جنوری ۲۰۱۶ء
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی ادارتی ذمہ داریوں کی منتقلی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں نے اپنے والد ماجد امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صاحب صفدر قدس سرہ کی ہدایت کے مطابق تعلیم و تربیت پائی ہے، اور تقلیداً بھی اور تحقیقاً بھی انہی کے مسلک و مشرب کے مطابق اس بات کا قائل ہوں اور رہا ہوں کہ ہدایت و سلامتی جمہور امت کے ساتھ منسلک رہنے میں ہے، اور کوئی بھی ایسا نظریہ جو جمہور امت کے مسلمات کے خلاف ہو، درست نہیں ہے اور جمہور امت کے مسلمات کے خلاف کوئی انفرادی رائے ہرگز قابل اتباع نہیں ہے۔ میں نے اپنی متعدد تحریروں اور تقریروں میں یہ بات پوری طرح واضح کی ہے اور جن لوگوں نے جمہور امت کے مسلمات کے خلاف کوئی راستہ اختیار کیا ہے، میں نے اس کی تردید میں الحمد للہ اپنی دانست کی حد تک کسی مداہنت سے کام نہیں لیا۔ البتہ میں مخالف نظریات پر تنقید میں سنجیدگی، متانت اور علمی اسلوب کا قائل ہوں اور اسی کو اپنے اکابر کا طریقہ سمجھتا ہوں۔ چنانچہ اسی اسلوب کے ساتھ میں نے جناب جاوید غامدی صاحب کے متعدد افکار پر بھرپور تنقید کی ہے جو شائع ہو چکی ہے۔
البتہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں، میں نے ایک ایسا فورم مہیا کرنے کی کوشش کی تھی جس میں ایسے مخالف افکار کے لوگ بھی اپنا مدعا اپنے الفاظ میں بیان کر سکیں تاکہ جب ان پر کوئی تنقید ہو تو یہ نہ کہا جا سکے کہ ان کی بات پوری طرح نہیں سنی گئی یا اسے سیاق و سباق سے کاٹ کر بیان کیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں ’’الشریعہ‘‘ کے مدیر اور میرے بیٹے حافظ عمار ناصر سلّمہ کے متعدد مضامین بھی ایسے شائع ہوئے ہیں جن میں انہوں نے بعض مسائل میں جناب غامدی صاحب کی تائید کی ہے یا انہی کا نقطہ نظر اپنایا ہے۔ اس بنا پر بعض حضرات کو یہ شبہہ پیدا ہوگیا کہ میں ان افکار میں ان کا ہم نوا ہوں، حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر وضاحت کرتا ہوں کہ میرا مسلک و مشرب جمہور امت کے مسلمات کی اتباع ہے، اور اس کے خلاف میرے بیٹے سمیت جس کسی نے کچھ کہا یا لکھا ہے، مجھے اس سے شدید اختلاف ہے اور میں اس سے اپنی مکمل براء ت کا اظہار کرتا ہوں۔
اگرچہ ’’الشریعہ‘‘ میں نے مذکورہ بالا مقصد کے تحت خود جاری کیا تھا، لیکن اس کا مقصد جدید لکھنے والوں کا یہ شکوہ دور کرنا تھا کہ ان کی بات سنجیدگی سے نہیں سنی جاتی۔ لیکن چونکہ میرے مسلک و مشرب کے بارے میں مغالطے اسی رسالے کے مضامین کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں یا کیے گئے، اس لیے بزرگوں نے جن کی رائے میری نظر میں قابل صد احترام ہے، مجھے یہ مشورہ دیا ہے کہ میں یہ بیان جاری کرنے کے ساتھ ’’الشریعہ‘‘ سے علیحدگی اختیار کر لوں تاکہ اس میں شائع ہونے والے مضامین کی کسی بھی طرح میری طرف نسبت نہ کی جا سکے۔ میں ان بزرگوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ’’الشریعہ‘‘ سے علیحدگی اختیار کرتا ہوں اور اپنے بیٹے حافظ عمار خان ناصر سلّمہ کو بھی، جو آئندہ ’’الشریعہ‘‘ کے ذمہ دار ہوں گے، یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جمہور امت کے مسلمات سے کسی بھی مسئلے میں علیحدہ روش اختیار نہ کریں۔ لیکن چونکہ وہ خود صاحب قلم ہیں، اس لیے اگر وہ ایسا کوئی رویہ اختیار کریں گے تو یہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا، میری طرف اس کی نسبت کسی طرح درست نہیں ہوگی۔
ابوعمار زاہد الراشدی، گوجرانوالہ
۱۴ نومبر ۲۰۱۵ء
مذکورہ تحریر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری زید مجدہم اور مولانا مفتی کفایت اللہ مانسہروی زید مجدہم کے مشورہ کے مطابق مرتب کر کے حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کی خدمت میں بھجوائی گئی جس کے جواب میں حضرت شیخ مدظلہ نے مندرجہ ذیل مکتوب گرامی ارسال فرمایا ہے:
باسمہ سبحانہ
مکرم و محترم جناب مولانا ابوعمار زاہد الراشدی حفظہ اللہ و رعاہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک عرصہ سے ’’ماہنامہ الشریعہ‘‘ کا قضیہ تشویش و اضطراب کا سبب بنا ہوا تھا، آپ نے ہمت و حوصلے اور وسعت قلب سے کام لے کر اس کو حل فرما دیا۔ احقر جناب کو ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہے۔ جناب کے اس فیصلے سے بے حد خوشی ہوئی اور بے اختیار دل سے آپ کے لیے، مع جملہ متعلقین حسنات و خیرات کی دعا نکلی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو والد ماجد ابوالزاہد سرفراز خان صفدر کا سچا اور حقیقی جانشین بننے کی توفیق سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔
احقر ہمیشہ آپ کی اعلیٰ و عمدہ صلاحیتوں کا قائل و معترف رہا ہے۔ میرے دل میں کبھی بھی اس میں تردد پیش نہیں آیا۔
مجھ جیسے محروم کو حق نہیں کہ نصیحت کرے، بزرگوں کا ارشاد نقل کر رہا ہے۔ ’’عافیت اور فتنوں سے حفاظت کا ذریعہ بزرگوں (جن کا برحق ہونا مسلمات میں شمار ہوتا ہے) کی اتباع و پیروی میں منحصر ہے اور سکون و طمانیت کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ ‘‘
سلیم اللہ خان
خادم جامعہ فاروقیہ کراچی
۴ صفر ۱۴۳۷ھ /۱۷؍ نومبر ۲۰۱۵ء
چنانچہ زیر نظر شمارہ سے میں ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی ادارتی ذمہ داری مکمل طور پر عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلّمہ کے سپرد کر رہا ہوں جس کی علمی صلاحیت، تحقیقی ذوق اور دینی صلابت پر، ذاتی طور پر بعض مسائل میں اختلاف رائے کے باوجود، مجھے مکمل اعتماد ہے اور قوی امید ہے کہ وہ ’’الشریعہ‘‘ کو اس کے اہداف، دائرۂ کار اور معیار کے مطابق زیادہ بہتر طور پر آگے بڑھا سکے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
بھارتی وزیر اعظم کا دورۂ پاکستان
محمد عمار خان ناصر
علاقائی امن اور ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات، اس خطے کی ضرورت ہیں۔ سیاست دانوں اور افواج اور انتہا پسند پریشر گروپس کی نہ سہی، عوام کی بہرحال ضرورت ہیں۔ انسانی قدریں بھی اسی کا تقاضا کرتی ہیں اور مسلمانوں کی مذہبی ودعوتی ذمہ داریاں بھی۔
تنازعات پرامن تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہوا کرتے ہیں۔ تاہم پر امن تعلقات کی طرف بڑھنے کو تنازعات کے پیشگی حل سے مشروط کرنا ایک غیر عملی سوچ ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت سے تنازع کو حل کرنے کا آپشن موجود نہیں تو پھر پہلے وہ سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں فریقین کے پاس سیاسی لین دین کی گنجائش اور لچک موجود ہو۔
پاکستان اور بھارت، طاقت کے راستے سے تنازعات کے حل کا آپشن بار بار آزما چکے ہیں اور اب یہ طریقہ واضح طور پر ’’نو آپشن’’ کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ مذاکرات اور سیاسی مکالمہ کے ذریعے سے حل تلاش کرنے کے لیے جس ماحول کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے موجودہ صورت حال میں وہ میسر نہیں۔ سو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ تنازعات کو اپنی جگہ تسلیم کرتے ہوئے وہ ماحول بنانے کی کوشش کی جائے جس میں خطے کی عمومی ذہنی فضا خود یہ تقاضا کرے کہ تنازعات کا تصفیہ کیا جائے (اور تقاضا نہ بھی کرے تو کم سے کم اس کی راہ میں حائل نہ ہو)۔
سازگار ماحول بنانے کے لیے ان دائروں میں باہمی تعلقات کو آگے بڑھانا ہوگا جن میں دونوں ملکوں کے مفادات مشترک ہیں۔ پون صدی سے جاری دائرے کے سفر سے اگر باہر نکلنا ہے تو یہ قدم اٹھانا ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی امید افزا پیش رفت کا خیر مقدم کرنا ہمارے نزدیک سیاسی فکر کی پختگی کی علامت ہے۔ خطے کی تاریخ اہل سیاست اور اہل صحافت، دونوں سے مثبت اور تعمیری کردار کی توقع کر رہی ہے۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۴)
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۷۴) امداد کا ترجمہ
عربی میں لفظ ’امداد‘ کا مطلب مدد بہم پہونچانا بھی ہوتا ہے، اور محض عطا ونوازش کے لیے بھی لفظ ’امداد‘ آتا ہے۔
فیروزآبادی لکھتا ہے:
والاِمْدادُ: تأخیرُ الأجَلِ، وأَن تَنْصُرَ الأجْنادَ بِجَماعَۃٍ غیرَکَ، والاِعْطاءُ، والاِغاثَۃُ.۔ (القاموس المحیط.)
فیروزآبادی کی اس بات پر یہ اضافہ مناسب ہوگا کہ تطویل وتوسیع کے معنی میں دراصل ’مدد‘ ثلاثی مجرد آتا ہے، اور ’امداد‘ ثلاثی مزید اس معنی میں ’فی‘ کے ساتھ آتا ہے۔
قرآن مجید میں یہ لفظ دونوں معنوں میں آیا ہے، موقع ومحل سے مفہوم متعین ہوتا ہے، لیکن مترجمین سے اس لفظ کے مفہوم کو متعین کرنے میں غلطی بھی ہوجاتی ہے۔
امداد بمعنی مدد پہونچانا
لفظ ’امداد‘ کے مذکورہ ذیل تینوں استعمالات مدد پہونچانے کے معنی میں ہیں، میرے علم کی حد تک مختلف زبانوں کے تمام مترجمین نے ان کا ترجمہ مدد کرنے کا کیا ہے، اور کسی نے مدد کے علاوہ کوئی اور ترجمہ نہیں کیا ہے:
(۱) إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ أَلَن یَکْفِیْکُمْ أَن یُمِدَّکُمْ رَبُّکُم بِثَلاَثَۃِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِکَۃِ مُنزَلِیْن۔ بَلَی إِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ وَیَأْتُوکُم مِّن فَوْرِہِمْ ہَذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُم بِخَمْسَۃِ آلافٍ مِّنَ الْمَلآئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ۔ (آل عمران: ۱۲۴، ۱۲۵)
’’(یاد کرو) جب تم مسلمانوں سے کہہ رہے تھے کہ کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب، تین ہزار تازہ دم اتارے ہوئے فرشتوں سے، تمہاری مدد فرمائے؟ ہاں اگر تم ثابت قدم رہو گے اور بچتے رہو گے اور وہ (دشمن) تمہارے اوپر آدھمکے، تو تمہارا رب، پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد فرمائے گا، جو اپنے خاص نشان لگائے ہوں گے‘‘(امین احسن اصلاحی)
(۲) إِذْ تَسْتَغِیْثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّیْ مُمِدُّکُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلآئِکَۃِ مُرْدِفِیْن۔ (الانفال:۹)
’’اور (یاد کرو) جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سنی کہ میں ایک ہزار فرشتے تمھاری کمک پر بھیجنے والا ہوں جن کے پرے کے بعد پرے نمودار ہوں گے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
امداد بمعنی عطیہ اور نوازش
مذکورہ ذیل تمام آیتوں میں امداد نوازش کے معنی میں ہے، تاہم بعض مترجمین نے ان تمام آیتوں کا اور بعض نے ان میں سے بعض آیتوں کا ترجمہ مدد پہونچانے کا کیا ہے، جو قرین صواب نہیں ہے۔
(۱) وَاتَّقُوا الَّذِیْ أَمَدَّکُم بِمَا تَعْلَمُونَ۔ أَمَدَّکُم بِأَنْعَامٍ وَبَنِیْنَ۔ (الشعراء : ۱۳۲،۱۳۳)
’’اور اس اللہ سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمھیں مدد پہنچائی، جن کو تم جانتے ہو، اس نے تمھاری مدد کی چوپایوں اور اولاد سے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ میں ایک اور غلطی یہ ہوئی کہ الذی کا ترجمہ اللہ کیا ہے، جو لفظ کے مطابق نہیں ہے، صحیح ترجمہ ہوگا: ’’اس ہستی سے ڈرو‘‘، اور چونکہ اللہ کا ذکر پہلے صراحت کے ساتھ آچکا ہے، اس لیے الذی اسی کی صفت ہے)
’’اور اس (اللہ) سے ڈرو جس نے تمہاری ان چیزوں سے امداد کی جن کو تم جانتے ہو، (یعنی) مواشی اور بیٹوں اور باغوں اور چشموں سے تمہاری امداد کی‘‘ (اشرف علی تھانوی) (وجنات وعیون کا بھی ترجمہ شامل ہے۔)
مذکورہ بالا دونوں ترجموں کے مقابلے میں ذیل کے ترجمے درست ہیں،
’’اور ڈرو اس سے جس نے تم کو پہنچایا ہے جو کچھ جانتے ہو، پہنچائے تم کو چوپائے اور بیٹے۔‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’ڈرو اُس سے جس نے وہ کچھ تمہیں دیا ہے جو تم جانتے ہو۔ تمہیں جانور دیے، اولادیں دیں۔‘‘(سید مودودی)
Freely has He bestowed on you cattle and sons,-(Yousuf Ali)
مذکورہ بالا ترجموں میں (اتقوا) کا ترجمہ ’’ڈرو‘‘ کیا گیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ اصل مادہ اور کلام کے موقع ومحل کے لحاظ سے صحیح ترجمہ ڈرو نہیں ہے، بلکہ ’’ناراضگی اور نافرمانی سے بچنے کی کوشش کرو‘‘ ہے۔
(۲) ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْْہِمْ وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیْراً۔ (الاسراء :۶)
’’پھر ہم نے تمھاری باری ان پر لوٹائی اور تمھاری مال اور اولاد سے مدد کی۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’پھر ہم ان پر تمہارا غلبہ کردیں گے، اور مال اور بیٹوں سے ہم تمھاری امداد کریں گے۔‘‘ (اشرف علی تھانوی)
مذکورہ بالا دونوں ترجموں کے مقابلے میں ذیل کا ترجمہ درست ہے،
’’پھر ہم نے پھیری تمہاری باری ان پر اور زور دیا تم کو مالوں سے اور بیٹوں سے‘‘ (شاہ عبدالقادر)
مذکورہ تینوں ترجموں میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک میں’ رددنا‘ کا ترجمہ مستقبل کا کیا گیا ہے، جبکہ دیگر دونوں ترجمے ماضی کے ہیں، مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں ’رددنا‘ کا مستقبل کا ترجمہ زیادہ قرین صواب ہے، گو کہ فعل ماضی ہے مضارع نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ (رددنا) گذشتہ آیت میں وارد (بعثنا) پر عطف ہے، جو ’اذا‘ کے تحت آیا ہے، ’اذا‘ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ حال اور مستقبل کے لیے آتا ہے، جبکہ ’لما ‘ماضی کے لیے آتا ہے، مزید یہ کہ سیاق کلام کے لحاظ سے یہ وعدے کا بیان ہے جیسا کہ کان وعدا مفعولا بتا رہا ہے، نہ کہ وعدہ پورا ہونے کا بیان ہے کہ ماضی کا ترجمہ کیا جائے۔
(۳) أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّہُم بِہِ مِن مَّالٍ وَبَنِیْنَ۔ (المومنون:۵۵)
’’کیا گمان کرتے ہیں یہ کہ جو کچھ مدد دیتے ہیں ہم ان کو ساتھ اس کے مال سے اور بیٹوں سے۔‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’کیا یہ خیال کررہے ہیں کہ وہ جو ہم ان کی مدد کررہے ہیں مال اور بیٹوں سے‘‘ (احمد رضا خان)
’’کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال و اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں‘‘ (سید مودودی)
’’کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں‘‘ (جالندھری)
مذکورہ بالا ترجموں کے مقابلے میں ذیل کے ترجمے زیادہ صحیح ہیں، کیونکہ سیاق کلام مدد دینے کا نہیں بلکہ مال اور بیٹوں سے نوازنے کا ہے۔
’’کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو ان کے مال واولاد میں اضافہ کررہے ہیں۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’کیا خیال رکھتے ہیں یہ جو ہم ان کو دیے جاتے ہیں مال اور اولاد‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’کیا یہ لوگ یوں گمان کررہے ہیں کہ ہم ان کو جو کچھ مال اولاد دیتے چلے جاتے ہیں‘‘(اشرف علی تھانوی)
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ بالا تینوں آیتوں کے ترجموں میں بعض لوگوں نے بنین کا ترجمہ اولاد کیا ہے جو درست نہیں ہے، بنین کا درست ترجمہ بیٹوں ہے۔ اولاد بیٹے اور بیٹی دونوں کے لیے آتا ہے، جبکہ ابن بیٹے کے لیے آتا ہے جس کے پانے پر عرب خوش ہوتے تھے، جبکہ بیٹی کو عار خیال کرتے تھے۔
(۴) فَلَمَّا جَاء سُلَیْْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ۔ (النمل: ۳۶)
’’تو جب سفیر سلیمان کے پاس پہنچا، اس نے کہا کیا تم لوگ میری مدد مال سے کرنا چاہتے ہو؟‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’جب وہ (ملکہ کا سفیر) سلیمان کے ہاں پہنچا تو اس نے کہا:کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟‘‘(سید مودودی)
آیت مذکورہ میں ملکہ کا قول انی مرسلۃ الیہم بھدیۃ مذکور ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ کا سفیر ہدایا لے کر پہونچا تھا، نہ کہ کوئی مدد لے کر گیا تھا، اس لیے سیاق عطیہ اور تحفے کا ہے، مدد کا نہیں ہے۔
مذکورہ بالا اردو ترجموں کے بالمقابل انگریزی کے حسب ذیل دونوں ترجمے درست ہیں:
Then when he came unto Sulaiman, he said: are ye going to add riches to me. (Daryabdi)
So when [the envoy] came to Solomon he said, "What! Are you offering me wealth? (Wahiduddin Khan)
(۵) کُلاًّ نُّمِدُّ ہَؤُلاء وَہَؤُلاء مِنْ عَطَاء رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاء رَبِّکَ مَحْظُوراً۔ (الاسراء :۲۰)
’’ہم تیرے پروردگار کی بخشش سے ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی بھی اور ان کی بھی، اور تیرے رب کی بخشش کسی پر بند نہیں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’آپ کے رب کی (اس) عطا (دنیوی) میں سے تو ہم ان کی بھی امداد کرتے ہیں اور ان کی بھی‘‘ (اشرف علی تھانوی)
آیت میں عطاء ربک کا صاف ذکر ہے ، اس لیے مذکورہ بالا دونوں ترجموں کے مقابلے میں ذیل کے ترجمے درست ہیں:
’’ہر ایک کو ہم پہنچائے جاتے ہیں ان کو اور ان کو تیرے رب کی بخشش میں سے‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اِن کو بھی اور اُن کو بھی، دونوں فریقوں کو ہم (دنیا میں) سامان زیست دیے جا رہے ہیں، یہ تیرے رب کا عطیہ ہے، اور تیرے رب کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے‘‘(سید مودودی)
(۶) وَأَمْدَدْنَاہُم بِفَاکِہَۃٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَہُونَ۔ (الطور: ۲۲)
’’اور مدد دیں گے ہم ان کو ساتھ میووں کے اور گوشت کے اس چیز سے کہ چاہتے ہیں‘‘(شاہ رفیع الدین)
’’اور ہم نے ان کی مدد فرمائی میوے اور گوشت سے جو چاہیں‘‘ (احمد رضا خان)
’’اور ہم ان کی پسند کے میوے اور گوشت ان کو برابر دیتے رہیں گے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اور ہم ان کو میوے اور گوشت جس قسم کا ان کو مرغوب ہو روز افزوں دیتے رہیں گے‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے‘‘(جالندھری)
اس مقام پر تو امداد کے لیے نوازش کا معنی بالکل یقینی ہے، کیونکہ جنت کی ساری نعمتیں دراصل اللہ کی نوازش اور عطیہ بتائی گئی ہیں، ان کی نوعیت امداد والی قرار نہیں پاتی۔ اور یہاں تو جنت کے پھلوں اور گوشت کا ذکر ہے، سیاق واضح طور سے نوازش کا ہے امداد کا نہیں ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ فتح محمد جالندھری جو ایسے ہر مقام پر مدد کا ترجمہ کرتے ہیں، اس مقام پر عطا کرنے کا ترجمہ کرتے ہیں، وہیں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض مترجمین نے بشمول اس مقام کے ہر جگہ اس کا التزام کیا ہے کہ جہاں بھی امداد کا لفظ آتا ہے وہ مدد پہنچانا یا مدد کرنا ترجمہ کرتے ہیں۔ شاہ رفیع الدین اور احمد رضا خان کے ترجموں میں ہم کو یہی التزام نظر آتا ہے۔ جبکہ شاہ عبدالقادر کے ترجمے میں ہمیں مدد اور نوازش کے درمیان فرق کی بہت خوب رعایت ملتی ہے۔ اشرف علی تھانوی، سید مودودی اور امین احسن اصلاحی کے یہاں ہم کو اس فرق کی با ضابطہ رعایت نظر نہیں آتی، چنانچہ شروع کے تین مقامات جن میں مال اور بنین سے نوازنے کا ذکر ہے،وہاں یہ تینوں بزرگ کبھی نوازش کا ترجمہ کرتے ہیں اور کبھی مدد کا، حالانکہ ان تینوں مقامات میں موقع کلام نوازش کا ہے نہ کہ مدد دینے کا۔
(جاری)
اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(۲۵ نومبر کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے امام ابوحنیفہؒ ہال میں ’’اسلام اور سائنس‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پیش کی گئی گزارشات کا خلاصہ۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ! اسلام اور سائنس کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر آپ حضرات نے فاضل مقررین کے ارشادات سماعت فرمائے ہیں۔ اس موضوع پر گفتگو کے بیسیوں دائرے ہیں، میں ان میں سے ایک صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ کیا اسلام اور سائنس آپس میں متصادم ہیں؟ اس لیے کہ عام طور پر یہ بات دنیا میں کہی جاتی ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ان کے درمیان بعد اور منافاۃ ہے۔ میں آج کی گفتگو میں اس سوال کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے اس بات پر غور فرمائیں کہ مذہب اور سائنس کے باہم مخالف اور متصادم ہونے کا جو تاثر عام طور پر پایا جاتا ہے اس کے بڑے اسباب دو ہیں۔ ایک نظری اور اصولی ہے جبکہ دوسرا سبب تاریخی اور واقعاتی ہے۔
اصولی پہلو یہ ہے کہ سائنس کائنات کی اشیاء پر غور و فکر کرنے، ان کی حقیقت جاننے، ان کی افادیت و ضرورت کو سمجھنے، ان کے استعمال کے طریقے معلوم کرنے، ان سے فائدہ اٹھانے اور تجربات کے ذریعہ انہیں زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کا نام ہے، اور سائنس اسی دائرہ میں ہر دور میں متحرک رہی ہے۔ جب تک کائنات کی بیشتر اشیاء تجربات و مشاہدات کے دائرے میں نہیں آئی تھیں، ان پر غور و فکر کا سب سے بڑا ذریعہ عقلیات کا ہوتا تھا، اس لیے سائنس بھی معقولات کا ایک شعبہ اور فلسفے کا حصہ سمجھی جاتی تھی۔ خود ہمارے ہاں درس نظامی میں فلکیات کو معقولات کے مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا تھا لیکن جب کائنات کی متعدد اشیاء انسان کے محسوسات، مشاہدات اور تجربات کے دائرہ میں شامل ہونے لگیں تو سائنس کو معقولات اور فلسفہ سے الگ ایک مستقل مضمون کا درجہ حاصل ہوگیا اور فلسفہ اور سائنس کا رخ الگ الگ سمتوں کی طرف ہوگیا۔ اسی طرح سائنس اس دور میں تجربات و مشاہدات کے بغیر محض معقولات کا حصہ سمجھی جاتی تھی اور آسمانی تعلیمات اور فلسفہ و معقولات کے درمیان مسلسل کشمکش رہتی تھی۔ خاص طور پر اس تناظر میں یہ بحث زیادہ شدت اختیار کر جاتی تھی کہ وحی اور عقل کا باہمی تعلق کیا ہے اور ان میں سے کس کو فائنل اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے؟ یہ دور عقل اور وحی کے درمیان کشمکش کا دور تھا جو آج بھی جاری ہے۔ چونکہ سائنس معقولات کے دائرہ کی چیز تھی اس لیے سائنس کو بھی مذہب سے الگ بلکہ اس سے متصادم تصور کیا جاتا تھا، لیکن جب سے عملی تجربات، مشاہدات اور تحقیقات کے ذریعہ سائنس کا دائرہ فلسفہ سے الگ ہوا ہے صورت حال بالکل مختلف ہوگئی ہے۔
ایک اور بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وحی کائنات کے حقائق کی نشاندہی کرتی ہے اور سائنس بھی انہی حقائق و اشیاء پر تجربات کرتی ہے۔ اس لیے ان دونوں کے درمیان تصادم کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ بلکہ میری طالب علمانہ رائے میں دونوں میں باہمی تقسیم کار کا ماحول سا بن گیا ہے۔ مثلاً انسانی جسم جو کہ میڈیکل سائنس کا موضوع ہے اور وہی وحی الٰہی کا موضوع بھی ہے۔ میڈیکل سائنس اس سوال کا جائزہ لیتی ہے کہ انسانی باڈی کی ماہیت کیا ہے، اس کے اعضاء کا آپس میں جوڑ کیا ہے، ان کا نیٹ ورک کیا ہے، میکنزم کیا ہے اور یہ کس طرح صحیح کام کرتے ہیں؟ جبکہ وحی الٰہی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسانی وجود کس نے بنایا ہے اور اس کا مقصدِ وجود کیا ہے؟ میں سائنس دانوں سے کہا کرتا ہوں کہ ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ ہمارا دائرہ کار ہی الگ الگ ہے۔ انسانی باڈی کے بارے میں دو سوالوں پر آپ بحث کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی ماہیت اور نیٹ ورک کیا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ کیسے صحیح کام کرتی ہے ، اور خرابی پیدا ہوجائے تو اسے صحیح کیسے کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ ہمارا یعنی وحی الٰہی کی بات کرنے والوں کا موضوع اس سے الگ دو سوال ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو بنایا کس نے ہے اور دوسرا یہ کہ کس مقصد کے لیے بنایا ہے؟
کسی بھی چیز کے مکمل تعارف کے لیے چار سوال ضروری ہوتے ہیں۔ (۱) یہ کیا ہے؟ (۲) یہ کیسے کام کرتی ہے؟ (۳) یہ کس نے بنائی ہے؟ اور (۴) کس مقصد کے لیے بنائی ہے؟ پہلے دو سوال سائنس کا موضوع ہیں جبکہ دوسرے دو سوال مذہب کا موضوع ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان کوئی اختلاف اور تنازعہ نہیں ہے۔
مذہب اور سائنس کے درمیان اختلاف اور تنازعہ کے عوامی تاثر کی دوسری وجہ تاریخی اور واقعاتی ہے۔ وہ یہ کہ جس دور میں یورپ میں سائنسی تجربات کا کام شروع ہوا اور سائنس دانوں نے کائنا ت کی متعدد اشیاء پر عقلی بحثوں سے آگے بڑھ کر عملی تجربات اور مشاہدات کا آغاز کیا اس وقت یورپ میں مسیحی مذہب کی فرمانروائی تھی اور ریاست و حکومت میں مذہبی قیادت کو فیصلہ کن درجہ حاصل تھا۔ مسیحیت کی اس دور کی مذہبی قیادت نے ان سائنسی تجربات و مشاہدات کو مذہب سے متصادم قرار دے کر ان کی مخالفت کی اور سائنسی تجربات پر الحاد اور ارتداد کا فتویٰ لگا کر ایسا کرنے والوں کو سزائیں دینا شروع کر دیں۔ اس کا سلسلہ بہت طویل اور افسوسناک رہا ہے جس سے یہ تاثر عام ہوگیا کہ مذہب سائنس کا مخالف ہے اور مذہبی تعلیمات میں سائنسی تجربات و مشاہدات کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو بھی اسی پر قیاس کر لیا گیا کہ مسیحیت کی پاپائی تعبیر کی طرح اسلام بھی سائنس کا مخالف ہے۔ حالانکہ اسلام نے سائنس اور سائنسی تجربات کی کبھی مخالفت نہیں کی، بلکہ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر کائنات پر غور و فکر کی دعوت دی ہے ان میں سے ایک کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ سورۃ آل عمران کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق اور شب و روز کے اختلاف میں ارباب دانش (اولوالالباب) کے لیے آیات اور نشانیاں ہیں اور ارباب فکر و دانش یتفکرون فی خلق السماوات والارض آسمان و زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں، البتہ اس غور و فکر کا ہدف ’’مقصدیت‘‘ کو قرار دیا ہے کہ وہ زمین و آسمان کی تخلیق پر غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ربنا ما خلقت ھذا باطلاً، یا اللہ! تو نے اسے بے مقصد پیدا نہیں کیا۔
اسلام نے کائنات کے نظام پر غور و فکر کی دعوت دی ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اس غور و فکر یعنی سائنسی مشاہدات و تجربات کی اصل بنیادیں مسلمانوں نے ہی فراہم کی ہیں جن پر آج پوری سائنس کی عمارت کھڑی ہے۔ اس لیے اسلام کو مسیحیت کے اس دور پر قیاس کرنا درست نہیں ہے اور یہ کہنا قطعی طور پر خلاف حقیقت ہے کہ اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم ہے۔ اس کے اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سائنس ہماری مخالف نہیں بلکہ معاون اور مؤید ہے کہ قرآن و حدیث کے بیان کردہ بہت سے حقائق کو سائنس نے عمل و تجربہ کے ساتھ ثابت کیا ہے جس سے قرآن و حدیث کی صداقت مزید واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ اس کے بیسیوں پہلو ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی مختصر گفتگو میں ان میں سے دو تین کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔
قرآن کریم نے قیامت کے دن اعمال کے وزن کی بات کی ہے کہ انسان کے اعمال و اقوال کا وزن کیا جائے گا۔ اس پر اعتراض کیا گیا بلکہ ا س کی تعبیر و تشریح میں اہل سنت اور معتزلہ وغیرہ کے مابین ایک عرصہ تک اختلاف رہا کہ قول اور عمل تولنے کی چیز نہیں ہے، اس لیے کہ قول اور عمل صادر ہونے کے بعد معدوم ہو جاتے ہیں، چنانچہ بات اور عمل کا وزن نہیں کیا جا سکتا اور نہیں کیا جائے گا۔ مگر سائنس نے قول اور عمل دونوں کو محفوظ کر کے بلکہ ان کی مقدار کا تعین کر کے اس اعتراض کو ختم کر دیا، اور قرآن کریم نے اعمال کے وزن کی جو بات کی ہے اسے صحیح ثابت کر دیا۔
دوسری مثال یہ عرض کروں گا کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں حمل قرار پاتا ہے تو اس کے ساتھ ایک فرشتے کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے جو ہر چالیس روز کے بعد رپورٹ پیش کرتا ہے کہ اب یہ کس کیفیت میں ہے۔ اور جب تین چلے پورے ہو کر اس میں روح ڈالنے کا وقت آتا ہے تو فرشتہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے کہ ما أجلہ اس کی عمر کتنی ہوگی؟ ما کسبہ اس کا کسب و عمل کیا ہوگا؟ ما رزقہ اس کے رزق کا کوٹہ کتنا ہوگا؟ اور اشقی ام سعید یہ نیک بختی یا بدبختی میں سے کس کھاتے میں شمار ہوگا، وغیر ذلک۔یہ سوال و جواب مکمل کرنے کے بعد اسے روح کا کنکشن دے دیا جاتا ہے۔ میں جب اس حدیث مبارکہ کو پڑھتا ہوں تو میرے ذہن میں سائنس کے بیان کردہ جین (Gene) کا تصور آجاتا ہے کہ جس جین کی بات سائنس دان کرتے ہیں کہیں یہ وہی فائل تو نہیں جو فرشتہ انسان کے جسم میں روح ڈالے جانے سے پہلے مکمل کر کے سیل کر دیتا ہے؟
ایک اور مثال بھی دیکھ لیں کہ بخاری شریف ہی کی ایک اور روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان مرنے کے بعد جب قبر میں جاتا ہے اور مٹی میں مل جاتا ہے تو اس کے جسم کا ہر عضو بوسیدہ ہو کر خاک ہو جاتا ہے۔ اِلاعجب ذنبہ فیہا یرکب مگر اس کی دُمچی کا مہرہ فنا نہیں ہوتا، وہ باقی رہتا ہے اور اسی سے اس کی دوبارہ تشکیل و ترتیب ہوتی ہے۔ میرے خیال میں آج کی سائنس جس کلون (Clone) کی بات کرتی ہے اور جس پر کلوننگ کے ایک مستقل کام کی بنیاد رکھی گئی ہے غالباً وہی عجب ذنبہ یعنی دُمچی کا مہرہ ہے جو انسان کی دوبارہ تخلیق کی بنیاد بنے گا۔ اور وہ پہلے سے الگ وجود نہیں ہوگا بلکہ اسی کی نشاۃ ثانیہ ہوگی۔
ایک اور مثال بھی سامنے رکھ لیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج کے مشاہدات بیان کرتے ہوئے ایک مجرم کو سزا دیے جانے کا ذکر کیا اور اس کا جرم یہ بتایا کہ وہ جھوٹ گھڑتا تھا اور یبلغ بہ الأفاق اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دیتا تھا۔ یہ جھوٹ گھڑنے والی بات سمجھ میں آتی تھی لیکن اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دینے کی بات آج سے ڈیڑھ صدی قبل سمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی۔ مگر سائنس نے اسے بھی حقیقت ثابت کر دیا ہے کہ سچ ہو یا جھوٹ کسی بات کو آناً فاناً دنیا کے مختلف کناروں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
حضرات محترم! میں نے چند ارشادات آپ کے سامنے اس حوالہ سے کیے ہیں کہ اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں ہے بلکہ اسلام سائنسی تحقیقات کی دعوت دیتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جبکہ سائنس وحی الٰہی کے بیان کردہ حقائق کی تائید کرتی ہے اور مسلسل کرتی جا رہی ہے۔ اس لیے سائنس کے علم سے جہاں انسانی سوسائٹی کو نت نئی سہولتیں اور فوائد حاصل ہو رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ، اسی طرح یہ آسمانی تعلیمات کی مؤید اور معاون بھی ہے۔ البتہ اسے محض معروضیت کے دائرہ میں رکھنے کی بجائے ’’مقصدیت‘‘ کا پہلو بھی اس کے حوالہ سے اجاگر کرنا ہوگا اور یہی اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام علوم و فنون سے صحیح استفادے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
’’اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق‘‘
محمد زاہد صدیق مغل
(فیس بک پر جناب زاہد صدیق مغل کا تبصرہ)
جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کا 'اسلام اور سائنس' پر کالم پڑھا، مختصر تبصرہ یہ ہے:
’’سائنس کائنات کی اشیاء پر غور و فکر کرنے، ان کی حقیقت جاننے، ان کی افادیت و ضرورت کو سمجھنے کا نام ہے، ان کے استعمال کے طریقے معلوم کرنے کا نام ہے۔‘‘
نہ جانے وہ کون سی سائنس ہے جو ’’حقیقت تلاش‘‘ کررہی ہے۔ جدید سائنس، جس کا ظہور تاریخ میں ہوا، وہ تو کائنات کے ذرے ذرے کو سرمایے میں تبدیل کرکے نفع میں اضافے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔
سائنس کا دائرہ کار ’’(1) یہ چیز کیا ہے؟ اور (2) کیسے کام کرتی ہے‘‘ ہے جبکہ مذہب کا دائرہ کار ’’(3) اسے کس نے بنایا ہے‘‘ اور ’’(4) اس کا مقصد کیا ہے‘‘ ہے۔ ۔۔۔
نجانے اس دنیا کی وہ کون سی سائنس ہے جو ’’اشیاء کی مقصدیت‘‘ فرض کیے بغیر ہی کام کیے جارہی ہے۔
’’وحی کائنات کے حقائق کی نشاندہی کرتی ہے، سائنس بھی انہی حقائق و اشیاء پر تجربات کرتی ہے، اس لیے ان دونوں کے درمیان تصادم کی کوئی وجہ نہیں۔‘‘
اوپر کہا کہ ان دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے، مگر ایک بھی ہے۔
مجھے تو آج تک ایسا سائنس دان نہیں ملا جو یہ کہتا ہو کہ ’’میں حقیقت تلاش کررہا ہوں‘‘، نہ ہی کوئی ایسے والدین جو اپنے بچے کو کسی سائنسی شعبے میں داخلہ دلاتے ہوئے یہ کہتے ہوں: ’’جاؤ بیٹا حقیقت تلاش کرو‘‘۔ بھائیو! یہ ’’پروفیشن‘‘ ہے، ملین بلین ڈالر پروفیشن جس کے پیچھے کارپوریٹ، ریاست و مارکیٹ اکانومی کا سٹرکچر کھڑا ہے۔ ان تینوں کے Nexus کے بغیر ٹیکنالوجیکل ترقی کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ شاید ہم پاکستانی برے لوگ ہیں، اس لئے سائنس کے ذریعے حقیقت تلاش نہیں کرتے بلکہ یورپ و امریکہ ہر جگہ لوگ اسے پروفیشن اور کیرئیر کے طور پر ہی لیتے ہیں۔
سائنس سے حاصل ہونے والے مادی فوائد کو مد نظر رکھ کر اسے اپنی طرف سے تھیورائز کرلینا کہ سائنس ایسی ہوتی ہے یا ویسی، کوئی علمی طریقہ نہیں۔ سائنس کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟ اس کے لیے فلاسفی آف سائنس میں اس سے متعلق مباحث کی ڈویلپمنٹ کو دیکھنا چاہیے۔ انہیں نظر انداز کرکے سائنس کے بارے میں اپنی طرف سے وضع کردہ نظریات کی روشنی میں کی جانے والی گفتگو بے معنی ہے۔
بیل ۔ سینگوں کے بغیر؟
خورشید احمد ندیم
انسان تسخیر کائنات کے اگلے مرحلے، تسخیر فطرت میں داخل ہو چکا۔ صدیوں سے قائم ما بعد الطبیعیاتی تصورات اور عقائد کے پاؤں تلے سے زمین سرک رہی ہے۔ مذہب بھی اپنی حقیقت میں مابعد الطبیعیاتی تصور ہے،اگرچہ وہ طبیعات کی دنیا سے اپنے حق میں دلائل کشید کر تا ہے۔ تسخیر کائنات کا مر حلہ درپیش تھا تو مسیحیت مذہب کی نمائندگی کر رہی تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ اہل کلیسا اس چیلنج سے عہدہ برآ نہ ہو سکے۔ تسخیر فطرت کے مر حلے میں، مذہب کی نمائندگی اسلام کر رہا ہے۔ کیا اہل اسلام اس چیلنج کا سامنا کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
۲۸۔ نومبر کو ’نیو یارک ٹائمز‘ کے صفحہ اوّ ل پر ایک خبر شائع ہوئی۔’جین ایڈیٹنگ‘ سے بیل کے تخلیقی فارمولے کوبدل دیا گیا ہے۔ دو ایسے بیل پیدا کیے جاچکے جن کے سینگ نہیں ہیں۔ اسی علم سے، اس سے پہلے ایک مچھلی بھی پیدا کی گئی جو اب امریکہ میں دستر خوان کا حصہ ہے۔ایک ایسا مچھر’پیدا‘کر لیا گیا ہے جو ملیریا پھیلانے کی ’صلاحیت‘ سے محروم ہے۔ اس علم سے سور اور مویشیوں کی ایسی نسلیں پیدا کی جا رہی ہیں جو کم خوراک لیکن زیادہ فربہ ہوں گی اور یوں زیادہ گوشت کی فراہمی کاباعث ہوں گی۔چینی محققین نے بونے سور پیدا کر دیے ہیں جنہیں گھروں میں پالتو جانوروں کی طرح رکھا جا سکے گا۔ وہ ایسی بھیڑیں بھی پیدا کرہے ہیں جو زیادہ گوشت فراہم کریں گی اور ان کے بال بھی کہیں لمبے ہوں گے جن سے زیادہ گرم کپڑابنایا جا سکے گا۔اس نوعیت کے ان گنت تجربات ہیں جو جانوروں پر جاری ہیں۔
’پیوند کاری‘ کوئی نیا عمل نہیں۔ عالمِ نباتات و حیوانات پر اس کے تجربات قدیم سے ہورہے ہیں۔تاہم یہ بہت سست اور محدود عمل تھا۔ایک تجربے کے نتائج کے لیے کئی عشروں تک انتظار کر نا پڑتا تھا۔’جین ایڈیٹنگ‘کامعاملہ مختلف ہے۔اس نے تبدیلیء ہیت کے عمل کو مہمیز دے دی ہے۔وہ تخلیقی فارمولہ اب اس کی دست رس میں ہے جوایک صنف کی صورت میں حسب خواہش و ضرورت تبدیلی لا سکتا ہے۔انزائمزکے استعمال سے اب ڈی این اے کے حسب خواہش مقام پر چرکہ لگا کر، کوئی جین نکالی اور کوئی ڈالی جا سکتی ہے۔ یوں اپنی مرضی کا جانور تخلیق کیا جا سکتا ہے۔کیا معلوم کب بولنے والے جانور پیدا ہو جائیں اور سوچنے والے بھی؟اگر جانوروں میں سوچ آگئی تو کیاپھربھی وہ جانور ہی شمار ہوں گے؟کچھ دیر کے لیے ذہن کے گھوڑے کو اس سمت میں دوڑائیے اور پھر سوچیے کہ مستقبل کا کیسا منظر آپ کے سامنے ہے؟
مذہب مظاہر فطرت سے دلیل اٹھاتا ہے۔ انہیں خدا کے وجود کے لیے بطور استدلال پیش کرتا ہے۔مثال کے طور پروہ اونٹ کی تخلیق پر غور کی دعوت دیتا ہے ۔انسان اب اس صناعی میں شریک ہونے کا دعویٰ کرنے لگا ہے۔ اُس نے پہلی بارایسا نہیں کیا۔نمرود نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ میں زندگی دیتاہوں اورموت بھی۔اللہ کے ایک رسول نے اس کے استدلال کی کمزوری طشت ازبام کر دی۔ہم ختم نبوت کے عہد میں زندہ ہیں۔اب آسمان سے کوئی وحی نہیں اترنے والی جو آج کے نمرود کو جواب دے۔یہ جواب تو وحی کے وارثوں کو دینا ہے۔یہ امت جس پر آ خری رسول سیدنا محمد ﷺ نے شہادت دی اور اسے تمام عالم انسانیت کے سامنے یہ شہادت دینی ہے۔
آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے!
ابراہیم ؑ کی صلبی اور معنوی اولاد، جسے امتحان کا سامنا ہے، کیا اس کے لیے تیار ہے؟
یہ چیلنج گھمبیر ہونے والا ہے جب معاملہ جانوروں تک محدود نہیں رہے گے۔’جین ایڈیٹنگ‘ کا ہاتھ حریم آ دم کی طرف بڑھ رہا ہے۔کیا معلوم مستقبل کے پردے سے ابھرنے والا آ دم کیسا ہو؟اس کے خدو خال کیسے ہوں؟سوچ کیسی ہو؟ ابھی تو سائنس دانوں کو روک دیا گیا ہے لیکن کب تک؟یہ پابندی زیادہ عرصہ باقی نہیں رہ سکے گی۔ لوگوں نے اس مقصد کے لیے اربوں8 ڈالر مختص کر دیے ہیں۔یہ روبوٹ کی بات نہیں ،جیتے جاگتے انسان کا معاملہ ہے۔وہ انسان جس کے بارے میں مذہب کا مقدمہ ہے کہ اسے روز جزا اپنے رب کے حضور میں پیش ہو نا ہے۔بزعمِ خویش ،نئے انسان کا خالق،ا س دنیا میں انسان اور اس کے حقیقی خالق کے مابین آ کھڑا ہوا ہے،نمرود کی طرح۔آ خری الہام کے وارثوں کوکیا اس کا اندازہ ہے؟
علم بالحواس اور علم بالو حی کی بحث سے بات آگے نکل چکی۔ یہ بات طے ہے کہ جنہوں نے سائنس کی زبان میں مذہب کا مقدمہ پیش کیا، انہیں شکست ہوئی۔انہوں نے یقین کے لیے گمان کی دلیل پر انحصار کیا۔یوں یقین کو نقصان پہنچایا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ما بعد الطبیعیات کا مقدمہ طبیعیات کے میدان میں لڑا۔ سائنس دریافت کا ایک مسلسل عمل ہے۔کیا معلوم اس کی اگلی منزل کیا ہے؟اس کے نتائج سے محکمات پر استدلال نہیں کیا جا سکا۔ تاہم ایک دائرہ ایسا ہے جہاں اس سے گریز ممکن نہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مذہب اپنے حق میں مظاہر فطرت سے استنباط کر تا ہے۔ یہاں لازم ہے کہ فطرت کے جن مظاہر کی طرف مذہب اشارہ کرتا ہے، وہ تحقیق کے پیمانے پر پورا اترتے ہوں۔ ’جین ایڈیٹنگ‘ کے بعد، میرااحساس ہے کہ ان نصوص کی قدیم تفسیر اور شرح شاید نئے ذہن کے اطمینان کے لیے کافی نہ ہوجہاں فطرت کے مظاہر پر مذہب کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔
اس بحث کا ایک پہلو اور بھی ہے۔مذہب کا مقدمہ یہ بھی ہے کہ پیغمبر دراصل ان باتوں کی یاد دہانی کے لیے تشریف لاتے ہیں جوانسانی فطرت میں الہام کر دی گئی ہیں۔وہ فطرت کو ایک محکم بنیاد فرض کر تا ہے۔وہ آفاق ہی نہیں، انفُس کی نشانیوں سے بھی دلیل لا تا ہے۔ ’جین ایڈیٹنگ‘کے تحت فطرت اب قابل تغیر ہے۔اگر انسان کی یاداشت ہی کو کھرچ ڈالا جائے توعہدِ الست کی گواہی کا کیا ہوگا؟یہ درست ہے کہ مذہب کی دنیا میں روح زندگی کا محور ہے۔جو اس پر رقم ہے، ’جین ایڈنٹنگ‘ کی اس تک رسائی نہیں۔ عہد الست اگر اس پر محفوظ ہے تواس ٹیکنالوجی کے دسترس سے باہر ہے۔ بات لیکن یہاں ختم نہیں ہو جا تی۔اس کے بعد یہ بتانا پڑے گا کہ فطرت کیا ہے؟مثال کے طور پر اب یہ کہا جا رہا ہے کہ جرم جینز میں ہو تاہے۔اگر جینز میں تبدیلی ممکن ہے تویہ بھی ممکن ہے کہ ’جین ایڈیٹنگ‘ سے جرم کر نے کی صلاحیت ہی سلب کر لی جائے۔ سوال یہ ہے کہ جس فطرت میں فجور اور تقویٰ الہام کر دیے گئے ہیں،اگراس میں تبدیلی ممکن ہے تو پھر قانونِ آ زمائش کی معنویت کیا ہوگی؟
’جین ایڈیٹنگ‘ آج کے علمِ جدید کا چیلنج ہے۔انیسویں صدی میں جب علم بالحواس نے اسی نوعیت کا چیلنج اٹھایا تھا تو سر سید نے ایک نئے علم کلام کی ضرورت کو نمایاں کیا تھا۔علامہ اقبال نے بھی اسی بات کو آگے بڑھایا۔اب سر سید کا علم کلام بھی ہماری مدد نہیں کر سکے گا۔ انہوں نے مذہب کو فطرت سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی تھی۔اب تو فطرت ہی تبدیلی کی زد میں ہے۔بنیادی سوا ل پھر اپنی جگہ کھڑا ہے کہ محکم کے لیے متغیر کو معیار کیسے مانا جا سکتا ہے؟
میں مذہب کی سخت جانی سے واقف ہوں۔اس نے ہر دور کے ’علم جدید‘ کا سامنا کیا ہے اور میری نظرمیں،دلیل کے میدان میں اسے شکست نہیں دی سکی۔یقیناًوہ اس معرکے میں بھی فاتح ہوگا۔اس وقت ایک جانب توصف بندی ہو چکی۔ آج بیل کے سر سے سینگ غائب ہوئے ہیں۔کل کچھ اور غائب ہو جائے گا۔یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔کیا اہلِ مذہب نے بھی صف بندی کا سوچ لیا ہے؟کیا ان کے پاس وہ علم کلام مو جود ہے جو بیل کے سر پر سینگ اگا دے یا پھراسے اپنے حق میں انفس وآفاق کی ایک نئی دلیل میں بدل ڈالے؟
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)
جدید علم الکلام
مولانا مفتی منیب الرحمن
روزنامہ دنیا کے فاضل کالم نگار جناب خورشید ندیم نے اپنے کالم میں ’’جین ایڈیٹنگ‘‘ کو موضوع بنایا اور بتایا کہ جنیٹک انجینئرنگ کے ذریعے حیوانات کی بعض خصوصیات پر مشتمل نئی نسلیں تیار کی جا رہی ہیں جن میں بغیر سینگ کے بیل، ایک خاص قسم کی مچھلی اور Malaria free مچھر بھی پیدا کیا گیا ہے۔ الغرض اجناس اور حیوانات کی نسلوں میں تنوع پر تجربات ہورہے ہیں اور کسی حد تک اس کی اصل تابیر یا تلقیح ہے۔ اسے درختوں میں قلمیں لگانے اور جانوروں میں مخلوط نسل سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ جانوروں کی مخلوط نسلوں کے حوالے سے ہمارے فقہی سرمایے میں پہلے سے اس کا حل موجود ہے۔ ذیل میں سوال وجواب کی صورت میں ایک مسئلہ درج کیا جاتا ہے جو ہم نے عید الاضحی کے موقع پر آسٹریلوی گائے کی قربانی کے حوالے سے لکھا تھا:
’’سوال: کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے؟ اس کے بارے میں یہ افواہ بھی ہے کہ اسے حرام جانور کے مادہ منویہ سے حاملہ کرایا جاتا ہے تاکہ اس سے دودھ کی زیادہ مقدار حاصل ہو۔ ایسی گایوں کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے۔ فقہی رائے کا مدار افواہوں یا سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، صرف ان باتوں پر ہوتا ہے جو قطعی ثبوت یا مشاہدے سے ثابت ہوں۔ اسی لیے مسلمہ اصول ہے کہ ’’یقین شک سے زائل نہیں ہوتا‘‘۔ تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو، تب بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے۔ اس لیے کہ جانور کی نسل کا مدار ماں (یعنی مادہ جانور) پر ہوتا ہے۔ علامہ برہان الدین لکھتے ہیں: ترجمہ ’’اور جو بچہ پالتو جانور اور وحشی جانور کے ملاپ سے پیدا ہو، وہ (بچہ) ماں کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، یہاں تک کہ اگر بھیڑیے نے بکری پر جفتی کی تو اس ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا، اس کی قربانی جائز ہے ۔‘‘ اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود ’’عنایہ‘‘ شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں: ترجمہ (کیونکہ بچہ ماں کا جزء ہوتا ہے اور اسی لیے آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے۔ (یہ اس دور کی بات ہے جب غلامی کا رواج تھا)۔ یہ اس لیے کہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے اور ماں کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے۔‘‘ (فتح القدیر جلد ۹ ص ۵۳۲)‘‘
اور آج کل تو مغرب میں انسانوں کو اسی حیوانی درجے میں پہنچا دیا گیا ہے، اسی لیے باپ کے بجائے ماں کا نام پوچھا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں کو اپنے باپ کا پتہ ہی نہیں ہوتا، جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانوں میں نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے۔ پس بیل کا بغیر سینگ کے ہونا جبکہ گائے نے اسے جنم دیا ہو، مذہب کی رو سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مچھلی کی مثال جناب خورشید ندیم نے دی ہے، جبکہ برائلر مرغی سے مسلمانوں سمیت پوری انسانیت ایک مدت سے استفادہ کر رہی ہے۔
اسلام میں جمود نہیں ہے، توسع ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی مفاد میں تجربات کے لیے راستہ کھلا چھوڑا ہے۔ حدیث پاک میں ہے، رافع بن خدیج بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم (ہجرت کر کے) مدینے تشریف لائے تو لوگ وہاں کھجوروں میں پیوند کاری کرتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، یہ تم کیا کرتے ہو؟ انھوں نے عرض کیا، ہم یہ کام (قلمیں لگانا) کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تم یہ نہ کرتے تو بہتر ہوتا۔ سو انھوں نے (قلمیں لگانا) چھوڑ دیا تو درخت جھڑ گئے یا پیداوار کم ہو گئی۔ راوی بیان کرتے ہیں، صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا، ’’میں صرف بشر ہوں۔ جب میں دین کے بارے میں (جو وحی ربانی پر مشتمل ہوتا ہے) تمھیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے قبول کر لو اور اگر میں اپنی رائے سے کسی بات کا حکم دوں تو میں بشر ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، ۲۳۶۲) دوسری حدیث میں فرمایا ’’اگر (پیوند کاری) ان کے لیے مفید ہے تو وہ اسے اختیار کریں۔ میں نے ظن پر مبنی بات کی تھی اور ظنی (یا قیاسی) بات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے، لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب کر کے کوئی بات کہوں تو اسے لازم پکڑو۔‘‘ (صحیح مسلم، ۲۳۶۱)
اسی طرح ماضی قریب میں ایک بھیڑ کے خلیے (Cell) سے دوسری بھیڑ ڈولی کو تخلیق کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو سوال یہ ہے کہ اس سلسلے کو آگے جاری کیوں نہ رکھا گیا، اس کا سبب معلوم نہیں ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں یہ سارے نظائر (Precedents) موجود ہیں۔ عام سنت الٰہیہ یہ ہے کہ توالد وتناسل یعنی افزائش نسل حیوانات میں نر ومادہ اور انسانوں میں مرد اور عورت کے اشتراک سے وجود میں آتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مرد کے واسطے کے بغیر، حضرت حوا کو عورت کے واسطے کے بغیر اور حضرت آدم علیہ السلام کو دونوں کے واسطے کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اسباب قدرتِ باری تعالیٰ کے تابع ہیں اور اس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مانند ہے۔ انھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے فرمایا : ہو جا، سو وہ ہو گیا۔‘‘ (آل عمران: ۵۹) اسی طرح فرمایا: ’’اے لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہا کرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا ہے اور اسی سے اس کی زوج (حوا) کو پیدا کیا اور ان دونوں سے کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا۔‘‘ (النساء: ۱) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرتِ حوا کو آدم علیہ السلام کے وجود سے پیدا کیا اور اپنی حکومت سے اس تخلیق کی عملی صورت کو بیان نہیں فرمایا۔ قرآن مجید اصول اور کلیات بیان کرتا ہے، اس کی صورت وہیئت کی تحدید نہیں فرماتا تاکہ آنے والے زمانے میں انسانی علم کے ارتقاء کے سبب جو بھی صورت اختیار کی جائے، اس پر اصول کی تطبیق (Application) میں دشواری پیش نہ آئے۔
جناب خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ نئے علم الکلام کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے، اس لیے کہ انسان کے علمی، عقلی اور فکری ارتقا کا سفر جاری وساری ہے۔ فلسفہ یونان تو اب از کار رفتہ ہو چکا۔ نئے فلسفے اور ما بعد الطبیعیاتی (Metaphysical) نظریے وجود میں آتے رہیں گے۔ آج اباحت کلی (Total Permissibility) کا فلسفہ کار فرما ہے۔ انسان کے لیے کیا مفید ہے اور کیا نقصان دہ؟ اس بارے میں مغرب کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کی اجتماعی دانش ہی حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو انھوں نے دیس نکالا دے دیا ہے۔ آج ہم جنس پرستی (Homosexuality)، مردوں کے باہم جنسی تلذذ (Gay)، عورتوں کے باہم جنسی تلذذ (Lesbians) اور ہیجڑوں کے باہم جنسی تلذذ (Transgender) کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ قانون الٰہی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
علم الکلام سے مراد یہ ہے کہ اسلامی عقائد پر وارد ہونے والے عقلی اور فکری اعتراضات کا ایسا مدلل اور مفصل جواب دیا جائے جو ایک سلیم الفطرت اور عقل سلیم رکھنے والے انسان کو مطمئن کرسکے۔ جہاں تک ہٹ دھرم لوگوں کا تعلق ہے، وہ ہمیشہ قاطع حجتوں کو بھی رَد کرتے رہے ہیں، عصبیت جاہلیہ سے کام لیتے ہوئے دین آبا سے جڑے رہے ہیں۔ ایسے کٹ حجت اور ہٹ دھرم لوگ تاریخ کے ہر دور میں موجود رہے ہیں اور رہیں گے۔ اسلام کے حاملین کو عقلی اور فکری جمود کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اہل دین کو اپنے عہد کے عقلی اور فکری فتنوں اور ان کی فکری اساس کو سمجھ کر ان کا تشفی بخش جواب دینا چاہیے۔ یہ بھی درست ہے کہ عقلی، فکری اور سائنسی ارتقا کے اس دور میں آیات الٰہیہ کی نئی تعبیرات آتی رہیں گی۔ ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ نصوص قرآنی کو ہر دور میں سائنس کے تابع کریں، بلکہ ہماری ذمے داری یہ ہے کہ یہ ثابت کریں کہ قرآن وسنت اور اصول دین کا سائنس سے کوئی تصادم نہیں ہے۔ اگر ہم آج کی کسی تعبیر کو حرفِ آخر قرار دے دیں تو کل اس کے برعکس بھی کوئی صورت سامنے آ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات اور اس میں سربستہ رازوں کو دریافت کرنا یا انھیں مختلف شکلیں دینا تو ممکن ہے اور یہ دین کے منافی نہیں ہے۔ خلق اور ایجاد اللہ تعالیٰ کی شان ہے اور روح یا حقیقت حیات، یہ قدرت کا راز ہے اور تاحال یہ انسانی عقل کی رسائی سے ماوَرا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ہم نے آسمان کو اپنے دست قدرت سے بنایا اور ہم (ہر آن) اسے وسعت دینے والے ہیں۔‘‘ (الذاریات ۴۷)۔ سائنس دان بھی کہتے ہیں کہ ہماری کہکشاں (Galaxy) کی طرح کئی ارب کہکشائیں (Galaxies) ایسی ہیں جو ابھی دریافت نہیں ہوئیں۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)
بین المذاہب مکالمہ کی ایک نشست کے سوال و جواب
محمد عمار خان ناصر
مورخہ ۸ دسمبر ۲۰۱۵ء کو فیصل آباد کے ہوٹل وَن میں کرسچین اسٹڈی سنٹر اسلام آباد کے زیر اہتمام بین المذاہب مکالمہ کی ایک نشست میں شرکت اور حاضرین کے درجنوں سوالات کے جواب میں اپنے فہم کے مطابق گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ بڑے اچھے ماحول میں سوالات اور ان کے جوابات کا تبادلہ ہوا۔ مجلس کی منتظم محترمہ فہمیدہ سلیم نے آخر میں سب کا شکریہ ادا کیا اور تحمل وبرداشت کے حوالے سے کہا کہ ’’آپ کا ریموٹ کنٹرول آپ ہی کے پاس ہونا چاہیے’’، مطلب یہ کہ مکالمہ ومباحثہ میں کوئی دوسرا شخص اپنی کسی غیر محتاط یا اشتعال انگیز بات سے آپ کو بھڑکانے میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ ایک اور بزرگ نے پتے کی بات کی کہ اس طرح کی مخلوط مجالس میں ہم جن اچھے اچھے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں، تبدیلی اس وقت آئے گی جب ہم یہی باتیں اپنے اپنے ماحول میں واپس جا کر بھی کرنے لگیں گے۔
اس نشست میں جن سوالات کے جوابات دیے گئے، ان میں سے بعض اہم سوال وجواب موضوع سے متعلق بعض دیگر سوالات کے اضافے کے ساتھ یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
سوال۔ اسلام کا تصور توحید کیا ہے؟
جواب۔ اسلام میں توحید کا تصور یہ ہے کہ اس کائنات کی خالق ومالک ایک ہی ہستی ہے جو اپنے اقتدار واختیار اور اپنے خاص حقوق میں کسی کو شریک نہیں کرتی اور نہ ایسی شرکت کو گوارا کرتی ہے۔
سوال۔ کافر کس کو کہتے ہیں؟
جواب۔ کافر کا لفظ قرآن میں ان لوگوں کے لیے بولا گیا ہے جنھوں نے پیغمبر علیہ السلام کی طرف سے حق کو پوری طرح واضح کر دیے جانے کے باوجود اسے قبول نہیں کیا۔ یہ چونکہ دل کی کیفیت ہے، اس لیے اس مفہوم میں کسی کو کافر (یعنی جانتے بوجھتے حق کا انکار کرنے والا) کہنا اللہ تعالیٰ کی تصریح کے بغیر کسی انسان کے لیے روا نہیں۔ البتہ ایک عمومی مفہوم میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذہبی گروہوں کو جو اسلام کی مبنی برحق تعلیم کو قبول نہیں کرتے، ’’کفار‘‘ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ ان کے دل کی کیفیات کا فیصلہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہی کریں گے۔ دنیا میں انھیں ظاہری احکام کے لحاظ سے ’’کافر‘‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم ہر مذہب کے ماننے والے چونکہ اپنے خیال میں حق ہی کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے لیے ’’کافر‘‘ کی تعبیر پسند نہیں کرتے، اس لیے فقہائے اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی کہ کسی غیر مسلم کو طعن کے انداز میں ’’کافر‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جائے۔ فقہ اسلامی کی رو سے ایسا کرنے والے کو دوسروں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی پاداش میں تعزیری سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
سوال۔ مختلف مسلمان فرقے آپس میں ایک دوسرے کو کافر کیوں کہتے ہیں؟
جواب۔ فرقہ واریت صرف مسلمانوں میں نہیں، ہر مذہب کے پیروکاروں میں پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں میں کچھ نہ کچھ مذہبی اختلافات بہرحال پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب ان مذہبی اختلافات میں ہر گروہ اپنی ہی تعبیر کو عین حق اور مخالف تعبیر کو عین باطل تصور کرتا ہے تو اس سے باہمی تکفیر کا رویہ پیدا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ مذہبی تعبیر کے اختلاف کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں، اصل مذہب کی طرف نسبت اگر موجود ہے تو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ اس لحاظ سے جب تک کوئی گروہ خود کو ازخود اسلام سے لاتعلق قرار نہ دے یا اسلام کے کسی بنیادی عقیدے کا یہ کہہ کر انکار نہ کرے کہ میں اس عقیدے کو قبول نہیں کرتا یا پیغمبر علیہ السلام کے بعد کسی نئے نبی سے اپنے آپ کو وابستہ کر کے کوئی نئی مذہبی شناخت اختیار نہ کر لے، اسے دائرۂ اسلام میں ہی شمار کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلمان فرقے عموماً اس اصول کو ملحوظ نہیں رکھتے جس کی وجہ سے وہ باہمی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہتے ہیں۔
سوال۔ اگر سب کا خالق و مالک ایک ہے تو مذاہب کا اختلاف کیسے پیدا ہوا؟
جواب۔ مذہبی عقائد کا اختلاف پیدا ہونے کا سبب بھی انسان کو ملنے والی وہی ارادہ واختیار کی آزادی ہے جس کی وجہ سے دنیا میں اخلاقی خیر وشر وجود میں آیا ہے۔ یعنی انسان اپنے عمل میں بھی آزمائش سے دوچار ہے اور فکر ونظر میں بھی، بلکہ فکر ونظر کی آزمائش زیادہ سنگین ہے، کیونکہ اس دائرے میں انسان کو ایک طرف حق وباطل کے التباس کو الگ الگ کرنے اور حق کی پہچان کا امتحان درپیش ہے اور اس کے بعد حق کو عملاً قبول کر لینے کا۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ یہ مذہبی اختلاف اللہ تعالیٰ کی اسکیم کا حصہ ہے اور اس دنیا میں اسی طرح ہمیشہ برقرار رہے گا۔
سوال۔ کیا مذہبی اختلاف کے ہوتے ہوئے احترام انسانیت فروغ پا سکتا ہے؟
جواب۔ جہاں دوسرے اسبابِ اختلاف انسانوں کے مابین نفرت اور بے توقیری کا رویہ پیدا کرتے ہیں، وہاں مذہبی اختلاف بھی اس کا سبب بن سکتا ہے اور بنتا ہے۔ لیکن اصولی طور پر اگر مذہب کی تعلیم کو درست طور پر سمجھ کر اس کے مطابق رویے اپنائے جائیں تو مذہبی اختلاف کے باوجود یہ ممکن ہے کہ انسان، ایک ہی رب کے بندے اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کا احترام کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمارے لیے اس کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ ایک یہودی کے جنازے کے احترام میں کھڑے ہو گئے تھے اور لوگوں کے تعجب ظاہر کرنے پر فرمایا تھا کہ ’’کیا وہ ایک انسان نہیں ہے؟‘‘ آپ نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ اگر کسی نے کسی غیر مسلم معاہد کے ساتھ زیادتی کی تو قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس کے خلاف آپ خود استغاثہ کریں گے۔ آپ نے یہ تعلیم دی کہ میدان جنگ میں اگر بدترین دشمن بھی مارا جائے تو اس کی لاش کو بگاڑنا اور اس کی توہین کرنا جائز نہیں۔ یہ سب باتیں واضح کرتی ہیں کہ مذہبی اختلاف کے باوجود انسانی سطح پر سارے انسانوں کی یکساں تکریم واحترام کا رویہ اپنایا جا سکتا ہے۔
سوال۔ جب اسلام لا اکراہ فی الدین پر یقین رکھتا ہے تو اسلام چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنے والوں کے لیے موت کی سزا کیوں رکھی گئی ہے؟
جواب۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ قوانین اور ضابطے اس دنیا کے عمومی حالات کے لحاظ سے مقرر کیے ہیں اور کچھ ضابطے بعض مخصوص حالات میں اختیار کیے جاتے ہیں۔ مذہبی آزادی کے حوالے سے اللہ کا عمومی قانون یہی ہے کہ اس دنیا میں انسان پر کسی مخصوص عقیدے یا مذہب کے حوالے سے جبر نہ اللہ نے خود کیا ہے اور نہ انسانوں کو اس کی اجازت دی ہے۔ البتہ جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت کسی قوم میں اپنا پیغمبر بھیجتا ہے اور اس کے ذریعے سے حق ان لوگوں کے سامنے واضح فرما دیتا ہے تو پھر اس کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم اسے لازماً قبول کرے، ورنہ اس دنیا میں ہی عذاب الٰہی کا شکار ہو جائے گی۔ اسی اصول کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے براہ راست مخاطب گروہوں کے متعلق یہ قانون بیان فرمایا کہ ان میں سے جو اسلام قبول کر لینے کے بعد اسے چھوڑنا چاہے تو اسے اس کی اجازت نہ دی جائے بلکہ ایسا کرنے والے کو قتل کر دیا جائے۔
دور جدید میں یہ مسئلہ مسلمان علماء کے درمیان خاصا زیر بحث ہے۔ جہاں ایک بڑا طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ ارتداد کی مذکورہ سزا کا نفاذ ہمیشہ اسی طرح واجب العمل ہے، وہاں کچھ مختلف نقطہ ہائے نظر بھی سامنے آ رہے ہیں جن کی رو سے اِس دور میں شکوک وشبہات کا شکار ہو کر اسلام کو چھوڑنے والے مسلمانوں پر موت کی سزا کا لازمی نفاذ شریعت کا منشا نہیں۔ ایسے لوگوں کو حکمت اور دانش کے ساتھ ہی واپس دائرۂ اسلام میں لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سوال۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو اہل کتاب کے ساتھ دوستی کرنے سے کیوں منع کیا گیا ہے؟
جواب۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ وہ غیر مسلموں کے کسی بھی گروہ کے ساتھ تعلقا ت کی نوعیت کا فیصلہ خود اس گروہ کے رویے کی روشنی میں کرتا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں قرآن مجید میں مختلف گروہوں کے اختیار کردہ رویے کے مطابق ان کے ساتھ تعلقات رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۂ عرب میں قرآن کی دعوت پیش کی تو اس کا رد عمل مختلف گروہوں کی طرف سے مختلف انداز میں سامنے آیا۔ بعض نے کھلم کھلا دشمنی کا طریقہ اختیار کیا، بعض نے اہل اسلام کے ساتھ ہمدردی اور مشکل حالات میں ان کی مدد کا رویہ اپنایا، جبکہ بہت سے گروہوں نے غیر جانب دار رہنے کو ترجیح دی۔
ان میں سے جو گروہ اسلام اور مسلمانوں کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور موقع ملنے پر انھیں نابود کر دینے کے خواب دیکھ رہے تھے، ان کے ساتھ کوئی ہمدردی یا تعلق خاطر رکھنے کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے منافی قرار دیا اور ان کے لیے محبت اور دوستی کے جذبات ظاہر کرنے والے مسلمانوں کو سخت تنبیہ فرمائی۔ اس کے برخلاف جو گروہ اسلام کی دعوت کو قبول نہ کرتے ہوئے بھی مسلمانوں کی جان ومال یا ان کے مذہب کے دشمن نہیں بنے، ان کے ساتھ مصالحانہ تعلقات اور اچھے برتاؤ کی تلقین کی گئی۔ (سورۂ ممتحنہ، آیت ۸) اسی طرح اس دور کے اہل کتاب میں کچھ گروہ ایسے بھی تھے جو دیانت داری اور خدا خوفی جیسے اوصاف سے متصف تھے اور مذہبی تعلیمات کے اشتراک کی وجہ سے اسلام او رمسلمانوں کے ساتھ تعلق خاطر بھی محسوس کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے گروہوں کا ذکر تحسین کے انداز میں کیا ہے۔ (سورۂ مائدہ، آیت ۸۲)
عہد نبوی میں ہمیں ایسے اہل کتاب بھی ملتے ہیں جنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ہمدردانہ اور دوستانہ طرز عمل اختیار کیا، بلکہ نازک مواقع پر مسلمانوں کی مدد بھی کی۔ اس حوالے سے سب سے نمایاں مثال حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی ہے جس نے کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مظلوم مسلمانوں کو اپنے ملک میں نہ صرف پناہ فراہم کی، بلکہ مشرکین کے مطالبے کے باوجود ان مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً مکہ سے ہجرت کر کے جانے والے بہت سے مسلمان کئی سال تک امن وعافیت کے ساتھ حبشہ کی سرزمین میں مقیم رہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی تناظر میں صحابہ کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ آپ کے بعد جب مسلمان ارد گرد کے ممالک کو فتح کرنے کے لیے نکلیں تو اہل حبشہ جب تک مسلمانوں کے خلاف جنگ میں پہل نہ کریں، ان کے خلاف جنگ نہ کی جائے۔ (سنن ابی داود، کتاب الملاحم، حدیث ۴۳۰۲)
سوال۔ کیا مسلمان اور مسیحی مردوں کو ایک ہی قبرستان میں دفن کیا جا سکتا ہے؟
جواب۔ اس معاملے میں شریعت کی رو سے کوئی لازمی پابندی تو مسلمانوں پر عائد نہیں کی گئی۔ ابتدائی دور میں مدینہ میں ایک ہی مشترک قبرستان تھا جہاں مشرکین اور مسلمانوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں ایسے آثار بھی منقول ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے دور میں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا اور اہل کتاب کے بعض مردوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے دیا گیا۔ البتہ کچھ باتوں کا اہتمام عملی مصلحت کے لحاظ سے کیا جاتا ہے اور اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ مختلف مذہبی گروہ جن کے اعتقادات اور عملی احکام وقوانین باہم مختلف ہوں، وہ جب ایک جگہ اکٹھے رہتے ہیں تو باہمی نزاع سے بچنے کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر رفتہ رفتہ اختیار کر لی جاتی ہیں جو مفید ہوتی ہیں۔ اس پہلو سے عموماً ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ مختلف مذہبی گروہوں نے اپنے مردوں کے لیے قبرستان بھی الگ الگ کر لیے۔ یہی طریقہ مسلمانوں نے بھی اختیار کیا ہے اور اس کی پابندی کرنے میں بہت سے مصالح مضمر ہیں۔
سوال۔ مسلمانوں یا مسیحیوں کا ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں عبادت کرنا یا مشترکہ عبادت میں شریک ہونا کیسا ہے؟
جواب۔ مسلمانوں کے لیے ساری زمین کو مسجد قرار دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے وہ کسی بھی جگہ جہاں کوئی اضافی شرعی مانع موجود نہ ہو، نماز ادا کر سکتے ہیں۔ جہاں تک اہل کتاب کے، مسلمانوں کی مسجد میں عبادت کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بھی اسلام اصولاً بہت روادارانہ رویہ رکھتا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے نجران کے مسیحیوں نے مسجد نبوی میں ہی اپنے طریقے پر اپنی نماز ادا کی تھی۔ تاہم اس معاملے کو ایک عمومی عمل کی حیثیت سے اختیار کرنا بہت سے عملی مصالح کی روشنی میں مشکل ہے۔ عبادت گاہوں کے حوالے سے مذہبی گروہوں میں خاصی حساسیت پائی جاتی ہے اور سب لوگوں کی ذہنی سطح بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اس لیے کسی موقع پر اس اجازت سے فائدہ یہ دیکھ کر ہی اٹھانا چاہیے کہ اس سے کوئی اور بڑا مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے۔ حضرت عمر نے بیت المقدس میں ایک کلیسا میں نماز ادا کرنے سے اسی لیے انکار کر دیا تھا کہ آگے چل کر کہیں مسلمان یہ کہہ کر اس جگہ اپنا حق نہ جتا دیں کہ یہاں ہمارے خلیفہ نے نماز ادا کی تھی۔
جہاں تک مشترکہ عبادت ادا کرنے کا تعلق ہے تو دیکھیے، ہر مذہب میں عبادت کے اپنے کچھ مخصوص مراسم اور طریقے ہوتے ہیں جن کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔ مثلاً نماز کا طریقہ اہل اسلام کے ہاں اس طریقے سے بہت مختلف ہے جو مسیحیوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں مشترکہ عبادت کی ادائیگی نہیں ہو سکتی۔ البتہ عبادت کے ایسے طریقے جن کا تعلق مخصوص مراسم سے نہیں، مثلاً اللہ کے سامنے دعا کرنا یا اس کی حمد ومناجات کرنا، ان میں اگر مختلف مذاہب کے ماننے والے باہم شریک ہونا چاہیں اور مذہبی نقطہ نظر سے اس میں کوئی مانع موجود نہ ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
سوال۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی باہمی شادیوں سے متعلق اسلام کی تعلیم کیا ہے؟
جواب۔ اس حوالے سے اسلامی شریعت میں اہل کتاب اور ان کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے الگ الگ احکام مقرر کیے گئے ہیں۔ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت کھانا اسلام میں حرام ہے اور ان میں سے کسی مرد یا عورت کے ساتھ نکاح کرنا بھی مسلمانوں کے لیے جائز نہیں رکھا گیا، لیکن اہل کتاب کے متعلق یہ اجازت دی گئی ہے کہ ان کے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت بھی کھایا جا سکتا ہے اور ان کی پاک دامن عورتوں سے مسلمان مرد نکاح بھی کر سکتے ہیں۔ (سورۂ مائدہ، آیت ۵) یہ اجازت اسلامی شریعت میں یک طرفہ ہے، یعنی مسلمان مرد تو اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کر سکتے ہیں، لیکن مسلمان عورتوں کو شریعت نے اس کو روا نہیں رکھا کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی بھی دوسرے مذہب کے مردوں سے شادی کریں۔
سوال۔ حضرت مسیح کے پیروکاروں کو عیسائی کہا جائے یا مسیحی؟
جواب۔ قرآن میں چونکہ ’عیسیٰ’ کا نام آیا ہے، اس لیے مسلمانوں میں اس نسبت سے عام طور پر ’’عیسائی‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس میں تحقیر یا توہین کا کوئی پہلو مسلمانوں کے ذہن میں نہیں ہوتا۔ البتہ مسیحی حضرات اپنے لیے ’’مسیحی‘‘ کا لفظ استعمال کرنے کو ہی پسند کرتے ہیں جو ان کا حق ہے اور اگر انھیں کسی وجہ سے ’’عیسائی‘‘ کے لفظ کے استعمال سے توحش ہوتا ہے یا انھیں ناگوار گزرتا ہے تو ہمیں بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے انھیں ’’مسیحی’’ کے نام سے ہی یاد کرنا چاہیے۔
سوال۔ سابقہ آسمانی صحائف کو پڑھنا اسلام کی نظر میں کیسا ہے؟
جواب۔ قرآن مجید نے سابقہ آسمانی صحائف کی عظمت وفضیلت واضح کی ہے اور بتایا ہے کہ قرآن بھی انھی تعلیمات کا تسلسل ہے، کوئی نیا دین نہیں لے کر آیا۔ قرآن اپنی تعلیمات کے، سابقہ صحائف کے موافق ہونے کو اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس پہلو سے قرآن مجید کی تعلیم کو تاریخی تناظر میں سمجھنے کے لیے علمی سطح پر سابقہ آسمانی صحائف کا مطالعہ اور ان سے استفادہ ایک بہت مفید چیز ہے۔ مسلمان علماء اس حقیقت سے واقف رہے ہیں اور اپنی علمی ومذہبی تحقیقات میں کتب سماویہ سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔
مسلمانوں کے نقطہ نظر سے بائبل میں موجود تمام صحائف اور ان کے تمام مندرجات تاریخی طور پر ایسے محفوظ نہیں کہ انبیاء کی طرف ان کی نسبت پورے اعتماد کے ساتھ کی جا سکے۔ پھر بھی اگر دینی تعلیمات کے حوالے سے قرآن اور صحائف انبیاء کا تقابل کیا جائے تو حیرت انگیز مشابہت اور مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ ماضی قریب میں بعض بڑے علماء مثلاً مولانا ثناء اللہ امرتسری مرحوم نے دین کی اہم تعلیمات کے حوالے سے ان تمام صحائف کا تقابلی مطالعہ کیا ہے اور اس سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔
سوال۔ قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر اور پندرہ اگست کا بیان بظاہر متضاد دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے کس کو ترجیح دی جائے؟
جواب۔ گیارہ اگست کی تقریر میں قائد اعظم نے اس ملک کی غیر مسلم اقلیتوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ ان کے مذہبی وسیاسی حقوق پوری طرح محفوظ ہوں گے اور ریاست پاکستان اس ضمن میں کوئی جانب دارانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی۔ پندرہ اگست کے بیان میں انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ مسلمانوں کے لیے ملکی نظام اور قانون کے دائرے میں راہ نمائی کا سرچشمہ اسلام کی ابدی تعلیمات ہیں جن کا بہترین نمونہ حضرت عمر کے عہد میں ملتا ہے۔ میرے نزدیک ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ بالکل درست ہیں۔ اسلام چونکہ دین ومذہب کے معاملے میں کسی قسم کے جبر کا قائل نہیں، اس لیے وہ مسلمان مملکت میں بسنے والے غیر مسلم گروہوں کو مکمل مذہبی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ غیر مسلم اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر قسم کی معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں اور ملکی فلاح وبہبود میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلامی شریعت کے مخصوص قوانین ان پر لاگو نہیں ہوتے اور وہ اپنے معاملات اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق انجام دینے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔
یہی حق ملک کی مسلمان اکثریت کو بھی حاصل ہے۔ چنانچہ جب اکثریت ملک کے نظام اور قانون کی تشکیل کرے گی تو ملک کی اکثریتی آبادی کے لیے ان کے مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہی کرے گی۔ نہ اکثریت کو یہ حق ہے کہ وہ اقلیت پر اپنے مذہبی خیالات کی پابندی مسلط کرے اور نہ اقلیتوں کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اکثریت سے اپنے مذہبی حقوق اور اختیارات سے دست برداری کا مطالبہ کریں۔ قائد اعظم نے یہی دونوں پہلو اپنی مذکورہ تقریروں میں واضح کیے ہیں۔ گیارہ اگست کی تقریر اقلیتوں کے مذہبی وسیاسی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے اور پندرہ اگست کا بیان یہ بتاتا ہے کہ مسلمان اکثریت جب اپنی سیاست ومعاشرت اور معیشت کی تشکیل کرے گی تو اپنے مذہب سے صرف نظر یا اس سے دست بردار ہو کر نہیں کریں گی۔
حسینہ واجد کی انتقامی سیاست
محمد اظہار الحق
’’آدم بو، آدم بو‘‘ ۔۔۔
چڑیل نے اپنے بے حد چوڑے نتھنے سیکڑے، پھر پھیلائے۔ اس کے پر چمگادڑ کے پروں کی طرح تھے۔ پھیلے ہوئے اور ڈراؤنے۔ آسمانی بلا کی طرح زمین پر اتری۔ جو سامنے آیا اسے کھا گئی، کھاتی گئی۔ خلق خدا نے پناہ مانگی۔ لوگ چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے لگے۔ ماؤں نے بچوں کو گھروں سے باہر بھیجنا بند کر دیا۔ خاندانوں کے خاندان تہہ خانوں میں جا چھپے!
حسینہ واجد کی پیاس ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے! بلور کے بنے ہوئے ساغر اور ان میں انسانی خون۔ مگر آہ! پیاس بجھ نہیں رہی۔ تاریخ نے بڑے بڑے ظالم دیکھے ہیں۔ سولہویں صدی میں ملکہ میری نے پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھنے والوں کو آگے میں جلانے کا حکم دیا۔ پادریوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ملکہ کا نام ’’خونی میری‘‘ پڑ گیا۔ سٹالن خلق خلق خدا کے لیے عذاب بنا۔ آج ملکہ میری ہے نہ سٹالن۔ حسینہ واجد بھی تاریخ کے گمنام صفحے پر خون کے ایک بدنما دھبے کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ بہت جلد! بہت جلد! جب پنڈلی سے پنڈلی جڑے گی! جھاڑ پھونک کرنے والوں کو بلایا جائے گا! آنکھوں کے سامنے فلم چلے گی! حسینہ واجد کی رحم طلب نگاہوں کے سامنے پروفیسر غلام احمد، قمر الزمان، عبد القادر ملا، صلاح الدین چودھری اور علی احسن مجاہد کے چہرے ابھریں گے۔ وہ چیخے گی، مگر چہرے بار بار نظر آئیں گے۔ موت کی غشی اس اذیت سے نجات نہیں دے گی۔ یہ تومحض آغاز ہوگا! آغاز جس کا کوئی انت، کوئی آخر نہیں ہوگا۔
۱۹۶۹ء کا اگست تھا جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم عبد المالک کو شہید کیا گیا۔ ٹیچر سٹوڈنٹ سنٹر میں تعزیتی اجتماع تھا۔ یہ کالم نگار بھی سامعین میں موجود تھا۔ عبد المالک سے ہماری اچھی علیک سلیک او ر خوب گپ شپ تھی۔ تمام مغربی پاکستانی طلبہ سے وہ محبت سے ملا کرتا۔ اجتماع میں پروفیسر غلام اعظم نے تقریر کی اور رُلا کر رکھ دیا۔ پروفیسر صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی، انھیں تبسم کے ساتھ ہی پایا۔ نرم ملائم ہاتھ جن میں ملنے والے کے ہاتھوں کووہ تھامے رکھتے! پھر وہ خبر پڑھی کہ عمر رسیدہ غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا سنائی گئی۔ پروفیسر نے زنداں کا مرہون احسان ہونا گوارا نہ کیا اور جان، جلد ہی جان آفریں کے سپرد کر دی۔ یہی غلام اعظم تھے جنھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سنٹرل سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سامنے بنگلہ کو اردو کے شانہ بشانہ قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایک دن کے لیے، نہیں! ایک دن تو بہت لمبی مدت ہوتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس اٹل سچائی میں کبھی شک نہیں کیا کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتیجہ میں عوامی لیگ جیتی تھی اور وفاق میں حکومت کی تشکیل اس کا حق تھا۔ کچھ لوگوں نے اس وقت کہا کہ عوامی لیگ کی نشستیں یہاں نہیں ہیں اور مغربی پاکستان میں جیتنے والوں کی وہاں نہیں ہیں اور یہ تو پولرائزیشن ہوگی! یعنی دو انتہائیں۔ پولرائزیشن، کون سی پولرائزیشن! ع
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
آج کے پاکستان میں پولرائزیشن کے سوا کہیں کچھ نظر ہی نہیں آ رہا۔ وسطی پنجاب میں جیتی ہوئی پارٹی وفاق میں حکومت کر رہی ہے۔ سندھ میں اس کی حیثیت صفر ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں اس کی موجودگی تبرک سے بڑھ کر نہیں۔ وفاقی کابینہ میں پشتو بولنے والے کتنے ہیں؟ دل پرہاتھ رکھ کر سوچیے! دفاع، خزانہ، داخلہ، ریلوے، بجلی، توانائی، تجارت، اطلاعات، ترقی ومنصوبہ بندی، جہاز رانی سب وزارتیں کیسے بانٹی گئی ہیں؟ ایوان اقتدار میں ریٹائرڈ ضعیف بیورو کریٹ کہاں کہاں سے ہیں؟ مشرقی پاکستان علاقہ نہ ہوتا، انسان ہوتا تو آج قہقہہ لگا کر کہتا ’’دیکھا، کیسی بد دعا لگی ہے! اب بتاؤ کیسی ہے پولرائزیشن!‘‘
مگر جب پاکستان ایک ملک تھا تو اس وقت سیاسی اختلاف کرنے والوں پر یا فوج کا ساتھ دینے والوں پر، آج غداری کا الزام کیسے لگ سکتا ہے؟ کیا یہ آسمانی کتاب میں لکھا ہے کہ عوامی لیگ سے سیاسی اختلاف نہیں ہو سکتا تھا؟ اگر پاکستان متحد رہ جاتا تو کیا اختلاف کرنے پر عوامی لیگ کو مطعون کیا جا سکتا تھا؟ نہیں، ہرگز نہیں! تو پھر صلاح الدین چودھری، علی احسن مجاہد اور دوسرے سیاست دانوں کو کس طرح قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اس وقت بنگلہ دیش کا وجود کہیں نہ تھا۔ ملک ایک تھا، سیاسی رائے کچھ بھی ہو سکتی تھی۔ حسینہ واجد غداری کے عذر لنگ پر سیاست دانوں کو قتل کرا رہی ہیں، بلکہ کر رہی ہیں۔ یہ ایک بھیانک روایت ہے جس کا آغاز اس عورت نے کیا ہے۔ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوگا۔ یہ خون اپنا حساب لے گا۔ مجیب الرحمن آخری آدمی نہیں ہیں جو گھر کی سیڑھیوں پر قتل ہوئے!
رہا بہت سے ان دوستوں کا شکوہ جو ایک مذہبی سیاسی جماعت کی اس معاملے میں خاموشی کا رونا رو رہے ہیں، ان حضرات کا شکوہ ناروا ہے۔ وہ کس سے شکوہ کر رہے ہیں؟ امید ہی کیوں رکھی تھی؟ کچھ جماعتوں کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے کہ ہمیشہ صحیح وقت پر غلط فیصلہ اور صحیح فیصلہ غلط وقت پر کریں۔ اُس وقت عوامی امنگوں کے سامنے بند باندھنا بھی سیاسی کم نظری (Political Myopia) تھا اور اِس وقت شور محشر بپا نہ کرنا بھی افسوس ناک ہے۔ فارسی کے شاعر نے انھی کا ماتم کیا ہوگا۔ ع
زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت
کم کوشی ان ہمراہیوں کے خمیر میں گوندھ دی گئی ہے! دل جیسے مٹھی میں جکڑا جا رہا ہے!!
