘ کا تعلق صرف ’’من بین أیدیھم‘‘ سے ہے، ’’بأیمانھم‘‘ سے نہیں ہے۔ ’’بأیمانھم‘‘ یہاں بجائے خبر ہے جس کا مبتدا پہلے مذکور نور کی ضمیر ہے۔
مذکورہ ذیل انگریزی ترجمہ بھی اوپر بیان کردہ اصول کے مطابق ہے:
their light running forward before them and in their right hands. (Mubarakpuri)
(۲) نُورُہُمْ یَسْعَی بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَبِأَیْْمَانِہِمْ۔ (التحریم:۸)
ان کی روشنی دوڑتی ہے ان کے آگے اور ان کے داہنے۔ (شاہ عبدالقادر)
ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑتا ہوگا۔ (اشرف علی تھانوی)
ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ (سید مودودی)
ان کی روشنی ان کے آگے آگے اور ان کے دہنے چل رہی ہوگی۔(امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی آیت کے مذکورہ ٹکڑے کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’ان کی روشنی ان کے آگے آگے رواں دواں ہوگی اور ان کے دائیں ہاتھ میں بھی ہوگی‘‘۔
مذکورہ ذیل انگریزی ترجمہ بھی بیان کردہ اصول کے مطابق ہے:
Their light will run forward before them and in their right hands. (Mubarakpuri)
مشہور مفسر اور ماہر لغت علامہ ابوحیان کی مذکورہ ذیل عبارت کے مطابق جمہور کی رائے یہی ہے کہ ان کے داہنے ہاتھ میں نور ہوگا جس سے سامنے بھی روشنی ہورہی ہوگے، البتہ وہ ایک رائے ذکر کرتے ہیں جس کی رو سے یہاں باء عن کے معنی میں ہے، اور مفہوم داہنی جانب کا ہے۔
والظاھر أن النور یتقدم لھم بین أیدیھم ، ویکون أیضا بأیمانھم، فیظھر أنھما نوران: نورٌ ساعٍ بین أیدیھم، ونورٌ بأیمانھم فذلک یضیءُ الجھۃ التی یؤُمُّونھا، وھذا یضیءُ ما حوالیھم من الجھات۔ وقال الجمھورُ: النور أصلہ بأیمانھم، والذی بین أیدیھم ھو الضوءُ المنبسط من ذلک النور۔ وقیل: الباءُ بمعنی عن، أی عن أیمانھم، والمعنی: فی جمیع جھاتھم۔ وعبّر عن ذلک بالأیمان تشریفاً لھا۔ (البحر المحیط فی التفسیر: ۱۰؍۱۰۵)
تاہم قرآن مجید کے تمام استعمالات کی روشنی میں اور خود دونوں آیتوں کے سیاق کلام کی روشنی میں بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے، کہ باء کو عن کے معنی میں لیا جائے، بلکہ زیادہ مناسب یہی ہے کہ باء کو باء کے معنی میں ہی مان کر ترجمہ کیا جائے۔
(۸۳) انظرونا کا مطلب
نظر کا فعل مختلف صیغوں کے ساتھ قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر آیا ہے، کہیں پر یہ حرف الی کے صلہ کے ساتھ آیا ہے، تو کہیں براہ راست مفعول بہ کے ساتھ، نظر کے دو معنی ہوتے ہیں، دیکھنا اور انتظار کرنا،
عام طور سے اہل لغت یہ ذکر کرتے ہیں کہ انتظار کرنے کے معنی میں نظر اس وقت ہوتا ہے جب وہ براہ راست مفعول بہ کے ساتھ ہو، البتہ دیکھنے کے معنی میں وہ ہر دو صورت میں ہوتا ہے، خواہ حرف الی کے ساتھ ہو، یا براہ راست مفعول بہ کے ساتھ ہو۔
نظرہ کنصرہ وسمعہ ، والیہ نظراً ومنظراً ونظراناً ومنظرۃً وتنظاراً: تأملہ بعینہ، ونظرہ وانتظرہ وتنظّرہ: تأنی علیہ۔ (القاموس المحیط، ص: ۴۸۴)
گویا نظرہ کے دو معنی ہوں گے اس کو دیکھا، یا اس کا انتظار کیا، اور نظر الیہ کے معنی ہوں گے اس کو دیکھا۔
تاہم ابوحیان کی تحقیق یہ ہے کہ دیکھنے کے لیے جو نظر آتا ہے اس کے ساتھ الی ضرور آتا ہے، اور الی کے بغیر نظر دیکھنے کے معنی میں صرف شعر میں (گویا شعری ضرورت کے تحت) آتا ہے۔
ولا یتعدی النظر ھذا فی لسان العرب الا بالی لا بنفسہ، وانما وجد متعدیاً بنفسہ فی الشعر۔ (البحر المحیط فی التفسیر:۱۰؍۱۰۶)
علامہ طاہر بن عاشور بھی اس رائے کی تائید کرتے ہیں:
الا أن نظر بمعنی الانتظار یتعدی الی المفعول، ونظر بمعنی أبصر یتعدی بحرف (الی)۔ (التحریر والتنویر: ۲۷؍۳۸۲)
سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نظر حرف الی کے ساتھ آیا ہے، وہ دیکھنے کے مفہوم میں ہے، اور جہاں براہ راست مفعول بہ کے ساتھ آیا ہے، وہاں انتظار کرنے یا نظر عنایت فرمانے کے معنی میں ہے۔ ذیل کی مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے:
أَفَلَا یَنظُرُونَ إِلَی الْإِبِلِ کَیْْفَ خُلِقَتْ۔ (الغاشیۃ:۱۷)
کیا وہ اونٹوں پر نگاہ نہیں کرتے، وہ کیسے بنائے گئے؟
وَتَرَاہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ وَہُمْ لاَ یُبْصِرُون۔ (الاعراف:۱۹۸)
اور تم ان کو دیکھتے ہو کہ وہ تمھاری طرف تاک رہے ہیں، لیکن انھیں سوجھتا کچھ بھی نہیں ہے۔
فَہَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَۃَ أَن تَأْتِیَہُم بَغْتَۃً۔ (محمد:۱۸)
یہ لوگ تو بس اسی بات کے منتظر ہیں کہ قیامت ان پر اچانک آدھمکے۔
فَہَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِیْنَ۔ (فاطر:۴۳)
پس کیا یہ انتظار کررہے ہیں اسی سنت الہی کا جو اگلوں کے باب میں ظاہر ہوئی۔
اول الذکر دونوں آیتوں میں الی آیا ہے، اور مطلب دیکھنا ہے، اور موخر الذکر دونوں آیتوں میں براہ راست مفعول بہ کے ساتھ آیا ہے اور انتظار کرنے کے معنی میں ہے۔
تاہم ذیل میں مذکور ایک مقام پر جہاں نظر براہ راست مفعول کے ساتھ آیا ہے، بہت سارے مترجمین نے دیکھنا ترجمہ کیا ہے، حالانکہ قرآنی استعمالات کی روشنی میں بھی اور خود اس آیت کے عمومی مفہوم کے لحاظ سے بھی ٹھہرنا اور انتظار کرنا زیادہ مناسب ترجمہ ہے، دونوں طرح کے ترجمے ذیل میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
یَوْمَ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِکُمْ۔ (الحدید: ۱۳)
اس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں۔ (سید مودودی)
wait for us that we may borrow some of your light. (Daryabadi)
Look on us that we may borrow from your light! (Pickthal)
ہمیں ایک نگاہ دیکھو کہ ہم تمہارے نور سے کچھ حصہ لیں،(احمد رضا خان)
ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کر لیں۔ (محمد جوناگڑھی)
ہماری راہ دیکھو ہم بھی سلگالیں تمہاری روشنی سے (شاہ عبدالقادر)
انتظار کرو ہمارا ہم بھی روشنی لیں نور تمہارے سے (شاہ رفیع الدین)
نظر کنید بما تا بگیریم روشنی از نور شما (شیرازی)
علامہ زمخشری نے انظرونا کے دونوں معنے مراد لیے، اس پر علامہ ابوحیان نے حسب ذیل تنقید کی، اور وہ تنقید مناسب ہے۔
قال الزمخشری: انظرونا: انتظرونا، لأنھم یسرع بھم الی الجنۃ کالبروق الخاطفۃ علی رکاب تذف بھم وھؤلاء مشاۃٌ، أوانظروا الینا، لأنھم اذا نظروا الیھم استقبلوھم بوجوھھم والنور بین أیدیھم فیستضیؤن بہ۔ انتھی۔ فجعل انظرونا بمعنی انظروا الینا، ولا یتعدی النظر ھذا فی لسان العرب الا بالی لا بنفسہ، وانما وجد متعدیاً بنفسہ فی الشعر۔ (البحر المحیط فی التفسیر: ۱۰؍۱۰۶)
(۸۴) اسم موصول کا دقیق ترجمہ
ذیل کی دونوں آیتیں ملاحظہ فرمائیں:
وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنتُم بِہِ تُکَذِّبُونَ۔ (السجدہ: ۲۰)
وَنَقُولُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیْ کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ۔ (سبا:۴۲)
ان میں الذی اور التی کا فرق ہے۔ عذاب مذکر ہے، اور اس کے لحاظ سے الذی آیا ہے، جبکہ النار مونث ہے اور اس کے لحاظ سے التی آیا ہے، دراصل جہاں الذی ہے وہاں زور اس پر ہے کہ یہ لوگ عذاب کو جھٹلاتے تھے، یعنی دوزخ کے عذاب کو، اور جہاں التی ہے وہاں زور اس پر ہے کہ یہ لوگ دوزخ کو جھٹلاتے تھے، جس دوزخ کے عذاب سے ان کو دوچار کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ وہ جھٹلاتے تو دونوں کو تھے، لیکن ایک جگہ ان کی ایک تکذیب کو نمایاں کیا گیا تو دوسری جگہ دوسری تکذیب کو نمایاں کیا گیا۔
ترجمے میں اس کا لحاظ کرنا زیادہ مناسب تھا، لیکن بعض مترجمین نے دونوں جگہ بالکل یکساں ترجمہ کیا، جو مفہوم کی ادائیگی کے لحاظ سے غلط نہیں ہے، لیکن دونوں اسلوبوں کا فرق ان سے ظاہر نہیں ہوتا ہے، جبکہ بعض ترجموں سے اس فرق کے خلاف مفہوم پیدا ہوتا ہے۔
وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنتُم بِہِ تُکَذِّبُونَ۔ (السجدہ: ۲۰)
اور ان سے کہا جائے گا کہ اب اس دوزخ کے عذاب کا مزا چکھو جس کی تم تکذیب کرتے رہے تھے۔ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمے میں تکذیب کی نسبت دوزخ کی طرف ہے، جبکہ آیت میں عذاب کی طرف ہے)
اور ان کو کہا جاوے گا کہ دوزخ کا وہ عذاب چکھو جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے(اشرف۔ علی تھانوی، اس ترجمہ میں اسلوب کی بخوبی رعایت ہے)
اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب اسی آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (سید مودودی، اس ترجمہ میں آگ پر زور ہے، حالانکہ اسلوب عذاب پر زور کا متقاضی ہے)
وَنَقُولُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیْ کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ۔ (سبا:۴۲)
اور ہم ان ظالموں سے کہیں گے کہ اب اس دوزخ کے عذاب کا مزا چکھو جس کو تم جھٹلاتے رہے ہو۔ (امین احسن اصلاحی، آپ نے دونوں جگہ ترجمہ بالکل یکساں کیا ہے، اس سے اسلوب کا فرق ظاہر نہیں ہوپاتا)
اور کہیں گے ہم ان گناہ گاروں کو چکھو تکلیف اس آگ کی جس کو تم جھوٹ بتاتے تھے۔ (شاہ عبدالقادر، اس ترجمے میں اسلوب کی اچھی رعایت نظر آتی ہے)
اور ہم ظالموں سے کہیں گے کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھٹلایا کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو۔ (اشرف علی تھانوی، اس ترجمے میں اسلوب کی رعایت کی گئی ہے)
اور ظالموں سے ہم کہہ دیں گے کہ اب چکھو اس عذاب جہنم کا مزہ جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (سید مودودی، آیت میں جہنم کو جھٹلانے پر زور ہے، اور ترجمہ میں عذاب کو جھٹلانے پر زور ظاہر ہورہا ہے، جو درست نہیں ہے)۔
(جاری)
فقہ حنفی کے امتیازات و خصوصیات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اسے اپنی امت کے ساتھ اجتماعی طور پر الوداعی ملاقات قرار دیتے ہوئے مختلف خطبات میں بہت سی ہدایات دی تھیں اور ان ارشادات وہدایات کے بارے میں یہ تلقین فرمائی تھی کہ:
فلیبلغ الشاھد الغائب فرب مبلغ اوعی لہ من سامع۔
’’جو موجود ہیں، وہ ان باتوں کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔ بسا اوقات جس کو بات پہنچائی جائے، وہ سننے اور پہنچانے والے سے زیادہ اس بات کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘
اس حفاظت کرنے میں یاد رکھنا، سمجھنا، اسے اہتمام کے ساتھ آگے پہنچانا اور صحیح طور پر استعمال میں لانا بھی شامل ہے۔ چنانچہ جب تابعین کرام کے دور میں حدیث وسنت کی حفاظت وروایت اور تفقہ واستنباط کا ایک وسیع سلسلہ سامنے آیا تو حضرت محمد بن سیرین رحمہ اللہ تعالیٰ اس کا مشاہدہ وتجربہ کرتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے: ’’صدق محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا، وہ آج ایک زندہ سچائی کی صورت میں سب کے سامنے جلوہ گر ہے۔
حدیث وسنت کی روایت اور حفاظت وترویج کا محاذ محدثین کرام نے سنبھالا اور درایت وتفقہ کا پرچم فقہائے عظام نے بلند کر دیا جبکہ ان دونوں کی جڑیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ان علمی کاوشوں میں پیوست تھیں جن کی نمائندگی کرنے والوں میں حضر ت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت انس بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ، حضرت ام المومنین عائشہؓ اور ام المومنین حضرت ام سلمہ نمایاں ہیں۔
محدثین اور فقہا کی یہ محنت وکاوش آگے بڑھی تو دائرۂ کار الگ الگ ہونے کی وجہ سے ذوق اور تفہیم واظہار کا امتیاز بھی واضح ہونے لگا اور رفتہ رفتہ یہ دونوں گروہ مستقل طبقوں کی صورت میں نمایاں ہوتے گئے۔ انسانی ذہن وفہم اور استعداد وصلاحیت کا دائرہ اور سطح کبھی ایک نہیں رہے۔ اسی تنوع واختلاف کے باعث آرا وافکار کا فرق وامتیاز ہمیشہ سے انسانی سوسائٹی میں قائم ہے جو قیامت تک موجود رہے گا اور اگر یہ اپنی حدود میں رہے تو یہی انسانی سوسائٹی کا حسن وامتیاز ہے جو اسے باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں ارتفاقات یعنی انسانی سوسائٹی کی معاشرتی بنیادوں اور تقاضوں پر بحث کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ معاشرت او رتمدن کی بنیادی ضروریات پر تو تمام اقوام متفق ہیں، مگر ان کا اظہار ہر طبقہ اپنے اپنے انداز میں کرتا ہے۔ شاہ صاحب کا ارشاد ہے:
والناس بعدھا فی تمھید قواعد الآداب مختلفون فالطبیعی یمھدھا علی استحسانات الطب والمنجم علی خواص النجوم والالھی علی الاحسان کما تجد فی کتبھم مفصلا۔
’’اصولوں پر اتفاق کے بعد لوگ آداب وضوابط کی تشکیل وتعبیر میں مختلف ہو جاتے ہیں۔ طبیب انھیں طب کی اصطلاحات اور فوائد کی زبان میں بیان کرے گا، نجومی انھی باتوں کا ستاروں کے خواص کے پس منظر میں ذکر کرتا ہے جبکہ صوفی نے اس کی وضاحت سلوک واحسان کے اسلوب میں کرنا ہوتی ہے، جیسا کہ تمھیں ان کی کتابوں میں اس کی تفصیل ملے گی۔‘‘
محدثین کرام روایت کی نمائندگی فرماتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان کے ہاں ترجیح کی بنیاد روایت کے اصول اور تقاضے ہوں گے، جبکہ فقہائے کرام درایت واستنباط کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں تو وہ تفقہ واستنباط کی ضروریات کو ترجیح دیں گے، اس لیے یہاں یہ فرق صرف ذوق واسلوب کا نہیں رہتا، بلکہ اپنے اپنے کام کی ضروریات بھی اس کا حصہ بن جاتی ہیں اور یہی بات امت میں محدثین کرام اور فقہائے عظام کے دو مستقل طبقات کے ظہور وارتقا کا باعث بنی ہے۔
قرون اولیٰ میں بہت سے محدثین کرام نے حدیث وسنت کی روایت، جمع، حفاظت، رواۃ کی نقد وجرح اور سند ومتن کی درجہ بندی کے شعبہ میں خدمات سرانجام دیں جن میں سے صحاح ستہ کے مصنفین اور امام مالک واحمد رحمہم اللہ تعالیٰ نمایاں ہو کر سامنے آئے اور تمام محدثین کے سرخیل قرار پائے۔ بالخصوص امام بخاریؒ کو سب محدثین کے سردار کے لقب سے نوازا گیا۔ اسی طرح بیسیوں فقہائے کرام نے اپنے اپنے استنباطات واستدلالات کو جمع کیا، اصول وقواعد وضع کیے، ان کے مطابق مسائل واحکام کا استنباط کیا اور اپنے اپنے علمی حلقے قائم کیے جن میں سے ائمہ اربعہ نے فقہائے کرام کی سیادت وقیادت کا اعزاز حاصل کیا اور امام اعظم ابو حنیفہؒ کی امامت عظمیٰ کی فوقیت کو سب نے تسلیم کیا۔
اہل سنت کے چاروں ائمہ حضرت امام ابو حنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ بلکہ حضرت امام داؤد ظاہریؒ کی فقہ ودرایت سے بھی امت مسلمہ نے ہر دور میں استفادہ کیا ہے، ان کے مقلدین ومتبعین لاکھوں کی تعداد میں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور آج بھی کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، مگر ان میں سب سے زیادہ امتیاز فقہ حنفی کو حاصل ہوا جس کا اعتراف واحترام اہل علم وفضل نے ہمیشہ کیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس امتیاز وتفوق کے اسباب یہ ہیں:
۔ حنفی فقہ شخصی نہیں، شورائی ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ اور ان کے تلامذہ اپنی اپنی آرا علمی مجلس میں پیش کرتے تھے۔ ان پر بحث ومباحثہ ہوتا تھا۔ جس بات پر اتفاق ہوتا تھا، وہ متفقہ موقف کی صورت میں درج ہوتی تھی۔ مختلف فیہ بات کو اختلاف کے درجہ میں رکھا جاتا تھا۔ کسی پر جبر نہیں ہوتا تھا۔ اگر مجلس کے کسی شریک کو اجتماعی رائے سے اتفاق نہیں ہوتا تھا تو اس کی رائے الگ درج کی جاتی تھی۔
شورائیت اور اجتماعیت کی یہ روایت فقہ حنفی کی تشکیل وتدوین کے بعد اس پر بوقت ضرورت نظر ثانی کے موقع پر بھی قائم رہی، چنانچہ مغل دور میں فقہ حنفی کی از سرنو ترتیب وتشریح کی ضرورت پیش آئی تو سلطان اورنگ زیب عالمگیرؒ کی سربراہی میں یہ فریضہ سیکڑوں علماء کرام پر مشتمل کونسل نے تفصیلی بحث ومباحثہ کے ذریعے سرانجام دیا جبکہ خلافت عثمانیہ کے دور میں فقہ حنفی کی بنیاد پر حالات زمانہ کے مطابق نئی قانون سازی کا مرحلہ پیش آیا تو ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ کی ترتیب وتدوین فقہا وعلما کی ایک مجلس نے مشاورت ومباحثہ کی صورت میں انجام دی۔
۔ فقہ حنفی میں روایت ودرایت کے درمیان فطری توازن کا پوری طرح لحاظ رکھا گیا ہے اور عقل ودرایت کو نص وروایت پر فوقیت دینے کے بجائے اس کے تابع کیا گیا ہے۔ فقہ حنفی میں نہ تو عقل ودرایت کی ضرورت وافادیت سے انکار کیا گیا ہے، نہ اسے نص وروایت پر ترجیح دی گئی ہے اور نہ ہی نص وروایت کے فہم واستنباط کو عقل ودرایت کی خدمت ومعاونت سے محروم کیا گیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ وہ پہلے قرآن کریم سے استنباط کرتے ہیں، پھر حدیث وسنت سے استفادہ کرتے ہیں، اس کے بعد صحابہ کرام سے رجوع کرتے ہیں اور کسی ایک صحابی کا قول بھی مل جائے تو اسے ترجیح دیتے ہیں، حتیٰ کہ احناف کے ہاں ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ احناف عقل ودرایت اور قیاس پر صرف نص کو ہی مقدم نہیں سمجھتے بلکہ نص کے آخری امکان تک کا لحاظ رکھتے ہیں۔
۔ فقہ حنفی میں عقل ودرایت کا اس کے دائرہ میں بھرپور اور فطری استعمال کیا گیا ہے اور اس سے استفادہ میں کوئی کوتاہی روا نہیں رکھی گئی، البتہ احناف کے ہاں نظری اور فلسفیانہ عقلیت کے بجائے عملی اور معاشرتی عقل ودرایت کو احکام وقوانین کی بنیاد بنایا گیا ہے، چنانچہ عرف وتعامل کا حنفی فقہ میں اس کی جائز حدود کے اندر پورا احترام کیا گیا ہے اور معاشرتی عقل سے بہت سے احکام ومسائل میں استنباط کیا گیا ہے۔
۔ فقہ حنفی کو طویل عرصہ تک رائج الوقت قانون ونظام کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ خلافت عباسیہ، خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت میں صدیوں تک عدالتی قانون کے طور پر فقہ حنفی کی عمل داری رہی ہے جس کی وجہ سے تجربات ومشاہدات کا جو ذخیرہ اس کے پاس ہے اور انسانی معاشرہ کی مشکلات کو سمجھنے اور حل کرنے کی جو صلاحیت وتجربہ اس کے دامن میں ہے، وہ (ایک حد تک فقہ مالکی کے سوا) کسی دوسری فقہ کو میسر نہیں آیا۔
فقہ حنفی کے انھی امتیازات وخصوصیات کی وجہ سے بجا طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ عالم اسلام میں عدالتی و انتظامی طور پر شرعی احکام وقوانین کے نفاذ کے جو امکانات دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں، ان میں فقہ حنفی ہی نفاذ اسلام اور تنفیذ شریعت کی علمی قیادت کی پوزیشن میں ہے۔ اس لیے یہ بات پہلے سے زیادہ ضروری ہو گئی ہے کہ فقہ حنفی کو ماضی کے معاملات وتجربات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے امکانات وضروریات کے حوالے سے بھی تحقیق ومطالعہ کا موضوع بنایا جائے اور انسانی سوسائٹی کی ضروریات ومشکلات کے دائرہ میں فقہ حنفی کی افادیت واہمیت کو علمی اسلوب اور فقہی انداز میں واضح کیا جائے۔
فقہ حنفی کو اس امتیاز وتفوق کے پس منظر میں فطری طور پر کچھ الزامات واعتراضات کا بھی ہر دور میں سامنا رہا ہے جن میں بعض کا تعلق دائرۂ کار اور ذوق واسلوب کے فرق وتنوع سے ہے، بعض اعتراضات نے غلط فہمی کے باعث جنم لیا ہے، کچھ الزامات معاصرت کی پیداوار ہیں اور ان میں ایسے اعتراضات بھی موجود ہیں جو ’’حَسَداً مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ‘‘ کا مصداق قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان الزامات واعتراضات کا دفاع مختلف ادوارمیں اہل علم نے کیا ہے اور صرف احناف نے نہیں، بلکہ منصف مزاج غیر حنفی علما وافاضل اس دفاع میں پیش پیش رہے ہیں جو یقیناًامام اعظم کے خلوص ودیانت اور علم وفضل کی ’’خدائی تائید‘‘ ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔
ان اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے جو امام اعظم پر قلت روایت حدیث اور اپنے قیاسات میں احادیث کی مبینہ مخالفت کے عنوان سے مسلسل لگایا اور دہرایا جا رہا ہے، حالانکہ سادہ سی بات ہے کہ اگر امام صاحب پر اعتراض یہ ہے کہ انھوں نے سیکڑوں مسائل میں حدیث معلوم ہونے کے باوجود اس کی مخالفت کی ہے تو ’’قلت معرفت حدیث‘‘ کا الزام محل نظر ہے اور اگر احادیث معلوم نہ ہونے کی وجہ سے قیاس پر اعتراض کیا جا رہا ہے تو یہ ’’مخالفت حدیث‘‘ کا اعتراض نہیں بنتا، لیکن اس کے باوجود اس الزام کا مسلسل اعادہ کیا جا رہا ہے اور طعن وتشنیع کا بازار گرم رکھنے میں ہی تسکین محسوس کی جا رہی ہے۔
اس تناظر میں کچھ عرصہ قبل عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر حفظہ اللہ تعالیٰ نے ’’امام اعظم ابو حنیفہ اور عمل بالحدیث‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو ۱۹۹۶ء میں شعبہ نشر واشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی طرف سے شائع ہوئی اور اس پر بہت سے اہل علم، بالخصوص اس کے دادا محترم اور استاذ گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسرت کا اظہار کیا اور اسے انعام سے بھی نوازا۔ مجھے بھی اس پر بے حد خوشی ہوئی، لیکن اس کے ساتھ ایک ضرورت کا احساس پیدا ہوا کہ ہمارے ہاں عام طور پر الزامات کا جواب تو دے دیا جاتا ہے، مگر الزامات واعتراضات کے پس منظر اور اسباب کی وضاحت نہیں کی جاتی جس سے عام قاری تو کسی حد تک مطمئن ہو جاتا ہے، مگر مطالعہ وتحقیق کے دائرہ کے لوگ پوری طرح تشفی حاصل نہیں کر پاتے اور کچھ سوالات ان کے ذہنوں میں ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہوا کہ اس کتاب کی دوسری بار اشاعت کے موقع پر اس حوالے سے اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھا جائے جس میں اس ضرورت کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔
’’امام اعظم ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث‘‘ بنیادی طور پر دوسری صدی ہجری کے عظیم محدث حضرت امام ابن ابی شیبہؒ کی طرف سے ان کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں حضرت امام ابوحنیفہؒ پر اس حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات کا ناقدانہ جائزہ ہے۔ یہ جائزہ اس سے قبل بھی بہت سے اہل علم کی طرف سے سامنے آ چکا ہے، مگر عزیزم عمار نے اسے اردو میں ایک نئے اسلوب کے ساتھ مرتب کر کے پیش کیا اور اسی وجہ سے میرے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اعتراضات کے جوابات کے ساتھ ساتھ اعتراضات کے پس منظر اور اس دور کے علمی ماحول کی معروضی صورت حال کا تذکرہ بھی مناسب انداز میں ضروری ہے۔ میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ موقع آنے پر یہ خدمت میں سر انجام دوں گا، مگر متنوع مصروفیات اور مختلف اشغال کی گہماگہمی میرے لیے بہت سے ضروری کاموں میں ایک ناقابل عبور رکاوٹ سی بن کر رہ گئی ہے اور لگتا ہے کہ ان کی حسرت میرے ساتھ ہی دنیا سے کوچ کر جائے گی۔
اس دوران میں عزیزم عمار نے بتایا کہ اس نے احادیث سے فقہائے احناف کے استنباط کے منہج کے موضوع پر ایک کتاب مرتب کی ہے جو ’’فقہائے احناف اور فہم حدیث۔ اصولی مباحث‘‘ کے عنوان سے شائع ہو رہی ہے تو میں نے اس کا مسودہ ایک نظر دیکھا اور محسوس کیا کہ جو کچھ میں چاہ رہا تھا، وہ کافی حد تک اس میں شامل ہے۔ یہ اپنے موضوع پر ایک مستقل کتاب ہے جو اپنے موضوع کے بہت سے ضروری پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور اس میں میرے لیے زیادہ خوشی کا پہلو یہ ہے کہ مصنف کے دادا محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے علمی وتحقیقی ذوق کی جھلک اس میں کسی حد تک دکھائی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نظر بد سے بچائیں اور اس علمی کاوش کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے نافع بنائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
ایک نئے تعلیمی نظام کی ضرورت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جامعہ دارالعلوم کراچی کے عصری تعلیم کے ادارے ’’حرا فاؤنڈیشن سکول‘‘ کی ایک تقریب کی رپورٹ اخبارات میں نظر سے گزری جو سکول کے اکتیس حفاظ قرآن کریم کی دستار بندی کے حوالہ سے منعقد ہوئی۔ اس میں حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے علاوہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور مولانا مفتی محمد نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں اپنے خطاب کے دوران مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ:
’’ہمیں ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس میں دینی اور دنیوی تعلیم اکٹھی دی جائے، جہاں دین کی بنیادی معلومات سب کو پڑھائی جائیں۔ اس کے بعد ہر ہر شعبہ میں اختصاص کے مواقع دیے جائیں۔ یہ نظام تعلیم ہمارے اسلاف کی تاریخ سے مربوط چلا آرہا ہے۔‘‘
مفتی صاحب محترم کا یہ ارشاد پڑھ کر دل سے بے ساختہ ’’تری آواز مکے اور مدینے‘‘ کی صدا بلند ہوئی اور ماضی کی بعض یادیں تازہ ہوگئیں۔ یہ بات سب سے پہلے حضرت مفتی صاحب کے والد گرامی مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس اللہ سرہ العزیز نے اب سے کوئی چھ عشرے قبل فرمائی تھی، جبکہ گزشتہ صدی کے آخری عشرہ کے آغاز میں وفاقی حکومت کے قائم کردہ ’’قومی تعلیمی کمیشن‘‘ کی ایک خصوصی کمیٹی کے کنوینر جسٹس (ر) محمد ظہور الحق کے استفسار کے جواب میں راقم الحروف نے بھی یہی گزارش تحریر کی تھی۔ اس وقت مجھے حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے ارشاد کا علم نہیں تھا، بعد میں ایک موقع پر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی زبان سے اس کا تذکرہ سنا تو دل کو اطمینان ہوا کہ
متفق گردید رائے بو علی با رائے من
اس سوال نامہ کا جواب قومی تعلیمی کمیشن کو بھجوانے کے علاوہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ کے جنوری ۱۹۹۲ء کے شمارہ میں شائع ہوگیا تھا۔ اسے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے سے قبل یہ عرض کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پرائیویٹ دائرہ میں اس سمت کام کا آغاز پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی ہوگیا تھا۔ ہماری معلومات کے مطابق سب سے پہلے ٹیکسلا میں حضرت مولانا محمد داؤدؒ اور ان کے رفقاء نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی سرپرستی اور راہ نمائی میں ’’تعلیم القرآن ہائی سکول‘‘ کے نام سے یہ سلسلہ شروع کیا تھا جس کے نظام میں دینی و عصری علوم کو جمع کیا گیا تھا، تب سے اس پہلو پر ملک کے مختلف حصوں میں تجربات کا سلسلہ جاری ہے۔
اس رخ پر ایک اعلیٰ سطحی کوشش گزشتہ صدی کے چھٹے عشرہ کے دوران لاہور کے قریب سرائے مغل میں ’’جامعہ حمیدیہ‘‘ کے نام سے بھی کی گئی تھی جس کے محرکین میں حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ ، آغا شورش کاشمیریؒ اور مولانا محمد اکرمؒ (الہلال فونڈری) بھی شامل تھے۔
گوجرانوالہ میں ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے عنوان سے یہی تجربہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کی سرپرستی اور راہ نمائی میں کیا گیا جو اب ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے مصروف کار ہے۔ جامعہ خالد بن ولیدؓ وہاڑی، جامعہ حنفیہ بورے والا، ادارہ علوم اسلامی بہارہ کہو اسلام آباد، اور جامعۃ الرشید کراچی اسی محنت کی ارتقائی صورتیں ہیں جبکہ ان کی طرز پر ملک کے مختلف حصوں میں ہماری معلومات کے مطابق بیسیوں ادارے اس سمت محنت اور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس حوالہ سے حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے کسی پیش رفت کی تو بظاہر کوئی توقع نہیں ہے، البتہ پرائیویٹ سطح پر اس دائرہ میں کام کرنے والے ادارے باہمی مشاورت کا کوئی نظام وضع کر لیں تو اس محنت کو نہ صرف مربوط بنایا جا سکتا ہے بلکہ بہتر پیش رفت کے راستے بھی نکالے جا سکتے ہیں۔ اس لیے ہماری رائے میں دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کے دائرہ میں کام کرنے والے اداروں کا کوئی مشترکہ مشاورتی اجلاس وقت کی اہم ضرورت ہے جس میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کیا جائے اور باہمی مشاورت کے ساتھ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس اللہ سرہ العزیز کے اس حسین خواب کی عملی تعبیر کی کوئی شکل اختیار کی جائے۔ دروازہ تو ہم نے کھٹکھٹا دیا ہے، دیکھیں کنڈی کھولنے کے لیے کون آگے بڑھتا ہے؟
ان گزارشات کے ساتھ ۱۹۹۲ء کے قومی تعلیمی کمیشن کی خصوصی کمیٹی کا سوالنامہ اور اس کا جواب قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوالنامہ:
محترم و مکرم۔ السلام علیکم!
حکومت پاکستان نے شریعت کے نفاذ کے لیے اپنی کاوشوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ شریعت بل ۱۹۹۱ء کے تحت قومی تعلیمی کمیشن برائے اسلامائزیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کمیشن کی پہلی نشست ۳ستمبر ۱۹۹۱ء کو ہوئی تھی او رکمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ کمیٹی نمبر ۵ کا میں کنوینر ہوں۔ یہ کمیٹی دینی مدارس کے مسائل، ضروریات اور سہولتوں کے مسائل پر غور و فکر کر رہی ہے۔ دینی مدارس کے مسائل کا علم آپ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے میں کمیشن کی اعانت فرمائیں، اور دینی مدارس کو کیا سہولتیں حکومت سے درکار ہو سکتی ہیں، اس کی وضاحت فرما دیں۔
سفارشات ۵ دسمبر سے پہلے ارسال فرما دیں۔
۱۔ دینی مدارس کو حکومت کی مالی معاونت کی ضرورت سے متعلق آپ کی تجاویز۔
۲۔ دینی مدارس کے مسائل اور ضروریات۔
۳۔ دینی مدارس کو حکومت کس طرح کی سہولتیں مہیا کرے؟
۴۔ جدید نظام تعلیم کو اسلامی خطوط پر کس طرح استوار کیا جائے؟
۵۔ دینی مدارس میں جدید علوم کو کس طرح متعارف کرایا جائے؟
۶۔ یہ بھی درخواست ہے کہ دینی مدارس اور عام مدارس کے نصاب اور نظام میں کس طرح ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں بھی اپنی تجاویز تحریر فرما دیں، نوازش ہوگی۔
تعاون کا پیشگی شکریہ، والسلام
جسٹس (ریٹائرڈ) محمد ظہور الحق،
کنوینر نیشنل ایجوکیشن کونسل، اسلام آباد
جواب:
حکومت پاکستان کے قائم کردہ نیشنل ایجوکیشن کمیشن کی کمیٹی نمبر ۵ نے دینی مدارس اور مروجہ تعلیمی اداروں کے نصاب و نظام میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جو سوالنامہ جاری کیا ہے، اگرچہ اس میں چھ سوالات ہیں، لیکن یہ سب سوالات بنیادی طور پر دو سوالوں پر مشتمل ہیں۔ ایک یہ کہ عصری، اسکولوں اور کالجوں کے نصاب و نظام کے ساتھ دینی مدارس کے نصاب و نظام کو کس طرح زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ دینی مدارس کو درپیش مسائل و ضروریات میں حکومت کیا تعاون کر سکتی ہے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، اس ضمن میں یہ گزارش ہے کہ اگرچہ یہ بظاہر ایک دلکش اور خوشنما تصور ہے لیکن اصولی طور پر یہ غلط اور غیر منطقی سوچ ہے۔ کیونکہ اس سوچ کی بنیاد ان دونوں نظام ہائے تعلیم کی جداگانہ ضروریات و اہمیت کو تسلیم کرنے پر ہے، اور یہ ضرورت و اہمیت بجائے خود محل نظر ہے۔
عصری اسکولوں اور کالجوں کا نظام تعلیم مستقل حیثیت کا حامل ہے، جبکہ دینی مدارس کا نظام تعلیم اس سے بالکل مختلف اور الگ حیثیت رکھتا ہے۔ ان دونوں کا آغاز ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اس دور کی قومی ضروریات کے پیش نظر ہوا تھا۔ دونوں تعلیمی نظاموں کی بنیاد خوف اور تحفظات پر تھی۔ جدید تعلیم کا نظام کھڑا کرنے والوں کے سامنے یہ خوف تھا کہ اگر مسلمانوں نے انگریزی تعلیم حاصل نہ کی تو وہ نئے قومی نظام میں شریک نہیں ہو سکیں گے اور ان کے ہندو معاصرین اس دوڑ میں آگے بڑھ کر قومی زندگی پر تسلط جما لیں گے جس سے مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔ جبکہ دینی تعلیمی نظام کے بانیوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر قرآن و سنت اور عربی علوم کی تعلیم کا اہتمام نہ کیا گیا تو مسلمانوں کا رشتہ اپنے مذہب اور اعتقاد سے کٹ جائے گا اور وہ دینی تشخص سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ دونوں خوف اپنی اپنی جگہ صحیح تھے اور انہی کی بنیاد پر دو الگ اور مستقل نظام ہائے تعلیم وجود میں آگئے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد ان میں سے کسی خوف کے تسلسل کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا تھا اور قومی دانشوروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان خدشات کی نفی کرتے اور دونوں محاذوں پر قوم کو خوف سے نجات دلا کر خوف اور تحفظات کی بنیاد پر تشکیل پانے والے دونوں تعلیمی نظاموں کے یکسر خاتمہ کی راہ ہموار کرتے، لیکن بدقسمتی سے اب تک ایسا نہیں ہوا۔ اور ہم حصول آزادی کے تقریباً نصف صدی بعد بھی تعلیمی پالیسیوں کے لحاظ سے ابھی تک انیسویں صدی کے اواخر کے ذہنی دائروں میں کولہو کے بیل کی طرح چکر کاٹ رہے ہیں۔
کالجوں اور دینی مدارس کے نصاب و نظام میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہماری بنیادی تعلیمی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض ایڈہاک ازم ہے جو کسی ٹھوس اور واضح تعلیمی پالیسی کے جڑ پکڑنے تک ایک عبوری اور عارضی انتظام کا درجہ تو پا سکتی ہے لیکن یہ ہمارے تعلیمی مسائل کا حل نہیں ہے۔ اور اگر سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو دونوں نصابوں کو مکمل طور پر ہم آہنگ کرنا قابل عمل اور ممکن بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اگر دونوں نصاب پورے کے پورے یکجا کر دیے جائیں تو طلبہ کی میسر کھیپ میں سے شاید پانچ فیصد اسے بمشکل کور کر سکیں۔ اور اگر ایک کو بنیاد بنا کر دوسرے نصاب کی چند چیزیں اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے تو اسے ’’ہم آہنگی‘‘ قرار دینا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے ہمارے نزدیک یہ تصور ہی سرے سے غلط ہے کہ دونوں نظام ہائے تعلیم کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ جرأت و حوصلہ سے کام لے کر ان دونوں نظام کی نفی کرتے ہوئے ایک نئے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جائے۔ ان دو نظام ہائے تعلیم کی نفی کا مطلب ان کے قومی کردارکی نفی نہیں ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے دائرے میں قوم کی خدمت کی ہے اور ان میں سے کسی کے کردار کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کی ضرورت اور اہمیت کا دور گزر چکا ہے اور دونوں نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکے ہیں۔ اس لیے انہیں مصنوعی تنفس کے ذریعے سے زندہ رکھنے کی کوشش نہ عقل و دانش کا تقاضا ہے اور نہ ہی ایسا کرنا نئی نسل کے ساتھ انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا۔ ہمارے خیال میں قومی تعلیمی کمیشن کا اصل رول یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک نئے اور انقلابی تعلیمی نظام کے لیے قوم کی ذہن سازی کرے اور دونوں طبقوں کے ماہرین تعلیم کو اعتماد میں لے کر نئے تعلیمی نظام کا ڈھانچہ تشکیل دے۔
نئے تعلیمی نظام کو بنیادی شخصی ضروریات اور قومی تقاضوں کے دو دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک تعلیمی نظام کا پہلا حصہ بنیادی شخصی ضروریات پر مشتمل ہونا چاہیے جبکہ دوسرے حصے میں قومی ضروریات کو ایک حسین توازن و تناسب کے ساتھ سمو دینا چاہیے۔ مثلاً اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر شہری کی بنیادی ضروریات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ اس کی مادری اور علاقائی زبان پر اسے عبور ہو اور وہ اسے لکھنے پڑھنے پر قادر ہو۔
۲۔ قومی زبان اردو پر بھی اسے یہی قدرت حاصل ہو۔
۳۔ دینی زبان عربی کے ساتھ اس کا اتنا تعلق ضرور ہو کہ وہ قرآن و حدیث کو سمجھ سکے۔
۴۔ بین الاقوامی زبان انگریزی پر بھی اسے دسترس حاصل ہو۔
۵۔ عقائد، عبادات، اخلاق اور معاملات کے بارے میں اسے اتنا دینی علم حاصل ہو کہ وہ ایک صحیح مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کر سکے۔
۶۔ اتنا حساب کتاب جانتا ہو کہ روز مرہ کے معاملات میں اسے دقت پیش نہ آئے۔
۷۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات اسے اس قدر ضرور واقف ہو کہ قومی تقاضوں کو سمجھ سکے۔
۸۔ وہ جدید سائنسی علوم کے بارے میں بھی بنیادی معلومات سے بہرہ ور ہو۔
ہماری تجویز یہ ہے کہ ان بنیادی ضروریات پر مشتمل نصاب تعلیم کو میٹرک تک از سر نو مرتب کیا جائے اور اسے ہر شہری کے لیے قانوناً لازمی قرار دے دیا جائے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے کے تعلیمی نظام میں قومی تقاضوں کو سامنے رکھ کر شعبوں کی تقسیم کی جائے۔ مثلاً ہمیں اچھے علماء کی ضرورت ہے، بہترین سائنس دانوں کی ضرورت ہے، قابل ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، ماہر انجینئروں کی ضرورت ہے، اسی طرح زندگی کے دوسرے شعبوں میں ماہرین درکار ہیں۔ اس لیے میٹرک کے بعد ہر طالب علم کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے ذوق اور صلاحیت کے مطابق ان میں سے کسی ایک شعبہ میں تعلیم و مہارت حاصل کرے۔ اور قومی پالیسی کے طور پر ایک ایسا توازن قائم کیا جائے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کی ضروریات تناسب کے ساتھ پوری ہوتی رہیں۔
دوسرا اہم سوال دینی مدارس کی ضروریات و مسائل میں حکومت کے ممکنہ تعاون کی صورت کے بارے میں ہے۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ دینی مدارس معاشرہ میں قرآن و سنت اور دیگر دینی علوم کی ترویج اور بقا و تحفظ کا جو کردار ادا کر رہے ہیں وہ بہت بڑی قومی خدمت ہے۔ اور جب تک دینی تعلیم کی تمام ضروریات کو اپنے اندر سمونے والا کوئی ہمہ گیر نظام تعلیم وجود میں آکر مستحکم نہیں ہو جاتا، اس وقت تک دینی مدارس کی ضروریات اور ان کا کردار بہرحال ایک ناگزیر قومی تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ دینی مدارس کا یہ کردار ان کے اس آزادانہ نظام کی بدولت ہی تاریخ میں اپنی جگہ بنا سکا ہے جو ہر دور میں حکومت کی سرپرستی اور دخل اندازی سے بے نیاز رہا ہے۔ اگر دینی مدارس کو وقت کی حکومتوں کی دخل اندازی سے آزادی اور بے نیازی حاصل نہ ہوتی تو ان کی خدمات اور جدوجہد کے نتائج کی موجودہ شکل سامنے نہیں آسکتی تھی۔ اس لیے ہمارے نزدیک دینی مدارس کا سب سے بڑا مسئلہ اور ان کی سب سے اہم ضرورت ان کے آزادانہ تعلیمی کردار کا تحفظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو دینی ادارے اپنے معاشرتی کردار کی اہمیت سے شعوری طور پر آگاہ ہیں وہ ہر دور میں سرکاری امداد قبول کرنے سے گریزاں رہے ہیں، اور آج بھی بے نیازی کی اسی روش پر گامزن ہیں۔ محتاط دینی اداروں کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتوں کا اسلام کے ساتھ تعلق مخلصانہ اور نظریاتی نہیں بلکہ مصلحت پرستانہ ہے، اور وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی سرکاری امداد حکومت کی پالیسیوں اور مصلحتوں کے ساتھ کسی نہ کسی درجے میں وابستگی کا احساس ضرور پیدا کر دیتی ہے۔ پھر بعض تجربات نے اس احساس کو بھی جنم دیا ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں آنے کے بعد دینی مدارس شاید اپنے موجودہ کردار کو برقرار نہ رکھ سکیں گے، جیسا کہ محکمہ تعلیم کی تحویل میں آنے والے جامعہ عباسیہ بہاولپور اور محکمہ اوقاف کے کنٹرول میں آنے والے جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ کے انجام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے اگر حکومت دینی مدارس کو ان کے آزادانہ کردار کے تحفظ کا یقین اور اعتماد دلا سکے تو یہ ان مدارس کے ساتھ حکومت کا سب سے بڑا تعاون ہوگا۔ اور پھر آزادانہ کردار کے تحفظ کے ساتھ دینی مدارس کے اخراجات میں بھی ان سے تعاون، ان کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں ماہرین کے ذریعے سے ان کی راہنمائی، ان کی سندات کی مسلمہ حیثیت کو یقینی اور قابل عمل بنانے اور ان کے درمیان رابطہ و تعاون کی فضا کو بہتر بنانے کے اقدامات کے ذریعے سے حکومت دینی مدارس کی بہتر خدمت کر سکتی ہے۔
سوڈان میں غروب آفتاب
محمد اظہار الحق
سنیچر تھا اور مارچ کی پانچ تاریخ۔ صبح کا وقت تھا جب ڈاکٹر حسن الترابی اپنے دفتر میں بے ہوش ہوگئے۔ انہیں فوراً خرطوم کے رائل انٹرنیشنل ہسپتال میں لے جایا گیا۔ پھر دل کا دورہ پڑا اور سوڈان کا یہ فرزند، جس نے صرف اپنے خطے میں نہیں، پورے عالم اسلام میں بلکہ پوری علمی اور سیاسی دنیا میں اپنا اثرورسوخ قائم کیا تھا، اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوگیا۔ ہم سب نے لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے!
حسن الترابی سوڈان کے صوبے کسالہ میں 1932ء میں پیدا ہوئے۔ خرطوم یونیورسٹی سے قانون میں ڈگری حاصل کی۔ پھر انگلستان جا کر پڑھتے رہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری سوربون یونیورسٹی پیرس سے لی۔ عربی ان کی مادری زبان تھی۔ انگریزی، فرانسیسی اور جرمن روانی سے بولتے تھے۔ صدر جعفر نمیری نے انہیں اٹارنی جنرل مقرر کیا۔ سیاسی کیریر ان کا تلاطم خیز رہا۔ مخالفین نے الزام لگایا کہ صدر حسن البشیرنے سوڈان کو ’’پولیس سٹیٹ‘‘ بنایا تو حسن الترابی نے اس کا ساتھ دیا۔ وہ جہادیوں کے بھی حامی رہے۔ کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے ہوئے تو حسن الترابی نے ان حملوں کو ’’'قابل فہم‘‘ قرار دیا۔ ان کا یہ قول بہت مشہور ہوا کہ ’’اگر آپ جبر اور ظلم کا مقابلہ کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں تو انہیں حریت پسند اورانقلابی کہتے ہیں۔ نہ پسند کریں تو یہی حریت پسند ''دہشت گرد‘‘ بن جاتے ہیں!‘‘
خلیج کی جنگ چھڑی تو سعودی امریکی اتحاد کی شدید مخالفت کی۔1990۔91ء میں ’’عرب اینڈ اسلامک کانگریس‘‘ بنائی اور پورے عالم اسلام سے شیعہ اور سنی تنظیموں کو اکٹھا کیا۔ ان میں پی ایل او اور حزب اللہ بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر ترابی نے سیاسی علمی اور قانونی سفر میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ تین سال لیبیا میں جلا وطن رہے۔1992ء میں اوٹاوا( کینیڈا) کے ہوائی اڈے پر ایک سوڈانی نے، جو سیاسی مخالف تھا، ڈاکٹر صاحب پر چاقو سے حملہ کیا۔ یہ شخص کراٹے کا ماہر تھا اور بلیک بیلٹ جیتے ہوئے تھا۔ حملہ شدید تھا۔ حملہ آور نے سمجھا کہ وہ ختم ہوگئے۔ انہیں روبصحت ہونے میں بہت وقت لگا۔مگر ڈاکٹر حسن الترابی کا اصل کارنامہ ان کا وہ موقف ہے جو مسلمانوں کو پیش آنے والے گمبھیرمسائل پر انہوں نے فقہی اور علمی اعتبارسے پیش کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک متنازع میدان تھا۔ اس پر بہت لے دے ہوئی۔ کفر کے فتوے لگے۔تاہم مجموعی طور پر مسلمانوں نے خاص طور پر وہ جو غیر مسلم ملکوں میں قیام پذیر تھے، ان کے موقف کو سراہا۔
روزنامہ الشرق الاوسط، دنیا کا معروف ترین عربی روزنامہ ہے۔ اس کا اجراء لندن سے 1978ء میں ہوا تھا۔ اب یہ چار براعظموں کے چودہ شہروں سے شائع ہوتا ہے اور پوری دنیائے عرب میں مقبول ہے۔ اپریل 2006ء میں اسی نے جدید مسائل پر ڈاکٹر صاحب سے ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کے مندرجات، قدرے اختصار کے ساتھ، قارئین کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم ان کے موقف سے اتفاق کریں۔ یہ بھی لازم نہیں کہ اختلاف برائے اختلاف ہو۔ مقصد جدید مسائل کے حوالے سے ذہنی وسعت اور قوت برداشت پیدا کرنا ہے اوراس احساس کو اجاگر کرنا ہے کہ اسلام ہر زمانے میں قابل عمل ہے۔
سوال: مسلمان عورت اور نصرانی یا یہودی لڑکے درمیان شادی کے معاملے میں آپ کا فتویٰ بہت متنازع ہوا ہے۔ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ شادی شدہ عورت اسلام قبول کرنے کے بعد غیر مسلم شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے؟
جواب: پہلے تو اسی مسئلے کو اجتہاد کے نقطہ نظر سے دیکھنا ہوگا۔ آج کے مسلمان ، عورت کے حوالے سے قابل اعتماد اسلامی قوانین کی پروا نہیں کرتے اور اپنی بیٹیوں کی شادی کے سلسلے میں غورو فکر نہیں کرتے۔ یہ فتویٰ اس صورت حال کے پیش نظر دیا گیا تھا جو مسلمان کمیونٹی کو امریکہ میں پیش آ رہی ہے۔ ایک امریکی عورت قبول اسلام کے لیے ایک اسلامی مرکز میں گئی۔ اسے بتایا گیا کہ وہ قبول اسلام کے بعد شوہر کے ساتھ نہیں رہ سکتی، خواہ اسے غیر معمولی مالی قیمت ادا کرنی پڑے یا بچوں کو بھی چھوڑنا پڑے۔ ان حضرات نے بالکل نہیں سوچا کہ ابھی تو وہ پہلا قدم اٹھا رہی تھی اور یہ کہ اس رویہ سے عورتیں مسلمان ہونے سے گریز کریں گی۔فتویٰ دینے سے پہلے مجھے خاصی تحقیق کرنا پڑی اور فقہ کی اکثر وبیشترکتابیں دیکھنا پڑیں۔ تمام فتوے جنہوں نے مسلمان عورت اور غیر مسلم مرد کی شادی کو منع کیا تھا، ان زمانوں کے تھے جب مسلمانوں اور غیر مسلموں میں جھگڑے اور لڑائیاں ہورہی تھیں۔ دوسری طرف قرآن اور سنت میں ایسی شادیوں کے خلاف مجھے ایک لفظ بھی نہ ملا۔
اس خاص واقعہ کے حوالے سے میرا موقف یہ تھا کہ وہ عورت مسلمان ہونے کے بعد اپنے غیر مسلم شوہر کے ساتھ ہی رہتی اور شوہرکے قبول اسلام کی وجہ بن جاتی۔ مسلمان ہونے والی باقی عورتوں کے خاندان بھی پیروی کرتے۔ مجھے اس موقف کے بعد بہت اعتراضات موصول ہوئے۔ کچھ نے مجھے کافر بھی قراردیا۔ لوگوں نے اسے عزت اور بے عزتی کا مسئلہ بنالیا۔ حالانکہ زیادہ امکان یہی تھا کہ شوہر بھی مسلمان ہو جاتا۔ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کا مفاد بھی اسی میں تھا۔ مسلمان اقلیتوں کو جو ''اہل کتاب‘‘ کے ملکوں میں رہ رہی ہیں خود اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے اور خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا مناسب ہے کیونکہ صورت حال کا سامنا انہی کو ہے۔ وہ اس نتیجے پر ہی پہنچیں گی کہ انہیں اہل کتاب سے شادیاں کرنے کے لیے بیٹیوں کو اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ قوی امکان یہ ہے کہ وہ شوہروں کو اپنے راستے پر لے آئیں گی!
(غیر مسلم عورت کے قبول اسلام پر شوہر کو نہ چھوڑنے کے متعلق ''یورپی کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ‘‘ نے بھی وہی فتویٰ دیا ہے جو حسن الترابی نے دیا۔ اس کونسل میں لبنان، سوڈان، سعودی عرب، ماریطانیہ، کویت اور یو اے ای کے علاوہ مغربی ملکوں کے ممتاز علماء بھی شامل ہیں۔ معروف فقیہ یوسف القرضاوی بھی کونسل کے ممبر ہیں)۔
سوال: آپ نے ایک اور متنازع بات بھی کہی کہ گواہی میں مرد اور عورت برابر ہیں؟
جواب: بھائی ، میری بات سنے اور سمجھے بغیر، فیصلہ نہ کیجیے۔ جس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے، اس میں قرضے کو ضبط تحریر میں لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس میں حکم ہے کہ ایک لکھنے والا ہو اور معاہدے کی تصدیق کے لیے گواہ ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’عورتوں میں سے ایک بھول نہ جائے‘‘، یہ نہیں فرمایا کہ وہ یقیناًبھول جائے گی۔ ایک اور مقام پر کلام پاک میں دو انصاف پسند گواہوں کی بات کی گئی ہے جو کسی کی موت پر گواہی دیں گے۔ یہاں جنس کی تخصیص ہی نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندان میں کسی کی موت کے وقت زیادہ امکان یہ ہے کہ خواتین اس وقت پاس ہوں گی۔ یہاں مردوں اور عورتوں کی گواہی کے لیے ایک ہی معیار ہے۔
بہت سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ گواہی دینے کی کئی صورتیں ہیں۔ جیسے معاہدے کی تصدیق ، یا جج یا وکیل کے سامنے شہادت دینا! آج کے عہد میں بہت سی خواتین وکالت میں اور بزنس میں نام پیدا کر رہی ہیں۔ بہت سے مرد ان کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتے۔ ابتدائے اسلام میں بزنس اور تجارت میں خواتین ناتجربہ کار تھیں! یہ اب جج پر منحصر ہے کہ وہ کس کو گواہ کے طور پر قبول کرتا ہے۔
سوال: کیا آپ نے فتویٰ دیا ہے کہ عورت نماز پڑھا سکتی ہے؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ منع کس نے کیا ہے؟ یہ تو آپ لوگوں کا رواج اور روایات تھیں جو عورت کو نماز گھرپر پڑھواتی رہیں نہ کہ مسجد میں۔ یہ قرآن اور حدیث کا حکم تو نہ تھا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ تھیں جو مردوں کو نماز پڑھاتی رہیں۔ اگر کوئی خاتون نیک ہے تو اسے نماز پڑھانی چاہیے اور اگر کسی کا خیال اسے دیکھ کر کسی اور سمت بھٹک جاتا ہے تو اسے بیمار (ذہنیت کا)سمجھنا چاہیے! مرد کے نماز پڑھاتے وقت ہم کیا اس کی سفید داڑھی یا بدصورت چہرہ دیکھ پاتے ہیں؟ ہم یہ سنتے ہیں کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ عالم فاضل اور نیک خواتین کا بھی یہی معاملہ ہونا چاہیے۔
سوال: امام مہدی کی آمد پر بھی آپ کے خیالات مختلف ہیں؟
جواب: اس ضمن میں کئی احادیث ہیں! تاہم میں مسلمانوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے امام مہدی کا انتظار کرنے کے بجائے خود بھی کچھ کریں۔ وہ منتظر ہیں کہ امام مہدی تشریف لائیں گے اور عدل قائم کریں گے۔ وہ خود کسی قوت اور حرکت سے محروم ہیں! یہ تو موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں والی بات ہوئی جنہوں نے پیغمبر سے کہا کہ آپ جا کر لڑائی کریں، ہم تو یہیں ٹھہریں گے۔ میں مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ آپ سب ان شاء اللہ مہدی ہیں!
(بشکریہ روزنامہ دنیا)
ڈاکٹر حسن ترابی رخصت ہوئے
خورشید احمد ندیم
ڈاکٹر حسن ترابی دنیا سے رخصت ہوئے۔یہ حسن ترابی کون تھے؟
2001ء میں امریکہ سے ایک کتاب شائع ہوئی: 'معاصر اسلام کے صورت گر‘ (Makers of Contemporary Islam)۔ اس کتاب میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جن کی تفہیم دین نے دورِ حاضرکی مسلم فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور جنہوں نے عصری اسلوب میں اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ حسن ترابی ان ہی میں سے ایک تھے۔ دورِ حاضرمیں مو لانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید قطب جیسے اہل فکر کے زیراثر جو اسلامی تحریکیں برپا ہوئیں، انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔چونکہ ان شخصیات نے برصغیر اور مشرقِ وسطیٰ میں جنم لیا، اس لیے،ان تحریکوں کے سب سے زیادہ اثرات بھی یہیں محسوس کیے گئے۔یہ تحریکیں اگر چہ اسلام کے سیاسی غلبے کے لیے برپا ہوئیں، لیکن ابتدائی عہد میں ان کا پیغام ہمہ جہتی تھا۔اسلام کا فکری وعلمی احیا بھی ان کے مقاصد میں شامل تھا۔ مو لانا مودودی کے الفاظ میں ’تجدید و احیائے دین‘۔
ڈاکٹر حسن ترابی سوڈان کے وہ صاحبِ علم تھے جو اس فکر سے متاثر ہوئے۔وہ ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ لندن اور فرانس کے جدید تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔پی ایچ ڈی فرانس سے کیا۔ فرنچ، جرمن، انگریزی کے ماہر تھے۔عربی تو ان کی اپنی زبان تھی۔قانون ان کا شعبہ تھا۔اسلامی قانون اور فقہ کی روایت پر گہری نظر رکھتے تھے۔ سوڈان کی سیاست میں بہت متحرک رہے۔نمیری کی حکومت میں اٹارنی جنرل تھے۔عمر البشیر کے عہد اقتدار میں اسمبلی کے سپیکر رہے اور وزیر خارجہ بھی۔سوڈان کے آئین کی اسلامی تشکیل ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔اس کی ابتدا میں پاکستان کے آئین کی بنیاد ،قراردادِ مقاصد کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔
وہ سوڈان کے واحد رہنما تھے جنہوں نے اس مطالبے کی حمایت کی کہ جنوبی سوڈان میں مبینہ جنگی جرائم کے جرم میں، عمر البشیرکو انصاف کی بین الاقوامی عدالت کے سامنے پیش ہو نا چاہیے۔فوجی آمرعمرالبشیرنے اقتدار پر قبضہ کیاتو اسے انقلاب کہا گیا جس کے فکری قائد حسن ترابی تھے۔ پھر وہ وقت آیا کہ اسی اقتدار کے ہاتھوں جیل بھیج دیے گئے اور اذیتیں اٹھائیں۔اس قلب ماہیت پر ان کا تبصرہ بڑا بلیغ تھا: ’’ یہ تو سن رکھا تھا کہ انقلاب اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے۔یہ پہلی دفعہ دیکھا کہ ا نقلاب اپنے باپ کو کھا گیا۔‘‘ تاہم بعد میں تعلقات کچھ بہتر ہوئے۔انہوں نے عمر البشیر کے انتخاب کو دھاندلی زدہ قرارد یا، لیکن سیاسی تسلسل کے لیے نتائج کو تسلیم کیا۔سنیچر کی صبح انہیں دل کا دورہ پڑا اور شام ان کا انتقال ہوگیا۔عمر البشیرعیادت کے لیے دو دفعہ ہسپتال گئے۔
اسلامی تحریکیں، وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی تبدیلی کے لیے یک سو ہو گئیں۔یوں وہ روایتی سیاسی جماعتوں میں تبدیل ہوگئیں۔ تجدید دین اب ایک قصہ پارینہ تھا۔تاہم ان تحریکوں کی ابتدائی نسل میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اس سبق کو فراموش نہیں کیا، جیسے یوسف القرضاوی، محمد الغزالی،راشد الغنوشی،خرم مراداورمحمد قطب۔ ان میں حسن ترابی بھی تھے۔ اب میں سے کچھ وہ تھے جنہوں نے سیاسی جدو جہد سے علیحدگی اختیار کر لی اور خود کو علمی کام کے لیے خاص کر لیا، جیسے مصر کے محمد الغزالی۔کچھ وہ تھے جنہوں نے سیاسی میدان میں متحرک رہنے کے ساتھ ساتھ،تجدید و احیائے دین کی اہمیت کو بھی سمجھا اورعلمی میدان میں بھی بروئے کار آئے، جیسے تونس کے راشد الغنوشی اور سوڈان کے حسن الترابی۔
ڈاکٹر حسن ترابی ان افرادمیں نمایاں تر ہیں۔ان کے اجتہادات تو ایسے تھے کہ اسلامی تحریکیں ان کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ ترابی اگرچہ بنیادی طور پر اْسی فکر کے علم بردار تھے جسے اس دور میں ’سیاسی اسلام‘ سے تعبیر کیا جاتاہے مگر اس میں وہ روحِ عصر کو نظر انداز کر نے کے قائل نہیں تھے۔سید قطب کے ہاں تو جومسلمان حکمران اسلام کی سیاسی حکمرانی نہیں مانتے، وہ ’ طاغوت‘ ہیں اور ان کے خلاف اْٹھنا لازم ہے۔حسن ترابی اس کے قائل نہیں تھے۔وہ موجود نظام کو قبول کرتے ہوئے، اس میں راستہ بنانے کو درست سمجھتے تھے۔اگر چہ انہوں نے سوڈان میں اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری اور اس نقطہ نظر کے لوگوں کو مدعو بھی کیا لیکن وہ خود جمہوری جدو جہد کو درست سمجھتے تھے۔
خواتین کے بارے میں ان کے خیالات غیر معمولی ندرت لیے ہوئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی و سماجی معاملات میں ایک متحرک کردار ادا کر نا چاہیے۔اس مو ضوع پر انہوں نے ایک کتاب لکھی اور بہت سے مضامین بھی۔ وہ خواتین کے پردے کے لیے حجاب کی اصطلاح کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ان کے نزدیک حجاب گھروں میں لٹکائے جانے والے پردے کو کہتے ہیں۔اس کے لیے درست لفظ' خمار‘ ہے۔یہ ایک باوقار اور مہذب لباس ہے جو مسلم خاتون کو پہننا چاہیے۔ حسن ترابی غیر مسلم مرد کے ساتھ مسلمان عورت کے نکاح کو بھی جائز سمجھتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ قرآن مجید میں کہیں اس کی ممانعت نہیں آئی۔وہ خواتین کی آدھی گواہی کے تصور کو بھی دین کی درست تفہیم نہیں سمجھتے تھے۔ان کی دلیل یہ تھی کہ قرآن مجید میں قرض کی دستاویز کے حوالے سے اس کا ذکر ہواہے، گواہی کے عمومی قانون کمے حوالے سے نہیں۔ یہ عدالت کی صواب دید ہے کہ وہ کس کی گواہی قبول کرتی ہے اور کس کی رد۔اس کا تعلق صنف سے نہیں، گواہی کے معتبر ہونے سے ہے۔ایک مرد کی گواہی رد ا ور عورت کی قبول کی جا سکتی ہے۔وہ مردوں کے لیے خواتین کی امامت کو بھی جائز سمجھتے تھے۔
حسن ترابی سید نامسیح علیہ السلام کے نزولِ ثانی کے بھی قائل نہیں تھے۔وہ اس کے لیے قرآن مجید سے استدلال کرتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ قرآن مجید میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بارے میں سیدنا مسیح کی پیش گوئی کا ذکر ہے۔قرآن نے سیدنا مسیح کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’میرے بعد ایک رسول آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا۔ ’’میرے بعد’’ سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح سے پہلے نہیں، بعد میں تشریف لائیں گے۔ اسی طرح قرآن مجید سیدنا محمد کو آ خری نبی کہتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید سے ان کی آ مد ثانی کا عقیدہ ثابت نہیں۔ جب ان سے بعض روایات کا ذکر کیا گیا جن میں سیدنا مسیح کی دوبارہ آمد کا ذکر ہے تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’’حدیث قرآن کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔‘‘ وہ مرتد کے لیے موت کی سزا کے بھی قائل نہیں تھے۔
ڈاکٹر حسن ترابی کے ان نظریات کا ذکر ان کے ایک انٹرویو میں یک جا ہے جو 'الشرق الاوسط‘ میں 24 اپریل 2006ء کو شائع ہوا۔یہ انٹرویو اخبار کی ویب سائٹ پر محفوظ ہے۔اس کالم میں ان نظریات کی تصدیق یا تردید مقصود ومطلوب نہیں، صرف یہ واضح کر نا ہے کہ مرحوم کے ہاں غور وفکر کا عمل کس نہج پر آگے بڑھ رہا تھا۔اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ اسلامی تحریکوں کے عمومی رویے کے برخلاف،وہ سیاسی جدو جہد کے ساتھ فکری ارتقا کے عمل سے بھی گزر رہے تھے جس کے بغیرتجدید و احیائے دین کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ڈاکٹر صاحب اس پر بھی پوری طرح واضح تھے کہ قدیم فقہی ذخیرہ دورِ جدید میں مسلم سماج کے کام نہیں آ سکتا۔ہمیں قرآن وسنت پر براہ راست غور کرتے ہوئے،ان کی نئی تعبیر کر نی ہے۔وہ معاشرتی روایات کو دین کے الہامی ماخذ سے جدا کر کے دیکھتے تھے۔
آج حسن ترابی اس دنیا میں نہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ معاصر اسلام کے صورت گروں میں بہت نمایاں تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کرے اور ان کی فروگزاشتوں کو معاف کرے۔ آمین۔
(بشکریہ روزنامہ دنیا)
ڈاکٹر طہ جابر العلوانی ۔ شخصیت اور فکر
مولانا سید متین احمد شاہ
4 مارچ 2016ء بروز جمعہ کو عالم اسلام کے نام ور مفکر اور مصنف ڈاکٹر طہ جابر العلوانی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً 81 سال تھی۔ آپ کی پیدائش 1935ء میں عراق کے شہر فلوجہ میں ہوئی۔ آپ نے عراق میں اعلیٰ سطح کے اہل علم سے تعلیم حاصل کی اور جامعہ ازہر سے 1973ء میں اصولِ فقہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1985ء سے آپ نے جامعۃ الام محمد بن سعود الاسلامیہ میں اصول فقہ کے استاد کے طور پر دس سال تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ 1981ء میں عالمی ادارہ فکر اسلامی (المعھد العالمی للفکر الاسلامی / The International Institute of Islamic Thought) امریکا میں قائم کیا گیا جس کے اول بنیاد گزاروں میں ڈاکٹر طہ جابر بھی تھے۔ اس کے پہلے صدر معروف اسلامی مفکر ڈاکٹر اسماعیل راجی فاروقی (1921ء ۔ 1986ء) تھے۔ ان کی شہادت کے بعد اس ادارے کی سب سے نمایاں شخصیت ڈاکٹر طہ جابر ہی کی رہی ہے۔ رابطہ عالم اسلامی (Muslim World League) کی مجلس تاسیسی کے بھی آپ رکن تھے۔اس کے علاوہ کئی دیگر اداروں سے آپ کی وابستگی رہی ہے۔ آپ کی اہلیہ ڈاکٹر منیٰ ابوالفضل کا انتقال 23 ستمبر 2008ء کو ہوا تھا جو خود بہت صاحبِ فضل خاتون اور انگریزی اور عربی میں کئی کتابوں کی مصنف تھیں۔ڈاکٹر طہ جابر نے مختلف علمی اور فکری موضوعات پر کتابیں بھی لکھیں جن میں سے نمایاں کتابیں حسب ذیل ہیں :
1۔ ادب الاختلاف فی الاسلام (اس کتاب کا اردو میں بھی ترجمہ "اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب " کے نام سے ہو چکا ہے۔)
2۔ تحقیق و تدوین المحصول فی علم اصول الفقہ (امام رازی)،
3۔ الازمۃ الفکریۃ المعاصرۃ
4۔ الامام فخر الدین الرازی ومصنفاتہ
5۔ الجمع بین القراء تین: قراء ۃ الوحی وقراء ۃ الکون
6۔ الخصوصیۃ والعالمیۃ فی الفکر المعاصر
7۔ الوحدۃ البنائیۃ للقرآن المجید
8۔ لا اکراہ فی الدین: اشکالیۃ الردۃ والمرتدین من صدر الاسلام الی الیوم
9۔ لسان القرآن ومستقبل الامۃ القطب
10۔ مقاصد الشریعۃ
11۔ مقدمۃ فی اسلامیۃ المعرفۃ
اس کے علاوہ عالمی ادارہ فکر اسلامی سے شائع ہونے والی کئی کتابوں پر آپ کے علمی مقدمات قابل مطالعہ ہیں۔
بعض فکری خدوخال
علم کی اسلامی تشکیل
ڈاکٹر طہ جابر امت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے آرزو مند مفکرین میں سے تھے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں علوم کے اسلامیانے کی تحریک سے ان کا ہمیشہ تعلق رہا اور عالمی ادارہ فکر اسلامی (IIIT) سے ان کی عربی اور انگریزی میں کئی کتابیں منصہ شہود پر آئیں۔
علم کی اسلامی تشکیل کا مسئلہ بیسویں صدی میں کثرت سے معرضِ بحث آنے والے موضوعات میں سے ہے تاکہ مغرب کے فکری اور سیاسی غلبے کے اس شدید جبر میں امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے جدید خطوط پر کام کیا جا سکے۔علم وتحقیق چوں کہ کسی بھی قوم کی مادی اور ذہنی اٹھان کا نشان ہوتے ہیں، اس لیے مسلم مفکرین نے اس بات پر شدت سے توجہ مبذول کی کہ مسلمانوں کو علمی اور فکری میدان میں تیار کیا جائے اور جدید علوم، جو مغرب کی گود میں تیار ہوئے ہیں اور وحی اساس نہیں ہیں، لیکن انسانیت کے قافلے کے حدی خواں بہرحال بن چکے ہیں، انھیں اسلام کے مابعد الطبیعی افکاراور نظامِ اخلاق کی اساسات پر استوار کیا جا سکے۔ یہ فکر اصل میں مسلم دنیا میں مغرب کے ساتھ تعامل میں مکمل سپردگی اور قبول کے اس تصور کے خلاف ایک نظرثانی کے رجحان (Rethinking Trend) کے طور پر سامنے آئی جس کے حاملین میں ہمارے ہاں سرسید احمد خان اور عرب دنیا میں محمد عبدہ جیسے لوگوں کو شمار کیا جاتا ہے۔ علم کی اسلامی تشکیل کے حامیوں نے یہ بنیادی تصور پیش کیا کہ علوم وافکار کسی تہذیب کے تصورِ کائنات سے جدا نہیں ہوا کرتے، اس لیے انھیں انسانیت کے لیے حقیقی معنوں میں کارآمد بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے غیر صالح اجزا کی اصلاح کی جائے۔(۱) اس تصور میں علم کی ثنویت (عقلی اور نقلی کی تقسیم ) کی نفی بھی ملتی ہے۔
عالمی ادارہ فکر اسلامی نے عالم عربی کو اس مسئلے سے متعارف کروانے کے لیے ایک مجلہ اسلامیۃ المعرفۃ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔اس مجلے کے پہلے شمارے میں ڈاکٹر طہ جابر اس کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مجلہ اسلامیۃ المعرفۃ ایک دو گونہ اور نہایت بھاری اور مشکل ذمے داری سے عہدہ برآ ہونے کی کاوش ہے۔ وہ ذمے داری یہ ہے کہ مسلمانوں کی قرآنِ کریم سے دوری کی موجودہ صورتِ حال کو ختم کیا جائے اور ان میں اپنے منہجی اور علمی خصائص کے ساتھ شعوروآگہی پیدا کی جائے تاکہ انھیں پتہ چلے کہ قرآن کو کس طرح اپنے زمانی کی سطح پر پڑھا جائے اور اس کے ساتھ کائنات کے مطالعے کو جمع کیا جائے؛ تاکہ وہ اس کے وجود کو ختم کرنے والی ان کارروائیوں کے مقابلے میں اپنے تشخص کی حفاظت کر سکے جن کی زمامِ کار مغرب کے ہاتھ میں ہے اور وہ دنیا کو اپنے تصورِ حیات اور اقتدار کے مطابق ڈھالنے کے درپے ہے۔‘‘(۲)
اس سلسلے میں وہ علم وحی اور علم جدید سے برابر استفادے کے داعی تھے اور اپنی کئی تحریروں میں اس پر زور دیا ہے۔ تجددِ محض اور تجمد محض کی دو انتہاؤں پر گفت گو کرتے ہوئے علم کی اسلامی تشکیل (Islamization of Knowledge یا اسلامیۃ / اسلمۃ المعرفۃ) کی تحریک کے نشو وارتقا کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ایک منہجی نقطہ نظر کی ضرورت کے تحت علم کی اسلامی تشکیل کا تصور سامنے آیا۔ یہ ایک فکری سرگرمی اور علمیاتی زاویہ نظر ہے جو انسانی اور طبعی دونوں طرح کے علوم کی تشکیلِ جدید کی کوشش ہے اور اپنے اہداف، نتائج اور تطبیق کے اعتبار سے اسلامی اصولوں پر استوار ہے۔ یہ تصور مطالعہ وحی اور مطالعہ کائنات کے درمیان حائل ہونے والی خلیج کو پاٹنے کی سعی ہے؛ کیوں کہ صرف وحی کی تعلیمات پر اکتفا کرلینا اور کائنات سے صرفِ نظر کر لینا پیش آمدہ صورتِ حال ، فطرت اور زندگی کے ادراک کے باب میں پسپائی کا سبب بنا ہے اور صرف تجربے اور مشاہدے پر انحصار دین و دنیا کی جدائی کے ان مظاہر کا سبب بنا جن کا پہلے ذکر ہوا ہے۔‘‘ (۳)
اپنی کتاب الازمۃ الفکریۃ المعاصرۃ (موجودہ فکری بحران) میں انھوں نے اسلام اور مغرب کی کشمکش کے مختلف مراحل اور ان کے مقابلے میں مسلم دنیا میں پیدا ہونے والے رویوں اور رجحانات کو جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ موجودہ چیلنج کے فیصلہ کن مرحلے کو واضح کرتے ہوئے وہ اس بات پر پر اعتماد ہیں کہ اسلام ہرزمان ومکاں میں راہ نمائی کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، تاہم عملی طور پر ہمارے لیے صرف دو ہی صورتیں ہیں:یا تو ہم امت کو اس بات پر اعتماد بخش سکیں کہ انسانیت کے لیے مغرب کے مقابلے میں ہم ہی مناسب متبادل ہیں اور صحیح اور درست ثقافت پیش کرسکتے ہیں یا پھر ہم پسپائی اختیار لیں۔ ہمارے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ مغرب نے زندگی کے کئی میدانوں میں جو غیر معمولی برتری کا لوہا منوایا ہے اور بعض میں وہ ناکام ہوا ہے، ہم فکر، کلچر، تہذیب اور علم کے میدانوں میں متبادل فراہم کریں۔(۴)
ڈاکٹر طہ جابر کے نزدیک علم کے اسلامیانے کا تصور کوئی اجنبی چیز نہیں ہے بلکہ قدما میں محاسبی، ابن عربی اور امام رازی وغیرہ کے ہاں اس کی بنیادیں ملتی ہیں۔(۵)
تدبرِقرآن کا منہج
قرآنِ کریم کے تعلق سے اس کتاب پر تدبر کا ان کا ایک خاص زاویہ نظر تھا۔وہ اس کتاب پر تدبر کے لیے موضوعی وحدت کے منہج کے داعی تھے جس کی بنیادی فکر اپنی کتاب الوحدۃ البنائیۃ فی القرآن میں پیش کی ہے۔ قرآنِ کریم میں موضوعی وحدت کا مطلب یہ ہے کہ قرآنی سورتوں کے اجزا کو منتشر اکائیوں کی شکل میں نہ دیکھا جائے بلکہ ہر سورت کا ایک مرکزی مضمون ہوتا ہے اور باقی اجزا اس کے ساتھ حکیمانہ طور پر مربوط ہوتے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے" الفاروق "میں ایک اہم تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’تمدن کے زمانے میں جو علوم وفنون پیدا ہو جاتے ہیں، ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کا ہیولیٰ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ تمدن کے زمانے میں وہ ایک موزوں قالب اختیار کر لیتا ہے اور پھر ایک خاص نام یا لقب مشہور ہو جاتا ہے۔‘‘ ( ۶) اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو قرآنِ کریم میں موضوعی وحدت کی فکر کی بنیادیں ہمیں قدما کے ہاں ملتی ہیں، لیکن ایک مربوط فن کی حیثیت سے یہ طرز بیسویں صدی میں سامنے آیا ہے۔ اس طریقِ تفسیر کو سب سے مربوط اور جامع شکل میں مولانا حمید الدین فراہی نے پیش کیا اور اس کو نہ صرف عملاً برت کر دکھایا بلکہ اس کے لیے اصول بھی وضع کیے۔( ۷) عرب دنیا میں سید قطب اور شیخ سعید حویٰ کا طریق تدبر بھی اس نہج کا جز ہے اور اب مسلم دنیا بڑے پیمانے پر اس طرزِ تفسیر کی طرف متوجہ ہو چکی ہے۔ ایران میں خاص طور پر علامہ باقر الصدراور شیخ حسین الطباطبائی کے نام اس سلسلے میں لیے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر طہ جابر نے اس فکر کی بنیادیں قدما میں عبدالقاہر جرجانی اور ابو علی فارسی کے ہاں تلاش کی ہیں۔
قرآنِ کریم میں موضوعی وحدت کے داعی مفسرین یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ اس طریق تفسیر سے ایک ایک آیت کے کئی کئی احتمالات اور تفسیروں میں سے راجح ترین تفسیر کا انتخاب آسان ہوتا ہے اور یہ طرز آپس کے اختلافات کو دور کرنے کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔ اسی طرزِ تدبر کے باعث ڈاکٹر طہ جابر قرآنِ کریم کو "حمال ذو وجوہ" تسلیم کرنے میں متردد ہیں۔اس کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ وہی بات ہے جسے مولانا فراہی قرآن کے قطعی الدلالۃ ہونے سے یاد کرتے ہیں۔( ۸) چند سال قبل ڈاکٹر طہ کے چھوٹے بھائی مصطفی جابر فیاض العلوانی کی ایک کتاب عالمیۃ الخطاب القرآنی، دراسۃ تحلیلیۃ فی السور المسبحات کے نام سے شائع ہوئی جس پر ڈاکٹر طہ جابر نے پیش لفظ تحریر کیا ہے۔(۹) اس میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’روایت کی نسل نے علم ، فقہ کی نسل کے ہاتھ میں تھمایا اور فقہ و افتا کے حاصلات ظہور پذیر ہونے لگے جن کے ساتھ کچھ غلط افکار بھی در آئے، جیسے یہ اصول کہ "نصوص محدود ہیں جب کہ حوادث غیر متناہی ہیں" اور یہ اصول کہ " قرآن کئی وجوہ کی محتمل کتاب ہے۔‘‘ (۱۰)
قرآنِ کریم میں موضوعی وحدت کی دعوت کے ساتھ ڈاکٹر طہ جابر قرآنِ کریم کو علم جدید کے ساتھ مربوط کر کے دیکھنے کے داعی ہیں۔ اپنی کتاب الجمع بین القراء تین: قراء ۃ الوحی وقراء ۃ الکون (۱۱ )میں انھوں نے یہی تصور پیش کیا ہے۔ڈاکٹر طہ جابر نے "فقہ الاقلیات"(جس کا ذکر آگے آتا ہے) کے اصولوں میں بھی اس اصل کو بنیادی حیثیت دی ہے۔
قرآنِ کریم کے بارے میں یہ معروف اصول ہے کہ القرآن یفسر بعضہ بعضًا، یعنی قرآن خو د اپنی تفسیر آپ کرتا ہے، تاہم اس اصول کو برتنے کے مختلف پہلوؤں کی طرف جدید دور میں زیادہ توجہ مبذول ہوئی ہے۔ قرآنِ کریم کی زبان کے اسالیب اور اس کے بلاغی خصائص کے لیے بھی ڈاکٹر طہ جابر کے نزدیک خودقرآن ہی کی زبان کو حاکم بنانا ضروری ہے نہ کہ اس کے باہر طے کیے گئے لسانی اصولوں کو؛ اس اصول کو نظر انداز کرنے کی عملی خرابی یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی بعض آیات کی نحوی تالیف کے بارے میں قدیم دور سے لے کر آج تک مستشرقین کو اعتراضات کا موقع ملا ہے۔( ۱۲) ڈاکٹر طہ جابر سے پہلے یہی بات امام شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی لکھی ہے۔ ( ۱۳)
اختلاف و افتراق
امت کا سب سے بڑا مسئلہ: امت مسلمہ کے جن مسائل پر ڈاکٹر طہ جابر فکر مند تھے، ان میں سے باہمی اختلاف و انتشار کا مسئلہ ان کے نزدیک بڑے مسائل میں تھا۔ اسلام میں اختلاف کی حدود و آداب اور اس کے تعامل پر ایک عمدہ کتاب ادب الاختلاف فی الاسلام تحریر کی۔ اس کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’امت مسلمہ کو جو سب سے خطرناک مرض لاحق ہوا ہے، وہ اختلاف اور مخالفت ہے۔یہ وہ شدید اور متعدی مرض ہے جو ہر میدان، علاقے اور سماج پر سایہ فگن ہے اور اس نے سوچ، عقیدے، تصورات، آرا، ذوق، چلن، طرزِ عمل، اخلاق، طرزِ زندگی، طریق تعامل، طرزِ گفت گو، تمناؤں اور قریب ودورکے مقاصد کو اپنے مکروہ دائرے کی لپیٹ میں لے لیا ہے، یہاں تک کہ اس نے اپنی سیاہ ڈائن کو دلوں کی دنیا پر محیط کر دیا ہے جس کے نتیجے میں فضا، اوہام کے بادلوں سے ابر آلود کر بنجر دلوں کی سرزمین پر مصروفِ بارش ہے جس نے باہم برسر پیکار اور جوتم پیزار میں مشغول لوگوں کو وجود بخشا ہے ؛ گویا اس امت کے پاس جتنے بھی اوامر ونواہی اور تعلیمات ہیں، بس اختلاف ہی کو ہوا دیتے ہیں اور باہمی لڑائی اور جھگڑے ہی کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘ (۱۴)
کتاب میں اختلاف کی حقیقت، اس کی اقسام ، مسلم تاریخ میں واقع ہونے والے عہد بہ عہد اختلافات ، ائمہ فقہا کے اختلافات اور ان کی نوعیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بعد قرونِ خیر کے بعد کے اختلافات کی حقیقت پر گفت گو کی ہے کہ کس طرح یہ اختلاف محمود سے مذموم کے دائرے میں داخل ہوتے چلے گئے اور پھر وہ صورتِ حال سامنے آئی جس کا سامنا اس وقت ہم سب کو ہے۔ موجودہ اختلافات و انتشار کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آج مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے سب سے اہم اور نمایاں اسباب اسلام سے ناواقفیت یا اس کا ناقص علم ہے۔( ۱۵) اس کی بنیادی وجہ ظاہر ہے علم دین کی ناقدری ہے۔ اس صورتِ حال پر ان کا تبصرہ حقیقت پسندانہ ہے اور آج اگر ہم دینی مدارس کے فضلا کے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ بات بالکل بجا محسوس ہوتا ہے؛ لکھا ہے:
’’اکثر اسلامی ممالک میں دینی تعلیم کے طالب علم کم ہو گئے اور اس کا معیار پست ہو گیا اور اس طرف رخ کرنے والوں میں سے اکثر کی صورتِ حال اس شخص کی سی ہو گئی جو زمین میں کاشت کاری کرے لیکن اسے اس کا پھل پانے کی امید نہ ہو۔اس تعلیم کی طرف خاص حالات ہی انھیں متوجہ کرتے ہیں اور فراغت کے بعد بھی انھیں ان حالات کے جبر سے رست گاری نہیں مل پاتی؛ چناں چہ ان کے دروازے بند ہوتے ہیں اور وہ معاشرے میں ایک عالم کو جو کردار ادا کرنا چاہیے، وہ اسے ادا کرنے اور اس سے مربوط پیغام کے ابلاغ سے قاصر ہوتے ہیں ۔ان بند دروازوں کے سامنے ان کی استقامت جواب دے جاتی ہے ، شخصیت ماند پڑ جاتی ہے اور ناچار وہ سرکاری طور پر قائم شدہ اداروں کے نظام میں بندھ جاتے ہیں جو خاص سرکاری اہداف کو پورا کرنے کے لیے بنائے گئے ہوتے ہیں اور وہ ان سے تجاوز نہیں کر سکتے، چنانچہ ان کے اور سماجی کردار کی ادائیگی میں رکاوٹیں کھڑی ہو جاتی ہیں اور لوگوں کا ان پر اعتماد بھی باقی نہیں رہتا۔‘‘ ( ۱۶)
اس کتاب میں ڈاکٹر طہ جابر چوتھی صدی کے بعد مسلم امت میں اجتہاد کا دروزہ بند ہونے کا درد کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور امت مسلمہ کے موجودہ دور تک پہنچنے میں اس عنصر کو بنیادی حیثیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چوتھی صدی ہجری سے اجتہاد ختم ہوگیا اور اس کا آفتاب غروب ہوگیا اور تقلید عام ہو گئی۔ ( ۱۷)اس کے بعد اس کے نتائج اور عواقب پر تفصیل سے گفت گو کی ہے۔ ان کی دیگر تحریروں میں بھی اس بات کا تکرار ملتا ہے۔
یہ بات اس وقت عام طور پر جدید دانش ور طبقے کے ہاں معروف ہے کہ چوتھی صدی کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا تھا۔ اس سے پیدا ہونے والی مایوسی کے آثار اس طرح کے مفکرین کی تحریروں میں بہ کثرت ملتے ہیں اور ڈاکٹر طہ جابر کی تحریروں میں بھی یہی عنصر دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسلم دنیا کے سنجیدہ اہلِ علم یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس بات کا سب سے زیادہ پروپیگنڈا اہل مغرب نے کیا تاکہ اسلامی قانون کو ایک جامد چیز ثابت کیا جائے جو ہرزمان و مکاں میں رہ نمائی کی صلاحیت سے عاری ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے معروف خطبات میں کہا تھا : The closing of the door of Ijhtihad is pure fiction. یعنی بابِ اجتہاد بند ہونے کی بات نرا افسانہ ہے۔ معروف اقبال شناس جناب سہیل عمر نے اقبال کے اس نکتے پر اپنی مختصر کتاب "زنجیر پڑی دروازے میں" میں عمدہ گفت گو کی ہے اور امت میں اجتہاد کے عمل کے جاری رہنے کو عمدگی سے واضح کیا ہے۔ ( ۱۸) اس کے علاوہ اس افسانے کی تردید میں بعض غیر مسلم اہل علم نے بھی قلم اٹھایا ہے۔ فقہ اسلامی کی تاریخ کے نام ور عیسائی مصنف Wael B. Hallaq کا ایک تفصیلی مضمون اس سلسلے میں قابلِ مطالعہ ہے۔ ( ۱۹) مولانا ابوالحسن علی ندوی نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب "قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں" پر تنقید کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا تھا کہ:
’’ان عبارتوں کا پڑھنے والا جس کا مطالعہ وسیع اور گہرا نہیں ہے اور جو اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عام گمراہی اور دین سے ایسی ناشناسائی سے محفوظ رکھا ہے جو زمان و مکاں کی حدود سے بے نیاز ہو کر ساری امت پر سایہ فگن ہو، یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ قرآن مجید کی حقیقت اس طویل مدت تک امت کی (یا زیادہ محتاط الفاظ میں امت کے اکثر افراد کی ) نگاہوں سے اوجھل رہی اور امت بحیثیت مجموعی ان بنیادی الفاظ کی حقیقت ہی سے بے خبر رہی۔ ۔۔۔یہ نتیجہ اگرچہ بادی النظر میں کچھ زیادہ اہم اور سنگین نہ معلوم ہو، لیکن اس کے اثرات ذہن ودماغ اور طرزِ فکر پر بڑے گہریا ور دوررس ہیں، اس لیے کہ یہ اس امت کی صلاحیت ہی میں شک و شبہ پیدا کر دیتا ہے۔ ۔۔۔ اور اس سے اس امت کی گذشتہ تاریخ ، اس کے مجددین، مصلحین اور مجتہدین کے علمی وعملی کارنامے بھی مشکوک اور کم قیمت ہو جاتے ہیں۔‘‘ ( ۲۰)
بعض فقہی مسائل میں اجتہادی زاویہ نظر
سزاے مرتد کا مسئلہ
عصر حاضر میں جو مسائل کثرت سے زیر بحث آئے ہیں، ان میں اسلام کو چھوڑ کر کسی اور دین کو اختیار کرنے (ارتداد) کی سزا کا مسئلہ بھی ہے۔ ہمارے روایتی فقہی موقف میں اس کی سزا، جیسا کہ معروف ہے، قتل ہے۔( ۲۱) ڈاکٹر طہ جابر فیاض کی فقہی موضوعات پر لکھی تحریروں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعض مسائل میں جمہور کی رائے سے ہٹ کر آرا کے حامل ہیں۔ دورِ حاضر کے معروف مصنفین میں حسن الترابی کا نقطہ نظر بھی ہے جو اسی دن فوت ہوئے جس دن ڈاکٹر طہ جابر کا انتقال ہوا۔ مثال کے طور پر مرتد کی سزا کے مسئلے میں ان کا موقف عام نقطہ نظر کے برعکس ہے۔ وہ یہ ہے کہ مرتد کی سزا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی احادیث سے ثابت نہیں ہے اور آپ کے زمانے میں اس قتل کا عملی واقعہ کوئی بھی نہیں ملتا۔ وہ اس سلسلے میں کسی اجماع کا انکار کرتے ہیں۔( ۲۲) ڈاکٹر طہ جابر کی اس کتاب کے مشمولات پر مختلف پہلوؤں سے نقدو نظر ممکن ہے، چنانچہ اس کتاب پر ایک ضمیمہ شیخ عبداللہ ابن شیخ المحفوظ بن بیہ کا ہے جس میں انھوں نے بعض باتوں سے اختلاف کیا ہے۔ڈاکٹر طہ جابر کی فکر میں اس طرح کے مسائل کی وجہ سے وہ عرب اہل علم کے ہاں نقدونظر کا موضوع رہے ہیں۔
فقہ الاقلیات
ڈاکٹر طہ جابر کے فکری امتیازات میں "فقہ الاقلیات" کا جامع اور مربوط تصور بھی ہے۔ دورِ جدید کی تمدنی ضروریات کے تحت کئی مسلمان ہجرت کر کے غیر مسلم ممالک میں جا بسے ہیں اور انھیں وہاں رہتے ہوئے کئی نسلیں گزر گئی ہیں۔ یہ مسلمان وہاں کی غالب اکثریت کے مقابلے میں اقلیت میں ہیں۔وہاں کے سیاسی اور تمدنی مسائل میں مساوات ان اقلیتوں کا ایک بنیادی مطالبہ ہے۔اس کے ساتھ عالم گیریت کے تقاضوں کے نتیجے میں اب بہت سے مسائل ہمیں اپنے دیار میں رہ کر درپیش ہیں۔ اسلامی طرزِ زندگی، اس کی مابعدالطبیعی اساسات اور نظامِ اخلاق کے پیش نظر غیر مسلم معاشروں میں ان مسلمانوں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو مسلم سماج میں رہ کر پیش نہیں آتے۔ اس لیے ان کے لیے ایک جامع نظامِ فکر کی تدوین کو ڈاکٹر طہ جابر جیسے مفکرین نے ضروری قرار دیا۔ اس متنوع الابعاد نظام کو دیکھتے ہوئے ظاہر ہے کہ "فقہ الاقلیات" میں "فقہ" سے مراد صرف اسلامی قانون کے مسائل نہیں ہیں، بلکہ اس کی حیثیت "فقہ اکبر " کی ہے جو عقائد، نظم زندگی اور دیگر امور کی تعبیر نو اور تشکیل جدید سے تعلق رکھتی ہے۔ ( ۲۳) اس اعتبار سے ڈاکٹر طہ جابر فقہ اسلامی کی تجدید کے داعی مفکرین میں سے تھے جن کے پیش نظر اصل چیز "فقہ الواقع" تھی۔
اصولِ فقہ کے میدان میں خدمات
اصولِ فقہ آپ کا خاص میدان تھا اور پی ایچ ڈی اسی میدان میں کی۔پی ایچ ڈی میں آپ کی تحقیق کا موضوع امام فخر الدین رازی کی اصولِ فقہ پر کتاب ’’المحصول فی علم اصول الفقہ‘‘ کی تحقیق و تدوین تھی جسے جامعۃ الامام محمد بن سعود (ریاض) نے شائع کیا۔ آج ڈاکٹر طہ جابر کا چھے جلدوں میں تحقیق شدہ نسخہ عرب دنیا میں سب سے معتبر سمجھا جاتا ہے۔اس کتاب کا ایک مبسوط مقدمہ انھوں نے قلم بند کیا تھا لیکن جامعہ میں اس کی اشاعت سے اس لیے انکار کر دیا گیا کہ اس میں مصنف نے امام رازی کو امام ابن تیمیہ پر فضیلت دی ہے جو کہ اس کے اشعری ہونے کی دلیل ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ محسن ترکی نے اس معاملے کو ہاتھ میں لیا اور یہ حصہ کہیں اور طبع کرنے کی تجویز دی جو اب مستقل کتاب کی شکل میں دارالسلام قاہرہ سے شائع ہوتا ہے۔ ( ۲۴)
اصولِ فقہ سے گہری وابستگی کے باعث ڈاکٹر طہ جابر کی تحریروں میں بعض بڑے عمدہ نکات ملتے ہیں جو مستقل تحقیق کا موضوع بن سکتے ہیں۔ آپ کے ایک بھائی جابر فیاض العلوانی کی اس سے پہلے وفات(5 مارچ 1987ء) ہو چکی ہے۔ ان کی کتاب "الامثال فی القرآن الکریم" پر ڈاکٹر طہ جابر کا پیش لفظ ہے۔ اس میں انھوں نے قرآنی امثال کی معنویت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ امثال احکام شرعیہ کا ایک مصدر ہیں۔ان امثال میں حسن و قبح کا پہلو بھی ملتا ہے جس سے حلت ، حرمت اور کراہت کے فقہی موضوعات کو مربوط کر کے دیکھنا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے امام شافعی نے امثالِ قرآنی کی معرفت کو مجتہد کے لیے لازم قراردیا ہے۔ان امثال کا دوسرا پہلو "قیاسِ اصولی" کا ہے جس پر سائنس کے تجربی منہج کی اٹھان ہوئی ہے، اس لیے امثالِ قرآنی کے ان پہلوؤں پر تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔ ( ۲۵)
حواشی
۱۔ انیسویں صدی میں یہ جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے بارے میں قدر آزاد (Valure free)نظریے کا عمومی چلن تھا، لیکن بیسویں صدی میں اس نقطہ نظر میں تبدیلی آئی اور جدید سرمایہ دارانہ علمیت کے ناقدین نے یہ قرار دیا کہ یہ چیزیں کسی طرح بھی قدر آزاد نہیں ہیں۔اگرچہ یہ نظریہ اب تقریباً مکمل طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے، تاہم مسلم دنیا کے بعض مفکرین ابھی بھی مغربی ٹیکنالوجی کے ایک حصے کے بارے میں رائے رکھتے ہیں کہ اسے بلاجھجک قبول کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے؛ چنانچہ نام ور مصنف اور مفکر سید حسین نصر کہتے ہیں :
I am the last person in the world to think that Islamic civilization can choose a part of Western technology which is considered good, claim it is completely harmless, and then reject another part.
(میں اسلامی دنیا کا شاید واحد فرد ہوں جو یہ رئاے رکھتا ہے کہ اسلامی تہذیب مغربی ٹیکنالوجی کے ایک حصے کواپنا سکتی ہے جو کہ اچھا ہے اور اس کے بارے میں یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ مکمل طور پر بے ضرر ہے، جب کہ دوسرے حصے کو مسترد کر دے۔)
(Seyyed Hossein Nasr in Conversation with Muzaffar Iqbal, Islam, Science, Muslims and Technology (Islamabad: Dost Publications, 2007), 57.)
۲۔ طہ جابر العلوانی، لما ذا اسلامیۃ المعرفۃ؟ در اسلامیۃ المعرفۃ، العدد الاول،ص 29۔
۳۔ طہ جابر العلوانی، مقدمۃ فی اسلامیۃ المعرفۃ (بیروت: دار الہادی للطباعۃ والنشر، 2001ء)،ص 186۔
۴۔ طہ جابر العلوانی، الازمۃ الفکریۃ المعاصرۃ (ورجینا: المعہد العالمی للفکر الاسلامی، 1994ء)، 24۔
۵۔ نفس مصدر۔
۶۔ شبلی نعمانی،الفاروق (کراچی: دارلاشاعت، 1991ء )، ص 22۔
۷۔ مولانا فراہی نے قرآن میں موضوعی وحدت کو نظم یا نظام کا نام دیا ، اس کے لیے ان کے اصول ان کی کتابوں دلائل النظام، التکمیل فی اصول التاویل اور ان کی ناتمام تفسیر نظام القرآن وتفسیر الفرقان بالفرقان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی نے انھی اصولوں کو بڑھاتے ہوئے اردو میں اپنی معروف تفسیر تدبرِ قرآن تحریر کی۔
۸۔ حمید الدین فراہی،مقدمہ تفسیر نظام القران،ترجمہ: امین احسن اصلاحی(اعظم گڑھ: دائرۂ حمیدیہ، س۔ن)، ص 45۔
۹۔ مصطفی جابر فیاض العلوانی، عالمیۃ الخطاب القرآنی، دراسۃ تحلیلیۃ فی السور المسبحات،پیش لفظ ا۔د۔ طہ جابر العلوانی (ورجینا: المعہد العالمی للفکر الاسلامی، 2012ء)، 14۔
۱۰۔ یہاں یہ بات پیشِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ ڈاکٹر طہ جابر نص قرآنی کے "ثابت" اور "متغیر" معانی میں فرق کرتے ہیں اور دوسری نوع کے پہلو سے قرآنِ کریم کی "قراء تِ مفاہیمہ" کی ایک معجم تیار کرنے کے عمل کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کی اس فکر میں مطالعہ نص میں جدید Semantics کے اصولوں کا لمس کارفرما نظر آتا ہے اور جس کی بنیادیں اسلامی تراث میں علامہ شاطبی جیسوں کے ہاں ملتی ہیں۔
۱۱۔ اس کتاب کے نام سے ہمارے یہاں ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب "دو قرآن" کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔ برق لکھتے ہیں :"دو قرآن میں جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے، بتایا گیا ہے کہ قرآن ایک نہیں، دو ہیں۔ایک وہ جو کتاب کی شکل میں ہر مسلمان کے گھر میں موجود اور ہر حافظ کے سینے میں محفوظ ہے اور دوسرا وہ کائناتِ ارض و سما کی شکل میں ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔۔۔ ایک قرآن میں لکھی ہوئی آیتیں ہیں اور دوسرے میں عمل وحرکت کرتی ہوئی آیتیں؛ ایک قرآن اصول و قوانین کا ضابطہ ہے اور دوسرا اس کی عملی تشریح۔"(غلام جیلانی برق، دو قرآن(لاہور: الفیصل)، ص 10۔
۱۲۔ اس سلسلے میں پانچ آیات ایسی ہیں جن کو قدیم دور میں بھی موردِ طعن بنایا گیا جن کا جواب دینے کے لیے امام رازی نے بھی تعرض کیا۔البقرۃ177، النساء 162، المائدۃ69، ط?6، المنافقون10۔
۱۳۔ شاہ ولی اللہ دہلوی، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، تعریب: مولانا انور بدخشانی (کراچی: بیت العلم، 2006ء)، ص 101۔
۱۴۔ طہ جابر العلوانی، ادب الاختلاف فی الاسلام (ورجینیا: المعہد العالمی للفکر الاسلامی، 1992ء )، 8۔
۱۵۔ ادب الاختلاف فی الاسلام، 150۔
۱۶۔ نفس مصدر، 151۔ 152۔
۱۷۔ نفس مصدر، 135۔
۱۸۔ دیکھیے: سہیل عمر، زنجیر پڑی دروازے میں(لاہور: اقبال اکادمی، 2010ء4 )۔
19 - Wael B. Hallaq, "Was the Gate of Ijtihad Closed?" in International Journal of Middle East Studies (March 1984), pp. 3- 41.
انٹرنیٹ پر یہ مقالہ دست یاب ہے۔
۲۰۔ ابوالحسن علی ندوی، عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح(کراچی: مجلس نشریاتِ اسلام)، ص 34۔
۲۱۔ اردو میں اس نقطہ نظر کے ایک جامع مطالعے اور دلائل کے لیے دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودی، مرتد کی سزا (لاہور:اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ)۔
۲۲۔ دیکھیے: طہ جابر العلوانی، لا اکراہ فی الدین: اشکالیۃ الردۃ والمرتدین من صدر الاسلام الی الیوم (ورجینیا: المعہد العالمی للفکر الاسلامی، قاہرۃ: مکتبۃ الشروق الدولیۃ، 2006ء )۔
۳۳۔ فقہ الاقلیات پر ڈاکٹر طہ جابر نے فی فقہ الاقلیات نامی مختصر کتاب تحریر کی ہے۔
۳۴۔ دیکھیے: طہ جابر العلوانی، فخر الدین الرازی ومصنفاتہ (قاہرہ: دارالسلام، 2010ء )، ص 6۔
۳۵۔ دیکھیے: محمد جابر الفیاض، الامثال فی القرآن الکریم، پیش لفظ، طہ جابر العلوانی (ریاض: الدار العالمیۃ للکتاب الاسلامی، 1995ء)، ص 13۔ 14۔
مولانا محمد عبید اللہ اشرفی رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
جامعہ اشرفیہ کے مہتمم، سراپا اخلاق و تبسم، زندہ دل، خندہ جبیں، علم و حلم کا حسین امتزاج، شکوہ علم کے بغیر کوہ علم اور زعم تقویٰ سے خالی زبدہ اتقیا ء۔اتنے بے تکلف کہ شاگرد سراپا حیرت رہ جاتے اور اتنے مودب کہ معاصرین کو اساتذہ کا سا درجہ دیتے۔ حدیث کے زیر سایہ منطق کلام تصوف یا فقہی مناظرہ آراء کی تدریس ایک الگ پہلو ہے، لیکن حدیث بحیثیت حدیث کی تدریس میں ان کو تفوق حاصل تھا۔ تاہم نہ صرف یہ کہ کبھی بخاری پڑھانے کی خواہش نہیں کی بلکہ ہمیشہ اپنے کو شیوخ حدیث کے شاگردوں کی سطح پر رکھا۔
صبح صبح ہمیں ابوداود اور پھر طحاوی پڑھانے آتے تو کبھی اس نشست پر نہیں بیٹھے جو استاذ حدیث کے لیے مختص تھی۔ ایک کنارے پر ایک پاؤں مسند سے نیچے رکھ کر بیٹھ جاتے اور اپنی بے پناہ مترنم آوازمیں حدیث کا مفہوم، معانی، مطالب، توجیہات، تنقیحات، تعارض، توافق، تطبیق، سب ایک ایک کر کے بیان کرتے لیکن نہ زعم تحقیق نہ علمی طنطنہ نہ بیاض نہ نوٹس نہ رٹا۔ اتنے دلآویز انداز میں قال ابو داود کہہ کر اس کی تشریح کر تے کہ اس وقت بھی ان کی مترنم آواز میری سماعت میں رس گھول رہی ہے۔
وہ اصل میں کیا تھے؟ فنون لطیفہ کے حسن امتزاج سے جو پیکر مجسم ہو سکتاہو اسے نام دیا جائے تو وہ مولانا عبیداللہ تھے۔ سنا ہے جوانی میں انہوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی اور ریاض کرتے رہے تھے۔ جن احباب نے ان سے حماسہ پڑھی ہے، وہی ان کے جذب و شوق اور عشق و وارفتگی سے بخوبی آگاہ رہے ہو ں گے۔
جب اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر تھے تو اتفاق سے میں کونسل کے دفتر گیا تو وہاں نیاز حاصل ہوئے۔ انہیں کمیٹی چوک پنڈی اپنے کسی عزیز کے ہاں جانا تھا۔میری درخواست پر میرے ساتھ بیٹھ گئے۔ راستے میں مجھے مزے مزے کے اشعار بھی سناتے رہے جن میں سے ایک ابھی تک حافظے میں محفوظ ہے:
رکھ کے لب سو گئے ہم آتشیں رخساروں پر
دل کو تھا چین کہ نیند آگئی انگاروں پر
اسی دوران میں میرے سوال پر کہ دیگر مدارس کے بر عکس فضلائے جامعہ اشرفیہ میں شدت پسندی نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ بانی جامعہ حضرت مفتی محمد حسن صاحب کے مزاج کا اثر ہے۔ پھر اس پر واقعہ بھی سنایا کہ لاہور کے چند جید علماء دیوبند و اہل حدیث نے جن میں مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا داود غزنوی شامل تھے، ایک فتویٰ تیار کیا جس کا مفاد یہ تھا کہ عید میلاد النبی کا جلوس نکالنا بدعت ہے اور ایک وفد کی شکل میں مولانا مفتی محمد حسن بانی جامعہ اشرفیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس پر دستخط کرنے کی درخواست کی۔ مفتی صاحب نے ٹالنے کی کوشش کی، لیکن جب علماء نے اصرار کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ’’میرے خیال میں جس طرح کوئی اللہ رسول کا نام لے، اسے لینے دیا جائے۔‘‘
آج کی بات نہیں، میں ہمیشہ سے یہ سوچتا ہوں کہ انسان اتنا متوازن کیسے ہو سکتا ہے جس قدر استاذ گرامی قدر متوازن تھے۔ اہل علم اپنے احساس علم کے طمطراق کے اسیر ہو جاتے ہیں اور اہل دل عزت نفس بر قرار رکھنا بھی عجب (عین کی پیش ) سمجھتے ہیں۔ نہ معلوم انہوں نے کس طرح اپنے آپ کو پیکر توازن میں ڈھال لیا تھا۔ تھانوی مکتب خیال سے متعلق ہونے کے باوجود اس مکتب فکر کی منفی خصوصیات سے کوسوں دور۔ حدیث پڑھانا یقیناًبہت بڑی سعادت ہے اور حاصل نہیں ہو سکتی تا نہ بخشد خدائے بخشندہ، لیکن شخصیت کو سنت کے قالب میں اس طرح ڈھال لینا کہ ہر دیکھنے اور ملنے والا دام محبت میں اسیر ہوجائے، کاروان اصحاب رسول کا امتیاز تھا۔ نہ معلوم آج کے دور میں کچھ شخصیات پر ایسی محبوبیت کا نزول کیسے ہوتا ہے۔
مجھے زیادہ موقع نہیں ملا، لیکن ایک دوبار مولانا خیر محمد جالندھری اور مولانا محمد علی جالندھری کی مجالس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ نہ معلوم ان کی شخصیات کنن سی مقناطیسی قوت اور کس نوع کی کشش ثقل لے کر آئی تھیں کہ ان کی طرف دل کھنچا چلا جاتاتھا۔ مولانا عبید اللہ اسی قافلے کے آخری مسافر تھے اور بقول آغا شورش کاشمیری
القصہ ایک عہد صحابہ کی یاد گار
ان کا وجود نغمہ طراز حجاز تھا
مولانا محمد عبید اللہ اشرفی رحمہ اللہ
مولانا مفتی محمد زاہد
حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا واقعی ان شخصیات میں سے تھے جن کے معاصرین میں سے کسی کو ان کا مماثل نہیں کہا جاسکتا۔ علامہ انور شاہ کشمیری اور مرشد تھانوی سے نیاز حاصل کرنے والی پاکستانی کی شاید آخری شخصیت۔ علم فطانت ، ذہانت، حاضر جوابی ، بڑوں کی نسبتوں کے باوجود امتیاز پسندی کا نام ونشان تک نہیں۔ خشکی قریب سے نہیں گذری تھی۔ خود کو متقی ، عابد وزاہد ثابت کرنے کے لیے بھی کبھی خشک بننے کا تکلف نہیں کیا ہوگا۔ آخر عمر تک دورہ حدیث میں طحاوی کی شرح معانی الآثار کا درس دیتے رہے، حالانکہ بخاری جیسی کوئی معروف کتاب بھی لے سکتے تھے۔
مولانا کو یہ خاص امتیاز حاصل تھا کہ انہوں نے فارسی کی ابتدائی کتب سے لے کر صحیح بخاری تک ساری درسی کتب کا پہلا سبق حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ سے پڑھا تھا۔ اس طرح سے اس وقت مولانا تھانوی کے وہ واحد شاگرد تھے۔ ان کے والد ماجد مفتی محمد حسن حضرت تھانوی کے عاشق زار مرید وخلیفہ تھے، لیکن فرمایا کرتے تھے کہ حضرت تھانوی کے ساتھ مجھے بعض ایسی خصوصیات حاصل ہیں جو میرے والد صاحب کو بھی حاصل نہیں، اور یہ بات وہ خود اپنے والد ماجد سے بھی کہا کرتے تھے۔ ایک بات تو وہی ہرکتاب ان سے شروع کرنے والی۔ ایک یہ کہ میں نے حضرت تھانوی سے بچپن میں ایک تھپڑ بھی کھایا تھا۔
شعر وشاعری سے بے تحاشا شغف تھا۔ بہت سے اشعار بڑھاپے میں بھی یاد تھے۔ کرکٹ جیسے کسی زمانے میں مکروہ سمجھے جانے والے کھیل بھی لگاؤ رکھتے تھے۔
اپنے اور اپنے بزرگوں کے بہت سے واقعات سنایا کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد مفتی حسن صاحب لاہور آگئے۔ حکومت میں آپ کے خاصے تعلقات تھے۔ مولانا تھانوی کے کئی متعلقین کو ان کی ہندوستان کی جائیدادوں کے claim میں یہاں پراپرٹیز الاٹ کروائیں، لیکن خود کچھ حاصل نہیں کیا۔ بتاتے تھے کہ مولانا تھانوی کی اہلیہ (جنہیں چھوٹی پیرانی صاحبہ کہا جاتا تھا، مفتی جمیل احمد تھانوی کی ساس اور مولانا مشرف علی تھانوی وغیرہ کی نانی) کو ماڈل ٹاؤن میں ایک بڑی کوٹھی الاٹ کروائی۔ مولانا عبید اللہ بتایا کرتے تھے کہ کئی لوگوں نے مفتی صاحب سے خود بھی کہا اور میرے ذریعے بھی کہلوایا کہ آدھی مفتی صاحب خود رکھ لیں اور آدھی پیرانی صاحبہ کو دلوادیں، لیکن مفتی صاحب نہیں مانے۔
اللہ تعالیٰ نے آواز میں عجیب ترنم اور سوز دیا تھا۔ پچپن میں کچھ عرصہ جامعہ اشرفیہ میں صوفی صاحب کے گھر رہنے کا اتفاق ہوا۔ جب کبھی فجر کی نماز پڑھاتے تو مزا آجاتا۔ ’’وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض‘‘ کثرت سے تلاوت کرتے۔ خطبہ جمعہ بھی سننے کے قابل ہوتا تھا۔ کئی لوگوں نے نقل اتارنے کی کوشش کی، لیکن نقل اور اصل میں فرق برقرار رہا۔ غفر اللہ لہ ورفع درجتہ
ممتاز قادری کیس: سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نکات
ادارہ
یہ کیس سب سے پہلے ایک سپیشل ٹرائل کورٹ میں چلا جس نے ممتاز قادری کو 302 اور اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997 کے سیکشن 7 کے تحت سزائے موت سنائی جس کے خلاف جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی تو عدالت نے 302 کے تحت پھانسی کی سزا برقرار رکھی مگر انسدادِ دہشت گردی کی شق ہٹا دی۔ پھر جب اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تو سپریم کورٹ کی بینچ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور 302 کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کے تحت سزائے موت بھی بحال کر دی۔ سب سے پہلے فیصلے میں کیس کی نوعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس کیس کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ کیا توہین مذہب کے ارتکاب کے نتیجے میں کوئی شخص کسی کو قتل کر سکتا ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ’’کیا کوئی شخص کسی پر توہین مذہب کے شبہے میں یا اپنی دانست میں کسی بات کو توہین مذہب سمجھ کر کسی کو قتل کر سکتا ہے؟’’
کیس میں ممتاز قادری کا دفاع 2 نکات پر مشتمل تھا:
- میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے میں حق بجانب تھا، کیونکہ اس نے توہین رسالت کی تھی اور ایک ایسی عورت کو سپورٹ کیا تھا جس کو توہین رسالت کے کیس میں سزا ہو چکی تھی۔
- میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے میں اس لیے حق بجانب تھا کہ اس نے مجھے اشتعال دلایا۔ جب وہ کوہسار مارکیٹ کے ریسٹورنٹ سے اپنے دوست کے ساتھ باہر نکلا تو میں نے اس سے کہا کہ جنابِ والا! آپ نے گورنر ہوتے ہوئے بلاسفیمی لا کو کالا قانون کہا ہے جو آپ کے شایانِ شان نہیں۔ اس پر سلمان تاثیر نے آگے سے نہ صرف یہ کہا کہ یہ کالا قانون ہے، بلکہ اس نے اس قانون کو مزید برا بھلا کہا جس پر ممتاز قادری کو مبینہ طور پر اشتعال آ گیا اور اس نے گولیاں چلا دیں۔
پہلے نکتے کو ثابت کرنے کے لیے ممتاز قادری نے عدالت میں 2 اخباری رپورٹیں جمع کروائیں جس میں سلمان تاثیر کے آسیہ بی بی سے متعلق ریمارکس بتائے گئے تھے۔ اْن میں سے ایک رپورٹ تو قتل ہو جانے کے بعد شائع ہوئی تھی۔ دوسری رپورٹ کے بارے میں جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا اس نے اس رپورٹ کی تصدیق کی تھی کہ کس نے اسے رپورٹ کیا اور کیا واقعی یہ سلمان تاثیر کے الفاظ ہیں؟ تو ممتاز قادری کا جواب نفی میں تھا جس پر عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ممتاز قادری نے آسیہ بی بی سے متعلق ریمارکس براہ راست نہیں سنے بلکہ یہ Hearsay پر مبنی ہیں جن کو وہ اپنی دانست میں توہین رسالت سمجھ بیٹھا۔
دوسرے نکتے کو ٹرائل کورٹ میں تحریری طور پر کیس چلنے کے وقت جمع کروایا گیا تھا۔ اس بارے میں جب اس سے کہا گیا کہ وہ عدالت میں آ کر حلف اٹھا کر یہ بیان دے کہ سلمان تاثیر نے اس کے سامنے ایسی بات کہی تھی تو اس نے حلفیہ بیان دینے سے انکار کر دیا۔ اس مبینہ گفتگو کے وقت تین ہی لوگ موجود تھے: ایک سلمان تاثیر کا دوست شیخ وقاص، دوسرا سلمان تاثیر اور تیسرا قادری۔ ایک انسان مارا جا چکا تھا۔ دوسرے کو انہوں نے عدالت میں طلب کرنے کی درخواست نہیں جمع کروائی۔ اگر کرواتے تو یہ عدالت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس اہم گواہ کو بلاتی اور اگر وہ نہ پیش ہوتا تو اس پر توہین عدالت لگ جاتی۔ لیکن اپیل کنندہ کی جانب سے ایسی کوئی درخواست ہی جمع نہیں کروائی گئی۔ خود اپیل کنندہ نے بھی حلف اٹھا کر یہ بات کہنے سے انکار کر دیا۔
بس یہی وہ نکتہ تھا جس نے اس کیس کو سب سے زیادہ کمزور کر دیا اور عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ اپنا دفاع بہتر کرنے کے لیے بعد میں ایجاد کی گئی ایک کہانی ہے کیونکہ ٹرائل کورٹ سے پہلے تفتیشی افسر کے سامنے بھی ممتاز قادری نے قتل کے وقت ایسے کسی مکالمے کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ ممتاز قادری کے وکلاء نے کہا کہ مقتول کو گولیاں سامنے سے لگی تھیں جس سے پتا لگتا ہے کہ دونوں کے درمیان ضرور کوئی مکالمہ ہوا ہوگا اور 28 گولیوں کے لگنے سے پتا لگتا ہے کہ ضرور ملزم اشتعال میں آیا ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ یہ صرف قیاس آرائیاں ہیں، ان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔
ممتاز قادری کے وکلاء کی جانب سے یہ بات بھی اٹھائی گئی کہ توہین مذہب پر سزا کے قانون کو غلط کہنا بھی توہین مذہب ہے اور فیصلے کی رپورٹ کے مطابق اس بات کے حق میں انہوں نے جو حوالے پیش کیے، ان میں سے کوئی بھی قرآن یا حدیث کے حوالے پر مبنی نہیں تھا، بلکہ وہ صرف کچھ اسکالرز کی رائے تھی کہ توہین مذہب پر سزا کے قانون کو غلط کہنا بھی توہین مذہب ہے۔ عدالت کا موقف یہ تھا کہ بلاسفیمی کیا ہے، اْس کی تعریف 295-C میں موجود ہے۔ سلمان تاثیر کا اس قانون سے متعلق بیان کسی بھی صورت میں 295-C میں بیان کردہ توہین مذہب کی تعریف میں نہیں آتا۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ بلاسفیمی قانون میں پہلے بھی کئی بار ترمیم ہو چکی ہے۔ یہ سب سے پہلے 1866 میں انڈین پینل کوڈ میں شامل ہوا۔ پھر سب سے پہلی ترمیم 1927 میں ہوئی۔ پھر 1986 اور 1991 میں اس میں ترامیم ہوئیں۔ لہٰذا جس قانون میں پہلے ہی کئی بار ترامیم ہو چکی ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی ساکت و جامد قانون نہیں ہے بلکہ اس کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس پر نظر ثانی کی جائے تو یہ مطالبہ کوئی غلط بات نہیں۔ معزز جج صاحبان نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک 2002 کے کیس کا حوالہ دیا جس میں خود عدالت نے قانون میں ترامیم کی کچھ سفارشات پیش کی تھیں کہ اس کے پروسیجر میں یہ اور یہ تبدیلیاں کی جائیں۔ اس کی تفتیش کوئی عام ASI یا محرر نہ کرے، بلکہ دو ایسے افسر کریں جن کو اس بارے میں مکمل علم ہو کہ توہین مذہب کی تعریف کیا ہے اور ان کے ساتھ ایک غیر جانبدار مذہبی اسکالر بھی ہو اور پوری تفتیش کے بعد کیس درج کیا جائے۔ عدالت نے فیصلے میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کی اس قانون میں تبدیلیاں کرنے کی سفارشات کو کسی بھی صورت میں توہین مذہب کہا جا سکتا ہے؟ خود ہی اس کا جواب بھی دیا ہے کہ ہرگز نہیں۔
جج صاحبان نے بلاسفیمی کیسز کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار بھی فراہم کیے جن کے مطابق 1953 سے 2012 تک درج ہونے والے 434 بلاسفیمی کے مقدمات میں 258 خود مسلمانوں کے خلاف تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس قانون کا استعمال ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے کیا جاتا ہے، لہٰذا اگر کوئی یہ بات کرتا ہے کہ اس قانون پر نظر ثانی کی جائے اور اس کا غلط استعمال روکا جائے تو یہ کوئی غلط مطالبہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی توہین مذہب ہے۔
(https://www.facebook.com/leee3x/posts/193792064320665)
تشدد کے خلاف خواتین کے تحفظ کا قانون :چند اہم نکات
محمد مشتاق احمد
اصولی گزارشات
پہلے چند اصولی گزارشات ملاحظہ کریں:
۱۔ اسلامی قانون کی رو سے یہ موقف صحیح نہیں ہے کہ نظمِ اجتماعی کو گھر یا خاندان کے امور میں مداخلت کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ اگر قاضی کو بیوی کی جانب سے شوہر کے خلاف شکایت ملے تو قاضی کو شوہر سے بازپرس اور اس کے پڑوسیوں کے ذریعے تحقیق کا حق ہے اور نتیجتاً وہ شوہر کی مناسب تادیب بھی کرسکتا ہے۔ پس اس موقف سے گریز ہی بہتر ہے کہ نظمِ اجتماعی کو خاندان کے نجی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں ہے، بلکہ میں تو ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہوں گا کہ پاکستانی معاشرے میں عورت پر ظلم ایک بدیہی امر ہے جو بے شک اس سطح پر نہ ہوتا ہو جتنا لوگ اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں، لیکن بہرحال اس کی سنگینی سے انکار مناسب نہیں ہے۔ اس لیے اصولاً اس ظلم کے خاتمے کے لیے مناسب قانون سازی کی ضرورت بھی تسلیم کرنی چاہیے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر مناسب قانون سازی کی ضرورت کو دینی حلقے خود ہی پورا نہیں کریں گے تو خلا اسی طرح کی ناقص اور بھونڈی قانون سازی سے پورا ہوگا۔ البتہ اس امر پر بحث ضروری ہے کہ نظمِ اجتماعی کی یہ مداخلت کس نوعیت کی ہے اور کیا وہ شریعت کے اصول و قواعد سے ہم آہنگ ہے یا نہیں ؟
۲۔ جب شریعت سے ہم آہنگی کی بات کی جاتی ہے تو یار لوگ پوچھنا شروع کردیتے ہیں کہ اس قانون کی کون سی شق سے کس آیت یا حدیث کی خلاف ورزی ہورہی ہے ؟ اہم بات یہ ہے کہ صرف کسی مخصوص آیت یا حدیث کی مخالفت ہی کی بنا پر کوئی شق غیر اسلامی نہیں ہوجاتی بلکہ اگر وہ شریعت کے اصول اور قواعدِ عامہ سے متصادم ہو تو اس صورت میں بھی حکم یہی ہوگا۔یہ نظریہ صرف اسلامی شریعت نے ہی نہیں دیا بلکہ ملکی قانون کی رو سے بھی عدالتوں نے یہی اصول تسلیم کیا ہے ؛ یہاں تک کہ بین الاقوامی قانون نے بھی ’’قانون کے قواعدِ عامہ‘‘ کو بین الاقوامی قانون کے بنیادی مآخذ میں شمار کیا ہے۔
۳۔ مزید برآں ، بعض اوقات کسی خاص شق سے کسی خاص دلیلِ جزئی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی لیکن قانون کا جو پورا مجموعہ ہوتا ہے، وہ شریعت کے عمومی مقاصد150 جسے آج کل معروف اصطلاح میں "شریعت کی روح " کہا جاتا ہے 150سے متصادم ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں ایک ایک شق پر الگ بحث کی ضرورت ہے، وہیں یہ دیکھنا بھی اشد ضروری ہے کہ کیا اس قانون کا کلی تصور شریعت کے مقاصد سے ہم آہنگ ہے؟
۴۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ بارِ ثبوت ان لوگوں پر نہیں ہے جو اس قانون کو شریعت سے متصادم قرار دیتے ہیں ، بلکہ ان لوگوں پر ہے جن کا دعویٰ ہے کہ اس قانون سے شریعت کے کسی اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری عدالتوں نے اباحتِ اصلیہ کے انتہائی کمزور تصور کی بنیاد پر کئی اہم فیصلوں کی بنا کی ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس معاملے کی برابر کی ذمہ داری ہمارے علماے کرام پر بھی آتی ہے جنھوں نے بعض امور 150 بالخصوص "اسلامی" بینکاری کے امور 150میں اس تصور کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا ہے۔
اس قانون کے بارے میں چند اہم نکات
ان اصولی باتوں کی توضیح کے بعد چند نکات اس قانون کے متعلق پیش کیے جاتے ہیں :
قانون کا اطلاق
میڈیا پربغیر کسی تصدیق کے قرار دیا گیا کہ اس قانون کے تحت ایک شوہر پر مقدمہ درج کیا گیا اورپھر ضمانت پر باہر آنے کے بعد اس نے فوراً بیوی کو طلاق دے دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک اس قانون کا نفاذ تو شروع ہی نہیں ہوا۔ دفعہ 1 کی ذیلی دفعہ 3 میں قرار دیاگیا ہے کہ یہ قانون تب نافذ العمل ہوگا جب حکومتِ پنجاب خصوصی اعلان کے ذریعے اس کا نفاذ کرے۔ یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ مختلف علاقوں میں اس کے نفاذ کی تاریخ مختلف ہوسکتی ہے۔ چونکہ ابھی تک سرکاری طور پر کسی بھی ضلع میں اس کا نفاذ نہیں کیا گیا ، اس لیے اس کے تحت مقدمے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس قانون کے تحت تشدد ، بشمول گھریلو تشدد ، اصلاً دیوانی معاملہ ہے جس پر خواہ آخر میں سزا تک بات پہنچ جاتی ہو، لیکن ابتدا میں مقدمہ سول عدالت ( فیملی عدالت ) میں جائے گا۔ تاہم مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت تشدد پہلے ہی سے قابلِ سزا جرم ہے۔ اس لیے تعزیراتِ پاکستان کے تحت فوجداری مقدمہ بھی دائر ہوسکتا ہے۔ میڈیا میں مذکور کیس اسی نوعیت کا تھا۔ اس مقدمے کا اندراج تعزیراتِ پاکستان کے تحت ہوا تھا ، نہ کہ اس نئے قانون کے تحت۔
البتہ اس مقدمے سے یہ بات تو بہرحال ثابت ہوجاتی ہے کہ اس طرح کی مقدمہ بازی کا نتیجہ فوری طلاق کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اس سے تو یہ بھی ثابت ہوا کہ مرد واقعی خواتین پر ظلم کرتے ہیں اور اسی لیے اس ظلم کی روک تھام کے لیے مناسب قانون سازی بہرحال ضروری ہے۔
قانون کی وسعت
میڈیا پر زیادہ تر بحث شوہر کی جانب سے بیوی پر ہونے والے ظلم کے تناظر میں ہورہی ہے ، حالانکہ قانون صرف بیوی اور شوہر تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کسی بھی خاتون پر کسی بھی شخص کی جانب سے ہونے والے ظلم پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ نیز اس قانون کا اطلاق صرف "گھریلو تشدد " پر ہی نہیں ہوتا ، بلکہ کہیں بھی کسی خاتون پر تشدد ہو تو وہاں اس قانون کی رو سے کارروائی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ (a) میں "متاثرہ شخص" (aggrieved person) کی تعریف یہ پیش کی گئی ہے :
a female who has been subjected to violence by a defendant
( کوئی خاتون جسے مدعا علیہ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ )
اسی طرح "مدعا علیہ "(defendant) کی تعریف دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ (n) میں یہ کی گئی ہے :
a person against whom relief has been sought by the aggrieved person
(کوئی شخص جس کے خلاف کارروائی کے لیے متاثرہ فریق نے دعویٰ کیا ہو۔ )
یہاں اس بات پر بھی توجہ رہے کہ "متاثرہ فریق " تو کوئی خاتون ہی ہوسکتی ہے لیکن "مدعا علیہ " کا مرد ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ کسی بھی شخص ، مرد یا عورت ، کے خلاف کسی خاتون پر تشدد کا دعویٰ دائر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ اس بات کا اضافہ کردیں کہ دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ (r) کی رو سے "تشدد " کی تعریف میں اس کی "اعانت" (abatement) بھی شامل ہے۔ مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 107 میں اعانتِ جرم کی جو تعریف پیش کی گئی ہے، اس کی رو سے کسی جرم کی "ترغیب " ، " سازش " یا "عملی معاونت " سبھی کو اعانتِ جرم کہا جاتا ہے۔ اس وسیع تعریف کی رو سے تلوار صرف شوہر کے سر پر ہی نہیں لٹک رہی ، بلکہ باپ ، بھائی ، بیٹے اور دیگر رشتہ دار وں اور خواتین 150 جیسے ساس ، نند وغیرہ 150 کو بھی کڑا پہنایا جاسکتا ہے۔ نیز ، جیسا کہ واضح کیا گیا ، اس کا قانون کا اطلاق صرف گھریلو تشدد پر ہی نہیں ہوتا بلکہ گھر سے باہر 150 گلی ، محلہ ، بازار ، سکول ، کالج ، یونی ورسٹی ، دفتر 150 کہیں بھی اس پر تشدد ہو تو تشدد کرنے والے / والی اور اس کی اعانت (ترغیب ، سازش یا عملی معاونت ) کرنے والے / والی کے خلاف اس قانون کی رو سے کارروائی ہوسکتی ہے۔
تشدد کا مفہوم
اب ذرا اس کی بھی وضاحت کی جائے کہ اس قانون کی رو سے "تشدد" سے کیا مراد ہے ؟ دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ (r) کی رو سے "تشدد " کی یہ تعریف پیش کی گئی ہے :
"any offence committed against the human body of the aggrieved person including abatement of an offence, domestic violence, sexual violence, psychological abuse, economic abuse, stalking or a cybercrime "
یہاں چند نکات قابلِ غور ہیں :
۱۔ اس تعریف کی رو سے تشددکو "جرم " (offence) قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے خلاف کارروائی کے لیے مقدمہ فیملی کورٹ میں دائر کیا جائے گا جو بنیادی طور پر سول عدالت ہے ، اگرچہ خاندان سے متعلق بعض فوجداری امور کے اختیارات بھی اسے حاصل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب "انسانی جسم کے خلاف کیا گیا جرم " تو مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی رو سے پہلے ہی سے جرم ہے ، تو پھر اس نئی قانون سازی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ نیز جب تعزیراتِ پاکستان کی رو سے اس فعل پر کارروائی ہوگی تو مقدمہ فوجداری عدالت میں جائے گا، لیکن جب اس قانون کی رو سے کارروائی ہوگی تو مقدمہ فیملی عدالت میں دائر کیا جائے گا۔ اس طرح غیر ضروری مقدمہ بازی کے لیے اچھی خاصی گنجایش پیدا ہوجائے گی۔
۲۔ "گھریلو تشدد " اس تعریف کی رو سے تشدد کی ایک قسم ہے۔ اس قانون کی دفعہ 2 ، ذیلی دفعہ (h) میں گھریلو تشدد (domestic violence) کی تعریف ان الفاظ میں پیش کی گئی ہے :
"domestic violence" means the violence committed by the defendant with whom the aggrieved is living or has lived in a house when they are related to each other by consanguinity, marriage or adoption"
( گھریلو تشدد سے مراد وہ تشدد ہے جس کا ارتکاب وہ مدعا علیہ کرے جس کے ساتھ متاثرہ خاتون کسی مکان میں رہتی ہے ، یا رہ چکی ہے ، جبکہ ان کا ایک دوسرے سے نسب ، شادی یا تبنی کا رشتہ ہو۔)
اس تعریف میں چند نکات قابلِ غور ہیں :
اولاً : تشدد کی جتنی قسمیں آگے ذکر کی جائیں گی وہ سب گھریلو تشدد کہلائیں گی ، اگر ان کا ارتکاب ایسا شخص کرے جس کے ساتھ متاثرہ خاتون ایک مکان میں رہتی ہو ، یا کبھی رہ چکی ہو ، بشرطیکہ اس شخص اور اس خاتون کے درمیان نسب، شادی یا تبنی کا رشتہ ہو۔
ثانیاً : قطع نظر اس سے کہ پاکستانی قانون کس حد تک تبنی کے رشتے کو مانتا ہے ، اس بات پر توجہ کی ضرورت ہے کہ اگر باپ اپنی بیٹی کے خلاف ، یا شوہر اپنی بیوی کے خلاف تادیبی کارروائی کرتا ہے ، خواہ وہ کارروائی شریعت کی مقررہ حدود کے اندر ہی کیوں نہ ہو ، تو کیا وہ تادیبی کارروائی اس تعریف کی رو سے "گھریلو تشدد" نہیں ہوگی ؟
۳۔ "جنسی تشدد" کی تعریف اس قانون میں پیش نہیں کی گئی ہے۔ کسی دوسرے قانون میں بھی ابھی تک اس جرم کی مستقل تعریف اور اس کی مختلف قسموں کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ "زنا بالجبر " (rape) اس کی تعریف میں داخل ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب 2006ء میں جنرل مشرف نے "قانونِ تحفظِ نسواں " بنایا تھا تو اس کی رو سے حد زنا آرڈی نینس سے زنا بالجبر کے جرم اور اس کی سزا کے متعلق دفعات ختم کرکے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں دفعہ 376 میں rape کے جرم کی تعریف اور دفعہ 377 میں اس کی سزا مقرر کی گئی۔ اس قانون کی رو سے rape کی تعریف میں marital rape بھی شامل ہے۔ چنانچہ اگر شوہر نے بیوی کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ جماع کیا تو تعزیراتِ پاکستان کی رو سے یہ marital rape ہوگا اور اس نئے قانون کی رو سے یہ "تشدد" کے ضمن میں آئے گا۔ واضح رہے کہ rape جنسی تشدد کی ایک انتہائی شکل ہے۔ اس سے کم تر شکلیں ، جیسے بوس و کنار ، خواہ rape نہ کہلائیں لیکن وہ بہرحال تشدد میں شامل سمجھے جائیں گے ، خواہ ان کا ارتکاب کرنے والا اس خاتون کا شوہر ہی ہو۔
۴۔ نفسیاتی بدسلوکی (psychological abuse) کو بھی تشدد کی ایک قسم قرار دیاگیا ہے اور دفعہ 2 میں تشدد کی تعریف کی توضیحِ دوم میں قرار دیاگیا ہے:
"psychological violence includes psychological deterioration of aggrieved person which may result in anorexia, suicide attempt or clinically proven depression resulting from defendant's oppressive behaviour or limiting freedom of movement of the aggrieved person and that condition is certified by a panel of psychologists appointed by District Women Protection Committee"
اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مدعا علیہ ( باپ ، بھائی ، شوہر ، افسر وغیرہ) کے رویے سے ، یا اس کی جانب سے متاثرہ فریق (بیٹی ، بہن ، بیوی ، ماتحت خاتون وغیرہ) کی نقل و حرکت محدود کرنے کی وجہ سے ، وجود میں آنے والی پریشانی کو نفسیاتی بدسلوکی تصور کیا جائے گا ، بشرطیکہ ماہرینِ نفسیات کا پینل اس نتیجے پر پہنچے۔تاہم اس کے ساتھ اس بات پر بھی توجہ ہوکہ اس تعریف میں means کی جگہincludes کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفسیاتی بدسلوکی کی کچھ اور قسمیں بھی ہوسکتی ہیں جویہاں مذکور نہیں ہیں لیکن عدالت ان کا تعین کرسکتی ہے۔
۵۔ اسی طرح "معاشی بدسلوکی " کو تشدد کی ایک اور قسم قرار دیا گیا ہے اور دفعہ 2 میں تشدد کی تعریف کی توضیحِ اول میں اس کی تعریف ان الفاظ میں پیش کی گئی ہے :
"economic abuse" means denial of food, clothing and shelter in a domestic relationship to the aggrieved person by the defendant in accordance with the defendant's income or taking away the income of the aggrieved person without her consent by the defendant
اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشی بدسلوکی کا اطلاق صرف "گھریلو تعلقات " کے ضمن میں ہی ہوسکتا ہے۔ معاشی بدسلوکی کی دو قسمیں ذکر کی گئی ہیں :
اولاًکھانے ، کپڑوں یا رہایش سے محرومی ، لیکن اس کو بدسلوکی ، اور نتیجتاً تشدد ، نہیں کہا جائے گا اگر خاتون نے مدعا علیہ کی آمدنی سے بڑھ کر کوئی مطالبہ کیا۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ اس کا اطلاق والدین کی جانب سے بچی کے خلاف تادیبی کارروائی پر بھی ہوسکتا ہے۔
ثانیاً: معاشی بدسلوکی کی دوسری قسم یہ ہے کہ خاتون کی مرضی کے بغیر مدعا علیہ اس کی آمدنی اپنے تصرف میں لے آئے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کئی بے غیرت شوہر اپنی بیویوں کو ان کی آمدنی سے محروم کرتے ہیں حالانکہ اس کا ان کو شرعاً ، قانوناً یا عرفاً کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
۶۔ تشدد کی آخری دو قسمیں stalking اور cyber crime ہیں۔ ان دونوں امور کی تعریف اس قانون میں پیش نہیں کی گئی۔ اس لیے عدالت ان کی تشریح و تعبیر کے لیے دیگر قوانین اور قواعدِ عامہ کی طرف رجوع کرے گی۔
آکسفرڈ ڈکشنری آف لا میں Cyber crime کی یہ تعریف پیش کی گئی ہے:
Crime committed over the internet
( ایسا جرم جس کا ارتکاب انٹرنیٹ پر کیا جائے۔ )
جعلی ای میل اکاؤنٹ کھولنا سائبر کرائم کی ایک عام مثال ہے۔
جہاں تک Stalkingکا تعلق ہے تو اس کی تعریف آکسفرڈ ڈکشنری آف لا میں یہ کی گئی ہے :
Persistent threatening behaviour by one person against another
(ایک شخص کا دوسرے شخص کے خلاف مسلسل دھمکی آمیز رویہ )
گیل انسائیکلوپیڈیا آف امیریکن لا سے اس کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے :
Criminal activity consisting of the repeated following and harassing of another person
(ایسی مجرمانہ کارروائی جو کسی دوسرے شخص کا مسلسل پیچھا کرنے اور اسے ہراساں کرنے پر مبنی ہو۔ )
سوال یہ ہے کہ اگر باپ اپنی بیٹی سے پوچھ گچھ کرتا رہے کہ وہ کہاں گئی ، کس سے ملی ، کب آئی ، کہاں سے آئی ، کس کے ساتھ آئی ، تو کیا اس پوچھ گچھ کو stalking ، اور اسی بنا پر "تشدد" ، کہا جائے گا ؟
۷۔ تشدد کی تعریف پر اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ایک طرف خواتین کے خلاف ہونے والے عمومی تشدد کی روک تھام کی کوشش کی گئی ہے ، جو اپنی جگہ ایک مستحسن کام ہے ، وہیں دوسری طرف اس بات کا بالکل ہی خیال نہیں رکھا گیا کہ شریعت نے "ولایت" کا جو تصور دیا ہے اور اس کے تحت "ولی" کو اپنے ماتحتوں کی "تادیب" کا اختیار دیا گیا ہے، وہ بھی پامال ہوجاتے ہیں ! یہی بات،جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ، "گھریلو تشدد " کی تعریف سے بھی معلوم ہوتی ہے۔
شنوائی کا طریقِ کار
اگر کسی خاتون پر تشدد ہو ، یا اسے تشدد کا خطرہ ہو ، تو اس قانون کے تحت اس کے پاس دو راستے ہیں : عدالت میں استغاثہ یا ویمن پروٹیکشن آفیسر کو شکایت۔ ان دونوں پر الگ الگ بحث ضروری ہے۔
دفعہ 4 کی ذیلی دفعہ 1 میں قرار دیاگیا ہے کہ عدالت میں استغاثہ متاثرہ خاتون خود ، یا اس کی جانب سے مقررہ کیا گیا کوئی شخص ( مرد یا عورت)، یا ویمن پروٹیکشن آفیسرکی جانب سے دائر کیا جاسکے گا۔ اس استغاثے پر عدالت درج ذیل تین میں سے کوئی ایک یا زیادہ حکم جاری کرسکتی ہے: تحفظ کا حکم ، رہایش کا حکم یا مال سے متعلق حکم۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک اہم مسئلے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ دفعہ 21 کی ذیلی دفعہ 1 میں قرار دیاگیا ہے کہ اس قانون کے تحت کسی بھی جرم پر عدالت تبھی کارروائی کرسکے گی جب ویمن پروٹیکشن آفیسر کی جانب سے اس کے سامنے استغاثہ نہ کیا جائے۔ کیا ان دونوں دفعات میں تضاد ہے ؟ یا دفعہ 4 کے تحت جرم سے قبل روک تھام کے لیے شکایت کا ذکر ہے جو خاتون خود یا اس کا نمائندہ یا ویمن پروٹیکشن آفیسر کی جانب سے آسکتی ہے اور دفعہ 21 میں جرم کے بعد کی کارروائی کا ذکر ہے جو صرف ویمن پروٹیکشن آفیسر کی جانب سے شکایت کے بعد ہی ہوسکے گی ؟
شکایت موصول ہونے کے بعد سماعت کے لیے عدالت زیادہ سے زیادہ سات دن کے اندر تاریخ مقرر کرے گی۔ نیز وہ مدعا علیہ کو نوٹس دے گی کہ سات دن کے اندر جوابِ دعویٰ دائر کردے ورنہ اس کے خلاف یک طرفہ کارروائی کی جائے گی۔ مقدمے کا حتمی فیصلہ عدالت نوے دن کے اندر کرے گی۔ واضح رہے کہ عدالت سے اس قانون میں مراد فیملی کورٹ ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ جب کسی خاتون کے خلاف تشدد گھر سے باہر کسی غیر مرد ( جیسے دفتر میں باس، یا پڑوس کے کسی آوارہ نوجوان ) نے کیا ہو تو پھر مقدمہ فیملی کورٹ میں کیوں دائر کیا جائے گا ؟ اس سوال پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ جب فیملی عدالتیں پہلے ہی مقدمات کے بوجھ تلے دبی جارہی ہیں تو ان پر مزید مقدمات کا بوجھ لادنے کے بعد ان سے بہتر نتائج کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ؟
شکایت کے بعد وہ متاثرہ خاتون جس نے گھریلو تشدد کی شکایت کی ہو چاہے تو اپنے گھر کے بجاے مدعا علیہ کے خرچے پر کسی اور گھر میں یا "دار الامان" (shelter home) میں رہ سکے گی۔ (دفعہ 5 ، ذیلی دفعہ b) یہاں پھر اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ واقعتاً کسی خاتون کو گھر میں / سسرال میں تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہو تو اس کا تحفظ ضروری ہے، لیکن اس کے نتیجے میں ولی کے پاس تادیب کا جو اختیار ہے، کیا وہ سلب نہیں ہوجائے گا ؟ کیا اس قانون نے ان دو امور میں توازن کو نظرانداز نہیں کردیا ہے ؟ اور کیا اس طرح خاندانوں کے اجڑنے کا عمل آسان نہیں ہوجائے گا ؟
یہی کچھ ان احکامات کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے جو عدالت جاری کرسکتی ہے۔ مثلاً restraining order جسے اس قانون میں protection order کہا گیا ہے، ان معاشروں میں تو بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے جہاں ازدواجی رشتے کا خاتمہ بہت مشکل کام ہو۔ تاہم ہمارے قانونی نظام میں جب مرد صرف ایک لفظ بول کر نکاح کا رشتہ ختم کرسکتا ہے، کیا اس قسم کے احکامات سے تشدد کی روک تھام ہوگی یا رہے سہے بندھن بھی ختم ہوجائیں گے ، بالخصوص جبکہ قانون بنانے والوں کا مفروضہ بھی یہ ہے کہ مرد ظالم ہیں ؟
شنوائی کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ویمن پروٹیکشن آفیسر کسی متاثرہ خاتون کو بچانے کے لیے کارروائی کرے۔ اس ضمن میں دفعہ 15 نے اسے اختیار دیا ہے کہ کسی بھی گھر میں بغیر عدالتی وارنٹ کے داخل ہو اور اس ضمن میں پولیس اور دیگر اداروں سے مدد لے ؛ نیز اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ایک مستقل جرم ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ جب پولیس پر وارنٹ کی پابندی بہت سے معاملات میں ہے اور اس کے باوجود وہ چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرنے میں بدنام ہے تو جب ایسے آفیسر ہوں جنھیں یہ کام کرنے کے لیے وارنٹ کی سرے سے ضرورت ہی نہ ہو تو وہ کیا کچھ نہیں کرگزریں گے ! اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ویمن پروٹیکشن آفیسر کے لیے خاتون ہونا بھی ضروری نہیں ہے (دفعہ 2 ، ذیلی دفعہ s)۔ اس لیے یہ کارہائے نمایاں بہت سارے مرد حضرات اپنی تمام تر مردانگی سمیت سرانجام دے سکیں گے۔ اگرچہ خواتین کے رہایشی حصے میں داخلے کے لیے صرف خواتین آفیسر ہی جاسکیں گی ( دفعہ 15، ذیلی دفعہ 5 ) ، لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ پابندی نہایت کمزور ہے اور اس کی موجودگی کے باوجود اس قانون کا غلط استعمال نہایت آسان ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ شکایت متاثرہ خاتون کے علاوہ کوئی اور شخص بھی کرسکتا /کرسکتی ہے۔ بدنیتی پر مبنی شکایت کو جرم قرار دیا گیا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس الزام کے خلاف "نیک نیتی " (good faith) اور "مفادِ عامہ" (public good)کے عذر میسر رہیں گے جن کی بنا پر شاید ہی کبھی کسی کو اس جرم کا مرتکب قرار دیا جاسکے۔ دفعہ 19 کی رو سے جھوٹی شکایت کرنے والے کو تبھی سزا دی جاسکے گی جب یہ ثابت کیا جاسکے کہ اسے معلوم تھا کہ شکایت جھوٹی ہے ، یا ایسے اسباب موجود تھے جن کی رو سے اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ شکایت جھوٹی ہے ! (knows or has reason to believe to be false) قانون کے ادنیٰ طالب علم بھی جانتے ہیں کہ اس ترکیب کی موجودگی میں جرم کا ثابت کرنا ناممکن حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔
اسلامی قانون سے تصادم؟
اس قانون سے اسلامی قانون کے کن اصول و قواعد کی خلاف ورزی ہوتی ہے ؟ اس سلسلے میں کچھ اشارات تو سطورِ بالا میں دیے گئے۔ یہاں ایک اور پہلو کی وضاحت ضروری ہے۔
سورۃ النساء کی آیت 34 میں قرار دیا گیا ہے کہ "نشوز" کی صورت میں شوہر اپنی بیوی کی مناسب تادیب کرسکتا ہے اور اس ضمن میں تین اقدامات ذکرکیے گئے ہیں : وعظ و نصیحت ، خواب گاہوں کے اندر علیحدگی اور ضرب۔ حدیثِ مبارک میں وضاحت کی گئی ہے کہ ضرب ایسی نہ ہو جو نشان چھوڑے۔ اسی طرح حدیثِ مبارک میں ان بچوں کے لیے بھی ، جو دس سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد نماز نہ پڑھیں ، ضرب کا ذکر ہے۔ فقہائے کرام نے ان دونوں امور میں تصریح کی ہے کہ یہ سزا نہیں ، بلکہ تادیب ہے اور اسی لیے اس میں ڈنڈے یا کوڑے کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اب خواہ "نشوز"سے ہر قسم کی "نافرمانی" مرادنہ ہو ، بلکہ صرف ایک مخصوص قسم کی سرکشی ہی مراد ہو ، اور اس صورت میں بھی خواہ ضرب ان حدود کے اندر ہو جو فقہاے کرام نے ذکر کی ہیں ، بہرحال اس قانون کی رو سے اس کا شمار "گھریلو تشدد" میں ہوگا۔
گویا یہاں دو انتہائیں پائی جاتی ہیں۔ ایک جانب یہ انتہا ہے کہ نشوز سے ہر طرح کی "نافرمانی "مراد لے کر اور ضرب کو "مار پیٹ " سمجھ کر شوہر کے لیے بیوی پر مختلف نوعیت کے مظالم ڈھانے کو اس کا شرعی حق قرار دیا جاتا ہے ، تو دوسری انتہا یہ ہے کہ قرآن کے اس حکم کو ، خواہ اسلامی قانون کی حدود کے اندر ہی اس پر عمل کیا جائے ، تشدد قرار دیاجاتا ہے۔ دینی حلقوں کے سامنے اس وقت اصل سوال یہی ہے کہ کس طرح شریعت کے اس حکم سے انکار کیے بغیر گھریلو تشددد کا راستہ روکا جائے ؟ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دینی حلقے تو یہ بات ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں کہ شریعت کے اس حکم کی غلط تعبیر کی جاتی ہے یا یہ کہ گھریلو تشدد ایک امر واقعی ہے۔ جب تک دینی حلقے انکار کی نفسیات سے نکل کر ایسی قانون سازی کے لیے رہنمائی فراہم نہیں کریں گے جس سے شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی بھی نہ ہوتی ہو اور گھریلو تشدد کی روک تھام بھی ہوسکے ، تب تک دوسروں سے گلہ بے جا ہی ہوگا۔
پس چہ باید کرد؟
۱۔ اولاً تو دینی حلقوں کے لیے یہ بات قابلِ غور ہے کہ سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا عمل وہ کب تک جاری رکھیں گے ؟ قانون کا یہ مسودہ مئی 2015ء میں اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ دس مہینے بعد اسے منظور کیا گیا۔ یہ دس مہینے کیوں اس مسودے پر بحث کرکے اس کی کمزوریاں دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ؟اسلامی نظریاتی کونسل کا ادارہ بنیادی طور پر اسی قبل از تقنین (pre-legislation) مرحلے کے لیے بنایا گیا ہے، اگرچہ بعد از تقنین بھی وہ مشورے دے سکتی ہے۔ ہر دو صورتوں میں ان مشوروں کا ماننا اسمبلی پر لازم نہیں ہے، لیکن بدیہی امر ہے کہ قبل از تقنین مرحلے پر ان کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور جب ان کے ساتھ عوامی دباو بھی ہو تو ان مشوروں کا وزن اور بڑھ جاتا ہے۔
۲۔ بعد از تقنین مرحلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے مشوروں کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ البتہ دو اداروں کا کام شروع ہوجاتا ہے : وفاقی شرعی عدالت اور عدالت ہاے عالیہ۔ اول الذکر عدالت کے ذریعے اس قانون کو شریعت سے تصادم کی بنیاد پر ختم یا تبدیل کرایا جاسکتا ہے ، جبکہ عدالتِ عالیہ کے ذریعے اس کی ان شقوں کو ختم یا تبدیل کرایا جاسکتا ہے جو خلافِ دستور ہیں۔ بلکہ اگر یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے تو دستور سے تصادم کے مسئلے کو براہِ راست عدالتِ عظمی میں بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔
۳۔ اس بات پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے کہ عدالتیں قانوناً اس کی پابند ہیں کہ تمام قوانین کی تعبیر و تشریح اسلامی قانون کی روشنی میں کریں ( حوالے کے لیے دیکھیے : قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء کی دفعہ 4 )۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہماری عدالتوں نے کبھی اس فریضے کی ادائیگی میں دلچسپی ظاہر نہیں کی، نہ ہی کبھی وکلا نے اس طرف توجہ دلائی۔ اور تو اور خود دینی حلقے اس اہم قانونی شق کو بالکل ہی بھول چکے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عدالتِ عظمی کے سامنے قصاص و دیت کے قانون کا کوئی مسئلہ آتا ہے تو ایک فاضل جج صاحب فیصلے میں یہ لکھتے ہیں کہ شریعت سے تصادم کا مسئلہ اٹھانے کے لیے مناسب فورم عدالتِ عظمیٰ کے بجاے وفاقی شرعی عدالت ہے اور ایک دوسرے جج صاحب لکھتے ہیں کہ خدائی قانون کی تعبیر و تشریح کے لیے وہ خود میں مناسب اہلیت نہیں پاتے ! یہ دونوں فاضل جج صاحبان یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلامی قانون سے ہم آہنگ تعبیر کرنا ان پر مذکورہ بالا قانون کی رو سے بھی لازم ہے اور بالخصوص قصاص و دیت کے قانون میں تو مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 338۔ایف نے تصریح کی ہے کہ اس باب کی تعبیر و تشریح اسلامی قانون کی روشنی میں کی جائے گی۔ پس شریعت سے متصادم یا ہم آہنگ قرار دینے کا اختیار تو یقیناًوفاقی شرعی عدالت ، اور پھر اپیل ہو تو عدالتِ عظمیٰ کی شریعت اپیلیٹ بنچ ، کے پاس ہے لیکن جہاں تک تمام قوانین کی ایسی تعبیر و تشریح کا معاملہ ہے جو شریعت سے ہم آہنگ ہو ، تو وہ ماتحت عدالتوں سے لے کر عدالتِ عظمیٰ تک تمام عدالتوں کا قانونی فریضہ ہے۔
۴۔ وہ دینی حلقے جو تشدد اور انتہاپسندی سے خود کو الگ تھلگ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ ان ریاستی اداروں 150 اسلامی نظریاتی کونسل ، وفاقی شرعی عدالت اور عدالت ہائے عالیہ و عدالت عظمی 150 کے ذریعے قوانین کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ کیا کسی نے اس امر پر غور کیا ہے کہ 1980ء سے 1999ء تک وفاقی شرعی عدالت اور عدالتِ عظمیٰ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کس قدر موثر ادارے تھے اور اس کے بعد ڈیڑھ دہائی میں وہ کس قدر غیر متعلق ہوچکے ہیں؟ کیا کسی نے اس امر کا بھی جائزہ لیا ہے کہ ان اداروں کے غیر موثر اور غیر متعلق ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے بیانیے کو ہی تائید مل رہی ہے جو پورے ریاستی و دستوری ڈھانچے کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں ؟
۵۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ وفاقی شرعی عدالت ، یا عدالتِ عالیہ و عدالتِ عظمیٰ سے فیصلہ حاصل کرنے کے بعد بھی بالآخر متبادل قانون سازی کے لیے اسمبلی کے فلور کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے عدالت اور اسمبلی کا راستہ کٹھن اور لمبا ہی سہی ، جمہوری سیاست میں اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ ان قانونی راستوں کی موجودگی میں بھی براہ راست احتجاج اور دھونس کی راہ اختیار کرنا دراصل اس مرض کی ابتدا ہے جس کی انتہائی شکل نظمِ اجتماعی کے خلاف بغاوت کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔
"تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچا سکتا ہے اور اس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔کیو نکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اس کے پانے والے تھوڑے ہیں۔" (انجیل متی ، باب 7 ، آیات 13۔14)
مکاتیب
ادارہ
’’پاکستان اسٹڈیز انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں تحریک خلافت میں گاندھی کے کردار پر معروضی انداز میں نظرثانی کی جائے’’۔ یہ تعلیمی سفارش ۱۹۳۷ ء میں ہندوستان کے صوبوں میں قائم کانگریسی حکومت کے کسی متعصب راہنما کی نہیں ہے، پنجاب کی موجودہ مسلم لیگی حکومت کی نگرانی میں لاہور کے کالجوں میں دو پروفیسرصاحبان اور ایک انتظامی افسرپرمشتمل ایک کمیٹی نے رواداری اور روشن خیالی کے فروغ کے لیے جو سفارشات مرتب کی ہیں، یہ ان میں سے ایک چاول ہے۔ ملکی اور صوبائی سطح پر مختلف نصاب میں چند مزید مجوزہ تبدیلیاں ملاحظہ ہوں۔بریکٹ میں ہم نے اپنا تبصرہ دیا ہے:
۱۔ ’’طلبا کو پڑھایا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ مذاہب کی تنسیخ کے لیے نہیں آئے بلکہ ابراہیم موسیٰ ، داؤد، سلیمان اورعیسیٰ علیہم السلام کا پیغام وہی تھا جو محمدؐ کا ہے‘‘۔ (گویا یہودیت اورمسیحیت اپنی موجودہ شکل میں وہی مذاہب ہیں جومذکورہ پیغمبروں کے تھے۔ اسے قرآنی آیات کی تحریف کہاجائے یا استخفاف ؟ )
۲۔ ’’تحریک پاکستان کا ازسرنو معروضی جائزہ لے کر اس میں اقلیتوں کا کردار اجاگر کیاجائے‘‘۔ (یہ معروضی جائزہ مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل۱۹۵۵ء میںیوں لے چکے ہیں۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمان اور صرف مسلمان قوم کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجہ میں عمل میں آیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری آبادی کے دوسرے تمام عناصر خصوصاً ہندو قوم کے پاکستان کو وجود میں نہ آنے دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ڈان، ۲۳دسمبر۱۹۵۵ء ‘‘۔ معروضی انداز میں بتایاجائے کہ کیا اختلاف کی کوئی گنجائش ہے)
۳۔ ’’ یورپ میں احیائے علوم کی تفصیلات نصاب میں شامل ہوں‘‘۔ (مغربی فکر کے مطابق یونانی عہد کے بعد انسانیت پر ایک تاریک دور (dark age) آیا جس کا خاتمہ، یورپی صنعتی انقلاب کے ذریعے ہوا۔ اس ’’تاریک دور‘‘ میں مسلمانوں کا عہد زریں شامل ہے جس میں عورت کو پہلی دفعہ مرد کے برابر قراردے کر اسے جائداد کا حق دیا گیا۔ برطانیہ میں عورت کو یہ حق ۱۹۳۵ میں ملا۔ جی ہاں ! اب ہمارے بچے خلافت راشدہ کو عہد ظلمات کے طورپر پڑھیں گے) ۔
محترم قارئین! یہ نمونے کی چند سفارشات ہیں جو پشاور میں ایک چرچ پر حملے کے ثمرات ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے اور مسلمان صبر اور شکر کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ادھر ایک چرچ پر ستمبر ۲۰۱۳ء میں حملہ ہوا تو ملاحظہ ہو کہ ایک نادیدہ تسلسل کے ساتھ کیا کیا فیصلے ہوئے جن کا پاکستانی قوم کو احساس تک نہیں ہونے دیا گیا۔
ایک این جی او کی درخواست پرسپریم کورٹ نے اس چرچ پر حملے کا ازخود نوٹس لیا۔ اقلیتی برادریوں کی چند دیگردرخواستوں کو جمع کرکے اٹارنی جنرل ، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر متعلقہ افسران کوبلایاگیا۔ سماعت کے بعد معزز عدالت نے ۱۹جون ۲۰۱۴ ء کو فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ ازخود نوٹس پر تین فیصد اقلیتوں کے لیے تھا لیکن اس فیصلے سے ستانوے فی صد مسلمانوں کی نسلوں پرجو اثرات مرتب ہوں گے، انہیں متصورکرکے دل ڈوب جاتا ہے۔ اور تماشا یہ ہے کہ مسلمان نہ اس مقدمے میں فریق تھے اور نہ انہیں سنایا گیا۔ معزز عدالت نے حکم دیا کہ ’’اسکول اور کالج کے درجات پر ایسا مناسب نصاب تشکیل دیاجائے جو مذہبی رواداری کی ثقافت کو فروغ دے۔ فیصلے میں۱۹۸۱ میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کاحوالہ دیاکہ ’’بچے کو مذہب اور اعتقاد کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے تعصب سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کی نشوونما سمجھ داری، رواداری، افراد کے مابین دوستانہ روابط، امن اور آفاقی بھائی چارے، مذہبی آزادی اور دوسرے اعتقاد کی تعظیم اور اس شعور کے ساتھ کی جائے گی کہ اس کی صلاحیتیں اور توانائی اپنے ساتھیوں کے لیے وقف ہوگی‘‘۔
فیصلے کی نقل متعلقہ اداروں کو بھیجی گئی۔ پنجاب حکومت نے تین مقامی صاحبان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جس نے وہ سفارشات مرتب کیں جن کی ہلکی سی ایک جھلک آپ سطور گزشتہ میں دیکھ چکے ہیں۔ تین مقامی اور مطلقاً غیرمعروف افراد کی ان سفارشات کو ۲فروری ۲۰۱۶ء کو پنجاب حکومت نے سرکاری ونجی جامعات کو اس ہدایت کے ساتھ ارسال کیا کہ ان سفارشات پرعمل کرکے بالوضاحت بتایاجائے کہ نصاب میں کیا ترامیم کی گئیں اور جن کتب میں ترامیم کی گئیں وہ کتب بھی منسلک کی جائیں۔ اسی پربس نہیں، جامعات امتحانی سوالات بھی اب ان تین غیرمعروف افراد کے افکار کی روشنی ہی میں مرتب کیاکریں گی۔
اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں کیا کیا بارودی سرنگیں بچھ رہی ہیں اور اس جمہوری ملک میں ستانوے فی صد آبادی کو پتہ ہی نہیں کہ آنے والی نسلوں کے ساتھ کیا ہورہاہے؟ اس مقدمے میں تمام فریقوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ چرچ پر حملہ آور غلط نصاب تعلیم کی پیداوار پاکستانی طلبا تھے۔ نصاب تعلیم عدم برداشت پرمبنی ہے (اس کاکوئی ثبوت فیصلے میں نہیں )۔ چونکہ اس ازخود نوٹس کے تمام متاثرین غیرمسلم افراد تھے، اس لیے نہ تو مسلمانوں میں سے کسی کو بطور فریق سنا گیا ، نہ کسی سطح کے تعلیمی نصاب کی جانچ پرکھ کی گئی ۔ نہ کسی جامعہ کے وائس چانسلر سے رابطہ کیاگیا۔ عدالت عظمیٰ کے مکمل احترام کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایک ایسا یک طرفہ( ex party) فیصلہ ہے جس کے متعلقہ فریقوں اور متاثرین کو سنا ہی نہیں گیا۔ معزز جج صاحب نے فیصلہ تحریر کرتے وقت ان تمام حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے جو عدلیہ کے لیے پوری دنیا مسلمہ ہیں۔ اسی فیصلے میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ ایک خاص تربیت یافتہ پولیس فورس تشکیل دی جائے جو اقلیتی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے۔ معززعدالت نے اس مختصر سے حکم کے مضمرات پر شاید غور نہیں کیا ۔ کل کو نجی اسکولوں کے مالکان دہشت گرد ی کے نام پر عدالت عظمیٰ میں چلے گئے تو ان کے لیے ایک نئی پولیس فورس کیوں نہ تشکیل دی جائے ۔ فی الاصل عدلیہ کا کام ملکی قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوتا ہے نہ کہ انتظامی احکام جاری کرنا۔ اس کی بہترین مثال موجودہ چیف جسٹس صاحب نے قائم کی ہے: رینجرز نے گزارش کی کہ ہمیں تھانے قائم کرنے کی اجازت دی جائے تو سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ہم قانون کے مطابق فیصلے کریں گے کسی کو انتظامی حکم نہیں دے سکتے۔
ذرا اندازہ کریں کہ کتنی خاموشی اور تسلسل سے تبدیلیوں کی ایک رو چلتے چلتے مسلمانوں کی نسلوں کو لپیٹ میں لے آئی جنہیں سنا ہی نہیں گیا۔ دہشت گردعالمی غنڈوں کے پروردہ لوگ ہیں ۔ ان کا عامہ الناس اور اسلام سے کیا تعلق؟: چرچ پر حملے کو جواز بناکر ایک این جی او کی درخواست اورازخود نوٹس پر سماعت جس میں حقائق کاذکر تک نہیں، یہ سارا فیصلہ مفروضوں پرمبنی ہے۔ کیا چرچ کے ملزمان کہیں پکڑے گئے؟ اگر ہاں تو کیا ان پر کوئی ایسی جرح ہوئی جس میں انہوں نے اپنے اس فعل بد کو تعلیمی نظام کی پیداوار قرار دے کرکوئی اعتراف کیا ہو۔ کیا کسی نے نصاب تعلیم کا جائزہ لے کر اس کے توجہ طلب پہلو اجاگر کیے۔ یہ سب کچھ نہیں ہوا۔ ازخود نوٹس کی تحدید اس قدر مختصر ہواکرتی ہے کہ عدالتیں اس کوچے سے جلدازجلد نکلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ زیرنظر فیصلے میں معززعدالت کے سامنے ایک اقلیتی عبادت گاہ پرحملے کے مرتکبین کی گرفتاری مسئلہ تھا لیکن معزز جج صاحب نے نادیدہ ونامعلوم مجرموں کو اولاً مسلمان فرض کیا ۔ پھر یہ فرض کیا کہ ملکی نظام تعلیم ان مسلمانوں کی تربیت کاذمہ دار ہے۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ نصاب تعلیم تبدیل کیاجائے۔
اس قصے میں کوئی ایک لطیفہ سرزد ہوا ہو تو اس کاذکر کیاجائے۔ جامعات دنیا بھر کی طرح اپنے ملک میں بھی خودمختار ادارے ہیں ۔ حکومتیں ان سے تحقیق اور جستجو کی درخواست تو کرسکتی ہیں، انہیں کوئی حکم نہیں دے سکتیں۔ حکم دینے کے لیے متعلقہ پارلیمان سے جامعہ کے ایکٹ میں ترمیم لازم ہے۔ اس زیرنظر مقدمے میں حکومت پنجاب نے لاہور کے تین مقامی کالجوں کے تین افراد (ان تین میں سے ایک صاحب انتظامی عہدے دار ہیں اور صرف ایک پی ایچ ڈی ہیں) پرمشتمل ایک کمیٹی سفارشات مرتب کرنے کے لیے قائم کی۔ یہ اصحاب علمی دنیا میں کتنے معروف ہیں، اس سے بحث نہیں۔ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ جنا کرے گی۔ قارئین کرام، اب کالجوں کے ایم اے پاس حضرات اور انتظامی افسران صف اول کی جامعات کے پی ایچ ڈی پروفیسروں کے لیے ہدایات مرتب کیاکریں گے۔ یہ جامعات میں quality enhancement کے ثناخوانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے یا قرب قیامت کی علامت؟
سینیٹ ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے معزز ارکان سے دردمندانہ گزارش ہے کہ عوام کی دی گئی پانچ چھ سالہ امانت کی پاسداری میں براہ کرم ان بارودی سرنگوں پرنظر رکھا کریں۔ اس اہم فیصلے کے مضمرات پر ماہرین تعلیم کو غور کرنا چاہیے۔ یہ دینی وغیر دینی سیاست کاموضوع ہی نہیں۔ معزز جج صاحب کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کے راستے موجود ہیں۔ اصحاب دانش سے گزارش ہے کہ اس فیصلے کے مضمرات پرغور کرکے اس کے تدارک کا بندوبست کیاجائے ورنہ طلبا جب کتابوں میں خلافت راشدہ کو ظلمات کا دور پڑھیں گے تو ان سے پھولوں کی توقع کون کرسکتا ہے؟ کیا یہ فیصلہ ہمیں رواداری اور عدم برداشت کی طرف لے جارہا ہے؟ معاشرتی طبقات میں بڑھتی ہوئی خلیج کوکم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ اورتعلیمی سفارشات طبقاتی بعد کو ہوادیں گے۔
ماہرین قانون ، ماہرین تعلیم، اصحاب دانش اور فہمیدہ افراد سے توقع کی جاتی ہے کہ اس فیصلے کے مضمرات پرغورکرکے اس کے تدارک کا کوئی راستہ نکالیں گے تاکہ معاشرے کو دوسری انتہاپر جانے سے روکا جائے۔
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
صدر شعبہ علوم اسلامیہ، سیالکوٹ کیمپس
یونیورسٹی آف گجرات
’’فقہائے احناف اور فہم حدیث : اصولی مباحث‘‘ ۔ تعارف و تبصرہ کی ایک نشست کی روداد
ڈاکٹر حافظ محمد رشید
۱۹ مارچ ، بروز ہفتہ مولانا محمد عمار خان ناصر کی نئی تصنیف ’’ فقہائے احناف اور فہم حدیث : اصولی مباحث‘‘ کے تعارف وتبصرہ کے حوالے سے ایک فکری نشست الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹر محمد اکرم ورک (پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج ، کامونکی )، ڈاکٹر شہزاد اقبال شام (پروفیسر (ر) انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی ، اسلام آباد )، پیر جی سید مشتاق شاہ ، مولانا ظفر فیاض (استاذ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم ، گوجرانوالہ) ڈاکٹر میاں ریاض محمود اور دیگر اہل علم نے شرکت کی اور کتاب کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب کو کتاب بروقت موصول نہ ہو سکی، تاہم انہوں نے موضوع کی ضرورت اور عصر حاضر میں موضوع کے بعض پہلوؤں پر، پر مغز گفتگو کی۔ کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے مقررین نے جو کچھ کہا، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۔
ڈاکٹر محمد اکرم ورک نے اپنی گفتگو میں کہا کہ:
مولانا عمار خان ناصر نے اپنی کتاب میں احناف کے وہ فکری معیارات واضح کیے ہیں جن پر وہ حدیث کو پرکھتے ہیں۔ یہ بڑا قابل قدر کام ہے اور وقت کی اہم ضرورت ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اس کے ساتھ احناف کے ان فکری معیارات کا شجرہ نسب بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو اس کی افادیت میں اضافہ ہو جائے۔ فکری شجرہ نسب سے میری مراد یہ ہے کہ کس طرح امام ابوحنیفہ ؒ کی فکر اپنے اساتذہ کے واسطے سے اکابر صحابہ کرامؓ جیسے حضرت علیؓ ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ سے مربوط ہوتی ہے۔ کتاب کو پڑھتے ہوئے بہت واضح تاثر ملتا ہے کہ احناف کے بارے میں دور اول میں بہت سی غلط فہمیاں ان مآخذ سے ناواقفیت کی بنا پر تھیں جو کہ اب ہمارے پاس موجود ہیں، لیکن بے اعتنائی کی وجہ سے وہی ساری غلط فہمیاں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ مثلاً غلام احمد پرویز نے اپنی کتاب میں امام ابوحنیفہ کو بھی منکرین حدیث کے گروہ کا ایک فرد شمار کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ بات بڑی واضح ہوئی ہے کہ ان مآخذ کو جس طرح عمار صاحب نے پیش نظر رکھا ہے، اگر ہم بھی پیش نظر رکھیں تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں۔
ایک اور بات میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عمار صاحب نے جہاں احناف کے نقطہ نظر کی بہت خوبصورت وضاحت کی ہے، وہیں اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے بارے میں ان کا اپنا بھی وہی موقف ہے جو احناف کا موقف ہے، کیونکہ کسی چیز کو بطور دلیل پیش کرنا بھی اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اس چیز کے بارے میں آپ کا موقف بھی قریب قریب وہی ہے۔ عمار صاحب کے بارے میں ایک بات کا اظہار میں اکثر علمی محافل میں کرتا ہوں کہ وہ ایک ایسی علمی شخصیت ہیں جو دلیل کے ساتھ کسی بات کو قبول کرتے ہیں اور دلیل کے ساتھ ہی کسی بات کو رد کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حق اہل علم کو دیا جانا چاہیے۔ یہ بات قریب کے لوگ تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، دور کے لوگوں کے لیے بھی اس کتاب کے ذریعے یہ بات واضح ہو گئی ہے۔
اس کتاب میں احناف کے نقطہ نظر کی تفہیم و وضاحت کا جو اسلوب اپنایا گیا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری تاریخ میں جو مختلف گروہ گزرے ہیں، جیسے معتزلہ ، خوارج وغیرہ اور آج کے دور میں جو گروہ سامنے آئے ہیں ، حدیث کے حوالے سے ان کی رائے کو بھی اسی انداز میں صحیح تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ آپ اگر لوگوں کو ایک دو یا چند احادیث کے انکار کے نتیجہ میں منکرین حدیث کے زمرے میں شمار کرنا شروع کر دیں گے تو میرا خیال ہے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ جیسا شخص بھی، جنہوں نے حدیث کی حجیت پر ایک زبردست مناظرہ کیا ہے، شاید منکرین حدیث کی فہرست میں شامل ہوگا۔ اسی طرح مولانا غلام رسول سعیدی جن کاا بھی کچھ عرصہ پہلے ہی انتقال ہوا ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو والی جتنی حدیثیں ہیں، ان کی صحت کے قائل نہیں تھے، حالانکہ یہ احادیث بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ محض کسی حدیث کا انکار کرنا اور بات ہے اور پورے علم حدیث اور فن حدیث کا انکار کرنا جو کہ ایک مخصوص مکتبہ فکر کا مؤقف ہے، بالکل مختلف چیز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے ایک زاویہ نگاہ آیا ہے کہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے موجود مآخذ کی روشنی میں علمی بنیادوں پر ایسے لوگوں کا نقطہ نظر سمجھنا چاہیے جیسے احناف کا نقطہ نظر اس کتاب میں سمجھا گیا ہے۔
پیر جی سید مشتاق علی شاہ صاحب کی گفتگو کے اہم نکات یہ تھے:
مولانا عمار صاحب جب طالب علم تھے، اسی وقت ہم ان کی صلاحیتوں سے باخبر ہو گئے تھے کہ مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی اولاد میں یہ شخص ان کے کام کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مولانا سرفراز خان صفدرؒ کو محدث اعظم یا اسماء الرجال کا امام خوش فہمی یا عقیدت کی وجہ سے نہیں کہا گیا، بلکہ انہوں نے اپنا لوہا خود منوایا۔ جو ان کی کتابیں پڑھے گا، وہ یہ کہے گا کہ ان کو فن حدیث یا اسماء الرجال میں جو مقام دیا گیا، وہ ایسے ہی نہیں دیا گیا بلکہ ان کے اندر یہ وصف پایا جاتا تھا ۔حضرت صوفی عبد الحمید سواتی صاحب ؒ سے ایک مرتبہ عمار کے بارے میں بات ہوئی تو فرمانے لگے کہ شیخ الحدیث صاحب نے اس کو حدیث محدثین کی طرز پر پڑھائی ہے اور ہم نے اس کو حدیث شاہ ولی اللہ ؒ کی طرز پر پڑھائی ہے۔ یعنی عمار دونوں کا جامع ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ بڑا ہو کر اپنے دادا کا ترجمان بنے اور خاندان کا اس سے نام روشن ہو۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ مفتی عبد الواحدؒ (سابق خطیب جامع مسجد شیرانوالہ باغ ، گوجرانوالہ) نے جب مولانا سرفراز خان صفدر ؒ سے ان کے بیٹے کو مانگا تو انہوں نے مولانا زاہد الراشدی کو ان کے حوالے کر دیا اور یہ سیاست کی لائن پر چڑھ گئے، لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ عمار حدیث پر کام کرے اور دادا کا وارث بنے۔ جنہوں نے مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کو دیکھا اور پڑھا ہے، وہ مولانا زاہد الراشدی اور عمار صاحب کو بھی اسی آئینے میں دیکھنا چاہتے تھے۔ کچھ عرصہ تک تو یہ آئینہ دھندلا دھندلا رہا، اس کتاب نے یہ دھندلاہٹ صاف کر دی ہے اور اس کو پڑھنے کے بعد ہر آدمی یہی کہے گا کہ ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ کے بعد اگر ایسی کوئی کتاب اردو میں آئی ہے تو وہ عمار صاحب کی یہ کتاب ہے۔
امام صاحب ؒ کے بارے میں مخالفین کی طرف سے دو طرح کے اعتراض سامنے آئے ہیں۔ ایک ان کے مسائل کے بارے میں اور دوسرا ان کی شخصیت کے بارے میں ۔ اگر آدمی ان دونوں چیزوں کو سمجھ لے تو امام صاحب پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ امام صاحب ؒ کی شخصیت سے جو اچھی طرح واقف ہوگا، وہ یہ سمجھ جائے گا کہ امام صاحب ؒ کے اصول کیا ہیں ، ضوابط کیا ہیں ، ان کا استدلال کا طریقہ کیا ہے۔ اور جو ان کے مسائل سے واقف ہو گا، وہ سمجھ جائے گا کہ امام صاحبؒ نے کوئی کمی چھوڑی ہی نہیں اور وہ اس بات کی تہہ تک پہنچ جائے گا کہ امام صاحب ؒ کی کوئی بات حدیث کے خلاف نہیں۔
ہم یہ بات پڑھا کرتے تھے کہ امام صاحب نے اجتہاد کے لیے چالیس آدمیوں کی کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی میں جو بحثیں ہوتی رہیں اور جو نتائج مرتب ہوتے رہے، ان کے بارے میں ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ سب چیزیں کہاں ہیں؟ ان کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ ظاہر الروایہ اور احناف کی دیگر بڑی کتب اردو میں بہت کم ملتی ہیں۔ امام ابویوسف ؒ کی کتاب الآثار تک کا ابھی تک اردو میں ترجمہ نہیں ہوا ۔امام محمدؒ کی پانچ کتابوں کا ترجمہ آیا ہے جو ہم نے دیکھی ہیں، باقی کا پتہ نہیں۔ تو ہم سوچتے تھے کہ فقہائے احناف کی جو ظاہر الروایہ کتابیں ہیں اور چالیس آدمیوں کی کمیٹی نے جو کام کیا ہے، وہ کہاں ہے ؟عمار صاحب کی کتاب کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں براہ راست امام محمد ؒ کی کتابوں سے استدلال کیا گیا ہے، امام ابو یوسف ؒ کی کتابوں کو ماخذ بنایا گیا ہے، سرخسی کی ’’المبسوط‘‘ کو ماخذ بنایا گیا ہے جو امام حاکم شہید ؒ کی کتاب ’’الکافی‘‘ کی شرح ہے جو کہ ظاہر الروایہ کی چھ کتابوں کا مجموعہ ہے۔ عمار صاحب نے اس طرح توجہ دلائی ہے کہ احناف کا موقف سمجھنے اور ان کے طریقہ استدلال کو چانچنے اور جاننے کے لیے ان اصل کتابوں کو ماخذ بنانا چاہیے۔
’’ مقام ابی حنیفہ‘‘ میں مولانا سرفراز خان صفدر ؒ نے ایک باب قائم کیا جس کا عنوان ہے: ’’ مخالفت حدیث کی نفیس بحث‘‘ ۔ جو آدمی وہ پڑھ لے گا، اس پر واضح ہو جائے گا کہ امام صاحب ؒ حدیث کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔ عمار صاحب نے ابن ابی شیبہ ؒ کے ایک سو پچیس اعتراضات پر جو کام کیا ہے، اس میں ان کو انفرادیت حاصل ہے کہ ان سے پہلے اردو میں اس پر جامع کام نہیں ہوا تھا۔ حضرت تھانوی ؒ کے زمانے میں صرف دس مسئلوں پر کام ہوا تھا جو ’’ الاجوبۃ اللطیفہ عن بعض ردود ابن ابی شیبہ علی ابی حنیفہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اسی طرح مولانا عطاء المصطفیٰ جمیل کے دادا نے’’ تائید الامام ‘‘کے نام سے ابن ابی شیبہ کے چودہ اعتراضات کا جائزہ لیا۔ پورے ایک سو پچیس مسئلوں پر اردو میں صرف عمار صاحب نے کام کیا ہے۔ تو مسائل کے حوالے سے انہوں نے اعتراضات کا جواب دے دیا کہ امام ابوحنیفہ کے ہاں مخالفت حدیث نہیں ہے۔ عمار صاحب کی موجودہ کتاب تو صرف اصولی مباحث پر مشتمل ہے جو اصل کتاب کا دیباچہ ہے۔ اصل کتاب ابھی آرہی ہے ۔ جو شخص بھی اس کتاب کو خالی ذہن ہو کر پڑھے گا، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ امام ابو حنیفہ ؒ حدیث کی مخالفت کرتے تھے۔
باقی رہے امام صاحب پر شخصی اعتراضات تو اس پر علامہ خطیب بغدادی کی کتاب ’’تاریخ بغداد‘‘ کے متعلقہ حصے کو اردو میں سب سے پہلے مولانا محمد بن ابراہیم میمن جوناگڑھی نے چھاپا۔ اس کے چھپنے کے بعد مولانا حبیب الرحمن شیروانی نے جو برصغیر کے مشہور آدمی ہیں، ’’ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے ناقدین ‘‘ کے نام سے اس کا جواب لکھا، مگر وہ نامکمل تھا ۔ میں نے عمار صاحب کے چچا مولانا عبد القدوس خان صاحب کی توجہ اس طرف مبذول کروائی تو انہوں نے علامہ زاہد الکوثری کی کتاب ’’تانیب الخطیب‘‘ کا اردو ترجمہ ’ ’ عادلانہ دفاع‘‘ کے نام سے کر دیا۔ یہ دونوں کام اللہ تعالیٰ نے مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کے خاندان سے کرائے۔
یونیورسٹی آف گجرات، سیالکوٹ کیمپس میں شعبہ علوم اسلامیہ کے صدر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام نے اپنی گفتگو میں کہا کہ :
میں مولانا عمار خان ناصر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ اس چھوٹی سی عمر میں علمی لحاظ سے اتنا آگے جا چکے ہیں کہ جس پر رشک کی بجائے میں حسد بھی کروں تو کوئی حرج نہیں ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم میں برکت عطا فرمائیں اور امت مسلمہ کے لئے نافع بنائے۔ آمین۔
امام ابو حنیفہ ؒ کے متعلق یہ مشہور ہو گیا کہ وہ حدیث کے ردو قبول میں اس قدر متشدد تھے کہ چند مخصوص احادیث کے علاوہ وہ کسی حدیث سے استنباط و استنتاج ہی نہیں کرتے تھے۔ میری معلومات کے مطابق یہ قول ابن خلدون کی طرف منسوب ہے۔ یہ قول ایسا چلا کہ اس پر عمارات تعمیر ہونی شروع ہو گئیں، حالانکہ امام ابو حنیفہ ؒ سے مرویات کی کتابیں ایک سے زیادہ موجود ہیں۔ میری معلومات کے مطابق برصغیر میں جو پہلی کتاب شائع ہوئی، وہ ’’ کتاب الآثار ‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ حیدر آباد دکن سے تقریباً بیسویں صدی کے پہلے ربع میں کہیں چھپی تھی۔ اس میں امام ابو یوسف ؒ کی وہ روایات ہیں جو انہوں نے امام ابو حنیفہ ؒ سے کی ہیں۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ عمار صاحب کی یہ کتاب ایک طبقے کے لیے تو بہت اہمیت رکھتی ہے۔ عمار صاحب کا تعلق ایک علمی خانوادہ سے ہے اور حدیث کے مطابق اولاد صالح اور صدقہ جاریہ کسی بھی خانوادے کا سرمایہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اس کتاب میں جمع ہو گئی ہیں ۔ یہ کتاب پورے خانوادے کے لیے صدقہ جاریہ بھی ہے اور اولاد صالح کی ایک دمکتی ہوئی مثال بھی ہے۔ لیکن میری ان سے گزارش ہے کہ ماضی کے ساتھ جڑے رہنا ایک بہت مثالی اور آئیڈیل کام ہے، لیکن وہ عہد حاضر کے مسائل کی طرف نسبتاً زیادہ توجہ کریں تو بہت اچھا ہو ۔ کیونکہ میری رائے میں جو لوگ فقہ اور فقہا کے بارے میں ہر وقت مناظرانہ تکلم کے قائل ہیں، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ ایک ذوقی چیز ہے، اس معاملے میں کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن کاسموپولیٹن فقہ یا فقہ عولمی جس تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، یہ سب چیزیں اب قصہ پارینہ ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ اس لیے اس کی طرف توجہ زیادہ ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحبؒ نے اپنی کتاب میں کاسموپولیٹن فقہ کی بات کی ہے۔ ان کے مطابق اب متعین فقہ کی پابندی کا دور قصہ پارینہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جس تسلسل اور تدریج کے ساتھ اسلامی قانون اس طرف جا رہا ہے، اس میں اب کسی ایک فقہ کے ساتھ امت مسلمہ کے مسائل نہ حل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی حل ہوں گے۔
میں عمار صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان کی مساعی میں برکت عطا فرمائیں اور مولانا زاہد الراشدی کو صحت کے ساتھ عمردراز دے کیونکہ جو کام وہ کر رہے ہیں، مجھے ان میں ڈاکٹر محمود غازی ؒ کی جھلک نظر آتی ہے۔
الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ :
اس کتاب کے بارے میں، میں نے دیباچہ میں کچھ باتیں لکھ دی ہیں۔ اس وقت میں سوسائٹی میں علم و فکر اور دانش کے مستقبل کے حوالے سے چند باتیں عرض کروں گا۔ یہ صدی مسلمہ طور پر مذہب کی طرف واپسی کی صدی کہلاتی ہے۔ پچھلی دو صدیاں مذہب سے انحراف کی صدیاں تھیں، اب دنیا آہستہ آہستہ مذہب کی طرف واپس آ رہی ہے۔ ان حالات میں، میں یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے اہل علم بالخصوص نوجوان فضلاء جن کا کتاب سے، علم سے اور ماضی سے گہرا تعلق ہے، وہ مذہب کی طرف واپسی کے صحیح راستوں کی نشاندہی کریں۔ اس موڑ پر اگر امت کسی غلط راستے کی طرف مڑ گئی تو اس کی ذمہ داری ہم پر بھی ہو گی اور بالخصوص یہ نوجوان فضلاء اس کے ذمہ دار ہوں گے ۔ میں تمام فقہوں کا احترام کرتا ہوں، سب سے استفادے کا قائل ہوں، اگر کسی دوسری فقہ سے استفادے کی ضرورت ہو تو میں اس کا منکر نہیں ہوں، لیکن میرا وجدان شرح صدر کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ آنے والے دور میں فقہ حنفی میں یہ صلاحیت زیادہ ہے کہ وہ قیادت کرے۔ باقی فقہیں بھی ساتھ ہوں، لیکن فقہ حنفی کے اسلوب اور بنیادی اساس میں زیادہ صلاحیت ہے کہ وہ مستقبل کی فقہی و علمی اور فکری ضروریات کو پورا کر سکے اور مسائل کو حل کر سکے، اس لیے اس پر کام کی زیادہ ضرورت ہے۔
مغرب میں فکری اعتبار سے جن شخصیات پر سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے، ان میں ایک شاہ ولی اللہ ؒ ہیں۔ اس کی وجہ ان کی فکر میں حدیث، فقہ، تفقہ اور سلوک کا بہترین امتزاج ہے۔ اسی وجہ سے شاہ صاحب ؒ مغرب میں توجہات کا ایک بڑا موضوع ہیں۔ ان کے ساتھ اب دوسری شخصیت امام ابو منصور ماتریدیؒ کی شامل ہو رہی ہے۔ پچھلے دنوں امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے ایک پروفیسر صاحب آئے تھے جو امام ابو منصور ماتریدی ؒ کی فکر پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کے کچھ سوالات تھے جن کے بارے میں ایک طویل نشست میں ان سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ مغرب میں فکر وفلسفہ کے حلقوں میں اس پر غور ہو رہا ہے کہ اخلاقیات کی ٹھوس بنیادیں مذہب کے علاوہ کسی اور جگہ سے نہیں مل سکتیں اور اس سلسلے میں عقل اور وحی کے مابین توازن کے حوالے سے ابومنصور ماتریدیؒ کے افکار کی طرف ہماری توجہ بڑھ رہی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں ایسی شخصیات اور ان کی فکر پر اس حوالے سے کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ عقل و وحی کے درمیان توازن کیسے قائم ہو، مسائل کے حوالے سے بھی اور اصول کے حوالے سے بھی ۔میں اس کتاب کو بھی اسی کوشش کا حصہ سمجھتا ہوں اور یہ اس ضمن کی ایک اچھی کوشش ہے۔
الشریعہ اکادمی کو بنے تقریباً تیس سال ہو گئے ہیں۔ میرے ذہن میں اس کے قیام سے بھی پہلے سے ایسے کام کا خاکہ تھا کہ اس رخ پر کام ہونا چاہیے۔ آج کی ضروریات کا احسا س ہونا چاہیے، مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینا چاہیے اور ماضی کو سامنے رکھ کر اس کی بنیاد پر آج کی ضروریات اور مستقبل کے امکانات پر کام ہونا چاہیے۔ میں اس کتاب کو بھی اسی کوشش کا ایک حصہ سمجھتا ہوں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ رب العز ت نظر بد سے بچائیں اور خلوص اور ذوق میں اضافہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے والد گرامی اور چچا محترم کے درجات بلند فرمائیں۔ یہ انھی کا فیض ہے ، وگرنہ سچی بات ہے کہ ہم تو کچھ بھی نہیں، صرف پائپ لائن ہیں۔ بس یہ دعا ہے کہ ہم پائپ لائن کے طور پر اپنے بزرگوں کے فیض کو آگے پہنچا سکیں اور دین کی، ملک کی اور ملت کی کوئی مثبت خدمت کر سکیں ۔جزاکم اللہ تعالیٰ
تقریب کے آخر میں کتاب کے مصنف، مولانا محمد عمار خان ناصر نے اپنی مختصر گفتگو میں دو تین باتیں کہیں:
ایک تو یہ کہ اس کتاب کی صورت میں حنفی فکر پر کام کرنے کی ایک جہت کو سامنے لایا گیا ہے۔ یہ اس کی ایک ابتدائی اور چھوٹی سی کوشش ہے۔ اس کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جن پر کام کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جن پہلوؤں پر بات ہوئی ہے، ان پر مزید وسعت کے ساتھ تحقیق کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ مجھے بھی توفیق ہوئی تو مزید کچھ پہلوؤں پر کام کروں گا اور امید ہے کہ دوسرے اہل علم بھی متوجہ ہوں گے، کیونکہ اس پر کام کے لیے بہت گنجائش ہے۔
دوسری یہ کہ یہاں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کا ذکر ہوا۔ میرے لیے جو چیز محرک ہے، جس کی وجہ سے میں اب تک اور آئندہ بھی اس میں دلچسپی محسوس کرتا رہوں گا، وہ ایک تو یہ ہے کہ ہماری علمی روایت کا ایک حصہ جس سے ہم خود وابستہ ہیں، جس سے ہم نے دین سیکھا ہے، اس کا علمی تعارف ابھی بہت سے پہلوؤں سے توضیح کا متقاضی ہے۔ ہمارے اس تعلق کا تقاضا ہے کہ ہم ان پہلوؤں کو واضح کریں اور خاص طور پر اس ضمن میں در آنے والے منفی تصورات و تاثرات کا ازالہ کریں۔ ڈاکٹر اکرم ورک صاحب نے بڑا اچھا پہلو نمایاں کیا کہ ہمارے ہاں بعض گروہوں کی طرف سے امام ابو حنیفہ ؒ کو انکار حدیث کی روایت کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثر نہ صرف پرویز صاحب جیسے مفکرین کے ہاں ہے بلکہ آپ کو حیرت ہو گی کہ علامہ اقبال نے بھی اپنے خطبہ اجتہاد میں امام صاحب ؒ کی فکر کا تعارف اسی تناظر میں کروایا ہے کہ چونکہ ذخیرہ احادیث غیر مستند ہے، اسی لیے امام ابو حنیفہ ؒ بھی احادیث کو اپنے اجتہاد میں اہمیت نہیں دیا کرتے تھے۔ ایک تو اس تاثر کا ازالہ اور حنفی فقہ کے صحیح موقف کی وضاحت ضروری ہے۔
دو چیزیں اور ہیں جو موجودہ تناظر میں اس کام کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ ایک تو وہی جس کی ابھی بات ہوئی یعنی فقہ عولمی اور بدلتے ہوئے زمانے میں اجتہادی روایت کا احیاء۔ اس حوالے سے حنفی منہج فکر کیا ہے؟ اس کو اصولی زاویے واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ایک تاثر سا بن گیا ہے کہ فقہ حنفی کچھ خاص امتیازی مسائل کا نام ہے اور اس تاثر میں ہم بعض اسباب کے تحت بہت زیادہ گرفتار ہو گئے ہیں۔ تو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مسائل اصل میں نتائج ہیں ایک خاص اجتہادی طرز فکر کے۔ اصل چیز سوچنے کا وہ انداز اور اجتہاد کے وہ اصول ہیں اور کسی بھی مسئلے کو شریعت کے پورے نظام کے اندر رکھ کر سمجھنے کا طریقہ ہے جو حنفی فقہا نے اختیار کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر احناف کی علمی روایت جزوی بحثوں سے اوپر اٹھ کر اس اصولی جگہ سے خود کو نئے سرے سے دریافت کر لے تو فقہ عولمی یا کاسموپولیٹن فقہ کی تشکیل میں اس کا کردار زیادہ مفید اور بامعنی بن سکتا ہے۔
تیسری چیز جو میرے نزدیک بہت اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اس وقت ہمیں مذہبی حلقوں میں، ان کی سوچ اور فکر میں تشدد اور انتہا پسندی کا جو ایک عنصر بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، اس کا ازالہ بھی اسی میں ہے کہ ہم دین کو، شریعت کو اور شریعت کے احکام کو سمجھنے کا جو صحیح اور جامع زاویہ نگاہ ہے، اس کو واضح کریں ۔ ہمیں احناف کے منہج میں یہ دیکھنا چاہیے کہ امام صاحبؒ اور دیگر ائمہ احناف کیسے کسی آیت کو یا کسی حدیث کو شریعت کے پورے نظام کے اندر رکھ کر اور باقی سارے نصوص کے ساتھ مربوط کر کے سمجھتے تھے۔ یہ چیز اس فکری انتہا پسندی کا تریاق ثابت ہوگی جس میں ایک آیت یا حدیث کو لے کر اس کی بنیاد پر پوری عمارت تعمیر کر لی جاتی ہے اور بہت سے بڑے بڑے قدم بھی اٹھا لیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میں نے جو چھوٹی سی کاوش کی ہے، وہ مفید ثابت ہو اور اس نہج پر کام کو مزید آگے بڑھایا جا سکے اور ہمارا یہ کام دین اور اہل دین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔
مئی ۲۰۱۶ء
اسلامی ریاست اور سیکولرزم کی بحث
محمد عمار خان ناصر
(گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر پاکستان کی نظریاتی اساس کے حوالے سے جاری بحث میں راقم الحروف نے وقتاً فوقتاً جو مختصر تبصرے لکھے، انھیں یہاں ایک ترتیب کے ساتھ یکجا پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
منطقی مغالطوں میں ایک عامۃ الورود مغالطہ کو اصطلاح میں argumentum ad hominem کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نفس دلیل کی کمزوری پر بات کرنے کے بجائے، دلیل یا موقف پیش کرنے والے کی نیت اور کردار وغیرہ کی خرابی نمایاں کی جائے اور اس سے یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ چونکہ کہنے والا ایسا اور ایسا ہے، اس لیے اس کی بات غلط ہے۔
مذہبی اور سیاسی اختلاف رائے میں اس مغالطے کا استعمال ہمارے ہاں ایک معمول کی بات ہے۔ سنی وہابی، شیعہ سنی، علی گڑھ دیوبندی، حنفی اہل حدیث، دیوبندی مودودی وغیرہ، تمام اختلافات میں مخالف شخصیات پر کیچڑ اچھالنے کی تاب ناک روایت چلی آ رہی ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر قوم پرستوں اور مسلم لیگیوں نے ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر اس طرز استدلال کے نمونے پیش کیے۔ مسلم لیگیوں نے جمعیۃ علماء اور کانگریس کے زعما کی کردار کشی اور تحقیر وتوہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جمعیۃ علماء کے حضرات نے یہی سلوک مسلم لیگی قیادت کے ساتھ کیا۔
پاکستان بن جانے کے بعد یہاں اہل مذہب اور لبرلز کی کشمکش شروع ہو گئی۔ بالکل ابتدائی دور میں ہی جن مذہبی شخصیات (مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا مودودی وغیرہ) نے لبرلز کے مقدمے کے خلاف آئینی جنگ جیتنے میں بنیادی کردار ادا کیا، وہ آج تک لبرلز کی نظر میں ناقابل معافی اور مطعون ہیں اور ان کی شخصیات کو ہدف بنا کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ چونکہ قرارداد مقاصد اِن حضرات نے پیش کی تھی، اس لیے وہ غلط تھی۔ اتفاق سے مسلم لیگی قیادت، خاص طور پر حضرت جناح کے متعلق یہی طرز استدلال ان کے قوم پرست مخالفین اختیار کیا کرتے تھے۔ یہ سارا مواد تاریخ میں محفوظ ہے اور اب بعض اہل قلم نے اس ضمن میں ’’جراتِ رندانہ’’ کا اظہار بھی شروع کر دیا ہے، البتہ جناح صاحب کو ریاستی تحفظ حاصل ہے اور ان کے بارے میں اگر کوئی ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے کی جسارت کرے تو قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔ ایسا کوئی تحفظ مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ کو حاصل نہیں۔ سو ان کے متعلق ’’تاریخی حقائق’’ بے خوف وخطر کریدے جا سکتے ہیں۔
۱۱؍اگست کی تقریر میں قائد اعظم نے دراصل اس ملک کی غیر مسلم اقلیتوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ ان کے مذہبی وسیاسی حقوق پوری طرح محفوظ ہوں گے اور ریاست پاکستان اس ضمن میں کوئی جانب دارانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی۔ ۱۵؍اگست کے بیان میں انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ مسلمانوں کے لیے ملکی نظام اور قانون کے دائرے میں راہ نمائی کا سرچشمہ اسلام کی ابدی تعلیمات ہیں جن کا بہترین نمونہ حصرت عمر کے عہد میں ملتا ہے۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ بالکل درست ہیں۔ اسلام چونکہ دین ومذہب کے معاملے میں کسی قسم کے جبر کا قائل نہیں، اس لیے وہ مسلمان مملکت میں بسنے والے غیر مسلم گروہوں کو مکمل مذہبی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ غیر مسلم اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر قسم کی معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں اور ملکی فلاح وبہبود میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلامی شریعت کے مخصوص قوانین ان پر لاگو نہیں ہوتے اور وہ اپنے معاملات اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق انجام دینے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔
یہی حق ملک کی مسلمان اکثریت کو بھی حاصل ہے۔ چنانچہ جب اکثریت ملک کے نظام اور قانون کی تشکیل کرے گی تو ملک کی اکثریتی آبادی کے لیے ان کے مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہی کرے گی۔ نہ اکثریت کو یہ حق ہے کہ وہ اقلیت پر اپنے مذہبی خیالات کی پابندی مسلط کرے اور نہ اقلیتوں کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اکثریت سے اپنے مذہبی حقوق اور اختیارات سے دست برداری کا مطالبہ کریں۔ قائد اعظم نے یہی دونوں پہلو اپنی مذکورہ تقریروں میں واضح کیے ہیں۔ گیارہ اگست کی تقریر اقلیتوں کے مذہبی وسیاسی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے اور پندرہ اگست کا بیان یہ بتاتا ہے کہ مسلمان اکثریت جب اپنی سیاست ومعاشرت اور معیشت کی تشکیل کرے گی تو اپنے مذہب سے صرف نظر یا اس سے دست بردار ہو کر نہیں کریں گی۔
گیارہ اگست کی تقریر کے بعد فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام جاری کردہ ایک ریڈیو پیغام میں قائد اعظم نے جو کچھ کہا، وہ خود ان کی اپنی زبان سے گیارہ اگست کی تقریر کی مستند تشریح کا درجہ رکھتا ہے۔انھوں نے فرمایا:
’’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اس کی حتمی شکل وصورت کیا ہوگی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہوگا جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوتے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انھی سے راہنمائی حاصل کی جائے گی۔ بہرحال پاکستان ایک تھیو کریٹ (مذہبی) ریاست نہیں ہوگی اور یہاں تمام اقلیتوں، ہندو، عیسائی، پارسی کو بحیثیت شہری وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہوں گے۔’’ (یہ اقتباس ڈاکٹر صفدر محمود نے ایس ایم برک کی کتاب کے صفحہ ۵۲۱ کے حوالے سے نقل کیا ہے)
اقتباس سے واضح ہے کہ جناح صاحب کے ذہن میں کسی لا مذہبی یعنی سیکولر ریاست کا تصور نہیں، البتہ وہ ’’مذہبی ریاست’’ کے اس تصور کو قطعاً قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں شہریت دراصل کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کی ہوتی ہے، جبکہ مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا اور مساوی سیاسی حقوق کا حق دار نہیں سمجھا جاتا۔
ہمارے لبرل دوستوں میں فکر کی جدت اور تازگی کا حال اسی سے واضح ہے کہ سیکولرزم کے مقدمے کے لیے آج بھی ان کے تاریخی استدلال کا واحد قابل ذکر سہارا یہی گیارہ اگست کی تقریر ہے، حالانکہ اب وہ تقریر بھی ہاتھ جوڑتی ہے کہ مجھے خلاصی دے دی جائے۔ چنانچہ ممتاز دانش ور ڈاکٹر مبارک علی نے ایک مطبوعہ انٹرویو میں اس استدلال کی کمزوری تسلیم کی اور کہا کہ ہمیں سیکولر ریاست کے آپشن پر خود اس تصور ریاست کی افادیت نیز اپنے سابقہ تجربات کے حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ لبرل دوست اگر ان کی روشنی میں کچھ نئے استدلالات مرتب کرنے پر توجہ مبذول فرمائیں تو زیادہ اچھا مکالمہ ہو سکے گا۔
’’مولانا شبیر احمد عثمانی، پاکستان بنانے کے لیے تو قائد اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کے قائل تھے، لیکن نئی ریاست کیسی ہونی چاہیے، اس کے متعلق ان کا زاویہ نظر قائد اعظم سے مختلف تھا۔’’
یہ سادہ سا نکتہ ہے جسے مولانا عثمانی کی شخصیت پر جرح کی بنیاد بناتے ہوئے انکشافِ سازش کے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ آخر کس اصول کی رو سے اعتراض بنتا ہے؟ تحریک پاکستان میں شامل مختلف طبقوں کے اپنے اپنے تصورات اور مقاصد تھے۔ تحریک میں شرکت صرف اس نکتے کے حوالے سے تھی کہ مسلمانوں کا ایک الگ ملک ہونا چاہیے۔ اگر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ قیام وطن کے بعد کے اہداف میں بھی سب کا اتفاق ہونا چاہیے تو یہی اعتراض پلٹ کر خود قائد اعظم پر بھی وارد ہوتا ہے۔ کیا انھیں نہیں معلوم تھا کہ مذہبی علما ومشائخ کس جذبے اور تصور کے تحت تحریک کا حصہ بنے ہیں؟ پھر بھی انھوں نے مشترک مقصد کے حصول کے لیے انھیں ساتھ رکھا اور ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آں محترم نے حصول مقصد سے پہلے اپنی پوزیشن غیر واضح رکھی۔ علما کے سامنے ان کی پسند کی باتیں کیں اور دوسری جگہوں پر اپنی پسند کی، لیکن ملک بن جانے کے بعد اپنا اصل تصور گیارہ اگست کی تقریر میں واضح کر دیا۔ اگر جناح صاحب کے طرز سیاست کی یہ تعبیر درست ہے تو یہ ’’بلند اخلاقی‘‘ کم سے کم علما نے تو نہیں دکھائی۔ وہ تو شروع سے آخر تک اپنے موقف میں واضح تھے اور قیام وطن کے بعد بھی وہی بات کہی جو پہلے سے کہتے چلے آ رہے تھے۔
باقی رہی یہ بات کہ جناح صاحب کا تصور ریاست فلاں اور فلاں تھا اور شبیر احمد عثمانی کا ان سے مختلف تھا تو یہ کوئی جرم کی بات نہیں۔ بانی پاکستان کو نبوت کے منصب پر آخر کس نے فائز کیا ہے؟ کیا ملک کی نظریاتی اساس متعین کرنا آئینی ودستوری یا اخلاقی طور پر جناح صاحب کا بلا شرکت غیرے حق تھا؟ اگر یہ بات ہے تو اس کے لیے دستور ساز اسمبلی بنانے کا تکلف ہی کیوں کیا گیا؟ اور اگر یہ سوال دستور ساز اسمبلی نے طے کرنا تھا تو وہ آخر کس اصول کی رو سے جناح صاحب کے تصور ریاست کی پابند تھی؟ خود جناح صاحب کا بیان تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ نئے ملک کی دستوری حیثیت متعین کرنا میرا نہیں، بلکہ دستور ساز اسمبلی کا کام ہے۔ یہی بات اصولی اور آئینی طور پر درست ہے۔ جناح صاحب کا تصور ریاست کیا تھا، یہ بحث محض تاریخی اور نظری اہمیت رکھتی ہے۔ کسی اصول یا ضابطے کی رو سے ان کا رجحان، آئینی اداروں کو پابند نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اسی کو اختیار کریں۔
قائد اعظم نے گیارہ اگست کو دستور ساز اسمبلی کے سامنے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا، اگر اس کی وہی تعبیر درست مانی جائے جو لبرل دوست کرتے ہیں تو بھی سوال یہ ہے کہ اس کی حیثیت راہ نما مشورے یا تجویز کی تھی یا دستور ساز اسمبلی کو ڈکٹیشن کی؟ اگر آن جناب ڈکٹیشن دے رہے تھے تو اپنے دائرۂ اختیار سے صریحاً تجاوز فرما رہے تھے جو انھیں زیب نہیں دیتا تھا۔ اور اگر ان کے ارشادات کی حیثیت راہ نما مشورے کی تھی تو بہت اچھا، انھوں نے دیانت داری سے جو مشورہ بہتر سمجھا، دے دیا، لیکن دستور ساز ادارے نے بصد احترام اسے قبول نہیں کیا۔ فرض کیجیے، قائد اعظم تھیو کریٹک ریاست کے قائل ہوتے تو کیا لبرل دوست آنکھیں بند کر کے ’’آمنا وصدقنا’’ کہہ دیتے کہ جب بانی پاکستان یہی چاہتے تھے تو ہماری اختلاف کی کیا مجال؟ اگر نہیں تو آخر ایمان مفصل کی یہ شق صرف اسلام پسندوں کے لیے کیوں ہے؟
اس بحث میں ہمارے دوستوں کا سہارا اسی طرح کے منطقی مغالطے ہیں۔ ان کا اصل دکھ یہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی کیوں علما کے موقف کی قائل ہو گئی اور جناح صاحب کا (مفروضہ) تصور کیوں قبول نہیں کیا گیا، لیکن اس کا غصہ اس طرح نکالا جا رہا ہے کہ اس آئینی فیصلے میں موثر کردار ادا کرنے والوں کی شخصیت کو مجروح کیا جائے اور اسے ایک ’’غیر اخلاقی سازش’’ دکھانے کے لیے ادھر ادھر سے تنکے جوڑ کر داستانیں رقم کی جائیں۔
اسلام پسند لکھاریوں کی ذمہ داری، ماضی کے برعکس، اب دوہری ہو گئی ہے۔ انھیں سیکولرسٹ بیانیے کا بھی جوابی بیانیہ پیش کرنا ہے اور خود اپنے بیانیے کی بھی نئی تشکیل کرنی ہے۔ جیسے سیکولرسٹ اسی پرانے بیانیے کو نئی بوتل میں پیش کر کے نئی نسل کو زیادہ متاثر نہیں کر سکتے، اسی طرح مذہبی بیانیہ بھی اپنے مقدمات اور استدلال کو re۔shape کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
سابقہ بیانیے سے تاریخی طور پر کلی انقطاع ظاہر ہے ممکن نہیں، لیکن بحث کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کے ایک مرحلے کے ساتھ مقید بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ تحریک پاکستان کے مختلف کرداروں کا تصور اور عملی کردار کیا تھا، اس سوال کو بتدریج بحث کے ’’تاریخی’’ گوشے تک محدود کر دینا ضروری ہے۔ آج کی نسل کو، سوالات پر ان کے اپنے میرٹ پر بحث کرنے کی جرات کرنی ہوگی۔ دونوں طرف کے نوجوان ذہنوں کو بات اس سے آگے بڑھانی چاہیے جہاں تک ان کے بڑوں نے پہنچائی ہے۔ مثال کے طور پر جدید مسلم ریاست کو کلاسیکی دار الاسلام کے ہم معنی سمجھنا خلط مبحث بھی ہے اور نئی نسل کے ذہنوں میں پائے جانے والے تمام تر فکری ابہامات کی جڑ بھی۔ ڈاکٹر حمید اللہ سے لے کر ڈاکٹر محمود غازی اور مولانا تقی عثمانی تک، سبھی مسلم مفکرین اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں، لیکن بطور ایک اساسی مقدمے کے، اسے بیان کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ چنانچہ اصطلاحات اور تصورات کی تطبیق کی ساری کوششیں فکری وضوح پیدا کرنے کے بجائے فکری ابہامات میں ہی اضافہ کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔ دو الگ الگ تصورات ریاست کو تلفیق کے طریقے پر گڈ مڈ کر کے نقشہ بنایا جا رہا ہے جو کسی بھی تصور ریاست میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ عسکری رجحان رکھنے والے عناصر کی فکری بے اطمینانی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے۔
ہمارے ہاں بحث ومباحثہ کی ساری گرمی اور باہمی تبادلہ الزامات صرف اس وجہ سے ہے کہ ہر سیاسی مکتب فکر خود کو ملک وملت کا بلا شرکت غیرے ٹھیکے دار سمجھتا اور دوسروں کے نقطہ نظر کو محض ’’دخل در معقولات’’ کی نظر سے دیکھتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی موجودہ نظریاتی اساس کی تشکیل کسی ایک فکر کی روشنی میں نہیں ہوئی اور نہ قوم نے اب تک کا فکری سفر کسی ایک راہ نما کے دکھائے ہوئے راستے پر اندھا دھند چل کر طے کیا ہے۔ ہمارا اجتماعی فکری سفر متنوع اصحاب فکر کے افکار کا مرہون منت ہے اور ہمارے اجتماعی شعور نے اس معاملے میں کوئی تعصب نہیں برتا۔ اس نے پوری دیانت داری نیز دانش مندی سے مختلف فکری دھاروں سے وہ اجزا وعناصر چھانٹ لیے ہیں جو اسے مفید محسوس ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس نظریے کو عملی شکل دینے کے قابل نہیں ہو سکے یا اپنی نسلوں کو اس کی دانش ورانہ تفہیم میں تقصیر کے مرتکب ہوئے ہیں یا کم حوصلہ دانش اس اخذ واستفادہ کے اعتراف میں مسلسل بخل سے کام لے رہی ہے۔ یہ فکری عناصر حسب ذیل ہیں:
- علامہ محمد اقبال کا، مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کے حامل ایک الگ خطہ زمین کا تصور
- مولانا حسین احمد مدنی کی یہ اجتہادی فکر کہ موجودہ دور میں قومیت کی بنیاد ’’وطن’’ پر ہے
- قائد اعظم کا، ایک فلاحی جمہوری ریاست کا تصور جس میں اقلیتوں کو یکساں شہری وسیاسی حقوق حاصل ہوں اور تھیا کریسی کی کسی صورت کو گوارا نہ کیا جائے
- جدید ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کے عملی وآئینی میکنزم کے ضمن میں نامور مذہبی اسکالرز (مولانا مودودی، علامہ اسد، مولانا شبیر احمد عثمانی اور دیگر بہت سے علماء) کی اجتہادی کاوشیں
اجتماعی شعور نہ پہلے کسی ایک فکری دھارے کا غلام بنا ہے اور نہ آئندہ اسے بنایا جا سکے گا۔ ہر ہر نقطہ خیال کے اصحاب فکر کو پورا حق ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کو ان کے دلائل کے ساتھ سامنے لاتے رہیں۔ اجتماعی شعور ان سب سے استفادہ کرے گا اور ان شاء اللہ پورے توازن کے ساتھ جس بات کا جتنا وزن محسوس کرے گا، اسے قبول کرتا رہے گا۔ اگر سب اصحاب فکر اس بنیادی نکتے کا ادراک کر لیں تو معاشرہ وریاست کو اپنی محدود سوچ کے مطابق تشکیل دینے کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش خود بخود اعتدال پر آ جائے گی۔ (عمار ناصر)
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۸)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۸۵) سقی اور اسقاء کے درمیان فرق
سقی یسقي ثلاثی مجرد فعل ہے، جس کا مصدر سقي ہے، اور أسقی یسقي ثلاثی مزید فعل ہے جس کا مصدر اِسْقَاء ہے، قرآن مجید میں دونوں کا استعمال متعدد مرتبہ ہوا ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، جبکہ کچھ لوگوں نے دونوں کے درمیان یہ فرق بتایا ہے کہ سقی میں محنت شامل نہیں ہوتی ہے، اور اِسْقَاء میں محنت شامل ہوتی ہے، بعض لوگوں نے بتایا کہ سقی منہ سے پانی پلانے کے لیے اور اسقاء کھیتیاں وغیرہ سیراب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔راغب اصفہانی نے قرآن مجید کے استعمالات کی روشنی میں دونوں کے درمیان بہت بلیغ فرق بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
السَّقيُ والسّْقاءُ: أن یعطیہ ما یشرب، والاِسْقَاءُ:أن یجعل لہ ذلک حتی یتناولہ کیف شاء، فالاسقاءُ أبلغ من السّقي، لأن الاسقاء ھوأن تجعل لہ ما یسقي منہ ویشرب۔ (المفردات فی غریب القرآن، ص: ۴۱۵)
مطلب یہ کہ سقي کے معنی مشروب کو پیش کرنے کے ہیں، جسے اردو میں پلانا کہتے ہیں، اور اسقاء کے معنی مشروب فراہم کرنا اور اس کا انتظام کرنا ہے، جس کو اردو میں پلانا نہیں کہتے ہیں، پانی فراہم کرنا اور پینے کا انتظام کرنا کہتے ہیں۔ اگر کسی نے نہر جاری کردی، یا پانی کی سبیل لگادی تو وہ پانی پلانا نہیں کہا جائے گا، ہاں کوئی اسی پانی کو گلاس میں بھر کر کسی کو پیش کرے تو وہ پانی پلانا ہوا۔
چونکہ قرآن مجید میں کہیں سقي آیا ہے اور کہیں اسقاء آیا ہے، اس لیے ہمیں ترجمہ کرتے ہوئے بھی اس کا خیال کرنا چاہیے کہ دونوں کے درمیان فرق کا حق ادا ہوسکے۔
ذیل کی آیتوں میں سقي آیا ہے، اور ترجمہ پانی پلانے کا ہے، انسانوں کو پانی پلانا، جانوروں کو پانی پلانا اور کھیتیوں کو سیراب کرنا :
وَلَمَّا وَرَدَ مَاء مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْْہِ أُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِہِمُ امْرَأتَیْْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتَّی یُصْدِرَ الرِّعَاء وَأَبُونَا شَیْْخٌ کَبِیْرٌ۔ فَسَقَی لَہُمَا۔ (القصص:۲۳، ۲۴)
’’اور جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچا تو اس نے اس پر لوگوں کی ایک بھیڑ دیکھی جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلارہے تھے اور ان سے دور دو عورتوں کو دیکھا جو اپنی بکریوں کو روکے کھڑی ہیں، اس نے ان سے پوچھا، تمھارا کیا ماجرا ہے؟ انھوں نے کہا: ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتے جب تک چرواہے اپنی بکریاں ہٹا نہ لیں اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں تو اس نے ان ددونوں کی خاطر پانی پلایا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
اس ترجمہ میں جہاں جہاں بکریوں کا ذکر ہے وہاں مویشی یا ریوڑہونا چاہیے تھا)۔
قَالَتْ إِنَّ أَبِیْ یَدْعُوکَ لِیَجْزِیَکَ أَجْرَ مَا سَقَیْْتَ لَنَا۔ (القصص: ۲۵)
’’کہا کہ میرے باپ آپ کو بلاتے ہیں کہ آپ نے ہماری خاطر جو پانی پلایا، اس کا آپ کو صلہ دیں‘‘
وَسَقَاہُمْ رَبُّہُمْ شَرَاباً طَہُوراً۔ (الانسان: ۲۱)
’’اوران کا رب ان کو پاکیزہ مشروب پلائے گا‘‘ (امین احسن اصلاحی)
وَلاَ تَسْقِیْ الْحَرْثَ۔ (البقرۃ: ۷۱)
’’اور کھیتوں کو سیراب کرنے والی نہ ہو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
أَمَّا أَحَدُکُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّہُ خَمْراً۔ (یوسف: ۴۱)
’’تم میں سے ایک تو اپنے آقا کو شراب پلائے گا‘‘ (امین احسن اصلاحی)
وَالَّذِیْ ہُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ۔ (الشعراء :۷۹)
’’اور جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
وَسُقُوا مَاء حَمِیْماً ۔ (محمد:۱۵)
’’اور جن کو اس میں گرم پانی پلایا جائے گا‘‘ (امین احسن اصلاحی)
جبکہ مذکورہ ذیل آیتوں میں فعل اسقاء کا استعمال ہوا ہے، اور تمام مقامات وہی ہیں، جہاں کچھ پلانے کی بات نہیں ہے، بلکہ پینے والی چیزوں کو فراہم اور مہیا کرنے کی بات ہے، اس لیے اسقاء کا لفظ دیکھ کر پلانے کا پرتکلف ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ انتظام کرنا اور فراہم کرناکہنے کی لفظ میں بھی خوب خوب گنجائش ہے، اور وہی موقع ومقام کے لحاظ سے زیادہ موزوں بھی ہے۔
(۱) وَجَعَلْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ شَامِخَاتٍ وَأَسْقَیْْنَاکُم مَّاءً ً فُرَاتاً۔ (المرسلات: ۲۷)
’’اور رکھے اس میں بوجھ کو پہاڑ اونچے، اور پلایا ہم نے تم کو پانی میٹھا پیاس بجھاتا ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اور ہم نے اس میں اونچے اونچے لنگر ڈالے اور ہم نے تمہیں خوب میٹھا پانی پلایا ‘‘(احمد رضا خان)
’’اور گاڑے اس میں پہاڑ اونچے اونچے، اور تمہارے پینے کے لئے خوشگوار پانی فراہم کیا‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۲) فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَیْْنَاکُمُوہُ۔ (الحجر: ۲۲)
’’پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں، اور اس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں‘‘(سید مودودی)
’’پھر اتارا ہم نے آسمان سے پانی، پھر تم کو وہ پلایا‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’پھر ہم ہی آسمان سے پانی برساتے ہیں، پھر وہ پانی تم کو پینے کو دیتے ہیں‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’تو ہم نے آسمان سے پانی اتارا، پھر وہ تمہیں پینے کو دیا‘‘(احمد رضاخان)
’’پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں تو تمہارے پینے کے لئے اسے مہیا کرتے ہیں‘‘(امانت اللہ اصلاحی)
(۳) وَإِنَّ لَکُمْ فِیْ الأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُّسْقِیْکُم مِّمَّا فِیْ بُطُونِہِ مِن بَیْْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَناً خَالِصاً سَآئِغاً لِلشَّارِبِیْن۔ (النحل: ۶۶)
’’اور بے شک تمہارے لیے چوپایوں میں بھی بڑا سبق ہے۔ ہم ان کے پیٹوں کے اندر کے گوبر اور خون کے درمیان سے تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں، پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں ایک اور غلطی ہے، وہ یہ کہ گوبر اور خون کے درمیان سے دودھ پلانے کا ترجمہ کیا ہے، جبکہ دودہ اس چیز سے فراہم کرنے کی بات ہے جو پیٹ کے اندر ہے، اور جس سے کہ گوبر اور خون بھی بنتا ہے، مگر گوبر اور خون کے اثر سے دودھ محفوظ رہتا ہے)
’’ان کے پیٹ میں جو گوبر اور خون (کا مادہ) ہے اس کے درمیان میں سے صاف اور گلے میں آسانی سے اترنے والا دودھ (بناکر) ہم تم کو پینے کو دیتے ہیں‘‘۔(اشرف علی تھانوی، اوپر مذکور غلطی یہاں بھی موجود ہے)
’’ہم تمہیں پلاتے ہیں اس چیز میں سے جو ان کے پیٹ میں ہے گوبر اور خون کے بیچ میں سے خالص دودھ گلے سے سہل اترتا پینے والوں کے لیے ‘‘(احمد رضا خان، یہاں وہ غلطی نہیں ہے جس کی طرف اوپر کے ترجمے میں اشارہ کیا گیا۔)
’’ہم ان کے پیٹوں میں جو ہے اس سے گوبر اور خون کے درمیان سے تمہارے پینے کے لیے خالص دودھ فراہم کرتے ہیں، پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(۴) وَإِنَّ لَکُمْ فِیْ الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُّسقِیْکُم مِّمَّا فِیْ بُطُونِہَا۔ (المؤمنون: ۲۱)
’’اور بیشک تمہارے لیے چوپاؤں میں سمجھنے کا مقام ہے ہم تمہیں پلاتے ہیں، اس میں سے جو ان کے پیٹ میں ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور تمہارے لیے چوپایوں میں بھی بڑا درس آموزی کا سامان ہے، ہم ان چیزوں کے اندر سے جو ان کے پیٹوں میں ہیں، تمہیں (خوش ذائقہ دودھ) پلاتے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’ہم تم کو ان کے جوف میں کی چیز(یعنی دودھ) پینے کو دیتے ہیں‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’ہم ان چیزوں کے اندر سے، جو ان کے پیٹ میں ہیں، تمہیں پینے کے لیے (خوش ذائقہ دودھ ) فراہم کرتے ہیں۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۵) وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَہُوراً۔ لِنُحْیِیَ بِہِ بَلْدَۃً مَّیْْتاً وَنُسْقِیَہُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَاماً وَأَنَاسِیَّ کَثِیْراً۔ (الفرقان: ۴۸،۴۹)
’’اور ہم آسمان سے پاکیزہ پانی اتارتے ہیں کہ اس سے مردہ زمین کو ازسر نو زندہ کردیں، اور اس کو پلائیں اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو‘‘ (امین احسن اصلاحی، طہور کا ترجمہ پاکیزہ کے بجائے پاکیزگی بخشنے والا ہونا چاہئے، نسقیہ کا درست ترجمہ ہوگا: اور اسے پینے کے لیے فراہم کریں)
(۸۶) اَلْبَلَدِ الْأمِیْنِ کا ترجمہ
قرآن مجید میں البلد الامین صرف ایک مقام پر آیا ہے، اور اس کا عام طور سے لوگوں نے ایک ہی ترجمہ کیا ہے، یعنی امن والا شہر۔
وَہَذَا الْبَلَدِ الْأمِیْنِ ۔ (التین:۳)
’’اور اس شہر امن والے کی‘‘ (شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالقادر)
’’اور اس امن والے شہر کی‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’اور یہ پرامن سرزمین‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’اور اس پرامن شہر (مکہ) کی‘‘ (سید مودودی)
’’اور اس امان والے شہر کی‘‘ (احمد رضا خان)
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں لفظ امین متعدد مقامات پر آیا ہے، کچھ مثالیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں،
إِنِّیْ لَکُمْ رَسُولٌ أَمِیْنٌ۔ (الشعراء : ۱۰۷)
بعینہ یہی جملہ قرآن مجید میں چھ مقامات پر آیا ہے۔
نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ۔ (الشعراء : ۱۹۳)
إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ أَمِیْنٍ۔ (الدخان:۵۱)
تمام ہی جگہوں پر امین امانت دار اور امانت کے پاسدار کے معنی میں آیا ہے، البتہ مذکورہ آخری آیت میں مقام امین کا ترجمہ امان کی جگہ یا حالت کیا گیا ہے، یہاں بھی یہ واضح رہے کہ مقام امین کے معنی اس جگہ کے نہیں ہیں جو خود پر امن یا محفوظ ہو، بلکہ اس جگہ کے ہیں جو دوسروں کی حفاظت کرے یعنی جو وہاں پہونچ جائے وہ محفوظ ہو ۔ آمن وہ ہے جو خود محفوظ ہو ،اور امین وہ ہے جو دوسروں کی حفاظت کرے۔ دوسری طرف قرآن مجید میں شہر مکہ اور حرم مکہ کے لیے پرامن شہر ہونے کی صفت کئی جگہ بیان کی گئی، اور ہر جگہ اس کے لیے آمن کا لفظ استعمال کیا گیا، کہیں امین کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا، ذیل میں ذکر کی گئی مثالیں ملاحظہ ہوں:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہََذَا بَلَداً آمِناً۔ (البقرۃ: ۱۲۶)
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہَذَا الْبَلَدَ آمِناً۔ (ابراہیم: ۳۵)
أَوَلَمْ نُمَکِّن لَّہُمْ حَرَماً آمِناً۔ (القصص: ۵۷)
أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَماً آمِناً۔ (العنکبوت: ۶۷)
ان دونوں پہلووں کو سامنے رکھیں تو مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ البلد الامین کا ترجمہ کرتے ہوئے امن کے بجائے امانت کا مفہوم لیا جائے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں، ’’اور اس شہر کی قسم جس کو امین بنایا گیا، یعنی جس میں امانت رکھی گئی‘‘۔ امانت سے مراد یہ ہے کہ یہاں خانہ کعبہ ہے، اور آخری رسول کی بعثت کا مقام اس کو بنایا گیا ہے، اور اس آخری رسول سے متعلق بہت ساری نشانیاں یہاں موجود اورمحفوظ ہیں۔ البلد الامین کا یہ ترجمہ سیاق کلام کے لحاظ سے بھی معنی خیز ہے۔
(جاری)
کتاب ’’الحجۃ علیٰ اہل المدینہ‘‘ کے اصولی مباحث
مولانا سمیع اللہ سعدی
مکاتب فقہیہ میں سے اولین مکتب کا شرف پانے والا مکتب حنفی متنوع خصوصیات و امتیازات کے باوجود اصول فقہ کے میدان میں ایک خلا کا حامل ہے کہ اس عظیم فقہ کے اصول اس کے بانی ائمہ امام ابوحنیفہ ،امام ابویوسف اور امام محمد سے براہ راست منقول نہیں ہیں۔ اس پر مستزاد یہ ،ائمہ ثلاثہ سے فیض یاب ہونے والے اولین فقہائے حنفیہ جیسے امام عیسیٰ بن ابان(المتوفی ۲۲۰ھ)، امام محمد بن سماعہ (المتوفی ۲۳۳ھ) اور صدر اول کے دیگر فقہائے احناف کی اصول فقہ کی کوئی کتاب محفوظ نہیں رہ سکی ،اگرچہ ان کے تراجم اور فہارس الکتب میں ان حضرات کی اصولی کتب کا تذکرہ ملتا ہے ۔ اس مکتب کی محفوظ شدہ اصولی کتب میں اولین کتب، چوتھی صدی ہجری کے علمائے حنفیہ ،ابو الحسن الکرخی (۳۴۰ھ)اور امام جصاص الرازی (۳۷۰ھ)کی کتب ہیں، اگرچہ ان حضرات کے بعد عصر حاضر تک فقہ حنفی کے اصولی ذخیرے میں اضافہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
فقہائے حنفیہ نے امام ابوحنیفہ و صاحبین سے منقول فروعات کو سامنے رکھ کر ان حضرات کے پیش نظر اصول و قواعد کا استخراج کیا۔ اس طرز کے فوائد اور اس کی اہمیت اگرچہ اصول فقہ میں مسلم ہے اور فقہائے حنفیہ کے اس اسلوب نے اصول فقہ کو نئی جہات اور نئے فنون سے مالا مال کیا۔ لیکن اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فروعات سے اصول کی تخریج اور خود مکتب حنفی کے بانیوں کی اصولی تصریحات اور اصولی مباحث میں قطعیت، اہمیت، تعبیر اور طرزو اسلوب کے اعتبار سے بہت فرق ہے۔ کسی کے کلام سے مستنبط کردہ اور متکلم کی صراحت میں فرق ایک بدیہی بات ہے۔
عصر حاضر میں فقہ اسلامی پر جن نئی جہات سے کام کی صدائیں بلند ہورہی ہیں، ان میں خاص طور پر فقہ حنفی کے حوالے سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ فقہ حنفی کی امہات الکتب، کتب ظاہر الروایہ اور امام محمد کی دیگر کتب کے ساتھ امام ابویوسف کی کتب میں بکھرے اصولی مباحث کو اکٹھا کیا جائے ،تاکہ فقہ حنفی کے بانیوں کا نظریہ استنباط و اجتہاد خود ان کی تصریحات کی روشنی میں سامنے آئے، چنانچہ اسی ضرورت کے پیش نظر ۲۰۲۲ میں دار ابن حزم سے امام محمد کی کتاب الاصل جدید تحقیق کے ساتھ چھپی تو کتاب کے محقق الدکتور محمد بوینو کالن نے اس کے مقدمے میں کتاب الاصل کے اصولی مباحث کا ایک مبسوط جائزہ لیا۔
اس مضمون میں امام محمد کی ایک مہتم بالشان کتاب "الحجۃ علی اہل المدینہ" کے اصولی مباحث کا ایک طائرانہ جائزہ اس مقصد کے پیش نظر لیا جائے گا کہ کوئی محقق اس کی روشنی میں کتاب کے اصولی مباحث کو دقت و بسط کے ساتھ جمع کرے تو یقیناً فقہ حنفی کی ایک تاریخی خدمت ہوگی۔
کتاب الحجۃ کا تعارف
کتاب الحجۃ کا شمار امام محمد کی نوادر الروایہ کتب میں ہوتا ہے۔ اس کتاب کا پس منظر یہ ہے کہ امام محمد نے حصول علم کی غرض سے مدینہ منورہ کا سفر کیا، اور امام دار الہجرۃ امام مالک رحمہ اللہ سے تقریباً تین سال تک حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں امام مالک سے حاصل کردہ روایات کو موطا امام محمد میں جمع کیا اور دوران تعلیم فقہی مناقشوں کو کتاب الحجۃ میں جمع کیا۔اس کتاب میں مصنف کا طرز یہ ہے کہ عنوان باندھنے کے بعد پہلے امام ابوحنیفہ کا مسلک ذکر کرتے ہیں، اس کے بعد وقال اھل المدینۃ کہہ کر امام مالک اور مدینہ کے دیگر فقہاء کی رائے سامنے لاتے ہیں اور اس کے بعد وقال محمد سے اہل مدینہ کے مسلک پر مناقشہ ذکر کرکے امام ابوحنیفہ کے قول کو احادیث و آثار سے مبرہن کرتے ہیں۔ چونکہ کتاب بنیادی طور پر فقہی مناقشوں پر مشتمل ہے، اس لیے امام محمد کی شان اجتہاد، وسعت علم، احادیث و آثار پر نظر اور اپنے مسلک کی نقلی و عقلی تائید ات کا انمول خزانہ ہے۔ اس کتاب کے راوی امام محمد کے معروف شاگرد امام عیسیٰ بن ابان ہیں۔ اب ہم اس کتاب میں ذکر کردہ اصولی مباحث و قواعد اصولیہ بغیر کسی خاص ترتیب کے ذکر کرتے ہیں۔
غیر منصوص مسائل کے بارے میں ضابطہ
اما م محمد نے کئی مقامات پر اس بنیادی اصول کی تصریح کی ہے کہ غیر منصوص مسائل کا حل منصوص مسائل پر قیاس ہے، چنانچہ بیع قبل القبض کے بارے میں فرماتے ہیں :
علی الناس ان یقیسوا ما لم یات فیہ اثر بما جاء من الاثار۔
’’لوگوں کے ذمے ہے کہ غیر منصوص مسائل کو منصوص مسائل پر قیاس کریں۔‘‘
ایک دوسری جگہ سے اس ضابطے کی مزید وضاحت معلوم ہوتی ہے کہ قیاس صرف ان منصوص مسائل پر کیا جائے گا جن کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہو، یعنی علت مشترکہ کی بنیاد پر قیاس ہوگا۔چنانچہ مسح الراس والے مسئلے میں لکھتے ہیں :
انما ینبغی ان یقاس ما لم یات فیہ اثر بما یشبھہ مما جاء فیہ الاثر۔
’’مناسب یہ ہے کہ جن مسائل میں روایات نہیں ہیں، انہیں ان ان کے مشابہ منصوص مسائل پر قیاس کیا جائے۔‘‘
نصوص کی موجودگی میں قیاس مردود ہے
امام محمد نے اس کی بھی کئی مقامات پر تصریح کی ہے کہ نصوص کے ہوتے ہوئے قیاس مردود اور ناقابل قبول ہے۔
قعدہ استراحت کے مسئلے میں فرماتے ہیں:
السنۃ و الآثار فی ھذا معروفۃ مشھورۃ لا یحتاج معھا الی نظر و قیاس۔
’’روایات اس مسئلے میں مشہور و معروف ہیں ،ان کے ہوتے ہوئے قیاس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اس کے علاوہ درجہ ذیل مقامات پر بھی اسی ضابطے کو بیان کیا ہے۔
نصوص قیاس پر مقدم ہیں
امام محمد نے قیاس کے حوالے سے ایک اہم ترین اصول یہ بیان کیا ہے کہ نصوص قیاس پر مقدم ہیں، لہٰذا اگر کسی مسئلے میں حدیث اور روایت کا تعارض ہو تو روایت کو ترجیح ہوگی۔
قہقہہ سے وضو ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کے مسئلے میں ارشاد فرماتے ہیں :
لولا جا ء من الاثار کان القیاس علی ما قال اھل المدینہ و لکن لا قیاس مع اثر، ولیس ینبغی الا ان ینقاد للاثار۔
’’اگر قہقہہ سے وضو ٹوٹنے کے حوالے سے مذکورہ روایات نہ ہوتیں ،تو قیاس تقاضا یہی تھا جو اہل مدینہ کا مسلک ہے، لیکن حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس نہیں ہوتا اور نصوص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی مناسب ہے۔‘‘
قیاس کے بارے میں ان تین ضابطوں کو اگر باب القیاس کا خلاصہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ نیز ان سے یہ بات بھی ثابت ہورہی ہے کہ ائمہ حنفیہ کی نظر میں نصوص و روایات کا کیا مقام تھا۔ امام محمد کی ان تصریحات کے بعد بھی کوئی حنفیہ پر قیاس کو ترجیح دینے کا الزام لگائے گا تو علمی دنیا میں اس سے بڑی غلط فہمی نہیں ہوگی۔
شریعت کے عمومی قواعد اور نصوص کے خلاف روایت کا حکم
امام محمد نے جا بجا اس اہم اصو ل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کوئی روایت اگر شریعت کے عمومی قواعد و ضوابط کے خلاف ہو ،تو وہ روایت نہیں لی جائے گی۔
صلاۃ الکسوف میں دو رکوع والی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
السنۃ المعروفۃ فی غیر الکسوف علی رکعۃ وسجدتین فی کل رکعۃ وکیف صارت صلاۃ الکسوف مخالفۃ لغیرھا من جمیع الصلوات، فانما ذلک شیء یقرب بہ الی اللہ تعالی، فالصلاۃ واحدۃ وفی کل رکعۃ قراء ۃ ورکعۃ واحدۃ وسجدتان، فاما الرکعتان فی رکعۃ فھذا امر لم یکن فی شیء من الصلوات لا فی صلاۃ عید ولا فی جمعۃ ولا فی تطوع ولا فی فریضۃ، فکیف ذالک فی صلاۃ الکسوف؟
’’کسوف کے علاوہ نماز کے بارے میں معروف طریقہ ہر رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے ہیں ،تو نماز کسوف باقی تمام نمازوں کے کیسے مخالف ہوگی؟حالانکہ یہ نماز بھی دیگر نمازوں کی طرح تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے ،تو نماز ہونے میں سب نمازیں ایک جیسی ہیں، اور باقی نمازوں میں ہر رکعت میں قراء ت،ایک رکوع اور دو سجدے ہیں، لیکن ایک رکعت میں دو رکوع ایسا حکم ہے جو کسی بھی نماز میں ثابت نہیں ہے، خواہ وہ جمعہ کی نماز ہو ،نفل ہو یا فرض،تو یہ حکم کسوف کی نماز میں کیسے ہوسکتا ہے ؟‘‘
اس عبارت میں امام محمد نے نمازوں کے بارے میں شریعت کے عمومی قاعدے (نمازوں میں ایک ہی رکوع ہے) کی وجہ سے کسوف میں دو رکوع والی روایت کو ظاہر پر رکھنے کی بجائے اس کی تاویل کی ہے۔
ایک اور جگہ مختلف احادیث میں ترجیح کا اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اذا جاء الحدیثان المختلفان ان ینظر الی اشبھھما بالحق، فیوخذ بہ و یترک ما سوا ذلک۔
’’جب دو مختلف احادیث آجائیں تو حق کے موافق روایت کو لیا جائے گا اور دوسری روایت کو ترک کیا جائے گا۔‘‘
یہی اصطلاح اما م محمد نے ایک اور جگہ بھی استعمال کی ہے ،چنانچہ سواری پر وتر پڑھنے سے متعلق مختلف احادیث روایت کر کے لکھتے ہیں:
فروی ان ابن عمر رضی اللہ عنھما کان ینزل بالارض فیوتر علیھا ویروی ذلک عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاخذنا باوثقھا واشبھھا بالحق وبما جاء ت بہ الآثار من التشدید فی الوتر۔
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ زمین پر اتر کر وتر پڑھتے تھے ،اور اسی طرح خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ،تو ہم نے ان میں سے قابل اعتماد ،حق کے موافق اور ان روایات کے مطابق روایت لی ،جن میں وتر کے مسئلے میں سختی منقول ہیں۔‘‘
ایک جگہ قصاص کے مسئلے میں مزید وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں:
فلیس ینبغی ان یترک ما یوافق السنۃ و الکتاب۔
’’مناسب نہیں ہے کہ اس روایت کو چھوڑ دیا جائے جو کتاب و سنت کے موافق ہو۔‘‘
ایک اور مقام پر اسے ’’اشبہ بالکتاب و السنۃ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
سجدہ سہو کے مسئلے میں اہل مدینہ کی دلیل حضرت عبد اللہ ابن بحینہ کی حدیث پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
قیل لھم افنقبل ھذا بترک السنۃ والآثار المعروفۃ بقول رجل لا یروی عنہ غیر حدیث واحد؟
’’اہل مدینہ سے کہا جائے گا کہ کیا اس مسئلے میں سنت اور معروف احادیث کو ایک آدمی کی حدیث کی وجہ سے چھوڑا جاسکتا ہے جن سے اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث مروی نہیں ہے۔‘‘
چنانچہ اس کے بعد اپنی تائید میں کافی آثار پیش کیے ہیں۔
صلوۃ الخوف کے مسئلے میں اہل مدینہ کے مسلک پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقال محمد بن الحسن وکیف یستقیم ھذا وانما جعل الامام لیؤتم بہ فی ما جاء عن رسول الہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی ما لا اختلاف فیھا فاذا صلت الطائفۃ الاولی الرکعۃ الثانیۃ قبل ان یصلیھا الامام فلم یاتموا بالامام فیھا۔
’’محمد بن حسن کہتے ہیں کہ کہ یہ طریقہ کیسے درست ہوسکتا ہے ،حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا کسی اختلاف کے منقول ہے کہ امام اقتداء کے لیے ہوتا ہے، لہٰذا جب پہلے گروہ نے دوسری رکعت امام کے پڑھنے سے پہلے مکمل کر لی ،تو اس میں امام کی اقتداء انہوں نے نہیں کی۔‘‘
یہاں بھی امام محمد رحمہ اللہ نے امامت کے بارے میں شریعت کے عمومی قاعدے سے استدلال کیا ہے ،کہ شریعت کا متفقہ اصول ہے کہ مقتدی امام کی اقتدا کرتے ہیں ،جبکہ اس صورت میں مقتدی اقتدا کرنے کی بجائے امام کی مخالفت کے مرتکب ہورہے ہیں۔
امام محمد کی مذکورہ کتاب میں جا بجا اس اصول کی اصل ملتی ہے کہ شریعت کے قواعد عامہ اور نصوص متواترہ کے خلاف روایت قبول نہیں ہوگی۔ اسی اصول کو بعد میں امام محمد کے شاگرد رشید امام عیسیٰ بن ابان نے زیادہ تنقیح کے ساتھ اس طرح پیش کیا کہ اگر راوی غیر فقیہ ہو ،توقواعد عامہ کے خلاف ہونے کی صورت میں اس کی روایت قبول نہیں ہوگی ۔ (راوی کی فقاہت کے حوالے سے بھی کتاب الحجۃ میں بحث ہے جسے ان شاء اللہ آگے ذکر کریں گے)۔ امام عیسیٰ بن ابان کے بیان کردہ اصول پر دیگر مسالک اور خود بعض ائمہ حنفیہ کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا اور اسے امام عیسیٰ بن ابان اور چند فقہاء کاتفرد کہا جانے لگا،اور خاص طور پر یہ بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا کہ حنفیہ کے نزدیک قیاس روایت پر مقدم ہے اور اس اصول کو سمجھے بغیر اس کی بنیاد پر حنفیہ کو رائے اور قیاس کی وجہ سے احادیث و آثار چھوڑنے کا بے بنیاد الزام دیا جانے لگا۔ذیل میں ہم اس کی اہمیت کی وجہ سے اس پر کچھ مختصر بحث کرتے ہیں :
تقدیم القیاس علی الخبر کی بحث
سب سے پہلے اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ قیاس و خبر کے تعارض کی صورت میں ترجیح کا معاملہ روز اول سے فقہاء میں معرکۃ الآراء رہا ہے۔ مجلہ جامعہ اسلامیہ کے ۲۰۱۱ کے شمارے میں ڈاکٹر سعید منصور کا "رفع الالتباس اذا تعارض خبر الواحد القیاس" کے عنوان سے ایک ضخیم مقالہ چھپا ہے ۔ اس میں محقق نے اس مسئلے کے بارے میں فقہاء کے دس مذاہب بیان کے ہیں۔ یہاں ان مذاہب کی تفصیل اور ان میں راجح مذہب سے قطع نظر یہ بتانا مقصود ہے کہ اس مسئلے میں فقہائے کرام میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے، لہٰذا صرف حنفیہ نے بقیہ ائمہ مجتہدین سے الگ مسلک نہیں اپنایا، بلکہ اس میں ان کے ہم نوا دیگر فقہاء بھی ہیں ،اور خاص طور پر راوی کی فقاہت کی شرط میں بھی بعض ائمہ حنفیہ کے ساتھ بعض مالکیہ بھی ہیں، لہٰذا ایسا مسئلہ جس میں شروع ہی سے متعدد آراء موجود ہوں، ان میں اگر حنفیہ یا بعض حنفیہ نے ایک مسلک اختیار کیا ، جن میں ان کے ساتھ دیگر فقہاء بھی ہیں، تو صرف حنفیہ کو مورد الزام ٹھہرانا پروپیگنڈے یا تعصب کا نتیجہ ہے۔
دوسری بات اس بحث میں یہ اہم ہے کہ جب قیاس پر خبر کی تقدیم کی بحث کی جاتی ہے ،تو اس میں قیاس سے کیا مراد ہوتا ہے؟ لفظ قیاس کی صحیح مراد متعین نہ ہونے کی بنیاد پر بھی اس مسئلے کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ قیاس کا ایک عام مفہوم تو قیاس اصطلاحی ہے، یعنی علت مشترکہ کی بنیاد پر منصو ص مسئلے کا حکم غیر منصوص مسئلے پر لگانا۔ اسے قیاس اصولی بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ قیاس کا اطلاق قواعد عامہ اور اصول ثابتہ پر بھی ہوتا ہے۔ کتب فقہ خصوصاً ہدایہ میں جس مسئلے میں "خلاف القیاس" کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس میں عام طور پر قیاس سے مراد اصل، ضابطہ اور قاعدہ عامہ ہوتا ہے۔بطور نمونے کے صرف ایک مثال پر اکتفاء کرنا چاہوں گا :
حائضہ عورت کے ذمے نماز کی قضاء اور روزے کی قضا نہ ہونے کے حوالے سے علامہ عینی رحمہ اللہ ایک اشکال کی صورت میں فرماتے ہیں:
فان قلت وجوب القضاء یبنی علی وجود الاداء فی الاحکام، فکیف تخلف ھذا الحکم ھاھنا؟ قلت الاصل ھذا، ولکنہ ثبت علی خلاف القیاس۔
’’اگر تم کہو کہ قضاء کا وجوب ادا کے وجود پر مبنی ہوتا ہے ،تو یہ حکم اس (روزے )مسئلے میں کیسے نہیں لگا ،تو میں کہوں گا کہ اصول یہی ہے ،لیکن یہاں حکم قیاس (اصول ) کے خلاف ثابت ہے۔ ‘‘
تقدیم القیاس علی خبر الواحد کے مسئلے میں لفظ قیاس سے مراد قیاس اصولی نہیں ،بلکہ قیاس بمعنی ضابطہ ،قاعدہ اور اصول ہے، کیونکہ قیاس اصولی خود امام محمد رحمہ اللہ کی تصریحات کی بنا پر خبر واحد سے موخر ہے۔چنانچہ قہقہہ والے مسئلے میں امام محمد رحمہ اللہ کی تصریح ما قبل میں گزر چکی ہے ، جسے دوربارہ ذکر کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا :
لولا جا ء من الاثار کان القیاس علی ما قال اھل المدینۃ ولکن لا قیاس مع اثر، ولیس ینبغی الا ان ینقاد للاثار۔
’’اگر قہقہہ سے وضو ٹوٹنے کے حوالے سے مذکورہ روایات نہ ہوتیں ،تو قیاس تقاضا یہی تھا جو اہل مدینہ کا مسلک ہے۔لیکن حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس نہیں ہوتا اور نصوص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی مناسب ہے۔‘‘
عبارت کا مطلب واضح ہے کہ قہقہہ سے وضو ٹوٹنے کے حوالے سے قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ وضو نہ ٹوٹتا، کیونکہ نصوص کی رو سے وضو خروج نجاست سے ٹوٹتا ہے، اور قہقہہ میں خروج نجاست نہیں ہے تو علت مشترکہ نہ ہونے کی صورت میں قہقہہ کو نواقض وضو والے نصوص پر قیاس نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لہٰذا قیاساً تو وضو نہیں ٹوٹتا، لیکن چونکہ قہقہہ کے بارے میں خود نص آگئی کہ ناقض وضو ہے، تو قیاس کی بجائے اس نص کو ترجیح ہوگی۔ لا قیاس مع اثر سے یہی مراد ہے کہ علت مشترکہ کی بنیاد پر منصوص مسائل کا حکم صرف غیر منصوص مسائل پر لگتا ہے ۔ جب خود نص آجائے تو پھر اس مسئلے میں قیاس نہیں چل سکتا۔
لہٰذا خود کتاب الحجۃ کی روشنی میں یہ مسئلہ بخوبی حل ہوگیا کہ حنفیہ نص کے ہوتے ہوئے تو قیاس (اصطلاحی ) نہیں کرتے، اور نہ ہی قیاس کو ترجیح دیتے ہیں، کما فی القہقہہ، البتہ اگر روایت قیاس بمعنی اصول عامہ کے خلاف ہو تو حنفیہ اس صورت میں اس شاذ روایت کی بجائے نصوص متواترہ سے ثابت شدہ قاعدے اور ضابطے کو ترجیح دیتے ہیں ،کما مر۔
کتاب الحجۃ کی روشنی میں یہ معرکۃ الآراء مسئلہ حل ہونے کے بعد اگرچہ اس بارے میں دیگر کتب کے حوالہ جات پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن تکمیل بحث کے لیے چنددیگر علماء کی تصریحات پیش کرتے ہیں ،تاکہ مسئلہ مکمل طور پر واضح ہوجائے۔
الموافقات میں امام شاطبی، ابن عربی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اذا جاء خبر الواحد معارضا لقاعدۃ من قواعد الشرع ھل یجوز العمل بہ ام لا؟ فقال ابو حنیفۃ لا یجوز العمل بہ، و قال الشافعی یجوز۔
’’جب خبر واحد شریعت کے قواعد میں سے کسی قاعدے کے خلاف آجائے ،تو اس پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے،جبکہ امام شافعی کے نزدیک اس پر عمل کر سکتے ہیں۔‘‘
امام ابن عبد البر الانتقاء میں فرماتے ہیں:
کثیر من اھل الحدیث استجازوا الطعن علی ابی حنیفۃ لردہ کثیرا من اخبار الآحاد العدول لانہ کان یذھب فی ذلک الی عرضھا علی ما اجتمع علیہ من الاحادیث ومعانی القرآن فما شذا عن ذالک ردہ وسماہ شاذا۔
’’محدثین میں سے بہت سارے حضرات نے امام ابوحنیفہ پر طعن کا جواز یہ تراشا ہے کہ امام صاحب نے عادل راویوں سے مروی اخبار احاد چھوڑدی ہیں۔کیونکہ امام صاحب کا اس سلسلے میں طرز یہ ہے کہ ان اخبار آحاد کو دیگر احادیث اور قرانی مفاہیم سے حاصل شدہ اصولوں پر پیش کرتے ہیں۔ جو خبر واحد ان عمومات کے خلاف ہو، اسے شاذ کانام دے کر رد کرتے ہیں۔‘‘
پانچویں صدی ہجری کے معروف شافعی فقیہ ابو اسحاق شیرازی اپنی کتاب ’’اللمع‘‘ میں لکھتے ہیں:
ویقبل وان خالف القیاس ویقدم علیہ، وقال اصحاب مالک رحمہ اللہ اذا خالف القیاس لم یقبل، وقال اصحاب ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ اذا خالف قیاس الاصول لم یقبل۔
’’خبر واحد قبول کی جائے گی، اگرچہ قیاس کے خلاف ہو اور قیاس پر مقدم ہوگی۔مالکیہ کے نزدیک خلاف قیاس روایت قبول نہیں ہوگی، جبکہ حنفیہ نے کہا ہے کہ جب وہ قیاس اصول (قواعد ) کے خلاف ہوتو قبول نہیں ہوگی۔‘‘
آخر میں اس مسئلے میں پانچویں صدی ہجری کے معروف حنفی فقیہ و اصولی ابو زید الدبوسی کی عبارت پیش کرنا چاہوں گا جو اس مسئلے میں اصولیین حنفیہ کی طرف سے نص کا درجہ رکھتی ہے۔ سب سے پہلے حنفیہ و مالکیہ کے درمیان اختلافی اصول کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الاصل عند علماء الثلاثۃ ان الخبر المروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم من طریق الآحاد مقدم علی القیاس الصحیح، و عند مالک رضی اللہ عنہ القیاس الصحیح مقدم علی خبر الآحاد۔
’’ہمارے تینوں علماء کے نزدیک اصول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریق آحاد منقول روایت کو قیاس صحیح پر ترجیح دی جائے گی، جبکہ امام مالک رضی اللہ عنہ کے نزدیک قیاس صحیح، اخبار آحاد کے مقابلے میں قابل ترجیح ہے۔‘‘
آگے جا کر حنفیہ کے کچھ اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الاصل عند اصحابنا ان خبر الاحاد متی ورد مخالفا لنفس الاصول مثل ما روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ اوجب الوضوء من مس الذکر لم یقبل اصحابنا ھذا الخبر لانہ ورد مخالفا للاصول۔
’’ہمارے اصحاب کے نزدیک اصول یہ ہے کہ جب خبر واحد نفس اصول (قواعد عامہ ) کے مخالف ہو جائے ،جیسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مس ذکر سے وضو کو واجب ٹھہرایا ہے ،تو ہمارے اصحاب نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا ہے ،کیونکہ یہ اصول کے مخالف ہے ۔‘‘
اختصار کی خاطر چند عبارات پیش کیں ۔ اس سلسلے میں متاخرین و متقدمین فقہاء کے اقوال دیکھنے کے لیے محترم عبدالمجید الترکمانی کا مایہ ناز مقالہ "دراسات فی اصول الحدیث علی منھج الحنفیۃ" ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے اس بحث میں حوالہ جات کا خوب استقصاء کیا ہے۔
روایات میں تعارض اور امام محمد کا طرز عمل
امام محمد رحمہ اللہ روایات متعارضہ میں تطبیق و ترجیح دونوں سے کام لیتے ہیں۔ تطبیق کے وقت مخالف روایت میں دلنشین تاویل کر کے اسے ایسے معنی پر محمول کرتے ہیں جس سے تعارض ختم ہوجاتا ہے، جبکہ ترجیح کے سلسلے میں متنوع مرجحات سے کام لیتے ہیں۔
تطبیق کی پہلی صور ت: دو متعارض روایات کو مختلف اوقات پر محمول کرنا
اذان قبل الفجر کے سلسلے میں حنفیہ و دیگر فقہاء کا اختلاف معروف ہے ۔ائمہ ثلاثہ کا مستدل یہ روایت ہے:
ان بلالا ینادی بلیل فکلو ا و اشربوا حتی ینادی ابن ام مکتوم۔
’’نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال رات کو اذان دیتے ہیں، تو تم کھاتے پیتے رہو حتی کہ عبد اللہ بن مکتوم اذان دے دیں۔‘‘
لیکن ایک دوسری روایت اس کے معارض ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت بلال نے ایک دفعہ وقت سے پہلے اذان دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ مدینہ میں جگہ جگہ اعلان کرو کہ میں سو گیا تھا اور سونے کی حالت میں وقت سے پہلے اذان دی ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ حضرت بلال وقت سے پہلے اذان دیا کریں گے تو پھر وقت سے پہلے اذان دینے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اعادہ کا حکم کیوں دیا؟
اس تعارض کا حل امام محمد نے یہ پیش کیا ہے:
الامر الذی رویتم کان فی شھر رمضان، والامر الاخر من کراھۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاذانہ بلیل کان فی غیر شھر رمضان۔
’’وقت سے پہلے اذان کے سلسلے میں جو روایت تم نے لی ہے اس کا تعلق رمضان سے ہے ،اور دوسری حدیث ،جس میں رات کو اذان دینے پر آپ صلی للہ علیہ وسلم کی ناپسندیدگی مروی ہے ،وہ رمضان کے علاوہ کا واقعہ ہے۔‘‘
تطبیق کی دوسری صورت : نسخ پر محمول کرنا
نماز میں سلام کا جواب دینے یا نہ دینے کے حوالے سے مختلف روایات منقول ہیں ۔یہ مختلف روایات ذکر کرنے کے بعد ان میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
و قال محمد بن الحسن :کانو ا یسلمون فی الصلاۃ حتی نزلت "وقوموا للہ قانتین"۔
’’(امام )محمد کہتے ہیں کہ صحابہ کرام نماز میں سلام کیا کرتے تھے ،یہاں تک کہ پھر قرآن پا ک کی آیت "وقوموا للہ قانتین" نازل ہوئی۔(یعنی اس آیت سے سلام منسوخ ہوا )‘‘
تطبیق کی تیسری صورت: خصوصیت پر محمول کرنا
یعنی متعارض روایات میں ایک کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت پر محمول کرنا ۔ مثلاً امام عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو تو اس کی اقتداء حنفیہ کے نزدیک درست جبکہ مالکیہ کے نزدیک درست نہیں ہے۔ امام محمد فریقین کے دلائل بیان کرنے کے بعدفرماتے ہیں :
قول اھل المدینۃ فی ھذا احب الی من قول ابی حنیفہ۔
’’اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ کے قول سے مجھے اہل مدینہ کا مسلک پسند ہے۔‘‘
اس کے بعد اپنے مسلک کی تائید میں فرماتے ہیں:
بلغنا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال :لا یومن الناس بعدی جالسا، و لم یبلغنا ان احدا من ائمۃ الھدی ابی بکر ولا عمر وعثمان ولا علی و لا غیرھم اموا جالسا فاخذنا بھذا لانہ اوثق۔
’’ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ روایت پہنچی ہے کہ کوئی آدمی میرے بعد بیٹھ کر نماز کی امامت نہ کروائے۔ اور ائمہ رشد و ہدایت حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور ان کے علاوہ کسی کے متعلق بھی ہمیں خبر نہیں پہنچی کہ انہوں نے بیٹھ کر امامت کروائی ہو ،تو ہم نے اسی کو قول کو لیا کہ یہ زیادہ معتمد ہے۔‘‘
اس کے بعد مرض الوفاۃ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھ کر امامت کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
ولیس الصلاۃ فی فضلھا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالصلاۃ خلف غیرہ۔
’’نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے میں جو فضیلت ہے وہ کسی اور کی اقتداء میں پڑھنے میں نہیں ہے۔‘‘
گویا مرض وفات میں صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا، جبکہ آپ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے ، آپ کی خصوصیت اور آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی فضیلت کی وجہ سے تھا۔
اس سے اس اصول کی طرف بھی اشارہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امور مختصہ جاننے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ اس فعل کو صحابہ نے لیا ہے یا نہیں ؟اگر اجلہ صحابہ نے اس کو ترک کر دیا ہو تو یہ بھی دلیل ہے کہ وہ فعل خاصہ نبوت تھا۔
تطبیق کی چوتھی صورت: متعارض روایات میں سے کسی ایک کے مفہوم میں تاویل کرنا
مالکیہ کے نزدیک مقتدی اگر امام کو رکوع میں پائیں ،تو دور سے اقتداء کی نیت باندھ کر وہیں سے رکوع میں جھک جائے، اور بعد میں آہستہ چلتے ہوئے صف میں شامل ہوجائے ،تاکہ رکعت نہ چھوٹے ،تو یہ جائز ہے ، جبکہ احناف کے نزدیک درست نہیں ہے۔ مالکیہ حضرت ابن مسعود کے فعل سے استدلال کرتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیا۔ جبکہ احناف حضرت ابوبکرہ کی اس معروف روایت سے استدلال کرتے ہیں ،جن میں اس طرح کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا ،امام محمد مالکیہ کی دلیل کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
ما اسرعکم الی حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ اذا کانت لکم منہ حجۃ،و ما ابطاکم عنہ اذا خالفکم، انا نحن اعلم با مر ابن مسعود ،کیف دب حتی وصل الی الصف ،انہ خرج من دارہ و معہ اصحابہ فکبر و کبروا معہ فصاروا صفا ثم دبوا حتی لحقو ا الصفوف ،و لم یخرج عبد اللہ من دارہ و حدہ و لم یبلغنا انہ دب وحدہ۔
’’حضرت ابن مسعود کی روایت میں اپنی دلیل پا کر کتنی جلدی سے تم اس کی طرف لپکے ،اور جب ان کی روایت تمہارے خلاف ہو ،تو اس سے کتنے دور رہتے ہو ،ہمیں حضرت ابن مسعود کا واقعہ آپ سے زیادہ معلوم ہے ،کہ وہ کس طرح سرکے ،کہ صف تک پہنچے ،(واقعہ یہ ہے )کہ وہ اور ان کے ساتھی گھر سے نکلے ،ان سب نے اکٹھے تکبیر کہی ،تو صف بن گئی ،پھر وہ آہستہ چلے یہاں تک کہ صفوں میں مل گئے ،حضرت ابن مسعود اکیلے گھر سے نہیں نکلے ،اور نہ ہی یہ بات ہمیں پہنچی ہے کہ وہ اکیلے صفوں کی طرف حالت رکوع میں چلے۔‘‘
اس عبارت میں اما م محمد کی مالکیہ پر خوشگوار علمی چوٹ کے ساتھ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ کے فعل میں تاویل کی ،کہ انہوں نے اکیلے ایسا نہیں کیا تھا،بلکہ صف بنا کر ایسا کیا۔
تطبیق کی پانچویں صورت (حمل علی الافراد المختلفۃ)
یعنی دو متعارض روایات کو دو قسم کے افراد پر محمول کر کے تطبیق دینا
فجر کی نماز میں اسفار اور غلس دونوں قسم کی روایات ہیں ،اما م محمد رحمہ اللہ دونوں قسم کی روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
قد جاء فی ذلک آثار مختلفۃ من التغلیس والاسفار بالفجر، الاسفار بالفجر احب الینا، لان القوم کانو ا یغلسون، فیطیلون القراء ۃ فینصرفون کما ینصرف اصحاب الاسفار و یدرک النائم و غیر ہ الصلاۃ، وقد بلغنا عن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ انہ قرا سورۃ البقرۃ فی صلاۃ الصبح، فانما کانو ا یغلسون لذلک، فاما من خفف وصلی بسورۃ المفصل ونحوھا فانہ ینبغی لہ ان یسفر۔
’’تغلیس و اسفار کے سلسلے میں مختلف روایات آئی ہیں۔ روشنی میں نماز پڑھنا ہمیں زیادہ پسند ہے ،کیونکہ صحابہ اندھیرے میں نماز پڑھتے تھے ،تو قراء ت لمبی کرتے تھے ،اور اسی وقت لوٹتے تھے جس وقت اسفار والے فارغ ہوکر لوٹتے ہیں۔ اس طرح سونے والے اور دیگر حوائج والے بھی نماز کو پالیتے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فجر کی نماز میں سورہ بقرہ پڑھتے تھے ۔تو یہ حضرات اسی طول قراء ت کی وجہ سے اندھیرے میں نماز شروع کیا کرتے تھے۔ البتہ جو مختصر نماز پڑھنا چاہتا ہو،اور مفصلات کی سورتوں سے نماز پڑھنے کا ارادہ ہ ،تو اس کے لیے روشنی میں نماز پڑھنا مناسب ہے۔‘‘
تطبیق کا خلاصہ یہ ہے کہ تغلیس کا حکم ان افراد کے لیے ہے جو طول قراء ت کے خواہاں ہیں ،جبکہ اسفار ان حضرات کے لیے جو نماز میں مختصر قراءت کرتے ہوں۔
متعارض روایات میں ترجیح
امام محمد رحمہ اللہ متعارض روایات میں ترجیح کا طرز بھی اختیار کرتے ہیں ،اور مختلف وجوہ ترجیح سے کام لیتے ہیں۔
ترجیح بالاحتیاط
امام محمد رحمہ اللہ بسا اوقات مختلف روایات میں احتیاط کی بنا پر ترجیح دیتے ہیں ،یعنی اس روایت کو لیتے ہیں ،جس میں احتیاط زیادہ ہو۔
مسافت قصر کے بارے میں مختلف روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
قد جاء فی ھذا آثار مختلفۃ فاخذنا فی ذلک بالثقۃ، وجعلنا ہ مسیرۃ ثلاثۃ ایام و لیالیھا، فلان یتم الرجل فیما لا یجب علیہ احب الینا من ان یقصر فیما یجب فیہ التمام۔
’’اس سلسلے میں مختلف روایات آئی ہیں۔ ہم نے زیادہ قابل اعتماد روایت کو لیا ہے ،اور تین دن تین راتوں کو مسافت ٹھہرایا ہے،کیونکہ آدمی مکمل نماز واجب نہ ہونے کی صورت میں مکمل نماز پڑھ لیں ،یہ ہمیں اس سے زیادہ پسند ہے کہ آدمی مکمل نماز پڑھنے کی صورت میں قصر نماز پڑھیں۔‘‘
خلاصہ یہ کہ احتیاط کی بنا پر زیادہ مسافت قصر والی روایت کو لیا ،کیونکہ قصر کی صورت میں پوری نماز پڑھنا تو کسی نہ کسی طرح قابل قبول ہے ،لیکن پوری نماز واجب ہونے کی صورت میں قصر پڑھنا کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے۔اس لیے جب مسافت قصر کے بارے میں کم اور زیادہ مدت کی روایتیں جمع ہوئیں ،تو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ زیادہ مدت والی روایت کو لیا جائے۔
ترجیح بصحۃ المتن
اما م محمد رحمہ اللہ متعارض روایات میں بسا اوقات اس روایت کو ترجیح دیتے ہیں ،جس کا متن سب سے زیادہ محفوظ اور صحیح ہو۔چنانچہ تشہد میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ کے تشہد کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
ولیس فی التشھد شیء اوثق من حدیث عبد اللہ بن مسعود لانہ رواہ عن النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم وکان یکرہ ان یزید فیہ حرفا (او ینقص منہ حرفا) وکان یعلمھم التشھد کما یعلمھم السورۃ من القرآن۔
’’تشہد میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول تشہد سے زیادہ معتمد حدیث نہیں ہے ،کیونکہ وہ اسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح روایت کرتے ہیں کہ اس میں ایک حرف کی کمی بیشی بھی ناپسند کرتے تھے، اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو قرآن مجید کی طرح اہتمام کے ساتھ تشہد سکھلایا کرتے تھے۔‘‘
ترجیح بفقہ الراوی
متعارض روایات میں بسا اوقات صحابی کی فقاہت اور ا س کے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بھی ترجیح دیتے ہیں، چنانچہ افلاس کے مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی مختلف روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وعلی اوثق فی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ابی ھریر ۃ واعلم۔
’’حضرت علی حدیث میں حضرت ابو ہریرہ سے (فہم کے اعتبار سے )زیادہ با اعتماد اور اور حدیث کا زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔‘‘
چونکہ یہ بات مسلم ہے کہ احادیث حضرت ابو ہریرہ کی زیادہ ہیں ،اس لیے یہاں حدیث میں اعلم ہونے کا مطلب کثرت حدیث نہیں ،بلکہ حدیث کی سمجھ اور حدیث میں تفقہ مراد ہے۔کما لا یخفی
اسی طرح رفع یدین کے مسئلے میں بھی حضرت علی و حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایات کو حضرت ابن عمر کی روایت پر ان کی "اعلمیت"کی بنا پر ترجیح دیتے ہیں۔
ترجیح بالقرائن و الشواہد
امام محمد رحمہ اللہ بسا اوقات مختلف روایات میں اس روایت کو ترجیح دیتے ہیں جس کی تائید دوسری روایات یا متنوع قرائن سے ہو رہی ہو، چنانچہ وتر زمین پر پڑھنے یا سوار ی پر پڑھنے کے حوالے سے مختلف روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فاخذنا باوثقھا واشبھھا با لحق وبما جاء ت بہ الآثار من التشدید فی الوتر۔
’’ہم نے ان روایات میں متعمد روایت کو لیا ،اور اس روایت کو جوحق کے موافق ہے (یہ قرائن کی طرف اشارہ ہے )اور وتر کے سلسلے میں تشدید والی دیگر روایات کے مطابق ہے۔‘‘
شاذ کے مقابلے میں معروف روایات کو ترجیح
متعارض روایات میں اگر کوئی روایت دیگر معروف روایا ت کے خلاف ہو ،تو اما م محمد رحمہ اللہ اس کو بھی رد کرتے ہیں۔ سجدہ سہو قبل السلام یا بعد السلام کے سلسلے میں حضرت عبد اللہ بن بحینہ کی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
قیل لھم:ا فنقبل ھذا بترک السنۃ والاثار المعروفۃ بقول رجل لا یروی عنہ غیر حدیث واحد۔
’’اہل مدینہ سے کہا جائے گا کہ کیا ہم اس روایت کو قبول کر کے سنت اور دیگر معروف روایات ایک ایسے آدمی کی روایت کی بنا پر چھوڑ دیں جس سے اس حدیث کے علاوہ اور کوئی روایت منقول نہیں ہے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن بحینہ کی واقعی کتب حدیث میں یہی ایک روایت ہے ، اس کی صحت و عدم صحت سے قطع نظر اس سے اما م محمد رحمہ اللہ سے ترجیح کا ایک اہم اصول ثابت ہوتا ہے۔
اسی طرح مس ذکر کے مسئلے میں بھی حضرت بسرہ کی روایت کو یہ کہہ کر رد کرتے ہیں کہ یہ روایت دیگر اجلہ صحابہ کی معروف روایات کے خلاف ہیں۔
صحابی کے قول کو لینے والے پر نکیر درست نہیں
اما م محمد نے اس اہم اصول کو بھی جا بجا ذکر کیا ہے کہ صحابہ کے اختلافات کے وقت جس کے قول کو لیا جائے ،وہ درست ہے ،اس سے مخالف فریق پر نکیر درست نہیں ہے۔
میراث الجد کے سلسلے میں مختلف آثار ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
قول العامۃ علی قول زید بن ثابت، وکل ان شاء اللہ حسن جمیل۔
’’جمہور نے حضرت زید بن ثابت کا قول لیا ہے ،اور ہر قول ان شاء اللہ اچھا اور خوب ہے۔‘‘
بیع بالبراء ۃ کے مسئلے میں صحابہ کے مختلف اقوا ل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
قلنا لھم اجل، قد رای ما قلتم و رای عبد اللہ بن عمر ما قلنا، فمن اخذ بقول عبد اللہ بن عمر لم یسیء فھو امام من ائمہ المسلمین۔
’’اہل مدینہ کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے ،حضرت عثمان کی رائے وہی جو تم نے کہا ہے ،اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی رائے وہی ہے جو ہم نے کہا ہے ،تو جس نے حضرت ابن عمر کی رائے کو لیا ،اس نے برا نہیں کیا ،کیونکہ وہ مسلمانوں کے ائمہ میں سے ایک بڑے امام ہیں۔‘‘
فعل کی بہ نسبت قول قوی ہوتا ہے
مقام ابطح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول فرمایا تھا ،اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
و لو کان ھذا من الواجب لقال فیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ قولا ابین من الفعل حتی یعرفہ الناس بالقول دون الفعل۔
’’اگر یہ نزول واجب ہوتا ،تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کچھ ضرور فرماتے ،درانحالیکہ قول فعل سے زیادہ واضح ہوتا ہے ،تاکہ لوگ فعل کی بجائے قول سے اس حکم کو پہچان لیتے۔‘‘
نیز اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ محض فعل وجوب کے لیے کافی نہیں ہوتا ،جب تک کہ کوئی قرینہ نہ ہو۔ لفظ کا حقیقی معنی اولیٰ ہے۔
امام محمد رحمہ اللہ کے کلام سے اس اصول کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے کہ نصوص میں حقیقی معنی مراد لیا جائے گا۔ چنانچہ نکاح الصغیر کے جواز پر قران پاک کی درجہ ذیل آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قد اجاز اللہ تعالی فی کتابہ نکاح الیتیمۃ و الیتیم اللذان لم یبلغا،لانہ لا یتم بعد بلوغ ولا یکون ایضا یتیمہ و لھا والد۔
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یتیم و یتیمہ کے نکاح کی اجازت دی ہے ،جو بالغ نہ ہوئے ہوں، کیونکہ بلوغ کے بعد یتم نہیں رہتا ،اور نہ ہی اس کو یتیم کہتے ہیں جس کا والد ہو۔‘‘
یہاں نکاح یتیم والی آیت سے صغیر کے نکاح پر جواز حقیقی معنی کے واسطے سے ہے۔ اس سے آگے امام محمد رحمہ اللہ نے دو صفحات میں اس مسئلے پر دل نشیں بحث کی ہے ،اور آخر میں آیت میں صرف کبیرۃ مراد لینے پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فاما ان تخرجوا الصغیرۃ من الیتم و تجعلوہ الکبیرۃ خآصۃ یتیمۃ فھذا امر لا یکون لکم۔
’’البتہ یہ بات کہ صغیرہ کو یتم کے معنی سے نکال کر صرف کبیرہ کو یتیم کے تحت داخل کیا جائے ،یہ تمہارے لیے مناسب نہیں ہے۔‘‘
یقین، شک سے زائل نہیں ہوتا
ربا کے ایک مسئلے میں اصول فقہ کے اس اہم ترین قاعدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
و کیف یبطل الیقین بموضع التھمۃ وقد قال اللہ تعالی ان الظن لا یغنی من الحق شیئا۔
’’اور یقین کیسے شک و تہمت سے زائل ہوسکتا ہے۔جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شک حق (یقین ) کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا۔‘‘
قضاء ادا کے مثل ہے
امام محمد رحمہ اللہ نے ایک جگہ اصول فقہ کے اس مشہور مبحث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قضا ء کیفیت و ادا میں ادا کے مشابہ ہے۔مسافر کی حالت سفر میں قضاء کی گئی نمازوں کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لانہ انما یقضی مثل الذی کان علیہ۔
’’کیونکہ قضاء اس واجب کے مثل ہوتی ہے ،جو اس کے ذمے ہوتی ہے۔‘‘
مثبت نافی پر مقدم ہے
شفعہ للجار کے مسئلے میں اہل مدینہ کی حدیث "ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یقض لجار شفعۃ" نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
و ما اظن ان یکون بین الناس خلاف ان من شھد بکذا و کذا، قد کان احق ان تقبل شھادتہ من الذی یقول ان کذا وکذا لم یکن۔
’’میرا خیال نہیں ہے کہ لوگوں کے درمیان اس بات میں اختلاف ہو ،کہ جس نے کسی چیز کے ہونے کی گواہی دی ،وہ اس سے زیادہ حقدار ہے جس نے اس کے نہ ہونے کی گواہی دی ہو۔‘‘
خاتمہ
امام محمد رحمہ اللہ کی مایہ ناز کتاب "الحجۃ علی اہل المدینہ "سے اصولی مباحث کا ایک اجمالی خاکہ ملاحظہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فقہ حنفی کی امہات الکتب اصولی مباحث کا انمول خزانہ ہیں۔ان اصولی مباحث سے جہاں ائمہ ثلاثہ کے طرز استنباط و استخراج کی جھلک سامنے آتی ہے ،وہاں اصولیین حنفیہ کے تخریج کردہ اصولوں کی بھی تائید ہوتی ہیکہ بعد میں آنے والے فقہائے حنفیہ نے ائمہ ثلاثہ سے منقول شدہ فروعات کو سامنے رکھ کر جن اصولوں کا استخراج کیا ہے ،ان کی حیثیت ائمہ ثلاثہ کی صراحت کے قریب قریب ہے۔
آخر میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ یہ کتاب الحجہ کے اصولی مباحث کا مکمل اسقصا نہیں ہے۔ نمونے کے طور پر صرف چند صریح اور اپنے مدعا پر واضح مباحث پیش کیے گئے، ورنہ کتاب میں اصول فقہ و اصول حدیث کے بے بہا موتی مستور ہیں۔
فضلائے مدارس کے معاشی مسائل ۔ حالات، ضروریات اور ممکنہ راستے
مولانا مفتی محمد زاہد
الحمد للّٰہ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین و بعد۔
میں اپنی بات کا آغاز قرآن کریم کی ایک آیت مبارکہ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو مبارک حدیثوں سے کروں گا۔ سورہ نوح میں آتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دیتے ہوئے، اللہ کی طرف بلاتے ہوئے ان سے کہا کہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو۔ اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ ظاہر ہے کہ مغفرت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ انسان دوزخ سے بچ جائے گا اور جنت میں چلا جائے گا۔ لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا:
اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ اِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا o یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا o وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰرًا o
کہ اگر تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو گے تو دنیا میں تمہیں یہ یہ فوائد حاصل ہوں گے۔ اور یہ بات قرآن مجید میں ایک جگہ نہیں ہے، اور جگہوں پر بھی ہمیں ملتی ہے کہ انبیاء کرامؑ نے اپنے مدعوین کو مخاطب بناتے ہوئے، اپنی قوموں کو مخاطب بناتے ہوئے ان کے سامنے یہ بات بھی رکھی کہ اس چیز کا تمہیں دنیا میں کیا فائدہ ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا مقصوود ہے۔ دنیا مقصود نہیں ہے، محض ذریعہ ہے۔ اصل مقصود آخرت ہے۔
فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز۔
ایک مومن کا مقصودِ اصلی تو یہی ہے، لیکن بہرحال دنیوی مفاد جب انسان کے سامنے آتا ہے تو اس سے کام کی رغبت بھی بڑھ جاتی ہے اور وہ کام کرنا آسان بھی ہو جاتا ہے۔ حضرت نوحؑ کا یہ خطاب تو ان لوگوں کو تھا جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے اور ان کو ایمان کی دعوت دی جا رہی تھی۔ سرور دو عالم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض غزوات کے اندر ایک اعلان فرمایا اور یہ اعلان ان لوگوں کے لیے نہیں تھا جون کی ایمان کی دعوت دی جانی تھی، بلکہ یہ وہ ہستیاں تھیں جو آنحضرتؐ پر ایمان لا چکی تھیں، ان کے ایمان کی گواہی قران مجید دے چکا تھا، اور وہ اپنی جان کی بازی لگانے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے میدان جہاد میں نبی اکرمؐ کے ساتھ تھے۔ ان کی کارکردگی بہتر ہو جائے، جہاد میں محنت کے لیے ان میں رغبت پیدا ہو جائے اور جس نے جو کام کیا ہے، اس کو اس کا صلہ دنیا کے اندر بھی مل جائے، اس مقصد کے لیے آنحضرتؐ نے یہ اعلان فرمایا کہ من قتل قتیلا فلہ سلبہ جو آدمی کسی کافر کو قتل کرے گا تو اس کا سلب یعنی اس کے جسم سے جو ساز و سامان اتارا گیا ہے، وہ اسی قتل کرنے والے کو ملے گا۔
غزوہ حنین میں حضرت ابو قتادہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک مشرک کو قتل کیا جو بڑا ہٹا کٹا تھا، لیکن اس کا سلب حاصل نہیں کر سکے، وہ سلب کسی اور کے پاس تھا۔ رسول اللہؐ نے جب یہ اعلان فرمایا کہ ثبوت پیش کر کے جو اس کا سلب لینا چاہتا ہے، لے لے۔ جس نے قتل کیا ہے، وہ ثبوت پیش کرے اور سلب لے جائے۔ جنہوں نے اس ہٹے کٹے مشرک کو قتل کیا تھا، وہ مشرک بڑے مسلمانوں کی جان لے چکا تھا۔ بڑا خطرناک قسم کا جنگجو تھا۔ اب اس کو قتل کرنے والے کے پاس بظاہر کوئی ثبوت نہیں تھا۔ آکر کھڑے ہوئے، آنحضرتؐ سے عرض کرنے لگے لیکن پھر یہ سوچ کر کہ میرے پاس ثبوت نہیں ہے، بیٹھ گئے۔ دو تین مرتبہ ایسا ہوا، آنحضرتؐ نے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس مشرک کو اس طریقے سے قتل کیا ہے اور اس کا سلب مجھے ملنا چاہیے، لیکن ثبوت اور گواہ میرے پاس نہیں ہے۔ اس پر وہ جو متعلقہ شخص تھا، خود کھڑا ہوگیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قتل تو اس نے کیا ہے اور سلب میرے پاس ہے۔ لیکن آپ ایسا کریں کہ یہ ان کو دینے کی بجائے ان کو کہیں کہ وہ مجھے معاف کر دیں، ان کو راضی کروا دیں میرے بارے میں۔ رسول اللہؐ نے تو ابھی بات کا کوئی جواب نہیں دیا، اس سے پہلے ہی حضرت صدیق اکبرؓ اٹھ کر کھڑے ہوگئے، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی موقع پر بات کرنی ہو تو حضرت عمرؓ اپنے جذبات کا اظہار فرماتے ہیں۔ حضرت صدیق اکبرؓ اکثر و بیشتر جگہ پر خاموش رہتے تھے۔ چند جگہیں ہیں پوری سیرت میں جہاں ہمیں حضرت صدیق اکبرؓ بولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک تو حدیبیہ کے موقع پر مشرک کو پکی قسم کی گالی دی تھی جس کا ترجمہ شاید پنجابی کے علاوہ کسی زبان میں نہ ہو سکے، کیونکہ گالیوں کے بارے میں شاید افصح اللغات پنجابی ہی ہے۔ تو یہاں حضرت صدیق اکبرؓ نے قسم کھا کر فرمایا کہ اللہ کی قسم! یا رسول اللہ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ محنت کوئی اور کرے اور اس کا صلہ کسی اور کو ملے۔ جس نے محنت کی ہے، اس کو اس کا صلہ اس دنیا کے اندر بھی ملنا چاہیے۔ آخرت میں جو اجر و ثواب ہے وہ تو پکا ہو چکا تھا۔ اور اگر ان کو سلب نہ ملتا تو ظاہر ہے ان کا اجر و ثواب کم نہیں ہونا تھا، بڑھنا تھا۔ لیکن اس کے باوجود حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک آدمی محنت کرے اور اس کو اس کا صلہ نہ ملے۔
دوسری حدیث رسول اللہؐ کا ایک ارشاد ہے، آپؐ نے اس شخص کا ذکر فرمایا جو حلال طریقے سے دنیا کماتا ہے۔ اس میں آپ نے دو صورتیں بیان فرمائیں۔ ایک تو مکاثرا مفاخرا مراتبا دکھاوے کے لیے، دوسروں پر اپنی دولت کی دھونس جمانے کے لیے حلال کما رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے کما رہا ہے تو رسول اللہؐ نے اس پر وعید بیان فرمائی۔ لیکن اس کے برعکس آپؐ نے ذکر فرمایا کہ جو شخص حلال طریقے سے کسی مقصد کے لیے مال طلب کرتا ہے۔ فرمایا سعیًا علیٰ اھلہ و تعطفًا علی جارہ تاکہ اپنے گھر والوں کی، اہل خانہ کی دیکھ بھال کر سکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی، اپنی سوسائٹی کی مدد کر سکے، اپنے معاشرے کے لیے مددگار ثابت ہو سکے تو فرمایا کہ جب یہ شخص قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش ہوگا تو اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہوگا۔
اور جو آنحضرتؐ کی حدیث ہے جس میں من طلب الحلال کے الفاظ آتے ہیں تو ظاہر ہے کہ من عام ہے، اس کے عموم میں جس طرح عام آدمی داخل ہے، اسی طریقے سے اس کے عموم میں ایک عالم دین بھی داخل ہو سکتا ہے۔ تو دنیا ایک عالم کے لیے کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے۔ ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کے لیے گناہ کی چیز ہو، ناجائز ہو، حرام ہو۔ ہاں البتہ پچھلے زمانے میں ہمارے بزرگان دین یہ کہتے رہے ہیں کہ ایک عالم اپنی توجہات کا اصل مرکز اور محور دین کی خدمت کو، دین کی تدریس کو، دین میں تحقیق کو، دین میں تصنیف و تالیف کو بنائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ایک ضرورت ہے۔ جیسے حضرت فرما رہے تھے کہ ایک طبقہ ایسا موجود ہو جس کا کام صرف اور صرف دین کی خدمت ہو اور اس کے بدلے میں مسلمان معاشرہ اس کی کفالت کرے۔
حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے اپنی وصیتوں میں ایک بات لکھی ہے۔ بصائر میں یہ بات ہے، امداد الفتاویٰ میں بھی غالبًا ہے اور کچھ نہ کچھ اشرف السوانح میں بھی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت تھانویؒ کے ملفوظات میں بھی یہ بات بکثرت ملتی ہے کہ ایک عالم کی نظریں محض لوگوں پر نہیں رہنی چاہئیں بلکہ مستقل کوئی ذریعہ معاش بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ استغناء کے ساتھ دین کی خدمت سر انجام دے سکے۔ لیکن اسی کے ساتھ ایک وضاحت میں یہ بھی کر دوں کہ حضرت کا مقصد کیا ہے۔ حضرت تھانویؒ نے جہاں یہ بات لکھی ہے، وہیں بہت سارے پیشوں کی فہرست بھی ذکر کی ہے کہ مثلاً یہ یہ پیشے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک جگہ پر ایک فہرست ان حضرات کی بھی دی ہے جو علماء کو فی سبیل اللہ یہ ہنر سکھانے کے لیے تیار ہوں، اور اگر کوئی سیکھنا چاہے تو ان سے سیکھ سکے۔ مثلاً طبابت کا پیشہ ہے۔ اس زمانے میں طب کا کام جو ہماری مقامی طب ہے، اس کا کام بہت زیادہ چلتا تھا، اب اگرچہ اتنا زیادہ نہیں رہا۔ جلد سازی ہے، خطاطی ہے، اور دیگر پیشے ہیں۔ وہیں حضرت تھانویؒ نے دینی مدارس کی تدریس وغیرہ، یہ جو ملازمت ہوتی ہے جس کے اندر انسان معاوضہ لیتا ہے، تنخواہ لیتا ہے، اور اس کے بدلے میں دین کی خدمات سر انجام دیتا ہے، اس کو بھی انہوں نے اس فہرست کے اندر شامل فرمایا ہے۔ اس لیے کہ ایک آدمی اگر اپنی زندگی کو دین کے کاموں کے لیے وقف کر دیتا ہے اور اس کے بدلے میں تنخواہ لیتا ہے اور اس پر اپنا گزر اوقات کرتا ہے تو یہ بھی حضرت تھانویؒ کی اس نصیحت یا اس وصیت کے منافی نہیں ہے، یہ بھی اسی کے اندر داخل ہے۔
آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کا اپنا اچھا خاصا بزنس تھا، کپڑے کا کاروبار تھا۔ جب وہ خلیفہ بنے تو فرمایا کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ میرا جو پیشہ تھا، وہ میرے گھر کا خرچہ چلانے کے لیے کافی تھا، کوئی کمی مجھے نہیں تھی۔ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ شغلت بامر المسلمین مسلمانوں کے معاملے میں مجھے مشغول کر دیا گیا ہے۔ اب اگر میں اپنے کاروبار کی طرف توجہ کروں گا تو خلافت کے امور کی طرف سے میری توجہ کم ہوگی۔ اس لیے یہ فرمایا فسیاکل اھل ابی بکر من ھذا المال و یحترف للمسلمین ۔۔۔ ابوبکر کے گھرانے کی معاشی ضرورتیں بیت المال سے پوری ہوں گی اور اس کے بدلے میں ابوبکر اپنا کام کرنے کی بجائے مسلمانوں کا کام کرے گا۔ اس سے ایک اصول یہ سمجھ میں آیا کہ جب کوئی شخص کسی اور کے کام کے لیے اپنی زندگی کو یا اپنے اوقاف کو وقف کر دیتا ہے تو جس کا وہ کام ہے، اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس کی کفالت کرے اور اچھے طریقے سے اس کا خرچہ اٹھائے۔ دین کی حفاظت، دین کی تدریس، دین کی تعلیم، دین میں تحقیق، دین کی اشاعت، یہ کام بنیادی طور پر زید عمر و بکر کا نہیں ہے، کسی مولانا صاحب کا یہ کام نہیں ہے بلکہ یہ ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے پوری امت مسلمہ پر عائد کی گئی ہے۔ پوری مسلمان سوسائٹی کے ذمے ہے، معاشرے کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ دین کی خدمت کرے۔ تو جو آدمی دین کا کام کر رہا ہے، وہ در حقیقت اپنا کام نہیں کر رہا بلکہ وہ سارے مسلمانوں کا کام کر رہا ہے۔ چونکہ اس نے سارے مسلمانوں کے کام کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر دیا ہے، اس لیے اس کا خرچہ، اس کی کفالت بھی مسلمانوں کے ذمے ہے۔
یہاں میں یہ بات عرض کر دوں کہ دینی خدمات پر جو ہمارے ہاں تنخواہ کا تصور ہے، اس پر خاصی لمبی چوڑی فقہاء کی بحث ہے۔ لیکن ایک نکتے کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، غالباً حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے ہی کہیں فرمایا ہے کہ یہ جو تنخواہ ہوتی ہے یہ در حقیقت اس کام کا معاوضہ نہیں ہوتا بلکہ یہ نفقہ ہے۔ جس طرح بیوی اپنے اوقات کو خاوند کے لیے محبوس کر دیتی ہے تو بیوی کا نفقہ اس کے خاوند کے ذمہ ہے، اسی طرح سے اس عالم دین نے، اس امام نے، اس خطیب نے، اس موذن نے یا جو بھی کوئی اس طرح کی خدمت سر انجام دے رہا ہے، اس نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے کام کے لیے وقف کر دیا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے ذمے اس کا نفقہ ہے۔ جس طرح انتظامی امور سر انجام دینے والا ایک ڈی سی او ہے کسی اور شعبے میں ہے تو ظاہر ہے وہ اپنا کام نہیں کر رہا، وہ ساری سوسائٹی کا کام کر رہا ہے، تو اس کی مناسب کفالت بھی ساری سوسائٹی سے لیے گئے جو ٹیکسز ہوتے ہیں، ان کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی در حقیقت معاوضہ نہیں ہوتا بلکہ نفقہ ہوتا ہے۔ اور نفقے کا جو اصول ہے، وہ قرآن نے بیان کیا ہے، اس کو معروف کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ اور یہ کہا ہے: علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ کہ جس کے ذمہ میں نفقہ ہے، اس کی اپنی مالی حالت دیکھی جائے گی۔ ایک غریب ملک کے اندر یا غریب گاؤں کے اندر یا ایک غریب محلے کے اندر اگر کوئی شخص دینی خدمات انجام دے رہا ہے تو جس طرح کی زندگی ان کی ہے، اسی معیار کی زندگی اس امام کو دینا، عالم کو دینا، یہ اس محلے کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ایک عالم یا ایک خطیب یا ایک امام یا ایک استاد کسی اچھے شہر میں، بڑے شہر میں، کھاتے پیتے علاقے میں دینی خدمات سر انجام دے رہا ہے تو جو وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی ہے، یہ ان لوگوں کا فرض ہے۔ ان پر فرض عائد ہوتا ہے، ان کی ذمہ داری ہے، یہ مولوی پر احسان نہیں ہے بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ جو ان کا اپنا معیار زندگی ہے، تقریباً وہی اپنے علاقے میں کام کرنے والے عالم دین کو بھی مہیا کریں۔
یہ بات میں نے ابتداء میں اس لیے عرض کی کہ ایک زمانہ تھا کہ دینی مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی تھی، اور جتنے فارغ ہوتے تھے، تقریباً وہ سارے کے سارے مدارس اور مساجد میں ہی کھپ جاتے تھے۔ بلکہ ڈیمانڈ زیادہ ہوتی تھی اور رسد کم ہوتی تھی، سپلائی کم ہوتی تھی۔ فارغ التحصیل ہونے والے تھوڑے ہوتے تھے، مدارس اور مساجد میں ضرورت زیادہ کی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں جو اساتذہ ہوتے تھے، سارے آسانی سے کھپ جاتے تھے۔ وہ مشورہ بھی یہی دیتے تھے کہ چونکہ تعداد محدود ہے اس لیے اگر یہ بھی کسی اور طرف نکل گئے تو پھر مدارس بے آباد ہو جائیں گے، مساجد ویران ہو جائیں گی۔ اس لیے یہ مشورہ دیتے تھے کہ ہمارے فضلاء کو اسی لائن میں رہنا چاہیے، کسی اور لائن میں نہیں جانا چاہیے۔ لیکن ۱۹۸۲ء کے بعد جب دینی مدارس کی اور وفاقوں کی سند کو اس وقت کی حکومت نے باقاعدہ ایم اے کے برابر قرار دیا تو بات وہی تھی جو حضرت نوح علیہ السلام نے دنیا کو لالچ دیا تھا۔ بہرحال یہ عاجلہ ہے اور آخرت آجلہ ہے، یہ نقد ہے وہ ادھار ہے۔ انسان کی قریب کی نظر زیادہ کام کرتی ہے، دور کی نظر کم کام کرتی ہے۔ اس لیے جب دنیا کا فائدہ بھی نظر آتا ہے، دین کا ایسا کام جس میں دنیا کا فائدہ بھی نظر آرہا ہو، انسان اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔
پہلے لوگ مدارس میں اپنے بچوں کو کم بھیجتے تھے، لیکن جب یہ دیکھا کہ گورنمنٹ بھی اس کی سند کو تسلیم کرتی ہے، ملازمت ملنے کے بھی امکانات ہیں تو لوگوں نے زیادہ تعداد میں اپنے بچوں کو مدارس کی طرف بھیجنا شروع کیا ۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی تک وہ سلسلہ چل رہا ہے، اگرچہ اس میں کچھ پچھلے پانچ سات سال میں تھوڑی سی کمی آئی ہے۔ آگے کیا ہوتا ہے، یہ کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن بحیثیت مجموعی وہ سلسلہ بہرحال چل رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدارس میں فضلاء کی تعداد مدارس اور مساجد کی ضروریات سے زیادہ ہوگئی ۔ ایک زمانہ وہ تھا جب یہ کہا جاتا تھا کہ مدارس کے فاضل کے لیے بے روزگاری کوئی مسئلہ نہیں ہے، کوئی نہ کوئی روزگار اسے مل ہی جاتا ہے۔ لیکن اب صورتحال بہت ہی مختلف ہو چکی ہے۔ بڑی تعداد میں دینی مدارس کے فضلاء ایسے ہوتے ہیں جو فون کرتے ہیں، کسی سے رابطہ کرتے ہیں، کوئی کسی سے رابطہ کرتا ہے کہ میں فارغ ہو چکا ہوں، کوئی جگہ ہو چھوٹی موٹی پڑھانے کی، کوئی بھی کام مل جائے، میں کرنے کو تیار ہوں۔ اور اس کی وجہ وہی ہے کہ رسد بڑھ گئی ہے اور ضرورت اس کے مقابلے میں اتنی زیادہ نہیں بڑھی۔ یہ ایک صورتحال پچھلے پچیس تیس سال میں ہمارے ہاں پیدا ہوگئی ہے۔
یہ صورتحال جہاں ہمارے لیے ایک چیلنج ہے، وہیں ہمارے لیے ایک شاندار موقع بھی ہے۔ پہلے تو ہم اس پر مجبور تھے کہ اپنے پڑھے ہوئے لوگوں کو اپنے ہی اداروں میں رکھنے پر آمادہ کریں، لیکن اب ہمارے لیے یہ موقع آگیا ہے کہ ہم اپنی ضرورت بھی پوری کریں اور اپنا مال، اپنی پراڈکٹس ایکسپورٹ بھی کریں۔ دوسرے محکموں کے اندر، دوسری جگہوں پر ہم بھیجیں۔ وہاں جب جائیں گے تو جس نے دین پڑھا ہوگا تو ظاہر ہے دین کا کچھ نہ کچھ رنگ وہ وہاں چھوڑے گا۔ فضلاء کی تعداد جو بڑھ گئی ہے، ایک چیلنج کی بجائے ہمیں ایک اچھا موقع سمجھنا چاہیے۔ اور موقع کے نقطہ نظر سے ہم دیکھیں گے تو اس موقع سے ہم فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں کہ ہم اپنی منتجات اور اپنی پیداوار کو ایکسپورٹ کر سکتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اچھی ایکسپورٹ پالیسی وہ ہوتی ہے جس میں مقامی ضرورتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ آپ کے ہاں اگر آلو کی پیداوار زیادہ ہو رہی ہے تو اگر آپ سارا آلو اٹھا کر بھارت بھیج دیں گے تو ظاہر ہے کہ آپ کے ہاں کھانے کو کچھ نہیں ملے گا۔ تو آپ یہ دیکھیں گے کہ ہمیں کتنی ضرورت ،ہے کس قسم کی ضرورت ہے، اچھا خود رکھیں گے اور جو ضرورت سے زائد ہے، وہ آپ باہر بھیجیں گے۔ یہی طریقہ ہم یہاں اختیار کر سکتے ہیں۔
ایک ہماری اپنی ضرورت ہے کہ ایک طبقہ ایسا ہونا چاہیے جس کا کام صرف دین کی تعلیم، تدریس، دین میں تحقیق، دین کی روشنی میں نئے مسائل کا حل پیش کرنا، دین کی دعوت دینا، اس نوعیت کا کام ہو۔ یہ کام جز وقتی نہیں ہے، یہ کام وقت بھی پورا مانگتا ہے، توجہ بھی پوری مانگتا ہے۔ خاص طور پر علم دین سے منسلک جتنے کام ہیں، چاہے وہ تدریس کا ہو، تحقیق کا ہو، اس نوعیت کے جتنے کام ہیں، وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، ہر وقت اس کے ذہن میں کوئی نہ کوئی مسئلہ گھوم رہا ہو، گردش کر رہا ہو۔ کہتے ہیں کہ حضرت مولانا ادریس کاندھلویؒ کے گھر میں شاید بیٹی کی یا کسی اور کی شادی تھی۔ گھر والے پوچھ رہے ہیں کہ کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا، یہ ہو جائے یا نہ ہو۔ تو فرمایا، اگر یہ فتح الباری میں کہیں لکھا ہے پھر تو میں بتا دیتا ہوں۔ نہیں تو تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ آدمی اس طرح بنتا ہے اور ہر زمانے میں ادریس کاندھلوی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جو سوال ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نے مان لیا کہ ادریس کاندھلوی کی ضرورت ہے، لیکن آج اگر کوئی ادریس کاندھلوی بنتا ہے تو ہمارے مدارس، ہمارا نظام اہتمام اور ہماری سوسائٹی یا ہماری مساجد کے منتظمین اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، کیا برتاؤ کرتے ہیں اور اس کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو کس حد تک پورا کرتے ہیں؟
دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے حضرات کے حوالے سے ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنی زندگی کو دین کے لیے وقف کر دیا ہے اور ان کی تعداد محدود ہوگی، ان کی کفالت پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس طریقے سے ضرورت پوری نہیں ہو پا رہی۔ (جو اس ضرورت سے زائد ہوں گے، ان کو ظاہر ہے کہیں اور کھپانا پڑے گا۔ اس کی طرف میں بعد میں آتا ہوں۔) جس شخص کو کسی وجہ سے معاشرے میں اپنا نام بنانے کا موقع مل جائے، وہ کوئی اچھا لیڈر بن جائے یا وہ پیری فقیری کا راستہ اختیار کر لے، اس کی معاشی زندگی چل جاتی ہے، لیکن جو شخص خالص علمی زندگی اختیار کرنا چاہتا ہے، اس کے بارے میں ہمارے مدارس کے منتظمین ہوں، مساجد کے منتظمین ہوں، یا بحیثیت مجموعی ہماری سوسائٹی ہو، خاص طور پر دیندار لوگ جو کاروباروں میں موجود ہیں، وہ اپنی ذمہ داری کا کس حد تک احساس کرتے ہیں؟
پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ ایک مدرس خاص طور پر، یا علمی کاموں کے ساتھ جڑا ہوا آدمی، اس کے معاشی مسائل ہوتے کیا ہیں؟ میں نے اس کی ایک مختصر سی فہرست بنائی اور یہ اس کی بہت بنیادی ضرورتیں یا بہت ہی جائز قسم کی خواہشات ہیں۔ اس میں کوئی تعیش کا پہلو نہیں ہے اور اس سے تھوڑا سا یہ بھی اندازہ ہوگا کہ جو آدمی اپنے آپ کو دین کے علم کے لیے وقف کرتا ہے تو وہ کتنی بڑی قربانی دے رہا ہوتا ہے اور اپنی کتنی بڑی ضرورتوں کو نظر انداز کر رہا ہوتا ہے۔ ایک تو اس کی اپنی روز مرہ کی ضرورتیں ہیں، اس کی بیوی کی ضرورتیں بھی ہیں، اس کو مناسب رہائش مل جائے، اچھی رہائش مل جائے جو آرام دہ ہو، پر سکون ہو، پر تعیش نہ ہو، لیکن آرام دہ ہو۔ ظاہر ہے، ہم جانتے ہیں کن چیزوں میں گزارہ ہوتا ہے۔ رہائش بقدر ضرورت، کھانے پینے کا جو نظام ہوتا ہے، وہ بھی گزارے پر ہی چل رہا ہوتا ہے۔
دوسرا مسئلہ ہوتا ہے خاندانی اور سماجی تعلقات کا۔ ظاہر ہے کہ ہر آدمی کا خاندان ہے، اس کے روابط ہیں، تعلقات ہیں، اس کو جاننے والے لوگ ہیں، شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر لین دین کا معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ انسان کی سماجی زندگی تبھی چلتی ہے۔ لیکن ایک عالم کی جب ہم ضروریات مرتب کر رہے ہوتے ہیں تو شاید اس چیز کو ہم اس کی ضرورتوں میں شامل نہیں کرتے۔ ہمارے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عادت تھی کہ اگر خاندان میں کوئی ایسی شادی ہو رہی ہے جس میں وہ سمجھتے تھے کہ عین تقریب میں میرا جانا مناسب نہیں ہے، کوئی ایسی چیزیں (خلاف شریعت) وہاں پر ہوں گی، تو بالکل نہ جانے والی بات نہیں کرتے تھے، بلکہ ایک دن پہلے چلے جاتے تھے اور جو دینا دلانا ہوتا تھا، وہ کر کے آجاتے تھے اور مصروفیت کا عذر کر لیتے تھے کہ میں اس وجہ سے کل نہیں آسکوں گا، اس لیے آج آگیا ہوں۔ اور کہتے تھے کہ میں یہ اس لیے کرتا ہوں کہ کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ مولوی صاحب نے شریعت کا بہانہ بنالیا ہے، اور در اصل مولوی صاحب کچھ دینا نہیں چاہتے، اور سمجھتے ہیں کہ میں شریک ہوا تو مجھے کچھ دینا پڑے گا۔ لیکن یہ وہی کر سکے گا جس کے پاس کچھ ہوگا۔ ہر مولوی تو ظاہر ہے ایسا نہیں کر سکتا۔ تو یہ بھی انسان کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ بچوں کی کچھ سالانہ ضرورتیں ہوتی ہیں، بچے عید کے موقع پر جوتوں کا، کپڑوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم جو تنخواہ دے رہے ہوتے ہیں، اس سے تو مہینہ بھی نہیں گزرتا۔ ہم نے کبھی ایک عالم کی ضروریات مرتب کرتے ہوئے اس چیز کو مدنظر نہیں رکھا ہوتا۔ اس کے بچوں کے مسائل ہوتے ہیں، وہ بچوں کو اگر اچھی تعلیم دلانا چاہتا ہے، کسی بھی شعبے میں تعلیم دلانا چاہتا ہے تو اس کے پاس اس کی جیب میں اتنی گنجائش ہونی چاہیے۔ یعنی وہ اگر مدرسے میں ہی اپنے بچوں کو لگا رہا ہے تو وہ جبر نہ ہو بلکہ اس کا اپنا اختیار ہو۔ ہمارے ہاں تو صورتحال یہ ہے کہ چونکہ سکول بھیجنے یا فلاں جگہ بھیجنے کی اس کے اندر سکت نہیں ہے، اس لیے وہ بھی اپنے بچوں کو اسی مدرسے میں پڑھانے پر مجبور ہے۔ جب اس مدرسے سے فارغ ہو جائیں گے تو پھر مہتمم صاحب کی مرضی کہ وہ اس کو وہاں پر رکھیں یا نہ رکھیں۔ ظاہر ہے کہ گنجائش کی بھی بات ہوگی۔ تو بچوں کی مناسب تعلیم، بچوں کی صحت، بچوں کی پرورش، یہ ساری چیزیں ضروریات ہیں۔
ایک مدرس جب پینتالیس پچاس سال کی عمر تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ اور بھی مسائل آجاتے ہیں۔ کچھ تو اس کی صحت کے مسائل ہیں، کسی کو بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہوگیا، کسی کو شوگر، کسی کو کوئی اور مسئلہ۔ یہ عوارض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مسلسل اچھے ڈاکٹر سے رابطے کی ضرورت ہوتی ہے، مسلسل علاج معالجے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے ماہانہ اخراجات کافی بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن کبھی کسی عالم کی ضروریات کو مرتب کرتے ہوئے اور ان کا جائزہ لیتے ہوئے اس پہلو کو شاذ و نادر ہی کسی نے دیکھا ہوگا کہ یہ عالم ہیں، یہ مدرس ہیں، اتنے سال سے یہ خدمت سر انجام دے رہے ہیں تو ان کو چالیس یونٹس انسولین صبح لگ رہی ہے، چالیس یونٹس شام کو لگ رہی ہے۔ یہ ضرورت کہاں سے پوری ہوگی!