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)
رفیق احمد باجوہ ۔ ایک بھولا بسرا کردار
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لاہور کے رہائشی علاقے شاد باغ میں رفیق احمد باجوہ ایڈووکیٹ (مرحوم) کے گھر پر ملک بھر کے سیاسی راہنماؤں کا ایک اجلاس ہوا ۔ یہ 10 جنوری 1977کی اک سہ پہر تھی۔ میں LLB کے امتحان سے فارغ ہو کر ہمہ وقت تحریک استقلال کے لیے کام کرتا تھا ۔ نہ دن کا پتہ نہ رات کا، بس سیاست کا سودا ہی ذہن میں سمایا رہتا۔ ہم کچھ لوگ رفیق باجوہ صاحب کے دروازے پر کھڑے ہو کر آنے والوں کا استقبال کرتے ۔ جمعیت علما ء پاکستان کے سربراہ شاہ احمد نورانی اور مولانا عبد الستار نیازی پہلے سے ہی وہاں موجود تھے ۔ پھر ایئر مارشل (ر) اصغر خاں، بیگم نسیم ولی خان، خاکسار لیڈر اشرف خاں، آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم و صدر سردار عبد القیوم خاں، جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد، ایک شیعہ مکتب فکر کے راہنما اور آخر میں مولانا مفتی محمود اجلاس میں شرکت کے لیے آئے۔ پیر صاحب پگارہ شریف اگرچہ لاہور میں موجود تھے مگر ان کی نمائندگی کسی اور نے کی۔ باجوہ صاحب کے گھر کے باہر ہجوم اکٹھا ہو گیا جو مطالبہ کر رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے خلاف تمام جماعتیں متحد ہو کر مقابلہ کریں۔ پھر شام کے وقت پروفیسر غفور احمد نے چھت پر آ کر اعلان کیا کہ مارچ میں ہونے والے قومی انتخابات میں تمام جماعتیں مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابات میں حصہ لیں گی۔ ساتھ ہی دوسرا اعلان کیا کہ دو دن کے بعد تمام راہنماؤں کا اعلیٰ سطح کا اجلاس مسلم لیگ ہاؤس ڈیوس روڈ پر ہو گا۔
دودن کے بعد جب ہم مسلم لیگ ہاؤس پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ انسانوں کا ایک ہجوم وہاں در آیا ہے۔ اجلاس ہو ا اور پروفیسر غفور کی بجائے رفیق باجوہ نمودار ہوئے اور انہوں نے چند فیصلوں کا اعلان کیا کہ تحریک استقلال، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ، جمعیت علماء اسلام،جمعیت علماء پاکستان، جماعت اسلامی، مسلم کانفرنس، خاکسار تحریک اور شیعہ الائنس (غالباً یہی نام تھا) پر مشتمل اتحاد تشکیل پا چکاہے۔ مفتی محمود اس کے سربراہ اور میں رفیق احمد باجوہ اس کے جنرل سیکرٹری ہوں گے۔ اس سیاسی اتحاد کا نام ’’ پاکستان قومی اتحاد‘‘ ہو گا جسے انگریزی میں P.N.A کہا جائے گا۔ تمام جماعتوں کے لیے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کا فارمولا اگلے اجلاس میں طے کیا جائے گا جو گلبرگ میں چوہدری ظہور الٰہی کی رہائش گاہ پر ہو گا۔ تاہم تحریک استقلال اور J.U.P کے لیے 34% کوٹہ مقرر کیا گیا ہے۔
پھر چوہدری ظہور الٰہی کی کوٹھی ’’قومی اتحاد‘‘ کا مرکز بن گئی۔ پاکستان قومی اتحاد کا پہلاجلسہ عام کراچی کے نشتر پارک میں ہو اجس کی آڈیو کیسٹ ریکارڈنگ لاہور پہنچی جو چینیزلنچ ہوم میں حبیب جالب، میں نے اور دیگر کارکنوں نے سنی۔ اس ریکارڈ نگ میں کسی مقرر نے بھی ’’نظام مصطفی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔ دوسرا جلسہ لاہور کے ناصر باغ میں احسان وائیں کی صدارت میں ہوا۔ ناصر باغ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ ملحقہ سٹرکیں ، مال روڈ ، پوسٹ آفس جنرل کے دفتر سے لے کر ضلع کچہری کے آخری سرے تک اور اولڈ کیمپس کے انار کلی والے سرے تک پر جوش لوگوں کا ایک جم غفیر تھا۔ اس جلسہ میں ایئرمارشل اصغر خاں اور بیگم نسیم ولی خاں کو بہت پذیرائی ملی۔ دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ اب تک نو جماعتوں کے یہ سربراہ ’’نو ستاروں‘‘ کا عوامی لقب اختیار کر چکے تھے۔ ایک صحیح معنوں میں عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ یہاں بھی ہمیں ’’نظام مصطفی‘‘ کا کوئی مطالبہ سننے کو نہیں ملا۔
پھر ایک روز کسی شہر میں رفیق باجوہ نے ’’نظام مصطفی‘‘ کا نعرہ بلند کر دیا اور اسٹیج پر سے ہی اللہ ہو اللہ ہو کا ورد بھی شروع کر کے اس سوال کی بنیاد رکھی جو سید افضل حیدر ایڈووکیٹ نے اپنی حالیہ شائع ہونے والی کتاب " M.D.R " میں اٹھا یاہے اور یہی سوال فرخ سہیل گوئیندی نے بھی اپنی کتاب ’’ ترکی ہی ترکی‘‘ میں اٹھایا ہے۔ تاریخ کو درست کرنا میرا کام نہیں۔ ایک کوشش اس لیے کر رہا ہوں کہ میں پاکستان قومی اتحاد اور تحریک استقلال کی ہائی کمان کے نزدیک رہا ہوں۔ بہت کچھ جانتا ہوں۔ کئی گفتنی اورنا گفتنی حقائق ہیں جنہیں ابھی تک خوف فساد خلق کی بنا پر سامنے نہیں لایا گیا ۔ قومی اتحادکی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک سراسر سیاسی تحریک تھی۔ اس پر دورانِ تحریک اصغر خاں اور بیگم نسیم ولی خاں کا ہی غلبہ رہا۔ عوامی طور پر رفیق باجوہ نے اسے ’’نظام مصطفی‘‘ کا نام دے کر اپنی تقریروں کی مقبولیت کی سند تو حاصل کر لی مگر یہ اتحاد کے کسی منشور وغیرہ کا حصہ نہیں تھا۔ یہ صرف دھاندلی کے خلاف چلائی گئی ایک سیاسی تحریک تھی جسے بعد میں ضیاء الحق نے شب خون مار کر یرغمال بنا لیا اوراپنی پہلی ہی تقریر میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک میں جو ’’ اسلامی جذبہ‘‘ دیکھنے کو ملا، وہ قابل تعریف ہے ۔ اور پھر اس کے بعد ضیا ء الحق نے اسلام کے نام پر کیا کیا ظلم وزیادتیاں اس نے ’’ ایجاد‘‘ نہ کیں۔ تاریخ اس کی گواہ ہے ۔
پروفیسر غفور احمد نے بھی اپنی کتاب ’’اور مارشل لاء آگیا‘‘ کے آخری ابواب میں پاکستان قومی اتحاد کے وہ تمام آخری مطالبات پیش کیے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کیے گئے اور جن پر اتفاق ہو گیا تھا۔ ان مطالبات کو دیکھ کربخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں بھی ایسا کوئی مطالبہ شامل نہیں تھا۔ سب مطالبات سیاسی نوعیت کے حامل تھے۔
اب آخر میں رفیق باجوہ کے انجام کا بھی ذکر کرتا چلوں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے چیف سیکرٹری پنجاب بریگیڈیئر مظفر کے ذریعے انہیں وزیر اعظم ہاؤس میں دعوت پر بلایا ۔ ایک غیر سیاسی شخص جو صرف دو ماہ میں ہی قومی سطح کا لیڈر بن چکا تھا، اس دعوت کے ملنے پر اتنا خوش ہوا کہ بغیر کسی کو بتلائے وزیر اعظم ہاؤس کھانا کھانے چلا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اتنا احمق تو نہیں تھا کہ اتنی بڑی تحریک کو ختم کرنے کے لیے صرف ایک شخص سے ہی مذاکرات کرتا۔ بس رفیق باجوہ کو اوجِ ثریا سے زمین پر گرانا تھا، سو گرا دیا۔
ملاقات کی خبر عوام تک پہنچی تو وہ غم وغصہ میں آگئے۔ باجوہ صاحب نے چند دن تو تردید میں گزار دیے۔ اس دوران ایک روز میں میاں محمود علی قصوری کے فین روڈ والے بنگلے پر گیا جہاں ایئر مارشل اصغر خاں اور مولانا شاہ احمد نورانی موجود تھے۔ ایئرمارشل صاحب نے مجھے کہا کہ باہر دروازے پر کھڑے ہو جاؤاور جب تک میں نہ کہوں، کسی کو اندر نہ آنے دینا۔ دونوں نے دوپہر کا کھانا اکٹھے کھا یا اور رفیق باجوہ کو پاکستان قومی اتحاد اور جمعیت علماء پاکستان دونوں جماعتوں سے فارغ کر دیا۔ رفیق باجوہ نے پھر سیاست کی طرف منہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی سیاستدانوں نے انہیں اپنے پاس بٹھایا۔ ’’ سیاسی مرزائی‘‘ بن کر رہ گئے۔ اور تو اور ہائیکورٹ بار میں بھی جانا چھوڑ دیا۔ ایسی تنہائی کا شکار ہوئے کہ خدا کی پناہ! اور اسی عالم میں ایک دن اپنے فکری اعمال کا جواب دینے اُس کے پاس پہنچ گئے جو سب کا حساب رکھتا ہے۔
پروانہ جمعیت صوفی خدا بخش چوہانؒ
ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی
میرے مربی، میرے محسن اور میرے والد گرامی پروانہ جمعیت صوفی خدا بخش بن اللہ بخش بن خدا بخش چوہان (بانی مدرسہ دارالتعلیم حمادیہ) ان شخصیات میں سے تھے جنہوں نے اپنے اعمال صالحہ، کریمانہ اخلاق اور بے شمار خوبیوں کی وجہ سے اپنا نیک نام چھوڑا ہے۔
ان کی ولادت 1944 میں گوٹھ راجو چوہان، تحصیل لکھی غلام شاہ، ضلع شکارپورمیں ہوئی۔ دنیوی تعلیم پانچ جماعتوں تک اپنے گاؤں راجو گوٹھ میں حاصل کی۔ قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم بھی اپنے اسی گاؤں میں حاصل کی۔ والد محترم باضابطہ عالم نہ تھے، البتہ علماء صلحاء کے صحبت یافتہ ضرورتھے۔ فقط ناظرہ قرآن اور اسکول کی پانچ جماعتیں پڑھ کر قابل رشک خدمات سرانجام دیں۔ اپنے رب سے قوی امید ہے کہ ان خدمات کی وجہ وہ بخشے جائیں گے۔
اللہ پاک نے بہت خوبیوں سے نوازا تھا۔ صوم وصلاۃ کے پابند تھے اور تہجد کی ادائیگی ان کا معمول تھی۔ جب سے ہوش سنبھالا، والد محترم کو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتے دیکھا۔ قادری طریقہ سے ذکر اذکار کرتے، اپنے رب کے حضور میں دعائیں مانگتے دیکھا۔ مستجاب الدعوات تھے، کسی بھی مسئلہ میں پریشان ہوتے تو اللہ رب العالمین کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ ان کا اصلاحی تعلق قطب الاقطاب حضرت مولانا حماداللہ ہالیجویؒ کے جانشین حضرت مولانا حافظ محمود اسعد سے تھا۔ ان سے خوب کسب فیض کیا۔ اسی فیض وصحبت کی برکت تھی کہ خود تو کسی سبب سے عالم نہ بن سکے، لیکن اپنی اولاد کو دینی تعلیم کے لیے وقف کیا۔
آپ نے مجاہدانہ زندگی گذاری۔ اخلاص اور راست گوئی میں ضرب المثل تھے۔ ان کے اندر دینی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جمعیت علماء اسلام کے فعال کارکن تھے۔ 2007 کے بلدیاتی الیکشن میں جمعیۃ علماء اسلام یوسی طیب ضلع شکار پور تحصیل لکھی غلام شاہ میں جنرل کاؤنسلر کے امیدوار بھی بنے جس کی وجہ وڈیروں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ والد صاحب کو ڈرایا دھمکایا گیا لیکن وہ اپنے مشن وپروگرام سے دستبردار نہیں ہوئے۔ جتنے بھی جماعتی، سماجی، اور مذہبی کام کیے، ان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن تمام کام مخالفت کے باوجود استقامت اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیے۔
ان کی زندگی کا سب سے اہم ترین مقصد مساجد ومدارس کی تعمیر تھا۔ اپنے گاؤں میں دو مساجد اور ایک مدرسہ تعمیر کرایا جو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ جامع مسجد اقصیٰ، یہ مسجد ہمارے گاؤں کی سب سے پرانی مسجد ہے جو گاؤں کے بالکل اندر ہے۔ جیسے جیسے گاؤں کے مکانات کی تعمیرات ہوتی گئی، مسجد کی سطح نیچی ہوتی گئی اور برسات وغیرہ کا پانی مسجد میں آنے لگا۔ والد گرامی کو خیال ہوا کہ مسجد کی از سر نو تعمیر کی جائے۔ گاؤں والوں سے مشورہ کیا کہ مسجد کی نئی تعمیر کی جائے۔ اخراجات کی وجہ سے کسی نے بھی حمایت نھیں کی۔ کسی نے کہا کہ آپ کے پاس اگر ایک لاکھ کی رقم ہے تو پھر مسجد کا کام شروع کریں۔ والد صاحب نے فرمایا کہ میرے پاس اتنی رقم تو نہیں البتہ مجھے اپنے خالق حقیقی اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے۔ اسی کا نام لے کر کام شروع کروں گا، وہی ذات اس کام کو پایہ تکمیل تک پھچائی گی۔ چنانچہ اللہ رب العالمین کا نام لے کر کام شروع کر دیا اور دس بارہ سال کی محنت اور لگن سے ایک شاندار مسجد بن گئی۔ اسی مسجد میں بندہ نے دینی تعلیم کا آغاز کیا ۔
مچ والی مسجد بھی بہت پرانی تھی۔ (مچ سندھی زبان میں آگ کو کہتے ہیں اس مسجد کے قریب لوگ آگ جلا کر مجلس کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اس کا نام ہی "مچ والی مسجد" پڑ گیا)۔ زمانے کی گردش سے منہدم ہو گئی تھی۔ اس مسجد کو بھی نئی سرے سے والد صاحب نے تعمیر کروایا۔ یہاں وہ امامت بھی خود ہی کراتے تھے۔
مساجد کی تعمیر کے بعد والد صاحب کو فکر لاحق ہوا کہ گاؤں میں ایک دینی مدرسہ بھی ہونا چاہیے جو نئی نسل کی دینی و مذہبی تربیت کر سکے اور لوگوں کے عقائد کی اصلاح ہوسکے۔ مدرسہ کے لئے ایک موزوں جگہ والد گرامی کی نظر میں تھی، لیکن اس میں کچھ رکاوٹ تھی۔ جگہ کے مالکان جگہ دینے پر راضی نہ تھے۔ والد گرامی نے رات کو اٹھ اٹھ کر تہجد میں دعائیں مانگیں۔ اللہ تعالیٰ نے وہ دعائیں قبول کیں اور جگہ کے مالکان میں سے مرحوم بنگل فقیر خود والد صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ ہم یہ جگہ آپ کو مدرسہ کے لیے وقف کرنے آئے ہیں۔ والد صاحب نے فرمایا کہ اب زندگی کا سورج غروب ہونے والا ہے، اب میرے اس کمزور جسم میں اتنی طاقت کہاں کہ مدرسہ تعمیر کراؤں۔ مرحوم بنگل فقیر نے بہت اصرار کیا کہ آپ کو جگہ لینی ہے اور مدرسہ تعمیر کرنا ہے۔ والد صاحب نے اللہ کا نام لے کر کام شروع کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم الشان ادارہ ’’مدرسہ عربیہ دارالتعلیم حمادیہ گلشن امام سندھی‘‘ تعمیر ہو گیا۔ یوں ان کی زندگی میں سب سے محبوب عمل ان آخری عمل اور "انما الاعمال بالخواتیم" کی عملی تصویر بن گیا۔ یہ بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
والد گرامی نے اپنے گاؤں میں دینی جلسے کرانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو 1981ء سے ان کی وفات تک جاری رہا۔ ان جلسوں میں سندھ اور پنجاب کے مشہور خطباء تشریف لاتے ہیں جن میں کچھ یہ قابل ذکر ہیں: امام المجاہدین حضرت مولانا سید محمد شاہ امروٹی، مناظر اسلام حضرت مولانا سید عبداللہ شاہ بخاری، شہید اسلام حضرت مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو، حضرت مولانا عبدالغفور حقانی شجاع آباد پنجاب، حضرت مولانا سید سراج احمد شاہ امروٹی مدظلہ، حضرت مولانا میر محمد میرک والے حضرت مولانا عبدالغنی پنجاب، وغیرہ۔
وفات حسرت آیات: جس طرح آپ نے زندگی شاندار اور مجاہدانہ گذاری، وفات بھی قابل رشک تھی کہ نماز پڑھتے اپنا سر سجدے میں رکھتے ہوئے جان جان آفریں کے حوالے کر دی۔ وفات ۲؍ اگست ۲۰۱۵ء کو مغرب کی نماز پڑھتے ہوئے پہلی رکعت کے سجدے میں ہوئی۔ حضرت والد گرامی کے غسل میں راقم الحروف اور میرے چھوٹے بھائی عطاء اللہ شریک تھے۔ نماز جنازہ ان کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ عربیہ دارالتعلیم میں حضرت مولانا حافظ سعید احمد شاہ بخاری نے پڑھائی۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت انہیں اپنی جوار رحمت جگہ دے آمین۔
سود، کرایہ و افراط زر: غلط سوال کے غلط جواب کا درست جواب
محمد زاہد صدیق مغل
صدر مملکت کے حالیہ بیان کے بعد بعض اہل علم احباب ایک مرتبہ پھر سود کے جواز کے لیے وہی دلائل پیش کرنے میں مصروف ہیں جو اپنی نوعیت میں کچھ نئے نہیں۔ اس ضمن میں پیش کئے جانے والے بعض دلائل کی نوعیت تو دلیل سے زیادہ غلط فہمیوں کی ہے۔ مثلاً ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سود لینا اس لیے معقول ہے کیونکہ وقت کے ساتھ افراط زر کی وجہ سے کرنسی کی قدر میں کمی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور دلیل میں سود کو اثاثوں کے کرایے پر قیاس کرلیا جاتا ہے۔ اس مختصر تحریر میں سود کے حق میں دیے جانے والے ان دو دلائل کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
جدید محققین نے کرایے کے جواز اور سود و کرایے میں فرق بیان کرنے کے لیے کرایے کی توجیہات مختلف انداز میں بیان کی ہیں۔ چنانچہ اس تھیورائزیشن میں کرائے کے جواز میں ایک عمومی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کرایہ لینا اس لئے جائز ہے کیونکہ اثاثہ استعمال کرنے سے اس کی کی "قدر" میں "ٹوٹ پھوٹ یا فرسودگی" (depreciation) کی وجہ سے کمی آجاتی ہے، لہٰذا مکانوں ودیگر اثاثہ جات کا کرایہ لینا جائز ہے۔ کرائے کے جواز کے لئے یہ ایک غلط دلیل ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس غلط دلیل کی آڑ میں سود کے حامی حضرات بھی ایک غلط دلیل قائم کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر دیگر اثاثوں کا کرایہ اس لیے جائز ہے کہ اثاثے کی قدر میں استعمال کی وجہ سے کمی آجاتی ہے تو زر یعنی کرنسی کی قدر میں بھی وقت کے ساتھ "افراط زر کی وجہ" سے کمی آجاتی ہے، لہٰذا اس کا کرایہ بھی جائز ہونا چاہیے۔ اس دلیل اور جواب دلیل میں قدر، اثاثے کی فرسودگی،کرائے و افراط زر جیسے مختلف معاشی تصورات کو خلط ملط کردیا گیا ہے۔ پہلے افراط زر اور سود کے تعلق سے سہو نظر کرتے ہوئے کرائے و سود کے فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کرایہ اور سود
پہلی بات یہ کہ کرائے کا جواز اثاثے کی فرسودگی نہیں۔ اگر مکان کے کرائے کا جواز فرسودگی کی وجہ سے اس کی قدر میں کمی ہوجانا ہے تو پھر مکان کا کرایہ صرف اسی صورت میں جائز ہونا چاہیے جب اس کی قدر کم ہوجائے، لیکن اگر وقت کے ساتھ اس کی قدر بڑھ جائے تو اس صورت میں اس کا کرایہ لینا جائز نہیں ہونا چاہیے۔ نیز اس تعبیر کی رو سے مکان کا کرایہ صرف اتنا ہی ہونا چاہیے جس شرح سے اس میں فرسودگی ہوتی ہو مگر عموما ایسا نہیں ہوتا۔ 9/11 کے بعد اسلام آباد میں دیگر شہروں کے مقابلے میں کرایوں میں زیادہ اضافہ ہوا، تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ 9/11 کے بعد اسلام آباد میں فرسودگی کے قوانین فطرت دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ تیز ہوگئے تھے؟ دراصل کسی شے کی قدر پر فرسودگی کے علاوہ بازار کی قوتیں بھی اثر انداز ہوتی ہیں، چنانچہ عین ممکن ہے کہ کسی اثاثے مثلاً مکان کی قدر فرسودگی کے باوجود وقت گزرنے کے ساتھ ان قوتوں کی وجہ سے کم ہونے کے بجائے بڑھ جائے لیکن پھر بھی اس کا کرایہ لینا جائز ہوگا۔ کسی شے میں فرسودگی کا عمل کائنات کے مادی قوانین کی وجہ سے بہرحال جاری و ساری رہتا ہے، چاہے کوئی اسے استعمال کرے یا نہ کرے، چاہے وہ اثاثہ اپنی ملکیت میں رکھ کریوں ہی رکھ چھوڑ دیا جائے یا کسی کو کرائے پر دے دیا جائے۔ ہرصورت میں وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکررہے گا ،مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی "مارکیٹ قدر" بھی لازما کم ہوجائے گی۔ الغرض کرائے کا جواز نہ تو استعمال کے بعد قدر میں کمی آجانا ہے (کیونکہ یہ لازما کم نہیں ہوتی) اور نہ ہی فرسودگی ہوتا ہے کہ وہ تو بہرحال ہوکر رہتی ہے (صرف رفتار کا فرق ہوسکتا ہے)۔ اگر کسی شے میں نفع ہے تو باوجود اسکے کہ دوران استعمال اس میں کوئی خاطر خواہ فرسودگی نہ ہو تب بھی اسکا کرایہ بہرحال جائز ہوگا۔
کرایہ دراصل "نفع کی بیع" ہے، یعنی ایک شے میں جو نفع ہے اس نفع کو حاصل کرنے کی قیمت ادا کی جائے۔ کسی شے سے منفعت اٹھانے کی دو صورتیں ممکن ہیں، ایک یہ کہ جب اس سے منفعت لی جائے تو وہ شے اپنی اصل پر برقرار نہ رہے جیسے آلو کھا کر اس سے نفع اٹھانے کے عمل میں آلو ختم ہوجاتاہے۔ اس کے مقابلے میں بعض اشیاء کا وجود دیرپا (durable) ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی منفعت فوری نہیں بلکہ دیرپا اور طویل المدت نفع (stream of benefits) کی صورت میں ہوتی ہے۔ مثلاً گاڑی یا فرج کہ یہ اشیاء صرف ایک مرتبہ نفع اٹھانے سے ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ ایک طویل مدت تک نفع آور رہتی ہیں۔ پہلی صورت میں شے کے نفع کی قیمت ایک ہی مرتبہ ممکن ہے، ایک آلو کو ایک مرتبہ کھانے کی باربار قیمت لینے کا کوئی معنی نہیں کیونکہ شے اور اس کا نفع صرف کرنے کے بعد معدوم ہوجائے گا۔ دوسری صورت میں شے کا نفع چونکہ یک بار نہیں بلکہ بار بار حاصل کرنا ممکن ہے لہذا ہر مرتبہ نفع اٹھانے کی قیمت لینا ممکن ہے۔ اصطلاحا اول الذکر اشیاء کے نفع کی خرید و فروخت کو بیع کا معاہدہ کہتے ہیں جبکہ مؤخر الذکر کو کرائے کا۔
اس گفتگو سے ظاہر ہے کہ اسی شے کے نفع کا کرایہ لینا ممکن ہے جو نفع اٹھانے کے عمل کے باوجود اپنی ’’منجمد صورت‘‘ برقرار رکھ سکے۔ اگر کوئی شخص کسی سے آلو اس لئے مانگے کہ انہیں وقتی طور پر کسی تصویر میں پیوست کر کے تصویری نمائش میں دکھانا ہے اور چند گھنٹوں بعد آلو واپس کردئیے جائیں گے تو اب آلو والا ان کا کرایہ طلب کرسکتا ہے کہ اس صورت میں نفع اٹھانے کے بعد آلو برقرار رہا۔ اس کے مقابلے میں "کھانے کے لئے دئیے گئے آلو" کا کرایہ نہیں ہوسکتا۔پس واضح ہوا کہ کرایہ کسی "منجمد اثاثے" کے "منجمدنفع" کی بیع کہلاتی ہے۔ اثاثہ جب منجمد صورت میں ہو تو اس کا نفع چونکہ ماقبل طور پر منجمد ( معین) ومعلوم ہوتا ہے (اسی لئے تو اثاثہ کرائے پر لیا جاتا ہے) نیز دوران استعمال اثاثے کی صورت بھی نہیں بدلتی جو اس سے متوقع مخصوص نفع کے برقرار رہنے کی علامت ہوتی ہے لہذا "نفع کی اس بیع" کی قیمت دیگر بیوع کی طرح پہلے طے کی جاتی ہے۔ کسی انسان کی اجرت بھی اسی اصول پر سمجھی جاسکتی ہے کہ چونکہ انسان کی پیداواری صلاحیت بھی طویل المدت نفع کے طور پر ہوتی ہے لہذا اس سے ہر مرتبہ نفع اٹھانے کے لئے ہر مرتبہ اجرت (یعنی کرایہ) ادا کرنا پڑتی ہے۔
درج بالا گفتگو کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ کرنسی کا کرایہ ممکن نہیں کیونکہ کرنسی کو جب تک خرچ نہ کرلیا جائے (یعنی اسے کسی دوسری صورت میں تبدیل نہ کرلیا جائے) اس سے نفع اٹھانا ممکن نہیں۔ کرنسی کی صورت میں یہ تو ممکن ہے کہ کرنسی سے جو دیرپا شے یا منجمد اثاثہ خریدا جائے اس منجمد اثاثے کے نفع کا کرایہ لیا جائے لیکن بذات خود کرنسی کا کرایہ کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ کرنسی "بذات خود" نفع آور نہیں، اس کی نفع آوری ان اشیاء4 پر منحصر ہے جو اس سے خریدی جاتی ہیں۔ کرنسی منجمد نہیں بلکہ سیال سرمایہ ( liquid capital) ہے جسے سرمایہ کاری کے بعد کسی "منجمد سرمائے" میں تبدیل ہوکر نفع آور ہونا ابھی باقی ہے۔ جو حضرات کرنسی کے کرائے کی بات کرتے ہیں ان کی اس دلیل پر معاشی نکتہ نگاہ سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیال سرمائے پر "منجمد نفع کا تعین" چہ معنی دارد؟ یعنی جو ہے ہی "غیر منجمد" اسکے نفع کے "تعین" کا کیا مطلب؟ الغرض کرایہ ایک "معین منجمد سرمائے" کے نفع کی بیع ہے جبکہ نقدی قرض پر طلب کیا جانے والا نفع (سود) سیال سرمائے پر مانگا جانے والا ایک قیاسی (speculative) نفع ہے۔ دوسرے لفظوں میں کرایہ ایک معین اثاثے ( formed capital) کے نفع کی معین قیمت ہے جبکہ نقدی قرض پر مانگا جانے والا سود ایک غیر منجمد شے ( unformed capital) کی معین قیمت طلب کرنا ہے جبکہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ غیر منجمد اثاثے کی قیمت (نفع) بھی غیر منجمد ہی ہونی چاہئے۔ شماریات کی زبان میں سیال سرمائے سے حاصل ہوسکنے والا نفع ایک random variable (غیر منظم طور پر بدلنے والی شے) ہے، جبکہ منجمد سرمائے کا کرایہ ایک fixed variable(معین طور پر بدلنے والی شے)۔ جو حضرات نقدی قرض کے سود کو اثاثوں کے کرائے پر قیاس کرکے سود کا جواز دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ دو مختلف قسم کے تصورات یا variables کو خلط ملط کردیتے ہیں۔
افراط زر اور سود
سود کے حامی حضرات ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ زر یعنی کرنسی کی قدر میں وقت کے ساتھ "افراط زر کی وجہ" سے کمی آجاتی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص کسی کو رقم قرض پر رقم دے تو لازم ہے کہ اس کی نقدی کی قدر میں اس کمی کی تلافی کی جائے، یعنی اسے کم از کم افراط زر کے مساوی سود دیا جائے۔ سود کے حق میں دی جانے والی یہ معاشی دلیل اصولاً غلط ہے کیونکہ کسی بھی معاشی نظری کی رو سے افراط زر سود کا وجہ جواز نہیں۔ "سود کیوں دیا جانا چاہئے" اور "سود کا تعین کیسے ہوتا ہے"، یہ دو الگ سوالات ہیں۔ سود کے جواز کے دلائل کی بحث کا تعلق پہلے سوال سے ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل نظریات مشہور و معروف ہیں:
1) ) سود positive time preference (مستقبل کے مقابلے میں زمانہ حال کے لئے ترجیح) کی وجہ سے طلب کیا جانا چاہئے ، یعنی یہ آج روپیہ صرف کرسکنے کے امکان کی قربانی دینے کی قیمت ہے۔قرض دینے کا عمل رقم کو آج خرچ کرسکنے کی صلاحیت سے دستبردار ہوکر اسے مستقبل میں منتقل کرنے کا نام ہے اور مستقبل میں اسے صرف کرنا چونکہ غیر یقینی ہے لہٰذا آج خرچ کرنے کی قربانی دینے کی قیمت ہونی چاہئے۔ مستقبل کے مقابلے میں زمانہ حال کے لئے یہ ترجیح مستقبل کے غیر یقینی ہونے نیز زر کے افادہ مختتم (marginal utility of money) کم ہوجانے کی وجہ سے ہے۔ (اس دلیل سے سود کے تعین کی supply and demand for loanable funds theory وجود میں آتی ہے)۔
2) ) سود سرمائے کی پیداواری صلاحیت کی وجہ سے طلب کیا جاتا ہے، یعنی زر سے چونکہ نفع آور کاروبار کیاجاتاہے لہذا اس قرض پر لی گئی رقم کا منافع لیاجانا چاہئے (اس دلیل سے سود کے تعین کی theory of marginal productivity of capital وجود میں آتی ہے)
3 ) سود اس لیے لیا جانا چاہیے کیونکہ زر (liquidity) بذات خود لذت (utility) کا ذریعہ ہے اور اس سے دور رہنے کی قیمت ہونی چاہیے۔ ( اس نظرئیے کی رو سے سود کے تعین کی liquidity preference theory وجود میں آتی ہے)۔
درج بالا نظریات سود کے جواز کے تین بڑے نظریات ہیں۔ ان تینوں میں سے کسی ایک بھی دلیل کا افراط زر سے کوئی واسطہ نہیں۔ جو حضرات افراط زر کو سود ادا کرنے کا جواز قرار دیتے ہیں، انہیں بتانا چاہئے کہ کس معاشی نظرئیے کی رو سے سود کا وجہ جواز افراط زر ہوتا ہے نیز اس سے سود کے تعین کا کونسا نظریہ وجود میں آتا ہے۔
اس ضمن میں یہ کہنا کہ جدید میکرو اکنامکس ماڈل یا اعداد و شمار کے مطابق افراط زر اور سود میں تعلق پایا جاتا ہے، نفس مسئلہ میں درست دلیل نہیں کیونکہ کسی شے کی طلب کا وجود کس بنا پر متحقق ہوتا ہے اور اس شے کی مارکیٹ قیمت کے تعین میں کون کون سے عناصر کردار ادا کرسکتے ہیں، یہ دو الگ سوالات ہیں۔ "سود کی وجہ جواز کیا ہے" اور "مارکیٹ سود کن کن عناصر سے متعین ہوتا ہے" یہ دو الگ سوالات ہیں۔پہلے سوال کا تعلق اس امر سے ہے کہ سود طلب کرنا کس بنیاد پر جائز ہے، یعنی جس شے کا سود لیا جارہا ہے اس میں ایسی کونسی معاشی صفت ہے جس کی بنا پر اس کا سود لیا جانا چاہئے۔ معاشی نکتہ نگاہ سے سود طلب کرنے کی بنیاد اوپر دی گئیں تین میں سے کوئی ایک وجہ ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے سوال کا تعلق اس امر سے ہے کہ مارکیٹ میں اس شے کی خرید و فروخت کس قیمت (شرح سود) پر ہوگی۔ کسی شے کی مارکیٹ قیمت پر بہت سے ایسے امور بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں جو اس شے کی قیمت طلب کرنے کا وجہ جواز نہیں ہوتے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ مارکیٹ اجرت پر اثر انداز ہونے والے تمام عناصر اجرت کی ادائیگی کا جواز نہیں ہوتے۔ چنانچہ افراط زر اور سود کے ایک ساتھ گھٹنے یا بڑھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ افراط زر سود ادا کرنے کی 'بنیاد' ہے، یہ دلیل پیش کرنا نفس مدعا میں دو مختلف امور کو خلط ملط کردینے کے مترادف ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں، مگر معاشیات دان اس امر سے بھی واقف ہیں کہ معروف میکرواکنامک ماڈل کی رو سے سود افراط زرکا تعین کرتا ہے نہ کہ افراط زر سود کا۔ اس اعتبار سے افراط زر کو سود کا جواز قرار دینا غلط ٹھرتا ہے۔ الغرض یہ کہنا کہ نقدی قرض پر اضافی رقم (سود) افراط زر کی وجہ سے ملنی چاہیے اصولاً معاشی نظریات کی رو سے کوئی متعلقہ دلیل نہیں۔
دوسری بات یہ کہ افراط زر کی وجہ قرض لینے والے کا عمل نہیں ہوتا کہ اس کی ادائیگی اس کے ذمے لگادی جائے۔ موجودہ معاشی نظریات کی رو سے افراط زر کا اہم سبب ریاست و کمرشل بکور ں کا بلا کسی عوض کرنسی کو تخلیق کرتے رہنا ہے۔ گویا اگر قرض کی صورت میں افراط زر کی بنا پر نقدی کی قوت خرید کم ہوجانا اضافی رقم کا جواز ہے، تو قوت خرید میں اس کمی کا ازالہ ریاست کے ذمے ڈالنا چاہیے نہ کہ مقروض کے۔ پھر فرض کریں زید اپنی یہ اضافی رقم کسی کو قرض پر نہ دے بلکہ اپنے ہی پاس محفوظ کرلے تو کیا اس صورت میں افراط زر کی بنا پر اسکی نقدی کی قدر کم نہ ہوگی؟ اگر ہوگی، تو آخر محض اس "قرض دینے کے عمل" میں ایسا کیا ہے جو اس کی نقدی کی قوت خرید کو برقرار رکھنے کی ضامن ہو؟ رقم زید کی ملکیت میں رہے یا صہیب کو ادھار پر دے دی جائے، افراط زر دونوں صورتوں میں اس پر یکساں طور پر اپنا عمل دکھاتا ہے۔ اب یہ تو کوئی منطقی بات نہ ہوئی کہ اپنی نقدی کو "نقدی کی صورت میں رکھ کر" جس افراط زر کے اثرات سے میں خود محفوظ نہیں کرسکتا اسکا حل یہ بتایا جائے کہ اس نقدی کو کسی دوسرے کے حوالے کردو! چنانچہ معاملہ بالکل واضح ہے، قرض دینے کے بعد زید کو اپنی اصل رقم مستقبل میں "اسی طرح" واپس لینے کا حق تو ہے جس طرح یہ خود اس کی اپنی ملکیت میں رہتے ہوئے موجود رہتی مگر کسی کو صرف قرض دینے کے بعد یہ تقاضا کرنا کہ نہیں تم مجھے مستقبل میں اس کے ساتھ وہ اضافی رقم بھی دو گے جسے میں خود محفوظ نہیں رکھ سکتا تھا ایک غیر منطقی بات ہے۔
اب فرض کریں زید اور صہیب بارٹر اکانومی کے باشندے ہیں جہاں اشیاء کا تبادلہ براہ راست اشیاء سے ہوتا ہے۔ اگر زید کے پاس صرف کرنے کے بعد کچھ زائد دولت بچ جائے تو زید اسے کسی مادی اثاثے کی صورت میں محفوظ کرسکتا ہے۔ اس صورت میں زید کو اثاثہ سٹور اور محفوظ کرنے کے کچھ اخراجات بھی لازماً اٹھانا ہوں گے۔ اس کے علاوہ کائنات کے مادی قوانین کی رو سے اس کا اثاثہ لازماً فرسودگی کا شکار ہوگا جس کا تعلق اس امر سے ہے کہ اس نے اضافی دولت کو کس قسم کے اثاثے کی صورت میں محفوظ کیا ہے۔ اس کے علاوہ زید کے پاس ایک آپشن یہ ہے کہ وہ یہ اثاثہ (مثلاً کلہاڑی) کام کرنے کے لیے صہیب کو ادھار پر دے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ زید خود یا صہیب بطور مقروض اس کلہاڑی سے کام بھی کرے مگر اس کے باوجود بھی کلہاڑی عین اپنی "اصل حالت" (با اعتبار عمر اور معیار) پر قائم رہے؟
چنانچہ موجودہ کرنسی نظام میں قرض پر افراط زر کے مساوی رقم مانگنے کا جواز ثابت کرنے والوں کے اس دعوے کو اگر بارٹر اکانومی پر منطبق کیا جائے تو اس کا مطلب اس مفروضے کے سوا کچھ نہیں کہ کائنات کے مادی قوانین کی رو سے یہ ممکن ہے کہ کلہاڑی استعمال کرنے سے مزید پیدوار بھی حاصل ہوجائے مگر اس کے باوجود کلہاڑی پوری عمر یکساں حالت پر برقرار بھی رہے! مگر کائنات پر لاگو مادی قوانین کی رو سے ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ اس کائنات میں ایسی کوئی شے نہیں جو فرسودگی (decay) کے عمل کا شکار نہ ہو۔ یہاں اس بات پر بھی دھیان رہے کہ قرض دینے کے اس عمل میں قرض دینے والا اپنے ذمے اثاثے کو سٹور اور محفوظ رکھنے کی لاگت کو بھی قرض خواہ پر منتقل کردیتا ہے، ایک ایسی لاگت جسے اثاثہ اپنے پاس رکھنے کی صورت میں کسی بھی طرح ختم کرنا ممکن نہیں۔ یوں سمجھئے کہ افراط زر کو کرنسی پر سود کا جواز بتانے والے حضرات کرنسی (سیال سرمائے) کو کائنات کے مادی قوانین سے ماوراء4 بتانا چاہتے ہیں، یعنی جو اصول اثاثے (منجمد سرمائے) کی ملکیت و قرض پر لاگو ہوتے ہیں انہیں سیال سرمائے پر لاگو نہیں ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے اس کائنات میں اس مفروضے کی کوئی دلیل نہیں۔
درج بالا بات سمجھنے کے لئے سودی حساب کتاب پر مبنی ایک مثال پر غور کرتے ہیں۔ فرض زید آج صہیب کو ایک کلہاڑی قرض پر دیتا ہے۔ زید اس پر 10 فیصدسالانہ (ماہانہ کے لحاظ سے جواب مختلف آتا ہے) افراط زر کے حساب سے سود طلب کرتا ہے۔ اگر صہیب قرض نہ اتارے تو ایک سال بعد صہیب پر 1.1 کلہاڑی واجب الاداء ہوگی جبکہ دو سال بعد 1.21۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ زید پر کتنی کلہاڑیاں واجب الاداء ہوں گی، اس کا حساب کچھ ہوں ہے:
5 سال بعد : 1.61
10 سال بعد: 2.59
50 سال بعد: 117.4
100 سال بعد: 13,780
200 سال بعد: 189,905,276.46
300 سال بعد: 2,617,010,996,188.45
400 سال بعد: 36,064,014,027,525,400
500 سال بعد: 496,984,196,731,244,000,000
1000 سال بعد: 246,993,291,800,599,000,000,000,000,000,000,000,000,000 (یہ عدد کئی کئی کئی کئی کئی بلین ہے)
یہ حساب 10 فیصد سالانہ شرح سود کے حساب سے ہے۔ اگر 10 فیصد سالانہ سود ماہانہ کے حساب سے لاگو کیا جائے، تو جواب یہ ہوگا:
1000 سال بعد:
17,761,973,832,231,500,000,000,000,000,000,000,000,000,000
سالانہ و ماہانہ حساب کے جواب میں فرق یہ ہے:
17,514,980,540,430,900,000,000,000,000,000,000,000,000,000
اس حساب کتاب کا معنی یہ ہے کہ مثلاً سو سال بعد زید پر 13,780 کلہاڑیاں واجب الاداء ہوں گی، اس لئے کہ مجوزین کی دلیل کے مطابق اس دس فیصد شرح سود کے حساب سے آج کی ایک کلہاڑی سو سال بعد 13780 کلہاڑیوں کے مساوی ہے۔ مگر یہ کہتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو کلہاڑی ابتدا میں ادھار دی گئی تھی نیز ایک سال اور پھر ہر گزرتے سال کے بعد اس پر جو اضافی کلہاڑی واجب الاداء ہوتی گئی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ وہ کائناتی قوانین کی رو سے لازماً بوسیدگی (decay) کا شکار ہوکر رہے گی۔ نیز انہیں محفوظ رکھنے کی بھی قیمت ہے جو کلہاڑیوں کی تعداد بڑھنے سے بڑھتی چلی جائے گی۔ یعنی فزیکل اثاثہ بوسیدگی کا شکار ہوکر رہتا ہے۔
زر پر افراز زر کے مساوی سود کا جواز دینے والے حضرات کا کہنا ہے کہ ادھار پر دئیے گئے ایک روپے کے بدلے 100 سال بعد 13,780 روپے جبکہ 1000 سال بعد
246,993,291,800,599,000,000,000,000,000,000,000,000,000
روپے ادا کی جانا چاہئیں۔ گویا ان حضرات کے مطابق سیال سرمائے کو مادی کائنات کے قانون بوسیدگی سے ہرصورت ماوراء ہونا چاہیے، یعنی اس کی قوت خرید ہر صورت برقرار رہنی چاہیے۔ زر کے کائناتی قوانین سے ماوراء4 ہونے کا یہ مفروضہ "یتخبطہ الشیطان من المس" کا ایک پہلو ہے کیونکہ اس کائنات میں کسی شے کو دوام نہیں۔ درحقیقت سود کائنات کے مادی وجود ( ontological structure) سے ہم آہنگ نہیں۔ سودی حساب اس مفروضے پر مبنی ہے کہ سرمایہ وہ شے ہے جو کائنات میں کار فرما بوسیدگی کے عمل سے ماوراء ہے، یعنی یہاں ایک ایسے عمل کا وجود ہے جو سرمائے میں ہر لمحے و لحظے مسلسل اضافے کا باعث بنتا رہتا ہے۔
سید احمد شہید کی تحریک اور تحریک طالبان کا تقابلی جائزہ
مولانا محمد انس حسان
محترم ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب کا مضمون ’’سید احمد شہید کی تحریک جہاد:ایک مطالعہ‘‘ ماہنامہ الشریعہ (دسمبر ۲۰۱۵ء) میں شائع ہوا ہے۔ فاضل مضمون نگار نے سید احمد شہید کی تحریک اور تحریک طالبان کے مابین مماثلت پر مبنی یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر سید احمد شہید اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے مسلح جدوجہد کرتے ہیں تو اس جدوجہد کو جہاد کا نام دیا جاتا ہے اور یہی عمل اگر طالبان کرتے ہیں تو اسے دہشت گردی سے موسوم کیا جاتا ہے۔ فاضل مضمون نگار نے اپنے مضمون کے آخری نوٹ میں تحریر کیا ہے کہ:
’’یہاں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم پہلے فریق (سید احمد شہید) کو درست قرار دیتے ہیں تو اس دوسرے فریق (طالبان )کو غلط نہیں کہہ سکتے۔ اگر دوسرا غلط ہے تو پہلے کی تغلیط کی ہمت بھی لامحالہ کرنا ہوگی۔ ہمیں اس دوغلے پن سے براءت کااعلان کرنا ہوگا‘‘۔ (ص۴۰)
یہ وہ سوال ہے جس پر گذشتہ کچھ عرصے میں موافق و مخالف بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اس تناظر میں بنیادی طور پر دو سوچیں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ پہلی سوچ کے حامل طبقے نے اپنے نظریات کو اصولی طورپر سید ین کی تحریک سے مماثل قراردے کر مسلح جدوجہد کا جواز پیدا کیا۔ جبکہ دوسرے طبقے نے اس بیانیے پر تحقیق کرنے کی بجائے مسلح جدوجہد کی مماثلت کی بنیاد پر دونوں تحریکات کو باطل قرار دینے کی کوشش کی۔ تاہم اب تک کوئی سنجیدہ کوشش اس بابت کم ازکم ہماری نظر سے نہیں گزری کہ جس میں ان دونوں تحریکات کا جذباتیت اور قلبی وابستگی سے بالاتر ہو کر حقیقت پر مبنی تجزیہ کیا گیا ہو۔
یہ موضوع اپنی ماہیت اور حیثیت کے اعتبار سے تفصیل کا متقاضی ہے اور اس پر متوازن مباحثے کی ضرورت بھی ہے۔اس ضمن میں محترم عرفان شہزاد کی بات کو قدرے وسعت دیتے ہوئے ان تحریکات کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے چند طالب علمانہ نکات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
بنیادی طور پر ان تحریکات کے تقابلی جائزے کے لیے دوپہلوؤں پر غور وفکر کی زیادہ ضرورت ہے۔پہلی یہ کہ فکری و نظریاتی اعتبار سے ان دونوں تحریکات میں کیا مماثلت ہے؟دوسرے یہ کہ ناکامی و نتائج کے اعتبار سے ان دونوں تحریکات میں کیا مماثلت ہے؟
کسی بھی تحریک کے مطالعے کے لیے اس دور کے حالات اور تقاضے سامنے ہونا ضروری ہیں ۔اگر اس اصول کو نظر انداز کیا جائے گا تو بہت سی تحریکات کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لیں گے اور کسی بھی تحریک کو دوسری تحریک کے مماثل قراردینے کے حوالے سے متعدد قرآئن بہ آسانی مل جائیں گے۔سید احمد شہید کی تحریک جس دور میں بپا ہوئی وہ برصغیر میں انگریز سامراج کا دور استبداد تھا۔مسلمان غالب سے مغلوب ہوئے تھے اور ان میں اس سوچ کا پیدا ہونا فطری تھا کہ اس اس بدیسی قوت کے خلاف ہمیں جدوجہد کرنا ہوگی ورنہ ہماری حالت بھی اندلس سے مختلف نہ ہوگی۔ اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سید احمد شہید کی تحریک ایک قومی تحریک تھی۔ البتہ ان کی تحریک میں یمن ونجدکے علماء کے شاگردوں کا جو محدود طبقہ شامل ہوگیا تھا،اس نے اس قومی تحریک کو نقصان پہنچایا۔ اس کے برعکس تحریک طالبان (جو روس کی پسپائی سے قبل تحریک مجاہدین کے نام سے ملقب تھی )میں محض روس سے نجات مقصد نہیں تھا ۔اگر ایسا ہوتا تو روس کے جانے کے بعد آپس کی خانہ جنگی کی نوبت نہ آتی۔نیز اس تحریک میں تمام دنیا سے جذباتیت کی حدتک اسلام سے وابستگی رکھنے والے مسلمانوں کو دعوت دی گئی،جس سے یہ تحریک قومیت کے عصری رجحانات سے ہٹ گئی اور دنیا کے مختلف خطوں سے آئے لوگوں نے اپنے ملکوں میں بھی اسلامائزیشن کے رجحانات کو ہوا دی۔
سید احمد شہید کی تحریک دراصل اپنا ایک سیاسی پس منظر رکھتی تھی اور فکری طور پر امام شاہ ولی اللہ کی فکر سے متاثر تھی۔چنانچہ اس تحریک کاایک فکری تسلسل تھا جو اس تحریک کی ناکامی کے بعد بھی جاری رہا۔(اس حوالے سے راقم کا ایک مقالہ’’ الایام‘‘ کراچی میں شائع ہوا ہے جس میں تفصیل ملے گی)۔ سیدین کی تحریک کی ناکامی کے بعد ان کی جماعت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ چنانچہ مولانا شاہ محمد اسحاق دہلویؒ حجاز تشریف لے گئے مگر وہاں رہ کر تحریکی کام کو نیا رخ دینے میں مصروف عمل رہے۔ جبکہ مولانا ولایت علی نے ہندوستان میں رہ کراپنی الگ جماعت تشکیل دی اور ان کی جماعت میں یمنی اور نجدی ذہنیت کا حامل وہ طبقہ بھی شامل ہوگیاجس کے پرتشدد مزاج اورمسلکی تعصب کے باعث افغان مخالف ہوگئے تھے اور سیدین کی تحریک ناکام ہوئی تھی۔ چونکہ سید ین کے بعد ان کی جماعت کابرصغیر کی حد تک تعارف اسی جماعت کے سبب تھا اس لیے اس جماعت کے پر تشدد مزاج نے سیداحمد شہید کے تصور جہاد کو سخت نقصان پہنچایا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں مولانا ولایت علی کی جماعت کے لوگوں نے بھی کانگرس میں شمولیت اختیار کرکے عدم تشدد کا راستہ اپنایا۔سید احمد شہید کے تصور جہاد میں عوامی بہبود،اصلاح معاشرت اور عقائد کی درستگی سب شامل تھیں۔چنانچہ ان کے تصور جہاد سے محض مسلح جدوجہد مراد لینااس کی وسعت کو محدود کرنے کے مترادف تھا۔ اس کے برعکس تحریک طالبان کا وہ طبقہ جس کے پیش نظر سید احمد شہید کی محض مسلح جدوجہد تھی،اسے شاید یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ جس تحریک سے وہ خود کو منسوب کررہے ہیں اس کا ایک فکری تسلسل تھا جو اس تحریک کی ناکامی کے بعد بھی جاری رہا۔چنانچہ تحریک کی ناکامی کے بعد مولانا اسحاق دہلوی ؒ اورمولانا امداد اللہ مہاجر مکی ؒ نے مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کو تیار کیاجنہوں نے اس تحریک کو تعلیمی وتربیتی شکل دی اور شیخ الہندمولانامحمود حسنؒ جیسے انسان کو تیار کیا جنہوں نے برصغیر کی تاریخ آزادی میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تحریک ریشمی رومال تک اس جماعت کی پالیسی انگریز سامراج کے خلاف مزاحمتی جد وجہد کی تھی کیونکہ اس دور میں اسی طریقے کو رواج تھا۔ نیزچونکہ خلافت عثمانیہ کی مرکزیت کمزور ہی سہی مگر موجود تھی اس لیے اس جدوجہد میں بین الاقومی تعاون سے بھی دریغ نہیں کیا گیا تھا۔تاہم سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد عالمی منظرنامہ تبدیل ہوا۔ چنانچہ تحریک ریشمی رومال کی ناکامی کے بعدشیخ الہندمولانا محمود حسن ؒ جب مالٹا کی قید سے واپس ہوئے تو انہوں نے جماعت کی پالیسی تبدیل کی اورعدم تشدد ،قومی سیاست، عصری ودینی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تربیت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر اس تحریک کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔ چنانچہ ان کی اس پالیسی کو جمعیۃ العلمائے ہند نے جاری رکھا اور بعد کے حالات میں عدم تشدد کے اصول پر قومی جدوجہد کا آغاز کیا۔اس لیے اسی پالیسی کو حتمی سمجھا جانا چاہیے تھا۔ تحریک پاکستان کی مخالفت بھی جمعیۃ العلمائے ہند نے اسی بنا پر کی تھی کہ ان اصولوں پر زد پڑتی تھی اور اسی اختلاف پر دیوبندی جماعت مدنی اور تھانوی گروپ میں تقسیم ہوئی تھی۔
تحریک پاکستان کے حوالے سے دیوبندیت دو حصوں یعنی مکتب تھانوی اور مکتب مدنی میں تقسیم ہوئی ۔ان دونوں مکاتب فکر میں بنیادی طور پر سیاسی اختلاف تھا جو بعد میں بڑے دور رس نتائج پر منتج ہوااور کوئی مانے یا نہ مانے اس سیاسی اختلاف کا اثراب تک محسوس کیا جاسکتا ہے۔گو اس ضمن میں تطبیق اور اتفاق رائے کی بہت سی کوششیں بھی ہوئیں۔تحریک پاکستان سے قبل حضرت تھانویؒ مکتب فکرکا کوئی سیاسی کردار نہیں تھا ۔چنانچہ حضرت شیخ الہند ؒ نے جب حضرت تھانوی ؒ کو تحریک آزادی میں شمولیت کی دعوت دی تھی تو حضرت تھانوی ؒ نے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ ان کا مزاج سیاست سے مناسبت نہیں رکھتا۔شاید یہی حضرت تھانویؒ کا عمومی مزاج تھا جبکہ ان کے فکر وعمل کی اصل جولان گاہ تصنیف وتالیف کا میدان تھا۔ مگر نہ صرف تحریک پاکستان میں بلکہ پاکستان بن جانے کے بعد بھی ایک عرصے تک حضرت تھانوی ؒ کے نام لیواؤں نے سیاسی تحریکات میں برابر حصہ لیا۔ سیاسی ناتجربہ کاری وعدم پختگی کے باعث حضرت تھانوی ؒ سے اس مکتب فکر کی نسبت محض نام کی حد تک تھی۔مدنی مکتب فکر نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی اور اس سبب بہت کچھ خود کو مطعون بھی کیا تھا۔جمعیۃ ہی نہیں خود حضرت مدنی ؒ کی ذات پر بہت کیچڑ اچھالا گیا مگر ان کی طرف سے عدم تشدد کا مظاہرہ کیا گیا۔تقسیم کے بعد بھی حضرت مدنی ؒ اور ان کی جماعت ہمیشہ عدم تشدد پر بڑی سختی سے کار بند رہے اور تقسیم کو دل وجان سے قبول کیا۔تقسیم کے بعد شروع میں تو مکتب تھانوی نے ایک عرصے تک تو سیاست میں حصہ لیا مگرجب اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہوتے نہ دیکھا تو ایک حد تک کنارہ کشی اختیار کی اوراپنی سیاسی غلطی پر سوال کے ڈر سے درس وتدریس کی جانب متوجہ ہوگئے۔مکتب مدنی کا اصل جوہر ہندوستان میں رہ گیا تھا مگر مکتب تھانوی کی سیاسی کنارہ کشی نے مکتب مدنی کو یہ خلا پر کرنے پر ابھارا اور ستر کی دہائی تک پاکستان کے معروضی حالات میں جمعیۃ نے بھرپور سیاسی کردار ادا کیا۔تاہم پاکستان کی جمعیۃ اور ہندوستان کی جمعیۃ دونوں کی سیاسی ترجیحات میں نمایاں فرق رہا۔
ستر کی دہائی کے بعد جب امریکہ بہادر نے سرد جنگ کے لیے ماحول بنانا چاہا توضیاء الحق کے ذریعے پاکستان میں موجود جمعیۃ کے مذہبی اثر ور سوخ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔چنانچہ ایک طرف مکتب مدنی کے نام لیوا علماء (جمعیۃ)کی ایک بڑی تعداد بھی حالات کی رو میں بہہ گئی اور تحریک طالبان کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئی۔ اس دور میں مکتب مدنی کے بعض علماء نے اسے شیخ الہندؒ اور مولانا مدنی ؒ کے اصولوں سے رو گردانی قرار دیتے ہوئے مخالفت بھی کی مگر انہیں دیوار کے ساتھ لگادیاگیا۔ دوسری طرف مکتب تھانوی کے نام لیواء علماء جو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے تھی ایک مرتبہ پھر سیاست میں آئے اور تحریک طالبان کی حمایت میں متعددفتاوی جاری کیے اور کتب لکھیں۔ اس کا معاوضہ انہیں مدارس کی بڑ ی بڑی عمارت اور لاکھوں مالیت کے چندوں سے نوازا گیا۔ پاکستان میں ان دونوں مکاتب فکر نے تحریک طالبان کی مکمل حمایت کی اور سرمایہ دارانہ نظام کا آلہ کار بن کر سوشلسٹ نظام کو شکست دینے میں اپناکردار اداکیا۔لیکن جب عالمی منظرنامہ تبدیل ہوا اور وقت کے مجاہد وطن کے غدار ٹھہرے تو ان دونوں مکاتب فکر نے بڑی چابک دستی سے اپنی پالیسی تبدیل کی ۔چنانچہ ایک مکتب فکر اپنا ماضی کا ٹریک ریکارڈ اٹھاکرثابت کرنے لگا کہ ان کا تو کبھی سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا اور مسجد ومدرسہ کی گوشہ نشینی اور تعلیم وتعلم ہی ہمیشہ ان کا شعار رہا ہے۔جبکہ دوسرے مکتب فکر نے سیاست کی چھتری کے نیچے اپنے حواریوں سمیت پناہ لی ۔البتہ مطعون مدنی فکر کو اپنے سیاسی پس منظر کے باعث ہونا پڑا۔
اس دور میں پاکستانی مدارس کے طالبان کی ریکروٹمنٹ کے لیے ضروری تھا کہ ان کی مناسب ذہن سازی کی جائے اور ماضی کے کرداروں کو نئے روپ میں پیش کرکے ان کے جذبے کو مہمیز دی جائے۔اس ضمن میں ماضی کی قریب ترین مثال سید احمد شہید اور ان کی تحریک کی شکل میں موجود تھی۔پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ اس تحریک کا تعلق بھی قریب اسی خطے سے تھا جس خطے میں یہ تحریک برپا ہونے جارہی تھی۔اسی بنا ء پر سید احمد شہید کی تحریک کو پاکستانی طالبان کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا اور تھانوی و مدنی مکتب فکر کے نام لیواؤں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی اور متعدد دوسری جماعتوں کے سرکردہ علماء نے اس کی سرپرستی کی۔قطع نظر اس بات کے کہ حضرت تھانویؒ اور حضرت مدنیؒ کی اصولی فکر سے ان دونوں مکاتب فکر کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔ایک مخصوص دور تک تو اس ترکیب نے کام کیا لیکن جب عالمی منظرنامہ تبدیل ہوا اور سامراج کی ضروت پوری ہوگئی اورانہی طالبان کو دہشت گردوں کے خطاب سے نوازا گیا تو ان تحریکوں کی سرپرستی کرنے والے مقدس ہاتھوں نے بھی ان کے سروں سے ہاتھ کھینچ کر انہیں تحریکی یتیمی کا شکار کردیا۔چنانچہ جس مائنڈ سیٹ کی تخلیق میں دہائیاں صرف ہوئی تھیں چونکہ اس کو یکایک تبدیل کیاجانا ممکن نہیں رہاتھا،اس لیے اس کے آفٹر شاکس سے قوم اب تک دوچار ہے۔
آج عالمی سامراج خود اس بات کا اعتراف کر رہا ہے کہ ہم نے روس کے خلاف طالبان کو استعمال کیا اور متعدد ثبوت اس کے سامنے بھی آچکے ہیں۔ اس ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جن علماء عظام اور مفتیان کرام نے دینی مدارس کے مخلص طلباء کے جذبات کو استعمال کیا اور انہیں سیدین کی تحریک جیسی آزادی پسند تحریکوں کا جانشین قرار دے کر عالمی سامراج کی جنگ میں جھونکا،کیا وہ اب بھی اپنے اسی مؤقف پر قائم ہیں؟ہمارے وہ علماء وشیوخ جنہوں نے افغانستان کے حوالے سے جہاد کے فتاویٰ شائع کروا کر بلکہ اس میں خود عملاً شریک ہو کر ’’ شیخ المجاہدین ‘‘ اور ’’ سرپرست مجاہدین ‘‘ کے القابات پائے اور اس عمل کو ’’ اعلاء کلمۃ الحق ‘‘کا عظیم فریضہ قرار دیا، آج پاکستان کے معروضی حالات میں ان کی فقہی بصیرت نے انہیں خاموش کیوں کرا رکھا ہے ۔
اس سب کے باوجود یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ تحریک سیدین اور تحریک طالبان میں نتیجے کے اعتبار سے بعض چیزیں مماثل بھی نظر آتی ہیں ۔مثلاًتشدد کا جوعنصر سیدین کی تحریک میں شامل ہوا وہ ہمیں تحریک طالبان میں بھی نظر آتا ہے۔فرق یہ ہے کہ پہلی تحریک میں یہ عنصر مسلکی وفروعی تھا جبکہ دوسری تحریک میں یہ قبائلی اور لسانی تھا۔تاہم نتیجہ دونوں کا یکساں تھا۔اسی طرح حالات و زمانہ کی رعایت کوجس طرح سیدین کی تحریک میں نظر انداز کیا گیا،وہی طرز عمل ہمیں تحریک طالبان میں بھی نظر آتا ہے۔سیدین کی تحریک کی ناکامی کے نتیجے میں جو تشددپسندانہ ذہنیت الگ ہوئی وہی تشدد پسندانہ ذہنیت ہمیں تحریک طالبان میں بھی نظر آتی ہے،جس نے عالم اسلام میں ایک طوفان بدتمیزی بپا کر رکھا ہے۔اگر غور کیا جائے تو جنگ صفین میں بھی اس طرح کی تشدد پسند ذہنیت خوارج کی شکل میں الگ ہوئی تھی۔بہرحال جوعسکری اغلاط سیدین کی تحریک کے ناکام ہونے کا سبب بنیں ان میں سے اکثر اغلاط تحریک طالبان میں بھی دہرائی گئیں۔ اس پہلو پر سید احمد شہید کی تحریک پر لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے جس کا اعادہ سعی لاحاصل ہے۔
خلاصہ یہ کہ سیدین کی تحریک کی ناکامی کے بعدمولانا ولایت علی اور ان کی جماعت نے اپنی نسبت سید احمد شہیدکی طرف منسوب کی اور سید احمد شہید کے تصور جہاد کی ہمہ گیریت کو قتل وغارت گری اور تشددوتعصب کے ذریعے مسخ کیا۔ تاہم سید احمد شہیدکی جماعت کے حقیقی حاملین نے اسے پیش آمدہ قومی و جمہوری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور تشدد کی بجائے عدم تشدد کا اصول اپنایا۔اس بناء پر اب کوئی بھی تحریک جو اپنی نسبت سید احمد شہید کی طرف کرتی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اگروہ تشدد کی راہ پر ہے تو اس کی نسبت سید ین کی تحریک سے وہی ہوگی جو مولانا ولایت علی اور ان کی جماعت کی تھی۔اس ضمن میں برصغیر کی کوئی بھی اسلامی تحریک اس فکری تسلسل کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔بہر کیف سیدین کی تحریک ایک قومی تحریک تھی جس نے برصغیرکی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا جبکہ تحریک طالبان عالمی سامراج کی جنگ تھی جس میں ہماری حیثیت محض کرایے کے سپاہی کی تھی ۔اس کرایے کی جنگ کوحقیقی آزادی پسند قومی تحریک سے کیونکر نسبت ہو سکتی ہے۔
بنا بریں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نتائج کے اعتبار سے تو بعض جگہ دونوں تحریکات میں مماثلت ہے مگر فکری و نظریاتی اعتبار سے تحریک طالبان کو سیدین کی تحریک سے دور کی بھی کوئی نسبت نہیں ۔جو علماء کرام حقیقی دیوبندیت بالخصوص مدنیت وتھانویت کے تناظر میں تحریک طالبان کو سیدین کی تحریک کے مماثل قرار دینے کی تاویل کرتے رہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ان کی فکر کا تعلق کم از کم اس دیوبند سے تو نہیں ہے جو حضرت مدنی اور حضرت تھانوی کا دیوبند تھا۔
ممتاز قادری کی سزا ۔ ڈاکٹر شہباز منج کے خیالات پر ایک نظر
مولانا قاضی نثار احمد
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے دسمبر کے شمارے میں ممتاز قادری کی سزا کے حوالے سے ڈاکٹر محمد شہباز صاحب کا مضمون پڑھا۔ موصوف نے تحفظ شریعت کانفرنس کے ایک فیصلے پر نظر ڈالتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے، اس کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ ہم لوگ مغربی اور یورپی ممالک کے پروپیگنڈے سے اتنے مرعوب ہوچکے ہیں کہ ان کو خوش کرنے اور انھی کی زبان بولنے کو اپنا فریضہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ جناب موصوف نے تحفظ شریعت کانفرنس کی طرف سے عدالت کی طرف سے ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت کو غیر شرعی قراردیتے ہوئے سپریم کورٹ کو سزاواپس لینے کے مطالبے پر لکھا ہے۔ ان سے یہ ہضم ہی نہیں ہورہا کہ اس قدر غلط اور غیر معقول فیصلے کی بڑے بڑے مذہبی ستونوں نے تائید کردی ہے۔ موصوف نے اپنی جس حیرت اور تعجب کا اظہار کیا ہے، پورا مضمون پڑھ کر ہمیں ان کی حیرت اور تعجب پر حیرت اور تعجب ہورہا ہے۔ موصوف نے ایک طرف توہین رسالت کی سزا کی حمایت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اس سزا کے حامی ہیں اور اس قانون کو کسی بھی طور پر ختم نہیں ہونا چاہیے اور دوسری طرف قادری کی سزا کو غلط قرار دینے کے خلاف اپنے مزعومہ دلائل دیتے ہوئے اس سزا کے حق میں لکھا ہے۔موصوف نے سارا زور اس بات پر لگایا ہے کہ ممتاز قادری نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر نہ صرف ناجائز کام کا ارتکاب کیا ہے بلکہ وہ سلمان تاثیر کے قتل ناحق کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے نقصانات کے حوالے سے جو مثالیں دی ہیں اور جن پر قیاس کیا ہے، بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔ موصوف نے توہین رسالت کے جرم کی نوعیت اور سنگینی کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ یہ سمجھ نہیں سکے کہ ایک مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے مگر اپنے نبی کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔ نیز یہ کہ اس کی ایمانی غیرت اس موقع پر کیا تقاضا کرتی ہے؟ انہوں نے اس جرم کو بھی ان عام جرائم کی طرح سمجھا ہے جن میں مظلوم قانون کو ہاتھ میں لے لے تو اس سے معاشرے میں گوناگوں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہاں ہمار ا مقصد توہین رسالت کی شرعی حیثیت کو واضح کرنا نہیں ہے کیونکہ اس سے موصوف بخوبی واقف ہیں۔ طنز کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ تحفظ شریعت کانفرنس کے فیصلے کی عبارت سے یوں لگ رہا ہے کہ خدانخواستہ کتاب و سنت، اسوہ رسول وصحابہ رضی اللہ عنہم اور چودہ سو سالہ اجماع کا بنیادی مسئلہ اور مقصد وحید ممتاز قادری کیس کا فیصلہ کرنا تھا کہ کہیں کسی کو اس سزا کے شریعت کے خلاف ہونے میں شک باقی نہ رہ جائے۔ حقیقت یہی ہے کہ ممتاز قادری کو دی جانے والی سزائے موت کے غیر شرعی ہونے میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔
ممتاز قادری نے کسی معصوم مسلمان کے قتل کا ارتکاب نہیں کیا ہے کہ اس کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا جاتا، بلکہ اس نے ایک مباح الدم گستاخ رسول کو قتل کیا تھا جس کے سلسلے میں بس اتنا شکوہ کر لیا جاتا کہ ا س نے قانون کو کیوں اپنے ہاتھ میں خود لے لیا تو بات کسی حد تک معقول ہوتی، مگر موصوف نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے ’’جرم‘‘ اور قتل کے جرم، دو الگ الگ چیزوں کو خلط کرتے ہوئے ممتازقادری کی گردن پر دونوں ڈال دیے ہیں، جبکہ حقیقت میں ممتاز قادری پر شرعاً قتل کا جرم عائد ہی نہیں ہوتا کیونکہ اس نے ایک واجب القتل، مباح الدم شخص کو قتل کیا ہے جس کا خون شریعت کی نظر میں رائیگاں ہے۔ رہی بات قانون کو ہاتھ میں لینے کی تو یہ الگ بات ہے جس پر بحث کی گنجائش ہے کہ اس کو جرم کے زمرے میں لانا درست ہے یا نہیں؟ بہر حال اس پر ممتاز قادری کو سزائے موت سنانا اور اس فیصلے کے خلاف تحفظ شریعت کانفرنس کے فیصلے کو خلاف عقل اور غلط کہنا سراسر بے انصافی اور ظلم ہے۔
موصوف نے ایک طرف خود عدالتی نظام میں موجود ان خامیوں کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے عدالت سے عموماً انصاف نہیں ملتا۔ دوسری طرف ممتاز قادری اور مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا ہے کہ وہ عدالت پر اعتبار کریں اور اسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہیں۔ اس طرح موصوف کی باتوں میں کافی حد تک تضاد نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر محمد شہباز صاحب نے عدالتی نظام میں جن خرایبوں کی خود نشاندہی کی ہے، انھی خرابیوں کی بنا پر ہم ممتاز قادری کو قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور و معذور سمجھتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موصوف اس موقع پر عدالتی نظام اور ہمارے قانون میں موجود ان خرابیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے جن کی بنیاد پر ممتاز قادری کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینا پڑا، مگر موصوف نے اپنی متضاد کڑوی باتوں کا رخ سارا کا سارا ممتاز قادری اور ان کے حمایتی علماء کے طرف موڑا ہوا ہے۔
موصوف نے لکھا ہے کہ ’’اگر عدالتی پروسیجر میں پڑنے کے سبب بڑے اور بااثر ملزموں کے اپنے اثر ورسوخ کی وجہ سے سزا سے بچے رہنے کے اندیشے کے تحت توہین رسالت کے ملزم کو ذاتی حیثیت میں قتل کرنا جائز کہا جائے تو بااثر قاتلوں اور ظالموں کے ٹرائل میں پڑ کر چھوٹ جانے کے خدشے کی وجہ سے ایک مقتول کے غریب اور بے سہارا ورثہ اور مظلوموں کے اس سے خود انصاف لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کو کس دلیل کی بنا پر ناجائز کہا جائے گا؟‘‘ نیز ۔لکھا ہے کہ ’’شریعت دراصل لوگوں کی اصلاح کے لیے ہے اور سزادینا اس کی ضرورت اور مجبوری ہے ، خوشی اور دل لگی نہیں۔ عجب ستم ظریفی یہ ہے کہ جس شریعت کی خوشی لوگوں پر سے سزائیں ٹالنے میں ہے، ہم ایسی سزائیں زبردستی نافذ کرکے خوش کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ موصوف نے اس طرح قیاس مع الفارق کرنے سے قبل اس نکتے پر غور نہیں کیا کہ عام قتل اور توہین رسالت کے جرم میں بہت بڑا فرق ہے۔ نیز ایک جرم قابل معافی ہے تو دوسرا نا قابل معافی۔ اس لیے موصوف کا جب سوال ہی درست نہیں ہے تو اس کے جواب کے درپے ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
دراصل اسلام ایک دین اعتدال ہے جو ہر مزاج کے لوگوں کے لیے ہے، چاہے فطرتاً سخت مزاج کے ہوں یا نرم مزاج کے۔ دونوں طبائع کے لحاظ سے اسلام نے کچھ جرائم کو قابل معافی رکھا ہوا ہے اور کچھ کو ناقابل معافی۔ اگر دین اسلام میں ہر جگہ ہی عفوو درگزر کی تعلیم ہوتی تو یہ ان طبایع کے لیے ناقابل قبول ہوسکتا تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے خلق سختی کی طرف مائل پیدا فرمایا ہے اور اگر ہر جگہ سزا ہی سزا ہوتی تو یہ ان طبایع کے لیے گراں گزرسکتا تھا جن کو اللہ تعالیٰ نے نرم مزاج پیدا فرما یا ہے۔ اس لیے اسلام میں سزا و جزا ، معافی و نامعافی دونوں کا تصور ہے۔ سلمان تاثیر کے جرم کا تعلق ناقابل معافی سزا سے تھا چنانچہ اس پر خوش ہونے کی بجائے افسوس کا اظہار کرنا نادانی اور حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی اور المیہ یہ ہے کہ کنویں کے مینڈک کی طرح اسی کنویں کو دنیا سمجھ بیٹھے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جو چیز ہماری سمجھ کو صحیح لگے، وہ صحیح ہے اور جو غلط لگے، وہ غلط ہے حالانکہ دنیا بہت وسیع ہے اور یہاں ہر طرح کے مزاج کے لوگ ہیں۔ کبھی اپنے ذاتی خول، پسند اور ناپسند سے باہر نکل کر بنظر انصاف شرعی حدود اور سزاؤں اور ان کی حکمتوں میں غور کرلیا ہوتا تو یہود و نصاریٰ کے پروپیگنڈے کے اثر سے آزاد ہوکرہمیں حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملتی۔
مگر ایسا نہ کرنے کی وجہ سے موصوف جیسے حضرات آخر میں یہ لکھتے نظر آتے ہیں کہ ’’ذاتی حیثیت میں ایسے قتل کو سند جواز عطاکرنا سوسائٹی کو انارکی اور تباہی کی طرف دھکیلنا ہے۔ کیا دینی قوتوں کو سامنے کی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ چیز تو ان کے اپنے کاز کو نقصان پہنچانے والی ہے؟ اس نوع کے مواقف کو اپنانے کے نتیجے میں اہل مذہب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔۔۔۔قانون توہین رسالت کے خاتمے کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے۔‘‘ اس کے جواب میں ہم اتنا عرض کر سکتے ہیں کہ تحفظ شریعت کانفرنس کی طرف سے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی حمایت ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ شرعی حیثیت سے کی گئی ہے اور اگر یہ شرعی حیثیت موصوف کو سمجھ نہ آسکی تو ہم اس کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں۔ نیز اس طرح کا قتل سوسائٹی کو انارکی اور تباہی سے نکالنا ہے تاکہ ایسے جرائم کا آئندہ سد باب ہوسکے۔
موصوف نے اہل مذہب کو جس شدیدتنقید کا نشانہ بنانے کے ڈر کا اظہار کیاہے اور اس قانون توہین رسالت کے خاتمے کی آواز اٹھائے جانے پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا ہے جس کے بقول ان کے وہ خود بھی حمایتی ہیں تو اس طرح کامضمون لکھ کر وہ اسلام اورمسلمانوں پر اغیار کی طرف سے متوقع تنقید سے کبھی نہ خود بچ سکتے ہیں اور نہ ہی مسلمان ممتاز قادری کو سنائی جانے والی سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کرکے نکل سکتے ہیں۔اگر اس تنقید سے شدید گھبراہٹ ہورہی ہے جس سے نکلنا بہت ضروری ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ معاذ اللہ یہود ونصاریٰ کی پیروی کر لی جائے تاکہ وہ خوش ہوسکیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق یہود ونصاریٰ کی تنقید سے بچنے اور ان کو خوش کرنے کا کوئی اور طریقہ کامیاب نہیں ہے۔ وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الیَھُودُ وَلَا النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ۔
مکاتیب
ادارہ
(۱)
آج کل سوشل میڈیا پر’داعش‘ کے متعلق مولانا سید سلمان صاحب ندوی کا ایک مضمون بڑے پیمانے پر نشرکیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے مذکورہ تنظیم کو سلفیت سے منسلک کرتے ہوئے سلفی منہاج فکر اور سلفی علما کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ قبل ازیں انھوں نے اس تشدد پسند گروہ کی تحسین و ستایش کرتے ہوئے اس کے سربراہ ابو بکر البغدادی کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں ان سے مختلف اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔ بہ ظاہر یہ مضمون اپنے اسی سابقہ موقف کے کفارے کے طور پر لکھا گیا ہے جس میں سلفیت خواہ مخواہ زیر عتاب آگئی ہے۔ ہم نے بعض احباب کے توجہ دلانے پر موصوف کی اس تحریر کا مطالعہ کیا تو بے حد افسوس ہوا کہ ان کا تجزیہ غیر جانب دارنہ نہیں ہے بلکہ غلطی ہاے مضامین کا شاہ کار ہے۔ اس پرمفصل نقدکی خاطر تو ایک مبسوط مضمون ہی کی ضرورت ہے جس کا فی الحال موقع نہیں؛ البتہ چندمختصر نکات کی صورت میں ایک اجمالی تبصرہ پیش خدمت ہے:
1) تشدد اور بدامنی کا رشتہ سلفیت سے جوڑنا صریح ناانصافی اور خلاف حقیقت ہے۔ سلفیت نام ہے: نصوص کتاب و سنت کو فہم سلف کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کا اور اپنے تمام تر افکار و اعمال کو ان کے مطابق ڈھالنے کا اور بس! قرون مفضلہ کے اسی نظریے کوقرون متوسطہ میں شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ نے اور عہدِ متاخر میں امام محمد بن عبدالوہابؒ نے پیش کیا؛ فی زمانہ عرب کے سلفی علما اور برصغیر کے اصحاب الحدیث اسی کے پر چارک ہیں۔
2)شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ عظیم مجدد،مصلح اور داعیِ توحید تھے جنھوں نے قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات اور سلف صالحین کے طرز عمل کی اتباع میں عقیدۂ توحید اور اس کے تقاضوں کو شرح و بسط سے اجاگرکیا اور معاشرے میں دَر آنے والی بدعات اور مزخرفات پر تنقید کی۔ ان پر کفر سازی یا قتل مسلمین کے الزامات غلط فہمی پر مبنی ہیں جن کے ازالے کے لیے مولانا مسعود عالم صاحب ندویؒ [ایک وہ ندوی تھے اور ایک ہمارے ممدوح ہیں!] کی وقیع کتاب’’شیخ محمد بن عبدالوہابؒ : ایک مظلوم اور بدنام مصلح ‘‘کا مطالعہ بے حد مفید رہے گا۔ برصغیر میں بعض علماے دیوبند نے بھی ان پر اعتراضات کیے تھے لیکن اس کی وجہ ان کے احوال کی تفصیلات سے عدم واقفیت تھی جیسا کہ معروف دیوبندی عالم اور مناظر مولانا منظور احمد صاحب نعمانی نے اپنی کتاب’’شیخ محمد بن عبدالوہابؒ کے خلاف پراپیگنڈا اور علماے حق پر اس کے اثرات‘‘ میں اس امر کی وضاحت کی ہے۔ واضح رہے کہ دارالافتا، دارالعلوم دیوبند کی آفیشل ویب سائٹ پر ایک سوال کے جواب میں اس کتاب کی تائید و تصدیق کرتے ہوئے امام محمد بن عبدالوہاب کو اہل سنت قرار دیا گیا ہے۔
3) داعش کا ناتا سلفیت سے ملانا اور پھر پورے سلفی مدرسہ فکر کو اس کا ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے اسے مطعون کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے بعض لوگ پاکستانی طالبان ،لشکر جھنگوی اور بعض دیگر متشدد گروہوں کو حنفی دیوبندی قرار دے کر پورے دیوبندی مکتب خیال کو نشانہ جرح بنالیتے ہیں اورخطے میں بپا قتل و غارت اور بد امنی و فساد کا منبع حنفیت اوردیوبندیت کو گردانتے ہیں!!ہماری رائے میں دونوں رویے نامنصفانہ اور افراط و تفریط کے مظہر ہیں کیوں کہ کسی بھی مسلک کے عقائد و افکار کی نمایندگی اس کے معتبر اور کبار علماسے ہوتی ہے جب کہ یہاں عالم یہ ہے کہ سعودی عرب کے مفتیِ اعظم اپنے خطبہ حج میں ’داعش‘کو گم راہ کہتے اور اس سے اظہارِ براء ت کرتے ہیں اور آج تک کسی بھی معروف سلفی عالم نے اس تنظیم کی تائید و حمایت نہیں کی؛ اس کے باوجود داعش کا نام لے کر سلفیت اور سلفیوں کو رگیدتے چلا جانا عدل و انصاف کے کون سے پیمانوں پر پورا اترتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے ایک منحرف گروہ کا بہانہ بنا کر تجزیے کے عنوان سے دل کا پرانا بخار نکالا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں ایسے ارباب دانش بھی موجود ہیں جو موجودہ صورت حال کی تمام تر ذمہ داری شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مفتی تقی عثمانی اور مولانا زاہدالراشدی سمیت پورے مذہبی حلقے پر ڈالتے ہیں!!
4) مولاناسید سلمان صاحب ندوی عالم دین ہیں؛ اس پہلوسے ان کا احترام واجب ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ وہ موقع بہ موقع سلفیت پرتند وتیز لہجے اور سخت الفاظ میں ناروا تنقید کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیاسی مسائل ہوں یا دیگر فکری و مذہبی امور، ان میں اختلاف کی گنجایش ہمیشہ رہتی ہے اور صحت مند تنقیدسے معاملے کے نئے گوشے سامنے آتے ہیں جس کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن محترم موصوف اکثر و بیش تر حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں؛ پھرجذباتی انداز اور فکر کا الجھاؤ تحریر کی سلاست، روانی اور ادبی چاشنی کو بھی سلب کر لیتا ہے اورقلم سے اس نوع کے جملے صفحہ قرطاس پر آتے ہیں:’’یہ ساری تنظیمیں سلفیت کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہیں۔۔‘‘، ’’اس کے فکری دھماکے۔۔۔‘‘، ’’اس کی شرعی ماں القاعدہ ہے!!‘‘بہ ہر حال ان کا اسلوب جارحانہ اور جانب دارانہ ہوتا ہے اور وہ مسائل یا نظریات پر گفتگو کے بجاے پورے مکتب فکر کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں جو علمی تنقید کے معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
مولانا موصوف کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک عجلت پسند اور متلون مزاج انسان ہیں؛ کل تک وہ داعش کی تعریف میں رطب اللسان تھے اور آج اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ مناسب نہ تھا کہ وہ اس تنظیم سے متعلق پہلے ہی اچھی طرح تحقیق کر لیتے اور پھر اپنی رائے قائم کرتے جب کہ سلفی علما اول روزسے اس کی حقیقت آشکار کر چکے تھے! لیکن انھوں نے غالباً طلب شہرت کے پیش نظر’امیر المومنین‘ کے نام مکتوب لکھا اور اسے عام شائع کیا۔ ہمیں تسلیم ہے کہ انسان سے اندازے کی غلطی ہو جاتی ہے اور وہ تفاصیل و جزئیات سے بے خبری کے سبب کوئی غلط رائے بنا لیتا ہے، لیکن یہ کیا انداز ہے کہ اپنی غلطی سے رجوع کرتے ہوئے غیر متعلق نکات پربحث شروع کر دی جائے اورسارا ملبہ اْن لوگوں پر ڈال دیا جائے جن کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں!!گویا مولاناے محترم ایک مرتبہ پھر وہی غلطی دہرا کر اپنی عجلت پسندی اور ناعاقبت اندیشی کا ثبوت بہم پہنچا رہے ہیں!!
5) آخر میں ہماری دردمندانہ گزارش ہے کہ آج جب کہ امت کو کفر ونفاق اور الحادو لادینیت کے خلاف متحد اور متفق ہونے کی اشد ضرورت ہے ،اس نوع کی تحریریں ہر گز سود مند نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ حنفیت اور سلفیت میں فاصلوں کو بڑھانے کا باعث ہوں گی؛ جب کہ ہماری نگاہ میں یہ دونوں مکاتب اپنے اپنے انداز سے اسلام کی تشریح و تعبیر کرتے ہیں جن میں علمی مکالمہ جاری رہنا چاہیے؛ پس ہر دو کی توقیر لازم ہے اور ان سے وابستہ افراد کو ایک دوسرے سے قریب کرنا نہ صر ف یہ کہ مذہب کا ضروری مطالبہ ہے بلکہ حالات کا بھی اولین تقاضا ہے۔ جو احباب ندوی صاحب کے اس مضمون کو بہت ہی نادر اور قیمتی سوغات سمجھ کر اس کی اشاعت عام رہے ہیں، اگرچہ یہ اْن کا حق ہے لیکن ہماری استدعا ہے کہ یہ ہر گز کوئی مستحسن عمل نہیں ہے کہ اس کی افادیت توشاید ایک فی صد بھی نہ ہو، البتہ مضر اثرات بہت زیادہ ہیں؛اس لیے اس سے گریز ہی فرمائیں تو بہتر ہو گا:ع
مانیں، نہ مانیں، آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں!
حافظ طاہر اسلام عسکری
(مدیر،سہ ماہی نظریات،لاہور)
(۲)
تاریخ اسلام کا مطالعہ ہمیں اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ مسلمانوں میں آج تک جتنے فتنوں نے سراُٹھایا ،وہ سب اسلام کی غلطی تشریح و تعبیر کا نتیجہ تھے۔ ایسے ادارے، ایسی تحاریک اور ایسے افراد جنھوں نے اسلام کو منہج سلف سے ہٹ کر سمجھنے کی کوشش کی ،گمراہی و ضلالت ان کا مقدر ٹھہری۔ جہمیہ، مرجۂ، کرامیہ، خلاسفہ، قراطہ، سوفسطائیہ، باطنیہ، لاادریہ، خوارج ،روافص و نواصب، یہ سب اسلام کی غلط تشریح و تعبیر کے نتیجے میں پیدا ہوء۔
عصر حاضر میں دو فتنے ایسے ہیں جو منہج سلف سے ہٹے ہوئے ہیں۔ ایک فتنۂ خوارج (جس کی نمائندگی پاکستانی طالبان، القاعدہ و داعش جیسی تنظیمیں کررہی ہیں) اور دوسرا فتنہ غامدیت(جس کی قیادت جاوید احمد غامدی اور ان کا ادارہ کررہا ہے)۔ یہ دونوں تحاریک دراصل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ عہدِ حاضر کا فتنۂ خوارج ان افکار و نظریات کی ضد میں پیدا ہوا ہے جو افکارو نظریات آج جاوید احمد غامدی پیش کررہے ہیں یا پھر ان کے اعلانیہ و غیر اعلانیہ حامیان۔ ان میں سے ایک فکر گمراہی کے ایک دہانے پر ہے اور دوسری فکر گمراہی کے دوسرے دہانے پر۔ جبکہ اسلام کی فکری ونظریاتی شاہراہ ان کے درمیان ہے جو کہ سلف صالحین کی راہ ہے۔ فتنۂ خوارج و غامدیت کا حال کچھ ایسا ہے کہ بقول مفتی تقی عثمانی مدظلہم :
’’جب ایک مرتبہ کوئی صاحبِ فکر جمہورامت کے مسلمات سے آزاد ہوکر اپنی راہ الگ اختیار کرلیتا ہے اور یہ تصور کرلیتا ہے کہ وہ اِن مسلمات کے بارے میں پہلی بار اصابتِ فکر سے محروم رہے ہیں ،توان کے اوپر کوئی روک باقی نہیں رہتی۔ ماضی میں یہی طرزِ فکر نہ جانے کتنی گمراہیاں پیدا کرچکا ہے۔ طہٰ حسین سے لے کر سرسید تک اور وحید الدین خان سے لے کر جاوید احمد غامدی تک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اپنے اپنے وقت میں اس طرزِ فکر نے دلائل کا زور بھی باندھا ،لیکن امتِ اسلامیہ کا اجتماعی ضمیر رفتہ رفتہ اسے رَد کرکے اس طرح آگے بڑھ گیا کہ اس کا ذکر صرف کتابوں میں باقی رہ گیا۔ بالخصوص آج کے دور میں جس طرح کے افکار،دین میں تحریف کے درپے ہیں، اس کے سواسلامتی کا کوئی راستہ نہیں کہ انسان علماءِ امت کے سوادِ اعظم سے اور جمہور امت کے مسلمات سے وابستہ رہے۔ بے شک انبیاء کرام ؑ کے سوا کوئی معصوم نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہ ہونا چاہیے کہ انسان جمہور علماءِ امت کے مقابلے میں خود کو معصوم سمجھنے لگے اور یہ سمجھے کہ اُن سب سے بیک وقت غلطی ہوئی ہے،مجھ سے نہیں۔‘‘ (ماخوذ از مجلہ صفدر، فتنہ غامدی نمبر، جلد اول)
برِصغیر احیائے اسلام کی ایک عظیم تحریک ،جو کہ امیر المومنین مجاہدِ کبیر سید احمد شہیدؒ کی امارت میں اٹھی تھی، صحابہ کرامؓ کے بعد اخلاص و للہیت، زہد وتقویٰ ،ایما ن و عزیمت اور جرأت و استقلال کے باب میں اپنا ثانی کوئی نہیں رکھتی۔ یہ تحریک سندالہند حضرت الامام شاہ ولی اللہ نوراللہ مرقدہٗ کے افکار ونظریات سے مولود ہوئی اور امام شاہ ولی اللہؒ کے افکار و نظریات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اسلام اپنا غلبہ اور اقتدار چاہتا ہے اور غلبہ اسلام کے لیے جدوجہد کرنا مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے۔ امام شاہ ولی اللہؒ کی یہ فکر ان کی ذاتی و اختراعی فکر نہیں بلکہ آپ کے تمام فکری ڈانڈے سلف صالحین سے جڑے ہوئے ہیں اور سلف صالحین کا راستہ ہی ہدایت کا راستہ ہے۔ عہدِ حاضر کے خوارج اپنا فکری و نظریاتی رشتہ فکرِ سیداحمد شہیدؒ سے جوڑتے ہیں یا نہیں، لیکن غامدی افکارونظریات کے اعلانیہ و غیر اعلانیہ حامیان اپنے تئیں پاکستانی طالبان کا فکری ونظریاتی رشتہ فکر سید احمد شہیدؒ سے جوڑنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے انھیں بہت دور کی کوڑ لانی پڑے، مختلف و متنوع تحریکات کا، جو کہ مختلف ومتنوع حالات میں چلی تھیں، آپس میں رشتہ جوڑنا پڑے، یا پھر مختلف تحاریک کو اپنے ذہنی تخیلات کی بنیاد پر اپنا مَن چاہا مفہوم پہنانا پڑے تو وہ کسی بھی بات سے نہیں چوکتے۔
راقم الحروف کے مطابق، اگر کسی شخص نے پاکستانی طالبان کا فکری و نظریاتی رشتہ سید احمد شہیدؒ کی تحریک سے جوڑنا ہے تو وہ اِن دنوں تحریکات کے افکار ونظریات میں باہمی یکسانیت پیش کرے کہ کیا سید صاحبؒ فاسق و فاجر مسلمانوں کی تکفیر کرتے تھے اور کیا سید صاحبؒ نے کبھی بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل کو جائز سمجھا۔ ہمیں ان سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے ،جبکہ پاکستانی طالبان (خوارج) فاسق و فاجر مسلمانوں کی تکفیر بھی کرتے ہیں اور بے گناہ انسانیت کو ’’انصارانِ طاغوت‘‘ جیسے القاب سے ملقب کرکے مباح الدّم قرار دیتے ہیں ۔اس لیے اُن حضرات کے دلائل میں کوئی وزن نہیں جو پاکستانی طالبان کو نفاذِ شریعت کا دعوے دار قرار دے کر ان کو فکر سید احمد شہیدؒ کا تسلسل قرار دیتے ہیں، کیونکہ غلبۂ اسلام کے لیے جدوجہد کا نظریہ صحابہ و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم، ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین کے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ اگر غامدی افکار کے اعلانیہ و غیر اعلانیہ حامیان نے محض غلبۂ اسلام کی جدوجہد کے نام پر پاکستانی طالبان کا سید صاحبؒ سے رشتہ جوڑنا ہے تو پھر انھیں پاکستانی طالبان کا فکری ونظری رشتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرات سلف صالحین سے بھی جوڑنا ہوگااوراگر سلف صالحین سے ان کا رشتہ نہیں جوڑتے تو پھر لامحالہ سید صاحبؒ سے بھی نہیں جوڑ سکتے، کیونکہ پاکستانی طالبان بھی اسی طرح منہج سلف سے ہٹے ہوئے ہیں جس طرح فکرِ غامدی منہج سلف سے ہٹی ہوئی ہے۔
محمد یاسر الحسینی
ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان : بین المذاہب اور بین المسالک تناظرات کی نئی تشکیل
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
مرکز برائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانانِ ہند( CEPECAMI)، علی گڑھ پلیٹ فارم اورفیوچراسلام ڈاٹ کام کے اشتراک سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں 17دسمبر2015کوایک یک روزہ عالمی کانفرنس بین المذاہب اوربین المسالک تناظرات کی تشکیل نوکے موضوع پر منعقدہوئی۔اس کانفرنس میں خصوصی خطاب پیش کرتے ہوئے خصوصی مہمان وزیرخارجہ ملائشیااوراوآئی سی کے خصوصی ایلچی سیدحامدالبرسابق نے کہاکہ موجودہ زمانہ میں مسلمان ہرجگہ محاصرہ کی حالت میں ہیں۔ ان کا دین ہی نہیں، ان کی نقل وحرکت ،آمدورفت اورگفتگوسب پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ 9/11کے واقعہ نے مسلمانوں اورمغرب کے تعلقات پر زبردست منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہم ایک بحرانی حالت میں ہیں لہٰذاہمیں اپنے مسائل کوحل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی جس کے لیے دوسر ی قوموں سے زیادہ سے زیادہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ قرآن نے قوموں اور قبیلوں کے درمیان بہتر تعلقات پر زور دیا ہے، انسانیت کا احترام سکھایا ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم دوسروں سے اپنے آپ کو اعلیٰ اور برتر سمجھتے ہیں، ان سے کچھ سیکھتے نہیں۔ہمیں سوچناچاہیے کہ ہم ناکام کیوں ہیں کیونکہ ہم جمودپسندہیں۔
امریکہ سے آئے ہوئے ورلڈ پارلیمنٹ کے صدرپروفیسرگلن ٹی مارٹن نے اسلام کے تصورخودی پرایک پُرمغزخطبہ پیش کیا۔ انہوں نے حاضرین سے سوال کیاکہ آج اسلام فرانس،امریکہ اورہرجگہ محاصرہ میں کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کے تصورخودی کوبھلادیاگیاہے۔انہوں نے 9/11کے بارے میں اپنی یہ رائے بھی ظاہرکی کہ وہ خودامریکہ کی اندرونی ایجنسیوں کا ہی کیا دھرا تھا۔ اپنے طویل خطبہ میں پروفیسرمارٹن نے پوری دنیاکے امن وسلامتی کے لیے عالمی شہریت کا ایک دستوربھی پیش کیا۔
آریہ سماج کے متحرک رہنماسوامی اگنی ویش نے کہاکہ لاالہ الااللہ ایک انقلابی کلمہ ہے اورتمام انسانوں کوجوڑنے والاہے۔انہوں نے کہاکہ ہم سب انسان ایک ہی فیملی ہیں، ہم نقلی بحثوں میں کیوں پڑے ہوئے ہیں۔
پروفیسرراشدشازنے اپنے مختصرکلمات میں بین المذاہب اوربین المسالک مذاکرات کی اہمیت کو اجاگرکیا۔ نیز بین المسالک مذاکرات کے لیے نئے زاویوں سے سوچنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ امت مسلمہ پر اس کی طویل تاریخ میں چار بڑے بحران آئے ہیں۔پہلابحران قتلِ عثمانؓ سے شروع ہوتاہے ،دوسرابڑابحران سقوط بغداد تھا اور تیسرا بڑا بحران خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ تھاجس کے بعدامت مسلمہ اپنی چھتری سے محروم ہوکرکھلے آسمان کے نیچے آگئی۔ چوتھا بحرانی دور آج کا ہے جس میں شرق اوسط میں مسلسل خانہ جنگی کی کیفیت ہے جس میں قاتل بھی مسلمان اورمقتول بھی مسلمان۔ آج مسلم دنیاکے مرکزی علاقہ سے اس کا Depopulation ہو رہا ہے۔
مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے امیرمولانااصغرعلی امام مہدی سلفی نے بھی اپنے خیالات کا اظہارکیااورعالمی امن کی کوششوں کی تائیدکی۔ اس نشست کی نظامت ڈاکٹرمحمدزکی کرمانی کررہے تھے۔ کانفرنس کے اغراض ومقاصدکا تعارف راحیل احمدنے کرایااوراحمدفوزان نے ایسسکوکے چیئرمین عبدالعزیزعثمان التویجری اوردوسری شخصیات کے پیغامات پڑھ کر سنائے۔
ا س کانفرنس کا دوسراسیشن بہت اہم تھاجس کوٹاؤن ہال سیشن کا نام دیاگیا۔اس کا اندازراؤنڈٹیبل کانفرنس کا تھا۔ تقریباً دو درجن شرکائے بحث ایک گول دائرہ میں بیٹھے تھے،سب کوان کی جگہ ہی مائک مہیا کیے گئے تھے۔ شرکاء میں علما، پروفیسرز، محققین ،سماجی ایکٹوسٹ، رضاکار، صحافی دانشور، نوجوان اسکالر مردوخواتین سبھی شامل تھے۔ تقریباً 18 شرکاء نے اس بحث میں پورے جوش وخروش اورسنجیدگی سے حصہ لیا۔ اس سیشن کومرکزبرائے فروغ تعلیم وثقافت مسلمانانِ ہند کے ڈائرکٹر پروفیسر راشد شاز نے چلایا۔ ان کے ساتھ شیعہ تھیولوجی کے صدر پروفیسر علی محمد نقوی، ڈاکٹر زکی کرمانی، سید حامدالبر اور مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی بھی ڈائس پر موجود رہے۔ سوال اصل یہ تھاکہ وہ کیااسباب وحالات تھے کہ امت افتراق اورانتشارکا شکارہوگئی اورمتبعینِ محمدﷺمیں سے کٹ کٹ کرکتنے ہی لوگ قافلہ سے جداہوکرنئے نئے فرقے بناتے چلے گئے۔ اور اب کیاکیاجائے کہ امت پھرسے ایک پلیٹ فارم پر آجائے۔
مولانا محمد میاں قاسمی سنبھلی نے جوایک بڑے مدرسہ کے مہتمم ہیں، بحث کا آغازکرتے ہوئے کہاکہ میں قرآن کا مطالعہ موجودہ حالا ت کے تناظرمیں بغیرشان نزول اورتفاسیرکی محتاجی کے کرتاہوں اور قبلہ، نماز اور حج کی بنیادپر اہل قبلہ کے لیے وحدت کا ایک پروگرام بنایاجاسکتا ہے، بلکہ حج پوائنٹ پرتوتمام انسانیت کوجمع کیا جا سکتا ہے، کیونکہ قرآن حج، مسجد نبوی اورمسجد حرام کا باربارذکرکرتاہے اورکہیں پر بھی غیرمسلموں کوداخلہ سے نہیں روکتا بلکہ وہ ہر جگہ الناس کا تذکرہ کرتا ہے۔
مسلم یونیورسٹی کے استاد اور ڈبیٹر ڈاکٹرمحب الحق نے موجودہ دورمیں مسلمانوں کے تین رویوں کا ذکرکیا۔
۱۔ مسلم علما کے مذہبی جدا ل سے تنگ آکرمذہب بیزاری جس میں سیکولرحلقہ معاشرہ کو Deislamize کرنے کی آوازلگارہاہے۔
۲۔دوسرارویہ مذہب پسندحضرات کا یہ سامنے آرہاہے کہ قرآن پر basedاسلام کواختیارکیاجائے اورمذاہب فقہ اورروایات سے پیچھا چھڑایا جائے۔
۳۔تیسرارویہ جمع وتطبیق کا ہے۔ یہ رویہ تیونس کے ماڈل کو، جس کو اسلامی سیکولرزم کہا جا سکتا ہے، اختیار کرنے کی بات کہتاہے۔ڈاکٹرمحب الحق نے بھی اسی تیسری رائے کی وکالت کی ۔
دہلی سے آئے جناب نظام الدین صاحب نے کہاکہ قرآن کے ترجموں اورتفاسیرسے قرآ ن کے بہت سے الفاظ کی پوری وضاحت نہیں ہوتی، ا س لیے قرآن فہمی پر زیادہ زوردینے کی ضرورت ہے۔
پروفیسررحیم اللہ نے کہاکہ اگرچہ مدارس میں 4فیصدہی بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اوران میں بھی ایک فیصدلوگ ہی معاشرہ کی مذہبی قیادت میں آتے ہیں، مگرمعاشرہ کے سوفیصدلوگ انھی ایک فیصدکوfollow کرتے ہیں جس کی وجہ سے پورامعاشرہ مسلکی جھگڑوں میں جی رہا ہے۔ کوئی بھی آدمی الاماشاء اللہ اس سے باہرنہیں۔
شعبہ فلسفہ کے صدرپروفیسرمحمدمقیم الدین نے وحدت امت کے لیے چندتجاویزدیں:
۱۔تاریخ کے حوالہ سے جوبات ہوگی، وہ کامیاب نہ ہوگی ۔جوکچھ تاریخ میں ہوگیا، اب اس کو درست نہیں کیا جا سکتا۔
۲۔سب فرقوں کا تعلق شخصیا ت سے ہے، اس لیے ان شخصیات پرجارحانہ تنقیدیاحملہ نہ کیاجائے۔
۳۔اب جو کچھ ہو سکتا ہے، وہ یہ کہ انسان کو انسان بنایا جائے۔ اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنانے کے لیے عقل کو معیار بنایا جائے۔ عقل کا استعمال ہواورایکReasonalble اورحقیقت پسندمسلمان بنایاجائے۔
ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی نے براہ راست موضوع پر گفتگوکی کہ امت فرقوں اور ٹکڑوں میں کیوں بٹتی چلی گئی۔ اس بات پرغورکرتے ہیں تواس کے بہت سے اسباب میں سے ایک بڑاسبب یہ بھی نظرآتاہے کہ امت میں اظہارخیال اور اظہار رائے کی آزادی چھین لی گئی۔ اشخاص اورجماعتوں کی تکفیرکی باقاعدہ مہمیں مذہبی طبقہ نے چلائیں، بات بات پر تکفیرکے فتوے دیے جانے لگے۔ ڈاکٹر غطریف ندوی نے تاریخ سے اورحا ل کے دنوں سے کئی مثالیں بھی دیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں جوآدمی بھی سلف سے اختلاف کرتا یا لکیر سے ہٹ کرکچھ سوچتایاتحقیق پیش کرتا ہے، اس پر کفرکے فتوے لگ جاتے ہیںیااُسے یہودی وصہیونی ایجنٹ قراردیاجانے لگتا ہے۔ حقیقت پسندی کی اتنی کمی ہے کہ ہمارا ہر لکھنے بولنے والاشروعات ہی مغرب کوگالیوں اورلعن طعن سے کرتا ہے۔ سازشی تھیوری میں ہم جیتے ہیں۔ جب تک ہم اس جمودِفکرسے باہرنہیں آئیں گے، چیزوں کو حقیقت پسندی سے نہیں دیکھیں گے، تب تک ہمارے مسائل حل نہ ہوں گے۔
پروفیسرگلریزاحمدنے کہاکہ موجودہ زمانہ میں multiculturalسوچ کوآگے بڑھاناچاہیے اوراسی کوبنیادبناکرہم اپنی بات کوآگے بڑھائیں۔ کرنل سراج الحق نے سوامی اگنی ویش کی تقریرچندسوالات اٹھائے۔ پروفیسرصوفی نے بھی وحدت امت کے سلسلہ میں اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے اس اصول کی طرف بلایاکہ ’’اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں، دوسرے کے مسلک کوچھیڑونہیں‘‘۔
شرکاء سے سوال کیاگیاکہ مسلمان کسے کہیں گے اورامت مسلمہ سے کون خارج سمجھاجائے گا؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسرعلی محمدنقوی نے کہا کہ مسلمان ہونے کے لیے’’ توحید،رسالت وآخرت پر ایمان ،ختم نبوت اورقرآن کے محفوظ وغیرمحرف ہونے پر ایمان ویقین رکھنا‘‘یہ اصول ہیں۔پھریہ بھی دیکھاجائے گاکہ وہ فردیافرقہ خود کو اسلام کا پیروکارکہتاہے یانہیں۔ تمام شرکاء نے اسلام کی اس تعریف کوجامع ومانع قراردیا۔
اس کے بعدایک خاتون پروفیسرنے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ ’’ہم میں بحث کے آداب نہیں۔ ادب اختلاف نہیں، عدم تحمل ہے ،برداشت نہیں ہے۔جومسالک ہیں، وہی دین بن گئے ہیں۔ اس وجہ سے نئی نسل دین سے برگشتہ ہورہی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ دعوت کا نصب العین کیاہو،اقامتِ دین اورغلبۂ دین یاکچھ اور؟انہوں نے مشورہ دیاکہ ایک ایسی جامعہ بنائی جائے جوNeutral ہواورصرف اسلام کوRepresentکرے۔
بزرگ دانشورجنا ب عابدرضابیدارنے وحد ت امت پر گفتگوکرتے ہوئے رائے دی کہ حدیثوں کی بجائے قرآن کوبنیادبنائیں توبہت سے مسئلے حل ہوجائیں گے کیونکہ ہرفرقہ اپنے مطلب کی حدیثیں بیان کردیتاہے۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ مسلمانوں کے درمیان جوفرقے بن گئے ہیں، ان کے درمیان مذاکرا ت کے لیے اہل قبلہ کے بجائے کوئی اوراصطلاح استعمال کی جائے توبہترہوگا۔
مولاناضیاء الرحمان علیمی کے نزدیک قادیانیوں اوربہائیوں سے بھی کلمہ سواء کی بنیادپر مکالمہ کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ یہ سوال جب مولاناذیشان رضامصباحی سے پوچھاگیاتواصولی طور ،پر پروفیسرعلی محمدنقوی کی تعریف سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ فقہاء کا طریقہ تحفظی ہے۔ وہ کفرکی لسٹ بناتے ہیں کہ جویہ کرے، وہ کافروہ، کرے توکافر،جبکہ متکلمین کی اپروچ زیادہ مناسب ہے جن کی رائے ہے کہ جو ضروریاتِ دین کا انکارنہ کرے، وہ مسلمان ہوگا۔
ڈاکٹرعبدالرؤف نے کہاکہ میراعلماسے سوال ہے کہ اگرکسی کے اندراجتہادکی صلاحیت ہے توکیاوہ اجتہاد کر سکتا ہے؟ انہوں نے مزیدکہاکہ امت عالمی طورپرپروپیگنڈے کا بھی شکارہے، اس پر بھی ہماری نظرہونی چاہیے۔
سنی تھیولوجی کے چیئرمین مفتی زاہدصاحب نے فرمایاکہ اصولِ دین میں شیعہ وسنی دونوں مشترک ہیں۔ جہاں تک قیاسی مسائل کی بات ہوتی ہے تووہ لازمی نہیں ہوتے، انفرادی ہوتے ہیں۔ البتہ ہمیں مسائل میں تشدد نہیں برتنا چاہیے۔
پروفیسرمبارک علی نے رائے دی کہ تاریخی اسلام میں Rebuildکرنے کی ضرورت ہے۔
مولانااصغرعلی امام مہدی سلفی نے کہاکہ ہم اس کانفرنس کے روحِ رواں راشدشازکی دردمندی کوسمجھیں اوراپنے دل میں یہی درد لے کر جائیں۔
پروفیسرعلی محمدنقوی کی رائے تھی کہ ہمیں اسلامی فکرمیں موجودکثرت کا اعتراف کرتے ہوئے وحدت ملی قائم کرنی چاہیے کیونکہ چودہ سو سال کے تاریخی سفرمیں جوفرقے اورمسالک بن گئے ہیں، نہ توان کوختم کیاجاسکتاہے اورنہ کسی ایک مسلک پر سب کو لایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد زکی کرمانی مدیر’’آیات‘‘ نے طلبہ وطالبات کوخاص طورپر مشورہ دیاکہ ہم کوقرآن پاک سے براہ راست مربوط ہوناچاہیے اوراسی سے اپنے مسائل کا جواب مانگناچاہیے۔
اس سیشن میں برج کورس کے کئی طلبہ وطالبات عائشہ ،آرزوفاطمہ ،روشنی امیر،سرورعالم ،شرافت ندوی، ارشد احمد وغیرہ نے بہت اختصارکے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مترجم قرآن اورکئی کتابوں کے مصنف جناب سکندر احمد کمال اور وکیل خالد احمد نے بھی مختصراًا س موضوع پر گفتگوکی۔
اس سیمینارکی مجموعی اپروچ لکیر سے ہٹ کر اورغیرروایتی اندازمیں سوچنے کی تھی ۔عام سیمیناروں میں لوگ اپنے اپنے پیپرپڑھ کرچلے جاتے ہیں، گھسی پٹی باتیں دہراتے ہیں جن پر کوئی سوال جواب اوربحث ومباحثہ نہیں ہوتا۔اس سیمینارمیں شرکاء اورحاضرین نے کھل کر ہر چیز پر بحث کی۔ یہ توممکن نہیں کہ ایک نشست میں پیچیدہ مسئلے حل ہو جائیں، تاہم اس کا فائدہ یہ ہوگاکہ لوگوں میں غیر روایتی طورپر سوچنے کی اورغوروفکرکرنے کی عاد ت پروان چڑھے گی۔ ایک Rationalاورحقیقت پسندانہ رویہ ترقی پائے گا۔ اِس کانفرنس کی یہی سب سے بڑی دین امت کوہوگی جس کی وہ موجودہ بحرانی دورمیں سب سے زیادہ محتاج ہے۔ضرورت اس کا فولواپ کرنے اوراس قسم کے مذاکرات زیادہ سے زیادہ کرنے کی ہے۔
سانحہ ہائے ارتحال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
- مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبالؒ گزشتہ ماہ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ فرزند اقبال ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی مستقل فکری شناخت بھی رکھتے تھے اور مختلف ملی ودینی مسائل پر اظہار خیال کرتے رہتے تھے۔ ان کی فکر کے بعض زاویوں سے ہمیں بھی اختلاف رہا ہے اور ہمارے درمیان مکالمہ چلتا رہا ہے، لیکن نظریہ پاکستان اور نفاذ اسلام کے حوالے سے ان کے جذبات واحساسات کا اندازہ دو واقعات سے کیا جا سکتا ہے: ایک یہ کہ جب سابق صدر پاکستان اسکندر مرزا نے انھیں کسی قومی منصب کی پیش کش کی تو انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، اس لیے انھیں قوانین کی اسلامائزیشن کے حوالے سے قائم دستوری ادارے کی ذمہ داری دے دی جائے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اور دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جب وہ طالبان کے دورِ حکومت میں چند روز کے لیے افغانستان گئے تو واپسی پر اپنے ان تاثرات کا کھلے بندوں اظہار کیا کہ وہ اسلامی قوانین کے معاشرتی اثرات اور برکات کا خود مشاہدہ کر کے آئے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے پاکستان کے علمی وتجزیاتی ماحول کے علاوہ عدالتی شعبہ میں بھی جج کے طور پر ایک عرصہ خدمات سرانجام دی ہیں۔ راقم الحروف کو مختلف فکری مجالس میں ان کے ساتھ شرکت کا موقع ملا ہے اور اسلام اور پاکستان کے ساتھ ان کی محبت نے ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ - بزرگ اہل حدیث عالم دین، محقق اور مورخ مولانا محمد اسحاق بھٹی ؒ گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ صاحب مطالعہ محقق اور معتدل مزاج مصنف تھے۔ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور کے مدیر بھی رہے ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ اور حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے قافلہ کے آدمی تھے۔ علمی ودینی شخصیات کا تعارف ان کا خصوصی ذوق تھا اور اس حوالے سے ان کی متعدد تصانیف اور سیکڑوں مضامین ان کی یادگار ہیں۔ ان کی وفات سے تحقیق ومطالعہ اور تاریخ وتجزیہ کے ماحول میں جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ قحط الرجال کے اس دور میں علمی دنیا کو بہت شدت کے ساتھ محسوس ہوتا رہے گا۔
- خطیب اسلام مولانا سید عبد المجید شاہ ندیمؒ کا بھی گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ پاکستان میں اہل سنت کے عقائد وحقوق کے تحفظ کی جدوجہد کے ایک اہم راہ نما تھے اور صاحب طرز خطیب تھے۔ کم وبیش نصف صدی تک پاکستان کے طول وعرض اور دیگر ممالک کی فضاؤں میں وہ اپنی سحر انگیز خطابت کا جادو جگاتے رہے ہیں اور انھوں نے ہزاروں لوگوں کی عقیدت ومحبت سمیٹی ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ وابستہ رہے ہیں، جبکہ مجلس تحفظ حقوق اہل سنت پاکستان کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ راقم الحروف کا دوستانہ بلکہ برادرانہ تعلق ہمیشہ قائم رہا ہے اور سیکڑوں مجالس میں رفاقت رہی ہے۔
- سنی بینک، مری کے ایک معروف بزرگ محترم حاجی محمد شعیب گزشتہ دنوں انتقال کر گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ خدا ترس اور عبادت گذار بزرگ تھے۔ سنی بینک میں ان کے گھر کے ساتھ مہمانوں بالخصوص علماء کرام کے لیے ایک مستقل مہمان خانہ تھا جہاں ملک کے بزرگ علماء کرام وقتاً فوقتاً قیام کیا کرتے تھے۔ والد گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ متعدد بار حاجی صاحب مرحوم کے کئی روز تک اپنے رفقاء سمیت مہمان رہے ہیں۔ بہت مہمان نواز اور خدمت گذار بزرگ تھے۔ راقم الحروف بھی متعدد بار ان کی میزبانی سے فیض یاب ہوا ہے۔ ان کا تقاضا ہوتا تھا کہ جب بھی مری کے علاقہ میں حاضری ہو، قیام ان کے ہاں ہو جس کی بعض مواقع پر تعمیل بھی ہوتی رہتی تھی اور وہ بہت دعاؤں سے نوازتے رہے ہیں۔
- جمعیۃ اشاعت التوحید والسنہ پاکستان کے امیر مولانا محمد طیب طاہری کے جواں سال فرزند یمان طیبی گذشتہ دنوں ٹریفک کے ایک حادثے میں شہید ہو گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جواں سال بیٹے کی حادثاتی موت ماں باپ اور اہل خاندان کے لیے جس دہرے صدمے کا باعث ہوتی ہے، اس کی شدت کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں۔ اس صدمہ میں ہم مولانا محمد طیب طاہری اور ان کے خاندان کے ساتھ شریک ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت شہید نوجوان کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور اپنے خاندان کے لیے اجر وذخر بنائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کی حسنات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگذر کریں، ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین ثم آمین۔
ایک سفر کی روداد
محمد بلال فاروقی
25 نومبر کو UNITE) Universal Nexus for Interfaith Trust and Engagement) کے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس برائے مذہبی ہم آہنگی میں شرکت کے لئے اسلام آباد جانا تھا۔صبح نو بجے میں گاڑی لے کر مدرسہ نصرۃ العلوم پہنچا جہاں سے استاد محترم مولانا زاہد الراشدی اور جامعہ میں زیر تعلیم دورہ حدیث کے ایک ساتھی مولانا عبدالمتین عباسی کے ساتھ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے۔ ہماری پہلی منزل انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی تھی جہاں اسلام اور سائنس کے موضوع پہ یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک پروگرام منعقد کیا ہوا تھا۔ مولانا وقاص احمد اس کے روح ورواں تھے۔ دعوۃ فیکلٹی کے سربراہ ڈاکٹر احمد جان ازہری کی صدارت میں پروگرام شروع تھا۔ استاد محترم نے اسلام اور سائنس میں تصادم کے موضوع پر گفتگو کی (جس کا خلاصہ اسی شمارے میں شامل اشاعت ہے)۔
مولانا زاہد الراشدی کے بیان کے بعد ڈاکٹر احمد جان ازہری نے شرکاء اور مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے آفس میں گئے جہاں ڈاکٹر سراج الاسلام حنیف مردان یونیورسٹی سے ملاقات ہوئی۔ یونیورسٹی سے آگے ہمیں اسلام آباد کے سیکٹر جی 10/1 جانا تھا جہاں مولانا محمد رمضان علوی منتظر تھے۔مولانا وقاص احمد ہمارے ہمراہ تھے۔ انہوں نے استاد محترم سے سوال کیا کہ آپ تحریک انصاف کے علماء کنونشن میں گئے تھے جس سے ہمارے لوگوں میں تشویش ہے۔ مولانا نے فرمایا !بھئی ہمیشہ سے یہ اصول ہے کہ جاؤ ہر کسی کے پاس، لیکن بات اپنی کرو۔ لوگوں نے میرا وہاں جانا تو دیکھا لیکن میں نے جو باتیں وہاں کیں، وہ نہیں سنیں۔
مولانا محمد رمضان علوی کے ہاں پہنچے تو وہاں ورلڈ اسلامک فورم کے رابطہ سیکرٹری اور ابو الحسن علی ندوی اکیڈمی کے چیئر مین جناب جعفر بھٹی بھی موجود تھے جو بین الاقوامی مذاہب کانفرنس کے لیے برطانیہ سے تشریف لائے تھے۔ نماز ظہر ادا کرنے کے بعد مولانا رمضان علوی ،جناب جعفر بھٹی ،مولانا وقاص احمد وغیرہم کے ساتھ عصر تک نشست رہی۔ مختلف موضوعات پہ گفتگو ہوئی۔ استاد محترم نے ہمارے اور یورپ کے تحقیقی ذوق کا تقابل کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دفعہ میں یو کے میں تھا تو وہاں میں نے امام نسائی کی کتاب "کتاب المصاحف" دیکھی۔ نیچے ناشر کا نام چرچ آف انگلینڈ لکھا تھا۔ میں حیران رہ گیا کہ امام نسائی کی کتاب کا ناشر چرچ آف انگلینڈ۔ معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ یہ کتاب مسیحی پادریوں کو نصاب میں پڑھائی جاتی ہے، اس لیے کہ قرآن مجید میں لفظی اختلاف ثابت کیا جا سکے، جبکہ ہمارے ہاں کے بہت سے مدرسین کو بھی اس کتاب کا علم نہ ہوگا۔
مولانا وقاص احمد نے پوچھا کہ اسی طرح کی ایک کتاب کا ذکر آپ نے تحریک ریشمی رومال کے حوالے سے بھی کیا تھا۔ مولانا نے تفصیل بتائی کہ میں نے لندن میں خبر پڑھی تھی کہ جرمن وزارت خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری اولف شمل کی مرتب کردہ سرکاری دستاویزات کتابی صورت میں شائع ہوئی ہیں۔تحریک ریشمی رومال برطانوی سی آئی ڈی میں "سلک لیٹرز سازش کیس" کہلاتی ہے جبکہ جرمن انٹیلی جنس اس کو " برلن پلان'' کے نام سے جانتی ہے، کیونکہ بنیادی پلان تو برلن میں بیٹھ کے بنایا گیا تھا۔یہ کتاب جرمن زبان میں ہے، لیکن مل نہیں رہی۔ دو تین دوستوں کے ذمہ لگایا، لیکن نہیں ملی۔اس کتاب کی خبر لندن کے روزنامہ جنگ میں چھپی تھی۔اس خبر کو ہم نے الشریعہ میں شائع کیا تھا۔ہم اس تحریک کے آدمی ہیں۔ مجھے اس رپورٹ سے پتہ چلا کہ جاپان بھی اس پلان میں شریک تھا اور جاپان نے قبائلی علاقوں میں ٹریننگ کیمپ قائم کیا تھا اور ایک جاپانی نے یہاں آکر ٹریننگ دی۔ استاد جی نے فرمایا کہ ہمارا ذوق نہیں ہے۔ ہم شیخ الہند کانفرنس میں گئے تھے۔ وہاں میں نے مولانا محمود مدنی کو بھی کہا ، مولانا سلمان بجنوری کو بھی کہا، لیکن بات بنی نہیں۔
اسی سلسلے میں بات کرتے ہوئے فرمایا کہ جاپان پر اگر ایٹم بم نہ گرایا جاتا تو جاپان ہرگز ہتھیار نہ ڈالتا۔مجھے یہ ڈر لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جب یہ دیکھیں گے کہ ان کا بس نہیں چل رہا تو یہاں بھی وہ ایٹم بم گرادیں گے۔(29 نومبر کی تاریخ میں روسی سیاستد ان نے روسی صدر کو ترکی پہ ایٹم بم گرانے کی تجویز دی ہے۔بحوالہ خبر اردو پوائنٹ نیوز)
جعفر بھٹی صاحب نے سوال کیا کہ مولانا! آپ یورپ میں مسلمانوں کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟ مولانا نے کہا کہ ٹکراؤ نظر آرہا ہے۔ جو کچھ یہ مڈل ایسٹ میں کررہے ہیں، اس کا ردعمل تو آنا ہے اور ردعمل وہیں آئے گا جہاں آزادی ہوگی۔ جعفر صاحب نے برطانوی اخبار ڈیلی سن کی رپورٹ کا تذکرہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ یوکے میں مقیم مسلمانوں میں سے ہر پانچواں مسلمان دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے۔
جعفر بھائی نے پوچھا کہ جان کائزر کی کتاب کے اردو ترجمہ پر آپ کا مقدمہ ہے، لیکن اس پہ مترجم کا نام نہیں ہے۔استاد جی نے فرمایا، مجھے بھی معلوم نہیں، لیکن مترجم کا نام چھپنا چاہیے تھا۔ میں نے عرض کیا، الجزائری صاحب کے حوالے سے ہمارے ہاں کے اشکالات اور ہیں جبکہ عرب کے کچھ علماء ان پر وحدۃ الوجود کے حوالے سے اشکالات کرتے ہیں۔ استاد جی نے تصدیق کی کہ سلفی علماء اس وجہ سے انہیں ملحد کہتے ہیں۔ اس پراستاد جی نے واقعہ سنایا کہ مجھے اہل حدیث عالم دین نے سوال کیا کہ وحدۃ الوجود کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جو مولانا میاں نذیر حسین دہلوی کا ہے، وہی میرا نظریہ ہے۔جو نواب صدیق حسن خان صاحب کا نظریہ ہے، وہی میرا ہے۔ کہنے لگا، انہوں نے بھی یہ نظریہ اپنایا ہے؟ میں نے کہا، ہاں بھئی۔ پڑھ لو جا کر۔اس کے بعد دوبارہ اس نے نہیں پوچھا۔ حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی نے اس حوالے سے بڑے مزے کی بات کہی۔کسی نے کہا کہ حضرت مجدد الف ثانی نے وحدۃ الوجود کے بارے میں یہ یہ باتیں کی ہیں۔صوفی صاحب نے فرمایا کہ بھئی جو نہیں سمجھے گا، وہ یہی کہے گا۔
جعفر بھائی نے مولانا کو بتایا کہ میرا ارادہ ہے کہ مغرب میں جو مدارس ہیں، ان پہ کام کروں کہ ان کا نصاب و نظام کیا ہے۔ ہمارے ہاں کے مدارس پرتو بات ہوتی ہے کہ ان کے نصاب کو بدلا جائے اور نظام کو درست کیا جائے لیکن مغرب میں جو مدارس ہیں، ان پر کام کیا جائے۔استاد محترم نے فرمایا کہ بہت اچھی بات ہے، اس پر کام ہونا چاہیے۔
مولانا محمد رمضان علوی کی خواہش پر مولانا نے نماز عصر کے بعد مختصر بیان فرمایا اور صحابہ کرام کا ایک واقعہ بیان کیا کہ صحابہ کی ایک جماعت جہاد کے لیے جارہی تھی۔دشمن کے علاقہ میں تھی کہ انہیں ایک چرواہا نظر آیا۔ مجاہدین نے یہ سمجھا کہ یہ کافر ہے۔ اسی اثنا میں اس نے انہیں السلام علیکم کہا۔صحابہ سمجھے کہ یہ سلام کر کے جان بچانا چاہتا ہے۔یہ سمجھ کر انہوں نے اس چرواہے کو قتل کردیا۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی آیات نازل کیں۔
ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقآی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا، تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا، فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃ’‘ (النساء، آیت ۹۴)
’’اے ایمان والو ! جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو (دشمن کو پہچاننے کے لئے ) اچھی طرح تحقیق کرلیا کرواور جو شخص تمہیں سلام کرے ، اس کو دنیوی سامان کی خاطر فورا یہ نہ کہہ دو کہ تم مومن نہیں۔اللہ کے پاس (تمہارے لیے ) بہت مال غنیمت ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے اس بات پر ڈانٹا کہ تحقیق کی بغیر ایک آدمی کو کیوں قتل کردیا۔
یہ بات میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ آج ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا ہے کہ کام پہلے کرگزرتے ہیں اور تحقیق بہت بعد میں جا کر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک چیز سنی، موبائل میں محفوظ کی، آگے دس بیس بندوں کو بھیجی۔ انہوں نے آگے دس بیس بندوں کو بھیجی۔ اس کے نتیجے میں اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے اور کوئی نقصان وغیرہ ہوجاتا ہے، تب جاکر پتہ چلتا ہے کہ وہ بات تو غلط تھی۔وہ میسج فیک تھا۔ آج کل اس پہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔آج کل یہ وبا پھیل چکی ہے۔ میسجنگ ، سوشل میڈیا وغیرہ پر سنی سنائی بات کو پھیلا دیا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں اچھا خاصا نقصان ہوجاتا ہے۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ بات غلط تھی اور ہمیں اس پر شرمندگی ہوتی ہے۔تو اس بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ پہلے تحقیق کرلو۔ جب اچھی طرح بات واضح ہوجائے، تب کوئی فیصلہ کرو۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
دعا کے بعد جمعیت علماء اسلا م، اسلام آباد کے امیر اور بزرگ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب استادجی سے ملے اور اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ان کے گھر کی جانب چل پڑے۔راستے میں جعفر بھائی سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ ابوالحسن علی ندوی اکادمی کی جانب سے مفکر اسلام مولانا علی میاں کے افکارو خدمات پر مقالات لکھوائے جائیں۔ایک مقابلہ مضمون نویسی تو شروع ہے، لیکن تحقیقی مقالہ جات جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے ہوں، لکھوائے جائیں۔ میں نے ایک تجویز دی کہ ہمارے مدارس کے طلباء مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی سے صرف القراء ۃ الراشدہ اور قصص النبیین کے حوالے سے واقف ہیں۔ اگر ممکن ہو تو آپ مختلف مدارس میں دو دن یا تین دن کی ورکشاپ رکھیں اور وہاں حضرت کی خدمات و افکار کا کچھ تعارف ان کے سامنے رکھیں۔جب یہ چیز سامنے ہوگی تو اس صورت میں آپ کو مولانا علی میاں پر کام کرنے والے ملیں گے۔
مولانا عبد الروف صاحب کے گھر پہنچے۔ استاد جی نے ان کا احوال پوچھا تو انہوں نے کہا جی بس ہمارا ہاتھ اور زبان سلامت رہے، کام چل جاتا ہے۔اس پہ استاد جی نے حضرت ابی ابن کعبؓ کا واقعہ سنایا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک کہ ’’آدمی کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ اس کے گناہوں کے لیے کفارہ بنتی ہے‘‘ سنا تو دعا کی کہ یا اللہ مجھے ہمیشہ اس حد تک بخار میں مبتلا رکھیے کہ مجھ سے فرض نماز، رمضان کے روزے، حج بیت اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ نہ چھوٹے۔اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی کہ اور ان کو ہمیشہ اندورنی طورپہ بخار رہا کرتا تھا۔
اسی گفتگو کے دوران استاد جی نے امام نسائی کی کتاب المصاحف کا واقعہ سنایا اور ساتھ ہی ایک اور واقعہ بھی سنایا کہ جب کچھ مسلمان خلاباز خلا میں جانے لگے تو وہاں نماز کے بارے میں سوال ہوا تو اس کا جواب سب سے پہلے انٹرنیٹ پر ایک یہودی نے دیا کہ خلا باز کا حکم معذور جیسا ہے، جیسے ممکن ہو پڑھ لے۔ اس یہودی نے البحرالرائق کا حوالہ دیا۔
اس مختصر نشست کے بعد ہم یونائٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی مذاہب کانفرنس کے لیے روانہ ہوئے اور مغرب کی نماز جناح کنونشن سینٹر میں ادا کی۔ نماز کے بعد کی نشست میں جعفر بھائی نے سوال کیا کہ مدارس کی کریم (یعنی ہونہار اور قابل علماء) کہاں جاتی ہے۔استاد محترم نے جواب دیا کہ ڈاکٹر مشیر الحق مرحوم نے بڑا دلچسپ تجزیہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے فضلاء کی چار قسمیں ہیں۔ایک وہ جو مدارس کے مزاج کے ہوتے ہیں، وہ مدارس میں کھپ جاتے ہیں۔اس کے بعد دوسراطبقہ بیرون ملک یونیورسٹیز میں اپنا آموختہ دوہرانے کا معقول وظیفہ پاتا ہے۔ تیسرا طبقہ کوشش کرتا ہے کہ وہ یونیورسٹی، کالج یا اسکول کہیں ایڈجسٹ ہو کر کام کرے۔اس کے بعد چوتھا طبقہ مسجد کی امامت وغیرہ کی جانب رخ کرتے ہیں۔
اسی دوران ایک فون پہ کسی نے مسئلہ پوچھا تو استاد محترم نے بتایا کہ جائزہے لیکن علماء کو احتیاط کرنی چاہیے۔اس پر یہ واقعہ سنایا کہ میں اور مولانا منظور احمد چنیوٹی ہم اکٹھے سفر کرتے تھے تو جہاز میں نماز کا مسئلہ ہوتا تھا۔میں قضا کر لیا کرتا تھا۔ مولانا پڑھ لیتے تھے اور بعد میں قضاء کرلیتے تھے۔ میں نے ایک دن والد صاحب سے پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ نے نہیں پڑھنی۔ میں نے پوچھا، کیا وجہ ہے ؟ جواب دیا، آپ تو دوہرا لو گے لیکن آپ اچھے خاصے مولوی لگتے ہو۔ آپ کو دیکھ کر جو پڑھے گا، وہ نہیں دوہرائے گا۔ اس لیے میرا جہاز میں پڑھنے کا معمول نہیں ہے۔
اس کے بعد استاد محترم نے بین الاقوامی مذاہب کانفرنس سے خطاب کیا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ عدم برداشت، شدت پسندی میں ایک کردار مذہب کا بھی ہے، لیکن کیا انسانی معاشرہ کے باقی مسائل بھی مذہب کے پیدا کردہ ہیں؟کیا کرپشن، اباحیت، طاقت کی بالادستی، فحاشی، عریانی اور خاندانی نظام کا بکھرنا، کیا یہ بھی مذہب کے پیداکردہ ہیں؟ میرے خیال میں ہمیں توازن قائم کرنا ہوگا۔مذہب کا غلط استعمال معاشرے میں مسائل پیدا کررہا ہے، لیکن مذہب سے انحراف اس سے زیادہ مسائل پیدا کررہا ہے۔ہمیں بات حقیقت پسندی کی بنیاد پر کرنا ہوگی۔ جتنے مسائل مذہب نے پیدا کیے ہیں، مذہب سے بغاوت، مذہب سے انحراف اور مذہب سے بے پروائی نے اس سے زیادہ مسائل پیدا کیے ہیں۔ اس لیے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم مذاہب کے نام پر جمع ہیں، ہمیں ان مسائل کا مذاہب کی بنیاد پر جائزہ لینا ہوگا اور میں آج کی کانفرنس سے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ ہمیں انسانی سوسائٹی کو درپیش عملی مسائل، پریکٹیکل ایشوز پر مذاہب کی مشترکہ تعلیمات سے آج کے اسلوب میں ان کا حل پیش کرنا ہوگا۔ مذہب کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے لوگوں کو آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کی دعوت دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
خطاب کے بعد استاد محترم نے چیئرمین یونائٹ مفتی ابو ہریرہ محی الدین صاحب سے یادگاری شیلڈ وصول کی۔ جعفر بھائی اور مولانا محمد ادریس صاحب نے ہمیں الوداع کہا اور ہم واپس گوجرانوالہ کی جانب روانہ ہوگئے۔
فروری ۲۰۱۶ء
دولت اسلامیہ اور قیام خلافت : ایک سنگین مغالطہ
محمد عمار خان ناصر
دولت اسلامیہ (داعش) کے وابستگان کا یہ کہنا ہے کہ اس کے سربراہ اس وقت شرعی لحاظ سے سارے عالم اسلام کے ’’خلیفہ ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی اطاعت قبول کرنا تمام مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔ اس ضمن میں ان حضرات کی طرف سے پیش کردہ استدلال کے مقدمات حسب ذیل ہیں:
۱۔ خلافت کا قیام مسلمانوں پر فرض ہے اور اس کا اہتمام نہ کرنے کی صورت میں ساری امت گناہ گار قرار پاتی ہے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے اب تک عالم اسلام اس فریضے کا تارک تھا، لیکن اب دولت اسلامیہ کی صورت میں اس فریضے کی ادائیگی کا اہتمام کر دیا گیا ہے، اس لیے اس کی اطاعت قبول کرنا مسلمانوں پر شرعاً لازم ہے۔
۲۔ اس خلافت کا قیام شرعی اصول کے تحت یعنی ارباب حل وعقد (جس سے مراد عراق وشام کی جہادی تنظیموں کے ذمہ داران ہیں) کے مشورے سے ہوا ہے اور ان کی بیعت، خلافت کے انعقاد کے لیے کافی ہے، کیونکہ فقہاء کی تصریح کے مطابق ’’خلیفہ‘‘ کے انتخاب پر سارے عالم اسلام کے ارباب حل وعقد کا اتفاق نہ ضروری ہے اور نہ عملاً ممکن ہے۔
۳۔ بالفرض یہ کہا جائے کہ دولت اسلامیہ مشورے کے بجائے طاقت کے زور پر قائم ہوئی ہے تو بھی تغلب اور تسلط کے ذریعے سے قائم ہونے والی حکومت جب اپنی رِٹ قائم کر لے اور لوگ اس کی بیعت کر لیں تو شرعی طور پر اس کا اقتدار قائم ہو جاتا اور اس کی اطاعت لازم ٹھہرتی ہے۔
ہمارے نزدیک یہ سارا استدلال سرتا سر کج فہمی اور مغالطوں پر مبنی ہے۔ آئیے، اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔
پہلے نکتے کو دیکھیے:
فقہاء نے جس مفہوم میں خلافت کے قیام کو فرض قرار دیا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے اجتماعی معاملات کی انجام دہی کے لیے ایک باقاعدہ نظام حکومت قائم کریں اور اس کے تحت زندگی بسر کریں، کیونکہ شریعت نے بحیثیت جماعت مسلمانوں کو جو احکام دیے ہیں، ان میں سے بہت سے احکام پر عمل درآمد قیام حکومت پر موقوف ہے جبکہ افراد اپنی انفرادی حیثیت میں ان پر عمل نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے اگر مسلمان کسی علاقے میں آزاد اور خود مختار ہوں اور اس کے باوجود اپنا کوئی نظم اجتماعی قائم نہ کریں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی اجتماعی زندگی میں شریعت کے بہت سے احکام پر عمل نہیں کر سکیں گے اور یوں ایک شرعی فریضے کے تارک اور گناہ گار قرار پائیں گے۔ فقہاء اسی کو ’’نصب امام‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی مسلمانوں پر اپنا کوئی حکمران منتخب کرنا لازم ہے جو ان کے اجتماعی معاملات کی انجام دہی کی ذمہ داری ادا کر سکے۔
اگر کسی علاقے کے مسلمان اس کا اہتمام کر لیں تو وہ اس فرض کی ادائیگی سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں اور انھیں شریعت کے ایک فرض کا تارک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ حکمرانی کے لیے کسی نااہل کا انتخاب کر لیں یا کوئی نااہل ازخود طاقت کے زور پر ان پر مسلط ہو جائے یا ارباب اقتدار اپنے اوپر عائد ہونے والی شرعی ذمہ داریوں کو کماحقہ انجام نہ دیں، لیکن ان سب خامیوں کے باوجود اگر مسلمانوں نے اپنا کوئی نظم حکومت قائم کر لیا ہو اور وہ ایک منظم گروہ کے طور پر زندگی بسر کر رہے ہوں تو فقہاء کے زاویہ نظر سے ان پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ ’’نصب امام‘‘ کے شرعی فریضے کے تارک اور گناہ گار ہیں۔ وہ حسب استطاعت نظام حکومت کی اصلاح کے لیے کوشش اور جدوجہد کے تو مکلف ہوں گے، لیکن شریعت اس صورت حال میں انھیں اس بات کا مجرم قرار نہیں دیتی کہ انھوں نے اصل حکم یعنی ’’نصب امام‘‘ پر ہی عمل نہیں کیا۔
عصر حاضر کے معروف فقیہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اس نکتے کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
’’تمام فقہاء اور اہل عقائد اس بات پر متفق ہیں کہ امام کا نصب کرنا مسلمانوں پر واجب ہے، یعنی مسلمانوں کی پوری جماعت کے ذمہ داجب ہے کہ وہ کسی کو اپنا امام بنائیں، ایسے شخص کو امام بنائیں جو ان صفات کا حامل ہو جس کا حاصل یہ ہے کہ نصب الامام ایک طرح سے فرض کفایہ ہوا۔ لیکن یہاں یہ فرق سمجھ لیجیے کہ نصب الامام کا واجب ہونا، اس کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کا کوئی سربراہ نہ ہو، یعنی مسلمان بغیر کسی سربراہ کے زندگی گزار رہے ہوں۔ کوئی ان کا حاکم نہ ہو، کوئی ان کا سربراہ نہ ہو۔ اس وقت میں مسلمانوں میں سے کسی ایک کو امام بنانا واجب ہے۔ لیکن اگر کوئی ان کا سربراہ بنا ہوا ہے، خواہ زبردستی یا تغلب سے بنا ہو، اور وہ امام صفات مطلوبہ کا حامل نہ ہو، جیسا کہ اس وقت اسلامی ممالک میں سربراہ موجود ہیں لیکن وہ ان صفات کے حامل نہیں ہیں جو سربراہ کے لیے مطلوب ہیں تو اس وقت میں مسلمانوں کا کیا کام ہونا چاہیے؟ اس کا تعلق اس مسئلے سے ہے کہ موجودہ سربراہ کو معزول کر کے کسی صحیح سربراہ کو لانے کا کیا طریق کار ہونا چاہیے۔‘‘ (’’اسلام اور سیاسی نظریات‘‘، ص ۲۲۶)
اس وضاحت کی روشنی میں دولت اسلامیہ کے اس دعوے کا جائزہ لیجیے کہ ’’دولت اسلامیہ کے قیام سے پہلے تک پورا عالم اسلام ’’نصب امام‘‘ کے فریضے کا اجتماعی طور پر تارک تھا‘‘ تو صاف معلوم ہوگا کہ اس میں ایک حقیقت واقعہ کی نفی کی جا رہی ہے، اس لیے کہ عالم اسلام کا کوئی بھی خطہ ایسا نہیں جہاں مسلمان اپنے آزاد علاقوں میں ’’نصب امام‘‘ یعنی کسی نظم اجتماعی کے قیام کے بغیر زندگی بسر کر رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اس دعوے کا جواز پیدا کرنے کے لیے ان حضرات کو اس کے ساتھ ایک دوسرا مقدمہ شامل کرنا پڑتا ہے، یعنی یہ کہ اس وقت پورے عالم اسلام میں کہیں بھی کوئی جائز شرعی حکومت موجود نہیں، کیونکہ تمام مسلمان حکمران فلاں اور فلاں وجوہ سے کافر اور مرتد ہو چکے ہیں۔ اس دوسرے دعوے کا الگ سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ یہاں صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ فقہاء کی سند پر یہ دعویٰ کرنا کہ مسلمانوں کی اکثریت اس وقت ایک بنیادی شرعی فریضے یعنی نصب امام کی تارک ہے، فقہاء کے نقطہ نظر کی بالکل غلط ترجمانی ہے اور اس کی کوئی علمی یا شرعی بنیاد موجود نہیں۔
دوسرے اور تیسرے نکتے کے متعلق گزارش یہ ہے کہ علماء وفقہاء جب انعقادِ خلافت کے لیے بعض ارباب حل وعقد کے اتفاق کو کافی تصور کرتے اور سب کے اتفاق واجماع کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں یا غلبہ وتسلط کے ذریعے سے قائم ہونے والی حکومت کو بالفعل ایک قانونی حکومت کا درجہ دیتے ہیں تو ان کے پیش نظر اس اصول کا اطلاق کسی مخصوص مسلم ریاست یا سلطنت کے عملی دائرۂ اختیار کے اندر ہوتا ہے نہ کہ علی الاطلاق سارے عالم اسلام کے مسلمانوں پر۔ اگر عالم اسلام کے سارے مسلمان، بالفرض، کسی وقت ایک ہی مرکزی حکومت کے تحت مجتمع ہوں تو فقہاء کے بیان کردہ مذکورہ اصول کا دائرۂ اطلاق سارا عالم اسلام ہوگا، لیکن اگر کسی وقت سیاسی حالات اس سے مختلف ہوں اور مسلمان مختلف علاقوں میں اپنی اپنی جداگانہ حکومتیں قائم کر کے ان کے تحت زندگی بسر کر رہے ہوں تو پھر اس اصول کا اطلاق ہر حکومت یا سلطنت کے اپنے مخصوص دائرۂ اختیار اور اس کی عمل داری میں واقع علاقوں کے اندر ہوگا۔
ہم جانتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے ایک مخصوص مرحلے پر جب اندلس میں مسلمانوں کی ایک مستقل خلافت قائم ہو گئی جس کا مرکزی خلافت کے ساتھ کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا تو اس کے بعد اہل اندلس نے حکمرانی کے تسلسل اور انتقال اقتدار کے لیے اپنا سیاسی نظام بھی الگ وضع کیا اور اس علاقے کے مسلمان آئندہ تاریخ میں مرکزی خلافت سے آزاد رہ کر اپنے سیاسی معاملات کی انجام دہی کرتے رہے۔ تاریخ اسلام میں اندلس کے فقہاء نے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ جب بغداد میں ایک خلیفہ پہلے سے موجود ہے تو اس سے ہٹ کر اندلس میں ایک دوسرا خلیفہ کیوں حکومت کر رہا ہے۔ دونوں حکومتوں کے اپنے اپنے دار الحکومت اور اپنے اپنے ارباب حل وعقد تھے اور دونوں سلطنتوں میں خلیفہ کے انتخاب کے لیے مقامی ارباب حل وعقد کا اتفاق اسی علاقے کے لیے اور انھی جغرافیائی حدود میں موثر مانا جاتا تھا جن میں ان میں سے ہر ایک سلطنت عملاً قائم تھی۔ تاریخ میں کسی بھی مرحلے پر یہ بحث نہیں اٹھائی گئی کہ بغداد کے ارباب حل وعقد نے جس خلیفہ کے انتخاب پر صاد کیا ہے، اندلس کے مسلمان بھی اسی کی اطاعت قبول کرنے کے پابند ہیں یا اس کے برعکس یہ کہ اندلس میں ارباب حل وعقد نے جس حکمران کی بیعت کر لی ہے، باقی عالم اسلام کے مسلمانوں پر بھی اسی کی بیعت کرنا واجب ہے۔
یہی معاملہ عالم اسلام کے ان دوسرے خطوں کا بھی رہا ہے جہاں تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں نے مرکزی خلافت سے الگ اپنا نظام حکمرانی قائم کیا۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں مختلف مسلمان حکمرانوں کے جوازِ حکمرانی کو کبھی مرکزی خلافت کے ساتھ وابستہ نہیں کیا گیا اور نہ یہ تصور ہی پیش کیا گیا کہ ہندوستان کی مسلم حکومتوں کو لازمی طور پر بغداد کی مرکزی حکومت کے تابع ہونا چاہیے یا یہاں کے حکمران کا تقرر مرکزی خلافت کی طرف سے کیا جانا چاہیے۔ یہاں یکے بعد دیگرے مختلف مسلمان خاندان آتے رہے اور اپنے زورِ بازو سے جو بھی اپنا اقتدار جن زمینی حدود میں قائم کرنے میں اور مقامی ارباب حل وعقد کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا، اس کی حکمرانی کو قبول کر لیا گیا۔ یہی صورت حال ہمیں عالم اسلام کے دور دراز خطوں مثلاً انڈونیشیا اور ملائشیا وغیرہ کی تاریخ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
اس سے واضح ہے کہ فقہاء جب ایک علاقے کے ارباب حل وعقد کے اتفاق، یا طاقت کے زور پر اپنا تسلط قائم کر لینے کی بنیاد پر کسی حکمران کی حکومت کو منعقد قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے تمام علاقوں کے ارباب حل وعقد کے اتفاق کو ضروری قرار نہیں دیتے تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ کوئی مسلم ریاست یا سلطنت جن جغرافیائی حدود میں قائم ہے، ان کے اندر یہ فیصلہ نافذ تصور کیا جائے گا اور مرکز حکومت یا دار الخلافہ میں موجود ارباب حل وعقد جس حکمران کے انتخاب پر متفق ہو جائیں، اس کی اطاعت اس سلطنت کے دائرۂ اختیار اور زمینی حدود میں بسنے والے مسلمانوں پر لازم ہو جائے گی۔ اس اصول کو مذکورہ قید سے آزاد کرتے ہوئے علی الاطلاق بیان کرنا نہ تو عقل عام کی رو سے درست ہے اور نہ یہ فقہاء کی مراد اور منشا کی صحیح ترجمانی ہوگی، کیونکہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ خود مختار مسلم ریاستوں کے جواز کی نہ تو علماء وفقہاء نے عملاً کبھی نفی کی ہے اور نہ دو الگ الگ سلطنتوں کے سیاسی معاملات کو گڈ مڈ کرتے ہوئے ایک سلطنت کے سیاسی فیصلوں کی بنیاد پر دوسری سلطنت کے سیاسی معاملات میں مداخلت کو سند جواز دی ہے۔
اس وضاحت کی روشنی میں اب دیکھیے، یہ ایک حقیقت ہے کہ عالم اسلام اس وقت ساٹھ کے قریب الگ الگ اور خود مختار مسلم ریاستوں میں تقسیم ہے جن میں سے ہر ملک کے اپنے جغرافیائی حدود متعین ہیں اور ہر ملک کے باشندوں نے اپنے اپنے حالات کے لحاظ سے اپنے سیاسی معاملات کی انجام دہی کا کوئی نہ کوئی نظام وضع کررکھا ہے۔ یہ تمام مسلمان ملک باہمی معاہدات میں بندھے ہوئے ہیں جن کی رو سے ہر ملک کے ارباب حل وعقد جو بھی فیصلے کرتے ہیں، ان کا تعلق اسی ملک کے معاملات سے ہوتا ہے اور کوئی بھی ملک اپنے سیاسی دائرۂ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے دوسرے ملک کے معاملات میں دخل اندازی کرنے یا ان پر اپنے سیاسی فیصلوں کی پابندی لازم کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس وجہ سے اگر عراق اور شام کے بعض علاقوں میں کسی جماعت نے مفروضہ طور پر وہاں کے ارباب حل وعقد کے مشورے سے یا طاقت کے زور پر اپنا تسلط قائم کر کے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا ہے، اسے بالفرض ایک جائز حکومت تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس کا قانونی جواز اور دائرۂ اختیار اس علاقے تک محدود ہے جہاں اس نے بالفعل اپنی رِٹ قائم کر رکھی ہے۔ اس کی طرف سے یا اس کے وابستگان کی طرف سے عالم اسلام کے باقی مسلمانوں سے یہ مطالبہ کہ وہ اپنی اطاعت اسی کے ساتھ وابستہ کر لیں اور خاص طور پر یہ کہ ایسا کرنا ان کا شرعی اور دینی فریضہ ہے، کسی بھی شرعی یا قانونی یا اخلاقی اصول کی رو سے کوئی معنی نہیں رکھتا۔
عالم اسلام کی سیاسی وحدت اپنی جگہ بڑی اہمیت کی حامل ہے، لیکن اس کا راستہ یہ نہیں کہ موجودہ آزاد اور خود مختار مسلم حکومتوں کے جواز کی نفی کی جائے اور قدیم شہنشاہیت کے طریقے پر پورے عالم اسلام کو کسی ایک حکمران کے زیر حکمرانی متحد کرنے کی کوشش کی جائے۔ تاریخ وتہذیب کے ارتقا کے اس مرحلے پر ایسی کوششیں پتھر سے سر پھوڑنے کے مترادف تو ہوں گی ہی، اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں اتحاد واتفاق کے بجائے افتراق وانتشار اور باہمی خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے کا بھی اس سے بڑھ کر تیر بہدف نسخہ کوئی اور نہیں ہوگا۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۷۵) سعر کا مطلب
قرآن مجید میں جہنم کے عذاب کے لیے لفظ سعیر متعدد مقامات پر آیا ہے، البتہ سورہ قمر میں دو جگہ لفظ سعر آیا ہے، اور دونوں ہی جگہ یہ لفظ ضلال کے ساتھ آیا ہے۔ مترجمین ومفسرین میں اس پر اختلاف ہوگیا کہ ان دونوں مقامات پر سعر کا کیا مطلب لیا جائے، کیونکہ لغت کے لحاظ سے سعر سعیر کی جمع بھی ہوسکتا ہے، اور واحد کے صیغے میں بطور مصدر جنون کا ہم معنی بھی ہوتا ہے ہم ذیل کی سطور میں دونوں آیتوں کے مختلف ترجمے پیش کریں گے۔
(۱) کَذَّبَتْ ثَمُودُ بِالنُّذُرِ۔ فَقَالُوا أَبَشَراً مِّنَّا وَاحِداً نَّتَّبِعُہُ إِنَّا إِذاً لَّفِیْ ضَلَالٍ وَسُعُرٍ۔ (القمر: ۲۳،۲۴)
’’ثمود نے بھی انذار کی تکذیب کی، سو انھوں نے کہا کیا ہم اپنے ہی اندر کے ایک بشر کی پیروی کریں گے؟ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم کھلی گمراہی اور جہنم میں پڑے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
یہ تو پوری آیت کا ترجمہ ہے، صرف (إِنَّا إِذاً لَّفِیْ ضَلَالٍ وَسُعُرٍ) کے مزید کچھ ترجمے بھی ملاحظہ ہوں:
’’تحقیق ہم اس وقت البتہ بیچ گمراہی کے ہیں اور جنون کے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
تو تو ہم غلطی میں پڑے اور سودا میں ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’تو اس صورت میں ہم بڑی غلطی اور (بلکہ) جنون میں پڑجاویں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
(۲) إِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ ضَلَالٍ وَسُعُرٍ۔ (القمر: ۴۷،۴۸)
’’بے شک مجرمین گمراہی میں ہیں اور دوزخ میں پڑیں گے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
’’تحقیق گناہ گار بیچ گمراہی کے اور جلنے کے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’جو لوگ گناہ گار ہیں غلطی میں ہیں اور سودا میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’یہ مجرمین بڑی غلطی اور بے عقلی میں ہیں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
توجہ طلب بات یہ ہے کہ شاہ رفیع الدین نے پہلے مقام پر جنون اور دوسرے مقام پر جلنا ترجمہ کیا ہے، اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ تفسیر جلالین میں بھی پہلے مقام پر سُعُرٍ کا مطلب الجنون اور دوسرے مقام پرالنار بتایا گیا ہے۔ تاہم خود تفسیر جلالین میں یہ فرق کیوں کیا گیا اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، اسلوب کی مکمل یکسانیت کا تقاضا ہے کہ دونوں جگہ ایک ہی مفہوم مراد ہو، اور اتنا بڑا فرق نہ ہو۔
سیاق کو دیکھیں تو ضَلَال کے ساتھ سُعُرٍ کے تذکرے سے معلوم ہوتا ہے کہ سُعُرٍ سے مراد دنیا میں پیش آنے والی کوئی حالت ہے، اورمعنوی لحاظ سے بھی ضَلَال کی مناسبت سے جنون کا مفہوم لینا ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، سورہ قمر کے مذکورہ دونوں مقاموں میں سے پہلے مقام پر سُعُرٍ سے مراد جہنم اس لیے نہیں لے سکتے کیونکہ رسول کی تکذیب کرنے والی قوم ثمود کا آخرت اور جنت وجہنم پر ایمان ہی ثابت نہیں ہے، پھر وہ کیسے کہیں گے کہ ایسا کرکے ہم جہنم میں جائیں گے؟ اسی طرح دوسری آیت میں جہنم کا تذکرہ جس طرح اس کے بعد والی آیت میں آرہا ہے اس سے بھی قرین قیاس یہی لگتا ہے کہ اس سُعُرٍ سے مراد دنیا کی کوئی حالت ہے۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جہنم کے لیے جتنے بھی نام قرآن مجید میں آئے ہیں، وہ سب واحد کے صیغے سے آئے ہیں، کوئی جمع کے صیغے میں کہیں نہیں آیا، جبکہ جنت کا ذکر زیادہ تر جمع کے صیغے کے ساتھ آیا ہے۔ خود لفظ سعیر جہاں بھی آیا ہے، واحد کے صیغے میں آیا ہے، اس لیے ان دونوں جگہوں پر سُعُرٍ کو سعیر کی جمع ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جبکہ دوسرے قرائن بھی اس لفظ کو جنون کے معنی میں لینے کے حق میں ہوں۔
(۷۶) باء برائے سبب اور باء بطور صلہ میں اشتباہ
لفظ (بما) کبھی سبب کو بیان کرتا ہے تو کبھی محض صلہ کے طور پر آتا ہے، قرآن مجید میں دونوں اسلوب کثرت سے آئے ہیں، جیسے صلہ کی مثال ہے:
والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ۔ (البقرۃ: ۴)
اور سبب کی مثال ہے:
وَلَہُم عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ۔ (البقرۃ: ۱۰)
پہلی آیت میں (ب) یؤمنون کا صلہ ہے اور( ما) موصولہ ہے، جبکہ دوسری آیت میں (ب) عذاب کا سبب بیان کرنے کے لیے ہے اور( ما) مصدریہ ہے۔
لیکن بعض مقامات پر مترجمین کو اشتباہ ہوجاتا ہے اور (بما) سے ان کا ذہن سبب کی طرف چلاجاتا ہے حالانکہ وہاں صلہ کا محل ہوتا ہے۔ ذیل کی دونوں آیتوں کے ترجموں میں یہی ہوا، ذیل کی دونوں آیتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ مترجمین نے دونوں طرح سے ترجمہ کیا ہے، حالانکہ ترجمہ(ب) کوصلہ مان کر ہونا چاہئے تھا۔:
(۱) فَمَا کَانُواْ لِیُؤْمِنُواْ بِمَا کَذَّبُواْ مِن قَبْلُ۔ (الاعراف:۱۰۱)
’’پس نہ بودند کہ ایمان آرند بآنچہ بہ دروغ شمردند پیش ازیں‘‘۔(شیرازی)
’’پھر ہرگز نہ ہوا کہ یقین لاویں اس بات پر جو پہلے جھٹلاچکے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’تو وہ ایمان لانے والے نہ بنے بوجہ اس کے کہ وہ پہلے سے جھٹلاتے رہے تھے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
but they could not believe because they had before denied. (Pickthal)
(۲) فَمَا کَانُواْ لِیُؤْمِنُواْ بِمَا کَذَّبُواْ بِہِ مِن قَبْلُ۔ (یونس: ۷۴)
’’پس نبود قوم کہ ایمان آرند بہ سبب آنچہ بدروغ داشتند اورا پیش ازیں‘‘۔ (شیرازی)
’’سو ہرگز نہ ہوئے کہ یقین لاویں جو بات جھٹلاچکے پہلے سے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’لیکن وہ اس چیز پر ایمان لانے والے نہ بنے جس کو پہلے جھٹلاچکے تھے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
But they were not ready to believe in that which they before denied. (Pickthal)
غور طلب بات یہ ہے کہ شیرازی نے فارسی ترجمہ میں دوسرے مقام پر سبب کا ترجمہ کیا، اور پہلے مقام پر صلے کا ترجمہ کیا، جبکہ صاحب تدبر قرآن نے اس کے برعکس پہلے مقام پر سبب اور دوسرے مقام پر صلے کا ترجمہ کیا ہے۔ درست طریقہ شاہ عبدالقادر کا ہے، انہوں نے دونوں مقامات پر صلے کا ترجمہ کیا ہے۔ اسلوب میں یکسانیت کے باوجود دونوں مقامات کے ترجموں میں فرق کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے سبب کا ترجمہ غلطی سے ہوا ہے۔
(۷۷) افعل صرف صفت کے مفہوم میں
یوں تو افعل کا صیغہ عام طور سے تفضیل کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم کبھی کبھی وہ تفضیل کے مفہوم کے بجائے مبالغے کا یا صرف صفت کا مفہوم دیتا ہے، جس میں تفاضل نہیں بلکہ تقابل کا مفہوم ہوتا ہے، یعنی یہ نہیں بتانا ہوتا ہے کہ فلاں کے اندر یہ صفت فلاں کے مقابلے میں زیادہ پائی جاتی ہے، بلکہ یہ بتانا ہوتا ہے کہ جو دو فریق سامنے ہیں، ان میں سے صرف ایک میں یہ صفت پائی جاتی ہے اور اس کے بالمقابل دوسرے میں یہ صفت نہیں پائی جاتی ہے۔ بعض ترجموں میں اس کا لحاظ نہیں نظر آتا، اور جہاں موقع ومحل صفت کے ترجمہ کا تقاضا کرے وہاں بھی تفضیل کا ترجمہ کردیا جاتا ہے۔ ذیل کی مثالوں سے اسے سمجھا جاسکتا ہے:
وَإِذَا رَأَوْکَ إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ہُزُواً أَہَذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُولاً۔ إِن کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ آلِہَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَیْْہَا وَسَوْفَ یَعْلَمُونَ حِیْنَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِیْلاً۔ (الفرقان: ۴۱،۴۲)
’’اور جب بھی یہ تمھیں دیکھتے ہیں بس تمہیں مذاق بنالیتے ہیں، اچھا یہی ہیں جن کو اللہ نے رسول بناکر بھیجا ہے؟ اس شخص نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے برگشتہ ہی کردیا ہوتا اگر ہم ان پر جمے نہ رہتے۔ اور عنقریب جب یہ عذاب دیکھیں گے، جان لیں گے کہ سب سے زیادہ بے راہ کون ہے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
’’کہ کون زیادہ گمراہ تھا‘‘ (طاہر القادری)
سیاق کلام سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ کون زیادہ بے راہ ہے، بلکہ یہ بتایا جارہا ہے کہ کون گمراہ ہے اور کون گمراہ نہیں ہے۔
(مَنْ أَضَلُّ سَبِیْلاً) کے بعض درست ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’کون شخص بہت گمراہ ہوا ہے راہ سے‘‘۔(شاہ رفیع الدین)
’’کون بہت بچلا ہے راہ سے‘‘۔(شاہ عبدالقادر)
’’کہ کون شخص گمراہ ہے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’کہ کون گمراہ تھا‘‘۔ (احمد رضا خان)
قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلَی شَاکِلَتِہِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ أَہْدَی سَبِیْلاً۔ (الاسراء :۸۴)
’’کہہ دو کہ ہر ایک اپنی کاوش پر کام کرے گا تو تمہارا رب ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو صحیح تر راستے پر ہیں۔‘‘ (اصلاحی)
آیت کے زیر گفتگو حصے (بِمَنْ ہُوَ أَہْدَی سَبِیْلاً) کے بعض ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’جو زیادہ ٹھیک رستہ پر ہوا‘‘۔(اشرف علی تھانوی)
’’کون زیادہ راہ پر ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اس شخص کو کہ وہ بہت پانیوالا ہے راہ کو‘‘۔(شاہ رفیع الدین)
’’کون خوب سوجھا ہے راہ‘‘۔(شاہ عبدالقادر)
’’جو سب سے زیادہ سیدھے رستے پر ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
یہاں بھی محل موازنے اور تفضیل کا نہیں ہے، کیونکہ کوئی یا تو ہدایت پر ہوگا اور یا نہیں ہوگا، اول الذکر تینوں ترجموں میں موازنے اور تفضیل کا مفہوم لیا گیا ہے، جو درست نہیں ہے۔ سید مودودی نے یہاں تفضیل کے بجائے موازنے کے طور پر صفت کا ترجمہ کیا ہے، اور یہ ترجمہ درست ہے: ’’سیدھی راہ پر کون ہے"(سید مودودی)
(۷۸) أَفَمَن یَمْشِیْ مُکِبّاً عَلَی وَجْہِہِ کا مفہوم
أَفَمَن یَمْشِیْ مُکِبّاً عَلَی وَجْہِہِ أَہْدَی أَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیّاً عَلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ (الملک: ۲۲)
اس آیت کے مختلف ترجمے کئے گئے ہیں، اور وہ سب محل نظر ہیں،
’’کیا وہ جو اوندھے منہ چل رہا ہے راہ یاب ہونے والا بنے گا یا وہ جو سیدھا ایک سیدھی راہ پر چل رہا ہے؟‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’بھلا ایک جو چلے اوندھا اپنے منہ پر وہ سیدھی راہ پاوے یا وہ جو چلے سیدھا ایک سیدھی راہ پر‘‘۔(شاہ عبدالقادر)
’’سو کیا جو شخص منہ کے بل گرتا ہوا چل رہا ہووہ منزل مقصود پر زیادہ پہنچنے والا ہوگا، یا وہ شخص جو سیدھا ایک ہموار سڑک پر چلا جارہا ہو‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’تو کیا وہ جو اپنے منھ کے بل اوندھا چلے زیادہ راہ پر ہے یا وہ جو سیدھا چلے سیدھی راہ پر‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اچھا وہ شخص ہدایت والا ہے جو اپنے منہ کے بل اوندھا ہو کر چلے یا وہ جو سیدھا (پیروں کے بل) راہ راست پر چلے‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)
’’بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گر پڑتا ہے وہ سیدھے رستے پر ہے یا وہ جو سیدھے رستے پر برابر چل رہا ہو؟‘‘(فتح محمد جالندھری)
ان تمام ترجموں میں اس امر پر اتفاق نظر آتا ہے کہ آیت میں دو طرح سے چلنے کے طریقوں میں موازنہ ذکر کیا گیا ہے، ایک منہ کے بل اوندھا ہوکر چلنا اور دوسرا پیروں کے بل سیدھا ہوکر چلنا۔
اوندھے ہوکر منہ کے بل چلنے کا مفہوم لوگوں کے ذہن میں غالبا اس وجہ سے آیا کیونکہ انہوں نے(علی وجھہ) کو (مکبا) سے متعلق سمجھ لیا، اور اس سے منہ کے بل اوندھا ہونے اور اسی حال میں چلنے کا مفہوم پیدا ہوا جسے تصور کرنا اپنے آپ میں ایک مشکل امر ہے۔یہاں یہ بات یاد رہنا چاہئے کہ دو فریقوں میں اس پہلو سے تقابل نہیں ہے کہ کون سا فریق اس پوزیشن میں ہے کہ چل سکے اور کون سا فریق ایسی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہے کہ اس پوزیشن میں رہ کر ٹھیک سے نہیں چل سکے یا چل ہی نہیں سکے، بلکہ تقابل اس میں ہے کہ کون سا فریق چلنے کی ایسی پوزیشن میں ہے کہ منزل پر پہونچ سکتا ہے، اور کون فریق چلنے کی ایسی پوزیشن میں ہے کہ منزل پر پہونچ ہی نہیں سکتا ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ(علی وجھہ) کا تعلق (مکبا) سے نہیں ہے بلکہ (یمشی) سے ہے، (یمشی علی وجھہ) کا مطلب ہوتا ہے جدھر رخ ہوجائے چلتا چلا جائے، اور صرف (مکبا) کا مطلب ہوتا ہے سر جھکائے ہوئے، لسان العرب میں (رجل مکب) کا مطلب بتایا گیا ہے: کَثِیرُ النَّظَرِ الی الأَرض۔ زمین کی طرف زیادہ دیکھنے والا۔ مزید برآں (مکبا) کے مقابلے میں (سوی) کا مطلب ہوتا ہے سر اٹھائے ہوئے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ (علی وجھہ) دراصل (علی صراط مستقیم) کے مقابلے میں ذکر کیا گیا ہے، ان ساری باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا امانت اللہ اصلاحی پوری آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں:
’’کیا وہ جو سر جھکائے جدھر رخ ہوجائے چل پڑے راہ یاب ہونے والا بنے گا یا وہ جو سر اٹھاکر ایک سیدھی راہ پر چل رہا ہے‘‘۔
سید مودودی کے ذیل کے ترجمے میں (سویا) کا مفہوم درست بتایا گیا ہے، لیکن (مکبا)، (علی وجھہ) اور (أھدی) کا ترجمہ درست نہیں ہے۔
’’بھلا سوچو، جو شخص منہ اوندھائے چل رہا ہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہا ہو؟‘‘(سید مودودی)
آیت زیر بحث میں (أھدی) کا ترجمہ بھی توجہ طلب ہے، جن لوگوں نے زیادہ کہہ کر تفضیل کا مفہوم ادا کیا ہے وہ درست نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ (أھدی) یہاں بطور صفت تقابل کے مفہوم کے ساتھ استعمال ہوا ہے، یعنی یہ سوال زیر غور نہیں ہے کہ کون زیادہ ہدایت پر ہے اور کون کم ہدایت پر ہے، بلکہ تقابل اس پہلو سے ہے کہ کون ہدایت پر ہے اور کون ہدایت پر نہیں ہے۔
(۷۹) اللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ کا مفہوم
لفظ (وکیل) قرآن مجید میں مختلف معنوں میں آیا ہے، تاہم اس کا اول ترین معنی ہے، وہ ذات جس پر بھروسہ کیا جائے۔ حسبنا اللہ ونعم الوکیل کا مطلب ہے ’’اللہ ہمیں کافی ہے اور وہ بھروسہ کرنے کے لیے کیا ہی بہترین ہستی ہے‘‘۔
قرآن مجید میں دو مقامات پر اللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ آیا ہے، اس کے مختلف ترجمے کیے گئے ہیں، لیکن ان دونوں مقامات پر اس لفظ کے اصل مفہوم کی طرف کم لوگوں کا ذہن گیا ہے، عام طور سے گواہ اور نگہبان کا مفہوم اختیار کیا گیا ہے، جبکہ مناسب ترین مفہوم وہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا یعنی وہ ذات جس پر بھروسہ کیا جائے۔
(۱) قَالَ لَنْ أُرْسِلَہُ مَعَکُمْ حَتَّی تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِّنَ اللّٰہِ لَتَأْتُنَّنِیْ بِہِ إِلاَّ أَن یُحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّا آتَوْہُ مَوْثِقَہُمْ قَالَ اللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ۔ (یوسف: ۶۶)
’’اس نے جواب دیا کہ میں اس کو تمہارے ساتھ ہرگز نہ بھیجوں گا جب تک تم مجھ سے خدا کے نام پر یہ عہد نہ کرو کہ تم اس کو میرے پاس ضرور واپس لاؤگے الا آنکہ تم کہیں گھر ہی جاؤ۔ تو جب انھوں نے اس کو اپنا پکا قول دے دیا، اس نے کہا جو قول وقرار ہم کر رہے ہیں اللہ اس کا نگہبان ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
متعلقہ ٹکڑے کے کچھ اور ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’کہا اللہ اوپر اس چیز کے کہ کہتے ہیں ہم کارساز ہے‘‘۔(شاہ رفیع الدین)
’’بولا ذمہ اللہ کا ہے جو باتیں ہم کہتے ہیں‘‘۔(شاہ عبدالقادر)
’’تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ جو کچھ بات چیت کررہے ہیں یہ سب اللہ ہی کے حوالے‘‘۔(اشرف علی تھانوی)
’’دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے‘‘۔(سید مودودی)
’’کہا کہ جو قول وقرار ہم کر رہے ہیں اس کا خدا ضامن ہے‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’جو ہم کہہ رہے ہیں اللہ کے بھروسے پر کہہ رہے ہیں‘‘۔
(۲) قَالَ ذَلِکَ بَیْْنِیْ وَبَیْْنَکَ أَیَّمَا الْأَجَلَیْْنِ قَضَیْْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّ وَاللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ ۔ (القصص: ۲۸)
’’اس نے جواب دیا کہ یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہے۔ دونوں میں سے جو مدت بھی پوری کردوں تو اس معاملے میں مجھ پر کوئی جبر نہ ہوگا اور اللہ ہمارے اس قول وقرار پر جو ہم کررہے ہیں گواہ ہے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
متعلقہ ٹکڑے کے کچھ اور ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’اور اللہ اوپر اس چیز کے کہ کہتے ہیں کارساز ہے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’اور اللہ پر بھروسا اس کا جو ہم کہتے ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور ہم جو (معاملہ) کی بات چیت کررہے ہیں اللہ تعالی اس کا گواہ (کافی) ہے‘‘۔(اشرف علی تھانوی)
’’اور جو کچھ قول قرار ہم کر رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے‘‘۔(سید مودودی)
’’اور ہم جو معاہدہ کرتے ہیں خدا اس کا گواہ ہے‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’اللہ پر بھروسہ ہے ہمیں اس قول وقرار میں جو ہم کررہے ہیں‘‘۔
گویا جس طرح ہم توکلنا علی اللہ کہتے ہیں، اسی طرح اللّٰہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیْلٌ بھی توکل کے اظہار کی ایک خوب صورت قرآنی تعبیر ہے، اور جب دو فریق کسی کام کو کرنے کا باہم معاہدہ کرتے ہیں تو اس تعبیر کی ادائیگی اس معاہدے میں اللہ کے توکل کی ایک کیفیت کا اضافہ کردیتی ہے۔ امام زمخشری لکھتے ہیں: الوکیل: الذی وکل الیہ الأمر۔
(جاری)
اسلام عصری تہذیبی تناظر میں ۔ ممتاز دانشور جناب احمد جاوید کا فکر انگیز انٹرویو (۱)
اے اے سید
(کراچی کے معروف جریدہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ نے ۲؍ جنوری کی اشاعت میں ملک کے ممتاز مفکر اور دانش ور جناب احمد جاوید کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس کے مندرجات کی اہمیت اور بلند فکری سطح کے پیش نظر مذکورہ جریدہ کے شکریہ کے ساتھ اسے ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
فرائیڈے اسپیشل: آپ کی شخصیت اور فکر مذہب، فلسفے، ادب اور تصوف سے متعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کا اصل تشخص کیا ہے؟ یعنی آپ اپنے آپ کو کیا کہلوانا پسند کرتے ہیں؟
احمد جاوید: یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ میں خود کو ایک مفید مسلمان کہلوانا یا بنانا پسند کرتا ہوں۔ میرے ذہن میں آدمی کا اصل تشخص وہ ہوتا ہے جو اُس کے ذہن میں ترجیح کے طور پر ہو۔ اس سوال کا اگر میں بے تکلفی سے جواب دوں تو وہ یہ ہے کہ میرے ذہن میں خود میری پہچان صوفی، ادیب وغیرہ کے عنوان سے نہیں ہے، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ ’’اللہ سے تعلق کی نسبت پر تشخص کے تمام زاویے تیار ہوجائیں‘‘۔ اپنی ذات کے لیے یہ میرا وہ آئیڈیل تشخص ہے جسے میں اپنے عمل اور خیالات سے حاصل کرنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہوں کہ بندگی میرا تشخص بن جائے۔ اور آدمی کے تشخص میں اس کے نظام تعلق کا بہت دخل ہوتا ہے، اس کا بہت حصہ ہوتا ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ جس نظام تعلق میں انسان کو پیدا کیا گیا ہے میرے لیے اس نظام تعلق کا زندہ مرکز، اللہ کے ساتھ میرا تعلق بنے۔ میں اپنا مطلوبہ تشخص تو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکوں لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا اصل تشخص شخصیت کے مستقبل میں ہوتا ہے، شخصیت کے حال میں نہیں۔ اس لیے میرا مطلوبہ تشخص تو یہ ہے کہ اللہ سے میرا تعلق، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ حق میرا بنیادی تناظر بن جائے، اور اس تناظر سے میں خود کو اور اپنی دنیا کو دیکھنے کی عادت ڈالوں۔ لیکن اگر آپ عملی تشخص پوچھ رہے ہیں تو میں ایک عام آدمی ہوں، جس کی کچھ میدانوں میں تھوڑی بہت کچھ صلاحیتیں ہیں، لیکن مجھے عام آدمی بن کر رہنا پسند ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت کے بارے میں کچھ بتائیں اور یہ فرمائیں کہ آپ کی فکر کی تشکیل میں کن شخصیات اور عوامل کا زیادہ اور اہم کردار رہا ہے؟
احمد جاوید: یہ اللہ رب العزت کی بڑی مہربانی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری زندگی میں معنویت پیدا کرنے کا سارا سہرا میرے استادوں اور دوستوں کے سر جاتا ہے۔ ادب میں سلیم احمد میرے مربی، میرے معلم رہے۔ اسی طرح ایک اور شخصیت ہے جن سے میں شاگردی کا دعویٰ تو نہیں کرتا، ہاں البتہ استفادہ کی بات کرسکتا ہوں، ان کا میری شخصیت اور فکر پر غالباً سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ وہ مولانا ایوب دہلویؒ ہیں۔ اسی طرح کراچی کے ایک شاعر تھے رئیس فروغ صاحب، وہ میرے بزرگ اور دوست تھے۔ اگر میری شخصیت میں کچھ ادبی عناصر موجود ہیں تو وہ سلیم احمد، قمر جمیل اور رئیس فروغ کی صحبتوں کی وجہ سے ہیں، اور محمد حسن عسکری کو جم کر شوق سے پڑھنے کے نتیجے میں۔ باقی یہ کہ اگر میری شخصیت میں کوئی مذہبی عناصر ہیں تو ان کا دارومدار مولانا ایوب ؒ کے ساتھ اس تعلق پر ہے جو اُن کے لیے میں محسوس کرتا ہوں۔ مولانا ایوب تو بہت پہلے فوت ہوگئے تھے لیکن سلیم احمد کے ساتھ برسوں تعلق رہا، رئیس فروغ صاحب اور قمر جمیل کے ساتھ برسوں کا تعلق تھا۔ میرا تعلق کراچی سے ہی ہے اور 1980ء میں مَیں نے کراچی چھوڑا۔
فرائیڈے اسپیشل: جیسا کہ آپ نے بتایا، آپ کی مذہبی فکر کے سلسلے میں مولانا ایوب دہلویؒ اور ادبی تربیت کے سلسلے میں حسن عسکری اور سلیم احمد کا کردار ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان شخصیتوں کی ہماری اجتماعی زندگی میں اہمیت کیا ہے؟
احمد جاوید: محمد حسن عسکری اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ اس بات پر شبہ کرنے والا ادب اور تنقید سے نابلد ہے۔ عسکری صاحب نے ادب کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ عسکری صاحب نہ ہوتے تو ہمارا ادب وہ اصول دریافت نہ کرپاتا جس کی بنیاد پر ادب خودمختار اور خودکفیل حیثیت سے خود کو استوار اور قائم رکھ سکتاہے۔ ادب کی پوری روایت میں یہ عسکری صاحب کا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ وہ نہ ہوتے تو ہم ادب کو خالص ادبی معیار پر پرکھنے کے اصول حاصل نہ کرپاتے۔ وہ جامع الکمالات شخص تھے، ان پر گفتگو کے لیے بہت وقت چاہیے۔ سلیم احمد، عسکری صاحب کے شاگردِ رشید تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ عسکری صاحب کے جانشین تھے۔ سلیم احمد عسکری اسکول کے سب سے بڑے آدمی تھے۔ سلیم احمد نے عسکری صاحب کے ادبی اصول کو قبول کرکے انہیں عملی تنقید کا حصہ بنانے میں جو بے مثل کامیابی حاصل کی اس نے بھی خصوصاً ہماری ادبی تنقیدی روایت پر بہت اثر ڈالا۔ سلیم احمد ایک اعتبار سے عسکری اسکول کو پھیلانے والی سب سے بڑی قوت کا نام ہے۔ لیکن چونکہ سلیم بھائی کے شعبے زیادہ تھے، وہ میڈیا سے متعلق بھی تھے، ڈراما نگاری بھی کرتے، ریڈیو، ٹی وی اور تھیٹر کے ڈرامے بھی لکھتے تھے، اخبار میں کالم نگاری بھی کرتے تھے، تو ان کے ہاں موضوعات زیادہ ہیں۔ اپنی ہر حیثیت میں سلیم احمد نے ایک پرنسپل کو ملحوظ رکھ کر دکھایا۔ وہ پرنسپل یہ ہے کہ سیاست سے لے کر ادب تک میں ہماری تہذیب کے بنیادی اصول حاکمانہ حیثیت سے باقی رہنے چاہئیں۔ سلیم احمد نے ادب اور تنقید وغیرہ میں ایک ضروری مقصدیت جو درکار ہوتی ہے وہ اپنی شاعری سے بھی اور اپنی تنقید سے بھی پیدا کرکے دکھائی۔ ان کی شخصیت کا دوسرا بڑا پہلو ان کا شاعر ہونا ہے۔ وہ بہت زبردست شاعر تھے۔ ہم اپنے ذوق اور فہم کی کمی، یا اپنے تہذیبی اضمحلال کی وجہ سے ان کی شاعری کی معنویت کو نہیں سراہ پائے۔ ان کی شاعری اپنی تہذیب کے انہدام کا نوحہ ہے، اور ان کی تنقید اپنی تہذیب کی تعمیرنو کا عمل ہے۔ یہ تھے سلیم احمد۔
رہی بات مولانا ایوب دہلوی کی، تو بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہماری روایت کے آخری متکلم تھے۔ ان کے زیادہ موضوعات کلامی تھے، معقولی تھے۔ اگر کبھی متکلم کی حیثیت سے ان کا جائزہ لیا گیا تو وہ ہماری علم الکلام کی روایت میں سب سے آگے کے لوگوں میں شمارکیے جائیں گے۔ مذہبی فکر کے جو مسائل لاینحل چلے آرہے تھے ان میں ایک مسئلہ جبر و قدر تھا۔ اس طرح کے مسائل کو مولانا ایوب دہلوی صاحب نے اس طرح حل کیا کہ ان کی مسلسل جو دشواری پڑھنے یا سننے والے کی نظر سے غائب ہوگئی۔ عقل اپنے آپ کو پورے کا پورا ایمان کے تابع رکھنے کا ارادہ رکھنے کے باوجود اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے عاجز رہ جائے تو جو شخص عقل کی اس نارسائی کو دور کرے گا وہ اصل میں متکلم ہوگا۔ متکلم کہتے ہی اسے ہیں جو عقل کے ایمانی کردار کو اس کے دیگر وظیفوں پر غالب رکھ کر دکھا دے۔ مولانا ایوب دہلوی گزشتہ سو، دو سو برس کی روایت میں شاید سب سے بڑا مذہبی ذہن ہیں، جنہوں نے عقل کی نارسائی کا ازالہ کیا اور عقل کو ایمانی بننے کے لیے جن دلائل کی ضرورت تھی، وہ دلائل فراہم کیے۔ لیکن افسوس، چونکہ بڑے موضوعات سے ہماری مناسبت ختم ہوچکی ہے اور مولانا کے مخاطبین معمولی لوگ تھے اور اس کے بعد اس معمولی پن میں اضافہ ہوتا چلا گیا، تو اب تو نہ کسی کو جبر و قدر مشکل محسوس ہوتا ہے، اور نہ آسان۔۔۔ کیونکہ وہ اس سے واقف ہی نہیں ہے۔ اس کا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے ان کی تعریف و توصیف سامنے نہیں آسکی، ورنہ اگر وہ اچھے زمانوں میں پیدا ہوتے تو ان کا درجہ اُن متکلمین جیسا ہوتا جو مشکلات کو حل کرنے کی ضمانت ہوتے ہیں۔ مولانا پر مجھے یہ اعتماد رہا ہے اور ہے کہ ایمانیات میں، عقل کی ہر مشکل میں، اسے قائل کرنے کی جیسی قوت اُن میں تھی وہ میں نے کسی کی تحریر میں دیکھی نہ تقریر میں۔ یہ ان کا امتیاز تھا۔ شخصیت کے اعتبار سے وہ بہت بڑے آدمی تھے، یعنی بلند کردار اور عمیق علم کو اگر ایک شخص میں جمع دیکھنا ہے تو جب تک آپ مولانا ایوب دہلوی کو دیکھیں یہ تھے مولانا ایوب دہلویؒ ۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے جس انحطاط کا ذکر کیا ہے اُس کے اسباب کیا ہیں؟
احمد جاوید: ہمارا جو سب سے بڑا اجتماعی مرض یا اُم الامراض ہے وہ یہ ہے کہ ہم گھٹیا لوگ بن کر رہ گئے ہیں۔ ذوق میں، فہم میں، ذہن میں، اخلاق میں۔۔۔ ہر معاملے میں ہم اوسط سے نیچے ہیں۔ یہ ہمارے انحطاط کا سب سے بڑا سبب ہے، اور اسی سے ذہنی اور اخلاقی انحطاط پیدا ہوا ہم بہت چھوٹے لوگ ہیں اور اس چھوٹے پن کو دور کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔ ہم بہت معمولی لوگ ہیں اور اس معمولی پن سے نکلنے کی کوئی طلب نہیں رکھتے۔ معمولی پن پیدا ہوجانا مرض ہے۔ معمولی پن پر راضی ہوجانا موت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: قحط الرجال ہے کہ نہ کوئی بڑا ادیب پیدا ہورہا ہے، نہ بڑا شاعر پیدا ہورہا ہے۔ علماء کے شعبہ میں بھی بہت اچھی صورت حال نہیں ہے۔آپ کے خیال میں یہ حالات کس طرح ختم ہوسکتے ہیں؟
احمد جاوید: بڑے لوگ کیوں نہیں پید ا ہورہے؟ اس کا سبب میں نے بتادیا۔ خواہ شاعری ہو یا دین، دونوں جگہ یہی صورت حال ہے۔ ہم جب تک اپنی کمزوریوں کی ذمہ داری غیروں پر ڈالتے رہیں گے اُس وقت تک ہم ان کمزوریوں سے نہیں نکل سکتے۔ پھر آپ کا پورا نظام تعلیم عمومی لوگ پیدا کرنے کی مشین ہے، کیونکہ ہر تہذیب کا ایک ذہن ہوتا ہے جو اس کے نظام تعلیم سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر کسی معاشرے یا سماج کا نظام تعلیم اس کے اپنے تصورِ علم سے مناسبت نہ رکھتا ہو اور مانگے تانگے پر مبنی ہو، تو ظاہر ہے کہ اس تعلیم سے اس تہذیب کے اجتماعی شعور تقویت کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا۔ہر تہذیب کا ایک اجتماعی شعور، ایک اجتماعی قلب اور ایک اجتماعی ارادہ ہوتا ہے۔ اجتماعی شعور کو حالتِ تسکین، حالتِ سیرابی بلکہ حالتِ نمو میں رکھنے کے لیے وہ تہذیب اپنا نظام تعلیم بناتی ہے۔ اسی طرح ہر تہذیب کا ایک اجتماعی ارادہ ہوتا ہے جو اس کی مراد کو پہنچانے میں مددکرتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی تہذیب اپنی اوریجنل مراد سے دست بردار ہوکر دوسروں کے مقاصد کو اپنا مقصد بنانے کا فیصلہ کرلے تو اس کا وہ اجتماعی، فطری ارادہ جو اس کی اپنی مراد سے مناسبت رکھنے کی حالت ہی میں عمل میں آسکتا تھا، وہ معطل ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ تخلیقی اعمال بجا نہیں لاسکتے۔ آپ بڑے مقاصد کو حاصل کرنے والی اجتماعی محنت نہیں کرسکتے، وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح ایک اجتماعی قلب ہوتا ہے جو اس تہذیب کے محبت اور نفرت اور اس تہذیب کے احساسات اور جذبا ت کو ایک خاص ہیئت، رنگ اور حالت میں رکھتا ہے۔ ہر تہذیب اپنا نظام احساسات رکھتی ہے۔ اگرتہذیب اپنے نظام احساسات سے خالی اور غیر مطمئن ہوجائے تو ا س کا قلب دھڑکنا بند کردیتا ہے۔ اس کا قلب معطل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان تین سطحوں پر اگر دیکھیں تو نظر یہ آتا ہے کہ ہم ان تینوں سطحوں پر بانجھ پن کا شکار ہیں۔ اب ہم یہ کہنے کے لائق نہیں ہیں کہ یہ رہا ہماری تہذیب کا اجتماعی ذہن اور یہ اس کے افکار و اقدار۔یہ رہی ہماری منزل، اور یہ رہی ہماری پسند و ناپسند۔۔۔ اور ہم اس قدر سے وفادار ی رکھتے ہوئے چیزوں کو پسندو نا پسندکرتے ہیں۔ تو جس تہذیب کے اندر اس کی آبیاری، اس کی نگہداشت کا نظام ختم ہوجائے، اس تہذیب کی باطنی قوت کو طاقت فراہم کرنے والا نظام تعلیم کی شکل میں، نظام اخلاق کی شکل میں،نظام انصا ف کی شکل میں وغیرہ وغیرہ، تو پھر وہ تہذیب بڑا آدمی پیدا کرنے سے معذور ہوجاتی ہے۔ بڑا آدمی کہتے ہیں اپنی تہذیب کے ذہن اور قلب کا مظہر بن جانے والے کو۔ اس لیے جس تہذیب کے اندر خلا پیدا ہو جائے گا وہ پھر خالی لوگ ہی پیدا کرے گی، اس لیے ہم اس بحران میں مبتلا ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کا اس کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے فرمایا کہ بلحاظِ نظام تعلیم، نظام اخلاق اور نظام انصاف ہم بانجھ پن کا شکار ہیں۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تبدیلی کے حوالے سے تین قسم کے ماڈل ہمارے سامنے آئے ہیں۔ ان میں اول تبلیغی جماعت کا ماڈل ہے، دوسرا ماڈل جمہوریت کا ہے، تیسرا ماڈل یہ ہے کہ آپ کے پاس طاقت ہو اور اس کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے خلافت قائم کرلیں۔ آپ ان ماڈلز کو کس طرح دیکھتے ہیں اور کیا کوئی چوتھا طریقہ یا ماڈل بھی موجود ہے جس کے ذریعے تبدیلی آسکتی ہے؟
احمد جاوید: دیکھیے اتفاق یہ ہے، بلکہ اتفاق کیا شاید ہم سب کا یہ مشاہدہ ہے کہ یہ تینوں ماڈل (یعنی تبلیغی جماعت، جمہوریت اور طاقت سے خلافت قائم کرنے کے خواہش مند) اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرلینے کے باوجود بے اثر، بے نتیجہ اور ناکام ہیں۔ اس وقت دنیا کے کسی بھی مذہب میں تبلیغی جماعت سے بڑا دعوتی نیٹ ورک نہیں، لیکن اس کے کام کا مسلمانوں کے اجتماعی وجود پر کوئی اثر نہیں پڑا اور مسلم زندگی کو چلانے والے نظام کی تبدیلی کی شکل میں نظر نہیں آتا۔ ہم اسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بڑے دائرے میں ناکام ہے، چھوٹے چھوٹے دائروں میں کامیاب ہے۔ اسی طرح دین کی سیاسی تعبیر کرکے غلبہ دین کی وہ جدوجہد جس میں جمہوریت کو ذریعہ مان لیا گیا ہے، جسے آج کل کی اصطلاح میں مذہبی سیاسی جماعتیں کہتے ہیں، یہ جماعتیں مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکی ہیں۔ مثال کے طور پر اس کا بڑا اور شاید سب سے مضبوط نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس ایک بڑی فکر بھی ہے، کارکنوں کا اخلاص اور عمل کی قوت بھی ہے۔ جو ایک سیاسی جماعت کی خوبیاں ہوسکتی ہیں وہ ان کے پاس ہیں۔ ان کا ایک بیانیہ بھی ہے، اس بیانیے کو عمل میں لانے کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کی فوج بھی موجود ہے، اور اپنی جماعت کو بچانے والا ایک فیئر ڈسپلن بھی حاضر ہے، مگر یہ سب خوبیاں رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی پہلے دینی شناخت یا تشخص رکھنے میں کامیاب ہوئی، اس کے بعد اس میں غائب ہوگئی۔ سیاسی وجود یا شناخت کچھ حاصل ہوئی، لیکن اب سیاست سے بھی غائب ہوگئی ہے۔ اب موجودہ صورت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی نہ کوئی دینی وقعت رہ گئی ہے، نہ سیاسی اہمیت۔ یہ گویا ایک ماڈل کی مکمل ناکامی کا ایک نمونہ ہے۔
اور تیسرا ماڈل جس کا آپ نے ذکر کیا کہ غلبہ بذریعہ طاقت برائے قیام خلافت، تو یہ desperation میں اٹھی ہے، یہ گویا احتجاج میں اٹھی ہے، یہ پچھلے دو ماڈلز کی مسلسل اور مکمل ناکامی کے مشاہدے سے پیدا ہوئی ہے، کیونکہ یہ ردعمل ہے۔ ہر زمانے میں عالمگیر سطح پر تبدیلی کا ایک میکنزم ہوتا ہے جس کی حق اور باطل دونوں کے ترجمانوں کو پابندی کرنا پڑتی ہے۔ یہ جو تیسرا گروپ ہے، ان کا المیہ یہ ہے کہ جو موجودہ Universal mechanics of change ہیں، ان سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ایک عالمگیر مزاج کی تبدیلی اور نظام کی تبدیلی سے خود کو بالکل لاتعلق رکھ کر دنیا میں تبدیلی لانے کا خواب دیکھنا گویا ناممکن کو ممکن فرض کرلینا ہے۔ جو عسکریت پسند جماعتیں ہیں یا خلافت کے قیام کی پُرامن جدوجہد کرنے والی تحاریک ہیں، یہ دونوں اپنے زمانے کی روح سے لڑرہی ہیں اور روحِ عصر سے لڑائی کامیاب نہیں ہوتی۔ اسلام نے غلامی وغیرہ کے رد میں خود بھی یہ کچھ نہیں کیا۔ کیونکہ جمہوریت پوری دنیا کے اجتماعی لاشعور کا عقیدہ بن چکی ہے، اب اس سے بلاوجہ کی لڑائی چھیڑ کر لوکل تبدیلی لانے کے لیے پوری دنیا کو اس کی اساس سے ہٹانے کی کوشش کرنا ایک ناسمجھی کا کام ہے۔ یہ ایسا کام ہے کہ ذہن میں آتے ہی ناکام ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس پر جو عمل ہورہا ہے، افسوس کہ وہ عسکریت پسندی کی شکل میں ہورہا ہے۔ عسکریت پسندی جو ہے، وہ قدیم زمانے کی بناوٹ کے مطابق تو تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی تھی، لیکن جدید دنیا کی ساخت یہ ہے کہ کسی گروپ کی عسکریت پسندی سوشل یا ریاستی سطح کے چیلنج کا باعث کبھی نہیں بن سکتی اور نہ کبھی بنی ہے۔ اس لیے جو لوگ عسکریت میں ملوث نہیں مگر ان کے مقاصد سے متفق ہیں، ان کے لیے یہ ایک المیہ بھی ہے۔ دوسرا یہ ایک دہشت کا سا تصور ہے کہ آپ اپنے تصور میں کھلے ہوئے پھول کو باہر کی زمین میں اگانے کے لیے اس زمین میں آگ لگا رہے ہیں اور پہلے سے کھلے ہوئے پھولوں کو پاؤں تلے روند رہے ہیں۔ یہ بہت پست ذہنی اور کمی کی علامت ہے۔
میرے خیال میں ہمیں حقیقت میں جس ماڈل کی ضرورت ہے وہ بنیادی طور پر تو دعوتی ہے۔ اس میں کچھ طاقتور عناصر ظاہر ہے کہ سیاسی ہوں گے۔ تو دعوت اور سیاست کو ملا کر معاشرے کو اپنی بنیادی اقدار پر ری اسٹرکچر کرنے کی کوشش کرنا ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری جو غالب مذہبی قوتیں ہیں وہ ریاستی اسٹرکچر میں تبدیلی لانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں بہ نسبت معاشرتی دروبست میں انقلاب لانے کے، جبکہ انسانوں میں دیرپا انقلاب کی ہر قسم فرد سے شروع ہوتی ہے، معاشرے میں اپنے حق پر ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور معاشرے کی تبدیلی کے نتیجے میں ریاستی نظام خودبخود بدلنے لگتا ہے۔ تو ہمارے یہاں معاشرے کو بدلنے کا کوئی مربوط تصور موجود نہیں ہے۔ فرد کو بدلنے کا تصور ہے جسے تبلیغی جماعت بہت اچھی طرح استعمال کررہی ہے۔ لیکن یہ مسلم معاشرہ کسے کہتے ہیں؟ مسلم معاشرے کے قیام کو اپنا مقصد بناکر اس کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کرنا، اس کی تحریک چلانا، یہ دستیاب مذہبی جماعتوں کا موضوع یا مقصد نہیں ہے جو میرے خیال میں ایک بہت بڑی کمی ہے۔ اب اگر ہماری تہذیب یعنی مسلم تہذیب کی تجدید یا بقا کا کوئی بھی کام ہوگا تو وہ اپنی صورت اور معنویت میں معاشرتی ہوگا، سیاسی یا ریاستی نہیں ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا آپ کے خیال میں پاکستان میں اسلامی نظام کے لیے کام کرنے والی جماعت یا جماعتیں ناکام ہوگئی ہیں؟ تو پھر تبدیلی کیسے آئے گی، جماعتوں میں اصلاحات کے ذریعے؟ یا پھر کسی نئی جماعت یا تحریک کی ضرورت ہے؟
احمد جاوید: یہ ثانوی باتیں ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دینی جماعتیں اپنے اندر بنیادی اور مؤثر تبدیلی لائیں۔ جیسے مسلم لیگ۔ جس مسلم لیگ نے پاکستان بنایا ہے، یہ پہلے جاگیرداروں کا کلب تھا، اس نے خود کو بدل کر پاکستان بنایا تھا۔ لیکن یہ ثانوی باتیں ہیں کہ یہ خود کو بدلیں یا اس کی جگہ نئی جماعت بنائیں، دونوں صورتوں میں نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔ اصل میں سب سے زیادہ ضروری یہ سمجھنا ہے کہ دین کس طرح کی اجتماعیت ہم سے طلب کرتا ہے۔ اس طلب کو درست انداز میں سمجھ کر اسے اپنی ذہنی اور اخلاقی قوتوں سے عمل میں لانا۔۔۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ مسلم معاشرے کا اگر ایک نمونہ بھی مسلمان پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ان پر مغرب کی یلغار ہی نہیں رک جائے گی بلکہ مغرب میں اسلام پھیلنا شروع ہوجائے گا۔ کیونکہ مغرب کو ایک روحانی معاشرے کی پیاس لگی ہوئی ہے جو وہاں کے حساس اور ذہین طبقات محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم روحانی بنیادوں پر ایک فلاحی اور انسانی معاشرہ بناکر دکھادیں تو مغرب ایک گولی چلائے بغیر فتح ہوسکتا ہے۔ لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم اس کو تو روتے ہیں کہ عالم اسلام میں کوئی حکومت اسلامی نہیں ہے، لیکن اس طرف نظر نہیں کرتے کہ عالم اسلام میں کوئی معاشرہ اسلامی ہے یا نہیں؟ ہمیں اس بات کی کسک محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت عالم اسلام میں کوئی ایک معاشرہ بھی اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ معاشرے میں تبدیلی آجائے تو ریاست میں خود بخود آجاتی ہے۔میرے خیال میں تبدیلی کا یہ نظریاتی طریقہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: عالم اسلام میں کئی اسلامی تحریکیں کام کررہی ہیں، آپ ان کی جدوجہد کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
احمد جاوید: سب کی خامیاں ایک جیسی ہیں۔ اخوان المسلمون ہے، الجزائر کی اسلامک فرنٹ ہے وغیرہ وغیرہ، جو بھی سیاسی جدوجہد کرنے والی جماعتیں ہیں، وہ ایک جیسی ہیں۔ وہ سب نظام بدلنے کی بات کرتی ہیں۔ جبکہ تبلیغی جماعت کے مقابلے میں دعوتی جماعتیں بہت کم ہیں اور چھوٹی ہیں۔ تو اس میں ہمیں اسی ماڈل کو سامنے رکھ کر عالم اسلام کی دعوتی فضا پر اپلائی کرنا ٹھیک لگتا ہے۔ ہمارے ہاں دین کی دعوت کا ایک نظام ہے، دین کو دعوت بنانے کی ایک تحریک ہے، اور یہ دونوں ناکام ہیں۔ پورے عالم اسلام میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے کہ کوئی مذہبی، اسلامی سیاسی تحریک کامیاب ہوئی ہو۔
فرائیڈے اسپیشل: اب ہم ادب سے متعلق کچھ گفتگو کرلیتے ہیں۔ ادب کے دائرے میں مختلف نکتہ ہائے نظر موجود ہیں۔ کچھ لوگ ادب برائے ادب کے قائل ہیں، کچھ لوگ ادب برائے مقصدیت کے قائل ہیں۔ آپ کی نظر میں ایک انسانی معاشرے میں ادب کا حقیقی کردار اور اس کی اہمیت کیا ہے؟
احمد جاوید: اب یہ سوال موجود ہی نہیں ہے کہ ادب برائے زندگی ہوتا ہے کہ ادب برائے ادب ہوتا ہے۔ وہ تنازع کی فضا گزر چکی ہے۔ اب وہ ہمارا ماضی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اشتراکیت اور جدیدیت سے پیدا ہونے والی تحریک میں تصادم کی فضا تھی۔ اشتراکی کہتے تھے کہ ادب مقصد کے تحت ہوتا ہے، جبکہ جدیدیت پسند کہتے تھے کہ نہیں ادب کا مقصد ادب ہی ہوتا ہے۔ یعنی ادب ایک جمالیاتی مشغلہ ہے، اس کا کوئی سیاسی اور اخلاقی پہلو نہیں ہوتا۔ وہ دور اب گزر گیا۔ آج کے ادیب کو ان دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔اب فضا یہ ہے کہ ادب زندگی میں انسان کی داخلی اور خارجی صورت حال میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے: اگر میرا جمالیاتی شعور اور احساس نظرانداز ہوجائے تو میرے شعور اور میرے وجود میں ایک بنیادی نقص رہ جائے گا۔ یعنی یہ کہ آپ کا مذہبی شعور بھی بہت پختہ ہو، آپ کا عقلی شعور بھی بہت پختہ ہو، آپ کا اخلاقی شعور بھی بہت پختہ ہو لیکن آپ چیزوں کو خوبصورتی اور بدصورتی میں تقسیم اور اس کا فیصلہ نہ کرسکتے ہوں تو گویا آپ کا ادراک اور آپ کی سطح وجود کم تر ہے۔ جمالیاتی شعور یعنی چیزوں کو خوبصورتی اور بدصورتی کے تناظر میں دیکھنا اور ان میں فرق کرنا، جیسے عقل کرتی ہے کہ یہ صحیح ہے اور یہ غلط ہے، یہ مفید ہے یا مضر ہے۔ مذہبی شعور کہتا ہے کہ حق ہے یا باطل ہے، یہ حلال ہے یا حرام ہے۔ اخلاقی شعور کہتا ہے کہ یہ بھلا ہے یا برا ہے، خیر ہے یا شر ہے۔ یہ سب ان کے وجودِ کار ہیں۔
تو اگر ہم حق و باطل، حلال و حرام، مفید و مضر اور خیر و شر تک ہیں تو ہم تعمیر ہوئے۔ لیکن چیزیں اپنا جمیل ہونا اور بدصورت ہونا میرے اندر پیدا نہ کریں تو ان چیزوں کے بارے میں میرا فہم، ان چیزوں سے میرا تعلق ناقص رہ جائے گا۔ اور میری عقل نے ان چیزوں کا جس طرح ادراک کیا ہے اس میں کمی رہ جائے گی۔ یعنی میری عقل بھی سیرابی کے تجربے سے محرو م رہ جائے گی، میری مذہبیت بھی اطمینان کے تجربے سے خالی رہ جائے گی، میرے اخلاق بھی دل کی نرمی سے، دل کی حرارت سے منقطع حالت میں رہ جائیں گے۔ تو گویا جمالیاتی شعور اور طرزِ احساس کی یہ اہمیت ہے کہ یہ انسان کے شعور اور وجود دونوں کی تکمیل میں لازمے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اگر یہ کمزور یا معدوم حالت میں ہیں تو انسان شعور اور وجود دونوں سطح پر ایک کم تر ہستی رہ جائے گا۔ یہ تو رہا اصولی مطلب۔ اب دوسرا مطلب یہ ہے کہ میری سب سے بڑی آرزوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ جو جانے، جو مانے، جو کرے اس میں اس کا دل لگے۔ اس میں اسے تسکین محسو س ہو۔وہ اسے ایک خوبصورتی کی فضا میں رکھے۔کہ جس مورتی کو اس نے ڈھونڈ کرنکالا ہے اسے ٹاٹ کے بورے میں جمع نہ کرے بلکہ اس کے لیے اچھا صندوق بنائے۔اخلاق بھی یہ چاہتا ہے کہ عمل صرف مبنی بر خیر نہ ہو، بلکہ میرے خیر میں ایک کشش اور جمال بھی ہو۔ مذہبی شعور بھی یہ چاہتا ہے کہ اللہ آپ کی طرف یکسو ہوں۔احسان کے ساتھ ہو۔خوبصورتی کے ساتھ ہو۔ حسن کے ساتھ ہو۔گویا حسن ہر شعورکے ہر حاصل میں ایک نئی چمک دمک پیدا کرتا ہے، ایک کشش پیدا کرتا ہے، وہ عقل کے لیے معقول کو،مذہبی ذہن کے لیے عقیدے کو پر کشش بناتا ہے جو ان عقائد اور ان نظریات سے تسکین پانے کے لیے ضروری ہے۔
تو جمالیاتی شعور میرے عقائد،نظریات اور اعمال کو پرکشش بنانے کا کام کرتا ہے۔ان کو بدلے بغیر، ان کو چھیڑے بغیر۔لیکن اگر فرض کیا کہ خدا میرے لیے پرکشش نہ رہے تو خدا کو ماننے کی تمام تفصیلات رکھنے کے باوجو د مجھے اس سے تسکین نہیں حاصل ہوگی، مجھے اس سے ایک زندہ تعلق کا تجربہ نصیب نہیں ہوگا۔ ان معنوں میں جمالیات علم الحضور ہے۔یہ حضوری کا احساس ہے۔یہ غیب میں حضوری کی لگن پید اکرنے کی قوت ہے۔ اگر یہ نہ رہے تو اس کے نتیجے میں پھر شعور کی اور طبیعت کی حالتیں، اندرخام اور ناتمام رہ جائیں گی۔بڑا ادب یہ کام کرتا ہے کہ وہ انسانی شعور اور اس کی طبیعت کو بلند کرتا ہے۔ اس کی تمام صلاحیتوں کو، تمام قابلیتوں کو حالتِ تسکین میں کرتے ہوئے اس کے تمام عقائد و تصورات کو حسین اور پرکشش بناتا ہے۔ جمالیات مجھے کوئی نظریہ نہیں دیتی، جمالیات میرے مانے ہوئے نظریے کی تزئیین کردیتی ہے۔ اسے خوبصورت بنادیتی ہے۔ تو ادب اگر واقعی تخلیقی ادب ہے تو اس کا یہ کردار، اس کا یہ کارنامہ سامنے کی چیز ہے۔ اسی وجہ سے افلاطون نے کہا تھا کہ ’’یونانی تہذیب کا بانی ہومر ہے‘‘۔ اس نے کسی فلسفی کا نام نہیں لیا کیونکہ اس نے یونانی تہذیب کے جو آئیڈیلز تھے انہیں پُرکشش بنادیا تھا، انہیں خوبصورت کردیا تھا۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ’’احسان کیا ہے؟‘‘ کا جواب دیتے ہیں تو فرماتے ہیں: ’’اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔‘‘ تو گویا اللہ کو دیکھنے کا حال ایک پختہ جمالیاتی شعور کے بغیر ناممکن ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے بڑے ادب کا ذکر کیا۔ بڑا ادب کس طرح تخلیق پاتا ہے؟ یا بڑا ادیب کیسے پیدا ہوتا ہے؟
احمد جاوید: جب کوئی زبان اور تہذیب بڑائی کی سطح پر ہو یا بڑائی سے تازہ تازہ گری ہو تو بڑا ادیب اور بڑا ادب پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر تہذیب اور زبان میں مادہ عظمت رہ ہی نہ جائے اور اس مادہ کو دیر ہوگئی ہو تو پھر بڑے ادیب اور بڑے ادب کا پیدا ہونا محال ہے۔ زبان اور تہذیب میں بڑائی کا جوہر عملی حالت میں موجود نہ ہو تو بڑا ادب نہیں پیدا ہوسکتا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے ادبی استاد سلیم احمد ؒ نے آج سے تیس، پینتیس سال پہلے ’’ادب کی موت‘‘ کا اعلان کیا تھا۔ اس جملے کی معنویت کیا ہے اور اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟کیا ادب کی واقعی موت واقع ہوگئی ہے؟
احمد جاوید: جب انہوں نے یہ بات کہی تھی تو اُس وقت میں بھی موجود تھا۔ اُن کے یہاں ہونے والی نشستوں میں یہ ایک موضوع بھی تھا کہ ’’ادب کی موت‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ ظاہر ہے کہ جس نے یہ بات کہی ہے اگر اُس شخص نے اس کی تشریح کردی ہے تو اسی بات کو حتمی کہیں گے۔ سلیم احمد نے ایک سلسلہ کلام میں یہ بات کہی تھی۔ وہ سلسلہ کلام شروع ہوتا ہے نطشے سے، نطشے نے کہا تھا کہ ’’خدا مر گیا ہے‘‘۔ اس پر سلیم احمد کی تعبیر کے مطابق نطشے کہہ رہا ہے کہ وہ آدمی فنا ہوگیا ہے جس کا سب سے بڑا مسئلہ ’’خدا‘‘ تھا، تو نطشے نے اصل میں خداپرست آدمی کی موت کا اعلان کیا۔ اسی طرح اگلا نعرہ لگا کہ ’’انسان مر گیا ہے‘‘۔ اس پر سلیم بھائی فرماتے تھے کہ وہ انسان مرگیا ہے جو خود کو اپنا مقصود سمجھتا تھا، یا خود کو مرکزِ کائنات سمجھتا تھا۔ ایک شفٹ آیا نا کہ پہلے خدا مرکز کائنات تھی، اس کی موت کا اعلان نطشے نے کردیا اور اس کی جگہ آدمی کو مرکز کائنات بنایا، پھر پتا چلا کہ اب آدمی بھی مر گیا ہے یعنی اب آدمی بھی کائنات کا مرکز نہیں رہا تو اس تسلسل میں سلیم احمد نے کہا کہ ’’ادب مرگیا ہے‘‘۔ یعنی وہ آدمی غائب ہوگیا ہے جس کے لیے ادب ایک سنجیدہ مسئلہ اور مشغلہ تھا۔ یہ اُن کے اس اعلان کا انہی کے بیان کردہ الفاظ میں براہِ راست مطلب ہے۔ اس لیے میرے نکتہ نگاہ سے یہ بات بالکل درست ہے کہ ادب کی موت واقع ہوگئی ہے۔
اس بات کو دو چیزوں پر غور کرکے بہت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے: (1) کیا ہماری تہذیب اپنے اصول پر زندہ رہنے کا دعویٰ کرسکتی ہے؟کیا ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہماری تہذیب اپنے اصول پر زندہ ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ ہم کہیں گے ہماری تہذیب مر گئی ہے۔ (2) کیا ہماری زبان اپنے سیمنٹکس(semantics) معنویاتی کے ساتھ، اپنے لسانیاتی اسٹرکچرز کے ساتھ، اپنی علامات (symbolism) کے ساتھ زندہ رہ گئی ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ نہیں۔ تو جب ہم اپنی تہذیب اور اپنی زبان کی زندگی کا انکار کررہے ہیں تو ادب انہی دونوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ تہذیب مر گئی ہے کہنا درست ہو، زبان فوت ہوگئی ہے کہنا درست ہو، اور ان دونوں اموات کی موجودگی میں ہم یہ امکان روا رکھیں کہ ادب زندہ رہ جائے گا۔ یہ ناممکن ہے۔ تو ادب بھی مر گیا۔
فرائیڈے اسپیشل: ہمارے مذہب اور ہماری تہذیب میں انسان کی فضیلت دو چیزوں کی بنیاد پر ہے: تقویٰ اور علم۔ اس کا کیا سبب ہے؟ اور کیا یہ دو فضیلتیں ہمارے معاشرے میں فضیلتوں کی حیثیت میں موجود ہیں؟
احمد جاوید: آپ علم و تقویٰ کے جو اصول بتارہے ہیں، بلاشبہ ہماری روایت میں انسانی فضیلت کی یہ دو بنیادیں ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہماری روایت میں اس کے معنی ہیں: حق کا علم، علم ہے اور اس علم سے نفس پر مرتب ہونے والا حال تقویٰ ہے۔ علم اللہ کی معرفت ہے اس کی تخلیقی قدرت سے آگاہی کے ساتھ۔ اللہ کو جاننا ہے اس کی تخلیق کے اندر تک جھانک لینے کی صلاحیت کے ساتھ۔ یہ علم ہے۔ اس میں دونوں طرح کے علم آگئے۔ لیکن اس علم کا مادہ معرفتِ الٰہی ہے۔ معرفتِ کائنات کا بھی مادہ اصل میں معرفتِ خداوندی ہے۔ تو ایسا علم جو حضور حق رکھتا ہے اور کائنات کے اندر تک جھانکنے کی صلاحیت فراہم کرسکتا ہے، میری طبیعت اور میری نبض پر جو اثر چھوڑے گا، میری نبض کی جو conditioning کرے گا، جس حالت کو میری نبض کی بنیادی حالت بنائے گا اُس بنیادی حالت کا نام تقویٰ ہے۔ یعنی یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ آدمی اللہ کو جانتا ہو اور اللہ سے ڈرتا نہ ہو۔ تقویٰ اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ ڈر ہے جو اللہ کی معرفت کے پیڑ کی سب سے اونچی شاخ پر لگنے والا پھل ہے۔ اس سے توازن قائم ہوتا ہے۔ تہذیب کا نفس تقویٰ پر ہے۔ تہذیب کاذہن (mind) علم پر ہے۔ انسان بہ اعتبارِ نفس اگر کامل ہے تو متقی ہے، اور بہ اعتبارِ شعور اگر پختہ ہے تو صاحبِ علم ہے، یعنی علم کائنات کے حساب سے عارفِ خداوندی ہے۔ یہ جو ہم پیچھے نوحہ پڑھتے آرہے ہیں، اسی سے جوڑ کر دیکھ لیں کہ علم و تقویٰ کی یہ فضیلتیں موجود نہیں ہیں، جبھی تو ہم اس حال کو پہنچے ہوئے ہیں۔ آخر علم کیا ہے؟ جس میں ایمان بالغیب یقینی ہو اور حضور خداوندی بھی حتمی ہو، یہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ حضور سے پیدا ہوتا ہے، علم غیب سے پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح حضور و غیب کے توازن سے بننے والا انسان، اس کا ذہن، اس کا معاشرہ، اس کی انفرادیت وہ سارا عمل مکمل طور پر رکا ہوا ہے جبھی تو ہم یہ نوحہ پڑھ رہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کا تعلق فلسفے اور اس کی تفہیم سے بھی ہے، مگر ہماری تاریخ میں فلسفہ کو علم کی ایک خطرناک شاخ کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ امام غزالی ؒ نے فلسفے کو بالادست علم کی حیثیت سے رد کیا۔ آپ ہمیں یہ بتائیے کہ ہمارے لیے فلسفے کا جاننا کتنا اہم ہے؟ اور کیوں؟
احمد جاوید: امام غزالی ؒ نے جس نکتے کے تحت فلسفے کو رد کیا ہے اس کی ایک بہت مضبوط بنیاد ہے۔ وہ یہ کہ فلسفہ عقل کو حاکم مانتا، عقل کی حکومت تسلیم کرتا، اور وحی سے بے نیاز رہنا چاہتا ہے۔ اس بنیاد پر انہوں نے فلسفے کو رد کیا ہے۔ اس کی تفصیلات تکنیکی ہیں۔ اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ اب اس سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ فلسفہ ایمان کے لیے خطرناک ہے لہٰذا اسے نہیں پڑھنا چاہیے۔ اس میں واقعی صورت حال یہ ہے کہ بغیر تیاری کے اور جوشِ تقلید میں فلسفہ پڑھنا ایمان کے لیے خطرناک ہے۔ ایمان کو نقصان پہنچا سکتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پہنچاتا آیا ہے۔ اب اس کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ اس کے باوجود ایک مذہبی آدمی جو ذہین ہے، وہ فلسفہ پڑھتا ہے تو اس کی نظر میں فلسفے کی کیا افادیت ہے؟ یعنی اتنے ضرر کے پہلو اس علم میں ہیں، اس کے باوجود اگر کوئی مذہبی آدمی فلسفہ پڑھتا ہے تو وہ فلسفے سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ یا فلسفے میں کیا افادیت دیکھتا ہے؟ کہ وہ اس خطرے کو خاطر میں لائے بغیر اسے پڑھ رہا ہے۔ میرے خیال میں اگر اس کا ایک جملے میں جواب دوں تو وہ یہ ہوگا کہ ’’فلسفے کو جاننا بہتر ہے، فلسفے کی ماننا خطرناک ہے‘‘۔ فلسفے کو جاننے سے ذہنی سطحیت دور ہوتی ہے۔ فلسفے کو ماننے سے ایمانی ذہن کمزور پڑتا ہے۔ اس لیے جو لوگ فلسفے کو تقلید کی نظر سے نہیں بلکہ حقیقت تک پہنچانے والے علم کی حیثیت دے کر پڑھتے ہیں انہیں یہ فائدہ حاصل ہوجاتا ہے کہ ان کے ذہن میں سطحیت پیدا نہیں ہوتی۔ ان کے ذہن میں گراوٹ نہیں پیدا ہوتی۔ ان میں ذہانت کا ملکہ ضرور بڑھتا ہے۔ تو فلسفہ ذہانت کا ملکہ بڑھاتا ہے، حقائق کا علم فراہم نہیں کرتا۔ فلسفہ جاننا ان لوگوں کے لیے بہت ضروری ہے جو اپنے دین کا عقلی دفاع کرنے کی ذمہ داری ادا کرنا چاہتے ہیں، اور اگر یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر نہیں ہے تو میرے لیے فلسفہ پڑھنا ایک خطرناک عمل زیادہ ہے، مفید ہونے کے امکانات کم ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: مغربی فکر سے متاثر لوگ تنقید کرتے ہیں کہ فلسفے سے متعلق غزالیؒ کے رد سے مسلمانوں میں ارتقا کا عمل رک گیا ہے اور اس کی وجہ سے مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ گئے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
احمد جاوید: یہ تنقید ذرا جلدی میں کی گئی ہے۔ آپ نے غزالی ؒ کو اتنا بڑا بنادیا کہ اُن کے اتنا کچھ کہنے پر تو کچھ ہوا نہیں، لیکن ایک خرابی ہی ان کے کہنے پر آپ میں پیدا ہوگئی۔ آپ نے غزالی ؒ کو ایک scape goat بنا دیا ہے، اور وہ تہذیب کتنی بھولی ہے جو ایک آدمی کے کہنے پر اپنے ارتقا کے عمل کو روکنے پر تیار ہوگئی! حالانکہ غزالی ؒ کی سب سے کم پڑھی جانے والی کتاب ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ ہے۔ یہ سب بہانے بازیاں ہیں۔ اور غزالی ؒ نے فلسفے کے تین یا چار مسائل پر کہا کہ یہ کفر ہے۔ مادہ قدیم ہے۔ یہ ماننا کفر ہے۔ کلاسیکل فلسفہ اس عقیدے پر کھڑا ہوا ہے کہ مادہ قدیم ہے، زمانہ قدیم ہے۔ اٹھائیس یا بتیس میں سے چار مسائل ہیں جن پر انہوں نے کہا کہ یہ کفر ہیں، باقی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس میں یہ فلسفہ مفید ہے۔ پھر یہ کہ غزالی ؒ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ فلسفے کی کتاب کی طرف آنکھ اٹھانا بھی منع ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسفہ پڑھتے وقت یہ احتیاطیں کرو۔ یہ جو اتنے بڑے بڑے جدید تعلیم یافتہ لوگ ہیں،کیا آج پرویز ہود بھائی کو طبیعات کی کوئی تھیوری پیش کرنے سے غزالی ؒ نے روک رکھا ہے؟ یہ بہانے بازیاں ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ مسلم تہذیب میں ارتقا کا عمل رکنے کے عوامل کچھ اور ہیں، لیکن ان میں سے کسی ایک کی ذمہ داری بھی غزالی ؒ پر نہیں جاتی۔ابن رشد نے تہافت فلاسفہ کا رد لکھا ہے۔وہ تو پچاس، ساٹھ صفحات کا ایک رسالہ ہے، اس کا رد اس سے دس گنا ضخیم ہے۔اس میں ابن رشد نے کہا ہے کہ غزالی پر مجھے اس بات کا شک نہیں ہے کہ وہ فلسفہ جانتے نہیں تھے،اس لیے ان کی کتاب پر اعتراض کیا، مجھے تو غزالی ؒ سے شکوہ یہ ہے کہ وہ فلسفہ مجھ سے زیادہ جانتے تھے لیکن متعصب تھے۔
فرائیڈے اسپیشل: کہا یہ جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی میں ترقی نہ کرنامسلمانوں کے زوال کا سبب۔ کیا آپ کے خیال میں تہذیب کے ارتقا میں ٹیکنالوجی کوئی معیار ہے؟
احمد جاوید: آج ٹیکنالوجی نے جدید دنیا کی بناوٹ میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کرلی ہے، یعنی آپ کا آرام اور آپ کی طاقت یہ ٹیکنالوجی ہے،آپ ٹیکنالوجی کے بغیر طاقت ور قوم نہیں بن سکتے، اور اسی طرح ٹیکنالوجی کے بغیر معاشرے کے لوگوں کو راحت فراہم نہیں کرسکتے۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ معاشرے کی ضرورت ہے کہ اس کے باشندے راحت میں رہیں، یہ معاشرے کا مقصود ہے۔ اسی طرح ریاست کی ضرورت ہے کہ وہ طاقتور ہو، اس کے بغیر ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔ تو ہماری ریاست اور معاشرے میں زوال کے جو عوامل ہیں ان میں ایک یقیناًٹیکنالوجی میں پسماندہ رہ جانا بھی ہے۔ یعنی فزیکل سائنسز میں پیچھے رہ جانا۔ لیکن یہ سبب اصولی نہیں ہے۔ یہ بہت سے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ ہم جب اپنی ترقی اور پسماندگی کو ناپیں گے تو اس میں معیار مغرب کو نہیں بنائیں گے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی سوسائٹی کو بنائیں گے۔ ہم اپنی تہذیب کو ترقی یا تنزل کے معیارات پر دیکھنے کا جب آغاز کریں گے تو ترقی یافتہ تہذیب کیا ہوتی ہے، اس کا ماڈل مغرب سے نہیں بلکہ اپنے ماضی سے لیں گے جب ہم مسلم معاشرہ یا ریاست بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
لیکن ہمارے یہاں ایک اور مصیبت جو پیدا ہوگئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے مغرب کو کامیابی اور ترقی کا لازمی ماڈل سمجھ لیا ہے اور ہماری تہذیب کے اسبابِ مرگ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی ترقی کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ویسی ترقی ہوگی جیسی کہ مغرب نے کی ہے۔ جب بھی ہم طاقت کا لفظ استعمال کریں گے تو وہی طاقت جو مغرب کے پاس ہے۔ جیسے ہی ہم ایک فلاحی معاشرے کا تصور قائم کریں گے تو یہ کہیں گے کہ وہی فلاحی معاشرہ جو ناروے نے قائم کیا، یا مغرب میں قائم ہوا، وغیرہ وغیرہ۔ تو جو تہذیب اپنے آئیڈیلزکی حفاظت کرنے سے قاصر رہ جائے وہ پھر اسی طرح کیمرہ لیے لیے پھرتی رہے کہ کہیں کوئی ترقی نظر آجائے تو اس کی تصویر اتار سکے۔ اس لیے ہماری تہذیب اس وقت کیمرہ بردار آدمی کی طرح ہے جو دوسروں کے دروازوں کی، دیواروں کی تصاویر کھینچ رہا ہے کہ میں اپنا گھر بنواؤں گا تو اس نقشے پر بنواؤں گا، یا اس ڈیزائن پر بنواؤں گا۔یہ تو مکمل طور پر دست نگری کو تسلیم کرلینا ہے جوہماری موت کا سب سے بڑا مظہرہے۔ ہم مکمل طور پر دست نگر ہوگئے ہیں، یعنی اپنے تصورِ خدا کو بھی مغربی ذہن کے مطابق بنانا چاہتے ہیں، یعنی سائنسی بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے تصورِ انسان کو بھی مغرب سے اخذ کرنے کی عادت ڈال چکے ہیں۔ ہم اپنے تصورِ دنیا میں بھی مغرب کی نقالی کے جنون میں مبتلا ہیں۔ مطلب یہ کہ اتنے زیادہ انحصار کی حالت میں کوئی تہذیب اپنے امتیازات کے ساتھ قائم کیسے رہ سکتی ہے؟
(جاری)
مولانا فراہیؒ اور مدرسۃ الاصلاح کی علمی خدمات
مولانا سید متین احمد شاہ
کچھ عرصہ پہلے کراچی کے ماہ نامہ ’’بینات‘‘ میں ایک مضمون غامدی صاحب پر تنقید کے سلسلے میں نظر سے گزرا۔ پہلی قسط میں فراہی مکتب فکر کے شجرۂ نسب کی تحقیق پیش کی گئی ہے۔ اس کی رو سے مولانا حمید الدین فراہی لارڈ کرزن کے وفادار اور انگریز کے ایجنٹ تھے۔
ہمارے برصغیر کے نوآبادیاتی عہد میں یہاں انگریز کے وجود کے باعث مختلف مسالک کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف لکھی گئی کتابوں میں ان کے تعلقات انگریزوں کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ عوام میں انہیں بے اعتبار ثابت کیا جائے۔ اس طرح کی کوششوں کو شاید دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز کے اصولوں کے تحت درست سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں ان کے فائدے کے مقابلے میں نقصان کا تناسب زیادہ ہے۔
بات مولانا فراہی کی ہو رہی تھی۔ غامدی صاحب سے فکری اختلاف کا درست طریقہ یہ ہے کہ جس تناظر میں وہ جو بات پیش کر رہے ہیں، پہلے اس تناظر کا پورا ادراک حاصل کیا جائے اور پھر ان کی فکر میں جو اجزا قابل نقد نظر آئیں، ان کا مطالعہ کر کے علمی دلائل کے ذریعے تنقید کی جائے۔ یہ بات درست نہیں کہ کسی سے اختلاف کے باعث اس سے وابستہ شخصیات کو انگریز کا ایجنٹ ثابت کرنا ضروری سمجھا جائے۔ مولانا فراہی کے بارے میں اس طرز کا آغاز ایک مفتی صاحب کے ایک کالم سے ہوا اور یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے۔ اگر کسی انگریز شخصیت سے کوئی تعلق یا اس کے ساتھ سفر اسے انگریز کا ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے تو پھر اس کی بنیاد پر بہت سی شخصیات کا کردار محل نظر ٹھہر سکتا ہے، چنانچہ یہی ظلم بہت سے لوگوں نے اکابر علمایدیوبند کے ساتھ بھی کیا اور آج ہم خود اسی منہج پر چل نکلے ہیں۔
ان سطور سے مقصود غامدی صاحب کی وکالت ہرگز نہیں بلکہ ایک غلط رویے پر تنقید ہے جس کے باعث ہم اپنا آپ بے اعتبار بناتے چلے جا رہے ہیں۔ مولانا فراہی پر ایسے الزامات سے پہلے ہمیں اپنے ہی اکابر علامہ سید سلیمان ندویؒ ، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں سید عبد الحی حسنی جیسی عظیم شخصیات کی ان کے بارے میں آرا کا جائزہ لے لینا چاہیے۔ نیز انگریز کے خلاف مولانا فراہی کی حمیت ان کی سوانح کے تناظر میں دیکھ لینی چاہیے۔ ایسی چیزوں کو آخرت کی جواب دہی کے احساس سے بھی دیکھنا چاہیے۔
ہمارے دیوبندی علماء میں اس وقت یہ رجحان بنتا جا رہا ہے کہ اس فکر کو بالکل شروع سے ایک ہی انداز سے دیکھا جائے۔ یہ اپروچ خلط مبحث کا باعث ہے اور تحقیقی نقطہ نظر سے غلط بھی۔ مولانا فراہی کے بارے میں ہمارے علماء غلطیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں اور غامدی صاحب پر رَد کے جوش میں ایک خدا ترس شخصیت پر ایسی باتیں تیزی سے پھیل رہی ہیں جن پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں یہاں سید سلیمان ندوی، سید ابوالحسن علی ندوی اور ان کے والد مولانا عبدالحی حسنی رحمہم اللہ کی تحریروں سے مولانا فراہی کے بارے میں اقتباس نہیں دیتا، صرف حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی کچھ باتیں پیش کرنا مقصود ہیں۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے خطوط کا مجموعہ چار جلدوں میں مدرسۃ الاصلاح کے فاضل عالم مولانا نجم الدین اصلاحی نے مرتب کیا ہے جو مولانا حمید الدین فراہی کے شاگرد تھے۔ یہ مجموعہ حضرت کی زندگی میں مرتب ہوا تھا ، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک ’’اصلاحی‘‘ کی کوئی ’’دسیسہ کاری‘‘ اس میں شامل ہو سکتی ہے۔حضرت مدنی فرماتے ہیں:
’’مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے مجھ کو جو قدیم سے تعلق ہے،وہ آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے۔مدرسہ مذکور کے روح رواں مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو قرآنِ شریف کے مسلّم عالم تھے، اور ایک خاص فکروخیال رکھتے تھے۔ضرورت تھی کہ مدرسہ مذکور کے اساتذہ اور طلبہ مولانا مرحوم کی زندگی کو اپناتے اور سلف صالحین اور اکابر اہل سنت والجماعت کے طریقہ کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے مولانا مرحوم کے اصول کے مطابق جدوجہد جاری رکھتے، لیکن یہ معلوم کر کے سخت صدمہ ہوا کہ اب اس مدرسہ میں مودودی جماعت کا زور ہے۔‘‘ (مولانا حسین احمد مدنی، "مکتوباتِ شیخ الاسلام"، مرتبہ، مولانا نجم الدین اصلاحی،کراچی، مجلس یادگار شیخ الاسلام، ۱۹۹۴ء، ج ۲، ص ۳۱۹، ۳۲۱)
یہ اقتباس کسی حاشیے کا محتاج نہیں کہ حضرت مدنی کے نزدیک مولانا فراہی کا کیا مقام تھا اور انھیں وہ کس نظر سے دیکھتے تھے۔ مولانا نجم الدین اصلاحی (جو حضرت مدنی کے نہایت عقیدت مند اہل تعلق تھے) نے اس خط کے حاشیے میں مدرسۃ الاصلاح کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں بعض اہم باتوں کی طرف اشارات کیے ہیں جنھیں یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ضلع اعظم گڑھ کے بعض روشن دل مسلمانوں نے ایک مجلس کی داغ بیل بنام انجمن اصلاح قوم و برادری ضلع اعظم گڑھ ۱۳۳۱ھ میں ڈالی تھی۔یہی مجلس انجمن اصلاح اعظم گڑھ ترقی کر کے مدرسہ اصلاح المسلمین سرائے میر کی شکل اختیار کر گئی جس کے اصلی روح رواں مولانا محمد شفیع صاحب مرحوم سیدھا اور مولانا عبدالاحد صاحب مرحوم فاضل دیوبند تھے۔ اس مدرسہ کا سنگ بنیاد حضرت شیخ الہند کے شاگرد، حضرت مولانا میاں اصغر حسین دیوبندی نے رکھا تھا اور اس کی کامیانی کے لیے اللہ سے رو کر دعا ئیں کی تھیں۔گو بعد کوقوم وبرادری کے دیگر علمائے کرام تکمیل کے نقشے مرتب کرتے رہے، لیکن اولیت اور الفضل للمتقدم کا طغرائے امتیاز اول الذکر حضرات ہی کے بے لوث ایثار اورخلوص کا مرہونِ منت ہے اور اب اس مدرسہ کا نام بدل کر مدرسۃ الاصلاح ہو گیا ہے۔
’’حضرت مولانا مدنی مدظلہ العالی کا مدرسہ مذکور سے پہلا تعلق تو یہ ہے کہ اس کا سنگ بنیاد ایک دیوبندی عالم اور شیخ الہند ؒ کے شاگرد نے رکھا ہے۔‘‘ (دیکھیے: ’’مکتوبات‘‘ ، حاشیہ مکتوب نمبر ۱۳۷، ج ۲، ص ۳۱۸)
مدرسۃ الاصلاح کی تاریخ کے ان بالعموم مخفی گوشوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اس کے آغاز و پرداخت میں اکابر دیوبند ہی کا فیض شامل ہے۔ ۱۹۳۶ء میں مدرسۃ الاصلاح کے مجلے "الاصلاح" کے ایک مضمون پرایک مولوی صاحب کی طرف سے پھیلائی گئی غلط فہمی کی بنا پر مولانا شبلی نعمانی اور مولانا فراہی کی تکفیر کی گئی۔اس پر حضرت مدنی نے وہ مضمون منگوایااور سختی سے اس کی تردید کی اور ان مولوی صاحب کے اس اقدام کو ناپاک طریقہ قرار دیا۔ حضرت مدنی کی وضاحت پر جن علما نے فتویٰ دیا تھا، انھوں نے رجوع کر لیا۔حضرت مدنی نے یہ وضاحت خود مدرسۃ الاصلاح پہنچ کر تحقیق کے بعد شائع فرمائی۔ حضرت نے اس سلسلے میں تحریر فرمایا:
’’محترم المقام زید مجدکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ حضرات کے منسلکہ جوابات دیکھ کر مجھے کلی اطمینان ہوگیا اور جو شکوک وشبہات مجھے مولوی محمد فاروق صاحب کے کھلے معروضہ کو دیکھنے اور دیگر حضرات کے کلمات کی بنا پر پیدا ہوئے تھے، وہ سب رفع ہوگئے۔ مجھے سخت تعجب ہے کہ ان حضرات نے ایسے سخت گذار خطرناک راستہ یعنی تکفیر مومنین کو کیوں اختیار فرمایا ہے، حالانکہ اس کے اور اس کے مماثل امور کے لیے نہایت شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ کیا فقد باء بہ احدھما الحدیث اور کل المسلم علی المسلم حرام وغیرہ احادیث قویہ انزجار کے لیے کافی نہیں ہیں؟ کیا آپس کے نزاعاتِ نفسانیہ اس کی اجازت دیتے ہیں کہ افتراء ات اور بہتانوں کا طومار باندھ کر تکفیر کے فتاویٰ حاصل کیے جائیں؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں نے مدرسۃ الاصلاح کے پرچے دیکھے، مجھ کو ان میں ایسی کوئی چیزنہیں ملی جس کا کوئی صحیح محل نہ ہو سکتا ہو۔۔۔‘‘ (مصدرِ سابق، ص ۳۱۹، ۳۲۰)
مولانا نجم الدین اصلاحی، حضرت کے اس مکتوب کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی مدظلہ العالی کے اس قولِ فیصل نے قصرِ تکفیر کے ایک ایک ستون اور ایک ایک اینٹ کو منتشر کر دیا ، غوغاتکفیر اور کافر گری کاناس ہوگیا۔حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا شبیر احمد عثمانی زید مجدہم وغیرہم اکابر علماء اور مفتیانِ ہند نے بعض تشریحی مضامین پڑھے اور مولانا مدنی کے محاکمہ پر تکفیر سے رجوع کر لیا۔‘‘ (مصدرِ سابق، ص ۳۱۹، ۳۲۰)
اس کے بعد مولانا اصلاحی نے کچھ مزید روشنی حضرت مدنی کے مدرسۃ الاصلاح سے تعلق پر ڈالی ہے۔
مولانا فراہیؒ کے علمی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا اصلاحی نے لکھا ہے کہ وہ مولانا فضل حق خیر آبادی کے ممتاز شاگردوں میں سے مولانا فیض الحسن سہارنپوری کے شاگرد تھے اور اس اعتبار سے وہ اور حضرت تھانوی ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں۔ مولانا فراہی نرے الفاظ کے عالم ہی نہ تھے بلکہ انھیں بیعت ارادت حضرت شاہ وارث حسن صاحب کوڑا جہاں آبادی خلیفہ مجاز حضرت قطب گنگوہی سے حاصل تھی۔ (دیکھیے: مصدرِ سابق، ص ۳۲۱)
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غامدی صاحب کی فکر کے جو اجزا قابل نقد ہیں، ان پر ضرور تنقید اور علمی محاسبہ ہونا چاہیے کہ ہماری روایت کا یہی اصول رہا ہے جس نے اس دین کا وہ حشر نہ ہونے دیا جو پولوس کے ہاتھوں مسیحیت کا ہوا، لیکن کہیں یہ نقد ’شنآن قوم‘ کے دائرے میں داخل ہو کر ’عدل‘کے تقاضے پامال ہونے کا سبب نہ بن جائے اور ہم ایسی باتیں کہ بیٹھیں جو نہ صرف مسلمہ تاریخی حقائق کے منافی ہوں، بلکہ اللہ کے ہاں تقویٰ اور دیانت کے باب میں بھی مشکوک ہو جائیں، نیز وہ خود ہمارے اکابر کے اسوہ کے بھی خلاف ہوں۔ کسی خدا ترس اور صاحب تقویٰ شخصیت پر غلط الزامات کی سزا یقیناًسنگین ہے اور اس کے عواقب پر غور کرنا چاہیے۔
ایک طالب علم کی یہ عرض غامدی صاحب کی وکالت کے طور پر ہرگز نہ لی جائے۔ راقم خود ان کی فکر کا ناقد ہے اور اس کو اپنے جملہ اجزا کے ساتھ صحیح نہیں سمجھتا اور امت کے لیے ان کے نتائج بھی درست نہیں سمجھتا۔اس کے کچھ آثار ان سے منسوب آج کے نوجوانوں میں واضح ہیں اور اللہ کرے، مستقبل میں امت ان کے ذریعے کسی اور ابتلا کا شکار نہ ہو۔ مقصود یہ ہے کہ ہمارے زبان وقلم اول و آخر جذبہ دعوت سے سرشار ہوں اور ایسے امور سرزد نہ ہوں جو ایک فتنے کو دبانے کے لیے دوسرے فتنے کو ہوا دینے کا سبب بن جائیں۔ ان ارید الاصلاح ما استطعت!