اسی طریقے سے ایک اور مسئلہ جو اس عمر میں ہوتا ہے کہ بچے اس عمر کو پہنچ جاتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری نبھائی جائے۔ انسان کی زندگی میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کا بڑا مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ بھی اس کی ضروریات میں داخل ہے۔ اس کی اتنی بچ نہیں ہوتی، زندگی بھر کی اتنی بچت نہیں ہوتی کہ وہ آسانی سے یہ ذمہ داریاں ادا کر سکے۔
اب تک جو ضروریات میں نے ذکر کی ہیں، ان میں سے کسی کو بھی آپ تعیش میں شامل نہیں کر سکتے، یہ بہت بنیادی ضرورتیں ہیں۔ اس کے بعد پھر مرحلہ آتا ہے ایک عالم دین کے لیے بڑھاپے کا۔ بڑھاپے میں ظاہر ہے کہ انسان کے اپنے مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ علماء ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بچے اس عمر تک پہنچنے تک اتنے خوش حال ہو چکے ہوتے ہیں، کسی نہ کسی جگہ اپنے آپ کو اچھی پوزیشن میں لا چکے ہوتے ہیں کہ واپنے والدین کے لیے سہارا بن جاتے ہیں۔ اور والدین کو بھی احساس ہوتا ہے کہ مسجد کے صدر صاحب یا مدرسے کے مہتمم صاحب سے کسی قدر ہم آزاد ہو رہے ہیں، لیکن ایسے بہت کم ہوتے ہیں۔ اپنے بڑھاپے کے مسائل اور پھر اس عمر کو پہنچ کر انسان کو ایک اور احساس ہوتا ہے کہ میں تو جا رہا ہوں۔ چلو میری تو جیسی تیسی کفالت کرنے والوں نے کر دی، مدرسے نے تنخواہ دے دی، مسجد نے تنخواہ دے دی، کم از کم اپنے بچوں کے لیے سر چھپانے کی کوئی جگہ چھوڑ جاؤں۔ میں نے تو کرایے کے یا مدرسے کے چھوٹے سے مکان میں، ایک چھوٹے سے ڈربے کے اندر زندگی گزار دی، یہ ڈربہ بھی اللہ کی نعمت ہوتا ہے۔ لیکن میرے بچے کیا کریں گے؟ ظاہر ہے کہ یہ انسان کی فطری چیز ہے، اس کو بھی آپ تعیش میں داخل نہیں کر سکتے۔ لیکن کبھی ہم نے نہیں سوچا کہ جس عالم دین نے اپنی پوری زندگی، جوانی سے بڑھاپے تک اس کام کے اندر لگا دی، پگھلا لی، اس کی یہ جائز ضرورت اور خواہش بھی پوری ہونی چاہیے۔ ہم اس کو خراج تحسین پیش کردیں گے، اس کے انتقال کے بعد ان کی منقبت میں ایک شاندار جلسہ منعقد کردیں گے، ان کے حالات زندگی پر کسی شمارے کا کوئی خاص نمبر شائع کر دیں گے، یہ سب کچھ ہم کر لیں گے لیکن جس نے سارے مسلمانوں کا کام کیا ہے، اپنا ذاتی کام نہیں کیا، بحیثیت مسلمان معاشرہ کے ہم نے اس کی کفالت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا کس حد تک احساس کیا ہے؟
یہ ایک سوال ہے جو صرف مدارس کے منتظمین سے ہی نہیں بلکہ مساجد کے منتظمین سے بھی ہے۔
اب اس طرف آتے ہیں کہ اس کا عملی حل کیا ہے کہ جن لوگوں نے اپنی زندگی کو اس کام کے لیے وقف کیا ہے، وہ فارغ البالی کی زندگی گزار سکیں، اور اطمینان کے ساتھ وہ اپنی تمام توجہات اپنے کام پر صرف کر سکیں۔ اس کے لیے بنیادی طور پر دو کام کرنے کے ہیں۔ ایک تو وہی جو دنیا میں فطری اصول ہے طلب اور رسد کا۔ اس کو ہم مد نظر رکھیں۔ ظاہر ہے کہ جب ایک شعبے میں تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی، ضرورت سے زیادہ ہو جائے گی تو پہلے سے جو لوگ موجود ہیں، ان کی حق تلفی بھی ہوگی، ان کی قیمت بھی گر جائے گی۔ جس چیز کی بھی رسد بڑھتی ہے، سپلائی بڑھ جاتی ہے، تعداد بڑھ جاتی ہے، اس کی پھر قیمت کم ہو جاتی ہے، اس کی ویلیو کم ہو جاتی ہے۔ اس کا طریقہ کیا ہے؟ طلب اور رسد کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم یہ طے کر لیں کہ اتنی تعداد میں علماء ہم نے بنانے ہیں، اس سے زائد کسی کو ہم نے مدارس میں داخلہ نہیں دینا۔ ظاہر ہے کہ یہ مناسب بھی نہیں ہے اور شاید عملاً ممکن بھی نہیں ہے۔ جو دین سیکھنے کے لیے آرہا ہے تو ہم کیوں مناع للخیر بنیں، بھلائی کے کام سے دین کے علم سے کیوں روکیں؟ یہ تو ظاہر ہے کہ حل نہیں ہے۔ دوسرا متبادل یہ ہے کہ جو ضرورت سے زائد تعداد ہے، اس کو ہم ڈائیورٹ کریں، کسی اور طرف اس کا رخ کریں۔ خاص طور پر وہ جو اتنی زیادہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ بہت اعلیٰ قسم کی تدریس، بہت اعلیٰ قسم کی تحقیق، اور بہت اعلیٰ قسم کا دین کا کام کر سکیں، ان کو اگر ہم دوسری طرف کر دیں اور اِدھر تعداد مناسب بچ جائے تو پھر ان کی کفالت کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے، وگرنہ یہ کام مشکل ہے۔ تو ایک کرنے کا کام یہ ہے۔
دوسرا جو کرنے کا کام ہے، وہ ہر سطح پر اس حوالے سے شعور پیدا کرنے کا ہے کہ اس نوعیت کے جو اہل علم ہوتے ہیں، ان کو محض خراج تحسین پیش کرنے سے معاشرے کی ذمہ داری ادا نہیں ہو جاتی۔ ابھی صبح ایک عالم دین بتا رہے تھے کہ ہمارے استاد یہ کہا کرتے تھے کہ جو کچھ تم پڑھ رہے ہو، اس سے صرف تمہیں جزاک اللہ، ما شاء اللہ ہی ملے گا۔ اور یہ فرماتے تھے کہ جزاک اللہ کسی ہانڈی میں نہیں پکتا، اس سے پیٹ نہیں بھرتا۔ ہمارے ہاں ہم نے خود شاید ایک تاثر پیدا کیا ہے کہ ایک عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ فقر و فاقے کی اور بھوک و افلاس کی زندگی گزارے۔ اس سے ہٹے گا تو وہ معیوب ہوگا۔ ایک عالم اچھا کپڑا پہن لے اس پر اعتراض ہوتا ہے، چاہے اپنے آباؤ اجداد کی کمائی سے ہی پہنے۔ کوئی اچھی گاڑی لے لے، اس پر اعتراض ہوتا ہے۔ یہ جامعہ امدادیہ ابھی نیا نیا بنا تھا۔ ہمارے والد صاحبؒ اس سے پہلے مفتی زین العابدینؒ کے مدرسہ، دارالعلوم فیصل آباد میں ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مفتی صاحب کو آخر عمر میں اچھی بلکہ بہت خوشحال زندگی عطا فرما دی تھی، لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے شروع میں مجاہدے کی زندگی بھی گزاری ہے ۔یہ چیز لوگوں کو بہت کم نظر آتی ہے۔ لیکن بہرحال ان کا آخری دور بڑا خوشحالی اور فراخی کا گزرا۔ تو وہ مسجد میں جہاں اعتکاف کے لیے بیٹھتے تھے، وہاں ایک کیبن سا بنا کر انہوں نے ایئر کنڈیشنر لگایا ہوا تھا۔ یہ ۱۹۸۳ء کی بات ہے، اس زمانے میں ایئر کنڈیشن اتنا عام نہیں تھا۔ بظاہر یہی ہے کہ وہ اس کی بجلی کے اخراجات اپنی جیب سے ہی ادا کرتے ہوں گے۔ والد صاحب کے سامنے ایک شخص نے کسی حوالے سے اس پر اعتراض کیا تو والد صاحبؒ نے فرمایا کہ جو بات تم کہہ رہے ہو وہ بات نہیں ہے، بلکہ بات یہ ہے کہ یہ ذہن بن گیا ہے کہ ہم لوگ کسی مولوی کو خوشحال نہیں دیکھ سکتے۔ کیونکہ ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ فقر و افلاس کی زندگی گزارے۔
جو ہماری ذمہ داری تھی کہ ایک عالم کو اچھی حالت میں رکھیں، نفقہ کی جو ہماری ذمہ داری تھی، اس کو الٹا کر کے اس پر ڈال دیا کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم تم کو کھلائیں بلکہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم بھوکے رہو۔ ہمارے ایک بہت اچھے دوست تھے، اچھی زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ اچھی گاڑی، اچھا رہنا، اچھا کھانا، اچھا پینا۔ عالم تھے اور ایک مسجد میں ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔ ظاہر ہے جو بھی مسجد میں ذمہ داری ادا کر رہا ہوتا ہے، اس کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ تھوڑا بہت کاروبار بھی کر سکے۔ بہت اچھی زندگی گزارتے تھے اور اردگرد کے جو لوگ تھے کھاتے پیتے لوگ تھے، ان کے برابر کی سطح پر بیٹھتے تھے۔ یہ عالم صاحب ان سے کھانے والے نہیں تھے بلکہ ان کو کھلانے والے تھے۔ تو ایک بڑے پڑے لکھے آدمی جو کچھ عرصہ جج بھی رہے، وہ کہتے ہیں میں نے ایک دفعہ قاری صاحب سے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ قاری صاحب! آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ کاروبار کریں۔
اس طرح کی ایک مثال حضرت مولانا شریف کشمیریؒ صاحب کی بھی ہے جو دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ کچھ عرصہ دارالعلوم دیوبند میں پڑھایا بھی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد زیادہ عرصہ ان کا ملتان میں گزرا۔ ہمارے والد صاحب کے شاگرد تھے۔ ابتداء میں یہ پلندری میں تشریف لائے، جہاں ایک بڑا مشہور دارالعلوم ہے۔ وہاں کچھ عرصہ انہوں نے پڑھایا۔ حالات میں کچھ تنگی پیش آئی، کچھ مشکلات پیش آئیں۔ کئی مہینے گزر گئے، تنخواہ نہیں مل رہی۔ اہل حل و عقد کا ایک اجلاس ہوا، اس میں کشمیری صاحب بھی تشریف فرما ہیں اور اس میں یہی بات چل پڑی کہ دین کا کام تو ایسے ہی ہوتا ہے، قربانیاں دینی پڑتی ہیں، فلاں نے بھی قربانی دی، فلاں نے یہ قربانی دی وغیرہ۔ حضرت مولانا شریف کشمیریؒ کا مزاج بڑا مزاح والا تھا، ان کا درس بھی اسی انداز کا ہوتا تھا۔ ہمارے والد صاحب کا طریقہ تدریس یہ تھا کہ جس کی بات کرتے تھے، اس کی پوری نقل اتارتے تھے اور وہ ایک خاص انداز تھا۔ در حقیقت انہوں نے یہ مولانا شریف کشمیریؒ سے لیا تھا۔ ان کا یہ انداز بڑا مزاحیہ تھا۔ تو سب کی باتیں سن کر وہ فرمانے لگے کہ آپ کو صرف بھوکے ننگے بزرگ ہی یاد آئے ہیں۔ تاریخ میں کوئی کھاتا پیتا بزرگ نہیں گزرا؟ اس کا نام تمہیں نہیں آتا؟ ہماری تاریخ میں خواجہ عبید اللہ احرارؒ بھی تو گزرے ہیں، اس طرح کے لوگ بھی گزرے ہیں، ان کا نام تمہیں نہیں آتا؟ اگر ذکر کروں تو اس طرح کے اور بھی ذہن میں نام آرہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے کا خود ذہن بنایا ہے یا ان کا ذہن بن گیا ہے۔ جب تک ہم اسے تبدیل نہیں کریں گے، یہ معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔
آپ کسی صنعت کار کے پاس جائیں، کسی تاجر کے پاس جائیں کہ ہمیں اپنے طلباء میں تقسیم کرنے کے لیے اتنے ہزار مصحف چاہئیں، اس پر اتنے پیسے لگیں گے۔ وہ اس کو ثواب کا کام سمجھ کر فوری طور پر آپ کو چیک کاٹ کر دے دے گا۔ لیکن اگر آپ اسی تاجر، اسی صنعت کار کے پاس جائیں کہ ہم اپنے مدرسین کی خوشحالی کے لیے،، بہتری کے لیے کوئی پروگرام کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اتنے پیسے چاہئیں۔ وہ آپ کو نہیں دے گا، کیونکہ وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اُس کام پر تو ثواب ملے گا، لیکن اِس کام پر ثواب نہیں ملے گا۔ حالانکہ یہ ثواب ہی نہیں ہے، بلکہ اس کا فرض ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ یہ نفقہ ہے اور نفقہ سب مسلمانوں کے ذمہ میں فرض ہے۔ جس نے اپنے آپ کو علم دین کے لیے وقف کیا ہے، اس کے اخراجات کو اٹھانا، یہ فرض کفایہ ہے۔ اور جو میں نے فہرست ذکر کی ہے جس میں کوئی بھی تعیش نہیں ہے، کم از کم ان حوالوں سے اسے فارغ البال کرنا فرض کفایہ ہے۔ فرض کفایہ اسے کہتے ہیں کہ افراد پر تو عائد نہیں ہوتا لیکن بحیثیت معاشرہ پورے معاشرے کی طرف جو فرض متوجہ ہو، وہ فرض کفایہ ہے۔ ہم نے اس فرض کفایہ کا احساس لوگوں کے اندر پیدا نہیں کیا۔ یہ ہماری ایک کوتاہی ہے۔ اس حوالے سے شعور پیدا کرنے کی اور لوگوں کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہماری ضرورت سے جو زائد فضلاء ہیں، وہ ظاہر ہے مسجدوں، مدرسوں میں کبھی کھپ نہیں سکیں گے، ان کے لیے متبادل راستہ کیا ہو؟ تو بہت سارے راستے ہو سکتے ہیں۔ سب سے اہم جو ان کے لیے راستہ ہے، جو ان کی سند کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے، وہ تو یہی ہے کہ کسی جگہ ملازم بن جائے۔ مثلاً سرکاری ملازمت یا پرائیویٹ اداروں میں ملازمت۔ اس کے لیے ہمیں ابتداء ہی سے اپنے نظام تعلیم میں اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جو چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے، اس کو چھوڑ کر جتنا ہم کر سکتے ہیں، اس کے اعتبار سے اپنے بچوں کو ابتداء ہی سے اس کے لیے تیار کریں، تاکہ ان کے لیے شروع ہی سے راستے کھل جائیں۔ اس کے لیے ظاہر ہے کہ مدرسے سے باہر ملازمتوں کے لیے کاغذ کے ٹکڑے چلتے ہیں، سرٹیفکیٹ چلتے ہیں۔ آپ کے پاس میٹرک کی سند ہے یا نہیں، ایف اے ہے یا نہیں، بی اے ہے یا نہیں، آپ کے پاس فلاں سند ہے یا نہیں۔ یہ کاغذ کے ٹکڑے چلتے ہیں۔ تو اگر تھوڑی سی محنت کر کے یہ کاغذ کے ٹکڑے حاصل کر لیں تو یہ لوگ بہتر جگہ پر پہنچ جائیں گے اور آپ کے مدرسے کا فارغ التحصیل جب بہتر جگہ پر موجود ہوگا اور کوئی بھی فارغ التحصیل بے روزگار نظر نہیں آئے گا تو لوگوں کے اندر رغبت پیدا ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کو مدارس کی طرف بھیجیں۔ وگرنہ لوگ اگر مدرسوں سے فارغ ہو کر نکلنے والے بکثرت طلباء کو فارغ دیکھیں گے تو مدرسوں کی طرف تعداد کا جو رخ ہے، وہ کم ہو سکتا ہے، اللہ ہمیں ایسے وقت سے بچائے۔
ایک تو تعلیم میں اس چیز کو ہم شامل کریں اور مجھے توقع ہے کہ الشریعہ اکادمی نے جو یہ پہلا قدم اٹھایا ہے، اس حوالے سے یہ قدم اٹھاتی چلی جائے گی کہ ملازمت کے حوالے سے ہم اپنے فضلاء کو کیا راہ نمائی فراہم کر سکتے ہیں اور کن کن راستوں پر ہم انہیں ڈال سکتے ہیں۔ ایک تو مساجد و مدارس کا کام ہے، اصل کام تو ظاہر ہے علماء کا یہی ہے۔ لیکن ہمارے پاس ان کاموں کے لیے ضرورت سے زیادہ تعداد موجود ہے، اس لیے ہمیں دوسری طرف بھی رخ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے چند باتیں میں آپ حضرات کی خدمت میں عرض کر کے اجازت چاہوں گا۔ میں بہت ہی اختصار کے ساتھ جو اصل روزگار اور متبادل روزگار ہیں، ان کا ذکر کر رہا ہوں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے، جو صبح کی مجلس میں بھی کئی حضرات نے کہی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہماری جو وفاقوں کی سند ہے، وہ در حقیقت ایم اے نہیں بلکہ مساوی ایم اے ہے اور دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایم اے کی سند کے پیچھے کوئی نہ کوئی قانون کھڑا ہوتا ہے، مثال کے طور پر کسی بورڈ نے آپ کو میٹرک یا ایف کی سند دی ہے یا کسی یونیورسٹی نے ایم اے کی ڈگری دی ہے تو وہ بورڈ کسی قانون کے تحت وجود میں آیا ہوتا ہے، وہ یونیورسٹی کسی قانون یا آرڈیننس وغیرہ کے تحت وجود میں آئی ہوتی ہے۔ ہر کسی کے لیے اس کو ایم اے ماننا ہی پڑتا ہے۔ باقی آپ کی صلاحیت کی بنیاد پر ہے کہ آپ کو کوئی قبول کرے یا نہ کرے، یہ ان کا اختیار ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ ایم اے نہیں ہیں، لیکن جب مساوی ایف اے، مساوی ایم اے سند لے کر جائیں گے تو اس میں بہت ساری جگہوں پر صوابدیدی اختیارات آجاتے ہیں۔ ہر ادارے کے اپنے صوابدیدی اختیارات ہیں، قانوناً اس کو بی اے، ایم اے ماننا ضروری نہیں ہوتا۔
اس لیے اگر ہم اس لائن میں جانا چاہتے ہیں تو میں کہا کرتا ہوں کہ واتوا البیوت من ابوابھا یہ مساوی سند ایک بھیک ہوتی ہے۔ اگر ہمیں ایک کام کرنا ہی ہے تو بھیک مانگ کر کرنے کی بجائے اس راستے سے آئیں جس میں کوئی ہمیں روک نہ سکے، کوئی ہمیں چیلنج نہ کر سکے۔ تب آپ کہہ سکتے ہیں جو کاغذ کا ٹکڑا کسی اور کے پاس ہے، وہی میرے پاس ہے۔ اس کے پاس ایک یونیورسٹی کے کاغذ کا ٹکڑا ہے، میرے پاس بھی ایک یونیورسٹی کے کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ اور یہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ سب سے زیادہ مشکل مرحلہ میٹرک کا ہوتا ہے کیونکہ اس میں سائنس بھی پڑھنی پڑتی ہے، ریاضی بھی اور انگلش بھی پڑھنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد جو مشکل لازمی مضمون رہ جاتا ہے، وہ صرف انگلش کا رہ جاتا ہے۔ انگلش زبان کا آنا ویسے ہی اچھی بات ہے۔ جتنی زبانیں آدمی کو آتی ہوں، اتنا اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے، اتنا ہی اس کے مطالعے میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تو جو آپ چاہیں، آسان آسان مضمون منتخب کر سکتے ہیں، ایف اے کر سکتے ہیں، بی اے کر سکتے ہیں، آسانی سے آگے جا سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ بہت سے فضلاء ایسے ہوتے ہیں جن کے اپنے گھر کے، اپنے آبائی کاروبار ہوتے ہیں۔ وہ کاروبار ایسے ہوتے ہیں جنہیں وہ آسانی سے سیکھ سکتے ہیں، ان کے لیے یہ سیکھنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ تو ہمیں اس معاملے میں حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے۔ عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ جو کسی دوسری طرف جانے لگے، ہم اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ لیکن اگر مدرسے کی طرف آئے گا تو مدرسے میں اس کے لیے جگہ نہیں ہے ، تو پھر آخر وہ کہاں جائے؟ فرض کریں ایک صاحب، فاضل ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ مجھے جامعہ امدادیہ میں رکھ لیں۔ میں کہتا ہوں کہ میرے پاس جگہ نہیں ہے۔ یہ کہتے ہیں، اچھا پھر میں اپنی دکان ڈال لیتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ تم دکان ڈالو گے تو میں تم سے ناراض ہو جاؤں گا، مجھ سے ملنے کے لیے نہیں آنا کہ تم نے دین کی لائن چھوڑ دی ہے۔ تو پھر آخر وہ جائے کہاں؟۔ تو جو شخص اپنے آبائی کاروبار میں آنا چاہتا ہے، اس سے بہتر کوئی اور چیز اس کے لیے نہیں ہے۔ اگر وہ مسجد و مدرسے کی لائن میں نہیں رہ سکتا تو وہ چیز ایسی ہے کہ وہ اسے آسانی سے سیکھ سکتا ہے۔ پھر اس کا جو خاندان ہے، اس اس کی ایک سماجی سطح ہے اور ظاہر ہے کہ جو اس کا رشتہ ہوگا، وہ بھی اسی سطح کی کسی جگہ پر ہوگا۔ آپ اسے اس بات پر مجبور کریں کہ چند ہزار کی تنخواہ پر گزارہ کرو اور اپنی بیوی کو بھی اس کا قائل کرو، تو ظاہر ہے کہ یہ اس کے لیے مشکل ہوگا۔
کچھ چیزیں وہ ہوتی ہیں جن کا تعلق ڈگریز سے ہے کہ آپ نے ایم اے کر لیا، ایم فل کر لیا، پی ایچ ڈی کر لی۔ یقیناًیہ ڈگریز بھی آپ کے لیے بہت سارے راستے کھولتی ہیں۔ مزید سیکھنے کے راستے بھی کھولتی ہیں اور آپ کے لیے روزگار کے راستے بھی کھولتی ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ روزگار کی جو مجموعی صورت حال ہے، ہمارے ملک میں وہ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اور شعبوں میں بھی جو یونیورسٹیز کے فارغ التحصیل ہیں، بڑی بڑی ڈگریاں لیے ہوئے ہیں۔ ایک چھوٹی سی چپڑاسی کی جگہ آتی ہے تو ایم فل والے وہاں اپلائی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے ڈگری روزگار کی کوئی حتمی ضمانت نہیں ہے۔ ڈگری کی بہ نسبت روزگار کے حوالے سے زیادہ اہم چیز ہنر اور skills ہوتے ہیں، وہ ہمیں حاصل کرنے چاہئیں اور اپنے فضلاء کو سکھانے چاہئیں۔ ہمارے ہاں ایک رجحان پچھلے پچیس تیس سال سے پروان چڑھا ہے کہ دورہ پر اپنی تعلیم کا اختتام نہیں کرنا بلکہ اس کے بعد بھی ایک آدھ سال لگانا ہے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جس سے بھی پوچھیں، دورے کے بعد کیا کرنا ہے تو جواب ملتا ہے، جی مفتی کا کورس کرنا ہے، تخصص کرنا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کچھ متبادل نہیں ہے، حالانکہ یہ تخصص فی الفقہ ہو یا تخصص فی الحدیث ہو یا کسی اور چیز میں تخصص ہو، یہ اس کے لیے ہوتا ہے جس نے دینی علوم میں تحقیق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہے اور اس سطح کی استعداد کے بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی بات میں پہلے کر چکا ہوں کہ ان کو ہم نے مدرسوں میں مسجدوں میں رکھنا ہے اور خوشحال بنا کر رکھنا ہے۔ لیکن میں ان کی بات کر رہا ہوں جن کو ہم نے دوسری طرف بھیجنا ہے۔
کچھ مہارتیں ایسی ہیں جو ہمارے مدارس کے فضلاء بہت آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں اور ان سے جلد ان کو مناسبت ہوتی ہے۔ اور بعض ایسی ہیں جو ان کے شعبے سے بہت زیادہ گہری وابستگی رکھتی ہیں۔ ان میں مثال کے طور پر ایک شعبہ پبلشنگ کا ہے کہ آپ کتابیں چھاپیں۔ اگرچہ دینی کتابوں کی پبلشنگ کے مسائل ہیں، مشکلات ہیں، اتنا زیادہ نفع آور نہیں رہا جتنا پہلے ہوتا تھا، مجموعی طور پر اپنی اور ان کی ناعاقبت اندیشیاں ہیں جن کی وجہ سے یہ صورتحال بن چکی ہے، لیکن بہرحال یہ بھی ایک شعبہ ہے جو ان کی فیلڈ سے مناسبت رکھتا ہے۔ اگر اچھی چیزیں آپ کو مل جائیں، آپ چھاپیں اور بیچیں تو ایک یہ راستہ آپ کے لیے بن سکتا ہے۔
دوسرا شعبہ جس میں ہمارے فضلاء بہت آسانی سے چل جاتے ہیں، میڈیا کا شعبہ ہے، چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ہو، کیونکہ ابلاغ کی عادت اور رجحان درس و تدریس کے دوران ان کا بن چکا ہوتا ہے، کچھ الفاظ جوڑنے کا کام آہی جاتا ہے۔ اس میں تھوڑی سی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بعد وہ یہ کام آسانی سے سیکھ جاتا ہے۔
تیسرا کام کمپیوٹر کا ہے۔ میں صرف کمپوزنگ کی بات نہیں کر رہا، بلکہ اس سے آگے کی بات کر رہا ہوں۔ تجربہ یہ ہوا ہے کہ ہمارے طلبہ جلدی یہ چیز سیکھ جاتے ہیں اور بعض اچھی جگہوں پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے جامعہ امدادیہ کے ایک فاضل ہیں، ایک اچھے ملک میں وہ کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کے شعبے میں ایک اچھی کمپنی میں کام کر رہے ہیں، حالانکہ دورۂ حدیث تک ان کی عصری تعلیم شاید مڈل تک بھی نہیں تھی۔ تو یہ بھی ایک صاف ستھرا شعبہ ہے کام کا۔ آرام سے بیٹھ کر کرنے کا کام ہے اور علم سے مناسبت بھی رکھتا ہے۔
چوتھا ایک اہم شعبہ زبان کا شعبہ ہے۔ چونکہ دنیا ایک دوسرے کے قریب آرہی ہے، روابط بڑھ رہے ہیں، تو اس میں ترجمانی اور زبانوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ زبان سیکھنا سکھانا مستقل فن بن گیا ہے اور اسی کا امتیازی فن ترجمانی بن گیا ہے۔ ترجمہ کی مہارت پیدا کرنے کے لیے کچھ تو ڈگری لیول کے کورسز ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں وقت زیادہ لگتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ مختلف جگہوں پر اس میں ڈپلومہ لیول کے مختلف کورسز بھی سال یا چھ مہینے کے کہیں نہ کہیں ہوتے ہوں گے، ورنہ زبان سکھانے کے کورسز تو ہوتے ہی ہیں۔ یونیورسٹی تقریباً ہر زبان کے کورسز کرواتی ہے۔ ہمارے فضلاء عربی زبان خاص طور پر بہت آسانی سے سیکھ لیتے ہیں، فارسی زبان بھی آسانی سے سیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور زبانیں بھی چونکہ پہلے سے پڑھنے لکھنے کے عادی ہوتے ہیں، اس لیے زبان سیکھنا نسبتاً ان کے لیے آسان ہوتا ہے اور زبان ان کے لیے بہت سارے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔
پانچواں ایک شعبہ جس میں کافی گنجائش ہمارے فضلاء کے لیے موجود ہے اور ان کے فیلڈ سے مناسبت بھی رکھتی ہے، وہ ہے پرائیویٹ سکولوں کا شعبہ، خاص طور پر دیہات اور قصبات میں۔ اگر ان کے لیے کچھ مختصر کورسز چھ مہینے، نو مہینے کے ایسے ڈیزائن ہو جائیں جن میں ان کو اسکول مینجمنٹ سکھا دی جائے، بحیثیت مجموعی مینجمنٹ کے کچھ اصول ان کو بتا دیے جائیں، کچھ موٹی موٹی اور چیزیں ان کو سکھا دی جائیں اور ایک دو چیزیں ان کو پڑھانے کی ٹریننگ دے دی جائے تاکہ خود ریاضی، انگریزی اور سائنس وغیرہ کی تدریس کر سکیں۔ یہ لوگ اپنے گاؤں میں، قصبے میں جا کر، چھوٹے شہر میں جا کر چھوٹا سا اسکول بنائیں، لوگوں سے فیسیں لیں، لوگوں سے روزگار مانگنے کی بجائے دوچار بندوں کو آپ روزگار دینے والے بن جائیں۔ اس شعبے میں ابھی اچھی خاصی گنجائش موجود ہے، چونکہ تعلیم کے شعبے سے حکومت نے تو ہاتھ پیچھے کر لیا ہے۔ کسی زمانے میں یہ اسکول بنانا حکومتوں کا کام ہوتا تھا، لیکن اب وہی پرانے زمانے کے آثار قدیمہ میں سے جو سرکاری اسکول ہیں، وہی ہیں۔ ان کے علاوہ نئے سرکاری اسکول نہیں بن رہے، جبکہ تعلیم لوگوں کی ضرورت ہے۔ تو پرائیویٹ اسکولوں کے شعبے سے معلق میرا اندازہ یہ ہے کہ ابھی گنجائش موجود ہے اور اس میں نفع آوری بھی ہے۔ یہ کام ہمارے فضلاء بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں، تھوڑا سا سیکھ کر کر سکتے ہیں۔ اسکول چلانے کا تجربہ حاصل کرنے کے لیے، جو اسکول پہلے سے چل رہے ہیں، آپ ایک آدھ مہینہ اس کے ساتھ لگائیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ کام کیسے کرتے ہیں۔ یوں آپ اپنا اسکول چلانے کے قابل ہو جائیں گے۔ ایک آدھ مضمون خود پڑھائیں، ایک آدھ ٹیچر اور رکھیں۔ اللہ اللہ خیر صلا، آپ کا کام چل جائے گا۔ بچیوں کے اسکول، مدرسے تو چل ہی رہے ہیں، لوگوں کے لیے یہ بھی مسئلہ ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ بچیوں کو تعلیم نہیں دلایا کرتے تھے، لیکن اب ہر کوئی چاہتا ہے کہ میری بچی تعلیم یافتہ ہو۔ تو یہ بھی آپ کر سکتے ہیں۔ اس میں نئی نسل کی تربیت کا پہلو بھی ہے، اس میں دعوت کا پہلو بھی ہے اور روزگار کا پہلو بھی ہے۔
اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اور کئی کام ہو سکتے ہیں۔
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب نے پہلا قدم اٹھایا ہے تو اس حوالے سے میں ایک مشورہ دوں گا کہ اس طرح کی مجالس میں بزنس سے تعلق رکھنے والے حضرات کو بھی دعوت دی جائے اور ان کے تجربات سے بھی استفادہ کیا جائے۔ وہ ہمیں کچھ بتائیں کہ فضلاء کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔
اور آخر میں ایک اور بات مولویوں کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ بڑی ماریں کھالی ہیں، یہ دور نفع کے لیے کسی کو پیسے دینے کا نہیں ہے۔ اس میں بعض دینی ادارے ایسے میرے علم میں ہیں جو تین مرتبہ تو میرے علم کے مطابق ڈنگ کھا چکے ہیں، حالانکہ حدیث میں آتا ہے کہ مومن صرف ایک مرتبہ ڈنگ کھاتا ہے، ایک سے زیادہ مرتبہ نہیں کھاتا۔ تو ہمیں اتنا سیدھا سادا نہیں ہونا چاہیے کہ ہر دفعہ ڈنگ کھانے کے لیے تیار ہوں۔ میں انھی گزارشات پر اکتفا کرتا ہوں۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
سود سے متعلق عدالت عظمیٰ کا فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس کے ساتھ اس آئینی پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دیا ہے جو تنظیم اسلامی پاکستان کے امیر حافظ عاکف سعید کی طرف سے ان کے وکیل راجہ ارشاد احمد نے دائر کی تھی۔ پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ آئینی طور پر حکومت پابند ہے کہ وہ ملک میں سودی نظام کا جلد از جلد خاتمہ کرے، لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا۔ چونکہ عدالت عظمیٰ دستور کی محافظ اور اس پر عملدرآمد کی نگران ہے، اس لیے حکومت کو سودی نظام کے جلد از جلد خاتمہ کا پابند بنایا جائے۔ اس پٹیشن کے جواب میں جسٹس نثار ثاقب محترم کا ارشاد ہے کہ ہم سودی نظام کے خلاف ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نظام کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن چونکہ عدالت عظمیٰ اس بارے میں کیس وفاقی شرعی عدالت کو بھجوا چکی ہے، اس لیے اس کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔
عدالتی پراسیس کے حوالہ سے یہ فیصلہ یقیناًدرست ہوگا جس سے انکار کی گنجائش شاید نہیں ہے، لیکن ملک کی معروضی صورتحال اور سودی نظام کی وسیع تر تباہ کاریوں کے پیش نظر اگر یہ کہا جائے کہ قوم کو اس فیصلے کی توقع نہیں تھی تو یہ بات بے جا نہ ہوگی۔ سودی نظام قرآن و سنت سے متصادم، دستوری تقاضوں سے انحراف، اور بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی واضح ہدایات کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کے لیے ناسور کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اور اب تو اس کی تباہ کاریوں کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے حتیٰ کہ جن مغربی اقوام و ممالک کی پیروی میں ہم نے سودی معیشت کو اختیار کر رکھا ہے وہ خود اس سے نجات کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔
بین الاقوامی ادارے بلاسود بینکاری کی طرف بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ لندن اور پیرس جیسے معاشی مراکز غیر سودی بینکاری کا مرکز بننے کے لیے بے چین ہیں اور روسی پارلیمنٹ میں اسلامی معیشت کو اپنانے کے لیے قرارداد پیش ہو چکی ہے۔ اس فضا میں ہمارا حال یہ ہے کہ ملک میں رائج سودی قوانین کو اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں واضح طور پر دستور کے منافی قرار دیے جانے کے باوجود ان سے پیچھا چھڑانے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ جبکہ سودی معیشت کے پیدا کردہ معاشی تفاوت اور اقتصادی لوٹ کھسوٹ نے ملک کے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ مگر گزشتہ دو عشروں سے ہماری عدالتوں میں سودی قوانین کے حوالہ سے آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری ہے اور ہم سود کو لعنت قرار دیتے ہوئے بھی اس کا جوا اپنی گردن سے اتارنے کے لیے عملاً تیار نہیں ہیں۔
کرپشن اور سودی نظام ہماری معاشی بیماریوں اور مشکلات کی اصل جڑ ہیں لیکن قومی سیاست کے ماحول میں کرپشن سے نجات حاصل کرنے کے لیے جو آوازیں اٹھ رہی ہیں ان کے ساتھ سودی نظام کی خباثتوں کو شامل کرنے سے خدا جانے کیوں گریز کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو سودی نظام کی تباہ کاریاں کرپشن کی ہلاکت خیزیوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں، لیکن سب کچھ جانتے ہوئے ہمارے بہت سے سیاستدان سودی نظام کے بارے میں کلمۂ حق کہنے میں حجاب محسوس کرتے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں سودی نظام سے متعلقہ تمام امور اور مباحث بار بار زیر بحث آچکے ہیں اور ان کے بارے میں ماہرین کی آراء کے علاوہ ملک کی رائے عامہ کے حوالہ سے یہ رپورٹ بھی سب کے سامنے ہے کہ اٹھانوے فیصد عوام سودی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس لیے انہی مباحث کو پھر سے موضوع بحث بنانے اور بنائے رکھنے کی کوئی وجہ اس کے سوا سمجھ نہیں آرہی کہ کسی طرح مزید وقت گزر جائے اور سودی نظام کی خونخوار جونکوں کو قومی معیشت کا خون زیادہ سے زیادہ چوس لینے کا موقع فراہم ہو جائے۔
ہم عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو عدالتی پراسیس کے حوالہ سے درست سمجھ لیتے ہیں لیکن ایک بات کی طرف توجہ دلانا ضروری خیال کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی لعنت کو عام دستوری اور قانونی ذرائع سے کنٹرول کرنے میں کامیابی نہ پا کر اس کے لیے ایمرجنسی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے جسے بظاہر قومی سطح پر قبول کر لیا گیا ہے۔ جبکہ اس طریقہ کار کے تحت کیے جانے والے اقدامات کا بڑ حصہ عام قانونی اور عدالتی پراسیس سے بالاتر دکھائی دیتا ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ اس سے متفق ہے تو ہمیں بھی اس پر اعتراض نہیں ہے۔ لیکن جس طرح عسکری دہشت گردی ملک کے لیے تباہ کن ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے خصوصی اقدامات اور طریق کار کو ضروری سمجھا گیا ہے اسی طرح سودی نظام بھی ’’معاشی دہشت گردی‘‘ سے کم نہیں ہے جس کے نقصانات اور تباہ کاریاں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ اس لیے اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی خصوصی اقدامات اور طریق کار کی ضرورت ہے جس کے بغیر نہ تو قومی معیشت کو سنبھالا دینے کی کوئی صورت نظر آتی ہے اور نہ ہی کرپشن کے خاتمہ کی مہم میں کامیابی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
ملک کے معاشی نظام کو صحیح خطوط پر استوار کرنا ہے اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو اس کے لیے دیگر ضروری اقدامات کے علاوہ سودی نظام کا خاتمہ بھی اس کا ناگزیر تقاضا ہے جس سے ہمارے قومی اداروں کو صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن و سنت کے معاشی قوانین، غیر سودی معیشت اور خلافت راشدہ کی طرز کی رفاہی ریاست ہماری اصل قومی ضروریات ہیں جو سودی نظام و قوانین کے ماحول سے نکل کر ہی پوری کی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ دستور کی محافظ اور اس پر عملدرآمد کی نگرانی عدالت عظمیٰ سے ہم یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں ’’روٹین ورک‘‘ سے ہٹ کر بھی اس مسئلہ کا جائزہ لے گی اور قوم کو سودی نظام کی لعنت سے نکالنے کے لیے کردار ادا کرے گی۔
اسلامی نظریاتی کونسل اور جہاد سے متعلق عصری سوالات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
گزشتہ ماہ کی انتیس تاریخ کو اسلام آباد میں اسلامی نظریاتی کونسل کے زیراہتمام منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس کا عنوان تھا ’’اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جہاد کی تعریف، قوت نافذہ اور اس کے بنیادی عناصر‘‘۔ کانفرنس کی دوسری نشست میں کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی زیرصدارت کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا خلاصہ نذر قارئین کرنے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی سرگرمیوں کے حوالہ سے چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
اسلامی نظریاتی کونسل ایک دستوری ادارہ ہے جس کا بنیادی مقصد حکومت اور پارلیمنٹ کو رائج الوقت اور مجوزہ قوانین کے حوالہ سے شرعی راہ نمائی فراہم کرنا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ دستوری طور پر اس بات کی پابند ہے کہ وہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنا سکتی اور اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تمام رائج الوقت قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنائے۔ جبکہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے قرآن و سنت کے ضروری علوم سے آگاہی کی کوئی شرط دستور میں موجود نہیں ہے اس لیے دستور پاکستان میں ایک مستقل ادارہ کی ضرورت محسوس کی گئی اور اس مقصد کے لیے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ تشکیل دی گئی تاکہ پارلیمنٹ اور حکومت قوانین کے قرآن و سنت کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اس سے راہنمائی حاصل کر سکیں۔
اس کونسل میں مختلف مکاتب فکر کے جید علماء کرام کے ساتھ ساتھ ممتاز ماہرین قانون بھی شامل ہوتے ہیں اور اس ادارہ نے اس سلسلہ میں اب تک جو کام کیا ہے اس کے وقیع اور معتبر ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ملک میں نظام اسلام کے نفاذ کے خواہاں کم و بیش تمام حلقے اس امر پر متفق ہیں کہ ملکی قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے اب تک کی جانے والی سفارشات کو دستور کے مطابق وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کر کے ان کی روشنی میں قانون سازی کر لی جائے تو پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا تقریباً نوے فیصد کام مکمل ہو جاتا ہے۔ مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ کونسل کی بیشتر سفارشات حکومت کے سرد خانے میں پڑی ہیں اور انہیں متعلقہ اسمبلیوں میں زیربحث لانے سے مسلسل گریز کیا جا رہا ہے۔ بلکہ سیکولر حلقوں کی طرف سے سرے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی افادیت و ضرورت کو ہی مشکوک بنانے کی مہم جاری ہے اور اسے منفی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان حالات میں کونسل کے موجودہ چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اس بات کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل متحرک رہے اور مختلف حوالوں سے حکومت کو نفاذ اسلام کے سلسلہ میں اس کی دستوری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتی رہے۔ مولانا شیرانی کی بعض آراء سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کا یہ جذبہ اور محنت بہرحال قابل قدر اور لائق تحسین ہے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کو اس کے دستوری کردار کے دائرہ میں متحرک رکھے ہوئے ہیں۔
آج کل مولانا شیرانی اس امر کے لیے کوشاں ہیں جس پر انہوں نے مذکورہ بالا کانفرنس میں بھی تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا کہ جہاد اور دہشت گردی کو جس طرح عالمی ماحول میں گڈمڈ کر دیا گیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں اسلامی تعلیمات اور جہاد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور اسلامی تعلیمات کی رو سے جہاد کے اصل مفہوم اور دائرہ کار کے ساتھ ساتھ اس کی اتھارٹی اور قوت نافذہ کو دلائل کے ساتھ واضح کرنا علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔ اس عمل میں اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے آئین کے آرٹیکل 320 کی ذیلی دفعہ (الف) کا یہ پیرا پیش کیا کہ:
’’مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا جس سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب اور امداد ملے جن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے۔‘‘
دستور پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے اس کردار کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی یہ خواہش اور کوشش رہتی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل مسلسل متحرک رہے اور حکومت اور عوام دونوں کی علمی و عملی راہ نمائی کرے۔ اس پس منظر میں جہاد کی تعریف اور دیگر متعلقہ امور کے حوالہ سے مذکورہ بالا کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کی جس نشست میں مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی اس میں مولانا مفتی محمد زاہد، ڈاکٹر محسن نقوی، ڈاکٹر خورشید احمد، مولانا شیرانی اور دیگر حضرات نے بھی خطاب کیا۔
راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
- قرآن کریم نے قتال کا لفظ تو ہتھیار کی جنگ کے لیے ہی استعمال کیا ہے مگر جہاد کے لفظ میں عموم ہے۔ قرآن کریم نے جہاد بالنفس کے ساتھ جہاد بالمال کا ذکر کیا ہے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’جہاد باللسان‘‘ کو بھی اس کے ساتھ شامل کیا ہے۔ بلکہ غزوۂ احزاب کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح اعلان فرمایا تھا کہ اب قریش ہمارے مقابلہ میں ہتھیار لے کر نہیں آئیں گے بلکہ زبان کی جنگ لڑیں گے اور شعر و خطابت کے میدان میں جوہر دکھائیں گے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت ثابت بن قیسؓ جیسے نامور خطباء اور شعراء نے جہاد باللسان کا یہ معرکہ سر کیا۔
- جہاد کا ہدف کیا ہے؟ اس کے بارے میں بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا یہ ارشاد ہماری راہ نمائی کرتا ہے کہ جہاد کا مقصد کسی کو زبردستی مسلمان بنانا نہیں بلکہ اسلام کی پر امن دعوت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ چنانچہ جہاد اسلام قبول کروانے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے فروغ میں رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے ہے۔ جبکہ میرا طالب علمانہ خیال یہ ہے کہ مغرب نے اپنے سسٹم اور کلچر کو درپیش خطرہ سے نمٹنے کے لیے پیشگی حملہ کا جو طریق کار اختیار کیا ہے اور جسے ’’کونڈولیزا رائس کی تھیوری‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ بھی شاید اسی نوعیت کا ہے۔
- جہاد کا طریق کار اور ہتھیار وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اس لیے جہاد کے بارے میں کتابوں میں موجود راہ نمائی سے استفادہ کرتے ہوئے ہر زمانہ میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق جہاد کے ہتھیار اور حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ’’صلوٰۃ الخوف‘‘ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے لیکن آج کے جنگی ماحول میں اس کو عملاً اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ آج کے حالات میں جہاد کی سطح، دائرہ، حکمت عملی اور ہتھیاروں کا انتخاب آج کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ہی کیا جائے۔
قانون اور حقوق نسواں
محمد دین جوہر
دو انسانوں کے درمیان ہر رشتے کے صرف دو ہی سرے نہیں ہوتے، بلکہ تین کونے ہوتے ہیں۔ تیسرے کونے پر اگر خدا ہو تو وہ رشتہ اخلاقی ہوتا ہے اور اگر ریاست ہو تو وہ رشتہ قانونی ہوتا ہے۔ قانونی ہوتے ہی انسانی رشتے کا ہر طرح کی اقدار سے تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ کوئی انسانی رشتہ بیک وقت قانونی اور اخلاقی نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔ اخلاقی رشتوں کا اصل دائرہ خونی رشتے اور ہمسائیگی ہے۔ اچھی معاشرت انہی اخلاقی رشتوں سے وجود میں آتی ہے۔ اگر سارے انسانی رشتے قانونی ہو جائیں تو معاشرت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اخلاقیات معاشرے کا مسئلہ ہے اور قانون ریاست کا۔ ریاست گلی اور گھر کے دروازے تک پھیلی ہوتی ہے اور اگر ریاست بیڈ روم میں بھی آ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اخلاقی معاشرہ ختم ہو گیا ہے اور قانونی معاشرہ قائم ہو گیا ہے۔ قانونی معاشرے میں انسانی رشتے مزاج اور مفاد کے تابع، اخلاق سے لاتعلق اور شائستگی سے پْر ہوتے ہیں۔ اخلاقی معاشرے میں ہر وقت نگہداری کی ضرورت نہیں ہوتی، اور اقدار اور کردار اہم ہوتے ہیں۔ قانونی معاشرے میں ’’ریاستی نظر‘‘ مسلسل اور مستقل ہوتی ہے، اخلاقی کردار غیر اہم، اور عوامی ساکھ اہم ہوتی ہے۔
حال ہی میں حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے ایک قانون بنایا گیا ہے۔ اس طرح انیسویں صدی کے اوائل سے ہمارے لیے بننے والے جدید قوانین کی طویل فہرست میں ایک اور کا اضافہ ہوا ہے۔ حقوق بھلے عورتوں کے ہوں بھلے مردوں کے، ان کی حفاظت کے لیے قانون سازی ایک خوش آئند امر ہے۔ لیکن جدید قانون سازی صرف حقوق کے تحفظ کا نام نہیں ہے۔ جدید قانون سازی انسان کے نئے حقوق بناتی ہے، یعنی گھڑتی ہے، اور پھر ان نئے حقوق کو طاقت سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ جدید حقوق انسان کے لیے نہیں ہوتے بلکہ انسان حقوق کے لیے ہوتا ہے۔ جدید ریاست کے عطا کردہ حقوقِ انسانی ایک سانچہ ہیں جن میں عام آدمی کو ڈھال کر شہری بنایا جاتا ہے۔ چیزوں کے نئے نئے ماڈلوں کے ساتھ حقوق کے بھی نئے نئے ماڈل سامنے آتے رہتے ہیں۔ نئے انسانی حقوق طاقت سے پیدا ہوتے ہیں، اقدار سے پیدا نہیں ہوتے۔ جدید معاشروں میں نئے سماجی رشتے پیدا کرنے کے لیے نئے حقوق بنائے جاتے ہیں اور ان کو طاقت سے نافذ کیا جاتا ہے۔ یہ کام بنیادی طور معاشی نظام کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔
مغربی معاشرے میں جدید قانون سازی کا مقصد انسانی حقوق کا تحفظ نہیں تھا، بلکہ مذہب اور مذہبی اخلاقیات کے طے کردہ انسانی اور سماجی رشتوں کا خاتمہ اور نئے انسانی رشتوں کا نفاذ تھا۔ جدید قانون سازی سے ایسے نئے انسانی رشتوں کا تصور سامنے آیا جو سرمایہ داری نظام کے لیے مفید تھے۔ کنبے کا باقی رہنا ہر ہر صورت میں سرمایہ داری نظام کے پیداواری رشتوں کے قطعی خلاف تھا۔ سرمایہ داری نظام کی ضرورت تھی کہ معاشرے میں انسان فرد فرد ہو جائے تاکہ اس کا شکار آسانی سے کیا جا سکے۔ ایک دوسرے سے جڑا ہوا انسان سرمایہ داری نظام کو ہرگز قابل قبول نہیں ہوتا۔ سرمایہ داری نظام کا معاشی اصول ہے: ’’ایک نوکری ایک پیٹ‘‘۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے موثر قانون سازی ہے۔ قانون سازی کرتے ہوئے ریاست کے کان اور دھیان سرمائے کی طرف اور نظر لوگوں پر ہوتی ہے۔ قانون سرمائے کے معاشی دباؤ اور ریاستی طاقت کو یک جا کر دیتا ہے اور اس طرح ایک ایسا بلڈوزر بنتا ہے جس کے سامنے ہمالیہ بھی ریت کا ڈھیلا ہے۔ جدید قوانین کی مدد سے مغربی معاشرے میں کنبے کو بالکل ہی مسمار کر دیا گیا اور معاشرہ ریاست میں ضم ہو گیا۔
مغرب میں حقوق نسواں کے لیے جتنی بھی قانون سازی کی گئی اس کا مقصد ازدواجی زندگی کا خاتمہ تھا۔ اگر پائیدار ازدواجی زندگی کا خاتمہ ہو جائے تو کنبہ از خود ختم ہو جاتا ہے، اور تمام انسانی رشتے قانونی ہو جاتے ہیں۔ اس ’’کارنامے‘‘ سے پورے معاشرے کے سماجی رشتے بدل جاتے ہیں، اور معاشرہ ریاست کا جزو بن جاتا ہے۔ اور مذہب کی جگہ ازخود ختم ہو جاتی ہے۔ شادی دو چیزوں کا نام ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ شادی نبھانی ہو تو اخلاقی ہے، توڑنی ہو تو قانونی ہے۔ مذہبی معاشرہ اول پہلو پر زور دیتا ہے اور جدید سوسائٹی دوسرے پہلو کو اہم سجھتی ہے۔ ازدواجی معاہدے میں قانون سویا رہتا ہے اور شادی توڑنے کے وقت بیدار ہوتا ہے۔ معاشرے کے جن طبقات میں شادیاں ابھی چل رہی ہیں وہاں اخلاقی شعور غالب ہے اور شادیوں کے ملبے سے جہاں سوسائٹی بن گئی ہے وہاں ہر وقت حقوق اور قانون کی شقوں پر زور ہوتا ہے۔ اگر ازدواجی قانون سازی وافر ہو جائے تو یہ ادارہ ہی ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ مغرب میں ہوا ہے۔ مغرب میں ازدواجی قانون سازی اس قدر ہے کہ شادی میں اخلاقی رشتے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ اب بچے پیدا کرنے اور ان کی کفالت کے لیے عورت کو شادی کی ضرورت نہیں اور نہ وہ مرد کی طرف دیکھنے کی محتاج ہے۔ اگر خوش طبعی کے لیے عورت مرد شادی کر لیں تو ان کی مرضی، لیکن یہ ضروری نہیں رہی۔ یہ ترقیاتی کامیابی مغربی معاشرے نے ازدواجی قانون سازی کے ذریعے سے ہی حاصل کی ہے اور اس میں اولاد اور والدین کا رشتہ بھی فنا ہو گیا ہے۔
ہمارے مولوی صاحبان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جدید دنیا میں قانون سازی سرمایے کی سڑک بنانے کا اسٹیم رولر ہے۔ نسوانی حقوق اور ازدواجی قوانین کا بنیادی مقصد ہی کنبے کا خاتمہ تھا جس میں کامیابی اب مکمل ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں معاشرے مغربی ہوئے ہیں، وہاں بھی کنبے کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہے۔ جدید ریاست کی قانون سازی مذہب کے مطابق یا خلاف نہیں ہوتی۔ یہ مولوی صاحبان کی نہایت ہی بڑی خوش فہمی اور غلط فہمی ہے کہ جدید ریاست مذہب کے ’’خلاف‘‘ کوئی قانون پاس کرتی ہے۔ یعنی مولوی صاحبان یہ سمجھتے ہیں کہ جدید ریاست مذہب کو کوئی اہمیت دیتی ہے، اس لیے وہ اس کے ’’خلاف‘‘ قانون بناتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جدید سیکولر ریاست مذہب کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتی کہ اس کے ’’خلاف‘‘ قانون بنانے پر وقت ضائع کرے۔ جدید قانون سازی معاشرے کو ریاست میں ضم کرنے کے لیے ہوتی ہے اور ضمناً مذہب از خود ختم ہو جاتا ہے۔
ہمارے علما قانون سازی میں مذہبی اور غیر مذہبی کی بحث اٹھا کر اصل چیزوں سے توجہ ہٹا دیتے ہیں اور اس طرح وہ عین انہی قوتوں کو مضبوط کرتے ہیں جو مذہب کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ ہمارے علما نے اس نئے قانون سے جو غیر مذہبی پہلو نکالا ہے، وہ نہایت مضحکہ خیز ہے۔ جدید ریاست مذہب کا ازحد احترام کرتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے وہ دہریت یا ہم جنس پرستی یا کلچر وغیرہ کا بھی ازحد احترام کرتی ہے۔ وہ قانون سازی کرتے وقت مذہب سے چھیڑ چھاڑ میں وقت ضائع نہیں کرتی۔ دراصل مذہب کے نمائندے نہایت نادان لوگ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نعرے سے کام چل جائے گا۔ نعرہ سنتے ہی جدید ریاست اپنی حکمت عملی تبدیل کر لیتی ہے، ایجنڈا تبدیل نہیں کرتی، اور وہ قانون سازی سے اس زمین ہی کو ختم کر دیتی ہے جہاں مذہب کا شجر اگتا ہے۔ مذہب کا شجر انسانی معاشرے میں اگتا ہے۔ معاشی قوتوں کی مدد سے جدید قانون سازی معاشرے کو سول سوسائٹی بنا دیتی ہے، اور اس طرح مذہب کا ٹنٹا ہی نکل جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس قانون کی چند شقوں کے رد و بدل سے اگر مذہبی طبقے کو خوش کر بھی دیا جائے تو وہ اس معاشی دباؤ کا کیا علاج تجویز فرمائیں گے جو کنبے کو تیزی سے ختم کر رہا ہے؟ ایسا سرمایہ دارانہ نظام جو کنبے ہی کو مٹائے جا رہا ہے کیا وہ تبدیل شدہ قانون کے بعد ’’اسلامی‘‘ قرار پائے گا؟ طاقت دراصل کینگرو کی طرح ہوتی ہے اور قانون اس کی جھولی کا بچہ۔ ہمارے علما کی گہری بصیرت یہ کہتی ہے کہ طاقت کے کینگرو سے بکری کا بچہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے مولانا حضرات قانون کی بہت بات کرتے ہیں، لیکن جو طاقت قانون بناتی ہے، اور جس معاشی قوت کو راستہ دینے کے لیے قانون بنایا جاتا ہے، ان کے بارے میں وہ کچھ کہنے کے روادار نہیں۔ بڑے امام صاحب کے ایک مشہور قول کا عین یہی مطلب ہے کہ سیاسی طاقت اور قانون کا یک منبع، یک استناد اور یک ہدف ہونا لازم ہے۔ اسلامی قانون کی موٹی موٹی شقیں ان پڑھ آدمی کو بھی معلوم ہوتی ہیں، اس کے لیے عالم ہونا ضروری نہیں۔ ضروری یہ ہے کہ جدید سیاسی اور معاشی طاقت کے نظام کو سمجھنے کے وسائل بھی فراہم کیے جائیں، اور قانون سے اس کا تعلق واضح کیا جائے۔ مذہبی قوانین کی بات اس تجزیے کے بعد ہی بامعنی ہو سکتی ہے۔
اگر ہم مذہب کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں عادلانہ سیاسی اور معاشی نظام کی بات پہلے کرنا ہو گی اور قانون کے بارے میں وعظ کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کرنا پڑے گا۔ قانون ایک ذیلی اور ضمنی چیز ہے، کیونکہ جیسی سیاسی اور معاشی قوت ہوتی ہے، ویسا ہی قانون بناتی ہے۔ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہٹلر، سٹالن، بش اور بلیر کی ریاست اگر حدود و تعزیرات کو نافذ کر دے تو کیا شرعی عدل کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں؟
خواتین کے تحفظ کا بل ۔ اصل مسئلہ اور حل
محمد زاہد صدیق مغل
پنجاب اسمبلی میں "خواتین کے تحفظ" کے نام پر جو نیا قانون پاس کیا گیا ہے اسے لے کر ہمارے یہاں کہ مذہب پسند اور لبرل طبقات میں فکری بحث و مباحثہ اور سیاسی رسہ کشی جاری ہے۔ اس قانون کی حمایت کرنے والوں کے خیال میں اس بل سے نہ صرف یہ کہ خواتین کو مردوں کے تشدد سے تحفظ فراہم ہوگا بلکہ خواتین کی ترقی میں بھی پیش قدمی ہوگی (جیسا کہ کچھ سیاسی احباب نے اسے خواتین کی ترقی کا بل قرار دیا ہے)۔ یہاں اختصار کے ساتھ ہم ان مفروضات کا ذکر کریں گے جن کی بنا پر یہ بل ہمارے سماجی حقائق کے ساتھ مطابقت اور ہماری تہذیبی اقدار کے تحفظ کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ بل میں چونکہ نفس مسئلہ کی تشخیص ہی غلط کی گئی ہے لہذا اس کا نہایت غیر متعلق حل پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک متبادل تجویز بھی پیش کی جائے گی۔
خواتین کے تحفظ کا یہ بل پیش کرنے والوں کے دو مفروضے ہیں: (1) مار کھانے والی تمام خواتین یورپی خواتین کی طرح معاشی و سماجی طور پر خود مختار ہیں، یعنی شوہر کے خلاف اس قسم کی قانونی کاروائی کا فیصلہ کرنے اور پھر اس فیصلے کے سماجی نتائج بھگتنے کے لئے خود مختار اور تیار ہیں، (2) جو مرد اس قدر سفاک ہے کہ اپنی بیوی کو بری طرح مارتا ہے، بیوی کی طرف سے پولیس کے حوالے کئے جانے کے بعد وہ بیوی کو خوشی سے گھر میں بسا کر رکھے گا، اور اگر طلاق دے کر فارغ کردے گا، جو تقریبا یقیناًکردے گا، تو ریاست ایسی بے سہارا خواتین کو کھچا کھچ دارالامان میں بھرتی کرلیا کرے گی۔ گویا یوں ایک بیوی کو ایک محفوظ اور باوقار زندگی میسر آجائے گی۔ دھیان رہے، یہ دارالامان عوام کے ٹیکسوں سے چلائے جائیں گے۔ یہ ادارے کیسے "چلتے" اور "چلائے جاتے" ہیں یہ امر بھی اہل نظر پر کچھ مخفی نہیں۔
اہم تر سوال یہ ہے کہ کیا اس سب سے ایک "بیوی" محفوظ ہوگی یا برباد؟ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ قانون ایک "بیوی" کا تحفظ کرنے میں ناکام رہتا ہے؟ درحقیقت اس قسم کے ترمیمی بل جہاں ایک طرف مقامی زمینی حقائق اور معاشرتی اقدار سے سہو نظر کرکے مغربی طرز کے معاشروں کی نقالی پر مبنی ہوتے ہیں، دوسری طرف انہیں وضع کرتے وقت ان فلسفیانہ فکری مفروضات سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جو اس قسم کے قوانین کے پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ مغرب میں نافذ العمل یہ قوانین "ہیومن رائٹس" کی ایک مخصوص فلسفیانہ تشریح پر مبنی ہیں۔ حقوق کی تفصیلات طے کرنے کا یہ مخصوص قانونی فریم ورک انسان کو تعلقات کی ایک اکائی کے طور پر نہیں بلکہ ایک "قائم بالذات مجرد فرد" کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ مجرد فرد خود کو صرف ایک ایسی ذات کے طور پر پہچانتا ہے جو اپنی ذاتی آزادی میں بے پناہ اضافے کا خواہاں ہوتا ہے۔ چنانچہ ہیومن رائٹس فریم ورک کی کمٹمنٹ کسی بھی سماجی اکائی کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتی (سوائے سرمایہ دارانہ مارکیٹ کے، البتہ یہ ایک الگ موضوع ہے)، یہ فریم ورک صرف "ہیومن" (بطور مجرد فرد) کے حقوق کو ڈیفائن کرنے اور ان کا تحفظ کرنے کی یقین دھانی کراتا ہے۔ یہ فریم ورک فرد کو میاں بیوی، ماں باپ، بیٹا بیٹی جیسی شناختوں میں پہچاننے، ان کے حقوق متعین کرنے اور ان کا تحفظ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ چنانچہ "تحفظ خواتین بل" اس رویے کی ایک تازہ ترین مثال ہے جسے اس امر میں تو دلچسپی ہے کہ "عورت بطور ایک فرد" کا تحفظ کیسے ممکن ہے، مگر یہ اس سوال سے کلیتاً سہو نظر کرتاہے کہ کیا اس میں ایک "بیوی" کا تحفظ بھی ہے؟
مذہبی حلقوں کا اس قانون یہی بنیادی اعتراض ہے کہ آخر اس قانون سے ایک بیوی محفوظ ہوگی یا برباد؟ اور نتیجتا کیا خاندان کی اکائی مضبوط ہوگی یا کمزور؟ اس بل کے حامیوں کو اس اہم ترین سوال کے جواب سے کوئی غرض نہیں۔ تاریخ کا سفر یہ بتاتا ہے کہ ہیومن رائٹس فریم ورک سے ماخوذ یہ قوانین بیوی وشوہر جیسے رشتوں کو معدوم کرکے خاندان کی اکائی کو نیست و نابود کردیتے ہیں اور بالاخر "اکیلا فرد" باقی بچ رہتا ہے۔ یہ بنیادی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام "مرد و عورت کے حقوق" نامی عنوان باندھ کر کسی کو حقوق نہیں دیتا، ہر کسی کو جو بھی حقوق دئیے گئے ہیں وہ ان "مخصوص تعلقات" سے وجود میں آنے والی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے عطا کیے گئے ہیں جنہیں اسلام مطلوبہ معاشرتی تعلقات کے طور پر دیکھتا ہے۔ چنانچہ معاشرتی حقوق کی بنیاد شوھر، باپ، بیوی و ماں وغیرہ ہونا ہے، نہ کہ مجرد مرد یا عورت ہونا۔ جو علمی فریم ورک تعلقات کی ان جاحت سے سہو نظر کرتے ہوئے مرد و عورت کو مجرد حیثیت میں حقوق دینے پر اصرار کرتا ہے، وہ لازماً ان تعلقات کو نیست و نابود کردیتا ہے کیونکہ اس فریم ورک میں حقوق کی تفصیلات ان مخصوص ذمہ داریوں کی ادائیگی کے تناظر میں طے ہی نہیں کی جاتیں جو ان تعلقات کی بقا کی ضامن ہو۔ حقوق بذات خود مطلوب نہیں ہوتے بلکہ مخصوص فرائض کی ادائیگی کے لیے عطا کیے جاتے ہیں۔ اگر فرائض کا تصور مختلف ہوگا تو حقوق کی تفصیلات بھی مختلف ہوگی، اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔
اب رہا یہ سوال کہ اس قسم کے گھریلو تشدد کو کیسے ختم کیا جائے، تو اس کا جواب ہے گھریلو تعلقات کے نگران افراد اور اداروں کو مؤثر بنا کر۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا خدشہ ہو تو دونوں کی طرف سے حکم مقرر کرو جو ان کے مابین صلح کی کوشش کریں۔ چنانچہ خواتین پر تشدد کو ختم کرنے کے لیے "حکم کے ادارے" کو مؤثر بنانے کے لئے قانون سازی اور کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل نوعیت کے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں:
- قانونی مداخلت کا بنیادی مقصد "عورت بطور فرد" نہیں بلکہ ایک "بیوی" کو تشدد سے تحفظ دیناہے ۔
- تشدد کی روک تھام میں پولیس کی مداخلت کم از کم ہونی چاہیے۔ شکایات کے ازالے کے لیے ایسے سماجی افراد، تعلقات اور اداروں پر انحصار کرنا چاہیے جو سماجی و نفسیاتی اعتبار سے قابل قدر و لحاظ سمجھے جاتے ہیں ۔
- اس کے لیے نکاح رجسٹرار اور قاضی کے کردار کو قانونی طور پر مؤثر بنایا جائے، یعنی پولیس کے بجائے نکاح رجسٹرار کے پاس شکایت درج کرائی جائے۔ نکاح رجسٹرار کو جب کوئی شکایت موصول ہو تو بجائے اس کے کہ بیوی ازخود شوہر کو گھر سے نکال دے یا پولیس اسے جیل بھیج دے، نکاح رجسٹرار و قاضی دونوں طرف کے ذمہ داروں (حکمین) کو معاملے میں شامل کرکے مسئلہ حل کرانے کا پابند ہو۔
- اس سلسلے میں فریقین کو تھانے کے بجائے مقامی مسجد یا مدرسے میں بلایا جائے اور امام صاحب کے روبرو اور ان کی زیر نگرانی کاروائی کی جائے ۔
- متعلقہ مرد اور خاتون دونوں کو کچھ عرصے کے لیے مسجد و مدرسے کے امام و مہتمم صاحب کی زیر نگرانی تعلیم و تربیت کا پابند بنایا جائے یعنی مرد اور خاتون دونوں ان تعلیمی و تربیتی نشستوں میں شامل ہونے کے پابند ہوں ۔
- اگر مرد اس پورے عمل میں تعاون نہ کرے تو نکاح رجسٹرار اس تعاون کو ممکن بنانے کے لیے حسب ضرورت و حکمت پولیس کی مدد لے سکتا ہو ۔
الغرض مداخلت کا مقصد گھریلو مسائل کا ایسا حل تلاش کرنا ہونا چاہئے جو گھر کی اکائی کو برقرار رکھتے ہوئے مسئلے کو حل کرسکے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ان مسائل کے حل کے لیے سماجی طور پر معتبر سمجھے جانے والے افراد اور اداروں کو مؤثر طور پر شامل معاملہ کیا جائے۔ میاں بیوی کا تعلق کارخانے دار اور مزدور کا نہیں کہ آج ایک کارخانے دار تو کل دوسرا، یہ محبت و خلوص پر مبنی عمر بھر ساتھ نبھانے کا بندھن ہے اور انہی کے فروغ میں اس کی بقا ہے۔حکم کا مؤثر کردار اور تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام ہی وہ راستہ ہے جو فی الواقع ہمارے یہاں ایک بیوی کو شوہر کے تشدد سے نجات دلا سکتا ہے۔ عورت کی پٹائی بنیادی طور پر پیٹنے والے اور مار کھاتی بیٹی و بہن کا ساتھ نہ دینے والے مردوں کی کمزوری و تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جس بدقسمت بیوی کو اس کا باپ، بھائی، بیٹا، شوہر اور دیگر خاندانی تعلقات مرد کی پٹائی سے نہیں بچا سکتے، مغربی اقوام کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ خواتین کے تحفظ جیسے حالیہ بل زیادہ دور اور دیر تک اس کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اس نوعیت کے تمام تر قوانین کے باوجود مغرب میں 50 فیصد سے زائد "خواتین " آج بھی مردوں کے ہاتھوں سے پٹتی ہیں۔ ہمارے یہاں بھی یہ اپنی نوعیت کا کوئی اچھوتا بل نہیں جسے منظور کیا گیا ہو، اس طرح کے بل ماضی میں بھی منظور کیے گئے ہیں تا ہم عورت اسی طرح سے مظلوم ہے۔ اس پر سب سے بڑی دلیل پاکستان میں نشر ہونے والے دو درجن سے زائد وہ کرائم شوز ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس اور دیگر حکومتی اداروں کی سرپرستی میں ہی عورتوں کی خرید و فروخت ،جسم فروشی ،جبری زنا وغیرہ کا کام جاری و ساری ہے۔ اس خدشے کو بھی کلیتاً نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ منظور شدہ بل کے ذریعے مالی مفادات سمیٹنا مقصود ہو کیونکہ جس انداز سے نئے ادارے قائم ہوں گے، افراد کو بھرتی کیا جائے گا، ڈونرز سے چندے وصول کیے جائیں گے اس سب سے "اصل مسئلہ" حل ہو یا نہ ہو البتہ کچھ تحقیقی اداروں، این جی اوز اور سرکاری افریان کے مالی مسائل ضرور حل ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر ممتاز احمد اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کا سفر آخرت
مولانا سید متین احمد شاہ
ڈاکٹر ممتاز احمد کا سانحہ ارتحال
30 مارچ 2016 کو اسلامی یونی ورسٹی کے سابق صدر اور ادارہ اقبال براے تحقیق ومکالمہ (IRD) کے سربراہ ڈاکٹر ممتاز احمد انتقال کر گئے۔ آپ کی پیدائش 1942ء/ 1943ء میں گوجر خان ضلع راول پنڈی میں ہوئی۔گورنمنٹ ہائی سکول حضرو ضلع اٹک سے 1957ء میں میٹرک کیا اور گوجر خان سے انٹرمیڈیٹ کر کے کراچی چلے گئے اور جماعت اسلامی کے ادارے معارفِ اسلامی سے وابستہ ہو گئے۔ کراچی یونی ورسٹی سے بی اے اور ایم اے سیاسیات میں کیا۔1965ء میں سرکاری ادارے نیپا (NIPA) سے وابستہ ہوئے۔1969ء میں بیروت کی امریکی یونی ورسٹی سے یک سالہ وظیفہ ملا جہاں Islamic Attitude Towards Modernization کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ایم اے کیا۔ شکاگو یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا اور پھر زندگی کا زیادہ تر وقت امریکا ہی میں گزرا۔ کولمبیا کالج، شکاگو اسٹیٹ یونی ورسٹی اور ورجینیا کی ہمپٹن یونی ورسٹی میں تدریس کی خدمات سرانجام دیں۔ آپ اسلامی یونی ورسٹی کے صدر بھی رہے اور ادارہ اقبال براے تحقیق ومکالمہ (IRD) کے سربراہ بھی۔ مؤخر الذکر ذمے داری وہ آخر تک نبھاتے رہے۔ آخری عمر میں آپ کے گردے ناکارہ ہو گئے تھے اور یہی ان کا مرضِ وفات ثابت ہوا۔
ڈاکٹر ممتاز احمد ایک صاحبِ نظر دانش ور اور اردو وانگریزی میں یکساں مہارت کے ساتھ لکھنے والے باکمال مصنف تھے۔ آپ نے نو کتابیں اور کئی تحقیقی مقالات تحریر کیے جو عالمی سطح کے معیاری مجلات میں اشاعت پذیر ہوئے۔ آپ عالمی سیاسی مسائل اور دنیا کی فکری و علمی حرکیات سے باخبر رہنے والی شخصیت تھے۔ برصغیر پاک وہند میں دینی و عصری نظامِ تعلیم کے مسائل و مباحث پر آپ کی نظر گہری تھی۔ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری (جن کی وفات کا سانحہ بھی اس کے بعد جلد ہی پیش آگیا) نے ان کی وفات پر ایک تعزیتی جلسے میں کہا کہ اپنی وفات سے پہلے ڈاکٹر ممتاز احمد نے مغربی فکروفلسفے کے بعض اہم مباحث پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان پر ابھی تک توجہ نہیں ہو سکی ہے۔
اپنے اخلاق وخصائل میں وہ ایک پرجوش انسان تھے۔ جوہر قابل کی قدر دانی اور اپنے ماتحت کے ساتھ خوئے دل نوازی کا معاملہ ان کی اعلیٰ خوبیاں تھیں۔علما اور اہل دین سے محبت رکھنے والے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کا سفر آخرت
بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کو ڈاکٹر ممتاز احمد کی وفات کے بعد جلد ہی نامور اسکالر پروفیسر ایمریطس ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کی وفات (24اپریل 2016ء) کا سانحہ برداشت کرنا پڑا۔
آپ 27دسمبر 1932ء کو مولانا ظفر احمد انصاری کے گھر پیدا ہوئے جو قیامِ پاکستان اور تحریک آزادی کے ایک سرگرم کارکن تھے۔ تحریک کے صف اول کے قائدین قائد اعظم، نواب زادہ لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور سردار عبدالرب نشتر جیسے حضرات کے ساتھ آپ کے قریبی تعلقات تھے۔ تحریک پاکستان میں مولانااشرف علی تھانوی کے خلفا نے جو حصہ لیا تو جمعیت علمائے اسلام کی تشکیل وتاسیس میں مولانا ظفر احمد انصاری بھی شامل تھے۔ پاکستان بننے کے بعد قراردادِ مقاصد کی تسوید میں آپ کا مرکزی کردار تھا۔ اس کے علاوہ ملک وملت کی خدمت میں مولانا انصاری کئی کلیدی مناصب پر کام کرتے رہے۔
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کو اپنے باکمال والد کی خوبیوں کا حظ وافر عطا ہوا تھا۔ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت سے وابستہ رہے اور پروفیسر خورشید احمد، خرم جاہ مراد، ڈاکٹر اسرار احمد اور دیگر کئی لوگ آپ کے ہم عصر تھے۔ آپ نے جامعہ کراچی میں بھی تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم میں پی ایچ ڈی میکگل یونی ورسٹی مونٹریال کینیڈا سے 1966ء میں کیا۔ آپ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ The Early Development of Fiqh in Kufah with special reference to the works of Abu Yusuf and Shaybani (کوفہ میں فقہ کا ابتدائی ارتقا: ابو یوسف اور شیبانی کی تصانیف کا خصوصی مطالعہ) کے عنوان سے تھا۔ آپ نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز پرنسٹن یونی ورسٹی امریکا کے شعبہ مطالعاتِ شرقی میں وزٹنگ استادکی حیثیت سے کیا۔تب سے آپ نے کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ، یونی ورسٹی آف میلبورن آسٹریلیا، میکگل یونی ورسٹی کینیڈا، یونی ورسٹی آف شکاگو اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد جیسی بڑی بڑی یونی ورسٹیوں میں علومِ اسلامیہ اور تاریخ کے استاد کی حیثیت سے تدریسی فرائض سرانجام دیے۔ آپ انگریزی، اردو، عربی، فرانسیسی اور فارسی زبانوں پر قدرت رکھتے تھے۔
1988ء سے آپ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ یہاں آپ نے ادارے کے عالمی شہرت یافتہ مجلے Islamic Studies کی ادارت کا طویل عرصہ کام کیا اور اس کے معیار کو خوب سے خوب تر کی طرف لے جانے میں ان تھک محنت کی۔ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے رفقا کا کہنا ہے کہ بعض اوقات آپ نے کسی مقالے کے مسودے کو بیس مرتبہ نظر سے گزارنے کا جاں گداز کام بھی کیا ہے۔ اتنی محنت کے باوجود اگرچہ مقالہ جات مصنف ہی کے نام سے شائع ہوتے ہیں ، لیکن اس تزیین گلستاں میں مدیر کی محنت کی حیثیت باغباں کے جڑوں کو دیے گئے پانی کی سی ہوتی ہے جو نظر تو نہیں آتا، لیکن درختوں کی ہریالی اور اس کے شگفتہ پھولوں کی خوشبو اسی باغباں کے خونِ جگر کی مرہونِ احسان ہوتی ہے۔ اس مجلے کی ادارت کے علاوہ آپ دنیا میں کئی تحقیقی مجلات کے مشاورتی بورڈ کے بھی رکن تھے۔ آپ کا سب سے قابل قدر کام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔
UNESCO نے ایک اسلامی انسائیکلوپیڈیا کا منصوبہ چھے جلدوں میں شروع کیا جس کی پہلی جلد The Foundations of Islam کے آپ شریک مدیر تھے اور اپنی وفات سے چند مہینے پہلے اسے مکمل کیا۔ کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر مظفر اقبال Brill کے Encyclopedia of the Quran کے جواب میں مسلم نقطہ نظر سے Integrated Encyclopedia of the Quran کی اشاعت کا کام کر رہے ہیں جس میں پوری مسلم دنیا کے اعلیٰ سطح کے اہل علم شریک ہیں۔ ڈاکٹر انصاری بھی اس پراجیکٹ کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ انگریزی میں آپ کی کئی کتابیں اور اعلیٰ سطح کے علمی مقالات یادگار ہیں۔ ان مقالات کا تین جلدوں پر مشتمل ایک مجموعہ ادارہ اقبال براے تحقیق ومکالمہ (IRD) (اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد) سے اشاعت کے مراحل میں ہے۔ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی سے وابستگی کے دوران میں آپ نے انگریزی میں کئی علمی کتابیں شائع کروائیں جو اپنے موضوعات پر عمدہ حوالے کا درجہ رکھتی ہیں۔
اپنے اعلیٰ ترین علمی کمالات کے باوجود ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری شفقت اور تواضع کا ایک ایسا مجسمہ تھے جس کی نظیر اب رخِ زیبا کا چراغ جلا کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ اپنے رفقا کی عزت، ان کی علمی اور فکری تربیت کی غرض سے مطالعے کے لیے علمی کتابوں کی تجویز، لکھنے کے لیے موضوعات کی نشان دہی، چھوٹے سے کام پر بلند الفاظ میں حوصلہ افزائی جیسی خوبیاں ہر اس انسان کی یادداشت کا عمدہ سرمایہ ہے جسے ڈاکٹر انصاری کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا تجربہ ہوا ہو۔ شدید پیرانہ سالی اور ضعف کے عالم میں بھی فیصل مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے تشریف لاتے تھے۔ بعض اوقات کسی معمولی مسئلے میں بھی احتیاط اور ورع کے پیش نظر اپنے رفقا سے فقہی مسئلہ جاننے کی کوشش کرتے تھے جس کی طرف عام افراد کی توجہ بھی نہیں جاتی۔
علم وتحقیق کے میدان میں قحط اور کم یابی بلکہ نایابی کے اس دور میں ڈاکٹر انصاری ایک ابر نیساں تھے۔ افسوس کہ یہ ابر برس کر اب ہمیشہ کے لیے تھم گیا۔
’’فقہائے احناف اور فہم حدیث۔ اصولی مباحث‘‘
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
حال ہی میں جناب پروفیسر عمار خان ناصر کی کتاب "فقہائے احناف اور فہمِ حدیث۔ اصولی مباحث" کتاب محل لاہور سے طبع ہوکر آئی ہے۔ کتاب اس کش مکش کو حل کرنے کی کوشش ہے جو برصغیر میں حنفی مدارس کے درسِ نظامی کے ہر ذہین طالب علم کو پیش آتی ہے کہ اگر صحاحِ ستہ کے اس ذخیرہ احادیث پر جو داخل نصاب ہے اور جن میں سے بعض کتب کو اَصح الکتب قرار دیا جاتا ہے، احکامِ شرعیہ کا مدار ہے تو حنفی فقہ کے حدیث سے مستنبط ہونے پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے اور اگر حنفی فقہ کی زیرِ تدریس کتب میں مذکور ادلہ مستند ہیں تو کیا عقل و قیاس کی اساس پر صحیح احادیث سے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے یا صحیح اور مستند ترین روایات پر دوسرے اور تیسرے درجے کی کتب احادیث کی روایات کو ترجیح دی جاسکتی ہے؟ اس کش مکش کے نتیجے میں یا تو فقہ حنفی کا یہ دعویٰ مخدوش معلوم ہونے لگتا ہے کہ اس کی بنیاد کتاب اللہ کے بعد سنت نبوی پر ہے یا یہ خیال پختہ ہونے لگتا ہے کہ احادیث کے اخذ و قبول میں حنفیہ مخصوص انتخابی رجحان کے حامل ہیں۔
اس کش مکش کا اصل سبب یہ ہے کہ مدارس میں داخل نصاب کتب احادیث کی تفہیم اور ان سے استدلال کے لیے جو اصولِ حدیث پڑھائے جاتے ہیں، وہ ان اصول سے مختلف ہیں جن کی اساس پر داخل نصاب کتب فقہ کی تدوین کی گئی ہے۔ اس تضاد کی وجہ سے طلبہ کے ذہن میں یہ تصور جاگزیں ہوجاتا ہے کہ حنفی فقہ اور احادیث میں یکسانی کا فقدان ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حنفی مدارس میں جو اصولِ حدیث کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، وہ حنفیہ کے نہیں بلکہ محدثین کے اصول بیان کرتی ہیں اور طلبہ موقوف علیہ اور دورہ حدیث کے دوران احادیث کو اْنہیں اصول پر پرکھنے کی مہارت بہم پہنچاتے ہیں۔ حنفیہ کے اصولِ حدیث مختلف ہیں لیکن وہ تدریس حدیث کے مقدمہ کے طور پر نہیں بلکہ اصولِ فقہ میں ضمناً پڑھائے جاتے ہیں اور ان کی مناسب تطبیقی مشق بھی نہیں کرائی جاتی۔ اگر اصولِ حدیث کی تدریس کے دوران صرف محدثین کے اصول پڑھانے کی بجائے حنفیہ اور محدثین دونوں کے اصول کی نہ صرف تدریس بلکہ مْقارنہ کرکے ثمرۂ اختلاف اور نتائج سے متعارف کروایاجائے تو یقیناًطلبہ ذہنی کش مکش میں مبتلا ہونے کی بجائے دورانِ تعلیم ہی یک سْو ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں مدارس میں حدیث کی تدریس کا انداز اس طرح کا اختیار کیا جاتا ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ایک صحیح حدیث کے مقابلے میں مناظرانہ جوابات کے انبار لگادیے گئے ہیں۔ ہر چند کے اساتذہ دورانِ بحث یہ باور کرتے ہوں گے کہ انہوں نے درجنوں اور بیسیوں جوابات قلم بند کروادیے ہیں، لیکن طلبہ کے ذہن سے یہ بات نہیں کھرچی جاسکتی کہ صحیح احادیث کو مصنوعی جوابات سے رد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس ساری صورت حال کا واحد سبب یہ ہے کہ مدارس میں حنفیہ کے اصولِ حدیث کی تدریس کا مستقلاً اہتمام نہیں ہے، ورنہ بلاشبہ جس طرح فقہ حنفی کی اساس باقی تمام مذاہبِ فقہیہ کی بہ نسبت زیادہ علمی، فکری، عملی اور بین الاقوامی رجحان کی حامل ہے، اسی طرح حنفیہ کے اصولِ حدیث اس نوعیت کے ہیں کہ تاریخ کے طویل ادوار کی منظّم تحریکیں اور حجیت سنت کے خلاف ہونے والی علمی اور فکری محاذ آرائی نے انہیں سرمو متاثر نہیں کیا۔
اکثر محدثین کے برعکس حنفیہ نے شروع ہی سے حدیث اور سنت میں واضح خطِ امتیاز کھینچ کر حدیث کو نہیں بلکہ سنت کو حجت قرار دیا اور سنت کی بنیاد اسناد و متون پر رکھنے کی بجائے تعامل اور تواتر عملی پر رکھی۔ نیز سنت میں تشریعی اور غیر تشریعی کی تقسیم کرتے ہوئے سنت کو کتاب اللہ کی تبیین و تفسیر قرار دیا۔ چنانچہ انہوں نے بجاطور پر یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ تشریعی سنن کا بیان اور ان کے مطابق سماج کی تشکیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی طرح فرضِ منصبی تھا جیسے تعلیم کتاب و حکمت۔ پس حنفیہ اور مالکیہ نے اپنے مذاہب فقہیہ کے لیے تقریباً سارہ ذخیرۂ سنن_متون اور ان کی معاشرتی تطبیق_ کھنگال کر اپنے مذاہب مدون کیے۔ یہی وجہ ہے کہ جن سنن کو اولین ائمہ مجتہدین نے اپنا مستدل قرار دے کر ان پر اپنے مذاہب کی بنیاد رکھی، بعد کے کسی مؤلف کی بیان کردہ اسناد کی اساس پر انہیں چیلنج کرنے کو اہل علم نے کبھی درست قرار نہیں دیا۔
اگرچہ محدثین نے احادیث کی جمع و تدوین اور ان کی ہر نوع کی جانچ پرکھ کے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تشریعی احادیث کی نہ صرف جمع و تدوین کا کام محدثین کی کاوشوں کے آغاز سے پہلے ہی فقہاء مکمل کر چکے تھے بلکہ ان کو مدارِ استدلال بنا کر اپنے مذاہب فقہیہ بھی مدون کرچکے تھے۔ یہ محدثین ہیں جنہیں فتنہ وضعِ احادیث کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے اس کے مقابلے کے لیے جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کی عظیم الشان لائبریری تشکیل دے دی لیکن یہ چیلنج ائمہ مجتہدین بالخصوص حنفیہ و مالکیہ کو پیش نہیں آیا کیوں کہ وہ اپنے مذاہب کی بنیاد سنن متداولہ پر رکھ چکے تھے اور کوئی موضوع حدیث سنن متداولہ کو چیلنج نہیں کرسکتی تھی۔
ماضی قریب میں جن مستشرقین نے حدیث کو موضوعِ بحث بنایا، ان میں گولڈ زیئر Goldzeihr اور شاخت Schacht کو مغرب میں اس قدر اہمیت حاصل ہوئی کہ ان کے منہجِ تحقیق کو موضوعِ بحث بنانا "توہین اکابر" کے زْمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے جزوی روایات اور واقعات سے کلی نتائج اخذ کرتے ہوئے یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ:
۱۔ سلسلہ سند کا آغاز پہلی صدی کے اختتام اور دوسری صدی کے شروع میں ہوا، اس سے پہلے نہیں تھا۔
۲۔ محدثین نے متونِ حدیث کی نقد کا کام نہیں کیا، اس لیے کئی احادیث عقل کے خلاف ہیں۔
۳۔ جس طرح متن وضع کرنا آسان تھا، سند وضع کرنا اس کی بہ نسبت زیادہ آسان تھا۔
۴۔ سیاسی اور کلامی اختلافات کے عہد میں متون بمع اسناد وضع کیے گئے۔
۵۔ شاخت کے بقول مذاہب فقہیہ کے ابتدائی دور میں فقہی اقوال علماء و فقہاء کی طرف منسوب کیے جاتے تھے اور ان کے مآخذ مقامی قوانین اور رسوم و رواج تھے۔ان اقوال کو احادیث نبویہ کا درجہ بعد میں دیا گیا اور ان کو مستند بنانے کے لیے سند متصل وضع کی گئی۔ جہاں کہیں مکمل، متصل سند موجود ہوگی، وہاں وضع کا احتمال زیادہ ہوگا اور اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ یہ روایت کس نے وضع کی ہے تو تمام سلسلہ ہائے اسناد سے مرکزی راوی معلوم کیا جائے، یہ اْسی کی کارستانی ہے۔ نیزسلسلہ ہائے اسناد کو متون کے ساتھ کیف مااتفق ملادیا گیا۔ بعد کے دور میں سلسلہ ہائے اسناد کو زیادہ مرتب اور مدون کیا گیا ور ان میں خالی جگہیں بھر دی گئیں۔
مستشرقین کے منہج تحقیق حدیث کو مغرب میں قبولیت عامہ حاصل ہوئی اور اسلامی دنیا میں بھی بہت سے لوگ اس سے متاثر ہوئے۔ اس کے ردِ عمل میں متعدد اسلامی سکالرز بالخصوص فواد سزگین، ڈاکٹر محمد حمیداللہ، ڈاکٹر مصطفی اعظمی اور ڈاکٹر حبیب الرحمن اعظمی نے مذکورہ بالا مفروضات کا تحقیقی جواب دیا، لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ مستشرقین کے یہ اعتراضات محدثین کے اصولِ حدیث پر وارد ہوتے ہیں۔ حنفیہ اور مالکیہ کے اصولِ حدیث پر ان سے کوئی آنچ نہیں آتی، کیوں کہ اگر یہ بات مان لی جائے کہ متداول کتبِ حدیث دوسری اور تیسری صدی کا کلچر تھا تو یہ وہی چیز ہے جسے امام مالک "من السنۃ" اور "الامر عندنا" کہہ کر تعبیر کرتے تھے اور یہی حنفیہ کا مستدل ہے اور یہ وہی کلچر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً رائج کردیا تھا۔
اس ساری صورت حال کا مداوا صرف اور صرف اس طریقے سے ہوسکتا ہے کہ حنفیہ کے اصولِ حدیث کو الگ سے اس طرح مدلل اور شستہ انداز میں بیان کیا جائے کہ تاریخ کا سارا گرد و غبار دْھل جائے۔ جناب پروفیسر عمار خان ناصر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے دورِ حاضر کے احناف کے ذمے جو قرض تھا، اسے انتہائی علمی، مدلل، واضح اور شائستہ انداز سے ادا کردیا۔ لگ بھگ ایک سو صفحات میں حنفی منہجِ اجتہاد میں احادیث و آثار کی اہمیت پر گفتگوکی گئی اور یہ ثابت کیا گیاکہ حنفی مستدلات میں آثار و روایات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور مثالوں سے واضح کیا گیا کہ حنفیہ کے بارے میں یہ خیال غلط ہے کہ وہ قیاس کی بنا پر حدیث کو ترک کردیتے ہیں جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ حنفیہ نے نہ صرف احادیث بلکہ آثارِ صحابہ کو بھی مستدل قرار دیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ حنفیہ کی تحقیق اور رد و قبول حدیث کے معیار وہی ہیں جو فقہاء صحابہ کرام سے منقول ہیں اور اگر درایت کی بنا پر صحابہ کرام کا دوسرے صحابہ کرام کی بیان کردہ روایات کا ترک یا ان پر نقد قابل اعتراض نہیں تو وہی معیار حنفیہ نے اختیار کیاہے، ان پر تنقید کا کیا جواز ہے؟ کتاب کا یہ حصہ بہت اہم ہے جس میں صحابہ کے ایک دوسرے کی روایات قبول نہ کرنے کے واقعات و اسباب بیان کیے گئے ہیں۔ اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ ایک دوسرے پر دانستہ دروغ گوئی کا الزام نہ لگانے کے باوجود وہم راوی اور فہم راوی کو زیر بحث لاکر بعض روایات کو رد کردیتے تھے۔
میرے خیال میں اس موضوع کے زیر عنوان اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے جسے جصاص نے الفصول فی الاصول میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہرضی اللہ عنہ ایک ہی مجلس میں احادیث نبویہ اور وہب بن منبہ سے سنی ہوئی باتیں بیان کیا کرتے تھے اور ان کے شاگرد بعد میں انہیں روایت کرتے ہوئے انتساب نادانستہ گڈ مڈ کردیتے تھے۔ مزید براں اس حوالے سے بھی ایک جامع تحقیقی مطالعے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ فتنہ وضع حدیث کے عہد میں کہیں وضاعین نے مکثرین صحابہ کے اسماء کو اتصالِ سند کے لیے استعمال تو نہیں کیا یا طویل عمر پانے والے صحابہ کرام مثلاً حضرت انس رضی اللہ عنہ کی طرف ایسی احادیث تو منسوب نہیں کردی گئیں جن کی ان کی وفات کے بعد کسی دوسرے ذریعے سے تصدیق کا امکان نہیں تھا؟ مذکورہ بالا امور اس کے متقاضی ہیں کہ الصحابۃ کلہم عدول کے اصول کے تناظر میں اس نقد کی حدبندی کردی جائے تاکہ ہمارے دور میں پیدا ہونے والی شدت پسندی کا علمی اساس پر تدارک ہوسکے۔
کتاب کا تیسرا حصہ جو لگ بھگ سو صفحات پر مشتمل ہے، حدیث کی تعبیر و تشریح کے اصول پر مبنی ہے اور حنفی اصولِ حدیث کے حوالے سے سب سے اہم ہے۔
کتاب بلاشبہ اس امر کا استحقاق رکھتی ہے کہ اسے دینی مدارس اور رسمی جامعات کے علومِ اسلامیہ کے شعبوں میں درساً پڑھایا جائے۔ میرے خیال میں یہ کتاب امام جصاص کی "الفصول فی الاصول " سے اس اعتبار سے ہم آہنگ ہے کہ انہوں نے قرآنی احکام سے استدلال و استنباط کے لیے پہلے بطور مقدمہ ایک ضخیم کتاب تالیف کی اور انہیں اصول کی بنیاد پر احکام القرآن کی تدوین کی۔ اسی طرح یہ کتاب اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ان اصول کی بنیاد پر کتبِ سنن یا تشریعی احادیث پر حنفی اصولِ حدیث کے تناظر میں مفصل تحقیقی کام کیا جائے۔
میرے لیے یہ امر باعث مسرت ہے کہ اتنی گراں قدر علمی فکری اور تحقیقی کاوش پر برادر عزیز پروفیسر عمار خان ناصر کو ہدیہ تبریک پیش کروں۔
ایک سفر اور مولانا طارق جمیل سے ملاقات
محمد بلال فاروقی
۲۹ مارچ ۲۰۱۶ء کو العصر تعلیمی مرکز پیر محل میں اختتام بخاری شریف کی تقریب میں شرکت کی غرض سے استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کے ہمراہ براستہ فیصل آباد پیر محل کے لیے رخت سفر باندھا ۔ پہلا پڑاو فیصل آباد تھا جہاں جامعہ مدینۃ العلم کے سرپرست اور استاد گرامی کے قدیم رفیق مولانا قاری محمد الیاس سے ملاقات طے تھی۔ مولانا موصوف جمعیت علمائے اسلام کے پرانے راہ نما تھے، لیکن ۹۰ کی دہائی میں عملی سیاست سے کنارہ کش ہو کر امریکہ منتقل ہوگئے۔ وہاں ڈیٹرائٹ میں ایک تعلیمی ادارہ کی بنیاد رکھی جہاں حفظ و ناظرہ اور درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔نماز ظہر کے بعد استاذ محترم نے معروف ٹی وی چینل بزنسپلس کے لیے انٹرویو ریکارڈ کروایا جس میں روزنامہ اسلام کے سنئیر رپورٹر جناب ذکر اللہ حسنی بھی موجود تھے ۔ دونوں نمائندوں کے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے استاد محترم نے کہا کہ لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ہونے والا قومی سانحہ انتہائی تکلیف دہ ہے ۔اس قسم کے سانحات پوری قوم کو کرب کی کیفیت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ استاذ محترم نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس قسم کے واقعات کا تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہونا کیا ہماری اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں؟ ریاستی اداروں کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی اور ہر معاملے پر بیرونی عوامل کو نظر انداز کر کے دینی مدارس کی طرف الزامات دہراتے رہنے کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔
حقوق نسواں بل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ کئی عشروں سے مسلسل مسلمانوں اور مشرق کے خاندانی نظام کو توڑنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ مغرب آخر کیوں اپنے مسائل اور ماحول کی بنیاد پر بنائے جانے والے قوانین کو ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ مغرب اور ہمارے لبرز کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مغرب کا اور ہمارا پس منظر بالکل مختلف ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ پاکستان کے کسی مسلمان کو اس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے خاندانی معاملات میں قرآن و حدیث کو مد نظر نہ رکھے ۔ یہ زمینی حقیقت ہے ۔جب تک آپ اس کو مدنظر رکھ کر قانون نہیں بنائیں گے، ہر قانون کا یہی حشر ہو گا اور اسی طرح کی بے چینی پھیلے گی۔
انٹرویو کے بعد پیر محل کے لیے روانہ ہوئے جہاں حضرت مولانا منیر احمد منور اور حضرت مولانا ارشاد احمد سے ملاقات ہوئی۔ میں نے مولانا منیر احمد کی خدمت میں استاذ گرامی مولانا عمار خان ناصر صاحب کی کتاب فقہائے احناف پیش کی اور تبصرہ فرمانے کی گذارش کی جسے انہوں نے بخوشی قبول فرمایا۔
رات کو ختم بخاری شریف کی تقریب کے بعد قیام وہیں رہا جبکہ دوسرے روز صبح کو فیصل آباد سے پیر محل جاتے ہوئے راستے میں علم ہوا کہ مولانا طارق جمیل اپنے گاؤں تلمبہ میں ہیں جو ہمارے راستہ میں ہے۔ چونکہ مولانا طارق جمیل پہلے اطلاع نہیں دے رکھی تھی، اس لیے ارادہ تھا کہ اگر ملاقات ہوگئی تو ٹھیک، ورنہ اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے اگلی منزل ملتان روانہ ہو جائیں گے۔ مولانا طارق جمیل کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہاں متعین خدام نے بھرپور ناشتے کا اہتمام کیا۔ کچھ ہی دیر بعد مولانا تشریف لائے اور آتے ہی فرمایا کہ آج تو ہماری عید ہوگئی۔ استاذ محترم نے بتایا کہ ملتان جارہے تھے تو سوچا آپ کی زیارت کرتے ہوئے جائیں ۔
مولانا طارق جمیل نے پوچھا کہ جامعہ نصرۃ العلوم میں بخاری شریف آپ ہی کے ذمہ ہے؟ تو استاذ محترم نے فرمایا کہ بس بڑوں نے ذمہ داری ڈال دی ہے۔اس پر مولانا نے فرمایا کہ جامعہ بغداد کے میں ایک صاحب کو شیخ الحدیث مقرر کیا گیا تو وہ چھپ گئے ۔جب انہیں ڈھونڈ کر مسند پر بٹھایا گیا تو انہوں نے شعر پڑھا:
خلت الدیارفسدت غیر مسود
ومن الشقاء تفردی بالسؤدد
اس پر استاد جی نے فرمایا کہ مولانا عبد اللہ درخواستی اس جملے کو کہ ’’کبرنی موت الکبراء‘‘ ( بڑوں کی موت نے ہم کو بڑا بنا دیا) کو اضافہ کے ساتھ یوں پڑھا کرتے تھے کہ ’’بڑوں کی موت نے ’ہم جیسوں‘ کو بڑا بنا دیا‘‘۔
مولانا طارق جمیل نے پوچھا کہ آپ کا الشریعہ کیسا چل رہا ہے تو استاذ محترم نے فرمایا کہ حسب معمول او ر حسب دستور اپنے مدو جزر کے ساتھ۔ استاذ محترم نے مولانا کی خدمت میں ’’ خطبات راشدی‘‘ جلد دوم اور ’’فقہائے احناف اور فہم حدیث‘‘ پیش کی تو مولانا نے بڑی حسرت سے فرمایا کہ مولانا ! مجھے تو اسفار اور ملاقاتوں نے بے حال کر رکھا ہے۔ اپنے لیے کوئی وقت ہی نہیں بچتا۔کہنے لگے، ۸۹ ء میں میرا پہلا حج تھا۔ اس سے پہلے میں رائیونڈ میں مقیم ہوتا تھا اور میرے سفر کوئی نہیں ہوتے تھے۔جب حج پر گیا توبیت اللہ میں مولانا فاروق صاحب( وہ چھوٹے حاجی عبدالوہاب صاحب ہیں ) سے ملاقات ہوئی ۔ان کے بڑے سفر ہوتے تھے ۔میں نے ان سے کہا کہ آپ تو بڑے خوش نصیب ہیں ۔آپ کے اتنے سفر ہوتے ہیں، میں تو رائیونڈ میں ہی پڑا رہتا ہوں ۔یہ عشاء کے بعد کا وقت تھا ۔انہوں نے مجھے کہا کہ طواف کرو اس کے دو نفل پڑو اور پھر اللہ سے دعا مانگوکہ یا اللہ! مجھے اپنے دین کے لیے سیار بنا دے ۔میں اٹھا ،طواف کیا دو نفل پڑھے اور دعا مانگی کہ یا اللہ ! مجھے اپنے دین کا سیار بنا دے ۔ بس وہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ کبھی سفر سے پاؤں نکلا ہی نہیں۔ ایک ایک سال میں تیس تیس ملکوں کا سفر اللہ نے کروایا ۔اب وہ ہمت نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے پوری دنیا میں پھرنا لکھا تھا اور شکر ہے کہ اس نے اپنے دین کی خدمت میں پھرایا ۔
مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایا کہ زمانے کے ساتھ ساتھ تجدید کی ضرورت تو ہوتی ہے ۔ استاذ محترم نے فرمایا کہتجدید رکتی نہیں، ہوتی رہتی ہے ۔کہہ کر کریں، تب اور نہ مان کر کریں، تب بھی۔ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم بغیر مانے تجدید کرتے رہتے ہیں۔ اجتہاد چلتا رہتا ہے، زمانے کے بدلنے سے احکامات بدلتے رہتے ہیں ۔ہمارا موقف یہ ہے کہ بھئی، یہ تجدید و اجتہا د بتا کر اور سمجھا کر کرو گے تو بہت سی الجھنوں سے بچ جاؤ گے، مگر یہ بات بہت سے حضرات کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔
مولانا طارق جمیل سے رخصت ہو کر ہم جامعہ قادریہ حنفیہ ملتان پہنچے جہاں ادارے کے سربراہ مولانا محمد نواز اور مولانا عبد الجبار طاہر نے استقبال کیا ۔جامعہ میں ایک ہی دن میں دو تقریبات تھیں، جامعہ کے قدیم فضلاء کا کنونشن اور اختتام بخاری کی تقریب۔ مولانا زاہد الراشدی نے فضلاء سے اپنے خطاب کا آغاز ایک لطیفہ سے کیا کہ ’’ رشدی ‘‘ اور ’’ راشدی ‘‘ میں فرق ملحوظ رکھا جائے اور بتایا کہ ایک دفعہ میں اور مولانا سمیع الحق صاحب ملتان آئے تو کارکنان نے بھرپور استقبال کیا ۔ان دنوں سلمان رشدی کا قصہ چل رہا تھا۔ ہم آگے گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے اور پیچھے بہت سے کارکن زور زور سے نعرے لگا رہے تھے ’’راشدی کو پھانسی دو، راشدی کو پھانسی دو۔‘‘ جلوس جب منزل پر پہنچا تو میں اسٹیج پر گیا اور لوگوں سے پوچھا کہ بھئی ! میر ا کیا قصور ہے کہ تم لوگ دو گھنٹے یہ نعرے لگاتے رہے ؟ مجمع سے آواز آئی کہ وہ آپ کو نہیں، سلمان راشدی کو کہہ رہے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ بھائیو! وہ راشدی نہیں، رشدی ہے۔
ماحول، حالات، اور زمانہ کے مطابق اسباب کو اختیار کرنا بہت اہم ہے، لیکن میں اس سے پہلے کی ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ ان سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ زمانہ، ماحول اور حالات کو سمجھا جائے۔
ہماری بہت سی الجھنوں اور پریشانیوں کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں حالات کا ادراک نہیں ہوتا، ہم حالات کو پوری طرح سمجھتے نہیں۔ سطحی، ادھوری باتیں ہمارے ذہن میں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے۔
ایسے ہی ایک مسئلہ ہمیں درپیش ہے کہ ہم سے اجتہاد کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ آپ اجتہاد کریں۔ ہم اس بات کو سمجھے بغیر کہ ان کے ہاں اجتہاد کا تصور کیا ہے، نور الانوار اور حسامی لے کر فقہی جزئیات سے جواب دینے لگتے ہیں جس سے بات سلجھنے کے بجائے مزید الجھ جاتی ہے۔ ہم سے اجتہاد کا مطالبہ کرنے والوں کے ذہن میں اجتہاد کے دو مختلف تصور ہیں۔ ایک یہ کہ جیسا کہ عیسائیوں کے ہاں پاپائے روم کو دین عیسوی میں حلال و حرام کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے، ایسے ہی شاید ہمارے علماء کو بھی اس طرح کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے، لیکن یہ استعمال نہیں کرتے ۔اس پر وہ پریشان ہوتے ہیں کہ اختیار حاصل ہونے کے باوجود اس کو استعمال نہیں کرتے۔ تیس پینتیس قبل رمضان سخت گرمیوں میں تھا تو اس زمانہ میں ایک دانشور کا کالم ’’ اجتہاد ‘‘ کے عنوان سے شائع ہو ا۔اس کالم میں علماء سے درخواست کی گئی کہ رمضان سخت گرمی میں آرہا ہے اور اس شدید گرمی میں بھٹے پر کام کرنے والے مزدور اور مونجی کاشت کرنے مزدور کے لیے روزہ رکھنا انتہائی مشکل ہے، لہٰذا علماء مشورہ کرکے اجتہاد کریں اور رمضان کو کسی ایک مہینہ میں خاص کر دیں اور ساتھ ہی تجویز دی کہ اگر رمضان کو فروری کے مہینے میں مقرر کر دیا جائے تو دو فائدے ہوں گے۔ایک یہ کہ رمضان معتدل موسم میں آجائے گا اور دوسرا عید کے چاند کا جھگڑا ختم ہو جائے گا۔یہ ان کے ہاں اجتہا د کا تصور ہے۔ میں نے جواب میں کالم لکھا کہ بھئی، آپ تیسرا فائدہ بھول گئے ہیں کہ تیسویں روزہ کی بات ہی ختم ہو جائے گی۔تین سال اٹھائیس اور ایک سال انتیس روزے رکھنے پڑیں گے۔
میں ایسے دوستوں سے عرض کرتا ہوں کہ بھیا، ہمیں پاپائے روم کی طرح اس قسم کو کوئی صوبدیدی اختیار نہیں ہے۔ ہم تو نصوص کے پابند ہیں اورنصوص صریحہ وقطعیہ میں کسی قسم کے رد وبدل کا اختیار نہیں رکھتے۔
بہت سے لوگوں کے ذہن میں اجتہاد کا دوسرا تصور بھی ہے اور وہ بھی عیسائیوں سے مستعار لیا گیا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے پاپائے روم کے اس صوابدیدی اختیار کو چیلنج کیا اور اس بات کا نعرہ لگایاکہ ’’ کامن سینس‘‘ پر فیصلے ہوں گے، بائبل کی تشریح میں پوپ کی اتھارٹی حتمی نہیں ہے۔ اب چونکہ سوسائٹی کی کامن سینس کی نمائندگی پارلیمنٹ کرتی ہے، لہٰذا یہ موقف اختیار کیا گیا کہ پارلیمنٹ کو مذہب کی تشریح کی اجازت ہونی چاہیے۔جب شریعت بل کی تحریک چل رہی تھی تو نوائے وقت کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں مختلف حضرات کا کہنا تھا کہ ہم قرآن و سنت کو سپریم لا مان لیتے ہیں، لیکن اس کی تشریح کا اختیار پارلیمنٹ کو ہونا چاہیے۔ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ بالکل درست ہے۔ پارلیمنٹ کو مذہب کی تشریح کا اختیار دے دینا چاہیے۔ بس میری ایک شرط ہے، وہ یہ کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کی اہلیت کے لیے وہ شرائط مقرر کی جائیں جو قرآن وسنت کی تعبیر اور اجتہاد کے لیے ضروری ہیں ۔ ہم سے اجتہاد کا مطالبہ کرنے والوں کا ایک تصور اجتہاد یہ ہے اور ہمیں اجتہاد کے اس مطالبہ کا ان امور کو سامنے رکھ کر جواب دینا ہوگا۔
رات کو جامعہ قادریہ کا سالانہ عمومی جلسہ تھا جس میں استاذ محترم نے ملک کی عمومی صورت حال اور عالمی فکری وتہذیبی کشمکش کے حوالے سے مفصل خطاب کیا اور اس کے بعد ہم گوجرانوالہ کے لیے روانہ ہو گئے۔
جون ۲۰۱۶ء
غیر شرعی قوانین کی بنیاد پر مقتدر طبقات کی تکفیر / تہذیب جدید اور خواتین کے استحصال کے ’’متمدن‘‘ طریقے / چھوٹی عمر کے بچے اور رَسمی تعلیم کا ’’عذاب‘‘
محمد عمار خان ناصر
تکفیری نقطہ نظر کے حاملین کی طرف سے حکمران طبقات کے کفر وارتداد کے ضمن میں ایکبڑی نمایاں دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ انھوں نے مسلمان ممالک میں شریعت اسلامیہ کے بجائے غیر شرعی نظاموں اور قوانین کو نافذ کررکھا ہے اور مسلمانوں کے معاملات احکام شرعیہ سے بغاوت کی بنیاد پر چلائے جا رہے ہیں۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ موجودہ مسلم ممالک میں اجتماعی نظام کلی طور پر شریعت اسلامیہ کی ہدایات پر استوار نہیں اور معاشرت، معیشت اور سیاست کے دائروں میں شرعی احکام وقوانین کی پاس داری نہیں کی جا رہی۔ اگرچہ بیشتر مسلم ممالک میں اصولی طور پر آئین میں شریعت کی پابندی قبول کی گئی ہے، لیکن بہت سے اساسی امور میں جدید لادینی نظریات کے زیر اثر ایسے قوانین پر بھی عمل کیا جا رہا ہے جو شریعت سے متصادم ہیں، جبکہ بعض مسلم ممالک ایسے بھی ہیں جہاں قانون ونظام کی سطح پر سرے سے احکام شریعت کی پابندی کا التزام ہی نہیں کیا گیا۔ معاصر تناظر میں اس صورت حال کا بنیادی سبب دنیا پر مغربی تہذیب کا فکری، سیاسی اور معاشی غلبہ ہے جس سے مسلمان معاشروں کے مختلف طبقات اور خاص طو رپر ان کے ارباب اقتدار بھی شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیشتر مسلم ممالک میں ارباب اقتدار اور اہل دین کے مابین کشمکش کی ایک سنگین صورت حال پائی جاتی ہے جس کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ مسلمان معاشروں کے اجتماعی معاملات کی تشکیل خالصتاً شرعی احکام وقوانین کی روشنی میں کی جائے اور شریعت سے متصادم نظریات وقوانین کے اثر ونفوذ کو ختم کیا جائے۔ تاہم ا س حوالے سے عالم اسلام کے جمہور اہل علم اور معاصر تکفیری طبقات کے نقطہ نظر میں ایک جوہری فرق ہے۔ جمہور اہل علم اس ساری صورت حال کو تاریخ کے ایک جبر کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے عالم اسلام بحیثیت مجموعی اس وقت دوچار ہے، چنانچہ وہ کسی مخصوص طبقے، خاص طور پر حکمران طبقے کو بلا شرکت غیرے اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر کافر ومرتد قرار دینے کے بجائے حالات کی عملی پیچیدگیوں، مشکلات اور بالخصوص مغربی فکر وتہذیب کے غیر معمولی اثرات کو مد نظر رکھتے ہیں جس نے گزشتہ دو صدیوں میں تدریجاً ساری دنیا پر یلغار کی ہے اور رفتہ رفتہ انسانی فکر اور انسانی معاشروں کو کم وبیش مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
دنیا پر مغرب کا غلبہ چونکہ مختلف ارتقائی ادوار سے گزرا ہے، اس لیے فطری طور پر اس کی نوعیت وماہیت کی تشخیص میں مختلف ادوار کے مسلمان مفکرین میں اختلاف بھی نظر آتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، یہ غلبہ ابتدا میں عسکری وسیاسی اور معاشی واقتصادی تسلط کا رنگ لیے ہوا تھا اور بیسویں صدی کے وسط تک مفکرین کا عمومی خیال یہی تھا کہ اس تسلط کے جلو میں جو فکری وتہذیب اثرات مسلم معاشروں پر مرتب ہو رہے ہیں، ان کی طاقت کا اصل منبع مغرب کا سیاسی غلبہ ہے او ریہ کہ مسلمان ریاستوں کی آزادی کے بعد اور خاص طور پر اسلامی ریاستوں کے قیام کے بعد مسلمانوں کے لیے خود اپنی تہذیبی اقدار پر مبنی معاشرے تشکیل دینا اور یوں ایک نظام حیات کے مقابلے میں ایک دوسرا نظام حیات اور ایک تہذیب کے مد مقابل ایک دوسری تہذیب کی تشکیل سے نظام عالم میں ایک توازن پیدا کرنا ممکن ہوگا۔ تاہم گزشتہ ساٹھ ستر سال کے تجربے اور سفر کے نتیجے میں اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ صورت حال بہت مختلف ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر اور اکیسویں صدی میں مغرب کے فکری واقداری غلبہ کا پہلو زیادہ مشخص اور نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے اور اب اس حقیقت کا ادراک کیا جا رہا ہے کہ دو مختلف تہذیبی پیرا ڈائمز کے دنیا میں متوازی طور پر موجود رہنے اور پرامن بقائے باہمی کے اصول پر ایک دوسرے سے تعرض نہ کرنے کی بات کم سے کم موجودہ تناظر میں ایک غیر واقعی اور تخیلاتی بات ہے۔ اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم بنیادی طور پر مغرب کی بنائی ہوئی دنیا میں جی رہے ہیں۔ سیاست ومعیشت، فکر وفلسفہ، معاشرتی اقدار اور بین الاقوامی قانون، ہر دائرے میں مغرب ہی کا سکہ رائج ہے اور دنیا کی قومیں مادی سطح پر مغرب ہی کے مقرر کردہ آئیڈیلز کے حصول کے لیے اجتماعی طور پر کوشاں ہیں۔ مغربی اجتماعی اقدار کے غلبہ وتسلط کی بات محض بالواسطہ اثرات تک محدود نہیں رہی، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی صورت میں انھیں قانونی سطح پر دنیا پر نافذ کرنے کی علانیہ اور دانستہ کوشش کی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ ایک توانا تہذیبی اور اخلاقی جذبے کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
جمہور اہل علم نے اس صورت حال کی سنگینی، نزاکت اور پیچیدگی کا ادراک کرتے ہوئے بجا طور پر یہ سمجھا ہے کہ اس کی ذمہ داری کلی طور پر مسلمانوں کے بارسوخ اور مقتدر طبقات پر ڈال دینا اور سارے بگاڑ کی جڑ انھیں قرار دے کر ان کے خلاف مورچہ بندی کر لینا نہ تو معروضی طور پر صورت حال کا درست تجزیہ ہوگا اور نہ اس کے نتیجے میں مسلمان معاشروں کو داخلی انتشار اور تصادم کی آگ میں دھکیل دینا عملاً اس صورت حال سے نجات پانے میں کسی بھی پہلو سے مفید اور مددگار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ فکر ونظر کی کئی سنگین گمراہیوں اور احکام شریعت سے کھلے ہوئے عملی تجاوزات کے باوجود جمہور اہل علم نہ تو مقتدر طبقات کی تکفیر کرتے ہیں اور نہ ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو درپیش مشکلات اور مسائل کا حل تصور کرتے ہیں۔
اس ضمن میں جمہور اہل علم کے نقطہ نظر کی شرعی بنیادوں کو سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات کو پیش نظر رکھنا چاہیے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے کچھ طبقات اسلام کے ساتھ ظاہری نسبت رکھتے ہوئے بھی ذہنی اور فکری طور پر اسلامی شریعت کی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں یا شریعت کے مقابلے میں بعض دوسرے نظاموں اور قوانین سے مرعوب اور متاثر ہیں تو ان کا یہ ذہنی رویہ کفر ونفاق کے دائرے میں آتا ہے، لیکن اس کے باوجود جب تک وہ صاف صاف اسلام سے براء ت کا اعلان نہیں کرتے، ان کے کلمہ گو ہونے کا لحاظ کیا جائے گا اور ان کی سنگین فکری گمراہی کے باوجود ظاہری احکام کے لحاظ سے انھیں کفار ومرتدین کے زمرے میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرز فکر کے حامل بعض گروہ خود عہد رسالت میں موجود تھے اور ان کے ذہنی رجحانات پر قرآن مجید میں باقاعدہ تبصرہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ نور میں ارشاد ہوا ہے:
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْق مِّنْھُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ، وَمَآ اُولٰٓءِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ ۔ وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اِذَا فَرِیْق مِّنْھُمْ مُّعْرِضُوْنَ ۔ وَاِنْ یَّکُنْ لَّھُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْٓا اِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَ ۔ اَفِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ وَرَسُوْلُہٗ، بَلْ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (النور ۴۷۔۵۰)
’’اور یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور اطاعت قبول کی، پھر ان میں سے ایک گروہ اس کے بعد منہ پھیر لیتا ہے اور حقیقت میں یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔ اور جب انھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے مابین فیصلہ کرے (اور انھیں معلوم ہو کہ فیصلہ ان کے خلاف ہوگا) تو ان میں سے ایک گروہ رو گرداں ہو جاتا ہے، لیکن اگر حق انھیں مل رہا ہو تو پھر پورے یقین کے ساتھ اس کی طرف آ جاتے ہیں۔ کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا یہ شک میں مبتلا ہیں؟ یا انھیں یہ ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر زیادتی کرے گا؟ نہیں، بلکہ یہ لوگ خود ہی ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘
ان تبصروں میں اللہ تعالیٰ نے ان کے طرز فکر اور طرز عمل کو واضح الفاظ میں کفر اور نفاق سے تعبیر کیا اور اسے ایمان کے منافی قرار دیا ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ منافقین میں شامل کسی بھی گروہ کو عہد نبوی یا عہد صحابہ میں ظاہری قانون کے اعتبار سے دائرۂ اسلام سے خارج شمار نہیں کیا گیا اور نہ ان کے ساتھ عملی معاملات میں کفار جیسا برتاؤ کرنے کے احکام دیے گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے اپنے ان تبصروں میں ’کفر‘ کا لفظ کفر عملی کے معنی میں استعمال کیا ہے نہ کہ کفر اعتقادی اور کفر قانونی کے معنی میں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ طرز عمل اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک کافرانہ طرز عمل ہے جو ایمان کا دعویٰ رکھنے والے کسی گرہ کو زیبا نہیں۔ جہاں تک دنیا کے ظاہری احکام کے لحاظ سے کسی کو کافر قرار دینے کا تعلق ہے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے اور قرآن مجید کے مذکورہ زاویہ نظر سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جب تک کوئی شخص کسی تاویل کے بغیر کھلم کھلا اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کو قبول نہ کرنے یا انھیں مسترد کرنے کا اعلان نہ کر دے، اسے کافر قرار دینے اور اس پر کفر کے ظاہری قانونی احکام جاری کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب قرآن نے ضعف ایمان اور نفاق کے حامل ان گروہوں کو دنیوی قانون کے لحاظ سے مسلمانوں ہی میں شمار کیا ہے تو وہ لوگ جو اس سے کم تر وجوہ کی بنا پر احکام شریعت سے عملاً گریز کریں، انھیں دائرۂ اسلام سے خارج قرار دینے سے گریز ظاہر ہے کہ بدرجہ اولیٰ شریعت کا منشا ہوگا۔ چنانچہ دیکھیے، سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
وَمَن لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰءِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ (آیت ۴۴)
’’اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
عہد صحابہ میں خوارج نے اس مفہوم کی آیات سے ارباب اقتدار کے کافر ہونے پر استدلال کیا تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تردید میں فرمایا:
’’یہ وہ کفر نہیں جو خوارج مراد لیتے ہیں۔ یہ وہ کفر نہیں جو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ یہ اس کفر سے کم تر کفر ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم ۲/۳۴۳)
ابو طلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ:
’’جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے حکم کا صاف انکار کرے، وہ تو کافر ہے، لیکن جو اسے تسلیم کرے (اور عمل نہ کرے)، وہ ظالم اور فاسق ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر ۲/ ۶۲)
مفسر واحدی نے یہی قول بعض دیگر اکابر مفسرین سے بھی نقل کیا ہے:
’’ایک جماعت نے کہا ہے کہ ان آیات کا مصداق کفار اور وہ یہود ہیں جنھوں نے اللہ کے احکام کو تبدیل کر دیا۔ ان آیات کا اہل اسلام سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ مسلمان کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرے تو بھی اسے کافر نہیں کہا جاتا۔ یہ قتادہ، ضحاک اور ابو صالح کا قول ہے اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ایک روایت میں یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے۔‘‘ (الوسیط ۱/ ۱۹۰)
امام ابن القیم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’کفر کی ایک صورت دوسرے سے کم تر ہے، نفاق کا بھی ایک درجہ دوسرے درجے سے کم تر ہے، شرک کی کچھ شکلیں دوسری شکلوں سے ہلکی ہیں، فسق کے کچھ کام دوسرے کاموں سے کم تر ہیں اور ظلم کی بعض صورتیں دوسری صورتوں سے کم ہیں۔ ابن عباس نے ’’ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون‘‘ کے متعلق کہا ہے کہ اس سے مراد وہ کفر نہیں جو لوگ مراد لیتے ہیں۔ ابن عباس سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ان لوگوں کا یہ رویہ کفر ہے، لیکن اس کا حکم وہ نہیں جیسے کوئی شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسول کا انکار کرے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق انھوں نے کہا کہ یہ کفر کی وہ صورت ہے جو آدمی کو دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کرتی۔‘‘ (الصلاۃ وحکم تارکھا، ۱/ ۷۴)
’’جب کوئی شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون سے ہٹ کر فیصلہ کرے یا کوئی ایسا کام کرے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر قرار دیا ہو، لیکن وہ شخص اسلام اور اس کے شرائع کی پابندی قبول کرتا ہو تو ایسا کرنے والے کے عمل میں کفر اور اسلام دونوں پائے جاتے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۷۹)
تیسرا قابل لحاظ پہلو یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے احکام پر عمل کی ذمہ داری، چاہے وہ فرد سے متعلق ہوں یا جماعت سے، عملی استطاعت کی شرط سے مشروط ہے۔ جہاں فرد یا جماعت کے لیے احکام شرعیہ کے کسی حصے پر عمل ممکن نہ ہو یا اس کی راہ میں عملی رکاوٹیں موجود ہوں، وہاں شریعت درپیش موانع کے بقدر ذمہ داری میں بھی تخفیف کر دیتی ہے۔ یہ اصول جہاں افراد اور گروہوں کے لیے ہے، وہاں ارباب اقتدار کے لیے بھی ہے اور شریعت ان پر احکام شرعیہ کی تنفیذ کی ذمہ داری اس استطاعت اور اختیار کے لحاظ سے ہی عائد کرتی ہے جو انھیں کسی مخصوص معاشرے میں عملاً حاصل ہو۔ محض اقتدار اور حکمرانی کا حاصل ہونا، جب کہ اس کے ساتھ اختیارات پر بہت سی قدغنیں بھی لگی ہوئی ہوں، حکمران کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا کہ وہ موانع اور مشکلات نیز عملی نتائج سے بالکل بے پروا ہو کر محض حکمرانی کے زور پر تمام احکام شرعیہ کو ہر حال میں نافذ کرنے کی کوشش کرے۔
امام ابن تیمیہ نے اس شرعی اصول کی وضاحت درج ذیل اقتباس میں بہت خوبی سے فرمائی ہے:
’’حضرت یوسف علیہ السلام اہل مصر کے ساتھ رہتے تھے جو کفار تھے لیکن حضرت یوسف کے لیے ان پر تمام امور میں اسلام کے احکام کے مطابق معاملہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح نجاشی اگرچہ نصاریٰ کا بادشاہ تھا، لیکن اس کی قوم نے قبول اسلام کے معاملے میں اس کی بات نہیں مانی، بلکہ نجاشی کے ساتھ کچھ ہی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ نجاشی بہت سے بلکہ اکثر احکام اسلام پر عمل نہیں کر سکا کیونکہ وہ ایسا کرنے سے عاجز تھا۔ اس نے نہ تو ہجرت کی نہ جہاد کیا او رنہ بیت اللہ کا حج کیا، بلکہ یہ بھی روایت ہے کہ اس نے پانچ نمازیں بھی ادا نہیں کیں اور نہ وہ روزہ رکھتا اور شرعی زکوٰۃ ادا کرتا تھا، کیونکہ ایسا کرنے سے معاملہ اس کی قوم کے سامنے طاہر ہو جاتا اور وہ اس پر معترض ہوتے، جبکہ نجاشی کے لیے ان کی مخالفت کرنا ممکن نہیں تھا۔ ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ نجاشی کے لیے اپنی قوم کے مابین قرآن کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا ممکن نہ تھا، کیونکہ اس کی قوم اس کو قبول نہ کرتی۔ اور بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور تاتاریوں کے مابین کسی آدمی کو قاضی کا بلکہ حاکم تک کا منصب مل جاتا ہے اور اس کے دل میں ارادہ ہوتا ہے کہ وہ عدل کے بہت سے احکام پر عمل کرے، لیکن اس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ وہاں اسے روکنے والے موجود ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے جب عدل کے مطابق بعض فیصلے کیے تو لوگ ان کے دشمن ہو گئے اور انھیں اذیت دی گئی اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ اسی پر انھیں زہر دے دیا گیا۔ پس نجاشی اور ان جیسے لوگ کامیاب ہو کر جنت میں جائیں گے، اگرچہ انھوں نے اسلام کے ان شرائع کی پابندی نہیں کی جن کی پابندی پر وہ قدرت نہیں رکھتے تھے، بلکہ وہ صرف انھی احکام پر عمل کرتے تھے جن کے مطابق فیصلہ کرنا ان کے بس میں تھا۔ خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے مابین اس حوالے سے کوئی اختلاف نہیں کہ جو شخص دار الکفر میں ہو اور وہ ایمان لا چکا ہو لیکن ہجرت کرنے سے عاجز ہو تو اس پر شریعت کے وہ احکام واجب نہیں ہوتے جن پر عمل کرنا اس کے لیے ممکن نہیں، بلکہ احکام کا وجوب اتنا ہی ہوتا ہے جتنا آدمی کے لیے عمل کرنا ممکن ہو۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ، ج ۱۹، ص ۲۱۷۔۲۱۹)
اس شرعی اصول کی روشنی میں عالم اسلام کے جمہور اہل علم معاصر تناظر میں شریعت کے جامع اور مکمل نفاذ کی راہ میں حائل ان بے شمار نظری اور عملی رکاوٹوں کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں جو حالات کے تغیر نے پیدا کر دی ہیں۔ صورت حال کی نزاکت واضح کرنے کے لیے ہم اپنے ان الفاظ کا اعادہ کرنا چاہیں گے کہ ’’اس وقت ہم بنیادی طور پر مغرب کی بنائی ہوئی دنیا میں جی رہے ہیں۔ سیاست ومعیشت، فکر وفلسفہ، معاشرتی اقدار اور بین الاقوامی قانون، ہر دائرے میں مغرب ہی کا سکہ رائج ہے اور دنیا کی قومیں مادی سطح پر مغرب ہی کے مقرر کردہ آئیڈیلز کے حصول کے لیے اجتماعی طور پر کوشاں ہیں۔ مغربی اجتماعی اقدار کے غلبہ وتسلط کی بات محض بالواسطہ اثرات تک محدود نہیں رہی، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی صورت میں انھیں قانونی سطح پر دنیا پر نافذ کرنے کی علانیہ اور دانستہ کوشش کی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ ایک توانا تہذیبی اور اخلاقی جذبے کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔‘‘
اب ان تمام مشکلات وموانع سے بالکل صرف نظر کرتے ہوئے صورت حال کا یہ یک نکاتی تجزیہ کہ ’’عالم اسلام کے حکمران شریعت کا نفاذ نہ کرنے اور غیر شرعی قوانین اور نظاموں کی بالادستی قبول کرنے کی وجہ سے کافر اور مرتد ہیں‘‘، جمہور اہل علم کی سمجھ میں نہیں آتا اور اسی لیے وہ تمام تر خرابیوں کے باوجود بطور ایک طبقے کے موجودہ مسلم حکمرانوں یا مسلم ممالک میں رائج سیاسی وقانونی نظاموں کی تکفیر سے علیٰ وجہ البصیرت اجتناب کرتے ہیں۔
تہذیب جدید اور خواتین کے استحصال کے ’’متمدن‘‘ طریقے
خواتین کے استحصال اور ان پر ظلم وستم کو عموماً روایتی معاشرے کا ایک مظہر تصور کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس صورت حال کا واحد ماخذ روایتی معاشرہ نہیں، جدید لبرل اور سرمایہ دارانہ معاشرت اس استحصال اور تذلیل کے شاید اس سے بھی سنگین مواقع اور صورتیں پیدا کر رہی ہے اور بدقسمتی سے ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔
ان چند مظاہر پر ذرا ایک نظر ڈالیے:
۱۔ خواتین کو معاشی سرگرمیوں میں شریک کرنے کا ایسا رجحان جس کا نتیجہ آخر یہ نکلے کہ انھیں اپنا معاشی بوجھ خود اٹھانے کا ذمہ دار سمجھا جائے اور مرد ان کی کفالت کی ذمہ داری سے بالکل دست بردار ہو جائیں۔ اس صورت حال کا خمیازہ نہ صرف خواتین بلکہ اولاد کو بھی بھگتنا پڑتا ہے اور مغربی معاشروں میں ڈے کیئر سنٹرز اس تباہی کا صرف ایک مظہر ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ خواتین کو گھر کے محفوظ اور فطری ماحول سے باہر نکال کر ایک طرف انھیں اپنی تمام تر صنفی وجسمانی نزاکتوں کے ساتھ کسب معاش کے لیے مردوں کی مسابقت پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے لیے انھیں بلا استثنا ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ، اور دوسری طرف اس تمام تگ ودو کے بعد بھی ان کے معاوضے مردوں سے کم ہی رہتے ہیں۔
۲۔ کچی عمر میں، جب صنف مخالف کی کشش ایک ہیجان کی صورت اختیار کیے ہوئے ہوتی ہے، بچیوں کو مخلوط تعلیم کے اداروں میں بھیج دینا جہاں آداب اختلاط کی کوئی پاس داری نہ ہو۔ ہمارے ہاں حقوق نسواں کے علم برداروں کو یہ ظلم تو نظر آتا ہے کہ نابالغی کی عمر میں بچیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں،لیکن یہ ظلم کسی کو محسوس تک نہیں ہوتا کہ کچی عمر کی بچیوں کو موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں دے کر مخلوط ماحول میں بھیج دینے اور میڈیا کے متعارف کردہ کلچر کے زیر اثر مخالف صنف سے دوستی کے نام پر جذباتی، نفسیاتی اور بسا اوقات جسمانی استحصال کا شکار ہونے کے لیے بے یار ومددگار چھوڑ دینے کا رجحان کیا ستم ڈھا رہا ہے۔
۳۔ نسوانی حسن کو کاروباری مقاصد کے لیے ایک ذریعہ بنانے کا رجحان جس کا اظہار ماڈلنگ کی مختلف صورتوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا پر بعض ٹاک شوز کی اینکرنگ کا انداز بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ اس کی بد ترین اور سب سے گھنونی شکل عریاں فلموں کی صنعت کی صورت میں سامنے آتی ہے جسے مغربی معاشروں میں باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے اور اس صنعت کو، جس سے بڑھ کر نسوانی تذلیل اور توہین کی کوئی شکل انسانی تاریخ نے نہیں دیکھی ہوگی، زندہ رکھنے کے لیے غیر محفوظ اور نفسیاتی طور پر بے سہارا خواتین کو پھانسنے یا انھیں ترغیب وتحریص کے مختلف طریقوں سے اس پیشے میں لانے کے لیے باقاعدہ نیٹ ورک کام کر رہے ہیں۔
۴۔ فیمنزم کے عنوان سے مرد اور عورت کے مابین منافرت کے رجحانات اور تصورات کا فروغ جو خواتین کو یہ باور کراتے ہیں کہ مرد دراصل ان کے ’’زوج‘‘ نہیں، بلکہ دشمن اور حریف ہیں۔ اس کا نتیجہ جس نفسیاتی اور ذہنی وفکری عدم توازن کی صورت میں نکلتا ہے، وہ واقعتاً ایک عبرت کا سامان ہے اور اس کی سب سے عبرت انگیز مثال سرے سے شادی اور خاندان کے ادارے کو ہی خواتین کی آزادی کے منافی قرار دینے کا رجحان ہے۔ اس فکر کے علم بردار شادی کو جبر اور قانونی قحبہ گری سے تعبیرکرتے ہیں جس کی رو سے مجبور اور بے بس عورتیں محض معاشرتی روایات کے دباو کے تحت ایک معاہدے کے ذریعے سے مردوں کے لیے اپنے استحصال کا قانونی حق قبول کر لیتی ہیں۔
۵۔ روزگار اور معاش کے سلسلے میں ملازمت یا تجارت کے لیے میاں بیوی کے درمیان ایسی طویل جدائی کہ میاں بیوی اور بچوں کے ایک جگہ اور اکٹھے رہنے کا تصور بس ایک خیال بن کر رہ جائے۔ بالخصوص تلاش روزگار کے لیے بیرون ملک قسمت آزمائی کے لیے جانے والوں کے گھریلو معاملات ایسے دگرگوں ہو جاتے ہیں کہ جنسی اخلاقیات کی پاس داری اور بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی باتیں خواب وخیال ہو کر رہ جاتی ہیں۔
۶۔ صنفی مساوات کے ایک غیر حقیقی اور تخیلاتی نظریے کے زیر اثر خاندانی نظام میں مرد کی برتری اور اختیار کو اس طرح چیلنج کرنا کہ مرد خود کو بالکل بے اختیار ہوتا ہوا محسوس کرے اور نتیجتاً یا تو خود کو ان ذمہ داریوں سے ہی بری سمجھے جو اختیار کے ساتھ اسے حاصل تھیں اور یا رفتہ رفتہ گھر بسانے میں ہی دلچسپی ختم ہوتی چلی جائے۔
یہ تمام مظاہر کسی تخیل کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ مغربی معاشروں میں ان سب کو بچشم سر دیکھا جا سکتا ہے اور مغربی معاشرہ چلا چلا کر ہمیں یہ دعوت دے رہا ہے کہ
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
چھوٹی عمر کے بچے اور رَسمی تعلیم کا ’’عذاب‘‘
بچوں کی رسمی تعلیم کا عمل کس عمر سے شروع کیا جائے اور ابتدائی تعلیم کے مندرجات اور ترجیحات کیا ہونی چاہییں؟ یہ کسی بھی معاشرے میں تعلیمی نظام سے متعلق سوالات میں ایک بنیادی اور اہم ترین سوال ہے۔ ہمارے ہاں جدید تمدن کے زیر اثر پروان چڑھنے والا ایک نہایت لا یعنی رجحان بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو رسمی تعلیمی اداروں کے سپرد کر دینے کا پیدا ہوا ہے جو کاروباری محرکات کے تحت روز بروز فروغ پا رہا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں راقم نے سوشل میڈیا پر اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کیا تو قارئین کے رسپانس سے اندازہ ہوا کہ اس بات کا احساس کافی عام ہے اور اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ اس رجحان کے مفاسد اور مضرات پر گفتگو کی جائے۔
اس رجحان کا بنیادی منبع تو ہماری اشرافیہ کا، مغربی معاشروں کی اندھی نقالی کا وہ شوق ہے جس کے زیر اثر اہل مغرب کی ہر بات کو جدت اور ترقی کا ایک لازمہ سمجھ کر اختیار کرنا فرض سمجھا جاتا ہے، جبکہ مغربی معاشرتی روایات کے مخصوص سماجی تناظر نیز ان کے منفی وضرر رساں پہلووں پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اشرافیہ کے اختیار کردہ رجحانات کو اگلے مرحلے پر متوسط طبقوں میں فروغ ملتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اسے ایک عام معاشرتی روایت کا درجہ حاصل ہوتا چلا جاتا ہے۔
بچپن کی عمر دراصل بچوں کے کھیلنے کودنے، معصوم شرارتیں کرنے اور گھرکے مانوس ماحول میں ماں باپ کا لاڈ پیار دیکھنے کی عمر ہوتی ہے۔ بچے کی وابستگی ماں باپ کے ساتھ بہت گہری ہوتی ہے اور خاص طور پر اپنے ذاتی نوعیت کے مسائل کے لیے ماں اس کے لیے سب سے زیادہ قابل اعتماد ہستی ہوتی ہے۔ بچوں کی تعلیم کا عمل اسی ماحول میں ایسے طریقے سے شروع ہونا چاہیے کہ وہ اسے کوئی ذمہ داری یا بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ فطری رغبت اور اشتیاق کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوں۔ بچہ ویسے بھی سیکھنے کی ایک فطری خواہش رکھتا ہے اور اگر اس کی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے گھر کے ماحول میں ہی غیر رسمی انداز میں اس کے لیے سیکھنے کا ماحول پیدا کیا جائے تو وہ رسمی تعلیم کے اس نظام سے کہیں زیادہ موثر اور مفید ہو سکتا ہے جس میں اوسطاً چار سال کے بچے کو جبر اور دھونس سے کام لے کر اسکول جانے پر مجبور کیا جاتا ہے جہاں بسا اوقات بچہ پیشاب پاخانے جیسی ذاتی اور نجی ضروریات کے لیے بھی بالکل اجنبی افراد کی مدد لینے پر مجبور ہوتا ہے، حالانکہ اپنے گھر کے ماحول میں وہ ایسی ضروریات کے لیے ماں کے علاوہ عموماً گھر کے دوسرے افراد سے بھی مدد لینا قبول نہیں کرتا۔
رسمی تعلیم کے اداروں میں ابتدائی ایک آدھ سال کے بعد بچوں کی تعلیم کا یومیہ دورانیہ کم وبیش اپنے سے دوگنی عمر کے بچوں کے برابر ہو جاتا ہے اور وہ دن کا زیادہ تر حصہ تعلیمی ادارے میں گزارنے کے پابند ہوتے ہیں۔ پھر اس پر بس نہیں کی جاتی، بلکہ ہوم ورک کی صورت میں بچوں کے گھر کا سکون برباد کرنے کا مزید اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ نظم وضبط کی پابندی، تعلیمی ذمہ داریوں کے بوجھ اور مواخذے اور جواب دہی کے تصور سے یک بارگی واسطہ پڑنا بچوں کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب تعلیم کے عمل سے مجرمانہ ناواقفیت کی وجہ سے ان پر بیک وقت کئی قسم کے مضامین سیکھنے کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے تو ان کی شخصیت غیر معمولی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس سے بہت سے بچوں کی جسمانی نشو ونما بھی متاثر ہوتی ہے، جبکہ تعلیم کے حوالے سے ناپسندیدگی کا ایک عمومی احساس ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔
اس حوالے سے والدین اور تعلیمی اداروں کے منتظمین کی فکری تربیت کی ضرورت ہے۔ تعلیم اور سماجی شعور کی عمومی کمی کی وجہ سے زیادہ تر والدین اس ضمن میں ازخود کوئی شعوری فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ وہ ماحول کے عمومی چلن کو دیکھتے ہیں اور اسی کو صحیح اور بہتر سمجھ کر اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تاہم اگر انھیں بچے کی نفسیات اور تعلیمی عمل سے متعلق کچھ بنیادی حقائق کا شعور مل جائے توان سے بہتر فیصلوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تعلیمی اداروں کے منتظمین کی سوچ اور ترجیحات میں بھی شعوری تبدیلی لانے اور انھیں یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ تعلیم محض ایک کاروبار نہیں، بلکہ اس کے ساتھ نئی نسل کی تعمیر شخصیت کا نہایت اہم اور نازک سوال وابستہ ہے۔ تعلیمی ادارے اگر چھوٹی عمر کے بچوں کو اسکول میں لانے کے بجائے والدین کے لیے ایسے تعلیمی وتربیتی پروگراموں کا آغاز کریں جن میں انھیں گھر کے ماحول کو بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے زیادہ سازگار اور موثر بنانے کے طریقے سکھائے جائیں تو یہ معاشرے اور قوم کی زیادہ قابل قدر اور قابل تحسین خدمت ہوگی۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۹)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۸۷) ثَمَرَاتِ النَّخِیلِ وَالاَعْنَابِ کا ترجمہ
نخیل کا مطلب کھجور کا درخت ہوتا ہے، اور ثمرات النخیل کا مطلب کھجور ہوتا ہے، جبکہ اعناب کا اصل مطلب انگور ہوتا ہے، کبھی انگور کی بیلوں کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے، اس وضاحت کی روشنی میں ذیل میں مذکور آیت کے مختلف ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِیْلِ وَالأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْہُ سَکَراً وَرِزْقاً حَسَناً إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّقَوْمٍ یَعْقِلُون۔ (النحل: ۶۷)
’’اسی طرح کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے ہو، اور پاک رزق بھی‘‘ (سید مودودی، اس ترجمہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ کھجور کے درخت اور انگور کی بیلوں سے نہ شراب بنتی ہے، اور نہ رزق حسن، اور آیت میں تو خود ثمرات کا ذکر ہے)
’’اور کھجور اور انگور کے درختوں کے پھلوں سے تم شراب بنالیتے ہو اور عمدہ روزی بھی‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، اس ترجمہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ انگور کے درخت تو ہوتے نہیں ہیں، بیلیں ہوتی ہیں)
’’اور کھجور اور انگوروں کے پھلوں سے تم لوگ نشہ کی چیز اور عمدہ کھانے کی چیزیں بناتے ہو‘‘ (اشرف علی تھانوی، اس ترجمہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ اردو کے لحاظ سے کھجور اور انگور خود پھل ہیں، اس لئے کھجور اور انگور کے پھل کہنا غیر فصیح ہے، عربی میں نخیل کھجور کے درخت کو کہتے ہیں، اس لیے ثمرات النخیل کہنا فصیح ہے، جبکہ الاعناب کا تو مطلب ہے انگور ہے)
’’اور کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے کہ اس سے نبیذ بناتے ہو، اور اچھا رزق‘‘ (احمد رضا خان، اس ترجمہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ سکر کا ترجمہ نبیذ درست نہیں ہے، کیونکہ نبیذ میں نشہ کا ہونا ضروری نہیں ہے جبکہ سکر میں اصلا نشہ کا مفہوم ہے)
اوپر کے تمام ترجموں میں تتخذون کا ترجمہ ’’بنانا‘‘ کیا گیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ تتخذون کا مطلب بنانا نہیں بلکہ حاصل کرنا ہے، مولانا آیت مذکورہ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’اور کھجور اور انگور سے بھی تم نشہ حاصل کرلیتے ہو اور پاک رزق بھی‘‘
(۸۸) خَیرُ الرَّازِقِینَ کا ترجمہ
قرآن مجید میں خیر الرازقین کئی جگہ آیا ہے، عربی زبان میں ’’خیر‘‘ کبھی تفضیل کے لیے ہوتا ہے تو کبھی مبالغہ کے لیے، اردو میں جب ہم سب سے اچھا اور سب سے بہتر کہتے ہیں تو صرف تفضیل مراد ہوتی ہے، اور جب بہترین کہتے ہیں، تو تفضیل بھی مراد ہوسکتی ہے اور مبالغہ بھی مقصود ہوسکتا ہے۔اس لحاظ سے جہاں کلام کا موقع ومحل یہ تقاضا کرے کہ تفضیل کے بجائے مبالغہ کا مفہوم لیا جائے وہاں ’’سب سے بہتر‘‘ کے بجائے ’’بہترین‘‘ کہنا مناسب ہوتا ہے، خیر الرازقین کے ترجمہ میں اس کا لحاظ ہونا چاہئے، کیونکہ رازق تو صرف اللہ ہے، اس کے سوا کوئی رازق نہیں ہے، اس لیے خیر الرازقین کا ترجمہ بہترین رازق کرنا چاہئے نہ کہ سب سے بہتر رازق۔
مترجمین کے یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ’’ بہترین ‘‘اور’’ سب سے بہتر‘‘ کے درمیان فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے اور ایک ہی مترجم کہیں سب سے بہتر کا ترجمہ کرتا ہے تو وہی دوسری جگہ بہترین کا ترجمہ کرتا ہے۔
مندرجہ ذیل آیتوں کے ترجموں کا اس پہلو سے جائزہ لیا جاسکتا ہے:
(۱) وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْن۔ (المائدۃ: ۱۱۴)
’’اور تو ہم کو رزق عطا فرمادے اور تو سب عطا کرنے والوں سے اچھا ہے‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے‘‘(احمد رضا خان)
’’اور عطا فرما، تو بہترین عطا فرمانے والا ہے ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’ہم کو رزق دے، اور تو بہترین رازق ہے‘‘ (سید مودودی)
(۲) وَإِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْن۔ (الحج: ۵۸)
’’اور بے شک اللہ تعالی روزی دینے والوں میں سب سے بہتر ہے‘‘ (محمد جونا گڑھی)
’’اور بے شک اللہ کی روزی سب سے بہتر ہے ‘‘(احمد رضا خان)
’’اور بے شک اللہ ہی ہے جو بہترین رزق دینے والا ہے‘‘(امین احسن اصلاحی، اس میں مزید اصلاح کرکے مناسب ترجمہ یوں ہوگا:’’اور بے شک اللہ بہترین رزق دینے والا ہی ہے‘‘)
’’اور یقیناًاللہ ہی بہترین رازق ہے‘‘ (سید مودودی،البتہ ’’ہی‘‘ کو’’ بہترین رازق‘‘کے بعدآنا چاہئے)
(۳) وَہُوَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْنَ۔ (المؤمنون: ۷۲)
’’اور وہ سب سے بہتر روزی رساں ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا‘‘ (احمد رضا خان)
’’اور وہ بہترین روزی بخشنے والا ہے‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’اور وہ بہترین رازق ہے‘‘(سید مودودی)
(۴) وَاللّٰہُ خَیْْرُ الرَّازِقِیْنَ۔ (الجمعۃ: ۱۱)
’’اور اللہ تعالی بہترین روزی رساں ہے ‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’اور اللہ کا رزق سب سے اچھا ‘‘(احمد رضا خان)
’’اور اللہ بہترین روزی دینے والا ہے‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ‘‘(سید مودودی)
(۵) وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَیْْءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہُ وَہُوَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْن۔ (سبا: ۳۹)
’’تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا، اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا، اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا‘‘(احمد رضا خان)
’’اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کروگے تو وہ اس کا بدلہ دے گااور وہ بہترین رزق دینے والا ہے‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’اور جو خرچ کرتے ہو کچھ چیز وہ اس کا عوض دیتا ہے اور وہ بہتر ہے روزی دینے والا‘‘(شاہ عبدالقادر)
اس آیت کے ترجمے میں مترجمین سے عام طور سے ایک غلطی اور ہوئی ہے، اور وہ ہے یُخْلِفُہ کا ترجمہ، اس کا ترجمہ بہت سے مترجمین نے بدلہ دیناکیا ہے، لیکن اس کا صحیح ترجمہ بدلہ دینا نہیں بلکہ بدل دینا ہے، بدلہ دینے کے لئے جزی آتا ہے، اور بدل دینے کے لیے أخلف آتا ہے، بعض لوگوں نے عوض دینے کا ترجمہ کیا ہے، جو قدرے مناسب ہے،یعنی اس آیت میں انفاق کا بدلہ دینے کی نہیں بلکہ انفاق سے جو مال میں کمی ہوئی ہے اس کمی کو نعم البدل کے ذریعہ پورا کردینے کی بات ہے، جس کو حدیث میں کہا گیا ہے کہ کسی بندے کے صدقہ دینے سے اس کے مال میں کمی نہیں آتی ہے، ما نقص مال عبد من صدقۃ۔ گویا جو کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ اس کا بدل دنیا میں دیتا رہتا ہے، اور اس کے مال میں انفاق کی وجہ سے کمی نہیں ہونے دیتا، اور پھر آخرت میں تو انفاق کا بدلہ ملے گا جس کا وعدہ متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ یعنی یہاں وعدہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی سنت جاریہ کا تذکرہ ہے اس لحاظ سے پوری آیت کا ترجمہ مستقبل کے صیغے سے کرنے کے بجائے حال کے صیغے سے کرنا چاہئے ،ذیل کے ترجمے میں یُخْلِفُہ کا ترجمہ بالکل درست کیا گیا ہے، لیکن خَیْْرُ الرَّازِقِیْن کا ترجمہ درست نہیں ہے:
’’اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے‘‘ (سید مودودی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی مذکورہ بالا تمام امور کی رعایت کے ساتھ ترجمہ کرتے ہیں:’’اور جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہوتو وہ اس کا بدل دیتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے‘‘
(۸۹) احسن الخالقین کا ترجمہ
جس طرح خیر الرازقین کا ترجمہ بہترین رازق ہونا چاہئے، اسی طرح احسن الخالقین کا ترجمہ بہترین خالق ہونا چاہیے، نہ کہ سب سے بہتر خالق۔
(۱) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَۃٍ مِّن طِیْنٍ۔ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَاماً فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔ (المؤمنون: ۱۲۔ ۱۴)
’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا، پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اس کو ایک محفوظ مستقر میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو ایک جنین کی شکل دی، پھر جنین کو گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا، پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنایا، پھر اس کو ایک بالکل ہی مختلف مخلوق کی شکل میں مشکل کردیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، بہترین پیدا کرنے والا‘‘ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا ترجمہ میں کئی مقامات اصلاح طلب ہیں، علقۃ کا ترجمہ جنین نہیں بلکہ لوتھڑا ہونا چاہئے، مضغۃ کا ترجمہ گوشت کا لوتھڑا نہیں بلکہ بوٹی ہونا چاہئے،خَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً کا مطلب مضغۃ کے اندر ہڈیاں پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ مضغۃ یعنی بوٹی کو ہڈی بنادینا ہے، البتہ احسن الخالقین کا ترجمہ مناسب ہے، جبکہ مذکورہ ذیل ترجمہ میں یہ ساری کمیاں تو نہیں ہیں، البتہ احسن الخالقین کا ترجمہ مناسب نہیں ہے:
’’اور ہم نے بنایا ہے آدمی چن لی مٹی سے، پھر رکھا اس کو بوند کرکر ایک جمے ٹھیراو میں پھر بنائی اس بوند سے پھٹکی، پھر بنائی اس پھٹکی سے بوٹی، پھر بنائی اس بوٹی سے ہڈیاں، پھر بنایا ان ہڈیوں پر گوشت، پھر اٹھا کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں سو بڑی برکت اللہ کی جو سب سے بہتر بنانے والا‘‘ (شاہ عبدالقادر)
(۲) أَتَدْعُونَ بَعْلاً وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِیْن۔ (الصافات: ۱۲۵)
’’کیا تم بعل (نامی بت) کو پکارتے ہو؟ اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو؟‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’کیا تم لوگ بعل کو پکارتے ہو اور بہترین خالق کو چھوڑتے ہو‘‘ (امین احسن اصلاحی، ’’چھوڑتے ہو‘‘ کے بجائے ’’چھوڑ دیتے ہو‘‘ کہنا موقع کلام کے لحاظ زیادہ فصیح ہے)۔
(۹۰) تَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ کا ترجمہ
تلَّ کے معنی زمین پر گرانے کے اور پچھاڑنے کے بھی ہوتے ہیں، اور اس کے معنی لٹانے کے بھی ہوتے ہیں، دونوں طرح کے استعمالات لغت میں ملتے ہیں، یہ بات موقع ومحل کے لحاظ سے طے ہونا چاہئے کہ کون سا معنی مقصود ہے، قرآن مجید میں یہ لفظ ایک مقام پر آیا ہے، اور اس کا سیاق یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ انہوں نے خواب دیکھا ہے کہ وہ اسے ذبح کر رہے ہیں، اور بیٹے نے کہا کہ ابو جان آپ کو جو حکم ملا ہے وہ کرگزرئیے،ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، اس کے بعد ذیل کی آیت میں دونوں کی حوالگی کا ذکر کرتے ہوئے ذبح کرنے سے پہلے کا منظر بیان کیا گیا:
فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ۔ (الصافات:۱۰۳)
یہاں موقع ومحل خود بتارہا ہے کہ بیٹے کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہورہی ہے، بلکہ وہ تو حوالگی اور خود سپردگی کی بے مثال تصویر بنا ہوا ہے، اس پس منظر کی روشنی میں ایسا ترجمہ مناسب نہیں ہوگا جو اس حوالگی اور خود سپردگی کے مناسب حال نہیں ہو۔
مترجمین کے یہاں ہمیں تین مختلف طرح کے ترجمے ملتے ہیں:
’’پس جب مطیع ہوئے دونوں حکم الٰہی کے اور پچھاڑا اس کو ماتھے پر‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’پھر جب دونوں نے حکم مانا اور پچھاڑا اس کو ماتھے کے بل‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’پس جب دونوں نے اپنے تئیں اپنے رب کے حوالے کردیا اور ابراہیم نے اس کو پیشانی کے بل پچھاڑ دیا‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرادیا‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کردیا، اور ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرادیا‘‘(سید مودودی)
’’غرض دونوں نے (خدا کے حکم کو) تسلیم کرلیا اور باپ نے بیٹے کو (ذبح کرنے کے لیے) کروٹ پر لٹایا‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا‘‘(احمد رضاخان)
ان تینوں طرح کے ترجموں میں گرانے اور پچھاڑنے کا ترجمہ مناسب نہیں ہے، لٹانے اور ڈالنے کا ترجمہ زیادہ مناسب ہے۔
(جاری)
فتویٰ کی حقیقت و اہمیت اور افتا کے ادارہ کی تنظیم نو
ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی
دستور، قانون اور عملی احکام سے آگاہی معاشرے کے ہر فرد کی ضرورت ہے، اس لیے کہ آئین کی روح کو سمجھنا، قانون سے واقف ہونا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا ہر مہذب فرد کا فریضہ ہے۔ دین اسلام نے بالکل آغاز سے انسان کو اس بنیادی ضرورت کی طرف متوجہ کیا ہے۔
قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک علم نافع جو ہر فرد بشر کے فکری ارتقا اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے ہر مسلمان مرد اور عورت کا علم حاصل کرنا نہ صرف فرض ہے بلکہ حصول عم کا عمل مومن کی ساری زندگی میں تسلسل کے ساتھ جاری رہنا ضروری ہے۔ علمی اور فکری ارتقا کا رک جانا عقل و شعور کی موت (intellectual death) کے مترادف ہے۔
وحی الٰہی کا آغاز سورہ علق کی جن پانچ آیات سے ہوا ہے، ان سے دین میں تعلیم و تعلم، قلم و کتاب ، مطالعہ اور بحث و تحقیق کی اہمیت و ضرورت مسلم امہ کے لیے پہلے دن سے ہی اجاگر کر دی گئی تھی۔
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ
’’اے محمدؐ! اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اسے علم نہ تھا۔‘‘
دوسری چیز وہ رویہ ہے جو قبول علم کے لیے لازمی ہے۔ یہ رویہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اپنے آپ کو اخلاق فاضلہ سے آراستہ کر لیتا ہے۔ پھر اخلاص کے ساتھ علم کی طلب و جستجو پیدا ہو جاتی ہے۔ علم صفت خداوندی ہے۔ یہ عظیم الشان صفت اس وقت اجاگر ہوتی ہے جب انسان میں عبدیت کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ چنانچہ شعور عبدیت کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان تزکیہ نفس کے عمل سے گزرے اور اپنے مزاج اور رویہ میں فضائل اخلاق کو رچا بسا لے۔ جب یہ دونوں چیزیں انسان کو حاصل ہو جاتی ہیں تو پھر وہ نہ صرف یہ کہ علم و عمل کی لذت سے آشنا ہو جاتا ہے، بلکہ دل میں قانون کی عظمت بھی اجاگر ہو جاتی ہے اور قلب و دماغ میں مزید علم کی طلب اور ذوق تحقیق و جستجو بھی پیدا ہوتا ہے۔
عہد رسالت میں تو عوامی نمائندوں اور انتظامی عہدہ داروں کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ لوگوں کو احکام و ضوابط اور قاعدے و قانون سے آگاہ کرتے رہیں۔ نیز یہ کہ وہ خود بھی اخلاقی اقدار کے مالک ہوں اور معاشرے میں بطور معلم اخلاق اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ ابن حجر عسقلانیؒ عہد رسالت کے پبلک نمائندوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ لوگوں کے حقوق کی نگہبانی بھی کرتے تھے اور قانون پر عمل درآمد بھی کراتے تھے۔
فتویٰ کی حقیقت یہ ہے کہ احکام و مسائل اور قانون کو صحیح صحیح دلیل کے ساتھ بتا دیا جائے۔ قانون کے اصل مآخذ و مصادر تو قرآن و سنت ہیں۔ یقینی بات ہے کہ ہر قانون کو انہی کی روشنی میں دیکھنا اور پرکھنا ہوتا ہے۔ قرآن و سنت میں کوئی حکم موجود نہ ہو تو اس صورت میں دیگر شرعی دلائل کے ذریعہ مسئلہ کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ دلائل شرعیہ کے ذریعہ استنباط و استدلال کے بہت سے مناہج ہیں جن کی تفصیلات اجتہاد اور اصول فقہ کی کتب میں ملتی ہیں۔
فتویٰ، فیصلہ اور رائے کا فرق
عام طور پر لوگ فتویٰ، فیصلہ اور رائے کے فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ یہاں ان کے فرق کو نمایاں کر دیا جائے۔
جہاں تک رائے کا تعلق ہے تو وہ ہر صاحب علم و فکر کا حق ہے کہ وہ کسی مسئلہ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار دیانت داری کے ساتھ کرے۔
اظہار رائے کے لیے تین شرائط ہیں: پہلی شرط اخلاص ہے۔ انسان جو بات بھی کہے وہ اخلاص و دیانت پر مبنی ہونی چاہیے۔ دوسری شرط علم ہے، جس شعبہ سے متعلق کوئی فرد کسی مسئلہ کے بارے میں رائے کا اظہار کر رہا ہو، اس سے متعلق وہ معلومات اور علم بھی رکھتا ہو۔ تیسری شرط یہ ہے کہ جو بات کہے وہ مدلل ہو، دلیل کے بغیر رائے کو اہمیت نہیں دی جا سکتی۔
فتویٰ اس حکم یا رائے کو کہا جاتا ہے جو درجہ افتاء پر فائز با صلاحیت مفتی کی جانب سے جاری ہوتا ہے۔ مفتی کسی مسئلہ کے بارے میں اپنے علم و اجتہاد کی بنیاد پر یہ بتاتا ہے کہ زیر غور مسئلہ میں شریعت کا نقطہ نگاہ کیا ہے۔ شریعت کا نقطہ نگاہ جب معلوم ہو جائے تو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ انفرادی طور پر بھی عمل کرنا ضروری ہے اور اجتماعی طور پر بھی۔ فیصلہ اسے کہا جاتا ہے جو کسی با اختیار عدالت یا ایسے با اختیار ادارے کی طرف سے کیا جائے جس پر عمل درآمد کے لیے لوگ قواعد و ضوابط کے مطابق پابند ہوتے ہیں۔ بقول فقہاء قاضی مجبر (یعنی اس کے فیصلہ پر عمل لازم ہے) اور مفتی مخبر ہوتا ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں افتاء کا ادارہ وجود میں آگیا تھا۔ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زندگی میں درپیش مسائل کے بارے میں دریافت کیا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جوابات دیا کرتے تھے۔ لیکن جب مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور لوگ دور دراز کے علاقوں میں پھیل گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان صحابہ کرام کو فتویٰ دینے کی اجازت عطا فرمائی جو علم و عمل اور تفقہ و اجتہاد کے لحاظ سے اس درجے کو پہنچ چکے تھے کہ لوگوں کی علمی، فکری اور قانون رہنمائی کر سکیں۔
عہد رسالت میں دو اداروں کے قیام کی طرف خصوصی توجہ دی گئی تھی، ایک عدلیہ کا قیام، دوسرے افتاء کا ادارہ۔ نظام قضاء کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرے اور قانون کو بلا روک ٹوک اس کی صحیح روح کے ساتھ جاری و نافذ کرے۔ افتاء کے ادارہ کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ لوگوں کو قانون کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں مدد کرے۔ جس طرح عدلیہ بے لاگ اور بلا معاوضہ انصاف مہیا کرتا تھا، اس طرح افتاء کا ادارہ بھی کسی فیس یا معاوضہ کے بغیر قانونی مشورے دیتا تھا۔ افتاء کا ادارہ وقت کے ساتھ پھیلتا اور مستحکم ہوتا رہا۔ مفتی حضرات نہ صرف یہ کہ زبانی مسائل، احکام اور قانون کی وضاحت کرتے بلکہ بوقت ضرورت تحریری طور پر بھی قانون کی وضاحت کا فریضہ انجام دینے لگے۔ اگر کہیں کسی مسئلہ میں کوئی الجھن پیدا ہوتی تو وہ تعبیر و تشریح کے اصولوں کی روشنی میں دلائل کے ساتھ الجھن کو دور کرنے کی سعی فرماتے اور کوشش کرتے تھے کہ ایسی تعبیر پیش کی جائے جو شریعت کی روح اور منشاء سے زیادہ قریب ہو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کرامؓ کو فتویٰ دینے کی اجازت دی تھی، ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، ام المومنین حضرت عائشہؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نمایاں تھے۔ یوں تو صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد تھی جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست علم حاصل کیا۔ لیکن درجہ افتاء پر فائز صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد تھی جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست علم حاصل کیا۔ لیکن درجہ افتاء پر فائز صحابہ کرام کی تعداد تقریباً سوا سو تھی۔ ان میں سے جو لوگ عملاً افتاء کے کام میں مصروف رہے انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے ۱۔ بہرحال یہ تمام حضرات مستند اور اجازت یافتہ مفتی تھے، اور لوگوں کو قانون سے آگاہی فراہم کیا کرتے تھے۔ لوگوں میں قانون کا علم اور شعور پیدا کرنے میں ان حضرات کا نمایاں کردار ہے۔
افتاء کی اہلیت و صلاحیت
فتویٰ دینا کیونکہ ایک بھاری ذمہ داری ہے، لہٰذا اس منصب کے لیے صلاحیت و قابلیت کو بھی بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ مفتی اور قاضی کے عہدے ایسے ہیں کہ ان پر بہت سوچ سمجھ کر با صلاحیت اور با کردار افراد ہی کا تقرر کیا جا سکتا ہے۔ ان کی قابلیت و صلاحیت کا کڑا معیار ہر صورت میں برقرار رکھنا چاہیے۔
افتاء کے عہدہ پر انتہائی سمجھدار، تجربہ کار اور عاقل و بالغ مسلمان ہی کو فائز کیا جا سکتا ہے۔ مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن حکیم اور اس کے علوم، سنت اور علوم الحدیث سے اچھی طرح واقف ہو۔ اجماعی مسائل کا علم رکھتا ہو۔ اجتہاد اور اس کے اسالیب سے اچھی طرح واقف ہو۔ نیز دلالات اور تشریح و تعبیر کے اصولوں کو خوب سمجھتا ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب اسے عربی زبان و ادب پر عبور حاصل ہو۔ فقہا نے مفتی کے لیے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ وہ جس خطہ میں بطور مفتی مقرر کیا جا رہا ہو، وہاں کے عرف و عادات، رسوم و رواج، زبان اور اس کی اصطلاحات کو خوب سمجھتا ہو۔ سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ عمل و کردار، تقویٰ اور نیکی میں بھی نمایاں مقام رکھتا ہو۔
حواشی
۱ الاشقر، عمر سلیمان، تاریخ الفقہ الاسلامی (مکتبہ الفلاح، الکویت ۱۴۱۰ھ / ۱۹۸۹) ۷۹
مطالعہ و تحقیق کے مزاج کو فروغ دینے کی ضرورت
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی
(چند سال قبل برصغیر کے نامور محقق اور مورخ حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی مدظلہ (مدیر سہ ماہی ’’احوال وآثار’’ کاندھلہ ، انڈیا) الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی لائبریری کے افتتاح کے موقع پر اکادمی میں تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر انھوں نے حسب ذیل گفتگو فرمائی جسے ٹیپ ریکارڈ کی مدد سے صفحہ قرطا س پر منتقل کیا گیا ہے۔ مدیر)
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۔ علمک مالم تکن تعلم وکان فضل اللہ علیک عظیما۔ الحکمۃ ضالۃ المؤمن۔
حضرت مولانا دامت برکاتہم اور حضرت مولانا مفتی عیسٰی صاحب مدظلہ العالی
میں یقیناًاس لائق نہیں ہوں کہ جس طرح کے کلمات خیر سے ازراہِ محبت ذکر کیا گیا ہے، لیکن چونکہ یہ بڑے حضرات ہیں، اکابر حضرات ہیں، اس لیے دعا و تمنا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے خیالات کو حقیقت میں بدل دے اور ان کے یہ کلمات ہمارے لیے ایسی دعا ثابت ہوں جو حقیقت ہو جائیں۔
یہ بات میرے لیے بڑی خوش نصیبی اور سعادت کی ہے کہ اس مبارک مدرسہ میں حاضری ہوئی۔ میں جب پڑھتا تھا، اس وقت میں نے حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی کتاب ’’راہ سنت‘‘ پڑھی تھی، اور پھر تو بار بار پڑھنے کا موقع ملا۔ مولانا کی جتنی کتابیں ہیں، میرے خیال میں تقریباً ساری ہی ایک ایک کر کے پڑھیں۔ حضرت مولانا سواتی صاحب کی بیشتر کتابیں دیکھنے کا اور ہمارے اندر تھوڑی بہت جتنی لیاقت تھی، اس کے مطابق ان کو سمجھنے کا اور ان سے استفادہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جو بے شمار عنایات اور انعامات ہیں، ان میں سے ایک بڑا انعام اور فضل و کرم یہ ہے کہ آج اس مبارک مدرسے اور ان حضرات کے زیر سایہ حاضر ہونے کی توفیق ملی اور آپ سے ملاقات ہوئی۔
یہ بھی بڑی سعادت ہے اور یہ بھی بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج یہاں ایک مدرسے کی لائبریری کا افتتاح ہو رہا ہے۔ یہ بات بڑی تعجب کی ہوگی کہ لائبریری کے افتتاح کے لیے ایک ایسے آدمی کو طلب فرمایا گیا جو بہت ہی ادنیٰ درجہ کا طالب علم ہے اور اس کا اہل بھی نہیں ہے، لیکن بعض اوقات آپ حضرات جانتے ہیں کہ حکم کے بعد گنجائش کم رہتی ہے تو حکم ہوا تو میں حاضر ہوگیا۔
لائبریری کا قائم کرنا بہت مبارک ہے اور بے حد ضروری بھی ہے۔ مدارس کا اصل ورثہ علم ہی تھا۔ یہ جو علم ہے، وہ اصل میں ہمارے بزرگوں کی محنت کا نتیجہ ہے، اور ان حضرات نے علم اور کتاب دونوں کو مفاد سے بالاتر ہو رکھا۔ کسی کام کو نہ اپنی ذات کے لیے کیا اور نہ کسی دنیا کے مفاد کے لیے کیا۔ ہر بات میں وہ دو چیزوں کی رعایت رکھتے تھے۔ ایک اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوسرا علم کی خدمت۔ اسی لیے ہمارے علماء نے ایسے ایسے کام کیے ہیں کہ آج بڑی بڑی اکیڈمیاں اور کروڑوں روپے کے بجٹ وہ نہیں کر سکتے جو ان میں سے ایک نے کر دیے ہیں۔
مثلاً ابھی پچھلے مہینے ہمارے ہاں ایک کتاب شائع ہوئی ہے ’’فتاویٰ تاتار خانیہ‘‘۔ آپ نے سنا ہوگا۔ یہ آٹھویں صدی کے عالم ہیں، ۷۸۶ھ میں ان کی وفات ہے۔ ان کی کتاب کو قاضی سجاد صاحب نے مرتب کرنا شروع کیا تھا، لیکن اجل نے ان کو مہلت نہیں دی اور ان کی وفات ہوگئی۔ اب ہمارے ہاں ایک اور عالم مفتی شبیر صاحب نے اس کو مرتب کر کے شائع کیا ہے جو ۲۳ جلدوں میں ہے۔ ایک فرد کا کام ہے۔
آپ حضرات نے قریب میں سنا ہوگا کہ ٹونک کے ایک عالم تھے، مولانا محمود حسن صاحب۔ انہوں نے ان علماء پر جو عربی کے صاحب تصنیف ہیں، جنہوں نے عربی میں کوئی قابل ذکر کتاب لکھی ہے، صرف ان کے حالات جمع کیے۔ ’’معجم المصنفین‘‘ کے نام سے ۸۰ جلدوں میں ہے اور اس کتاب کے مؤلف کوئی پرانی صدی کے آدمی نہیں ہیں۔ غالباً ابھی ۱۳۷۰ھ یا اس کے بعد ان کی وفات ہوئی ہے۔
ہمارے ہاں ایک ہندو راجہ تھا راجندر لاؤ۔ اردو کا بڑا دلدادہ تھا۔ اس نے اردو کا ایک لغت مرتب کیا جس کا ایک نسخہ دستیاب ہوگیا ہے جو پچاس جلدوں میں ہے۔ اردو کا لغت پچاس جلدوں میں اور ہندو لکھ رہا ہے۔
اور جن لوگوں کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا ہے، ان میں ہمارے مولانا ادریس صاحب کاندھلوی ، ان کی شرح بخاری شریف ہے جو ۳۰ جلدوں میں ہے۔ ان کی شرح بیضاوی ہے جو ۳۰ جلدوں میں ہے۔ التعلیق الصبیح ۸ جلدوں میں ہے۔ ان کی تفسیر معارف القرآن دیکھی ہوگی۔ اور ان کی سیرت پر جو کتاب ہے، مجھے یہ کہنا چاہیے کہ پورے برصغیر میں غالباً علامہ شبلی کی کتاب کے بعد سب سے بڑی مرجع ہے۔
اور میں نے ابھی دیکھا تو نہیں، لیکن سنا ہے کہ مولانا موسیٰ خانؒ روحانی بازی کی ایک تقریر ہے بیضاوی کی جو شاید ۶۰ جلدوں میں ہے اور اب اس کی طباعت کا اہتمام ہو رہا ہے۔ اور اس طرح کی بہت ساری باتیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آدمی کرنا چاہے تو بہت کچھ کر سکتا ہے۔
آپ کہیں گے کہ پرانے دور میں بادشاہ اہل علم کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ بتائیے، مولانا ادریس صاحب کو کس کا تعاون تھا؟ کس سے تنخواہ لیتے تھے؟ کہاں سے وظیفہ ملتا تھا؟ وہ فرد تھے، ارادہ رکھتے تھے، خدا کے لیے کام کرتے تھے، خدا کی طرف سے مدد ہوتی تھی۔ ہم لوگ اول تو کام کرنا نہیں چاہتے، اگر کرنا چاہتے ہیں تو ہماری ترتیب الٹی ہوتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے مدرسوں کے بارے میں بھی یہ کیا اور علم کے بارے میں بھی یہ کیا کہ وہ پہلے کام کرتے تھے، وسائل خود بخود آتے تھے۔ ہم پہلے وسائل ڈھونڈتے ہیں اور کام کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے کام شروع کر دینا چاہیے۔
حضرت مولانا ادریس کو آپ نے دیکھا ہوگا۔ مولانا کی صفات کیا تھیں؟ مولانا کی صفت یہ ہے کہ مولانا نے پوری زندگی کبھی انگریزی قلم کو ہاتھ میں نہیں لیا، بازار سے آنے والی روشنائی سے نہیں لکھا۔ وہ کہتے تھے کہ روشنائی ناپاک ہے۔ میں اس سے حدیث کس طرح لکھوں؟ خدا کو کیا جواب دوں گا؟ تب ان کے کام میں برکت ہوتی تھی۔ مولانا ہمیشہ سرکنڈے کے قلم سے لکھتے تھے، تا حیات قلم خود بناتے تھے۔ اور اسی طرح سے اور بھی سب حضرات اس طرح کام کرتے تھے۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کو ہم نے خود دیکھا، زمین پر بوریا بچھا کر بیٹھتے تھے۔ آپ کے ہاں تو ہم جانتے نہیں، کیا کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ۵، ۷ روپے کا آتا ہے بوریا اور وہاں قربانی کا گوشت رکھنے کے کام آتا ہے۔ شیخ الحدیث صاحب اس پر بیٹھتے تھے، اسی پر بیٹھ کر سارے کام کیے ہیں۔ وہیں بیٹھ کر اوجز المسالک لکھی گئی ہے۔ وہاں اس کمرے میں نہ بجلی ہے، نہ دنیاوی شوکت ہے اور نہ ہی کوئی پنکھا ہے۔ وہاں بیٹھے رہتے تھے۔ چاروں طرف کتابوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ ترتیب سے کتابیں لگی ہوتی تھیں اور جب کوئی ضرورت پڑتی تو ان کے پاس جو طلبہ تھے، مولانا یوسف صاحب تھے یا دیگر، ان کو کہتے تھے کہ کتاب اٹھاؤ۔ کتاب دیکھی، پھر رکھ دی۔ شیخ نے اپنے اس کمرے میں پوری زندگی نہ بجلی لگنے دی نہ پنکھا لگنے دیا۔ اور حافظ صاحب اور شیخ صاحب لنگی باندھتے تھے اور وہ لنگی پسینے سے تر ہو جاتی تھی۔ جب دیکھتے کہ پسینہ بنیان میں سے ٹپکنے لگا تو اس کو بدل کر دھوپ میں ڈال دیا، لیکن کام میں نہیں فرق پڑتا تھا۔ یہی بات اصل ہے۔
ہمارے ہاں سہولیات تو بہت ہیں، لیکن وہ لگن نہیں، وہ تڑپ نہیں، وہ جذبہ نہیں۔ علم تو اس امت کا خاصہ ہے۔ اس امت نے جس طرح علم کو آگے بڑھایا اور جتنے علم کے پہلو ایجاد کیے، پوری دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یورپ نے جو کچھ کیا ہے، یہ نہیں کہ اس نے کوئی چیز ایجاد کی ہے۔ اس نے آپ کے پاس جو معلومات تھیں، ان کو نکھارا سنوارا، آگے بڑھایا۔ میں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں۔
ایک بہت بڑے مغربی اسکالر ہیں اور ان کی دنیا میں بڑی شہرت ہے، اس بات میں کہ انہوں نے اہرام میں اور دوسری جو عمارتیں ہیں، ان کے کتبات اور مہروں کو پڑھا اور دنیا میں اس کو آخری سند سمجھا جاتا ہے۔ چار، پانچ سال پہلے ایک کتاب چھپی تو پتہ چلا کہ وہ تو آٹھویں صدی کے ایک عالم تھے، وہ سارے کتبے حل کر چکے تھے۔ اس بندۂ خدا کے ہاتھ وہ کتاب لگ گئی اور اس نے وہ ساری چیزیں اپنی طرف منسوب کرلیں۔ تو اس طرح سے ہوتا ہے۔
ہم نے وہ راستہ چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے اندر سے وہ لگن ختم ہوگئی۔ ہمارے اندر سے وہ جذبہ چلا گیا، ہمارے اندر سے وہ تڑپ جاتی رہی۔ اب کام نہیں ہوتا۔ تو یہ جو ادارہ قائم کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ مبارک کرے۔ بڑی مزید ترقیات سے نوازے اور بڑے ادارے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ساتھ ساتھ کچھ افراد بھی تیار کریں اور افراد کون ہوں؟ وہ افراد وہ ہوں جو کہ کہا جاتا ہے کہ بالکل کشتیاں جلا کر کام کریں۔ دنیا کے کسی مفاد کو سامنے نہ رکھیں اور بالکل سراپا علم کے اندر ڈوب جائیں۔ پھر تو بات بنتی ہے۔ اور جب تک یہ بات نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔
آج کل اتنی کتابیں چھپ رہی ہیں کہ پہلے کبھی نہیں چھپتی تھیں۔ لیکن شاید دو سو چار سو کتابوں میں سے کوئی دو چار کتابیں ایسی ہوں کہ آدمی پڑھ کر سمجھے کہ اس کو پڑھ کر کوئی فائدہ حاصل کیا۔ اور پہلے لوگوں کی کتابیں ایسی ہیں مثلاً مولانا محمد قاسم صاحب،ؒ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ان کے بعد مولانا ادریس صاحب کو بھی، ان کی کتابوں کو آپ جتنی مرتبہ پڑھیں گے تو ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی نیا فائدہ حاصل ہوگا۔ اور آپ سوچیں گے کہ اوہو یہ بات تو میں نے پڑھی ہی نہیں، میرا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں۔ بعض فقرے ایسے ہیں ان کی کتاب میں کہ ایک فقرے کی شرح میں پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ یہ ان کے علم کی گہرائی، ان کی جامعیت تھی کہ انہوں نے یہ فقرات لکھے۔ ہمارے اندر یہ بات نہیں۔ ہم کبھی کسی کتاب کے دو سو تین سو صفحے پڑھتے ہیں، پڑھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ کیوں وقت ضائع کیا۔ ان میں سے دو صفحے بھی ایسے نہیں نکلتے کہ جن کو پڑھ کر آدمی کچھ فائدہ حاصل کرے۔
اب یہ ہے کہ آپ حضرات کے ہاں وسائل بھی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہاں طلبہ کی توجہ بھی ہے، اور کسی چیز کی کسی طرح کی دقت نہیں ہے۔ یہاں ایسا ادارہ قائم ہو جو ہمارے اسلاف خاص طور پر حضرت شاہ ولی اللہ سے اب تک کے حضرات پر کام ہو۔ ان پر تحقیق ہو، ان پر تنقیح ہو۔ حضرت شاہ ولی اللہ ہیں، مجھے معلوم ہے کہ اس برصغیر میں کسی جگہ بھی ان کی تصانیف ایک جگہ موجود نہیں ہیں۔ اگر ہوں تو میری راہنمائی فرمائیں۔ ان کی کتابیں موجود ہیں، لیکن کسی کے اندر وہ جذبہ نہیں۔ میں ایک ناچیز سا طالب علم ہوں، ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتا ہوں، اور میرے پاس حضرات شاہ صاحب کی سو فیصد کتابیں موجود ہیں، مطبوعہ بھی اور غیر مطبوعہ بھی، ہاتھ سے لکھی ہوئی بھی۔ اسی طرح حضرت مولانا قاسم نانوتوی کی سو فیصد کتابیں میرے پاس ہیں۔ اگر یہاں لوگ اس طرح کی کوشش کریں تو اس کو کامیابی کیوں حاصل نہ ہو!
اس لیے کوئی ایسا ادارہ ہو جہاں ان تمام حضرات کی چیزیں جمع کی جائیں اور طلبہ کو ان پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ مثلاً حضرت شاہ صاحب ہیں، ان کی اپنی اصطلاحات ہیں جن کو وہ مختلف جگہ پر استعمال کرتے ہیں اور مختلف مطلب لیتے ہیں۔ اب اگر ایسی لغت مرتب کی جائے کہ اس بات کو شاہ صاحب فلاں جگہ فرمائیں تو یہ مطلب ہے، فلاں جگہ فرمائیں تو یہ مطلب ہے، تو اس سے استفادہ کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ اور یہ جو بات کی جاتی ہے کہ صاحب ! شاہ صاحب کے ہں اختلاف بہت ہے، اس کا جواب ہو جائے۔ اسی طرح شاہ صاحب اجتہاد و تقلید پر خوب لکھتے ہیں، ان کی ساری چیزوں کو جمع کیا جائے تو وہ مفہوم ہرگز نہ ہو جو آج لیا جا رہا ہے۔ ان پر حضرت مولانا عبید اللہ سندھی نے کام کیا، تھا لیکن ان کی کتابیں اس وقت چھپنی شروع ہوئی ہیں جب ان کے پڑھنے والے چلے گئے۔
ہمارے ہاں یہ بات بہت مشہور ہے کہ حضرت علامہ کشمیری نے فرمایا کہ مولانا گنگوہی تفقہ میں شامی سے بڑھے ہوئے ہیں، لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت بھی چاہیے۔ حضرت کشمیری نے فرمایا، بہت اچھا ہے لیکن یہ ثابت کیسے ہو؟ اس کی صورت یہ ہے کہ ان کے فتاویٰ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے اور اس بات کو ثابت کیا جائے۔
پہلے علماء یہ کیا کرتے تھے کہ آدمی ہزار صفحے پڑھے، پھر دس صفحے لکھے۔ اب کام الٹ ہوگیا ہے کہ پہلے سو صفحے لکھے، پھر پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ اس کے لیے طلبہ کو تیار کرنا ہوگا۔ اسی طرح ہمارے دیگر حضرات کے ملفوظات میں بھی بہت سارے نوادر موجود ہیں۔ ہمارے قریب کے حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری کے ہاں غیر معمولی باتیں ہیں۔ شاہ یعقوب کے ہاں بھی اسی طرح چیزیں ہیں۔ اس کے لیے طلبہ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے اور طلبہ اس وقت تیار ہوتے ہیں کہ جب استاد ان سے ان چیزوں میں فائق ہو۔ ان کی ہر موقع پر راہنمائی کر سکتا ہو۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہر جگہ باقاعدہ طلبہ ہوں، ذہین طلبہ رکھے جائیں، ان کو معقول وظیفے دیے جائیں، ان کے لیے تمام علمی مواد جمع کر دیا جائے۔
آپ کے سامنے ایک طالب علم بیٹھا ہے۔ اس کی کوششوں سے الحمد للہ اس وقت ہمارے ذخیرے میں ۱۶۰۰ تو مخطوطے ہیں اور بارہ چودہ ہزار کتابیں ہیں اور استفادے کے لیے پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں۔ ابھی یہاں آنے سے دو دن پہلے مجھے ایسی خوشی ہوئی کہ ایک صاحب کا بخارا سے فون آیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو معلوم کیسے ہوا تو انہوں نے بتایا کہ اگر فلاں چیز چاہیے تو وہاں فون کرو۔ علم کا تو معاملہ یہ ہے کہ آدمی جب اس میں لگ جاتا ہے تو یہ خود بخود آپ کو ترقی دیتا ہے۔ ہم نے اور چیزوں کو مقصد بنا لیا ہے، علم کو چھوڑ دیا ہے۔
برطانیہ میں لین پول یونیورسٹی ہے آکسفورڈ اور کیمبرج کے بعد سب سے بڑی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے شعبہ علوم اسلامیہ کے جو صدر ہیں، وہ آئے۔ یہ صاحب وزیر اعظم برطانیہ کے اسلامی ممالک کے لیے مشیر ہیں۔ مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ وہ کیوں آئے تھے؟ اس بات پر ریسرچ کرنے کے لیے کہ یہ ہندوستان کے جو مدارس ہیں، ان کے مقاصد کیا ہیں؟ اور کیا یہ اپنے مقاصد پورے کر رہے ہیں؟ اور اب ان کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ اب دیکھیں، اتنا بڑا آدمی جس کی حیثیت برطانیہ کے ایک وزیر کی ہے، وہ صوفے پر نہیں بیٹھا۔ دری پر ہی بیٹھا اور وہیں پر سویا۔ وہ کہتا تھا کہ طالب علم کو ان باتوں سے کیا تعلق؟ ہم نے کہا تو کہنے لگا کہ نہیں نہیں، جہاں تم بیٹھو گے، وہیں بیٹھوں گا۔ جو کھلاؤ گے، کھاؤں گا۔ مقصد تو باتیں کرنا ہے اور وہ دیر تک، رات دو بجے تک سوالات پوچھتا رہا۔ اور ایسے ایسے سوالات کہ ہمارے بڑے بڑے اچھے حضرات کا ذہن بھی اس طرف نہیں جا سکتا کہ مدرسوں کے مزاج میں فرق کیوں ہے؟ ان کے نصاب میں فرق کیوں ہے؟ فلاں آدمی اور فلاں آدمی کے طریقہ تعلیم میں کیوں فرق ہے؟ فلاں فلاں کے پاس بیٹھنے والے طلبہ کے مزاج میں کیوں فرق ہے؟ اور ایسے سوالات کے انبار تھے کہ بس! بہرحال جو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی، وہ ہم نے بھی عرض کیا۔
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ افراد تیار کیے جائیں۔ یہاں پر مولانا عمار صاحب کی زیر نگرانی اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کی زیر سرپرستی بہت سا کام ہو سکتا ہے۔ اللہ اس ادارے کو ترقی دے اور اس کو ہم جیسے لوگوں کے لیے مرجع بنائے۔ ان شاء اللہ اس سلسلے میں جو خدمت مجھ سے ہو سکے گی، میں حاضر ہوں۔
عصری لسانیاتی مباحث اور الہامی کتب کی معنویت کا مسئلہ
محمد زاہد صدیق مغل
جدید لسانیاتی مباحث اپنی وضع میں پوسٹ ماڈرن مباحث سے ماخوذ ہیں۔ ان مباحث کی رو سے الفاظ کے تمام تر اطلاقات اور معانی معاشرتی ماحول اور نفس کی کیفیاتی تناظر کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ اس فلسفے کے زور پر فلسفہ لسانیات کے ماہرین الہامی کتب کی نہ صرف آفاقیت پر سوال کھڑا کرتے ہیں بلکہ الہامی کتب سے منسوب کسی بھی قسم کی قطعی معنویت کا انکار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اگر کسی بھی لفظ اور عبارت کا معنی قطعی نہیں تو نصوص میں بیان کردہ حلال حرام اور اچھائی برائی کا کیا معنی، وہ بھی رہتی دنیا تک؟ اسی فکری منہج کے حوالے سے چند روز قبل فیس بک پر ایک کالم "مذہب پر عصری تنقید" دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کالم کے فاضل مصنف یہ کہتے ہیں کہ جدید فلسفیانہ مباحث نے مذہبی علمیت پر چند ایسے "بدیہی سوالات" کھڑے کردئیے ہیں کہ "ان کا تسلی بخش جواب دینا اور پھر اس جواب کی علمی قدر پیدا کرنا تقریباً ناممکن ہے"۔ مصنف کے خیال میں اہل مشرق بالعموم اور اہل پاکستان بالخصوص فلسفے کے پیدا کردہ ان مسائل و مباحث سے واقف ہی نہیں۔ ان سوالات میں سے ایک کاتعلق ان لسانیاتی مباحث کے پیدا کردہ مسائل سے ہے جن کے زور پر الہامی کتب کی معنویت پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
درج بالا مقدمے کا تجزیہ کرنے سے قبل یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ جو احباب فلسفیانہ مباحث کے اندر پیوست مفروضات پر سوال اٹھائے بنا "ان فلسفوں کے اندر رہتے ہوئے" ان کے پیدا کردہ مسائل کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اکثر و بیشتر ناکام ہوتے ہیں، اور نتیجتاً ان فلسفوں کے پیدا کردہ گمراہ کن نتائج کو قبول کرلیتے ہیں۔ امام غزالی (رح) نے فلسفے کے مطالعے اور نقد کے اس طریقہ کار کی غلطی کو بخوبی بھانپ لیا تھا۔ جو شخص فلسفے کو حقیقت کا کوئی اعلی علم سمجھ کر پڑھتا ہے، پھر اسکے مسائل کے تناظر میں خدا کی نازل کردہ وحی کو جانچنا اور رد کردینا شروع کردیتا ہے وہ اسی غلط منہج پر چلتا ہے جو معتزلہ نے صدیوں قبل اختیار کیا تھا۔ ایسے مسائل کے جواب کا طریقہ وہی ہے جو امام غزالی نے اختیار کیا، یعنی فلسفے کے ان غیر عقلی و غیر ثابت شدہ مفروضات کا تجزیہ کرکے انہیں رد کردیا جائے جو بزعم فلسفی "لاینحل مسائل" کو جنم دیتے ہیں۔ اس مختصر تحریر میں قدرے اختصار کے ساتھ ان مفروضات کی نشاندہی و تجزیہ کر نے کی کوشش کی جائے جن کے تحت یہ لسانیاتی مسائل کھڑے کئے جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ "معانی کے تعین کا مسئلہ درحقیقت نفس کے تعین کا مسئلہ ہے"۔ آئندہ سطور میں اسی اجمال کی کچھ تفصیل پیش کی جائے گی۔
اہل فلاسفہ کا ایک دیرینہ مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ انسان کے کسی ایک جذبے یا پہلو کو اہم سمجھ کر پورے انسان یہاں تک کہ پوری انسانی زندگی کو اسی میں محصور کر دیتے ہیں۔ اسکی چند مثالیں نطشے، مارکس اور فرائیڈ کے تجزیوں میں ملتی ہیں جنہوں نے حصول قوت، معاشی مسابقت و صنفی جذبات کو تمام انسانی عمل اور تعلقات کی بنیاد فرض کرکے انسانی معاشروں کا تجزیہ کرڈالا۔ اہل فلاسفہ کے یہاں اسی نوع کا غیر معتدل رویہ انسانی نفس کے تعین کے سلسلے میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہاں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو انسان کو گویا ایک مشین کی طرح بالکل معین شے تصور کرتے ہیں، یعنی انسان ایک بالکل متعین شے ہے، اس اپروچ کو essentialism کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک فکر کا خیال یہ ہے کہ انسانی نفس کچھ ہے ہی نہیں، تجربات کے ذریعے یہ مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ اس فکر کو existentialism کہتے ہیں جو بیسیوں صدی کے مشہور فلسفی ہائیڈیگر کے افکار سے ماخوذ ہے۔
ہائیڈیگر اصلاً ایک ملحد تھا، وہ "آزادی بطور قدر" کو ایک مقدم و جائز مفروضے کے طور پر قبول کرتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ آزادی کا معنی "کچھ بھی چاہنے کی صلاحیت ہے"، یہ عدم محض (nothingness) کا نام ہے۔ یہ صرف "کچھ بھی چاہنے" کی صلاحیت ہے، ماورائے اس سے کہ وہ چاہت کیا ہے۔ نفس کو کیا چاھنا چاہیے (یعنی وہ "کچھ" کیا ہے) اس کا تعین ناممکن و لاحاصل ہے، نفس جونہی کسی مخصوص چاہت کو مرکز و محور بناتا ہے آزادی ختم ہوجاتی ہے (یعنی self can posses ends but cannot be contained by them)۔ جان لو! آزادی لاحاصل کے حصول کی جستجو ہے، یہ وجود کی لامعنویت کو مستلزم ہے۔ آزادی کا معنی نفس کو تعلقات سے ماورا فرض کرنا ہے، آزادی تعلقات کی نفی کا نام ہے (اسی لئے سارتر نے کہا کہ Hell is other people یعنی دوسرے لوگ آزادی پسند انسان کے لئے رکاوٹ ہیں کہ وہ اسے اس کی آزادی محدود ہونے کا احساس دلاتے ہیں)۔ تعلقات کی نفی احساس تنہائی کو جنم دیتی ہے اور تنہائی اضطرارو یاسیت (frustration and boredom) کو۔ چنانچہ:
- جوں جوں آزادی پڑھتی ہے، تنہائی بڑھتی ہے
- جیسے جیسے تنہائی بڑھتی ہے اضطرار و یاسیت میں اضافہ ہوتا ہے
- نتیجتاً انسان کا احساس محرومی اور اس کا غضب و شہوت اس کے قلب کو مسخر کرتے ہیں
آزادی کا پرستار اس اضطرار کو فطری انسانی کیفیت سمجھتا ہے۔ ھائیڈیگر کہتا ہے کہ اضطرار بالکل غیر معین ہے اور یہ عدم محض کی جستجو کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ مغربی دہریت فرد کو اس اضطرار کو فطری سمجھ کر اس پر راضی ہونے کا درس دیتی ہے۔ چنانچہ اس عدم محض کی جستجو میں انسانی نفس ہمہ وقت "ہوتا رہتا" (یعنی بدلتا رہتا) ہے کیونکہ جو خیالات و خواہشات نفس میں وقوع پزیر ہورہے ہیں وہ نہ تو حتمی ہیں اور نہ ہی نفس کا اصل۔ "نفس خود کیا ہے"، نفس اس کا تعین نہیں کرسکتا۔ ہائیڈیگر کے خیال میں انسان دنیا میں پھینک دیا گیا ہے۔ یہاں کون، کب اور کیوں پھینکا گیا ہے، نفس کے لئے یہ جاننا ممکن نہیں، انسان کائنات میں تنہا ہے۔
درج بالا مباحث اگرچہ قدرے پیچیدہ و مشکل ہیں مگر انہیں سمجھے بنا زیر نظر مسئلے کا حل گرفت میں لانا ممکن نہیں۔
اب جاننا چاہیے کہ آزادی اپنے رب سے بغاوت (قرآن اصطلاح میں "بغی") ہے۔ مغربی انفردایت کے اضطرار کی بنیاد گناہ سے آگاہی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبد پیدا کیا ہے اور جب وہ عبدیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اپنے نفس کی اصل سے لڑتا ہے اور نتیجتاً ہمہ وقت اضطرار اور گناہ کے احساس سے معمور رہتا ہے۔ چنانچہ عبدیت ہی تعیین نفس کی اصل بنیاد ہے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر تاقیامت تک ہر انسان کے نفس کی حقیقت یہی ہے، اسی لیے دین ہمیشہ سے اسلام ہی تھا اور رہے گا۔ قرآن اسی لیے خود کو "ذکر" (حقیقت ازلی کی یاد دہانی) کہتا ہے۔ یہ بات کہ مبادیات دین ہمیشہ یکساں اور قطعی رہے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اس بات ہی کا بیان ہے کہ نفس کی حقیقت میں کچھ ایسا ہے جو ہمیشہ ایک ہی طرح متعین و مشترک رہا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان کوئی مشین ہے۔ چونکہ تجربات کے تنوع سے نفس کی حالت میں تنوع بھی پیدا ہوسکتا ہے، لہٰذا شرع نے غیر قطعی امور میں اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا، اصولیین نے اس حقیقت کو ہمیشہ تسلیم کیا۔ نیز اصولیین نے یہ امر بھی بہت پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ تمام نصوص دلالت کے اعتبار سے نیز ان نصوص سے ثابت ہونے والے شرعی احکامات ایک ہی درجے پر نہیں۔
پس مبادیات دین ہمیشہ قطعی تھے، صحابہ کرام نے بھی انہیں اسی طرح قبول کیا جیسے آج ایک مسلمان انہیں قبول کرتا ہے، ہر غیر مسلم ان کا "انہی معنی" میں مخاطب ہے جیسے صحابہ کرام اس کے مخاطب تھے۔ چودہ سو برس سے روئے زمین پر مسلمان دن میں پانچ مرتبہ اسی طرح نماز کی ادائیگی کرتے ہیں جیسے صحابہ نے ادا کی، اس امر کو سمجھنے میں مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف رونما نہیں، جنہوں نے ایسا کیا وہ متفقہ طور پر گمراہ کہلائے۔ تعیین و تعمیر نفس کا مسئلہ حق کے تعین (یعنی عبد بن جانے) کا مسئلہ ہے، نفس جونہی اپنی اصل (حق) کو پہچان و مان لیتا ہے تو وہ متعین ہوجاتا ہے۔ جو نفس آزادی کا خوگر ہے وہ حقیقت کے تعین کے لئے اپنے سے باہر کسی ریفرنس کو ماننے پر تیار نہیں۔ اور جب حقیقت کا ایسے نفس، جو کچھ ہے ہی نہیں، کے سوا کوئی دوسرا ریفرنس ہی نہیں تو کسی بھی ازلی و ابدی حقیقت و معنی کا کیا مطلب؟
اب اگر اس مقام پر کوئی کہے کہ آپ کی اس تمام گفتگو سے تو آزادی ہی ختم ہوگئی، تو جان لینا چاہیے کہ آزادی ہائیڈیگر (یا اس جیسے دیگر فلاسفہ) اور ان کے متبعین کا مسئلہ ہے، بندہ مؤمن کا نہیں۔ بندہ مؤمن اور ہائیڈیگر کے مابین ازلی حقیقت کی طرف دعوت کا تعلق ہے، اس لیے کہ ہائیڈیگر کے متبعین اپنی ازلی حقیقت سے بھٹک چکے۔
اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تعمیر نفس کے اسلامی طریقہ کار کی طرف بھی کچھ اشارے کردئیے جائیں کہ جسے بنیاد بنا کر نفس کو اس طرز پر تعمیر کیا جاتا ہے جو اسے کلام الٰہی سے درست معنی اخذ کرنے لائق بناتا ہے۔ نفس جس قدر ان خطوط پر استوار ہوگا کلام الٰہی سے ثابت ہونے والے مبادیات میں اشتراک اسی قدر قائم کرنا ممکن ہوگا۔ ہر نفس کلام الٰہی کا نہ تو موضوع ہے اور نہ ہی اس سے درست طور پر استفادہ کرنے لائق ہے۔
تعیین نفس درحقیقت "تعمیر نفس" سے عبارت ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ جدید انسان کے اضطرار کی بنیاد گناہ (آزادی یعنی اپنے رب سے بغاوت) سے آگاہی ہے اور اس سے چھٹکارے کے لیے گناہ سے توبہ لازم ہے۔ چنانچہ تعیین نفس کا پہلا قدم نیت کی اصلاح ہے، انسان جب اپنی نیت درست کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرکے اسے اضطرار سے نجات دے کر اطمینان کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ ایسا نفس ہر عمل کو اس بنیاد پر جانچتا ہے کہ آیا اس سے خدا کی رضا حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔ یہی نفس کلام الہی سے فیض حاصل کرنے لائق ہوتا ہے (اسی نفس سے متعلق کہا گیا کہ "انما تنذر من اتبع الذکر وخشی الرحمن بالغیب" نیز "ھدی للمتقین")۔
پھر محض نیت ٹھیک کرلینے سے انسان خدا کی رضا حاصل کرلینے لائق نہیں ہوجاتا، اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے حال کو بھی درست کرنا ہوتا ہے، یعنی یہ کہ زندگی کے ہر عمل میں اتباع سنت کی جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اوڑھنا بچھونا بنایا جائے۔ ہر شخص کا حال اتنا ہی درست ہے جتنا وہ ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے عمل میں اپنے محبوب کی سنت کا اہتمام کرتا ہے۔ گویا تعمیر نفس میں صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ فرد کی صرف نیت ٹھیک ہوجائے بلکہ یہ بھی لازم ہے کہ وہ ایسے افعال بھی انجام دے جو اس کے نفس کے حال کو درست روش پر لے آئے۔ جس طرح قلبی میلانات انسان کے ظاہر پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی طرح ظاہری اعمال بھی قلبی احوال پیدا کرنے میں مدد گارہ ہوتے ہیں، ان دونوں کا تعلق پہلو دار ہے۔
جب انسان کا حال درست ہوتا ہے تو وہ کائنات میں اپنے مقام کو پہچان لیتا ہے، یعنی یہ کہ وہ یہاں کس آزمائش میں رکھا گیا ہے۔ وہ یہ "محسوس کرنے" لگتا ہے کہ اس کی حقیقی پوزیشن اور کائنات اور بندوں کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ حال درست ہوئے بنا وہ قلبی تناظر (perspective) قائم نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں انسان اپنے مقام کو پہچان کر اس پر راضی ہوجائے۔ جس شخص کا قلب گناہوں کا اثیر ہو وہ اپنے مقام کو نہیں پہچان سکتا کیونکہ گناہ کے نتیجے میں قلب پر غفلت کا سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے، اور پورا قلب سیاہ ہوجاتا ہے، بالآخر توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ پس ادراک حقیقت کے لئے گناہوں سے توبہ لازم ہے۔ جب انسان اپنے مقام کو پہچان لیتا ہے تو شہوت و غضب کے میلانات کم یا ختم ہوجاتے ہیں۔ خوب جان لینا چائیے کہ مقام کو پہچان لینا محض کوئی فکری (intellectual) چیز نہیں ہے، یہ قلبی و فطری چیز ہے۔ یہ معاملہ صرف اس قدر نہیں ہے کہ کسی منطقی دلیل سے یہ ثابت کردیا جائے کہ خدا خالق ہے اور ہم مخلوق، بلکہ یہ جذبات و احساسات کو رزائل سے پاک کرکے عبدیت پر راضی ہونے کا معاملہ ہے۔
جب انسان کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ وہ اپنا مقام پہچان کر اس میں بلندی حاصل کرلے تو اب ایسا نفس مشاہدے کے قابل ہوجاتا ہے۔ فرد جب تک عبدیت پر راضی نہ ہوگا تو اس کا زاویہ نگاہ درست نہ ہوگا۔ اس غلط زاویہ نگاہ سے وہ جس بھی شے کا مشاہدہ کرے گا، غلط نتائج تک ہی پہنچے گا۔ ایسا نفس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی کائنات تخلیق کرنا چاہتا ہے، ایک ایسی کائنات جو اس کی خودی (شہوت و غضب) کی تسکین کا باعث بن سکے۔ خود اظہاری (self expression and creation) کی اسی جستجو کو موضوعیت (subjectivity) یعنی چیزوں کو اپنی ذات کے تناظر میں دیکھنا) کہتے ہیں۔ جان لو، معروضیت فنا (نفس مطمئنہ) کا نام ہے، چونکہ انسان فی الواقع عبد ہے، لہٰذا اس موضوعیت ہی میں معروضیت ہے۔ معروضیت کی بلند ترین سطح یہی ہے کہ انسان پوری طرح خدائی تناظر میں آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کی ذات سراپا معروضیت (حق جیسا کہ وہ ہے جانچنے کا پیمانہ) ہوتی ہے کیونکہ وہ معروضیت (فنا) کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہوتا ہے۔ جو قلب طاہر نہیں وہ حقیقت سے آشنا نہیں ہوسکتا، اس کا غضب و شہوت اس کے نفس پر غالب ہوتے ہیں۔ معروضیت قلب کو غضب و شہوت سے پاک کرکے اسے تقوی و زہد کا مسکن بنا کر حاصل ہوتی ہے، عقلیت دماغی کے فروغ سے حاصل نہیں ہوتی۔ جس کا حال اور مقام جس قدر بلند ہوگا، اس کا مشاہدہ بھی اسی قدر معروضی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امت میں کسی عالم و مجتہد کے محض علم کی بنیاد پر اس کے افکار کو قبولیت حاصل نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے حال کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ جس کا حال درست نہ ہو، اس کا علم (مشاہدہ) بھی لائق اعتبار نہیں سمجھا جاتا۔
پس نیت، حال، مقام اور مشاہدہ تعمیر نفس و اصلاح نفس کے بنیادی عناصر ہیں۔ "اصلاح نفس" فی الحقیقت "تعیین نفس" کا ہی عنوان ہے۔ پس جس قدر ہم نفوس کی اصلاح کرپائیں گے، اسی قدر ہم انہیں کلام الٰہی سے اکتساب فیض کے لائق بنا پائیں گے۔ یہ امید رکھنا کہ نفس کی چاہت تو آزادی ہی ہو مگر وہ کلام الٰہی سے اکتساب کے لائق بھی ہو، یہ ممکن نہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ نفس سے متعلق مغربی مفروضات و افکار کے اندر رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ نفس کو کلام الٰہی کا مخاطب بنا کر اس کی طرف راغب کیا جاسکے۔ ایسا نفس کلام الٰہی میں نہیں، صرف خواہشات کی تسکین میں معنویت تلاش کرتا ہے۔
پس معلوم ہوا کہ لسانیاتی مباحث کے تناظر میں الہامی کتب کو بے معنی ثابت کرنے کی فکر نفس انسانی سے متعلق اس وجودیاتی مفروضے پر مبنی ہیں کہ نفس انسانی نہ تو کچھ ہے اور نہ ہی خود کو جان سکتا ہے، یہ مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ اس فلسفیانہ مفروضے کی نہ تو کوئی قطعی منصوص دلیل ہے اور نہ ہی کوئی عقلی، اس کے حق میں زیادہ سے زیادہ چند استقرائی نظائر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ اس دنیا میں اربوں انسان نہ صرف یہ کہ ہر روز اپنے ہم عصر لوگوں سے ہم کلام "ہوتے ہیں" بلکہ ماضی کے لوگوں کے کلام اور افکار کو بھی ٹھیک ٹھیک "سمجھ لیتے ہیں"، اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے اور انکے افکار کا ٹھیک ٹھیک موازنہ بھی کرلیتے ہیں، یہ نہایت سادہ سی حقیقت اپنے اندر اشتراک نفس سے متعلق بہت سے معانی سمیٹے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا نہ کہ nothingness پر، انسانیت کا آغاز جہالت سے نہیں بلکہ ایسی برگزیدہ شخصیت سے ہوا جسے اللہ تعالیٰ نے اسماء اور معانی کا علم سکھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہائیڈیگر کا وجودیاتی مفروضہ ایسے انسان پر غور و فکر کا نتیجہ ہے جس کا رابطہ اپنے رب سے کٹ چکا ہے، وہ کسی نامعلوم وجہ سے دنیا میں پھینک دیے جانے (Throwness) کی کیفیت کا شکار ہو کر اضطرار سے دوچار ہے۔ ایسا نفس مضطرر اصلاح کا موضوع ہے نہ کہ معانی کے تعین میں پیمانہ بن جانے کا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دیوبند کا ایک علمی سفر
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
دارالعلوم دیوبند ہندوستان کے مسلمانوں کا دھڑکتاہوا دل ہے۔ وہ ازہر ہند کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ راقم السطور نے اس سے قبل بھی تین مرتبہ دیوبند کا سفر کیاہے۔سب سے پہلا سفر زمانہ طالب علمی میں آج سے کوئی 20سال پہلے کیاتھا جس کی کوئی خاص بات یاد نہیں۔ بس اتنایادہے کہ بعض دوستوں کے ساتھ مولانا سعیداحمد پالن پوری کے درس ترمذی میں شرکت کی تھی جس کا ان دنوں شہرہ تھا۔ ایک سفرکسی استفتاء کی خاطر، اور ایک بعض کتابوں کی خریداری کے لیے ہواتھا کیونکہ دیوبند ہند و ستان میں اردو وعربی میں علمی کتابوں کی سب سے بڑی اورسستی مارکیٹ بھی ہے۔ بہر حال میرے اِس سفر کی غرض وغایت مسلم یونیورسٹی کے فارغین مدارس کے لیے شروع کیے گئے برج کورس (Bridge Course) کے سلسلہ میں دیوبند کے علماء ،اساتذہ ومشاہیر کے تاثرات وخیالات سے آگاہی حاصل کرنی تھی۔
یادرہے کہ مذکورہ برج کورس میں فارغین مدراس کو ایک سال عصری علوم:سیاسیات، سائنس، جغرافیہ، تاریخ، سماجیات، معاشیات، انگریزی زبان وادب اور انٹر فیتھ وانٹرا فیتھ ڈائلاگ(بین المذاہب اوربین المسالک مفاہمت) وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعدیو نیورسٹی اِن طلبہ کو Senior Secondry کا سر ٹیفکیٹ دیتی ہے اوروہ یونیورسٹی کی Main Streamمیں Arts sideکے کسی بھی شعبہ میں B.Aکرنے کے مجاز ہوجاتے ہیں۔ فی الحال اس کورس کا تیسرا بیچ کامیابی کے ساتھ چل رہاہے۔ اس کورس کا عموماً استقبال کیاگیا۔ بڑی تعداد میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اورجماعت اسلامی کے اداروں سے طلبہ یہاں آئے اوراب وہ ملک کی ممتازیونیورسٹیوں جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد جے این یو اورخود مسلم نیورسٹی علی گڑھ میں مختلف مضامین میں اعلیٰ تعلیمی مراحل طے کررہے ہیں۔ تاہم مسلمانوں کا عمومی مزاج منفی ہے۔ عصری آگہی اورمنفی کو مثبت میں بدلنے کا فن ان کو نہیں آتا جس کی وجہ سے عام طورپر یہ ہوتاہے کہ شروع میں ہر نئی آواز پر لبیک کہتے اورہر نئی تحریک کی طرف لپکتے ہیں، پھر جلد ہی شکوے وشکایت شروع ہوجاتے ہیں۔اخبارات ورسائل میں منفی ورکیک تبصرے کیے جاتے ہیں اورپھر وہ چیز سردمہری کا شکارہوجاتی ہے۔ گویا
چلتاہوں تھوڑی دیر ہر اک راہروکے ساتھ
پہچانتانہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
والامعاملہ ہے۔ ایسا ہی کچھ ان دنوں برج کورس کے ساتھ ہورہاہے۔ بعض منفی ذہن کے عناصر کا’’ دین وایمان‘‘ صرف اس لیے خطرہ میں پڑگیاہے کہ برج کورس کے نظریہ ساز محرک اورعلمی اور عملی ڈائریکٹر پروفیسر راشد شاز ہیں۔ ڈاکٹر راشدشاز کے قرآن، سنت فقہ وتصوف اوراسلامی فکر کے سلسلہ میں اپنے خیالا ت ہیں،ان کی اپنی تحقیق ہے جو انہوں نے وسیع مطالعہ کی بنیاد پر قائم کی ہے۔ کسی کو ان کے خیالات، فکر اوران کے دلائل سے اختلاف ہو سکتا ہے اوراختلاف کیاجانا چاہیے، مگر اس اختلاف کو علمی اختلاف کی ہی حد تک رکھاجانا اور برج کورس کو پروفیسر شاز کی شخصیت وفکر سے الگ کرکے دیکھا جاناچاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ یونیورسٹی کے اندر وباہر بڑے پیمانے پر اس کے خلاف فضا بنائی گئی۔ علی گڑھ ہی کے ایک صاحب اب مختلف مدارس ومراکز افتاء سے شاز صاحب کے خلاف تکفیر کی مہم چلارہے ہیں، بعض اکابر ومحترم شخصیات کا کھلاتعاون بھی ان کو حاصل ہے۔ فالی اللہ المشتکی۔
بہر حال ۲۹ مارچ کو راقم نئی دہلی سے بذریعہ جالندھر امرتسر ایکسپریس روانہ ہوکر دیوبند اترا۔ مولانا صدرِعالم قاسمی صاحب کو فون کرلیاتھا۔ دیوبندکے مہمان خانے میں دوگھنٹہ رکارہا۔ یاد رہے دارالعلوم دیوبند کا مہمان خانہ بہت کشادہ ہے اورہرروز پچاسوں مہمان یہاںآتے ہیں، پورے ملک کے مدارس میں یہ اس کی بڑی خصوصیت ہے۔اس کے بعد مولانا صدرعالم قاسمی آگئے اورباصرار مجھ کو اپنی قیام گاہ پر لے گئے۔ ان کو میرے بارے میں رفیق محترم ڈاکٹر وارث مظہری نے ازراہ کرم فون کر کے اطلاع دے دی تھی۔ اس کے بعد سے تین دن تک انہیں کی میز بانی سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ مولانا صدرعالم بہترین علمی ذوق رکھتے ہیں۔ ان کی دوروم والی قیام گاہ کتابوں سے بھری تھی جس میں علوم اسلامیہ کے مصادر ومراجع کی کثرت تھی۔
دوسرے دن علی الصباح ناشتہ کے بعد اساتذہ سے ملاقات کے لیے نکلے۔ دفتر اہتمام میں مولانا، محمد شاہد قاسمی نگراں درالاقامہ دیوبند نے پہلے برج کورس کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں۔ ان کا کہناتھا کہ برج کورس فی نفسہ طلبہ کے لیے بہت مفید ہے، لیکن ڈاکٹرراشد شاز صاحب کے بارے میں جو معلومات ہیں، اس کے لحاظ سے وہ کوئی صحیح عقیدہ کے آدمی نہیں معلوم ہوتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی نے اپنے ریجنل سنٹرز کھول رکھے ہیں اوردیوبند میں بھی ان کا ایک سینٹر ہے۔ اسی طرح برج کورس بھی اپنا ایک مقامی سینٹر یہاں کھول دے۔ اسی طرح جامعۃ الشیخ کے ایک استاد مولانا عباداللہ نے رائے دی کہ دیوبند میں مناسب مقامات پر برج کورس کے اعلانات آویزاں کیے جائیں تاکہ طلبہ کو زیادہ سے زیادہ معلومات مل سکے۔ دارالعلوم کے شعبہ کمپیوٹر وشعبہ نشرواشاعت میں پہنچے۔ جہاں اس شعبہ کے سربراہ جناب عبدالسلام قاسمی صاحب سے تفصیلی بات چیت ہوئی، وہیں پر دارالعلوم کے میڈیا انچارج جناب اشرف عثمانی دیوبندی بھی موجود تھے (جو راشٹریہ سہارا روزنامہ سے بھی وابستہ ہیں)۔مؤخر الذکر نے پروفیسر شاز کی جم کر تنقید ومذمت کی اورصاف صاف کہہ دیا کہ جب تک ڈاکٹر شاز وہاں موجود ہیں، ہم اس کورس کی مخالفت جاری رکھیں گے۔ بہر حال ان کے ہاں سے نکل کر مدیرتعلیمات اورسینئر استاد حدیث مولانا عبدالخالق سنبھلی کے دفتر میں پہنچے۔آپ نے سکون سے ہماری معروضات سنیں۔اس کے بعد فرمایا کہ مسلم یونیورسٹی باضابطہ اپنے لیٹرپیڈپر ہمیں اس کورس کے بارے میں لکھ کر دے، تبھی ہم اس کے بارے میں کچھ کہہ سکیں گے۔
مولانا کے پاس سے اٹھ کر دورہ کے ایک طالب علم کے ساتھ جوبرج کورس کے بارے میں زیادہ دلچسپی لے رہے تھے، مولانا عبدالخالق مدراسی صاحب کے ہاں پہنچے جو نائب مہتمم ہیں اور سینئر استاد ہیں۔ یاد رہے کہ مہتمم دارالعلوم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی اس وقت ملک سے باہر عمرہ کے مبارک سفر پرگئے ہوئے تھے۔مولانا عبدالخالق نے ہماری باتیں اطمینان سے سنیں اور دیر تک پرلطف گفتگو فرمائی۔ ان کے جوابات کا خلاصہ یہ تھاکہ ڈاکٹر راشد شاز یا برج کورس کے بارے میں ہماری معلومات براہ راست نہیں، اخباری رپورٹوں اورسنی سنائی باتوں پر مشتمل ہیں۔ ہمارے اساتذہ ان کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے۔ جوباتیں اب تک معلوم ہوئی ہیں، وہ بڑی تشویش ناک ہیں۔ ان کو ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ تو نہیں بنانا چاہیے تھا۔ جہاں تک فی نفسہ کورس کی بات ہے، ہم نہ اس کی مخالفت کرتے ہیں نہ طلبہ کو وہاں جانے سے روکتے ہیں، لیکن اس کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرتے، کیونکہ ہمارے مقاصد بالکل الگ ہیں۔ہمارا احساس ہے کہ جوطلبہ کالج ویونیورسٹیوں میں گئے ہیں، انہوں نے مجموعی طورپر ملت کو کچھ خاص نہیں دیاہے۔ یونیورسٹی میں جاکر آدمی اپنی ذات میں گم ہوجاتاہے۔ وہاں Competition اس طرح کا ہے کہ آدمی خدمت دین وملت کا جذبہ رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرپاتا اورختم ہوکررہ جاتاہے۔ ہم نے عرض کیا کیاکہ دارالعلوم نے شعبہ انگریزی کھولاہے۔ یہ بہت خوش آئند قدم ہے، مگر اس میں تخصص کے صرف 20طلبہ لیے جاتے ہیں(جومجموعی نمبرات میں 70 فیصد حاصل کرلیتے ہوں)۔ بقیہ عام طلبہ کو کیوں انگریزی سے محروم رکھاجارہاہے؟اس کے جواب میں مولانا نے جو منطق پیش کی، وہ بہت عجیب تھی۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ہند میں انگریزی عام بول چال کی زبان ہے۔ وہ دوسرے فرقوں کے لوگ جلسوں میں انگریزی میں تقریر کرکے لوگوں کے ذہن بگاڑتے ہیں، اس لیے جنوب کے لوگوں نے ہم سے کہا کہ آپ ہمیں ایسے قاسمی طلبہ دیجیے جو انگریزی میں تقریر کرسکیں، اس لیے ہم نے اس ضرورت کو پوراکرنے کے لیے محدود پیمانہ پریہ شعبہ شروع کیاہے۔
یہاں برسبیل تذکرہ یہ بتانا بے محل نہ ہوگاکہ دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اوردہلی یونیورسٹی میں گئے اس شعبہ کے چند استادوں کو ہم نے دیکھاہے جن کی انگریزی تو بہت اچھی ہے، لیکن ان کو عصری آگہی بالکل حاصل نہیں ہوئی ۔ اس لیے صرف انگریزی سیکھ لینا یا سکھادینا مسئلہ کا حل نہیں ہے جیساکہ بدقسمتی سے دارالعلوم دیوبند کے اربابِ حل وعقد سمجھتے ہیں اوراس سے زمانہ کی وہ معرفت حاصل نہیں ہوجاتی جس کو امام محمد نے یوں کہاتھا کہ ’من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل‘۔ (جس کوزمانہ کی معرفت حاصل نہیں، وہ عالم کہلانے کا حقدارنہیں)۔
بہر حال ان کے پاس سے نکل کر ہم لوگ دارالعلوم کی کتابوں کی مارکیٹ دیکھنے نکل گئے۔ اس مارکیٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں بہت سستی کتابیں مل جاتی ہیں۔ جو کتاب آپ کو دہلی یا کسی دوسرے شہر میں پانچ سو میں ملے گی، وہ دیوبندمیں صرف ایک سو میں مل جائے گی۔ دوسری چیز یہ ہے کہ دیوبند کی کتاب مارکیٹ میں عربی اردو کتابوں پر مرتکز ہے جو زیادہ تردرس کتب کی کی شرو ح، حواشی، حواشی کے حواشی اوران کتابوں کے ترجموں وکلیدوں پرمبنی ہے۔ درس نظامی ہویا ندوہ کا نصاب، مارکیٹ کے استادانِ فن نے ان کی کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ بابڑی سی بڑی کتاب بھی بغیرترجمہ کے نہیں چھوڑی ہے۔ اونچی کتابوں کی توچھوڑیئے منہاج العربیہ اورالقراء ۃ الواضحہ جیسی ابتدائی کتابوں کے ترجمے بھی بکثرت اوربآسانی دستیاب ہیں۔ یہاں تقریروں اورخطابات کی کتابیں بھی بکثرت ملتی ہیں۔اسی طرح ملفوظات ومواعظ کی بھی۔ البتہ ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ عالم عرب کے مشہور مکتبات(قاہرہ، بیروت، دمشق اورسعودی عرب قطر وکویت)کی عربی واسلامی علوم : علوم القرآن، علوم الحدیث، تفسیر ، ادب، شروحات وغیرہ اب سب دیوبند کے بڑے کتب خانوں میں بھی دستیاب ہیں۔ بیرون ہند سے اگر آپ کو تہذیب التہذیب کا سیٹ پچیس ہزار ہندی روپے میں حاصل ہوگا تو دیوبند وسہارنپور کے مکتبات میں اُسے آپ نو یا دس ہزار روپے میں حاصل کرسکتے ہیں۔ اس چیز سے اہل علم کو بڑی سہولت فراہم ہوگئی ہے۔
آج کل دیوبند انگریزی عربی بول چال، انگریزی عربی ڈکشنریوں اورترجمہ وانشاء سکھانے والی کتابوں کا بھی بڑازورہے۔پہلے دارالعلوم میں جدید عربی پر توجہ نہیں تھی مگر استاذمولانا وحیدالزماں کیرانوی مرحوم عربی زبان کے عاشق صادق تھے۔ انہوں نے بڑی جدوجہد ومحنت سے ایسے تلامذہ پیداکر دیے تھے جو آج اس ذوق کو طلبہ میں جلا دے رہے ہیں جس طرح کہ علامہ انورشاہ کشمیری کے تلامذہ کا ایک مخصوص علمی ذوق ہواکرتاتھا اوران میں سے ہر شخص اپنی جگہ مرجع ہوتا تھا، مثلاً علامہ یوسف بنوری، مولاناسعید احمد اکبرآبادی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی وغیرہم۔ ایک چیز یہ بھی مشاہدہ میں آئی کہ دیوبندمیں جگہ جگہ انگریزی وکمپیوٹر سکھانے والے سنٹراورکوچنگ مراکز کھل گئے ہیں جن میں طلبہ اپنے شوق سے یہ چیزیں سیکھ رہے ہیں۔
کتاب لاتحزن
شخصیت کے ارتقاء پر انگریزی میں ڈیل کا رنیگی بہت مشہور مصنف ہے۔ اردو عربی میں اس موضوع پر کوئی خاص کتاب نہ تھی۔ تقریباًایک دہائی قبل سعودی عرب کے مشہور مصنف شیخ عائض القرنی نے لاتحزن کے نام سے ایک کتاب لکھی جو عالم عرب کی اس وقت مقبول ترین کتاب ہے۔ کوئی بک اسٹور اورکتب خانہ اس سے خالی نہیں یہ کتاب ملینوں میں چھپتی اوربکتی ہے۔ اردو میں راقم نے اس کا ترجمہ’’ غم نہ کریں‘‘ کے نام سے کئی سال پہلے کیاتھا جو ریاض کے مشہور ناشر الدارالعالمی للکتاب الاسلامی نے کرایاتھا۔ کتاب قرآن وحدیث، اقوال سلف ، شخصی تجربات وامکاناتِ زندگی کا نچوڑہے۔ اصل کتاب کے ساتھ اس کے اردو ترجمہ کو بھی حیرت انگیز مقبولیت ملی ہے۔ حیدرآباد(انڈیا) کے کثیر الاشاعت روزنامہ منصف نے اس کے اردو ترجمہ کو تقریباًڈیڑھ سال تک بالاقساط مکمل شائع کیا ۔اس کے علاوہ اصل ناشر( الدارالعالمی ریاض)کے علاوہ پاکستان میں لاہور کے مکتبہ قاسم العلوم نے اوردہلی کے ناشروں کے علاوہ دیوبند کے مکتبہ یو سفیہ نے شائع کررکھی ہے۔ طلبہ وعوام بھی اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ بہت سے طلبہ و اساتذہ نے راقم کا غطریف شہباز سنتے ہی کہا: لاتحزن کے مترجم؟ یوں حیرت انگیز طورپر دوردورتک یہ ترجمہ خاکسار کے تعارف کا ذریعہ بن گیاہے، حالانکہ مترجم نے خود اس کتاب کوبہت زیادہ اہمیت نہیں دی تھی کیونکہ اس کا اصل ذوق علمی، فکری اورتحقیقی کتابیں پڑھنے کا ہے۔
دیوبند کے ایک معروف مصنف اس وقت مولانا ندیم الواجدی ہیں میں جو ایک بڑے کتب خانہ کے مالک، متعدد کتابوں کے مصنف اورماہنامہ ترجمان دیوبند کے مدیر ہیں۔اس کے علاوہ لڑکیوں کی دینی تعلیم کا ایک ادارہ دارلعلوم عائشہ صدیقہ للبنات بھی چلاتے ہیں۔ آپ کے صاحبزادہ مولانا یاسر ندیم دیوبندی نے دیوبند دارالعلوم سے فراغت کے بعد انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا اورپھر امریکہ کی ایک دانش گاہ سے بھی اکتساب فیض کیا ہے۔ مولانا ندیم الواجدی نے راقم کا نام سنتے ہی پہچان لیا اوربڑے تپاک سے ملے۔ ضروری تواضع کے بعد راقم نے ان سے برج کورس کی افادیت کے بارے میں ان کے تاثرات معلوم کیے مولانا ندیم الواجدی نے فرمایا:دینی مدارس کے فارغین کے لیے یہ کورس نہایت مفید ہے۔ اس کی افادیت میں کوئی شبہ نہیں ، البتہ اس کے ڈائرکٹر پروفیسر راشد شاز کی شخصیت متنازعہ فیہ بن گئی ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے (حالانکہ میرے(واجدی کے) ان سے خوش گوارتعلقات ہیں)۔ اس کورس کا ذمہ دار متنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے عرض کیا کہ جناب شاز صاحب اپنے فکر کو اس کورس سے بالکل الگ کرکے رکھتے ہیں۔ اس جواب سے وہ مطمئن ہوئے اورانہوں نے کہا کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ برج کورس میں Science Stream کے آغاز اورپھر اس کو جاری نہ رکھ پانے کی مشکلات ہم نے ان کے گوش گزار کیں توانہوں نے کہا کہ برج کورس کو مدارس سے اس مسئلہ میں کسی مدد کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ دارالعلوم نے جنرل سائنس کے نام سے(اردومیں)سائنس پڑھانے کا ایک تجربہ شروع کیاتھا جو جاری نہیں رہ سکا۔ اصل میں مولانا ارشدمدنی سابق مدیر تعلیمات دارالعلوم دیوبندوسینئر استاد حدیث اورجمعیۃ العلماء (ارشد گروپ) کے صدر اس چیز کے سخت خلاف ہیں اورجب تک وہ اس کے قائل نہ ہوں، یہاں کوئی بھی کچھ سننے کاروادارنہ ہوگا۔
اس کے بعد ہم نے مولانا شاہ عالم قاسمی گورکھپوری کے مکان کا قصد کیا۔ مولانا سے ملنے کے اشتیاق کی خاص وجہ یہ تھی کہ انہوں نے تفسیر قرآن کی ایک ویب سائٹ ڈیولپ کی ہے جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور جماعت اسلامی سبھی مکاتب فکر کی تفسیریں اورقرآن سے متعلق اورخدمات جمع کردی ہیں۔ یہ ایک مثبت ، خوش آئند اور تعمیری کام ہے۔ برج کورس کے بارے میں ان کے تاثرات جاننے کے علاوہ راقم کے ذہن میں یہ بھی سوال تھا کہ مکتب فراہی کی تفسیری خدمات بھی ان کی ویب سائٹ کا حصہ بنیں گی یا نہیں ۔اگر نہیں تو اس کی وجوہات کیاہیں؟ کہ برصغیر میں اس مکتب فکر کی خدمات کا ذکر کیے بغیر کوئی بھی فہرست ؍سائٹ ادھوری ہوگی۔لیکن افسوس کہ مولانا سے ملاقات نہ ہوسکی کیونکہ وہ لمبے سفر پر گئے ہوئے تھے۔ اسی طرح مولانا حبیب الرحمن اعظمی( استاد حدیث اورمدیر ماہنامہ ترجمان دارالعلوم (دارالعلوم کا سرکاری آرگن) سے ملاقات نہ ہوسکنے کا قلق بھی بھی رہا۔ موصوف بھی سفر پر گئے ہوئے تھے۔
مولانا پالن پوری کی خدمت میں
موجودہ وقت میں دارالعلوم دیوبند کی سب سے مشہور علمی شخصیت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری ہیں جو دارالعلوم کے شیخ الحدیث ہیں۔ وہ دارالعلوم میں گزشتہ 40سالوں سے حدیث کا درس دے رہے ہیں۔ حجۃ اللہ البالغہ کی اردو شرح رحمۃ اللہ الواسعہ کے مؤلف ہیں جو علمی دنیا میں خاصی معروف ہے۔ اس کے علاوہ موصوف کے اوربھی فقہی وحدیثی کارنامے معروف ہیں۔ان کے خادم خاص مولانا اشتیاق احمد قاسمی نے بتایا کہ مولانا کی کتابوں کی طلب غیر ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ اس وقت دارالعلوم سے ان کی تنخواہ تیس ہزار روپے مقرر ہے، مگر وہ تنخواہ نہیں لیتے بلکہ اپنی کتابوں کی یافت پرگزربسر کرتے ہیں۔ رضا کارانہ خدمات انجام دینا آج کی دنیا میں بہت بڑی بات ہے۔ مولانااشتیاق عالم نے راقم کی عربی تحریریں البعث الاسلامی میں پڑھی ہیں۔انہوں نے بتایاکہ میںآپ سے بہت متاثرہوں مگراسی بے تکلفی میں انہوں نے میری ڈاڑھی کی خبربھی لے لی۔
خیر،مولانا پالن پوری کی عام مجلس عصرتامغرب روزانہ لگتی ہے جس میں کثرت سے استاد، زائرین اورطلبہ حاضر ہوتے ہیں۔ راقم بھی مولانا صدرعالم کے ساتھ آپ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ سلام کے بعد جیسے ہی اندرداخل ہوئے، مولانا نے فوراً تاڑ لیاکہ باہر کابندہ ہے۔پوچھا، کہاں سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا، دہلی سے۔ پوچھا، کیاکرتے ہیں؟ میں بتایا کہ میر اترجمہ وتالیف کا کام ہے اورصحافت سے بھی تعلق ہے۔ نیزبعض طلبہ کو انگریزی زبان اورعربی ادب بھی پڑھاتاہوں۔ مولانا کی طبیعت میں ظرافت بھی ہے۔ اسی وقت کہیں باہر سے ایک تبلیغی جماعت مصافحہ کے لیے آئی جس میں سب سے پہلے آنے والے عالم بہت تن وتوش والے تھے۔ مفتی صاحب چھوٹتے ہی بولے، ’’بہت موٹا مولوی ہے۔ اسی سے زیادہ گشت کرایا کرو۔‘‘ پوری مجلس زعفران زار ہوگئی۔ میں نے جگہ بنانے بناتے بناتے مولانا سے قریب جاکر کہا، حضرت ایک اشکال ذہن میں ہے کہ درس نظامی پر علامہ بنوری اورمولانا گیلانی نے شدید تنقید کی ہے، مگرہم اس میں کوئی تبدیلی نہیں لارہے ہیں؟ کہنے لگے۔ ’’میں بھی اس کا ناقد ہوں ، مگر مولانا بنوری کی تنقید مجھے پسند نہیں آئی۔ انہوں نے کاغذ بچانے اورازحداختصارسے کام لینے کاشکوہ کیاہے حالانکہ جواس درس کے مختصرمتون ہیں، وہ ازبر یاد کرنے کے لیے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے یہ کہ اصل اشکال کاکوئی جواب نہیں تھا۔
میرے ہاتھ میں اس وقت کتاب ’’تناقضات الالبانی الواضحات‘‘ از حسن علی السقاف تھی۔ پوچھا، یہ کیاہے؟ میرے ہاتھ سے کتاب لے کر دیکھی اور پھر تبصرہ کیا۔ ’’ یہ عرب اب لکیر پیٹ رہے ہیں۔ مولانا (محدث) حبیب الرحمن اعظمیؒ نے ابتدا میں تناقضات الالبانی لکھ کر عربوں کو توجہ دلائی تھی۔ البانی نے بڑانقصان پہنچادیاہے۔ اب دوسو سال اس کی بھرپائی میں لگیں گے‘‘۔ اسی وقت مغرب کی اذان ہوگئی اوریوں مجلس برخواست ہوگئی ۔ ظاہر ہے کہ مولانا کا البانیؒ صاحب پر سخت تبصرہ اوران کی زبان مولانا کی شایان شان نہ تھی۔ علمی اختلاف اپنی جگہ، لیکن خدمات کا اعتراف کیاجانا چاہیے۔ ویسے البانی صاحب کی زبان بھی اپنے ناقدوں کے لیے ویسی ہی شدید اورتندتھی چنانچہ وہ شیخ عبدالفتاح ابو غدہ اوران کے استاد علامہ زاہد الکوثری کے لیے الظالم الجائر الجانی جیسے شدید الفاظ استعمال کرتے تھے۔ میرے والد علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ نے بھی ائمہ رواۃ حدیث کے لیے سخت الفاظ لکھے ہیں جو مناسب نہ تھا۔
دارالعلوم دیوبندمیں کئی مسجدیں ہیں جن میں سب سے زیادہ خوبصورت اوروسیع مسجدرشیدہے جوایک نئی مسجدہے اور غالباً دہلی کی تاریخی جامع مسجدکے بعدہندوستان کی سب سے بڑی اورخوبصورت مسجدہے۔اس کے علاوہ دارالعلوم کی لائبریری کی بھی چھہ منزلہ کشارہ عمارت بن رہی ہے ۔ہندوستان کے مدارس اسلامیہ اوراسلامی علمی مراکز میں دارالعلوم کی لائبریری اپنی کثیرکتابوں اور اپنے علمی مخطوطات کے لیے مشہورہے۔ البتہ طلبہ کی اقامت گاہیں ابھی بہت اچھی حالت میں نہیں ہیں۔اس سلسلہ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کی ہاسٹل سہولیات کہیں زیادہ بہترہیں۔
جامعہ امام انور شاہ میں:
دیوبند کا تیسرابڑاادارہ جامعہ امام محمد انور ہے جسے علامہ انور شاہ کشمیری کی یاد میں ان کے فرزنداصغر مولانا انظر شاہ کشمیریؒ نے قائم کیاتھا۔ مولانا بڑے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم خطیب اورالبیلے نثر نگار بھی تھے۔ عصر حاضر کے تقاضوں سے آشنا اورمیدان سیاست کے شہسوار بھی۔چنانچہ آپ کانگریس کی یوپی شاخ کے صدر بھی رہے۔ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں تبدیلی کو ضروری جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ امام انور میں نصاب تعلیم میں خاصی انقلابی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس وقت مولانا انظر شاہ صاحب کے صاحبزادے مولانا احمد خضر شاہ مسعودی اس ادارہ کے سربراہ ہیں۔ادارہ کے استاد مولانا وصی احمد قاسمی نے راقم کی کتاب’’عالم اسلام کے چند مشاہیر سوانح وافکار کا مطالعہ‘‘ طلب کی تھی، چنانچہ بعد مغرب راقم نے مولانا صدرعالم کی ہمراہی میں جامعہ کی راہ لی۔ مولانا وصی احمد سے خاصی دیر مختلف امور پر تبادلۂ خیال رہا۔ پھر آپ نے جامعہ کے اہم شعبے دکھائے۔اُنہی سے مولانا احمد خضر شاہ کا نمبر لیا اوران سے فون پر بات ہوئی۔ مولانا نے دوسرے دن سات بجے ناشتہ پر بلایا۔ چنانچہ راقم سطور حاضر ہوا اور مولانا کے ساتھ ناشتہ کی میز پر مختصر سوال جواب کیے۔ آپ نے عربی میں تازہ بتازہ شائع ہوئی کتاب مختارات الامام الکشمیری تحفہ میں عنایت فرمائی۔
دارالعلوم وقف میں
مولانا احمد خضر شاہ صاحب سے ملاقات کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق دارالعلوم وقف میں حاضر ی ہوئی۔ وہاں مہتم دارالعلوم وقف مولانا سفیان القاسمی کے بیٹے جناب مولانا شکیب القاسمی سے ملاقات ہوئی جنہوں نے دارالعلوم دیوبند سے فضلیت کے بعد جامعہ ازہر مصر اورملیشیا کی انٹرنیشنل یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے حجۃ الاسلام اکیڈمی سے عربی میں وحدۃ الامۃ کے نام سے ایک تحقیقی مجلہ اوراردو میں ندائے دارالعلوم وقف (ماہنامہ)نکالنا شروع کیاہے۔ شکیب صاحب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سینٹر برائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانانِ ہند (CEPECAMI) کی مسلم امت کا فکری بحران کا نفرنس میں شرکت کرچکے ہیں۔برج کورس کے سلسلہ میں راقم کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے جوباتیں کہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے: برج کورس سے کسی کو پریشانی نہیں۔ مولانا آزاد یونیورسٹی بھی برج کورس کئی سارے Streamsمیں لارہی ہے۔ اہل مدارس کو اسے قبول کرنے میں کوئی تحفظ نہیں۔ ہمیں جو تحفظ ہے، وہ صرف ڈاکٹر شاز کی فکر سے ہے۔ ہم نے تو ان کی فکر کا براہ راست مطالعہ کرناچاہا۔ سوالات مرتب کرکے ان کے پاس بھیجے، مگر انہوں نے کوئی Responseنہیں دیا۔ انٹرفیتھ اورانٹرافیتھ کے ذریعہ مفاہمت پیداہورہی ہے، وہ اچھی چیز ہے۔ یونیورسٹی میں تویہ ہوتاہی ہے۔ اس میں برج کورس کی کوئی تخصیص نہیں۔ سائنس کی مبادیات کو یوں متعارف کرایاجاسکتاہے کہ اس کے لیے ایک ڈپلوما کورس مدارس میں اصل نصا ب کو چھیڑے بغیر شروع کیاجائے۔ اوراس کا جوکورس بنایاجائے، اس میں ماہرین کے ساتھ علماء کو بھی شامل کیاجائے۔ بہر حال بڑے خوش گوار ماحول میں گفتگوہوئی۔
اتحاد الطلبہ حیدرآباد میں
دارالعلوم میں اس وقت سال کے اخیر میں طلبائی انجمنوں کے پروگرام چل رہے تھے۔ دارالعلوم میں مختلف علاقوں شخصیات اورشہروں کے ناموں پر طلبائی انجمنیں ہیں۔ مولانا صدرعالم قاسمی کو حیدرآباد کے طلبہ نے اپنے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کرلیا۔ وہیں ان طلبہ سے میراتعارف بحیثیت مترجم لاتحزن کے صدرعالم صاحب نے کرادیا۔ پھر توطلبہ مصر ہوگئے چنانچہ رات میں بعد عشا میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ طلباء نے مختلف پروگراموں کے ساتھ ایک مکالمہ (ڈرامہ) بھی پیش کیا جس میں کرکٹ کے نقصانات کو دکھایاگیا تھا۔ ڈرامہ حیدر آباد کی اردو (مقامی بولی) میں تھا، اس لیے سامعین خوب محظوظ ہوئے۔ صدارت دارالعلوم کے صدرمفتی مولانا حبیب الرحمن خیرآبادی نے کی۔ اخیر میں مجھ سے بھی بحیثیت مترجم لاتحزن کے طلبہ کو خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ چنانچہ دس منٹ کی مختصر تقریر میں راقم نے تحریک دیوبند کی خدمات موجودہ دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ضروری صلاحیتوں کے حصول پر روشنی ڈالی۔ علی الصباح دیوبند سے واپسی ہوگئی۔ دیوبند کے مختلف اداروں کے موجودہ نصابہائے تعلیم بھی میں نے جمع کرلیے تھے جن کے مطالعہ، اپنے مشاہدے اورعلماء سے گفتگو کے بعد دوسوال ایسے ہیں جن کا جواب دیاجانا باقی ہے۔
۱۔ مختلف امور میں دینیرہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ زمانہ کافہم بھی حاصل کیا جائے۔ موجودہ سائنس، اس کی فکریات، موجودہ نظام معیشت اورنظام سیاست وغیرہ اس کا ذریعہ ہیں اورجن کوبغیر ضروری سیکولر علوم داخل کیے نہیں سمجھاجاسکتا توآخر ہمارے مدارس کو ان کے سلسلہ میں شدید تحفظ کیوں ہے؟
۲۔ درس نظامی کے ناقدین کہتے ہیں کہ ابتداء میں یہ دینی کم، سیکولر زیادہ تھا۔ خوددارالعلوم میں جو نصاب شروع میں اختیار کیاگیا، اس میں بھی سیکولر علوم (آلیہ) کا حصہ بہت زیادہ تھا مگر آج اس پہلے نصاب کی طرف مراجعت کی کوئی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جاتی حالانکہ خود متعدد دیوبندی اکابر مثلاً علامہ یوسف بنوری اورمولانامناظراحسن گیلانی نے مروجہ درس نظامی پر سخت تنقیدیں کی ہیں؟
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
مجھے نہ معلوم کیسے شروع سے یہ احساس تھا کہ پاکستان بر صغیر میں اسلام کی بقا کے باعث وجود میں آیا۔انگریزی انتداب کے بعد جس طبقے نے اسے سپین ہونے سے بچایا، حقیقتاً وہی لوگ اس ملک کے خالق ہیں اور اس کا نظم چلانے کے اولیں مستحق بھی۔ لیکن تاریخی ارتقا کے نتیجے میں ملکی نظم و نسق چلانے کے لیے کچھ مخصوص مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ مدارس کا ایک طبقہ تقسیم ملک کے بعد بھی اس ذہنی کیفیت سے نہیں نکل سکا جو غیر ملکی تسلط کے باعث پیدا ہوئی تھی اور ایک حد تک فطری اور نا گزیر تھی۔ دوسرا طبقہ ’’کنجے گرفت و ترس خدا را بہانہ ساخت‘‘ کا پیکر ہو گیا۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ دینی طبقات کو ملکی نظام چلانے کی اہلیتوں کے حصول کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
اتفاق سے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تھا اور اوپن یونیورسٹی اصلاً ان لوگوں کے لیے بنائی گئی تھی جو کسی بھی وجہ سے باقاعدہ کالجز ؍یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھے تاکہ اس یونیورسٹی کے ذریعے ان کے لیے تکمیلی تکنیکی فنی اور دیگر انواع کی تعلیم کا فاصلاتی طریق پر انتظام کیا جائے۔ میں نے سوچا کہ دینی مدارس کے طلبہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے باعث رسمی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف ہماری جامعات معمولی درجہ میں تفسیر، حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم دے کر ایم اے کی اسناد دیتی ہیں تو کیوں نہ یہ کیا جائے کہ دینی مدارس کے نصاب کو یونیورسٹی میں درجاتی کریڈٹ دیا جائے، مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی ٹیوٹر مقرر کیا جائے اور دینی مدارس کے بعض متروک مضامین جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ضروری ہیں، فاصلاتی طریقہ سے پڑھا دیے جائیں اور یونیورسٹی امتحان لے کر میٹرک سے پی ایچ ڈی تک ڈگری دیا کرے۔ مدارس کے نظم کو محفوظ رکھنے اور ان کا مالی تعاون کرنے کے لیے یہ بھی سوچا کہ طلبہ کے داخلے مدارس کے توسط سے کیے جائیں اور مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی کا ٹیوٹر لگا کر ان کی آمدنی میں اضافے کی راہ نکالی جائے۔
یونیورسٹی اتھارٹیز اس پروگرام کے خلاف تھیں۔ ایسے میں مجھے باہر سے صرف مرحوم ڈاکٹر محمود غازی اور ڈاکٹر ایس ایم زمان کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ آخر بہت مشکل سے اتھارٹیز کو رضامند کرنے کے بعد میں نے مختلف وفاقوں اور مدارس سے رابطے کرنا شروع کیے۔ مجھے بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ وفاقوں کی طرف سے بھر پور یقین دہانی کرائی گئی، لیکن دیوبندی وفاق کو اس کی افادیت باور کروانے میں مجھے بہت وقت محنت اور وسائل خرچ کرنا پڑے۔ ایک سے زائد مرتبہ وفاق کے اجلاسوں میں بھی پروگروام پیش کیا۔ کراچی جاکر مولانا سلیم اللہ خان سے بھی ملاقات کی اور باقاعدہ ایک معاہدہ طے ہوا۔اس کے مطابق مجھے آٹھ نو ماہ کے بعد یہ پروگرام لانچ کر دینا تھا، لیکن ایک دن اچانک میرے آفس میں وفاق المدارس کے ایک نمائندہ وفد کے ارکان یکے بعد دیگرے آنا شروع ہو گئے۔ جب سب تشریف لا چکے تو میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ہم اس لیے آئے ہیں کہ جو پروگرام ہمارے درمیان طے ہوا، اس پر فوراً اور اسی سمسٹر سے عمل در آمد کیا جائے۔ میں نے اپنی مشکلات اور یونیورسٹی کا طریق کار سب کچھ عرض کیا، لیکن وفد میں موجود استاذ گرامی قدر مولا نا نذیر احمد صاحب کی وجہ سے میں نے ہامی بھر لی اور قہر درویش بر جان خویش کے مصداق دن رات کام کر کے پروگرام شروع کر دیا۔ جب میرے پاس داخلوں کی تفصیل آئی تو معلوم ہوا کہ دیوبندی وفاق سے کوئی طالب علم داخل نہیں ہوا۔
مرے تھے جن کے لیے ۔۔۔
حیرت ہوئی۔ مولانا محمد زاہد سے معلوم کیا تو انہوں نے صرف یہ کہا کہ علماء کرام نے رجوع کرلیا ۔ بعد میں دیگر ذرائع سے معلوم ہوا کہ مولانا سلیم اللہ خان نے تمام مدارس کو ایک سرکلر جاری کر دیا تھا کہ طفیل ہاشمی کا پروگرام مدارس کے خلاف حکومت کی سازش ہے، اس میں کوئی طالب علم داخل نہ کروایا جائے۔ اگرچہ میرے پاس ثبوت کوئی نہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یونیورسٹی کی جس میٹنگ میں یہ پروگرام منظور کیا گیا، اس وقت کے وفاقی سکریٹری ایجوکیشن بھی اس کے ممبر تھے۔ میٹنگ کے بعد انہوں نے تنہائی میں مجھے کہا ، یہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ مدرسوں کے مولوی اگر ڈگری لے کر سی ایس ایس کر کے بیورو کریسی میں آجائیں گے تو ہمارے بچے کہاں جائیں گے؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ کہاں سی ایس ایس، بیچارے تعلیمی اداروں میں چلے جائیں تو بھی بسا غنیمت، لیکن وہ بہت منجھے ہوئے اور سینئر بیورو کریٹ تھے اور مستقبل کو دور تک دیکھ سکتے تھے۔ مجھے شبہ ہوتا ہے کہ مولانا سلیم اللہ خان تک سازش تھیور ی انہوں نے نہ پہنچائی ہو اور دیوبندی علماء سازش کے خوف کا بآسانی شکار ہو جاتے ہیں۔
اس حادثے کے نتیجے میں مختلف اہل علم اور اہل اللہ کے تقویٰ، دانش، کردار کی بلندی اور بے شمار خوبیوں سے متعارف ہو کر ایک نظریہ نہ بنانا میرے بس میں نہیں تھا۔
لاہور کے سیاست کدے
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ
لاہور کے بادامی باغ سے اگر آپ ریلوے اسٹیشن کی طرف جائیں تو دائیں جانب پہلے مستی گیٹ اور اس سے آگے شیرانوالہ گیٹ نظر آئے گا۔ اب تو ہجوم آبادی کے سبب لاہور کے سب تاریخی دروازوں کی طرح اس کا بھی حسن گہنا گیا ہے ۔ دروازے کے اندر داخل ہوں تو دائیں جانب وہ تاریخی مسجد شیرانوالہ گیٹ ہے جہاں پاکستان کی سیاست کے کئی اسرار ورموز دفن ہیں۔ یہ مسجد ایوب خاں اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی جانے والی بڑی بڑی تحریکوں کا مرکز رہی ہے۔ تحریک ریشمی رومال کے بانی مولانا عبید اللہ سندھی کے جانشین مولانا احمد علی لاہوری نے ایک عرصہ تک یہاں اللہ اور اللہ کے رسول کا پیغام لوگوں تک پہنچایا ۔ انہیں حقوق انسانی کی پاسداری کا سبق دیا اور فرنگی سامراج کے خلاف طویل عرصہ تک صبر آزما جدوجہد کی ۔پھر قیام پاکستان کے بعد حضرت لاہور ی جب ملک عدم کے راہی ہو گئے توفرنگی سامراج کی جگہ "دیسی سامراج"لے چکا تھا اور صرف گیارہ سال بعد ملک پر مارشل لاء کے سیاہ بادل چھا گئے اور جرنیلوں کی طویل رات کا آغاز ہوا ۔
ایوب خاں کے مارشل لاء کے دروان سیاسی راہنماؤں اور کارکنوں کو جدوجہد کے لیے لاہور میں جو ٹھکانے دستیاب تھے، جامع مسجد شیرانوالہ گیٹ کا ان میں بڑا مقام تھا۔ مولانا عبید اللہ انور یہیں ہر جمعرات کو نماز مغرب کے بعد مجلس ذکر کا اہتمام کرتے جہاں دور دراز سے ان کے عقیدت مند شامل ہوتے ۔ ایوب خاں کے خلاف لاہور میں سب سے پہلا اور بڑا جلوس اسی جامع مسجد سے نکالا گیا جس میں پیپلز پارٹی کے شیخ رشید مرحوم کے علاوہ نیشنل عوامی پارٹی کے میاں محمود علی قصوری اور شیخ رفیق نے بھی شرکت کی ۔ میاں صاحب اور شیخ رفیق بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ۔ میاں صاحب وفاقی وزیر قانون اور شیخ رفیق پنجاب اسمبلی کے سپیکر اور گورنر رہے۔ مولانا سمیت سب اسی جلوس سے گرفتار ہوئے۔ بعد میں انہیں کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا ۔ میری خوش قسمتی تھی کہ بہت چھوٹی عمر میں ہی ان ہستیوں کے ساتھ گرفتار ہوا اور کوٹ لکھپت جیل میں قید رہا ۔
ایوب خاں رخصت ہوا تو ایک اور جنرل، یحییٰ خاں سامنے کھڑا تھا، اپنا پورا جلال ودبدبہ اور قدوقامت لیے ہوئے۔ یحییٰ خاں نے ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کا اعلان کیا تو مشرقی ومغربی پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک لہر دوڈ گئی ۔ ہر سیاسی جماعت نے لنگر لنگوٹ کس کے اپنی اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں ۔ مشرقی پاکستان میں بلاشرکت غیرے شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ اپنے انتخابی نشان "کشتی" کو لیے نمایاں تھی ۔ دیگر جماعتوں میں وہاں جماعت اسلامی کی پوزیشن اگرچہ بہتر تھی مگر فرق انیس بیس کا نہیں، دواٹھارہ کا تھا ۔ جماعت کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان سے انہیں بہت نشستیں ملیں گی اور اگر مغربی پاکستان سے انہیں چند سیٹیں مل جائیں تو وہ حکومت بنا سکتی ہے ۔ جماعت نے تو وزیر اعظم میاں طفیل سمیت تمام کابینہ بھی مکمل کر لی تھی ۔ عوام نے مگر انہیں رد کر دیااور مغربی پاکستان سے انہیں چار نشستیں ملیں جبکہ مشرقی پاکستان سے مکمل صفایا ہو گیا جس کا انتقام جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں سے بڑا بھیانک لیا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان سے کوئی بھی امیدوار میدان میں کھڑا نہیں کیا تھا۔ البتہ عوامی لیگ نے لاہورسے ملک حامد سرفراز کو انتخابی میدان میں اتارا ۔
مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کا طوطی بول رہا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو ایک پارہ صفت قیادت کے طور پر ابھرے ۔ "تلوار" کا انتخابی نشان لیے وہ پنجاب اور سند ھ میں چھا گئے ۔ مغربی پاکستان کی دیگر قابل ذکر جماعتوں میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیۃ علماء اسلام نے صوبہ سرحداور بلوچستان میں اپنی صوبائی حکومتیں قائم کر لیں۔ مفتی محمودصوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ اور ارباب سکندر خاں خلیل گورنر بنے ، جبکہ سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور میر غوث بخش بزنجو گورنر بنے۔ کراچی سے جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد اور محمود اعظم فاروقی بھی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جبکہ شاہ احمد نوارنی کی جماعت "جمعیۃ علماء پاکستان" نے کراچی سمیت ملک بھر سے قومی اسمبلی کی سات نشستیں حاصل کیں۔ نورانی میاں پہلی با ر ایک جماعت بنا کر میدان سیاست میں آئے تھے اور آتے ہی سات نشستیں حاصل کر لیں۔
مسجد شیرانوالہ گیٹ، شہر لاہور میں پہلے ایوب خان کی آمریت کی خلاف ایک مضبوط قلعہ ثابت ہوئی اور ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں بھی یہ لاہور کے اہم سیاست کدوں میں شمار ہوتی تھی ۔ ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید، حنیف رامے، حبیب جالب اوراحسان وائیں اکثر وبیشتر مولانا عبید اللہ انور سے ملنے آتے ۔ اسی دوران موچی دروازہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے ایک جلسہ عام میں مولانا عبید اللہ انور نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان اور اُس کی قیادت سے سیاسی اختلاف تو ہو سکتاہے، مگر انہیں کافر نہیں کہا جاسکتا ۔ ان انتخابات میں جماعت اسلامی کا سب سے بڑا نشانہ ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کے کارکنان تھے۔ جمعیۃ علماء اسلا م کو بھی جماعت اسلامی نے نشانے پر رکھ لیااور خوب گولہ باری کی۔ بس ایک "کافر" کے علاوہ وہ کون کون سے الزمات تھے جو جماعت نے ان پر نہ تھونپے۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو تو اپنی مقبولیت کی معراج پر تھے۔ لاڑکانہ لاہور اور دیگر علاقوں سے انتخاب لڑنے کا اعلان کرتے کرتے پتہ نہیں ان کے من کی موج کس طرف نکل گئی کہ ڈیر ہ اسماعیل خاں سے مفتی محمود کے خلاف بھی کاغذات نامزدگی داخل کرا دیے۔
مسجد شیرانوالہ گیٹ کے سینے میں کئی راز دفن ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیۃ علماء اسلام کے درمیان انتخابی اتحاد کی گفت وشنید ہو رہی تھی تو بقول مولانا عبید اللہ انور کے صاحبزادے، جناب اجمل قادری کے، مفتی محمود اپنا مقدمہ لے کر جامع مسجد شیرانوالہ گیٹ لاہور آئے اورپیپلز پارٹی کے ساتھ جمعیۃ علماء اسلام کا ہونے والاممکنہ انتخابی اتحادخواب خیال ہو گیا۔ اب بھی شیرانوالہ گیٹ لاہور میں یہ مسجد موجود ہے ، مگر نہ مولانا احمد علی لاہور ی رہے نہ مولانا عبید اللہ انور۔ گویا اولیاء کا سایہ اُٹھ گیا ۔ رہے مفتی محمود ، شیخ رشید ، حنیف رامے اور حبیب جالب تو وہ ایسے چاند تھے جو چمک چمک کے پلٹ گئے۔ بس اجمل قادری صاحب، ڈاکٹر مبشر حسن اور احسان وائیں باقی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اُن کی عمر دراز کرے کہ قوم کو ابھی ان کی ضرورت ہے۔
قرآن مجید کے قطعی الدلالہ ہونے کی بحث
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر
یہ گفتگو ادارہ علم و تحقیق "المورد" کے سلسلہ وار آن لائن ماہانہ علمی لیکچرز کی سولہویں نشست میں کی گئی۔ اسے کچھ تہذیب و تنقیح کے بعد اشاعت کی غرض سے لیکچر سے تحریری صورت دی گئی ہے۔
قطعی الدلالہ کا معنی ومفہوم
سب سے پہلے ہم قطعی الدلالہ کا معنی واضح کر دیں۔ قطعی کا لفظ "قطع" سے ہے کہ جس کا معنی کاٹنا ہے۔ پس "قطعی الدلالہ" میں قطعی کا معنی یہ ہے کہ لفظ میں موجود ایک سے زائد معانی کے احتمالات کا ختم ہو جانااور محتمل معانی میں سے ایک ہی معنی کا متعین ہو جانا۔ یہاں "قطعی" کا لفظ خود اس بات کی دلیل ہے کہ لفظ میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہوتا ہے، ورنہ تو "قطع" کا معنی کیا ہوا کہ جو اس لفظ کی اصل ہے۔ لفظ میں یہ احتمالات لغت میں ایک سے زائد معانی کے لیے لفظ کے وضع ہونے یا لفظ کے عرفی معنی میں اختلاف یا لغوی اور شرعی معنی میں فرق یا نظم کلام اور سیاق وسباق میں کسی لفظ کو رکھ کر دیکھنے کے پس منظر اور تناظر کے اختلاف وغیرہ کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات امر واقعہ ہے کہ بعض اوقات کلام میں فی نفسہ ایک سے زائد معانی کا احتمال موجود ہوتا ہے۔
"دلالت" کا اصطلاحی معنی یہاں، منطق کی اصطلاح میں ، دلالت مطابقت ، دلالت تضمن اور دلالت التزام ہے۔ اور اصول فقہ کی اصطلاح میں "دلالت" سے مراد منطوق اور مفہوم ہے یعنی لفظی اور معنوی دلالت۔ منطوق سے صریح اور غیر صریح مراد ہے کہ لفظ، صیغے اور نظم کلام کی اپنے معنی پر دلالت صراحت کے ساتھ ہے یا غیر صراحت کے ساتھ۔ صریح میں مطابقت اور تضمن یعنی لفظ کا کل معنی یا جزوی معنی پر دلالت کرنا ہے جیسا کہ امر ونہی، مطلق ومقید، عام وخاص، مجمل ومبین اور ظاہر ومؤول وغیرہ۔ غیر صریح میں دلالت التزام مراد ہے کہ لفظ نہ تو کل معنی پر دلالت کرے اور نہ ہی جزوی معنی پر بلکہ لازم معنی پر دلالت کرے جیسا کہ اشارۃ النص، اقتضاء النص اور ایماء النص۔ مفہوم کی دو قسمیں ہیں: موافق اور مخالف۔ موافق کی قسموں میں اولیٰ اور مساوی ہے جبکہ مخالف کی قسموں میں غایت، شرط، وصف، عدد، ظرف، علت اور لقب ہے۔ یہ جمہور کا طریقہ ہے۔
احناف کے نزدیک دلالت کی چار قسمیں ہیں: یعنی وضع، استعمال، وضوح وخفاء اور قصد کے اعتبار سے۔ وضعی دلالت کے اعتبار سے لفظ عام، خاص اور مشترک میں منقسم ہے۔ لفظ یا تو ایسے مدلول کے لیے وضع ہوا ہے کہ جو محصور ہے یا پھر ایسے مدلول کے لیے کہ جو غیر محصور ہے یا پھر ایک سے زائد مدلول کے لیے وضع ہوا ہے۔ پھر لفظ اپنے وضعی معنی میں استعمال ہوا ہے یا نہیں تو اس اعتبار سے حقیقت ومجازاور صریح وکنایہ کی اصطلاحات ہیں۔ پھر لفظ کی اپنے معنی میں دلالت کتنی واضح یا کس قدر خفی ہے تو اس پہلو سے ظاہر، نص، مفسر اور محکم ہے یا خفی، مشکل، مجمل اور متشابہ ہے۔ اور قصد کے اعتبار سے عبارۃ النص، اشارۃ النص، دلالۃ النص اور اقتضاء النص ہیں۔ اگر تو وہ دلالت متکلم کا مقصود ہے تو عبارت ہے اور اگر مقصود کلام نہیں ہے تو اشارہ ہے۔ اور اگر دلالت لغوی ہے تو دلالت ہے اور اگر شرعی ہے تو اقتضاء ہے۔
قرآن مجید کی قطعیت اور ظنیت کے بارے مروجہ نقطہ ہائے نظر
قرآن مجید کے الفاظ کی اپنی دلالت میں قطعیت اور ظنیت کے بارے تین موقف پائے جاتے ہیں:
۱۔قرآن مجید کل کا کل قطعی الدلالہ ہے۔
۲۔ قرآن مجید کل کا کل ظنی الدلالہ ہے۔
۳۔قرآن مجید کا بعض قطعی الدلالہ اور بعض ظنی الدلالہ ہے۔
ہمیں اس وقت یہ بحث نہیں کرنی کہ ان میں سے کون سا کس کا موقف ہے؟ ہمیں اس وقت شخصیات کے تذکرہ کی بجائے پہلے دو نقطہ ہائے نظر کی غلطی اور تیسرے کی صحت بیان کرنی ہے۔ قرآن مجید کے قطعی یا ظنی ہونے کے بارے تیسرا موقف اس دینی اور علمی روایت کا تسلسل ہے کہ جس پر تمام معروف مذاہب کا اتفاق رہا ہے۔ ہم اپنی گفتگو میں اختصار کے پیش نظر پہلے موقف کو قرآن مجید "قطعی" ہے، دوسرے کو قرآن مجید "ظنی" ہے اور تیسرے کو قرآن مجید "قطعی اور ظنی" ہے، کے عنوان سے بھی ذکر کریں گے۔
قرآن مجید کی قطعیت کی ممکنہ صورتیں
جب کسی علمی یا دینی روایت میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ قرآن مجید قطعی الدلالہ ہے یا نہیں تو وہاں دلالت سے مراد دلالت کی مذکورہ بالا جمیع اقسام ہوتی ہیں۔ اس گفتگو میں اپنی بات کو آسان فہم انداز میں پیش کرنے کی غرض سے قرآن مجید قطعی الدلالہ کا معنی ہم یہ لے رہے ہیں کہ قرآن مجید کے الفاظ کا ایک متعین معنی ہے کہ جو متکلم کا مقصود ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور معنی مراد لینا نہ صرف متکلم کی مراد کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کی مخالفت بھی ہے۔ اگر ہم اس بحث کہ قرآن مجید کل کا کل قطعی الدلالہ ہے، کی ممکنہ صورتیں بنائیں تو وہ درج ذیل چار صورتیں ہیں:
۱۔ قرآن مجید عند اللہ قطعی الدلالہ ہے؟ ہمارا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہر کلام اپنے متکلم کے نزدیک اپنے لفظ لفظ میں قطعی ہوتا ہے۔
۲۔قرآن مجید عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قطعی الدلالہ ہے؟اس میں کچھ تفصیل ہے کہ فی نفسہ قطعی نہیں بلکہ مع البیان قطعی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا کہ آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی قراء ت کی اتباع کریں اور پھر اس قراء ت کا بیان ہمارے ذمہ ہے۔ "اقیموا الصلوۃ" کا وہ معنی ومفہوم جو منشائے متکلم ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صرف اسی نص کے نزول سے قطعی نہیں ہوا بلکہ مزید وحی خفی کے بیان سے قطعی ہوا جیسا کہ جبرئیل علیہ السلام نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازوں کے اوقات وغیرہ کی تعلیم دی۔
۳۔قرآن مجید عند جمیع المخاطبین قطعی الدلالہ ہے؟ یہ دعویٰ کسی طور نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی سوفسطائیت ہے جو تفسیر میں اختلاف کے وجود کی بھی منکر ہے۔ تفسیر میں اہل علم کا اختلاف ہوا ہے اور یہ تنوع کا بھی ہے اورتضاد کا بھی ہے۔ تفسیر کا یہ اختلاف آج بھی جاری ہے، اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو دیکھا یا نہیں تو اس میں صحابہ رضوان اللہ اجمعین سے آج تک اختلاف جاری ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایک مفسر کے نزدیک راجح رائے کون سی ہے یا اس کے پاس اپنی اس رائے کے حق میں دلائل کس قدر مضبوط ہیں یا اسے اپنی اس رائے کی صحت پر کتنا ایمان اور یقین حاصل ہے وغیرہ۔ ہم یہ بات کر رہے ہیں کہ قرآن مجید کے جتنے مقامات کی تفسیر میں اہل علم کا اختلاف ہوا ہے تو کیا اس اختلاف کے نتیجے میں کسی مفسر کے دلائل اس قدر مضبوط اور کافی و شافی ہیں کہ اس نے مراد الٰہی کی قطعیت کو اس طرح ثابت کر دیا ہو کہ نہ صرف معاصرین نے اس سے اپنا اختلاف ترک کر دیا ہو بلکہ قیامت تک آنے والے اہل علم کے لیے بھی اس کی رائے سے اختلاف کرنا ممکن نہ رہا ہو۔ ہم تو نفس اختلاف کی بات کر رہے ہیں کہ صلاحیت اور اخلاص دونوں بنیادوں پر اہل علم کا قرآن مجید کی آیات کی تفسیر میں اختلاف ہوا ہے، ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا اور یہی اس کے قطعی الدلالہ نہ ہونے کے لیے کافی و شافی دلیل ہے۔
اب یہ کہنا کہ تاویل کا اختلاف اور ہوتا ہے اور احتمال کا اختلاف فرق ہے اور مفسرین نے تاویل میں اختلاف کیا ہے، یہ ویسی ہی تھیورائزیشن ہے جیسی کہ قرآن مجید کو ظنی الدلالہ کہنے والوں کی۔ جب ان کے اس موقف پر کہ قرآن مجید کل کا کل ظنی الدلالہ ہے، عقلی وشرعی اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں تو وہ یہی جواب دیتے نظر آتے ہیں کہ تفسیر اور ہوتی ہے اور اعتبار فرق ہے۔ کسی شیء کو تھیورائز کر لینے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس قاعدے کلیے یا ضابطے کا آپ کے ذہن سے باہر خارج میں بھی وجود ثابت ہو گیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مفسرین میں تاویل کا اختلاف تنوع کا بھی ہے اور تضاد کا بھی ہے۔ البتہ متقدمین مفسرین یعنی صحابہ کی جماعت میں تفسیر کازیادہ تر اختلاف تنوع کا ہی تھا۔ اس لیے ابن تیمیہ رحمہ اللہ متقدمین کی تفسیر کی طرف رجوع کے پرجوش مبلغ ہیں کہ اس سے قرآن مجید کی قطعیت بڑھ جاتی ہے کہ قرآن مجید کامعنی ومفہوم متعین کرنے میں متقدمین کو کچھ ایسے خارجی ذرائع بھی حاصل تھے کہ جو کہ متاخرین کو حاصل نہیں ہیں جیسا کہ ان کا شان نزول کا حصہ ہونا۔ لیکن قرآن مجید کی تفسیر میں متاخرین نے جو اختلاف متقدمین سے کیا یا متاخرین نے آپس میں کیا تو اس میں تو اکثراختلاف، تضاد ہی کاہے۔ اور تضاد کا اختلاف، نفس کلام اور لفظ میں موجود ایک سے زائد احتمالات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
قرآن مجید عند بعض المخاطبین قطعی الدلالہ ہے؟ تو یہ دعویٰ بھی درست نہیں ہے کہ ایک مفسر کے لیے کل قرآن مجید قطعی الدلالہ ہو جائے۔ یہ تو عصمت ہے جو نبی کے علاوہ کو حاصل نہیں ہے۔ اگر نبی کے علاوہ کو حاصل ہو سکتی تو دو اشخاص کو لازماً حاصل ہوتی یعنی عمر بن خطاب اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہ جن کی قرآن فہمی، تاویل وتفسیر اور دینی علم کی فضیلت و منقبت نصوص سے ثابت ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے سے لگا کر یہ دعا دی کہ اے پروردگار!انہیں کتاب کا علم عطا فرما۔ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ علم نبوت کے اس پیالے سے سیراب کیے گئے کہ جس سے میں سیراب ہوا ہوں۔اور یہی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے "ابا" کا معنی معلوم نہیں اور اگر میں اس کا معنی معلوم کرنے کی کوشش بھی کروں گا تو تکلف محض ہو گا۔ اور اس نوعیت کے اقوال کئی ایک کبار صحابہ سے منقول ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید کے بعض مقامات بعض مفسرین کے لیے کچھ خارجی ذرائع کی وجہ سے قطعی الدلالہ ہو جائیں جبکہ وہی مقامات دیگر مفسرین کی جماعت کے لیے قطعی نہ ہوں۔ اور یہ مفسرین صحابہ اور ان کے بعد کے مفسرین کی جماعت میں ایک اہم فرق ہے۔ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو خط لکھا کہ مسلمان امت قرآن مجید میں کیسے اختلاف کرے گی ؟ تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ قرآن مجید ہم صحابہ کی جماعت کے تو سامنے نازل ہوا لہٰذا ہمیں آیات کے بارے میں علم ہے کہ کس کے بارے میں، کیوں اور کس پس منظر میں نازل ہوئی۔ لیکن ہمارے بعد والے اس سے محروم ہوں گے اور بہت اختلاف کریں گے۔
کلام الٰہی اور عربی معلی
اللہ تعالی نے اہل عرب کی زبان میں کلام فرمایا ہے یعنی قرآن مجید جس زبان میں نازل ہوا ہے، اللہ عزوجل نے اسے قرآن مجید کے نزول کے ساتھ وضع نہیں کیا بلکہ اہل عرب اس زبان کے واضع تھے۔ لہٰذا عربی معلی ہو یا عربی مبین،یہ مخلوق کی زبان ہے کہ جس میں خالق نے کلام فرمایا ہے۔ خالق نے اپنے کلام کے لیے مخلوق کی وضع کردہ زبان کو آلہ بنایا ہے اور اسی لیے تو قرآن مجید نے بھی کہہ دیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں نازل ہوا ہے۔
پس ہمارے نزدیک ظنی الدلالہ ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ متکلم قادر الکلام نہیں ہے بلکہ یہ کہ متکلم نے اپنے کلام کے بعض مقامات کو جانتے بوجھتے اپنے بندوں کی آزمائش کی غرض سے ظنی الدلالہ بنایا ہے جیسا کہ ہمارے لیے واضح ہے کہ کس طرح اللہ عزوجل نے آیات کو محکم اور متشابہ میں تقسیم کر کے متشابہات کو آزمائش بنانے اور ان پر ایمان لانے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام اور مخلوق کی زبان میں فرق لازم ہے اور یہ اس بارے دوسرا نکتہ ہے۔ ظنی الدلالہ ہونا کلام کا عیب نہیں ہے بلکہ مخاطب کی آزمائش ہے جیسا کہ کسی شخص کا پیدائشی گونگا، بہرا یا نابینا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ کی صفت خلق میں کوئی عیب یا نقص ہے بلکہ یہ اس کی آزمائش ہے۔اللہ عزوجل کی صفت خلق اور مخلوق دونوں میں فرق لازم ہے۔ اسی طرح کلام کا ظنی الدلالہ ہونا یہ لازم نہیں کرتا کہ اللہ کی صفت کلام میں عیب اور نقص ہے بلکہ اس میں بندوں کی آزمائش رکھی گئی ہے۔
قرآن مجید کی فی نفسہ قطعیت
قرآن مجید کل کا کل قطعی الدلالہ نہیں ہے جیسا کہ خود "القرآن یفسر بعضہ بعضا" کے اصول سے ثابت ہو رہا ہے۔ قرآن مجید میں متوفی عنہا کی عدت درج ذیل آیت میں بیان کی گئی ہے: وَالَّذِینَ یْتَوَفَّونَ مِنْکُم وَیَذَرُونَ اَزْوَاجاً یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَربَعَۃَ اَشْھُرٍٍ وَّعَشْراً. [سورۃ البقرۃ، الآیۃ: 234]۔جبکہ اس کے بعد ایک اور آیت میں حاملہ عورتوں کی عدت بیان کی گئی: واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن [سورۃ الطلاق:4]۔ ہر دو صورتوں میں، کہ پہلی آیت متوفی عنہاحاملہ کے حکم کو شامل ہے یا نہیں،
متوفی عنہا کی عدت کے مسئلہ میں دوسری آیت نے پہلی آیت کے معنی کو قطعیت دی ہے اور دونوں آیات کے نزول میں زمانی اختلاف موجود ہے، لہٰذا دوسری آیت کے نزول تک پہلی آیت فی نفسہ ظنی الدلالہ تھی۔
اسی طرح اگر قرآن مجید فی نفسہ قطعی الدلالہ ہوتا تو حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو کیوں شبہہ ہوتا کہ "الخیط الابیض" اور "الخیط الاسود" سے کیا مراد ہے کہ ان کی تو مادری زبان بھی عربی تھی۔ البتہ یہ الفاظ قرآنی عند رسول صلی اللہ علیہ وسلم قطعی الدلالہ تھے۔پس قرآن مجید بعض مقامات پر فی نفسہ قطعی ہے جیسا کہ "مائۃ جلدۃ" اوربعض پر فی نفسہ ظنی جیسا کہ "المیتۃ"۔
قرآن مجید کا کل ذخیرہ الفاظ یا محاورات عربی معلی ہی کے ہیں یا قرآن مجید نے اصلاً عربی معلی میں کلام کیا اور بہت سا ذخیرہ الفاظ یا محاورات ایسے استعمال کیے جو اہل عرب کی زبان میں رائج نہیں تھے؟ یہ اس موضوع سے متعلق ایک اہم سوال ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے بہت سے الفاظ اور محاورات ایسے استعمال کیے ہیں جو اہل عرب کے لیے نئے تھے یعنی ان کی زبان میں وہ مستعمل نہ تھے جیسا کہ استوی علی العرش، سدرۃ المنتھی، لوح محفوظ اور جہنم وغیرہ۔ اب عرب جن الفاظ اور محاورات ہی کو پہلی مرتبہ سن رہے تھے تو وہ ان کے لیے فی نفسہ قطعی الدلالہ کیسے ہو گئے؟ ہاں! سنت کے بیان کے ساتھ مل کر وہ قرآنی الفاظ قطعی الدلالہ ہو گئے ہوں تو وہ علیحدہ مسئلہ ہے کہ اس صورت میں ایک خارجی ذریعے نے قرآن کے الفاظ کے معانی کو متعین کیا ہے نہ کہ نظم کلام یا سیاق وسباق نے۔
اسی طرح قرآن مجید نے عربی معلی کے جس ذخیرہ الفاظ یا محاورات کو استعمال کیا تو کیا بعینہ اسی معنی میں استعمال کیا کہ جیسے عرب جانتے تھے یا جس معنی میں وہ استعمال کرتے تھے یا اس معنی میں کمی بیشی کے ساتھ لفظ کو ایک نیا معنی دیا کہ جس معنی سے عرب اس سے پہلے واقف نہ تھے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے بہت سے الفاظ جو کہ اصطلاحات شرعیہ کی قبیل سے ہیں، قرآن مجید نے انھیں ان معانی میں استعمال نہیں کیا کہ جس معنی میں وہ عربی معلی میں مستعمل تھے بلکہ اس میں بہت زیادہ کمی بیشی کی جیسا کہ لفظ صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ او رحج وغیرہ۔ اب سنت کے بیان کے بغیر کیا قرآن مجید کے یہ الفاظ اپنے معنی ومفہوم میں قطعی الدلالہ ہیں؟ آپ اگر سنت سے مراد ’’سنت ابراہیمی‘‘ بھی لے لیں تو پھر بھی صورت حال یہ ہے کہ ایک تو یہ سنت بھی قرآن مجید کے علاوہ ایک خارجی ذریعہ ہی ہے اور دوسرا آپ سنت میں بھی تجدید واضافہ کے بھی قائل ہیں کہ یہ سنت بھی بعینہ وہ نہیں تھی جو اہل عرب میں اسلام سے پہلے رائج تھی یا عرب اس کے اصل معنی سے واقف تھے۔
قرآن مجید کی خارجی ذرائع کے ساتھ قطعیت
یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید کے بعض مقامات جو کہ مخاطبین کے لیے ظنی الدلالہ ہوں، خارجی ذرائع مثلاً تفسیر رسول صلی اللہ علیہ وسلم، لغت قرآن میں تفسیر صحابی، شان نزول کی روایات اور اجماع مفسرین سے قطعی ہو جاتے ہیں۔ کل قرآن مجید فی نفسہ قطعی الدلالہ ہے یا خارجی ذرائع کے ساتھ قطعی الدلالہ ہے تو یہ دعویٰ کسی صورت درست نہیں ہے کہ کم از کم حروف مقطعات تو دونوں صورتوں میں ہی نکالنے ہی پڑیں گے۔ اور فی نفسہ قطعی الدلالہ نہ ہونے کے ثبوت میں امور غیبیہ اور مصطلحات شرعیہ بھی تو دلیل ہیں۔ کیا کوئی مفسر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ سنت کے بغیر صلوٰۃ، زکوٰۃ، صوم اور حج کا وہ معنی معلوم ہو سکتا ہے کہ جو متکلم کی مراد ہے؟ کیا قرآن مجید مصطلحات شرعیہ کے معانی ومفاہیم کے بیان میں فی نفسہ قطعی الدلالہ ہے کہ بغیر کسی خارجی ذریعے کے ان اصطلاحات کے معانی ومفاہیم مخاطب کو سمجھ آ جائیں؟
اگر آپ یہ کہیں کہ کل قران مجید فی نفسہ قطعی القصد ہے تو یہ بات درست ہے لیکن قطعی المعنی تو یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ قرآن مجید نے آیات متشابہات کے بارے کہا کہ اللہ کا قصد واضح ہے کہ ان آیات پر ایمان لے آؤ لیکن ان کی معنوی حقیقت ، تو یہ اللہ کے علاوہ کسی کے علم میں نہیں ہے۔ یہ واضح رہے کہ معنی میں اور معنوی حقیقت میں بھی فرق ہے۔ ایک کل معنی ہے، ایک اصل معنی ہے اور ایک لازم معنی ہے۔ یہ فرق بھی اس بحث میں اہم ہے۔"جنت" کا کل معنی یا حقیقی معنی نامعلوم اور کبھی معلوم ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی آنکھ نے دیکھی نہیں، کان نے سنی نہیں اور دل پر خیال نہیں گزرا۔ اور "جنت" کا اصل معنی معلوم ہے کہ وہ باغ ہے۔ اور اس کا لازم معنی یہ ہے کہ مومنین کا اخروی گھر ہے۔"فرشتہ" کا کل معنی نامعلوم ہے اور معلوم ہونا بھی ناممکن ہے۔ اصل معنی نور ہے۔ اور لازم معنی اللہ کی مخلوق ہونا ہے۔
یہاں سے ظنی الدلالہ کہنے والوں کو شبہہ ہوا کہ قرآن مجید کل کا کل ظنی الدلالہ ہے کہ ان کے نزدیک ایک لفظ کی حقیقت وماہیت معلوم نہیں ہو سکتی۔ اور یہ تحکم محض اور جہل مرکب ہے کہ قرآن مجید کے لفظ لفظ کے باے میں یہ دعویٰ کر دیا جائے کہ اس کا کل معنی نامعلوم ہے۔ اربعۃ کا کل معنی اربعۃ اور ماءۃ کا کل معنی ماءۃ ہے۔ موسیٰ کا کل معنی معلوم ہے کہ ایک اللہ کے پیغمبر اور ان کی ذات مراد ہے اور ہارون کا کل معنی معلوم ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہیں، اللہ کے پیغمبر ہیں اور ان کی ذات مراد ہے۔ اب یہ کہنا کہ قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام سے ’’قلب سلیم‘‘ اور ہارون سے ’’عقل مستقیم‘‘ مراد ہے تو اس سے بڑھ کر اللہ کی کتاب کے ساتھ کیا کھلواڑ ہوگا؟
ظنی الدلالہ ہونے کا معنی ومفہوم
ظنی الدلالہ کا یہ معنی نہیں ہے کہ
۱۔قرآن مجید کی آیات کا کوئی معنی ومفہوم ہی نہیں ہے یہ تو اہل تفویض کا قول ہے۔
۲۔اور نہ ہی ظنی الدلالہ کا معنی یہ ہے کہ مفسر کو قرآن مجید کا جو معنی ومفہوم سمجھ آیا ہے تو وہ لازماً غلط ہی ہے۔
۳۔اور نہ ہی ظنی الدلالہ کا یہ معنی ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ میں اس قدر ابہام ہے کہ مرزائیوں کی مرزائیت، روافض کی رافضیت اور باطنیہ کی باطنیت بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
پہلی دو باتوں کے بارے عرض یہ ہے کہ ظنی الدلالہ کا معنی یہ ہے کہ مفسر کے غالب گمان کے مطابق قرآن مجید کا معنی ومفہوم وہی ہے جو اسے سمجھ میں آیا ہے۔ وہ "عندہ مصیب" ہے اور قرآن فہمی میں خطا کے باوجود عند اللہ ماجور ہو گا کہ ایک گنا اجر حاصل کرے گابشرطیکہ اس میں قرآن مجید کی تفسیر کی اہلیت اور اخلاص کی شرائط موجود ہوں۔علاوہ ازیں ظنی الدلالہ ہونے کا معنی یہ بھی ہے کہ اس کی قرآن فہمی میں خطا جبکہ فریق مخالف کی تفسیری رائے میں صحت کا امکان بھی موجود ہے۔
تیسری بات کے بارے ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ ظنی الدلالہ ہونے کا یہ معنی کسی بھی اصولی علمی روایت میں بیان نہیں ہوا کہ لفظ کی کوئی حدود ہی نہیں ہوتیں کہ جو چاہیں اس سے معنی مراد لے لیں۔ لفظ "ید"کا معنی ہاتھ ہے یا بازو ہے یا قدرت ہے تو یہی احتمالات ہیں نا کہ جن میں سے کوئی ایک مراد لیا جا سکتا ہے۔ اب ظنی الدلالہ ہونے کا یہ معنی تھوڑا ہی ہے کہ لفظ "ید" سے آنکھ بھی مراد ہو سکتی ہے، ناک بھی اور کان بھی وغیرہ ذلک۔ جس طرح اصولیین نے عقل ونقل سے یہ ثابت کر دیا کہ کتاب وسنت میں لفظ کا کل معنی مراد ہو گا یا جزوی معنی یا لازم معنی اور دلالت کی تمام اقسام کو عقل کے علاوہ شرع سے بھی ثابت کیا ہے اور اصول فقہ کی کتب اس قسم کی مباحث سے بھری پڑی ہیں، اس طرح سے ظنی الدلالہ کہنے والوں کا علم اعتبار کے علم ہونے پر اصرار ابھی تک کسی محقق کی راہ دیکھ رہا ہے۔
اور یہ علم تھوڑا ہے کہ بنی اسرائیل سے مراد "خیالات طیبہ" ہیں اور جو دریا انہوں نے پار کیا تھا، اس سے مراد "دریائے وحدت" ہے۔ یہ تو جہل مرکب ہے کہ اس قسم کی قرآن فہمی کے بعد علم الاعتبار اور باطنیت میں فرق پر بھی اصرار ہے اور اعتبار کو علم کہنے پر بھی۔ ظنی الدلالہ ہونے کا معنی ہر گز یہ نہیں ہے کہ کتاب اللہ کا جو معنی ومفہوم چاہیں بیان کر دیں تو اس کا بھی احتمال قرآنی الفاظ میں موجود ہوتا ہے۔ قرآنی الفاظ میں جو احتمالات ہیں، پہلے انہیں لغت، عرف اور شرع سے ثابت کرنا ہو گا اور پھر ان تین قسم کے احتمالات میں سے جب کوئی ایک احتمال کسی مفسر کے نزدیک اس کی تحقیق کے نتیجے میں متعین ہو جائے تو یہ ظنی الدلالہ کا معنی ومفہوم ہے اور اگر سب مفسرین کا اس معنی ومفہوم پر اتفاق ہو جائے تو یہ قطعی الدلالہ ہے۔ بنی اسرائیل سے مراد "خیالات طیبہ" ہیں، یہ معنی نہ تو لغوی احتمالات میں سے ہے، نہ عرفی اور نہ ہی شرعی۔ اور جو معنی ان احتمالات کے علاوہ ہو، وہ باطنیت ہی کی ایک قسم ہے، چاہے اعتبار کا نام دیا جائے یا تفسیر اشاری کا۔
قرآن مجید کے قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ ہونے کی دلیل قطعی
باقی رہا یہ سوال کہ جو اصول ہم نے بیان کیا کہ قرآن مجید قطعی الدلالہ بھی ہے اور ظنی الدلالہ بھی تو اس اصول کے قطعی ہونے کیا دلیل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اصول ان کلیات محضہ میں سے نہیں ہے کہ جن کے اثبات کے لیے کسی صغریٰ وکبریٰ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قاعدہ کلیہ ایک خارجی حقیقت اور امر واقعہ ہے۔ قرآن مجید کے لفظ لفظ میں مفسرین کااختلاف ہے یا بعض مقامات میں ہے؟ اس سوال کا جواب ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جس کے بارے دو رائے ممکن نہیں ہیں۔
قرآن مجید کے لفظ لفظ کے بارے نہ تو متقدمین میں اختلاف ہوا اور نہ ہی معاصرین میں۔ تو جن مقامات میں سب کا اتفاق ہے تو وہ قطعی الدلالہ ہیں اور جن میں اختلاف ہے تو وہ ظنی الدلالہ ہیں۔ اختلاف سے مراد اختلاف تضاد ہے، تنوع کا اختلاف در حقیقت اختلاف نہیں ہوتا بلکہ اضافہ ہوتا ہے۔ رہی وہ آیات کہ جو قرآن مجید کے قطعی الدلالہ ہونے کی دلیل کے طور نقل کی جاتی ہیں تو فریق مخالف کا خود ان آیات کے معنی مفہوم میں آپ سے اختلاف ہے۔ اور فریق مخالف نے ایسی بہت سی آیات بیان کی ہیں کہ جو قرآن مجید کے ظنی الدلالہ ہونے کی دلیل ہیں لیکن آپ ان کے معنی ومفہوم کے بیان میں اختلاف رکھتے ہوں گے۔ دلیل کے معنی ومفہوم میں دونوں طرف سے یہ اختلاف بھی اس بات کی دلیل ہے کہ سب قطعی نہیں ہے۔
خلاصہ کلام
جب آپ قرآن مجید کی کسی آیت کے بارے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قطعی الدلالہ ہے جبکہ مفسرین کا اس آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے تو آپ یہ دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ کی مراد وہی ہے جو آپ کو سمجھ آئی ہے جبکہ بقیہ سب نہ صرف غلطی پر ہیں بلکہ آپ کی نہیں اپنے پروردگار کی مخالفت پر کھڑے ہیں۔ اگر آپ یہ کہیں کہ "الزانیۃ والزانی" کا لفظ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں کو شامل ہے اور یہ معنی ومفہوم ظنی الدلالہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ دوسروں کو اختلاف کی گنجائش دے رہے ہیں۔ اس صورت میں اگر آپ میں یہ معنی بیان کرنے کی اہلیت اور اخلاص کی شرائط موجود ہیں توآپ اپنے نزدیک مصیب ہیں اور عند اللہ ماجور ہیں۔ حدیث میں مجتہد مخطی کے لیے ثواب کا ذکر ہے نہ کہ صرف مخطی کے لیے۔ اسی طرح آپ اس صورت میں اپنی قرآن فہمی میں خطا اور دوسرے کی تفسیر میں صحت کا امکان تسلیم کر رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ یہ دعوی کریں کہ "الزانیۃ والزانی" کا لفظ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں کو شامل ہے اور یہ معنی ومفہوم قطعی الدلالہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نہ صرف دوسروں کو اپنے سے اختلاف کا حق نہیں دے رہے بلکہ یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ جس نے آپ سے اختلاف کیا، اس نے پروردگار سے اختلاف کیا۔ قطعی الدلالہ ہونے کا معنی تو یہی ہے کہ اس متعین معنی کے علاوہ کوئی معنی مراد لینا جائز نہیں ہے کہ جسے آپ نے قطعی الدلالہ قرار دے دیا ہے۔ اس لیے قرآن مجید کے ان مقامات میں کہ جن میں اہل علم کا اختلاف ہے، قطعی الدلالہ ہونے کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
توہین رسالت کیوں ہوتی ہے؟
ڈاکٹر عرفان شہزاد
انسانی رویے، مختلف سماجی، نفسیاتی ،جینیاتی اور عقلی عوامل کا نتیجہ اور رد عمل ہوتے ہیں۔ انسانی رویوں کے باقاعدہ مطالعے کی روایت ہمارے ہاں بوجوہ پنپ نہیں سکی، حالانکہ اس کے بغیر کسی بھی انسانی رویے کی درست تشخیص ہو سکتی ہے اور نہ اس کا علاج ممکن ہے۔ ہمارے ہاں محض علامات دیکھ کر فیصلہ صادر کرنے کا چلن ہے۔ کسی رویے کے پیچھے کیا محرکات ہیں یہ جاننے کی زحمت کم ہی کی جاتی ہے۔
توہین مذہب یا توہین رسالت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ توہین رسالت کے ہزاروں مقدمات پاکستانی عدالتوں میں قائم ہیں، اگر یہ سارے مقدمات درست ہیں، جو کہ درحقیقت نہیں ہیں، تو کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ آخر ایسا ہوکیوں رہا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ سے آخر ایسی کیا پرخاش ہو گئی ہے لوگوں کو کہ اپنی جان پرکھیل کربھی آپ جیسی کریم ہستی کی توہین کا ارتکاب کررہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف سزائے موت اور دوسری طرف عوام کے غیظ و غضب کے نتیجے میں ہونے والی دردناک اموات کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے خلاف توہین کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا؟اور یہ سب ایک اسلامی ملک میں ہو رہا ہے جہاں عوام، ادارے، تھانے اور عدالتیں سب مسلمانوں کے ہاتھ میں ہیں۔ آج ہم ان سوالوں کے جوبات تلاش کریں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں توہین رسالت کے درج کیے جانے والے مقدمات میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 سے 90 فیصد مقدمات جعلی ہوتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق توہین رسالت کی دفعہ C 295 کے تحت 1986 سے لے کے 2004 تک پاکستان میں رجسٹرڈ کیسوں کی تعداد 5000 سے زائد ہے۔ 5000 افراد جن کے خلاف توہین رسالت کے کیسز رجسٹر ہوئے، ان میں سے صرف 964 افراد کے کیس عدالتوں میں پہنچے، 4036 کیسز ابتدائی اسٹیج پر ہی جعلی ثابت ہونے پر خارج کردیے گئے، سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ 86% فیصد کیسز صرف پنجاب میں رجسٹر ہوئے،یعنی 5000 میں سے 4300 کیسز! مزید یہ کہ جن 964 افراد کے کیس عدالتوں میں گئے، ان میں سے بھی 92% فیصد کیسز کا تعلق پنجاب سے تھا۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات کے پیچھے ہمارے سماجی رویے کار فرما ہیں۔ پنجاب میں ان واقعات کی کثرت کی وجہ زمین پر قبضے، ذاتی دشمنی اور رنجشیں ہیں۔ مسلمان افراد دوسرے مسلمان اورغیر مسلم افراد کے خلاف توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات قائم کرکے اپنے ذاتی مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں۔ اپنے مخالف پر توہین رسالت کا الزام سب سے آسان اور تیر بہدف ثابت ہوتا ہے۔ عوامی حمایت ایک لحظہ میں حاصل ہو جاتی ہے۔ ایک بار الزام لگ جائے تو پھر ملزم لاکھ یقین دلاتا رہے کہ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا مگرعوام کا غیظ وغضب اس کا تیا پانچہ کرنے پر تل جاتا ہے، پولیس اور عدالت پر ہر طرح سے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ کہ سزا پھانسی سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے بھی معافی کی گنجائش ہی نہیں قانون میں۔ مزید یہ کہ ملزم اگر عدالت سے بری ہو بھی جائے، تب بھی عوام اسے یا تو مار ڈالتی ہے اوراگرمارا نہ بھی جائے تومعاشرے میں اس کی سماجی حیثیت کی بحالی ممکن نہیں رہتی، حالانکہ بری کرنے والی عدالت بھی مسلمان جج کی ہوتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ توہین رسالت کا اصل جرم توہین کے جھوٹے مقدمات بنانے والوں پر ثابت ہوتا ہے، جو توہین کے الفاظ خود اپنی طرف سے بناتے ہیں۔ یقیناًیہ بڑی قبیح جسارت ہے۔ مگرہمارا قانون جھوٹا مقدمہ کرنے والے کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کرتا۔ اگر قانون یہ بنا دیا جائے کہ توہین رسالت کا جھوٹا مقدمہ کرنے والے کو توہین رسالت کے قانون میں دھر لیا جائے گا تو جھوٹے مقدمات میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔
توہین رسالت کا صدور کسی صحیح الدماغ آدمی سے ممکن نہیں۔ پاکستان میں توہین رسالت کے موجودہ سخت قانون، جس میں توبہ کی گنجائش بھی نہیں اور اس سے بڑ ھ کراس معاملے میں عوام کی دیوانگی کی حدوں کو چھوتی ہوئی جذباتیت، جو محض الزام پر ہی نہایت خوفناک نتائج پیدا کردیتی ہے، ان سب کی موجودگی میں کوئی شخص بالفرض توہین مذہب یا توہین رسالت کرنے کا ارادہ رکھتا بھی ہو توباہوش و حواس تو ایسا کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ دین یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنجیدہ علمی تنقید چاہے، ہماری طبع پر کتنی ہی گراں گزرے، گستاخی کے زمرے میں نہیں آتی۔ سر ولیم میور نے اپنی کتاب 'لائف آف محمد' میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سی تنقید کی، لیکن کسی نے ولیم میور کو گستاخ رسول قرار نہیں دیا۔ سرسید نے اس کا جواب 'خطباتِ احمدیہ' کی صورت میں لکھا، لیکن کوئی فتویٰ ولیم میور پر نہیں لگایا۔ افسوس کا مقام ہے کہ علمی حلقوں میں بھی اب وہ وسعت نظری نہیں رہی کہ تنقید اور گستاخی کا فرق سمجھ سکیں۔ الا ماشاء اللہ۔ ماضی قریب تک یہ علمی بلوغت نظر آتی ہے، جہاں تنقید کے جواب میں تنقید لکھی جاتی تھی، ڈنڈے جوتے اٹھا کر سڑک پر آکر گلے نہیں پھاڑے جاتے تھے۔ عوام میں ایسی تنقید ی کتب زیر بحث لانے سے گریز کرنا چاہیے۔
بہرحال، معاشرے اور قانون کی طرف سے اگر اتنے خوفناک نتائج کے باوجود کوئی توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے، جیسا کہ چند مقدمات میں ایسا ثابت ہوتا ہے، تو سزا کے نفاذ کے علاوہ اس رویے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا آخر ہوا کیوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کو ہدفِ گستاخی بنانے کی وجہ اور ضرورت کیوں پیش آ گئی اور وہ بھی اپنی جان پر کھیل کر؟
ہم سمجھتے ہیں کہ توہین رسالت جہاں درحقیقت ہوتی بھی ہے تو اس کی وجہ وہ رد عمل ہوتا ہے جو اس معاشرے کے مسلم اکثریت نے اپنے جاہلانہ رویوں کی بنا پر غیر مسلم اقلیت کے ساتھ اسلام کے نام پر روا رکھے ہوئے ہے۔ انہیں اچھوت اور ناپاک سمجھا جاتا ہے، عوام کے ایک طبقے میں ان کے ساتھ ہاتھ ملانا بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے، ان کے ساتھ کھانا پینا تو دور کی بات ان کے کھانے پینے کے برتن الگ رکھے جاتے ہیں۔ سب سیبڑھ کر یہ کہ انہیں معاشرتی دباؤ ڈال کر اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور انکار پر حقارت آمیز طرزِ عمل اختیار کیا جا تا ہے۔ جو زیادتیاں غیرمسلموں کے غریب ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ ہوتی ہیں، جوہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے، وہ بھی مذہبی زیادتی کے زمرے میں شمار ہو جاتی ہیں۔ میں نے بطورِ استاد جس تعلیمی ادارے میں بھی پڑھایا، وہاں مجھ سے میرے طلبہ نے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا غیر مسلم کو سلام کرنا جائز ہے؟ ان کے ساتھ کھاناکھایا جا سکتا ہے؟ یہ شہری تعلیمی اداروں کا حال ہے۔ اندازہ کیجیے کہ دیہی علاقوں کا کیا حال ہوگا، جو وقتاً فوقتاً مختلف واقعات کی صورت میں ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔ تعلیم ملازمت اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں غیر مسلموں سے امتیازی سلوک عام ہے۔ ان کی بستیاں اور قبرستان تک الگ بسائے جاتے ہیں۔ خاکروب اورنچلی سطح کے کام ان کے ساتھ مخصوص کردیے گئے ہیں۔ ان کے مخصوص نام رکھ کر حقارت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
یہ ساری جہالت اسلام کے نام پر کی جاتی ہے اور پھر اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا تقاضا بھی سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ اب ذرا سوچیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اس نفرت اور حقارت آمیز رویے کے بعد ایک غیر مسلم کے ذہن میں اسلام اور نبی کریم کا کیا تاثر بنتا ہے ؟ ایک مثال لیجیے۔ ایک مغرور بدتمیز آدمی اپنے غرور اور بدتمیزی کو بڑے فخر سے اپنے والد اور خاندانی روایات کی طرف منسوب کرے تو اس کے خاندان اور والد کے بارے میں ہمارا کیا تاثر بنے گا؟چاہے اس کا والد نیک نفس شخص ہی کیوں نہ ہو، لیکن ہمارے سامنے جوتاثر آئے گا ہم تو اس کے مطابق ہی سوچیں گے کہ یہ تمیز سکھائی ہے اس کو اس کے والد نے! اسی طرح جب ایک غیر مسلم، اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مسلمانوں کی طرف سے مسلسل امتیازی سلوک، حقارت آمیز رویے اور ظلم وستم سے تنگ آکردین کے اس منفی مظہرپرکوئی ردعمل ظاہر کردیتا ہے تو توہین رسالت کامرتکب قرار پاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہماری ان حرکتوں اور رویوں کے بعد غیر مسلم کے ذہن میں نبی پاک کا جو منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اس تاثر کے پیدا کرنے والے مسلمان کیا توہینِ رسالت کے مرتکب قرارنہیں پاتے؟ ان کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ اس کے بعد پھرذرا سوچیے، بھلا ایسا کون سا غیر مسلم ہوگا جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤں سے وہ عزت واحترام اور حقوق مل رہے ہوں جو نبی کریم خود غیرمسلمو ں کو دیا کرتے تھے اوروہ پھر بھی آپ کی شان میں گستاخی کرے؟ اگر اس کے باوجود کرے تو یقیناًسزا کا مستحق بنتا ہے۔
ہمارے مولویوں نے جتنی محنت نبی کریم کی محبت کی دیوانگی لوگوں کے دلوں میں پیدا کرنے میں لگائی ہے، اتنی ہی محنت اگروہ لوگوں میں اخلاقِ نبوی کی تربیت اور ترویج کے لیے بھی کرتے تو ایسی صورتِ حال پیدا ہی نہ ہوتی، جس سے آج پاکستانی معاشرہ دوچار ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا سود کا ایک روپیہ چھوڑنے کو تیار نہیں، لیکن ان کے نام پر کسی کو بھی قتل کرنے کو تیار ہیں۔ دودھ اور دوائیوں میں ملاوٹ کرنے والے میلاد کی محفلیں سجانے میں پیش پیش ہوتے ہیں، بھائی بہنوں کی جائیداد دبا لینے والے نعت شریف کی محفلیں لگاتے ہیں، نعتیں سن کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں اورآبدیدہ ہونے کے بعد بھی زمین کا قبضہ نہیں چھوڑتے۔ نعرہ رسالت کے آگے پیچھے (نعوذ باللہ) بلا تکلف گالیاں نکالتے ہیں۔ سوچیے کہ ایک غیرمسلم ان مظاہر کے بعد اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا تاثر لے گا۔ کس کے پاس اتنا وقت اور سمجھ ہے کہ خود قرآن یا سیرتِ رسول پڑھ کر پڑھ کر معلوم کرے کہ ان غافل مسلمانوں کے نبی کتنے عظیم تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "خبر دار! جس نے کسی معاہد (ذمی) پر ظلم کیا یا اْس کے حق میں کمی کی یا اْسے کوئی ایسا کام دیا جو اْس کی طاقت سے باہر ہو یا اْس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اْس سے لے لی تو قیامت کے دن میں اْس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔‘‘ (ابو داؤد)
اب جو لوگ غیرمسلموں پر رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نا م اور ان کی شفاعت کے بھروسے پر بلا جواز زیادتیاں کر رہے ہیں، بلا تحقیق قتل کررہے، قیامت کے دن دیکھیں گے کہ خود رسول اللہ خدا کی عدالت میں ان ظالم مسلمان کے خلاف ان مظلوم غیرمسلموں کا مقدمہ لڑیں گے۔ اور جس کے خلاف خود اللہ کا رسول کھڑا ہو جائے اس بدبخت کی تباہی میں کیا شبہ رہ جاتا ہے۔
عالمی سطح پر توہین رسالت کی وجہ اسلام کا وہ سیاسی تصور ہے جو پوری دنیا پر طاقت کے بل بوتے پر مسلم حکمرانی کو مسلمان کا مقصد گردانتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب عالمی سطح پر آزادی کو بنیادی انسانی حق تسلیم کر لیا گیا ہے تو پھر کسی قوم کا یہ مقصد حیات کہ اس نے پوری دنیا کو محکوم بنانا ہے، دوسروں کے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ نظریہ اگر مولانا مودودی کے نام سے پھیلایا جائے تو لوگ ان کو برا بھلا کہیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے فروغ دیں تو لوگ انجانے میں ان کی توہین کریں گے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس نظریہ کے حاملین کے عملی مظاہر اگر داعش کی صورت میں سامنے آئیں تو تحقیق کرنے پہلے ہی عوام سخت رد عمل میں آکر اس دین اور اس کے لانے والے کو برا کہنے لگتے ہیں، جو ایسی تعلیمات یا ایسی تربیت کرتا ہے۔
اسلام کے بارے میں غیروں اور اپنوں کا منفی پراپیگنڈا بھی اس کا سبب ہے۔ مثلاً،اسلام کے عورتوں کے بارے میں احکامات کو عجیب رنگ میں پیش کیا جاتا ہے جو بادی النظر میں بہت دقیانوسی لگتا ہے۔ اس دقیانیوسیت پر مہر تصدیق اس وقت ثبت ہوجاتی ہے جب کچھ مسلم ممالک میں اس پر پوری دقیانوسیت کے ساتھ عمل بھی نظر آتا ہے ، جہاں عورت کو کسی جانور سے زیادہ حیثیت نہیں دی جاتی۔ اس سب کا ردعمل اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف نکلتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ ردعمل نبی کریم کی حقیقی ذات کے خلاف نہیں بلکہ اس تصور کے خلاف ہے جو ان کے سامنے اسلام کی غلط ترجمانی سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسروں کو الزام دینے اور اس الزام پر ان کو سزاد دینے سے پہلے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک لینا چاہیے کہ کہیں ہم ہی اپنے عظیم نبی کی توہین کے ذمہ دار ہم خود تو نہیں؟
امتی باعث رسوائیِ پیمبرہیں
کیا توہین رسالت پر سزا کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے؟ مولانا شیرانی، پروفیسر ساجد میر اور مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں
مولانا غلام محمد صادق
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور ہمارے لیے قابل احترام علمی شخصیت محترم حضرت مولانا محمد خان شیرانی صاحب نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل توہین رسالت کے قانون پر نظر ثانی کے لیے تیار ہے۔ مگر اس کے لیے حکومت یہ مسئلہ باقاعدہ طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوائے۔ (روزنامہ اسلام ۳۱ جنوری ۲۰۱۶ء) اس پر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون کی تبدیلی برداشت نہیں کی جائے گی۔ البتہ اس کے غلط استعمال کی روک تھام ضروری ہے اور اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ ملک کی ایک تیسری علمی شخصیت اور معروف سکالر و دانشور حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بھی محترم شیرانی صاحب کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح یہ بات قطعی طور پر غیر متنازعہ ہے کہ توہین رسالت کی سزا بہرحال موت ہے جسے کسی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح یہ بات بھی اب متنازعہ نہیں رہی کہ ہمارے ہاں اس قانون کا استعمال بہت سے مواقع پر ناجائز ہوتا ہے۔ متعدد شواہد ایسے موجود ہیں کہ اپنے مخالفین کو خواہ مخواہ پھنسانے کے لیے اس قانون کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ بیسیوں مقدمات ایسے ریکارڈ پر ہیں جو خود مسلمانوں کے باہمی مسلکی مشاجرات و تنازعات کے پس منظر میں ایک دوسرے کے خلاف درج کرائے گئے ہیں۔
ہمارے لیے یہ تینوں حضرات قابل احترام و قابل تعظیم و تکریم ہیں، مگر ہم پورے وثوق و اعتماد کے ساتھ ان حضرات کے بیانات کو مآل و نتیجہ کے اعتبار سے توہین رسالت کی سزا میں تخفیف و کمی اور مغربی و سیکولر لابیوں کی طرف سے بے جا واویلا اور مسلمانوں کے خلاف ان کے متعصبانہ پروپیگنڈہ مہم کی نادانستہ طور پر تائید و تصویب اور اس سزا کے مخالفین کو مؤثر ہتھیار فراہم کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جبکہ مغرب قانون توہین رسالت کے درپے ہو اور اس کے مکمل خاتمہ یا غیر مؤثر بنانے کے لیے رات دن کوششوں میں مصروف ہو، وقتاً فوقتاً امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے اس قانون کو ختم کرنے کے مطالبات سامنے آتے رہے ہوں، کیا محترم چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا شیرانی صاحب کا بیان کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل توہین رسالت کے قانون پر نظر ثانی کے لیے تیار ہے مگر اس کے لیے حکومت اس مسئلہ کو باقاعدہ طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوائے‘‘ اس بات کی غمازی نہیں ہے کہ مولانائے محترم خود حکومت کو دعوت دے رہے ہیں کہ توہین رسالت کا متفقہ اور مسلمہ مسئلہ دوبارہ متنازعہ بنا کر کونسل بھجوائے تاکہ اس کو تیثۂ تحقیق کے ذریعہ مغرب اور لادین قوتوں کے لیے قابل برداشت بنایا جائے کہ ’’شیخ بھی راضی ہو اور شیطان بھی ناراض نہ ہو۔‘‘
اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ حکومت ایسی غلطی کبھی نہیں کرے گی کہ اس قسم کے حساس اور جذبات ابھارنے والا طے شدہ مسئلہ کو چھیڑ کر اپنے لیے تباہ کن مسائل پیدا کرے گی اور اگر خدانخواستہ اس حکومت اس قسم کی ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ بھی کرے تو عاشقان رسول کے غیض و غضب سے نہیں بچ سکے گی۔
اسلامی نظریاتی کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے، نہ دارالافتاء ہے اور نہ دارالقضاء ہے کہ مسلمانان ملک اس کی تشریح و تعبیر اور بیان و تحقیق سے مطمئن ہو کر توہین رسالت کی سزا جیسے متفقہ اور مسلمہ قانون سے دستبردار ہو کر کونسل کی رائے اور تجویز کو باعث اطمینان و تسکین سمجھیں۔ باقی رہے محترم سینیٹر ساجد میر صاحب اور محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کے خیالات و بیانات کہ ’’توہین رسالت کے قانون کا استعمال غلط اور ناجائز ہوتا ہے جس کی روک تھام ضروری ہے اور اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے‘‘ بلکہ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے تو جناب ساجد میر صاحب کی وہم وظن اور مفروضے پر مبنی دعوے پر قطعیت اور یقینیت کی مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے اس موہوم قسم کی بات ’’توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال‘‘ کو غیر متنازعہ (قوم کا متفقہ فیصلہ) اور متعدد شواہد پر مبنی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ہم دونوں بزرگوں کے مذکورہ بیانات کو توہین رسالت کے متفقہ اور مسلمہ قانون میں نادانستہ طور پر امت مسلمہ میں مذموم و مکروہ اختلاف و تفریق اور تذبذب و انتشار پیدا کرنے کے لیے راہ ہموار کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں جو کہ توہین رسالت کی قانونی سزا ختم کرنے یا غیر مؤثر کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیا ہم ان حضرات کی توقیر و عظیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ ملک کے سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف صاحب نے تو مئی ۲۰۰۰ء کو یہی الفاظ استعمال کر کے اعلان کیا تھا: ’’توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے ضابطۂ کار تبدیل کرنا چاہیے‘‘ جس پر اس وقت ملک کے طول و عرض میں پاکستان کی دینی اور سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ اس دوران جنرل موصوف بیرون ملک دوروں پر تھے۔ وہاں انہیں اس بگڑتی ہوئی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، بیرونی ملکی دوروں سے واپسی پر انہوں نے وہ بیان جاری کیا جس کا ایک ایک حرف آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت نے توہین رسالت ایکٹ میں کوئی ترمیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ علماء کرام و مشائخ عظام متفقہ طور پر یہ چاہتے ہیں کہ ایف آئی آر براہ راست ایس ایچ او کے پاس درج ہو۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ان سب کا احترام ہے اور اس سے بڑھ کر عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایف آئی آر کے طریقہ کار میں تبدیلی نہ ہو۔ میں نے فیصلہ کیا کہ تمام کا ہی فیصلہ ہے کہ اب بھی ایس ایچ او کے پاس ہی براہ راست ایف آئی آر درج ہو سکے۔ توہین رسالت کے تحت ایف آئی آر کے حوالے سے حکومت جو مجوزہ تبدیلی لانا چاہ رہی ھی اس پر علماء کی رائے حکومت کے لیے بہت راہنمائی کا سبب بنی۔ انہوں نے کہا کہ توہین رسالت کا قانون پی پی سی 295سی کا حصہ ہے، نہ تو اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے نہ ہی کوئی مسلمان اسے بدل سکتا ہے۔ کوئی اسے تبدیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جو معاملہ سامنے آیا ہے وہ ایف آئی آر کے اندراج میں ایک معمولی تبدیلی کا تھا جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایسا معاملہ ڈپٹی کمشنر کے نوٹس میں لایا جائے گا جو اس پر ایف آئی آر درج کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں علماء کا بے حد احترام کرتا ہوں اور میں نے حکام کو علماء کے ساتھ رابطے کی ہدایت کی ہے۔(روزنامہ نوائے وقت ۱۷ مئی ۲۰۰۰ء)
آخر ایک غیر متدین شخص اور شرعی رموز و آداب سے ناواقف و نابلد جرنیل سابقہ صدر پاکستان کے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی سے متعلق بیان کہ ’’توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے ضابطہ کار تبدیل کرنا چاہیے‘‘ اور مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے امیر محترم پروفیسر ساجد میر صاحب کے ان الفاظ میں کہ ’’البتہ اس (توہین رسالت کے قانون) کے غلط استعمال کی روک تھام ضروری ہے اور اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے‘‘ اور محترم مولانا زاہد الراشدی کے ان الفاظ میں کہ ’’یہ بات اب متنازعہ نہیں رہی کہ ہمارے ہاں اس قانون کا استعمال بہت سے مواقع پر ناجائز ہوتا ہے‘‘ اور پھر مولانائے محترم کے یہ الفاظ کہ ’’چنانچہ قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے یہ مسئلہ نظریاتی کونسل میں زیر بحث آتا ہے تو اسے ہدف تنقید بنانے کی بجائے اس کی حمایت کرنی چاہیے‘‘ میں انجام و نتیجہ کے اعتبار سے کیا فرق ہے؟ کہ پرویز مشرف کا بیان تو مورد الزام اور طعن و تشنیع کا سبب بن جاتا ہے جس کے خلاف ملک کے طول و عرض میں احتجاجی مظاہرے اور مذمتی جلسے و اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے قانون توہین رسالت کے نفاذ کے طریقہ کار میں تبدیلی کے متعلق اپنے اعلان کو واپس لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جبکہ ہمارے مذکورہ محترم علمی شخصیات اور قومی قائدین کے مندرجہ بالا بیانات توہین رسالت کے قانون کے لیے افادیت کا سبب طنز و تشنیع سے حفاظت اور مسلمانوں کی نیک نامی کے باعث بن جائیں گے۔
کہتے ہیں کہ کسی شخص کے سر پر ٹوپی فٹ نہیں ہوتی تھی تو دوسرے نے اس کو سر تراشی کا مشورہ دیا۔ ظاہر ہے کہ سر تراشی سے پھر وہ سر، سر ہی نہیں رہ جائے گا۔ ظاہر ہے کہ توہین رسالت کے قانون کے نفاذ کے لیے مانع استعمال شروط و قیود لگانے سے ہی اس قانون کی افادیت ختم ہو جائے گی اور پھر یہ قانون قانون ہی نہیں رہے گا۔
جہاں تک پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال اور بے گناہ لوگوں کو اس قانون میں پھنسانے کے لیے ان کے خلاف مقدمات دائر کرانے اور سزا دلانے کا تعلق ہے تو اس کے لیے مؤثر قانون تعزیرات موجود ہے۔ قانون تعزیرات کی دفعہ 194 کی رو سے اگر کوئی شخص بے گناہ کو سزائے عمر قید یا سزائے قتل دلانے کے ارادے سے غلط بیانی کرے یا جھوٹی شہادت دے تو اس کو عمر قید کی سزا مقرر ہے۔ اور کسی شخص پر سزائے موت لاگو ہو جائے اور بعد میں ثابت ہو کہ اس کی وجہ جھوٹی شہادت تھی تو ایسے جھوٹے گواہ یا گواہوں کو سزائے موت دی جائے گی۔ اگر کسی جگہ قانون توہین رسالت کا غلط استعمال ہوا تو اس تعزیراتی قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے حکومت یا عدالت از خود نوٹس لے کر ایسے افراد کو قرار واقعی سزا دے سکتی ہے جو توہین رسالت کے نام پر جھوٹے مقدمات میں لوگوں کو ملوث کرتے ہیں۔ جب یہ قانون پہلے ہی سے ملک میں موجود ہے تو پھر صرف توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے فکرمند ہونا اور اس اہم اور متفقہ قانون پر نظر ثانی کرنا چہ معنی دارد؟
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الدین النصیحۃ۔ یعنی دین بس خیر خواہی کا نام ہے۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’النصیحہ‘‘ چارسدہ)
مولانا غلام محمد صادق کے نام مکتوب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکرمی حضرت مولانا غلام محمد صادق زید مجدکم، مدیر اعلیٰ ماہنامہ النصیحہ چارسدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
کل ہی ایک دوست نے ماہنامہ النصیحۃ کے ایک شمارہ کی طرف توجہ دلائی ہے جس کے اداریہ میں آنجناب نے مولانا محمد خان شیرانی، پروفیسر ساجد میر، اور راقم الحروف کو خطاب کر کے توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون کے حوالہ سے کچھ نصائح فرمائے ہیں۔ یاد فرمائی کا شکریہ!
توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کے حوالہ سے میرا موقف واضح ہے جس کا درجنوں مضامین میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہو چکا ہے، اس کا خلاصہ آنجناب کے لیے دوبارہ تحریر کر رہا ہوں۔
(۱) جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ تعالیٰ کے کسی بھی پیغمبر کی توہین کی شرعی سزا موت ہے۔ اور اس سلسلہ میں پاکستان میں رائج الوقت قانون بالکل درست ہے جس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی درست نہیں ہوگی۔
(۲) امام ابویوسفؒ ، امام طحاویؒ اور علامہ شامیؒ نے اس سنگین جرم کو ’’ارتداد‘‘ قرار دے کر اس میں توبہ کی گنجائش بیان فرمائی ہے۔ اس لیے اگر اس گنجائش کو مناسب طور پر قانونی حصہ بنا لیا جائے تو اس میں مجھے کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔
(۳) یہ بات امر واقعہ ہے کہ ہمارے ہاں اس قانون کا عام طور پر استعمال گروہی اور فرقہ وارانہ تعصبات کے حوالہ سے ایک دوسرے کے خلاف غلط طور پر ہو رہا ہے۔ اس لیے قانون میں تو نہیں البتہ قانون کے نفاذ کے طریق کار میں کوئی تبدیلی اس غلط استعمال کو روکنے کے لیے ناگزیر ہو جائے تو ایسا کرنا نہ صرف درست ہوگا بلکہ قانون پر اعتماد بحال کرنے کا ذریعہ بھی ہوگا۔
جہاں تک اس قانون کے غلط استعمال کا تعلق ہے اس کے بارے میں چند ذاتی مشاہدات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا:
- تھانہ گرجاکھ گوجرانوالہ میں ایک اہل حدیث مولوی صاحب کو ’’توہین قرآن کریم‘‘ کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور ضلعی انتظامیہ نے اس سلسلہ میں مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ مولوی صاحب مسجد کی الماریوں میں پڑے ہوئے بوسیدہ قرآنی کاغذات کو تلف کرنے کے لیے جلا رہے تھے جسے دیکھ کر مخالف مسلک کے ایک مولوی صاحب نے اپنی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر توہین قرآن کریم کا اعلان کرکے اپنے پیروکاروں کا ہجوم اکٹھا کر لیا جس کے مطالبہ پر مولوی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ میں نے پولیس افسران سے کہا کہ یہ توہین قرآن کریم کا کیس نہیں بلکہ بے احتیاطی اور بے وقوفی کا معاملہ ہے جس پر مولوی صاحب کو تنبیہ ضرور کی جائے مگر توہین قرآن کریم کا کیس درج نہ کیا جائے۔
- تھانہ کھیالی گوجرانوالہ کے علاقہ میں ایک نوجوان حافظ قرآن کریم کو قرآن کریم کی توہین کا مجرم قرار دے کر پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے ہجوم نے سڑکوں پر گھسیٹ کر مار ڈالا جس کا تذکرہ قومی اور بین الاقوامی پریس میں کئی روز تک ہوتا رہا۔ بعد میں جب تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ بھی اس محلہ میں مخالف مولوی صاحب کی کارستانی تھی جس نے مسلکی مخالفت و تعصب میں یہ ڈرامہ رچایا تھا۔
- تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ کے علاقہ میں واقع ہمارے ایک دینی مدرسہ ’’جامعہ قاسمیہ‘‘ کے باہر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر مبنی پرچیاں تقسیم کی گئیں اور ان کا کھوج علاقہ کے چند مسیحی افراد تک پہنچایا گیا۔ دوپہر تک پورا علاقہ سڑکوں پر تھا اور قریب تھا کہ مسیحی آبادی کو گھیر لیا جاتا، کمشنر گوجرانوالہ نے ہم سے رابطہ کیا۔ ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں بحمد اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے یہ معمول ہے کہ ایسے کسی بھی اجتماعی معاملہ میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ کے سرکردہ راہنما فوری طور پر مل بیٹھتے ہیں اور ثم الحمد اللہ کہ ایسے مواقع پر داعی بھی ہم دیوبندی ہی ہوتے ہیں۔ اس روز چند گھنٹوں کے نوٹس پر ہم سب جمع ہوئے، معاملہ کو کنٹرول کیا اور پھر انکوائری کی تو اندر سے یہ بات نکلی کہ کاروباری رقابت میں مسیحی سوسائٹی کے چند لوگوں نے اپنے ہی مسیحی بھائیوں کے خلاف یہ سازش کی تھی۔ ضلعی افسران کا کہنا تھا کہ اگر ہم لوگ بروقت مداخلت نہ کرتے تو شام تک علاقہ کی مسیحی آبادی نذر آتش ہو چکی ہوتی اور اس پر سرکردہ مسیحی راہنماؤں نے ہمارا شکریہ ادا کیا۔
- دو سال قبل دینہ ضلع جہلم میں ایک مسجد کے تنازعہ پر ایک گروہ کے لوگوں نے دوسرے گروہ کے خلاف مقدمہ درج کرایا کہ انہوں نے عید میلاد النبیؐ کی جھنڈیاں اکھاڑ کر پاؤں تلے روندی ہیں جن پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی اور درود شریف درج تھا۔ جن حضرات کے خلاف توہین رسالتؐ کا باقاعدہ مقدمہ درج ہوا ان میں جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جھلم کے مہتمم مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق بھی ہیں جو میرے بھانجے، حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کے پوتے، او ر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے نواسے ہیں۔ دینی کارکنوں اور علاقہ کے علماء کرام نے متحد ہو کر اس معاملہ کو ڈیل کیا اور بڑی مشکل کے ساتھ اس ایف آئی آر پر کاروائی کو رکوایا جا سکا۔
یہ چند واقعات ہیں جو میرے ذاتی علم میں ہیں۔ اگر آنجناب حضرت مولانا سید گوہر شاہ صاحب ایم این اے سے کہہ کر اعلیٰ سطح پر ایسی کسی انکوائری کا اہتمام کرا سکیں کہ اس وقت ملک بھر کے تھانوں میں توہین رسالتؐ کے قانون کے تحت درج مقدمات کا جائزہ لے لیا جائے تو آپ کو اکثر مقدمات اسی نوعیت کے ملیں گے جو فرقہ وارانہ یا گروہی مخالفت و تعصب کی بنا پر درج کرائے گئے ہیں۔ اس لیے نہ محترم پروفیسر ساجد میر صاحب غلط کہہ رہے ہیں اور نہ ہی میں نے کوئی خلاف واقعہ بات کی ہے۔ چنانچہ اگر مولانا محمد خان شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اس قانون کے نفاذ کے طریق کار کو زیر بحث لاتے ہیں تو میری رائے اب بھی یہ ہے کہ اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔ اس سے خود قانون کے احترام و اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
ابوعمار زاہد الراشدی
۱۰ مئی ۲۰۱۶ء
’’میرا مطالعہ‘‘
ادارہ
مطالعہ اہل علم کی زندگی کا مرغوب ترین مشغلہ ہوتا ہے اور اس حوالے سے ہر صاحب علم کا اپنا منفرد ذوق اور خاص تجربات ہوتے ہیں۔ قریبی تعلقات رکھنے والے اصحاب علم میں ایک دوسرے کے ذوق مطالعہ سے مستفید ہونا بھی عام مشاہدے کی چیز ہے۔ نامور اہل علم سے ان کے مطالعاتی سفر کی تفصیلات معلوم کرنے اور انھیں عمومی افادہ کے لیے یکجا کرنے کی روایت بھی ہمارے ہاں موجود ہے۔ اس حوالے سے مولانا محمد عمران خان ندوی کا مرتب کردہ مجموعہ ’’مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں‘‘ کے عنوان سے مشہور ومعروف ہے۔ کم وبیش اتنی ہی شہرت ’’میری علمی ومطالعاتی زندگی‘‘ کو حاصل ہوئی جس کے مرتب مولانا عبد القیوم حقانی ہیں اور اس میں مولانا سمیع الحق کے تیار کردہ ایک علمی وتعلیمی سوال نامہ کے جواب میں برصغیر کے نامور اہل علم کے جوابات کو یکجا کیا گیا ہے۔
اسی نوعیت کی ایک تازہ کوشش ماہنامہ نوائے کسان لاہور کے مدیر، برادرم عرفان احمد بھٹی نے کی ہے اور مطالعے کے حوالے سے پاکستان کے معروف اہل قلم، اُدبا اور اہل علم کے تاثرات وتجربات کو زیر نظر مجموعہ ’’میرا مطالعہ‘‘ کی صورت میں قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس مجموعے کی تدوین جناب عبد الرؤف نے کی ہے اور احمد جاوید، اسلم فرخی، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر مبارک علی، مولانا زاہد الراشدی، حکیم محمود احمد برکاتی، ڈاکٹر صفدر محمود، آصف فرخی اور ڈاکٹر زاہد منیر عامر سمیت بیس معروف اہل علم واہل قلم کے جوابات اس مجموعے کی زینت ہیں۔ مرتب کی طرف سے اس سلسلے کو جاری رکھنے اور کتاب کی جلد دوم وسوم شائع کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا گیا ہے اور اس کے لیے مجوزہ اہل علم کی ایک فہرست بھی کتاب کے صفحہ ۲۸۸ پر درج کی گئی ہے۔
کتاب کو بلاشبہ مذکورہ اہل علم کے برسوں کے مطالعاتی سفر کا نچوڑ قرار دیا جا سکتا ہے اور اس لحاظ سے علم وادب کا ذوق رکھنے والا کوئی بھی شخص اس کے مطالعہ سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ معروف اشاعتی ادارے ایمل مطبوعات نے اسے طباعت واشاعت کے عمدہ معیار پر پیش کیا ہے، تاہم پروف خوانی کا معیار کتاب کی علمی قدر وقیمت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ کتاب کے آخر میں ان تمام کتب کی فہرست (بعض کتب کے مصنفین کے ناموں کے ساتھ) دی گئی ہے جن کا ذکر کتاب کے صفحات میں ہوا ہے، تاہم اگر ان کے اندراج میں الف بائی یا موضوعاتی ترتیب ملحوظ رکھی جائے اور سب کے مصنفین کا بالالتزام ذکر کیا جائے تو افادہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔
۲۹۴ صفحات پر مشتمل اس مجموعے کی قیمت ۶۵۰ روپے مقرر کی گئی ہے اور بذریعہ ڈاک منگوانے کے لیے 03425548690 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ (ادارہ)
جولائی ۲۰۱۶ء
مسلم حکمرانوں کی غیر مسلموں کے ساتھ دوستیاں / اختلاف اور منافرت / جدید مغربی فکر اور تہذیبی رواداری
محمد عمار خان ناصر
تکفیری گروہ کی طرف سے مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کے حق میں یہ نکتہ بھی شد ومد سے اٹھایا جاتا ہے کہ ان حکمرانوں نے بین الاقوامی تعلقات کے دائرے میں کفار کے ساتھ دوستیاں قائم کر رکھی ہیں اور بہت سے معاملات میں یہ دوستیاں اور تعلقات مسلمانوں کے مفاد کے خلاف کردار ادا کرتی ہیں۔ اس ضمن میں عموماً قرآن مجید کی ان آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے جن میں میں مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے مقابلے میں اہل کفر کے ساتھ دوستی اختیار نہ کریں اور جو ایسا کریں گے، ان کا شمار انھی میں ہوگا۔ (آل عمران ۳:۲۸ و ۵۱)
قرآن مجید میں ان ہدایات کا سیاق وسباق پیش نظر رہے تو اس استدلال کی حقیقت سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا۔ یہ تمام ہدایات، جیسا کہ قرآن کا ہر طالب علم جانتا ہے، عہد نبوی کے مخصوص واقعاتی تناظر میں دی گئیں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد عرب معاشرے میں کفر اور ایمان کا ایک معرکہ برپا ہو گیا تھا اور کفار کے مختلف گروہ ایک نئے دین کے مقابلے میں اور اس کو مٹا دینے کے عزم سے پیغمبر اسلام کے بالمقابل آ کھڑے ہوئے تھے۔ یہ گروہ اسلام کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے اور ان کی ساری تگ ودو اور مساعی کا ہدف یہ تھا کہ اسلام کو مٹا دیا جائے اور اسلام قبول کرنے والوں کو اس سے برگشتہ کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کے ساتھ ان سب گروہوں کے عناد او رمخاصمت کی بنیاد ہی یہ تھی کہ دین حق کو فروغ نہ ملنے پائے، بلکہ ممکن ہو تو صفحہ ہستی سے ہی اس کا خاتمہ کر دیا جائے۔ (البقرہ ۲:۱۰۹، ۱۲۰، ۲۱۷۔ (آل عمران ۳:۱۰۰۔ النساء ۴: ۸۹)
اس صورت حال میں ایمان کا بدیہی تقاضا یہی تھا کہ مسلمان ان اسلام دشمن عناصر کے عزائم اور ارادوں سے خبردار رہیں اور اپنی دوستیوں اور تعلقات کا دائرہ اہل ایمان تک ہی محدود رکھیں تاکہ پوری یکسوئی اور دل جمعی کے ساتھ اس کشمکش کو اس کے انجام تک پہنچایا جا سکے۔ تاہم مسلمانوں کے کچھ گروہ مذکورہ اہل کفر کے ساتھ اپنی قرابت داریوں اور سابقہ سیاسی ومعاشرتی تعلقات کی وجہ سے یا ان کی سیاسی طاقت اور اثر ورسوخ سے مرعوب ہو کر اس کشمکش میں کھلے طور پر اللہ اور اس کے رسول کا ساتھ دینے کی ہمت نہیں کر پا رہے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ کوئی بیچ کی راہ اختیار کیے رکھیں جس میں ایمان واسلام کا دعویٰ اور اہل کفر کے ساتھ دوستی اور تعلقات، دونوں برقرار رکھے جا سکیں۔ قرآن مجید کی زیر بحث آیات میں انھی عناصر سے خطاب کیا گیا ہے اور انھیں متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ذہنی گومگو اور تذبذب کی کیفیت سے باہر نکلیں، اپنی تمام تر وفاداریوں کو اللہ کے دین کے لیے خاص کرتے ہوئے اسلام کے ان دشمنوں کے ساتھ دوستی اور قلبی تعلق کو خیرباد کہہ دیں اور اس کشمکش میں پوری یکسوئی کے ساتھ ایمان کے عملی تقاضوں کو بجا لانے اور جان ومال اور رشتہ وقرابت سمیت ہر اس چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں جس کا ان سے تقاضا کیا جائے۔
کفار سے دوستی کی ممانعت اور ایسا کرنے والوں کو ’’وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ‘‘ (اورتم میں سے جو ان کے ساتھ وابستہ ہوگا، وہ انھی میں سے شمار ہوگا) کی وعید کا پس منظر، جیسا کہ واضح کیا گیا، یہی تھا اور اس وعید کا مقصد بھی کمزور اہل ایمان کو متنبہ اور خبردار کرنا تھا نہ کہ ظاہری قانون کے لحاظ سے انھیں کافر قرار دے کر انھیں دائرۂ اسلام سے خارج قرار دینا۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ عہد نبوی میں ہمیں متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں جب چند نہایت مخلص صحابہ نے، کسی ایمانی کمزوری کی بنا پر نہیں، بلکہ چند دیگر وجوہ سے ایسا طرز عمل اختیار کیا جو بظاہر کفار کے ساتھ دوستی کی ممانعت کی ہدایات کے برعکس تھا، لیکن اس کے باوجود ان صحابہ کو کافر ومرتد قراردینا تو کجا، معمولی سرزنش تک نہیں کی گئی ۔ چنانچہ دیکھیے:
۱۔ قریش کے سردار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن امیہ بن خلف اور سیدنا عبد الرحمن بن عوف کے مابین دوستی تھی جو ہجرت کے بعد بھی برقرار رہی اور دونوں اپنے اپنے شہر میں ایک دوسرے کے اموال اور تجارتی معاملات کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ جنگ بدر میں جب مشرکین کو شکست ہوئی تو عبد الرحمن بن عوف نے اسی دوستی کو نبھاتے ہوئے امیہ کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کی اور انھیں لے کر ایک پہاڑ پر چڑھ گئے۔ اتنے میں سیدنا بلال کی نظر پڑ گئی اور انھوں نے آواز دے کر کچھ انصاری صحابہ کو اکٹھا کر لیا اور ان کے پیچھے ہو لیے۔ جب یہ حضرات پیچھا کرتے ہوئے ان کے پاس پہنچ گئے تو عبد الرحمن بن عوف نے امیہ کی جان بچانے کے لیے اسے نیچے بٹھا کر اپنے آپ کو اس کے اوپر ڈال دیا، لیکن بلال اور ان کے ساتھیوں نے ان کے نیچے سے تلواریں مار مار کر امیہ کا کام تمام کر دیا۔ (بخاری، ۲۱۷۹)
۲۔ ۶ ہجری میں غزوہ بنی المصطلق سے واپسی پر جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا غلط فہمی کی وجہ سے سفر میں قافلے سے پیچھے رہ گئیں اور بعد میں صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قافلے کے پاس پہنچیں تو منافقین نے ان پر تہمت طرازی کرتے ہوئے پروپیگنڈا کا ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ اس بے ہودہ اور شنیع مہم کی قیادت خزرج کے سردار عبد اللہ بن ابی کے ہاتھ میں تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ سارا معاملہ اس قدر ذہنی اذیت کا باعث بن گیا کہ ایک موقع پر آپ نے منبر پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ آپ کے اس کے شر سے بچائیں۔ آپ نے فرمایا:
یا معشر المسلمین من یعذرنی من رجل قد بلغنی عنہ اذاہ فی اہلی
’’اے مسلمانوں کے گروہ! کون ہے جو مجھے اس شخص کے شر سے بچائے جس کی اذیت کی زد میں میرے اہل خانہ بھی آ گئے ہیں۔‘‘
اس موقع پر اوس کے سردار سعد بن معاذ اٹھے اور کہا کہ یا رسو ل اللہ، ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ اگر اس شخص کا تعلق اوس سے ہے تو ہم خود اسے قتل کر دیں گے اور اگر خزرج سے ہے تو آپ ہمیں حکم دیں، ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ اس پر خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کی قبائلی عصبیت بیدا ر ہو گئی اور انھوں نے سعد بن معاذ سے کہا:
لعمر اللہ لا تقتلہ ولا تقدر علی قتلہ ولو کان من رہطک ما احببت ان یقتل
’’خدا کی قسم، تم اسے قتل نہیں کرو گے اور نہ تم میں اتنی ہمت ہے کہ اسے قتل کر سکو۔ اگر اس کا تعلق تمھارے قبیلے سے ہوتا تو تم کبھی اس کا قتل کیا جانا پسند نہ کرتے۔‘‘
اس کے جواب میں اسید بن حضیر نے سعد بن عبادہ کو طعنہ دیا کہ وہ خود بھی منافق ہیں اور منافقوں کا دفاع کر رہے ہیں۔ اس گفتگو کے نتیجے میں دونوں قبیلے مشتعل ہو گئے اور قریب تھا کہ وہ باہم لڑپڑیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے دونوں گروہوں کے اشتعال کو سکون میں بدلنے کی کوشش کرتے رہے اور بڑی مشکل سے اس صورت حال پر قابو پایا۔ (بخاری، رقم ۳۹۱۰)
علامہ انور شاہ کشمیریؒ خزرج کے سردار کے اس رد عمل کی توضیح میں لکھتے ہیں:
’’ظاہر تو یہی ہے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کے بارے میں الزامات لگائے اور آپ کی آبرو پر ہاتھ ڈالا، ا س کے بارے میں صحابہ کے موقف باہم مختلف نہ ہوں، لیکن خزرجی نے اس معاملے کے خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہونے پر نظر نہیں کی اور اس کے بجاے اس کی توجہ ادھر ہو گئی کہ (قتل کی تجویز دینے والا) اوسی یہ سمجھتا ہے کہ عبد اللہ ابن ابی کمزور ہے اور اس کا کوئی حامی نہیں۔ اس سے اسے اپنے اور اپنے قبیلے کے ساتھ ذلت اور پستی لاحق ہوتی ہوئی محسوس ہوئی جس کی وجہ سے اس پر قبائلی حمیت غالب آ گئی اور اس نے مذکورہ جملے کہہ دیے۔‘‘ (فیض الباری ۵/۷۳)
۳۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بدری صحابہ میں سے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ معروف ہے کہ انھوں نے مکہ میں اپنے کچھ قرابت داروں اور جائیداد کے تحفظ کی نیت سے مسلمانوں کی جنگی تیاریوں کی اطلاع خفیہ طور پر اہل مکہ کو بھیجنے کی کوشش کی۔ ان کے اس عمل کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی دی گئی اور آپ نے ان کو بلا کر جواب طلبی کی تو انھوں نے وضاحت کی کہ اس اقدام کا محرک اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی نہیں، بلکہ نیت محض یہ تھی کہ اہل مکہ ان کا یہ احسان مانتے ہوئے مکہ میں موجود ان کے اعزہ اور جائیدا کی دیکھ بھال کریں گے۔ اس موقع پر سیدنا عمر نے حاطب کو منافق قرار دیتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی گردن اڑانے کی اجازت طلب کی، لیکن آپ نے فرمایا کہ حاطب نے جو عذر بیان کیا ہے، وہ درست ہے اور یہ کہ اہل بدر کو تو اللہ نے یہ پروانہ دے رکھا ہے کہ تم جو چاہو کرو، میں نے تمھاری مغفرت کر دی ہے۔
فقہاء نے اس واقعے سے جو فقہی اصول اخذ کیا ہے، وہ امام سرخسی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے:
’’اگر مسلمانوں کو کوئی ایسا شخص ملے جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی جاسوسی کرتا اور مسلمانوں کی راز کی باتیں ان تک پہنچاتا ہو اور وہ اپنی مرضی سے اس جرم کا اقرار بھی کر لے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ حکمران اسے سزا دے سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جس بنیاد (یعنی شہادتین کے اقرار) پر اس کو مسلمان تسلیم کیا تھا، اس نے اسے تو ترک نہیں کیا، اس لیے ظاہر کے لحاظ سے ہم اسے دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کریں گے جب تک کہ وہ خود اس چیز کو ترک نہ کر دے جس کی بنیاد پر وہ اسلام میں داخل ہوا تھا۔ مزید یہ کہ اس کے اس فعل کا محرک عقیدے کی خرابی نہیں بلکہ لالچ ہے۔ یہ (اس کے عمل کی ) دو ممکنہ توجیہات میں سے زیادہ اچھی توجیہ ہے اور ہمیں اسی کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اہل ایمان بات کے اچھے پہلو کو اختیار کرتے ہیں۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھارے بھائی کے منہ سے کوئی بات نکلے اور تم اس کا اچھا محمل تلاش کر سکتے ہو تو پھر اسے برے محمل پر محمول نہ کرو۔ اس پر حاطب بن ابی بلتعہ کے واقعے سے بھی استدلال کیا گیا ہے، کیونکہ اگر وہ ایسا کرنے سے کافر اور واجب القتل ہو گئے ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قتل کیے بغیر نہ چھوڑتے، چاہے وہ بدری صحابی تھے یا غیر بدری۔‘‘ (شرح السیر الکبیر ج ۵ ص ۲۲۹)
مذکورہ تمام پہلووں سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر زیر بحث آیات سے کلمہ گو مسلمانوں کی تکفیر کا اصول یا ضابطہ اخذ کرنے پر ہی اصرار کیا جائے تو وہ یہی ہو سکتا ہے کہ اگر کفار بطور ایک مذہب کے، اسلام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہوں اور کچھ مسلمان دیدہ ودانستہ اسی ارادے سے ان کے ساتھ دوستیاں قائم کر لیں کہ اسلام کو زک پہنچائی جا سکے تو چونکہ ایسا اسلام کے مقابلے میں کفر کو پسند کرنے اور اسے ذہنی وقلبی طور پر اسلام پر ترجیح دیے بغیر ممکن نہیں، اس لیے اسے کفر یا ارتداد قرار دینے میں کسی کو کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم ظاہر ہے کہ کفار اور مسلمانوں کی باہمی کشمکش کی واحد بنیاد مذہب کا اختلاف نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیوی مفادات کے تصادم یا ایک دوسرے کے مقابلے میں برتری اور تفوق حاصل کرنے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں اور وہ صرف مسلمانوں اور کفار کے مابین نہیں بلکہ خود کفار کے مابین یا مسلمانوں کے مختلف گروہو ں کے درمیان بھی ہو سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام دنیوی مفادات کے تناظر میں ایسے حالات میں کفار کے ساتھ دوستی کرنے والے مسلمانوں کو ذمہ دار اور محتاط فقہاء نے کبھی دائرۂ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا۔
مثال کے طور پر جب چھٹی؍ ساتویں صدی میں مسلمانوں کی مرکزی سیاسی طاقت کمزور ہونے کے نتیجے میں ان کے فتح کیے ہوئے بعض علاقے دوبارہ کفار کے قبضے میں چلے گئے اور بعض علاقوں میں مقامی مسلمان حکمرانوں نے غلبہ حاصل کرنے والے کفار کے ساتھ موافقت اور سازگار تعلقات کا طریقہ اختیار کیا تو اہل علم کے سامنے یہ سوال آیا کہ ایسے لوگوں کا شرعی حکم کیا ہے؟ اس حوالے سے ساتویں صدی ہجری کے حنفی فقیہ داود بن یوسف الخطیب کی کتاب ’’الفتاویٰ الغیاثیہ‘‘ سے ایک اقتباس یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں میں سے جو آدمی کسی معاملے میں ان کی موافقت کرے تو وہ فاسق ہے نہ کہ مرتد اور کافر، اور ایسے مسلمانوں کو کافر قرار دینا سب سے بڑا گناہ کبیرہ ہے، کیونکہ یہ طرز عمل انہیں اسلام سے متنفر کرنے، مسلمانوں کی تعداد کو کم کرنے اور انہیں کفر پر بر انگیختہ کرنے کے مترادف ہے۔ باقی رہے مسلمان بادشاہ ،جو کسی ضرورت کے باعث ان کی اطاعت کرتے ہیں ،تو بحمدہ تعالیٰ صحت اسلام پر قائم ہیں اور اگر ان کی اطاعت کسی ضرورت کے بغیر ہے تو بھی یہی حکم ہوگا ،البتہ اس صورت میں ان پر فاسق کا اطلاق ہوگا۔‘‘ (فتاویٰ غیاثیہ، کتاب السیر، بحوالہ مجلہ ’’فکر و نظر‘‘ ادار تحقیقات اسلامی ،شمارہ ۳ جلد ۶۴ (جنوری، مارچ ۲۰۰۹ )
ہمارے ہاں برصغیر کی ماضی قریب کی تاریخ میں بھی اس کا نمونہ موجود ہے۔ جب برطانوی حکمرانوں نے ہندوستان پر اپنا تسلط مستحکم کرنا شروع کیا تو بہت سے مسلمانوں نے ان کی طاقت اور دنیوی ترقی سے مرعوب ہو کر یا یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان کی مخالفت یا مزاحمت کا طریقہ معروضی صورت حال میں خلاف مصلحت ہوگا، برطانوی حکمرانوں کا قرب اختیار کرنے اور انگریزی سلطنت کے استحکام میں ان کا ساتھ دینے کا راستہ اختیار کر لیا۔ اس طرز فکر کے سب سے بڑے نمائندہ سرسید احمد خان تھے جنھوں نے نہ صرف ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں عملاً باغیوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا، بلکہ اس کے بعد اپنی ساری زندگی اس طرز فکر کی تبلیغ کے لیے وقف کر دی کہ مسلمانوں کو برطانوی حکومت کی وفادار اور مخلص رعایا بن کر زندگی بسر کر نی چاہیے۔ سرسید کے اس طرز فکر سے بہت سے طبقات نے اختلاف کیا، لیکن اس کی بنیاد پر ان کی یا ان کے ہم خیالوں کی تکفیر کسی ذمہ دار عالم نے نہیں کی، بلکہ بعض اکابر اہل علم نے یہ کہہ کر ان کا باقاعدہ دفاع کیا کہ اس سب کچھ کے پیچھے سرسید کا جذبہ محرکہ اسلام دشمنی نہیں بلکہ مسلمانوں کی ہمدردی اور خیر خواہی تھی۔ چنانچہ مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:
’’بڑے محب قوم تھے۔ دین میں رخنہ اندازی کرنے کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے تھے۔ اسی سے نقصان ہوا۔ ۔۔۔ یہ جو مشہور ہے کہ وہ انگریزوں کا خیر خواہ تھا، یہ غلط ہے بلکہ بڑا دانش مند تھا۔ یہ سمجھتا تھا کہ انگریز برسر حکومت ہیں۔ ان سے بگاڑ کر کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ان سے مل کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات حکیم الامت ج ۱۱، ص ۲۶۷۔۲۶۹)
اختلاف اور منافرت
ادبِ اختلاف مسلمانوں کی علمی روایت کی ایک بہت اہم بحث رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ میں مختلف دینی اور دنیاوی امور کے فہم کے ضمن میں اختلاف رائے واقع ہوا۔ بعض حساس دینی وسیاسی معاملات پر اختلاف رائے نے آگے چل کر باقاعدہ مذہبی وسیاسی مکاتب فکر کی صورت اختیار کر لی اور بعض انتہا پسند فکری گروہوں نے اپنے طرز فکر اور طرز عمل سے مسلم فکر کو اس سوال کی طرف متوجہ کیا کہ اختلاف رائے کے آداب اور اخلاقی حدود کا تعین کیا جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ اظہار اختلاف کے بعض نہایت سنگین پیرایے سامنے آنے کے باوجود مسلم فکر میں اختلاف پر قدغن لگانے یا آزادء رائے کو محدود کرنے کا رجحان پیدا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے اختلاف رائے کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے اظہار کے لیے مناسب علمی واخلاقی آداب کی تعیین پر توجہ مرکوز کی گئی۔ مسلمانوں کے علمی وفقہی ذخیرے میں اس حوالے سے نہایت عمدہ اور بلند پایہ بحثیں موجود ہیں۔
آٹھویں صدی ہجری میں غرناطہ (اندلس) سے تعلق رکھنے والے شہرۂ آفاق عالم، امام ابو اسحاق الشاطبی (وفات ۷۹۰ھ) نے اپنی کتاب ’’الموافقات‘‘ کی ایک فصل میں اختلاف اور منافرت کے باہمی تعلق کا تجزیہ کیا ہے اور ان اسباب کو واضح کیا ہے جو علمی اختلاف کو باہمی منافرت تک پہنچا دیتے ہیں۔ شاطبی کا کہنا ہے کہ جب لوگ اپنے نقطہ نظر کے ترجیحی دلائل بیان کرتے ہوئے مخالف نقطہ نظر اور اس کے حاملین پر طعن اور ان کی تنقیص کا انداز اختیار کرتے ہیں تو اس سے اختلاف اور علمی ترجیح اپنے حدود سے باہر چلے جاتے ہیں، کیونکہ ترجیح کا مطلب ہی یہ ہے کہ دونوں نقطہ نظر مشترک طور پر اپنے اندر امکان صحت رکھتے ہیں اور علمی طور پر قابل غور ہیں، البتہ ایک نقطہ نظر بعض پہلووں سے کسی فریق کو زیادہ وزنی محسوس ہوتا ہے۔ اب اگر دوسرے نقطہ نظر کی غلطی کو اس اسلوب میں اجاگر کیا جائے کہ اس کی کلی نفی کا تاثر پیدا ہونے لگے تو یہ طریقہ ’’ترجیح’’ سے آگے بڑھ کر ’’ابطال‘‘ کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے جو کہ اپنے بنیادی تصور کے لحاظ سے غلط ہے۔
شاطبی کے مطابق اس طرز تنقید کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن کے نقطہ نظر پر تنقید کی جاتی ہے، وہ مخالف نقطہ نظر کی خوبیوں اور محاسن کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے اپنے نقطہ نظر کے دفاع پر مجبو رہو جاتے ہیں اور جواب آں غزل کے طور پر مخالف نقطہ نظر کی کمزوریاں اور معائب تلاش کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ یوں بحث کا جو عمل اپنے اپنے نقطہ نظر کے محاسن اور مثبت پہلو واضح کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا، وہ دوسرے نقطہ نظر کی خامیاں اور معائب تلاش کرنے میں بدل جاتا ہے اور انسانوں کے مابین افہام وتفہیم کی فضا پیدا ہونے کے بجائے منافرت اور بغض کو فروغ ملنے لگتا ہے۔ شاطبی نے ا س ضمن میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ انھوں نے ایک عرب شاعر زبرقان بن بدر کو اس کا پابند کیا تھا کہ وہ کسی قبیلے یا گروہ کی مدح کرتے ہوئے ایسا انداز اختیار نہ کرے جس سے کسی دوسرے قبیلے یا گروہ کی تحقیر کا تاثر ملتا ہو۔
شاطبی نے امام غزالی کے حوالے سے اس اسلوب تنقید کے ایک اور نقصان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور وہ یہ کہ اس سے بسا اوقات بالکل صحیح بات کے لیے بھی دلوں میں جگہ پیدا نہیں ہو پاتی، بلکہ الٹا دل اس سے نفور ہو جاتے ہیں۔ امام غزالی لکھتے ہیں کہ عوام کے دلوں میں جہالت اور تعصب کے راسخ ہونے کی بہت بنیادی وجہ یہ ہے کہ اہل حق میں سے بعض ’’جہال‘‘ صحیح بات کو لوگوں کے سامنے چیلنج کے انداز میں پیش کرتے ہیں اور مد مقابل گروہوں کو تحقیر اور استخفاف کی نظر سے دیکھتے ہیں جس سے مخاطب کے دلوں میں عناد اور مخالفت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں جو پھر اتنے پختہ ہو جاتے ہیں کہ نرم مزاج اور حکیم علمائے حق کے لیے ان کے اثرات کو مٹانا، ناممکن ہو جاتا ہے۔ شاطبی لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلو سے صحابہ کو اس سے روک دیا تھا کہ وہ یہودیوں کے سامنے حضرت موسیٰ کے مقابلے میں آنحضرت کی فضیلت اس اسلوب میں بیان نہ کریں کہ اس سے حضرت موسیٰ کی کسر شان لازم آتی ہو، کیونکہ کسی بھی نبی سے عقیدت رکھنے والوں کی عقیدت کو مجروح کرنا اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔
شاطبی نے ادب اختلاف کے حوالے سے جس نکتے کو واضح کیا ہے، اس کی زندہ مثالیں اور شواہد ہم روز مرہ اپنے ماحول میں دیکھتے ہیں۔ مذہبی، سیاسی، فکری اور سماجی اختلافات، سب کے سب اسی رویے کی عکاسی کرتے ہیں جس کی شاطبی نے نشان دہی کی ہے۔ حدودِ اختلاف اور آداب تنقید کے حوالے سے اسلامی تصورات کی یاد دہانی کی جتنی آج معاشرے کو ضرورت ہے، شاید کبھی نہیں تھی۔
جدید مغربی فکر اور تہذیبی رواداری
ہمارے اہل دانش میں بالعموم یہ تصور پایا جاتا ہے کہ جدید مغربی تہذیب مذہبی رواداری کی علم بردار اور معاشرتی وثقافتی تنوع کی حوصلہ افزائی کرنے والی تہذیب ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تصور نظر ثانی کا متقاضی ہے۔
سب سے بنیادی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی بھی تہذیب (اور اس کی علم بردار سیاسی طاقت) ایک مخصوص نظریہ حیات پر مبنی ہوتی ہے اور تمام ترجیحات اسی کی روشنی میں متعین کرتی ہے۔ ایسا کرنا ااس کے لیے ناگزیر ہے، کیونکہ اس کے بغیر وہ دراصل تہذیب بن ہی نہیں سکتی۔ مثال کے طور پر مسلم تہذیب چونکہ ایک ایسے دین کی نمائندہ تھی جو مذہبی اختلافات کے باب میں ’’الحق’’ ہونے کا مدعی تھا، اس لیے اس تہذیب کے تمام مظاہر میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین امتیاز قائم کیا جانا لازم تھا اور ایسا نہ کرنا درحقیقت نظریاتی تضاد کا غماز ہوتا۔ تاہم یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ مسلم تہذیب نے ’’الحق‘‘ کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اس چیز کو بھی اپنے نظریہ حیات میں بنیادی جگہ دی کہ ’’باطل’’ کو کلی طور پر دنیا سے مٹانا خدا کی اسکیم کا حصہ نہیں ہے، اور یہ کہ ’’الحق’’ کی اتباع کی پابندی اصولاً انھی لوگوں پر لازم ہے جو نظریاتی طور پر اسے ’’الحق’’ مان لیں۔ جو لوگ اس پر ایمان نہ لائیں، انھیں سیاسی حقوق میں اہل ایمان کے مساوی نہیں سمجھا جائے گا، تاہم انھیں اپنے مذہبی اور معاشرتی معاملات میں اس ’’حق‘‘ کی پیروی کا پورا اختیار ہوگا جو مسلمانوں کے نقطہ نظر سے ’’باطل‘‘ ہے۔ چنانچہ مسلمانوں نے بطور اصول یہ بات تسلیم کی کہ اخلاقی تصورات کے اطلاق میں مختلف مذاہب کا اختلاف ہو سکتا ہے، اس لیے مسلم تہذیب کے زیر سایہ بسنے والے مختلف مذہبی گروہوں کے معاشرتی قوانین ہمارے نقطہ نظر سے جتنے بھی قابل اعتراض ہوں، انھیں اس پر عمل کی اجازت ہوگی، حتی کہ مجوسیوں کو ماں اور بہن سے نکاح کرنے کی بھی۔ اصل میں ’’رواداری‘‘ کا مصداق یہی چیز ہے۔
اس کی روشنی میں اب مغربی تہذیب کا جائزہ لیجیے:
جدید مغربی تہذیب بھی ایک مخصوص نظریہ حیات پر مبنی ہے اور وہ یہ کہ مذاہب کے اختلاف میں حق وباطل نام کی کوئی چیز پائی ہی نہیں جاتی۔ یہ سارے ’’حق’’ ہیں اور یا پھر سارے ہی ’’باطل’’۔ سو اس بنیاد پر کسی فرق اور امتیاز کا بھی ظاہر ہے، کوئی جواز نہیں بنتا۔ چنانچہ مذہبی عدم امتیاز مغربی تہذیب کے کسی ’’روا دارانہ‘‘ رویے کا نہیں، بلکہ اس تہذیب کے بنیادی نظریہ حیات کا تقاضا ہے۔ مذہب یا مذہبی اخلاقیات کی جگہ یہ تہذیب ’’انسانی حقوق’’ کے ایک متبادل نظریہ حیات کی علم بردار ہے اور ظاہر ہے کہ دنیا میں موجود دوسری تہذیبیں یا اخلاقی تصورات اس کے اس نظریہ حیات سے مختلف ہیں۔ ’’روا داری’’ کا اصل امتحان یہاں شروع ہوتا ہے۔ اگر مغربی تہذیب بھی اپنے اندر وہ لچک رکھتی ہو جو مسلم تہذیب رکھتی تھی، یعنی اپنے نظریہ حیات کو ’’الحق’’ ماننے کے باوجود اس سے مختلف اخلاقی وقانونی نظاموں کی گنجائش تسلیم کرنا بلکہ انھیں قانونی تحفظ دینا، تو یقیناًیہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تہذیب بھی اسی طرح ’’روا دار’’ تہذیب ہے جیسے مسلم تہذیب تھی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاملہ یہ نہیں ہے۔ مغربی فکر کو اس پر اصرار ہے کہ انسانی حقوق کا واحد معیار وہی ہے جسے وہ معیار تسلیم کرتی ہے اور اس سے متصادم تمام اخلاقی اور قانونی نظاموں کے لیے لازم ہے کہ وہ خود کو اس سے ہم آہنگ کریں اور غالب تہذیب اس مقصد کے لیے سیاسی، معاشی اور تہذیبی دباو کے تمام تر ذرائع کو بروئے کار لائے گی، بلکہ یہ اس کا فرض ہے۔
سو اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اہل مغرب جس مذہبی عدم امتیاز کے علم بردار ہیں، وہ ’’روا داری‘‘ کے رویے کے بجائے ان کے اپنے نظریہ حیات کا عین تقاضا ہے، جبکہ جہاں ان کے نظریہ حیات سے مختلف اخلاقی وقانونی نظاموں کی گنجائش تسلیم کرنے کا سوال آتا ہے تو وہاں اہل مغرب ذرہ برابر لچک یا روا داری دکھانے کے قائل نہیں۔ اسی وجہ سے ہم علیٰ وجہ البصیرت یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم تہذیب، مذہبی واخلاقی تصورات کے تنوع اور اختلاف کو قبول کرنے کے حوالے سے جدید مغربی تہذیب سے سو گنا زیادہ روادار اور لچک دار تھی، کیونکہ مسلمانوں نے اپنے دور میں اہل ذمہ کو جان ومال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی قوانین پر عمل کی بھی آزادی دی تھی، جبکہ اہل مغرب اپنے ’’اہل ذمہ‘‘ کو یہ آزادی دینے کے لیے تیار نہیں اور اپنے مخصوص اقداری تصورات کی بنیاد پر مسلمانوں سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی شریعت کے ان تمام احکام سے دست بردار ہو جائیں جو جدید مغربی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔ (حقیقت یہی ہے کہ مسلمان ممالک کی حیثیت اس دور میں مغربی اقوام کے ’’اہل ذمہ’’ کی ہے جو ان کی دنیا میں، ان کی شرائط پر اور ان کے مقرر کردہ حدود میں ہی سیاسی ’’آزادی‘‘ سے مستفید ہو رہے ہیں۔)
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۰)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۹۱) ’’وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْْہِ الْعَذَابُ‘‘ کا ترجمہ
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یَسْجُدُ لَہُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَن فِیْ الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْْہِ الْعَذَابُ۔ (الحج: ۱۸)
اس آیت کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو عام طور سے مترجمین نے کیا ہے، بطور مثال ذیل میں ایک ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:
’’تو نے نہ دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے، اور جو کوئی زمین میں ہے اور سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت آدمی۔ اور بہت ہیں کہ ان پر ٹھہر چکا ہے عذاب‘‘۔ (شاہ عبد القادر)
اس ترجمہ کی رو سے پہلا جملہ وکثیر من الناس، پر جاکر مکمل ہوگیا ہے، او ر اس کے بعد وکثیر حق علیہ العذاب ایک مستقل جملہ ہے۔ اس ترجمہ میں کوئی اشکال نہیں ہے اور بات بہت واضح ہے، کہ کائنات میں تمام چیزیں اللہ کے آگے سجدہ ریز ہیں، بہت سے انسان بھی سجدہ ریز ہیں، اور جو بہت سے نہیں ہیں ان کے سلسلے میں عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے۔
دوسرا ترجمہ ہمیں تفہیم القرآن میں ملتا ہے:
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اورجو زمین میں ہیں، سورج، چاند، اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں؟‘‘ (سید مودودی)
اس ترجمہ کی رو سے وکثیر حق علیہ العذاب مکمل جملہ نہیں بلکہ موصوف صفت ہے، اور کثیر من الناس پر معطوف ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جن انسانوں کے بارے میں عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہے وہ بھی خدا کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر انسان خواہ مومن ہو یا کافر، اس طور سے سجدہ ریز ہوتا ہے کہ اس کے جسم کے بہت سارے اعضاء حکم الٰہی کے پابند ہوتے ہیں۔
اس ترجمہ کی گنجائش عربی قواعد کے لحاظ سے نکل سکتی ہے، لیکن کئی وجوہ سے یہ ترجمہ نامناسب ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کافروں کے لیے اللہ کی طرف سجدہ کرنے کی نسبت کہیں نہیں کی گئی ہے۔ غیر انسانی مخلوقات کے سجدہ کی نوعیت کیا ہوتی ہے، اس سے قطع نظر ایک انسان سجدہ سے متصف اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ وہ حقیقت میں اللہ کے لیے سجدہ کرتا ہو، وہ سجدہ جس کا اس کو حکم دیا گیا ہے، اگر کسی انسان کا دل ودماغ اور اس کی پیشانی غیر اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہوں تو خود وہ انسان اللہ کے لیے سجدہ کرنے والا کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ جب انسانوں کی دو تقسیم کردی گئی تو اس سے خود یہ بات واضح ہوگئی کہ ایک گروہ سجدہ نہیں کرنے والوں کا ہے۔ ورنہ ایسی تقسیم کی ضرورت نہیں تھی۔ کثیر من الناس کہہ دینے کا صاف مطلب ہے، کہ باقی سجدہ نہیں کرتے ہیں، ورنہ اگر سب سجدہ کرتے ہیں، تو صرف الناس کہہ دیا جاتا۔
(۹۲) ’’وَلْیُوفُوا نُذُورَہُمْ‘‘ کا مطلب
سورہ حج کی مذکورہ ذیل آیت کے دو ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَأَذِّن فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالاً وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِیْنَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فِیْ أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَکُلُوا مِنْہَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ۔ ثُمَّ لْیَقْضُوا تَفَثَہُمْ وَلْیُوفُوا نُذُورَہُمْ وَلْیَطَّوَّفُوا بِالْبَیْْتِ الْعَتِیْقِ۔ (الحج: ۲۷۔۲۹)
’’اور لوگوں میں حج کی منادی کردو وہ تمہارے پاس آئیں گے، پیادہ بھی اور نہایت لاغر اونٹنیوں پر بھی جوپہنچیں گی دوردراز گہرے پہاڑی رستوں سے تاکہ لوگ اپنی منفعت کی جگہوں پر بھی پہنچیں اور خاص دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔ پس اس میں سے کھاؤ اور فاقہ کش فقیروں کو کھلاؤ۔ پھر وہ اپنے میل کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں اور بیت قدیم کا طواف کریں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذن عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں، جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں، پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں‘‘۔ (سید مودودی)
ان آیتوں کے ترجمے کے سلسلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات حسب ذیل ہیں:
ضامر کا ترجمہ لاغر اونٹنی کیا جاتا ہے، صحیح ترجمہ ہوگا سدھائی ہوئی اونٹنی، جس کو سدھانے سے پیٹ اندر چلا جاتا ہے، یہ اونٹنیاں دور دراز کے سفر میں کام آتی ہیں۔
من کل فج عمیق کا ترجمہ دور دراز مقام اور دور دور دراز راستوں کیا جاتا ہے، فج عمیق سے مراد مکہ میں داخل ہونے والے راستے ہیں جو کہ آنے والوں کی کثرت سے گہرے ہوگئے، من کل فج عمیق کا ترجمہ ہوگا ہر گہرے راستے سے گزر کر۔
لیشھدوا منافع لھم کا ترجمہ ہوگا فائدے دیکھنا یا فائدوں کی جگہ پر پہونچنا نہیں ہوگا بلکہ یہ کہ وہ شریک ہوں ان فائدوں میں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔
بہیمۃ الانعام کا ترجمہ جانوروں نہیں بلکہ چوپایوں کیا جائے گا۔
مذکورہ بالا امور کے علاوہ ان آیتوں کے ترجمہ میں بہت اہم بحث یہ ہے کہ ولیوفوا نذورھم کا کا ترجمہ کیا ہو؟
عام طور سے لوگوں نے ترجمہ کیا ہے:’’ اور اپنی نذریں پوری کریں‘‘۔
اس میں کئی اشکال ہیں، ایک تو یہ کہ نذر پوری کرنے کے لیے أوفی کے ساتھ باء کا صلہ آتا ہے، جیسے یوفون بالنذر۔ جبکہ یہاں باء کے بغیر استعمال ہوا ہے۔
دوسرا اشکال یہ ہے کہ نذر پوری کرنے کا مناسک حج، ایام حج اور مکہ مکرمہ سے کیا تعلق ہے؟
تیسرا اشکال یہ کہ نذریں پوری کرنے کا نمبر سارے کاموں کے بعد کیوں؟
مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے کے مطابق یہاں ترجمہ ہوگا: حج کے مناسک کو مکمل سمجھ کر اپنے پرہیز ختم کریں، یا احرام کے لوازم سے باہر نکل آئیں۔ أوفی بنذرہ کا مطلب ہوگا جو کام اس پر واجب تھا اس کو انجام دیا، اور أوفی نذرہ کا مطلب ہوگا، اپنے پرہیز کو مکمل کرکے اس سے باہر آگیا۔
مقامات حریری کی ذیل کی عبارت میں غالباً اسی بات کی طرف اشارہ ہے:
حکی الحارثُ بنُ ھَمّامٍ قال: نھضتُ من مدینۃِ السّلام. لحِجّۃِ الاسلامِ. فلمّا قضیتُْ بعَونِ اللہِ التّفَثَ. واستبَحتُ الطّیبَ والرَّفَثَ. (مقامات الحریری، ص:۱۳۲)
(۹۳) ترجمہ میں تقدیم وتاخیر کی غلطی
وَمَن یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخَافُ ظُلْماً وَلَا ہَضْما۔ (طہ:۱۱۲)
’’اور جو نیک اعمال کرے گا اور وہ مومن بھی ہے، تو اس کو نہ کسی حق تلفی کا اندیشہ ہوگا اور نہ کسی زیادتی کا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
اس ترجمہ میں نص کی مطابقت میں بھی اور ترتیب کے عام اصول کے لحاظ سے بھی ’’زیادتی‘‘ پہلے ہونا چاہیے اور ’’حق تلفی‘‘ بعد میں، کیونکہ ظلم جو پہلے آیا ہے اس کا مطلب زیادتی اور ہضم جو بعد میں آیا ہے اس کا مطلب حق تلفی ہے۔
ذیل کا ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:
’’اور جو کچھ نیک کام کرے اور ہو مسلمان تو اسے نہ زیادتی کا خوف ہوگا نہ نقصان کا‘‘۔ (احمد رضا خان)
(۹۴) موصوف کی تعیین میں غلطی
فِیْہَا فَاکِہَۃٌ وَالنَّخْلُ ذَاتُ الْأَکْمَامِ۔ (الرحمن:۱۱)
’’اس میں میوے اور کھجور ہیں، جن پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
اس ترجمہ میں غلطی یہ ہے کہ ذات الاکمام کو فاکھۃ اور النخل دونوں کی صفت بنادیا گیا ہے، حالانکہ وہ صرف النخل کی صفت ہے، تمام پھل اور میوے تو خوشے والے نہیں ہوتے ہیں۔ اس پہلو سے ذیل کا ترجمہ درست ہے۔
اس میں ہر طرح کے بکثرت لذیذ پھل ہیں۔ کھجور کے درخت ہیں جن کے پھل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ (سید مودودی)
بعض لوگ ذات الاکمام کا ترجمہ خوشے والے کرتے ہیں، اور بعض لوگ غلاف والے، ذیل میں دونوں کی مثالیں ہیں:
’’بیچ اس کے میوہ ہے، اور کھجوریں خوشوں والے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’اس میں میوہ ہے اور کھجوریں جن کے میوے پر غلاف‘‘ (شاہ عبدالقادر)
راغب اصفہانی لکھتا ہے: والکِمُّ: مایغطّی الثّمرۃَ، وجمعہ: الاکمَام. (المفردات فی غرائب القرآن،ص:۷۲۶)
جوہری لکھتا ہے: والکِمُّ والکِمَّۃُ بالکسر والکِمامَۃُ: وعاءُ الطلع وغطاء النَوْرِ، والجمع کِمامٌ وأکِمَّۃٌ وأکمام۔ (الصحاح)
(۹۵) معطوف کی تعیین میں غلطی
وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّیْْحَان۔ (الرحمن:۱۲)
’’طرح طرح کے غلے ہیں، جن میں بھوسا بھی ہوتا ہے، اور دانہ بھی‘‘۔ (سید مودودی)
اس ترجمہ میں غلطی یہ ہے کہ الریحان کو العصف پر معطوف مان لیا گیا ہے، حالانکہ الریحان مرفوع ہے، اگر الریحان مجرور ہوتا تو یہ ترجمہ درست ہوتا، اس کے علاوہ ریحان کے ترجمہ کے لیے دانہ کا استعمال بھی محل نظر ہے۔ اس پہلو سے ذیل کے ترجمے درست ہیں:
’’اور بھس والے اناج بھی ہیں، اور خوشبودار پھول بھی‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور (اس میں) غلہ ہے جن میں بھوسا (بھی) ہوتا ہے اور (اس میں) غذا کی چیز (بھی) ہے۔‘‘ (اشرف علی تھانوی)
(۹۶) أمثال کا ترجمہ
أمثال جمع ہے مِثْل اور مَثَل کی، اول الذکر کا مطلب ہے ’’جیسا‘‘ اور ثانی الذکر کا مطلب ہے تمثیل۔
مثال کی جمع أمثال نہیں ہوتی بلکہ أمثلۃ ہوتی ہے۔
قرآن مجید میں أمثال کا لفظ کئی جگہ آیا ہے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ مثالیں کیا ہے، جو درست نہیں ہے، صحیح ترجمہ امثال یا تمثیلیں یا کہاوتیں ہوگا۔
(۱) وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُونَ۔ (العنکبوت:۴۳)
’’ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان فرمارہے ہیں انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
یہ ترجمہ لفظ کے اعتبار سے بھی اور سیاق کے پیش نظر بھی درست نہیں ہے، کیونکہ اوپر کسی مثال کا نہیں بلکہ تمثیل کا ذکر ہے۔ اس پہلو سے ذیل کے ترجمے درست ہیں:
’’اور یہ تمثیلیں ہیں جن کو ہم لوگوں کے غوروفکر کرنے کے لیے بیان کرتے ہیں، لیکن ان کو صرف اہل علم ہی سمجھتے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور یہ کہاوتیں بٹھاتے ہیں ہم لوگوں کے واسطے اور ان کو بوجھتے وہی ہیں جن کو سمجھ ہے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۲) لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اللَّہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ۔ (الحشر:۲۱)
’’اگر ہم اتارتے یہ قرآن ایک پہاڑ پر تو تو دیکھتا وہ دب جاتا پھٹ جاتا اللہ کے ڈر سے اور یہ کہاوتیں ہم سناتے ہیں لوگوں کو شاید وہ دھیان کریں‘‘۔(شاہ عبد القادر)
’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے، یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں، کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں‘‘۔ (سید مودودی، اس ترجمہ میں ایک غلطی تو یہ ہے کہ امثال کا ترجمہ مثالیں کیا گیا ہے، جبکہ تمثیلیں ہونا چاہیے۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ ترجمے میں ’’اپنی حالت پر‘‘ کا اضافہ غیر ضروری ہے، اور بے محل بھی ہے، کیونکہ آیت میں تمثیل ذکر کرکے اس پر غور کرنے کی دعوت ہے، نہ کہ اپنی حالت پر غور کرنے کی۔)
’’اگر اس قرآن کو ہم کسی پہاڑ پر اتارتے تو تم دیکھتے کہ وہ خشیت الٰہی سے پس اور پاش پاش ہوجاتا، اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سوچیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ میں ایک غلطی تو یہ ہے کہ امثال کا ترجمہ مثالیں کیا گیا ہے، مزید یہ کہ متصدعا کا ترجمہ پاش پاش ہوجاتا درست نہیں ہے، پھٹا جاتا درست ترجمہ ہے)
سعدی شیرازی کا ترجمہ ہے:’’ شگافتہ از ترس خدا‘‘۔ جبکہ شاہ ولی اللہ کا ترجمہ ہے’’ پارہ پارہ شدہ از خوف خدا‘‘۔
تصدع کا عربی میں قریب ترین متبادل تشقق ہے۔ راغب اصفہانی نے تصدع کی بہت اچھی وضاحت کی ہے۔
الصَّدْعُ: الشّقّ فی الْجسام الصّلبۃکالزّجاج والحدید ونحوھما. قال: صَدَعْتُہ فَانْصَدَعَ، وصَدَّعْتُہُ فَتَصَدَّعَ، قال تعالی: یَوْمَئِذٍ یَصَّدَّعُونَ. (الروم: ۴۳)، وعنہ استعیر: صَدَعَ الأمرَ، أی: فَصَلَہُ، قال: فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ. (الحجر:۹۴)، وکذا استعیر منہ الصُّدَاعُ، وھو شبہ الاشتقاق فی الرّأس من الوجع. قال: لا یصَدَّعُونَ عَنھا وَلایُنْزِفُونَ. (الواقعۃ:۱۹)، ومنہ الصَّدِیعُ للفجر، وصَدَعتُ الفلاۃ: قطعتھا، وتَصَدَّعَ القومُ أی: تفرّقوا. (المفردات فی غریب القرآن)
(جاری)
اسلام اور جدیدیت کی کشمکش
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(جناب محمد ظفر اقبال کی تصنیف کے دوسرے ایڈیشن کے لیے لکھا گیا۔)
نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
ضرورت کے مطابق علم اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو مرحمت فرمایا ہے لیکن علم میں وسعت، ارتقاء اور اس سے زیادہ سے زیادہ نفع اٹھانے کی صلاحیت انسان کو ودیعت ہوئی ہے جو نسل انسانی کا اختصاص ہے۔ اور بعض مفسرین کرام کے مطابق یہی خصوصیت وعلم آدم الاسماء کلھا کے حوالہ سے فرشتوں پر انسان کی برتری کا ذریعہ بنی تھی۔ اپنے محدود وقت اور ضرورت کے مطابق علم چیونٹی کو بھی حاصل ہے کہ اسے زندگی گزارنے اور اپنے اردگرد کے ماحول سے استفادہ کرنے اور نمٹنے کے لیے ضروری علم اس کی پیدائش کے ساتھ ہی ودیعت کر دیا جاتا ہے۔ اور وہ اس کی روشنی میں ایسی منظم اور مربوط زندگی گزارتی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اسی طرح باقی تمام جانوروں کو بھی پیدا ہوتے ہی ان کی زندگی کے بارے میں بنیادی معلومات میسر ہوتی ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ ان میں اتنا ہی اضافہ ہو پاتا ہے جو ان کی زندگی کے لیے ضروری ہوتا ہے جبکہ اس سے ہٹ کر انہیں کسی اور بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اسے ’’فطرت نوعیہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں کہ جانوروں کی ہر نوع کو زندگی گزارنے کے لیے ضروری معلومات قدرتی طور پر ودیعت ہوتی ہیں اور یہ سب کچھ وہبی ہوتا ہے کسبی نہیں۔ مشاہدہ و تجربہ سے اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ تو ہو جاتا ہے لیکن خود اس علم یا معلومات کی بنیاد کسی کسب اور محنت پر نہیں ہوتی۔ یہی حال حضرت انسان کا بھی ہے کہ اپنے نوعی اختصاص کے مطابق پیدائش کے ساتھ ہی اسے بنیادی باتوں کا شعور ہوتا ہے جس کا اندازہ دو چھوٹی سی مثالوں سے کیا جا سکتا ہے۔
ماں کے پیٹ میں بچے کے جسم کو خوراک ملنے کا ذریعہ ناف کی نالی ہوتی ہے جو اس کے پیدا ہو جانے کے بعد کاٹ دی جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی بھوک لگنے کی صورت میں بچہ ناف کو حرکت دینے کی بجائے منہ کو حرکت دینے لگتا ہے اور ماں کے سینے سے چمٹ کر ہونٹ ہلانے لگ جاتا ہے کہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب مجھے خوراک اس راستے سے ملے گی اور ماں کے سینے سے ملے گی۔ یہ اسے کسی نے دنیا میں آنے کے بعد بتایا نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس حوالہ سے اس سے قبل کسی تجربہ و مشاہدہ سے گزرا ہے لیکن اس کے اندر کی کوئی چیز اسے یہ کچھ کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اسی طرح کی دوسری مثال یہ ہے کہ معصوم اور گود کے بچے کو جب آنکھ میں خارش ہوتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا علاج کھجلانا ہے۔ وہ اپنا ہاتھ آنکھوں تک لے جاتا ہے اور کھجلاتا بھی انگلیوں سے نہیں بلکہ ہاتھ کی پشت سے ہے کیونکہ اس کے شعور میں یہ بات شامل ہے کہ انگلیوں اور ناخنوں کے ساتھ کھجلانے سے آنکھ کو نقصان پہنچے گا، اس لیے وہ مٹھی بند کرتا ہے اور اس کی پشت سے آنکھ کھجلاتا ہے۔
اسے آپ فطرت نوعیہ سے تعبیر کریں، نوعی شعور کہہ لیں یا وجدان کا نام دیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے حصول میں اس کے کسی کسب اور محنت کا دخل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی خارجی تعلیم و تربیت اس کے اس وجدان و شعور کا باعث بنی ہے بلکہ یہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہبی طور پر دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ نسل انسانی کی رسمی تعلیم کا آغاز بھی قرآن کریم نے وعلم آدم الاسمآء کلھا الخ کی صورت میں وہبی ہی بیان فرمایا ہے۔ اس لیے یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ انسانی علم و شعور کی بنیاد کسب پر نہیں بلکہ وہب و عطیہ پر ہے۔ البتہ اس میں ترقی و وسعت اور اسے زیادہ سے زیادہ نفع بخش بنانے میں انسان کا کسب، محنت اور صلاحیت ذریعہ بنتی ہے۔ اور چونکہ انسان کی زندگی صرف دنیا تک محدود نہیں ہے اور اس کی تگ و دو کا دائرہ بھی صرف زمین کا کرہ نہیں ہے اس لیے اس کی علمی استعداد، توانائیاں، مواقع، اور سعی و محنت دنیا اور زمین کی حدود کی پابند نہیں ہے۔ بلکہ اسے اس تگ و دو کے لیے ایک وسیع دائرہ دیا گیا ہے جس کی طرف قرآن کریم کی دو آیات کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔
(۱) سنریھم اٰیاتنا فی الاٰفاق و فی انفسھم حتیٰ یتبین لھم انہ الحق۔ (سورۃ فصلت ۴۱ ۔ آیت ۵۳)
’’عن قریب ہم اپنی نشانیاں انہیں دنیا میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہی حق ہے۔‘‘
(۲) یعلمون ظاھرًا من الحیاۃ الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون۔ (سورۃ الروم ۳۰ ۔ آیت ۷)
’’دنیا کی زندگی کی ظاہر باتیں جانتے ہیں اور وہ آخرت سے غافل ہی ہیں۔‘‘
چنانچہ انسان کے ذمہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہ دنیا کی چند روزہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے آسائش تلاش کرے، اسباب فراہم کرے، اور ان کے بہتر سے بہتر استعمال کے طریقے دریافت کرتا رہے۔ بلکہ یہ بھی اس کی نوعی ذمہ داری میں شامل ہے کہ وہ کائنات کو وجود میں لانے والے خالق و مالک کی مرضی معلوم کرے اورا س کی مرضی و منشاء کی تکمیل کے لیے متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کی زندگی کے لیے، جو اصلی اور دائمی حیات ہے، فکرمند ہو اور اسے بہتر بنانے کو زندگی کا مقصد قرار دے۔
انسان کا المیہ یہ ہے کہ اس نے اسی دنیا کی زندگی کو اپنا واحد مقصد بنا لیا ہے اور اس کی تمام تر تگ و دو اسی کے گرد گھومنے لگی ہے۔ اسی طرح اس کی فکرمندی ’’دنیا میں آگیا ہوں تو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے‘‘ کے دائرے میں محصور ہے۔ جبکہ ’’کیوں آیا ہوں؟ کس نے بھیجا ہے؟ آگے کہاں جانا ہے؟‘‘ کے بنیادی سوالات اس کی نظروں سے اوجھل ہو کر رہ گئے ہیں جسے قرآن کریم نے یعلمون ظاھرًا من الحیاۃ الدنیا سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس کا اندازہ اس مثال سے کر لیجیے کہ میڈیکل سائنس بلاشبہ ایک وسیع، وقیع اور مفید علم ہے جس کا موضوع انسانی جسم ہے۔ یہ علم و فن انسانی جسم کے بارے میں ہزاروں سال سے تحقیق و تجزیہ کی محنت کر رہا ہے اور اس حوالہ سے انسانی معاشرے کی بڑی خدمت کر رہا ہے۔ لیکن اس کی بنیاد صرف ان سوالات پر ہے کہ انسانی باڈی کے اجزائے ترکیب کیا ہیں؟ اس کا نیٹ ورک اور میکنزم کیا ہے؟ یہ کیسے صحیح کام کرتا ہے؟ اور خرابی پیدا ہو جائے تو اسے کیسے صحیح کرنا ہے؟
لیکن انسانی جسم کا مقصد تخلیق کیا ہے؟ اور اسے تخلیق کس نے کیا ہے؟ کے دو اہم ترین سوال سرے سے میڈیکل سائنس کے موضوع سے خارج ہیں۔ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ میں اس وقت جس قلم کے ساتھ لکھ رہا ہوں اس کے بارے میں تو مجھے معلوم ہے کہ اس کا مقصد وجود کیا ہے اور یہ کس فرم نے بنایا ہے۔ لیکن خود اپنے بارے میں یہ جاننا مجھے ضروری نہیں محسوس ہوتا ہے کہ میرا خالق کون ہے اور اس نے مجھے کس مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے؟
اسی طرح کائنات کی وسعتوں پر غور اور محنت کرنے والی سائنس نے بھی خود کو صرف اس سوال میں مقید کر رکھا ہے کہ یہ سب کچھ کیا ہے اور ہم اس سے فائدہ کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ لیکن اسے یہ معلوم کرنے کی فرصت نہیں ہے کہ یہ سب کچھ کس نے بنایا ہے اور کیوں بنایا ہے؟ جبکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے ما خلقنا السماوات والارض وما بینھما لاعبین کہ ہم نے زمین و آسمان اور ان کے اردگرد کائنات کو کھیل تماشے کے لیے نہیں بنایا اور ما خلقنا ھما الا بالحق ہم نے یہ سب کچھ بامقصد پیدا کیا ہے۔ لیکن ہماری سائنس اس سب کچھ سے بے نیاز ہو کر اپنی تمام تر محنت اس نکتہ پر مرکوز رکھے ہوئے ہے کہ ہمارے اردگرد کائنات کی وسعتوں میں جو کچھ موجود ہے اسے دریافت کیسے کرنا ہے؟ استعمال میں کیسے لانا ہے؟ اس سے فائدہ کیسے اٹھانا ہے؟ اور اسے اپنے دشمن کے خلاف استعمال کیسے کرنا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں سائنس کے ان دونوں دائروں کا ذکر کیا ہے اور ان کی مقصدیت اس طرح واضح فرمائی ہے کہ
سنریھم اٰیاتنا فی الاٰفاق وفی انفسھم حتیٰ یتبین لھم انہ الحق، اولم یکف بربک انہ علیٰ کل شئی قدیر O الآ انھم فی مریۃ من لقآ ربھم الآ انہ بکل شئی محیط۔ (سورۃ فصلت ۴۱ ۔ آیات ۵۳ و ۵۴)
’’عن قریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہی حق ہے۔ کیا ان کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے؟ (۵۳) خبردار! انہیں اپنے رب کے پاس حاضر ہونے میں شک ہے، خبردار! بے شک وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ (۵۴)‘‘
قرآن کریم نے انفس و آفاق کی نشانیوں کے مشاہدہ و تجربات کی مقصدیت کو کتنے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے۔ مگر ہماری سائنس کے یہ دونوں دائرے اس مقصدیت سے آنکھیں بند کر کے سائنس کے صرف دنیاوی نفع و نقصان کے گرد کولہو کے بیل کی طرح مسلسل گھوم رہے ہیں بلکہ انسان اور کائنات کی مقصدیت اور آخرت کی حقیقی اور دائمی زندگی کے بارے میں انکار و تمسخر کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
انسان کو علم کے جو ذرائع میسر ہیں انہیں عام طور پر محسوسات، مشاہدات اور معقولات کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے اور بلاشبہ یہ علم کے مؤثر ذرائع ہیں۔ لیکن کیا انسان کے پاس ان کے علاوہ علم کے حصول کا اور کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے؟ یہ بات خاص طور پر غور طلب ہے اس لیے کہ ہمارے بہت سے علمی و فکری مسائل و مشکلات کی اصل وجہ یہ ہے کہ جو بات محسوسات و معقولات کے دائرہ میں نہیں ہے اس سے عام طور پر انکار کر دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا محسوسات، مشاہدات اور معقولات کے دائرے سے باہر کائنات میں کوئی چیز موجود نہیں ہے؟ اس کا جواب شاید ہی کوئی باشعور شخص اثبات میں دے سکے، اس لیے کہ خود سائنس جوں جوں ترقی کر رہی ہے مسلسل ایسی چیزیں دریافت ہوتی جا رہی ہیں بلکہ استعمال میں آرہی ہیں جو اس سے قبل نہ محسوسات میں شمار ہوتی تھیں اور نہ ہی معقولات کا دامن انہیں اپنے اندر سمیٹنے کی پوزیشن میں تھا۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان نے مجھ سے سوال کیا کہ اگر ہمارے اردگرد فرشتے اور جن موجود و متحرک ہیں تو نظر کیوں نہیں آتے اور محسوس کیوں نہیں ہوتے؟ میں نے کہا کہ ہمارے اردگرد فضا کی جو لہریں ہماری آواز اور تصویر کو لمحہ بھر میں دنیا کے ہر کونے تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ہم انہیں پوری طرح استعمال بھی کر رہے ہیں، یہ ہمیں فضا میں دکھائی کیوں نہیں دیتیں اور محسوس کیوں نہیں ہوتیں۔ اگر یہ لہریں مشاہدات و محسوسات کے دائرہ میں آئے بغیر پوری کائنات میں موجود و متحرک ہیں تو فرشتوں کے وجود اور نظام کار سے اس بنیاد پر انکار کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے کہ وہ نظر نہیں آتے یا محسوس نہیں ہوتے۔ بلکہ محسوس نہ ہونے کی بات بجائے خود محل نظر ہے، اس لیے کہ فرشتوں کی برکات اور ان کی موجودگی کے ثمرات اہل دل کو تو ہر وقت محسوس ہوتے ہیں، عام لوگوں کو بھی بسا اوقات محسوس ہو جاتے ہیں جس کے شواہد ہمارے اردگرد بکھرے پڑے ہیں۔
یہ بات اب سائنسی طور پر بھی تسلیم کرنا پڑ رہی ہے کہ کائنات میں محسوسات اور مشاہدات کی دنیا محدود ہے اور مغیبات کا دائرہ ان سے کہیں زیادہ وسعت رکھتا ہے جو وقتاً فوقتاً دریافت ہوتے رہتے ہیں اور قیامت تک اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔ بلکہ میری طالب علمانہ رائے میں یؤمنون بالغیب کی یہ تعبیر شاید سب سے زیادہ قرین قیاس ہے کہ اہل ایمان صرف محسوسات و مشاہدات پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ مغیبات اور عالم غیب کو بھی مانتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔
آج کی انسانی فکر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس نے معقولات کو علم کا آخری درجہ اور حتمی ذریعہ قرار دے رکھا ہے اور صرف دنیا کو اپنا مقصد حیات قرار دینے کے باعث محسوسات، مشاہدات اور معقولات کی سرحدوں سے باہر جھانکنے کا اسے حوصلہ نہیں ہو رہا۔ جبکہ اس وقت تعجب اپنی انتہاء کو پہنچ جاتا ہے جب محسوسات سے بھی پہلے کے درجہ یعنی وجدانیات کی کوئی توجیہ کرنا آج کی فکر و دانش کی نظر میں ایک معمہ سا بن کر رہ گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی الہ دہلویؒ نے تو اسے ’’فطرت نوعیہ‘‘ کا نام دے کر واضح کر دیا ہے کہ یہ نوع انسانی کے لیے علم کی وہ اساس ہے جو اسے قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی ہے تاکہ وہ اس کی بنیاد پر اپنے علم و معلومات کا دائرہ وسیع تر کرتا چلا جائے، اس سے استفادہ کرے اور اسے با مقصد بنانے کی سعی کرے۔ وجدان کا حس، مشاہدہ اور عقل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ ان تینوں سے پہلے کا مرحلہ ہے جو ماں کی گود کے معصوم بچے کو بھی حاصل ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ آج کی دانش کا ایک دائرہ اسے وحی کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
عقل انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کے استعمال کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی ہمہ نوع افادیت و ضرورت کو تسلیم کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ لیکن اس کی ماہیت کیا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عقل انسان کی اس خداداد صلاحیت و استعداد کا نام ہے جو محسوسات و مشاہدات اور میسر معلومات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرتی ہے اور اسے انسان کے مستقبل کی صورت گری کا ذریعہ بنا دیتی ہے۔ لیکن اس کے تجزیہ و استنباط کی بنیاد وہی معلومات ہوتی ہیں جو یہ عمل سر انجام دیتے وقت اسے میسر ہوتی ہیں۔ ان محسوسات و مشاہدات اور معلومات کا دائرہ بدل جائے تو عقل کا قائم کردہ نتیجہ بھی بدل جاتا ہے۔ وہ اس کمپیوٹر کی طرح ہے جو اپنی طرف سے کچھ نہیں دیتا بلکہ جو پروگرام اس کے اندر فیڈ ہوتا ہے اس کے مطابق نتیجہ دے دیتا ہے۔ اس پروگرام کا دائرہ بدل جائے یا اس میں وسعت پیدا ہو جائے تو کمپیوٹر کا دیا ہوا نتیجہ بھی اس کے ساتھ ہی بدل جاتا ہے۔ یہی حال عقل کا بھی ہے کہ اسے جو مشاہدات و تجربات اور معلومات میسر ہوں گے ان کے مطابق وہ نتیجہ دے گی اور اگر معلومات میں اضافہ ہوگا تو نتیجہ بھی متغیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ جبکہ انسانی مشاہدات، تجربات اور معلومات کو کسی جگہ قرار نہیں ہے، وہ ہر دم وسعت پذیر رہتے ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے کسی بھی مسئلہ میں عقل سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حتمی نتیجہ دے گی اور دوٹوک بات کرے گی، محض خام خیالی ہے بلکہ ناممکنات میں سے ہے ۔ عقل کی آخری انتہا ظن غالب ہے، اس سے آگے اس کے پَر جلتے ہیں اور وہ کسی پرواز کے قابل نہیں رہتی۔ اس حقیقت کو قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:
ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس، ولقد جآء ھم من ربھم الہدیٰ۔ (سورۃ النجم ۵۳ ۔ آیت ۲۳)
’’وہ محض وہم اور اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کے ہاں سے ہدایت آچکی ہے۔‘‘
چنانچہ علم میں یقین کا درجہ حاصل کرنے کے لیے وجدانیات، محسوسات، مشاہدات اور معقولات کے بعد پھر ہمیں کسی ایسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے جو ان سب سے بالا ہو اور یقین کی منزل سے ہمکنار کرتی ہو۔ ظاہر بات ہے کہ وہ وحی الٰہی ہی ہو سکتی ہے جو علم کے ان ذرائع سے بالاتر ہے، ان کی نگران ہے، اور ان سب پر فائنل اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ آخر یہ ممکن بھی کیسے ہے کہ اتنی وسیع و عریض کائنات کے خالق نے یہ سب کچھ بنا کر اور انسان کو اس میں تصرف اور استفادے کے مواقع فراہم کر کے اسے کسی علم کے بغیر کھلا چھوڑ دیا ہو کہ جا اپنی مرضی کر، ہمارا اس کام سے اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ ایک فرم چھوٹی سی مشین بنا کر اسے استعمال کے لیے مارکیٹ کے سپرد کرتی ہے تو اس کے ساتھ بنیادی معلومات کا کتابچہ فراہم کرتی ہے تاکہ اسے صحیح طریقہ سے استعمال کیا جا سکے۔ خدا جانے کائنات کے خالق و مالک کے بارے میں یہ تصور کہاں سے آگیا ہے کہ اس نے سارا نظام وضع کر کے اسے کسی ہدایت اور نگرانی کے بغیر آزاد چھوڑ رکھا ہے۔
حضرت انسان کے پاس علم کے بنیادی ذرائع چار ہیں:
(۱) وجدانیات (۲) محسوسات و مشاہدات (۳) معقولات (۴) وحی الٰہی
ان چاروں مراحل سے گزرے بغیر انسان کا علم مکمل نہیں ہو سکتا اور ان میں حتمی اور یقینی ذریعہ وحی الٰہی ہے۔ اس لیے کہ اس سے قبل کے کسبی ذرائع انسان کو ظن غالب تک پہنچا کر وہیں رک جاتے ہیں اور یقین کے حصول کے لیے اسے کسی ایسے ذریعہ کی ضرورت پڑتی ہے جس کا اپنا علم یقینی اور حتمی ہو۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا دوسرا کوئی نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ وہی ان سب چیزوں کا خالق و منتظم و مدبر ہے۔
آج انسانی سوسائٹی میں فکر و فلسفہ اور علم و معلومات کے حوالہ سے جو بحث جاری ہے اور انسانی ذہنوں میں اس کے پیدا کردہ کنفیوژن اور پیچیدگیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ ہماری طالب علمانہ رائے میں یہ ہے کہ:
- دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ قرار دے لیا گیا ہے اور آخرت کی حقیقی زندگی نگاہوں سے اوجھل ہو کر رہ گئی ہے۔
- معقولات کو علم و یقین کی آخری اتھارٹی سمجھ لیا گیا ہے اور وحی الٰہی کو علم کا ذریعہ نہیں تسلیم کیا جا رہا۔
- سائنس نے انسانی جسم کے اسرار و رموز اور کائنات کے وسائل کی دریافت و استعمال کو صرف دنیا کی وقتی ضروریات تک محدود رکھا ہوا ہے۔
- انسانی وجود اور کائنات کی مقصدیت تلاش کرنے اور ان کے خالق کی منشا معلوم کرنے کی بجائے ’’ایڈہاک ازم‘‘ کی بنیاد پر وقتی نفع و نقصان کو ہی آخری منزل قرار دے لیا گیا ہے۔
اس تناظر میں مغرب نے جس علمی و تہذیبی سفر کا آغاز اب سے تین صدیاں قبل کیا تھا وہ اپنی منطقی انتہا کو پہنچ کر اب واپسی کے راستے تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ اور مغرب کی دانش گاہوں میں وجدانیات کی اہمیت و ضرورت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ روح کے اطمینان، زندگی کی مقصدیت، سائنس کے حقیقی اہداف، خاندانی نظام کی بحالی، اور انسانی سوسائٹی کے بہتر مستقبل کے لیے آسمانی تعلیمات سے استفادہ کے موضوعات اب بحث و مباحثہ کی ترجیحات کا حصہ بن رہے ہیں۔ لیکن مسلم دنیا کی صورت حال اس سے مختلف ہے، جس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دینے پر مغرب خود کو مجبور پا رہا ہے، ہماری ’’جدید دانش‘‘ اسی پتھر کو چومنے اور اٹھانے کے لیے بے چین دکھائی دے رہی ہے اور عالم اسلام میں ایسے فکری علمی مباحثوں کی ہاہاکار مچی ہوئی ہے جو ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ ہوتے جا رہے ہیں۔
عقل اور وحی کے مباحث کا مغرب کی دنیا میں اس وقت حال یہ ہے کہ چند ماہ قبل امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے بعض علماء کرام کے ساتھ گفتگو کے مرحلہ میں راقم الحروف کے پاس گوجرانوالہ تشریف لائے تو انہوں نے بتایا کہ ہم مغرب میں عقل اور آسمانی تعلیمات کے باہمی تعلق کے بارے میں مسلم متکلمین کے افکار پر کام کر رہے ہیں اور وہ خود ان میں سے امام ابو منصور ماتریدیؒ کو اس لیے موضوع بحث بنائے ہوئے ہیں کہ ان کے ہاں عقل اور وحی کے درمیان توازن انہیں زیادہ بہتر دکھائی دیتا ہے۔
عقل کو علم کا یقینی درجہ دینے اور انسانی مسائل و مشکلات کے حل کی آخری اتھارٹی سمجھ لینے کے مغالطہ نے ہی انسانی سوسائٹی کو اس کنفیوژن سے دوچار کر رکھا ہے کہ فرد کی عقل تو ناقص ہو سکتی ہے لیکن سوسائٹی کی اجتماعی عقل (کامن سینس) ناقص اور کمزور نہیں ہوتی، اس لیے وہ تمام امور میں حَکَم اور اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ مگر یہ بات مسلسل نظر انداز کی جا رہی ہے کہ اس ’’عقل عام‘‘ کا ماخذ اور سرچشمہ کیا ہے؟ اس نے بھی تو میسر معلومات و مشاہدات اور ظاہری محسوسات سے ہی نتائج اخذ کرنے ہیں، جبکہ کسی چیز کے بارے میں یقینی، مکمل اور آخری معلومات کا احاطہ کر لینا فرد کی طرح سوسائٹی کی اجتماعی عقل کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔
پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ عقل عام کو امریکی معاشرے سے حاصل ہونے والے محسوسات و مشاہدات و تجربات وہی ہوں جو اسے افریقی معاشرے میں میسر ہیں۔ اور یورپ کا معاشرہ بھی وہی تجربات و محسوسات مہیا کرتا ہو جو مڈل ایسٹ کی معاشرت میں جنم لیتے ہیں۔ اس حوالہ سے دیکھا جائے تو جنوبی امریکہ کی کامن سینس شمالی امریکہ سے اور مشرق وسطیٰ کی کامن سینس وسطی ایشیا سے مختلف ہوگی، جبکہ مشرق بعید کی کامن سینس ان سب سے مختلف تجربات سے دوچار ہوگی۔ چنانچہ گلوبل انسانی معاشرے کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی سوسائٹی کو پھر کسی اور معیار کی ضرورت پیش آئے گی جو ان سب کے معاملات طے کرنے کی پوزیشن میں ہو۔
مغرب چونکہ بین الاقوامیت اور گلوبل سوسائٹی کے ماحول میں نووارد ہے اس لیے اسے یہ الجھنیں پریشان کر رہی ہیں۔ جبکہ اسلام نے چودہ سو سال قبل یا ایھا الناس کے خطاب سے اس عالمیت اور گلوبلائزیشن کو اپنا دائرہ کار بنا لیا تھا بلکہ وہ دنیا کے مختلف علاقوں اور براعظموں پر محیط ادوار حکومت میں ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک ان تجربات و مشاہدات سے گزر چکا ہے۔ اس لیے اسے اس معاملہ میں کسی کنفیوژن کا سامنا نہیں ہے اور وہ بالکل کلیئر ہے کہ انسانی سوسائٹی خود اپنے تمام معاملات نمٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اسے بہرحال خارجی راہ نمائی اور نگرانی کی ضرورت ہے جو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہی ہو سکتی ہیں۔ مغرب کی دانش دھیرے دھیرے اس رخ پر آرہی ہے مگر اسے پریشانی یہ ہے کہ وحی الٰہی کا مستند و محفوظ ذخیرہ اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا معتمد ریکارڈ اسلام کے سوا کسی اور کے پاس موجود نہیں ہے۔ اس لیے اس رخ پر واپس آنے کے لیے مغرب کو ’’اسلام‘‘ سے استفادہ کرنے کے سوا دوسر کوئی آپشن میسر نہیں ہے۔
چنانچہ تاریخ اور سماج کے میرے جیسے طالب علم آج پھر اس دل چسپ منظر کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اہل کتاب اپنی کتابوں میں موجود پیش گوئیوں کی وجہ سے نبی آخر الزمانؐ کے منتظر تھے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان بھی لیا تھا لیکن قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ
حسدًا من عند انفسھم من بعد ما تبین لھم الحق۔ (سورۃ البقرہ ۲ ۔ آیت ۱۰۹)
’’انہوں نے حق واضح ہو جانے کے باوجود اپنے حسد کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا۔‘‘
یہ حسد اس بات پر تھا کہ آخری نبوت اور وحی کا یہ اعزاز بنی اسرائیل کی بجائے بنو اسماعیل کو کیوں حاصل ہوگیا ہے۔ اس کی جھلک قیصر روم ہرقل اور قریش کے سردار حضرت ابوسفیانؓ کے درمیان ہونے والے اس تاریخی مکالمہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جو بخاری شریف میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ اور جس میں قیصر روم نے نبی اکرمؐ کی نبوت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ آخری پیغمبرؐ کا مجھے بھی انتظار ہے اور یہ وہی لگتے ہیں لیکن ’’مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ پیغمبر تم عرب بدوؤں میں پیدا ہو جائے گا۔‘‘
علم و دانش کا آج کا عالمی منظر بھی اس سے مختلف نہیں ہے اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کی ضرورت محسوس کرنے کے باوجود عالمی دانش کا ’’قبضہ گروپ‘‘ اسے قبول کرنے سے صرف اس لیے گریزاں ہے بلکہ اس میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے کہ آسمانی تعلیمات کا مستند اور محفوظ ذخیرہ اسلام کے سوا کسی اور کے پاس موجود نہیں ہے۔ مگر اس سے زیادہ تعجب کا مرحلہ یہ ہے کہ عالمی دانش تو عقل کی کوتاہی کا عملی تجربہ کرتے ہوئے آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کے راستے تلاش کر رہی ہے لیکن عالم اسلام کی جدید کہلانے والی دانش ابھی تک اس مغربی فکر و دانش کی جگالی کرنے میں مصروف ہے جس سے پیچھا چھڑانا خود مغرب کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔عالم اسلام کی جدید نما دانش جن مباحث میں الجھی ہوئی ہے وہ ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ ہو چکے ہیں، ان کی میعاد ختم ہو گئی ہے اور آج کی سب سے بڑی علمی و فکری ضرورت یہ سامنے آرہی ہے کہ مغربی فکر و فلسفہ کی ناکامی کے اسباب واضح کرتے ہوئے قرآن و سنت کے معارف اور احکام شریعت کی حکمت و ضرورت کو آج کے اسلوب میں اور دور حاضر کی نفسیاتی ضروریات کے مطابق پیش کیا جائے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اسی کو قرآن کریم کے اعجاز کا ایک بڑا پہلو اور جدید دور کی اہم ضرورت قراردیا تھا، اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے بھی اسلام کی تجدید اور فقہ و شریعت کی تشکیل نو کا ہدف یہی بیان کیا ہے۔ مگر ہماری جدید دانش مروجہ فکر و فلسفہ کا رخ اسلام کی طرف موڑنے کی کوشش کرنے کی بجائے اسلام کو اس تھکے ماندہ فکر و فلسفہ کے بوسیدہ سانچے میں فٹ کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنے میں مصروف ہے۔ اس تناظر میں وہ ارباب فکر و دانش ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں جو مسلم دانش کو اس دلدل سے نجات دلانے اور قرآن و سنت کی حقیقی شاہراہ کی طرف واپس لانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ اور یقیناًمستقبل میں انہی اصحاب فکر و دانش کی یہ مبارک مساعی فکری و علمی معاملات کو صحیح رخ پر گامزن کرنے کی جدوجہد کا نقش اول قرار پائیں گی۔
ہمارے فاضل دوست جناب محمد ظفر اقبال دانش وروں کے اسی قافلہ کے فرد ہیں جو دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری دانش و اسلوب اور مستقبل کی فکری و علمی ضروریات کا ادراک بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’اسلام اور جدیدیت کی کشمکش‘‘ میں اس حوالہ سے بعض مسلم مفکرین کے افکار کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے عصر حاضر کے فکری و تہذیبی الجھاؤ کی بعض گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ میں نے کتاب کی سرسری ورق گردانی کی ہے، اگرچہ میرے خیال میں یہ مباحث اب پرانے ہو چکے ہیں، لیکن محمد ظفر اقبال صاحب کی یہ علمی و تحقیقی کاوش نئی نسل کو ان معاملات میں صحیح سمت دکھانے کے لیے مفید ثابت ہوگی اور تحقیق و جستجو کا ذوق رکھنے والوں کی راہ نمائی کا ذریعہ بنے گی۔
دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت موصوف کی اس سعی و محنت کو اپنی بارگاہ میں قبولیت سے نوازیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔
مذہب حنفی کے حوالے سے دو سنجیدہ سوالات
مولانا سمیع اللہ سعدی
سائد بکداش فقہی تحقیقات کے حوالے سے معاصر علمی دنیا کے معروف محقق ہیں۔ جامعہ ام القریٰ سے فقہ اسلامی میں پی ایچ ڈی کی ہے ،پی ایچ ڈی مقالے کے لیے مختصر الطحاوی پر امام جصاص کی مبسوط شرح مختصر الطحاوی کے مخطوطے کا انتخاب کیا ،اور اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ مل کر آٹھ جلدوں میں اس کی تحقیق مکمل کی۔ موصوف حلب کے معروف حنفی عالم اور محقق شیخ عوامہ کے داماد بھی ہیں۔ آج کل مدینہ منورہ میں مقیم ہیں۔ گرانقدر تصنیفات کے ساتھ فقہ حنفی کی ایک درجن سے زائد بنیادی کتب پر تحقیق کر چکے ہیں ،جن میں متون ثلاثہ ،قدوری ،کنز اور المختار بھی شامل ہیں۔آپ کی تحقیقات علمی دنیا میں بڑی اہم سمجھی جاتی ہیں۔ حال ہی میں موصوف کا سو صفحات پر مشتمل "تکوین المذھب الحنفی مع تاملات فی ضوابط المفتی بہ" کے نام سے ایک قیمتی کتابچہ سامنے آیا ہے۔ رسالے کے مقدمے میں لکھا ہے کہ اس رسالہ کے لیے فقہی کتب سے عبارات جمع کرنے میں دس سال کا عرصہ لگا ۔اس رسالے میں محقق مذکور نے فقہ حنفی کے حوالے سے دو سوالات کو زیر بحث بنایا :
ایک سوال یہ کہ فقہ حنفی کا اطلاق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال پر ہوتا ہے یا اس اصطلاح میں صاحبین و امام زفر کے اقوال بھی شامل ہیں؟اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اجلہ اصحاب کے اقوال پر بھی فقہ حنفی کا لفظ بو لا جاتا ہے ،جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے تو اس اطلاق کی ابتداء کب سے ہوئی؟کیا ائمہ کے زمانے سے ہی یہ رائج تھا کہ فقہ حنفی میں صاحبین و امام زفر کے اقوال بھی شامل تھے یا بعد کے فقہاء نے یہ اصطلاح بنائی ہے؟اگر بعد میں بنی ہے تو اس اصطلاح کی علمی حیثیت کیا ہے؟ اور اس پر از سر نو غور کرنے کی کتنی گنجائش ہے؟
دوسرا سوال یہ کہ فقہ حنفی میں مفتی بہ اقوال کی تعیین کے ضوابط کیا ہیں؟اس میں علامہ شامی رحمہ اللہ کے ذکر کردہ منہج سے ہٹ کل مزید کتنے مناہج ہیں؟ ان مناہج کے واضعین فقہاء نے کن علمی بنیادوں پر یہ ضوابط طے کیے؟ ان ضوابط کے پیچھے کیا اصول و دلائل کار فرما ہیں ؟اور مفتیان کرام پر ان ضوابط کی پاسداری کس حد تک اور کیوں لازم ہے؟
ہم موصوف کے اٹھا ئے گئے دونوں سوالات کی تفصیل ترجمانی کے انداز میں قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں اور فیصلہ فقہ و فتویٰ سے شغف رکھنے والے محققین پر چھوڑ دیتے ہیں۔
پہلا سوال: فقہ حنفی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟
موصوف کے بقول اس مسئلے پر فقہائے حنفیہ میں سے سب سے پہلے بارہویں صدی ہجری کے معروف شامی عالم عبد الغنی نابلسی نے مستقل رسالہ "الجواب الشریف للحضرۃ الشریفۃ فی ان مذھب ابی یوسف و محمد ھو مذھب ابی حنیفۃ" لکھا۔ فقہی کتب میں اگرچہ مختلف مقامات پر ضمناً فقہاء نے اس پر بحث کی ہے، چنانچہ علامہ نابلسی کے علاوہ اس موضوع پر ابن عابدین شامی،شاہ ولی اللہ، مصری عالم شیخ محمد بخت المطیعی، شیخ الاسلام زاہد الکوثری اور دیگر فقہاء نے اس موضوع پر بحث کی ہے،لیکن اس کو باقاعدہ تصنیف کا موضوع شیخ نابلسی نے بنایا۔اس رسالہ کے لکھنے کا سبب یہ بناکہ امیر حجاز شریف سعد نے شیخ نابلسی سے یہ سوال کیا :
ما تقولون فی مذھب ابی حنیفہ رضی اللہ عنہ و صاحبیہ ابی یوسف ومحمد، فان کل واحد منھم مجتھد فی اصول الشرع الاربعۃ: الکتاب و السنۃ و الاجماع و القیاس، وکل واحد منھم لہ قول مستقل غیر قول الاخر فی المسالۃ الواحدۃ الشرعیہ، وکیف تسمون ھذہ المذاھب الثلاثۃ مذھبا واحدا، و تقولون ان الکل مذھب ابی حنیفۃ؟و تقولون عن الذی یقلد ابا یوسف فی مذھبہ ا ومحمدا انہ حنفی، و انما الحنفی من قلد ابا حنیفہ فقط فیما ذھب الیہ؟ (ص ۶۱)
’’امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے مذہب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟کیونکہ ان تینوں حضرات میں سے ہر ایک شریعت کے ادلہ اربعہ میں مجتہد مستقل ہے ،اور ایک ہی مسئلے میں ہر ایک کاالگ الگ مستقل قول ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ ان تین مجتہدین کے مذاہب فقہیہ کو ایک مذہب کے نام سے کیسے موسوم کرتے ہیں؟اور سب کو ابوحنیفہ کے مذہب سے پکارتے ہو ،اور تم لوگ امام ابویوسف یا امام محمد کی تقلید کرنے والے کو "حنفی"کانام دیتے ہو ،حالانکہ حنفی تو صرف وہ ہوتا ہے ،جو امام ابوحنیفہ کی تقلید کرے ؟‘‘
فقہائے حنفیہ کی طرف سے اس سوال کے جوابات
محقق مذکور کے بقول اس سوال کے فقہائے حنفیہ کی طرف سے عموماً دو قسم کے جواب دیے جاتے ہیں ،ایک جواب صاحبین کو مجتہد منتسب ماننے کی صورت میں اور دوسرا جواب ان کو مجتہد مستقل مان کر دیا جاتا ہے۔
علامہ نابلسی و دیگر بعض فقہاء نے پہلے طرز کا جواب دیا ہے کہ صاحبین کے اقوال فقہیہ دو وجوہ سے امام ابوحنیفہ کے اقوال شمار ہوتے ہیں :
۱۔صاحبین امام ابوحنیفہ کے مستنبط کردہ اصول اجتہاد پر مسائل فقہیہ کی تخریج کرتے ہیں۔
۲۔صاحبین کے بیشتر اقوال در اصل امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مرجوع عنہ اقوال ہیں۔
لہٰذا جب صاحبین کے اقوال در اصل امام ابو حنیفہ کے اقوال ہیں تو صاحبین کا قول لینا اور اس پر عمل کرنا امام ابو حنیفہ کے قول پر عمل ہے۔اس لیے صاحبین کے اقوال لینے کے باوجود مقلد فقہ حنفی پر ہی عمل پیرا ہوتا ہے۔ اس جواب کی بنیاد ابن کمال پاشا کی بیان کردہ فقہاء کی طبقاتی تقسیم پر ہے، کیونکہ اس میں صاحبین کو مجتہد منتسب مانا گیا ہے۔
اس سوال کا دوسرا جواب فقہائے حنفیہ کی عبارات میں یہ ملتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی طرح صاحبین بھی مستقل مجتہد ہیں اور فقہ حنفی ان تین مجتہدین کے اجتہادات کا مجموعہ ہے ،مجتہدین ثلاثہ کے اجتہادات کے مجوعے کو تغلیباً و اصطلاحاً "فقہ حنفی"کا نام دیا گیا ہے ،اور اصطلاح و تسمیہ میں مناقشہ و مباحثہ نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ اصطلاح کوئی بھی بنائی جا سکتی ہے۔
مذکورہ جوابات پر سائد بکداش کا نقد و تبصرہ
پہلے جواب پر خود متعدد فقہائے حنفیہ نے نقد کیا ہے،کیونکہ اس کی بنیاد ابن کمال باشا کی بیان کردہ طبقا ت فقہاء پر ہے ،اور اس تقسیم کو بعد میں آنے والوں نے رد کیا ہے۔اس تقسیم میں دیگر خامیوں کے علاوہ بڑی خامی یہ ہے کہ صاحبین کو مجتہد منتسب مانا گیا ہے ،جبکہ صاحبین مجتہد مستقل کے منصب پر فائز ہیں اور حنفی فقہ کے اصول و فروع اس بات پر شاہد ہیں کہ صاحبین نے فروع و اصول دونوں میں امام ابو حنیفہ سے بڑے پیمانے پر اختلاف کیا ہے، حالانکہ مجتہد منتسب اصول میں اپنے امام کی مخالفت نہیں کرتا۔محقق مذکور نے اس موقع پر اس بات کے متعدد شواہد پیش کیے ہیں، اختصا ر کے پیش نظر ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔
دوسرے جواب پر محقق مذکور نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فقہ حنفی کا اطلاق اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے امام ابو حنیفہ کے اقوال پر ہوتا ہے اور فقہ حنفی کے مقلدنے بھی صرف امام ابو حنیفہ کی تقلید کا التزام کیا ہے۔ لہٰذا یہ جواب علمی و عملی دونوں طرح سے مخدوش ہے۔ نیز اسے "اصطلاح عرفی"(اصطلاح عرفی سے مراد کہ کسی خاص فن کے لوگ مل کر کوئی اصطلاح بنا لیں)بھی نہیں مانا جا سکتا ،کیونکہ متقدمین فقہائے حنفیہ کی عبارات میں ایسی کوئی صراحت نہیں ملتی جو اس بات پر دلالت کرے کہ فقہ حنفی کے اطلاق میں صاحبین کے اقوال بھی شامل ہیں، لہٰذا متاخرین کے خلط و دمج (اقوال امام کو اقوال صاحبین کے ساتھ ملانے اور آپس میں تصحیح و ترجیح) سے اصطلاح عرفی نہیں بن سکتی، جب تک اس پر مذہب کے اولین مدونین اور بانین کی صراحت نہ ملے۔
اقوال امام کو اقوال صاحبین کے ساتھ ملانے کا تاریخی جائزہ
محقق مذکور نے یہاں اس بات کا ایک تاریخی جائزہ لیا ہے کہ فقہ حنفی کے اطلاق میں صاحبین کے اقوال کو شامل کرنے کی فکر نے کب جنم لیا۔ ہم موصوف کے تاریخی جائزے کو نکات کی شکل میں قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں :
۱۔امام ابوحنیفہ نے اپنے اجتہادات خود مدون نہیں کیے ،بلکہ ان کے شاگرد رشید امام محمد نے اس کی تدوین کی۔ کتب ظاہر الروایہ میں ان کا طرز یہ ہے کہ وہ شیخین اور اپنے قول کے لیے الگ الگ "مذہب"کا لفظ استعمال کرتے ہیں، مذہب ابی حنیفہ ،مذہب ابی یوسف وغیرہ۔ہر ایک کے قول کے لیے مذہب کا مستقل لفظ دلالت کرتا ہے کہ خود امام محمد رحمہ اللہ بھی تینوں کو الگ الگ متصور کرتے تھے۔
۲۔امام محمد نے اپنی کتب میں اپنے دونوں شیوخ امام ابو حنیفہ ،امام ابویوسف اور اپنے اقوال بلا ترجیح، تقابلی انداز میں ذکر کیے ہیں۔اس سے ایک اہم بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ اپنے شیخ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے اقوال کو ایک مان کر ان میں تصحیح و ترجیح کا طرز ان کے پیش نظر نہیں تھا۔
۳۔امام محمد کی کتب فقہ حنفی کی امہات قرار پائیں ،اس لیے بعد میں آنے والے فقہاء نے کتب ظاہر الروایہ کی تلخیص، شروح اور انہی پر تخریج و تاسیس کا سلسلہ شروع کیا۔کتب ظاہر الروایہ میں متقدمین فقہائے حنفیہ نے عام طور پر امام ابو حنیفہ کے اقوال فقہیہ کی ترجیح و تصحیح پر توجہ دی۔
۴۔ فقہ حنفی میں دو قسم کے متون و مختصرات تیار ہوئے۔ بعض متون میں صرف امام ابو حنیفہ کے اقوال فقہیہ ذکر کیے گئے ہیں، جیسے علامہ موصلی کی المختار اور علامہ نسفی کی کنز الدقائق۔یہ دو متون فقہ حنفی کی بنیادی ترین متون میں شمار ہوتی ہیں۔ ان اصحاب متون کا طرز خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک فقہ حنفی اقوال امام کا نام ہے۔ جبکہ دوسری قسم کے متون میں اقوال امام کے ساتھ صاحبین کے اقوال بھی ذکر کیے گئے ہیں،جیسے مختصر القدوری ،انہوں نے بھی اولاً اصل مذہب کے طور پر امام صاحب کا قول لیا ہے اور تقابلی فقہ کے لیے دوسرے ائمہ و صاحبین کے اقوال بھی ذکر کیے ہیں۔ مختصرالقدوری کی شروح سے اس بات کی تائیدہوتی ہے، اصحاب متون و مختصرات کے اس طرز سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ فقہ حنفی کا اطلاق صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال پر ہوتا ہے۔
۵۔ان متون و مختصرات کی جو معروف شروح لکھی گئی ہیں ،ان میں بھی قول امام کی ترجیح و تصحیح کے دلائل دیے گئے ہیں، جیسا کہ امام جصاص کی "شرح مختصر الطحاوی "، قاسم بن قطلوبغا کی "تصحیح القدوری "وغیرہ۔
۶۔صاحب قدوری نے اپنی کتاب"التجرید "میں یہ طرز اپنایا ہے کہ وہ امام صاحب کے قول کو مبرہن کرنے کے بعد صاحبین وغیرہ کے اقوال کے لیے "قول المخالف"کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ان کے دلائل کا امام صاحب کی طرف سے جواب دیتے ہیں۔ بنیادی متون میں سے ایک کے مصنف کا یہ طرز اس بات کی دلیل ہے کہ امام قدوری رحمہ اللہ کے نزدیک فقہ حنفی اصلاً اقوال امام کانام تھا۔
۷۔اس کے علاوہ متعدد فقہائے حنفیہ کی اس با ت پر صراحت ہے کہ فتوی مطلقاً امام صاحب کے قول پر ہوگا، البتہ کسی حاجت و ضرورت کے وقت صاحبین کے اقوال کی طرف عدول ہوگا۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ عدول ہر مذہب فقہی میں ہوتا ہے۔ اس عدول سے یہ بات قطعاً لازم نہیں آتی کہ صاحبین کے اقوال بھی فقہ حنفی میں شامل ہیں۔ اس سلسلے میں محقق مذکو ر نے چھٹی صدی ہجری کے حنفی عالم احمد بن محمود الحلبی، ساتویں صدی ہجری کے علامہ موصلی، آٹھویں صدی ہجری کے علامہ نسفی، نویں صدی ہجری کے قاسم بن قطلوبغا، صاحب الدرالمختار علامہ حصکفی، صاحب البحر الرائق ابن نجیم، ابن عابدین الشامی اورعلامہ لکھنوی کی عبارات ذکر کی ہیں ،جنہوں نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ امام ابو حنیفہ کا قول مطلقاً اولیٰ و راجح ہے۔
۸۔محقق مذکور نے مولانا احمد رضاخان صاحب کے ایک رسالے "اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقا علی قول الامام" کا بھی حوالہ دیا ہے جو فتاویٰ رضویہ کی پہلی جلد میں شائع ہوا ہے ،جس میں آنجناب نے متعدد ائمہ حنفیہ سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ فتویٰ مطلقاً امام ابو حنیفہ کے قول پر ہوگا۔
۹۔محقق مذکور کے نزدیک صاحبین کے اقوال کو فقہ حنفی میں شامل کر کے صاحبین و امام صاحب کے اقوال میں تصحیح و ترجیح کی داغ بیل صاحب ہدایہ نے ڈالی۔ انہوں نے اپنے تصنیف کردہ متن بدایۃ المبتدی کی شرح ہدایہ میں صاحبین و امام صاحب کے اقوال میں خلط کرتے ہوئے مختلف مسائل میں تینوں ائمہ کے اقوال میں تصحیح و ترجیح کا طرز اپنا یا۔
۱۰۔صاحب ہدایہ کے بعد اس طرز کو قاضی خان نے مقدمہ فتاویٰ قاضی خان میں ،ابن ہمام نے فتح القدیر میں، ابن نجیم نے البحر الرائق میں اور ابن عابدین نے حاشیہ الدر میں اختیار کیا اور یوں متقدمین کی بجائے ان متاخرین کا طرز ہی اصل قرار پایا اور آج صورتحال یہ ہے کہ صاحبین کے اقوال کو باقاعدہ فقہ حنفی کا جزو سمجھا جاتا ہے اور صاحبین کے اقوال پر فتویٰ کو کسی صورت خروج عن المذہب نہیں سمجھا جاتا، حالانکہ یہ متقدمین اور اصحاب متون و مختصرات (متون کو ہر مذہب میں اصل و بنیاد سمجھا جاتا ہے) کے طرز کے بالکل خلاف ہے۔نیز انہی میں سے بعض ائمہ کی صراحت کے بھی خلاف ہیں، چنانچہ خود صاحب ہدایہ نے التجنیس و المزید میں مطلقاً امام صاحب کے قول پر فتوی کی صراحت کی ہے۔
دوسرا سوال
فقہ حنفی کے حوالے سے محقق مذکور نے دوسرا سوال یہ اٹھایا ہے کہ فقہ حنفی میں مفتی بہ اور راجح اقوال کے ضوابط کیا ہیں؟ کیونکہ فقہائے حنفیہ کی عبارات و تصنیفات میں متعدد مناہج ذکر کیے گئے ہیں۔ محقق مذکور کے بقول یہ اختلاف بھی دراصل اقوال امام کو اقوال صاحبین کے ساتھ ملانے کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے ان تین ائمہ مجتہدین کے اقوال فقہیہ میں تصحیح و ترجیح کے حوالے سے ائمہ حنفیہ میں بڑے پیمانے پر اختلاف وجود میں آیا۔ محقق مذکور کے بقول اس سلسلے میں کل پندرہ قسم کے مناہج افتاء و اصول ترجیح ہیں اور یہ مناہج فقہائے حنفیہ کی طرف سے محض اجتہاداور اپنے ذوق کی بنا پر ہیں جن کے پیچھے کوئی مضبوط دلائل نہیں ہیں۔ نیز یہ مناہج فقہ حنفی کے مقلد فقہاء کی طرف سے ہیں ،تو ان "مقلدین"کی پیروی اور ان کے ذکر کردہ ضوابط اصول مذہب کی رو سے کسی صورت دیگر"مقلدین "پر لازم نہیں کیے جاسکتے ،کیونکہ مقلدین نے ان ائمہ کی بجائے امام ابو حنیفہ کی تقلید کا التزام کیا ہے۔اب ہم موصوف کے بیان کردہ مناہج افتاء ذکر کرتے ہیں۔ان مناہج و ضوابط میں اگر غور کیا جائے تو بعض مناہج بعض میں ضم ہو سکتے ہیں ،لیکن اتنی بات بہرحال اس سے ثابت ہوتی ہے کہ فقہ حنفی میں مفتی بہ قول کا کوئی ایک متفقہ منہج نہیں ہے :
۱۔متعدد ائمہ حنفیہ نے مطلقاً امام ابوحنیفہ کے قول کو مفتی بہ قرار دیا ہے۔ اس کی تفصیل ما قبل میں گزر چکی ہے۔
۲۔بعض ائمہ حنفیہ نے قول امام اور قول صاحبین میں اختیار کا قول ذکر کیا ہے کہ اگر صاحبین ایک طرف اور امام صاحب دوسری طرف ہوں تو ان دو فریقوں میں سے جس کے قول کو لیا جائے ،درست ہے۔ یہ قول علامہ اسبیجابی نے مقدمہ مختصر الطحاوی میں اور علامہ غزنوی نے "الحاوی القدسی"میں فقہائے حنفیہ کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے۔
۳۔بعض ائمہ حنفیہ نے قوت دلیل کی بنا پر ترجیح کا قول اختیار کیا ہے کہ جس قول کی دلیل قوی اور ماخذ معتمد ہو ،اس قول کو لیا جائے گا۔محقق مذکور کے بقول یہ اصول خود بڑے اختلاف کا دروازہ کھولنے کا سبب ہے کہ قوت دلائل ایک اضافی چیز ہے، اس میں ایک سے زیادہ آراء عموماً ہوتی ہیں۔
۴۔بعض فقہاء نے تیسیر اور لوگوں کی آسانی والے اصول کو ترجیح کا سبب قرار دیا ہے کہ جس قول میں مقلدین کے لیے آسانی ہو ،اسی کو لیا جائے گا۔
۵۔بعض ائمہ نے عموم البلوی کو سبب ترجیح قرارد یا ہے۔
۶۔کچھ فقہاء نے تعامل الناس کو ترجیح کی بنیاد بنایا ہے۔
۷۔بعض فقہاء نے زمان و مکان کو اصل سبب قرار دیا ہے کہ زمانے کے بدلنے سے اور جگہ کے بدلنے سے ایک سے دوسرے کے قول کی طرف عدول ہوگا۔
۸۔متعدد فقہائے حنفیہ نے "احوط قول" کا اصول ذکر کیا ہے ،کہ جس قول میں احتیاط ہو گا ،وہی قول لیا جائے گا۔
۹۔بعض فقہاء نے احوط اور ارفق میں اختیار کا قول اپنایا ہے کہ اگر دو قولوں میں سے ایک قول میں احتیاط ہو اور دوسرے میں لوگوں پر آسانی ہو تو دونوں میں اختیار ہوگا۔محقق مذکور کے بقول کتب فقہ میں "القول الاول احسن و القول الثانی ارفق" وغیرہ جیسی اصطلاحات کا یہی مطلب ہے۔
۱۰۔بعض فقہاء نے قول امام اور قول صاحبین سے نکل کر دیگر ائمہ کے قول کو اختیار کیا ہے۔(جزوی مسائل میں خاص وجوہ سے خروج عن المذہب کو باقاعدہ اصول ترجیح میں ذکر کرنا محل نظر ہے۔ )
۱۱۔بعض فقہاء نے حاجت مسلمین کو اصل سبب قرار دیا ہے۔ (یہ قول پچھلے بعض اقوال میں داخل ہیں ،الگ ذکر کرنے کی کوئی خاص وجہ معلوم نہیں ہوتی)۔
۱۲۔متعدد فقہائے حنفیہ کی ترجیحات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔کسی کتاب میں قول امام کو ترجیح دیتے ہیں ،جبکہ اپنی دوسری کتاب میں قول صاحبین کو راجح قرار دے دیتے ہیں ،جیسے کہ قاضی خان ،علامہ نسفی و دیگر ائمہ کی مختلف کتب دیکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے۔
۱۳۔بعض فقہاء کی عبارات میں یہ بھی ملتا ہے کہ اس مسئلے میں کسی خاص قول کو مفتی بہ نہ قرار دیا جائے اور کسی ایک کو راجح قرار دینے کی بجائے بلا ترجیح چھوڑ دیا جائے ،تاکہ عوام کو آسانی رہے، جیسا کہ صاحب ہدایہ نے خراج و عشر کے بعض مسائل میں اس کی صراحت کی ہے۔
محقق مذکور نے اس کے اصل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کتب فقہیہ میں ذکر کردہ ترجیحات کی بجائے نزول حادثہ کے وقت، مکان اور مستفتی کے احوال کو دیکھ کر ہی صورتحال کے مطابق فتوی دیا جائے گا۔ موصوف نے مزید لکھا ہے کہ اگر مذاہب اربعہ کی کتب پر غور کیا جائے اور تتبع کیا جائے تو اس کی کافی مثالیں مل سکتی ہیں کہ فقہاء نے نظری اصول افتاء و ترجیح کی بجائے مبتلی بہ کی حاجت، ضرورت اور اس کی حالت کے مطابق فتاوی دیے ہیں۔
۱۴۔متعدد فقہاء کا طرز یہ بھی ہے کہ قول امام و صاحبین بلا کسی ترجیح و تصحیح کے بیان کرتے ہیں اور ائمہ مذہب کے اقوال کے ساتھ ساتھ "قال البعض کذا" یا "فیہ اختلاف المشائخ" جیسے الفاظ بلا کسی ترجیح کے ذکر کر دیتے ہیں ۔محقق کے بقول ان مصنفین کے اس طرز سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک ان تمام اقوال و تصحیحات میں توسع و اختیار ہے۔
۱۵۔ان تمام ضوابط و مناہج کے ساتھ فقہ حنفی میں مستقل مکاتب و مدارس ہیں ،جیسا کہ مکتب عراق ، جن کے سرخیل امام جصاص ،امام کرخی اور امام قدوری رحمہ اللہ ہیں۔دوسری طرف بلخ میں مشائخ بلخ کا مکتب ہے ،جس کی طرف ابو جعفر الہندوانی اور ابو اللیث سمرقندی منسوب ہیں۔ مشائخ بخارا و وماوارء النہر ہیں ،جن کی طرف امام خواہر زادہ و صدر الشہید بن مازہ جیسے اساطین منسوب ہیں۔ان سب مدارس فقہیہ و مکاتب کی اپنی ترجیحات ہیں ،اپنے اصول افتاء اور اپنے مناہج تصحیح ہیں۔
خاتمہ
محقق مذکور نے اس بحث کے آخر میں تین اہم باتیں بھی لکھی ہیں :
۱۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی معروف فقیہ اپنی کتاب میں محض اپنے اجتہاد کی بنا پر کسی مسئلے میں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے تو بعد میں آنے والے اس خاص فقیہ کی رائے کو "مذہب"سمجھ کر اسے نقل کرتے ہیں اور یوں نقل در نقل سے اس خاص فقیہ کی رائے "مذہب حنفی"بن جاتا ہے۔محقق مذکور کے بقول حاشیہ ابن عابدین میں اس کی متعددامثلہ موجود ہیں۔
۲۔اصحاب ترجیح و تصحیح نے جن اقوال کو معتمد قرار دیا ہے، ان پر بھی بعد والوں کی طرف سے تعقبات و اعتراضات ہوئے ہیں، لہٰذا متفقہ طور پر قول مفتی بہ کی نشاندہی کافی مشکل اور گنجلک کام ہے، جیسا کہ ابن ہمام نے فتح القدیر میں صاحب ہدایہ کی تصحیحات پر اور ابن نجیم نے البحرمیں متعدد مفتی بہ اقوال پر نقد کیا ہے۔اسی طرح متاخرین میں تصحیح و ترجیح کے امام سمجھے جانے والے "ابن عابدین "کی تصحیحات و ترجیحات پر بھی بعد والوں نے تعقبات کیے ہیں، خصوصاً شیخ عابد سندھی نے اپنی کتاب "طوالع الانوار شرح الدر المختار" میں، علامہ رافعی نے "تقریرات رافعی" میں اور شیخ احمد رضاخان نے "جد الممتار علی رد المحتار" میں ابن عابدین کی تصحیح و ترجیح سے متعدد مقامات پر اختلاف کیا ہے۔
۳۔بسا اوقات کوئی فقیہ کسی مسئلے میں کسی ایک عالم کی تصحیح و ترجیح پر اعتماد کرتے ہوئے لکھ لیتا ہے کہ اس میں یہ قول راجح و مفتی بہ ہے، جبکہ اس میں دیگر علماء کی تصحیحات و ترجیحات بھی موجود ہوتی ہیں۔بعد میں کوئی ناقل یا مفتی جب دیکھتا ہے کہ اس مسئلے میں تو دیگر اقوال کے بارے میں بھی تصحیح و ترجیح موجود ہیں تو وہ مذہب حنفی کے بارے میں شبہات کا شکار ہوجاتا ہے کہ مذہب حنفی میں تناقض و تضاد موجود ہے۔
آخر میں محقق مذکور نے لکھا ہے کہ متقدمین و متاخرین، اصحاب متون و مختصرات اور اصحاب شروح و حواشی کے اپنے ذوق و اجتہاد کی بنا بیان کردہ متضاد تصحیحات سے مخلص یہی ہے کہ فقہ حنفی کی حقیقت کا اعتبار کرتے ہوئے صرف اقوال امام کو مذہب حنفی مانا جائے اور اولین ائمہ مذہب اور اصحاب متون و مختصرات کے مطابق صرف قول امام کو مفتی بہ قرار دیا جائے تو ان تمام مشکلات سے چھٹکارا پا یا جاسکتا ہے۔ہاں جس مسئلے میں امام ابو حنیفہ سے کوئی روایت نہ ہو ،وہاں صاحبین و دیگر فقہاء کی رائے لی جاسکتی ہے۔
ریٹائرڈ اساتذہ کی دوبارہ تعیناتیاں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری
ڈاکٹر عرفان شہزاد
یونیورسٹی کے مروجہ قوانین کے مطابق یونیورسٹی کے کسی استاد یا ملازم کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی دوبارہ تعیناتی کرنے کے لیے دو شرائط رکھی گئی ہیں: ایک یہ کہ اس کا متبادل میسر نہ ہو اور دوسرا یہ کہ ریٹائر ہونے والے استاد کی عمر 65 سال سے زائد نہ ہو۔ صورتِ واقعہ یہ ہے کہ 80 سال سے زائدعمر کے اساتذہ اپنے ذاتی تعلقات کی بدولت، یونیورسٹی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، اپنے عہدوں پر مسلسل براجمان ہیں، اور ان کے متبادل نوجوان نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ پنشن اور دیگر مراعات وصول کرنے کے باوجود بھی یہ بزرگ اگلے مستحق کے لیے عہدہ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
حال ہی میں ہم نے یونیورسٹی کے زیرِ تعلیم اور فارغ التحصیل محققین کی تعلیمی اور تحقیقی مشکلات پر ایک سروے کرایا، جس کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ بزرگ اساتذہ اپنے شعبے کے چاہے کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں، طلبہ کو مطلوبہ علم و ہنر منتقل کرنے کے لیے ضروری توانائی سے تہی ہوتے ہیں۔ خصوصاً،تحقیق کے میدان میں نئے رجحانات سے ناواقف ہوتے ہیں۔ طلبہ کی اسائنمنٹس چیک کرنے اور وقت پر واپس دینے میں عموماً تساہل برتتے ہیں، خاص طور پر یہ کہ سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ طلبہ کے سوالات کو حالات کے بدلے ہوئے تناظر میں درست طریقے سے سمجھ ہی نہیں پاتے۔ الٹا ان کے سوالات کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ نصاب سے زیادہ اپنے ماضی کے قصے دہرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور اگر اصل تدریس کی طر ف آتے ہیں تو طلبہ کی ذہنی سطح کا لحاظ عموماً نہیں رکھ پاتے۔ طلبہ اور بزرگ اساتذہ کی عمر، سوچ اور مزاج کے فرق کی وجہ سے طلبہ کھل کر ان سے بحث نہیں کرسکتے۔ یوں تعلیم اور تحقیق کا بنیادی مقصد،یعنی تحقیق اور تنقید کی صلاحیت پیدا کرنا، ہی فوت ہو جاتا ہے۔ طلبہ شکوہ کناں ہیں کہ بزرگ اساتذہ ان کا وقت اور صلاحیت ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
دنیا کا اصول ہے کہ ہر شعبہ زندگی ایک خاص وقت کے بعد نئی نسل اور تازہ توانائی کی طلب کرتا ہے۔ ہمارے ہاں جس طرح شعبہ تعلیم کے جسم میں نئے خون کی آمد پر روک لگی ہوئی ہے، ایسا ہی اگر دیگر شعبہ جات میں بھی روا رکھا جائے تو سوچیے کہ کیا حالات بنیں۔ آپ بوڑھے سپاہی کے ہاتھ میں بندوق تھما کر سرحد پر کھڑا کر دیں یا 80 سال کے مکینک سے اپنی گاڑی کی ٹیوننگ کروانے پر مجبور ہوں تو ملک اور گاڑی کا کیا حال ہوگا؟ یہی حال تعلیم کا حقیقتاً ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کا نام تعلیمی حلقوں میں کسی شمار میں نہیں آتا۔
پاکستان میں نوجوان آبادی 60 فیصد سے زائد ہے، جب کہ نوجوانوں میں عمومی بے روزگاری کی شرح 8.2 فیصد ہے۔ بے روزگاری کی تقریباً یہی شرح اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس صورتِ حال میں ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کے لیے ملازمت کے نئے مواقع پیداکرنے کے علاوہ ریٹائرمنٹ کی عمر مزید کم کر دی جائے تاکہ نوجوانوں کی بے روزگاری کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے۔ اگر یہ نہیں تو کم از کم یہ تو ہو کہ یونیورسٹی کے قوانین پر عمل درآمد کرتے ہوئے ریٹائر ہونے والے اساتذہ کو احترام کے ساتھ گھر بھیج دیا جائے یا پھرایسے کاموں میں لگا دیا جائے جہاں ان کے علم اور تجربے سے استفادہ بھی ہوتا رہے اور مستحق نوجوانوں کی حق تلفی بھی نہ ہو، مثلاً نگران کمیٹیوں، مشاوراتی کمیٹیوں، تھنک ٹینک وغیرہ میں ان کے علم و تجربے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ایچ ای سی کے مطابق 2014 تک 11846 پی ایچ ڈی تیار ہو چکے ہیں۔ ہر سال گزشتہ سال سے زیادہ ایم فل/ ایم ایس اور پی ایچ ڈی تیار ہو رہے ہیں۔ 2016 تک اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک طرف یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں قابل لحاظ تعداد میں اعلیٰ تعلیم کے حامل افراد تیار ہورہے ہیں، لیکن دوسری طرف ان کی کھپت کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جارہی ہے۔ بے روزگاری کے باعث نوجوانوں میں مایوسی اور بد دلی بڑھتی جارہی ہے، جس کے منفی اثرات معاشرے پر مرتب ہورہے ہیں۔
یہ کتنا بڑا تضاد ہے کہ ایک طرف تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی عمر کی آخری عمومی حد مقرر ہے یعنی 33 سال اور بعض صورتوں میں 35 سال، اس کے بعد وہ سرکاری ملازمت کے لیے درخواست دینے کے بھی اہل نہیں سمجھے جاتے۔ گویا 33 یا 35 سال کے تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں سے یہ قربانی مانگ لی جاتی ہے کہ وہ ملازمت حاصل کرنے کی مسابقت میں شامل نہ ہوں تاکہ دوسرے کم عمر تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے جگہ بنائی جا سکے، لیکن دوسری طرف 60 سال کی بڑھاپے کی عمرمیں ریٹائر ہونے والے افراد ،جن کے قوی ٰبھی درست طریقے سے کام نہیں کرپاتے، اپنا عہدہ دوسرے کو دینے کے لیے تیار نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو بڑوں کا احترام نہ کرے اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ادھرنوجوان ہیں جو اپنی زندگی کے کئی سال روزوشب محنت کے بعد اپنی تعلیم پوری کرکے ڈگری ہاتھوں میں تھامے ، اپنے قیمتی وقت کو پل پل ضائع ہوتا دیکھتے ہیں مگر بزرگوں کے احترام میں پھر بھی چپ رہتے ہیں، اور دوسری طرف بزرگ ہیں جو کسی طور شفقت فرمانے پر تیار نہیں۔یونیورسٹیوں کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ ملازمت سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر تعلیم یافتگان کے لیے اچھی مثال قائم کریں، اور بزرگ حضرات سے گزارش ہے کہ نوجوانوں کے حالات پر رحم فرمائیں، قوانین کا احترام کریں ، اور پنشن پر گزارا کرتے ہوئے مستحق تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے اپنی سیٹ خالی فرما دیں، جس طرح بس میں سوار نوجوان اپنی سیٹ بزرگ سواریوں کے حوالے کر کے خود کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ارباب اقتدار اور قومی زبوں حالی
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
چند روز قبل معروف کالم نویس جناب جاوید چوہدری کا کالم ’’ذمہ دار ‘‘نظر سے گزرا۔ موصوف نے لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ کالم کا خلاصہ یہ تھا کہ مہاتر محمد کو دل کا عارضہ لاحق ہوا۔ اس وقت وہ ملائشیا کے وزیر اعظم تھے۔ ہارٹ اٹیک میں بے ہوش ہو گئے۔ فسٹ ایڈ کے بعد تشخیصی مراحل میں طے کیا کہ ان کا بائی پاس ہو گا۔ ان کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ بائی پاس کے لیے بیرون ملک جائیں۔ وہ اس پر آمادہ نہ تھے۔ ڈاکٹروں نے اپنے مشورے پر اصرار کرتے ہوئے بیرونی ملک سہولیات کا حوالہ دیا۔ جناب مہاتر محمد نے جواب میں کہا کہ وہ بیرون ملک علاج کے لیے چلے جائیں اور ان کے ملک کے لوگ علاج کی اعلیٰ سہولتوں سے محروم رہیں، یہ نہیں ہو سکتا ۔ وہ ملک میں مہیا سہولیات کے مطابق ہی اپنا علاج کرائیں گے۔ چنانچہ ان کا بائی پاس ملائشیا ہی میں ہوا۔ صحت اور زندگی تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا دی۔ صحت یاب ہو کر انہو ں نے ملک میں صحت کے شعبے کو اتنا ترقی یافتہ بنا دیا کہ آج اس شعبہ سے ملائشیا کثیر زر مبادلہ کما رہا ہے اور دنیا بھر سے علاج کے لیے لوگ اس ملک کا رخ کرتے ہیں۔
جناب جاوید چوہدری نے اسے ایک مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ میں اس سلسلے میں بعض ملکی شخصیات کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ خود قائد اعظم علیہ الرحمہ نے علاج کے لیے باہر جانے سے انکار کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ خزانے پر بیرونی علاج کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے تو دوسری وجہ یہ تھی کہ باہر علاج کی صورت میں وہ نومولود مملکت میں اپنی ذمہ داریاں کسی دوسرے کے سپرد کر کے نہیں جانا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے ساتھی کم بیش کھوٹے سکے ہیں۔ وہ کسی صورت یہ نہیں کر سکتے تھے کہ باہر علاج کے مزے لوٹتے رہیں اور وطن اور اہل وطن حالات کی مخدوشی میں رہیں۔ مزید وجہ یہ تھی کہ ان کی بیماری کا راز افشا ہو جاتا۔ اب تو بیماری کا ہمہ وقتی اشتہار نہ ہو تو بیمار ہونے کا کیا فائدہ۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ مہینوں سے علاج کے لیے باہر جا کر براجمان ہو گئے ہیں۔ ذمہ داریاں جائیں بھاڑ میں۔ فوج ضرب عضب میں پھنسی ہوئی ہے۔ چیف ایگزیکٹو علاج کی ادا کاری سی فرما رہے ہیں۔ پیچھے ان کے نالائق اور بد دیانت ساتھی ملک کے ساتھ جو کھیل کھیل رہے ہیں، لتا حیا کا قطعہ یاد نہ آئے تو کیا ہو:
اگر ہو جنگ نفرت سے، محبت جیت جاتی ہے
دلوں میں حوصلہ کم ہو تو دہشت جیت جاتی ہے
ملن کی آرزؤں میں اگر ہو شمس سی گرمی
تو پھر فرعون بھی آئے، صداقت جیت جاتی ہے
سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس جناب اے کارنیلیس کا قصہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد فلیٹیز ہوٹل لاہور کے ایک کمرے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے۔ پورے ملک میں ان کا کوئی مکان نہیں تھا۔ اواخر عمر میں جب علالت نے گھیر لیا تو اں کے عظمت کردار کے پیش نظر وکلا برادری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کا سرکاری طور پر بہتر علاج کرایا جائے۔ اس طرح جب حکومت کو کچھ شرم آئی تو ایک وفد نے ہوٹل ہی میں ان سے ملاقات کی اور سرکاری اہتمام سے علاج کی پیش کش کی۔ جناب کارنیلیس کا جواب تھا کہ وہ اپنا علاج پنشن کے اندررہ کروا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کے وہ مکلف نہیں۔ وہ کسی طرح مملکت پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔
ہم نے اپنے مشاہیر کے ساتھ کیا کیا؟ جناب سید حسین شہید سہر وردی متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے۔ پاکستان بنا تو وہ مہاتما گاندھی کے ساتھ فساد زدہ علاقوں میں امن مشن میں مصروف ہو گئے۔ فارغ ہو کر واپس آنا چاہا تو خواجہ ناظم الدین نے صوبے میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ خواجہ صاحب اس وقت پاکستانی بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ خود اس مزاج کے نہ تھے۔ یقینی طور پر وزیر اعظم پاکستان جناب لیاقت علی خان کے کہنے پر پابندی کا یہ حکم جاری ہوا۔یہی نہیں، ایوب خان کے دور میں سہروردی کو جس طرح بیروت کے ہسپتال میں مروایا گیا، یہ راز بھی تاشقند کے رازوں کی طرح دفن ہو گیا۔ پھر کون نہیں جانتا کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی جان سے مارا گیا۔ ایف آئی آر تک درج نہیں۔ قائد اعظم کے سیکریٹری جناب شریف الدین پیرزادہ کے بیانات موجود ہیں۔ وہ ہمیشہ مقتدر لوگوں کے چرنوں میں رہے، مگر ان کو محترمہ کی رپورٹ ابتدائی درج کروانے میں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔
امریکہ کو فضائی اڈے نہ دینے سے انکار پر میر مصحف علی کو کس طرح حادثے کا شکار کیاگیا۔ اگر کسی میں تحقیق کی جرات ہو تو ہو سکتا ہے کہ ۲۰۰۵ کا زلزلہ بھی بین الاقوامی صنعت کاری ثابت ہو جائے۔ ہمارے وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف کی بھارت کے ساتھ دوستی غداری کی حدوں کو پہنچی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ اپوزیشن میں بیٹھے لوگ بھی مودی سے یاری نباہنے والے موجود ہیں۔ اعتزاز احسن نے سکھوں کی لسٹیں دے کر یہی کچھ تو کیا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے ملک کو دوٹکڑے کرنے کا کارنامہ ایک شہید ہی نے انجام دیا تھا۔ لال مسجد آپریشن کے بعد جس طرح نیا اسلحہ رکھ کر میڈیا کو دکھایا گیا، اس جعل سازی سے فوج کی ساکھ کتنی شاندار ہوئی کہنے کی بات نہیں۔ آج کم از کم پنجاب کی حد تک سی ٹی ڈی انسداد دہشت گردی کی فرض کاریاں کر رہی ہے، شاید کبھی اس کا حساب ہو۔
ہمارے ہاں کیا کچھ ہو رہا ہے؟ روز کے کالم بھرے ہوئے ہیں۔ کوئی قدر، یہاں تک کہ غیرت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ ہمارے ہاں ہسپتالوں کی صورت حال کا ذکر بھی وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔ جب ہسپتالوں میں مریضوں کی عصمت دری ہونے لگے تو اس ملک کے مسیحاؤں کو کوئی کیا کہے۔ حکمران اب وڈیو لنک کے ذریعے اپنے فرائض منصبی اس حال میں ادا کریں کہ بیس بیس وزارتیں اپنے پاس رکھیں۔وڈیو لنک کے ذریعے صوبے اور وفاق کو چلایا جائے۔ اس سے تو اچھا تھا کہ روبوٹ سے کام لے لیا جائے۔
ہسپتالوں کے ذکر کے ساتھ اپنا ایک واقعہ لکھ دینا چاہتے ہیں۔ایک رات میرے جواں سال بیٹے کی طبیعت خراب ہوئی۔ وہ بے ہوش گیا۔ میں خود سائیکل پر ڈسٹرکٹ ہسپتال گوجرانوالہ پہنچا اور میرے دو بیٹے اسے بے ہوشی کی حالت میں موٹر سائیکل پر لاد کر ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ایمرجنسی میں لے کر آئے۔ وہاں علاج شروع ہوا۔ سب سے پہلی چیز مشاہدے میں یہ بات آئی کہ بی پی ایپریٹس خراب ہے ۔ ایسی حالت میں کیا علاج ہونا تھا۔ کہنے کی ضرورت نہیں۔
اس سب کچھ کے باوجود میں مایوس نہیں۔ حالات بدل کر رہیں گے۔ یہ بھی واضح رہے کہ مکافاتِ عمل کار فرما ہے۔ اس ملک سے زیادتی کرنے والے اپنا حشر دیکھ چکے ہیں اور دیکھتے رہیں گے۔ شریفوں کے مقابلے پر ملک امیر محمد خان تو فرشتہ تھے۔ اس کے باوجود پورے ملک میں ان کی قبر موجود نہیں۔ ان کو قتل کر کے لاش کے ٹکڑے کیے گئے اور پھر دریائے سندھ میں بہا دیے گئے۔ دریائے سندھ کا پاٹ دس میل ہے، یہ کیسے ملتے۔ آج کے حکمران سمجھے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔
اس نوحہ گری کا کوئی فائدہ ہے یا نہیں، مگر میں اس پر مجبور ہوں۔ میری آرزوئیں جوان ہیں اور ان شا ء اللہ جوان رہیں گی اور پوری ہو گی۔ راشد بزمی کا یہ شعر کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
اقبال! تیرے تخیل کا یہ چمن بے رنگ و بو نہ ہوتا
توہین رسالت کی سزا اور مولانا مودودیؒ کا موقف
ڈاکٹر عبد الباری عتیقی
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ ۔ ۱۹۷۹) بیسویں صدی کے ایک جلیل القدر عالم اور مفکر تھے۔ ان کی فکر اور دینی تعبیر نے نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
اپنی کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ میں ذمیوں (یعنی غیر مسلموں )کے حقوق بیان کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کردینا، مسلمان کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنایا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنابھی اس کے حق میں ناقضِ ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا: ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکل کر دشمنوں سے جا ملے، دوسرے یہ کہ حکومت اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کرکے فتنہ و فساد برپا کرے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۲۸۹)
اس اقتباس سے واضح ہے کہ مولانا مودودیؒ کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے سے ذمی کا ذمہ نہیں ٹوٹتا اور نتیجتاً وہ سزائے قتل کا مستحق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی، مولانا مودودیؒ کے نزدیک، لازمی طور پر فساد فی الارض یا حکومتِ اسلامیہ کے خلاف بغاوت کے زمرے میں نہیں آتی۔ یہ بات مولانا مودودیؒ نے چونکہ فقہ حنفی کی کتب بدائع اور فتح القدیر کے حوالے سے بیان کی ہے، اس لیے مولانا مودودیؒ کی رائے قطعی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ شاتم رسول ذمی کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی۔
اس اقتباس کے حوالے سے ایک سائل کے سوال کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے نسبتاً تفصیل سے اپنا موقف واضح کیا ہے۔ ہم یہ سوال و جواب من و عن یہاں نقل کرتے ہیں:
’’سوال: راقم الحروف نے پچھلے دنوں آپ کی تصنیف ’ الجہاد فی الاسلام‘ کا مطالعہ کیا۔ اسلام کا قانون صلح و جنگ کے باب میں ص ۲۴۰ ضمن(۶) میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ : ’ ذمی خواہ کیسے ہی جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کردینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنایا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنابھی اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا، ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکلے اور دشمنوں سے جا ملے، دوسرے یہ کہ حکومتِ اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کر کے فتنہ و فساد برپا کرے۔‘ فدوی کو اس امر سے اختلاف ہے اور میں اسے قرآن وسنت کے مطابق نہیں سمجھتا۔میری تحقیق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا اور دوسرے امور جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، ان سے ذمی کا عقد ذمہ ٹوٹ جاتا ہے۔ آپ نے اپنی رائے کی تائید میں فتح القدیر جلد ۴ اور بدائع ص ۱۱۳ کا حوالہ دیا ہے، لیکن دوسری طرف علامہ ابن تیمیہ نے ’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول‘ کے نام سے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔ زادالمعاد، تاریخ الخلفاء عون المعبود، نیل الاوطارجیسی کتابوں میں علمائے سلف کے دلائل آپ کی رائے کے خلاف ہیں۔ یہاں ایک حدیث کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں۔ عن علی ان یھودیۃ کانت تشتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وتقع فیہ فختقھا رجل حتی ماتت فابطل النبی صلی اللہ علیہ وسلم دمہا۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی کرتی تھی اور آپ پر باتیں چھانٹتی رہتی تھی۔ ایک شخض نے اس کا گلا گھونٹا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا۔ (ابو داود، ملاحظہ ہومشکوۃ باب قتل اہل الردۃ والافساد ص ۳۰۸) ۔ ضمناً یہ بھی بیان کردوں کہ یہاں کہ ایک مقامی اہل حدیث عالم نے آپ کی اس رائے کے خلاف ایک مضمون بعنوان ’مولانا مودودی کی ایک غلطی ‘ شائع کیا ہے اور اس میں متعدد احادیث اور علماء کے فتاویٰ درج کیے ہیں۔
جواب: یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اس میں آپ یا دوسرے حضرات جو رائے بھی رکھتے ہوں ، رکھیں اور اپنے دلائل بیان کریں۔ دوسری طرف بھی علماء کا ایک بڑا گروہ ہے اور اس کے پاس بھی دلائل ہیں۔ اصل اختلاف اس بات میں نہیں ہے کہ جزیہ نہ دینا، یا سب نبی صلعم ، یا ہتک مسلمات قانونی جرم مستلزم سزا ہیں یا نہیں، بلکہ اس امر میں ہے کہ یہ جرائم آیا قانون کے خلاف جرائم ہیں یا دستور مملکت کے خلاف۔ ایک جرم وہ ہے جو رعیت کا کوئی فرد کرے تو صرف مجرم ہوتا ہے۔ دوسرا جرم یہ ہے جس کا ارتکاب وہ کرے تو سرے سے رعیت ہونے ہی سے خارج ہوجا تا ہے۔ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ ذمی کے یہ جرائم پہلی نوعیت کے ہیں۔ بعض دوسرے علماء کے نزدیک ان کی نوعیت دوسری قسم کے جرائم کی سی ہے۔ یہ ایک دستوری بحث ہے جس میں دونوں طرف کافی دلائل ہیں۔ اس میں کسی کے ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ جن صاحب نے مضمون لکھا ہے، انہوں نے انصاف نہیں کیا کہ اسے صرف میری غلطی قرار دیا۔ یہ اگر غلطی ہے تو سلف میں بہت سے اس کے مرتکب ہیں۔ میرا تو صرف یہ قصور ہے کہ کسی مسئلے میں مسلک حنفی کی تائید کرتا ہوں تو اہل حدیث خفا ہوجاتے ہیں اور کسی مسئلے میں اہل حدیث کی تائید کرتا ہوں تو حنفی پیچھے پڑ جاتے ہیں۔‘‘ (ترجمان القرآن ذی القعدہ ۱۳۷۴ھ۔جولائی ۱۹۵۵ء) ‘‘[رسائل و مسائل ۴/ ۱۳۲ ۔ ۱۳۳]