گذشتہ دنوں ’’مدرسۃ الاصلاح کی تفسیری روایت‘‘ کے موضوع پر آئی آر ڈی اور دعوہ اکیڈمی (اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد) کے تعاون و اشتراک سے علی گڑھ سے آئے ہوئے مہمان ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کا ایک عمدہ اور معلومات افزا لیکچر ہوا جس میں مقرر نے اس تفسیری روایت اور اس سے وابستہ شخصیات پر جامع گفتگو کی جس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
مدرسۃ الاصلاح ہندوستان اعظم گڑھ میں واقع ہے جس کی بنیاد مولانا محمد شفیع نے ۱۹۰۸ء میں رکھی۔ علامہ شبلی اور مولانا حمید الدین فراہی کا شروع سے اس ادارے سے تعلق قائم ہوا اور انھی کے تعلیمی افکارکی چھاپ اس پر گہری ہوئی جو آج تک قائم ہے۔ اس کی بنیادی خصوصیت جملہ علومِ اسلامیہ میں قرآن فہمی کو مرکزی اور اولین حیثیت دینا ہے۔ فاضل مقرر نے اس روایت سے وابستہ شخصیات میں سے مولانا حمیدا لدین فراہی، مولانا اختر احسن اصلاحی، مولانا امین احسن اصلاحی،مولانا داؤد اکبر اصلاحی، مولانا ابواللیث اصلاحی ، مولانا صدر الدین اصلاحی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، مولانا وحید الدین خان، مولانا عبدالرحمان پرواز اصلاحی، مولانا الطاف اعظمی، مولانا عنایت اللہ سبحانی، مولانا اجمل ایوب اصلاحی، مولانا بدرالدین اصلاحی اور دیگر حضرات کی قرآنی خدمات پر عمدہ روشنی ڈالی۔
مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کے کام سے تو علمی حلقے واقف ہی ہیں، لیکن اس مدرسے کے دیگر فضلا کا کام بھی اپنی جگہ غیر معمولی اور علمی لحاظ سے قدروقیمت کا حامل ہے۔ ابواللیث اصلاحی کا زیادہ وقت اگر جماعت اسلامی کی ذمے داریوں میں نہ گزرتا تو وہ مولانا امین احسن اصلاحی سے زیادہ آگے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کے بعض مقالات "قرآنی مقالات" میں موجود ہیں۔ ان کے مقالات کو عمیر منظر صاحب نے جمع کر کے شائع کر دیا ہے۔
مدرسہ فراہی کی ایک اہم شخصیت داؤد اکبر اصلاحی ہیں۔انھوں نے قرآنِ کریم کے بعض مشکل مقامات پر بہت عمدہ گفتگو کی ہے جو ان کی تفسیری بصیرت کا پتا دیتی ہے۔اس کتاب کا نام ’’مشکلات القرآن‘‘ ہے، جس میں قرآن کے تقریباً بارہ مقامات پر عمدہ اور عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔ مولانا صدر الدین اصلاحی کے تفسیری کام میں ٹھہراؤ اور متانت کی شان ملتی ہے۔ یہ تفسیر صرف سورۂ فاتحہ اور البقرہ پر مشتمل ہے اور ماہ نامہ "زندگی" رام پور سے قسط وار شائع ہوئی۔اس تفسیر کی تحریر کا آغاز مولانا امین احسن کی تفسیر سے پہلے ہوا تھا۔سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ پر مشتمل یہ تفسیر ’’تیسیر القرآن‘‘ کے نام سے مرتب کی گئی ہے۔
مولانا فراہی کے ایک غیر معمولی اور بہت کمال شاگرد مولانا اختر احسن اصلاحیؒ تھے جن کا زیادہ تعارف لوگوں کے سامنے نہیں ہے۔ڈاکٹر اصلاحی نے بتایا کہ مولانا امین احسن نے مولانا فراہی کی کتابوں کے جو اردو تراجم کیے اور ۱۹۳۶ء میں جاری ہونے والے مجلے ’’الاصلاح‘‘ میں جو تحریریں شائع ہوتی تھیں، وہ مولانا اختر کے قلم سے گزر کر شائع ہوتی تھیں۔ اس طرح مولانا امین احسن کی تراش خراش میں ان کا بڑا ہاتھ ہے، اگرچہ مولانا اصلاحی نے اس کا اعتراف کم ہی کیا ہے۔ان کے مقالات ’’مباحث قرآن‘‘ کے نام سے عبدالرحمان پرواز اصلاحی نے شائع کر دیے ہیں۔
مولاناامین احسن اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ بلاشبہ فکر فراہی کا ایک اعلیٰ شاہکار ہے جس میں مولانا فراہی کی ’’تعلیقات‘‘ سے غیر معمولی استفادہ کیا گیا ہے۔
مدرسۃ الاصلاح کے ایک نامور فاضل مولانا نجم الدین اصلاحی ہیں جنھوں نے مولانا حسین احمد مدنی کے مکتوبات کو اعلیٰ حواشی کے ساتھ مدون کیا ہے۔یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ مولانا فراہی کے مبسوط تذکرے ’’ذکرِ فراہی‘‘ میں ان کا نام بالکل نہیں آسکا۔یہ دیوبند سے ’’القاسم‘‘ نامی رسالہ نکالتے تھے جس میں ان کے قرآنیات پر عمدہ مقالات شائع ہوتے تھے جو اب چھپ بھی چکے ہیں۔
اس ادارے کے ایک فاضل عبدالرحمان اعظمی نے صوفیانہ تصور عشق پر ایک مختصر لیکن بہت عمدہ مقالہ قلم بند کیا جو اس موضوع پر خاصے کی چیز ہے۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی ، مجلہ "معارف" سے وابستہ رہے ہیں اور" ایضاح القرآن "جیسی تصانیف کے ذریعے فکر فراہی کے کئی گوشوں کا بہت عمدہ تعارف و تجزیہ پیش کیاہے۔
مولانا وحید الدین خان کی تمام تعلیم بھی اسی ادارے سے ہوئی اگرچہ وہ اپنی فکری اپج میں اس کے طرز سے بہت دور چلے گئے۔اس ادارے کے ایک فاضل عبدالرحمان پرواز اصلاحی کا علامہ مہائمی پر کام ہے۔ الطاف احمد اعظمی بھی اسی ادارے کے فاضل ہیں۔ خود ایک صاحب فکر انسان ہیں اور فکر فراہی سے استفادے کے ساتھ اپنے افکار کو بھی پیش کرتے ہیں۔ آپ کی تفسیر ’’میزان‘‘ ہے جس کی پہلی جلد مقدمہ تفسیر ہے اور عمدہ مباحث پر مشتمل ہے۔عنایت اللہ سبحانی نے ایم فل اور پی ایچ ڈی میں نظم قرآن کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور اس باب میں ’’البرہان‘‘ وغیرہ کی شکل میں قابل قدر کام کیا ہے۔اجمل ایوب اصلاحی عربی زبان و ادب کے نہایت فاضل آدمی ہیں جنھوں نے مولانا فراہی کی عربی تصانیف کو تعلیقات کے ساتھ ایک نئی آن بان عطا کی ہے۔ مولانا بدرالدین اصلاحی کا کام بھی اسی نوعیت کا ہے۔ فاضل مقرر نے اپنی تصانیف ’’مطالعاتِ قرآن‘‘ اور مولانا فراہی پر دیگر کاموں کا تعارف بھی کروایا۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان میں جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر مکمل طور پر وہ نہیں جو مولانا فراہی کے ہاں ہے۔ یہاں ان کے حقیقی معنوں میں جانشین جناب خالد مسعود تھے جو علمی لحاظ سے ایک قابل اور اخلاقاً ایک سادہ اور شریف انسان تھے۔
آخر میں جناب ڈاکٹرسہیل حسن نے اپنے والد گرامی مولانا عبدالغفار حسن کے حوالے سے کہا کہ وہ تفسیر ’’تدبرقرآن‘‘ کی تعریف بھی کرتے تھے، لیکن اس کے تسامحات کی بھی، خصوصاً حدیث کے باب میں، نشان دہی کیا کرتے تھے، اس لیے فکر فراہی سے استفادے میں اس کے محل نظر پہلوؤں پر بھی نظر رہنی چاہیے۔
بحیثیت مجموعی یہ لیکچر عمدہ تھا۔ ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کا تعارف تو عرصے سے ان کی تحریروں کی وجہ سے رہا ہے، لیکن یہ دوسرا موقع انھیں براہ راست سننے کا ملا۔ آپ ایک محنتی محقق ہیں اور مطالعے میں وسعت نظر کے حامل ہیں۔ سرسید کے بہت مداح اور عقیدت مند ہیں اور ان کے کام کو ایڈٹ کر کے سامنے لا رہے ہیں۔حال ہی میں ’’فکرونظر‘‘ (ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد) میں ان کا ایک اچھا مقالہ علامہ شبلی کی عربی ادب کے میدان میں خدمات پر شائع ہوا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تحریر و تقریر سے ذرا یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مولانا امین احسن اصلاحی کی خدمت کے صحیح اعتراف میں کچھ متامل ہیں۔ مثلاً انھوں نے گذشتہ گفتگو میں کہا کہ انہیں بنانے میں مولانا اختر احسن اصلاحی کا بہت ہاتھ ہے، لیکن انھوں نے کبھی اس کا اعتراف نہیں کیا۔ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ مولانا اصلاحی کی وفات کے بعد ان پر جو خاص نمبر مختلف مجلات نے شائع کیے، ان میں مولانا اصلاحی کی ذاتی یادداشتیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ حال ہی میں ماہنامہ ’’شمس الاسلام‘‘ کی جو مولانا اصلاحی پر خصوصی اشاعت آئی ہے، اس میں بھی ان چیزوں کے ایک بڑے حصے کا اعادہ کیا گیا ہے۔ ایک تحریر میں مولانا اصلاحی نے مولانا اختر احسن کے بارے میں لکھا ہے کہ :
’’طالب علمی کے دور میں ہم دونوں کے درمیان ایک قسم کی معاصرانہ چشمک و رقابت رہی، تعلیم کے میدان میں بھی اور کھیل کے میدان میں بھی، لیکن مولانا فراہی کے درس میں شریک ہونے کے بعد ہم میں ایسی محبت پیدا ہو گئی کہ اگر میں یہ کہوں تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ ہماری یہ محبت دو حقیقی بھائیوں کی محبت تھی۔ وہ عمر میں مجھ سے غالباً سال ڈیڑھ سال بڑے رہے ہوں گے۔ انھوں نے اس بڑائی کا حق یوں ادا کیا کہ جن علمی خامیوں کو دور کرنے میں مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہوئی، اس میں انھوں نے نہایت فیاضی سے میری مدد کی۔ بعض فنی چیزوں میں ان کو مجھ پر نہایت نمایاں تفوق حاصل تھا۔ اس طرح کی چیزوں میں ان کی مدد سے میں نے فائدہ اٹھایا۔ اس پہلو سے اگر میں ان کو اپنا ساتھی ہی نہیں بلکہ استاذ بھی کہوں تو شاید بے جا نہ ہو۔‘‘ (ص ۲۴۵)
اتنے بلند الفاظ میں اعتراف کے بعد شاید مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں۔ ڈاکٹر اصلاحی کی ان باتوں کی ایک نفسیاتی اور فکری وجہ بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وہ سرسید کے نہایت عقیدت مند ہیں، جبکہ مولانا اصلاحی سرسید کے سخت ناقد ہیں اور مولانا فراہی کا سرسید پر موقف بھی انھوں نے ہی تحریروں میں محفوظ کیا ہے۔ چنانچہ اپنے ایک مضمون ’’سرسید احمد خان مرحوم بحیثیت ایک لیڈر ، مصلح اور نجات دہندہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’میرے استاذ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ ، سرسید مرحوم کی تفسیرِ قرآن کو ایک فتنہ سمجھتے تھے، لیکن ان کے قومی خلوص اور ان کے کردار کی بلندی کے بڑے مداح تھے۔‘‘ ( امین احسن اصلاحی، ’’تفہیم دین‘‘، لاہور، فاران فاؤنڈیشن ۲۰۰۰ء، ص ۱۷۵، ۱۷۶)
اسی طرح مولانا فراہی کے بعض تفسیری اجزا کو مولانا اصلاحی نے ’’مجموعہ تفاسیر فراہی‘‘ کے نام سے اردو میں منتقل کیا ہے اور شروع میں ان کے حالاتِ زندگی پر ایک جامع روشنی ڈالی ہے۔ اس میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’مولانا [فراہی] نے قرآنِ مجید پر غور کرنے کا کام باضابطہ طور پر ، جیسا کہ انھوں نے اپنے مقدمہ نظام القرآن میں خود ظاہر فرمایا ہے، اس زمانہ سے شروع کیا ہے جب وہ علی گڑھ میں بحیثیت ایک طالب علم کے مقیم تھے۔یہ وہ زمانہ ہے جب سرسید مرحوم مغربی نظریات سے مرعوبیت کے سبب سے قرآنِ مجید کی من مانی تاویلات کر رہے تھے اور مسلمانوں کا وہ طبقہ جو انگریزوں اور انگریزوں کے لائے ہوئے افکارونظریات سے مرعوب تھا، بری طرح ان من مانی تاویلات کا شکار ہورہا تھا۔ مولانا نے اس فتنہ کو جہاں انگریزوں کے تسلط کا ایک قدرتی نتیجہ خیال کیا، وہاں اس حقیقت پر بھی ان کی نظر گئی کہ مذہبی علوم خصوصا قرآن کے سمجھنے سمجھانے کا جو طریقہ مسلمانوں میں رائج اور مقبول رہا ہے، وہ بالکل ہی غلط اور فرسودہ ہے۔‘‘ (حمید الدین فراہی، ’’مجموعہ تفاسیرِ فراہی‘‘، مصنف کے مختصر حالاتِ زندگی، لاہور، فاران فاؤنڈیشن، ۱۹۹۸ء، ص ۱۳)
اسی طرح مولانا فراہی کے علی گڑھ کے زمانہ قیام کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے مولانا اصلاحی لکھتے ہیں :
"غالباً اسی زمانہ میں سرسید مرحوم کی تفسیر قرآن کا عربی میں ترجمہ کرانے کا خیال پیدا ہوا اور اس کام کے لیے لوگوں کی نظر انتخاب مولانا [فراہی] پر پڑی، لیکن جب مولانا کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو مولانا نے فرمایا کہ ’’ میں اشاعت معصیت میں کوئی حصہ لینا نہیں چاہتا۔‘‘ ( مصدرِ سابق، ص ۱۱)
سرسید کی تفسیری فکر کے حوالے سے مولانا فراہی کا یہ موقف اس لیے پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ آج کئی ذہنوں میں یہ غلط فہمی موجود ہے کہ فکر فراہی، فکر سرسید ہی کا تسلسل ہے۔
جہادِ افغانستان اور موجودہ صورتحال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ ہم نے جہاد افغانستان میں فریق بن کر غلطی کی تھی اور پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہو کر بھی غلطی کی ہے، آئندہ یہ غلطی نہیں دہرائیں گے۔ انہوں نے یہ بات سعودی عرب ایران کشمکش کے تناظر میں کہی ہے۔
جہاں تک اپنی غلطیوں کو محسوس کرنے، ان کا اعتراف کرنے اور آئندہ غلطی نہ دہرانے کے عزم کا تعلق ہے، خواجہ صاحب کا یہ ارشاد خوش آئند ہے اور قومی سیاست میں اچھی پیش رفت کی علامت ہے کہ حکمران طبقات میں بھی اپنی غلطیوں کے اعتراف کی روایت آگے بڑھنے لگی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ان دونوں حوالوں سے حالات و واقعات اور اپنے رویوں پر تفصیلی بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کا صحیح طور پر اندازہ ہو سکے کہ ہم نے اصل غلطی کہاں کی ہے۔
جہاد افغانستان کا پس منظر یہ تھا کہ سوویت یونین نے افغانستان میں اثر و رسوخ بڑھاتے بڑھاتے اپنا نظام و فلسفہ مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ کے لیے مسلح لشکر کشی بھی کر دی تھی جس کے رد عمل میں افغان علماء کرام اور عوام نے مسلح مزاحمت کا آغاز کیا جو بالآخر ایک بڑی اور بین الاقوامی جنگ میں تبدیلی ہوگئی۔ بہت سے پاکستانی راہ نماؤں کو یہ خدشہ تھا کہ کمیونسٹ نظام اور اثر و رسوخ کا افغانستان میں استحکام اس کے پاکستان تک وسیع ہو جانے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں سوویت یونین کی مسلح لشکر کشی کی آخری منزل گوادر دکھائی دینے لگی تھی۔ وہ گوادر جہاں تک سوویت یونین کی رسائی کو روکنے کے لیے طویل جنگ لڑی گئی، مگر وہی رسائی چین کو مہیا کرنے کے لیے تجارتی راہداری کی تعمیر میں ہمارے قومی راہ نما ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال اس دور میں پاکستان تک کمیونسٹ نظام کی وسعت اور گوادر تک سوویت یونین کی رسائی کے خطرات نے نہ صرف حکمران طبقات کو چوکنا کر دیا تھا بلکہ مذہبی عناصر بھی متحرک ہوگئے تھے اور ریاستی قوت کے ساتھ مل کر مذہبی حمیت نے جہاد افغانستان میں پاکستانی عوام کی براہ راست شرکت کا ماحول پیدا کر دیا تھا۔
بات یہاں تک رہتی تو سمجھ میں آرہی تھی جیسا کہ اس دور میں مولانا مفتی محمودؒ بار بار یہ کہتے رہے کہ افغان مجاہدین صرف افغانستان کی آزادی کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھی برسر پیکار ہیں، لیکن جب افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف افغان مجاہدین کی جنگ کو کامیابی کی طرف بڑھتے دیکھ کر امریکی استعمار نے اپنا ’’لچ‘‘ تلنا شروع کر دیا تو معاملات میں بگاڑ پیدا ہونے لگا۔ ہمیں یاد ہے کہ جہاد افغانستان میں امریکہ کی عملی دلچسپی اور کردار کے بعد افغان مجاہدین کے آٹھ گروپوں کا اتحاد قائم ہوا اور مولانا نصر اللہ منصور شہیدؒ کو اس کا سیکرٹری جنرل چنا گیا تھا تو مولوی نصر اللہ منصورؒ نے اس بات سے اختلاف کیا تھا کہ امریکہ کو جنگ کی کمان میں حصہ دار بنایا جائے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ حمایت اور امداد قبول کرنے میں حرج نہیں ہے، مگر معاملات کو بیرونی کنٹرول میں دے دینا جہاد افغانستان کے مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس اختلاف کی وجہ سے انہیں جہاد افغانستان کا باقی دورانیہ بیرون ملک جلا وطنی کی حالت میں گزارنا پڑا تھا۔ سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی اور حضرت صبغۃ اللہ مجددی کی صدارت میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد انہیں افغانستان واپس آنا نصیب ہوا تھا اور اسی دوران وہ جام شہادت نوش کر گئے تھے۔
امریکہ کو جہاد افغانستان میں اس درجہ کا عمل دخل دلوانے میں کن لوگوں کا ہاتھ رہا ہے اور اس کے لیے کس کس سطح پر کام ہوا ہے؟ اس کی تفصیل مناسب موقع پر بیان کی جا سکتی ہے ، البتہ اس کے نتائج ہم سب بھگت رہے ہیں اور خدا جانے کب تک بھگتتے رہیں گے۔
ہمیں خواجہ محمد آصف صاحب کے اس ارشاد سے اتفاق ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی، البتہ یہ غلطی افغان مجاہدین کی حمایت و امداد میں نہیں بلکہ پورے جہاد افغانستان کی باگ ڈور امریکہ بہادر کے ہاتھ میں دینے کے موقع پر ہوئی تھی۔ اور پھر یہی غلطی ہم نے مشرف دور میں دہرائی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ خود لڑنے کی بجائے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہم نے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان عناصر کو بھی اپنا دشمن قرار دے دیا جو امریکہ کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور خطہ میں امریکہ کے خود ساختہ مفادات کی مخالفت کر رہے ہیں جس سے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ خود ابہامات اور شکوک و شبہات سے دوچار ہوگئی۔
البتہ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر امور خارجہ جناب سرتاج عزیز کی اس بات میں وزن ہے کہ خطہ کی موجودہ صورت حال امریکی پالیسیوں کی وجہ سے رونما ہوئی ہے اور سب کچھ خود امریکہ کا کیا دھرا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ محترم سرتاج عزیز کے اس موقف کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، چنانچہ جہاد افغانستان کے آغاز سے اب تک کی صورت حال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ قومی تقاضے کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اصل حقائق تک رسائی اور ان کے غیر جانبدارانہ جائزہ کی سوچ اپنائی جائے۔ خدا کرے کہ ہم اس قومی ضرورت کی تکمیل کے لیے اپنی لابیوں اور حلقوں کے دائروں سے ہٹ کر ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی علمی و فکری کام کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔
خلافت اور عالم اسلام کی سیاسی قیادت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سعودی عرب کے مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ داعش اسرائیلی فوج کا حصہ ہے اور ان خوارج کی ہی ایک شکل ہے جنہوں نے قرن اول میں اسلامی خلافت کے خلاف بغاوت کر کے ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا تھا۔ شیخ محترم نے اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلم ممالک کا فوجی اتحاد داعش کو کچلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
داعش اسرائیلی فوج کا حصہ ہے یا نہیں، یہ ایک بحث طلب بات ہے، مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ داعش نے طور طریقے وہی اختیار کر رکھے ہیں جو امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف بغاوت کرنے والے خارجیوں نے اپنائے تھے اور ایک عرصہ تک وہ مسلمانوں کا ہی خون بہاتے رہے۔ جہاں تک ۳۴ مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کا تعلق ہے، اس کی کوئی واضح عملی شکل ابھی تک سامنے نہیں آئی، البتہ اس سے یہ توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں کہ وہ داعش اور اس طرز کے دیگر دہشت گرد گروہوں کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو جائے گا جو اسلام کے نفاذ کے نام پر بہت سی مسلم حکومتوں کے خلاف ہتھیار بکف ہیں اور تکفیر و قتال کے نام پر زیادہ تر مسلمانوں کو ہی قتل و قتال کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ مسلم ممالک کا کوئی اتحاد سیاسی ہو، معاشی ہو، صنعتی ہو، تہذیبی ہو یا عسکری ہو، خود ہماری خواہش چلا آرہا ہے بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے بہت سے حلقے اس کے لیے آواز بھی اٹھاتے رہے ہیں، لیکن کیا سعودی عرب کی قیادت میں قائم کیا جانے والا یہ اتحاد عالم اسلام کی اس خواہش کو پورا کر سکے گا؟
ملت اسلامیہ کی اصل ضرورت عالمی سطح کی مضبوط سیاسی قیادت ہے جو خود مسلمانوں کے جذبات و مفادات کی نمائندگی کرتی ہو اور اندرونی و بیرونی سازشوں کے موجودہ حصار سے امت مسلمہ کو نکالنے کا حوصلہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔ اب سے ایک صدی پہلے تک خلافت عثمانیہ کی صورت میں اس عالمی قیادت کا احساس کسی نہ کسی درجہ میں موجود تھا اور اس کی افادیت بھی بہرحال قائم تھی۔ اگرچہ خلافت عثمانیہ کو ’’یورپ کا مرد بیمار‘‘ کہا جاتا تھا لیکن جب تک یہ ’’مرد بیمار‘‘ سامنے دکھائی دیتا رہا، مسلمانوں کی امیدوں اور حوصلوں کا چراغ جلتا رہا۔ مگر اس کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی امت مسلمہ خلفشار اور مایوسی کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔بعض تاریخی روایات کے مطابق خلافت عثمانیہ کے بعد سعودی عرب کی حکومت قائم ہوئی تو شاہ عبد العزیز آل سعود رحمہ اللہ تعالیٰ کو سرکردہ علماء کرام کے ایک وفد نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ آپ مملکت کی بجائے خلافت کا اعلان کر دیں تاکہ یہ خلا کسی حد تک پر ہو جائے، مگر یہ تجویز قبول نہ کی گئی۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ تجویز قبول کر لی جاتی تو گزشتہ ایک صدی کے دوران خلافت کے نام پر جتنے فتنے کھڑے ہوئے ہیں، ان سے بچا جا سکتا تھا اور خلافت کے مقدس ٹائٹل کو بہت سے طالع آزماؤں کا تختۂ مشق بننے سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔
ہمارے نزدیک آج بھی اس مسئلہ کا حل یہی ہے کہ سعودی عرب، پاکستان، ترکی، مصر یا کوئی بھی بڑا مسلم ملک خلافت کے ٹائٹل کے ساتھ امت مسلمہ کو عالمی قیادت فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کرے اور خلافت کی غیر موجودگی سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے ختم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ ایک واقعی ضرورت کو صحی طریقہ سے پورا نہ کیا جائے تو اسے غلط طریقہ سے حصول مقصد کا ذریعہ بنانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس لیے ۳۴ مسلم ملکوں کے فوجی اتحاد سے ہم یہ درخواست کریں گے کہ وہ اپنے اسی اتحاد کو صرف منفی اہداف تک محدود رکھنے کی بجائے اسے مثبت رخ فراہم کریں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ خلافت کے ٹائٹل کو دہشت گردوں کے ہاتھوں سے چھین کر اس کا پرچم خود سنبھالیں، ورنہ خلافت کے نام پر فتنے کھڑے ہوتے رہیں گے اور اس مقدس عنوان کو کسی بھی دہشت گردی کا ذریعہ بننے سے روکا نہیں جا سکے گا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لاہور موچی دروازہ میں اصغر خاں نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ یہ 1976 کا آغاز تھا۔ جلسے سے پہلے تحریک استقلال کی اعلیٰ سطح کی قیادت کا اجلاس میاں محمود علی قصوری کی رہائش گاہ 4 فین روڈ پر ہوا۔ ابھی تک اصغر خاں کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کے پورے دور حکومت میں کسی دیگر راہنما نے عوامی جلسوں سے خطاب کرنے وہ طرح نہیں ڈالی تھی جو ہزاروں لاکھوں لوگوں کو جمع کر سکے۔ البتہ چوہدری ظہور الٰہی مرحوم نے مسلم لیگ میں قدرے جان ڈالے رکھی۔ جماعت اسلامی بھی پیپلز پارٹی کے خلاف صف آرا رہی ، مگر بڑے جلسوں کی بجائے ان کا ہدف تعلیمی ادارے تھے جہاں سوشلزم کا مقابلہ کرنے کے لیے وقتاًفوقتاً کسی معصوم طالب علم کی جان بھی لے لیتے اور ثواب دارین حاصل کرتے۔ خاں عبد الولی خاں کو پنجاب میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص پذیرائی ملتی تھی۔ مگر حکومت انہیں پنجاب کے عوام سے ملنے میں ہر طرح سے رکاوٹیں ڈالتی۔ بالآخر انہیں حبیب جالب اور دیگر ساتھوں کے ہمراہ حیدر آباد ٹربیونل میں اس وقت تک قید رکھا گیا جب تک ذوالفقا ر علی بھٹو کی جگہ ضیاء الحق نے اقتدار نہیں سنبھالا۔ دیگر سیاسی جماعتیں بس ایسے ہی کسی پریس کانفرنس، کسی بیان یا کسی بار روم میں خطاب کے سہارے ہی چل رہی تھیں۔ ایسے میں اصغر خاں کے عوامی جلسوں نے جہاں حکمرانوں کو للکارا وہیں عوام کو بھی ایک سیاسی زندگی دی ۔
موچی دروازہ جہاں لاہور کی سیاست کا دل دھڑکتا تھا، یہ جلسہ حکومت اور اپوزیشن کے لیے ایک بڑ ا معرکہ تھا۔ ملک وزیر علی تحریک استقلال کے نائب صدر تھے جو بڑے منتظم آدمی تھے ۔ انہوں نے مختلف پارٹی ورکرز کی ٹولیاں بنا کر انہیں مختلف راستوں سے موچی دروازہ پہنچے کو کہا۔ ایک گروپ جس نے موچی دروازہ میں ان ورکرز کا استقبال کرنا تھا، اس کی سربراہی تحریک استقلال کے سیکرٹری اطلاعات علامہ احسان الٰہی ظہیر نے کی جبکہ ان کے ساتھ مجھے نائب کے طور پر مقرر کیا گیا۔ ہم فین روڈسے نکل کر مال روڈ، بیڈن روڈ اورنسبت روڈ سے ہوتے ہوئے چیمبر لین روڈ کے اس سرے تک پہنچے جہاں سے موچی دروازہ ہمارے سامنے تھا۔ ذاتی مقاصد کے لیے بنائی گئی ذوالفقار علی بھٹو کی " فیڈرل سیکیورٹی فورس" سڑک پر سیدھی گولی کی پوزیشن لیے ہوئے صف آرا تھی۔ ہم دونوں دائیں بائیں کی گلیوں سے نکل کر اسٹیج کے عقب میں پہنچ گئے۔ علامہ صاحب فوراً سٹرھیاں چڑھ کر اسٹیج پر پہنچ گئے اور ہاتھ ہلا کر کارکنوں کو تسلی دی۔ انہیں اسٹیج پر موجود پا کر چاروں اطراف سے تحریک استقلال کے کارکن اور عوام کا ایک جم غفیر جلسے میں آگیا ۔ اس سے قبل کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر اپنی تقریر شروع کرتے، اوپر تلے تین چار کریکر چلائے گئے۔ لوگ ہراساں ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ پیپلز پارٹی کے ایک طالب علم راہنما جسے " فتنہ" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، اُس نے یہ شرارت کی ہے جو ا س کام میں ماہر گنا جاتا ہے اور یہی اُس کا " افتخار " ہے، تاہم اس کے بعد علامہ صاحب نے ایسی پر جوش تقریر کی کہ سہما ہوا ہجوم جم گیا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر برس ہابرس تک تحریک استقلال کے سیکرٹری اطلاعات رہے۔ وہ غایت درجہ آتش نوا مقرر تھے۔ ان کی آواز کا طنطنہ کمال کا تھا۔ رعدکی گونج اور بجلی کی کڑک تھے۔ انہوں نے تلوار کا لہجہ اپنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان میں ایک بلند مقام کے خطیب ٹھہرے۔ انہیں سعودی عرب میں ایک بڑا مقام حاصل تھا، اسی لیے ایک بار حج کے دوران خانہ کعبہ میں جنرل ضیاء الحق سے ملاقات ہو گئی تو ضیاء الحق نے پوچھا کہ علامہ صاحب! آپ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جنرل صاحب آپ نے الیکشن تو کروانے نہیں، کم ازکم قوم سے جھوٹ تو نہ بولیں۔ میں خانہ کعبہ میں کھڑے ہو کر وعدہ کرتا ہوں کہ آپ اسلام کا نام لینا چھوڑ دیں تو میں آپ کی مخالفت کرنا چھوڑ دوں گا۔ اس پر جنرل ضیاء الحق نے اپنے مخصوص انداز میں اپنا دایاں ہاتھ سینے کی بائیں جانب رکھتے ہوئے پھر ایک جھوٹا وعدہ کیا کہ وہ جلد از جلد انتخابات کروادیں گے۔ ضیاء الحق تو حسب توقع الیکشن کروانے سے پھر مکر گیا، مگر علامہ صاحب نے اس کی مخالفت میں مزید تیزی او ر شدت پیدا کر دی ۔ اس وقت تک علامہ صاحب تحریک استقلال سے علیحدہ ہو کر اپنی قیادت میں مسلک اہلحدیث کی ایک بڑی جماعت تشکیل د ے چکے تھے ۔ شہر شہرقریہ قریہ فوجی جنتا کے خلاف خطاب کیا ۔ ضیا ء الحق نے برا محسوس کیا۔ کینہ پرور آدمی تھا، اس لیے علامہ صاحب کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کر لیا۔
پھر ایک روز جب علامہ احسان الٰہی ظہیر قلعہ لچھمن سنگھ لاہور کے چوک میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے آئے تو یہ ان کی زندگی کا آخری جلسہ ثابت ہوا۔ ابھی خطاب شروع کیا ہی تھا کہ ایک بم نے اسٹیج کے بخیے ادھیڑ دیے۔ لوگ لہولہان ہو گئے۔ کچھ موقع پرہی دم توڑ گئے۔ سارا ملک سوگوار ہو گیا۔ علامہ صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہوں نے اپنے نزاعی بیان میں کہا کہ انہیں جنرل ضیاء الحق نے مروانے کی کوشش کی ہے۔ آخری سانس تک بھی یہ ہی کہتے رہے کہ اگر وہ مر گئے تو ان کا خون جنرل ضیاء الحق کی گردن پر ہو گا۔ یار لوگوں نے ان کی موت کے ڈانڈے شاہدرہ کی ایک امام بارگاہ سے ملانا چاہے مگر ناکام لوٹے۔ شدید زخمی حالت میں سعودی عرب نے بڑے اہتمام سے اپنے ہاں لے جا کر ان کا علاج کرنے کی تمام کوشش کیں، مگر وہ زندگی ہار چکے تھے۔ انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا اور وطن عزیز کی پر آشوب سیاست کا ایک اور باب ختم ہوا۔
روایتی مسلم ذہن میں مسئلہ الحاد کی غلط تفہیم
عاصم بخشی
روایتی مسلم ذہن میں موجود سماج کا تصور چونکہ الہامی روایت کی مختلف تعبیرات سے معاشرتی معیارات اخذ کرتا ہے، لہٰذا ایسے غیرمذہبی ذہن کو بھی الحادی یا ’ نیم الحادی‘ گردانتا ہے جس کے لیے الہامی روایت سماجیات کی ذیل میں اپنے اندر کوئی نظری یا عملی دلچسپی نہیں رکھتی۔ اگر تاریخی تناظر میں مسلم سماج کے حال پر ایک نظر ڈالی جائے تو اٹھارویں صدی کے یورپ کی تنویری یا روشن خیال تحریک کی ایک سطحی سی جھلک نظر آتی ہے۔ سطحی اس لئے کہ چاہے بنگلہ دیش میں اپنے شدت پسند مذہبی حریفوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ’فری تھنکر‘ انٹرنیٹ ادیب اور کالم نگار ہوں یا پاکستانی سوشل میڈیا پر برسرپیکار مختلف عقلیت پسند الحادی و نیم الحادی آوازیں، اپنی سیاسی و سماجی تعبیرات کے کوئی ایسے چشمے نہیں رکھتیں جو اسی زمین سے پھوٹیں جس کی سیرابی کے سماجی حق کے لئے وہ جدوجہد میں مشغول ہیں۔ ہمارے ہاں روایتی مذہبی ذہن اور روشن خیال عقلیت پسند ذہن کی باہمی کشمکش کے لئے ابن سینا یا ابن طفیل کی بجائے گیلیلیو کو استعاراتی ترجیح دینا اس لئے حیرانی کی بات نہیں کہ اٹھارویں صدی کی روشن خیال تحریکوں، صنعتی و سائنسی انقلاب اور دورِ استعماریت کے بعد پوری دنیا سکڑ کر کچھ ایسے ملفوظ یا ناملفوظ سماجی معیارات کو تیزی سے ہمہ گیر تسلیم کر نے کے دور سے گزر رہی ہے جن کی بنیادوں میں سائنس طریقہ استدلال سے جڑی تاریخِ فکر کو بلاشبہ روایتی فلسفیانہ استدلال کے مقابلے میں اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا کشمکش کے اس پورے منظرنامے میں اگر روایتی اور تجدد مخالف مذہبی ذہن کے پاس کچھ ایسی منجمد الہامی تعبیرات کا سہارا ہے جو قرونِ وسطیٰ کی تعبیری روایت سے منسلک ہیں تو غیرمذہبی عقلیت پسند ذہن کی پشت پرجدید سائنس کی کم و بیش تین سو سالہ طویل مستحکم روایت کھڑی ہے جو مسلسل اپنے پھیلاؤ کے ذریعے ذہن سازی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔
عقلیت پسند ذہن سازی کے اس مسئلے کو کسی مثال سے سمجھنا ہو تو بنگلہ دیشی ’فری تھنکر‘ تحر یک کے ۱۳ سالہ کارکن محی الدین کی ذہنی کشمکش پر ایک نظر دوڑائیے جو مذہبی شدت پسندوں کے متعدد حملوں کے بعد بالآخر جرمنی میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے اور آج کل وہاں سے بذریعہ انٹرنیٹ سرگرمِ عمل ہیں۔ ایک مسلم خاندان میں پیدا ہونے والے محی الدین کا کہنا ہے کہ انہیں جنت و جہنم کے واقعات سے بھرپور مذہبی’’ قصے کہانیاں ‘‘کسی دیومالا کی طرح مضحکہ خیز معلوم ہوتی تھیں لہٰذا تیرہ سال کی عمر سے ہی وہ اپنے آپ کو ملحد سمجھنے لگے۔ ان کے بقول اس ردعمل پر ان کے والد بہت شرمسار تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے اسٹیفن ہاکنگ کی مشہورِ زمانہ کتاب ’بریف ہسٹری آف ٹائم‘ (اردو ترجمہ: وقت کا سفر) کا مطالعہ کیا جس نے ایک نئے جہان کی طرف ان کی راہنمائی کی۔ سولہ سال کی عمر میں ان کا تعارف ایک ایسے بنگلہ دیشی مجلے سے ہوا جو نظریہ اضافت اور دوسرے سائنسی اصولوں کی مدد سے قرآن کریم میں موجود معجزوں کی تعبیرات پیش کرتا تھا۔ محی الدین نے اپنے کڑے تنقیدی خطوط میں یہ نکتہ اٹھایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ سائنسی طور پر ناممکن تھا کہ کسی گھوڑے پر سوار ہو کر آسمانوں کا سفر کر آتے۔یوں ڈھاکہ سے شائع ہونے والے مختلف اخبارات میں ان مختلف مذہب پسندوں سے ان کا کڑا مناظرہ جاری رہا۔ ۲۰۰۸ء میں کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کے بعد انہوں نے مستقل طور پر لکھنا شروع کیا اور یوں وہ تحریک برپا ہوئی جس کے نتیجے میں ان کے چار ساتھی مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور وہ خود بنگلہ دیش سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔
آپ کے سامنے یہ نہایت مختصر سوانحی منظرنامہ رکھنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول تو یہ منظرنامہ ہمیں ایک روایتی مذہبی ذہن کا ردعمل سمجھنے میں ناگزیر مدد فراہم کرتا ہے اور دوسرا ایک روایتی عقلیت پسند ذہن کی ماہیت اور جدید دنیا میں اس کے ارتقاء پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اپنے ایک اخباری مضمون میں ایک عالم دین کے مشہور مغربی مفکر کارل ساگاں کی کتاب ’کاسموس‘ پر پابندی کے مطالبے کو مثال بنا کر راقم نے روایتی مذہبی ذہن کے ایک مخصوص متشدد ردعمل کی کی جانب نشان دہی کی تو کچھ محترم مذہب پسند دوستوں نے یہ سوال اٹھایا کہ پھر کیا چپ سادھ لی جائے اور سماج کو فکری طور پر آزاد چھوڑ دیا جائے؟ ایک اور مشہور اہلِ علم نے مجھ طالب علم پر یہ اعتراض اٹھایا کہ یہ ایک خطرناک فکری نراجیت پسندی معلوم ہوتی ہے اور کوئی بھی مذہبی یا غیرمذہبی سماج فکر کو بالکل آزاد کیسے چھوڑ سکتا ہے؟
ذاتی نوعیت کے یہ دونوں اعتراضات پیش کرنے کا مقصد بھی روایتی مذہبی ذہن کے ردعمل کی اس مخصوص جہت ہی کو مزیدواضح کرنا ہے کیوں کہ راقم کی سوچی سمجھی رائے میں فی زمانہ اسلام کی مذہبی سماجی روایت کے سامنے ردعمل کے مباحث ترتیب دینے کا مسئلہ تو سرے سے درپیش ہے ہی نہیں کیوں کہ اس کا تعلق تو بہرحال کسی نہ کسی طرح مسئلے کے حل سے ہے۔ یہاں تو فی الحال مسئلے کے خدوخال پر ہی اتفاق زیرِ التوا ہے۔ جب ایسے سوال ہی سامنے موجود نہ ہوں جن پر ایک سماج میں باہمی اتفاق پایا جاتا ہو تو جواب چہ معنی دارد؟ ظاہر ہے اگر کوئی روایتی مذہبی ذہن مسئلے کے خدوخال ہی یوں مرتب کرتا ہے کہ ہمارے نام نہاد مذہبی سماج کا مسئلہ اخلاقیات کا جنازہ نکلنا، باہمی محبت و احترام کا ایک سماجی قدر کے طور پر ناپید ہو جانا، اور روشن خیالی و خرد افروزی کو ایک طنز و دشنام کے طور پر رواج دینا نہیں بلکہ فلسفہ و سائنس کے ذریعے بڑھتا ہوا الحاد ہے تو اس کے نزدیک یہ سادہ لوح ردعمل یقیناًمعقول ٹھہرے گا کہ ’کاسموس‘ اور ’بریف ہسٹری آف ٹائم‘ جیسی کتابوں پر سرے سے پابندی ہی لگا دی جائے۔ لیکن اگر پھر بھی ہم جیسے ’نیم ملحدین‘ باز نہ آئیں اور ریاست یہ نیک کام کرنے میں سستی کرے تو پھر ہمارے پیٹ میں خنجر گھونپ دینا بھی یقیناًاسی ردعمل کا اگلا معقول ترین مذہبی قدم ہونا چاہیے جسے تائیدِ غیبی حاصل ہو۔
لیکن ہماری رائے میں اس ہولناک سماجی سانحے سے بچنے کی واحد معقول ترین صورت یہی ہے کہ اس روایتی مذہبی ذہن کے مقابل کھڑے ایک غیرمذہبی عقلیت پسند ذہن کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کیا یہ واقعی کوئی مسئلہ بھی ہے یا سادہ طور سے ایک مستقل ذہنی ارتقاء کا ہی تسلسل ہے جس کے ساتھ اب ہماری روایتی مذہبی روایت کو کئی داخلی و خارجی وجوہات کے باعث قدم ملا کر چلنے میں مشکل پیش آ رہی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مشکل پر قابو پانے کا کوئی دوسرا نفیس طریقہ نہ ہونے کے باعث یہ مخصوص روایتی مذہبی شعوراب اپنی داخلی سماعت کے پردوں سے خدا کی یہ تحکمانہ آواز ٹکراتے سن رہا ہے کہ دوڑ میں آگے نکلنے والے حریف کو اڑنگا دے کر گرا دیا جائے؟ چونکہ ہماری روایت میں مذہبی کے ساتھ ساتھ غیرمذہبی روایت کے سوتے بھی عرصے سے خشک پڑے ہیں لہٰذا کیوں نہ مغربی عقلیت پسند ذہن کی ماہیت کو براہِ راست سمجھنے کی کوشش کی جائے تاکہ جہاں روایتی مذہبی ذہن کو اس کی خطرناک سادہ لوحی کا یقین دلایا جا سکے وہی ہمارے ہاں کے عقلیت پسند مقلدین و نیم ملحدین کو بھی واضح ہو سکے کہ وہ اپنے مخصوص تعصبات کے لئے کتنا معقول جواز رکھتے ہیں جس پر ان کو خود بھی غیرمتزلزل یقین ہو۔
چونکہ اس مختصر مضمون کو اس حد تک طویل نہیں کیا جا سکتا کہ نظر خراشی کا الزام معقول ٹھہرے لہٰذا کتابوں کے اقتباسات کی بجائے آپ کی توجہ کے لیے ۸۰ء کی دہائی کے اواخر میں نشر کی جانے والی ایک گھنٹے کی نادر دستاویزی فلم کا انتخاب کیا ہے جس کا عنوان ہے ’خدا، کائنات اور باقی سب کچھ‘۔ یہ وہ سال ہے جب اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ راقم کی رائے میں یہ مکالمہ اس جاری بحث کے تناظر میں اس لیے دلچسپ ترین ہے کہ مکالمے کے تینوں شرکاء یعنی اسٹیفن ہاکنگ، کارل سیگاں اور آرتھر سی کلارک نہ صرف چوٹی کے سائنسی مفکرین تھے بلکہ زمانہ جدید کی تاریخ فکر میں بھی ان کے نام سائنسی تفکر کو عوامی طور پر متعارف کروانے کے لحاظ سے سرفہرست ہی رہیں گے۔ پوری فلم تو انٹرنیٹ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے اوراپنے آپ کو اب تک مجھ سے متفق پانے والے قاری یقیناًاس کے ذریعے وہ تقابلی نفسیاتی جائزہ لینے کے قابل ہوں گے جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا۔ اس نفسیاتی جائزے میں تجسس، جستجو، تخیل کی جست، منطقی استدلال کی نوعیت، شعور کی حقیقت مطلق کو جان لینے کی داخلی کشمکش وغیرہ جیسی جہتوں پر تو سیر حاصل بحث ہو سکتی ہے، لیکن یہاں اس کے اختتامی حصے کے کم وبیش دس منٹ کے مکالمے کا ترجمہ پیش کرنا بہت ضروری ہے۔ اپنے سوالات کے ذریعے گفتگو کو آگے بڑھانے والے مشہور صحافی میگن میگنسن تھے۔
’’میگن: پروفیسر ہاکنگ، اپنی کتاب کے بالکل آخر میں آپ لکھتے ہیں کہ اگر ہم کائنات کا ایک مکمل نظریہ دریافت کر لیں تو پھر آخرکار وہ کچھ وقت میں(عوامی سطح پر) قابلِ فہم مانا جائے گا اور نہ صرف سائنسدانوں بلکہ ہر ایک کو اصولی طور پر متفق کر دے گا۔ اور جب یہ ہو جائے گا تو ہم ’کیسے ‘ کی بجائے ’کیوں‘ کے بارے میں بحث کرنے کے قابل ہوں گے۔ میں آپ کا اقتباس پیش کرتا ہوں کہ ’’اگر ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیں تو یہ انسانی عقل کی حتمی فتح ہو گی کیوں کہ پھر ہمیں خدائی ذہن کا علم حاصل ہو جائے گا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے خیال میں خدا جیسے چاہے کائنات میں دخل دے سکتا ہے؟ یا خدا بھی قوانین سائنس کے دائرے میں محدود ہے؟
اسٹیفن ہاکنگ: یہ سوال کہ آیا خدا قوانین سائنس کے دائرے میں محدود ہے، اسی قسم کے سوال کی طرح ہے کہ کیا خدا ایک ایسا بھاری پتھر بنا سکتا ہے جسے وہ خود بھی نہ اٹھا سکے؟ میں نہیں سمجھتا کہ یہ تفکر کچھ خاص مفید ہو سکتا ہے کہ خدا کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں بلکہ ہمیں اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ و ہ واقعتا اس کائنات کے ساتھ کیا کرتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ ہمارے تمام مشاہدات یہ تجویز کرتے ہیں کہ وہ کچھ اچھی طرح متعین قوانین کے مطابق کام کرتا ہے۔ و ہ قوانین شاید خدا نے خود ہی متعین کیے ہوں، لیکن یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ قوانین توڑنے کے لیے کائنات میں دخل نہیں دیتا، کم از کم جب ایک دفعہ کائنات اپنے راستے پر چل پڑے۔ تاہم اب تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ تمام قوانین کائنات کے نقطہ آغاز پر ہر صورت ٹوٹ جاتے ہیں جس کا مطلب یہی تھا کہ کائنات کے آغاز کی حد تک خدا کو انتخاب کی مکمل آزادی تھی۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں ہمیں اندازہ ہوا کہ قوانین سائنس وقت کے نقطہ آغاز پر بھی شاید متعین ہی ہیں۔ اس صورت میں تو خدا کو یہ آزادی نہیں ہو گی اور کائنات کا نقطہ آغاز بھی سائنسی قوانین کے ذریعے ہی متعین ہو گا۔
میگن: بہت شکریہ۔ کارل ساگاں، اس کتاب کے تعارف میں آپ نے تبصرہ کیا کہ یہ کتاب خدا کے بارے میں بھی ہے بلکہ شاید خدا کے نہ ہونے کے بارے میں، کیوں کہ ہاکنگ نے خدائی تخلیق کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ لیکن ظاہر ہے، خدا مختلف لوگوں کے لیے مختلف معنی رکھتا ہے۔ جب ہم ذہن خداوندی تک جست کی بات کرتے ہیں تو ہم کس قسم کے خدا کا تصور قائم کر رہے ہوتے ہیں؟
کارل ساگاں: بھئی میرے خیال میں تو یہ ایک اعلیٰ ترین سوال ہے اور میں اسٹیفن ہاکنگ کا جواب جاننا چاہوں گا۔ لیکن صرف حدودِ امکان کا احاطہ کرنے کی خاطر میں دو متبادل قیاسات پر غور کی دعوت دیتا ہوں۔ایک تو مغرب کا مشہور تصورِ خدا ہے جہاں خدا ایک بہت جسیم سفید فام مرد ہے جو اپنی لامبی سفید ریش کے ساتھ تخت آسمانی پر براجمان ہر گرتی چڑیا کے بارے پیشین گوئی کر رہاہے۔ اس کے متبادل وہ تصورِ خدا ہے جو مثال کے طور پر اسپینوزا یا آئن سٹائن کے ذہن میں موجود ہے جو کم از کم کائنات کے کل مجموعہ قوانین کے بہت قریب ہے۔ اب کائنات میں متعین طبیعی قوانین کا انکار کرنا پاگل پن ہی ہو گا اور اگر آپ کی خداسے یہی مراد ہے تو خدا کے نہ ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ لیکن یہ ایک بہت ہی دوردراز بیٹھا خدا ہے جسے فرانسیسی روایت میں ’ کاہل بادشاہ‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس کے برعکس پہلے والا تصور جو کائناتی مظاہر میں روز مرہ کی بنیاد پر دخل اندازی کرتا ہے، ڈاکٹر ہاکنگ کے بقول اس کے کوئی شواہد نہیں پائے جاتے۔ میرا ذاتی رجحان یہی ہے کہ ان معاملات میں انسان کو ذرا عاجزی کا مظاہرہ ہی کرنا چاہیے کیوں کہ ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم اصولی طور پر کچھ ایسے پیچیدہ معاملات کے بارے میں رائے قائم کرنا چاہ رہے ہیں جو انسانی تجربے سے سب سے زیادہ فاصلے پر ہیں۔اور شاید ہم ان پراسرار رازوں کی جانب ذرا سا رینگنے کے قابل ہی ہو پائیں۔
میگن: شاید پروفیسر ہاکنگ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
اسٹیفن ہاکنگ:میں خدا کا نام اسی طرح استعمال کرتا ہوں جیسے آئن سٹائن نے کیا کہ وہ کائنات کے اس طرح ہونے کی اولین توجیہ ہے جس طرح کہ وہ ہمارے سامنے ہے اور اس کے موجود ہونے کی اولین علت بھی وہی ہے۔
میگن: آرتھر کلارک، کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ اس بات کا کیا مطلب تھا جب آپ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں خدا پر ایمان نہیں رکھتا لیکن اس میں شدید دلچسپی رکھتا ہوں۔
آرتھر کلارک: (مسکراتے ہوئے) خیر میں نے تو اب تک اپنی شرط ہی نہیں باندھی۔ اسٹیفن اور کارل کے تبصروں سے مجھے نپولین اور لاپلاس کا نظریہ کائنات کے ضمن میں دو سو سال پرانا مکالمہ یاد آ گیا جب نپولین نے اس سے پوچھا کہ ’’اس میں خدا کہاں ہے؟‘‘ تو لاپلاس نے جواب دیا کہ ’’جناب، مجھے اس قیاس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔‘‘ میں اس سلسلے میں پنڈت نہرو کے اس قول کا بہت معترف ہوں کہ سیاست اور مذہب کا زمانہ گزر گیا، یہ زمانہ سائنس اور روحانیت کا ہے۔‘‘
پوری گفتگو ہی نہایت دلچسپ ہے لیکن یہ اقتباس پیش کرنے کا مقصد ایک طرف تو روایتی مذہبی ذہن اور دوسری طرف پچھلی دو دہائیوں سے تیزی سے بڑھتے ایک متشدد سائنس پرست الحادی ذہن کو اپنی ردعمل کی نفسیات پر نظر ثانی کی دعوت دینا ہے۔جہاں اسی گفتگو کے اختتام پر ایک سوال کے جواب میں اسٹیفن ہاکنگ کا یہ تبصرہ کہ فزکس ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ ہمسائے سے کیسے سلوک کرنا ہے، الحادی روایت کے شدت پرست حامیوں کے لیے چشم کشا ہے، وہیں اس میں روایتی مذہبی ذہن کے فہم کے لیے نہایت اہم اشارے ہیں۔ ان میں اہم ترین اشارہ یہی ہے کہ ایک اعلیٰ ٰجدید عقلیت پسند ذہن کی ماہیت نہایت پیچیدہ طور پر سائنسی استدلال اور سائنسی تاریخ فکر کی روایت سے نہ صرف نظری طور پر مربوط ہے بلکہ عملی میدان میں ایسے نتائج بھی پیدا کرنے کے قابل ہے جن کے لیے کسی نظری استدلال کی ضرورت نہیں۔ یہ پیچیدہ جدید ذہن آج ایک ایسے نئے تناظر میں ایستادہ ہے جہاں عوامی طور پر سائنس پر ایمان لانے کی صورت کم وبیش وہی ہے جو خدا پر ایمان لانے کی ہے۔ یہ انسان خدا کو اس کے تصور کی بجائے اس کی فعالیت سے تو پہچانتا ہی تھا، لیکن آج سائنس پر ایمان لانے کی کیفیت بھی کم وبیش ایسی ہی ہے۔ ایک کسان جہاں سجدے میں بارش کی دعا کرتا ہے اور آسمان سے پانی کے نزول کو خدائی قوت کا مظہر سمجھتا ہے، وہیں اسے یہ ایمان بھی ہوتا ہے کہ موسمی پیشین گوئی کے مطابق اگلے تین دن بارش کے امکانات معدوم ہیں۔ یہ اب نفسیاتی طور پر ایک شدید تجربیت پسند انسانی شعور ہے جسے تجربے سے بہت فاصلے پر موجود حقائق پراسرار معلوم ہوتے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ ہر لمحہ کائنات کے اسرار و رموز پر سے پردہ اٹھاتے، ابدی پیاس سے نڈھال، زمانہ جدید کے اس انسان کی جستجو بھی روایتی مذہبی ذہن میں ایک ہیبت سے بھرپور محبت پیدا کرنے کی بجائے نفرت اور ردعمل پر اکساتی ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ یہ کیسی مذہبی نفسیات ہے جو ہر لمحہ اپنے خدا کے آگے پردہ تانے کھڑی ہے اور اسی خدا تک پہنچنے کے متلاشی انسان کو حملہ آور سمجھ بیٹھی ہے کیوں کہ وہ اپنی زندگی میں خدا کو کوئی ’معنی خیز‘ جگہ دینے سے قاصر ہے۔
یہ اب ایک صریح نتائجیت پسندی پر استوار منظر نامہ ہے جس میں ایسی روایتی مذہبی فکر کو جو جدیدیت سے سمجھوتے کے بعد ایک معقول اور جامع تجدیدِ فکر کے نتیجے میں انسانیت کی عالمگیر فکری روایت میں اپنا حصہ نہیں ڈالنا چاہتی، سائنسی تفکر کے خلاف استبدادی محاذ آرائی کی بجائے اخلاقیات و مابعدالطبیعات کے میدان میں اپنے رہے سہے اختیار کو اس طرح قائم رکھنے کی فکر کرنی چاہیے کہ ایک ایسا فرد جسے الٰہامی تعبیرات کی بنیاد پر کھڑے مذہب کے مجموعی اعتقادی ڈھانچے پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے تو وہ اس ایمانیات کوجبرِ محض کی بجائے دنیا میں نوعِ انسانی کی فلاح اور آخرت میں نجات کے ساتھ ایک مربوط فکری و عملی نظام کے طور پر اپنانے کے لیے تیار ہو۔ دوسرے لفظوں میں روایتی مذہبی فکر کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ استبداد اور جبر سے دورِ جدید کی مذہبی سماجیات میں سوائے مزید ردعمل اور شدت پسند الحادی فکر پیدا کرنے کے کوئی اور خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں کیا جا سکتا جو خدا کی بارگاہ میں بھی پسندیدہ ٹھہرے اور انسانوں کے لئے بھی کسی مجموعی خیر کا ضامن ہو۔
اوپر پیش کی گئی گفتگو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ سوال اٹھانا ہر گز مشکل نہیں کہ ہمارے وقت کے یہ اعلیٰ ترین اذہان جن کی فکر کو ہمارے تیسری دنیا کے مذہبی سماج میں مسئلہ الحاد کی جڑ سمجھا جا رہا ہے، ان سوالات میں سرے سے دلچسپی ہی نہیں رکھتے جوہمارے ہاں کی روایتی مذہبی فکر کا موضوع ہیں۔شاید یہ خدا کوماننے کا نہیں بلکہ ایک مخصوص تصورِ خدا سے ایسا ذاتی تعلق پیدا کرنے کا مسئلہ ہے جو یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے۔ جہاں دو دہائیاں قبل ویٹی کن میں آرتھر کلارک جیسوں کے خطاب کے بعد کیتھولک کلیسا کی روایت اپنی ساڑھے تین سو سالہ پرانی غلطی تسلیم کرنے کے بعد گلیلیو کو بری الذمہ قرار دے چکی ہے، وہاں ہمارے ہاں کی روایتی مذہبی فکر ابھی صرف اس پیچیدہ جدید نفسیات کے فہم سے مسئلے کے خدوخال متعین کر نے کی جانب اولین قدم ہی اٹھا سکتی ہے۔ اسے اپنے اوپر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر انسان کو اپنی کامل ابدی تسکین کے لیے خدا کی ضرورت ہے تو اسی روایتی مذہبی ذہن کی تعبیرات کے مطابق خدا بھی تو کمالِ بے نیازی سے اپنے آپ کو مانے جانے کا مطالبہ لیے کھڑا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مذہبی فکر اپنی اٹل تعبیرات پر ’غیرمعقول‘ پیرایے میں اصرار کی دیوار کے ذریعے بندے اور خدا کے درمیان موجود ہے؟
(مضمون میں مذکورہ دستاویزی فلم کا انگریزی عنوان God, the Universe and Everything Else ہے اور اسے انٹرنیٹ پر بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔)
مکاتیب
ادارہ
(۱)
ممتاز قادری کی سزا کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے راقم نے دسمبر 2015ء کے ’’الشریعہ‘‘ میں دلائل سے ثابت کیا کہ توہین رسالت پر سزائے موت کے قانون کے ہوتے ہوئے، کسی شخص کا توہینِ رسالت کے کسی ملزم کوماورائے عدالت قتل کرنا ،شرعی نقطہ نظرسے غلط ہے؛ لہٰذازیر بحث کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بے جواز نہیں۔ اس پر بعض کرم فرماؤں کی جانب سے کچھ اختلافات واعتراضات سامنے آئے ہیں۔
کچھ حضرات نے فرمایا ہے کہ آپ جیسے لوگ اس طرح کے دلائل سے یہود و نصاریٰ کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ان کی پیروی ہی کیو ں نہیں کر لیتے تاکہ وہ خوش ہو جائیں!؛ لیکن قرآن کا فیصلہ ہے کہ وہ خوش نہیں ہوں گے۔
سچ یہ ہے کہ ہم خود کو ، اس معاملے پر کوئی دلیل پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں پاتے، اس لیے کہ کس کی کس کو خوش کرنے کی نیت ہے؟ اس کی دریافت اتنا مشکل کام ہے کہ ہمارے کرم فرما ہی اتنی آسانی سے کر سکتے ہیں! ہم لوگوں کے باطن میں اتر کر ان کے مسائل اور بیماریوں کی تشخیص کا(اگر کچھ جان بھی سکیں تو ) اتنا فن نہیں جانتے کہ آدمی کو دیکھے، ملے اور جانے بغیر اس کے باطن پر حکم لگا سکیں۔ہاں ! اپنی صفائی کی بات ہو سکتی ہے، لیکن وہ بھی معترضین ایسے مسکت دلائل سے رد کر سکتے ہیں جن کا ہمارے پاس، ہمیں اقرار ہے، کہ کوئی جواب نہیں ہو گا۔ مثلاً وہ کہہ سکتے ہیں: تم اوپر اوپر سے صفائیاں پیش کر رہے ہو، اندر تمھارے وہی کچھ ہے جو ہم عرض کر رہے ہیں۔ سو دوسری اور پہلی بات ہی کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہماری بساط میں ہے۔
جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ توہینِ رسالت کا مر تکب، فقہا کے نزدیک مباح الدم ہے جس کے قتل کرنے والے کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ تادیباً کوئی تعزیر ی سزا دی جائے گی؛ لہٰذا ممتاز قادری کو سزاے موت دینا غلط ہے، کوئی تعزیری سزا دی جا سکتی ہے تو اس کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ مقدمے، ثبوت اور عدالتی کاروائی سے متعلق ایک بے مثل عجوبہ ہے۔ یعنی کسی کے جرم کے حق میں دلائل اس کا کام تمام کرنے کے بعد فراہم کیے جا سکتے ہیں ! بعد میں اگر پتہ چلے کہ ملزم مجرم تھا، اور اس کی بنا پر کسی شخص نے اسے قتل کر دیا تھا تو اب قاتل کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی! ثبوتِ جرم کا یہ طریقہ عدالتوں کو بہ طورِ رہنما اصول اپنانا چاہیے اور قاتل کو اس وقت تک مہلت دینی چاہیے جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ قاتل، مقتول کو قتل کرنے میں حق بہ جانب تھا؛ اور قاتل کو مقتول کے قتل پر سزا دینے اور سزا کے حق میں دلائل تلاش کرنے کی بجائے ان شواہد پر نظر رکھنی چاہیے جو مقتول کے خلاف مرورِ زمانہ سے مہیا ہوئے ہیں۔ کیا قانون ، عدالت اور مقتول کے ساتھ اس سے بڑا مذاق ممکن ہے! ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہوں : بھلا یہ دلیل بھی کوئی دے سکتا ہے!، لیکن یہ دلیل دی گئی ہے ؛ اور ایک مشہور صاحب ’’ ماہنامہ‘‘ کی جانب سے دی گئی ہے۔
اس دلیل کی لغویت کو ایک طرف رکھیں اور صرف اس زمینی حقیقت ہی کو دیکھ لیں کہ زیر نظر کیس میں جب قاتل نے مقتول کو قتل کیا، اس وقت قاتل کے حق میں فضا زیادہ تھی ، یا بعد میں زیادہ ہوئی! ہمارا دعویٰ ہے کہ بعد میں فضا قاتل کے مخالف ہوتی گئی اور ان لوگوں کی طرف سے بھی اس کے اقدام کو غلط قرار دیا گیا جو واقعے کے ابتدائی دنوں میں اس کے حق میں دلائل دیتے اور نعرے لگاتے تھے۔ راقم ایسے بیسیوں صاحبانِ علم کو جانتا ہے جو ابتدا میں یہ کہتے تھے کہ سلیمان تاثیر کا قتل درست تھا؛ لیکن بعد میں اس کے قائل ہو گئے کہ یہ قتل غلط تھا۔ اس کے بر عکس میں ایک بھی بندے کو نہیں جانتا جو پہلے ممتاز قادری کے اقدام کو غلط سمجھتا تھا، لیکن بعد میں اس کا جواز پیش کرنے لگا۔ گویا بعد کے حالات نے تو یہ ثابت کیا کہ مقتول کو ایک فرضی اور غیر ثابت شدہ الزام پر، بہت سے دیگر محرکات اور اس کے خلاف ایک خاص فضا پیدا ہوجانے کے نتیجے میں، رد عمل کی نفسیات کے تحت موت کے گھاٹ اتارا گیا، نہ کہ ایک صحیح الزام پر قتل کیا گیا!؛ تو اگر بعد کے ثبوتوں پر ہی جانا ہے، تو بھی مذکورہ کیس میں کورٹ کا فیصلہ درست قرار پاتا ہے، نہ کہ اس کے بر عکس۔
خود عدالت نے بھی اپنے تفصیلی فیصلے میں یہ کہا ہے کہ ملزمِ توہین رسالت کو ایک فرضی توہین کے پیش نظر قتل کیا گیا، اس بات کا کوئی تشفی بخش ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ مقتول نے واقعی توہین رسالت کی تھی۔ عدالت چاہتی تو صرف اس بنیاد پر بھی سزا سناسکتی تھی کہ قاتل نے قانون ہاتھ میں لیا، لیکن اس نے اس بات کو بہ طورِ خاص پیش نظر رکھا کہ قاتل نے بلا ثبوت اور بے جواز اقدام کیا؛ مقتول کے معاملے میں توہین کا کوئی واضح ثبوت نہیں تھا۔
اب آئیے مباح الدم کے مسئلے کی طرف۔ مرتد یا گستاخِ رسول کے مرتد اور اس کے نتیجے میں مباح الدم ہو جانے میں علما کے اختلاف سے قطع نظر، سوال یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے ، کسی شرعی امر کے تحت کسی کے مباح الدم ہو جانے کا، بہ طورِ خاص ایک نظمِ ریاست میں ، اور وہ بھی وہاں ، جہاں ایسے مسئلے پر باقاعدہ قانون موجود ہو،یہ مطلب کیسے لیا جا سکتا ہے کہ اس کو کوئی بھی شخص قتل کر سکتا ہے اور ایسے قاتل کو عدالت سزاے موت نہیں دے سکتی؟ فقہا کے مطابق تو کسی بھی قانونی وجہ کے تحت مباح الدم قرار پانے والے کسی شخص کو سزائے موت دینے کا اختیار، انفرادی طور پر کسی فرد کے پاس نہیں ہے؛ بلکہ یہ امراسلامی حکومت یا نظم ریاست کے دائرہ کار میں آتا ہے۔اصولی طور پر ان وجوہ میں سے کسی بھی وجہ کے تحت مباح الدم ہونے والے کو انفرادی حیثیت میں قتل کرنا اسی طرح قتلِ نا حق ہے جیسے کسی بھی شخص کو ناحق قتل کرنا۔
اس ضمن میں عہد رسالت کے جس واقعے سے عام طور پر استدلال کیا جا سکتا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک آدمی نے بار بار سمجھانے پر نہ سمجھنے والی اپنی ایک باندی کو توہین رسالت پر قتل کیا۔ معاملہ رسول اللہ کی عدالت میں لایا گیا۔ ملزم ڈر تا کانپتا پیش ہوا ( جس سے مترشح ہے کہ اسے حضور کی جانب سے سزا نافذ کیے جانے کا اندیشہ تھا)۔ آپ نے صورتِ حال کے تجزیے سے فیصلہ فرمایا کہ متعلقہ کیس میں باندی کا خون بے بدلہ ہے۔
اس واقعے سے یہ کس منطق کے تحت ثابت ہوا کہ قیامت تک جس بھی شخص کے بارے میں بعض لوگ یہ کہیں ، یا کوئی بھی شخص خود سے یہ سمجھے کہ اس نے توہین کی ہے، اور اس کو بلا کسی زجر وتوبیخ اور سمجھانے بجھانے اور یہ تحقیق کرنے کے کہ اس سے متعلق سنی سنائی بات کی کیا حقیقت ہے، توہین رسالت کا مجرم قرار دے کر قتل کر دے، تو وہ مذکور واقعے کے ذیل میں آتا ہے اور اس پر قیاس کرتے ہوئے ہر ایسے مقتول کے خون کو بے بدلہ قرار دینا چاہیے؟ کیا شریعت اور اس کے فلسفہ جرم و سزا اور نفاذِ و حدود و تعزیرات پر اس سے بڑا ظلم ہو سکتا ہے؟ اگر ایک یا چند مثالیں قیامت تک کے ہر رنگ کے واقعات پر سزا کے معاملے کو دو اور چار کی طرح طے کر دیتی ہیں تو یہ ثبوت، گواہیاں ، عدالتیں ، قاضی کس مرض کی دوا ہیں؟
یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اقدامات استثنائی ہیں اور استثنا سے قانون ثابت نہیں ہوتا۔ حضور اور مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے مختلف اعمال کے حوالے سے بہت سی استثنائی مثالیں ملتی ہیں جو محدود تناظر کی حامل ہیں؛ ساری امت اور اس کے تمام افراد کے لیے نہیں ہیں اور نہ ہی آفاقی ہیں کہ انہیں قیامت تک ہر شخص کے معاملے تک ممتد قرار دیا جائے۔ ہماری عام مذہبی ذہنیت کا عجیب المیہ ہے کہ بعض استثنائی مثالوں کو لے کر اس پر ساری شریعت کا مدار رکھ لیتی ہے، لیکن اس کے برعکس شریعت کے عام اور معلوم ومعروف اصول و قانون کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔ شریعت کا یہ اصول مسلمہ ہے کہ ملزم کو صفائی اور اپنی پوزیشن کی وضاحت کا موقع ملنا چاہیے اور عدالت کو معاملے کی تحقیق کے بعد ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر اسے سزا دینی چاہیے۔یہ وہ اصول ہے جو قرآن و حدیث سے بھی واضح ہے اور عہدِنبوی و خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ملزموں سے متعلق فیصلوں اور عدالت و قضا کی مسلسل اور ان گنت کاروائیوں سے بھی۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ بعض صحابہ کے انفرادی فیصلے تو ابدی قانون ہیں، لیکن قرآن و حدیث کے بیسیوں فرامین اور نبی اکرم اور خلفائے راشدین کے مسلسل اور ان گنت عملی فیصلے کوئی شرعی ضابطہ ہی نہیں!
فرض کریں، اس واقعے سے کوئی اصول اخذ کیا جا سکتا ہے تو وہ بھی یہ ہوگا کہ اگر مقتول کا جرم خود عدالت کی نظر میں بھی ثابت ہو جائے تو وہ قاتل کو سزائے موت سے بری کر سکتی ہے۔ زیر بحث کیس میں، قاتل کو ازروئے شرع قصاص میں قتل کرنے کے عدم جواز کا فتویٰ اگر درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ مقتول نے توہین کی بھی تھی یا نہیں؟ جب توہین پر ناقابل تردید ثبوت ہی پیش نہ ہو سکا ہو تو نہ مقتول کا مباح الدم ہونا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی قاتل سے قصاص نہ لینے کے مطالبے کی کوئی حقیقت رہتی ہے۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ بعض معترضین ممتاز قادری کے لیے تعزیری سزا کی گنجائش کا ذکر کر رہے ہیں، ورنہ اصل کرم فرماؤں کا موقف تو یہ ہے کہ قاتل نے کوئی جرم کیا ہی نہیں، اس نے تو اعلیٰ ترین نیکی انجام دی ہے۔ وہ سرے سے کسی سزا کا مستحق ہی نہیں، وہ تو انعام و اکرام کا مستحق ہے۔
ڈاکٹر محمد شہباز منج
شعبہ اسلامیات، یونی ورسٹی آف سرگودھا، سرگودھا
(۲)
ان دنوں ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر سید احمد شہید کی تحریک جہاد، افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین اور موجودہ دور کے طالبان کے فکری وعملی اشتراکات وامتیازات کے حوالے سے مختلف اہل قلم اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اسی حوالے سے ہم بھی چند حقائق کی طرف قارئین کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔
سید احمد شہیدؒ کی تحریک کا فکری اور سیاسی پس منظر کیا تھا؟ اس کے پیچھے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور ان کے بیٹوں کا مضبوط فکری اور سیاسی تسلسل تھا اور وقت کے دو بڑے علماء مولانا عبد الحئی فرنگی محل لکھنویؒ او رشاہ اسماعیل شہیدؒ ، سید احمد شہیدؒ کے نائبین میں سے تھے۔ وہ اور ان کے ساتھی اس دور میں پھیلی ہوئی شرک و بدعت اور فسق و فجور کے خلاف بھی نبرد آزما تھے۔ لوگوں میں تبلیغ کے ذریعے اصلاح رسوم و رواج بھی کرتے رہے اور اسلامی قوانین کو ان جگہوں پر نافذ کرنے کی کوششیں بھی کیں جہاں ان کی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ کہیں ثبوت نہیں ملتا کہ انہوں نے لوگوں کی گردنیں کاٹیں، بلکہ انہوں نے بار بار لوگوں کو معاف کیا جنہوں نے آگے چل کر انہیں سخت نقصان پہنچایا اور تحریک کی ناکامی کا باعث بنے۔
جہاں تک یمن کے شافعی اور نجد کے حنبلی علماء کے شاگردوں کا اور ان کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی بات ہے تو یہ انگریزوں اور ان کے ایجنٹوں کی پھیلائی ہوئی باتیں تھیں۔ ڈاکٹر صادق حسین اپنی مشہور تحقیقی کتاب میں، جو تقریباً ۹۰۰ صفحات پر مشتمل ہے اور جس میں سید احمد شہیدؒ کے خطوط بھی شامل ہیں، لکھتے ہیں:
’’سید احمد شہیدؒ سے پہلے کئی ایک درد دل رکھنے والے اصحاب نے حالات کو سدھارنے کی کوشش کی تھی۔ البتہ ان کی کوششوں کا رخ دانشوروں اور حاکموں کی طرف ہوتا تھا اور ان سے حمایت کے طلب گار ہوتے تھے یا فوج کو اپنا طرف دار بنا کر مقصد کے حصول کی سعی کرتے تھے۔ لیکن سید احمد شہیدؒ نے ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی تھی جس کا روئے سخن عوام کی طرف تھا اور وہ ایک ایسی سیاسی اور مذہبی تنظیم کو بروئے کار لائے تھے جو سربر آوردہ لوگوں سے بے نیاز تھی۔ چنانچہ بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں سید شہید ہی نے سب سے پہلے ہر دل عزیز سیاسی رہنما کا اعزاز حاصل کیا تھا۔‘‘ ( سید احمد شہید اور ان کی تحریک مجاہدین۔ صفحہ ۱۹)
یہ افواہ بھی انگریزوں اور ان کے ایجنٹوں کی پھیلائی ہوئی تھی کہ سید احمد شہیدؒ کی تحریک جہاد وہابیوں کی تحریک سید عبد الوہاب نجدیؒ کی تحریک کے زیر اثر ہے۔ ڈبلیو ہنٹر اپنی کتاب انڈین مسلمانز کے صفحہ ۵۲، ۵۳ پر لکھتا ہے:
’’اس مخالف جماعت نے اپنی تائید میں یہ من گھڑت افسانہ بھی نشر کیا کہ 1823ء اور 1822ء میں جب سید احمدؒ کا قافلہ حج کی غرض سے مکہ مکرمہ میں مقیم تھا تو اپنے عقائد کی بنا پر جو وہابیوں سے ملتے جلتے تھے حکومت حجاز نے ان سے بڑی سختی سے باز پرس کی تھی اور پھر اسی بنا پر انہیں مکہ سے نکال دیا گیا تھا۔ اس سے وہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں جب ہندوستان واپس آئے تو وہ اب بری رسومات کی اصلاح کرنے والے نہ تھے بلکہ محمد بن عبد الوہابؒ کے پکے مریدوں میں سے تھے اور اس وہم میں گرفتار ہوگئے تھے کہ وہ ہندوستان کے ہر قلعے میں ہلالی جھنڈا گاڑ دیں گے اور صلیب کو انگریزوں کی لاشوں کے ساتھ دفن کر دیں گے۔‘‘
سید احمد شہیدؒ کا نجد کے موحدین کی تحریک سے کچھ تعلق نہ تھا۔ مسلمانوں کے اندر جب کوئی اصلاحی تحریک اٹھے گی، اس کا لازمی سر چشمہ کتاب و سنت ہی ہوگا۔ اس لیے ایسی ہر تحریک میں مماثلت کا پایا جانا ضروری ہے۔ محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ کی کتاب ’’التوحید‘‘ میں ان کے عزائم کی جھلک سامنے آجاتی ہے۔ محمد بن عبد الوہابؒ کی تحریک ’’توحید و اصلاح‘‘ تھی، لیکن سید احمد شہیدؒ کی تحریک تجدید جہاد تھی۔ کتاب توحید کے مطالعہ سے ان دونوں کے مسلک، اہم بنیادی مسئلوں میں بھی اختلاف رائے کی جھلک نظر آتی ہے، طریق کار تو دونوں کا مختلف تھا۔ محمد بن عبد الوہابؒ کی دعوت میں توحید اور ترکِ بدعات کو زیادہ اہمیت حاصل تھی، اور اس کتاب میں جہاد پر کوئی علیحدہ باب سرے سے موجود نہیں۔ لیکن اس کے برعکس سید احمد شہیدؒ کی کوئی تحریر، مکتوب یا وعظ جہاد کے ذکر سے خالی نہیں۔ اگرچہ سید احمد شہیدؒ کی دعوت میں بھی توحید خالص کی تبلیغ، قبر پرستی کا استیصال اور نکاح بیوگان کی ترویج وغیرہ دعوت کے اہم اجزاء تھے۔ اب تک پاک و ہند میں جو کچھ اصلاح و تجدید ہو سکی، وہ اس جماعت کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔
ترجمان وہابیہ صفحہ ۱۷، ۱۸ میں نواب صدیق حسن خان قنوجی لکھتے ہیں:
’’علاوہ ازیں یہ بیان کہ مجاہدین نے ’’جہاد‘‘ کا خیال وہابی تحریک سے حاصل کیا تھا، تاریخی اعتبار سے بے بنیاد معلوم ہوتا ہے۔‘‘
مجاہدین کا جہاد اور وہابیوں کا قتال دو مختلف صورتیں تھیں۔ بنیادی طور پر یہ دونوں تحریکیں بڑی فعال تحریکیں تھیں۔ وہابیوں کی تحریک ’’مرتد مسلمانوں‘‘ کے خلاف قتال تھا اور مجاہدین کی جنگ ’’کفار‘‘ کے خلاف جہاد تھا۔ وہابیوں کا عندیہ، یہ تھا کہ گمراہ مسلمانوں کو اسلام کا ہیرو بن جانے پر مجبور کیا جائے اور ان کو بدعات اور غیر اسلامی رسوم و شعار سے، جن کو وہ اختیار کرتے چلے جا رہے تھے، زبردستی روکا جائے، لیکن مجاہدین کا مقصد اس سے بالکل جدا تھا۔ انہوں نے جہاد کو ایک علیحدہ اسلامی شعار کے طور پر تسلیم کیا تھا اور انہوں نے جس قدر ادب تخلیق کیا، اس میں زیادہ تر جہاد کی فضیلت ہی بیان کی جاتی تھی۔ اس کی بنیاد انہوں نے اس امر اور حالت پر رکھی تھی کہ ہندوستان ’’دار الحرب‘‘ ہے نہ کہ ’’دار الاسلام‘‘۔
اس بحث میں حصہ لینے والے فرنگیوں بالخصوص ہنٹر اور رہتک وغیرہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سید احمد شہیدؒ کی تحریک ابتدا ہی سے انگریزوں کے خلاف تھی۔ ان کو ۱۸۵۰ء سے ۱۸۶۳ء تک ان مجاہدین کے خلاف ایسی تباہ کن مہموں سے واسطہ پڑا جن میں مالی اور جانی نقصان کے علاوہ انگریزوں کی قوت، عزت اور آبرو خاک میں مل گئی تھی۔ یہ وہ طاقت تھی جس سے رنجیت سنگھ خائف تھا اورا س طاقت نے سکھوں کو ختم کر دیا تھا۔ یہ وہ قوت تھی جس کا مقابلہ والیان کابل بھی نہ کر سکے، لیکن مجاہدین نے نہ صرف ان کا مقابلہ کیا بلکہ ان کے دانت بھی کھٹے کیے۔ وہ فوجی کارروائیوں پر مجبور ہوگئے تھے۔ تاریخ ان کی عزیمت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔
بعض حلقے روس کو شکست دینے والے مجاہدین کو ہی موجودہ دور کے طالبان سمجھ رہے ہیں اور ان کو منظم گروہ کی شکل میں برسراقتدار لانے کا الزام جنرل ضیاء الحقؒ پر عائد کر رہے ہیں۔ یہ سراسر غلط نظریہ ہے اور اس میں تاریخی حقائق وواقعات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
بھٹو دور کے اخبارات نکال لیں، جب ظاہر شاہ کا تختہ الٹنے کے بعد سردار داؤد برسر اقتدار ہوئے تو بھٹو افغانستان گئے اور ان سے تعلقات بہتر ہوئے۔ سردار داؤد روس کے چنگل سے نکلنا چاہتے تھے اور بھٹو سے مدد کے طالب تھے۔ انہی دنوں گلبدین حکمت یار اور دوسرے کچھ جہادی لیڈر پاکستان آئے۔ ان دنوں میجر جنرل نصیر اللہ بابر مرحوم انسپکٹر جنرل فرنٹیئر فورس تھے۔ درہ خیبر کے قریب کوئی جگہ تھی جہاں کچھ مجاہدین کو روس کے خلاف جنگ میں تربیت بھی دی گئی تھی۔ جنرل حمید گلؒ ٹی وی کے ایک دو پروگراموں میں تفصیل بیان کر چکے ہیں۔ اس وقت ان کے ساتھ شریک قمر الزمان کائرہ بھی تھے۔ وہ سر عام کہہ چکے ہیں کہ یہ جنگ ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کی تھی، ضیاء الحق بہت بعد میں شریک ہوئے۔
روس نے جب افغانستان پر قبضہ کیا تو اسے (روس کو) نکالنے کے لیے عالم اسلام کی تمام قوتیں متحد تھیں۔ سعودی عرب، ایران، مصر، پاکستان، شیعہ، سنی، حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی، شامی، عراقی، تمام قوتوں کا مطالبہ تھا کہ روس افغانستان سے نکل جائے اور یہ تمام علمائے کرام کا فتویٰ تھا۔ عالم اسلام کی جدوجہد جب کامیاب ہوتی نظر آئی تب امریکہ نے امداد دینی شروع کی۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ افغان جہاد کی حامی کوئی جماعت، کوئی مفتی اور ملا شرمندہ نہیں ہے بلکہ اسے اس پر فخر ہے۔
آج جن طالبان کو ان جہادی لیڈروں کا تسلسل بتایا جا رہا ہے، یہ دراصل ان کے وہ حریف اور دشمن ہیں جو ان کی نااتفاقی کے سبب افغانستان اور پاکستان میں چھا گئے اور بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین سات پارٹیوں پر منظم گروہ تھے جن کے سربراہ صبغت اللہ مجددی بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ مولوی یونس خالصؒ مولانا عبد الحقؒ اکوڑہ خٹک والوں کے شاگرد تھے۔ عبد الرب سیاف حنبلی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ گل بدین حکمت یار، احمد شاہ مسعودؒ یہ دونوں انجینئر تھے۔ استاد ربانیؒ کابل یونیورسٹی میں استاد تھے اور ان آخری تینوں کا تعلق مولانا مودودیؒ سے تھا اور اس کا وہ اقرار بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ سب پڑھے لکھے لوگ تھے اور دین اسلام کو بہتر طریقے سے جانتے تھے۔ صبغت اللہ مجددی، استاد ربانیؒ ، انجینئر احمد شاہ مسعودؒ ، اور انجینئر گلبدین حکمت یار دین کا علم رکھنے والے لوگ تھے۔ قرآن مجید اور بائبل کے متعلق گلبدین حکمت یار کی تقریباً ایک ہزار صفحے پر مشتمل کتاب نہایت اعلیٰ تحقیق پر مشتمل ہے اور انہوں نے قرآن مجید کی نہایت اچھی تفسیر بھی لکھی ہے جس کا ترجمہ ادارہ معارف اسلامی نے شائع کیا ہے۔
بہرحال صبغت اللہ مجددی افغانستان کے صدر بنائے گئے۔ پھر چھ ماہ بعد استاد ربانیؒ افغانستان کے صدر بن گئے۔ زیادہ تر اختیارات احمد شاہ مسعودؒ کے پاس تھے۔ حکمت یار سے شدید جنگیں ہوئیں۔ آخر کار صلح ہوگئی اور یہ طے ہوا کہ ربانیؒ افغان صدر ہوں گے، گلبدین حکمت یار وزیر اعظم ہوں گے اور احمد شاہ مسعودؒ وزیر دفاع اور نائب وزیر اعظم ہوں گے، اور اختیارات بھی تینوں کے درمیان تقسیم ہوگئے۔ یہ انتظام عارضی تھا۔ اسی دوران جنرل نصیر اللہ بابر نے بے نظیر دور حکومت میں جہادی گروپوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہیں منظم کیا اور ان کی ہر طرح سے امداد کی۔ یہ لوگ ابھی تک صرف طالب علم تھے، مکمل عالم دین نہیں تھے اور واجبی سا علم رکھتے تھے، لیکن جہادی لیڈروں کی نا اتفاقی کی وجہ سے طالبان افغانستان کے وسیع علاقے پر قابض ہوگئے۔ مولانا سمیع الحق یا مولانا فضل الرحمن نے صرف مشورے کی حد تک ان کی مدد کی۔ بعد میں مولانا فضل الرحمن ان سے الگ تھلگ رہے اور سمیع الحق صرف بیانات کی حد تک ان کے ساتھ رہے۔ انہیں راہ راست پر لانے کے لیے کبھی مفتی ڈاکٹر شامزئیؒ کو، کبھی مفتی رفیع عثمانیؒ کو، کبھی سمیع الحق صاحب کو بھیجا جاتا، مگر یہ کسی کی مانتے کم ہی تھے۔ ان میں بہت سے غیر ملکی ایجنٹ بھی شامل ہوگئے جن کی کاروائیوں کی وجہ سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچا۔ عوام میں ان کی حمایت کم ہوتی چلی گئی۔
جماعت اسلامی شروع شروع میں طالبان کے خلاف بیانات دیتی رہی جس کا جواب جمعیۃ العلماء اسلام (فضل الرحمن گروپ اور سمیع الحق گروپ) کی طرف سے آتا رہا۔ پھر اخبارات میں جنرل نصیر اللہ بابرؒ کا بیان موجود ہے کہ افغانستان پر پہلے جماعت اسلامی کے حامیوں کا کنٹرول تھا۔ اب جبکہ طالبان کی صورت میں جمعیۃ علماء اسلام کا کنٹرول ہے تو جماعت اسلامی کو سخت کوفت ہو رہی ہے۔ حکیم اللہ محسود کا ایک سخت بیان قاضی حسین احمدؒ کے خلاف موجود ہے۔ قاضی صاحب کے جلوس پر ایک خودکش حملہ بھی ہوا اور کچھ لوگ شہید بھی ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن جو کہ طالبان کے حامیوں میں تھے بلکہ بانیوں میں سے تھے، جب طالبان سے اپنی باتیں نہ منوا سکے تو ایک فاصلے پر ہوگئے۔ تب جماعت اسلامی کے ذہین و فطین لیڈروں، خاص طور پر منور حسن اور سراج الحق نے یہ بوجھ اپنے سر لے لیا اور طالبان کے ترجمان بن گئے۔ سیکولر اور لبرل حلقوں نے اس پر جماعت کو آڑے ہاتھوں لیا اور جماعت اسلامی کا گراف مزید گر گیا۔
ایک وقت وہ تھا کہ پاکستان نے دنیا کی سب سے بڑی مہاجر آبادی کا بوجھ سنبھالا ہوا تھا۔ یہ عوام کے لاڈلے تھے، جہادی لیڈر پاکستان میں بھی مقبولیت کی معراج پر تھے۔ نسیم حجازیؒ جیسے عظیم ناول نگار گلبدین حکمت یار کے قدموں میں بیٹھ کر رونے لگے اور کہنے لگے کہ مجھے میرے ناولوں کے مجاہد مل گئے ہیں۔ یہ میرے وہ ہی ہیرو ہیں۔ اب ان کی جگہ لینے والے جو طالبان آئے ہیں، عوام ان سے ان کی کاروائیوں کی وجہ سے شدید برہم ہیں۔
خواجہ امتیاز احمد
سابق ناظم اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ
(۳)
محترمی ومکرمی مدیر ماہنامہ الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
جنوری کے الشریعہ میں حافظ طاہر اسلام عسکری کا مکتوب نظر سے گزرا جس میں انھوں نے داعش اور سلفیت کے باہمی تعلق کے حوالے سے مولانا سید سلمان الحسینی ندوی کی تحریر پر تنقید فرمائی ہے۔ راقم نے مولانا ندوی کا مضمون نہیں دیکھا، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی تنظیموں کا فکری اور مذہبی بیانیہ صرف اور صرف ’’سلفیت‘‘ سے کیوں ملتا ہے؟ آج کل داعش کھل کر علماء دیوبند کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہے۔ داعش کے خراسان ونگ نے ’’رسالۃ الی دیوبند‘‘ کے نام سے سوشل میڈیا اور اپنے رسالہ DABIQ میں سلسلہ وار مضامین شائع کیے اور علماء دیوبند کو گمراہ، کافر اور بے دین قرار دیا ہے۔ علماء دیوبند کی تصوف وسلوک سے وابستگی سمیت دیگر اہم مسائل میں موقف، خصوصاً المہند علی المفند مولفہ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کو تنقید وتشنیع کا نشانہ بنایا ہے۔ وہی پرانے گھسے پٹے مسلکی مسائل ہیں جن کی بنیاد پر علماء دیوبند کی تکفیر کی گئی ہے۔ تمام حوالے اور دلائل پڑھ لیجیے، بات ’’سلفیت‘‘ سے آگے نہیں بڑھتی۔
فقہ الجہاد وغیرہ کے نام سے سب سے زیادہ کام علامہ عبد اللہ عزام مرحوم کا ہے مگر مولانا عزام، ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش، سب کا بیانیہ ایک ہے جو سلفیت کی کوکھ سے جنم لے رہا ہے۔ القاعدہ نے صرف اور صرف سیاسی اختلافات کی بنا پر خود کو داعش سے الگ رکھا ہوا ہے۔
عسکری صاحب نے تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کا تعلق دیوبندی فکر سے ہونے کی بات کی جو درست نہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے سرکردہ قائدین تو داعش میں شامل ہو گئے ہیں کیونکہ دونوں کی فکری اساس ایک ہی تھی، جبکہ لشکر جھنگوی، جو سپاہ صحابہ سے الگ ہو کر صرف اور صرف شیعہ کے خلاف میدان میں اتری، اس کے پاس کوئی ٹھوس علمی یا فکری بیانیہ نہیں، بلکہ نفرت کے جذبات ہی اس کا اصل سہارا ہیں۔
بہرحال داعش اب ہمارے خطے میں بھی باقاعدہ مسلح طور پر میدان میں آ چکی ہے۔ ایسے حالات میں علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کھل کر سامنے آئیں اور داعش کے موقف اور استدلال کے حوالے سے اپنا موقف بیان کریں۔ یقیناًاسلامی خلافت اپنی اصلیت میں ایک بہت اچھی چیز ہے، مگر جس خلافت کا تصور داعش پیش کر رہی ہے، وہ امت مسلمہ کے لیے ایک انتہائی تاریک اور بھیانک تصور ہے۔
ابو حسان مدنی
(۴)
جناب مجاہد کامران، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور
بعد از سلام مسنون عرض یہ ہے کہ میں جناب کی تحریروں کا مداح ہوں۔ آپ گوجرانوالہ میں چند سال پہلے ہماری بار میں تشریف لائے۔ آپ کی ایک کتاب Grand Deception میں نے خرید کر پڑھی۔ اس سے متاثر ہو کر ایک مضمون لکھ کر فرائیڈے سپیشل میں چھپوایا۔ یہ مضمون مذکورہ جریدے کی ۲۴۔اگست ۲۰۱۲ء میں چھپا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مضمون آپ کے علم میں ہو۔ پھر بھی مضمون کی نقل منسلک ہے۔ اپنے بارے میں میرے احساسات اس مضمون سے واضح ہوتے ہیں۔ ان کا یہاں اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے خاندانی پس منظر اور جرات مندانہ کردار کا مجھے کھل کر اعتراف کرنا پڑا۔ مضمون میں، میں نے جو کچھ لکھا تھا، وہ اس سے بڑھ کر تھا۔ فرائڈے سپیشل والوں نے اپنی پالیسی کے لحاظ سے اسے ایڈٹ کیا۔ میں نے عنوان رکھا تھا ’’مجاہد بھی اور کامران بھی‘‘، جب کہ رسالے والوں نے عنون بدل کر اس طرح کر دیا تھا کہ’’ امریکی ضمیر و دانش کی تلاش؟‘‘ میرے لئے وائس چانسلر کے منصب پر فائز شخص کی حیثیت سے امریکہ کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا، وہ خلاف توقع تھا۔ آپ یونیورسٹی کو جس طرح پر سکون تعلیم کی طرف لائے، اس کا اعتراف صوبائی حکومت کو رہا۔ اسی وجہ سے آپ کو توسیع بھی ملی۔ آپ کا سیکوریٹی کے بغیر کام کرنا بڑا ہی حوصلہ مندانہ طرز عمل ہے۔
میں آپ کے جراتِ کردار کا اب بھی معترف ہوں۔ چند دن پہلے آپ کی یونیورسٹی کے دو پروفیسروں کو حساس ادراوں والے رات گئے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ان کے نام ڈاکٹر غالب عطا اور ڈاکٹر عامر سعید ہیں۔ اس دیدہ دلیری کے نتیجہ میں ڈاکٹر غالب عطا کے کم سن بچے کی جو نفسیاتی حالت ہوئی ہے، اس کا تذکرہ اخبارات میں آ چکا ہے۔ آپ تمام تر صورت حال سے یقیناًآگاہ ہوں گے۔ طلبہ خاموش نظر آتے ہیں۔ اساتذہ کی تنظیموں نے باقاعدہ قراردادیں پاس کی ہیں۔ میں ایک معمولی شہری کے طور پر آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی ڈومین میں یہ جو کچھ ہوا ہے، اس کے بعد آپ کا وائس چانسلر کے طور پر کام کرنا بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے تو واضح کریں کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اساتذہ آپ سے یہ سوال کریں یا نہ کریں، میں آپ کے ایک مداح کے طور پر ضرور پوچھوں گا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ ہمارے ملک کے حساس ادارے عام شہریوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کے بارے میں اخبارات اور اسکرین میڈیا پر بہت آتا رہا ہے۔ عام مشاہدہ بھی اس پر گواہ ہے۔ پنجاب کی حد تک میں ذاتی طور پر بہت کچھ جانتا ہوں۔ تفصیلات یہاں غیر متعلق ہوں گی۔ ہمارے ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے لائق فائق اساتذہ بھی اگر حساس اداروں کی چیرہ دستیوں سے بچ نہ سکیں گے تو پھر کیا بننے والا ہے؟ اس پر اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معاشرے میں مقتدر طبقات خاموش رہیں تو پھر یہ بے حسی کی انتہا ہو گی۔
میں تو دکھ سے کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں (بلا کسی استثنا) تو پہلے سپہ سالار فوج کے سامنے سپر انداز ہو چکی ہیں۔ زیادہ تر لیڈر بک چکے ہیں۔ جو بکے نہیں، وہ جھک گئے ہیں۔ جھکے بھی ایسے کہ کھڑے ہونے کی جرات نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ بھی فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دے چکی ہے۔ بہر حال چند ججوں نے اختلاف کیا مگر سردست انصاف کے سول اداروں کی ناکامی پر جو مہر لگ چکی ہے، اس اختلاف سے اس مہرگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مذہبی طبقات بھی اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ میرے لیے یہ امر انتہائی دکھ کا باعث ہے کہ جس ملک میں لاکھوں مساجد موجود ہوں، ان میں کروڑوں درس، خطبات جمعہ اور تقریریں ہوتی ہوں، اس کے باوجود ملک میں قبرستان جیسی بے حسی پائی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ بیکار ہے۔ کرپشن، دہشت گردی، ظلم و بے انصافی اور بد امنی اپنے جوبن پر ہے۔ امن کی راہ پر لے جانے والے اداروں کی بے حکمتی اس سے ظاہر ہے کہ وہ خود خوف کا شکا رہیں۔ امن قائم کرنے والی قوتیں خوف کا شکار ہو کر جو کچھ بھی کریں گی، اس کا نتیجہ امن کا قیام نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں ایجنسیاں عدم پتہ لوگوں کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہیں، وہ سخت تشویشناک ہے۔ بنیادی حقوق کی انجمنیں بھی کم بیش خاموش ہیں۔ واقعی
قحط آشفتہ سراں ہے یارو
شہر میں امن و اماں ہے یارو
میری دعا ہے کہ امن وامان ہوجائے، جیسے بھی ہو۔ مگر یہ کام دعاؤں سے ہونے والا نہیں، اصحاب تدبیر کے حسن تدبیر پر منحصر ہے۔ اس بارے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مقتدر طبقات اور آپ جیسے ذمہ دار لوگوں کو صورت حال میں احساسِ جواں سے کام لینا ہو گا، وگرنہ مظلوموں کا کیا بنے گا! اس کے لیے اللہ کے ہاں ہر ایک کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔
راقم کے خط میں اگر کہیں جذباتیت اور رد عمل کا عنصر محسوس ہو تو اسے مہربانی کر کے نظر انداز کر دیں۔ امید ہے کہ آپ کی طرف جواب سے محروم نہیں رہوں گا۔
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
سیرت کانفرنس پی سی بھوربن کے لیے سفر
محمد بلال فاروقی
استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی کو ۷ جنوری ۲۰۱۶ کو پرل کانٹی نینٹل ہوٹل بھوربن میں منعقدہ سیرت کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔ ۶ جنوری کو دوپہر کے وقت ہم اسلام آباد روانہ ہوئے۔ وہاں مولانا سید علی محی الدین کے ہاں قیام تھا۔ مولانا علی محی الدین چند دن پہلے عمرہ کی سعادت حاصل کر کے لوٹے تھے جس پر مولانا زاہد الراشدی نے انہیں مبارکباد پیش کی۔ عصر کی نماز کے بعد ایک نشست میں، میں نے سوال کیا کہ آپ نے اسلام اور سائنس کے حوالہ سے جو کالم لکھا ہے، اس پر جناب زاہد صدیق مغل نے اشکال کیا ہے کہ ’’ نہ جانے وہ کون سی سائنس ہے جو حقیقت تلاش کر رہی ہے۔ جدید سائنس، جس کا ظہور آج کی تاریخ میں ہوا، وہ کائنات کے ذرے ذرے کو سرمایے میں تبدیل کرکے نفع میں اضافے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ مجھے تو آج تک کوئی سائنس دان نہیں ملا جو اشیاء کی حقیقت تلاش کررہا ہو۔‘‘
استاذ محترم نے فرمایا: میں نے سائنس کی تعریف نہیں بیان کی بلکہ سائنس کا فنکشن بیان کیا ہے کہ سائنس کرتی کیا ہے۔ کائناتی قوانین کو دریافت کرنا، اشیاء کی حقیقت جاننا، ان کے استعمال کا طریقہ اور ان کی افادیت کے مختلف پہلو دریافت کرنا، اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچانا یہی سائنس کا فنکشن ہے اور اس سے اسلام کا کسی قسم کا کوئی تصادم نہیں۔ استعمال کرنے والے اگر غلط استعمال کرتے ہیں تو اس سے سائنس کے فنکشن کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ مثلاً چاقو کا فنکشن کاٹنا ہے۔ اب یہ کاٹنے والے پر منحصر ہے کہ سیب کاٹتا ہے یا کسی کا ہاتھ۔ کاٹنے والے کے ناجائز استعمال کی بنیاد پر چاقو کی افادیت سے انکار کیونکر ہوسکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ دریافتوں سے نفع کا حصول بالکل جائز عمل ہے۔ شریعت نفع کے حصول سے ہرگز منع نہیں کرتی بلکہ ضرر پہنچانے سے منع کرتی ہے۔ سائنس کی بنیادیں تو ہم نے اپنے دورِ عروج میں فراہم کی ہیں۔ مغرب اسے غلط رخ پر لے گیا ہے تو کیا مغرب کے غلط رخ پر جانے کی وجہ سے ہم اپنی بنیادوں کا انکار کر دیں ؟
دوسرا سوال میں نے یہ کیا کہ الشریعہ کے اہداف، دائرء کار اور معیار کیا ہے؟
استاد محترم نے فرمایا: الشریعہ کا پہلے دن سے یہ ہدف طے ہے کہ علمی وفکری مسائل پر مکالمہ کا ماحول فراہم کیا جائے، وہی ماحول جو امام ابو حنیفہ کی مجلس میں تھا، جو فقہاء اور متکلمین کے ہاں تیرہ سو سال سے چلا آرہا ہے، وہی ماحول جو عقائد میں ماتریدیہ واشاعرہ کے مابین اور فقہ میں فقہاء کے درمیان ہمیشہ سے رہا ہے اور میرے نزدیک اس کا سب سے بہتر نمونہ طحاوی شریف ہے۔ طحاوی فقہی مکالمہ ومجادلہ کا اعلیٰ ترین معیار ہے۔خصوصا جدید مسائل پر مکالمہ کا ماحول فراہم کرنا الشریعہ کا ہدف ہے اور مجھے امید ہے کہ ’’الشریعہ‘‘ کی نئی ادارت اس کو قائم رکھے گی۔ الشریعہ کا دائرہ کار اہل سنت کے مسلمات ہیں۔ اہل سنت کے کلامی دائرہ میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظاہریہ، فقہی دائرہ میں احناف، شوافع، حنابلہ، مالکیہ اور ظواہر جبکہ تصوف کے دائرہ میں نقشبندیہ ،قادریہ، سہروردیہ اور چشتیہ یہ سب اہل سنت میں شامل ہیں۔ مکالمہ میں علمی، فکری تنقید، سنجیدہ مجادلہ کو ہم نے ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے اور اس کو الشریعہ میں جگہ دی ہے، لیکن غیر سنجیدہ ، غیر علمی اور ’’مان نہ مان‘‘ قسم کا نقد، اس کا ہم نے نہ کبھی نوٹس لیا ہے، نہ جواب دیا ہے اور نہ ایسی تحاریر نوٹس لینے کے قابل ہوتی ہیں۔
اس پر میں نے سوال کیا کہ جدید مسائل پر بہت سی آرا ایسی ہیں جوالشریعہ میں شائع ہوتی ہیں اور وہ آپ کے بیان کردہ دائرہ کار سے ہٹ کر ہیں۔ استاد محترم نے جواب دیا کہ ان آرا کاآنا کوئی قابل اشکال بات نہیں، البتہ میں اہل سنت کے مسلمات سے ہٹ کر نئے اصولِ استدلال وضع کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔
اسی دوران مولانا سید علی محی الدین نے گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل میں زیر بحث آنے والے اس مسئلے کے متعلق سوال کیا کہ ’’قادیانیوں کی حیثیت کیا ہے؟‘‘ مولانا نے فرمایا کہ یہ بحث پہلے ہوچکی ہے اور علماء کا متفقہ فیصلہ آچکا ہے کہ قادیانی غیر مسلم اقلیت ہیں۔ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کا مؤقف تھا کہ یہ مرتد ہیں یا کم از کم زندیق اور واجب القتل ہیں، جبکہ علامہ اقبال کا خیال تھا کہ یہ صورت آج کے دور میں قابل عمل نہیں ہے، اس لیے ان کو امت مسلمہ کے وجود سے الگ کرکے ایک غیر مسلم اقلیت کی حیثیت دے دی جائے۔ چنانچہ تمام علماء نے ۵۳ء میں متفقہ طور پر ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے اتفاق کیا اور اسی پر تمام مکاتب فکر کا اجماع ہو گیا۔ میرے خیال میں اس موضوع کو دوبارہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ نقصان کا خدشہ موجود ہے۔
نمازِ عشاء کے بعد جامع مسجد ہمک ماڈل ٹاؤن میں مولانا زاہد الراشدی صاحب کا بیان تھا جس میں استاد محترم نے اس نکتے کو واضح فرمایا کہ جس طرح رسول اللہ، اللہ کا پیغام قرآن مجید امت تک پہنچانے والے ہیں، ایسے ہی قرآن مجید کی تشریح کی بھی مطلق اتھارٹی ہیں۔ فرمایا، کامن سینس کی بات ہے کہ جب کسی کی بات سمجھ میں نہ آئے اور بات کرنے والا موجود ہو تو اس کی بات سمجھنے کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ یا متکلم نے کوئی بات کی ہے اور آپ اس کا کچھ مطلب سمجھے ہیں جبکہ متکلم کا کہنا ہے کہ میرا یہ مطلب نہیں ہے تو متکلم کی بات ہی معتبر ٹھہرے گی۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارے لیے نازل ہوا ہے۔ اب قرآن مجید کی کوئی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی یا پھر مغالطہ لگتا ہے تو متکلم اللہ تعالیٰ ہے، ان تک ہماری رسائی نہیں، لیکن ان کے نمائندہ رسول اللہ تک ہماری رسائی ہے۔ ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے اس بات کو کیسے سمجھا ہے ؟ کیسے اس پر عمل کیا ہے؟ اس تک ہماری رسائی ممکن ہے اور چونکہ رسول اللہ، اللہ کے نمائندہ ہیں لہٰذا رسول اللہ آیت قرآنی کا جو مطلب سمجھائیں گے، وہی اللہ کی منشا ہوگی۔
صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست سامع تھے۔ صحابہ کو کئی مواقع پر بات سمجھ میں نہیں آئی یا مغالطہ لگ گیا یا کسی نے غلط فہمی ڈال دی تو صحابہ رسول اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اس پر چند واقعات سنائے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ جلیل القدر صحابی تھے۔ بہت منجھے ہوئے ڈپلومیٹ،سفارتکار اور بہادر جرنیل تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نجران بھیجا تاکہ ان کو اسلام کی دعوت دیں اور قرآن کریم سنائیں۔ حضرت مغیرہ سے جب نجران کے عیسائیوں نے قرآن کریم سنا تو حضرت مغیرہ کو مغالطہ میں ڈال دیا۔ اشکال کیا کہ قرآن مجید میں حضرت مریم کو حضرت ہارون کا بھائی کہاگیا ہے: یا اخت ھارون، جبکہ حضرت ہارون اور حضرت مریم کے زمانہ میں صدیاں حائل ہیں۔ حضرت مغیرہ پریشان ہوگئے اور جواب نہ دے سکے۔ واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے او ر بتایا کہ حضور! انہوں نے اشکال کیا اور میں جواب نہیں دے سکا۔ نبی کریم نے فرمایا کہ خدا کے بندے ! سادہ سی بات تھی۔ وہ ہارون اور ہیں جبکہ یہ ہارون اور ہیں۔ بنی اسرائیل کا یہ رواج تھا کہ وہ انبیاء کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھتے تھے۔ مریم کے بھائی کا نام بھی حضرت ہارون کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اب یہ الجھن حضرت مغیرہ کو پیش ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی اور آپ نے اس الجھن کو صحیح معنی و مطلب سمجھا کر حل کر دیا۔
قرآن مجید نے رمضان المبارک میں سحری کی حد بیان کرتے ہوئے ایک محاورہ استعمال کیا: وَ کُلُوا وَ اشْرَبُوا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیطُ الاَبْیَضُ مِنَ الخَیْطِ الاَسْوَدِ مِنَ الفَجر۔ اب جن کا محاورہ تھا، وہ تو سمجھ گئے کہ اس سے مراد پوپھٹنا ہے، لیکن جو اس محاورہ سے ناواقف تھے، انہوں نے سفید اور سیاہ دھاگے کا مطلب حقیقی دھاگہ سمجھ لیا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ بعض صحابہ نے کالی اور سفید ڈوریاں ٹانگوں کے ساتھ باندھ لیں اور جب تک ان میں فرق نظر نہیں آیا، تب تک سحری کھاتے رہے۔ ایک صحابی حضرت عدی بن حاتم نے اپنے سرہانے کے نیچے سفید اور کالے رنگ کی دو ڈوریاں رکھ لیں۔ ایک دن صبح موسم ابر آلود تھا اور کافی دیر بعد ان میں فرق نظرآیا تو اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ آج سحری بہت لمبی تھی۔ حضور نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یوں سرہانے کے نیچے رکھے سفید و کالے دھاگے میں فرق دیر سے نظر آیا۔ آپ نے فرمایا کہ بھئی! اس کا مطلب پوپھٹنا تھا، سفید اور کالا دھاگہ مراد نہیں تھا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر دل لگی کا جملہ بھی فرمایا کہ: اذا لوسادتک عریض یا عدی۔ عدی! تیرا سرہانہ تو بہت چوڑا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی کا جو معنی متعین کردیا، وہی حتمی ہے۔اب اس کے بعد یہ کہنا کہ میں یہ سمجھا ہوں، اس کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔
اگلے دن صبح فجر کے بعد مولانا ثناء اللہ غالب کی مسجد میں استاذِ محترم نے درس قرآن ارشاد فرمایا اور ان کے ہاں ناشتہ کرنے کے بعد مولانا قاسم عباسی کے ہاں ان کے والد محترم کی تعزیت کے لیے گئے۔مولانا قاسم عباسی کے والد محترم حاجی محمد شعیب صاحب سنی بینک مری کے معروف بزرگ تھے۔ خدا ترس، عبادت گزار اور انتہائی مہمان نواز بزرگ تھے۔ ان کا گھر مہمانوں بالخصوص علماء کرام کے لیے ایک مستقل مہمان خانہ تھا۔ امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر بھی ان کے ہاں کئی روز تک مہمان رہے۔ گزشتہ دنوں اس دار فانی سے انتقال فرماگئے۔ ان کے صاحبزادے مولانا محمد قاسم عباسی آجکل روالپنڈی میں رہائش پذیر ہیں۔ان کے گھر حاضر ہو کر حاجی شعیب صاحب کی تعزیت کی۔
اس کے بعد مولانا نوید عباسی کے ساتھ مری کے لیے روانہ ہوئے۔سنی بینک مری سے مولانا سیف اللہ سیفی صاحب بھی ہمراہ ہو گئے۔ راستہ میں مرکزی جامع مسجد مری کے خطیب مولانا مفتی محمد خالد صاحب سے ان کے والد گرامی کی وفات پر تعزیت کی جس کے بعد پرل کانٹی نینٹل ہوٹل بھوربن پہنچے جہاں پی سی کے مینیجر ذوالفقار ملک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ساتھ کانفرنس ہال میں پہنچے۔ یہ سیرت کانفرنس ہر سال پی سی کی انتظامیہ کی طرف سے منعقد کی جاتی ہے جس میں اس سال مہمان خصوصی مولانا زاہد الراشدی تھے۔
استاذِ محترم نے رسول اللہ کے طرز حکمرانی پر بات کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ فلاحی ریاست کی خصوصیات کو بیان فرمایا۔ فرمایا کہ نبی کریم نے صرف ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور نہیں دیا، صرف اس کی تعلیمات نہیں بیان کیں، بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیئس سال کی محنت کے بعد اس دنیا سے تشریف لے گئے تو ایک فلاحی ریاست قائم ہوچکی تھی جسے آج کی دنیا بھی فلاحی ریاست مانتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا کہ جب کسی مسلمان کی وفات ہوتی اور آپ سے تقاضا ہوتا کہ آپ اس کا جنازہ پڑھائیں تو رسول اللہ اس میت کے متعلق کچھ سوالات پوچھتے تھے۔ ایک سوال یہ ہوتا تھا کہ اس کے ذمہ کوئی قرضہ تو نہیں؟ اگر جواب نہ میں ہوتا تو جنازہ پڑھا دیتے۔ اگر مقروض ہوتا تو صحابہ سے پوچھتے کہ قرض کی ادائیگی کا کوئی بندو بست ہے؟ اگر ہوتا تو آپ جنازہ پڑھا دیتے۔ اگر ایسی کوئی صورت نہ ہوتی تو خود جنازہ نہیں پڑھاتے تھے، صحابہ کو فرماتے کہ وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ ایک صحابی کی وفات پر یہی واقعہ ہوا تو پتہ چلا کہ میت مقروض ہے اور قرضہ اتارنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ صحابہ سے فرمایا، بھئی! اس کی نمازِ جنازہ پڑھ لو۔ ایک صحابی ابو قتادۃ نے عرض کی، یا رسول اللہ!ہمارا مسلمان بھائی ہے۔ اسے آپ اس سعادت سے محروم نہ کیجیے۔ آپ جنازہ پڑھائیں، قرضہ میں ادا کر دوں گا۔ حضور نے جنازہ پڑھا دیا۔ جنازہ پڑھانے کے بعد حضور نے ایک اعلان کیا جو ویلفیئر اسٹیٹ کی بنیاد ہے۔ فرمایا :
ما من مومن الا وانا اولی الناس بہ فی الدنیا والآخرۃ، اقرء وا ان شئتم (النبی اولی بالمومنین من انفسھم)، فایما مومن ترک مالا فلیرثہ عصبتہ من کانوا، فان ترک دینا او ضیاعا فلیاتنی فانا مولاہ۔
اگر کوئی مسلمان قرضہ یا بے سہارا خاندان چھوڑ کر فوت ہوا ہے، فالی وعلی، وہ میرے پاس آئے گا، وہ میری ذمہ داری ہے۔ تاریخ کے طالب علم کے طور پر میری رائے ہی کہ ’’الی‘‘ کی بات تو بہت لوگوں نے کی ہے کہ کوئی ضروت مند ہو تو میرے پاس آئے، لیکن ’’علی‘‘ کہ اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے، یہ بات تاریخ میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی ہے۔ رسول اللہ نے یہ پالیسی دی کہ ریاست کے نادار، معذور، غریب اور ضرورت مند لوگ ریاست کی ذمہ داری ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کا ماحول یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی شخص آتا اور کسی ضرورت کا تقاضا کرتا تو رسول اللہ ارشاد فرماتے! بھئی، اس کو بیت المال میں سے دے دو۔ رسول اللہ نے ایسا سسٹم بنا لیا تھا کہ جو بھی ضرورت مند آتا، اس کی ضرورت پوری ہوتی تھی۔اس حوالے سے دو واقعات بیان کیے۔
ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور عرض کی، یا رسول اللہ! میرا اونٹ فوت ہوگیا ہے۔ گھر سے دور ہوں۔ مجھے سواری عنایت فرمائیں تاکہ میں گھر جا سکوں۔ رسول اللہ نے فرمایا! بیٹھو، تمہیں اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں۔ وہ حیران ہوا کہ مجھے سواری چاہیے، اونٹنی کا بچہ میرے کس کام کا؟ صحابی نے دوبارہ عرض کی، یا رسول اللہ! مجھے سواری چاہیے، میں نے گھر جانا ہے۔ فرمایا، بھئی کہا تو ہے کہ تمہیں اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں۔ وہ پھر پریشان ہوئے اور عرض کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا، بھئی اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں۔اور پھر ایک اونٹ منگوا کر ان کے حوالے کیا اور فرمایا کہ یہ بھی کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوش مزاج بزرگ تھے اور کبھی کبھی اس قسم کی دل لگی فرما لیا کرتے تھے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر ہمارے خاندان والوں نے سفر پر جانا تھا۔ ہمیں اونٹوں کی ضرورت تھی۔ اس وقت کا ماحول دیکھیے! ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ ہمیں کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی۔ ہمیں پتہ تھا کہ رسول اللہ کی بارگاہ میں جائیں گے تو مایوس نہیں لوٹیں گے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور عرض کی، یارسول اللہ! سواری کے لیے اونٹ چاہییں۔ آپ نے انکار فرما دیا اور قسم اٹھا لی کہ نہیں دوں گا۔ ابو موسیٰ اشعری خود فرماتے ہیں کہ مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے جاتے ہی مجلس کے ماحول کا لحاظ کیے بغیر اپنی ضرورت پیش کردی۔ رسول اللہ کسی وجہ سے غصے میں تھے، اس لیے انکار فرما دیا۔ یہ واپس آگئے اور خاندان والوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرما دیا ہے۔ اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور ابوموسیٰ اشعری کو بتایا کہ آپ کو رسول اللہ یاد فرمارہے ہیں۔ یہ پہنچے تو دیکھا کہ رسول اللہ کے سامنے اونٹوں کی دو جوڑیاں کھڑی تھیں۔ آپ نے فرمایا یہ لے جاؤ۔میں نے اونٹ پکڑے اور چل پڑا۔ راستے میں خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو قسم اٹھا لی تھی۔ اب اس حالت میں اگر میں نے اونٹ لے لیے تو اس میں کیا برکت ہوگی۔ میں واپس گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے پاس تو اونٹ نہیں تھے اور آپ نے مجھے اونٹ نہ دینے کی قسم اٹھا لی تھی۔ فرمایا کہ اس وقت میرے پاس اونٹ نہیں تھے۔ یہ قیس بن سعد کے باڑے سے ادھار منگوائے ہیں۔ انہوں نے پھر سوال کیا کہ آپ نے تو قسم اٹھا لی تھی۔ فرمایا کہ مجھے قسم یاد ہے، لیکن میرا معمول ہے کہ اگر کوئی قسم اٹھا لوں اور مجھے خیال ہو کہ جس کام کے نہ کرنے کی قسم اٹھائی ہے، وہ خیر کا کام ہے تو میں قسم کو خیر کے کام میں رکاوٹ کا ذریعہ نہیں بننے دیتا اور کفارہ ادا کرتا ہوں۔
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور کا یہ ماحول تھا۔فلاحی ریاست کی یہ صورتحال تھی۔
سیرت کانفرنس میں مری کے علاقہ کے سرکردہ علماء کرام بڑی تعداد میں شریک تھے جنھوں نے اس خطاب پر خوش گوار تاثرات کا اظہار کیا اور کہا کہ آج کے ماحول میں انسانی سوسائٹی کی ضروریات کے حوالے سے اس قسم کے خطابات کی زیادہ ضرورت ہے۔
الشریعہ اکادمی کی ہم نصابی تعلیمی سرگرمیاں
ڈاکٹر حافظ محمد رشید
دورۂ جغرافیہ قرآنی
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ دینی مدارس کے مقامی طلبہ کے لئے مختصر دورانیہ کے کورسز بھی ہیں جن کا انعقاد عام طور پر دوسری سہ ماہی میں جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں کیا جاتا ہے۔ تقریباً دس سال سے ’’ عربی بول چال‘‘ اور ’’انگلش بول چال‘‘ کے کورسز منعقد ہو رہے ہیں جن کا دورانیہ ایک ماہ یا چالیس روز ہوتا ہے۔ اس سال اکادمی کی مجلس نے یہ طے کیا کہ مختلف علمی وفکری موضوعات پر تین روزہ ورکشاپس منعقد کی جائیں گی۔ اس سلسلے میں پہلی ورک شاپ کا موضوع ’’ جغرافیہ قرآنی‘‘ طے ہوا ، جبکہ آئندہ سہ ماہی میں دوسری ورک شاپ ’’ذرائع ابلاغ‘‘ کے عنوان پر منعقد کی جائے گی۔
دورۂ جغرافیہ قرآنی کا انعقاد ۲۵ تا ۲۷ دسمبر ۲۰۱۵ء کیا گیا۔ ۲۵ ؍ دسمبر کو افتتاحی تقریب میں شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد صاحب نے خطاب فرمایا۔ تدریس کے لیے عصر تا عشاء کا وقت مختص کیا گیا تھا۔ گوجرانوالہ شہر سے اسکول و کالج اور مدارس کے چالیس سے زائد طلبہ نے شرکت کی۔ مولانا فضل الہادی نے تدریس کی ذمہ داری انجام دی اور تمام اسباق پروجیکٹر پر پڑھائے۔ تینوں دن شرکاء کے لیے ریفریشمنٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ جناب شاہد اقبال، جناب حافظ صفوان محمد چوہان اور جناب محمد ریاض کے مالی تعاون، جبکہ اکادمی کے رفقاء مولانا بلال فاروقی، مولانامحمد وقار اور ان کے معاونین کے حسن انتظام کی بدولت سباق تین روزہ دورہ بحمداللہ کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔
اس کورس میں قرآنی جغرافیہ کے حوالے سے جو موضوعات زیر درس رہے، وہ یہ تھے :
۱۔ جغرافیہ کا تعارف ، ۲۔ نقشہ پڑھنے کا طریقہ ، ۳۔ انبیاء قرآنی کا تعارف ، ۴۔ شخصیات قرآنی کا تعارف ، ۵۔ اقوام قرآنی کا تعارف ، ۶۔ ارض قرآن کا تعارف اور ۷۔ ارض سیرت کا تعارف۔
طلبہ نے بڑی دلچسپی اور ذوق و شوق کا مظاہر ہ کیا اور بروقت تشریف لاتے رہے۔ آخری دن شرکاء کا زبان امتحان بھی لیا گیا۔ دورہ میں پنجاب کالج کے شعبہ جغرافیہ کے استاد جناب جاوید الرحمان بھی شریک تھے جنھوں نے اختتامی نشست میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
’’مجھے بالکل آخری دن اس دورہ کی اطلاع ملی اور میں حیران ہوا کہ قرآن کریم کو سمجھنے میں جغرافیہ قرآنی کا کتنا اہم کردار ہے، اس سے میرے سامنے قرآن فہمی کی ایک نئی جہت سامنے آئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی میں مولانا فضل الہادی کے انداز تدریس سے بہت متاثر ہوا ہوں کہ انہوں نے اتنی تفصیل سے اور اتنی محنت سے پڑھایا کہ ایک لحاظ سے خشک سمجھا جانے والا مضمون بڑی آسانی سے طلبہ کے ذہن میں اترتا چلا گیا۔ میرے لیے جہاں اس دورہ میں قرآن فہمی کی ایک نیا در وا ہوا ہے، وہاں طرز تدریس کا ایک موثر پہلو بھی اجاگر ہوا ہے اور میں اس پر الشریعہ اکادمی کے احباب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘‘
اختتامی نشست میں مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف فرما تھے جنہوں نے طلبہ کو اسناد عنایت فرمائیں اور اپنے خطاب میں قرآن فہمی میں جغرافیہ قرآنی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ایسے مختصر دورانیہ کے کورسز تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
سیرت کوئز مقابلہ
الشریعہ اکادمی کی طرف سے ماہ ربیع الاول میں سیر ت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایسی تعلیمی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جو طلبہ میں سیرت کے مطالعہ کا ذوق و شوق پیدا کرنے کا باعث ہوں۔ گزشتہ سالوں میں سیرت کے متنوع پہلوؤں پر مضمون نویسی کے مقابلے کروائے گئے جس میں شہر کے دینی مدارس کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور اول ، دوم ، سوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کونقد انعامات سے نوازا گیا۔ اس سال اکادمی کی مجلس تعلیمی میں یہ بات طے پائی کہ مضمون نویسی کے بجائے ’’ سیرت کوئز مقابلہ‘‘ کے عنوان سے اسکول و کالج اور مدارس کے طلبہ کے مابین مقابلے کا انعقاد کیا جائے تاکہ مقابلہ میں شریک طلبہ سیرت کے بھر پور مطالعہ کی سعادت حاصل کر لیں۔
گزشتہ ربیع الاول میں منعقد ہونے والے اس سیرت کوئز مقابلہ میں شہر کے آٹھ دینی مدارس کی سولہ ٹیموں نے حصہ لیا۔ ہر مدرسے سے تین ارکان پر مشتمل دو دو ٹیمیں حصہ لے سکتی تھیں۔ جن مدارس کے طلبہ نے حصہ لیا، ان کے نام حسب ذیل ہیں : مدرسہ نصرۃ العلوم ، جامعہ عربیہ ، جامعہ حقانیہ ، جامعہ مدینۃ العلم ، جامعہ نعمانیہ ، جامعہ مظاہر العلوم ، جامعہ علوم الاسلامیہ ، دار العلوم گوجرانوالہ ۔
مقابلہ کے دو مراحل تھے۔ پہلا مرحلہ مورخہ ۳۱ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز جمعرات مکمل ہوا۔ اس مرحلے میں سب ٹیموں سے دس دس سوالات پوچھے گئے اور پہلی آٹھ پوزیشنز پر آنے والی ٹیموں کو اگلے مرحلے کے لیے منتخب کیا گیا۔ عصر کی نماز کے بعد قرعہ اندازی کے ذریعے سب ٹیموں سے سوالات پوچھنے کی باری مقرر کی گئی۔ پھر سیرت کوئز مقابلہ کی آرگنائزنگ کمیٹی (حافظ محمد رشید، مولانا عبد الغنی اور مولانا عبد اللہ )کے مرتب کردہ سوالات کے پیکٹ میز پر رکھ دیے گئے اور ہر ٹیم کو اس کی باری پر اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی پسند کا پیکٹ اٹھا کر میزبان کے حوالے کر دے۔ ہر پیکٹ میں تیرہ سوالات تھے جس میں سے دس سوالات متعلقہ ٹیم سے جبکہ باقی سوالات عام سامعین سے پوچھے گئے اور صحیح جواب دینے والے سامعین کو بطور انعام ایک کتاب دی گئی۔ ۔اس مقصد کے لیے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی کتاب’’ تراشے ‘‘اور مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کی کتاب ’’ پا جا سراغ زندگی ‘‘ منتخب کی گئی تھیں ۔ ہر ٹیم کے حاصل کردہ نمبر وائٹ بورڈ پر سب کے سامنے لکھ دیے جاتے تھے۔ میزبان کے فرائض مولانا عبد الغنی نے انجام دیے اور عمدگی سے سارے پروگرام کو آگے بڑھایا۔
دوسرے مرحلے کا انعقاد ۷جنوری ۲۰۱۶ء بروز جمعرات کیا گیا جس میں پہلے مرحلے سے منتخب شدہ آٹھ ٹیموں کے درمیان مقابلہ کروایا گیا۔ اس مرحلے میں ٹیموں کے دو گروپ بنائے گئے اور قرعہ اندازی کی مدد سے پہلے گروپ کی مختلف ٹیموں کا دوسرے گروپ کی ٹیموں سے مقابلہ طے کیا گیا۔ طلبہ نے خوب تیاری کی ہوئی تھی، اس لیے بڑا دلچسپ مقابلے دیکھنے میں آیا ۔ اس مرحلے میں بھی وہی ترتیب رکھی گئی کہ پیکٹ میں سوالات میز پر رکھ دیے گئے اور پیکٹ کا انتخاب طلبہ کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔ اس مرحلے میں سات مقابلے ہوئے جن میں چار کوارٹر فائنل، دو سیمی فائنل اور ایک فائنل شامل تھا۔ استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی دامت دام ظلہ مری سے طویل سفر کر کے مقابلہ کے اختتامی مراحل میں شریک ہوئے اور سیرت کوئز مقابلے کا فائنل مقابلہ ان کی موجودگی میں منعقد ہوا۔
فائنل تک رسائی کے لیے سخت مقابلہ ہوا اور بالآخر جامعہ مدینۃ العلم اور الشریعہ اکادمی کے سال سوم کے طلبہ کی ٹیمیں فائنل تک رسائی حاصل کر سکیں۔ فائنل میں بھی سخت مقابلہ ہوا اور جامعہ مدینۃ العلم کی ٹیم دس نمبروں کے فرق کے ساتھ اول پوزیشن کی حق دار قرار پائی۔ سامعین میں بڑا جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ خصوصاً انعامی سوالات کے وقت سامعین میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ میں اس سوال کا جواب دے کر انعام حاصل کر لوں۔ جیتنے والی ٹیم کے حمایتی نعروں سے اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ مقابلوں کے دوران وقفہ کے لمحات میں نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور حمد باری تعالیٰ سے سامعین کے دلوں کو گرمایا گیا۔
سیرت کوئز مقابلہ میں سب شرکا کو کتابوں کے تحائف پیش کیے گئے، جبکہ اول ، دوم اور سوم پوزیشنز حاصل کرنے والی ٹیموں کے لیے کتابوں (مولانا ندوی کی ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ مکمل اور مولانا محمد تقی عثمانی کی ’’دنیا میرے آگے‘‘) کے تحائف کے ساتھ بالترتیب چھ ہزار روپے، پینتالیس سو روپے اور تین ہزار روپے کے نقد انعامات اور یادگاری شیلڈز بھی دی گئیں۔
مولانا زاہد الراشدی دام ظلہ نے اپنی اختتامی خطاب میں فرمایا کہ اس سال ربیع الاول میں سیرت کوئز مقابلہ منعقد کروانے کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ ذوق اور توجہ سے سیرت کا باریک بینی سے مطالعہ کریں اور مقابلہ کی نوعیت دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ سیرت کے مطالعہ کے حوالے سے ہر طرح کی کوشش باعث برکت بھی ہے اور اس دور کی اشد ضرورت بھی ۔ مجھے مقابلے میں شریک طلبہ کی تیاری، سوالات کی بناوٹ میں باریک بینی اور سامعین کی دلچسپی دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر اد ا کرتا ہوں کہ ہمارے طلبہ میں سیرت کے مطالعہ کا شوق و ذوق موجود ہے۔ ہم اس سلسلے کو جاری رکھیں گے اور تاریخ کے دیگر پہلوؤں مثلاً سیرت خلفائے راشدینؓ ، سیرت ائمہ کرام ؒ اور سیرت صحابہؓ جیسے موضوعات پر بھی مقابلہ جات منعقد کروائے جائیں گے،ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جمع ہونا قبول فرمائیں۔
دِل کے بہلانے کو شوقِ رائیگاں رکھتا ہوں میں
محمد عمار خان ناصر
خود بھی بے خود ہوں کہ یہ سارا جہاں رکھتا ہوں میں؟
ایک لمحہ ہوں کہ عمر جاوِداں رکھتا ہوں میں؟
گو کہ اب باقی نہیں وہ حیرتوں کی جستجو
دِل کے بہلانے کو شوقِ رائیگاں رکھتا ہوں میں
بے غرض رہتا ہے بس تفریقِ خویش وغیر سے
اپنے سینے میں جو احساسِ زیاں رکھتا ہوں میں
حسرتوں کے ساتھ اب یہ نفرتوں کے بوجھ بھی؟
اتنی طاقت اے دلِ ناداں! کہاں رکھتا ہوں میں
جس کا ہر اک رَاہرو تنہا ہوا گرمِ سفر
اَن گنت صدیوں میں پھیلا کارواں رکھتا ہوں میں
اِس کے صدقے دیکھ سکتا ہوں اُفق میں دُور تک
دل میں اِک جو یادِ خاکِ رَفتگاں رکھتا ہوں میں
مارچ ۲۰۱۶ء
جدید معاشرہ اور اہل مذہب کی نفسیات
محمد عمار خان ناصر
اہل دین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انبیا کی نیابت کرتے ہوئے دین کے پیغام کو معاشرے تک پہنچائیں، دین کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کو دور کریں اور دینی واخلاقی تربیت کے ذریعے سے معاشرے کو درست نہج پر استوار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کا سب سے بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اپنے معاشرے اور ماحول کے لیے اہل دین کا رویہ سر تا سر ہمدردی اور خیر خواہی پر مبنی ہو اور اس میں حریفانہ کشاکش اور طبقاتی وگروہی نفسیات کارفرما نہ ہو۔ انسانی معاشرے میں یہ کردار ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اصلاً انبیا اور رسولوں کو مبعوث کیا اور انھی کی سیرت وکردار اس سلسلے میں نمونے اور آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس تناظر میں اگر ہم اپنے معاشرے میں علمائے دین اور مذہبی طبقات کے کردار کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے ایک ایسی نفسیات ابھر کر آتی ہے جس کی تشکیل داعیانہ ہمدردی اور انسانی خیر خواہی کے زیر اثر نہیں، بلکہ طبقاتی مخاصمت اور حریفانہ کشاکش کے اصول کے تحت ہوئی ہے۔ اہل مذہب اور معاشرے کے دیگر طبقات کے مابین ایک گہرا ذہنی ونفسیاتی بعد پایا جاتا ہے۔ مذہب سے وابستہ طبقوں اور معاشرے کے مابین اجنبیت کی ایک دیوار حائل دکھائی دیتی ہے اور ارباب مذہب کی فکر اور حکمت عملی میں اصلاح کے ہمدردانہ اور داعیانہ جذبے کے بجائے شکوہ شکایت اور تنافر کا عنصر بالعموم غالب ہوتا ہے۔ گرد وپیش کے ناسازگار ماحول کے خلاف اس نفسیاتی رد عمل کا اظہار ہمیں اہل مذہب کے رویوں میں مختلف پہلووں سے دیکھنے کو ملتا ہے۔
مثال کے طور پر معاصر مذہبی ذہن اپنے اظہار کے سانچوں میں رنگا رنگی اور تنوع کے باوصف، مجموعی حیثیت سے ایک ہی ذہنی رویے کی نمائندگی کرتا اور معاشرے میں اسی کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ رویہ معاشرے سے گریز اور فرار (escapist attitude) اور معاشرے کے دوسرے طبقات سے اجنبیت اور بے گانگی کا رویہ ہے۔ ان میں سے جن عناصر کی penetration ہر طرح کے طبقات میں ہے، ان کے پاس بھی معاشرے میں رہ کر مثبت طور پر مواقع اور امکانات کو دریافت کرنے اور اپنا کردار ادا کرنے کا نہیں، بلکہ عموماً معاشرے سے ہٹ کٹ کر ایک خاص روحانی ماحول میں تسکین پانے ہی کا پیغام ہے۔
اسی طرح اختلاف اور تنقید کے حوالے سے اہل مذہب ’علمی رویے‘ کے تصور سے، بالعموم، ناآشنا ہو چکے ہیں۔ علمی رویے کے تحت کسی بھی مسئلے کو نہایت ہم دردی اور معروضیت کے ساتھ اس کی علمی بنیاد میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر اس میں کوئی سقم نظر آئے تو علمی دلائل ہی کے ساتھ اس کی غلطی کو واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم موجودہ مذہبی ذہن مخالف نقطہ ہائے نظر کے فکری وذہنی پس منظر کو سمجھے بغیر اور ان کو استدلال سے متاثر کرنے کے بجائے ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کی نفسیات کے تحت تحکم کے انداز میں اپنی رائے اس پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے۔
تحفظاتی نفسیات کے زیر اثر مذہبی طبقات نے وسیع تر علمی وفکری استفادے کو اپنے ہاں شجرممنوعہ کی حیثیت دے رکھی ہے۔ جدید علمی وفکری مسائل کا تجزیہ اور ان کے حوالے سے معاشرے کی راہ نمائی سرے سے موجودہ دینی تعلیم کا نظام کا مسئلہ ہی نہیں۔ اہل مذہب کا مطمح نظر اس نظام سے صرف یہ ہے کہ وہ معاشرے اپنی space کو محفوظ رکھیں اور ایک سماجی طبقے طورپر اپنی حیثیت منوانے اور اپنے دائرۂ اثر کو وسیع تر اور پائیدار بنانے کی جدوجہد کرتے رہیں۔ اس کے لیے معاشرے میں مذہب کے ساتھ ایک عمومی وابستگی اور اس کی بنیاد پر ملنے والی تائید وحمایت انھیں پیش نظر مقصد کے لیے کافی محسوس ہوتی ہے، جبکہ معاشرے کو علم وعقل اور اخلاقی تربیت کے میدان میں جن سوالات کا سامنا ہے، وہ اہل مذہب کی توجہ سے خارج ہیں۔ یہ نظام پورے معنوں میں ایک گروہی، حزبی اور طبقاتی نفسیات کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ہر مذہبی طبقہ فکر اس کو ضروری سمجھتا ہے کہ وہ اپنے وابستگان کے علمی وفکری استفادے کو ایک خاص دائرے کا پابند رکھے اور چند مخصوص فکری ترجیحات اور علمی شخصیات سے ہٹ کر، جو اس طبقہ فکر کے جداگانہ فکری تشخص کی علامت ہیں، ان کے لیے اخذ واستفادہ کا دروازہ بند رکھا جائے۔
اہل مذہب کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ اس صورت حال کے پیدا ہونے کی ذمہ داری کافی حد تک خود ان پر عائد ہوتی ہے۔ علم کلام اور فقہ وشریعت کے دائروں میں نئے پیدا ہونے والے مباحث کے حوالے سے علمی خلا کو موثر طریقے سے پر کرنے سے صرف نظر کا رویہ آخر کس نے اختیار کیے رکھا؟ اگر ان کے اس اعراض کے نتیجے میں بعض نئے فکری طبقات کو آگے بڑھنے اور اس میدان میں اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا ہے تو کس بنیاد پر ان طبقوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ روایتی اہل مذہب کے بالمقابل تعبیر دین کے حق سے دست بردار ہو جائیں ؟
روایتی مذہبی طبقے نے مغربی فکر وتہذیب کے چیلنج کے نمودار ہونے کا نہ پیشگی اندازہ کیا اور نہ اس کے لیے کسی قسم کی تیاری کی ضرورت محسوس کی، بلکہ جب یہ چیلنج اپنے تمام تر مضمرات سمیت ان کے سامنے آکھڑا ہوا تو بھی وہ، اپنی علمی وذہنی حالت کے پیش نظر، اس سے مسلسل صرف نظر کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقائد وکلام سے لے کر تعلیم ومعاشرت اورمعیشت اور تہذیب کے دائروں میں پیدا ہونے ان گنت نئے مباحث میں داد تحقیق دینے کے لیے روایتی علمی طبقہ سے باہر کے کچھ لوگ متوجہ ہوئے اور انہوں نے اپنے اپنے ذوق اور فہم وفراست کے مطابق ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے اہل علم کے روایتی طبقہ کو ماضی میں جو بلاشرکت غیرے (Exclusive) مرجعیت حاصل تھی، وہ ختم ہو گئی۔ ان کی حیثیت اب اس میدان کے ’’ایک‘‘ فریق کی ہو گئی جسے اپنی تعبیر دین، بہرحال، ایک ’’تعبیر‘‘ ہی کی حیثیت سے پیش کرنی اور استدلال ہی کے زور پر مخالف تعبیرات پر تنقید کرنی ہے۔ تاریخی، تہذیبی، معاشرتی اور علمی لحاظ سے طبقہ علما کو جو برتری ماضی میں حاصل تھی، اس کے کھو جانے کے بعد اب علمی استدلال کی قوت ہی ان کا واحد سہارا ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے لیکن طبقہ علما اس پوزیشن کو قبول کرنے کے لیے نفسیاتی طور پرتیار نہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ مختلف عوامل کے نتیجے میں ایک نیا پراسس شروع ہو کر ملت کے فکری دھارے میں شامل ہو چکا ہے اور قدیم وجدید کی یہ فکری Polarityاب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ نظری طور پر بے شک یہ بحثیں اٹھائی جا سکتی ہیں کہ فقہ واجتہاد کی مطلوبہ علمی شرائط کیا ہیں اور تعبیر دین کا اختیار مانگنے والے نئے فکری طبقات ان کو پورا کرتے ہیں یا نہیں، لیکن تاریخ کا جبر اس استدلال کو وزن دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ کوئی بھی تعبیر دین، خواہ وہ علما کی نظر میں کتنی ہی غلط، بے بنیاد اور مسلمات کے خلاف کیوں نہ ہو، اگر اسے معاشرے کے فہیم طبقات میں پذیرائی حاصل ہے تو محض علما کی خواہش یا مطالبے پر اسے نابود نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس نئی صورت حال کو شعوری طور پر قبول کرنا، اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر اس سے ہم آہنگ کرنا اور سنجیدہ علمی مزاج کو اجتماعی طور پر اپنے اندر پروان چڑھانا ہی بہتری اور اصلاح حال کے لیے کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ نکتہ بھی اہل مذہب کے سنجیدہ غور وفکر کا مستحق ہے کہ اگر دین کی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں غزالی، ابن رشد، ابن تیمیہ، ابن خلدون، ابن عربی اور شاہ ولی اللہ کی سطح کے مفکرین پیدا ہوں جو علم وعقل کے میدان میں درپیش چیلنج سے نبرد آزما ہو سکیں تو ظاہر ہے کہ وہ ان فکری قدغنوں کے ماحول میں پیدا نہیں ہو سکتے جہاں تقلید آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہو اور اجتہاد اور آزادئ فکر کو طعنے بلکہ گالی کا درجہ دے دیا جائے۔ یقیناًآزادئ فکر میں خطرات بھی ہیں، لیکن یہ خطرہ تو مول لینا ہی پڑے گا کیونکہ یہ قیمت ادا کیے بغیر اعلیٰ سطح کی وہ فکری وتخلیقی دانش پیدا نہیں کی جا سکتی جس کا فقدان اس وقت بانجھ پن کی حدوں کو چھو رہا ہے۔
علما کو یہ حقیقت بھی سمجھنا ہوگی کہ ماضی میں انھیں حاصل معاشرتی قدر ومنزلت اور مرجعیت کوئی خدائی استحقاق نہیں بلکہ اس حقیقت کا نتیجہ تھی کہ معاشرے کے عوام وخواص کو ان کی علمی لیاقت اور فہم وبصیرت پر اعتماد تھا اور وہ اپنے دور کے علمی وعملی سوالات کا ادراک کرنے اور ان کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ نتیجہ اب بھی اس شرط کو پورا کیے بغیر ممکن نہیں۔ علما اگر اپنے علم وفہم کا معیار بہتر کریں گے، جدید ذہن کے سوالات اور جدید معاشرے کے مسائل کا ادراک کریں گے اور علم وفکر کی سطح پر معاشرے کی قیادت کی اہلیت اپنے اندر پیدا کریں گے تو انھیں وہ احترام اور وقار خود بخود حاصل ہو جائے گا جس کے حاصل نہ ہونے کے وہ اس وقت شاکی ہیں۔ ان میں سے اس معیار پر پورے اترنے والے اہل علم کو انفرادی سطح پر یہ مقام اب بھی حاصل ہے۔ وہ اگر بحیثیت طبقے کے اس کے خواہاں ہیں تو اس کے تقاضوں کو بھی پورے طبقے ہی کی سطح پر پورا کرنا ہوگا۔
مذہبی طبقے کو اس حقیقت کو بھی پوری طرح مد نظر رکھا ہوگا کہ مسلم معاشرہ اس وقت فکری، تہذیبی، نفسیاتی اور اخلاقی اعتبار سے شدید شکست وریخت کا شکار ہے۔ وہ بے حد ہمدردی، داعیانہ اخلاص اور لطف وملائمت کے ساتھ تعمیر نو کا محتاج ہے۔ وہ کوئی ہٹا کٹا اور تنومند معاشرہ نہیں جس پر اندھا دھند شرعی حدود نافذ کر دی جائیں۔ وہ ایسا بیمار ہے کہ اس مرحلے پر اگر اسے علامتی طور پر جھاڑو کے تنکے مار دیے جائیں تو بھی شریعت کا منشا پورا ہو جائے گا۔ اس کی مثال اس ماں کی سی ہے جسے بدکاری کی سزا دینے کے لیے اس وقت کا انتظار کرنا پڑے گا جب وہ اپنے بچے کو جنم دینے کے بعد اس کی پرورش کے ضروری مراحل سے فارغ ہو جائے۔ وہ اس وقت ایک فقیہ اور قاضی کے دروں سے زیادہ ایک صوفی کی دل گداز باتوں اور ایک مسیحا کے پھاہوں کا محتاج ہے۔ اس کا علاج فقیہوں اور فریسیوں کے بے لچک ضابطوں میں نہیں، بلکہ سیدنا مسیح کے دل نواز وعظوں میں ہے۔
کوئی بھی طبقہ اپنی بقا اور اپنے کردار کے مفید تسلسل کے لیے خو دتنقیدی اور داخلی احتساب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بد قسمتی سے اہل دین اس وقت اپنی ترجیحات اور اپنے متعین کردہ کردار کے حوالے سے سخت حساسیت کا شکار ہیں اور کسی بھی قسم کا تنقیدی تجزیہ سننے اور اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ اس کی وجہ قابل فہم ہے، کیونکہ جب کوئی طبقہ چاروں طرف سے یلغار کا شکار ہو اور ہر طرف سے جائز یا ناجائز اعتراضات سخت اور تیز وتند لہجے میں وارد کیے جا رہے ہوں تو وہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر کیموفلاج کرنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ تاہم اگر اہل مذہب اپنے کردار کو دفاع سے اقدام میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو تنقید کے حوالے سے ’ذکاوت حس‘ کی یہ کیفیت نہایت منفی اور مضر ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ نہ صرف خارج اور داخل سے ہونے والی مختلف تنقیدوں کو پوری توجہ سے سنیں اور ان پر غور کریں بلکہ ازخود تنقیدی سوالات اٹھانے کا رجحان بھی پیداکریں۔ مدارس کے اساتذہ آپس میں ان موضوعات پر گفتگو کریں، تنقیدوں کا سنجیدہ تجزیہ کریں، ان کے مثبت اور منفی پہلووں کو متعین کریں اور اس طرز فکر کو مدارس کے ماحول کا حصہ بنائیں۔ اس سے چیزیں نکھریں گی اور خیالات اور ترجیحات میں وضوح پیدا ہوگا جو اہل دین کو اپنے آئندہ کردار کے تعین میں مدد دے گا۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۸۰) تنازع کے دو مفہوم
قرآن مجید میں تنازع کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے، فیروزآبادی نے لکھا ہے کہ اس لفظ کے دو مفہوم ہیں، باہم جھگڑا کرنا اور ایک دوسرے کو کچھ پیش کرنا۔
والتَّنازُعُ: التَّخاصُمُ والتَّناوُل. (القاموس المحیط، ص: ۷۶۶)
زبیدی کا خیال ہے کہ حقیقی مفہوم جھگڑا کرنا اور مجازی مفہوم ایک دوسرے کو پیش کرنا ہے، زبیدی نے مثالیں دے کربتایا ہے کہ قرآن مجید میں دونوں مفہوم کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔
والتَّنازُعُ فِی الأصلِ: التَّجاذُبُ، کالمُنَازَعَۃِ، ویُعَبَّرُ بِھِمَا عَن التَّخَاصُمِ والمُجَادَلَۃِ، ومِنہُ قَوْلُہُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَا تَنازَعوا فتَفْشَلُوا، وقَوْلُہُ تعالَی: فَاِنْ تَنازَعْتُمْ فِی شَیءٍ فرُدُّوہُ اِلَی اللّٰہِ. وَمن المَجَازِ: التَّنَازُعُ: التَّناوُلُ والتَّعَاطِی، وَالأَصْلُ فیہِ التَّجَاذُبُ، قالَ اللّٰہُ تَعَالَی: یَتَنَازَعُونَ فِیھَا کأساً، أَیْ: یَتَنَاوَلُونَ. (تاج العروس، ۲۲/۲۴۷)
تاہم بہت اہم سوال ہے کہ یہ معلوم کیسے ہو کہ لفظ تنازع کہاں کس معنی میں آیا ہے؟ اس سلسلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ایک بہت قیمتی نکتہ بیان فرمایا جس سے اس لفظ کے مفہوم کو متعین کرنے میں بڑی آسانی ہوجاتی ہے، مولانا کے افادات کے مطابق اگر تنازع کے بعد (فی) کا صلہ آئے تو جھگڑا کرنے اور اختلاف کرنے کا مفہوم ہوتا ہے، جبکہ اگر اس کے بعد مفعول بہ آجائے تو جھگڑنے کا مفہوم نہیں بلکہ تبادلے اور باہم لین دین کرنے کا مفہوم ہوتا ہے، اور اگر فعل ان دونوں کے بغیر ہو تو بھی اختلاف اور جھگڑے کا مفہوم ہوتا ہے۔ گویا تنازع فی الامر کا مطلب ہوگا کسی مسئلے میں اختلاف کرنا اور جھگڑا کرنا، جبکہ تنازع الامر کا مطلب ہوگا کسی مسئلے کے اوپر باہم گفتگو اور تبادلہ خیال کرنا۔
مذکورہ ذیل آیتیں ملاحظہ فرمائیں، ان میں تنازع کے بعد (فی) آیا ہے، اور آیت کا مجموعی مفہوم خود گواہی دے رہا ہے کہ یہاں اختلاف اور جھگڑے کا مفہوم مراد ہے۔
لِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً ہُمْ نَاسِکُوہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِیْ الْأَمْرِ۔ (الحج:۶۷)
’’ہر فرقے کو ہم نے ٹھیرادی ہے ایک راہ بندگی کی کہ وہ اسی طرح کرتے ہیں بندگی سو چاہیے تجھ سے جھگڑا نہ کریں اس کام میں‘‘ (شاہ عبدالقادر)
وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُم بِإِذْنِہِ حَتَّی إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِیْ الأَمْرِ وَعَصَیْْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاکُم مَّا تُحِبُّونَ۔َ (آل عمران: ۱۵۲)
’’اور اللہ تو سچ کرچکا تم سے اپنا وعدہ جب تم لگے ان کو کاٹنے اس کے حکم سے جب تک کہ تم نے نامردی کی اور کام میں جھگڑا ڈالا اور بے حکمی کی بعد اس کے کہ تم کو دکھا چکا تمہاری خوشی کی چیز‘‘ (شاہ عبد القادر)
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُولِ۔ (النساء: ۵۹)
’’اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور جو اختیار والے ہیں تم میں سے، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو اللہ اور رسول کی طرف۔‘‘ (شاہ عبدالقادر)
إِذْ یُرِیْکَہُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلاً وَلَوْ أَرَاکَہُمْ کَثِیْراً لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِیْ الأَمْرِ وَلَکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ إِنَّہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُور۔ (الانفال:۴۳)
’’جب اللہ نے ان کو دکھلایا تیرے خواب میں تھوڑے اور اگر وہ تجھکو بہت دکھاتا تو تم لوگ نامردی کرتے اور جھگڑا ڈالتے کام میں لیکن اللہ نے بچالیا اس کو معلوم ہے جو بات ہے دلوں میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر، قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں اذ کے ساتھ مضارع آیا ہے، اس لیے ترجمہ ماضی استمراری کا ہوگا، جب اللہ تم کو دکھارہا تھا)
ذیل کی آیت میں مجرد تنازع استعمال ہوا ہے، نہ اس کے بعد (فی) ہے اور نہ ہی مفعول بہ ہے، اور یہاں بھی مفہوم بالکل واضح ہے کہ اہل ایمان کو باہم اختلاف اور جھگڑے سے منع کیا گیا ہے۔
وَأَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْن۔ (الانفال:۴۶)
’’اور حکم مانو اللہ کا اور اس کے رسول کا اور آپس میں نہ جھگڑو پھر نامرد ہوجاؤگے اور جاتی رہے گی تمہاری باؤ۔ اور ٹہیرے رہو اللہ ساتھ ہے ٹہرنے والوں کے۔‘‘ (شاہ عبدالقادر)
مذکورہ بالا اسلوب سے ہٹ کر درج ذیل آیتوں میں تنازع کا فعل (فی) کے بجائے براہ راست مفعول بہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے، بہت سے مترجمین نے یہاں بھی اختلاف اور جھگڑے کا مفہوم اختیار کیا ہے، لیکن جب ہم ان میں سے ہر آیت کے سیاق اور مجموعی مفہوم کو دیکھتے ہیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں اختلاف اور جھگڑے کا مفہوم نہیں ہے۔ اور یہ اصول ثابت اور مدلل ہوجاتا ہے کہ تنازع جب (فی) کے ساتھ آئے تو جھگڑے کے مفہوم میں ہوگا، اور جب براہ راست مفعول بہ کے ساتھ آئے تو تبادلے کے مفہوم میں ہوگا۔ درج ذیل آیتوں کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
(۱) وَکَذَلِکَ أَعْثَرْنَا عَلَیْْہِمْ لِیَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیْْبَ فِیْہَا، إِذْ یَتَنَازَعُونَ بَیْْنَہُمْ أَمْرَہُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَیْْہِم بُنْیَاناً، رَّبُّہُمْ أَعْلَمُ بِہِمْ، قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوا عَلَی أَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْْہِم مَّسْجِداً۔ (الکہف: ۲۱)
اس طرح ہم نے اہل شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بیشک آکر رہے گی۔ (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اس وقت وہ آپس میں اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ ان (اصحاب کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا ’’ان پر ایک دیوار چن دو ان کا رب ہی ان کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے‘‘ مگر جو لوگ ان کے معاملات پر غالب تھے انہوں نے کہا ’’ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے‘‘ (سید مودودی)
آیت کے زیر نظر ٹکڑے: إِذْ یَتَنَازَعُونَ بَیْْنَہُمْ أَمْرَہُمْ کے مزید کچھ ترجمے حسب ذیل ہیں:
’’جب لوگ آپس میں ان کے معاملے میں جھگڑ رہے تھے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’جس وقت کہ جھگڑتے تھے وہ آپس میں بیچ کام اپنے کے‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’جب جھگڑ رہے تھے آپس میں اپنی بات پر‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’جبکہ اس زمانہ کے لوگ ان کے معاملے میں باہم جھگڑ رہے تھے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’جب وہ لوگ ان کے معاملے میں باہم جھگڑنے لگے‘‘ (احمد رضا خان)
’’جبکہ وہ اپنے امر میں آپس میں اختلاف کررہے تھے‘‘ (محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے یہاں تبادلہ خیال، باہم گفتگو اور مشاورت کا مفہوم لیا ہے، ان کا ترجمہ یوں ہے:
’’جس وقت وہ آپس میں ان کے بارے میں گفتگو کررہے تھے‘‘
سیاق کلام سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے کہ موقعہ آپس میں جھگڑے کا نہیں بلکہ مشاورت اور تبادلہ خیال کا ہے، ان لوگوں نے اصحاب کہف کے عقیدت مند بن جانے کے بعد باہم مشاورت کی کہ یہاں پر کیا کیا جائے۔
(۲) یَتَنَازَعُونَ فِیْہَا کَأْساً۔ (الطور: ۲۳)
’’ایک دوسرے سے چھین لیویں گے بیچ اس کے پیالہ‘‘ (شاہ رفیع الدین)
’’جھپٹتے ہیں وہاں پیالہ‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’وہاں آپس میں (بطور خوش طبعی کے) جام شراب میں چھینا جھپٹی کریں گے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’(خوش طبعی کے ساتھ) ایک دوسرے سے جام (شراب) کی چھینا جھپٹی کریں گے‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
واضح رہے کہ یہ بات جنت اور اہل جنت کے بارے میں کہی جارہی ہے، مذکورہ بالا ترجموں میں چھین جھپٹ کا ترجمہ کیا گیا، جبکہ ذیل کے ترجموں میں ایک دوسرے کوجام پیش کرنے اور ایک دوسرے سے جام قبول کرنے کا مفہوم ذکر کیا گیا ہے۔ یہ دوسرا مفہوم ہی یہاں درست ہے، کیونکہ چھین جھپٹ خواہ وہ خوش طبعی کے ماحول میں ہو قابل تعریف چیز نہیں ہے، قرآن مجید میں کسی بھی مقام پر جنت میں ایسی کسی چھین جھپٹ کا تذکرہ نہیں ہے، اس کے بجائے جام کے پیالوں کا تبادلہ بہت معنی خیز مفہوم ہے، اس میں محبت اور دلداری کا بھرپور اظہار پایا جاتا ہے۔ اس دوسرے مفہوم کے مطابق درج ذیل ترجمے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
’’وہ ایک دوسرے سے جام شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے‘‘(سید مودودی)
’’ان کے درمیان شراب کے پیالوں کے تبادلے ہورہے ہوں گے‘‘(امین احسن اصلاحی)
ایک دوسرے سے لیتے ہیں وہ جام (احمد رضا خان، لیتے ہیں کے بجائے لے رہے ہیں کہنا زیادہ مناسب ہے)
(۳) فَتَنَازَعُوا أَمْرَہُم بَیْْنَہُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَی۔ (طہ:۶۲)
’’یہ سن کر ان کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا اور وہ چپکے چپکے باہم مشورہ کرنے لگے‘‘۔ (سید مودودی)
’’پھر جھگڑے اپنے کام پر آپس میں اور چھپ کر کی مشورت‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’پس جادوگر (یہ بات سن کر) باہم اپنی رائے میں اختلاف کرنے لگے اور خفیہ گفتگو کرتے رہے‘‘(اشرف علی تھانوی)
’’تو اپنے معاملے میں باہم مختلف ہوگئے اور چھپ کر مشورت کی‘‘ (احمد رضا خان)
’’پس یہ لوگ آپس کے مشوروں میں مختلف رائے ہوگئے اور چھپ کر چپکے چپکے مشورہ کرنے لگے۔‘‘(محمد جونا گڑھی)
مذکورہ بالا ترجموں میں اختلاف اور جھگڑے کا مفہوم لیا گیا ہے، جبکہ سیاق کلام سے اس کی تائید نہیں ہوتی ہے، تذکرہ فرعون کے درباریوں کا ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ کی تذکیر وتنبیہ سننے کے بعد کیا رد عمل اختیار کیا، اسی آیت میں (وَأَسَرُّوا النَّجْوَی) سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان حضرت موسیٰ کی مخالفت کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ حضرت موسی کی مخالفت کے باب میں ان میں اتفاق پایا جاتا تھا۔ورنہ آپس میں سرگوشی بھی کرنا، اور آپس میں جھگڑا بھی کرنا ایک دوسرے کے مناسب حال معلوم نہیں ہوتے ہیں۔ اس آیت کا ترجمہ صاحب تدبر قرآن نے درست کیا ہے:
’’پس انھوں نے آپس میں اپنے معاملے میں مشورت اور سرگوشی کی‘‘ (امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا: ’’انہوں نے آپس میں خاموشی سے مشورہ کیا‘‘
(۸۱) کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحاً کا مفہوم
کدح کے معنی ہیں تگ ودو کرنا، راغب اصفہانی لکھتا ہے: الکدح: السّعي والعناء۔ (المفردات)
قرآن مجید میں یہ لفظ ایک مقام پر آیا ہے:
یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْہِ۔ (الانشقاق: ۶)
زیادہ تر مترجمین نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ تگ ودو کا مفہوم غائب ہوگیا اور بس تیز تیز جانے کا مفہوم حاوی ہوگیا۔
’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے خداوند ہی کی طرف جارہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے‘‘ (سید مودودی)
’’اے آدمی بیشک تجھے اپنے رب کی طرف ضرور دوڑنا ہے پھر اس سے ملنا‘‘ (احمد رضا خان)
بعض ترجموں میں لفظ کے اصل مفہوم کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے جیسے:
’’اے آدمی تجھے پچنا ہے اپنے رب تک پہنچنے میں پچ پچ کر پھر اس سے ملنا ہے‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’اے انسان تو اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کرکے اس سے ملاقات کرنے والا ہے‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)
’’اے انسان! تو اپنے پروردگار کی طرف (پہنچنے میں) خوب کوشِش کرتا ہے سو اس سے جا ملے گا‘‘ (جالندھری)
’’اے انسان تو اپنے رب کے پاس پہنچنے تک (یعنی مرنے کے وقت تک) کام میں کوشش کررہا ہے پھر (قیامت میں) اس (کام کی جزا) سے جا ملے گا‘‘ (اشرف علی تھانوی)
پکتھال کا انگریزی ترجمہ بھی اس مفہوم کا ہے:
Thou, verily, O man, art working toward thy Lord a work which thou wilt meet (in His presence).