ْْْاس جواب میں مولانا مودودیؒ نے بالکل واضح کردیا ہے کہ غیر مسلم شاتم رسول (ذمی) کی سزا کے حوالے سے ان کی رائے وہی ہے جو متقدمین فقہائے احناف کی رائے ہے۔اور فقہائے احناف کی رائے معلوم و معروف ہے کہ ذمی کو شتم رسول کے جرم میں عمومی حالات میں موت کی سزا نہیں دی جائے گی، البتہ اگر کوئی فرد اعلانیہ یا سرکشی کے ساتھ اس جرم کو عادت بنا لے تو اسے تعزیراََ یا سیاسۃََ موت کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
فقہ اسلامی میں اس بات پر اجماع پایا جاتا ہے (اگرچہ آج کل تاثر اس سے مختلف دیا جاتا ہے) کہ توہین رسالت کی کوئی سزا قرآن و سنت میں متعین نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ فقہاء کی اجتہادی اور استنباطی رائے ہے۔ اس بات پر فقہائے کرام متفق ہیں کہ اگر کوئی مسلمان توہین رسالت کا مرتکب ہوگا تو وہ چونکہ مرتد ہوجائے گا، اس لیے اسے ارتداد کے جرم میں قتل کیا جائے گا۔ اگر کوئی غیر مسلم اس جرم کا ارتکاب کرے گا تو اسے تعزیر کے طور پر سزا دی جائے گی۔ مولانا مودودیؒ بھی اسی رائے کے حامل نظرآتے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اسلامی قانون نے قتل بالحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کردیا: ایک قتل عمد کے مجرم سے قصاص، دوسرے دین حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ، تیسرے اسلامی نظامِ حکومت کو الٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا، چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکابِ زنا کی سزا، پانچویں ارتداد کی سزا۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہوجاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہوجاتا ہے۔‘‘ ( تفہیم القرآن ۲/ ۶۱۴)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’یعنی انسانی جان، جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھیرائی گئی ہے، ہلاک نہ کی جائے مگر حق کے ساتھ۔ اب رہا یہ سوال کہ ’ حق کے ساتھ‘ کا کیا مفہوم ہے، تو اس کی تین صورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، اور دو صورتیں اس پر زائد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کی بیان کردہ صورتیں یہ ہیں: (۱) انسان کسی دوسرے انسان کے قتلِ عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہوگیا ہو۔ (۲) دین حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو۔ (۳) دارالاسلام کے حدود میں بدامنی پھیلائے یا اسلامی نظامِ حکومت کو الٹنے کی سعی کرے۔ باقی دو صورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں ، یہ ہیں : (۴) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔ (۵) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔ اِن پانچ صورتوں کے علاوہ کسی صورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے، خواہ وہ مومن ہو یا ذمی یا عام کافر۔‘‘ ( تفہیم القرآن ۱/۵۹۹۔۶۰۰)
یہاں جس قطعیت اور حصر کے ساتھ مولانا مودودیؒ نے ان جرائم کو بیان کیا ہے جن کی سزا قرآن و حدیث کے مطابق موت ہے، اس سے بالکل واضح ہے کہ وہ توہین رسالت کو ان جرائم میں شمار نہیں کرتے جن کی سزا قرآن و حدیث نے متعین کر دی ہے۔
مرتد کو سزائے موت دینے کے معاملے میں، احناف کی رائے کے عین مطابق ،مولانا مودودیؒ بھی اس کے قائل ہیں کہ اسے توبہ کا موقع دیاجائے گا اور اگر وہ توبہ کرلے تو اسے معاف کردیاجائے گا۔ بدیہی طور پر اس اصول کا اطلاق شاتم رسول پر بھی ہونا چاہیے۔ فرماتے ہیں:
’’اسلامی قانون صدور ارتداد کے بعد فوراََ ہی مرتد کو قتل کردینے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اس کو اپنی غلطی محسوس کرنے اور توبہ کا موقع بھی دیتا ہے اور اگر وہ توبہ کرلے تو اسے معاف کردیتا ہے۔‘‘ (رسائل و مسائل ۲ / ۵۲)
رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے وہ واقعات جن سے بالعموم توہین رسالت کی سزا کا قانون اخذ کیا جاتا ہے، ان میں ایک اہم واقعہ کعب بن اشرف کا قتل ہے۔ مولانا مودودیؒ اس واقعہ کی جو توجیہ کرتے ہیں، وہ ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں:
’’عہد رسالت کا ایک اور واقعہ جس پر سخت اعتراضات کیے جاتے ہیں، یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک دشمن کعب بن اشرف کو خفیہ طریقے سے قتل کرادیا۔ مخالفین کا اعتراض یہ ہے کہ یہ وہی جاہلیت کا ’فَتک‘ تھا اور بزدلی کے علاوہ آدابِ جنگ کے بھی خلاف تھا ۔ لیکن اس واقعہ کے بھی چند مخصوص اسباب تھے جن کو معترضین نے نظر انداز کردیا ہے۔ یہ شخص یہود بنی نضیر میں سے تھا اور اپنی قوم کے ساتھ اس معاہدہ میں شریک تھا جو ہجرت کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ان کے درمیان ہوا تھا۔ مگر اسے اسلام اور خاص کر داعی اسلامؐ سے سخت عداوت تھی۔ آپؐ کی شان میں ہجویہ اشعار کہتا، مسلمان عورتوں کے متعلق نہایت گندے عشقیہ قصائد کہتا اور کفارِ قریش کو آنحضرت ؐ کے خلاف اشتعال دلاتا تھا۔ جب جنگِ بدر میں آنحضرت کو فتح ہوئی تو اس کو سخت رنج ہوا اور شدتِ غضب میں پکار اٹھا کہ واللہ لئن کان محمد اصاب ھولاء القوم لبطن الارض خیرُُ لنا من ظھرھا۔(خدا کی قسم اگر محمدؐ نے قریش کو واقعی شکست دے دی ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لیے اس کی پیٹھ سے زیادہ بہتر ہے)۔ پھر وہ مدینہ سے مکہ پہنچا اور وہاں نہایت درد انگیز طریقہ سے قریش کے مقتولوں کے مرثیے کہہ کہہ کر ان کے عوام اور سرداروں کو انتقام کا جوش دلانے لگا۔ اس کی یہ سب حرکات اس معاہدہ کے خلاف تھیں جو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہوا تھا اور جس میں وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ شریک تھا۔ تاہم انھیں کسی نہ کسی طرح معاف کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ان سب سے گزر کر وہ اپنے جذبہ عناد میں یہاں تک پہنچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جان تک لینے کا تہیہ کرلیا۔ اس نے ایک سازش کی تیار ی کی جس کا مقصد آپؐ کو دھوکہ سے قتل کرنا تھا ۔۔۔ اُس کے جرائم کی فہرست کو اِس سازشِ قتل نے مکمل کردیا اور اس کے بعد اس کے کشتنی ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہی۔ ایک شخص اپنے قومی معاہدہ کو توڑتا ہے، مسلمانوں کے دشمنوں سے ساز باز کرتا ہے، مسلمانوں کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکاتا ہے، اور مسلمانوں کے امام کو قتل کرنے کی خفیہ سازشیں کرتا ہے۔ ایسے شخص کی سزا بجز قتل کے اور کیا ہوسکتی ہے؟‘‘ (الجہادفی الاسلام، ص ۳۱۱ ۔ ۳۱۲)
یہاں دیکھ لیجیے،مولانا مودودیؒ نے بالکل واضح طور پر لکھا ہے کہ کعب بن اشرف کاقتل توہین رسالت کے جرم میں نہیں کیا گیا، بلکہ یہ جرم تو ’کسی نہ کسی طرح‘ معاف بھی کیا جاسکتا تھا۔ اس کا اصل جرم جو قتل کی وجہ بنا، وہ اُس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے اس واقعہ کو ’چند مستثنیات ‘ کے عنوان سے بیان کیا ہے اور استثنا کی وضاحت میں لکھا ہے کہ:
’’اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ خفیہ طریقے سے دشمن کے سرداروں کو قتل کرادینا اسلام کے قانونِ جنگ کی کوئی مستقل دفعہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یقیناًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ابو جہل اور ابو سفیان جیسے دشمنوں کو قتل کراتے، اور صحابہ میں ایسے فدائیوں کی کمی نہ تھی جو اس قسم کے تمام دشمنوں کو ایک ایک کر کے قتل کرسکتے تھے۔ لیکن عہد رسالتؐ اور عہدِ صحابہ کی پوری تاریخ میں ہم کو کعب بن اشرف اور ابو رافع کے سوا کسی اور شخص کا نام نہیں ملتا جسے اس طرح خفیہ طریقہ سے قتل کیا گیا ہو، حالانکہ آپؐ کے دشمن صرف یہی دو شخص نہ تھے۔ پس یہ واقعہ خود اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ خفیہ طریقے سے دشمن کو قتل کرنا اسلام کی کوئی مستقل جنگی پالیسی نہیں ہے، بلکہ ایسے مخصوص حالات میں اس کی اجازت ہے جب کہ دشمن خود سامنے نہ آتا ہو اور پردے کے پیچھے بیٹھ کر خفیہ سازشیں کیا کرتا ہو۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۳۱۳ ۔۳۱۴)
اس واقعہ کو مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں بھی بیان کیا ہے۔ یہود کی معاندانہ روش اور شرارتوں کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’معاہدے کے خلاف یہ کھلی کھلی معاندانہ روش تو جنگ بدر سے پہلے ہی وہ اختیار کر چکے تھے۔ مگر جب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش پر فتحِ مبین حاصل ہوئی تو وہ تَلمَلا اٹھے اور اُن کے بغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ اس جنگ سے وہ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ قریش کی طاقت سے ٹکرا کر مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اسی لیے انہوں نے فتح اسلام کی خبر پہنچنے سے پہلے مدینے میں یہ افواہیں اڑانی شروع کر دی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے، اور مسلمانوں کو شکست فاش ہوئی، اور اب ابو جہل کی قیادت میں قریش کا لشکر مدینے کی طرف بڑھا چلا آرہا ہے۔ لیکن جب نتیجہ ان کی امیدوں اور تمناؤں کے خلاف نکلا تو وہ غم اور غصے کے مارے پھٹ پڑے۔بنی نَضِیر کا سردار کَعب بن اشرف چیخ اٹھا کہ’خدا کی قسم اگر محمدؐ نے اِن اشرافِ عرب کو قتل کر دیا ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لیے اُس کی پیٹھ سے زیادہ بہتر ہے‘۔ پھر وہ مکہ پہنچااور بدر میں جو سردارانِ قریش مارے گئے تھے، اُن کے نہایت اشتعال انگیز مرثیے کہہ کر مکہ والوں کو انتقام پر اکسایا۔ پھر مدینے واپس آکر اس نے اپنے دل کی جلن نکالنے کے لیے ایسی غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفاء کی بہو بیٹیوں کے ساتھ اظہارِ عشق کیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی شرارتوں سے تنگ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول ۳ھ میں محمد بن مَسلَمہ انصاری کو بھیج کر اسے قتل کرا دیا۔‘‘ ( تفہیم القرآن۵/ ۳۷۷)
یہاں بھی توہین رسالت کو اس کے اصل جرم کے طور پر بیان نہیں کیا ہے۔
اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کا نام لے کر ان کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ اس واقعہ کو بھی توہین رسالت کی سزا کے ماخذ کے طور پر بیان کر دیا جاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ اس کی توجیہ بھی مختلف انداز میں کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’یہ جو فرمایا کہ اگر وہ باز آجائیں تو ’ظالموں کے سوا کسی پر دست درازی روا نہیں‘، تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جب نظامِ باطل کی جگہ نظامِ حق قائم ہو جائے تو عام لوگوں کو تو معاف کر دیا جائے گا ، لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہل حق بالکل حق بجانب ہوں گے جنہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں نظامِ حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کردی ہو، اگرچہ اس معاملے میں بھی مومنینِ صالحین کو زیب یہی دیتا ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں اور فتحیاب ہو کر ظالموں سے انتقام نہ لیں، مگر جن کے جرائم کی فہرست بہت ہی زیادہ سیاہ ہو اُن کو سزا دینا بالکل جائز ہے اور اس اجازت سے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فائدہ اٹھایا ہے ، جن سے بڑھ کر عفو و درگزر کسی کے شایانِ شان نہ تھا۔ چنانچہ جنگِ بدر کے قیدیوں میں سے عُقبہ بن ابی مُعَیط اور نضَر بن حارث کا قتل اور فتحِ مکہ کے بعد آپ کا ۱۷ ؍آدمیوں کو عفو عام سے مستثنیٰ فرمانا اور پھر ان میں سے چار کو سزائے موت دینا اسی اجازت پر مبنی تھا۔‘‘ ( تفہیم القرآن۱/ ۱۵۲)
ان مجرموں کا اصل جرم بھی جس کی وجہ سے وہ قتل کی سزا کے مستحق قرار دیے گئے تھے،مولانا مودودیؒ کے نزدیک، نظامِ حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کردینا تھا، نہ کہ سادہ طور پر توہین رسالت کا ارتکاب کرنا۔
محترم اسماعیل قریشی ایڈوکیٹ صاحب نے اپنی کتاب ’ ناموسِ رسول اور قانونِ توہین رسالت‘ میں مولانا مودودیؒ کا ایک مضمون نقل کیا ہے۔ یہ مضمون مولانا مودودیؒ نے ۱۹۲۷ء میں تحریر کیا تھا اور ان کی اس زمانے کی تحریروں کے مجموعے’آفتابِ تازہ‘ میں شامل ہے۔ یہ مضمون مولانا مودودیؒ نے ’رنگیلا رسول‘ نامی کتاب کے عدالتی مقدمے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوا لکھا تھا۔ ہم اس مضمون کا متعلقہ حصہ یہاں نقل کرتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقدیس کے متعلق مسلمانوں کے جذبات کا صحیح اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آپؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لیے اسلام میں قتل کی سزا ہے اور آپ کو گالی دینے والے کا خون مباح قرار دیا گیا ہے۔ نسائی میں کئی طریقوں سے ابو برزہ الاسلمی کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک شخص پر ناراض ہو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا میں اس کی گردن ماروں؟ یہ سنتے ہی آپ کا غصہ دور ہوگیااور آپ نے جھڑک کر مجھے فرمایا: لیس ھذا لا حد بعد رسول اللہ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کا درجہ نہیں ہے کہ اس کی گستاخی کرنے والے کو قتل کی سزا دی جائے)۔
ایک دوسری حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے میں ایک اندھے مسلمان کی لونڈی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور اس مسلمان نے تکلے سے اس کا پیٹ پھاڑ دیا، دوسرے دن جب اس کے مارے جانے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچی ، تو آپ نے فرمایا کہ جس نے یہ کام کیا ہے، اس کو میں خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اٹھ کھڑا ہو۔ یہ سن کر وہ اندھا گرتا پڑتا آیا اور اس نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ فعل میں نے کیا ہے۔ وہ میری لونڈی تھی۔ مجھ پر مہربان تھی، مگر آپ کی شان میں بہت بد گوئی کرتی تھی۔ میں اسے منع کرتا، تو نہیں مانتی تھی۔ میں ڈانٹتا تو اس پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ کل رات پھر اس نے آپ کو برا کہا۔ اس پر میں اٹھا اور تکلا چبھو کر اس کا پیٹ پھاڑ دیا۔ یہ سن کر حضور نے فرمایا! الا اشھدوا ان دمھا ھدر، سب لوگ گواہ رہو کہ اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے۔‘
اس طرح بخاری شریف میں کتاب المغازی میں کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ موجود ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کر کے اور قریش کو آپ کے خلاف بھڑکا کر آپ کو ایذا دیتا تھا، اس لیے آپ نے محمد ابن مسلمہ کے ہاتھوں اسے قتل کرادیا۔ ابی داؤد میں کعب بن اشرف کے قتل کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ’ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور کفار قریش کو آپ کے خلاف جوش دلاتا تھا‘۔قسطلانی نے بخاری کی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ: ’ وہ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتا تھا، اس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ہجو کرتا اور قریش کو ان کے خلاف بھڑکاتا‘۔ ابن سعد نے بھی اس کے قتل کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ :’وہ ایک شاعر آدمی تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی ہجو کرتا اور ان کے خلاف لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتا تھا۔‘
کتب فقہیہ میں بھی اس کے متعلق صریح احکام موجود ہیں۔ چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ: ’ابو بکر بن المنذر کا قول ہے کہ اس امر پر عامہ اہل علم کا اجماع ہے کہ جو کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے، وہ قتل کیا جائے گا۔ اس قول کے قائلین میں سے مالک بن انس، لیث اور احمد اور اسحاق ہیں اور یہی مذہب ہے شافعی کا اور یہی مقتضا ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے قول کا۔ ان بزرگوں کے نزدیک اس کی توبہ مقبول نہیں ہے۔ ایسا ہی قول ہے ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور ثوری اور اہل کوفہ اور اوزاعی کا بھی‘۔ شیخ الاسلام احمد ابن تیمیہ اپنی کتاب الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول میں لکھتے ہیں کہ: ’اس طرح ہمارے اصحاب یعنی حنابلہ کی ایک دوسری جماعت نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والا قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی خواہ وہ کافر ہو یا مسلم‘۔ پس جزئیات میں فقہاء کے درمیان خواہ کتنا ہی اختلاف ہو، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظمت میں حنفی، مالکی، حنبلی، شافعی سب کا اتفاق ہے کہ آپ کو گالی دینے والا واجب القتل ہے۔ اس سے صحیح اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں داعی اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حرمت و عزت کے متعلق کیا احکام ہیں اور اس بارے میں مسلمانوں کا مذہب ان کو کیا تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (آفتابِ تازہ، ص ۱۸۴۔ ۱۸۶)
اس مضمون میں مولانا مودودیؒ نے جو رائے اختیار کی ہے، وہ قطعی طور پر اس موقف سے مختلف بلکہ متضاد ہے جو ہم اوپر بیان کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس تضاد کی یہی توجیہ ممکن ہے کہ یہ مانا جائے کہ اس مضمون میں مولانا مودودیؒ کی اختیار کردہ رائے ان کی ابتدائی رائے تھی جبکہ ان کا حتمی اور آخری موقف وہ ہے جو ان کی بعد کی تحریروں میں بیان ہوا ہے اور جسے ہم نے اپنی اس تحریر میں واضح کیا ہے۔اس مضمون کو ۲۴ سالہ نوجوان صحافی کی ایک جذبہ انگیز تحریر سمجھنا چاہیے۔ اصل اور حتمی موقف بہرحال وہی سمجھا جائے گا جو بعد کے دور میں اختیارکیا گیاہے۔
توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کے موقف کو سمجھنے کے لیے ایک اور نکتہ بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ توہین رسالت کی کوئی سزا قرآن و حدیث میں بیان نہیں ہوئی ہے۔ بعد کے دور میں لوگوں نے اس جرم کی سزا کے ماخذ کے طور پر قرآن کی بعض آیات سے استدلال کیا ہے۔ ان میں نمایاں ترین اور غالباََ اولین نام امام ابن تیمیہؒ کا ہے۔ (ان آیات کی تفصیل کے لیے دیکھئے امام ابن تیمیہؒ کی کتاب ’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول‘ اور جناب اسماعیل قریشی ایڈوکیٹ کی کتاب ’ناموس رسول اور قانونِ توہین رسالت‘)۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے اپنی معرکۃ الآرا تفسیر تفہیم القرآن میں (ہمارے استقصاکی حد تک) ان محولہ آیات بلکہ کسی بھی آیت کے ذیل میں اشارۃََ بھی توہین رسالت کی سزا کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اس سے بجا طور پر یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ مولانا مودودیؒ کے نزدیک بھی ، فقہاء کے اجماع کی طرح، قرآن میں توہین رسالت کی کوئی سزا بیان نہیں کی گئی ہے۔
توہین رسالت کی سزا نافذ کرنے کا اختیار کس کو حاصل ہے؟ ۱۹۲۷ء میں ’رنگیلا رسول‘ اور راجپال کے قضیے کے ہنگام مولانا مودودیؒ نے ایک مضمون لکھا۔ یاد رہے کہ اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت قائم تھی۔ اس مضمون میں فرماتے ہیں:
’’کوئی شخص جو تھوڑی بہت بھی عقل رکھتا ہو، اس بنیادی حقیقت سے غافل نہیں رہ سکتا کہ اگر افراد قانون و آئین کی قوت سے بے نیاز ہو کر انصاف اور تعزیر کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیں اور ہر شخص اپنی جگہ خود جج اور کوتوال بن کر دوسرے لوگوں کو سزا دینے لگے تو ایک لمحہ کے لیے بھی جماعت کا نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ افراد میں ، خواہ کسی قسم کی عداوت ہو، ذاتی رنج و کاوش پر مبنی ہو، یا مذہبی و سیاسی شکایات پر، ہر حالت میں ان کا فرض ہے کہ ضبط نفس سے کام لیں، ملک میں جو حکومت قیام امن و عدل کی ذمہ دار ہو، اس کے ذریعے سے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اگر وہ انصاف نہ کرے، تو اپنی طاقت کو غیر آئینی افعال میں صرف کرنے کے بجائے اس حکومت کو ادائے فرض پر مجبور کرنے میں استعمال کریں۔ جو لوگ اس صحیح طریقے کو جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور قانون کی طاقت کو خود اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے فعل کا اصلی محرک خواہ ایک شریف جذبہ ہو یا رذیل اور ان کی شکایت خواہ حق بجانب ہو یا غیر حق بجانب، دونوں صورتوں میں وہ کم از کم اس حقیقت سے سوسائٹی کی نظر میں یکساں مجرم ہیں کہ وہ جماعت کے آئین و نظام کا احترام نہیں کرتے اور ملک میں طوائف الملوکی و فوضویت کا فتنہ پھیلاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ جب عدالت عالیہ لاہور نے موجود الوقت قانون کی رو سے توہین رسول کو ناقابل سزا جرم قرار دے کر بد گوئی کے فتنے کا دروازہ کھول دیا تو علمائے اسلام نے یہ مسئلہ بیان کیا تھا کہ اسلام کے قانون میں توہین رسول کی سزا قتل ہے، لیکن اس کا مقصد گورنمنٹ پر اس جرم کی اہمیت اور حرمت رسول کے بارے میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی نزاکت ظاہر کرنا تھا تاکہ وہ قانون کی اس کمی کو جلد سے جلد پورا کرے اور اس فتنے کا دروازہ بند کردے۔ اس مسئلے کے اظہار سے یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ مسلمان موجودہ انگریزی حکومت میں اسلام کے قانون تعزیرات کو نافذ کریں۔ ہم پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں اور اب دوبارہ اس کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلامی شریعت میں حدود و تعزیرات کے متعلق جتنے احکام ہیں ، ان سب کی تنفیذ امام کے ساتھ وابستہ ہے۔ جب مسلمانوں کا کوئی با اختیار امیر یا امام موجود نہ ہو اور وہ کسی غیر اسلامی حکومت کے مطیع ہوں تو نہ اسلامی حدود قائم ہو سکتی ہیں اور نہ تعزیری احکام نافذ ہو سکتے ہیں ۔ پھر خود اسلامی حکومت میں بھی ہر فرد کو یہ اختیار نہیں ہے کہ خود کسی شخص کو کسی جرم کی سزا دے دے ۔ جرم کی تحقیق کر کے سزا کا حکم دینا قاضی شرع کا کام ہے اور اسے نافذ کرنا اسلامی سلطنت کے با اختیار حاکم سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان خود قانون کو ہاتھ میں لے کر کسی مجرم کو سزا دے گا تو فوری اشتعال ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس کو خلاف ورزی آئین کی یقیناًسزا دی جائے گی‘‘۔ (آفتاب تازہ، ص ۳۴۴۔۳۴۷)
یہ تحریر اپنے مفہوم و مدعا میں بالکل واضح ہے کہ ،مولانا مودودیؒ کے نزدیک، کسی منظم ریاست و حکومت میں، خواہ وہ غیر مسلموں کی ہو یا مسلمانوں کی، کسی فرد کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کرتوہین رسالت سمیت کسی بھی جرم کی سزا خود نافذ کردے۔۔ یہ مضمون اگرچہ مولانا مودودی ؒ کے ابتدائی زمانے کا ہے، لیکن چونکہ اس رائے میں تبدیلی کے کوئی شواہد ہمیں بعد کی تحریروں میں نہیں ملے، اس لیے اس معاملے میں اسی کو مولانا مودودی ؒ کی آخری اور حتمی رائے سمجھنا چاہیے۔
اوپر بیان کی گئی تصریحات اور اشارات کی روشنی میں ہم توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کے موقف کا خلاصہ اس طرح کرسکتے ہیں:
- توہین رسالت کی کوئی سزا قرآن میں بیان نہیں کی گئی ہے ۔
- کعب بن اشرف، ابو رافع، بدر کے قیدیوں اور فتح مکہ کے موقع پر جن کفار کو قتل کیا گیا، وہ توہین رسالت کی سزا کے طور پر نہیں بلکہ معاہدہ شکنی، دشمنوں سے ساز باز، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنہ انگیزی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش جیسے جرائم کی سزا تھی۔
- اگر کوئی مسلمان توہین رسالت کا مرتکب ہو تو چونکہ وہ مرتد ہو جائے گا، اس لیے اسے ارتداد کے جرم میں قتل کی سزا دی جائے گی، لیکن اس سے پہلے اسے توبہ کا موقع دیا جائے گا اور اگر وہ توبہ کر لے تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔
- شاتمِ رسول ذمی (یعنی غیر مسلم) کا ذمہ برقرار رہے گا اور عمومی حالات میں اسے موت کی سزا نہیں دی جائے گی۔
- تمام جرائم کی طرح توہین رسالت کی سزادینے کا اختیار بھی صرف اور صرف ریاست کو حاصل ہے۔
یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ہم نے مولانا مودودیؒ کا موقف غیر جانبداری سے سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی تائید یا تردیدیہاں ہمارا مقصود نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ ہم اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ کسی عام انسان کی طرف بھی کوئی غلط بات منسوب کریں، کجا کہ ایک جلیل القدر عالم و مفکر کے ساتھ ایسا کیا جائے۔ ہم نے جو کوشش بھی کی ہے وہ اپنے محدود علم اور ناقص فہم کے ساتھ کی ہے۔اس بات کا پورا امکان ہے کہ ہم مولانا مودودیؒ کے موقف کو درست طریقے پرنہ سمجھ سکے ہوں۔اگر کوئی صاحبِ علم مولانا مودودیؒ کی ان تحریروں کا جو ہم نے نقل کی ہیں، کچھ مختلف مفہوم واضح کر دیں گے یا اس موضوع سے متعلق مولانا مودودیؒ کی کچھ اور تحریروں سے، جن تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی ہے، ان کا کوئی مختلف موقف بیان کردیں گے تو ہم ان کے شکر گزار ہوں گے۔
ہم اپنی اس تحریر کو مولانا مودودیؒ ہی کے ایک اقتباس پر ختم کرتے ہیں۔ اس میں بھی غور و فکر کا کافی سامان موجود ہے۔
’’جب دشمنوں کی طرف سے اللہ کے رسول پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ ہو رہی ہواور دین حق کو زک پہنچانے کے لیے ذاتِ رسول کو ہدف بنا کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہو، ایسی حالت میں اہل ایمان کا کام نہ تو یہ ہے کہ ان بے ہودگیوں کو اطمینان کے ساتھ سنتے رہیں، اور نہ یہ کہ خود بھی دشمنوں کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں، اور نہ یہ کہ جواب میں ان سے گالم گلوچ کرنے لگیں ، بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ عام دنوں سے بڑھ کر اس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کو اور زیادہ یاد کریں‘‘۔ (تفہیم القرآن ۴/۱۰۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں بات کو صحیح طریقے سے سمجھنے، اسی طرح قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
سود، کرایہ و افراطِ زر : اصل سوال اور جواب کی تلاش
محمد انور عباسی
الشریعہ کے جنوری کے شمارے میں محترم مغل صاحب کا مضمون نظر سے گزرا۔ اپنے موضوع پر ایک جاندار اور عام ڈگر سے ہٹا ہوا اور سوچ کو ابھارنے والا مضمون دیکھنے کو ملا۔ یہ جریدہ اس لحاظ سے ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ اس میں ہر ماہ ہی اہل علم کی فکر انگیز تحریریں ملتی ہیں جو ذہن کو جلا بخشتی ہیں۔ ہر وہ تحریر ، حتیٰ کہ ایک جملہ بھی،قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے کے قابل ہے جو کسی بھی لحاظ سے مکالمے پر انگیز کرے۔ کبھی کبھی یہ خواہش شدید تمنا کا روپ دھار لیتی ہے کہ ملک عزیز کے دیگر رسائل و جرائدبھی یہی رویہ اپنائیں اور اپنے ہاں اس طرح کے مکالمے پر ابھارنے والی تحیریروں کو جگہ دیں تو یقین ہے فکری جمود کی فضا، جس کا عرصے سے رونا رویا جا رہا ہے ،مستقبل قریب میں ختم کی جا سکتی ہے۔
افراطِ زر اور سود کے سلسلے میں محترم مغل صاحب نے حامیانِ سود کی ایک دلیل کا ذکر کیا ہے کہ وہ سود کا جواز اس امر واقعہ میں تلاش کرتے ہیں کہ افراطِ زر کی وجہ سے اس کی قدر میں کمی واقع ہو جاتی ہے، لہٰذا اس کی تلافی سود سے کی جاتی ہے۔ ہمیں مغل صاحب سے مکمل اتفاق ہے کہ یہ دلیل انتہائی کمزور دلیل ہے۔ واقعہ یہ کہ ہمارے علم کی حد تک بعض حضرات کی طرف سے اسے محض الزامی جواب کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے چنانچہ یہ خیال کرنا شاید اتنا درست نہیں کہ مخالف نقطہ نظر کا انحصار اس یا اسی طرح کی کسی دلیل پر ہے۔ لہٰذا اس کو اس طور پر پیش کرنا کہ یہ کوئی بہت بڑی دلیل ہے، مسئلے کو سنجیدہ نہ لینے کے مترادف ہو گا۔ اس دلیل کی حیثیت بالکل وہی ہے جس کا ایک جگہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے ذکر کیا ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی کتاب سود میں بیہقی اور مسند حارث بن اسامہ کی احادیث ’کل قرض جر منفعۃ فھو وجہ من وجوہ الربوا‘ اور ’کل قرض جر بہ نفعا فھو ربوٰا‘ کو بنیاد بنا کر بینک کے سود کو بھی ربا قرار دے کر حرام کہا تو کئی لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ احادیث قابل احتجاج نہیں۔ اس پر مولانا محترم نے ان لوگوں کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ’’بعض لوگ اس حدیث کی صحت پر اس دلیل سے کام کرتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے ۔ لیکن جو اصول اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے، اسے تمام فقہائے امت نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے۔ یہ قبولِ عام حدیث کے مضمون کو قوی کر دیتا ہے، خواہ روایت کے اعتبار سے اس کی سند ضعیف ہو۔‘‘(سود، ص ۲۶۶،۲۶۷)
یہی استدلال جب ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے ارشاد فرمایا: ’’بعض لوگ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ اپنے مد مقابل کی طرف ایسا ضعیف قول منسوب کر دیتے ہیں جو اس نے نہیں کہا ہوتا، تاکہ اس قول کا ردو ابطال ان کے لیے آسان ہو۔حقیقت یہ ہے کہ فقہا نے اس حدیث کو اپنے لیے سند نہیں بنایا۔ اگر بعض کتب میں یہ مذکور ہے تو یہ ایسی کتب ہیں جو منقولہ اقوال کی صحت کا خیال نہیں رکھتیں۔ فقہا تو اس قرض پر ایسے نفع کو جائز قرار دیتے ہیں جن کا قرض دیتے وقت ذکر نہیں کیا گیابلکہ مقروض نے ادائیگی قرض کے وقت حسن اخلاق کی خاطر کچھ زائد پیسے ادا کر دیے اور فرمایا ’’خیر کم احسنکم اداء‘‘ کہ تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو اچھے طریقے سے قرض ادا کرتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’کل قرض جر نفعا فھو ربا‘‘ صحیح نہیں۔ اور صحیح یہ ہے کہ وہ قرض جس کو پیشگی نفع کے ساتھ مشروط کیا جائے، وہ سود(ربا) ہے۔‘‘ (ربا اور بینک کا سود، ص ۳۳)
یہاں اس سے بحث نہیں کہ آیا ربا کی یہ تعریف درست ہے جو بقول مولانا مودودی حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ ہر قرض پر اضافہ ربا ہے یا ڈاکٹر قرضاوی کا قول درست ہے کہ بغیر شرط کے قرض پر اضافہ بالکل جائز ہے جسے مولانا مودودی حرام قرار دیتے ہیں۔ اس مختصر سے مضمون میں ہم ان دونوں حضرات کی تعریفوں کا محاکمہ کرنے بھی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یہاں ہم ڈاکٹر صاحب محترم کی اس دلیل کو سامنے لا رہے ہیں کہ مد مقابل کی کمزور دلیل کا سہارا لے کر اگر ہم کسی بھی چیز کا تجزیہ کریں گے تو شاید حقیقت تک پہنچنے میں کامیابی نہ ہو۔ اسی لیے ہمارا خیال ہے کہ ’ ربا ‘ پر بات کرتے ہوئے ہمیں افراطِ زر اور سود کے تعلق کو پس پشت ڈالنا ہو گا۔ ورنہ منجمد اثاثے اور سیال اثاثے کو بنیاد بنا کر کلہاڑیوں کی مثالوں سے کھربوں تک کے حسابات پیش کر کے ربا کی درست تعریف ہو سکتی ہے نہ سود کی۔ کرنسی کی درست توجیہ کے لیے ہمیں اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا۔ اور اگر ہم کسی طرح paradigm shift کرنے کے قابل ہو جائیں تو عین ممکن ہے، تصویر کا دوسرا رخ جو پہلے دھندلایا سا تھا ، صاف نظر آنا شروع ہو جائے۔ چونکہ ، جیسا کہ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا، افراطِ زر کی دلیل واقعی کمزور ہے، اس لیے ہم اس پوری بحث سے صرفِ نظر کر کے اصل سوال کی تلاش میں اہلِ علم کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جس پر غوروفکر کر کے ہم نہ صرف ربا کی درست تعریف تک پہنچ سکتے ہیں بلکہ سود اور افراطِ زر جیسی کمزور دلیلوں سے جان چھڑا سکتے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ یہ ساری بحث اس لیے جاری ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اس قبیح گناہ سے بچ سکیں جس کو قرآن مجید میں سنگین ترین قرار دیا ہے۔ اسی کی نشاندہی کی کوشش کرتے ہوئے ہم ان پگڈنڈیوں کی طرف نکل آئے جن کی ہلکی سی مشابہت بھی ہمیں نظر آئی اور ان پر سفر کرتے ہوئے ان بے شمار سوالات و جوابات کی کانٹے دار جھاڑیوں میں الجھ گئے جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ ہم اصل شاہراہ کی طرف متوجہ ہو کر اصل سوال کی طرف آتے ہیں۔
اصل سوال تو صرف ایک ہے کہ ’ ربا‘ کیا ہے جس کی اتنی شدت سے قرآن میں ممانعت آئی ہے۔ نہ صرف قرآن بلکہ تمام الہامی مذاہب اور فلاسفہ میں اس کو قابلِ نفرت اور سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے لیے تنقیح طلب اموریہ ہو سکتے ہیں:
۱۔ ’ربا‘ صرف کرنسی میں پیدا ہوتا ہے یا دیگر اشیا میں بھی؟
۲۔ کرنسی کی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ بھی کوئی شے یعنی commodity ہے ؟ کیا جو شے ذریعہ مبادلہ Medium of exchange ہو، وہ ’’بذاتِ خود‘‘ نفع آور نہیں ہوتی؟
۳۔ کیا کرنسی ’مال‘ کی تعریف میں آتی ہے؟ اگر نہیں تو کیا’ ربا‘ صرف کرنسی میں پیدا ہوتا ہے اور مال میں نہیں؟اگر کرنسی بھی مال ہی ہے تو منجمد سرمایے اور سیال سرمایے کے کرایے کو ’ربا‘ قرار دینے میں فرق کیسا؟
۱۔ دورِ حاضر کے بعض اہلِ علم کے ہاں یہ رجحان بالعموم پایا جاتا ہے کہ ’ربا‘ کرنسی ہی میں پایا جاتا ہے ۔ ان کے ہاں چونکہ محض قرض دے کے اس پر اضافے کو ’ربا‘ کہا جاتا ہے، اس لیے عموماً دلیل اسی قسم کی دی جاتی ہے کہ یہ کوئی اثاثہ تھوڑا ہی ہے کہ اس کا ’کرایہ‘ حاصل کیا جاسکے۔ اس کی اپنی ذاتی افادیت نہیں ہے، یہ تو محض ایک سہولت ہے جسے انسان نے اشیا کے تبادلے کے لیے ایجاد کیا ہے۔ یہ اہل علم ایک طرف تو کرنسی کو قرض قرار دے کر اضافہ کو ’ربا‘ قرار دیتے ہیں، لیکن دورانِ بحث اشیا کے تبادلے پر بھی ’ربا‘ کے پیدا ہونے کو تسلیم کرتے ہیں اور اس طرح خلط مبحث کا شکار ہو کر اصل مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔اصل سوال کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ہماری کوشش ہو گی کہ اہل علم ایک ہی موقف پر یکسو ہوسکیں۔
۲۔ یہ اہل علم کرنسی کو سیال سرمایہ (Liquid capital) قرار دے کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ’ ’بذات خود کرنسی کا کرایہ کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ کرنسی ’’بذات خود‘‘ نفع آور نہیں، اس کی نفع آوری ان اشیاء پر منحصر ہے جو اس سے خریدی جاتی ہیں‘‘ ۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز محض ذریعہ مبادلہ (Medium of exchange) ہو، وہ ’’بذات خود‘‘ نفع آور کس طرح ہو سکتی ہے۔ ان کے ہاں غالباً افادیت اسی کا نام ہے کہ کوئی چیز کھا پی کر ہضم کر لی جائے۔ ہمارے سامنے یہ محض دعویٰ ہی ہے جس کی کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی۔معلوم نہیں قرآن یا حدیث کے کس جملے سے یہ مفہوم اخذ کیا گیا ہے کہ جو شے ذریعہ مبادلہ ہو، وہ ’’بذات خود‘‘ نفع آور نہیں ہو سکتی۔ ہمارا خیال ہے کہ کرنسی بھی نفع آور شے ہے۔ پھول کو سونگھ کر، شیرینی کو چکھ کر، کتاب کو پڑھ کر اور کھانے کی چیز کو کھا کر افادہ حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح کرنسی کی افادیت یہی ہے کہ یہ ہمیں سہولت فراہم کرتی ہے کہ اس سے ہم روزمرہ کی چیزیں خرید کر استعمال میں لے آئیں۔ ذرا سوچیے تو سہی کہ یہ ذریعہ مبادلہ نہ ہو تو آج کے دور ہم کس مشکل میں پڑ جائیں۔ کیا اس کی یہ نفع آوری اور افادیت ہمیں نظر نہیں آتی؟
چونکہ یہ حضرات کرنسی کو (بجا طور پر) ذریعہ مبادلہ سمجھتے ہیں، اس لیے اسے کوئی شے (Commodity) نہیں سمجھتے اوراس کی ذاتی قدر (سونے،چاندی، گندم،جو وغیرہ کی طرح) کی نفی کرتے ہیں۔ یہ رائے پہلے پہل فقہائے متاخرین کے ہاں ملتی ہے جو زر،کرنسی اور فلوس میں اس بنا پر فرق کرتے ہیں کہ آج کل زر قانونی ذاتی قدر نہیں رکھتے، اس لیے یہ کوئی شے (Commodity) ہی نہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ چونکہ موجودہ زر یا کرنسی نوٹ شرعی اعتبار سے فلوس کے حکم میں ہیں، اس لیے نہ تو ان پر نقدین(سونے،چاندی)کی طرح زکوٰۃ واجب ہوگی اور نہ ان پر ربا کے احکام جاری ہوں گے۔ مثلاً متاخرین شافعیہ میں سے شیخ سلیمان اسعردیؒ ا رشاد ہے کہ: ’’شافعیہ کے نزدیک کرنسی نوٹ تمام احکام میں فلوس کی طرح ہیں، لہٰذا ان کی آپس میں خریدو فروخت، کمی بیشی اور ادھار سب جائز ہیں کیونکہ یہ سودی اموال میں سے نہیں ہیں‘‘ (ڈاکٹر محمد توفیق رمضان البوطی: خریدو فروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت؛ ص ۴۳۶)۔ ہمارے اپنے خطے کے حضرت احمد رضا خان صاحب بریلویؒ کی رائے یہ ہے کہ ’’نوٹوں میں سرے سے قدر پائی ہی نہیں جاتی۔ چونکہ نوٹ اموالِ ربویہ میں سے نہیں، اس لیے ان میں کمی بیشی اور ادھار دونوں جائز ہیں۔‘‘ (ایضاً ،ص ۴۳۵)
ہمارا نہیں خیال کہ محترم مغل صاحب، مکمل طور پر اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحبؒ سے (ان سے ذہنی وفکری ہم آہنگی ہونے کے باوجود) متفق ہوں گے۔ وہ تو کرنسی نوٹس پر احکامِ ربویہ جاری کرتے ہیں، جب کہ خان صاحب علیہ الرحمہ کرنسی نوٹس کو اموالِ ربویہ ہی نہیں سمجھتے ۔ جہاں تک کرنسی یا زر کو شے (Commodity) نہ سمجھنے کا تعلق ہے، یہ کسی کا ذہنی مسئلہ ہو سکتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق یا واسطہ نہیں۔ کسی کے نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ حقیقی اور زمینی حقائق کیا ہیں۔ ڈاکٹر رمضان البوطی اپنا نتیجہ فکر ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ’’آج کرنسی نوٹوں کی وہی حیثیت ہے جو سونے اور چاندی کے رواج کے دور میں دراہم و دنانیر کی ہوا کرتی تھی اور (اجمالی طور پر) ان پر وہی احکام جاری ہوتے ہیں جو دراہم و دنانیر پر جاری ہوتے تھے۔ متداول کرنسی نوٹ محض کاغذ کا ایک پرزہ نہیں رہا،بلکہ یہ اس قیمت کی نمائندگی کرتا ہے جس کے ذریعہ لوگ معاملات کرتے اور اسے ثمن اور اُجرت کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں، بلکہ اس سے کاغذ یت کا وصف ایسے ختم ہو چکا ہے کہ یہ وصف اس قیمت اور ویلیو کے مقابلے میں جس کی یہ کرنسی نوٹ نمائندگی کرتا ہے، تقریباً فراموش ہونے کو ہے۔‘‘ (ایضاً، ص ۴۴۶)
علمائے کرام کی قدیم رائے میں تو واقعی یہی سمجھا جاتا تھا کہ کرنسی نوٹ میں ذاتی قدر و قیمت نہیں رکھتے، اس لیے اس میں ثمنیت نہیں پائی جاتی۔ لیکن اب تو فیصلہ ہو چکا کہ زر میں مکمل ثمنیت پائی جاتی ہے، جب ہی تو اس سے ’منجمد‘ اثاثے خریدے جا سکتے ہیں۔ ورنہ جس کی کوئی اپنی قدر یا حیثیت ہی نہ ہو، اس سے کوئی خاک خرید سکتا ہے۔ اب یہ تو کموڈٹی کی جگہ لے چکا۔ اب اصل حیثیت تو زر ہی کو حاصل ہے نہ کہ کسی اور’ کموڈٹی‘ کو۔ مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایک فرد کے پاس زر ہے تو وہ سونا بھی خرید سکتا ہے، گاڑی اور گندم بھی۔ لیکن ایک فرد کے پس گندم کا ڈھیر پڑا ہو تو وہ اس سے کار، کپڑے اور سونا تب ہی خرید سکتا ہے جب وہ پہلے گندم کو فروخت کر کے زر حاصل کرے گا۔ زر کموڈٹی بن چکا۔ اب یہ بحث محض ذہنی وعلمی عیاشی کے زمرے میں ہی آئے گی۔ چنانچہ دیکھیے، ہمیں زر کی تعریف ان الفاظ میں ملتی ہے:
"Money as legal tender, is a commodity or asset, or an officially-issued currency or coin that can be legally exchanged for something of equal value, such as a good or service or that can be used in payment of a debt."
جی ہاں، زر ایک کموڈٹی یا اثاثہ ہے۔ اس حقیقت سے آنکھیں چرانا اب مشکل ہے، اسی لیے ہمیں ہر ادارے کی بیلنس شیٹ میں کیش تو اثاثہ ہی نظر آتا ہے۔ اب تو اسلامی مالیات پر لکھنے والے بھی اس کی صراحت کرنے لگے ہیں۔ محمد ایوب ، اپنی کتاب ’اسلامی مالیات‘ میں لکھتے ہیں: ’’اثاثوں میں صرفی اشیاء، پائیدار اشیاء، زری اکائیاں یا تبادلے کے ذرائع (Medium of Exchange) جیسے سونا، چاندی، اور دیگر کرنسیاں، اثاثوں کی نمائندگی کرنے والے حصص وغیرہ شامل ہیں۔‘‘ ( ص، ۷۰)۔ اب زری اکائیاں اور تمام کرنسیاں اثاثے میں شمار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر البوطی اپنی اسی کتاب میں رقمطراز ہیں: ’’فقہ اکیڈمی جدہ نے ۸۔۱۳ صفر ۱۴۰۷ھ بمطابق ۱۶ اکتوبر ۱۹۸۶ ء کو اردن میں منعقد ہونے والے اپنے تیسرے اجلاس کی قرارداد نمبر ۹ میں صراحتاً لکھا ہے کہ ’کرنسی نوٹ زر اعتباری ہیں، جن میں مکمل ثمنیت پائی جاتی ہے۔ سود، زکوٰۃ، سلم اور دیگر احکام کے اعتبار سے ان کا وہی حکم ہے جو سونے چاندی کا ہے....چونکہ عصرِ حاضر میں کرنسی نوٹوں نے لین دین اور تبادلہ کے وسیلہ کی حیثیت سے ثمن خلقی یعنی سونے چاندی کی جگہ لے لی ہے، اس لیے حکم کے اعتبار سے ان کے ساتھ ثمنِ حقیقی والا کیا جائے گا۔‘ ‘‘ ( ایضاً ص، ۴۴۷) مختصر یہ کہ دورِ حاضر میں یہ بحث تو اب بالکل غیر متعلق (irrelevant) ہو چکی ہے۔
۳۔کیا کرنسی ’مال‘ کی تعریف میں آتی ہے؟ اگر نہیں تو کیا’ ربا‘ صرف کرنسی میں پیدا ہوتا ہے اور مال میں نہیں؟اگر کرنسی بھی مال ہی ہے تو منجمد سرمایے اور سیال سرمایے کے کرایے کو ’ربا‘ قرار دینے میں فرق کیسا؟ درج بالا بحث سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ کرنسی بھی مال کی ایک قسم ہے۔ اگر بعض اہل علم کے اس قول کو تسلیم کیا جائے کہ زر یا کرنسی کوئی اثاثہ نہیں، اس کا ’بذات خود‘ کوئی افادہ ہے نہ یہ نفع آور شے ہے، تو پھر اس پر احکامِ ربویہ اور زکوٰۃ یقیناًلاگو نہیں ہوتے اور نہیں ہونے چاہییں۔ ایک بیکار محض شے پر واقعی کوئی ’کرایہ‘ کیوں دے ، بلکہ اس کو اپنے پاس ہی کیوں رکھے؟لیکن ذرا رکیے! ہمارے یہ اہل علم اسی ’بیکار‘ شے پر ہی تو احکامِ ربویہ جاری کرتے ہیں۔ اس لیے یہاں اگر پہلے ان سوالات کے دوٹوک انداز میں جوابات میسر آ جائیں تو مسئلہ زیرِ بحث کو سلجھانے میں نسبتاً آسانی حاصل ہو جائے گی۔
اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ ’ ربا‘ ہے کیا جس کی اتنی شدت سے قرآن میں ممانعت آئی ہے۔ نہ صرف قرآن بلکہ تمام الہامی مذاہب اور فلاسفہ میں اس کو قابلِ نفرت اور سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ سوال حل ہو جائے تو سود اور کرایے کی بحث سے جان چھوٹ سکتی ہے، جو یقیناًایک غیر اہم بحث ہے۔
بیسویں صدی کے وسط میں ،جب استعمار کے قبضے سے مسلمان ابھی پوری طرح آزاد نہیں ہوئے تھے، دنیائے اسلام میں آزادی کی تحریکیں سامنے آنا شروع ہو چکی تھیں۔ ان ہی تحریکوں میں وہ تحریکیں بھی شامل تھیں جو قومیت کی بنا پر نہیں،بلکہ اسلام کو بنیاد بناکر استعمار کے نقش پا ختم کر کے اپنے اپنے ممالک میں انقلاب کی نیو ڈال رہی تھیں۔ یہ تو صاف ظاہر تھا کہ استعمار تجارت کے ذریعے سرمایے کے بل بوتے پر مسلم ممالک پر قابض ہوا تھا۔ یہ بھی واضح تھا کہ سرمایے کی منتقلی و کشش میں نظامِ بینکاری کا بہت بڑا دخل تھااور اس کا وجود و بقاکا انحصار سود پر تھا اور ہے۔ ان حالات میں ان تحریکوں نے یہ ضروری سمجھا کہ اگراستعمار پر ضرب لگانی ہے تو اس کی بنیاد پر تیشہ رکھنا پڑے گا۔ اس کی قوت و شان کو اگر ختم کرنا ہے تو اس کے بغیر ممکن نہیں کہ سرمایہ ساز کارخانوں (بینکوں)کی موجودہ حیثیت کو ختم کیا جائے۔ یہ تھے وہ حالات جن میں وہ دلائل تلاش کیے گئے جن کے بل بوتے پر بینک کے سود کو ’ربا‘ قرار دے کر حرام قرار دیا گیا۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ اس دور میں عقلی و نقلی اور بڑے سائنٹفک انداز میں سود کے خلاف دلائل سامنے آئے۔ آج کے دور کے اہل علم کی یہ ایک بڑی علمی خدمت ہو گی کہ درست تناظر میں ربا اور سود کے بارے میں اصل سوال کو سامنے لائیں۔
ہمارے نزدیک اصل سوال تب ہی سامنے آسکتا ہے جب ہم ربا اور سود کے متعلق علمائے کرام کے تمام دلائل کا جائزہ لیں گے۔
علمائے کرام نے سود کو ’ ربا‘ قرار دینے کے لیے اس کے خلاف جو دلائل فراہم کیے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
(۱) ربا کی تعریف اور لغوی بحث (۲) معاشی، معاشرتی اور اخلاقی مفاسد۔
(۱) ربا کی تعریفیں
ہم نے دنیائے اسلام کی چار نمائندہ تعریفوں کا چنا ہے۔ تمام علمائے کرام کم و بیش ان پر متفق ہیں:
(الف۔۱) سید ابوالاعلی مودودیؒ
آپ نے اپنی تعریف مسندحارث بن اسامہ اور بیہقی کی روایت پر رکھی ہے۔ آپ کے الفاظ میں ’’لغت اور قرآن کے بعد تیسرا اہم ترین ماخذ سنت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے احکام کا منشا معلوم کیا جا سکتا ہے۔یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ علت حکم مجرد زیادتی کو قرار دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے : کل قرض جر منفعۃ فھو وجہ من وجوہ الربوا (البیہقی) اور کل قرض جر بہ نفعا فھو ربوا۔ (مسند حارث بن اسامہ) یعنی ہر وہ اضافہ جو قرض پر حاصل ہو، ربا ہے۔ آپ کے ارشاد کے مطابق ’’امت کے تمام فقہا نے بالاتفاق اس حکم کا منشا یہی سمجھا ہے کہ قرض کے معاملہ میں اصل سے زائد جو کچھ بھی لیا جائے، وہ حرام ہے‘‘ نیز یہ کہ ’’قرآن جس چیز کو حرام کر رہا ہے اس کے لیے وہ مطلق لفظ ’الربوا‘ استعمال کرتا ہے جس کا مفہوم لغت عرب میں مجرد زیادتی ہے۔‘‘ (سود، ص ۲۶۵،۲۶۶،۲۶۷)۔
اس سے چند چیزیں واضح ہوتی ہیں:
- ربا قرض کے معاملے میں ہوتاہے۔
- راس المال پر مجرد اضافہ یا زیادتی ربا ہے۔اس کے لیے پیشگی شرط ضروری نہیں۔
- متعین اور فکسڈ اضافہ نہ ہو، پھر بھی وہ ربا ہو گا۔
بعض لوگوں نے جب اس روایت پر ضعیف سند کے حوالے سے اعتراض کیا کہ قابل قبول نہیں تو آپ نے فرمایا: ’’بعض لوگ اس حدیث اس حدیث پر اس دلیل سے کلام کرتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ لیکن جو اصول اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے، اسے تمام فقہائے امت نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے۔ یہ قبولِ عام حدیث کے مضمون کو قوی کر دیتا ہے، خواہ روایت کے اعتبار سے اس کی سند ضعیف ہو۔‘‘ (سود، ص ۲۶۶) ۔
(الف۔۲) مولانا محترم نے ربا کی ایک اور تعریف بھی کی ہے جو پہلی سے مختلف ہے۔اس میں راس المال پر مدت کے مقابلہ میں شرط اور تعین کے ساتھ اضافے کو ربا قرار دیا گیا ہے۔ آپ رقمطراز ہیں: ’’قرض میں دیے ہوئے راس المال پر جو زائد رقم مدت کے مقابلہ میں شرط اور تعین کے ساتھ لی جائے، وہ ’سود‘ ہے۔ راس المال پر اضافہ ، اضافہ کی تعین مدت کے لحاظ سے کیے جانا اور معاملہ میں اس کا شرط ہونا، یہ تین اجزائے ترکیبی ہیں جن سے سود بنتا ہے۔‘‘ (سود، ص ۱۵۳، تفہیم القرآن جلد اول، سورۃ البقرہ، حاشیہ ۳۱۵)۔ اس تعریف کے مطابق :
- راس المال پر مجرد اضافہ ربا نہیں،بلکہ اضافہ مدت کے لحاظ سے ہو اور اس کا شرط ہونا۔
- اگر مدت کے تعین کے ساتھ اضافہ کی شرط نہ عائد کی گئی ہو تو وہ اضافہ ربا نہیں ہوگا۔
(۲) ڈاکٹر محمد یوسف القرضاوی
ڈاکٹر صاحب، مولانا مودودیؒ کی پہلی تعریف سے بالکل اتفاق نہیں کرتے، بلکہ اس فکر پر سخت تنقید کرتے نظر آتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ سطور میں ذکر کیا گیا ہے۔اسی کی تائید محمد ایوب صاحب ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’قرض ادا کرتے وقت کسی پیشگی شرط کے بغیر اصل رقم سے زائد دینا قابل ستائش اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مقروض تھے۔ آپ نے مجھے ادائیگی کی اور اصل سے زیادہ رقم دی۔ (مسلم، ۱۹۸۱، ۱۰م ص ۲۱۹، نسائی ص ۲۸۳، ۲۸۴، ابن قدامہ، ص ۳۲۰،۳۲۱)۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھار میں لیے گئے ایک اونٹ کی ادائیگی کے لیے ایک بہتر اونٹ دینے کا حکم دیا کیونکہ ادائیگی کے وقت مطلوبہ عمر کا اونٹ دستیاب نہ تھا۔ ‘‘ (اسلامی مالیات، ص ۲۱۸)۔
اس موقف کے لازمی نتائج:
- فقہا نے اس حدیث کو اپنے لیے سند نہیں بنایا، جیسا کہ مولانا محترم کا ارشاد ہے۔
- مطلقاً ہر اضافہ ربا نہیں، بلکہ وہی اضافہ ربا ہے جو قرض کو پیشگی نفع کے ساتھ مشروط کرتا ہو۔
- دورِ جاہلیت کا ربا جائز ہو جائے گا، کیونکہ وہاں بسا اوقات اضافہ پیشگی مشروط نہیں ہوتا تھا۔
(۳)مفتی محمد شفیعؒ
مفتی صاحب علیہ الرحمہ ربا کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’ اصطلاحِ شریعت میں ایسی زیادتی کو ’ربا‘ کہتے ہیں جو بغیر کسی مالی معاوضہ کے حاصل کی جائے۔ اس میں وہ زیادتی بھی داخل ہے جو روپیہ کو ادھار دینے پرحاصل کی جائے کیونکہ مال کے عوض معاوضہ میں تو راس المال پورا مل جاتا ہے۔ جو زیادتی بنام سود یا انٹرسٹ لی جاتی ہے، وہ بے معاوضہ ہے۔‘‘ (سود، ص،۱۵۔۲۲)۔
اس تعریف کے اجزائے ترکیبی کے لازمی نتائج:
- اس میں قرض کا لفظ غائب ہے (اگرچہ مفتی صاحب مرحوم کی دوسری تعریف میں یہ لفظ پایا جاتا ہے)۔
- اس تعریف کے مطابق ایسی زیادتی یا بڑھوتری کو ’ربا‘ کہا گیا ہے جو بغیر مالی معاوضہ کے حاصل کی جائے۔یہ تعریف صاف بتا رہی ہے کہ روپیہ ادھار دینے سے جو بڑھوتری حاصل ہو رہی ہے، وہ تو ربا ہے ہی، اس کے علاوہ بھی ’بغیر کسی مالی معاوضہ‘ کے حاصل ہونے والی زیادتی ربا ہے۔ اب درج ذیل مثالوں پر اس تعریف کا اطلاق کے بعدجو نتیجہ حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے:
(۱) ایک فرد نے کسی جوائنٹ اسٹاک کمپنی کے ایک ہزار روپے کی مالیت کے شیئرز خرید رکھے ہیں۔ اسے ہر سال بغیر کسی محنت کے کمپنی کی طرف سے منافع کے نام سے دو سو روپے کا اضافہ ملتا ہے۔ اس تعریف کی رو سے یہ دو سو روپے کا اضافہ ’ربا‘ ہو جائے گا کیونکہ یہ اضافہ بہر حال ’بغیر کسی مالی معاوضہ کے حاصل ہو رہا ہے۔
(۲) مضاربت میں لگائی جانے والی رقم کا معاوضہ بھی ’ربا‘ ہوگا، اس لیے کہ وہ اضافہ بھی بغیر کسی ’مالی معاوضہ‘ کے حاصل ہو رہا ہے۔
(۴) پروفیسر خورشید احمد
پروفیسرصاحب نے ربا کی ان الفاظ میں تعریف کی ہے:
"What is forbidden is that fixed and predetermined return for one factor." (M. Kabir Hassan and Meryn: Islamic Finance; p.88)
یعنی جس چیز کی ممانعت ہے، وہ یہ ہے کہ کسی ایک عامل کو پہلے سے مقرر و متعین معاوضہ ملے۔ پروفیسر صاحب نے اس تعریف کے علاوہ بھی تعریف کی ہے، لیکن اس جگہ جو تعریف کی گئی اس کا لازمی نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ زمین کا معاوضہ یعنی ’کرایہ‘ اور محنت کا معاوضہ یعنی ’اجرت ‘ بھی ’ربا‘ ہو جائے گا کیونکہ یہ دونوں ہی پہلے سے مقرر اور متعین ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں چاروں عوامل پیداوار میں سے صرف تنظیم (Organization) ہی وہ واحد عامل بچتا ہے جس کا معاوضہ جائز ہو گا۔ باقی تینوں عوامل پہلے سے مقرر و متعین معاوضے ہی لیتے ہیں جو ممنوع اور حرام متصور ہوں گے۔
ان تعریفوں کے تجزیے سے جو چیز سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ سب تعریفیں نہ صرف آپس میں متضاد ہیں، بلکہ ایک ہی مفکر کی بعض تعریفیں بھی آپس میں ٹکراتی ہیں۔( مثلاً)سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحقیق کے مطابق ضعیف سند والی روایت کو بالاتفاق فقہا نے تسلیم کیا ہے جب کہ ڈاکٹر محمد یوسف القرضاوی نے اس کی تردید کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ’فقہا نے اس حدیث کو اپنے لیے سند بالکل نہیں بنایا‘۔ ربا کی تعریف رہی ایک طرف ، اب اس مسئلے کو کون حل کرے کہ فقہا نے کس چیز کو بنیاد بنایا یا نہیں بنایا۔
لُغوی اور اصطلاحی بحث
راس المال پر اضافے کے متعلق بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ ’ربا‘ کے لُغوی مفہوم اور اصطلاحی مفہوم میں فرق ہے۔ حرام صرف اصطلاحی مفہوم میں ہے نہ کہ لُغوی مفہوم میں۔ مولانا محمد عبیداللہ اسعدی لکھتے ہیں: ’’الربوا بمعنی زیادتی عربی لفظ ہے جس کا اطلاق ہر زیادتی پر ہو سکتا ہے، اور معاملاتِ خریدوفروخت میں زیادتی کو ہی نفع کہتے ہیں لیکن الربوا سے ہر زیادتی نہیں مراد ہوتی بلکہ خاص زیادتی مراد ہوتی ہے۔‘‘ ( الربا، ص ۳۱)
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی لکھا کہ: ’’....ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اصل رقم پر جو زیادتی بھی ہو گی، وہ ’ربوا‘ کہلائے گی، لیکن قرآن مجید نے مطلق ہر زیادتی کو حرام نہیں کیا ہے۔ زیادتی تو تجارت میں بھی ہوتی ہے۔ قرآن جس زیادتی کو حرام قرار دیتا ہے، وہ ایک خاص قسم کی زیادتی ہے، اسی لیے وہ اس کو ’الربوا‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔‘‘ (سود؛ ص ۱۴۹)
ان ارشادات سے واضح ہوتا ہے کہ علمائے کرام بالعموم ’ربا‘ کے لُغوی اور اصطلاحی مفہوم میں فرق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق لُغت کا اگر اعتبار کیا جائے تو تجارت میں جو زیادتی ، بڑھوتری یا فائدہ ہو تا ہے، اس پر بھی ’ربا‘ کا اطلاق ہوتا ہے اور قرآن نے ’ربا‘ پر معرفہ کا الف لام ’ال‘ لگا کر اسے تجارت کے فائدے سے الگ کر کے قرض پر زیادتی کے لیے خاص کر دیا۔ اس کا دوسرا مطلب یہی ہے کہ دورِ جاہلیت کے عرب قرض پر حاصل ہونے والی بڑھوتری کے لیے ’ربا‘ نہیں، بلکہ ’الربوا‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے۔عربی لغت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے برعکس ہمیں تو یہ نظر آتا ہے کہ تجارت میں ہونے والے فائدے کے لیے اہل عرب ’ربح‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ امام راغبؒ مفردات القرآن میں ’ربح‘ کے مادّے کے تحت لکھتے ہیں کہ ربح وہ فائدہ ہے جو تجارت میں چیزوں کے تبادلے سے حاصل ہو۔ چنانچہ قرآن میں ہے کہ ’فما ربحت تجارتھم ‘ (البقرہ: ۱۶)۔ پس ان کی تجارت نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا۔ ’ربح و رباح‘ تجارت میں اضافہ و ترقی کو کہتے ہیں۔ (تاج العروس)
چونکہ تجارت میں فائدے کے لیے عربی میں ’ربا‘ (مادّہ رب و)کا لفظ موجود ہی نہیں، اس لیے اس پر الف لام (ال) لگاکر قرض پر حاصل ہونے والی زیادتی کا خاص مفہوم پیدا کرنے کا تصور ہی بے معنی ہے۔ ’ربا‘ کے لفظ میں ہی قرض پر بڑھوتری و زیادتی تصور موجود تھا اور اہل عرب اس لفظ کو اسی معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ الف لام لگا کر البتہ قرآن نے اس قرض کو خاص کر دیا جس پر اضافہ کو حرام قرار دینا مقصود تھا۔ حضرت مفتی محمد شفیعؒ بہت حوالوں کے بعد لکھتے ہیں:
’’مذکورہ الصدر حوالوں سے یہ واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ لفظ ’ربا‘ ایک مخصوص معاملہ کے لیے عربی زبان میں نزولِ قرآن سے پہلے سے متعارف چلا آتا تھا، اور پورے عرب میں اس معاملہ کا رواج تھا، وہ یہ کہ قرض دے کر اس پر کوئی نفع لیا جائے اور عرب صرف اسی کو ربا کہتے اور سمجھتے تھے۔‘‘ (مسئلہ سود؛ ص ۲۳)
اگر عرب لفظ ’ربا‘ کو ایک مخصوص معاملہ یعنی قرض پر بڑھوتری کے لیے استعمال کرتے تھے تو یہ کہنا کس طور درست ہو سکتا ہے کہ معاملات خریدوفروخت اور تجارت پر ہونے والے فائدے کے لیے ’ربا‘ کا اطلاق ہو سکتا ہے؟
(۲) معاشی، معاشرتی اور اخلاقی مفاسد
علمائے کرام نے لُغوی اور اصطلاحی تعریفوں کے علاوہ معاشی،معاشری اور اخلاقی مفاسد بھی گنوائے ہیں، جو ان کے خیال میں ’ربا‘ میں تو پائے جاتے ہیں، لیکن بینک انٹرسٹ میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یہاں ہم ان دلائل کا جائزہ لیں گے جن کے سہارے بینک انٹرسٹ کو ربا قرار دے کر حرام کیا گیا ہے۔
(الف) معاشی دلائل
- سود (ربا) چیزوں کی لاگت میں شامل ہو کر مہنگائی کا سبب بنتا ہے۔
- دولت کا رخ غریبوں کی طرف سے امیروں کی طرف ہوتا ہے۔
- امیروں کی طرف دولت کے بہاؤ کی وجہ سے دولت کا ارتکاز ہوتا ہے۔
(الف۔۱) مہنگائی کا مسئلہ
دولت کی پیدائش میں بنیادی طور میں چار عوامل (Factors of Production) ،زمین، محنت،سرمایہ اور تنظیم شامل ہوتے ہیں۔ یہ سب عوامل تقسیم دولت میں اپنے معاوضے کی صورت میں حاصل کرتے ہیں۔ زمین کرایے کے نام سے، محنت اُجرت کے نام سے ، سرمایہ سود اور تنظیم منافع کے نام سے اپنا اپنا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک میز کی لاگت میں عاملین پیدائش پر مصارف اس طرح آئے:
(زمین) کرایہ: ۲۰ روپے
(محنت) اُجرت: ۲۵ روپے
(سرمایہ) سود: ۲۰ روپے
(تنظیم) منافع: ۳۵ روپے
کل لاگت : ۱۰۰ روپے
اس مثال میں کسی بھی عامل کا معاوضہ اگر بڑھ جائے تو لاگت میں اضافہ ہو جائے گا۔ یہ محض سود ہی کی خاصیت نہیں۔ کرایہ بھی پہلے سے متعین ہوتا ہے اور اُجرت بھی۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ چونکہ سود پہلے سے متعین ہوتا ہے، وہ تو لاگت میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے، لیکن اُجرت اور کرایہ اضافے کا سبب نہیں سکتے۔ بلکہ منافع پہلے سے متعین نہیں ہوتا۔ وہ بھی اگر بڑھ جائے تو مہنگائی کا سبب جائے گا۔یہ محض پروپیگنڈا ہے اور بس۔ علمی تحقیق اور عقل کی میزان اس دلیل کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اگر سود محض اس وجہ سے ربا بن کر حرام ہو جاتا ہے کہ وہ مہنگائی کا سبب بنتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ کرایہ ، اُجرت اور منافع بھی ربا نہ بن جائے۔
(الف۔۲) دولت کا بہاؤ امراء کی طرف
ابتدا میں ہی اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ علمائے کرام نے جتنے بھی مفاسد گنوائے ہیں، وہ کم و بیش فی الحقیقت ’الربوا‘ میں پائے جاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کا اطلاق بینک کے سود پر بھی ہو سکتا ہے یا نہیں۔
علمائے کرام بالعموم ’ربا‘ کی دو قسمیں قرار دیتے ہیں۔ ایک، اہل حاجت کے قرضوں پر منافع یا بڑھوتری لینا۔ دوسرا، بینک کے قرضوں پر اضافہ ۔ اس کی عمدہ تشریح مولانا مودودیؒ نے ان الفاظ میں کی ہے:
’’دنیا میں سب سے بڑھ کر سود خواری اس کاروبار میں ہوتی ہے جو مہاجنی کاروبار(Money Lending Business) کہلاتا ہے۔ یہ بلا صرف بر عظیم تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایک عالم گیر بلا ہے جس سے دنیا کا کوئی ملک بچا ہوا نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ کہ دنیا میں کہیں بھی یہ انتظام نہیں ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو ان کی ہنگامی ضروریات کے لیے آسانی سے قرض مل جائے....یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک قلیل المعاش آدمی اپنی کسی فوری ضرورت کے لیے بینک تک پہنچ سکے اور اس سے قرض حاصل کر سکے۔ ان وجوہ سے مزدور، کسان، کم تنخواہوں والے ملازم اور غریب لوگ ہر ملک میں مجبور ہوتے ہیں کہ اپنی بُرے وقت پر ان مہاجنوں سے قرض لیں جو اپنی بستیوں کے قریب ہی ان کو گدھ کی طرح شکار کی تلاش میں منڈلاتے ہوئے مل جاتے ہیں۔
یہ وہ بلائے عظیم ہے جس میں ہر ملک کے غریب اور متوسط الحال طبقوں کی بڑی اکثریت بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے قلیل المعاش کارکنوں کی آمدنی کا بڑا حصہ مہاجن لے جاتا ہے۔ شب و روز کی ان تھک محنت کے بعدجو تھوڑی سی تنخواہیں یا مزدوریاں ان کو ملتی ہیں، ان میں سے سود ادا کرنے کے بعد ان کے پاس اتنا بھی نہیں بچتا کہ وہ دو وقت کی روٹی چلا سکیں.....اس لحاظ سے سودی کاروبار کی یہ قسم ایک ظلم ہی نہیں ہے بلکہ اجتماعی معیشت کا بھی بھاری نقصان ہے۔‘‘ (سود؛ ص ۱۰۷ تا ۱۱۰)
ان افکار کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرضوں کی دو قسمیں ہیں۔ ذیل میں دو خاکے سامنے رکھ کر علمائے کرام کے بیان کردہ مفاسد کا اطلاق کر کے دیکھیں گے کہ وہ کس خاکے میں فٹ بیٹھتے ہیں:
خاکہ نمبر ۱
اس خاکے میں فاضل آمدنی والے افراد اہل حاجت یعنی غریب طبقے کو (مثلاً) ۱۰ فیصد شرح بڑھوتری پر قرض دیتے ہیں۔ یہ پسا ہوا طبقہ مجبوراً اپنی غمی خوشی کے موقع پر یا علاج معالجے کے لیے یا روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فاضل آمدنی والے افراد سے قرض کا طلب گار ہو تا ہے۔ یہ پسا ہوا طبقہ بقول مولانا مودودیؒ ہر سال سود ادا کرنے کے بعد اس قابل نہیں ہوتا کہ دو وقت کی روٹی بھی چلا سکے۔ اس خاکے سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہر سال یہ غریب لوگ اپنے پلے سے زیر بار ہوتے رہتے ہیں اور امیر لوگ اپنی جیبیں بھرتے رہتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس صورتِ حال میں دولت کا بہاؤ غریب سے امیر کی طرف جاری رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب پہلے سے زیادہ غریب ہو جائے اور امیر پہلے سے زیادہ امیر۔ جب یہ صورتِ حال ہوتی ہے تو دولت کا ارتکاز امیر طبقے کے ہاں ہوتا رہتا ہے۔
خاکہ نمبر ۲
خاکہ (ب) کا تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فاضل آمدنی والے افراد اپنی بچتیں بینک میں (مثلاً) ۵ فیصد شرح سود کے حساب سے جمع کرواتے ہیں۔ بینک آگے طبقہ امرا کو (مثلاً) ۱۵ فیصد شرح سود پر قرض دیتے ہیں۔ بینک کسی غریب فرد کو قرض نہیں دیتے۔ یہ طبقہ امراء بالعموم اس قرض کو تجارتی غرض کے لیے استعمال کرتا ہے۔ فرض کریں ان کو کاروبار میں ۳۰ فیصد منافع ہوا۔ یہ بینک کو ۱۵ فیصد ادا کرکے باقی اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ بینک اسی طرح اپنے کھاتے داروں کو ۵ فیصد دے کر ۱۰ فیصد اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اس خاکے میں نہ تو دولت کا بہاؤ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے (کیونکہ کہ اس پورے کھیل میں غریب کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا) اور نہ دولت کا ارتکاز ہوتا ہے۔ اس خاکے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر طبقے میں دولت کا پھیلاؤ ہوا۔ اگر لوگ بینک میں اپنی بچتیں جمع نہ کرواتے یا بینک آگے قرض نہ دیتے تو دولت ایک ہی جگہ سکڑی رہتی، کسی کو بھی کچھ فائدہ نہ ہوتا۔ ضمنی طور پر غریب کو اس لحاظ سے فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ اس طرح کاروبار کے وسیع پھیلاؤ کے نتیجے میں روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔
(ب) اخلاقی اور معاشرتی مفاسد
(۱) ظلم: خاکہ ( الف ) اور (ب) کو ایک غیرجانبدارانہ نگاہ سے دیکھیں تو خاکہ (الف) میں ظلم صاف دکھائی دیتا ہے، بلکہ مولانا مودودیؒ تو صریحاً اس کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’کاروبار کی یہ قسم صرف ظلم ہی نہیں ہے بلکہ اسی میں اجتماعی معیشت کا بھی بڑا بھاری نقصان ہو۔‘‘ خاکہ (ب) میں تو سب کا فائدہ ہے، ظلم کہیں بھی نہیں۔
(۲)دوسری خرابی یہ بتائی گئی ہے کہ اس کے نتیجے میں آدمی خود غرض، بخیل، تنگ دل اور سنگدل بن جاتا ہے۔ یہ ساری خرابیاں خاکہ (الف) میں ملیں گی۔ ظاہر ہے کہ فاضل آمدنی والے افراد اگر اپنے سے کم تر حیثیت والے افراد کی حقیقی مشکل میں مدد کو نہیں آتے تو وہ انتہائی خود غرض، بخیل اور تنگ دل ہی ہو سکتے ہیں۔ خاکہ (ب) میں تو فاضل آمدنی والے بینک کے ذریعے اپنے سے کم حیثیت والے افراد کو نہیں، بلکہ طبقہ امرا کو ہی قرض فراہم کر رہے ہوتے ہیں جو اس قرض کو اپنے کاروبار کو وسیع کرنے میں استعمال کرتے ہیں۔ یہاں سود کھانے والے (یعنی بینک کے کھاتے دار) پر بخیل، خود غرض، تنگ دل اور سنگ دل جیسے القابات پکارا جانا انتہائی مشکل ہے۔ لہٰذا ہم یہ برائی خاکہ (الف) میں تو دیکھتے ہیں، لیکن خاکہ (ب) میں اس کا اطلاق درست نہیں۔
(۳) ایک اور خرابی یہ بتائی جاتی ہے کہ بے محنت اور بے مشقت کمائی کی قدر نہیں ہوتی اور آدمی اسراف و تبذیر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے اس جزیئے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اوپر کہا گیا تھا کہ ’سود‘ کی کمائی کھانے والا بخیل ہوتا ہے، اور یہا ں کہا یہ جا رہا ہے کہ وہ انتہائی فضول خرچ ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسراف و تبذیر اور بخیلی جیسی اخلاقی برائیاں سود کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتیں۔ ہم نے کتنے ہی ایسے دولت مند دیکھے ہیں جن کا بینک انٹرسٹ سے کوئی لین دین ہی نہیں، لیکن ان میں سے بعض انتہائی کنجوس اور پرلے درجے کے بخیل ہیں اور بعض انتہائی فضول خرچ۔ اس کے برعکس کئی افراد جو سود میں تو ملوث ہیں، لیکن انتہائی فیاض پائے گئے ہیں۔ بل گیٹس، کمپیوٹر کی دنیا کا ایک اہم نام، یقیناًجو سود کے لین دین میں شریک ہے لیکن کئی قسم کے خیراتی کاموں میں پیش پیش نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ مضاربت وغیرہ کی بے محنت و مشقت کمائی بھی کیا انسان کو اسراف و تبذیر اور فضول خرچی میں مبتلا کرتی ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ وہ بھی بغیر محنت و مشقت کے حاصل ہونے والی کمائی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سود کے نام سے حاصل ہونے والی بے محنت آمدنی تو انسان کو اسراف میں مبتلا کردے، لیکن مضاربت کی بے محنت کمائی یہ کام نہ کر سکے۔
درج بالا سطور میں علمائے کرام کے ان تمام دلائل کا جائزہ لیا گیا جن کے بل بوتے پر بینک انٹرسٹ کو ’ربا‘ قرار دے کر حرام کیا جاتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ جب تک کوئی مضبوط اور ٹھوس دلائل موجود نہ ہوں، اس وقت تک ہمیں کسی چیز کو حرام قرار دینے کی جرات نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار اپنے پاس رکھا ہے۔ جب یہ حرکت ہم سے سرزد ہو جاتی ہے تو پھراسی طرح کی غیر متعلق بحث جنم لیتی ہے جس کا ہم نے شروع میں ذکر کیا تھا۔
علمائے کرام کے دلائل سے قطع نظر جب ہم قرآن پر نظر ڈالتے ہیں تو اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یقیناً’ربا‘ حرام ہے اور اسے حرام ہونا ہی چاہیے تھا۔یہ وہ منافع ہے جو اہل حاجت ، غریب و مسکین فرد کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ان کو قرض کے بوجھ تلے دبا کر ان سے وصول کیا جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے زبان فہمی کا ایک عام اصول ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ کسی بھی متن کا صحیح مفہوم متعین کرنے کے لیے اس کے سیاق و سباق (Context) کو اگر سامنے نہ رکھا جائے تو اس کا الٹا مطلب لیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصولِ تفسیر میں اس کو بہت اہم مقام دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے جس کو علامہ جاوید احمد غامدی صاحب نے بڑی خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے: ’’اس کے (یعنی قرآن کے) عام و خاص میں امتیاز کیا جائے۔ قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر الفاظ عام ہیں، لیکن سیاق و سباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ ان سے مراد عام نہیں۔ قرآن الناس کہتا ہے، لیکن ساری دنیا کا توکیا ذکر بارہا، اس سے عرب کے سب لوگ بھی اس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ یہ قرآن کا عام اسلوب ہے جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح و وضاحت میں متکلم کا منشا بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے، لہٰذا ناگزیر ہے کہ اس معاملے میں قرآن کے عرف اور اس کے سیاق و سباق کی حکومت اس کے الفاظ پر ہر حال میں قائم رکھی جائے۔‘‘ ( اصول و مبادی؛ ص ۲۲)
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ اصولِ تفسیر کا یہ قاعدہ یوں بیان کرتے ہیں: ’’ نقد صحیح کا تیسرا قاعدہ ہمارے سامنے آتا ہے یعنی یہ کسی آیت کی جو تفسیر بیان کی جا رہی ہو، اسے دیکھا جائے کہ آیا قرآن کا سیاق و سباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔‘‘ ( تفہیم القرآن، جلد سوم، سورہ الحج، حاشیہ ۱۰۱) مزید ارشاد ہوتا ہے: ’’ یہ بات اصولاً غلط ہے کہ ایک عبارت کے اپنے سیاق و سباق سے اس کے کسی لفظ کا جو مفہوم ظاہر ہوتا ہو، اسے نظر انداز کر کے ہم اپنی طرف سے کوئی معنی اس کے اندر داخل کریں۔‘‘ ( سود، ص ۳۰۹) اس اصول کی مزید تشریح اس طرح کرتے ہیں: ’’لوگ ایک آیت کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کر کے بے تکلف جو معنی چاہتے ہیں، اس کے الفاظ سے نکال لیتے ہیں، حالانکہ ہر آیت کے صحیح معنی صرف وہی ہو سکتے ہیں جو سیاق و سباق سے مناسبت رکھتے ہوں۔‘‘(تفہیم القرآن، جلد سوم، سورہ الانبیاء، حاشیہ، ۹۹)
اس اصول سے صاف ظاہر ہے کہ اگر کسی متن کی تشریح کرتے ہوئے اس کے سیاق و سباق کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ تشریح تحریف کے زمرے میں آئے گی۔ اس اصول کو سامنے رکھ کر آئیے دیکھیں، سورۃ البقرہ میں ’ربا‘ یعنی قرض پر اضافہ جو ممنوع کیا جا رہا ہے، وہ کس قرض پر اضافہ ہے۔ آیات نمبر ۲۶۱ سے ۲۸۰ کا خلاصہ یہ ہے:
- یقیناًاللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے اجر کو ایک دانے کی سات بالیاں اور ہر بالی کے سو دانے کی طرح بڑھاتا ہے۔
- یقیناًاللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لیے خوف اور غم کا نام و نشان نہ ہو گا۔
- لہٰذا اللہ کی راہ میں صدقات ادا کرو اور لوگوں پر احسان نہ دھرنا۔
- شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے، اس کے چکر میں نہ آنا۔
- محتاج و غریب کو صدقات دو تو خفیہ دو تو زیادہ بہتر ہے۔
- ایسے لوگوں کو بالخصوص جو سفید پوش ہیں اور لپٹ لپٹ کر نہیں مانگتے، ان پر خرچ کرو کہ صدقات ان ہی کا حق ہے۔
- ان کو علانیہ اور خفیہ صدقات دو۔
- (قرض ہی دینے کی نوبت آگئی ہو تو) قرضدار اگر تنگدست ہو تو اسے مہلت دو، لیکن اگر معاف کر دو تو بہتر ہے۔
- یہ کہ قرض پر منافع یعنی ’ربا‘ لو کہ یہ تو اللہ نے حرام کر دیا ہے۔
قرآن مجید کی ان آیات مبارکہ نے کسی قسم کا کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنے دیا کہ کس نوعیت کے قرض پر اضافہ ممنوع و حرام ہے۔ متن کے سیاق و سباق نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ غرباء و مساکین کو اول تو صدقات سے مدد کرو، اور اگر کسی وجہ سے قرض ہی دینے سے مدد کر سکتے ہو تو کرو، لیکن اس قرض پر اضافہ نہ لو ۔ ’ربا‘ یعنی محض کسی بھی قرض پر اضافہ حرام نہیں، بلکہ ’الف لام‘ لگا کر ’ الربوا‘ کو معرفہ بنا کر ان قرضوں پر اضافے کے لیے خاص کر دیا ہے جو محتاج و غریب افراد ہو ں اور ہماری توجہ و مدد کے مستحق ہوں۔
خلاصہ کلام
- بینک انٹرسٹ کو ذہن میں رکھ کر ’ربا‘ کی تمام تعریفیں نہ صرف متضاد ہیں بلکہ بسا اوقات ایک ہی مفکر کی تعریفیں آپس میں ٹکراتی ہیں۔
- لُغوی لحاظ سے ’الربوا‘ کا اطلاق بینک انٹرسٹ پر درست نہیں۔
- علمائے کرام کے بیان کردہ مفاسد کا اطلاق بینک انٹرسٹ پر نہیں ہوتا، بلکہ اہل حاجت یعنی غریب افرادکو قرض دے کر فائدہ اٹھانے پر ہوتا ہے۔
- سیاق و سباق کا لحاظ رکھا جائے تو قرآن مجید میں ’الربوا‘ کا اطلاق اس بڑھوتری پر ہوتا ہے جو اہل حاجت کو قرض دے کر حاصل کیا جائے۔
- اہل علم اس اصل سوال کی طرف متوجہ ہوں تو کرایہ،سود اور افراطِ زر جیسے کم اہم اور غیر متعلق موضوعات سے جان چھوٹ سکتی ہے۔
اگست ۲۰۱۶ء
مولانا مودودی کی دینی فکر اور شدت پسندی کا بیانیہ / ترکی کا ناکام انقلاب ۔ کیا چیز سیکھنے کی ہے اور کیا نہیں؟
محمد عمار خان ناصر
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا شمار عصر حاضر کے ان ممتاز مفکرین میں ہوتا ہے جنھوں نے بطور ایک اجتماعی نظام کے، اسلام کے تعارف پر توجہ مرکوز کی اور مختلف پہلووں سے اس بحث کو تحقیق وتصنیف کا موضوع بنایا۔ مولانا کی دینی فکر میں اسلامی ریاست کا قیام، جس کو وہ اپنی مخصوص اصطلاح میں ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کا عنوان دیتے ہیں، بے حد اساسی اہمیت کا حامل ہے اور وہ اسے مسلمانوں کے ایک اجتماعی فریضے کا درجہ دیتے ہیں۔ اسلام چونکہ محض پوجا اور پرستش کا مذہب نہیں، بلکہ انسانی زندگی میں مخصوص اعتقادی واخلاقی اقدار اور متعین احکام وقوانین کی عمل داری کو بھی اپنا مقصد قرار دیتا ہے، اس لیے بیسویں صدی میں مسلم قومی ریاستوں کے ظہور نے حیات اجتماعی کے دائرے میں مسلمان معاشروں کی تشکیل نو اور بالخصوص مذہب کے کردار کو اہل دانش کے ہاں غور وفکر اور بحث ومباحثہ کا ایک زندہ موضوع بنا دیا۔ مذہب کے اجتماعی کردار کا سوال اپنے متنوع پہلووں کے ساتھ ان مفکرین کے غور وفکر اور مطالعہ وتحقیق کا موضوع بنا جو جدید تہذیبی رجحانات کے علی الرغم ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کو نہ صرف مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، بلکہ ریاست کو خالص مذہبی ونظریاتی اساسات پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ مولانا مودودی کا شمار اس طرز فکر کے حامل قائدین کی صف اول میں ہوتا ہے۔ چنانچہ تقسیم ہند سے قبل مولانا نے ’’موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے زیر عنوان ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں کئی قسطوں پر مشتمل ایک مفصل تجزیاتی تحریر لکھی جس میں معروضی صورت حال میں مسلم لیگ اور جمعیۃ علمائے ہند وغیرہ کی طرف سے مسلمانان ہند کے لیے تجویز کیے جانے والے لائحہ ہائے عمل پر زوردار تنقید کی اور متحدہ قومیت اور لبرل جمہوری ریاست کے تصورات کے بالمقابل حکومت الٰہیہ یعنی اسلامی ریاست کے قیام کو مسلمانوں کے لیے واحد شرعی لائحہ عمل قرار دیا۔
مولانا کے نتائج فکر پر مختلف حوالوں سے بحث وتمحیص اور نقد واختلاف کی گنجائش موجود ہے اور ان کی فکر میں ارتقا کے بعض اہم پہلو بھی خاص توجہ کا تقاضا کرتے ہیں (جس کی کچھ تفصیل ہماری کتاب ’’جہاد۔ ایک مطالعہ‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے،) تاہم اس کا ایک بے حد قیمتی اور قابل قدر ہے اور وہ یہ کہ مولانا کے معاصر تناظر میں زمینی حقائق کا بھرپور ادراک بھی موجود ہے اور وہ عصری صورت حال کی پیچیدگیوں سے پوری پوری آگاہی رکھتے ہیں۔ آئندہ سطور میں ہم اس حوالے سے مولانا کی فکر کے چند اہم پہلووں کا مختصر جائزہ لیں گے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد نظری سطح پر اس حوالے سے زوردار بحث شروع ہو گئی تھی کہ نئی ریاست کو ایک سیکولر جمہوری ریاست ہونا چاہیے یا ایک اسلامی ریاست۔ اس بحث میں مولانا مودودی نے بھی بھرپور حصہ لیا اور آخر کار عوامی سطح پر جماعت اسلامی کی محنت اور دستور ساز اسمبلی میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے رفقا کی جدوجہد کے نتیجے میں ۱۹۵۶ء کے دستور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی دفعات شامل کر لی گئیں۔ اس تناظر میں ڈاکٹر احمد حسین کمال اور مولانا مودودی کے مابین اس نکتے کے حوالے سے تفصیلی مراسلت ہوئی کہ کیا اس دستور کو ایک اسلامی دستور قرار دیا جا سکتا ہے، جبکہ اس کی رو سے شریعت کے قوانین کا نفاذ مجلس قانون ساز اور صدر مملکت کی منظوری کا محتاج ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں مسلم وغیر مسلم اراکین دونوں کو یکساں حق رائے دہی حاصل ہے۔
ڈاکٹر احمد حسین کمال کے اٹھائے ہوئے ان سوالات کے جواب میں مولانا نے دو تفصیلی مکتوب تحریر کیے جن میں انھوں نے نفاذ شریعت کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کو واضح کیا۔ یہ مکاتیب ترجمان القرآن کے دسمبر ۱۹۵۶ء کے شمارے میں شائع ہوئے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’آپ نے جن مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کے متعلق ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہم اپنی تحریک خلا میں نہیں چلا رہے ہیں، بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں۔ ۔۔۔ دستور اسلامی کے بارے میں جو باتیں آپ نے لکھی ہیں، ان میں سے کوئی بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے، نہ کبھی پوشیدہ تھی، لیکن یہاں ایک کھلی کھلی لادینی ریاست کا قائم ہو جانا ہمارے مقصد کے لیے اس سے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا جتنا اب اس نیم دینی نظام کا نقصان آپ کو نظر آ رہا ہے۔‘‘ (’’مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور ان کا طریق فکر‘‘، مرتب: محمد ریاض درانی، جمعیۃ پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۱ء، ص ۱۰۸، ۱۰۹)
’’ہم جس ملک اور جس آبادی میں بھی ایک قائم شدہ نظام کو تبدیل کر کے دوسرا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں گے، وہاں ایسا خلا ہم کو کبھی نہ ملے گا کہ ہم بس اطمینان سے ’’براہ راست‘‘ اپنے مقصود کی طرف بڑھتے چلے جائیں۔ لامحالہ اس ملک کی کوئی تاریخ ہوگی، اس آبادی کی مجموعی طور پر اور اس کے مختلف عناصر کی انفرادی طور پر کچھ روایات ہوں گی۔ کوئی ذہنی اور اخلاقی اور نفسیاتی فضا بھی وہاں موجود ہوگی۔ ہماری طرح کچھ دوسرے دماغ اور دست وپا بھی وہاں پائے جاتے ہوں گے جو کسی او رطرح سوچنے والے اور کسی اور راستے کی طرف اس ملک اور اس آبادی کو لے چلنے کی سعی کرنے والے ہوں گے۔ ۔۔۔ ان حالات میں نہ تو اس امر کا کوئی امکان ہے کہ ہم کہیں اور سے پوری تیاری کر کے آئیں اور یکایک اس نظام کو بدل ڈالیں جو ملک کے ماضی اور حال میں اپنی گہری جڑیں رکھتا ہے، نہ یہ ممکن ہے کہ اسی ماحول میں رہ کر کشمکش کیے بغیر کہیں الگ بیٹھے ہوئے اتنی تیاری کر لیں کہ میدان مقابلہ میں اترتے ہی سیدھے منزل مقصود پر پہنچ جائیں اور نہ اس بات ہی کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ ہم اس کشمکش میں سے گزرتے ہوئے کسی طرح ’’براہ راست‘‘ اپنے مقصود تک جا پہنچیں۔ ہمیں لامحالہ واقعات کی اس دنیا میں موافق عوامل سے مدد لیتے ہوئے اور مزاحم طاقتوں سے کشمکش کرتے ہوئے بتدریج اور بروقت اٹھا دینا ہوگا۔‘‘ (ایضاً، ص ۱۱۶، ۱۱۷)
’’واقعات کی دنیا میں ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں، وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مجالس قانون ساز کے قیام کی ابتداء انگریزوں کے دور حکومت میں ہوئی۔ اس نظام کو انھوں نے اپنے نظریات کے مطابق قومی، جمہوری، لادینی ریاست کے اصولوں پر قائم کیا۔ انھی اصولوں پر سالہا سال تک اس کا مسلسل ارتقا ہوتا رہا اور انھی اصولوں پر نہ صرف پوری ریاست کا نظام تعمیر ہوا، بلکہ نظام تعلیم نے ان کو پوری طرح اپنا لیا اور بحیثیت مجموعی سارے معاشرے نے ان کے ساتھ مطابقت پیدا کر لی۔ ان واقعات کی موجودگی میں جتنے کچھ ذرائع ہمارے (یعنی دینی نظام کے حامیوں کے) پاس تھے، ان کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا کہ کم از کم آئینی حیثیت سے اس عمارت کی اصل کافرانہ بنیاد (لادینیت) کو بدلوا کر اس کی جگہ وہ بنیاد رکھ دی گئی جس کی بنا پر آپ موجودہ دستور کو نیم دینی تسلیم کر رہے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۱۲۱، ۱۲۲)
غلبہ دین کی جدوجہد میں تدریج کی حکمت عملی کی اہمیت اور اس کے بنیادی اصولوں کو واضح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’اسلامی نظام زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو، انھیں آنکھیں بند کر کے حالات کا لحاظ کیے بغیر پورا کا پورا نسخہ اسلام یک بارگی استعمال نہ کر ڈالنا چاہیے، بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان ومکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت وتدبر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔ جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں، انھیں نافذ کرنا چاہیے اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں، ان کو موخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہو سکے۔ اسی چیز کا نام حکمت یا حکمت عملی ہے جس کی ایک نہیں، بیسیوں مثالیں شارع کے اقوال اور طرز عمل میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت دین بدھوؤں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔
ثانیاً، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب زمان ومکان کے حالات کی وجہ سے اسلام کے دو احکام یا اصولوں یا مقاصد کے درمیان عملاً تضاد واقع ہو جائے، یعنی دونوں پر بیک وقت عمل کرنا ممکن نہ رہے تو دیکھنا چاہیے کہ شریعت کی نگاہ میں اہم تر چیز کون سی ہے اور پھر جو اہم تر ہو اس کی خاطر شرعی نقطہ نظر سے کم تر اہمیت رکھنے والی چیز کو اس وقت تک ترک کر دینا چاہیے جب تک دونوں پر ایک ساتھ عمل کرنا ممکن نہ ہو جائے۔ ۔۔۔
ثالثاً، اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جہاں قبائلیت اور برادریوں کے تعصبات یا دوسری گروہی عصبیتیں زندہ ومتحرک ہوں، وہاں ان سے براہ راست تصادم کرنا مناسب نہیں ہے بلکہ جہاں جس قبیلے یا برادری یا گروہ کا زور ہو، وہاں اسی کے نیک لوگوں کو آگے لانا چاہیے تاکہ زور آور گروہ کی طاقت اسلامی نظام کے نفاذ کی مزاحم بننے کے بجائے اس مددگار بنائی جا سکے اور بالآخر نیک لوگوں کی کارفرمائی سے وہ حالات پیدا ہو سکیں جن میں ہر مسلمان مجرد اپنی دینی واخلاقی اور ذہنی صلاحیت کی بنا پر بلا لحاظ نسل ونسب ووطن سربراہی کے مقام پر آ سکے۔ ۔۔۔
رہا اس پر کسی کا یہ اعتراض کہ اس نوع کے تصرفات کرنے کا حق صرف شارع کو پہنچتا تھا، دوسرا کوئی اس کا مجاز نہیں ہو سکتا تو میں صاف عرض کروں گا کہ یہ بات اگر مان لی جائے تو فقہ اسلامی کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے کیونکہ اس کا تو سارا نشو وارتقاء ہی اس بنیاد پر ہوا ہے کہ شارع کے زمانے میں جو حوادث اور معاملات پیش آئے تھے، ان میں شارع کے احکام اور تصرفات اور طرز عمل کا گہرا مطالعہ کر کے وہ اصول اخذ کیے جائیں جو شارع کے بعد پیش آنے والے حوادث ومعاملات پر منطبق ہو سکتے ہوں۔ اس کا دروازہ بند ہو جائے تو پھر فقہ اسلامی صرف انھی حوادث ومعاملات کے لیے رہ جائے گی جو شارع کے زمانے میں پیش آئے تھے۔ بعد کے نئے حالات میں ہم بالکل بے بس ہوں گے۔‘‘ (’’تفہیم الاحادیث‘‘، مرتب: وکیل احمد علوی، ادارۂ معارف اسلامی، لاہور، ۶؍۴۵۴، ۴۵۵)
اسی ضمن میں مولانا مودودی نے اپنی تحریروں او ربیانات میں یہ نکتہ بھی غیر مبہم انداز میں واضح کیا ہے کہ جدید جمہوری ریاستوں میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کا صرف وہی راستہ جائز ہے جو آئین وقانون کی حدود کے اندر ہو، جبکہ غیر آئینی طریقوں سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ شرعاً درست ہوگی اور نہ حکمت عملی کی رو سے۔ اس حوالے سے مولانا کی بعض تصریحات کو یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔
مولانا سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا؟‘‘ اس کے جواب میں فرمایا:
’’فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے؟ بہت برا کیا گیا کہ غیر آئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے اور بہت برا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیر آئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک علانیہ اور دوسری خفیہ۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
علانیہ طور پر غیر آئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ برا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہندوستان میں تحریک آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج پچیس سال بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جا سکا۔
اگر خفیہ طریقے سے غیر آئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختار کل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک ان ہی کی مرضی پر چلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہار بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دی جاتی ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسر اقتدار آئیں گے تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں تو خلق خدا کے لیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟
میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ .... آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔‘‘ (’’تصریحات‘‘، مرتب: سلیم منصور خالد، البدر پبلی کیشنز لاہور، ص ۲۵۷، ۲۵۸)
مزید فرماتے ہیں:
’’بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمار ے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن ہم اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے برپا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جا سکے تو وہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیر جمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظام زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے انھیں ہم خیال بنایا جائے اور ان کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ .....
کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جا سکتا ہے بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے، لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص (خصوصاً کار فرماؤں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اس کے اصول واحکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، انداز فکر اور سیرت وکردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول واحکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل ودماغ میں نہیں ٹھونسی جا سکتی، بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد وافکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اقدار (Values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں اور ان کو اس حد تک ابھار دیا جائے کہ وہ اپنے اوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کر دینے کے لیے کوئی اقدام اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہو جائے۔‘‘ (ایضاً، ص ۳۲۰-۳۲۲)
مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میں فرمایا:
’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ اسلامی انقلاب بہت جلد آ رہا ہے؟ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں اور اضافہ ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کی طرف کماحقہ توجہ نہ ہوئی۔ ہمارے بس میں جو کچھ ہے، وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اٹھائیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی۔ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے، دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ہمیں توقع ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ ہمارے کرنے کی جو چیز ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۳۴۰)
’’میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین وقانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی وجمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ .... یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت ودیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔‘‘ (ایضاً، ص ۹۲)
مولانا نے یہ بات بھی واشگاف الفاظ میں واضح کی کہ اگر خدا نخواستہ پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست بنانے کے خواہش مند عناصر اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائیں تو بھی جدوجہد کا راستہ ایک تحریک اصلاح برپا کرنا ہی ہوگا نہ کہ مسلح انقلاب برپا کرنے کی کوئی کوشش۔ لکھتے ہیں:
’’واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے:
ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمام کار ہے، وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انھوں نے اپنی قوم سے کیے تھے، اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے، اسے خود محسوس کر لیں اور ایمان داری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔ ۔۔۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریک اصلاح کے ذریعے سے اس میں خالص اسلامی شعور وارادے کو بتدریج اس حد تک نشو ونما دیا جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخود اس سے ایک مکمل اسلامی نظام وجود میں آ جائے۔
ہم اس وقت پہلے طریقے کو آزما رہے ہیں۔ اگر اس میں ہم کامیاب ہو گئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لیے ہماری قوم نے جو جدوجہد کی تھی، وہ لاحاصل نہ تھی بلکہ اس کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ایک سہل ترین اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آ گیا، لیکن اگر خدا نخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اور اس ملک میں ایک غیر اسلامی ریاست قائم کر دی گئی تو یہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہوگا جو قیام پاکستان کی راہ میں انھوں نے کیں اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسلامی نقطہ نظر سے اسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے۔ اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقے پر کام شروع کر دیں گے جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کر رہے تھے۔‘‘ (ابوالاعلیٰ مودودی: ’’اسلامی ریاست۔ فلسفہ، نظام کار اور اصول حکمرانی‘‘، مرتب: خورشید احمد، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۰ء، ص ۶۳۶، ۶۳۷)
گزشتہ معروضات سے واضح ہے کہ مولانا مودودی نے بالکل ابتدا میں ہی ان سوالات کو گہری فکری سطح پر موضوع بنا لیا تھا جو جذباتیت، بے صبری اور غیر معروضی زاویہ نظر سے ذہنوں میں پیدا ہو رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ آگے چل کر بعینہ وہی سوالات ہمارے ہاں انھی فکری بنیادوں پر پیدا ہوئے جن کی واضح نفی مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں کی تھی اور خود جماعت اسلامی کے حلقہ فکر سے وابستہ نوجوان نسل اس انتہا پسندانہ فکر سے شدید طور پر متاثر ہوئی۔ اس کے اسباب ووجوہ ایک مستقل تجزیے کا تقاضا کرتے ہیں، تاہم اتنا واضح ہے کہ مولانا کی پیش کردہ صریح اور واضح فکر حالات کے اتار چڑھاؤ میں رفتہ رفتہ نظروں سے اوجھل ہوتی گئی اور شدت پسندی کے بیانیے نے وسیع پیمانے پر ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
اسی ضمن میں مولانا کی دینی واجتہادی بصیرت کے اسی نوعیت کے ایک اور پہلو کی طرف اہل فکر کو دوبارہ متوجہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ مذہبی شدت پسندی اور عسکریت کے جس عفریت کا ہمیں سامنا ہے، اس کے اسباب میں سے اہم ترین سبب نجی سطح پر جہادی سرگرمیوں کی تنظیم ہے۔ پوری اسلامی روایت اس پر متفق رہی ہے کہ اگر مسلمان کسی جگہ ایک نظم اجتماعی کے تحت رہ رہے ہوں تو ان کی طرف سے کسی دوسرے ملک کے ساتھ جنگ کا فیصلہ ان کا نظم اجتماعی ہی کر سکتا ہے اور یہ کہ اگر مسلمان مختلف علاقوں میں ایک سے زیادہ نظام ہائے اجتماعی کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں تو ان میں سے ہر نظم اجتماعی اپنی ذمہ داریوں کا تعین اور اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ کسی نجی گروہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ نظم اجتماعی کے اختیار کو اپنے ہاتھ میں لے اور قوم کی طرف سے فیصلے کا حق تفویض کیے جانے کے بغیر ازخود کوئی فیصلہ کر کے اس کے نتائج وعواقب کی ذمہ داری پوری قوم پر ڈال دے۔
مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں اس حوالے سے درج ذیل تین بنیادی نکات کی وضاحت کی ہے:
ایک یہ کہ مسلمانوں کا لازمی طور پر کسی ایک ہی نظم اجتماعی کے تحت سیاسی طور پر متحد ہونا ضروری نہیں اور سیاسی وحدت کا ہرگز یہ تقاضا نہیں کہ الگ الگ اور خود مختار حکومتوں کے جواز کی نفی کی جائے۔
دوسرے یہ کہ جنگ کا فیصلہ اور اعلان کرنے کا اختیار صرف اور صرف منتخب ارباب اقتدار کو حاصل ہے۔ غیر حکومتی گروہ اگر یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گے تو اس سے چند در چند قانونی اور اخلاقی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔
تیسرے یہ کہ مسلمانوں کی حکومت اس ضمن میں کسی بھی ملک کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی لفظاً ومعناً پابندی کرے گی اور معاہدے بظاہر قائم رکھتے ہوئے ایسی خفیہ سرگرمیوں کی اجازت یا ان کی تائید نہیں کرے گی جو معاہدے کے خلاف ہوں۔
پہلے نکتے کی وضاحت میں ’’خلافت وملوکیت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’دنیا میں جہاں بھی ان اصولوں پر کوئی حکومت قائم ہوگی، وہ لازماً اسلامی حکومت ہی ہوگی، خواہ وہ افریقہ میں ہو یا امریکہ میں، یورپ میں ہو یا ایشیا میں اور اس کے چلانے والے خواہ گورے ہوں یا کالے یا زرد۔ اس نوعیت کی خالص اصولی ریاست کے لیے ایک عالمی ریاست بن جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن اگر زمین کے مختلف حصوں میں بہت سی ریاستیں بھی اس نوعیت کی ہوں تو وہ سب کی سب یکساں اسلامی ریاستیں ہوں گی، کسی قوم پرستانہ کشمکش کے بجائے ان کے درمیان پورا پورا برادرانہ تعاون ممکن ہوگا اور کسی وقت بھی وہ متفق ہو کر اپنا ایک عالم گیر وفاق قائم کر سکیں گی۔‘‘ (ص ۵۶)
یہ وہی تصور تھا جو دور جدید میں عالمی سطح پر امت مسلمہ کی سیاسی وحدت کو رو بہ عمل کرنے کے لیے علامہ محمد اقبال نے بھی ’خلافت‘ کے قدیم سیاسی نظام کے احیاء کے متبادل کے طور پر تجویز کیا تھا۔ چنانچہ خطبہ اجتہاد میں انھوں نے لکھا کہ:
For the present, every Muslim nation must sink into her own deeper self, temporarily focus her vision on herself alone, until all are strong and powerful to form a living family of republics. A trud and living unity, according to the nationalist thinkers, is not so easy as to be achieved by a merely symbolical overlordship. It is truely manifested in a multiplicity of free independent units whose racial rivalries are adjusted and harmonized by the unifying bond of a common spiritual aspiration. It seems to me that God is slowly bringing home to us the truth that Islam is neither Nationalism nor Imperialism but a League of Nations which recognizes artificial boundaries and racial distinctions for facility of reference only, and not for restricting the social horizon of its members. (The Reconstruction, p. 126)
’’موجودہ صورت حال میں ہر مسلمان قوم کو اپنے آپ میں گہرے طور پر غوطہ زن ہونا چاہیے اور عارضی طور پر اپنی نظر خود اپنے آپ پر جما لینی چاہیے حتیٰ کہ تمام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہو جائیں کہ وہ جمہوریتوں کا ایک زندہ خاندان تشکیل دے سکیں۔ ایک سچی اور زندہ وحدت نیشنلسٹ مفکرین کے مطابق کوئی ایسی آسان نہیں کہ اسے محض ایک علامتی عالمگیر حکمرانی کی وساطت سے حاصل کر لیا جائے۔ اس کا سچا اظہار خود مختار اکائیوں کی کثرت سے ہوگا جن کی نسلی رقابتوں کو مشترک روحانی امنگوں کی وحدت سے ہم آہنگ اور ہموار کر دیا گیا ہو۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ خدا ہمیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کے ادراک کی طرف لا رہا ہے کہ اسلام نہ تو قومیت ہے اور نہ ملوکیت، بلکہ ایک مجلس اقوام ہے جومصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو محض پہچان کے لیے تسلیم کرتی ہے، نہ اس لیے کہ ان رکن ممالک کے اپنے اپنے سماجی آفاق کو تنگ کر دیا جائے۔‘‘
جہاد وقتال کے ضمن میں بین الاقوامی معاہدات کی پاس داری کی قانونی وعملی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے سورۂ انفال کی آیات ۷۲، ۷۳ کی تشریح میں مولانا نے ’تفہیم القرآن‘ میں جو کچھ لکھا ہے، وہ قابل ملاحظہ ہے۔ فرماتے ہیں:
’’یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی بڑا اثر ڈالتی ہے۔ اس کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا بریء من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔ ’’میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت وحفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔‘‘ اس طرح اسلامی قانون نے اس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے، کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔ ... ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دار الاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جا سکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن ۲/۱۶۱، ۱۶۲)
اگرچہ کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پابندی کا اصول کلاسیکی فقہ میں بھی تسلیم کیا گیا ہے، تاہم فقہا اسے ایک محدود اور وقتی اصول کی حیثیت دیتے ہیں۔ مولانا کے اقتباس سے واضح ہے کہ وہ اسے بین الاقوامی سیاست اور مسلم وغیر مسلم حکومتوں کے تعلقات کی تشکیل کے ضمن میں ایک مستقل اور بنیادی اصول کا درجہ دیتے ہیں جس کی پاس داری مظلوم مسلمان اقلیتوں کی مدد کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دونوں زاویہ ہائے نگاہ کی ترجیحات کا فرق اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب ۱۹۴۸ء میں کشمیر کے مقامی مسلمانوں نے بھارت کے خلاف جنگ آزادی کا آغاز کیا تو مولانا مودودی نے حکومت پاکستان کی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ:
’’جہاد کشمیرکے سلسلے میں میرے نزدیک یہ کوئی معقول بات نہیں ہے کہ وہاں لڑائی بھی ہو اور نہ بھی ہو۔ یعنی ایک طرف ہماری حکومت تمام دنیا کے سامنے اعلان کرے کہ ہم لڑ نہیں رہے بلکہ لڑنے والوں کو روک رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لڑے بھی تو اس سے نہ صرف ہماری اخلاقی پوزیشن خراب ہوگی بلکہ ہم لڑ بھی نہیں سکیں گے۔ حکومت کا یہ موقف خود پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں بیان کیا تھا۔‘‘ (تصریحات ص ۴۷۰)
اس نکتے پر مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے مابین ایک اہم اور دلچسپ بحث بھی ہوئی کہ آیا پاکستانی حکومت مجاہدین کی عسکری اور افرادی امداد کر سکتی ہے یا نہیں۔ مولانا عثمانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کا عملاً مجاہدین کو مدد فراہم کرنا گویا اس بات کا اعلان ہے کہ وہ معاہدے کی پابند نہیں رہی، جبکہ مولانا مودودی کا استدلال یہ تھا کہ حکومت کا اس بات کا واضح اعلان اور اقرار نہ کرنا بلکہ ظاہری طور پر اس کی تردید کرنا اور پہلے کی طرح بھارتی حکومت سے سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم رکھنا اس امر کو تسلیم کرنے سے مانع ہے۔ تاہم بحث کے آخر میں مولانا مودودی نے یہ قرار دیا کہ چونکہ پاکستانی حکومت کی طرف سے مجاہدین کشمیر کی امداد کے علانیہ اعتراف کے باوجود بھارتی حکومت نے اسے نبذ عہد کے مترادف نہیں سمجھا، اس لیے قانونی طور پر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ صرف کشمیر کی حد تک دونوں حکومتیں امن معاہدے کی پابند نہیں رہیں، جبکہ عمومی طور پریہ معاہدہ برقرار ہے۔ (یہ مراسلت مولانا مودودی اور مولانا شبیر احمد عثمانی، ہر دو بزرگوں کے مجموعہ مکاتیب میں شامل ہے)۔
۱۹۷۹ء میں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کی طرف سے افغان مسلمانوں پر ظلم وستم کے واقعات رونما ہوئے تو وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر مولانا سے دریافت کیا گیا کہ آیا پاکستان سے مسلمانوں کو افغان بھائیوں کی مدد کے لیے سرحد پار جانا چاہیے؟ مولانا نے فرمایا:
’’کوئی شک نہیں کہ ہمارے افغان بھائی اس وقت نہ صرف صدی کے بہت بڑے جہاد میں مصروف ہیں، بلکہ جن مشکلات کا انھیں سامنا ہے، دوسروں کو ان کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا۔ ... لیکن جب تک کابل حکومت ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کرتی یا حکومت پاکستان اس سے تمام تعلقات توڑ کر اعلان جنگ نہیں کرتی، آپ پاکستانی شہریوں کو سرحد پار کر کے میدان جنگ میں نہیں اترنا چاہیے۔ یہ نہ صرف اسلامی قانون بین الاقوام کی نگاہ میں مناسب نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنے گا۔ البتہ قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے آپ کے کارکنان جا سکتے ہیں، مگر زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ بھی اسی پالیسی کو اختیار کریں جسے حکومت پاکستان اور آپ کا نظم طے کرے۔... اگر حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو جائیں اور وہاں پر جہاد میں مصروف مجاہدین کی قیادت یہ چاہے کہ دوسرے مسلم ممالک سے انھیں افرادی قوت بھی درکار ہو، تب ایسے مسائل کا مرکزی سطح پر حل تلاش کیجیے، مگر یہ چیز انفرادی یا مقامات کی سطح پر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ (تصریحات ص ۴۵۷، ۴۵۸)
مولانا کی ان تمام تصریحات سے واضح ہے کہ ان کی نظر بصیرت معاملات کو کس قدر گہرائی سے اور کتنی دور تک دیکھ رہی تھی۔ یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کو منظم کرنے کے حوالے سے مولانا مودودی کا شمار دور حاضر کے ممتاز ترین مسلم مفکرین اور قائدین میں ہوتا ہے، تاہم مولانا کے زاویہ نظر میں نظری اور فلسفیانہ بحث ومباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کا بھرپور ادراک دکھائی دیتا ہے، جبکہ معاصر جہادی تحریکوں کے ہاں اصولی اور نظری بحث اور عملی ومعروضی حالات کے تقاضوں کے مابین حکیمانہ امتیاز کا شدید فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود جہادی عناصر نے بحیثیت مجموعی تشدد اور تصادم کی راہ اختیار کر لی ہے جبکہ مولانا موودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلوؤں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دور جدید میں دینی جدوجہد کے لیے ایک متوازن حکمت عملی کے اصول اور خط وخال واضح کرنے کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔
البتہ یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ فکری قیادت کی سطح پر اتنے واضح اور دوٹوک انداز نظر کے ہوتے ہوئے وہ صورت حال کیسے پیدا ہو گئی جس کا اب ہمیں سامنا ہے۔ یقیناًاس کے بہت سے عملی وواقعاتی اسباب بھی ہیں، لیکن اس کا فکری پہلو بھی کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آئندہ کسی نشست میں ان شاء اللہ ہم اس پر بھی اپنی معروضات پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
ترکی کا ناکام انقلاب ۔ کیا چیز سیکھنے کی ہے اور کیا نہیں؟
ترکی میں فوجی انقلاب کی حالیہ ناکام کوشش مختلف حوالوں سے اور مختلف ذہنی سطحوں پر ہمارے ہاں بھی زیر بحث ہے اور حسب سابق ساری بحثیں اور تجزیے نفس واقعہ کی تفہیم میں کوئی مدد دینے سے زیادہ اپنے ہی ذہنی رویوں اور فکری سانچوں کو سمجھنے میں ہمارے لیے مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔
اس ساری بحث میں غالب ترین رجحان تو، ہمارے قومی مزاج اور ماضی کی روایت کے عین مطابق، یہی ہے کہ اسے حق وباطل کا معرکہ تصور کرتے ہوئے خود کو باقاعدہ ایک فریق کے ساتھ نتھی کیا جائے اور اقصائے عالم کی لڑائیوں کو درآمد کر کے اپنے گلی کوچوں میں لڑا جائے۔ اس طرز فکر کی توجیہ محض اسلامی اخوت یا عالم اسلام کے امور میں دلچسپی وغیرہ سے نہیں کی جا سکتی۔ اس کا گہرا تعلق اس ذہنی اضطراب اور فکری پریشانی سے ہے جو ہمیں خود اپنے قومی وجود اور اس کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے لاحق ہے اور جس نے فکری ہمتیں اتنی کمزور کر دی ہیں کہ تلخ حقیقتوں کو بطور امر واقعہ کے قبول کرتے ہوئے خود کو ایک صبر آزما جدوجہد کے لیے آمادہ کرنے کی صلاحیت معدوم سے معدوم تر ہوتی جا رہی ہے۔ نگاہیں کسی ایسے آسمانی اور معجزانہ حل کے لیے بے تاب ہیں جو تاریخ کی سطح پر جاری سلسلہ اسباب وعلل کو توڑ کر ایک نئی دنیا وجود میں لے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ خود اپنے تناظر میں اپنے مسائل سے نبرد آزمانے ہونے کا کوئی نقشہ عمل ہمارے لیے زیادہ کشش نہیں رکھتا۔ ہم دنیا بھر میں رونما ہونے والی انقلابی تبدیلیوں میں اپنے دکھوں کا مداوا ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں بھی کوئی اس طرح کا واقعہ رونما ہو، فوراً متحارب فریقوں میں سے کسی ایک کے کیمپ میں شامل ہو کر کہانی کے کرداروں اور واقعات کا انطباق اپنی صورت حال پر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ رویہ دنیا اور خاص طور عالم اسلام کے معاملات میں دلچسپی سے زیادہ اپنی زمینی حقیقتوں سے ذہنی فرار کی ایک کوشش ہے اور بلاشبہ کوئی مستحسن نہیں، بلکہ ایک قابل علاج ذہنی کیفیت ہے۔
مذکورہ سطحی اور بچگانہ انداز نظر کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر اس واقعے کو ، بلکہ اس نوعیت کے حالیہ سبھی واقعات کو، زمینی صورت حال کے سمجھنے کا ایک ذریعہ تصور کیا جائے تو ہمارے سامنے ایک بہت اہم سوال آتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک پچھڑی ہوئی اور مغلوب ومقہور قوم کو دنیا کے غالب نظام اقدار اور نظام طاقت کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت کیا متعین کرنی چاہیے؟ یہ ایک بہت بنیادی اور سنجیدہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت پیچیدہ سوال بھی ہے اور اس وقت مسلمان معاشروں میں پائی جانے والی گہری تقسیم بنیادی طور پر اسی سوال کے حوالے سے ہے۔ اس سوال کے فکری وتہذیبی ابعاد بھی ہیں اور سیاسی ومعاشی بھی۔ گویا کوئی بھی طبقہ اس سوال کے حوالے سے جو بھی پوزیشن لے گا، اس میں فکری وتہذیبی موقف کے ساتھ ساتھ سیاسی ومعاشی محرکات بھی کار فرما ہوں گے۔ ہمارے نزدیک اس نوعیت کی صورت حال میں اس امکان کو بطور مقدمہ ماننا ناگزیر ہے کہ دیانت داری کی ایک کم سے کم سطح کو برقرار رکھتے ہوئے دو بالکل متخالف اور متضاد نقطہ ہائے نظر وجود میں آ سکتے ہیں۔
ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں اس کی بعض واضح مثالیں بھی موجود ہیں۔ ۱۸۵۷ء کے واقعے کے بعد سرسید احمد خان اور ان کے مکتب فکر نے بالکل علانیہ، جبکہ بہت سے دوسرے طبقات نے نسبتاً خاموشی اور کسی قدر تفاوت کے ساتھ صورت حال کا یہی تجزیہ کیا تھا کہ انگریزی اقتدار کی موافقت اور اس کے ساتھ اعتماد کا رشتہ مسلمانوں کے سیاسی مفاد کے تحفظ یا ان کی قومی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ سرسید کی پیش کردہ نئی مذہبی فکر پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے اور اسے قبول عام بھی حاصل نہیں ہوا، لیکن ان کے سیاسی وتہذیبی موقف پر ، چند استثنائی اور غیر نمائندہ تنقیدوں کے علاوہ، ان کی دیانت یا قائدانہ مقام اور خدمات پر حرف رکھنے کی جسارت عموماً نہیں کی گئی۔ اس کا لازمی مطلب ان کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں تھا، بلکہ دراصل یہ صورت حال کی پیچیدگی اور اس کے پہلو دار ہونے کا اعتراف تھا جس میں ایک سے زیادہ ، اور بالکل متضاد مواقف کا وجود میں آنا پوری دیانت داری کے ساتھ ممکن ہوتا ہے۔
اس فکری تقسیم کو وفاداری اور غداری جیسی اصطلاحات میں بیان کرنا ایک طرف تو اس ذہنی لچک کے فقدان کی نشان دہی کرتا ہے جو تبدیلی کے ایک بہت بڑے اور گہرے عمل کو معروضیت کے ساتھ سمجھنے کے لیے ضروری ہے اور دوسری طرف بحث کو تقارب واشتراک کے دائرے کی طرف بڑھانے کے بجائے، جس کے سوا اس ساری صورت حال کا سرے سے کوئی عملی حل ہی موجود نہیں، تقسیم اور افتراق کو مزید گہرا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ کوئی چارہ اس کے سوا نہیں کہ اس طرح کے فتووں کو ، چاہے کسی کو ان کی صداقت وواقعیت پر کتنا ہی یقین ہو، سینوں میں تھام کر رکھا جائے اور اپنے زاویہ نظر کی صداقت پر پورا اطمینان رکھنے کے ساتھ ساتھ اتنی ذہنی وسعت رکھی جائے جو اجتہادی معاملات میں رکھنا اسلامی فکری روایت کا ہمیشہ سے طرہ امتیاز رہا ہے۔
اس ضمن میں یہ بات بطور خاص پیش نظر رہنی چاہیے کہ داخلی نظریاتی یا سیاسی اختلافات کو اس طرح کے سیاہ اور سفید خانوں میں تقسیم کرنا جبر اور استبداد کو براہ راست جواز دینے کا موثر ترین ذریعہ ہے اور عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں جمال عبد الناصر سے لے کر امام خمینی، جنرل ضیاء الحق اور صدام حسین تک، ہمارے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جن سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مسلم معاشروں کی ضرورت ایسی ’’مدبر‘‘ سیاسی قیادت ہے جو ان کی داخلی تقسیم کو کسی طرح سنبھالے اور باہمی کشمکش میں ضائع ہوتی توانائیوں کو کوئی تعمیری رخ دے، نہ کہ ایسی قیادت کی جو کچھ ’’جرات مندانہ‘‘ اقدامات کر کے مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرے اور پھر موقع پاتے ہی اس طاقت کو نظریاتی وسیاسی مخالفین کو روندنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دے۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۱)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۹۷) افتری علی اللہ الکذب کا ترجمہ
افتری کے معنی گھڑنا ہوتے ہیں، افتری الکذب کا مطلب ہوتا ہے جھوٹ بات گھڑنا، اور افتری علی اللہ الکذب کا مطلب ہے اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑنا، اور اللہ کی طرف بے بنیاد بات منسوب کرنا۔
قرآن مجید میں یہ تعبیر بہت زیادہ مقامات پر آئی ہے،بہت سے مترجمین کے یہاں دیکھا جاتا ہے کہ اس کا ترجمہ کرتے وقت کبھی کبھی بہتان باندھنے یا تہمت لگانے کا ترجمہ کردیتے ہیں، لیکن یہ درست نہیں ہے، افتری علی اللہ الکذب میں اللہ پر بہتان لگانے یا تہمت لگانے کا مفہوم ہوتا ہی نہیں ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جو مترجم بعض جگہوں پر بہتان باندھنے کا ترجمہ کرتے ہیں، وہی دوسری بعض جگہوں پر جھوٹ باندھنے کا ترجمہ کرتے ہیں۔ ذیل میں اس طرح کی مثالوں کا احاطہ کیا گیا ہے:
(۱) فَمَنِ افْتَرَیَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ مِن بَعْدِ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ۔ (آل عمران: ۹۴)
’’جو شخص اس کے بعد اللہ تعالی پر جھوٹ بات کی تہمت لگائے، تو ایسے لوگ بڑے بے انصاف ہیں‘‘۔ (تھانوی)
’’اس کے بعد بھی جو لوگ اللہ تعالی پر جھوٹ بہتان باندھیں وہی ظالم ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر جو کوئی باندھے اللہ پر جھوٹ اس کے بعد تو وہی ہیں بے انصاف‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’پس ہر کہ بر بندو بر خدائے دروغ را از پس آنکہ ایں را دانست پس آن گروہ ایشانند ظالمان‘‘۔ (سعدی شیرازی)
’’پس ہر کہ دروغ بندو بر خدا بعد ازیں پس آن گروہ ایشانند ستم گاران‘‘۔ (شاہ ولی اللہ دہلوی)
(۲) وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰٰہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِآیَاتِہِ إِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون۔ (الانعام:۲۱)
’’اور اس سے زیادہ اور کون بے انصاف ہوگا جو اللہ تعالی پر جھوٹ بہتان باندھے یا اللہ تعالی کی آیات کو جھوٹا بتلائے، ایسے بے انصافوں کو رست گاری نہ ہوگی‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’اور اس سے ظالم کون جو جھوٹ باندھے اللہ پر یا جھٹلادے اس کی آیتیں مقرر بھلائی نہیں پاتے گنہ گار‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۳) وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً أَوْ قَالَ أُوْحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْْہِ شَیْْءٌ۔ (الانعام: ۹۳)
’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ تہمت باندھے، یا دعوی کرے کہ مجھ پر وحی آئی ہے، درآنحالیکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹی تہمت لگائے، یا یوں کہے کہ مجھ کو وحی آئی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’اور اس سے ظالم کون جو باندھے اللہ پر جھوٹ یا کہے مجکو وحی آئی اور اس کو وحی کچھ نہیں آئی‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۴) فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً لِیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْْرِ عِلْمٍ۔ (الانعام: ۱۴۴)
’’تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے بغیر کسی علم کے‘‘۔ (اصلاحی)
’’تو اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالی پر بلادلیل جھوٹ تہمت لگائے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے‘‘۔ (تھانوی)
پھر اس سے ظالم کون جو جھوٹھ باندھے اللہ پر تا لوگوں کو بہکادے بغیر تحقیق۔ (شاہ عبدالقادر)
(۵) فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِآیَاتِہِ أُوْلَئِکَ یَنَالُہُمْ نَصِیْبُہُم مِّنَ الْکِتَابِ۔ (الاعراف: ۳۷)
’’تو ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھیں یا اس کی آیات جھٹلائیں، ان لوگوں کو ان کے نوشتہ کا حصہ پہونچے گا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’سو اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالی پر جھوٹھ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلادے ان لوگوں کے نصیب کا جو کچھ ہے وہ ان کو مل جاوے گا‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’پھر اس سے ظالم کون جو جھوٹ باندھے اللہ پر یا جھٹلادے اس کے حکم کو وہ لوگ پاویں گے جو ان کا حصہ لکھا کتاب میں‘‘ (شاہ عبدالقادر)
(۶) فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِآیَاتِہِ۔ (یونس: ۱۷)
’’اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کو جھٹلائے‘‘۔ (اصلاحی)
’’پھر کون ظالم اس سے جو بناوے اللہ پر جھوٹ یا جھٹلادے اس کی آیتیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۷) وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً أُوْلَئِکَ یُعْرَضُونَ عَلَی رَبِّہِمْ وَیَقُولُ الأَشْہَادُ ہَؤُلاءِ الَّذِیْنَ کَذَبُوا عَلَی رَبِّہِمْ۔ (ہود: ۱۸)
’’اور کون ظالم اس سے جو باندھے اللہ پر جھوٹ وہ لوگ رو برو آویں گے اوپر اپنے رب کے اور کہیں گے گواہی والے یہی ہیں جنھوں نے جھوٹ کہا اپنے رب پر‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۸) فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً۔ (الکہف: ۱۵)
’’تو اس شخص سے زیادہ کون غضب ڈھانے والا ہوگا جو اللہ پر جھوٹ تہمت لگائے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’پھر اس شخص سے گناہ گار کون جس نے باندھا اللہ پر جھوٹ‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۹) قَالَ لَہُم مُّوسَی وَیْْلَکُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَی اللّٰہِ کَذِباً۔ (طہ: ۶۱)
’’موسی نے کہا شامت کے مارو، نہ جھوٹی تہمتیں باندھو اللہ پر‘‘(سید مودودی)
’’کہا ان کو موسی نے کم بختی تمہاری جھوٹھ نہ بولو اللہ پر‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۱۰) إِنْ ہُوَ إِلَّا رَجُلٌ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً وَمَا نَحْنُ لَہُ بِمُؤْمِنِیْنَ۔ (المؤمنون: ۳۸)
’’اور کچھ نہیں یہ ایک مرد ہے باندھ لایا اللہ پر جھوٹ، اور اس کو ہم نہیں ماننے والے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۱۱) وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَہُ۔ (العنکبوت: ۶۸)
’’اور اس سے بے انصاف کون ہے جو باندھے اللہ پر جھوٹ یا جھٹلادے سچی بات کو جب اس تک پہونچے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۱۲) أَفْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً أَم بِہِ جِنَّۃٌ۔ (سبا:۸)
’’نہ معلوم یہ شخص اللہ نام سے جھوٹ گھڑتا ہے یا اسے جنون لاحق ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’معلوم نہیں اس شخص نے خدا پر (قصدا) جھوٹ بہتان باندھا ہے یا اس کو کسی طرح کا جنون ہے‘‘۔ (تھانوی)
’’کیا بنا لایا ہے اللہ پر جھوٹ یا اس کو سودا ہے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۱۳) أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً۔ (الشوریٰ: ۲۴)
’’کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اللہ پر جھوٹا بہتان گھڑ لیا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ انہوں نے خدا پر جھوٹھ بہتان باندھ رکھا ہے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’کیا کہتے ہیں اس نے باندھا اللہ پر جھوٹ‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۱۴) وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُوَ یُدْعَی إِلَی الْإِسْلَامِ۔ (الصف: ۷)
’’اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالانکہ اسے اسلام کی دعوت دی جارہی ہو‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ تہمت باندھے درآنحالیکہ اس کو اسلام کی طرف بلایا جارہا ہو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور اس سے بے انصاف کون جو باندھے اللہ پر جھوٹ اور اس کو بلاتے ہیں مسلمان ہونے کو‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۱۵) وَلاَ تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہَذَا حَلاَلٌ وَہَذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ إِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّٰہِ الکَذِبَ لاَ یُفْلِحُون۔ (النحل: ۱۱۶)
’’اور اپنی زبانوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ کی بنا پر یہ نہ کہو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام، کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگاؤ۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹی تہمت لگائیں گے وہ ہرگز فلاح نہیں پائیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعوی ہے ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگادو گے بلاشبہہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں وہ فلاح نہ پاویں گے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’اور مت کہو اپنی زبانوں کے جھوٹ بنانے سے کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو بیشک جو جھوٹ باندھتے ہیں اللہ پر بھلا نہیں پاتے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۱۶) قَدِ افْتَرَیْْنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِباً إِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللّٰہُ مِنْہَا۔ (الاعراف: ۸۹)
’’ہم اللہ پر جھوٹ تہمت باندھنے والے ٹھہریں گے اگر ہم تمہاری ملت میں لوٹ آئیں گے بعد اس کے کہ اللہ نے ہمیں اس سے نجات دی‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’ہم تو اللہ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوجاویں گے اگر (خدا نہ کرے) ہم تمہارے مذہب میں آجاویں (خصوصا) بعد اس کے کہ اللہ تعالی نے ہم کو اس سے نجات دی ہو‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’ہم نے جھوٹ باندھا اللہ پر اگر پھر آویں تمہارے دین میں جب اللہ ہم کو خلاص کرچکا اس سے‘‘۔ (شاہ عبد القادر)
(۱۷) انظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّہِ الکَذِبَ وَکَفَی بِہِ إِثْماً مُّبِیْناً۔ (النساء:۵۰)
’’دیکھ تو یہ لوگ اللہ پر کیسی جھوٹی تہمت لگاتے ہیں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’دیکھو یہ لوگ اللہ پر کس طرح جھوٹ باندھتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’دیکھ کیا باندھتے ہیں اللہ پر جھوٹ‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۱۸) مَا جَعَلَ اللّہُ مِن بَحِیْرَۃٍ وَلاَ سَآئِبَۃٍ وَلاَ وَصِیْلَۃٍ وَلاَ حَامٍ وَلَکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّہِ الْکَذِبَ۔ (المائدۃ: ۱۰۳)
’’نہیں ٹھہرایا اللہ نے بحیرہ اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حامی اور لیکن کافر باندھتے ہیں اللہ پر جھوٹ‘‘۔ (شاہ عبد القادر)
(۱۹) وَمَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّہِ الْکَذِبَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (یونس:۶۰)
’’اور کیا اٹکلے ہیں جھوٹ باندھنے والے اللہ پر قیامت کے دن کو‘‘۔ (شاہ عبد القادر)
(۲۰) قُلْ إِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّہِ الْکَذِبَ لاَ یُفْلِحُونَ۔ (یونس:۶۹)
’’کہہ جو لوگ باندھتے ہیں اللہ پر جھوٹ بھلائی نہیں پاتے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
مفصل جائزے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ متعدد اردو مترجمین، جیسے اشرف علی تھانوی، محمد جوناگڑھی، سید مودودی، امین احسن اصلاحی، جھوٹ باندھنے اور جھوٹا بہتان لگانے میں فرق نہیں کرتے ہیں، ایک جیسے الفاظ کا ترجمہ کہیں جھوٹ باندھنا کرتے ہیں تو کہیں جھوٹا بہتان اور جھوٹی تہمت لگانا کرتے ہیں۔ بظاہر اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ جھوٹ باندھنے اور جھوٹا بہتان باندھنے میں جو فرق ہے، وہ ان سے اوجھل رہا۔
بعض مترجمین نے اس لفظ کے درست معنی کی ہر جگہ پابندی کی ہے، اور ہر مقام پر جھوٹ باندھنا یا اس جیسا ترجمہ کیا ہے، ان میں شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین اور احمد رضا خان کے نام قابل ذکر ہیں۔
فارسی کے دو مشہور ترجمے بھی پیش نظر ہیں، ایک سعدی شیرازی کا اور دوسرا شاہ ولی اللہ دہلوی کا، دونوں نے تمام مقامات پر درست ترجمے کا التزام کیا ہے، جیسا کہ اس سلسلے کی پہلی مثال میں دیکھا جاسکتا ہے۔
(جاری)
فقہ حنفی کی مقبولیت کے اسباب و وجوہ کا ایک جائزہ
مولانا عبید اختر رحمانی
فقہ حنفی کو اللہ نے جس قبول عام سے نوازاہے، اس سے ہرخاص وعام بخوبی واقف ہے۔ دنیابھرکے سنی مسلمانوں کا دوتہائی حصہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے اجتہادات کے مطابق عبادات کی ادائیگی کرتاآرہاہے ۔فقہ حنفی کے اس قبول عام کی کچھ خاص وجوہ رہی ہیں؛ لیکن اکثر ایسا ہوا ہے کہ اس کے اسباب پر گہرائی سے غوروفکر کرنے کے بجائے محض یہ کہہ کر اس حقیقت کو گدلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت عباسیہ کی سرپرستی اوراثرونفوذ کے سبب فقہ حنفی کوفروغ حاصل ہوا۔ یہ ایک وجہ ہوسکتی ہے؛ لیکن مکمل اور سب سے بڑی وجہ نہیں ۔دورحاضر میں بعض لوگ جب فقہ حنفی کی خداداد مقبولیت کا انکار نہیں کرسکے توانھوں نے بطورتحقیر بعض نامکمل حوالے پیش کرکے یہ کہنا اور بھرم پھیلاناشروع کردیاکہ فقہ حنفی کو مسلمانوں کے درمیان اتنی بڑی پذیرائی ملنا محض حکومت وسلطنت کے نظرکرم کی وجہ سے تھا،اس کاخداداد مقبولیت سے کوئی لینادینانہیں ہے۔ ذیل کے مضمون میں اسی غلط فہمی کو دورکرنے کی کوشش کی گئی ہے اوریہ اس کی قبولیت کے واقعی اسباب ووجوہ بیان کیے گئے ہیں:
(۱) امام ابوحنیفہ کا اخلاص
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کے اندر اپنے کام کے تعلق سے اخلاص ہوتاہے، خداکی رضامقصود ہوتی ہے، خداکے بھی اس کے نام اورکام کو زندہ اورباقی رکھتاہے۔ہم میں سے کون نہیں جانتاکہ امت محمدیہ کثیرالتصانیف امت ہے۔اس کے باوجود عالم گیر قبولیت کی حامل کتابوں کی فہرست بہ آسانی مرتب کی جاسکتی ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ جن کے مذاہب مٹ گئے یاپھرزیادہ مقبول نہ ہوئے ان کے موسسین کے اندراخلاص نہ تھا، ایسی بات سے خداکی پناہ!ہوسکتاہے اس کی کچھ دوسری وجوہ ہوں۔ ان کے موسسین کے اخلاص میں شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہماراکہنایہ ہے کہ جولوگ فقہ حنفی کی توسیع اورنشرواشاعت اوراکثر بلادوامصار میں قبولیت عامہ کو صرف سلطنتوں کی پشت پناہی کا ثمرہ سمجھتے ہیں وہ لوگ یقیناغلطی پر اورفاش غلطی پرہیں۔ اس قبولیت عامہ کا مرجع اورمنبع امام ابوحنیفہ کا اخلاص اور خداکی رضاجوئی ہے۔
عن وکیع بن الجراح کان واللہ ابوحنیفۃ عظیم الامانۃ، وکان اللہ فی قبلہ، جلیلا عظیما یوثر رضاہ علی کل شی ولواخذتہ السیوف فی اللہ تعالی لاحتمل، (مناقب الائمۃ الاربعۃ لعبد الہادی المقدسی، ص۶۰)
’’وکیع بن جراح کہتے ہیں :ابوحنیفہ بڑے امانت دار تھے، اللہ تبارک وتعالیٰ کی ان کے دل میں بڑی عظمت وکبریائی تھی، اللہ کی رضاکو ہرچیز پر ترجیح دیتے تھے خواہ اس میں جان ہی جانے کا خطرہ کیوں نہ ہو۔‘‘
عن ابِی ھریرۃ قال قال رسول اللہِ صلی اللہ علیہِ وسلم: ان اللہ اذا احب عبدا دعا جِبرِیل فقال: انِی احِب فلانا فاحِبہ، قال فیحِبہ جِبرِیل، ثم ینادِی فِی السماء فیقول : ان اللہ یحِب فلانا فاحِبوہ فیحِبہ اہل السماء ،قال ثم یوضع لہ القبول فِی الارضِ (بخاری باب ذکر الملائکۃ ،حدیث نمبر۳۲۰۹،مسلم باب اذا احب اللہ عبدا ،حدیث نمبر۲۶۳۷)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں: میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر،چنانچہ جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور (ساتھ ہی)آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ فلاں شخص سے اللہ تعالی محبت فرماتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو،چنانچہ آسمان والے(سب کے سب) اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر زمین میں اس کے لیے قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘
یہ امام ابوحنیفہ کااخلاص ہی تھاکہ انھوں نے زندگی بھراپنے مخالفین سے الجھنے کی کوشش نہیں کی۔اگرکسی نے کچھ غلط سلط کہابھی تواس کو سناان سناکردیااورمعاملہ خداکے سپرد کردیا۔اللہ کو اپنے بندے کی اداپسند آئی کہ اس کی خاموشی کے بدلے پورے عالم میں شہرت دے دی۔
جعفر بن حسن کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب میں دیکھاتوپوچھاکہ اللہ نے آپ کے ساتھ کیامعاملہ فرمایا انھوں نے کہا:میری مغفرت فرمادی۔انھوں نے پوچھاعلم کی وجہ سے۔ توفرمایاکہ فتوی توفتوی دینے والے کے لیے بہت ہی سخت معاملہ ہے۔پھرانھوں نے پوچھاکہ کس وجہ سے مغفرت ہوئی توفرمایاکہ لوگوں کی میرے بارے میں ایسی باتوں کی وجہ سے جومجھ میں نہیں تھی۔(مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ ص۵۲)
عباد تمار کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب میں دیکھاتوپوچھاکہ کیامعاملہ پیش آیا۔ انھوں نے کہاکہ اپنے رب کی وسیع رحمت کا معاملہ ہوا۔میں نے پوچھاکہ علم کی وجہ سے۔ انھوں نے جواب دیاکہ ہائے افسوس علم کے لیے توسخت شرائط ہیں اوراس کی اپنی آفتیں ہیں بہت کم لوگ اس سے بچ سکتے ہیں۔پھرمیں نے پوچھاکہ توپھرکس وجہ سے رحمت کا معاملہ ہوا؟فرمایاکہ میرے بارے میں لوگوں کی ایسی ایسی باتوں کی وجہ سے جس سے میں بری تھا۔(مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ ص۵۲)
یہی وجہ ہے کہ جولوگ امام ابوحنیفہ کے مخالفت کرتے رہے انھوں نے بھی اعتراف کیاکہ امام ابوحنیفہ کی مقبولیت کا دائرہ کوفہ سے گزرکرسارے عالم اسلام میں پہنچ چکاہے۔
عبد اللہ بن الزبیر الحمیدی، قال: سمعت سفیان بن عیین، یقول: شیئان ما ظننت انھما یجاوزان قنطرۃ الکوفۃ، وقد بلغا الآفاق: قراء ۃ حمزۃ، ورای ابِی حنیفۃ (تاریخ بغداد ۱۵؍۴۷۵، اسنادہ صحیح)
’’سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ دوچیزوں کے بارے میں میراگمان تھاکہ وہ کوفہ کی حدود سے بھی تجاوز نہیں کریں گی؛ لیکن وہ دنیابھر میں پھیل چکی ہیں۔ایک حمزہ کی قرات دوسرے ابوحنیفہ کے اجتہادات۔‘‘
فقہ حنفی کی قبولیت عامہ کی بنیادی اوراولین وجہ یہی ہے۔ (واللہ اعلم)
(۲) رضائے الٰہی
حقیقت یہ ہے کہ فقہ حنفی سے جس طرح اسلامی ممالک اوربلادوامصار معمور رہے، اسے صرف اللہ کی مرضی اورمنشا سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ کسی کے اجتہاد کو اتنی ہردلعزیزی اورمقبولیت نصیب ہو اور عالم اسلام کا بیشتر علاقہ فقہ حنفی کواپنائے؛ حالانکہ یہ تمام علاقے ثقافت اورکلچر کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ کہاں چین اورکہاں عراق،کہاں ہندوستان اورکہاں بلادروم،اس کے باوجود فقہ حنفی کاعلم ہرجگہ نور افشاں ہے، تویہ صرف مشیت الٰہی اوررضائے خداوندی ہی ہے۔ ہم دنیا میں ایسے کتنے ہی واقعات سے واقف ہیں کہ بہت سارے اشخاص جونہ صرف نہایت قابل اورعالم وفاضل تھے؛ لیکن دنیاان کے فیض سے محروم رہی اوربہت سارے افراد بھلے ہی علمی اعتبار سے کم درجہ کے ہوں؛ لیکن ان سے زیادہ فیض پہنچا۔اوراس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کی کوئی ادااللہ کوپسند آجاتی ہے اوراللہ اس کے فیض کو عام کردیتے ہیں اوراس کے لیے صدقہ جاریہ بنادیتے ہیں۔
خدانخواستہ ہماراکہنایہ نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ علم یاعمل کے اعتبار سے کسی سے کمترتھے؛ بلکہ وہ علم وعمل کی جس بلندی پر تھے وہ تاریخ اورکتب سوانح میں مذکور ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت اورلوگوں کے قبول عام کو صرف رضائے الہی کا ثمرہ سمجھناچاہیے ۔اس کی جانب بعض علمائے نے رضائے الہی اوربعض نے سرالہی سے تعبیر کرکے اشارہ کیاہے۔چنانچہ امام ابن الاثیر لکھتے ہیں۔
ویدل علی نزاھتہ عنھا ما نشر اللہ تعالی لہ من الذِکر المنتشر فی الآفاق، والعلم الذی طبق الارض، والاخذ بمذھبہ وفقہہ والرجوع الی قولہ وفعلہ، وان ذلک لو لم یکن للہ فیہ سر خفی، ورضی اِلہی وفقہ اللہ لہ لما اجتمع شطر السلامِ او ما یقاربہ علی تقلیدہ، والعمل برایہ ومذھبہ حتی قد عبِد اللہ ودیِن بفقھہ، وعمل برایہ ومذھبہ، واخذ بقولہ الی یومنا ھذا ما یقارب اربعماءۃ وخمسین سنۃ (جامع الاصول۱۲؍۹۵۲)
’’اورامام ابوحنیفہ کے فقہ کی پاکیزگی کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے ان کو پوری دنیا میں شہرت بخشی ہے اوران کے علم سے روئے زمین کے علما سیراب ہورہے ہیں اور پوری دنیا میں ان کے مذہب اورفقہی اجتہادات پر عمل کیاجاتاہے اوران کے قول وفعل کی جانب توجہ دی جاتی ہے اور اگراس بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا پوشیدہ رازنہ ہوتا اوراللہ کی مرضی نہ ہوتی جس کی اللہ نے امام ابوحنیفہ کو توفیق ارزانی کی ہے تونصف اہل اسلام یااس کے قریب ان کی تقلید پر اوران کی رائے پر عمل کرنے پر متفق نہ ہوتے اوریہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے دور سے لے کرآج تک سنہ ہجری تک ان کے اجتہادات کے مطابق اللہ کی عبادت کی جاتی رہی ہے، ان کی رائے اور مذہب پر عمل کیاجاتارہاہے۔‘‘
واضح رہے کہ یہ ابن اثیر نے اپنے عہد کے بارے میں تحریر کیاہے۔ ورنہ امام ابوحنیفہ کے دور سے لے کر پندرہویں صدی یعنی موجودہ دورتک امام ابوحنیفہ کی فقہ پر بیشتراہل اسلام عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔
ایک دوسری وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ فقہ حنفی بواسطہ امام حماد،ابراہیمی نخعی، علقمہ واسود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے خزانہ علم وفکر سے مستفیض ہے ۔اورصرف فقہ حنفی ہی کیوں کہیے؛ بلکہ تمام فقہائے کوفہ کافقہ وفتاویٰ میں اصل مرجع حضرت عبداللہ بن مسعود ہی ہیں اوروہی دراصل فقہ کوفی کے بانی مبانی ہیں۔اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ ابن ام عبد جوتمہارے لیے پسند کریں، میں بھی اس کو تمہارے لیے پسند کرتاہوں۔
رضِیت لامتِی ما رضِی لہا ابن امِ عبد (مستدرک حاکم۳؍۳۱۳)
ایک دوسری روایت میں یہ لفظ بھی آیاہے۔
قد رضِیت لکم ما رضِی لکم ابن امِ عبد (مستدرک حاکم۳؍۳۱۹)
جب کہ ایک اورروایت میں اس طرح مذکور ہے:
رضِیت لامتِی ما رضِی لھم ابن امِ عبد، وکرِھت لامتِی ما کرِہ لھا ابن امِ عبد (فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل،حدیث نمبر۱۵۳۶)
’’میں نے اپنی امت کے لیے وہی پسند کیاہے جس کوابن ام عبد(عبداللہ بن مسعود)نے پسند کیاہے اور میں نے اپنی امت کے لیے اس کو ناپسند کیاہے جس کو ابن ام عبد نے ناپسند کیاہے۔‘‘
اوریہ سمجھنامشکل نہیں کہ جواللہ کے رسول کی پسند ہوگی، وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بھی پسندیدہ ہوگی۔ اس طرح اگرمنطق کی زبان میں کہیں تو اللہ کے رسول نے عبداللہ بن مسعود کے بارے میں فرمایاکہ میں اپنی امت کے بارے میں وہی پسند کرتاہوں جس کو ابن مسعودپسندکریں،ابن مسعود کے اقوال ہی فقہ حنفی کا اصل سرمایہ ہیں ،اس طرح یہ منطقی نتیجہ کے طورپر حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند قرارپاتی ہے اور بالواسطہ طورپر اللہ تبارک وتعالیٰ کی پسند قرارپاتی ہے اورظاہرسی بات ہے کہ قبول عام اسی کو نصیب ہوگاجس کو اللہ پسند کریں گے ۔فقہ حنفی کوقبول عام جونصیب ہواہے تواس لیے کہ اس کو اللہ نے پسند کیاہے۔
فقہ حنفی کی قبولیت میں رضائے الٰہی کو دخل ہے، اس کی جانب حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اپنے بعض رسالوں میں اشارہ کیاہے۔ وہ اپنے مکاتیب میں لکھتے ہیں:
’’ایک روز اس حدیث پر ہم نے گفتگو کی کہ ایمان اگرثریاکے پاس بھی ہوتا تو اہل فارس کے کچھ لوگ یاان میں کاایک شخص اس کوضرورحاصل کرلیتا۔فقیر (شاہ صاحب)نے کہاکہ امام ابوحنیفہ اس حکم میں داخل ہیں؛ کیونکہ حق تعالیٰ نے علم فقہ کی اشاعت آپ ہی کے ذریعہ کرائی اور اہل اسلام کی ایک جماعت کو اس فقہ کے ذریعہ مہذب کیا۔ خصوصا اس اخیر دور میں کہ دولت دین کا سرمایہ یہی مذہب ہے۔سارے ملکوں اورشہروں میں بادشاہ حنفی ہیں،قاضی حنفی ہیں ۔اکثر درس علوم دینے والے علما اوراکثرعوام بھی حنفی ہیں۔‘‘ (کلمات طیبات مطبع مجتبائی ص۱۶۸)
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے ایک دوسرے مقام پر اپنے مکاشفات ذکر کرتے ہوئے لکھاہے:
’’مذہب کا معاملہ بھی ایساہی ہوتاہے کہ کبھی ایک ملت کی حفاظت کی طرح حق تعالی کی عنایت خودکسی مذہب کی حفاظت کی طرف بھی متوجہ ہوتی ہے۔ اس معنی کرکہ اس مذہب کے نگہبان وپیرو ہی اس وقت ملت کی جانب سے مدافعت کرنے والے ہوتے ہیں۔یایہ کسی علاقے میں انہی کا شعارحق وباطل کے درمیان وجہ فرق ہوتاہے۔اس صورت حال کے پیش نظرملا اعلی یاملا اسفل میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ملت دراصل یہی مذہب ہے۔‘‘
آگے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’جب یہ تمہید ذہن نشیں ہوگئی توآگے کہتاہوں:مجھے ایسانظرآتارہاکہ مذہب حنفی میں کوئی خاص بات اور اہم راز ہے ۔میں برابر اس مخفی راز کو سمجھنے کے لیے غوروفکر کرتارہاحتی کہ مجھ پر وہ بات کھل گئی جسے بیان کرچکاہوں۔میں نے دیکھاکہ معنی دقیق کے اعتبار سے اس مذہب کو ان دنوں تمام مذاہب پر غلبہ وفوقفیت حاصل ہے۔ اگرمعنی اولی کے اعتبار سے بعض دوسرے مذاہب اس پر فائق بھی ہیں۔اورمیرے سامنے یہ بات بھی آئی کہ یہی وہ راز ہے جس کابسااوقات بعض ارباب کشف کسی درجہ میں ادراک کرلیتے ہیں اورپھراس کو تمام مذاہب کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں اوربعض مرتبہ یہی رازتصلب وپختگی کی بابت الہام کے طورپر اورکبھی خواب کی صورت میں اس طورپر ظاہر ہوتاہے کہ اس سے اس مذہب پر عمل کے سلسلہ میں تحریض ہوتی ہے۔‘‘ (فیوض الحرمین ص۱۰۵ ،بحوالہ فقہ ولی اللہی ص۱۵۰)
یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کے بیشترادوار میں اسلامی مملکتوں کے سربراہ حنفی رہے ہیں اور سرحدوں کی حفاظت،دشمنان دین اسلام سے مقاتلہ،دارالاسلام کی توسیع اوراحکام شرعیہ کانفاذ انہی کے ہاتھوں میں رہا، لہٰذا حنفی مذہب کی بقا اور حفاظت خود مرضی الٰہی رہی ہے۔
ایک دوسرے مقام پر حضرت شاہ صاحب نے فروعات فقہیہ میں اپنی قوم کی مخالفت کومراد حق کی مخالفت قراردیاہے؛چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
ان مراد الحق فیک ان یجمع شملا من شمل الامۃ المرحومۃ بک وایاک ان تخالف القوم فی الفروع فانہ مناقض لمراد الحق (فیوض الحرمین ص۶۲)
’’حق تعالیٰ کی مراد تم سے یہ ہے کہ امت مرحومہ کی شیرازہ بندی کی جائے اورخبردارفروعات میں اپنی قوم کی مخالفت سے بچتے رہنا؛کیونکہ وہ حق تعالی کی مراد کے خلاف ہے۔‘‘
یہ تھوڑے سے نصوص یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ رضائے الہی کے عنوان سے میں نے جوفقہ حنفی کی نشرواشاعت کا سبب بیان کیاہے ۔وہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اوریہ راقم الحروف کی اختراع نہیں؛ بلکہ دیگر سابق علما کی تحقیق سے استمداد واستفادہ ہے۔
(۳) قابل اور باصلاحیت شاگرد
حقیقت یہ ہے کہ شخصیت کتنی بھی عظیم کیوں نہ ہو؛ لیکن تاریخی طورپر اس کانام اورکام جاری رہنے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جواپنی ذات کی قربانی دے کر اپنے استاد یاتحریک کے موسس کے کام کو آگے بڑھا سکیں۔ ایسے شاگردوں کاملنااورایسے افراد کا تحریک سے جڑنامحض فضل ربانی اورعطائے ایزدی ہے۔ ورنہ تاریخ کی کتنی ہی نامور ہستیاں ایسی ہیں جوباوجود علم وفضل کا پہاڑ ہونے کے محض اس لیے صرف کتابوں میں دفن ہوکر رہ گئیں کہ ان کے بعد ان کے کام اورکاز کوآگے بڑھانے والے مخلص شاگرددستیاب نہ ہوئے ،یاان کے شاگردان کے علمی امانت کے لائق امین نہ بن سکے۔
حضرت لیث بن سعد علم حدیث وفقہ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں، مجتہد ہیں،مصر میں ان کا مذہب بھی ایک عرصے تک رائج رہا۔ان کی فقاہت کی تعریف موافق ومخالف سبھی نے کی ہے، وہ امام مالک کے ہم عصر تھے۔ ان دونوں میں بعض امور کے تعلق سے اختلاف بھی تھا،جس پر دونوں میں مشہور خط وکتابت بھی ہوئی جس کو پڑھ کر آج بھی آنکھوں میں ٹھنڈک اترتی ہے اوردل کوسکون ملتاہے کہ ہمارے اسلاف اختلاف میں بھی کتنا مہذب اورشائستہ طریقہ کاراختیار کرتے تھے۔
لیث بن سعد کے بارے میں امام شافعی کہتے ہیں:
اللیث ا فقہ من مالک الا ان اصحابہ لم یقوموا بہ
لیث مالک سے زیادہ فقیہ تھے لیکن لیث کے شاگرد اپنے استاذ کے علم کی حفاظت نہ کرسکے۔
(طبقات الفقہاء ا۷۸، تاریخ دمشق لابن عساکر۵۰؍۳۵۸،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ۲۴؍۲۷۵، سیر اعلام النبلاء ۷؍۲۱۶)
یہ دیکھیے، امام شافعی کااعتراف کہ لیث امام مالک سے زیادہ فقیہ تھے۔ امام شافعی نے امام مالک کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیاتھااوران کے بڑے قدرشناس تھے۔ کہتے ہیں کہ جب علما کا ذکر ہوتوامام مالک ستاروں کے مانند ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء ۷؍۱۵۵)لیکن فقہی تقابل میں انھوں نے امام مالک پر لیث بن سعد کو ترجیح دی اوراس کے ساتھ ہی ایک چھپے ہوئے سوال کاجواب بھی دے دیا۔ جب لیث بن سعد مصری زیادہ فقیہ ہیں توپھران کو وہ شہرت وہ مقام اورمتبعین کی وہ کثرت کیوں نصیب نہ ہوئی جوامام مالک کونصیب ہوئی تواس کا جواب امام شافعی یہ دیتے ہیں کہ ان کے شاگردان کے کام اورمشن کو لے کر کھڑے نہیں ہوئے، اس وجہ سے ان کا علم اوران کی فقاہت عروج پذیر نہیں ہوئی اور ان کا نام اور کام اورکارنامہ شہرت دوام حاصل نہ کرسکا۔
امام ابوحنیفہ کو اللہ نے ایسے باصلاحیت مخلص اورمحبت کرنے والے شاگردوں سے نوازا جنہوں نے اپنے استاد کے منہج کو اپنامنہج بنایااوراپنے استاد کے علمی کارنامہ کو دنیابھر میں مشتہر کیا۔ انھوں نے اپنے استاد سے بجاطورپر علمی اختلاف بھی کیا، استاد کے دلائل اورنظریہ پر تنقید بھی کی؛ لیکن اسی کے ساتھ استاد کی ذات سے چمٹے رہے۔ ان کو چھوڑانہیں ان سے جدائی اختیار نہیں کی۔
یوں توامام ابوحنیفہ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے؛ لیکن جوشاگردان سے بطورخاص وابستہ رہے وہ ہیں: امام ابویوسف،امام محمد بن الحسن،امام زفر،امام حسن بن زیاد۔
امام ابویوسف علیہ الرحمہ نے جب دیکھاکہ اوزاعی نے امام ابوحنیفہ کے سیر کے مسائل پر تنقید کی ہے توانھوں نے اس کا مدلل جواب لکھا جو الرد علی الاوزاعی کے نام سے مشہور ہے۔اسی طرح انھوں نے اپنے استاد کی مرویات کو کتاب الآثار کے نام سے جمع کیا۔ اسی طرح اپنے سابق استاد ابن بی لیلیٰ اورامام ابوحنیفہ کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف کو دلائل کے ساتھ واضح کیا اور اپنا رجحان بھی بتایا۔
امام محمد نے استاد کے مسلک اورمنہج پر کتابیں لکھیں جو ظاہر الروایۃ کے نام سے مشہور ہے۔ اہل عراق اوراہل مدینہ کے اختلافات پر الحجۃ علی اھل المدینہ لکھی اوراس کے علاوہ دیگر کتابیں لکھ کر استاد کے نام اورکام کو آگے بڑھایا۔
امام زفر نے اہل بصرہ کی اہل کوفہ سے عداوت کی وجہ سے امام ابوحنیفہ سے برگشتگی کو حکمت اور حسن تدبیر سے دورکیااوراہل بصرہ کو بھی آپ کا محب ومطیع اور فرمانبردار بنادیا۔
امام ابن عبدالبر اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’زفربصرہ کے قاضی بنائے گئے تو انھوں نے فرمایاکہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل بصرہ اورہمارے مابین حسد وعداوت پائی جاتی ہے۔لہذا آپ کا سلامت بچ نکلنادشوار ہے۔جب بصرہ میں قاضی مقرر ہوکر آئے تو اہل علم جمع ہوکرروزانہ آپ سے فقہی مسائل میں مناظرہ کیاکرتے تھے۔ جب ان میں قبولیت اور حسن ظن کا رجحان دیکھتے توکہتے یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اہل بصرہ متعجب ہوکر پوچھتے کیاابوحنیفہ ایساکہہ سکتے ہیں، امام زفرجواب دیتے: جی ہاں اوراس سے بھی زیادہ!اس کے بعد تومعمول ساہوگیاکہ جب بھی زفراہل بصرہ کا رجحان تسلیم وانقیاد دیکھتے تو کہتے کہ یہ ابوحنیفہ کاقول ہے اس سے اہل بصرہ اورمتعجب ہوتے چنانچہ امام زفر کااہل بصرہ سے یہی رویہ رہا یہاں تک کہ بغض وعداوت چھوڑ کر وہ امام صاحب کے معتقد ہوگئے ۔پہلے برابھلاکہتے تھے اب ثناخوانی میں رطب اللسان رہنے لگے۔‘‘ (الانتقاء لابن عبدالبرص۱۷۳)
عبدالبرکے اس بیان میں یہ بات غلط ہے کہ امام زفر بصرہ کے قاضی بناکر بھیجے گئے تھے؛ بلکہ جب ان کو قاضی بنانے کا فرمان صادر ہواتو انھوں نے اپناگھر منہدم کردیااورروپوش ہوگئے۔ بصرہ وہ اپنے بھائی کے میراث کے سلسلہ میں گئے تھے۔ اہل بصرہ کوان سے اتنی عقیدت ہوگئی کہ انھوں نے پھران کو بصرہ سے باہر جانے نہیں دیا۔علامہ کوثری ’’لمحات النظر فی سیرۃ الامام زفر ‘‘ میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔(دیکھئے ص۲۵)
مغرب میں امام ابوحنیفہ کے مذہب اورمسلک کوپھیلانے والے اسد بن فرات ہیں۔اسد بن فرات نے امام مالک سے بھی تحصیل علم کیاتھااوراسی کے ساتھ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے خرمن علم سے بھی خوشہ چینی کی تھی۔ ان کا رجحان احناف کی جانب زیادہ تھا؛چنانچہ مغرب میں ان کی علمی وجاہت سے فقہ حنفی کو فروغ ہوا ۔(’’حیاتِ امام ابوحنیفہ‘‘، مصنف ابوزہرہ ص۷۵۷)
امام حسن بن زیاد نے مختلف موضوعات پر خصوصاقضاء کے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھ کر اس موضوع کے خس وخاشاک کو صاف کیااوربعد والوں کے لیے راہ ہموار کی۔پھران چراغوں سے نئے چراغ جلے اوران چراغوں نے مزید چراغ جلائے اورپوری دنیا فقہ حنفی سے منور ہوگئی اوراس کی ضیا پاشیوں نے پوری دنیا کو اپنے احاطہ میں لے لیا۔ ان چاروں کے علاوہ امام ابوحنیفہ کے دامن فقہ سے وابستہ دیگر تشنگان علم نے بھی خوشہ چینی کی اورجہاں رہے وہاں امام ابوحنیفہ کے نام کوروشن کیااوران کے دبستان فقہ کو فروغ بخشا۔مثلاعبداللہ بن المبارک کی ذات گرامی کو لے لیں، انھوں نے بھی فقہ حنفی کی خدمت کی ہے اورامام ابوحنیفہ کے مسائل پر مبنی کتاب لکھی ہے۔
سلیم بن سلیمان یقول: قلت لِابنِ المبارکِ: وضعت مِن رایِ ابِی حنِیفۃ ولم تضع مِن رایِ مالِک قال: لم ارہ علما (جامع بیان العلم وفضلہ ۲؍۱۱۰۷)
’’سلیم بن سلیمان کہتے ہیں :میں نے ابن مبارک سے کہاکہ آپ نے امام ابوحنیفہ کی فقہ پر کتابیں لکھی ہیں، امام مالک کی فقہ پر کتاب کیوں نہیں لکھی توفرمایاکہ وہ مجھ کو زیادہ جچی نہیں۔‘‘
اس حوالہ سے مقصود امام مالک کی تنقیصِ شان نہیں؛بلکہ مراد یہ ہے کہ فقہ حنفی کی خدمت کرنے والوں میں سے ایک عبداللہ بن المبارک ہیں۔
شیخ ابوزہرہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تحت لکھتے ہیں۔
’’جب سیاسی قوت کمزور پڑگئی تو وہ علما کی ہی جدوجہد تھی جس نے مختلف امصاروبلاد میں فقہ حنفی کو زندہ رکھا۔ اس ضمن میں علما کی کوشش ایک نہج پر قائم نہیں رہی؛ بلکہ رفتار زمانہ کے پیش نظر کبھی اس میں قوت رونماہوئی اورکبھی کمزوری واقع ہوئی۔جن بلاد وامصار میں علما اثرورسوخ کے حامل تھے، وہاں یہ مذہب پھلا پھولا اور برگ وبار لایا؛لیکن جہاں علما کمزورتھے، وہاں مذہب بھی کمزورپڑگیا۔‘‘ (حیات حضرت امام ابوحنیفہ ص۷۵۶)
(۴) تصنیفی خدمات
اس کا تعلق اگرچہ ماقبل سے ہی ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظرعلیحدہ طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ کسی بھی مسلک اورمذہب کو تابندہ اورزندہ رکھنے میں تصنیفی خدمات بہت اہم کرداراداکرتی ہیں۔تصنیفی خدمات سے اندازہ ہوتاہے کہ کسی مذہب کے خدوخال کیا ہیں، اس کے نقوش کیاہیں، اس کی بنیاد اوراصول کیاہیں۔ اگرتصنیفی خدمات نہ ہوں اوراس کے جاننے والے فنا کے گھاٹ اترجائیں توپھریہ مذہب سرے سے نیست ونابود ہوجاتاہے۔ کسی مذہب کے دوام کے لیے دونوں چیزیں ضروری ہیں یعنی اس مذہب کے جاننے والے اوراس مذہب کی تصانیف۔
اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے بھی یہی نظام قائم کیاہے؛ چنانچہ ایک جانب انبیا اوررسولوں کو بھیجا اور دوسری طرف صحائف اورکتب بھی نازل فرمائیں ۔ کتابوں میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک کوئی ان کو عملی طور پر برت کرنہ بتائے سمجھنامشکل ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ محض تصنیفی خدمات یاپھر محض اس مذہب کے جانکار رہنے سے کسی مذہب کو دوام نصیب نہیں ہوتا،دونوں چیزوں کا ہوناضروری ہے۔
مذاہب اربعہ زندہ ہیں اوراس کے نام لیوا آج بھی دنیا کے ہرخطے میں موجود ہیں تواس کی وجہ یہی ہے کہ ہردور میں اس مذہب کے علما اورفقہا بھی رہے ہیں اورانھوں نے تصنیفی خدمات کے ذریعہ پیش آمدہ واقعات اورحوادث میں لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیاہے۔محمد بن جریرالطبری،ابن حزم ظاہری کی کتابیں موجود ہیں؛ لیکن چونکہ اس مذہب کے جاننے والے واقف کار علما نہیں ہیں، لہذا یہ مذہب تاریخ میں باقی نہیں رہا۔
ابن خلدون اس تعلق سے لکھتے ہیں:
’’آج ظاہریہ کامذہب بھی مٹ مٹاگیا کیونکہ اس کے امام ختم ہوگئے بہت سے طلبہ جوان کے مذاہب کا مطالعہ کرناچاہتے ہیں اوران کتابوں سے ان کا فقہ اورمذہب سیکھناچاہتے ہیں وہ اپناوقت ضائع کرتے ہیں اور اس سے جمہور کی مخالفت اوران کے مذہب سے انکار بھی لازم آتاہے ۔ہوسکتاہے کہ وہ اس مذہب کی وجہ سے بدعتیوں میں شمار کرلیے جائیں؛ کیونکہ وہ اساتذہ کی چابی کے بغیرکتابوں سے علم کو نقل کررہے ہیں۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون ص۲۸۳)
ائمہ اربعہ میں سے ائمہ ثلاثہ کی تصانیف تومشہور ہیں؛لیکن امام ابوحنیفہ کی تصانیف کے تعلق سے تاریخی نقوش اتنے دھندلے ہیں کہ کچھ کہنامشکل ہے۔ویسے ماقبل کے مورخین نے اس تعلق سے کچھ کتابوں کے نام لیے ہیں تواس بنا پر کہاجاسکتاہے کہ امام ابوحنیفہ نے کچھ کتابوں کی تصنیف ضرورکی لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچ سکی جیساکہ دیگر علما کے ساتھ بھی ہواہے۔ ان کے شاگردوں نے جوکتابیں لکھیں ان میں سے کچھ ہم تک پہنچی ہیں اوربیشتر ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔
ان کے شاگردوں میں نمایاں نام امام ابویوسف کاہے۔ انھوں نے درج ذیل کتابیں لکھی ہیں۔ابن ندیم نے امام ابویوسف کی تصانیف میں مندرجہ ذیل کتب کانام لکھاہے۔
کتاب الصلاۃ، کتاب الزکا، کتاب الصیام، کتاب الفرائض، کتاب البیوع، کتاب الحدود، کتاب الوکالۃ، کتاب الوصایا، کتاب الصید والذبائح، کتاب الغصب والاستبرا ء، کتاب اختلاف الامصار، کتاب الرد علی مالک بن انس، کتاب رسالۃ فی الخراج الی الرشید، کتاب الجوامع الفہ لیحیی بن خالد یحتوی علی اربعین کتابا ذکر فیہ اختلاف الناس والرای الماخوذ بہ(الفہرست لابن ندیم ۱؍۳۵۳)
اس فہرست میں ابن ندیم نے کتاب الردعلیٰ مالک بن انس کانام لیاہے؛ لیکن ایسالگتاہے کہ یاتوسبقت قلم سے ایساہوگیاہے، صحیح نام ہوناچاہیے: کتاب الرد علیٰ سیرالاوزاعی۔
امام زفر کی کتابوں کا ابن ندیم نے کوئی تذکرہ نہیں کیاہے؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے بھی کچھ کتابیں لکھی ہیں۔ ابن ندیم نے امام زفر کے ترجمہ میں صرف اتنالکھ کر چھوڑدیاہے کہ ان کی چند کتابیں ہیں۔ کون کون سی ہیں، یہ نہیں بتایا۔ الفہرست کے محقق نے حاشیہ میں لکھاہے کہ ان کی ایک کتاب مجرد فی الفروع کے نام سے ہے۔ اس کے علاوہ جیساکہ مولانا عبدالرشید نعمانی نے ثابت کیاہے کہ ان کی ایک اورکتاب کتاب الآثار کے نام سے ہے جس کاحاکم نے بھی ذکر کیاہے۔لہذاان کی زیادہ تصانیف نہ ہوناکوئی مستبعد نہیں ہے۔
امام محمد بن الحسن کی درج ذیل کتابوں کاابن ندیم نے ذکر کیاہے۔
ولمحمد من الکتب فی الاصول کتاب الصلوٰۃ، کتاب الزکاۃ، کتاب المناسک، کتاب نوادر الصلوۃ، کتاب النکاح، کتاب الطلاق، کتاب العتاق وامھات الاولاد، کتاب السلم والبیوع، کتاب المضارب الکبیر، کتاب المضارب الصغیر، کتاب الاجارات الکبیر، کتاب الاجارات الصغیر، کتاب الصرف، کتاب الرھن، کتاب الشفع، کتاب الحیض، کتاب المزارع الکبیر، کتاب المزارع الصغیر، کتاب المفاوضۃ وھی الشرکۃ، کتاب الوکالۃ، کتاب العاریۃ، کتاب الودیعۃ، کتاب الحوالۃ، کتاب الکفالۃ، کتاب الاقرار، کتاب الدعوی والبینات، کتاب الحیل، کتاب الماذون الصغیر، کتاب الدیات، کتاب جنایات المدبر والمکاتب، کتاب الولاء، کتاب الشرب، کتاب السرق وقطاع الطریق، کتاب الصید والذبائح، کتاب العتق فی المرض، کتاب العین والدین، کتاب الرجوع عن الشھادات، کتاب الوقوف والصدقات، کتاب الغصب، کتاب الدور، کتاب الھبۃ والصدقات، کتاب الایمان والنذور والکفارات، کتاب الوصایا، کتاب حساب الوصایا، کتاب الصلح والخنثی والمفقود، کتاب اجتھاد الرای، کتاب الاکراہ، کتاب الاستحسان، کتاب اللقیط، ، کتاب الآبق، کتاب الجامع الصغیر، کتاب اصول الفقہ، کتاب یعرف بکتاب الحجۃ یحتوی علی کتب کثیر، کتاب الجامع الکبیر، کتاب امالی محمد فی الفقہ وھی الکیسانیات، کتاب الزیادات، کتاب زیادات الزیادات، کتاب التحری، کتاب المعاقل، کتاب الخصال، کتاب الاجارات الکبیر، کتاب الرد علی اھل المدینۃ، کتاب نوادر محمد (الفہرست لابن ندیم۱؍۲۵۴ )
حقیقت یہ ہے کہ امام محمد نے اپنی تصانیف کے ذریعہ ہی فقہ حنفی کا نام زندہ اورروشن رکھاہے اورانہی کی کتابیں فقہ حنفی کا دارومدار ہیں۔اگرکہاجائے کہ فقہ حنفی کو زندہ رکھنے میں ایک بڑاسبب اوراہم کردار امام محمد بن الحسن کی کتابوں اورتصنیفی خدمات کا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
امام حسن بن زیاد لولوئی۔یہ بھی بڑے مرتبہ کے فقیہ تھے۔یحییٰ بن آدم جوبڑے درجہ کے مجتہد ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر فقیہہ نہیں دیکھا،ان کی تصنیفات بقول امام طحاوی درج ذیل ہیں:
قال الطحاوی ولہ من الکتب کتاب المجرد لابی حنیفۃ، روایتہ کتاب ادب القاضی، کتاب الخصال، کتاب معانی الیمان، کتاب النفقات، کتاب الخراج، کتاب الفرائض، کتاب الوصایا (الفہرست لابن ندیم ۱۵۵)
پھراس کے بعد امام ابویوسف،امام محمد ،امام زیاد بن حسن کے شاگردوں اورپھران کے شاگردوں نے جوتصنیفی خدمات انجام دی ہیں: سفینہ چاہیے اس بحربیکراں کے لیے،اوراس کے بعد بھی حالت یہی ہوگی۔ورق تمام ہوااورمدح ابھی باقی ہے۔
مشہور مورخ ابن خلدون لکھتے ہیں: ان کے(امام ابوحنیفہ)فقہ پر کثرت سے کتابیں لکھی گئیں اورشافعیوں سے مناظرہ کی مجلسیں بھی خوب گرم رہیں اوراختلافی مسائل میں انتہائی نفیس ومفید مذاکرات ہوئے اورانھوں نے گہرے وسنجیدہ نظریات پیش کیے۔ (مقدمہ ابن خلدون ص۶۲۵)
اصول فقہ کے باب میں ابن خلدون حنفیہ کی کاوشوں کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پھر (امام شافعی کے بعد)اس پر فقہائے احناف نے کتابیں لکھیں اوران قواعد کی تحقیق کی اوران میں تفصیل سے گفتگو کی۔ اسی طرح اہل کلام نے بھی اس پر کتابیں لکھیں؛ مگراس موضوع پر فقہا کی کتابیں فقہ کے لیے زیادہ موزوں اورفروع کے مناسب ہیں؛ کیونکہ وہ ہرجزئی مسئلہ میں کثرت سے مثالیں وشواہد پیش کرتے ہیں اورفقہی نکات پر مسائل اٹھاتے ہیں،فقہائے حنفیہ اس میں بڑے ماہر ہیں ۔وہ فقہی نکات کے دریا میں غوطہ لگاکر مقدوربھرمسائل فقہ سے ان قوانین کے موتی چن لیتے ہیں۔ جیساکہ انہی کے امام میں سے ابوزید دبوسی کازمانہ آیاتوانھوں نے قیاس پر سب سے زیادہ لکھااوران بحثوں اورشرطوں کو تکمیل تک پہنچادیا، جن کی قیاس میں ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی تکمیل سے اصول فقہ کی صنعت مکمل ہوگئی اوراس کے مسائل مرتب اور قواعد تیار ہوگئے ،حنفیہ نے بھی اس علم پر بہت سی کتابیں لکھیں ہیں۔پہلے علما میں ابوزید دبوسی کی اور پچھلے علما میں سیف الاسلام بزدوی کی بہترین کتاب ہے۔جو اس فن کے تمام مسائل کی جامع ہے۔ ابن ساعاتی حنفی نے کتاب الاحکام اوربزدوی کی کتاب کو ایک جگہ ترتیب سے جمع کردیااوراس کا نام البدائع رکھا۔ اس کی ترتیب انتہائی بہترین ہے اوریہ بے حد نادرکتاب ہے۔اس زمانے کے علما کے مطالعہ میں یہی رہتی ہے اوروہ اسی کے مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔بہت سے علمائے عجم نے اس کی شرحیں لکھی ہیں۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون، ص۶۳۲)
جن کو اس تعلق سے زیادہ معلومات چاہیے وہ کشف الظنون، معجم المولفین، المدخل الی المذھب الحنفی اوردیگر کتابوں کا مطالعہ کریں۔جس سے یہ حقیقت بخوبی کھل کر واضح ہوگی کہ علمائے احناف نے تصنیف وتالیف اورپیش آمدہ مسائل میں لوگوں کی رہنمائی ہر دور میں جاری رکھی اوریہی وجہ ہے کہ امت کا ایک بڑاطبقہ فقہ حنفی سے وابستہ رہاہے۔
(۵) فقہ حنفی کی اپنی خصوصیات
فقہ حنفی کی ایک مزید خصوصیت یہ ہے کہ وہ صیقل شدہ ہے۔ یعنی حکومت اورکارقضا اس کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل کاحل اس نے پیش کیاہے اورلوگوں کو جو مختلف طرح معاملات پیش آتے ہیں، اس میں رہنمائی کی ہے۔ تیرہ صدیوں سے وہ تجربات کی بھٹی میں تپ تپ کر کندن ہوچکی ہے، اس معاملے میں اگرکوئی دوسری فقہ اس کے ساتھ شریک ہوسکتی ہے تووہ صرف فقہ مالکی ہے۔
فقہ مالکی اورفقہ حنفی کے تقابل میں فقہ حنفی کو ایک امتیاز یہ حاصل ہے کہ فقہ مالکی کادائرۂ کار صرف اندلس اوران کے اطراف ہی رہے ہیں، جہاں کی تہذیب اومعاشرت ایک جیسی ہے۔ جب کہ فقہ حنفی نے مختلف الاذہان اورمختلف ممالک وقبائل کو اپنے سانچے میں ڈھالاہے۔ایک جانب اگروہ عراق اوردارالسلام بغداد میں حکومت کا سرکاری مذہب ہے تواسی کے ساتھ وہ ترک اورروم میں بھی کارقضا وافتا انجام دے رہاہے۔ اگرایک جانب چینی مسلمان فقہ حنفی کے حلقہ بگوش ہیں تودوسری طرف ہندی مسلمان بھی، اسی کے دائرہ اطاعت میں داخل ہیں۔
بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگرکوئی مذہب اورمسلک تجربات کی بھٹی میں تپ تپ کر کندن ہواہے تووہ صرف فقہ حنفی ہے ۔اگرفقہ حنفی میں جان نہ ہوتی تو وہ تاریخ کے اتنے رگڑے نہیں سہہ سکتی تھی۔وہ اب تک زندہ ہے پایندہ ہے تویہ اس کی نافعیت اورتاریخ کی کسوٹی پر ثابت ہونے والی صداقت ہے۔
اس سلسلہ میں یہ بتادیناشائد نفع سے خالی نہ ہوگاکہ حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی نوراللہ مرقدہ یہ کہتے تھے کہ فقہ حنفی اورمالکی تعمیری فقہ ہیں اورفقہ شافعی وحنبلی تنقیدی ہیں اوراس کی توجیہ وہ یہ کرتے تھے:
’’لوگ جانتے ہیں کہ حنفی اورمالکی فقہ کی حیثیت اسلامی قوانین کے سلسلہ میں تعمیری فقہ کی ہے اورشافعی وحنبلی فقہ کی زیادہ تر ایک تنقیدی فقہ کی ہے۔ حنفیوں کی فقہ کومشرق اورمالکی فقہ کو مغرب میں چوں کہ عموماً حکومتوں کے دستور العمل کی حیثیت سے تقریباً ہزار سال سے زیادہ مدت تک استعمال کیاگیاہے؛ اس لیے قدرتاً ان دونوں مکاتب خیال کے علما کی توجہ زیادہ تر جدید حوادث وجزئیات وتفریعات کے ادھیڑبن میں مشغول رہی۔ بخلاف شوافع وحنابلہ کے کہ بہ نسبت حکومت کے ان کا زیادہ ترتعلیم وتعلم، درس وتدریس اور تصنیف وتالیف سے رہا؛ اس لیے عموماً تحقیق وتنقید کا وقت ان کو زیادہ ملتارہا۔‘‘ (شاہ ولی اللہ نمبرص۲۰۰)
(یہاں پر یہ بتادیناضروری ہے کہ فقہ حنفی نے اجتہاد وتقلید کے مابین ایک مناسب خط کھینچا ہے جو افراط وتفریط سے عاری اوراعتدال وتوازن پر مبنی ہے۔ انھوں نے ایک جانب عوام پر مجتہدین کی تقلید کو ضروری قراردیا تو دوسری جانب پیش آمدہ مسائل کی رہنمائی کے لیے اجتہاد فی المذہب کے باب کو مفتوح رکھا؛کیونکہ واقعات وحوادث بے شمار ہیں اور کوئی شخص کتناہی ذہین کیوں نہ ہو؛ لیکن وہ تمام پیش آمدہ واقعات اوراس کی جزئیات نہیں بتاسکتا،لہٰذا اس کی ضرورت باقی رہتی ہے کہ اجتہاد فی المذہب کا سلسلہ جاری رہے۔)
فقہ حنفی کی ایک اورخصوصیت جواس کو دیگر فقہ سے ممتاز کرتی ہے، یہ ہے کہ امام ابویوسف، امام محمد اورامام زفر اگرچہ خود اپنی جگہ مجتہد مطلق تھے؛ لیکن ان کے اقوال بھی امام ابوحنیفہ کے اقوال کے ساتھ ہی کتابوں میں ذکر کیے گئے ہیں، لہٰذا یہ سب مل ملاکر فقہ حنفی ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے فقہ حنفی کادائرہ بہت وسیع ہوگیاہے۔شیخ ابوزہرہ اس تعلق سے لکھتے ہیں:
’’صرف امام ابوحنیفہ کے اصحاب وتلامذہ کے افکار وآرا ہی ان کے اقوال سے مخلوط نہیں ہوئے؛ بلکہ آگے چل کر لوگوں نے ان میں ایسے اقوال کوبھی داخل کردیے، جو امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب سے منقول نہ تھے۔ ان میں سے بعض اقوال کو حنفی مسلک سے وابستہ سمجھاگیااوربعض کو نہیں۔ بعض علما نے کچھ اقوال کوراجح اورکچھ کومرجوح قراردیا۔اس طرح اختلاف وترجیح میں اضافہ ہوتارہا اوریہ سب کچھ بڑے دقیق اورمحکم قواعد پر مبنی تھے۔اس طرح فقہ حنفی میں وسعت پیداہوئی اوراس کا دامن اتناوسیع ہوگیاکہ اس میں زمانہ کے لوازمات اورعام حالات کاساتھ دینے کی صلاحیت پیداہوئی۔‘‘ (حیات حضرت امام ابوحنیفہ ص۷۲۴)
آگے چل کر شیخ ابوزہرہ لکھتے ہیں کہ فقہ حنفی کی ترقی کا باعث تین عوامل ہوئے :
(۱) حنفی مذہب کے دائرہ کے مجتہد اورتخریج مسائل کرنے والے فقہا
(۲) امام صاحب اورآپ کے اصحاب سے منقول اقوال کی کثرت
(۳) تخریج مسائل کی سہولت اورمخرجین کے اقوال کامعتبرہونا
(۶) داعیان دین کی کوششیں اورکاوشیں
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ سلطنت عباسیہ کے خلفا حنفی مذہب سے ارادت اورعقیدت رکھتے تھے۔سلطنت عباسیہ کے قاضی اورچیف جسٹس وغیرہ حنفی ہواکرتے تھے۔یہ حکومتیں کفر کی سرزمین پر لشکرکشی کیاکرتی تھیں۔ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہزاروں افراد اسلام لے آتے تھے۔ان نومسلموں کواسلامی تعلیمات سکھانے کی ذمہ داری قاضیوں کی ہوا کرتی تھی ۔یہ قاضی چونکہ خود بھی حنفی ہوتے تھے؛ لہذا ان کو مسائل فقہیہ کی تعلیم بھی فقہ حنفی کے مطابق دیاکرتے تھے۔ اس طرح رفتہ رفتہ تھوڑے ہی عرصہ میں فقہ حنفی نے ایک بڑی اوروسیع جگہ پیداکرلی۔بالخصوص نومسلمین تمام کے تمام فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ ان نومسلمین قبائل میں سے آگے چل کر جنھوں نے سلطنت وحکومت کی باگ ڈورسنبھالی۔ جیسے کہ سلجوقی،مغل،آل عثمان وغیرہ ۔وہ سب کے سب بھی حنفی ہوئے۔اس کے علاوہ بھی دیگر داعیانِ دین جنہوں نے انفرادی طورپر دعوت دین کاعلم بلند کیاوہ بھی زیادہ تر حنفی تھے۔
جب چنگیز خان کی قیادت میں تاتاریوں نے عالم اسلامی کوروند دیاتواس وقت عالم اسلام زوال کا شکار تھا۔ اورایسالگتاتھاکہ اس کے دن پورے ہوچکے ہیں؛ لیکن خداکی رحمت جوش میں آئی اورفاتحین نے مفتوحین کے مذہب کوقبول کرلیا۔ چنگیز خان کی حکومت اس کے بیٹوں میں تقسیم کردی گئی تھی۔چنگیز کے بڑے بیٹے کی نسل جوجی خان میں سے برکہ خان نے اسلام قبول کیا،اس طرح کہ اس کو خود اسلام کی طرف رغبت ہوئی اور اس نے مسلم تاجروں سے اس کے حوالے سے پوچھااوراسلام قبول کرلیااوراپنے چھوٹے بھائی کوبھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ چنگیز خان کا پوتاقازان بن ارغوان امیرتوزون کی تلقین سے ان کے ہاتھ پرمشرف بہ اسلام ہوا۔چنگیز خان کے خاندان کی تیسری شاخ جو بلادمتوسطہ پر قابض تھی، اس میں سے تیمور خان نے ایک مسلم داعی شیخ جمال الدین کاشغر کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔(بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۳۳۱)
حقیقت یہ ہے کہ مغل اورترک تمام کے تمام حنفی گزرے ہیں اوراس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے جن کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیاوہ سب حنفی تھے، لہذا اس اثر سے انھوں نے بھی فقہیات میں حنفی مسلک کواپنایا۔
اسی طرح ہم ہندوستان میں دیکھیں کہ حضرات صوفیا کرام کے وجود باجود سے ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت ہوئی ۔صرف خواجہ اجمیر ی کے تعلق سے بعض مورخین نے لکھاہے کہ نوے لاکھ افراد حلقہ بگوش اسلام ان کی وجہ سے ہوئے۔پھران کے خلفا اورمریدین نے دوردراز کے مقامات پر جس طرح اسلام کو پھیلایا،وہ تاریخ کاحصہ ہے۔
سیر الاولیا کے مصنف حضرت خواجہ معین الدین چشتی اوران کے خلفا کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ملک ہندوستان اپنے آخری مشرقی کنارہ تک کفروشرک کی بستی تھی ۔اہل تمرد انا ربکم الاعلی کی صدا لگارہے تھے۔اورخداکی خدائی میں دوسری ہستیوں کوشریک کرتے تھے اوراینٹ، پتھر، درخت، جانور، گائے کوسجدہ کرتے تھے۔ کفر کی ظلمت سے ان کے دل تاریک اورمقفل تھے۔ سب دین وشریعت سے غافل، خداوپیغمبر سے بے خبرتھے۔ نہ کسی نے قبلہ کی سمت پہچانی۔نہ کسی نے اللہ اکبرکی صداسنی،آفتاب اہل یقین حضرت خواجہ معین الدین کے قدم مبارک کا یہاں پہنچنا تھاکہ اس ملک کی ظلمت نوراسلام سے مبدل ہوگئی۔ اوران کی کوشش وتاثیر سے جہاں شعائرشرک تھے، وہاں مسجد ومحراب ومنبر نظرآنے لگے۔ جوفضا شرک کی صدا سے معمورتھی، وہ نعرۂ اللہ اکبر سے گونجنے لگی۔اس ملک میں جس کو اسلام کی دولت ملی اورقیامت تک جو بھی اس دولت سے مشرف ہوگا۔ نہ صرف وہ بلکہ اس کی اولاد دراولاد نسل درنسل سب ان کے نامہ اعمال میں ہوں گے اوراس میں قیامت تک جوبھی اضافہ ہوتارہے گا اوردائرہ اسلام وسیع ہوتارہے گا۔ قیامت تک اس کاثواب شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری کی روح کو پہنچتارہے گا۔‘‘ (سیر اولیا ص، بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۲۸-۲۹)
سیر الاقطاب کے مصنف لکھتے ہیں: ہندوستان میں ان کی وجہ سے اسلام کی اشاعت ہوئی اورکفر کی ظلمت یہاں سے کافور ہوئی۔(سیرالاقطاب ص۱۰۱)
یہ صرف صوفیانہ خوش عقیدگی نہیں ہے؛ بلکہ دیگر مورخین نے بھی اس کااعتراف کیاہے۔ ابوالفضل آئین اکبری میں لکھتاہے: اجمیر میں عزلت گزریں ہوئے اوراسلام کا چراغ بڑی آب وتاب سے روشن کیااوران کے انفاسِ قدسیہ سے جوق درجوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی۔(آئین اکبری،سرسید ایڈیشن ص ،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۳۰)
یہ سب صوفیائے کرام چونکہ حنفی تھے، لہذا نومسلم بھی فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔
برصغیر ہندوپاک میں کس طرح اسلام پھیلا۔اس پرپروفیسر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام کا مطالعہ کیاجائے۔ہم اس مختصر مضمون میں کچھ اشارے کردیتے ہین بالخصوص ہندوستان کے تعلق سے۔
کشمیر جوبرہمنوں کا گڑھ تھا،اس کو سید علی ہمدانی نے اپنی دعوتی کوششوں سے اسلام کے مرکز میں تبدیل کردیا اور اس طرح تبدیل کیاکہ آبادی کاتوازن ہی بالکل الٹ دیا۔جہاں کبھی برہمن اکثریت میں تھے، اب وہ اقلیت میں آگئے۔ سید علی ہمدانی حنفی تھے، لہذا ظاہرسی بات ہے کہ ان کے اثر سے اسلام قبول کرنے والے بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے جس طرح ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت کی۔ اس کے بارے میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
’’سلسلہ چشتیہ کی بنیاد ہندوستان میں پہلے ہی دن سے اشاعت وتبلیغ اسلام پر پڑی تھی۔ اوراس کے عالی مرتبت بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ہاتھ پر اس کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے کہ تاریخ کے اس اندھیرے میں اس کا اندازہ لگانابھی مشکل ہے‘‘۔ (تاریخ دعوت وعزیمت جلد سوم)
’’پنجاب کے مغربی صوبوں کے باشندوں نے خواجہ بہاء الحق ملتانی اوربابافرید پاک پٹن کی تعلیم سے اسلام قبول کیا۔یہ دونوں بزرگ تیرہویں صدی عیسوی کے قریب خاتمہ اورچودھویں صدی عیسوی کے شروع میں گزرے ہیں۔ بابافرید گنج کے بارے میں مصنف نے لکھاہے کہ انھوں نے سولہ قوموں (برادریوں) کو تعلیم وتلقین سے مشرف بہ اسلام کیا‘‘۔ (پریچنگ آف اسلام)
اس کے علاوہ تمل ناڈو کے بارے میں آتاہے کہ وہا ں نویں صدی میں ایک بزرگ مظہر نامی آکربسے تھے اوران کے ساتھ مریدین تھے۔ انھوں نے وحشیوں کو زیربھی کیااوراپنے اخلاق وکردارسے ان کو اسلام کی جانب مائل بھی کیا۔ بنگال وبہار میں بھی اسلام کی شاعت صوفیا کرام ہی کے زیر اثر ہوئی۔اوریہ بات مخفی نہیں ہے کہ صوفیا کرام میں سے تمام کے تمام حنفی تھے، لہٰذا ان کے وابستگان بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔
انڈونیشیا اور ملیشیا میں حنفیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔جب کہ وہاں پر کوئی لشکر کشی نہیں ہوئی، وہاں تاجروں کے ذریعہ اسلام پھیلا۔گمان غالب یہ ہے کہ یہ تاجربھی حنفی ہوں گے اوران کے اثر سے اسلام قبول کرنے والوں نے فقہ حنفی کو اپنایاہوگا۔
یہ اگرچہ انتہائی مختصر جائزہ ہے؛ لیکن اس سے اتنی بات ثابت ہورہی ہے کہ صوفیا کرام اور داعیان دین کا فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں اہم کردارہے۔
(۷) حکومت وسلطنت کا اثر
عمومی طورپر مورخین نے بھی فقہ حنفی کے قبولِ عام اوراقطارِعالم میں پھیلنے کاایک سبب حکومت وسلطنت کی سرپرستی قرار دیا ہے اور امام ابویوسف کے عباسی سلطنت میں قاضی القضا(چیف جسٹس)بننے کو بڑی وجہ قراردیاہے۔ابن حزم لکھتے ہیں:
مذہبان انتشرا فی بدء امرھما بالریاسۃ، الحنفی بالمشرق والمالکی بالاندلس (وفیات الاعیان۲؍۲۱۶)
’’دومذہب ابتدا میں حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے پھیلے، مشرق میں حنفی اوراندلس میں مالکی مذہب۔‘‘
ابن خلدون لکھتے ہیں: امام ابوحنیفہ کے ماننے والے آج عراقی، سندھی، چینی ،ماورا النہر اورتمام عجمی شہروں کے مسلمان ہیں؛ کیونکہ ان کامذہب خصوصیت سے عراق اوردارالسلام کامذہب تھااورسرکاری مذہب کو ہی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
وکان اشھر اصحابہ ذکرا ابو یوسف، تولی قضاء القضاۃ ایام ھارونِ الرشید فکان سببا لظھور مذھبہ والقضاء بِہِ فِی اقطارِ العراقِ وخراسان و ما وراء النھر (الانصاف فی اسباب الاختلاف ص ۳۹)
اس سے انکار نہیں کہ یہ بھی فقہ حنفی کے نشرواشاعت کاایک سبب ہے؛ لیکن اسی کو مکمل سبب قراردینا،نہ صرف امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں کے کارناموں کے ساتھ ظلم ہے؛ بلکہ ان تمام فقہائے احناف کے ساتھ ظلم ہے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی فقہ حنفی کی خدمت میں لگادی۔
(۸) فقہ حنفی کو حکومت کی مخالفت کا سامنا
یہ شاید بہتوں کومعلوم نہ ہوکہ فقہ حنفی پرسرکاری ظلم واستبداد بھی خوب ہوئے ہیں۔ دیگرمسالک اس سے بہت حد تک بچے رہے ہیں۔اندلس وغیرہ میں فقہ حنفی رواج پذیرتھی؛ لیکن وہاں کے سلطان نے شاہی استبداد سے کام لے کر فقہائے احناف کو اپنی مملکت سے جلاوطن کردیا۔مقدسی احسن التقاسیم میں بعض اہل مغرب کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ سلطان کے سامنے دونوں فریق جمع ہوئے سلطان نے پوچھا:امام ابوحنیفہ کہاں کے ہیں؟کہاگیا:کوفہ کے۔ پھراس نے پوچھا:امام مالک کہاں کے ہیں؟ جواب دیاگیا: مدینہ کے۔ تواس نے کہا: ہمارے لیے صرف امام دارالہجرت کافی ہیں۔ اس کے بعد اس نے تمام فقہائے احناف کوملک سے باہر نکل جانے کاحکم دے دیااورکہنے لگامیں اپنی سلطنت میں دومذہب پسند نہیں کرتا۔(احسن التقاسیم)
مصر میں فقہ مالکی شافعی اورحنفی سبھی موجود تھے؛ لیکن فاطمی حکمرانوں کے دورمیں صرف فقہ حنفی کووہاں کے حکام نے نشانہ بنایا۔اوراس کی وجہ سیاسی تھی؛ کیونکہ فقہ حنفی سلطنت عباسیہ کاسرکاری مذہب تھااورعباسی خلفا اورفاطمی حکمرانوں میں ہمیشہ چپقلش رہتی تھی، دونوں دینی سیادت وقیادت کے دعویدار تھے۔ایک سنیوں کا نمائندہ تودوسراشیعوں کا نمونہ تھا۔اسی وجہ سے فاطمی حکمرانی کے دورمیں جوطویل عرصہ تک ممتد رہا، فقہ حنفی کونشانہ بنایاگیا۔
اسی طرح فارس یعنی موجودہ ایران پورا کا پورا فقہ حنفی پر عمل پیرا تھا؛ لیکن ایک جانب وہاں صفوی خاندان کے حکمرانوں نے شیعیت کی ترویج میں جم کر حصہ لیاتودوسری جانب سلطنتِ عثمانیہ سے چپقلش کی وجہ سے ایرانی حکمرانوں نے حنفیوں پر زندگی تنگ کردی اوران کو ہرطرح سے ستایاگیا۔نتیجہ یہ ہواکہ وہ شہراوربلاد وامصار جوکبھی فقہائے احناف کے گڑھ ہواکرتے تھے، ویران اورسنسان ہوگئے۔اورفارس جوکبھی علمی رہنمائی میں اسلامی دنیاکا نقیب اوررہنماتھاعلمی تنزلی سے ایسادوچارہواکہ کل تک جوزمانہ کے امام تھے، وہ غیروں کے پیروکار بن گئے۔
ہم نے یہ کچھ وجوہ اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ فقہ حنفی کے شیوع اور قبولِ عام کے تعلق سے مخالفانہ پروپیگنڈہ کرنے والے اپنے نظریات پرسنجیدگی سے غورکریں اورسمجھیں کہ مورخین کے چند بیانات کوجس طرح وہ اپنی دلیل بنائے ہوئے ہیں، وہ اس موضوع کے موضوعی اور غیرجانبدارنہ مطالعہ میں کہاں تک درست اورباصواب ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنی مرضیات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)
برصغیر کی صنعتی و تجارتی حالت ۔ انگریز کی آمد سے پہلے اور بعد میں
مولانا محمد انس حسان
کسی بھی ملک کی صنعت و معیشت اس ملک ترقی کی ضامن ہوتی ہیں۔ انگریز سامراج کی آمد سے قبل یہ خطہ صنعتی ومعاشی لحاظ سے اس قدر خوشحال وترقی یافتہ تھا کہ اسے سونے کی چڑیا کہاجاتا تھا۔ گیارہویں صدی سے انیسویں صدی کے وسط تک ہندوستان تجارتی وصنعتی اعتبار سے بہت نمایاں تھا۔ اس دور میں انگلستان سے جاپان تک ہندوستانی مال فروخت ہوتا تھا۔ دورِ حاضر کے بیشتر یورپی ممالک اس خطہ کی صنعتی وتجارتی منڈیاں تھیں۔ بقول باری علیگ ہندوستان کی صنعتی برتری کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے ختم کرنے میں سولہ سال صرف ہوئے۔ (1) انگلستان کے لیے تجارتی اور جنگی جہاز ہندوستان میں تیار ہوتے تھے۔ (2) ولیم ڈگبی کے مطابق بمبئی میں جو جہاز بنتے ہیں ، ان پر انگلینڈ کی بہ نسبت پچیس فی صدی کم لاگت لگتی ہے۔ (3)
یہاں (برصغیر) میں چاروں طرف بڑے بڑے صنعت وحرفت کے کاروبار جاری تھے۔ (4) بڑے بڑے لائق اور کاری گر صناع موجود تھے۔ (5) سوت اور کپڑے اس قدر عمدہ اور باریک ونفیس وخوب صورت بنتے تھے کہ دنیا میں کوئی ملک بھی ان کی برابری نہ کرسکتا تھا۔ (6) ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک روئی اور ریشم کا کپڑا یہاں بکثرت تیار ہوتا تھا۔(7) مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے کپڑے کی صنعت کے حوالے سے لکھا ہے کہ حسن وباریکی میں ان کپڑوں کی حالت یہ ہے کہ ایک انگوٹھی میں پورا تھان سما سکتا ہے۔ (8) لوہا سازی کی صنعت انتہائی عروج پر تھی۔ رناڈلے کے مطابق دہلی کی مشہور لوہے کی لاٹ جو پندرہ سو سال پرانی ہے اس سے لوہا ڈھالنے کی صنعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ (9) لندن میں فولاد ہندوستان کے نام سے فروخت کیاجاتا تھا۔(10) ہندوستان کی صنعت وتجارت پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا حسین احمد مدنیؒ لکھتے ہیں کہ :
‘‘ہندوستان قدیم زمانے سے صنعتی اور تجارتی ملک تھا۔ یہاں ہر قسم کی اعلیٰ اور ادنیٰ صنعتوں کے بے شمار کارخانے قائم تھے۔ جن سے ملکی ضروریات اور ذرائع ترقیات پوری ہوتی تھیں اور تمام دنیا کے ممالک نفع حاصل کرتے تھے ۔ بیرونی ملکوں سے ہر سال کروڑوں اشرفیاں انہیں مصنوعات کی قیمت میں ہندوستانی تاجر حاصل کرتے تھے ۔ اور ہندوستانی باشندے کروڑوں آدمیوں کی تعداد میں یہاں کی صنائع اور تجارتوں کے ذریعہ سے آرام اور عیش کی زندگی بسر کرتے تھے۔‘‘ (11)
صنعتی میدان میں آج چین ترقی کے جس بامِ عروج پر پہنچا ہوا ہے ایک دور تھا کہ برصغیر کی ترقی کا بھی یہی عالم تھا۔ جس طرح چین کی مصنوعات دنیا کے کسی بھی خطے کی مصنوعات سے کم قیمت پر اس خطے میں دستیاب ہوتی ہیں ، بالکل اسی طرح برصغیر کی مصنوعات بھی اپنے اعلیٰ معیار کے ساتھ ساتھ کم قیمت پر دستیاب ہوتی تھیں۔ ایچ ایچ ولسن لکھتے ہیں کہ:
’’ہندوستان کے بنے ہوئے سوتی اور ریشمی کپڑے اس وقت تک برطانیہ کے بازاروں میں ولایتی کپڑے سے ارزاں بکتے تھے ۔ ہندوستانی مال کی قیمت ولایتی مال سے پچاس سے لے کر ساٹھ فی صدی تک کم ہوتی تھی ۔ مگر اس پر بھی ہندوستانی کپڑے کی تجارت میں فائدہ رہتا تھا۔‘‘ (12)
محمد تغلق نے دہلی میں سوتی کپڑے کا ایک کارخانہ قائم کیا تھا، جس میں پانچ ہزار کاریگر کام کرتے تھے ۔(13) اورنگ زیب کے عہد میں سورت اور احمد آباد سے جو مال باہر بھیجا جاتا تھا اس سے (اس وقت کے) تیرہ لاکھ اور ایک سو تین روپے سالانہ چنگی کے ذریعے وصول ہوتا تھا۔(14) کپڑا سازی کی صنعت اس درجہ قدیم تھی کہ فراعنہ مصر کے مقبروں میں ان کی نعشیں ہندوستان کے باریک ململ میں لپٹی ہوئی پائی گئیں۔ (15) اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ صنعت کس درجہ قدیم اور کسی قدر ترقی یافتہ تھی ۔ مسٹر بالکفین کے مطابق ہندوستانی کپڑے نے ہمارے اونی کپڑے کا کام تمام کردیا اور اپنے مقابل دیگر ممالک کے کپڑے کی درآمد انگلستان میں روک دی ۔ (16) اس صنعتی ترقی نے انگریز سامراج کو اتنا حواس باختہ کردیا تھا کہ اپنی پارلیمنٹ میں درخواست گزار دی کہ اگر ہندوستانی کپڑا نہ روکا گیا تو یہ صنعت یہاں(انگلستان ) میں بالکل تباہ ہوجائے گی۔(17) اس صورت حال نے انگریز سامراج میں غصہ کی آگ بھڑکائی ۔
انگریز مورخین برصغیر کی موجودہ زرعی حالات کو دیکھ کر یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ ہندوستان ہمیشہ سے زرعی لحاظ سے ترقی یافتہ تھا۔ یقیناًاس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ خطہ زرعی لحاظ سے بھی ترقی یافتہ تھا مگر اس دلیل سے اس امر کو مشکوک نہیں کیا جاسکتا کہ صنعتی لحاظ سے یہ خطہ غیر ترقی یافتہ تھا۔ چنانچہ حضرت مدنیؒ نے اس دلیل اور اس رائے کا مکمل رد کیا ہے اور اسے انگریز مورخین ومصنفین کا پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔ (18) باری علیگ نے تو انتہائی واضح طور پر لکھا ہے کہ :
’’آج ہندوستان کو صرف زرعی ملک کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے شروع تک ہندوستان ایک صنعتی ملک تھا۔ دنیا کے ہر ملک کے تاجر ہندوستان سے تجارت کرتے تھے۔‘‘ (19)
انگریز سامراج کی آمد سے قبل برصغیر مال ودولت سے بھرپور تھا۔ یہاں کے تاجر خوشحال تھے اور اجتماعی مفاد کو ترجیح دی جاتی تھی۔ اس خوشحالی نے یہاں کے باشندوں میں سرمایہ داری کے مسائل پیدا نہیں کیے تھے۔ بعض تاریخیں بتلاتی ہیں کہ 1772ء میں صرافوں کی دکانوں پر شہروں میں اشرفیوں اور روپیوں کے ڈھیر ایسے لگے ہوتے تھے جیسے منڈیوں میں اناج کے ڈھیر ہوتے ہیں۔ (20) ریاست کا فلاحی کردار انتہائی عمدہ تھا۔ محمد تغلق کے دور میں بیس ہزار آدمی شاہی مہمان خانہ میں کھانا کھایا کرتے تھے۔ (21) صرف دہلی میں ستر شفاخانے عام لوگوں کے لیے دن رات کام کرتے تھے اور دو ہزار مسافر خانے مسافروں کے لیے کھلے رہتیتھے۔(22) مسافروں کے جانوروں کا کھانا بھی سرائے (مسافرخانوں) کے ذمہ تھا۔ (23) برصغیر کے تاجر اپنی مصنوعات دنیا کے ہر کونے میں پہنچاتے تھے۔ بنگال میں صرف دریائے ہگلی سے 50یا 60جہاز مال سے بھرے ہوئے سالانہ تجارت کے لیے بیرون ہند بھیجے جاتے تھے۔ (24)چیزیں اتنی ارزاں اور کم قیمت تھیں کہ آج بھی سن کر حیرت ہوتی ہے۔ مولانا گیلانی نے ابن حوقل (سیاح) کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
’’شہد، گھی ، من ،اخروٹ، کشمش، الغرض کھانے پینے کی ساری چیزیں اتنی ارزاں ہیں کہ گویا مفت مل جاتی ہیں۔‘‘ (25)
برصغیر کے حکمرانوں کی معاشی خوشحالی کا ذکر تو کتابوں میں ملتا ہے مگر اس عہد کے عام تاجروں کے مالی گوشواروں کا علم زیادہ تر لوگوں کو نہیں ہے ۔ صاحب مآثر الامراء کے مطابق سورت کے تاجر ملا عبدالغفور جو عالمگیری عہد کے تاجر ہیں، ان کا سرمایہ کروڑوں روپیہ سے متجاوز تھا۔ عالمگیر کا بیٹا مرادبخش جو گجرات کا گورنر تھا اس کے حالات میں بھی لکھا ہے کہ حاجی پیر محمد زاہد علی سے ایک دفعہ چھ لاکھ قرض شہزادے نے لیا۔ (26)
زرعی لحاظ سے بھی یہ خطہ خوشحال اور زرخیز تھا۔ مغلوں کے دور میں ساری زمین ریاست کی ہوتی تھی اور اسے مختلف افراد کو مقررہ مقاصد کے تحت دیاجاتا تھا۔ کارل مارکس نے بھی اپنی کتاب داس کیپٹل میں برصغیر کی زمینوں کی قومی ملکیت کو اپنے لیے بطور دلیل پیش کیا ہے۔(27) خاندان مغلیہ کے سربراہوں نے برصغیر کی زراعت کو تیزی کے ساتھ فروغ دینے کے لیے ایسے زرعی قوانین وضع کیے کہ ترقی کی راہ پر گامزن صنعت کے لیے خام مال اور عوام کے لیے خوراک کی بہم رسانی نہایت ہی آسان ہوگئی۔(28) کسی قسم کا مالیہ اور محصول ادا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ سرکاری زمین ہونے کی وجہ سے انتہائی معمولی لگان جو پیداوار کا بہت تھوڑا حصہ ہوتا تھا ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس خوشحالی کی وجہ سے کسان میں تجربات اور اختراعات کی سوچ پیدا ہوتی۔ (29) مولانا گیلانی نے شیخ مبارک (سیاح) کے حوالے سے لکھا ہے کہ :
’’اس ملک (برصغیر ) میں چاول ہی صرف اکیس قسموں کا پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (30)
برصغیر کا کسان خوشحال ، باشعور اور انتہائی اچھے حالات میں تھا۔ جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کا نام ونشان نہ تھا۔ کسان اپنی خوشحالی اور فارغ البالی کی وجہ سے زمین کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کی پوری کوشش کرتا تھا۔ اس سے جہاں اس کے اپنے حالات بہتر ہوتے وہیں خطے کی اقتصادی ومعاشی صورت حال بھی بہتر ہوتی تھی۔ اجناس کی فراوانی نے عوام میں مہنگائی اور غربت کے خدشات ختم کردیئے تھے۔
لیکن انگریز سامراج کے آنے کے بعد اس خطے کی صنعتی ، معاشی ، تجارتی اور زرعی صورت حال یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی۔ وہ انگریز سامراج جو 1601ء میں محض تیس ہزار پاؤنڈ سے تجارت شروع کرتا ہے تقریباًساٹھ برس تجارت کرنے کے بعد اس قدر دولت مند ہوجاتا ہے کہ انگلستان کے بادشاہ کو تین چار لاکھ پاؤنڈ بطور نذرانہ پیش کرتا ہے۔(31) جب نذرانہ ہی لاکھوں پاؤنڈ ہو تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ لوٹ کھسوٹ کتنی کی گئی ہوگی ۔ انگریز سامراج نے ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کے نام سے اس خطے میں پہلی مرتبہ صنعتی اداروں میں مزدور اور مالک کے مروجہ ظالمانہ نظام کو متعارف کروایا۔ مزدوروں کوقلیل تنخواہیں اور مالکان کو بڑی تنخواہوں پر رکھ کر ان میں رقابت اور نفرت کے جذبات پیدا کیے گئے ۔ مولانا مدنیؒ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
’’کمپنی کے وہ ملازم جو ہندوستان میں خرید وفروخت پر مقرر تھے چھوٹی چھوٹی تنخواہیں پاتے تھے۔ فیکٹری کے صدر کو تین سو پونڈ سالانہ ملتے تھے جو کہ سب سے اونچی تنخواہ تھی ۔ محرروں اور دوسرے ملازمین کو دس سے لے کر چالیس پونڈ سالانہ تک دیے جاتے تھے ۔۔۔ ان تنخواہوں پربھلے بانس اور شریف لوگ تو کاہے کو اپنے گھر بار چھوڑ کر آتے تھے۔‘‘ (32)
اے۔ جی ولسن کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 1882ء تک آتے آتے یہاں کے باشندوں کی اوسط آمدنی پانچ پاؤنڈ سالانہ تک پہنچ گئی تھی۔ (33) نیز تین کروڑ پاؤنڈ سالانہ اس خطے سے انگلستان منتقل کیا جاتا رہا۔ انگریز سامراج نے اس خطے کی معیشت وتجارت کو برباد کردیا۔ یہاں کے باشندوں کے تمام کاروبار بند ہوگئے ۔ محصولات اور ٹیکس کے بوجھ نے کاروباری سرگرمیوں کو معطل کرکے رکھ دیا۔ سرمایہ داریت کو فروغ دیا گیا اور غربت وافلاس نے یہاں کی عوام کو ایڑیاں رگڑنے پر مجبور کردیا ۔ قانون وآئین ایسے بنائے گئے جن سے انسانیت سوز مظالم کو سند جواز فراہم ہوسکے۔ تاجرانہ ہوس اور خود غرضانہ لالچ کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق پامال کیے گئے۔ لالہ لاجپت رائے کے مطابق جنوبی ہندوستان میں تو غربت وافلاس کی وجہ سے لوگ مُردار گوشت کھاکر زندگی گزارتے ہیں ۔(34) وہ ہندوستان جس کی خوشحالی مثالی تھی، اے ۔ اے برسل (ممبر پارلیمنٹ) کے مطابق اب اس حال میں تھا کہ یہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جسے اپنی پیدائش سے لے کر اپنی وفات تک کبھی پیٹ بھر کر کھانے کو نہیں ملتا۔ (35) اخبار مدینہ (بجنور) کے مطابق مسلسل فاقہ کرنے والوں کی تعداد چار کروڑ سے لے کر سات کروڑ تک ہے۔ (36)
یہ خطہ زیادہ پیداوار والا سستا ملک تھا۔ انگریز سامراج نے اس کو قحط اور غربت کا مرکز بنادیا۔ یہاں کی پیداواری صلاحیت کو کم کرکے مہنگائی اور افلاس میں اضافہ کردیا گیا۔ اس مہنگائی اور گرانی کے درج ذیل اسباب مولانا مدنی نے بتائے ہیں:
- یہاں کے نقود اور سونے چاندی سے جن کو لوٹ کھسوٹ کر انگریزوں نے انگلستان پہنچایا وہاں ان سے بڑے بڑے بینک کھولے گئے۔ تجارت کی انتہائی گرم بازاری کی گئی۔ ملیں اور مشینیں قائم کی گئیں اور ہندوستان سے خام اشیاء کو کھینچ کر انگلستان پہنچایا گیا۔
- انگلستان میں ہندوستان مال پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس اور قانونی پابندیاں قائم کی گئیں اور ہندوستانی مال کو انگلستان سے نکال باہر کیا گیا ۔
- ہندوستان کی صنعت اور تجارت کو مٹایا گیا۔
- ہندوستان کی صنعت اور تجارت کے بند اور قریب المرگ ہوجاتے ہی فری ٹریڈ (آزاد تجارت) کی پالیسی کا اعلان کیا گیا اور ہر قسم کے مصنوعات اور تجارتی اشیاء کو نہایت معمولی اور کم سے کم ٹیکس کے ساتھ ہندوستان میں داخل کرکے ہندوستان کو یورپین بالخصوص انگریزی مال کی منڈی بنادیا گیا۔
- ہندوستان سے غلہ نہایت فراوانی اور کثرت سے جہازوں میں بھر بھر کر انگلستان اور دیگر ممالک بھیجا گیا۔ (37)
ان تمام تر وجوہات کی بناء پر برصغیر کی صنعت کو شدید دھچکا لگا۔ شمس القمر قاسمی کے مطابق:
’’سنگ دل اور خود غرض انگریز نے انتہائی جابرانہ طریقوں سے صنعت وحرفت کو مٹانے کے لیے وحشیانہ مظالم ڈھائے اور آخر ایک دن وہ آیا کہ برصغیر کی صنعتی حالت بالکل پست ہوکر رہ گئی۔‘‘(38)
برصغیر کی صنعت وحرفت کو جس دور میں تباہ کیا جارہا تھا یاد رہے کہ یہ وہی دور ہے جب انگلستان میں صنعت ومعیشت ترقی کر رہی تھی۔ کپڑے کی صنعت جس نے ایک دور میں انگریز تاجروں کو مفلسی کے غم میں مبتلا کر رکھا تھا۔(39) سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت اس کا استحصال کیا گیا۔ (40) اس حوالے سے طریقہ کار یہ اپنایا گیا کہ اس خطہ سے خام مال باہر لے جا کر تیار کیا گیا۔ (41) اس خام مال سے نہایت عمدہ اشیاء تیار کی جاتیں جو اطرافِ عالم میں مقبولیت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔
انگریز سامراج نے برصغیر کو جس دور میں صنعتی زوال کا شکار کیا اس دور میں یورپ میں صنعتی انقلاب کا عمل شروع ہوا۔ اس خطے کی لوٹی ہوئی دولت سے انگریز سامراج نے اپنے ملک میں صنعت اور مشینی ترقی کو فروغ دیا۔ چنانچہ باری علیگ لکھتے ہیں کہ:
’’وہ سرمایہ جو ایسٹ انڈیاکمپنی نے ہندوستان کی تجارت سے پیدا کیا تھا، انگلستان میں صنعتی انقلاب کا سبب بنا۔‘‘(42)
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انگریز سامراج نے مشین کی ایجاد میں سرمایہ کاری انسانیت کی فلاح وبہبود کے پیشِ نظر نہیں کی تھی بلکہ اس عمل کے پیچھے نو آبادیاتی دور کے وہ سرمایہ دارانہ عوامل شامل تھے جس نے ہوس، لالچ اور خود غرضی کو فروغ دیا۔ چنانچہ مشین کی ایجاد نے مزدور کا استحصال کیا اور سرمایہ کے حصول کے ناجائز طریقوں میں اضافہ کیا۔ اگر مشین ابتداء ہی میں کسی صالح نظام کے تابع ہوتی تو اس سے انسانی فلاح وبہبود اور ترقی کا کام لیا جاسکتا تھامگر بدقسمتی سے اس کا آغاز انگریز سامراج کے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہوا جس نے غریب مزدور کے خون سے اپنی آبیاری کی ۔
یہ خطہ جو صنعت وتجارت کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا انگریزوں کی ڈپلومیسی اور خود غرضی سے محض زراعتی ملک بنادیا گیا۔(43) چونکہ صنعت وحرفت کے تمام راستے مسدود کردیے گئے اس لیے لوگ زراعت کی طرف متوجہ ہوئے۔لیکن شومئی قسمت کہ اس میدان کے حالات بھی سازگار نہیں تھے۔ چنانچہ زراعت کے حوالے سے بھی انگریز سامراج کی پالیسی نہایت اندوہناک اور دلخراش رہی اس خطے کو زراعت کا خطہ کہہ کر اس قدر پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس کا صنعتی کردار مشکوک ہو کر رہ گیا۔ پاکستان کے معروضی حالات میں یہ پروپیگنڈا اب تک جاری ہے اور اس کے پس پردہ استحصالی قوتیں اپنی زرعی مصنوعات کو فروغ دے رہی ہیں۔ اس خطے میں جاگیر داری کو فروغ دیا گیا، جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ انگریز سامراج نے اپنے وفاداروں کو بڑی بڑی جاگیریں نواز کر خطے میں طبقاتی کشمکش پیدا کی۔ محاصل اور زرعی ٹیکسوں کی بھرمار کی ۔ پیداوار کم ہونے کے باوجود لگان کی شرح میں بتدریج اضافہ کیا جاتا رہا جس سے کسان کی زندگی دو بھر ہو کر رہ گئی ۔ جی کرہارڈی کے مطابق 1817ء میں جبری لگان کا طریقہ رائج کیا گیا۔ (44) حالانکہ یہ سلسلہ اس سے بہت پہلے شروع ہوچکا تھا۔ مولانا مدنی نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’لگان کے ثقیل بوجھ اور وصولی کے انتہائی جابرانہ طریقہ کی وجہ سے کسان ہر سال زمین جوتنے پر مجبور تھا، زمین کو لگاتار بوتا تھا اور اپنی گلوخلاصی کی فکر کرتا تھا جس کی وجہ سے ہندوستان کی زمین انتہائی درجہ کمزور ہوگئی اور پیداوار میں نہایت زیادہ کمی ہوگئی ۔‘‘ (45)
اس صورت حال نے عام کاشت کار کو اس قدر تنگ اور پریشان کردیا کہ آسام کے کمشنر چارلس ایلیٹ کو لکھنا پڑا کہ :
’’میں بلاتامل کہہ سکتا ہوں کہ کاشتکاروں کی نصف تعداد ایسی ہے جو سال بھر تک نہیں جانتی کہ ایک وقت پیٹ بھر کر کھانا کسے کہتے ہیں۔‘‘ (46)
اس اقتصادی پریشانی اور معاشی الجھنوں کی وجہ سے اس خطے کے عوام کی اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں اور فکرو شعور ختم ہوتا چلا گیا ۔ تنگئِ معیشت کے سبب سماجی بگاڑ اور جرائم نے جنم لیا۔ایجادات واکتشافات کی جگہ پیٹ بھرنے کی فکر پروان چڑھی ۔ سوسائٹی کی اجتماعی ترقی کی جگہ انفرادیت پسندی اور خود غرضی نے سنبھال لی ۔ تاجرانہ سرگرمیوں کے خاتمے، صنعتی تباہ حالی اور زرعی استحصال نے اس خطے کے لوگوں میں بداخلاقی ، دوعملی اور منفی اقدار کو فروغ دیا، جس نے انگریز سامراج کے نوآبادیاتی نظام کو استحکام بخشا۔
حوالہ جات
(1) باری علیگ کمپنی کی حکومت ،ص 46
(2) مدنی، حسین احمد ، نقشِ حیات ، ج1، ص 252
(3) قاسمی، شمس القمر، رودادِ برصغیر ، ص 64
(4) رسالہ مظلوم کسان، ص 13
(5) ایضاً
(6) مدنی ، حسین احمد، نقش حیات ، ج1 ، ص 246
(7) ایضاً، ص 248
(8) گیلانی ، مناظراحسن ، مولانا، ہزارسال پہلے ، ص 94بیت العلم ، کراچی ، 2004
(9) مدنی ، حسین احمد، نقش حیات ، ج1، ص 253
(10) قاسمی، شمس القمر ، رودادِ برصغیر ، ص 66
(11) مدنی ، حسین احمد نقشِ حیات ، ج 1، ص253-254
(12) ایضاً، ص276-277
(13) باری علیگ ، کمپنی کی حکومت ، ص 45
(14) ایضاً، ص46
(15) ایضاً، ص 45
(16) مدنی ، حسین احمد، نقشِ حیات ، ج 1، ص 269
(17) ایضاً، ص266
(18) ایضاً ، ص247
(19) باری علیگ، کمپنی کی حکومت ، ص 45
(20) مدنی ، حسین احمد، نقشِ حیات ، ج 1، ص196-197
(21) ایضاً، ص197
(22) ایضاً
(23) گیلانی ، مناظر احسن ، ہزار سال پہلے ، ص 213
(24) قاسمی، شمس القمر، رودادِ برصغیر ، ص55
(25) گیلانی ، مناظر احسن ، ہزار سال پہلے، ص 173
(26) ایضاً، ص176
(27) غلام کبریا، آزادی سے پہلے مسلمانوں کا ذہنی رویہ ، ص42
(28) کارل مارکس ، داس کیپٹل (مترجم :سید محمد تقی) ج1، ص91، دارالشعور، لاہور، 2004
(29) رسالہ مظلوم کسان ، ص 13
(30) گیلانی ، مناظر احسن ، ہزار سال پہلے، ص 116
(31) مدنی ، حسین احمد، نقشِ حیات ، ج 1، ص 204
(32) ایضاً، ص206
(33) ایضاً، ص 220
(34) ایضاً، ص 226
(35) اخبار سچ، لکھنؤ ، 13 جولائی 1928ء
(36) اخبار مدینہ، بجنور، 25، مارچ ، 1930ء
(37) مدنی ، حسین احمد، نقشِ حیات ، ج 1 ص 236-237
(38) قاسمی ،شمس القمر ، رودادِ برصغیر، ص 72
(39) باری علیگ ، کمپنی کی حکومت ، ص 96
(40) انگلستان کی حکومت نے 1700ء میں ایک قانون کے تحت انگلستان میں ہندوستان کے کپڑے کی درآمد کو ممنوع کردیا تھا۔
(41) مدنی ، حسین احمد، نقشِ حیات ، ج 1، ص 245
(42) باری علیگ ، کمپنی کی حکومت، ص 96
(43) مدنی ، حسین احمد، نقشِ حیات ، ج 1، ص، 288
(44) ایضاً، ص 289
(45) ایضاً ، ص 292
(46) ایضاً ، ص 296
ترکی کا ناکام انقلاب ۔ کیا چیز سیکھنے کی ہے اور کیا نہیں؟
محمد عمار خان ناصر
روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے لیے مولانا زاہد الراشدی کا انٹرویو
رانا محمد آصف
(روزنامہ دنیا کے سنڈے میگزین میں ۱۷ جولائی ۲۰۱۶ء کو شائع ہونے والا انٹرویو ضروری اصلاح و ترمیم کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے جس کی نظر ثانی مولانا راشدی نے کی ہے۔)
اب سے ربع صدی قبل کے زمانے کے ایک سرگرم سیاسی کارکن علامہ زاہد الراشدی نے عملی سیاسی سرگرمیوں سے رفتہ رفتہ کنارہ کشی اختیار کر لی ہے لیکن فکری اور تعلیمی سرگرمیوں کے لیے اب بھی کئی تنظیمات اور فورموں سے وابستہ ہیں۔ مولانا فداء الرحمن درخواستی کے ساتھ مل کر ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کے نام سے ایک فکری فورم قائم کیا۔ اسی طرح لندن میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ قائم کیا جو کہ علمی و فکری میدان میں عصر حاضر کے تقاضوں کا احساس اجاگر کرنے میں مصروف ہے اور اس کی سرگرمیوں کا دائرہ برطانیہ، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ بیرون ملک ختم نبوت کانفرنسوں اور ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیوں کے علاوہ دیگر تعلیمی، دعوتی اور مطالعاتی مقاصد کے لیے کئی ممالک کا سفر کر چکے ہیں۔ سادگی اور بے ساختگی ان کی شخصیت اور گفتگو کی خصوصیات ہیں۔ مولانا راشدی ملک کی قومی سیاست، دینی جدوجہد اور جہاد افغانستان کے حوالے سے تاریخ کے کئی اہم ادوار کے عینی شاہد بلکہ شریک کار رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ان سے ہونے والی گفتگو کی تفصیلات پیش خدمت ہیں۔
سوال: مدارس میں آپ کے دور طالب علمی اور آج کے ماحول میں کوئی فرق ہے؟
جواب: بہت فرق ہے۔ اس وقت تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہن سازی اور فکری تربیت کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ وہ جمعیۃ علمائے اسلام کا دور تھا اور آج جیسے کئی مسائل اس وقت نہیں تھے۔ ہماری فکری تربیت خالصتاً تحریک ختم نبوت کے دور میں ہوئی، پھر 70ء کے الیکشن میں جمعیۃ کے لیے کام کیا، جمعیۃ طلباء اسلام کا حصہ بھی رہا۔ اس دور میں سیاسی، تحریکی اور اجتماعی سطح پر کام کرنے کی تربیت کا ماحول تھا۔ اس کی وجہ سے تمام مکاتب فکر کے ساتھ مل کر کام کرنے کا تجربہ بھی رہا۔
سوال: تحریک ختم نبوت اور بعد کی مختلف تحریکوں میں دینی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین نے مل کر کام کیا۔ اب اس تعلق کو کس سطح پر دیکھتے ہیں؟
جواب: درمیانی اور نچلی سطح پر کارکنوں کا یہ رابطہ اب بالکل ختم ہوگیا ہے اور صرف اعلیٰ قیادت کی حد تک رہ گیا ہے۔ 1970، 1977، 1984 کے ادوار میں جس طرح مڈل کلاس کے سیاسی ورکرز اور دینی تحریکوں کے کارکنان شانہ بہ شانہ رہے اور ان کے آپس میں روابط تھے، وہ بات اب نظر نہیں آتی۔
سوال: اس صورتحال کے کیا اثرات ہوئے؟
جواب: گوجرانوالہ میں آج بھی ہم میل جول کا پرانا ماحول قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، سیاسی و مذہبی حوالے سے دوسری جماعتوں کے ساتھ رابطے اور مشترکہ پروگرام کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے شہر کی سطح تک تو حالات بہتر معلوم ہوتے ہیں لیکن مجموعی سطح پر دوریاں بڑھ رہی ہیں اور سماجی تقسیم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نچلی سطح پر مشترکہ سرگرمیوں کے ماحول کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ورنہ دینی کاز کو بہت نقصان پہنچے گا۔
سوال: مدارس کے معیار تعلیم کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب: ماضی کے مقابلے میں طلباء اور اداروں کی تعداد بڑھی ہے لیکن معیار وہ نہیں رہا۔ وسعت پیدا ہوئی ہے لیکن استعداد اور قابلیت میں کمزوری آئی ہے۔
سوال: اس صورتحال کے اسباب کیا ہیں؟
جواب: مدارس میں تعلیمی معیار کی کمی کے اسباب بھی وہی ہیں جو دیگر تعلیمی اداروں میں ہیں۔ جس طرح اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں طلباء کی بڑی تعداد صرف ڈگری لینے کے لیے جاتی ہے، یہ رجحان مدارس میں بھی آگیا ہے اور اب بہت سے طلباء صرف حصول سند کے لیے پڑھتے ہیں۔ اگرچہ صورتحال بالکل خراب نہیں ہوئی لیکن پہلے کے مقابلے میں تبدیل ضرور ہوئی ہے۔
سوال: ماضی میں علمائے دین میں شعری ذوق بھی پایا جاتا تھا اور ادب سے تعلق بھی۔ اب صورتحال کیا ہے؟
جواب: اب یہ ذوق نہیں رہا۔ جبکہ پہلے بھی یہ مضامین باقاعدہ نصاب کا حصہ نہیں ہوتے تھے لیکن علمی و ادبی حلقوں سے میل جول کی وجہ سے لوگ اس طرف مائل ہو جاتے تھے۔ میں اپنی مثال اس لیے نہیں دیتا کہ میرے والد حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ اہل قلم تھے اور ان کا ادبی ذوق ٹھیک ٹھاک تھا۔ یہ معاملہ میرے چچا محترم حضرت صوفی عبد الحمید سواتیؒ کا بھی تھا۔ میں نوجوانی ہی سے کسی نہ کسی ادبی فورم کا رکن رہا۔ مشاعروں میں شرکت، مقالہ نگاری اور تنقید نگاری وغیرہ، میں ان مراحل سے طالب علمی کے دور میں گزر چکا ہوں۔ والد اور چچا کی وجہ سے مجھے تو یہ موقع ملا لیکن عام طور پر ہمارے دینی حلقوں میں یہ ماحول نہیں ہے اور نہ ہی اس پر توجہ دی جا رہی ہے۔
سوال: ادب سے دوری طبیعت پر اثر ڈالتی ہے؟
جواب: بالکل ایسا ہوتا ہے۔ میں تو ایک بات اور کہتا ہوں، جب بھی ہمارے ہاں مدارس میں انگریزی پڑھانے کی بات ہوتی ہے تو میرا کہنا یہ ہوتا ہے کہ پہلے انہیں اردو تو پڑھائی جائے۔ ہمیں انگریزی پڑھانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن عربی کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ فارسی تو مدارس سے ختم ہی ہوگئی ہے اور اس کا اثر ہماری اردو پر بھی پڑا ہے۔ اس کے علاوہ ہم ماضی کے لٹریچر سے کٹ گئے ہیں اور تراجم پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ ان سب باتوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ آج کا مدرس اور خطیب صحیح اردو تک بولنا اور لکھنا نہیں سیکھ پاتا۔
سوال: آپ کا تعلق جس دینی و سیاسی مکتب فکر سے ہے،اس کے اور ملک کی ایک اور دینی سیاسی قوت جماعت اسلامی کے مابین اختلافات پائے جاتے ہیں جنہیں ختم کرنے کی ایک کوشش کا آپ بھی حصہ رہے ہیں۔ اس بارے میں کیا بتانا چاہیں گے؟
جواب: قاضی حسین احمد مرحوم جس زمانے میں جماعت اسلامی کے قیم (جنرل سیکرٹری) تھے، اس سلسلہ میں گفتگو کا آغاز ہوا تھا۔ میں ان مذاکرات کا حصہ تھا لیکن ہم کسی فارمولے پر نہیں پہنچ سکے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ قاضی صاحب کی وفات کے بعد وہ سلسلہ ختم ہوگیا، لیکن رک ضرور گیا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ قاضی صاحب جماعت کے فکری و نظریاتی پہلو پر قناعت کی بجائے اسے عملی سیاست کی جانب زیادہ لے گئے اور آج جماعت اسلامی ایک فکری تحریک کی بجائے سیاسی جماعت ہی تصور کی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کے نظریاتی عنصر کے مغلوب ہو جانے کی وجہ سے کئی اہم افراد اس سے الگ بھی ہوئے۔ قاضی صاحب کے دور میں چونکہ جماعت اسلامی خالصتاً ایک متحرک سیاسی جماعت بن گئی، اس لیے وہ پرانے جھگڑے اس وجہ سے بھی پس منظر میں چلے گئے۔ اور سراج الحق صاحب کا رخ بھی اسی جانب دکھائی دیتا ہے۔
سوال: جماعت اسلامی کے ساتھ یہ اختلافات ختم کرنے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہو سکی؟
جواب: اصل میں اختلاف تو مولانا مودودیؒ کی بعض عبارات سے شروع ہوا تھا۔ قاضی صاحب مرحوم نے جمعیۃ علماء اسلام کے اکابر مولانا سید حامد میاںؒ اور مولانا محمد اجمل خانؒ کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر جماعت اسلامی کی شوریٰ یہ قرارداد منظور کرلے کہ ہم متنازعہ فکری معاملات میں مولانا مودودیؒ کی بجائے جمہور علماء کے ساتھ ہیں تو سارا جھگڑا ختم ہو سکتا ہے۔ ہماری اسی پر بحث چل رہی تھی اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی رائے بھی یہی تھی کہ اس کے بعد معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن پھر اس کے بعد چلتے چلتے بات یہاں پہنچی کہ اصل اختلاف تو جماعت اسلامی کے دستور کی اس شق پر ہے کہ
’’رسولِ خدا کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو، ہر ایک کو خدا کے بنائے ہوئے اسی معیار کامل پر جانچے اور پرکھے اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجہ میں ہو، اس کو اسی درجے میں رکھے‘‘۔
اس پر مولانا حسین احمد مدنیؒ کا اعتراض یہ تھا کہ یہ اہل سنت کے مسلمات کے خلاف ہے (کیونکہ اہل سنت کے ہاں صحابہ کرامؓ بھی معیار حق اور تنقید سے بالاتر ہیں)۔ چنانچہ جماعت اسلامی کے ساتھ تنازعہ بھی یہیں سے شروع ہوا تھا۔ تو اس سلسلہ میں بات یہاں آکر رکی کہ جماعت اسلامی کو دستور میں ترمیم کرنی ہوگی۔ اس کے بعد مذاکرات تو نہیں ہوئے لیکن ایک کمیٹی اب بھی کاغذوں میں ہے اور جماعت اسلامی کے مولانا عبد المالک اس کے سربراہ ہیں، میں نے جب اس سلسلہ میں ان سے پوچھا تو وہ طرح دے گئے۔
سوال: جس طرح آپ نے جماعت اسلامی کے بارے میں کہا، کیا اسی طرح جمعیۃ علمائے اسلام بھی محض ایک سیاسی جماعت بن کر نہیں رہ گئی؟
جواب: جمعیۃ علمائے اسلام ایک تحریکی قوت تھی لیکن اب نہیں رہی۔ اس بارے میں میرا ہمیشہ سے نقطۂ نظر رہا ہے کہ پارلیمانی سیاست ہماری تحریکی قوت کی نمائندگی کے لیے تھی۔ اب ہم صرف پارلیمانی ہی رہ گئے ہیں اور ساری تگ و دو اسی سمت میں کی جا رہی ہے جس کا نقصان ہو رہا ہے۔
سوال: کیا پاکستان کی انتخابی سیاسی تاریخ سے یہ بات واضح نہیں ہوگئی کہ عوام کوئی مذہبی ریاست نہیں چاہتے؟
جواب: عوام اگر ٹھیٹھ مذہبی ریاست نہیں چاہتے تو مذہب سے باغی ریاست کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ ان کے دل و دماغ میں شاید کسی خالص مذہبی ریاست کا نقشہ نہ ہو لیکن گزشتہ برسوں میں جو سروے ہوئے ہیں ان کے نتائج اس بات کو واضح کرتے ہیں۔ چند ماہ پہلے ایک امریکی ادارے کے سروے میں 78 فیصد پاکستانی عوام نے سختی کے ساتھ اسلام کے نفاذ کی حمایت کی، 17 فیصد کچھ نرم روی کے ساتھ اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں، جبکہ صرف 2 فیصد ہیں جنہوں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر میں یہ کہتا ہوں کہ ہم پر یہی 2 فیصد مسلط ہیں۔ شدت یا تشدد پسندی کو پاکستان کے عوام مجموعی طور پر مسترد کرتے ہیں لیکن اس ملک کی غالب اکثریت ملک میں اسلام کی عملداری چاہتی ہے جبکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اس طرف نہیں جا رہی یا بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اس طرف جانے نہیں دے رہی۔
سوال: پھر لوگ مذہبی جماعتوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟
جواب: کوئی بھی جماعت بطور مذہبی جماعت انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ عوامی سطح پر آکر اتحاد تشکیل دیے جائیں یا پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں تو لوگ اب بھی ساتھ دینے کو تیار ہیں لیکن مسلکی بنیاد پر لوگ ووٹ نہیں دیں گے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مختلف مکاتب فکر نے متحد ہو کر دینی کاز کے لیے جدوجہد کی ہے عوام نے اس کا ساتھ دیا ہے۔
سوال: بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان میں شدت پسندی کو سید احمد شہیدؒ کی تحریک کا تسلسل کہا جاتا ہے اور ان میں سے اکثر گروپ دیوبندی مکتب فکر ہی سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب: یہ تاثر بظاہر تو درست دکھائی دیتا ہے کیونکہ جہادی تحریکیں فکری طور پر خود کو اسی کے ساتھ منسوب کرتی ہیں، اس کا بنیادی سبب میرے خیال میں جہاد افغانستان ہے۔ روس کی واپسی اور افغان جہاد کی کامیابی کے بعد عالمی طاقتوں نے اس پوری تحریک کو اس کے منطقی نتائج سے محروم کیا، اسی کا رد عمل ہمیں بعد میں شدت پسندی کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ البتہ سید احمد شہیدؒ کے بعد شیخ الہندؒ کے زمانے میں یہ تبدیلی آئی تھی کہ دیوبند کی تحریک ایک نئی تشکیل کے تحت تعلیمی و تدریسی محنت اور پر امن سیاسی جدوجہد کے دور سے گزری۔ اس کے بعد ایک محدود دائرہ میں اس کی تشکیل نو جہاد افغانستان کے زمانے میں ہوئی کہ روس کی جارحیت کی وجہ سے وہی پرانے جذبات پھر آگئے، لیکن جہاد افغانستان سے ہٹ کر دوسرے معاملات میں مجموعی طور پر دیوبندی حلقوں نے اسے قبول نہیں کیا۔
سوال: جہاد افغانستان کو اگر عالمی قوتوں نے منطقی انجام تک نہیں پہنچنے دیا تو کیا مذہبی تحریکوں کا داخلی نظام اتنا کمزور تھا کہ اس کے نتیجے میں ایسے عناصر پیدا ہوگئے جنہوں نے مسلمانوں اور عام شہریوں کی قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کیا؟
جواب: یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ جب جہاد افغانستان ختم ہوا تو اس وقت میرے اندازے کے مطابق پینتالیس پچاس ہزار پاکستانی مسلح افراد وہاں سے فارغ ہو کر واپس آئے۔ اس وقت میں نے بہت سی اہم شخصیات بالخصوص مولانا فضل الرحمان، جنرل حمید گل اور مولانا سمیع الحق سے یہ بات کہی تھی کہ یہ قوت اگر کھلی چھوڑ دی گئی تو مسائل پیدا ہوں گے، اس لیے اس قوت کا کوئی مصرف تلاش کریں۔ میں نے مثال بھی دی کہ سندھ میں قیام پاکستان کے وقت کوئی سات آٹھ ہزار مسلح حُر موجود تھے جنہیں اس نظام میں ایڈجسٹ کر لیا گیا تھا، ورنہ وہ بھی آج ایک مسئلہ ہوتا۔ جہاد افغانستان کے موقع پر بھی میرا کہنا یہی تھا کہ اگر اس بے پناہ قوت نے اپنا راستہ خود بنایا تو تباہی آئے گی۔ یہی بات کافی عرصہ بعد ہیلری کلنٹن نے بطور امریکی وزیر خارجہ تسلیم کی کہ ہم سے اس معاملے میں غلطی ہوئی کہ افغان جہاد کے بعد مجاہدین کے گروپوں کو آزاد اور تنہا چھوڑ دیا جس کی وجہ سے معاملہ بگڑ گیا۔
سوال: افغانستان کے طالبان کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟
جواب: افغانستان کے طالبان سادہ و مخلص لوگ ہیں اور ان کا تعلق نچلے طبقے کے افراد سے ہے۔ انہوں نے افغانستان کی آزادی اور اسلامی تشخص کے لیے مخلصانہ جنگ لڑی ہے لیکن انہیں مناسب سیاسی راہنمائی میسر نہیں آئی۔ جبکہ ان کے قیام کے فورًا بعد القاعدہ کے عنصر کی وجہ سے خرابی بہت تیزی سے بڑھی۔ میں نے اس وقت بہت سے دوستوں سے یہ کہا تھا کہ خدا کے لیے طالبان کو مستحکم ہونے دو اور انہیں کام کے لیے وقت دو، کوئی دوسری لڑائی مت چھیڑو مگر یہ بات نہیں سنی گئی۔ القاعدہ کی بے وقت تشکیل اور فوری متحرک ہوجانے کی وجہ سے طالبان حکومت مسائل کا شکار ہوئی۔ اُدھر القاعدہ کی سرگرمیوں اور اِدھر پاکستان میں تحریک طالبان کی تشکیل نے افغان طالبان کا مشن خراب کر دیا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ افغانستان میں اگر کوئی پرو پاکستان طبقہ ہے تو وہ طالبان ہے۔ لیکن ہم نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے جس کی وجہ سے تعلقات میں دراڑیں پیدا ہوئیں۔ اور آج افغانستان میں ایسے لوگ برسراقتدار ہیں جو بھارت کو اپنے ملک میں کھلی چھٹی دے رہے ہیں۔
سوال: عوامی سطح پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مذہبی طبقے کی جانب سے شدت پسندی کے رجحانات اور قتل و غارت کی واضح اور غیر مشروط مذمت نہیں کی جاتی۔ کیا ایسی تنظیموں اور فکر کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے؟
جواب: شدت پسندی کی مذمت کرنے میں مذہبی طبقے نے کبھی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ لیکن میڈیا کا رویہ اس معاملے میں انتہائی جانبدارانہ رہا ہے۔ ہمارے ملک اور عالمی میڈیا دونوں کی پالیسی یہ ہے کہ شدت پسندی کو تو اجاگر کیا جائے لیکن سنجیدہ مذہبی قیادت کی جانب سے جب اس کی مخالفت ہو تو اسے دبا دیا جائے۔ میں خود اس رویے کا شاہد ہوں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور میں دیوبندی مکتب فکر کی پوری قیادت نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر شدت پسندی کی مخالفت کی اور اس کی مذمت میں باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی۔ وہ قرارداد میں نے اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھی تھی لیکن تمام کوششوں کے باوجود میڈیا نے اسے کسی عام مدرسے میں ہونے والے جلسے کی طرح نظر انداز کر دیا۔
سوال: بعض حلقوں کے نزدیک مذہبی فکر کی جانب سے قومی ریاست کو مسترد کرنے اور عالمی سطح پر خلافت کے قیام کو دینی تقاضا قرار دینے کی وجہ سے شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ خیال کہاں تک درست ہے؟
جواب: عمومی دینی حلقے تو قومی ریاست کو قبول کر چکے ہیں۔ کچھ نے اگر نہیں کیا تو اس کے لیے سب کو یکساں طور پر ذمہ دار قرار دینا درست نہیں ہے۔ دنیا میں جتنی بھی ریاستیں ہیں وہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کر رہی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس بات کو اس طرح بھی واضح کر دیا تھا کہ خلافت کسی علاقائی حکومت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ آج کی اصطلاح میں ایک کنفیڈریشن کا نام ہے۔ یعنی امارات اپنی اپنی جگہ قائم ہوں اور خودمختار ہوں جبکہ ان کا ایک مرکز ہو جو کنفیڈریشن کی طرح کا ایک نظام ہو۔
اسی لیے میں اسے افغان طالبان کی عقل مندی کے فیصلوں میں شمار کرتا ہوں کہ انہوں نے افغانستان میں حکومت کے قیام کے بعد ’’خلافت‘‘ کا نہیں بلکہ ’’امارت‘‘ کا اعلان کیا۔ جبکہ داعش کی سب سے بڑی بے وقوفی یہی تھی کہ انہوں نے بات ہی خلافت سے شروع کی ہے۔ حالانکہ خلافت جب بھی بنے گی ایک کنفیڈریشن کی طرز پر بنے گی جس میں امارات کو پوری داخلی خود مختاری حاصل ہوگی۔ خلافت راشدہ کے دور کا اگر درست تجزیہ کیا جائے تو وہ نظام کنفیڈریشن ہی کا تھا جس میں صوبوں کو خودمختاری حاصل تھی اور مرکزی حکومت ہر معاملے میں مداخلت نہیں کرتی تھی۔
سوال: دینی مدارس کے طلباء اس معاملے میں یکسو نظر نہیں آتے، شدت پسندانہ کاروائیوں کو رد عمل قرار دے دیا جاتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: اس معاملے میں ہونے والی کوششوں کو منظم نہیں کیا گیا اور اسے ایک تحریک کی شکل نہیں دی گئی۔ میں اس کے لیے دینی جماعتوں کو بھی ذمہ دار سمجھتا ہوں لیکن سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بالادست طبقے بھی یہی چاہتے ہیں کہ لوگ اس معاملے میں کنفیوژن کا شکار رہیں۔
سوال: دینی حلقے میڈیا کو کئی مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ کیا علماء کا طبقہ میڈیا کی آزادی اور اس کے بڑھتے ہوئے رسوخ کے حوالے سے اپنی تیاری مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں؟
جواب: اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ مذہبی طبقات کو میڈیا میں اپنی نمائندگی اور موقف پیش کرنے کے لیے منصوبہ بندی اور تربیت کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں اسے آزاد میڈیا نہیں مانتا۔ اسے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کر رہی ہے اور یہ اسی کی پالیسی کے مطابق چلتا ہے۔ مثلاً یہ پالیسی کے تحت کیا گیا ہے کہ کسی خالص مذہبی اور قومی مسئلے پر ایک جانب سے تیاری کر کے لوگوں کو بلایا جاتا ہے جبکہ مذہبی طبقے کی نمائندگی کے لیے جان بوجھ کر ایسے لوگ بلائے جاتے ہیں جو اپنا موقف بیان نہیں کر پاتے۔ یہاں کراچی میں میرے سامنے ایک مرتبہ ایسا ہوا۔ ایک چینل میں اس موضوع پر بحث رکھی گئی کہ اسلامائزیشن کا کوئی ہوم ورک بھی ہے یا نہیں، یا صرف اسلامی نظام کے نفاذ کا شور ہی مچا رکھا ہے؟ اس گفتگو میں مجھے بھی بلایا گیا لیکن سوال وہاں بیٹھے ایک ایسے صاحب سے کیا گیا جنہیں اسلامائزیشن کی الف بے بھی معلوم نہیں تھی۔ میں نے میزبان سے کہا کہ اس کا جواب میں دوں گا لیکن وہ ٹالنے کی کوشش کرتے رہے۔ پروگرام لائیو تھا، میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور میں یہ نہیں ہونے دوں گا۔ عرض یہ ہے کہ ایسا باقاعدہ پالیسی کے تحت ہوتا ہے کہ مذہبی فکر کو یا تو بالکل دبا دیا جائے یا جان بوجھ کر ایسے انداز میں پیش کیا جائے کہ قابل قبول نہ رہے۔
سوال: اسلامی قوانین کے نفاذ اور مشاورت کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کی صورت میں جو آئینی ادارے موجود ہیں ان کے غیر مؤثر ہونے کی شکایت تو کی جاتی ہے لیکن انہیں مؤثر بنانے کے لیے کیوں کچھ نہیں کیا جاتا؟
جواب: ہمارے پاس تو یہی راستہ تھا کہ عوامی دباؤ کے ذریعے ان فیصلوں کو نافذ کروایا جائے۔ لیکن اس آپشن کو بھی ہتھیار اٹھانے والوں نے مسدود کر دیا ہے۔ ہم پر امن جدوجہد کرتے تھے، سڑکوں پر نکلتے تھے اور ہلکا پھلکا ہنگامہ بھی ہو جاتا تھا جس کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی نتیجہ نکل آتا تھا۔ اب اس کی جگہ کلاشنکوف نے لے لی ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری وہ عوامی مزاحمتی قوت کمزور ہوگئی ہے۔
سوال: گزشتہ دنوں خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہوئی اور اس کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بھی سامنے آئیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں اس تاثر نے زور پکڑا ہے کہ مذہبی طبقہ خواتین کے بارے میں جاگیردارانہ رویہ رکھتا ہے۔ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب: ان معاملات میں مذہبی ردعمل کی بات تو کی جاتی ہے لیکن مثبت باتوں کو عوام تک نہیں آنے دیا جاتا۔ اسلامی معاشرے میں خواتین کا کردار کم از کم وہ نہیں ہو سکتا جو مغرب چاہتا ہے۔ کیونکہ اسلام عورت کو ایک فطری دائرے میں رکھتا ہے جسے نظر انداز کرنے کی وجہ سے مغرب کا اپنا خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے اور اب وہ خواتین کے حقوق کے نام پر ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ مغرب کے دانشور خود خاندانی نظام کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں مگر ہمیں اس نظام سے محروم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
سوال: ہماری سوسائٹی جو مذہبی معاملات میں تو حساس ہے لیکن تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اس کا ردعمل سامنے نہیں آتا۔ کیا اس حوالے سے مذہبی راہنما اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟
جواب: ہمارے معاشرے پر مذہبی ہونے کا ’’الزام‘‘ تو ہے لیکن قومی سطح پر مذہب کی تعلیم، روایتی میڈیا، اور اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی قوت مذہبی لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ البتہ صرف مولوی کو گالی دینے کے لیے سوسائٹی کو مذہبی کہا جاتا ہے اور تشدد کے واقعات کو جزوی اور مشروط مذہبی تعلیمات کی طرف منسوب کر کے غلط تاثر قائم کیا جاتا ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں ایک اسلامی ریاست میں تمام مذہبی ادارے ریاست کے ماتحت ہونے چاہئیں؟
جواب: حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں یہ ادارے ریاست ہی کے پاس تھے۔ اور اسلامی ریاست سے مراد ویسی ہی ریاست ہے جیسی اس دور میں قائم ہوئی تھی۔ فوج اور انتظامیہ بھی اسی مذہبی ریاست کے کنٹرول میں تھے۔ اور بیت المال کا پورا نظام جسے آج ویلفیئر اسٹیٹ کی مثال قرار دیا جاتا ہے، وہ بھی ایک ریاستی ادارہ ہی تھا۔
سوال: لیکن ہمارے ہاں مدارس کا متوازی نظام اور مساجد میں جمعہ پر تو سرکار کی عملداری نہیں۔ ان اداروں کو ریاست سے کیوں الگ رکھا جا رہا ہے؟
جواب: ریاست اگر ساری ذمہ داریاں قبول کرلے تو اس کے بعد مسجد بھی سنبھال لے۔ باقی سارے کام امریکہ کے ایجنڈے کے ماتحت ہوں اور پھر آپ مسجد کنٹرول کرنے آجائیں تو ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ریاست پہلے قومی سطح پر دین کی تعلیم اور نفاذ اسلام کے دستوری تقاضے پورے کرے پھر مدارس سے سوال کرے کہ تمہاری کیا ضرورت ہے؟ خود اپنی ذمہ داریاں قبول کر کے انہیں پورا نہیں کرتے لیکن مدارس یہ کام کر رہے ہیں تو ان پر ملامت کی جاتی ہے۔
سوال: مکالمے کے فورم تبدیل ہو رہے ہیں لیکن مذہبی لوگ آج بھی روایتی مناظرانہ انداز میں اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب: میں یہی کہتا ہوں کہ یہ مکالمے کا دور ہے، مناظرے اور فتوے کی زبان کا نہیں۔ ہمارے دینی حلقے آج بھی سو سال پہلے کی زبان بول رہے ہیں۔ اب فتوے اور مناظرے کی بجائے باہمی مکالمے کو فروغ دینے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: فرقہ واریت کے خاتمے اور اتحاد امت کے عنوان سے کئی کوششیں کی گئیں لیکن یہ نتیجہ خیز کیوں ثابت نہیں ہوتیں؟
جواب: نتیجہ خیز ثابت ہونے سے مراد اگر یہ ہے کہ فرقوں کا وجود ہی ختم ہو جائے تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ فکر کا اختلاف کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ جب ذہن مختلف ہیں تو اختلاف بھی رہے گا۔ البتہ ان اختلافات کو حدود میں لانے اور مشترکات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: فرقہ واریت کی بنیاد پر اسلحہ اٹھانے والوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
جواب: ایسے کسی گروہ کی ہم نے کبھی حمایت نہیں کی اور نہ آج کرتے ہیں۔ مسلم ریاست میں ہتھیار اٹھا کر بات کرنے والے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سوال: کیا مسلمانوں کو تجدید فکر کی ضرورت نہیں؟
جواب: ہمیں فکر کی تجدید کی ضرورت ہے لیکن جدید فکر کی ضرورت نہیں۔ اپنے پیغام کو جدید انداز میں پیش کرنا ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دین میں کسی نئی فکر کو داخل کرنے کی کوشش کی جائے۔
سوال: جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
جواب: غامدی صاحب کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ وہ خود بھی کنفیوژ ہیں اور کئی معاملات میں وہ اپنی کنفیوژن میں پوری قوم کو شریک کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ اسلام کی تعبیر نو کے لیے نئے اصول وضع کرنا چاہتے ہیں۔ امت کسی ایسی فکر کو قبول نہیں کرے گی۔ مسلمہ اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے فکر کی تشکیل نو کی جا سکتی ہے لیکن غامدی صاحب اصول بھی نئے قائم کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے استنباط کے بنیادی اصول طے شدہ ہیں لیکن وہ پورا فکری ڈھانچہ ہی تبدیل کرنا چاہتے جو کہ ممکن اور قابل قبول نہیں ہے۔
سوال: آپ کے صاحبزادے عمار خان ناصر بھی کیا اسی فکر سے تعلق رکھتے ہیں؟
جواب: نہیں، اس معاملے میں اس کا اصولی موقف وہی ہے جو میرا ہے۔ یعنی دینی فکر کو اخذ کرنے کے اصول تبدیل نہیں ہو سکتے۔ عمار کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’فقہائے احناف اور فہم حدیث‘‘ آپ پڑھیں گے تو یہ بات واضح ہو جائے گی۔
سوال: کیا آپ کے نزدیک مذہبی جماعتوں کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک، اور بعد ازاں اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام کے فیصلے درست تھے؟
جواب: تمام اتحاد اور سبھی فیصلے غلط نہیں تھے۔ البتہ میں آئی جے آئی پنجاب کا نائب صدر رہا۔ آئی جے آئی کا تجربہ ٹھیک نہیں تھا اور کامیاب بھی نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک ریموٹ کنٹرول تحریک تھی۔ مذہبی جماعتیں حالات کا صحیح جائزہ نہیں لے سکیں جس کی وجہ سے دوسروں نے تو فائدہ اٹھایا لیکن خود مذہبی جماعتوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔
سوال: ضیاء دور کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: جنرل ضیاء الحق مرحوم نے بعض اچھے اقدامات بھی کیے لیکن ان کی اپروچ ذاتی سطح تک ہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ادارے ان کے اقدامات کو سپورٹ نہیں کر سکے۔ دوسری جانب ایک رجحان یہ ہے کہ ان کے کھاتے میں کئی ایسے کام بھی ڈال دیے جاتے ہین جو ان کی حکومت سے کئی برس پہلے شروع ہوئے تھے۔ مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل 1973ء میں قائم ہوئی تھی۔ انہوں نے بعض اچھے کام کیے لیکن کئی کام دستور کی سطح پر پہلے طے ہو چکے تھے۔ ہماری افغان پالیسی کی تشکیل بھٹو دور میں ہوئی۔ عالمی میڈیا میں اس حوالے سے تفصیلات سامنے آئی ہیں بھٹو کی بلوچستان میں فوج کشی کا ردعمل افغانستان میں ظاہر ہوا۔ اب چونکہ افغانستان میں مزاحمت مذہبی لوگ کر رہے تھے تو ان کا ساتھ یہاں کے مذہبی لوگوں ہی نے دینا تھا، لیکن اس کا سارا الزام جنرل ضیاء الحق پر ڈال دیا جاتا ہے۔
سوال: مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: ایران نے انقلاب کے بعد اسے اپنی ملکی حدود میں رکھنے کی بجائے اس کے اثرات کو دیگر ممالک تک پہنچانے اور پورے مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کیں، آج کے حالات اسی کا نتیجہ ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان میں بھی جب یہ کوششیں شروع ہوئیں تو ردعمل میں تنظیمیں بنیں۔ یہی ردعمل بحرین، کویت اور عراق میں سامنے آیا۔
سوال: یہی الزام سعودی عرب پر بھی تو لگایا جاتا ہے۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب: سعودی عرب نے سلفی فکر کو حنفیوں اور اخوانیوں کے مقابلے میں آگے بڑھایا، ایران کے مقابلے پر نہیں۔ اور وہ زیادہ سے زیادہ مالی امداد ہی دیتے ہیں جبکہ یہ تو سب کچھ ہی کرتے ہیں۔ اس لیے کہ سعودی عرب کے پاس صرف پیسے ہی ہیں۔ انہوں نے پورے عالم اسلام کو سنبھالنے کے لیے کئی ایسے اقدامات کیے جن کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ لیکن اب وہ کچھ پالیسیوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں مگر بہت تاخیر سے ایسا ہو رہا ہے۔
سوال: مشرق وسطیٰ کے حالات کے تناظر میں فرقہ وارانہ انتشار کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟
جواب: او آئی سی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسے اب گہری نیند سے جاگنا ہوگا۔ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ ایک شیعہ سنی لڑائی جبکہ دوسرا عالمی استعمار کے مفادات۔ ان دونوں باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے او آئی سی کے پلیٹ فارم سے سعودیہ اور ایران کو اپنی اپنی حدود میں لانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم تو صرف اپیل ہی کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔
سوال: کیا آپ کے نزدیک عبادات کی جانب راغب کرنے اور معاشرتی اصطلاحات کے لیے کام کرنے والی تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی جیسی تنظیموں کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں؟
جواب: دین کے ساتھ فرد کا تعلق قائم کرنے کی حد تک تو یہ لوگ کامیاب ہیں۔ اس لیے کہ جو فرد بھی ان کے ماحول میں آجاتا ہے اس کا تعلق نماز، روزے اور مسجد سے جڑ جاتا ہے اور وہ کئی برائیوں سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ اجتماعیت کی فکر دینے کی طرف متوجہ نہیں ہیں اور میرے خیال میں یہ ان کا کام بھی نہیں ہے۔ یہ دراصل علماء اور مراکز کا کام ہے۔ دعوت اسلامی ہو یا تبلیغی جماعت، یہ ایک شخص کو مسجد میں لے آتے ہیں اور اس کے لیے بڑی محنت کرتے ہیں، لیکن آگے سنبھالنا تو امام صاحب کا کام ہے کہ وہ اس شخص کی مزید تربیت کریں لیکن ایسا نہیں ہو پاتا، بہرحال وہ لوگ تو اپنا کام کر ہی رہے ہیں۔
سوال: آپ کو جن سیاسی قائدین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ان کے بارے میں آپ کے تاثرات کیا ہیں؟
جواب: سیاسی قیادت میں جن لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ان میں تین بڑی شخصیات نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم، مولانا مفتی محمودؒ ، اور مولانا شاہ احمد نورانیؒ نمایاں ہیں۔ ان تینوں راہنماؤں کی قیادت کا خلا پر نہیں ہوا۔ مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا شاہ احمد نورانی میں اختلاف بھی ہوا، لیکن وہ ہمیشہ اہم قومی معاملات میں مشاورت ضرورت کرتے تھے۔
سوال: مولانا نورانیؒ کو دیگر مسالک سے اتحاد کی وجہ سے اپنے ہم مسلک حلقوں میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا مفتی محمودؒ کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا؟
جواب: مولانا مفتی محمودؒ کی مخالفت کی سطح ویسی تو نہیں تھی جس کا سامنا مولانا نورانیؒ کو رہا، بلکہ مفتی صاحب سے جب اس معاملے میں بحث ہوتی تھی تو ان کا موقف یہی رہا کہ قومی مشترکہ امور اور سیاست کا مسلک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض اوقات تو بحث کرنے والوں کو چپ کرانے کے لیے وہ یوں بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ ’’میں اس طرح کا دیوبندی نہیں ہوں‘‘۔
بین المذاہب مکالمہ: چند مشاہدات و تاثرات
محمد حسین
(محمد حسین، گزشتہ کئی سالوں سے امن و مکالمہ کے ماہر نصابیات اور ٹرینر کے طور پر کام کر رہے ہیں اور مختلف موضوعات پر ایک درجن سے زائد کتابوں کی تحریر و تدوین کے علاوہ مذہبی ہم آہنگی پر کئی ہزار مذہبی و سماجی قائدین کو تربیت دے چکے ہیں۔)
انفرادی و اجتماعی زندگی کے متعدد محرکات کی بنیاد پر انسان اپنی تاریخ کے طول و عرض میں مختلف و متعدد ارتقائی مراحل سے گزرا ہے۔ گزشتہ تین صدیوں کے دوران دنیا کے مختلف ممالک و تہذیبوں میں بٹے انسانی معاشرے نے ترقی ( یا بسا اوقات تنزل) کے کئی سنگ میل کئی انقلابات کی صورت میں تیز رفتاری سے طے کیے ہیں۔ اکیسویں صدی میں سائنس اور سماج میں ہوشربا ترقی کے نتیجے میں دنیا سکڑ کر ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے، ایک ایسا گاؤں جس میں اس کے ایک کونے میں پیش آنے والے حالات پورے گاؤں کو متاثر کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اس عالمگیریت کے باعث اقوام عالم متعدد فکری، سیاسی، سماجی، قانونی اور مذہبی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں۔ ایسے میں ایک طرف انفرادی، گروہی اور ریاستی مفادات نے مختلف اقوام کے اندر ایک تناؤ کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے اور دوسری طرف مختلف نسلی، لسانی، مذہبی اور سماجی و سیاسی تعصبات نے پْرامن بقائے باہمی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ مفادات اور تعصبات کی چپقلش نے کبھی مذہبی رنگ تو کبھی سیاسی رنگ اور بسا اوقات نسلی رنگ اختیار کرتے ہوئے مختلف اقوام و رنگ و نسل کے کروڑوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا ہے۔
شعور اور تجربات کے اس تلخ و شیریں سفر نے انسان کو کبھی مختلف تہذیبوں کے اندر سے کچھ چیزوں کے احیائے نو کی راہ دکھائی ہے تو کبھی فکر و عمل کی نئی راہوں کی تلاش پر اسے لگا دیا ہے۔ دنیا کو درپیش مشکلات کے حل، اور اس میں رہنے والوں کی زندگی میں امن، خوشحالی، توازن اور ترقی کے لیے جن چیزوں پر پھر سے اصرار کیا جانے لگا ہے، ان میں سے ایک دنیا کے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کی ثقافت کا احیا ہے۔ غلط یا صحیح، موجودہ دنیا میں تنازعات و فسادات کے ایک اہم عنصر کے طور پر مذہب کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، اور مذہبی تعلیمات و روایات کو بھی تشدد کے ایک اہم سرچشمے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس پورے پس منظر میں بین المذاہب مکالمے کی ثقافت کے احیاء کی بنیاد اس سوال پر ہے کہ کیا مذاہب کی تعلیمات واقعتا تشدد کا سرچشمہ ہیں یا وہ امن کا سرچشمہ کہلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ بہت سے اہل فکر و دانش کا خیال یہ ہے کہ مذہب انسان کو تقسیم کرتا ہے اور انسانی معاشرے کو فسادات و تعصبات کی بھینٹ چڑھادیتا ہے جبکہ بہت سے ایسے ہیں جو یہ دلائل دیتے ہیں کہ مذہب انسان کو روحانیت اور اخلاقیات کی اعلیٰ اقدار پر متحد کر سکتا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ مذہب میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ انسان کو ان فسادات و مسائل سے نجات دلا سکے۔ ان کے نزدیک دنیا کے تمام مذاہب میں ایسی تعلیمات موجود ہیں جن میں انسانیت کی بہتری اور فلاح کا سامان موجود ہے۔ سب مذاہب نے انسانوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے، ان کی خدمت کرنے، ضرر رسانی سے بچنے اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر زور دیا ہے۔
عام طور پر جب بھی بین المذاہب مکالمے کا نام سامنے آتا ہے تو اس سے طرح طرح کا تاثر لیا جاتا ہے:
- بعض لوگوں کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ بین المذاہب مکالمے سے مراد یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے اعتقادی نقطہ ہائے نظر سے دست بردار ہو کر مذہب کی ایک بالکل نئی تفہیم کے قائل ہو جائیں جس کی بنیادیں ان کے دینی تعلیمات سے متصادم ہوں۔
- بعض کا خدشہ ہے کہ بین المذاہب مکالمہ شاید مذاہب کے اتحاد کا نام ہے۔
- کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بین المذاہب مکالمہ سے مراد مذاہب پرسمجھوتہ کرتے ہوئے ان سے مضبوط وابستگی سے دست برداری کا نام ہے اور کم از کم جدت پسند مذہبی بننا مقصود ہے۔
- کچھ کا خیال ہے کہ یہ موجودہ مذاہب کو چھوڑ کر ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کا نام ہے۔
- بین المذاہب مکالمہ کا نام جب لیا جاتا ہے تو اس سے عام طور پر یہ تاثر بھی لیا جاتا ہے کہ شاید یہ کوئی مغربی ایجنڈا ہے۔
- بعض اسے روایتی مذہبی فکر کے خلاف ابھرتی ہوئی ایک متوازی فکر قرار دیتے ہیں۔
مذکورہ بالا سارے خدشات کے پیچھے کچھ باتیں قابل غور بھی ہیں، خاص طور پر کچھ اداروں، تنظیموں اور ممالک کے اپنے مخصوص اہداف، طرز عمل اور سرگرمیوں نے ایسے شکوک و شبہات کو مزید قوی کر دیا ہے۔ یہ تلخ حقیقت بھی ملحوظ رہے کہ طاقتور ممالک اور ریاستی اداروں نے دنیا کے مختلف خطوں میں مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مضبوط اور اثر انگیز لبادے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ بھی قرین قیاس ہے کہ شاید بعض تنظیموں نے بین المذاہب مکالمے کے نام سے کوئی خاص مفہوم کشید کر لیا ہو جس سے تاثر بنتا ہو کہ بین المذاہب مکالمہ سے مراد مذہب پر سمجھوتہ کرتے ہوئے اس سے وابستگی کے عنصر کو کم کرنا ہے.
میری نظر میں بین المذاہب مکالمہ سے مراد سارے مذاہب (جو اس وقت دنیا میں موجود ہیں ) کی موجودگی اور ان کے کردار کا اعتراف کرنے کا نام ہے۔ موجودگی کے اعتراف کے ساتھ ہر انسان چاہے وہ جس مذہب سے وابستہ ہو، اس کے جینے اور انسانی قدر و منزلت کے بنیادی حق کو تسلیم کرنے اور مختلف مذاہب کے درمیان پْرامن بقائے باہمی کو یقینی بنانے کی خاطر باہمی رواداری اور احترام کو فروغ دینے کا نام ہے۔
بین المذاہب مکالمے کے دو اہم پہلو ہیں۔ پہلا، مذاہب کی تعلیمات (مآخذ، عقائد، احکامات، مذہبی رسومات، اخلاقی تعلیمات اور تصور کائنات)، اور دوسرا، ان سے وابستہ افراد و اقوام کی بشریات (اطوار، رسوم، تاریخ، حالات و واقعات، وسائل و مسائل )۔ ان دونوں پہلووں کو دیکھنے اور سمجھنے کے بھی دو مختلف تناظرات ہیں۔ ایک داخلی تناظر جسے متعلقہ مذہب سے وابستہ اہل علم پیش کرتے ہیں۔ اور دوسرا بیرونی تناظر جو ایسے مکالمے کے دوران دوسرے لوگ اس مذہب یا ان سے وابستہ افراد و اقوام کے بارے میں پیش کرتے ہیں۔ بین المذاہب مکالمے کی سرگرمیوں میں کبھی دونوں پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور کبھی ایک پہلو ہی زیر نظر ہوتا ہے۔
بین المذاہب مکالمے میں دو چیزیں اگر ملحوظ رہیں تو فکرمندی کا پہلو کافی کم ہو جاتا ہے؛ ایک دیانت دار ی یعنی اگر آپ ایسے مکالمے میں حصہ لے رہے ہیں تو آپ کو اپنے نقطہ نظر پیش کرنے میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس کرنے، معذرت خواہانہ رویہ اپنانے اور لیپا پوتی کا سہارا لینے کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے۔ دیانت داری، خود اعتمادی اور شائستگی کا دامن تھامے رکھنا بین المذاہب مکالمے کو تقویت بخشتا ہے۔ دوسرا، آپ دوسروں کے اختلافی نقطہ نظر کو سننے کا حوصلہ پیدا کریں اور اس اختلاف کے باوجود اس کے ساتھ اخلاص اور احترام پر مبنی تعلق قائم رکھنا سیکھیں۔
گزشتہ کئی سالوں کے دوران مختلف اداروں خاص طور پر ادارہ امن و تعلیم، اسلام آباد کے پلیٹ فارم سے مجھے پاکستان بھر میں بین المذاہب قائدین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران طلبہ، اساتذہ، ائمہ و خطباء، ٹرینرز کے لیے نصاب تیار کرنے کے علاوہ ان لوگوں کے ساتھ تربیتی پروگرامات اور مشاورتی اجلاسوں اور علمی مذاکروں میں افادہ و استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ مختلف مسالک ومذاہب کی عبادت گاہوں، سماجی مراکز اور تعلیمی درسگاہوں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں امریکہ میں ڈریو یونیورسٹی ، نیو جرسی اسٹیٹ کے تحت مذہب اور تنازعات کے حل کے عنوان سے تین ہفتوں پر مبنی ایک بین الاقوامی بین المذاہب مکالمے کے پروگرام میں شرکت کی جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے شرکا سے ان کے نقطہ ہائے نظر کو جاننے اور مختلف موضوعات پر منتخب ماہرین سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔
گزشتہ کئی سالوں کے تجربات اور مختلف مسالک و مذاہب، ممالک و علاقوں سے تعلق رکھنے والے پانچ ہزار سے زائد مذہبی قائدین سے تربیتی نشستوں، مشاورتی اجلاسوں، علمی مذاکروں ، مکالموں اور تعامل کے دوران بارہا محسوس کیا ہے کہ بین المذاہب مکالمہ سے جہاں آپ کو مختلف مذاہب اور ان سے وابستہ افراد کے نقطہ نظر کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے، وہیں آپ کو اپنے مذہب کے ساتھ وابستگی کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ نیز ایک چیز بہت صراحت کے ساتھ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ بین المذاہب مکالمے کی کوششوں کے دوران آپ کو اپنے مذہب کو مختلف افقی و عمودی تناظر ات میں سمجھنے کا موقع میسر آتا ہے۔اس دوران آپ کو اپنے مذہب سے اپنی وابستگی مستحکم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ستمبر ۲۰۱۶ء
جمہوریت اور حاکمیت عوام ۔ چند منطقی مغالطے / غیر مسلم معاشروں میں رہنے کے انسانی واخلاقی اصول / آسمانی شرائع میں جہاد کا صحیح تصور
محمد عمار خان ناصر
جمہوریت کو ’’حاکمیت عوام‘‘ کے نظریے کی بنیاد پر کفریہ نظام قرار دینے اور حاکمیت عوام کو اس کا جزو لاینفک قرار دینے والے گروہ کی طرف سے ایک عامۃ الورود اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ جمہوریت میں اگر دستوری طور پر قرآن وسنت کی پابندی قبول کی جاتی ہے تو اس لیے نہیں کی جاتی کہ وہ خدا کا حکم ہے جس کی اطاعت لازم ہے، بلکہ اس اصول پر کی جاتی ہے کہ یہ اکثریت نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے اور وہ جب چاہے، اس پابندی کو ختم کر سکتی ہے۔ اس لیے دستور میں اس کی تصریح کے باوجود جمہوریت درحقیقت ’’حاکمیت عوام‘‘ ہی کے فلسفے پر مبنی نظام ہے۔
اس استدلال کے دو نکتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ دونوں منطقی مغالطوں کی شاہکار مثالیں ہیں۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ دستور میں قرآن وسنت کی پابندی دراصل قرآن وسنت کے واجب الاتبا ع ہونے کے عقیدے کے تحت نہیں بلکہ محض اس لیے قبول کی جاتی ہے کہ اکثریت یہ پابندی قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر دستور میں اس تصریح کا مطلب یہ نہیں کہ دستور ساز اسمبلی خود کو قرآن وسنت کا پابند سمجھتی ہے اور یہ محض حاکمیت عوام کے اصول کا ایک اظہار ہے تو اس مقصد کے لیے اسمبلی کو یہ تصریح کرنے کی آخر ضرورت اور مجبوری ہی کیا درپیش ہے؟ پھر تو دستور میں سادہ طور پر صرف یہ بات لکھنی چاہیے کہ قانون سازی کا مدار اکثریت کی رائے پر ہے اور اس بنیاد پر جو بھی قانون بنے گا، وہ اس وقت تک قانون رہے گا جب تک اسے اکثریت کی تائید حاصل رہے۔ جب دستور ساز اسمبلی اس سے آگے بڑھ کر باقاعدہ ایک اصول کے طو رپر یہ نکتہ دستور میں شامل کر رہی ہے کہ مقننہ قرآن وسنت کے احکام کی پابند ہوگی تو کس اصول کی رو سے اس پر یہ الزام عائد کیا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن وسنت کی پابندی کو بالذات اور مستقل اصول کے طور پر قبول نہیں کر رہی؟ اس سامنے کی بات کو صاف نظر انداز کر دینے کو آخر تحکم کے علاوہ کیا عنوان دیا جا سکتا ہے؟
استدلال کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ چونکہ دستور میں اکثریت کی رائے کی بنیاد پر تبدیلی کی جا سکتی ہے اور اس اصول کے تحت اگر کسی وقت اکثریت قرآن وسنت کی پابندی کی شرط کو ختم کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وسنت کی پابندی کو فی نفسہ اور بالذات نہیں بلکہ محض اکثریت کی رائے کی بنیاد پر قبول کیا جا رہا ہے۔
یہ نکتہ پہلے سے بھی بڑھ کر عجیب بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ دین وشریعت بلکہ دنیا کے کسی بھی قانون یا ضابطے کی پابندی قبول کرنے کا آخر وہ کون سا اسلوب یا پیرایہ ہو سکتا ہے جس میں یہ امکان موجود نہ ہو کہ کل کلاں کو پابندی قبول کرنے والا اس کا منکر نہیں ہو جائے گا؟ مثال کے طور پر ایک شخص کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرتا ہے تو اسے اس بنیاد پر مسلمان تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی مرضی اور آزادی سے یہ فیصلہ کیا ہے، حالانکہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ وہ کسی بھی وقت اسی آزادی کی بنیاد پر اسلام سے منحرف ہونے کا فیصلہ کر لے۔ اب کیا اس کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ چونکہ کل کلاں کو وہ اپنی مرضی سے اسلام کو چھوڑ سکتا ہے، اس لیے آج اس کے کلمہ پڑھنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ وہ اسلام کو فی نفسہ واجب الاتباع نہیں سمجھتا، بلکہ اپنی ذاتی پسند اور مرضی کی وجہ سے قبول کر رہا ہے؟ دنیا کے ہر معاہدے اور ہر ضابطے کی پابندی کی بنیاد اسی آزادی پر ہوتی ہے جو انسانوں کو حاصل ہے اور جو آج کسی پابندی کے حق میں اور کل اس کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے، لیکن ہم اس آزادی کے منفی استعمال کے بالفعل ظہور پذیر ہونے سے پہلے کبھی مستقبل کے امکانی مفروضوں کی بنیاد پر حال میں یہ قرار نہیں دیتے کہ فلاں شخص یا گروہ درحقیقت اس قانون یا ضابطے کو فی حد ذاتہ واجب الاتباع ہی تسلیم نہیں کرتا۔
جمہوریت اور ’’حاکمیت عوام‘‘ کے تصور کو لازم وملزوم قرار دینے کے ضمن میں ایک اور منطقی مغالطہ جو بالعموم دیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ جمہوریت میں شریعت کے واضح اور مسلمہ احکام بھی کسی ملک میں اس وقت تک قانون کا درجہ اختیار نہیں کر سکتے جب تک کہ منتخب قانون ساز ادارہ اسے بطور قانون منظور نہ کر لے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمہوریت میں اللہ کی شریعت، نفاذ کے لیے انسانوں کی منظوری کی محتاج ہے۔ اگر وہ بطور قانون اس کی منظوری نہ دیں تو کوئی حکم شرعی نافذ نہیں ہو سکتا اور ظاہر ہے کہ یہ ایک کفریہ تصور ہے۔
اس دلیل میں جو منطقی مغالطہ ہے، اسے ایک مثال کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں، ایک شخص کسی کو قتل کر دیتا ہے۔ ایسی صورت میں شریعت کا واضح اور قطعی حکم ہے کہ قاتل کو مقتول کے قصاص میں قتل کیا جائے۔ لیکن شریعت کا یہ حکم اس وقت تک عملاً نافذ نہیں ہو سکتا جب تک یہ مقدمہ باقاعدہ کسی با اختیار عدالت کے سامنے پیش نہ کیا جائے اور وہ یہ فیصلہ نہ سنا دے کہ قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت کا حکم اپنے نفاذ کے لیے ایک جج کی منظوری کا محتاج ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں، اس لیے کہ شریعت کے حکم اور اس پر عمل درآمد کے درمیان عدالت کا کردار اس تصور کے تحت نہیں رکھا گیا کہ خدا کی شریعت کو انسانی تائید کی احتیاج ہے، بلکہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس حکم کے نفاذ کے عمل کو منضبط اور غلطیوں سے محفوظ بنایا جا سکے۔
بالکل یہی معاملہ کسی شرعی حکم کو قانون سازی کے مرحلے سے گزارنے کا ہے۔ جب دستور میں اصولی طور پر یہ مان لیا گیا کہ شریعت بالادست قانون ہوگی تو تمام واضح اور قطعی احکام اصولاً قانون کا درجہ اختیار کر گئے۔ اس کے بعد ان احکام کے حوالے سے قانون سازی کے مراحل بنیادی طور پر پروسیجرل ہیں نہ کہ اس بنیاد پر کہ احکام شرعیہ کو ابھی قانون بننے کے لیے منظوری کی احتیاج ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ خاص طور پر ملحوظ رہنا چاہیے کہ شریعت کا کوئی بھی واضح اور صریح حکم اس وقت تک نفاذ میں نہیں آ سکتا جب تک اس کے ساتھ جڑے ہوئے چند اجتہادی سوالوں کا جواب نہ دے دیا جائے۔ مثلاً چوری کو لیجیے۔ محض یہ تسلیم کر لینے سے کہ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے، کسی بھی چوری کے مقدمے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ حکم کے اطلاق کے لیے شاید درجنوں اجتہادی سوالات کا جواب دینا پڑے گا اور اس کے لیے کسی نہ کسی اجتہادی تعبیر کو قانون کا درجہ دینا پڑے گا۔ مثلاً یہ کہ چوری کا مصداق کیا ہے، کتنے مال کی چوری پر یہ سزا لاگو ہوگی، کیا ہر طرح کے حالات میں یہ سزا دی جائے گی یا کچھ مخصوص حالات میں رعایت بھی دی جا سکتی ہے، ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اجتہادی سوالات ہیں جو نص میں تصریحاً مذکور نہیں اور ان کا جواب طے کیے بغیر کسی ایک مقدمے کا فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
گویا ہر واضح اور قطعی شرعی حکم نفاذ کے لیے ایک اجتہادی تعبیر کا محتاج ہے۔ قانون سازی دراصل اسی درمیانی مرحلے کو طے کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ قانون کے بنیادی پہلووں کی ایک متعین تعبیر کے بغیر، جس کی روشنی میں عدالتیں فیصلے کر سکیں، قانون کے نفاذ میں بہت سی پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ جدید سیاسی نظام میں قانون ساز ادارے اس نوعیت کی پیچیدگیوں کو کم کرنے اور قانون کے بنیادی پہلووں کو واضح اور متعین کرنے کے کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر قانون کے بنیادی خطوط اور حدود اربعہ متعین نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ قانون کی براہ راست تعبیر کا کام عدالتوں کو کرنا پڑے گا جس میں اختلافات کا پیداہونا اور اس کے نتیجے میں قانونی سطح پر پیچیدگیوں کا سامنے آنا ناگزیر ہے۔ علمی اور نظری سطح پر کسی قانون کی تعبیر میں اختلافات ہوں تو ان سے عملی پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوتیں، لیکن قانونی نظام کی سطح پر بہرحال ایک بنیادی نوعیت کی یکسانی پیدا کرنا انتظامی پہلو سے ایک مجبوری کا درجہ رکھتا ہے۔ جمہوریت میں شرعی احکام کو نفاذ سے پہلے قانون ساز ادارے کی منظوری کے مرحلے سے گزارنا دراصل اسی پہلو سے ضروری ہوتا ہے، نہ کہ اس مفروضہ تصور کے تحت کہ شریعت کا حکم تب واجب العمل ہوگا جب انسان اسے قانون کے طور پر منظور کر لیں گے۔ چنانچہ صورت حال کی درست تعبیر یہ ہوگی کہ دستور کی اسلامی نوعیت طے ہو جانے کے بعد تمام احکام شریعت کی پابندی قبول کر لی گئی، البتہ انھیں قانون کی سطح پر نافذ کرنے کے لیے کچھ درمیانی مراحل طے کرنا ضروری تھا جن میں سب سے اہم مرحلہ قانون کی تعبیر کا تھا۔
جمہوریت کو علی الاطلاق کفر ثابت کرنے والی ایک مشہور کتاب میں دلائل کا سارا زور صرف کرنے کے بعد آخر میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ ’’اگر یہ جمہوریت کفر ہے تو پھر بعض علمائے کرام اس نظام میں کیوں شریک ہوتے ہیں؟‘‘
اگرچہ ’’بعض علمائے کرام‘‘ (جس سے مراد قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک پاکستان کی مین اسٹریم مذہبی قیادت کے ، چند ایک کے استثنا کے ساتھ، تمام علماء کرام ہیں) کہہ کر سوال کی مشکل کو کافی کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، لیکن بہرحال سوال تو مشکل ہے۔ اب اس کا جواب ملاحظہ فرمائیے:
’’وہ علماء جو اس نظام میں شریک ہوئے اور اب اس دنیا سے جا چکے، ان کے بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ ان پر اس جمہوری نظام کا کفر واضح نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا شریعت میں یہ ایک عذر ہے اور عذر کے ہوتے ہوئے کسی خاص شخص کی تکفیر نہیں کی جا سکتی۔ ۔۔۔ کسی کفر کا ظاہر ہونا نہ ہونا، اس کفر کا کسی پر پہلے ظاہر ہونا، کسی پر بعد میں، یہ کسی کے تقویٰ اور علم کے منافی نہیں۔ اس بحث میں یہ کہنا بے کار بات ہے کہ اگر جمہوریت کفر ہوتی تو تمام بڑے علماء اس کو کفر کیوں نہیں کہتے؟‘‘ سوال یہ ہے کہ ارشاد نبوی میں کسی چیز پر کفر کا اطلاق کرنے کے لیے ’’کفرا بواحا عندکم من اللہ فیہ برھان‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور فقہاء اس کے لیے مطلوبہ احتیاط کو یوں واضح کرتے ہیں کہ وہ کفر ایسا ہونا چاہیے کہ اس کے کفر ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہ ہو اور تمام اہل علم اسے کفر قرار دینے میں کوئی تردد محسوس نہ کریں۔
اگر جمہوریت ایسا ہی کفر صریح اور کفر بواح ہے تو ان ’’تمام بڑے علماء‘‘ کو آخر یہ کیوں دکھائی نہیں دیا؟ اور کیوں اس کی ضرورت پیش آ رہی ہے کہ مختلف منطقی مغالطوں سے کام لے کر ایسے دلائل گھڑے جائیں جو صرف سادہ ذہن اور جذباتی نوجوانوں کو متاثر کر سکیں اور انھیں مطمئن کرنے کے لیے ’’تمام بڑے علماء‘‘ پر وہ آیتیں منطبق کرنی پڑیں جو قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے والوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں؟ ملاحظہ فرمائیے:
’’داعیوں کے سامنے جو اعتراض بار بار کیا جاتا ہے، وہ یہ ہوتا ہے کہ آپ زیادہ سمجھ دار ہیں یا بڑے زیادہ سمجھ دار ہیں؟ اگر یہ سب جو آپ بیان کر رہے ہیں، حق ہوتا تو ہمارے بڑے اس کو کیوں نہ اختیار کرتے؟ لیکن کیا ’’قوم‘‘ کے بڑے ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں؟ کیا ’’نوجوان‘‘ ہمیشہ غلط ہوتے ہیں اور ان کا طریقہ کار کبھی بھی درست نہیں ہوتا؟ کیا شریعت اسلامیہ میں یہ کوئی معیار ہے کہ بڑوں اور چھوٹوں کی آرا جب مختلف ہو جائیں تو بڑوں کی بات ہی قابل اعتبار اور قابل عمل ہوگی؟ اور کیا حق کو صرف اس لیے رد کر دیا جائے گا کہ وہ معاشرے کے مشہور ونامور افراد کی زبان سے جاری نہیں ہوا؟ کیا اس قسم کے اعتراض حق کو رد کرنے والے پہلے ہی سے نہیں کرتے چلے آ رہے؟ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی ایسے ہی اعتراضات کیا کرتے تھے:
وقالوا لولا نزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم (الزخرف)
’’وہ کہتے کہ اس قرآن کو دونوں بستیوں (مکہ وطائف) میں کسی بڑی شخصیت پر کیوں نہ اتارا گیا۔‘‘
حالانکہ یہاں سوال بڑوں اور چھوٹوں یا اکثریت واقلیت کا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ فقہ وشریعت کی رو سے یہ ضروری ہے کہ جس بات کو ’’کفر‘‘ قرار دیا جا رہا ہو، وہ ایسی ہو کہ اس کے کفر ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہ ہو اور تمام اہل علم اسے کفر قرار دینے میں کوئی تردد محسوس نہ کریں۔ اگر جمہوریت ایسا ہی کفر صریح اور کفر بواح ہے تو ان ’’تمام بڑے علماء‘‘ کو آخر یہ ’’کفر‘‘ کیوں دکھائی نہیں دیا؟
غیر مسلم معاشروں میں رہنے کے انسانی واخلاقی اصول
امریکا کے حالیہ مطالعاتی سفر (۱۰؍ جولائی تا ۲؍ اگست) کے دوران میں ڈریو یونیورسٹی (نیو جرسی) کے سنٹر فار ریلجن، کلچر اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن کے زیر اہتمام ایک سمر انسٹی ٹیوٹ میں شرکت کے علاوہ مختلف احباب سے ملاقات اور بعض مقامات پر مسلم کمیونٹی کے اجتماعات سے گفتگو کا موقع بھی ملا۔ ان نشستوں میں راقم الحروف نے خاص طور پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعے کی روشنی میں چند اخلاقی اصولوں کو واضح کرنے کی کوشش کی جن کی پابندی کسی غیر مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو کرنی چاہیے۔ ذیل میں اس کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
قرآن مجید نے سیدنا یوسف علیہ السلام کا واقعہ یہ کہہ کر بیان کیا ہے کہ یہ احسن القصص یعنی بہترین قصہ ہے اور اس میں جستجو رکھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ اس واقعہ کے سبق آموز پہلو تو کئی ہیں، لیکن اس موقع پر ہم اس خاص زاویے سے اس سے راہ نمائی لینے کی کوشش کریں گے کہ کسی ایسے معاشرے میں جہاں مسلمان اکثریت میں اور اقتدار میں نہ ہوں، ان کا رویہ اور معاملہ معاشرے کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے اور اس ضمن میں انھیں کن اخلاقی اور انسانی اصولوں کی پاس داری کرنی چاہیے۔ قرآن مجید نے اس حوالے سے مختلف واقعات کی مدد سے سیدنا یوسف علیہ السلام کے کردار اور فہم ودانش کے بعض ایسے پہلووں کو اجاگر کیا ہے جو اس باب میں نہایت بنیادی راہ نمائی فراہم کرتے ہیں۔
سب سے پہلا اخلاقی اصول تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو کسی معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے مواقع میسر ہوں اور معاشرہ ان کے اخلاق وکردار پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں اپنے وسائل اور سہولیات سے مستفید ہونے کا موقع دے رہا ہو تو اس کے جواب میں مسلمانوں کو بھی اس اعتماد پر پورا اترنا چاہیے اور خیانت سے کام لیتے ہوئے اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کو بازار مصر میں ایک غلام کے طور پر سستے داموں لا کر بیچا گیا تھا، لیکن ان کے مالک نے ان کے لیے رہائش، خوراک اور تربیت کا اچھا بندوبست کیا اور پردیس میں انھیں گھر جیسی سہولتوں کی فراہمی کا انتظام کیا۔ پھر سن رشد کو پہنچنے پر جب خاتون خانہ نے انھیں دعوت گناہ دی تو سیدنا یوسف کا سب سے پہلا اور فوری رد عمل یہ تھا کہ میں یہ خیانت کیسے کر سکتا ہوں، جبکہ میرے آقا نے میرے لیے یہاں سامان زندگی کا اتنا عمدہ بندوبست کیا ہے(انہ ربی احسن مثوای)۔ خاتون خانہ کی دعوت کو قبول کرنا اپنی ذات میں تو گناہ تھا ہی، اس کے ساتھ سیدنا یوسف نے اپنی سلیم فطرت کی بدولت اس کے اس پہلو کو بھی شدت سے محسوس کیا کہ یہ ایک محسن اور منعم کے ساتھ خیانت اور بد عہدی کا عمل ہوگا جو کسی شریف اور باکردار انسان کے شایان شان نہیں۔ یہ اصول، ظاہر ہے، جیسے افراد کے لیے ہے، ویسے ہی قوموں کے لیے بھی ہے اور صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات میں موثر نہیں، بلکہ اس کا تعلق آفاقی انسانی اخلاقیات سے ہے۔ چنانچہ سب سے پہلی چیز جو مسلمانوں کو انفرادی سطح پر بھی اور گروہی سطح پر بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے، یہ ہے کہ جو معاشرہ ان کے لیے اپنے وسائل اور مواقع سے استفادہ کے دروازے کھول رہا ہو اور ان کے اخلاق وکردار پر اعتماد کر رہا ہو، وہ جواب میں اس کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کریں اور کوئی طرز عمل اختیار نہ کریں جو اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والا ہو۔
دوسرا اخلاقی اصول جو سیدنا یوسف کے کردار سے ہمارے سامنے آتا ہے، یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے ساتھ کہیں کوئی نا انصافی یا زیادتی ہو جائے تو وہ اسباب کی سطح پر داد رسی کے لیے ضرور کوشش کریں، لیکن معاشرے یا اس کے نظام وقانون سے متعلق کسی منفی رد عمل میں مبتلا نہ ہو جائیں اور خاص طور پر اس ناانصافی کی وجہ سے اس معاشرے کے لیے انسانی خیر خواہی کا رویہ ترک نہ کر دیں۔ سیدنا یوسف کو ایک بے بنیاد الزام پر، محض ایک با اثر گھرانے کو بدنامی سے بچانے کے لیے، جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ کئی سال تک قید میں رہے۔ یہاں ان کی ملاقات شاہی دربار کے دو خادموں سے ہوئی جن میں سے ایک کو انھوں نے تاکید کی کہ جب تم رہا ہو کر بادشاہ کے پاس واپس جاو تو میرے متعلق اس کو بتانا۔ سوئے اتفاق سے اس شخص کو بادشاہ کے سامنے سیدنا یوسف کا ذکر کرنا یاد نہ رہا اور سیدنا یوسف مزید کچھ عرصے کے لیے جیل میں ہی پڑے رہے۔ اس کے بعد شاہ مصر نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا جس کی تعبیر کسی کی سمجھ میں نہ آ سکی تو بالآخر وہ موقع پیدا ہوا جس میں اہل مصر کو سیدنا یوسف علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا پڑا جنھیں اللہ نے خوابوں کی تعبیر کی خاص مہارت عطا فرمائی تھی۔
یہاں ہمیں سیدنا یوسف کے کردار کی بلندی اوج کمال پر نظر آتی ہے۔وہ نہ تو خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے آنے والے شاہی خادم سے کوئی شکایت کرتے ہیں کہ تم نے میری رہائی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی، نہ یہ رد عمل ظاہر کرتے ہیں کہ مصر کے نظام انصاف نے مجھے بے گناہ ہوتے ہوئے جیل میں ڈال رکھا ہے، اس لیے میں اہل مصر کے کام کیوں آوں اور نہ یہ شرط ہی رکھتے ہیں کہ پہلے مجھے انصاف دیا جائے، تب میں اپنے علم اور مہارت سے اہل مصر کو فائدہ پہنچاوں گا۔ اس کے بالکل برعکس، وہ نہ صرف بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتا دیتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ تدبیر بھی بتاتے ہیں کہ قحط کے زمانے میں خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس سے پہلے آنے والے سالوں میں غلے کا ذخیرہ جمع کر لیا جائیاور دانوں کو خوشوں کے اندر ہی رہنے دیا جائے۔ گویا وہ اپنے کردار سے یہ واضح کرتے ہیں کہ انسان کو جو علم، دانش اور حکمت دی گئی ہے، وہ اس کے پاس ایک امانت ہے جسے ہر حال میں لوگوں کی خیر خواہی اور بھلائی کے لیے استعمال ہونا چاہیے اور کسی شخص یا گروہ کے ساتھ ہونے والی کوئی نا انصافی یا زیادتی اس کا جواز نہیں بن سکتی کہ ضرورت کے موقع پر وہ لوگوں کو اپنی خداداد صلاحیت اور علم وتجربہ سے محروم رکھے۔
سیدنا یوسف علیہ السلام کے طرز عمل اور کردار سے تیسرا اہم اصول یہ سامنے آتا ہے کہ مسلمان جس معاشرے میں بھی ہوں، وہاں کے لوگوں اور وہاں کی سیاسی ومعاشی سرگرمیوں سے الگ تھلگ ہو کر رہنے کے بجائے معاشرت اور نظام سیاست ومعیشت کا حصہ بنیں اور اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے مواقع اور وسائل سے خود بھی مستفید ہوں اور خلق خدا کی بہتری کے لیے بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ چنانچہ سیدنا یوسف کو ان کے علم وفہم اور دانش مندی کی بدولت جب شاہ مصر کا مقرب خاص بننے کا موقع ملا تو انھوں نے نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، بلکہ خود اپنے لیے اہل مصر کی خدمت کا ایک خاص دائرہ منتخب کیا اور بادشاہ سے اس دائرے میں ذمہ داری اور اختیار تفویض کیے جانے کی درخواست کی۔ اسی سے آگے چل کر انھیں مصر کے نظام اقتدار میں وہ اثر ورسوخ حاصل ہوا کہ انھوں نے اپنے پورے کنبے کو مصر میں بلا لیا اور ان کے پہنچنے پر ان کا شاہانہ شان وشوکت کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ مزید یہ کہ بنی اسرائیل کے لیے بطور ایک قوم طویل عرصے تک عزت اور وقار کے ساتھ مصر میں زندگی بسر کرنے کے اسباب فراہم ہوئے، تا آنکہ کچھ صدیوں کے بعد حالات کے الٹ پھیر سے وہ رفتہ رفتہ ایک محکوم اور مقہور گروہ کا درجہ اختیار کرتے چلے گئے۔
اس ضمن کا چوتھا اور اہم ترین دینی اصول یہ ہے کہ مسلمان کسی بھی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی بنیادی اور اصل ذمہ داری یعنی دعوت الی اللہ سے کسی حال میں غفلت اور بے پروائی اختیار نہ کریں اور معاشی ومعاشرتی ترقی کے مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اس فریضے کی ادائیگی پر بھی پوری طرح توجہ مرکوز رکھیں۔ سیدنا یوسف کے واقعے میں قرآن نے اس کی ایک جھلک یوں پیش کی ہے کہ جب قید خانے میں دو شاہی ملازم اپنے خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے ان کے پاس آئے تو انھوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی حکمت کے ساتھ اور بڑے عمدہ اسلوب میں ان کے سامنے توحید کی دعوت بھی پیش کر دی۔ قرآن مجید کے ایک دوسرے مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا یوسف نے مصر میں اقتدار اور سیاسی اثر ورسوخ ملنے کے بعد وہاں کے با اثر طبقات کو بھی دعوت الی اللہ کا باقاعدہ مخاطب بنایا اور دلائل وبینات کی روشنی میں توحید کا پیغام ان کے سامنے پیش کیا۔ ان کے مخاطبین اگرچہ عموماً ان کی دعوت کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا رہے، تاہم مصر کی تاریخ میں اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر کے طور پر انھیں احترام سے یاد کیا جاتا رہا۔
اس زاویے سے سیدنا یوسف کے واقعے پر غور کیا جائے تو، جیسا کہ عرض کیا گیا، نہ صرف غیر مسلم معاشروں میں زندگی بسر کرنے کے اخلاقی اصول واضح ہوتے ہیں، بلکہ ایک پوری حکمت عملی ابھر کر سامنے آتی ہے جس سے کسی بھی معاشرے میں رہنے والے مسلمان افراد یا طبقے استفادہ کر سکتے ہیں۔ معاصر تناظر میں مختلف غیر مسلم معاشروں میں مسلمان کمیونٹیز کی جو عمومی نفسیات دیکھنے میں آ رہی ہے، اس کے پیش نظر ان اصولوں کی طرف توجہ دلانے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اللہ کرے کہ ہر معاشرے کے ذمہ دار مذہبی وسماجی راہ نما اس طرف متوجہ ہوں اور اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر کے اسوہ کی روشنی میں مسلمانوں کی نفسیات، ذمہ داریوں اور کردار کو درست طور پر تشکیل دینے میں کامیاب ہوں۔
آسمانی شرائع میں جہاد کا صحیح تصور
جہاد انبیاء کی شریعتوں میں مقصد کے حصول کے ایک ذریعے کے طور پر مشروع کیا گیا ہے اور اہل علم کی تصریح کے مطابق فی ذاتہ کوئی مطلوب یا مستحسن امر نہیں، کیونکہ اس میں انسانی جان ومال کا ضیاع ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر متبادل راستے موجود ہوں تو جنگ کے راستے سے گریز کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ جان ومال کی قربانی بھی تب مطلوب ہوگی اگر حصول مقصد کا ظن غالب ہو۔ بصورت دیگر یہ راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ ہاں، جب یہ ناگزیر ہو جائے اور حصول مقصد اسی راستے پر منحصر ہو جائے تو پھر مسلمانوں سے شریعت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور میدان جنگ میں جان ومال کی قربانی پیش کریں۔ ایسے حالات میں اس جیسا افضل عمل کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور حب دنیا اور بزدلی کی وجہ سے اس سے گریز کرنے والی قومیں ذلت ورسوائی کی حق دار ٹھہرتی ہیں۔
جہاد سے کس مخصوص مقصد یا غایت کا حصول پیش نظر ہے اور شریعت کا یہ حکم کب فرضیت یا استحباب کے درجے میں انسانوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے؟ اس کا تمام تر دار ومدار عملی حالات پر ہے۔ انبیاء کی تاریخ میں بعض دفعہ اس طریقے سے عالمی سطح پر انقلابی اور دور رس تبدیلیاں لائی گئیں، بعض دفعہ محدود اور وقتی مقاصد (مثلاً? جان ومال اور علاقے کا دفاع وغیرہ) حاصل کیے گئے، اور بہت سے حالات میں اس کو چھوڑ کر بالکل مختلف راستے اور طریقے اختیار کیے گئے۔ چنانچہ شریعت میں اصولی طور پر جہاد کا حکم موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ اور ہر طرح کے حالات میں اس راستے کا انتخاب شریعت کا لازمی تقاضا ہے۔ اس کا تعین حالات کریں گے اور حالات کی نوعیت ہر دور کے اہل علم وفقہ اپنی بصیرت کی روشنی میں طے کریں گے۔
تورات میں بنی اسرائیل کو جو شریعت دی گئی، اس میں واضح طور پر بنی اسرائیل کو اپنی سلطنت کے قیام کے لیے ایک مخصوص علاقے پر قبضہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے جنگ کے تفصیلی احکام بیان کیے گئے تھے۔ تاہم انبیائے بنی اسرائیل نے اپنے طرز عمل سے واضح کیا کہ اس حکم پر عمل علی الاطلاق نہیں بلکہ بہت سی شرائط وقیود کی رعایت کے ساتھ ہی مطلوب ہے۔ چنانچہ:
۱۔ موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جب بنی اسرائیل نے بیت المقدس کو فتح کرنے میں بزدلی دکھائی تو اللہ تعالیٰ نے چالیس سال کے لیے انھیں اس اقدام سے روک دیا اور متنبہ کیا کہ اب اگر اس سے قبل انھوں نے جنگ کی تو نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے۔
۲۔ حضرت داود علیہ السلام کے زمانے سے کچھ پہلے بنی اسرائیل کے قبائل الگ الگ سیاسی انتظام کے تحت زندگی گزار رہے تھے اور کوئی متحدہ اجتماعی نظم موجود نہیں تھا۔ اس موقع پر جب بنی اسرائیل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے علاقے کفار سے واپس حاصل کرنے کے لیے جہاد کریں تو انھوں نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ ان پر ایک بادشاہ کو مقرر کر دیا جائے جس کی قیادت میں وہ جہاد کر سکیں۔ ان کی درخواست پر اللہ نے طالوت کو ان کا بادشاہ بنا کر ان پر قتال کی ذمہ داری عائد کی۔ یہاں قرآن نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، وہ بہت قابل توجہ ہیں۔ ’’فلما کتب علیھم القتال‘‘، یعنی جب ان پر جہاد فرض کیا گیا، حالانکہ جہاد کی فرضیت اصولی طور پر پہلے سے تورات میں موجود تھی۔ قرآن کی اس تعبیر سے ایک نہایت اہم شرعی نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کسی مخصوص صورت حال میں عملاً? جہاد کا فرض ہونا، اصولی فرضیت سے مختلف ایک معاملہ ہے۔
۳۔ بابل کی اسیری اور پھر رومی سلطنت کے ہاتھوں بنی اسرائیل کی حکومت کے خاتمے کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام تک جتنے بھی انبیاء آئے، انھوں نے اپنی دعوت اور محنت کا موضوع خود بنی اسرائیل کی دینی واخلاقی حالت کو بنایا۔ کسی ایک نے بھی انھیں یہ سبق نہیں دیا کہ اس ذلت ورسوائی سے نکلنے کے لیے ’’جہاد’’ کی طرف لوٹیں۔ ان میں سے حضرت مسیح علیہ السلام نے تو اپنی دعوتی جدوجہد سے بنی اسرائیل میں رائج اس تصور کی غلطی کو آخری درجے میں واضح کر دیا کہ دینی احیاء کا مطلب صرف قومی حکومت اور سیاسی سیادت کی بحالی ہے۔ بنی اسرائیل نے انھیں ’’مسیح موعود’’ ماننے سے انکار ہی اس لیے کیا کہ ان کے خیال میں مسیح موعود کاکام بنی اسرائیل کے قومی اقتدار کی بحالی تھا، جبکہ حضرت مسیح نے اپنی دعوت کو تمام تر بنی اسرائیل کی اخلاقی حالت پر مرکوز رکھا اور انھیں بتایا کہ اگر انھوں نے اس اجتماعی حالت کو اس پہلو سے درست نہ کیا تو قیامت تک کے لیے رسوائی اور محکومی کے عذاب سے دوچار کر دیے جائیں گے۔
ان میں سے کسی بھی دور میں جہاد کا حکم نہ منسوخ ہوا تھا اور نہ اصولی طور شریعت میں اس کی اہمیت کم ہو گئی تھی۔ فرق صرف حالات میں پیدا ہوا تھا۔ بنی اسرائیل داخلی اعتبار سے اس جگہ پر نہیں تھے کہ انھیں اللہ کی نصرت ملتی، بلکہ اللہ کے وعدے کے مطابق ان کے دشمنوں کو ان کی بد اعمالیوں کی پاداش میں ان پر مسلط کر دیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں انبیاء4 اور دعاۃ کی ذمہ داری یہی بنتی تھی کہ وہ انھیں ان کی اصل بیماری کی طرف متوجہ کریں، نہ کہ ایک مشروط ومقید شرعی حکم کو اصل قرار دے کر قومی حمیت وغیرت کا جذبہ بیدار کرنے میں لگ جائیں۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۲)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۹۸) مدّہ اور مدّ لہ میں فرق
قرآن مجید میں فعل مد یمد براہ راست مفعول بہ کے ساتھ بھی آیا ہے اور حرف جر لام کے ساتھ بھی آیا ہے۔ ان دونوں اسلوبوں میں کیا فرق ہے؟ اس سلسلے میں عام طور سے علماء لغت اور مفسرین کے یہاں کوئی صراحت نہیں ملتی، بلکہ ان کے بیانات سے لگتا ہے کہ دونوں اسلوب ہم معنی ہیں، البتہ علامہ زمخشری نے اس فرق کوصراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے، ان کے نزدیک مد اگر مفعول بہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی بڑھانے اور اضافہ کرنے کے ہیں، اور اگر حرف جر لام کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ڈھیل دینے اور مہلت دینے کے ہیں۔ سورہ بقرۃ آیت نمبر ۱۵؍ کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں:
ویمدھم فی طغیانھم من مد الجیش وأمدہ اذا زادہ وألحق بہ ما یقویہ ویکثرہ۔۔۔ علی أن الذی بمعنی أمھلہ انما ھو مدّ لہ مع اللام کأملی لہ۔ (تفسیر الزمخشری: ۱؍۶۷)
علامہ موصوف نے جو فرق ذکر کیا ہے، قرآن مجید کے استعمالات سے اس کی بھرپور تائید ہوتی ہے۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ مترجمین قرآن کے سامنے یہ فرق واضح طور سے نہیں رہا۔ ذیل میں اس کی کچھ مثالیں پیش کی جائیں گی:
(۱) اللّٰہُ یَسْتَہْزِئُ بِہِمْ وَیَمُدُّہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ۔ (البقرۃ:۱۵)
اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے اکثر مترجمین نے یمدھم کا ترجمہ ڈھیل دینا کیا ہے۔کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’اللہ ان سے مذاق کررہا ہے، وہ ان کی رسی دراز کیے جاتا ہے، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی، صحیح ترجمہ: اللہ ان سے مذاق کررہا ہے، وہ انہیں ان کی سرکشی میں اندھوں کی طرح بڑھنے دے رہا ہے)
’’اللہ ان سے مذاق کررہا ہے اور ان کو ان کی سرکشی میں ڈھیل دیے جارہا ہے، یہ بھٹکتے پھر رہے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، صحیح ترجمہ: اللہ ان سے مذاق کررہا ہے اور ان کو ان کی سرکشی میں بڑھائے جارہا ہے، کہ یہ بھٹکتے پھریں)
’’اللہ تعالی بھی استہزا کررہے ہیں ان کے ساتھ اور ڈھیل دیتے چلے جاتے ہیں ان کو کہ وہ اپنی سرکشی میں حیران وسرگرداں ہورہے ہیں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’اللہ ان سے استہزا فرماتا ہے (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)
جبکہ بعض لوگوں نے ڈھیل دینے کے بجائے بڑھانے کا ترجمہ کیا ہے، اور یہی موزوں ترجمہ ہے۔کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
’’اللہ ہنسی کرتا ہے ان سے اور بڑھاتا ہے ان کو ان کی شرارت میں بہکے ہوئے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اللہ تعالی بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھادیتا ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
علامہ زمخشری کے بیان کردہ اصول کے مطابق اس آیت میں یمدھم کا صحیح مفہوم بڑھانا ہے نا کہ ڈھیل دینا، اس کی تائید مذکورہ ذیل آیت سے بھی ہوتی ہے، جس میں فعل یمد ٹھیک اسی اسلوب میں استعمال ہوا ہے اور اس کا ترجمہ ڈھیل دینا نہیں بلکہ بڑھانا اور کھینچنا کیا گیا ہے۔
(۲) وَإِخْوَانُہُمْ یَمُدُّونَہُمْ فِیْ الْغَیِّ ثُمَّ لاَ یُقْصِرُونَ۔ (الاعراف: ۲۰۲)
’’اور جو شیطانوں کے بھائی ہیں وہ ان کو کھینچتے جاتے ہیں غلطی میں پھر وہ کمی نہیں کرتے‘‘۔ (شاہ عبد القادر)
’’اور وہ جو شیطانوں کے بھائی ہیں شیطان انھیں گمراہی میں کھینچتے ہیں، پھر کمی نہیں کرتے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور جو ان (ناخدا ترسوں) کے بھائی ہیں وہ ان کو گمراہی میں بڑھاتے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، مولانا امانت اللہ اصلاحی کے مطابق اس آیت کا صحیح ترجمہ یوں ہے: اور جو ان شیاطین کے بھائی ہیں۔ یمدونھم میں ضمیر مستتر مرفوع کا مرجع شیاطین اور ضمیر منصوب کا مرجع اخوانھم ہے، اور اخوانھم میں ضمیر مجرور کا مرجع بھی شیاطین ہے۔ جبکہ دوسری رائے بھی مفسرین کے یہاں موجود ہے اور ذیل کا شاہ ولی اللہ کا ترجمہ اسی دوسری رائے کے مطابق ہے)
’’وبرادران کافران می کشند ایشاں را در گمراہی وہرگز باز نمی ایستند ‘‘(شاہ ولی اللہ)
بہر حال جس طرح اس آیت میں تمام مترجمین نے یمدونھم کا مفہوم بڑھانا اور کھینچنا بیان کیا ہے، اسی طرح اوپر والی آیت میں بھی یہی مفہوم لینا مناسب تھا، کیونکہ دونوں آیتوں کا اسلوب بالکل یکساں ہے۔
(۳) قُلْ مَن کَانَ فِیْ الضَّلَالَۃِ فَلْیَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمَنُ مَدّاً۔ (مریم: ۷۵)
اس تیسری آیت میں فعل مد لام حرف جر کے ساتھ آیا ہے، اور بجا طور پر مترجمین نے ترجمہ ڈھیل دینا اور رسی دراز کرنا کیا ہے۔ شاہ عبد القادر نے کھینچنا ترجمہ کیا ہے تاہم ان کا مقصود بھی ڈھیل دینا ہی معلوم ہوتا ہے۔
’’تو کہہ جو کوئی رہا بھٹکتا سو چاہئے اس کو کھینچ لے جاوے رحمن خوب کھینچنا ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’تم فرماؤ جو گمراہی میں ہو تو اسے رحمن خوب ڈھیل دے ‘‘(احمد رضا خان)
’’ان سے کہہ دو کہ جو لوگ گمراہی میں پڑے رہتے ہیں تو خدائے رحمان کی شان یہی ہے کہ ان کی رسی اچھی طرح دراز کرے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
بیشتر مترجمین نے اس آیت میں فلیمدد کا ترجمہ عام فعل مضارع کا کیا ہے، حالانکہ یہاں یہ فعل لام امر کے ساتھ استعمال ہوا ہے، اور ترجمہ میں اس کی عکاسی ہونی چاہئے تھی، یعنی ڈھیل دیتا ہے کے بجائے ڈھیل دے کہا جائے، اوپر مذکور ترجموں میں اس کی رعایت کی گئی ہے، تاہم ذیل کے ترجموں میں اس کا لحاظ نظر نہیں آتا ہے:
’’آپ فرمادیجئے کہ جو لوگ گمراہی میں ہیں رحمن ان کو ڈھیل دیتا چلا جارہا ہے‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’ان سے کہو جو شخص گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے اسے رحمان ڈھیل دیا کرتا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’کہہ دیجئے جو گمراہی میں ہوتا اللہ رحمن اس کو خوب لمبی مہلت دیتا ہے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’کہہ دو کہ جو شخص گمراہی میں پڑا ہوا ہے خدا اس کو آہستہ آہستہ مہلت دیئے جاتا ہے۔‘‘ ( فتح محمد جالندھری)
مفسرین نے مفہوم کے لحاظ سے دونوں صورتوں کو جائز قرار دیا ہے، سمین حلبی لکھتے ہیں:
و قولہ: ’’فلیمدد‘‘ فیہ وجھان، أحدھما: أنہ طلبٌ علی بابہ، ومعناہ الدعاء۔ والثانی: لفظہ لفظ الأمر، ومعناہ الخبر۔ (الدرالمصون فی علوم الکتاب المکنون۔۷؍۶۳۲)
تاہم جب قرآن مجید میں کہیں پر نَمُدُّ سادہ فعل آیا ہے اور کہیں فلیمدد لام امر کے ساتھ فعل آیا ہے، تو مفہوم چاہے جو لیا جائے لیکن ترجمہ اسی طرح ہونا چاہئے کہ اسلوب کلام کی عکاسی ہوسکے۔
(۴) کَلَّا سَنَکْتُبُ مَا یَقُولُ وَنَمُدُّ لَہُ مِنَ الْعَذَابِ مَدّاً۔ (مریم: ۷۹)
اس آیت میں فعل مد کے بعد من العذاب آیا ہے، جو مفعول بہ کی جگہ پر ہے، اس طور سے یہاں بھی ڈھیل دینے کے بجائے بڑھانے کا ترجمہ درست ہوگا۔ چنانچہ عام طور سے مترجمین نے یہاں بجا طور سے بڑھانے کا ترجمہ کیا ہے۔
’’ہرگز نہیں، جو کچھ یہ بکتا ہے اسے ہم لکھ لیں گے اور اس کے لئے سزا میں اور زیادہ اضافہ کریں گے ‘‘(سید مودودی)
’’یوں نہیں، ہم لکھ رکھیں گے جو کہتا ہے اور بڑھاتے جاویں گے اس کو عذاب میں لنبا ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’ہرگز نہیں اب ہم لکھ رکھیں گے جو وہ کہتا ہے اور اسے خوب لمبا عذاب دیں گے‘‘ (احمد رضا خان)
’’ہرگز نہیں، یہ جو بھی کہہ رہا ہے ہم اسے ضرور لکھ لیں گے، اور اس کے لئے عذاب بڑھائے چلے جائیں گے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’ہرگز نہیں جو کچھ وہ بکتا ہے ہم اس کو نوٹ کر رکھیں گے اور اس کے عذاب میں مزید اضافہ کریں گے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
(۹۹) لھم عذاب کا ترجمہ
لھم عذاب کی تعبیر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آئی ہے، اس کا ترجمہ مترجمین نے عام طور یہ کیا ہے کہ ان کے لئے عذاب ہے۔ جبکہ صاحب تفہیم نے کہیں کہیں اس کا ترجمہ کیا ہے کہ وہ عذاب کے مستحق ہیں، حالانکہ خود انہوں نے بھی اکثر وبیشتر مقامات پر دیگر مترجمین کی طرح ترجمہ کیا ہے، مثال کے لئے ذیل کی آیتیں ملاحظہ ہوں:
(۱) خَتَمَ اللّٰہُ عَلَی قُلُوبِہمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیْمٌ۔ (البقرۃ:۷)
’’اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں‘‘۔(سید مودودی)
(۲) إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔ (النور: ۱۹)
’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔ (سید مودودی)
(۳) وَالَّذِیْ تَوَلَّی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (النور: ۱۱)
’’اور جس شخص نے اس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لئے تو عذاب الیم ہے‘‘۔ (سید مودودی)
پہلی دو آیتوں میں عذاب کے مستحق ہونے کا ترجمہ کیا گیا ہے، جبکہ تیسری آیت میں فی الواقع ان کے لیے عذاب ہونے کا ترجمہ کیا گیا ہے۔
اگرچہ لام استحقاق کا مفہوم بتانے کے لیے بھی آتا ہے، اور اس لحاظ سے استحقاق کا ترجمہ غلط نہیں ہے، لیکن اس ترجمہ میں وعید کا مفہوم پوری شدت کے ساتھ ادا نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب یہ کہا جائے گا کہ ان کے لیے عذاب ہے، تو اس میں یہ بات بھی شامل ہوجائے گی کہ وہ اس کے مستحق ہیں، ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے گی کہ ان کو اس عذاب میں ڈالا جائے گا۔ جبکہ اگر کہا جائے کہ وہ عذاب کے مستحق ہیں تو یہ لازم نہیں آئے گا کہ ان کو عذاب دیا جائے گا۔ اس لحاظ سے وہی ترجمہ زیادہ مناسب ہے، جو تمام مترجمین کرتے ہیں اور خود صاحب تفہیم نے اکثر جگہوں پر کیا ہے، یعنی یہ کہ استحقاق ہی نہیں بلکہ فی الواقع ان کے لیے عذاب ہے۔
(۱۰۰) أنداد کا ترجمہ
أنداد جمع ہے ند کی جس کے اصل معنی ہم سر کے ہیں، علامہ راغب اصفہانی کہتے ہیں:
ندید الشیء: مشارکہ فی جوھرہ، وذلک ضرب من المماثلۃ، فان المثل یقال فی أیِّ مشارکۃ کانت، فکل ند مثلٌ، ولیس کل مثل ندا۔ (المفردات فی غریب القرآن، ص:۷۹۶)
قرآن مجید میں أندادا جہاں جہاں آیا ہے، اس کا ترجمہ عام طور سے ہم سر، برابر اور شریک کیا گیا ہے، یہی لفظ کا اصل مفہوم ہے، اور یہی مشرکین کی عام روش کے مطابق حال بھی ہے، کیونکہ مشرکین اللہ کے علاوہ جن کو معبود ٹھہراتے ہیں ان کو وہ اللہ کے شریک اور ہم سر کے طور پر ہی ٹھہراتے ہیں نا کہ اللہ کے مد مقابل اور اللہ کے مخالف کے طور پر۔
قرآن مجید میں أندادا کا لفظ کئی جگہ آیا ہے، اور عام طور سے تمام مترجمین اس کا ترجمہ ہم سر، برابر اور شریک کا کرتے ہیں۔ البتہ بعض مترجمین کہیں کہیں مد مقابل یا مقابل کا ترجمہ بھی کردیتے ہیں، اس سے ایک تو لفظ کا مفہوم محدود ہوجاتا ہے، کیونکہ ہم سر میں جو وسعت ہے وہ مقابل میں نہیں ہے، دوسرے یہ کہ یہ لفظ مشرکین کے عام رویہ کے مطابق نہیں ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے کہیں کہیں مقابل اور مد مقابل کا ترجمہ کیا ہے، انہوں نے خود اکثر جگہ ہم سر اور شریک کا ترجمہ کیا ہے۔
(۱) فَلاَ تَجْعَلُوا لِلّٰہِ أَندَاداً۔ (البقرۃ: ۲۲)
’’تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھیراؤ‘‘ (سید مودودی)
’’تم اللہ کے واسطے اب تو مت ٹھیراؤ اللہ پاک کے مقابل‘(اشرف علی تھانوی)
’’سو نہ ٹھیراؤ اللہ کے برابر کوئی ‘‘ (شاہ عبد القادر)
(۲) وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّٰہِ أَندَاداً۔ (البقرۃ: ۱۶۵)
’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں‘‘(سید مودودی)
(۳) وَجَعَلُوا لِلّٰہِ أَندَاداً لِّیُضِلُّواْ عَن سَبِیْلِہ۔ (ابراہیم: ۳۰)
’’اور ٹھیرائے اللہ کے مقابل کہ بہکاویں لوگوں کو اس کی راہ سے‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’اور انہوں نے اللہ کے مقابل ٹھہرائے، تاکہ وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے بھٹکادیں ‘‘(وحید الدین خان)
’’اور اللہ کے کچھ ہمسر تجویز کرلئے تاکہ وہ انہیں اللہ کے راستے سے بھٹکادیں ‘‘(سید مودودی، اس ترجمہ میں مدمقابل کے بجائے ہم سر ترجمہ کیا ہے، جو درست ہے، تاہم اس میں ایک دوسری غلطی ہے وہ یہ کہ ترجمے سے مفہوم نکلتا ہے کہ ہم سر ان کو بھٹکائیں گے جنہوں نے ہم سر بنائے، جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ ہمسر بنانے والے بھٹکائیں گے، نا کہ وہ جنہیں ہم سر بنایا گیا،یہی درست مفہوم عام مترجمین نے اختیار کیا ہے، اور اس مفہو م کی تائید ذیل کی سورہ زمر والی آیت سے بھی ہوتی ہے، وہاں مترجم موصوف نے صحیح مفہوم اختیار کیا ہے، کیونکہ دوسرا مفہوم لینے کی اس آیت میں گنجائش نہیں ہے)
(۴) وَجَعَلَ لِلّٰہِ أَندَاداً لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِہِ۔ (الزمر: ۸)
’’اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹھیراتا ہے تاکہ اس کی راہ سے گمراہ کرے‘‘(سید مودودی)
’’اور ٹھیراوے اللہ کی برابر اوروں کو تا بہکاوے اس کی راہ سے‘‘ (شاہ عبد القادر)
(۵) إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّکْفُرَ بِاللّٰہِ وَنَجْعَلَ لَہُ أَندَاداً۔ (سبا: ۳۳)
’’جب تم ہم سے کہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں، اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیرائیں‘‘(سید مودودی)
(۶) قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْأَرْضَ فِیْ یَوْمَیْْنِ وَتَجْعَلُونَ لَہُ أَندَاداً۔ (فصلت:۹)
’’اے نبی ان سے کہو، کیا تم اس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں بنادیا‘‘(سید مودودی)
(جاری)
ہم عصر الحاد پر ایک نظر
محمد دین جوہر
دنیا کے ہر مذہب میں خدا کے تعارف، اس کے اقرار، اس سے انسان کے تعلق اور اس تعلق کے حامل انسان کی خصوصیات کو مرکزیت حاصل ہے۔ مختصراً، مذہب خدا کا تعارف اور بندگی کا سانچہ ہے۔ جدید عہد مذہب پر فکری یورش اور اس سے عملی روگردانی کا دور ہے۔ لیکن اگر مذہب سے حاصل ہونے والے تعارفِ خدا اور تصورِ خدا سے انکار بھی کر دیا جائے، تو فکری اور فلسفیانہ علوم میں ’’خدا‘‘ ایک عقلی مسئلے کے طور پر پھر بھی موجود رہتا ہے۔ خدا کے مذہبی تصور اور اس سے تعلق کے مسئلے کو ’’حل‘‘ کرنے کے لیے جدیدیت نے اپنی ابتدائی تشکیل ہی میں ایک ’’مجہول الٰہ‘‘ (deity) کا تصور دیا تھا جس کی حیثیت ایک فکشن سے زیادہ نہیں تھی۔ جدیدیت نے آدمی کو یہ مڑدہ سنایا تھا کہ وہ اس مفروضہ ’’خدا‘‘ سے تعلق طے کرنے میں بھی آزاد ہے۔ جدیدیت نے خدا کے مذہبی تصور کا مکمل انکار کیا، لیکن ایک افسانوی اور عقل ساختہ ’’خدا‘‘ کا تصور پیش کر کے خدا پرستی اور آزاد روی کا التباس باقی رکھا۔ اس طرح جدیدیت نے انسان کو مذہب سے لاتعلق ہونے کا راستہ اور جواز فراہم کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ صنعتی ترقی، صنعتی کلچر، جدید تعلیم، سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ، اور جدید سیاسی اور معاشی نظام نے اس سوال کو بالکل ہی غیر اہم بنا دیا۔ جدید دنیا میں مذہب کے مطابق خدا کو ماننے والوں کی حیثیت اب پسماندہ ذہن اور کلچر رکھنے والے ریڈ انڈینز کی طرح ہو گئی ہے۔
الحاد سے عام طور پر خدا کا انکار مراد لیا جاتا ہے، اور دہریت اس کی فکری تشکیلات اور تفصیلات پر مبنی ایک علمی مبحث اور تحریک ہے۔ آج کی دنیا میں الحاد فرد کی داخلیت میں مستحکم ہو گیا ہے اور دہریت ایک بڑی تحریک کی صورت اختیار کر گئی ہے جو خدا کو ماننے کے مذہبی عقیدے اور غیر مذہبی رویے کے خلاف جارحانہ لائحہ عمل رکھتی ہے۔ الحاد اور دہریت اب کوئی علمی یا عقلی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک سماجی اور ثقافتی صورت حال بن گئی ہے، جس نے کہیں کہیں ایک تحریک کی شکل بھی اختیار کر لی ہے۔ اب دہریت اپنے پھیلاؤ اور دفاع کے لیے ’’تحریکی‘‘ ذرائع استعمال کر رہی ہے اور سیاسی طاقت اور سرمائے کی بڑی قوتیں اس کی پشت پر ہیں۔
دہریت کی تحریک میں شدت کی ایک بڑی وجہ اسلام ہے۔ مغربی تہذیب نے ’’ترقی‘‘ کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب کاری (ویسٹرنائزیزشن) اور جدید کاری (ماڈرنائزیشن) کو عالمی سطح پر فروغ دیا۔ ان دوعوامل کے پیدا کردہ نئے سماجی اور ثقافتی حالات میں دنیا کے مذاہب بخارات کی طرح تحلیل ہو گئے۔ مسلم دنیا میں مغرب کاری اور جدید کاری کے منصوبوں کو جزوی کامیابی تو یقیناً ہوئی لیکن وہ اسلام کی بیخ کنی کرنے میں نہ صرف ناکام رہے، بلکہ انہیں ہر سطح پر مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جو الحادی اور اباحتی مقاصد معاشی ترقی، سیاسی پالیسی اور ثقافتی تبدیلی سے بالواسطہ حاصل نہ کیے جا سکے، دہریت کی تحریک اب انہیں جعلی علوم، سیاسی دھونس اور معاشی دباؤ سے براہ راست حاصل کرنا چاہتی ہے۔
الحاد کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں لیکن ہماری ناقص رائے میں ان میں کم از کم تین اقسام اہم ہیں جن کو ہمارے کلچر اور معاشرے میں بھی زیر بحث لانا ضروری ہے۔ یہ اسباب (۱) عقلی، اور (۲) نفسی ہیں، اور یہ (۳) استعماری غلامی کے نتیجے میں بھی سامنے آئے ہیں۔
۱۔ الحاد کے عقلی اسباب
اگر الحاد کا مرکز ذہن ہو تو اس کے اسباب عقلی ہوتے ہیں، یا دوسرے لفظوں میں الحاد کے اسباب علمی اور عقلی ہوں تو اس کا مرکز ذہن ہوتا ہے۔ عقلی الحاد کا شجرہ نسب براہ راست تحریک تنویر سے مل جاتا ہے۔ جدید عہد انسانی ذہن کی ایک نئی ساخت سے پیدا ہوا ہے اور اس نئی ساخت کو مسلسل صیقل کر کے یہ عہد خود کو تسلسل دیتا ہے۔ جدید ذہنی ساخت میں ’’جاننے‘‘ کو مرکزیت حاصل ہے اور ’’ماننے‘‘ کا عمل معیوب و مطرود ہے۔ جس طرح بیداری اور نیند انسانی شعور کا فطری اور معمول کا وظیفہ ہے، اسی طرح ’’جاننا‘‘ اور ’’ماننا‘‘ بھی انسانی شعور کا فطری معمول ہے۔ ’’ماننے‘‘ کی قیمت پر ’’جاننے‘‘ کی پرورش کرنا جدید انسان کے ساتھ خاص ہے۔ الحاد ایک جدید موقف کے طور پر اس نئی شعوری ساخت سے جنم لیتا ہے۔ انسانی شعور کی ساخت، اس کے دائرہ? کار، اس کی فاعلیت اور انفعالیت کے نادرست تناطر اور علم کے بارے میں سرتاسر غلط موقف کا براہ راست نتیجہ الحاد اور دہریت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ دراصل انسانی شعور کے بارے میں مجموعی طور پر غلط موقف ہی الحاد کی بنیاد میں کارفرما ہے۔ جدید شعور کا وحی اور امکان وحی سے ارادی انکار اس کی سرشت میں بہت پختہ ہو چکا ہے، اور جو تاریخی سفر میں فی نفسہ علم کے انکار کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ امکانِ علم کے خاتمے کی صورت حال میں جدید انسان میں عقیدے کے خلاف ایک سماجی اور سیاسی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ کسی بھی طرح کے ’’مذہبی عقیدے‘‘ یا ’’نظریاتی موقف‘‘ کی موجودگی جدید ذہن اور عقل کی المناک نارسائی اور غیرمعمولی ناکامی کا استعارہ بن گیا ہے، کیونکہ جدید ذہن انسان سے عقیدہ چھین کر اسے کوئی ’’علم‘‘ دینے کے قابل بھی نہیں ہو سکا۔ اس مشکل سے نکلنے کے لیے جدید ذہن انسان کو پوسٹ ہیومن ہونے کی تھپکیاں دے رہا ہے۔ پوسٹ ہیومن کا سادہ مطلب انسان کو یہ باور کرانا ہے کہ اسے پیاس تو بالکل بھی نہیں لگتی، بس برگر کی بھوک ہی لگتی ہے۔ پوسٹ ماڈرنزم کے احوال میں جدید انسانی شعور ملبے کا ڈھیر ہے، اور قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ یہ دنیا کو بھی ملبے کا ڈھیر بنانے والا ہے۔ انسانی شعور کے فکری حاصلات اور علمی انتاجات تاریخی تحقق لازماً حاصل کرتے ہیں، اور جدید شعور کا یہ ملبہ تاریخی تحقق کی طرف تیز تر سفر میں ہے۔
جدید عقل وسائل شعور سے پوری طرح خودآگاہ ہے، اور ’’جاننے‘‘ کے عمل میں ان وسائل کا ناکافی ہونا اب عقل کے تجربے میں ہے۔ جدید عقل کو جس شے کے جاننے کا مسئلہ درپیش ہے یعنی کائنات، وہ اس کے حسی ادراک، وقوفی گھیر اور کمندِ فہم سے فزوں تر ہے، یعنی یہ کائنات اس کے تجربے اور ذہن دونوں کی سمائی سے زیادہ ہے۔ جدید انسان جاننے والے ’’فاعل‘‘ اور جانے گئے’’مفعول‘‘ کی دوئی میں رہتے ہوئے علم کے قیام میں ناکام ہو چکا ہے، اور اب اس پیراڈائم سے دستبردار ہو گیا ہے۔ جدید انسان کا آخری سہارا اب وقوف اور فہم ہے اور اب وہ فہم کی تقدیس سے فاعل و مفعول کی دوئی اور ذہن و شے کی ثنویت کو پاٹنے کی کوشش میں ہے جس کا نتیجہ ایک شدید اور گہری موضوعیت کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ جدید اور منہدم انسانی شعور خارج از ذہن کسی چیز کے امکانِ ادراک و علم ہی سے انکاری ہے۔
صرف جاننے کی پوزیشن پر کھڑے ہونے والے جدید شعور کا ایک بہت بڑا مسئلہ اقدار ہیں۔ خدا کو ماننے یا نہ ماننے کا موقف اپنی اصل میں ’’دی گئی اقدار‘‘ کو ماننے یا نہ ماننے کا مسئلہ ہے، اور ’’خدا‘‘ محض عنوان ہے۔ خدا کو ماننے کا ’’معنی‘‘ علمی نہیں ہے، اقداری ہے۔ خدا کا انکار یک بیک اقدار کا انکار بھی ہے۔ وجود باری کے انکار سے پیدا ہونے والے احوال میں انفرادی اور سماجی سطح پر اَہوائی پسند ناپسند انسان کی اخلاقیات بن جاتی ہے۔ ’’جاننے‘‘ کے عمل میں اگر خدا غیر اہم، غیرممکن اور غیر موجود ہے تو اقدار بھی غیر اہم، غیرممکن اور غیر موجود ہیں۔ خدا پر یقین اقدار ہی کی سربلندی ہے، اور اس یقین کا مطلب بہت سادہ ہے۔ خدا اور اقدار کو مان کر انسان یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ نہ میں خود سے ہوں نہ خود کے لیے ہوں۔ اگر انسان اس غیرمذہبی اور فطری موقف کو مان لے کہ وہ نہ خود سے ہے، اور نہ خود کے لیے ہے، تو وہ ہدایت کا مخاطب بننے کی اہلیت سے متصف ہو جاتا ہے۔ جونہی انسان اس بات کا انکار کرتا ہے کہ وہ نہ خود سے ہے اور نہ خود کے لیے ہے، تو وہ اپنے انسان ہونے سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ جدیدیت انسان کے عین اسی وجودی موقف کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور اسے ایک خود مختار و خودمکتفی وجود قرار دیتی ہے، اور اس کا انسان رہنا اور انسان ہونا ممکن نہیں رہتا۔
’’جاننا‘‘ انسانی شعور کی فاعلیت ہے اور ’’ماننا‘‘ اس کی انفعالیت۔ اگر ’’جاننا‘‘ انسانی شعور کا واحد فعل قرار دے دیا جائے، اور ’’ماننے‘‘ کی انفعالیت سے انکار کر دیا جائے تو انسانی شعور کی اساس فہم پر منتقل ہو جاتی ہے۔ فہم اساس شعور بھی جدید ذہن ہی کی ایک قسم ہے، جو اپنے لب لباب میں مذہبی نہیں ہے۔ فہم جدید ڈوبتے شعور کو تنکے کا سہارا ہے۔ ’’فہم‘‘ کے غلبے میں انسانی شعور کی انفعالیت کا انکار آسان ہو جاتا ہے، اور اقدار کی قبولیت اور ان سے تعلق کمزور پڑ جاتا ہے، یہاں تک کہ ’’فہمی شعور‘‘ جلد یا بدیر اقدار سے منقطع ہو جاتا ہے۔ ’’جاننے‘‘ کا عمل اور ’’فہم‘‘ کی سرگرمی انسانی ذہن کو مکمل طور پر نیچرلائز کر دیتی ہے اور وہ مذہب کے ماورائی معانی کا مخاطب نہیں بن پاتا۔ اگر ’’جاننے‘‘ والے ذہن اور ’’فہم‘‘ میں نسبتیں گہری ہو جائیں تو ایسا شعور ایک ململی ردائے عقلی کی پٹی میں ملفوف ہو جاتا ہے جس میں خبرِ غیب بار نہیں پا سکتی۔ فہم کا بنیادی مقصد حیات ارضی میں موضوعیت اور معروضیت کی دوئی سے پیدا ہونے والی کھائی کو پاٹنا اور شعور کی سرگرمی کو بامعنی بنانا ہے۔ ’’فہم‘‘ کا تعلق تجربی موضوعیت اور شہودی معروضیت سے ہے، اور غیب سے غیر متعلق ہے۔ اس لیے فہم پر زور دینے والا مذہبی ذہن بھی دراصل جدید ذہن ہی کی ایک شکل ہے۔
خالص عقلی اور علمی بنیادوں پر الحاد تک پہنچنے والے ذہن اور افراد ہمارے ہاں بہت کم اور خال خال ہیں، کیونکہ الحادی علمی نتائج تک پہنچنے کے لیے ذہن کی آزاد فعلیت لازمی ہے۔ ہمارے ہاں تو فعلیت ہی نہیں ہے، آزاد فعلیت کیا ہو گی۔ لیکن بہرحال ایسے الحادی ذہن کو "انگیج"کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد خدا کے موجود یا غیر موجود ہونے کے ’’عقلی‘‘ دلائل نہیں ہوں گے بلکہ اس کی بنیاد انسانی شعور کی ساخت، اس کے مجموعی ادراکی اور علمی وسائل، شعور اور علم کا باہمی تعلق اور شعور کے داخلی اور فطری اقتضآت ہوں گے۔ اگر انسانی شعور کے کل وسائل کو حتمی تو کجا کافی بھی ثابت کیا جا سکے تو الحاد کا موقف قابل غور ہو سکتا ہے۔ ہماری گزارش ہیکہ ’’علم‘‘ کے حصول کے لیے انسانی شعور کے وسائل حتمی تو یقیناًنہیں ہیں ان کو کافی ثابت کرنا بھی ممکن نہیں۔ پھر جدید ذہن کے ’’کارناموں‘‘ کا اس کے اپنے قائم کردہ علمی تناظر میں تجزیہ بھی ضروری ہے۔ جدید ذہن اپنے انکاری علم، آلاتی اخلاقیات اور فطرت ارضی پر غلبے سے جس طرح کی دنیا تشکیل دے چکا ہے وہ انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہی، اور اس کے لیے پوسٹ ہیومن نامی ایک نئی آرگنزم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو حیوان اور مشین کا مجموعہ ہو گی۔ جدید ذہن اپنی ہی بنائی ہوئی جنت ارضی میں محصور ہو کر وسائل حیات کو بھی معرض خطر میں ڈال چکا ہے۔ جدید ذہن کے کارنامے اور کرتوت اس کے کھاتے میں رکھ کر ہی اس کے موقف کو زیربحث لایا جا سکتا ہے۔ ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ ہمیں جدید ذہن کے کارنامے تو ازبر ہیں، کرتوت معلوم نہیں، اس لیے بات شروع ہونے سے پہلے ہی دھونس میں آ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں روایتی عقلی علوم کے خاتمے اور جدید عقلی اور نظری علوم سے لاتعلقی کی وجہ سے الحاد کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ جدید الحادی عقل کا سامنا جدید مذہبی عقل سے ہی کیا جا سکتا ہے، اور مذہبی مرادات پر جدید عقل کی نظری اور فکری تشکیل ہمارے ہاں نامعلوم ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہماری متداول مذہبی روایت عقل اور علم کی دشمنی کو مذہبی ذمہ داری کے طور پر فروغ دے رہی ہے، اور جدید الحادی عقل کے سامنے کھڑے ہونے کی داخلی کوششوں کو نہ صرف شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے بلکہ ان کے خلاف صف آرا ہے۔ اس صورت حال میں جدید عقلی الحاد وبا کی طرح پھیل رہا ہے اور مسلمانوں کے لیے اس کا سامنا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
۲۔ الحاد کے نفسی اسباب
اگر الحاد کے اسباب نفسی ہوں تو اس کا مرکز طبیعت ہوتی ہے، اور الحاد کے نفسی اسباب پر ہمارے ہاں گفتگو معدوم ہے۔ عقلی اسباب کی نسبت جدید عہد میں الحاد کے نفسی اسباب کی کثرت ہے۔ ان کا تجزیہ دقتِ نظر کا متقاضی ہے اور ان کا توڑ بھی زیادہ مشکل ہے، کیونکہ عقلی الحاد صرف ذہنی ہوتا ہے جبکہ نفسی الحاد وجودی ہے۔ نفسی الحاد کے ’’وجودی‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ذہن اور شعور کے احوال انکار پر ہوتے ہیں اور نفس کے احوال بغاوت پر ہوتے ہیں، اور ارادہ اہوا کے تابع ہوتا ہے۔ مناسب تیاری کے بغیر، مذہبی آدمی کے لیے انکار اور بغاوت کا بیک وقت سامنا کرنا مشکل ہے۔ الحاد کے نفسی احوال میں علم اور اقدار کا التباس بہت عام ہے کیونکہ یہ بنیادی طور پر ایک(سائیکک کنڈیشن) ہے۔
الحاد کے نفسی اسباب کا شجرہ نسب براہِ راست پوروپی رومانویت کی تحریک سے مل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں رومانویت کی تحریک کے جو اثرات مرتب ہوئے، وہ کسی علمی اور فکری تجزیے کا موضوع نہ بن سکے۔ مغرب میں پیدا ہونے والی رومانوی تحریک کے اظہارات صرف ادب اور فنون وغیرہ تک محدود نہیں ہیں۔ مغربی رومانویت کے طاقتور ترین مظاہر یورپ کے سیاسی عمل میں سامنے آئے ہیں۔ تحریک تنویر سے جڑے ہوئے سیاسی عمل میں مرکزیت ’’ریفارم‘‘ کو حاصل تھی، جبکہ رومانویت سے جڑے ہوئے سیاسی عمل میں مرکزیت ’’انقلاب‘‘ کو حاصل ہے۔ ’’ریفارم‘‘ کے لیے عقل کی ضرورت پڑتی ہے، جبکہ ’’انقلاب‘‘ کے منہ زور اور سینہ زور طبیعت اور بے دماغی کافی ہوتی ہے۔ تحریک تنویر ماضی اور روایت سے بنی ہوئی دنیا کو ’’ریفارم‘‘ کے عمل سے ختم کرنا چاہتی تھی، جبکہ رومانویت اس کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرتی اور ’’انقلاب‘‘ کے ایک ہی ہلے میں اسے مٹا دینا چاہتی تھی۔
اس تناظر میں دیکھیں تو ہم اپنے استعماری تجربے کی وجہ سے اس وقت ایک بہت بڑے تہذیبی تذبذب اور علمی اشکال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں ’’مذہبی سیاست‘‘ کی پوری شناخت، عمل اور طریق? کار مغرب کی سیاسی رومانویت کا انتہائی گھٹیا چربہ ہے۔ جمہوریت، تنظیمی ریاست، قانون سازی، حقوق انسانی کے جدید تصورات، سیاسی ریفارم، معاشی ترقی وغیرہ مغرب کی غیر رومانوی سیاسی فکر کے نتائج اور اس کا ایجنڈا ہیں، جبکہ انقلاب مغربی سیاسی رومانویت کا معبد اعظم ہے۔ ہمارے ہاں بھی مذہبی سیاست بنیادی طور پر ’’تحریکی‘‘ اور ’’انقلابی‘‘ نوعیت کی ہے، جو مکمل طور پر مغربی رومانویت کی نقالی ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی سیاسی رومانویت نے تاریخی شعور، دینی روایت اور عقلی علوم کا بالکل صفایا کر دیا ہے، اور پوری دینی روایت کی عامیانہ فہم اور استعماری رومانوی جدیدیت پر تشکیل نو کی ہے جس نے دینی روایت کے تہذیبی تناظر کو بالکل فنا کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں ’’مذہبی‘‘ بنیادوں پر جمہوریت کے خلاف سامنے آنے والے زیادہ تر مواقف سیاسی رومانویت سے حاصل ہوئے ہیں۔ ان کی بنیاد نہ استنادی ہے اور نہ عقلی اور ان کا مذہبی یا غیر مذہبی ہونا محض التباس ہے۔ رومانوی الاصل ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں ’’مذہبی سیاست‘‘ کا پورا مبحث اخلاقی بیانات کا مچرب مجموعہ، تاریخی شعور سے عاری اور سیاسی ادراک سے بالکل تہی ہے۔ ’’مذہبی سیاسی کلچر‘‘ میں پروان چڑھنے والی طبیعت الحاد کا تر نوالہ ہوتی ہے۔ رومانوی مذہبی تصورات پر کیے گئے سیاسی تجربے میں ناکامی کا غالب رجحان الحاد کی طرف پھر جاتا ہے۔
تحریک تنویر، مذہب اور خدا کے مذہبی تصور کے روبرو عقل کے موقفِ انکار کو سامنے لاتی ہے۔ رومانویت انکار نہیں ہے۔ تنویری عقل نے خدا کے انکار کے بعد خود خدا کی جگہ پر قبضہ جمانے کی کوشش کی تھی اور یہ ابھی سکون سے بیٹھنے بھی نہ پائی تھی کہ اس کے اپنے حرم میں بلوہ ہو گیا۔ رومانویت دراصل تنویری عقل کا انکار نہیں، اس کے خلاف بغاوت ہے۔ رومانویت مجسم بغاوت ہے جس میں انکار بائی ڈیفالٹ شامل ہے۔ رومانویت کی وجودی پوزیشن پر کھڑے ہو کر مذہب تو دور کی بات ہے عقل کا اثبات بھی ممکن نہیں ہوتا۔ رومانویت کسی عقل، دلیل، روایت، کسی اخلاقیات، کسی فلسفہ? حیات، کسی تاریخ، کسی تقدیر وغیرہ کو نہیں مانتی، پس یہ اپنا راستہ چاہتی ہے، کیونکہ اس کے نزدیک ’’ہونے‘‘ کا سب سے بڑا اظہار غضب (wrath) ہے۔ رومانویت کی سرشت میں فنا گندھی ہوئی ہے اور یہ اپنی فنا سے پہلے انسان کو، اس کے معاشرے کو، تاریخ کو، فطرتِ ارضی کو، اور بس چلے تو پوری کائنات کے بخیے اْدھیڑ کے ان کو اپنی مرضی کے مطابق نئے سرے سے بنانا چاہتی ہے تاکہ اپنے نئے روپ میں یہ سب چیزیں اس کے سامنے سر بسجود ہو جائیں۔ رومانویت نفس انسانی کی ایک ایسی نئی تشکیل ہے جس میں عبد و معبود یکجا ہے، یعنی رومانوی انسان کی تجلیل ذات ایسی ہے کہ وہ ساجد و مسجود خود ہی ہے، اور ’’عظمت انسانی‘‘ کے لیے ’’شہید‘‘ ہونا اس کی بنیادی رسومیات میں شامل ہے۔
رومانویت اپنا تحقق عمل پیہم میں حاصل کرتی ہے جو سونامی صفت ارادے سے تحریک پاتا ہے اور آخر کار انقلاب پر منتہی ہوتا ہے۔ رومانویت وجودِ انسانی میں آئے ہوئے مستقل بھونچال کی طرح ہے اور یہ خود میں جل کر اور اپنے گردوپیش کو جلا کر اپنا تحقق کرتی ہے۔ رومانویت کا چیزوں سے تعلق جاننے یا فہم وغیرہ کا نہیں ہے بلکہ یہ تعلق براہِ راست غلبے اور فنا کا ہے۔ عقل، مذہب، اخلاقیات، فلسفہ وغیرہ رومانوی ترتیب میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ رومانویت میں راستہ پہلے سے نہیں ہوتا، ارادے سے پیدا ہوتا ہے اور علم بھی ارادے سے پھوٹتا ہے۔ ادبی اور ثقافتی رومانویت نفسی خود مختاری کی علم بردار ہے جبکہ سیاسی رومانویت انقلاب پسند ہوتی ہے۔ رومانوی تصورات پر تشکیل پانے والی انسانی شخصیت مذہب یا خدا کا انکار نہیں کرتی کیونکہ انکار بھی اسے اہمیت دینے کے مترادف ہے۔ عقلی الحاد ایک پہلے سے موجود اثبات کے روبرو انکار کا رویہ ہے۔ رومانویت اثبات و انکار ہی سے لا تعلق ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں الحاد اور دہریت کا غالب سانچہ رومانویت ہے جسے دنیا کو تبدیل کرنے کے عظیم الشان سائنسی اور سیاسی منصوبے کی پشتیبانی حاصل ہے۔ رومانوی آدمی فطرت اور تاریخ کے خلاف جنگ میں خود کو ایک بطل جلیل کے طور پر دیکھتا ہے اور مذہب وغیرہ کو خاطر میں لانا بھی کسر شان سمجھتا ہے۔
رومانوی الحاد کے نفسی اسباب میں ایک بہت بڑی وجہ فطری اخلاقیات کی مرکزیت ہے۔ یہ اخلاقیات بوقت ضرورت رومانوی ارادے کے لیے دستانے کا کام کرتی ہے، اور دیکھنے میں خوشنما، اپنی اصل میں آلاتی اور مذہب پر ضرب میں کاری ہوتی ہے۔ تحریک تنویر نے مذہب کے خاتمے اور اس کے تصورِ خدا سے نجات کے لیے ایک افسانوی ’’الٰہ‘‘ کا تصور عام کیا تھا، اور حق و باطل کے مذہبی تصورات ہی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ رومانویت نے مذہب کو اخلاقیات کا ناقص مجموعہ قرار دیا اور اس کے مقابلے میں ایک فطری اور آفاقی اخلاقیات کا تصور دیا۔ تنویری عقل، عقلی تصورات کو مذہبی تصورِ خدا پر حکم سمجھتی ہے۔ رومانوی انسان فطری اخلاقی تصورات کو مذہبی تصورِ خدا پر حکم خیال کرتا ہے۔ دونوں کا مقصد مذہب اور مذہبی تصور خدا کو رد کرنا ہے۔ گزارش ہے کہ جدید علمی مواقف کی رسائی محدود ہے، اور وہ مذہب پر کاری ضرب لگانے کے باوجود اسے مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن جدید رومانوی اخلاقیات اپنے ہر ہر پہلو میں زیادہ مؤثر بھی ہے اور مسموم بھی۔ جدید انسان پر رومانوی اخلاقی شعور کا غلبہ انکاری علم سے زیادہ خطرناک ہے، اور مذہب اپنی جدید تعبیرات میں بہت تیزی سے اس کے سامنے ہتھیار ڈال رہا ہے۔ اخلاقی شعور ’’درست‘‘ اور ’’غلط‘‘ میں ظاہر ہوتا ہے، اور مذہب میں یہ شعور ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ کے تصور کے تابع ہے۔ اگر حق و باطل کا اساسی شعور باقی نہ رہے، اور اخلاقی شعور کا غلبہ ہو جائے تو ’’دجل‘‘ کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ مذہبی شعور میں حق و باطل کا دائرہ مابعد الطبیعیاتی، تہذیبی اور تاریخی ہے۔ فطری اخلاقیات رومانوی شعور کی مابعد الطبیعیات ہے۔ رومانوی شعور نے اخلاقیات کو تہذیبی اور تاریخی دائروں تک وسعت دے کر مذہب کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا ہے، اور الحاد ایک ثقافتی مظہر کے طور پر عام انسانی زندگی پر مؤثر ہو گیا ہے۔ رومانوی الحاد اور دہریت سے گفتگو کے لیے مذہبی آدمی کو نہایت تنگ اور محدود جگہ میسر ہے، جو ہمارے خیال میں یہ سوال ہے کہ ’’انسان ہونے سے کیا مراد ہے؟‘‘ رومانوی دہریت میں فطری اخلاقیات ایک نہایت پیچیدہ مسئلہ کے طور پر شامل ہے اور اس سوال کے ضمن میں رومانوی انسان کے نفسی احوال اور اس کی اخلاقیات کو زیربحث لایا جا سکتا ہے۔
الحاد کے عقلی اور نفسی اسباب کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک اعادہ ضروری ہے۔ عقلی الحاد کا سامنا کرنے کے لیے نظری علوم ضروری ہیں، تاکہ وسائل فراہم ہوں اور یہ بھی معلوم ہو کہ لڑائی کا میدان کہاں ہے۔ اب تو ہماری حالت یہ ہے کہ لڑائی کے لیے نکلتے ہیں اور سیدھے گھر کے تہہ خانے میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنے ہی نعروں اور ان کی گونج کو سن کر فاتحانہ لوٹتے ہیں۔ اسی طرح نفسی الحاد کا سامنا کرنے کے لیے عرفانی سلوک کی نئی ترتیب لازم ہے کیونکہ نفسی الحاد کا مقابلہ صرف عقلی علوم سے نہیں کیا جا سکتا۔ نفسی اور رومانوی الحاد میں ذہن اور طبیعت کو بیک وقت مخاطب کرنا ضروری ہے جس کا واحد ذریعہ عرفانی سلوک ہے۔ نظری علوم کے بغیر عقلی الحاد کا اور عرفانی سلوک کے بغیر نفسی الحاد کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ محض خام خیالی ہے۔ ہمارے ہاں جدید تعلیم اور دین کی جدید استعماری تعبیرات نے جس طرح عقلی الحاد کو فروغ دیا ہے، بعینہ? ہمارے ثقافتی تصوف اور شعبدہ جاتی سلوک نے نفسی الحاد اور شرک کو وبا کی صورت دے دی ہے۔ اور ان کا تجزیہ اور تزکیہ لازم و ملزوم ہیں۔ یہاں ضمناً ایک بات عرض کرنا ضروری ہے کہ رومانویت میں الحاد اور شرک کے امکانات یکساں موجود ہوتے ہیں۔ جدید عقل نے تو صرف شعور پر غلط موقف کو فروغ دیا ہے،جبکہ رومانویت شعور اور وجود دونوں کے بارے میں غلط موقف پر کھڑی ہوتی ہے۔ عرض ہے کہ جدید دنیا کے گھمسان میں سرمایہ ملت کی نگہبانی کا کام آج بھی درپیش ہے، اور ہم اس کی تیاری سے بالکل غافل ہیں۔
۳۔ استعماری غلامی بطور منبع الحاد
غلامی ایک تاریخی ادارے کے طور پر یہاں زیربحث نہیں ہے۔ جدید استعماری عہد میں غلامی اور محکومی میں فرق کرنا ضروری ہے۔ سیاسی طاقت سے مغلوبیت، محکومی ہے، اور محکومی کا شعور تاریخی اور سیاسی ادراک بن کر مزاحمت کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ محکومی ایک سیاسی مظہر ہے جبکہ غلامی ایک تہذیبی مظہر ہے۔ غلامی میں محکومی کا شعور باقی نہیں رہتا اور محکومی ایک مفید مطلب معروف کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ مزاحمت کی شرط اول محکوم کی تہذیبی شناخت کا باقی رہنا ہے۔ محکومی میں شناخت کے تہذیبی وسائل علمی روایت سے فراہم ہوتے ہیں۔ ان وسائل سے انقطاع غلامی کا بڑا سبب بنتا ہے۔ ایسی صورت حال میں محکوم حاکم سے شناخت کی عینیت پیدا کر کے غلامی میں داخل ہو جاتا ہے۔ حاضر و موجود سیاسی طاقت کا جبر محکوم میں تاریخی انقطاع کا باعث بنتا ہے اور تاریخ کسی ولولے کا منبع نہیں رہتی بلکہ ایک "گِلٹ "بن جاتی ہے۔ دینی روایت سے ملنے والے علمی شعور اور تاریخی شعور کا بیک وقت خاتمہ غلامی کا باعث بنتا ہے۔
اس میں اہم پہلو یہ ہے کہ انسانی معاشرہ جن اقدار پر قائم ہوتا ہے، سیاسی طاقت اس معاشرے کی شہر پناہ اور ان اقدار کی محافظ ہوتی ہے۔ سیاسی طاقت ختم ہوتے ہی بیرونی طاقت کے غلبے میں معاشرہ اقدار کے بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر یہ بحران گہرا ہو تو محکوم معاشرہ بیرونی سیاسی طاقت سے تہذیبی عینیت پیدا کرنا شروع کرتا ہے۔ برصغیر میں مسلم معاشرہ استعماری دور میں اپنی تہذیبی شناخت اور ورلڈ ویو کو باقی نہیں رکھ سکا۔ اس وجہ سے مسلم ذہن تاریخی اور دینی روایت کے وسائل سے محروم ہو کر عصری تاریخ سے بھی کوئی بامعنی تعلق پیدا نہ کر سکا۔
عقیدے اور اقدار کا تاریخ اور معاشرے سے تعلق دو سطحوں پر ظاہر ہوتا ہے، ایک کردار میں اور دوسرے علم میں۔ کردار قدر اور تاریخ میں فاصلہ نہیں پیدا ہونے دیتا، اور علم ذہن کو تاریخ اور معاشرے سے حالت انکار میں جانے پر روک لگاتا ہے۔ ہمارے ہاں روایتی علوم کے خاتمے اور جدید علوم سے لاتعلقی نے ہمارے عقیدے اور اقدار کے پورے نظام کو متحجر بنا دیا ہے۔ عقیدے کی حفاظت بھی علوم کی زندہ روایت میں رہ کر ممکن ہوتی ہے۔ اقدار اگر تاریخ سے غیرمتعلق ہو جائیں تو کلچر کے میوزیم میں داخل ہو جاتی ہیں۔ ان کو صرف کردار اور نظری علوم کے ذرائع سے ہی تاریخ سے متعلق رکھا جا سکتا ہے۔ دینداری کے مظاہر میں کمی اور نظری علوم کے خاتمے کی صورت حال میں جدید تعلیم نے الحاد کے راستے صاف کر دیے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہماری اقدار اور تاریخ میں فاصلہ بڑھ رہا ہے، اور ہماری دینی اقدار عصری دنیا کے لیے اجنبی ہوئی جاتی ہیں۔ جب اقدار اور تاریخ میں فاصلہ زیادہ ہو جائے تو اسے پاٹنے کے لیے ثقہ علوم اور کردار کی ضرورت شدید ہو جاتی ہے۔ ہمیں الحاد سے مقابلے کے لیے ان دونوں پہلوؤں پر غور کرنے اور لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ wujood.com)
دینی مدارس میں یوم آزادی کی تقریبات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اس سال 14 اگست کی تقریبات میں دینی مدارس کی پیش رفت اور جوش و خروش کا مختلف مضامین اور کالموں میں بطور خاص تذکرہ کیا جا رہا ہے اور یہ واقعہ بھی ہے کہ اس بار دینی مدارس میں یوم آزادی اور قیام پاکستان کے حوالہ سے زیادہ تقریبات منعقد کی گئی ہیں اور جوش و خروش کا پہلے سے زیادہ اظہار ہوا ہے جس کے اسباب پر مختلف پہلوؤں سے گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ میرا ایک عرصہ سے معمول ہے کہ قومی سطح پر منائے جانے والے دنوں کی تقریبات میں کسی نہ کسی حوالے سے ضرور شریک ہوتا ہوں اور عنوان کی مناسبت سے اپنے خیالات و تاثرات بھی پیش کرتا رہتا ہوں۔ لیکن اس سال اس کا تناسب بہت زیادہ رہا کہ 12 اگست سے 15 اگست تک نو کے لگ بھگ تقریبات اور نشستوں میں یوم آزادی اور قیام پاکستان کے موضوع پر تفصیلی اظہار خیال کا موقع ملا۔
سردست اس بحث کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں جو دینی مدارس کی اس طرف پہلے سے زیادہ توجہ کے اسباب کے بارے میں بعض مضامین میں کی گئی ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ چونکہ دیوبندی مکتب فکر کے بعض بڑے اکابر نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی، اس لیے ان سے عقیدت رکھنے والے دینی مدارس ایسی تقریبات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ بعض حضرات کی طرف سے تعریضاً بھی یہ کہا گیا ہے کہ اب ان مدارس کو ریاستی دباؤ بڑھنے پر اچانک ’’یوم پاکستان‘‘ یاد آگیا ہے۔ میرے خیال میں یہ تجزیہ درست نہیں ہے، اس لیے کہ قیام پاکستان کے فورًا بعد اس کی مخالفت کرنے والے سرکردہ علماء کرام بالخصوص ان کے دو بڑے راہ نماؤں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی طرف سے واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ یہ اختلاف پاکستان کے قیام سے پہلے تھا جبکہ پاکستان بن جانے کے بعد یہ اختلاف باقی نہیں رہا۔ مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے تو یہاں تک فرما دیا تھا کہ مسجد تعمیر ہونے سے پہلے اس کے نقشہ اور سائز کے بارے میں اختلاف ہو جایا کرتا ہے لیکن جب مسجد بن جائے تو وہ جیسے بھی بنے مسجد ہی ہوتی ہے اور اس کا احترام سب کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
جبکہ اس کے بعد مسلسل سات عشروں کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی سا لمیت و استحکام اور اسے اپنے مقاصد کے مطابق ایک اسلامی رفاہی ریاست بنانے کی جدوجہد میں وہ حلقے بھی برابر کے شریک چلے آرہے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان بنانے کے خلاف تھے۔ اور ان کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی جو اس کے منافی ہو۔ خود مجھ سے ایک محفل میں سوال کیا گیا کہ قیام پاکستان کی حمایت اور مخالفت کے اختلاف کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟ میں نے اس پر عرض کیا کہ میری پیدائش پاکستان بن جانے کے ایک سال بعد ہوئی ہے اس لیے میں اپنی ولادت سے پہلے کے تنازعات میں فریق نہیں بننا چاہتا۔ اس پر مجھے امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا ایک قول یاد آیا کہ ان سے کچھ لوگوں نے صحابہ کرامؓ کے درمیان ہونے والی جنگوں کے بارے میں ان کا موقف دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو ان میں سے کسی کے خون سے آلودہ ہونے سے بچا لیا ہے تو ہم اپنی زبانوں کو بھی ان میں سے کسی کے بارے میں لب کشائی سے محفوظ رکھیں گے۔
اس لیے مذکورہ بالا تبصرہ و تجزیہ سے اتفاق نہ کرتے ہوئے میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جو میرے خیال میں زیادہ قرین قیاس ہے ۔ وہ یہ کہ ہمارے مسلکی حلقوں میں دن منانے کو ویسے ہی ناپسند کیا جاتا ہے، اس لیے کہ دینی حوالوں سے کوئی نیادن منایا جائے یا نیکی کے کسی کام کے لیے کسی دن کو مخصوص کر کے اسے شرعی حیثیت دے دی جائے تو وہ بدعت ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ دین کے معمولات میں اضافے کا موجب بن جاتا ہے، جبکہ ایسے کسی کام کو فضیلت اور ثواب کے عنوان سے شرعی حیثیت نہ دی جائے تو وہ محض رسم و رواج کا درجہ رکھتا ہے۔ لیکن یہ فرق عام طور پر نہ سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے بزرگوں نے قرآن و سنت میں منصوص شرعی ایام سے ہٹ کر دینی حوالہ سے کوئی نیا دن منانے کو پسند نہیں کیا۔ حتیٰ کہ کچھ عرصہ قبل بعض حلقوں کی طرف سے حضرات خلفائے راشدینؓ کے ایام وفات سرکاری طور پر منائے جانے کا مطالبہ کیا گیا تو والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے اس سے اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح لوگ اسے دین کا حصہ سمجھنے لگیں گے جو کہ درست نہیں ہے۔
میرے خیال میں دینی مدارس کے قومی ایام میں اب تک زیادہ دلچسپی نہ لینے کی اصل وجہ یہ ہے۔ لیکن اب چونکہ اسے غلط معنوں میں لیا جا رہا ہے اور دینی مدارس کے خلاف مہم میں اسے استعمال کیا جا رہا ہے اس لیے دینی مدارس اس تاثر کو زائل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ جبکہ اگر ان ایام کو شرعی دائرے میں شامل کرنے سے گریز کیا جائے اور قومی ضروریات کے دائرے میں رکھ کر ان کا اہتمام کیا جائے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، بلکہ ان کی افادیت ان تحفظات سے بہرحال زیادہ ہے جن کے باعث دینی مدارس کی دلچسپی اس بارے میں اب تک کم چلی آرہی ہے۔
قرآن مجید کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث ۔ حافظ محمد زبیر صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ
ڈاکٹر عرفان شہزاد
ماہنامہ الشریعہ کی جون 2016 کی اشاعت میں حافظ محمد زبیر صاحب کا مضمون ’’قران مجید کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث‘‘ شائع ہوا۔ یہ مضمون ان کے 24اکتوبر، 2015 کو المورد کے زیر انتظام ویبینار (webinar) سے خطاب کی تحریری صورت تھی۔راقم کو اس ویبینار میں حافظ صاحب کے خطاب کو براہ راست سننے کا موقع بھی ملا تھا۔ ذیل میں ہم حافظ صاحب کے مضمون پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہیں۔
قرآن کے قطعی الدلالۃ ہونے کی بحث نہایت اہم موضوع ہے۔ قرآن کی حیثیت پر یہ براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔
قرآن اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ میزان اور فرقان ہے:
اَللّٰہُ الَّذِی اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ (42:17)
’’اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری، یعنی میزان نازل کی ہے۔‘‘
تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہٖ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)
’’بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کر دینے والی کتاب اتاری تاکہ وہ اہل عالم کے لیے ہوشیار کر دینے والا بنے!‘‘
میزان اور فرقان ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ اسی کے ذریعے متنازع امور کے فیصلے کیے جائیں گے:
وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآاَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَھُمْ عَمَّاجَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ ط لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا ط وَلَوْشَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآاٰتٰکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْن (5:48)
’’اور ہم نے، (اے پیغمبر) تمھاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے، قول فیصل کے ساتھ اور اْس کتاب کی تصدیق میں جو اِس سے پہلے موجود ہے اور اْس کی نگہبان بنا کر، اِس لیے تم اِن کا فیصلہ اْس قانون کے مطابق کرو جو اللہ نے اتارا ہے اور جو حق تمھارے پاس آ چکا ہے، اْس سے ہٹ کر اب اِن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت یعنی ایک لائحہ عمل مقرر کیا ہے۔ اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا، مگر( اْس نے یہ نہیں کیا)، اِس لیے کہ جو کچھ اْس نے تمھیں عطا فرمایا ہے، اْس میں تمھاری آزمائش کرے۔ سو بھلائیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کو (ایک دن) اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا سب چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘
یعنی دینی معاملات میں تمام نزاعات، اختلاف، احتمالات، اور مخمصات کے فیصلہ کے لیے آخری اور فیصلہ کن حیثیت قرآن کی ہے۔ لیکن اگر قرآن محتمل الوجوہ ہے، اس کی آیات کے ایک سے زیادہ مفاہیم ہوتے ہیں، جو باہم متخالف بلکہ متضاد بھی ہو سکتے ہیں، توقرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے، ختم ہو جاتی ہے۔ بھلا ایک جج یا قاضی جس کی بات ہی قطعی نہ ہو، اس کی بات کے ایک سے زیادہ مفاہیم نکالے جا سکتے ہوں، وہ کیسے کسی بھی تنازع یا اختلاف کا فیصلہ کر سکتا ہے۔فریقین اس کے بیان کی اپنی اپنی توجیہات کر کے اپنے اپنے مطالب نکالیں گے اور کوئی فیصلہ ہو نہ پائے گا۔
حافظ صاحب کی ساری گفتگو کا مرکزی نکتہ ہمارے فہم کے مطابق یہ ہے :
قرآن کا کچھ حصہ ظنی الدلالۃ ہے اور وہ رہے گا۔ اس کی وجہ انسانی فہم کا حقیقتِ مطلقہ کے حصول کی نارسائی اور انسانی زبان کے ابلاغی نقائص ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن اللہ کے نزدیک قطعی الدلالۃ ہے اور اس کے رسول کے نزدیک بعد از بیان قطعی الدلالۃ ہے۔
اگر قرآن کی کچھ آیات قطعی الدالالۃ ہیں اور کچھ ظنی الدلالۃ ہیں ،تو چونکہ یہ تعین کوئی حتمی طور پر کر نہیں سکتا کہ قرآن کی کون سی آیات قطعی ہیں اور کون سے ظنی، اس لیے جب بھی کسی مسئلے کے تصفیے کے لیے قرآن کی آیت پیش کی جائے گی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو ظنی الدلالۃ ہے۔ اس میں تو دیگر احتمالات پائے جاتے ہیں۔بھلا وہ بات جس کے ایک سے زیادہ مفاہیم ہوں وہ جج اور قاضی کیسے بن سکتی ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ حافظ صاحب کی ساری بحث محض اعتباری یا اضافی نوعیت کی بنیادوں پر استوار ہے۔قرآن اگر خدا کے نزدیک قطعی الدلالۃ ہے تو درحقیقت قطعی الدلالہ ہی ہوا۔ یہ تو مخاطبین کا نقصِ فہم اور زبان کے ابلاغی مسائل ہیں جس کی وجہ سے احتمالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ حافظ صاحب نے احتمالات کے پیدا ہونے کی وضاحت میں جن فلسفیانہ دلائل کا سہارا لیا ہے، ان کے مطابق تو کچھ بھی قطعی نہیں رہتا۔ تشکیکیت اور سوفسطائیت کے مطابق تو ہم جو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، وہ بھی محض اعتباری ہوتا ہے۔ حقیقت میں وہ کیا ہے، اس کا ادراک بھی انسانی ذہن کے لیے ناقابلِ رسا ہے۔اس پہلو سے دیکھیے تو برٹرنڈ رسل کے مطابق ریاضی بھی قطعی نہیں،اعداد بھی قطعی نہیں۔ اسی طرح الفاظ اور معنی کے ربط میں بھی اتنے ابہام پیدا کر دیے گئے ہیں کہ زبان بذاتِ خود ظنی ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے پورے قرآن کو ظنی سمجھنا ہی درست نتیجہ ہو سکتا ہے۔ لیکن پورے قرآن کو ظنی ماننے والوں کوبھی حافظ صاحب راہ صواب پر نہیں مانتے ۔ اس بدیہی نتیجے سے بچنے کے لیے حافظ صاحب نے یہ حل نکالا ہے کہ جن آیات کے معنی اور مفہوم پر مفسرین کا اجماع ہے اور جن کے ایک ہی معانی اور مفاہیم سمجھے گئے ہیں، وہ تو قطعی ہیں اور جن مفاہیم کے تعین میں ان کے ہاں اختلاف ہوا ہے، وہ آیات ظنی ہیں۔ لیکن کیا سب مفسرین کا فہم بھی ایک احتمال ہی نہیں؟ مثلاً ساری انسانیت صدیوں تک یہ سمجھتی رہی کہ سورج کو جس جگہ وہ دیکھتے ہیں، وہ وہیں ہوتا ہے، لیکن سائنس نے بتایا کہ وہ وہاں تقریباً آٹھ منٹ پہلے ہوتا ہے جہاں ہم اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کیا سارے مفسرین کا فہم مل کر بھی غلطی کا احتمال نہیں رکھتا؟ اس احتمال کے ہوتے ہوئے خودحافظ صاحب کا مقدمہ بھی قطعی دلیل سے محروم ہو کر ظن پر مبنی ہو جاتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو ظنی الدلالۃ ثابت کرنے کے لیے اپنے مدعا کی بنیاد ان سوفسطائی نظریات پر رکھنا علمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ انسانی عقل و فہم اعتباری سہی، لیکن یہ اعتباری فہم بھی معانی کی قطعیت کی تفہیم کے لیے کافی ہے۔ الفاظ کے معانی کا مشترکہ فہم قطعیت کے لیے کفایت کرتا ہے۔ لفظ کے مختلف استعمالات میں انسانی عقل عموماً دھوکا نہیں کھاتی۔ جب کھاتی بھی ہے تو تنبیہ کرنے پر درست مفہوم سمجھ جاتی ہے۔ ’’شیر جنگل کا بادشاہ ہے‘‘ اور ’’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘‘ میں شیر کا مفہوم سمجھنے میں انسانی فہم دھوکا نہیں کھا سکتا۔ اور اگر کوئی شخص دھوکا کھا بھی جائے تو اس سے یہ کلام ظنی نہیں ہو جاتا بلکہ اس شخص پراس قطعی معنی تک رسائی کی علمی جدوجہدضروری ہو جاتی ہے۔اسے کلام کو ہی ظنی ثابت کرنے کی بجائیاپنیفہم اور علم کو درست بنیادوں پراستوار کر کے درست معنی تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انسان کے اسی فہم پر بھروسہ کر کے ہی خدا نے اسے اپنا کلام عطا کیا ہے تا کہ وہ اس سے وہی مفہوم سمجھے گا جو متکلم کی مراد ہے۔ لیکن یہ انسان کی کوتاہی، قلت محنت، قلت تدبر، تعصب، ہوائے نفس وغیرہ کے حجابات ہیں جو احتمالات پیدا کر دیتے ہیں۔مگراس طرح کے احتمالات کے پیدا ہوجانے سے قرآن ظنی نہیں ہو جاتا جوکہ فی نفسہ قطعی ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ انسان کے بس سے باہر ہے کہ وہ قرآن کے قطعی معانی تک پہنچ سکے تو ماننا ہو گا کہ خدا نے انسان کو تکلیف مالا یطاق دی ہے۔
اپنے فہم کے نقص، یا قلت علم و تدبرکو قرآن کا نقص قرار دینا قطعی طور پر غلط ہے۔ قرآن بہرحال، قطعی الدلالۃ ہے۔ ہمارا کام اس قطعیت تک رسائی حاصل کرنے کی علمی و فکری جدوجہد جاری رکھنا ہے۔
حافظ صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ محنت و تدبر کے بعد کچھ ظنی الدلالۃ آیات قطعی الدلالۃ ہو سکتی ہیں۔ تواس امکان کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ کوئی شخص اپنی محنت اور تدبر سے قرآن کی تمام آیات کے قطعی مفاہیم تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ انسان معنی اور مفہوم کی قطعیت تک تو پہنچ سکتا ہے لیکن اس حقیقت کو جان نہیں سکتا ہے کہ آیا وہ اس قطعیت کو واقعتا پا بھی گیا ہے۔ اسی لیے کسی کو بھی اپنے فہمِ قرآن کو دوسروں پر مسلط کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ دوسروں کے لیے احتمال اور اختلاف کا حق تو تسلیم ہے، لیکن قرآن میں احتمالات کی گنجائش تسلیم نہیں ہے۔ چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا ایک مفسر اپنے اخذ کردہ معنی کو قطعی جان کر کسی دوسرے معنی کی نفی تو لازماً کرے گا، تاہم اپنے اخذ کردہ مفہوم کو دوسرے پر بہرحال مسلط نہیں کرے گا کیونکہ اس کا اپنا فہم تو بہرحال احتمالی ہی ہے۔ یہ ماننا کہ دوسرا شخص غلط سمجھا یہ اس سے بہتر ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ قرآن بیک وقت ایک سے زیادہ احتمالات دے کر اپنے قاری کو کسی صریح اور قطعی نتیجے تک اصلاً پہنچنے نہیں دینا چاہتا۔
رہی بات آیاتِ متشابہات کی تو ان متشابہ آیات کے بارے میں بھی اللہ نے یہی فرمایا ہے کہ کوئی ان کی تاویل یعنی ان کی حتمی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتا، نہ یہ کہ ان کے قطعی معنی نہیں سمجھ سکتا۔ ہمارے نزدیک آیاتِ متشابہات سے مراد عالمِ غیب کے حالات و واقعات ہیں، جن کی حقیقت تو ہم جان نہیں سکتے لیکن ان کے بارے میں قرآ ن کے بیان کو قطعیت سے سمجھ ضرور سکتے ہیں۔ یعنی مثلاً جنت کے معنی سمجھنے میں ہمیں کوئی ابہام لاحق نہیں ہوتا البتہ اس کی حقیقت اور کیفیت ہم نہیں جان سکتے۔ اس لحاظ سے یہ متشابہ ہے نہ کہ اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے۔
حافظ صاحب کا یہ فرمانا کہ سنتِ ثابتہ جو کہ ایک خارجی دلیل ہے ، اس سے قرآن اور قرآن کی اصطلاحات کا درست مصداق متعین ہوتا ہے۔ اس وجہ قرآن خود سے قطعی نہیں، جیسے 'الصلوۃ' کا معنی دعا ہے، لیکن اس کا خاص اصطلاحی معنی یعنی نماز کے مصداق کا تعین سنت سے ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کے لفظ 'الصلوۃ' کی دلالت 'الصلوۃ' پر قطعی نہیں۔ اس کو قطعی سنت نے بنایا۔ حافظ صاحب کا یہ خیال ایک مغالطے پر مبنی ہے۔ الفاظ کے مدلول توہوتے ہی خارج میں ہیں۔ مثلاً لفظ قلم کا مدلول خارج میں ایک چیز ہے جو لکھنے کے کام آتی ہے۔ قلم کا لفظ بولتے ہی قلم کا مصداق مخاطب کے ذہن میں متعین ہو جاتا ہے۔ اسی طرح 'الصلوۃ' کا مصداق بھی معلوم اور معروف تھا۔ یہ لفظ قرآن کے نزول سے پہلے سے اس معنی میں عرب میں موجود تھا۔ اس لیے مخاطب کو اس کی تعیین میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ قس علیٰ ہذا۔
رہا یہ مسئلہ کہ سنتِ متواترہ کے علاوہ حدیث یعنی اخبارِ احاد بھی اگر قطعی الثبوت ہوں تو قرآن کے ظنی کو قطعی میں بدل سکتی ہیں تو ہمارے نزدیک یہ ایک مغالطہ ہے۔ احادیث قطعی الثبوت بھی ہوں تو ان سے حاصل ہونے والا علم ظنی ہوتا ہے، الا یہ کہ کچھ اور قطعی قرائن اس کے ساتھ مل جائیں۔ روایت بالمعنی کا مطلب ہی روایات میں ظنیت کو تسلیم کر لینا ہے۔ چنانچہ اصولی طور پرظنی ذریعہ سے کسی ظنی مفہوم کو قطعی نہیں بنایا جا سکتا۔ تاہم، قرآن مجید کے فہم کے خارجی وسائل میں سے صحیح احادیث مبارکہ کی غیرمعمولی اہمیت کی نفی کسی طرح نہیں کی جا سکتی۔
مباح الدم اور "جہادیوں" کا بیانیہ
ڈاکٹر محمد شہباز منج
مدینے پر حملے کے تناظر میں اہل علم میں ایک دفعہ پھر" جہادی ذہنیت" اور اس کے بیانیے کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ محترم جناب ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب نے اپنی ایک تحریر میں اسے "سوچا سمجھا جنون" قرار دیتے ہوئے، "جنونی گروہ" کی" فقہ" کے اہم نکات بیان کیے ہیں۔ جناب ڈاکٹر مشتاق صاحب نے اس گروہ کے بیانیے کے جو نکات پیش فرمائے ہیں، وہ بالکل مبنی برِ حقیقت ہیں۔ اس تحریر کو پڑھتے ہوئے راقم نے اس پر جناب زاہد صدیق مغل کا یہ تبصرہ دیکھا کہ:" اس تفصیل کے ساتھ یہ مقدمہ کس نے پیش کیا؟"تو دل چاہا کہ اپنی وہ تحریر پیش کی جائے جو ممتاز قادری کیس پر بحث کے دوران میں نے تحریر کی تھی، لیکن شائع نہیں ہوئی تھی۔ یہ تحریر"جہادیوں" کے مقدمے کو ان کے بنیادی استدلالات کے ساتھ بیان کرتی ہے؛ ان کی کتابوں اور تحریروں پر مبنی ہے ؛ جناب مشتاق صاحب نے اپنی تحریر میں ان لوگوں کے مقدمے کا جو خلاصہ پیش کیا ہے، اس میں اس کے بہت سے دلائل اور ان کی بنیادیں بھی بیان ہوئی ہیں۔لیکن اس سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جناب مشتاق صاحب کی تحریر کا اقتباس پیش کر دیا جائے، اسے اور اس کے بعد میری تحریر دیکھنے سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ جناب مشتاق صاحب کی طرف سے "جنونی گروہ" کی "فقہ" کے ہم نکات اس گروہ کا فرضی بیانیہ نہیں ، جس کی تفصیل کہیں ملتی نہ ہو یا اہل مقدمہ میں سے کسی نے بیان نہ کی ہو ،بلکہ یہ نکات صد فی صد درست اور ان کے فکر کی صحیح ترجمانی ہیں۔ مشتاق صاحب کا کہنا ہے:
’’اس سوچے سمجھے جنون کی فقہ کے کچھ نکات پر غور کریں۔ اس گروہ کے تصورات کچھ اس طرح ہیں: اس گروہ نے جن لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں، وہ مرتد ہیں؛ اس گروہ کے مخالفین کی حمایت کرنے والے سبھی لوگ، خواہ وہ فوج میں ہوں، پولیس میں ہوں، یا عام شہری ہوں، مرتد ہیں؛ اس گروہ کے مخالفین اور ان مخالفین کے حامیوں میں عاقل بالغ سبھی انسان مقاتلین ہیں، خواہ انھوں نے زندگی میں ایک بار بھی ہتھیار نہ اٹھایا ہو، یہاں تک کہ محض ٹیکس ادا کرنے سے بھی وہ مقاتلین بن جاتے ہیں، اور ٹیکس تو ٹافی خریدتے ہوئے بھی ادا کیا جاتا ہے، اس لیے میٹرک کا وہ طالب علم جو طبعی بلوغت کی عمر تک پہنچ چکا ہو، مقاتل ہے؛ جب مخالفین اور ان کے لیے ٹیکس ادا کرنے والے سبھی عاقل بالغ انسان مرتد اور مقاتل ہیں تو اس کے بعد حملے کو صرف "فوجی ہدف" تک محدود رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ کسی بھی جگہ ان "نام نہاد شہریوں" پر، جو دراصل "مقاتلین" ہیں، حملہ کیا جاسکتا ہے؛ ہدف کے انتخاب میں صرف اور صرف "جنگی مصلحت" کو دیکھا جاتا ہے؛ کس ہدف پر کم سے کم وقت اور توانائی کے استعمال سے زیادہ سے زیادہ "جنگی فائدہ" اٹھایا جاسکتا ہے؟ فوجی کیمپ؟ چیک پوسٹ؟ سکول؟ مسجد؟ مخالفین، یا ان کے حامیوں، میں اگرچہ بعض "غیر مقاتلین" بھی ہیں، جیسے نابالغ بچے، لیکن ان کے والدین، یا مخالفین کے دیگر "عاقل بالغ مقاتلین"کو اذیت دینے، یا ان کا حوصلہ پست کرنے، کے لیے ان نابالغ بچوں کو بھی عمداً نشانہ بنایا جاسکتا ہے کیونکہ "یہ انھی میں سے ہیں!" مخالفین نے اگر اس گروہ کے بچوں کو نشانہ بنایا ہے تو پھر مخالفین، یا ان کے حامیوں، کے ان غیر مقاتلین بچوں کو نشانہ بنانے کے جواز کے لیے صرف "برابر کے بدلے" کا اصول ہی کافی ہے؛ ان کے ساتھ وہی کچھ، اور ویسا ہی کچھ،کرو جو انھوں نے تمھارے ساتھ، جس طرح، کیا ہے!
باقی رہیں مخالفین، یا ان کے حامیوں، کی عاقل بالغ عورتیں تو چونکہ وہ عاقل بالغ ہیں اور ٹیکس بھی ادا کرتی ہیں، نیز بعض دیگر کام بھی کرتی ہیں جن سے مخالفین کو کسی طور مدد ملتی ہے، اس لیے وہ بھی مقاتلین ہی ہیں اور ان کے ساتھ وہی کچھ کیا جاسکتا ہے جو مقاتلین کے ساتھ کیاجاتا ہے؛ جنگ میں ہر وہ کام باعث اجر و ثواب ہے جس سے مخالفین، یا ان کے حامیوں، کو اذیت ملتی ہے، یا ان کا حوصلہ پست ہوتا ہے، خواہ یہ کسی مقاتل عورت کو زندہ جلانا، یا کسی غیر مقاتل بچے کو ذبح کرنا، ہو؛ ( اب اس میں اضافہ کریں : " یا مسجد نبوی پر حملہ کرنا ہو !" لعنھم اللہ ! )خود کش حملہ کمزور فریق کا بہترین ہتھیار ہے؛ خود کش حملے کے خوف سے مخالفین تمھارے قریب نہیں آئیں گے اور تم زیادہ سے زیادہ آگے بڑھ کر ان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچاسکتے ہو؛ پھر چونکہ تم موت کے خوف سے نہیں، بلکہ اپنے لوگوں کے رازوں کی حفاظت، یا دشمن کو نقصان پہنچانے کی خاطر، اپنی جان کی قربانی دوگے، اس لیے یہ شہادت کی اعلیٰ و ارفع قسم ہوگی؛ پس یہ سب کچھ کرنے کے بعد یہ آخری کام بھی کرگزرو تو جنت تمھاری ہے! ‘‘
قادری کیس میں مباح الدم والے فلسفے کے حوالے سے "جہادیوں " کا بیانیہ پیش کرتے ہوئے راقم الحروف نے عرض کیا تھا:
زیر نظر تناظر میں مسلمان کے مباح الدم ہو جانے کا فلسفہ، اس فلسفے سے کچھ مختلف نہیں ،جو بعض لوگ غیر مسلم کے مباح الدم ہونے کے بارے میں پیش کرتے ہیں؛ اور اس سے مسلمانوں کے ہاتھوں تمام غیر مسلموں کے قتل کے شرعاً جائز ہونے کا استدلال کرتے ہیں۔ اگر اِس مباح الدم کو ماننا ہے، تو پھر اْن کی بات بھی مانیے۔ وہ بھی قرآن وسنت اور فقہ سے اسی طرح دلائل لاتے ہیں۔ان کے دلائل کا ایک خلاصہ ملاحظہ کیجیے؛ اور اندازہ فرمائیے کہ شریعت کا یہ طرزِ تعبیر اور نصوص وروایات اور علماے سلف کی آرا واجتہادات سے نتائج کے استنباط کا یہ انداز کتنا تباہ کن ہے!:
ہر حربی کافر ایک عام مسلمان کے لیے بھی مباح الدم ہوتا ہے، جس کو وہ بلا وجہ قتل کردے یا اس کا مال لوٹ لے تو بھی مسلمان پر کوئی مواخذہ نہیں ؛اور حربی صرف وہ نہیں ہوتا، جو مسلمانوں کے ساتھ براہِ راست جنگ کر رہا ہو؛ بلکہ کفر کا وصف ہی آدمی کو حربی بنا دیتا ہے؛امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
وان کان کافرا حربیا فان محاربتہ اباحت قتلہ واخذ مالہ واسترقاق امراتہ (مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ، ج 32۔ ص 343)
"اور اگرکافر جنگ کرنے کے لائق ہو تو بلاشبہ اس کے جنگجو ہونے نے ہی اس کے قتل، اس کے مال لینے اور اس کی عورت کو لونڈی بنانے کو مباح کردیا۔"
امام ابن نحاس نے المغنی کے حوالے سے لکھا ہے کہ احمد بن حنبل سے کافروں کے ایک بحری جہاز سے متعلق پوچھا گیا جس کو روم کے بادشاہ نے روانہ کیا،؛پھر ہو ا نے اسے "طرطوس"کی طرف پہنچا دیا،تو اہل طرسوس نے ان لوگوں کو قتل کردیا ؛اور ان کے مال لوٹ لیے،توامام صاحب نے کہا:یہ مسلمانوں کے لیے مالِ فے ہے جو انھیں اللہ نے عطا فرمایا۔ امام صاحب سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ اگر بعض لوگ راستہ کھوبیٹھیں، پھر مسلمانوں کی بستیوں میں سے کسی بستی میں جا پہنچیں؛اور کوئی مسلمان انھیں پکڑ لے،تو کیا حکم ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا :یہ بھی اس بستی کے لوگوں کا اجتماعی مال ہے ؛وہ اسے آپس میں تقسیم کرلیں۔ (مشارع الاشواق الیٰ مصارع العشاق لابن نحاس،ص1054)
امام سرخسی فرماتے ہیں: میں نے امام ابو حنیفہ سے پوچھا:اگر کوئی آدمی دشمن کو پکڑے تو وہ اسے امام کے پاس لائے یا قتل کر دے؟تو امام صاحب نے جواب دیا:دونوں میں سے جو بھی کرے ،ٹھیک ہے ؛کیونکہ قیدی بنانے کی صورت میں کوئی چیز اس کے خون کے مباح ہونے کو ختم نہیں کرتی!؛ امام اس کو قتل کرسکتا ہے۔سو قیدی بنانے والے کے لیے بھی اس کا قتل جائز ہے، جیساکہ قیدی بنانے سے پہلے جائز تھا۔ جب امیہ بن خلف بدر کے روز قیدی بنانے کے بعد قتل کیا گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرنے والے (حضرت بلال رضی اللہ عنہ) پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔امام کے پاس لے جانا امام کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے بہتر ہے؛لیکن اسے قتل کرنا مشرکین پر شدت کے اظہار اور ان کی طاقت توڑنے کے لحاظ سے بہتر ہے۔ اسے چاہیے کہ دونوں میں سے جو چیز مسلمانوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو، اس کے مطابق عمل کرے۔ (المبسوط للسرخسی ،ج12،ص337)
قرآن نے مومنین کو بہترین مخلوق قرار دیا اور کافروں کو بد ترین مخلوق۔ ( البینہ:6۔7) کافروں کو جانوروں سے بھی بد تر کہا گیا۔ (الاعراف:179) حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: یا اخوۃ القردۃ والخنازیر (المستدرک للحاکم) "اے بندروں اور خنزیروں کے بھائیو! "۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صلح حدیبیہ کے موقعے پر، ابو جندل رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر لے جانے والے، ان کے باپ کی طرف تلوار کا دستہ کرتے ہوئے کہا: ان دم الکافر عند اللہ کدم الکلب (فتح الوہاب،ج2،ص320) "بلاشبہ کافر کا خون ،اللہ کے نزدیک کتے کے خون جیسا ہے۔"
نتیجہ ان سب حقائق کا یہ ہے کہ اس دنیامیں اْسی انسان کو جینے کا حق حاصل ہے جو کلمہ توحید ،یعنی اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسولوں کی رسالت کااقرار کرتے ہوئے،اسلام کے دائرے کے اندر آجائے؛ جس نے یہ اقرار کیا ، اس کا مال وجان اور عزت محفوظ ومامون ہوگئی ؛اور جس نے ایسا نہ کیا ، اس کے مال وجان اورعزت کی کوئی حیثیت اورحرمت نہیں۔یہی وہ حقیقت تھی جس کو سمجھانے کے لیے انبیا ورسل آتے رہے؛ اور یہی وہ منہج تھا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاربند رہے۔ آپ نے فرمایا تھا:
امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ فمن قال لا الہ الا اللہ فقد عصم منی نفسہ ومالہ الا بحقہ وحسابہ علی اللہ ( البخاری،رقم :2727)
"مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں؛ یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کریں؛ پس جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیا، اس نے اپنی جان اور مال مجھ سے بچالیے ،سوائے حق کے،اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔"
حربی اور غیر حربی کافر کی بات کی جاتی ہے،لیکن اس ضمن میں واضح رہنا چاہے کہ کافر کا اصلی حکم حربی ہی کا ہے، اور اس کی جان و مال اور عزت ایک مسلمان کے لیے حلال ہے؛ الا یہ کہ اس کا شرعی بنیادوں پر غیرِحربی ہونا ثابت ہو جائے؛ چاہے یہ غیر حربی ہونا دار الاسلام سے کسی معاہدے کی وجہ سے ہو،یا مسلمانوں کی طرف سے امان دیے جانے کی وجہ سے ہو،یا پھردار الاسلام کے تحت ان کے ذمی بن جانے کی صورت میں ہو،یا پھر اْن صورتوں میں سے کوئی ایک ہو،جن کی وجہ سے شریعت نے ان کو استثنا دیا ہوا ہو؛ جیسے: کفار کی عورتیں ،بچے ،بوڑھے وغیرہ۔لیکن بعض صورتوں اور وجوہ کی بنیاد پر یہ استثنا بھی ختم ہوجاتے ہیں ،جیسا کہ: ان کفار کی عورتوں ،بچوں ،بوڑھوں وغیرہ میں سے کسی کا مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کسی بھی طرح شریک ہونا ،یا پھر معاہدے کی خلاف ور زی کرنا ،یا پھر شریعت کا استہزا، یاپھر ان کادیگر کفار میں گڈمڈ ہوجانا، یا کفار کا ان کو ڈھال بنالینا ،یاپھر معاملہ بالمثل کی وجہ سے؛ اس طرح کی صورتوں میں ان کی جان ومال کی حرمت بھی اٹھ جاتی ہے۔
آج کے دور میں اکثر کافر ممالک بالخصوص امریکہ اور اس کے مدد گاروں کی صورت ایسی ہی ہے۔ان کا حکم دارالحرب کا ہے؛اس لیے ان کے خلاف ہر طرح کی لڑائی لڑنا جائز ہے؛جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے؛ آپ جنگجو ملکوں کے قافلوں کو روکتے؛ جیساکہ آپ نے قریش کے قافلوں کو روکا؛ اور کافر ملکوں کے عوام کو ضرورت پڑنے پر ضمانت کے طور پر گروی رکھ لیتے؛ جیساکہ آپ نے ثقیف کی طرف سے اپنے صحابہ کو قیدی بنائے جانے پر اس کے حلیف قبیلے بنوعقیل کے ایک آدمی کو قیدی بنالیا تھا۔ لہٰذا برسرِ جنگ ملکوں کو نقصان پہنچانے سے منع کرنے والی شرعی حدود کا کوئی وجود نہیں ،سوائے اس کے کہ اگر عورتیں، بچے، اور بوڑھے واضح طورپر پہچانے جاتے ہوں اور وہ جنگ وحملے میں دشمن کے مدد گار بھی نہ ہوں ، تو انھیں نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ آج کے دور میں امریکہ وسیع پیمانے پر مسلمانوں سے برسرِ جنگ ہے؛یہ صرف ایک کافر ریاست ہی نہیں ، کفر کا ایک عالمگیر نشان بن چکا ہے؛ لہٰذا اس کی شان شوکت توڑنے کے لیے جو بھی اقدام کیا جاسکتا ہو،اسے سرانجام دیا جانا چاہیے!امریکی بحر و بر میں ،جہاں کہیں بھی ہو ، اس کو قتل کردینا چاہیے! کسی امریکی کو قتل کرنے کے لیے کسی سے مشورے کی ضرورت نہیں ! امریکہ یہود کے قبیلے بنو قریظہ ایسا ہے؛ امریکہ کے معاملے میں حکومت اور عام شہریوں ، دونوں کو ہدف بنانا چاہیے ! آج کے دور میں امریکہ اور امریکی لوگ "کفر کے امام " ہیں۔جنگ کی آگ بھڑکانے والی حکومتوں کو ووٹ دینے والے امریکی عوام ،کسی رعایت کے حق دار نہیں ہیں ؛ جو کوئی انہیں کسی بھی صورت ضرر پہنچاتا ہے، وہ امت کے لیے خیر خواہی کررہا ہے!۔
بعض لوگ غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کے موجود ہونے اور کافروں سے جنگ کی صورت میں ان کو نقصان پہنچنے کے اندیشے کے پیش نظر جنگ سے گریز کی بات کرتے ہیں؛ لیکن اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ جہاد از روئے شریعت قیامت تک جاری رہے گا ؛اور کبھی موقوف نہیں ہوگا۔کافروں میں رہنے والے مسلمانوں کے موت کے گھاٹ اتر جانے کا نقصان اس سے بہت کم ہے کہ جہاد کو اس وقت تک معطل رکھا جائے، جب تک عالمِ کفر مسلمانوں سے خالی نہیں ہو جاتا۔ کافروں میں رہنے کی، مسلمانوں کو شریعت، اجازت ہی نہیں دیتی ؛ احادیث و آثار اور فقہا کی تحقیقات سے واضح ہے کہ مسلمانوں کو کافروں سے کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہیے۔اس شخص کو ملامت نہیں کرنی چاہیے،جو کفار کو قتل کرنے ، اْنھیں مرعوب کرنے اور اْن کے ملکوں کو تباہ کرنے جیسے حکمِ شرعی پر عمل کرتا ہے؛اور اس دوران وہاں موجود کچھ مسلمان قتل ہوجاتے ہیں؛ملامت تو اسے کی جانی چاہیے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے مشرکوں کے درمیان اقامت اختیار کی؛ نتیجتاً ان حملوں کا نشانہ بن گیا۔ یہ کیا منطق ہوئی کہ :اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجا لانے والا تو مجرم ہو ، لیکن کفارکے درمیان رہنے سے، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براء ت کا اظہار کیا، وہ ایسا مومن ٹھہرے جس کے خون اور امن وامان کی حفاظت واجب ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے:
انا بریء من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین (سنن ترمذی،رقم: 1530،سنن ابی داود:رقم 2274)
" میں ہر اْس مسلمان سے بری ہوں ،جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔"
حضرت سمرہ بن جندب سے مروی ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تساکنوا المشرکین ولا تجامعوھم فمن ساکنھم او جامعھم فھو مثلھم (سنن ترمذی، رقم:1530)
"مشرکوں کے ساتھ رہائش اختیار نہ کرو! اور نہ اْن کے ساتھ اکٹھے ہو!؛ جو کوئی اْن کے ساتھ رہتا ہے، یا اْن کے ساتھ اختلاط کرتا ہے، وہ اْنھی کی مانند ہے!"