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’اے انسان، تیری تگ ودو تیرے رب کے پاس پہنچ رہی ہے، تو تجھے اس کا سامنا کرنا ہے‘‘۔
مولانا کی رائے ہے کہ یہاں انسان کے رب تک جانے کی بات نہیں ہے بلکہ انسان کی تگ ودو اور سعی ومحنت کے رب تک جانے کی بات ہے، اصل جملہ اِنَّکَ کَادِحٌ کَدْحًا ہے، یعنی تم بہت محنت اور تگ ودو کررہے ہو، اِلَی رَبِّکَ کے اضافے سے یہ مفہوم پیدا ہوگیا کہ یہ محنت اور تگ ودو تمہارے رب کے پاس پہنچ رہی ہے، یہ ویسے ہی ہے جیسے اِنّی کاتبٌ الی الملک کتاباً جس کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ میں لکھتے ہوئے بادشاہ کے پاس پہنچ رہا ہوں بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں خط لکھ رہا ہوں جو بادشاہ کے پاس پہنچنے والا ہے۔ فملاقیہ کا مطلب عام طور سے لوگوں نے یہ لیا ہے کہ انسان کی رب سے ملاقات کا بیان ہے، مولانا کے مطابق یہ بتایا گیا ہے کہ انسان اپنی تگ ودو کا سامنا کرے گا جو اس وقت اس کے رب کے پاس لحظہ بہ لحظہ پہنچ رہی ہے۔
(جاری)
اسلام عصری تہذیبی تناظر میں ۔ ممتاز دانشور جناب احمد جاوید کا فکر انگیز انٹرویو (۲)
اے اے سید
فرائیڈے اسپیشل: مغربی دنیا اگرچہ باطل کی پرستش کرتی ہے لیکن اس کے باوجود اُسے عالمگیر غلبہ حاصل ہے۔ آخر مغرب کے عالمگیر غلبے کی وجوہات کیا ہیں؟
احمد جاوید: اس کی دو ہی وجوہات ہیں: اول طاقت اور دوم علم۔ غلبے اور مغلوبیت کے جو اسباب ہوتے ہیں وہ قانونِ قدرت میں ہیں، قانونِ ہدایت میں نہیں ہیں۔ تو یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا بنایا ہوا ایک نظام قدرت ہے، جس میں کافر بھی اس کے مطابق ہوجائے گا تو غالب ہوجائے گا، اور مومن اس کی خلاف ورزی کرے گا تو مغلوب ہوجائے گا۔ تو طاقت اور علم، یہ مغرب کے غلبے کے مکینکس کے دو پارٹ ہیں۔ غلبہ اُس قوم کو حاصل نہیں ہوسکتا جس کے پاس طاقت نہ ہو۔ اس قوم کو حاصل نہیں ہوسکتا جس کے پاس دنیا کا علم نہ ہو۔ جو معاصر دنیا ہے اس کا علم، یہ عروج و زوال کا معیار ہے۔ اس کا تیسرا معیار اخلاقی ہے، کہ وہ معاشرہ اپنے آپ کو مربوط رکھنے، اپنے آپ کو ایک نظام میں ڈھالنے کے لائق ہو۔ یہ تینوں ضرورتیں مغرب نے پوری کردیں۔ یہ تینوں چیزیں جب تک کسی قوم میں موجود ہیں اُس وقت تک اس قوم کو زوال نہیں ہوگا، چاہے وہ کافر ہو یا مومن۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا مغرب کمزور پڑرہا ہے؟
احمد جاوید: مغرب کمزور پڑتا رہتا ہے، لیکن اس کے ہاں رپیئرنگ کا نظام بہت مضبوط ہے۔ وہ اپنی کمزوری کو فوراً بھانپ لیتا ہے اور اس کا علاج کرلیتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ مغرب میں کتنے بڑے بڑے معاشی زلزلے آئے، کتنے بڑے بڑے معاشرتی زلزلے آئے، انہوں نے سب کو ایک ڈھب سے رام کرلیا، کیونکہ ان کا تو کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں ہے۔ جب بھی کوئی ایشو اٹھا تو مغربی معاشرے میں ایک ہلچل پیدا ہوئی۔ اس سے بالادست قوتوں نے بھانپ لیا کہ اس کے نتیجے میں مغربی معاشرے کا جو تانا بانا ہے، وہ کمزور پڑجائے گا تو انہوں نے اسے لیگل کور دے دیا کہ قانوناً یہ جائز ہے۔ تو وہ ہرچیز کو رپیئر کرلیتے ہیں کیونکہ وہ کسی کمٹمنٹ پر نہیں ہیں۔ ان میں خدا کو جواب دینے کا تصور نہیں ہے، ان کے ماڈلز یا محرکاتِ عمل دینی، مذہبی یا ایمانی نہیں ہیں۔ ان کا ماڈل تو یہ ہے کہ ہمیں طاقتور رہنا ہے اور اپنے لوگوں کو آرام سے رکھنا ہے، اس کے لیے ہمیں جو جو کمپرومائز کرنے پڑیں، جیسی جیسی لچک دکھانی پڑے، جتنا جتنا قانون کو، تعلیم کو بدلنا پڑے ہم بدلتے رہیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ امریکہ کے معروف دانشور سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے 1990 کی دہائی میں تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا تھا، لیکن تہذیبوں کے تصادم کی باتیں اقبالؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ بھی بہت پہلے کرچکے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال ؒ اور مودودی ؒ اور سیموئیل پی ہن ٹنگٹن کے تناظر میں کیا کوئی فرق پایا جاتا ہے اور اس نظریے کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہے؟
احمد جاوید: تہذیبوں کے تصادم کا آئیڈیا بہت قدیم ہے۔ یونان میں بھی تھا۔ یہ ان لوگوں (اقبال اور مودودی صاحب) کا اندازہ تھا، اور یہ نظریاتی نوعیت کا زیادہ تھا۔ یہ قیاس تھا، تصور تھا۔مغرب یہ کرنے جارہا ہے۔ ہم یہ کرنے جارہے ہیں۔ اگلے تیس سال بعد زمین پر یہ صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ تو دونوں کے یہاں یہ تصور آئیڈیلسٹک تھا کہ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ اسلامی نظریہ زندگی مغربی نظریہ حیات سے بالآخر تصادم کی صورت میں نہ آئے۔ ظاہر ہے کہ اُن کا تصورِ انسان الگ، بنیادی تصورات الگ۔۔۔ ہمارے بنیادی تصورات الگ۔۔۔ تو علمی تصادم تو جاری ہے، اس لیے یہ عملی تصادم بھی بن سکتا ہے۔ پیش گوئی نہیں صرف ایک قیاس تھا۔ ہن ٹنگٹن کا کام یہ ہے کہ اس نے اس نظریے کو بالکل clinically بناکر دکھادیا ہے۔ اس پر ورک آؤٹ کرکے دکھادیا ہے۔ دنیا میں بعد میں آنے والے نظریے میں اس نظریے کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔ اس لیے ہن ٹنگٹن کا تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ واقعی ایک نظریہ ہے، اور اقبالؒ وغیرہ کا تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ ایک تصور ہے جو اپنی بنیادوں پر بالکل درست ہے۔ ہن ٹنگٹن تصور سازی نہیں کررہا، وہ مستقبل کی دنیا کی پیشگی تصویر کھینچ رہا ہے۔ وہ کوئی نظریاتی باتیں نہیں کررہا، وہ واقعات بیان کررہا ہے۔ جہاں تک ہمارے نزدیک اہمیت کی بات ہے، اقبالؒ اور ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا جو پیراڈائم ہے، اس کے مطابق ہم اس تصادم سے گزر رہے ہیں، اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ تصادم زندگی کی تمام سطحوں پر عملی حالات میں برپا ہوکر رہے گا بشرطیکہ ہم، ہم کہلانے کے لائق تو بنیں۔ آپ کی امت اپنی تہذیبی، اخلاقی اور نظریاتی قوت کے ساتھ مغرب کے سامنے صف آرا تو نہیں ہوسکی اور نہ ہی ہونے کا کوئی منصوبہ دکھائی دیتا ہے، نہ تیاری نظر آرہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ جو امت کا منصوبہ یا تصور ہے یہ کیسے اور کہاں بنے گا؟ کسی ایک جگہ بنے گا؟ امت تو کہیں نظر بھی نہیں آرہی! اس کا وجود کہاں ہے؟پاکستان میں بنے گا، ترکی میں یا سعودی عرب میں؟ اور پوری دنیا کے لیے یہ نظریۂ امت کیسے قابل قبول ہوگا؟یا یہ کہ آج کے جغرافیائی دور میں تبدیلی کس طرح آئے گی؟
احمد جاوید: امتِ مسلم اجتماعیت اور قومیتوں کے مجموعے کو کہتے ہیں، یعنی مسلم تہذیبیں، قومیں اور ممالک ہم عقیدہ ہونے کی بنیاد پر، ہم مقصد ہونے کی اساس پر ایک دائرۂ وحدت کے اندر ہیں۔ اس دائرۂ وحدت کا نام امت ہے۔ اور اس امت کو پاکستانی اور ملائشین ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم مختلف قوموں، معاشروں، ریاستوں اور ثقافتوں کے ہوتے ہوئے بھی متحد ہوسکتے ہیں۔ یہ اتحاد جب برپا ہوجائے گا تو ہم قوم کے ساتھ ساتھ امت کا تشخص بھی حاصل کرلیں گے۔ امت کا تشخص قومیت کی نفی سے نہیں ہے، قومیت کو اپنے اندر جذب کرلینے سے ہے۔ ان معنوں میں مسلمان عملاً اب بھی امت ہیں، لیکن امت کا یہ تصور کہ اس کا سیاسی نظم، اس کا ریاستی اسٹرکچر ایک حاکم کے تابع ہو، ایک حکومت کے تحت ہو تو یہ اب محالات میں سے ہے، نہ ہی یہ اسلام کا مطالبہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کو اس وقت دنیا میں وہ نرم زمین کہاں نظر آرہی ہے جہاں سے تبدیلی کے امکانات ہیں؟
احمد جاوید: اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ترکی وہ خطۂ زمین ہے جہاں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ وہ مرحلہ شروع ہوگیا ہے، اور اگر یہ کامیابی سے چلتا رہا تو ترکی سینٹر آف امہ بننے کی قابلیت رکھتا ہے، کیونکہ طاقت، علم، اخلاق،کمٹمنٹ اور آزادی کا جذبہ۔۔۔ یہ تمام چیزیں ان میں موجود ہیں۔ وہ نفسیاتی طور پر آزاد لوگ ہیں۔ یہ سب عناصر مل کر کسی قوم کو اپنی ہم خیال اقوام کے لیے نمونہ یا لیڈر بناسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: جب ہم اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کا ذکر کرتے ہیں تو تین نقطہ ہائے نظر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ مغرب قابلِ تقلید ہے اور مسلمانوں کو آنکھ بندکرکے مغربی فکر کی تقلید کرنی چاہیے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے جو علماء کا ہے کہ مغرب کو یکسر مستردکردیا جائے، اور وہ کہتے ہیں کہ مغرب باطل ہے اور باطل کی پیروی ممکن نہیں۔ تیسرا نقطہ نظر ہے جو درمیان کی راہ نکالتا ہے اور مغرب اور مشرق کے اندر امتزاج تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے ذریعے اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان جو تصادم ہے اس کی راہ روکی جاسکتی ہے اور اس سے دونوں تہذیبوں کو بڑا فائدہ ہوسکتا ہے۔ ان تین نقطہ ہائے نظر کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
احمد جاوید: یہ ایک پرانا منظرہے جس میں یہی تین باتیں مغرب کے بارے میں کہی جارہی تھیں۔ سرسید کے دور کے فوراً بعد مغرب کے حوالے سے یہ تین رویّے پیدا ہوئے تھے۔ ان تینوں رویوں کے پیچھے ایک مفروضہ قائم کرنے کی غلطی ہے، یعنی ان تینوں کی پشت پر بنیادی مفروضہ ہی غلط ہے کہ تہذیبیں معاہدوں کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتیں۔ تہذیبوں کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ آرگینک (Organic) ہوتا ہے۔ وہ کسی مذاکرات، ناپ تول یا سیاسی فیصلوں کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ سارے فیصلے اور منصوبہ بندیاں اثرانداز تو ہوتی ہیں لیکن یہ تصور کرلینا کہ ہم مغرب کی تہذیب کو مکمل طور پر روکنے کا ایک پلان بناکر اس کی پابندی کریں یا اس کو مکمل طور پر قبول کرنے کا منصوبہ تیار کرکے اس کے پیچھے رہیں، اس کو عمل میں لائیں، یا یہ کرلیں کہ دین کا تعلق رکھیں، یہ چیزیں کسی طرح کے فیصلوں سے نہیں پیدا ہوتیں۔ مغربی تہذیب سے ہمارے تعلق کی جیسی بھی نوعیتیں بنیں گی وہ یکطرفہ نہیں ہوں گی، وہ ایسی نہیں ہوں گی کہ جیسے ہم نے پہلے کوئی فیصلہ کیا، اب تعلق کا سارا نظام ہمارے پہلے کیے گئے فیصلے پر چل رہا ہے۔ گویا یہ ایک مصنوعی سوچ ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ مغرب اس وقت عالمگیر تہذیب بننے کے عمل میں ہے۔ جس چیز کو ہم ستّر اسّی برس پہلے مغربی تہذیب کہتے تھے اُس کا ایک جغرافیہ تھا مغربی یورپ اور امریکہ ملاکر۔ لیکن اب جو مغربی تہذیب ہے وہ مغرب کے جغرافیہ میں محصور نہیں ہے۔ اب مغربی تہذیب ہندوستان اور چین میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس وقت موجود تہذیبی مظاہر میں ایک مغرب ہی ہے جو عالمگیر تہذیب بننے کے عمل سے سردست کامیابی کے ساتھ گزر رہا ہے اور اس کو جو چیلنج پیش آرہے ہیں وہ معمولی نوعیت کے ہیں۔ اب حقیقی اور برسرزمین صورت حال یہ ہے۔ اس طغیانی اور مغرب کے اس تہذیبی طوفان میں، مغرب کے اس عالمگیر اخلاقی، علمی، عقلی غرض ہر طرح کے تہذیبی غلبے کے ماحول میں ہم یہ فکر کررہے ہیں کہ ہم بطور مسلمان اپنے تہذیبی امتیاز کی حفاظت کیسے کریں؟ ہم خود کو مغربی تہذیب میں ضم اور جذب ہوجانے سے کیسے بچائیں؟ یہ اس وقت کا مسلم سولائزیشن کو درپیش ایک مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو کچھ طریقوں سے حل کرنے یا اس مسئلے سے نکلنے کے لیے کچھ راستے ہم اپنے سامنے ایسے موجود پاتے ہیں جن سے یہ امید باندھی جاسکے کہ یہ ہمیں مغرب کے تہذیبی غلبے سے بچانے کی قوت رکھتے ہیں۔ ان میں ایک راستہ یہ ہے کہ ہم اس کے ساتھ تصادم کا رویہ اختیار کریں، اور کیوں کہ مغربی تہذیب کے پھیلاؤ میں اس کی قوت کا بہت عمل دخل ہے لہٰذا اس پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قوت ہی کا استعمال ضروری ہے۔ مسلم تہذیب اپنے کچھ پاکٹس میں طاقت کے خلاف مزاحمت ((Power Resistance کررہی ہے کہ اس کا راستہ ہم طاقت سے روک لیں گے، جس کی ایک موجودہ صورت حال جنگجوئی (Milintancy) ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کچھ تنکے آپس میں اتحاد کرکے سونامی کو روکنے کا منصوبہ بنائیں۔یہ انتہائی لغو خیال اور بے معنی طرزعمل ہے۔ یہ جنگجوئی مغرب کے غلبے کی قبولیت میں اضافہ کررہی ہے، یعنی مغربی تہذیب کو اخلاقی جواز فراہم کررہی ہے۔ تہذیبوں کے پھیلاؤ میں جو سب سے بڑے جواز ہوتے ہیں ان میں سے ایک جواز ان کی اخلاقی برتری ہوتا ہے۔ تو داعش وغیرہ کے مقابلے میں مغربی تہذیب یا داعش کا ہر ہدف اخلاقی طور پر ان سے بلند ہوگا۔ اب مغرب کے خلاف تشدد کا رویہ اور دہشت گردی کے واقعات جتنے بڑھتے چلے جائیں گے، ان سے مغرب کے جسم پر خراش تک نہیں آئے گی بلکہ ان کی طرف ہمارا رویہ بدلنے لگے گا اور ہم ان کی اخلاقی برتری کے قائل ہونے لگیں گے۔ تو اس سے ان کے پھیلاؤ کا راستہ اور زیادہ ہموار ہوجائے گا۔
دوسرا رویہ یہ ہے کہ ہم مغرب کی وہ اقدار، مغربی نظام کے وہ عناصر جن کی عالمگیریت مسلم ہوچکی ہے، جو اس وقت دنیا کا قانون بن چکے ہیں اور ان کا موجد مغرب ہے، مثلاً جمہوریت، مائلڈ کیپٹلزم (mild capitalism)، انسانی حقوق کا تصور، آزادئ اظہار کا آئیڈیا، دین بدلنے کی آزادی وغیرہ، تو ہم مغرب کی یہ جو قدریں آفاقی اقدار کی صورت اختیار کرتی جارہی ہیں، ہم ان میں سے کچھ قدریں منتخب کرکے اختیار کرلیں۔ دو راستے ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم جمہوریت اختیار کرلیں، کیونکہ جمہوریت کے نتائج اچھے ہیں۔ ہم آزادئ اظہار اختیار کرلیں، ہم انسانی حقوق کی وہی فہرست مان لیں جو مغرب نے بنائی ہے اور اقوام متحدہ سے منظور کروائی ہے، تو اس کے ساتھ ساتھ ہم نماز، روزہ جاری رکھیں۔ ہم اپنا آئین نیا بنادیں کہ جس میں لکھ دیا جائے کہ قرآن و سنت سے ٹکراؤ رکھنے والا کوئی قانون نہیں بن سکتا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو ہم اسلام کو آئینی طور پر غالب رکھیں اور زندگی کا پورا مزاج جو ہے، وہ مغرب سے نزدیک رہ کر بنائیں۔ مغرب میں ضم ہوئے بغیر اپنی بعض شناختوں کو برقرار رکھتے ہوئے، یا یوں کہیں کہ اپنی اُن شناختوں کو برقرار رکھتے ہوئے، جن پر مغرب کو اعتراض نہیں ہے، ہم اپنے ان تہذیبی امتیازات کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی کو چلانے والا اجتماعی نظام ،چاہے وہ سیاست کے دائرے میں ہو، اخلاق کے دائرے میں ہو، چاہے معیشت میں ہو، چاہے تعلیم میں ہو، چاہے انصاف میں ہو، وہ ہم مغرب سے نقل کریں، مغرب سے پورا پیکیج لے لیں اور اس پیکیج کو لے کر بس اس پر عنوان یہ لگادیں کہ یہ ہماری ہی تہذیب کے بنیادی عناصر ہیں جو مغرب نے ہم سے لیے تھے۔ تو ہم گویا اپنی دی ہوئی چیز اُن سے واپس لے رہے ہیں۔ تو دوسرا رویہ یہ ہے، ٹھیک ہے نا! مغرب کی بنائی ہوئی دنیا کو مغرب ہی کا ایجاد کیا ہوا نظام چلا سکتا ہے۔ ہم اس وقت مغرب کی بنائی ہوئی دنیا میں رہتے ہیں اور اس دنیا میں رہنے کے لیے انھی کے بنائے ہوئے نظام کے محتاج ہیں۔ یہ دنیا کسی اور نظام سے چل نہیں سکتی۔
تیسرا رویہ ابھی تصور کی سطح پر ہے، ابھی اس کے مظاہر پیدا نہیں ہورہے۔ وہ رویہ ہے مغرب سے لاتعلق ہوکر مثبت انداز میں اپنی تہذیب کو اس کی بنیادی اقدار پر چلانے کا عمل شروع کیا جائے۔ جیساکہ دنیا میں کئی خطے ہیں جو مغرب سے لاتعلق ہوکر اپنی تہذیبی اقدار کو بچانے، برقرار رکھنے اور برسرعمل رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب ہیں، تو اس ماڈل کو ہم بھی اپنالیں۔ تو یہ تین ممکنہ راستے ہیں جن سے ہم یہ امید باندھ رہے ہیں کہ شاید یہ ہمارے دینی اور تہذیبی بقا میں ہمارے معاون ثابت ہوں۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی راستے کو سفر کے قابل بنانے کا جو سامان ہوتا ہے، وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ ہم نے ریل کی پٹری کے تین نقشے بنالیے ہیں، لیکن اس نقشے پر پٹری بچھانے کا سامان ہمارے پاس نہیں ہے۔ تو ان تینوں تصورات پر عمل کرنے کے لیے جو چیزیں درکار ہیں، وہ ہمارے پاس نہیں ہیں، اس وجہ سے ہم ایک طرح سے عادی ہوگئے ہیں کہ تصور میں اپنے امتیاز کی حفاظت کرتے ہیں اور عملاً مغرب کی پیروی میں چلتے رہیں۔ ہماری موجودہ صورت حال یہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آئیڈیل طریقہ کیا ہے؟
احمد جاوید: آئیڈیل طریقہ مغرب سے تصادم کی فضا ختم کرکے اپنے prospective سے ترقی اور کامیابی کے تصورات کو عمل میں لانا ہے۔ ہمیں یہ کہنے کے لائق ہونا چاہیے کہ ترقی کا مغربی ماڈل ہمیں قبول نہیں، کامیابی کا مغربی نظام ہمیں قبول نہیں، ہم انسانی فضائل اور انسانی زندگی کی آسانیوں اور راحتوں کا اپنا ایک تصور رکھتے ہیں اور اس تصور کو عمل میں لانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری خوشحالی سود سے پاک ہونی چاہیے۔ ہمارا یہ آئیڈیل ہے، ہم اس کے پابند ہیں کہ ہمارا مال سود سے پاک ہو، ہمارے اخلاق حیا کی بنیاد پر ہوں، آزادی یا کاروبارکی بنیاد پر نہیں۔ ہماری شخصیت انکسار کے جوہر سے تعمیر ہو، کسی اور تصور سے نہیں۔ میں صرف مثال دے رہا ہوں۔ تو جب تک ہم اسلام کا ورلڈ ویو بنانے یا بتانے اور اسے عمل میں لانے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گے اُس وقت تک ہمیں مغرب کے تسلط سے بچانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ ہر امت، قوم، تہذیب کی پہلی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ بتائے کہ اس کا ورلڈ ویو کیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ورلڈ ویو سے آپ کی کیا مراد ہے؟
احمد جاوید: ورلڈ ویو سے مراد ہے: اس کا تصورِ علم کیا ہے؟ اس کا تصورِ دنیا کیا ہے؟ اس کا تصورِ انسان کیا ہے؟ جب تک ہم اپنے ورلڈ ویو کو فراموشی کی دھند سے نکال کر سب سے پہلے خود اپنے ذہن میں لانے اور اپنی زبان سے اظہار دینے کے لائق نہیں ہوں گے اُس وقت تک مغرب کے تسلط سے نکلنے کا کوئی نقشہ تیار نہیں ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: اس آئیڈیل تصور کا شعور ہمارے معاشرے میں کس طبقے کو ہونا چاہیے یا ہوگا؟
احمد جاوید: اس کا شعورتو آ پ کے حاکم طبقے کو ہونا چاہیے آپ کے علماء کو ہونا چاہیے آپ کے تعلیم یافتہ لوگوں کو ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا احساس عام ہونا چاہیے۔ حقیقت کی دو نسبتیں ہوتی ہیں۔ اس کا شعور اُن طبقات کو ہونا چاہیے جو سوسائٹی کو چلانے کی قوت رکھتے ہیں۔ جو اپنے فیصلوں کو نتیجہ خیز بنانے کے اسباب رکھتے ہیں یا جن کی ذمہ داری ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ احساس اور شعور تو ہمیں کسی طبقے میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ علماء کی صورت حال بھی مختلف نہیں بلکہ ان کے بارے میں ایک طبقے کی رائے ہے کہ علماء مغرب کے بارے میں ہی نہیں جانتے، اس کا شعور وہ کیسے رکھ سکتے ہیں!
احمد جاوید: یہ صحیح بات ہے۔ یہ اعتراف صحیح ہے کہ ہمارے علماء مغرب کو نہیں سمجھتے۔ لیکن صرف اتنی سی بات نہیں ہے، ہمارے پی ایچ ڈی بھی مغرب کو نہیں سمجھتے۔ یہ جو مکاری کی جاتی ہے نا کہ زوال کی ساری ذمہ داری مذہبی طبقے پر ڈال دی جائے، یہ چالاکی اور عیاری ہے۔ مغرب کو نہ سمجھنا اگر ایک جرم ہے تو اس کے بڑے مجرم علماء نہیں ہیں، کیونکہ ان کی ذمہ داریوں میں مغرب کو سمجھنا ثانوی ذمہ داری ہے۔ اس کے ذمہ دار جدید مغربی تعلیم یافتہ طبقات ہیں جنہوں نے مغربی نظام تعلیم میں اپنی تحصیلات مکمل کی ہیں اور مغرب کے حوالے سے اتنے ہی جاہل ہیں جتنے گاؤں کا کوئی مولوی۔ تو فہم مغرب جو ہے نا یعنی وہ فہم جوان کی تہذیب کے اثرات، ان کی تہذیب کے مزاج، ان کی تہذیب کے چھپے ہوئے (Hidden) مقاصد کو سمجھ سکے، وہ شعور ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں بالکل نہیں ہے اور اپنی تہذیب کی عائد کردہ ذمہ داریوں کا کوئی احساس ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقات میں نہیں ہے۔ مولویوں میں کم از کم اپنی تہذیب کے تحفظ کا احساس تو ہے۔ جدید تعلیم یافتہ آدمی اپنی تہذیب کا غدار ہوتا ہے، وہ اپنی تہذیب کی وفاداری کی رمق سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ یہ مغرب کا سب سے کامیاب حربہ ہے کہ وہ اپنے سے مختلف تہذیبوں کے تعلیمی نظام میں سرایت کرکے انجام دیتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ جو علم کی بات کرتے ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جتنا بھی فساد ہے وہ تعلیم یافتہ لوگوں کا پھیلایا ہوا ہے اور اس میں جدید تعلیم یافتہ اور دینی تعلیم یافتہ دونوں ہی شامل ہیں بدنام جاہل ہیں ان کا کیا قصور؟
احمد جاوید: جاہلوں کا قصور یہ ہے کہ وہ جاہل نہ رہتے تو علم کا غلط استعمال نہ ہوتا جہل اپنی جگہ جرم ہے۔جو بھی مقتدا اس کا رہنے پر راضی ہے وہ اپنے انسان رہنے پر انکار کرنے پر راضی ہے۔ یہ الگ بات ہے ہم دوسری بات جو آپ کہہ رہے ہیں وہ بات بھی ٹھیک ہے۔علم کے بغیر نہ گمراہی کو قوت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ ہدایات کو، یہ نیچرل اصول ہے یعنی ابوجہل بننے کے لیے بھی ذہین ہونا ضروری ہی اور ابوبکر بننے کے لیے بھی صاحب علم ہونا ضروری ہے ۔ جھوٹا شعور نہ ابوجہل بن سکتا ہے نہ ابوبکرؓبن سکتا ہے وہ ایک نیچرل نظام ہے لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہماری مذہبی تعلیم سے فساد زیادہ پھیل رہا ہے اور ہماری جدید تعلیم سے الحاد پھیل رہا ہے؟ یہ کیا وجہ ہے؟ کوئی تہذیب ان دو سوالوں کا جواب دیے بغیر وجود ہی میں نہیں آسکتی۔ علم کیا ہے اور علم کس لیے ہوتا ہے؟ مغرب کہتا ہے علم محسوسات کا علم ہے اور علم آرام سے، آزادی اور سلامتی ‘ خوشحالی کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے ہے۔ علم دنیا کو اپنے لیے آسان اور پرآسائش بنانے کے لیے ہے۔ان کے پاس دنوں کا واضح جواب ہے اوروہ ان دنوں جوابات کو عملی جامہ پہنانے میں بھی کامیاب ہیں۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ علم محسوساتی (Empirical) ہوتا ہے، اس سے انہوں نے فزکس، میتھی میٹکس اور تمام علوم جو دنیا اورانسان سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایک لائن پیدا کرکے دکھادی پھر اس علم کو نتیجہ خیز بنا کر دکھادیا انہوں نے کہا کہ ہم صرف یہ نہیں کہتے کہ ایٹم ہوتا ہے۔ ہم ایٹم کو پکڑ کر استعمال بھی کرسکتے ہیں اور استعمال کرکے دکھادیا، انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ خوشحالی ہونی چاہیے ہم وہ خوشحالی لاکر دنیا کے لیے دکھابھی چکے ہیں۔ یہ خوشحالی ہمارا تصور ہے او ریہ دیکھ لو کہ اس تصور کو ہم نے کس طرح عملی روپ دے دیا۔
تو وہ (مغرب) واضح ہیں انہوں نے پوری طرح یکسو ہوکر اپنی تہذیب کی تعمیر میں ان دو جوابات سے مدد لی اور ان دو جوابات کو زندگی کے تمام گوشوں میں جاری کرکے دکھادیا اورنہ صرف اپنے اندر کی زندگی میں بلکہ جوان کے اس نظریے کو قبول کرلے وہ بھی ان کے معیار پر خوشحال ہوسکتا ہے ترقی یافتہ ہوسکتا ہے عالم اسلام میں جتنی بھی ترقی اور خوشحالی ہے وہ مغربی اصول کی تقلید کے نتیجے میں ہے۔ اسلامی تعلیم کے نتیجے میں نہیں ہے۔ یہ مغرب کے تسلط کا ناقابل تردید ثبوت ہے ۔آپ کو بھی ترقی کرنے کے لیے دنیاوی معاملات میں مسلمان ہونا چھوڑنا پڑتا ہے یہ ہے مغرب کا غلبہ ،کہ تمہیں ترقی کرنی ہے تو خدا کو چھوڑ کر کرنی ہے اور اس پر انہوں نے ہمیں قائل کرلیا ہے چاہے زبان سے اعتراف نہ کریں چاہے اس کا ہمیں ادراک نہ ہو لیکن عالم اسلام میں جہاں جہاں چھوٹی موٹی ترقیاں نظر آتی ہیں ان سب کا سرچشمہ مغرب کے یہ دو اصول ہیں۔وہ اسلام کی کوئی تعلیم نہیں ہے۔ ملائیشیا نے اگر کچھ ترقی کی ہی تو کس اسلامی تعلیم سے کی ہے؟ مغربی ماڈل پہ کی ہے ترکی اگر کچھ ترقی کررہا ہے تو کس اسلامی تعلیم سے کررہاہے؟ مغر ب کے اصول ترقی کی تقلید کرکے کررہاہے تو اتنے غلبے میں پسے ہوئے ہم لوگ ہیں تو اس میں سے نکلنے یا اس میں مسلمان کی حیثیت سے سانس لینے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم ان دو سوالوں کا جواب پہلے بتائیں اپنے جواب میں خود کو کلیئر کریں اور پھر اس جواب کو عمل میں لانے کی اجتماعی سرگرمیوں کا پورا ایک مربوط نظام بنائیں اب اس میں چاہے سو سال لگیں چاہے پچاس سال لگیں لیکن یہ کیے بغیر ہم تہذیبی بقا حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ ہے اس سوال کاجواب کہ علم کیا ہوتا ہے؟ علم کس لیے ہوتا ہے؟
فرائیڈے اسپیشل: اب اس میں ایک سوال تحریکوں کی کامیابی اور ناکامی کے پس منظر میں اٹھتا ہے کہ کیا تحریکوں کی ناکامی واقعی ان کی ناکامی ہوتی ہے تحریکوں اور جماعتؤں کا کام تو جدوجہد کرنا ہے آپ سے سوال جدوجہد کا ہوگا؟ آپ کا پیغام قبول ہوا یا نہیں ہوا لوگ تبدیل ہوئے نہیں ہوئے یہ مطلوب نہیں۔ اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
احمد جاوید: نہیں اس کو دوسری طرح بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک تحریک اگر پچاس سال سے ناکام ہے، اپنے مقاصد حاصل نہیں کرپارہی اور اپنے کام میں لگی ہوئی ہے تو اسے ناکام نہیں کہا جائے گا۔ بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اسے دینی معنوں میں بھی ناکام نہیں کہا جائے گا دنیاوی معنوں میں بھی ناکام نہیں کہا جائے گا۔ اسے ناکام کہنے کا کوئی دینی یا عقلی جواز نہیں ہے، لیکن ا گر کوئی تحریک اس طرح کی ہو، وہ سکڑنے لگے، اس کا ایکٹی وزم کم ہونے لگے، اس کے مقاصد بدلنے لگیں تو پھر کہا جائے گا کہ یہ ناکام ہوگئی ہے ۔ ہمارے یہاں مشکل یہ ہے کہ وہ ناکامی کے احساس سے بچانے والی چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بھی اب تیزی سے کم ہوتی جارہی ہیں۔جدوجہد تو کررہے ہیں، بس جدوجہد کرتے رہنے پر ہم راضی ہیں۔ اپنی جدوجہد کو نتیجہ خیزبنانے کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہے، ان سے غافل ہیں۔ یہ مذہبی طبقے کا ایک ڈایلیما ہے کہ آپ انقلاب لانے کی جدوجہد میں مخلص بھی ہیں، سرگرم بھی ہیں، لیکن انقلاب لانے کے لیے جو قوت اور صلاحیت لازماً درکا ہے، اس قوت و صلاحیت کو حاصل کرنے کی کوئی سنجیدہ اور مربوط کوشش نہیں کررہے۔
اب جماعت اسلامی یا کوئی بھی معروف سیاسی ذریعہ سے غلبہ دین کی جدوجہد کرنے والی مخلص جماعت، اس طرح کی کوئی بھی جماعت ہو، ان سے یہ پوچھا جائے کہ تم جو اسلامی نظام لانے کے لیے اپنے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہو، اس میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے۔ وہ اسلامی نظام عمل میں کس طرح آئے گا؟ سودی نظام سے نکلنے کا کوئی لٹریچر ہے تمہارے پاس سے؟ تمہارے پاس موجودہ نیشن اسٹیٹ کے جو شہری مساوات کا حق ہے، اس کو اسلام سے کس طرح جوڑوگے، اس کا کوئی narativeہے تمہارے پاس ؟ کیپٹلسٹ معیشت میں جو باریکیاں، پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں، ان کا کوئی احساس ہے تمہارے پاس؟ کیپٹلزم کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ مغرب کے بارے میں تمہاری کیا انڈر اسٹیڈنگ ہے؟ اور پھر اسلامی نظام ‘ اللہ کی حاکمیت‘ حاکمیت اعلیٰ ‘ اللہ کا قانون‘ شریعت کا طریقہ ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا‘ یہ سب تمہاری وجہ سے بے معنی نعرے لگنے لگے ہیں۔ کیونکہ تم اس کے معنی بتاتے ہی نہیں ہو‘ اللہ کی حاکمیت کس اسٹرکچر میں ہوگی؟ جیسے مغرب نے کہا ناں؟ مغرب نے ایک ڈسکورس (Discourse) کیا جمہوریت کا، جمہوریت ایک مغربیوں کے لیے دین ہے۔ انہوں نے بتادیا جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کے لیے۔ انہوں نے ایک لائن بنائی ناں۔ اس طرح اللہ کی حاکمیت ‘ اللہ کے بندوں کے لیے یہ ان کا سلوگن ہے جمہوریت نے اپنے سلوگن کو عمل میں لانے کے لیے تمام وسائل تمہاری نظروں کے سامنے رکھ دیے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: مولانا مودودیؒ نے معیشت‘ اسلامی معیشت پر بہت لکھا سود کے حوالے سے ’’سود‘‘ کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب لکھی اور آج اگر دیکھا جائے تو دوسری طرف مولانا تقی عثمانی نے اسلامی بینک کا نظام متعارف کروادیا کام تو ہوا ہے اور ہورہا ہے؟
احمد جاوید: پہلی مثا ل لے لیتے ہیں، مولانا مودودی کا ’’مسئلہ سود‘‘۔اس کتاب کا بڑا فائدہ اوربڑی برکت یہ ہے کہ اس سے مسلمان کو یہ پتا چل جاتا ہے کہ سود حرام ہے، بس۔ بلاسودی معیشت کا ایک نظام کے طو رپر کیسے پتہ چلے گا، اس کی کوئی رہنمائی ہے اس کتاب میں؟ سرمایہ دارانہ capitalisticسودی معیشت کی متبادل معیشت کے ضروری خدوخال اور ورکنگ پیپر ہے اس کتاب میں ؟ یا کسی بھی عالم کی کتاب میں؟ اس طرح تھوڑی ہوتا ہے۔ ایڈم اسمتھ کو پڑھیں تو آپ کو کیپٹلزم کی بائبل نظر آجائے گی۔ تو بلاسودی معیشت اپنی ورک ایبل حالت میں کہاں ہے؟ پھر یہ کہ کسی بھی مسلمان ملک میں کسی بھی اسلامی مملکت کہلانے والے ملک میں بلاسودی نظام معیشت سرے سے موجود نہیں ہے۔ تو اس کا کیا سبب ہے؟ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ علماء کے ذہن میں معیشت کا نظام بنانے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ وہ موجودہ معیشت کے دروبست کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ وہ کیپٹلزم کا سامنا کرکے معیشت کا ایک ڈھانچہ بنانے کی قابلیت ہی نہیں رکھتے۔ وہ بس ہوا میں احکام کی سطح پر بات کررہے ہیں کہ یہ حکم قرآن میں ہے، یہ حکم حدیث میں ہے، یہ حکم اخلاقی طور پر ضروری ہے۔ اخلاق بھی کتابی، قرآن و حدیث بھی کتابی، یہ سارے احکام اپنی تعاملی صورتوں میں ایک نظام کو چلانے والے کیسے بنیں گے؟یہ سب کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھے بھی معلوم ہے، سود حرام ہے۔
اب دوسرا ماڈل تقی عثمانی صاحب کا ہے۔ تقی عثمانی بڑے عالم ہیں، میں عالم نہیں ہوں۔ میرے ایک دوست ہیں، سینئر بینکر ہیں اور انٹلکچول بینکر ہیں۔ وہ نظام معیشت اور عالمی نظام معیشت کو تقی عثمانی سے ایک ارب گنا زیادہ جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا، یہ رام کا نام رحیم رکھ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، جو ہم ان سے فرمائش کرتے ہیں کہ اس کو جائز بنا دیں، اس کو اسلامی بنادیں، وہ ہمارے مفادات کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ ہمیں کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے، اسے اسلامی اصطلاحات میں بدل دیتے ہیں اور تھوڑا سا اس میں (ضابطے) Procedural change لے آتے ہیں۔عمل اور اس کی بنیاد اور اس کا نتیجہ وہی رہتا ہے۔ یہ وہی تصور ہے کہ مغرب پر ہم غالب نہیں آسکتے، مغرب سے ہم لڑ نہیں سکتے تو اب بعض مغربی اقدار میں کچھ جزوی اور غیر موثر آرائشی تبدیلیاں کرکے اسے مشرف بہ اسلام کرلو۔ یہ مذاق ہے اور یہ ہماری طرف سے ایک مکمل اعتراف شکست ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کی شہرت ماہر اقبالیات کی بھی ہے۔ آپ نے اپنی عمر کا طویل عرصہ فکر اقبال کو عام کرنے میں بسر کیا۔ سوال یہ ہے کہ اقبال کی فکر ہمارے لیے اور بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ کے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے؟
احمد جاوید: اقبال ہماری جدید روایات میں وہ آدمی ہیں جن کے یہاں ہم اسلامی ورلڈ ویو کو زیادہ کامل حالت تلاش کرسکتے ہیں۔ اقبال معاصرین میں غالباً عالم اسلام میں سب سے ممتاز اور منفرد آدمی ہیں جنہوں نے اس ضرورت کا ادراک کیا کہ اسلامی ورلڈ ویو جو ہے وہ پہلے تشکیل دینا چاہیے اسلامی تہذیب کے اصول ومبادی کو پہلے بیان ہونا چاہیے واضح ہونا چاہیے ورلڈ ویو کی میں نے تعریف کردی کہ تصور خدا‘ تصور انسان‘ تصور کائنات اور تصور علم‘ اقبال کے علاوہ یہ ورلڈ ویو اتنی اونچی ذہنی سطح اور اتنی مضبوط جذباتی سطح دونوں سطح پر ظاہر ہوا ہے وہ ان کے معاصرین کو اس کا شعور اور احساس نہیں تھا۔ اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ اور افادیت یہ ہے کہ جب بھی ہم ہوش میں آکر اپنا ورلڈ ویو بنانے کی کوشش کریں گے تو اس میں اقبال سے مدد لینی ناگزیر ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اقبال کے بارے میں آپ کے استاد سلیم احمد سمیت کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال کی شاعری اور اقبال کے خطبات میں تضاد پایا جاتا ہے آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
احمد جاوید: اقبال کی شاعری اور خطبات میں تضاد نہیں ہے، موضوعات کا فرق ہے اور موضوعات کا بیان کرنے کا فرق ہے۔ تضاد کہیں نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: وضاحت فرمایئے؟
احمد جاوید: وضاحت تو اس بات کی ہونی چاہیے کہ کہاں تضاد دیکھا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: جی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں عشق اور اپنے خطبات میں عقل کی فوقیت کے قائل نظر آتے ہیں۔ شاعری میں ایک مذہبی انسان کو ہم دیکھتے ہیں تو خطبات میں مغربی فکر سے متاثر دکھائی دیتے ہیں؟
احمد جاوید: نہیں وہ شاعری میں بھی مغربی فکر سے متاثر ہیں اور خطبات میں بھی ہیں۔ لیکن خطبات میں وہ مغربی فکر کا سامنا کرکے مغربی ذہن کے لیے قابل قبول تصور اسلام بتانے کی کوشش کررہے ہیں۰ شاعری میں ان کا مخاطب مسلمان ہے جس میں وہ اپنے ہی ورلڈ ویو سے آشنا کرنے کی جذبے اور عقل دونوں سطحوں پر کوششیں کررہے ہیں۔ تو مخاطب بدل جانے کے فرق سے طریقۂ کلام بدل گیا ہے اور استدلال کا نظام بدل گیا ہے اور وہ بدلنا ضروری تھا۔ غیر مسلم کے سامنے یا غیر مسلم طبیعت کی سامنے اسلام کو جس طرح پیش کیا جائے گا، وہ اس سے مختلف ہوگا جیسا کہ مسلمانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔تضاد کی نسبت نہیں ہے، تنوع کہہ سکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: سلیم احمد صاحب نے جب اس رائے کا اظہار کیا تو ان کے سامنے آپ نے اپنی رائے کا اظہار کیا؟ ان سے بات ہوئی؟
احمد جاوید: ’’اقبال ایک شاعر‘‘ انہوں نے لکھی وہ بہت جلدی میں لکھی، انہوں نے وہ کتاب ایک مہینے میں لکھی تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے جب سلیم بھائی نے یہ کہا تھا تو ہم اس بات کے قائل تھے کہ خطبات کا اقبال کوئی اور ہے شاعری کا اقبال کوئی اور ہے خطبات کا اقبال مغرب سے مغلوب ہوچکا ہے اور شاعری کا اقبال مغرب سے لڑنے پر اکساتا ہے۔ اس وقت میری بھی یہی رائے تھی جو استاد کی رائے ہے اوریہ فطری بات ہے لیکن جب میرا خود اقبالیات سے عملی تعلق سلیم احمد کے انتقال کے دو سال بعد پیدا ہوا ہے تو جب میں اقبالیات کے شعبے سے متعلق ہوا اور جب میں نے اقبال کو تفصیل سے اور زیادہ سنجیدگی سے پڑھا تو پھر مجھے یہ معلوم ہوا کہ سلیم احمد کی اس رائے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اقبال ایک بہت منضبط آدمی تھے۔ تضاد چھوٹے ذہن کے افکار میں ہوتا ہے ایک آدمی چیزوں کا holistic View کلی نقطہ نظر کھتا ہو اس میں غلطی ہوسکتی ہے کہ مغرب کی وجہ سے ترقی کررہاہے عالم اسلام علم نہ ہونے کی وجہ سے تنزل میں ہیں یہی وہ خطبات ہیں بھی کہتے ہیں۔شاعری مغرب کے تصور وجود کے مقابلے میں اسلام کا تصور وجود پیش کرتی ہے اور خطبات مغرب کے تصور علم کے سامنے اسلام کا تصور علم پیش کرتے ہیں تو اتنے بڑے بنیادی تھیمز(موضوعات) کا ادراک اور کلام کے دو ذرائع اختیار کرنا بڑے آدمی کاکام ہے ۔
فرائیڈے اسپیشل: آج کل سیکولرزم اور لبرل ازم کی اصطلاح ایک بار پھر موضوع بحث بنی ہوئی ہے اس موضوع پر بہت بات کی جارہی ہے اورلکھا بھی جارہا ہے یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا سیکولرزم کفر ہے؟آخر ان کا مطلب کیا ہے؟ ذرا ہمیں سمجھایئے؟
احمد جاوید: سیکولرزم اور لبرل ازم دونوں جڑواں بہنیں ہیں لبرلزم ایک رویہ ہے سیکولرازم ایک نظام ہے ان میں فرق یہ ہے کہ سیکولرزم کا مطلب ہے کہ دنیا کے معاملات انسان چلائے گا اس کی لیے کسی خدا ئی ہدایات نامے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ سیکولرزم ہے لبرل ازم کا مطلب ہے کہ کفر بھی ٹھیک ہے ایمان بھی ٹھیک ہے آدمی کو کافر ہونے کا بھی کھلا موقع ملنا چاہیے مومن ہونے کا راستہ بھی صاف رہے یہ رویہ ہے کہ کافر سے اس کی کفر کی بنیاد پر دوری نہ محسوس کرنا اور مومن سے اس کی ایمان کی بنیاد پر خصوصی محبت محسوس نہ کرنا یہ لبرل ازم ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک شخص اگر مسلمان ہے او روہ خود کو سیکولر کہے تو کیا اس نے اسلام کی جس بنیاد کا حلف لیا ہے اس کی خلاف ورزی کررہاہے؟
احمد جاوید: خلاف ورزی ہے ‘ مذہبی آدمی سیکولر نہیں ہوسکتا۔ سیکولزم کا مطلب ہے دنیا میں خدا کے اختیارات کو سلب کرلینا‘ خدا کو غیر متعلق کردینا تو سیکولر ازم مذہب کی اور خاص طور پر اسلام کی نفی ہے۔ عیسائیت نے تو اپنی اس پوزیشن کو قبول کرلیا کہ چلو دین انفرادی معاملہ ہے لیکن اسلام کا تو دعویٰ ہی اس پر ہے کہ انسان اس کی انفرادیت اور اجتماعیت سب کی سب اسلام کے دائرے میں ہونی چاہیے یعنی اسلام کو انسان کی اجتماعی انفرادی سرگرمیوں کا مرکز ہونا چاہیے اور سیکولرازم اس کو مانتا ہی نہیں۔ کہتا ہے، مرکز انسان خود ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے جو اساتذہ ہیں وہ اپنی بات کو آسان اسلوب میں بیان کرنے والے ہیں مثلا ایوب دہلوی، سلیم احمد وغیرہ لیکن بہت سے لوگوں کو آپ کے اظہار کا سانچہ بہت مشکل، ادق اور پیچیدہ محسوس ہوتا ہے اس کا کیا سبب ہے؟
احمد جاوید: میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں صداقت ہے یا نہیں ہے کیونکہ میں اپنے اوپر غور نہیں کرتا۔ لیکن اگر مجھ سے پوچھا جائے تو اپنی دفاع کی نیت کیے بغیر میں یہ کہوں گاکہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ سلیم احمد کے اسٹائل میں ایک سلاست تھی لیکن مولانا ایوبؒ کی گفتگو آسان نہیں تھی۔ مولانا ایوب صاحب کی گفتگو میں بہت اصطلاحات تھیں وہ گفتگو عالموں کے لیے تھیں۔ میں یہ سمجھتا ہو کہ مخاطب میں فرق پیدا ہو جانے کی وجہ سے مجھے مشکل پسندی کا چارج سننا پڑتا ہے کیونکہ سامعین وہ نہیں رہے۔ اگرہمارے سامعین بھی مولانا ایوب صاحب اور سلیم احمد اور حسن عسکری جیسے ہوتے تو میرا خیال ہے کہ میرا طرز کلام ان کے لیے سہل تھا اب صورت یہ ہے کہ اخبار پڑھنے کی صلاحیت لے کر لوگ حقائق کی کھوج میں نکلتے ہیں۔ یعنی آپ جن سے بات کر رہے ہیں انہوں نے بمشکل اخبار کو پڑھ کر سمجھنا سیکھا ہے اب آپ ان سے بات کرتے ہیں حیات و کائنات کے مسائل کی یا کچھ گہرے مسائل کی تو وہ انہیں مشکل لگتے ہیں۔ لیکن وہ مشکل ہوتے نہیں ہیں میرے خیال میں، میں چیزوں کو واضح کرنے کا مزاج رکھتا ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں پہلے دو فقرے یا تمہیدی جملے ایسے بولتا ہوں جو اصطلاحی ہو اور جس میں بات پوری ہو جائے اور جو اس علمی معیار کے مطابق ہوں تو اس کے بعد زیادہ وقت انہی کی وضاحت میں لگاتا ہوں تو جس کی گفتگو میں وضاحت کرنے کا عمل زیادہ ہو اس کو مشکل کہنا ٹھیک نہیں ہے۔ دوسرا مجھے ایک چیز کا جیسے بہت احساس رہتا ہے کہ علم کی اور علم کے بیان کی سطح کو گرنے نہ دیا جائے مخاطب کو دعوت دی جائے تم اوپراٹھو خود کو اس کاپابند نہ کیا جائے کہ میں علم کو اس کی سطح فہم پر گرا دوں،ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم ہمالیہ کو کہتے ہیں کہ اپنا قد چھوٹا کرو تو میں تم سے معانقہ کروں گا۔ اگر تم نے اپنی بلندی برقرار رکھی تو میں چلا، تو یہ ذہن اونچائی کی کشش سے محروم ہو گیا ہے۔ مشکل میں ایک ذہین آدمی کے لیے دلکشی ہوتی ہے اس کو سوچ اس پر غور کرے اور اس کو حل کرے تو جن لوگوں نے مجھ سے کہا تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ مشکل ہے تو میں نے ان سے ایک سوال کیا اور سب کا جواب مشترک تھا۔ مطلب یہ میں رپورٹ کر رہا ہوں۔ میں نے کہا تم نے غورکرنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد یہ کہہ رہے ہو۔ غور کر کے کہہ رہے ہو۔ تمہاری بات مشکل ہے انہوں نے کہا غور کرنے میں نہیں سننے میں مشکل لگی۔ یعنی پہلا تاثر مشکل لگا۔ تو اس کے اندر یہ ارج نہیں پیدا ہوئی کہ ایک آدمی کی یہ بات سننے میں مجھے مشکل لگی ہے تو میں اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش تو کروں نا۔ اس جملے پردو مرتبہ غور تو کر کے دیکھو۔ اب آپ کسی کی بات پر دوسری مرتبہ غور تو کر کے دیکھو۔ اب آپ کسی کی بات پر دوسری مرتبہ غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور پہلے تاثر اس پر فیصلہ کر لیں کہ یہ بات مشکل ہے، لہٰذا میں اس کا مخاطب نہیں بنتا، میں اس پر غور نہیں کروں گا تو یہ تو بہت ہی لکڑی کے دماغ کا کام ہے نا۔ ورنہ ہم بھی چھوٹے تھے، اپنے استادوں کی باتیں نہیں سمجھتے تھے تو وہ حافظے میں رکھتے تھے، کاغذ پر لکھتے تھے اور پھر اگلی ملاقات تک اس پر غور کرتے تھے اور انہیں یہ بات فخریہ بتاتے تھے کہ ہمیں یہ بات آپ کی مشکل لگی اور ہم نے دو دن غور کر کے اس کواس طرح سمجھا ہے یہ درست ہے؟ تو کبھی درست ہوتی تو کہتے تھے، درست ہے۔ کبھی غلط ہوتی تھی تو کہتے تھے، یہاںیہ غلطی تھی اور بات واضح ہو جاتی تھی۔
حل تنازعات کے طریقے سیرت نبوی کی روشنی میں
محمد حسین
تنازعات کا علم جدید سماجی علوم میں بہت ہی اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ یہ ایک مستقل شعبہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ دنیا بھر کی یونیور سٹیوں اور تحقیقاتی و پالیسی ساز اداروں میں اس پر تدریسی و تحقیقی پروگرامات اور مطالعات اور تحقیقات کا ایک وسیع سلسلہ جاری ہے۔ اس علمی شعبے میں ہونے والی پیش رفت کے نتیجے میں تنازعات کے تجزیات، اصول، اساب و اثرات، مراحل و صورتیں اور تنازع سے نمٹنے کے اسالیب اور تنازع کے نتائج پر بہت کام کیا جا چکا ہے اور بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ چونکہ دنیا میں اس وقت جاری تنازعات یا تو مسلم ممالک میں ہیں یا ان سے مسلمان وابستہ ہیں، اس لیے اس میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کا خصوصی مطالعہ کیا جارہا ہے اور دہشت گردی، امن، تنازعات سے اسلام کے تعلق کی نوعیت کو جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گزشتہ چار سال کے دوران میں مجھے امن، تنازعات کا حل، اور سماجی ہم آہنگی کے اسلامی تناظرات و موضوعات پر ایک طرف کچھ تحقیقی کام کا موقع ملا اور دوسری طرف پاکستان کے متعدد شہروں میں مختلف مسالک و مذاہب سے وابستہ تقریباً دو ہزار اساتذہ اور قائدین کو ان موضوعات پر ٹریننگ دینے کے پراجیکٹس پر کام کا موقع ملا۔ اس دوران میں جب ہم نے سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی مطالعہ کیا تو ہمیں بہت مسرت ہوئی کی اتنی علمی پیش رفت کے بعد تنازعات کے علم پر کام کرنے والے ماہرین نے تنازعات سے نمٹنے کے جو اسالیب و طریقے پیش کیے ہیں، اْن سے متعلق سیرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں واضح رہنمائی ملتی ہے۔ یہاں ہم انتہائی اختصار کے ساتھ تنازع سے نمٹنے کے مختلف اسالیب کو سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہاں صرف وہی واقعات بطور مثال پیش کر یں گے جو بہت مشہور ہیں اور جنھیں اسلامی تاریخ و سیرت النبی کی تقریباً ساری کتب میں بیان کیا گیا ہے۔
تنازع سے کیا مراد ہے؟ ’’تنازع‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور ’’نزع‘‘ سے مشتق ہے۔ نزع کا معنی کھینچنا ہے۔ پس دو یا دو سے زائد افراد کا کسی چیز کو اپنی طرف کھینچنا تنازع کہلاتا ہے، جبکہ عام بول چال میں تنازع اختلاف، جھگڑے یا کشمکش کو کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ’’تنازع سے مراد کم سے کم دو افراد یا گروہوں کے درمیان ایسا تعلق ہے جن کے مفادات، مقاصد،نظریات یا ضروریات میں حقیقی طور پر یا تصوراتی طور پر تصادم یا عدم مطابقت پائی جاتی ہے۔
مفادات یا نظریات کے تصادم کی بنیاد پر تنازع کے فریق ایک دوسرے کے خلاف رد عمل دکھاتے ہیں‘‘۔ عام طور پر تنازع کو امن کا متضاد سمجھا جاتا ہے، حالانکہ امن کا ضد خوف ہے اور تنازع خوف کا ایک اہم سبب ہے۔
کسی بھی تنازع کی صورت حال سے نمٹنے کے طریقے یا اسالیب مختلف ہو سکتے ہیں۔ صورت حال کے مطابق نمٹنے کے انداز مختلف ہو سکتے ہیں اور ان کے تحت تنازع کے نتائج بھی مختلف نکل سکتے ہیں۔ ذیل میں تنازع سے نمٹنے کے مختلف طریقوں اور اسالیب کو بیان کیا جارہا ہے:
ا) تنازع پر قابو پانا (Conflict Management )
سب سے پہلے ضروری ہے کہ تنازع کو تشدد اور نقصان سے بچانے کے لیے اس پر قابو پالیا جائے۔ متحارب افراد اور گروہوں کو ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے روکنے کے لیے ان کے درمیان قانونی، سماجی اور اخلاقی رکاوٹیں پیدا کی جائیں جس کے نتیجے میں عارضی طور پر امن قائم ہو جاتا ہے۔
ایک موقع پر اہل قبا کے مابین جھگڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا:
’’ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم ان کے درمیان صلح کروائیں۔‘‘ (مسندابی یعلی الموصلی : ۷۵۴۵)
اس طرح ایک جاری تنازع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہاں جا کر قابو پا لیا، تاکہ نقصان اور تشدد سے بچا جا سکے۔
ب) تنازع کا حل نکالنا (Conflict Resolution )
تنازع پر وقتی طور پر قابو پانے کے بعد تنازع کا کوئی نہ کوئی وقتی حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ تنازع کے حل کا مقصد فریقین کی مدد کرنا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کی ضروریات، مسائل اور تنازع کی وجوہات کو سمجھ کر پائیدار حل تلاش کر سکیں۔ اس مرحلے/طریقے کا مقصدفریقین کو کسی ایسے معاہدے یا حل پر راضی کرنا ہوتا ہے جس پر دونوں فریق پر مطمئن ہو تاکہ تنازع کا مستقل حل نکالا جا سکے۔
بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کعبۃ اللہ میں حجر اسود نصب کرنے کے مسئلے پر قریش کے قبائل کے درمیان کھڑا ہونے والا تنازع اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیش کردہ حل ایک بہترین مثال ہے۔ تمام قبائل یہ سعادت خود حاصل کرنے کے خواہش مند تھے اور اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنازع کو بہترین انداز میں حل کرنے کے لیے یہ تجویز پیش کی کہ حجر اسود کو ایک چادر کے درمیان میں رکھا جائے اور ہر قبیلے کا سردار ایک کونا پکڑ کر اْسے مطلوبہ مقام پر لے جائے جہاں اْسے نصب کرنا مقصود تھا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور تنازع حل ہوگیا جس سے خطرناک لڑائی کا خطرہ ٹل گیا۔
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختلف تنازعات کے لیے مختلف اور مؤثر حل سامنے لائے۔
ج) تنازعات کو بہتر مواقع میں بدل دینا (Conflict Transformation )
تنازع کو بہتر مواقع میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ تنازع کا کثیر الجہت تجزیہ کیا جائے اور اس کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ تنازع کی وجہ سے فریقین کے مابین متاثر ہونے والے تعلقات کو بحال کیا جائے، نقصانات اگر ہوئے ہوں تو ان کا ازالہ کیا جائے، نفرتوں کو معافی اور عفو و درگزر کے ذریعے خوشگوار تعلقات میں تبدیل کیا جائے تاکہ فریقین افہام و تفہیم کے نتیجے میں ایک دوسرے کی صلاحیتوں، استعداد اور وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ایک ایسے دور کا آغاز کر سکیں جس میں مذکوہ مسئلہ پر کسی تشدد یا تنازع کا خدشہ نہ رہے۔ دونوں گروہ تنازع کی وجوہات دور کر کے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے بعد تنازع کو عناد اور دشمنی کے بجائے مستقل بنیادوں پر مفاہمت اور دوستی میں بدل دیں۔ اس کے علاوہ اس کا مقصد فریقین کی مدد کرنا ہے کہ وہ تنازع کے صحت مند اور مفید اثرات قبول کرتے ہوئے اس قابل ہوجائیں کہ باہمی تنازعات کے ذیلی مسائل کا حل خود تلاش کر سکیں۔
یہ وہ مرحلہ ہے جب تنازع کے بعد بحالی اور تعمیرِ نو کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلہ میں تعمیرِ نو کا مقصد صرف تباہ شدہ عمارت کی از سر نو تعمیر نہیں بلکہ سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچے کی تعمیرِ نو اور تنازع کے شکار فریقین کے درمیان پہلے سے مضبوط اور پائیدار تعلقات استوار کرنا ہے اور نئے امکانات اور مواقع کا آغاز ہے۔ اس کا مقصد تنازع کی بنیادی وجہ کو سامنے لانا اور فریقین کو کسی ایسے حل کی طرف لے جانا بھی ہے جس کے بعد تنازع کا خدشہ نہ رہے۔
فتح مکہ (۸ ہجری ) کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فاتح بن کر شہر میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہی لوگ تھے جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار ظلم ڈھائے، جس کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور ان کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں۔ ان سب باتوں کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کو معاف فرمایا۔ اس معافی کے بعد ماضی کے دشمن اب ہر قسم کی تلخیاں بھلا کر مکمل طور پر آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور ایک نئی اجتماعی زندگی کا آغاز فرمایا۔
اسلامی تاریخ میں ہجرت کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ کے انصار اور مکہ مکرمہ سے آنے والے مہاجرین کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیا۔ نسل، قوم و قبیلہ، خاندان، شہر، سوچ و بچار وغیرہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود انصار اور مہاجرین ایک پائیدار رشتہ میں بندھ گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کی عظیم مثال قائم کی۔
مذکورہ بالا مثالوں میں تنازعات کا نہ صرف حل پیش کیے گئے بلکہ ان کو بہتر مواقع میں تبدیل کرتے ہوئے ان سے مثبت، دیرپا اور مفید اثرات برآمد کیے۔
د) تنازعات سے بچاؤ (Conflict Prevention)
تنازع سے بچاؤ بھی ایک ایسی حکمت عملی ہے جس سے معاشرے کو تنازعات سے بچایا جا سکتا ہے۔ تنازع سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ان وجوہات کا پہلے ہی جائزہ لیا جائے جو تنازع کا سبب بن سکتی ہوں، یعنی ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ تنازع پیدا ہونے ہی نہ پائے۔ تنازعات سے بچاؤ کے لیے معاشرے کے اندر لوگوں کے مابین ایسی کوششیں اور اقدامات کیے جا سکتے ہیں جو تنازع کا راستہ روکیں اور تنازع اور تشدد کا مرحلہ پیش ہی نہ آئے۔ معاشرتی اقدار جیسے باہمی احترام، عدل و انصاف، مساوات، باہمی افہام و تفہیم، حسن معاشرت اور حسن اخلاق وغیرہ کے فروغ سے تنازعات کا بچاؤ ممکن ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ’’ سدّ ذرائع ‘‘ (برائی کا راستہ روکنے کا) کی صورت میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ سد ذرائع تنازعات سے بچاوکی اسی حکمت عملی کو واضح کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک کبیرہ گناہوں میں سے ایک اپنے والدین کو گالی دینا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ! کیا کوئی شخص اپنے والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ،وہ دوسرے شخص کے باپ کو گالی دے گا اور دوسرا رد عمل میں اس کے باپ کو گالی دے گا، وہ دوسرے کی ماں کو گالی دے گا تو وہ اس کی ماں کو گالی دے گا۔ (صحیح مسلم: ۱۳۰)
یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سد ذرائع کی تعلیم دی کہ اگر تم نے اپنے ماں باپ کی ناموس کو بچانا ہے ، تو دوسرے کے ماں باپ کی توہین نہ کرو۔
حل تنازعات کی ممکنہ صورتیں
فریقین چاہے وہ افراد ہوں، گروہ یا ممالک، ان کے درمیان تنازع مندرجہ ذیل چار مختلف صورتوں میں ختم ہو سکتا ہے:
ا) یک فریقی جیت ( win۔lose)
ایک فریق ،جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہونے یا مالی لحاظ سے زیادہ طاقتور ہونے یا اسے کسی بااختیار ادارے یا ملک کی حمایت کی وجہ سے جیت جاتا ہے اور دوسرا ہار جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہارنے والا مطمئن نہ ہواور اسے تشدد اور نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑے۔
مختلف غزوات اس کی مثال ہیں۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو جیت اور مشرکین کو شکست اور غزوہ احد میں اس کے برعکس مسلمانوں کو شکست اور مشرکین کو جیت ملی۔
ب) دست برداری (lose۔win)
تنازع کو کم از کم عارضی طور پر ختم کرنے کا ایک اور طریقہ دست برداری ہے جس کے مطابق ایک یا دونوں فریق پیچھے ہٹ جاتے ہیں، البتہ اس کے ذریعے کوئی بھی فریق صحیح معنوں میں مطمئن نہیں ہوتا۔
سن ۶ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کرنے کا فیصلہ فرمایا اور مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس فیصلہ کا جب مکہ کے قبائل اور سرداروں کو پتا چلا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی صورت مسلمانوں کو عمرہ کرنے نہیں دیں گے۔ قریش مکہ نے مسلمانوں کو مکہ سے باہر حدیبیہ کے مقام پر ہی روک دیا۔ اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدہ کی چند شرائط سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بظاہر متفق نہیں تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان شرائط کو منظور فرمایا۔ صلح حدیبیہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے موقف (عمرہ کی ادائیگی)سے دست بردار ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ جانے کے بجائے واپس مدینہ منورہ لوٹے۔
ج) سمجھوتہ (lose۔lose)
یہ تنازع کے حل کا آغاز ہے۔ دونوں فریق کم و بیش کسی چھوٹی سی تبدیلی پر مثلاً ان وسائل میں شراکت جن پر ان کے درمیان جھگڑا ہوا، یا براہ راست لڑائی سے گریز پر رضا مند ہوجاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سمجھوتہ فریقین کے لیے مکمل طور پر منصفانہ، نہ ہو لیکن یہ کم از کم عارضی طور پر اطمینان بخش ہوتا ہے۔
میثاق مدینہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے یہودی قبائل کو ریاست سے وفاداری کے عوض تمام شہری حقوق عطا کیے۔
د) ہر ایک کی جیت (win۔win)
حقیقی مشترکہ سوچ (یا اعلیٰ تر سوچ) کے حامل فریق ایک دوسرے کے نقصان یا ہار کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ ہر ایک کی بھلائی اور جیت کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس میں دونوں فریق اپنی اصل ضروریات پر ایک نئی مفاہمت پیدا کر لیتے ہیں اور تعاون کے ثمرات آپس میں بانٹنے کا ایک نیا طریقہ تلاش کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے اختلافات کا احترام کرتے اور اپنے مشترکہ مسائل کا تعین کرتے ہیں۔ وہ اپنے مشترکہ مقصد کی خاطر مل کر کام کرتے ہیں۔ اس حل کے مطابق’’ پْرتشدد تنازع‘‘ فریقین کی نظر میں اختلافات کے حل کا تقریباً غیر مطلوب طریقہ بن کر رہ جاتا ہے۔
حجر اسود کے نصب کرنے کے معاملے پر پیش آنے والے تنازع کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا حل پیش فرمایا، جسے آج کے جدید دور میں ’’طرفین کی جیت‘‘ (win۔win) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسا حل جس میں سب کی جیت ہوتی ہے اور کسی کی ہار نہیں ہوتی۔
فتح مکہ بھی ہر فریق کی جیت کی ایک بہترین مثال ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فتح مکہ کے موقع پر عفوو درگزر کی عظیم مثال قائم کی اور فرمایا: اے قریش کی جماعت! آپ کیا کہتے ہیں کہ آج آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ انھوں نے کہا: آپ ہمارے بھتیجے اور عم زاد اور رحم کرم کرنے والے ہیں، اس لیے ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ ہمیں معاف فرمائیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھر ان سے یہی سوال پوچھا ۔ انھوں نے پھر یہی جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف (علیہ السلام )نے کہی تھی: آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمھیں معاف کر دے گااور وہ سب سے بڑا رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
تنازعات کے دوران تین قسم کے رویے
تنازعات و فسادات کے دوران انسانوں کے رویے مختلف نوعیت کے سامنے آتے ہیں۔ ان رویوں کا ایک مجموعی جائزہ لیا جائے تو وہ تین طرح کے ہوتے ہیں۔
(1) بھڑکاؤ کا رویہ:
بعض لوگ تنازعات وفسادات کو مزید بھڑکاتے ہیں۔ وہ یا تو خود ایک فریق کا حصہ بن جاتے ہیں یا دور رہ کر جارحانہ یا دفاعی پوزیشن لینے والے کے ساتھ مدد کرتا ہے۔ شاید اس رویے سے بعض انسان اپنا مفاد حاصل کریں لیکن انسانی جان اور دیگر وسائل زندگی کے ضیاع کی صورت میں اس رویے کا نقصان انسانی معاشرے کو اٹھانا پڑتا ہے
(2) سلجھاؤ کا رویہ:
بعض لوگ تنازع کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھتے ہوئے اور تنازع کا فریق بنائے بغیر دونوں فریق کو کسی حل پر آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں تاکہ تنازع کسی حل کی طرف بڑھے اور اس کے نتیجے میں نقصانات کم سے کم ہوں۔ کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ اپنا اخلاقی، سیاسی اور سماجی قوت کی بدولت دونوں فریق یا کسی ایک فریق کو طاقت سے ایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے روکیں۔
(3) لا تعلقی کا رویہ:
بعض لوگ بھڑکانے اور سلجھانے دونوں کاموں میں حصہ نہیں لیتے۔ یہ رویہ بعض صورتوں میں بہت تکلیف دہ اور نقصان د ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب تنازع رشتوں پر مبنی ہو تو لاتعلقی کا رویہ بھڑکاؤ کی مانند نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ یہ وہ تین رویے ہیں جو تنازع کے نتائج کو اثرانداز کرتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ، ہمارا مظلوم کی مدد کرنا تو قابل فہم ہے، (کہ اسے ظلم سے بچائیں)، لیکن ہم ظالم کی مدد کیسے کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کا ہاتھ ظلم سے روک دو۔ (یعنی درحقیقت یہ اس کی مدد ہے کہ وہ ظلم کے برے انجام سے محفوظ رہے گا)۔ (صحیح بخاری: ۲۳۱۲)
یہ حدیث مبارکہ ہمیں تنازع کی صورت میں بھڑکانے یا لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے منہ پھیرنے کے بجائے تنازع کو حل کرنے میں کردار ادا کرنے کی رہنمائی کرتی ہے۔ موجودہ دور میں تنازعات ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ اس کے مناظر اپنی گلی محلے کے فسادات سے لے کر قومی ، علاقائی اور بین الاقوامی فسادات میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس دور میں ہماری آزمائش یہ ہے کہ ہم کون سا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم فسادات کو درآمد کرنے یا بر آمد کر کے بھڑکانے والوں میں شامل ہوں اور دوسروں کے مظالم کی بھی سزا ہم بھگتیں!
اسلامو فوبیا ۔ کیا ہم خود بھی ذمہ دار نہیں؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
چند دن پہلے امریکہ میں آنے والے صدارتی انتخابات کے ایک امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ مطالبہ کر کے امریکیوں سمیت بہتوں کوحیران کر دیا کہ مسلمانوں کو امریکہ میں داخلہ کی اجازت نہ دی جائے۔ ان کے بیان کی شدید مذمت امریکہ میں بھی ہوئی ہے اور برطانیہ میں تو اب تک تیس ہزار لوگوں نے ان کے خلاف ایک دستخطی مہم پر اپنے دستخط ثبت کیے ہیں، تاہم ان کے بیان سے مغرب میں اسلامو فوبیا کا وجود عیاں ہو کر سامنے آگیا ہے۔ اسلامو فوبیا کا لفظی مفہوم ہے: اسلام سے خطرہ محسوس کرنا یا مسلمانوں سے نفرت کا اظہار۔ اس اصطلاح کوپہلے پہل مغرب کے بعض لکھنے والوں نے استعمال کیااور اب مغربی میڈیاکے ذریعے اس کا استعمال بہت عام ہوگیاہے۔اس پر ریسرچ ہورہی ہے، اس کے بڑھتے ہوئے مظاہر پر مغربی مسلمانوں کے ساتھ خود مغرب کی حکومتیں بھی تشویش کا اظہارکررہی ہیں اوراس کا مقابلہ کرنے کے طریقوں پر غور کیا جا رہا ہے۔
ویسے توجب مسلمان اپنے دور عروج میں تھے، مغرب میں اسلامو فوبیا اس وقت بھی شباب پر تھا۔ متعصب عیسائی پادری اور رہنما پورے یورپ میں گھوم گھوم کر اسلام، پیغمبر اسلام اورمسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے اور انھیں بتاتے تھے کہ مسلمان ’’محمد‘‘ نام کے بت کی پوجاکرتے ہیں۔یہ بدقماش نبی اکرم کا نام بگاڑکر اس کو Mohmed, Mohamet یا Mohamend بولتے تھے اور آپ کو(نعوذباللہ) ظالم وجابربادشاہ، جھوٹانبی، شہوت پرست حاکم باور کراتے تھے۔ صلیبی جنگیں انھی جھوٹے پروپیگنڈوں کی بنیادپر مذہبی جوش وخروش سے لڑی گئیں۔ استشراق کی کلاسیکل تحریروں میں اس گمراہ کن پروپیگنڈے کی تفصیل موجودہے۔ پھراستشراق کا دوسرادورآیااوراُس نے علمی وتحقیقی رنگ اختیارکرلیاتواِس گمراہ کن پروپیگنڈے کی شدت میں کمی آئی۔ پھرجب مسلمان زوال کا شکارہوئے اور مغربی سامراج کوعروج ملا تو مختلف اسباب سے مسلمانوں نے مغرب کا رخ کرناشروع کردیا۔ نئی دنیا امریکہ میں اسپین اور افریقہ سے جبری مزدوری کے لیے ہزاروں مسلمان (مورسکو)لے جائے گئے تھے جن کی نسلیں وہیں کی باشندہ ہوگئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعدجرمنی کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیاگیا۔ جرمنی کے لوگوں کواپنے ملک کی تعمیرنوکے لیے غیرممالک سے افرادی قوت کی ضرورت پڑی جس کو ترکی کے مزدوروں نے پوراکیا۔ یہ مزدورجرمنی میں ہی رہ پڑے۔ اسی طرح الجزائراپنی آزادی سے پہلے فرانس کے مقبوضات میں تھا، اس لیے الجزائرسے بھی بڑی تعدادمیں مزدورپیرس وفرانس میں جاکرآبادہوگئے۔ پھرشام ومصراورعراق کے بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں سے تنگ آکران ملکوں سے مذہب پسند نیز اشتراکی لوگ اور انقلابی عناصر سیاسی پناہ، امن وسکون، بہترتعلیمی، رہائشی اورروزگار کے مواقع کی تلاش میں عام طور پر مغرب کا رخ کرنے لگے۔ برصغیرسے بھی بہت سے لوگ تعلیم اور ملازمت کے لیے وہاں پہنچے۔ اس کے بعد فلسطین کے المیہ، اسرائیل کے قیام اور اس سے مسلمانوں کے جبری انخلا کے بعدمغرب کی طرف اس مہاجرت میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔
امریکہ، انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے ممالک میں پہنچنے والے یہ تارکین وطن جب تک اپنی مزدوری یا ملازمت میں لگے رہے، کوئی مسئلہ وہاں کے لوگوں کوپیش نہیں آیا، مگر چونکہ ان تارکین وطن میں مذہب پسندبھی بڑی تعدادمیں تھے لہٰذاجب انہوں نے مسجدوں اور اسلامک مراکزکے قیام کے ذریعے اپنے مذہبی وتہذیبی تشخص کا اظہارشروع کردیا، تب سے مسئلہ پیداہونے لگا۔ تاہم چونکہ مغرب کا پورامعاشرہ سیکولر، جمہوری اورآزادی پسندہے (جس کی بعض اقدارسے یقیناًاختلاف ہو سکتاہے) لہٰذا اپنے انھی اصولوں کی بنیادپر اہل مغرب مجبورتھے کہ مشرق اورخاص کرعرب دنیا سے آنے والے مسلمانوں کومذہبی وکلچرل آزادیاں دیں اور انہوں نے دیں۔ لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ تارکین وطن کا مذہبی اورتہذیبی تشخص کا Aggressive اظہار ہی وہ پوائنٹ تھاجب مغرب میں شدت سے اسلاموفوبیاکا ظہور ہونا شروع ہوا۔
حقیقت تویہ ہے کہ انتہا پسندی ہر سماج میں اور ہر مذہبی اکائی میں موجود ہے۔ مسلمانوں میں بھی ہے اور غیر مسلموں میں بھی۔ مغرب میں مسلمانوں کے خلاف اسی انتہاپسندی کی ایک شکل اسلاموفوبیا ہے جس کے مظاہر مختلف صورتوں میں سامنے آرہے ہیں۔ جرمنی میں اس کا ظہور نیو نازی ازم کی تحریک میں ہوا ہے توامریکہ میں ایونجلیکل فرقہ اس کی نمائندگی کرتاہے۔ ڈنمارک اورانگلینڈمیں بعض سیاسی پارٹیاں اورلیڈراس کی آوازاٹھاتے ہیں۔ اونجلیکل چرچ سے وابستہ کئی گروپ اورپادری اسرائیل کے ہم نوا ہیں اور عربوں اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہارکرتے ہیں۔ اور بھی گروپ ہیں جو اس کے لیے سرگرم ہیں۔ کئی مسیحی پادری قرآن کو جلانے کی مہم میں پیش پیش ہیں۔ کئی پادری اور خواتین ڈبیٹر اپنی اسلام مخالف تقریروں کے لیے مشہورہیں اوریوٹیوب پر ان کی ہرزہ سرائیاں سنی جاسکتی ہیں۔ 9/11کے المیہ کے بعدامریکہ میں ایک اسلاموفوب گروپ نے Bomb The Caaba (کعبہ کوبم سے اڑادو)کا مکروہ نعرہ بھی لگایا تھا۔ فرانس میں الٹرا سیکولر گروپوں اورحکومت کومسلمان عورت کے حجا ب(اسکارف )سے ڈرلگتاہے۔ ڈنمارک میں ان کو مساجدکے میناروں سے خوف آتاہے۔ سویڈن اورپیرس میں پیغمبراسلام کے استہزائیہ کارٹون بناکراس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانہ پرمفلس اور خانماں بربادشامی مہاجرین کی یورپ کومنتقلی سے بھی مغرب میں بعض لوگوں پر نہ جانے کیوں دہشت طاری ہے! اس لے میں میڈیاکے بڑ ے بڑے گروپ، فرائیڈمین جیسے اسرائیل نوازصحافی، جیری فالویل جیسے پادری،ڈینیل پائپس اور برنارڈلویس جیسے بڑے مستشرق سر میں سر ملائے ہوئے ہیں۔ ٹرینڈاڈ میں مقیم ہندنژادنوبل انعام یافتہ مصنف وی ایس نائپال کی تحریریں مسلمانوں کے بارے میں متعصبانہ ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کے فوکس نیوز، CNBC ,CNN وغیرہ اپنی رپورٹوں اورتجزیوں میں ان کے بارے میں جانب دار نہیں ہیں۔ ان کے اکثراینکر اور رپورٹرز مسلمانوں اور عربوں سے عناد اور اسرائیل کے لیے نر م گوشہ رکھتے ہیں۔
اسلاموفوبیاکے علمبردارگروپ عام طورپراسلام اورمسلمانوں کے خلاف وہی الزام لگاتے ہیں جوہندوستان میں فسطائی قوتیں لگاتی ہیں۔ یہ کہ مسلمان کئی کئی شادیاں کرتے اورزیادہ بچے پیداکرتے ہیں، اگران کی یورپ کونقل مکانی نہ روکی گئی تویہ کچھ ہی دنوں میںآبادی کا حلیہ اورتناسب بدل دیں گے ،ان کی اکثریت ہوجائے گی تویہ Rule کریں گے اورہماری آزادیوں اورتہذیب کوبربادکردیں گے۔ یہ امن عالم کے لیے خطرہ ہیں کیونکہ یہ اپنے مذہب کی روسے دوسرے مذاہب کے ساتھ امن اور چین سے نہیں رہ سکتے۔ یہ مغربی تہذیب وتمدن کے لیے اورمغربی اقدارکے لیے خطرہ ہیں۔ عورت کویہ غلام بناکررکھتے ہیں، انسان کواظہارخیال کی آزادی یہ نہیں دیتے، تہذیب کے ارتقا میں اِن کا کوئی کردار نہیں ہے ،وغیرہ۔ بلاشبہ بعض لوگوں کواسلام کے بارے میں غلط فہمیاں بھی ہوں گی مگراکثریہ پروپیگنڈاجان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلاموفوبیاکا ایک مستقل ہتھیار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شخصیت کی اہانت ہے جس کے لیے وہ کارٹون بناتے ہیں، سیرت پر کتابیں شائع کرتے ہیں اورچن چن کرایسے واقعات پر فوکس کرتے ہیں جن سے رسو ل اللہ کی شخصیت مجروح ہواوربدقسمتی سے سارامسالہ ان کومسلمانوں کے ہاں رائج اورجعلی روایات پر مبنی سیرت لٹریچرسے مل جاتاہے۔ مغرب میں بہت سی کتابیں ایسی بھی لکھی گئی ہیں اورلکھنے والے اہم مصنف اورناول نگار ہیں جن میں مغرب کے زوال کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ان کا کہناہے کہ اگرعربوں کی پیش قدمی نہ روکی گئی تویورپ، یورپ نہیں رہے گا، یوروسلام بن جائے گا۔
9/11کے حادثہ سے پہلے ہی اسلاموفوبیامغرب میں موجودتھا، چنانچہ مراکش کے ایک ریسرچ اسکالرنے اس مسئلہ کا جائزہ لیا تو پایا کہ صرف دو دہائیوں کے عرصہ میں تقریباً پچیس ہزار کتابیں، کتابچے، فلمیں، کارٹون اور ہینڈبل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شائع کیے گئے۔ البتہ یہ بات ضرورکہی جاسکتی ہے کہ گیارہ ستمبرکے بعداس میں تیزی آئی اور اب القاعدہ اورداعش جیسے دہشت گردمسلمان گروپوں کی مجنونانہ، غیراسلامی، غیرانسانی وغیرعقلی حرکتوں، دہشت گردی اور معصوموں کے قتل عام کی وارداتوں سے اِس لے میں بہت ہی شدت آگئی ہے۔حدتویہ ہے کہ دولت اسلامیہ کے مقابلہ میں دولت مسیحیہ کے عنوان سے ایک شدت پسند تنظیم کانام بھی سامنے آیاہے۔
اسلاموفوبیاکے ان خارجی مظاہرکے ساتھ کچھ داخلی اسباب بھی ہیں اوران کوبھی لازماًقارئین کے سامنے لایا جانا چاہیے۔ مثال کے طورپر کئی مسلمانوں نے نہ صرف مغرب میں بلکہ انڈیامیں بھی جمہوریت اورسیکولرزم کے خلاف لفظی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ بعض سرپھرے سیکولرجمہوریت کوکفروشرک بتاتے ہیں اوراپنے اس مطلق فتوے میں وہ بدلے حالات وزمانہ کی رعایت یامسلم اکثریت یااقلیت کے حالات کے اختلاف کی بھی کوئی پروانہیں کرتے۔ روایتی مسلم علما، اسلام کے قانون جہادکی معقول عصری تشریح کرنے میں ناکام ہیں جو جدید ذہن کو اپیل کر سکے۔ ان میں سے بہت سے آج بھی تبدیلئ مذہب پر لوگوں کی گردن ناپنے کے لیے تیارہیں، آج بھی لونڈی غلام کے پرانے عرف ( جس کی آج کوئی گنجائش نہیں) کی وکالت کرتے ہیں۔ اور بعض لوگ تومغرب میں بیٹھ کر، اس کی آزادیوں سے فیض یاب ہو کر وہاں اسلامی خلافت کے قیا م کی بے وقت کی راگنی گاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غیرمسلموں سے نفرت اسلام کا تقاضا ہے، شوکت کفر( Power) کو توڑنامسلمانوں کا فرض ہے۔ یہ اسلامی حجاب کی بھی یک رخی تشریح کرتے ہیں۔ جہاد کی غلط تشریح کرنے والے یہ لوگ اگرچہ زیادہ نہیں، لیکن یہی مٹھی بھرلوگ اپنی انتہاپسندانہ سوچ اوراقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کی غلط ترجمانی کاسبب بن جاتے ہیں کیونکہ میڈیااِنھی کی باتیں اچک لیتااوران پرمباحثے کرنے بیٹھ جاتا ہے جن میں اسلام کا صحیح فہم رکھنے والوں کو اکثر نہیں بلایا جاتا۔
مذہب کے اِنھی ٹھیکہ داروں کی غیرعقلی، غیراسلامی، من مانی، یک رخی، غیرحقیقت پسندانہ تشریحِ دین ہی اسلام ومسلمانوں کی منفی شبیہ بنانے کی سب سے بڑی ذمہ دارہے۔ برطانیہ میں مذکورہ باتوں کی تبلیغ کرنے والے دوعرب شیوخ ابوحمزہ المصری اورعمرالبکری کے چرچے تواخبارات میں بھی آئے۔ جمہوریت کی مخالفت کرنے والے اورعالمی خلافت کے نعرے لگانے والے یہ شعورنہیں رکھتے کہ وہ اپنے زمانہ کی روح سے لڑرہے ہیں اورزمانہ کی روح سے لڑنا صرف اپنے آپ کوشکست دیناہے۔ اس وقت جمہویت پوری دنیاکے اجتماعی شعورکا حصہ بن چکی ہے اوراس کی خواہ مخواہ کی مخالفت اپنے آپ کوصرف نکو بناناہے اورایسی مہم ہے جس کامقدرہی ناکامی ہے۔ اسلام سراسرحقیقت پسندی کا دین ہے اور اسوہ نبوی میں ہمیں قدم قدم پر حقیقت پسندی کی تعلیم ملتی ہے، لیکن آج ہم نے گویاقسم کھارکھی ہے کہ حقیقت پسندی سے کوئی ناتا نہ رکھیں گے ۔
ہمارے بیشتراقدامات ردعمل میں اور جذباتی اور ’’غیر‘‘ سے نفرت پرمبنی ہوتے ہیں۔ شریعت کی تفہیم ہمارے علما عموماً ایسے بے لچک اورRigid انداز میں کرتے ہیں جس سے نئی نسل اورجدیدذہن کو لگتا ہے کہ شریعت بھی چرچ ہی کی ایک شکل ہے، خاص کرجب ان کے سامنے عملی نمونہ وہ ہوجوطالبان کا ہے یادولت اسلامیہ کا۔خالص اسلام کی دعوت چھوڑ کر مسلک ومشرب کی دعوت دی جارہی ہے جوبڑی مصیبت بن رہی ہے۔ کوئی سیاسی اسلام کی طرف بلارہاہے، کوئی صوفی اسلام کی طرف اورکوئی کسی اوراسلام کی طرف۔ ان مختلف طرح کے اسلاموں کے وکیلوں کی تحریریں کل حزب بما لدیہم فرحون (ہرگروہ اپنے ہی خیالات پر نازاں ہے) کی تصویرہوتی ہیں۔
سچ ہمیشہ کڑواہوتاہے، مگرمجھے کہنے دیجیے کہ اکثرمسلمان علماودانشوروں کی تحریروں میں مغرب والوں کے لیے جو نفرت وکراہیت پائی جاتی ہے، وہ مسلمانوں میں انتہاپسندی اورجذباتی ردعمل کوہوادیتی ہے۔ہمارے ہاں بہت سے لکھنے بولنے والے شروعات ہی مغرب کولعن طعن اورصلواتیں سنانے سے کرتے ہیں، حالانکہ مغربی تہذیب کے منفی پہلوؤں کے ساتھ بہت سے پہلویقیناًمثبت اور اچھے بھی ہیں جن کوappreciate کرنا چاہیے۔ دوسری قوموں اور انسانوں سے ہمارا مذہبی طبقہ کتنی نفرت کرتا ہے، اس کے لیے ان کی تحریروں اورتقریروں پر ایک سرسری سی نظرڈال لینا کافی ہوگا۔ ایک ندوی عالم وادیب نے اپنی ضخیم عربی کتاب میرے پاس تبصرہ کے لیے بھیجی۔ آٹھ سو صفحہ سے زیادہ کی اس کتاب میں جگہ جگہ یہودیوں کو اولاد وحفدۃ الخنازیر (سورکے بچے ) لکھا گیا ہے۔ راقم نے اپنے تبصرہ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ پوری قوم یہودکے لیے ایسے الفاظ استعمال کرناشائستگی اورتہذیب کے خلاف توہے ہی، اسلامی روایات کے اور حقیقت واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ کیونکہ اسرائیل کتنا ہی ظالم سہی، بہت سے یہودی دانشور بلکہ مذہبی راہ نما بھی اس کے شدیدناقداورفلسطینی کازکے حامی ہیں۔ اور علما وداعیوں کو تو خاص کرایسی زبان استعمال کرنے سے بچنا چاہیے۔
پڑھے لکھے مسلمانوں کا ایک بڑاحلقہ سازشی تھیوری میں جیتاہے اور ہر واقعہ کی توجیہ اسی تھیوری سے کرتا اور اپنوں کی تمام غلطیوں ونادانیوں سے صرف نظرکر لیتا ہے۔ چنانچہ پیرس میں دہشت گردی کے واقعہ کوبھی اردوکے کئی بڑے کالم نگار یک گونہ جوازدیتے نظر آئے۔ ہمارے بہت سے علمابھی بالعموم مسلم عناصرکے ذریعہ انجام دی جانے والی دہشت گردی کو اپنے ’’اگرمگر‘‘ سے جوازدیتے رہے ہیں اور اگر کبھی اس کی مذمت بھی کرتے ہیں تومسلکی رنگ میں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارایہ رویہ کیاغیروں کوہم سے اور زیادہ برانگیختہ نہیں کرے گا؟
ایک اورپہلوبھی غورکرنے کا ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے جان بوجھ کراوربڑی پلاننگ سے عالمی سطح پر بھی اور وطن عزیزمیں بھی مسلمانوں کوچھوٹے چھوٹے مسئلوں اور نان ایشوز میں الجھایا اور پھنسا دیا جا تا ہے۔ ان کی ساری قوتیں بے سرے احتجاجوں، ناکام مظاہروں اوربے نتیجہ دھرنوں اورمشتعل جلوسوں اورتشددکی نذرہوجاتی ہیں۔ اہانت رسول کے بدبختانہ واقعات، ملعون زمانہ کارٹون اوراسی قسم کے شوشے اسلاموفوبیاکا ضروری حصہ ہیں۔ ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ہماری دینی وملی قیادت زیادہ بیدارمغزی کا ثبوت دیتی اورقوم کوبے فائدہ مظاہروں میں لگانے کی بجائے وہ ناموس رسالت کی حفاظت کے کچھ مثبت اورمتحرک متبادل ڈھونڈتی اورقوم کی تربیت ان خطوط پر کی جاتی کہ اِس طرح کے شوشوں کونظرانداز کرنابھی اسو ۂ نبوی کا ہی ناگزیرحصہ ہے ،اورموجودہ زمانہ میں تواِس کی پہلے سے بھی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو شاید حالات آج اتنے خراب نہ ہوتے جن کا عالمی وملکی سطح پر آج ہم کو سامنا ہے!