حافظ شمس الدین ابن القیم نے "عون المعبود"کے حاشیے میں فرمایا:
لا یقبل اللہ من مشرک بعد ما یسلم عملا او یفارق المشرکین الی المسلمین (عون المعبود،رقم الحدیث:2274)
" اللہ کسی مشرک کے اسلام لانے کے بعد کوئی عمل اْس وقت تک قبول نہیں کرتا ، جب تک وہ مشرکوں کو چھوڑ کر مسلمانوں میں نہیں آجاتا۔"
آج جو مسلمان بھی کفارکے عالمی اقتصادی ،عسکری،انتظامی اور تجارتی مراکز میں کام کرتے ہیں، کفارکے خلاف کاروائی کے دوران ،چونکہ ان کو الگ شناخت نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا ان کے ساتھ کفار کے شرکائے کار افراد کا سامعاملہ کیا جائے گا؛ اگرچہ ان کا اخروی معاملہ مختلف ہے۔ اس کی دلیل صحیحین وغیرہ میں حضرت عائشہ کی وہ روایت ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
العجب ان ناسا من امتی یومون بالبیت برجل من قریش قد لجا بالبیت حتی اذا کانوا بالبیداء خسف بھم فقلنا یا رسول اللہ ان الطریق قد یجمع الناس قال نعم فیھم المستبصر والمجبور وابن السبیل یھلکون مھلکا واحدا ویصدرون مصادر شتی یبعثھم اللہ علی نیاتھم (مسلم،رقم :5134)
"تعجب ہے کہ میری اْمت کے کچھ لوگ اللہ کے گھر میں پناہ لیے ہوئے، قریش کے ایک آدمی پر حملے کے لیے اس گھر کی طرف آئیں گے، حتی کہ جب وہ ایک صحرا پر پہنچیں گے تو اْنہیں زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ ہم نے کہا :یا رسول اللہ! راستے سے بھی لوگ اکھٹے ہوجاتے ہیں ، توآپ نے فرمایا:جی ہاں! ان میں جاننے بوجھنے والابھی ہوگا اور مجبور بھی ومسافر بھی، سب کو ایک ہی طریقے پر ہلاک کردیا جائے گا، مگر وہ مختلف طریقوں سے اْٹھائے جائیں گے،اللہ تعالیٰ، اْنہیں اْن کی نیتوں پر اْٹھائے گا۔"
ابنِ حجر نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا:
قال المھلب: فی ھذا الحدیث ان من کثر سواد قوم فی المعصیۃ مختارا فان العقوبۃ تلزمہ معھم، قال: واستنبط منہ مالک عقوبۃ من یجالس شربۃ الخمر وان لم یشرب (فتح الباری لابن حجر، رقم الحدیث:1975)
" امام المہلب نے فرمایا: اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جومعصیت میں کسی قوم کی تعداد میں، خود مختاری میں اضافہ کرتا ہے، تو بلاشبہ اْن کے ساتھ اس پر بھی سزا لازم ہوتی ہے،اور کہا:امام مالک نے اس سے، اْس شخص کی سزا پر استدلال کیا ہے،جو شراب پینے والوں کے ساتھ بیٹھتا ہے؛ اگرچہ اْس نے شراب نہیں پی ہوتی۔"
امام احمد کی کتاب الزہدمیں ابن دینار سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں میں سے ایک نبی کی طرف وحی بھیجی:
قل لقومک لا تدخلوا مداخل اعدائی ولا تلبسوا ملابس اعدائی ولا ترکبوا مراکب اعدائی فتکونوا اعدائی کما ھم اعدائی۔
"اپنی قوم سے کہیے!: میرے دشمنوں کے داخل ہونے کی جگہ میں داخل نہ ہو؛اور نہ میرے دشمنوں والا لباس پہنو، اور نہ میرے دشمنوں کی سواریوں پر سوار ہو، ورنہ تم میرے اْسی طرح دشمن ہوجاؤ گے، جیسے وہ میرے دشمن ہیں۔"
مکاتیب
ادارہ
(۱)
مکرم و محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جناب محمد ظفر اقبال صاحب کی تصنیفات کو اللہ تعالیٰ نے کافی پذیرائی عطا فرمائی ہے۔ خصوصاً ان کی تازہ تصنیف ’’اسلام اور جدیدیت کی کشمکش‘‘بہت زیادہ قابل توجہ بنی ۔ گذشتہ سال ایکسپو سینٹر میں ’’انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘‘ کے اسٹال پر رکھے گئے تمام نسخے ہاتھوں ہاتھ لیے گئے ۔ مختلف جرائد اور اخبارات نے اپنے اپنے انداز میں اس پر جاندار تبصرے شائع کیے جو مذکورہ تصنیف کی اہمیت کا ثبوت ہیں۔
گذشتہ قریبا ایک صدی سے مسلم مفکرین کا مغرب کے ساتھ تعامل اس اصول کی بنیاد پر رہا ہے کہ ’’مغرب کی اچھی چیزوں کو لے کر بری چیزوں کو چھوڑ دیا جائے ‘‘مگر اچھے برے کی تمیز کے لیے عموماً اسلامی علمی روایت کے بجائے مغربی معیارات ہی کو اختیار کیا گیا اور چیزوں کو ان کے اپنے پس منظر میں سمجھنے کے بجائے محض جزوی مشابہت کی بنا پر اسلامیایا گیا ۔ اگرچہ بعض بہت اچھی تنقیدات بھی سامنے آئیں، مگر مجموعی طور پر مغربی اصطلاحات کی اسلامی تعبیر ہی پیش کی گئیں۔ آزادی، مساوات، ترقی، انسانی حقوق، رواداری، قومی ریاست، جمہوریت غرض کون سی چیز تھی جسے جزوی مشابہت کی وجہ سے مشرف بہ اسلام نہ ٹھہرایاگیا ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں میں غیر اسلامی اقدا ر (مغربی اقدار) سے جو نفرت تھی/ ہونی چاہیے تھی ، وہ رفتہ رفتہ کم ہو کر بالآخر ختم ہو رہی ہے اور اس طرح مسلمان مغربی تہذیب میں تحلیل اور ضم ہوتے چلے جارہے ہیں۔آج ’’ہولی‘‘، ’’دیوالی‘‘ اور ’’کرسمس‘‘منانا رواداری کی علامات ٹھہرائی جارہی ہیں جو روایتی اسلامی علمیات میں کفر و اسلام کے درمیان حد فاصل سمجھی جاتی تھیں ، یہاں تک کہ اب ہمارے وزیر اعظم کو بھی عوام کی فلاح و بہبود لبرلزم میں نظر آنے لگی (یعنی اسلام انسانوں کے درمیان امتیاز کا معیار ہونے سے نکالا جارہا ہے)۔ ایسے میں’’اسلام اور جدیدیت کی کشمکش‘‘میں مذکورہ بالا مغربی اصطلاحات سمیت فطرت بطورماخذ دین ، عقل کی نقل پر بالادستی اور سائنس کو غیر اقداری اور حتمی سمجھنے جیسے تصورات پر نئے انداز سے جاندار تنقید کی گئی ہے ۔
جولائی کے الشریعہ میں ایک مضمون پڑھا جو آنجناب نے مذکورہ کتاب کے لیے بطورِ مقدمہ تحریر فرمایا ہے ۔ کسی کتاب کا مقدمہ اس لیے لکھا جاتا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد علیٰ وجہ البصیرہ کتاب پڑھی جاسکے ۔ مگر حیرت ہے کہ آٹھ صفحے کی تحریر میں صرف چھ سطور میں مصنف اور کتاب کا تعارف کرایا گیا ہے ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد ہے ’’اگرچہ میرے خیال میں یہ مباحث اب پرانے ہوچکے ہیں‘‘۔ سمجھنے کی بات ہے کہ کوئی یہ مقدمہ پڑھ کر ان ’’پرانے مباحث‘‘ کے لیے اس مصروف ترین دور میں (کہ فیس بک اور یوٹیوب پر ہر آن نیا آنے والا مواد دستیاب ہے اور مقدمہ نگار خود ’’سرسری ورق گردانی‘‘پر مجبور ہیں) ساڑھے پانچ سو صفحے کی ضخیم کتاب پر مغز ماری کرے گا؟ اور وہ بھی فلسفیانہ مباحث، اس پر مستزاد روحِ عصر سے لڑانے والی تنقید)۔۔۔
لیکن اس کے بر خلاف لندن سے فلسفے میں پی ایچ ڈی، پاکستانی فلسفیوں کے کانگریس کے سابق صدر، معمر ڈاکٹر ابصار احمد صاحب کو اعتراف ہے کہ ’’چند حوالے میرے لیے بھی نئے ہیں‘‘۔
کتاب اور مقدمہ میں شدید تناقض پایا جاتا ہے۔ جن امور کو مولف نے رد کیا ہے ، مقدمہ میں ان ہی کو ’’مفید ‘‘قرار دیا گیا ہے جس سے قاری فکری الجھا ؤکا شکار ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ محترم مقدمہ نگار کی اپنی ترجیحات اور تصورات ہیں یا کتاب کی ’’سر سری ورق گردانی‘‘۔۔۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ محترم مقدمہ نگار نے کتاب پر آٹھ صفحات کا طویل مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔ اتنا طویل مقدمہ اس بات کا غماز تھا کہ کتاب بہت اہم ہے، لیکن اس مقدمے میں متذکرہ تمام امور مفقود ہیں۔
آنجناب نے متعدد بار مقدمہ میں کسی مغربی پروفیسر کے امام ابو منصور ماتریدی پر ’’پی ایچ ڈی‘‘کی رو سے لکھا ہے کہ مغرب وحی سے رہنمائی لینے کی طرف لوٹ رہا ہے، جبکہ ’’اسلام اور جدیدیت کی کشمکش‘‘میں مغرب کی چوٹی کے مفکرین اور فلسفیوں کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ مغربی اقدار کو حتمی نہ سمجھنے والا اور ان سے اختلاف کرنے والا موذی جراثیم ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے ۔ کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ جدید انسان کا مسئلہ دین کا ’’عصری اسلوب‘‘ اور ’’نفسیاتی ضروریات‘‘سے عدم موافقت نہیں بلکہ ’’جدید انسان‘‘پیٹ اور نفس کا بندہ بن چکا ہے جسے اس سے نکالنے کے لیے ’’روایتی اسلامی علمیات‘‘(منہجِ اہل سنت) پر لانا ہے ۔
’’اسلام اور جدیدیت کی کشمکش‘‘کے بارے میں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کے مباحث اب پرانے ہوچکے ہیں ، لیکن جناب والا سمیت علما جو کچھ لکھ رہے ہیں اس میں نیا کیا ہے ؟ الشریعہ میں جن مباحث پر خامہ پرسائی کی جارہی ہے، ان میں کیا نیا ہے؟ اس لیے تمام علماء کرام سے درخواست ہے کہ مذکورہ کتاب کے مندرجات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں ، اور مسلمانوں کی درست رہنمائی فرمائیں اور اگر کہیں غلطی ہے تو اس کی نشاندہی فرمائیں ۔
آنجناب سے ایک مودبانہ گذارش یہ ہے کہ ظفر اقبال صاحب کو مذکورہ تحریر کتاب کے مقدمہ کے طور پر شامل کرنے سے روکیں کیونکہ یہ اس کتاب کا مقدمہ نہیں بن سکتا ۔اللہ ہمارے بڑوں کی مصروفیات کم کردے تا کہ عصر جدید کے مسائل میں ہماری درست رہنمائی فرماسکیں ۔
آخر میں گزارش ہے کہ اگر یہ خط ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع کردیا جائے تو خوشی ہوگی۔
راقم حروف کا نام معراج محمد ہے ۔ گذشتہ مئی میں جامعہ دار العلوم کورنگی سے درسِ نظامی مکمل کرلیا ہے اور اس سال قرآن اکیڈمی یٰسین آباد سے وابستہ ہے ۔آبائی تعلق ضلع دیر پائین سے ہے ۔
’’مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار اور تنظیم فکرِ ولی اللہی کے نظریات کا تحقیقی جائزہ‘‘
مولانا سید متین احمد شاہ
2014ء میں مولانا عبیداللہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللہی کے حوالے سے ’’مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار اور تنظیم فکرِ ولی اللہی کا نظریات کا تحقیقی جائزہ‘‘ نامی کتاب شائع ہوئی جس کے مؤلف جناب مفتی محمد رضوان ہیں۔ یہ کتاب اصل میں مولانا سندھی کے بارے میں مختلف اہل علم کی ناقدانہ آرا اور تنظیم فکر ولی اللہی کے نظریات پر علما کے فتووں کا ایک تالیفی مجموعہ ہے۔اس کتاب کا حال ہی میں دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا ہے جس کے تقریباً تمام مندرجات پہلے ایڈیشن والے ہیں، البتہ اس میں پہلے ایڈیشن پر ہونے والے بعض تبصرے شامل کیے گئے ہیں جن میں سب سے مبسوط تبصرہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے مؤقر جریدے نقطہ نظر (شمارہ 37، اکتوبر 2014ء۔ مارچ 2015ء )کا ہے۔ اس تبصرے میں مولانا کے فکری پس منظر کو بڑی جامعیت کے ساتھ عہد بہ عہد دیکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ کتاب کے بعض اندراجات کے بارے میں قارئین کے سوالات کے جوابات بھی نئی اشاعت میں شامل کیے گئے ہیں۔
کتاب کا پہلا حصہ "مولانا عبید اللہ سندھی کے متعلق اکابر علما کا موقف" ہے۔ اس میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا مفتی تقی عثمانی، مولانا مفتی عبدالواحد، مولانا ابن الحسن عباسی، جناب شکیل عثمانی، مولانا موسیٰ بھٹو اور بعض دیگر اہل علم کے مقالات اور آرا جمع کی گئی ہیں جن میں مولانا عبیدا للہ سندھی کے افکار پر نقدو تبصرہ کیا گیا ہے۔یہ حصہ مرتب کی محنت اور کاوش کا ثبوت ہے کہ موضوع سے متعلق مواد کوپہلی بار اس طور پر یک جا کیا ہے جس کی تلاش اور دست یابی اس سے پہلے اتنی آسان نہیں تھی۔
مولانا عبید اللہ سندھی کی شخصیت و افکار کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قلم بند کرنا راقم کے لیے ذرا مشکل معاملہ ہے اور اس کی وجہ ان کے حوالے سے پائے جانے والے مختلف افکارو آرا ہیں جن پر نظر ڈالی جائے تو ہمارے سامنے تین قسم کی آرا آتی ہیں:
ایک نقطہ نظر کی رو سے مولانا عبیداللہ سندھی کی فکر جمہور علمائے امت کی فکر سے جدا ہے (اور یہی حکم تنظیم فکر ولی اللہی کا ہے۔) زیر تبصرہ کتاب کے مؤلف کا نقطہ نظر یہی ہے اور اسی کی تائید کرنے والی تحریرات کو اس میں جمع کیا گیا ہے۔ یہ نقطہ نظر ان کی اپنی زندگی میں لکھی گئی یا دیگر مرتبین کی مرتب کردہ کتابوں کی روشنی میں بنتا ہے۔
دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ مولانا کی فکر میں اگرچہ شاذ امور بھی پائے جاتے ہیں تاہم بہ حیثیت مجموعی وہ کتاب و سنت کی ہی ترجمان ہے۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کے نزدیک مولانا سندھی کی طرف بعض افکار اور تحریریں غلط طور پر بھی منسوب ہیں جن کی ذمے داری ان پر نہیں آتی، بلکہ ان کے تلامذہ اس کے ذمہ دار ہیں؛ تاہم ان حضرات کے نزدیک تنظیم فکر ولی اللہی کے افکار درست نہیں ہیں۔ اس رجحان کے قائل مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا صوفی عبدالحمید سواتی، مولانا زاہد الراشدی اور مولانا عبدالحق خان بشیر وغیرہم ہیں۔
مولانا صوفی عبدالحمید سواتی لکھتے ہیں :
’’انصاف کی بات یہ ہے کہ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کے بعض افکار شاذ بھی ہیں۔ بعض مرجوح قسم کے خیالات بھی ہیں اور بعض باتیں ایسی ہیں کہ مولانا ان پر بے جا سختی بھی کرتے تھے۔بعض باتیں مصلحت کی خاطر بھی ناگزیر خیال کرتے تھے اور بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جن کی نسبت ان کی طرف کرنے میں ان کے تلامذہ نے غلطی کی ہے۔ اس کی ذمہ داری حضرت مولانا پر نہیں، بلکہ ان کے ناقلین پر ہے۔ انھوں نے ان باتوں کو نقل کیا ہے اور شاید سابق لاحق سے قطع نظر کر کے حضرت مولانا سندھی کا مطلب بھی نہیں پا سکے۔بہرحال خیالات وافکار کا شذوذ تو ہر مجتہد اور محقق میں پایا جاتا ہے، لیکن بایں ہمہ مولانا سندھی اپنے مسلک، عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے پکے سچے راسخ العقیدہ اور پرجوش مسلمان تھے۔‘‘ (1)
مولانا عبدالحق خان بشیر نے 2004ء میں ایک کتاب ’’مولانا عبیدا للہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ کے نام سے تحریر کی تھی جس کا بنیادی مقدمہ یہی ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار کو ان کے ناقل شاگردوں نے غلط طور پر پیش کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ان کی فکر یگانوں اور بیگانوں کے ہاں متنازع بن کر رہ گئی۔اس کتاب کا مقدمہ مصنف کے بھائی مولانا زاہد الراشدی نے تحریر کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں :’’بدقسمتی سے مولانا سندھی کے خوشہ چین، جنھوں نے اپنے استاد کی پیروی میں کیمونسٹ انقلاب اور نظام کے مطالعہ کی زحمت تو اٹھا لی، لیکن ان کی طرح فکری و نظریاتی توازن قائم نہ رکھ سکے، خود پر ’’لغزشِ پا‘‘ کا الزام زیادہ بوجھل سمجھتے ہوئے انھوں نے اسے اپنے استاد کی طرف منتقل کر دینے میں عافیت محسوس کی اور یہ بات ناقدین کے بے رحم ہاتھوں میں پہنچ کر ایک نئے فکری معرکے کا عنوان بن گئی۔‘‘ (2)
اس کتاب میں بڑی تفصیل کے ساتھ مولانا سندھی کا دفاع کیا گیا ہے اور اس کے لیے مختلف عقلی اور نقلی معیارات وضع کیے گئے ہیں، جن پر ، مصنف کے بہ قول، مولانا سندھی کی فکر کو پرکھا جا سکتا ہے۔ایک عنوان ’’امام سندھی کی فکری صحت پر ٹھوس شہادتیں‘‘ قائم کر کے مختلف علما کی طرف سے مولانا سندھی کو پیش کیا گیا خراجِ عقیدت بھی مصنف نے نقل کیا ہے۔ان علما میں مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا احمد علی لاہوری جیسے اہل علم کا نام بھی شامل ہے۔ تاہم یہ نام پیش کرنے میں جو چیز نظر انداز ہوئی ہے، وہ مولانا سندھی کی فکر کے زمانی مدارج ہیں۔ مولانا تھانوی اور مولانا لاہوری کی طرف سے بلاشبہ حضرت سندھی کے حق میں بلند پایہ اظہارِ عقیدت بھی ملتا ہے اور یہ بات صرف انھی دو علما پر بس نہیں، علمائے دیوبند میں سے دیگر حضرات کے ہاں بھی یہ جذبات موجود ہیں، لیکن خود انھی علما کی تصریحات کے مطابق اصل مسئلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب مولانا سندھی افغانستان، سوویٹ یونین، ترکی اور حجاز کے قیام کے بعد 1939 میں ہندوستان پہنچے تو ان کی تقاریر اور تحریروں میں پیش کیے جانے والے خیالات سے علما کو اختلاف ہونا شروع ہوا۔ (3) اگرچہ دیوبند میں قیام کے دوران میں اس سے بہت پہلے بھی مولانا سندھی کے بعض امور پر اختلافات سامنے آچکے تھے، لیکن ان کی فکر میں نمایاں اور جوہری تبدیلیوں کا تعلق سفر کابل کے بعد کا ہے۔ مولانا تھانوی کی جو تحریر اس سلسلے میں پیش کی گئی ہے، وہ 1915ء کی ہے جب کہ مولانا سندھی کے افکار کے شاذ امور سامنے آنے کے بعد مولانا تھانوی کے ملفوظات وغیرہ میں ان پر تنقید بھی ملتی ہے۔
اس کتاب کے مؤلف نے ایک عنوان ’’امام سندھی کے ناقابل اعتماد تلامذہ‘‘ کے الفاظ میں باندھا ہے جس کے تحت مولانا لاہوری، خواجہ عبدالحی فاروقی? وغیرہ کو قابل اعتماد جب کہ موسیٰ جار اللہ اور مولانا عبداللہ لغاری کو ان کے ناقابل اعتماد تلامذہ میں شمار کیا ہے۔ ان حضرات کے ساتھ پروفیسرمحمد سرور کا نام نقل نہیں کیا گیا، حالاں کہ ہندوستان میں مولانا سندھی کے افکار پر جو تنقید ہوئی ہے، زیادہ تر ان تحریروں کی روشنی میں ہوئی ہے جو پروفیسر محمد سرور کی مرتب کی ہوئی ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی زندگی ہی میں ان کی معروف کتاب ’’افادات وملفوظات‘‘ شائع ہوئی تھی۔ان کی ایک دوسری کتاب ’’مولانا عبیداللہ سندھی: حالات ، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ کے نام سے ہے۔ مولانا سندھی کی فکر پر جو اشتراکیت ، وحدتِ ادیان ، تشریعات کے غیر ابدی ہونے جیسے مسائل کے حوالے سے سب سے زیادہ تنقید ہوئی ہے، وہ افکار پروفیسر محمد سرور کی انھی کتابوں سے اٹھائے گئے ہیں۔دوسری طرف ان کے بارے میں ایسے علما کے بلند پایہ الفاظ موجود ہیں جو مولاناسندھی کی فکر کے سب سے بڑے خوشہ چین اور ان کے عقیدت مند کہلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا احمد علی لاہوری کے بیٹے مولانا عبیداللہ انور کے قلم سے پروفیسر سرور کے بارے میں ایک مضمون ہے جس کے بعض مندرجات یہاں نقل کیا جاتے ہیں:
’’خود سرور صاحب کی تصنیف ارمغان شاہ ولی اللہ اپنے موضوع پر بے نظیر کتاب ہے جسے شاہ ولی اللہ کی کتابوں کا خلاصہ اور نچوڑ کہنا چاہیے اورعلومِ قرآنی کے طلبہ کے لیے تو وہ ایک نعمت ہے۔ ایسے ہی مولانا سندھی پر ’’افادات و ملفوظات‘‘ اور ’’مولاناعبیداللہ سندھی نام‘‘ کی دو کتابیں لکھ کر تو انھوں نے امت پر احسانِ عظیم کیا ہے۔‘‘ ۔۔۔’’ملک نصر اللہ خان عزیز نے مولانا سندھی سے پوچھا، اس کتاب کے بارے میں خود آپ کی کیا رائے ہے؟ مولانا نے فرمایا: ’’پروفیسر صاحب نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ میرے افکاروخیالات سے متصادم کوئی چیز اس میں نہ آنے پائے۔ ظاہر ہے خیالات تو میرے ہی ہیں، لیکن زبان وبیان سرور صاحب کا ہے۔‘‘ ۔۔۔’’بہرحال میں قدرت کی اس بے نیازی پر حیران ہوں کہ علم وادب کی یہ عظیم خدمت اس نے کس کے سپرد کی جس کا کوئی علمی پس منظر نہیں۔سرور صاحب کا تعلق گجرات کے ایک گھرانے اور پس ماندہ علاقے سے ہے۔‘‘ ۔۔۔’’سرور صاحب کا تعلق تو پرانی نسل سے تھا، لیکن لکھتے وہ نئی نسل کے لیے تھے اور زیادہ تر فائدہ بھی اس سے آئندہ نسلیں ہی اٹھائیں گی۔ میرا خیال ہے مستقبل میں ان کی تحریریں او رمقبول ہوتی چلی جائیں گی کیوں کہ یہ کوئی وقتی باتیں یا سطحی نظریات نہیں۔ یہ دراصل مولانا سندھی کے برسوں کے تجربات اور شاہ ولی اللہ کی مجتہدانہ تعلیمات پر مبنی ہیں۔‘‘ ۔۔۔’’سرور صاحب فطرت کا ایک عطیہ تھے جن کی دریافت مولانا سندھی ہیں اور مولانا سندھی نے ہمارے لیے شاہ ولی اللہ کو دریافت کیااور شاہ ولی اللہ نے خیر القرون سے لے کر اپنے دور تک اسلام کی فلاسفی کو جس طرح مدون کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘ (4)
ان اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر سرور نہ صرف مولاناسندھی کے ہاں معتمد علیہ شخصیت تھے، بلکہ بعض دیگر ثقہ علما کی رائے بھی ان کے بارے میں نہایت مثبت تھی، نیز یہ کہ انھوں نے مولانا سندھی کے افکار کو منتقل کرنے میں کسی علمی خیانت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہی خیال جناب سید خالد جامعی کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’حضرت مولانا عبیدا للہ سندھی کے بارے میں ہمارے محترم کفیل بخاری صاحب اور عابد مسعود صاحب کی رائے ہے کہ پروفیسر سرور کی محرف تحریروں کے باعث مولانا سندھی کے افکار کا غلط خاکہ تیار ہوا ہے۔ساحل کا بھی یہی موقف تھا، لیکن جب اس سلسلے میں ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری سے رابطہ کیا تو انھوں نے واضح طور پر دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ پروفیسر سرور نے مولانا سندھی کے حوالے سے جو کچھ تحریر فرمایا ہے، وہ مولانا سندھی کے افکار کی درست ترجمانی ہے۔اس میں کوئی تحریف، اضافہ، سرور صاحب سے منسوب کرنا درست نہیں۔مولانا سندھی کے یہی افکار تھے۔‘‘ (5)
تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ مولانا سندھی کی جملہ تحریرات و افکار ان کی اپنی ہی ہیں اور کوئی چیز ان کی طرف غلط منسوب نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر ان کے جملہ افکار کا مؤید اور داعی ہے۔ یہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری اور تنظیم فکر ولی اللہی کا رجحان ہے اور ان حضرات نے علما کی طرف سے دیے گئے فتووں کا جواب اور اپنے نظریات کی وضاحت بھی کی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں ، جیسا کہ ذکر ہوا ، پہلے نقطہ نظر کے حوالے سے تحریرات جمع کی گئی ہیں۔مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’مولاناعبید اللہ سندھی: حالات ، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا سندھی کی فکر کے قابل تنقید امور پر نقد کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’مولانا مرحوم کی یہ بڑی خوش قسمتی تھی کہ ان کا تعلق علماء کرام کے اس طبقہ سے تھا جو اپنی گروہ بندی کی عصبیت میں حد کمال پر پہنچا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مولانا یہ سب کچھ فرما گئے اور لکھوا اور چھپوا بھی گئے اور پھر بھی تنقید کی زبانیں بند اور تعریف کی زبانیں تر رہیں، ورنہ اگر انھوں نے اس طبقہ خاص سے باہر جگہ پائی ہوتی تو ان کا استقبال سرسید اور علامہ مشرقی سے کچھ کم شاندار نہ ہوا ہوتا۔‘‘ (6)
تاہم زیر نظر کتاب مولانا مودودی کی اس بات کی تردید کرتی ہے، کیوں کہ اس میں شامل تقریباً تمام مقالات علمائے دیوبند کے ہیں جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے دینی مکاتب فکر میں خوداحتسابی اور تنقید کی روایت زندہ رہی ہے اور محض عقیدت مندی کی بنا پر اپنے حلقے کے بزرگوں کے قابلِ نقد افکار پر پردہ نہیں ڈالا گیا بلکہ ان پر علمی تنقید ہوتی رہی ہے۔ یہ نکتہ اور یہ پہلو سامنے رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ دینی حلقوں پر ایک عمومی الزام ہے کہ وہ اپنے بڑوں کی اندھی تقلید یا رائج اصطلاح میں ’’اکابر پرستی‘‘میں مبتلا ہوتے ہیں۔مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا مسعود عالم ندوی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’آپ نے سچ کہا۔ مولانا شبلی کی پیش گوئی کہ آخر دیوبند بھی کب تک دیوبند رہے گا، برہان(7) والوں کے مضامین نے اسی کا ثبوت بہم پہنچایا۔ حضرت شاہ صاحب کے ان ہی خیالات کی اس تشریح کو اگر سرسید اور شبلی کا قلم بیان کرے تو بے دینی اور اگر فضلائے دیوبند لکھیں تو عین دین؛ بسوخت عقل زحیرت کہ این چہ بوالعجبی ست۔‘‘ (8)
اسی طرح مولانا مناظر احسن گیلانی (جو کہ دیوبند کے جلیل القدر عالم ہیں) نے مولانا عبدالماجد دریابادی کے ہفت روزہ ’’صدق‘‘ میں مولانا سندھی کے حوالے سے ایک تنقیدی خط لکھا اور مولانا سندھی کا دفاع کرنے والے دیوبندی حلقہ فکر کے لوگوں پر ذرا سخت الفاظ لکھے ہیں۔(9) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار پر احتساب کا معاملہ دیوبند کے اہل علم کے ہاں قابل چشم پوشی نہیں رہا، بلکہ انھوں نے اس کا بھرپور ثبوت دیا ہے اور اس کا سب سے بڑا شاہد یہی زیر تبصرہ کتاب ہے۔
اس کتاب میں مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک تنقیدی مضمون بھی شامل ہے، جو اصلاً تو اس وقت مولانا لاہوری کی تفسیر پر تنقید کے سلسلے میں سامنے آیا، لیکن وہ افادات مولانا سندھی ہی کے تھے۔ مولانا سندھی کے افکار میں جب تک شاذ امور داخل نہ ہوئے تھے، مولانا تھانوی نے ان سے اپنی عقیدت کا اظہار اچھے الفاظ میں کیا تھا، تاہم مولانا سندھی کے افکار میں شذوذ کے ظہور کے بعد مولانا تھانوی کے کلام میں ان پر تنقیدیں ملتی ہیں جن کا ایک حصہ اس کتاب کا جزو ہے۔ کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں کسی سائل کے اعتراض پر مؤلف نے مولانا تھانوی کے وہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں اور ان کی توجیہ یہ پیش کی ہے کہ یہ اظہارِ عقیدت اس دور کا ہے جب کہ مولانا سندھی کے افکار میں شاذ باتیں نمایاں نہیں ہوئی تھیں۔ (10)
مولانا عبید اللہ سندھی کی فکر کے جو اجزا علما کے نزدیک محل نظر رہے ہیں اور جن کی تائید کتاب میں شامل تحریروں سے ہوتی ہے، ان مقالات پر ایک مجموعی اور کلی نظر ڈالی جائے تو ان میں سے ضروری اور بڑے بڑے امور کو مندرجہ ذیل نکات کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے:
1۔ تفسیر قرآنی میں تفسیر بالرائے کا رجحان
2۔ اشتراکیت اور نیشنل ازم کا تاثر
3۔ وحدتِ ادیان کا تصور
4۔ قادیانیت کے بارے میں نرم گوشہ
5۔ تشریعی احکام (خصوصاً حدود وغیرہ) کی زمانیت اور ابدیت
6۔بعض کلامی امور(جیسے نزولِ عیسیٰ ، عذابِ فاسقین، کفار کا خلود فی الناروغیرہ)کے بارے میں تفردات
اس کے علاوہ بھی مختلف نکات ذکر کیے جا سکتے ہیں، لیکن جناب مفتی محمد رضوان کی زیر تبصرہ کتاب کے اکثر مقالات انھی امور کے گرد گھومتے ہیں۔
پہلے نکتے کے لحاظ سے زیر تبصرہ کتاب میں مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک رسالہ التقصیر فی التفسیر شامل اشاعت ہے۔ یہ رسالہ مولانا نے 1347ھ میں تصنیف فرمایا تھا۔اس وقت مولانا عبیدا للہ سندھی حیات تھے۔یہ رسالہ بعد میں طبع نہیں ہوا۔(11)اس رسالے میں مولانا تھانوی نے مولانا عبیداللہ سندھی کے ان تفسیری افکار پر نقد کیا ہے جو وہ جدید مسائل کے استنباط کے معاملے میں قرآن سے پیش کیا کرتے تھے۔ سیاسی اور اقتصادی مسائل کے باب میں مولانا سندھی صوفیہ کے طریق پر تاویل اور اعتبار سے کام لیتے ہوئے قرآنی آیات سے ’’ تفسیر اشاری‘‘ کے مسائل کا استنباط کیا کرتے تھے، تاہم اس طرز کو مولانا تھانوی نے تفسیر بالرائے کی قبیل سے دیکھا ہے اور اس پر نقد کیا ہے۔
یہ رسالہ ایک مقدمے اور تین فصلوں پر مشتمل ہے۔ مقدمے میں بعض اصولی باتیں ذکر کی ہیں جن میں دلالت کی انواع اور جائز و ناجائز استنباطات کا ذکر ہے۔ فصل دوم میں قرآن کے اصل مقصود اور اس کی غرض وغایت پر گفتگو کی گئی ہے۔ تیسری فصل میں مولانا سندھی کی تفسیراتِ اعتباریہ میں سے تقریباً اکیس نمونے نقل کر کے ان پر تنقید کی گئی ہے۔
مولانا سندھی کے یہ استنباطات کس طرح صوفیہ کی تفسیر اشاری سے جدا ہیں اور غیر مطلوب فی الدین ہیں؟ اس کی وضاحت میں مولانا تھانوی نصوص کی دلالت کی مختلف صورتوں کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جن احکام کو نصوص کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، وہ دو قسم کے ہیں:ایک قسم معتبر دلالتوں کی ہے، اگر وہ واضح ہو تو وہ تفسیر ہے، خواہ قطعی ہو یا ظنی اور استنباطاً ہو تو اس کا نام فقہ واجتہاد ہے۔دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو دلالت سے تو تعلق نہیں رکھتی، لیکن ان احکام کی نصوص کے مدلولات سے ایک گونہ مشابہت ہوتی ہے۔ اس قسم کے احکام کو مدلولِ نص کہنا درست نہیں ہے، ورنہ یہ تفسیر بالرائے ہے۔ رہا اس کا جواز اور عدمِ جواز تو ایسی چیزیں اگر دین میں مطلوب ہوں تو ایسے احکام کا ذکر کرنا جائز ہوگا، جیسے تفسیر اشاری صوفیہ کے ہاں ملتی ہے، لیکن اگر یہ دین میں مطلوب نہ ہوں تو پھر ان احکام کا ذکر ان نصوص کے ذیل میں ناجائز ہوگا۔ مولانا تھانوی نے مولانا سندھی کی جن باتوں پر نقد کیا ہے، ان میں سے زیادہ تر اسی آخری قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔ (12)
اس کی ایک مثال: اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وان اردتم ان تسترضعوا اولادکم فلا جناح علیکم (13) (اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں (یعنی کوئی دودھ پلانے والی بلا کر)۔ اس آیت کے تحت ’’اعتبار ‘‘ کے طور پر مولانا سندھی نے لکھا ہے کہ ’’اگر از ممالک خارجہ کساں برائے ترتیب نہر وغیرہ قوم خود طلبانیدہ شود درست است۔‘‘(اگر بیرون ممالک سے حکومت اپنے ہاں نہری اور آب پاشی کے نظام کے اجرا اور ترقی کے لیے ماہرین بلائے تو درست ہے۔ ) اس پر مولانا تھانوی نے تنبیہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’اس عبارت کے مقدمہ میں بھی کچھ لکھا گیا ہے اور اس میں ایک خاص خبط (یعنی بدعقلی کا مظاہرہ) بھی کیا گیا ہے کہ مطلق رعیت کو جو کہ قدیم (یعنی پرانی رعایا) کو بھی شامل ہے، بجائے اولاد کے قرارد یا گیا ہے اور عبارت پانزدہم (یعنی پندرھویں عبارت) میں صرف نئی رعیت کو بجائے اولاد کے قرار دیا تھا۔اس کا مقتضا یہ ہے کہ اس آیت میں صرف جدید رعیت کی مصالح کے لیے غیر ملکی لوگوں کو بلانا جائز ہو اور اگر مختلف اعتبارات کی بنا پر سب تشبیہات کی تصحیح کی جاوے تو دوسرے شخص کو جائز ہوگا کہ دوسرے اعتبارات فرض کر کے ان احکام کے مضاد (یعنی مخالف) احکام قرآن سے مستنبط کرے، تو قرآن کیا ہوا ، موم کی ناک ہوئی۔نعوذ باللہ۔‘‘ (14)
مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا سندھی کی ’’قرآن کی سیاسی تعبیر‘‘ پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نظارۃ المعارف القرآنیہ کے تحت انگریزی و عربی کے فارغ التحصیل اور نیم فارغ التحصیل لوگوں میں ’’ درس ]قرآن[ کا منشا یہ تھا کہ پورے قرآن کو جہاد وسیاست ثابت کیا جائے اور تمام احکام کو اس جنگی رنگ میں پیش کیا جائے۔اس تفسیر کی جھلک آپ کو ان کے تلامذہ مثلا خواجہ عبدالحی صاحب فاروقی کی تفسیر اور مولانا احمد علی صاحب لاہوری کے قرآنی حواشی میں پوری طرح نظر آئے گی۔‘‘ (15) غالباً انھی تنقیدوں کا محرک تھا کہ اس تفسیر پر بعد میں دیوبند کے کئی علما کی تقاریظ لی گئیں جن میں اس کے حق میں تائیدی اور تعریفی کلمات کہے گئے ہیں۔
مولانا سندھی کی فکر میں جن امور پر سخت تنقیدیں ہوئی ہیں، ان میں وحدتِ ادیان کی فکرکا عنصر بھی ہے۔ کتاب میں شامل مقالات میں مولانا مسعود عالم ندوی کے مقالے میں درج ہے کہ :’’مولانا سندھی اسلام اور ہندوستانی قومیت کا ایک معجون مرکب پیش کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ہندوؤں کو اسلام سے وحشت نہ رہے اور مسلمان خوشی خوشی ہندوستانی قومیت کا جز بن سکیں۔اسی اعتبار سے وہ وحدتِ انسانیت اور وحدتِ ادیان کے قائل ہیں۔ مولانا کے نزدیک قرآن مجید بھی اسی بنیادی فکر کا ترجمان ہے۔‘‘ (15) اسی طرح مولانا ابن الحسن عباسی، مولانا سندھی کی تفسیر الہام الرحمان کا حسب ذیل اقتباس پیش کر کے کہتے ہیں کہ مولانا وحدتِ ادیان کی فکر کے قائل ہیں:
’’ہم تمام ادیان کی حقانیت اور صحت کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن صرف اس قدر جتنا ان کی طرف نزول ہوا ہے، اور ان ادیان میں اختلاف کو ہم اس طرح کا اختلاف قرار دیتے ہیں جس طرح حدیث کی مختلف کتابوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔۔۔ اس لیے ہم تمام ادیان کو جمع کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کی تطبیق دیتے ہیں جس طرح مختلف احادیث میں جمع وتطبیق اختیا رکی جاتی ہے۔ ‘‘ (16)
آگے ایک اور مقام پر اسی سلسلہ میں لکھتے ہیں:
’’عام فقہا نے مسلمانوں کو اپنے اس فتویٰ سے گمراہ کیا کہ تمام کے تمام غیر مسلم باطل پر ہیں اور ان کے پاس حق میں سے کچھ بھی نہیں۔‘‘ (17)
کتاب میں جناب اقبال شیدائی کے نام مولانا سندھی کے خطوط (مرتبہ پروفیسر محمد اسلم ) کے اقتباسات بھی دیے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا سندھی کا قادیانیت کے بارے میں موقف، عام موقف سے ہٹ کر اور نرم تھا۔ ان کے خطوط میں حکیم نورالدین بھیروی اور مولوی محمد علی لاہوری کے بارے میں بلند تعریفی الفاظ ملتے ہیں۔
مذکورہ بالا امور تو زیر تبصرہ کتاب کی اس تصویر کے حوالے سے ہیں جو مولانا عبیداللہ سندھی کے بارے میں کتاب پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں بنتی ہے؛ تاہم مناسب ہو گا کہ اختصار کے ساتھ یہاں مولانا سندھی کے دفاع میں پیش کی جانے والی باتوں کی ایک جھلک بھی سامنے رکھ دی جائے تاکہ موضوع سے متعلق تصویر کے دونوں رخ سامنے آ جائیں۔ کسی شخصیت یا نظامِ فکر کے معروضی مطالعے کے لیے یہ بات ناگزیر ہے کہ اس کے دونوں پہلو سامنے رہیں۔
اس سلسلے میں کچھ امور تو اوپر مولاناعبدالحق خان بشیر کی کتاب ’’مولانا عبیداللہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللہی‘‘ کے حوالے سے آ گئے ہیں جس کی رو سے مولانا سندھی کے بارے میں محل نظر افکار کے انتساب کی اصل وجہ ان کے شاگردوں کے ’الحاقات‘ اور ’حدیثِ دیگراں ‘ ہے جو ’سرِ دلبراں‘ کی شکل میں سامنے آ گئی ہے۔ اس کے ذمہ دار اصل میں مولانا سندھی نہیں ہیں، لیکن جیسا کہ گذشتہ سطور سے معلوم ہوا، یہ موقف زیادہ مضبوط معلوم نہیں ہوتا۔جزوی طور پر یہ موقف درست ہے، لیکن اسے کلی طور پر قبول کرنا کافی مشکل ہے کہ مولانا سندھی کی فکر کے وہ امور جو عام علما کے افکار سے مختلف ہیں، وہ سب دوسروں کی دسیسہ کاری ہے۔خود مولانا سندھی کی فکر سے والہانہ وابستگی رکھنے والے علما ان کی فکر میں شذوذ کے قائل ہیں، تاہم اس الحاق کا کلی طور پر انکار بھی ممکن نہیں اور حق بات ان دونوں کے درمیان معلوم ہوتی ہے۔ (18)
مولانا سندھی کے دفاع کے حوالے سے دوسرا موقف وہ ہے جو دیوبند ہی کے سرکردہ علما میں سے مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور بعض دیگر اہل علم کا ہے جنھوں نے مولانا مسعود عالم ندوی کی تنقید کے جواب میں اپنے مجلے برہان میں قلم سنبھالا اور ایک سے زائد اقساط میں مولانا سندھی پر ہونے والی تنقیدوں کا جواب لکھا جو بعد میں کتابی شکل میں ’’مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے ناقد‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔اس تنقید کے بارے میں مولانا اکبر آبادی کا موقف یہ تھا کہ ’’اس بات کا سخت افسوس ہے کہ مولانا مسعود عالم نے مولانا سندھی پر جو تنقید کی ہے، اس میں مولانا کے افکار کو بالکل توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے جس سے حقیقت کچھ سے کچھ ہو گئی ہے اور کہیں کی بات کہیں جا پہنچی ہے۔‘‘ (19( مختلف امور پر مولانا اکبر آبادی کا موقف پیش کرنے سے پہلے خود مولانا سندھی کی فکر کے افکار سے اتفاق نہیں ہے اور وہ ان کی خواہ مخواہ طرف داری کے قائل نہیں ہیں۔ (20)
مولانا عبید اللہ سندھی کی طرف وحدتِ ادیان کی فکر کے انتساب کی وضاحت مولانااکبرآبادی نے یہ کی ہے کہ مولانا سندھی اس معنی میں وحدتِ ادیان کے قائل ہیں کہ دین اپنی اصل تعلیمات میں اشتراک رکھتے ہیں اور قرآن نے اسی بات کی صراحت کی ہے، لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آیا موجودہ وقت میں اسلام دیگر ادیان پر برتری رکھتا ہے اور نجات کے لیے اس کے حلقے میں داخل ہونا ضروری ہے تو اس کی وضاحت میں مولانا اکبر آبادی، مولانا سندھی کی کتابوں کی عبارتوں سے استمداد کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’مولانا سندھی قرآن کو آخری آسمانی کتاب مانتے ہیں۔ان کے نزدیک قرآن ان تمام صداقتوں کا کامل مجموعہ ہے جو اسلام سے پہلے مختلف ادیان میں بکھری پڑی تھیں۔ قرآن کا قانون تمام انسانوں کے لیے ہے اور انسانیت کی بھلائی کا راز صرف اسی کے اتباع اور پیروی میں ہے۔سرور صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا کے نزدیک قرآن نے تمام اقوام ، ادیان اور مذاہب کے مرکزی نکات کو جو کل انسانیت پر منطبق ہو سکتے ہیں، یک جا کیا اور ساری دنیا کو یہ دعوت دی کہ صرف یہی ایک اساس ہے جس پر صحیح انسانیت کی تعمیر ہو سکتی ہے۔‘‘ (21)
کتاب میں شامل مقالات میں اس بات پر بھی تنقید ملتی ہے کہ مولانا عبیداللہ سندھی کی فکر میں اشتراکیت اور نیشنل ازم کا عنصر شدت سے موجود ہے اور وہ اس طرزِ فکر کے داعی تھے۔ مولانامسعود عالم ندوی کی کتاب ’’مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے افکاروخیالات پرا یک نظر‘‘ کے مختلف اجزا اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ تاہم انصاف کی بات یہ ہے کہ مولانا سندھی نے جہاں اس تحریک کی خوبیوں کو بنظر استحسان دیکھا ہے، اس کی خامیوں پر بھی مختلف مقامات پر گفتگو کی ہے۔اس سلسلے میں مولانا سندھی کی تحریروں کی طرف رجوع کیا جائے نیز ان کے دفاع میں لکھی جانے والی باتوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سوشل ازم کو دو مختلف پہلوؤں سے دیکھتے ہیں۔اس کا ایجابی پہلو یہ ہے کہ یہ تحریک بندہ مزدور کے استحصال کے خلاف آواز اٹھاتی ہے اور موجودہ دور کی سب سے بڑی لعنت سرمایہ داری کی مخالف ہے۔ اس پہلو سے مولانا سندھی کے ہاں اس کے استحسان پر گفت گو ملتی ہے، لیکن اس تحریک کے معنوی پہلو پر مولانا سندھی کی تنقید بھی بالکل واضح ہے اور اس سے صرفِ نظرکرنا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں ہے۔یہاں ان کی تفسیر الہام الرحمان کا ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے:
’’روسی انقلاب ایک اقتصادی انقلاب ہے جس کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ حیاتِ اخروی سے کوئی سروکار رکھتا ہے۔ہم نے ان کی صحبتوں میں بیٹھ کر نہایت لطیف طریق سے امام ولی اللہ دہلوی کا وہ پروگرام انھیں بتایا جو حجۃ اللہ البالغہ میں مذکور ہے۔ جب انھوں نے ہم سے پوچھا کہ اس پروگرام پر کوئی قوم عمل بھی کرتی ہے تو ہمیں اس کا جواب نفی میں دینا پڑا تو انھوں نے کہا کہ افسوس اگر کوئی ایسی قوم ہوتی تو ہم ان کا مذہب اختیار کر لیتے اور جو ہمارے پروگرام میں سخت مشکل پیش آتی ہے ، یعنی کسانوں کا مسئلہ، وہ دور ہو جاتی۔ یہ ہے ان کی تمام باتوں کا ملخص ۔ اس فکر میں ہم نے کوئی تحریف نہیں کی، ہم اس سے یقین کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے پروگرام کو قبول کرنے پر مجبور ہیں، خواہ کچھ عرصہ کے بعد ہی سہی۔ تاریخ انسانیت میں اشتراکیت سے بڑھ کر کوئی تحریک فطرت انسانی یعنی تعلیم قرآنی کے مخالف پیدا نہیں ہوئی۔ جب یہ تحریک بھی ہدایت قرآنی کے قبول کرنے کی محتاج ہے تو باقی تحریکات کا کیا پوچھنا۔‘‘ (22)
زیرِ تبصرہ کتاب کی یہ گزارشات مولاناسندھی کے افکار کے حوالے سے تھیں جو طویل ہو گئیں۔
کتاب کا دوسرا حصہ تنظیم فکر ولی اللہی کے حوالے سے ہے۔تنظیم فکر ولی اللہی ، خانقاہِ رائے پور کے چوتھے صدر نشین مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری نے ملتان میں 1987ء میں قائم کی جس میں کالج ، یونی ورسٹیوں اور مدارس کے طلبہ شامل ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے بورڈ نے 3 جمادی الثانیہ 1421ھ ، 4 ستمبر 2000ء کو اپنی مرکزی مجلس عاملہ میں تنظیم فکر ولی اللہی کے طرزِ عمل اور افکار ونظریات کے پیش نظر ، اس کو بورڈ سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ وفاق کے نزدیک ’’اس تنظیم کے نظریات ، جمہور امت کے موقف کے منافی ہیں۔‘‘ (23) کتاب میں شامل تنظیم کے خلاف فتاویٰ میں تنظیم کے افکار کو بھی پیش کیا گیا ہے، جن کے باعث فتاویٰ وجود میں آئے ہیں۔ جامعہ فاروقیہ کراچی کے فتوے میں درج ہے:
’’یہ لوگ اپنا نظریہ اور منشور عام لٹریچروں اور مجلسوں میں بیان نہیں کرتے، بلکہ مختلف پروگراموں کے ذریعے تدریجاً اپنے کارکنوں کے ذہن میں منتقل کرتے رہتے ہیں، چنانچہ کچھ عرصے بعد اس تنظیم سے منسلک ہونے والا آخر کار دہریت کے قریب یا بالکل دہریہ بن جاتا ہے۔ ‘‘ (24)
بنوری ٹاؤن کراچی کے فتوے میں تنظیم کے محل نظر افکار کا نسبتاً تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جو حسب ذیل ہیں:
1۔ بلا سمجھے قرآن پڑھنے کو بت پرستی جیسا سمجھنا
2۔ جنت ودوزخ کو نفسی کیفیات قراردینا
3۔ جنت ودوزخ کے دوام کا انکار کرنا
4۔ حوضِ کوثر کو مجردات ادراک سے حاصل شدہ عقلی لذت قرار دینا
5۔ عقید? شفاعت کو اخلاق کی بربادی کا باعث قرار دینا
6۔ عصرِ حاضر کی مساجد کو مسجدِ ضرار قرار دینا
7۔ حیاتِ عیسیٰ جیسے عقیدہ کو یہودی وصابی من گھڑت کہانی قرار دینا
8۔ ظہورِ مہدی اور نزولِ عیسیٰ کے عقیدہ کو غیراسلامی کہنا
9۔ حدیث کو مستقل وحی نہ ماننا، وغیرہ۔ (25)
دیگر فتاویٰ میں بھی اس طرح کے امور ذکر کیے گئے ہیں۔
ان فتاویٰ کے معروضی اور عادلانہ جائزے کا تقاضا یہ ہے کہ خود تنظیم فکر ولی اللہی کے لٹریچر کی طرف رجوع کیا جائے کہ وہ حضرات ان باتوں کے جواب میں کیا کہتے ہیں۔ اس بات کا جائزہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ موجودہ دور میں جس طرح افتراق وتشتت نے ہمارا اجتماعی شیرازہ بکھیرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے، وہ ہماری جدید تاریخ کا افسوس ناک باب ہے۔بعض اوقات یک رخے فتووں کی وجہ سے کسی شخصیت یا جماعت کے بارے میں ایک ایسی تصویر تیار کر دی جاتی ہے جو خود ان لوگوں کی تصریحات کے خلاف ہوتی ہے جن کے خلاف فتاویٰ دیے گئے ہوتے ہیں۔ مذکورہ بالا فتاویٰ کے منظر عام پر آنے کے بعد تنظیم کے تین علما مفتی عبدالمتین نعمانی، مفتی عبدالقدیر اور مفتی عبدالغنی قاسمی نے ان فتاویٰ کا جائزہ لیا اور ایک کتاب اپریل 2006ء میں ’’تنظیم فکر ولی اللہی کی بابت فتووں کی حقیقت‘‘ کے نام سے شائع کی۔ دیانت کا تقاضا ہے کہ ان فتاویٰ پر ان تصریحات کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ مذکورہ بالا فتاویٰ جب سامنے آئے تو تنظیم کے بانی مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری نے مولانا عبیدالرحمن اشرفی (نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ) کے نام ایک خط لکھا جس میں کہا کہ :
’’آج کل بعض شرپسند عناصر نے خودساختہ چند غلط عقائد بنا کر میری طرف منسوب کرنے کی انتہائی مکروہ کوشش کی ہے تاکہ خانقاہ رائے پور کے عظیم سلسلہ اور میرے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کیے جائیں۔میں اپنے اکابر علماء دیوبند ، اکابر رائے پور، اکابر مجلسِ احرار اور جمعیۃ علماء ہند کے مسلک ومشرب کا پابند وترجمان ہوں۔میرے خیالات اپنے بزرگوں اور سرپرستوں اور اکابرین دیوبند سے ذرہ بھر مختلف نہیں ہیں۔ میں اپنے بزرگوں کی تصدیق سے چھپنے والی کتاب المہند علی المفند مؤلفہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ میں مذکورہ عقائد کا ہی پابند ہوں، گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے سے پھیلائے جانے والے عقائد ونظریات سے میرا اور میرے متعلقین کا کوئی تعلق نہیں۔ ہم بزورتاکید اس کی تردید کرتے ہیں۔‘‘ (26)
اس کتاب میں مولانا سلیم اللہ خان کے نام تنظیم والوں کے خطوط بھی شامل ہیں جن میں ان تمام عقائد سے براء ت کا اظہار کیا گیا ہے جن کی تفصیل اوپر ذکر کی گئی ہے اور جن کی بنیاد پر تنظیم کے افراد پر گم راہ ہونے کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ کتاب کے ص 62 پر ’’الزامات کی حقیقت‘‘ کے نام سے ایک عنوان قائم کیا گیا ہے جس کے تحت ایک ایک کر کے ان تمام عقائد کی تردید کی گئی ہے کہ تنظیم کے افراد یہ موقف نہیں رکھتے، نیز مولانا عبیداللہ سندھی کی عبارات کو بھی ان الزامات کی تردید کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ تفصیل ص 146 تک پھیلی ہے اور کتاب کا اصل حصہ ہے، البتہ اس کتاب میں ایک کمی بہرحال نظر آتی ہے کہ فتووں میں مولانا سندھی کی جو محل نظر عبارات پیش کی گئی ہیں،ان کی توجیہ کے لیے کتاب عام طور پر خاموش ہے، لیکن بہرحال تنظیم کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے نہایت ضروری ہے کہ ان تفصیلات کو پیش نظر رکھا جائے، کیوں کہ کسی مسلمان کے بارے میں تفسیق یا ضلال کا فتوی بے حد نازک اور اخروی نقطہ نظر سے سنگین بات ہے۔ دنیاوی پہلو سے موجودہ افتراق کی فضا میں بھی اس بات کا التزام بہت ضروری ہے۔ برصغیر میں ایسے متعدد واقعات ہیں کہ فتاویٰ کے اجرا میں مطلوبہ احتیاط نہیں برتی گئی اور اس کا نتیجہ باہمی توڑ اور انتشار کی صور ت میں ہم بھگت رہے ہیں۔
کسی انسان کی وہی رائے معتبر ہوتی ہے جس کی تصریح وہ خود اپنے بارے میں پیش کرے، اس لیے ضروری ہے کہ فتاویٰ کے جواب میں اس بنیادی کتاب کو کسی صورت بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔ زیر تبصرہ کتاب میں ان فتاویٰ کو تو پیش کر دیا گیا ہے، لیکن ضروری تھا کہ احقاقِ حق کے لیے خود تنظیم کے افراد کے جواب پر بھی مختصراً کچھ عرض کر دیا جاتا، تاکہ معروضی مطالعے کا ذہن رکھنے والے ایک قاری کے لیے کسی نتیجے پر پہنچنا آسان ہوتا۔ محض یک طرفہ بات کو ذکر کرنا پہلے سے طے شے ذہن کا نتیجہ ہوتا ہے جو علمی اور تحقیقی نقطہ نظر سے افسوس ناک ہے اور علمی دنیا کے مسلمہ ضابطوں کے منافی۔ مولانا عبدالحق خان بشیر کی کتاب کا ذکر بھی اس تبصرے میںآیا ہے جو 2004ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں بھی تنظیم کے افکار پر نقد ہے، تاہم اس کتاب کو بھی 2006ء میں شائع ہونے والے اس جواب کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ زیر تبصرہ کتاب کے یک رخے مطالعے کا ایک داخلی قرینہ یہ بھی ہے کہ اس میں تنظیم فکر ولی اللہی کے بارے میں علماء کی آرا نقل کرتے ہوئے مولانا عبدالحق خان بشیر کی رائے نقل کی گئی ہے، لیکن انھوں نے اپنی کتاب میں مولانا سندھی کا جو دفاع کیا ہے، اس کا اشارہ بھی کتاب میں مؤلف نے نہیں کیا۔ اپنے مطلب کی بات اخذ کرنے کی یہ افسوس ناک روش ہے۔
مولانا سندھی کے افکار کے محل نزاع ہونے میں ایک بڑا مسئلہ ان کے طریق ابلاغ کی ژولیدگی بھی ہے۔انھوں نے مولانا منظور نعمانی کے مجلے الفرقان شاہ ولی اللہ نمبر کے لیے ایک مضمون ’’امام ولی اللہ دہلوی کی حکمت کا اجمالی تعارف‘‘ املا کروا کر بھیجا تو اس کے آغاز میں مولانا نعمانی نے جو نوٹ لکھا، اس کا ایک حصہ یہ ہے :
’’حضرات اہل علم ، خصوصاً اصحابِ درس سے گزارش ہے کہ وہ اس مقالہ کو سرسری نظر سے نہیں ، بلکہ غور وتعمیق کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں، نیز ہر بحث کو شروع سے آخر تک بالاستیعاب ملاحظہ فرمائیں اور جہاں جہاں ضروری سمجھیں، ایک دفعہ سے زیادہ غور فرمائیں۔ میں نے خود بھی بعض مقامات کا چند چند بار اور بہت غور سے مطالعہ کیا تو مراد کو سمجھ سکا۔‘‘ (27)
خود امام شاہ ولی دہلوی، جن کے شارح مولانا سندھی ہیں، کی عبارات کے بارے میں مولانا سید سلیمان ندوی کا تبصرہ ہے کہ : ’’ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی تعبیرات ایسی نازک ہیں کہ کفرواسلام کے درمیان پل صراط کا فرق رہ جاتا ہے۔‘‘(28)
اس تبصرے میں ممکنہ حد تک کوشش کی گئی ہے کہ یک رخا نہ ہو اور مسلمانوں کی ایک جماعت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ حسن ظن کا باعث ہو۔ اس میں مولانا سندھی کے تفردات (جن کا انکار خود ان کے عقیدت مند بھی نہیں کرتے) کا بے جا دفاع کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی اور ان کے افکار کی کلی مخالفت کے طرز کو بھی محل نظر سمجھا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ مولانا سندھی کے بارے میں تصویر کے دونوں رخ سامنے آ جائیں تاکہ ایک قاری جب اس مطالعے کو اپنا موضوع بنائے تو اس کے پیش نظر دونوں پہلو ہوں۔ مولانا سندھی کے بارے میں تنظیم فکرولی اللہی کے افراد کے لیے بھی مناسب طرز یہی ہے کہ مولانا سندھی کے جو افکار شاذ ہیں اور امت کے اجماعی تعامل کے منافی ہیں، ان کے بے جا دفاع کرنے سے گریز کریں۔ امت کو افتراق وتشتت سے بچانے کا یہی اسلم طریق ہے۔مولانا سندھی کی سیاسی بصیرت، معاصر حالات اور تاریخ کی بدلتی کروٹوں کاگہری عمرانی ادراک ، ’بزمِ جہاں کے اور ہی انداز ‘ پر نظروغیرہ وہ امور ہیں، جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور ایسے مفکر کی نظر اگرفہم دین کی Approach Textual سے آگے بڑھ کر Textual Semi یا Contextual کی حدود میں داخل ہو جائے تو معاصر تناظر میں اس کی اہمیت پر عمرانی اور عالمی حالات کے پہلو سے غور کرنا چاہیے۔
حوالہ جات
1۔ مولانا صوفی عبدالحمید سواتی، مولانا عبیداللہ سندھی کے علوم وافکار (گوجرانوالہ: ادارہ نشر واشاعت، 2007ء)، 13۔
2 ۔ حافظ عبدالحق خان بشیر نقشبندی، مولانا عبیدا للہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللہی، مقدمہ، مولانا زاہد الراشدی (گجرات: حق چار یار اکیڈمی، 2004ء)، 22۔
3۔ مولانا سندھی کی فکر میں بعد از ہجرت کا یہ زمانہ نمایاں امتیازات اور تغیرات کا زمانہ ہے، ورنہ ان کی فکر کے بعض اجزا پر دیوبند میں کافی پہلے اختلاف سامنے آگیا تھا۔ چنانچہ زیر تبصرہ کتاب میں مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن کے اقتباسات دیے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بعض افکار سے اختلاف دیوبند میں 1914ء ، 1915ء کے زمانے میں نمایاں ہو چکا تھا۔ (دیکھیے: مفتی محمد رضوان، مولانا عبیدا للہ سندھی کے افکار اور تنظیم فکر ولی اللہی کا تحقیقی جائزہ(راولپنڈی: ادارہ غفران،2014ء)، 109 ومابعد۔)
4۔ مولانا عبیداللہ انور، ’’پروفیسر محمد سرورمرحوم‘‘ مشمولہ پروفیسر محمد سرور، ’’مولانا عبید اللہ سندھی: حالات ، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ (لاہور: عبیداللہ سندھی فاؤنڈیشن، 2014ء)، 273۔ 278۔
5۔ نبی بخش لودھی کے مضمون ’’فکر مولانا عبیداللہ سندھی ایک معروضی جائزہ‘‘ کے آغاز میں شامل تعارفی کلمات ، ماہنامہ ساحل کراچی، مارچ 2007ء، ص 86۔
6۔ سید ابوالاعلی مودودی،’’تبصرہ بر کتاب مولانا عبید اللہ سندھی از پروفیسر محمد سرور‘‘،ترجمان القرآن،جولائی، اگست، ستمبر 1944ء، 25: 1، 2، 3، 4 ، 119۔ 120۔
7۔ یہاں اشارہ مولاناسعید احمد اکبر آبادی کی طرف ہے جنھوں نے مولاناسندھی کے دفاع میں ندوۃ المصنفین سے اپنے جاری کردہ مجلے برہان میں مقالات تحریر کیے جو بعد میں ’’مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے ناقد‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔
8۔ سید سلیمان ندوی، مکاتیب سید سلیمان ندوی، مرتب ،مسعود عالم ندوی(لاہور: مکتبہ چراغ راہ، 1954ء )، 187۔یہ خط 10 مئی 1945ء کا ہے۔یہ وہ دور ہے جس سے کافی پہلے مولانا ندوی،مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ ارادت میں آ چکے تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے یہاں تنقید میں کسی موضوعیت کو رکاوٹ نہیں بننے دیا ہے۔
9۔ دیکھیے: محمد موسیٰ بھٹو، بیسیویں صدی کے اسلامیت کے ممتاز شارح(حیدر آباد سندھ:سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ، 2005ء)، 179، 180 بہ حوالہ ہفت روزہ صدق، 23جون 1945ء۔
10۔ دیکھیے: مفتی محمد رضوان، مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار اور تنظیم فکر ولی اللہی کے نظریات کا تحقیقی جائزہ(راولپنڈی : ادارہ غفران، 2016ء)، 489 ومابعد۔
11۔ مفتی محمد رضوان، نفس مصدر(طبع دوم)، 31۔
12۔ نفس مصدر، 35، 36۔
13۔ القرآن 2:233۔
14۔ مفتی محمد رضوان، مصدرِ سابق، 56۔
15۔ نفس مصدر، 225۔
16۔ نفس مصدر، 238۔
17۔ نفس مصدر، 352، 353۔
18۔ چنانچہ مولانا صوفی عبدالحمید سواتی ، مولانا عبیداللہ سندھی کے علوم وافکار میں یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ’’انصاف کی بات یہ ہے کہ حضرت مولانا سندھی کے بعض افکار شاذ بھی ہیں، بعض مرجوح قسم کے خیالات بھی ہیں اور بعض باتیں ایسی ہیں کہ مولانا ان پر بے جا سختی بھی کرتے تھے، بعض باتیں مصلحت کی خاطر بھی ناگزیر خیال کرتے تھے اور بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جن کی نسبت ان کی طرف کرنے میں ان کے تلامذہ نے غلطی کی ہے۔ان کی ذمہ داری حضرت مولانا پر نہیں، بلکہ ان کے ناقلین پر ہے جنھوں نے ان باتوں کو نقل کیا ہے اور شاید سابق لاحق سے قطع نظر کر کے حضرت مولانا سندھی کا مطلب بھی نہیں پا سکے۔‘‘ (سواتی، مرجع سابق، 13۔)
19 ۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے ناقد(لاہور: المحمود اکیڈمی)، 26۔
20 ۔ اکبر آبادی، نفس مصدر، 27، 28۔
21 ۔ نفس مصدر، 50۔
22 ۔ عبدالحق خان بشیر نقشبندی، مولانا عبیداللہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللہی(گجرات: حق چار یار اکیڈمی، 2004ء)، 161، 162 بہ حوالہ مولانا عبید اللہ سندھی، الہام الرحمن ، 1: 14، 15۔
23 ۔ مفتی محمد رضوان، مصدرِ سابق، 374۔
24 ۔ نفس مصدر، 376۔
25 ۔ دیکھیے: نفس مصدر، 379، 380۔
26 ۔ عبدالمتین نعمانی، عبدالقدیر، عبدالغنی قاسمی، تنظیم فکر ولی اللہی کی بابت فتووں کی حقیقت(شعبہ نشرواشاعت تنظیم فکرولی اللہی پاکستان، 2006ء)، 44، 45۔
27 ۔ الفرقان شاہ ولی اللہ نمبر، جلد 7، شمارہ 9، 10، 11، 12، بابت ماہ رمضان، شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ 1359ھ، 234۔
28 ۔ مسعود عالم ندوی(مرتب)، مکاتیب سید سلیمان ندوی (لاہور:مکتبہ چراغ راہ، 1954ء)، 179۔
قاری ملک عبد الواحد کی رحلت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شیرانوالہ لاہور کی مجالس میں شریک ہونے والے حضرات کو قاری ملک عبد الواحد ضرور یاد ہوں گے جو ایک دور میں ان محفلوں کا لازمی حصہ اور رونق ہوا کرتے تھے، ان کا گزشتہ روز انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں ابھی قبرستان کلاں میں ان کا جنازہ پڑھا کر آیا ہوں اور آتے ہی قلم و قرطاس نے ماضی کی بہت سی یادوں کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔ وہ گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے، میرے حفظ قرآن کریم کے دور کے ساتھیوں میں سے تھے، میں نے چند پارے مدرسہ نصرۃ العلوم میں 1958ء اور 1959ء کے دوران استاذ محترم قاری محمد یاسینؒ صاحب سے پڑھے تھے، اس وقت ملک صاحب مرحوم بھی ان کے پاس پڑھتے تھے، تب سے ان کے ساتھ تعلق قائم ہوا جو کہ ان کی وفات تک کم و بیش پچپن برس تک مسلسل جاری رہا۔
حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ ، حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ ، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے ساتھ ان کی گہری عقیدت اور وابستگی تھی۔ اور وہ سفر و حضر میں ان کی رفاقت سے اکثر فیض یاب ہوتے رہتے تھے۔ شیرانوالہ لاہور کی روحانی، مسلکی اور سیاسی ہر قسم کی مجالس کے حاضر باش رکن تھے۔ قرآن کریم کی تلاوت کا خاص ذوق رکھتے تھے اور عالم اسلام کے معروف قاری الشیخ عبد الباسط عبد الصمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے لہجے میں قرآن کریم پڑھتے تو عجیب سماں باندھ دیتے تھے۔ اپنے بزرگوں کی گفتگو کی نقل اتارنے میں خوب مہارت رکھتے تھے۔ حضرت درخواستیؒ ، حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ ، اور مولانا عبد الرحمن جامیؒ کی تقریروں کے حافظ تھے اور دوستوں کی فرمائش پر انہی کے لہجے میں سنایا کرتے تھے۔ وہ اگر سامنے موجود نہ ہوتے تو اچھے خاصے سمجھدار حضرات بھی مغالطہ میں پڑ جاتے تھے، ہم انہیں اس حوالہ سے ’’ٹیپ ریکارڈر‘‘ کہا کرتے تھے اور خاص محافل میں فرمائش کر کے ان سے ایسی تقاریر سنا کرتے تھے۔
درس نظامی کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی مگر جامعہ نصرۃ العلوم کے دورۂ تفسیر اور دورۂ حدیث دونوں میں شریک ہوئے اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے انہیں سند فراغت سے بھی نوازا تھا۔ بڑے حاضر جواب اور نکتہ رس تھے، مباحثوں میں بڑے بڑوں کو لاجواب کر دیتے تھے۔ شیرانوالہ لاہور اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے ساتھ انتہائی عقیدت تھی جو کہ ان کے مرشد و شیخ بھی تھے۔ 1977ء کی تحریک نظام مصطفٰیؐ کے دوران حضرت الشیخ مولانا عبید اللہ انورؒ کو گرفتار کیا گیا تو ملک صاحب مرحوم نے از خود اپنے شیخ کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ گرفتاری دے دی اور کچھ عرصہ ان کے ساتھ جیل میں رہے جس کی یادوں کا وہ تذکرہ کرتے رہتے تھے۔
جمعہ کی نماز اکثر جامع مسجد شیرانوالہ گوجرانوالہ میں پڑھتے اور نماز کے بعد مختصر مجلس بھی ہوتی تھی۔ آخری چند سالوں میں خاصا عرصہ بیمار رہے مگر جب بھی ہمت ہوتی جمعہ کے لیے آجاتے۔ چھوٹی سول لائن گوجرانوالہ میں ان کی رہائش تھی۔ چند روز پہلے مجھے معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہے تو بیمار پرسی کے لیے ان کے گھر گیا، وہ موجود نہیں تھے اور اپنے معالج ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے ہوئے تھے۔ اگلے روز میڈیکل چیک اپ کے لیے لاہور جاتے ہوئے کنگنی والا میں میری رہائش پر آگئے اور دروازے پر گاڑی رکوا کر مجھے کہا کہ آپ گھر آئے تھے لیکن میں موجود نہیں تھا اس لیے آج لاہور جاتے ہوئے صرف ملاقات کے لیے رکا ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ انہیں کچھ دیر گھر میں روکوں مگر وہ علالت کی شدت کے باعث اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ گاڑی سے اتار کر انہیں اندر لایا جا سکتا اس لیے وہیں دعا کر کے انہیں لاہور کے لیے رخصت کیا مگر وہ تو ہمیشہ کے لیے رخصت ہونے آئے تھے کہ اس کے بعد ان سے ملاقات نہ ہو سکی اور وہ 16 اگست کو ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آج ان کے جنازے میں شہر کے علماء کرام کی بڑی تعداد کو دیکھ کر ان کے حلقۂ احباب کی وسعت و برکت کا اندازہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند فرمائیں اور ان کے بیٹوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دیں، آمین۔
مولانا گلزار احمد آزاد کے سفر جاپان کے مشاہدات
ڈاکٹر حافظ محمد رشید
۱۴ اگست کو الشریعہ اکادمی میں گوجرانوالہ کی معروف دینی شخصیت مولانا حافظ گلزار احمد آزاد کے ساتھ ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ حافظ صاحب حال ہی میں جاپان کا دورہ کر کے واپس تشریف لائے ہیں۔ ان کا یہ سفر جاپان کے درد دل رکھنے والے حضرات کی درخواست پر ہوا جو وہاں قادیانی حضرات کی سرگرمیوں کی وجہ سے فکر مند تھے ۔ حافظ صاحب نے اس نشست میں جاپانی قوم کی چند نمایاں خصوصیات اور وہاں قادیانیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا ۔ ان کے خیالات کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
آج پاکستان میں سارے لوگ جشن آزادی منا رہے ہیں۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ۔ پاکستان کی آزادی کے لیے بہت بڑی بڑی قربانیاں دی گئی ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تقریباً ستر سال گزرنے کے باوجود لوگ ایک قوم نہیں بن سکے۔ پاکستان کے ساتھ کچھ اور ممالک بھی آزاد ہوئے تھے، لیکن آج ان کی تاریخ اور حالات ہم سے بہت مختلف ہیں۔ جاپان کے لوگ ایک قوم بن چکے ہیں ۔ قوم تقریروں سے، نعروں سے اور اشعار سے نہیں بنتی۔ ان سے مدد تو مل سکتی ہے، لیکن قوم نہیں بن سکتی ۔ قوم بااختیار لوگوں کے نمونے سے بنتی ہے۔ لوگ ان کو آئیڈیل سمجھتے ہیں ۔ وہ جب اپنی مثال پیش کرتے ہیں تو پھر لوگ اس کی پیروی کر کے قوم کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ بااختیار لوگوں کو قانون کی بالادستی کا نمونہ پیش کرنا چاہیے ۔ اگر بااختیار لوگ یہ سمجھیں گے کہ میرے پیسے پاکستان میں محفوظ نہیں ہیں، سوئزرلینڈ میں محفوظ ہیں، میری تجارت یہاں اتنی کامیاب نہیں ہے، اگر میری تجارت بیرون ممالک میں جائے گی تو کامیاب ہو گی تو قوم کیسے بنے گی اور ملک کیسے ترقی کرے گا۔ میں نے وہاں لوگوں سے پوچھا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تمہارا وزیراعظم اپنے ملک سے باہر کاروبار کرے اور پیسہ ملک سے باہر لے جائے تو کیا وہ اس سب کے باوجود وزیراعظم رہ سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایک لمحہ بھی حکمرانی کر سکے ۔ قومیں ایسے بنتی ہیں۔ اسی طرح اگر قانون عام آدمی پر تو نافذ ہو لیکن حکمران پر نافذ نہ ہو تو پھر کیسے قوم بنے گی ۔
وہاں میں نے سنا کہ لوگ بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے گاڑی استعمال نہیں کرتے ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انہوں نے سکول قریب قریب بنائے ہیں اور بچے پیدل وہاں آسانی سے جا سکتے ہیں ۔ دوسری وجہ یہ پتہ چلی کہ وہ چاہتے ہیں کہ بچے بچپن ہی سے محنت کے عادی بنیں اور جفا کشی اختیار کریں ۔ وہاں ابتدائی اسکول کے بچوں کے پاس کوئی بیگ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی کتاب ہوتی ہے ۔ اسی طرح استاد کے پاس بھی کوئی کتاب نہیں ہوتی ۔ میں نے پوچھا کہ پھر یہ پڑھتے کیا ہیں ؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ اس عمر میں بچوں کو اسکول میں صرف اخلاقیات سکھائی جاتی ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا، دھوکا نہیں دینا ، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی ، صاف ستھرا رہنا ہے اور ملک کو صاف رکھنا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ایک صحافی کا واقعہ پڑھا تھا جس کا مشاہدہ میں نے وہاں جا کر کیا ۔ وہ صحافی کہتا ہے کہ جب جاپان میں سونامی آیا تو میں نے ایک جگہ دیکھا کہ ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے اور لوگ کھانے پینے کی چیزیں وصول کر رہے ہیں ۔ میں اپنے حصے کی چیزیں لے چکا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی لائن میں لگا ہوا ہے۔ میں نے اس سے احوال دریافت کیے تو اس نے بتایا کہ جب سونامی آیا تو میں اپنے سکول کی چھت پر اپنے والد کا انتظار کر رہا تھا۔ میں اپنے باپ کو گاڑی میں آتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے سونامی کی لہر آئی اور اس کو گاڑی سمیت بہا کر لے گئی۔ میری ماں اور دیگر خاندان بھی انھی لہروں کی زد میں آ گیا۔ میں اکیلا ہی بچا ہوں ۔ وہ صحافی لکھتا ہے کہ مجھے اس پر ترس آیا تو میں نے اپنا سامان اسے دے کر کہا کہ یہ تم لے لو اور استعمال کر لو۔ اس بچے نے وہ سامان لیا اور لائن سے نکل کر میرے دیکھتے ہی دیکھتے جہاں سامان تقسیم ہو رہا تھا، وہاں جمع کروا آیا اور دوبارہ لائن میں کھڑا ہو گیا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بیٹا، یہ تو میں نے تم کو استعمال کرنے کے لیے دیا تھا ! اس نے جواب دیا کہ جب میری باری آئے گی تو مجھے مل جائے گا۔ یہ ان کی اس ابتدائی تربیت کا ہی اثر ہے کہ یہ قومی احساس چھوٹے بچوں میں بھی اس حد تک پختہ ہے۔
وہاں میں نے ایک خصوصیت یہ دیکھی کہ وہ معاملات میں بہت صاف ہیں۔ ان کے ہاں گاڑیوں کا بہت بڑا کاروبار ہے۔ ہمارے لوگ تو کوشش کرتے ہیں کہ گاڑی کے ظاہری عیب تو بتا دیں، لیکن کوئی اندرونی عیب چھپ جائے تاکہ قیمت تو کچھ زیادہ لگے، لیکن جاپانی لوگ اس بات کی سختی سے پابندی کرتے ہیں کہ کوئی چیز بیچتے ہوئے اس کا ہر قسم کا عیب گاہک کو بتا دیں۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے جس پر افسوس کے ساتھ آج ہمارے بازاروں میں عمل نہیں ہو رہا۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں دوسروں کے حقوق کا بہت خیال رکھا جاتا ہے ۔ میں جن کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا، انہوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ ذرا آہستہ آواز میں بات کریں۔ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ یہاں لکڑی کے مکان بنے ہوئے ہیں، ساتھ والے مکان میں آواز جاتی ہے جس سے وہ لوگ تنگ ہوتے ہیں، اس لیے آہستہ بات کریں۔ میرے میزبانوں نے کہا کہ ہم رات کو واشنگ مشین نہیں لگاتے، یہ کبھی کبھی یہ آواز دینے لگ جاتی ہے کہ کہیں ہمسائے کو تکلیف نہ ہو۔ اس قدر احساس ہے ان لوگوں کو اپنے ہمسایوں اور دیگر لوگوں کا۔ ہمارے پاکستانی وہاں تو بہت محتاط رہتے ہیں، لیکن یہاں آ کر ائیرپورٹ پر اتر کر پھر پاکستانی بن جاتے ہیں ۔
وہاں ایک علاقے میں قادیانیوں کا مرکز ہے۔ یہاں قادیانی لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور عام مسلمان بھی ان کو بالکل اسی طرح کا ایک فرقہ سمجھتے ہیں جیسے کہ پاکستان میں فرقے ہیں، یعنی لوگ ان کے بارے میں کافی لچک رکھتے ہیں۔ میں اس علاقے کے دوستوں کی دعوت پر وہاں گیا اور نوجوانوں اور تبلیغی احباب سے رابطہ کیا اور مجھے ان لوگوں کو یہ سمجھانے میں بڑی محنت کرنی پڑی کہ قادیانی لوگ اصل میں کیا ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ۔ وہاں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ لوگ یہاں بالکل اپنی تبلیغ نہیں کرتے ۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قادیانی ہوں اور اپنی تبلیغ نہ کریں۔ وہاں قادیانیوں نے ہر پبلک جگہ پر اپنا لٹریچر رکھا ہوا ہے، خصوصاً لائبریریوں میں اور کیفے وغیرہ میں۔ میں نے کچھ نوجوانوں کی ڈیوٹی لگائی جنہوں نے ان کا لٹریچر برآمد کروایا اور لوگوں کو یہ بات سمجھائی کہ یہ لوگ یہاں مسلمانوں کے بھیس میں اپنے عقائد کی تبلیغ کر رہے ہیں ۔ میں نے وہاں ختم نبوت کورس رکھا جس میں شرکاء بڑی دور دور سے سفر کر کے شریک ہوئے اور الحمد للہ اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے۔ امید ہے کہ اللہ وہاں کام کو جاری فرمائیں گے اور عام مسلمان قادیانیوں کے گمراہ کن عقائد سے محفوظ رہیں گے۔ کام کا آغاز ہو گیا ہے، اور ان شاء اللہ اب جاری رہے گا۔
مولانا عمار خان ناصر کے سفر امریکا کے تاثرات
ادارہ
۱۴ اگست کو ہی بعد از نماز عصر اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر مولانا عمار خان ناصر نے اپنے حالیہ سفر امریکہ کے تاثرات بیان کیے۔ مولانا عمار خان ناصر نے ڈریو یونیورسٹی (نیو جرسی، امریکہ) میں قائم سنٹر فار ریلیجن، کلچر اور کانفلکٹ ریزولوشن (CRCC) کی دعوت پر ۱۰ تا ۲۸ جولائی، تین ہفتے کے ایک سمر انسٹی ٹیوٹ میں شرکت کی جس کا عنوان ’’مذہب اور حل تنازعات‘ ‘ تھا۔ مولانا عمار خان ناصر کے تاثرات کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
آج کی دنیا میں مذہب کے مطالعہ کا ایک بڑا نمایاں زاویہ یہ ہے کہ جس معاشرے میں بھی ایک سے زیادہ مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں اور ان کے درمیان تنازعات پائے جاتے ہیں، ان کے حل میں مذہبی قائدین کا کردار کیا ہو سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں، اور عموماً تاریخ میں بھی، جہاں مذہب پر مبنی تنازعات نظر آتے ہیں، وہاں مذہب part of the problem نظر آتا ہے، یعنی مذہب ان جھگڑوں کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا کردار ادا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو اسے کیسے part of the solution بنایا جائے۔ ہر مذہب ایثار ، قربانی، انصاف پسندی اور انسانی ہمدردی کی تعلیم دیتا ہے ، ان تعلیمات سے تنازعات کے حل میں کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ڈریو یونیورسٹی میں قائم اس مرکز کی سرگرمیوں کا خاص میدان بھی یہی ہے کہ معاشرے میں موجود تنازعات کے حل میں مذہب اور مذہبی قائدین کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے سنٹر کے منتظمین ورکشاپس اور کانفرنسز منعقد کرتے رہتے ہیں۔ جس ورکشاپ میں مجھے شرکت کی دعوت دی گئی، اس میں دنیا کے چھ ممالک (پاکستان، نائیجیریا، مصر، انڈونیشیا، فلسطین اور اسرائیل )سے تینوں ابراہیمی مذاہب سے تعلق رکھنے والے پینتیس کے قریب افراد شریک تھے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن میں کسی نہ کسی حوالے سے مذہبی تنازعات یا مذہبی کشیدگی کا مسئلہ موجود ہے۔ شاید اسی حوالے سے ان کا انتخاب کیا گیا۔ نائیجیریا میں مسلم مسیحی تصادم کی صورت حال پچھلے کئی سالوں سے درپیش ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی تشدد اور مذہب پر مبنی تنازعات موجود ہیں ۔ انڈونیشیا میں مسلمان معمولی اکثریت میں ہیں، جبکہ بہت بڑی تعداد دیگر مذاہب سے وابستہ ہے، اس لیے وہاں بھی تنازعات موجود ہیں۔ مصر میں بھی صورتحال ایسی ہی ہے اور فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں تو سب جانتے ہی ہیں۔
سمر انسٹی ٹیوٹ میں پاکستان سے سات لوگ مدعو تھے۔ ادارہ برائے امن وتعلیم، اسلام آباد سے وابستہ تین حضرات، ڈاکٹر محمد حسین، محمد رشید اور غلام مرتضیٰ شریک ہوئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے مسیحی مذہبی راہ نما فادر ارنسٹ ندیم بھی ہمارے ساتھ تھے، جبکہ لمز یونیورسٹی کی دو طالبات مناہل مہدی اور فاطمہ خالد بھی اس ورک شاپ میں شریک تھیں۔ اسی طرح باقی ممالک سے بھی اوسطاً چھ چھ، سات سات افراد کو دعوت دی گئی تھی۔
سمر انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں کی ترتیب یہ تھی کہ پہلے سے طے شدہ موضوعات پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو مدعو کیا جاتا تھا جو متعلقہ عنوان پر لیکچر دیتے تھے۔ اس پر سوال وجواب کا سلسلہ ہوتا تھا اور پھر شرکاء کو مختلف گروپس میں تقسیم کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ آپس میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کریں۔
جن موضوعات پر گفتگو ہوئی، ان میں تینوں مذاہب کا تعارف، ان کے بنیادی عقائد، مختصر تاریخ، ہر مذہب کے مقدس صحائف اور مذہبی مآخذ کا تعارف، ان کی درجہ بندی اور ان کے مطالعہ کے بنیادی اصول وغیرہ شامل تھے۔ ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ داخلی تقسیم ہوتی ہے ۔ کچھ بنیادی چیزوں پر متفق ہوتے ہوئے بھی بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان تقسیمات کا مختصر تعارف بھی عنوانات میں شامل تھا۔ جیسے مسلمانوں میں شیعہ سنی کی تقسیم ہے، سلفی اور صوفی کی تقسیم ہے۔ اسی طرح کی تقسیم ہر مذہب میں موجود ہے۔ اس پہلو پر بھی بات ہوئی کہ ان تینوں مذاہب کو جدید دور میں کن سوالات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ مثلاً خواتین کی سرگرمیوں کا کیا دائرہ ہے، ان کے معاشرتی ومذہبی حقوق کیا ہیں، معاشرے میں ان کا کردار کیا ہے، مذہبی قیادت میں ان کا کس قدر حصہ ہے ، وغیرہ۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو تینوں مذاہب کو درپیش ہے۔ ہر مذہب سے وابستہ خواتین میں یہ سوچ پیدا ہوئی ہے کہ خواتین کو بھی مذہبی روایت کی تشکیل میں، مذہبی قیادت اور مذہب کی تعبیر و تشریح میں کردارادا کرنے کا موقع ملنا چاہیے جبکہ تینوں مذاہب میں روایتی موقف عموماً یہ ہے کہ مذہبی دعوت وتبلیغ کے حوالے سے متحرک معاشرتی کردار، مذہبی تحقیق اور مذہب کی تعبیر وتشریح، یہ مردوں کا شعبہ ہے۔ خواتین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھروں میں رہیں اور بچوں کی پرورش کریں۔ اسی طرح ہر مذہب اخلاقیات اور کچھ عملی پابندیوں کی بات کرتا ہے۔ جدید دور میں ان مذہبی پابندیوں کے بارے میں بھی سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ یہ پابندیاں کس نوعیت کی ہیں، ان کی پابندی ضروری ہے یا نہیں اور ان میں کس حد تک لچک پیدا کی جا سکتی ہے۔ جدیدیت کے تناظر میں تینوں مذاہب کو یہ اہم سوال بھی درپیش ہے۔
سمر انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں میں دوسری اہم چیز Scriptural Reasoning اور Textual Reasoning پر مبنی مطالعاتی نشستیں تھیں جن کا بنیادی مقصد اس بات کی تفہیم پیدا کرنا تھا کہ مختلف مذہبی اور ثقافتی پس منظر کیسے مذہبی متون کے مطالعہ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور مثلاً تورات، انجیل، قرآن یا احادیث کو پڑھتے ہوئے کیسے مختلف لوگ اپنے اپنے ذہنی تناظر میں ان متون کو سمجھتے ہیں۔ یہ اختلاف اور تنوع ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے مابین بھی ہو سکتا ہے اور اسی طرح مختلف مذاہب کے لوگ جب کسی دوسرے مذہب کی کتاب پڑھتے ہیں تو ان کے فہم میں اور خود اس مذہب کے پیروکاروں کے فہم اور تعبیر وتشریح میں بھی فرق واقع ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے Scriptural Reasoning اور Textual Reasoning پر مبنی مطالعاتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا جن میں بائبل اور قرآن کے کے منتخب متون کو زیر مطالعہ لایا گیا۔ ایک گروپ میں شامل سب افراد اپنے اپنے ذہنی تناظر میں متعلقہ متن پر غور کر کے اپنے نتائج یا سوالات واشکالات کو باقی شرکاء کے سامنے رکھتے اور زیر بحث نکات پر باہم تبادلہ خیال کرتے تھے۔ اس ایکسرسائز کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مذہبی زاویہ نظر کے اختلاف کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے، خواہ وہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے مابین ہو یا مختلف مذاہب کے مابین۔ یہ واضح ہوتا ہے کہ پڑھنے والے کا مذہبی پس منظر اور ذہنی تناظر کیسے مطالعہ متن پر اثر انداز ہوتا ہے اور بسا اوقات اس فرق سے کیسے، دوسرے مذاہب کے متعلق غلط فہمیاں اور غیر حقیقی تاثرات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔
مثلاً قرآن کریم سے جو آیات منتخب کی گئیں، وہ بہت اہم تھیں ۔ ان میں سے بعض کا تعلق جہاد کے ساتھ اور بعض کا خواتین کے حقوق وفرائض کے ساتھ تھا۔ جب ایک یہودی یا مسیحی یہ متن پڑھے گا تو اپنے پس منظر کے اعتبار سے اس کا مفہوم اور معنویت طے کرے گا۔ اس طرح جب ہم مسلمان بائبل کو پڑھیں گے تو کسی بھی مسئلے پر اپنے پس منظر کے اعتبار سے رائے قائم کریں گے۔ لیکن اگر یہی متن ہم مل کر پڑھیں اور تبادلہ خیال کریں تو اس کا موقع ہوگا کہ میں اپنی مذہبی کتاب کا مدعا بہتر طریقے سے دوسروں کو سمجھا سکوں۔ چنانچہ ان نشستوں میں بھی ایسے مواقع پیدا ہوئے کہ مسلمانوں نے بائبل کا متن پڑھا اور ان کے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوئے اور انہوں نے اس کے بارے میں اپنا فہم پیش کیا، لیکن یہودی یا مسیحی رفقاء نے کہا کہ ہماری مذہبی روایت میں اسے اس طرح نہیں بلکہ اس طرح سمجھا جاتا ہے۔
تیسری چیز جو اس ورکشاپ کا موضوع تھی، وہ تھی حل تنازعات کی حکمت عملی، یعنی سوسائٹی میں تنازعات پیدا کیسے ہوتے ہیں، بڑھتے کیسے ہیں، ان میں پیچیدگیاں کیسے در آتی ہیں، وہ خون ریزی تک کیسے جا پہنچتے ہیں۔ تنازع کی مختلف شکلیں کیا ہوتی ہیں ، مختلف سطحیں کیا ہوتی ہیں ، کون سے تنازعات ایسے ہوتے ہیں جن کو ختم کیا جا سکتا ہے، اور کن کی شدت کم کی جا سکتی ہے ۔ بعض ابتدائی سطح کے ہوتے ہیں جن کو روکا جا سکتا ہے ، بعض اپنی انتہا تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ ان کو حل کرنے کے لیے یا ان کی شدت کو کم کرنے کے لیے با اثر لوگ کیا کر سکتے ہیں، کون سے Tools استعمال کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر مذہبی قائدین حل تنازعات میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ گفتگو زیادہ تر نظری نوعیت کی رہی۔ میں نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ اگر نظری مباحث کے بجائے کچھ عملی تجربات اور مثالیں سامنے لائی جاتیں تو بہتر ہوتا۔ کچھ عملی مثالیں پیش بھی کی گئیں، لیکن اکثر مباحث نظری نوعیت کی ہی رہے ۔
سمر انسٹی ٹیوٹ کے شرکاء کو تینوں مذاہب کی عبادت گاہوں کا دورہ کروانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا تاکہ وہ ہر مذہب کے مخصوص طریقہ عبادت کا مشاہدہ کر سکیں۔ اس غرض کے لیے جمعے کا ایک دن مختص کیا گیا تھا۔ چنانچہ پہلے شرکاء کو یہودیوں کی ایک عبادت گاہ (سینی گاگ) میں لے جایا گیا۔ اس کے بعد ایک چرچ کا وزٹ کروایا گیا۔ تاہم ان دونوں جگہوں پر ہم عملاً عبادت ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکے، کیونکہ جمعہ کا دن تھا۔ پھر آخر میں سب شرکاء کو نیو یارک کے ایک اسلامک سنٹر میں لے جایا گیا جہاں جمعہ کا اجتماع تھا۔ ہم نے جمعہ ادا کیا اور غیر مسلم شرکاء ایک گیلری میں بیٹھ کر مشاہدہ کرتے رہے۔ یہ جمعہ کا ایک بڑا اجتماع تھا اور مسجد بھی بہت بڑی اور خوب صورت تھی۔ ہمارے ساتھ جو یہودی رفقاء آئے تھے، انہوں نے بتایا کہ انھیں اس منظر اور اس کی خوبصورتی اور عبادت کے خاص ماحول نے بہت متاثر کیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ پہلی دفعہ مسجد میں گئے تھے اور پہلی مرتبہ مسلمانوں کو عبادت کرتے ہوئے دیکھا تھا۔
سمر انسٹی ٹیوٹ کی رسمی نشستوں کے علاوہ شرکاء کو کھانے کی میز پر ، چائے پیتے ہوئے اور اسی طرح فارغ اوقات میں غیر رسمی سطح پر بھی آپس میں گھلنے ملنے اور تبادلہ خیال کرنے کے مواقع میسر تھے۔ ڈھائی تین ہفتے تک ایک ساتھ رہنے کا مقصد یہی تھا کہ لوگ بے تکلفی کے ماحول میں ایک دوسرے کو جانیں، شخصی تعلقات بنائیں اور اپنے اپنے ماحول اور کلچر سے دوسروں کو آگاہ کریں۔ یوں شرکاء کو بہت اچھے اور دوستانہ ماحول میں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر یہ کہ ہم اپنے نقطہ نظر اور زاویے سے کسی معاملے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو دوسرا اس معاملے کو کیسے دیکھتا ہے؟
مولانا عمار خان ناصر کے تاثرات کے بعد سوال وجواب کا سیشن بھی ہوا اور شرکا نے بہت مفید سوالات کے ذریعے سے تاثرات میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ۔ آخر میں اکادمی کے سابق ناظم مولانا حافظ محمد یوسف صاحب کی دعا پر تقریب کا اختتام ہوا۔
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاں
ادارہ
16 جولائی 2016 بروز ہفتہ بعد نماز مغرب شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بیان فرمایا اور دعا سے نئے تعلیمی سال کے اسباق کا باقاعدہ آغاز فرمایا۔
25 جولائی 2016 کو اس سال کی پہلی پندرہ روزہ فکری نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں مولانا زاہدالراشدی مدظلہ نے حضرت مولانا عبداللہ درخواستی رحمہ اللہ کے حوالے سے اپنی یادداشتیں بیان کیں۔
11 اگست جمعرات 2016 کو بعد از نماز مغرب خانقاہ سراجیہ، کندیاں شریف کے سجادہ نشین مولانا خواجہ خلیل احمد صاحب الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور اساتذہ و انتظامیہ سے ملاقات کی ۔ نماز عشاء کے بعد اکادمی کی طرف سے عشائیہ میں شرکت کی اور دعا فرما کر رخصت ہوئے۔
14اگست 2016 ء کے دن الشریعہ اکادمی کنگنی والہ، گوجرانوالہ میں بعد از نماز ظہر اکادمی کے طلبہ نے جشن آزادی کے سلسلے میں ایک پروقار تقریب کا انتظام کیا جس میں تلاوت و نعت کے بعد پروجیکٹر پر پاک فوج کی ٹریننگ سے متعلقہ ویڈیوز بچوں کو دکھائی گئیں اور طلبہ نے آزادی کے حوالے سے مختلف موضوعات پر تقاریر اور ملی نغمے پیش کیے ۔ تقاریر کے عنوانات میں ’’ آزادی کی نعمت‘‘، ’’ قائد اعظم ‘‘ اور ’’ علامہ شبیر احمد عثمانی کی آزادی کے حوالے سے خدمات‘‘ نمایاں تھے۔تقریب میں الشریعہ اکادمی کے شعبہ کتب اور شعبہ حفظ کے طلبہ کے علاوہ محلے کے بچوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی ۔
20 اگست 2016ء کو دی میسج ٹی وی کے ڈائریکٹر جناب کامران رعد اپنی ٹیم کے ہمراہ اکادمی میں تشریف لائے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہد الراشدی کی زندگی کے بارے میں تیار کی جانے والی ڈاکومینٹری کے لیے ویڈیو شاٹس لیے۔
اکتوبر ۲۰۱۶ء
مکالمہ کیوں ضروری ہے؟ / مذہبی فرقہ واریت کا سد باب۔ توجہ طلب پہلو / قراقرم یونیورسٹی میں دو روزہ ورک شاپ
محمد عمار خان ناصر
(mukaalma.com کے نام سے ویب سائٹ کے آغاز کے موقع پر لکھا گیا۔)
کسی بھی معاشرے کی تعمیر وتشکیل میں کردار ادا کرنے والے عناصر میں ایک بنیادی عنصر یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے مابین عملی ہم آہنگی اور رواداری کی فضا موجود ہو۔ مختلف معاشرتی عناصر کے مابین فکر وعمل کی ترجیحات میں اختلاف پایا جا سکتا ہے اور کئی حوالوں سے مفادات کا تصادم بھی موجود ہو سکتا ہے، تاہم معاشرے کے مجموعی مفاد کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ مشترک اور بنیادی اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئے ان اختلافات کو باہمی تعلقات کا عنوان نہ بننے دیا جائے اور مجموعی معاشرتی نظم تنوع اور اختلاف کے تمام تر مظاہر کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کا عمل جاری رکھے۔ معاشرے کی تعمیر کے لیے مختلف سطحوں پر متنوع صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور افراد اور طبقات کی اجتماعی صلاحیتوں کو کسی مخصوص رخ پر یکسو کیے بغیر یہ تشکیل ممکن نہیں ہوتی۔ اگر لوگوں کی صلاحیتیں مجتمع نہ ہو یا ان کا استعمال مثبت اور تعمیری انداز میں نہ کیا جائے تو اس سے اجتماعی قوت تقسیم اور انتشار کا شکار ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ دستیاب صلاحیتوں کے کند یا ضائع ہو جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔
تاریخ وتہذیب کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ جو قومیں اپنے اجتماعی مزاج میں تنوع کی قبولیت کا مادہ جتنا زیادہ پیدا کر لیتی ہیں، وہ اتنی ہی وسعت کے ساتھ انسانی صلاحیتوں سے استفادہ کر پاتی ہیں اور سماج کے ارتقا پر زیادہ دیر پا اور گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اسلامی تاریخ کے جس دور پر آج ہم علوم وفنون کی ترقی اور ایک علم دوست تہذیب کا دور ہونے کے حوالے سے ناز کرتے ہیں، اس میں بہت بنیادی کردار ان مسیحی علماء کا تھا جو یونانی زبان سے واقف تھے اور مسلمان حکومتوں کی سرپرستی میسر آنے پر انھوں نے یونانیوں کے علوم وفنون کو عربی زبان میں منتقل کیا جس پر بعد میں مسلمان علماء، اطباء اور سائنس دانوں نے اپنی گراں قدر تحقیقات کی بنیاد رکھی اور مسلم تہذیب کو اپنے دور کی متمدن ترین اور ترقی یافتہ تہذیب بنا دیا۔ ہمارے ہاں برصغیر میں جلال الدین اکبر کے دور حکومت میں تاریخ کا سفر اسی پہلو سے ایک نیا موڑ مڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ اکبر نے مسلمان حکمرانوں اور مقامی ہندو آبادی کے مابین ذہنی اور نفسیاتی فاصلے دور کیے اور حاکم ومحکوم کا تصور ختم کر کے اکثریتی آبادی کو حکومت واقتدار میں شریک کیا۔ اسی کے نتیجے میں ہندوستان کے ایک وسیع خطے میں امن وامان کا قیام ممکن ہوا اور عظیم مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جا سکی۔ دور جدید میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جن مغربی اقوام کو اس وقت دنیا میں سیاسی ومعاشی بالادستی حاصل ہے، ان کی قوت کے منابع میں سے ایک بہت اہم منبع یہ ہے کہ انھوں نے مذہب ونسل کی تفریق کوختم کر کے ساری دنیا سے باصلاحیت انسانوں کو اپنے معاشروں میں جذب کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے اور ایسا ماحول فراہم کیا ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر سے ہر نوع کا ٹیلنٹ مغربی معاشروں کی طرف کھنچتا چلا جا رہا ہے۔
اس تناظر میں اگر ہم پاکستانی معاشرے پر غور کریں تو ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی واضح ہو جائے گا کہ یہ معاشرہ ہر ہر سطح پر انتشار،خلفشار اور تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور پون صدی کے سفر کے بعد بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک بے پتوار کی کشتی کسی متعین سمت میں آگے بڑھنے کے بجائے ہوا کے ہچکولوں کے سہارے بے نام منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ اقتدار کے اعلیٰ ترین مراکز سے لے کر سماج کی نچلی ترین سطح تک تقسیم اور انتشار کی ایک گہری کیفیت قوم پر چھائی ہوئی ہے۔ ملک کی سیاست ومعیشت کی ترجیحات کے سوال پر فوجی اسٹیبلشمنٹ اور منتخب اہل سیاست کے مابین شدید اور دیرینہ کشمکش پائی جاتی ہے۔ متحارب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا وجود گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عوام اور اہل اقتدار کے مابین، چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، حقیقی اعتماد کا رشتہ واضح طور پر مفقود ہے۔ معاشی وسائل تک رسائی کے اعتبار سے معاشرے میں ایک بے حد گہری طبقاتی تقسیم پائی جاتی ہے۔ فکری اعتبار سے کنزرویٹو اور لبرل طبقات اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق معاشرے کا رخ متعین کرنے کے لیے بر سر پیکا رہیں۔ مذہب کی بنیاد پر پائی جانے والی تقسیم کی صورت حال سب سے زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ یہاں مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت کے مابین بد اعتمادی ایک بحرانی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ مسلم اکثریت مذہبی رجحانات کے لحاظ سے روایتی اور غیر روایتی میں منقسم ہے، جبکہ روایتی طبقہ بذات خود فرقہ وارانہ بنیاد پر چار پانچ بڑی تقسیمات کا عنوان ہے۔ عام معاشرتی سطح پر خاندانوں اور برادریوں کے باہمی تنازعات، جبکہ ملک کے بعض حصوں میں شدید نسلی اور لسانی منافرتیں اجتماعیت کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں۔ آبادی کا نصف حصہ یعنی خواتین بطور ایک طبقے کے اپنے معاشرتی کردار اور حقوق وفرائض کے نظام سے غیر مطمئن ہیں اور ان کی یہ حساسیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اس ساری صورت حال میں تعلیم اور ذرائع ابلاغ کے شعبے، جن سے کسی مثبت اور تعمیری کردار کی توقع کی جا سکتی تھی، الٹا خود اس تقسیم وانتشار کا حصہ ہیں اور ماحول میں پھیلے ہوئے تعصبات اور افتراقات ہی کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ معاشرے کے تمام با رسوخ طبقات اور ان کی قیادتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک وقوم کی اس کشتی کو، جس کے وہ خود بھی سوار ہیں، ڈوبنے سے بچانے کے لیے تدبر وفراست اور قربانی وایثار کی آخری حد تک جانے کا عزم ظاہر کریں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی طبقے کو سرے سے اپنی ذمہ داری کا احساس تک نہیں۔ ہر طبقہ صورت حال کے بگاڑ کا ذمہ دار سر تا سر اپنے حریف طبقات کو تصور کرتا ہے اور ہر طبقے میں اپنے بری الذمہ ہونے کا زعم اس قدر شدید ہے کہ وہ اپنے کردار کے کسی غلط سے غلط پہلو پر بھی تنقید سننے کا روادار نہیں۔ ذمہ داری قبول کرنے سے گریز بلا استثنا تمام طبقات کے ذہنی رویے کا نمایاں ترین وصف اور تبادلہ الزامات سبھی طبقوں کا محبوب ترین شغف ہے۔ قوم کی گاڑی اگر چل رہی ہے تو کسی اجتماعی قومی جذبے کے تحت نہیں، بلکہ محض محدود اور وقتی مفادات کے اشتراک یا حالات کے دباو تحت چل رہی ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پورا سماج ہر ہر سطح پر عدم ہم آہنگی، عدم رواداری اور عدم برداشت کے مرض میں مبتلا ہے اور مرض کی شدت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔
یہ وہ تناظر ہے جس میں بعض سنجیدہ اور فکر مند حضرات اس بٹی ہوئی قوم کے مختلف طبقات کو ’’مکالمہ‘‘ کی میز پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان اہل فکر کی دلچسپی اور توجہ کے دائرے مختلف اور متنوع ہیں اور فکری ترجیحات میں بھی اختلاف ہے۔ تاہم یہ فطری امر ہے اور اہل دانش کو اسے گوارا کرتے ہوئے باہمی مکالمہ کا ماحول پیدا کرنے کی ہر کوشش کا خیر مقدم کرنا چاہیے اور حسب استطاعت اس میں حصہ بھی ڈالنا چاہیے۔ برادرم انعام رانا نے بھی اسی کار خیر کے لیے ’’مکالمہ‘‘ کے نام سے ویب سائٹ کا آغاز کیا ہے جو اپنے عنوان سے ہی اپنے مقاصد کا پتہ دیتی ہے۔ امید ہے کہ یہ فورم بھی اپنے حصے کا دیا جلانے اور قوم کے فکر وشعور کو بیدار کرنے میں قابل قدر کردار ادا کر سکے گا۔ ان شاء اللہ
مذہبی فرقہ واریت کا سد باب۔ توجہ طلب پہلو
فرقہ واریت کی اصطلاح عموماً اس مذہبی تقسیم کے حوالے سے استعمال کی جاتی ہے جس کا اظہار مختلف گروہوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف تکفیر وتضلیل کے فتاویٰ اور اپنے اپنے وابستگان میں دوسروں کے خلاف مذہبی بنیاد پر منافرت پیدا کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے اسباب بنیادی طور پر دو ہیں۔ ایک کا تعلق مذہبی فکر سے اور دوسرے کا سماجی حرکیات سے ہے۔
فرقہ وارانہ مذہبی فکر کا محوری نکتہ یہ ہوتا ہے کہ کسی مذہبی عقیدے کی تعبیر میں مستند اور معیاری موقف (یعنی جسے کوئی گروہ اپنے فہم کے مطابق مستند اور معیاری سمجھتا ہو)سے اختلاف کرنے والے اس مذہب کے ساتھ اپنی جس اصولی وابستگی اور نسبت کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کی یکسر نفی کر دی جائے اور انھیں ان لوگوں کی مانند قرار دیا جائے جو سرے سے اس مذہبی روایت کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں رکھتے۔ یہ رویہ مذہبی فہم اور مذہبی تعبیر میں تنوع کے امکان کو تسلیم نہ کرنے اور اعتقادی تعبیرات کو سائنسی یا ریاضیاتی نوعیت کے بیانات کے ہم معنی سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔مزید برآں اس انداز فکر میں اس سوال کا بھی ایک غیر متوازن جواب طے کیا جاتا ہے کہ کسی گروہ کی طرف سے ایک مخصوص مذہبی روایت کے ساتھ اصولی وابستگی قبول کر لینے اور اس کے بعد اعتقادی وعملی گمراہیوں میں مبتلا ہو جانے کی صورت میں کس پہلو کو کتنا وزن دیا جائے۔
سماجی حرکیات کی رو سے فرقہ واریت، طاقت اور وسائل کے حصول اور اپنے دائرہ اثر کو بڑھانے کی جبلت کا مظہر ہوتی ہے۔ مذہب ہمیشہ سے انسانی معاشروں میں طاقت اور سیادت کے حصول کا موثر ترین ذریعہ رہا ہے۔ مذہبی اختلاف کی بنیاد پر جب معاشرتی تقسیم پیدا ہوتی ہے تو ہر گروہ اپنے اپنے دائرہ اثر کو محفوظ رکھنے اور اس میں وسعت پیدا کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور اس کے لیے حریف مذہبی گروہوں پر کفر وضلالت کے فتوے عائد کرنا نتیجہ خیز اور موثر ثابت ہوتا ہے۔ یہ کشمکش کسی معاشرے کے مانے ہوئے اور مسلمہ مذہبی گروہوں کے مابین بھی پائی جاتی ہے، تاہم صرف اس دائرے تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ اس کا زیادہ سنگین اظہار ان فکری حلقوں کے حوالے سے ہوتا ہے جو اپنی دینی تعبیرات میں روایتی مذہبی گروہوں کے طے کردہ دائروں اور حدود کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے۔ ایسی صورت میں روایتی مذہبی گروہ عموماً ایک مشترکہ خطرے کے مقابلے میں یک جان اور یک زبان ہو جاتے ہیں اور یوں نفرت انگیزی کا یہ عمل ایک نئی طرح کی گروہی تقسیم کی بنیاد بن جاتا ہے۔
اس صورت حال میں بہتری لانا، ظاہر ہے ، بہت گہرے غور وفکر اور بہت سنجیدہ منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ صورت حال کی سنگینی کی طرف نہ صرف عمومی طور پر معاشرتی طبقات بلکہ خود دینی قیادت بھی متوجہ ہو رہی ہے اور خاص طور پر نوجوان نسل بہت سے حوالوں سے ان ذہنی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر سوچنے کی صلاحیت رکھتی ہے جن میں مختلف مذہبی گروہ پنے اپنے وابستگان کو باندھنے کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔
ہماری رائے میں فرقہ وارانہ ماحول میں تبدیلی پیدا کرنے کے لیے چند نہایت بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔ اگرچہ ان سب کو بیک وقت رو بہ عمل نہیں کیا جا سکتا، لیکن طویل مدتی منصوبہ بندی میں بہرحال انھیں پیش نظر رہنا چاہیے:
۱۔ دینی تعلیم کا موجودہ نظام اور مدارس کا ماحول فرقہ وارانہ ماحول کا سب سے بڑا منبع ہے۔ ا س کی اصلاح کیے بغیر کوئی حقیقی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ ضروری ہے کہ دینی تعلیم کا نظام مخصوص فکری یا کلامی مسالک کے بجائے مجموعی اسلامی روایت اور اس کے متنوع فکری مظاہر کو تعلیم وتدریس اور ذہن سازی کی بنیاد بنائے۔
۲۔ تمام مذہبی حلقہ ہائے فکر کے مابین باہمی میل جول ، مکالمہ اور تبادلہ خیال کے مواقع ہر ہر سطح پر پیدا کرنے چاہییں۔ ابتدا میں کچھ دوسرے ادارے اس طرح کے فورم مہیا کر سکتے ہیں، لیکن اصلاً دینی حلقوں کو یہ کام خود اپنے داخلی داعیے اور اپنی قوت ارادی کی بنیاد پر کرنا ہوگا۔
۳۔ فرقہ واریت کے حوالے سے سول سوسائٹی کی تعلیم وتربیت اور ذہن سازی سب سے موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ معاشرے کے تمام با اثر طبقات کی ذہن سازی کو مستقل طو رپر موضوع بنانا چاہیے، اس لیے کہ کسی بھی رویے کو جب تک عام معاشرے کی طرف سے تائید اور ہمدردی نہ ملے، وہ جڑ نہیں پکڑ سکتا۔
۴۔ اس معاملے میں حکومت کا کردار زیادہ تر خاموش تماشائی کا ہے اور بعض پہلووں سے منفی بھی ہے۔ حکومتوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کا مقابلہ کرنے کے بجائے اسے قبول کرنے اور سیاسی مقاصد کے لیے اسے استعمال کرنے کی پالیسی بنائی ہوئی ہے جو تقسیم کو تسلسل دینے اور مضبوط تر کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اس پالیسی میں بھی بنیادی تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
۵۔ مذہبی طبقات کے ذہین عناصر کو جدید فکری اور معاشرتی چیلنجز کی طرف متوجہ کرنا فرقہ وارانہ ماحول میں تبدیلی کا ایک بہت موثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ مذہبی ماحول میں جن مسائل وموضوعات کو اہمیت اور ترجیح کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، ذہین عناصر بھی عموماً اس کا اثر قبول کرتے اور انھی ترجیحات کو اپنی ذہنی وفکری کاوشوں کا میدان بنا لیتے ہیں۔ اگر ان کی ذہنی توجہ کے دائرے بدل دیے جائیں اور انھیں امت کے حقیقی اور زندہ مسائل کی طرف متوجہ کر لیا جائے تو اس سے خود بخود ماحول میں ایک مثبت تبدیلی پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔
۶۔ دینی راہ نماوں کی ذہنی ونفسیاتی تربیت بھی کام کا ایک اہم میدان ہے۔ اس کے لیے Capacity building کے باقاعدہ منصوبے بنانے چاہییں اور مستقبل کے متوقع دینی قائدین کو فکر وشعور کے ساتھ ساتھ ایسی عملی مہارتیں بھی سکھانی چاہییں جس سے ان کا کردار مثبت رخ پر ڈھل سکے اور وہ اپنی مساعی کو تعمیر معاشرہ پر مرکوز کر سکیں۔
۷۔ دینی قیادت میں مغلوبیت اور پچھڑے پن کا تحت الشعوری احساس بطور خاص توجہ کا متقاضی ہے۔ یہ احساس علمی اور عملی میدانوں میں مسابقت کے فطری جذبے کو حدود اعتدال میں نہیں رہنے دیتا اور مثبت طور پر اپنے کاز کو آگے بڑھانے کے بجائے انھیں حریف اور مخالف طبقات کے بارے میں غیر ضروری طو رپر حساس بنا دیتا ہے۔ اسی احساس کے زیر اثر، ہر قیمت پر غلبہ اور برتری حاصل کرنے کے جذبے سے مذہبی تقسیم، سیاسی عوامل کا آلہ کار بن جاتی ہے جس سے فرقہ وارانہ مذہبی تقسیم مزید پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔
۸۔ اختلاف اور تنقید کی اخلاقیات کی پابندی کو اس نوع کی ساری کاوشوں کا بنیادی ہدف قرار دینا چاہیے۔ تمام مسلکی حلقوں میں اس طرز فکر کو دینی واخلاقی بنیادوں پر ایک مسلمہ کا درجہ حاصل ہو جانا چاہیے کہ کسی بھی نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے اس کے موقف کی درست تعبیر، اصلاح کا ہمدردانہ جذبہ اور اسلوب بیان کی شائستگی جیسے اصولوں کی کسی بھی حال میں قربانی نہیں دی جا سکتی۔
فرقہ وارانہ مذہبی بیانیوں پر مختصر تبصرہ
مذہبی تعبیرات کا اختلاف اور ان کی بنیاد پر معاشرتی تقسیم ہمارے ہاں کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ اس کا اظہار عموماً فرقہ وارانہ اسالیب اور تکفیر وتضلیل کے فتاویٰ کی صورت میں ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے ادارہ برائے امن وتعلیم نے گزشتہ دنوں اس موضوع پر ایک پانچ روزہ ورک شاپ کا انعقاد کیا اور اس میں ہونے والے تفصیلی بحث ومباحثہ کی روشنی میں فرقہ وارانہ بیانیے کے نمائندہ نکات مرتب کیے ہیں۔ یہ نکات تبصرے کے لیے مختلف حضرات کو بھیجے گئے ہیں۔ راقم الحروف نے چند اہم نکات پر مختصراً جو کچھ عرض کیا، وہ عمومی دلچسپی کے تناظر میں یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔
بیانیہ: ہمارے اکابر حق پر ہیں اور وہی اسلام کی مستند ترین تعبیر پیش کرتے ہیں۔
تبصرہ: اسلامی تناظر میں کسی بھی فکر کے استناد اور قبولیت کا معیار مسلمانوں کی مجموعی علمی روایت ہے۔ مختلف فکری حلقے اپنے اپنے زاویے سے یہ تصور رکھ سکتے ہیں کہ انھی کے اکابر کی پیش کردہ تعبیر درست ترین اور حتمی ہے، تاہم اس یقین واذعان کا وزن آخری تجزیے میں مجموعی علمی روایت ہی طے کرتی ہے۔ جو فکری دھارے ہم عصر اور ایک دوسرے کے حریف ہوں، ان کی طرف سے اپنے اور مخالفین کے متعلق اس طرح کے دعووں کو زیادہ احتیاط ، بلکہ شک کی نظر سے دیکھنا چاہیے اور کسی حتمی فیصلے کا کام فکری روایت کے جدلیاتی عمل کے سپرد کر دینا چاہیے۔
بیانیہ: اسلام میں جدت پسندی کا تصور مغرب سے مرعوبیت کی علامت ہے۔
تبصرہ: ’’اسلام میں جدت پسندی‘‘ مصداق کے لحاظ سے ایک غیر واضح عنوان ہے۔ اسی طرح مرعوبیت کا تعین بہت حد تک ایک موضوعی چیز ہے۔ میرے نزدیک ’’اسلام میں جدت پسندی‘‘ کا یقینی مصداق یہ چیز ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد وتصورات اور اخلاقی اقدار کے فریم ورک میں تبدیلی کو ذہنی طور پر قبول کر لیا جائے۔ اگر جدید افکار یا تمدنی وتہذیبی مظاہر کو، چاہے تاریخی وواقعاتی طور پر ان کی پیش کاری ابتداء اً غیر اسلامی تناظر میں کی گئی ہو، اسلامی اقدار اور مقاصد کے تابع کر کے اور ان کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اسلامی فکری روایت کا حصہ بنانا مقصود ہو تو یہ ’’جدت پسندی‘‘ نہیں۔ اصولی طور پر بھی نہیں، اور عملاً بھی نہیں، کیونکہ کوئی تہذیب یا فکری روایت گرد وپیش کی تبدیلیوں سے بے تعلق ہو کر ناک کی سیدھ پر تاریخ میں سفر جاری نہیں رکھ سکتی۔
بیانیہ: اگرفلاں مسلک اپنے فلاں فلاں عقیدے سے رجوع کر لے تو مفاہمت ہو سکتی ہے۔
تبصرہ: مذہبی اختلاف اس دنیا کی ایک ناقابل تردید اور ناقابل تبدیل حقیقت ہے۔ اس میں مفاہمت کا مطالبہ غیر حقیقی اور غیر اخلاقی ہے، البتہ دعوت اور مکالمہ کے ذریعے سے ایک دوسرے کے مذہبی خیالات ونظریات کو تبدیل کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ قرآن نے اعتقادی اختلافات کے باب میں حق وباطل کو آخری درجے میں واضح کرنے کے بعد بھی مخالف مذہبی گروہوں سے مفاہمت کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ یہ کہا کہ یہ اختلاف ایسے ہی برقرار رہیں گے اور ان کا فیصلہ قیامت کے روز خدا کی بارگاہ میں ہی ہوگا۔ دنیا میں بقائے باہم اور اخلاقی طرز زندگی کے لیے جو چیزیں مطلوب ہیں، وہ دو ہیں: ایک، مخالف مذہبی عقائد کی صحیح اور دیانت دارانہ تعبیر کا اہتمام اور خود ساختہ تعبیرات کی نسبت سے گریز۔ اور دوسری، اختلاف کو رواداری کے ساتھ قبول کرنا اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات واحساسات کو ٹھیس پہنچانے سے اجتناب کرنا۔
بیانیہ: مودودیت ایک گمراہ فرقہ ہے۔ / غامدی صاحب ایک فتنہ ہیں اور اسلام کی تعلیمات کو بگاڑ رہے ہیں۔
تبصرہ: مولانا مودودی اور غامدی صاحب نے دین کو براہ راست اصل مآخذ سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں مروجہ دینی تعبیرات سے کئی جگہ اہم اور بنیادی اختلاف بھی کیا ہے۔ ان کی پیش کردہ دینی فکر اور مذہبی تعبیرات میں قابل نقد اور کمزور باتیں بھی ہو سکتی ہیں جن پر علمی نقد لازماً ہونا چاہیے، لیکن بحیثیت مجموعی ان کی دینی فکر کو فتنہ یا گمراہی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بیانیہ: فلاں اور فلاں حضرات گستاخ رسول ہیں۔ انھوں نے توہین آمیز عبارات لکھی ہیں۔
تبصرہ: کسی کلام کو توہین یا گستاخی قرار دینے کے لیے کلام کا سیاق وسباق اور متکلم کی نیت بنیادی چیز ہے۔ کوئی عبارت ظاہر کے لحاظ سے ایسا تاثر دیتی ہو تو اس پر نظر ثانی کر لینی چاہیے، تاہم متکلم کی نیت اور عبارت کے مقصد کو نظر انداز کر کے اس پر گستاخانہ یا توہین آمیز ہونے کا فتویٰ جاری نہیں کیا جا سکتا۔
بیانیہ: گستاخ رسول کو قتل کرنا غیرت ایمانی کا تقاضا ہے اور عین شریعت ہے۔
تبصرہ: توہین رسالت کا کوئی بھی واقعہ رونما ہونے پر شرعی قانون یہ ہے کہ قائل کو عدالت کے سامنے اپنی بات کی وضاحت کا موقع دیا جائے۔ اگر واقعتا اس کی نیت توہین ہی کی ہو تو اسے توبہ اور رجوع کے لیے کہا جائے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر عدالت جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اسے قرار واقعی سزا دے جو بعض صورتوں میں موت بھی ہو سکتی ہے۔
بیانیہ: پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔
تبصرہ: فرقہ واریت کا منبع جہالت اور غلو کے ذہنی ونفسی رویے ہیں، اور ان ذہنی رویوں کو معاشرتی سوچ کا حصہ بنانے کا کردار مذہبی تعبیرات ادا کرتی ہیں۔ بیرونی ہاتھ اور سیاسی عوامل صرف اس کو بڑھانے اور کوئی مخصوص رخ دینے کے ذمہ دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں اور یہ خارجی عوامل اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کسی معاشرے میں ذہنی ونفسی سطح پر اور مذہبی تعبیرات کے دائرے میں ان کے لیے زمین تیار نہ کر دی گئی ہو۔
بیانیہ: دوسرے مسالک کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ہماری راہ میں ہمارے مسلک کے ہی شدت پسند عناصر رکاوٹ بنتے ہیں۔
تبصرہ: یہ بات درست ہے۔ اس کا مقابلہ صرف عزم مصمم اور بلندی کردار سے کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت فرقہ واریت سے تنگ ہے اور اس سے نجات چاہتی ہے، لیکن اقلیتی گروہوں کے بلند آہنگ ہونے جبکہ سنجیدہ وفہمیدہ طبقات کے غیر فعال بلکہ منفعل ہونے کی وجہ سے اکثریت، اقلیت کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ہر مسلکی حلقے میں اگر ایسے پر عزم افراد سامنے آئیں جو یہ طے کر لیں کہ وہ ہر حال میں وحدت امت کی بات کریں گے اورکسی مصلحت یا مفاد کی خاطر یا کسی خوف کے تحت فرقہ وارانہ گروہ بندی کا حصہ نہیں بنیں گے اور اس کے لیے مقبولیت یا عوامی قبولیت کی بھی پروا نہیں کریں گے تو ان شاء اللہ بہت کم عرصے میں فضا بدلی جا سکتی ہے۔
قراقرم یونیورسٹی میں دو روزہ ورک شاپ
قراقرام انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں ۷ اور ۸ ستمبر ۲۰۱۶ء کو ’’سماجی ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ (بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) اور قراقرم یونیورسٹی کے زیر اہتمام دو روزہ ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے رکن جناب ڈاکٹر خالد مسعود، پشاور یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء، اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن الامین، ائیر یونیورسٹی اسلام آباد کے استاذ جناب ندیم عباس، پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن اسلام آباد کے رکن ڈاکٹر محمد حسین اور معروف اینکر پرسن سبوخ سید کے ساتھ ساتھ راقم الحروف کو بھی اظہار خیال کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ورک شاپ کی آخری نشست میں گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ جناب حافظ حفیظ الرحمن اور کور کمانڈر میجر جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی، جبکہ قراقرم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف خان کے علاوہ مختلف شعبوں کے سربراہان، اساتذہ اور طلبہ وطالبات بھی بڑی دلچسپی اور انہماک سے دو روزہ ورک شاپ میں شریک رہے۔
راقم الحروف نے ورک شاپ کی ایک نشست میں ’’مذہبی فرقہ واریت اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر جو گفتگو کی، اس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
- اجتماعیت، اسلام کی بتائی ہوئی معاشرتی اقدار میں سے ایک بہت بنیادی قدر ہے۔ یہ ایک روحانی قدر بھی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو انسانوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت، حسد اور بغض کے جذبات ہرگز پسند نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک معاشرتی اور تہذیبی ضرورت بھی ہے، کیونکہ جو قومیں باہمی افتراق کا شکار ہو جائیں، ان کی توانائیاں خود کو کمزور کرنے میں صرف ہونے لگتی ہیں اور رفتہ رفتہ دشمن ان پر حاوی ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
- اسلام میں اجتماعیت کا مفہوم یہ نہیں کہ مسلمانوں میں باہم اختلاف رائے نہ ہو، خاص طور پر یہ کہ مذہب کو سمجھنے یا اس پر عمل کرنے میں سب مسلمان ایک ہی انداز کے پابند ہوں۔ اجتماعیت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اختلاف رائے رکھتے ہوئے بھی باہم متحد رہیں اور اختلاف رائے کو نفسانی اسباب یا غلو کے زیر اثر باہمی افتراق کا ذریعہ نہ بنا لیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست دین سیکھنے والی جماعت، صحابہ کرام نے اپنے اجتماعی طرز عمل سے واضح کیا ہے کہ دین میں اختلاف رائے اور فرقہ واریت کے مابین کیا فرق ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں، حج کے موقع پر ان کے، ظہر اور عصر کی چار رکعتیں ادا کرنے پر سخت تنقید کی (کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما اس موقع پر دو رکعتیں ادا کیا کرتے تھے)، لیکن جب نماز کا وقت ہوا تو انھی کی اقتدا میں چار رکعتیں ادا کر لیں اور سوال کیے جانے پر فرمایا کہ (اختلاف کی بنیاد پر) مسلمانوں میں گروہ بندی پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔
- دو چیزیں اختلاف رائے کو فرقہ واریت میں بدل دیتی ہیں۔ ایک، اپنی رائے کو حتمی اور فیصلہ کن سمجھنا اور مخالف نقطہ نظر کے لیے گنجائش تسلیم نہ کرنا۔ دوسری، مسلمانوں کو اپنی رائے کے گرد جمع کرنے اور دوسرے نقطہ ہائے نظر سے دور کرنے کے لیے گروہ بندی اور باہمی منافرت کو فروغ دینا۔ صحابہ کے دور میں اختلاف رائے موجود تھا اور بہت سے مذہبی معاملات کے فہم اور تعبیر میں شدید اختلاف پایا جاتا تھا، لیکن صحابہ نے اپنے نقطہ نظر کو حتمی قرار دیتے ہوئے مخالف نقطہ نظر کی کلی نفی کرنے کا نیز اس بنیاد پر عام لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کرنے اور ان میں باہمی منافرت پھیلانے کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ یہی اختلاف اور فرقہ واریت میں حد فاصل ہے۔ فرقہ پرست ذہن اپنی پیش کردہ مذہبی تعبیر کو حتمی اور فیصلہ کن سمجھتا ہے اور عام لوگوں کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے کے لیے انھیں دوسرے نقطہ ہائے نظر کے لوگوں سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے مذہبی فتوے بازی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
- فرقہ واریت کا تعلق صرف مذہبی اختلاف سے نہیں، ہر نوعیت کے اختلاف سے ہے۔ اگر مذہب کے علاوہ سیاسی، علاقائی اور نسلی اختلاف بھی ایسا رنگ اختیار کر لے کہ مختلف گروہ ایک دوسرے کی رائے کو برداشت نہ کر سکیں اور ان کی توانائیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے صرف ہونے لگیں تو بلاشبہ یہ بھی فرقہ واریت ہے۔ اس لیے اس موضوع کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے صرف مذہبی گروہ بندی تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ فرقہ بندی کے تمام مظاہر کو زیر بحث لانا چاہیے، کیونکہ جس طرح مذہبی فرقہ واریت امت کی وحدت اور اجتماعیت کو مجروح کرتی ہے، بالکل اسی طرح سیاسی، نسلی اور فکری اختلافات اگر گروہ بندی اور حزبیت کی شکل اختیار کر لیں تو وہ بھی مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو پارہ پارہ کر دینے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
- فرقہ واریت پورے معاشرے کا مسئلہ ہے، اس لیے اس کی ذمہ داری صرف اس طبقے پر نہیں ڈالی جا سکتی جو مذہبی ’’قیادت‘‘ کے منصب پر فائز ہے، اس لیے کہ کسی بھی رویے اور طرز فکر کو جب تک معاشرے کی طرف سے تائید اور حمایت نہ ملے، وہ جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ فرقہ وایت کے سدباب کے لیے کردار ادا کرنا معاشرے کے تمام اہم طبقات کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں مذہبی راہ نماں کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت، ارباب اقتدار اور سب سے بڑھ کر سول سوسائٹی کو بھی اپنا بھرپور ادا کرنا ہوگا اور عوام الناس کے فکر وشعور کی سطح کو اس طرح بلند کرنا ہوگا کہ وہ کسی فرقہ وارانہ بیانیے سے متاثر ہو کر اسے اس کا دست وبازو بننے پر آمادہ نہ ہوں۔
- معاشرتی طبقات اگر درج ذیل چند نکات کے حوالے سے یکسو ہو جائیں اور ان سے متصادم کسی بھی مذہبی تعبیر یا بیانیے کی حوصلہ شکنی کی فضا پیدا ہو جائے تو فرقہ واریت کو بہت کم عرصے میں جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے:
- مسلمانوں کے مابین مذہبی اختلاف بظاہر کتنا ہی سنگین ہو ، اس کی بنیاد پر تکفیر کا کوئی جواز نہیں۔ چنانچہ ہر ایسی مذہبی تعبیر یا بیانیہ جو تعبیری اختلاف کی وجہ سے کسی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے پر زور دیتا ہو، اپنے ظاہر ہی کے لحاظ سے قابل رد ہے۔
- ہر مذہبی گروہ اپنے موقف کی تعبیر کا خود ہی حق رکھتا ہے، اس لیے کسی بھی گروہ کی زبان سے دوسرے گروہ کے موقف کی تعبیر قابل قبول نہیں۔
- تنقید اور اختلاف میں شائستگی کا دامن چھوڑنے اور اخلاقی حدود سے تجاوز کرنے پر ماحول کے ذمہ دار حضرات کو اپنی سماجی حیثیت اور دائرۂ اختیار کے مطابق اپنا رد عمل ظاہر کرنا چاہیے اور یہ واضح کرنا چاہیے کہ اشتعال انگیزی اور تحقیر واستہزا کا اسلوب قابل قبول نہیں۔
- مختلف گروہوں کے مابین ہر سطح پر سماجی میل جول اور مکالمے کا ماحول تسلسل کے ساتھ قائم رکھا جائے، کیونکہ غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا ہونے کا ایک بہت بنیادی سبب یہی ہوتا ہے کہ مختلف خیال کے لوگ آپس میں ملنا جلنا چھوڑ دیں۔
بحیثیت مجموعی یہ ورک شاپ اپنے موضوع پر طلبہ وطالبات کی ذہن سازی کے حوالے سے بہت مفید اور کامیاب رہی، تاہم ورک شاپ کی آخری نشست میں گلگت بلتستان کے کور کمانڈر میجر جنرل عاصم منیر نے اپنی گفتگو میں جہاں گلگت میں قیام امن اور خاص طور پر ایک نہایت پرامن ماحول میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے گلگت کی فوجی اور سول انتظامیہ کی مشترکہ کاوشوں کا ذکر کیا، وہاں بعض ایسی باتیں بھی کہیں جو پوری ورک شاپ کے مقصد اور مزاج کے بالکل برعکس تھیں۔ مثلاً انھوں نے سی پیک کے منصوبے کے معاشی واقتصادی فوائد بیان کرنے کے بعد ’’حرف آخر‘‘ یہ فرمایا کہ جو لوگ اس منصوبے کے حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہیں اور ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں، وہ آپ کے دشمن ہیں، اس لیے جب بھی کوئی شخص ایسی بات کرے تو ’’آپ اس کا منہ توڑ دیجیے، بلکہ بہتر ہے کہ اس کا سر توڑ دیجیے۔‘‘ اسی طرح مولویوں کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ان سے اپنے مذہب کو واپس چھیننے کی ضرورت ہے۔ ہماری زندگی کے تین ہی اہم مواقع ہوتے ہیں، یعنی پیدا ہونا، شادی اور مرنا اور ہم نے یہ تینوں مولوی کے حوالے کیے ہوئے ہیں۔ آپ اذان دینے، نکاح اور جنازہ پڑھانے کا کام خود کر سکتے ہیں، کسی مولوی کی ضرورت نہیں۔
یہ انداز اظہار ورک شاپ کے بنیادی پیغام کے لحاظ سے تو محل نظر تھا ہی، اس پہلو سے بھی قابل اعتراض تھا کہ یہ احساسات وتاثرات بہرحال جنرل صاحب کے ذاتی احساسات تھے، جبکہ ورک شاپ میں وہ اپنے ادارے کی نمائندگی کرتے ہوئے وردی میں اور پورے فوجی پروٹوکول کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ ان کے ذاتی خیالات کچھ بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اپنی منصبی حیثیت میں گفتگو کرتے ہوئے انھیں کسی بھی موضوع پر اپنی بات کو اسی حد تک محدود رکھنا چاہیے تھا جو ان کے ادارے کا طے شدہ اور علانیہ موقف ہے۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۳)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۱۰۱) أنفسکم کا ترجمہ
قرآن مجید میں بعضکم بعضا کی تعبیر متعدد مقامات پر آئی ہے، اور حسب حال مختلف ترکیبوں کے ساتھ استعمال ہوئی ہے، بعضکم بعضا کا ترجمہ ہوتا ہے ’’ایک دوسرے کو‘‘ اور ’’آپس میں‘‘ اور ’’کوئی کسی کو‘‘ جیسے:
ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضاً۔ (العنکبوت:۲۵)
کبھی فعل کے ثلاثی مجردکے بجائے باب تفاعل سے ثلاثی مزید میں استعمال ہونے سے بھی بعضکم بعضا کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے یقتل بعضھم بعضا کا مفہوم وہی ہے جو یتقاتلون کا ہے۔
اس کے علاوہ ایک تعبیر أنفسکم کی بھی آئی ہے، بہت سے مترجمین بہت سے مقامات پر اس کا ترجمہ بھی ’’ایک دوسرے کو‘‘ کردیتے ہیں۔ حالانکہ أنفسکم اس معنی میں نہیں آتا ہے، اور اس معنی میں لانے کے لیے مختلف توجیہات کرنی پڑتی ہیں۔
دراصل أنفسکم کے دو معنی ہیں، ایک ہے ’’اپنے آپ کو‘‘ اور ایک ہے ’’اپنے لوگوں کو‘‘ قرآن مجید میں یہ لفظ پہلے معنی میں بھی خوب استعمال ہوا ہے، اور دوسرے معنی میں بھی کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ سیاق کلام اور محل استعمال سے یہ طے ہوتا ہے کہ کہاں کون سا معنی لیا جائے۔
دوسرے معنی کی ایک مثال ذیل کی آیت ہے، جس میں أنفسکم کا ترجمہ تمام مترجمین نے ’’اپنے لوگوں‘‘ کیا ہے:
(۱) فَإِذَا دَخَلْتُم بُیُوتاً فَسَلِّمُوا عَلَی أَنفُسِکُمْ۔ (النور: ۶۱)
’’بس بات یہ ہے کہ جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو‘‘(سید مودودی)
’’پھر جب کسی گھر میں جاؤ تو اپنوں کو سلام کرو ‘‘(احمد رضا خان)
’’پھر جب جانے لگو کبھی گھروں میں تو سلام کہو اپنے لوگوں پر‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’جب تم اپنے گھروں میں جانے لگا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کرلیا کرو‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرلیا کرو‘‘(محمد جوناگڑھی)
آخری دونوں ترجموں میں ایک توجہ طلب امر یہ ہے کہ آیت میں بیوتا نکرہ استعمال ہوا ہے، اس لئے اول الذکر میں اپنے کے اضافے کے ساتھ اپنے گھروں اور موخر الذکر میں گھر کے اضافے کے ساتھ اپنے گھر والوں کہنا درست نہیں ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ اس آیت کی طرح مذکورہ ذیل آیتوں میں بھی أنفسکم کا وہی مفہوم ہے جو فسلموا علی أنفسکم میں أنفسکم کا ہے، تاہم مفسرین اور مترجمین کہیں وہ ترجمہ کرتے ہیں اور کہیں کوئی دوسرا ترجمہ کرتے ہیں۔
(۲) وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ۔ (البقرۃ: ۵۴)
’’یاد کرو جب موسی (یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا، تو اس ) نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو تم نے بچھڑے کو معبود بناکر اپنے اوپر سخت ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو‘‘ (سید مودودی)
زیر بحث جملے کے کچھ اور ترجمے بھی ملاحظہ ہوں:
’’اور اپنے مجرموں کو اپنے ہاتھوں قتل کرو‘‘ (امین احسن اصلاحی، یہاں أنفسکم کا مفہوم تو ادا کیا گیا ہے، لیکن اپنے ہاتھوں کہنا زائد ہے، اس کی لفظ اور معنی دونوں ہی لحاظ سے کوئی گنجائش نہیں ہے)
’’پھر بعض آدمی بعض آدمیوں کو قتل کرو‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’اور مارڈالو اپنی اپنی جان ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’تو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو‘‘ (احمد رضا خان)
اس آیت میں واقعہ کے لحاظ سے نہ تو اپنے آپ کو قتل کرنے کا محل ہے اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے کا محل ہے، بچھڑے کومعبود بنانے کے ظلم میں سب لوگ شریک نہیں تھے، اس لئے جو لوگ شریک تھے ان کے بارے میں حکم دیا گیا کہ وہ جو ہیں تو اپنے ہی لوگ مگر اس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں ان کو قتل کرو۔ابو حیان کے الفاظ میں:
وَالْمَعْنَی: اقْتُلُوا الَّذِینَ عَبَدُوا الْعِجْلَ مِن أَھْلِکُمْ،کَقَولِہِ: لَقَدْ جاءکم رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ،أَیْ مِن أَھْلِکُمْ وَجِلْدَتِکُمْ۔ (البحر المحیط فی التفسیر ،۱؍۳۳۵)
غرض صحیح ترجمہ ہے: ’’تو اپنے لوگوں کو قتل کرو‘‘
(۳) وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ لاَ تَسْفِکُونَ دِمَاء کُمْ وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَکُم مِّن دِیَارِکُمْ۔ (البقرۃ: ۸۴)
’’اور یاد کرو جب کہ ہم نے تم سے اقرار لیا کہ اپنوں کا خون نہ بہاؤگے اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالوگے ‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ کرنا اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا ‘‘(احمد رضا خان)
آیت کے یہ دونوں صحیح ترجمے ہیں، جبکہ ذیل میں مذکور ترجمے محل نظر ہیں:
’’اور جب لیا ہم نے قرار تمہارا کہ نہ کرو گے خون آپس میں اور نہ نکال دو گے اپنوں کو اپنے وطن سے‘‘ (شاہ عبد القادر، اس ترجمے میں أنفسکم کا ترجمہ صحیح کیا ہے البتہ لا تسفکون دماءکم کا ترجمہ ’’نہ کرو گے خون آپس میں‘‘محل نظر ہے، کیونکہ ’’آپس میں‘‘ کے مطلب کے لیے آیت میں کوئی لفظ نہیں ہے۔)
’’پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا‘‘ (سید مودودی)
’’اور (وہ زمانہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تم سے یہ قول وقرار (بھی) لیا کہ باہم خونریزی مت کرنا اور ایک دوسرے کو ترک وطن مت کرانا‘‘ (اشرف علی تھانوی، اس ترجمہ میں زیر بحث مسئلے کے علاوہ قوسین میں ’’وہ زمانہ بھی یاد کرو‘‘ غیر ضروری ہے)
ان تینوں ترجموں میں ’’آپس میں‘‘، ’’باہم‘‘ اور ’’ایک دوسرے‘‘کا ترجمہ کیا گیا ہے، جبکہ آیت کے الفاظ سے اس کی تائید نہیں ہوتی ہے۔
اس آیت میں دماء کم اور أنفسکم کا مفہوم متعین کرنے کے لیے ذیل کی آیت سے بھی مدد لی جاسکتی ہے جس میں أنفسکم کی جگہ فریقا منکم آیا ہے، اور جو اس کے فورا بعد اسی سیاق میں آئی ہے ۔
(۴) ثُمَّ أَنتُمْ ہَؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَکُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِیْقاً مِّنکُم مِّن دِیَارِہِمْ۔ (البقرۃ: ۸۵)
’’پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’پھر یہ جو تم ہو اپنوں کو قتل کرنے لگے اور اپنے میں سے ایک گروہ کو ان کے وطن سے نکالتے ہو‘‘(احمد رضا خان)
’’مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کردیتے ہو‘‘ (سید مودودی)
مذکورہ بالا ترجمے صحیح ہیں، جبکہ ذیل کے ترجموں میں زیر بحث غلطی موجود ہے۔
’’پھر تم ویسے ہی خون کرتے ہو آپس میں اور نکال دیتے ہو اپنے ایک فرقے کو ان کے وطن سے ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’پھر تم یہ (آنکھوں کے سامنے موجود ہی) ہو (کہ) قتل وقتال بھی کرتے ہو اور ایک دوسرے کو ترک وطن بھی کراتے ہو‘‘ (اشرف علی تھانوی)
فریقا منکم کا ترجمہ ایک دوسرے کو کرنا بہت عجیب بات ہے، بلکہ جس طرح وَتُخْرِجُونَ فَرِیْقاً مِّنکُم کا ترجمہ ایک دوسرے کو کرنا درست نہیں ہے، ٹھیک اسی طرح وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَکُم کا ترجمہ بھی ایک دوسرے کو کرنا درست نہیں ہے۔
مذکورہ غلطی کے علاوہ آخری ترجمہ میں تقتلون أنفسکم کا ترجمہ قتل وقتال کرنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ آیت میں قتال کا لفظ ہی نہیں آیا ہے، اور پھر قتل وقتال کا محاورہ بھی استعمال نہیں کیا جاتا ہے، مزید یہ کہ اس ترجمہ میں أَنفُسَکُم کا ترجمہ بھی نہیں ہوسکا ہے۔
(۵) یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ۔ (النساء :۲۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، لین دین ہونا چاہئے آپس کی رضامندی سے۔ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو‘‘ (سید مودودی)
اس آیت میں ولا تقتلوا أنفسکم کا ترجمہ مترجمین نے مختلف طرح سے کیا ہے، جسے ذیل میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:
’’اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’اور اپنی جانیں قتل نہ کرو‘‘(احمد رضا خان)
’’اور نہ خون کرو آپس میں‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’اور تم ایک دوسرے کو قتل بھی مت کرو ‘‘(اشرف علی تھانوی)
صحیح ترجمہ ہے: ’’اوراپنے لوگوں کو قتل نہ کرو‘‘
آیت میں خود کو قتل کرنے کے بجائے دوسروں کو قتل کرنا مراد ہے اس کی تائید اس کے بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے، جس میں اس عمل کو عدوان اور ظلم بتایا گیا ہے، وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ عُدْوَاناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَاراً وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللّہِ یَسِیْراً۔ (النساء :۳۰)
(۶) وَلَوْ أَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ أَنِ اقْتُلُواْ أَنفُسَکُم۔ (النساء :۶۶)
’’اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو ہلاک کرو‘‘ (سید مودودی)
’’اور اگر ہم ان پر فرض کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اور اگر ہم نے ان پر یہ فرض کیا ہوتا کہ اپنی جانوں کو قتل کرو‘‘(محمد جوناگڑھی)
’’اور اگر ہم ان پر فرض کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کردو‘‘ (احمد رضا خان)
’’اور ہم اگر لوگوں پر یہ بات فرض کردیتے کہ تم خودکشی کیا کرو‘‘(اشرف علی تھانوی)
درست ترجمہ ہے: ’’اگر ہم انہیں حکم دیتے کہ اپنے لوگوں کو قتل کرو‘‘۔
یہ ترجمہ اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ الفاظ کے مطابق ہے، اس کے علاوہ مزید دو باتیں ملحوظ رکھی جاسکتی ہیں ، ایک بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی خودکشی کرنے کا حکم دے، یہ خود ایک ناقابل تصور امر ہے۔ دوسرے یہ کہ خودکشی کرنے کے لئے اقْتُلُواْ أَنفُسَکُم کی تعبیربھی محل نظر ہے۔
(۷) لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِہِمْ خَیْْراً۔ (النور:۱۲)
’’ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بات سنی تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کی بابت نیک گمان کرتے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی‘‘ (محمد جوناگڑھی)
اس آیت میں جس معاملے کے حوالے سے بات کہی گئی ہے، اس میں نہ تو اس کا محل ہے کہ بات سننے والے اہل ایمان اپنے سلسلے میں نیک گمان کریں، اور نہ اس کا محل ہے کہ سننے والے اہل ایمان ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کریں۔ محل کلام واضح طور پر یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں سننے والے اہل ایمان اپنے ان لوگوں کے سلسلے میں نیک گمان کریں جن کے بارے میں وہ باتیں کہی جارہی تھیں۔ غرض الفاظ اور محل کلام دونوں کے لحاظ سے درج ذیل دونوں ترجمے درست ہیں۔
’’کیوں نہ ہوا جب تم نے اسے سنا تھا کہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیا ہوتا ‘‘(احمد رضا خان)
’’کیوں نہ جب تم نے اس کو سنا تھا خیال کیا ہوتا ایمان والے مردوں نے اور عورتوں نے اپنے لوگوں پر بھلا خیال ‘‘(شاہ عبدالقادر)
(۸) وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ۔ (الحجرات: ۱۱)
’’آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو‘‘(سید مودودی)
’’وعیب مکیند اہل دین خود را‘‘ (شیخ سعدی)
’’وعیب مکیند درمیان خویش ‘‘(شاہ ولی اللہ)
’’اور آپس میں طعنہ نہ کرو ‘‘(احمد رضا خان)
’’اور عیب نہ دو ایک دوسرے کو‘‘(شاہ عبد القادر)
’’اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو ‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’اور نہ اپنوں کو عیب لگاؤ‘‘ (امین احسن اصلاحی)
صحیح ترجمہ ہے: ’’اور نہ اپنے لوگوں پر طنز کرو‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
غرض اوپر جتنی آیتیں ذکر کی گئی ہیں ان میں أنفسکم کا ترجمہ اپنے آپ کو یا آپس میں ایک دوسرے کو کیا جائے تو مفہوم اور محل کلام کے حوالے سے مختلف اشکالات پیدا ہوتے ہیں، جن کی توجیہ کی ضرورت پڑتی ہے، اور مفسرین نے ان کی توجیہ کی کوشش کی بھی ہے۔ لیکن اگر ان مقامات پر أنفسکم کا ترجمہ اپنے لوگوں کیا جائے، تو کوئی اشکال نہیں رہتا، اور مفہوم بہت واضح ہوجاتا ہے۔
(جاری)
فنا میں بقا کی تلاش
محمد حسین
اس وقت زمینی، فضائی یا بحری طور پر انڈیا اور پاکستان کے مابین عملاً جنگ شروع ہو نہ ہو، مگر دو طرح کے مائنڈ سیٹ کے مابین یہ جنگ عملاً شروع ہو چکی ہے بلکہ عروج پر ہے۔ دونوں ملکوں میں ایک طرف جنگ پسند طبے آپس میں ذرائع ابلاغ، نجی محفلوں، خوابوں اور آپس کی بحثوں میں فتح و شکست کے حساب کتاب میں لگے ہیں۔ یہ طبقہ ردعمل، غلبہ، احساس کمتری و برتری کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر جنگ کو اس وقت کی اہم ترین اور واحد ضرورت اور ذمہ داری سمجھ رہا ہے۔ دوسری طرف دونوں ملکوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو فتح و شکست کے خول سے نکل کر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ فتح و شکست اور جنگی لسانیات کا آسرا لیے بغیر سرے سے جنگ کی نفی اور امن کی تلقین کررہا ہے۔
جنگ میں کسی کی شکست کا معنی بھی تباہی ہے اور فتح کا مطلب بھی تباہی ہے۔ جنگ میں ہار ہمیشہ غریب، نادار، نہتے عوام کی ہوتی ہے اور فتح ہمیشہ انا، ضد، ہٹ دھرمی، مفاد پرست اشرافیہ، مقتدر جنگجوؤں اور اسلحہ بیچنے والوں کی۔ جنگ پیش خیمہ ہے تباہی کا، علامت ہے بربادی کی، آہ و فغان کی، آگ و خون کی، چیخ پکار کی، چھلنی جسموں کی، زخمی بدنوں کی، بے غسل و کفن لاشوں کی، مفلوج کر دینے والے لاعلاج امراض کی، بے پناہ بیماریوں کی، مرداروں کے تعفن کی، یتیم بچوں کی، بے آسرا عورتوں کی، سسکیوں اور آہوں کی، ظلم و بربریت کی، اندھے قتل و غارت کی، خوف کی، شک کی، مارنے اور مرنے کی، آبادیوں کے کھنڈرات میں بدلنے کی، سرسبز و شاداب وادیوں کے جھلسے ہوئے اور راکھ بنے بنجر ٹکڑوں میں بدلنے کی۔ جنگ نام ہی فنا کا ہے، لیکن معلوم نہیں لوگ کیوں اس میں بقاء تلاش کرتے ہیں۔ ہاں، یہ بقاء ضرور ہے ان انسانی اوصاف سے عاری انسان نما درندوں کے لیے جو ہمیشہ خون کے پیاسے ہوتے ہیں، جن کی معیشت، اقتدار اور قوت لوگوں کے خون سے سیراب ہوتی ہے۔
یہ تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک کی بدقسمتی رہی ہے کہ وہ اپنے ناکام طرز حکمرانی، بدعنوانی، سیاسی عدم استحکام، نسلی و مذہبی تعصبات و منافرت پر قابو نہ پا سکے جس کے باعث وہ بدترین سطح پر داخلی شکست و ریخت، خانہ جنگیوں، قتل و غارت اور اندرونی خلفشار کا شکار ہیں۔ وہ اپنے داخلی مسائل کو مل جل کر حل کرنے کے لیے آگے کی طرف بڑھنے کے بجائے ایک دوسرے کے لیے مزید مشکلات اور مسائل پیدا کرنے میں باہمی رقابت و مخاصمت سے کام لے رہے ہیں۔ وہ اپنا سرمایہ اور وسائل تعمیر و ترقی، استحکام و خوشحالی پر لگنے کے بجائے دفاع اور قومی سلامتی کے نام سے فسادات اور جنگ کی آگ بھڑکانے میں لگاتے ہیں۔ اس صورت حال میں مفاد پرستوں کا ایسا طبقہ بھی وجود میں آ چکا ہے جن کا مفاد اندرون ملک یا بیرون ملک فساد سے وابستہ ہے۔ اس طبقے کے نزدیک جنگ ان کی معاشی استحکام اور ترقی کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔
اس گلوبل ویلیج اور اقتصادی دوڑ کے اس دور میں یہ امر قابل غور ہے کہ مختلف عالمی اور علاقائی جنگوں سے فراغت پانے والے ممالک، خاص طور پر حالیہ برسوں میں امریکہ، روس، فرانس، چین وغیرہ نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے بنا کر ایک طرف اپنے دفاع کو تو مضبوط کیا ہے، لیکن قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ ان ممالک نے اسی سلحے کو اب اپنی معاشی ترقی کا ذریعہ بھی بنا لیا ہے اور وہ دنیا میں نئے نئے خریدار تلاش کرنے اور اپنے اسلحے کی کھپت کے لیے مختلف ممالک کو اپنی مارکیٹ بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ وہ امن کے قیام سے زیادہ اسلحہ کی مارکیٹ بنانے اور کہیں نہ کہیں میدان جنگ سجائے رکھنے پر توجہ دیتے ہیں۔اسی لیے و ہ خارجہ پالیسی، تزویراتی مقاصد، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دوسرے ممالک میں مداخلت کرنے کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک اپنے ہاں داخلی مخاصمت پر مبنی ماحول میں بیرونی مداخلت اور اسلحے کے فروخت کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنے والے سوداگروں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔
تیسری دنیا کی سوچ کی سطحیت کا عالم یہ ہے کہ یہاں جنگ کی بات کرنا وفادادری، بہادری اور غیرت و حمیت کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے جبکہ امن ، باہمی محبت و احترام، سماجی ہم آہنگی ، مکالمہ کی بات کرنا غداری قرار دی جاتی ہے۔ جس چیز میں سب کی بقاء ہے، وہ سازش سمجھی جاتی ہے اور جس میں سب کی فنا مضمر ہے، اس میں بقاء، حمیت، غیرت، بہادری تلاش کی جاتی ہے۔ لوگ قلم کی بجائے اسلحے میں قوت ڈھونڈتے ہیں۔ صحیح و غلط کا معیار طاقت و اقتدار طے کرتا ہے۔ دھوکہ دہی کو زیرکی، پروٹوکول کو عزت، خوش اخلاقی کو کمزوری، سوچنے کو بے وقوفی، تحقیق و تخلیق کو وقت کا ضیاع، اور سب کا احترام کرنے کو چاپلوسی گردانا جاتا ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ مختلف نفسیاتی و سماجی امراض میں مبتلا اس قوم کے ہاں پورے نظامِ اقدار کو دوبارہ سے منقح (redefine) کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلمان حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کی فقہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
(مصنف کی کتاب ’’جہاد، مزاحمت اور بغاوت‘‘ کی ایک فصل)
شیخ یوسف القرضاوی کی ’’فقہ الجہاد‘‘ میں ایک اہم بحث مناقشۃ فقہ جماعات العنف کے عنوان کے تحت ہے ، جس میں شیخ قرضاوی نے کوشش کی ہے کہ مسلمان ریاستوں میں حکومتوں کے خلاف خروج کے قائلین کی فقہ کے اہم مبادی سامنے لا کر ان کی غلطی واضح کی جائے ۔ یہ بحث بہت مفید نکات پر مشتمل ہے ۔
و من نظر الی جماعات العنف ، القائمۃ الیوم فی عالمنا العربی مثلاً ( جماعۃ الجھاد، الجماعۃ الاسلامیۃ ، السلفیۃ الجھادیۃ ، جماعہ انصار الاسلام ۔۔۔ انتھاء بتنظیم القاعدۃ ): وجد لھا فلسفتھا و وجھۃ نظرھا ، و فقھھا الذی تدعیہ لنفسھا ، و تستند بالادلۃ من القرآن و السنۃ، و من اقوال العلماء ۔ (۱)
[جو بھی ان تشدد پسند جماعتوں کا جائزہ لے گا جو آج عرب دنیا میں قائم ہیں ، جیسے جماعۃ الجہاد، الجماعۃ الاسلامیۃ ، السلفیۃ الجہادیۃ ، جماعۃ انصار الاسلام ۔۔۔ جن کی انتہا القاعدہ کی تنظیم پر ہوتا ہے ، تو وہ دیکھے گا کہ ان کا ایک مخصوص فلسفہ ، نقطۂ نظر اور فقہ ہے جس کا یہ اپنے لیے دعوی کرتی ہیں اور قرآن و سنت کے دلائل اور علما کے اقوال سے استدلال کرتی ہیں۔]
اس ضمن میں شیخ قرضاوی خصوصاً درج ذیل امور ذکر کرتے ہیں کہ ان تنظیموں کی نظر میں :
۱ ۔ مسلمانوں کے حکمران مرتد ہوچکے ہیں ؛
۲ ۔ امام ابن تیمیہ کے مشہور فتوے کی رو سے ایسے حکمرانوں کے خلاف خروج واجب ہے ؛
۳ ۔ یہ حکومتیں مسلمانوں پر غیر مسلموں نے مسلط کی ہوئی ہیں ؛
۴ ۔ یہ حکمران برائی کو فروغ دیتے اور نیکی سے لوگوں کو روکتے ہیں اور اللہ کے حرام کردہ کاموں کو جائز ٹھہراتے ہیں ؛
۵ ۔ مسلمان ریاست میں مستقل رہایش پذیر غیر مسلم عقد ذمہ توڑ چکے ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کو جزیہ نہیں دیتے ؛
۶ ۔ مسلمان ریاستوں میں سیاحت یا تجارت کی غرض سے آنے والے غیر مسلم بھی مباح الدم ہیں کیونکہ ان کی ریاستیں مسلمانوں سے برسرجنگ ہیں ؛
و لو درس ھولاء فقہ الامان و الاستئمان ، و أحکامہ فی الشریعۃ الاسلامیۃ بمختلف مذاھبھا ، لایقنوا ان ھولاء السیاح و امثالھم لھم حق الامان ، الذی اعطاھم ایاہ الاسلام ، و لو کانوا فی الاصل حربیین ، و دولھم محاربۃ للاسلام و المسلمین ، و بھذا حرمت دماؤھم و اموالھم۔ (۲)
شیخ قرضاوی صراحت کرتے ہیں کہ یہ فقہ صحیح نہیں ہے اور علما کی ذمہ داری ہے کہ اس کی غلطی واضح کریں ۔(۳)
وہ خصوصاً ذکر کرتے ہیں کہ ان کی فقہ کی اہم غلطیاں درج ذیل امور میں ہیں :
۱ ۔ جہاد کے حکم کی حقیقت اور غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کی صحیح نوعیت ؛
۲ ۔ اہل ذمہ کے ساتھ تعلقات کی صحیح نوعیت ؛
۳ ۔ برائی کو بدلنے ( تغییر منکر ) کا صحیح طریق کار ؛
۴ ۔ حکمران کے خلاف خروج کے لیے شرائط ؛ اور
۵ ۔ مسلمان کی تکفیر کا مسئلہ ۔ (۴)
پھر نتیجہ وہ یہ نکالتے ہیں کہ ان لوگوں کے خلوص میں کوئی شک وہ شبہ نہیں ہے لیکن مسئلہ ان کی فکر میں ہے :
ازمۃ ھولاء ازمۃ فکریۃ ۔ لقد تبین ان آفۃ ھولاء ۔ فی الاغلب ۔ فی عقولھم ، و لیست فی ضمائرھم ، فاکثرھم مخلصون ، و نیاتھم صالحۃ ، و ھم متعبدون لربھم ۔۔۔ (۵)
تاہم ساتھ ہی وہ یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ حسن نیت سے غلط کام صحیح نہیں ہوجاتا ۔
تغییر منکر کے طریق کار میں ان لوگوں کو کیا غلطی لاحق ہوئی ہے ؟ شیخ قرضاوی اس سوال کے جواب میں ان شرائط کا ذکر کرتے ہیں جن کی پابندی تغییر منکر کے لیے اٹھنے والوں پر عائد ہوتی ہے :
ا۔ یہ کہ اس کام کے برائی ہونے پر اجماع ہو کیونکہ اجتہادی مسائل پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا ؛
۲ ۔ وہ برائی واضح و آشکارا ہو جس کے لیے تجسس کی ضرورت نہ ہو ؛
۳ ۔ جس وقت اس برائی کا ارتکاب ہورہا ہو اس وقت اسے روکنے اور تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے ، ایسا نہ ہو کہ ارتکاب کے بعد یا ارتکاب سے پہلے تغییر منکر کے نام پر اقدام کیا جائے۔
۴ ۔ تغییر منکر کے لیے کی جانے والی کوشش میں زیادہ بڑی برائی یا برابر کی برائی وجود میں نہ آئے کیونکہ شرعی طور پر مسلم ہے کہ ضرر کو اس سے بڑے یا برابر کے ضرر کے ذریعے دور نہیں کیا جائے گا ۔ (۶)
یہاں شیخ قرضاوی امام غزالی کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ تغییر منکر کے متعدد مراتب ہیں ، جیسے اس بات کی توضیح کہ یہ کام برا ہے ، اس کے خلاف وعظ و نصیحت ، زجر اور تخویف ، ہاتھ سے براہ راست تبدیل کرنے کی کوشش ، مارپیٹ کی دھمکی ، برائی کے مرتکب کے خلاف طاقت کا استعمال اور اسے اور اس کے ساتھیوں کو مغلوب کرنے کی کوشش اور اس ضمن میں آخری تدبیر کے طور پر اسلحے کا استعمال یا اس کی دھمکی ۔
شیخ قرضاوی کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ تغییر منکر کے لیے اسلحے کا استعمال بالکل آخری حربہ ہے لیکن وہ اس کے عدم جواز کے لیے استدلال یہ کرتے ہیں کہ اس کام کے لیے معاصر قوانین کے تحت افراد کو اجازت نہیں ہے بلکہ یہ ریاست کے کرنے کا کام ہے ۔ درحقیقت شرعی و فقہی لحاظ سے بھی یہ کام افراد کے کرنے کا نہیں ، بلکہ ان لوگوں کے کرنے کا ہے جن کے پاس ولایہ ہے ، جیسا کہ اس باب میں ہم تفصیل سے واضح کرچکے ہیں ۔ شیخ قرضاوی نے خود بھی آگے تصریح کی ہے :
و ھذا فی الغالب انما یکون لکل ذی سلطان فی دائرۃ سلطانہ، کالزوج من زوجتہ، و الأب مع أبناۂ و بناتہ، الذین یعولھم و یلی علیھم، و صاحب المؤسسۃ داخل مؤسستہ، و الأمیر المطاع فی حدود امارتہ و سلطتہ، و حدود استطاعتہ، و ھکذا ۔ (۷)
عام لوگ یہ کام اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو جس فساد کا وہ خاتمہ چاہتے ہیں اس سے بڑا فساد وجود میں آجاتا ہے ۔
شیخ قرضاوی یہ بھی تصریح کرتے ہیں کہ منکر سے مراد حرام ہے ، خواہ صغائر میں ہو یا کبائر میں ، اگرچہ صغائر کے معاملے میں کبائر کی بہ نسبت تخفیف سے کام لیا جائے گا ۔ چنانچہ منکر کی تعریف میں مثال کے طور پر مستحبات کا ترک شامل نہیں ہے ۔ (۸)
اس کے بعد شیخ قرضاوی اس امر کی طرف آتے ہیں کہ جب منکر کا ارتکاب حکمران کی جانب سے ہورہا ہو تو کیا اس کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ اس ضمن میں وہ ان روایات کی ، جن میں ایسے حکمرانوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا ذکر آیا ہے ، وہ تاویل ذکر کرتے ہیں جو محدثین نے اختیار کی ہے اور جس پر اس باب میں ہم تفصیلی بحث کرچکے ہیں ، کہ یہاں طاقت کے استعمال سے مراد لازماً اسلحے کا استعمال نہیں ہے ۔ (۹)
ہم اس باب میں امام جصاص کے حوالے سے اس پر تنقید کرچکے ہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ طاقت کے استعمال کا لازمی مفہوم اسلحے کا استعمال نہیں ہے لیکن آخری تدبیر کے طور پر ، جبکہ دوسری شرائط پوری ہورہی ہوں ، تو اسلحے کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے ، جیسا کہ امام ابو حنیفہ کا موقف ہے۔ (۱۰)
البتہ شیخ قرضاوی کا اٹھایا گیا یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ حکمران انفرادی طور پر برائی کا ارتکاب کرتا ہو تو معاملہ کچھ اور ہوتا ہے لیکن جب پوری ریاستی مشینری منکر کے ارتکاب پر لگی ہوئی ہو تو کیا شراب کی چند بوتلیں توڑدینے ، یا موسیقی کی کسی محفل پر دھاوا بول کر چند لوگوں کی مارپیٹ سے تغییر منکر ہوجاتا ہے ؟
ولکن السؤال الأصعب فی المنکر اذا کان من عمل الدولۃ و أجھزتھا و مؤسساتھا المختلفۃ ، و تجلی ذلک المنکر فی انحرافات فکریۃ و تشریعیۃ و اعلامیۃ وسیاسیۃ واقتصادیۃ و تربویۃ و سلوکیۃ ۔ ھذہ لا یستطیع الأفراد أن یغیروھا بالید ، لأنھا لیست مجرد قدح من الخمر یشرب ، أو حفل غناء محرم ، انھا منکرات تغلغلت فی کیان المجتمع ، مھدت لھا أفکار ، و قامت علیھا تقالید، و حمتھا قوانین ، و رعتھا مؤسسات ۔ فلا یتصور تغییر ھذا کلہ من قبل فرد غیور أو أفراد متحمسین ، ان ھذا یحتاج الی تغییر نظام بنظام ، و حیاۃ بحیاۃ، و فلسفۃ بفلسفۃ أخری ۔ (۱۱)
شیخ قرضاوی نے اس باب میں اور بھی کئی اہم نکات اٹھائے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی اہلِ علم بھی آگے بڑھ کر پاکستان کے خصوصی تناظر میں اس موضوع پر تفصیلی مباحثہ کرکے اس حیران و ششدر قوم کے لیے صحیح طرز عمل تجویز کریں ۔ و ما علینا الا البلاغ ۔
حوالہ جات
۱ ۔ فقہ الجہاد ۔ ج ۲ ، ص ۱۰۳۰
۲۔ ایضاً ۔ ص ۱۰۳۴
۳۔ ایضاً ۔ ص ۱۰۳۵
۴۔ ایضاً ۔ ص ۱۰۳۵ ۔ ۱۰۳۶
۵۔ ایضاً ۔ ص ۱۰۳۶
۶ ۔ ایضاً ۔ ص ۱۰۴۰ ۔ ۱۰۴۱
۷۔ ایضاً ۔ ص ۱۰۴۵
۸۔ ایضاً ۔ ص ۱۰۴۱
۹ ۔ ایضاً ۔ ص ۱۰۴۷ ۔ ۱۰۴۸
۱۰ ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے :
Sadia Tabassum, "Recognition of the Right to Rebellion in Islamic Law with Special Reference to the Hanafi Jurisprudence", Hamdard Islamicus, 34: 4 (2011), 55-91.
مزید تفصیل کے لیے انھی مصنفہ کا پی ایچ ڈی کا غیر مطبوعہ مقالہ دیکھیے :
Legal Status and Consequences of Rebellion in Islamic and Modern International Law: A Comparative Study (Islamabad: International Islamic University, 2016)
۱۱ ۔ ایضاً ۔ ص ۱۰۴۹
جمعیۃ طلباء اسلام اور جمعیۃ علماء اسلام سے میرا تعلق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان کے سابق راہ نما رانا شمشاد علی خان کے سوال نامہ کے جواب میں لکھا گیا۔)
سوال نمبر ۱۔ کیا آپ کبھی JTI کے ساتھ منسلک رہے؟ آپ کا JTI سے کیا تعلق تھا؟
سوال نمبر ۲۔ JTI سے آپ کی وابستگی کے خدوخال کیا تھے؟
سوال نمبر ۳۔ JTI کا تحریک نظام مصطفیؐ، تحریک جمہوریت، تحریک ختم نبوت میں کیا کردار رہا؟
سوال نمبر ۴۔ کیا JTI کی قیادت نے کالجز اور مدارس کے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے ملاں اور مسٹر کے فرق کو ختم کیا، اور کہاں تک کامیاب رہی؟
سوال نمبر ۵۔ JTI اور JUI کا آپس میں کیا تعلق تھا؟
سوال نمبر ۶۔ JTI غیر سیاسی طلبہ تنظیم تھی اور اپنے فیصلے اپنی شوریٰ میں کرنے کی مجاز تھی تو پھر JUI کی مداخلت کیوں ہوئی؟
سوال نمبر ۷۔ JUI کی مداخلت سے JTI کا شیرازہ بکھرا، ملاں اور مسٹر کی تفریق از سر نو پروان چڑھی؟
سوال نمبر ۸۔ مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت درخواستیؒ کے مولانا ہزارویؒ سے کیا اختلافات تھے؟ مولانا ہزارویؒ کے اخراج کے وقت دو مختلف قراردادیں لکھی گئیں، اس کی کیا وجہ تھی؟
سوال نمبر ۹۔ کیا یہ درست ہے کہ حضرت مولانا درخواستیؒ غیر سیاسی شخصیت تھے، انہوں نے جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم کو استعمال کر کے پیری مریدی کو زیادہ پروان چڑھایا؟
سوال نمبر ۱۰۔ کیا یہ درست ہے کہ مفتی محمودؒ مذہبی حلقوں کے ہاتھوں یرغمال تھے کیونکہ مذہبی حلقوں پر درخواستی صاحبؒ اثر رکھتے تھے۔ مفتی صاحبؒ کے قریب آکر جماعت اسلامی نے اپنی ۔۔۔۔۔۔ کر دی۔
سوال نمبر ۱۱۔ ایسی صورتحال میں حضرت لاہوریؒ کے جانشین حضرت عبید اللہ انورؒ نے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے اس خلفشار کو کہاں تک کم کیا یا ان کا کیا کردار رہا؟
سوال نمبر ۱۲۔ JTI کی انتہائی اہم شخصیت میاں محمد عارف اور آپ کے درمیان گہرے تعلقات تھے۔ 1976ء میں آپ کے درمیان اہم رابطے ہوئے اور مشاورت ہوئی، آپ کس قسم کی تبدیلی JTI میں چاہتے تھے؟
سوال نمبر ۱۳۔ JUI اور مولانا سعید احمد رائے پوریؒ JTI کی سرپرستی کے دعوے دار تھے، حقیقت کیا تھی؟
سوال نمبر ۱۴۔ مولانا سعید احمد رائے پوریؒ اور حضرت درخواستیؒ کے درمیان وجہ تنازعہ کیا تھی؟
سوال نمبر ۱۵۔ مرکزی صدر محمد اسلوب قریشی کی آپ کی نظر میں کیا کارکردگی تھی، کیا انہوں نے اپنی جماعتی ذمہ داریاں دستور کے مطابق ادا کیں؟
سوال نمبر ۱۶۔ آپ نے پہلے مفتی محمودؒ اور حضرت درخواستیؒ کے اختلاف پر مفتی محمودؒ کا ساتھ دیا، بعد ازاں مولانا سمیع الحق گروپ میں فعال کردار ادا کیا، اب پاکستان شریعت کونسل بنا لی، کیوں؟
سوال نمبر ۱۷۔ آپ ’’ترجمان اسلام‘‘ کے ایڈیٹر تھے جسے آپ سے لے کر JTI کے حوالے کیا گیا،کیوں؟ تفصیلات کیا تھیں؟
سوال نمبر ۱۸۔ 1976ء میں JTI کے انتشار کے بعد آپ کے خیال میں JTI کا ماضی، حال اور مستقبل کیا ہے؟
سوال نمبر ۱۹۔ کیا مستقبل میں کوئی ایسی کوشش ہو سکتی ہے کہ JTI کے حالات پر 1976ء پر چلے جائیں؟
سوال نمبر ۲۰۔ کیا یہ درست ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام اور مدارس عربیہ میں موروثیت عروج پر ہے؟
سوال نمبر ۲۱۔ آپ کی تصانیف کون کون سی ہیں، ان میں اہم موضوعات کونسے ہیں؟
سوال نمبر ۲۲۔ کیا آج بھی کوئی ایسی صورت بنتی ہے کہ پرانے اور نئے ساتھیوں کو کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جا سکے؟
سوال نمبر ۲۳۔ آپ مرکزی ناظم انتخابات تھے، رحیمیہ والوں کا اعتراض آپ نگرانی 100 کے قریب ووٹ جعلی تھے۔ قاری نور الحق قریشی کو دانستہ طور پر ناظم چنوایا گیا۔
مولانا زاہد الراشدی کے جوابات
سوال نمبر ۱ و ۲: جمعیۃ طلباء اسلام کے ساتھ میرا تعلق طالب علمی کے زمانے سے ہوگیا تھا۔ میں اس سے قبل جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ 1962ء سے وابستہ تھا، گوجرانوالہ شہر کا سیکرٹری اطلاعات اور سرگرم کارکن تھا۔ جمعیۃ طلباء اسلام قائم ہوئی تو میں اس کے گوجرانوالہ یونٹ کا نائب صدر بنا۔ مولانا حافظ عزیز الرحمنؒ صدر تھے اور میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم سیکرٹری تھے۔ جمعیۃ طلباء اسلام میں باقاعدہ شامل ہونے پر میں نے جمعیۃ علماء اسلام کے سیکرٹری اطلاعات کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا اور اس کا اخبارات میں اعلان بھی کیا۔ اس کی اخباری خبر پر حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے غالباً قصور میں ایک ملاقات کے موقع پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ یہ ایک تنظیمی سی بات تھی اس کا اخبارات میں اعلان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ میں نے اس پر خاموشی اختیار کر لی اور مثبت یا منفی کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا۔ البتہ طالب علمی کے دور میں جمعیۃ طلباء اسلام کے ساتھ ہی کام کرتا رہا جبکہ 1969ء میں دورۂ حدیث سے فراغت اور مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی نیابت کا منصب سنبھالنے کے بعد پھر سے جمعیۃ علماء اسلام میں متحرک ہوگیا اور ضلعی سیکرٹری اطلاعات بنا دیا گیا۔ اس دوران لاہور جامعہ رحمانیہ قلعہ گوجر سنگھ میں حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کی سرپرستی میں منعقد ہونے والی جے ٹی آئی کے بھرپور اجلاس میں شریک ہوا، گوجرانوالہ کے متعدد اجتماعات کے انتظام میں شریک رہا اور مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیا جن کی تفصیلات اس وقت ذہن میں نہیں ہیں۔
سوال نمبر ۳: 1972ء میں گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر کے بعض اقدامات کے خلاف چلائی گئی تحریک جمہوریت بلکہ اس سے قبل ایوب خان اور یحییٰ خان کے خلاف مختلف مواقع پر جمہوری اقدار کی بحالی کے لیے جدوجہد میں جے ٹی آئی کا سرگرم کردار تھا۔ اور اس کے کارکنوں نے جلسوں اور جلوسوں کے انتظامات کے علاوہ پولیس تشدد اور گرفتاریوں کا بھی سامنا کیا۔ 1974ء کی تحریک ختم نبوت اور 1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں بھی جے ٹی آئی کا نمایاں کردار تھا۔ جلوسوں، جلسوں، گرفتاریوں اور رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے مختلف زاویوں سے اس نے محنت کی اور قربانیاں دیں۔
سوال نمبر ۴: میرے نزدیک جی ٹی آئی کی جدوجہد کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس نے کالجز اور مدارس کے طلبہ کو ایک فورم پر مجتمع کر کے مسٹر اور ملا کے فرق کو ختم کرنے کی اپنے وقت میں کامیاب کوشش کی۔ اور کالج و یونیورسٹی کے ماحول میں طلبہ کی سیاست پر اسلامی جمعیۃ طلبہ اور اس کے مقابلہ میں بائیں بازو کی طالب علم تنظیموں کی شدت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشمکش بلکہ تصادم میں تیسرے اور متوازن گروپ کا کردار ادا کیا۔ اس سے اسلام کی ترجمانی کے حوالہ سے اسلامی جمعیۃ طلبہ کی عام طور پر سمجھی جانے والی اجارہ داری کو بریک لگی اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں اور گروپوں کی آزاد خیالی بلکہ آزاد روی کا راستہ بھی روکا جا سکا۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں میں اس وقت کشمکش اور تصادم کی جو فضا قائم ہوگئی تھی، جے ٹی آئی نے اس میں ’’بیلنس پاور‘‘ کا کردار ادا کیا جسے خدا جانے کس کی نظر لگی کہ وہ اپنا یہ کردار زیادہ دیر تک جاری نہ رکھ سکی۔
سوال نمبر ۵، ۶، ۷: جمعیۃ طلبہ اسلام دستوری اور تنظیمی طور پر ایک الگ اور غیر سیاسی تنظیم تھی جس کا دائرہ کار بھی مستقل اور امتیازی تھا۔ البتہ اس کے لیے جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت کی سرپرستی ضروری سمجھی گئی جو عملاً قائم بھی ہوگئی لیکن مسلسل تحریکات میں باہمی میل جول اور مشترکہ اقدامات کی وجہ سے یہ دستوری امتیاز نمایاں نہ رہا اور ’’من توشدم تو من شدی‘‘ کا ماحول قائم ہوگیا۔ اصولی طور پر یہ تعلق سرپرستی کا ہی تھا اور بظاہر استاد شاگرد جیسا تھا مگر عملی ماحول ۔۔۔ سیاسی و دینی تحریکات میں جے ٹی آئی کی مسلسل شرکت اور قربانیوں کے باعث یہ تاثر قائم نہ رہ سکا جس سے اس غلط فہمی نے جنم لیا کہ جے ٹی آئی کی قیادت جے یو آئی کی قیادت کو محض سرپرست سمجھنے لگی، جبکہ جے یو آئی کی قیادت نے اسے اپنی ذیلی جماعت تصور کر لیا۔ اس بنیاد پر باہمی بُعد بڑھتا گیا جسے کم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی اور جے ٹی آئی خلفشار کا شکار ہوگئی۔
جے ٹی آئی کے فکری اور تحریکی رخ کو اپنے مجموعی ماحول اور مفاد کے منافی تصور کرتے ہوئے جے یو آئی کی قیادت نے مداخلت کی۔ میں بھی جمعیۃ علماء اسلام کا ایک سرگرم کردار تھا، اس لیے ظاہر بات ہے کہ میں بھی اس اقدام کا حصہ تھا۔ اسے تنظیمی اور دستوری طور پر محل نظر کہا جا سکتا ہے لیکن ملک بھر کے عمومی ماحول اور جمعیۃ علماء اسلام کے فورم پر دینی و سیاسی تحریکات میں جے ٹی آئی کی مسلسل اور بھرپور شرکت سے قائم ہونے والا تاثر دستوری اور تنظیمی معاملات پر غالب رہا اور
اس کشمکش میں ٹوٹ گیا رشتہ چاہ کا
جہاں تک مسٹر اور ملا کی تفریق کے عود کر آنے کی بات ہے یہاں تک درست ہے کہ اس تفریق کو مٹانے کے لیے جو ایک سنجیدہ کوشش ہوئی تھی اور جس کے اثرات بھی دکھائی دینے لگے تھے، اس کا راستہ رک گیا۔ اس کی ذمہ داری کسی پر بھی ہو بہرحال یہ ایک دینی اور قومی نقصان ہے جس کی تلافی کے لیے اس کے بعد کوئی راستہ بھی اختیار نہیں کیا گیا جو دوہرے نقصان کے مترادف ہے۔
سوال نمبر ۸: مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے مابین اختلافات کو میرے مطالعہ و مشاہدہ کی رو سے دو تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول یہ کہ حضرت مولانا ہزارویؒ دوسری سیاسی پارٹیوں بالخصوص جماعت اسلامی کے ساتھ میل جول کو ایک حد سے زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ جبکہ مولانا مفتی محمودؒ دینی و قومی مقاصد کے لیے دینی و سیاسی جماعتوں کے متحدہ محاذ کے قیام کے ہر دور میں خواہاں رہے ہیں۔ اس کا آغاز ایوب خان مرحوم کے دور میں جمہوری مجلس عمل سے ہوا اور 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد تک پہنچا۔ اس دوران دوسری سیاسی و دینی جماعتوں کے ساتھ نصف درجن سے زیادہ مشترکہ فورم بنے جن میں سے بعض میں حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ بھی وقتی ضرورت سمجھ کر شریک ہوئے مگر یہ بات ایک مستقل پالیسی کے طور پر ان کے لیے قابل قبول نہیں تھی اس لیے وہ اس رخ پر زیادہ دیر تک ساتھ نہیں چل سکے۔
تنظیمی ماحول میں جب مشرقی پاکستان میں حضرت مولانا پیر محسن الدین احمدؒ کی سربراہی میں جمعیۃ علماء اسلام کے قیام کے بعد مرکزی سطح پر ’’کل پاکستان جمعیۃ علماء اسلام‘‘ تشکیل پائی تو اس کا ناظم عمومی حضرت مولانا مفتی محمودؒ کو منتخب کیا گیا۔ جبکہ یہ حیثیت اس سے قبل جمعیۃ علماء اسلام مغربی پاکستان میں حضرت مولانا ہزارویؒ کو حاصل تھی اور مولانا مفتی محمودؒ مرکزی نائب امیر تھے۔ ون یونٹ کے خاتمہ کے بعد مغربی پاکستان کی سطح پر جمعیۃ علماء اسلام کا وجود ختم ہوگیا اور وہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں تقسیم ہوگئی تو حضرت مولانا ہزارویؒ کی پوزیشن کل پاکستان جمعیۃ میں مولانا مفتی محمودؒ کے نائب کے طور پر ایک مرکزی ناظم کی بن گئی۔ چونکہ دونوں بزرگوں کے سیاسی مزاج اور ترجیحات میں ایک فرق موجود تھا جس کا سطور بالا میں تذکرہ کیا گیا ہے تو عام جماعتی حلقوں میں اس فرق کے اثرات محسوس کیے جانے لگے۔
اسی تسلسل میں جب حضرت مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے تو جمعیۃ کے اندر یہ رجحان سامنے آیا کہ مفتی صاحبؒ کو جماعتی عہدہ چھوڑ دینا چاہیے جو انہوں نے مجلس شوریٰ کے ایک اجلاس کے بعد چھوڑ دیا۔ اور حضرت مولانا ہزارویؒ کو مرکزی ناظم عمومی چن لیا گیا جس پر جمعیۃ کے اندرونی حلقوں میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ حضرت مفتی صاحبؒ اور حضرت مولانا ہزارویؒ کے رجحانات میں فرق کی وجہ سے اس طرح جمعیۃ خلفشار کا شکار ہو جائے گی۔ چنانچہ مجلس عمومی کے اجلاس میں مفتی صاحبؒ کو دوبارہ ناظم بنا دیا گیا، میرے خیال میں یہ بات بھی باہمی بُعد میں اضافہ کا باعث بنی اور پھر فاصلے بڑھتے چلے گئے۔
تیسرا سبب میرے خیال میں یہ ہے کہ صوبہ سرحد میں وزارت اعلیٰ کے حوالہ سے جس طرح بات آگے بڑھی وہ بھی ان اختلافات میں توسیع کی وجہ بن گئی۔ 1970ء کے الیکشن میں جمعیۃ علماء اسلام نے صوبہ سرحد کی اسمبلی میں چند سیٹیں حاصل کیں مگر خان عبد الولی خان اور خان عبد القیوم خان کے مابین سیاسی اختلاف کی شدت کے ماحول میں وہ چار یا پانچ سیٹیں صوبائی حکومت کی تشکیل کے لیے بیلنس پاور اور بادشاہ گر کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ خان عبد القیوم خان کی مسلم لیگ اور خان عبد الولی خان کی نیشنل پارٹی دونوں کی یکساں کوشش تھی کہ جمعیۃ علماء اسلام ان کا ساتھ دے تاکہ ان کی حکومت بن جائے یا کم از کم ان کی حریف پارٹی کی حکومت نہ بن سکے۔ دونوں ایک دوسرے سے خائف تھیں جس کی وجہ سے دونوں پارٹیاں ساتھ دینے کی صورت میں جمعیۃ کی ہر شرط ماننے کو تیار تھیں۔ اس کشمکش میں مفتی صاحبؒ کا رجحان واضح طور پر خان عبد الولی خان کی طرف تھا جبکہ مولانا ہزارویؒ خان عبد القیوم خان کے ساتھ کولیشن کے خواہاں تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بات کو شامل کر لیں کہ مفتی صاحبؒ کی پالیسی صوبہ میں حکومت بنانے اور مرکز میں بھٹو حکومت کے مقابلہ میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی تھی۔ جبکہ مولانا ہزارویؒ مرکز میں بھٹو حکومت کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے اور اپوزیشن بالخصوص جماعت اسلامی کے ساتھ کسی قسم کی کولیشن کے حق میں نہیں تھے۔ اس میں ایک اور بات کا اضافہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ اس وقت افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف افغان مجاہدین کی عسکری مزاحمت منظم نہیں ہوئی تھی مگر اس کی شروعات ہو چکی تھی اور اس کے مسلسل آگے بڑھنے کے رجحانات نمایاں تھے۔ اس کے بارے میں مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت درخواستیؒ کا رجحان بالکل واضح تھا کہ وہ اس مزاحمت کے حق میں تھے اور اسے شرعی جہاد سمجھتے تھے۔ جبکہ مولانا ہزارویؒ اس جہاد اور مزاحمت کو سپورٹ کرنے کے حق میں نہیں تھے اور اسے خطہ میں امریکی عزائم کی تکمیل میں معاونت تصور کرتے تھے۔
اس مسئلہ پر حضرت مولانا ہزاروی کے ساتھ میری طویل خط و کتابت ہوئی تھی جس کی میں نے ایک عرصہ تک تاریخی دستاویز سمجھ کر حفاظت کی مگر بدقسمتی سے گزشتہ تین چار سال سے تلاش بسیار اور بار بار تگ و دو کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ خدا جانے وہ اس وقت کہاں اور کس حال میں ہے؟ فیا اسفاہ۔
حضرت مولانا مفتی صاحبؒ اور حضرت مولانا ہزارویؒ کے درمیان اختلافات کی خلیج کو وسیع ہوتے ہوئے میں نے خود دیکھا اور میں نے حضرت مولانا ہزارویؒ کی تمام تر محبت و عقیدت اور ادب و احترام کے باوجود میں اس معاملہ میں حضرت درخواستیؒ اور مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ تھا۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خود میرے ذہنی رجحانات بھی یہی تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ میرے چند بزرگوں مثلاً حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ ، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ ، اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کا ذہنی جھکاؤ بھی اسی طرف تھا۔
سوال نمبر ۹: حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کو میں غیر سیاسی شخصیت نہیں سمجھتا اس لیے کہ میں نے ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارا ہے اور بعض اہم قومی مسائل پر ان کی رائے کو ٹھوس اور دو ٹوک پایا ہے جو بعد میں بھی درست ثابت ہوئی۔ ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ صدر ضیاء الحق مرحوم کی کابینہ میں شمولیت کے حق میں نہیں تھے جس کا انہوں نے برملا اظہار کیا تھا لیکن چونکہ یہ فیصلہ ان کی غیر موجودگی میں مرکزی شوریٰ کر چکی تھی اس لیے انہوں نے ناراضگی کے اظہار کے باوجود خاموشی اختیار کر لی تھی۔ اسی طرح کا تاثر مولانا عبید اللہ انورؒ کے بارے میں بھی دیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ وہ وسیع سیاسی مطالعہ رکھتے تھے اور رائے کا اظہار بھی کرتے تھے۔ مثلاً جب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے صدر فضل الٰہی چودھری مرحوم کو سبکدوش کر کے خود صدارت سنبھال لی تو شیرانوالہ لاہور میں ایک صحافی نے حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے جو اس وقت پاکستان قومی اتحاد کے صدر تھے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ مفتی صاحبؒ نے اس پر ایک مختصر جملہ کہا کہ ’’یہ روٹین کی کاروائی ہے‘‘۔ اس صحافی کے چلے جانے کے بعد حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ نے مفتی صاحبؒ سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا ہے؟ یہ روٹین کی کاروائی نہیں ہے بلکہ ایسا معاملہ ہوگیا ہے کہ ہاتھوں سے دی ہوئیں گرہیں اب دانتوں سے بھی نہیں کھلیں گی۔
حضرت درخواستیؒ کو حضرت لاہوریؒ کے بعد علماء کرام نے متفقہ طور پر اپنا امیر چنا تھا، ان کا مریدوں کا حلقہ بہت وسیع تھا لیکن ان کے ہاں پیری مریدی کو فروغ دینے یا اسے ایک خانقاہی نظام کے طور پر منظم کرنے کا کوئی نظم اس طرح کا موجود نہیں تھا۔ اور نہ ہی ان کی طرف سے یا ان کے قریبی ساتھیوں کی طرف سے لوگوں کو مرید بنانے کی کوئی مہم چلائی جاتی تھی جیسی کیمپین اور اہتمام ان کے بعض معاصر حلقوں میں صاف دکھائی دیتا تھا۔ اس لیے یہ کہنا کہ حضرت درخواستیؒ نے جمعیۃ کی امارت کو اپنے مریدوں کا حلقہ وسیع کرنے کے لیے استعمال کیا، ایک نیک دل بزرگ کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنے کے ساتھ حقائق کے بھی منافی ہے۔ جبکہ میرے خیال میں اگر حضرت درخواستیؒ پر جماعتی ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو ان کے مریدوں کا حلقہ اس سے کہیں زیادہ وسیع اور ان کا خانقاہی سلسلہ بہت منظم اور مربوط ہوتا۔
سوال نمبر ۱۰: میرے خیال میں یہ تصور ہی مضحکہ خیز ہے کہ ’’مولانا مفتی محمودؒ مذہبی حلقوں کے ہاتھوں یرغمال بنے‘‘۔ مفتی صاحبؒ خود ایک ممتاز مذہبی راہ نما، شیخ الحدیث، استاذ العلماء اور شب زندہ دار بزرگ تھے۔ وہ علمی و دینی معاملات میں علماء کے لیے راہ نما کی حیثیت رکھتے تھے اور بہت سے مذہبی مسائل میں ان کی رائے کو ایک معتمد علمی شخصیت کی رائے کے طور پر لیا جاتا تھا۔ اس کی بجائے اگر یہ کہا جائے تو زیادہ قرین قیاس بات ہوگی کہ مولانا مفتی محمودؒ نے اپنی بھاربھرکم علمی اور مذہبی شخصیت کے باعث ملک کے مذہبی ماحول کو بہت سی تبدیلیوں سے روشناس کرایا۔
حضرت درخواستیؒ کے بارے میں یہ کہنا سراسر زیادتی ہے کہ ان کا مذہبی اثر و رسوخ مولانا مفتی محمودؒ کو جماعت اسلامی کے قریب لانے کا باعث بنا۔ اس لیے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ بہت سے اہم اتحادوں میں شمولیت کے باوجود حضرت درخواستیؒ نے جماعت اسلامی کے ساتھ ہمیشہ اپنا فاصلہ قائم رکھا اور ان کا یہ طرز عمل آخر دم تک سب کے سامنے رہا۔
سوال نمبر ۱۱: حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ میرے شیخ و مربی تھے اور مجھے ان کی شفقت اور اعتماد ہمیشہ حاصل رہا ہے۔ وہ جماعتی معاملات میں حضرت درخواستیؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ تھے اور ہر موقع پر انہیں سپورٹ کرتے تھے۔ البتہ اختلافات میں شدت پسندی کے حق میں نہیں تھے اور بزرگوں کا ادب و احترام نہ صرف قائم رکھتے تھے بلکہ اس کی تلقین کیا کرتے تھے۔
سوال نمبر ۱۲: میاں محمد عارف ایڈووکیٹ مرحوم میرے طالب علمی کے دور کے ساتھی اور دوست تھے۔ میرا ان کے ساتھ یہ تعلق کم و بیش سبھی مراحل میں قائم رہا۔ اکثر و بیشتر معاملات میں ہم باہمی مشورہ کے ساتھ اپنا موقف اور لائحہ عمل طے کرتے تھے جبکہ بعض معاملات میں ہمارے درمیان اختلاف بھی ہوا۔ 1976ء کے معاملات میں ہم دونوں جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی قیادت کے ساتھ تھے اور حضرت درخواستیؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے موقف اور پالیسی پر عملدرآمد میں ہم دونوں نے بھرپور کوشش کی تھی۔ ہمارا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں تھا، جو کچھ بزرگ طے کرتے تھے ہم اسی پر عمل کرتے تھے۔
سوال نمبر ۱۳: جمعیۃ علماء اسلام کے اکابر اور حضرت مولانا سعید احمد رائے پوریؒ ایک دور میں دونوں ہی جمعیۃ طلباء اسلام کے سرپرست تھے اور دونوں کی سرپرستی میں جے ٹی آئی کچھ عرصہ کام کرتی رہی ہے۔ حضرت مولانا رائے پوریؒ کی سرپرستی عملی اور متحرک تھی اس لیے اس کی چھاپ نمایاں تھی لیکن بعض فکری مسائل میں ان کی انفرادی آراء جب سامنے آنا شروع ہوئیں تو فرق و امتیاز نظر آنے لگا۔ وہی معاملات بعد میں فکری اختلافات کا رنگ اختیار کر گئے اور یہ فرق و امتیاز باقاعدہ تفریق میں بدل گیا جو آج سب کے سامنے ہے۔
سوال نمبر ۱۴: میرے خیال میں حضرت درخواستیؒ اور مولانا رائے پوریؒ کے درمیان کوئی ایسا تنازعہ موجود نہیں تھا جسے ان کے درمیان شخصی تنازعہ کا عنوان دیا جا سکے۔ حضرت درخواستیؒ اور ان کے رفقاء کی پالیسی ترجیحات سے مولانا رائے پوریؒ کی پالیسی ترجیحات مختلف تھیں جسے حضرت درخواستی کے ساتھ ان کے تنازعہ کا عنوان دینا درست نہیں ہوگا۔
سوال نمبر ۱۵: جناب محمد اسلوب قریشی کو میں ایک مخلص، مدبر اور سنجیدہ راہ نما سمجھتا ہوں، ان کے بارے میں ہر مرحلہ پر میری رائے یہی رہی ہے۔ اور کسی بھی اختلاف کے باوجود مجھے ان کے خلوص، محنت اور للّٰہیت کے بارے میں بحمد اللہ کبھی تردد نہیں ہوا۔
سوال نمبر ۱۶: کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مولانا درخواستیؒ اور مولانا مفتی محمودؒ کے درمیان کوئی ایسا اختلاف ہوا ہو کہ ان میں سے کسی کا الگ طور پر ساتھ دینے کی ضرورت پڑی ہو۔ دونوں بزرگ ہمیشہ اکٹھے رہے ہیں۔البتہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء اسلام جب درخواستی اور فضل الرحمن گروپ میں تقسیم ہوئی تو میں درخواستیؒ گروپ میں تھا اور اس کا ایک فعال کردار تھا۔ لیکن جب ان دونوں گروپوں میں صلح ہوئی اور متفقہ طور پر حضرت درخواستیؒ کو امیر اور مولانا فضل الرحمن کو سیکرٹری جنرل چنا گیا تو میں متحدہ جمعیۃ میں تھا اور اس کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہا۔ اور اب بھی ایک عام رکن کے طور پر اسی جمعیۃ میں ہوں۔ مولانا درخواستیؒ اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان اتحاد کے بعد مولانا سمیع الحق نے سمیع الحق گروپ کے نام سے جمعیۃ علماء اسلام کا جو گروپ قائم کیا میں کبھی اس کا حصہ نہیں رہا۔ پاکستان شریعت کونسل کوئی مستقل جماعت نہیں بلکہ محض ایک علمی و فکری فورم ہے جس میں علمی، نظریاتی اور فکری جدوجہد سے دل چسپی رکھنے والے حضرات شامل ہیں اور ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہونا شرط نہیں ہے۔
سوال نمبر ۱۷: میں ہفت روزہ ترجمان اسلام کا مدیر رہا مگر اس کے انتظامات کو پورا وقت نہ دے سکنے کی وجہ سے بہتر طور پر نہیں چلا سکا تھا اس لیے یہ انتظام جے ٹی آئی کے حوالہ کر دیا گیا تھا جس پر نہ اس وقت مجھے کوئی اشکال تھا اور نہ ہی اب اس کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔
سوال نمبر ۱۸، ۱۹، ۲۲: جمعیۃ طلباء اسلام میں خلفشار اور باہمی کشمکش کے باعث ہم دینی مدارس اور کالجوں کے طلبہ کے ایک مشترکہ فورم سے محروم ہوگئے ہیں اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ایک خواب کی جو تعبیر عملاً دکھائی دینے لگی تھی وہ آنکھوں سے اوجھل ہوگئی ہے جسے میں کالتی نقضت غزلھا من بعد قوۃ انکاثا سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔ میرے خیال میں اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی بجائے اس کے وسیع تر نقصانات کو مشترکہ طور پر محسوس کر کے اس کی تلافی کی کوئی صورت نکالنی چاہیے۔ میری رائے یہ ہے کہ پرانے نظریاتی ساتھی کسی وقت اکٹھے ہوں، سر جوڑ کر بیٹھیں اور ماضی کو ضرورت سے زیادہ کریدتے رہنے کی بجائے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں اور شیخ الہندؒ کے افکار و پروگرام کو بنیاد بنا کر مستقبل کی صورت گری کا کوئی بنیادی خاکہ ضرور تجویز کر دیں۔ خود تو ظاہر ہے کہ وہ اب کچھ نہیں کر سکیں گے مگر نئی نسل کو اپنی راہ متعین کرنے میں کچھ نہ کچھ معاونت مل ہی جائے گی۔
سوال نمبر ۲۰: خاندانی موروثیت ہمارے برصغیر کے علمی و روحانی حلقوں میں روایتی طور پر چلی آرہی ہے اور اگر اہلیت ہو تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ البتہ محض خاندانی نسب کو موروثیت کی بنیاد بنانا درست نہیں ہے جو آج کل عام ہو رہی ہے اور اس کے منفی اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس کی وجہ پاکستان میں کسی علمی و روحانی مرکزیت کا فقدان ہے جو نگرانی اور راہ نمائی کا کردار ادا کر سکے۔ نفسانفسی کا دور ہے اور کسی مرکزیت کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنی اپنی مرکزیت قائم کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
سوال نمبر ۲۱۔ میرا تصنیف و تالیف کا سرے سے ذوق ہی نہیں ہے۔ شروع سے ہی مضمون نویسی کی عادت ہے، مختلف جرائد اور اخبارات میں گزشتہ نصف صدی کے دوران بحمد اللہ تعالیٰ ہزاروں مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں سے بہت سے مضامین اور کالم کتابی مجموعوں کی صورت میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔ جبکہ میرا چھوٹا بیٹا حافظ ناصر الدین ان دنوں ایک مستقل ویب سائٹ zahidrashdi.org پر میرے مضامین مرتب صورت میں پیش کرنے کے لیے محنت کر رہا ہے اور بہت سے مضامین اس ویب سائٹ پر شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مولانا قاری جمیل الرحمن اختر باغبانپورہ لاہور نے میرے منتخب خطبات ’’خطبات راشدی‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں مرتب کر کے شائع کیے ہیں جنہیں دوستوں نے خاصا پسند کیا ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
سوال نمبر ۲۳: میں اس قسم کے اعتراضات و الزامات خاموشی کے ساتھ سہہ جانے کا عادی ہوں اس لیے اس پر بھی صرف اتنا ہی عرض کر سکوں گا کہ
کریدتے ہو جو اب خاک جستجو کیا ہے؟
مسلم ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ
عاصم بخشی
’مذہب پسند‘ کی اصطلاح کوا ن سب طبقات تک محدود کرتے ہوئے جو اس قضیے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی خدوخال مرتب کرنے میں تن تنہا مذہب ہی ایک واحد بامعنی قدر ہے، اگر ان تمام طبقات کا ایک عمومی سا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں فلسفہ و سائنس کو لے کر دوقسم کے فکری دھارے دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان مذہب پسندوں میں سے ایک تو وہ ہیں جو اپنے علمی منہج کو غزالی سے منسوب کر کے ’تہافت الفلاسفہ‘ میں مشغول ہیں اور ’جدید مغربی تہذیب‘ نامی کسی ایک ٹھوس اکائی کو نظریاتی طور پراپنے مقابل فرض کر کے اس سے جہاد کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ روایتی جہاد و قتال کے لیے چونکہ ہتھیار مغربی تہذیب سے لیناواضح شرعی عذر کے کارن مباح ہے، لہٰذا اس تنقیدی معرکے میں بھی ہتھیار وں کی سپلائی کا کام مغرب کے ان مارکسسٹ اور پوسٹ مارکسسٹ نقادوں سے لیا جاتا ہے جن کی’ سرمایہ دراانہ لبرل ہیومنزم‘ پر ہونے والی پچھلی نصف صدی کی تنقیدوں کو ان کے خاص سماجی وسیاسی تناظر سے نکال کر کسی حد تک کامیابی سے ایک چوں چوں کا مربیٰ تیار کیا جاتا ہے جو ہمارے ہاں کے لبرل طبقات (جن میں سے کچھ اپنے ردعمل پر مبنی استدلال میں ان مذہب پسندوں جتنے ہی علمی متشدد ہو چکے ہیں) کے سامنے کھڑے ایک سادہ لوح ’مذہب پسند ‘ کو تقریباً اسی طرح استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے جس طرح مناظراتی تربیت کے کورسوں میں طالبعلموں کو ’مخالف کو زیر کرنے کے دس اہم ترین ہتھکنڈے‘ سکھلائے جاتے ہیں۔
اس طبقے سے اختلاف کے ساتھ بہرحال ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ طبقہ کچھ مخصوص نفسیاتی مجبوریوں اور عارضہ نرگسیت کے باعث تہذیبی مباحث کا تجزیہ کسی عالمگیر انسانی تناظر میں کرنے کی قوت ہی نہیں رکھتا، لہٰذا مجبورِ محض ہوتے ہوئے حلق کے ایک حصے سے تو ’سرمایہ دارانہ تہذیب‘ کی مئے فرنگ کا تہہ جرعہ تک اپنے اندر انڈیلتا رہتا ہے اور اسی حلق کے دوسرے حصے سے تیزی سے تنقیدیں باہر اگلنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمیں ان سے اس کے علاوہ کوئی شکایت نہیں کہ وہ ہم جیسے کیوں نہیں، یعنی مان کیوں نہیں لیتے کہ جدید دور میں تہذیبی سرحدیں تیزی سے انہدام پذیر ہیں اور کم از کم اتنی دھندلا چکی ہیں کہ مشرق و مغرب کی تہذیبی دوئی ایک ایسا قصہ پارینہ ہے جو بس تاریخِ فکر کی کتابوں میں ہی ڈھونڈنے سے ملتا ہے۔
دوسرا طبقہ پہلے طبقے کی نسبت کہیں زیادہ دلچسپ اور تخریبِ ذہن و فکر کی ہلاکت خیزیوں میں اس سے کہیں آگے ہے۔ اس کی وجہ اس کی تجاہل عارفانہ میں ڈوبی وہ رجعت پسندی ہے جو فلسفے کو تفکر ، تجسس، جستجو، تحقیق، خرد افروزی، ندرتِ فکر وغیرہ جیسے انسانی خواص سے علیحدہ کر کے اس ک مذہب کا روایتی حریف گردانتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس طبقے کے نزدیک سوال کا ذہن میں پیدا ہونا تفلسف کی علت نہیں بلکہ فلسفیانہ ذہن کی تربیت ’بیجا‘ سوال اٹھانے کے مرض کی علت ہے۔ ہماری رائے میں علتوں کا یہ الٹ پھیر اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اس طبقے کے نزدیک فلسفہ چونکہ سوال اٹھانے اور عمومی طور پر اٹل سمجھے جانے والے مفروضوں پر تشکیک و تحقیق کی دعوت ہے، لہٰذا وہ ایک ایسے ذہن کو تیار کرتا ہے جو اپنے طرف پھینکی جانے والی اٹل مذہبی اور صرف مذہب کی بنیاد پر سماجی تعبیرات کو فکر پر حاکم ماننے سے انکار کر دیتا ہے ۔
انگریزی محاورے کی رو سے اگر ہمیں ایک لحظہ شیطان کی وکالت کرنی ہو تواس مخصوص مذہبی تناظر میں جدید (سیکولر)تعلیم و تربیت کا سارا ڈھانچہ ہی از سرِ نو ترتیب کا تقاضا کرتا ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جو ہماری رائے میں نہ صرف روایتی مسلم ذہن کو ’تشکیل نو‘، ’تجدد پسندی‘، ’روشن خیالی‘ وغیرہ جیسی تراکیب کو ایک مخصوص شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ ذہن میں موجود نظریہ علم کے خدوخال کو دو مختلف خانوں میں تقسیم کرتا بھی نظر آتا ہے۔قرونِ وسطی کے مذہبی متون کا ایک سرسری سا جائزہ بھی ا س مخصوص مسلم ذہنیت کے تخمِ اول کی جانب نشاندہی کے لئے کافی ہے جب ہمیں ابن رشد فکر غزالی کے خلاف فلاسفہ کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ گوراقم کی رائے میں جدید مسلم ذہن کے لئے اوراقِ تاریخ میں دبی ان بحثوں سے چند مبہم اشاروں سے زیادہ کچھ خاص استفادے کی امید نہیں لیکن یہ مبہم سے اشارے بھی پچھلے دو سو سال کے روایتی مسلم ذہن کی کسی بھی قسم کی خردافروزی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی کیفیت سمجھنے کے لئے بہت کافی ہیں۔
یہ ایک ایسا مسلم ذہن ہے جو ایک طرف تواپنی تمام تر پسماندگیوں کا الزام مغرب بالخصوص مغربی استعماریت پر دھرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا اور دوسری طرف اپنے نظریہ علم میں ایک وحشت ناک قسم کی دوئی میں بٹا ہے۔ وحشت کے اس احساس کا تجرباتی جائزہ لینا ہو تو مذہبی کتابوں کے کسی بھی اسٹال سے’ حصول علم کے فضائل‘ یا ’علم کی برکتیں‘ نامی کوئی بھی رسالہ اٹھا کر تلاش کیجئے کہ ایک اوسط مسلم ذہن علم کا کیا تصور قائم کئے بیٹھا ہے۔ مثالیں ان گنت ہو سکتی ہیں، لیکن اگر سند ہی کی تلاش ہے تو ابن رجب حنبلی کے رسالے ’’ورثہ الانبیاء‘‘ کو دیکھ لیجئے جس کا انگریزی ترجمہ The Heirs of the Prophets کے نام سے مغرب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مذہبی عالم زید شاکر کے ہاتھوں ہوا ہے اور مشہور سعودی کتب خانے مکتبہ دارالسلام میں موجود ہے۔
مقصد یقیناًابن رجب یا مخصوص سلفی فکر پر تنقید نہیں بلکہ صرف اتنا واضح کرنا ہے کہ روایتی مسلم فکر، چاہے اس کا تعلق کسی بھی تعبیراتی دھارے سے ہو ،علم کو حقیقی اور اضافی کے درجہ اولیٰ اور درجہ ثانیہ میں بانٹتی نظر آتی ہے۔ چونکہ اول الذکر کا تعلق خالص مذہبی متون یعنی قرآن و حدیث اور فقہ وغیرہ سے ہے لہٰذا طبقہ علماء کی تعبیرات میں ایک ایسے خدا اور رسول کا تصور ابھرتا نظر آتا ہے جو ایک فقیہ اور ماہر طبیعیات میں ان کی علمی ترجیحات کی بنیاد پر لازماً فرق کرتا نظر آتا ہے۔ آپ کسی بھی روایتی مذہبی گھاٹ کا پانی پی کر دیکھ لیجئے، اس مخصوص طبقاتی بھاشا میں (جسے ماہرین لسانیات lingua francaکا نام دیتے ہیں) خدا اور اس کے نبی کا ’ مطلوب انسان ‘ کبھی ریاضی دان یا کیمیا دان وغیرہ نہیں ہو گا۔ لہٰذا یہ ہرگز حیران کن نہیں کہ ہم قرونِ وسطٰی کی مسلم معاشرت میں کبھی الخوارزمی یا ابن الہیثم وغیرہ کے ناموں کے ساتھ ’امام‘ کا سابقہ نہ لگا سکے اور یہ بھی خارج از امکان ہے کہ مستقبل بعید کے مسلم معاشروں میں کسی چوٹی کے سائنسدان یا فلسفی کو کسی دینی مبلغ یا فقیہ جتنی پذیرائی میسر آ سکے۔ صاحبو، ہود بھائی اور تقی عثمانی کا کیا مقابلہ۔ بھلا دنیا اور آخرت بھی کبھی ایک جتنے اہم ہوئے ہیں؟
اگر بات یہیں تک رہتی تو کچھ ایسی وحشت کی بات نہ تھی۔ ہم اپنی جدو جہد اسی سست رفتاری سے جاری رکھتے اور اپنے مذہب پسند دوستوں کوریت میں ’مسلم نشاۃ ثانیہ‘ کے خیالی محل تعمیر کرتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے منہ دوسری طرف کر لیتے۔ لیکن مسئلہ اب صرف اپنے مخصوص آدرشوں کے لئے جدوجہد کرنے کا نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے۔ وحشت ناک امر یہ ہے کہ انسانی ترقی کے ایک مخصوص جدید تصور سے ظاہری طور پر اختلاف کرتے ہمارے یہ مذہب پسند نقادتعبیر پر اپنی حکومت قائم رکھنے کی خواہش میں ایک طرف تو آزادانہ سوچنے، سمجھنے اور سوال اٹھانے کے بنیادی حق پر اخلاقی استعمار کے ذریعے قدغن لگاتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف سائنسی مادیت و افادیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہو کر سر ے سے سائنس کی مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ بنیادوں کا انکار کر دیتے ہیں۔
کسی بھی درجے کی پاکستانی جامعہ کے فزکس ، ریاضی یا انجینئرنگ کی جماعت میں طالبعلموں سے یہ سوال پوچھ کر دیکھئے کہ ریاضی کی کتاب پوری دل جمعی سے پڑھنے سے خدا کے خوش ہونے کی کوئی امید ہے تو آ پ کو معلوم ہو جائے کہ مرض کی جڑیں کتنی پختہ ہیں۔ اس استدلال کے لئے بہت زیادہ لفاظی کی ضرورت نہیں کہ اس مخصوص مذہبی نفسیات میں کم و بیش تیرہ صدیوں سے گندھے انسان کی جینیاتی ماہیت کبھی اسے اس مرحلے کو اتنی خوش اسلوبی سے طے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی کہ خدا اور وصالِ صنم ایک ساتھ ہی مل جائے۔ ہم نے بحیثیت استاد اپنی کلاس میں ایک سے زیادہ بار دیکھا کہ وضع قطع سے مذہبی معلوم ہونے والے طالبعلم نے بہت اعتماد سے اپنا مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے ایک پیچیدہ اور نہایت دلچسپ ریاضیاتی بحث کے دوران ہمیں بیچ میں ٹوک کر اذان سننے کی ترغیب دی۔ یقین جانئے ہمیں اس روک ٹوک سے کوئی شکایت نہیں کیوں کہ ہماری نگاہ میں مسئلہ خالصتاً مذہبی نہیں بلکہ دوئی میں پھنسی مذہبی نفسیات کی ترجیحات کا ہے جس کی مذہبی اور غیر مذہبی دونوں جہتیں سراسر افادیت پرستی کے فلسفے پر قائم ہیں جو خود تردیدی کے مجسم پیکروں پر مشتمل نسلوں کی مسلسل ترسیل جاری رکھے ہیں۔ یہ تیسری دنیا کی پسماندہ مذہبی معاشرت کا ایک ایسا جدید انسان ہے جو اپنی قدیم فطرت میں موجود عقلی و حبی وحدت اس طرح بانٹ چکا ہے کہ اب اس وحدت کو محض ایک خوبصورت آدرش مان کر اس کی طرف قدم اٹھانے کی فکری قوت بھی نہیں رکھتا۔
ان حالات میں فلسفے کے کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں ، قرونِ وسطیٰ کے محبوب مناظرانہ متون سے ’تہافت الفلاسفہ‘ کشید کر پوری دیانت داری سے ایک ایسی نادیدہ بیماری کی دوا بنانے میں مصروف ہیں جو زمانہ جدید میں اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ جب تشخیص ہی درست نہ ہو تو دوا اکسیر نہیں بلکہ زہر کا کام کرتی ہے۔ ہمارے ہاں مختلف سائنسی علوم کے طلباء کچھ اس سطحی طرز سے حصولِ علم کے منزلیں طے کرتے ہیں کہ دیکارت، اقلیدس، فیثا غورث، کیپلر اور نیوٹن وغیرہ کے فکری منہج کا سایہ بھی اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے۔ نتیجتاً پیچیدہ مسائل کے خدوخال مرتب کرنے کی تکنیکی اہلیت تو دور کی بات، وہ اس نفسیاتی تجربے سے ہی بہت فاصلے پر رہتے ہیں ہیں جو انہیں نفسِ علم کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ میں جوڑ دے۔ اس پر فلسفیانہ مباحث سے کامل لا تعلقی اور سائنس کی مابعد الطبیعاتی بنیادوں سے کامل ناواقفیت انہیں یہ باور کراتی ہے کہ سائنس، مذہب اور فلسفے کو کسی ایسی کلی وحدت میں نہیں باندھا جا سکتا جس میں ان تینوں چشموں سے ایک ساتھ فیض یاب ہوتا انسان اپنے وجدان اور عقل کو ایک ایسے لطیف اور ماورائے سخن بندھن میں پرو سکے جس میں اس کی پوری ذات ایک کامل تسکین کے تجربے کے قابل ہو۔
ظاہر ہے کہ عوامی سطح پر فلسفے اور سائنس کے کسی ایسے عام فہم تدریسی بیانیے کی روایت نہ ہونا جو سائنس کے نفسِ علم میں فلسفے سے مستعار لئے گئے مابعدالطبیعیاتی اور نیم مابعد الطبیعیاتی مفروضوں کی موجودگی کو اجاگر کرے، مذہب پسندوں کے اس خاص طبقے کی وحشت ناک تنقیدوں کو کسی کم از کم درجے میں بھی معقولیت بخشنے کی اولین علت ہے۔ ہماری رائے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے آپ کو ہماری رائے سے متفق پانے والے سائنس کے اساتذہ اور شوقین والدین فلسفے کے بنیادی مباحث سے واقفیت پیدا کریں اور اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر سائنس کی تدریس میں ان طبیعاتی و مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ مباحث پر گفتگو کا آغاز کیا جائے جو سولہویں صدی سے سائنسی استدلال کی بنیادوں میں موجود ہیں۔ کون جانے کب خدا کو ہمارے حال پر رحم آ جائے اور نیوٹن، گیلیلیو، ڈارون اور دیکارت وغیرہ کو تو خیر دور کی بات ہے ، ہماری تہذیب میں کم ازکم ابن رشد، ابن طفیل، الخوارزمی ،ابن الہیثم اور ابن باجہ کو ہی وہی پذیرائی مل جائے جو اس وقت غزالی، ابو حنیفہ اور بخاری و مسلم وغیرہ کو ملتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جو ایک نوجوان مسلم ذہن کو سطحی ٹیکنالوجی کی بھیڑچال اور محض ایک افادیت پسند سائنسی تعلیم کے فنی شوق سے اوپر اٹھ کر ندرتِ فکر ، تحقیق و جستجو اور ایجاد علم کی طرف راغب کر سکتا ہے۔
فقہاء و مکتب فراہی کے تصور قطعی الدلالۃ کا فرق
محمد زاہد صدیق مغل
اس مختصر نوٹ میں فقہائے کرام و مکتب فراہی کے تصور قطعی الدلالۃ کا موازنہ کیا جائے گا جس سے معلوم ہوگا کہ فراہی و اصلاحی صاحبان کا نظریہ قطعی الدلالۃ نہ صرف مبہم ہے بلکہ ظنی کی ایک قسم ہونے کے ساتھ ساتھ سبجیکٹو (subjective) بھی ہے۔
قطعی الدلالۃ کے معنی میں ابہام
فقہاء کا ماننا یہ ہے کہ قرآن مجید کی تمام آیات کے معنی ایک ہی درجے میں واضح نہیں بلکہ معنی کا وضوح مختلف درجوں میں ہوتا ہے۔ آیات کے معنی واضح ہونے کے اعتبار سے فقہاء انہیں دو عمومی قسموں میں بانٹتے کرتے ہیں:
(ا) واضح الدلالۃ (جس کی دلالت، سمجھنے کے لیے واضح و آسان ہے)
(2) خفی الدلالۃ (جس کی دلالت چھپی ہوئی ہے)
پھر ہر تقسیم کے تحت فقہاء چار چار ذیلی تقسیمات لاتے ہیں۔ چنانچہ خفی الدلالۃ کے تحت چار ذیلی تقسیمات یہ ہیں:
"متشابہ" (جس میں خفا سب سے زیادہ ہوتا ہے اور خود شارع نے بھی اس کی وضاحت نہیں کی ہوتی)۔
"مجمل" (اس کا خفا متشابہ سے کم ہوتا ہے اور اسے دور کرنے کے لئے شارع کے کلام کی طرف رجوع لازم ہوتا ہے، یہ گویا دینی اصطلاح ہوتی ہے جس کی تعریف شارع مقرر کرتا ہے)۔
پھر "مشکل" اور "خفی" (ان کا خفا لغوی تحقیق سے ختم کیا جاسکتا ہے)۔
اسی طرح واضح الدلالت کی چار اقسام یہ ہیں:
"ظاہر" (اس میں وضوح سب سے کم ہوتا ہے)، اس سے زیادہ واضح کو "نص" کہتے ہیں اس سے کچھ زیادہ کو "مفسر" کہا جاتا ہے اور سب سے زیادہ واضح آیات کو "محکم" کہا جاتا ہے۔
فقہاء جن آیات کو "مفسر" اور بالخصوص "محکم" کہتے ہیں، ان کے بارے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ ان میں تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر ایسی آیات میں کوئی شخص تاویل سے کام لے کر کوئی دوسرا معنی اخذ کرتا ہے تو وہ گمراہ کہلائے گا۔ دوسرے لفظوں میں ان آخری دو اقسام کی نصوص کو فقہاء "قطعی الدلالۃ" کہتے ہیں اور جن آیات کو وہ قطعی الدلالۃ کہتے ہیں، ان کے مفہوم میں نہ صرف یہ کہ تاویل کی گنجائش کے قائل نہیں ہوتے بلکہ اس سے ثابت ہونے والے حکم کے منکر پر شدید شرعی حکم بھی لگاتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ فقہاء کے نظریہ قطعی الدلالۃ پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ فقہاء جسے "قطعی الدلالۃ" کہتے ہیں، اس کا معنی "واقعی" قطعی الدلالۃ (definite in meaning) ہی ہوتا ہے، یعنی اس قدر واضح کہ تاویل کی گنجائش قابل قبول نہیں۔
اس کے مقابلے میں مولانا فراہی و اصلاحی رحمہما اللہ اور ان کے شاگرد غامدی صاحب کے یہاں قطعی الدلالۃ کے مفہوم ہی میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ان کے یہاں قطعی الدلالۃ کا یہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک ہی معین معنی ہے، لیکن یہ حضرات یہ واضح نہیں کرتے کہ ہر آیت کا ایک معنی واضح الدلالۃ کے کس مفہوم میں مراد لیا جارہا ہے۔ قرآن کے قطعی الدلالۃ ہونے کو جس شدومد سے یہ حضرات پیش کرتے ہیں، اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر ہر آیت کو "مفسر" و "محکم" کے درجے میں قطعی مانتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر انہیں اس پوزیشن کے ساتھ جڑے اس منطقی نتیجے کو بھی ماننا چاہئے کہ جو شخص قرآن کی کسی بھی آیت کے ان کے بیان کردہ معنی کے علاوہ کوئی دوسرا معنی مراد لیتا ہے تو وہ گمراہ ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حضرات ایسا نہیں کرتے بلکہ خود ایک دوسرے سے بھی اختلاف کرتے ہیں۔ اور اگر قطعی الدلالۃ سے اس سے کم تر درجے میں کوئی وضوح مراد لیتے ہیں تو ان معنی میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہ بات تو فقہاء ہمیشہ سے ہی کہتے آئے ہیں کہ "میری رائے درست ہے اس احتمال کے ساتھ کہ غلط ہو اور مخالف کی رائے اس کے برعکس"۔ تو ان معنی میں قطعی الدلالۃ پر اس قدر اصرار کیسا؟قطعی الدلالۃ کی اصطلاح میں ان کے یہاں جس طرح لفط "قطعی" کے معنی میں ابہام پایا جاتا ہے، اسی طرح یہ حضرات یہ بھی واضح نہیں کرتے کہ "قطعی الدلالۃ" کی اس اصطلاح میں جسے "دلالت" کہا جارہا ہے، اس میں دلالت کی کون کون سی اقسام شامل ہیں اور کون سی نہیں؟ یعنی یہ قطعیت کیا صرف عبارۃ النص تک ہی محدود ہے یا اس قطعیت کا دائرہ اشارۃ النص، دلالۃ النص و اقتضاء النص تک بھی پھیلا ہوا ہے؟ ہر دو جواب کی صورت میں وجہ ترجیح کیا ہے؟
ان بنیادی نوعیت کے ابہامات کو دور کیے بنا قطعی الدلالۃ کی اصطلاح پر زور دیتے رہنے سے بات واضح نہیں ہوگی۔ مولانا فراہی کے مکتبہ فکر کے یہاں قطعی الدلالۃ کے مسئلے پر جس قدر نظریاتی زور دیا جاتا ہے، اس قدر شرح و بسط کے ساتھ اس کی تفصیلات نہیں ملتیں۔ اس کے مقابلے میں فقہاء کی تقسیمات بامعنی بھی ہیں اور احکامات اخذ کرنے میں مددگار بھی۔
قطعی الدلالۃ یا ظنی الدلالۃ؟
فراہی و اصلاحی صاحبان کے نظریہ قطعی الدلالۃ کی ایک یہ تشریح بھی کی جاتی ہے کہ 'اس سے مراد کسی مفسر کے نزدیک اپنے تئیں کلام کا ایک معنی مرادلینا لازم ہے اگرچہ یہ ممکن ہے کہ دو مختلف لوگوں کے لئے یہ معنی مختلف ہوں'۔ قطعی الدلالۃ کی یہ تعبیر درحقیقت خود قطعی ہی کو ظنی بنا دینے کے مترادف ہے۔ بھلا یہ قطعیت بھی کیسی قطعیت جو زید و عمر کے لئے الگ الگ ہے۔ نیز زید کی قطعیت کسی بھی درجے میں عمر کے حق میں اور اس کے خلاف حجت نہیں؟ گویا فقہاء جسے مؤول (ظنی کی قسم) کہتے ہیں، یہ احباب اسے بھی قطعی قرار دے رہے ہیں۔ قطعی الدلالۃ کی اس تعبیر سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ یہ تصور قطعی ایک "سبجیکٹو" (subjective) تصور ہے جو ہر ہر فرد (subject) کے لئے مختلف ہے۔
اس کے مقابلے میں فقہاء قطعیت کو سبجیکٹ (مفسر) کے بجائے حدالامکان "کلام کی صفت" میں محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کی بنیاد پر "سب پر" یکساں حکم لگایا جاسکے۔ فقہاء ایسا اس لئے کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اس ساری بحث کو قانونی نکتہ نظر سے دیکھا۔ قانون کا مقصد ہی حکم اخذ کرنا ہوتا ہے اور حکم اخذ کرنے کے لئے جس بنیاد پر حکم اخذ کیا جارہا ہے، وہ جس قدر معروضی ("ابجیکٹو")ہوگی، حکم بھی اسی قدر عمومی و مستحکم ہوتا ہے۔ لہذا فقہاء "سب کے حق میں یکساں" قطعی حکم اخذ کرنے کے لئے ایسی قطعیت کی تلاش میں رہے جو سب پر حجت بن سکے۔ اس کے برعکس فراہی و اصلاحی صاحبان نے اس پوری بحث کو کلامی و فلسفیانہ نکتہ نگاہ سے دیکھا۔ ان کے سامنے اپنے دور کے فلسفیوں کا قائم کردہ یہ سوال تھا کہ دنیا کے ہر کلام کا معنی ماحول و معاشرے کا مرہون منت ہوتا ہے، لہٰذا زبان و کلام بذات خود کبھی قطعی نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کا کوئی ایک معنی ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے یہ نظریہ اختیار کیا کہ کلام اللہ کا ایک ہی معنی ہے اور اگر متکلم قدرت رکھتا ہو تو اپنی بات مکمل طور پر ادا کرسکتا ہے۔ وہ اس مسئلے کو ایک فلسفیانہ معاملے کے طور پر لے کر چلے۔ ان کا مطمع نظر یہ ثابت کرنا رہا کہ کلام اللہ کا ایک معنی متعین کرنا ممکن ہے اور اس کے لئے انہیں اپنے قائم کردہ نظم کا پہلو کارآمد لگا۔ لیکن اس ساری بحث کے دوران اس مسئلے کا قانونی (حکم اخذ کرنے کا) پہلو ان سے اوجھل رہا۔ انہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ اس پوزیشن کے قانونی مضمرات کیا نکلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب اس پوزیشن پر علمی سوالات اٹھتے ہیں تو نتیجتاً قطعی الدلالۃ کے اس نظریے کے حامی خود کو اس کی ایسی توجیہات پیش کرنے پر مجبور پاتے ہیں جن کے بعد قطعی خود ظنی و سبجیکٹو شے بن جاتا ہے۔
قطعی الدلالۃ: دعوے اور دلیل میں ابہام
مکتب فراہی کے منتسبین عام طور پر قطعی الدلالۃ کی یہ تعبیر اختیار کرتے ہیں:
- قطعی الدلالۃ کا مطلب یہ ماننا ہے کہ عند اللہ کلام سے ایک ہی مراد ہے۔ اگر مفسر اسے پانے میں ناکام رہے، تب بھی اسے کلام کا ابہام کہہ کر کلام کی طرف نہیں پھیرا جائے گا کیونکہ ایسا کہنا کلام کا عیب ہوگا بلکہ اسے انسان کے فہم کا مسئلہ کہا جانا چاہیے کہ مفسر نہیں سمجھ پایا
- قطعی الدلالۃ کے نظریے کو ثابت کرنے کے لئے ان حضرات کی طرف سے ان آیات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں قرآن کو "میزان" و "فرقان" کہا گیا ہے۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ اگر قرآن قطعی الدلالۃ نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی قضیے میں قرآن کو حتمی طور پر میزان و فرقان بنانا ممکن نہ ہوگا، لہٰذا لازم ہے کہ قرآن کی ہرہر آیت کو قطعی الدلالۃ مانا جائے۔
- کلام اللہ اگرچہ قطعی ہے مگر اس کا یہ معنی نہیں کہ مفسر جو معنی سمجھ رہا ہے وہ معنی بھی قطعی ہے، چنانچہ ان معنی میں اختلاف جائز ہے۔
یہ تعبیر نہ صرف یہ کہ تصور قطعی الدلالۃ کی معنویت ہی کو مسخ کردیتی ہے بلکہ اس کے دعوے اور دلیل میں بھی کوئی مناسبت نہیں۔ اس تعبیر کا حاصل یہ ہے کہ کلام عنداللہ قطعی ہے، رہا معاملہ عندالناس کا تو اس میں قطعیت کا دعویٰ نہیں کیا جارہا۔
پہلی بات تو یہ کہ جو کوئی بھی کلام کو ظنی کہتا ہے تو وہ "عندالناس" ہی ظنی کہتا ہے، سو اس اعتبار سے آپ کی پوزیشن بعینہہ انہی کی طرح ہے، اس میں ایسی کوئی خصوصیت نہیں۔
دوسری بات یہ کہ یہ نظریہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا کہ آیا عندالناس سارا کلام ظنی ہے یا اس میں بھی قطعیت کا کوئی دائرہ ہے؟ اگر ہے تو اس کے اصول کیا ہیں؟ فقہاء جب معنی کے وضوح کے درجات کرتے ہیں تو اس کا مقصد عندالناس قطعیت کا ایک ایسا دائرہ تلاش کرنا ہوتا ہے جو سب کے حق میں اور سب کے خلاف حجت ہو، جبکہ اس مکتب فکر کے نظریے میں اس حوالے سے شدید ابہام ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مفسر کے سمجھے ھوئے معنی کو ہم قطعی نہیں کہتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کلام کے معنی سبجیکٹو ہیں، لہٰذا کسی کے فہم پر کوئی حکم لگانا ممکن نہیں، گویا عندالناس قطعیت کا کوئی دائرہ موجود نہیں۔
تیسری بات یہ کہ قرآن کا فرقان و میزان ہونا کس کے اعتبار اور کس کے لئے ہے؟ خدا کے لئے یا بندوں کے لئے؟ ظاہر ہے قرآن کو عندالناس معاملات کے لئے ہی فرقان و میزان کہا گیا ہے، مگر اس تعبیر کی رو سے تو قرآن عنداللہ قطعی ہے، تو جو آیات عندالناس کے لحاظ سے نازل ہوئیں، اس نظریے کے حق میں ان سے استدلال کا کیا مطلب؟ یہ تعبیر تو بتا رہی ہے کہ عندالناس قرآن فرقان و میزان نہیں کیونکہ اس تعبیر کی رو سے عندالناس مراد معنی کو تو آپ قطعی مانتے ہی نہیں، تو پھر فرقان و میزان ہونے کا کیا مطلب؟
الغرض قطعی الدلالۃ کی اس تعبیر سے جو مقصد حاصل کرنا مقصود تھا کہ قرآن کو عندالناس فرقان مانا جائے، یہ تعبیر اس مقصد ہی کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔واللہ اعلم
فقہائے تابعین کی اہل حدیث اور اہل رائے میں تقسیم ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۱)
مولانا سمیع اللہ سعدی
عصر حاضر میں فقہ اسلامی کی مرحلہ وار ،مربوط اور مرتب تاریخ پر قابل قدر علمی کام ہوا ہے اور خاص طور پر عالم عرب سے فقہ اسلامی اور مذاہب فقیہ کے تعارف و تاریخ پر مشتمل انتہائی اہم کتب سامنے آئی ہیں۔ فقہ اسلامی کی تجدید، احیاء اور نت نئے مسائل میں مختلف مکاتب فکر سے اخذ و استفادہ کو آسان بنانے میں ان کتب کا بڑا اہم اور بنیادی کردار ہے۔ ان کتب کی افادیت اور اہمیت اپنی جگہ ،لیکن ان میں تاریخی حوالے سے مختلف عوامل کی بنیاد پر بعض تسامحات بھی سامنے آئے ہیں اور بلا تحقیق نقل در نقل کی وجہ سے وہ تسامحات کافی مشہورہوئے۔ ان تسامحات میں ایک اہم تاریخی فروگزاشت پر کچھ معروضات پیش کرنے کی کوشش کی جا ئے گی۔
فقہ اسلامی کے مختلف مناہج تاریخ فقہ کا ایک اہم باب ہے۔تدوین فقہ کے دور میں اسلامی ممالک کے مختلف شہروں سے قابل قدر مجتہدین اٹھے ،ہر مجتہد نے اپنے گرد و پیش کے حالات،اپنے ذوق اور اساتذہ کے اسلوب کے مطابق اپنے اصول استنباط و استخراج وضع کیے ،ان میں خاص طور پر اہل عراق اور اہل حجازکے مکاتب فقہیہ میں استنباط واستخراج کے اصولوں میں واضح اور نمایاں فرق تھا۔اس فرق کی بہت سی وجوہ ہیں ،لیکن بعض تاریخی اسباب کی بنا پر یہ مشہور ہوگیا کہ مکتب عراق و حجاز میں جوہری فرق رائے و روایت کا تھا۔ اول الذکر مکتب میں رائے کو بنیادی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے اہل الرائے اور ثانی الذکر مکتب میں آثار کو مرکزی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے اہل حدیث کہا جاتا ہے۔اس مقالے میں درج ذیل پہلووں سے اس تاریخی مغالطے پر بحث کی گئی ہے:
- اس تقسیم کے اولین قائلین کی تعیین
- معاصرین میں سے اس تقسیم کے قائلین
- اس تقسیم کے سلسلے میں بیان کیے جانے والے بنیادی اسباب کا ناقدانہ جائزہ
- عراق میں احادیث کے ذخیرے کا ایک جائزہ
- حجازی و عراقی مکاتب حدیث کا ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ
- حجاز میں رائے و قیاس کی کثرت اور اس کے استعمال کے شواہد
- حجازی و عراقی مکاتیب کی اولین کتب فقہیہ کا رائے و اجتہاد کے حوالے سے موازنہ
- اہل حدیث اور اہل رائے کی اصطلاحات کے مختلف مفاہیم اور ان کا ارتقائی جائزہ
فقہ اسلامی کی تاریخ پر مشتمل اکثر کتب میں دور تابعین میں اہل حدیث اور اہل رائے کے نام سے فقہا ء کے دو بڑے گروہ بنائے گئے ہیں ، اہل عراق کو اہل رائے کا سرخیل قرا دیا گیا ہے ،جبکہ اہل حدیث کی جائے نشو و نما خطہ حجاز کو ٹھہرایا گیا ہے۔ان دونوں مناہج اور مکاتب فکر میں اساسی و بنیادی فرق اس بات کو قرار دیا گیا ہے کہ اہل رائے نصوص میں تعلیل اور غیر منصوص مسائل میں قیاس و اجتہاد پر زور دیتے تھے ،جبکہ اہل حدیث کا بنیادی وصف نصوص کی بلا تعلیل پیروی کرنا اور غیر منصوص مسائل میں حتی الامکان اجتہاد اور قیاس سے اپنے آپ کو دور رکھنا تھا۔ منہج کے اس اختلاف کے اسباب اور عوامل پر بھی معاصر کتب میں گفتگو کی گئی ہے۔*
چنانچہ فقہ اسلامی کی تاریخ کی جدید اسلوب میں داغ بیل ڈالنے والے معروف مورخ شیخ خضری بک اپنی مایہ ناز کتاب تاریخ التشریع الاسلامی میں لکھتے ہیں :
وجد بذلک اھل حدیث و اھل رای، الاولون یقفون عند ظواھر النصوص بدون بحث فی عللھا و قلما یفتون برای، و الاخرون یبحثون عن علل الاحکام و ربط المسائل بعضھا ببعض و لا یحجمون عن الرای اذا لم یکن عندھم اثر ، وکان اکثر اھل الحجاز اھل حدیث وو اکثر اھل العراق اھل الرای
’’ان اسباب کی بنا پر اہل حدیث اور اہل رائے وجود میں آئے ،اہل حدیث نصوص میں علتیں نکالے بغیر ان نصوص کے ظاہری مفہوم پر ٹھہرتے اور(نص نہ ہونے کی صورت میں ) قیاس سے بہت کم فتویٰ دیتے۔جبکہ اہل رائے احکام کی علتوں کو تلاش کرتے تھے اور غیر منصوص مسائل کو ان معلول بالعلت مسائل کے ساتھ (قیاس کے ذریعے) جوڑتے تھے، نص نہ ہونے کی صورت میں قیاس و اجتہاد سے کسی قسم کی کنارہ کشی اختیار نہ کرتے تھے۔ اہل حجاز کے اکثر فقہاء اہل حدیث منہج اور عراقی فقہاء اہل رائے کے منہج پر تھے۔‘‘
شیخ خضری بک کی طرح مذکورہ نظریہ علامہ حجوی نے الفکر السامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی میں ،شیخ مناع القطان نے تاریخ التشریع الاسلامی میں، الدکتور صالح الفرفور نے تاریخ الفقہ الاسلامی میں ،دکتور عبد الوہاب الخلاف نے خلاصۃ تاریخ التشریع الاسلامی میں ،الدکتور عبد الکریم زیدان نے المدخل الی دراسۃ الشریعۃ الاسلامیۃ میں ،شیخ ابو زہرہ مرحوم نے محاضرات فی تاریخ المذاہب الفقہیۃ میں اور ہندوستان کے مشہور عالم مولانا ارسلان رحمانی نے "فقہ اسلامی، تعارف و تاریخ " میں بیان کیا ہے۔ مذکورہ حضرات سے پہلے اہل رائے اور اہلحدیث کی تقسیم شہرستانی نے الملل و النحل میں، ابن خلدون نے الشہرستانی کی پیروی کرتے ہوئے تاریخ ابن خلدون میں اور مسند الہند امام شاہ ولی اللہ نے الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف میں اپنے پیشرووں کی تقلید میں اختیار کی ہے، البتہ ہر سہ حضرات نے بغایت اختصار اس بات کو بیان کیا ہے، لیکن معاصر مورخین نے اسباب و عوامل کے تناظر میں تفصیلاً اس نظریے پر خامہ فرسائی کی ہے۔
اہل حدیث اور اہل رائے کی تقسیم کے اسباب و عوامل کا ناقدانہ جائزہ
اب ہم ان حضرات کے بیان کردہ اسباب وعوامل پرایک ناقدانہ نظر ڈالنا چاہتے ہیں:
بنیادی طور پر اس سلسلے میں تین اسباب بیان کئے جاتے ہیں :
۱:فقہائے صحابہ کی منہج اجتہاد و قیاس کے اعتبار سے تقسیم
۲:عراق میں احادیث و روایات کی قلت اور حجاز میں کثرت
۳:عراق میں اجتہاد و رائے کی کثرت اور حجاز میں قلت
سبب اول :فقہائے صحابہ کی منہج اجتہاد و قیاس کے اعتبار سے تقسیم
مذکورہ تقسیم کے قائلین کی نظر میں اس تقسیم کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب یہ تھا کہ خود صحابہ کرام کے مناہج اجتہاد میں اختلاف تھا ۔بعض صحابہ کرام رائے ،قیاس اور اجتہاد سے حتی الامکان اپنے آپ کو بچاتے تھے اور صرف نصوص کے ظاہری مفہوم پر اکتفاء فرماتے ،جبکہ دوسری طرف ایسے صحابہ بھی تھے جن پر احکام کی علتیں نکالنے کا ذوق غالب تھا اور غیر منصوص مسائل میں وسعت کے ساتھ اجتہاد و قیاس سے کام لیتے اور اسی کے اثرات فقہائے تابعین تک پہنچے اور یوں فقہاء کے دو بڑے گروہ اور قیاس و اجتہاد کے دو بڑے مناہج سامنے آئے۔الدکتور رمضان علی سید اپنی کتاب المدخل لدراسۃ الفقہ الاسلامی میں لکھتے ہیں:
تاثرھم بطریق شیوخھم کزید بن ثابت و ابن عمر و ابن عباس اذا کان ھو لاء یتمسکون بالاحادیث و یخافون من استعمال الرای تورعا و احتیاطا لدینھم
’’اہل مدینہ اپنے شیوخ کے طریقہ سے متاثر تھے ،جیسے زید بن ثابت ،حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس، کیونکہ یہ لوگ احادیث سے تمسک کرتے تھے اور راے و قیاس کے استعمال سے تقوی اور دین داری کی وجہ سے ڈرتے تھے۔‘‘
اس سبب کے بارے میں چند گزارشات
۱:دور تابعین میں اگرچہ صحابہ نے خاص خاص شہروں میں مسند تدریس سنبھالے ،لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ جس شہر میں جس صحابی نے ڈیرے ڈال دیے ،صرف اسی شہر کے مکین ہی ان سے استفادہ کرتے ،بلکہ اس وقت تو طلب علم کے لئے رحلت اور مختلف شہروں میں حصول علم کے لئے سفر کا رواج عروج پر تھا ،تشنگان علم در در کی خاک چھانتے ،اور جس شہر کے بارے میں کسی صاحب علم کے بارے میں سنتے تو اسی کی طرف کوچ کر جاتے ،چنانچہ مدینہ کے معروف تابعین کا سلسلہ تلمذ جس طرح مدینہ میں مکین صحابہ ،حضرت زید بن ثابت ،حضرت عبد اللہ بن عمر،حضرت ابن عباس،حضرت ابوہریرہ اور حضرت عائشہ تک پہنچتا ہے ،اسی طرح ملک عراق و شام کے اکابر تابعین نے بھی مدینہ کے ان درسگاہوں سے کسب فیض کیا، یہی وجہ ہے کہ عراق کے معروف فقہاء علقمہ بن قیس ،مسروق بن الاجدع ،اسود بن یزید،عامر بن شراحیل الشعبی اور دیگر تابعین کے اساتذہ میں حضرت زید،حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر کے نام سر فہرست ہیں۔اسی طرح مدینہ کے بعض تابعین کا دیگر امصار کے صحابہ سے کسب فیض معروف بات ہے ، ابن حزم اپنی کتاب الاحکام میں لکھتے ہیں :
و ھکذا صحت الاثار بنقل التابعین من سائر االامصار عن اھل المدینہ و بنقل التابعین من اھل المدینہ و من بعدھم عن اھل الامصار فقد صحب علقمۃ ومسروق عمر و عثمان و عائشۃ ام المومنین و اختصوا بھم و اکثروا الاخذ منھم
’’اسی طرح معروف شہروں کے تابعین کا مدینہ والوں سے روایات لینے کے بارے میں صحیح آثار موجود ہیں، اور ایسے ہی مدینہ کے تابعین اور تبع تابعین کا دیگر اہل بلاد سے استفادہ کرنے کے بارے میں بھی روایات موجود ہیں۔ یہ بات ثابت ہے کہ (کوفہ کے اکابر تابعین جیسے)علقمہ اور مسروق نے (مدینہ کے اکابر صحابہ )حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت عائشہ کی صحبت اختیار کی ،ان سے خصوصیت سے استفادہ کیا اور ان سے بہت ساری چیزیں حاصل کیں۔‘‘
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مدینہ میں مقیم صحابہ سے ہر شہر خصوصاً اہل کوفہ کے اکابر تابعین نے خوب استفادہ کیا ہے،تو اس صورت میں یہ کہنا کسی صورت درست نہیں بنتا کہ مدینہ والوں کے منہج میں ان کے اسا تذہ صحابہ کا اثر تھا۔ اگر معاصر حضرات کا مذکورہ نظریہ مان لیا جائے تو ایک معقول سوال اس موقع پر ذہن میں آتا ہے کہ انہی اساتذہ سے تو کوفہ کے تابعین نے بھی استفادہ کیا تو ان پر رائے کی تقلیل اور اجتہاد و قیاس سے کنارہ کشی کا اثر کیوں نہیں پڑا؟ایک ہی طرح کے اساتذہ سے حصول علم کے بعد منہج میں فرق کی نسبت اساتذہ کی طرف کرنا علمی حوالے کوئی مضبوط بات نہیں ہے۔اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود جو متفقہ طور پر اجتہاد و قیاس کی کثرت کے حوالے سے معروف ہے،ان کے تلامذہ میں صرف اہل کوفہ نہیں تھے،بلکہ مدینہ ،شام اور بصرہ کے اکابر تابعین نے ان سے استفادہ کیا۔
۲:مدینہ میں مقیم صحابہ خصوصاً حضرت زید بن ثابت،حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ کے بارے میں بات کرنا کہ وہ رائے و اجتہاد سے احتیاط کرتے تھے اور نصوص کے ظاہری مفہوم پر ہی اکتفاء کرتے تھے،محل نظر ہے۔ان صحابہ کرام کی فقہی آراء سے کتب احادیث بھری پڑی ہیں ،اور خصوصیت کے ساتھ بکثرت ایسی روایات موجود ہیں جن میں ان حضرات نے غیر منصوص مسائل میں قیاس و اجتہاد سے کام لیا اور بعض واقعات میں ان حضرات کا اجتہاد نصوص میں تعلیل پر بھی مبنی ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض صحابہ کرام کی فقہی آرا پر باقاعدہ ضخیم موسوعات بھی تیار ہوچکے ہیں۔ ابن قیم نے اعلام الموقعین میں ان صحابہ کی فہرست دی ہے ،جن سے بکثرت فتاویٰ منقول ہیں ،ان میں مدینہ میں مقیم یہ چاروں صحابہ سر فہرست ہیں ،چنانچہ لکھتے ہیں :
و کان المکثرون منھم سبعۃ،عمر بن الخطاب،و علی بن ابی طالب ،وعبد اللہ بن مسعود ،وعائشہ ام المومنین ،و زید بن ثابت ،و عبد اللہ بن عباس ،و عبد اللہ بن عمر
’’صحابہ میں وہ حضرات جن سے سب سے زیادہ فتاویٰ منقول ہیں،وہ سات حضرات ہیں :حضرت عمر، حضرت علی ،حضرت عبد اللہ بن مسعود ،حضرت عائشہ ،حضرت زید بن ثابت ،حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن عمر۔‘‘
فتویٰ میں قیاس و اجتہاد کا استعمال ایک لازمی امر ہے۔ اگر یہ مفروضہ مان لیا جائے کہ یہ صحابہ کرام اجتہاد و قیاس سے بچتے تھے تو فتاویٰ کی مقدار میں وہ حضرت ابن مسعود اور حضرت علی کے درجے تک کیسے پہنچے ،جن کے بارے میں اتفاق ہے کہ بکثرت اجتہاد و قیاس سے کام لیتے تھے؟
اس کے علاوہ ان حضرات نے ایسے مواقع پر بھی تعلیل سے کام لیتے ہوئے اجتہاد کیا ،جن میں ان کا اجتہاد نص کے ظاہری مفہوم کے معارض ہوتا ،چنانچہ حضرت عائشہ کا عورتوں کے مساجد میں آنے سے متعلق اجتہاد معروف و مشہور ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح حدیث کے ہوتے ہوئے انہوں نے عورتوں کے مسجد جانے پر نکیر فرمائی تھی، حالانکہ حدیث میں ان کو مسجد میں آنے کی صریح اجازت دی گئی تھی ،لیکن حضرت عائشہ کا فتویٰ یہ تھا کہ یہ اجازت خاص شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ گویا تعلیل کے زریعے نص کا عام مفہوم خاص محل پر محمول کیا۔ اسی طرح حضرت ابن عباس کا معارضہ کتب احادیث میں منقول ہے کہ جب حضرت ابوہریرہ نے یہ حدیث بیان کی کہ آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ،تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں گرم پانی سے وضو کروں تو میرے وضو کا کیا حکم ہوگا ؟جس پر حضرت ابو ہریرہ نے ناراض ہوتے ہوئے فرمایا :
یا ابن اخی اذا سمعت حدیثا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تضرب لہ مثلا
’’اے بھتیجے جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آجائے تو اس کے لئے (معارضہ کے طور پر )عقلی مثالیں نہ دیا کرو۔‘‘
غرض کتب احادیث میں ان حضرات کے اجتہادات اور قیاسات بکثرت مروی ہیں جن میں ان حضرات نے نصوص میں تعلیل سے وسیع پیمانے پر کام لیا ۔ یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر میں ان حضرات کے فتاویٰ اور اجتہادات پر ضخیم مجلدات وجود میں آچکی ہیں۔ ان اجتہادات کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ یہ قیاس و اجتہاد سے بچتے تھے ،محل نظر ہے۔
۳۔ ان حضرا ت کے بارے میں قیاس و اجتہاد سے کنارہ کشی کے نظریہ کی بنیاد در اصل وہ روایات ہیں جن میں ان حضرات کا اتباع سنت ،نصوص پر سختی کے ساتھ جمنا اور حتی الامکان فتویٰ کی ذمہ داری سے بچنا منقول ہے ،چنانچہ امام دارمی نے سنن دارمی میں باب من ھاب الفتیا کے نام سے باقاعدہ ایک باب باندھا ہے جس میں ان روایات کوذکر کیا ہے جن میں صحا بہ و تابعین سے فتویٰ کے بارے میں احتیاط اور اس عظیم ذمہ داری سے حتی الامکان بچنے کا ذکر ہے، لیکن اس قسم کی روایات صرف ان مدنی صحابہ سے منقول نہیں ہیں ،بلکہ فتوی و اجتہاد کے حوالے سے معروف صحابہ جیسے حضرت ابن مسعود ،حضرت علی اور حضرت عمر سمیت اکابر تابعین سے بھی اس قسم کے اقوال مروی ہیں ،چنانچہ سنن دارمی میں حضرت ابن مسعود کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے :
من افتی عن کل ما یسال فھو مجنو ن
’’جو آدمی (سوال کی نوعیت سے صرف نظر کرتے ہوئے )ہرپوچھی ہوئی چیز کے بارے میں فتوی دے تو وہ مجنون ہے۔‘‘
بلکہ امام دارمی نے ابن ابی لیلیٰ سے صحابہ کا فتوی کے بارے میں عمومی نظریہ یوں نقل کیا ہے:
لقد ادرکت فی ھذا المسجد عشرین و ماءۃ من الانصار۔ ۔۔۔ و لا یسئل عن فتیاہ الا ود ان اخاہ کفاہ الفتیا
’’ میں نے انصار صحابہ میں سے ایک سو بیس ایسے اصحاب پائے ہیں کہ جب ان میں سے کسی سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو اس کی خواہش ہوتی کہ اس کا بھائی اس کی طرف سے اس فتوی میں کفایت کر لے ،یعنی وہ اس کی طرف سے یہ فتویٰ دے۔‘‘
حضرت شاہ ولی اللہ الانصاف میں حضرت ابن مسعود کی فتویٰ کے بارے میں احتیاط نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
سئل عبد اللہ بن مسعود عن شیء،فقال :انی لاکرہ ان احل لک شیء حرمہ اللہ علیک ،او احرم ما احلہ اللہ لک
’’حضرت ابن مسعود سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں ناپسند کرتا ہوں کہ اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو تیرے لئے (اپنے فتویٰ سے ) حلال کردوں یا حلال چیزوں کو (فتوی سے )تیرے اوپر حرام کردوں۔‘‘
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ الدکتور محمد الدسوقی "مقدمہ فی دراسۃ الفقہ الاسلامی"میں لکھتے ہیں:
وقد وجد فی کل من المدرستین من ھاب الفتیا و انقبض عنھا اذا لم یکن فی حکمھا اثر محفوظ،کما وجد فی کلتیھما من من جرء علی الفتیا و استخدم عقلہ فی التخریج و القیاس
’’ہر دو مکاتب فکر میں ایسے افراد پائے جاتے تھے ،جو فتویٰ دینے سے احتیاط کیا کرتے تھے،اور خاص طور پر ان مسائل میں فتو یٰ دینے سے رکتے تھے ،جن میں متقدمین کے اقوال میں سے کوئی قول نہ ہو۔اس کے برعکس دو نوں مکاتب میں وہ لوگ بھی موجود تھے جو فتویٰ کے حوالے سے جرات رکھنے والے اور مسائل کی تخریج اور ایک ووسرے پر قیاس کرتے وقت عقلی مقدمات سے کام لیتے تھے۔‘‘
لہٰذا جب فتویٰ میں احتیاط مدینہ میں مقیم صحابہ کی بجائے تمام معروف فقہاء صحابہ کا عمومی عمل تھا،خواہ کسی بھی شہر سے تعلق ہو ، تو اس بنیاد پر یہ فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ مدینہ میں مقیم صحابہ فتوی و اجتہاد سے بچتے تھے اور دیگر صحابہ خاص کر عراق میں مووجود صحابہ قیاس و اجتہاد سے زیادہ کام لیتے تھے ؟
سبب دوم، عراق میں احادیث کی قلت اور حجاز میں کثرت
اہل رائے اور اہل حدیث کی تقسیم کا دوسرا بڑا سبب عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ چونکہ عراق میں احادیث و روایات حرمین شریفین سے دور ہونے کی وجہ سے حجاز کی بہ نسبت کم تھیں ،اس لئے اہل عراق اجتہاد و قیاس میں رائے پر زیادہ انحصار کرتے تھے ،جبکہ دوسری طرف حجاز خصوصا مدینہ قلب اسلام ہونے کی بنیاد پرکثیر صحابہ کا مسکن تھا ،اس لئے وہاں روایات کی تعداد کافی زیادہ تھی ،اور اہل مدینہ کو نصوص میں عام طور پر مسائل مل جاتے تھے ،اس لئے وہ اہل عراق کی بہ نسبت رائے پر بہت کم اعتماد کرتے تھے۔محقق قطان اہل رائے اور اہل حدیث کے وجود میں اسباب کے ذیل میں لکھتے ہیں :
کان الحدیث فی العراق قلیلا اذا ما قیس الی ما لدی الجاز
’’عراق میں حجاز کی بہ نسبت احادیث کم تھیں۔‘‘
اس سبب کے بارے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں :
۱:اگر ایک لمحے کے لئے اس مفروضے کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ عراق میں احادیث کی قلت تھی ،تو بھی اہل رائے اور اہل حدیث کی تقسیم میں یہ عامل اثر انداز نہیں ہوسکتا ،اس لئے کہ دور تابعین اور تبع تابعین میں طلب حدیث کے لئے رحلت اور اس کے لئے سفر ایک لازمی جزو سمجھا جاتا تھا ،مختلف شہروں میں علم حدیث کے لئے جانے کا رواج کچھ اس کثرت سے تھا کہ محدثین کو رحلہ فی طلب الحدیث پر باقاعدہ کتب لکھنی پڑیں، چنانچہ خطیب بغدادی صاحب کی اس موضوع پر ضخیم کتاب الرحلۃ فی طلب الحدیث معروف ومشہور ہے۔ اس میں انھوں نے مختلف بلدان کی طرف محدثین کے اسفار کو بیان کیا ہے۔اور خاص طور پر مدینہ مرکز اسلام ہونے کی وجہ سے علمی اسفار کے لیے بہت معروف تھا، یہاں تک کہ اندلس جیسے دور دراز کے علاقے سے بھی کافی کثیر تعداد میں محدثین مدینہ میں طلب حدیث کے لیے آتے تھے ،تو عراق جو اندلس کی بہ نسبت مدینہ کے کافی زیادہ قریب تھا ،یہ کیسے ممکن ہے کہ وہاں سے محدثین طلب حدیث کے لیے مدینہ کی طرف نہ گئے ہوں۔
ابن سعد نے اپنی معروف کتاب الطبقات الکبری میں کوفہ ،بصرہ اور بغداد کے ان محدثین کا مفصل تذکرہ کیا ہے جنہوں نے مدینہ میں حضرت عمر،حضرت ابن عباس ،حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابن عمر سے احادیث لی ہیں۔جلدہشتم اور جلد نہم میں ان تین شہروں کے اکابر محدثین کا تذکرہ ہے جنہوں نے مدینہ میں مقیم صحابہ سے روایات لیں، خصوصاً حضرت عبد اللہ بن مسعود کا کوئی ایسا معروف شاگرد نہیں ہے جس نے حضرت عمر اور دیگر صحابہ سے روایات لینے کے لئے مدینہ کا سفر نہ کیا ہو۔ اس لئے اگر عراق میں احادیث کی قلت مان بھی لی جائے تو محدثین نے مدینہ کے صحابہ کے پاس موجود روایات مدینہ میں جاکر ان سے حاصل کیں ،تو کیا اس صورت میں اہل مدینہ کی اہل عراق پرحدیث پر فوقیت کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے؟ بلکہ اس میں تو اہل عراق کو ایک گونہ فوقیت مل گئی کہ وہ دونوں شہروں کی روایات کے جامع تھے، کیونکہ مدینہ کی طرف تو سفر حدیث کا رجحان تھا ،لیکن اہل مدینہ کا مدینہ سے خروج بہ نسبت اور شہروں کے کم تھا۔اس کے علاوہ اما م ابو حنیفہ کے دو مایہ ناز شاگرد اور فقہ حنفی کے ابتدائی دو بنیادی ستون امام ابویوسف اور امام محمد کا مدینہ کی طرف اخذ حدیث کے لئے سفر اور وہاں کئی سال تک مقیم رہ کر اہل مدینہ کی روایات کو جمع کرنے کا عمل معروف ہے۔ان اسباب کی بنا پر الدکتور شرف محمود اپنے ضخیم مقالے "مدرسۃ الحدیث فی الکوفۃ" میں لکھتے ہیں :
فقد کانت المدینۃ اھم المراکز العلمیۃ التی ساھمت فی تاسیس المدرسۃ الحدیثیہ فی الکوفۃ
’’یقیناًمدینہ تمام مراکز علمیہ سے اہم ترین مرکز تھا ،جس کا کوفہ میں مکتب حدیث کی تشکیل میں بنیادی کردار تھا۔‘‘
۲:عراق میں قلت حدیث کا دعویٰ علم حدیث کی تاریخ کی رو سے ایک نہایت کمزور اور بے بنیاد دعویٰ ہے۔اس وقت کے مراکز علمیہ میں کوفہ،بصرہ اور بغداداہم ترین مراکز سمجھے جاتے تھے ،اور کوئی ایسا قابل ذکر محدث نہیں ملتا جس نے عراقی درسگاہوں سے فیض حاصل نہ کیا ہو۔ حدیث کی معروف کتب کے مصنفین میں سے تقریباً ہر ایک نے طلب حدیث کے لئے عراق خصوصاً کوفہ کا سفر کیا ،امام بخاری نے بخارا سے ،اما م نسائی نے خراسان سے ،امام ابو داؤد نے سجستان سے ،امام ترمذی نے ترمذ سے ،امام ابن خزیمہ نے نیشاپور سے ،مستدرک حاکم کے مصنف نے امام حاکم نے نیشابور سے اور دیگر دور دراز کے محدثین نے طلب حدیث کے لئے عراق کا سفر کیا۔ اس کے علاوہ خود عراق سے علم حدیث کے وہ آفتاب طلوع ہوئے ،جن کی علمی چمک سے اب تک علم حدیث جگمگا رہا ہے۔عبد الرحمن بن مہدی ،محمد بن سیرین ،یحییٰ بن سعید القطان ،ابو داؤد الطیالسی ،اما م احمد بن حنبل ،خطیب بغدادی ،امام دارقطنی ،یحییٰ بن معین ، عامر شعبی ،ابو اسحاق السبیعی،امام اعمش،مسعر بن کدام،منصور بن المعتمر،سفیان ثوری ،سفیان بن عیینہ، وکیع بن الجراح، یحییٰ بن آدم،ابوبکر بن ابی شیبہ،سعید بن جبیر،اور علم حدیث کے دیگر روشن ماہتاب عراقی درسگاہوں سے ہی طلوع ہوئے۔ یہ وہ حضرات ہیں ،جن کے تذکرے بغیر علم حدیث کی تاریخ نامکمل سمجھی جاتی ہے ۔ مشت از خروارے کے طور پر چند معروف نام پیش کئے ،ورنہ الطبقات الکبری کی دو جلدیں صرف عراقی حفاظ و محدثین کے تذکرے پر مشتمل ہیں جس سے عراق میں حدیث و محدثین کی کثرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
۳۔ جن محدثین نے طلب حدیث کے لئے عراق کا سفر کیا ،ان کے تاثرات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حدیث و محدثین کی کثرت اور علمی درسگاہوں کی بہتات میں عراق کے تین بڑے شہروں ،کوفہ ،بصرہ اور بغداد کا ثانی نہیں تھا، چنانچہ سرتاج محدثین امام بخاری اپنے علمی اسفار گنواتے ہوئے فرماتے ہیں :
دخلت الی الشام و مصر و الجزیرۃ مرتین ،و الی البصرۃ اربع مرات، و اقمت بالحجاز ستۃ اعوام، ولا احصی کم دخلت کوفۃ و بغداد مع المحدثین
’’میں طلب حدیث کے لئے شام ،مصر اور جزیرہ میں دو مرتبہ گیا ،بصرہ کا چار مرتبہ چکر لگایا ،جبکہ حجاز میں چھ سال مقیم رہا ،لیکن میں شمار نہیں کر سکتا کہ محدثین کے ساتھ کتنی بار بغداد اور کوفہ گیا۔‘‘
قافلہ محدثین کے اس عظیم سالار کے اس فرمان سے کوفہ و بغدا د کی حدیث کے حوالے سے شہرت اور اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔نیز محدثین کا لفظ بتا رہا ہے کہ بغداد و کوفہ کی علمی درسگاہوں سے کسب فیض میں امام بخاری اکیلے نہیں تھے، بلکہ اطراف عالم کے محدثین کے قافلے در قافلے ان علمی مراکز سے علم کی پیاس بجھانے کے لئے بار بار چکر لگاتے رہے۔
امام ابو داؤد کے صاحبزادے عبد اللہ بن سلیمان بن الاشعث فرماتے ہیں:
دخلت الکوفۃ و اکتب عن ابی سعید الا شج الف حدیث فلما کان الشھر حصل معی ثلاثین الف حدیث
’’میں کوفہ گیا اور ہر روز ابو سعید سے ایک ہزار حدیثیں پڑح کر لکھتا تھا ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہینے کے آخر میں میرے پاس تیس ہزار احادیث کا مجموعہ تیار ہوگیا۔‘‘
اما م ابوداؤد کے باکمال صاحبزادے کے اس قول سے اندازہ لگا جا سکتا ہے کہ جب صرف ایک محدث کے پاس روایات کی کثرت اتنی تھی کہ ایک مہینے میں ان سے تیس پزار احادیث حاصل کیں ،تو عراق کے بقیہ حفاظ حدیث کی حدیث دانی کا کیا عالم ہوگا۔
امام انس بن سیرین کوفہ میں حدیث کی کثرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اتیت الکوفۃ فرایت فیھا اربعۃ الاف یطلبون الحدیث و اربع ماءۃ قد فقھوا
’’میں کوفہ آیا تو دیکھا کہ چار ہزار طالبان حدیث علم حدیث کی تحصیل میں مصروف تھے اور چار سو مکمل فقیہ بن چکے تھے۔‘‘
اسی طرح معروف محدث عفان بن مسلم فرماتے ہیں :
فقدمنا الف حدیث الکوفۃ فاقمنا اربعۃ اشھر، و لو اردنا ان نکتب الف ماءۃ حدیث لکتبنا بھا، فما کتبنا الا خمسین
’’ہم کوفہ آئے ،اور وہاں چار مہینے قیام کیا ،اگر ہم چاہتے تو اس مدت میں ایک لاکھ احادیث لکھ سکتے تھے ،لیکن ہم نے اس عرصے میں پچاس ہزار روایات لکھیں۔‘‘
اگر عراق کے صرف ایک خطے میں چار ماہ کی قلیل مدت میں طالبان حدیث ایک لاکھ تک روایات جمع کر سکتے تھے تو بقیہ خطوں کو ملا نے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روایات و احادیث کی کثرت کا کیا عالم ہوگا؟
کیا معروف محدثین کے ان بیانات کے بعد یہ دعوی کرنا صحیح ہوگا کہ عراق میں احادیث کی قلت تھی؟عجیب بات ہے کہ عراق میں قلت حدیث کے مدعی حضرات نے اپنے اس دعوے پر دور تابعین و تبع تابعین کے کسی قابل ذکر محدث کا قول ذکر نہیں کیا ہے۔
۴۔ معاصر تحریرات میں عراق میں قلت حدیث کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ عراق مرکز اسلام یعنی حرمین شریفین سے دور تھا ،اس لئے وہاں حدیث و روایات کافی کم تعداد میں تھیں ،حالانکہ تاریخی طور پر یہ بات مسلم ہے صحابہ کی ایک کثیر تعداد نے عراق خصوصا کوفہ کو مسکن بنایا ،کیونک کوفہ شہر کو چھاونی کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑے اہتمام سے آباد کیا تھا ،حضرت عمر کے اس اہتمام اور دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ اکابر صحابہ جوق در جوق عراق منتقل ہوتے گئے ،خلافت مرتضوی کے زمانے میں جب کوفہ مملکت اسلام کا دارلحکومت بنا ،اور کوفہ میں باب العلم حضرت علی نے دربار خلافت سجایا تو دارلحکومت ہونے کی بنا پر حرمین شریفن اور دیگر خطوں سے ایک خلق کثیر نے کوفہ میں سکونت اختیا رکی۔چنانچہ محدثین کی تصریحات کے مطابق کوفہ میں ۰۷ بدری صحابہ ،سات سو بیعت رضوان میں شریک ہونے والے اصحاب اور مجموعی طور پر تقریبا پندرہ سو صحابہ نے کوفہ کو اپنا مسکن بنایا ، صحابہ کے بعد تابعین اور تبع تابعین کی تعداد تو اس کہیں زیادہ بن جاتی ہے۔اگر اس کے ساتھ عراق کے دوسے قابل ذکر شہرو ں میں مکین صحابہ و تابعین کو شمار کر لیا جائے تو بلا شبہ یہ تعداد ہزاروں تک پہنج جاتی ہے۔چنانچہ ڈاکٹرشرف محمود محمد سلمان لکھتے ہیں:
نزل الکوفۃ عدد کبیر جدا من الصحابۃ، فقد کان جیش سعد بن ابی وقاص اربعین الفا ،و ھم الذین سکنو الکوفۃ اول ما اسست،و لا شک ان آلافا من ھولاء من الصحابۃ
’’کوفہ میں بہت بڑی تعداد میں صحابہ نے اقامت اختیار کی ،کوفہ کی تاسیس کے وقت حضرت سعد بن ابی وقاص کے جس لشکر نے سب سے پہلے یہاں سکونت اختیار کی تھی ،اس لشکر کی تعداد چالیس ہزار تھی،بلا شبہ اس لشکر میں صحابہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔‘‘
اور یہ بات تو یقینی ہے کہ صحا بہ کو نکال کر باقی سب تابعین یا تبع تابعین تھے۔ہزاروں کی تعداد میں صحابہ و تابعین کا عراق کو مسکن بنانے کے بعد عراق میں قلت حدیث کے دعوے کی علمی و تاریخی حیثیت اہل علم پر مخفی نہیں ہے۔
چنانچہ ان وجوہات کی بنا پر مصطفی احمد الزرقاء لکھتے ہیں :
وھذہ الحقیقۃ تتنافی مع ظن قلۃ الحدیث فی العراق
’’یہ حقیقت (عراق میں صحابہ کی کثرت)عراق میں قلت حدیث کے دعوی کے منافی ہے۔‘‘
ایک تاریخی اشکال اور اس کا جواب
اس موقع پر ایک تاریخی اشکال کا ذکر کرنا مناسب معلو م ہوتا ہے کہ مورخین کی تصریحات کے مطابق عراق میں صحابہ کی کثیر تعداد نے سکونت اختیار کی ،لیکن تواریخ اور خاص طور پر کتب رجال میں ان صحابہ کے ناموں کی اگر تحقیق کر لی جائے تو چند سو سے زیادہ نہیں ملتے ،چنانچہ اس حوالے سے الدکتور شرف محمود محمد سلیمان نے اپنے ضخیم مقالے "مدرسۃ الحدیث فی الکوفۃ " میں متعدد کتب رجال سے صرف تقریبا تین سو بیس (۳۲۰)کے قریب نام اکٹھے کیے ،اگر بغداد و بصرہ کو ساتھ شامل کر لیا جائے تو ہزار سے زیا دہ یہ تعداد نہیں بنتی ،تو صرف چند سو ناموں کی موجودگی یہ دعویٰ کرنا کہ عراق میں مقیم صحابہ کی تعدادکافی زیادہ تھی ،محل نظر ہے ؟اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ محدثین و مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی،لیکن صحابہ کے حالات پر مشتمل سب سے ضخیم کتاب "الاصابہ " میں موجود تراجم کی تعداد تقریباً بارہ ہزاردو سو ستانوے ہیں۔ باقی کتب کے اضافی تراجم کو شامل بھی کر لیا جائے تو پندرہ ہزار سے زائد تعداد نہیں بنتی۔ نیز ان کتب میں بھی صحابہ کی ایک بڑی تعداد کے بلاد سکونت و دفن کا ذکر موجود نہیں ہے۔ ان عوامل کی بنیاد پر عراق میں موجود صحابہ کے نام زیادہ نہیں ملتے ،اس لئے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ واقع میں شاید تعداد اس کے قریب قریب ہو ، درست نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ محدثین ان محدود ناموں کے باوجود عراق میں مووجود صحابہ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ذکر کرتے ہیں۔جیسا کہ اس کی تفصیل پیچھے ذکر ہو چکی ہے۔لہٰذا محض ناموں کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ فلاں شہر میں سکونت اختیار کرنے والے صحابہ کی تعداد حقیقت میں بھی مذکور ہ ناموں کے قریب قریب ہوگی۔کیونکہ اس طرح سے تو خود صحابہ کی مجموعی تعداد صرف چند ہزار رہ جاتی ہے ،جبکہ تمام مورخین و محدثین کا اتفاق ہے کہ کم ازکم ایک لاکھ تک تو تعداد ضرور پہنچتی ہے۔
(جاری)
حواشی
* اس سلسلے میں سابقہ علمی کام:
۱۔ مدرسۃ الحدیث فی الکوفۃ، از الدکتور شرف محمود
۲۔ عصر التابعین از عبد المنعم الہاشمی
۳۔ الاتجاھات الفقھیۃ عند اصحاب الحدیث فی القرن الثالث الھجری از عبد المجید محمود
۴۔مجلہ جامعۃ الملک سعود میں الدکتور حمدان کے بعض مقالات
۵۔ الرای و اثرہ فی الفقہ الاسلامی از الدکتور ادریس جمعہ
۶۔مشہور فقیہ خلیفہ بابکرالحسن کی گرانقدرکتاب: الاجتھاد بالرای فی مدرسۃ الحجاز الفقھیۃ
۷۔ابوبکراسماعیل محمد میقا کی کتاب: الرای واثرہ فی مدرسۃ المدینۃ
’’کافر‘‘ یا ’’غیر مسلم‘‘؟ چند توضیحات
مولانا محمد تہامی بشر علوی
جو انسان حق کو جانتے بوجھتے ماننے سے انکار کر دے، وہ خدا کے ہاں ابدی جہنم جیسی سخت ترین سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ قرآن مجید ایسے سرکشوں کا تعارف" کافرین" سے کرواتا اور ان کے انجام کی خبر ابدی جہنم کی سخت ترین سزاسے دیتا ہے۔ قرآن مجید جہاں کافر کی تعبیر اختیار کرتا ہے، ساتھ ہی اس گروہ کے بد ترین انجام کو بھی لازم مانتا ہے۔قرآن مجیدمیں کافر انہی حقیقی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس جو انسان حق کو جاننے کے بعد اسے قبول کر لیتا اوراس کے سامنے سرتسلیم خم کر جاتا ہے، اسے قرآن مجید "مومنین" سے تعبیر کرتا اور ابدی جنت کی بشارت دیتا ہے۔
تمام انسانی افراد اور گروہوں کا معاملہ مگر اتنا سادہ نہیں۔ قرآن مجید کے بیان کردہ اس واضح معیار اور انجام کے علاوہ انسانوں کی کئی سطحیں چلتی پھرتی زندگی میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ قرآن مجیدلوگوں کو خبردار کرتا ہے کہ تمہارا انجام جنت یا جہنم ہو گا۔ پھر بتاتا ہے کہ جہنم کے مستحق کافرین اور جنت کے مستحق مومنین ہوں گے۔ دو انجاموں کو سامنے رکھ کر خالص اخروی تناظر میں انسانوں کو ان دو درجوں کے سوا تقسیم کیا بھی نہیں جا سکتا۔ خدا مسلم اور کافر میں حتمی تفریق کی لکیر کل قیامت کو خود کھینچ کر رہے گا۔ کفر و اسلام یا اس کے چھوٹے بڑے مظاہر کا کامل ادراک جزا و سزا دینے کی سزاوار ہستی کے سوا کسی کو نہیں، اور وہ یقینی طور پر صرف اور صرف خدا ہی کی ہستی ہے۔اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ حقیقی کافروں کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں۔ مگر انسان" مومن "اور "کافر "کی اس معیاری سطح سے مختلف ،کئی اورسطحوں پر اتر آتا ہے۔ جس جس کو دیدہ بینا میسر ہو اسی خدا کی زمیں پر چلتی پھرتی خدا کی مخلوق کو دیکھ کر جائزہ لے سکتا ہے۔میں خودجن مسیحی، ہندو اور سکھ احباب سے ملاقات کر پایا، یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے کسی ایک میں بھی جانتے بوجھتے حق کا انکار کر جانے کی کوئی علامت مجھے محسوس نہیں ہوئی۔سکھ دوست کا حمد باری تعالیٰ کے اشعار سن کر آنسو بہہ پڑنا مجھے اب بھی یاد ہے۔میرے لیے مشکل ہے کہ اس مشاہدہ کے بعد بھی کہہ جاؤں کہ وہ حق کا جانتے بوجھتے منکر تھا۔یہ محض ایک استثنائی مثال نہ تھی ، دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے ملاقات کر پانے والے ہر جگہ اس کے مظاہر دیکھ سکتے ہیں۔ انسانوں کی ان دو معیاری (کافر اور مومن) سطحوں سے نیچے کی زندگی کی سبھی سطحوں کو جان کر عنوانات دے دینا، خدائی منصب ہی ہو سکتا ہے، یہ انسانی بساط سے نکلا ہوا کام ہے۔
البتہ ان دو سطحوں کے علاوہ عام طور پر چند اور سطحیں بھی انسانوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ خدا جب کافر و مومن کا لفظاستعمال کرتا ہے تو حقیقی اور اخروی معنوں میں ہی استعمال کر رہا ہوتا ہے۔اس تناظر میں انسانوں کی سبھی سطحوں کے تذکرہ ضروری نہیں۔ مگر مسلم قوم کو اس دنیامیں جینا اور اور اپنا امتیاز و تشخص باقی رکھنا ہوتا ہے۔ اسے بعض دنیوی احکام میں بھی مسلم و کافر کی تقسیم کرنا پڑ جاتی ہے۔مثال کے طور پرجنازہ پڑھنا، رشتے ناتے کرنا وغیرہ امور۔مگر یہ تقسیم سراسر دنیوی تقسیم سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔اس تقسیم کی بنیاد پر قیامت میں ہرگز فیصلے نہیں ہونے۔یہ معاملہ "عند الناس" کی حد تک ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے خدائی فرمان یا کوئی نص نہیں ہوتی۔ ہمارے فقہاء کے ہاں انسانوں سے متعلق احکامات کا فرق ،دو بڑی تقسیمات، کافر اور مسلم کے تحت ہی ہوا ہے۔چنانچہ ہمارے فقہاء بھی دنیوی حد تک یہی اصطلاحات استعمال کر کے انسانوں کو عمومی طور پر دو بڑے گروہوں میں تقسیم کرکے دنیوی احکامات بیان کرتے ہیں۔یہاں کافر کی تعبیراصلاً کسی کی تکفیر یا کسی کو کافر قرار دینیاور کافر ہی کہنے پر اصرار کے پیشِ نہیں بلکہ چند دنیوی احکام (نکاح، جنازہ وغیرہ )کے بیان کے لیے اختیار کر دی جاتی ہے۔گویا یہاں در اصل کافر کا اطلاق کرنانہیں بلکہ ان احکامات میں فرق بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ فقہاء کی یہ تقسیم عمومی دائرے میں دنیوی احکامات کے اجراء کی غرض سے ہوتی ہے، جس کایہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ فقہی تقسیم میں کافر قرار پانے والا گروہ ابدی جہنم کا مستحق بھی ٹھہر چکا۔اس ثابت شدہ علمی حقیقت کے باوجود عام مسلم نفسیات میں یہ بات کسی طرح راسخ ہو چکی ہے کہ تمام غیر مسلم، کافر اور ابدی جہنم کے مستحق ہیں۔اگرمذہبی لحاظ سے افراد اور گروہوں میں واقع یہ دنیوی فرق ، عمومی تقسیم میں "کافر" اور "مسلم" کے علاوہ کسی اور موزوں تعبیر کے تحت بیان کر دیا جائے تو اصلاً اس میں کوئی مانع نہیں۔
مسلم کی تعبیر میں تو کوئی قباحت یا حرج نہیں تاہم "کافر" کا اطلاق اس طرح کا سادہ معاملہ نہیں۔
منافق:
نزول وحی کے زمانے میں کچھ لوگ اس سطح کے بھی پائے گئے جو دل میں کفر اور ظاہر میں اسلام لیے پھرتے تھے۔ وہ چو ں کہ اپنی اصل میں کافر ہی تھے سو انجام کے لحاظ سے ابدی جہنم کے مستحق ہی ٹھہرے۔ اس ظاہر وباطن کی دوئی نے انہیں کفار کی بدترین قسم تک بنا ڈالا، مگر دنیوی احکام کا اجراء حقیقی کفر یا حقیقی اسلام پر موقوف نہیں ،سو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ظاہری حالت اسلام کے موافق پا کر کافر اور مسلم کی دو بڑی تقسیمات میں مسلم گروہ میں ہی شمار کیا۔ چنانچہ حقیقت میں کافر ہونے کے باوجود ان سے اسلامی مراسم ہی رکھے جاتے رہے۔ حتی کہ صحابہ کو سارے منافقین کی خبر تک نہ کی گئی۔ سو صحابہ منافقین کو مسلمان سمجھ کر ان کے جنازے تک پڑھتے رہے۔ قرآن مجید اس گروہ کو منافقین سے تعبیر کرتا ہے۔ منافقین اخروی لحاظ سے کافر اور دنیوی لحاظ سے مسلم ت?ے۔ مگر ان کی سطح کافر اور مسلم کی معیاری سطح سے الگ تھی، سو انہیں مسلم اور کافر کے سوا ایک الگ عنوان "منافقین" کا بھی دیا گیا۔ مگر یہ عنوان اس منافقانہ روش اور اس کے انجام سے خبردار کرنے کی خاطر اپنانا پڑا۔ دنیوی تقسیم میں منافقین کو الگ گروہ شمار کرنے کی بجائے مسلم گروہ کا ہی حصہ سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء کفار و مسلمانوں کے دنیوی احکام توبیان کریں گے ،مگر قرآن میں ذکر کیے گئے منافقین کے گروہ کے الگ سے احکام ذکر نہیں فرماتے۔
نکتہ: رسالت مآب کے دور میں حقیقی کافر اور دنیوی کافر کا مصداق ایک ہی تھا، سو وہاں بلا تردد کافر کی اصطلاح دنیوی لحاظ سے بھی برتی جا سکتی تھی۔ مگر فقہاء کے ہاں یہ تقسیم حقیقی نہیں، محض دنیوی حد تک ہے۔دنیوی احکامات میں منافقین کے لیے الگ سے کوئی احکامات نہ پا کر فقہاء نے انسانوں کی دنیوی تقسیم میں منافقین کی تعیین و تذکرہ نہیں کیا۔ اب کوئی ذہین دماغ یہ نتیجہ نہ اخذ کر بیٹھے کہ فقہاء کے ہاں منافقین "ڈائنوسار" بن گئے کہ اب پائے ہی نہیں جاتے۔ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ منافقین" ناپید " ہو کر "ڈائنوسار" نہیں بن گئے، وہ بلاشبہہ آج بھی ہوں گے، پر مگر ان کی تعیین انسانی بساط سے باہر کا کام ہے۔ہم انذار کے درجہ میں آج بھی نفاق کو بیان اور اور اس سے بچنے کو بار بار کہہ سکتے ہیں۔ نفاق کی علامات بیان کر سکتے ہیں۔ مگر چوں کہ دنیوی تقسیم میں منافقین کے گروہ کو مشخص کر لینا ضروری نہیں، اس لیے نفاق کی ظاہری علامات کے پائے جانے کے باوجود منافقین کو الگ مشخص اور متعین نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں خدائی خبر کے بعد امت کی تاریخ اس سے خالی ہے کہ سوسائٹی میں باقاعدہ کسی گروہ کو منافقین کا گروہ قرار دے دیا گیا ہو۔ منافق کی دنیوی تعین ضروری نہ تھی سو معاملہ اخروی تقسیم کا بن کر خدا کے سپرد ہو گیا۔ سو وہاں کی تقسیم خالص خدائی اختیار ہو گا کہ اس قدر محیط علم اسی ہستی کا ہے۔ اخروی انجام میں یہ گروہ کافر ہی ہو گا۔ یہی نکتہ نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کہا گیا کہ اسلام کے ابتدائی دور کے بعد منافقین ناپید ہونا شروع ہو گئے تھے، بلکہ" ڈائنوسار بن" گئے کہ بعد کا زمانہ منافقین کی تعیین سے خالی گزرا۔ کسی بات کو اصل تناظر سے ہٹا لینا اس طرح کے نتائج کے سوا پیدا بھی کیاکر سکتا ہے۔
غیر مسلم:
فقہاء کی عمومی دنیوی تقسیم میں کافر گروہ میں شمار کیا جانے والا طبقہ اخروی اعتبار سے بھی کافر اور ابدی جہنم کا مستحق نہ تھا۔ یہ تقسیم اصلاً دنیوی احکام کے اجراء کے پیش نظر کی گئی تھی۔ اس گروہ میں ایسے افراد بھی ہیں جو اسلام سے واقف ہی نہیں، ایسے بھی ہیں جو واقف ہیں مگر اس پر غور نہ کر سکے، ایسے بھی ہیں جو اسلام کو سچا مذہب مانتے ہیں ،مگر کہتے ہیں کہ اسلام مسلمانوں کا مذہب ہے ہندووں یا سکھوں کو ماننا ضروری نہیں۔ ہر قوم کا اپنا اپنا مذہب ہوتا ہے۔سارے مذاہب سچے ہیں مگر پیروی اپنے مذہب کی کی جانی چاہیے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں کے داخلی مذاہب میں لوگ کہتے ہیں کہ شافعی مذہب برحق ہے پر پیروی اپنے امام کی۔یوں وہ حق مان کر بھی نہ قبول کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں کہ ایک دوسرا حق "حنفیت" ان کے پاس ہوتا ہے۔ یوں عالمی مذاہب کی سطح پر بھی یہ خیال بڑی تعداد میں لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ مذاہب سارے سچے اور برحق ہیں مگر ہر قوماپنے مذہب کی پیروی کرے۔ یہ خیال بلاشبہ غلط ہے مگر ایسا کہنے والے کی طرف جانتے بوجھتے حق کے انکار کرجانے کی نسبت نہیں کی جا سکتی، جبکہ کافر اسم کا احقیقی مسمیٰ جانتے بوجھتے انکار کر جانے والے ہی ہوتے ہیں۔
المختصر مختلف انسانوں سے ملاقات کا تجربہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایسے افراد کم ہیں جن کے بارے میں یہ گمان کیا جا سکے کہ وہ جانتے بوجھتے حق کو نہیں مان رہے۔ اس پر مستزادپھر ان لوگوں کا اپنے لیے کافر لفظ کے استعمال سے نفرت کرنا بھی ہے۔جب واضح ہو چکا کہ دنیوی احکام کے فرق کے بیان کی خاطر مجبواراً یہ کافر کی تعبیر اختیار کر جانی پڑی، اب جب یہ کافر کا لفظ حقیقی معنوں میں بھی نہیں بولا جا ررہا، دیگر مذاہب کے ماننے والوں کوپسند نہیں کہ لوگ انہیں کافر کہا کریں، تو احکام کے فرق کی خاطر کسی اور موزوں تعبیر کو اختیار کیا جانا چاہیے۔ قرآن مجید بھی کفار کے ایک گروہ سے متعلق احکامات"اہل کتاب" ہی کے عنوان سے بیا ن کرتا ہے۔ان کے کافر ہونے کے باوجود قرآن کو انہیں کافر ہی کہنے پر اصرار نہیں۔ چنانچہ ہمارے فقہاء کا کہنا ہے کہ ذمی کو کافر کہہ کر پکارنے پر مسلمان کو تعزیری سزا دی جائے گی۔ جب دنیوی احکام کا اجراء ذمی کا عنوان دے کرممکن ہو جائے تو اسے کافر کہہ کر چڑانے پر اصرار ہرگز کوئی دینی مطالبہ نہیں، بلکہ فقہاء کے ہاں قابل تعزیر جرم ہے۔ پاکستان مین ہمارے علماء نے آئین کی شق میں سے " کافر" لفظ ہٹا کر "غیر مسلم" کی تعبیر اپنائی تو ہمارے نزدیک یہ ایک مستحسن عمل تھا۔اب تازہ درپیش صورت حال اور مشکلات کے پیش نظر انسانوں کی دنیوی تقسیم کافر کے علاوہ کسی موزوں عنوان کے تحت کر دینا ممنوع نہیں۔ہمیں چاہیے کہ" آئین پاکستان "میں علماء کے اختیار کیے گئے عنوان پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس کی افادیت سمجھنے کی کوشش کریں۔
دنیوی احکام میں فرق کے بیان کی خاطر کافر لفظ کا اطلاق ہی ضروری نہیں۔ مسلم قوم کے الگ تشخص اور دنیوی احکام کے اجراء کے لیے غیر مسلم کا عنوان کافی اور موزوں ترین ہے، عہد رسالت میں چوں کہ دنیوی اور حقیقی کافر کا مصداق خارج میں ایک ہی تھا سو اس دور پر آج کی صورتِ حال کو قیاس کیا جانا درست نہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ مسلم گروہ میں منافقین فاسقین بھی پائے جائیں اور غیر مسلم گروہ میں کافرین بھی موجود ہوں۔مگر دنیا میں ہم پر یہ فرق واضح ہو جانا بالکل بھی ضروری نہیں۔ انسانوں میں یہ حقیقی تفریق انسانی بساط سے باہر کا معاملہ ہے، سرے سے اس کا مکلف ہی نہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ کافر ناپید ہو گئے، ہم نفاق اور اس کے انجام کی طرح کفر اور اس کے انجام سے لوگوں کو خبر دار کرتے رہیں گے، اس مقصد کے لیے کافر اور منافق کا حقیقی اطلاق دنیا میں ہی ہو جانا یا اس کا انسانی بساط میں ہو جانا ضروری نہیں۔ "کافر کا آج بھی موجودہونا" ممکن ہے، یہ بالکل الگ بات ہے، اور "کافر کے موجود ہونے کا معلوم بھی ہو جانا" یہ دوسری بات ہے۔ دونوں باتوں کو ایک سمجھ کر "کافر" کے ناپید ہونے کی خبر سنانا درست نہیں۔کافر لفظ ہی کے اطلاق پر اصرار اور بھی محل نظر ہو جاتا ہے جبکہ کوئی گروہ اس عنوان کو اپنے لیے پسند نہ کرتا ہو۔ جب انسانوں کی دنیوی تقسیم ہے ہی دنیوی مصلحت کی خاطر تو کیوں اخروی انجام کے پیش نظر استعمال کی گئی اصطلاحات پر اصرار بڑھا دیا جائے، اوردنیوی مصلحت نظر انداز کر دی جائے؟
ایک سوال کا جواب
بعض ذی علم ناقدین کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ قرآن مجید میں ابتداء میں نازل ہونے والی سورہ "المدثر" میں، اتمام حجت سے قبل ہی اسلام نہ لانے والوں کو کافر قرار دیا جا چکا تھا، (فذلک یومئذ یوم عسیر ، علی الکافرین غیر یسیر) جو اس بات کی کافی دلیل ہے کہ" غیر مسلم" کو کافر قرار دینا درست ہے۔ اوریہ کہنا درست نہیں کہ کسی کو "کافر "قرار دینے کے لیے اتمامِ حجت ضروری ہے۔ سادہ لفظوں میں فاضل ناقدین کے تصور کے مطابق" کافر" کے اطلاق کے لیے " جانتے بوجھتے اسلام کا انکار" ضروری نہیں، بلکہ "مسلم گروہ " میں شامل نہ ہونا ہی "کافر" قرار دینے کے لیے کافی ہے۔
اس اعتراض میں کن امور کو خلط کر دیا گیا، اس کا جائزہ جواب میں لیا جاتا ہے۔یہاں چند بنیادی نکات کو پیش نظر رکھنا تفہیم مدعا کے لیے ضروری ہے۔
اتمام حجت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی فرد پر حق پوری طرح واضح ہو جائے۔ حق کے پوری طرح واضح ہونے کے مختلف داخلی اور خارجی ذرائع ہو سکتے ہیں۔ جس پر کسی بھی طریقہ سے حق واضح ہو گیا، اس پر اتمام حجت ہو گیا۔ اتمام حجت کے بعد جس نے حق قبول کر لیا، وہ مسلم اور جس نے انکار کیا، وہ کافر ہے۔ اتمام حجت کے بعد کفر و اسلام کی سزا و جزا اصلاً تو آخرت میں ملنی ہے، مگر اتمام حجت اگر رسول کے ذریعہ سے ہوا ہو تو ان منکرین پر اخروی سزا کی ایک جھلک دنیا میں بھی ظاہر کر دی جاتی ہے۔
سورہ المدثر کی آیات میں کسی گروہ کو "کافر قراردے کر" اس کاحکم نہیں بیان کیا جا رہا "بلکہ کفر اختیار کرنے کی صورت میں "یہ انذار عام کیا جا رہا ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جو کافروں کے لیے سخت ثابت ہو گا۔ اس عمومی انذار کے وقت کہے گئے "کافرین " کے مصداق کا اس وقت مفقود ہونا گوکلام کی صحت کو مانع نہ تھا، مگر واقعہ یہ ہے کہ خارج میں مصداق بھی موجود تھا۔
مثال اس کی ایسے ہے جیسے کلاس میں استاد طلبہ سے یہ کہے کہ "امتحان آنے والا ہے، نہ پڑھنے والے اس دن ناکام ہو جائیں گے"۔ اس جملے کا مطلب یہ نہیں کہ کلاس کے کچھ طلبہ کو "نہ پڑھنے والا" ثابت کیا جا رہا ہے۔"نہ پڑھنے والوں" کا مصداق مفقود ہواور ساری کلاس ہی پڑھنے والی ہو، پھر بھی یہ جملہ اپنے مقصد کے پیش نظربرمحل اور درست قرار پائے گا۔مگر مصداق کا موجود ہونا بھی اس طرح کلام کرنے سے مانع نہیں۔اس بات کا امکان بھی ہے کہ کلاس میں "نہ پڑھنے" والے موجود ہوں۔ یوں ایک عمومی طور پر کہی گئی بات ان "نہ پڑھنے والوں" کے لیے خصوصی بھی بن جائے گی۔ لیکن کلام کا محل یہ نہیں ہو گا کہ "استاذ نے ناکام ہونے والے چار لڑکوں کو نہ پڑھنے والا قرار دیا"، بلکہ درست محل یہ ہو گا کہ "استاد نے نہ پڑھنے والوں کو ناکام قرار دیا، اور چار لڑکے نہ پڑھنے والے نکلے"۔ پہلی صورت میں کلام کے برمحل ہونے کے لیے "نہ پڑھنے والوں کا خارج میں موجود" ہونا ضروری ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں "نہ پڑھنے والوں کا موجود ہوناضروری نہیں"۔
"المدثر "میں کلام کا محل یہی دوسری صورت ہے کہ جو منکر ہوں گے، قیامت کو ناکام ہوں گے۔ ابتدائی عمومی آیات کے بعد اس سے اگلی آیات میں بعض مفسرین بطور خاص ولیدبن مغیرہ کو مراد لیتے ہیں۔ قرآن مجید کے بیان کے مطابق وہ پروردگار کی آیات سے عناد رکھتا تھا۔
یہ ایسے ہی ہے کہ عمومی انذارکی خاطر کہے گئے "کافرین" کا ایک خصوصی مصداق بھی میسر آگیا اور اس مصداق سے باخبر ذات نے بتا دیا کہ کافرین کو جس انجام سے ڈرایا گیا، اس کا مصداق ولید بھی ہے۔ جب "ولید کا کافر ہونا" اور "اس کے کافر ہونے کا علم ہو جانا" ثابت ہو گیا تو اسے "کافر کا مصداق کہناکسی طرح غلط نہیں"۔ ولید کا معاملہ آیات سے واضح ہے کہ اس کا جانتے بوجھتے حق کا انکار کرنا پوری طرح ثابت ہو چکا تھا۔ خدا نے اسے کفر اختیار کیے بغیر ہرگز کافر قرار نہیں دیا۔ولید کی سرکشی کے احوال جان لینے کے بعد اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ قرآن مجید میں اتمامِ حجت کے بغیر بھی غیر مسلموں کو کافر قرار دینا روا رکھا گیا ہے۔اگر کوئی صاحب علم ہر غیر مسلم پر "کافر" کا اطلاق روا رکھے گا تو یہ اس کا اجتہادی فیصلہ تو ہو سکتا ہے جس سے اختلاف کی گنجائش بہرحال باقی رہے گی، تاہم یہ اطلاق اس نوعیت کا نہیں کہ کوئی آیت اس کی تائید میں پیش کی جا سکے یا اسے کوئی منصوص مسئلہ باور کیا جا سکے۔
مدعا کی مزید تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ تکفیر، اتمام حجت اورکفر کی دنیوی سزا کے مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔
جس پر جب بھی کسی بھی طریقے سے حق واضح ہو گیا، پھر وہ انکار کرے تو کافر ہو جاتا ہے۔ کافر ہو جانے کے لیے ، جانتے بوجھتے حق کا انکارکر دینا کافی ہے۔البتہ کس نے جانتے بوجھتے انکار کیا، اس کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں۔ اس لیے علم کے بغیر کافر کہنے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔خدا کو چوں کہ علم ہے سو وہ جب بھی کوئی جانتے بوجھتے انکار کرے، اسے کافر کہہ سکتا ہے۔ گویا"کسی کا کافر ہوجانا" اور بات ہے اور " کسی کے کافر ہو جانے کا علم ہو جانا" اور بات ہے۔ جس کے کافر ہو جانے کا جسے علم ہو جائے ،وہ کافر کہہ بھی سکتا ہے۔اٹھائے گئے سوال میں "کافر ہو جانے" کی سطح کے "اتمام حجت" کو اور "دنیا میں خدائی سزا" کے مستحق بن جانے کے درجے کے "اتمام حجت" کو ایک سمجھ لیا گیا ہے۔ جبکہ اول عام اور ثانی رسولوں کے ساتھ خاص ہے۔
خلاصہ کلام
- اتمام حجت کے بغیر قرآن میں کسی کو کافر نہیں کہا گیا۔
- اتمام حجت کے مختلف ذرائع ہیں، کسی بھی ذریعے سے حق واضح ہو جائے تو اتمام حجت ہو جاتا ہے، اس کے بعد حق کا انکار کفر ہے۔
- کافر ہونے کے لیے حق کا جانتے بوجھتے انکار کرلینا کافی ہے۔رسول کا براہ راست مخاطب ہونا ضروری نہیں۔
- "کافر کہنے" کے لیے "کافر ہو جانے کا علم ہو جانا" ضروری ہے۔
- اتمام حجت رسولوں کے ذریعہ ہو جائے تو خدا کفر کی اخروی سزا کی ایک جھلک دنیا میں بھی ظاہر کر دیتا ہے۔
- کافر کا وجود اب بھی نایاب یا ناپید نہیں، جیسا کہ غلط فہمی سے یہ کہا جا رہا ہے۔بس اتنا ہے کہ اب پیغمبر کے بعد حتمی طور پر اس کے وجود کی خبر انسانوں کو ہو جانے کی خود اس کافر کے اقرار کے سواکوئی صورت نہیں۔ کوئی خود یہ اقرار کر دے کہ میں جانتے بوجھتے حق کا انکار کر رہا ہوں تو اسے آج بی بلا تردد کافر کہا جا سکتا ہے۔
- کافر کہنے سے اجتناب اس لیے برتا جاتا ہے کہ جسے کافر کہا جا رہا اس کا کہنا ہے کہ وہ جانتے بوجھتے حق کا انکار نہیں کر رہا، بلکہ جس چیز کو حق سمجھ رہا ہے، اسی سے وابستہ ہے۔اور وہ خود کے لیے کافر کا لقب پسند بھی نہیں کرتا۔
یہ نکتہ آفرینی بھی درست نہیں کہ جب کفر دل کا معاملہ ہوا تو ایمان بھی دل ہی کا معاملہ ہے۔ جب کسی کو کافر کہنا ممکن نہیں تو مسلم کہنا کیسے ممکن ہوا؟ کسی کاکفر و اسلام خدا جانے، ہمیں کسی کو کافر کہنا چاہیے نہ مسلم۔
یہ بات تو درست ہے کہ کفر و اسلام حقیقت میں دلی معاملات ہیں، جو خدا کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ مگر دنیوی ضرورت کے پیش نظرکافر و مسلم کا دنیوی فیصلہ کچھ اس کے سوا ہے۔ دنیا میں ظاہری نسبت و اعتراف ملحوظ رکھا جائے گا۔ مسلم کو مسلم اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ خود اس کا اعتراف کرتا ہے۔ اگر وہ اعتراف میں جھوٹا ہے تو منافق ہے جوآخرت کے لحاظر سے کافر اور دنیوی لحاظ سے مسلم ہی سمجھا جائے گا۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔ کافر کہنے سے گریز کا اس لیے کہاجاتا ہے کہ نہ خدا نے اس کے کفر کی کوئی خبر دی نہ اس نے خود کفر کا اعتراف کیا۔الٹا اس کا کہنا یہ ہے کہ وہ جس چیز کو حق سمجھ رہا ہے، اسے قبول کر رکھا ہے۔ اس صورت میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ بندہ جانتے بوجھتے حق کا انکار کر رہا ہے؟ہمارے فقہاء کسی گرو یا فرد کو کافر قرار دیتے ہیں تو اس کا منشاء بھی محض دنیوی احکام کا اجراء ہی ہوتا ہے۔اخروی تناظر میں وہ بھی تکفیر نہیں کرتے، اور نہ ہی یہ خدا کے سوا کسی کی یہ ہستی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے۔
جب دنیا میں کافر کا اطلاق محض دنیوی احکام میں فرق کی مصلحت کی خاطرکیا جاتا ہے۔تویہ مقصد اگرکسی اور موزوں تعبیر سے حاصل ہو پائے تو دین میں ممنوع نہیں۔ ہمارے نزدیک دیگر مذاہب والوں کو ان کے مذاہب کی نسبت "مسیحی، ہندو وغیرہ"سے تعبیر کرنا یا عمومی تقسیم میں مسلمانوں کے علاوہ کو "غیر مسلم" کا عنوان دے دینا زیادہ موزوں ہے۔دنیا میں کافر اور مسلم کی تقسیم کا مفاد مسلم قوم کے الگ تشخص کو قائم رکھنا ہے اور یہ مقصد ’’غیر مسلم‘‘ کی تعبیر سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
مذہبی فرقہ واریت کا سد باب۔ توجہ طلب پہلو
محمد عمار خان ناصر
قراقرم یونیورسٹی میں دو روزہ ورک شاپ
محمد عمار خان ناصر
مکاتیب
ادارہ
(۱)
مولانا زاہد الراشدی صاحب وہ شخصیت ہیں جن کو پڑھ کر دین جاننے اور مزید جاننے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ میں نے ان کی تحاریر سے بہت کچھ سیکھا۔ تاہم، ان کے ایک موقف سے کچھ اختلاف پیدا ہوا ہے جو اہل علم و نظر کی خدمت میں برائے غور و فکر اور برائے نقد پیش کیا جاتا ہے۔
مولانا زاہد الراشدی صاحب نے اپنا یہ خیال کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ قرآن کو اللہ کا کلام تسلیم کرنے کے لیے بھی پہلے حدیث کو ماننا ضروری ہے۔ قرآن کا قرآن ہونا بھی تب ہی ثابت ہوتا ہے کہ حدیث میں اسے اللہ کی کتاب بتایا گیا ہے۔ مثال بیان کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ سورۃ الکوثر کو قرآن کا حصہ بھی اس لیے تسلیم کیا گیا ہے کہ حدیث اس کو قرآن کا حصہ بتاتی ہے۔ اس لیے قرآن سے پہلے حدیث کا ماننا ضروری ہے۔ حدیث سے مراد جیسا کہ مولانا کی دی ہوئی مثال سے معلوم ہوتا ہے، خبر واحد ہے۔ یعنی قرآن اپنی تصدیق میں خبر واحد کا محتاج ہے۔
مولانا کا یہ موقف درست معلوم نہیں ہوتا۔ یہ تو بدیہی بات ہے کہ قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ملا ہے اور آپ کی تصدیق سے ہی ہم نے اس کلام کو خدا کا کلام مانا ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ اس کی ترسیل صحابہ کے ذریعے ہی ہوئی ہے، لیکن ایک بڑے فرق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونے والی تعلیمات صحابہ کے ذریعے ابلاغ کی دو نوعیتوں کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں، یعنی تواتر اور خبر واحد کے ذریعے۔ دین اور ضروریاتِ دین کا ابلاغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواتر کے طریقے پر اس طرح فرمایا ہے کہ اس کا ثبوت ایک یا چند یا بہت سے اشخاص کے بیان کا محتاج نہیں رہا۔ پورے کا پورا طبقہ صحابہ اس کا مبلغ اور راوی ہے۔ یہ تواتر علمی بھی ہے اور عملی بھی۔ علمی تواتر صرف قرآن کی محفوظ شکل میں منتقل ہوا ہے اور عملی تواتر صرف متواتر سنن کے ذریعے منتقل ہوا ہے۔ یہ تواتر پوری ایک نسل سے دوسرے نسلوں کو منتقل ہوتا چلا آیاہے۔ قرآن کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ اسی لیے قطعی الثبوت ہے اور اس کے قطعی الثبوت ہونے کے لیے خبر واحد سے تصدیق نہیں کرائی جاتی۔ خبر واحد ظنی الثبوت ہوتی ہے۔ ظنی الثبوت وسیلے سے قرآن کے قطعی الثبوت ہونے کو کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟
بالفرض ایسا مان بھی لیا جائے کہ قرآن اپنی تصدیق کے لیے خبرواحد کا محتاج ہے تو بتایا جائے کہ قرآن کی ہر ہرآیت اور ہر ہر سورہ کے پیچھے کون کون سی اخبار احاد ہیں جس کی بنا پر ان آیات اور سور کو خدا کاکلام تسلیم کیا گیاہے؟ او ر کیا پھر ان اخبارِ آحاد پر نقد و جرح کی صورت میں جو احتمالات در آئیں گے، ان کی بنا پر ان میں بیان کر دہ آیات اور سور کو قرآن کا حصہ تسلیم کرنے میں ظنیت در نہیں آئے گی؟ یعنی قرآن ظنی الثبوت ہو جائے گا۔ نیز کیا قرآن کی آیات اور سور کو بیان کرنے والی اخبارِ آحاد سے مکمل قرآن اخذ کیا جا سکتا ہے؟ نیز کیا قرآن کی ترتیب توقیفی کا ثبوت بھی خبرواحد کا محتاج ہے؟ اگر ہے تو کیا ثابت کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کی ہر ہر آیت اور سورہ کی متعین جگہ کس کس خبرواحد کی روشنی میں متعین کی گئی ہے؟
امید ہے ایک طالب علم کی گزارشات پر توجہ فرمائی جائے گی۔
ڈاکٹر عرفان شہزاد، اسلام آباد
(۲)
اظہار براء ت بسلسلہ ’’تذکرہ مولانا محمد نافع‘‘ مولفہ حافظ عبد الجبار سلفی
حضرت مولانا محمد نافع (جامعہ محمدی شریف چنیوٹ) کی تمام تالیفات اور تحریرات اس امر کا زندہ ثبوت ہیں کہ دوسرے مسالک کے علماء کرام اور نظریاتی مخالفین سے علمی اختلاف کے باوجود ان کی تحقیر یا ذات کو ہدف تنقید بنانا آپ کے مزاج اور اسلوب تحریر میں شامل نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فاضل مولف جناب حافظ عبد الجبار سلفی نے بعض تحریروں میں علماء پر غیر ضروری تنقید لکھی جس کی وجہ سے پہلی ہی ملاقات میں ان کی اس روش اور عادت پر سرزنش اور سخت لہجہ میں تنبیہ فرمائی۔
فاضل مولف مذکور نے جب ’’تذکرہ مولانا محمد نافع‘‘ مرتب کیا تو اس میں بہت ساری قابل اعتراض وغیر ضروری چیزوں کے علاوہ اپنی دیرینہ عادت کے مطابق کئی زندہ اور مرحوم علماء اور شرفاء کو بلا ضرورت تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالا۔ موصوف سے درخواست کی گئی کہ اس طرح کی چیزوں کو تذکرہ میں شامل نہ کریں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ دوسرے یہ روش صاحب تذکرہ کے مزاج اور اسلوب تحریر سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ اس کے باوجود ’’تذکرہ مولانا محمد نافع‘‘ ہماری اجازت اور رضامندی کے بغیر ادارہ مظہر التحقیق لاہور سے من وعن شائع کر دیا گیا، اس لیے مولانا محمد نافع کا وارث اور بیٹا ہونے کی حیثیت سے میں تذکرہ میں موجود اس طرح کے مندرجات سے اظہار براء ت اور اعلان لا تعلقی کرتا ہوں۔
غلام ابوبکر صدیقی بن حضرت مولانا محمد نافع ؒ
سیکرٹری مالیات رحماء بینہم ویلفیئر ٹرسٹ، جامعہ محمدی شریف چنیوٹ
’’توضیحی اشاریہ تفسیر تدبر قرآن‘‘
ادارہ
مرتب: منظور حسین عباسی۔
صفحات: ۷۴۲ ۔
ناشر: فاران فاؤنڈیشن، لاہور (04236303244)
مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تصنیف ’’تدبر قرآن‘‘ نہ صرف عہد حاضر کا ایک مایہ ناز علمی شاہکار ہے، بلکہ پورے تفسیری ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہ کتاب قرآن مجید پر مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا اصلاحی کے کم وبیش پون صدی کے غور وفکر اور تدبر کا حاصل ہے اور بلاشبہ اسے قرآنی علوم ومعارف کا ایک جامع انسائیکلو پیڈیا قرار دیا جا سکتا ہے۔ قرآنی مفردات کی تحقیق، بلاغت کے اسرار ورموز، کلام الٰہی کے داخلی نظم کی تشریح وتفصیل، قرآن کے پیش کردہ دینی تصورات کی حکیمانہ وضاحت، سابقہ الہامی کتابوں کے ساتھ قرآنی بیانات کے تقابل، تفسیری وعلمی اشکالات پر ارتکاز، غرض تفسیر قرآن سے متعلق ہر ہر پہلو سے اس کتاب کی اپنی ایک انفرادی شان ہے جو قرآن کے کسی سنجیدہ طالب علم کو اس سے مستغنی نہیں رہنے دیتی۔
ضرورت تھی کہ اس گراں قدر ذخیرے میں بکھری ہوئی تحقیقات تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے اس کا کوئی موضوعاتی اشاریہ مرتب کیا جائے۔ اس ضمن میں بعض ابتدائی اور جزوی کاوشیں اس سے پہلے بھی کی گئی ہیں، تاہم منظور حسین عباسی صاحب کی زیر نظر کاوش کو شاید پہلی جامع اور معیاری کوشش کہا جا سکتا ہے۔ مرتب نے بیس کے قریب الگ الگ عنوانات کے تحت صاحب تدبر قرآن کی تحقیقات وافادات کو موضوعاتی اعتبار سے مرتب کیا ہے، مثلاً: اسالیب کلام الٰہی، الفاظ وترکیبات، سنن الٰہیہ، اماکن، تحریفات تورات، شخصیات واقوام، فقہی اشارات، مشکلات قرآن، نظام القرآن، نقطہ نظر وغیرہ۔ آخری عنوان کے تحت چار سو کے لگ بھگ ان مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے جس میں مولانا اصلاحی نے قرآنی مدعا کی تفہیم میں عام مفسرین یا اپنے استاذ مولانا فراہی سے مختلف نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ اس اشاریے کے دائرے میں ان کے علاوہ بھی کئی مزید موضوعات کو شامل کیا جا سکتا ہے، مثلاً علوم القرآن سے متعلق مباحث، قرآنی بلاغت کی وضاحت، جدید ذہن کے سوالات واشکالات اور حکمت دین کے مختلف پہلووں کی وضاحت۔
بہرحال مرتب اس غیر معمولی خدمت پر مبارک باد کے مستحق ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ’’تدبر قرآن‘‘ سے استفادہ کو سہل تر بنانے کے لیے اس نوعیت کے مزید کاموں کی طرف بھی متوجہ ہوں گے۔
(مدیر مسؤل)
نومبر ۲۰۱۶ء
پاک بھارت تعلقات اور اقبال و جناح کا زاویہ نظر / عرب ایران تنازع۔ تاریخی وتہذیبی تناظر اور ہوش مندی کی راہ / مولانا محمد بشیر سیالکوٹی ؒ کا انتقال
محمد عمار خان ناصر
انگریزی دور اقتدار میں برصغیر کی اقوام جمہوریت کے جدید مغربی تصور سے روشناس ہوئیں اور برطانوی حکمرانوں نے اسی تصور کے تحت ہندوستان کے سیاسی نظام کی تشکیل نو کے لیے اقدامات کا آغاز کیا تو یہاں کی دو بڑی قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین باہمی بے اعتمادی کی وجہ سے اپنے سیاسی اور اقتصادی حقوق کی حفاظت کے حوالے سے کشمکش اور تناؤ کی صورت حال پیدا ہو گئی جس نے آگے چل کر ایک باقاعدہ قومی تنازع کی شکل اختیار کر لی۔ اس صورت حال کے تجزیے اور ممکنہ حل کی تجویز میں مسلمان قیادت بھی باہم مختلف الرائے ہو گئی۔ ایک گروہ نے ہندوستان میں بسنے والی تمام اقوام کے لیے متحدہ قومیت کے تصور کی تائید کی اور اس بات پر زور دیا کہ تمام قومیں اور خاص طور پر ہندو اور مسلمان اپنے لیے ایک مشترک سیاسی مستقبل کے خط وخال متعین کریں اور مشترکہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے ہندوستانی قوم کو سیاسی خود مختاری یا آزادی کی منزل سے ہم کنار کریں۔ تاہم مسلم لیگ کی قیادت، کانگریس کے موقف، طرز سیاست اور رویے سے بوجوہ مطمئن نہ ہو سکی اور اس نے مسلم قومیت کی بنیاد پر اپنی سیاسی جدوجہد کو منظم کیا جس کا بنیادی مطالبہ آگے چل کر ہندوستان کی تقسیم قرار پایا۔ مسلم لیگی قیادت اس مطالبے کے جواز پر مسلمان عوام کی اکثریت کو قائل کرنے میں کامیاب رہی اور ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کی صورت میں تقسیم ہند کے تصور نے ایک عملی حقیقت کا درجہ اختیار کر لیا۔
یہاں یہ نکتہ یاد رکھنا بہت اہم ہے کہ مسلم قائدین کا یہ اختلاف اس حوالے سے نہیں تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی اختلاف یا ماضی کی تلخیوں کی بنیاد پر کشمکش اور تصادم کی صورت حال کا قائم رہنا مطلوب یا ضروری ہے یا کسی بھی حوالے سے اس خطے کے سیاسی یا معاشی مفادات کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ اس بات پر دونوں فریق متفق تھے کہ خطے اور اس میں بسنے والی قوموں کے مابین باہمی تعاون کی فضا ہی خطے کے مجموعی مفاد کے لیے ناگزیر ہے۔ اختلاف اس پر تھا کہ تعاون اور موافقت کی یہ فضا آیا ایک ہی ملک میں اکٹھے رہتے ہوئے پیدا کی جا سکتی ہے یا اس کے لیے ملک کی سیاسی تقسیم کا طریقہ زیادہ حقیقت پسندانہ اور عملی ہے۔ مسلم لیگ دوسرے نقطہ نظر کی قائل تھی اور دراصل تقسیم ہند کے مطالبے کی بنیاد ہی یہ نکتہ تھا کہ اس فیصلے سے دونوں قوموں کے باہمی تنازعات کا ایک مستقل حل نکل آئے گا اور اس کے بعد دونوں قومیں دوستی اور تعاون کی فضا میں خطے کی مجموعی ترقی کے لیے جدوجہد کر سکیں گی۔
اس حوالے سے مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی تشخص کے موقف کی ترجمانی کرنے والے دو صف اول کے مسلم قائدین کے زاویہ نظر کا حوالہ دینا یہاں مناسب ہوگا۔
علامہ محمد اقبال کا خطبہ الٰہ آباد مسلمانوں کی سیاسی فکر کا رخ متعین کرنے میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال نے اس خطبے میں جہاں خود مختار مسلم ریاستوں کی تشکیل کی فکری وتہذیبی اساسات کو واضح کیا ہے، وہاں دونوں قوموں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے اس کے مضمرات کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
Thus, possessing full opportunity of development within the body politic of India, the North-West Indian Muslims will prove the best defenders of India against a foreign invasion, be that invasion one of ideas or of bayonets. ...... From this you can easily calculate the possibilities of North-West Indian Muslims in regard to the defense of India against foreign aggression.