معاہدۂ حدیبیہ کے چند اہم سبق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں جہاں یہ طے ہوا تھا کہ مسلمانوں اور قریش کے درمیان دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، وہاں دوسری شرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ سے قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرے گا تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا (نعوذ باللہ) ساتھ چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلا جائے گا تو اس کی واپسی ضروری نہیں ہوگی۔ اس شرط پر مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب کا پیدا ہونا فطری امر تھا کہ یہ برابری کی شرط نہیں تھی اور معاہدات کی روح کے خلاف تھی۔ حضرت عمرؓ نے تو اس اضطراب کا کھلم کھلا اظہار بھی کر دیا تھا لیکن حضورؐ نے نہ صرف اس شرط کو منظور کر لیا بلکہ اس موقع پر قریش کی طرف سے مذاکرات کرنے والے نمائندہ سہیل بن عمروؓ کا اپنا بیٹا ابو جندلؓ زنجیروں میں جکڑا ہوا مسلمانوں کے ساتھ جانے کے لیے کسی طرح حدیبیہ تک آ پہنچا تو سہیل بن عمروؓ کے مطالبہ پر آنحضرتؐ نے اسے اسی طرح پابجولاں اس کے والد کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس بھجوا دیا۔ جبکہ حضرت عمرؓ اور دیگر مسلمانوں کی اس حوالہ سے بے چینی اور اضطراب میں انہیں تسلی دیتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ فرمایا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کر رہے ہیں، اس لیے اسی میں خیر ہوگی۔
اس معاہدہ کو تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ ایک قریشی نوجوان ابو بصیرؓ مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچ گئے جس پر مکہ والوں نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا اور دو آدمی انہیں واپس لانے کے لیے بھجوائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے ابو بصیرؓ کو ان دو نمائندوں کے ہمراہ واپس بھجوا دیا۔ راستہ میں ایک جگہ ابوبصیرؓ نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور انہی میں سے ایک کی تلوار لے کر اسے قتل کر دیا اور مدینہ منورہ واپس آکر حضورؐ سے کہا کہ آپ نے تو معاہدہ کی پابندی کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، اب میں ان سے جان چھڑا کر واپس آگیا ہوں۔ اس پر نبی کریمؐ نے شدید رد عمل کا اظہار فرمایا اور اس کے بارے میں کہا کہ ویل لأمہ مسعر حرب، ( اس کی ماں کے لیے ہلاکت ہو! یہ لڑائی کی آگ بھڑکائے گا۔) اتنے میں راستہ میں ابو بصیرؓ کے وار سے بچ جانے والا دوسرا شخص بھی بھاگ کر مدینہ منورہ آگیا اور حضورؐ کو سارا ماجرا سنا دیا۔ جب حضرت ابو بصیرؓ نے اپنی کاروائی پر حضورؐ کا سخت رد عمل دیکھا تو چپکے سے وہاں سے نکل گئے اور مکہ مکرمہ واپس جانے کی بجائے راستہ میں ’’سیف البحر‘‘ کے مقام پر ڈیرہ لگا لیا۔ یہ مکہ مکرمہ سے شام جانے والے تجارتی قافلوں کی گزرگاہ میں تھا۔ چند دنوں کے بعد حضرت ابو جندلؓ بھی کسی طرح جان بچا کر ان کے پاس وہاں آگئے جنہیں صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن عمروؓ کے ساتھ پابجولاں واپس کر دیا تھا ۔
اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ مکہ مکرمہ کے علاقہ سے جو شخص بھی مسلمان ہوتا، وہ مدینہ منورہ جانے کی بجائے حضرت ابوبصیرؓ کے کیمپ میں پہنچ جاتا۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد ستر تک پہنچ گئی، جبکہ بعض روایات میں تین سو کی تعداد بھی مذکور ہے۔ انہوں نے قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنا اور ان کا سامان چھیننا شروع کر دیا اور کچھ افراد ان کے ہاتھوں قتل بھی ہوئے۔ اس پر قریش میں تشویش پیدا ہوئی مگر وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اس لیے کہ حضورؐ نے ان میں سے کسی شخص کو قبول نہیں کیا تھا، بلکہ مدینہ منورہ پہنچنے والوں کو واپس کر دیا تھا اور ڈانٹ بھی پلائی تھی۔ یہ کیمپ آزاد علاقہ میں تھا جس کی ذمہ داری آنحضرتؐ پر عائد نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ان لوگوں سے نمٹنا قریش کے بس میں رہا تھا۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے طے کیا کہ اس ساری صورت حال کی اصل وجہ معاہدۂ حدیبیہ کی وہ شرط ہے جو یک طرفہ تھی اور جس کے نتیجے میں یہ حالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس لیے قریش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بھجوا کر پیش کش کی کہ اگر یہ کیمپ ختم ہو جائے تو وہ معاہدہ کی اس شق سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اس پر حضورؐ نے قریش کی پیش کش قبول کر کے حضرت ابوبصیرؓ کو خط بھجوایا کہ انہیں معاہدۂ حدیبیہ کی جس شق کی وجہ سے پریشانی تھی، وہ ختم ہوگئی ہے، اس لیے وہ احتجاجی کیمپ ختم کر کے مدینہ منورہ آجائیں، انہیں قبول کر لیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیمپ ختم کر کے واپس آنے والوں کے لیے ’’عام معافی‘‘ کا اعلان کر دیا تھا۔
تاریخی روایات میں ہے کہ آنحضرتؐ کا یہ گرامی نامہ حضرت ابو بصیرؓ کوپہنچا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کر کے انہیں سنایا، لیکن ابھی وہ خط پڑھ ہی رہے تھے کہ اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے ان کا انتقال ہوگیا اور وہ اس کیفیت میں فوت ہوئے کہ نبی کریمؐ کا نامۂ مبارک ان کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت ابو جندلؓ ان کے جنازہ اور تدفین کے بعد حضورؐ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مدینہ منورہ آگئے اور دوسرے سب ساتھی بھی کیمپ ختم کر کے اپنی اپنی محفوظ جگہوں پر چلے گئے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو مسلمان سوسائٹی کے حصہ کے طور پر قبول فرمایا اور کسی کو دوبارہ سرزنش نہیں کی۔ جبکہ حضرت ابو جندلؓ خلافت راشدہ کے دور میں ایک جہاد کے دوران شہید ہوئے۔
سیرت النبیؐ کے اس اہم واقعہ اور اسوۂ نبویؐ کے اس اہم پہلو سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ:
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ معاہدہ کی مکمل پاسداری کی اور اس میں کوئی لچک نہیں دکھائی۔
- معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں اور ان کے کسی عمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا، ڈانٹ پلائی اور لا تعلقی کا اظہار کیا۔
- معاہدہ کی ناجائز اور یک طرفہ شق کا فریق مخالف میں احساس پیدا ہونے پر ان کی طرف سے اس شق سے دست برداری کو قبول فرمایا۔
- خراب ہو جانے والے حالات کو صحیح سمت لے جانے کے لیے ان کے اسباب و عوامل کو بھی سامنے رکھا گیا اور ان کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔
- کیمپ ختم کر کے مدینہ منورہ یا اپنے اپنے محفوظ ٹھکانوں پر چلے جانے والوں کو واپسی کا راستہ دیا گیا او ران سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔
اس قسم کے حالات میں اسوۂ نبوی میں ہمارے لیے یہ راہ نمائی موجود ہے، لیکن کیا ہمارے پالیسی ساز اس پر غور کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟
قرآن مجید کے موجودہ نسخے اور ان کا رسم الخط
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مل کر کی تھی اور اس وقت سے اس کا تسلسل چلا آرہا ہے۔ مگر بیت اللہ شریف کی موجودہ عمارت ابراہیمی بنیادوں پر نہیں ہے کیونکہ جب قریش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ان کی بعثت سے قبل بیت اللہ تعمیر کیا تھا تو ابراہیمی بنیادوں میں کچھ تبدیلیاں کر دی تھیں۔ اس تعمیر میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حصہ لیا تھا بلکہ تعمیر کے دوران جب حجر اسود کو اس کے مقام پر نصب کرنے کا شرف حاصل کرنے پر قریش کے سرداروں میں اختلاف ہوا اور بات تنازعہ تک جا پہنچی تو اس تنازعہ کو جناب حضورؐ نے ہی کمال حکمت عملی کے ساتھ نمٹایا تھا جس پر قریش کے مختلف خاندان باہمی جھگڑے سے بچ گئے تھے۔
قریش نے اس تعمیر میں تین تبدیلیاں کی تھیں۔ ایک یہ کہ اس کے آمنے سامنے دو دروازے تھے جس سے بیت اللہ شریف کی زیارت اور طواف کرنے والوں کو سہولت حاصل تھی کہ وہ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے باہر نکل جائیں اور انہیں بیت اللہ کے اندر جانے کی سعادت بھی مل جائے۔ مگر اس تعمیر کے دوران ایک دروازہ بند کر دیا گیا۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ پہلے دونوں دروازے زمین کے ساتھ تھے اور آسانی کے ساتھ اندر جایا جا سکتا تھا مگر اس موقع پر ایک دروازہ بند کر کے دوسرے دروازے کو زمین کی سطح سے اتنا بلند کر دیا گیا کہ کوئی شخص آسانی کے ساتھ اندر نہ جا سکے۔ جبکہ تیسری تبدیلی یہ کی گئی کہ ایک حصہ کو چھت سے نکال دیا گیا جو اب حطیم کہلاتا ہے۔ اسے ایک چھوٹی دیوار سے گھیرا گیا ہے مگر وہ بیت اللہ شریف کا حصہ ہونے کے باوجود اس کی چھت کے نیچے نہیں ہے۔
بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ام المومنین حضرت عائشہؓ کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بیت اللہ کی قریش کی تعمیر کردہ بلڈنگ کو شہید کر کے اسے از سرِ نو ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کر دیا جائے، لیکن رسول اکرمؐ نے خواہش کے باوجود ایسا نہ کیا اور اسے اسی حالت میں یہ فرما کر چھوڑ دیا کہ قریشی قوم نئی نئی مسلمان ہوئی ہے، وہ اس بات کو محسوس کریں گے کہ ابھی چند سال قبل تو ہم نے بیت اللہ تعمیر کیا تھا، اب اسے دوبارہ تعمیر کیوں کیا جا رہا ہے؟
ام المومنین حضرت عائشہؓ نے حضورؐ کا یہ ارشاد روایت کیا تو وہ ان کے بھانجے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے علم میں بھی آیا۔ حضرت امام حسینؓ کی کربلا میں شہادت کے بعد جب مدینہ منورہ کے لوگوں نے یزید کی بیعت توڑ کر اس کی اطاعت میں رہنے سے انکار کر دیا تو اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ بہت سے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کی حکومت کافی سالوں تک مکہ مکرمہ سمیت مختلف علاقوں پر قائم رہی۔ اموی خلیفہ عبد الملک بن مروانؒ کے دور میں حجاج بن یوسفؒ کو حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے خلاف جنگ پر مامور کیا گیا تو انہوں نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا جو اس وقت حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کا پایۂ تخت تھا۔ حجاج بن یوسفؒ نے مکہ مکرمہ کے محاصرہ کے دوران گولہ باری کی جس سے بیت اللہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تو حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے بیت اللہ شریف کو ازسرِنو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مذکورہ روایت کی دوبارہ تصدیق کر کے بیت اللہ شریف کو ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کر کے وہ تینوں تبدیلیاں ختم کر دیں جو قریشی تعمیر کے موقع پر کی گئی تھیں۔ اور جن تبدیلیوں کو ختم کر دینے کی خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش ظاہر کی تھی مگر مصلحتاً اس سے گریز کیا تھا۔
لیکن جب حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اس جنگ میں شہید ہوگئے اور مکہ مکرمہ کا کنٹرول حجاج بن یوسفؒ کے ہاتھ میں آگیا تو اس نے خلیفہ وقت عبد الملک بن مروانؒ کو یہ رپورٹ بھجوائی کہ عبدا اللہ بن زبیرؓ نے بیت اللہ کی عمارت بھی تبدیل کر دی ہے جس پر خلیفہ نے حکم دیا کہ اسے گرا کر دوبارہ قریشی بنیادوں پر تعمیر کر دیا جائے۔ چنانچہ حجاج بن یوسفؒ نے بیت اللہ کو شہید کر کے قریشی بنیادوں پر از سرِنو تعمیر کر دیا جس سے وہ تینوں تبدیلیاں واپس لوٹ آئیں جنہیں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ختم کر دیا تھا۔ اور اس وقت سے آج تک وہ تعمیر اسی حال میں چلی آرہی ہے۔ اس کے بعد جب بنو امیہ کی حکومت ختم ہوگئی اور خلافت کی زمام کار ان کے سیاسی حریفوں بنو عباسؓ نے سنبھالی تو انہوں نے بیت اللہ کی اس عمارت کو امویوں کی تعمیر کردہ قرار دے کر اسے پھر سے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے طریقے پر تعمیر کرنے کے پروگرام بنا لیا جس پر اہل سنت کے امام حضرت امام مالکؒ نے فتویٰ جاری کیا کہ بیت اللہ کی تعمیر میں بار بار اس طرح کے ردوبدل سے کعبۃ اللہ سیاسی حریفوں کی باہمی محاذ آرائی کی آماجگاہ بن جائے گا جو بیت اللہ کے تقدس اور حرمت کے منافی ہوگا۔ اس لیے اب بیت اللہ کو شہید کر کے اسے ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کرنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اس فتوے پر آج تک عمل ہو رہا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے باوجود امت مسلمہ کعبۃ اللہ کی بلڈنگ کو ابراہیمی بنیادوں کی بجائے قریش کی بنیادوں پر قائم رکھے ہوئے ہے، کیونکہ بیت اللہ کی حرمت و تقدس اور امت مسلمہ کی اجتماعیت و وحدت کا تقاضہ یہی ہے۔
یہ سارا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ قرآن کریم کی طباعت و اشاعت کے حوالہ سے ہم آج کل کم و بیش اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ مصحف عثمانی کے دو نمونے اس وقت عالم اسلام میں اشاعت پذیر ہو رہے ہیں جو قرأت میں تو ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں ہیں مگر رسوم و علامات کے حوالہ سے الگ الگ ہیں۔ عرب دنیا میں قرآن کریم کی طباعت ان رسوم و علامات کے ساتھ ہوتی ہے جو وہاں معروف ہیں، جبکہ جنوبی ایشیا یعنی بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت وغیرہ میں مطبوعہ قرآن کریم کی رسوم و علامات ان سے الگ ہیں جو اس قدر متعارف اور عام فہم ہو چکی ہیں کہ یہاں کے عام مسلمان کے لیے کسی دوسرے نسخہ سے قرآن کریم کی تلاوت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے حرمین شریفین میں دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں مسلمانوں کے لیے قرآن کریم کے جو نسخے تلاوت کی غرض سے سرکاری طور پر مہیا کیے جاتے ہیں، ان میں دونوں طرح کے نسخوں کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی مسلمان کو تلاوت میں دقت نہ ہو۔
مگر اب بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ہاں یعنی پاکستان وغیرہ میں چھاپے جانے والے قرآن کریم کے نسخوں میں بہت سی اغلاط موجود ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے جبکہ اس کے ساتھ ان کی رسوم و علامات کو بھی عرب نسخوں کے مطابق تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس پر بحث و مباحثہ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا ہے، حتیٰ کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور پنجاب قرآن بورڈ میں بھی اس پر گفتگو جاری ہے اور اس پر علمی و فنی دلائل دیے جا رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ مسئلہ علمی و فنی مکالمہ و مباحثہ کی حدود سے آگے نکل کر عرف و تعامل کے دائرہ میں آچکا ہے، اس لیے اسے علمی بحث و تمحیص کی بجائے عرف و تعامل کے حوالہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک قرأت کی ناقابل قبول غلطیوں کا تعلق ہے وہ جہاں بھی موجود ہوں، ان کی اصلاح بہرحال ضروری ہے۔ لیکن رسوم و علامات کا معاملہ منصوص نہیں بلکہ اجتہادی ہے۔ اس لیے جو رسوم و علامات متعارف ہو چکی ہیں اور صدیوں سے عوام ان سے مانوس ہو کر ان کے مطابق تلاوت کرتے آرہے ہیں، وہ اگر ’’خطائے اجتہادی‘‘ قرار دے دی جائیں، تب بھی امت کو کسی نئے مخمصے سے دوچار کرنے کی بجائے انہیں اسی حالت میں رہنے دینا چاہیے۔ اگر امت کو کسی فکری یا نفسیاتی خلفشار سے بچانے کے لیے بیت اللہ کی عمارت میں ابراہیمی بنیادوں سے ’’عدول‘‘ کو برقرار رکھا جا سکتا ہے تو قرآن کریم کی طباعت و اشاعت میں بھی عجمی رسوم و علامات کو برقرار رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کی عمومی مصلحت کا تقاضا یہی ہے۔
میخانے کا محروم بھی محروم نہیں ہے
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی
(یہ عمرہ کے سفر کی کچھ روداد ہے۔اس کا اگر کوئی فائدہ ہو تو اس کا ثواب برادرِ عزیز حسان نعمانی کے حساب میں کہ یہ تحریر محض ان کی فرمائش پر ہے۔)
بسم اللہ حمداً وَّسلاماً۔
چالیس برس ہوتے ہیں جب شمالی برطانیہ کے شہر ڈیوز بری میں سکونت پذیر محترم مولانا یعقوب قاسمی زید مجدہم نے راقم کی صحت کے حوالہ سے اپنے یہاں کچھ وقت گزارنے کی دعوت دیتے ہوئے آمد و رفت کاایسا ٹکٹ ارسال فرمایا کہ واپسی براہِ جدہ تھی، یعنی اسی سفر میں حج کی سعادت بھی حاصل کی جا سکتی تھی۔اللہ مولانا کو ہردوعالم میں جزائے خیر سے نوازے،یہ سعادت حاصل ہوئی۔یہ دسمبر۱۹۷۵ء تھا۔ ۱۹۷۶ء سے سکونت ہی برطانیہ میں ہو گئی۔ مگر حالات کی نامساعد ت کہیے یا بے توفیقی کہ اس کے بعد اپنی طرف سے کوئی کوشش اس ارضِ مقدس کی زیارت کے لیے عمل میں نہ آئی، خواہش البتہ رہی اور بڑھتی رہی، حتیٰ کہ گزشتہ سال توفیق شامل حال ہوئی اور عمرے کے ارادہ کا ’’احرام ‘‘ باندھ لیا، مگر اس سال یہ سعادت مقدر نہ نکلی۔ ویزا کے حصول کا مرحلہ اتنا دیر طلب ہوا کہ ارادہ کو آئندہ سال پر محول کرنا ناگزیر ہوگیا۔ کرم اُس گھر والے کا کہ زندگی نے ساتھ دیا اور امسال ۱۰ تا ۱۸؍جنوری( ۲۰۱۶ء )میںیہ ایک دیرینہ آرزو بر آنے کی سبیل بنی۔ رفاقت سفر کا قرعہ برادر زادۂ عزیز ہارون نعمانی کے نام پڑا۔ اور حسنِ اتفاق کہ نعمانی برادر زادگان میں سب سے بڑے، شمعون نعمانی، جو مدت سے مدینۂ منورہ کی سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں اور اپنی بھانجی کی شادی کے سلسلہ میں لکھنؤ آئے ہوئے تھے وہ بھی اسی( لکھنؤ۔جدہ) سعودی فلائٹ سے ہم سفر(بلکہ جدہ تک )امیر قافلہ ہوگئے۔
فلائٹ لکھنؤ سے چار بجے دن کو چل کر بفضل خدا ۱۰؍ بجے جدہ میں بسلامت اتری۔ معلوم ہوا کہ یہاں سے عام مسافروں اور عمرہ کے مسافروں میں تفریق کردی جاتی ہے۔ پس شمعون سلمہ یہاں سے جداہو گئے اور اگلے مراحل، کسٹم وغیرہ، اب ہم میاں ہارون سلمہ کی رہنمائی میں طے کرتے ہوئے ،جو اپنے حج کے بعد ابھی ایک دوسال پہلے عمرہ بھی کرچکے تھے اور واقف راہ و منزل تھے، عازمِ مکہ ہوئے۔ اس کے لیے جدہ سے بس لینا تھی۔بس اسٹیشن پر پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ میاں شمعون موجود ہیں جبکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ ان سے ملاقات اب مدینۂ منوّرہ ہی میں ہوگی۔وہ ہم سے جدا ہوکر جدہ میں مقیم اپنی بہن (عالیہ سلمہا) کے گھر چلے گئے تھے اور وہاں سے بہنوئی (ذیشان سلمہ ) کو لے کر جدہ کے بس اسٹاپ پر آگئے تاکہ مکہ معظمہ کا ہمارا سفر کار سے ہو۔دل سے دعا نکلی کی عزیز بچوں نے کیسی راحت کا سامان کردیا۔ لیکن یہ لوگ اس ارادہ سے آئے تھے کہ ہم پہلے عالیہ و ذیشان کے گھر جائیں اور وہاں کچھ سستا کے عازمِ بیت اللہ ہوں۔ ارادہ بے شک بڑا سعادتمندانہ تھا، مگر اپنے لیے آزمائش ہوگئی ۔چالیس برس کے بعد اُس گھر کے لیے نکلنے کی توفیق پائی تھی جسے اللہ نے لوگوں کے لیے پروانہ وار لوٹ لوٹ کر آنے کی جگہ(مَثابَۃّ لِلنّاس) فرمایا ہے ،پھر بھی آستاں بوسی سے پہلے کسی اور گھر میں سستانے کو جا اُتریں! چنانچہ ہم نے ان کا یہ نیک ارادہ جاننے کے بعدمعذوری ظاہر کی کہ ہم کو سیدھے مکہ مکرمہ جانا ہے۔ لیکن وہ دونوں یہ پروگرام بنا کر آئے تھے کہ ہمیں گھر لے جائیں گے اور گھر سے ابن ذیشان، فرحان سلمہ، ہمیں لے کر مکہ مکرمہ جائیں گے۔ پس گھر جانا تو نا گزیر ہوا جس نے آزمائش دو آتشہ کردی کہ وہاں عالیہ سلمہا ہمیں اپنے گھر خوش آمدید کہنے کو دروازہ پر کھڑی تھیں۔اب اللہ جانے ہم نے اچھا کیا یا برا، دل پتھر کرلیا اور دروازہ کے اندر قدم رکھنے کو تیار نہ ہوئے، جبکہ یہ بھتیجی جدہ کی ساکن ہوکر شاذ و نادر ہی مل پانے کی بناپر ہمیں توعزیز تر ہو ہی گئی ہے، خوداس کے لگاؤکا حال بھی اس سے کمتر نہیں ہے۔آرزومند رہتی رہی ہے کہ کبھی تایا ابا کا بھی ادھر پھیرا ہو کیونکہ خاندان کے لوگوں کا سلسلہ کچھ نہ کچھ لگا ہی رہتا ہے۔
الغرض اس آزمائش سے گزر کر عالیہ کے دروازے ہی سے مکہ مکرمہ کے لیے روانگی ہو گئی۔اب ہمیں فرحان سلمہ اپنی کار میں لے کر چلے تھے۔شب کے کوئی ڈیڑھ بجے منزلِ مقصود ہاتھ آئی، لیکن کیا خوب کسی نے کہا ہے
حسرت پہ اس مسافرِ بیکس کی روئیے
جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے
منزل پہ پہنچے تو یہ مسافر تھکن سے ایسا چور تھا کہ عمرہ کے ادائیگی تھوڑے آرام پر مؤخر کرنا پڑی۔ ہوٹل میں اُتر کرکچھ کھا کر اور ایک دو گھنٹے آرام کر کے ہمت ہوئی کہ کم از کم طواف کرلیا جائے،پھر چاہے سعی صبح پر مؤخر ہو۔اور ایسا ہی ہوا۔ سعئ صفا و مروہ صبح پر مؤخر ہوئی۔یہاں اس کم ہمت کو بتا دینا چاہیے کہ عمر کے ۸۸ سال اس نے پورے کر لیے ہیں اورطوارف و سعی میں کلیتاً نہیں تو جزوی طور پر وہیل چیئر کی مدد ناگزیر تھیِ۔طواف الحمد للہ ہوگیا۔زہے قسمت ،زیارتِ بیت اللہ ایک بار پھر اس عاصی کے لیے مقدر تھی۔
نازم بچشمِ خویش کہ روئے تو دیدہ است
لیکن چالیس برس کے فاصلہ نے بڑا فرق اس وقت کے اور اُس وقت کے طواف کے درمیان کردیا۔اسِ دفعہ صحن مطاف میں تل دھرنے کی جگہ نہ پائی، سہ روزہ قیام میں تمام طواف بالائی منزل پر ہی کرنا پڑے، جبکہ اُس وقت موسم حج والااژدہام ہونے کے باوجود سارے طواف صحنِ مطاف ہی میں میسر آئے تھے۔چالیس برس میں عالم اسلام کی آبادی بھی کچھ سے کچھ ہوگئی ہے اورلوگوں میں استطاعت بھی بحمد اللہ اضعافاًمضاعفہ۔اب وہاں شاید سال بھر یہی عالم رہتا ہے اور حج کا اژدہام تو پھر حج کا اژدہام۔
عالیہ سلمہا کے علاوہ ہمارے گھرانے کی ایک اور بیٹی(عالیہ اور ہارون کی خالہ زاد بہن اورمیرے چچا زاد کی بیٹی) بھی اس دیار میں عین سرزمین مکہ پر سکونت پائے ہوئے ہے۔ہمیں مکہ مکرمہ میں قیام کے لیے جو ہوٹل میسر آیا ،جو ایک طرف نہایت اعلیٰ درجہ کا اور دوسری طرف عین حرم شریف سے لگا ہو، یہ کارنامہ اسی نسرین سلمہا کے بیٹے محمد مکی کا تھا جو اس ہوٹل کے اسٹاف میں ہیں۔ ہم تواس سطح کے ہوٹل میں قیام کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے مگر مکی سلمہ کی بدولت اللہ عمّ نوالہ نے اس شاندار ہوٹل میں تین دن قیام کی سہولت عطا فرمائی۔ اور مکی جو بالکل ہی سادہ عام مؤمنانہ وضع میں رہتے ہیں، اللہ نے ایسا رسوخ انھیں اس ۲۸ منزلہ ہوٹل میں بخشا ہے کہ کمرہ انھی کے نام پر بک ہوا اور مدینہ کے لیے رخصت ہوتے و قت جب کمرہ چھوڑا گیا تو مکی ہارون سلمہ کو لے کر بل کی ادائیگی کو چلے اور واپسی پر جو ادائیگی ہارون میاں نے بتائی، وہ کسی کم سے کم معیار کے ہوٹل میں بھی نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کے لیے صحیح لفظ ’’ایک غریبا مؤ بل‘‘ ہوسکتا ہے۔ مکی کو تو دعا ملنی ہی چاہیے، ہوٹل کی انتظامیہ کی شرافت کے لیے بھی جو کچھ کہا جائے کم ہے۔ ہوٹل مغربی مگر برتاؤ عرب سرزمین پر بالکل عربی اور مشرقی۔
ہم اتوار اور دوشنبہ کی درمیان شب میں مکہ مکرمہ پہنچے تھے اور اگلے اتوار ہی تک کا وقت ہمارے پاس تھا۔ خود میرے اپنے پا س تو وقت ہی وقت تھا، مگر عزیزی ہارون نے محض میری خاطر اپنی کارو باری مصروفیت سے وقت نکالا تھا جس کے لیے ایک ہفتہ ہی بہت تھا۔ بہر حال ہمیں اتوار کو واپس ہو جانا تھا، پس مدینہ منورہ کے لیے بدھ کو روانگی کا پروگرام بنا کہ شب میں وہاں پہنچ جائیں اورجمعہ کی شام تک رہ کر مکہ مکرمہ کو واپسی ہو اورہفتہ کے دن ایک عمرہ کی اور سعادت حاصل کرکے جدہ کی راہ لے لیں جہاں ہفتہ اتوار کی درمیانی شب عالیہ سلمہا کے گھر گزار کر اس سفر کا آخری ’’رکن‘‘ ادا کردیا جائے۔ مغرب کے قریب مدینۂ منورہ کے لیے بذریعۂ ٹیکسی روانگی ہوئی۔ پانچ چھ گھنٹے کی مسافت تھی۔ کوئی گیارہ بجے اس شہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخلہ کی عزت پائی جسے اس زمین کا آسماں کہیے۔ عزیزی شمعون نے وہاں ہم لوگوں کی خواہش کے مطابق مسجدِ نبوی کے بالکل قریب ایک ہوٹل میں کمرہ بک کرایا تھامگر وہاں بیسیوں ہوٹلوں کے ہوتے ہوئے رش کا یہ عالم تھا کہ کمرہ صرف اگلی دوپہر تک کے لیے ملا۔ تاہم اتنے وقت کے لیے بھی یہ قربت میسر آنی بڑی چیز تھی،مگر افسوس کہ جیسا فائدہ اس قرب سے اُٹھایا جا سکتا تھا، یہ عمر رسیدہ ہڈیاں اس کی متحمل نہ ہو پائیں۔ مزید برآن پروانوں کے ہجوم کا وہ عالم کہ روضۂ مقدسہ کی جالی کے قریب ہوکر عرضِ سلام کا موقع بھی ایک ہی بار مل سکا۔ بعد ازاں تو دورہی سے رسمِ سلام ادا ہوئی۔اور ریاض الجنّہ میں قدم رکھنے کی سعادت تو کجا، اس کی دید سے بھی آنکھیں شاد کام نہ ہو سکیں۔ مگر شکر کہ سلام کے لیے جالی(مواجہہ شریف) پر حاضری میسر فرمادی گئی، ورنہ احساسِ محرومی نے کہیں کا نہ رکھا ہوتا۔اگرچہ رحمۃٌللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے در سے محروم لوٹنے کا سوال کہاں ؟طوافِ کعبہ کے لیے میرے جیسے جانے والوں سے بیشک کہا جاسکتاہے کہ’’ برونِ در چہ کردی کہ درونِ خانہ آئی؟‘‘ (کس منہ سے طواف کو آئے ہو؟) مگر رسول اللہ کی ردائے رحمت میں تو عبد اللہ بن اُبی جیسے سردارِ منافقین کے لیے بھی وہ گنجائش تھی کہ زمین و آسمان حیرت سے تکیں۔
اور لیجیے حرمِ مکی کے بعد حرمِ مدنی (مسجد نبوی)زادہُ اللہ تعظیماً وَّ تکریماً میں جس تبدیلی سے آنکھیں چار ہوئیں، اس کے بیان کے لیے تو الفاظ اپنے پاس نہیں، مختصر کہیے کہ بقعۂ نور بنادیا گیا ہے ۔ جدھر کو نگاہ اُٹھتی ہے ’’کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست‘‘ کا مضمون بنتا ہے۔پھر اس پر وسعت، کہ ہر چہار سمت کا کنارہ ڈھونڈھتے نگاہ تھک جائے۔ یاد آتا ہے کہ توسیع کے اس کام کی بنا اس وقت پڑرہی تھی جب چالیس برس پہلے حاضری ہوئی تھی۔اب کہا جا سکتا ہے کہ بظاہر مکمل ہوگئی۔یہاں توسیع اور تزئین و آرائش پر جو بے اندازہ دولت خرچ ہوئی ہوگی، اس کا خیال کرکے ایک بار پھر شاہانِ سعود کے لیے دعا گوئی کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ اور دعا ہے کہ اللہ ان کو بقدرِ اخلاص پوری پوری جزا اپنی شانِ کریمی کے مطابق دے۔ لیکن ایک بات دونوں جگہ(حرمِ مکی اور مدنی) کھٹکی، کہ اس توسیع اور تزئین کا کام جن شاہانِ سعود کے ہاتھوں ہوا ہے، دونوں جگہ ان کے نام نمایاں کیے جانے کا اہتمام رہا۔یہ دو بالخصوص ملک فہد اور ملک عبد اللہ تھے۔ہر دو حرمین میں داخلہ کے دروازے ان کے نام سے بڑے جلی طور پر موسوم ہوئے ہیں ، بابُ ملک فہد۔ باب ملک عبد اللہ۔ جبکہ ان مقامات پر توحق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ساتھیوں اور جانشینوں کا تھا۔ بابُ سیدنا ابوبکر الصدیقؓ ہوتا، بابُ سیدنا عمربن الخطابؓہوتا،باب سیدنا عثمان بن عفانؓ ہوتا اور بابُ سیدنا علی المرتضیٰ ہو۔ ہاں کسی جگہ تختی لگی ہوتی تو مضائقہ نہ تھا کہ اس توسیع و تزئین کی خدمت فلاں اور فلاں خادمِ حرمین کے ہاتھوں انجام پائی ۔اور افسوس کہ یہ تکدر یہیں نہیں رکتا۔ مدینہ منورہ سے لوٹتے میں سڑکوں کے ناموں پر نظر گئی تو بصد رنج دیکھا کہ ابو بکرِ صدیقؓ اور عمر الفاروقؓ کے مقدس ناموں کو طریق ابوبکر اور طریق عمر بن الخطاب کر کے سڑکوں کے ناکوں پہ ٹانگ دیا ہے۔ کیسے کہا جائے اور کیسے نہ کہا جائے
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
جی ہاں ،توجمعرات کی ظہر آگئی جس تک کے لیے مسجد کے قریب ہوٹل کا کمرہ بک تھا اور ’’حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد‘‘ کے مصداق ظہر مسجد نبوی میں پڑھ کر کمرہ خالی کردیا گیا اور میاں شمعون اپنی گاڑی لے کر ہمیں دوسرے ٹھکانے پر لے جانے کے لیے آگئے۔ یہ ماشاء اللہ بڑا وسیع آرام دہ مکان تھا ، البتہ مسجد شریف سے فاصلہ پر۔میاں شمعون کے دوست جناب سلیمان ظفر صاحب فقط اپنے صاحبزادہ کے ساتھ اس کے مکین تھے۔اس کے زیادہ آرام دہ ہونے ہی کی وجہ سے شمعون سلمہ نے اس کا انتخاب کیا اور واقعی بہت آرام دہ رہا۔ پھر صاحب خانہ کا حسن اخلاق اور مخلصانہ پذیرائی اس پر مستزاد۔ خدا ہر طرح کی برکتوں سے نوازے کہ زائرین شہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پذیرائی کو سعادت جانا۔ وہاں سے عصر کے لیے تو حرمِ نبوی جانے کا موقع نہ تھا، مغرب عشاء الحمد للہ وہیں میسر آگئی۔ پھرجمعہ کی فجر حرمِ نبوی میں ادا کرکے شمعون اور ہارون سلمہما نے توجہ دلائی کی جنۃ البقیع کی زیارت کی جائے۔ اسے پایا کہ یہ تو چالیس سال پہلے کے مقابلہ میں کلیتاً بدل گئی ہے۔ قبریں نہیں رہیں ۔ ہر قبر کے سرہانے ایک پتھر گاڑ کر قبر کا نشان کردیا گیا ہے اور ان کی تعداد بے شمار۔ پھر وہاں جانے کے ڈھلوان راستہ کی دونوں طرف سے حد بندی کردی گئی ہے۔ نیز بس فجر کے بعد ہی کچھ وقت کے لیے یہ قبرستان کھولاجاتا ہے۔ بظاہر یہ وجہ تھی کہ راستہ زائرین کے لیے لمحہ بہ لمحہ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ ایک کشمکش کی صورت تھی۔ اسی میں ہارون سلمہ کا ساتھ بھی چھوٹ گیا تھا اور میں جب تن تنہا جد و جہد کرتا ہوا اوپر قبرستان کے سطح کے قریب ہونے کو ہوا، تب تو تنگی کی وہ کیفیت ہوئی کہ بس دم گھٹ جائے گا، مگر اللہ نے دستگیری فرمائی اور پہرے پر متعین ایک شرطی نے اپنی طرف بڑھا ہوا میراہاتھ تھام کے اوپر آجانے کا سہارا مجھے دے دیا۔ فللہ الحمد۔ ضرورت ہے کہ سعودی حکام کو اس طرف توجہ دلائی جائے کہ زیارتِ بقیع کے لیے وقت بڑھایا جانا چاہیے۔
اس زیارت کے بعد بخیر واپسی ہوئی توضرورت تھی کہ کچھ ٹانک ملے۔ شمعون سلمہ جن کے پاس وہیل چیئر تھی، انھوں نے جلد ہی اندازہ کرکے کہ وہ اس بھیڑ میں پار نہ ہو سکیں گے، واپسی اختیار کرلی تھی اورپیچھے جوکھجوریں بیچنے والے اس عرصہ میں آگئے تھے، ان سے ایک ڈبہ خرید لیا تھا۔ وہ اس ضرورت کے وقت بہترین ٹانک بن گیا۔ نہایت نفیس رسیلی کھجوریں تھیں۔ تازہ دم کردیا اور ہمت ہوئی کہِ قبا چل کر مسجد ’’اُسِّسَ علیٰ التقویٰ مِنْ اوّلِ یومٍ ‘‘ میں دو رکعت نماز کے فضیلت حاصل کریں ا ور شہدائے اُحد کی بھی زیارت سے ان شہیدانِ راہِ خدا کی یاد تازہ کی جائے۔ اللہ نے یہ ارادہ بھی اپنے کرم سے پورا کرادیا۔اللہ ان شہدائے کرام کے درجے بڑھائے او ر اس مسجد کی عظمت ورونق۔ یہ خاصا لمبا پروگرام تھا۔واپس قیام گاہ پر آئے ،کچھ سستائے اور پھر جمعہ کی نمازکے لیے مسجد نبوی،مگر بڑاافسوس رہے گا کہ اپنے بعض اعذار کی مجبوری سے نماز کے لیے نکلنے میں دیر ہوئی اوربہت پچھلی صفوں میں جگہ مل سکی۔ افسوس اپنی جگہ مگر تسلی بھی تھی کہ
میخانے کا محروم بھی محروم نہیں ہے
مجمع غالباً جمعہ کی وجہ سے اتنا تھا کہ مسجد سے باہر بھی صفیں بنیں۔ہم بہر حال اندر تھے۔
لیجیے ایک جمعہ بھی خانۂ کعبہ کے بعد کے درجہ کی اس مسجد نبی اُمی میں نصیب ہوگیا۔اس سے کیا زیادہ ایک نا لائق کو چاہیے؟ اب تیاری واپسی کے سفر کی ہے۔قیام گاہ پر پہنچے،کھانا کھایا اوراگلے سفر کی تیاری میں کچھ دیر کے لیے لیٹنا اور سو لینا ضروری ہوا۔ عصر پڑھ کر لیٹ رہے۔ مغرب سے فراغت کرکے ایک ٹیکسی مکہ مکرمہ کے لیے لی اور ایک بار پھر دربارِ الٰہی میں حاضری کو چل دیے۔ راستے میں مسجد میقات پر رک کر احرام باندھا، عشاء کی نماز سے فراغت کی اور اب سفر تلبیہ کے ساتھ حالت احرام میں شروع ہوا۔عزیزم محمد مکی کو اطلاع دی جا چکی تھی اور انھوں نے پھر اپنے ہوٹل میں کمرہ بک کرا لیا تھا۔ اور اس دفعہ ہوٹل نے ہمیں اپنا مہمان بنالیاتھا، یعنی نام کو بھی کچھ لینا دینا نہ تھا۔ ایک طرف اپنی گناہوں بھری زندگی تھی اور ایک طرف مالک کے گھر میں یہ پذیرائی کی جیسی باتیں!ایک معمہ تھا سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔
خدا نہ کرے کہ آزمائش رہی ہو۔
مکہ مکرمہ میں عمرہ کرنے بعد پروگرام چونکہ سیدھے جدہ جانے کا تھا، اس لیے فرحان (ابن ذیشان) سلمہ پیشوائی کے لیے مع کچھ ما حضر پہنچے ہوئے تھے۔ معدہ کی ضیافت کی ،کچھ دیر آرام کیا اور فجر ہو گئی۔ میرا تو جی آرام کو چاہتا تھا مگر ہارون سلمہ نے تھوڑا سا چائے پانی کرکے جب کہا کہ چلیں عمرہ کرلیں تو عذر کرنے کو جی نہ چاہا۔ پس نو بجے کے اندر یہ فریضہ بھی ادا ہوگیا۔اورپھر ناشتہ کرکے جو ہوٹل کی طرف سے بڑے شاندار پیمانے پر ہوتا تھا، اس سفر کے آخری ’’رُکن‘‘ (یعنی ایک شب عالیہ سلمہا کے گھر گزارنا) کی ادائیگی کے لیے جدہ کو چل پڑے۔ مگر افسوس رہے گاکہ یہ ادائیگی بس نام کی ہو ئی۔مدینہ منورہ سے روانگی کے وقت گلے میں کچھ خراش شروع ہوئی تھی،عمرہ کی ادائیگی تک تو وہ د بی رہی مگراس کے بعد جیسے اسے آزادی مل گئی۔جدہ پہنچتے پہنچتے اس نے کافی پر پرزے نکال لیے۔ اور دوسرے صبح تک سینہ پر نزلہ کی تکلیف نے پوری شدت اختیار کرلی جبکہ اسی صبح کو لکھنؤ کا سفر بھی کرنا۔ اسی حال میں ایر پورٹ پہنچے۔مگر وہاں پتہ چلا کہ ہم لیٹ ہوگئے، پس گھر واپس جانا ہے۔بہت گرانی ہوا ۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ اس میں اس گنہگار کے لیے بھلائی تھی۔ طبیعت کی خرابی تیزی سے بڑھتی جارہی تھی اوراس کی بنا پر ضرورت تھی کہ ڈاکٹر سے رابطہ ہو۔سفر ملتوی ہوجانے کی بناپر جدہ ہی میں یہ کام ہوگیا اور پتہ چلا کہ نزلہ کا معاملہ تو اتنا نہ تھا، بلڈ پریشر تھا جو خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا ۔اس کے بعدضرورت تھی کہ سفر ختم ہو تو پوری طرح آرام و راحت کی جگہ ملے۔ اس کا انتظام اس طور پر ہوا کہ اگلے دن کے لیے لکھنؤ کی سیٹ بہت مہنگے داموں مل رہی تھی اور اس کا بدل یہ تھا کہ جدہ سے لکھنؤ کا سفر براستہ دلّی کیا جائے۔ چنانچہ اس کو اختیار کیا گیا اور اس کے نتیجہ میں اللہ نے مجھے دلی پہنچانے کا انتظام کردیا ،جومیرے اس حال میں میرے لیے بہترین نتظام تھا کہ دلّی بڑے بیٹے عبیدسلمہ کا گھر ہونے کی وجہ سے میرا گھر اور علاج کی بھی بہترین سہولت گویا دروازہ ہی پر میسر۔
شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدیؒ
مولانا مفتی منیب الرحمن
۴ فروری ۲۰۱۶ء جمعۃ المبارک کی شب کو آفتاب علم غروب ہو گیا۔ اردو کا محاورہ ہے ’’اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے‘‘، لیکن یہ آفتاب علم تو غروب ہو گیا، مگر تفسیر تبیان القرآن، تفسیر تبیان الفرقان، شرح صحیح مسلم او ر نعمۃ الباری یعنی علوم قرآن وحدیث کے فیضان کی صورت میں اپنا نور پیچھے چھوڑ گیا ہے جو ان شاء اللہ العزیز آنے والی صدیوں تک تشنگان علم کو فیض یاب کرتا رہے گا۔
فارسی کا مقولہ ہے ’’ہر گلے را رنگ وبوئے دیگر است‘‘، یعنی ہر پھول کی اپنی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر شخص کا استحقاق ہے کہ وہ علم کی دنیا میں جسے چاہے اپنا آئیڈیل قرار دے، کیونکہ ہر شخص کی پسند وناپسند، ترجیحات اور معیارات اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ میری دیانت دارانہ رائے کے مطابق اردو بولنے، لکھنے اور پڑھے جانے والے ہمارے اس خطے میں تفسیر وحدیث کے میدان میں جتنا کام علامہ غلام رسول سعیدی نے تیس سال میں کیا ہے، گزشتہ نصف صدی میں اتنا تحقیقی، وقیع اور علمی کام کسی اور کا نظر نہیں آتا۔ ہمیں تسلیم ہے کہ ہر دور میں اصحاب علم اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے گئے ہیں اور ہر صاحب علم کے کام میں ان کے منہج اور مزاج کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی تفرد، تفوق اور امتیاز ضرور ہوتا ہے، لہٰذا یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کسی ایک صاحب کمال کی تحسین وتعریف سے دوسروں کی نفی یا ان پر تنقید یا ان کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی، صرف ایک حقیقت واقعی کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔
اردو زبان میں علامہ صاحب کی تفسیر تبیان القرآن سب سے مبسوط، مفصل او رمدلل تفسیر ہے۔ آج کی تاریخ تک یہ اردو زبان کی واحد تفسیر ہے کہ جس میں تفسیر القرآن بالقرآن اور تفسیر القرآن بالحدیث کو بالترتیب درجہ اولیٰ اور ثانیہ میں رکھا گیا ہے۔ اس کے بعد آثار صحابہ وتابعین، پھر ائمہ مجتہدین کے اجتہادات وآرا کو ترجیح دی گئی ہے۔ جدید تحقیقی ، طبی اور سائنسی تحقیقات کے بھی آپ نے دوران تفسیر حوالے دیے ہیں۔ تمام احادیث اصل مآخذ کے حوالہ جات اور رقم الحدیث کے ساتھ درج ہیں اور یہ سارا کام انھوں نے اپنی علمی ریاضت اور مشقت سے (Manually) کیا ہے، انھیں کمپیوٹر تک رسائی (Access) نہیں تھی۔ صحیح بخاری کی احادیث کی ترقیم (Numbering) اور ان احادیث کے دیگر کتب حدیث میں حوالہ جات کے ساتھ جدید صحیح بخاری ابھی بیروت سے چھپ کر نہیں آئی تھی کہ آپ نے اپنے زیر تربیت طلبہ کے ذریعے نہ صرف صحیح بخاری بلکہ بعض دیگر کتب احادیث کی ترقیم خود کرائی۔ آپ کی دیگر تصانیف میں تذکرۃ المحدثین، مقالات سعیدی، توضیح البیان، مقام ولایت ونبوت، تاریخ نجد وحجاز، ذکر بالجہر اور متعدد دیگر وقیع کتب شامل ہیں۔
آپ کی تفاسیر اور شروح حدیث میں جا بجا ایسی معرکۃ الآرا علمی وتحقیقی ابحاث شامل ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کو مستقل رسائل کی صورت میں ایڈٹ کر کے طبع کرایا جا سکتا ہے اور ہم ان کے نام سے منسوب ’’سعید ملت فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے ایک علمی، تحقیقی اور تصنیفی ادارہ قائم کرنے کی تدبیر کر رہے ہیں۔ وسائل کی دست یابی کی صورت میں ان شاء اللہ العزیز اس کام کو منظم، مربوط اور خوب صورت انداز میں سامنے لانے کی سعی کی جائے گی۔
حضرت کا جنازہ پاکستان کے بڑے تاریخی، منظم اور علمی وروحانی شکوہ سے بھرپور جنازوں میں سے ایک تھا۔ مجھے سیکڑوں علما ومشائخ اور لاکھوں عوام کی موجودگی میں ٹی گراؤنڈ فیڈرل بی ایریا کراچی میں آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کی تدفین جامع مسجد اقصیٰ کے احاطے میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی بے پایاں مغفرت سے نوازے اور آپ کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت مقبولہ اور قربت نصیب ہو اور رب کریم آپ کے درجات کو بلند اور آپ کی گراں قدر دینی خدمت کو تاقیامت صدقہ جاریہ فرمائے۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)
شیخ الحدیث حضرت مولانا صدیق احمدؒ
سبوح سید
گذشتہ برس بہاؤالدین زکریا یونی ورسٹی ملتان میں ماس کمیونی کیشن میں ایم فل کے لیے داخلہ لیا تو ملتان جانا ہوا۔ ہفتہ اور اتوار کلاس ہوتی تھی۔ ایک روز جامعہ خیر المدارس کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری برادر بزرگوار محترم قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کو فون کیا کہ ملتان میں ہوں، ملنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کراچی ہیں، لیکن حکم دیا کہ ’’آپ کو ہر صورت خیر المدارس جانا ہے‘‘۔ ہم حکم کی تعمیل میں جامعہ خیر المدارس گئے اور رات وہیں قیام کیا۔
خیر المدارس ملتان شیخ الحدیث مولانا خواجہ خیر محمد جالندھری کا لگایا ہوا پودا ہے جس کے سایے میں ہمہ وقت قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں گونجتی ہیں۔ والد محترم نے کچھ عرصہ خیر المدارس میں پڑھا تھا۔ جامعہ کے ناظم حضرت مولانا نجم الحق صاحب نے مدرسے کا دورہ کرایا۔ وہ خود ایک باکمال شخصیت ہیں۔ میری خواہش تھی کہ میں ان کے حوالے سے ایک مضمون لکھوں ۔ پاکستان میں وہ پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے خود کش حملوں کے خلاف ۲۰۰۴ء میں تحقیقی مقالہ لکھا ۔ یہ مقالہ عالمی فورمز پر پڑھا گیا۔ آج لوگ اس مقالے سے اہنے مقالے تیار کرتے ہیں، لیکن انہیں اس وقت اچھا نہیں کہا گیا۔ جامعہ خیر المدارس کا بہت خوبصورت اور صاف ستھرا ماحول دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ اساتذہ سے ملے۔ اتنا بہترین نظم و نسق آپ کو کم ہی کہیں دکھائی دیتا ہے۔ مدرسے میں واقع قرآن ہال دیکھا۔ درختوں کے سایے میں خوبصورت تالاب اور تالاب کے کنارے قدیم طرز تعمیر کی عالیشان مسجد اور مسجد کے سامنے دارلحدیث واقع ہے۔ ہم نے مولانا خیر محمد جالندھری اور مولانا محمد شریف جالندھری کی مرقد پرفاتحہ خوانی کی۔
میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ جہاں جاؤں ، صاحبان علم سے خاص طورعلم کی خیرات ضرور حاصل کروں، یہی توشہ آخرت ہے۔ مولانا نجم الحق صاحب نے بتایا کہ دار الحدیث حدیث کے عقب میں شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق صاحب رہائش پزیر ہیں۔ مولانا تقریباً ساٹھ برس سے جامعہ خیر المدارس میں پڑھا رہے ہیں۔ ان کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ انہوں نے یہیں سے تعلیم حاصل کی اور پھر تدریس بھی یہاں ہی کی۔ ملاقات کی خواہش کی تو انہوں نے طلب فرمایا۔ مولانا منظور احمد صاحب، اقبال بالاکوٹی صاحب، مولانا نجم الحق صاحب کے فرزند عداس نجم صاحب، دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ناصر فرید صاحب، ہم سب ان کی خدمت میں اکٹھے حاضر ہوئے۔ ان کے پاس بیٹھے، کئی باتیں کی۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی کے قصے سنائے۔ میں نے ان سے مدرسے کی خوبصورت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’ حضرت آپ ضرور خیر المدارس کے رومانوی ماحول کا شکار ہوئے ہیں جو یہاں سے گئے نہیں۔ کندھے پر تھپکی دی اور ہنس پڑے۔
میری خواہش پر حصول برکت کے لیے انہوں نے بخاری شریف کتاب الایمان سے دو احادیث پڑھائیں۔ اصرار کے ساتھ چائے پلائی۔ مجھے لگا کہ ان کا کمرہ محبتوں کا ایک حصار تھا جہاں سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا! جی ہاں یہ وہی کمرہ تھا جہاں صبح و شام رسول اللہ کی باتیں ہوتی تھیں ، اس سادہ سے کمرے میں اتنا سکون تھا کہ اگر اسے تقسیم کیا جائے تو پورے ملتان میں بٹ جائے، لیکن ہم جیسے دماغ کے سودوں کو دل کے سودوں پر ترجیح دے دیتے ہیں اور ساری زندگی خسارے میں گذارتے ہیں۔
فرمایا: پاکستان مسجد کی طرح مقدس ہے. اس میں کسی قسم کا انتشار اور تفرقہ پھیلانا خود اپنے وجود کو عذاب میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ پھر پاکستان کے حوالے سے اپنا رقم کردہ ایک کتابچہ دیا۔ (جامعہ خیر المدارس کے منتظمین کو چاہیے کہ وہ اس کتابچے کو کثیر تعداد میں شائع کروا کے تقسیم کروائیں۔ ) نصف گھنٹہ سے زیادہ ان کے صحبت میسر رہی ۔ ان سے دعاؤں کی درخواست کی تو انہوں نے محبت سے بار گاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھا کر ہمارے لیے دعا کی اور مجھے وہ قبول ہوتی نظر آ نے لگی۔ ہم نے دست بوسی کی سعادت حاصل کی، انہوں نے سر پہ اپنا ہاتھ پھیرا اور ہم باہر چلے آئے۔ میں اس جگہ حاصل ہونے والے سکون کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔
آج صبح جاگا تو موبائل پر پیغام تھا کہ یادگار اسلاف ، استاذ العلماء شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق صاحب اس عارضی دنیا کو اپنے علم و عرفان سے مہکانے کے بعد الوداع ہو چکے ہیں۔ ذہن میں اتنا سا خیال آیا کہ جانا تو سب نے ہے، لیکن کاش ان کے جانے سے پہلے ایک ملاقات اور ہو جاتی۔ ان کے جنازے میں پورا شہر امڈ آیا تھا۔ نہ کوئی عہدہ اور نہ سلطنت، صدیق کی صداقت کی گواہی ملتان کی سوگوار فضا، آہیں اور سسکیاں دے رہی تھیں۔
برادر مولانا عبد القدوس محمدی صاحب نے لکھا کہ ان کے جانے کے بعد ہم دعاؤں کے ایک اور دَر سے محروم ہو گئے۔ واقعی اتنی بے لوث اور محبت بھری دعائیں اور کون دے سکتا ہے۔ اللہ حضرت کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے متعلقین اور اقربا کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
بابائے سوشلزم
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ
یادش بخیر! ایک شیخ رشید ہوا کرتے تھے، بابائے سوشلزم۔ پہلے "آزاد پاکستان پارٹی" میں تھے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس کے بانی رکن بنے ۔ تب لوگ پیپلز پارٹی کو ایک مزاحیہ فلم سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ شیخ صاحب مرحوم سوشلزم کا درس پہ درس دیتے رہتے۔ مگر کم علم اور ان پڑھ لوگوں کو کیا پتہ کہ سوشلزم کیا ہوتا ہے۔ ا ستحصال کسے کہتے ہیں۔ اضافی پیداوار وآلات پر کسی کا حق ہونا چاہیے۔ انہیں تو بس ذوالفقار علی بھٹو نے مسحور کر رکھا تھا۔ ایسا جاوو سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ کسی کو سوشلزم کا پتہ وتہ کچھ نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کا مطلب ذوالفقار علی بھٹو اور بس بھٹو تھا ۔ ۷۰ء میں جب عام انتخابات کا اعلان ہوا تو لوگ دنگ رہ گئے کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب اور سندھ میں کس طرح جھاڑو پھیر کر مغربی پاکستان میں اتنی بڑی اکثریت حاصل کر لی ہے، حالانکہ جماعت اسلامی ان انتخابات کے نتیجے میں اپنی آنے والی حکومت کی کابینہ بھی مکمل کر چکی تھی۔ مگر اس کے میاں طفیل محمد صاحب کو شیخ رشید نے چاروں شانے چت کر دیا۔ اور ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ ان کی کابینہ میں وزیر صحت مقرر کیے گئے۔
پیپلز پارٹی نے جہاں آئین بنایا، وہاں دیگر معاملات میں بھی بہت قانون سازی کی جن میں ایک شاہکار کا رنامہ دوائیوں کا "جنرک " نام بھی تھا۔ یعنی اگر ایک کمپنی کوئی دوائی بناتی ہے اور اُسے اپنے نام سے اگر دس روپے میں فروخت کرتی تو "جنرک" نام کی بدولت اسی فارمولے کا استعمال کرتے ہوئے کمپنی کے نام کی بجائے دوائی ایک یا دو روپے کی ہوتی۔ کمپنیوں کی لوٹ مار ختم ہو گئی۔ کمپنیوں کے سرمایہ دار مالکان نے بہت شور کیا مگر جس قانون کو عوام کی تائید حاصل ہو، بھلا وہ کب ختم ہوتا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں پیپلز پارٹی نے " ڈرگ ایکٹ" پار لیمنٹ سے منظور کروا کے نافذ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد جو چند قوانین عوامی فلاحی وبہبود کے لیے بنائے گئے، ان میں یہ ایکٹ بڑا اہم اور جامع ہے۔ ۷۷ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب ضیا ء الحق نے اقتدار سنبھا لا تو جہاں ہیروئین کے سوداگروں، ناجائز اسلحہ کے بیوپاریوں، لاکھوں شرپسند افغانیوں اور علمائے سو کی موجیں لگ گئیں، وہیں مالکان کی بھی، خواہ و مکانوں اور دکانوں کے تھے یادواساز کمپنیوں کے، خوب سنی گئی ۔ دوائیوں کی قیمتیں دن بدن بڑھنا شروع ہو گئیں۔ اوراُس کے بعد پھر آج تک رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ دواساز کمپنیوں کے مالکان نے اب اطمنان سے اپنا اگلا وار کیا اور جعلی دوائیاں بنا بنا کر لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ اور پاپڑ منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بنا دیا ۔ یہ ایک دلچسپ واقعہ بھی ہے اور المیہ بھی کہ پنجاب کے ایک گورنر چوہدری الطاف حسین مرحوم جب دل کے علاج کے لیے امریکہ گئے تو ہسپتال میں جب ان کے زیر استعمال دوائیوں کا لیبارٹری میں معائنہ کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ گورنر صاحب کو جو دوائیاں سپلائی کی جاتی تھیں، وہ تو جعلی تھیں۔ اس جعلی اور اصلی کے چکر میں ہی گورنر الطاف دل کی بازی ہار کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔
پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں محکمہ صحت کی جانب بڑی توجہ دی گئی۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے علاوہ صوبہ بھر میں وکلاء صاحبان کا علاج آدھے سے بھی کم خرچے پر ہوتا تھا ۔ عام آدمی کو مفت اور معیاری دوائیاں اورٹیسٹ دستیاب تو تھے ہی، مگر 1122 بنا کر خلق خدا کر ہمیشہ کے لیے اپنا ممد وح بنا لیا۔ انتخابات میں فتح وشکست اصلاحات کی بنا پر تھوڑی ہوتی ہے، یہ تو ایک طر ح کی MANAGEMENT ہوتی ہے جو بساط بچھا کر عالمی طاقتیں پاکستان میں کھیل رچاتی ہیں اور یہ بساط الٹا بھی دیتی ہیں۔ پھر دنیا کے چند امیر ترین لوگوں میں شامل ایک "خادم " پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا تو اس کی برادری کے لوگوں کی بھی سنی گئی۔ وہ بھی نیچے سے نے نکل کر اوپر آگئے اور پارلیمنٹ سمیت نوکر شاہی اور دیگر اداروں پر قبضہ کر لیا جو تاحال جاری ہے۔ پہلے پہل تو لوگوں کو اس سے نجات کی کوئی توقع تھی، مگر گزشتہ دنوں اخبارات میں چھینے والی ایک تصویر نے ان کے ارمانوں کا خون کر دیا اور وہ مایوسی کی اندھیر نگری میں چلے گئے۔
اس وقت جعلی، زائد المیعاد، بلاوجہ مہنگی اور غیر ملکی موت بانٹنے والی جعلی دوائیوں سے گوداموں کے گودام بھرے پڑے ہیں۔ کوئی گلی ایسی نہیں جس کی نکڑ پر یہ مکروہ دھندا نہ ہورہا ہو ۔ ایسے بھی کئی ہنر مند ہیں جو ایسی جنسی دوائیوں کی ہوم ڈیلیوری بھی کرتے ہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ اسپتالوں کے اردگرد میڈیکل سٹور اور لیبارٹریاں کیوں اتنی زیادہ ہوتی ہیں؟ اس لیے کہ لوگوں کو ہسپتالوں سے مفت دوائی اورٹیسٹ دستیاب نہیں۔ محکمہ صحت میں ایک افسر ہوتا ہے جسے "ڈرگ انسپکٹر" کہا جاتا ہے جو دودھ کے دھلے تو ہر گز نہیں ہوتے، پھر بھی کوئی نہ کوئی دیانتدارانسپکٹر قسم توڑنے کے لیے ہی سہی، ان سٹوروں، عطائیوں اور لیبارٹریوں پر چھاپے مار ہی لیتا ہے۔کچھ ایسے ہیں جو کبھی نہ کبھی کچھ کارکردگی دکھانے کے لیے ہی سہی کاروائی کرتے ہیں اور کیس درج کر کے متعلقہ اتھارٹی یعنی DCO کو ارسال کر دیتے ہیں۔ یہیں سے اصل برائی شروع ہوتی ہے۔ جب کیس DCO کے پاس جاتا ہے تو موت کے سوداگر عوامی نمائندے فون کرتے ہیں اور DCO موت بانٹنے والوں کو چائے پلائے بغیر دفتر سے نہیں جانے دیتا اور کام بھی کر دیتا ہے ۔
آج ان حالات میں قدم قدم پر بابائے سوشلزم شیخ رشید مرحوم کی بہت یاد آتی ہے۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو معاشروں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ اللہ کروٹ کروٹ انہیں جنت نصیب کرے ۔ ان سے آخری ملاقات نیویارک میں ہوئی تھی جہاں امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک کے انسانی حقوق کے ایک بڑے عالمی پروگرام میں وہ مہمان خصو صی کے طورپر شریک ہوئے اور ایک عالم کو اپنے خیالات کا قائل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔
مکاتیب
ڈاکٹر محمد شہباز منج
محترم المقام جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
گستاخی معاف !"الشریعہ "کے فل فلیج مدیر بننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو مضامین کی عبارتوں میں کان کی جگہ آنکھ اور آنکھ کی جگہ کان لگانے کی اجازت مل گئی ہے۔ مدیر کا یہ اختیار تسلیم کہ وہ ضرورت کے تحت ایڈٹنگ کر لے ، لیکن یہ اختیار تو کوئی معقول آدمی قبول نہ کرے گا کہ متعلقہ مضمون میں سوال گندم اور جواب چنا کی کیفیت پیدا کر دی جائے۔ راقم الحروف نے "ممتاز قادری کی سزا: اپنی معروضات پر اعتراضات کا جائزہ" کے عنوان سے فروری 2016ء کے "الشریعہ" کے لیے جو مضمون بھیجا، اسے مکاتیب میں جس حالت میں شائع کیا گیا، اس پر (نرم سے نرم الفاظ میں) سخت کوفت ہوئی۔ ایک طرف تو مضمون کی عبارتوں کی عبارتیں حذف کر دی گئیں اور دوسری طرف ان کو باہم جوڑتے ہوئے یہ بھی خیال نہ رکھا گیا کہ معترضین کے کس سوال کا کیا جواب ہے! (الفاظ کے" حسن استعمال" کی "مہربانی" الگ ہے۔ پہلے ہی جملے سے مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ مضمون کا کیا حشر کیا گیا ہوگا: "ممتاز قادری کی سزا کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے" ایک جملے میں "کے حوالے سے" کی اس تکرار نے ہی میرے کانوں سے دھواں نکال دیا تھا)۔ شائع شدہ مضمون دیکھ کر مضمون نگار کے بارے میں جو تاثر پید ہوتا ہے، وہ حرف و تحریر سے انس رکھنے والا کوئی فرد برداشت نہیں کر سکتا (حتی کہ آپ اپنے بارے میں بھی نہیں)۔ "الشریعہ" ایسے موقر رسالے میں اپنی تحریر کا یہ حال دیکھ کر پہلی دفعہ احساس ہوا کہ کاش میں نے یہ مضمون نہ بھیجا ہوتا یا آپ نے اسے شائع نہ کیا ہوتا! پوچھ ہی لیا ہوتا کہ جگہ کی تنگی کے باعث مختصر شائع کرنا ہے تو میں اختصار بھیج دیتا یا عرض کر دیتا کہ فلاں فلاں جگہ کو حذف کر دیں! میرا آپ سے پر زور مطالبہ ہے کہ اس خط اور وضاحت کے ساتھ مضمون کا درج ذیل حصہ دوبارہ شائع کریں، اور یہ اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ "الشریعہ" پر اپنے حق کا مان رکھتا ہوں۔
"ممتاز قادری کے حوالے سے سپریم کورٹ نے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس پر تحفظ شریعت کانفرنس کے عنوان سے، بعض علما کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ سزاقرآن و سنت اور چودہ سو سالہ اجماع کے خلاف ہے۔ راقم نے ان علما کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے ، دسمبر 2015ء کے 'الشریعہ " میں، "ممتاز قادری کی سزا: تحفظ شریعت کا نفرنس کے فیصلے پر ایک نظر" کے عنوان سے ایک مضمون میں دلائل سے ثابت کیا کہ توہین رسالت پر سزائے موت کے قانون کے ہوتے ہوئے، کسی شخص کا توہینِ رسالت کے کسی ملزم کوماوراے عدالت قتل کرنا ،شرعی نقطہ نظرسے غلط ہے؛ لہٰذا زیر بحث کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بے جواز نہیں۔اس پر بعض کرم فرماؤں کی جانب سے کچھ اختلافات واعتراضات سامنے آئے۔ان سطور میں ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جا رہی ہے۔میرے موقف سے متعلق معترضین کے افکار و دلائل کچھ اس طرح سے ہیں:
1) توہینِ رسالت کا مر تکب، فقہا کے نزدیک مباح الدم ہے جس کے قتل کرنے والے کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ تادیباً کوئی تعزیر ی سزا دی جائے گی؛ لہٰذا ممتاز قادری کو سزائے موت دینا غلط ہے؛ کوئی تعزیری سزا دی جا سکتی ہے۔
2) مقدمہ چلنے کے بعد، قرائن سے، جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ سلیمان تاثیر نے توہین رسالت کی تھی، تو اس کے قاتل کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔
3) آپ ایسے لوگ، اس طرح کے دلائل سے، یہود و نصاریٰ کو خوش کرنا چاہتے ہیں؛ آپ ان کی پیروی ہی کیو ں نہیں کر لیتے تاکہ وہ خوش ہو جائیں!؛ لیکن قرآن کا فیصلہ ہے کہ وہ خوش نہیں ہوں گے۔
اب ہم ان اعتراضات و دلائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
جہاں تک آخری بات کا تعلق ہے، تو سچ یہ ہے کہ ہم خود کو ، اس معاملے پر کوئی دلیل پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں پاتے؛ اس لیے کہ کس کی کس کو خوش کرنے کی نیت ہے؟ اس کی دریافت اتنا مشکل کام ہے کہ ہمارے کرم فرما ہی اتنی آسانی سے کر سکتے ہیں!؛ہم لوگوں کے باطن میں اتر کر ان کے مسائل اور بیماریوں کی تشخیص کا(اگر کچھ جان بھی سکیں تو) اتنا فن نہیں جانتے کہ آدمی کو دیکھے ، ملے اور جانے بغیر اس کے باطن پر حکم لگا سکیں۔ہاں ! اپنی صفائی کی بات ہو سکتی ہے۔لیکن وہ بھی معترضین ایسے مسکت دلائل سے رد کر سکتے ہیں جن کا، ہمارے پاس، ہمیں اقرار ہے، کہ کوئی جواب نہیں ہو گا۔ مثلا: وہ کہہ سکتے ہیں: تم اوپر اوپر سے صفائیاں پیش کر رہے ہو؛ اندر تمھارے وہی کچھ ہے،جو ہم عرض کر رہے ہیں۔سو دوسری اور پہلی بات ہی کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہماری بساط میں ہے۔
دوسری دلیل کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ مقدمے، ثبوت اور عدالتی کاروائی سے متعلق ایک بے مثل عجوبہ ہے۔ یعنی کسی کے جرم کے حق میں دلائل اس کا کام تمام کرنے کے بعد فراہم کیے جا سکتے ہیں !بعد میں اگر پتہ چلے کہ ملزم مجرم تھا،اور اس کی بنا پر کسی شخص نے اسے قتل کر دیا تھا، تو اب قاتل کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی!۔ثبوتِ جرم کا یہ طریقہ عدالتوں کو بہ طورِ رہنما اصول اپنانا چاہیے اور قاتل کو نہ صرف اس وقت تک مہلت دینی چاہیے، جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ قاتل مقتول کو قتل کرنے میں حق بہ جانب تھا؛ اور قاتل کو مقتول کے قتل پر سزا دینے اور سزا کے حق میں دلائل تلاش کرنے کی بجائے ان شواہد پر نظر رکھنی چاہیے، جو مقتول کے خلاف مرورِ زمانہ سے مہیا ہوئے ہیں۔کیا قانون ، عدالت اور مقتول کے ساتھ اس سے بڑا مذاق ممکن ہے!۔ ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہوں : بھلا یہ دلیل بھی کوئی دے سکتا ہے!، لیکن یہ دلیل دی گئی ہے ؛ اور ایک مشہور صاحبِ" ماہنامہ" کی جانب سے دی گئی ہے۔
اس دلیل کی لغویت کو ایک طرف رکھیں اور صرف اس زمینی حقیقت ہی کو دیکھ لیں کہ زیر نظر کیس میں جب قاتل نے مقتول کو قتل کیا ؛ اس وقت قاتل کے حق میں فضا زیادہ تھی ، یا بعد میں زیادہ ہوئی!۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ بعد میں فضا قاتل کے مخالف ہوتی گئی؛ اور ان لوگوں کی طرف سے بھی اس کے اقدام کو غلط قرار دیا گیا ،جو واقعے کے ابتدائی دنوں میں اس کے حق میں دلائل دیتے اور نعرے لگاتے تھے۔راقم ایسے بیسیوں صاحبانِ علم کو جانتا ہے، جو ابتدا میں یہ کہتے تھے کہ سلیمان تاثیر کا قتل درست تھا؛ لیکن بعد میں اس کے قائل ہو گئے کہ یہ قتل غلط تھا؛ اس کے بر عکس میں ایک بھی بندے کو نہیں جانتا ، جو پہلے ممتاز قادری کے اقدام کو غلط سمجھتا تھا، لیکن بعد میں اس کا جواز پیش کرنے لگا۔ گویا بعد کے حالات نے تو یہ ثابت کیا کہ مقتول کو ایک فرضی اور غیر ثابت شدہ الزام پر،بہت سے دیگر محرکات اور اس کے خلاف ایک خاص فضا پیدا ہوجانے کے نتیجے میں ،رد عمل کی نفسیات کے تحت ،موت کے گھاٹ اتارا گیا؛ نہ کہ ایک صحیح الزام پر قتل کیا گیا!؛ تو اگر بعد کے ثبوتوں پر ہی جانا ہے، تو بھی مذکورہ کیس میں کورٹ کا فیصلہ درست قرار پاتا ہے، نہ کہ اس کے بر عکس۔
خود عدالت نے بھی ،اپنے تفصیلی فیصلے میں، یہ کہا ہے کہ ملزمِ توہینِ رسالت کو ایک فرضی توہین کے پیش نظر قتل کیا گیا؛ اس بات کا کوئی ثقہ ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ مقتول نے واقعی توہین رسالت کی تھی۔میں نے اپنے محولہ مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ایک مسلمان جج، جو قانون کے مطابق توہین رسالت پر سزائے موت دینے کا اختیار رکھتا ہے، وہ صرف اسی صورت میں سزاے موت کو ٹال سکتا ہے، جب اس کو یقین ہو کہ توہین نہیں ہوئی؛ یا اس میں شک ہے؛ اور صرف اسی صورت میں توہین سالت کے ملزم کو مار دینے والے کو سزاے موت دے سکتا ہے، جب اسے یقین ہو جائے کہ قاتل نے بغیر کسی یقینی بات کے کسی کو توہینِ رسالت کا مجرم سمجھ کر قتل کیا ہے۔ ایک مسلمان جج ،کتنا گیا گزرا بھی ہو، قانون کے ہوتے ہوئے توہین رسالت کے معاملے میں سمجھوتا نہیں کر سکتا! عدالت چاہتی تو صرف اس بنیاد پر بھی سزا سناسکتی تھی کہ قاتل نے قانون ہاتھ میں لیا؛ لیکن اس نے اس بات کو بہ طورِ خاص پیش نظر رکھا کہ قاتل نے بلا ثبوت اور بے جواز اقدام کیا؛ مقتول کے معاملے میں توہین کا کوئی واضح ثبوت نہیں تھا۔
اب آئیے مباح الدم کے مسئلے کی طرف۔مرتد یا گستاخِ رسول کے مرتد اور اس کے نتیجے میں مباح الدم ہو جانے میں علما کے اختلاف سے قطع نظر ، سوال یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے ، کسی شرعی امر کے تحت کسی کے مباح الدم ہو جانے کا، بہ طورِ خاص ایک نظم ریاست میں ، اور وہ بھی وہاں ، جہاں ایسے مسئلے پر باقاعدہ قانون موجود ہو،یہ مطلب کیسے لیا جا سکتا ہے کہ اس کو کوئی بھی شخص قتل کر سکتا ہے!؛اور ایسے قاتل کو عدالت سزاے موت نہیں دے سکتی!
کسی مسلم کے مباح الد م ہونے کے حوالے سے، شریعت کا عام طور پر بیان ہونے والا معروف ضابطہ یہ ہے کہ تمام مسلمان محفوظ الدم ہیں ، بغیر کسی شرعی سبب کے ان میں کسی کا خون حرام ہے۔وہ شرعی وجوہ جن سے کسی مسلمان کا خون حلال ہوتا ہے، حدیث کی رو سے تین بیان کی جاتی ہیں:
1۔ کسی کو نا حق قتل کرنا۔
2۔شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا ارتکاب کرنا۔
3۔کسی مسلمان کا مرتد ہو جانا۔
حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
عَنِ ابنِ مَسعْودٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسْولْ اللہِ صَلَّی اللہْ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: لا یَحِلّْ دَمْ امرِئ مْسلِمٍ اِلاَّ باِحدی ثَلاثٍ: الثَّیِّبْ الزَّانِی، وَالنَّفسْ بِالنَّفسِ، وَالتَّارک لِدِینِہِ المْفَارِقْ للجمَاعَۃِ (مسلم)
"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جومسلمان اس بات کی گواہی دیتا ہوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اس کی جان بس ان تین وجوہ میں سے کسی ایک وجہ سے لی جا سکتی ہے: (1) جان کے بدلے جان۔ (2) شادی شدہ زانی۔ (3) دین کو ترک کرنے والا؛ جماعت سے الگ ہو جانے والا۔"
فقہا کے مطابق ان میں کوئی بھی وجہ ہو تو مسلمان محفوظ الدم نہیں رہتا؛مباح الدم ہو جاتا ہے۔لیکن ان میں سے کسی بھی وجہ کے تحت آنے والے کسی شخص کو سزاے موت دینے کا اختیار، انفرادی طور پر کسی فرد کے پاس نہیں ہے؛ بلکہ یہ امراسلامی حکومت یا نظم ریاست کے دائرہ کار میں آتا ہے۔اصولی طور پر ان وجوہ میں سے کسی بھی وجہ کے تحت مباح الدم ہونے والے کو انفرادی حیثیت میں قتل کرنا؛ اسی طرح قتلِ نا حق ہے ؛ جیسے کسی بھی شخص کو ناحق قتل کرنا۔
گستاخِ رسول کو عام مرتد سے مختلف بتا کر اس کے قاتل سے رعایت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر گستاخ پر حد لاگو ہوتی ہے، تو حد کو انفرادی حیثیت سے میں کس دلیل سے جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے!۔اس ضمن میں آں جناب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانب سے توہین رسالت کے مجرموں کو انفرادی حیثیت میں قتل کرنے اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، قاتل کوکسی سزا کا مستحق نہ ٹھہرانے کی، بعض مثالوں سے جو استدلال کیا جاتا ہے، اس استدلال کی غلطی کی طرف راقم نے اپنے محولہ مضمون میں اشارہ کیا تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ توہین رسالت پر قتل کے ایسے تمام واقعات اسلامی نظم و قانون سے ماورا اور ذاتی حیثیت میں اقدام ثابت ہی نہیں کیے جا سکتے!۔ اس سلسلے میں سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ایک شخص کو قتل کر دینے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پر نکیر نہ فرمانے والے واقعے کے علاوہ، جو روایت کثرت سے پیش کی جاتی ہے، وہ ابوداود کی یہ روایت ہے:
"حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی ام ولد باندی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کے شان میں گستاخیاں کرتی تھی، یہ نابینا اس کو روکتا اور زجر وتو بیخ کرتا تھا،مگر وہ نہ رکتی تھی۔ یہ اسے ڈانٹتا تھا، مگر وہ نہیں مانتی تھی۔راوی کہتا ہے کہ جب اس نے ایک رات پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں اور آپ کو گالیاں دینا شروع کیں، تو اس نابینا نے ہتھیار لیا اور اسکے پیٹ پر رکھا اور اس پر اپنا وزن ڈال کر دبا یا اور مار ڈالا، عورت کی ٹانگوں کے درمیان بچہ نکل آیا، جو کچھ وہاں تھا ، خون آلود ہوگیا۔جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر ہوا۔آپ نے لوگوں کو جمع کیا ، پھر فرمایا : اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے یہ کام کیا، جو کچھ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے،تو نابینا کھڑا ہوگیا؛ لوگوں کو پھلانگتا ہوا ، اس حالت میں آگے بڑھا کہ وہ کانپ رہا تھا، حتی کہ حضور کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا : یارسول اللہ! میں ہوں اسے مارنے والا!؛ وہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی؛ میں اسے روکتا تھا؛ وہ نہ رکتی تھی ؛ میں دھمکاتا تھا، وہ باز نہ آتی تھی ؛ اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں ایسے ہیں ؛اور وہ مجھ پر مہربان بھی تھی؛لیکن آج رات جب اس نے آپ کو گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا اور اس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اسے مار ڈالا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! گواہ رہو، اس کا خون بے بدلہ ہے۔"
اب ذرا تصور کیجیے! ،اس سے ثابت کیا ہو رہا ہے!: ایک آدمی نے بار بار سمجھانے پر نہ سمجھنے والی اپنی ایک باندی کو توہین رسالت پر قتل کیا؛ معاملہ رسول اللہ کی عدالت میں لایا گیا؛ ملزم ڈر تا کانپتا پیش ہوا ( جس سے مترشح ہے کہ اسے حضور کی جانب سے سزا نافذ کیے جانے کا اندیشہ تھا)۔ آپ نے صورتِ حال کے تجزیے سے فیصلہ فرمایا کہ متعلقہ کیس میں باندی کا خون بے بدلہ ہے۔ اس سے یہ کس منطق کے تحت ثابت ہوا کہ اب قیامت تک،جس بھی شخص کے بارے میں، بعض لوگ یہ کہیں ، یا کوئی بھی شخص خود سے یہ سمجھے کہ اس نے توہین کی ہے، اور اس کو بلا کسی زجر وتوبیخ اور سمجھانے بجھانے اور یہ یقین کرنے کے کہ اس سے متعلق سنی سنائی بات کی کیا حقیقت ہے، توہین رسالت کا مجرم قرار دے کر قتل کر دے، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حدیث میں مذکور واقعے کے ذیل میں آتا ہے!؛ اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے، اس میں بھی مقتول کے خون کو بے بدلہ قرار دینا چاہیے! کیا شریعت اور اس کے فلسفہ جرم و سزا اور نفاذِ و حدود و تعزیرات پر، اس سے بڑا ظلم ہو سکتا ہے!اگر ایک یا چند مثالیں قیامت تک کے ہر رنگ کے واقعات پر سزا کے معاملے کو دو اور چار کی طرح طے کر دیتی ہیں،تو یہ ثبوت، گواہیاں ، عدالتیں ، قاضی کس مرض کی دوا ہیں؟
اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی فلاطونی عقل کی ضرورت نہیں کہ جو اقدام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا ہو اور آپ نے اس پر نکیر نہ فرمائی ہو، وہ انفرادی اور ماورائے عدالت قرار ہی نہیں دیا جا سکتا! کیا عدالت و حکومت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی چیز تھی! بدیہی حقیقت ہے کہ کسی اقدام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جائز قرار دینا، ریاست اور عدالت کا اسے جائز قرار دینا ہے۔اگر زیرِ بحث کیس میں بھی ریاست قاتل کے اقدام کو درست قرار دے ، تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے!؛ یہ رسول اللہ کے طریقے کے مطابق ہو گا۔ لیکن ماورائے ریاست ایسا اقدام آں جناب کی سنت و ہدایت کی پیروی نہیں؛ واضح طور پر اس کی مخالفت ہے۔"
بہ الفاظِ دیگر توہینِ رسالت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیانفرادی اقدامات کو یا اس تو حوالے سے قانونی تصور کرنا چاہیے کہ آں جناب نے خود اس پر نکیر نہ کر کے یا انہیں برداشت کرکے قانونی بنا دیا اور یا سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اقدامات استثنائی ہیں؛ اور استثنا سے قانون ثابت نہیں ہوتا۔ حضور اور مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے مختلف اعمال کے حوالے سے بہت سی استثناآت ملتے ہیں جو خاص افراد کے لیے اور محدود تناظر کی حامل ہیں؛ساری امت اور اس کے تمام افراد کے لیے نہیں ہیں اور نہ ہی آفاقی ہیں کہ انہیں قیامت تک ہر شخص کے معاملے تک ممتد قرار دیا جائے۔ہماری عام مذہبی ذہنیت کا عجیب المیہ ہے کہ بعض استثنائی مثالوں کو لے کر اس پر ساری شریعت کا مدار رکھ لیتی ہے ،لیکن اس کے برعکس شریعت کے عام اور معلوم ومعروف اصول و قانون کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔شریعت کا یہ اصول مسلمہ ہے کہ ملزم کو صفائی اور اپنی پوزیشن کی وضاحت کا موقع ملنا چاہیے ؛اور عدالت کو معاملے کی تحقیق کے بعد ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر اسے سزا دینی چاہیے۔یہ وہ اصول ہے جو قرآن و حدیث سے بھی واضح ہے اور عہد نبوی و خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے ملزموں سے متعلق فیصلوں اور عدالت و قضا کی مسلسل اور ان گنت کاروائیوں سے بھی۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ بعض صحابہ کے انفرادی فیصلے تو ابدی قانون ہیں، لیکن قرآن و حدیث کے بیسیوں فرامین اور نبی اکرم اور خلفائے راشدین کے مسلسل اور ان گنت عملی فیصلے کوئی شرعی ضابطہ ہی نہیں!