اقتباس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقے میں اگر مسلمانوں کو اپنی خود مختار ریاست بنانے کا موقع مل جائے تو وہ ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے اور باہر سے ہونے والی کسی بھی فکری یا عسکری جارحیت سے ہندوستان کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں گے۔
دوسری شخصیت، مسلمانوں کی قومی سیاسی جدوجہد کے حقیقی قائد، محمد علی جناح کی ہے۔ تقسیم ہند سے تقریباً تین ماہ قبل قائد اعظم محمد علی جناح نے رویٹرز کے نمائندے Doon Campbell کو ایک بہت اہم انٹرویو دیا جو ۲۲ مئی ۱۹۴۷ء کو ڈان میں شائع ہوا۔ انٹرویو کا موضوع تقسیم کے بعد پاکستان کی سیاسی وخارجہ پالیسی کے بنیادی نکات تھے، خصوصاً یہ کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہوگا اور بین الاقوامی طاقتوں میں وہ کس پر زیادہ انحصار کرے گا، اور یہ کہ پاکستان میں اقلیتوں کی حفاظت کیسے اور کیونکر کی جا سکے گی۔ انٹرویو سے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے قائد اعظم کا وژن بہت واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ اس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
۱۔ قائد اعظم پاکستان اور بھارت کے مابین دوستانہ اور اعتماد پر مبنی تعلقات کے خواہاں تھے۔ تقسیم ہند ان کے نقطہ نظر سے مستقل دشمنی اور تناؤ کی نہیں، بلکہ باہمی کشیدگی کے خاتمے کی بنیاد تھی۔
۲۔ وہ کسی بھی بیرونی جارحیت کے مقابلے کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین دفاعی معاہدے یا کسی دفاعی اتحاد میں شرکت کے موید تھے۔
۳۔ وہ پاکستان کے قیام کو ’’پان اسلام ازم‘‘کی قسم کے کسی سیاسی تصور یا تحریک کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ تصور عرصہ دراز ہوا، اپنی عدم افادیت ثابت کر چکا تھا۔ البتہ وہ تمام مسلم ممالک سے دوستانہ اور مبنی بر تعاون تعلقات کی خواہش رکھتے تھے۔
بد قسمتی سے دونوں ملکوں کے مابین پر امن اور دوستانہ تعلقات کا یہ وژن مختلف عوامل کے زیر اثر نسیاً منسیاً ہو چکا ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر پیدا ہو جانے والی یا پیدا کی جانے والی بعض پیچیدگیوں اور ان کے تلخ اثرات نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بنیاد کی حیثیت حاصل کر لی ہے اور مرور زمانہ کے ساتھ کشیدگی اور تناؤ کی اس فضا کو برقرار رکھنے کو اب دونوں ملکوں میں طاقت اور اقتدار کا کھیل کھیلنے والے توانا عناصر نے اپنی ضرورت فرض کر لیا ہے۔
سیاست بدقسمتی سے طاقت کا کھیل ہے جس کی مثال ایک طوائف کی ہے۔ اس کی فطرت میں ہے کہ وہ غمزہ وعشوہ کے سامان اور داد وتحسین کے لیے تو ’’تماش بینوں‘‘ (یعنی عوام) پر انحصار کرے، لیکن خود چند مخصوص طبقوں کی رکھیل بن کر رہے۔ جنگ کو بھی ’’متبادل ذرائع سے سیاست‘‘ کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے، سو یہ بھی ہمیشہ عوام کا خون نچوڑ کر لڑی جاتی ہے تاکہ چند بالادست طبقے اپنے خود غرضانہ مقاصد کی تکمیل کر سکیں۔ عوام کی، خود فریبی اور کوتاہ نظری کی صلاحیت کی بدولت، کشیدگی اور تصادم کے خواہش مند یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ایک محدود اور وقتی تناظر میں عوام کے دل ودماغ کو ہیجان اور اشتعال کا یرغمال بنا لیں۔
یہ صورت حال دیانت دار اہل دانش کے لیے ایک کڑی آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے۔ موقع پرست دانش وروں کے لیے اس فضا کا حصہ بن جانا آسان بھی ہوتا ہے اور صلہ بخش (rewarding) بھی، اور تاریخ کے ساتھ ساتھ معاصر حالات میں اس کے جوازات ڈھونڈ لینے میں بھی انھیں کوئی خاص دقت نہیں ہوتی، لیکن حقیقی اہل دانش کی اصل اخلاقی ذمہ داری بہت بلند ہے۔ ان کا کام اسٹریٹجک تجزیوں سے کسی قوم کی دور بینی کی صلاحیت کو کند کرنا نہیں، انسان دوستی کے جذبے کو فروغ دینا اور طاقت اور مفادات کے ٹکراؤ کے ماحول میں ہوش مندی کے پیغام کو زندہ رکھنا ہے۔
عرب ایران تنازع۔ تاریخی وتہذیبی تناظر اور ہوش مندی کی راہ
شرق اوسط میں عرب ایران تنازع کے جہاں سیاسی اور جغرافیائی پہلو اہم ہیں، وہاں اس کی حقیقی ماہیت کو سمجھنے کے لیے اس کا تاریخی وتہذیبی تناظر بھی پیش نظر رہنا بہت ضروری ہے۔ بطور ایک مشخص مذہبی روایت کے، اسلام کی ابتدا ساتویں صدی عیسوی میں جزیرہ عرب میں ہوئی اور بہت جلد مسلمانوں کے سیاسی ومذہبی اقتدار نے ہمسایہ تہذیبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس توسیع سے سب سے زیادہ ایرانی تہذیب متاثر ہوئی، یہاں تک کہ ایک مستقل اور جداگانہ تشخص رکھنے والی تہذیب کے طور پر اس کا خاتمہ ہو گیا۔ اس صورت حال میں ایرانی قوم نے بحیثیت مجموعی اسلام تو قبول کر لیا، لیکن عربوں کی مذہبی یا سیاسی سیادت کے حوالے سے دو تین مختلف رویے اختیار کیے:
ایک عنصر نے اس کو کسی بھی درجے میں تسلیم نہیں کیا۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں شعوبیت کی لہر اسی کا ایک اظہار تھی۔
دوسرے عنصر نے مین اسٹریم اسلام یعنی سنی تعبیر دین کے ساتھ وابستگی اختیار کی اور اپنی غیر معمولی ذہانت اور صلاحیتوں سے اسلام کی علمی وتہذیبی ترقی میں کردار ادا کیا۔ سنی اسلام میں فقہاء، محدثین، مفسرین اور دیگر شعبوں کے اہل علم وفن کی ایک بہت بڑی اکثریت اسی عنصر سے تعلق رکھتی ہے۔
تیسرے عنصر نے اپنی قلبی وروحانی وابستگی اور اس کے نتیجے میں سیاسی اطاعت کا محور ومرکز صرف خانوادہ نبوت کو تسلیم کیا اور تشیع کے عنوان سے ایک الگ مذہبی وسیاسی گروہ کی صورت میں منظم ہو گیا۔
یوں شیعہ اسلام ابتدا ہی سے اپنا الگ تاریخی تشخص رکھتا ہے اور اس کا اظہار بھی چاہتا ہے۔ دور جدید میں انقلاب ایران اور اس کے بعد کے سارے واقعات اس حقیقت واقعہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس تشخص کے اجزاء متعدد ہیں اور گہرے بھی، جن میں دو یعنی عرب اور عجم کی قدیم آویزش اور شیعہ وسنی تعبیر دین کا تاریخی اختلاف زیادہ اہم اور بنیادی ہیں۔ شیعہ نفسیات اور تشخص کی تشکیل کرنے والے یہ دونوں عناصر اپنے اندر حصول اقتدار اور غلبے کے داعیات پیدا کرنے کی غیر معمولی قوت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ اگر شیعہ الہیات اور کچھ مذہبی پیشین گوئیوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس تحریک کی Potency کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس تناظر میں مشرق وسطی کی دوسری سیاسی طاقتوں اور شیعہ عنصر کے مابین آویزش کا پیدا ہونا اور ابھرنا کسی طرح بھی کوئی قابل تعجب بات نہیں۔
ایرانی کیمپ کی طرف سے اس صورت حال کی جو تعبیر عموماً کی جاتی ہے، وہ محض جزوی طور پر درست ہے، یعنی یہ کہ مشرق وسطی اور خلیج میں عرب بادشاہتیں دراصل عالمی سامراج کے مفادات کی محافظ ہیں، جبکہ ایران ایک انقلابی اور مزاحمت پسند اسلام کا علمبردار ہے۔ یہ بات جزوی طو رپر یقیناًدرست ہے، لیکن معاملے کے دوسرے پہلو اس سے کم اہم نہیں ہیں ، خاص طور پر ایرانی قیادت کی ترجیحات اور طرز عمل کبھی سنی دنیا کو اس پر مطمئن نہیں کر سکیں کہ وہ ایک خاص مذہبی عنصر کے بجائے بلا تفریق وامتیاز تمام مسلمانوں کی نمائندگی اور ترجمانی کا جذبہ رکھتی ہے۔ اس لیے خطے میں شیعہ غلبہ وتسلط کے مقابلے میں سنی دنیا کو بہرحال آل سعود جیسے حکمران ہمیشہ زیادہ گوارا رہیں گے، جو چاہے سلفی اور وہابی ہوں، چاہے عیش پرست اور عیاش ہوں اور چاہے جابر ومستبد ہوں، بہرحال سنی اور عرب ہیں۔ شیعہ قیادت کو جوش فراواں میں اس بنیادی نفسیاتی حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور شیعہ احیاء کے اہداف اور حدود کو بہرحال اسی کی روشنی میں متعین کرنا چاہیے، ورنہ اس آویزش کے نتیجے میں جتنا بھی خون خرابہ ہوگا، اس کی ذمہ داری سو فی صد نہ سہی، بہت بڑی حد تک شیعہ قیادت پر ہی عائد ہوگی۔
انصاف کی یہی بات دوسرے فریق کے متعلق بھی کہنی چاہیے۔ عرب سنی ممالک میں اہل تشیع بڑی تعداد میں موجود ہیں، لیکن انھیں ان کی آبادی کے تناسب سے ان کے جائز سیاسی حقوق حاصل نہیں۔ یہ صورت حال بہرحال تناو اور تشدد کے پیدا ہونے کا سبب ہے اور غیر منصفانہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسے زیادہ دیر تک طاقت کے زور پر قائم رکھنا بھی ممکن نہیں۔ چنانچہ سنی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاں ایک طرف خطے کی سطح پر غلبہ وتسلط کے ایرانی عزائم کا سامنا متحد ہو کر کریں، وہاں اپنے اپنے سیاسی دائرہ اختیار میں سب گروہوں کو ان کے جائز سیاسی ومعاشرتی حقوق دینے کا اہتمام کریں۔ یہی ذمہ داری شیعہ اکثریتی ملکوں پر بھی عائد ہوتی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہاں بسنے والے سنی مسلمانوں کو مساوی شہری وسیاسی حقوق دینے کے بجائے خطے کی سطح پر جاری سیاسی کشمکش کی سزا دی جائے۔
عالم اسلام کو، یعنی عربی اور عجمی اسلام دونوں کو، اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ نہ تو کوئی گروہ مذہبی جوش وجذبے کے زیر اثر طاقت کے زور پر حقیقی دنیا میں اس سے زیادہ اثر ورسوخ پیدا کر سکتا ہے جتنا اس کا فی الواقع حق بنتا ہے اور نہ کسی گروہ کو نظام اقتدار میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے سے بزور بازو روکا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں راستے، چاہے سنی حکمران اختیار کریں یا شیعہ، باہمی تصادم، خون ریزی اور تباہی کے راستے ہیں۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ جذبات کو اپیل کر کے وقتی طو ر پر ہمدردیاں اور وابستگیاں جیتی جا سکتی ہیں، لیکن تاریخ کے بہاو کے آگے باندھے گئے ایسے بند کبھی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے۔
مغربی فکر وتہذیب اور حمایت دین کے امکانات
امت مسلمہ میں مغرب کے سیاسی ومعاشی غلبے کا جو رد عمل پیدا ہوا، بڑی حد تک قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ، اس لحاظ سے غیر متوازن ہے کہ اس ساری صورت حال میں امت مسلمہ کا داعیانہ کردار اور اس کے تقاضے ہماری نظروں سے بالکل اوجھل ہو گئے ہیں۔ ہمارے پاس خدا کی دی ہوئی ایک ہدایت ہے جو ساری انسانیت کے لیے ہے اور امت مسلمہ اس ہدایت کی امین ہونے کے ناتے سے اس بات کے لیے مسوول ہے کہ وہ خود حاکمیت کی حالت میں ہو یا محکومیت کی، اس ہدایت کو کسی تعصب کے بغیر دنیا کے ہر اس گروہ تک پہنچائے جس تک دعوت حق کے پہنچائے جانے کا کسی بھی درجے میں کوئی امکان ہو۔ کسی قوم کے ساتھ سیاسی واقتصادی مفادات حتیٰ کہ مذہبی تصورات کا ٹکراؤ بھی اس بات کا جواز نہیں بن سکتا کہ امت مسلمہ اس قوم تک دعوت حق پہنچانے کی ذمہ داری سے غافل ہو جائے۔
مغربی اقوام تک دعوت حق پہنچانے کی یہ ذمہ داری امت مسلمہ پر کامیابی اور قبولیت کے امکانات سے بالکل قطع نظر کر کے عائد ہوتی ہے۔ تاہم اگر دعوت دین کے لیے میسر مواقع اور امکانات کے زاویے سے غور کیا جائے تو مغربی معاشروں میں صورت حال کئی حوالوں سے امید افزا اور سازگار دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ مغربی تمدن میں مذہب اور روحانیت سے دوری اور محض مادی وجسمانی ضروریات کی تکمیل وتسکین پر توجہ کے ارتکاز کا مظہر ایک پہلو سے بڑا بھیانک دکھائی دینے کے باوجود اس لحاظ سے اپنے اندر مثبت پہلو بھی رکھتا ہے کہ اس یک طرفہ طرز زندگی نے انسان کی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا پیدا کر دیا ہے جو فطرت انسانی کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ مغربی طرز معاشرت میں اس کا مطالعہ کئی پہلوؤں سے کیا جا سکتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ یہ چیز شعوری یا لاشعوری طور پر ایک سچی اور فطری روحانی دعوت کی طلب اور پیاس پیدا کرتی ہے اور اگر داعیانہ ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ نیز دعوت دین کے حکیمانہ اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مغربی معاشروں کی اس ضرورت پر توجہ مرکوز کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے لیے اسلام کے دامن رحمت سے وابستگی کے راستے نہ کھل جائیں۔
دعوت دین کی ذمہ داری اور دیارِ مغرب میں اس کے لیے موجود وسیع میدان ہمیں دور جدید کی بعض ایسی اہم خصوصیات کی طرف متوجہ کرتے ہیں جو نہایت واضح اور بدیہی ہونے کے باوجود، غیر داعیانہ طرز فکر کی بدولت امت کی نگاہ سے اوجھل ہیں۔
مثال کے طور پر حیرت انگیز سائنسی اکتشافات وانکشافات کی روشنی میں کائنات کے نظم میں خالق کے علم وحکمت اور قدرت ورحمت کی جو ایمان افروز تفصیلات سامنے آتی ہیں، وہ ایمان باللہ کی دعوت کے لیے غیر معمولی تائیدی مواد فراہم کرتی ہیں۔ یہ ایسے محسوس ومشہود حقائق ہیں جو محض سامنے آجانے سے ہی ایک سلیم الفطرت انسان کے قلب ودماغ پر ایسا تاثر قائم کرتے ہیں کہ اس کے سامنے فلسفیانہ ومنطقی استدلالات ہیچ ہو کر رہ جاتے ہیں۔
پھر یہ کہ گوناگوں تاریخی وسماجی عوامل کے نتیجے میں مغربی ذہن میں عمومی سطح پر مذہب کے حوالے سے ایک نوع کی بے تعصبی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے جو فکر واعتقاد کی سطح پر کسی بھی نئی بات کو قبول کرنے یا کم از کم اس پر غور کرنے کے لیے بڑی اہم ہوتی ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بھی معاشرے کی اپنے روایتی اور نسلی مذہب کے ساتھ وابستگی اس کے لیے کسی نئے مذہب کو اختیار کرنے میں ہمیشہ ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مغرب میں فکری سطح پر مذہب کے ساتھ عدم اعتنا اگر ایک جانب منفی پہلو رکھتا ہے تو اس لحاظ سے ایک مثبت پہلو بھی رکھتا ہے کہ اس کے نتیجے میں‘‘مذہبی تعصب’’جیسی ایک بڑی رکاوٹ بھی بڑی حد تک دور ہوئی ہے جو اسلام کی دعوت کے فروغ میں شاید سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی۔
عقیدہ ومذہب کے معاملے میں ریاستی جبر کے خاتمے نے بھی دعوت حق کے فروغ کے حوالے سے معاون اور سازگار فضا پید اکرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج مغرب میں نہ ریاست کسی مذہب کو اس مفہوم میں تحفظ دے رہی ہے جس مفہوم میں قرون وسطیٰ میں دیتی تھی اور نہ مذہبی احتساب کے وہ ادارے موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے اہل مغرب کے لیے بڑے پیمانے پر کیا، انفرادی سطح پر بھی تبدیلی مذہب ممکن نہیں تھی۔ یہ تاریخ وتہذیب کی سطح پر رونما ہونے والی ایک بہت بڑی اور نہایت جوہری تبدیلی ہے جس کی قدر وقیمت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔
انسانی تہذیب کے ارتقا نے دور جدید میں بڑے پیمانے پر مسلم آبادی کے دیار مغرب کی طرف نقل مکانی اور یوں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے باہمی اختلاط کے وسیع اور پر امن مواقع پیدا کیے ہیں۔ اسباب کی دنیا میں یہ پہلو بھی دعوت دین کے زاویے سے بہت اہم ہے، اس لیے کہ انسانی تاریخ میں مختلف مذاہب کے فروغ اور نشر واشاعت کا عمل بنیادی طو رپر اسی طرح کے اختلاط اور تعامل کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے۔
اس ضمن میں جدید ذرائع ابلاغ اور ان کی اثر انگیزی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے ذریعے سے دعوت حق کو کسی رکاوٹ کے بغیر دنیا کے آخری کونے میں بسنے والے انسان تک پہنچا دینا جس طرح آج ممکن ہے، اس سے قبل تاریخ کے کسی دور میں ممکن نہیں تھا اور یہ چیز بنی نوع انسان کی سطح پر امت مسلمہ کی ذمہ داریوں اور ترجیحات کے تعین میں اساسی اہمیت کی حامل بن جاتی ہے۔
مولانا محمد بشیر سیالکوٹی ؒ کا انتقال
عربی زبان کے نامور استاذ اور متعدد درسی وعلمی کتب کے مصنف مولانا محمد بشیر سیالکوٹی طویل علالت کے بعد گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
پاکستانی معاشرے میں عربی زبان کی ترویج ان کا خاص ذوق بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کی زندگی کا مشن تھا۔ انھیں پاکستانی مدارس میں رسمی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سالہا سال تک سعودی عرب میں گزارنے اور پاکستانی سفارت خانے میں بطور ترجمان کام کرنے کا موقع ملا۔ پھر وہ پاکستان آ گئے اور یہاں عربی زبان کی ترویج کے لیے مختلف النوع سرگرمیوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا۔ وہ دینی مدارس میں عربی صرف ونحو کی تدریس کے قدیم اور فرسودہ طریقے سے سخت نالاں رہتے تھے اور اپنے نرم گرم انداز میں اہل مدارس کو جتلاتے رہتے تھے کہ ان کا اختیار کردہ منہج تدریس عربی زبان کی ترویج کے بجائے طلبہ کو اس سے نفور کرنے کا ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔ کوئی تین سال قبل انھوں نے ’’درس نظامی کی اصلاح اور ترقی‘‘ کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب (۵۲۸ صفحات) مرتب کی جس میں عربی زبان کے نصاب اور طریقہ تدریس کے حوالے سے اپنے زندگی بھر کے تجربات ومشاہدات اور تنقیدی تبصرے جمع کر دیے۔
مختلف سطحوں پر عربی زبان کی تدریس کے لیے نصابی کتب کی تیاری اور عالم عرب میں پڑھائی جانے والی بعض مفید کتب کی پاکستان میں اشاعت ان کی خدمات کا ایک مستقل حصہ ہے۔ دار العلم کے نام سے ایک اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھنے کے علاوہ انھوں نے اسلام آباد میں معہد اللغۃ العربیۃ بھی قائم کیا جو اس میدان میں عمدہ خدمات انجام دے رہا ہے۔ مزید برآں انھوں نے اپنی اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں) کو بھی اسی مقصد کے لیے وقف کر دیا جو سب کے سب معاہد اور جامعات میں عربی زبان کی تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور صحیح معنوں میں اپنے والد مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ بنے ہوئے ہیں۔
علالت کے آخری سالوں میں بھی وہ وقفے وقفے سے فون پر رابطہ کرتے تھے اور ان کی طویل گفتگو کا محور یہی چیزیں ہوتی تھیں۔ غالباً وفات سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے شاہ ولی اللہ دہلوی کی مایہ ناز تصنیف ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء کے عربی ترجمے کی بیروت سے اشاعت کی خبر بھی دی جو انھوں نے اپنی نگرانی میں مکمل کروایا تھا اور اس کی اشاعت کے لیے بہت پرجوش تھے۔
بلاشبہ مرحوم کی شخصیت عزم وہمت، مقصد سے لگن اور جہد پیہم کا ایک شاندار نمونہ تھی اور سیکھنے والوں کے لیے ان کی زندگی میں بہت سے سبق موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال صالحہ ، بالخصوص عربی زبان سے ان کی محبت اور اس کی ترویج کے لیے ان کی سعی وکاوش کو اپنی بارگاہ میں قبولیت سے مشرف فرمائے اور ان کی نیک اولاد کو اس میدان میں اپنے مرحوم والد کی جدوجہد کو بہتر انداز میں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۴)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۱۰۲) علی حبہ کا ترجمہ
علی حبہ قرآن میں دو جگہ آیا ہے، اس کا ترجمہ کرتے ہوئے یہ طے کرنا ضروری ہوتا ہے کہ علی حبہ میں ضمیر کا مرجع کیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مرجع اللہ کو قرار دیا ہے، اس بنا پر وہ ترجمہ کرتے ہیں اللہ کی محبت میں۔ یہ ترجمہ بعض وجوہ سے کمزور ہے، ایک تو یہ کہ اس مفہوم کی ادائیگی کے لیے علی حبہ کے بجائے فی حبہ یا لحبہ آتا ہے، جبکہ یہاں دونوں مقام پر علی حبہ ہے۔ دوسرے یہ کہ ان دونوں مقامات پر قریبی عبارت میں لفظا اللہ کا ذکر نہیں ہے کہ اس کی طرف ضمیر کو لوٹایا جائے۔یہ درست ہے کہ ضمیر کے مرجع کے لیے عہد ذہنی کا اعتبار ہوسکتا ہے، یا کچھ دور پر لفظی تذکرہ بھی مل سکتا ہے، لیکن قرآن مجید میں اس طرح اللہ کی طرف ضمیر لوٹنے کی مثال ہمیں نہیں ملتی ہے۔
جبکہ دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ علی حبہ سے پہلے ایک جگہ مال اور ایک جگہ طعام کا ذکر ہوا ہے، اسی مذکور یعنی مال اور طعام کو ضمیر کا مرجع مانا جائے۔اور اس طرح ایک جگہ مال کی محبت کے باوجود اور دوسری جگہ طعام کی محبت کے باوجود ترجمہ کیا جائے، یہ مفہوم علی حبہ کے الفاظ سے میل بھی کھاتا ہے، اس صورت میں ضمیر کا مرجع بھی قریب ترین مذکور لفظ بن جاتا ہے۔ابو حیان کے الفاظ میں:
وَالظَّاھِرُ أَنَّ الضَّمِیرَ فِی حُبِّہِ عَائِدٌ عَلَی الْمَالِ لأَنَّہ أَقْرَبُ مَذکُوْرٍ، وَمِنْ قَوَاعِدِ النَّحْوِییّنَ أَنَّ الضَّمِیرَ لَایَعُودُ عَلَی غَیْرِ الأَقْرَبِ اِلَّا بِدَلِیلٍ۔۔۔۔وَقَوْلُ مَنْ أَعَادَہُ عَلَی اللَّہِ تَعَالَی أَبْعَدُ، لأَنَّہُ أَعَادَہُ عَلَی لَفْظٍ بَعیدٍ مَعَ حُسْنِ عَوْدِہِ عَلَی لَفْظٍ قَرِیب۔ (البحر المحیط فی التفسیر،۲؍۱۳۵)
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ زبان کے قواعد کے لحاظ سے یہ غلط ہے کہ علی حبہ سے بیک وقت اللہ کی محبت اور مال کی محبت دونوں مراد لیا جائے۔
(۱) وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ۔ (البقرۃ: ۱۷۷)
’’اور مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور (بے خرچ) مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے میں ‘‘(اشرف علی تھانوی)
اوپر مذکور ترجمے میں علی حبہ کا ترجمہ اللہ کی محبت میں کیا گیا ہے جو محل نظر ہے، جبکہ ذیل میں مذکور دونوں ترجموں میں غلطی یہ ہے کہ علی حبہ کا ترجمہ کرتے ہوئے مال کے دل پسند اور عزیز ہونے کو بھی ذکر کیا ہے اور اللہ کی محبت کا بھی تذکرہ کیا ہے، ایک ہی لفظ سے دونوں باتیں بیک وقت مراد لینا درست نہیں ہے، اس کے بجائے صرف دل پسند یا عزیز کہہ دینا درست ہوگا۔
’’اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے‘‘(سید مودودی)
’’اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھڑانے میں‘‘ (احمد رضا خان)
اس کے مقابلے میں ذیل کے دونوں ترجمے درست ہیں:
’’اور دیوے مال اس کی محبت پر ناتے والوں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور راہ کے مسافروں کو اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں ‘‘(شاہ عبد القادر)
’’اور اپنے مال، اس کی محبت کے باوجود، قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور گردنیں چھڑانے پر خرچ کریں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
ضمنا یہاں یہ بات بھی ذکر کردینا مناسب ہے کہ ابن السبیل کا ترجمہ مسافر یا راہ کے مسافر کے بجائے راہ گیر کرنا زیاد ہ بہتر ہے۔راہ گیر وہ ہے جو راستہ طے کررہا ہو، جبکہ مسافر سفر کے دوران مقیم بھی ہوسکتا ہے اور حرکت میں بھی رہ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اردو محاورہ کی رو سے بھی راہ کے مسافر کے مقابلے میں راہ گیر زیادہ مناسب ہے۔
فارسی کے دو مشہور ترجموں میں علی حبہ کے دونوں طرح کے ترجمے الگ الگ ملتے ہیں:
’’وبدہد مال خود را بردوستی خدائے‘‘ (شیخ سعدی)
’’وبدہد مال باوجود دوست داشتن آں مال‘‘ (شاہ ولی اللہ)
علامہ ابن عاشور کا کہنا ہے کہ ضمیر کو تو لا محالہ مال کی طرف ہی لوٹنا چاہیے، البتہ مال کی محبت کے باوجود خرچ کرنے سے یہ مفہوم خود نکلتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی پیش نظر ہے۔
وَالضَّمیرُ لِلْمَالِ لَا مَحَالَۃَ وَالْمُرَادُ أَنَّہُ یُعْطِی الْمَالَ مَعَ حُبّہِ لِلْمَالِ وَعَدَمِ زھَادَتِہِ فیِْہ فَیَدُلّْ عَلَی أَنَّہُ اِنَّمَا یُعْطیہِِ مَرْضَاۃً لِلَّہِ تَعَالَی وَلِذَلِکَ کَانَ فِعْلُہُ ھَذَا بِرّاً. (التحریر والتنویر، ۲؍۱۳۰)
(۲) وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً۔ (الانسان:۸)
’’اور وہ لوگ (محض) خدا کی محبت سے غریب اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ‘‘(سید مودودی)
مذکورہ بالا دونوں ترجمے محل نظر ہیں، صاحب تفہیم اس آیت کی تفسیر میں دیگر اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’حضرت فضیل بن عیاض اور ابو سلیمان الدارانی کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی محبت میں وہ یہ کام کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک بعد کا فقرہ کہ اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہ ہم تو اللہ کی خوشنودی کی خاطر تمہیں کھلارہے ہیں۔ اسی معنی کی تائید کررہا ہے۔‘‘
لیکن یہ بات درست نہیں ہے، انما نطعمکم لوجہ اللہ مستقبل کے لیے ہے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہم ایسا کررہے ہیں، جبکہ علی حبہ سے اللہ کی محبت میں مراد لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کی محبت ہونے کی وجہ سے یا محبت میں وہ یہ کام کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ بعد کا فقرہ اس فقرہ کی تفسیر نہیں بن سکتا ہے۔ایک پہلو اور قابل غور ہے کہ علی حبہ کا مفہوم اس کی محبت کے باوجود لیں اور لوجہ اللہ والے فقرے کو بھی سامنے رکھیں تو مفہوم یہ بنتا ہے کہ دل پسند کھانے وہ حاجت مندوں کو کھلاتے ہیں تاکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کریں۔اس طرح کلام دو عظیم معنوں کا حامل ہوجاتا ہے۔
ایک اور نکتہ قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں محبت کے ساتھ کسی عمل کو انجام دینے کا ذکر صرف تین مقامات پر ہے، اور وہ انفاق واطعام کے ساتھ ہے، خود ان دونوں آیتوں میں دین کے بہت سارے کام ذکر کیے گئے ہیں، لیکن علی حبہ کا ذکر صرف مال اور طعام کے ساتھ کیا گیا ہے، اگر اس لفظ کے ذکر سے اللہ کی محبت کی طرف اشارہ ہے تو وہ تو ہر عمل کے ساتھ مطلوب ہے، پھر اسے صرف مال اور طعام کے ساتھ خاص طور سے ذکر کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہاں دراصل مال اور طعام کی محبت کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے ساتھ اگر لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران: ۹۲) والی آیت بھی سامنے رہے جس میں واضح طور سے خرچ کی جانے والی چیز کی محبت مراد ہے۔ تو بات اور مضبوط ہوجاتی ہے۔بہت خاص بات یہ ہے کہ ان تینوں مقامات پر بر کے حوالے سے گفتگو ہے، جس سے اشارہ ملتا ہے کہ تینوں بیان ہم معنی ہیں۔
مذکورہ بالا گفتگو کی روشنی میں ذیل کے دونوں ترجمے درست ہیں، البتہ ’’محبت پر‘‘ لفظی ترجمہ ہے بامحاورہ ترجمہ ’’محبت کے باوجود‘‘ ہوگا :
’’اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور بن باپ کے لڑکے کو اور قیدی کو‘‘ (شاہ عبد القادر، اس ترجمہ میں لڑکے کا لفظ بھی محل نظر ہے، یتیم کا لفظ لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے آتا ہے، اس لئے مناسب ترجمہ لڑکے کے بجائے بچے ہوگا، کیونکہ بچے کہنے سے دونوں شامل ہوجاتے ہیں)
’’اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو ‘‘(احمد رضا خان)
بعض مترجمین نے علی حبہ کا ترجمہ حاجت اور احتیاج کیا ہے، جیسا کہ مذکورہ ذیل فارسی اور اردو کے ترجمہ میں ہے:
’’ومید ہند طعام باوجود احتیاج بآن فقیر را ویتیم را وزندانے را‘‘ (شاہ ولی اللہ دہلوی)
’’اور وہ مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے رہے ہیں، خود اس کے حاجت مند ہوتے ہوئے‘‘(امین احسن اصلاحی) دیکھنے کی بات یہ ہے کہ صاحب تدبر نے اوپر والی آیت میں علی حبہ کا ترجمہ محبت اور اس آیت میں حاجت مند ہونا ترجمہ کیا ہے۔
علی حبہ کا ترجمہ حاجت مند ہونا درست نہیں ہے، بلکہ اس کی محبت کے باوجود خواہ وہ محبت اپنی حاجت کی وجہ سے ہو یا خود کھانے کے لذیذ ہونے کی وجہ سے ہو۔
(۱۰۳) فوم کا ترجمہ
فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الأَرْضُ مِن بَقْلِہَا وَقِثَّآئِہَا وَفُومِہَا وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا۔ (البقرۃ: ۶۱)
اس آیت میں لفظ فوم سے متعدد مفسرین ومترجمین نے گیہوں مراد لیا ہے، لیکن ائمہ لغت کی تحقیق اور توراۃ کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ فوم کا مطلب لہسن ہے۔
بعض لوگوں نے فوم کے معنی بیک وقت گیہوں اور لہسن دونوں لیے ہیں، یہ لغت کے قواعد کے خلاف ہے، اگر ایک لفظ کے ایک سے زائد معنی ہوتے ہیں تو بیک وقت تمام معنی نہیں بلکہ کوئی ایک ہی معنی مراد ہوتا ہے۔
نیچے آیت مذکورہ کے کچھ ترجمے ذکر کیے جاتے ہیں:
’’اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لئے زمین کی پیداوار، ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے‘‘ (سید مودودی)
اس ترجمہ میں کئی باتیں توجہ طلب ہیں، بقل کے معنی ساگ اور ترکاری میں سے کوئی ایک ہوں گے، اسی طرح قثاء کے معنی کھیرا اور ککڑی میں سے کوئی ایک ہوں گے، فوم کے معنی بھی بیک وقت گیہوں اور لہسن دونوں مراد لینا درست نہیں ہے۔ اس کے علاوہ الفاظ کی ترتیب کے لحاظ سے پیاز کا ذکر دال کے بعد ہونا چاہئے، جس طرح پہلے عدس اور بعد میں بصل آیا ہے۔
’’اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کرو کہ وہ ہمارے لیے ان چیزوں میں سے نکالے جو زمین اگاتی ہے اپنی سبزیوں، ککڑیوں، لہسن، مسور اور پیاز میں سے‘‘ (امین احسن اصلاحی) اس ترجمہ میں زبان کا ایک اسلوب نظر انداز ہوگیا ہے، وہ یہ کہ من بقلھا میں ضمیر کی طرف اضافت نسبت بتانے کے لئے نہیں بلکہ معرفہ بنانے کے لئے ہے اس کا ترجمہ کرنا فصیح نہیں ہوگا، دوسرے یہ کہ من یہاں بیانیہ ہے تبعیض کا نہیں ہے، اسی طرح مما تنبت الأرض میں بھی من تبعیض کا نہیں ہے، بلکہ من ویسے ہی ہے جیسے یغفر لکم من ذنوبکم میں ہے۔ اس طرح صحیح ترجمہ یوں ہے: ’’اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کرو کہ وہ ہمارے لئے وہ چیزیں نکالے جو زمین اگاتی ہے، سبزیاں، ککڑیاں، لہسن، مسور اور پیاز‘‘ ۔
ذیل کے دونوں ترجموں میں باقی تمام امور کی رعایت موجود ہے، صرف ایک بات محل نظر ہے کہ فوم کا ترجمہ گیہوں کیا گیا ہے۔
’’لہٰذا اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمارے لیے زمین کی پیداواریں ترکاری، ککڑی، گیہوں، مسور، پیاز (وغیرہ) ‘‘(صدر الدین اصلاحی)
’’اس لیے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ ککڑی گیہوں مسور اور پیاز دے ‘‘(محمد جونا گڑھی)
(جاری)
فرقہ وارانہ اور مسلکی ہم آہنگی: علماء کے مختلف متفقہ نکات و سفارشات پر ایک نظر
ڈاکٹر محمد شہباز منج
برصغیر پاک و ہند میں فرقہ وارانہ اور مسلکی ہم آہنگی کے لیے متعدد علماے کرام نے یقیناًقابلِ قدر کوششیں کی ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے، جس کو ایک عام صاحبِ فہم بھی آسانی سے دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے ، کہ ان کو ششوں کے باوجود مسئلہ حل ہونے کی بجائے گھمبیر ہوا ہے۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق، متعدد دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ، مسئلے کا اہم اور قابل توجہ پہلویہ ہے کہ علما کی اس حوالے سے کی گئی کاوشوں میں بہت سطحیت پائی جاتی ہے۔ یہ سطحیت مختلف علمی و عملی ، سماجی وتحریکی اور نظری و دستاویزی وغیرہ رویوں میں سامنے آتی رہتی ہے۔ راقم الحروف نے ان رویوں کا تفصیلی مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ان سطور میں البتہ میرے پیش نگاہ زیر نظر مسئلے کے حوالے سے علما کے مختلف مشہور متفقہ نکات وسفارشات کاتجزیاتی مطالعہ ہے۔ان نکات و سفارشات میں سے ، جن کا بہت کریڈٹ لینے کی سعی کی جاتی اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ مسلکی ہم آہنگی کے لیے علما کی بہت بڑی کاوشیں ہیں ،وہ 31 علما کے بائیس نکات،مجلسِ دستور ساز کی بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی سفارشات پر علما کے تبصرے اور 55 علما کے 15نکات ہیں۔ان نکات و سفارشات اور تبصروں میں سے ہم نے صرف ان نکات کو لیا ہے ،جن کا نفیاً یا اثباتاً کوئی تعلق فرقہ وارانہ و مسلکی ہم آہنگی کے تصورسے بنتا ہے۔ ان نکات کی متعلقہ شقوں کے جائزے سے یہ بات سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی کہ فرقہ وارایت اور اس کی تباہ کاریاں ہمارے یہاں سے کیوں ختم نہیں ہورہیں! ہمارے علما کی اس ضمن میں کاوشیں کس قدر حقیقی اور معاملے کو حل کی طرف لے جانے والی ہیں! اور کس قدر اسی گھمبیرتا میں پھنسائے رکھنے والی!:
31 علما کے 22 نکات
31 جنوری 1951ء کو مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے 31 علما نے متفقہ طور پر 22 نکات پیش کیے، جن میں واضح کیا گیا کہ ایک پاکستانی ریاست کو اصولِ شریعت اسلامیہ کے مطابق چلانے کے لیے کن کن امور کو مد نظر رکھنا چاہیے!مختلف مسالک کے 31 علما کے ان 22 نکات کا، مسلکی ہم آہنگی اور علما کے اتحاد و اتفاق کے ضمن میں بڑا شہرہ چلا آتا ہے۔ ان بائیس نکات میں سے نکات نمبر 4 ،5 ،7 ،8اور 9 ہمارے زیرِ بحث موضوع سے کچھ علاقہ رکھتے ہیں، ہماری ناقدانہ گفت گو سے قبل ذرا ان نکات کو ملاحظہ کر لیجیے:
4۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرکے، منکرات کو مٹائے اور شعائرِ اسلامی کے احیا و اعلا اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کاانتظام کرے۔
5۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگاکہ وہ مسلمانانِ عالم کے رشتہ اتحاد و اخوّت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیتِ جاہلیہ کی بنیادوں پرنسلی و لسانی ،علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و استحکام کا انتظام کرے۔
7۔ باشندگانِ ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے، جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں۔ یعنی حدودِ قانون کے اندر تحفظِ جان و مال و آبرو، آزادیِ مذہب و مسلک، آزادیِ عبادت ، آزایِ ذات، آزایِ اظہارِرائے، آزادیِ نقل و حرکت، آزادئِ اجتماع، آزادیِ اکتسابِ رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادے کا حق۔
8۔ مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سندِ جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقعہ صفائی وفیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔
9۔ مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدودِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انھیں اپنے پیروؤں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کرسکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے ،اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انھی کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔ (ماہ نامہ، "الشریعہ" جولائی 2015، ص4۔5)
آئیے اب ذرا ان نکات پر تنقیدی نظر ڈالیں:
شق نمبر 4 کے حوالے سے عرض ہے کہ اس میں قرار دیے گئے مسلمہ اسلامی فرقے کون سے ہیں ؟ انھیں ان کے کون سے مذاہب کے مطابق کون سی ضروری اسلامی تعلیم دینا، مملکت کا فرض ہو گا؟اگر مسلمہ اسلامی فرقوں سے شیعہ اور سنی مراد ہیں تو ان کی وضاحت ہونی چاہیے تھی، نیز یہ بھی واضح ہونا چاہیے تھا کہ ان کی اپنے مذہب کے مطابق تعلیم میں فقہی مذاہب کی تعلیم ہی شامل ہے یا عقیدہ وکلام کے مذاہب کی بھی؟ اگر مسلمہ اسلامی فرقوں میں بریلوی ، دیوبندی اور اہلِ حدیث وغیرہ بھی شامل ہیں ، تو انھیں ان کے کس مذہب کی کون سی تعلیم دینی ہوگی؟اگر یہ مسلمہ فرقے نہیں ہیں ، تو ان کے اندر مساجد ، مدارس اور وفاقوں کی تقسیم، اس اصول کی صریح خلاف ورزی ہے!ان انھیں ان نکات کی رو سے اس تقسیم و علاحدگی اور الگ شناخت و پہچان سے روکا جانا چاہیے۔ اگر یہ مسلمہ فرقے ہیں، تو دیوبندیوں اور بریلویوں کا فقہی مذہب ایک ہی ہے، وہ کس بنیاد پر الگ الگ مسلمہ اسلامی فرقے بنے ہیں؟ واضح ہے کہ ان کی تقسیم عقیدے و کلام کے اختلافات کی بنیاد پر ہوئی ہے۔تو کیا اہل نکات علما ریاست سے فرما رہے ہیں کہ وہ انھیں ان کے مذاہبِ عقیدہ و کلام کی تعلیم کا انتظام کرے؟ اس تعلیم نے پہلے ہی تباہی مچا رکھی ہے، آپ اس کا سرکاری انتظام کرانا چاہتے ہیں! حضور! آپ کی تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی!
یہاں میں یہ بھی عرض کر دوں کہ میرے مہربان علما محض فقہی مذاہب کی بات کر کے میری گذارش سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے، اس لیے کہ مسلمانوں میں اصل فرقہ بندی اور تباہی کا باعث کلامی مذاہب رہے ہیں ، فقہی مذاہب نہیں۔ فقہا کے مذاہب نے کبھی بھی وہ قیامت نہیں ڈھائی ، جو کلامی مذاہب نے ڈھائی ہے۔ برصغیر میں فرقہ ورارنہ تباہی بھی کلامی اختلافات کی دین ہے،یہ انھی اختلافات کا شاخسانہ ہے کہ ہندوستان کے ایک فقہی ہی مذہب کے حامل دو بڑے فرقے اپنے فتاویٰ میں کثرت سے ایک دوسرے کو کافر، مشرک ،بدعتی ، مرتد اور گستاخِ رسول قرار دیتے آ رہے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ آپ کے اس نکتے کی رو سے یا تو بریلوی دیوبندی وغیرہ مسلمہ اسلامی فرقے نہیں ہیں، اس صورت میں ان کا کوئی جواز ہی نہیں، اور اگر مسلمہ اسلامی فرقے ہیں، تو آپ صرف ان کے کلامی مذاہب کے حوالے سے ہی انھیں فرقے تسلیم کر رہے ہیں، اور یہ کلامی مذاہب پہلے ہی تباہی مچاتے آ رہے ہیں۔ ان کی تعلیم کی آزادی ہی نہیں، سرکاری انتظام کی خواہش اصلاح کی کوشش کیسے قرار پا سکتی ہے! اس سے فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے حوالے سے کوئی خیر برآمد نہیں ہو سکتی، اگر ہو سکتی تو کوئی نہ کوئی نظر آ رہی ہوتی ، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں ، کہ سوسائٹی میں فرقہ وارانہ حوالے سے خیر کی بجائے شر ہی بڑھا ہے۔
نکتہ نمبر 5میں مسلمانانِ عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے کی اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیتِ جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ، لسانی ،علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملتِ اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و استحکام کی تجویز دی گئی ہے،لیکن اس میں اس تجویز کو قابلِ التفات نہیں سمجھا گیا کہ مسلمانانِ پاکستان کے رشتہ اخوت کو بھی قوی تر کر لیا جائے، نیز کیا ریاست کے مسلم باشندوں کی عصبیتِ جاہلیہ صرف نسلی ، لسانی ، علاقائی یا مادی امتیازات ہی سے عبارت ہے؟ یا اس عصبیتِ جاہلیہ میں مذہبی اور فرقہ وارانہ عصبیت کا بھی کوئی دخل ہے؟ میرے خیال میں تو عصبیتِ جاہلیہ کے مظاہر اس فرقہ وارانہ عصبیت میں زیادہ ہیں ، مگر اس عصبیت کا تذکرہ ہی نہیں کیا گیا،پھر ذکر کردہ عصبیتوں کے خاتمے کے ذریعے بھی ملتِ اسلامیہ کا وسیع تر مفادہی پیش نظر رکھا گیا ہے، جیسے ملت اسلامیہ پاکستان کی وحدت کا تحفظ و استحکام تو کوئی حل طلب مسئلہ ہی نہیں۔یعنی گھر کے مسئلے کی فکر نہیں اور چلے ہیں پوری ملت اسلامیہ کو تحفظ و استحکام دینے:
تو کارِ زمیں را نکو ساختی
نکتہ نمبر 7اور 8میں باشندگانِ ریاست کے مختلف شہری حقوق کا ذکر ہے، نکتہ نمبر آٹھ کا آخری جملہ نہایت اہم ہے، اورعدل و انصاف کو یقینی بنانے کے لیے شریعتِ اسلامیہ کے دوراندیشانہ طریق مقدمہ یاعدالتی پروسیجر کا ایک رہنما اصول ہے کہ :" کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقعہ صفائی وفیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔"لیکن علما کے طبقے میں اس اصول کے لحاظ کا عالم یہ ہے کہ جب کسی شخص کو توہین رسالت کے الزام میں بغیر فراہمی موقعہ صفائی اور فیصلہ عدالت ، ایک شخص قتل کر دیتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو نہ صرف یہ کہ سزائے موت نہیں دی جا سکتی ،بلکہ اس نے قابلِ تحسین اقدام کیا ہے ، جس پر وہ تعریف و توصیف کا مستحق ہے۔یہ نہ صرف اپنے تجویز کردہ شرعی اصول کی صریح خلاف ورزی ہے، بلکہ ملک و معاشرے کو انارکی اور فساد کے سپرد کرنا ہے۔
نکتہ نمبر 9تو گویا ملکی و ملی انتشار کے لیے سرٹیفکیٹ کی تجویز ہے۔مسلمہ اسلامی فرقوں کی بات میں جو ابہام ہے، اس کی حقیقت ہم نے نکتہ نمبر 5 کے جائزے میں بیان کر دی ہے۔یا یہ مانیں کہ مسلمہ اسلامی فرقے دو ہی ہیں، یعنی سنی اور شیعہ۔ اس صورت میں دیوبندی ، بریلوی اور اہلِ حدیث غیر مسلمہ فرقے ہیں ،جنھیں ان نکات کی رو سے اپنی الگ پہچان کا اختیار ہے اور نہ اپنے مسالک کی تعلیم و ترویج کا۔ اگر یہ مسلمہ فرقے ہیں، تو کم ازکم دو بڑے فرقے محض کلامی مذاہب ہیں، اور جن کلامی اختلافات کی بنیاد پریہ ایک دوسرے کو بدعتی اور کافر و گستاخ قرار دیتے آ رہے ہیں ، وہ لا یعنی اور مضحکہ خیز ہیں۔ ان کی تعلیم کی نہ صرف یہ کہ کسی مسلمان کو کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کا بھلاانھیں ان کی تعلیم سے محفوظ رکھنے میں ہے؛شریعت کا نہ صرف یہ کہ ان سے متعلق سرے سے کوئی مطالبہ نہیں، بلکہ یہ مقاصد شریعت کے لیے سخت نقصان دہ ہیں ؛یہ اپنی تحصیل کرنے والے کو سوائے باہمی نفرت و عداوت ، شدت پسندی اور قتل و خوں ریزی کی ذہنیت اور شخصیت کے کچھ نہیں دے سکتے۔
مجلسِ دستور ساز کی بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی تجاویز پر علماکے تبصرے
دسمبر 1952 ء میں مجلس دستو ساز کی بنیادی اصولوں کی کمیٹی نے بنیادی اصول پیش کیے، تو تمام مکاتب فکر کے علما کا11تا 18 جنوری 1953ء کو دوبارہ اجتماع ہوا، جس کا مقصد مجلس دستور ساز کی متعلقہ کمیٹی کے پیش کردہ اصولوں پر شرعی نقطہ نظر سے تبصرہ اور اس حوالے سے اہم اور ضروری سفارشات و ترمیمات پیش کرنا تھا۔مجلس دستور ساز کی بنیادی اصولوں کی کمیٹی پر 22 نکات والے علما کے تبصروں اور سفارشات کے متعدد نکات میں سے ایک شق ہمارے موضوع کے حوالے سے تنقیدی نظر کا تقاضا کرتی ہے:
باب 2 "مملکت کی پالیسی کے رہنما اصول" کے عنوان کے تحت پیراگراف 2شق 10 کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ :"اس شق میں رپورٹ کی موجودہ عبارت ناقص ہے،اور یہ نقص خصوصیت کے ساتھ نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ لسانی تعصّبات کا ذکر نہیں کیا گیا،لہٰذا ہمارے نزدیک اس کو حسب ذیل عبارت سے بدلنا چاہیے: "مملکت کے لیے لازم ہونا چاہیے کہ وہ پاکستانی مسلمانوں میں سے جغرافیائی ،قبائلی، نسلی اور لسانی اور اسی قسم کے دوسرے غیر اسلامی جذبات دور کرنے اور ان میں یہ جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ وہ ملت اسلامیہ کی سالمیت، وحدت ، استحکام اور اس طرزِ فکر کے لوازمات اور اس مقصد کو سب سے مقدم رکھیں، جس کی تکمیل کے لیے پاکستان قائم ہوا۔"("الشریعہ "، جولائی 2015، ص 11)
اب دیکھیے! بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی عبارت کو اہلِ تبصرہ و سفارش علما نے جس عبارت سے بدلنے کی تجویز دی ہے، اس میں بھی جغرافیائی ، قبائلی ، نسلی اور لسانی اور دیگر غیر اسلامی جذبات کا ذکر ہے ،فرقہ وارانہ جذبات کا نام ہی نہیں۔ اگرچہ غیر اسلامی جذبات میں فرقہ وارانہ جذبات بھی آ سکتے ہیں ،لیکن دوسرے جذبات سے زیادہ فرقہ وارانہ جذبات کو ذکر کرنے کی ضرورت تھی ، ان جذبات کا ذکر ہی نہ کرنا صاف بتا رہا ہے کہ سفارشات پیش کرنے والے اور تبصرہ نگار ان جذبات کی ہولناکی کا یہ تو اندازہ ہی نہیں رکھتے یا انھیں کسی مصلحت کے تحت ذکر کرنے سے گریز کر رہے ہیں، حالانکہ ان کو ذکر کر کے باقی جذبات کو دیگر جذبات سے ظاہر کرنا چاہیے تھا،کہ دیگر میں کم اہم چیزیں ذکر کی جاتی ہیں۔
55 علما کے 15 نکات پر ایک نظر
ملی مجلسِ شرعی کی جانب سے اسلامی اصولِ ریاست و حکومت اور نفاذِ شریعت کے حوالے سے علما کی ایک متفقہ کوشش 24ستمبر 2011ء کو لاہور میں مذکورہ مجلس کے زیر اہتمام "اتحادِ امت کانفرنس" کے مشترکہ اعلامیے کے طور پر سامنے آنے والے" 55 علما کے 15 نکات" ہیں۔ان نکات کے نکات نمبر2، 3اور 7 میں مسلمانوں میں اتحاد واتفاق اور مسلکی ہم آہنگی اور اس کی ضرورت و اہمیت سے متعلق امور کا تذکرہ ہے۔نکات نمبر دواور تین میں نفاذِ شریعت اورسوسائٹی کی اسلامی اصولوں پر تعمیر و اصلاح کے لیے 1951ء میں علما کے پیش کردہ 22نکات کوپاکستان میں نفاذِ شریعت کی بنیاد قرار دیا گیا اورپیش نظر 15 نکات کو ان 22 نکات کی تفریع وتشریح سے تعبیر کیا گیا ہے، اور قرار دیا گیا ہے کہ ملک میں نفاذِ شریعت دینی مکاتب فکر کی طرف سے منظور شدہ متفقہ رہنما اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔نکتہ نمبر 7 ہمارے موضوع کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے، اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ: علاقائی ، نسلی ،لسانی اور مسلکی تعصبات کی بنیاد پر قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے ،اور قومی یک جہتی کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے بنائے جائیں۔("الشریعہ"،جولائی 2015،ص25)
ََ55 علما کے ان 15نکات میں نکات نمبردو اور تین ، چونکہ 1951ء کے 31علما کے بائیس نکات اور دیگر سفارشات پر مبنی ہیں ، اس لیے ان پر ہمارے تحفظات وہی ہیں جو بائیس نکات اور دیگر سفارشات کے حوالے سے تنقید میں ہم عرض کر چکے ہیں۔نکتہ نمبر 7البتہ اس حوالے سے منفرد اور قابلِ داد ہے کہ اس میں بائیس نکات اور دیگر سفارشات میں رہ جانے والی اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو مسلکی مسائل کے عدمِ ذکر کے حوالے سے تھی۔ نیز اس میں ایک اہم مطالبہ کیا گیا ہے کہ دیگر تعصبات کے ساتھ ساتھ مسلکی تعصبات کی بنا پر قائم سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے۔لیکن اگر آپ ان نکات اور ان کی توثیق کرنے والے 55علما کے ناموں کی فہرست پر نظر ڈالیں، توآپ کو اس قسم کے نکات اور ان کی نظریت و عملیت کے مختلف اطراف وجوانب کی معنویت کے حوالے سے ایک خوب صورت لطیفہ دیکھنے کو ملے گا۔مسلکی تعصبات کی بنا پر قائم جماعتوں پر پابندی کے مطالبے کی توثیق کرنے والے 55 علما ء کی فہرست میں جن لوگوں کے نام درج ہیں،ان میں سے چند ایک کہ اسماے گرامی بریکٹ میں درج گئے ،ان کے تعارف سمیت یوں ہیں :
سید منور حسن (امیر جماعتِ اسلامی ،منصورہ، لاہور)،مولانا ساجد میر(امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان ، لاہور)، مولانا عبید اللہ عفیف (امیرجمعیت اہل حدیث پاکستان ، لاہور)، مولانا ضیاء اللہ شاہ بخاری (امیرِ متحدہ جمعیت اہلِ حدیث، پاکستان )، مولانا حافظ عبدالوہاب روپڑی (نائب امیر جماعت اہلِ حدیث، پاکستان)، مولانا قاری زوار بہادر (ناظمِ اعلیٰ جمعیت علماے پاکستان )، پیر عبدالخالق قادری ( صدر مرکزی جماعت اہلِ سنت پاکستان )، مولانا عبدالرؤف فاروقی (ناظم اعلیٰ جمعیت علماے اسلام، لاہور)، پروفیسر حافظ محمد سعید (امیر جماعۃ الدعوۃ پاکستان ، لاہور)،مولانا زاہد الراشدی(ڈائریکٹرالشریعہ اکیڈمی ، گوجرانوالہ) مولانا راغب حسین نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ، لاہور) ، مولانا خان محمد قادری(مہتمم جامعہ محمدیہ غوثیہ، داتا نگر، لاہور) وغیرہ وغیرہ۔
ان سارے علمائے کرام اور دیگر اہلِ علم ونظر سے میرا سوال ہے کہ جمعیت علماے اسلام، جمعیت علماے پاکستان، تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ،اسلامی تحریک ،جماعت اہلِ سنت، سنی تحریک ،مولانا مودودی کی جماعت اسلامی وغیرہ مختلف مسالک کی نمایندہ سیاسی جماعتیں ہیں یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ کوئی صاحبِ عقل ودانش اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ جماعتیں مختلف مسالک کی نمایندہ ہیں۔اب صورت یہ ہے کہ یا تو متذکرہ صدر قبیل کے علما، جن میں سے اکثر مختلف مسالک کی نمایندہ سیاسی جماعتوں کے عہدے داریا ان سے متعلق اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ہیں ، ان جماعتوں پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، یا انھوں نے ان نکات کو پڑھا ہی نہیں، یا ان کا خیال یہ ہے کہ اس پر کون عمل کرتا ہے!یا ان کا تصور یہ ہے کہ اس طرح کی قراردادوں کو کون غور سے دیکھتا ہے! جو بھی صورت ہے ،المیے سے کم نہیں ، یہ اہل مذہب کے نظری و عملی رویوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب
مولانا محمد عیسٰی منصوری
تمام انسانی تہذیبیں اور ثقافتیں زندہ مخلوق (نامیاتی اجسام) کے مانند ہوتی ہیں۔ جس طرح ہر جاندار مخلوق زندگی میں مختلف مراحل سے گزرتی ہے، بچپن، جوانی، بڑھاپا، پھر موت، یہی حال تمام انسانی تہذیبوں کا ہے۔ تہذیبیں پیدا ہوتی ہیں، عروج پاتی ہیں، پھر زوال کا شکار ہو کر مٹ جاتی ہیں۔
دنیا کی جتنی بھی تہذیبیں ہیں، وہ تین چیزوں کا ملغوبہ ہوتی ہیں (۱) وہ گزشتہ تہذیبوں کے کھنڈرات پر قائم ہوتی ہیں یعنی گزشتہ تہذیبوں کے بچے کھچے آثار و باقیات یا تلچھٹ۔ (۲) ہر تہذیب کسی آسمانی وحی یا کچھ مفکرین و دانشوروں کے تصورات و افکار پر مبنی ہوتی ہیں۔ (۳) ہر تہذیب پر خطہ و ملک کا ماحول، عقائد و رسوم اثر انداز ہوتے ہیں۔
موجودہ مغربی تہذیب یونانی فلاسفہ اور مفکرین کے تصورات و افکار اور یونان و روم کی بت پرستانہ عزائم اور رسوم اور وہاں کی گزشتہ تہذیبوں کے مابقی اثرات و باقیات کا ملغوبہ ہے۔ بدقسمتی سے مغرب کے فکر و فلسفہ اور عقائد و رسوم پر آسمانی تعلیمات کی پرچھائیں بہت کم پڑی ہیں۔ اگر کچھ آسمانی تعلیمات کسی طرح مغرب میں پہنچ بھی گئیں تو مغرب نے انہیں بدل کر اپنے رنگ میں رنگ لیا، جیسے مسیحیت جس پر حضرت مسیح کے عقائد و تعلیمات کا اثر بہت کم اور ایک مغربی رومی باشندے (سینٹ پال) کے نسل پرستانہ اور رومی دیومالائی عقائد و رسوم و قوانین کا اثر بہت زیادہ رہا ہے۔ اس طرح مسیحیت یا عیسائیت دائمی افادیت کی آسمانی تعلیمات سے کٹ کر انسانی فکر و فلسفہ اور عقائد و رسوم کا مذہب بن کر رہ گئی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ تمام تہذیبیں جغرافیائی حالات اور نسلی و قومی احتیاجات و ضروریات کی پیداوار ہوتی ہیں۔
البتہ اسلامی تہذیب، تہذیبوں کے ظہور اور ان کے عروج و زوال کے اس عمومی قانون سے مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ کوئی نسلی و قومی نامیاتی جسم نہیں ہے بلکہ ایک زندہ نظریہ و فکر کا نتیجہ ہے۔ اس کی اساس جغرافیائی، نسلی و قومی عوامل کے بجائے ایک ایسے دین اور فکر و عقیدے و تعلیمات پر ہے جس کی حیثیت دائمی و ابدی ہے۔ نزول قرآن کے ساتھ ہی دنیا میں ایک نئی تہذیب نے جنم لیا جو قرآنی عقیدہ و تعلیمات سے پیدا ہوئی۔ قرآن کریم خالق کا کلام اور خالق کی صفت ہے۔ جس طرح خالق کی ذات و صفات دائمی و ابدی ہے، اس پر زمانہ اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ وہ زمانہ پر حاوی و غالب ہے، یہی حال خالق کے عطا کردہ عقیدہ و فکر اور تعلیمات کا ہے۔ یہ زمانہ سے ماورا ہے اور اس کی افادیت ہر ہر دور کے لیے ہے، یعنی دنیا کی تمام تہذیبوں کی طرح اسلامی تہذیب نہ کسی سابقہ تہذیب کے کھنڈرات و تلچھٹ پر ہے، نہ اس پر کسی مفکر و دانشور کے فکر و فلسفہ کا ذرہ برابر اثر ہے، نہ عرب کے سابقہ عقائد و رسوم، عادات و طرز زندگی کا۔ وہ اس قدر حساس ہے کہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کو ایک خاص درجہ دینے کے باوجود عبادات تک پر ان کی تحریک شدہ آسمانی تعلیمات کا بھی ذرہ برابر اثر قبول نہیں کرتی۔ حالت نماز میں آپؐ کو علم ہوتا ہے کہ یہود کا امام محراب کے اندر کھڑا ہوتا ہے، آپؐ ایک لمحہ توقف کے بغیر اسی وقت محراب کے باہر ہو جاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو اگر وہ بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں تو تم مخالفت کر کے اس کے آگے یا پیچھے ایک روزہ اور بڑھالو‘‘۔ وہ معاشرت کے معمولی سے معمولی عمل کے لیے الگ ضابطہ رکھتی ہے، معاشرتی امور، کھانا پینا، لباس، حجامت بنوانا، جوتا پہننا، اور استنجا کرنے میں بھی گزشتہ کسی تہذیب کا کوئی اثر قبول نہیں کرتی بلکہ اس میں بھی قرآن و سنت مستقل رہنمائی دیتی ہے۔
ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ مسلمانوں کا زوال اس وقت شروع ہوا جب مسلمان فقہا و متکلمین کے اذہان پر قرآن کے بجائے مغرب (یونان) کے فلاسفہ کے انسانی علوم و افکار نے غلبہ پا لیا اور ان کی بنیاد پر قرون وسطیٰ کے فقہا و متکلمین نے اپنی فقہی و کلامی تعبیرات کو اپنے اپنے عہد کے سیاسی، سماجی و تمدنی حالات اور احتیاجات کے رنگ میں بیان کرنا شروع کیا، جس کی وجہ سے وہ قرآن کے عطا کردہ تفکر سے جو تخلیقیت و ابداعیت سے مملو ہے (یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور اس کی ہر تخلیق بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ہے) اس تفکر سے دور ہوگئے۔ ابتدائی صدیوں میں جب مسلمان اللہ کی ان صفات سے متصف تھے، تب سینکڑوں نئے علوم جن کا دنیا میں وجود نہ تھا اور ہر علوم اور شعبہ میں ہزارہا نئی نئی چیزیں ایجاد کر کے پوری انسانیت کے محسن اور نفع دینے والے بن گئے تھے۔ لیکن جب وہ یونانی علوم اور افکار کے اسیر ہوئے تو اس نے ان فقہا و متکلمین کے اذہان کے سوتوں کو خشک کر دیا۔ اس کی وجہ سے علوم میں پھیلاؤ اور نئی نئی ایجادات بند ہوگئیں اور دینی تفکر میں جدت اور ایج ختم ہوگئی جس کی وجہ سے اسلامی تہذیب و فکر تروتازہ اور زندہ و توانا رہتی تھی، یعنی مسلمانوں کی فکر و علوم میں تخلیقیت و ابداعیت نہ رہنے کی وجہ سے ان کی فکر و تہذیب فرسودہ اور کہنہ ہو کر بانجھ بن کر رہ گئی۔
متاخرین کی جس فکر کو آج شریعت قرار دیا جا رہا ہے، اگرچہ وہ قرآن و سنت سے مستنبط و ماخوذ ہے مگر زیادہ تر گزشتہ ادوار کے علماء و فقہاء کے اجتہادات و استنباطات پر مشتمل ہے جو اس دور (قرون وسطیٰ) کی ضروریات تھیں۔ مگر آج تہذیب و فکر کے ارتقاء کے ساتھ اس کی اکثر جزئیات بے جوڑ ہوگئی ہیں۔ قرون وسطیٰ کے فقہ و کلام پر ارسطا طالیسی اور نو فلاطونی منطق و فلسفہ کا گہرا اثر ہے اور قدیم فلسفہ و علم آج اپنی معنویت اور قدر و قیمت کھو چکا ہے۔ اس لیے قرون وسطی کے فکر و فلسفہ کی طرح ان سے متاثر کلام و فقہ بھی نئی نسل کے جدید ذہن کو اسلام کے بارے میں مطمئن کرنے میں ناکام ہے اور اس کا نتیجہ ہماری نئی نسل میں تجدید اور مغربیت کے فروغ اور غلبہ کی صورت میں نکلا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ نسل نے اسلام کے احکام و تعلیمات اور اس کی تہذیب و تمدن کو عصر حاضر میں غیر متعلق کہنہ و فرسودہ سمجھ کر اس سے کنارہ کشی کر لی ہے اور مغربی تصورات، قانون، نظام، افکار و خیالات، اور معاشرت و تہذیب کو یہ سمجھ کر اپنا لیا ہے کہ اس سے موجودہ مسائل کا حل مل جائے گا۔
ایسے حالات میں علماء کرام کے کرنے کا اصل کام یہ تھا کہ وہ اسلام کے اصلی و حقیقی سرچشموں کی طرف لوٹتے یعنی قرآن و سنت اور شروع دور کی تعبیرات و تشریحات کی طرف۔ اور ان دائمی و ابدی سرچشمۂ حیات میں ازسرنو غور و خوض کرتے، آج کے مسائل کا حل نکالتے اور فقہ و کلام دونوں کو قرون وسطیٰ کے یونانی علوم کی دبیز تہوں سے آزاد کرا کے دور حاضر کے مسائل کے حل کے لیے جدید علم کلام اور جدید فقہ کو سامنے لاتے جو براہ راست قرآن و سنت سے ماخوذ ہوتا، جس سے حقیقی اسلام اپنی فطری و سادہ حالت میں نگاہوں کے سامنے آتا اور فقہ و کلام جو درمیانی دور میں یونانی فکر و فلسفہ کے غلبہ کی وجہ سے اس دور کے شارحین فقہ و کلام کی تعبیرات و تشریحات کی دبیز تہوں کے نیچے دب کر رہ گیا تھا، اس سے آزاد ہو جاتا۔ کیونکہ اسلام کا اصل ماخذ تو قرآن حکیم اور سنت رسولؐ ہی ہے، تمام اسلامی علوم و فنون اور تصورات و افکار کو ان دونوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے مصالح و ضروریات اور تقاضوں کی رعایت بھی ضروری ہے جس طرح آج سے پانچ چھ سو سال پہلے کے علماء فقہاء و متکلمین نے اپنے دور کے مصالح و تقاضوں کی رعایت کی۔ ظاہر ہے آج کے علماء (فقہاء و متکلمین) کو آج کے مصالح و تقاضوں کی رعایت کرنی ہوگی۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند صدیوں سے علماء نے اپنے پیشرو حضرات یعنی قرون وسطیٰ کے فقہاء و متکلمین کے افکار و خیالات اور نتائج فکر و استنباطات کو شریعت کے میدان میں دہرانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ان کے سامنے قرآن و سنت سے زیادہ متاخرین کے اقوال و افکار اور نتائج فکر رہے جبکہ ہر دور میں دینی فکر کی تازگی، احیاء و تجدید کے لیے اصلاً قرآن و سنت اور سیرت سامنے رہنا ضروری ہے۔
انسان کی فطرت ازل سے یکساں رہی ہے اور رہے گی۔ وہ اپنی جسمانی ضرورتوں کے ساتھ روحانی و وجدانی ضروریات بھی رکھتا ہے۔ عصر حاضر میں مذہب کے زوال کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جدید انسان کی فطرت و جبلت میں کوئی جوہری تبدیلی واقع ہوگئی ہے اور وہ اپنے افعال اور دلچسپیوں کو روحانی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کی جبلی و فطری خواہش سے محروم ہوگیا ہے۔ ہر انسان آج بھی مذہب کی احتیاج و ضرورت ویسے ہی محسوس کرتا ہے جیسے پچھلی نسلیں محسوس کرتی تھیں۔ کیونکہ مذہب ہی خیر و شر، نیکی و بدی، حق و باطل اور صحیح و غلط کے مابین فرق و امتیاز کا ایک مستند معیار و کسوٹی رہا ہے اور رہے گا۔ مذہب و عقیدہ کے بغیر کوئی قطعی و یقینی کسوٹی ایسی نہیں رہ جاتی جس پر انسانی زندگی کے اغراض و مقاصد اور اس کے اعمال و افعال کی اخلاقی حیثیت کو جانچا جا سکے، اور یہ وظیفہ اور میدان سائنس و ٹیکنالوجی یا سماجی علوم کا نہیں ہے۔
اول تو مغرب کے حصہ میں سینٹ پال کی تحریف کردہ خلاف فطرت و خلاف عقل مسیحیت آئی، دوسرے یورپ میں مذہب و سائنس کے مابین کشمکش میں مذہبی طبقہ (چرچ) کے ناعاقبت اندیش غلط رویہ کے باعث مذہب کے عملی زندگی سے اخراج کے سبب مغرب کا انسان اخلاقی نامرادی (Ethical Frustration) اور انارکی میں مبتلا ہو کر رہ گیا جس کی وجہ سے ساری اخلاقی حدود کو بالائے طاق رکھ کر ہر کمزور و ناتواں اقوام پر غلبہ و بالادستی اور ان کا ہر طرح سے استحصال اس کی جبلت و فطرت بن گئی ہے جس کے سبب دنیائے انسانیت میں سفاکی و سنگدلی کے مظاہرے ہیں۔ یہ سب اسی اخلاقی نامرادی کے مختلف مظاہر و علامات ہیں۔ انسانوں کے درمیان نفرت و خونریزی ہمیشہ سے مغرب کی جبلت و فطرت رہی ہے۔ گہرائی سے مغرب کا جائزہ بتاتا ہے کہ مغربی تمدن کی بنیاد استعمار پر ہے۔ استعمار کا مطلب ہے کمزور لوگوں کو اپنی طاقت کے شکنجے میں جکڑے رکھنا۔ اور استعمار کے ہاتھوں جکڑی ہوئی اقوام و ممالک کو اپنی آزادی کے لیے ہاتھ پیر مارنے کی بھی اجازت نہیں۔ استعمار مغرب کی پانچ ہزار سالہ تاریخ و تمدن کا خلاصہ ہے۔
گزشتہ صدیوں میں مغرب کے غلبہ کے بعد دنیا کا کونسا خطہ ہے جہاں لاکھوں کروڑوں لوگ مغربی استعمار کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوئے۔ دو پورے براعظم (آسٹریلیا اور امریکہ) کی اصلی آبادی کا صفایا کر دیا گیا۔ امریکہ کا سب سے بڑا دیوتا (جس کے امریکہ میں سب سے زیادہ مجسمے ہیں) کولمبس نے سترہویں صدی میں ۳۵ لاکھ ریڈ انڈین کا قتل عام کیا۔ ان بے چاروں کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ ان کا قصور کیا ہے۔ دوسری طرف سوشلزم کے ہیرو اسٹالن نے اپنے غلط فلسفہ کی خاطر چھ کروڑ معصوم لوگوں کو قتل کیا۔ ہٹلر اگر جنگ جیت گیا ہوتا تو مغرب کا سب سے بڑا ہیرو اور دیوتا ہوتا۔ استعماری ذہنیت کی خاطر دو عظیم جنگوں میں آپسی تباہی کے بعد مغربی دجالوں نے ٹیبل پر طے کیا کہ اب ساری ہلاکتیں مغرب کے باہر ممالک میں کریں گے۔
مغرب کی سینٹ پالی مسیحیت میں شروع ہی سے دین و دنیا کی تقسیم کا غلط عقیدہ آیا تھا جب مغرب نے حضرت مسیح کے بجائے سینٹ پال کے افکار و نظریات پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی۔ اس نے دین و دنیا، روح و مادہ کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ گویا مغرب کے موجودہ سیکولرزم کی بنیاد پہلے ہی سینٹ پال کی مسیحیت نے فراہم کی تھی۔ شروع ہی سے اس کے معتقدات و اصول غیر عقلی، ناقابل فہم، اور ناقابل عمل تھے۔ جب تک چرچ اور پوپ کے پاس جبر و طاقت رہی لوگ جبراً و قہراً مانتے رہے، جیسے ہی چرچ و پوپ کی طاقت کو زوال ہوا انسانی فطرت اس کو برداشت نہ کر سکی۔
اس کے برخلاف اسلام کے عقائد و اصول سب کچھ فطری، عقلی اور قابل فہم ہیں۔ اس میں اور انسانی فطرت میں، اس میں اور عقل و سائنس میں کہیں بھی کوئی تصادم و کشمکش نہیں ہے۔ اس لیے مذہب کا ماضی کی ایک فرسودہ و ناکارہ متاع ہونا اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہونا سینٹ پال مسیحیت اور دیگر مذاہب کی حد تک تو واقعی درست ہے مگر یہ تصور اسلام کے حوالہ سے کوئی معنٰی نہیں رکھتا۔ اسلام تو طلب علم اور مشاہدہ کائنات کی تحریک ہے۔ وہ ہر وقت انسانوں کو تعقل، تدبر، اور تفکر کی تلقین کرتا ہے۔ مگر آج ہماری اصل بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء اسلام کی جو تصویر پیش کرتے ہیں، وہ اصلی و حقیقی اسلام کی تصویر کم اور قرون وسطیٰ کے فقہاء و متکلمین جو مغربی (یونانی) افکار و تصورات سے متاثر و مرعوب ہوگئے تھے، ان کی ذہنی و فکری تعبیرات و تشریحات کا ملغوبہ زیادہ ہے۔ قرون وسطیٰ کے مصالح و تقاضوں سے متاثر تعبیرات موجودہ زندگی کے فکری و عملی مسائل کے حل میں بہت کم رہنمائی کرتی ہیں۔ صدیوں پرانی کلامی و فقہی تعبیرات جو حقیقتاً اپنے اپنے دور کی سیاسی، معاشی، سماجی و تہذیبی اور تمدنی حالات و مصالح اور ضروریات کی پیداوار تھیں، انہیں حالات حاضرہ کے مسائل و چیلنجز پر من و عن منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا افسوس ناک نتیجہ یہ نکلا کہ عالم اسلام کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذی اقتدار و اختیار طبقہ نے ان تعبیرت کو فرسودہ اور موجودہ حالات میں غیر منطبق دیکھ کر وہ اسلام ہی کی افادیت کے متعلق شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا اور وہ مغرب کے نظام و قانون، سیاست و طرز تعلیم اور تہذیبی و معاشرتی اقدار کو مسلم معاشروں پر مسلط کرتا جا رہا ہے۔
مغرب کی تمام سیاسی و قانونی تصورات و اصطلاحات جیسے ڈیموکریسی، سوشلزم، لبرل ازم، سیکولرزم، یہ سب مغرب کی صدیوں پر محیط مذہبی، تہذیبی، سماجی و تمدنی تصورات اور عقائد و رسوم سے وابستہ ہیں۔ یہ تمام مغربی تصورات مشرقی اقوام کے تصورات خصوصاً اسلامی نظریہ و فکر سے متصادم ہیں، ان کے اسلامی معاشروں پر اطلاق کا مطلب اسلامی معاشرے کو صرف مغرب کی تاریخی تہذیبی و فکری و سیاسی زاویہ نگاہ سے دیکھنا ہے جو مشرق کے کسی ایسے مذہب پر بھی فٹ نہیں بیٹھتی جس کا تعلق آسمانی تعلیمات و ہدایات سے کٹ گیا ہو جیسے ہندو معاشرہ یا بدھسٹ معاشرہ۔ اسلام جو اپنے وجود میں آنے سے ابتک ایک لمحہ کے لیے بھی آسمانی تعلیمات سے کٹ نہیں ہوا، اس پر ان تصورات و اصطلاحات کا انطباق کیسے ہو سکتا ہے۔ بقول علامہ سید سلمان ندوی کے اسلامی حقائق کو زمانہ کے ماحول کے مطابق مروجہ اصطلاحات میں ادا کرنا ہمیشہ تعبیر حقائق سے زیادہ تغییر حقائق کا باعث ہوا ہے۔ مثلاً بیسویں صدی میں جن مفکرین نے اسلام کو ایک تحریک قرار دیا وہ بلا ارادہ اسلام کی تغییر کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ Movement (تحریک) کا لفظ ایک تمدن و فکری پس منظر رکھتا ہے۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اسلام ہرگز کوئی نیا مذہب نہیں ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں وجود میں آیا بلکہ اس آسمانی پیغام کا تسلسل و استمرار ہے جو پیغمبر اسلام سے پہلے حضرت عیسٰیؑ ، حضرت موسٰیؑ ، حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ ، حضرت اسحاقؑ ، حضرت ابراہیمؑ ، حضرت نوحؑ ، اور حضرت آدمؑ نے دیا، خالق و مخلوق کے درمیان اسی ارتباط کا نام مذہب ہے۔
آسمانی تعلیمات یا ربانی رشد و ہدایت کے بجائے محض انسانی عقل و فہم کے ذریعہ وضع کردہ قوانین و ضابطے اور معیارات خیر و شر عالم انسانی سے ظلم و نا انصافی اور استحصال کو ختم نہیں کر سکتے اور نہ ہی بنی نوع انسان کے اخلاقی روحانی اور مادی فلاح و کامیابی کا موجب بن سکتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی قوم یا طبقہ کے وضع کردہ قوانین و ضابطے ہوں یا خیر و شر کے معیارات، وہ ان کے ذاتی، نفسیاتی اثرات اور ملکی و قومی مفادات کے تابع ہوتے ہیں، اس میں ابدی استواری و معروضیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس لیے وہ اقوام عالم میں جاری آویزش و کشمکش مٹا کر ان کے درمیان اتحاد و یگانگت کا سبب و ذریعہ نہیں بن سکتے۔ خاص طور پر سیکولرزم یعنی دین و قانون اور سیاست کی علاحدگی کے تصور نے دنیا میں اخلاقی، روحانی، عمرانی، تہذیبی و سیاسی ابتری کو پروان چڑھایا اور اقوام کے مابین کشمکش و مخاصمت کو بڑھایا ہے اور انسانی معاشروں کو حقیقی راحت و شادمانی اور امن و سکون سے دور کر دیا ہے۔ اس کے برخلاف آسمانی تعلیمات پر انسان اور معاشرہ کی مادی، حیاتیاتی و روحانی تقاضوں کی تکمیل کرتی ہیں۔ کیونکہ اس کے قوانین اور ضابطوں میں ثبات کے پہلو بہ پہلو تغیر کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ خالق ہی مخلوق کے ہر طبقہ کے مصالح و مفادات کو ملحوظ رکھ سکتا ہے۔
یورپ کو انقلاب فرانس کے بعد سینٹ پال کے غیر فطری، غیر عقلی مذہب سے تو نجات حاصل ہوگئی جو ایک خبیث جن و بھوت کی طرح مغرب کے عقل و شعور پر مسلط تھا مگر مسیحؑ کے اصل دشمن یہود مغرب کی اقتصادیات، ذرائع ابلاغ و سیاست پر پوری طرح حاوی ہوگئے بلکہ مغرب کے فکر و فلسفہ کی باگ و ڈور بھی اپنے ہاتھوں میں لے کر مغرب کو ایک روبوٹ کی طرح اپنے اشاروں پر چلا رہے ہیں۔ پوپ کی تباہ کاریاں یورپ تک محدود تھیں مگر صیہونیوں کی پوری دنیا تک وسیع ہیں۔ تقریباً پینتیس سال پہلے ایک صیہونی اسکالر سمویل ہنٹنگٹن نے مغرب کو تہذیبوں کی جنگ کا فلسفہ دے کر مغرب کو عالم اسلام سے بھڑا دیا، یعنی مستقبل میں دنیا میں جنگیں تہذیبوں کی بنیاد پر ہوں گی اور مغربی تہذیب کو اصل خطرہ اسلامی تہذیب سے ہے۔ یہاں بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کا مقولہ یاد آتا ہے کہ تہذیبیں نہیں ٹکراتیں، وحشتیں ٹکراتی ہیں، علوم نہیں ٹکراتے، جہالتیں ٹکراتی ہیں۔ کیونکہ مہذب ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ انسان عقل و انصاف پر چلے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب نے صیہونیوں کے ایماء پر رقص کرتے ہوئے اسلام کے خلاف تہذیبی جنگ شروع کر دی ہے۔ اس جنگ کے شعلوں کو بھڑکانے کے لیے موساد اور امریکی صیہونی لابی نے نائن الیون کروا کر تہذیبی جنگ میں مزید شدت پیدا کر دی۔ مغرب نے کچھ عرصہ سے تہذیب کے لیے ایک نیا عنوان ’’مین اسٹریم‘‘ تراشا ہے۔ مین کا لفظی ترجمہ سب سے بڑا، اہم یا بنیادی اور اسٹریم ندی یا دریا کو کہتے ہیں۔ دوسرا لفظ تہذیب کے لیے ’’لائف اسٹائل‘‘ اختیار کیا ہے۔
دنیا میں پہلے انسان حضرت آدمؑ کے وقت سے یہ تہذیبی لائف اسٹائل یعنی طرز زندگی کی جنگ جاری ہے۔ ایک لائف اسٹائل وہ ہے جو خالق کائنات نے ہر دور میں پیغمبروں کے ذریعہ عطا کیا اور دوسرا لائف اسٹائل اللہ کے پیغمبروں کی ضد اور مخالفت میں انسانوں نے اپنے نفس کی خواہش کے مطابق اختیار کیا۔ مثلاً حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا لائف اسٹائل غیر فطری عمل (Gay) تھا اور یہ عین جمہوری مزاج کے مطابق ان کا مین اسٹریم یا قومی دھارا تھا۔ پوری قوم میں محض گنتی کے چند نفوس اس مین اسٹریم کے خلاف حضرت لوط کے ساتھ تھے۔ قوم شعیب کی تہذیب یا مین اسٹریم کم تولنا تھا، یہ بھی جمہوری یا اکثریتی قومی دھارا تھا، صرف چند لوگ حضرت شعیبؑ کے ساتھ تھے۔ ہر دور میں پیغمبروں کے مخالفین مین اسٹریم یا اکثریت (عین جمہوری) رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد مغربی تہذیب کے دو علمبرداروں امریکی صدر جارج بش اور برطانوی پرائم منسٹر ٹونی بلیئر نے اعلان کیا کہ ہم اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہمارے لائف اسٹائل (تہذیب) کے خلاف افغانستان و عراق میں جو بھی سامنے آئے گا، اسے تباہ کر دیا جائے گا۔ نائن الیون کے ایک ماہ بعد امریکی وزیردفاع رونالڈ رمز فیلڈ نے دو ارب ڈالر کی لاگت سے تیار شدہ B52 بمبار طیارے کے سامنے کھڑے ہو کر امریکی فضائیہ کے ان ہوابازوں سے جو افغانستان کے عوام کو تباہ کرنے کے لیے بمباری کے مشن پر روانہ ہو رہے تھے، خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے سامنے صرف دو راستے ہیں (۱) ہم اپنے لائف اسٹائل کو یکسر بدل دیں اور ان مسلمانوں کا لائف اسٹائل اختیار کر لیں (۲) یا ہم ان کے لائف اسٹائل کو بدل دیں۔ ہم نے یہ دوسرا راستہ چنا ہے۔ اب آپ کا کام اس مشن کی تکمیل ہے۔
اب اس تہذیبی جنگ کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ افغانستان، عراق، الجزائر، لیبیا، تیونس، مصر، صومالیہ اور یمن تک پھیل چکا ہے۔ اب تک مغرب اپنی تہذیب مسلط کرنے کے لیے تقریباً ایک لاکھ حملے کر چکا ہے اور یہ تہذیبی ہولی وار (مقدس جہاد) تیز تر ہوتی جا رہی ہے، اس میں بیس لاکھ کے قریب لوگ موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ اس تہذیبی جنگ میں مغرب کی لائف اسٹائل یعنی تہذیب یا طرز زندگی کو حاوی کرنے یا تقویت پہنچانے میں تین اداروں کا بنیادی رول ہے۔ (۱) میڈیا (۲) نظام تعلیم (۳) ڈیمو کریسی، الیکشنی سیاست۔ دنیا کا میڈیا تو مکمل طور پر مغربی و صیہونی کنٹرول میں ہے، مسلم ممالک میں نظام تعلیم کو مغرب کی منشا و مزاج کے مطابق بنانے کا عمل تیزی سے جاری ہے، دینی مدرسہ اس کا خاص نشانہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس کے طلباء کو دنیا میں ترقی و کامیابی کے لیے مغربی نظام تعلیم اور تمدن و اسلوب زندگی کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عصری تعلیم گاہوں کے مسلمان اسٹوڈنٹس کو آخرت کی کامیابی و فلاح کے لیے کسی چیز کی ضرورت ہے یا نہیں؟
تقریباً نصف صدی پہلے امریکہ کے معروف صیہونی ادارے ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ نے ایک رپورٹ مرتب کر کے مشورہ دیا تھا کہ مسلم ممالک کے عوام کو مین اسٹریم (مغربی تہذیب) میں لانے کا سب سے مؤثر نسخہ مغربی طرز سیاست یعنی انتخابی جمہوریت ہے۔ ہم اس کے ذریعہ مسلمانوں کو بہت سے گروپوں میں تقسیم کر کے ان میں سے اپنے کام کے لوگ با آسانی تلاش کر سکتے ہیں۔ اول تو اسلام پسند جماعتیں الیکشن میں جیت نہیں سکیں گی۔ اگر کبھی (مصر، الجزائر کی طرح) جیت بھی گئیں تو ہم انہیں کی فوج کے ذریعہ با آسانی کچل دیں گے۔ چنانچہ مغرب پوری مسلم دنیا میں مغربی طرز سیاست یعنی ڈیموکریسی و جمہوریت کے لیے سرگرم عمل ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ مسلم دنیا میں مغربی لائف اسٹائل و تہذیب کا نفوذ بہت آسانی سے ہوتا ہے۔ مغرب کی اس تہذیبی یلغار کے مقابلہ کے لیے ہمارے پاس لے دے کر دینی مدارس ہیں مگر افسوس اس پر ہے کہ ہمارے علماء ماضی میں جس طرح یونانی علوم کے اسیر بن گئے تھے وہ اب مغربی فکر سیکولرزم (دین دنیا کی علاحدگی) کو عملاً قبول کر چکے ہیں۔ چنانچہ ہمارا پورا دینی تعلیمی ڈھانچہ عقائد و عبادات کے گرد گھومتا ہے ، اس میں اجتماعی معاملات پر کوئی بحث و تحقیق تک نہیں ہے، اس کے نفاذ کے لیے افراد کاری کی تیاری تو دور کی بات ہے۔
شرق اوسط کی صورتحال اور ایران کا کردار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار نے 16 اکتوبر کو یہ خبر شائع کی ہے کہ عرب ٹی وی کے مطابق امریکی فوج کے ایک عہدہ دار نے کہا ہے کہ ایران دنیا بھر میں شیعہ ملیشیاؤں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ایران نہ صرف یمن میں حکومت کے خلاف سرگرم شیعہ باغیوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے بلکہ وہ دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کو بھی بھاری جنگی ہتھیار مہیا کرتا ہے۔ یہ خبر چونکہ امریکی فوج کے ایک عہدہ دار کے حوالہ سے سامنے آئی ہے اس لیے اسے امریکی الزام یا پروپیگنڈا کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے ایک روز قبل عرب ممالک کی خلیجی تعاون کونسل اور ترکی کی کابینہ کے ارکان کے مشترکہ اجلاس کے بعد ان کی طرف سے یہ مشترکہ مطالبہ شائع ہوچکا ہے کہ ایران خطے میں مداخلت کی پالیسی ترک کر دے۔ جبکہ اس مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شام اور عراق کی سا لمیت اور وحدت کا تحفظ ضروری ہے۔
مشرق وسطیٰ کی صورتحال دن بدن جو گھمبیر صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے اس نے پورے عالم اسلام کو مضطرب کر رکھا ہے اور پاکستان کے عوام بطور خاص اس اضطراب اور بے چینی کا شکار ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے حالات جو بھی رخ اختیار کریں پاکستان اس سے براہ راست متاثر ہوتا ہے اور پاکستانی معاشرہ اور ماحول میں اس کے منفی اثرات کئی حوالوں سے سامنے آنے لگتے ہیں۔
اس مسئلہ کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اب سے ایک صدی قبل برطانوی استعمار نے دیگر مغربی ممالک کی ملی بھگت سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے مشرق وسطیٰ کے جغرافیہ اور بین الاقوامی سرحدات کا جو نیا نقشہ تشکیل دیا تھا اس کے مطلوبہ نتائج پورے ہو جانے کے بعد اب مغربی قوتوں کے قائد امریکہ کو اپنے مستقبل کے عزائم کی تکمیل کے لیے اس جغرافیائی نقشے اور بین الاقوامی سرحدات میں ازسرنو تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کی راہ ہموار کرنے کے لیے یہ ساری افراتفری پھیلائی گئی ہے۔ ایک نظر اس صورتحال پر اس پہلو سے بھی ڈال لیں کہ امریکہ اور روس سمیت تمام عالمی قوتوں کا ہر قدم اس سمت اٹھ رہا ہے جس سے اس افراتفری میں اضافہ اور جنگی ماحول برقرار رکھنے کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ عراق و شام کے لاکھوں شہریوں کے قتل عام اور لاکھوں کی جلاوطنی کے بعد بھی سینوں کی آگ ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی اور جنگ کو رکوانے کی بجائے نئے نئے محاذ کھولنے پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔
اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سنی شیعہ اختلاف جو اس سے قبل طویل عرصہ سے علمی مباحث، مناظروں، مذہبی گروہ بندی، اور زیادہ سے زیادہ پراکسی وار تک محدود تھا اب کھلی خانہ جنگی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہماری اس بارے میں ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ مذہبی دائروں میں یہ اختلافات صدیوں سے چلے آرہے ہیں اور انہیں سرے سے ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان اختلافات کو مناسب دائرے میں رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور مشترکہ قومی و ملی معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہی اس سلسلہ میں صحیح راستہ ہے۔ ان اختلافات کا شدت پسندانہ اظہار اور ان کی بنیاد پر گروہی محاذ آرائی کا اسلام دشمن استعماری قوتوں کے سوا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور جو بھی ایسا کرتا ہے وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلام دشمن قوتوں کو ہی فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس سے ہرممکن گریز کی ضرورت ہے بالخصوص مشرق وسطیٰ میں یہ فرقہ وارانہ محاذ آرائی استعماری قوتوں کے ان عزائم میں تقویت کا باعث بن رہی ہے جن کا ہم سطور بالا میں تذکرہ کر چکے ہیں۔
اس زمینی حقیقت سے کسی صاحب شعور کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ جو سنی شیعہ اختلافات موجود ہیں وہ اصولی اور بنیادی ہیں اور صدیوں سے چلے آرہے ہیں، نہ ان سے انکار کیا جا سکتا ہے، نہ دونوں میں سے کوئی فریق دوسرے کو مغلوب کر سکتا ہے، اور نہ ہی ان اختلافات کو ختم کرنا ممکن ہے۔ ان اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے وجود کا اعتراف کرتے ہوئے باہمی معاملات کو ازسرنو طے کرنے کی ضرورت بہرحال موجود ہے جس کے لیے آبادی کے تناسب اور دیگر مسلمہ معروضی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی توازن کا صحیح راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
جبکہ اس مسئلہ کا تیسرا پہلو مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات میں ایران کا مسلسل کردار ہے جو سراسر واقعاتی ہے اور اسے واقعاتی ترتیب کے ساتھ ہی دیکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ایرانی انقلاب سے پہلے اور بعد کے ماحول کا تقابلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایرانی انقلاب کو ابتداء میں ایک کامیاب مذہبی انقلاب سمجھا گیا تھا اور ایسا سمجھنے والوں میں ہم بھی شامل تھے۔ ہمیں توقع تھی کہ عالمی سیکولر قوتوں کے ایجنڈے کے علی الرغم ایران کا یہ کامیاب مذہبی انقلاب دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کی تقویت کا ذریعہ بنے گا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ بلکہ ایرانی انقلاب کے نتیجے میں اکثر مسلم ممالک بشمول پاکستان کی اسلامی تحریکات کو نئی اور متوازی فرقہ وارانہ تحریکات کا سامنا کرنا پڑ گیا جس کے تلخ ثمرات آج پورے عالم اسلام کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ چنانچہ خلیجی کونسل اور ترکی کا مشترکہ اعلامیہ اس معاملہ کی سنگینی کی انتہائی حدوں کی نشاندہی کر رہا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مشرق وسطیٰ میں عراق، شام، لبنان، یمن، اور بحرین میں سنی شیعہ کشیدگی نے جو نیا رخ اختیار کیا ہے وہ سب ایرانی انقلاب کے بعد کی پیداوار ہے اور بعض حلقوں کا یہ خدشہ بے جا نہیں ہے کہ اس سے سعودی عرب کے گرد حصار تنگ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جبکہ بعض ذمہ دار ایرانی راہنماؤں کی طرف سے ایسی باتیں عالمی پریس کے ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں حرمین شریفین کے حوالہ سے سعودی عرب کے انتظامات اور کنٹرول کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، یہ دیکھے بغیر کہ اگر ایرانی مطالبہ پر حرمین شریفین کو سعودی کنٹرول سے نکالنے کی بات خدانخواستہ مان لی جائے تو اس کا اگلا مرحلہ کیا ہوگا اور اس ممکنہ مرحلہ میں عالم اسلام کی غالب اکثریت کا ردعمل اور جذبات کیا ہو سکتے ہیں؟
مشرق وسطیٰ کی موجودہ سنگین صورتحال کے بعض اہم پہلوؤں کی طرف توجہ دلانے سے ہمارا مقصد ایران کو مطعون کرنا نہیں بلکہ ایرانی قیادت کو توجہ دلانا ہے کہ ان حالات کا بہرحال دوطرفہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس کے سوا اس دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا کہ ایران اور خلیجی ممالک کی اس کشمکش کے واقعاتی اسباب کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے، دونوں طرف کی شکایات کو سامنے لا کر ان کا تجزیہ کیا جائے، اور انہیں دور کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی طے کی جائے۔ لیکن کیا ایران خلیجی تعاون کونسل اور ترکی کے اس مشترکہ مطالبہ کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے ان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کی کوئی صورت نکالنے کے لیے تیار ہو جائے گا؟
حضرت مولانا مفتی محمود کا اسلوبِ استدلال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کو ہم سے رخصت ہوئے چھتیس برس گزر چکے ہیں،لیکن ابھی کل کی بات لگتی ہے، ان کا چہرہ نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے، وہ مختلف تقریبات میں آتے جاتے دکھائی دے رہے ہیں، ان کی گفتگو کانوں میں رس گھول رہی ہے، ان کے استدلال اور نکتہ رسی کی ندرت دل و دماغ کو سراپا توجہ کی کیفیت میں رکھے ہوئے ہے اور ان کی فراست و تدبر کے کئی مراحل ذہن کی اسکرین پر قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ مولانا مفتی محمودؒ کے بارے میں بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے اور بہت لکھنے کا ارادہ ہوتا ہے لیکن آج کل سماعت و مطالعہ کا ہاضمہ اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ بعض ارادے
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
کی دہلیز پر آکر دم توڑ دیتے ہیں۔ آج ان کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے قلم ہاتھ میں لینے سے پہلے کئی گھنٹے سوچتا رہا اور متعدد پہلو باری باری سامنے آنے پر انہیں تولتا رہا بالآخر ذہن کی سوئی حضرت مفتی صاحبؒ کے استدلال کے اسلوب اور ندرت پر آکر رک گئی اور اسی کے حوالہ سے چند معروضات قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کو استدلال کی جو قوت و صلاحیت عطا فرمائی تھی، اس کا اعتراف سب حلقوں میں کیا جاتا تھا۔ ہمارے ایک مرحوم و مخدوم بزرگ کہا کرتے تھے کہ مفتی صاحبؒ سامنے نظر آنے والے لکڑی کے ستون کو دلائل کے ساتھ سونے کا ستون ثابت کرنا چاہیں تو دیکھنے والا شخص ان کی بات ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔ سیاسی، علمی، اور فکری سب قسم کے معاملات میں مفتی صاحبؒ کی اس خداداد صلاحیت کا ہم نے یکساں اظہار ہوتے دیکھا ہے۔ چنانچہ اس موقع پر خود ان کی زبان سے براہ راست سنی ہوئی بعض باتیں ذکر کرنا چاہ رہا ہوں۔
۱۹۷۳ء کے دستور کی ترتیب و تدوین میں حضرت مفتی صاحبؒ بھی دستور ساز اسمبلی کے ممبر بلکہ جمعیۃ علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر کے طور پر شریک تھے۔ اس دوران یہ بات زیر بحث آئی کہ کیا عورتوں کو اسمبلی میں نمائندگی دی جا سکتی ہے؟ ہمارے بعض سرکردہ ارباب علم و فضل کو اس میں اشکال تھا۔ مفتی صاحبؒ نے اس سلسلہ میں ایک بڑے بزرگ کے ساتھ اپنی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ حضرت اشکال کس بات میں ہے، کیا عورتوں کو رائے دینے اور مشورہ میں شریک ہونے کا حق حاصل نہیں ہے یا پردہ اور مجلس کے اختلاط کے حوالہ سے اشکال درپیش ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ عورتوں کو رائے دینے کا حق تو ہے اور انہیں مشاورت میں شریک بھی کیا جا سکتا ہے لیکن مشترکہ مجلس میں ان کا بے حجاب شریک ہونا درست دکھائی نہیں دیتا۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے عرض کیا کہ قرآن کریم نے آیت مقدسہ والقواعد من النسآء میں عمر رسیدہ عورتوں کے لیے جو گنجائش دی ہے اگر اس کے تحت اسمبلی کی رکنیت کے لیے عورتوں کی عمر کی حد مقرر کر دی جائے، ان کی نشستیں مردوں سے الگ کر دی جائیں، اور لباس کی بھی کوئی مناسب حد بندی کر دی جائے تو پھر آپ کو کیا اشکال ہے؟ اس پر وہ بزرگ خاموش ہوگئے۔
مفتی صاحبؒ نے ایک موقع پر بتایا کہ قومی اسمبلی میں قادیانیت کے حوالہ سے بحث طول پکڑ گئی اور قادیانی امت کے سربراہ مرزا ناصر احمد کی طرف سے قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پیش کیے جانے کے باعث اسمبلی کے وہ ارکان تشویش کا شکار ہونے لگے جو قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ’’خاتم النبیین‘‘ کے مختلف معنوں اور توجیہات نے اس تشویش میں اضافہ کر دیا، حتیٰ کہ خود وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے مفتی صاحبؒ سے کہا کہ دونوں طرف سے آیتیں اور حدیثیں پیش کی جا ری ہیں اور حوالے دیے جا رہے ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہے۔ اس لیے ہمیں تو قرآن کریم سے کوئی سیدھی سی بات بتائیں کہ حضرت محمدؐ کے بعد نبی نہیں آئے گا تب بات ہماری سمجھ میں آسکتی ہے۔ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ بھٹو مرحوم کی یہ بات سن کر ایک بار تو مجھے بھی پریشانی سی ہوئی پھر اللہ تعالیٰ نے ذہن میں بات ڈال دی اور میں نے کہا کہ بھٹو صاحب! یہ بات تو قرآن کریم نے آغاز میں ہی واضح کر دی ہے کہ سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ مومن وہی ہے جو اس وحی پر ایمان لاتا ہے جو آپؐ پر نازل ہوئی ہے اور اس وحی پر بھی ایمان رکھتا ہے جو آپؐ سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ اگر آنحضرتؐ کے بعد وحی نازل ہونا ہوتی تو اس کا بھی یہاں ذکر ہوتا، چونکہ اس کا ذکر نہیں ہے اس لیے حضورؐ کے بعد کسی وحی کا نزول نہیں ہوگا۔ یہ بات سن کر بھٹو مرحوم نے کہا کہ بس بات سمجھ میں آگئی ہے، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
اسمبلی کا ہی ایک اور واقعہ حضرت مفتی صاحبؒ نے سنایا کہ اسمبلی میں زیربحث کسی مسئلہ پر مفتی صاحبؒ اور کچھ دیگر ارکان نے واک آؤٹ کیا تو اس پر مولانا کوثر نیازی مرحوم نے اعتراض کیا کہ آپ حضرات یہاں قوم کی نمائندگی کے لیے آتے ہیں اور یہاں آنے اور بیٹھنے کی آپ کو تنخواہ اور الاؤنس وغیرہ ملتے ہیں، اس لیے کام چھوڑ کر چلے جانا شرعاً درست نہیں ہے۔ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ جس مجلس میں غلط باتیں ہو رہی ہوں، فلا تقعدوا معھم، ان کے ساتھ مت بیٹھو۔ نیازی صاحب مرحوم نے کہا کہ پھر آپ مجلس میں واپس کیوں آگئے ہیں؟ مفتی صاحبؒ نے آیت کا دوسرا جملہ پڑھا: حتیٰ یخوضوا فی حدیث غیرہ یہاں تک کہ وہ کسی اور گفتگو میں مصروف ہو جائیں۔ یعنی اگر مجلس کا ایجنڈا بدل جائے تو آپ اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔
مولانا مفتی محمودؒ موقع شناسی اور اس کے مطابق گفتگو کرنے میں مہارت رکھتے تھے اور مخاطب کی بات کا اصل مقصد سمجھ کر اس کا جواب دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں ایک بار مفتی صاحبؒ نے بتایا کہ کسی مالدار شخص نے ان سے دریافت کیا کہ کیا حرام مال پر بھی زکوٰۃ دینا ہوتی ہے؟ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ میں اس کا مقصد سمجھ گیا کہ میں کہہ دوں گا کہ نہیں تو بات بن جائے گی کہ ہماری کمائی تو اکثر حرام کی ہوتی ہے اس لیے زکوٰۃ نہیں دینا پڑے گی۔ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ ہاں بھئی! حرام مال میں بھی زکوٰۃ فرض ہوتی ہے البتہ حلال مال کی زکوٰۃ اور حرام مال کی زکوٰۃ میں کچھ باتوں کا فرق ہے:
- حلال مال میں زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے نصاب کا ہونا ضروری ہے لیکن حرام مال کا کوئی نصاب نہیں ہے۔
- حلال مال میں حولان حول (سال کا گزرنا) شرط ہے لیکن حرام مال میں فوری ادائیگی ضروری ہے۔
- حلال مال میں اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ دینا ہوتی ہے جبکہ حرام مال سارے کا سارا دے دینا ضروری ہے۔
- حلال مال کی زکوٰۃ دینے پر اجر و ثواب ملے گا مگر حرام مال ثواب کی نیت کے بغیر صحیح جگہ پر خرچ کرنا ہوگا۔
مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ زکوٰۃ کا اصل مقصد تو مال کو پاک کرنا ہوتا ہے جو حلال میں اڑھائی فیصد دینے سے حاصل ہو جاتا ہے۔ مگر حرام مال پورے کا پورا دے دینے سے باقی کا حلال مال پاک ہوتا ہے۔
اس سلسلہ میں اپنا ایک ذاتی واقعہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت مفتی صاحبؒ کا اسلام آباد کے گورنمنٹ ہاسٹل میں عام طور پر ۴ نمبر کمرہ میں قیام ہوتا تھا اور میں وقتاً فوقتاً جماعتی معاملات میں وہاں جایا کرتا تھا۔ ایک روز مغرب کی نماز پڑھ کر ہم بیٹھے تو جماعتی و ملکی معاملات پر گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ خاصی دیر کے بعد مفتی صاحبؒ کے خادم بھائی عبد الحلیم نے آکر پوچھا کہ کھانا تیار ہے لے آؤں؟ مفتی صاحبؒ نے مجھ سے پوچھا کہ مولوی زاہد کیا خیال ہے؟ کھانا پہلے کھالیں یا پہلے نماز پڑھ لیں۔ میں نے عرض کیا کہ پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں پھر اطمینان سے کھانا کھائیں گے۔ مفتی صاحبؒ نے اس پر یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ کیا مطلب! اطمینان کا تعلق کھانے کے ساتھ ہے یا نماز کے ساتھ؟ پہلے کھانا کھاتے ہیں، پھر اطمینان کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔
ایک موقع پر حضرت مفتی صاحبؒ نے کہا کہ مسلمانوں پر حکمران انھی میں سے چنے جانے چاہئیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو، اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کی اطاعت کرو، وأولی الأمر منکم اور ان حکمرانوں کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں۔ حضرت مفتی صاحبؒ کا استدلال ’’منکم‘‘ سے تھا کہ مسلمان حکمرانوں کا انتخاب خود ان میں سے ہی ہونا چاہیے۔
بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں، لیکن کالم میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے اس لیے چند باتوں پر اکتفا کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہمیں ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
کیا خاندانی نظام ظلم ہے؟ مارکیٹ، سوسائٹی، غربت اور خاندان کا تحفظ
محمد زاہد صدیق مغل
کچھ روز قبل فیس بک پر خاندانی نظام کے غیر اسلامی ہونے کے حوالے سے ایک تحریر سامنے آئی جس میں کوئی اسلامی دلیل موجود ہی نہ تھی۔ اس تحریر کے استدلال کی کل بنیاد "بڑے بھائی پر ہونے والے مظالم" کا حوالہ تھی کہ اس پر خاندان کا بار گراں زیادہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ زیر نظر تحریر میں خاندانی نظام کو اس کے وسیع تر معاشرتی و سیاسی تناظر میں پیش کیا گیا ہے اور جدید مارکیٹ سوسائٹی سے اس کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ مسئلے کے اس پہلو کو عام طور پر نظر انداز کرکے خاندانی نظام پر گفتگو کی جاتی ہے، لہٰذا یہاں اس کی کچھ تفصیلات دی جاتی ہیں۔
آج دنیا میں جس پیمانے پر غربت، افلاس، عدم مساوات و استحصال پایا جاتا ہے، اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس قدر بڑے پیمانے پر پائے جانے والی غربت، افلاس و عدم مساوات کوئی حادثہ نہیں بلکہ غالب سرمایہ دارانہ (مارکیٹ) نظم کا نتیجہ ہے۔ مگر جدید انسان کا المیہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے نظام کو جو انسانیت کی ایک عظیم اکثریت کو ظلم کی چکی میں پیس رہا ہے، اس پرفدا ہوا چلا جارہا ہے اور اسے ہی اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے بیٹھا ہے۔ خیر یہ الگ موضوع ہے، فی الوقت ذرائع کی تقسیم میں برصغیر کی طرز کے جوائنٹ فیملی سسٹم کی اہمیت واضح کرنا مقصود ہے۔
تمام انسانی معاشرے انسانی ضرورتو ں کی تکمیل کے لئے اشیاء کی پیداوار اور انہیں تقسیم کرنے کی کسی نہ کسی ترتیب کو جاری رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے اشیاء کی پیداوار کے عمل میں حصہ لینے کی صلاحیت ہر انسان میں بوجوہ مساوی نہیں ہوتی، اس صلاحیت میں تفاوات ایک فطری چیز ہے۔ لیکن پیداواری صلاحیت کے اس تفاوت کا عمل صرف (consumption) کے تفاوت کے ساتھ کیا تعلق ہے، کیا ایک فرد کا جائز حق صرف اسی حدتک ہے جس قدر اس نے پیداواری عمل میں حصہ لیا یا اس سے کچھ زیادہ، اور اگر زیادہ تو کس بنا پر؟ علم معاشیات میں یہ نہایت اہم سوالات ہیں جس پر Development Economists کی بہت سی آراء پائی جاتی ہیں۔یہ سوال اس لئے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ پیدواری صلاحیتوں میں تفاوات پایا جاتا ہے بلکہ آبادی کا وہ حصہ جو براہ راست پیدوار ی عمل میں حصہ لیتا ہے (یعنی employed) وہ بالعموم غیر پیدواری آبادی (بچے، بوڑھے، گھریلو خواتین ، معذور وغیرہم) کے مقابلے میں کم ہوتا ہے (اور پختہ مارکیٹ سوسائٹی میں امیروں میں کم بچے پیدا کرنے اور اوسط آبادی کی عمر بڑھتے چلے جانے کے رجحانات کی بنا پر یہ شرح مزید کم ہوتی چلی جاتی ہے)۔ افراد کے مابین صرف کے تفاوت کو کم سے کم رکھنا قدیم سے لے کر جدید تمام انسانی معاشروں میں ایک جائز و مطلوب مقصد سمجھا جاتا رہا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے انسان کسی نہ کسی روابط کی ترتیب کو اختیار کرتے رہے ہیں۔
خاندان بطور ایک اکائی اس مسئلے کا ایک عمدہ تاریخی حل رہا ہے، وہ اس طرح کہ ایک خاندان (اگر وہ واقعی خاندان ہے) میں بالعموم افراد کے صرف کا حصہ یا تو مساوی ہوتا ہے اور اگر اس میں تفاوت ہو بھی تو کسی پر فاقوں کی نوبت نہیں آتی۔ اس کی جھلک ہم ہمارے یہاں شہروں کے بچھے کچھے خاندان کے تصور میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایک گھر کے بچوں، کمانے والوں، خواتین، بوڑھوں، معذور افراد (اگر کچھ ہوں) وغیرہم سب کا معیار زندگی تقریبا مساوی ہوتا ہے، یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ والد صاحب خود تو مرغ مسلم اڑاتے اور رات کو اے سی لگا کر سوتے ہوں مگر نہ کمانے والے افراد کو دال روٹی اور صحن میں بستر ملتاہو۔ اگر کسی رشتے دار پر ناگہانی آفت (مثلا بیماری یا بے روزگاری) آجائے تو خاندان کے بھلے لوگ آج بھی اس کی ضروریات و علاج کا پورا بندوبست کرتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ خاندان تمام قسم کے افراد (یہاں تک کہ نکموں جن کی ذمہ داری سوشل سیکورٹی کے نام پر اب ریاست پر ڈال گئی ہے) کی معاشی ضروریات اور مسائل کو سمونے (انٹرنلائز) کرنے کا ایک نظام ہے۔ اس نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں یہ سب کچھ محبت، خلوص، صلہ رحمی و ایثار جیسے خوبصورت جذبات کے تحت کرنے کا نام ہے۔
اب آتے ہیں جدید مارکیٹ سوسائٹی کی طرف۔ اس کے لئے مارکیٹ سوسائٹی اور غربت و افلاس کے تعلق کو سمجھنا لازم ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے تنویری معاشی مفکرین نے یہ فرض کیا کہ ایک فرد کا جائز حق صرف اسی قدر ہے جس قدر وہ کمپنی کے نفع میں اضافے کا باعث ہو (اس سب کے پیچھے ان مفکرین کا مخصوص تصور "قدر" ہے جس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں)۔ یورپی ممالک استعماری دور میں ایک طرف دنیا بھر سے لوٹ مار کرکے اپنے یہاں دولت کے انبار جمع کررہے تھے اور دوسری طرف انہوں نے ان مقبوضہ نوآبادیاتی علاقوں میں بالجبر مارکیٹ سوسائٹی اور سرمایہ دارانہ سٹیٹ سٹرکچر کو فروغ دیا (اور یہ عمل آج بھی جاری ہے)۔ مارکیٹ سوسائٹی اور غربت و افلاس کے مابین لازمی تعلق ہے جس کی چند بنیادی وجوہات ہیں:
1) مارکیٹ نظم معاشرے کی روایتی اجتماعیتوں کو تحلیل کرکے معاشرتی زندگی کو فرد پر منتج (individualize) کردیتا ہے، یوں عمل صرف انفرادی ہوجاتا ہے۔
2) مارکیٹ نظم میں ایک فرد کا کل پیداوار میں حصہ اس بنیاد پر متعین ہوتا ہے کہ وہ نفع خوری پر مبنی پیداواری عمل میں کتنا اضافہ کرنے (نیز اس پر سودے بازی) کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ مارکیٹ صرف مستعد (efficient) لیبر ہی کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
3) نفع خوری پر مبنی مارکیٹ نظم کا پابند پیداواری نظام ذرائع کو انہی اشیاء کی پیداوار کیلئے استعمال کرتا ہے جن سے حصول نفع ممکن ہو، لہذا مارکیٹ نظم معاشرے کے اسی طبقے کی خواہشات و ترجیحات کی تسکین کا سامان پیدا کرتا ہے جو زیادہ قیمت ادا کرنے لائق ہوں (مثلا یہ نظام ہر سال امریکی و یورپی عوام کے کتوں اور بلوں یعنی پیٹس (pets) کے لیے اربوں ڈالرز کے کھلونے پیدا کرتا ہے، مگر افریقہ اور ایشیا کے غریبوں کے لیے گندم نہیں)۔
4) سرمایہ دارانہ ریاست چونکہ سرمائے کی باجگزار ریاست ہوتی ہے لہذا وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرتی ہے جس سے سرمایہ بڑی بڑی کارپوریشنز، صنعتوں اور شہروں میں مرتکز ہوتا چلا جائے (کیونکہ ارتکاز سرمایہ کے بغیر بڑھوتری سرمایہ ممکن نہیں) ۔
ان سب کے درج ذیل نتائج نکلتے ہیں:
1) آبادی کی وہ اکثریت جو efficient نہ ہونے کی بنا پر مارکیٹ کا حصہ نہیں بن پاتی انکے روزگار کے مواقع ناپیدہوجاتے ہیں، مارکیٹ نظم اور سرمایہ دارانہ ریاست ذرائع کے عظیم ترین حصے کو بڑے شہروں میں منتقل کردیتی ہے (اور فرد کے ان کا حصہ بننے کی کوشش میں روایتی اجتماعیتیں تحلیل ہوجاتی ہیں)، یوں معاشی، معاشرتی و سیاسی ناہمواری کو فروغ ملتا ہے۔
2) عمل صرف کے انفرادی ہونے نیز خاندان اور روایتی اجتماعیتوں کی حفاظت نہ ہونے کی بنا پر یہ عظیم اکثریت غربت و افلاس کا شکار ہوگء۔ روایتی مذہبی معاشروں میں عمل صرف ہمیشہ اجتماعی (خاندان کے لیول پر مبنی) رہا، یعنی خاندان یا قبیلہ جتنی دولت پیدا کرتا عمل صرف کے لیے سب اس میں یکساں حصہ دار سمجھے جاتے۔ جدید معاشی مفکرین نے اس رویے کو غیر عقلی باور کرایا، اس کے مقابلے میں جدید معاشیات ایک فرد کو اپنی لامحدود خواہشات کی تکمیل کو بطور جائز و عقلی مقصد قبول کرنے کا درس دیتی ہے۔
3) چونکہ لوگوں کی پیداواری اور سودے بازی کی صلاحیتوں میں تفاوت ہوتا ہے، لہٰذا سرمایہ دارانہ معاشروں میں تقسیم دولت میں بھی زبردست عدم مساوات پائی جاتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک خودکار نظام کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے (جو لوگ ایک سائیکل میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ efficientہوتے ہیں دوسرے سائیکل میں ان دونوں کا فرق بڑھنا لازم بات ہے)۔
4) ان معاشروں میں سیاسی و سماجی قوت بھی اسی طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ہوجاتی ہے جس کے ذریعے یہ پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یوں کارپوریشنز اور بڑے کاروباری طبقے کے ہاتھ کروڑوں مزدوروں کے استحصال کی قوت آجاتی ہے جسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری ریاست کے کاندھوں پر ڈالی جاتی ہے جو اسی طبقے کی باج گزار ہوتی ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاشرے کی آبادی کا وہ عظیم ترین حصہ جو نان پراڈکٹو ہے، وہ سب کہاں جائیں؟ سرمایہ دارانہ نظام نے ان جیسوں کے لیے دو آپشنز کھولے ہیں، ایک سرمایہ دارانہ ریاست، دوئم این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے۔ یہاں ان کا جائزہ لیتے ہیں، نیز ان کا روایتی معاشرتی نظم کے ساتھ تقابلی جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ روابط کی کون سی ترتیب رحمت ہے۔
چنانچہ پہلا آپشن (سرمایہ دارانہ) ریاستوں کا دروازہ ہے جن سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ان تمام ''بے کار'' (مشہور فلسفی فوکو کے الفاظ میں 'پاگل' افراد کہ اس کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام میں پاگل پن 'کام نہ ہونے' کی کیفیت کا نام ہے) لوگوں کی ذمہ داری اپنے ناتواں کاندہوں پر اٹھائیں جس کی یہ بالعموم متحمل نہیں ہوپاتیں۔ اولاً اس لئے کہ آبادی کی اتنی عظیم اکثریت کو پالنے اور سرمایہ دارانہ اہداف کے لیے تیار کرنے کے لیے جس قدر ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے، دنیا کی تمام ریاستوں کے پاس بالعموم اور تھرڈ ورلڈ کی ریاستوں کے پاس بالخصوص وہ موجود نہیں ہوتے (ظاہرہے ان کی اکانومی میں اتنی وسعت ہی نہیں ہوتی کہ ٹیکس کے ذریعے اتنی خطیر قوم اکٹھی کرسکیں اور یہاں ٹیکس دینے والوں کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے)، ثانیاً اس لئے کہ اتنی بڑی اکثریت کو پالنے کے لیے جس قدر دیو ہیکل ریاست کی ضرورت ہے، فری مارکیٹ اکانومی پر مبنی عالمی ڈسکورس ریاستوں کے پھیلاؤ پر حد بندی لگاتا رہتا ہے۔ یہ اس نظام کا ایک دیرینہ تضاد ہے، یعنی ایک طرف یہ نظام حصول آزادی (بڑھوتری سرمائے) کے نام پر معاشرے کی عظیم اکثریت کو منظم طور پر (حادثاتی نہیں) بے یارومددگار کرتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس کے مداوے کے دروازے (ریاست کے پھیلاؤ) پر بھی حد بندی کرتا رھتا ہے، اور وہ بھی آزادی (بڑھوتری سرمائے و efficiency ) ہی کے نام پر۔
سرمایہ دارانہ نظام سے جنم لینے والے مظالم کے شکار طبقات کے لیے دوسرا دروازہ این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی اداروں کا ہے۔ جوں جوں مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ) نظم پختہ ہوتا چلا جاتا ہے، بے یارومددگار اور نادار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان مظالم کا مداوا کرنے کے لیے این جی اوز و خیراتی ادارے سامنے آنے لگتے ہیں جو اغراض کی اس معاشرت کو سہارا دے کر اسے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ تقریباً ہر غیر محفوظ طبقے کے لیے ایک پروفیشنل خیراتی ادارہ (جس کا کام اور شناخت ہی یہی ہوتی ہے) وجود میں آجاتا ہے، مثلاً اولڈ ہاؤس، ڈے کئیر سینٹر، پاگل خانہ، یتیم خانہ، دارالامان، معذورخانہ، خودکار معالجاتی نظام پر مبنی ہسپتال، مردے ٹھکانے لگانے کا ادارہ اور اسی طرح 'حقوق کی جدوجہد' (مثلا عورتوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، ڈاکٹرز کے حقوق، میراثی و بھانڈ کے حقوق کو فروغ دینے والی بے شمار سنگل اشو موومنٹس اور این جی اوز)وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام ''فلاحی ادارے'' مل کر ایک طرف مارکیٹ نظم کا گند صاف کرکے اسے فرد کے لیے قابل قبول بناتے ہیں (کہ اسے یہ بدنما دکھائی نہ دے کہ چلو اگر ظلم ہورہا ہے تو کوئی اس کا مداوا بھی کررہا ہے) تو دوسری طرف نظام سے حقوق مانگنے کی ذہنیت کو پختہ کرکے فرد کو نظام سے پرامید رھنے پر راضی کرتے ہیں۔
دھیان رہے خاندانی نظم پر مبنی معاشرت میں فرد کو اپنی بقا کے لیے ان اداروں کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہاں فرد خود کو خاندانی تعلقات میں محفوظ پاتا ہے۔ مثلاً بیمار ہونے کے بعد اسے کسی ایسے خودکار معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ہوتی جہاں پہنچنے کے بعد ہسپتال کا پروفیشنل عملہ خودکار طریقے سے اسکا خیال رکھے کیونکہ تیمار داری کے لیے اس کے عزیز و اقارب کا خودکار نظام موجود ہوتاہے (بلکہ بیماری روٹھوں کو منانے اور رفع اختلاف کا خوبصورت سبب ہوا کرتا ہے)۔ مگر جب فرد اکیلا ہو (جیسا کہ مارکیٹ نظم میں اسکا حال ہوتا ہے) تو معاشرے کے کسی فرد کو اسکی عیادت کرنے کا یارانہ نہیں، لہٰذا ضرورت ہے کہ اسکے معالجے کا ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں کسی کو عیادت کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں فرد کو ایک تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کہ یہ کام خاندان کے لوگ سرانجام دیتے ہیں (اور جب ایک دفعہ ادارہ بن جاتا ھے تو لوگ اس ذمہ داری سے گلوخلاصی حاصل کرلیتے ہیں کہ 'ادارہ ہے نا، وہ یہ کام کردے گا')۔ بالکل اسی طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ معاشرے کے سارے پاگلوں، یتیموں، بیواوں، معذوروں کو پکڑ پکڑ کر ایسے اداروں کے اندر جمع کردیا گیا ہو جہاں ''پروفیشنل'' (ذاتی اغراض سے متحرک و مغلوب) افراد ان کا خیال رکھنے پر مامور کرد یے گئے ہوں۔
خاندانی نظم میں عزیز و اقارب معذور بچوں و نادار افراد کی محبت و صلہ رحمی کے ساتھ خود کفالت کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس معاشرت میں پاگل (جھلا) بھی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے، محبت اور صلہ رحمی کرنے والوں کے ساتھ رھتا اور دل لگی کرتا ہے۔ اس معاشرت میں غریب و مفلسوں کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے (کیونکہ عمل صرف خاندان کے اندر اجتماعی ہوتا ہے، یعنی خاندان جتنی پیداوار عمل میں لاتا ہے سب لوگ اس میں یکساں حصے دار سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مارکیٹ نظم ایک طرف معاشرے کو انفرادیت پر منتج کرکے اور دوسری طرف ذرائع کے ارتکاز کو بڑھا کر غربت، افلاس و ناداری کو فروغ دیتا ہے۔جدید دنیا میں دو ارب سے زیادہ سسکتے انسان کہیں آسمان سے نہیں ٹپکے اور نہ ہی درختوں پر اگے ہیں، یہ اس 'ترقی یافتہ' نظام کے مظالم کا شاخسانہ ہیں، وہ نظام جس پر ہمارا جدید مسلم ذہن فریفتہ ہوا چلا جارہا ہے، دین کو جس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ثابت کرنے کی فکر میں گھلا چلا جارہا ہے، جس کی چکا چوند کے آگے اسے اپنی تاریخ و طرز معاشرت ہیچ دکھائی دیتی ہے۔ خدا کا شکر کیجیے کہ ابھی ہمارے یہاں وسیع تر خاندان (extended family) کے باقیات ابھی کچھ نہ کچھ باقی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں نادار افراد اس نظام کے تحفظ میں ہیں، اگر یہ جلد ہی ختم ہوگیا تو یہ کروڑوں لوگ امیروں کو نوچ کھائیں گے کیونکہ ہماری ریاست میں فی الوقت انہیں سنبھالنے کی صلاحیت نہیں۔
اب غور کیجئے، برادری، قبائلی و خاندانی نظم کس خوبصورتی کے ساتھ ''محبت و صلہ رحمی کے جذبات'' کے تحت ان تمام طبقات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے، جبکہ مارکیٹ نظم ان کے لئے اغراض پر مبنی پروفیشنل اداروں کا محتاج ہے۔ کیا اغراض سے متحرک افراد سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ان نادار افراد کا ویسا دہیان رکھیں گے جیسا محبت و صلہ رحمی سے مغلوب لوگ رکھتے رہے ہوں گے؟ سوچیے کون سا معاشرتی نظم انسانیت کے لئے رحمت تھا؟ چنانچہ جہاں یہ جدید نظام پختہ ہوچکا، وہاں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہمارے لوگ اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ماشاء اللہ جی کیا عمدہ بندوبست ہے وہاں، کیا انسانیت و اعلیٰ اخلاقیات ہیں! یعنی جو مقام (انسانیت کا تعلق محبت و رحمی رشتوں سے کٹ کر پروفیشنل اداروں سے جڑ جانا) مقام افسوس تھا، ہمارے یہاں کے مرعوب ذہن نے اسے مقام عجب سمجھ لیا ہے۔ ذرا سوچیے، ایک ایسا دین جو پڑوسیوں، بیماروں، مردے کے حقوق ادا کرنے کی بات کرتا ہو، اس کے ماننے والے آج اپنے یہاں بھی ایسے پروفیشنل اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر مطمئن ہورہے ہیں۔ گویا ان کے خیال میں سول سوسائٹی مقاصد دین کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ مقام عبرت ہے۔
پس اگر بات موازنے کی ہی ہے تو یہ بات شرح صدر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام اگرچہ آئیڈئیل نہیں (جو کہ درحقیقت کوئی بھی ورکنگ نظام نہیں ہوتا لہٰذا اس میں ہمیشہ اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے) مگر اسلامی اقدار (محبت، صلہ رحمی، حفظ مراتب، ادب و احترام، ایک دوسرے کا خیال و ایثار، پڑوس ومیل جول وغیرہم) کے تحفظ اور فرد کی ان اسلامی اقدار کے مطابق تربیت کا ایک نسبتاً بہتر طریقہ معاشرت ہے نیز اس کے بہت سے معاشی فوائد بھی ہیں۔ اس کے مقابلے میں جدید مارکیٹ سوسائٹی کا ان اسلامی اقدار کے پھیلاؤ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انہیں نیست و نابود کرنے کا انتظام ہے۔ چنانچہ اسلامی تاریخ میں علماء نے بلاوجہ ہی اس طرز معاشرت کو قبول نہیں کیے رکھا۔
فقہائے تابعین کی اہل حدیث اور اہل رائے میں تقسیم ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۲)
مولانا سمیع اللہ سعدی
تیسرا سبب :عراق میں رائے و اجتہاد کی کثرت اور حجاز میں قلت
اہل رائے اور اہل حدیث کی تقسیم کا ایک اہم سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عراق میں اجتہاد اور رائے کا استعمال بہت زیادہ تھا ،چنانچہ اہل عراق کثرت سے اصولوں پر تفریع کر کے نئے مسائل کا استنباط کرتے، مسائل کو فرض کر کے اس کا حکم معلوم کرنے کی کوشش کرتے۔ اس کے برعکس حجاز میں رائے و اجتہاد کی بجائے حدیث کی تعلیم زیادہ ہوتی تھی ، اہل حجاز صرف پیش آمدہ مسائل کے بارے میں رائے کا اظہار کرتے ،اور بغیر ضرورت کے تفریعات کرتے اور نہ ہی مسائل کو فرض کر کے اس پر بحث کرتے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل عراق رائے کو زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے "اہل رائے"اور اہل حجاز "اہل حدیث" کے نام سے مشہور ہوئے۔محقق قطان اہل رائے کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کثرۃ تفریعھم الفروع لکثرۃ ما یعرض لھم من الحوادث، نظرا لتحضرھم وقد ساقھم ھذا الی فرض المسائل قبل ان تقع؛ فاکثروا من" ارایت لو کان کذا"؟ فیسالون عن المسالۃ ویبدون فیھا حکما، ثم یفرعونھا بقولھم: "ارایت لو کان کذا"؟ ویقلبونھا علی سائر وجوھھا، الممکنۃ وغیر الممکنۃ احیانا، حتی سماھم اھل الحدیث "الارایتیون" وتمیز منھجھم بالفقہ الافتراضی (۳۷)
’’اہل عراق کا کثرت سے تفریعات کیا کرتے تھے ،کیونکہ عراق کے ترقی یافتہ تمدن کی وجہ سے وہاں حوادث کی کثرت تھی۔ حوادث کی کثرت نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مسائل کو وقوع سے پہلے فرض کریں۔ لہٰذا وہ جب کسی مسئلے کا حکم معلوم کرتے تو "ارا یت لو کان کذا" کہہ کر مسئلہ شروع کرتے، اس کا حکم معلوم کرتے ،پھر اس پر تفریعات "ارا یت لو کان کذا" کہہ کر کرتے ،اور اس مسئلے کے ممکنہ بلکہ کبھی غیر ممکنہ تمام پہلووں اور جوانب پر بحث کرتے۔ اس وجہ سے اہل الحدیث نے انہیں "ارایتیون" (یعنی کثرت سے ارایت کہنے والے )کا لقب دیا۔ان کے منہج کا بنیادی امتیاز فقہ افتراضی تھا۔‘‘
جبکہ اہل حدیث کی بنیادی خصوصیت یوں بیان کی ہے :
کراھیتھم لکثرۃ السؤال. وفرض المسائل، وتشعب القضایا؛ فالحکم ینبنی علی قضیۃ واقعۃ، لا علی قضیۃ مفترضۃ (۳۸)
’’اہل حجاز سوال کی کثرت ،مسائل کو فرض کرنے اور فقہی قضایا کے شاخ در شاخ پہلو نکالنے کو ناپسند کرتے تھے ،پس ان کے نزدیک حکم شرعی صرف اس مسئلے پر لگا یا جاتا، جو پیش آچکا ہوتا، نہ یہ کہ محض فرضی ہو۔‘‘
حجاز میں رائے و اجتہاد کا ایک جائزہ
حجاز خصوصاً مدینہ منورہ کے بڑے فقہاء کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ رائے و اجتہاد کے استعمال کے حوالے سے کسی طرح سے فقہائے عراق سے کم نہیں تھے۔ان کی فقہی آراء،فتاوی اور غیر منصوص مسائل میں رائے و قیاس کا استعمال فقہائے عراق سے زیا دہ نہ سہی ،ان کے برابر ضرورتھا۔ اس حوالیسے چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
۱۔ اہل حجاز کے سرخیل صحابہ کرام میں سے حضرت ابن عباس کے بارے میں اما م ابن قیم لکھتے ہیں:
کان ابن عباس من اوسع الصحابۃ فتیا، وقد تقدم ان فتاواہ قد جمعت فی عشرین سفرا۔ (۳۹)
’’حضرت ابن عباس تمام صحابہ میں سے سب سے زیادہ کثرت سے فتوی دینے والے تھے ،اور یہ بات گزر چکی ہے کہ حضرت ابن عباس کے فتاوی بیس اجزا میں جمع کیے گئے۔‘‘
۲۔مدینہ میں مقیم صحابہ کرا م میں سے رائے اور اجتہاد کے حوالے سے حضرت عمر بلا شبہ ممتاز ترین صحابی ہیں۔ حضرت عمر کی فقہی آراء پر مستقل تصانیف موجود ہیں ،خصوصا مسند الہند شاہ ولی اللہ نے "ازالۃ الخفاء" میں فقہ عمر کے نام سے حضرت عمر کی فقہی آراء اور اجتہادات کو جمع کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حضرت عمر کے بارے میں ابو زہرہ مرحوم لکھتے ہیں:
لا ن رای عمر فیما لا نص علیہ من کتاب او سنۃ الرسول کان کثیرا (۴۰)
’’کیونکہ غیرمنصوص مسائل کے بارے میں حضرت عمر کے اجتہادات کافی زیادہ ہیں۔’’
اسی طرح محقق محمد رواس قلعہ جی کی "موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب"سے بھی حضرت عمر کی فقہی آراء کے تنوع اور وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت عمر جیسے صحابی کی موجودگی میں مدینہ منورہ میں رائے و اجتہاد کی کمی کا نظریہ تاریخی نقطہ نظر سے نہایت کمزور دعویٰ ہے۔
۳۔معروف تابعی حضرت سعید بن المسیب کا لقب فتاوی اور اجتہاد اور رائے کی کثرت کی بنا پر"الجریء" پڑ گیا تھا۔ امام بن قیم "اعلام الموقعین" میں لکھتے ہیں:
وکان سعید بن المسیب ایضا واسع الفتیا ۔۔۔ و کانوا یدعونہ سعید بن السمیب الجریء (۴۱)
’’حضرت سعید بن المسیب کثرت سے فتویٰ دیا کرتے تھے ،اور لوگ آپ کو سعید بن المسیب الجریء یعنی فتوی کے بارے میں جرات مند کے لقب سے پکارتے تھے۔‘‘
حضرت سعید بن المسیب کی فقہی آراء پر عراق سے ایک ضخیم کتاب "فقہ الامام سعیدبن المسیب"کے نام سے چھپی ہے۔ کتاب کے مصنف الدکتور ہاشم جمیل عبد اللہ ہیں ۔یہ کتاب تقریباً اٹھارہ سو صفحات پر مشتمل ہے ،ا س سے سعید بن المسیب کی فقہی آراء و اجتہادات کی کثرت اور تنوع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
۴۔مدینہ منورہ کے معروف فقیہ اور امام مالک کے استاد ربیعہ بن عبد الرحمن کا لقب رائے اور اجتہاد کی مہارت کی بنا پر "ربیعۃ الرای"پڑگیا تھا۔علامہ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں:
وکان اماما حافظا فقیھا مجتھدا بصیرا بالرای ولذلک یقال لہ: ربیعۃ الرای (۴۲)
’’آپ امام حافظ ،فقیہ اور اجتہاد میں خوب بصیرت کے حامل تھے ،اسی وجہ آپ کو ربیعۃ الرای کہا جا تا تھا۔‘‘
۵۔مدینہ منور میں رائے و اجتہاد کے حوالے سے فقہائے سبعہ بھی کافی شہرت کے حامل تھے ۔فقہائے سبعہ سے مراد حضرت عروۃ بن الزبیر ،حضرت سعید بن مسیب،حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق،حضرت خارجۃ بن زید بن ثابت، حضرت عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبۃ، حضرت ابو بکر بن عبد الرحمن ،حضرت سلیمان بن یسار ہیں۔
عبد اللہ بن مبارک فقہائے سبعہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
کان فقھاء اھل المدینۃ الذین یصدرون عن رایھم سبعۃ (۴۳)
’’مدینہ کے وہ فقہاء جن کی رائے پر اہل مدینہ اعتماد کرتے تھے ،سات تھے۔‘‘
آگے ان کے طرز اجتہاد کے بارے میں فرماتے ہیں :
وکانوا اذاجاء تھم المسالۃ دخلوا فیھا جمیعا، فنظروا فیھا، ولا یقضی القاضی حتی یرفع الیھم (۴۴)
’’:جب ان کے پاس مسئلہ آتا،سب اس مسئلے کے بارے میں اکٹھے بیٹھ کر اس میں غور وفکر کرتے اور قاضی مسئلے کو ان کے پاس بھیجنے سے پہلے فیصلہ نہیں کرتے تھے۔‘‘
فقہائے سبعہ کی اجتہادی آراء اور خاص طور پر امام مالک کی فقہی آراء کے ساتھ تقابل اور امام مالک کی فقہ پر فقہائے سبعہ کے اثرات کے حوالے سے معاصر سطح پر مستقل کام ہوا ہے۔ چنانچہ شیخ ابو زہرہ مرحوم نے "حیاۃ مالک" میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر ریاض یونی ورسٹی سے معروف محقق الدکتور محمد مصطفی الاعظمی کی زیر نگرانی ایک مفصل مقالہ "فقہ الفقھاء السبعۃ واثرہ فی فقہ الامام مالک" کے نام سے شائع ہوچکا ہے جس میں فقہ کے جملہ ابواب میں فقہائے سبعہ کی فقہی آراء پر بحث کی گئی ہے۔اس سے مدینہ منور میں رائے و اجتہاد کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ فقہ اسلامی پر فقہائے سبعہ کے اثرات کے حوالے سے الدکتور عبد اللطیف الفرفور لکھتے ہیں :
ھولاء ھم الفقھاء السبعۃ الذین کونو ا المدرسۃ الفقھیۃ الاولی فی ھذا العصر،حتی سمی باسمھم، فقیل عصر الفقھاء السبعۃ، وکان عمل ھولاء الفقھاء الاولین تاسیس الفقہ الاسلامی، بوضعھم الخطوط الاولی للمنھج الفقھی، و بما رسموہ من الرای والنظر۔ (۴۵)
’’یہ وہ سات فقہاء ہیں ،جنہوں نے اپنے زمانے میں اولین فقہی مکتب کی تشکیل کی۔ان کی شہرت کی وجہ سے اس زمانے کو فقہائے سبعہ کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ان فقہاء کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے فقہ اسلامی کی بنیادیں رکھیں ،فقہی منہج کے اولین خطوط وضع کیے اور قیاس اور رائے کا نمونہ پیش کیا۔‘‘
۶۔ حجاز کے فقہاء صحابہ وتابعین کے بعد اگر مذہب مالکی اور شافعی کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے ،جن کو حجازی ہونے کی وجہ سے "اہل الحدیث "میں شمار کیا جاتا ہے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان مذاہب میں بھی روز اول سے رائے و اجتہاد کو کلیدی حیثیت حاصل تھی ،اور رائے و اجتہاد کے استعمال ،نصوص میں تعلیل اور فقہ تقدیری کی تشکیل میں "اہل حدیث" کے نام سے مشہور کیے جانے والے یہ دو حجازی مذاہب فقہیہ فقہائے عراق سے بڑھ کر نہیں تو ہم پلہ ضرور تھے۔ چنانچہ امام مالک کی فقہی و اجتہادی آراء پر مشتمل کتاب "المدونۃ الکبری"اور امام شافعی کے علم ریز قلم سے نکلی "کتاب الام" سے اس بات کی بخوبی تائید ہوتی ہے۔ان دونوں کتب میں فرضی مسائل کا معتد بہ حصہ موجود ہے اور مسائل کی فرضی صورتیں بنا کر اس پر احکام مرتب کیے گئے ہیں، بلکہ امام محمد کی کتب ظاہر الروایۃ کے ساتھ ان دو کتب کا تقابل کرنے سے حیرت انگیز مماثلت سامنے آتی ہے۔ ذیل میں ان تینوں کتب کے متفرق ابواب سے چند جزئیات دی جاتی ہیں جن کی صورتیں اگر چہ الگ الگ ہیں،لیکن مسئلے کی صورت فرض کرنے کا اسلوب اور طرز بالکل یکساں ہیں۔
المدونۃ الکبریٰ سے چند جزئیات
۱۔ قال مالک: لو ان نصرانِیا اسلم یوم الفِطرِ رایت علیہ زکاۃ الفطر، ولو اسلم یوم النحر کان عندی بینا ان یضحی(۴۶)
۲۔ قال مالک: لو ان رجلا من اھل الحرب اتی مسلما او بامان فاسلم وخلف اھلہ علی النصرانیۃ فی دار الحرب فغزا اھل الاسلام تلک الدار فغنموھا غنموا اھلہ وولدہ، قال مالک: ھی وولدہ فی اھل الاسلام (۴۷)
۳۔ قال مالک: لو ان رجلا شھد علی رجل بانہ اعتق عبدا لہ او علی ابیہ بعد موتہ انہ اعتق عبدا لہ فی وصیتہ فصار العبد الیہ فی قسمۃ او اشتری الشاھد العبد انہ یعتق علیہ (۴۸)
۴۔ قال مالک: لو ان رجلا اشتری طعاما بقدح او بقصعۃ لیس بمکیال الناس رایت ذلک فاسدا ولم ارہ جائزا (۴۹)
۵۔ قال مالک: لو ان رجلا دفع الی رجل دابۃ فقال: اعمل علیھا ولک نصف ما تکسب علیھا کان الکسب للعامل وکان علی العامل اجارۃ الدابۃ فی ما تساوی (۵۰)
کتاب الام سے چند جزئیات
۱۔ قال الشافعی: لو اکری رجلا رجلا دارا بماءۃ دینار اربع سنین فالکراء حال الا ان یشترطہ الی اجل (۵۱)
۲۔ قال الشافعی: لو باع رجل رجلا عبدا علی ان المشتری بالخیار فاھل ھلال شوال قبل ان یختار الرد او الاخذ کانت زکاۃ الفطر علی المشتری (۵۲)
۳۔ قال الشافعی: لو مات رجل لہ رقیق فورثہ ورثتہ قبل ھلال الشوال ثم اھل ھلال شوال ولم یخرج الرقیق من ایدیھم فعلیھم فیہ زکاۃ الفطر بقدر مواریثھم منہ (۵۳)
۴۔ قال الشافعی: لو اوصی برقبۃ عبد لرجل وخدمتہ لآخر حیاتہ، او وقتا فقبلا، کانت صدقۃ الفطر علی مالک الرقبۃ، لو لم یقبل کانت صدقۃ الفطر علی الورچۃ لانھم یملکون رقبتہ (۵۴)
۵۔ قال الشافعی: لو مات رجل وعلیہ دین وترک رقیقا فان زکاۃ الفطر فی مالہ عنھم، فان مات قبل شوال زکی عنھم الورثۃ (۵۵)
الجامع الصغیر سے چند جزئیات
۱۔ لَو حلف لَا یدخل ھذہ الدَّار وھذا المنزل فَقَامَ علی السَّطح حنث (۵۶)
۲۔ لَو وطیء حرَّۃ بِشْبھَۃ النِّکاح ثمَّ تزوج امۃ فِی عدتھَا جَازَ (۵۷)
۳۔ لَو تزوج المَراَۃ علی ثوب قیمتہ خَمسَۃ دَرَاھِم لَا یجب مھر المثل وَاِنَّمَا یجب الثَّوب وَخَمسَۃ دَرَاھم حَتَّی یتم العشرَۃ (۵۸)
۴۔ لَو حفر بئراً فِی دَارہ فَوَقع فیھا انسان وَمَات حیث لَا یضمن (۵۹)
۵۔ لو رمی الی الصید وھو مسلم فارتد واصابہ السھم وھو مرتد فجرح الصید ومات حل اکلہ (۶۰)
امام مالک کی "المدونۃ الکبری"امام شافعی کی "الام" اور امام محمد کی "الجامع الصغیر "کے متفرق ابواب سے لئے گئے ان مسائل کا طرز،اسلوب اور حکم مرتب کرنے کا انداز بالکل یکساں ہیں، اور اگر کتب کے حوالے کے بغیر یہ مسائل اکٹھے ذکر کیے جائیں تو شاید یہ فرق کرنا بھی مشکل ہو کہ یہ الگ الگ کتب سے اخذ کردہ ہیں ،چہ جائیکہ یہ معلوم ہو جائے کہ یہ الگ الگ فقہی مسالک کے مسائل ہیں۔ا ن مسائل کے یکساں اسلوب سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عراق کی فقہی مجالس اور حجاز کے فقہی حلقوں میں اجتہاد اور رائے کے استعمال کے حوالے سے کوئی خاص جوہری فرق نہیں تھا اور نہ ہی رائے کی کمیت کے حوالے سے دونوں حلقوں میں کوئی تفاوت تھا۔بلکہ ایک اور پہلو سے اگر دیکھا جائے تو حجازی فقہاء کی فقہی آراء و اجتہادات زیادہ معلوم ہوتے ہیں،کیونکہ امام محمد کی کتب ظاہر الروایۃ عراق کے تین بڑے فقہاء امام ابوحنیفہ ،امام ابویوسف اور امام محمد کی فقہی آراء کا مجموعہ ہیں ،جبکہ المدونۃ الکبریٰ کی پانچ ضخیم جلدیں صرف اما م مالک کے اجتہادات اور الام کی دس ضخیم جلدیں اکیلے مام شافعی کی فقہی آراء پر مشتمل ہیں۔ شخصیات کی تعدادپر تقسیم کرنے سے تو حجازی مکتب کے بانیوں کے اجتہادات بہ نسبت عراقی مکتب کے زیادہ بنتے ہیں۔ اس تفصیل کے نتیجے میں معاصر محققین کی اس بات سے اتفاق کافی مشکل ہے کہ عراق میں رائے کی کثرت اور حجاز میں قلت تھی۔
۷۔حجازی مکتب کے معروف فقہاء اور ان کی اجتہادی آراء پر عصر حاضر میں مستقل کام ہوا ہے ،خصوصاً عبد المنعم الہاشمی کی کتاب "عصر التابعین"، مشہور فقیہ خلیفہ بابکر الحسن کی گرانقدر کتاب "الاجتھاد بالرای فی مدرسۃ الحجاز الفقھیۃ" اور ابوبکر اسماعیل محمد میقا کی کتاب "الرای و اثرہ فی مدرسۃ المدینۃ" اس حوالے سے بہترین کاوشیں ہیں۔نیز تاریخ فقہ اسلامی پر لکھنے والے بعض محققین نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حجاز میں رائے و اجتہاد کی قلت کا نظریہ تاریخی حقائق سے میل نہیں کھاتا ۔شیخ ابوزہرہ مرحوم "حیاۃ مالک"میں لکھتے ہیں :
انتھینا من ھذہ الدراسۃ الی ان الرای بالمدینۃ لم یکن قلیلا،کما توھم عبارات بعض الکتاب (۶۱)
’’مذکورہ بالاتحقیق و تفصیل سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مدینہ میں رائے کی مقدار کسی طرح سے کم نہیں تھی، جیسا کہ بعض مصنفین کی عبارات سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح شیخ مصطفی الزرقاء نے "الفقہ الاسلامی و مدارسہ" میں بھی اس نظریے پر کڑی تنقید کی ہے ،اور اسے تاریخی حقائق کے منافی قرار دیا ہے ،ساتھ اس بات کا بھی اقرار کیا ہے کہ "المدخل الفقھی العام" میں بعض معاصرین کی اتباع میں یہ نظریہ میں نے اختیار کیا تھا ،لیکن غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اہل رائے اور اہل حدیث کی یہ تقسیم تاریخی حقائق کے منافی ہے۔ (۶۲)
اہل حدیث اور اہل رائے کی اصطلاح ،ایک تاریخی جائزہ
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حجازی و عراقی فقہاء کی اہل رائے اور اہل حدیث کے اعتبار سے تفریق کامعاصر نظریہ تاریخی اعتبار سے انتہائی کمزور ہے، نیز اس تفریق کے جو اسباب بیان کئے جاتے ہیں،وہ بھی محل نظر ہیں، اور ان اسباب میں بحث و تمحیص کی کافی گنجائش ہے۔ اب آخر میں اہل حدیث اور اہل رائے کی اصطلاح ،ان کے مصادیق اور مختلف استعمالات پر ایک نظر ڈالنا مقصود ہے،تا کہ بحث کی مزید تنقیح و توضیح کے ساتھ ان اصطلاحات کے حوالے سے رائج مغالطوں کی بھی نشاندہی ہو جائے ۔
اہل رائے کی اصطلاح اور اس کا مصداق
رائے کا لفظ ایک وسیع الاستعمال لفظ ہے،آثار و اخبار میں مختلف معانی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے،لیکن جب فقہی مسائل کے سیاق میں بولا جائے تو اس سے مراد قیاس و اجتہادہوتا ہے۔ دوسرے لفظو ں میں کسی مسئلے کے بارے میں اپنے فہم دین کی روشنی میں فقہی فیصلہ صادر کرنے کو رائے کہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی معروف روایت ہے کہ جب ان سے اس غیر مدخولہ عورت کے بارے میں پوچھا گیا جھ کا مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور اس کا خاوند فوت ہوجائے تو اس کو مہر کیا ملے گا ؟جب اس حوالے سے کوئی نص نہیں ملی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
انی ساقول برایی، لھا صداق نساءھا ،لا وکس و لا شطط (۶۳)
’’اس کے بارے میں اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرتا ہوں کہ اس عورت کے لئے اس کے خاندان کی دیگر عورتوں والا مہر ہوگا ،نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔‘‘
اسی طرح معروف تابعی حضرت مسروق نے جب حضرت عبد اللہ بن عمر سے نقض وتر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
ھو شیء افعلہ برایی ولا ارویہ عن احد (۶۴)
’’یہ کام میں اپنے اجتہاد کی بنیاد پر کر رہا ہوں،کسی سے روایت کی بنیا د پر نہیں۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت زید بن ثابت کا میراث کے کسی مسئلے میں اختلاف ہوا تو حضرت ابن عباس نے ایک قاصد ان کے پاس بھیجا کہ کیا یہ مسئلہ آپ کو کتاب اللہ میں ملا ؟تو حضرت زید بن ثابت نے فرمایا:
انما انت رجل تقول برایک وانا رجل اقول برایی (۶۵)
’’آپ اپنے اجتہاد سے بات کررہے ہیں اور میں اپنے اجتہاد سے۔‘‘
آثار کی طرح فقہاء کی عبارات میں بھی رائے کا لفظ اجتہاد اور قیاس پر بولا جاتا ہے ۔اس پر کثرت سے فقہاء کی عبارات موجود ہیں،لیکن صرف نمونے کے طور پر ایک حوالہ دینا چاہوں گا ۔ شوافع کے اصول فقہ کے چار ستونوں میں سے ایک "المعتمدفی اصول الفقہ" میں مصنف "باب انا متعبدون بالقیاس" کے اندر قیاس کے دلائل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
دلیل آخر ظاھر عن الصحابۃ رضی اللہ عنھم انھم قالوا بالرای (۶۶)
’’:اگلی دلیل یہ ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ صحابہ نے رائے (قیاس و اجتہاد )کا استعمال کیا ہے۔‘‘
چونکہ قیاس و اجتہاد پر رائے کا اطلاق ہوتا ہے ،اس لئے "اہل الرای"اور "اصحاب الرای" سے مراد فقہاء ہوتے ہیں ،خواہ کسی مسلک کے بھی ہوں۔ آٹھویں صدی ہجری کے معروف حنبلی عالم سلیمان الطوفی اپنی کتاب شرح مختصر الروضۃ میں لکھتے ہیں:
اعلم ان اصحاب الرای بحسب الاضافۃ ھم کل من تصرف فی الاحکام بالرای، فیتناول جمیع علماء الاسلام لان کل واحد من المجتھدین لا یستغنی فی اجتھادہ عن نظر ورای (۶۷)
’’جان لو کہ باعتبار اضافت اصحاب الراے سے مراد ہر وہ عالم ہے جو شرعی احکام میں اجتہاد سے تصرف کرتا ہو،لہٰذا یہ تمام علمائے اسلام کو شامل ہے ،کیونکہ مجتہدین میں سے کوئی بھی رائے اور اجتہاد سے مستغنی نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح علامہ انور شاہ کاشمیری العر ف الشذی میں فرماتے ہیں :
استعمل لفظ اھل الرای فی کل فقیہ (۶۸)
’’اہل رائے کا لفظ ہر فقیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔‘‘
ان دو جلیل القدر علماء کی عبارات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل رائے اپنے حقیقی اور لغوی معنی کے اعتبار سے ہر فقیہ پر بولا جاتا ہے ،چنانچہ اما م ابن تیمیہ طلاق کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ثم ان کثیرا من اھل الرای الحجازی والعراقی وسعوا باب الطلاق (۶۹)
’’حجازی اور عراقی دونوں قسم کے فقہاء نے باب الطلاق میں توسع اختیار کیا ہے۔‘‘
اس میں امام ابن تیمیہ نے مطلقاً فقہاء کے لئے اہل رائے کا لفظ استعمال کیا ہے ،خواہ حجاز کے ہوں یا کوفہ کے۔
اسی طرح ابن قتیبہ نے "المعارف "میں اصحاب الرای کا عنوان کا باندھ کر امام ابن ابی لیلیٰ،اما م اوزاعی ،امام ربیعہ، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام سفیان ثوری اور دیگر معروف فقہاء کا تذکرہ کیا ہے ،اور اصحاب الحدیث کا عنوان باندھ کر معروف محدثین کا ذکر کیا ہے۔اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اہل رائے کا لفظ اپنے اصل کے اعتبار سے مطلقاً فقہاء کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (۷۰)
امام ابن حزم ایک جگہ "الا حکام"میں لکھتے ہیں:
روی عیسی بن دینار عن ابی القاسم قال سئل مالک قیل لہ لمن تجوز الفتیا؟ قال لا تجوز الفتیا الا لمن علم ما اختلف الناس فیہ، قیل لہ اختلاف اھل الرای؟ قال لا، اختلاف اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم (۷۱)
’’عیسیٰ بن دینا ر ابی القاسم سے روایت کرتے ہیں کہ امام مالک سے پوچھا گیا کہ فتوی دینا کس شخص کے لیے جائز ہے؟تو امام مالک نے فرمایا کہ فتوی اسی شخص کے لئے درست ہے جو لوگوں کے اختلافات کو جانتا ہو۔ پوچھا گیا کہ اہل رائے یعنی فقہاء کے اختلافات ؟تو امام مالک نے فرمایا،نہیں صحابہ کے اختلافات۔‘‘
لغوی معنی کے ساتھ اہل رائے کا لفظ احناف کے لیے بطور علم کے بھی استعمال ہوتا ہے ،اس لئے اس کا عمومی استعمال حنفیہ کے لئے ہوتا ہے ،حنبلی عالم سلیمان الطوفی لکھتے ہیں:
واما بحسب العلمیۃ فھو فی عرف السلف علم لاھل العراق وھم اھل الکوفۃ ابوحنیفۃ ومن تابعہ منھم (۷۲)
’’علمیت کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اہل رائے کا لفظ سلف کے عرف میں اہل عراق کا علم ہے، یعنی فقہائے کوفہ امام ابوحنیفہ اور ان کے متبعین۔‘‘
مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اہل رائے کا لفظ لغوی اور اضافی معنی کے اعتبار سے مطلقاً فقہاء کے لیے استعمال ہوتا ہے ،البتہ علم ہونے کے اعتبار سے یہ فقہائے حنفیہ کا لقب ہے۔
اہل حدیث کی اصطلاح اور اس کا مصداق
اہل حدیث کا لفظ قرن اول سے ان لوگوں کے لئے استعمال ہونے لگا ،جن کا مشغلہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ،افعال اور تقریرات سے وابستگی تھا ،خواہ ان کا فقہی تعلق جس مسلک سے بھی ہو ،پھر یہ وابستگی درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کی شکل میں ہو یا تصنیف و تالیف کی شکل میں ہو۔ائمہ اربعہ کے زمانے سے ہی یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہونے لگا۔
امام شافعی الام میں ایک حدیث پر ایک ممکنہ اعتراض وارد کر کے لکھتے ہیں:
فان قال لک قائل اھل الحدیث یوھنون ھذا الحدیث (۷۳)
’’اگر کہنے والے نے کہا کہ اہل حدیث یعنی محدثین اس حدیث کی تضعیف کرتے ہیں۔‘‘
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
واما الرجل من اھل الفقہ یسال عن الرجل من اھل الحدیث فیقول کفوا عن حدیثہ ولا تقبلوا حدیثہ (۷۴)
’’جب فقہاء میں سے کوئی اہل حدیث یعنی محدثین سے کسی آدمی کے بارے میں پوچھتا ہے ،تو وہ کہتا ہے کہ اس کی حدیث سے رک جاؤ ،اور اس کی حدیث قبول نہ کرو۔‘‘
اس عبارت میں اہل فقہ اور اہل حدیث کا تقابل کتنی صراحت کے ساتھ دلا لت کرتا ہے کہ اہل حدیث سے مراد یہاں محدثین ہیں۔اسی طرح حدیث ،تفسیر یا فقہ کی تمام معروف کتب میں محدثین کا ذکر "اہل الحدیث "کے لفظ کے ساتھ ہوا ہے۔نیزیہ لقب ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے ،جو حدیث کے تعلم و تعلیم سے متعلق ہو ،خواہ وہ حنفی ہو، شافعی، مالکی یا حنبلی۔
علامہ ذہبی معروف حنفی محدث اور امام بخاری کے استاد محمد بن یحییٰ الذہلی کے تذکرے میں لکھتے ہیں:
محمد بن یحیی بن عبد اللہ بن خالد بن فارس بن ذویب، الامام، العلامۃ، الحافظ، البارع، شیخ الاسلام، وعالم اھل الشرق، وامام اھل الحدیث بخراسان (۷۵)
اس میں حنفی ہونے کے باوجود امام ذہلی کو "اما م اہل لحدیث"کہا ،کیونکہ وہ معروف معنی میں محدثین میں سے تھے۔
معروف مالکی محدث اور اما م بخاری کے استاد محمد بن عبد ابراہیم البوشنجی کے تذکرے میں لکھتے ہیں:
الامام العلامۃ، الحافظ، ذو الفنون، شیخ الاسلام، ابو عبد اللہ، محمد بن ابراھیم بن سعید بن عبد الرحمن بن موسی العبدی، الفقیہ، المالکی، البوشنجی، شیخ اھل الحدیث فی عصرہ بنیسابور (۷۶)
معروف شافعی فقیہ اور خراسان کے معروف محدث ابو الولید شافعی کے تذکرے میں لکھتے ہیں:
قال الحاکم: ھو ابو الولید القرشی الاموی الشافعی، امام اھل الحدیث بخراسان (۷۷)
کتب رجال میں اس کی مثالیں بکھری پڑی ہیں کہ محدثین پر اہل حدیث کا اطلاق کیا گیا ہے ،خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک اور مکتب سے ہو۔نمونے کے طور پر صرف تین مثالیں پیش کیں۔
اہل الحدیث بطور فقہی مسلک
اس موقع پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اہل الحدیث کا لفظ محدثین کے لئے استعمال ہوتا ہے تو شروح حدیث اور کتب الخلافیات یعنی وہ کتب جن میں فقہی مسائل میں مختلف مذاہب کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں فقہی مسالک کے ساتھ اہل الحدیث کو ایک مستقل فقہی مسلک کے طور پر ذکر کیا گیا ہے،اس سے کیا مراد ہے اور اس کا مصداق کیا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ محدثین میں سے چند معروف حضرات خصوصاً امام دادو ظاہری اور امام اسحاق بن راہویہ نے الگ الگ فقہی مکتب کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح مشہور محدثین جیسے اصحاب صحاح ستہ اور دیگر معروف محدثین،اگر چہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کی طرف نسبت کیا کرتے تھے ،لیکن بہت سارے مسائل میں انہوں نے اپنے فہم حدیث کی بنیاد پر مستقل موقف اپنا یا ،اور یہ موقف اکثر مسائل میں معروف محدثین کا ایک جیسا ہوتا ،اس لئے ان کی اہمیت،اور علمی مقام کی وجہ سے فقہی مسائل کے ذکر کے ضمن میں محدثین کی آرا مستقل ذکر کی جاتیں۔البتہ یہ بات ہے کہ یہ محدثین معروف معنی میں مجتہدین نہیں تھے کہ انہوں نے مستقل فقہی مکتب کی بنیاد رکھی ہو، اس کے حدود و جوانب طے کیے ہوں، اور ان کا حلقہ مقلدین ہو۔ کتب الخلافیات یا شروح حدیث میں اہل الحدیث کے لفظ سے مراد کبھی اما م دادو ظاہری، امام اسحاق بن راہویہ اور عموما محدثین کا گروہ ہوتا ہے جنہوں نے بہت سے مسائل میں مستقل موقف اپنا یا۔یہی وجہ ہے کہ فقہی آراء کے ذکر کے وقت ائمہ اربعہ کا ذکر الگ اوراہل الحدیث کا ذکر الگ کیا جاتا ہے ۔یہ بات بھی اس کی دلیل ہے کہ اہل الحدیث شوافع ،مالکیہ یا حنابلہ کی بجائے ان محدثین کے لئے استعمال ہوتاہے ،جنہوں نے مسائل میں مستقل موقف اپنایا۔ بلکہ خود شوافع ،مالکیہ اور حنابلہ کی کتب میں اختلافی مسائل میں اہل الحدیث کا مستقل ذکر کیا گیا ہے ۔اگر معاصر فقہاء کا یہ نظریہ مان لیا جائے کہ اہل الحدیث حنفیہ کے علاوہ بقیہ تین مسالک کا لقب ہے ،تو انہی مسالک کی کتب میں اہل الحدیث کے مستقل ذکر کی کیا توجیہ ہوگی؟ تخصیص بعد التعمیم والی بات اس وجہ سے نہیں کہہ سکتے کہ بسا اوقات محدثین کا مذہب شوافع ،مالکیہ اور حنابلہ کے خلاف ہوتا ہے ،تو ان کے بالمقابل اہل الحدیث کا ذکر کیا جاتا ہے۔جو ظاہر ہے کہ ان سے ایک الگ گروہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
امام نووی "المجموع "میں سعی قبل الطواف کے مسئلے میں لکھتے ہیں :
ولو سعی قبل الطواف لم یصح سعیہ عندنا وبہ قال جمھور العلماء وقدمنا عن الماوردی انہ نقل الاجماع فیہ وھو مذھب مالک وابی حنیفۃ واحمد وحکی ابن المنذر عن عطاء وبعض اھل الحدیث انہ یصح (۷۸)
اس مسئلے میں ائمہ اربعہ کا مسلک الگ ،جبکہ اہل حدیث یعنی محدثین کے ایک گروہ کا مسلک الگ نقل کیا ہے۔
ابن رشد مالکی بدایۃ المجتہد میں لکھتے ہیں :
اختلف الفقھاء فی الذی یاتی امراتہ وھی حائض، فقال مالک والشافعی وابو حنیفۃ: یستغفر اللہ ولا شیء علیہ، وقال احمد بن حنبل: یتصدق بدینار او بنصف دینار، وقالت فرقۃ من اھل الحدیث: ان وطیء فی الدم فعلیہ دینار (۷۹)
اس مسئلے میں مالکیہ ،شوافع اور حنفیہ کا مذہب الگ،حنابلہ کا الگ اور بعض اہل الحدیث یعنی بعض محدثین کا مسلک الگ نقل کیا گیا ہے۔ اس سے بخوبی اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اہل الحدیث کا شمار بطور فقہی مسلک ائمہ اربعہ میں سے کسی میں نہیں ہوتا۔
معروف حنبلی فقیہ ابن قدامہ "المغنی "میں شہادت کے ایک مسئلے سے متعلق لکھتے ہیں :
قال احمد: ولا یقبل الا شاھدان، وقال طائفۃ من اھل الحدیث: یقبل شاھد ویمین (۸۰)
شوافع ،مالکیہ اور حنابلہ کی کتب کی ان عبارات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل الحدیث ان تین گروہوں میں سے کسی میں شامل نہیں ہے اور خود انہی مسالک کی کتب میں اہل الحدیث کو الگ اور ممتاز گروہ کے طو رپر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اہل الحدیث یعنی محدثین کی فقہی آراء پر عصر حاضر میں مستقل کام ہوا ہے ۔اس سلسلے میں خاص طور پر ڈاکٹر عبد المجید محمود کی مایہ ناز کتاب "الاتجاھات الفقھیۃ عند اصحاب الحدیث فی القرن الثالث الھجری" اس بارے میں اہم ترین کاوش ہے۔مصنف نے اس کتاب میں تفصیل سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ محدثین ائمہ اربعہ کی طرف نسبت کے باوجود فقہی اعتبار سے الگ آراء رکھتے تھے۔اس لئے فقہی اختلاف کے وقت ائمہ اربعہ کے ساتھ اہل الحدیث کا مستقل ذکر کیا جاتا تھا۔چنانچہ لکھتے ہیں :
لکن الفقھاء الذین یعنون بذکر المذاھب الفقھی و اختلاف العلماء یسوقون امثال مالک والثوری والاوزاعی کاصحاب مذاھب مستقلۃ، ثم یعطفون علیھا مذھب اھل الحدیث (۸۱)
’’البتہ وہ فقہاء جنہوں نے مذاہب فقہیہ اور علماء کے اختلافات کے ذکر کا اہتمام کیا ہے ،وہ ائمہ مجتہدین یعنی اما م مالک ،امام ثوری اور امام اوزاعی کا ذکر کرنے کے بعد اس پر اہل حدیث کے مذہب کا عطف کر کے الگ ذکر کرتے ہیں۔‘‘
بحث کا خلاصہ
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ فقہائے تابعین اور ائمہ اربعہ کی اہل رائے اور اہل حدیث میں تقسیم کرتے ہوئے احناف کو اہل رائے جبکہ بقیہ تینوں ائمہ کو اہل حدیث کے طبقے میں شامل کرنا محل نظر ہے۔ اس بارے میں جو اسباب اور وجوہات بیان کی جاتی ہیں، وہ تاریخی اعتبار سے مخدو ش ہیں ۔ اس غلط فہمی کی بنیادی وجہ یہ بنی کہ چونکہ اہل رائے اضافی معنی کے ساتھ احناف کے لیے بطور لقب اور علم کے بھی استعمال ہوتا ہے، اس لیے مفہوم مخالف سے یہ سمجھ لیا گیا کہ اہل حدیث بقیہ تینوں مذاہب کا لقب ہے۔ حالانکہ اہل الحدیث کا لقب صرف ان حضرات کے لئے استعمال ہوتا ہے ،جنہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ،افعال اور تقریرات کی حفاظت ،تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، جنہیں عرف میں محدثین کہا جاتا ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی فقہی مکتب سے ہو۔
حوالہ جات
۳۷۔مناع ،خلیل القطان ،تاریخ التشریع الاسلامی ،ریاض ،مکتبۃ المعارف للنشر و التوزیع ،ص ۲۹۱
۳۸۔ایضاً ،ص۲۹۳
۳۹۔ابن قیم الجوزیہ ،ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر ،اعلام الموقعین ،ریاض ،دار ابن الجوزی ، ۳۲۴۱ھ،ج۱ ،ص ۲۸
۴۰۔ ابو زہرہ ،محمد ،حیاۃ مالک ،دار الفکر العربی ،ص ۱۶۳
۴۱۔ ابن قیم الجوزیہ ،ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر ،اعلام الموقعین ،ریاض ،دار ابن الجوزی، ۱۴۲۳ھ،ج ۱ ص ۲۸
۴۲۔الذہبی ،شمس الدین محمد بن احمد ،تذکرۃ الحفاظ ،بیروت ،دارلکتب العلمیہ ، ۱۴۱۹ ھ،ج۱ ،ص۱۱۸
۴۳۔ المزی ،جمال الدین ،ابو الحجاج ،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ، بیروت ،موسسۃ الرسالۃ، ۱۴۰۸، ھ،ج ۱۰، ص ۱۵۰
۴۴۔ ایضاً۔
۴۵۔ الفرفور ،صالح عبد اللطیف ،تاریخ الفقہ الا سلامی ،بیروت ،دار ابن کثیر، ۱۴۱۶ھ، ص ۳۶
۴۶۔ الامام ،مالک بن انس ،المدونہ الکبری ،بیروت دارلکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ھ، ج ۱، ص ۴۰۵
۴۷۔ ایضاً ،ج۲، ص ۲۱۷
۴۸۔ ایضاً ،ج۲ ،ص ۵۶۹
۴۹۔ ایضاً ، ج ۳، ص ۸۹
۵۰۔ ایضاً ،ج ۳، ص ۴۲۱
۵۱۔ الشافعی ،محمد بن ادریس ،الام ،بیروت ،دارلمعرفۃ،ج۲ ،ص ۶۱
۵۲۔ ایضاً،ج۲ ،ص۶۳
۵۳۔ ایضاً ،ج۲ ،ص۶۴
۵۴۔ ایضاً۔
۵۵۔ ایضاً
۵۶۔ الشیبانی ،ابو عبد اللہ محمد بن الحسن الجامع الصغیر ،کراتشی ،ادارۃ القران و العلوم الاسلامیہ ،۱۴۱۱ھ،ص ۱۲۱
۵۷۔ ایضاً،ص ۱۷۷
۵۸۔ ایضاً،ص ۱۸۰
۵۹۔ ایضاً،ص ۴۵۰
۶۰۔ ایضاً،ص ۴۹۸
۶۱۔ ابو زہرہ، محمد، حیاۃ مالک، دار الفکر العربی، ص ۱۷۹
۶۲۔ الزرقاء، مصطفی احمد ،الفقہ الاسلامی ومدارسہ ، بیرورت ،الدار الشامیہ ،۱۴۱۶ھ،ص ۵۹
۶۳۔ البیہقی ،ابو بکر احمد بن الحسین ،السنن الکبری،بیروت دار الکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ھ،ج ۷ ، ص۴۰۰
۶۴۔ الجوہری ،ابو الحسن علی بن الجعد ،مسند ابن الجعد ،بیروت ،دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۷ھ،ص ۷۹
۶۵۔ الدارمی ،عبد اللہ بن عبد الرحمن ،سنن دارمی ، ریاض ،دارلمغنی ،۱۴۱۲ھ، رقم الحدیث۲۹۱۷
۶۶۔ البصری ،ابو الحسین محمد بن علی ،المتعمد فی اصول الفقہ ،المعہد العلمی ،دمشق، ۱۳۸۴ھ،ج۲ ،ص ۲۸۰
۶۷۔ الطوفی ،نجم الدین سلیمان بن عبد القوی ،شرح مختصر الروضۃ، ریاض ،وزارۃ الشوون الاسلامیہ، ۱۴۱۹ ،ج ۳، ص ۲۸۹
۶۸۔ الکشمیری، محمد انو رشاہ ،العرف الشذی ،بیروت ،دار احیا ء التراث العربی، ۱۳۲۵ھ،ج ۲، ص ۲۶۸
۶۹۔ ابن تیمیہ ،تقی الدین ،الفتاوی الکبری،بیروت ،دارلکتب العلمیہ، ۱۴۰۸ھ،ج۳،ص ۱۹۳
۷۰۔ ابن قتیبہ ،ابو عبد اللہ محمد بن مسلم ،المعارف ،قاہرہ ،دا ر المعارف ،ص ۴۹۴
۷۱۔ ابن حزم ،ابو محمد علی ابن احمد ،الاحکام فی اصول الاحکام ،بیروت ،دا ر الآفاق ،ج۶،ص ۱۷۷
۷۲۔ الطوفی ،نجم الدین سلیمان بن عبد القوی ،شرح مختصر الروضۃ، ریاض، وزارۃ الشوون، ۱۴۱۹ھ، ج ۳، ص ۲۸۹
۷۳۔ الشافعی ،محمد بن ادریس ،الام، بیروت ،دا ر المعرفۃ، ج۳ ،ص ۸
۷۴۔ ایضاً،ج۶، ص ۶۰۲
۷۵۔ الذہبی ،شمس الدین محمد بن احمد ،سیر اعلام النبلاء،بیروت ، موسسۃ الرسالۃ، ۱۴۰۵ ھ،ج ۱۲ ،ص ۲۷۳
۷۶۔ ایضاً، ج ۱۳، ص ۵۸۱
۷۷۔ ایضاً،ج ۱۵، ص۴۹۵
۷۸۔ النووی، ابو زکریا محی الدین بن شرف، المجموع شرح المہذب، مصر، ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ،ج ۸، ص ۷۸
۷۹۔ القرطبی ،ابن رشد،بدایۃ المجتہد،بیروت ،دارلفکر، ۱۴۲۴ھ،ج ۱، ص ۱۱۵
۸۰۔ ابن قدامہ ،موفق الدین ابو محمد عبد اللہ بن محمد،المغنی،ریاض ،دار عالم الکتب، ۱۴۱۷ھ،ج ۱۳، ص۷۴
۸۱۔ عبد المجید محمود ،الاتجاہات الفقہیہ عند اصحاب الحدیث فی القرن الثالث الھجری، ،مکتبۃ الخانجی، ۱۳۹۹ھ، ص ۱۳۶
مکاتیب
ادارہ
محترم مولانا عمار خان ناصر صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
ستمبر ۲۰۱۶ء کے ماہنامہ الشر یعۃ میں مفتی محمد رضوان صاحب کی تالیف ’’مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار اور تنظیمِ فکرِ ولی اللّٰہی کے نظریات کا تحقیقی جائزہ ‘‘ کے دوسرے ایڈیشن پر مولانا سیّد متین احمد شاہ صاحب کا فاضلانہ تبصرہ پڑھا۔ تبصرہ نگار ممکن حد تک غیر جا نبد ار رہے ہیں اور تبصرے کو کسی طور یک رخا نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال غالباً عجلت کے سبب چند غلطیاں تبصرے میں راہ پاگئی ہیں ۔ ریکارڈ کی درستی کے لیے انہیں ذیل میں درج کیا جاتا ہے :
۱۔مولانا سندھی مرحوم کے سب سے بڑے راوی پروفیسر محمد سرور ہیں۔ کمیت کے اعتبار سے مولانا سندھی کے افکار و ملفوظات کو مرتب کرکے پیش کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ پروفیسر صاحب کی مرتبہ کتابوں کی اشاعت کے بعد مولانا سندھی شدید تنقید کا نشانہ بنے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ محترم متین شاہ صاحب نے پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’ افادات و ملفوظاتِ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ کتاب مولانا کی زندگی میں شائع ہوئی تھی ۔ یہ ایک تسامح ہے ۔ یہ کتاب مولانا کے انتقال کے بعد ۱۹۷۳ء میں شائع ہوئی ۔ یاد رہے کہ مولانا سندھی کا انتقال ۲۲ اگست ۱۹۴۴ء کو ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہ کتاب مولانا کی زندگی میں شائع ہوئی ہوتی تو انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ۔ مولانا کی زندگی میں شائع ہونے والی پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’مولانا عبید اللہ سندھی : حالاتِ زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ ہے۔ یہ کتاب ۱۹۴۳ء میں شائع ہوئی اور مولانا نے اسے ownکیا ۔ (ملاحظہ ہو پروفیسر محمد سرور کی وفات پر مولانا عبید اللہ انور کا تعزیتی مضمون جو ہفت روزہ خدام الدین میں شائع ہوا۔ یہ مضمون محولہ بالاکتاب کے حالیہ ایڈیشن میں بھی شامل ہے )
۲۔ فاضل مبصر لکھتے ہیں ’’مولانا عبد الحق خان بشیر نے اپنی کتاب ’’مولانا عبید اللہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللّٰہی ‘‘ میں پروفیسر محمد سرور کا نام مولانا سندھی کے ناقابل اعتماد تلامذہ کی فہرست میں شامل نہیں کیا، حالاں کہ مولانا سندھی کے افکار پر جو تنقید ہوئی ہے وہ زیادہ تر ان تحریروں کی روشنی میں ہوئی ہے ، جو پروفیسر صاحب کی مرتب کی ہوئی ہیں ‘‘۔ غالباً شاہ صاحب کی نظروں سے مولانا عبد الحق خان بشیر کی کتاب کی درج ذیل سطور اوجھل ہوگئیں:
’’ فکری اعتبار سے مولانا سندھی کے تلامذہ کو دو ٹیموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ پہلی ٹیم حضرت [احمد علی] لاہوری ؒ اور حضرت خواجہ عبد الحی فاروقی ؒ پر مشتمل ہے ۔ دوسری ٹیم میں علامہ موسیٰ جار اللہ ، مولانا عبد اللہ لغاری ، پروفیسر محمد سرور اور شیخ بشیر احمد لدھیانوی شامل ہیں ۔ ان میں سے حضرت سندھی کے افکار کی حقیقی ترجمان تو صرف پہلی ٹیم ہے ۔ اس کے برعکس دوسری ٹیم سے تفسیرِ قرآن کے سلسلے میں بیشتر مقامات پر سنگین نوعیت کی خطرناک نظریاتی اغلاط کا صدور ہوا ہے ۔۔۔ اس [ٹیم ] میں پروفیسر محمد سرور کے پیش کردہ سیاسی و معاشی افکار میں متعدد کمزوریاں موجود ہیں اور ان کی بعض عبارات حضرت سندھی کے بارے میں بے شمار شکوک کو جنم دیتی ہیں ‘‘ (ص ۷۹، ۸۰)
مولانا عبد الحق خان بشیر اس کتاب کے صفحہ نمبر ۹۵ میں لکھتے ہیں :
’’ ۔۔۔باقی رہی بات پروفیسر محمد سرور مرحوم کی تو حضرت سندھی کی نسبت سے پیش کردہ ان کے بعض افکار ، ناقابل قبول اور قابل گرفت ہیں ۔ چنانچہ مولانا صوفی عبد الحمید سواتی تحریر فرماتے ہیں :۔
پروفیسر محمد سرور نے ایک مجموعہ ’’ مولانا عبید اللہ سندھی : حالاتِ زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار ‘‘ مرتب کیا ہے ۔ اور دوسرا مجموعہ ’’افادات و ملفوظاتِ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی‘‘ ہے ۔ یہ دونوں مجموعات بڑے اہم ہیں اور دونوں قابلِ تنقید ہیں ۔ ان مجموعات میں مولانا سندھی کے بارے میں صحیح ، قابل وثوق ، ضعیف ، موضوع ، غیر قابل اعتماد ہر قسم کی باتیں موجود ہیں ‘‘۔ ( مولانا عبید اللہ سندھی کے علوم و افکار ، ص ۱۰۷)
حیرت ہے کہ مولانا سندھی کے بارے میں مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کو پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’مولانا عبید اللہ سندھی : حالاتِ زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار ‘‘ میں قابلِ تنقید باتیں اور موضوع روایتیں نظر آگئیں ، لیکن خود مولانا سندھی کو نظر نہیں آئیں اور انہوں نے اس کتاب کو ownکرلیا۔
۳۔محترم متین شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’ مولانا عبید اللہ سندھی : حالاتِ زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار ‘‘ پر اپنے تبصرے میں مولانا سندھی کی فکر کے قابل تنقید امور کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
’’مولانا [سندھی] مرحوم کی یہ بڑی خوش قسمتی تھی کہ ان کا تعلق علمائے کرام کے اس طبقے سے تھا جو اپنی گروہی عصبیت میں حدِ کمال پر پہنچا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا یہ سب کچھ فرما گئے اور لکھوا اور چھپوا بھی گئے اور پھر بھی تنقید کی زبانیں بند اور تعریف کی زبانیں تر رہیں ۔ ورنہ اگر انہوں نے اس طبقۂ خاص سے باہر جگہ پائی ہوتی تو ان کا استقبال سرسید اور علامہ مشرقی سے کچھ کم شا ندار نہ ہوا ہو تا ‘‘۔ (ترجمان القرآن ، جولائی ، اگست ، ستمبر ۱۹۴۴ء)
محترم شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ مفتی محمد رضوان صاحب کی زیر نظر کتاب مولانا مودودی کی اس بات کی تردید کرتی ہے کیونکہ اس میں شامل تقریباً تمام مقالات علمائے دیو بند کے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ محترم شاہ صاحب نے یہ بات عجلت اور رواروی میں لکھی ہے۔ مفتی رضوان صاحب نے اپنی کتاب میں شامل تقریباً تمام مضامین کی تاریخِ اشاعت دے دی ہے۔ مولانا مودودی نے محولہ بالا تبصرہ ستمبر ۱۹۴۴ء کے ترجمان القرآن میں لکھا ، جب کہ علمائے دیوبند کے مضامین اس کے بعد شائع ہوئے۔ اس میں بہر حال ایک استثنا مولانا ظفر احمد عثمانی کا مضمون ’’طلوعِ اسلام ‘‘ مولانا سندھی اور شاہ ولی اللہ ہے۔ یہ مضمون ۱۹۴۲ء میں شائع ہوا۔ فاضل مبصر نوٹ فرمائیں کہ مولانا سندھی کے بارے میں دیوبندی مکتبِ فکر کے زعیم مولانا حسین احمد مدنی کا مضمون اخبارِ مدینہ بجنور کی ۱۷ مارچ ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں شائع ہوا ۔ اسی طرح مولانا مناظر احسن گیلانی کا مضمون ’’فکرِ سندھی ‘‘ کسی دینی یا علمی مجلے میں نہیں ٗ بلکہ مسلم لیگ کے ترجمان روزنامہ منشور دہلی میں ۱۹۴۵ شائع ہوا ۔ وہاں سے liftکر کے ا سے ہفت روزہ صدق لکھنو کی ۱۳ جون تا ۱۴ جولائی ، ۱۹۴۵ ء کی اشاعتوں میں شائع کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مضمون مولانا سندھی کی زندگی میں ۱۹۴۳ء میں لکھا گیا تھا اور اکابر علما کی توثیق کے حصول کے پیش نظر اسے فوری طور پر شائع نہیں کیا گیا ۔ یہ بات بھی ۲۰۱۱ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’مجموعہ خطوطِ گیلانی ‘‘ مرتبہ محمد راشد شیخ کے ذریعے سامنے آئی ۔
مولانا سندھی کے حوالے سے اُن کی زندگی میں شائع ہونے والی سب سے زیادہ اختلافی کتاب پروفیسر محمد سرور کی ’’مولانا عبید اللہ سندھی : حالاتِ زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار ‘‘ ہے۔ میں شاہ صاحب سے بصد احترام دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا کی زندگی میں کس ممتاز دیوبندی عالم نے اس کتاب پر نقد و تبصرہ لکھا؟ دیو بندی اکابر کی اسی خاموشی پر مولانا مناظر احسن گیلانی نے مولانا عبد الماجد دریا بادی کے نام درد اور کرب سے بھرا ہوا ایک خط لکھا جو ۲۳ جون ۱۹۴۵ء کی صدق کی اشاعت میں شائع ہوا۔ یہ خط مفتی رضوان صاحب کی کتاب میں شامل ہے ۔ اس کے برعکس دارالعلوم دیو بند کے ایک فاضل کی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ برہان دہلی نے مولانا سندھی کی بھر پور تائید کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا عبد الماجد دریا بادی کے ہفت روزہ صدق میں ۱۹۳۹ء ہی سے مولانا سندھی کے افکار کی تردید شروع ہو گئی تھی، لیکن مجھے اس پر تحفظات ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانوی سے بیعت ہوجانے کی بنیاد پر مولانا عبد الماجد دریابادی کا شمار علمائے دیوبند میں کیا جاسکتا ہے ۔
اگر اس عریضے میں کوئی بات محترم متین شاہ صاحب کے لئے گرانی طبع کا باعث ہو تو آپ کی وساطت سے ان سے پیشگی معذرت ۔
محمد سفیر الاسلام
safeerjanjua@gmail.com
طلبہ کی نفسیاتی، روحانی اور اخلاقی تربیت ۔ ایک فکری نشست کی روئیداد
مولانا حافظ عبد الغنی محمدی
از قلم: حافظ عبد الغنی محمدی / مولانا امیر حمزہ
فی زمانہ جہاں طلباء کی ہمتیں پست اور ارادے شکست وریخت کا شکار ہیں، وہیں اساتذہ بھی پہلے جیسے اہل نہیں رہے ۔ اساتذہ طلباء کو پڑھانا تو شاید اپنا فرض سمجھتے ہیں، لیکن طلبہ کی نفسیات کو سمجھ کر ان کی اخلاقی و روحانی تربیت بالکل نہیں کرتے۔یہی غیر تربیت یافتہ طلباء جب فضلاء بنتے ہیں تو بجائے فائدہ کے نقصان کا باعث ہوتے ہیں، اپنی تربیت نہ ہونے کے سبب معاشرہ کی تربیت سے بالکل عاری ہوتے ہیں ، نتیجتاً معاشرے کی صحیح خطوط پر تربیت کے فرض کو کماحقہ پو رانہیں کر پا تے ہیں۔
اس تناظر میں الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ۲؍اکتوبر کو علماء، فضلاء اور اساتذہ کے لیے ’’ طلبہ کی نفسیاتی، اخلاقی اور روحانی تربیت‘‘ کے عنوان سے ایک فکری نشست منعقد ہوئی جس میں مولانا جہانگیر محمود، (ڈائریکٹر سوسائٹی فار ایجوکیشنل ریسرچ لاہور)، مولانا محمد یوسف خان صاحب استاذ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور اور پروفیسر عبد الماجد حمید المشرقی بطور مہمان خصوصی تشریف لائے ۔ نشست کا آغاز اکادمی کے طالب علم عاصم شبیر کی تلاوت سے ہوا ، اس کے بعد اکادمی کے ایک طالب علم عبداللہ ریاست نے نعت رسول مقبول ﷺ پڑھی اور پھر مولانا جہانگیر محمود صاحب کا انتہائی فکر انگیز بیان ہوا۔
مولانا جہانگیر محمود کی گفتگو
مولانا نے فرمایا کہ بندہ کوئی کام متواتر کر ے تو انسانی نفسیات کا حصہ ہے کہ قدر اور جذبہ ایک جیسا نہیں رہ سکتاہے۔ امام غزالی ؒ کافرمان ہے کہ انسان جب متواتر عبادت کرتا رہتا ہے تو عبادت، عادت بن جاتی ہے ، اس لیے انسان کی طبیعت کے لیے ضروری ہے کہ اعادہ اور تکرار سے اپنے جذبہ میں نیا پن پیدا کر ے۔ ایک مرتبہ مجھ پر پریشانی آگئی ۔ میں سخت پریشان تھا۔ ایک دوست کو دعا کا کہا تو اس نے کہا کہ خود کرو ۔ میں نے کہا کہ خود تو روز کرتے ہیں۔ تو وہ دوست فرمانے لگے کہ جیسے کرنی چاہیے، ویسے کرو ۔ صبح سے شام تک پڑھا پڑھا کر ہر چیز یاد ہوجاتی ہے، لیکن وہ جذبہ، جوش اور لگن نہیں رہتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کو دہرائیں ۔ تدریس سے بڑاکام کوئی نہیں ہے۔
بہت ملکوں کا سفر کیا، ہر جگہ پر اس پیشے کے منسلک لوگوں کے حالات بہت اچھے نہیں ہوتے۔ مدرسین کا انتخاب اللہ پاک کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کے مخلص بندے ہوتے ہیں اور یہ سب سے بڑی ذمہ داری بھی ہے، اس کی تکمیل میں حساس ہونا پڑے گا۔ منصب کے ساتھ ذمہ داری اور جواب دہی بھی ہوتی ہے ۔ اترانے کی بجائے جھکاؤپیدا کرنا ذمہ داری کا احساس ہے ۔ عادت میں تجدید کس طرح پیدا کی جائے ؟ اس کا ایک مستقل جز تزکیہ ہے ۔ ہمارے دین ، تہذیب اور تربیت کا جز ہے ۔
تدریس رسول میں سب سے نمایاں چیز محبت تھی۔ صحابہ کا عشق ، محبت ، ایثار اور لگن اصل میں حضور ﷺکی شفقت کا رد عمل تھا۔ حضور کی محبت کا بدلہ محبت کے سوا کیا ہوسکتاہے؟ پیار مجبوری اور زبردستی میں نہیں ہو سکتا۔ عبادات : نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰ ۃ وغیرہ تو زبردستی ممکن ہے، لیکن محبت ممکن نہیں ہے ۔
فتح مکہ میں جو سب جھک گئے تھے تو اس کی وجہ بھی حضور کی شفقت اور محبت تھی ، تلوار کے زور پر ان لوگوں کو جھکانا ممکن نہ تھا ۔ حضور کیسے شفیق تھے، یہ بات حضرت جابر کے واقعہ سے سمجھ آتی ہے ۔ حضرت جابر کی شادی سے قبل ان سے اونٹ خریدا ، رقم دے دی۔ بعد میں رخصت کرتے ہوئے اونٹ بھی تحفہ میں دے دیا۔ ایسا مدد کرنے کے لیے کیا ، ویسے قیمت نہیں دی تاکہ عزت نفس مجروح نہ ہو ۔حضور کس قدر حساس ہیں ۔ عبدا للہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضور مسکراکر ملتے تھے، لیکن آج نہ مسکرانے کو تقویٰ کے قریب سمجھ لیا گیا ہے ۔ حضور نہ صرف خود محبت کرتے تھے بلکہ صحابہ کوبھی اس کی تلقین کرتے تھے ۔ ابن مسعود کو فرمایا کہ تمہارے پاس دور دور سے طلباء آئیں گے، تم ان کا خیال رکھنا ۔ حضرت ابن مسعود طلباء کا ستقبال کرتے تھے ۔
محبت رد عمل کا نام ہے ، تدریس کے نظام میں اس عمل کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی ۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ رات کو اٹھ کر طلباء کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک کمرے میں لائٹ چل رہی ہے اور ایک طالب علم جاگ رہا ہے ۔ استفسار پر معلوم ہو ا کہ وہ طالب علم حقہ کاعادی ہے اور حقہ کے بغیر نیند نہیں آرہی ہے۔ حضرت نے خود حقہ لا کر دیا کہ ابھی پی کر سو جاؤ۔ مولانا کفیل بخاری نے حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری کا یہ واقعہ سنایا۔ شاہ صاحب ؒ قاری رحیم بخش ؒ کے شاگر تھے۔ ایک مرتبہ شاہ صاحب کی جب حضرت قاری رحیم بخش ؒ سے ملاقات ہوئی تو قاری صاحب معافی مانگنے لگے اور فرمایا کہ میں نے تمہاری پٹائی کی، لیکن اصلاح کے علاوہ کوئی جذبہ نہ تھا ۔ قاری صاحب ؒ کا یہ مشہور قول ہے کہ استاد کوہاتھ اٹھانے کا کوئی حق نہیں جب تک چالیس روز تک اس بچے کی اصلاح کے لیے تہجد میں اٹھ کر مانگ نہ چکا ہو ۔ مارا تب جائے جب مار کے علاوہ دوسرے تمام طریقے استعمال کرچکے اور اس کو آخری حربے کے طور پر استعمال کرے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہ حالت تھی کہ کفار کے ایمان کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگا کرتے تھے۔ فلعک باخع نفسک اسی لیے نازل ہوئی تھی ۔ غم اور غصہ میں فرق ہے ، حضور کو غم تھا، غصہ نہیں ۔ طلباء کے لیے دعا کریں اور دعا سب سے پہلے ہے، آخری چیز نہیں ہے ، مزید برآں زبان میں نرمی پیدا کریں ۔
جس طرح کے استاد سے پڑھنا چاہتے ہیں، اس طرح کے بن جائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ’’لایؤمن احدکم حتی ٰ یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ‘‘ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتاہے۔
مولانا محمد یوسف خان کا بیان
مولانا جہانگیر محمود کے بعد مولانا محمد یوسف خان صاحب کا بیان ہو ا۔ مولانا نے اپنے بیان میں دیگر قیمتی باتوں کے ساتھ اساتذہ کے لیے اکیس رہنما اصول بیان فرمائے ۔ مولانا نے فرمایا کہ شاگرد استاد سے زیادہ نفسیات سے واقف ہوتے ہیں۔ نفسیات کتابوں یا فن کانام نہیں ہے ۔ایک جگہ چند بچے تھے جو ریاضی پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے ، بہت سے استاذ ان کے لیے بدلے گئے، لیکن نتیجہ وہی رہا ۔ بالآ خر ایک ماہر نفسیات کو بلایا گیا ، ماہر نفسیات نے کتابوں کو بند کر کے شاگردوں کوخرگوش ، مرغیاں اور بطخوں وغیرہ سے کھلانا شروع کردیا ۔ کافی دن جب یونہی گزر گئے تو استاد نے سوچا، اب مانوس ہوچکے ہیں تو اس نے ایک دن کہا کہ دیکھو ڈربے میں کتنی مرغیا ں اور باہر کتنی ہیں ۔ تو ایک بھائی دوسرے سے کہنے لگا، لگتاہے ریاضی پڑھانے آیاہے ۔
ایک استاد کو اپنے اندر چند خصوصیات پیدا کرنی چاہیے، تبھی وہ ایک کامیاب استاد بن سکتاہے ۔ یہ خصوصیات اور اصول ہمارے بزرگ سکھاتے ہیں اور اخلاقیات میں بھی پڑھائے جاتے ہیں۔
اخلاص
اچھا استاذ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوتاہے ۔ وہ اپنے پیشے کے ساتھ جس قدر بے لوث ہوگا، اس کی دلچسپی اسی قدر بڑھتی جائے گی اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں اتنی ہی کم ہوتی چلی جائیں گی ۔ اخلاص وہ جوہر ہے جس سے عمل میں لذت ، تبدیلی اور احساس پیدا ہوتاہے ۔
تقویٰ
علم اور تقویٰ کاک باہم گہرا تعلق ہے ، اسی وجہ سے قرآن پاک میں خشیت الہٰی کا مدار ’’ علم ‘‘ کو قرار دیا گیاہے ۔ تقویٰ کمال کا ہو ، تقویٰ سے طلباء کے دل میں عزت وا حترام پیدا ہوتا ہے اور مدرس کی زبان میں تاثیر پیدا ہوتی ہے ۔
عملی نمونہ
طلبہ اپنے استاذ کو دیکھ کر اپنی عادات تبدیل کریں گے، کہنا نہیں پڑے گا ۔ طلبہ استاذ کی ایک ایک بات باریک بینی سے نوٹ کرتے ہیں ۔ ایک دن میری گھڑی خراب ہوگئی ، بیوی کی گھڑی پہن کر چلاگیا ۔ دوران درس میری پوری کوشش رہی کہ گھڑی کپڑوں میں چھپی رہے ۔ دن گزر گیا، بات آئی گئی ہوگئی۔ کچھ مدت بعد ایک طالب علم سے بات ہورہی تھی۔ وہ درسگاہ میں میری کسی بات کا حوالہ دے رہا تھا اور مجھے یاد نہیں آرہا تھا ۔ میں نے مزید استفسار کیا تو اس نے کہا ’’ استاد جی جس دن آپ لیڈیز گھڑی پہن کر آئے تھے‘‘۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ طلبہ کتنی گہرائی سے استاد کو پڑھتے ہیں ، بلکہ پڑھنے کے بعد اسے یاد رکھتے ہیں اور دوسروں سے اس کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
تلاوت کا معمول
قرآ ن مجید کی تلاوت روزانہ کی جائے ۔ قرآن کریم بہترین ذکر ہے اس لیے روزانہ اس کی اونچی آوازمیں تلاوت کرے ۔
ذکر اللہ
مسنون اذکا ر کیے جائیں کیونکہ خود بھی دل کو زندہ رکھنا ہوگا تب ہی تربیت ممکن ہے ۔
شکر
شکر کی کیفیت پائی جائے ۔ قلبی ، لسانی اور عملی تینوں طرح کا شکر ہونا چاہیے ۔ قلبی شکر میں دو چیزیں شامل ہیں: احترام منعم اور محبت منعم ۔ ادارے کا احترام کرتاہے تو کامیاب مدرس ہے، شاگردوں کے دلوں میں بھی احترام پیدا ہوگا۔ اور اگر مہتمم یا ناظم پر تنقید کرتاہے تو ناکام ترین مدرس ہے ۔ لسانی شکر بھی ہوناچاہیے ، قرآ ن کریم میں اس کا حکم ہے۔ ’’واما بنعمۃ ربک فحدث‘‘۔ اسی طرح دوسری آیت میں ہے ’’ان اشکر لی ولوالدیک‘‘ اور حدیث میں ہے ’’من لم یشکر النا س لم یشکر اللہ‘‘ ۔ شکریہ میں جزاک اللہ اور الحمد للہ کا استعما ل کرے ۔ اور عملی شکر یہ ہے کہ نعمتوں کو ڈھنگ سے استعمال کرے ، جو استاذ نعمتوں کا درست استعمال نہیں کرتا، وہ ناشکرا اور ناکام ترین مدرس ہے ۔
حیاء
مدرس کو باحیاء ہونا چاہیے ۔ حیاء کہتے ہیں ’’انقباض النفس عن القبیح‘‘ ناپسندیدہ باتوں سے دل کا تنگ پڑ جانا۔ شاگرد استاد کے چہرے سے حیاء کو محسو س کرے جیساکہ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہر ے سے محسوس کر لیتے تھے جب آپ کو کوئی چیز ناگوار ہوتی تھی۔ سوشل میڈیا نے حیاء کوکم کردیا ہے ، غیر شرعی باتوں کو قبیح نہیں سمجھا جا رہا ہے ۔ استاد میں حیاء ہوگی تو طلباء میں بھی یہ وصف منتقل ہوگا ۔
ذمہ دار ی کا احساس
مدرس کو ایک ذمہ دار انسان ہونا چاہیے ، غیر ذمہ دار کا مظاہر کیا جائے تو یہ طلباء میں بھی منتقل ہوتی ہے۔
اچھی صحبت
اچھا استاذ وہ ہوتا ہے جس کامزاج اچھا ہو ، اس کی بیٹھک اچھے لوگوں کے ساتھ ہو ، اس کی پہچان اچھی سوسائٹی ہو۔ اچھی اور بری صحبت کی مثال حدیث شریف میں عطار اور لوہار کی مانند دی گئی ہے جن کے پاس جانے والاکوئی چیز نہ بھی لے اثرات ضرور پہنچتے ہیں ۔ اچھی صحبت کا احسا س ہونا چاہیے اور پھر اس کی قدر بھی ہونی چاہیے ۔ لوگوں سے خیرخواہی اور اصلاح کا تعلق تو ضرور رکھے مگر دوستی نہیں ۔
صبر و تحمل
صبر کا مادہ کما ل کا ہونا چاہیے ۔ جتنا صبر کمال کا ہوگا اتنا ہی کمال کا استاد ہوگا ۔ انبیاء کرام کو اللہ رب العزت نے دعوت اور لوگوں کی اصلاح کے دوران باربار صبر کی تلقین فرمائی ہے ۔
زہد
استاد میں زہد کما ل کا ہونا چاہیے ، شاگرد کے مال پر اگر استاذ کی رال ٹپک رہی ہو تو شاگر د کی نظر میں ایسا استاذ ٹکے کا نہیں رہتا ۔ حدیث میں جو آیا ہے ’’ازھد فی الدنیا یحبک اللہ وازھد فیما عند الناس یحبک الناس‘‘ اس میں الناس کی جگہ طلبہ کو رکھ کر عملی مشاہدہ کیجیے، پھر ادراک ہوگا کہ کتنی بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔
عفو و درگزر اور وسعت قلبی
ہر معمولی بات پر پکڑ کرنے والاکبھی کامیاب مدرس نہیں بن سکتا ، استاد کو اپنے اندر وسعت قلبی پیدا کرنی چاہیے ۔ اللہ رب العزت بھی اکثر معاملات میں معاف کر دیتے ہیں ’’ویعفو عن کثیر‘‘ ۔
خدمت خلق کا جذبہ
افسوس ہے کہ اس اہم ترین عبادت کوہم نے شعبوں میں تقسیم کر دیا ہے ، روز مرہ زندگی میں بطور عبادت اس اصول کا اطلا ق ہمارے ہاں نادر ہے۔ تبلیغ میں جانے والے احباب سفر دعوت میں ہر طرح کی خدمت اکرامِ مسلم سمجھ کر کر تے ہیں، مگر گھر آتے ہی خدمت انہیں ذلت محسوس ہوتی ہے ۔ استاذ اگر اپنے طلبہ کے سامنے خدمت خلق کا عملی نمونہ پیش کرے گا تو ان کے دل میں عظمت بڑھے گی اور وہ خود کا م بڑھ چڑھ کر کریں گے۔
اس سلسلے میں اپنا ایک واقعہ بیان کروں گا کہ ضعف اور نقاہت کی وجہ سے چونکہ طبیعت مستعد نہیں رہی ، ایک مرتبہ میں نے کھانا تناول کرنے کے بعد بچوں سے کہا کہ بیٹا دستر خوان اٹھا لو، اتنے میں کیا سنتا ہوں کہ میرا چھوٹا نواسا دروازے سے نکلتے ہوئے کہہ رہاہے ’’ خود تو بڑے بیٹھے رہتے ہیں اور ہمیں کام پر لگایا ہواہے‘‘۔ ایسے موقع پر اگر بچوں ڈانٹ دیاجائے تو زیادہ سے زیادہ یہ فرق پڑے گا کہ یہ یہی بات آپ کے سامنے کہنے سے باز رہیں گے، مگر ان کے ذہنوں کو آپ صرف اور صرف اپنے کردار سے کھرچ سکتے ہیں ۔
قوت و امانت
اچھا پیشہ وہ ہوتا ہے جس میں قوت اور امانت کا وصف بخوبی موجود ہو ۔ استاد کی قوت اور طاقت اس کا مطالعہ ، علمی رسوخ اور اپنے فن پر دستر س ہے۔ نالائق سے نالائق طالبعلم بھی استاذ کی علمی قابلیت کو اچھی طرح بھانپ لیتاہے ۔ استاذ کی امانت کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ علم کو آگے منتقل کرنے میں کس قدر محتاط اور سخی ہے ۔
اخلاقی جراءت
اخلاقی جرات کے بغیر ناکام مدر س ہے ۔ اخلاقی جرات اخلاقی اوصاف سے پیدا ہوتی ہے ۔
قول و فعل میں مطابقت
استاد کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے ۔ جس استاذ کے قول و فعل میں تضاد ہو وہ ایک بدنام اور ناکام مدرس ہے ۔
رجائیت
اچھا استاد کبھی مایوس نہیں ہو تا، اس کی مثال اس پھل بیچنے والے کی سی ہے جو اپنے گاہک کے سامنے پھل کی ایسے تعریف ایسی تعریف کرے کہ وہ تھوڑے کی بجائے زیادہ لینے پر مجبور ہو جائے اور اگر وہ خود مایوس ہو تو اس سے کوئی پھل نہ لے گا ۔ اسی طرح تعلیم کامعاملہ ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم جس علم کو بیچ رہے ہیں، اس کی قدر خود ہمارے دل میں بھی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ استاد کے ذریعے شاگردوں میں مایوسی منتقل ہو رہی ہے ۔
وضع قطع
استاد کو چاہیے کہ اپنے باطن کی طرح ظاہر کو بھی اللہ کے رنگ میں رنگ دے ۔ شریعت کے مطابق وضع قطع نہ صرف سنت نبوی کی اتباع ہے بلکہ اس سے آپ با وقار تشخص کی تعمیر کر سکیں گے ۔
اخلاص
دینی خدمات محض تنخواہ کے لیے سرا نجام نہ دے ۔ اس سے چاشنی اور لذت جاتی رہتی ہے ۔ اپنے کسی قول و فعل کے ذریعے شاگردوں کے سامنے بھی ایسا تاثر دینے سے باز رہے ۔
شاگردوں کے حق میں دعا
اپنے شاگردوں کے لیے ہمیشہ دعاگو رہے ۔ یہ عمل اجر اور اخلاص بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔
ڈاکٹر عبد الماجد المشرقی کی گفتگو
اس کے بعد گوجرانوالہ کی مشہور شخصیت ’’ مشر ق سائنس کالج ‘‘ کے بانی و ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد المشرقی نے خطاب کیا اور درج ذیل معروضات پیش کیں :
تدریس کے بارے میں کہتا ہوں کہ اگر احساس نہ ہو تو دنیا میں اس سے زیادہآسان کام کوئی نہیں ۔ اگر احساس ہو تو دنیا کا سب سے مشکل کام ہے ۔ تعلیم کو عام کرنا چاہیے، برائے نام نہیں کرنا چاہیے۔ جس کو کوئی جگہ نہیں ملتی ،وہ اسکو ل یا مدرسہ بنا لیتا ہے ۔ تعلیم کی اہمیت یہ ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
پچھلے سال دسمبر کی بات ہے، فرانس کی لائبریری میں ہم نے ایک نوجوان کو دیکھا جو مطالعہ میں منہمک تھا ۔ تعارف کے بعد پتہ لگا کہ وہ یہودی ہے ۔ ہم نے اس کے دائیں بائیں ۵ کتابیں دیکھیں۔ درمیان میں قرآ ن کریم بھی تھا ۔ ہم بہت حیران ہوئے ۔ اس نے کہا کہ میں فزکس پڑھا تاہوں۔ میں نے کہا، سرجانس !آپ امریکن ہیں ، یہودی ہیں ، درمیان میں قرآ ن کریم کیسے رکھاہے ؟یہ تو ہماری کتاب ہے۔ اس نے کہا کہ آپ نے غلط کہاکہ قرآ ن کریم صرف آپ کی کتاب ہے۔ قرآ ن کریم ساری انسانیت کی کتاب ہے ۔ میں نے پوچھا : اس میں آپ تلا ش کیا کررہے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں اپنا لیکچر تیار کر رہاہوں۔
قرآ ن کریم پڑھانے والے اپنے آپ کو معمولی نہ سمجھیں ۔ مجھے تدریس کرتے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہو ا، صرف ۳۸ سال ہوئے ہیں ۔ میں نے کبھی اپنے کسی شاگرد سے ایک ٹافی بھی نہیں کھائی ہے اور نہ ہی کبھی کسی سے یہ پوچھا کہ آپ کے ابو کیا کرتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ شاید باپ نہ ہو، یا ڈاکو ہو ۔ اور میر ے ذہن میں اس کے ابو سے کوئی مفاد لینے کا خیال نہ آجائے۔ جس ڈنڈے کے متعلق کہا جاتاہے کہ ’’ ڈنڈا وگڑے تگڑوں کا پیر ہے ‘‘وہ حسن اخلاق کا ڈنڈا ہے۔ کلاس میں ۲۵شاگرد ہیں ۔ کلاس کو واچ کرنے کے لیے استاد کی دو آنکھیں ہیں، لیکن استاد کو واچ کرنے کے لیے پچاس آنکھیں ہیں ۔
میں نے ملکہ برطانیہ سے پوچھا ، آپ بھی کبھی کسی عام شہری کے گھر ملنے گئیں ؟ انھوں نے کہا کہ جی، سا ل میں چند لوگوں کو ملنے جاتی ہوں ۔ میرے پرائمری اور ہائی اسکو ل کے جتنے اساتذہ ہیں، سب کے گھروں میں سلام کرنے جاتی ہوں ۔ پوچھا کہ کیا سارے زندہ ہیں؟ ملکہ نے کہا کہ نہیں، جو فوت ہوچکے ہیں، ان کے بچوں کو سلام کرنے جاتی ہوں۔
میں اپنے ٹیچر کی طرف پشت نہیں کر تا۔ میرے استاذ کے نام سے ملتاجلتا نام بھی اگر کہیں گراہوا دیکھ لوں تومیں اٹھالیتاہوں۔
آخر میں ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی مولانا زاہد الراشدی نے تما م حا ضرین کا شکریہ ادا کیا اور مولانا یوسف خان نے اختتامی دعا کروائی۔
دسمبر ۲۰۱۶ء
مذہب اور معاشرتی اصلاح ۔ خواتین کے مقام وحقوق کے تناظر میں / مغربی تہذیب کے مفید تصورات وتجربات سے استفادہ
محمد عمار خان ناصر
اللہ کے مستند پیغمبروں کی دعوتی جدوجہد سے مذہب کا جو تصور سامنے آتا ہے، اس کا ایک بہت بنیادی جزو معاشرتی ناہمواریوں اور اخلاقی بگاڑ کی اصلاح ہے۔ مذہب انسان کے عقیدہ وایمان کے ساتھ ساتھ اس کے عمل کا بھی تزکیہ چاہتا ہے، چنانچہ یہ ناگزیر ہے کہ انسانی جبلت کے منفی رجحانات سے پیدا ہونے والے معاشرتی رویوں اور رسوم واعمال کی اصلاح مذہبی تعلیمات کا موضوع بنے۔ اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو آپ نے بھی عرب معاشرے کے تین پسے ہوئے اور مظلوم طبقوں، یعنی غلام لونڈیوں، عورتوں اور بے سہارا یتیموں کو اٹھانے اور انھیں ان کے حقوق دلوانے کو اصلاح معاشرہ کی جدوجہد کا بطور خاص ہدف ٹھہرایا۔
اس ضمن میں خواتین کے معاشرتی حقوق کے تحفظ اور ان کے ساتھ نا انصافی اور استحصال کے خاتمے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اصلاحی اقدامات کیے، ان کا ایک جائزہ لینے سے حسب ذیل منظر ہمارے سامنے آتا ہے۔
تصورات کی اصلاح کے حوالے سے سب سے بنیادی کام یہ کیا گیا کہ بطور صنف عورت کی تکریم و احترام کو اجاگر کیا گیااوربچیوں کی اچھی پرورش کرنے اور ان کے اور لڑکوں کے درمیان امتیاز نہ کرنے کو اعلیٰ اخلاقی رویے کے طور پر پیش کیا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ ’’بچیوں کو ناپسند نہ کیا کرو، کیونکہ یہ تو (ماں باپ کا) دل لگانے والی اور غیر معمولی قدر رکھنے والی ہوتی ہیں۔’’ (مسند احمد، حدیث ۱۷۱۱۴)آپ نے فرمایا کہ ’’جس کے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے اور اس کی تحقیر نہ کرے اور اس کے ساتھ لڑکوں کے مقابلے میں امتیازی سلوک نہ کرے، اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کر دیں گے۔’’ (ابو داود، حدیث ۵۱۴۶) مزید فرمایا کہ ’’جس شخص نے دو بچیوں کے بلوغت کو پہنچنے تک ان کی کفالت کی ، قیامت کے روز وہ اس حالت میں آئے گا کہ میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے۔’’ (صحیح مسلم، حدیث ۲۶۳۱)
ایک شخص کو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ تمھاری ماں، تمھارے باپ کے مقابلے میں تمھارے حسن سلوک اور خدمت کی تین درجے زیادہ حق دار ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث ۵۶۵۰) جبکہ ایک شخص کو یہ کہہ کر جہاد پر جانے سے روک دیا کہ اپنی ماں کے قدموں کے ساتھ چمٹے رہو، کیونکہ جنت وہیں ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۲۷۹۵)
حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ ’’عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت قبول کرو، کیونکہ وہ (رشتہ نکاح کی وجہ سے) تمھاری پابند ہو کر رہتی ہیں، لیکن اس سے آگے تمھیں ان پر (زور زبردستی کا) کوئی اختیار نہیں۔’’ (ترمذی، حدیث ۱۱۴۵)
اس کے بعد اہم ترین دائرہ جس میں بہت بنیادی اصلاحی اقدامات کیے گئے، خاندانی زندگی کا دائرہ تھا۔ اس دائرے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور انھیں شوہروں کے تعدی وتجاوز سے بچانے کے لیے حسب ذیل نظری وعملی اصلاحات رو بہ عمل کی گئیں۔
- رشتہ نکاح قائم کرنے کے لیے بیوی کو مہر کی ادائیگی شرعی حکم کے طور پر لازم قرار دی گئی (سورۃ النساء، آیت ۲۴) اور عورت کا یہ حق قرار دیا گیا کہ وہ مہر وصول کیے بغیر مرد کے ساتھ رخصتی سے انکار کر دے۔
- نکاح کے لیے عورت کی رضامندی کو بنیادی شرط قرار دیا گیا اور اہل خاندان کو پابند کیا گیا کہ وہ ان کی مرضی معلوم کیے بغیر ان کا نکاح نہ کریں۔ (صحیح بخاری، حدیث ۴۸۶۰) اگر ایسا کوئی نکاح کیا گیا تو عورت کی شکایت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عدالتی طور پر منسوخ کر دیا گیا۔ (ابوداود، حدیث ۱۸۳۴)
- وٹے سٹے کے نکاح پر پابندی عائد کی گئی۔ عرب معاشرے میں اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ دو افراد اپنی زیر سرپرستی خواتین کا نکاح ان کی رضامندی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ کر دیتے تھے اور اس تبادلے کو ہی مہر کا بدل تصور کیا جاتا تھا، جبکہ متعلقہ خواتین حق مہر سے محروم رہ جاتی تھیں۔ (صحیح بخاری، حدیث ۴۸۳۹)
- نکاح کے وقت عورت سے جو وعدے اور پیمان کیے گئے ہوں اور جو شرائط طے کی گئی ہوں، ان کی پابندی کی تاکید کی گئی۔ (صحیح بخاری، حدیث ۲۵۹۹)
- خواتین کو شوہروں کی زیادتی سے بچانے کے لیے طلاق کے حق کو دو تک محدود کر دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ تیسری طلاق کے بعد شوہر، رجوع نہیں کر سکے گا۔ (سورۃ البقرۃ، آیت ۲۳۰) اسی طرح عدت کے دوران میں بیویوں کو ان کے شوہروں کے گھروں سے نکالنے کو ممنوع قرار دیا گیا اور شوہروں کو عدت پوری ہونے تک ان کے ضروری اخراجات اٹھانے کا پابند ٹھہرایا گیا۔ (سورۃ الطلاق، آیت ۱)
- ماہواری کے ایام میں بیویوں کے ساتھ میل جول کے حوالے سے عرب معاشرے میں افراط وتفریط اور بے اعتدالی کے رویے پائے جاتے تھے۔ ایک طبقہ ان ایام اور معمول کے عام دنوں میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں برتتا تھا، جبکہ دوسرے طبقے کے ہاں ان دنوں میں خواتین کو بالکل اچھوت تصور کیا جاتا تھا۔ اسلام نے اس بے اعتدالی کا خاتمہ کیا اور جنسی تعلق کو ممنوع ٹھہراتے ہوئے باقی ہر طرح کے میل جول اور اختلاط کو مباح قرار دیا۔
- عدت کے لیے خواتین کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے متوازن اور مبنی بر اعتدال مدتیں مقرر کی گئیں اور عدت کی پابندیوں کے حوالے سے عرب معاشرے کے غیر معتدل رجحانات کا خاتمہ کیا گیا۔
- تعدد ازواج کے حق کو چار تک محدود اور تمام بیویوں کے مابین عدل ومساوات کے ساتھ مشروط کیا گیا، (سورۃ النساء، آیت ۳) جبکہ اس سے قبل عرب معاشرے میں لوگ کسی تحدید کے بغیر ان گنت خواتین کے ساتھ نکاح کر سکتے تھے اور ان کے ساتھ برابری کا سلوک غیر ضروری سمجھا جاتا تھا۔
- یہ قانون بنایا گیا کہ اگر شوہر سے علیحدگی کے بعد خواتین اپنی ہی اولاد کو دودھ پلائیں تو وہ بچے کے باپ سے اس کا معاوضہ لے سکتی ہیں اور شوہروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ باہمی رضامندی سے جو معاوضہ طے کریں، وہ پوری دیانت داری سے بچے کی والدہ کو ادا کریں۔ (سورۃ البقرۃ، آیت ۲۳۳)
- بچوں کی پرورش کے ضمن میں ماں کا حق تسلیم کیا گیا، چنانچہ ایک مقدمے میں شوہر نے بیوی کو طلاق دینے کے بعد اس سے بچہ چھیننا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ جب تک عورت دوسرا نکاح نہ کرے، بچہ اسی کی پرورش میں رہے گا (جبکہ بچے کا خرچ اس کے باپ کے ذمے ہوگا)۔ (ابوداود، حدیث ۱۹۷۶)
- خواتین پر گھریلو تشدد کے رویے کی، اخلاقی تربیت اور وعظ ونصیحت کے ذریعے سے حوصلہ شکنی کی گئی۔ (مصنف عبد الرزاق، حدیث ۱۷۳۰۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی کردار کو شوہروں کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا اور فرمایا کہ بہترین شوہر وہی ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ ویسا برتاؤ کریں جیسا میں اپنی بیویوں کے ساتھ کرتا ہوں۔ (ترمذی، حدیث ۳۹۹۰)
- عرب معاشرے میں باپ کی منکوحہ عورتوں کو اس کے مرنے کے بعد وراثت میں بیٹے کو منتقل ہو جانے کا دستور تھا۔ قرآن نے باپ کی منکوحہ سے نکاح کو حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ عمومی طور پر یہ اخلاقی اصول بھی واضح کیا کہ عورتوں کی رضامندی کے بغیر انھیں ڈھور ڈنگر کی طرح وراثت کا مال بنا لینا درست نہیں۔ (سورۃ النساء، آیت ۱۹)
- باندیوں کو یہ حق دیا گیا کہ جب انھیں قانونی طور پر اپنے مالک سے آزادی ملے، جبکہ غلامی کے دوران میں مالک نے ان کی رضامندی کے بغیر ان کا نکاح کسی کے ساتھ کر دیا ہو، تو آزاد ہونے پر انھیں اس فیصلے پر بھی نظر ثانی کا حق ہوگا اور وہ یک طرفہ طور پر شوہر سے الگ ہونے کا فیصلہ کر سکیں گی۔ (صحیح بخاری، حدیث ۴۹۹۸)
اصلاح کا ایک اور اہم دائرہ خواتین کے مالی ومعاشی حقوق سے متعلق تھا۔ اس حوالے سے بنیادی ترین اصلاحی اقدام یہ تھا کہ وراثت میں خواتین کے لازمی حصے مقرر کیے گئے اور ان کی ادائیگی کو شرعی فریضہ قرار دیا گیا، (سورۃ النساء، آیت ۷) جبکہ اس سے پہلے خواتین سرے سے وراثت میں حصہ لینے کی حق دار ہی تصور نہیں کی جاتی تھیں۔عہد صحابہ میں خواتین کے، کسی معاشرتی دباؤ کے تحت اس حق سے دست بردار ہونے کو روکنے کے لیے بعض قانونی پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔ مثلاً جلیل القدر تابعی عامر شعبی کہتے ہیں کہ قریش کی ایک لڑکی سے اس کے بھائی نے کہا کہ تم اپنے شوہر کے پاس جانے سے پہلے اپنی وہ میراث جو تمھیں والد کی طرف سے ملی ہے، مجھے ہبہ کر دو۔ لڑکی نے اس کی بات مان لی، لیکن پھر شادی ہو جانے کے بعد اس نے اپنی میراث دوبارہ مانگی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ اسے واپس دلوا دی اور قاضی شریح کو تاکید کی کہ جب تک عورت اپنے شوہر کے گھر میں جا کر ایک سال نہ گزار لے یا ایک بچے کو جنم نہ دے دے، اس وقت تک اس کی طرف سے ہبہ کے فیصلے کو نافذ نہ مانا جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ۲۱۹۱۴، ۲۱۹۱۶)
خواتین کی، اجتماعی مذہبی وتعلیمی سرگرمیوں میں شرکت کی حوصلہ افزائی کی گئی (صحیح بخاری، حدیث ۸۷۳) اور مسجد میں باجماعت نماز میں شرکت کے علاوہ تعلیمی مجلسوں میں شریک ہونے اور مختلف سماجی سطحوں پر متحرک کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے۔ عہد نبوی میں اس حوالے سے صحابہ کے ساتھ ساتھ بہت سی ممتاز صحابیات کے نمایاں کردارکا بھی ذکر ملتا ہے۔ مسجد نبوی میں خواتین کی تعلیم کے مخصوص اور مستقل حلقے قائم کیے گئے اور بعض صحابیات کو اپنے گھروں میں خواتین کی باجماعت نماز کا امام مقرر کیا گیا۔ (ابو داود، حدیث ۵۲۰)
خواتین کے لیے کسی جھجھک یا حجاب کے بغیر اپنے مخصوص مسائل کے حوالے سے استفسار کرنے کا ماحول بنایا گیا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک موقع پر کہا کہ’’انصار کی خواتین بہت ہی اچھی تھیں کہ ان کی شرم، دین کے معاملے میں سوال کرنے سے ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم، حدیث ۵۳۵)
سماجی اصلاح اور پسے ہوئے طبقات کو اٹھانے کی حکمت عملی کے ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ یاد رکھنے کا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے غلاموں کو آقاؤں کے خلاف، عورتوں کو مردوں کے خلاف اور فقرا کو اصحاب ثروت کے خلاف بھڑکا کر ایک دوسرے کا مد مقابل بنا دینے کا طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ یہ طریقہ کوتاہ نظر طبقاتی لیڈروں کا ہوتا ہے جن کے جوش وخروش میں ذاتی محرومیوں کا غصہ شامل ہوتا ہے۔اللہ کا پیغمبر کسی ایک طبقے کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا نبی ہوتا ہے۔ اسے آقا کی فلاح سے بھی اتنی ہی غرض ہوتی ہے جتنی غلام کی، مردوں کی کامیابی بھی اتنی ہی عزیز ہوتی ہے جتنی عورتوں کی اور مال داروں کا حسن انجام بھی اتنا ہی محبوب ہوتا ہے جتنا فقرا اور یتامی ومساکین کا۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصلاحی پروگرام کی بنیاد طبقاتی کشمکش کو ابھارنے پر نہیں، بلکہ ہر طبقے میں فطری طور پر موجود نیک جذبات اور اخلاقی تصورات کو اپیل کرنے پر رکھی اور یہ سمجھایا کہ انسانی سماج میں بہتر وکہتر کی یہ تقسیم انسان کی آزمائش کا ایک ذریعہ ہے جس میں کامیابی کا معیار اللہ کی نظر میں صرف اور صرف اچھا عمل اور حسن کردار ہے۔
مغربی تہذیب کے مفید تصورات وتجربات سے استفادہ
مغربی تہذیب نے گذشتہ کئی صدیوں میں فکری ارتقا کا جو سفر طے کیا ہے، اس نے متعدد اسباب سے اسے مذہب اور روحانیت سے دور کر دیا ہے اور وہ بلاشبہ اس وقت دنیا میں ایک لادینی تہذیب کا علم بردار ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی ذہن کو سیاست مدن اور تنظیم معاشرت کے ضمن میں عملی نوعیت کے جو بہت سے سوالات ہمیشہ سے درپیش رہے ہیں، ان کے حل کے لیے مغرب نے کئی مفید تصورات اور تجربات سے بھی دنیا کو روشناس کرایا ہے۔ ان میں مثال کے طور پر حکومت سازی میں رائے عامہ کو بنیادی اہمیت دینے، حکومت کی سطح پر اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے تقسیم اختیارات کے اصول، دنیا کی مختلف اقوام کے لیے اپنے اپنے مخصوص جغرافیائی خطوں میں حق خود ارادیت تسلیم کرنے اور بین الاقوامی تنازعات کے پرامن تصفیے کے لیے عالمی برادری کی سطح پر مختلف اداروں اورتنظیموں کے قیام جیسے تصورات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ان تصورات پر عمل کے حوالے سے مغرب کا اپنا طرز عمل کیا ہے، اس پر یقیناًبات ہو سکتی ہے اور مذکورہ سیاسی تصورات کا جو ماڈل مغرب نے پیش کیا ہے، اس میں مزید بہتری کی ضرورت پر بھی بحث ومباحثہ کی پوری گنجائش موجود ہے۔ لیکن اصولی طور پر ان تصورات کی اہمیت اور اجتماعی انسانی تعلقات کی تنظیم کے ضمن میں ان کی افادی صلاحیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
مغربی غلبے کے رد عمل میں اور اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے بعض تاریخی تجربات کی فوقیت ثابت کرنے کے جذبے کے زیر اثر مسلم فکر میں ایک بڑا نمایاں رجحان سرے سے مذکورہ تصورات وتجربات کی نفی کر دینے کا دکھائی دیتا ہے جو ایک غیر متوازن رویہ ہے۔ کوئی بھی مفید اور اچھا تصور انسانیت کا مشترک سرمایہ ہوتا ہے، چاہے اس کا ابتدائی تعارف کسی بھی گروہ کی طرف سے سامنے آئے۔ انسانی تمدن کا ارتقا اسی طرح باہم اخذ واستفادہ سے ہوتا ہے اور مسلم تہذیب نے بھی اپنے دور عروج میں کبھی دوسری قوموں، تہذیبوں اور معاشروں سے اچھے اور مفید تصورات کو لے لینے کبھی کوئی باک محسوس نہیں کیا۔
مثال کے طور پر رائے عامہ کو حکومت سازی میں بنیادی اہمیت دینے کا اصول بنیادی طور پر خود اسلام کا اصول ہے جس سے مسلمان اپنی تاریخ کے بالکل ابتدائی دور میں ہی مختلف عملی اسباب سے دست بردار ہو گئے اور رفتہ رفتہ اس سے بالکل غیر مانوس ہوتے چلے گئے۔ امام ابوعبید نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ اگر مسلمانوں کا لشکر دوران جنگ میں دشمن کے ساتھ صلح کا معاہدہ کرنا چاہے اور اس کی شرائط ایسی ہوں جن کا اثر دشمن کے زیر نگیں عوام الناس پر بھی پڑتا ہو تو ایسی کوئی بھی شرط اسی وقت معتبر سمجھی جائے گی جب براہ راست ان کے عوام سے رابطہ کر کے ان کی رضامندی معلوم کر لی جائے۔ اس کے بغیر محض ان کے سرداروں یا امراء کے اس شرط کو تسلیم کر لینے کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ امام ابوعبید نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چونکہ امرا اور سرداروں کو کوئی بھی اجتماعی فیصلہ کرنے کا اختیار عام لوگوں کی طرف سے تفویض کیا جاتا ہے، اس لیے وہ لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کوئی ایسا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے جس سے لوگ متفق نہ ہوں۔ (کتاب الاموال، ص ۲۷۰، ۲۷۱) اس فقہی جزئیے سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب اسلام دشمن قوم کی رائے عامہ کو اتنی اہمیت دیتا ہے تو خود مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کی رائے عامہ اس کے نزدیک کتنی اہم ہوگی۔
آج مغرب نے حکمرانوں کے عزل ونصب میں رائے عامہ کو بنیادی اصول کے طور پر تسلیم کر کے اقتدار کے پرامن انتقال کا ایک ایسا طریقہ اختیار کر لیا ہے جسے نظر انداز کرنے کی وجہ سے اسلامی تاریخ میں ہمیں ایک طرف تو موروثی بادشاہت اور بزور بازور اقتدار پر قبضے جیسے طریقوں کو جواز فراہم کرنا پڑا اور دوسری طرف عملی طور پر پرامن انتقال اقتدار کا کوئی طریقہ باقی نہ رہا۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس سے کھلے دل سے استفادہ کرنا چاہیے، نہ کہ مغرب کی ہر بات کے رد کر دینے کو اسلامیت کا اظہار سمجھ کر ’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو‘‘ کی تحریک برپا کرنی چاہیے۔
اسی زاویے سے ریاستی اختیارات کی تقسیم کے تصور کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مغرب میں جدید ریاست کے ارتقا میں ایک اہم عامل کا کردار بادشاہ کے مطلق العنان ہونے کے مسئلے نے ادا کیا۔ مغربی مفکرین نے ارتکاز اختیارات اور اس سے پیدا ہونے والی قباحتوں کا حل یہ تجویز کیا کہ حکومت واقتدار سے متعلق اختیارات کو ایک فرد میں مرتکز کرنے کے بجائے انھیں مختلف مراکز میں تقسیم کر دیا جائے جو ایک دوسرے کو تجاوز سے روکنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا کام کریں۔ اس سے افراد کے بجائے اداروں مثلاً مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ وغیرہ کا نظام وجود میں آیا۔ یہ تمام ادارے الگ الگ دائروں میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے باوجود ایک ہی نظم اجتماعی کا حصہ ہوتے اور اسی کے طے کردہ مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں، اور ان کے مجموعے کو ایک جامع عنوان یعنی ’’ریاست‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس کے برخلاف مسلم سیاسی فکر میں ’’امام‘‘ یعنی مسلمانوں کے حکمران کی شخصیت میں تمام تر سیاسی اختیارات کے ارتکاز کا تصور غالب ہے۔ شریعت کی پابندی کی شرط کے ساتھ مسلمانوں کے جملہ اجتماعی امور سے متعلق آخری اور فیصلہ کن اختیار ’’امام‘‘ کے لیے تسلیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ کسی بھی اجتہادی تعبیر کو قانون کا درجہ دینے کا فیصلہ کن اختیار اسی کے پاس ہے۔ وہ دار الاسلام کے حدود میں کیے گئے کسی بھی عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کا اختیار رکھتا ہے۔ وزرا، گورنروں، عمال، قضاۃ اور فوجی امراء کے تقرر کا حتمی اختیار اس کے ہاتھ میں ہے۔ دشمن کے ساتھ جنگ کرنے یا صلح کا معاہدہ کرنے میں امام ہی فائنل اتھارٹی رکھتا ہے۔ گویا مسلمان امت اپنے اجتماعی امور سے متعلق تمام تر اختیارات ’’امام‘‘ کو تفویض کر دیتی ہے اور پھر وہ ان کی نیابت میں، انتظامی سہولت اور مصلحت کے تحت ان میں سے کچھ اختیارات مختلف سطحوں پر اپنے منتخب عمال اور افسران کے سپرد کر دیتا ہے، تاہم اختیارات کا اصل منبع ومصدر امام ہی کی شخصیت رہتی ہے اور اپنے تفویض کردہ اختیارات کے تحت کیے گئے تمام فیصلوں اور تصرفات پر نظر ثانی کا آخری اختیار امام ہی کے پاس رہتا ہے۔
ہر سیاسی وقانونی تصور کی طرح اس سیاسی تصور کے بھی مختلف اور متنوع مضمرات تھے اور ناگزیر طور پر ان کے اثرات ونتائج اسلامی تاریخ اور قانونی روایت پر بھی مرتب ہوئے۔ان میں سے ایک اہم نتیجہ یہ تھا کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت اور ان کے فیصلے عمومی عدالتی سسٹم کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں تھے اور حکومت یا حاکم کے خلاف کیے جانے والے کسی بھی اقدام کا فیصلہ براہ راست خود امام ہی کیا کرتا تھا اور اس کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گویا عدلیہ، سیاسی مقدمات میں نہ صرف یہ کہ انتظامیہ کے تابع تھی، بلکہ سرے سے بے اختیار تھی، کیونکہ یہ مقدمات امام کی طرف سے اس کے دائرہ اختیار میں رکھے ہی نہیں گئے تھے۔ اسلامی تاریخ کے اہم ترین اور الم ناک ترین حادثات میں ہم اس قانونی تصور کے براہ راست اثرات دیکھ سکتے ہیں۔ سیدنا عثمان کو شہید کیا گیا تو قصاص کا مطالبہ کرنے والے خلیفہ وقت کو اس واقعے یا اس کی ذمہ داری سے بالکل لاتعلق تسلیم کرتے ہوئے بھی ان کی طرف سے باغیوں کے خلاف کسی موثر قانونی اقدام کے امکان پر مطمئن نہ ہو سکے، اور چونکہ معاملہ براہ راست خلیفہ کے دائرہ اختیار میں آتا تھا، جبکہ عدلیہ بطور ایک مستقل ادارے کے کوئی وجود نہیں رکھتی تھی جو اپنی آزاد حیثیت میں سیاسی مقدمات کی سماعت کا اختیار رکھتی ہو، اس لیے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں کو نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنے مطالبے کی تکمیل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے نہتے خانوادے کو کربلا میں شہید کر دیا گیا، لیکن چونکہ معاملہ سرے سے عدالتی نظام کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں تھا، اس لیے نہ اس کی تحقیق کے لیے کوئی عدالتی کمیشن قائم ہو سکتا تھا اور نہ امام کے خلاف طاقت کے ناجائز استعمال کا مقدمہ دائر کیا جا سکتا تھا۔ حجاج بن یوسف نے حکومت مخالف رجحانات کو ختم کرنے کے لیے لوگوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے اور اکابر صحابہ وتابعین کی ایک بڑی جماعت بھی اس کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوئی، حتی کہ بیت اللہ کی حرمت تک پامال کی گئی، لیکن اس کے خلاف بھی کوئی مقدمہ نہ چلایا جا سکا۔
ظاہر ہے کہ اس پوری صورت حال میں مسلم معاشرہ بھی موجود تھا اور اس کے اندر عدل وانصاف کی قدریں اور اخلاقی جرات کے اوصاف بھی زندہ تھے اور عین اسی وقت میں اپنے دائرہ اختیار میں جلیل القدر مسلمان قاضی کسی خوف کے بغیر خود حکمرانوں کے خلاف بھی فیصلے کر رہے تھے۔ اصل مسئلہ جملہ ریاستی اختیارات کو امام کی شخصیت میں مرتکز ماننے کے قانونی تصور میں تھا جس کی رو سے تمام ریاستی ادارے (اگر انھیں جدید مفہوم میں ’’ادارے‘‘ کہا جا سکے) دراصل امام کی طرف سے تفویض کیے گئے اختیار کے دائرے میں ہی کوئی قدم اٹھانے کے مجاز تھے۔ اس سے ہٹ کر ان کا کوئی اقدام کرنا صریحاً قانون کے خلاف ہوتا جس پر امام متعلقہ فرد کو معزول کرنے کا حق رکھتا تھا۔ہمارے طالب علمانہ نقطہ نظر کے مطابق دور اول میں خروج اور بغاوت کے مسلسل واقعات کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اقتدار کے پرامن انتقال نیز ریاستی جبر سے تحفظ جیسے اہم عملی سوالات کا کوئی حقیقی جواب اس وقت مسلم سیاسی فکر کے پاس، بلکہ اس وقت دنیا کے کسی بھی مسلمہ سیاسی فکر کے پاس موجود نہیں تھا۔ انسانی تمدن اور انسانی تاریخ اچھے اور برے تجربات کی روشنی میں اور خوب سے خوب تر کی تلاش کے جذبے سے ہی آگے بڑھتے ہیں۔ آج اگر دنیا کی کچھ دوسری قوموں نے اجتماعی نظام کو چلانے کے لیے مسلم سیاسی فکر سے ہٹ کر کچھ مفید تصورات یا تجربات پیش کیے ہیں تو انھیں اسلامی قانونی روایت کے لیے غیر مانوس ہونے کی بنیاد پر یکسر مسترد کر دینے کے بجائے ان کی عملی اور قانونی افادیت کے پہلو سے زیر غور لانا اور ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۵)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۱۰۴) من ذنوبکم کا ترجمہ
قرآن مجید میں تین مقامات پر من کے ساتھ یغفر لکم من ذنوبکم آیا ہے، اور تین ہی مقامات پر من کے بغیر یغفر لکم ذنوبکم آیا ہے۔ جہاں من نہیں ہے وہاں ترجمہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن جہاں من ہے وہاں ترجمہ میں اختلاف ہوگیا ہے، بعض لوگوں نے من کو زائد مان کرآیت کا ترجمہ کیا ہے، اور بعض لوگوں نے تبعیض کا مان کر ترجمہ کیا ہے، دلچسپ معاملہ ان لوگوں کا ہے جو کہیں زائد والا ترجمہ کرتے ہیں اور کہیں تبعیض والا ترجمہ کرتے ہیں۔ ذیل میں تینوں آیتوں کے کچھ ترجمے پیش کیے جارہے ہیں جن سے صورت حال واضح ہوجاتی ہے۔
(۱) قَالَتْ رُسُلُہُمْ أَفِیْ اللّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ یَدْعُوکُمْ لِیَغْفِرَ لَکُم مِّن ذُنُوبِکُمْ۔ (ابراہیم:۱۰)
’’کہا پیغمبروں ان کے نے کیا بیچ اللہ کے شک ہے بنانے والا آسمانوں اور زمین کا پکارتا ہے تم کو تو کہ بخشے واسطے تمہارے بعضے گناہ تمہارے سے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’بولے ان کے رسول کیا اللہ میں شبہہ ہے جس نے بنائے آسمان اور زمین تم کو بلاتا ہے کہ بخشے تم کو کچھ گناہ تمہارے‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ میں شک ہے آسمان اور زمین کا بنانے والا تمہیں بلاتا ہے کہ تمہارے کچھ گناہ بخشے‘‘ (احمد رضا خان)
’’ان کے پیغمبروں نے کہا کہ تم کو اللہ تعالی کے بارہ میں شک ہے جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے وہ تم کو بلارہا ہے تاکہ تمہارے گناہ معاف کردے‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’تا بیا مرزد شمارا از گناہان شما‘‘ (شیخ سعدی)
’’تا بیا مرزد برائے شما گناہان شما‘‘ (شاہ ولی اللہ)
(۲) یَا قَوْمَنَا أَجِیْبُوا دَاعِیَ اللَّہِ وَآمِنُوا بِہِ یَغْفِرْ لَکُم مِّن ذُنُوبِکُمْ وَیُجِرْکُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ۔ (الاحقاف:۳۱)
’’اے قوم ہماری قبول کرو واسطے بلانے والے کے اللہ کی طرف سے اور ایمان لاؤ ساتھ اس کے بخشے گا واسطے تمہارے گناہ تمہارے‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اے قوم ہماری مانو اللہ کے بلانے والے کو اور اس پر یقین لاؤ کہ بخشے تم کو کچھ تمہارے گناہ‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’اے ہماری قوم اللہ کے منادی کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ کہ وہ تمہارے کچھ گناہ بخش دے‘‘ (احمد رضا خان)
’’اے بھائیو اللہ کی طرف بلانے والوں کا کہنا مانو اور اس پر ایمان لے آؤ اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’تا بیا مرزد خدا برائے شما بعض گناہان شمارا‘‘ (شاہ ولی اللہ)
’’تا بیا مرزد خدا برائے شما از گناہان شما‘‘(شیخ سعدی)
(۳) یَغْفِرْ لَکُم مِّن ذُنُوبِکُمْ۔ (نوح:۴)
’’بخشے گا واسطے تمہارے گناہ تمہارے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’کہ بخشے وہ تم کو کچھ گناہ تمہارے‘‘ (شاہ عبد القادر)
’’وہ تمہارے کچھ گناہ بخش دے گا‘‘ (احمد رضا خان)
’’تو وہ تمہارے گناہ معاف کردے گا‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’تا بیا مرزد برائے شما گناہان شمارا‘‘ (شاہ ولی اللہ )
’’تا بیا مرزد شمارا از گناہان شما‘‘ (شیخ سعدی)
مذکورہ بالا ترجموں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بعض لوگوں نے ’’کچھ گناہ‘‘ اور بعض لوگوں نے ’’گناہ‘‘ ترجمہ کیا ہے، اور بعض نے کہیں یہ ترجمہ کیا ہے اور کہیں وہ۔فارسی ترجموں میں شیخ سعدی ’’از گناہان‘‘ کرتے ہیں، جبکہ شاہ ولی اللہ دو مقامات پر صرف ’’گناہان‘‘ اور ایک مقام پر ’’بعض گناہان‘‘ کرتے ہیں۔
یہاں ایک نکتہ اور قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ تینوں آیتوں کے ترجمہ میں شاہ ولی اللہ نے یَغْفِرْ لَکُم میں لکم کا ترجمہ ’’برائے شما‘‘ اور شاہ رفیع الدین نے ’’واسطے تمہارے‘‘کیا ہے، یہ بھی درست نہیں ہے، کیونکہ مغفرت کے ساتھ گناہ یا خطا جس کی مغفرت کی جائے بطور مفعول بہ آتا ہے اور جس شخص کی مغفرت کی جائے اس کے لئے لام بطور صلہ آتا ہے، اس کا ترجمہ واسطے یا لئے کرنا درست نہیں ہے۔اس لئے ’’واسطے تمہارے ‘‘کے بجائے صرف ’’تمہارے‘‘ ترجمہ ہوگا، جیسا کہ دوسرے لوگوں نے کیا ہے۔
اس مقام پر صاحب تفہیم اور صاحب تدبرکا موقف قدرے تفصیل کا تقاضا کرتا ہے۔ صاحب تفہیم نے سورہ نوح والی آیت کے ترجمے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا: ’’یہاں من تبعیض کے لیے نہیں بلکہ عن کے معنی میں ہے‘‘
اس پر صاحب تدبر نے اسی آیت کے ترجمہ کی توضیح میں لکھا: ’’اسی طرح اس کو عن کے معنی میں لینا بھی ایک بالکل بے سند بات ہے۔ اول تو اس کے عن کے معنی میں آنے کی کوئی قابل اعتماد مثال موجود نہیں ہے، ہو بھی تو غفر کا صلہ عن کے ساتھ نہیں آتا۔ آپ دعا میں کہتے ہیں: ربنا اغفر لنا ذنوبنا یوں نہیں کہتے کہ اغفر لنا عن ذنوبنا۔ اگر یوں کہیں گے تو اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ تاویل کرنی پڑے گی کہ یہاں غفر لفظ بمعنی صفح یا اس کے ہم معنی کسی ایسے لفظ پر متضمن ہے جس کا صلہ عن کے ساتھ آیا ہے۔ اس کے بغیر غفر کے ساتھ عن کا استعمال عربیت کے خلاف ہوگا۔‘‘
صاحب تدبر کی یہ بات تحقیق طلب ہے کہ ’’من کو عن کے معنی میں لینا ایک بالکل بے سند بات ہے۔ اول تو اس کے عن کے معنی میں آنے کی کوئی قابل اعتماد مثال موجود نہیں ہے۔‘‘ نحو کے مشہورمحقق علامہ ابن ہشام نے ذکر کیا ہے کہ من عن کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، انہوں نے اس کی قرآن مجید سے دو مثالیں بھی دی ہیں، ابن ہشام کی عبارت ملاحظہ ہو: مرادفۃعَن نَحو(فویل للقاسیۃقلوبھم من ذکراللہ) (یاویلنا قدکنَّا فِی غَفلَۃ من ھَذَا) (مغنی اللبیب،ص: ۴۲۳) ۔
جبکہ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ ان دونوں مثالوں میں جنہیں ابن ہشام نے ذکر کیا ہے، من کو عن کے معنی میں ماننا درست نہیں ہے، دونوں جگہ من من کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ان کے نزدیک پہلی مثال کا مفہوم ہے، وہ سخت دل جو ذکر اللہ سے خالی ہیں، اگر عن ہوتا تو مفہوم یہ ہوتا کہ وہ دل جن پر اللہ کا ذکر اثر نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح دوسری مثال کا مفہوم ہے کہ جانتے بوجھتے اس کی طرف سے غافل تھے، اگر عن ہوتا تو مفہوم ہوتا کہ اس سے بے خبر تھے، جیسا کہ بغیر صلہ کے آتا ہے، فرمایا (و ان کنت من قبلہ لمن الغافلین) غرض دونوں مثالوں میں من من کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔
البتہ صاحب تدبر کی یہ بات کہ ’’غفر کا صلہ عن کے ساتھ نہیں آتا‘‘ بالکل درست ہے اور صاحب تفہیم کا اس مقام پر من کو عن کے معنی میں ماننا واضح طور سے غلط ہے، لگتا ہے کہ صفح اور عفا وغیرہ جیسے غفر کے ہم معنی الفاظ سے اشتباہ کے نتیجہ میں ان سے یہ چوک ہوگئی، راقم کی معلومات کی حد تک یہ رائے کسی مفسر یا ماہر لغت نے ذکر نہیں کی ہے۔
صاحب تدبر نے ان لوگوں پر بھی سخت تنقید کی ہے جو من کو یہاں زائد قرار دیتے ہیں، وہ سورہ نوح کے زیربحث ترجمہ کی توضیح میں لکھتے ہیں:
’’حرف من کو بعض لوگوں نے زائد قرار دیا ہے اور بعض لوگوں نے اس کو عن کے معنی میں لیا ہے لیکن یہ دونوں رائیں عربیت کے خلاف ہیں۔ قرآن میں کوئی حرف بھی زائد نہیں ہے۔ اگر کہیں کوئی حرف بظاہر زائد نظر آتا ہے تو وہ بھی زبان کے معروف ضابطہ کے تحت کسی خلا کو بھرنے کے لیے آیا ہے۔ اس طرح کے حروف مخصوص ہیں۔ ہر حرف کو بغیر کسی سند کے زائد نہیں قرار نہیں دیا جاسکتا، من کے زائد آنے کی کوئی مثال قرآن یا مستند کلام میں موجود نہیں ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’میرے نزدیک یہاں من اپنے معروف معنی یعنی تبعیض ہی کے لیے آیا ہے۔ پوری بات گویا یوں ہے کہ یغفر لکم ما تقدم من ذنوبکم (اگر تم میری باتیں مان لوگے تو اللہ تعالی تمہارے وہ سارے گناہ معاف فرمادے گا جو اب تک تم سے صادر ہوئے ہیں) یہاں وضاحت قرینہ کی بنا پر ما تقدم کے الفاظ حذف ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔اس آیت میں حرف من اسی حقیقت کے اظہار کے لیے آیا ہے کہ اگر تم اس دعوت کو قبول کرکے ایمان میں داخل ہوجاؤ گے تو دور جاہلیت کے تمہارے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ اگر یہ من یہاں نہ ہوتا تو آیت کے یہ معنی نکل سکتے تھے کہ تمہارے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ درآنحالیکہ یہ بات صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ کفر کے بعد ایمان صرف پچھلے گناہوں ہی کا ہادم بنتا ہے۔ آگے کے گناہوں کا ہادم نہیں بنتا۔‘‘
صاحب تدبر کی یہ بات کہ ’’من کے زائد آنے کی کوئی مثال قرآن یا مستند کلام میں موجود نہیں ہے‘‘ خلاف واقعہ بھی ہے اور تمام اہل لغت کے موقف کے بھی خلاف ہے، مذکورہ ذیل قرآنی مثالوں میں من کے زائد ہونے پر تو تمام نحویوں کا اتفاق ہے:
(ما جاء نا من نذیر) (وَمَا تسْقط من ورقۃ اِلَّا یعلمہا) (مَا تری فِی خلق الرَّحْمٰن من تفَاوت) (فَارْجِع الْبَصَر ھَل تری من فطور)
البتہ نحویوں کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ من بلا شرط زائد ہوسکتا ہے یا اس کے لیے کچھ شرطیں بھی ہیں، زیر بحث جملہ یعنی (یغفر لکم من ذنوبکم) میں من ابوعبیدہ اور اخفش کے نزدیک زائد ہوسکتا ہے۔
صاحب تدبر کا یہ خیال ہے کہ ’’اگر یہ من یہاں نہ ہوتا تو آیت کے یہ معنی نکل سکتے تھے کہ تمہارے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے‘‘ اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو ان آیتوں کے بارے میں کیا کہا جائے گا جہاں یہی جملہ من کے بغیر آیا ہے۔ جیسے:
قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ۔ (آل عمران: ۳۱)
کیا اس آیت میں اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردینے کی بات کہی گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صاحب تدبر یوں تواس جملے میں من کو تبعیض کا مانتے ہیں، لیکن ترجمہ عام طور سے زائد کا کرتے ہیں، سورہ ابراہیم والی آیت میں ترجمہ کرتے ہیں: ’’تاکہ تمہارے گناہوں کو بخشے‘‘۔سورہ احقاف والی آیت میں ترجمہ کرتے ہیں: ’’اللہ تمہارے گناہوں کو بخشے گا‘‘ البتہ سورہ نوح والی آیت میں ترجمہ کرتے ہیں: ’’اللہ تمہارے (پچھلے) گناہ معاف کردے گا‘‘ وہ اس وجہ سے کہ وہ یہاں ما تقدم کو محذوف مانتے ہیں، حالانکہ صرف من کو بنیاد بنا کر اس طرح سے محذوف ماننا خود دلیل کا محتاج ہے۔
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ صاحب تدبر سورہ نوح والی آیت میں تو من سے پہلے ما تقدم محذوف مان کر من ذنوبکم سے پچھلے گناہ مراد لیتے ہیں۔ لیکن سورہ احقاف والی آیت میں ان کی رائے بالکل مختلف ہے، لکھتے ہیں: ’’من تبعیض کے لیے ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ بعض گناہ ایسے بھی ہیں جن کی معافی کا معاملہ اس ایمان کے بعد بھی محول رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ وہ سنگین قسم کے گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔‘‘
درست بات یہ ہے کہ مذکورہ تینوں آیتوں میں من تاکید کے لئے ہے، اور ان میں تمام گناہ معاف کئے جانے کا وعدہ ہے، ان تینوں آیتوں کاخطاب غیر مسلموں سے ہے، اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت یہ کہنا کسی طور مناسب نہیں لگتا ہے کہ اگر تم ایمان لے آئے تو تمہارے کچھ گناہ معاف کیے جائیں گے اور کچھ گناہ معاف نہیں کیے جائیں گے۔ کسی نبی کی دعوت میں ہمیں اس طرح کی بات نہیں ملتی ہے۔ نہ ہی یہ دعوتی حکمت کے مطابق ہے، اور نہ ہی یہ قرآن مجید کی دوسری تصریحات کے موافق ہے۔ موقع ومحل کا تقاضا صاف طور سے یہی ہے کہ من کو تبعیض کے بجائے تاکید کے لیے مانا جائے۔ قرآن میں اسی مفہوم کو یوں بھی ادا کیا گیا ہے: قُل لِلَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِن یَنتَہُواْ یُغَفَرْ لَہُم مَّا قَدْ سَلَفَ (الانفال: ۳۸) یعنی جتنے گناہ اب تک ہوچکے ہیں سب معاف کردیئے جائیں گے۔ یہاں بھی ما قد سلف سے تحدید نہیں ہورہی ہے بلکہ عموم کی تاکید ہورہی ہے، کیونکہ معافی چاہنے والے کا مدعا یہی ہوتا ہے کہ جتنے گناہ ہوچکے ہیں وہ سب معاف کردیئے جائیں۔
ان تینوں مقامات پر من کو زائد ماننے والوں پر امام رازی نے سخت تنقید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کلام الٰہی کے کسی لفظ کو زائد ماننا درست نہیں ہے۔
أما قولہ: اِنَّھَا صِلَۃ فَمَعْنَاہُ الحکم عَلی کلِمَۃٍ مِن کلَامِ اللَّہِ تَعَالَی بِأَنَّھَا حَشْوٌ ضَائِعٌ فَاسِدٌ، وَالْعَاقِل لَایُجَوِّزُ الْمَصِیرَ اِلَیہِ مِنْ غَیرِضَرْورَۃٍ۔ (التفسیرالکبیر،۱۹؍۷۲)
اس لئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب من کو زائد کہا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ فضول اور بے مصرف ہے، بلکہ اس سے ایک فائدہ حاصل ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ اس لفظ کے عموم کی تاکید ہوتی ہے جس پر من داخل ہوتا ہے، یعنی ذنوبکم کا مطلب ہوگا تمہارے گناہ اور من ذنوبکم کا مطلب ہوگا تمہارے تمام گناہ۔ چنانچہ علامہ ابن ہشام نے من کے اس مفہوم کے بارے میں یوں لکھا ہے: توکید العُمُوم وَھِی الزَّائِدَۃ۔ اس لیے امام رازی کا یہ کہنا کہ من کو یہاں زائد ماننا کلام الٰہی کی شان کے منافی ہے درست نہیں ہے۔سورہ ابراہیم والی آیت کا ذیل کا ترجمہ تاکیدکے اس مفہوم کو بخوبی ادا کررہا ہے: ’’وہ تو تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرمادے‘‘ (محمد جوناگڑھی) مولانا امانت اللہ اصلاحی وضاحت کرتے ہیں کہ من یہاں پر نہ زائد ہے اور نہ تبعیض کے لئے ہے، بلکہ فصل اور تاکید کے لئے ہے ، یعنی پہلے مغفرت کا اعلان کردیا پھر بیان کیا کہ نہ صرف خطائیں بلکہ سارے گناہ معاف کردے گا۔
یہ بات اوپر ذکر کی جاچکی ہے کہ قرآن مجید میں یغفر لکم من ذنوبکم تین بار آیا ہے اور یغفر لکم ذنوبکم بھی تین بار آیا ہے، اس پر مزید امام زمخشری نے یہ نکتہ بھی دریافت کیا کہ جہاں من کے ساتھ آیا ہے وہاں مخاطب غیر مسلمین ہیں، اور جہاں من کے بغیر آیا ہے، وہاں مخاطب اہل ایمان ہیں۔
چونکہ امام زمخشری من کو تبعیض کا مانتے ہیں، اس لیے وہ اس فرق کی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کرسکے، اور محض اتنا کہا کہ ایسا اس لیے کیا ہے کہ قیامت کے دن دونوں فریقوں میں فرق وامتیاز رہے۔ وَکَأَنَّ ذَلِکَ لِلتَّفْرِقَۃِ بَین الْخِطَابَینِ، وَلِئَلَّا یُسَوَّی بَینَ الْفَرِیقَینِ فِی الْمَعَادِان کی اس رائے پر امام رازی نے سخت تنقید کی۔ اور کہا فھُوَ مِنْ بَابِ الطَّامَّاتِ۔ تاہم خود امام رازی اور دیگر مفسرین نے من کو تبعیض کا مان کر جو توجیہیں کی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس رائے کے نتیجے میں مفسرین کو کتنی زیادہ الجھنوں کا شکار ہونا پڑا۔
لیکن اگر من کو برائے تاکید مانیں تو اس فرق کی واضح توجیہ سامنے آجاتی ہے، اہل کفر کے گناہ بہت زیادہ اور بہت بڑے ہوتے ہیں، اور وہ وحی کے اور وحی کے ہر وعدے کے منکر بھی ہوتے ہیں، اس لیے ان کو یہ یقین دلانا کہ ایمان لانے کی صورت میں ان کے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے توکید کے اسلوب کا تقاضا کرتا ہے۔ جبکہ اہل ایمان کے گناہ کفر وشرک سے آلودہ زندگی کے مقابلے میں بہت معمولی درجے کے ہوتے ہیں، اور صاحب ایمان ہونے کی وجہ سے وہ اللہ کے ہر وعدے پر فوراً یقین کرنے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں، اس لیے توکید کے اسلوب کے بغیر بھی ان کے یقین کے لیے ہر وعدہ کافی ہوتا ہے۔ غرض گناہ تو ہر توبہ کرنے والے کے معاف ہوجائیں گے تاہم کافروں سے جو معافی کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں تاکید اور زور زیادہ ہے۔
من ذنوبکم کے اسلوب اور اس کے اندر موجود تاکید کو سمجھنے کے لیے ذیل کی آیت قول فیصل اور بہترین رہنما ہے:
قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ۔ (الزمر:۵۳)
(جاری)
طیب اردگان اور عالمی معاہدات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اس وقت دنیا میں حکومتوں کی بجائے معاہدات کی حکومت ہے۔ چند طاقتور ملکوں کے علاوہ باقی ممالک و اقوام ان معاہدات کی پابندی کرنے پر اس حد تک مجبور ہیں کہ بسا اوقات ان معاہدات اور عالمی دباؤ کے سامنے بے بسی کی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں اور ان کی خودمختاری اور سا لمیت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اقوام متحدہ ان معاہدات کی سرپرستی کرتی ہے اور سلامتی کونسل ان پر عملدرآمد کا اہتمام کرتی ہے جس کا منظر ہم وقتاً فوقتاً مجبور اقوام کی کس مپرسی کی صورت میں دیکھتے رہتے ہیں جیسا کہ گزشتہ ربع صدی کے دوران عراق و افغانستان کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ عالم اسلام ان معاہدات کے جبر کا سب سے زیادہ نشانہ ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنی مذہبی و تہذیبی اقدار سے دستبردار ہونے اور مغرب کی لادین ثقافت و فلسفہ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور اپنے عقیدہ و ثقافت کے ساتھ مسلمانوں کی یہ بے لچک وابستگی دنیا پر مغرب کی تہذیبی بالادستی کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ مگر ان معاہدات کے بارے میں عالم اسلام کے حکمران طبقات کی برخورداری کا عالم یہ ہے کہ اس کھلے جبر پر کوئی زبانی احتجاج کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کر رہا۔
کم و بیش نصف صدی قبل انڈونیشیا کے صدر عبد الرحیم احمد سوئیکارنو نے بغاوت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی تھی مگر کسی طرف سے بھی حمایت نہ پا کر ’’پہلی تنخواہ پر گزارہ‘‘ کرنے میں ہی عافیت محسوس کی تھی۔ اس کے بعد ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد مغرب کے اس معاہداتی جبر اور اقوام متحدہ کے غیر منصفانہ نظام کے خلاف اپنے دور حکومت میں آواز بلند کرتے رہے مگر کوئی شنوائی نہ دیکھ کر خاموش ہوگئے۔ اب ترکی کے صدر محترم رجب طیب اردگان اس میدان میں آئے ہیں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس کھلی دھاندلی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ چنانچہ سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی 4 اکتوبر 2016ء کی رپورٹ کے مطابق :
’’ترکی کے صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے ذریعہ دنیا کو جھنجھوڑنے کی بہت کوشش کی یہاں تک کہہ دیا کہ دنیا پر سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران کی اجارہ داری ہے اور پوری دنیا کی قسمت کا فیصلہ ان کی مٹھی میں ہے۔ ان کے اختیارات نہایت ہی غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر جمہوری ہیں۔ ان کی بدولت انہوں نے پوری دنیا کو غلام بنا رکھا ہے اور اپنے اشاروں پر نچا رہے ہیں۔ یہ پانچ ممالک کبھی بھی کسی دوسرے ملک کو اپنے مفادات کے خلاف قدم اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے اور ان تمام قراردادوں کو ویٹو کر دیتے ہیں جو ان کے یا ان کے حامی ملکوں کے خلاف ہوتی ہیں۔ ان پانچ ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں نے اقوام متحدہ پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے مسلم ملکوں کے مسائل حل کرنے کی ذرہ برابر بھی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی بلکہ حل کرنے کی بجائے اور الجھا دیا جاتا ہے جبکہ عیسائیت کے معاملہ میں ان کا رویہ دوسرا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد 24 اکتوبر 1945ء کو جن حالات میں اقوام متحدہ کو تشکیل دیا گیا تھا بعد میں اس کے ذیلی ادارے اور ممبران بھی وقت کے لحاظ سے بڑھائے جاتے رہے ، وہ حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ اب دنیا کے تقاضے دوسرے ہیں اس لیے اقوام متحدہ کو بھی دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھالنا چاہیے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس کے ذریعے دنیا میں امن کے قیام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔‘‘
جناب طیب اردگان کا اقوام متحدہ کے نظم کے بارے میں یہ تبصرہ بالکل حقیقت پسندانہ ہے اور کم و بیش یہی باتیں مہاتیر محمد کرتے رہے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر مسلمان حکمرانوں کو اس جائز اور مصنفانہ موقف کی تائید کی ابھی تک توفیق نہیں ہوئی اور یہی اس وقت اس حوالہ سے عالم اسلام کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
سہ روزہ دعوت دہلی کے اسی شمارے میں ’’معاہدہ لوزان‘‘ کے بارے میں بھی صدر اردگان کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ لوزان کا یہ معاہدہ دوسری جنگ عظیم کی فاتح اقوام اور ترکی کے درمیان 24 جولائی 1923ء کو ہوا تھا جس کے تحت ترکی کو خلافت اسلامیہ دستبردار ہونے، ملک میں رائج شرعی قوانین منسوخ کرنے، اور ترکی کو ایک سیکولر ریاست کی شکل دینے کا پابند کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ
’’پیمان لوزان (لوزان معاہدہ) جس پر 24 جولائی 1923ء کو دستخط ہوئے تھے ترکوں پر تھوپا ہوا معاہدہ ہے۔ بعض لوگ اسے اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے یہ ترکی پر ان کی فتح تھی۔ انہوں نے ترکی کی مرضی کے خلاف اس پر یہ معاہدہ مسلط کر دیا اور اپنے تئیں یہ باور بھی کر لیا کہ ترکوں نے اسے تسلیم کر لیا ہے۔ نیز اس بنیاد پر انہوں نے دنیا والوں کو بھی یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ انہیں بھی اسے ایک جائز معاہدہ تسلیم کر لینا چاہیے۔ ترک صدر کا کہنا ہے کہ اس معاہدہ کے نتیجے میں ترکی کا ایک نیا نقشہ تیار کیا گیا، اس کے حدود اربعہ طے کیے گئے اور یہ سب کام دوسروں نے ترک عوام کی مرضی جانے بغیر اور ان سے صلاح مشورہ کیے بغیر ہی کر لیا۔‘‘
اقوام متحدہ کے نظام اور لوزان معاہدہ کے بارے میں ترکی کے صدر حافظ رجب طیب اردگان کے ارشادات آپ نے ملاحظہ فرمالیے۔ قارئین جانتے ہیں کہ ہم اس پر کم و بیش تین عشروں سے مسلسل چیخ و پکار کرتے آرہے ہیں اور بیسیوں کالموں میں اس نا انصافی اور عالمی جبر کی طرف عالم اسلام کے ارباب دانش کو توجہ دلانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ ارباب اقتدار اور حکمران طبقات تو عالم اسلام میں کسی جگہ اب بھی یہ بات نہیں سنیں گے اور نہ اس طرف توجہ دیں گے لیکن کیا ارباب علم و دانش نے بھی آنکھیں اور کان بند رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟
ہماری درخواست عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے علمی اور دینی مراکز سے ہے کہ ان عالمی معاہدات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے جو مسلم دنیا کو سیاسی، معاشی اور تہذیبی ہر حوالہ سے جکڑے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کی تہذیبی شناخت اور ثقافت کو بھی مجروح کر رہے ہیں۔ ہم انہیں اگر فوری طور پر تبدیل نہیں کر سکتے تو کم از کم نشاندہی تو کر سکتے ہیں اور دنیا کے انصاف پسند لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ تو سکتے ہیں، کیا یہ ’’اضعف الایمان‘‘ درجے کا کام بھی ہماری دسترس میں نہیں رہا؟ فیا اسفاہ۔
مولانا سندھیؒ کی فکر اور اس سے استفادہ کی ضرورت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور میں ’’مجلس یادگار شیخ الاسلاؒ م پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے حوالہ سے منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں جو گزارشات پیش کیں، انہیں تھوڑے سے اضافہ کے ساتھ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے بارے میں گفتگو کے مختلف پہلو ہیں جن میں سے ہر ایک مستقل گفتگو کا متقاضی ہے۔ مثلاً ان کا قبول اسلام کیسے ہوا؟ ضلع سیالکوٹ کے گاؤں چیانوالی کے سکھ گھرانے کے ایک نوجوان نے اسلام قبول کیا تو اس کے اسباب کیا تھے اور وہ کن حالات و مراحل سے گزر کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب کرنے میں اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ بوٹا سنگھ نامی نوجوان جب مسلمان ہوا تو سیالکوٹ سے جام پور اور وہاں سے بھرچونڈی شریف سندھ تک کے سفر کی داستان بھی توجہ کی مستحق ہے۔ بھرچونڈی شریف سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ کی ایک اہم خانقاہ ہے، عارف باللہ حضرت حافظ محمد صدیقؒ اس وقت اس سلسلہ کے سب سے بڑے پیشوا تھے، ان کی خدمت میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی حاضری اور حضرت حافظ صاحبؒ سے استفادہ اور کسبِ فیض ایک مستقل موضوع بحث ہے۔ سیالکوٹ کے ایک نومسلم نوجوان کو وہاں ایسی محبت و شفقت ملی کہ وہ اپنے علاقائی نسبت ہی بھول گیا اور ہمیشہ کے لیے سندھی کا تعارف اختیار کر لیا۔
ابھی ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر امجد علی شاکر اپنے خطاب میں بتا رہے تھے کہ مولانا سندھیؒ پہلے صوفی بنے اور پھر عالم دین بنے۔ وہ اسی بات کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ یہ مسلم نوجوان پہلے بھرچونڈی شریف کی خانقاہ پہنچا اور پھر وہاں سے دیوبند کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے بعد دیوبند میں مولانا سندھی کے تعلیم حاصل کرنے اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ کے ساتھ تعلق، استفادہ اور رفاقت کا دور ہے کہ انہوں نے اپنے وقت کے سب سے بڑے محدث، فقیہ، صوفی اور تحریک آزادی کے عظیم قائد کے معتمد ترین شاگرد اور ساتھی کا مقام کیسے حاصل کر لیا؟
پھر آزادئ وطن کی جدوجہد میں ان کے کردار اور محنت و قربانی کا دور آتا ہے کہ اس عظیم مشن کے لیے صرف اپنے ملک میں محنت نہیں کی بلکہ دنیا بھر میں دربدر کی خاک چھانی اور ایک قومی جدوجہد کو بین الاقوامی تحریک میں تبدیل کر دیا۔ مختلف ملکوں کا یہ سفر ہوائی جہاز اور لگژری کاروں کا نہیں بلکہ پیدل یا زیادہ سے زیادہ عام سطح کی پبلک ٹرانسپورٹ کا تھا۔ اس سفر کی ایک جھلک اس واقعہ میں دیکھی جا سکتی ہے جو میں نے اپنے شیخ محترم حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ سے سنا ہے کہ مولانا سندھیؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کے حکم پر کابل کا سفر کرنا تھا، وہ سی آئی ڈی کے تعاقب سے بچنے کے لیے ادھر ادھر گھومتے ہوئے دین پور شریف پہنچے تو وہاں بھی اردگرد مخصوص لوگوں کو نگرانی کرتے ہوئے پایا۔ چند دن وہاں رہے مگر ان کی نگاہوں سے بچ کر نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہ دی۔ ایک دن تیز جلاب کی کوئی دوائی کھالی جس سے سخت اسہال شروع ہوگئے، نگرانوں نے یہ دیکھ کر کہ اب تو یہ دو تین دن تک کسی طرف جانے کے قابل نہیں رہے، نگرانی میں تھوڑی غفلت دکھائی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر مولانا سندھیؒ اسی حالت میں وہاں سے نکلے اور چھپتے چھپاتے قندھار کی طرف روانہ ہوگئے اور اپنی منزل تک پہنچ جانے تک کسی کو محسوس نہ ہونے دیا کہ وہ کون ہیں، کہاں سے آرہے ہیں اور کدھر جا رہے ہیں؟
یہ بات بھی تحقیق و مطالعہ کا اہم موضوع ہے کہ اپنی وطنی تحریک کو بین الاقوامی رخ دینے کے لیے اس مرد قلندر نے کیا کیا پاپڑ بیلے۔ اس وقت سلطنت برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت شمار ہوتی تھی اور اس کے حریفوں میں جرمنی، خلافت عثمانیہ اور جاپان نمایاں تھے۔ ان تینوں بڑی قوتوں کو ایک منصوبے پر متفق کر کے آزادئ وطن کی قومی تحریک میں تعاون پر آمادہ کرلینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اس کے لیے سبھاش چندر بوس، مہندر پرتاب، برکت اللہ بھوپالیؒ ، عبید اللہ سندھیؒ اور محمد میاں انصاریؒ جیسے اصحابِ عزیمت کا حوصلہ کام آیا۔ اس حوصلہ اور اس کے مظاہر سے آج کی دنیا بالخصوص نئی نسل کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا سندھیؒ کی زندگی کا ایک پہلو ایک مفکر اور اجتہادی صلاحیتوں سے بہرہ ور بلند پایہ عالم دین کا بھی ہے، انہوں نے قرآن و سنت کی صرف تعبیر و تشریح نہیں کی بلکہ اپنے دور کی سماجی ضروریات اور معاشی تقاضوں کے ساتھ ان کی تطبیق و توفیق کی راہیں بھی نکالی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ان کی ساری تعبیرات کو قبول کیا جائے لیکن ان کا یہ ذوق و جذبہ آج بھی ہم سب کے لیے لائق تقلید ہے کہ قرآن و سنت کے علوم صرف کتب اور درسگاہ کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان کا اصل مقام سماج اور معاشرہ ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے سماج اور سوسائٹی سے آگاہی بھی ضروری ہے اور ایک مفکر و مجتہد کا اصل کام یہ ہے کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات اور سماج کی ضروریات کے درمیان تطبیق و مفاہمت کی راہیں تلاش کرے اور انسانی سوسائٹی کے مسائل و مشکلات کا قرآن و سنت کی روشنی میں حل پیش کرے۔
میں نے مولانا سندھیؒ کی جدوجہد، خدمات اور حیات کے چند پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارے فاضل محققین کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ لیکن آج میں ایک اور پہلو کے حوالہ سے بات کرنا چاہوں گا کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں قرآن کریم کے اعجاز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آنے والے دور میں جو نظاموں اور معاشرتی قوانین کے تقابل کا دور ہوگا، اس پہلو کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ قرآن و سنت کا پیش کردہ نظام اور اس کے معاشرتی احکام و قوانین دنیا کے تمام نظاموں سے بہتر ہیں اور انسانی سوسائٹی کے مسائل و مشکلات کو زیادہ بہتر طور پر حل کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں مولانا سندھیؒ کی علمی و فکری جدوجہد کو دیکھا جائے تو انہوں نے اپنے دور کے عالمی نظاموں کے درمیان مقابلہ کو وسیع تناظر اور گہری نظر سے دیکھا ہے، انہوں نے ہماری طرح اخباری خبروں اور سنی سنائی باتوں پر اپنے فکر و فلسفہ کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ خود ان عالمی نظاموں کے مراکز میں جا کر ان کی اکھاڑ پچھاڑ کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا۔ انہوں نے مغرب کے سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کے مقابلہ میں کمیونزم کے ابھرتے ہوئے طوفان کو ماسکو میں بیٹھ کر دیکھا۔ خلافت عثمانیہ کے بکھرنے کے عمل کا استنبول میں رہ کر مشاہدہ کیا، اور عرب قومیت کے نام پر عالم اسلام کا شیرازہ بکھیرے جانے کے مراحل کو مکہ مکرمہ میں بیٹھ کر سمجھا۔ انہوں نے مغرب کے سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کے مقابلہ میں ابھرتے ہوئے سوشلزم کی ان حالات کے تناظر میں تحسین ضرور کی لیکن یہ بات بھی دوٹوک انداز میں واضح کی کہ انسانی سوسائٹی کے مسائل کا اصل حل صرف قرآن کریم میں ہے اور اس کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و فلسفہ کو راہ نما بنانے کی ضرورت ہے۔
مولانا سندھیؒ کو اس بات کا زندگی بھر قلق رہا کہ ہم مسلمانوں کے پاس اسلام کے عادلانہ سماجی نظام کا کوئی عملی نمونہ عصر حاضر میں موجود نہیں ہے اس لیے سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظاموں سے نجات حاصل کرنے کے لیے دنیا کو کمیونزم اور سوشلزم کی طرف رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔ اور وہ اس نمونہ کے قیام کے لیے ساری زندگی محنت کرتے رہے۔
البتہ ان کا دور نظاموں کے تقابل کا دور تھا اور انہوں نے اپنے دور کے نظاموں کے باہمی مقابلہ کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و فلسفہ کی طرف لوگوں کی راہنمائی کی۔ مولانا سندھیؒ کی بعض تعبیرات و تشریحات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اپنے دور کے مسائل اور تقاضوں کو براہ راست معروضی حالات کے تحت سمجھنا ضروری ہے اور انسانی سوسائٹی کی راہنمائی کے لیے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و فلسفہ سے راہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس پس منظر میں ایک طالب علمانہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پچھلی صدی نظاموں کے ٹکراؤ کی صدی تھی مگر آج کا دور تہذیبوں کے تصادم کا دور ہے۔ مغرب کی تہذیب و ثقافت پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام کو اپنے دائرے میں سمیٹ لینے کے چکر میں ہے۔ اس لیے آج کے علماء کرام اور دانش وروں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ تہذیبوں کے اس تصادم اور ثقافتوں کے اس ٹکراؤ کو سمجھنے کی کوشش کریں، آج کے عصر کا ادراک حاصل کریں، اور اس سولائزیشن وار میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں امت مسلمہ بلکہ نوع انسانی کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں جس کے لیے ولی اللہی فکر و فلسفہ کی روشنی آج بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ میرے نزدیک آج کی نسل کے لیے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا پیغام یہی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمت راہنمائی کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
الشیخ محمد امین: راہِ علم کا ایک مسافر
ڈاکٹر حافظ محمد رشید
عید الفطر کا دوسرا روز تھا ۔ استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم نے الشریعہ اکادمی میں یاد فرمایا۔ پہنچا تو استاد گرامی کے ساتھ ایک ملائیشی بزرگ تشریف رکھتے تھے ۔ استاد گرامی نے تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ یہ ملائیشیا سے سفر کر کے آئے ہیں اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کے علوم وافکار میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انگلش اور عربی جانتے ہیں۔ ان سے یہاں قیام کی ترتیب اور مقصد کے بارے میں تفصیلی معلومات لے لیں۔ میں نے ان سے آمد کا مقصد پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ التفہیمات الالہیۃ کا عربی حصہ میں نظر سے گزار چکا ہوں،مجھے ملائشیا میں فارسی جاننے والا اور خصوصاً تفہیمات کے فارسی حصہ کو سمجھنے والا کوئی نہیں ملا۔ اس لیے اس حصے کو سمجھنے کے لیے پاکستان آیا ہوں۔ استاد گرامی کو آگاہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کام تو مولانا عمار خان ناصر کے کرنے کا ہے ، لیکن وہ عین انھی دنوں میں امریکا کے لیے رخت سفر باندھ رہے تھے۔
مولانا عمار خان ناصر نے بھی مہمان کے ساتھ تفصیلی نشست کی۔ ہماری رائے یہ ہوئی کہ ان کی چند ایسے اصحاب علم سے ملاقات کروا دی جائے جو اس موضوع پر معلومات و مطالعہ کے حامل ہیں، لیکن مہمان نے کہا کہ میں محض تفہیمات کے فارسی حصہ کو سمجھنا چاہتا ہوں اور کسی سے ملاقات کا خواہش مند نہیں ہوں۔ چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق طے ہوا کہ استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی تفہیمات کا فارسی حصہ راقم کو سمجھائیں گے اور پھر میں مہمان کو اس کا ترجمہ لکھوا دیا کروں گا۔
یہ مہمان ملائیشیا کے نو مسلم بزرگ محمد امین چنگ بن عبد اللہ تھے جو عید الفطر کے دوسرے روز الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور 16 اکتوبر تک یہاں مقیم رہ کر استاد گرامی سے تفہیمات کا فارسی حصہ سمجھتے رہے۔ ان کا مختصر تعارف حسب ذیل ہے۔
ان کا پورا نام محمد امین چنگ ہے۔ 7ستمبر 1950ء کو جارج ٹاؤن ، پولاؤ، پنینگ (GeorgeTown, Pulau, Pinang) میں پیدا ہوئے جو کہ ملائشیا کا ایک جزیرہ ہے۔والد کانام چنگ تزی نن(Cheng Tze Nen) ہے۔ چین سے ہجرت کر کے ملائشیا آئے۔ ایک ٹیچر کی زندگی گزاری اور بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے۔ ملائیشیا میں اسلام قبول کرنے والوں کی شناخت کے لیے ان کی ولدیت میں مستقل طور پر ’’ عبد اللہ ‘‘ لکھا جاتا ہے ، اس لیے یہ اپنے نام کے ساتھ ’’محمد امین چنگ بن عبد اللہ ‘‘ لکھتے ہیں۔ والدہ کا نام کینٹو نیسا چیونگ لائی کوئن(Cantonese Cheong Lai Kuen) ہے، ان کا خاندان بھی چین سے ہجرت کر کے ملائیشیا آیا اور اب غالباً ان کی پانچویں پشت ملائشیا میں آباد ہے۔ ان کی فیملی میں ان کے علاوہ دو بہنیں اور ایک بھائی شامل ہے۔ بہن کانام چنگ شاؤن فنگ (Cheng Shwn Feng)ہے جن کی عمر ۸۰ سال ہے ۔ ابھی تک حیات ہیں اور ایک ریٹائرڈ ٹیچر کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ دوسری بہن کا نام چنگ سو فنگ ( Cheng Soo Feng)ہے جن کی عمر ۷۴ سال ہے۔ ابھی تک حیات ہیں اور بطور نرس ملازمت کرنے کے بعد اب ایک نرسنگ ہوم چلا رہی ہیں ۔ بھائی چنگ شانگ شو(Cheng Shang Show) ہیں ، عمر ۷۲ سال اور ہسپتال اسسٹنٹ کے عہدہ سے ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہے ہیں ۔آبائی زبان چائنیز ہے،قومی زبان ملائے ہے لیکن گھر میں عام طور پرگفتگو کے لیے انگریزی استعمال ہوتی ہے۔
انہوں نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم (سینئر کیمبرج تک) مقامی سکول میں حاصل کی، لیکن جس سکول میں پڑھتے تھے، وہاں ذریعہ تعلیم انگلش تھا اور ملائے زبان سیکنڈ لینگوئج کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اس کے بعدایک سال تک مابعد ثانوی تعلیم حاصل کی اور پھر امریکہ کے سفر پر روانہ ہوئے اور دو سال (1969-71) وہاں رہے۔ وہیں سے یورپ کا سفر کیا اور تقریباً پورے یورپ کی سیاحت کا لطف اٹھایا۔ ان کا آبائی مذہب بدھ مت تھا لیکن ان کے بقول ان دنوں وہ مختلف گروہوں کے ساتھ گھومتے رہے۔ ان میں عیسائی، بدھ اور ہندوؤں کے کچھ گروہ بھی شامل تھے، خصوصاً ایسے گروہ جو کسی قدر تصوف کی طرف رجحان رکھتے تھے اور جن کے اعمال کا بڑا حصہ مراقبہ ، دھیان گیان وغیرہ پر مشتمل تھا ۔ وہاں سے واپسی پر انہوں نے معاشی ذرائع اپنائے اور ابتدائی طور پر ایک اسکول بک ایڈیٹنگ کمپنی میں بطور ایڈیٹر نوکری کی۔ کمپنی کا نام ’’ پان پیسفک بک کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ، سنگاپور ‘‘ تھا ۔ ۷۰ کی دہائی میں یہ اسی کمپنی میں ملازمت کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک ٹی وی چینل ’’ TV3‘‘ کو بطور اسسٹنٹ پروڈیوسر کے جوائن کیااور اس کے اسٹیشن کولالمپور میں تعینات رہے ۔ ۸۰ کی دہائی میں انہوں نے اسی چینل میں کام کیا ۔ اس میں ان کا کام مختلف موضوعات پر دستاویزی فلمیں بنانے کا تھا۔
اسلام سے ان کی شناسائی محض اس قدر تھی کہ ملائیشیا کی اکثرآبادی کا مذہب اسلام تھا۔یہ شناسائی تفصیلی تعارف میں کیسے تبدیل ہوئی؟ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ملائیشیا میں مسلمانوں کی دو سیاسی جماعتیں تھیں جن میں سے ایک ڈیمو کریٹک نظریات کی نمائندہ تھی اور دوسری کنزرویٹو نظریات کی۔ 1985ء میں ملائیشیا میں ایک ’’ امام ‘‘ تحریک شروع ہوئی جس کا پس منظر یہ تھا کہ مساجد میں دو عہدے ہوتے تھے، امام اور نائب امام ۔ دونوں جماعتوں میں اس بات کی کشمکش شروع ہوئی کہ مساجد میں موجود ان دو عہدوں (امام و نائب امام) پر ہمارے موقف سے اتفاق رکھنے والے امام مقرر کیے جائیں ۔ اس کشمکش میں اس قدر شدت آئی کہ سخت قسم کی محاذ آرائی شروع ہو گئی ۔ اس تحریک میں محمد امین TV3کی طرف سے کوریج پر مامور تھے ۔ اس تحریک نے پورے ملک کو متاثر کیا ۔ کوریج کے دوران ان کو مسلمانوں کے معاشرتی نظام ، خاندانی نظام اور نظریاتی پس منظر کو جاننے کے لیے مطالعہ کرنے کی ضرورت پڑی ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اسلام کا تفصیلی مطالعہ شروع کیا جس کے نتیجے میں اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوئے۔
اسی دوران انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں تسبیح دی گئی ہے اور وہ اس پر کچھ ورد کر رہے ہیں۔ ملائشیا میں چونکہ تسبیح مسلمانوں کی شناخت تھی ، اس لیے یہ بھی اسلام قبول کرنے کی طرف اشارہ تھا ۔اسی دوران رمضان کی آمد ہوئی اور انہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی پورا رمضان روزے رکھے۔ انہوں نے قبول اسلام کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ ان کو بچپن سے ہی سر میں درد رہتا تھا ۔ جب یہ اذکار میں سے کوئی ذکر کرتے تو انہیں اس سر درد میں بہت افاقہ محسوس ہوتا جس کی وجہ سے وہ اسلام قبول کرنے پر تیار ہوئے ۔ رمضان گزرنے پر TV3کے مالک کو اپنے اسلام قبول کرنے کی خواہش کا بتایا جنہوں نے ان کے قبول اسلام کے انتظامات کیے ۔ اس طرح انہوں نے 1987ء میں اسلام قبول کیا۔ TV3کے مالک خود نقشبندی سلسلے سے منسلک تھے، انہیں کی راہنمائی میں یہ بھی نقشبندی سلسلے سے منسلک ہو گئے اورنہ صرف نقشبندی سلوک کے تمام مراحل طے کیے بلکہ حضرت مجدد ؒ کی تعلیمات کا گہرامطالعہ بھی کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملائشیامیں جس نقشبندی گروہ کے ساتھ ان کا تعلق ہے، وہ ’ نقشبندی مجددی خالدی جبل ترکی ‘کے نام سے موسوم ہے ۔ اس گروہ کے طریق کے بارے میں ایک بات انہوں نے یہ بتائی کہ اس گروہ میں عموماً چھ ماہ بعد کسی پر فضا مقام پر کیمپ لگایا جاتا ہے جس کو ’عزلہ‘ کہا جاتا ہے ، سب منتسبین وہاں ایک یا دو ہفتے کے لیے جمع ہوتے ہیں اور ذکر و اذکار کی پہلے سے طے شدہ ترتیب سے معمولات بجا لاتے ہیں ۔ اسی جماعت سے متعلق ایک خاتون سے انہوں نے 1992ء میں شادی کی ، لیکن یہ شادی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔
اسی اثناء میں انہوں نے اپنے گھر کے قریب واقع ایک دینی مدرسہ سے باقاعدہ عربی زبان کی تعلیم حاصل کی ۔ نقشبندی سلسلہ میں ان کے ایک دوست تھے جو شاہ ولی اللہ کے فلسفہ سے کافی متاثر تھے ۔ ان کے توجہ دلانے پر انہوں نے شاہ صاحب ؒ کی کتب کا مطالعہ شروع کیا اور اس وقت وہ حقائق کو پرکھنے کے مغربی سائنسی نظریہ اور حضرت شاہ ولی اللہ کے فکر و فلسفہ کے مابین مماثلت کے موضوع پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس وقت مغرب کا سائنسی نظریہ غالب ہے اور اس کا مقابلہ یا اس سے ہم آہنگی اگر کسی شخصیت کی فکر میں پائی جاتی ہے تو وہ شاہ ولی اللہ ہیں ۔ اس لیے ان کے افکار کا مطالعہ اہل مغرب اور ان کے نظریہ سے متاثر افراد میں دعوت دین کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔اسی مقصد کے لیے وہ شاہ ولی اللہ ؒ کے لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں تفہیمات الہیہ کے فارسی حصہ کو سمجھنے کے لیے پہلے انہوں نے انڈیا کا سفر کیا اور ندوۃ العلماء میں تین ماہ قیام کیا۔ اسی مقصد کے لیے وہ پاکستان تشریف لائے۔ ان کے علاقے میں دار القرآن فیصل آباد کی ایک شاخ قائم ہے جس کو مولانا قاری محمد یاسین صاحب کے ایک شاگرد چلا رہے ہیں ۔ ان کی وساطت سے وہ دار القرآن فیصل آباد آئے اور ایک ماہ وہاں قیام کرنے کے بعد وہاں کے احباب کی راہنمائی میں گوجرانوالہ استاد گرامی کے پاس تشریف لائے۔ گوجرانوالہ آنے کی ایک وجہ انہوں نے یہ بھی بتائی کہ امریکہ کی ایک نو مسلم خاتون دانش ور ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن نے اپنے ایک مضمون میں گوجرانوالہ کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ حضرت شاہ ولی اللہ کے فکر و فلسفہ پر اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کی تکمیل کے سلسلے میں گوجرانوالہ آئی تھیں ۔ وہ مضمون ان کے پاس موجود تھا۔ اصل میں ڈاکٹر ہرمینسن مفسر قرآن مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ؒ سے استفادہ کے لیے گوجرانوالہ آئی تھیں اور جامعہ نصرۃ العلوم میں انہوں نے حضرت صوفی صاحب ؒ سے اس غرض سے ملاقات بھی کی تھی۔ اس مضمون میں اسی ملاقات کی طرف اشارہ ہے ۔
الشریعہ اکادمی میں قیام کے دوران میں میری شیخ محمد امین کے ساتھ ایک مترجم کی حیثیت سے مسلسل رفاقت رہی ۔ استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی ایک یا دو تفہیمات مجھے سمجھا دیتے جو میں ان کو عربی میں ترجمہ کروا دیتا اور اگلے سبق میں وہ یہ ترجمہ استاد محترم کو چیک کروا کر اصلاح لے لیتے۔ جہاں کوئی بات سمجھ نہ آتی، اس کو دوبارہ سمجھ لیا جاتا۔ اس کے علاوہ ان کے کھانے پینے اور دیگر معاملات میں ان کی ضروریات کی دیکھ بھال کے حوالے سے بھی مجھے خدمت کا موقع ملا۔ اس سارے عرصے میں ان کو سادگی کا پیکر اور تکلفات سے کوسوں دور پایا ۔ ان کے پاس لباس کی مد میں صرف دو جوڑے تھے ۔ ہم نے بارہا ان سے درخواست کی کہ آپ کپڑے دھونے کے لیے ہمارے حوالے کر دیا کریں، لیکن انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا ۔ انتہائی قلیل غذا استعمال کرتے ۔ کبھی ہم سے کھانے کی بروقت فراہمی میں سستی ہو جاتی تو خود کبھی نہیں مانگتے تھے بلکہ قریبی بازار میں جا کر کسی ہوٹل سے کھانا کھا لیتے۔ ہم نے دو طلبہ کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ ان کے کھانے کے اوقات کا خیال رکھیں، لیکن انہوں نے کبھی ان سے بھی کوئی کام نہیں کہا ۔ اپنے سارے کام خود کرتے تھے۔ دو چیزوں کا انتہائی اہتمام کرتے، ایک یہ کہ سبق کا ناغہ نہ ہو۔ استاد گرامی کے اسفار یا میری سستی کی وجہ سے ہفتے میں ایک آدھ دن کا ناغہ ہو جاتا تو ان دنوں میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے نیٹ سے شاہ صاحب ؒ کے فلسفہ سے متعلق کتابیں ڈاؤن لوڈ کر لیتے۔ ان کے پاس شاہ صاحبؒ کے فلسفے سے متعلق چند انگریزی کتابیں بھی تھیں، فارغ اوقات میں ان کا مطالعہ کرتے رہتے۔دوسرا، نماز کے انتہائی پابند تھے ۔ نماز کے اوقات میں فوراً اپنے کام چھوڑ کر مسجد کی طرف چلے جاتے۔ جتنا عرصہ وہ اکادمی میں رہے، بہت کم ایسا ہوا کہ تکبیرہ اولیٰ ان سے رہ گئی ہو ۔
ایک دن گوجرانوالہ کے راستو ں سے موٹر سائیکل پر گزرتے ہوئے ٹوٹی ہوئی سڑک کی وجہ سے کافی ہچکولے لگے تو میں نے ان سے پوچھا :What about the roads in Malaysia?۔ انہوں نے جواب میں کہا ، Far batter!۔ اس کے بعد میں نے پھر کبھی کسی چیز کے بارے میں ان سے اس طرح کا سوال نہیں پوچھا۔ پاسپورٹ آفس میں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے اپنے بٹوے سے کچھ پیسے نکال کر مجھے دینے چاہے تو میں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ کوئی بات نہیں ، میرے پاس پیسے ہیں۔ انہوں نے ہاتھ کے دباؤ سے مجھے لینے کی تاکید کی اور کہا : Keep it , It is bakhshish.They don't work without this.۔ مجھے بڑی شرم آئی اور میرے ذہن میں آیا کہ انہیں اسلام آباد سے ویزا کی توسیع کا لیٹر لینے میں اس طرح کے حالات کا سامنا ہوا ہو گا جس کی وجہ سے وہ ایسا کر رہے ہیں ۔
نقشبندی سلسلہ سے متعلق ہونے کی وجہ سے انہوں نے حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے مکتوبات کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور سلوک کے تمام مراحل سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان سے گزرے بھی تھے۔ تفہیمات کے ترجمہ کے دورا ن شاہ صاحب ؒ اور حضرت مجدد ؒ کے فلسفہ کے درمیان تقابل پر بھی گفتگو کرتے کہ یہ چیز شاہ صاحب ؒ کے ہاں زیادہ منظم اور منقح ہے اور حضرت مجدد ؒ کے ہاں یہ اس طرح بیان ہوئی ہے ۔ان کی دلچسپی کا موضوع موسمیاتی سائنس (Environmantel Science) تھا ۔ جگہ جگہ اس بات پر زور دیتے کہ شاہ صاحب ؒ نے افلاک کی حرکات کے انسانوں پر اثرات کا جو ذکر کیا ہے، وہ اسی سائنس سے متعلق ہے اور اس پر دلائل بھی دیتے کہ دیکھو آج سپیس سائنس نے اس کو ثابت کر دیا ہے کہ خلا میں تبدیلیوں کے زمین پر اثرات ہوتے ہیں۔ شاہ صاحب ؒ کے مکاشف اور مابعد الطبیعیاتی احوال کے بارے میں بارہا فرمایا کہ ان تمام چیزوں کو تجربے سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کبھی میں کسی بات پر تعجب کا اظہار کرتا کہ یہ شاہ صاحب ؒ کیا فرما رہے ہیں تو کہتے ’’ھو فی الحال‘‘۔
شاہ صاحبؒ کا فلسفہ پڑھنے سے ان کا مطمح نظر سائنسی نظریہ تحقیق (Scientific method)سے اس کا تقابل و تماثل دیکھنا تھا ۔ اس لیے دوران درس سائنس کے نظریات کا حوالہ دیتے کہ شاہ صاحب ؒ کی یہ بات سائنس کی اس بات کے موافق ہے ۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ ہدایۃ الحکمۃ کسی استاد سے پڑھ لیں۔ اس کی دو وجوہات تھیں ، ایک یہ کہ ان کے گھر کے قریب جو مدرسہ قائم تھا، اس کے نصاب میں یہ کتاب شامل تھی لیکن وہاںیہ کتاب پڑھانے والا کوئی استاد نہیں تھا ، اور دوسرا اس وجہ سے کہ ان کے خیال میں اس کتاب میں شاہ صاحب ؒ کی بہت سی اصطلاحات کی نہایت عمدہ تشریح کی گئی ہے۔ اسی مقصد کے لیے ہم استاد گرامی کی سفارش لے کر گوجرانوالہ کے مشہور عالم مولانا داؤد احمد صاحب کے پاس بھی گئے اور ان سے یہ کتاب پڑھانے کی درخواست کی، لیکن وقت کی قلت کے باعث یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اس کا انہوں نے یہ حل نکالاکہ نیٹ سے اس کتاب کا انگلش ترجمہ تلاش کیا اور پرنٹ کروا کر اسے اپنے مطالعہ میں رکھا اور اپنے قیام کے دوران ساری کتاب کامطالعہ کر لیا۔
بعض وجوہات کی بنا پر ان کا خیال یہ تھا کہ شاہ صاحب ؒ کی اصطلاحات کی تسہیل سب سے زیادہ ایرانیوں نے کی ہے اور انہوں نے شاہ صاحب ؒ کے فلسفے کو عملی طور پر آزمایا ہے ، اسی لیے وہ کہتے تھے کہ میں واپس جا کر شاہ صاحب ؒ کے فلسفے اور ایرانی فلسفے کا تقابل کروں گا۔ ان میں سے مجھے جو مغربی سائنسی فکر کے زیادہ مناسب لگا، اس کے مطابق کام کو آگے بڑھاؤں گا اور دوسرے کو چھوڑ دوں گا۔میں نے استاد گرامی کو اس بارے میں بتایا تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی نظر سے میرے وہ مضامین گزرنے چاہیے جو خلافت کے ایرانی تصور امامت کے بارے میں، میں نے لکھے ہیں تاکہ وہ اصل تناظر میں ایرانی فلسفے کا مطالعہ کر سکیں، لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے یہ کام نہ ہو سکا ، اللہ کرے کہ اس کا کوئی انتظام ہو سکے کیوں کہ استاد گرامی کے مضامین اردو میں ہیں اور ان کو اردو نہیں آتی۔ لعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا۔
تفہیمات کی دو جلدیں ہیں۔ شیخ محمد امین کے قیام کے دوران صرف ایک جلد کا فارسی حصہ ہی مکمل ہو سکا۔ دوسری جلد کے بارے میں یہ طے ہوا کہ استاد گرامی کی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے جہاں تک ممکن ہو سکے گا، اس کا ترجمہ بذریعہ ای میل ان کو بھیج دیا جائے گا۔ اپنے قیام کے دوران وہ دو مرتبہ لاہور بھی گئے اور تحریک فکر ولی اللہی کے مرکز جامعہ رحیمیہ میں دو دن قیام کیا۔ وہاں کے ذمہ داران سے تو خاطر خواہ گفتگو نہ ہو سکی، لیکن وہاں انہوں نے پروفیسر محمد اقبال صاحب کو تلاش کر لیا جو حضر ت مجدد ؒ کے مکتوبات پر کافی گہرا مطالعہ رکھتے ہیں۔ ملاقات میں حضرت مجدد ؒ اور نقشبندی سلسلہ کے بارے میں ان سے کافی استفادہ کیا، ان سے کچھ کتب کی انہوں نے تصاویر بھی لیں ۔ ان سے حضرت مجدد ؒ کے مکتوبات کے انگلش ترجمہ اور نقشبندی سلسلہ کے مراتب کے حوالے سے شیخ وجیہ الدین صاحب کی ایک کتاب کا پتہ چلا ۔ ملائشیا روانگی سے پہلے 14اکتوبر کو شیخ وجیہ الدین صاحب سے ملاقات کی غرض سے ہم ان کے ساتھ لاہور روانہ ہوئے اورمولانا قاری محمد رمضان صاحب کے پاس مکی مسجد میں قیام کیا۔ قاری صاحب کے صاحبزادہ مولانا عثمان صاحب کی راہنمائی میں شیخ صاحب کی مسجد میں پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ شدید بیمار ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں، اس لیے ان سے ملاقات ممکن نہیں ۔ وہاں احباب سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے صاحبزادہ سے مطلوبہ کتابیں مل سکتی ہیں، لیکن وہ بھی ان کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ بڑی پریشانی ہوئی ، پھر اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا تو شیخ صاحب کے ایک مرید ملے، انہیں صورتحال سے آگاہ کیا کہ شیخ محمد امین ملائشیا سے آئے ہیں، کتاب کے شائق ہیں ، کوئی بندوبست فرمائیں ۔ انہوں نے بڑی تگ و دو کے بعد کتاب کا بندوبست کر دیا ۔ اللہ ان کو جزائے خیر عطا کرے۔
دو دن شیخ محمد امین مکی مسجد میں ہی رہے۔ 16اکتوبر کو ان کی واپسی کی فلائیٹ تھی جس سے وہ مقررہ وقت پر ملائشیا کے لیے روانہ ہو گئے۔
اسلام کا دستوری قانون اور سیاسی نظام ۔ برعظیم پاکستان و ہند کے فتاویٰ کا تجزیاتی مطالعہ (۱)
ڈاکٹر محمد ارشد
ابتدائیہ
برعظیم پاکستان و وہند میں اسلام کے دستوری قانون اور سیاسی نظام سے متعلق بعض مسائل، با لخصوص خلیفہ کی اہلیت کے شرائط (قرشیت وغیرہ) ، سے متعلق علماء کے ہاں بحث و مباحثہ کا آغازتحریک خلافت کے دنوں میں (۱۹۱۸۔۱۹۲۲ء) ہوا۔ تحریک خلافت کے مخالف علماء نے ترکانِ عثمانی کی خلافت کی شرعی حیثیت کو چیلنج کیا، کہ ان کی نظر میں عثمانی خلفاء منصب خلافت کی ایک اساسی شرط، شرط قرشیت کو پورا نہ کرتے تھے (۱)۔ جب کہ تحریک خلافت کے حامی و مؤید علماء نے عثمانی خلافت کو شرعی طور پر جائز تسلیم کیا اور شرطِ قرشیت کی ایک مختلف تعبیر پیش کی(۲) ۔تحریک خلافت کے مخالف علماء کی رائے کے برعکس علماء کی اکثریت کی رائے یہ ٹھیری کہ منصبِ خلافت کے لیے ’’قریشیت ہو تو افضل ہے نہ ہو تو غیر قریشی قابل بھی ہو سکتا ہے‘‘(۳)۔ اسلام کے دستوری قانون پر بحث و گفتگو کو خطباتِ اقبال (تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ) سے بھی مہمیز ملی۔ علامہ محمد اقبال نے اپنے مشہور خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں انفرادی اجتہاد کے بجائے اجتماعی اجتہاد پر زور دیا اور دور جدید کی مجالس قانون ساز (پارلیمان) کے حق اجتہاد اور قانون سازی کی وکالت کی۔مزید براں ملوکیت و آمریت کے برخلاف جمہوری و نمائندہ طرزِحکومت کے تصور کو اسلام کے سیاسی قانون کا مقصود مطلوب قرار دیا(۴)۔
طبقۂ علماء کے ہاں اسلام کے دستوری قانون اور سیاسی نظام پر بحث و گفتگو کا آغاز ۱۹۴۰ء کی دہائی کے آغاز سے ہوا۔ تحریک پاکستان کے آغاز میں ہی (۱۹۴۰ء کے لگ بھگ) اسلام کے دستوری قانون اور نظامِ حکومت کے ایک خاکے (blueprint) کی تدوین بعض قائدین تحریک پاکستان کی توجہ کا مرکز بنی تو انہوں نے اس کے لیے علماء کی طرف رجوع کیا۔ ممتاز مسلم لیگی رہنما نواب سر محمد اسماعیل (۱۸۸۶۔۱۹۵۸ء) نے نواب سعید چھتاری(م ۱۹۸۲ء) کی سرکردگی میں مولانا سید سلیمان ندوی ( ۱۸ ۔۱۹۵۳ء)،مولانا آزاد سبحانی (۱۸۸۲۔۱۹۵۷ء)، مولانا عبدالماجد دریابادی (۱۸۹۲۔۱۹۷۸ء)، مولانا عبدالحامد بدایونی(۱۹۰۰۔۱۹۷۰ء) اور ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ پر مشتمل ایک مجلس (مجلس نظام اسلامی) تشکیل دی گئی۔مجلس کے کنوینر سید سلیمان ندوی نے اسلامی دستور کے مہمات مسائل پر غور و فکر کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر اہل فکر و علم : مولانا ابوالبرکات عبدالرؤف دانا پوری (۱۸۸۴۔۱۹۴۸ء)، ڈاکٹر سید ظفر الحسن (م ۱۹۴۹ء) اورمولانا سید مناظر احسن گیلانی (۱۸۹۲۔۱۹۵۶ء) وغیرہ) کو اسلامی دستور کا خاکہ مرتب کرنے کی غرض سے تجاویز پیش کرنے کا کہا (۵)۔چنانچہ مجلس نظامِ اسلامی نے طویل غور وفکر اور اہل علم و فکر سے استصواب رائے کے بعد اسلام کے سیاسی نظام کا ایک دستورالعمل مرتب کیا۔اس دستور العمل کی تدوین کا کام مولانا محمد اسحاق صدیقی سندیلوی کو تفویض کیا گیا۔تاہم ان کا مرتب کردہ اسلامی دستور اورسیاسی نظام العمل کا خاکہ ۱۹۵۶ء سے قبل اشاعت پذیر ہو کر منظر عام پر نہ آسکا (۶)۔
جون ۹۴۷اء میں تقسیم ہند کے اعلان کے ساتھ ہی مستقبل قریب میں قیام پذیر ہونے والی مسلم ریاست ’’پاکستان‘‘ کے دستور اور اس کے نظام حکومت پر بحث کا آغاز ہوا۔ نو مسلم فاضل محمد اسد (۱۹۰۰۔۱۹۹۲ء) نے اپنی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامے عرفات کے شمارہ بابت جولائی ۱۹۴۷ء، میں قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی دستور کے اصول و مبادی کی توضیح و تشریح کا آغاز کیا (۷)جبکہ مارچ ۱۹۴۸ء میں ’’اصول دستور اسلامی‘‘ کے عنوان سے اسلامی دستور کا ایک خاکہ مرتب کر کے شائع کیا (۸)۔محمد اسد کے علاوہ بانئ جماعتِ اسلامی، سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنے خطبات اور تحریروں میں اسلامی دستور کے بنیادی اصول کی توضیح و تنقیح کی اور علمی و فکر ی نیز سیاسی محاذ پر اسلامی دستور کی تدوین و تنفیذ کا مقدمہ بڑی قوت و طاقت سے پیش کیا۔سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کی فکر سے متأثر اہل قلم نے ماہنامہ ترجمان القرآن میں اپنی تحریروں میں تواتر کے ساتھ اسلام کے سیاسی نظام کے خدوخال کی وضاحت کی (۹؍ا)۔
قیام پاکستان کے بعد تحریک پاکستان میں سرگرم عمل علماء ،جو پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کے بطور دیکھنے کے آرزو مند تھے، مملکت کے دستور اور سیاسی نظام کو اسلام کے اصول و احکام پر استوار کرنے کامطالبہ لے کر اٹھے ۔ چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی (۱۸۸۶۔۱۹۴۹ء) اور ان کے ہم خیال ارکانِ دستور ساز اسمبلی خصوصاًڈاکٹر عمر حیات ملک (۱۸۹۴۔۱۹۸۲ء) وغیرہ کی مساعی کا نتیجہ مجلس دستور ساز کی طرف سے قرار داد مقاصد کی منظوری (مارچ ۱۹۴۹ء)کی صورت میں نکلا (۹؍ب)۔ بعد ازاں مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کی ایک مجلس نے اسلامی دستور سازی کے سلسلہ میں تجاویز مرتب کیں جو علماء کے بائیس نکات کے نام سے مشہور ہوئیں (۱۰) ۔ خود مجلس دستور ساز کی طرف سے دستورسازی کے سلسلہ میں تجاویز ؍ اسلامی دستور کے خاکہ کی تدوین کے لیے تشکیل کردہ اسلامی تعلیمات بورڈ ( جس کے ارکان میں سید سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع، ڈاکٹر محمد حمیداللہ، مولانا ظفر احمد انصاری، پروفیسر عبدالخالق اور مولانا جعفر حسین مجتہدوغیرہ شامل تھے) نے بھی اسلام کے دستوری قانون اور سیاسی نظام سے متعلق تجاویز مرتب کیں (۱۱)۔
جنرل محمد ایوب کے عہد حکومت میں منعقدہ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے بطور صدارتی امید وار کے منظرِ عام پر آنے پر اسلامی مملکت میں سربراہِ ریاست و حکومت کی اہلیت کے شرائط اور عورت کی حکمرانی کے مسئلہ نے علماء کی توجہ اپنی طرف مبذول کی(۱۲)۔ مابعد ادوار میں خصوصا۱۹۷۳ء میں آئین کی تدوین اور بعد ازاں جنرل محمد ضیاء الحق کی طرف سے ۱۹۸۳ء کے آئین کی تشکیل نو کی غرض سے انصاری کمیشن کے قیام (۱۹۸۲ء) ، ہر دو مواقع پر علماء نے دستوری و سیاسی مسائل پر بحث و مباحثہ میں پوری سرگرمی سے حصہ لیا (۱۳)۔ علماء نے ان مواقع پر دستوری و سیاسی مسائل پر رسائل تصنیف کیے اور فتاویٰ بھی جاری کیے۔ بعد ازاں۱۹۸۸ء اور پھر ۱۹۹۳ء میں بینظیر بھٹو کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر عورت کی حکمرانی کے مسئلہ پر علماء نے بڑے شدومد سے مباحثہ میں حصہ لیا۔چنانچہ عورت کی حکمرانی کی حرمت میں کثیر تعداد میں رسائل و مقالات اور فتاویٰ منظر عام پر آئے۔
سطور ذیل میں ۱۹۴۹ء میں قرارداد مقاصد کی منظوری سے لے کر پاکستان میں بینظیر بھٹوکے دوسرے دورِ حکومت کے اختتام (۱۹۹۶ء) تک اسلام کے دستوری قانون اور سیاسی نظام کے متعلق پاکستان و ہند کے علمائے اہل سنت کے تینوں مکاتبِ فکر ( دیوبندی، اہلحدیث اور بریلوی ) کے فتاویٰ کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔
امہات دستوری مسائل
مملکت پاکستان کے لیے اسلامی دستور کی تدوین کی جدوجہد کے دوران میں وہ دستوری و سیاسی مسائل جو علما سے قرآن و سنت اور تاریخی نظائر (خصوصا خلافت راشدہ) کی روشنی میں توضیحات و تشریحات کا تقاضا کر رہے تھے، بالعموم حسب ذیل تھے:
- اسلامی ریاست کی صحیح صحیح تعریف کیا ہے؟ اسلامی ریاست آج کے سیاق و سباق میں کس ریاست کو کہا جائے گا؟ کسی ریاست کے اسلامی ریاست ہونے کے کم سے کم تقاضے کیا ہیں؟
- اسلامی ریاست کے اعضاء (حاکمہ، مقننہ اور عدلیہ)کی ضع و ہےئت اور نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ کیا عہدِ نبوی کی مثالی اسلامی مملکت اور خلافت راشدہ کے سیاسی اوضاع (forms) کا نمونہ ہمیشہ کے لیے متعین ہو چکا ہے کہ جس کی تقلید و پیروی ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ضروری و لازمی ہے؟ یا پھر اسلام نے اس باب میں محض بنیادی اصول مقرر کرنے پر اکتفا کیا ہے کہ جن کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر دور کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق اسلامی ریاست و حکومت کا ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکتا ہے اور اسلامی دستور کی جزئیات متعین کی جا سکتی ہیں؟
- اسلامی ریاست اپنی مائیت میں ایک جمہوری ریاست ہے یا پھر یک جماعتی آمریت؟
- اسلامی ریاست میں ہےئت مقتدرہ (حاکمہ، تنفیذیہ) ، مقننہ اور عدلیہ کی تشکیل و قیام کا طریق کار کیا ہوگا؟ سربراہ مملکت ؍سربراہ حکومت کا انتخاب و تقرر کیسے ہوگا؟ اس کی اہلیت کے اوصاف و شرائط (Qualifications) کیا ہوں گے؟ اس کے اختیار ات کا دائرہ کیا ہوگا؟ حاکمہ(تنفیذیہ) اپنے افعال و وظائف کی بجا آوری کے سلسلے میں کسی(مجلس شوریٰ وغیرہ) کے سامنے جواب دہ ہے کہ نہیں؟ نیز اس کے مواخذہ و عزل کا طریق کا ر کیا ہو گا؟
- مقننہ (مجلس شوری ٰ )کی تشکیل کیسے ہوگی، بذریعہ انتخاب یا بذریعہ نامزدگی(سربراہِ مملکت؍حکومت کی طرف سے)؟ اس کی رکنیت کے لیے اہلیت کی صفات کیا ہوں گی؟ کیا عورتوں کو مجلس شوریٰ میں شامل کیا جائے گا؟ مجلس شوریٰ کے حق قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس کے حدود کیا ہوں گے؟ حاکمہ (تنفیذیہ) اور مقننہ (مجلس شوریٰ) کے باہمی ارتباط و تعامل کی صورت کیا ہوگی؟ سب سے اہم یہ کہ عصرِ جدید میں اسلام کے اصول شورائیت کو کیسے مؤثر طور پر رو بہ عمل لایا جاسکتا ہے؟ شوریٰ کے فیصلوں کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا شوریٰ کے فیصلے حاکمہ کے لیے واجب التعمیل ہوں گے؟ یا سربراہ مملکت و حکومت شوریٰ کے فیصلوں کو ویٹو کر سکتا ہے؟
- ریاست کے تیسرے ستون عدلیہ کی تشکیل کیسے کی جائے گی؟ قانون سازی یا اس کی تعبیر و تشریح کے باب میں اس کے اختیارات کی نوعیت کیا ہوگی؟
- اسلامی ریاست میں سیاسی جماعتوں کا کردار کیا ہوگا؟ کیا اسلامی مملکت میں مختلف نظریات کی علمبردار سیاسی جماعتوں کے قیام اورپھر انھیں اپنے اپنے منشور کی بنیاد پر انتخابی سیاست میں معرکہ آرائی کی اجازت دی جا سکتی ہے؟
- حق رائے دہی کی نوعیت کیا ہوگی اور ووٹر کی اہلیت کے اوصاف و شرائط کیا ہوں گے؟کیا خواتین کو بھی حق رائے دہی حاصل ہوگا؟
- اسلامی ریاست میں شہریوں کے حقوق و فرائض کیا ہوں گے؟ غیر مسلم شہریوں کی حیثیت و کردار(position and role) کیا ہوگا۔ ان کے مذہبی، قانونی و سیاسی اور شہریتی حقوق کیا ہوں گے؟ کیا غیر مسلم شہریوں کو حاکمہ اور مقننہ میں نمائندگی حاصل ہوگی؟ غیر مسلموں کے لیے نمائندگی کا حق تسلیم کرنے کی صورت میں ان کے انتخاب کا طریق کار کیا ہوگا؟ طریق انتخاب کیا ہو گا مخلوط یا جداگانہ؟
فتاویٰ لٹریچراور دستوری و سیاسی مسائل
برعظیم پاکستان و ہند کے مفتیان کرام نے دستور اسلامی سے متعلق مذکورہ مسائل کو غورو فکر کا موضوع بنایا اور ان کے متعلق فتاویٰ جاری کیے۔ اس سلسلے میں یہ بات بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے کہ علامہ شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں اسلامی دستور کی تدوین کے لیے سرگرم عمل علماء اور ان کے متبعین کے مجموعہ ہائے فتاویٰ میں دیگر علماء کے مجموعہ ہائے فتاویٰ کے مقابلے میں سیاسی اور دستوری مسائل پر زیادہ توجہ دی گئی ہے(۱۴)۔ گو علمائے اہلحدیث کی زیادہ تر توجہ کلامی مسائل اور اصلاح رسوم و بدعات پر مرکوز رہی ہے تاہم ان کے مجموعہ ہائے فتاویٰ میں دستوری قانون اور سیاسی نظام سے متعلق مسائل پر چند فتاویٰ بھی ملتے ہیں۔ بریلوی مکتبِ فکر کے علماء کے مجموعہ ہائے فتاویٰ میں علمائے اہلحدیث و علمائے دیو بند کے کلامی آرا کے رد کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ ان کے مجموعۂ ہائے فتاویٰ دستوری و سیاسی مسائل سے با لعموم معرا نظر آتے ہیں۔ بریلوی مکتب فکر کے مجموعہ ہائے فتاویٰ میں اسلام کے دستوری قانون اور سیاسی نظام کے متعلق مسائل و موضوعات سے اس عمومی بے اعتنائی کا ایک ممکنہ سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عامۃ الناس (جن کے ہاں پاپولر رسوماتی اسلام کا چلن ہے) سیاسی و دستوری معاملات کو مذہبی نہیں بلکہ ایک خالص دنیوی (سیکولر) امر خیال کرتے رہے۔ چنانچہ وہ ان معاملات میں رہنمائی کے لیے علماء اور مفتیان کرام کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ایسے سیاسی قائدین کا اتباع کرتے رہے ہیں جو نسلی ، لسانی اور علاقائی عصبیتوں پر اپنی عملی سیاست کا قصر تعمیر کیے ہوئے تھے، یا پھر اشتراکی نظام کی ترویج( روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی )جیسے پرکشش نعرے کو رواج دے کر سادہ لوح عوام کی توجہ حاصل کیے ہوئے تھے۔ عامۃ الناس کے برخلاف جدید تعلیم یافتہ طبقات بالعموم مذہب و سیاست کی علیحدگی کے نظریے کے قائل رہے ہیں۔ البتہ ایسے تعلیم یافتہ افراد جو بانئ جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر سے متاثر تھے اور ملک میں اقامتِ دین اورحکومتِ الٰہیہ کے قیام کے آرزو مند تھے، وہ مذہبی و سیاسی جملہ مسائل میں رہنمائی کے لیے روایتی علماء کی طرف رجوع کے بجائے سید ابوالاعلیٰ مودودی یا پھر جماعت سے تعلق رکھنے والے دیگر اہل علم و نظر سے رجوع کرتے تھے۔الغرض اسباب و محرکات خواہ کچھ بھی رہے ہوں بر عظیم پاکستان و ہند کے مجموعہ ہائے فتاویٰ کے جائزہ سے اسلام کے دستوری قانون اور سیاسی نظام کا کوئی مربوط و مکمل خاکہ سامنے نہیں آتا ، البتہ ان سے چند متفرق مسائل پر علماء کا موقف ضرور سامنے آجاتا ہے ۔
سطورِ ذیل میں برعظیم پاکستان و ہند کے اہلِ سنت کے تینوں مکاتب فکر (دیو بندی، بریلوی، اور اہل حدیث)کے مجموعہ ہائے فتاویٰ میں دستوری قانون ا ور سیاسی نظام سے متعلق مسائل پر فتاویٰ کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان جملہ دستوری و سیاسی مسائل کو جو ان فتاویٰ کا موضوع بنے ہیں،زیر بحث لاتے ہوئے ان کی بابت مختلف آرا کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
(۱) سیاست شریعت سے جدا نہیں
اسلامی دستوری قانون اور سیاسی نظام سے متعلق مسائل کے ضمن میں سب سے اہم سوال مذہب و سیاست کے باہمی تعلق کے بارے میں ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ دیوبندی مکتبِ فکر کے مفتی رشید احمد نے اپنے مجموعہ فتاویٰ احسن الفتاویٰ میں اس سوال (استفتاء) کہ :’’کیا سیاست دین میں داخل ہے یا اس سے الگ نئی چیز ؟ کے جواب میں دین و سیاست کے باہمی تعلق کی وضاحت کی ہے۔مفتی رشید احمد کی رائے میں دین و سیاست کی علیحدگی کا نعرہ اپنی ماہیت میں دین اسلام کی روح کے منافی ہے اورجدید مغربی لادینی تہذیب کی پیداوار ہے۔ ان کے الفاظ میں:
’’مروجہ سیاست اور اس کے تمام طور طریقے چونکہ یورپ سے درآمد ہوئے ہیں لہٰذا مغرب گزیدہ لوگوں نے یہ سوچ کر کہ ایسی سیاست کا دین اسلام سے کوئی جوڑ نہیں بیٹھتا، اور دونوں ایک قدم بھی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، یہ نعرہ لگایا:
’’دین و سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں‘‘
یورپ والوں کو تو یہ نعرہ زیب دیتا ہے کہ ان کے دین میں سیاست کی کوئی گنجائش نہیں، حکومت و سلطنت کے لیے کوئی ہدایات نہیں، مگر ایک مسلمان کی طرف سے اس قسم کا نعرہ درحقیقت اس الحاد و بے دینی کا اظہار ہے کہ ہمارے دین میں بھی سیاست و حکومت کے لیے کوئی رہنما اصول نہیں، حضور اکرم صلٰی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس پہلو پر کوئی روشنی نہیں پائی جاتی، اس لیے ہم سیاست کو دین سے الگ رکھنے پر مجبور ہیں۔اس کا کفر والحاد ہونا محتاج دلیل نہیں۔خلاصہ یہ کہ سیاست دین سے جدا نہیں بلکہ دین کہ کا ایک اہم شعبہ ہے مروجہ نعرہ مغرب پرست آخرت بیزار قسم کے لوگوں کا پھیلایا ہوا ہے‘‘ (۱۵):
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
(۲) اسلامی ملک اور اسلامی حکومت کی تعریف
اس سلسلے میں ایک نہایت اہم سوال یہ ہے کہ اسلامی حکومت کی تعریف کیا ہے؟ کسی مملکت و حکومت کے اسلامی ہونے کے کم از کم تقاضے کیا ہیں؟ اسلامی مملکت کی تعریف کے لیے کسی ملک میں شریعت کی تنفیذضروری ہے یا اس ملک کی آبادی کی اکثریت کا مسلمان ہونا کافی ہے؟ ایک ایسی مملکت جس میں قرآن و سنت کے عملی نظام کا نفاذ نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ مملکت اسلامی ہے یا غیر اسلامی؟
مفتی رشید احمد نے اس ضمن میں اسلامی مملکت اور اسلامی حکومت کی بڑی مختصر مگر جامع تعریف بیان کی ہے۔ ان کی رائے میں:
’’جس ملک میں اگرچہ عملًا اسلامی احکامِ اسلام کا نفاذ نہ ہو مگر تنفیذِ احکام پر قدرت ہو وہ دارالاسلام ہے، اس معنی سے اسے اسلامی ملک بھی کہا جا سکتا ہے۔ مگر ایسے ملک کی حکومت کو اس وقت تک حکومتِ اسلامیہ نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ وہ احکامِ اسلام کی تنفیذ نہ کرے‘‘ (۱۶)۔
(۳) نظام حکومت ۔ عوامی/ جمہوری یا شاہی
ایک اہم سوال نظام حکومت کا ہے۔ موجودہ جمہوری نظام جو مغربی سیکولر تہذیب کی تخلیق ہے اور اس وقت مشرق و مغرب کے بہت سے ممالک میں نافذ ہے جس میں بیک وقت کئی جماعتوں کا وجود شرط ہے، کیا اسلام میں اس کی گنجائش ہے؟ با لفاظ دیگر جدید مغربی جمہوری نظام اسلام کے سیاسی اصول و تصورات سے کس حد تک متصادم ہے اور ان دونوں میں کس طور سے موافقت اور ہم آہنگی پید ا کی جا سکتی ہے؟ اس ضمن میں کچھ اس طرح کے عمومی سوالات بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں: اسلام میں طرزِ حکومت شاہی ہے یا جمہوری؟ اگر جمہوری ہے تو طریق انتخاب کیا ہے؟ اسلامی جمہوریت میں مسلمانوں کا سربراہ کیسے منتخب کیا جاتا ہے؟ کیا مر اور عورت سب کو رائے دہی کا حق ہے یا صرف مردوں کو؟ اور کیا صرف اربابِ عقول اورسمجھدار لوگوں سے رائے لی جائے یا سب سے ، سمجھدار اور بے سمجھ چرواہوں اور بے وقوفوں سے بھی؟غرضیکہ جن لوگوں کو اپنا خلیفہ؍امیر اور ارکان شوریٰ (مجلس اہل حل و عقد ؍ پارلیمان)منتخب کرنے میں کوئی سمجھ بوجھ نہیں کہ کون اہلیت رکھتا ہے، کیا ان سے بھی رائے لی جائے یا نہیں؟
ان سوالات کا جواب دو معروف دیوبندی علماء ( مفتی رشید احمد اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی) نے دیا ہے۔ دونوں نے اپنے فتاویٰ میں مغربی جمہوریت کو شر کا منبع قرار دیا ہے۔ ان کی رائے میں اسلام میں مغربی جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں۔مفتی رشید احمد کی رائے میں:
’’اسلام میں مغربی جمہوریت کا کوئی تصور نہیں، ( ۱)اس [مغربی جمہوریت ] میں متعدد گروہوں کا وجود (حزب اقتدار و حزب اختلاف) ضروری ہے ، جبکہ قرآن اس تصور کی نفی کرتا ہے ( واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ، القرآن، ۳:۱۰۳) ؛ (۲) اس میں تمام فیصلے کثرت رائے سے ہوتے ہیں جب کہ قرآن اس انداز فکر کی بیخ کنی کرتا ہے (و ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ، القرآن، ۶: ۱۱۶) ؛ (۳) یہ غیر فطری نظام یورپ سے درآمد ہو اہے جس میں سروں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ اس میں مرد و عورت، پیر و جواں، عامی و عالم بلکہ دانا و ناداں سب ایک ہی بھاؤ تلتے ہیں۔ جس امید وار کے پلے ووٹ زیادہ پڑ جائیں وہ کامیاب قرار پاتا ہے اور دوسرا ناکام، مثلا کسی آبادی کے پچاس علماء، عقلاء اور دانشوروں نے باالاتفاق ایک شخص کو ووٹ دیے،مگر ان کے بالمقابل علاقہ کے بھنگیوں، چرسیوں اور بے دین و اوباش لوگوں نے اس کے مخالف امیدوار کو ووٹ دیے جن کی تعداد اکاون ہو گئی تھی تو یہ امید وار کامیاب اور پور ے علاقے کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا ۔ پھر ووٹ لینے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ کا استعمال لازمۂ جمہوریت ہے۔ ہر فریق اپنے مقابل کو چت کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہاتا ہے۔ مزید براں دھونس، دھاندلی، دھوکا، فریب، رشوت، غرض تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں ، اور جو کامیاب ہوتے ہیں ان کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ایوان سمبلی میں پہنچ کر ان کی بولی لگتی ہے، فیکٹریوں کے پرمٹ، پلاٹس، وزارتیں، غرض یہ کہ طرح طرح کے لالچ اورچکمے دے کر انہیں خرید ا جاتا ہے۔ پھر قوم کے یہ منتخب نمائندے اسمبلی ہال میں بیٹھ کر کیا گل کھلاتے ہیں؟ یہ تمام برگ و بار مغربی جمہوریت کے شجرۂ خبیثہ کی پیداوار ہیں۔ اسلام میں اس کافرانہ نظام کی کوئی گنجائش نہیں، نہ ہی اس طریقے سے قیامت تک اسلامی نظام آ سکتا ہے۔ بفحوائے ’’الجنس یمیل الی الجنس‘‘ عوام، جن کی اکثریت بے دین لوگوں کی ہے، اپنی ہی جنس کے نمائندے منتخب کر ے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں‘‘ (۱۷)۔
مفتی رشید احمد کی رائے میں مغربی جمہوریت اور اسلام کے سیاسی نظام میں جو بنیادی اور جوہری فرق و امتیاز پایا جاتا ہے وہ سربراہ مملکت؍ حکومت کے انتخاب کے طریق کار کا ہے۔ ان کی رائے میں اسلام سربراہ مملکت ؍ حکومت کے انتخاب کے سلسلہ میں ہر کس و ناکس کو رائے دہی (ووٹ) کا حق نہیں دیتا بلکہ یہ حق اہل الحل والعقد کو تفویض کرتا ہے۔ مفتی رشید احمد اس سلسلے میں خلفائے راشدین کے انتخاب کے طریق سے استشہاد کرتے ہیں ۔ ان کے خیال میں:
’’اسلام میں شورائی نظام ہے جس میں اہل الحل والعقد غور و فکر کر کے ایک امیر کا انتخاب کرتے ہیں، چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات کے وقت چھ اہل الحل والعقد کی شوریٰ بنائی جنہوں نے اتفاق رائے سے حضرت عثمان کو خلیفہ نامزد کیا۔ اس پاکیزہ نظام میں انسانی سروں کو گننے کے بجائے انسانیت کا عنصر تولا جاتا ہے، اس میں کسی ایک ذی صلاح مدبر انسان کی رائے لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں کی رائے پر بھاری ہو سکتی ہے :
گریز از طرز جمہوری غلامِ پختہ کارے شو
کہ درمغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید
حضرت ابو بکر نے کسی سے استشارہ کیے بغیر صرف اپنی ہی صوابدید سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب فرمایا۔ آپ کا یہ انتخاب کس قدر موزوں، مناسب اور جچا تلا تھا؟ اس کا جوا ب دینا الفاظ میں ممکن نہیں، اس حقیقت کا مشاہدہ پوری دنیا کھلی آنکھوں سے کر چکی ہے‘‘ (۱۸)۔
خلفائے راشدین کے انتخاب کے طریق سے متعلق تاریخی نظائر کو مفتی رشید احمد اسلامی دستورِمملکت کا ایک ابدی اصول تسلیم کرتے ہیں اور یہی چیز ان کی نظر میں اسلام کے سیاسی نظام کو مغربی جمہوریت سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کی رائے میں اسلامی مملکت کے سربراہ کا انتخاب جمہور کی رائے سے نہیں بلکہ متعینہ صفات کے حامل اہلِ حل و عقد کی رائے سے عمل میں آئے گا۔ مفتی رشید احمد کے الفاظ میں:
’’جمہوریت مروجہ میں ہر کس و ناکس کو رائے دہی کا حق ہے مگر جمہوریت اسلامیہ میں انتخاب خلیفہ کا حق صرف اہل حل و عقد کو ہے۔اہلِ حل و عقد کے لیے پانچ شرائط ہیں: ( ا) عقائد اسلام میں رسوخ و مضبوطی؛(ب)ذکورہ؛(۳)علم دین میں رسوخ؛( ۴)تقویٰ وتصلب فی الدین؛ (۵) ملکی حالات و سیاسیاتِ حاضرہ میں بصیرتِ تامہ‘‘ (۱۹)۔
مفتی رشید احمد کی رائے میں نصوص شرعیہ کے علاوہ عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ انتخاب امیر ہر کس و ناکس کا کام نہیں بلکہ اس کے لیے عقل کی ضرورت ہے اور علم دین و تقویٰ کے بغیر عقل کامل نہیں ہو سکتی(۲۰)۔ ان کی رائے میں مغربی جمہوری نظام اور اسلام کے سیاسی نظام میں دوسرا جوہری فرق سربراہ مملکت ؍حکومت اورمجلس شوریٰ کے اختیارات میں توازن کا ہے۔ ان کی رائے میں:
’’جمہوریت مروجہ میں سربراہ مملکت خود مختار نہیں ہوتا بلکہ مقننہ کے فیصلہ کا پابند ہوتا ہے اور جمہوریت اسلامیہ میں امیر المؤمنین خودمختار ہوتا ہے، اہم امور مین اہل حل و عقد سے مشورہ کے تا بع جو اس کی رائے میں صواب ہو اس کے مطابق فیصلہ کرے، شوریٰ کے فیصلہ کا پابند نہیں، قال اللہ تعالیٰ : و شاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ (۳: ۱۵۹) (۲۱)۔
اسلام میں جمہوریت کی گنجائش ہے یا نہیں؟ اسکے بارے میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے بھی اپنے فتاویٰ میں بتفصیل اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی رائے میں بھی اسلام اور جمہوریت کے مابین فرق نہایت وسیع و عمیق ہے، بلکہ یہ اپنی روح کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہیں اوران دونوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی ۔ان کے الفاظ میں:
’’ جمہوریت اس دور کا صنم اکبر ہے جس کی پرستش اول اول دانایان مغرب نے شروع کی ، کیونکہ وہ آسمانی ہدایت سے محروم تھے اس لیے ان کی عقل نارسا نے دیگر نظام ہائے حکومت کے مقابلہ میں جمہوریت کا بت تراش لیا اور پھر اس کو مثالی طرزِ حکومت قرار دے کر اس کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ پوری دنیا میں اس کا غلغلہ بلند ہوا، یہاں تک کہ مسلمانوں نے بھی تقلید مغرب میں جمہوریت کی مالا جپنی شروع کر دی۔ کبھی یہ نعرہ لگا یا کہ ’’اسلام جمہوریت کا علمبردار ہے‘‘ اور کبھی ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی، حالانکہ مغرب جمہوریت کے جس بت کا پجاری ہے اس کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی ضد ہے۔ اس لیے اسلام کے ساتھ جمہوریت کا پیوند لگانا اور جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کرنا صریحاً غلط ہے‘‘ (۲۲)۔
(۴) طرز حکومت ۔ صدرارتی یا پارلیمانی
مغربی جمہوریت کے علمبردار ممالک میں یا تو صدارتی نظام رائج ہے یا پھر پارلیمانی۔ ان میں سے کو ن سا طرزِ حکومت اسلام کے سیاسی اصول سے زیادہ موافق و ہم آہنگ ہے؟ مفتی محمد شفیع(۱۸۹۷۔۱۹۷۶ء) نے اس مسئلہ کو یوں حل فرمایا ہے:
’’حکومت کے مروجہ طریقوں میں سے صدارتی طرزِ حکومت اسلام کے مزاج اور اصول سے قریب تر ہے۔ قرآنی آیت: یا داود انا جعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس با لحق (۳۸: ۲۶) کے مطابق حکم و فیصلہ کی ذمہ داری خلیفۂ وقت (امیر المومنین) پر ڈالی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ پارلیمانی طرز میں امیر مملکت پر کوئی ایسی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ، یہ صرف صدارتی طرز میں ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں قرآنی آیت (۴: ۵۹) سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کے اولوالامر کا مسلم ہونا شرط ہے اور موجودہ دنیا میں اس شرط پر عمل صدارتی طرزِ حکومت میں بآسانی ہو سکتا ہے جس میں ولایت امر اور اقتدار اصلی صدر مملکت کا ہوتا ہے اس لیے مسلمان ہونے کی شرط عملاً سہل ہے بخلاف پارلیمانی نظام کے کہ اس میں صدر مملکت محض ایک نمائشی چیز ہے، اصل اقتدار صرف پارلیمان کا ہوتا ہے اور پوری پارلیمان میں کسی غیر مسلم کو شامل نہ کرنا عملاً دشوار ہے اس لیے بھی صدارتی طرزِ حکومت اصولِ اسلام سے قریب تر ہے‘‘ (۲۳؍ا)۔
(۵) شرائط اہلیتِ امیر / سربراہ مملکت و حکومت
سربراہ مملکت ؍حکومت کی اہلیت کے شرائط و اوصاف ایک اہم دستوری مسئلہ ہے۔ مفتی رشید احمد کی رائے میں نصوص قرآن و سنت سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ امیر ایسے شخص کو منتخب کرنا فرض ہے جس میں امارت کی اہلیت ہو (۲۳؍ب)۔ان کی رائے میں اسلامی مملکت کے سربراہ کی ذات میں نہ صرف ان تمام شرائط و اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے جو اہل حل و عقد کے لیے لازم ہیں ، بلکہ اس کے لیے یہ شرط بھی ضروری ہے کہ وہ صاحب ہمت و شجاعت ہو۔ مفتی رشید احمد کی رائے ملاحظہ ہو:
’’ اہلیت اہل حل و عقد کے لیے پانچ شرائط ہیں: ( ا) عقائد اسلام میں رسوخ و مضبوطی؛ (ب) ذکورہ؛ (۳) علم دین میں رسوخ؛( ۴) تقویٰ و تصلب فی الدین ،؛(۵) ملکی حالات و سیاسیاتِ حاضرہ میں بصیرتِ تامہ (۲۴)۔ امیر کے لیے اہلیت حل و عقد کی شرائطِ مذکورہ کے علاوہ شرط یہ بھی ہے کہ صاحب ہمت و شجاعت ہو‘‘ (۲۵)۔
حوالہ جات و حواشی
۱) مولانا احمد رضا خاں بریلوی(۱۲۷۳۔۱۳۴۰ھ؍۱۸۵۶۔۱۹۲۱ء)، فتاویٰ رضویہ (لاہور: رضا فاؤنڈیشن، ۱۴۱۹ھ؍۱۹۹۸ء)، جلد ۱۴: رسالہ دوام العیش من الائمۃ من القریش،(زندگی کا دوام اس امر میں ہے کہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے)، ص ۱۷۳۔۲۴۷ ۔
۲) مولانا ابو الکلام آزاد، مسئلۂ خلافت ) ، لاہور: دارالشعور، ۲۰۰۲ء ) ؛ مولانا حبیب الرحمٰن دیوبندی، ’’خطبۂ صدارت‘‘، اجلاس چہارم جمعےۃ العلماء ہند، بمقام ’’گیا‘‘، ۲۴ تا ۲۶ دسمبر ۱۹۲۲ء، زیر صدارت مولانا حبیب الرحمٰن دیوبندی ، مشمولہ پروین روزینہ (مرتب)، جمعیت العلماء ہند: دستاویزات مرکزی اجلاس ہائے عام ۱۹۱۹ تا ۱۹۴۵ء (اسلام آباد: قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت ، ۱۹۸۰ء)، جلد ۱، ص۱۵۴۔۱۷۴؛ سید سلیمان ندوی، ’’خطبہ صدارت: اجلاس ہفتم جمعےۃ العلماء ہند، کلکتہ، ۱۱ تا ۱۴ مارچ ۱۹۲۶ء، ‘‘، مشمولہ پروین روزینہ (مرتب)، جمعیت العلماء ہند: دستاویزات ،جلد ۱، ص۳۳۱۔۳۳۸، ۳۴۲۔۳۶۱۔
۳) مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری ، فتاویٰ ثنائیہ (مرتبہ: مولانا محمد داود راز) ۲ جلدیں (لاہور: ادارۂ ترجمان السنہ، ۱۹۷۲ء)، جلد ۲، ص ۵۹۸۔۵۹۹۔
۴) تفصیل کے لیے دیکھیے: وحید عشرت، ’’اقبال اور جمہوریت‘‘، مشمولہ اقبال ۱۹۸۶ء (لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۹۰ء)، ص ۲۹۴۔۲۹۵؛ جسٹس کریم اللہ درانی، ’’اقبال کا اسلامی ریاست کا تصور‘‘، اقبال ریویو (لاہور)، ۲:۲ ، ص ۷۔۱۸؛ وحید قریشی، اساسیاتِ اقبال (لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۹۶ء)، ص ۱۶۔۱۸؛ وہی مصنف، ’’علامہ اقبال کا تصور ریاست‘‘، مخزن (لاہور)، ۲:۲ (۲۰۰۲ء)، ص ۷۷۔۸۳؛ جاوید اقبال ، زندہ رود (لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۴ء)، ص ۴۸۴۔۴۸۵؛ وہی مصنف، ’’اقبال اور عصر جدید میں اسلامی ریاست کا تصور‘‘، مشمولہ سید محمد حسین جعفری (مرتب)، اقبال: فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید (کراچی: پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعۂ کراچی، ۱۹۸۸ء)، ص ۷۳۔۱۲۲۔
مزید دیکھیے:
Allama Muhammad Iqbal, "Presidential Address - Allahabad Session", in Syed Abdul Latif (ed.), Thoughts and Reflections of Iqbal (Lahore: Sh. Muhammad Ashraf, 1992), pp. 162-167, 173 190; Sir Muhammad Iqbal, Islam as an Ethical and a Political Ideal, ed. S. Y. Hashimy (Lahore: Islamic Book Service, 1998), pp. 99-104, 106-108; Idem, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, ed. M. Saeed Sheikh (Lahore: Iqbal Academy Pakistan, 1989), 122-25, 137-140, 142; Idem, "Political Thought in Islam", Abdul Vahid (ed.), Thoguhts and Reflections, pp. 58-75; Javed Iqbal, "The Image of Turkey and Turkish Democracy in Iqbal's Thought and his Concept of Modern Islamic State", Iqbal Review, 28:3 (1987), pp. 27-39.
۵) مجلس نظام اسلامی کی تشکیل اور اس کی کارگزاری کے بارے میں ملاحظہ ہو: عبدالماجد دریا بادی، ’’پیش لفظ‘‘، مشمولہ مولانا محمد اسحاق سندیلوی، اسلام کا سیاسی نظام (اسلام آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۸۹ء)، ص ۱۔۳؛ سید سلیمان ندوی، ’’شذرات‘‘، معارف (اعظم گڑھ)، فروری ۱۹۴۱ء، و مئی ۱۹۴۱ء؛ دریا بادی (مرتب)، سید سلیمان ندوی کے خطوط، حصہ دوم، ص ۸۷۔۸۹، ۱۰۱۔۱۰۲؛ مسعود عالم ندوی (مرتب)، مکاتیب سید سلیمان ندوی (لاہور: مکتبہ چراغ راہ، ۱۹۵۴ء)، ص ۱۰۵، ۱۰۶، ۱۰۷۔
۶) دیکھیے: عبدالماجد دریا بادی، ’’پیش لفظ ‘‘، مشمولہ اسلام کا سیاسی نظام ( مرتبہ: محمد اسحاق صدیقی سندیلوی) ، ص ۱۔۲۔
۷) :Muhammad Asad, "Towards an Islamic Constitution", Arafat, 1:9 (July 1947), pp. 262-284 ۔اس کی تلخیص ماہنامہ شمس الاسلام (بھیرہ، ضلع سرگودھا میں شائع ہوئی۔ دیکھیے: محمد اسد مدیر عرفات، ، ’’پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے بعد(۱)‘‘، جون ، جولائی ۱۹۴۷ء، ص ۵۷۔۵۸۔؛ محمد اسد، ’’پاکستان کا خواب شرمندہ ہونے کے بعد(۲)‘‘، اگست ۱۹۴۷ء، ص ۳۴۔
۸) :Asad, "Islamic Constitution-Making", Arafat: Quarterly Journal of Islamic Reconstruction, No. 1
(March 1948, pp. 16-62). ۔[اس تحریر کا اردو ترجمہ ماہنامہ شمس الاسلام (بھیرہ، ضلع سرگودھا) میں بھی شائع ہوا۔ دیکھیے: علامہ محمد اسد (جرمن نو مسلم سکالر)، ’’اصول دستور اسلامی‘‘، شمس الاسلام، مارچ ۱۹۴۹ء، ۲۷۔۳۲۔
۹) ابوالاعلیٰ مودودی، دستوری تجاویز (لاہور: مرکزی مکتبۂ جماعتِ اسلامی پاکستان، ۱۹۵۲ء)؛ ماہنامہ ترجمان القرآن میں اسلامی دستور کے موضوع پر مولانا مودودی کی تحریروں کے لیے ملاحظہ ہو: حکیم نعیم الدین زبیری (مرتب)، اشاریہ ماہنامہ ترجمان القرآن، ۱۹۳۲۔۱۹۷۶ء (کراچی: ادارۂ معارفِ اسلامی، ۱۹۸۵ء)، ص ۴۔۱۱؛ سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست (لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء)؛ امین احسن اصلاحی، اسلامی ریاست (لاہور: دارالتذکیر، ۲۰۰۲ء )۔ علامہ محمد اسد اور سید مودودی کی تعبیرات و توجیہات علماء پر اثر انداز ہوئیں؛ مناظر احسن گیلانی، ’’پاکستان کا اسلامی دستور‘‘، صدق (لکھنؤ)، ۱۹۴۸ء) ۔
۱۰) دیکھیے: نفاذِ اسلام کے لیے پاکستان کے علماء کرام کے بائیس نکات (اسلام آباد: دار العلم، س۔ ن)۔
۱۱) جب ۱۹۴۹ء میں یہ دستور ساز اسمبلی نے باقاعدہ دستور سازی کا کام شروع کیا تو حکومت پاکستان نے ایک اسلامی مشاورتی بورڈ بنایا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسلامی دستور کا خاکہ تیار کر کے پیش کرے گا اور اس کی روشنی میں دستور ساز اسمبلی پاکستان کا آئین تیار کرے گی۔ اس بورڈ کے سربراہ جناب علامہ سید سلیمان ندوی مقرر ہوئے اور مفتی محمد شفیع اور ڈاکٹر امحمد حمید اللہ (سابق استاذ جامعہ عثمانیہ ، حیدر آباد دکن) ، پروفیسر عبدالخالق اور مولانا محمد جعفر حسین مجتہد ممبر کی حیثیت سے نامزد کئے گئے ۔ مولانا ظفر احمد انصاری بورڈ کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔یہ بورڈ اگست ۱۹۴۹ء سے اپریل ۱۹۵۴ء تک قائم رہا اور مفتی محمد شفیع شروع سے آخر تک اس کے اہم رکن رہے ۔ اس بورڈ نے دستور پاکستان کے لیے جو سفارشات پیش کی تھیں اگرچہ ۱۹۵۶ء کے دستور پاکستان میں ان کی جھلک بڑی حد تک موجود تھی جس کے باعث وہ دستور ’’اسلامی دستور‘‘ کہلانے کا مستحق ہو گیا۔ لیکن اس بورڈ کی تمام سفارشات کسی بھی دستور میں نہ تو تمام کی تمام روبہ عمل لائی گئیں اور نہ انہیں شائع کیا گیا۔ (مفتی محمد رفیع عثمانی، ’’ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع صاحب کے مختصر حالات زندگی‘‘، مشمولہ مولانا مفتی محمد شفیع، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند: جلد دوم یعنی امداد المفتین کامل (کراچی: دارالاشاعت، ۲۰۰۱ء)، جلد ۲ ،ص ۷۸۔
مزید دیکھیے:
Keith Callard, Pakistan: A Political Study (London: George Allen & Unwin Ltd., 1958), pp. 85-103; Leonard Binder, Religion and Politics in Pakistan (Berkeley, CA: University of California Press, 1963), chaps. 4-5, pp. 137-182 ;Manzooruddin Ahmad, Pakistan: The Emerging Islamic State (Karachi: The Allies Book Corporation, 1966), chap. 6, pp. 89-122.
۱۲) رفیع عثمانی، ’’عورت کی سربراہی: اکابر علماء کا فیصلہ‘‘، مشمولہ مفتی رشید احمد، احسن الفتاویٰ، جلد ۶، ص ۱۸۲)۔
۱۳) انصاری کمیشن کی سفارشات کے لیے دیکھیے: مولانا ظفر احمد انصاری(مرتب)، نظام حکومت کے بارے میں انصاری کمیشن کی رپورٹ ، ۲۴ شوال المکرم ۱۴۰۳ھ؍ ۴ اگست ۱۹۸۳ء (اسلام آباد: گورنمنٹ آف پاکستان، ۱۹۸۳ء) ۔
۱۴) علامہ شبیر احمد عثمانی اور ان کے رفقاء بالخصوص مفتی محمد شفیع اور مولانا ظفر احمد عثمانی نے اپنے فتاویٰ اور فقہ پر اپنی کتب میں نصوص قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے سیاسی نظائر سے اخذ کر کے اسلامی دستور کا ایک خاکہ مرتب کرنے کی سعی کی تھی (ملاحظہ ہو: مفتی محمد شفیع، دستورِ قرآنی، کراچی : مکتبہ دارالعلوم، ۱۳۷۲ھ؍۱۹۵۲ء )۔ مفتی محمدشفیع کا یہ خاکہ ان کے مجموعہ ہائے فتاویٰ جواہر الفقہ میں بھی شامل ہے ( دیکھیے: مولانا مفتی محمد شفیع، جواھر الفقہ: فقہی رسائل و مقالات کا نادر مجموعہ (کراچی: مکتبہ دارالعلوم، ۱۳۴۱ھ؍۲۰۱۰ء)، جلد ، ۵، ص۴۶۱ ۔۵۲۷ ۔ مزید براں انہوں نے ووٹ کی شرعی حیثیت سے متعلق ایک مفصل فتویٰ بھی جاری کیا جس میں ووٹ کو ایک امانت قرار دیتے ہوئے اس کے جائز اور ناجائز استعمال کی صورتوں کی وضاحت کی۔ یہ فتویٰ بھی ان کی فقہی تالیف جواہر الفقہ میں شامل ہے ۔
۱۵) مفتی رشید احمد، احسن الفتاویٰ (کراچی: ایچ ایم سعید کمپنی، طبع ششم، ۱۴۲۲ء)، جلد ۶ ، ص۲۳۔
۱۶) ایضاً ، جلد ۶، ص ۲۱۔
۱۷) ایضاً ، جلد ۶، ص۲۴۔۲۷ ۔
۱۸) ایضاً ، جلد ۶، ص ۲۶۔۲۷۔
۱۹) ایضاً ، جلد۶، ص ۱۴۳۔
۲۰) ایضاً ، جلد ۶، ص ۱۴۴۔
۲۱) ایضاً ، جلد ۶، ص ۔
۲۲) مولانا محمد یوسف لدھیانوی، آپ کے مسائل اور ان کا حل، (کراچی: مکتبہ لدھیانوی، ۱۹۹۹ء) جلد ۸، ص ۱۸۲۔۱۸۵۔
۲۳ (ا) مفتی محمد شفیع، جواھر الفقہ، جلد ۵، ص ۴۷۹۔
۲۳ (ب) احسن الفتاویٰ، ص ۱۴۳۔۱۴۴۔
۲۴) مفتی رشید احمد، احسن الفتاویٰ، ص ۱۴۳۔
۲۵) ایضاً ، جلد ۶، ص ۱۴۴۔۱۴۵۔
(جاری)
بوقت نکاح و رخصتی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر
عدنان اعجاز
معروف اسلامی روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ کی عمر چھ (6) برس تھی اور رخصتی کے وقت نو (9) برس۔ انتہائی کم سنی کی یہ مبیّنہ شادی عصر حاضر میں دین اسلام کی مذمت کے لیے عمومی طور پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی کردارکشی کے لیے خصوصی طور پرپیش کی جاتی ہے اور مسلمان اس الزام کے دفاع/جواز میں تذبذب کا شکار دکھائی دیتے دیتے اب معاملے کی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی قریب سے شروع ہونے والی اس بحث کو ہمارے زمانے میں دو بنیادی وجوہات سے حددرجہ اہمیت و انفرادیت حاصل ہو گئی ہے:
- عالم اسلام کے مغربی اقوام کے زیر تسلّط آنے اور پھر آزادی پانے کے بعدمغربی روشن خیالی کے زیرِ اثر اخلاقی معیارات کی جو از سرِ نو تعمیر ہوئی، اس میں کم سن بچیوں سے شادی / تعلق زن و شو کے رجحان کو قابلِ کراہت قرار دے دیا گیا۔ اس اصول کو بڑی حد تک اب دنیا میں ایک بنیادی اخلاقی حقیقت کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ کم سے کم جدید تعلیم یافتہ طبقہ 150 مسلم و غیر مسلم 150 اس اصول کی اخلاقی قوت اور انحراف کی صورت میں شناعت کو اپنے اخلاقی وجود میں محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ ادوارِ ماضی کے برعکس ہمارے دور کی جوان اور نوجوان نسلوں کو اس معاملے کی حقیقت معلوم کرنے میں غیر معمولی دلچسپی ہے؛ صرف اس لیے نہیں کہ وہ غیر مسلموں کے حملوں کی مدافعت کر سکیں، بلکہ بدرجہ اولیٰ ولکن لیطمئن قلبی کی غرض سے۔
- ماضی قریب میں مستشرقین سے ہونے والی بحثیں بڑی حد تک 'مذہبی' بحثیں تھیں جس میں فریقین کسی نہ کسی مذہب کے پیرو ہی ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ یا تو 'اپنے' مذہبی پیشواؤں / مقدّس ہستیوں سے منسوب کچھ سوال طلب طرزِ عمل کی روایات پر اعتقاد انہیں پوری جرات سے سوال کرنے سے ہی روک دیتا تھا، اور یا پھر سوال کے جواب میں نفس مسئلہ کے علی الرّغم مسلمان اْن کی اپنی دینی تاریخ میں مذکور انحرافات کی نشاندہی کر کے ان کو سبکی کھانے پر مجبور کر دیتے تھے۔ مگر ہمارے دور میں الحاد پرستوں نے150 خصوصی طور پر 'جدید الحاد پرستی' ( Nes Atheism) کے معتقدین نے، جو صرف اسلام نہیں بلکہ تمام ادیان کے پیروؤں پر جارحانہ دلائل کی بوچھاڑ کیے ہوئے ہیں150 اس طرح کے سارے طرزِ تخاطب نا ممکن بنا چھوڑے ہیں۔ اْن کے نزدیک جب کوئی مقدس اور قابلِ حرمت ہستیاں ہی نہیں تو مسئلے کا خالص عقلی و تاریخی و اخلاقی جواب دینے پر ہی ڈیرے ڈالنا ہمارے دَور کی مجبوری ہو چلا ہے۔
یہ مضمون غیر مسلموں کو مخاطب نہیں بناتا، بلکہ اس کی نوعیت امت مسلمہ کی ایک In-house Discussion کی ہے۔ اس مضمون کا مقصد اس مسئلے پر ہونے والی بحثوں اور جانبین 150 یعنی وہ مسلمان جو اس روایت کو درست مانتے ہیں اور وہ جو اسے غلط سمجھتے ہیں 150 کے دلائل کا جائزہ لینا، اور ان زاویوں کی نشاندہی کرنا ہے جو ان مباحث میں اب تلک موضوعِ بحث نہ بن پائے ہیں، مگر مسئلے کی تحقیق میں اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ گویا ایک طرح سے یہ مضمون بیک وقت اب تک ہونے والی بحثوں پر تبصرہ اور تشنہ یا غیر مذکور رہنے جانے والے زاویوں کا مرکب ہے۔
جانبین اور مجوزہ طرزِ گفتگو
اس سے پہلے کہ نفس مسئلہ کا رْخ کیا جائے، میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ جانبین کی شناخت اور ان کے نقطہ ہائے نظر کے محرکات کی نشاندہی قدرے تفصیل سے ہو جائے تا کہ طرزِ گفتگو پر جو گزارش میں پیش کرنا چاہتا ہوں، اس کا جواز فراہم ہو سکے۔
اِس بحث کا ایک فریق وہ گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اماں عائشہ کی عمر کے متعلق روایتی مؤقف ہی درست ہے۔ اس گروہ کا مرکزہ (nucleus) اصلاً دینی علما پر مشتمل ہے۔ پھر اْن مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد بھی اس رائے میں ان کی ہم نوا ہے جو علما کی محافل میں اٹھتی بیٹھتی یا دین کی روایتی تعبیر کو ہی درست مانتی ہے۔ اِن کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ ان میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی بھی کچھ نمائندگی موجود ہے تو خلافِ واقعہ نہ ہو گا۔
اس گروہ کا بنیادی استدلال اس روایت کی اسنادی پختگی اور اسلاف کا اس پر اعتماد ہے۔ یعنی وہ اسے فنی اور علمی اعتبار سے ناقابل انکار سمجھتے ہیں۔ وہ جن موازین پر تول کر دین میں کھرے اور کھوٹے کو باور کرتے ہیں ، اْن موازین میں اس روایت کا وزن بھی باقی درجہ وثوق کو پہنچنے والی اخبار سے کسی قدر کم نہیں سمجھتے۔ پھر اپنے دعوے کو تقویت دینے کے لیے وہ کم سنی/قبل البلوغ کی شادیوں میں کوئی مستقل بالذات قباحت نہ ہونے کے مدعی اور تاریخ کی کچھ قرائنی شہادتوں کی ناموافق توجیہات کے غلط، جانبدارانہ یا ناکافی ہونے کے قائل ہیں۔
فریق آخر وہ گروہ ہے جو اس روایت کو درست نہیں سمجھتا۔ اس گروہ کا مرکزہ اصلاً جدید تعلیم یافتہ طبقے پر مشتمل ہے۔ پھر ان مسلمانوں کی بھی ایک قابلِ لحاظ تعداد اس رائے کی حامی دکھائی دیتی ہے جو مغرب میں پلے بڑھے یا وہاں خاطر خواہ وقت گزارا یا وہاں کے لوگوں سے منسلک رہے ہیں۔ بلکہ اس کو اگر سمت مخالف سے یوں بیان کیا جائے کہ جو لوگ مذہب کی روایتی تعبیر یا شدت پسندانہ تعبیر سے مرعوب نہ ہو پائے ہیں، وہ زیادہ تر اسی رائے کے حاملین ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔
اس گروہ کے بنیادی استدلال رسل اللہ علیہم السلام کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کی ہمیشہ پاسداری اور قرائن کی شہادتیں ہیں۔ یعنی وہ بنیادی طورپر یا تو مزعومہ فعل کی شناعت و کراہت کے قائل ہیں اور اس سبب سے اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے کے لیے تیار نہیں اور یا پھر قرائن کی شہادتوں اور تاریخی واقعات کی روایات کو اپنا مؤید مانتے ہیں۔ چنانچہ وہ قدیم مؤقف کی تائید میں پیش کی گئی روایات کو عقلی اعتبار سے ناقابل قبول یا کم سے کم باعتبارِ ثبوت ناکافی سمجھتے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ دونوں گروہ دین اسلام کے وقار و حقانیت کے قائل اور اس کی سچی تعبیر کی کھوج کے مسافر ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اپنے مؤقف کا حامی اس لیے نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اسلام کے تقدس کو پامال کرنے کے درپے ہو یا غیر مسلموں کا جانتے بوجھتے آلہ کار بننا چاہتا ہو۔ چنانچہ کوئی وجہ نہیں کہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے خلوص پر سوال اٹھائیں اور اس کے نتیجے میں وہ اہانت و حقارت آمیز رویہ اختیار کریں جو اب تک کی مراسلت میں اِلا ما شاء اللہ غالب نظر آتا ہے۔
الغرض دونوں گروہ ایک دوسرے کے خلوص کا اعتراف کرتے ہوئے دوستانہ اور با ادب لب ولہجہ اختیار کریں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ معاملے کی تہہ تک پہنچنا ممکن ہو سکے گا بلکہ اقوامِ عالم کو ایک انتہائی حساس و جذباتی معاملے کے متعلق بحث و تمحیص میں بھی اس دین کی سکھلائی ہوئی تہذیب کی شدت و گہرائی کا اندازہ ہو سکے گا۔
اس اپیل کے ساتھ آئیے اب تک ہونے والی بحثوں کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔
جانبین کے دلائل کا جائزہ
عمر عائشہ کو ایک واضح مسئلے کی حیثیت سے ماضی قریب کے کچھ محققین نے اٹھایا۔ ان میں غلام احمد پرویز، محمود احمد عباسی، ظہور احمد قریشی وغیرہ آغاز کنندگان میں قابلِ ذکر ہیں۔ انہوں نے چند علمی و تاریخی دلائل کی روشنی میں حضرت عائشہ کی شادی کے وقت عمر کے روایتی مؤقف سے اختلاف کیا۔ پھر حکیم نیاز احمد صاحب نے کشف الغمۃ عن عمر امّ الامۃ اور علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی نے ’’عمر سیدہ عائشہ پر ایک تحقیقی نظر‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بحث کرکے ان سارے دلائل کو جمع کردیا ہے جو ان کے نزدیک یہ بات واضح کر دیتے ہیں کہ نکاح کے وقت سیدہ کی عمر وہ نہیں تھی جو بیان کی جاتی ہے، بلکہ وہ ایک بالغ اور نوجوان خاتون تھیں۔بلکہ کاندھلوی صاحب نے تو اپنے موقف کی تائید میں سب سے زیادہ یعنی چوبیس (24)دلائل فراہم کر دیے۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ کاندھلوی صاحب کا رسالہ اس مسئلے میں فریق آخر کے سب دلائل کا ایک جامع اور اتم خلاصہ ہے تو غلط نہ ہو گا۔
فریق اوّل کے نمائندہ علما نے ان دلائل کا وقتاً فوقتاً ردّ شائع کیا۔ اگرچہ متعدد علما نے چیدہ چیدہ دلائل پر اپنی تنقید اور تجزیہ نقل کیا جن کو یہاں شمار کرنا ممکن نہ ہو گا، تاہم میری نظر سے گزرنے والے فن پاروں میں سے تین اصحاب کا کام اس سلسلے میں بہت جامع ہے۔ فہد بن محمد بن محمد الغفیلی کی کتاب 'السّنا الوھّاج فی سن عائشۃ عند الزّواج' اور حافط ثناء اللہ ضیاکی کتاب ’’عمر عائشہ کی تحقیق اور کاندھلوی تلبیس کا ازالہ‘‘ میں تمام دلائل کا نکتہ بہ نکتہ جواب دیا گیا ہے۔ اور عمار خان ناصر صاحب کا مجلہ 'الشریعہ' اپریل 2012 کے شمارے میں شامل مضمون بعنوان ’’رخصتی کے وقت امّ لمؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر‘‘ میں اہم دلائل کا مختصر مگر جامع تجزیہ کیا گیا ہے۔ پہلے دو اپنی تفصیل اور تیسرا اختصار کے باعث فریق اوّل کے دلائل کا ایک جامع مطالعہ فراہم کرتے ہیں۔
اہم کتب و رسائل کی نشاندہی کے بعد آئیے اب اہم دلائل اور ان کے جوابات کا تجزیہ کرتے ہیں۔
روایات کی اسنادی حیثیت
روایتی مؤقف پر سب سے قوی ’’فنی‘‘ اعتراض اس دلیل کی صورت میں سامنے آیا کہ حضرت عائشہ کی کم سنی میں شادی کی دعویدار روایت جن طرق سے ہم تک پہنچی ہے، ان سب کے رواۃ میں ایک مشترک راوی ہشام بن عروہ ہیں، جو اگرچہ رشتے میں تو حضرت عائشہ کے بھانجے عروہ بن زبیر کے بیٹے ہیں، مگر چونکہ اْن کی131 ہجری کے بعد اور/یا عراقیوں سے ملنے والی روایات کو ہمارے اسلاف نے اصولی طور پر مردود جانا تھا اور یہ بھی اسی نوعیت کی روایت ہے، اس لیے ناقابل قبول ہے۔ یہ دعویٰ اگر درست ہوتا تو قطع نظر اس سے کہ ہشام پر اٹھائے گئے اعتراضات کس قدر فیصلہ کن ہوتے، ان کا اس روایت میں متفرد ہونا ہی شاید اْس بنیادکو منہدم کر دیتا جس پر روایتی مؤقف قائم ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ فریق اوّل نے ایسی متعدد طرق اور روایات سامنے رکھ دیں جو ہشام بن عروہ کے واسطے سے نہیں تھیں۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ یہ استدلال قطعاً قابلِ اعتنا نہیں رہتا۔ تاہم اس استدلال کی بازگشت اب بھی فریق ثانی کے مضامین میں سننے کو ملتی رہتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جوابی استدلال اب تک ان کے مطالعے میں آ نہیں سکا یا وہ اسے ماننے کے لیے تیار نہیں۔
تاریخی قرائن پر جانبین کے دلائل اور نتائج مختلفہ پر تبصرہ
حضرت عائشہ صدیقہ کی شادی کے وقت عمر کا تعین اپنی اصل کے اعتبار سے ایک تاریخی قضیہ ہے۔ یعنی نہ تو اللہ نے اس کا ذکر قرآن میں فرمایا ہے اور نہ ہی کوئی قولِ رسول ایسا ہے جس میں عمر مذکور ہو۔ پس اس کی نوعیت ایک ایسے تاریخی واقعے کی ہے جس کے بارے میں یہ طے کرنا ہے کہ وہ پیش آیا کہ نہیں اور اس کی تفصیلات کیا تھیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ تاریخی تحقیق میں جس طرح کسی مسئلے سے متعلق شخصیات کے براہِ راست اقوال کی جانچ پڑتال اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اسی طرح دوسرے واقعاتی قرائن کے ساتھ تکرار و تطبیق سے بھی کسی دعوے کی تصدیق و تکذیب بہت ضروری ہوتی ہے۔ مثلاً اگر یہ دعویٰ تاریخ میں کسی شخص سے منقول ہو کہ اْس نے فلاں فلاں جگہیں فتح کیں، یا اْس نے فلاں فلاں کام کیے، یا اس کی عمراِن کاموں کے وقت فلاں فلاں تھی، تو یہ دیکھا جائے گا کہ اس دَور کی جو تاریخ ہمیں ملتی ہے، وہ عمومی طور پر اِن دعاوی کی تصدیق کرتی ہے کہ نہیں۔ مثال کے طور پر اگر تاریخ کے مطالعے میں متعدد بالواسطہ قرائن ایسے ملیں کہ اس کی فوج تو فلاں جگہ پہنچ ہی نہ پائی تھی، یا مزعومہ کام کرنے کی اس میں استعداد ہی نہ تھی، یا پھر اس شخص کی عمر فلاں شخص کے جتنی تھی جو اس کے دعوے کی نفی کر دیں تو کسی بھی محقق کے لیے یہ ایک تجزیاتی فیصلہ قرار پاتا ہے کہ وہ مبینہ دعوے کو درست مانے یا رد کر دے۔
بالفاظِ دیگر زبانِ قال اور زبانِ حال میں بظاہر تصادم پایا جائے تو اس امر کی تحقیق ضروری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس معاملے کے محققین نے بھی ایسے متعدد قرائن پیش کر دیے جن سے فریق ثانی اپنے موقف کی تائید کے دعویدار ہوئے۔ ان قرائن کا اگر خالی الذہن ہو کر مطالعہ کیا جائے، کمزور دلائل کو منہا بھی کر دیا جائے، تو عائشہ کا کم سے کم بچپن کی حدود سے پار ہونا قرین ازقیاس لگتا ہے۔ تاہم ان قرائن کو ضم کرنے کے بعد بھی فریق اوّل انہیں حضرت عائشہ سے منسوب قولی روایات کو بے اثر کرنے کے لیے کافی نہیں سمجھتا۔ نتیجتاً دونوں فریقین اپنے اپنے مؤقف پر متحجر سے ہو گئے ہیں۔ میں جتنا سمجھ پایا ہوں، اس اختلاف کا باعث انفرادی دلائل کی داخلی قوت نہیں بلکہ ایک اصولی علمی رویّے کی کشمکش ہے جس کی تحلیل بہت ضروری ہے۔
تفہیم کے واسطے ایک علمی رویے کو محدثانہ اور دوسرے کو مورخانہ کہہ لیتے ہیں۔ (۱) محدثانہ سے مراد وہ رویہ ہے جس میں کسی شخصیت سے منسوب قولی روایت کے راویوں کی اگر تحقیق کر لی جائے تو وہ ایک ایسے ناقابل انکار ثبوت کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے جس کی تلافی کسی مثل آفتاب دلیل سے کم سے نہیں ہو سکتی۔ اگر قرائن اس کے خلاف بھی جاتے ہوئے محسوس ہوں تو جب تک اْن کی تاویل بالکل ناممکن نہ ہو جائے، وہ فیصلہ کن نہیں سمجھے جاتے۔
مؤرّخانہ سے مراد وہ رویہ ہے جس میں کسی تاریخی واقعے کی تحقیق کے لیے کسی ہستی کا کوئی دعویٰ 150 خواہ وہ اپنے متعلق ہی کیوں نہ ہو151 قرائن میں سے بس ایک قرینہ ہو۔ چنانچہ تمام بالواسطہ قرائن اور عقلی و منطقی تقاضوں کی تضمیم کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے کہ معاملے کی کون سی صورت قرین قیاس لگتی ہے۔ اور غیر معمولی دعاوی کو قبول کرنے کے لیے ہوا بند اور آہن پوش شواہد درکار سمجھے جائیں جو اگر میسر نہ ہوں تو نامعقول دعاوی کو ردّ کر دیا جائے۔ اس رویے میں صریح دعویٰ کرنے والی براہِ راست روایت کسی ایسی حرمت کی حامل نہیں سمجھی جاتی کہ اس کو کسی واقعے کی تحقیق میں قرائن کے مخالف یا بعید از قیاس ہونے کے سبب ردّ نہ کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس رویے کے حاملین ’’رجال‘‘ کی بحثوں کے بجائے اصلاً ’’امکانِ وقوع’’ کی بحثوں کے قائل ہوتے ہیں۔
چنانچہ زیر بحث مسئلے میں ہوا یہ ہے کہ فریق اوّل محدثانہ روش کا قائل اور فریق ثانی مؤرخانہ نقطہ نگاہ کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فریقِ ثانی عمر کے متعلق صریح نصوص کی موزونیت سے مرعوب نہیں ہوتا اور فریق اوّل بات یہاں سے شروع کرتا ہے کہ چونکہ روایات ’’صحیح‘‘ ہیں، اس لیے قرائن کی تاویل حتی الامکان کی جائے گی۔ یعنی چاہے روایات ایک انتہائی خلافِ معمول فعل کی دعویدار ہوں، مبینہ قرائن یہ بتاتے ہوں کہ رخصتی کے وقت اور اس کے گرد و نواح میں حضرت عائشہ ایسی عمر میں تھیں جس میں انہیں جنگوں میں شامل کیا گیا، بیماروں اور زخمیوں کی تیمارداری پر مامور ہوئیں، اپنی بہن اور سوتیلی بیٹی کی عمروں کے ساتھ موازنے کے نتیجے میں ان کی عمرمختلف بنتی ہے، اور مؤرّخین انہیں اولین اسلام لانے والیوں میں شامل کرتے تھے، مگر فریق اوّل ’’غیر معمولی ذہانت و صلاحیت‘‘ یا دوسری ملتی جلتی تاویلات کر کے تمام قرائن کی موافق توجیہ کر دیتا ہے۔الغرض یہ ایک ایسی ناقابل مصالحت پیچیدگی ہے جسے عبور کرنا فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
بنا بریں حاصل کلام یہ ہوا کہ فیصلہ قارئین نے خود کرنا ہے۔ جہاں تک میری رائے کا تعلق ہے، چونکہ یہ فقط ایک تاریخی واقعہ ہے، اس لیے مؤرّخانہ اندازِ فکر 150 جس میں بنیاد امکانِ وقوع سے اٹھائی جائے150 زیادہ موزوں ہے۔
مجوزہ علمی رویے کے حق میں ایک تجرباتی دلیل
آخرالامم ہونے کے ناطے ہمیں یہ امتیازی خوش قسمتی حاصل ہے کہ ہم اپنے سے قبل امتوں کی غلطیوں سے وافر سبق سیکھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پروردگار نے بنی اسرائیل کے احوال ہمیں تفصیل سے سنائے۔ اس کا مقصد دیگر مقاصد کے ساتھ یقیناًیہ بھی تھا کہ ہم وہ غلطیاں نہ دہرائیں جو ہم سے پہلے لوگوں سے سر زد ہوئیں۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ روایت پرستی کا نظریہ بنی اسرائیل کے ہاں بھی شدت سے پیدا ہوا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ انہوں نے اپنے انبیاء و صالحین کے متعلق یا ان سے منسوب ایسی قبیح اورو اہی باتوں پر یقین کیا کہ اس پر دل خون کے آنسو روئے تو بھی کم ہے۔ نقل کفر کفر نہ باشد151 وہ لوط کی اپنی بیٹیوں سے ہم بستری، ابراہیم سے زنا، داو د سے سازشِ قتل وغیرہ کے ارتکاب کے قائل ہوئے۔ یہ نتائج اسی لیے نکلے کہ انہوں نے اْن روایات پر تو اعتماد کیا جو اْن تک پہنچیں پر زبانِ حال کو بالکل نظر انداز کر دیا جو چیخ چیخ کر پکار رہی تھی کہ یہ افک مبین ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی بلکہ دنیا کی تاریخ کے قابل ترین مؤرّخین میں شمار ہونے والے151 اور بہت سوں کے نزدیک مؤرّخین کے سرخیل151ابن خلدون نے مؤرّخانہ علمی رویہ اختیار و تجویز کیا جس کے نتیجے میں انہوں نے بہت سے ایسے روایتی مؤقف ردّ کر دیے جن کی تائید میں ڈھیروں روایات موجود تھیں۔ مگر ظاہر ہے کہ اس رویے کو ہمارے حلقہ علما و مشائخ میں عمومی قبولیت نہ حاصل ہو سکی۔ درانحالیکہ خود ہمارے صحابہ سے ایسی کتنی ہی مثالیں منسوب ہیں جہاں انہوں نے کسی راوی کی روایت 150 بغیر اس کے کہ راوی کے ضبط یا کذب پر کوئی سوال اٹھایا گیا ہو 150 کو علم و عقل کی بنیاد پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اور یہ باوجود اس کے ہوا کہ راویِ اوّل اْن کے درمیان موجود تھا اور ان کے سامنے دعویٰ کر رہا تھا۔ بلکہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جن میں مبینہ اخبار کو بے ہودہ یا بہتان ہونے کی بنیاد پر ردّ کر دیا گیا، قبل اس سے کہ اْن کے رجال کی تحقیق کر لی جاتی ،اور اس طرزِ عمل کی تصویب خود باری تعالیٰ نے بھی کر دی۔(۲)
بدیں وجہ ہمارے لیے یہی مناسب ہے کہ ہم کسی غیر معمولی خبر کے متعلق تحقیق کے آخری درجے تک جائیں چاہے ہمیں سطح پر ہی ایک طرح کا جواب ملتا دکھائی کیوں نہ دے۔ یہ علم و عقل کا تقاضا اور یہی قرآن و سنت کا مدعا بھی ہے۔
اصل میں انیس (19) تھا جو غلطی سے نو (9) رہ گیا؟
فریق آخر کے بعض محققین نے حضرت عائشہ سے منسوب اپنی عمر کے متعلق روایات کو ردّ کرنے کی بجائے قرائن کے ساتھ تطبیق کی کوشش کی ہے۔ اْن کااستدلال یہ ہے کہ جس طرح انگریزی زبان میں بیس (20) سے اوپر کے اعداد کو مرکب اعداد (جیسے 21کو Twenty One، یعنی بیس اور ایک) کے طور پر بولا جاتا ہے، عربی زبان میں یہی معاملہ دس (10) کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے (جیسے 11 کو احَدَ عَشَرَ، یعنی دس اور ایک)۔چنانچہ راویوں نے یا تو سننے میں غلطی کی اور یا پھرکلام میں 'بعد العشر' (یعنی دس کے بعد) کے مقدر الفاظ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
اگرچہ روایات کے بالاستیعاب مطالعے کے بعد بھی کسی بھی طریق میں کوئی ایسا اضطراب نظر نہیں آتا جو اس استدلال کو تقویت بخشے، تاہم ایک اور وجہ سے یہ بعید از قیاس ہے۔ وہ یہ کہ اس سلسلے کی بعض روایات میں صرف 6 اور 9 سال ہی مذکور نہیں بلکہ ان دو عمروں کے ساتھ ایک ہی ترتیب میں یہ بھی مذکور ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اْن کی عمر 18 (ثَمَانَ عَشرَۃَ) برس تھی۔ (۳) یعنی یہ ایک تدریجی (categorical)اور اندرونی طور پر اتنا مربوط بیان ہے کہ اس طرح کے عقلی احتمالات کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ پھر 'عشرۃ' کا لفظ اگر ایک عدد کے لیے عبارت میں موجود ہے تو ظاہر ہے باقیوں کے لیے اس کا سہواً چھوٹ جانا یا مقدر ہونا اور 'عشرین' کا 'عشرۃ' ہو جانابظاہر معقول نہیں لگتا۔
پس یہ طرزِ استدلال تو کمزورہے۔
نکاحِ عائشہ کا پس منظر
حضرت عائشہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا پس منظر 150 جو روایتی مؤقف کے حاملین کے یہاں بھی صائب ہے 150 کے ایک اندرونی تضاد کو بھی فریقِ ثانی کے محققین نے اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ تاریخ کی تحقیق میں جس طرح کسی واقعے کے صدور کا ذکر کرنے والی روایات اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں، اسی طرح واقعے کی وجوہات و علل اور پیش خیمہ بننے والے واقعات بھی قابل توجہ ہوتے ہیں۔
ایک روایت (۴) کے مختلف متون کو جمع کر کے دیکھا جائے تو اس میں مذکور ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ اور عمر بھر کی ساتھی حضرت خدیجہ انتقال فرما گئیں تو ایسا نہیں ہوا کہ نبی نے خود کسی نئی زوجہ کی تلاش شروع کر دی ہو، بلکہ آپ کی بھاوج خولہ بنت حکیم کو آپ کی تنہائی کا احساس ہوا اور انہوں نے خود اپنی جانب سے یہ تجویز پیش کی کہ چونکہ آپ بالکل تنہا ہو کر رہ گئے ہیں تو کیوں نہیں شادی کر لیتے۔ اگر آپ اس کے لیے تیار ہوں تو وہ آپ کی جانب سے بات کرنے 150 یعنی رشتے کا پیغام لے کے جانے150 کے لیے تیار ہیں۔ آپ نے رضامندی کا اظہار کیا۔ اس پر بھی بجائے اس کے کہ اپنی جانب سے کسی کا نام تجویز فرما کر کہتے کہ فلاں جگہ بات آگے بڑھائی جائے، آپ نے صاف اس انداز میں کہ جیسے اس بارے میں آپ کی کوئی رائے ہی نہ ہو، حضرت خولہ ہی سے نام دریافت فرمایا۔ صحابیہ نے فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو ثیبہ (شوہر دیدہ) بھی ہے اور اگر چاہیں تو باکرہ (کنواری) بھی۔باکرہ لوگوں میں آپ کے سب سے محبوب شخص حضرت ابو بکر کی بیٹی عائشہ ہیں، اور ثیبہ آپ پر ایمان لانے والی اور آپ کا اتباع کرنے والی سودہ ہیں۔اس پر آپ نے دونوں طرف پیغام کا عندیہ دیا۔
چونکہ فریق اوّل اس بات کا قائل ہے کہ اس پیشکش کے وقت حضرت عائشہ کی عمر چھ (6) برس تھی، فریق ثانی اس تضاد کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو نہ حضرت خولہ انہیں شادی کے قابل (eligible) ہونے کی حیثیت سے پیش کرتیں اور اگر کر بھی دیتیں تو آپ اس پر اس علت کے سبب کہ وہ تو ابھی بچی ہیں، قبول نہ فرماتے۔ ’’بیوی کی ضرورت زن و شو کے تعلق کے لیے ہو سکتی ہے، دوستی اور رفاقت کے لیے ہو سکتی ہے، بچوں کی نگہداشت اور گھر بار کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ہو سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ چھ سال کی ایک بچی ان میں سے کون سی ضرورت پوری کر سکتی تھی؟ کیا اس سے زن و شو کا تعلق قائم کیا جا سکتا تھا؟ کیا اْس سے بیوی کی رفاقت میسر ہو سکتی تھی؟ کیا وہ بچوں کی نگہداشت کر سکتی تھی؟ کیا وہ گھر بار کے معاملات سنبھال سکتی تھی؟ سیدہ کی عمر سے متعلق روایتوں کے بارے میں فیصلے کے لیے یہ قرائن میں سے ایک قرینہ نہیں، بلکہ بنیادی سوال ہے۔ کیا عقل باور کر سکتی ہے کہ جو ضرورت آج ہے، اس کو پورا کرنے کے لیے ایک ایسی تجویز پیش کی جائے جس کے نتیجے میں وہ برسوں کے بعد بھی پوری نہیں ہو سکتی ؟‘‘(۵)
یہ ایک معقول اور قوی استدلال ہے، اس لیے بھی کیونکہ اخلاقی کے بجائے عقلی جواز کو بنیاد بناتا ہے۔ تاہم فریق اوّل نے ایسے اعتراضات کیے ہیں جن سے ان کے بیان کے مطابق اس استدلال کا وزن ختم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان میں سے معقول اعتراضات کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔
ایک توجیہ یہ پیش کی گئی ہے کہ دراصل حضرت خولہ کی مراد بیک وقت دونوں نکاحوں کی تھی تا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو مختلف حاجات پوری ہو سکیں۔ ایک فوری خانگی ضروریات کو پورا کرنے کی اور ایک حضرت ابو بکر کے ساتھ اپنے رشتے کو گہرا کرنے کی۔ چنانچہ حضرت عائشہ سے شادی کا مشورہ فی الفور رخصتی کے ارادے سے دیا ہی نہیں گیا تھا۔ اس کی تائید میں دو قرائن پیش کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ عملاً ایسا ہی ہوا، یعنی پیغام دونوں کو بھیجا گیا اور ایک کی رخصتی فوراً عمل میں لائی گئی اور دوسری کو مؤخر کر دیا گیا۔ اور دوم یہ کہ حضرت عائشہ سے شادی کی تجویز کے الفاظ میں جو یہ فرمایا گیا کہ ’’لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب شخص کی بیٹی‘‘، اس سے صاف واضح ہے کہ یہ تجویز اپنے اندر دونوں دوستوں میں تعلق کو مزید مضبوط کرنے کا اصل او ر اہم تر محرک لیے ہوئے تھی۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اسی روایت کے متن میں حضرت عائشہ کی عمر کی تعیین خود اپنے قول کے مطابق بھی چھ اور نو صراحتاً مذکور ہے۔ چنانچہ یا تو اس روایت کو پورا قبول کیا جائے اور یا پھر اگر اسے اندرونی تضاد ہی سمجھنا ہو تو پھر اس مبینہ درونی غیر مربوطی ( Intrinsic Incoherence) کے باعث اسے پورا ردّ کر دیا جائے، جس سے ظاہر ہے کہ علت کی یہ واحد روایت ہی منہا ہو جائے گی اور تضاد کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی۔
تاہم یہ دونوں اعتراضات محل نظر ہیں۔
پہلے اعتراض کو لیجیے۔یہ تاویل اگرچہ روایت ہی میں مذکور حضرت خولہ کے صریح الفاظ (ان شئت بکراً وان شئت ثیّبًا) کے بھی خلاف ہے جو واضح طور پر دو میں سے ایک شے کے انتخاب کے لیے ہی بولے جاتے ہیں، مگر چونکہ روایات اکثر بالمعنی ہوتی ہیں، اس لیے قطعی الفاظِ عبارت سے استدلال ہمیشہ کوئی بہت وزنی چیز نہیں ہوتی۔چنانچہ اس کا خلافِ قیاس ہونا زیادہ اہم دلیل ہے۔ یعنی یہ تجویز ایک ایسے شخص کو دی جا رہی تھی جس نے اپنا سارا شباب ایک ہی رفیقہ حیات کے ساتھ بسر کر دیا تھا اور یہ اس شخص نے اپنے معاشرے کے تعددِ ازواج کے عام رواج کے علی الرغم کیا تھا۔ پھر تجویز دینے والی بھی کوئی اجنبیہ نہ تھیں جو حضور کے ماضی و مزاج سے ناواقف ہوتیں کہ ایک سوگوار شخص کو ایک نہیں بلکہ اس کی طبیعت کے بالکل برخلاف دو دو نکاحوں کا مشورہ دیتیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ دو نکاحوں کی بیک وقت تجویز کی توجیہ کو خلافِ عبارت اور خلافِ قیاس ہونے کے سبب قابل التفات سمجھا جائے۔
رہے قرائن، کہ بالفعل ایسا کیوں ہوا 150 ایک کی بجائے دونوں کو پیغام کیوں بھجوایا گیا اور ایک کی رخصتی تاخیر سے کیوں ہوئی151 تو اس میں سے صرف رخصتی دیر سے کیوں ہوئی، مضمون حاضر سے متعلق ہے۔ یعنی اگر رخصتی تاخیر سے کرنے کا ارادہ حضور کا پہلے سے ہونا ثابت ہو جائے تو حضرت عائشہ کا زوجیت کی عمر سے کم ہونا قابل التفات ہو سکتا ہے۔ اس پر دو تین باتیں عرض ہیں۔
ایک تو یہ کہ متن حدیث میں ایسی کوئی بات موجود نہیں جس سے یہ باور کیا جا سکتا ہو کہ ایسا کرنا pre-planned تھا۔ حضرت خولہ نے عائشہ کو بالکل حضرت سودہ کے ہم پلہ پیش کیا۔ نہ انہوں نے، نہ حضور نے اور نہ ہی عائشہ کے والدین نے اتنی اہم بات کا کوئی بھی اشارہ دیا۔ دوسرے یہ کہ نکاح فی الفور یا عنقریب رخصتی کے ارادے ہی سے کیا جاتا ہے۔ کوئی آدمی یہ گوارا نہیں کرتا کہ عقد نکاح ہونے کے بعد بھی اس کی زوجہ اپنے والدین کے گھر پر ہی بیٹھی رہے۔اگر اسے پہلے سے پتہ ہو کہ رخصتی نہیں کرنی یا نہیں ہو سکتی تو پھر نکاح میں تاخیر ہی متوقع رویہ ہے۔ اور تیسرے اگر عمر کم ہونے کے سبب رخصتی تاخیر سے کرنا متضمن ہوتا تو وعدہ نکاح یا سگائی کفایت کرتا۔ یہ منطقی بھی ہے اور عرب کا رواج بھی یہی تھا۔ بلکہ حضرت عائشہ خود بھی اس سے پہلے اسی رواج کے مطابق مطعم بن عدی کے بیٹے کے ساتھ منسوب (betrothed) تھیں۔
رہی یہ بات کہ حضرت عائشہ کے ساتھ شادی کی تجویز میں مذکور الفاظ 'ابنۃ احبّ خلق اللہ عزّ و جلّ الیک' سے کوئی اس نوعیت کا استنباط درست بھی ہے کہ نہیں، تو اس پر عرض ہے کہ کسی بھی عورت سے شادی کی تجویز جب بھی دی جاتی ہے اس انتخاب کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہی بتائی جاتی ہے۔ یہ معمول ہے اور اس کا مقصد بس یہ ہوتا ہے کہ گرد و پیش میں موجود آخر اتنی بہت سی شادی کے قابل رشتوں میں سے یہی کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح حضرت عائشہ کے انتخاب کی وجہ بتائی گئی، اسی طرح حضرت سودہ کی بھی بتائی گئی۔ اس معمول کے عمل سے اس طرح کا کوئی استنباط کہ جس کے نتیجے میں مجوزہ لڑکی کی اہلیت شادی ( Eligibility for marriage) پس عمر سرے سے غیر اہم قرار پائے151ایک متجاوز استنباط ہے۔
دوسرے اعتراض پر عرض ہے کہ اندرونی تضاد کا جو حل پیش کیا گیا ہے، وہ 'محدثانہ' طرزِ فکر کے حاملین کے لیے یقیناًقابل عمل ہو گا، تاہم 'مؤرّخانہ' نظریے کے حاملین کے لیے ایسا کرنا کوئی ضروری نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک تو اس طرح کے تضادات ہی اکثر صحیح ماجرے تک رسائی ممکن بناتے ہیں۔ اور یہاں تو یہ روایت جس تضاد کی نشاندہی کے لیے پیش کی گئی ہے، وہ تو اس روایت کے بغیر بھی لازماً حل طلب ہے۔ یعنی زوجیت کی وہ کون سی قابلیت تھی جس نے اس رشتے کو معقول بنایا۔
بدیں وجہ میرے نزدیک اس استدلال کا وزن پوری طرح باقی ہے اور اس کے مقابل میں جو اعتراضات بھی پیش کیے گئے ہیں، وہ کمزور ہیں۔
کم سنی کی شادی کی حیثیت تاریخ کے آئینے میں
یہ تو طے ہے کہ باقتضائے عہد حاضر کم سنی 150 جیسے نو (9) برس اَو نحوھا 150 میں لڑکیوں سے تعلق زن و شو قائم کرنا عقلی، احشانی اور جذباتی سب ہی اعتبارات سے قابل کراہت چیز ہے۔ کم از کم دورِ حاضر میں تو اِس سے انکار ناممکن اور احمقانہ ہے۔ یعنی چاہے یہ تقریر مغربی تہذیب کے زیر اثر ماضی قریب میں ہوئی، ہم میں سے ہر ایک نہیں تو کم سے کم جدید تعلیم یافتہ طبقے نے تو اپنے پورے اخلاقی وجود میں اس کی قوت کو محسوس کیا اور پورے شعور سے اس کی توثیق کی ہے۔ بلکہ اس کی شناعت اس درجے کی ہو چلی ہے کہ ایسا معاملہ پاکستان کی طرح کے ایک تیسری دنیا کے ملک میں بھی چاہے باہمی رضامندی سے ہی پیش آیا ہو، سماج عمومی طور پر اسے قابل دست اندازیِ معاشرہ سمجھتے ہوئے کالعدم قرار دینے کے لیے اقدام کا حق استعمال کرتے نہیں جھجھکتا۔ چنانچہ معاصر فکر میں اس فعل کے امتناع کے خلاف کسی نئی بحث کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ تاہم کسی بھی محقق کے لیے یہ ابھی بھی ایک قابل غور مسئلہ ہے یا ہونا چاہیے کہ عقلی، احشانی اور جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ کیا یہ ایک فطری نتیجہ بھی ہے؟ اس سوال کا جواب اس لیے اہم ہے کہ اگر یہ جواب اثبات میں ہوا تو اس کا مؤثر بہ ماضی ہونا منطقی ہو گا، اور کم سنی کی شادیوں کی کراہت کومطلق مانتے ہوئے چودہ سو برس پہلے کے ایک معاشرے میں بھی اسے ایک اخلاقی گراوٹ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو گا151 خصوصاً وہ معاشرہ جو اسلام کی روشنی سے منور ہو چکا تھا۔ اہل مغرب کا یہی نظریہ ہے، اسی لیے وہ اسے اخلاقی گراوٹ ہی سمجھتے ہیں۔ اور اگر اس کا جواب نفی میں ہوا تو اعتباری اور غیر مطلق ہونے کی وجہ سے ماضی کے دریچوں پر کوئی حکم لگاتے ہوئے اس دَور کی روحِ عصر کے زیر اثر اس رویے کو اخلاقی گرفت سے باہر، اْس زمانے کی انسانی نفسیات اور معیاری طرزِ عمل کے عین مطابق بھی سمجھنا ممکن ہو گا۔ اسی لیے یہ نکتہ ہمارے اطمینانِ قلب کے لیے شاید سب سے اہم ہے۔
اگرچہ فطری و غیر فطری کی بحث میں بہت سے عوامل کا تجزیہ ضروری ہے تاہم یہاں اْن سب کا احاطہ کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ موزوں۔ اس کے لیے تو ایک مکمل مقالہ ہی کفایت کرے گا۔ سر دست اس کے ایک اہم عامل یعنی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں جو ہمارے مضمون سے براہِ راست متعلق بھی ہے۔ مگر اس سے پہلے کہ ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں، پہلے اپنے دَور میں ہی دائیں بائیں نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ سن بلوغ، سن زوجیت، سن رضامندی وغیرہ نہ صرف یہ کہ ایک نہیں ہیں بلکہ آج بھی مختلف ممالک میں باہم دگر مختلف ہی ہیں۔ یہ عمریں عموماً14 سے 21 کے درمیان ہوتی ہیں، جس میں کم سے کم عمر زوجیت اکثر 18 برس مقرر کی جاتی ہے جس میں لڑکیوں کے لیے 14 برس آج بھی متفرقاً رائج ہے۔ تاہم یہ سب جانتے ہیں کہ یہ لکیریں زیادہ تر عملی فائدہ مندی (pragmatism) کے اصول کے تحت کھینچی گئی ہیں اور کم اخلاقی جواز کے اصول پر۔حد فاصل کی تصویب میں اگر اتنا انتشار آج کے دن بھی موجود ہے تو کوئی بھی محقق یہ جان سکتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا عموماً مغربی فکر میں تصور کیا جاتا ہے۔
ماضی کی طرف نگاہ دوڑائیں تو اس موضوع پر لکھی جانے والی تمام تحقیقات اس سے ملتے جلتے الفاظ سے شروع ہوتی ہیں کہ ’’تاریخی طور پر بچپن میں شادی کا رواج اور بلوغت سے قبل لڑکیوں کی سگائی کا رواج عام تھا۔‘‘ زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں تو سولھویں (16th) صدی عیسوی کے متعلق بھی مؤرّخین کا یہ خیال ہے کہ بچپن کی شادی اتنی عام تھی کہ گویا قاعدہ(Norm) تھا۔ (۶) مشہور شادیاں اس کے لیے ثبوت کے طور پر بھی پیش کی جاتی ہیں جیسے مثلاً1689 میں ورجینیا، امریکہ میں میری ہیتھوے (Mary Hathaway) کی جب ولیم ولیمز ( William Willams) سے شادی ہوئی تو وہ نو 9 برس کی تھی۔ بلکہ امریکہ میں تو انیسویں صدی کے اختتام سے کچھ پہلے تک سن رضامندی 10۔12 سال کے درمیان تھا۔(۷) (ڈیلاویر میں اس سے بھی کم 7 سال تھا)۔ سترھویں صدی برطانیہ کے ایک معروف قانون دان سر ایڈورڈ کوک (Sir Edward Coke) سے اپنے دَورکے بارے میں منقول ہے کہ ’’بارہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی عام تھی اور نو (9) سال کی لڑکی مہر کے حصول کی حقدار سمجھی جاتی تھی۔‘‘(۸) رضامندی کی نوعیت (Nature of Consent) کے بارے میں قدیم اور قرونِ وسطی کے اسرائیلی رواج کے بارے میں فریڈمین (Friedman) لکھتا ہے کہ ’’کسی بچی کی شادی کا انتظام و عقد کرنے کا باپ کو ناقابل نزاع استحقاق حاصل تھا۔‘‘(۹) اسی دَور میں یورپ میں سات (7) سال سے بڑے لڑکا لڑکی کے درمیان عقد نکاح کو جائز سمجھا جاتا تھا (۱۰) اور کبھی کبھار اس سے کم عمر میں بھی۔ (۱۱) بلکہ بہت سے قارئین کے لیے شاید یہ دلچسپ انکشاف ہو کہ مشہور فرانسیسی مؤرّخ فیلیپ آرییس (Philippe Ari232s) کی تحقیق کے مطابق ’’بچپن‘‘ کوئی فطری نظریہ ہے ہی نہیں بلکہ سترھویں صدی سے پہلے اس کا کسی ممیز مرحلہ زندگی کی حیثیت سے وجود ہی نہیں تھا۔(۱۲) بچے اصلاً ’’چھوٹے جوان‘‘ (Mini-adults) کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔ یہ روشن خیالی اور عہد رومانوی کی تحریکیں تھیں اور صنعتی انقلاب کے بعد حاصل ہونے والی معاشی آسودگی تھی جس نے اٹھارویں صدی میں بچپن کے نظریے کو مستقل بالذات وجود بخشا، جس کے نتیجے میں عمر شادی اور عمر رضامندی کو قانوناً بلوغ کی دہلیز پر یا اس کے ورا قرار دے دیا گیا اور بچپن میں شادی کو قابل کراہت۔
اس سے زیادہ تفصیل میں جانا یہاں موزوں نہیں۔ سمجھانا یہ مقصود تھا کہ تاریخ کے تتبع سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ شادی بیاہ کے لیے جسمانی بلوغ ہمیشہ سے ایک واضح قدرتی مظہر اور عاملہ سمجھا جاتا تھا مگراس کی حیثیت کسی حد فاصل کی کبھی نہیں رہی۔ کوئی موزوں رشتہ مل جانے پر بلوغ کا انتظار نہیں کیا جاتا تھا۔ اخلاقی قباحت تو دور کی بات، ایسا کرنا ساری دنیا میں ہی استثنا نہیں بلکہ تقریباً معمول تھا۔ بلوغ بھی 12، 14 سال کی عمر میں مکمل تصور کیا جاتا تھا۔ اور کم سنی کی شادیوں کے لیے رضامندی کا غیر متنازع استحقاق باپ کو ہی حاصل تھا۔ مشرق و مغرب میں اس درجے مشترک، محیط، اثر پذیر اور مروّج ہونے کے سبب کم سنی کی شادی کا غیر فطری ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔
مجھے معلوم ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لیے اس سب کو ہضم کرنا آسان نہیں اوران حقائق پر حیرانی بالکل بجا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات مرورِ زمانہ سے انسانی نفسیات میں کچھ ایسی تخمی اور مہیب تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں کہ ماضی قریب بھی کسی اور سیّارے کی داستان لگتا ہے۔ مثال کے طور پر غلاموں کی خرید و فروخت یا مملوکہ عورتوں کے ساتھ جنسی تعلق کے بارے میں سوچ کر بھی کراہت آتی ہے۔ زوجین کی عمروں میں ایک خاص حد سے زیادہ فرق بھی قابل اعتراض لگتا ہے۔ بلکہ اب تو تعددِ ازواج بھی معیوب محسوس ہونے لگا ہے۔ تاہم ہمیں کوئی وقت کے پہیے کو الٹا چلا کر واپس ان رواجوں کو اپنانے پر مجبور نہیں کر رہا۔ چنانچہ یہ رویہ تو صحیح ہے کہ اپنے دور اور معروضی حالات کے تحت اخلاقی معیارات کی تنقیح کی جاتی رہے۔تاہم کسی بھی طالب علم کے لیے یہ مناسب رویہ نہیں کہ زمان و مکاں سے بے نیاز ہو کر ہر اخلاقی قدر کو مطلق مانتے ہوئے ماضی پر بھی بد اخلاقی یا جہالت کے فتوے جڑ دے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بالفرض اگر روایتی مؤقف درست بھی ہے تو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ قطع نظر اس سے کہ علم حیاتیات کی توثیق سے نو دس برس کی عمر میں لڑکی کا بالغ ہوجانا بھی پوری طرح ممکن ہے، تاریخی اعتبار سے آج سے دو تین صدیاں پہلے کے معاشروں میں اس عمر میں رخصتی کوئی غیر اخلاقی امر نہیں تھا۔ اور یہ واقعہ تو چودہ سو برس پہلے کا ہے۔اس وجہ سے فریق ثانی کے وہ تمام اعتراضات بے اصل ہیں جو نو برس میں خلوت یا زوجین کی عمری تفاوت کو اخلاقیات کے زاویے سے ہدف بناتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ چونکہ ایسے غیر معمولی رشتے پر دشمنانِ رسول کے کوئی اعتراضات منقول نہیں، اس لیے روایتی مؤقف نہیں مانا جا سکتا۔
الغرض، مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں کم سے کم اخلاقیات کے نقطہ نگاہ سے تو کوئی اعتراض قابل التفات نہیں رہتا۔
نو (9) نہیں چھ (6) برس
اس موضوع پر کی گئی مراسلت کا تجزیہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ سب نہیں تو اکثر استدلالات کا زور نو (9) برس ہی پر مرتکز ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ عمر اس اعتبار سے تو یقیناًاہم تر ہے کہ عمر خلوت ہے، اور اعتراضات میں اصل شدت اسی احساس سے پیدا ہوتی ہے کہ ایک ایسی عمر میں قربت ہوئی جو موجودہ فکر ،رواج اور شاید علم حیاتیات کے مطابق بھی بہت کم تھی۔ تاہم چھ (6) برس کی عمرِ نکاح کو یکسر نظر انداز کر دینا یا قابل توجہ نہ سمجھنا غیر منصفانہ ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا تاریخی حقائق کی روشنی میں 9 برس تو احاطہ جواز کے اندر یا کم سے کم بھی سرحد پر تو ضرور ہی شمار ہونا چاہیے ، مگر 6 برس کی عمر میں شادی تو ہر اعتبار سے ہی غیر معمولی اور توجیہ طلب ہے۔خصوصاً اس لیے کہ خلوتِ صحیحہ تو شادی کے قدرتی اور قریبی نتائج و لوازمات میں سے ہے۔ اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، نہ تو زیرِ عنوان شادی میں رخصتی میں تاخیر کرنا پہلے سے مذکور تھا اور نہ ہی ایسا گمان کرنا قرین از قیاس لگتا ہے۔ رخصتی تاخیر سے کرنا پیشگی ارادہ ہوتا تو عرب کے رواج کے مطابق وعدہ نکاح/ سگائی پر اکتفا کافی ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم جب اپنے اعتراضات کو مخلص انداز میں پیش کرتے ہیں تو اسی عمر سے قواعد اعتراض بلند کرتے ہیں۔
چنانچہ فریق اوّل نے جو بھی جواز فرہم کرنے ہیں، ان میں صرف 9 سال نہیں بلکہ وہ وجوہات و علل بھی بیان کرنی ہیں جن کے باعث ایک خلافِ رواج وتعامل شادی 6 برس میں ہی ضروری تھی۔ ورنہ ایک غیر ضروری کام کے لیے معاشرے میں مسلمہ رسوم کے خلاف جانا خلافِ عقل اور ناقابل انہضام ہے۔
صدیقہ کی گواہی کی قانونی موزونیت
نکاح و رخصتی کی مبینہ عمریں غیر معمولی ہیں، اس میں تو کوئی اختلاف نہیں۔ اور اصول یہ ہے کہ عام معاملات میں جو معیارِ ثبوت چاہیے ہوتا ہے، حساس اور غیر معمولی معاملات میں اس سے زیادہ وزنی ثبوت درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون دانوں نے ہمیشہ معاملات کی نوعیت کے اعتبار سے مقدارِ ثبوت میں فرق کیا ہے۔لہٰذا یہ معاملہ بھی ثقیل تر ثبوت کا متقاضی ہے۔
روایتی مؤقف کے حاملین نے اس معاملے میں حضرت عائشہ کی اپنی گواہی کو کافی اور ماورء الشک قرار دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی شخص کی اپنی عمر کے متعلق گواہی ایک وزنی ثبوت ہے 150 خصوصاًتب جبکہ گواہ کے متعلق امکانِ کذب قطعاً مفقود ہو151مگر جس معاملے کی نوعیت ایک معاہدے کی ہو اور گواہی گواہ کی ذات تک محدود نہ ہو بلکہ کسی دوسرے فریق پر اس کا اثر پڑتا ہو، تو دوسرے فریق کا اس سے متفق ہونا یا کسی اور متعلقہ فرد سے اس کی تصدیق ہونا فیصلہ سازی کے لیے لازم ہوتا ہے۔
یہاں متعلقہ افراد کون ہو سکتے ہیں؟ عمر ایک اتنا ذاتی اور غیر مر ئی معاملہ ہوتا ہے کہ اس کے لیے صرف والدین یا اپنے سے بڑے بہن بھائی ہی قطعی اور یقینی خبر دے سکتے ہیں۔ پھر چونکہ یہ عقد نکاح تھا، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شوہر بھی قطعی عمر سے واقف ہو ں گے۔ خصوصاً جبکہ شوہر رسول اللہ، پس عالم الغیب سے رابطے میں ہوں۔ تاہم یہ معلوم ہے کہ شوہر سے اس بارے میں کوئی توثیق یا تقریر منقول نہیں۔ رہے والدین اور بڑے بہن بھائی تو اْن سے بھی اس معاملے میں سرے سے کوئی خبر مروی نہیں۔ بنا بریں عقد نکاح جیسے دوطرفہ معاملے میں یک طرفہ غیر معمولی خبر باعتبارِ ثبوت بلاخوفِ تردید ناکافی ہے، خصوصاً جبکہ کسی اور فریق کو اس خبر کے سارے نتائج برداشت کرنے پڑ رہے ہوں۔
عام عوام کی جانب سے اس نتیجے پر دو اعتراضات ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیقہ کے رشتہ داروں کے سکوت کو اقرار کیوں نہ سمجھا جائے؟ اور دوسرے یہ کہ صدیقہ کی گواہی پر صحیح اور غلط کی تصریح کے بغیر کوئی نتیجہ حاصل کرنا کیسے ممکن ہے؟ تو پہلے کا جواب یہ ہے کہ تاریخ میں کسی معاملے پر کسی کی رائے موجود نہ ہونے کو ہمارے سامنے کسی سوال کے جواب میں سکوت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بالکل واضح ہے۔ ہاں اگر ان کے سامنے یہ تذکرہ کسی نے کیا ہوتا اور اس پر ان میں سے کسی کا سکوت مروی ہوتا تو بات اور ہوتی مگر ایسا کچھ بھی روایات میں موجود نہیں۔ اور دوسرے کے جواب میں عرض ہے کہ مقدارِ ثبوت کے اعتبار سے ناکافی ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کسی کی گواہی پر لازماً صحیح یا غلط کا فتویٰ لگایا جائے۔ ناکافی ہونے کا مطلب فقط اتنا ہوتا ہے کہ چاہے پیش کردہ ثبوت غلط نہ بھی ہو معاملے کے کسی خاص رخ میں فیصلے کے لیے مزید ثبوت درکار متصور ہو۔جیسے مثلاً مقدارِ ثبوت دو گواہ ہوں اور ایک ہی میسر ہو۔
حضور کا ذوقِ طبع
کسی بھی شخص کے بارے میں ملنے والی خبر کو پرکھنے کے کئی زاویے ہو سکتے ہیں جن سے اس خبر کی تحقیق ممکن ہو سکتی ہے۔ انہی زاویوں میں سے ایک اہم زاویہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ اس شخص کی عمومی شخصیت کس قسم کے رجحانات کو متوقع بناتی ہے۔ہاں، اس زاویے سے کوئی صحیح نتیجہ حاصل کرنے کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس شخص کے بارے میں ہم تک پہنچنے والی معلومات کس قدر محیط اور قابل اعتماد ہیں۔
چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایک جانی پہچانی شخصیت ہے۔ تاریخ میں سب سے زیادہ مستند اور کثیر روایات اگر کسی شخص کے بارے میں ملتی ہیں تو وہ آپ ہی ہیں۔ بلکہ باقی لوگوں کے لیے تو کسی نہ کسی درجے میں یہ مبالغہ ہی ہوتا ہے مگر آپ ہی وہ ہستی ہیں کہ جن کے بارے میں ’’آپ کی زندگی کھلی کتاب تھی‘‘ کے الفاظ بلا شائبہ مبالغہ درست ہیں۔ پس سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک چھ سالہ بچی سے شادی کرنا آپ کی مذاق عادت کے تجزیے سے متوقع نظر آتا ہے؟ پھر سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا جو شادی 150 اور اغلب یہی ہے 150 کی ہی اس لیے جا رہی ہے کہ اْس رفاقت کا نعم البدل چاہیے جو جاتی رہی ہے، اور تاریخ گواہ ہے کہ وہ ملی بھی انہی زوجہ سے ہے، اس کے لیے آپ ایک چھ سالہ بچی کو منتخب یا گوارا کر لیں گے، کیا ایسا عمل مناسب طبیعت لگتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ آپ کی بالغ النظر شخصیت کو جن حالات میں جو ہم نوائی مطلوب تھی اور جو صدیقہ کی صورت میں ہی ملی بھی، جن سے ازدواجی تاریخ کے ہر ورق پر شوخی، رنگینی اور دانش بکھری نظر آتی ہے، ایسے شخص کے لیے ایسی کم سن سے شادی سر تا سر خلافِ طبیعت لگتی ہے۔
رہتی دنیا کے لیے بے داغ اسوہ حسنہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام افعال و عادات کو دنیا کے لیے اسوہ حسنہ تو بننا ہی تھا۔ تاہم اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ اس اسوہ میں آنے والے تمام ادوار کے اعتبار سے بھی کوئی قابلِ تنقید عمل ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے اِس دین کی حقانیت پر کوئی اثر پڑے۔اس میں اگر کوئی استثنا نظر آتا ہے تو وہ دو احتمالات میں سے کسی ایک سے خالی نہیں ہوتا۔ ایک یہ کہ کوئی ایسی معاشرتی یا دینی ضرورت اس میں پنہاں ہوئی ہو جس کے لیے اس دور کے متداول رسوم و رواج کے تحت کوئی طریقہ اختیار کرنا ناگزیر ہو؛ جیسے مثال کے طور پر تعددِ ازواج، باندیوں سے ہم بستری وغیرہ۔ اور دوسرے یہ کہ کسی ایسے رواج کی بنا ڈالنی مقصود ہو جسے لوگوں نے بلاوجہ اپنے لیے ممنوع تصور کر لیا ہو؛ جیسے مثلاً اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی۔ تاہم ان معاملات میں بھی اخلاقیات کے اعلیٰ ترین معیارات پر کاربند رہنا اور ان کی طرف کوئی ذاتی رجحان و خواہش نہ رکھنا ہمیشہ حضور کی عادت دکھائی دیتا ہے۔
اس دَور میں تعددِ ازواج تقریباً معمول اور قاعدہ تھا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی ذاتی زندگی میں آپ نے ایک ہی بیوی پر اکتفا کیا باوجود اس کے کہ بیٹوں کی طلب باقی رہی۔ بعد از بعثت جب دین کی خدمت کے لیے یہ گوارا ہوئیں تو ہر شخص دیکھ اور جان سکتا ہے کہ وہ شادیاں معاشی بہبود اور فرائضِ منصبی کی ادائیگی ہی کے لیے کی گئیں۔ اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ کے باب میں تو خود قرآن دلیل ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ رشتہ ایک دینی ضرورت کی تکمیل کے لیے ناگزیر تھا، آپ نے اس سے بچنے ہی کی پوری کوشش کی۔ باندیوں سے مجامعت کے معاصر قاعدے اور مسلمہ اجازت کے باوجود ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آپ نے اپنے لیے اسے اختیار نہیں کیا اور وما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک سے بھی سب کو ہی آزاد کر کے ان کی رضا لے کر نکاح فرمایا۔اگرچہ ان میں سے کوئی بھی فعل انسانی تاریخ میں ممنوع نہیں رہا بلکہ معمول رہے، مگر چونکہ اللہ کا علم ماضی و مستقبل کو یکساں محیط ہے، اس لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے رجحانات بھی سرمدی معیارات کے حامل رہے۔چنانچہ دیکھا جا سکتا ہے کہ حضور کے سب اعمال و رجحانات کی تکوینی تنقیح فطرت کے اصول پر تو ہوئی ہی، مستقبل بعید کو عاملہ بنا کر بھی ہوئی۔
اس کے بر عکس زیرِ بحث معاملہ ہر اعتبار سے منفرد ہے۔ چھ برس کی بچیوں سے شادی نہ پہلے عام تھی اور نہ اب۔ اس پر دورِ حاضر میں داغے گئے اعتراضات کی نوعیت بھی مذکورہ بالا افعال پر اعتراضات سے مختلف اور سنگین تر ہے۔ پھر اس امر کی کوئی دینی ضرورت نہ تو متحقق ہوتی ہے اور نہ ہی اس سے پوری۔ اگر اس ذیل میں کوئی خامہ فرسائی فریق اوّل نے کی بھی ہو جو چھ برس کی ہی عمر میں شادی کو ضروری قرار دینے کے جواز پر مشتمل ہو تو ان سب کے بارے میں یہ کہہ دینا کافی ہو گا کہ وہ سب ضرورتیں بارہ تیرہ برس کی عمر اور بڑی عمروں میں باحسن وجوہ پورے ہونے میں کوئی شے مانع نہیں۔ تو ایک غیر ضروری، خلافِ رواج و عقل شادی میں ایسی کون سی معقولیت پوشیدہ تھی جس کے سبب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور ان کے کردار پر ایک قبیح دشنام ترازی کے امکان کو پیشگی زائل کرنا مناسب نہ جانا۔ایک رسول جو دین پر بدخواہوں کے اتہام سے اتنے پر اندیش تھے کہ خدائی عندیے کے باوجود شادی میں متردّد رہے، جن کا خدا اتنا باریک بینی سے ان کے اسوے کی تحسین پر نگران تھا کہ قدم قدم پر دنیا جہان کو چیلنج دیتا جا رہا تھا کہ انک لعلی خلق عظیم اور مستقبل میں آپ کے کسی عمل کو ناسمجھی میں امت یا معاندین ہی کے لیے پر فتن سمجھ کر اس کی فوری پیمانہ بندی کر دی جا رہی تھی، ان کے متعلق یہ گمان کرنا کہ ایک غیر ضروری اقدام سے نادانستگی میں دین پر عیب جوئی کی کمک فراہم کر دیں گے، ناقابل ادراک ہے۔
کیا حضرت عائشہ کو اپنی عمر ٹھیک معلوم تھی؟
اطمینان رکھیے! یہ سرخی بادی النظر میں جتنی مضحکہ خیز لگ رہی ہے، حقیقت میں اتنی ہی دلچسپ ہے۔
دَورِ حاضر میں عمروں کا شمار جس اہتمام و محتاط انداز میں ممکن ہو گیا ہے اور لوگ رکھتے ہیں، ماضی بعید ہی نہیں قریب میں بھی صورتحال اس سے بہت مختلف تھی۔ چند صدیوں بلکہ دہائیوں پہلے تک بھی ہر ملک میں ایسے بہت سے مقامات تھے جہاں لوگ نہ کیلنڈر سے واقف تھے اور نہ عمروں کے صحیح شمار کے لیے رجسٹریشن ضروری تھی کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ میرے والدین کی پیدائش کشمیر میں ہوئی۔ میرے اپنے والد کو اپنی عمر شناختی کارڈ بنوانے کے وقت اندازے سے درج کرانی پڑی۔ آج بھی کسی دور پار گاؤں میں چلے جائیے، آپ کو ایسے بہت سے تعیّنات سننے کو ملیں گے کہ ’’یہ جاڑے کی پیدائش تھی۔‘‘ یعنی زیادہ سے زیادہ جو معلومات وہ کسی کی عمر کے بارے میں اپنی یادداشت سے مہیا کر پاتے ہیں، وہ یا تو موسم کی تعیین ہے یا کسی اور کی عمر سے موازنے یا کسی اہم واقعے کے وقوع سے حساب کر کے جانچتے ہیں۔ مزید یہ کہ سالگرہ وغیرہ کا بھی کوئی رواج نہیں ہوتا۔ عمر کے بالکل صحیح شمار کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے ماحول میں جا کر ہی انسان سمجھ سکتا ہے کہ بعض وہ مقدمات جو ہم آج جکل کی شہری زندگی میں قائم کر لیتے ہیں، وہ کس کس غیر متوقع زاویے سے لائق تنقیح ہو جاتے ہیں۔
چودہ سو برس پہلے کے عرب ماحول کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں بھی کوئی نظامِ تقویم رائج نہیں تھا۔ وہ امی لوگ تھے۔ وہاں مہینوں کا حساب قمری جنتری پر کیا جاتا تھا اور سالوں کے حساب کے لیے کوئی باقاعدہ تقویم حضرت عمر کے دَور تک اختیار نہ کی گئی تھی۔ بہت سے واقعات بھی اس خیال کو تقویت بخشتے ہیں کہ وہاں بھی بڑے اور اہم واقعات کے قرب و بعد سے عمر کا تخمینہ لگا یا جاتا تھا۔ سالگرہ وغیرہ منانے کا بھی کوئی رواج نہ تھا۔عمر کی تعیین میں انسان کا اپنا معاملہ بھی یہ نہیں ہوتا کہ وہ پیدائش سے ہی اپنی عمر کا شمار خود شروع کر دے۔ اس معاملے میں بھی اور بہت سے معاملات کی طرح ایک خاص عمر تک وہ دوسروں کا ہی محتاج ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسے ماحول میں کسی شخص کی اپنی عمر کی تعیین میں بھی کم سے کم دو تین سال اور عموماً بضع سنین کی کمی بیشی پوری طرح معقول بلکہ قرین از قیاس ہے۔
حضرت عائشہ کی ولادت کسی اہم سال میں ہونے کا کوئی حوالہ ہمیں نہیں ملتا۔ پھر اپنی عمر کاجو بیان ان سے منسوب ہے، وہ بھی چھ یا نو برس میں اْن سے نہیں لیا گیا، بلکہ سالوں اور شاید دہائیوں بعد انہوں نے اپنے بھانجوں، بھتیجوں، پوتوں وغیرہ سے ذکر کیا۔ مزید اگر اْن کی عمری تعیین سے متعلق تمام روایات کا استقصا کیا جائے تو یہ خیال بھی زور پکڑتا محسوس ہوتا ہے کہ اْن کے پیش نظر اپنی کم عمری بتانا بھی تھا، یعنی انہیں کس قدر نوخیزی میں حضور کی صحبت میسر ہوئی۔
ان سب عوامل کی روشنی میں اگر ان روایات کو قابل اعتنا بھی سمجھنا ہو تو بھی یہ بات قرین قیاس لگتی ہے کہ عائشہ نے اپنی عمر حضور کی وفات کے کچھ یا طویل عرصے بعد ایک اندازے سے ہی بتائی ہو گی، جس میں دو تین سال یا کچھ زیادہ بھی اوپر نیچے ہو جانے کا امکان پوری طرح موجود ہو گا۔ سننے والے بھی چونکہ اب ہجری اور باقاعدہ تقویم کے عادی ہو چکے ہوں گے، اور پھر اسلام کی جدوجہد کے نتیجے میں واقعات، تاریخوں اور عمروں کے شمار کی عادت بھی بعد میں آنے والوں میں راسخ ہو چکی ہو گی، اس لیے انہوں نے تعیین کو بالکل محتاط اور قطعی گردانتے ہوئے کسی انتباہ کے بغیر اسی طرح آگے نقل کر دیا ہو گا۔ تاہم مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں ہمیں اسے محض ایک اندازہ تسلیم کرتے ہوئے اس بات کا پورا امکان باور کرنا چاہیے کہ رخصتی کے وقت آپ کی عمر نو کے بجائے بارہ تیرہ برس یا اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے جو کسی اعتبار سے قابل اعتراض بھی نہیں رہتی، اْس دَور کے تمدنی حالات میں معقول بھی لگتی ہے اور خود حضرت عائشہ کی بوقت رخصتی نوخیز ی بھی قائم رہتی ہے۔
حضرت عائشہ کا قد؟
اس مضمون کا مقصد چونکہ معاملے کے سب پہلوؤں کا احاطہ ہے اس لیے اس طرح کے ضمنی نوعیت کے مشاہدات کا ذکر بھی برمحل معلوم پڑتا ہے۔ اماں عائشہ سے ایسی باتیں تو منسوب ہیں جن میں آپ اپنی کم عمری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ ان کی والدہ انھیں رخصتی سے پہلے اس ارادے سے عمدہ اور جسم کو بھر دینے والی خوراک کھلایا کرتی تھیں کہ انھیں رخصت کر کے رسول اللہ کے گھر بھیجا جا سکے۔(۱۳) اور ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن میں آپ کا وزن میں بہت ہلکا ہونا بھی مذکور ہے۔ تاہم جسمانی ترقی کا ایک اہم مظہر قد بھی ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس سے متعلق کوئی ذکر ہمیں روایات میں نہیں ملتا؟بلکہ شادی میں کم سنی کے اخفا کے لیے تندرستی اور وزن کے مقابل میں قد اہم تر ہوتاہے۔ یعنی کسی لڑکی کو کم سنی کے باوجود ہم بستری کے قابل اور بچپن کے مراحل سے باہر سمجھنے کے لیے انسان نفسیاتی طور پر یہ تو گوارا کر سکتا ہے کہ اس کا جسم بھرا ہوا نہ ہو یا وہ بہت ہلکی ہو، مگر شاید ایک خاص حد سے چھوٹا قد فطری طور پر کراہت کا باعث بن سکتا ہے۔
لڑکیوں میں قد میں نمایاں تبدیلیاں گیارہ بارہ سال کے ارد گردہوتی ہیں جو چودہ پندرہ برس کی عمر تک چلتی رہتی ہیں۔ (۱۴) عام مشاہدے میں بھی آٹھ نو برس کی عمر میں باعتبارِ قد لڑکیاں ابھی بچپن ہی کے ارتعاشات بکھیر رہی ہوتی ہیں۔ چنانچہ اگر حضرت عائشہ اس وقت واقعی سات آٹھ برس کی تھیں تو کیا سب سے بڑی پریشانی یہ لاحق نہیں ہونی چاہیے تھی کہ جلد سے جلد ان کا قد بڑا ہو جائے؟ مگر قد سے متعلق کوئی پریشانی ہمیں روایات میں نہیں ملتی۔
اس سوال کو حضرت عائشہ کے مذکورہ بالا انکشافات کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو یہ گمان قرین از قیاس لگتا ہے کہ آپ ایسی عمر میں تھیں جس میں قد میں تمام قابل لحاظ تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ اور چونکہ ان تبدیلیوں کے وقت جسم نحیف ہوجاتا ہے، اس مقصد سے اصل توجہ تندرستی پر مرکوز کر دی گئی ہو گی۔
فریقِ اوّل کے پیش کردہ قرائن موافق
فریق اوّل نے بھی کچھ ایسے قرائن پیش کیے ہیں جو بظاہر روایتی مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔ یعنی ایسی روایات کی طرف توجہ دلائی گئی جن میں رخصتی کے زمانے اور بعد میں بھی حضرت عائشہ کا جھولا جھولنا، گڑیوں سے شغف، سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا اور میلوں میں کرتبوں سے محظوظ ہونا شامل ہیں۔ بلکہ اکا دکا روایات تو ایسی بھی ہیں جن کی رو سے اس نوعیت کے شغف مبینہ طور پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چند سال پہلے تک بھی ثابت ہیں۔ حق یہ ہے کہ بادی النظر میں یہ قرائن اپنے مؤقف کی تائید میں معقول ہیں۔ اس لیے ان کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔
جہاں تک ان روایات کی بات ہے جو اِن دلچسپیوں کا وقوع کسی بھی وقتی تعیین کے ساتھ بتاتی ہیں، شاید ایک دو ہی ہیں اور زیادہ قابلِ اعتبار بھی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ایک روایت (۱۵) میں حضرت عائشہ کے پاس گڑیوں کی موجودگی ایک اندازے کے مطابق ۵ ہجری کے بعد تک ہونا منقول ہے۔ مگر چونکہ راوی کو اس بات میں شک ہے کہ آیا یہ واقعہ خیبر کا ہے یا تبوک کا، اس کو کسی زمانی تخصیص کے لیے بنائے استدلال بنانا کوئی معتبر طریقہ نہیں۔ پھر اس پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ خیبر اور تبوک میں کوئی خاص مماثلت نہیں، چنانچہ کوئی وجہ نہیں کہ راوی نے اس واقعے کو کسی اور غزوے سے ملتبس نہ کر دیا ہو۔مزید اس روایت میں حضرت سلیمان کے ’’پروں والے گھوڑے‘‘ کے متعلق حضرت عائشہ کا جو بیان منقول ہے، اس سے بھی اس واقعے کا رخصتی کے زمانے کے ارد گرد ہونا اغلب لگتا ہے۔ پھر اگر اسے ۵ ہجری کا ہی واقعہ مان بھی لیا جائے، تب بھی اس روایت سے گڑیوں سے کھیلنا نہیں بلکہ ’’سامان کے کمرے‘‘ میں فقط ان کی موجودگی ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ جس طرح اپنے بچپن کے کھلونوں کو بڑے ہونے تک بھی لوگ سنبھال کر رکھ لیتے ہیں، عائشہ کا بھی اسی مقصد سے ان کو بچا کے رکھنا ہی قرین از قیاس ہے۔
اور جہاں تک بات ہے اصولاً ان میں سے کچھ بچگانہ عادتوں کے وقوع کی تو ان سے بس اتنا استدلال درست ہے کہ رخصتی کے وقت عائشہ ایسی عمر میں تھیں جس میں ابھی تک ان کی یہ عادتیں نہ چھوٹی ہوں گی۔ جھولا جھولنا اور میلوں وغیرہ سے محظوظ ہونے کی عادات سے تو لڑکیوں کی عمر کے خصوص کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، کیونکہ ان جذبات سے تو وہ نوجوانی میں بھی خالی نہیں ہوتیں۔ ہاں گڑیوں یا سہیلیوں سے کھیلنا عمر کی بابت حد بدنی کا کام دے سکتی ہیں۔ تاہم یہ حدبندی بضع سنین کے اوپر نیچے ہونے کے معاملے میں مددگار نہیں بن سکتی۔ پھر اس دَور کے اور ہمارے تمدن میں قابل لحاظ فرق بھی درست حتمی تخمینے میں کسی قدر مانع ہے۔
بایں ہمہ اس طرح کی جتنی بھی روایات ہیں، ان کے انضمام کے بعد ان کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ یہ زمانہ رخصتی ہی کے فوری قرب و جوار کے واقعات پر مشتمل ہوں گی، ہر اعتبار سے منطقی اور صائب لگتا ہے۔ چنانچہ رخصتی کے وقت عائشہ کی عمر چودہ پندرہ برس بھی ہو تو یہ کوئی غیر متوقع لہو و لعب نہیں کہ زمانی اطراف میں ان کا صدور عمر کی تحقیق کے معاملے میں کوئی سرخ جھنڈی ( red flag) کھڑی کر دے۔
قرآنی آیات سے استشہاد
دونوں فریقین نے اپنے اپنے مؤقف کی تائید کے لیے قرآنی آیات سے بھی بالواسطہ استشہاد کیا ہے۔ یعنی انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نابالغوں کی شادی دین کیْ و سے روا ہے بھی کہ نہیں؛ کیونکہ اگر قبل البلوغ شادی جائز نہیں تو حضور کی نسبت ایسا کوئی دعویٰ اعتقاداً غلط ہو گا۔ چنانچہ ایک آیت فریق اوّل اپنی تائید میں پیش کرکے کہتا ہے کہ نابالغوں سے شادی درست ہے اور ایک دوسری آیت سے فریق ثانی استنباط کر کے کہتا ہے کہ ایسی شادیاں درست نہیں، اور پھر دونوں گروہ فریق مخالف کی پیش کردہ آیت کی تاویل بھی کر دیتے ہیں۔ فریق اوّل سورۃ الطّلاق (۱۶) کی آیت 4 اور فریق ثانی سورۃ النساء (۱۷) کی آیت 6 سے استشہاد کرتے ہیں۔
مضمون ہذا ان آیات کی تشریح پر بحث کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ یہ قدرے تفصیل کی متقاضی ہے۔ تاہم یہاں میں وہ دلائل بیان کر دیتا ہوں جن کی بنیاد پر ان آیات سے اس معاملے میں تائید وتنکیر درست نہیں:
1۔ یہ آیات معاملے سے براہِ راست متعلق نہیں کیونکہ یہ حضرت عائشہ کی شادی پر کوئی تبصرہ نہیں کررہیں۔ دونوں آیات کا یہ پہلو لا نزاع و لا جدال فیہ (undisputed) ہے۔
2۔ یہ آیات حضرت عائشہ سے شادی کے بعد نازل ہوئی ہیں۔ اس لیے ایک ماضی کے واقعے کو اِن پر پرکھنا ظاہر ہے کہ درست نہیں۔
3۔ یہ آیات شادی کی عمر سے متعلق کسی صریح حکم پر مشتمل نہیں۔ یہ تو براہِ راست شادی کے مسئلے سے بھی متعلق نہیں بلکہ ان سے اس ضمن میں استنباط بھی بالواسطہ ہی ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت وراثت کی تقسیم سے متعلق اور سورہ طلاق کی آیت عدتِ طلاق سے متعلق ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے دین میں حلت و حرمت جس وضوح سے بیان کی جاتی ہے، وہ ان آیات سے استخراج میں نہیں پائی جا تی۔
4۔ بادی النظر میں اِن آیات میں عمر نکاح کے عرف پر کوئی تنقید نہیں کی جارہی، بلکہ بظاہر اسے ہی بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ پھر اگر اس قسم کی کوئی تنقید فرض کر بھی لی جائے تو اوّل تو یہ مبہم ہی رہے گی اور تاویلی اختلافات سے خالی نہ ہو گی،اور دوم اس تنقید سے عمر نکاح کے زاویے سے استثنائی معاملات کی نفی کی حد تک تاکید تو کبھی برآمد نہیں کی جا سکتی۔ اگرچہ یہ نکتہ تفصیل سے تو ایک علیحدہ مضمون میں ہی زیر بحث آ سکتا ہے، تاہم یہاں ان آیات سے استنباط کی سطحیت اور کمزوری باور کرانا مقصود ہے۔
5۔ اور آخری مگر شاید اہم ترین نکات میں سے یہ بھی ہے کہ ان آیات کی کسی بھی توجیہ سے عمر عائشہ کے لیے استشہاد ایک صورت میں استنتاج دائری (circular reasoning) کے عارضے سے خالی نہ ہو گا، جو ظاہر ہے کہ منطقی مغالطے (logical fallacy) کی ہی قسم ہے، اور آخری صورت میں معاملے کی تحقیق سے متعلق کوئی اثباتی شہادت نہ دے سکے گا۔ یعنی حرام ہونے کی صورت میں اس میں چونکہ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ حضور نے کسی نابالغہ سے شادی نہ کی ہو گی (یعنی گناہ نہ کیا ہوگا) یہ فرض کرنا پڑے گا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے (یعنی گناہ نہ کر سکتے تھے)، اس سبب منطقی اعتبار سے یہ کوئی وزن نہیں رکھے گا؛ اور یا پھر اگر نابالغہ سے شادی کا جواز ان آیات سے ثابت کر بھی دیا جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت عائشہ کے ساتھ کم عمری میں نکاح کا کوئی مثبت دعویٰ تو پھر بھی موجود نہ ہو گا۔ مسلمانوں کی قلبی تسکین تو اس سے شاید حاصل کرنا ممکن ہو، پر غیر مسلموں کے لیے اس استدلال کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔
یہ چند دلائل ہیں جن کے باعث زیر بحث مسئلے کی تحقیق میں اِن آیات سے استشہاد کسی خاص اہمیت کا حامل دکھائی نہیں دیتا۔
نتائج تحقیق
تحقیق ہذا کے نتیجے میں مندرجہ ذیل اکتشافات سامنے آتے ہیں:
1۔ مختلف طرق سے ملنے والی روایات میں حضرت عائشہ کا مذکور دعویٰ کہ وہ نکاح کے وقت چھ سات برس کی اور رخصتی کے وقت نو برس کی تھیں، باعتبارِ سند صحیح ہے، اس لیے یہ مقبول الشّہادہ ہے۔
2۔ معاملے کی نوعیت چونکہ دو طرفہ عقد کی ہے اور ایک فریق کا دعویٰ (خصوصاً عمر نکاح) غیر معمولی پس استجواب حضوری (cross-examination) کا متقاضی ہے، لہٰذا تیقن کے لیے شوہر یا والدین وغیرہ کی شہادتوں کی ضرورت ہے جو کہ مفقود ہیں۔ پس بارِ ثبوت کے اعتبار سے میسر شہادت ناکافی ہے۔
3۔ قرائن مبینہ عمر کو غیر متوقع بنا دیتے ہیں۔ اگرچہ بعض قرائن بچپن کی بعض عادات رخصتی کے ارد گرد ثابت کرتے ہیں تاہم انہیں دوسرے قرائن کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے جیسے وجہ رشتہ،حضور کا ذوقِ طبع، عرب کا رواج اور مختلف معاملات میں عائشہ کی شمولیت اور ان کی عمومی ذہنی و جسمانی کیفیت وغیرہ توصحیح عمر شباب یا اوائل شباب کی مسافات میں محسوس ہوتی ہے۔
4۔ دنیا اور خصوصاً عرب کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس دَور میں لوگ اپنی عمروں کا شمار محتاط انداز میں نہیں کیا کرتے تھے، سالوں کے شمار کے لیے کوئی نظامِ تقویم رائج نہیں تھا۔ حضرت عائشہ سے جو بیان منسوب ہے، وہ شادی کے کئی سال بعد لیا گیا تھا اور اس میں بھی اپنی کم عمری بتانا ان کے پیش نظر تھا۔ یہ سب شواہد سیّدہ کے اپنی عمر کے متعلق بیان کو بھی ایک اندازے پر ہی محمول کردیتے ہیں۔
5۔ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملے میں خاموش ہیں۔ اس معاملے کے خلافِ معمول اور نامعقول ہونے کی حیثیت ان دونوں مصادر کی خاموشی کو معنی خیز اور معاملے کو ناممکن الوقوع بنا دیتی ہے۔تاہم یہ استحالہ دو امکانات کو جنم دیتا ہے۔ ایک یہ کہ شادی اس درجے کم سنی میں نہیں ہوئی ہو گی۔ اور دوسرے یہ کہ روایتی مؤقف میں مذکور عمریں اس دَور کی معاشرت اور تمدن کے اعتبار سے غیر معمولی نہیں تھیں۔ تحقیق کی روشنی میں پہلا امکان اغلب ہے۔
6۔ چونکہ یہ کوئی دینی نہیں بلکہ ایک تاریخی معاملہ ہے، اس لیے اس معاملے میں مؤرّخانہ نقطہ نظر اپنانا زیادہ مناسب ہے۔ پس اس اعتبار سے چونکہ اس غیر معمولی خبر کی تصدیق کسی موثوقہ ذریعے سے آج نہیں ہو سکتی، اس لیے اس کو ردّ کر دینا علم و عقل کے عین مطابق ہے۔
اختتامیہ
حضرت عائشہ کی شادی کے بارے میں روایتی مؤقف کو مکمل طور پر ناممکن نہیں کہا جا سکتا کیونکہ تاریخی تحقیق سے اس طرح کے نتائج کی برآمدگی اکثر ممکن نہیں ہوتی۔ تاہم اثبات یا نفی میں فیصلے اکثر و بیشتر قرین و بعید از قیاس ہونے کی بنا پر ہی کیے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس معاملے میں یہ کہنا عین قرین از قیاس ہے کہ شادی کی وہ عمریں جس پر روایتی مؤقف کے حاملین مصر ہیں، غالباً درست نہیں، بلکہ بارہ تیرہ سال کی عمر سے لے کر سولہ سترہ سال کی عمر یں راجح دکھتی ہیں۔
فریق اوّل سے التماس ہے کہ ان دلائل کا جائزہ لے کر امت کو کسی ایک نہج پر متفق کرنے کی جد و جہد کریں۔ ایک ایسی نہج پر جس میں علم و عقل کے تقاضوں سے گزیز بھی نہ ہو اور غیر مسلموں اور ان کے اوطان میں مقیم مسلمانوں کے لیے دین اسلام کی طرف آنے، بلانے اور قائم رہنے کی سعی عمر صدیقہ بوقت نکاح و رخصتی کی گھاٹی عبور کر نے کے قابل بھی ہو جائے جو فی الحال عقبہ کؤود (insurmountable obstacle) بنی ہوئی ہے۔
حوالہ جات وحواشی
۱۔ میں اسے محققانہ کہنا چاہتا تھا، تاہم اس خیال سے کہ اس کے لغوی مطلب کو بنیاد بنا کر کوئی ایک فریق یہ کہہ سکتا ہے کہ کیا ہمارا رویہ حقیقت تک پہنچنے کا نہیں، میں نے ایسا نہیں کیا۔
۲۔ مثال کے طور پر دیکھیے :
http://www.javedahmadghamidi.com/ishraq/view/ilm-e-hadis-main-darayati-naqd-ka-tasawur
۳۔ صحیح مسلم، کتاب النکاح ( 16)، حدیث 83 اور 84؛ سنن ابن ماجہ، جلد 3، کتاب النکاح ( 9)، حدیث 1877؛ مسند احمد بن حنبل، رقم 24653۔
۴۔ الطبقات الکبریٰ، ابن سعد ۸/ ۵۷؛ احمد، رقم ۲۵۲۴۱؛
5- http://www.alsharia.org/mujalla/2012/jul/sayyidah-aisha-javed-ghamidi
http://www.al-mawrid.org/index.php/articles_urdu/view/Hazrat-Ayesha-Ki-Umer
6- Ruth Lamdan: A Separate People: Jewish Women in Palestine, Syria, and Egypt in the sixteenth Century, p. 47. Leiden, 2000.
7- "PURITY CONGRESS MEETS; A Great Gathering for Moral Work in the City of Baltimore. AIMS AND OBJECTS OF THE MOVEMENT Determined to Prevent State Regulation of Vice and to Rescue Fallen Men and Fallen Women.". The New York Times. BALTIMORE, Oct. 14. October 15, 1895.
8- "Encyclopedia of Children and Childhood in History and Society". Faqs.org. Retrieved 2015-11-20.
9- M.A. Friedman (1980), Jewish Marriage in Palestine, Vol 1, The Jewish Theological Seminary of America.
10- Noonan, John (1967). "MARRIAGE CANONS from THE DECRETUM OF GRATIAN - BOOK FOUR - TITLE I - Betrothals and Marriages - C3". CUA.edu. Archived from the original on 17 January 2016.
11- Bullough, Vern. "Encyclopedia of Children and Childhood in History and Society". faqs.org. Internet FAQ Archives. Archived from the original on 28 September 2008. Retrieved 25 August 2015.
۱۲۔ دیکھیے فیلیپ آرییس کی کتاب 'Centuries of Childhood' اور کنگھیم کی کتاب 'Invention of Childhood (2006)۔
۱۳۔ ابن ماجہ، رقم ۳۳۲۴
14-https://en.wikipedia.org/wiki/Human_height#Determinants_of_growth_and_height
۱۵۔ سنن ابو داود، حدیث نمبر ۴۹۳۲۔ راوی کو شک ہے کہ یہ واقعہ غزوہ خیبر سے متعلق ہے یا تبوک سے۔ فتح الباری میں غزوہ خیبر سے متعلق ہونے کو راجح قرار دیا گیا ہے۔
۱۶۔ ترجمہ تدبر قرآن: ’’اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں، اگر ان کے باب میں شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور اسی طرح ان کی بھی جن کو حیض نہ آیا ہو اور حمل والیوں کی مدت وضع حمل ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا تو اللہ اس کے لیے اس کے معاملے میں آسانی پیدا کرے گا۔‘‘
۱۷۔ ترجمہ تدبر قرآن: ’’اور ان یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو اگر تم ان کے اندر سوجھ بوجھ پاؤ تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو اور اس ڈر سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے، اسراف اور جلد بازی کر کے اْن کا مال ہڑپ نہ کرو۔‘‘
تبلیغی سہ روزہ کی مختصر روداد
حافظ محمد شفقت اللہ
گزشتہ چندسال سے استادِمحترم مولانازاہد الراشدی صاحب کی یہ ترتیب ہے کہ وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک سالانہ سہ روزہ لگاتے ہیں۔ اس سال ۸ تا ۱۰ نومبر ۲۰۱۶ء کو سہ روزہ ترتیب پایا۔ گوجرانوالہ سے ۳۵ علماء کرام پر مشتمل قافلہ ۸ نومبرکی صبح تبلیغی مرکز میں جمع ہوا۔ امیرتبلیغی مرکز محترم حاجی محمداسحاق صاحب نے روانگی کی ہدایات فرمائیں اور مولانا اسرار صاحب کو امیر مقرر کرنے کے بعدتشکیل سرگودھا میں طے پائی۔ ہماری گاڑی میں استادِمحترم مولانازاہد الراشدی،مولانا طارق بلالی اور مولانا اسرائیل صاحب سوارتھے۔امیرِ سفر مولانامحمد اسرائیل صاحب منتخب ہوئے۔
دورانِ سفر میں نے استاد محترم سے سوال کیا کہ موجودہ دور میں بین المسالک ہم آہنگی اور رواداری کے فروغ پر زور دیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں تقابلِ ادیان کا دائرہ کیا ہے اور تقابل ادیان کو تحقیق ،تنقید یا فتنہ کہا جائے؟ استاد جی نے جواب دیا کہ تقابل ادیان کا اطلاق اسلام سے متصادم مذاہب عیسائیت،یہودیت،بدھ مت کے حوالے سے ہوتا ہے۔ بریلویت ،اہلحدیث وغیرہ پر تقابل ادیان کا اطلاق غلط ہے۔ یہ مسلکی اختلافات ہیں اور ایسا اختلاف جو پبلک میں لڑائی اور شدت کا باعث بنے، وہ فتنہ ہے۔
میں نے امامِ اہل سنت ؒ کی کتاب ارشادالشیعہ کے بارے میں پوچھا کہ اس میں شیعہ کی تکفیر ہے اور کتاب لکھی ہی لوگوں کے لیے جاتی ہے تو کیا یہ لڑائی کا باعث نہیں ہے؟ استاد محترم نے کہا کہ تکفیر کا موقف اپنی جگہ ،یہ ایک علمی اختلاف ہے جس کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ اگر یہ کتابی شکل میں ہے تو یہ اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ہے نہ کہ معاشرے میں منافرت پھیلانے کے لیے۔ اختلاف لڑائی کا باعث تب بنتا ہے جب جلسے ،جلوس اور منبر پرمنفی لہجے میں بیان کیا جائے۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ وَمَا ھْم بِمْؤمِنِین ، وَاللّٰہُ یَشھَدْ اِنَّھْم لَکٰذِبْون، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں ۔چودہ بندے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے درپے ہیں۔ اللہ نے بچالیا، لیکن حضور ان کے نام بتانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ ہے معاشرت۔ معاشرتی احکام بالکل الگ ہیں۔ حضرت امامِ اہل سنت نے کبھی جلسے،جمعے میں اس طرح کااختلافی بیان نہیں کیا۔ ہاں تحقیقی ،تدریسی میدان میں جہاں محسوس کرتے، وہاں وضاحت کر دیتے تھے اور خوب کرتے تھے۔
استادِمحترم نے فرمایا: ایک دن میرے ساتھ کچھ احباب بیٹھے تھے۔ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ مولانا سرفراز صاحب بہت معتدل آدمی ہیں، کبھی اختلافی بیان نہیں کرتے۔ جب وہ آدمی چلا گیا تو ساتھی حیرانی سے پوچھنے لگے کہ ان سے بڑھ کر کون اختلاف کرتا ہے۔ ہر طبقہ کے خلاف مدلل ،مسکت مؤقف رکھتے ہیں۔ تو میں نے ساتھیوں سے کہا کہ آپ بھی سچے ہیں اور وہ بھی سچا ہے ۔آپ نے تدریسی،تصنیفی،تحقیقی دنیا دیکھی ہے اور اس نے عمومی مجلس دیکھی ہے اور حضرتؒ عمومی جگہ میں اختلافی بیانات کے قائل نہیں تھے۔
بہرحال سرگودھا مرکز پہنچے۔ وہاں مقامی ترتیب کے مطابق گشتوں کی تشکیل ہوئی۔پہلے دن یہ گشت بیسیوں مساجد میں بلاتفریق مسلک ہوا اورائمہ وخطباء کو مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کے خصوصی خطاب میں شرکت کے لیے دعوت دی گئی۔ اگلے روز بدھ کے دن ضلع کی تحصیلوں کا گشت طے تھا اور بڑے بڑے مدارس میں گشت کی ترتیب مولانا کے ساتھ طے پائی۔ دار العلوم زکریا ، مرکز اہل سنت سرگودھا ، جامعہ دار الہدیٰ چوکیرہ ، ضیاء العلوم اشاعت التوحید وا لسنۃ کا سفر ہوا۔ تمام مدارس کے طلباء میں مولانازاہد الراشدی صاحب کا خطاب اور تشکیلیں ہوئیں۔
راستے میں استادِ محترم نے فرمایا:کہ یہ تبلیغ کی برکت ہے کہ ہم مولانا الیاس گھمن سے بھی مل رہے ہیں اور مولانا عطاء اللہ بندیالوی کو بھی وقت دیا ہے۔ اسی پر فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ اسی سلسلہ میں گجرات کے مولاناسید ضیاء اللہ شاہ صاحب کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا اس کام کا بھی کوئی فائدہ ہے؟ میں نے کہا کہ یہ تھوڑا فائدہ ہے کہ آپ اور میں اکٹھے بیٹھ کر چائے پی رہے ہیں۔ اس پر شاہ صاحب ؒ ہنس پڑے۔
مولانا گلزاراحمد قاسمی، مولانا گلزاراحمد آزاد اور قاری محمد قاسم قاسمی کے ہمراہ چندعلماء پر مشتمل قافلے کی تشکیل جھاوریاں اور ڈھڈیاں شریف کی طرف ہوئی۔ڈھڈیاں شریف میں حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری کی قبر پر حاضری ہوئی اورموجودہ گدی نشین حضرت مولانا مظفر رائے پوری مدظلہ سے ملاقات ہوئی۔
ظہر کے بعدسرگودھا تبلیغی مرکز میں استاد محترم مولانازاہد الراشدی صاحب کا فکر انگیز بیان ہو ا جس میں علماء کے جم غفیرنے شرکت کی۔ عصر کے بعد ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد مولانا نے نمازمغرب نئے تبلیغی مرکز میں ادا کی اور جامعہ اسلامیہ محمودیہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں حضرت مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی صاحب کا خطاب تھا۔ مقصو د توملاقات تھی، لیکن احباب نے کہا کہ نیت دعوت کی کرلیں تاکہ تقاضابھی پوراہوجائے اور ملاقات بھی ہوجائے۔ اسی پر استادِ محترم نے فرمایاکہ حضرت مولانامحمد زکریا ؒ ایک مرتبہ نلکے کے نیچے نہا رہے تھے۔ ایک آدمی نلکا چلا رہا تھا۔ کافی دیر نہاتے رہے۔ ایک شخص آکر کہنے لگا کہ آپ ہمیں کہتے ہیں کہ پانی ضائع نہ کرو اور خود اتنی دیر سے نہار ہے ہیں؟ مولانا محمدزکریا ؒ نے کہا: میرا ارادہ غسل کا، نہیں تبرید کا ہے۔ جب جسم ٹھنڈا ہوجائے گا، اٹھ جاؤں گا۔ اس میں پانی ضائع کرنے والی کو ن سی بات ہے؟
جامعہ اسلامیہ محمودیہ میں استاد محترم مولانازاہدالراشدی صاحب اورحضرت مفتی صاحب کا خطاب سن کر مرکز واپسی ہوئی۔
جمعرات کی صبح استادِ محترم مولانازاہد الراشدی صاحب کا گشت مرکز آلِ محمدسلانوالی مولانا شاہ خالد گیلانی صاحب اورساہیوال میں مولانا عبد القدوس ترمذی صاحب کی طرف طے پایا۔ نمازِفجر کے بعد ہم روانہ ہوئے۔ دورانِ سفر میں نے پوچھا کہ روایات میں آتاہے کہ ہر صدی کا ایک مجدد ہوتاہے، اس صدی کا مجدد کون ہے؟ استادِ محترم نے جواب دیا کہ اس پر مولاناسعید احمداکبرآبادی ؒ نے ایک محاکمہ لکھاتھا جو بہت پسند کیا گیا۔ فرمایا کہ یہ اجتماعیت کا دور ہے، ہر کوئی اپنے شعبے کا مجدد ہے۔ اصلاح و سلوک میں حضرت تھانویؒ ، دعوت و تبلیغ میں مولانا محمدالیاسؒ ، علمی دنیا میں حضرت علامہ انور شاہ کاشمیر ی ؒ ، تحریکی جدوجہد میں مولانا مدنی ؒ اور ان سب کا مجموعہ دار العلوم دیوبند ہے۔
جامعہ حقانیہ ساہیوال میں پہنچنے کے بعد تخصص کے طلباء کوخطاب کرتے ہوئے مولانازاہد الراشدی صاحب نے فرمایا کہ مستفتی کے مقصد کو پہچاننا بھی ضروری ہے۔ عام طور پر کیا پوچھ رہا ہے پر غور تو کیاجاتاہے، لیکن کیوں پوچھ رہا ہے پر غور نہیں ہوتا۔ اس لیے استفتاء کا جواب دیتے ہوئے کیا کے ساتھ ’کیوں‘ کو بھی شامل کیا جائے۔اکابر کایہی طریقہ ہے۔
مولانامفتی محمودؒ کے پاس ایک شخص آیا اورپوچھنے لگا کہ حرام مال میں زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ مفتی صاحب سمجھ گئے کہ یہ فتویٰ کو بنیاد بنا کر مال کھا جائے گا۔ مفتی صاحب نے فرمایاکہ ہاں حرام مال میں زکوٰۃ ہے، لیکن چار شرائط کے ساتھ: حلال میں نصاب شرط ہے، حرام میں نہیں۔ حلال میں سال کا گزرنا شرط ہے، حرام میں نہیں۔ حلال کے لیے نصاب اڑھائی فیصد ہے اور حرام سارا دینا پڑے گا۔ حلال میں ثواب ہوگا، حرام میں ثواب کی نیت نہیں کرنی۔ اگر’’ کیا‘‘ کے ساتھ’’ کیوں‘‘کو بھی شامل کیاجائے تو بہت سارے مسائل میں الجھن سے بچ کرصحیح رہنمائی ہو جاتی ہے۔
مولاناعبدالقدوس صاحب سے ملاقات کے بعد مرکز واپسی ہوئی۔ یہ ہمارا تیسرادن تھا ۔ظہر کی نماز کے بعد استادِ محترم مولانازاہد الراشدی ،مولانا آفتاب اور مولانا سعد صاحب کے ساتھ فیصل آباد روانہ ہوئے جہاں مغرب کے بعد مدینہ ٹاؤن میں درسِ قرآن کا پروگرام تھا جبکہ بقیہ جماعت نے گوجرانوالہ کارخ کیا۔