یہ فیصلہ کہ مباح الد م کون ہے، کون کرے گا؟ یعنی کون یہ طے کرے گا کہ کسی مسلمان نے شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہے!؛ قتلِ ناحق کا ارتکاب کیا ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے کی بنا پر یا کسی اور سبب سے مرتد ہو گیا ہے!؛ تا کہ اسے قتل کی سزا دی جائے؟ ظاہر ہے کہ یہ کام ریاست اور اس کا مجاز ادارہ ہی کر سکتا ہے۔ علما یا شریعتِ اسلامی کے ماہرین کوئی تجویز یا مشورہ ہی دے سکتے ہیں؛ خود کوئی اقدام کر سکتے ہیں اور نہ کسی کو از خود اقدام کا کَہ سکتے ہیں۔خود اقدام کرنے والا قانونی اعتبار سے مجرم ہے ؛ اور اس کی قسمت کا فیصلہ ریاست کے سپرد ہے؛ جو اپنی سمجھ ، تحقیق اور قانون کے مطابق اس کو سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
اگرچہ یہ بات اپنی جگہ محل نظر ہے کہ مباح الدم کو ماوراے عدالت قتل کرنے پر قصاص نہیں ہو سکتا؛اس لیے کہ شریعت سے اس کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔لیکن زیر بحث کیس میں،قاتل کو ازروئے شرع قصاص میں قتل کرنے کے عدم جواز کا فتویٰ، اگر درست بھی تسلیم کر لیا جائے، تو بھی یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ مقتول نے توہین کی بھی تھی یا نہیں؟ جب توہین پر ناقابلِ تردید ثبوت ہی پیش نہ ہو سکا ہو، تو مقتول کا مباح الدم ہونا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی قاتل سے قصاص نہ لینے کے مطالبے کی کوئی حقیقت رہتی ہے۔
جہاں تک کوئی تعزیری سزا دینے کا تعلق ہے تو سوال ہے کہ تعزیری سزا کیا ہوتی ہے!؛ یہ عدالت اپنی مرضی سے نہیں دیتی کیا!؛ تو اگر عدالت ایک بندے کو سزاے موت دے دے؛ بلکہ اس پر کوئی جرمانہ وغیرہ بھی عائد کر دے ، تو آپ یہ کہیں گے کہ: نہیں! آپ کی یہ تعزیر ہم نہیں مانتے!؛ اس کو دوسال قید رکھ لیں؛ دس ہزار جرمانہ کر دیں! مزید برآں تادیب کیا صرف قاتل کی مطلوب ہے!؛ سوسائٹی اور ایسی ذہنیت رکھنے والے دیگر افراد اور ان کے محرکین کی نہیں!۔ تعزیر کو تو بہر حال، آپ کو عدالت پر ہی چھوڑنا پڑے گا کہ وہ جو سزا مناسب سمجھے دے دے۔لیکن تعزیری سزا کے موقف والوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے اصل کرم فرماؤں کا موقف تو یہ ہے کہ قاتل نے کوئی جرم کیا ہی نہیں؛ بلکہ اعلیٰ ترین نیکی انجام دی ہے؛ وہ سرے سے کسی سزا کا مستحق ہی نہیں؛ وہ تو انعام و اکرام کا مستحق ہے۔
فیصل آباد کا تین روزہ دعوتی و تبلیغی سفر
مولانا محمد عبد اللہ راتھر
حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کا ہر سال عیدالاضحی کی چھٹیوں میں تبلیغی احباب کے ساتھ سہ روزہ لگانے کا معمول ہے۔ اس سال سفر حج کے باعث اس سہ روزہ کی ترتیب ماہ جمادی الاولیٰ میں بنائی گئی اور ۱۶ تا ۱۸ مارچ تین دن کے لیے فیصل آباد میں مفتی زین العابدین رحمہ اللہ والی مسجد میں تشکیل ہوئی۔ منگل کے روز گوجرانوالہ مرکز میں حاجی اسحق صاحب کی ہدایات سننے کے بعد صبح نو بجے بیس علما کا قافلہ مختلف سواریوں پر گوجرانوالہ سے فیصل آبادروانہ ہوا۔ راقم الحروف اسی گاڑی میں تھا جس میں شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی تشریف فرماتھے۔
بات چل نکلی مصحف عثمانی کی تو حضرت نے فرمایاکہ یہ کل چھ نسخے تھے جن میں سے اس وقت دنیا میں صرف تین مصحف پائے جاتے ہیں: ایک ترکی میں، ایک لندن میں اور ایک تاشقند میں۔ فرمایا، کئی برس پہلے صنعاء (یمن) سے مصحف علوی کے دریافت ہونے کی خبر آئی تو مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: یہ خبر پڑھی ہے؟ میں نے لاعلمی ظاہر کی تو مجھے وہ خبر نکال کر دکھائی اور فرمایا: یہ کہیں مولیٰ علی کے نام پہ سازش نہ ہو۔ میں نے کہا: ہاں، یہ بھی ہو سکتا ہے۔ کہنے لگے: کیا پھر میں اس معاملہ کو دیکھوں؟ میں نے کہا: دیکھ لیں۔ مولانا چنیوٹی بڑے باذوق آدمی تھے۔ وہ سفر کر کے یمن (صنعا) گئے۔ایک ہفتہ وہاں رہ کر اس مصحف علی کو دیکھتے رہے۔ جن جن مقامات پر شبہ ہو سکتا تھا، انہیں خوب اچھی طرح دیکھا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ واقعی یہ مصحف علی ہی ہے، کوئی ڈراما نہیں، اور اس میں اور مصحف عثمانی میں کوئی فرق نہیں۔ جرمن تحقیق کار بھی وہاں ریسرچ کر رہے تھے۔ ان کی تحقیق کا طریقہ یہ ہے کہ سیاہی دیکھتے ہیں، کاغذ پر تحقیق کرتے ہیں، رسم الخط کی جانچ کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق بھی یہ مصحف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی نے فرمایا کہ چند ماہ قبل برمنگھم سے ان سب سے قدیم ’’مصحف صدیقی‘‘ دریافت ہوا ہے، یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کامصحف، لیکن وہ مکمل نہیں ہے۔ وہ لوگ اس کے باقی اوراق کو تلاش کر رہے ہیں۔
قاری ریاض احمد صاحب نے ایران کے سفر کے دوران آیت اللہ جنتی کے ساتھ حضرت مولانا زاہدالراشدی کے مکالمے کی تفصیل سننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ ایک مکالمہ مولانا چنیوٹی رحمہ اللہ کا آیت اللہ خزعلی کے ساتھ ہواتھا جبکہ دوسرا مکالمہ میرا آیت اللہ جنتی کے ساتھ ہوا تھا۔ پھر حضرت نے ان مکالموں کی تفصیل بیان کی۔ فرمایا کہ ان دنوں علامہ احسان الٰہی ظہیررحمہ اللہ کی کتاب "الشیعۃ والقرآن" کا عالم عرب میں کافی شور تھا جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ شیعوں کا موجودہ قرآن پر ایمان نہیں ہے۔ عراق کے صدر صدام حسین نے اس کتاب کے ایک ملین نسخے چھپوا کر تقسیم کروائے تھے۔ یہیں سے علامہ کے، صدر صدام سے تعلقات کی ابتدا ہوئی۔ علامہ احسان الٰہی ظہیرعراق کے اعزازی سفیرتھے۔
جب ۱۹۸۷ء میں پاکستان سے ایک وفد ایرانی حکومت کی دعوت پر ایران گیا تو ایک نشست میں آیت اللہ خزعلی نے کتاب"الشیعۃ والقرآن"ہاتھ میں لے کر کہا کہ یہ ہم پر بڑا بہتان ہے۔ ہم قرآن کو مانتے ہیں اور ہمارا اس قرآن پر پورا یقین ہے۔ چنیوٹی صاحب نے میرے کان میں کہا :مڑ چھیڑاں ایہنوں؟ (چھیڑوں پھر اس کو؟) میں کہا: چھیڑیں! تو مولانا چنیوٹی کھڑے ہوئے اور کہا: ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ ایک شیعہ عالم کی زبان سے ہم سن رہے ہیں کہ یہ قرآن برحق ہے اور ہمارا اس پر پورا یقین ہے، لیکن آپ کی روایات اس کے خلاف کہتی ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ آیت اللہ خزالی مسکرانے لگے اور کہا کہ آپ کے ہاں بھی تو علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ قرآن پاک کی آیات سترہ ہزار تھیں، جبکہ اب صرف چھ ہزار سے کچھ اوپر پائی جاتی ہیں۔ تو جیسے آپ علامہ سیوطی کی اس روایت کو نہیں مانتے، اسی طرح ہم بھی ان روایات کو نہیں مانتے۔ علامہ چنیوٹی کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ تو ایک روایت ہے، ہم اس کو نہ مانیں بلکہ پورے سیوطی کو بھی نہ مانیں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، جبکہ آپ کی تو صحاح اربعہ(جن کی حیثیت ان کے ہاں ہماری صحاح ستہ جیسی ہے) میں دو ہزار سے زائد روایات قرآن کا انکار کرتی ہیں، ان کاآپ کیا کریں گے؟ مولانا چنیوٹی نے دو چار روایات سنا بھی دیں جو انہیں زبانی یاد تھیں۔ اس پر آیت اللہ صاحب تھوڑا ٹھٹھکے۔ پھر فوراً سنبھل کر کہنے لگے کہ امام جعفر سے روایت ہے کہ جو بھی روایت قرآن سے ٹکرائے، اسے دیوار پہ دے مارو۔ لہٰذا ہم ان سب روایات کو دیوار پر مارتے ہیں۔ علامہ چنیوٹی پھر کھڑے ہوئے اور فرمایا: بہت اچھا۔ ہمیں آپ کا موقف سمجھ آگیا ہے۔ لیکن ایک بات بتا دیجیے، ہمارے ہاں جوتحریف قرآن کا قائل ہو، ہم اسے دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر مانتے ہیں۔ آپ کا ان روایات کے راویوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آیت اللہ خزعلی ڈائس چھوڑتے ہوئے کہنے لگے، آئیے چائے پییں۔ چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے اور مجھے کہیں جانا بھی ہے۔
فیصل آباد میں تقریباً چالیس چھوٹے بڑے مدارس میں گشت کے دوران علماء وطلبہ سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جامعۃ الحسنین، دارالقرآن، مدینۃ العلم، جامعہ عبیدیہ، کاشف العلوم اور جامعہ امدادیہ میں مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم کے بیانات ہوئے۔ بہت سے علماء اور شخصیات دور ونزدیک کے علاقوں سے حضرت سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے رہے۔ کئی ایک کے پاس آپ خودملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ تیسرے روز نماز ظہر کے بعد جامع مسجد عثمانیہ میں علماء کے ایک بڑے مجمع سے مولانا زاہد الراشدی نے خطاب فرمایا جس میں علماء کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے اور جدوجہد کا دائرہ وسیع کرنے کی ترغیب دی۔ فرمایا کہ اس وقت کے حالات بتاتے ہیں کہ اللہ جل شانہ ہم سے ناراض ہیں، چنانچہ ہمیں مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ اللہ جل شانہ کو راضی کرنے اور اس کے احکامات کی پیروی کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ آخر میں مفتی زین العابدین رحمہ اللہ کے صاحبزادے مولانا یوسف ثالث صاحب نے (جو مدینہ منورہ میں مقیم ہیں اور اِن دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں) تشکیل کے فرائض انجام دیتے ہوئے علماء کو اللہ کے راستے میں نکلنے کی ترغیب دی۔
’’مولانا محمد حسن امروہوی ۔ ایک تعارف، ایک تجزیہ‘‘
ادارہ
مصنف: مولانا محمد اورنگزیب اعوان۔
ناشر: کتاب محل، دربار مارکیٹ لاہور۔
ہندوستان میں ایک عالم تھے، محمد احسن امروہوی جن کا تعلق مسلکِ اہلحدیث سے تھا۔ انہوں نے بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی ایک کتاب ’’ادلہ کاملہ‘‘ کا جواب ’’مصباح الادلہ‘‘ کے نام سے لکھا تھا۔ اِس کا جواب شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے ’’ایضاح الادلہ‘‘ کے نام سے لکھا۔ یہی محمد احسن امروہوی مرزا غلام احمد قادیانی کے حلقہ بگوش ہو گئے اور قادیانیت کا ہی طوق گلے میں ڈالے آخرت کو سدھارے۔
اِسی زمانہ میں ایک اور عالم تھے، مولانا محمد حسن امروہویؒ جو نہ اہلحدیث تھے اور نہ ہی قادیانی ہوئے۔ جید عالم اور زاہد و عابد بزرگ تھے۔ مولانا فضل حق خیرآبادیؒ ، مفتی صدرالدین آزردہ دہلویؒ اور حکیم امام الدین دہلویؒ کے مایہ ناز شاگرد تھے۔ قرآن کریم کی فارسی اور اردو میں تفسیر لکھی۔ اس کے علاوہ تصوف اور دیگر موضوعات پر اُ ن کی گیارہ تصانیف موجود ہیں۔ بدقسمتی سے محمد احسن امروہوی قادیانی سے ملتے جلتے نام کی وجہ سے بعض اہلِ علم کو شبہ ہو گیا کہ یہ محمد حسن امروہوی، محمد احسن امروہی قادیانی ہیں، یہاں تک کہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیر ی بھی اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے۔ ان کے مایہ ناز شاگر مولانا محمد یوسف بنوری بھی مولانا محمد حسن امروہی مرحوم کو قادیانی ہی سمجھتے رہے اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی بھی ان کی تفسیر کے متعلق غلط فہمی کا شکار رہے۔
مولانا محمد اورنگ زیب اعوان نے مولانا محمد حسن امروہی کی وفات کے ۱۱۰ سال کے بعد بیسیوں کتابوں اور ہزاروں صفحات کی ورق گردانی کے بعد اس گرد کو صاف کرنے کا فریضہ سر انجام دیا اور ناقابل تردید حوالہ جات سے یہ ثابت کیا ہے کہ مولانا محمد حسن امروہی قادیانی نہیں تھے۔ مصنف نے ڈاکٹر شاہد علی، ڈاکٹر صالحہ عبدالحکیم، ڈاکٹر شکیل اوج، ڈاکٹر محمد حبیب اللہ چترالی، مولانا قاضی زاہد الحسینی، مولانا عبدالصمد صارم الازہری، جناب خلیق نظامی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا عبدالحی لکھنوی ندوی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی اور دیگر مشاہیر کی تحریروں کی کہکشاں سجا کر مولانا محمد حسن امروہی مرحوم کا تعارف پیش کیا ہے۔مولانا مناظر احسن گیلانی ایک مضمون ’’ہندوستان کا ایک مظلوم مولوی‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ میں مولانا محمد حسن امروہی کے دفاع میں لکھا تھا، اسے بھی شامل کتاب کر دیا گیا ہے۔
کتاب جہاں مصنف کی شبانہ روز محنت کا ثمرہ ہے، وہاں ناشر کے اعلیٰ ذوق کی بھی عکاس ہے۔ عمدہ کاغذ اور شاندار جلد سے مجلدیہ کتاب اپنے قدردانوں کی منتظر ہے۔
(قیمت: 300/- روپے۔ مکتبہ امام اہل سنت پر دستیاب ہے)
اپریل ۲۰۱۶ء
تعمیر معاشرہ اور احتجاج و مخاصمت کی نفسیات
محمد عمار خان ناصر
دہشت گردی یا انتہا پسندی کی سوچ کو عمومی طور پر اس طرز فکر کے حامل عناصر کے بعض اقدامات مثلاً خود کش حملوں وغیرہ کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی بھی اوسط سطح کے باخبر آدمی سے دہشت گردی کی سوچ کے متعلق سوال کیا جائے تو غالباً اس کا جواب یہی ہوگا کہ یہ وہ سوچ ہے جو بے گناہ لوگوں کا خون بہانے اور لوگوں کے اموال واملاک کو تباہ کرنے کو نیکی کا کام سمجھتی ہے۔ تاہم فکری سطح پر اس سوچ کا تجزیہ کرنے کے لیے مذکورہ تعریف ناکافی ہے، کیونکہ خون بہانا اور اموال واملاک کی تباہی اصل فکر نہیں، بلکہ اس فکر کا ایک نتیجہ اور ایک اظہار ہے۔ انتہا پسندی یا دہشت گردی کی اصل فکر ایک پورا بیانیہ ہے جس کی بنیاد ایک مخصوص ورلڈ ویو پر اور خاص طور پر دنیا کے موجودہ نظام طاقت (Power Structure) کے بارے میں ایک متعین نقطہ نظر پر ہے۔
اس فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ دور جدید کے جمہوری تصورات کے تحت قائم مسلم ریاستیں کسی بھی لحاظ سے اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات کی حامل نہیں، بلکہ معاشرے کی تشکیل میں ان مغربی اقدار اور تصورات کو تحفظ اور تقویت فراہم کر رہی ہیں جو خیر وشر کے اسلامی پیمانے سے مختلف اور متصادم ہیں۔ نیز یہ کہ مسلمانوں کے مقتدر طبقات نے اپنے شخصی وطبقاتی مفادات کی خاطر مغربی تہذیب کے غلبے اور مغربی جمہوری نظام کے سامنے نہ صرف سر تسلیم خم کر دیا ہے بلکہ نفاذ شریعت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے حلیف کا کردار بھی قبول کر لیا ہے اور اس ساری صورت حال کا حل اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور اس کی جگہ خالص اسلامی وشرعی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔
اس طرز فکر کے حق میں بہت سے نظری وشرعی استدلالات بھی پیش کیے جاتے ہیں، تاہم بنیادی طور پر اس فکر کا ذہنوں میں پیدا ہونا شرعی دلائل پر کسی غور وفکر کا نتیجہ نہیں۔ اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے یہ ایک نفسیاتی ردعمل ہے جس میں انسانی ذہن ارد گرد کے ماحول کے ساتھ ایک خاص طرح کا منفی تعلق متعین کرتا ہے اور پھر اس کے اظہار کے لیے ایسے وسائل اور ذرائع تلاش کرتا ہے جو اس کے احتجاج، نفرت اور بے زاری کا ابلاغ شدت اور جارحیت کے ساتھ کر سکیں۔
اہم بات یہ ہے کہ سوچ کا یہ زاویہ ان عناصر کے ساتھ خاص نہیں جنھیں ہم ’’انتہا پسند‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کی پوری پوری عکاسی ہمیں اپنے یہاں کی عام مذہبی سوچ میں بھی ملتی ہے، اگرچہ عام مذہبی فکر کے مسائل وموضوعات اور ’’انتہا پسند‘‘ عناصر کے مسائل وموضوعات میں ظاہری طور پر کئی فرق موجود ہیں۔
دونوں میں مشترک چیز یہ ذہنی رویہ ہے کہ ماحول کے منفی اور ناپسندیدہ پہلوؤں پر حد سے بڑھی ہوئی حساسیت اور جھنجھلاہٹ کی عکاسی کرنے والا رد عمل ظاہر کیا جائے اور یہ فرض کر لیا جائے کہ گویا مثبت اور تعمیری طور پر کرنے کے لیے کوئی کام یا کام کے مواقع اور امکانات بالکل ناپید ہیں۔ اس ذہنی رویے کے نتیجے میں مذہبی ذہن ماحول کے صرف منکرات اور منفی پہلوؤں پر ارتکاز کرتا ہے اور اپنے طرز اظہار سے اس احساس کو مسلسل تقویت پہنچاتا ہے کہ یہاں مثبت طور پر کرنے کے لیے کوئی کام نہیں، ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں اور خاص طور پر اہل اقتدار کے خلاف احتجاج ہی واحد راستہ ہے جو موثر ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حکمران طبقوں، حتیٰ کہ آئینی وقانونی اداروں پر بے اعتمادی کی فضا کو فروغ دینا اور ہر معاملے میں تنقید کا ایسا اسلوب اختیار کرنا اس طرز فکر کا ایک لازمی تقاضا قرار پاتا ہے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہو کہ حکومت کا کوئی بھی اقدام جو مذہبی طبقات کے نزدیک غلط ہو، لازماً خلاف اسلام ہے، اسلام دشمن ایجنڈا کو آگے بڑھانے والا ہے اور اس کے پیچھے صرف اور صرف عالمی طاقتوں کا دباؤ یا انھیں خوش کرنے کا جذبہ کام کر رہا ہے۔ یہ طرز فکر چونکہ طبقاتی وگروہی سیاست کے قائدین کے لیے بے حد مفید مطلب ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنی سیاسی ضروریات کے لیے اس کا بھرپور استعمال کرتے ہیں اور قومی سطح پر اس کے ترجمان اور وکیل بن کر ہر طرح کے فکری، قانونی، سماجی اور سیاسی بحث ومباحثہ کو اس کا یرغمال بنا لیتے ہیں۔
یوں کسی تردد کے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری عمومی مذہبی فکر اپنے اظہاری رویوں کے ذریعے سے انتہا پسند فکر کو نہ صرف مسلسل غذا بہم پہنچاتی ہے، بلکہ اس کے پیش کردہ مقدمے کو بھی بالواسطہ بلکہ بعض صورتوں میں کھلی کھلی تائید فراہم کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شریعت اور اسلامی فقہ کا مزاج اور ترجیحات جس قدر anti-anarchist ہیں، ہمارے یہاں کی مذہبی فکر اور بالخصوص مذہبی سیاست میں گزشتہ تین چار دہائیوں سے اتنا ہی anarchist رجحانات نے فروغ پایا ہے۔ اس حوالے سے بعض طبقوں کے متعلق اس سے مختلف جو تاثر پایا جاتا تھا، حالیہ چند واقعات نے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ محض سطحی اور ظاہری تھا، ورنہ ہر طبقہ اپنی ترجیحات کے دائرے میں اصلاً اسی طرز فکر کا حامل ہے کہ اگر کسی خاص معاملے میں کوئی حکومتی یا ریاستی اقدام اس کے مذہبی فہم کے خلاف ہے تو پھر اس کے لب ولہجہ اور اسلوب تنقید میں اور ریاست کے ساتھ برسر پیکار انتہا پسند عناصر کے طرز استدلال میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔
ہمارے نزدیک ریاست، قانون اور معاشرتی نظم سے متعلق اس ذہنی رویے کی بنیاد طبقاتی پچھڑے پن کا وہ شدید احساس ہے جو عموماً اہل مذہب کے تحت الشعور میں کام کر رہا ہے اور انھیں یہ باور کراتا رہتا ہے کہ جس معاشرہ کی تشکیل ان کی پسند وناپسند کے مطابق نہیں ہوئی، وہ ان کی تعمیری کوششوں کا سزاوار ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ اگر کوئی کار خیر انجام دے سکتے ہیں تو بس یہی کہ اپنا وزن تخریب، انتشار اور بد نظمی پھیلانے والی طاقتوں کے پلڑے میں ڈالے رکھیں۔ اس نفسیاتی خول سے باہر نکلنا شاید اس وقت اہل مذہب کے لیے سب سے بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس نفسیات کے ساتھ تو ایک فرد، چند افراد کے ساتھ معمول کی زندگی نہیں گزار سکتا، چہ جائیکہ ایک پورا طبقہ، معاشرے میں کوئی مثبت اور تعمیری کردار ادا کر سکے۔ معاشرے کی قیادت وہی لوگ کر سکتے ہیں جو خود پر امید ہوں، لوگوں کو امید دلائیں اور مایوسی کی تاریکیوں میں امید کی کرنیں جلاتے چلے جائیں۔ جو حالات سے پیدا ہونے والی منفی ذہنیت کو مثبت رخ دیں اور لوگ ان کی باتوں میں اپنے دکھوں کا درمان پائیں۔ یہ کام سب سے بڑھ کر اہل مذہب کے کرنے کا ہے۔ اگر وہ خود ہی اس ذہنی کیفیت کا شکار ہو جائیں تو معاشرے کو دینے کے لیے ان کے پاس مایوسی، جھنجھلاہٹ اور انتہا پسندی کے علاوہ کچھ نہیں رہ جائے گا۔ وہ اگر اس نفسیات سے باہر نکل کر دیکھیں گے تو انھیں ماحول میں کرنے کا اتنا کام اور کام کے لیے اتنے ان گنت مواقع نظر آئیں گے کہ مایوسی، رنجش اور شکایت کی فرصت ہی نہیں ملے گی۔
مولانا وحید الدین خان نے معاشرے اور ماحول کو دیکھنے کے ان دونوں انداز ہائے نظر کو کیا خوبی سے واضح کیا ہے:
’’ایک صاحب سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی کہ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی میں کیا فرق ہے۔ میں نے کہا کہ تبلیغی جماعت مبنی بر مسجد (Masjid-based) تحریک ہے۔ اس کے مقابلہ میں جماعت اسلامی ایک مبنی بر پارلیمنٹ (Parliament-based) تحریک ہے۔ اس فرق کا نتیجہ یہ ہے کہ تبلیغ کو فوراً ہی اپنا میدان کار مل جاتا ہے، کیونکہ صرف ہندوستان میں اس وقت تین لاکھ مسجدیں ہیں اور ہر مسجد میں آڈینس (audience) بھی موجود ہے، جبکہ جماعت اسلامی کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ اس کا میدان عمل ابھی حاصل نہیں ہوا۔ اس کے نزدیک اصل میدان عمل پارلیمنٹ ہے اور پارلیمنٹ ابھی تک دوسروں کے قبضہ میں ہے۔
اس فرق کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ تبلیغ میں مثبت ذہن بنتا ہے اور جماعت اسلامی میں احتجاجی ذہن۔ تبلیغی جماعت کا آدمی ’پائے ہوئے‘ ذہن کے ساتھ جیتا ہے اور جماعت اسلامی کا آدمی ’کھوئے ہوئے‘ ذہن کے تحت۔ تبلیغی آدمی کے لیے ساری دنیا کے لوگ اپنے نظر آتے ہیں اور جماعتی آدمی کو ساری دنیا کے لوگ رقیب اور غیر دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۷)
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۸۲) بأیمانھم کا مطلب
یمین کی جمع أیمان ہے۔ یمین کے معنی داہنے ہاتھ کے بھی ہیں اور داہنی جانب کے بھی ہیں۔ قرآن مجید میں یمین بھی آیا ہے اور أیمان بھی آیا ہے۔ یمین کا لفظ قرآن مجید میں دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اپنے افادات میں ایک قیمتی نکتہ ذکر کیا ہے کہ اگر یمین سے پہلے حرف (باء) ہو تو مطلب ہوگا داہنے ہاتھ میں اور اگر یمین سے پہلے حرف (عن) ہو تو مطلب ہوگا داہنی جانب۔ ذیل کی قرآنی مثالوں سے یہ نکتہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے:
وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَا مُوسَی۔ (طہ: ۱۷)
’’اور اے موسیٰ تمہارے داہنے ہاتھ میں وہ کیا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ یہاں جار مجرور بطور حال آیا ہے، اس کے ساتھ کسی فعل کا ذکر نہیں ہے۔ مَا مبتدا اور تِلْکَ خبر ہے، اس سے حال بِیَمِیْنِکَ ہے۔
فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِیْنِہِ۔ (الانشقاق:۷) اور (الحاقۃ: ۱۹)
’’تو جس کو اس کی کتاب اس کے داہنے ہاتھ میں دی گئی۔‘‘
مذکورہ بالا ان دونوں آیتوں میں یمین کے ساتھ حرف (باء ) آیا ہے، اور دونوں ہی جگہ اس کا مطلب داہنا ہاتھ ہے۔ جبکہ مذکورہ ذیل دونوں آیتوں میں یمین کے ساتھ حرف (عن) آیا ہے، اور دونوں ہی جگہ داہنی جانب کے معنی میں ہے۔
فَمَالِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا قِبَلَکَ مُہْطِعِیْنَ۔ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِیْنَ۔ (المعارج: ۳۶،۳۷)
’’تو ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ داہنے بائیں سے تم پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں، گروہ در گروہ۔ ‘‘
لَقَدْ کَانَ لِسَبَإٍ فِیْ مَسْکَنِہِمْ آیَۃٌ جَنَّتَانِ عَن یَمِیْنٍ وَشِمَال۔ (سبا:۱۵)
’’اہل سبا کے لیے بھی، ان کے مسکن میں، بہت بڑی نشانی موجود تھی۔ داہنے اور بائیں دونوں جانب باغوں کی دو قطاریں۔‘‘
اسی طرح مذکورہ ذیل آیت میں یمین کی جمع لفظ أیمان آیا ہے، یہ بھی داہنی جانب کے معنی میں ہے۔
ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَن شَمَآئِلِہِمْ۔ (الاعراف:۱۷)
ہم مترجمین کے یہاں دیکھتے ہیں، کہ وہ قرآن مجید کے ان تمام مقامات پر جہاں یمین یا أیمان کے ساتھ باء یا عن آیا ہے وہاں مذکورہ بالا اصول کے مطابق ہی ترجمہ کیا ہے، البتہ دو مقامات ایسے ہیں جہاں یمین کی جمع أیمان کے ساتھ حرف (باء ) آیا ہے، اور اس لحاظ سے ترجمہ داہنے ہاتھ کا ہونا چاہیے تھا، لیکن عام طور سے ترجمہ کرنے والوں نے داہنے جانب کا ترجمہ کیا، چند ترجمے یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:
(۱) یَسْعَی نُورُہُم بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَبِأَیْْمَانِہِم۔ (الحدید: ۱۲)
ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔(سید مودودی)
دوڑتی چلتی ہے ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے داہنے۔(شاہ عبدالقادر)
ان کا نور ان کے آگے اور ان کی داہنی طرف دوڑتا ہوا۔ (اشرف علی تھانوی)
their light shining forth before them and on their right hands,. (Pickthal)
their light running forward before them and by their right hands. (Hilali & Khan)
مولانا امانت اللہ اصلاحی آیت کے مذکورہ ٹکڑے کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’ان کا نور ان کے آگے آگے رواں دواں اور ان کے دائیں ہاتھ میں ہوگا‘‘ ۔
نحوی ترکیب کے پہلو سے نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ فعل ’’یسعی‘‘ کا تعلق صرف ’’من بین أیدیھم‘‘ سے ہے، ’’بأیمانھم‘‘ سے نہیں ہے۔ ’’بأیمانھم‘‘ یہاں بجائے خبر ہے جس کا مبتدا پہلے مذکور نور کی ضمیر ہے۔
مذکورہ ذیل انگریزی ترجمہ بھی اوپر بیان کردہ اصول کے مطابق ہے:
their light running forward before them and in their right hands. (Mubarakpuri)
(۲) نُورُہُمْ یَسْعَی بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَبِأَیْْمَانِہِمْ۔ (التحریم:۸)
ان کی روشنی دوڑتی ہے ان کے آگے اور ان کے داہنے۔ (شاہ عبدالقادر)
ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑتا ہوگا۔ (اشرف علی تھانوی)
ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ (سید مودودی)
ان کی روشنی ان کے آگے آگے اور ان کے دہنے چل رہی ہوگی۔(امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی آیت کے مذکورہ ٹکڑے کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’ان کی روشنی ان کے آگے آگے رواں دواں ہوگی اور ان کے دائیں ہاتھ میں بھی ہوگی‘‘۔
مذکورہ ذیل انگریزی ترجمہ بھی بیان کردہ اصول کے مطابق ہے:
Their light will run forward before them and in their right hands. (Mubarakpuri)
مشہور مفسر اور ماہر لغت علامہ ابوحیان کی مذکورہ ذیل عبارت کے مطابق جمہور کی رائے یہی ہے کہ ان کے داہنے ہاتھ میں نور ہوگا جس سے سامنے بھی روشنی ہورہی ہوگے، البتہ وہ ایک رائے ذکر کرتے ہیں جس کی رو سے یہاں باء عن کے معنی میں ہے، اور مفہوم داہنی جانب کا ہے۔
والظاھر أن النور یتقدم لھم بین أیدیھم ، ویکون أیضا بأیمانھم، فیظھر أنھما نوران: نورٌ ساعٍ بین أیدیھم، ونورٌ بأیمانھم فذلک یضیءُ الجھۃ التی یؤُمُّونھا، وھذا یضیءُ ما حوالیھم من الجھات۔ وقال الجمھورُ: النور أصلہ بأیمانھم، والذی بین أیدیھم ھو الضوءُ المنبسط من ذلک النور۔ وقیل: الباءُ بمعنی عن، أی عن أیمانھم، والمعنی: فی جمیع جھاتھم۔ وعبّر عن ذلک بالأیمان تشریفاً لھا۔ (البحر المحیط فی التفسیر: ۱۰؍۱۰۵)
تاہم قرآن مجید کے تمام استعمالات کی روشنی میں اور خود دونوں آیتوں کے سیاق کلام کی روشنی میں بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے، کہ باء کو عن کے معنی میں لیا جائے، بلکہ زیادہ مناسب یہی ہے کہ باء کو باء کے معنی میں ہی مان کر ترجمہ کیا جائے۔
(۸۳) انظرونا کا مطلب
نظر کا فعل مختلف صیغوں کے ساتھ قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر آیا ہے، کہیں پر یہ حرف الی کے صلہ کے ساتھ آیا ہے، تو کہیں براہ راست مفعول بہ کے ساتھ، نظر کے دو معنی ہوتے ہیں، دیکھنا اور انتظار کرنا،
عام طور سے اہل لغت یہ ذکر کرتے ہیں کہ انتظار کرنے کے معنی میں نظر اس وقت ہوتا ہے جب وہ براہ راست مفعول بہ کے ساتھ ہو، البتہ دیکھنے کے معنی میں وہ ہر دو صورت میں ہوتا ہے، خواہ حرف الی کے ساتھ ہو، یا براہ راست مفعول بہ کے ساتھ ہو۔
نظرہ کنصرہ وسمعہ ، والیہ نظراً ومنظراً ونظراناً ومنظرۃً وتنظاراً: تأملہ بعینہ، ونظرہ وانتظرہ وتنظّرہ: تأنی علیہ۔ (القاموس المحیط، ص: ۴۸۴)
گویا نظرہ کے دو معنی ہوں گے اس کو دیکھا، یا اس کا انتظار کیا، اور نظر الیہ کے معنی ہوں گے اس کو دیکھا۔
تاہم ابوحیان کی تحقیق یہ ہے کہ دیکھنے کے لیے جو نظر آتا ہے اس کے ساتھ الی ضرور آتا ہے، اور الی کے بغیر نظر دیکھنے کے معنی میں صرف شعر میں (گویا شعری ضرورت کے تحت) آتا ہے۔
ولا یتعدی النظر ھذا فی لسان العرب الا بالی لا بنفسہ، وانما وجد متعدیاً بنفسہ فی الشعر۔ (البحر المحیط فی التفسیر:۱۰؍۱۰۶)
علامہ طاہر بن عاشور بھی اس رائے کی تائید کرتے ہیں:
الا أن نظر بمعنی الانتظار یتعدی الی المفعول، ونظر بمعنی أبصر یتعدی بحرف (الی)۔ (التحریر والتنویر: ۲۷؍۳۸۲)
سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نظر حرف الی کے ساتھ آیا ہے، وہ دیکھنے کے مفہوم میں ہے، اور جہاں براہ راست مفعول بہ کے ساتھ آیا ہے، وہاں انتظار کرنے یا نظر عنایت فرمانے کے معنی میں ہے۔ ذیل کی مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے:
أَفَلَا یَنظُرُونَ إِلَی الْإِبِلِ کَیْْفَ خُلِقَتْ۔ (الغاشیۃ:۱۷)
کیا وہ اونٹوں پر نگاہ نہیں کرتے، وہ کیسے بنائے گئے؟
وَتَرَاہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْْکَ وَہُمْ لاَ یُبْصِرُون۔ (الاعراف:۱۹۸)
اور تم ان کو دیکھتے ہو کہ وہ تمھاری طرف تاک رہے ہیں، لیکن انھیں سوجھتا کچھ بھی نہیں ہے۔
فَہَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَۃَ أَن تَأْتِیَہُم بَغْتَۃً۔ (محمد:۱۸)
یہ لوگ تو بس اسی بات کے منتظر ہیں کہ قیامت ان پر اچانک آدھمکے۔
فَہَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِیْنَ۔ (فاطر:۴۳)
پس کیا یہ انتظار کررہے ہیں اسی سنت الہی کا جو اگلوں کے باب میں ظاہر ہوئی۔
اول الذکر دونوں آیتوں میں الی آیا ہے، اور مطلب دیکھنا ہے، اور موخر الذکر دونوں آیتوں میں براہ راست مفعول بہ کے ساتھ آیا ہے اور انتظار کرنے کے معنی میں ہے۔
تاہم ذیل میں مذکور ایک مقام پر جہاں نظر براہ راست مفعول کے ساتھ آیا ہے، بہت سارے مترجمین نے دیکھنا ترجمہ کیا ہے، حالانکہ قرآنی استعمالات کی روشنی میں بھی اور خود اس آیت کے عمومی مفہوم کے لحاظ سے بھی ٹھہرنا اور انتظار کرنا زیادہ مناسب ترجمہ ہے، دونوں طرح کے ترجمے ذیل میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
یَوْمَ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِکُمْ۔ (الحدید: ۱۳)
اس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں۔ (سید مودودی)
wait for us that we may borrow some of your light. (Daryabadi)
Look on us that we may borrow from your light! (Pickthal)
ہمیں ایک نگاہ دیکھو کہ ہم تمہارے نور سے کچھ حصہ لیں،(احمد رضا خان)
ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کر لیں۔ (محمد جوناگڑھی)
ہماری راہ دیکھو ہم بھی سلگالیں تمہاری روشنی سے (شاہ عبدالقادر)
انتظار کرو ہمارا ہم بھی روشنی لیں نور تمہارے سے (شاہ رفیع الدین)
نظر کنید بما تا بگیریم روشنی از نور شما (شیرازی)
علامہ زمخشری نے انظرونا کے دونوں معنے مراد لیے، اس پر علامہ ابوحیان نے حسب ذیل تنقید کی، اور وہ تنقید مناسب ہے۔
قال الزمخشری: انظرونا: انتظرونا، لأنھم یسرع بھم الی الجنۃ کالبروق الخاطفۃ علی رکاب تذف بھم وھؤلاء مشاۃٌ، أوانظروا الینا، لأنھم اذا نظروا الیھم استقبلوھم بوجوھھم والنور بین أیدیھم فیستضیؤن بہ۔ انتھی۔ فجعل انظرونا بمعنی انظروا الینا، ولا یتعدی النظر ھذا فی لسان العرب الا بالی لا بنفسہ، وانما وجد متعدیاً بنفسہ فی الشعر۔ (البحر المحیط فی التفسیر: ۱۰؍۱۰۶)
(۸۴) اسم موصول کا دقیق ترجمہ
ذیل کی دونوں آیتیں ملاحظہ فرمائیں:
وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنتُم بِہِ تُکَذِّبُونَ۔ (السجدہ: ۲۰)
وَنَقُولُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیْ کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ۔ (سبا:۴۲)
ان میں الذی اور التی کا فرق ہے۔ عذاب مذکر ہے، اور اس کے لحاظ سے الذی آیا ہے، جبکہ النار مونث ہے اور اس کے لحاظ سے التی آیا ہے، دراصل جہاں الذی ہے وہاں زور اس پر ہے کہ یہ لوگ عذاب کو جھٹلاتے تھے، یعنی دوزخ کے عذاب کو، اور جہاں التی ہے وہاں زور اس پر ہے کہ یہ لوگ دوزخ کو جھٹلاتے تھے، جس دوزخ کے عذاب سے ان کو دوچار کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ وہ جھٹلاتے تو دونوں کو تھے، لیکن ایک جگہ ان کی ایک تکذیب کو نمایاں کیا گیا تو دوسری جگہ دوسری تکذیب کو نمایاں کیا گیا۔
ترجمے میں اس کا لحاظ کرنا زیادہ مناسب تھا، لیکن بعض مترجمین نے دونوں جگہ بالکل یکساں ترجمہ کیا، جو مفہوم کی ادائیگی کے لحاظ سے غلط نہیں ہے، لیکن دونوں اسلوبوں کا فرق ان سے ظاہر نہیں ہوتا ہے، جبکہ بعض ترجموں سے اس فرق کے خلاف مفہوم پیدا ہوتا ہے۔
وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنتُم بِہِ تُکَذِّبُونَ۔ (السجدہ: ۲۰)
اور ان سے کہا جائے گا کہ اب اس دوزخ کے عذاب کا مزا چکھو جس کی تم تکذیب کرتے رہے تھے۔ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمے میں تکذیب کی نسبت دوزخ کی طرف ہے، جبکہ آیت میں عذاب کی طرف ہے)
اور ان کو کہا جاوے گا کہ دوزخ کا وہ عذاب چکھو جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے(اشرف۔ علی تھانوی، اس ترجمہ میں اسلوب کی بخوبی رعایت ہے)
اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب اسی آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (سید مودودی، اس ترجمہ میں آگ پر زور ہے، حالانکہ اسلوب عذاب پر زور کا متقاضی ہے)
وَنَقُولُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیْ کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ۔ (سبا:۴۲)
اور ہم ان ظالموں سے کہیں گے کہ اب اس دوزخ کے عذاب کا مزا چکھو جس کو تم جھٹلاتے رہے ہو۔ (امین احسن اصلاحی، آپ نے دونوں جگہ ترجمہ بالکل یکساں کیا ہے، اس سے اسلوب کا فرق ظاہر نہیں ہوپاتا)
اور کہیں گے ہم ان گناہ گاروں کو چکھو تکلیف اس آگ کی جس کو تم جھوٹ بتاتے تھے۔ (شاہ عبدالقادر، اس ترجمے میں اسلوب کی اچھی رعایت نظر آتی ہے)
اور ہم ظالموں سے کہیں گے کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھٹلایا کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو۔ (اشرف علی تھانوی، اس ترجمے میں اسلوب کی رعایت کی گئی ہے)
اور ظالموں سے ہم کہہ دیں گے کہ اب چکھو اس عذاب جہنم کا مزہ جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (سید مودودی، آیت میں جہنم کو جھٹلانے پر زور ہے، اور ترجمہ میں عذاب کو جھٹلانے پر زور ظاہر ہورہا ہے، جو درست نہیں ہے)۔
(جاری)
فقہ حنفی کے امتیازات و خصوصیات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اسے اپنی امت کے ساتھ اجتماعی طور پر الوداعی ملاقات قرار دیتے ہوئے مختلف خطبات میں بہت سی ہدایات دی تھیں اور ان ارشادات وہدایات کے بارے میں یہ تلقین فرمائی تھی کہ:
فلیبلغ الشاھد الغائب فرب مبلغ اوعی لہ من سامع۔
’’جو موجود ہیں، وہ ان باتوں کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔ بسا اوقات جس کو بات پہنچائی جائے، وہ سننے اور پہنچانے والے سے زیادہ اس بات کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘
اس حفاظت کرنے میں یاد رکھنا، سمجھنا، اسے اہتمام کے ساتھ آگے پہنچانا اور صحیح طور پر استعمال میں لانا بھی شامل ہے۔ چنانچہ جب تابعین کرام کے دور میں حدیث وسنت کی حفاظت وروایت اور تفقہ واستنباط کا ایک وسیع سلسلہ سامنے آیا تو حضرت محمد بن سیرین رحمہ اللہ تعالیٰ اس کا مشاہدہ وتجربہ کرتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے: ’’صدق محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا، وہ آج ایک زندہ سچائی کی صورت میں سب کے سامنے جلوہ گر ہے۔
حدیث وسنت کی روایت اور حفاظت وترویج کا محاذ محدثین کرام نے سنبھالا اور درایت وتفقہ کا پرچم فقہائے عظام نے بلند کر دیا جبکہ ان دونوں کی جڑیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ان علمی کاوشوں میں پیوست تھیں جن کی نمائندگی کرنے والوں میں حضر ت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت انس بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ، حضرت ام المومنین عائشہؓ اور ام المومنین حضرت ام سلمہ نمایاں ہیں۔
محدثین اور فقہا کی یہ محنت وکاوش آگے بڑھی تو دائرۂ کار الگ الگ ہونے کی وجہ سے ذوق اور تفہیم واظہار کا امتیاز بھی واضح ہونے لگا اور رفتہ رفتہ یہ دونوں گروہ مستقل طبقوں کی صورت میں نمایاں ہوتے گئے۔ انسانی ذہن وفہم اور استعداد وصلاحیت کا دائرہ اور سطح کبھی ایک نہیں رہے۔ اسی تنوع واختلاف کے باعث آرا وافکار کا فرق وامتیاز ہمیشہ سے انسانی سوسائٹی میں قائم ہے جو قیامت تک موجود رہے گا اور اگر یہ اپنی حدود میں رہے تو یہی انسانی سوسائٹی کا حسن وامتیاز ہے جو اسے باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں ارتفاقات یعنی انسانی سوسائٹی کی معاشرتی بنیادوں اور تقاضوں پر بحث کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ معاشرت او رتمدن کی بنیادی ضروریات پر تو تمام اقوام متفق ہیں، مگر ان کا اظہار ہر طبقہ اپنے اپنے انداز میں کرتا ہے۔ شاہ صاحب کا ارشاد ہے:
والناس بعدھا فی تمھید قواعد الآداب مختلفون فالطبیعی یمھدھا علی استحسانات الطب والمنجم علی خواص النجوم والالھی علی الاحسان کما تجد فی کتبھم مفصلا۔
’’اصولوں پر اتفاق کے بعد لوگ آداب وضوابط کی تشکیل وتعبیر میں مختلف ہو جاتے ہیں۔ طبیب انھیں طب کی اصطلاحات اور فوائد کی زبان میں بیان کرے گا، نجومی انھی باتوں کا ستاروں کے خواص کے پس منظر میں ذکر کرتا ہے جبکہ صوفی نے اس کی وضاحت سلوک واحسان کے اسلوب میں کرنا ہوتی ہے، جیسا کہ تمھیں ان کی کتابوں میں اس کی تفصیل ملے گی۔‘‘
محدثین کرام روایت کی نمائندگی فرماتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان کے ہاں ترجیح کی بنیاد روایت کے اصول اور تقاضے ہوں گے، جبکہ فقہائے کرام درایت واستنباط کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں تو وہ تفقہ واستنباط کی ضروریات کو ترجیح دیں گے، اس لیے یہاں یہ فرق صرف ذوق واسلوب کا نہیں رہتا، بلکہ اپنے اپنے کام کی ضروریات بھی اس کا حصہ بن جاتی ہیں اور یہی بات امت میں محدثین کرام اور فقہائے عظام کے دو مستقل طبقات کے ظہور وارتقا کا باعث بنی ہے۔
قرون اولیٰ میں بہت سے محدثین کرام نے حدیث وسنت کی روایت، جمع، حفاظت، رواۃ کی نقد وجرح اور سند ومتن کی درجہ بندی کے شعبہ میں خدمات سرانجام دیں جن میں سے صحاح ستہ کے مصنفین اور امام مالک واحمد رحمہم اللہ تعالیٰ نمایاں ہو کر سامنے آئے اور تمام محدثین کے سرخیل قرار پائے۔ بالخصوص امام بخاریؒ کو سب محدثین کے سردار کے لقب سے نوازا گیا۔ اسی طرح بیسیوں فقہائے کرام نے اپنے اپنے استنباطات واستدلالات کو جمع کیا، اصول وقواعد وضع کیے، ان کے مطابق مسائل واحکام کا استنباط کیا اور اپنے اپنے علمی حلقے قائم کیے جن میں سے ائمہ اربعہ نے فقہائے کرام کی سیادت وقیادت کا اعزاز حاصل کیا اور امام اعظم ابو حنیفہؒ کی امامت عظمیٰ کی فوقیت کو سب نے تسلیم کیا۔
اہل سنت کے چاروں ائمہ حضرت امام ابو حنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ بلکہ حضرت امام داؤد ظاہریؒ کی فقہ ودرایت سے بھی امت مسلمہ نے ہر دور میں استفادہ کیا ہے، ان کے مقلدین ومتبعین لاکھوں کی تعداد میں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور آج بھی کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، مگر ان میں سب سے زیادہ امتیاز فقہ حنفی کو حاصل ہوا جس کا اعتراف واحترام اہل علم وفضل نے ہمیشہ کیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس امتیاز وتفوق کے اسباب یہ ہیں:
۔ حنفی فقہ شخصی نہیں، شورائی ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ اور ان کے تلامذہ اپنی اپنی آرا علمی مجلس میں پیش کرتے تھے۔ ان پر بحث ومباحثہ ہوتا تھا۔ جس بات پر اتفاق ہوتا تھا، وہ متفقہ موقف کی صورت میں درج ہوتی تھی۔ مختلف فیہ بات کو اختلاف کے درجہ میں رکھا جاتا تھا۔ کسی پر جبر نہیں ہوتا تھا۔ اگر مجلس کے کسی شریک کو اجتماعی رائے سے اتفاق نہیں ہوتا تھا تو اس کی رائے الگ درج کی جاتی تھی۔
شورائیت اور اجتماعیت کی یہ روایت فقہ حنفی کی تشکیل وتدوین کے بعد اس پر بوقت ضرورت نظر ثانی کے موقع پر بھی قائم رہی، چنانچہ مغل دور میں فقہ حنفی کی از سرنو ترتیب وتشریح کی ضرورت پیش آئی تو سلطان اورنگ زیب عالمگیرؒ کی سربراہی میں یہ فریضہ سیکڑوں علماء کرام پر مشتمل کونسل نے تفصیلی بحث ومباحثہ کے ذریعے سرانجام دیا جبکہ خلافت عثمانیہ کے دور میں فقہ حنفی کی بنیاد پر حالات زمانہ کے مطابق نئی قانون سازی کا مرحلہ پیش آیا تو ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ کی ترتیب وتدوین فقہا وعلما کی ایک مجلس نے مشاورت ومباحثہ کی صورت میں انجام دی۔
۔ فقہ حنفی میں روایت ودرایت کے درمیان فطری توازن کا پوری طرح لحاظ رکھا گیا ہے اور عقل ودرایت کو نص وروایت پر فوقیت دینے کے بجائے اس کے تابع کیا گیا ہے۔ فقہ حنفی میں نہ تو عقل ودرایت کی ضرورت وافادیت سے انکار کیا گیا ہے، نہ اسے نص وروایت پر ترجیح دی گئی ہے اور نہ ہی نص وروایت کے فہم واستنباط کو عقل ودرایت کی خدمت ومعاونت سے محروم کیا گیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ وہ پہلے قرآن کریم سے استنباط کرتے ہیں، پھر حدیث وسنت سے استفادہ کرتے ہیں، اس کے بعد صحابہ کرام سے رجوع کرتے ہیں اور کسی ایک صحابی کا قول بھی مل جائے تو اسے ترجیح دیتے ہیں، حتیٰ کہ احناف کے ہاں ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ احناف عقل ودرایت اور قیاس پر صرف نص کو ہی مقدم نہیں سمجھتے بلکہ نص کے آخری امکان تک کا لحاظ رکھتے ہیں۔
۔ فقہ حنفی میں عقل ودرایت کا اس کے دائرہ میں بھرپور اور فطری استعمال کیا گیا ہے اور اس سے استفادہ میں کوئی کوتاہی روا نہیں رکھی گئی، البتہ احناف کے ہاں نظری اور فلسفیانہ عقلیت کے بجائے عملی اور معاشرتی عقل ودرایت کو احکام وقوانین کی بنیاد بنایا گیا ہے، چنانچہ عرف وتعامل کا حنفی فقہ میں اس کی جائز حدود کے اندر پورا احترام کیا گیا ہے اور معاشرتی عقل سے بہت سے احکام ومسائل میں استنباط کیا گیا ہے۔
۔ فقہ حنفی کو طویل عرصہ تک رائج الوقت قانون ونظام کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ خلافت عباسیہ، خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت میں صدیوں تک عدالتی قانون کے طور پر فقہ حنفی کی عمل داری رہی ہے جس کی وجہ سے تجربات ومشاہدات کا جو ذخیرہ اس کے پاس ہے اور انسانی معاشرہ کی مشکلات کو سمجھنے اور حل کرنے کی جو صلاحیت وتجربہ اس کے دامن میں ہے، وہ (ایک حد تک فقہ مالکی کے سوا) کسی دوسری فقہ کو میسر نہیں آیا۔
فقہ حنفی کے انھی امتیازات وخصوصیات کی وجہ سے بجا طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ عالم اسلام میں عدالتی و انتظامی طور پر شرعی احکام وقوانین کے نفاذ کے جو امکانات دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں، ان میں فقہ حنفی ہی نفاذ اسلام اور تنفیذ شریعت کی علمی قیادت کی پوزیشن میں ہے۔ اس لیے یہ بات پہلے سے زیادہ ضروری ہو گئی ہے کہ فقہ حنفی کو ماضی کے معاملات وتجربات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے امکانات وضروریات کے حوالے سے بھی تحقیق ومطالعہ کا موضوع بنایا جائے اور انسانی سوسائٹی کی ضروریات ومشکلات کے دائرہ میں فقہ حنفی کی افادیت واہمیت کو علمی اسلوب اور فقہی انداز میں واضح کیا جائے۔
فقہ حنفی کو اس امتیاز وتفوق کے پس منظر میں فطری طور پر کچھ الزامات واعتراضات کا بھی ہر دور میں سامنا رہا ہے جن میں بعض کا تعلق دائرۂ کار اور ذوق واسلوب کے فرق وتنوع سے ہے، بعض اعتراضات نے غلط فہمی کے باعث جنم لیا ہے، کچھ الزامات معاصرت کی پیداوار ہیں اور ان میں ایسے اعتراضات بھی موجود ہیں جو ’’حَسَداً مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ‘‘ کا مصداق قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان الزامات واعتراضات کا دفاع مختلف ادوارمیں اہل علم نے کیا ہے اور صرف احناف نے نہیں، بلکہ منصف مزاج غیر حنفی علما وافاضل اس دفاع میں پیش پیش رہے ہیں جو یقیناًامام اعظم کے خلوص ودیانت اور علم وفضل کی ’’خدائی تائید‘‘ ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔
ان اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے جو امام اعظم پر قلت روایت حدیث اور اپنے قیاسات میں احادیث کی مبینہ مخالفت کے عنوان سے مسلسل لگایا اور دہرایا جا رہا ہے، حالانکہ سادہ سی بات ہے کہ اگر امام صاحب پر اعتراض یہ ہے کہ انھوں نے سیکڑوں مسائل میں حدیث معلوم ہونے کے باوجود اس کی مخالفت کی ہے تو ’’قلت معرفت حدیث‘‘ کا الزام محل نظر ہے اور اگر احادیث معلوم نہ ہونے کی وجہ سے قیاس پر اعتراض کیا جا رہا ہے تو یہ ’’مخالفت حدیث‘‘ کا اعتراض نہیں بنتا، لیکن اس کے باوجود اس الزام کا مسلسل اعادہ کیا جا رہا ہے اور طعن وتشنیع کا بازار گرم رکھنے میں ہی تسکین محسوس کی جا رہی ہے۔
اس تناظر میں کچھ عرصہ قبل عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر حفظہ اللہ تعالیٰ نے ’’امام اعظم ابو حنیفہ اور عمل بالحدیث‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو ۱۹۹۶ء میں شعبہ نشر واشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی طرف سے شائع ہوئی اور اس پر بہت سے اہل علم، بالخصوص اس کے دادا محترم اور استاذ گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ نے مسرت کا اظہار کیا اور اسے انعام سے بھی نوازا۔ مجھے بھی اس پر بے حد خوشی ہوئی، لیکن اس کے ساتھ ایک ضرورت کا احساس پیدا ہوا کہ ہمارے ہاں عام طور پر الزامات کا جواب تو دے دیا جاتا ہے، مگر الزامات واعتراضات کے پس منظر اور اسباب کی وضاحت نہیں کی جاتی جس سے عام قاری تو کسی حد تک مطمئن ہو جاتا ہے، مگر مطالعہ وتحقیق کے دائرہ کے لوگ پوری طرح تشفی حاصل نہیں کر پاتے اور کچھ سوالات ان کے ذہنوں میں ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہوا کہ اس کتاب کی دوسری بار اشاعت کے موقع پر اس حوالے سے اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھا جائے جس میں اس ضرورت کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔
’’امام اعظم ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث‘‘ بنیادی طور پر دوسری صدی ہجری کے عظیم محدث حضرت امام ابن ابی شیبہؒ کی طرف سے ان کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں حضرت امام ابوحنیفہؒ پر اس حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات کا ناقدانہ جائزہ ہے۔ یہ جائزہ اس سے قبل بھی بہت سے اہل علم کی طرف سے سامنے آ چکا ہے، مگر عزیزم عمار نے اسے اردو میں ایک نئے اسلوب کے ساتھ مرتب کر کے پیش کیا اور اسی وجہ سے میرے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اعتراضات کے جوابات کے ساتھ ساتھ اعتراضات کے پس منظر اور اس دور کے علمی ماحول کی معروضی صورت حال کا تذکرہ بھی مناسب انداز میں ضروری ہے۔ میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ موقع آنے پر یہ خدمت میں سر انجام دوں گا، مگر متنوع مصروفیات اور مختلف اشغال کی گہماگہمی میرے لیے بہت سے ضروری کاموں میں ایک ناقابل عبور رکاوٹ سی بن کر رہ گئی ہے اور لگتا ہے کہ ان کی حسرت میرے ساتھ ہی دنیا سے کوچ کر جائے گی۔
اس دوران میں عزیزم عمار نے بتایا کہ اس نے احادیث سے فقہائے احناف کے استنباط کے منہج کے موضوع پر ایک کتاب مرتب کی ہے جو ’’فقہائے احناف اور فہم حدیث۔ اصولی مباحث‘‘ کے عنوان سے شائع ہو رہی ہے تو میں نے اس کا مسودہ ایک نظر دیکھا اور محسوس کیا کہ جو کچھ میں چاہ رہا تھا، وہ کافی حد تک اس میں شامل ہے۔ یہ اپنے موضوع پر ایک مستقل کتاب ہے جو اپنے موضوع کے بہت سے ضروری پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور اس میں میرے لیے زیادہ خوشی کا پہلو یہ ہے کہ مصنف کے دادا محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے علمی وتحقیقی ذوق کی جھلک اس میں کسی حد تک دکھائی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نظر بد سے بچائیں اور اس علمی کاوش کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے نافع بنائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
ایک نئے تعلیمی نظام کی ضرورت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جامعہ دارالعلوم کراچی کے عصری تعلیم کے ادارے ’’حرا فاؤنڈیشن سکول‘‘ کی ایک تقریب کی رپورٹ اخبارات میں نظر سے گزری جو سکول کے اکتیس حفاظ قرآن کریم کی دستار بندی کے حوالہ سے منعقد ہوئی۔ اس میں حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے علاوہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور مولانا مفتی محمد نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں اپنے خطاب کے دوران مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ:
’’ہمیں ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس میں دینی اور دنیوی تعلیم اکٹھی دی جائے، جہاں دین کی بنیادی معلومات سب کو پڑھائی جائیں۔ اس کے بعد ہر ہر شعبہ میں اختصاص کے مواقع دیے جائیں۔ یہ نظام تعلیم ہمارے اسلاف کی تاریخ سے مربوط چلا آرہا ہے۔‘‘
مفتی صاحب محترم کا یہ ارشاد پڑھ کر دل سے بے ساختہ ’’تری آواز مکے اور مدینے‘‘ کی صدا بلند ہوئی اور ماضی کی بعض یادیں تازہ ہوگئیں۔ یہ بات سب سے پہلے حضرت مفتی صاحب کے والد گرامی مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس اللہ سرہ العزیز نے اب سے کوئی چھ عشرے قبل فرمائی تھی، جبکہ گزشتہ صدی کے آخری عشرہ کے آغاز میں وفاقی حکومت کے قائم کردہ ’’قومی تعلیمی کمیشن‘‘ کی ایک خصوصی کمیٹی کے کنوینر جسٹس (ر) محمد ظہور الحق کے استفسار کے جواب میں راقم الحروف نے بھی یہی گزارش تحریر کی تھی۔ اس وقت مجھے حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے ارشاد کا علم نہیں تھا، بعد میں ایک موقع پر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی زبان سے اس کا تذکرہ سنا تو دل کو اطمینان ہوا کہ
متفق گردید رائے بو علی با رائے من
اس سوال نامہ کا جواب قومی تعلیمی کمیشن کو بھجوانے کے علاوہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ کے جنوری ۱۹۹۲ء کے شمارہ میں شائع ہوگیا تھا۔ اسے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے سے قبل یہ عرض کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پرائیویٹ دائرہ میں اس سمت کام کا آغاز پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی ہوگیا تھا۔ ہماری معلومات کے مطابق سب سے پہلے ٹیکسلا میں حضرت مولانا محمد داؤدؒ اور ان کے رفقاء نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی سرپرستی اور راہ نمائی میں ’’تعلیم القرآن ہائی سکول‘‘ کے نام سے یہ سلسلہ شروع کیا تھا جس کے نظام میں دینی و عصری علوم کو جمع کیا گیا تھا، تب سے اس پہلو پر ملک کے مختلف حصوں میں تجربات کا سلسلہ جاری ہے۔
اس رخ پر ایک اعلیٰ سطحی کوشش گزشتہ صدی کے چھٹے عشرہ کے دوران لاہور کے قریب سرائے مغل میں ’’جامعہ حمیدیہ‘‘ کے نام سے بھی کی گئی تھی جس کے محرکین میں حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ ، آغا شورش کاشمیریؒ اور مولانا محمد اکرمؒ (الہلال فونڈری) بھی شامل تھے۔
گوجرانوالہ میں ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے عنوان سے یہی تجربہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کی سرپرستی اور راہ نمائی میں کیا گیا جو اب ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے مصروف کار ہے۔ جامعہ خالد بن ولیدؓ وہاڑی، جامعہ حنفیہ بورے والا، ادارہ علوم اسلامی بہارہ کہو اسلام آباد، اور جامعۃ الرشید کراچی اسی محنت کی ارتقائی صورتیں ہیں جبکہ ان کی طرز پر ملک کے مختلف حصوں میں ہماری معلومات کے مطابق بیسیوں ادارے اس سمت محنت اور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس حوالہ سے حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے کسی پیش رفت کی تو بظاہر کوئی توقع نہیں ہے، البتہ پرائیویٹ سطح پر اس دائرہ میں کام کرنے والے ادارے باہمی مشاورت کا کوئی نظام وضع کر لیں تو اس محنت کو نہ صرف مربوط بنایا جا سکتا ہے بلکہ بہتر پیش رفت کے راستے بھی نکالے جا سکتے ہیں۔ اس لیے ہماری رائے میں دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کے دائرہ میں کام کرنے والے اداروں کا کوئی مشترکہ مشاورتی اجلاس وقت کی اہم ضرورت ہے جس میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کیا جائے اور باہمی مشاورت کے ساتھ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس اللہ سرہ العزیز کے اس حسین خواب کی عملی تعبیر کی کوئی شکل اختیار کی جائے۔ دروازہ تو ہم نے کھٹکھٹا دیا ہے، دیکھیں کنڈی کھولنے کے لیے کون آگے بڑھتا ہے؟
ان گزارشات کے ساتھ ۱۹۹۲ء کے قومی تعلیمی کمیشن کی خصوصی کمیٹی کا سوالنامہ اور اس کا جواب قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوالنامہ:
محترم و مکرم۔ السلام علیکم!
حکومت پاکستان نے شریعت کے نفاذ کے لیے اپنی کاوشوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ شریعت بل ۱۹۹۱ء کے تحت قومی تعلیمی کمیشن برائے اسلامائزیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کمیشن کی پہلی نشست ۳ستمبر ۱۹۹۱ء کو ہوئی تھی او رکمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ کمیٹی نمبر ۵ کا میں کنوینر ہوں۔ یہ کمیٹی دینی مدارس کے مسائل، ضروریات اور سہولتوں کے مسائل پر غور و فکر کر رہی ہے۔ دینی مدارس کے مسائل کا علم آپ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے میں کمیشن کی اعانت فرمائیں، اور دینی مدارس کو کیا سہولتیں حکومت سے درکار ہو سکتی ہیں، اس کی وضاحت فرما دیں۔
سفارشات ۵ دسمبر سے پہلے ارسال فرما دیں۔
۱۔ دینی مدارس کو حکومت کی مالی معاونت کی ضرورت سے متعلق آپ کی تجاویز۔
۲۔ دینی مدارس کے مسائل اور ضروریات۔
۳۔ دینی مدارس کو حکومت کس طرح کی سہولتیں مہیا کرے؟
۴۔ جدید نظام تعلیم کو اسلامی خطوط پر کس طرح استوار کیا جائے؟
۵۔ دینی مدارس میں جدید علوم کو کس طرح متعارف کرایا جائے؟
۶۔ یہ بھی درخواست ہے کہ دینی مدارس اور عام مدارس کے نصاب اور نظام میں کس طرح ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں بھی اپنی تجاویز تحریر فرما دیں، نوازش ہوگی۔
تعاون کا پیشگی شکریہ، والسلام
جسٹس (ریٹائرڈ) محمد ظہور الحق،
کنوینر نیشنل ایجوکیشن کونسل، اسلام آباد
جواب:
حکومت پاکستان کے قائم کردہ نیشنل ایجوکیشن کمیشن کی کمیٹی نمبر ۵ نے دینی مدارس اور مروجہ تعلیمی اداروں کے نصاب و نظام میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جو سوالنامہ جاری کیا ہے، اگرچہ اس میں چھ سوالات ہیں، لیکن یہ سب سوالات بنیادی طور پر دو سوالوں پر مشتمل ہیں۔ ایک یہ کہ عصری، اسکولوں اور کالجوں کے نصاب و نظام کے ساتھ دینی مدارس کے نصاب و نظام کو کس طرح زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ دینی مدارس کو درپیش مسائل و ضروریات میں حکومت کیا تعاون کر سکتی ہے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، اس ضمن میں یہ گزارش ہے کہ اگرچہ یہ بظاہر ایک دلکش اور خوشنما تصور ہے لیکن اصولی طور پر یہ غلط اور غیر منطقی سوچ ہے۔ کیونکہ اس سوچ کی بنیاد ان دونوں نظام ہائے تعلیم کی جداگانہ ضروریات و اہمیت کو تسلیم کرنے پر ہے، اور یہ ضرورت و اہمیت بجائے خود محل نظر ہے۔
عصری اسکولوں اور کالجوں کا نظام تعلیم مستقل حیثیت کا حامل ہے، جبکہ دینی مدارس کا نظام تعلیم اس سے بالکل مختلف اور الگ حیثیت رکھتا ہے۔ ان دونوں کا آغاز ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اس دور کی قومی ضروریات کے پیش نظر ہوا تھا۔ دونوں تعلیمی نظاموں کی بنیاد خوف اور تحفظات پر تھی۔ جدید تعلیم کا نظام کھڑا کرنے والوں کے سامنے یہ خوف تھا کہ اگر مسلمانوں نے انگریزی تعلیم حاصل نہ کی تو وہ نئے قومی نظام میں شریک نہیں ہو سکیں گے اور ان کے ہندو معاصرین اس دوڑ میں آگے بڑھ کر قومی زندگی پر تسلط جما لیں گے جس سے مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔ جبکہ دینی تعلیمی نظام کے بانیوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر قرآن و سنت اور عربی علوم کی تعلیم کا اہتمام نہ کیا گیا تو مسلمانوں کا رشتہ اپنے مذہب اور اعتقاد سے کٹ جائے گا اور وہ دینی تشخص سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ دونوں خوف اپنی اپنی جگہ صحیح تھے اور انہی کی بنیاد پر دو الگ اور مستقل نظام ہائے تعلیم وجود میں آگئے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد ان میں سے کسی خوف کے تسلسل کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا تھا اور قومی دانشوروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان خدشات کی نفی کرتے اور دونوں محاذوں پر قوم کو خوف سے نجات دلا کر خوف اور تحفظات کی بنیاد پر تشکیل پانے والے دونوں تعلیمی نظاموں کے یکسر خاتمہ کی راہ ہموار کرتے، لیکن بدقسمتی سے اب تک ایسا نہیں ہوا۔ اور ہم حصول آزادی کے تقریباً نصف صدی بعد بھی تعلیمی پالیسیوں کے لحاظ سے ابھی تک انیسویں صدی کے اواخر کے ذہنی دائروں میں کولہو کے بیل کی طرح چکر کاٹ رہے ہیں۔
کالجوں اور دینی مدارس کے نصاب و نظام میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہماری بنیادی تعلیمی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض ایڈہاک ازم ہے جو کسی ٹھوس اور واضح تعلیمی پالیسی کے جڑ پکڑنے تک ایک عبوری اور عارضی انتظام کا درجہ تو پا سکتی ہے لیکن یہ ہمارے تعلیمی مسائل کا حل نہیں ہے۔ اور اگر سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو دونوں نصابوں کو مکمل طور پر ہم آہنگ کرنا قابل عمل اور ممکن بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اگر دونوں نصاب پورے کے پورے یکجا کر دیے جائیں تو طلبہ کی میسر کھیپ میں سے شاید پانچ فیصد اسے بمشکل کور کر سکیں۔ اور اگر ایک کو بنیاد بنا کر دوسرے نصاب کی چند چیزیں اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے تو اسے ’’ہم آہنگی‘‘ قرار دینا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے ہمارے نزدیک یہ تصور ہی سرے سے غلط ہے کہ دونوں نظام ہائے تعلیم کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ جرأت و حوصلہ سے کام لے کر ان دونوں نظام کی نفی کرتے ہوئے ایک نئے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جائے۔ ان دو نظام ہائے تعلیم کی نفی کا مطلب ان کے قومی کردارکی نفی نہیں ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے دائرے میں قوم کی خدمت کی ہے اور ان میں سے کسی کے کردار کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کی ضرورت اور اہمیت کا دور گزر چکا ہے اور دونوں نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکے ہیں۔ اس لیے انہیں مصنوعی تنفس کے ذریعے سے زندہ رکھنے کی کوشش نہ عقل و دانش کا تقاضا ہے اور نہ ہی ایسا کرنا نئی نسل کے ساتھ انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا۔ ہمارے خیال میں قومی تعلیمی کمیشن کا اصل رول یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک نئے اور انقلابی تعلیمی نظام کے لیے قوم کی ذہن سازی کرے اور دونوں طبقوں کے ماہرین تعلیم کو اعتماد میں لے کر نئے تعلیمی نظام کا ڈھانچہ تشکیل دے۔
نئے تعلیمی نظام کو بنیادی شخصی ضروریات اور قومی تقاضوں کے دو دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک تعلیمی نظام کا پہلا حصہ بنیادی شخصی ضروریات پر مشتمل ہونا چاہیے جبکہ دوسرے حصے میں قومی ضروریات کو ایک حسین توازن و تناسب کے ساتھ سمو دینا چاہیے۔ مثلاً اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر شہری کی بنیادی ضروریات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ اس کی مادری اور علاقائی زبان پر اسے عبور ہو اور وہ اسے لکھنے پڑھنے پر قادر ہو۔
۲۔ قومی زبان اردو پر بھی اسے یہی قدرت حاصل ہو۔
۳۔ دینی زبان عربی کے ساتھ اس کا اتنا تعلق ضرور ہو کہ وہ قرآن و حدیث کو سمجھ سکے۔
۴۔ بین الاقوامی زبان انگریزی پر بھی اسے دسترس حاصل ہو۔
۵۔ عقائد، عبادات، اخلاق اور معاملات کے بارے میں اسے اتنا دینی علم حاصل ہو کہ وہ ایک صحیح مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کر سکے۔
۶۔ اتنا حساب کتاب جانتا ہو کہ روز مرہ کے معاملات میں اسے دقت پیش نہ آئے۔
۷۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات اسے اس قدر ضرور واقف ہو کہ قومی تقاضوں کو سمجھ سکے۔
۸۔ وہ جدید سائنسی علوم کے بارے میں بھی بنیادی معلومات سے بہرہ ور ہو۔
ہماری تجویز یہ ہے کہ ان بنیادی ضروریات پر مشتمل نصاب تعلیم کو میٹرک تک از سر نو مرتب کیا جائے اور اسے ہر شہری کے لیے قانوناً لازمی قرار دے دیا جائے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے کے تعلیمی نظام میں قومی تقاضوں کو سامنے رکھ کر شعبوں کی تقسیم کی جائے۔ مثلاً ہمیں اچھے علماء کی ضرورت ہے، بہترین سائنس دانوں کی ضرورت ہے، قابل ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، ماہر انجینئروں کی ضرورت ہے، اسی طرح زندگی کے دوسرے شعبوں میں ماہرین درکار ہیں۔ اس لیے میٹرک کے بعد ہر طالب علم کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے ذوق اور صلاحیت کے مطابق ان میں سے کسی ایک شعبہ میں تعلیم و مہارت حاصل کرے۔ اور قومی پالیسی کے طور پر ایک ایسا توازن قائم کیا جائے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کی ضروریات تناسب کے ساتھ پوری ہوتی رہیں۔
دوسرا اہم سوال دینی مدارس کی ضروریات و مسائل میں حکومت کے ممکنہ تعاون کی صورت کے بارے میں ہے۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ دینی مدارس معاشرہ میں قرآن و سنت اور دیگر دینی علوم کی ترویج اور بقا و تحفظ کا جو کردار ادا کر رہے ہیں وہ بہت بڑی قومی خدمت ہے۔ اور جب تک دینی تعلیم کی تمام ضروریات کو اپنے اندر سمونے والا کوئی ہمہ گیر نظام تعلیم وجود میں آکر مستحکم نہیں ہو جاتا، اس وقت تک دینی مدارس کی ضروریات اور ان کا کردار بہرحال ایک ناگزیر قومی تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ دینی مدارس کا یہ کردار ان کے اس آزادانہ نظام کی بدولت ہی تاریخ میں اپنی جگہ بنا سکا ہے جو ہر دور میں حکومت کی سرپرستی اور دخل اندازی سے بے نیاز رہا ہے۔ اگر دینی مدارس کو وقت کی حکومتوں کی دخل اندازی سے آزادی اور بے نیازی حاصل نہ ہوتی تو ان کی خدمات اور جدوجہد کے نتائج کی موجودہ شکل سامنے نہیں آسکتی تھی۔ اس لیے ہمارے نزدیک دینی مدارس کا سب سے بڑا مسئلہ اور ان کی سب سے اہم ضرورت ان کے آزادانہ تعلیمی کردار کا تحفظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو دینی ادارے اپنے معاشرتی کردار کی اہمیت سے شعوری طور پر آگاہ ہیں وہ ہر دور میں سرکاری امداد قبول کرنے سے گریزاں رہے ہیں، اور آج بھی بے نیازی کی اسی روش پر گامزن ہیں۔ محتاط دینی اداروں کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتوں کا اسلام کے ساتھ تعلق مخلصانہ اور نظریاتی نہیں بلکہ مصلحت پرستانہ ہے، اور وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی سرکاری امداد حکومت کی پالیسیوں اور مصلحتوں کے ساتھ کسی نہ کسی درجے میں وابستگی کا احساس ضرور پیدا کر دیتی ہے۔ پھر بعض تجربات نے اس احساس کو بھی جنم دیا ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں آنے کے بعد دینی مدارس شاید اپنے موجودہ کردار کو برقرار نہ رکھ سکیں گے، جیسا کہ محکمہ تعلیم کی تحویل میں آنے والے جامعہ عباسیہ بہاولپور اور محکمہ اوقاف کے کنٹرول میں آنے والے جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ کے انجام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے اگر حکومت دینی مدارس کو ان کے آزادانہ کردار کے تحفظ کا یقین اور اعتماد دلا سکے تو یہ ان مدارس کے ساتھ حکومت کا سب سے بڑا تعاون ہوگا۔ اور پھر آزادانہ کردار کے تحفظ کے ساتھ دینی مدارس کے اخراجات میں بھی ان سے تعاون، ان کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں ماہرین کے ذریعے سے ان کی راہنمائی، ان کی سندات کی مسلمہ حیثیت کو یقینی اور قابل عمل بنانے اور ان کے درمیان رابطہ و تعاون کی فضا کو بہتر بنانے کے اقدامات کے ذریعے سے حکومت دینی مدارس کی بہتر خدمت کر سکتی ہے۔
سوڈان میں غروب آفتاب
محمد اظہار الحق
سنیچر تھا اور مارچ کی پانچ تاریخ۔ صبح کا وقت تھا جب ڈاکٹر حسن الترابی اپنے دفتر میں بے ہوش ہوگئے۔ انہیں فوراً خرطوم کے رائل انٹرنیشنل ہسپتال میں لے جایا گیا۔ پھر دل کا دورہ پڑا اور سوڈان کا یہ فرزند، جس نے صرف اپنے خطے میں نہیں، پورے عالم اسلام میں بلکہ پوری علمی اور سیاسی دنیا میں اپنا اثرورسوخ قائم کیا تھا، اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوگیا۔ ہم سب نے لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے!
حسن الترابی سوڈان کے صوبے کسالہ میں 1932ء میں پیدا ہوئے۔ خرطوم یونیورسٹی سے قانون میں ڈگری حاصل کی۔ پھر انگلستان جا کر پڑھتے رہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری سوربون یونیورسٹی پیرس سے لی۔ عربی ان کی مادری زبان تھی۔ انگریزی، فرانسیسی اور جرمن روانی سے بولتے تھے۔ صدر جعفر نمیری نے انہیں اٹارنی جنرل مقرر کیا۔ سیاسی کیریر ان کا تلاطم خیز رہا۔ مخالفین نے الزام لگایا کہ صدر حسن البشیرنے سوڈان کو ’’پولیس سٹیٹ‘‘ بنایا تو حسن الترابی نے اس کا ساتھ دیا۔ وہ جہادیوں کے بھی حامی رہے۔ کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے ہوئے تو حسن الترابی نے ان حملوں کو ’’'قابل فہم‘‘ قرار دیا۔ ان کا یہ قول بہت مشہور ہوا کہ ’’اگر آپ جبر اور ظلم کا مقابلہ کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں تو انہیں حریت پسند اورانقلابی کہتے ہیں۔ نہ پسند کریں تو یہی حریت پسند ''دہشت گرد‘‘ بن جاتے ہیں!‘‘
خلیج کی جنگ چھڑی تو سعودی امریکی اتحاد کی شدید مخالفت کی۔1990۔91ء میں ’’عرب اینڈ اسلامک کانگریس‘‘ بنائی اور پورے عالم اسلام سے شیعہ اور سنی تنظیموں کو اکٹھا کیا۔ ان میں پی ایل او اور حزب اللہ بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر ترابی نے سیاسی علمی اور قانونی سفر میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ تین سال لیبیا میں جلا وطن رہے۔1992ء میں اوٹاوا( کینیڈا) کے ہوائی اڈے پر ایک سوڈانی نے، جو سیاسی مخالف تھا، ڈاکٹر صاحب پر چاقو سے حملہ کیا۔ یہ شخص کراٹے کا ماہر تھا اور بلیک بیلٹ جیتے ہوئے تھا۔ حملہ شدید تھا۔ حملہ آور نے سمجھا کہ وہ ختم ہوگئے۔ انہیں روبصحت ہونے میں بہت وقت لگا۔مگر ڈاکٹر حسن الترابی کا اصل کارنامہ ان کا وہ موقف ہے جو مسلمانوں کو پیش آنے والے گمبھیرمسائل پر انہوں نے فقہی اور علمی اعتبارسے پیش کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک متنازع میدان تھا۔ اس پر بہت لے دے ہوئی۔ کفر کے فتوے لگے۔تاہم مجموعی طور پر مسلمانوں نے خاص طور پر وہ جو غیر مسلم ملکوں میں قیام پذیر تھے، ان کے موقف کو سراہا۔
روزنامہ الشرق الاوسط، دنیا کا معروف ترین عربی روزنامہ ہے۔ اس کا اجراء لندن سے 1978ء میں ہوا تھا۔ اب یہ چار براعظموں کے چودہ شہروں سے شائع ہوتا ہے اور پوری دنیائے عرب میں مقبول ہے۔ اپریل 2006ء میں اسی نے جدید مسائل پر ڈاکٹر صاحب سے ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کے مندرجات، قدرے اختصار کے ساتھ، قارئین کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم ان کے موقف سے اتفاق کریں۔ یہ بھی لازم نہیں کہ اختلاف برائے اختلاف ہو۔ مقصد جدید مسائل کے حوالے سے ذہنی وسعت اور قوت برداشت پیدا کرنا ہے اوراس احساس کو اجاگر کرنا ہے کہ اسلام ہر زمانے میں قابل عمل ہے۔
سوال: مسلمان عورت اور نصرانی یا یہودی لڑکے درمیان شادی کے معاملے میں آپ کا فتویٰ بہت متنازع ہوا ہے۔ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ شادی شدہ عورت اسلام قبول کرنے کے بعد غیر مسلم شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے؟
جواب: پہلے تو اسی مسئلے کو اجتہاد کے نقطہ نظر سے دیکھنا ہوگا۔ آج کے مسلمان ، عورت کے حوالے سے قابل اعتماد اسلامی قوانین کی پروا نہیں کرتے اور اپنی بیٹیوں کی شادی کے سلسلے میں غورو فکر نہیں کرتے۔ یہ فتویٰ اس صورت حال کے پیش نظر دیا گیا تھا جو مسلمان کمیونٹی کو امریکہ میں پیش آ رہی ہے۔ ایک امریکی عورت قبول اسلام کے لیے ایک اسلامی مرکز میں گئی۔ اسے بتایا گیا کہ وہ قبول اسلام کے بعد شوہر کے ساتھ نہیں رہ سکتی، خواہ اسے غیر معمولی مالی قیمت ادا کرنی پڑے یا بچوں کو بھی چھوڑنا پڑے۔ ان حضرات نے بالکل نہیں سوچا کہ ابھی تو وہ پہلا قدم اٹھا رہی تھی اور یہ کہ اس رویہ سے عورتیں مسلمان ہونے سے گریز کریں گی۔فتویٰ دینے سے پہلے مجھے خاصی تحقیق کرنا پڑی اور فقہ کی اکثر وبیشترکتابیں دیکھنا پڑیں۔ تمام فتوے جنہوں نے مسلمان عورت اور غیر مسلم مرد کی شادی کو منع کیا تھا، ان زمانوں کے تھے جب مسلمانوں اور غیر مسلموں میں جھگڑے اور لڑائیاں ہورہی تھیں۔ دوسری طرف قرآن اور سنت میں ایسی شادیوں کے خلاف مجھے ایک لفظ بھی نہ ملا۔
اس خاص واقعہ کے حوالے سے میرا موقف یہ تھا کہ وہ عورت مسلمان ہونے کے بعد اپنے غیر مسلم شوہر کے ساتھ ہی رہتی اور شوہرکے قبول اسلام کی وجہ بن جاتی۔ مسلمان ہونے والی باقی عورتوں کے خاندان بھی پیروی کرتے۔ مجھے اس موقف کے بعد بہت اعتراضات موصول ہوئے۔ کچھ نے مجھے کافر بھی قراردیا۔ لوگوں نے اسے عزت اور بے عزتی کا مسئلہ بنالیا۔ حالانکہ زیادہ امکان یہی تھا کہ شوہر بھی مسلمان ہو جاتا۔ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کا مفاد بھی اسی میں تھا۔ مسلمان اقلیتوں کو جو ''اہل کتاب‘‘ کے ملکوں میں رہ رہی ہیں خود اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے اور خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا مناسب ہے کیونکہ صورت حال کا سامنا انہی کو ہے۔ وہ اس نتیجے پر ہی پہنچیں گی کہ انہیں اہل کتاب سے شادیاں کرنے کے لیے بیٹیوں کو اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ قوی امکان یہ ہے کہ وہ شوہروں کو اپنے راستے پر لے آئیں گی!
(غیر مسلم عورت کے قبول اسلام پر شوہر کو نہ چھوڑنے کے متعلق ''یورپی کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ‘‘ نے بھی وہی فتویٰ دیا ہے جو حسن الترابی نے دیا۔ اس کونسل میں لبنان، سوڈان، سعودی عرب، ماریطانیہ، کویت اور یو اے ای کے علاوہ مغربی ملکوں کے ممتاز علماء بھی شامل ہیں۔ معروف فقیہ یوسف القرضاوی بھی کونسل کے ممبر ہیں)۔
سوال: آپ نے ایک اور متنازع بات بھی کہی کہ گواہی میں مرد اور عورت برابر ہیں؟
جواب: بھائی ، میری بات سنے اور سمجھے بغیر، فیصلہ نہ کیجیے۔ جس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے، اس میں قرضے کو ضبط تحریر میں لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس میں حکم ہے کہ ایک لکھنے والا ہو اور معاہدے کی تصدیق کے لیے گواہ ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’عورتوں میں سے ایک بھول نہ جائے‘‘، یہ نہیں فرمایا کہ وہ یقیناًبھول جائے گی۔ ایک اور مقام پر کلام پاک میں دو انصاف پسند گواہوں کی بات کی گئی ہے جو کسی کی موت پر گواہی دیں گے۔ یہاں جنس کی تخصیص ہی نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندان میں کسی کی موت کے وقت زیادہ امکان یہ ہے کہ خواتین اس وقت پاس ہوں گی۔ یہاں مردوں اور عورتوں کی گواہی کے لیے ایک ہی معیار ہے۔
بہت سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ گواہی دینے کی کئی صورتیں ہیں۔ جیسے معاہدے کی تصدیق ، یا جج یا وکیل کے سامنے شہادت دینا! آج کے عہد میں بہت سی خواتین وکالت میں اور بزنس میں نام پیدا کر رہی ہیں۔ بہت سے مرد ان کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتے۔ ابتدائے اسلام میں بزنس اور تجارت میں خواتین ناتجربہ کار تھیں! یہ اب جج پر منحصر ہے کہ وہ کس کو گواہ کے طور پر قبول کرتا ہے۔
سوال: کیا آپ نے فتویٰ دیا ہے کہ عورت نماز پڑھا سکتی ہے؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ منع کس نے کیا ہے؟ یہ تو آپ لوگوں کا رواج اور روایات تھیں جو عورت کو نماز گھرپر پڑھواتی رہیں نہ کہ مسجد میں۔ یہ قرآن اور حدیث کا حکم تو نہ تھا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ تھیں جو مردوں کو نماز پڑھاتی رہیں۔ اگر کوئی خاتون نیک ہے تو اسے نماز پڑھانی چاہیے اور اگر کسی کا خیال اسے دیکھ کر کسی اور سمت بھٹک جاتا ہے تو اسے بیمار (ذہنیت کا)سمجھنا چاہیے! مرد کے نماز پڑھاتے وقت ہم کیا اس کی سفید داڑھی یا بدصورت چہرہ دیکھ پاتے ہیں؟ ہم یہ سنتے ہیں کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ عالم فاضل اور نیک خواتین کا بھی یہی معاملہ ہونا چاہیے۔
سوال: امام مہدی کی آمد پر بھی آپ کے خیالات مختلف ہیں؟
جواب: اس ضمن میں کئی احادیث ہیں! تاہم میں مسلمانوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے امام مہدی کا انتظار کرنے کے بجائے خود بھی کچھ کریں۔ وہ منتظر ہیں کہ امام مہدی تشریف لائیں گے اور عدل قائم کریں گے۔ وہ خود کسی قوت اور حرکت سے محروم ہیں! یہ تو موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں والی بات ہوئی جنہوں نے پیغمبر سے کہا کہ آپ جا کر لڑائی کریں، ہم تو یہیں ٹھہریں گے۔ میں مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ آپ سب ان شاء اللہ مہدی ہیں!
(بشکریہ روزنامہ دنیا)
ڈاکٹر حسن ترابی رخصت ہوئے
خورشید احمد ندیم
ڈاکٹر حسن ترابی دنیا سے رخصت ہوئے۔یہ حسن ترابی کون تھے؟
2001ء میں امریکہ سے ایک کتاب شائع ہوئی: 'معاصر اسلام کے صورت گر‘ (Makers of Contemporary Islam)۔ اس کتاب میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جن کی تفہیم دین نے دورِ حاضرکی مسلم فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور جنہوں نے عصری اسلوب میں اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ حسن ترابی ان ہی میں سے ایک تھے۔ دورِ حاضرمیں مو لانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید قطب جیسے اہل فکر کے زیراثر جو اسلامی تحریکیں برپا ہوئیں، انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔چونکہ ان شخصیات نے برصغیر اور مشرقِ وسطیٰ میں جنم لیا، اس لیے،ان تحریکوں کے سب سے زیادہ اثرات بھی یہیں محسوس کیے گئے۔یہ تحریکیں اگر چہ اسلام کے سیاسی غلبے کے لیے برپا ہوئیں، لیکن ابتدائی عہد میں ان کا پیغام ہمہ جہتی تھا۔اسلام کا فکری وعلمی احیا بھی ان کے مقاصد میں شامل تھا۔ مو لانا مودودی کے الفاظ میں ’تجدید و احیائے دین‘۔
ڈاکٹر حسن ترابی سوڈان کے وہ صاحبِ علم تھے جو اس فکر سے متاثر ہوئے۔وہ ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ لندن اور فرانس کے جدید تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔پی ایچ ڈی فرانس سے کیا۔ فرنچ، جرمن، انگریزی کے ماہر تھے۔عربی تو ان کی اپنی زبان تھی۔قانون ان کا شعبہ تھا۔اسلامی قانون اور فقہ کی روایت پر گہری نظر رکھتے تھے۔ سوڈان کی سیاست میں بہت متحرک رہے۔نمیری کی حکومت میں اٹارنی جنرل تھے۔عمر البشیر کے عہد اقتدار میں اسمبلی کے سپیکر رہے اور وزیر خارجہ بھی۔سوڈان کے آئین کی اسلامی تشکیل ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔اس کی ابتدا میں پاکستان کے آئین کی بنیاد ،قراردادِ مقاصد کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔
وہ سوڈان کے واحد رہنما تھے جنہوں نے اس مطالبے کی حمایت کی کہ جنوبی سوڈان میں مبینہ جنگی جرائم کے جرم میں، عمر البشیرکو انصاف کی بین الاقوامی عدالت کے سامنے پیش ہو نا چاہیے۔فوجی آمرعمرالبشیرنے اقتدار پر قبضہ کیاتو اسے انقلاب کہا گیا جس کے فکری قائد حسن ترابی تھے۔ پھر وہ وقت آیا کہ اسی اقتدار کے ہاتھوں جیل بھیج دیے گئے اور اذیتیں اٹھائیں۔اس قلب ماہیت پر ان کا تبصرہ بڑا بلیغ تھا: ’’ یہ تو سن رکھا تھا کہ انقلاب اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے۔یہ پہلی دفعہ دیکھا کہ ا نقلاب اپنے باپ کو کھا گیا۔‘‘ تاہم بعد میں تعلقات کچھ بہتر ہوئے۔انہوں نے عمر البشیر کے انتخاب کو دھاندلی زدہ قرارد یا، لیکن سیاسی تسلسل کے لیے نتائج کو تسلیم کیا۔سنیچر کی صبح انہیں دل کا دورہ پڑا اور شام ان کا انتقال ہوگیا۔عمر البشیرعیادت کے لیے دو دفعہ ہسپتال گئے۔
اسلامی تحریکیں، وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی تبدیلی کے لیے یک سو ہو گئیں۔یوں وہ روایتی سیاسی جماعتوں میں تبدیل ہوگئیں۔ تجدید دین اب ایک قصہ پارینہ تھا۔تاہم ان تحریکوں کی ابتدائی نسل میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اس سبق کو فراموش نہیں کیا، جیسے یوسف القرضاوی، محمد الغزالی،راشد الغنوشی،خرم مراداورمحمد قطب۔ ان میں حسن ترابی بھی تھے۔ اب میں سے کچھ وہ تھے جنہوں نے سیاسی جدو جہد سے علیحدگی اختیار کر لی اور خود کو علمی کام کے لیے خاص کر لیا، جیسے مصر کے محمد الغزالی۔کچھ وہ تھے جنہوں نے سیاسی میدان میں متحرک رہنے کے ساتھ ساتھ،تجدید و احیائے دین کی اہمیت کو بھی سمجھا اورعلمی میدان میں بھی بروئے کار آئے، جیسے تونس کے راشد الغنوشی اور سوڈان کے حسن الترابی۔
ڈاکٹر حسن ترابی ان افرادمیں نمایاں تر ہیں۔ان کے اجتہادات تو ایسے تھے کہ اسلامی تحریکیں ان کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ ترابی اگرچہ بنیادی طور پر اْسی فکر کے علم بردار تھے جسے اس دور میں ’سیاسی اسلام‘ سے تعبیر کیا جاتاہے مگر اس میں وہ روحِ عصر کو نظر انداز کر نے کے قائل نہیں تھے۔سید قطب کے ہاں تو جومسلمان حکمران اسلام کی سیاسی حکمرانی نہیں مانتے، وہ ’ طاغوت‘ ہیں اور ان کے خلاف اْٹھنا لازم ہے۔حسن ترابی اس کے قائل نہیں تھے۔وہ موجود نظام کو قبول کرتے ہوئے، اس میں راستہ بنانے کو درست سمجھتے تھے۔اگر چہ انہوں نے سوڈان میں اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری اور اس نقطہ نظر کے لوگوں کو مدعو بھی کیا لیکن وہ خود جمہوری جدو جہد کو درست سمجھتے تھے۔
خواتین کے بارے میں ان کے خیالات غیر معمولی ندرت لیے ہوئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی و سماجی معاملات میں ایک متحرک کردار ادا کر نا چاہیے۔اس مو ضوع پر انہوں نے ایک کتاب لکھی اور بہت سے مضامین بھی۔ وہ خواتین کے پردے کے لیے حجاب کی اصطلاح کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ان کے نزدیک حجاب گھروں میں لٹکائے جانے والے پردے کو کہتے ہیں۔اس کے لیے درست لفظ' خمار‘ ہے۔یہ ایک باوقار اور مہذب لباس ہے جو مسلم خاتون کو پہننا چاہیے۔ حسن ترابی غیر مسلم مرد کے ساتھ مسلمان عورت کے نکاح کو بھی جائز سمجھتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ قرآن مجید میں کہیں اس کی ممانعت نہیں آئی۔وہ خواتین کی آدھی گواہی کے تصور کو بھی دین کی درست تفہیم نہیں سمجھتے تھے۔ان کی دلیل یہ تھی کہ قرآن مجید میں قرض کی دستاویز کے حوالے سے اس کا ذکر ہواہے، گواہی کے عمومی قانون کمے حوالے سے نہیں۔ یہ عدالت کی صواب دید ہے کہ وہ کس کی گواہی قبول کرتی ہے اور کس کی رد۔اس کا تعلق صنف سے نہیں، گواہی کے معتبر ہونے سے ہے۔ایک مرد کی گواہی رد ا ور عورت کی قبول کی جا سکتی ہے۔وہ مردوں کے لیے خواتین کی امامت کو بھی جائز سمجھتے تھے۔
حسن ترابی سید نامسیح علیہ السلام کے نزولِ ثانی کے بھی قائل نہیں تھے۔وہ اس کے لیے قرآن مجید سے استدلال کرتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ قرآن مجید میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بارے میں سیدنا مسیح کی پیش گوئی کا ذکر ہے۔قرآن نے سیدنا مسیح کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’میرے بعد ایک رسول آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا۔ ’’میرے بعد’’ سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح سے پہلے نہیں، بعد میں تشریف لائیں گے۔ اسی طرح قرآن مجید سیدنا محمد کو آ خری نبی کہتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید سے ان کی آ مد ثانی کا عقیدہ ثابت نہیں۔ جب ان سے بعض روایات کا ذکر کیا گیا جن میں سیدنا مسیح کی دوبارہ آمد کا ذکر ہے تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’’حدیث قرآن کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔‘‘ وہ مرتد کے لیے موت کی سزا کے بھی قائل نہیں تھے۔
ڈاکٹر حسن ترابی کے ان نظریات کا ذکر ان کے ایک انٹرویو میں یک جا ہے جو 'الشرق الاوسط‘ میں 24 اپریل 2006ء کو شائع ہوا۔یہ انٹرویو اخبار کی ویب سائٹ پر محفوظ ہے۔اس کالم میں ان نظریات کی تصدیق یا تردید مقصود ومطلوب نہیں، صرف یہ واضح کر نا ہے کہ مرحوم کے ہاں غور وفکر کا عمل کس نہج پر آگے بڑھ رہا تھا۔اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ اسلامی تحریکوں کے عمومی رویے کے برخلاف،وہ سیاسی جدو جہد کے ساتھ فکری ارتقا کے عمل سے بھی گزر رہے تھے جس کے بغیرتجدید و احیائے دین کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ڈاکٹر صاحب اس پر بھی پوری طرح واضح تھے کہ قدیم فقہی ذخیرہ دورِ جدید میں مسلم سماج کے کام نہیں آ سکتا۔ہمیں قرآن وسنت پر براہ راست غور کرتے ہوئے،ان کی نئی تعبیر کر نی ہے۔وہ معاشرتی روایات کو دین کے الہامی ماخذ سے جدا کر کے دیکھتے تھے۔
آج حسن ترابی اس دنیا میں نہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ معاصر اسلام کے صورت گروں میں بہت نمایاں تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کرے اور ان کی فروگزاشتوں کو معاف کرے۔ آمین۔
(بشکریہ روزنامہ دنیا)
ڈاکٹر طہ جابر العلوانی ۔ شخصیت اور فکر
مولانا سید متین احمد شاہ
4 مارچ 2016ء بروز جمعہ کو عالم اسلام کے نام ور مفکر اور مصنف ڈاکٹر طہ جابر العلوانی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً 81 سال تھی۔ آپ کی پیدائش 1935ء میں عراق کے شہر فلوجہ میں ہوئی۔ آپ نے عراق میں اعلیٰ سطح کے اہل علم سے تعلیم حاصل کی اور جامعہ ازہر سے 1973ء میں اصولِ فقہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1985ء سے آپ نے جامعۃ الام محمد بن سعود الاسلامیہ میں اصول فقہ کے استاد کے طور پر دس سال تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ 1981ء میں عالمی ادارہ فکر اسلامی (المعھد العالمی للفکر الاسلامی / The International Institute of Islamic Thought) امریکا میں قائم کیا گیا جس کے اول بنیاد گزاروں میں ڈاکٹر طہ جابر بھی تھے۔ اس کے پہلے صدر معروف اسلامی مفکر ڈاکٹر اسماعیل راجی فاروقی (1921ء ۔ 1986ء) تھے۔ ان کی شہادت کے بعد اس ادارے کی سب سے نمایاں شخصیت ڈاکٹر طہ جابر ہی کی رہی ہے۔ رابطہ عالم اسلامی (Muslim World League) کی مجلس تاسیسی کے بھی آپ رکن تھے۔اس کے علاوہ کئی دیگر اداروں سے آپ کی وابستگی رہی ہے۔ آپ کی اہلیہ ڈاکٹر منیٰ ابوالفضل کا انتقال 23 ستمبر 2008ء کو ہوا تھا جو خود بہت صاحبِ فضل خاتون اور انگریزی اور عربی میں کئی کتابوں کی مصنف تھیں۔ڈاکٹر طہ جابر نے مختلف علمی اور فکری موضوعات پر کتابیں بھی لکھیں جن میں سے نمایاں کتابیں حسب ذیل ہیں :
1۔ ادب الاختلاف فی الاسلام (اس کتاب کا اردو میں بھی ترجمہ "اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب " کے نام سے ہو چکا ہے۔)
2۔ تحقیق و تدوین المحصول فی علم اصول الفقہ (امام رازی)،
3۔ الازمۃ الفکریۃ المعاصرۃ
4۔ الامام فخر الدین الرازی ومصنفاتہ
5۔ الجمع بین القراء تین: قراء ۃ الوحی وقراء ۃ الکون
6۔ الخصوصیۃ والعالمیۃ فی الفکر المعاصر
7۔ الوحدۃ البنائیۃ للقرآن المجید
8۔ لا اکراہ فی الدین: اشکالیۃ الردۃ والمرتدین من صدر الاسلام الی الیوم
9۔ لسان القرآن ومستقبل الامۃ القطب
10۔ مقاصد الشریعۃ
11۔ مقدمۃ فی اسلامیۃ المعرفۃ
اس کے علاوہ عالمی ادارہ فکر اسلامی سے شائع ہونے والی کئی کتابوں پر آپ کے علمی مقدمات قابل مطالعہ ہیں۔
بعض فکری خدوخال
علم کی اسلامی تشکیل
ڈاکٹر طہ جابر امت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے آرزو مند مفکرین میں سے تھے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں علوم کے اسلامیانے کی تحریک سے ان کا ہمیشہ تعلق رہا اور عالمی ادارہ فکر اسلامی (IIIT) سے ان کی عربی اور انگریزی میں کئی کتابیں منصہ شہود پر آئیں۔
علم کی اسلامی تشکیل کا مسئلہ بیسویں صدی میں کثرت سے معرضِ بحث آنے والے موضوعات میں سے ہے تاکہ مغرب کے فکری اور سیاسی غلبے کے اس شدید جبر میں امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے جدید خطوط پر کام کیا جا سکے۔علم وتحقیق چوں کہ کسی بھی قوم کی مادی اور ذہنی اٹھان کا نشان ہوتے ہیں، اس لیے مسلم مفکرین نے اس بات پر شدت سے توجہ مبذول کی کہ مسلمانوں کو علمی اور فکری میدان میں تیار کیا جائے اور جدید علوم، جو مغرب کی گود میں تیار ہوئے ہیں اور وحی اساس نہیں ہیں، لیکن انسانیت کے قافلے کے حدی خواں بہرحال بن چکے ہیں، انھیں اسلام کے مابعد الطبیعی افکاراور نظامِ اخلاق کی اساسات پر استوار کیا جا سکے۔ یہ فکر اصل میں مسلم دنیا میں مغرب کے ساتھ تعامل میں مکمل سپردگی اور قبول کے اس تصور کے خلاف ایک نظرثانی کے رجحان (Rethinking Trend) کے طور پر سامنے آئی جس کے حاملین میں ہمارے ہاں سرسید احمد خان اور عرب دنیا میں محمد عبدہ جیسے لوگوں کو شمار کیا جاتا ہے۔ علم کی اسلامی تشکیل کے حامیوں نے یہ بنیادی تصور پیش کیا کہ علوم وافکار کسی تہذیب کے تصورِ کائنات سے جدا نہیں ہوا کرتے، اس لیے انھیں انسانیت کے لیے حقیقی معنوں میں کارآمد بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے غیر صالح اجزا کی اصلاح کی جائے۔(۱) اس تصور میں علم کی ثنویت (عقلی اور نقلی کی تقسیم ) کی نفی بھی ملتی ہے۔
عالمی ادارہ فکر اسلامی نے عالم عربی کو اس مسئلے سے متعارف کروانے کے لیے ایک مجلہ اسلامیۃ المعرفۃ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔اس مجلے کے پہلے شمارے میں ڈاکٹر طہ جابر اس کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مجلہ اسلامیۃ المعرفۃ ایک دو گونہ اور نہایت بھاری اور مشکل ذمے داری سے عہدہ برآ ہونے کی کاوش ہے۔ وہ ذمے داری یہ ہے کہ مسلمانوں کی قرآنِ کریم سے دوری کی موجودہ صورتِ حال کو ختم کیا جائے اور ان میں اپنے منہجی اور علمی خصائص کے ساتھ شعوروآگہی پیدا کی جائے تاکہ انھیں پتہ چلے کہ قرآن کو کس طرح اپنے زمانی کی سطح پر پڑھا جائے اور اس کے ساتھ کائنات کے مطالعے کو جمع کیا جائے؛ تاکہ وہ اس کے وجود کو ختم کرنے والی ان کارروائیوں کے مقابلے میں اپنے تشخص کی حفاظت کر سکے جن کی زمامِ کار مغرب کے ہاتھ میں ہے اور وہ دنیا کو اپنے تصورِ حیات اور اقتدار کے مطابق ڈھالنے کے درپے ہے۔‘‘(۲)
اس سلسلے میں وہ علم وحی اور علم جدید سے برابر استفادے کے داعی تھے اور اپنی کئی تحریروں میں اس پر زور دیا ہے۔ تجددِ محض اور تجمد محض کی دو انتہاؤں پر گفت گو کرتے ہوئے علم کی اسلامی تشکیل (Islamization of Knowledge یا اسلامیۃ / اسلمۃ المعرفۃ) کی تحریک کے نشو وارتقا کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ایک منہجی نقطہ نظر کی ضرورت کے تحت علم کی اسلامی تشکیل کا تصور سامنے آیا۔ یہ ایک فکری سرگرمی اور علمیاتی زاویہ نظر ہے جو انسانی اور طبعی دونوں طرح کے علوم کی تشکیلِ جدید کی کوشش ہے اور اپنے اہداف، نتائج اور تطبیق کے اعتبار سے اسلامی اصولوں پر استوار ہے۔ یہ تصور مطالعہ وحی اور مطالعہ کائنات کے درمیان حائل ہونے والی خلیج کو پاٹنے کی سعی ہے؛ کیوں کہ صرف وحی کی تعلیمات پر اکتفا کرلینا اور کائنات سے صرفِ نظر کر لینا پیش آمدہ صورتِ حال ، فطرت اور زندگی کے ادراک کے باب میں پسپائی کا سبب بنا ہے اور صرف تجربے اور مشاہدے پر انحصار دین و دنیا کی جدائی کے ان مظاہر کا سبب بنا جن کا پہلے ذکر ہوا ہے۔‘‘ (۳)
اپنی کتاب الازمۃ الفکریۃ المعاصرۃ (موجودہ فکری بحران) میں انھوں نے اسلام اور مغرب کی کشمکش کے مختلف مراحل اور ان کے مقابلے میں مسلم دنیا میں پیدا ہونے والے رویوں اور رجحانات کو جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ موجودہ چیلنج کے فیصلہ کن مرحلے کو واضح کرتے ہوئے وہ اس بات پر پر اعتماد ہیں کہ اسلام ہرزمان ومکاں میں راہ نمائی کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، تاہم عملی طور پر ہمارے لیے صرف دو ہی صورتیں ہیں:یا تو ہم امت کو اس بات پر اعتماد بخش سکیں کہ انسانیت کے لیے مغرب کے مقابلے میں ہم ہی مناسب متبادل ہیں اور صحیح اور درست ثقافت پیش کرسکتے ہیں یا پھر ہم پسپائی اختیار لیں۔ ہمارے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ مغرب نے زندگی کے کئی میدانوں میں جو غیر معمولی برتری کا لوہا منوایا ہے اور بعض میں وہ ناکام ہوا ہے، ہم فکر، کلچر، تہذیب اور علم کے میدانوں میں متبادل فراہم کریں۔(۴)
ڈاکٹر طہ جابر کے نزدیک علم کے اسلامیانے کا تصور کوئی اجنبی چیز نہیں ہے بلکہ قدما میں محاسبی، ابن عربی اور امام رازی وغیرہ کے ہاں اس کی بنیادیں ملتی ہیں۔(۵)
تدبرِقرآن کا منہج
قرآنِ کریم کے تعلق سے اس کتاب پر تدبر کا ان کا ایک خاص زاویہ نظر تھا۔وہ اس کتاب پر تدبر کے لیے موضوعی وحدت کے منہج کے داعی تھے جس کی بنیادی فکر اپنی کتاب الوحدۃ البنائیۃ فی القرآن میں پیش کی ہے۔ قرآنِ کریم میں موضوعی وحدت کا مطلب یہ ہے کہ قرآنی سورتوں کے اجزا کو منتشر اکائیوں کی شکل میں نہ دیکھا جائے بلکہ ہر سورت کا ایک مرکزی مضمون ہوتا ہے اور باقی اجزا اس کے ساتھ حکیمانہ طور پر مربوط ہوتے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے" الفاروق "میں ایک اہم تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’تمدن کے زمانے میں جو علوم وفنون پیدا ہو جاتے ہیں، ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کا ہیولیٰ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ تمدن کے زمانے میں وہ ایک موزوں قالب اختیار کر لیتا ہے اور پھر ایک خاص نام یا لقب مشہور ہو جاتا ہے۔‘‘ ( ۶) اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو قرآنِ کریم میں موضوعی وحدت کی فکر کی بنیادیں ہمیں قدما کے ہاں ملتی ہیں، لیکن ایک مربوط فن کی حیثیت سے یہ طرز بیسویں صدی میں سامنے آیا ہے۔ اس طریقِ تفسیر کو سب سے مربوط اور جامع شکل میں مولانا حمید الدین فراہی نے پیش کیا اور اس کو نہ صرف عملاً برت کر دکھایا بلکہ اس کے لیے اصول بھی وضع کیے۔( ۷) عرب دنیا میں سید قطب اور شیخ سعید حویٰ کا طریق تدبر بھی اس نہج کا جز ہے اور اب مسلم دنیا بڑے پیمانے پر اس طرزِ تفسیر کی طرف متوجہ ہو چکی ہے۔ ایران میں خاص طور پر علامہ باقر الصدراور شیخ حسین الطباطبائی کے نام اس سلسلے میں لیے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر طہ جابر نے اس فکر کی بنیادیں قدما میں عبدالقاہر جرجانی اور ابو علی فارسی کے ہاں تلاش کی ہیں۔
قرآنِ کریم میں موضوعی وحدت کے داعی مفسرین یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ اس طریق تفسیر سے ایک ایک آیت کے کئی کئی احتمالات اور تفسیروں میں سے راجح ترین تفسیر کا انتخاب آسان ہوتا ہے اور یہ طرز آپس کے اختلافات کو دور کرنے کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔ اسی طرزِ تدبر کے باعث ڈاکٹر طہ جابر قرآنِ کریم کو "حمال ذو وجوہ" تسلیم کرنے میں متردد ہیں۔اس کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ وہی بات ہے جسے مولانا فراہی قرآن کے قطعی الدلالۃ ہونے سے یاد کرتے ہیں۔( ۸) چند سال قبل ڈاکٹر طہ کے چھوٹے بھائی مصطفی جابر فیاض العلوانی کی ایک کتاب عالمیۃ الخطاب القرآنی، دراسۃ تحلیلیۃ فی السور المسبحات کے نام سے شائع ہوئی جس پر ڈاکٹر طہ جابر نے پیش لفظ تحریر کیا ہے۔(۹) اس میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’روایت کی نسل نے علم ، فقہ کی نسل کے ہاتھ میں تھمایا اور فقہ و افتا کے حاصلات ظہور پذیر ہونے لگے جن کے ساتھ کچھ غلط افکار بھی در آئے، جیسے یہ اصول کہ "نصوص محدود ہیں جب کہ حوادث غیر متناہی ہیں" اور یہ اصول کہ " قرآن کئی وجوہ کی محتمل کتاب ہے۔‘‘ (۱۰)
قرآنِ کریم میں موضوعی وحدت کی دعوت کے ساتھ ڈاکٹر طہ جابر قرآنِ کریم کو علم جدید کے ساتھ مربوط کر کے دیکھنے کے داعی ہیں۔ اپنی کتاب الجمع بین القراء تین: قراء ۃ الوحی وقراء ۃ الکون (۱۱ )میں انھوں نے یہی تصور پیش کیا ہے۔ڈاکٹر طہ جابر نے "فقہ الاقلیات"(جس کا ذکر آگے آتا ہے) کے اصولوں میں بھی اس اصل کو بنیادی حیثیت دی ہے۔
قرآنِ کریم کے بارے میں یہ معروف اصول ہے کہ القرآن یفسر بعضہ بعضًا، یعنی قرآن خو د اپنی تفسیر آپ کرتا ہے، تاہم اس اصول کو برتنے کے مختلف پہلوؤں کی طرف جدید دور میں زیادہ توجہ مبذول ہوئی ہے۔ قرآنِ کریم کی زبان کے اسالیب اور اس کے بلاغی خصائص کے لیے بھی ڈاکٹر طہ جابر کے نزدیک خودقرآن ہی کی زبان کو حاکم بنانا ضروری ہے نہ کہ اس کے باہر طے کیے گئے لسانی اصولوں کو؛ اس اصول کو نظر انداز کرنے کی عملی خرابی یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی بعض آیات کی نحوی تالیف کے بارے میں قدیم دور سے لے کر آج تک مستشرقین کو اعتراضات کا موقع ملا ہے۔( ۱۲) ڈاکٹر طہ جابر سے پہلے یہی بات امام شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی لکھی ہے۔ ( ۱۳)
اختلاف و افتراق
امت کا سب سے بڑا مسئلہ: امت مسلمہ کے جن مسائل پر ڈاکٹر طہ جابر فکر مند تھے، ان میں سے باہمی اختلاف و انتشار کا مسئلہ ان کے نزدیک بڑے مسائل میں تھا۔ اسلام میں اختلاف کی حدود و آداب اور اس کے تعامل پر ایک عمدہ کتاب ادب الاختلاف فی الاسلام تحریر کی۔ اس کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’امت مسلمہ کو جو سب سے خطرناک مرض لاحق ہوا ہے، وہ اختلاف اور مخالفت ہے۔یہ وہ شدید اور متعدی مرض ہے جو ہر میدان، علاقے اور سماج پر سایہ فگن ہے اور اس نے سوچ، عقیدے، تصورات، آرا، ذوق، چلن، طرزِ عمل، اخلاق، طرزِ زندگی، طریق تعامل، طرزِ گفت گو، تمناؤں اور قریب ودورکے مقاصد کو اپنے مکروہ دائرے کی لپیٹ میں لے لیا ہے، یہاں تک کہ اس نے اپنی سیاہ ڈائن کو دلوں کی دنیا پر محیط کر دیا ہے جس کے نتیجے میں فضا، اوہام کے بادلوں سے ابر آلود کر بنجر دلوں کی سرزمین پر مصروفِ بارش ہے جس نے باہم برسر پیکار اور جوتم پیزار میں مشغول لوگوں کو وجود بخشا ہے ؛ گویا اس امت کے پاس جتنے بھی اوامر ونواہی اور تعلیمات ہیں، بس اختلاف ہی کو ہوا دیتے ہیں اور باہمی لڑائی اور جھگڑے ہی کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘ (۱۴)
کتاب میں اختلاف کی حقیقت، اس کی اقسام ، مسلم تاریخ میں واقع ہونے والے عہد بہ عہد اختلافات ، ائمہ فقہا کے اختلافات اور ان کی نوعیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بعد قرونِ خیر کے بعد کے اختلافات کی حقیقت پر گفت گو کی ہے کہ کس طرح یہ اختلاف محمود سے مذموم کے دائرے میں داخل ہوتے چلے گئے اور پھر وہ صورتِ حال سامنے آئی جس کا سامنا اس وقت ہم سب کو ہے۔ موجودہ اختلافات و انتشار کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آج مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے سب سے اہم اور نمایاں اسباب اسلام سے ناواقفیت یا اس کا ناقص علم ہے۔( ۱۵) اس کی بنیادی وجہ ظاہر ہے علم دین کی ناقدری ہے۔ اس صورتِ حال پر ان کا تبصرہ حقیقت پسندانہ ہے اور آج اگر ہم دینی مدارس کے فضلا کے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ بات بالکل بجا محسوس ہوتا ہے؛ لکھا ہے:
’’اکثر اسلامی ممالک میں دینی تعلیم کے طالب علم کم ہو گئے اور اس کا معیار پست ہو گیا اور اس طرف رخ کرنے والوں میں سے اکثر کی صورتِ حال اس شخص کی سی ہو گئی جو زمین میں کاشت کاری کرے لیکن اسے اس کا پھل پانے کی امید نہ ہو۔اس تعلیم کی طرف خاص حالات ہی انھیں متوجہ کرتے ہیں اور فراغت کے بعد بھی انھیں ان حالات کے جبر سے رست گاری نہیں مل پاتی؛ چناں چہ ان کے دروازے بند ہوتے ہیں اور وہ معاشرے میں ایک عالم کو جو کردار ادا کرنا چاہیے، وہ اسے ادا کرنے اور اس سے مربوط پیغام کے ابلاغ سے قاصر ہوتے ہیں ۔ان بند دروازوں کے سامنے ان کی استقامت جواب دے جاتی ہے ، شخصیت ماند پڑ جاتی ہے اور ناچار وہ سرکاری طور پر قائم شدہ اداروں کے نظام میں بندھ جاتے ہیں جو خاص سرکاری اہداف کو پورا کرنے کے لیے بنائے گئے ہوتے ہیں اور وہ ان سے تجاوز نہیں کر سکتے، چنانچہ ان کے اور سماجی کردار کی ادائیگی میں رکاوٹیں کھڑی ہو جاتی ہیں اور لوگوں کا ان پر اعتماد بھی باقی نہیں رہتا۔‘‘ ( ۱۶)
اس کتاب میں ڈاکٹر طہ جابر چوتھی صدی کے بعد مسلم امت میں اجتہاد کا دروزہ بند ہونے کا درد کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور امت مسلمہ کے موجودہ دور تک پہنچنے میں اس عنصر کو بنیادی حیثیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چوتھی صدی ہجری سے اجتہاد ختم ہوگیا اور اس کا آفتاب غروب ہوگیا اور تقلید عام ہو گئی۔ ( ۱۷)اس کے بعد اس کے نتائج اور عواقب پر تفصیل سے گفت گو کی ہے۔ ان کی دیگر تحریروں میں بھی اس بات کا تکرار ملتا ہے۔
یہ بات اس وقت عام طور پر جدید دانش ور طبقے کے ہاں معروف ہے کہ چوتھی صدی کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا تھا۔ اس سے پیدا ہونے والی مایوسی کے آثار اس طرح کے مفکرین کی تحریروں میں بہ کثرت ملتے ہیں اور ڈاکٹر طہ جابر کی تحریروں میں بھی یہی عنصر دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسلم دنیا کے سنجیدہ اہلِ علم یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس بات کا سب سے زیادہ پروپیگنڈا اہل مغرب نے کیا تاکہ اسلامی قانون کو ایک جامد چیز ثابت کیا جائے جو ہرزمان و مکاں میں رہ نمائی کی صلاحیت سے عاری ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے معروف خطبات میں کہا تھا : The closing of the door of Ijhtihad is pure fiction. یعنی بابِ اجتہاد بند ہونے کی بات نرا افسانہ ہے۔ معروف اقبال شناس جناب سہیل عمر نے اقبال کے اس نکتے پر اپنی مختصر کتاب "زنجیر پڑی دروازے میں" میں عمدہ گفت گو کی ہے اور امت میں اجتہاد کے عمل کے جاری رہنے کو عمدگی سے واضح کیا ہے۔ ( ۱۸) اس کے علاوہ اس افسانے کی تردید میں بعض غیر مسلم اہل علم نے بھی قلم اٹھایا ہے۔ فقہ اسلامی کی تاریخ کے نام ور عیسائی مصنف Wael B. Hallaq کا ایک تفصیلی مضمون اس سلسلے میں قابلِ مطالعہ ہے۔ ( ۱۹) مولانا ابوالحسن علی ندوی نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب "قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں" پر تنقید کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا تھا کہ:
’’ان عبارتوں کا پڑھنے والا جس کا مطالعہ وسیع اور گہرا نہیں ہے اور جو اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عام گمراہی اور دین سے ایسی ناشناسائی سے محفوظ رکھا ہے جو زمان و مکاں کی حدود سے بے نیاز ہو کر ساری امت پر سایہ فگن ہو، یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ قرآن مجید کی حقیقت اس طویل مدت تک امت کی (یا زیادہ محتاط الفاظ میں امت کے اکثر افراد کی ) نگاہوں سے اوجھل رہی اور امت بحیثیت مجموعی ان بنیادی الفاظ کی حقیقت ہی سے بے خبر رہی۔ ۔۔۔یہ نتیجہ اگرچہ بادی النظر میں کچھ زیادہ اہم اور سنگین نہ معلوم ہو، لیکن اس کے اثرات ذہن ودماغ اور طرزِ فکر پر بڑے گہریا ور دوررس ہیں، اس لیے کہ یہ اس امت کی صلاحیت ہی میں شک و شبہ پیدا کر دیتا ہے۔ ۔۔۔ اور اس سے اس امت کی گذشتہ تاریخ ، اس کے مجددین، مصلحین اور مجتہدین کے علمی وعملی کارنامے بھی مشکوک اور کم قیمت ہو جاتے ہیں۔‘‘ ( ۲۰)
بعض فقہی مسائل میں اجتہادی زاویہ نظر
سزاے مرتد کا مسئلہ
عصر حاضر میں جو مسائل کثرت سے زیر بحث آئے ہیں، ان میں اسلام کو چھوڑ کر کسی اور دین کو اختیار کرنے (ارتداد) کی سزا کا مسئلہ بھی ہے۔ ہمارے روایتی فقہی موقف میں اس کی سزا، جیسا کہ معروف ہے، قتل ہے۔( ۲۱) ڈاکٹر طہ جابر فیاض کی فقہی موضوعات پر لکھی تحریروں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعض مسائل میں جمہور کی رائے سے ہٹ کر آرا کے حامل ہیں۔ دورِ حاضر کے معروف مصنفین میں حسن الترابی کا نقطہ نظر بھی ہے جو اسی دن فوت ہوئے جس دن ڈاکٹر طہ جابر کا انتقال ہوا۔ مثال کے طور پر مرتد کی سزا کے مسئلے میں ان کا موقف عام نقطہ نظر کے برعکس ہے۔ وہ یہ ہے کہ مرتد کی سزا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی احادیث سے ثابت نہیں ہے اور آپ کے زمانے میں اس قتل کا عملی واقعہ کوئی بھی نہیں ملتا۔ وہ اس سلسلے میں کسی اجماع کا انکار کرتے ہیں۔( ۲۲) ڈاکٹر طہ جابر کی اس کتاب کے مشمولات پر مختلف پہلوؤں سے نقدو نظر ممکن ہے، چنانچہ اس کتاب پر ایک ضمیمہ شیخ عبداللہ ابن شیخ المحفوظ بن بیہ کا ہے جس میں انھوں نے بعض باتوں سے اختلاف کیا ہے۔ڈاکٹر طہ جابر کی فکر میں اس طرح کے مسائل کی وجہ سے وہ عرب اہل علم کے ہاں نقدونظر کا موضوع رہے ہیں۔
فقہ الاقلیات
ڈاکٹر طہ جابر کے فکری امتیازات میں "فقہ الاقلیات" کا جامع اور مربوط تصور بھی ہے۔ دورِ جدید کی تمدنی ضروریات کے تحت کئی مسلمان ہجرت کر کے غیر مسلم ممالک میں جا بسے ہیں اور انھیں وہاں رہتے ہوئے کئی نسلیں گزر گئی ہیں۔ یہ مسلمان وہاں کی غالب اکثریت کے مقابلے میں اقلیت میں ہیں۔وہاں کے سیاسی اور تمدنی مسائل میں مساوات ان اقلیتوں کا ایک بنیادی مطالبہ ہے۔اس کے ساتھ عالم گیریت کے تقاضوں کے نتیجے میں اب بہت سے مسائل ہمیں اپنے دیار میں رہ کر درپیش ہیں۔ اسلامی طرزِ زندگی، اس کی مابعدالطبیعی اساسات اور نظامِ اخلاق کے پیش نظر غیر مسلم معاشروں میں ان مسلمانوں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو مسلم سماج میں رہ کر پیش نہیں آتے۔ اس لیے ان کے لیے ایک جامع نظامِ فکر کی تدوین کو ڈاکٹر طہ جابر جیسے مفکرین نے ضروری قرار دیا۔ اس متنوع الابعاد نظام کو دیکھتے ہوئے ظاہر ہے کہ "فقہ الاقلیات" میں "فقہ" سے مراد صرف اسلامی قانون کے مسائل نہیں ہیں، بلکہ اس کی حیثیت "فقہ اکبر " کی ہے جو عقائد، نظم زندگی اور دیگر امور کی تعبیر نو اور تشکیل جدید سے تعلق رکھتی ہے۔ ( ۲۳) اس اعتبار سے ڈاکٹر طہ جابر فقہ اسلامی کی تجدید کے داعی مفکرین میں سے تھے جن کے پیش نظر اصل چیز "فقہ الواقع" تھی۔
اصولِ فقہ کے میدان میں خدمات
اصولِ فقہ آپ کا خاص میدان تھا اور پی ایچ ڈی اسی میدان میں کی۔پی ایچ ڈی میں آپ کی تحقیق کا موضوع امام فخر الدین رازی کی اصولِ فقہ پر کتاب ’’المحصول فی علم اصول الفقہ‘‘ کی تحقیق و تدوین تھی جسے جامعۃ الامام محمد بن سعود (ریاض) نے شائع کیا۔ آج ڈاکٹر طہ جابر کا چھے جلدوں میں تحقیق شدہ نسخہ عرب دنیا میں سب سے معتبر سمجھا جاتا ہے۔اس کتاب کا ایک مبسوط مقدمہ انھوں نے قلم بند کیا تھا لیکن جامعہ میں اس کی اشاعت سے اس لیے انکار کر دیا گیا کہ اس میں مصنف نے امام رازی کو امام ابن تیمیہ پر فضیلت دی ہے جو کہ اس کے اشعری ہونے کی دلیل ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ محسن ترکی نے اس معاملے کو ہاتھ میں لیا اور یہ حصہ کہیں اور طبع کرنے کی تجویز دی جو اب مستقل کتاب کی شکل میں دارالسلام قاہرہ سے شائع ہوتا ہے۔ ( ۲۴)
اصولِ فقہ سے گہری وابستگی کے باعث ڈاکٹر طہ جابر کی تحریروں میں بعض بڑے عمدہ نکات ملتے ہیں جو مستقل تحقیق کا موضوع بن سکتے ہیں۔ آپ کے ایک بھائی جابر فیاض العلوانی کی اس سے پہلے وفات(5 مارچ 1987ء) ہو چکی ہے۔ ان کی کتاب "الامثال فی القرآن الکریم" پر ڈاکٹر طہ جابر کا پیش لفظ ہے۔ اس میں انھوں نے قرآنی امثال کی معنویت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ امثال احکام شرعیہ کا ایک مصدر ہیں۔ان امثال میں حسن و قبح کا پہلو بھی ملتا ہے جس سے حلت ، حرمت اور کراہت کے فقہی موضوعات کو مربوط کر کے دیکھنا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے امام شافعی نے امثالِ قرآنی کی معرفت کو مجتہد کے لیے لازم قراردیا ہے۔ان امثال کا دوسرا پہلو "قیاسِ اصولی" کا ہے جس پر سائنس کے تجربی منہج کی اٹھان ہوئی ہے، اس لیے امثالِ قرآنی کے ان پہلوؤں پر تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔ ( ۲۵)
حواشی
۱۔ انیسویں صدی میں یہ جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے بارے میں قدر آزاد (Valure free)نظریے کا عمومی چلن تھا، لیکن بیسویں صدی میں اس نقطہ نظر میں تبدیلی آئی اور جدید سرمایہ دارانہ علمیت کے ناقدین نے یہ قرار دیا کہ یہ چیزیں کسی طرح بھی قدر آزاد نہیں ہیں۔اگرچہ یہ نظریہ اب تقریباً مکمل طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے، تاہم مسلم دنیا کے بعض مفکرین ابھی بھی مغربی ٹیکنالوجی کے ایک حصے کے بارے میں رائے رکھتے ہیں کہ اسے بلاجھجک قبول کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے؛ چنانچہ نام ور مصنف اور مفکر سید حسین نصر کہتے ہیں :
I am the last person in the world to think that Islamic civilization can choose a part of Western technology which is considered good, claim it is completely harmless, and then reject another part.
(میں اسلامی دنیا کا شاید واحد فرد ہوں جو یہ رئاے رکھتا ہے کہ اسلامی تہذیب مغربی ٹیکنالوجی کے ایک حصے کواپنا سکتی ہے جو کہ اچھا ہے اور اس کے بارے میں یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ مکمل طور پر بے ضرر ہے، جب کہ دوسرے حصے کو مسترد کر دے۔)
(Seyyed Hossein Nasr in Conversation with Muzaffar Iqbal, Islam, Science, Muslims and Technology (Islamabad: Dost Publications, 2007), 57.)
۲۔ طہ جابر العلوانی، لما ذا اسلامیۃ المعرفۃ؟ در اسلامیۃ المعرفۃ، العدد الاول،ص 29۔
۳۔ طہ جابر العلوانی، مقدمۃ فی اسلامیۃ المعرفۃ (بیروت: دار الہادی للطباعۃ والنشر، 2001ء)،ص 186۔
۴۔ طہ جابر العلوانی، الازمۃ الفکریۃ المعاصرۃ (ورجینا: المعہد العالمی للفکر الاسلامی، 1994ء)، 24۔
۵۔ نفس مصدر۔
۶۔ شبلی نعمانی،الفاروق (کراچی: دارلاشاعت، 1991ء )، ص 22۔
۷۔ مولانا فراہی نے قرآن میں موضوعی وحدت کو نظم یا نظام کا نام دیا ، اس کے لیے ان کے اصول ان کی کتابوں دلائل النظام، التکمیل فی اصول التاویل اور ان کی ناتمام تفسیر نظام القرآن وتفسیر الفرقان بالفرقان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی نے انھی اصولوں کو بڑھاتے ہوئے اردو میں اپنی معروف تفسیر تدبرِ قرآن تحریر کی۔
۸۔ حمید الدین فراہی،مقدمہ تفسیر نظام القران،ترجمہ: امین احسن اصلاحی(اعظم گڑھ: دائرۂ حمیدیہ، س۔ن)، ص 45۔
۹۔ مصطفی جابر فیاض العلوانی، عالمیۃ الخطاب القرآنی، دراسۃ تحلیلیۃ فی السور المسبحات،پیش لفظ ا۔د۔ طہ جابر العلوانی (ورجینا: المعہد العالمی للفکر الاسلامی، 2012ء)، 14۔
۱۰۔ یہاں یہ بات پیشِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ ڈاکٹر طہ جابر نص قرآنی کے "ثابت" اور "متغیر" معانی میں فرق کرتے ہیں اور دوسری نوع کے پہلو سے قرآنِ کریم کی "قراء تِ مفاہیمہ" کی ایک معجم تیار کرنے کے عمل کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کی اس فکر میں مطالعہ نص میں جدید Semantics کے اصولوں کا لمس کارفرما نظر آتا ہے اور جس کی بنیادیں اسلامی تراث میں علامہ شاطبی جیسوں کے ہاں ملتی ہیں۔
۱۱۔ اس کتاب کے نام سے ہمارے یہاں ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب "دو قرآن" کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔ برق لکھتے ہیں :"دو قرآن میں جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے، بتایا گیا ہے کہ قرآن ایک نہیں، دو ہیں۔ایک وہ جو کتاب کی شکل میں ہر مسلمان کے گھر میں موجود اور ہر حافظ کے سینے میں محفوظ ہے اور دوسرا وہ کائناتِ ارض و سما کی شکل میں ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔۔۔ ایک قرآن میں لکھی ہوئی آیتیں ہیں اور دوسرے میں عمل وحرکت کرتی ہوئی آیتیں؛ ایک قرآن اصول و قوانین کا ضابطہ ہے اور دوسرا اس کی عملی تشریح۔"(غلام جیلانی برق، دو قرآن(لاہور: الفیصل)، ص 10۔
۱۲۔ اس سلسلے میں پانچ آیات ایسی ہیں جن کو قدیم دور میں بھی موردِ طعن بنایا گیا جن کا جواب دینے کے لیے امام رازی نے بھی تعرض کیا۔البقرۃ177، النساء 162، المائدۃ69، ط?6، المنافقون10۔
۱۳۔ شاہ ولی اللہ دہلوی، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، تعریب: مولانا انور بدخشانی (کراچی: بیت العلم، 2006ء)، ص 101۔
۱۴۔ طہ جابر العلوانی، ادب الاختلاف فی الاسلام (ورجینیا: المعہد العالمی للفکر الاسلامی، 1992ء )، 8۔
۱۵۔ ادب الاختلاف فی الاسلام، 150۔
۱۶۔ نفس مصدر، 151۔ 152۔
۱۷۔ نفس مصدر، 135۔
۱۸۔ دیکھیے: سہیل عمر، زنجیر پڑی دروازے میں(لاہور: اقبال اکادمی، 2010ء4 )۔
19 - Wael B. Hallaq, "Was the Gate of Ijtihad Closed?" in International Journal of Middle East Studies (March 1984), pp. 3- 41.
انٹرنیٹ پر یہ مقالہ دست یاب ہے۔
۲۰۔ ابوالحسن علی ندوی، عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح(کراچی: مجلس نشریاتِ اسلام)، ص 34۔
۲۱۔ اردو میں اس نقطہ نظر کے ایک جامع مطالعے اور دلائل کے لیے دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودی، مرتد کی سزا (لاہور:اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ)۔
۲۲۔ دیکھیے: طہ جابر العلوانی، لا اکراہ فی الدین: اشکالیۃ الردۃ والمرتدین من صدر الاسلام الی الیوم (ورجینیا: المعہد العالمی للفکر الاسلامی، قاہرۃ: مکتبۃ الشروق الدولیۃ، 2006ء )۔
۳۳۔ فقہ الاقلیات پر ڈاکٹر طہ جابر نے فی فقہ الاقلیات نامی مختصر کتاب تحریر کی ہے۔
۳۴۔ دیکھیے: طہ جابر العلوانی، فخر الدین الرازی ومصنفاتہ (قاہرہ: دارالسلام، 2010ء )، ص 6۔
۳۵۔ دیکھیے: محمد جابر الفیاض، الامثال فی القرآن الکریم، پیش لفظ، طہ جابر العلوانی (ریاض: الدار العالمیۃ للکتاب الاسلامی، 1995ء)، ص 13۔ 14۔
مولانا محمد عبید اللہ اشرفی رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
جامعہ اشرفیہ کے مہتمم، سراپا اخلاق و تبسم، زندہ دل، خندہ جبیں، علم و حلم کا حسین امتزاج، شکوہ علم کے بغیر کوہ علم اور زعم تقویٰ سے خالی زبدہ اتقیا ء۔اتنے بے تکلف کہ شاگرد سراپا حیرت رہ جاتے اور اتنے مودب کہ معاصرین کو اساتذہ کا سا درجہ دیتے۔ حدیث کے زیر سایہ منطق کلام تصوف یا فقہی مناظرہ آراء کی تدریس ایک الگ پہلو ہے، لیکن حدیث بحیثیت حدیث کی تدریس میں ان کو تفوق حاصل تھا۔ تاہم نہ صرف یہ کہ کبھی بخاری پڑھانے کی خواہش نہیں کی بلکہ ہمیشہ اپنے کو شیوخ حدیث کے شاگردوں کی سطح پر رکھا۔
صبح صبح ہمیں ابوداود اور پھر طحاوی پڑھانے آتے تو کبھی اس نشست پر نہیں بیٹھے جو استاذ حدیث کے لیے مختص تھی۔ ایک کنارے پر ایک پاؤں مسند سے نیچے رکھ کر بیٹھ جاتے اور اپنی بے پناہ مترنم آوازمیں حدیث کا مفہوم، معانی، مطالب، توجیہات، تنقیحات، تعارض، توافق، تطبیق، سب ایک ایک کر کے بیان کرتے لیکن نہ زعم تحقیق نہ علمی طنطنہ نہ بیاض نہ نوٹس نہ رٹا۔ اتنے دلآویز انداز میں قال ابو داود کہہ کر اس کی تشریح کر تے کہ اس وقت بھی ان کی مترنم آواز میری سماعت میں رس گھول رہی ہے۔
وہ اصل میں کیا تھے؟ فنون لطیفہ کے حسن امتزاج سے جو پیکر مجسم ہو سکتاہو اسے نام دیا جائے تو وہ مولانا عبیداللہ تھے۔ سنا ہے جوانی میں انہوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی اور ریاض کرتے رہے تھے۔ جن احباب نے ان سے حماسہ پڑھی ہے، وہی ان کے جذب و شوق اور عشق و وارفتگی سے بخوبی آگاہ رہے ہو ں گے۔
جب اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر تھے تو اتفاق سے میں کونسل کے دفتر گیا تو وہاں نیاز حاصل ہوئے۔ انہیں کمیٹی چوک پنڈی اپنے کسی عزیز کے ہاں جانا تھا۔میری درخواست پر میرے ساتھ بیٹھ گئے۔ راستے میں مجھے مزے مزے کے اشعار بھی سناتے رہے جن میں سے ایک ابھی تک حافظے میں محفوظ ہے:
رکھ کے لب سو گئے ہم آتشیں رخساروں پر
دل کو تھا چین کہ نیند آگئی انگاروں پر
اسی دوران میں میرے سوال پر کہ دیگر مدارس کے بر عکس فضلائے جامعہ اشرفیہ میں شدت پسندی نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ بانی جامعہ حضرت مفتی محمد حسن صاحب کے مزاج کا اثر ہے۔ پھر اس پر واقعہ بھی سنایا کہ لاہور کے چند جید علماء دیوبند و اہل حدیث نے جن میں مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا داود غزنوی شامل تھے، ایک فتویٰ تیار کیا جس کا مفاد یہ تھا کہ عید میلاد النبی کا جلوس نکالنا بدعت ہے اور ایک وفد کی شکل میں مولانا مفتی محمد حسن بانی جامعہ اشرفیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس پر دستخط کرنے کی درخواست کی۔ مفتی صاحب نے ٹالنے کی کوشش کی، لیکن جب علماء نے اصرار کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ’’میرے خیال میں جس طرح کوئی اللہ رسول کا نام لے، اسے لینے دیا جائے۔‘‘
آج کی بات نہیں، میں ہمیشہ سے یہ سوچتا ہوں کہ انسان اتنا متوازن کیسے ہو سکتا ہے جس قدر استاذ گرامی قدر متوازن تھے۔ اہل علم اپنے احساس علم کے طمطراق کے اسیر ہو جاتے ہیں اور اہل دل عزت نفس بر قرار رکھنا بھی عجب (عین کی پیش ) سمجھتے ہیں۔ نہ معلوم انہوں نے کس طرح اپنے آپ کو پیکر توازن میں ڈھال لیا تھا۔ تھانوی مکتب خیال سے متعلق ہونے کے باوجود اس مکتب فکر کی منفی خصوصیات سے کوسوں دور۔ حدیث پڑھانا یقیناًبہت بڑی سعادت ہے اور حاصل نہیں ہو سکتی تا نہ بخشد خدائے بخشندہ، لیکن شخصیت کو سنت کے قالب میں اس طرح ڈھال لینا کہ ہر دیکھنے اور ملنے والا دام محبت میں اسیر ہوجائے، کاروان اصحاب رسول کا امتیاز تھا۔ نہ معلوم آج کے دور میں کچھ شخصیات پر ایسی محبوبیت کا نزول کیسے ہوتا ہے۔
مجھے زیادہ موقع نہیں ملا، لیکن ایک دوبار مولانا خیر محمد جالندھری اور مولانا محمد علی جالندھری کی مجالس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ نہ معلوم ان کی شخصیات کنن سی مقناطیسی قوت اور کس نوع کی کشش ثقل لے کر آئی تھیں کہ ان کی طرف دل کھنچا چلا جاتاتھا۔ مولانا عبید اللہ اسی قافلے کے آخری مسافر تھے اور بقول آغا شورش کاشمیری
القصہ ایک عہد صحابہ کی یاد گار
ان کا وجود نغمہ طراز حجاز تھا
مولانا محمد عبید اللہ اشرفی رحمہ اللہ
مولانا مفتی محمد زاہد
حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا واقعی ان شخصیات میں سے تھے جن کے معاصرین میں سے کسی کو ان کا مماثل نہیں کہا جاسکتا۔ علامہ انور شاہ کشمیری اور مرشد تھانوی سے نیاز حاصل کرنے والی پاکستانی کی شاید آخری شخصیت۔ علم فطانت ، ذہانت، حاضر جوابی ، بڑوں کی نسبتوں کے باوجود امتیاز پسندی کا نام ونشان تک نہیں۔ خشکی قریب سے نہیں گذری تھی۔ خود کو متقی ، عابد وزاہد ثابت کرنے کے لیے بھی کبھی خشک بننے کا تکلف نہیں کیا ہوگا۔ آخر عمر تک دورہ حدیث میں طحاوی کی شرح معانی الآثار کا درس دیتے رہے، حالانکہ بخاری جیسی کوئی معروف کتاب بھی لے سکتے تھے۔
مولانا کو یہ خاص امتیاز حاصل تھا کہ انہوں نے فارسی کی ابتدائی کتب سے لے کر صحیح بخاری تک ساری درسی کتب کا پہلا سبق حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ سے پڑھا تھا۔ اس طرح سے اس وقت مولانا تھانوی کے وہ واحد شاگرد تھے۔ ان کے والد ماجد مفتی محمد حسن حضرت تھانوی کے عاشق زار مرید وخلیفہ تھے، لیکن فرمایا کرتے تھے کہ حضرت تھانوی کے ساتھ مجھے بعض ایسی خصوصیات حاصل ہیں جو میرے والد صاحب کو بھی حاصل نہیں، اور یہ بات وہ خود اپنے والد ماجد سے بھی کہا کرتے تھے۔ ایک بات تو وہی ہرکتاب ان سے شروع کرنے والی۔ ایک یہ کہ میں نے حضرت تھانوی سے بچپن میں ایک تھپڑ بھی کھایا تھا۔
شعر وشاعری سے بے تحاشا شغف تھا۔ بہت سے اشعار بڑھاپے میں بھی یاد تھے۔ کرکٹ جیسے کسی زمانے میں مکروہ سمجھے جانے والے کھیل بھی لگاؤ رکھتے تھے۔
اپنے اور اپنے بزرگوں کے بہت سے واقعات سنایا کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد مفتی حسن صاحب لاہور آگئے۔ حکومت میں آپ کے خاصے تعلقات تھے۔ مولانا تھانوی کے کئی متعلقین کو ان کی ہندوستان کی جائیدادوں کے claim میں یہاں پراپرٹیز الاٹ کروائیں، لیکن خود کچھ حاصل نہیں کیا۔ بتاتے تھے کہ مولانا تھانوی کی اہلیہ (جنہیں چھوٹی پیرانی صاحبہ کہا جاتا تھا، مفتی جمیل احمد تھانوی کی ساس اور مولانا مشرف علی تھانوی وغیرہ کی نانی) کو ماڈل ٹاؤن میں ایک بڑی کوٹھی الاٹ کروائی۔ مولانا عبید اللہ بتایا کرتے تھے کہ کئی لوگوں نے مفتی صاحب سے خود بھی کہا اور میرے ذریعے بھی کہلوایا کہ آدھی مفتی صاحب خود رکھ لیں اور آدھی پیرانی صاحبہ کو دلوادیں، لیکن مفتی صاحب نہیں مانے۔
اللہ تعالیٰ نے آواز میں عجیب ترنم اور سوز دیا تھا۔ پچپن میں کچھ عرصہ جامعہ اشرفیہ میں صوفی صاحب کے گھر رہنے کا اتفاق ہوا۔ جب کبھی فجر کی نماز پڑھاتے تو مزا آجاتا۔ ’’وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض‘‘ کثرت سے تلاوت کرتے۔ خطبہ جمعہ بھی سننے کے قابل ہوتا تھا۔ کئی لوگوں نے نقل اتارنے کی کوشش کی، لیکن نقل اور اصل میں فرق برقرار رہا۔ غفر اللہ لہ ورفع درجتہ
ممتاز قادری کیس: سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نکات
ادارہ
یہ کیس سب سے پہلے ایک سپیشل ٹرائل کورٹ میں چلا جس نے ممتاز قادری کو 302 اور اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997 کے سیکشن 7 کے تحت سزائے موت سنائی جس کے خلاف جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی تو عدالت نے 302 کے تحت پھانسی کی سزا برقرار رکھی مگر انسدادِ دہشت گردی کی شق ہٹا دی۔ پھر جب اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تو سپریم کورٹ کی بینچ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور 302 کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کے تحت سزائے موت بھی بحال کر دی۔ سب سے پہلے فیصلے میں کیس کی نوعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس کیس کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ کیا توہین مذہب کے ارتکاب کے نتیجے میں کوئی شخص کسی کو قتل کر سکتا ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ’’کیا کوئی شخص کسی پر توہین مذہب کے شبہے میں یا اپنی دانست میں کسی بات کو توہین مذہب سمجھ کر کسی کو قتل کر سکتا ہے؟’’
کیس میں ممتاز قادری کا دفاع 2 نکات پر مشتمل تھا:
- میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے میں حق بجانب تھا، کیونکہ اس نے توہین رسالت کی تھی اور ایک ایسی عورت کو سپورٹ کیا تھا جس کو توہین رسالت کے کیس میں سزا ہو چکی تھی۔
- میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے میں اس لیے حق بجانب تھا کہ اس نے مجھے اشتعال دلایا۔ جب وہ کوہسار مارکیٹ کے ریسٹورنٹ سے اپنے دوست کے ساتھ باہر نکلا تو میں نے اس سے کہا کہ جنابِ والا! آپ نے گورنر ہوتے ہوئے بلاسفیمی لا کو کالا قانون کہا ہے جو آپ کے شایانِ شان نہیں۔ اس پر سلمان تاثیر نے آگے سے نہ صرف یہ کہا کہ یہ کالا قانون ہے، بلکہ اس نے اس قانون کو مزید برا بھلا کہا جس پر ممتاز قادری کو مبینہ طور پر اشتعال آ گیا اور اس نے گولیاں چلا دیں۔
پہلے نکتے کو ثابت کرنے کے لیے ممتاز قادری نے عدالت میں 2 اخباری رپورٹیں جمع کروائیں جس میں سلمان تاثیر کے آسیہ بی بی سے متعلق ریمارکس بتائے گئے تھے۔ اْن میں سے ایک رپورٹ تو قتل ہو جانے کے بعد شائع ہوئی تھی۔ دوسری رپورٹ کے بارے میں جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا اس نے اس رپورٹ کی تصدیق کی تھی کہ کس نے اسے رپورٹ کیا اور کیا واقعی یہ سلمان تاثیر کے الفاظ ہیں؟ تو ممتاز قادری کا جواب نفی میں تھا جس پر عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ممتاز قادری نے آسیہ بی بی سے متعلق ریمارکس براہ راست نہیں سنے بلکہ یہ Hearsay پر مبنی ہیں جن کو وہ اپنی دانست میں توہین رسالت سمجھ بیٹھا۔
دوسرے نکتے کو ٹرائل کورٹ میں تحریری طور پر کیس چلنے کے وقت جمع کروایا گیا تھا۔ اس بارے میں جب اس سے کہا گیا کہ وہ عدالت میں آ کر حلف اٹھا کر یہ بیان دے کہ سلمان تاثیر نے اس کے سامنے ایسی بات کہی تھی تو اس نے حلفیہ بیان دینے سے انکار کر دیا۔ اس مبینہ گفتگو کے وقت تین ہی لوگ موجود تھے: ایک سلمان تاثیر کا دوست شیخ وقاص، دوسرا سلمان تاثیر اور تیسرا قادری۔ ایک انسان مارا جا چکا تھا۔ دوسرے کو انہوں نے عدالت میں طلب کرنے کی درخواست نہیں جمع کروائی۔ اگر کرواتے تو یہ عدالت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس اہم گواہ کو بلاتی اور اگر وہ نہ پیش ہوتا تو اس پر توہین عدالت لگ جاتی۔ لیکن اپیل کنندہ کی جانب سے ایسی کوئی درخواست ہی جمع نہیں کروائی گئی۔ خود اپیل کنندہ نے بھی حلف اٹھا کر یہ بات کہنے سے انکار کر دیا۔
بس یہی وہ نکتہ تھا جس نے اس کیس کو سب سے زیادہ کمزور کر دیا اور عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ اپنا دفاع بہتر کرنے کے لیے بعد میں ایجاد کی گئی ایک کہانی ہے کیونکہ ٹرائل کورٹ سے پہلے تفتیشی افسر کے سامنے بھی ممتاز قادری نے قتل کے وقت ایسے کسی مکالمے کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ ممتاز قادری کے وکلاء نے کہا کہ مقتول کو گولیاں سامنے سے لگی تھیں جس سے پتا لگتا ہے کہ دونوں کے درمیان ضرور کوئی مکالمہ ہوا ہوگا اور 28 گولیوں کے لگنے سے پتا لگتا ہے کہ ضرور ملزم اشتعال میں آیا ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ یہ صرف قیاس آرائیاں ہیں، ان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔
ممتاز قادری کے وکلاء کی جانب سے یہ بات بھی اٹھائی گئی کہ توہین مذہب پر سزا کے قانون کو غلط کہنا بھی توہین مذہب ہے اور فیصلے کی رپورٹ کے مطابق اس بات کے حق میں انہوں نے جو حوالے پیش کیے، ان میں سے کوئی بھی قرآن یا حدیث کے حوالے پر مبنی نہیں تھا، بلکہ وہ صرف کچھ اسکالرز کی رائے تھی کہ توہین مذہب پر سزا کے قانون کو غلط کہنا بھی توہین مذہب ہے۔ عدالت کا موقف یہ تھا کہ بلاسفیمی کیا ہے، اْس کی تعریف 295-C میں موجود ہے۔ سلمان تاثیر کا اس قانون سے متعلق بیان کسی بھی صورت میں 295-C میں بیان کردہ توہین مذہب کی تعریف میں نہیں آتا۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ بلاسفیمی قانون میں پہلے بھی کئی بار ترمیم ہو چکی ہے۔ یہ سب سے پہلے 1866 میں انڈین پینل کوڈ میں شامل ہوا۔ پھر سب سے پہلی ترمیم 1927 میں ہوئی۔ پھر 1986 اور 1991 میں اس میں ترامیم ہوئیں۔ لہٰذا جس قانون میں پہلے ہی کئی بار ترامیم ہو چکی ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی ساکت و جامد قانون نہیں ہے بلکہ اس کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس پر نظر ثانی کی جائے تو یہ مطالبہ کوئی غلط بات نہیں۔ معزز جج صاحبان نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک 2002 کے کیس کا حوالہ دیا جس میں خود عدالت نے قانون میں ترامیم کی کچھ سفارشات پیش کی تھیں کہ اس کے پروسیجر میں یہ اور یہ تبدیلیاں کی جائیں۔ اس کی تفتیش کوئی عام ASI یا محرر نہ کرے، بلکہ دو ایسے افسر کریں جن کو اس بارے میں مکمل علم ہو کہ توہین مذہب کی تعریف کیا ہے اور ان کے ساتھ ایک غیر جانبدار مذہبی اسکالر بھی ہو اور پوری تفتیش کے بعد کیس درج کیا جائے۔ عدالت نے فیصلے میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کی اس قانون میں تبدیلیاں کرنے کی سفارشات کو کسی بھی صورت میں توہین مذہب کہا جا سکتا ہے؟ خود ہی اس کا جواب بھی دیا ہے کہ ہرگز نہیں۔
جج صاحبان نے بلاسفیمی کیسز کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار بھی فراہم کیے جن کے مطابق 1953 سے 2012 تک درج ہونے والے 434 بلاسفیمی کے مقدمات میں 258 خود مسلمانوں کے خلاف تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس قانون کا استعمال ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے کیا جاتا ہے، لہٰذا اگر کوئی یہ بات کرتا ہے کہ اس قانون پر نظر ثانی کی جائے اور اس کا غلط استعمال روکا جائے تو یہ کوئی غلط مطالبہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی توہین مذہب ہے۔
(https://www.facebook.com/leee3x/posts/193792064320665)
تشدد کے خلاف خواتین کے تحفظ کا قانون :چند اہم نکات
محمد مشتاق احمد
اصولی گزارشات
پہلے چند اصولی گزارشات ملاحظہ کریں:
۱۔ اسلامی قانون کی رو سے یہ موقف صحیح نہیں ہے کہ نظمِ اجتماعی کو گھر یا خاندان کے امور میں مداخلت کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ اگر قاضی کو بیوی کی جانب سے شوہر کے خلاف شکایت ملے تو قاضی کو شوہر سے بازپرس اور اس کے پڑوسیوں کے ذریعے تحقیق کا حق ہے اور نتیجتاً وہ شوہر کی مناسب تادیب بھی کرسکتا ہے۔ پس اس موقف سے گریز ہی بہتر ہے کہ نظمِ اجتماعی کو خاندان کے نجی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں ہے، بلکہ میں تو ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہوں گا کہ پاکستانی معاشرے میں عورت پر ظلم ایک بدیہی امر ہے جو بے شک اس سطح پر نہ ہوتا ہو جتنا لوگ اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں، لیکن بہرحال اس کی سنگینی سے انکار مناسب نہیں ہے۔ اس لیے اصولاً اس ظلم کے خاتمے کے لیے مناسب قانون سازی کی ضرورت بھی تسلیم کرنی چاہیے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر مناسب قانون سازی کی ضرورت کو دینی حلقے خود ہی پورا نہیں کریں گے تو خلا اسی طرح کی ناقص اور بھونڈی قانون سازی سے پورا ہوگا۔ البتہ اس امر پر بحث ضروری ہے کہ نظمِ اجتماعی کی یہ مداخلت کس نوعیت کی ہے اور کیا وہ شریعت کے اصول و قواعد سے ہم آہنگ ہے یا نہیں ؟
۲۔ جب شریعت سے ہم آہنگی کی بات کی جاتی ہے تو یار لوگ پوچھنا شروع کردیتے ہیں کہ اس قانون کی کون سی شق سے کس آیت یا حدیث کی خلاف ورزی ہورہی ہے ؟ اہم بات یہ ہے کہ صرف کسی مخصوص آیت یا حدیث کی مخالفت ہی کی بنا پر کوئی شق غیر اسلامی نہیں ہوجاتی بلکہ اگر وہ شریعت کے اصول اور قواعدِ عامہ سے متصادم ہو تو اس صورت میں بھی حکم یہی ہوگا۔یہ نظریہ صرف اسلامی شریعت نے ہی نہیں دیا بلکہ ملکی قانون کی رو سے بھی عدالتوں نے یہی اصول تسلیم کیا ہے ؛ یہاں تک کہ بین الاقوامی قانون نے بھی ’’قانون کے قواعدِ عامہ‘‘ کو بین الاقوامی قانون کے بنیادی مآخذ میں شمار کیا ہے۔
۳۔ مزید برآں ، بعض اوقات کسی خاص شق سے کسی خاص دلیلِ جزئی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی لیکن قانون کا جو پورا مجموعہ ہوتا ہے، وہ شریعت کے عمومی مقاصد150 جسے آج کل معروف اصطلاح میں "شریعت کی روح " کہا جاتا ہے 150سے متصادم ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں ایک ایک شق پر الگ بحث کی ضرورت ہے، وہیں یہ دیکھنا بھی اشد ضروری ہے کہ کیا اس قانون کا کلی تصور شریعت کے مقاصد سے ہم آہنگ ہے؟
۴۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ بارِ ثبوت ان لوگوں پر نہیں ہے جو اس قانون کو شریعت سے متصادم قرار دیتے ہیں ، بلکہ ان لوگوں پر ہے جن کا دعویٰ ہے کہ اس قانون سے شریعت کے کسی اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری عدالتوں نے اباحتِ اصلیہ کے انتہائی کمزور تصور کی بنیاد پر کئی اہم فیصلوں کی بنا کی ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس معاملے کی برابر کی ذمہ داری ہمارے علماے کرام پر بھی آتی ہے جنھوں نے بعض امور 150 بالخصوص "اسلامی" بینکاری کے امور 150میں اس تصور کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا ہے۔
اس قانون کے بارے میں چند اہم نکات
ان اصولی باتوں کی توضیح کے بعد چند نکات اس قانون کے متعلق پیش کیے جاتے ہیں :
قانون کا اطلاق
میڈیا پربغیر کسی تصدیق کے قرار دیا گیا کہ اس قانون کے تحت ایک شوہر پر مقدمہ درج کیا گیا اورپھر ضمانت پر باہر آنے کے بعد اس نے فوراً بیوی کو طلاق دے دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک اس قانون کا نفاذ تو شروع ہی نہیں ہوا۔ دفعہ 1 کی ذیلی دفعہ 3 میں قرار دیاگیا ہے کہ یہ قانون تب نافذ العمل ہوگا جب حکومتِ پنجاب خصوصی اعلان کے ذریعے اس کا نفاذ کرے۔ یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ مختلف علاقوں میں اس کے نفاذ کی تاریخ مختلف ہوسکتی ہے۔ چونکہ ابھی تک سرکاری طور پر کسی بھی ضلع میں اس کا نفاذ نہیں کیا گیا ، اس لیے اس کے تحت مقدمے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس قانون کے تحت تشدد ، بشمول گھریلو تشدد ، اصلاً دیوانی معاملہ ہے جس پر خواہ آخر میں سزا تک بات پہنچ جاتی ہو، لیکن ابتدا میں مقدمہ سول عدالت ( فیملی عدالت ) میں جائے گا۔ تاہم مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت تشدد پہلے ہی سے قابلِ سزا جرم ہے۔ اس لیے تعزیراتِ پاکستان کے تحت فوجداری مقدمہ بھی دائر ہوسکتا ہے۔ میڈیا میں مذکور کیس اسی نوعیت کا تھا۔ اس مقدمے کا اندراج تعزیراتِ پاکستان کے تحت ہوا تھا ، نہ کہ اس نئے قانون کے تحت۔
البتہ اس مقدمے سے یہ بات تو بہرحال ثابت ہوجاتی ہے کہ اس طرح کی مقدمہ بازی کا نتیجہ فوری طلاق کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اس سے تو یہ بھی ثابت ہوا کہ مرد واقعی خواتین پر ظلم کرتے ہیں اور اسی لیے اس ظلم کی روک تھام کے لیے مناسب قانون سازی بہرحال ضروری ہے۔
قانون کی وسعت
میڈیا پر زیادہ تر بحث شوہر کی جانب سے بیوی پر ہونے والے ظلم کے تناظر میں ہورہی ہے ، حالانکہ قانون صرف بیوی اور شوہر تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کسی بھی خاتون پر کسی بھی شخص کی جانب سے ہونے والے ظلم پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ نیز اس قانون کا اطلاق صرف "گھریلو تشدد " پر ہی نہیں ہوتا ، بلکہ کہیں بھی کسی خاتون پر تشدد ہو تو وہاں اس قانون کی رو سے کارروائی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ (a) میں "متاثرہ شخص" (aggrieved person) کی تعریف یہ پیش کی گئی ہے :
a female who has been subjected to violence by a defendant
( کوئی خاتون جسے مدعا علیہ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ )
اسی طرح "مدعا علیہ "(defendant) کی تعریف دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ (n) میں یہ کی گئی ہے :
a person against whom relief has been sought by the aggrieved person
(کوئی شخص جس کے خلاف کارروائی کے لیے متاثرہ فریق نے دعویٰ کیا ہو۔ )
یہاں اس بات پر بھی توجہ رہے کہ "متاثرہ فریق " تو کوئی خاتون ہی ہوسکتی ہے لیکن "مدعا علیہ " کا مرد ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ کسی بھی شخص ، مرد یا عورت ، کے خلاف کسی خاتون پر تشدد کا دعویٰ دائر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ اس بات کا اضافہ کردیں کہ دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ (r) کی رو سے "تشدد " کی تعریف میں اس کی "اعانت" (abatement) بھی شامل ہے۔ مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 107 میں اعانتِ جرم کی جو تعریف پیش کی گئی ہے، اس کی رو سے کسی جرم کی "ترغیب " ، " سازش " یا "عملی معاونت " سبھی کو اعانتِ جرم کہا جاتا ہے۔ اس وسیع تعریف کی رو سے تلوار صرف شوہر کے سر پر ہی نہیں لٹک رہی ، بلکہ باپ ، بھائی ، بیٹے اور دیگر رشتہ دار وں اور خواتین 150 جیسے ساس ، نند وغیرہ 150 کو بھی کڑا پہنایا جاسکتا ہے۔ نیز ، جیسا کہ واضح کیا گیا ، اس کا قانون کا اطلاق صرف گھریلو تشدد پر ہی نہیں ہوتا بلکہ گھر سے باہر 150 گلی ، محلہ ، بازار ، سکول ، کالج ، یونی ورسٹی ، دفتر 150 کہیں بھی اس پر تشدد ہو تو تشدد کرنے والے / والی اور اس کی اعانت (ترغیب ، سازش یا عملی معاونت ) کرنے والے / والی کے خلاف اس قانون کی رو سے کارروائی ہوسکتی ہے۔
تشدد کا مفہوم
اب ذرا اس کی بھی وضاحت کی جائے کہ اس قانون کی رو سے "تشدد" سے کیا مراد ہے ؟ دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ (r) کی رو سے "تشدد " کی یہ تعریف پیش کی گئی ہے :
"any offence committed against the human body of the aggrieved person including abatement of an offence, domestic violence, sexual violence, psychological abuse, economic abuse, stalking or a cybercrime "
یہاں چند نکات قابلِ غور ہیں :
۱۔ اس تعریف کی رو سے تشددکو "جرم " (offence) قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے خلاف کارروائی کے لیے مقدمہ فیملی کورٹ میں دائر کیا جائے گا جو بنیادی طور پر سول عدالت ہے ، اگرچہ خاندان سے متعلق بعض فوجداری امور کے اختیارات بھی اسے حاصل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب "انسانی جسم کے خلاف کیا گیا جرم " تو مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی رو سے پہلے ہی سے جرم ہے ، تو پھر اس نئی قانون سازی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ نیز جب تعزیراتِ پاکستان کی رو سے اس فعل پر کارروائی ہوگی تو مقدمہ فوجداری عدالت میں جائے گا، لیکن جب اس قانون کی رو سے کارروائی ہوگی تو مقدمہ فیملی عدالت میں دائر کیا جائے گا۔ اس طرح غیر ضروری مقدمہ بازی کے لیے اچھی خاصی گنجایش پیدا ہوجائے گی۔
۲۔ "گھریلو تشدد " اس تعریف کی رو سے تشدد کی ایک قسم ہے۔ اس قانون کی دفعہ 2 ، ذیلی دفعہ (h) میں گھریلو تشدد (domestic violence) کی تعریف ان الفاظ میں پیش کی گئی ہے :
"domestic violence" means the violence committed by the defendant with whom the aggrieved is living or has lived in a house when they are related to each other by consanguinity, marriage or adoption"
( گھریلو تشدد سے مراد وہ تشدد ہے جس کا ارتکاب وہ مدعا علیہ کرے جس کے ساتھ متاثرہ خاتون کسی مکان میں رہتی ہے ، یا رہ چکی ہے ، جبکہ ان کا ایک دوسرے سے نسب ، شادی یا تبنی کا رشتہ ہو۔)
اس تعریف میں چند نکات قابلِ غور ہیں :
اولاً : تشدد کی جتنی قسمیں آگے ذکر کی جائیں گی وہ سب گھریلو تشدد کہلائیں گی ، اگر ان کا ارتکاب ایسا شخص کرے جس کے ساتھ متاثرہ خاتون ایک مکان میں رہتی ہو ، یا کبھی رہ چکی ہو ، بشرطیکہ اس شخص اور اس خاتون کے درمیان نسب، شادی یا تبنی کا رشتہ ہو۔
ثانیاً : قطع نظر اس سے کہ پاکستانی قانون کس حد تک تبنی کے رشتے کو مانتا ہے ، اس بات پر توجہ کی ضرورت ہے کہ اگر باپ اپنی بیٹی کے خلاف ، یا شوہر اپنی بیوی کے خلاف تادیبی کارروائی کرتا ہے ، خواہ وہ کارروائی شریعت کی مقررہ حدود کے اندر ہی کیوں نہ ہو ، تو کیا وہ تادیبی کارروائی اس تعریف کی رو سے "گھریلو تشدد" نہیں ہوگی ؟
۳۔ "جنسی تشدد" کی تعریف اس قانون میں پیش نہیں کی گئی ہے۔ کسی دوسرے قانون میں بھی ابھی تک اس جرم کی مستقل تعریف اور اس کی مختلف قسموں کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ "زنا بالجبر " (rape) اس کی تعریف میں داخل ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب 2006ء میں جنرل مشرف نے "قانونِ تحفظِ نسواں " بنایا تھا تو اس کی رو سے حد زنا آرڈی نینس سے زنا بالجبر کے جرم اور اس کی سزا کے متعلق دفعات ختم کرکے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں دفعہ 376 میں rape کے جرم کی تعریف اور دفعہ 377 میں اس کی سزا مقرر کی گئی۔ اس قانون کی رو سے rape کی تعریف میں marital rape بھی شامل ہے۔ چنانچہ اگر شوہر نے بیوی کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ جماع کیا تو تعزیراتِ پاکستان کی رو سے یہ marital rape ہوگا اور اس نئے قانون کی رو سے یہ "تشدد" کے ضمن میں آئے گا۔ واضح رہے کہ rape جنسی تشدد کی ایک انتہائی شکل ہے۔ اس سے کم تر شکلیں ، جیسے بوس و کنار ، خواہ rape نہ کہلائیں لیکن وہ بہرحال تشدد میں شامل سمجھے جائیں گے ، خواہ ان کا ارتکاب کرنے والا اس خاتون کا شوہر ہی ہو۔
۴۔ نفسیاتی بدسلوکی (psychological abuse) کو بھی تشدد کی ایک قسم قرار دیاگیا ہے اور دفعہ 2 میں تشدد کی تعریف کی توضیحِ دوم میں قرار دیاگیا ہے:
"psychological violence includes psychological deterioration of aggrieved person which may result in anorexia, suicide attempt or clinically proven depression resulting from defendant's oppressive behaviour or limiting freedom of movement of the aggrieved person and that condition is certified by a panel of psychologists appointed by District Women Protection Committee"
اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مدعا علیہ ( باپ ، بھائی ، شوہر ، افسر وغیرہ) کے رویے سے ، یا اس کی جانب سے متاثرہ فریق (بیٹی ، بہن ، بیوی ، ماتحت خاتون وغیرہ) کی نقل و حرکت محدود کرنے کی وجہ سے ، وجود میں آنے والی پریشانی کو نفسیاتی بدسلوکی تصور کیا جائے گا ، بشرطیکہ ماہرینِ نفسیات کا پینل اس نتیجے پر پہنچے۔تاہم اس کے ساتھ اس بات پر بھی توجہ ہوکہ اس تعریف میں means کی جگہincludes کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفسیاتی بدسلوکی کی کچھ اور قسمیں بھی ہوسکتی ہیں جویہاں مذکور نہیں ہیں لیکن عدالت ان کا تعین کرسکتی ہے۔
۵۔ اسی طرح "معاشی بدسلوکی " کو تشدد کی ایک اور قسم قرار دیا گیا ہے اور دفعہ 2 میں تشدد کی تعریف کی توضیحِ اول میں اس کی تعریف ان الفاظ میں پیش کی گئی ہے :
"economic abuse" means denial of food, clothing and shelter in a domestic relationship to the aggrieved person by the defendant in accordance with the defendant's income or taking away the income of the aggrieved person without her consent by the defendant
اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشی بدسلوکی کا اطلاق صرف "گھریلو تعلقات " کے ضمن میں ہی ہوسکتا ہے۔ معاشی بدسلوکی کی دو قسمیں ذکر کی گئی ہیں :
اولاًکھانے ، کپڑوں یا رہایش سے محرومی ، لیکن اس کو بدسلوکی ، اور نتیجتاً تشدد ، نہیں کہا جائے گا اگر خاتون نے مدعا علیہ کی آمدنی سے بڑھ کر کوئی مطالبہ کیا۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ اس کا اطلاق والدین کی جانب سے بچی کے خلاف تادیبی کارروائی پر بھی ہوسکتا ہے۔
ثانیاً: معاشی بدسلوکی کی دوسری قسم یہ ہے کہ خاتون کی مرضی کے بغیر مدعا علیہ اس کی آمدنی اپنے تصرف میں لے آئے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کئی بے غیرت شوہر اپنی بیویوں کو ان کی آمدنی سے محروم کرتے ہیں حالانکہ اس کا ان کو شرعاً ، قانوناً یا عرفاً کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
۶۔ تشدد کی آخری دو قسمیں stalking اور cyber crime ہیں۔ ان دونوں امور کی تعریف اس قانون میں پیش نہیں کی گئی۔ اس لیے عدالت ان کی تشریح و تعبیر کے لیے دیگر قوانین اور قواعدِ عامہ کی طرف رجوع کرے گی۔
آکسفرڈ ڈکشنری آف لا میں Cyber crime کی یہ تعریف پیش کی گئی ہے:
Crime committed over the internet
( ایسا جرم جس کا ارتکاب انٹرنیٹ پر کیا جائے۔ )
جعلی ای میل اکاؤنٹ کھولنا سائبر کرائم کی ایک عام مثال ہے۔
جہاں تک Stalkingکا تعلق ہے تو اس کی تعریف آکسفرڈ ڈکشنری آف لا میں یہ کی گئی ہے :
Persistent threatening behaviour by one person against another
(ایک شخص کا دوسرے شخص کے خلاف مسلسل دھمکی آمیز رویہ )
گیل انسائیکلوپیڈیا آف امیریکن لا سے اس کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے :
Criminal activity consisting of the repeated following and harassing of another person
(ایسی مجرمانہ کارروائی جو کسی دوسرے شخص کا مسلسل پیچھا کرنے اور اسے ہراساں کرنے پر مبنی ہو۔ )
سوال یہ ہے کہ اگر باپ اپنی بیٹی سے پوچھ گچھ کرتا رہے کہ وہ کہاں گئی ، کس سے ملی ، کب آئی ، کہاں سے آئی ، کس کے ساتھ آئی ، تو کیا اس پوچھ گچھ کو stalking ، اور اسی بنا پر "تشدد" ، کہا جائے گا ؟
۷۔ تشدد کی تعریف پر اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ایک طرف خواتین کے خلاف ہونے والے عمومی تشدد کی روک تھام کی کوشش کی گئی ہے ، جو اپنی جگہ ایک مستحسن کام ہے ، وہیں دوسری طرف اس بات کا بالکل ہی خیال نہیں رکھا گیا کہ شریعت نے "ولایت" کا جو تصور دیا ہے اور اس کے تحت "ولی" کو اپنے ماتحتوں کی "تادیب" کا اختیار دیا گیا ہے، وہ بھی پامال ہوجاتے ہیں ! یہی بات،جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ، "گھریلو تشدد " کی تعریف سے بھی معلوم ہوتی ہے۔
شنوائی کا طریقِ کار
اگر کسی خاتون پر تشدد ہو ، یا اسے تشدد کا خطرہ ہو ، تو اس قانون کے تحت اس کے پاس دو راستے ہیں : عدالت میں استغاثہ یا ویمن پروٹیکشن آفیسر کو شکایت۔ ان دونوں پر الگ الگ بحث ضروری ہے۔
دفعہ 4 کی ذیلی دفعہ 1 میں قرار دیاگیا ہے کہ عدالت میں استغاثہ متاثرہ خاتون خود ، یا اس کی جانب سے مقررہ کیا گیا کوئی شخص ( مرد یا عورت)، یا ویمن پروٹیکشن آفیسرکی جانب سے دائر کیا جاسکے گا۔ اس استغاثے پر عدالت درج ذیل تین میں سے کوئی ایک یا زیادہ حکم جاری کرسکتی ہے: تحفظ کا حکم ، رہایش کا حکم یا مال سے متعلق حکم۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک اہم مسئلے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ دفعہ 21 کی ذیلی دفعہ 1 میں قرار دیاگیا ہے کہ اس قانون کے تحت کسی بھی جرم پر عدالت تبھی کارروائی کرسکے گی جب ویمن پروٹیکشن آفیسر کی جانب سے اس کے سامنے استغاثہ نہ کیا جائے۔ کیا ان دونوں دفعات میں تضاد ہے ؟ یا دفعہ 4 کے تحت جرم سے قبل روک تھام کے لیے شکایت کا ذکر ہے جو خاتون خود یا اس کا نمائندہ یا ویمن پروٹیکشن آفیسر کی جانب سے آسکتی ہے اور دفعہ 21 میں جرم کے بعد کی کارروائی کا ذکر ہے جو صرف ویمن پروٹیکشن آفیسر کی جانب سے شکایت کے بعد ہی ہوسکے گی ؟
شکایت موصول ہونے کے بعد سماعت کے لیے عدالت زیادہ سے زیادہ سات دن کے اندر تاریخ مقرر کرے گی۔ نیز وہ مدعا علیہ کو نوٹس دے گی کہ سات دن کے اندر جوابِ دعویٰ دائر کردے ورنہ اس کے خلاف یک طرفہ کارروائی کی جائے گی۔ مقدمے کا حتمی فیصلہ عدالت نوے دن کے اندر کرے گی۔ واضح رہے کہ عدالت سے اس قانون میں مراد فیملی کورٹ ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ جب کسی خاتون کے خلاف تشدد گھر سے باہر کسی غیر مرد ( جیسے دفتر میں باس، یا پڑوس کے کسی آوارہ نوجوان ) نے کیا ہو تو پھر مقدمہ فیملی کورٹ میں کیوں دائر کیا جائے گا ؟ اس سوال پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ جب فیملی عدالتیں پہلے ہی مقدمات کے بوجھ تلے دبی جارہی ہیں تو ان پر مزید مقدمات کا بوجھ لادنے کے بعد ان سے بہتر نتائج کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ؟
شکایت کے بعد وہ متاثرہ خاتون جس نے گھریلو تشدد کی شکایت کی ہو چاہے تو اپنے گھر کے بجاے مدعا علیہ کے خرچے پر کسی اور گھر میں یا "دار الامان" (shelter home) میں رہ سکے گی۔ (دفعہ 5 ، ذیلی دفعہ b) یہاں پھر اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ واقعتاً کسی خاتون کو گھر میں / سسرال میں تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہو تو اس کا تحفظ ضروری ہے، لیکن اس کے نتیجے میں ولی کے پاس تادیب کا جو اختیار ہے، کیا وہ سلب نہیں ہوجائے گا ؟ کیا اس قانون نے ان دو امور میں توازن کو نظرانداز نہیں کردیا ہے ؟ اور کیا اس طرح خاندانوں کے اجڑنے کا عمل آسان نہیں ہوجائے گا ؟
یہی کچھ ان احکامات کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے جو عدالت جاری کرسکتی ہے۔ مثلاً restraining order جسے اس قانون میں protection order کہا گیا ہے، ان معاشروں میں تو بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے جہاں ازدواجی رشتے کا خاتمہ بہت مشکل کام ہو۔ تاہم ہمارے قانونی نظام میں جب مرد صرف ایک لفظ بول کر نکاح کا رشتہ ختم کرسکتا ہے، کیا اس قسم کے احکامات سے تشدد کی روک تھام ہوگی یا رہے سہے بندھن بھی ختم ہوجائیں گے ، بالخصوص جبکہ قانون بنانے والوں کا مفروضہ بھی یہ ہے کہ مرد ظالم ہیں ؟
شنوائی کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ویمن پروٹیکشن آفیسر کسی متاثرہ خاتون کو بچانے کے لیے کارروائی کرے۔ اس ضمن میں دفعہ 15 نے اسے اختیار دیا ہے کہ کسی بھی گھر میں بغیر عدالتی وارنٹ کے داخل ہو اور اس ضمن میں پولیس اور دیگر اداروں سے مدد لے ؛ نیز اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ایک مستقل جرم ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ جب پولیس پر وارنٹ کی پابندی بہت سے معاملات میں ہے اور اس کے باوجود وہ چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرنے میں بدنام ہے تو جب ایسے آفیسر ہوں جنھیں یہ کام کرنے کے لیے وارنٹ کی سرے سے ضرورت ہی نہ ہو تو وہ کیا کچھ نہیں کرگزریں گے ! اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ویمن پروٹیکشن آفیسر کے لیے خاتون ہونا بھی ضروری نہیں ہے (دفعہ 2 ، ذیلی دفعہ s)۔ اس لیے یہ کارہائے نمایاں بہت سارے مرد حضرات اپنی تمام تر مردانگی سمیت سرانجام دے سکیں گے۔ اگرچہ خواتین کے رہایشی حصے میں داخلے کے لیے صرف خواتین آفیسر ہی جاسکیں گی ( دفعہ 15، ذیلی دفعہ 5 ) ، لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ پابندی نہایت کمزور ہے اور اس کی موجودگی کے باوجود اس قانون کا غلط استعمال نہایت آسان ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ شکایت متاثرہ خاتون کے علاوہ کوئی اور شخص بھی کرسکتا /کرسکتی ہے۔ بدنیتی پر مبنی شکایت کو جرم قرار دیا گیا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس الزام کے خلاف "نیک نیتی " (good faith) اور "مفادِ عامہ" (public good)کے عذر میسر رہیں گے جن کی بنا پر شاید ہی کبھی کسی کو اس جرم کا مرتکب قرار دیا جاسکے۔ دفعہ 19 کی رو سے جھوٹی شکایت کرنے والے کو تبھی سزا دی جاسکے گی جب یہ ثابت کیا جاسکے کہ اسے معلوم تھا کہ شکایت جھوٹی ہے ، یا ایسے اسباب موجود تھے جن کی رو سے اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ شکایت جھوٹی ہے ! (knows or has reason to believe to be false) قانون کے ادنیٰ طالب علم بھی جانتے ہیں کہ اس ترکیب کی موجودگی میں جرم کا ثابت کرنا ناممکن حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔
اسلامی قانون سے تصادم؟
اس قانون سے اسلامی قانون کے کن اصول و قواعد کی خلاف ورزی ہوتی ہے ؟ اس سلسلے میں کچھ اشارات تو سطورِ بالا میں دیے گئے۔ یہاں ایک اور پہلو کی وضاحت ضروری ہے۔
سورۃ النساء کی آیت 34 میں قرار دیا گیا ہے کہ "نشوز" کی صورت میں شوہر اپنی بیوی کی مناسب تادیب کرسکتا ہے اور اس ضمن میں تین اقدامات ذکرکیے گئے ہیں : وعظ و نصیحت ، خواب گاہوں کے اندر علیحدگی اور ضرب۔ حدیثِ مبارک میں وضاحت کی گئی ہے کہ ضرب ایسی نہ ہو جو نشان چھوڑے۔ اسی طرح حدیثِ مبارک میں ان بچوں کے لیے بھی ، جو دس سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد نماز نہ پڑھیں ، ضرب کا ذکر ہے۔ فقہائے کرام نے ان دونوں امور میں تصریح کی ہے کہ یہ سزا نہیں ، بلکہ تادیب ہے اور اسی لیے اس میں ڈنڈے یا کوڑے کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اب خواہ "نشوز"سے ہر قسم کی "نافرمانی" مرادنہ ہو ، بلکہ صرف ایک مخصوص قسم کی سرکشی ہی مراد ہو ، اور اس صورت میں بھی خواہ ضرب ان حدود کے اندر ہو جو فقہاے کرام نے ذکر کی ہیں ، بہرحال اس قانون کی رو سے اس کا شمار "گھریلو تشدد" میں ہوگا۔
گویا یہاں دو انتہائیں پائی جاتی ہیں۔ ایک جانب یہ انتہا ہے کہ نشوز سے ہر طرح کی "نافرمانی "مراد لے کر اور ضرب کو "مار پیٹ " سمجھ کر شوہر کے لیے بیوی پر مختلف نوعیت کے مظالم ڈھانے کو اس کا شرعی حق قرار دیا جاتا ہے ، تو دوسری انتہا یہ ہے کہ قرآن کے اس حکم کو ، خواہ اسلامی قانون کی حدود کے اندر ہی اس پر عمل کیا جائے ، تشدد قرار دیاجاتا ہے۔ دینی حلقوں کے سامنے اس وقت اصل سوال یہی ہے کہ کس طرح شریعت کے اس حکم سے انکار کیے بغیر گھریلو تشددد کا راستہ روکا جائے ؟ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دینی حلقے تو یہ بات ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں کہ شریعت کے اس حکم کی غلط تعبیر کی جاتی ہے یا یہ کہ گھریلو تشدد ایک امر واقعی ہے۔ جب تک دینی حلقے انکار کی نفسیات سے نکل کر ایسی قانون سازی کے لیے رہنمائی فراہم نہیں کریں گے جس سے شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی بھی نہ ہوتی ہو اور گھریلو تشدد کی روک تھام بھی ہوسکے ، تب تک دوسروں سے گلہ بے جا ہی ہوگا۔
پس چہ باید کرد؟
۱۔ اولاً تو دینی حلقوں کے لیے یہ بات قابلِ غور ہے کہ سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا عمل وہ کب تک جاری رکھیں گے ؟ قانون کا یہ مسودہ مئی 2015ء میں اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ دس مہینے بعد اسے منظور کیا گیا۔ یہ دس مہینے کیوں اس مسودے پر بحث کرکے اس کی کمزوریاں دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ؟اسلامی نظریاتی کونسل کا ادارہ بنیادی طور پر اسی قبل از تقنین (pre-legislation) مرحلے کے لیے بنایا گیا ہے، اگرچہ بعد از تقنین بھی وہ مشورے دے سکتی ہے۔ ہر دو صورتوں میں ان مشوروں کا ماننا اسمبلی پر لازم نہیں ہے، لیکن بدیہی امر ہے کہ قبل از تقنین مرحلے پر ان کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور جب ان کے ساتھ عوامی دباو بھی ہو تو ان مشوروں کا وزن اور بڑھ جاتا ہے۔
۲۔ بعد از تقنین مرحلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے مشوروں کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ البتہ دو اداروں کا کام شروع ہوجاتا ہے : وفاقی شرعی عدالت اور عدالت ہاے عالیہ۔ اول الذکر عدالت کے ذریعے اس قانون کو شریعت سے تصادم کی بنیاد پر ختم یا تبدیل کرایا جاسکتا ہے ، جبکہ عدالتِ عالیہ کے ذریعے اس کی ان شقوں کو ختم یا تبدیل کرایا جاسکتا ہے جو خلافِ دستور ہیں۔ بلکہ اگر یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے تو دستور سے تصادم کے مسئلے کو براہِ راست عدالتِ عظمی میں بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔
۳۔ اس بات پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے کہ عدالتیں قانوناً اس کی پابند ہیں کہ تمام قوانین کی تعبیر و تشریح اسلامی قانون کی روشنی میں کریں ( حوالے کے لیے دیکھیے : قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء کی دفعہ 4 )۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہماری عدالتوں نے کبھی اس فریضے کی ادائیگی میں دلچسپی ظاہر نہیں کی، نہ ہی کبھی وکلا نے اس طرف توجہ دلائی۔ اور تو اور خود دینی حلقے اس اہم قانونی شق کو بالکل ہی بھول چکے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عدالتِ عظمی کے سامنے قصاص و دیت کے قانون کا کوئی مسئلہ آتا ہے تو ایک فاضل جج صاحب فیصلے میں یہ لکھتے ہیں کہ شریعت سے تصادم کا مسئلہ اٹھانے کے لیے مناسب فورم عدالتِ عظمیٰ کے بجاے وفاقی شرعی عدالت ہے اور ایک دوسرے جج صاحب لکھتے ہیں کہ خدائی قانون کی تعبیر و تشریح کے لیے وہ خود میں مناسب اہلیت نہیں پاتے ! یہ دونوں فاضل جج صاحبان یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلامی قانون سے ہم آہنگ تعبیر کرنا ان پر مذکورہ بالا قانون کی رو سے بھی لازم ہے اور بالخصوص قصاص و دیت کے قانون میں تو مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 338۔ایف نے تصریح کی ہے کہ اس باب کی تعبیر و تشریح اسلامی قانون کی روشنی میں کی جائے گی۔ پس شریعت سے متصادم یا ہم آہنگ قرار دینے کا اختیار تو یقیناًوفاقی شرعی عدالت ، اور پھر اپیل ہو تو عدالتِ عظمیٰ کی شریعت اپیلیٹ بنچ ، کے پاس ہے لیکن جہاں تک تمام قوانین کی ایسی تعبیر و تشریح کا معاملہ ہے جو شریعت سے ہم آہنگ ہو ، تو وہ ماتحت عدالتوں سے لے کر عدالتِ عظمیٰ تک تمام عدالتوں کا قانونی فریضہ ہے۔
۴۔ وہ دینی حلقے جو تشدد اور انتہاپسندی سے خود کو الگ تھلگ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ ان ریاستی اداروں 150 اسلامی نظریاتی کونسل ، وفاقی شرعی عدالت اور عدالت ہائے عالیہ و عدالت عظمی 150 کے ذریعے قوانین کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ کیا کسی نے اس امر پر غور کیا ہے کہ 1980ء سے 1999ء تک وفاقی شرعی عدالت اور عدالتِ عظمیٰ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کس قدر موثر ادارے تھے اور اس کے بعد ڈیڑھ دہائی میں وہ کس قدر غیر متعلق ہوچکے ہیں؟ کیا کسی نے اس امر کا بھی جائزہ لیا ہے کہ ان اداروں کے غیر موثر اور غیر متعلق ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے بیانیے کو ہی تائید مل رہی ہے جو پورے ریاستی و دستوری ڈھانچے کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں ؟
۵۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ وفاقی شرعی عدالت ، یا عدالتِ عالیہ و عدالتِ عظمیٰ سے فیصلہ حاصل کرنے کے بعد بھی بالآخر متبادل قانون سازی کے لیے اسمبلی کے فلور کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے عدالت اور اسمبلی کا راستہ کٹھن اور لمبا ہی سہی ، جمہوری سیاست میں اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ ان قانونی راستوں کی موجودگی میں بھی براہ راست احتجاج اور دھونس کی راہ اختیار کرنا دراصل اس مرض کی ابتدا ہے جس کی انتہائی شکل نظمِ اجتماعی کے خلاف بغاوت کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔
"تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچا سکتا ہے اور اس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔کیو نکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اس کے پانے والے تھوڑے ہیں۔" (انجیل متی ، باب 7 ، آیات 13۔14)
مکاتیب
ادارہ
’’پاکستان اسٹڈیز انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں تحریک خلافت میں گاندھی کے کردار پر معروضی انداز میں نظرثانی کی جائے’’۔ یہ تعلیمی سفارش ۱۹۳۷ ء میں ہندوستان کے صوبوں میں قائم کانگریسی حکومت کے کسی متعصب راہنما کی نہیں ہے، پنجاب کی موجودہ مسلم لیگی حکومت کی نگرانی میں لاہور کے کالجوں میں دو پروفیسرصاحبان اور ایک انتظامی افسرپرمشتمل ایک کمیٹی نے رواداری اور روشن خیالی کے فروغ کے لیے جو سفارشات مرتب کی ہیں، یہ ان میں سے ایک چاول ہے۔ ملکی اور صوبائی سطح پر مختلف نصاب میں چند مزید مجوزہ تبدیلیاں ملاحظہ ہوں۔بریکٹ میں ہم نے اپنا تبصرہ دیا ہے:
۱۔ ’’طلبا کو پڑھایا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ مذاہب کی تنسیخ کے لیے نہیں آئے بلکہ ابراہیم موسیٰ ، داؤد، سلیمان اورعیسیٰ علیہم السلام کا پیغام وہی تھا جو محمدؐ کا ہے‘‘۔ (گویا یہودیت اورمسیحیت اپنی موجودہ شکل میں وہی مذاہب ہیں جومذکورہ پیغمبروں کے تھے۔ اسے قرآنی آیات کی تحریف کہاجائے یا استخفاف ؟ )
۲۔ ’’تحریک پاکستان کا ازسرنو معروضی جائزہ لے کر اس میں اقلیتوں کا کردار اجاگر کیاجائے‘‘۔ (یہ معروضی جائزہ مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل۱۹۵۵ء میںیوں لے چکے ہیں۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمان اور صرف مسلمان قوم کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجہ میں عمل میں آیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری آبادی کے دوسرے تمام عناصر خصوصاً ہندو قوم کے پاکستان کو وجود میں نہ آنے دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ڈان، ۲۳دسمبر۱۹۵۵ء ‘‘۔ معروضی انداز میں بتایاجائے کہ کیا اختلاف کی کوئی گنجائش ہے)
۳۔ ’’ یورپ میں احیائے علوم کی تفصیلات نصاب میں شامل ہوں‘‘۔ (مغربی فکر کے مطابق یونانی عہد کے بعد انسانیت پر ایک تاریک دور (dark age) آیا جس کا خاتمہ، یورپی صنعتی انقلاب کے ذریعے ہوا۔ اس ’’تاریک دور‘‘ میں مسلمانوں کا عہد زریں شامل ہے جس میں عورت کو پہلی دفعہ مرد کے برابر قراردے کر اسے جائداد کا حق دیا گیا۔ برطانیہ میں عورت کو یہ حق ۱۹۳۵ میں ملا۔ جی ہاں ! اب ہمارے بچے خلافت راشدہ کو عہد ظلمات کے طورپر پڑھیں گے) ۔
محترم قارئین! یہ نمونے کی چند سفارشات ہیں جو پشاور میں ایک چرچ پر حملے کے ثمرات ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے اور مسلمان صبر اور شکر کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ادھر ایک چرچ پر ستمبر ۲۰۱۳ء میں حملہ ہوا تو ملاحظہ ہو کہ ایک نادیدہ تسلسل کے ساتھ کیا کیا فیصلے ہوئے جن کا پاکستانی قوم کو احساس تک نہیں ہونے دیا گیا۔
ایک این جی او کی درخواست پرسپریم کورٹ نے اس چرچ پر حملے کا ازخود نوٹس لیا۔ اقلیتی برادریوں کی چند دیگردرخواستوں کو جمع کرکے اٹارنی جنرل ، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر متعلقہ افسران کوبلایاگیا۔ سماعت کے بعد معزز عدالت نے ۱۹جون ۲۰۱۴ ء کو فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ ازخود نوٹس پر تین فیصد اقلیتوں کے لیے تھا لیکن اس فیصلے سے ستانوے فی صد مسلمانوں کی نسلوں پرجو اثرات مرتب ہوں گے، انہیں متصورکرکے دل ڈوب جاتا ہے۔ اور تماشا یہ ہے کہ مسلمان نہ اس مقدمے میں فریق تھے اور نہ انہیں سنایا گیا۔ معزز عدالت نے حکم دیا کہ ’’اسکول اور کالج کے درجات پر ایسا مناسب نصاب تشکیل دیاجائے جو مذہبی رواداری کی ثقافت کو فروغ دے۔ فیصلے میں۱۹۸۱ میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کاحوالہ دیاکہ ’’بچے کو مذہب اور اعتقاد کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے تعصب سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کی نشوونما سمجھ داری، رواداری، افراد کے مابین دوستانہ روابط، امن اور آفاقی بھائی چارے، مذہبی آزادی اور دوسرے اعتقاد کی تعظیم اور اس شعور کے ساتھ کی جائے گی کہ اس کی صلاحیتیں اور توانائی اپنے ساتھیوں کے لیے وقف ہوگی‘‘۔
فیصلے کی نقل متعلقہ اداروں کو بھیجی گئی۔ پنجاب حکومت نے تین مقامی صاحبان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جس نے وہ سفارشات مرتب کیں جن کی ہلکی سی ایک جھلک آپ سطور گزشتہ میں دیکھ چکے ہیں۔ تین مقامی اور مطلقاً غیرمعروف افراد کی ان سفارشات کو ۲فروری ۲۰۱۶ء کو پنجاب حکومت نے سرکاری ونجی جامعات کو اس ہدایت کے ساتھ ارسال کیا کہ ان سفارشات پرعمل کرکے بالوضاحت بتایاجائے کہ نصاب میں کیا ترامیم کی گئیں اور جن کتب میں ترامیم کی گئیں وہ کتب بھی منسلک کی جائیں۔ اسی پربس نہیں، جامعات امتحانی سوالات بھی اب ان تین غیرمعروف افراد کے افکار کی روشنی ہی میں مرتب کیاکریں گی۔
اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں کیا کیا بارودی سرنگیں بچھ رہی ہیں اور اس جمہوری ملک میں ستانوے فی صد آبادی کو پتہ ہی نہیں کہ آنے والی نسلوں کے ساتھ کیا ہورہاہے؟ اس مقدمے میں تمام فریقوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ چرچ پر حملہ آور غلط نصاب تعلیم کی پیداوار پاکستانی طلبا تھے۔ نصاب تعلیم عدم برداشت پرمبنی ہے (اس کاکوئی ثبوت فیصلے میں نہیں )۔ چونکہ اس ازخود نوٹس کے تمام متاثرین غیرمسلم افراد تھے، اس لیے نہ تو مسلمانوں میں سے کسی کو بطور فریق سنا گیا ، نہ کسی سطح کے تعلیمی نصاب کی جانچ پرکھ کی گئی ۔ نہ کسی جامعہ کے وائس چانسلر سے رابطہ کیاگیا۔ عدالت عظمیٰ کے مکمل احترام کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایک ایسا یک طرفہ( ex party) فیصلہ ہے جس کے متعلقہ فریقوں اور متاثرین کو سنا ہی نہیں گیا۔ معزز جج صاحب نے فیصلہ تحریر کرتے وقت ان تمام حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے جو عدلیہ کے لیے پوری دنیا مسلمہ ہیں۔ اسی فیصلے میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ ایک خاص تربیت یافتہ پولیس فورس تشکیل دی جائے جو اقلیتی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے۔ معززعدالت نے اس مختصر سے حکم کے مضمرات پر شاید غور نہیں کیا ۔ کل کو نجی اسکولوں کے مالکان دہشت گرد ی کے نام پر عدالت عظمیٰ میں چلے گئے تو ان کے لیے ایک نئی پولیس فورس کیوں نہ تشکیل دی جائے ۔ فی الاصل عدلیہ کا کام ملکی قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوتا ہے نہ کہ انتظامی احکام جاری کرنا۔ اس کی بہترین مثال موجودہ چیف جسٹس صاحب نے قائم کی ہے: رینجرز نے گزارش کی کہ ہمیں تھانے قائم کرنے کی اجازت دی جائے تو سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ہم قانون کے مطابق فیصلے کریں گے کسی کو انتظامی حکم نہیں دے سکتے۔
ذرا اندازہ کریں کہ کتنی خاموشی اور تسلسل سے تبدیلیوں کی ایک رو چلتے چلتے مسلمانوں کی نسلوں کو لپیٹ میں لے آئی جنہیں سنا ہی نہیں گیا۔ دہشت گردعالمی غنڈوں کے پروردہ لوگ ہیں ۔ ان کا عامہ الناس اور اسلام سے کیا تعلق؟: چرچ پر حملے کو جواز بناکر ایک این جی او کی درخواست اورازخود نوٹس پر سماعت جس میں حقائق کاذکر تک نہیں، یہ سارا فیصلہ مفروضوں پرمبنی ہے۔ کیا چرچ کے ملزمان کہیں پکڑے گئے؟ اگر ہاں تو کیا ان پر کوئی ایسی جرح ہوئی جس میں انہوں نے اپنے اس فعل بد کو تعلیمی نظام کی پیداوار قرار دے کرکوئی اعتراف کیا ہو۔ کیا کسی نے نصاب تعلیم کا جائزہ لے کر اس کے توجہ طلب پہلو اجاگر کیے۔ یہ سب کچھ نہیں ہوا۔ ازخود نوٹس کی تحدید اس قدر مختصر ہواکرتی ہے کہ عدالتیں اس کوچے سے جلدازجلد نکلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ زیرنظر فیصلے میں معززعدالت کے سامنے ایک اقلیتی عبادت گاہ پرحملے کے مرتکبین کی گرفتاری مسئلہ تھا لیکن معزز جج صاحب نے نادیدہ ونامعلوم مجرموں کو اولاً مسلمان فرض کیا ۔ پھر یہ فرض کیا کہ ملکی نظام تعلیم ان مسلمانوں کی تربیت کاذمہ دار ہے۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ نصاب تعلیم تبدیل کیاجائے۔
اس قصے میں کوئی ایک لطیفہ سرزد ہوا ہو تو اس کاذکر کیاجائے۔ جامعات دنیا بھر کی طرح اپنے ملک میں بھی خودمختار ادارے ہیں ۔ حکومتیں ان سے تحقیق اور جستجو کی درخواست تو کرسکتی ہیں، انہیں کوئی حکم نہیں دے سکتیں۔ حکم دینے کے لیے متعلقہ پارلیمان سے جامعہ کے ایکٹ میں ترمیم لازم ہے۔ اس زیرنظر مقدمے میں حکومت پنجاب نے لاہور کے تین مقامی کالجوں کے تین افراد (ان تین میں سے ایک صاحب انتظامی عہدے دار ہیں اور صرف ایک پی ایچ ڈی ہیں) پرمشتمل ایک کمیٹی سفارشات مرتب کرنے کے لیے قائم کی۔ یہ اصحاب علمی دنیا میں کتنے معروف ہیں، اس سے بحث نہیں۔ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ جنا کرے گی۔ قارئین کرام، اب کالجوں کے ایم اے پاس حضرات اور انتظامی افسران صف اول کی جامعات کے پی ایچ ڈی پروفیسروں کے لیے ہدایات مرتب کیاکریں گے۔ یہ جامعات میں quality enhancement کے ثناخوانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے یا قرب قیامت کی علامت؟
سینیٹ ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے معزز ارکان سے دردمندانہ گزارش ہے کہ عوام کی دی گئی پانچ چھ سالہ امانت کی پاسداری میں براہ کرم ان بارودی سرنگوں پرنظر رکھا کریں۔ اس اہم فیصلے کے مضمرات پر ماہرین تعلیم کو غور کرنا چاہیے۔ یہ دینی وغیر دینی سیاست کاموضوع ہی نہیں۔ معزز جج صاحب کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کے راستے موجود ہیں۔ اصحاب دانش سے گزارش ہے کہ اس فیصلے کے مضمرات پرغور کرکے اس کے تدارک کا بندوبست کیاجائے ورنہ طلبا جب کتابوں میں خلافت راشدہ کو ظلمات کا دور پڑھیں گے تو ان سے پھولوں کی توقع کون کرسکتا ہے؟ کیا یہ فیصلہ ہمیں رواداری اور عدم برداشت کی طرف لے جارہا ہے؟ معاشرتی طبقات میں بڑھتی ہوئی خلیج کوکم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ اورتعلیمی سفارشات طبقاتی بعد کو ہوادیں گے۔
ماہرین قانون ، ماہرین تعلیم، اصحاب دانش اور فہمیدہ افراد سے توقع کی جاتی ہے کہ اس فیصلے کے مضمرات پرغورکرکے اس کے تدارک کا کوئی راستہ نکالیں گے تاکہ معاشرے کو دوسری انتہاپر جانے سے روکا جائے۔
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
صدر شعبہ علوم اسلامیہ، سیالکوٹ کیمپس
یونیورسٹی آف گجرات
’’فقہائے احناف اور فہم حدیث : اصولی مباحث‘‘ ۔ تعارف و تبصرہ کی ایک نشست کی روداد
ڈاکٹر حافظ محمد رشید
۱۹ مارچ ، بروز ہفتہ مولانا محمد عمار خان ناصر کی نئی تصنیف ’’ فقہائے احناف اور فہم حدیث : اصولی مباحث‘‘ کے تعارف وتبصرہ کے حوالے سے ایک فکری نشست الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹر محمد اکرم ورک (پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج ، کامونکی )، ڈاکٹر شہزاد اقبال شام (پروفیسر (ر) انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی ، اسلام آباد )، پیر جی سید مشتاق شاہ ، مولانا ظفر فیاض (استاذ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم ، گوجرانوالہ) ڈاکٹر میاں ریاض محمود اور دیگر اہل علم نے شرکت کی اور کتاب کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب کو کتاب بروقت موصول نہ ہو سکی، تاہم انہوں نے موضوع کی ضرورت اور عصر حاضر میں موضوع کے بعض پہلوؤں پر، پر مغز گفتگو کی۔ کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے مقررین نے جو کچھ کہا، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۔
ڈاکٹر محمد اکرم ورک نے اپنی گفتگو میں کہا کہ:
مولانا عمار خان ناصر نے اپنی کتاب میں احناف کے وہ فکری معیارات واضح کیے ہیں جن پر وہ حدیث کو پرکھتے ہیں۔ یہ بڑا قابل قدر کام ہے اور وقت کی اہم ضرورت ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اس کے ساتھ احناف کے ان فکری معیارات کا شجرہ نسب بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو اس کی افادیت میں اضافہ ہو جائے۔ فکری شجرہ نسب سے میری مراد یہ ہے کہ کس طرح امام ابوحنیفہ ؒ کی فکر اپنے اساتذہ کے واسطے سے اکابر صحابہ کرامؓ جیسے حضرت علیؓ ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ سے مربوط ہوتی ہے۔ کتاب کو پڑھتے ہوئے بہت واضح تاثر ملتا ہے کہ احناف کے بارے میں دور اول میں بہت سی غلط فہمیاں ان مآخذ سے ناواقفیت کی بنا پر تھیں جو کہ اب ہمارے پاس موجود ہیں، لیکن بے اعتنائی کی وجہ سے وہی ساری غلط فہمیاں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ مثلاً غلام احمد پرویز نے اپنی کتاب میں امام ابوحنیفہ کو بھی منکرین حدیث کے گروہ کا ایک فرد شمار کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ بات بڑی واضح ہوئی ہے کہ ان مآخذ کو جس طرح عمار صاحب نے پیش نظر رکھا ہے، اگر ہم بھی پیش نظر رکھیں تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں۔
ایک اور بات میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عمار صاحب نے جہاں احناف کے نقطہ نظر کی بہت خوبصورت وضاحت کی ہے، وہیں اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے بارے میں ان کا اپنا بھی وہی موقف ہے جو احناف کا موقف ہے، کیونکہ کسی چیز کو بطور دلیل پیش کرنا بھی اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اس چیز کے بارے میں آپ کا موقف بھی قریب قریب وہی ہے۔ عمار صاحب کے بارے میں ایک بات کا اظہار میں اکثر علمی محافل میں کرتا ہوں کہ وہ ایک ایسی علمی شخصیت ہیں جو دلیل کے ساتھ کسی بات کو قبول کرتے ہیں اور دلیل کے ساتھ ہی کسی بات کو رد کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حق اہل علم کو دیا جانا چاہیے۔ یہ بات قریب کے لوگ تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، دور کے لوگوں کے لیے بھی اس کتاب کے ذریعے یہ بات واضح ہو گئی ہے۔
اس کتاب میں احناف کے نقطہ نظر کی تفہیم و وضاحت کا جو اسلوب اپنایا گیا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری تاریخ میں جو مختلف گروہ گزرے ہیں، جیسے معتزلہ ، خوارج وغیرہ اور آج کے دور میں جو گروہ سامنے آئے ہیں ، حدیث کے حوالے سے ان کی رائے کو بھی اسی انداز میں صحیح تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ آپ اگر لوگوں کو ایک دو یا چند احادیث کے انکار کے نتیجہ میں منکرین حدیث کے زمرے میں شمار کرنا شروع کر دیں گے تو میرا خیال ہے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ جیسا شخص بھی، جنہوں نے حدیث کی حجیت پر ایک زبردست مناظرہ کیا ہے، شاید منکرین حدیث کی فہرست میں شامل ہوگا۔ اسی طرح مولانا غلام رسول سعیدی جن کاا بھی کچھ عرصہ پہلے ہی انتقال ہوا ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو والی جتنی حدیثیں ہیں، ان کی صحت کے قائل نہیں تھے، حالانکہ یہ احادیث بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ محض کسی حدیث کا انکار کرنا اور بات ہے اور پورے علم حدیث اور فن حدیث کا انکار کرنا جو کہ ایک مخصوص مکتبہ فکر کا مؤقف ہے، بالکل مختلف چیز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے ایک زاویہ نگاہ آیا ہے کہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے موجود مآخذ کی روشنی میں علمی بنیادوں پر ایسے لوگوں کا نقطہ نظر سمجھنا چاہیے جیسے احناف کا نقطہ نظر اس کتاب میں سمجھا گیا ہے۔
پیر جی سید مشتاق علی شاہ صاحب کی گفتگو کے اہم نکات یہ تھے:
مولانا عمار صاحب جب طالب علم تھے، اسی وقت ہم ان کی صلاحیتوں سے باخبر ہو گئے تھے کہ مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی اولاد میں یہ شخص ان کے کام کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مولانا سرفراز خان صفدرؒ کو محدث اعظم یا اسماء الرجال کا امام خوش فہمی یا عقیدت کی وجہ سے نہیں کہا گیا، بلکہ انہوں نے اپنا لوہا خود منوایا۔ جو ان کی کتابیں پڑھے گا، وہ یہ کہے گا کہ ان کو فن حدیث یا اسماء الرجال میں جو مقام دیا گیا، وہ ایسے ہی نہیں دیا گیا بلکہ ان کے اندر یہ وصف پایا جاتا تھا ۔حضرت صوفی عبد الحمید سواتی صاحب ؒ سے ایک مرتبہ عمار کے بارے میں بات ہوئی تو فرمانے لگے کہ شیخ الحدیث صاحب نے اس کو حدیث محدثین کی طرز پر پڑھائی ہے اور ہم نے اس کو حدیث شاہ ولی اللہ ؒ کی طرز پر پڑھائی ہے۔ یعنی عمار دونوں کا جامع ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ بڑا ہو کر اپنے دادا کا ترجمان بنے اور خاندان کا اس سے نام روشن ہو۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ مفتی عبد الواحدؒ (سابق خطیب جامع مسجد شیرانوالہ باغ ، گوجرانوالہ) نے جب مولانا سرفراز خان صفدر ؒ سے ان کے بیٹے کو مانگا تو انہوں نے مولانا زاہد الراشدی کو ان کے حوالے کر دیا اور یہ سیاست کی لائن پر چڑھ گئے، لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ عمار حدیث پر کام کرے اور دادا کا وارث بنے۔ جنہوں نے مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کو دیکھا اور پڑھا ہے، وہ مولانا زاہد الراشدی اور عمار صاحب کو بھی اسی آئینے میں دیکھنا چاہتے تھے۔ کچھ عرصہ تک تو یہ آئینہ دھندلا دھندلا رہا، اس کتاب نے یہ دھندلاہٹ صاف کر دی ہے اور اس کو پڑھنے کے بعد ہر آدمی یہی کہے گا کہ ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ کے بعد اگر ایسی کوئی کتاب اردو میں آئی ہے تو وہ عمار صاحب کی یہ کتاب ہے۔
امام صاحب ؒ کے بارے میں مخالفین کی طرف سے دو طرح کے اعتراض سامنے آئے ہیں۔ ایک ان کے مسائل کے بارے میں اور دوسرا ان کی شخصیت کے بارے میں ۔ اگر آدمی ان دونوں چیزوں کو سمجھ لے تو امام صاحب پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ امام صاحب ؒ کی شخصیت سے جو اچھی طرح واقف ہوگا، وہ یہ سمجھ جائے گا کہ امام صاحب ؒ کے اصول کیا ہیں ، ضوابط کیا ہیں ، ان کا استدلال کا طریقہ کیا ہے۔ اور جو ان کے مسائل سے واقف ہو گا، وہ سمجھ جائے گا کہ امام صاحبؒ نے کوئی کمی چھوڑی ہی نہیں اور وہ اس بات کی تہہ تک پہنچ جائے گا کہ امام صاحب ؒ کی کوئی بات حدیث کے خلاف نہیں۔
ہم یہ بات پڑھا کرتے تھے کہ امام صاحب نے اجتہاد کے لیے چالیس آدمیوں کی کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی میں جو بحثیں ہوتی رہیں اور جو نتائج مرتب ہوتے رہے، ان کے بارے میں ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ سب چیزیں کہاں ہیں؟ ان کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ ظاہر الروایہ اور احناف کی دیگر بڑی کتب اردو میں بہت کم ملتی ہیں۔ امام ابویوسف ؒ کی کتاب الآثار تک کا ابھی تک اردو میں ترجمہ نہیں ہوا ۔امام محمدؒ کی پانچ کتابوں کا ترجمہ آیا ہے جو ہم نے دیکھی ہیں، باقی کا پتہ نہیں۔ تو ہم سوچتے تھے کہ فقہائے احناف کی جو ظاہر الروایہ کتابیں ہیں اور چالیس آدمیوں کی کمیٹی نے جو کام کیا ہے، وہ کہاں ہے ؟عمار صاحب کی کتاب کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں براہ راست امام محمد ؒ کی کتابوں سے استدلال کیا گیا ہے، امام ابو یوسف ؒ کی کتابوں کو ماخذ بنایا گیا ہے، سرخسی کی ’’المبسوط‘‘ کو ماخذ بنایا گیا ہے جو امام حاکم شہید ؒ کی کتاب ’’الکافی‘‘ کی شرح ہے جو کہ ظاہر الروایہ کی چھ کتابوں کا مجموعہ ہے۔ عمار صاحب نے اس طرح توجہ دلائی ہے کہ احناف کا موقف سمجھنے اور ان کے طریقہ استدلال کو چانچنے اور جاننے کے لیے ان اصل کتابوں کو ماخذ بنانا چاہیے۔
’’ مقام ابی حنیفہ‘‘ میں مولانا سرفراز خان صفدر ؒ نے ایک باب قائم کیا جس کا عنوان ہے: ’’ مخالفت حدیث کی نفیس بحث‘‘ ۔ جو آدمی وہ پڑھ لے گا، اس پر واضح ہو جائے گا کہ امام صاحب ؒ حدیث کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔ عمار صاحب نے ابن ابی شیبہ ؒ کے ایک سو پچیس اعتراضات پر جو کام کیا ہے، اس میں ان کو انفرادیت حاصل ہے کہ ان سے پہلے اردو میں اس پر جامع کام نہیں ہوا تھا۔ حضرت تھانوی ؒ کے زمانے میں صرف دس مسئلوں پر کام ہوا تھا جو ’’ الاجوبۃ اللطیفہ عن بعض ردود ابن ابی شیبہ علی ابی حنیفہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اسی طرح مولانا عطاء المصطفیٰ جمیل کے دادا نے’’ تائید الامام ‘‘کے نام سے ابن ابی شیبہ کے چودہ اعتراضات کا جائزہ لیا۔ پورے ایک سو پچیس مسئلوں پر اردو میں صرف عمار صاحب نے کام کیا ہے۔ تو مسائل کے حوالے سے انہوں نے اعتراضات کا جواب دے دیا کہ امام ابوحنیفہ کے ہاں مخالفت حدیث نہیں ہے۔ عمار صاحب کی موجودہ کتاب تو صرف اصولی مباحث پر مشتمل ہے جو اصل کتاب کا دیباچہ ہے۔ اصل کتاب ابھی آرہی ہے ۔ جو شخص بھی اس کتاب کو خالی ذہن ہو کر پڑھے گا، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ امام ابو حنیفہ ؒ حدیث کی مخالفت کرتے تھے۔
باقی رہے امام صاحب پر شخصی اعتراضات تو اس پر علامہ خطیب بغدادی کی کتاب ’’تاریخ بغداد‘‘ کے متعلقہ حصے کو اردو میں سب سے پہلے مولانا محمد بن ابراہیم میمن جوناگڑھی نے چھاپا۔ اس کے چھپنے کے بعد مولانا حبیب الرحمن شیروانی نے جو برصغیر کے مشہور آدمی ہیں، ’’ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے ناقدین ‘‘ کے نام سے اس کا جواب لکھا، مگر وہ نامکمل تھا ۔ میں نے عمار صاحب کے چچا مولانا عبد القدوس خان صاحب کی توجہ اس طرف مبذول کروائی تو انہوں نے علامہ زاہد الکوثری کی کتاب ’’تانیب الخطیب‘‘ کا اردو ترجمہ ’ ’ عادلانہ دفاع‘‘ کے نام سے کر دیا۔ یہ دونوں کام اللہ تعالیٰ نے مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کے خاندان سے کرائے۔
یونیورسٹی آف گجرات، سیالکوٹ کیمپس میں شعبہ علوم اسلامیہ کے صدر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام نے اپنی گفتگو میں کہا کہ :
میں مولانا عمار خان ناصر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ اس چھوٹی سی عمر میں علمی لحاظ سے اتنا آگے جا چکے ہیں کہ جس پر رشک کی بجائے میں حسد بھی کروں تو کوئی حرج نہیں ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم میں برکت عطا فرمائیں اور امت مسلمہ کے لئے نافع بنائے۔ آمین۔
امام ابو حنیفہ ؒ کے متعلق یہ مشہور ہو گیا کہ وہ حدیث کے ردو قبول میں اس قدر متشدد تھے کہ چند مخصوص احادیث کے علاوہ وہ کسی حدیث سے استنباط و استنتاج ہی نہیں کرتے تھے۔ میری معلومات کے مطابق یہ قول ابن خلدون کی طرف منسوب ہے۔ یہ قول ایسا چلا کہ اس پر عمارات تعمیر ہونی شروع ہو گئیں، حالانکہ امام ابو حنیفہ ؒ سے مرویات کی کتابیں ایک سے زیادہ موجود ہیں۔ میری معلومات کے مطابق برصغیر میں جو پہلی کتاب شائع ہوئی، وہ ’’ کتاب الآثار ‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ حیدر آباد دکن سے تقریباً بیسویں صدی کے پہلے ربع میں کہیں چھپی تھی۔ اس میں امام ابو یوسف ؒ کی وہ روایات ہیں جو انہوں نے امام ابو حنیفہ ؒ سے کی ہیں۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ عمار صاحب کی یہ کتاب ایک طبقے کے لیے تو بہت اہمیت رکھتی ہے۔ عمار صاحب کا تعلق ایک علمی خانوادہ سے ہے اور حدیث کے مطابق اولاد صالح اور صدقہ جاریہ کسی بھی خانوادے کا سرمایہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اس کتاب میں جمع ہو گئی ہیں ۔ یہ کتاب پورے خانوادے کے لیے صدقہ جاریہ بھی ہے اور اولاد صالح کی ایک دمکتی ہوئی مثال بھی ہے۔ لیکن میری ان سے گزارش ہے کہ ماضی کے ساتھ جڑے رہنا ایک بہت مثالی اور آئیڈیل کام ہے، لیکن وہ عہد حاضر کے مسائل کی طرف نسبتاً زیادہ توجہ کریں تو بہت اچھا ہو ۔ کیونکہ میری رائے میں جو لوگ فقہ اور فقہا کے بارے میں ہر وقت مناظرانہ تکلم کے قائل ہیں، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ ایک ذوقی چیز ہے، اس معاملے میں کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن کاسموپولیٹن فقہ یا فقہ عولمی جس تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، یہ سب چیزیں اب قصہ پارینہ ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ اس لیے اس کی طرف توجہ زیادہ ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحبؒ نے اپنی کتاب میں کاسموپولیٹن فقہ کی بات کی ہے۔ ان کے مطابق اب متعین فقہ کی پابندی کا دور قصہ پارینہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جس تسلسل اور تدریج کے ساتھ اسلامی قانون اس طرف جا رہا ہے، اس میں اب کسی ایک فقہ کے ساتھ امت مسلمہ کے مسائل نہ حل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی حل ہوں گے۔
میں عمار صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان کی مساعی میں برکت عطا فرمائیں اور مولانا زاہد الراشدی کو صحت کے ساتھ عمردراز دے کیونکہ جو کام وہ کر رہے ہیں، مجھے ان میں ڈاکٹر محمود غازی ؒ کی جھلک نظر آتی ہے۔
الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ :
اس کتاب کے بارے میں، میں نے دیباچہ میں کچھ باتیں لکھ دی ہیں۔ اس وقت میں سوسائٹی میں علم و فکر اور دانش کے مستقبل کے حوالے سے چند باتیں عرض کروں گا۔ یہ صدی مسلمہ طور پر مذہب کی طرف واپسی کی صدی کہلاتی ہے۔ پچھلی دو صدیاں مذہب سے انحراف کی صدیاں تھیں، اب دنیا آہستہ آہستہ مذہب کی طرف واپس آ رہی ہے۔ ان حالات میں، میں یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے اہل علم بالخصوص نوجوان فضلاء جن کا کتاب سے، علم سے اور ماضی سے گہرا تعلق ہے، وہ مذہب کی طرف واپسی کے صحیح راستوں کی نشاندہی کریں۔ اس موڑ پر اگر امت کسی غلط راستے کی طرف مڑ گئی تو اس کی ذمہ داری ہم پر بھی ہو گی اور بالخصوص یہ نوجوان فضلاء اس کے ذمہ دار ہوں گے ۔ میں تمام فقہوں کا احترام کرتا ہوں، سب سے استفادے کا قائل ہوں، اگر کسی دوسری فقہ سے استفادے کی ضرورت ہو تو میں اس کا منکر نہیں ہوں، لیکن میرا وجدان شرح صدر کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ آنے والے دور میں فقہ حنفی میں یہ صلاحیت زیادہ ہے کہ وہ قیادت کرے۔ باقی فقہیں بھی ساتھ ہوں، لیکن فقہ حنفی کے اسلوب اور بنیادی اساس میں زیادہ صلاحیت ہے کہ وہ مستقبل کی فقہی و علمی اور فکری ضروریات کو پورا کر سکے اور مسائل کو حل کر سکے، اس لیے اس پر کام کی زیادہ ضرورت ہے۔
مغرب میں فکری اعتبار سے جن شخصیات پر سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے، ان میں ایک شاہ ولی اللہ ؒ ہیں۔ اس کی وجہ ان کی فکر میں حدیث، فقہ، تفقہ اور سلوک کا بہترین امتزاج ہے۔ اسی وجہ سے شاہ صاحب ؒ مغرب میں توجہات کا ایک بڑا موضوع ہیں۔ ان کے ساتھ اب دوسری شخصیت امام ابو منصور ماتریدیؒ کی شامل ہو رہی ہے۔ پچھلے دنوں امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے ایک پروفیسر صاحب آئے تھے جو امام ابو منصور ماتریدی ؒ کی فکر پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کے کچھ سوالات تھے جن کے بارے میں ایک طویل نشست میں ان سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ مغرب میں فکر وفلسفہ کے حلقوں میں اس پر غور ہو رہا ہے کہ اخلاقیات کی ٹھوس بنیادیں مذہب کے علاوہ کسی اور جگہ سے نہیں مل سکتیں اور اس سلسلے میں عقل اور وحی کے مابین توازن کے حوالے سے ابومنصور ماتریدیؒ کے افکار کی طرف ہماری توجہ بڑھ رہی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں ایسی شخصیات اور ان کی فکر پر اس حوالے سے کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ عقل و وحی کے درمیان توازن کیسے قائم ہو، مسائل کے حوالے سے بھی اور اصول کے حوالے سے بھی ۔میں اس کتاب کو بھی اسی کوشش کا حصہ سمجھتا ہوں اور یہ اس ضمن کی ایک اچھی کوشش ہے۔
الشریعہ اکادمی کو بنے تقریباً تیس سال ہو گئے ہیں۔ میرے ذہن میں اس کے قیام سے بھی پہلے سے ایسے کام کا خاکہ تھا کہ اس رخ پر کام ہونا چاہیے۔ آج کی ضروریات کا احسا س ہونا چاہیے، مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینا چاہیے اور ماضی کو سامنے رکھ کر اس کی بنیاد پر آج کی ضروریات اور مستقبل کے امکانات پر کام ہونا چاہیے۔ میں اس کتاب کو بھی اسی کوشش کا ایک حصہ سمجھتا ہوں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ رب العز ت نظر بد سے بچائیں اور خلوص اور ذوق میں اضافہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے والد گرامی اور چچا محترم کے درجات بلند فرمائیں۔ یہ انھی کا فیض ہے ، وگرنہ سچی بات ہے کہ ہم تو کچھ بھی نہیں، صرف پائپ لائن ہیں۔ بس یہ دعا ہے کہ ہم پائپ لائن کے طور پر اپنے بزرگوں کے فیض کو آگے پہنچا سکیں اور دین کی، ملک کی اور ملت کی کوئی مثبت خدمت کر سکیں ۔جزاکم اللہ تعالیٰ
تقریب کے آخر میں کتاب کے مصنف، مولانا محمد عمار خان ناصر نے اپنی مختصر گفتگو میں دو تین باتیں کہیں:
ایک تو یہ کہ اس کتاب کی صورت میں حنفی فکر پر کام کرنے کی ایک جہت کو سامنے لایا گیا ہے۔ یہ اس کی ایک ابتدائی اور چھوٹی سی کوشش ہے۔ اس کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جن پر کام کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جن پہلوؤں پر بات ہوئی ہے، ان پر مزید وسعت کے ساتھ تحقیق کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ مجھے بھی توفیق ہوئی تو مزید کچھ پہلوؤں پر کام کروں گا اور امید ہے کہ دوسرے اہل علم بھی متوجہ ہوں گے، کیونکہ اس پر کام کے لیے بہت گنجائش ہے۔
دوسری یہ کہ یہاں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کا ذکر ہوا۔ میرے لیے جو چیز محرک ہے، جس کی وجہ سے میں اب تک اور آئندہ بھی اس میں دلچسپی محسوس کرتا رہوں گا، وہ ایک تو یہ ہے کہ ہماری علمی روایت کا ایک حصہ جس سے ہم خود وابستہ ہیں، جس سے ہم نے دین سیکھا ہے، اس کا علمی تعارف ابھی بہت سے پہلوؤں سے توضیح کا متقاضی ہے۔ ہمارے اس تعلق کا تقاضا ہے کہ ہم ان پہلوؤں کو واضح کریں اور خاص طور پر اس ضمن میں در آنے والے منفی تصورات و تاثرات کا ازالہ کریں۔ ڈاکٹر اکرم ورک صاحب نے بڑا اچھا پہلو نمایاں کیا کہ ہمارے ہاں بعض گروہوں کی طرف سے امام ابو حنیفہ ؒ کو انکار حدیث کی روایت کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثر نہ صرف پرویز صاحب جیسے مفکرین کے ہاں ہے بلکہ آپ کو حیرت ہو گی کہ علامہ اقبال نے بھی اپنے خطبہ اجتہاد میں امام صاحب ؒ کی فکر کا تعارف اسی تناظر میں کروایا ہے کہ چونکہ ذخیرہ احادیث غیر مستند ہے، اسی لیے امام ابو حنیفہ ؒ بھی احادیث کو اپنے اجتہاد میں اہمیت نہیں دیا کرتے تھے۔ ایک تو اس تاثر کا ازالہ اور حنفی فقہ کے صحیح موقف کی وضاحت ضروری ہے۔
دو چیزیں اور ہیں جو موجودہ تناظر میں اس کام کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ ایک تو وہی جس کی ابھی بات ہوئی یعنی فقہ عولمی اور بدلتے ہوئے زمانے میں اجتہادی روایت کا احیاء۔ اس حوالے سے حنفی منہج فکر کیا ہے؟ اس کو اصولی زاویے واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ایک تاثر سا بن گیا ہے کہ فقہ حنفی کچھ خاص امتیازی مسائل کا نام ہے اور اس تاثر میں ہم بعض اسباب کے تحت بہت زیادہ گرفتار ہو گئے ہیں۔ تو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مسائل اصل میں نتائج ہیں ایک خاص اجتہادی طرز فکر کے۔ اصل چیز سوچنے کا وہ انداز اور اجتہاد کے وہ اصول ہیں اور کسی بھی مسئلے کو شریعت کے پورے نظام کے اندر رکھ کر سمجھنے کا طریقہ ہے جو حنفی فقہا نے اختیار کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر احناف کی علمی روایت جزوی بحثوں سے اوپر اٹھ کر اس اصولی جگہ سے خود کو نئے سرے سے دریافت کر لے تو فقہ عولمی یا کاسموپولیٹن فقہ کی تشکیل میں اس کا کردار زیادہ مفید اور بامعنی بن سکتا ہے۔
تیسری چیز جو میرے نزدیک بہت اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اس وقت ہمیں مذہبی حلقوں میں، ان کی سوچ اور فکر میں تشدد اور انتہا پسندی کا جو ایک عنصر بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، اس کا ازالہ بھی اسی میں ہے کہ ہم دین کو، شریعت کو اور شریعت کے احکام کو سمجھنے کا جو صحیح اور جامع زاویہ نگاہ ہے، اس کو واضح کریں ۔ ہمیں احناف کے منہج میں یہ دیکھنا چاہیے کہ امام صاحبؒ اور دیگر ائمہ احناف کیسے کسی آیت کو یا کسی حدیث کو شریعت کے پورے نظام کے اندر رکھ کر اور باقی سارے نصوص کے ساتھ مربوط کر کے سمجھتے تھے۔ یہ چیز اس فکری انتہا پسندی کا تریاق ثابت ہوگی جس میں ایک آیت یا حدیث کو لے کر اس کی بنیاد پر پوری عمارت تعمیر کر لی جاتی ہے اور بہت سے بڑے بڑے قدم بھی اٹھا لیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میں نے جو چھوٹی سی کاوش کی ہے، وہ مفید ثابت ہو اور اس نہج پر کام کو مزید آگے بڑھایا جا سکے اور ہمارا یہ کام دین اور اہل دین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔
مئی ۲۰۱۶ء
اسلامی ریاست اور سیکولرزم کی بحث
محمد عمار خان ناصر
(گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر پاکستان کی نظریاتی اساس کے حوالے سے جاری بحث میں راقم الحروف نے وقتاً فوقتاً جو مختصر تبصرے لکھے، انھیں یہاں ایک ترتیب کے ساتھ یکجا پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
منطقی مغالطوں میں ایک عامۃ الورود مغالطہ کو اصطلاح میں argumentum ad hominem کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نفس دلیل کی کمزوری پر بات کرنے کے بجائے، دلیل یا موقف پیش کرنے والے کی نیت اور کردار وغیرہ کی خرابی نمایاں کی جائے اور اس سے یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ چونکہ کہنے والا ایسا اور ایسا ہے، اس لیے اس کی بات غلط ہے۔
مذہبی اور سیاسی اختلاف رائے میں اس مغالطے کا استعمال ہمارے ہاں ایک معمول کی بات ہے۔ سنی وہابی، شیعہ سنی، علی گڑھ دیوبندی، حنفی اہل حدیث، دیوبندی مودودی وغیرہ، تمام اختلافات میں مخالف شخصیات پر کیچڑ اچھالنے کی تاب ناک روایت چلی آ رہی ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر قوم پرستوں اور مسلم لیگیوں نے ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر اس طرز استدلال کے نمونے پیش کیے۔ مسلم لیگیوں نے جمعیۃ علماء اور کانگریس کے زعما کی کردار کشی اور تحقیر وتوہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جمعیۃ علماء کے حضرات نے یہی سلوک مسلم لیگی قیادت کے ساتھ کیا۔
پاکستان بن جانے کے بعد یہاں اہل مذہب اور لبرلز کی کشمکش شروع ہو گئی۔ بالکل ابتدائی دور میں ہی جن مذہبی شخصیات (مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا مودودی وغیرہ) نے لبرلز کے مقدمے کے خلاف آئینی جنگ جیتنے میں بنیادی کردار ادا کیا، وہ آج تک لبرلز کی نظر میں ناقابل معافی اور مطعون ہیں اور ان کی شخصیات کو ہدف بنا کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ چونکہ قرارداد مقاصد اِن حضرات نے پیش کی تھی، اس لیے وہ غلط تھی۔ اتفاق سے مسلم لیگی قیادت، خاص طور پر حضرت جناح کے متعلق یہی طرز استدلال ان کے قوم پرست مخالفین اختیار کیا کرتے تھے۔ یہ سارا مواد تاریخ میں محفوظ ہے اور اب بعض اہل قلم نے اس ضمن میں ’’جراتِ رندانہ’’ کا اظہار بھی شروع کر دیا ہے، البتہ جناح صاحب کو ریاستی تحفظ حاصل ہے اور ان کے بارے میں اگر کوئی ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے کی جسارت کرے تو قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔ ایسا کوئی تحفظ مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ کو حاصل نہیں۔ سو ان کے متعلق ’’تاریخی حقائق’’ بے خوف وخطر کریدے جا سکتے ہیں۔
۱۱؍اگست کی تقریر میں قائد اعظم نے دراصل اس ملک کی غیر مسلم اقلیتوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ ان کے مذہبی وسیاسی حقوق پوری طرح محفوظ ہوں گے اور ریاست پاکستان اس ضمن میں کوئی جانب دارانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی۔ ۱۵؍اگست کے بیان میں انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ مسلمانوں کے لیے ملکی نظام اور قانون کے دائرے میں راہ نمائی کا سرچشمہ اسلام کی ابدی تعلیمات ہیں جن کا بہترین نمونہ حصرت عمر کے عہد میں ملتا ہے۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ بالکل درست ہیں۔ اسلام چونکہ دین ومذہب کے معاملے میں کسی قسم کے جبر کا قائل نہیں، اس لیے وہ مسلمان مملکت میں بسنے والے غیر مسلم گروہوں کو مکمل مذہبی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ غیر مسلم اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر قسم کی معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں اور ملکی فلاح وبہبود میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلامی شریعت کے مخصوص قوانین ان پر لاگو نہیں ہوتے اور وہ اپنے معاملات اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق انجام دینے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔
یہی حق ملک کی مسلمان اکثریت کو بھی حاصل ہے۔ چنانچہ جب اکثریت ملک کے نظام اور قانون کی تشکیل کرے گی تو ملک کی اکثریتی آبادی کے لیے ان کے مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہی کرے گی۔ نہ اکثریت کو یہ حق ہے کہ وہ اقلیت پر اپنے مذہبی خیالات کی پابندی مسلط کرے اور نہ اقلیتوں کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اکثریت سے اپنے مذہبی حقوق اور اختیارات سے دست برداری کا مطالبہ کریں۔ قائد اعظم نے یہی دونوں پہلو اپنی مذکورہ تقریروں میں واضح کیے ہیں۔ گیارہ اگست کی تقریر اقلیتوں کے مذہبی وسیاسی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے اور پندرہ اگست کا بیان یہ بتاتا ہے کہ مسلمان اکثریت جب اپنی سیاست ومعاشرت اور معیشت کی تشکیل کرے گی تو اپنے مذہب سے صرف نظر یا اس سے دست بردار ہو کر نہیں کریں گی۔
گیارہ اگست کی تقریر کے بعد فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام جاری کردہ ایک ریڈیو پیغام میں قائد اعظم نے جو کچھ کہا، وہ خود ان کی اپنی زبان سے گیارہ اگست کی تقریر کی مستند تشریح کا درجہ رکھتا ہے۔انھوں نے فرمایا:
’’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اس کی حتمی شکل وصورت کیا ہوگی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہوگا جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوتے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انھی سے راہنمائی حاصل کی جائے گی۔ بہرحال پاکستان ایک تھیو کریٹ (مذہبی) ریاست نہیں ہوگی اور یہاں تمام اقلیتوں، ہندو، عیسائی، پارسی کو بحیثیت شہری وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہوں گے۔’’ (یہ اقتباس ڈاکٹر صفدر محمود نے ایس ایم برک کی کتاب کے صفحہ ۵۲۱ کے حوالے سے نقل کیا ہے)
اقتباس سے واضح ہے کہ جناح صاحب کے ذہن میں کسی لا مذہبی یعنی سیکولر ریاست کا تصور نہیں، البتہ وہ ’’مذہبی ریاست’’ کے اس تصور کو قطعاً قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں شہریت دراصل کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کی ہوتی ہے، جبکہ مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا اور مساوی سیاسی حقوق کا حق دار نہیں سمجھا جاتا۔
ہمارے لبرل دوستوں میں فکر کی جدت اور تازگی کا حال اسی سے واضح ہے کہ سیکولرزم کے مقدمے کے لیے آج بھی ان کے تاریخی استدلال کا واحد قابل ذکر سہارا یہی گیارہ اگست کی تقریر ہے، حالانکہ اب وہ تقریر بھی ہاتھ جوڑتی ہے کہ مجھے خلاصی دے دی جائے۔ چنانچہ ممتاز دانش ور ڈاکٹر مبارک علی نے ایک مطبوعہ انٹرویو میں اس استدلال کی کمزوری تسلیم کی اور کہا کہ ہمیں سیکولر ریاست کے آپشن پر خود اس تصور ریاست کی افادیت نیز اپنے سابقہ تجربات کے حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ لبرل دوست اگر ان کی روشنی میں کچھ نئے استدلالات مرتب کرنے پر توجہ مبذول فرمائیں تو زیادہ اچھا مکالمہ ہو سکے گا۔
’’مولانا شبیر احمد عثمانی، پاکستان بنانے کے لیے تو قائد اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کے قائل تھے، لیکن نئی ریاست کیسی ہونی چاہیے، اس کے متعلق ان کا زاویہ نظر قائد اعظم سے مختلف تھا۔’’
یہ سادہ سا نکتہ ہے جسے مولانا عثمانی کی شخصیت پر جرح کی بنیاد بناتے ہوئے انکشافِ سازش کے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ آخر کس اصول کی رو سے اعتراض بنتا ہے؟ تحریک پاکستان میں شامل مختلف طبقوں کے اپنے اپنے تصورات اور مقاصد تھے۔ تحریک میں شرکت صرف اس نکتے کے حوالے سے تھی کہ مسلمانوں کا ایک الگ ملک ہونا چاہیے۔ اگر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ قیام وطن کے بعد کے اہداف میں بھی سب کا اتفاق ہونا چاہیے تو یہی اعتراض پلٹ کر خود قائد اعظم پر بھی وارد ہوتا ہے۔ کیا انھیں نہیں معلوم تھا کہ مذہبی علما ومشائخ کس جذبے اور تصور کے تحت تحریک کا حصہ بنے ہیں؟ پھر بھی انھوں نے مشترک مقصد کے حصول کے لیے انھیں ساتھ رکھا اور ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آں محترم نے حصول مقصد سے پہلے اپنی پوزیشن غیر واضح رکھی۔ علما کے سامنے ان کی پسند کی باتیں کیں اور دوسری جگہوں پر اپنی پسند کی، لیکن ملک بن جانے کے بعد اپنا اصل تصور گیارہ اگست کی تقریر میں واضح کر دیا۔ اگر جناح صاحب کے طرز سیاست کی یہ تعبیر درست ہے تو یہ ’’بلند اخلاقی‘‘ کم سے کم علما نے تو نہیں دکھائی۔ وہ تو شروع سے آخر تک اپنے موقف میں واضح تھے اور قیام وطن کے بعد بھی وہی بات کہی جو پہلے سے کہتے چلے آ رہے تھے۔
باقی رہی یہ بات کہ جناح صاحب کا تصور ریاست فلاں اور فلاں تھا اور شبیر احمد عثمانی کا ان سے مختلف تھا تو یہ کوئی جرم کی بات نہیں۔ بانی پاکستان کو نبوت کے منصب پر آخر کس نے فائز کیا ہے؟ کیا ملک کی نظریاتی اساس متعین کرنا آئینی ودستوری یا اخلاقی طور پر جناح صاحب کا بلا شرکت غیرے حق تھا؟ اگر یہ بات ہے تو اس کے لیے دستور ساز اسمبلی بنانے کا تکلف ہی کیوں کیا گیا؟ اور اگر یہ سوال دستور ساز اسمبلی نے طے کرنا تھا تو وہ آخر کس اصول کی رو سے جناح صاحب کے تصور ریاست کی پابند تھی؟ خود جناح صاحب کا بیان تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ نئے ملک کی دستوری حیثیت متعین کرنا میرا نہیں، بلکہ دستور ساز اسمبلی کا کام ہے۔ یہی بات اصولی اور آئینی طور پر درست ہے۔ جناح صاحب کا تصور ریاست کیا تھا، یہ بحث محض تاریخی اور نظری اہمیت رکھتی ہے۔ کسی اصول یا ضابطے کی رو سے ان کا رجحان، آئینی اداروں کو پابند نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اسی کو اختیار کریں۔
قائد اعظم نے گیارہ اگست کو دستور ساز اسمبلی کے سامنے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا، اگر اس کی وہی تعبیر درست مانی جائے جو لبرل دوست کرتے ہیں تو بھی سوال یہ ہے کہ اس کی حیثیت راہ نما مشورے یا تجویز کی تھی یا دستور ساز اسمبلی کو ڈکٹیشن کی؟ اگر آن جناب ڈکٹیشن دے رہے تھے تو اپنے دائرۂ اختیار سے صریحاً تجاوز فرما رہے تھے جو انھیں زیب نہیں دیتا تھا۔ اور اگر ان کے ارشادات کی حیثیت راہ نما مشورے کی تھی تو بہت اچھا، انھوں نے دیانت داری سے جو مشورہ بہتر سمجھا، دے دیا، لیکن دستور ساز ادارے نے بصد احترام اسے قبول نہیں کیا۔ فرض کیجیے، قائد اعظم تھیو کریٹک ریاست کے قائل ہوتے تو کیا لبرل دوست آنکھیں بند کر کے ’’آمنا وصدقنا’’ کہہ دیتے کہ جب بانی پاکستان یہی چاہتے تھے تو ہماری اختلاف کی کیا مجال؟ اگر نہیں تو آخر ایمان مفصل کی یہ شق صرف اسلام پسندوں کے لیے کیوں ہے؟
اس بحث میں ہمارے دوستوں کا سہارا اسی طرح کے منطقی مغالطے ہیں۔ ان کا اصل دکھ یہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی کیوں علما کے موقف کی قائل ہو گئی اور جناح صاحب کا (مفروضہ) تصور کیوں قبول نہیں کیا گیا، لیکن اس کا غصہ اس طرح نکالا جا رہا ہے کہ اس آئینی فیصلے میں موثر کردار ادا کرنے والوں کی شخصیت کو مجروح کیا جائے اور اسے ایک ’’غیر اخلاقی سازش’’ دکھانے کے لیے ادھر ادھر سے تنکے جوڑ کر داستانیں رقم کی جائیں۔
اسلام پسند لکھاریوں کی ذمہ داری، ماضی کے برعکس، اب دوہری ہو گئی ہے۔ انھیں سیکولرسٹ بیانیے کا بھی جوابی بیانیہ پیش کرنا ہے اور خود اپنے بیانیے کی بھی نئی تشکیل کرنی ہے۔ جیسے سیکولرسٹ اسی پرانے بیانیے کو نئی بوتل میں پیش کر کے نئی نسل کو زیادہ متاثر نہیں کر سکتے، اسی طرح مذہبی بیانیہ بھی اپنے مقدمات اور استدلال کو re۔shape کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
سابقہ بیانیے سے تاریخی طور پر کلی انقطاع ظاہر ہے ممکن نہیں، لیکن بحث کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کے ایک مرحلے کے ساتھ مقید بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ تحریک پاکستان کے مختلف کرداروں کا تصور اور عملی کردار کیا تھا، اس سوال کو بتدریج بحث کے ’’تاریخی’’ گوشے تک محدود کر دینا ضروری ہے۔ آج کی نسل کو، سوالات پر ان کے اپنے میرٹ پر بحث کرنے کی جرات کرنی ہوگی۔ دونوں طرف کے نوجوان ذہنوں کو بات اس سے آگے بڑھانی چاہیے جہاں تک ان کے بڑوں نے پہنچائی ہے۔ مثال کے طور پر جدید مسلم ریاست کو کلاسیکی دار الاسلام کے ہم معنی سمجھنا خلط مبحث بھی ہے اور نئی نسل کے ذہنوں میں پائے جانے والے تمام تر فکری ابہامات کی جڑ بھی۔ ڈاکٹر حمید اللہ سے لے کر ڈاکٹر محمود غازی اور مولانا تقی عثمانی تک، سبھی مسلم مفکرین اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں، لیکن بطور ایک اساسی مقدمے کے، اسے بیان کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ چنانچہ اصطلاحات اور تصورات کی تطبیق کی ساری کوششیں فکری وضوح پیدا کرنے کے بجائے فکری ابہامات میں ہی اضافہ کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔ دو الگ الگ تصورات ریاست کو تلفیق کے طریقے پر گڈ مڈ کر کے نقشہ بنایا جا رہا ہے جو کسی بھی تصور ریاست میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ عسکری رجحان رکھنے والے عناصر کی فکری بے اطمینانی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے۔
ہمارے ہاں بحث ومباحثہ کی ساری گرمی اور باہمی تبادلہ الزامات صرف اس وجہ سے ہے کہ ہر سیاسی مکتب فکر خود کو ملک وملت کا بلا شرکت غیرے ٹھیکے دار سمجھتا اور دوسروں کے نقطہ نظر کو محض ’’دخل در معقولات’’ کی نظر سے دیکھتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی موجودہ نظریاتی اساس کی تشکیل کسی ایک فکر کی روشنی میں نہیں ہوئی اور نہ قوم نے اب تک کا فکری سفر کسی ایک راہ نما کے دکھائے ہوئے راستے پر اندھا دھند چل کر طے کیا ہے۔ ہمارا اجتماعی فکری سفر متنوع اصحاب فکر کے افکار کا مرہون منت ہے اور ہمارے اجتماعی شعور نے اس معاملے میں کوئی تعصب نہیں برتا۔ اس نے پوری دیانت داری نیز دانش مندی سے مختلف فکری دھاروں سے وہ اجزا وعناصر چھانٹ لیے ہیں جو اسے مفید محسوس ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس نظریے کو عملی شکل دینے کے قابل نہیں ہو سکے یا اپنی نسلوں کو اس کی دانش ورانہ تفہیم میں تقصیر کے مرتکب ہوئے ہیں یا کم حوصلہ دانش اس اخذ واستفادہ کے اعتراف میں مسلسل بخل سے کام لے رہی ہے۔ یہ فکری عناصر حسب ذیل ہیں:
- علامہ محمد اقبال کا، مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کے حامل ایک الگ خطہ زمین کا تصور
- مولانا حسین احمد مدنی کی یہ اجتہادی فکر کہ موجودہ دور میں قومیت کی بنیاد ’’وطن’’ پر ہے
- قائد اعظم کا، ایک فلاحی جمہوری ریاست کا تصور جس میں اقلیتوں کو یکساں شہری وسیاسی حقوق حاصل ہوں اور تھیا کریسی کی کسی صورت کو گوارا نہ کیا جائے
- جدید ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کے عملی وآئینی میکنزم کے ضمن میں نامور مذہبی اسکالرز (مولانا مودودی، علامہ اسد، مولانا شبیر احمد عثمانی اور دیگر بہت سے علماء) کی اجتہادی کاوشیں
اجتماعی شعور نہ پہلے کسی ایک فکری دھارے کا غلام بنا ہے اور نہ آئندہ اسے بنایا جا سکے گا۔ ہر ہر نقطہ خیال کے اصحاب فکر کو پورا حق ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کو ان کے دلائل کے ساتھ سامنے لاتے رہیں۔ اجتماعی شعور ان سب سے استفادہ کرے گا اور ان شاء اللہ پورے توازن کے ساتھ جس بات کا جتنا وزن محسوس کرے گا، اسے قبول کرتا رہے گا۔ اگر سب اصحاب فکر اس بنیادی نکتے کا ادراک کر لیں تو معاشرہ وریاست کو اپنی محدود سوچ کے مطابق تشکیل دینے کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش خود بخود اعتدال پر آ جائے گی۔ (عمار ناصر)
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۸)
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۸۵) سقی اور اسقاء کے درمیان فرق
سقی یسقي ثلاثی مجرد فعل ہے، جس کا مصدر سقي ہے، اور أسقی یسقي ثلاثی مزید فعل ہے جس کا مصدر اِسْقَاء ہے، قرآن مجید میں دونوں کا استعمال متعدد مرتبہ ہوا ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، جبکہ کچھ لوگوں نے دونوں کے درمیان یہ فرق بتایا ہے کہ سقی میں محنت شامل نہیں ہوتی ہے، اور اِسْقَاء میں محنت شامل ہوتی ہے، بعض لوگوں نے بتایا کہ سقی منہ سے پانی پلانے کے لیے اور اسقاء کھیتیاں وغیرہ سیراب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔راغب اصفہانی نے قرآن مجید کے استعمالات کی روشنی میں دونوں کے درمیان بہت بلیغ فرق بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
السَّقيُ والسّْقاءُ: أن یعطیہ ما یشرب، والاِسْقَاءُ:أن یجعل لہ ذلک حتی یتناولہ کیف شاء، فالاسقاءُ أبلغ من السّقي، لأن الاسقاء ھوأن تجعل لہ ما یسقي منہ ویشرب۔ (المفردات فی غریب القرآن، ص: ۴۱۵)
مطلب یہ کہ سقي کے معنی مشروب کو پیش کرنے کے ہیں، جسے اردو میں پلانا کہتے ہیں، اور اسقاء کے معنی مشروب فراہم کرنا اور اس کا انتظام کرنا ہے، جس کو اردو میں پلانا نہیں کہتے ہیں، پانی فراہم کرنا اور پینے کا انتظام کرنا کہتے ہیں۔ اگر کسی نے نہر جاری کردی، یا پانی کی سبیل لگادی تو وہ پانی پلانا نہیں کہا جائے گا، ہاں کوئی اسی پانی کو گلاس میں بھر کر کسی کو پیش کرے تو وہ پانی پلانا ہوا۔
چونکہ قرآن مجید میں کہیں سقي آیا ہے اور کہیں اسقاء آیا ہے، اس لیے ہمیں ترجمہ کرتے ہوئے بھی اس کا خیال کرنا چاہیے کہ دونوں کے درمیان فرق کا حق ادا ہوسکے۔
ذیل کی آیتوں میں سقي آیا ہے، اور ترجمہ پانی پلانے کا ہے، انسانوں کو پانی پلانا، جانوروں کو پانی پلانا اور کھیتیوں کو سیراب کرنا :
وَلَمَّا وَرَدَ مَاء مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْْہِ أُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِہِمُ امْرَأتَیْْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتَّی یُصْدِرَ الرِّعَاء وَأَبُونَا شَیْْخٌ کَبِیْرٌ۔ فَسَقَی لَہُمَا۔ (القصص:۲۳، ۲۴)
’’اور جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچا تو اس نے اس پر لوگوں کی ایک بھیڑ دیکھی جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلارہے تھے اور ان سے دور دو عورتوں کو دیکھا جو اپنی بکریوں کو روکے کھڑی ہیں، اس نے ان سے پوچھا، تمھارا کیا ماجرا ہے؟ انھوں نے کہا: ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتے جب تک چرواہے اپنی بکریاں ہٹا نہ لیں اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں تو اس نے ان ددونوں کی خاطر پانی پلایا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
اس ترجمہ میں جہاں جہاں بکریوں کا ذکر ہے وہاں مویشی یا ریوڑہونا چاہیے تھا)۔
قَالَتْ إِنَّ أَبِیْ یَدْعُوکَ لِیَجْزِیَکَ أَجْرَ مَا سَقَیْْتَ لَنَا۔ (القصص: ۲۵)
’’کہا کہ میرے باپ آپ کو بلاتے ہیں کہ آپ نے ہماری خاطر جو پانی پلایا، اس کا آپ کو صلہ دیں‘‘
وَسَقَاہُمْ رَبُّہُمْ شَرَاباً طَہُوراً۔ (الانسان: ۲۱)
’’اوران کا رب ان کو پاکیزہ مشروب پلائے گا‘‘ (امین احسن اصلاحی)
وَلاَ تَسْقِیْ الْحَرْثَ۔ (البقرۃ: ۷۱)
’’اور کھیتوں کو سیراب کرنے والی نہ ہو‘‘ (امین احسن اصلاحی)
أَمَّا أَحَدُکُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّہُ خَمْراً۔ (یوسف: ۴۱)
’’تم میں سے ایک تو اپنے آقا کو شراب پلائے گا‘‘ (امین احسن اصلاحی)
وَالَّذِیْ ہُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ۔ (الشعراء :۷۹)
’’اور جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
وَسُقُوا مَاء حَمِیْماً ۔ (محمد:۱۵)
’’اور جن کو اس میں گرم پانی پلایا جائے گا‘‘ (امین احسن اصلاحی)
جبکہ مذکورہ ذیل آیتوں میں فعل اسقاء کا استعمال ہوا ہے، اور تمام مقامات وہی ہیں، جہاں کچھ پلانے کی بات نہیں ہے، بلکہ پینے والی چیزوں کو فراہم اور مہیا کرنے کی بات ہے، اس لیے اسقاء کا لفظ دیکھ کر پلانے کا پرتکلف ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ انتظام کرنا اور فراہم کرناکہنے کی لفظ میں بھی خوب خوب گنجائش ہے، اور وہی موقع ومقام کے لحاظ سے زیادہ موزوں بھی ہے۔
(۱) وَجَعَلْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ شَامِخَاتٍ وَأَسْقَیْْنَاکُم مَّاءً ً فُرَاتاً۔ (المرسلات: ۲۷)
’’اور رکھے اس میں بوجھ کو پہاڑ اونچے، اور پلایا ہم نے تم کو پانی میٹھا پیاس بجھاتا ‘‘(شاہ عبدالقادر)
’’اور ہم نے اس میں اونچے اونچے لنگر ڈالے اور ہم نے تمہیں خوب میٹھا پانی پلایا ‘‘(احمد رضا خان)
’’اور گاڑے اس میں پہاڑ اونچے اونچے، اور تمہارے پینے کے لئے خوشگوار پانی فراہم کیا‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۲) فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَیْْنَاکُمُوہُ۔ (الحجر: ۲۲)
’’پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں، اور اس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں‘‘(سید مودودی)
’’پھر اتارا ہم نے آسمان سے پانی، پھر تم کو وہ پلایا‘‘ (شاہ عبدالقادر)
’’پھر ہم ہی آسمان سے پانی برساتے ہیں، پھر وہ پانی تم کو پینے کو دیتے ہیں‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’تو ہم نے آسمان سے پانی اتارا، پھر وہ تمہیں پینے کو دیا‘‘(احمد رضاخان)
’’پھر آسمان سے پانی برسات